FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

آسمان

(منتخب نعتیہ کلام)

               سعادت حسن آس

 

انتساب

عاشقان سرور کونین کے نام انتساب

جن کی الفت سے ملا مجھ کو یہ حسن انتخاب

آسماں عنوان اس کا آس بھی اور مان بھی

فیصلہ کیجئے کہاں تک میں ہوا ہوں کامیاب

 

اظہار تشکر

رات کے دو بج کر تیس منٹ،ذی الحج کا مہینہ سوموار منگل(۲۴،۲۳ جنوری سن۲۰۰۶) کی درمیانی رات۔ ا ن پر کیف اور مسحور کن ساعتوں کا بے حد ممنون ہوں جنہوں نے اس نفسا نفسی کے دور میں سرکارِ دو عالمؐ کی یادوں کو سنوارنے سجانے میں میرا ساتھ دیا۔ان پر نور لمحوں کا بھی احسان مند ہوں جن میں نور کی ایک ایک کرن چنتے چنتے اتنا ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہے کہ اس سے سرکار دو عالمؐ کے کئی عشاق کے سینے منور ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ

سرکار کی یادوں میں گزری ہوئی ان ساعتوں کا بھی ممنون ہوں جو سفر میں حضر میں میرے دامن گیر رہیں۔ اور اس اضطراب دل کپکپاتے اور تپتے ہونٹوں چشمِ نم کا بھی مشکور ہوں جن کی بدولت مجھے یہ دولت سمیٹنا نصیب ہوئی۔

اس عظیم تحفہ کی عطا پر آس، مان اور سمان عطا کرنے والے پروردگار کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ کہ کہاں مجھ سا ناچیز خاکسار اور کہاں مدحت شہ خیر الوریٰﷺ۔

اس گراں قدر خدمت میں اپنے ان تمام دوستوں کا بھی تہہ دل سے ممنون ہوں جنہوں نے اس کی ترتیب تدوین میں میرا ساتھ دیا۔ اور اپنے حصے کا کچھ وقت مجھے دیا۔خصوصاً جناب شاکر القادری جنہوں نے مجھے یہ انتخاب نعت منظر عام پر لانے کا مشورہ دیا۔انہی کے مشورہ سے میں نے اس انتخاب نعت میں چار محترم اہل ہنر کی مدد لی، میں خصوصی طور پر جناب عبداللہ راہی، جناب مشتاق عاجز،جناب محسن عباس اور جناب شوکت محمود شوکت کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مسودہ کو دقت نظر کے ساتھ دیکھا اور”آسمان” میں شامل کرنے کے لیے نعتوں کا انتخاب کیا۔موجودہ انتخاب انہی چار صاحبان نظر کا مرہون منت ہے۔

میں نوائے وقت کے جناب محمد رشید اور جاذب سہیل کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نعت گوئی کے سفر میں میرا بھر پور ساتھ دیا اور مجھے "نوائے وقت” میں بھرپور انداز میں چھاپتے رہے۔ اس کے علاوہ اس کام کو سراہنے والے اہل قلم جناب نذر صابری ، ارشد محمود ناشاد، پروفیسر غلام ربانی فروغ، نزاکت علی نازک،زاہد حسین زاہدی، معصوم شاہ اور مجاہد حسین نقوی کا بھی شکر گذار ہوں۔ وہ احباب جن کے نام نا دانستہ رہ گئے ہوں اور ان کا تعاون میرے شامل حال رہا ہو میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ سبھی دوستوں کی حوصلہ افزائی سے ہی مجھے آج ایوان ادب میں چوتھی بار داخل ہونا نصیب ہوا۔۔۔۔ "آقا ہمارے۔”، "آس کے پھول” اور”آدھا سورج” قبل ازیں منظر عام پر آ چکے ہیں اور آدھا سورج پر بہترین نظم ایوارڈ بھی وصول کر چکا ہوں۔

اب "آسمان” لے کر حاضر ہوں۔اس بار میں کہاں تک کامیاب ہوا۔ اس کا فیصلہ آپ کریں گے۔امید ہے آپ۔۔۔۔۔۔ "آسمان” کو بھی پذیرائی بخشیں گے۔ اپنے مفید مشوروں سے ضرور نوازیں گے۔ کیونکہ:

” میں جتنا بھی لکھوں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے”

سعادت حسن آس

۱۱/اپریل۲۰۰۶ عیسوی

بمطابق ۱۲/ربیع الاول

 

سعادت حسن آسؔ

درویش منش، سادہ طبیعت اور دھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والے سعادت حسن آسؔ سے میری جان پہچان آج سے کم و بیش تیس سال پہلے ہوئی جب و ہ مدنی میلاد پارٹی اور بزم چراغِ مصطفےٰ اٹک کے لیے ان کی فرمائشی دھنوں پر نعتیں لکھا کرتے تھے۔ اس وقت سے ان کی نعت گوئی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے بڑی اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ ان کے جذبے نے اظہار کے لیے شعر کا جو روپ دھارا وہ محض لذت گفتار اور وصفِ لب و رخسار سے متشکل نہیں ہوتا بلکہ جذبے کی شدت،فکر کی سچائی اور احساس کی شیفتگی سے عبارت ہے۔سعادت حسن اسؔ نے اپنے فنی سفر کے لیے سعادت ابدی کا وہ راستہ منتخب کیا ہے جس پر چلنے والا مسافر کبھی بھی گم کردہ راہِ منزل نہیں قرار پا سکتا۔ انہوں نے نعت گوئی کو اپنی زندگی کا مقصد  بنا لیا۔میں یہاں پر یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ سعادت حسن آسؔ نے غزل بالکل نہیں کہی، انہوں نے غزل کو بھی ذریعۂ اظہار بنایا ہے تاہم ان کی غزل میں بھی ایسے معنوی حوالے مل جاتے ہیں جن کا تاثر ہمیں مولائے کائنات ﷺ کی جانب کھینچ کر لے جاتا ہے۔

نعت کا موضوع بظاہر بڑا آسان، عام فہم اور سادہ لگتا ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس میں ذرہ بھر کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ذرا سی لغزش ہوئی اور نعت گو کے سارے اعمال اکارت ہوئے اور ضلالت و گمراہی کے عمیق گڑھے اس کا مقدر بن گئے۔عرفی جیسا خود پسند اور متکبر شاعر بھی جب اس میدان میں آتا ہے تو کانپ اٹھتا ہے اس کے نزدیک نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے:

عرفی مشتاب این رہِ نعت است نہ صحراست

آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را

مولانا احمد رضا خانؒ بریلوی کے نزدیک نعت گوئی انتہائی مشکل کام ہے۔ گویا تلوار کی دھار پر چلنا ہے ذرا سا آگے بڑھے تو الوہیت کی حدود میں داخل ہو گئے اور ذرہ برابر بھی کمی کی تو تنقیص ہو گئی۔ گویا نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔مجید امجد کے خیال میں جناب رسالت مآب ﷺ کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آ سکتا ہے اور ذرا سا عجز بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ” نعت کے اشعار میں فنی محاسن و معائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے”۔ لیکن موضوع کے احترام کا یہ تقاضہ ہرگز نہیں کہ کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردہ پوشی کی جائے اور ناقد، شاعر کی باز پرس میں صرف اس لیے متامل ہو کہ نعت عقیدت کا اظہار ہے۔ اس طرح شاعر کو فنی کمزوریاں چھپانے کے لیے اپنے معتقدات کی آڑ مل جاتی ہے۔ فارسی کا یہ مقولہ”نعت گو پوچ گو” ایسے ہی شعراء پر صادق آتا ہے جو عقیدت کے نام پر بے کیف اور بے تاثیر اشعار تخلیق کرتے رہتے ہیں۔

میرے اس موقف کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سید و سرورِ عالمﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم بھی معجز نما فصاحت و بلاغت، شوکتِ الفاظ،حسنِ بیان، اثرو نفوذ اور معنوی کیف و کم کے اعتبار سے رہتی دنیا تک ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود سرورِ عالم ﷺ کے اقوال کے بارے میں آپﷺ کا ارشادِ عالی ہے” انااوتیت بجوامع الکلم” مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں،جن کے الفاظ کم اور معانی وسیع ہیں، اور بہترین کلام وہی ہوتا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود وسیع معانی کا حامل بھی ہو اور زور دار بھی۔چنانچہ آپ ﷺ کی احادیث مبارکہ ،کلام موزوں، ایجاز کلام، نظمِ بیان، حسنِ ترتیب اور خوش اسلوبی جیسی خوبیوں سے مالامال ہیں اور آپﷺ کے اکثر و بیشتر ارشادات عربی ادب میں ضرب الامثال بن چکے ہیں۔

آپﷺ نے دوسرے لوگوں کے ایسے موزوں اور برجستہ کلام کی بھی تعریف فرمائی ہے جو  واقعیت و صداقت کے خلاف نہ ہو اور یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ کے مخالف شعراء کی جانب سے خلاف واقعہ ، غلط، گمراہ کن اور نفس و شیطان کی انگیخت پر کی گئی ہجویات پر مبنی شاعری کی موثر اسلوب اور شاعرانہ حسن و ادا کے ساتھ تردید کرنے کا حکم بھی آپﷺ نے جاری فرمایا،چنانچہ حضرت حسان بن ثابت ؓ مخالفین کے مطاعن،تنقیصی ہزلیات و ہجویات سے سرورِ عالمﷺ کا دفاع کرنے پر مامور ہوئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مدح سرور عالمﷺ اپنی تمام تر فنی خوبیوں، بیان کی مرصع کاری اور معانی کی وسعت و صداقت کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ نظم کی صور ت میں ہو یا نثری انداز میں۔

جہاں تک نعت گوئی کے آداب کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ نعت گوئی جس قدر والہانہ عقیدت و شیفتگی کا تقاضا کرتی ہے اسی قدر ادب و احترام کی بھی متقاضی ہے۔

"با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار”

کامیاب نعت گوئی کے لیے جہاں سوز و گداز، تڑپ، عشق اور سرشاری کی ضرورت ہے وہاں حد درجہ احتیاط، حفظِ مراتب اور شریعت کی پاسداری کی بھی ضرورت ہے۔

ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید این جا

میرے نزدیک نعت گوئی کا سب سے بڑا تقاضا وہ ادب و احترام ہے جو سرورِ کائنات ﷺ کی ذات ستودہ صفات کے لیے مخصوص ہے جس کی تاکید قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی ہے:

"لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی”

یعنی( اے ایمان والو!) اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو۔ (الحجرات:۴۹)

اس ضمن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ قول بھی ملاحظہ ہو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ایسے بیٹھتے تھے کہ”کان علے رؤسنا الطیر”گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں (کہ سر اٹھانے سے ان کے اڑنے کا احتمال ہو۔)

بارگاہ رسالت کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا خاصہ ہے لہذا ضروری ہے کہ اظہارِ نعت اور اس کی پیشکش میں ادب رسالت کو باتمام و کمال ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ سرورِ کائنات ﷺ کے ادب و احترام میں ذرا سی بے احتیاطی نعت گو کے افکار و خیالات تو کیا اس کے ایمان و اعمال تک کو ضائع کر دیتی ہے۔

ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب

ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست

احترامِ رسالت ہی سے متعلقہ ایک اور نازک معاملہ جو نعت گو شاعر سے حد درجہ احتیاط اور ذمہ داری کا متقاضی ہے۔ وہ لفظوں کا انتخاب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سرورِ کائناتﷺ کی توجہ اور رعایت حاصل کرنے کے لیے”راعِ۔ن۔َا” کا لفظ بولا کرتے تھے جبکہ منافقین اور یہودی اس لفظ کے ذریعہ نعوذ باللہ آپ ﷺ کو "رعونت” سے متہم کرتے لیکن وہ اسے بولتے اس طرح جس سے یہ ابہام پیدا ہو کہ وہ” راعنا” کہتے ہیں جس کے معنی ہیں "ہماری رعایت فرمایئے” لیکن اللہ تبارک و تعالی تو دلوں کے احوال جانتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے اس بات کے انسداد کے لیے ارشاد فرمایا:

یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا واسمعوا و للکافرین عذاب الیم” یعنی اے اہل ایمان گفتگو کے وقت پیغمبر ﷺ سے "راعنا "نہ کہا کرو،” انظرنا” کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو، اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔(بقرہ:۱۰۴)

اس حکمِ ربانی کے ذریعہ تمام مومنین کو ہر ایسے قول یا فعل سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے جس میں غلط اور صحیح ملتبس  ہو جانے کا اندیشہ ہو اور حق و باطل کا امتیاز واضح نہ ہو سکے ، لہذا کسی بھی قول یا فعل سے اگر اہانتِ رسول یا نقصِ ادب کا شائبہ تک پیدا ہوتا ہو اس سے بچنا چاہیے اور محض نیک نیتی کو اس کے جواز کے لیے آڑ نہیں بنانا چاہیے۔ مسلمانوں کی ہر بات اور ہر فعل کو صاف ، واضح اور بیّن ہونا چاہیے۔ بالخصوص نعتیہ شاعری کا دامن اس قسم کے کسی التباس سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔اسی ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تشبیہات و استعارات فن شعر گوئی کا لازمہ ہیں اور ان کے بغیر اچھا شعر تخلیق نہیں ہوتا۔ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ وہ تشبیہ اور استعارہ کے معاملہ میں بھی اس پاکیزہ اور مقدس موضوع کے جملہ آداب اور احترامات کو ملحوظ رکھے، ایسی تشبیہات اور استعاروں سے گریز کرے جن سے نعت گوئی کی پاکیزگی، شائستگی اور تقدس مجروح ہوتے ہوں۔

نعت گوئی میں سرور کائنات ﷺ سے خطاب کی روایت شروع ہی سے موجود ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی مشہور عالم نعت کا یہ شعر:

یا رحمۃ للعالمیں ادرک لزین العابد ین

محبوس ایدی الظالمیں فی الموکب والمزدحم

نبی اکرم ﷺ سے خطاب کی یہ روایت آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے اس معاملہ میں بھی اس بات کا پورا پورا خیال رہنا چاہیے کہ کوئی ایسا پیرایۂ خطاب استعمال نہ کیا جائے جس سے شانِ رسالت مآب میں گستاخی کا شائبہ بھی پیدا ہوتا ہو۔غرض یہ کہ نعت گوئی میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جو موضوع، زبان و بیان، انتخاب الفاظ،  درست تشبیہات و استعارات کا استعمال اور اندازِ خطاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تمام چیزوں کا اہتمام ہی نعت کی مجموعی فضا اور تاثر کو پاکیزگی سے مزین کرتا ہے۔

مدح رسالت مآب میں تخلیق ہونے والے شعری سرمایہ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اسے نعت کے دو مختلف اسالیب میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک رسمی اور دوسرا حقیقی۔ اول الذکر اسلوبِ نعت محض ایک شعری روایت کے طور پر اپنایا گیا اور مختلف شعراء نے اپنے دواوین کی ترتیب میں حمد و نعت سے آغاز کرنا ضروری سمجھا۔ اس روایت کے پس منظر میں وہ حدیث مبارکہ کار فرما ہے جس میں کہا کیا ہے کہ کوئی بھی مہتمم بالشان کام جس کا آغاز اللہ تعالیٰ کی تعریف اور مجھ (ﷺ) پر درود بھیجنے سے نہ کیا جائے وہ یکسر ناقص اور خیر و برکت سے محروم ہے۔ اس کے بر عکس دوسرے اسلوبِ نعت میں محض ایک رسم نہیں نباہی گئی بلکہ اس میں پوری دلچسپی کے ساتھ اہتماماً سرورِ کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ، تعلیمات، معجزات اور عادات و خصائل غرضیکہ جملہ متعلقات سیرت کو والہانہ انداز میں بیان کیا گیا جس کی بنا پر یہ انداز نعت جذب و مستی اور اظہارِ محبت کا موثر ذریعہ بن گیا۔

"آسمان ” کے شاعر سعادت حسن آسؔ کے ہاں حمدِ ربِ کائنات تو شاید رسمی انداز میں موجود ہو لیکن مدحِ سرورِ کائنات ﷺ کے معاملہ میں ایسا بالکل نہیں۔ انہوں نے محض حصول برکت و ثواب کے لیے نعت گوئی نہیں کی بلکہ ثنائے محمدﷺ کو حرزِ جاں بنا کر اپنی تمام تر توانائیاں اس کے لیے وقف کر دی ہیں۔

پھول نعتوں کے سدا دل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشبو میں بسائے رکھنا

میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں

وہ جذبے کاش کاغذ پہ اتر جائیں تو اچھا ہو

یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود کیف و سرور اور دلکشی کی کیفیت رکھتی ہے۔ سعادت حسن آسؔ کی نعت جہاں سرور کائنات ﷺ کے جمال ظاہری و باطنی، صورت و سیرت ،اخلاق و  اوصافِ حمیدہ، اور معجزات کے بیان وغیرہ سے عبارت ہے وہاں عشقِ سرور عالمﷺ کے والہانہ تجربہ و واردات سے بھی مملو ہے۔

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

عشقیہ اور تعریفی اندازِ نعت کے ساتھ ساتھ ان کی نعت میں گہری مقصدیت بھی پائی جاتی ہے اور وہ نعت کو محض سرورِ عالمﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کے اظہار کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے عصرِ موجود میں درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ابتدائے اسلام ہی سے نعت کو دفاعِ رسولِ خدا ﷺ اور تبلیغ اسلام جیسے اعلی و ارفع مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک صنفِ نعت کو حصولِ مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے یہ مقاصد خواہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی،معاشی ، معاشرتی ، ملی اور آفاقی۔ سعادت حسن آسؔ کی نعت میں بھی ہمیں واضح طور پر ایک مقصدیت نظر آتی ہے جس کا عکس ان اشعار میں نمایا ں ہے:۔

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

کرتا نہیں دنیا میں اصولوں پہ وہ سوا

ہے آس محبت جسے سلطانِ عرب سے

میں نے پورے کیے کیا حقوق العباد اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد

کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد ،کون سے مان لے کر مدینے چلا

آسؔ کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو، اپنے ہمدرد کو اپنے غمخوار کو

کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو، کس لیے ہجر کے زخم سینے چلا

چھوڑ دو فرقہ بندی خدا را اس نے جاں کتنے بندوں کی لی ہے

ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زباں ہے

خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا ہے

وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے

سرور عالم ﷺ سے استغاثہ و استمداد روزِ اول ہی سے نعت کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم جزو کے طور  پر شامل رہا ہے چنانچہ گزشتہ صفحات میں سیدنا حضرت امام زین العابدینؒ کے مشہور نعتیہ قصیدہ کا ایک شعر نقل ہو چکا ہے جس میں وہ اپنے ناناﷺ کے حضور رفع مشکلات و مصائب کے لیے فریاد کناں ہیں۔اردو نعتیہ ادب میں مولانا حالی کی نظم بہت مشہور ہے جس کا مطلع ہے:

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے

امت پر تری آ کہ عجب وقت پڑا ہے

سعادت حسن آسؔ بھی جب کسی ملی، معاشرتی یا سماجی سانحے سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے احساس کی شدت دربارِ رسالت میں استغاثے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں۔

اک چشم التفات ادھر بھی ذرا حضورؐ

امت کی سمت بڑھ گئے مکر و ریا کے ہاتھ

کشمیر ہو، عراق، فلسطیں کہ کوئی ملک

ہر کلمہ گو تو آسؔ جڑا ہے حضورؐ سے

بنام مصطفےٰ ہو امن یا رب پھر کراچی میں

مرے کشمیر کے بھی دن سدھر جائیں تو اچھا ہو

ظلم و ستم کے ہر سو چھانے لگے ہیں بادل

پھر دیکھتا ہے رستہ ہر کارزار تیرا

کشمیر بھی تمہاری چشم کرم کا طالب

اقصیٰ کی آنکھ میں بھی ہے انتظار تیرا

آخر میں یہ بات بہ تکرار کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ خواجۂ دو جہاںﷺ کے حضور حمد و ثنا کے  گلدستوں کو جس قدر بھی قرینے، سلیقے اور حسنِ اہتمام کے ساتھ پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ثنائے خواجہ ﷺ کا حق ادا ہو سکتا ہی نہیں ورنہ غالبؔ جیسے آفاقی شاعر کو یہ بات نہ کہنا پڑتی:

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم

کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

سعادت حسن آسؔ نے بھی نعتِ سرور عالمﷺ کے پھولوں کو خیال و فکر، عقیدت و محبت،عشق و شیفتگی اور ادب و احترام کے دل کش رنگوں سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ فنی و تیکنیکی محاسن سے آراستہ کرنے پر حتی المقدور توجہ دی ہے تاہم اس انتخاب نعت کا قاری اگر کہیں زبان و بیان، اسلوب اور فنی نکتہ نگاہ سے تشنگی یا عدم سیرابی محسوس کرتا ہے تو یہ سیرابی ممکن ہی نہیں کیونکہ” لفظوں کے مقدر میں کہاں اتنی رسائی” لفظ تو درماندہ و عاجز ہیں اور سرورِ کائنات ﷺ کی مدح سرائی اندازۂ حرف و خیال سے ماورا، البتہ بہتری کی گنجائش تو موجود رہتی ہے۔

چاندنی، شفق، شبنم، کہکشاں، صبا ، خوش بو

آسؔ کیا لکھے تجھ کو سب سے ماورا ہے تو

سید شاکر القادری

۵/ اپریل۲۰۰۶ء

بمقام اٹک شہر

 

آس کا آسمان

جذبہ اظہار چاہتا ہے اور اظہار سلیقہ۔سلیقہ میسر نہ آئے تو اظہار ابلاغ سے محروم ہو جاتا ہے اور جذبہ وقار سے۔ بعض جذبے تو اتنے لطیف اور مقدس ہوتے ہیں کہ برسوں کی ریاضت کے بعد بھی سلیقہ ہاتھ نہیں آتا عشق بھی ایسا ہی لطیف اور مقدس جذبہ ہے مگر اس کی شدت اظہار میں جلد باز ہوتی ہے۔ضبط کا دامن تھامے رہنا عشق کو گوارا نہیں ہوتا اور جلد بازی حسن کو ،ضبط اگر اظہار کو سلیقہ عطا کر دے تو عشق بارگاہِ حسن میں نہ صرف باریاب ٹھہرتا ہے بلکہ با وقار بھی قرار پاتا ہے۔سلیقہ کیا ہے پاسِ ادب اور حسنِ طلب، ضبط جذبہ عشق کی تربیت کر دے تو حاصل ،پاسِ ادب اور شوق مؤدب ہو جائے تو نتیجہ حسنِ طلب۔پاسِ ادب اور حسنِ طلب الفاظ کو برتنے کا شعور عطا کر دیں تو زبان و بیان شاعری کی حدوں کو چھولے اور شاعری دربارِ حسن میں مقبول ہو۔

سلیقہ عشقِ مجازی کے ہاتھ لگا تو صحرا،بیلے،تھل اور چناب نے قصے بنے اور قیس مجنوں، رانجھے جوگی، مکران کے شہزادے، پنوں اور عزت بیگ مہینوال بنے۔حسن و عشق نے پیار کی لازوال رومانی داستانوں کو جنم دیا۔زمین رنگوں،روشنیوں اور خوشبوؤں سے بھر گئی اور فضا میں ماہیے،ٹپے گیت اور غزل کے بول بکھر گئے۔یہی سلیقہ عشقِ حقیقی میں در آیا تو بدن سولیوں پر اور سر نیزوں پر سج گئے کہیں حسین بن منصور حلاج امر ہو گیا تو کہیں محمدﷺ کا نواسہ حسین ابن علی۔ موت نے حیات جاودانی کی خلعت پہنی لفظ کو نئے مفہوم ملے،فضا میں انالحق اور لا الٰہ الا اﷲ کی گونج ابھری اور کائنات حمد و ثنا اور مرثیہ و سلام کے وجد آفریں نغموں سے معمور ہو گئی۔عشق و جنوں نے صفحہ ہستی پر ایثار کی بے مثال داستانیں رقم کیں اور تاریخ نے نشان راہ منزل اور نشانِ عبرت متعین کیے۔

جیسے جذبۂ عشق تکمیل حیات کے لیے ضروری ہے ایسے ہی لفظ عشق میری اس گفتگو میں ضروری ہے ورنہ میری بات کا ابلاغ نہ ہونے پائے گا۔کوئی پوچھے کہ عشق کیا ہے ؟ تو میں کہوں گا حسن کی ظاہری اور باطنی کشش کو محسوس کر کے اسے اپنا لینے اور اس کا ہو جانے کی لگن کا نام عشق ہے اور یوں حسن کا تذکرہ اس کی توصیف،اس کے ہجر کا کرب اس کے وصل کی لذت، عرض تمنا، امید اور التجا بھی عشق ہی کا حصہ قرار پاتے ہیں۔اب ضروری ہے کہ حسن کا مفہوم بھی واضح کر دیا جائے میرا علم کہتا ہے کہ حسن خود اﷲ ہے کہ اس نے خود کو جمیل کہا مگر کچھ غیر اﷲ بھی تو حسن کہلاتا ہے جسے اﷲ پسند فرماتا ہے گویا جو اﷲ کو پسند ہوتا ہے یا بالفاظ دیگر جو اﷲ کا محبوب ہے وہ بھی حسن ہے۔حسنِ مخلوقِ خدا نے عشقِ مجازی کو ظہور بخشا تو حسنِ خالقِ کائنات نے عشقِ حقیقی کو، مگر عشقِ محبوبِ خدا چیزے دگر است کہ وہ عشقِ مجازی سے بہت ارفع اور عشقِ حقیقی سے بہت قریب ہے۔

عشقِ نبیﷺ جب اظہار طلب ہوتا ہے تو ضبط کی کڑی شرط نرم پڑ جاتی ہے یہاں سلیقہ اکتسابی کم اور الہامی زیادہ ہوتا ہے۔ عشقِ رسولﷺ میں وارفتگی اور دیوانگی بھی دربار رسالت مآب میں مقبول ہوتی ہے اور سلیقہ بھی کہ یہاں محبوب کا جمال و جلال خود ہی پاسِ ادب عطا کرتا اور خود ہی حدِ ادب متعین کرتا ہے۔ سلیقۂ اظہار جب عشقِ نبی ﷺ سے مملو ہوتا ہے تو ایوانِ کفر میں اذانِ بلال ؓ گونجتی ہے غزوہ کہیں مکہ کے نواح میں ہوتا تو دندانِ سلمان، فارس میں شہید ہوتے ہیں۔ خواب میں بخشی گئی ردا بدن سے مس ہو کر شفا عطا کرتی ہے حسان بن ثابتؓ  مدح سرا ہوتے ہیں اور نعت گوئی کی یہ روایت چودہ صدیوں کا سفر طے کرتی، دلوں کو گرماتی اور روحوں کو اجالتی سعادت حسن آسؔ تک آ پہنچتی ہے۔سعادت حسن”آس کے پھول” لیے”آسمان” کی طرف محو پرواز ہوتے ہیں۔ان کے سینے میں موجزن عشقِ رسولﷺ ان کا طرز زندگی بدل دیتا ہے۔وہ بدلے ہوئے اسلوب حیات میں نعت نبیﷺ کو و سیلہ اظہار بناتے ہیں اور ان کا کردار حسن سیرت کا آئینہ دار ٹھہرتا ہے۔

دنیا ہی بدل دی ہے میرے ذوق نے میری

میں صاحب کردار ہوا تیرے سبب سے

قدرت نے اظہار عشق رسولﷺ کے لیے سعادت حسن آسؔ کو وہ سلیقہ ودیعت کیا ہے جو پاسِ ادب اور حسنِ طلب سے ایسا مزین ہے کہ وہ خموشی سے بھی زبان کا کام لینا چاہتے اور جانتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اظہار عشق رسولﷺ محتاج حروف و صوت ہے نہ سزاوارِ نطق و زباں۔وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں شدت جذبات سے مخاطب ہوتے ہیں دیوانگی اور وارفتگی سے ہمکلام ہوتے ہیں اور کہتے ہیں:

ہے یہ دربارِ نبیؐ خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

وہ اوصافِ محبوب ﷺ بیان فرمانے لگتے ہیں تو مقام محبوب کم مائیگی کا احساس دلاتا ہے اور نعت خوان و نعت گو ہونے کے باوجود عجز بیان کا اظہار کرتے ہیں۔

اوصاف پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زبان نہیں

نعت نبیﷺ کہنے کا منصب کبھی ان کا مایہ ناز ہوتا ہے تو کبھی مقام عجز و نیاز نعت رسولﷺ لکھتے ہیں تو کبھی نگاہ مستی میں زمانہ ہیچ نظر آتا ہے اور کبھی سر نیاز شکر بجا لانے کو جھک جاتا ہے۔

میں لکھوں جو نعت حضور کی دل مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

حبیب خدا کے عشق میں شہر حبیب کا ذکر بھی لازم ہے اور شہر بھی وہ جو یثرب سے مدینۃ النبیﷺ بنا ہو۔ بھلا کیسے ممکن ہے کہ” آس” اس کا ذکر نہ کریں وہ مدینۃ النبیﷺ کو اپنی حسین سوچوں کا محور مرکز قرار دیتے ہیں اور ان کی زندگی اسی شہر کے تصور سے مہکتی ہے۔

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آس ان کا ہوتا ہے رابطہ مدینے سے

سعادت حسن آس کو خدائے محمدﷺ نے نعت گوئی کا مقدس فریضہ سونپا ہے تو اس فن کے اسرار و رموز اور اس کے ساری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور بھی عطا کیا ہے وہ بڑی مرصع نعت کہتے ہیں چونکہ خود خوش الحان نعت خواں بھی ہیں اور جشن میلاد النبیﷺ مناتے ہوئے ترنم سے نعت پڑھتے ہیں اس لیے ان کی نعتوں میں ترنم اور نغمگی کا وصف بھی بکثرت پایا جاتا ہے ان کے آسمان نعت پر ایسی متعدد نعتوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں مثال کی طور پر ان کی ایک نعت کے صرف دو اشعار پیش ہیں:

یا رب میری حیات پہ اتنا کرم رہے

مدحت سدا حضور کی زیب قلم رہے

اصحاب مصطفی کا مجھے راستہ ملے

آل نبی کے پیار کا سر پر علم رہے

انہوں نے نعت کے مضامین کو صرف غزل کی ہیئت تک محدود نہیں رکھا بلکہ گیت کا اسلوب بھی اپنایا ہے اور درجنوں نعتیں اسی ہیئت میں لکھی ہیں جو نہایت مترنم ہیں ان نعتوں میں انہوں نے فن شعر گوئی پر اپنی دسترس کا ثبوت بھی دیا ہے سادگی کا جادو بھی جگایا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نعت کے اشعار کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور ان میں فنی محاسن و مصائب تلاش کرنا اس مقدس جذبے کی توہین ہے جو ان کی تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے۔نعت عقیدت کا اظہار ہے اور عقیدت کے اظہار میں جذبے کی صداقت اس کی شدت اور والہانہ پن بعض اوقات چھوٹی چھوٹی فنی پابندیوں سے صرف نظر کر کے بھی معتبر ہی ٹھہرتے ہیں۔سعادت حسن آسؔ نعت گوئی اور اظہار کے سارے اسلوب اور قرینے جانتے ہوئے بھی کہتے ہیں:

کوئی اسلوب ،سلیقہ نہ، قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انہیں کس طور سے، ڈھب سے مانگوں

یہ ان کی انکساری ہے ان کا عجز ہے جو عشق رسولﷺ کے طفیل ان کی شخصیت کا حصہ بن گیا ہے جو سادگی اور انکساری ان کے مزاج میں ہے وہی ان کے کلام میں بھی نمایاں ہے تاہم نعت گوئی میں ان کی سادگی ایسے اشعار بھی تخلیق کرتی ہے۔

آپ سے مہکا تخیل، آپ پر نازاں قلم۔۔ اے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

آپ آئے کائنات حسن پر چھا یا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپ کے نقش قدم۔ اے رسول محترم

ایک اور نعت کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں دوسرا شعر ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یاد نبیﷺ میں کٹنے والی رات مقدس

ہونٹوں کی چپ ،آنکھوں کی برسات مقدس

جان کے آنکھیں پھیرنے والو تم سے تو

اسم محمد لکھنے والے ہات مقدس

دوسرے شعر میں جس واقعہ کا ذکر ہے اسے سعادت حسن جیسا عاشق رسولﷺ ہی شعر کر سکتا ہے ورنہ تو کئی کم نظروں نے اس واقعہ پر توجہ ہی نہیں دی اور کتنے ہی بدبختوں نے اس کا مذاق اڑایا واقعہ یوں ہے کہ اٹک کے ریلوے کالونی کے ایک سرکاری کوارٹر کے مکین محمد طارق نے اپنے کوارٹر کی دیوار کو قلعی کرایا۔دوسری صبح جب وہ نماز فجر ادا کر کے گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی دیوار پر کسی نے "محمد” لکھ دیا ہے جب کہ اس کا آدھا نام”طارق” نہیں لکھا وہ دیوار کے قریب پہنچا تو لفظ "محمد” دھندلا گیا اس نے دوبارہ دور جا کر دیکھا تو اسم محمد پھر نمایا ں ہو گیا آخر کار کھلا کہ گھر کے قریب اگے ہوئے درخت کی کسی پڑوسی نے کاٹ چانٹ کی تھی اس کی ایک شاخ سے پیوست ایک نرم و نازک سی ٹہنی پر لگے کچھ پتوں کا سایہ دوسرے مکان کی دیوار پر لگے بلب کی روشنی سے اس دیوار پر پڑھ رہا ہے جس نے لفظ "محمد” کی شکل اختیار کر لی تھی اٹک شہر اور نواحی دیہات کے ہزاروں خواتین و حضرات اور بچوں نے اس مقدس سایہ کی زیارت کی جو شام کو بلب روشن ہوتے ہی محمد طارق کی اجلی دیوار پر اجاگر ہوتا اور صبح بلب بجھنے پر غائب ہو جاتا تھا۔عشاق محمدﷺ نے اسے کرشمہ قدرت گردانا اور محبوب خدا سے خدائے بر تر کی محبت کا ثبوت کہا جب کہ کم نظروں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا اور ایک بدبخت تیسرے یا چوتھے روز موقعہ پا کر اس ٹہنی کو شاخ سے توڑ کر لے بھاگا۔وہ پتے جن کا سایہ دیوار پر اسم محمدﷺ لکھتا تھا اس شقی القلب نے نوچ لیے مگر جو نام لوح محفوظ پر کندہ اور دلوں پر رقم ہو وہ مٹائے کب مٹتا ہے۔ہزاروں عقیدت مندوں نے اس مذموم حرکت پر غم و غصہ کا اظہار کیا مگر سعادت حسن آسؔ وہ واحد عاشق رسول ثابت ہوئے جنہوں نے اس واقعہ کو شعر کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف اپنی عقیدت کا اظہار کیا بلکہ ان پتوں کی شان اور کور نگاہوں کی پست قامتی کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر کے ایک تاریخی دستاویز بنا دیا۔

میری دعا ہے ہے کہ سعادت حسن کی ہر آس پوری ہو۔ ان کی مساعی کو دربار رسالت میں قبولیت حاصل ہو ان کا جذبہ و اظہار ان کی بخشش کا وسیلہ بنے اور ان کی نعت کے ستارے”آسمان” پر تا قیامت چمکتے رہیں۔آمین

مشتاق عاجرؔ

(اٹک)

۸ مارچ۲۰۰۶ء

 

خوش قسمت انسان

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شاعر یا ادیب(خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو) کی زندگی میں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے آج سعادت حسن آسؔ کے منتخب نعتیہ کلام‘ پر لکھتے ہوئے عجز بیاں کا ایسا ہی مرحلہ مجھے بھی درپیش ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔پہلی وجہ تو یہ ہے۔کہ سعادت حسن آس کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بحیثیت نعت گو شاعر ایک دنیا انہیں جانتی ہے۔اس سے قبل ان کے دو نعتیہ مجموعے "آقا ہمارے” اور”آس کے پھول” بالترتیب۱۹۸۲ء اور ۱۹۹۰ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گرہو کر علمی، ادبی اور مذہبی حلقوں سے بھرپور داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا تیسرا مجموعہ کلام”آدھا سورج”۱۹۹۶ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا  (جس میں کچھ نعتیں اور کشمیر کے حوالے سے ایک خوبصورت طویل نظم بھی شامل ہے) پر انہیں "بزم علم و فن” اسلام آباد کی جانب سے ۱۹۹۶ء کی بہترین نظم کے ایوارڈ” سید نعمت علی شاہ” ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ،آس صاحب ایک طویل عرصہ سے میلاد پارٹیوں سے بھی وابستہ ہیں۔انہوں نے اپنی ایک میلاد پارٹی بھی بنائی ہے۔جہاں ہر سال میلاد النبیؐ کے موقع پروہ بحیثیت نعت خوان نعتیں بھی پڑھتے ہیں۔لہذا مجھ جیسا خطا کار اور کم علم شخص آس صاحب کی نعت گوئی پر کچھ لکھے۔ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور دوسری وجہ، جو نہایت اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی نازک مسئلہ بھی ہے۔ وہ ہے نعت رسول پاک پر کچھ لکھنا بقول میرؔ ع

ع لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

مگر سعادت حسن آس کا حکم ہے کہ کچھ لکھوں تو حقیقتاً یہ میرے لیے سعادت ہے۔ آس صاحب کے اس چوتھے منتخب مجموعۂ کلام "آسمان” کا میں نے بہ غور مطالعہ کیا۔ شروع سے آخر تک تمام نعتیں اپنی مثال آپ ہیں۔خواہ وہ اردو زبان میں کہی گئی ہیں یا پنجابی میں۔ آس صاحب کی گرفت نعت گوئی پر دونوں زبانوں میں مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ در اصل بات یہ ہے۔ کہ”نعت گوئی” ہر شخص کا مقدر ہو ہی نہیں سکتی۔ سرور کائناتﷺ خود ایسی ہستیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جو آپ کی مدح کرتے ہیں۔یا جن کو آپ ؐ کا غم عطا ہوتا ہے۔ آس صاحب کہتے ہیں

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم کہاں روشن

اور واقعی آس صاحب کے دل میں "حضور پاکؐ ” کا غم روشن ہے۔ ( جو ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے) ہر گھڑی، ہر پل درود پاک پڑھنا ،آپ کا ذکر اور باتیں کرنا آس صاحب کا وطیرہ ہے:

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

ان کی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

المختصر یہ کہ آس صاحب، خوش قسمت انسان ہیں۔ جنہیں "غم رسولؐ” اور”عشق رسولؐ” ودیعت کر دیا گیا ہے وہ اس پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

۱۲/فروری۲۰۰۶ء

 شوکت محمود شوکت (ایڈووکیٹ)

 

سعادت حسن آس

سعادت حسن آس صاحب ایک خوش قسمت انسان ہیں جن کو وجہِ تخلیقِ کائنات،آقائے دو جہان، محبوب خداﷺ کی شان کو حروف کے موتیوں میں پرونے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ان کی محبت، عقیدت عاشق رسول حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی یاد کو ہر سال عقیدت و احترام سے مناتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنی جدو جہد سے شان مصطفیٰﷺ کی ایک پارٹی بھی تیار کی ہوئی ہے جو کہ عقیدت کے پھول بڑے سوز و گداز سے نچھاور کرتے ہیں اور جس محفل میں ہوں اہلِ محفل کے دلوں کو محبتِ سرکار ﷺ سے گرماتے ہیں۔ یہ سعادت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

محبت ایک معجزہ ہے معجزے کب عام ہوتے ہیں

مخصوص دلوں پر عشق کے الہام ہوتے ہیں

مصنف نے بڑے ہی عقیدت کے پھول خوبصورت سلیقہ سے نچھاور کیے ہیں جن سے ان کی محبت و عقیدت سرکار دوجہاں کا اظہار ہے جیسا کہ خود اپنے کلام میں لکھتے ہیں۔

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

یوں تو کھلے تھے آسؔکے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

دعاگو

الحاج صوفی محمد بشیر احمد شاہ ڈھوک فتح اٹک شہر

 

دعا

اے خالقِ کل سامنے اک بندہ ترا ہے

تو کر دے عطا تجھ سے یہ کچھ مانگ رہا ہے

تو مالک و معبود بھی مسجود بھی تو ہے

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں سب تجھ کو پتا ہے

احباب مرے کتنے ترے پاس گئے ہیں

تو بخش دے ان سب کی خطائیں یہ دعا ہے

ہم مانتے ہیں حد سے بھی بڑھ کر ہیں گنہگار

تو پاک ہے کر معاف ہوئی جو بھی خطا ہے

تو پاک ہے ہر عیب سے اے مالک و مولا

بندہ ترا ہر عیب کی حد سے بھی بڑھا ہے

سرکارِ دو عالم کی میں امت سے ہوں مولا

میں جو بھی ہوں جو کچھ بھی ہوں تو دیکھ رہا ہے

مالک مرے تو سیدھا عطا کر مجھے رستہ

وہ رستہ کہ جس پر ترا اکرام ہوا ہے

میں اور میری اولاد ہو اسلام کی داعی

اور آئندہ نسلوں کے لیے بھی یہ دعا ہے

سرکار دو عالم کی عطا کر مجھے الفت

وہ کام کریں جس کے لیے تو نے کہا ہے

اسلام کی دولت سے منور مجھے کرنا

ہر وقت یہ ہر لمحہ مری تجھ سے دعا ہے

محروم ہیں جو ان کو بھی صالح ملے اولاد

اولاد ہو نیک ان کی کرم جن پہ ترا ہے

مقروض ہیں بے کار ہیں معذور ہیں جو بھی

ان پر بھی کرم کر دے کہ تو سب کا خدا ہے

یا رب مرے اس ملک میں نافذ ہو شریعت

ہر صاحب ایمان کی یہ تجھ سے دعا ہے

یا رب ہمیں اسلام کا وہ داعی بنا دے

جس میں ترے محبوب کی اور تیری رضا ہے

یا رب مجھے شیطان کے ہر شر سے بچانا

تو ظاہر و باطن کو مرے دیکھ رہا ہے

ہم سے بھی وہی کام لے اے مالک و مولا

جو کام ترے نبیوں نے ولیوں نے کیا ہے

ہم چاہنے والے ترے محبوب کے مولا!

وہ بھی ہو عطا جس کا نہیں ہم نے کہا ہے

جو بیٹیاں بیٹھی ہیں جواں رشتوں کی خاطر

تو نیک سبب کر کہ تو ان کا بھی خدا ہے

غافل ہیں ہدایت سے تری جو بھی مسلماں

تو ان کو ہدایت دے کہ تو راہ نما ہے

مظلوم جہاں پر بھی مسلمان ہیں مولا

ان پر بھی کرم ہو کہ یہ دل ان سے جڑا ہے

سرکار کے صدقے میں نہ رد ہوں یہ دعائیں

ہر شخص کا تو دستِ طلب دیکھ رہا ہے

اے مالک و مولا ہو دعا آس کی مقبول

یہ بھی ترے محبوب کا اک مدح سرا ہے

آمین یا رب العالمین

 

سلام

شانِ محبوبِ وحدت پہ لاکھوں سلام

نازِ ختم رسالت پہ لاکھوں سلام

تاجدارِ نبوت پہ لاکھوں سلام

عدل، تقویٰ، صداقت پہ لاکھوں سلام

یا نبیؐ تیری سیرت پہ لاکھوں سلام

ہر طرف تیرے انوار سے چاندنی

ہر طرف تیرے کردار سے روشنی

ہر طرف تیری گفتار سے دل کشی

ہر طرف تیری سرکار سے زندگی

تیری پر نور صورت پہ لاکھوں سلام

ہر سحر میں ترے اسم سے رونقیں

ہر نظر میں ترے اسم سے رفعتیں

ہر زباں پر ترے اسم سے لذتیں

ہر بدن میں ترے اسم سے نکہتیں

اسم اقدس کی حرمت پہ لاکھوں سلام

تیرے اعجاز کیا کیا کروں میں بیاں

تیری مٹھی نے دی کنکروں کو زباں

تیری تحریم سے ہے زمیں، آسماں

تیری تجسیم ہے باعثِ دو جہاں

تیری عظمت پہ رفعت پہ لاکھوں سلام

سب رسولوں نے کی ہے تیری آرزو

دشمنوں نے بھی کی ہے تیری جستجو

تجھ سے دونوں جہانوں میں ہے رنگ و بو

میرا بھی آسمانِ محبت ہے تو

تیری رحمت پہ رافت پہ لاکھوں سلام

تو ہی بحرِ کرم دستِ جود و سخا

کوئی ثانی ترا ہے نہ سایہ ترا

اس نے پایا خدا جس کو تو مل گیا

لائقِ وصف ہے تو ہی بعد از خدا

تیری عظمت پہ رفعت پہ پہ لاکھوں سلام

اے حبیبِ خدا خاتمِ مرسلاں

اتنی بے انتہا ہیں تری خوبیاں

کر سکا ہے بیاں کوئی اب تک کہاں

اک نظر آسؔ پر، کر سکے کچھ بیاں

تیری چشمِ عنایت پہ لاکھوں سلام

 

نعتیں

عشق بس عشق مصطفےٰ مانگوں

اور تجھ سے نہ کچھ خدا مانگوں

اس دعا سے بڑی دعا کیا ہے

اس سے بڑھ کر میں کیا دعا مانگوں

میرے سوزِ جگر کے چارہ رساں!

تجھ سے ہر زخم کی دوا مانگوں

زندگی مجھ کو بخشنے والے !

زندگی کا میں مدعا مانگوں

اپنے آپے سے ہو کے باہر آج

تجھ سے میں تیرا دل ربا مانگوں

لوگ کہتے ہیں جن کو بے سایہ

ان کے سائے کا آسرا مانگوں

جاں بھی جائے تو آسؔ دے کر میں

ان کے کوچے کی خاک پا مانگوں

 

پھول نعتوں کے سدا د ل میں کھلائے رکھنا

اپنی ہر سانس کو خوشبو میں بسائے رکھنا

ان کے ارشاد دل و جاں سے مقدم رکھنا

ان کی سیرت پہ سدا سر کو جھکائے رکھنا

جانے کس پہر دبے پاؤں وہ اتریں دل میں

اشک پلکوں پہ سرِ شام سجائے رکھنا

چاہتے ہو تمہیں آقا کی غلامی مل جائے

فصل سینے میں محبت کی اگائے رکھنا

روشنی اتنی ہے منزل بھی دھواں لگتی ہے

آپ رہبر ہیں مجھے راہ دکھائے رکھنا

آرزو ہے! مرا خطہ یونہی آباد رہے

ابر رحمت کے سدا اس پر جھکائے رکھنا

آسؔ ہو جائے گی آقا کی زیارت بھی نصیب

ان کی راہوں میں نگاہوں کو بچھائے رکھنا

 

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن

ظہورِ مصطفےٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی

انہی رستوں کا اب تک ہے غبار کارواں روشن

نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے

ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن؟

ستاروں سے پرے کے بھی مناظر دیکھ لیتی ہیں

جن آنکھوں میں نبی کے پیار کی ہیں بجلیاں روشن

خدا سے آشنائی کا کسے معلوم تھا رستہ

وہ آئے تو ہوئے ہیں راستوں کے سب نشاں روشن

خدا نے بخش دی جب سے سعادت نعت گوئی کی

ہوئیں اس دن سے میرے دل کی ساری بستیاں روشن

مقدر کے اندھیرے آسؔ اس کا کیا بگاڑیں گے

ہے جس کے پاس یادِ مصطفےٰ کی کہکشاں روشن

 

فضا میں خوشبو بکھر گئی ہے لبوں پہ میرے سلام آیا

مناؤ خوشیاں زمین والو! فلک سے خیر الانام آیا

تمام راہیں ہوئیں وہ روشن جہاں بسیرے تھے تیرگی کے

جھکے ہیں کیا کیا اٹھے ہوئے سر یہ کون ذی احترام آیا

جو بزم ہو شاہِ دوسرا کی وہاں ادب کا لحاظ رکھنا

بلند اپنی صدا نہ کرنا کلامِ حق میں پیام آیا

نہ کوئی پانی پہ قتل ہوگا نہ کوئی زندہ گڑے گی بیٹی

جہالتوں کو مٹانے والا شفیق ہر خاص و عام آیا

درود کی ڈالیاں اترنے لگی ہیں مکہ کی وادیوں میں

لباسِ خاکی میں نورِ یزداں مثالِ ماہِ تمام آیا

ولی ولی کی نبی نبی کی وہ پیاس بھی ہے وہ آسؔ بھی ہے

ولی ولی کا قرار آیا نبی نبی کا امام آیا

 

حقیقت میں وہی ذکرِ خدا ہے

کہ جس کے ساتھ یادِ مصطفےٰ ہے

مدینے جا نہیں سکتا تو کیا غم

مرے دل میں مدینہ بس رہا ہے

نظر جس پہ شہِ کونین کی ہو

دیا وہ کب کسی سے بجھ سکا ہے

نگاہوں میں ستارے جھلملائے

نبیؐ کا تذکرہ جب چھڑ گیا ہے

مٹائے گا اسے کیسے زمانہ

نبی کے نام پر جو مر مٹا ہے

وہ رستے سجدہ گاہِ دل بنے ہیں

نبی کا نقش پا جن پر پڑا ہے

کبھی اپنی محبت کم نہ کرنا

یہ میری آسؔ ، میرا مدعا ہے

 

چاند تاروں فلک پہ زمینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

بادشاہوں میں بوری نشینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

کون سی آنکھ میں آپ کا غم نہیں کس کا سر آپ کے سامنے خم نہیں

دل سمندر کے پنہاں خزینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

مثل قرآن ہے آپ کی زندگی جزو ایمان ہے آپ کی پیروی

صادقوں غازیوں اور امینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

آپ لطف و عنایت کی معراج ہیں غمزدوں بے سہاروں کے سرتاج ہیں

چاہتوں کے مقدس قرینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

نور ہر اک نظر کو ملا آپ سے گلشن زندگانی کھلا آپ سے

میرے احساس کے آبگینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

جن کی کرتا ہے مدحت خدا ہر گھڑی ان کی عظمت میں کیا ہو سکے گی کمی

سب کے ہونٹوں پہ بھی سب کے سینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

جو قلم آپ کے پیار میں جھک گئے ان کی تحریر پر وقت بھی رک گئے

آسؔ ایسے قلم کی جبینوں میں بھی آپ کے پیار کی روشنی روشنی

 

جس کو حضور آپ کا فیض نظر ملا نہیں

ایسا تو کائنات میں پھول کہیں کھلا نہیں

کن الجھنوں میں پڑ گیا واعظ خدا کا نام لے

ان کی گلی کا راستہ کعبہ سے تو جدا نہیں

دامن ہی جس کا تنگ ہو اس کا گلہ فضول ہے

ورنہ درِ رسول سے کس کو سوا ملا نہیں

سینے میں ان کی یاد ہو آنکھوں میں ان کی روشنی

اِس آرزو کے بعد تو کوئی بھی التجا نہیں

بھیجے خدا نے ان گنت بزم جہاں میں انبیاء

لیکن مرے حضورؐ سا کوئی بھی دوسرا نہیں

اپنے کرم کی بھیک سے مجھ کو بھی سرفراز کر

تیرے سوا کوئی میرا دکھ درد آشنا نہیں

یوں تو کھلے تھے آسؔکے سینے میں پھول سینکڑوں

آنکھوں میں آپ کے سوا کوئی مگر جچا نہیں

 

رات بھر چاندنی رقص کرتی رہی رات بھر آنکھ موتی لٹاتی رہی

رات بھر دل کی دنیا مہکتی رہی رات بھر یاد آقا کی آتی رہی

ہر طرف نور ہی نور تھا جلوہ گر میں تو اپنی خبر سے بھی تھا بے خبر

کتنا مسحور تھا شب کا پچھلا پہر صبح تک رات جادو جگاتی رہی

میرے دامن میں تارے اترتے رہے زندگی میں مری رنگ بھرتے رہے

عکس کیا کیا جنوں کے نکھرتے رہے نعت جب تک زباں گنگناتی رہی

کتنی الجھی ہوئی تھی مری زندگی کر رہی تھی تعاقب میرا تیرگی

آپ کے پیار کی جب پڑی روشنی ہر خوشی میرے قدموں میں آتی رہی

آسؔ کتنی ہوئی ان کی چشم کرم جب کبھی ڈگمگائے ہیں میرے قدم

رکھ لیا میرے آقا نے میرا بھرم راستہ خود ہی منزل دکھاتی رہی

 

حل ہے ہر اک مشکل کا

یاد نبی اور ذکر خدا

صرف مری ہی بات نہیں

دنیا نے تسلیم کیا !

اے بھولے بھالے انساں

جس کا کھا اس کے گن گا

دل ہے تیرا گر تاریک

ذکر خدا کا دیپ جلا

روح تیری گر سونی ہے

صل علیٰ کو ورد بنا

صرف نہیں میرا دعویٰ

ولی پیمبر سب نے کہا

جس نے اطاعت کی ان کی

آسؔ امر وہ شخص ہوا

 

زندگی کا ہر اک ہے سلسلہ مدینے سے

دھڑکنوں کا سانسوں کا رابطہ مدینے سے

تم نے کچھ نہ پایا ہو تو تمہاری قسمت ہے

ہم کو تو ملا رب کا بھی پتا مدینے سے

ارمغاں جو ملتے ہیں خاص خاص بندوں کو

ان سبھی کا ہوتا ہے فیصلہ مدینے سے

ہم کو اپنی ہستی سے بھی عزیز تر ہے وہ

دور سے بھی ہے جس کا واسطہ مدینے سے

ظلمتِ زمانہ کو جس نے پاش کر ڈالا

مرحبا وہی پایا رہنما مدینے سے

ان کی مہربانی سے بار ہا ہوا یوں بھی

چل دیا مدینے کو آگیا مدینے سے

جن حسین سوچوں سے زندگی مہکتی ہے

آسؔ ان کا ہو تا ہے رابطہ مدینے سے

 

وصف سرکار کے بیاں کیجئے

اپنی تحریر جاوداں کیجئے

مشعلیں جھلملائیں آنکھوں کی

مدحتِ شاہِ مرسلاں کیجئے

بھیج کر ان پہ بار بار درود

اپنے سینے کو ضو فشاں کیجئے

جب بھی مرجھائیں پھول ہونٹوں کے

۔”نام نامی کو حرزِ جاں کیجئے”

انکے صدقے میں کیا نہیں ملتا

ڈھنگ سے مدعا بیاں کیجئے

ان کی رحمت وہاں وہاں ہوگی

یاد ان کو جہاں جہاں کیجئے

ڈوب کر آسؔ ان کی الفت میں

ذہن کو بحر بیکراں کیجئے

 

تیرا ذکر صبح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی

تیری نعت اے شہ دوسرا دل بیقرار کی راگنی

مجھے تیری یاد سے واسطہ تیرا پیار ہے میرا راستہ

تیرا نام میری اساس ہے تیرا تذکرہ مری بندگی

میں تو داس ہوں تیرے نام کا میں غلام تیرے غلام کا

مری بات بات کا حسن تو میرا ناز ہے تیری شاعری

جو نبی کو میرے قبول ہوں وہی کاش میرے اصول ہوں

وہی صبر ہو وہی گفتگو وہی عاجزی وہی سادگی

مری آس بھی تیری آس ہو میرا شوق بھی تیرا شوق ہو

میں نفس نفس میں بلا شبہ کروں تیری ذات کی پیروی

 

اے شہ عرب شہ انبیاء تیری سب صفات میں چاندنی

تو خدا کا پیار ا رسول ہے تیری بات بات میں چاندنی

تیرا پیار جس کا نصیب ہے وہ خدا کے کتنا قریب ہے

وہ جہاں کہیں بھی چلا گیا رہی اسکی گھات میں چاندنی

تیری یاد کا جو گزرا ہوا میرا دل بھی رشک قمر ہوا

تیری یاد ہی کا ہے معجزہ کھلی مری ذات میں چاندنی

مرے دل کے دشت میں ہر گھڑی تیرا ذکر ہے تیرا فکر ہے

تیرے ذکروفکر نے کی عطا مجھے مشکلات میں چاندنی

جو کبھی بھی آسؔ نہ ڈھل سکے جو نہ تیرگی میں بدل سکے

در مصطفےٰ کے سوا کہیں وہ نہ آئے ہات میں چاندنی

 

نظر میں گنبد خضرا بسا کے لے آنا

درِ رسول کی یادیں سجا کے لے آنا

جو مل سکے نہ تمہیں دو جہاں کی وسعت سے

وہ حاجیو! مرے آقا سے جا کے لے آنا

جہاں جہاں پہ تمہاری نظر کرے سجدے

وہاں وہاں کے مناظر سما کے لے آنا

میرا سلام بھی جا کر حضور سے کہنا

جو اب جو ملے اسکو چھپا کے لے آنا

تمہارے ہاتھ جو طیبہ کی خاک لگ جائے

اسے ہر ایک نظر سے بچا کے لے آنا

یہاں میں نعت کہوں اور وہاں سنی جائے

مرے نصیب میں ایسا لکھا کے لے آنا

تڑپ میں ان کی ہے مسرور زندگی کتنی

ذرا سی اور تڑپ آسؔ جا کے لے آنا

 

یہ جو میری آنکھیں ہیں میرے رب کی جانب سے مصطفےٰ کا صدقہ ہیں

یہ جو میرے کپڑے ہیں جو چھنی ہے بی بی سے اس ردا کا صدقہ ہیں

یہ جو میرے آنسو ہیں شام کے شہیدوں کی ہر دعا کا صدقہ ہیں

ہونٹ اور زباں میری کربلا کے پیاسوں کی التجا کا صدقہ ہیں

یہ جو دست و بازو ہیں مرتضیٰ کے بیٹے کی ہر وفا کا صدقہ ہیں

یہ جو میرے بچے ہیں اصغر و علی اکبر کی صدا کا صدقہ ہیں

پھول چاند تاروں میں دلنشیں نظاروں میں روپ یوں نہیں آیا

رب کے خاص بندوں کی لاڈلے رسولوں کی سب ضیا کا صدقہ ہیں

آسؔ نعمتیں رب کی، میرے رب کی جانب سے جو جہاں میں اتری ہیں

میں نے تو یہ جانا ہے پنج تنی گھرانے کی سب سخا کا صدقہ ہیں

 

یہ لبوں کی تھرتھراہٹ یہ جو دل کی بے کلی ہے

ترے پیار کی بدولت مجھے میرے رب نے دی ہے

تیری یاد کے تصدق تیرے پیار کے میں قرباں

تیری بندہ پروری سے مری آنکھ شبنمی ہے

مہہ و مہر کو بھی اتنی نہ ہوئی نصیب شاید

جو تیری ضیا سے ہر سو مرے چاندنی کھلی ہے

تیرا نام لے کے سونا تجھے یاد کر کے رونا

یہی مری زندگی ہے یہی مری بندگی ہے

تیری نعت کے کرم نے اسے معتبر کیا ہے

کہاں آسؔ ہے وگرنہ کہاں اس کی شاعری ہے

 

ملے جس سے قلب کو روشنی وہ چراغِ مدحِ رسول ہے

نہیں جس میں یاد حضورؐ کی وہ تمام عمر فضول ہے

تجھے دل میں جس نے بسا لیا تجھے جس نے اپنا بنا لیا

یہ جہان اس کی نگاہ میں فقط اک سراب ہے دھول ہے

جو ترا ہوا وہ مرا ہوا جو ترا نہیں وہ مرا نہیں

یہ کلام حق کا ہے فیصلہ یہ خدا کا واضح اصول ہے

تری رفعتیں کروں کیا بیاں ترے معترف سبھی انس و جاں

ترا تذکرہ ہے جہاں جہاں وہاں رحمتوں کا نزول ہے

کبھی اس کا رنگ نہ اڑ سکا کبھی اس کی باس نہ کم ہوئی

مری شاعری کی جبین پر جو تمہاری نعت کا پھول ہے

اسے تخت و تاج سے کیا عرض اسے مال و زر سے ہے کام کیا

جو پڑا ہے طیبہ کی خاک پر جو گدائے کوئے رسول ہے

وہی شمعِ محفلِ کن فکاں وہی دو جہانوں کا ناز ہے

جہاں کوئی آسؔ نہ جا سکا وہاں ان کے قدموں کی دھول ہے

 

ارض و سما میں جگمگ جگمگ لحظہ لحظہ آپ کا نام

گلشن گلشن ، صحرا صحرا ، مہکا مہکا ، آپ کا نام

پربت پربت ، بادل بادل ، برکھا برکھا، آپ کا نام

جنگل جنگل، وادی وادی، قصبہ قصبہ، آپ کا نام

تپتی زمیں پر برسی رحمت قیصر و کسریٰ خاک ہوئے

ملک عرب میں جس دن اترا اجلا اجلا آپ کا نام

کنکر کنکر کی دھڑکن سے سدرہ کی معراج تلک

سینہ سینہ، محفل محفل، جلوہ جلوہ، آپ کا نام

آپ کی باتیں پیاری پیاری ماشاء اللہ سبحان اللہ

قطرہ قطرہ، چشمہ چشمہ، دریا دریا، آپ کا نام

نام خدا کے ساتھ ہے شامل لوح فلک سے ارض تلک

آنگن آنگن ، گوشہ گوشہ ، قریہ قریہ ، آپ کا نام

جھلمل جھلمل تارے چمکے میری آسؔ کی جھیلوں پر

من کے اندر جب جب مہکا پیارا پیارا آپ کا نام

 

جب چھڑا تذکرہ میرے سرکار کا میرے دل میں نہاں پھول کھلنے لگے

آسماں سے چلیں نور کی ڈالیاں پھر جہاں در جہاں پھول کھلنے لگے

ایک پر نور قندیل چمکی ہے پھر میرے احساس میں میرے جذبات میں

آنکھ پرنم ہوئی ہونٹ تپنے لگے روح میں جاوداں پھول کھلنے لگے

ان کی رحمت سے پر نور سینہ ہوا مجھ گنہ گار کا دل مدینہ ہوا

دھڑکنیں مل گئیں میرے افکار کو سنگ کے درمیاں پھول کھلنے لگے

آپ آئے تو تہذیب روشن ہوئی اور تمدن میں اک انقلاب آگیا

آدمیت کو انسانیت مل گئی گلستاں گلستاں پھول کھلنے لگے

آس تاریکیوں میں بھٹکتا رہا، شکر صد شکر اے دامن مصطفےٰ!

تو ملا تو قلم کو ملی روشنی اس کی زیر زباں پھول کھلنے لگے

 

ان کا ہی فکر ہو ان کا ہی ذکر ہو یہ وظیفہ رہے زندگی کے لیے

سوزِ عشق نبی میری میراث ہو کاش زندہ رہوں میں اسی کے لیے

ان کے در سے مجھے سرفرازی ملے مال و اسباب سے بے نیازی ملے

میں جیوں تو جیوں بس انہی کے لیے میں مروں تو مروں بس انہی کے لیے

رشک کرتا رہے مجھ پہ سارا جہاں مجھ سے مانگیں پنہ وقت کی آندھیاں

میں غلامِ غلامانِ احمد ؐ رہوں اس سے بڑھ کر ہے کیا آد می کے لیے

کاش یوں ہی مرے دل کا موسم رہے میری آنکھوں کی بارش کبھی نہ تھمے

زندگی میں وہ پل بھی نہ آئے کبھی میں انھیں بھول جاؤں کسی کے لیے

ذات والا کا ہے مجھ پہ کتنا کرم میں کہاں اور کہاں مدحِ شاہِ امم

شکر تیر ا مجھے دورِ بے مہر میں ! چن لیا تو نے نعتِ نبی کے لیے

دونوں عالم کو تخلیق رب نے کیا ان کی پہچان کا ہے یہ سب سلسلہ

صرف مقصود ہوتی اگر بندگی کم ملائک نہ تھے بندگی کے لیے

رنگ و بو مجھ سے کرنے لگے گفتگو اک اجالا سا رہنے لگا چار سو

آسؔ جب سے کیا ذہن کو با وضو میں نے سرکار کی شاعری کے لیے

 

ترا تذکرہ مری بندگی ترا نامِ نامی قرارِ جاں

اے حبیبِ رب اے شہِ عرب ترا پیار ہے میرا آسماں

تری ذاتِ پاک کے فیض سے سبھی کائنات میں رنگ ہے

تری شان زینتِ زندگی تیرا ذکر رونقِ دو جہاں

مرے دل میں ایک خدا رہا تو ملا تو کفر ہوا ہوا

تری ذاتِ پاک کے معجزے میں کہاں کہاں نہ کروں بیاں

کڑی دھوپ کا یہ کٹھن سفر مجھے جاں و دل سے عزیز تر

تری یاد جس میں ہے ہم سفر ترا ذکر جس میں ہے سائباں

جو ملا وہ تیرے سبب ملا، جسے تو ملا اسے رب ملا

سبھی فیصلوں پہ تو مہر ہے ترے در کے بعد ہے در کہاں

مرا دل دلوں کا ہے بادشہ کہ ملی اسے دولتِ ثنا

وہ نصیب کا ہے غریب دل تیری یاد جس میں نہیں نہاں

تیری نعت پاک کے پھول جو مری چشمِ تر سے ہیں شبنمی

یہ ترے ہی پیار کے رنگ ہیں مری آس، مان کے ترجماں

 

نازِ کبریا ہے تو فخر انبیاء ہے تو

وجہِ دونوں عالم کی میرے مصطفےٰ ہے تو

بے وفا زمانے کو تو نے الفتیں بانٹیں

کوئی بھی نہ تھا جس کا اس کا آسرا ہے تو

روشنی ترا پرتو چاندنی ترا دھوون

کیا مثال دوں تیری کیا نہیں ہے کیا ہے تو

قدر والی شب میں جو میں نے رب سے مانگی تھی

کپکپا تے ہونٹوں سے وہ مری دعا ہے تو

زندگی تری باندی وقت ہے ترا خادم

جو بھی ہے زمانے میں اس کا مدعا ہے تو

تذکرے ترے سن کر ان کے کھل اٹھیں چہرے

جن کی لو لگی تجھ سے جن کا دل ربا ہے تو

چاندنی ، شفق ، شبنم ، کہکشاں ، صبا ، خوشبو

آسؔ کیا لکھے تجھ کو سب سے ماورا ہے تو

 

مدینے کی فضاؤں میں بکھر جائیں تو اچھا ہو

ہم اپنی موت کو حیران کر جائیں تو اچھا ہو

نہیں ہے حوصلہ روضہ تمہارا تکتے رہنے کا

جنوں کہتا ہے تکتے تکتے مر جائیں تو اچھا ہو

مری نم ناک آنکھوں کا یہی اب تو تقاضہ ہے

تمہارے پیار کی حد سے گزر جائیں تو اچھا ہو

جو ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں میرے سینے میں مہکتی ہیں

وہ اوروں کے دلوں میں بھی اتر جائیں تو اچھا ہو

جسے سنتے ہی دل سرشار ہوں عشقِ محمدؐ سے

رقم ایسی کوئی ہم نعت کر جائیں تو اچھا ہو

 

بنامِ مصطفےٰ ہو امن یا رب پھر کراچی میں

مرے کشمیر کے بھی دن سدھر جائیں تو اچھا ہو

میں جن کو روح کے قرطاس پہ محسوس کرتا ہوں

وہ جذبے کاش کاغذ پر اتر جائیں تو اچھا ہو

وہاں کیسی محبت دل جہاں سجدوں سے قاصر ہو

جبینِ دل کو لے کر ان کے در جائیں تو اچھا ہو

خیالوں میں کئی الفاظ نے آ کر تمنا کی !!

نبی کی نعت سے ہم بھی سنور جائیں تو اچھا ہو

اسی ہی آسؔ میں رہتی ہیں اکثر منتظر آنکھیں

بلاوا آئے، ہم با چشمِ تر جائیں تو اچھا ہو

 

سوادِ عشق نبی کیا کمال ہوتا ہے

دیارِ روح میں حسن و جمال ہوتا ہے

جو اس چراغ کا پروانہ بن کے رہ جائے

اسے نہ کھال نہ جاں کا خیال ہوتا ہے

سخاوتوں کے خزانے نثار ہوتے ہیں

عقیدتوں کا سفر لازوال ہوتا ہے

پھر ایک بار زیارت سے جاں مشرف ہو

لبوں پہ شام و سحر یہ سوال ہوتا ہے

تمام وقت کے حاکم اسے سلام کریں

تمہاری راہ میں جو پائمال ہوتا ہے

گزر کے اس کی محبت کے امتحانوں سے

کوئی حسین ؑ تو کوئی بلالؓ ہوتا ہے

نبی کا ہو کے جسے آسؔ موت آ جائے

وہ شخص مرتا نہیں لازوال ہوتا ہے

 

لوں نام نبی قلب ٹھہر جائے ادب سے

صد شکر یہ اعزاز ملا ہے مجھے رب سے

دنیا ہی بدل دی ہے مرے ذوق نے میری

میں صاحبِ کردار ہوا تیرے سبب سے

اے سرورِ کونین تیرے در کے تصدق

ملتا ہے یہاں سب کو سوا اپنی طلب سے

احسان ترا کیسے بھلا دوں شہِ والا

پہچان ہوئی رب کی ہمیں تیرے سبب سے

مشکل کوئی مشکل نہیں ٹھہری مرے آگے

مدحت شہِ لولاک کی ہاتھ آئی ہے جب سے

اے خالقِ کونین دعا ہے مری تجھ سے

ٹوٹے نہ کبھی رابطہ اس عالی نسب سے

کرتا نہیں دنیا میں اصولوں کا وہ سودا

ہے آسؔ محبت جسے سلطانِ عرب سے

 

نبی کی چشمِ کرم کے صدقے فضائے عالم میں دلکشی ہے

گلوں میں کلیوں میں رنگ و نگہت ہے چاند تاروں میں روشنی ہے

جو آپ آتے نہ اس جہاں میں وجودِ کونین بھی نہ ہوتا

بس آپ کے دم قدم سے آقا جہاں کی محفل سجی ہوئی ہے

ہوا ہے ظلمت کا چاک سینہ گرے ہیں جھوٹے خدا زمیں پر

کرن نبوت کی پھوٹتے ہی جہاں کی قسمت بدل گئی ہے

کمالِ اہلِ ہنر سے اعلیٰ خیال اہلِ نظر سے بالا

مثال جس کی کہیں نہیں وہ جمال حسنِ محمدی ہے

بشیر بھی ہیں نذیر بھی ہیں سراج بھی ہیں منیر بھی ہیں

رؤف بھی ہیں رحیم بھی ہیں انہی کی دو جگ میں سروری ہے

کہیں پہ یٰسین کہیں پہ طہٰ کلام حق ہے ترا قصیدہ

تری ہر اک بات حکم ربی خدا کا تو لاڈلا نبی ہے

خدا سے جو مانگنا ہے مانگو ہے آسؔ ہر سو عطا کی بارش

خدا نہ ٹالے گا بات کوئی کہ آج میلاد کی گھڑی ہے

 

دیوانہ وار مانگیے رب سے اٹھا کے ہاتھ

آئیں گے پھول نعت کے تم تک صبا کے ہا تھ

لکھنے سے پہلے نعت کے آنکھیں ہوں با وضو

آئیں گے تب ہی غیب سے گوہر ثنا کے ، ہا تھ

بنتی نہیں ہے بات عطا کے بنا کبھی

آتا نہیں ہے کچھ بھی سوائے عطا کے ہا تھ

اک چشم التفات ادھر بھی ذرا حضورؐ

امت کی سمت بڑھ گئے مکر و ریا کے ہا تھ

الفت ملی ہے آپ کی سب کچھ عطا ہوا

اب کیا کمی رہی جو اٹھائیں دعا کے ہا تھ

سیلابِ عشقِ شافعِ محشر ہے میرے گرد

"دیکھے تو مجھ کو نار جہنم لگا کے ہاتھ”

وہ فیصلے خدا کی رضا آسؔ بن گئے

جن فیصلوں کے حق میں اٹھے مصطفےٰ کے ہا تھ

 

فنا ہو جائے گی دنیا مہ و انجم نہیں ہوں گے

تیری مدحت کے چرچے پھر بھی آقا کم نہیں ہوں گے

ہر اک فانی ہے شے اور ذکر لا فانی تیرا ٹھہرا

تیری توصیف تب بھی ہو گی جب آدم نہیں ہوں گے

توسل سے انھی کے در کھلیں گے کامرانی کے

وہ جن پر ہاتھ رکھ دیں گے انہیں کچھ غم نہیں ہوں گے

کروڑوں وصف تیرے لکھ گئے اور لکھ رہے بھی ہیں

کروڑوں اور لکھیں گے مگر یہ کم نہیں ہوں گے

خدا کے گھر کا رستہ مصطفےٰ کے گھر سے جاتا ہے

وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے

کریں گے کس طرح سے سامنا وہ روز محشر کا

بتاؤ آسؔ جن کے سرورِ عالم نہیں ہوں گے

 

تو روحِ کائنات ہے تو حسن کائنات

پنہاں ہیں تیری ذات میں رب کی تجلیات

ہر شے کو تیری چشمِ عنایت سے ہے ثبات

ہر شے میں تیرے حسنِ مکمل کے معجزات

کونین کو ہے ناز تیری ذاتِ پاک پر

احسان مند ہیں تیری ہستی کے شش جہات

پژ مردہ صورتوں کو ملی تجھ سے زندگی

نقطہ وروں کو سہل ہوئیں تجھ سے مشکلات

ظلمت کدوں میں نور کے چشمے ابل پڑے

رحمت سے تیری ٹل گئی ظلم و ستم کی رات

 

تاروں کو ضو فشانیاں تجھ سے ہوئیں نصیب

پھولوں کی نازکی پہ تیری چشمِ التفات

ہر شے میں زندگی کی کرن تیری ذات سے

افشا یہ راز کر گئی معراج کی وہ رات

اپنے دل و نگاہ کے آئینے صاف رکھ

گر دیکھنے کی چاہ ہے تجھ کو نبی کی ذات

کن الجھنوں میں پڑ گیا واعظ خدا سے ڈر

بالا ہے تیری سوچ سے سرکار کی حیات

انکی محبتوں کا گزر ہے خیال میں

یونہی نہیں ہیں آسؔ کی ایسی نگارشات

 

ہمیشہ مری چشمِ تر میں رہیں

حضورؐ آپ دل کے نگر میں رہیں

مری سوچ کے دائروں میں رہیں

خیالات کے بام و در میں رہیں

گماں فرقتوں کا میں کیسے کروں

کہ جب آپؐ ہر سو نظر میں رہیں

مرے حرف میں میرے الفاظ میں

مرے شعر میرے ہنر میں رہیں

مرے دن کی مصروفیت میں ہوں آپ

مری رات کے ہر پہر میں رہیں

مری شب کی ہو ابتدا آپ سے

مری انتہائے سحر میں رہیں

تمنا ہے یہ آسؔ وقتِ نزع

حضور آپ ہر سو نظر میں رہیں

 

ہم بے کسوں پہ فضل خدا ہے حضور ؐسے

اسلام کا شعور ملا ہے حضور ؐ سے

آدم کو اپنی ذات کی پہچان تک نہ تھی

انسان آدمی تو ہوا ہے حضور ؐسے

بے کیف بے سرور تھی بے نور زندگی

اس میں سکوں کا رنگ بھرا ہے حضورؐ  سے

ہوں اہلِ بیتِ پاک یا اصحاب مصطفےٰ

وحدت کا سب نے جام پیا ہے حضور سے

کشمیر ہو عراق، فلسطیں کہ کوئی ملک

ہر کلمہ گو تو آسؔ جڑا ہے حضور ؐسے

 

پیارے نبی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے

انکی چاہ میں جی جی مرنا اچھا لگتا ہے

ٹھنڈی ٹھنڈی مہکی مہکی ہلکی ہلکی آہٹ سے

یادِ نبی کا دل میں اترنا اچھا لگتا ہے

جب ہستی کی چاہت کا ہے محور تیری ذات

پل پل تیرا ہی دم بھرنا اچھا لگتا ہے

میں بھی ثنا کے پھول سمیٹوں تم بھی درود پڑھو

پتھر دل سے پھوٹتا جھرنا اچھا لگتا ہے

تجھ سے میری من نگری کے روشن شام و سحر

تیرے نام کی آہیں بھرنا اچھا لگتا ہے

غوث، قلندر اور ولی ہیں تیرے عشق کے روگی

سب کو تری توقیر پہ مرنا اچھا لگتا ہے

ماتھے پر امید کا جھومر مانگ میں آس کی افشاں

ایسا مجھ کو بننا سنورنا اچھا لگتا ہے

 

میں غریب سے بھی غریب ہوں مرے پاس دستِ سوال ہے

اے قسیم راحتِ دو جہاں مری سانس سانس محال ہے

تو خدائے پاک کا راز داں تیرا ذکر زینتِ دو جہاں

تیرے وصف کیا میں کروں بیاں تیری بات بات کمال ہے

میں ہوں بے نوا تو ہے بادشہ میرا تاجِ سر تیری خاکِ پا

میں ہوں ایک بھٹکی ہوئی صدا تری ذات حسنِ مآل ہے

تو ہی فرش پر تو ہی عرش پر تیرا یہ بھی گھر تیرا وہ بھی گھر

جہاں ختم ہوتا ہے ہر سفر تیرا اس سے آگے جمال ہے

تیری ذات عالی شہ عرب کہاں میں کہاں یہ مری طلب

جو ملا، ملا وہ ترے سبب مرا اس میں کیسا کمال ہے

نہیں تیرے بعد کوئی نبی ہوئی ختم تجھ پر پیمبری

تیری ذاتِ حسن و جمال کی نہ نظیر ہے نہ مثال ہے

میں یہ کیوں کہوں کہ غریب ہوں شہ دوسرا کے قریب ہوں

میں تو آسؔ روشن نصیب ہوں غمِ مصطفےٰ مری ڈھال ہے

 

سر جھکایا قلم نے جو قرطاس پر پھول اس کی زباں سے بکھرنے لگے

مدحتِ مصطفےٰ تیرا احسان ہے تجھ سے کیا کیا مقدر سنورنے لگے

یہ تو ان کی عنایات کی بات ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری اوقات ہے

جس کا دنیا میں پرسان کوئی نہ تھا اس  کے دامن میں تارے اترنے لگے

یونہی مجھ پر کرم اپنا رکھنا سدا اے مرے چارہ گر اے شہ دوسرا

تیری چشمِ کرم جس طرف کو اٹھی اس طرف نور سینوں میں بھرنے لگے

قطب و ابدال غوث و ولی متقی سب کی محسن ہے نورِ تجلی تیری

روشنی تیرے کردار کی پا کے سب سینہ ٔ سنگ کو موم کرنے لگے

عشق سچا اگر ہو تو دیدار کی قید کوئی نہیں فاصلے کچھ نہیں

ہو گئی جن کے دل کو بصارت عطا لمحہ لمحہ وہ دیدار کرنے لگے

کچھ عجب وضع سے کر رہے ہیں بسر تیرے عشاق سب اپنے شام و سحر

جیتا دیکھا کسی کو تو جینے لگے مرتا دیکھا کسی کو تو مرنے لگے

اے خدا آسؔ کو وہ عطا نعت کر جو منور کرے سب کے قلب و نظر

بے سہاروں کو تسکین جو بخش دے غم کے ماروں کے جو زخم بھرنے لگے

 

لب کشائی کو اذنِ حضوری ملا چشمِ بے نور کو روشنی مل گئی

ہاتھ اٹھاؤں میں اب کس دعا کے لیے انکی نسبت سے جب ہر خوشی مل گئی

ذوق میرا عبادت میں ڈھلنے لگا زاویہ گفتگو کا بدلنے لگا

ساعتیں میری پر کیف ہونے لگیں دھڑکنوں کو مری بندگی مل گئی

ناز اپنے مقدر پہ آنے لگا ہر کوئی ناز میرے اٹھانے لگا

دھل گیا آئینہ میرے کردار کا جب سے ہونٹوں کو نعتِ نبی مل گئی

ان کی چشمِ عنایت کا اعجاز ہے ورنہ کیا ہوں میں کیا میری پرواز ہے

خامیاں میری بنتی گئیں خوبیاں زندگی کو مری زندگی مل گئی

میری تقدیر بگڑی بنائی گئی بات جو بھی کہی کہلوائی گئی

میں نے تو صرف تھاما قلم ہاتھ میں جانے کیسے کڑی سے کڑی مل گئی

زندگی جب سے ان کی پناہوں میں ہے ایک تابندگی سی نگاہوں میں ہے

مجھ کو اقرار ہے اس کے قابل نہ تھا ذاتِ وحدت سے جو روشنی مل گئی

مدحتِ مصطفےٰ ہے وہ نورِ مبیں جس کا ثانی دو عالم میں کوئی نہیں

آس اس کی شعاعوں کے ادراک سے راہ بھٹکوں کو بھی رہبری مل گئی

 

اپنی اوقات کہاں، ان کے سبب سے مانگوں

رب ملا ان سے تو کیوں ان کو نہ رب سے مانگوں

ان کی نسبت ہے بہت ان کا وسیلہ ہے بہت

کیوں میں کم ظرف بنوں بڑھ کے طلب سے مانگوں

جس ضیا سے صدا جگ مگ ر ہے دنیا من کی

اس کی ہلکی سی رمق ماہِ عرب سے مانگوں

آندھیاں جس کی حفاظت کو رہیں سرگرداں

پیار کا دیپ وہ بازارِ ادب سے مانگوں

کوئی اسلوب سلیقہ نہ قرینہ مجھ میں

سوچتا ہوں انھیں کسی طور سے، ڈھب سے مانگوں

کارواں نعت کا اے کاش رواں یوں ہی رہے

اور میں نِت نئے عنوان ادب سے مانگوں

آسؔ آباد رہے شہر مری الفت کا

ہر گھڑی اس کی خوشی دستِ طلب سے

 

جمال عکس محمدی سے فضائے عالم سجی ہوئی ہے

قرارِ جاں بن کے زندگی میں انہی کی خوشبو بسی ہوئی ہے

خدائے واحد کی بن کے برہاں حضور آئے ہیں اس جہاں میں

دکھوں سے جلتی ہوئی زمیں پھر ہر ایک غم سے بری ہوئی ہے

نجانے کیسا کمال دیکھا نبیؐ کا جس نے جمال دیکھا

حواس گم سم نگاہ حیراں زباں کو چپ سی لگی ہوئی ہے

سمندروں کی تہوں سے لے کر مقام سدرہ کی رفعتوں تک

مرے نبی کے کرم کی چادر ہر اک جہاں پر تنی ہوئی ہے

تمام چاہت کے روگیوں کا عجیب ہم نے کمال دیکھا

جدا جدا صورتیں ہیں لیکن دلوں کی دھڑکن جڑی ہوئی ہے

وہی حقیقت میں زندگی ہے وہی حقیقت میں بندگی ہے

جو میرے سرکار کی محبت کے راستوں پر پڑی ہوئی ہے

انگشتری میں نگینہ جیسے زمیں کے دل پر مدینہ جیسے

حضورؐ اس طرح آسؔ تیری، مری نظر میں جڑی ہوئی ہے

 

رنگ لائی مرے دل کی ہر اک صدا لوٹنے زندگی کے خزینے چلا

میرے رب نے کیا مجھ کو منصب عطا میں مدینے چلا میں مدینے چلا

میری مدت کی یہ آس پوری ہوئی رشک کرنے لگا مجھ پہ ہر آدمی

ہونے والی ہے اب زندگی، زندگی سیکھنے زندگی کے قرینے چلا

میرے گھر ملنے والوں کی یلغار ہے آج سب کو مری ذات سے پیار ہے

آرزوؤں کے غنچوں کی مہکار ہے کس مقدس مبارک مہینے چلا

ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ میرے لیے جا کے روضے پہ رکھنا دعا کے دیے

اور یہ کہنا کہ چشم کرم اک ادھر ہر کوئی جام کوثر کے پینے چلا

سوچتا ہوں سفر کا ارادہ تو ہے شوق جانے کا بھی کچھ زیادہ تو ہے

عشق کا معصیت پہ لبادہ تو ہے پر میں کیا ساتھ لیکر خزینے چلا

میں نے پورے کیے کیا حقوق ا لعباد اور مٹائے ہیں کیا جگ سے فتنے فساد

کیا مسلماں میں پیدا کیا اتحاد کون سا مان لے کر مدینے چلا

آسؔ کیا منہ دکھاؤں گا سرکار کو اپنے ہمدرد کو اپنے غم خوار کو

کیوں گراؤں میں فرقت کی دیوار کو کس لیے ہجر کے زخم سینے چلا

 

مرے دل میں یونہی تڑپ رہے مری آنکھ میں یونہی نم رہے

مری ہر نگارشِ شوق پر اے کریم تیرا کرم رہے

میں لکھوں جو نعت حضورؐ کی دلِ مضطرب کے سرور کی

کبھی چشم ناز بلند ہو کبھی سر نیاز سے خم رہے

مری سانس سانس مہک اٹھے مجھے روشنی سی دکھائی دے

میرا حرف حرف دعا بنے مری آہ آہ قلم رہے

یہ یقین ہے جو میں مر گیا تو کہیں گے سب یہ ملائکہ

یہ ہے شاعرِ شاہِ دوسرا ذرا اس کا پاس، بھرم رہے

یہ دعا ہے آسؔ حضورؐ کا کبھی دل سے پیار نہ ہو جدا

مری زندگی کی جبین پر سدا ان کا نام رقم رہے

 

آپؐ سے حسن کائنات آپ کہاں کہاں نہیں

آپ کا ذکر نہ ہو جہاں ایسا کوئی جہاں نہیں

ایک جاں سرور آگ سلگی ہے میری ذات میں

ہے یہ عجیب ماجرا راکھ نہیں دھواں نہیں

جن فیصلوں پہ آپ کی مہر ثبت ہو گئی

اس کے بعد با خدا کوئی بھی این و آں نہیں

اوصافِ پاک آپ کے جس سے تمام ہوں بیاں

ایسا کوئی قلم نہیں ایسی کوئی زباں نہیں

واعظ کی بات بھی پرکھ اپنے بھی من کی بات سن

جس سر سے اٹھ گئے وہ ہاتھ اس کی کہیں اماں نہیں

حضرت بلالؓ دے گئے آس یہ ہم کو فلسفہ

جس کے بنا بھی ہو سحر، ایسی اذاں، اذاں نہیں

 

ہے یہ دربارِ نبی خاموش رہ

چپ کو بھی ہے چپ لگی خاموش رہ

بولنا حدِ ادب میں جرم ہے

خامشی سب سے بھلی خاموش رہ

ان کے در کی مانگ رب سے چاکری

تجھ کو جنت کی پڑ ی خاموش رہ

ہے ذریعہ بہترین اظہار کا

اک زبانِ خامشی خاموش رہ

دل سے ان کو یاد کر کے دیکھ تو

پاس ہیں وہ ہر گھڑی خاموش رہ

بھیگی پلکیں کر نہ دیں رسوا تجھے

ضبط کر دیوانگی خاموش رہ

جیسے کی ہے میرے آقا نے بسر

ویسے تو کر زندگی خاموش رہ

جس نے بھی دیکھا ہے جلوہ آپ کا

اس کو ہی چپ لگ گئی خاموش رہ

نعت لکھواتی ہے کوئی اور ہی ذات

ورنہ جرأت آسؔ کی خاموش رہ

 

ہر طرف لب پہ صل علیٰ ہے ہر طرف روشنی روشنی ہے

جشنِ میلاد ہے مصطفےٰ کا کیا معطر معطر گھڑی ہے

آج سن لی ہے سب کی خدا نے کھل گئے رحمتوں کے خزانے

جتنا دامن میں آئے سمیٹو ہر طرف رحمتوں کی جھڑی ہے

چھٹ گئیں ظلمتوں کی گھٹائیں کیسے دن آج کا بھول جائیں

عید میلاد آؤ منائیں کون سی عید اس سے بڑی ہے

ہم سے کہتا ہے خود ربِ اکبر میں ثنا خوان ہوں مصطفےٰ کا

تم بھی بھیجو درود ان پہ ہر دم ان کی مدحت مری بندگی ہے

اک خدا اک رسول ایک قرآں ایک کیوں کر نہیں پھر مسلماں

چھوڑ دو فرقہ بندی خدارا اس نے جاں کتنے بندوں کی لی ہے

ہر مسلمان ماتم کناں ہے گنگ انسانیت کی زباں ہے

آپ محسن ہیں انسانیت کے آپ کے در سے ہی لو لگی ہے

اپنے در پر ہی رکھنا خدارا غیر کا در نہیں ہے گوارا

آسؔ مانا کہ عاصی بہت ہے پر حضور آپ کا امتی ہے

 

ذکرِ نبیؐ اسرارِ محبت صلی اللہ علیہ و سلم

حق کا پیمبر ختم رسالت صلی اللہ علیہ و سلم

صبح ازل کی جان بھی ہے و ہ شام ابد کی شان بھی ہے وہ

اس کی ثنا گو ہر اک ساعت صلی اللہ علیہ و سلم

ذکر نبی میں دل کی طرب ہے دل کی طرب خوشنودی رب ہے

رب کی رضا سرکار کی مدحت صلی اللہ علیہ و سلم

کس کے تصدق چمکا ستارا چاند زمیں پر رب نے اتارا

ہم آزاد ہیں کس کی بدولت صلی اللہ علیہ و سلم

وحدت کی پہچان اسی میں بخشش کا سامان اسی میں

کرتے رہو یہ ذکر سعادت صلی اللہ علیہ و سلم

پاکستان کا پیارا خطہ آپ کی ہے نعلین کا صدقہ

آپ کے صدقے پائی یہ جنت صلی اللہ علیہ و سلم

قرآں ہو دستور ہمارا چمکے آسؔ نصیب کا تارا

رہبر ہو جب آپ کی سیرت صلی اللہ علیہ و سلم

 

میں مریضِ عشقِ رسول ہوں مجھے اور کوئی دوا نہ دو

یہی نام میرا علاج ہے یہی نام لیتے رہا کرو

مرے ہم سخن مرے ساتھیو مرے مونسو مرے وارثو

تمہیں مجھ سے اتنا ہی پیار ہے مرے ساتھ صلِ  علیٰ پڑھو

کوئی چھیڑو قصے حضور کے گریں بت زمیں پہ غرور کے

کھلیں باب عقل و شعور کے دل مضطرب کو قرار ہو

مری زندگی بھی ہو زندگی مری شاعری بھی ہو شاعری

کھلے دل کے شہر میں چاندنی درِ مصطفےٰ پہ چلیں چلو

مری چشمِ ناز کا نور وہ مری نبضِ جاں کا سرور وہ

نہیں پل بھی مجھ سے ہیں دور و ہ مری دھڑکنوں کی صدا سنو

وہ خدا کا عکسِ جمال ہیں وہی رشکِ او ج کمال ہیں

وہ تو آپ اپنی مثال ہیں کوئی تم نہ ان کی مثال دو

جسے ان کی ایک جھلک ملی وہ ہر ایک غم سے ہوا بری

اسے آس اس طرح چپ لگی کہ نہ جیسے منہ میں زبان ہو

 

ہر اک لب پہ نعت نبی کے ترانے ہر اک لب پہ صلِ علیٰ کی صدا ہے

ہمارے نبی جس میں تشریف لائے وہ رحمت کا پر نور دن آگیا ہے

درودوں کے تحفے سلاموں کے ہدیے دعاؤں کے منظر عقیدت کے نعرے

مقدس مقدس ہر اک سمت جلوے معطر معطر ہر اک سو فضا ہے

عطاؤں کی بارش دعا کی گھڑی ہے ہر اک شخص کی آپ سے لو لگی ہے

ہر اک آنکھ میں آنسوؤں کے سمندر ہر اک دل میں تعظیم کا در کھلا ہے

خدا کی خدائی کے مختار ہیں وہ تمام انبیاء کے بھی سردار ہیں وہ

خدا کی خدائی طلبگار ان کی مقام ان کو رب نے عطا وہ کیا ہے

اٹھے گی وہ چشمِ کرم غم کے مارو انہیں دل کی گہرائیوں سے پکارو

نچھاور کرو پھول ان پہ ثنا کے اسی میں ہی آسؔ اپنے رب کی رضا ہے

 

تری یاد کا سدا گلستاں مری نبضِ جاں میں کھلا رہے

مری سانس جس سے مہک اٹھے وہ قرار دل میں بسا رہے

میں پڑا رہوں تری راہ میں تری چاہتوں کی پناہ میں

مجھے ٹھوکروں کی نہ فکر ہو مرا زخم زخم ہرا رہے

مری زندگی کا ہر ایک پل ترے پیار سے بنے با عمل

تری چاہتوں پہ جیوں مروں ترے غم کی دل میں جلا رہے

رہے تیری یاد سے واسطہ کوئی اور نہ ہو مرا راستہ

مرے شعر میری بقا بنیں مرا رنگ سب سے جدا رہے

یہی آسؔ ہے یہی آرزو تیری ہر گھڑی کروں گفتگو

مری آنکھ ہو سدا با وضو یونہی مجھ پہ فضلِ خدا رہے

 

نور سے اپنے ہی اک نور سجایا رب نے

پھر اسی نور کو محبوب بنایا رب نے

ان کی ہر بات میں رکھ رکھ کے محبت کی مٹھاس

پیکرِ خُلق کا دیدار کرایا رب نے

انبیا جب تیرے دیدار کو بے تاب ہوئے

پھر امامت کو سرِ عرش بلایا رب نے

پیکر حسن میں سب خوبیاں اپنی بھر کر

تجھ کو قرآن کی صورت میں بنایا رب نے

تیری سیرت کی زمانے سے گواہی لینے

دیکھنے والی نگاہوں کو دکھایا رب نے

اپنی قدرت کو دو عالم پہ اجاگر کرنے

ناز تخلیق کو پھر پاس بلایا رب نے

اور بھی بیش بہا نعمتیں دی ہیں لیکن

دے کے محبوب یہ احسان جتایا رب نے

شکر اس ذات کا جتنا بھی کروں کم ہے آسؔ

مجھ کو بھی نعت کا انداز سکھایا رب نے

 

بڑھتی ہی جا رہی ہے آنکھوں کی بے قراری

یا رب دکھا دے پھر سے صورت نبی کی پیاری

پھر دل کی انجمن میں بجھنے لگی ہیں شمعیں

پھر ہجر کی تڑپ میں گزرے گی رات ساری

جس میں کھلیں تمہاری الفت کے پھول آقا

اس دن کے میں تصدق اس رات کے میں واری

ان راستوں کے ذرے بنتے گئے ستارے

جن راستوں سے گزری سرکار کی سواری

ہم کو بھی اس نظر میں رہنے کی آرزو ہے

جس کی ضیاء سے جگمگ ہے کائنات ساری

مہکار بٹ رہی ہے جس میں محبتوں کی

وہ ہے نگر تمہارا وہ ہے گلی تمہاری

جینے کی آسؔ دل میں کچھ اور بڑھ گئی ہے

جب سے ہوئی ہیں نعتیں میرے لبوں پہ جاری

 

دیکھنے والی ہے اس وقت قلم کی صورت

چومتا جاتا ہے کاغذ کو حرم کی صورت

اس پہ تحریر ہوئی جاتی ہے آقا کی ثناء

بن رہی ہے مرے عصیاں پہ کرم کی صورت

آپ کا پیار سنبھالا جو نہ دیتا مجھ کو

اور ہی ہوتی مرے رنج و الم کی صورت

شہر تو شہر ہے شیدائی مرے آقا کے

"دشت میں جائیں تو ہو دشت ارم کی صورت”

مدح سرکار میں آنکھوں کا وضو لازم ہے

خود بخود بنتی ہے پھر نعت رقم کی صورت

ہر کوئی اپنی نگاہوں پہ بٹھاتا ہے مجھے

اور کیا ہوتی ہے الطاف و کرم کی صورت

آس سرکار کا دامان شفاعت ہو نصیب

تب ہی محشر میں بنے میرے بھرم کی صورت

 

وہ جدا ہے راز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

وہ الگ ہے ذات نماز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

یہ کہا زمیں سے حسیں کوئی مرے مصطفےٰ سے بھی بڑھ کے ہے

تو کہا یہ عجز و نیاز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

یہ کہا فلک سے کہ اور کوئی تیری رفعتوں سے ہے آشنا

تو کہا یہ اس نے بھی راز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

یہ کہا زمیں سے کہ معتبر درِ مصطفےٰ سی کوئی جگہ

تو کہا یہ اس نے بھی ناز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

یہ کہا فلک سے کہ رفعتیں کسی اور نبی کو بھی یوں ملیں

تو کہا یہ صیغۂ راز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

یہ کہا زمیں سے صعوبتیں کسی اور کی آل کو یوں ملیں

تو کہا یہ سوز و گداز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

یہ کہا فلک سے کہ کہکشاں کسی اور کی گردِ سفر بھی ہے

تو کہا یہ آس کو ناز سے کہ نہیں نہیں بخدا نہیں

 

صبح بھی آپؐ سے شام بھی آپ ؐسے

میری منسوب ہر اک گھڑی آپ ؐسے

میرے آقا میرا تو یہ ایمان ہے

دونوں عالم کی رونق ہوئی آپ ؐسے

آپ میرے تصور کی معراج ہیں

میرے کردار میں روشنی آپ ؐسے

گر گیا تھا خود اپنی نظر سے بشر

آج اس کو ملی برتری آپؐ سے

آپؐ خالق کی بے مثل تخلیق ہیں

کیسے لیتا کوئی برتری آپؐ سے

کہکشاں ہی نہیں ان کی گردِ سفر

چاند کو بھی ملی چاندنی آپؐ سے

قبر میں آس عشق نبی ساتھ ہو

اے خدا التجا ہے یہی آپ ؐسے

 

ثناء خدا کی درود و سلام ہے تیرا

لبوں پہ ذکر مرے صبح و شام ہے تیرا

جو تم نہ ہوتے تو بستی نہ عالم ہستی

وجود کون و مکاں اہتمام ہے تیرا

کوئی نہیں تیرا ہمسر نہ کوئی سایہ ہے

سروں پہ سایہ ہمارے دوام ہے تیرا

دلوں میں عشق نبی کا نہ دیپ جلتا ہو

تو پھر فضول سجود و قیام ہے تیرا

تمہارے در کا ہے دربان جبرائیل امیں

"مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا”

قلم دیا مجھے اپنے نبی کی مدحت کا

مرے کریم یہ کیا کم انعام ہے تیرا

اسے بھی خسرو و محبوب سا ثناء گو کر

یہ امتی بھی تو آقا غلام ہے تیرا

وہ ایک نقطہ جسے خود خدا ہی جانتا ہے

خدا کے بعد جدا سا مقام ہے تیرا

ملی ہے آس کو جس نام سے پذیرائی

وہ نام نامی تو خیر الانام ہے تیرا

 

ان کی دہلیز کے قابل میرا سر ہو جاتا

کاش منظور مدینے کا سفر ہو جاتا

لوگ مجھ کو بھی بڑے چاؤ سے ملنے آتے

محترم سب کی نظر میں میرا گھر ہو جاتا

میں بھی چل پڑتا دل و جاں کو نچھاور کرنے

پورا مقصد مرے جینے کا اگر ہو جاتا

لیلۃ القدر ہر اک رات مری ہو جاتی

عید جیسا میرا ہر روز بسر ہو جاتا

مسجد نبوی میں دل کھول کے لکھتا نعتیں

میرا ہر شعر وہاں جا کے امر ہو جاتا

میرا ظاہر بھی عقیدت سے منور ہوتا

میرا باطن بھی محبت کا نگر ہو جاتا

مہک اٹھتے مرے ہونٹوں پہ درودوں کے گلاب

میرا دامانِ طلب اشکوں سے تر ہو جاتا

زندگی میں نیا اک موڑ اجاگر ہوتا

میری آنکھیں مرا دل آپ کا گھر ہو جاتا

اتنا مشکل تو نہ تھا رب کو منا لینا آس

حوصلہ سامنا کرنے کا اگر ہو جاتا

 

آپ سے مہکا تخیل آپ پر نازاں قلم۔ ا ے رسول محترم

میری ہر اک سوچ پر ہے آپ کا لطف و کرم۔ اے رسول محترم

آپکا ذکر مقدس ہر دعا کا تاج ہے۔ غمزدوں کی لاج ہے

اسکے بن بیکار ہر اک بندگی رب کی قسم۔ اے رسول محترم

آپ آئے کائنات حسن پر چھایا نکھار۔ اے حبیب کردگار

بزم ہستی کے ہیں محسن آپکے نقش قدم۔ اے رسول محترم

آپ کے باعث جہاں میں آدمی مسرور ہے۔ زندگی پر نور ہے

آپ کی ذاتِ مقدس آدمیت کا بھرم۔ اے رسولِ محترم

آپکی توصیف میں اترا ہے قرآن مبیں۔رحمت اللعالمین

آپ کا شیدا ہے شرق و غرب اور عرب و عجم۔! اے رسول محترم

آپ کا دامانِ رحمت جس کو ہو جائے نصیب۔کتنا وہ رب کے قریب

پھر اسے خدشہ جہنم کا نہ ہو محشر کا غم۔ اے رسول محترم

آس جگ میں اسکو پھر پرواہ نہیں انجام کی۔ صبح کی نہ شام کی

جس کی جانب آپ کا ہو جائے الطاف و کرم۔ اے رسول محترم

 

سکون دل کے لیے جاوداں خوشی کے لیے

نبی کا ذکر ضروری ہے زندگی کے لیے

مقام فیض کی تم کو اگر تمنا ہے

درود پڑھتے رہو اپنی بہتری کے لیے

اسے بھی اذن حضوری کا شرف مل جاتا

تڑپ رہا ہے جو سرکار حاضری کے لیے

خدائے پاک نے کیا کیا نہ اہتمام کیا

حبیبِ پاکؐ سے ملنے کی اک گھڑی کے لیے

حضور آپ ہی تخلیقِ وجہہ کون و مکاں

نبی ہے عالم ہستی بھی آپ ہی کے لیے

حضورؐ عرب و عجم آپ کے تمنائی

حضور شرق و غرب بھی ہیں آپ ہی کے لیے

نثار ان پہ کروں اپنی سانس سانس کا لمس

مرے وجود کی تابندگی انہی کے لیے

تمام ساعتیں بخشیں جو زندگی نے تمہیں

انہی کو وقف کرو آ س آج انہی کے لیے

نبی ہمارا نبی وہ ہے انبیاء جس کی

کریں خدا سے دعا انکے امتی کے لیے

اگر حضورؐ کی سچی لگن خدا دے دے

میں سر اٹھاؤں نہ سجدے سے اک گھڑی کے لیے

حضورؐ بعد ولادت کے کر رہے تھے دعا

خدائے پاک سے امت کی بخششی کے لیے

حضورؐ آس کو وہ اذنِ نعت مل جائے

بنے وسیلہ جو بخشش کا اخروی کے لیے

 

اے شہ انبیاء سرورِ سروراں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

بر ملا کہہ رہے ہیں زمیں و زماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

نور تو سبب گھرانہ تیرا نور کا تو سہارا ہے لاچار و مجبور کا

ہادی اِنس و جاں حامی بیکساں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

تو چلے تو فضائیں تیرے ساتھ ہوں بادلو ں کی گھٹائیں تیرے ساتھ ہوں

مٹھیوں سے ملے کنکروں کو زباں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

کوئی سمجھے گا کیا تیرے اسرار کو آئینے بھی ترستے ہیں دیدار کو

تیرے قدموں میں رکھتی ہے سر کہکشاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

ذکر تیرا دعاؤں کا سرتاج ہے غمزدوں بے سہاروں کی معراج ہے

ہر فنا شے تیرا ذکر ہے جاوداں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

تیری انگلی کا جس سمت اِشارہ گیا چاند کو بھی اسی سو اتارا گیا

تاجور دیکھتے رہ گئے یہ سماں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

آس آنکھوں میں جگمگ ہے تیری ضیاء اے حبیبِ خدا خاتم الانبیاء

اے شفیع الامم مرسلِ مرسلاں تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

 

آؤ سوچوں ہی سوچوں میں ہم آقا کے دربار چلیں

مہکی یادوں کے پھول چنیں اشکوں کے لیکر ہار چلیں

نہ کوئی روکنے والا ہو نہ کو ئی ٹوکنے والا ہو

روضے کے لمس کو جی بھر کر آنکھوں سے کرنے پیار چلیں

جہاں مٹی سونا ہوتی ہے جہاں ذرے سورج بنتے ہیں

اُن گلیوں کا اُن رستوں کا ہم بھی کرنے دیدار چلیں

کہتے ہیں وہاں پُر شام سحر انوار کی بارش رہتی ہے

کہتے ہیں وہاں خوشبو لینے سب دنیا کے بازار چلیں

جب شہر مدینہ جی بھر کر د ل کی آنکھوں سے دیکھ چکیں

پھر شاہ نجف کا در چُومیں بغداد کے پھر بازار چلیں

اس شہر محبت کی خوشبو کرتی ہے حفاظت انساں کی

جسکا یہ مقدر بن جائے اس پر نہ ریا کے وار چلیں

کربل کے جن صحراؤں میں معصوموں کی فریادیں ہیں

ان صحراؤں سے صبر و رضا کا سننے حال زار چلیں

سنتے ہیں کہ بدر کے میداں میں ہے آج بھی رعب و جلالیت

اصحاب کا وہ میدانِ عمل ہم دیکھنے سو سو بار چلیں

اے آس زمانے میں کتنا دشوار ہو جینا مرنا

آؤ سرکار سے اُمت کا یہ کہنے حالِ زار چلیں

 

اے جسم بے قرار ثنائے رسول سے

جوڑ اپنے دل کے تار ثنائے رسول سے

ہر صبح پر وقار ثنائے رسول سے

ہر شام خوش گوار ثنائے رسول سے

بھٹکا ہے ساری عمر سرابوں کی چاہ میں

جوڑ اب تو دل کے تار ثنائے رسول سے

کیا جانے سانس کا ہو سفر کس مقام تک

جی بھر کے کر لے پیار ثنائے رسول سے

جن کو خبر نہیں انہیں جا کر بتایئے

دنیا کی ہے بہار ثنائے رسول سے

وہ ذات، نامراد کو کرتی ہے با مراد

تو زندگی سنوار ثنائے رسول سے

گر تجھ کو لازوال محبت کی آسؔ ہے

جوڑ اپنے دل کے تار ثنائے رسول سے

 

زمین جس پہ نبوت کے تاجدار چلے

وہ چومنے کو نظر کاش بار بار چلے

پڑیں نہ پاؤں تقدس کا یہ تقاضا ہے

وہ خاک جس پہ نبی زندگی گزار چلے

دلوں کو سجدہ روا اس مقام کا بھی ہے

نبی کے دوش کے جس جا پہ شہ سوار چلے

وہ حجرہ دیکھے جہاں عمرؓ فیصلے کرتے

وہ خاک چومے جہاں حیدرِ کرار ؑ چلے

وہ گھر بھی چومے جہاں تھے ایوب انصاریؓ

وہ راہ چومے جدھر ان کے یار غار چلے

وضو بغیر، تصور بھی جرم ہے لوگو

وہاں پہ جائے تو انسان اشک بار چلے

وہ باغ دیکھے جو عثماںؓ نے دین کو بخشا

وہ غار دیکھے جہاں ان کے یار غار چلے

یہ شوق بھی ہے تڑپ بھی ہے تشنگی بھی ہے

جو آس جائے تو پاؤں کہاں اتار چلے

 

ہے نام دو جہاں میں وجہِ قرار تیرا

آقا نفس نفس میں مہکا ہے پیار تیرا

تو نے جہالتوں سے انسان کو نکالا

انسانیت پہ احساں ہے بے شمار تیرا

میری حیات جس کی رعنائیوں سے مہکی

وہ ہے سرور تیرا وہ ہے قرار تیرا

ظلم و ستم کے ہر سو چھانے لگے ہیں بادل

پھر دیکھتا ہے رستہ ہر کارزار تیرا

کشمیر بھی تمہاری چشم کرم کا طالب

اقصیٰ کی آنکھ میں بھی ہے انتظار تیرا

خالق خدا ہے، مالک دونوں کا تو ہے آقا

کل کائنات تیری، پروردگار تیرا

وہ آس زندگی کی انمول ساعتیں ہیں

جن ساعتوں میں نام نامی شمار تیرا

 

زندگی ملی حضور سے

روشنی کھلی حضور سے

ساری رونقیں حضور کی

ساری دلکشی حضور سے

کائنات ہست و بود میں

کن کی بے کلی حضور سے

زندگی گری پڑی ہوئی

معتبر ہوئی حضور سے

اسکو دو جہان مل گئے

جس کی لو لگی حضور سے

اڑتی دھول کا نصیب دیکھ

کہکشاں بنی حضور سے

آسؔ اہتمام ذکر و نعت

سب ہماہمی حضور سے

 

محروم ہیں تو کیا غم دل حوصلہ نہ ہارے

طیبہ کے ہوں گے اک دن اے دوستو نظارے

رختِ سفر کسی دن باندھیں گے ہم بھی اپنا

ہم کو بھی لوگ ملنے آئیں گے گھر ہمارے

آتے ہیں کام اس کے ایمان ہے یہ اپنا

مشکل میں جو کوئی بھی سرکار کو پکارے

جب یاد ان کی آئی بے اختیار آئی

پلکوں پہ جھلملائے ہر رنگ کے ستارے

جس شخص کو طلب ہے جنت کو دیکھنے کی

سرکار کی گلی میں دو چار دن گزارے

جس کا وکیل رب ہو آقا کی پیروی ہو

وہ کیسے استغاثہ انسان کوئی ہارے

ہونٹوں پہ آس ہر دم جاری درود رکھنا

ناؤ تمہاری خود ہی لگ جائے گی کنارے

 

کاش سرکار کے حجرے کا میں ذرہ ہوتا

ان کے نعلین کا جاں پر میری قبضہ ہوتا

حشر تک سر نہ اٹھاتا میں درِ اقدس سے

میری قسمت میں ازل سے یہی لکھا ہوتا

ان کے جلوؤں میں مگن رات بسر ہو جاتی

ان کو تکتے ہوئے ہر ایک سویرا ہوتا

ان کی راہوں میں نگاہوں کو بچھائے رکھتا

ان کی آہٹ پہ دل و جان سے شیدا ہوتا

کبھی پیشانی پہ حسنین کے پاؤں پڑتے

اور علی کا کبھی سر پر میرے تلوا ہوتا

ہر کوئی چومتا آنکھوں سے لگاتا مجھ کو

ان کی نسبت سے ابد تک میرا چرچا ہوتا

عمر، عثمان، ابوبکر ، حذیفہ، حمزہ

سب صحابہ کو میری آنکھ نے دیکھا ہوتا

بیٹھ کر دل پہ میرے نعت سناتے حسان

ناز کا تاج میرے سر پہ سنہرا ہوتا

رب کا احساں ہے کہ آقا کا سخنور ہوں آسؔ

یہ بھی سرمایہ نہ ہوتا تو میرا کیا ہوتا

٭٭٭

تشکر : شاکر القادری، القلم پبلشرس، اٹک،  پاکستان

تدوین اور ای بُک کی تشکیل: اعجاز عبید