فہرست مضامین
- آسان ترجمہ قرآن
- ۲۵۔ سورۃالفرقان
- ۲۶۔ سورۃالشعراء
- ۲۷۔ سورۃالنمل
- ۲۸۔ سورۃ القصص
- ۲۹۔ سورۃالعنکبوت
- ۳۰۔ سورۃ الروم
- ۳۱۔ سورۃ لقمان
- ۳۲۔ سورۃ السجدۃ
- ۳۳۔ سورۃ الاحزاب
- ۳۴۔ سورۃ سبا
- ۳۵۔ سورۃ فاطر
- ۳۶۔ سورۃ یٰسٓ
- ۳۷۔ سورۃ الصّٰٓفّٰت
- ۳۸۔ سورۃ صٓ
- ۳۹۔ سورۃ الزّمر
- ۴۰۔ سورۃ المؤمن
- ۴۱۔ سورۃ حٰمٓ السَّجْدَۃِ
- ۴۲۔ سُوْرَۃُ الشُّوْرٰی
- ۴۳۔ سُوْرَۃُ الزُّخْرُفِ
آسان ترجمہ قرآن
حصہ سوم، فرقان تا زخرف
حافظ نذر احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
۲۵۔ سورۃالفرقان
مکیۃ
آیات:۷۷ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندہ پر فرقان (اچھے برے میں فرق اور فیصلہ کرنے والی کتاب قرآن) کو نازل کیا تاکہ وہ سارے جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو۔ (۱)
وہ جس کی بادشاہت ہے آسمانوں کی اور زمین کی، اور اس نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور اس کا کوئی شریک نہیں سلطنت میں، اور اس نے ہر شے کو پیدا کیا، پھر اس کا ایک (مناسب) اندازہ کیا۔ (۲)
اور انہوں نے اس کے علاوہ بنا لئے ہیں اور معبود، وہ کچھ نہیں پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ اپنے لئے اختیار نہیں رکھتے کسی نقصان کا، اور نہ کسی نفع کا، اور نہ وہ اختیار رکھتے ہیں کسی موت کا اور نہ کسی زندگی کا۔ (۳)
اور انہوں نے اس کے علاوہ بنا لئے ہیں اور معبود، وہ کچھ نہیں پیدا کرتے بلکہ وہ (خود) پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ اپنے لئے اختیار نہیں رکھتے کسی نقصان کا، اور نہ کسی نفع کا، اور نہ وہ اختیار رکھتے ہیں کسی موت کا، اور نہ کسی زندگی کا، اور پھر (جی) اٹھنے کا۔ (۴)
اور انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، اس نے انہیں لکھ لیا ہے پس وہ اس پر پڑھی جاتی ہیں (سنائی جاتی ہیں) صبح اور شام۔ (۵)
آپ فرما دیں اس کو نازل کیا ہے اس نے جو آسمانوں اور زمین کے راز جانتا ہے، بیشک وہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۶)
اور انہوں نے کہا کیسا ہے یہ رسول (جو) کھانا کھاتا ہے، اور چلتا پھرتا ہے بازاروں میں، اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا کہ وہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔ (۷)
یا اس کی طرف اتارا جاتا کوئی خزانہ، یا اس کے لئے کوئی باغ ہوتا کہ وہ اس سے کھاتا، اور ظالموں نے کہا تم پیروی کرتے ہو صرف جادو کے مارے ہوئے آدمی کی۔ (۸)
اے نبی! دیکھو تو انہوں نے تمہارے لئے کیسی باتیں بیان کی ہیں، سو ہ بہک گئے ہیں، لہذا وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ (۹)
بڑی برکت والا ہے وہ، اگر وہ چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر بنا دے، (ایسے) باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اور تمہارے لئے محل بنا دے۔ (۱۰)
بلکہ انہوں نے جھٹلایا قیامت کو، اور جس نے قیامت کو جھٹلایا ہم نے اس کے لئے دوزخ تیار کیا ہے۔ (۱۱)
جب وہ (دوزخ) انہیں دیکھے گی دور جگہ سے، وہ اسے جوش مارتا، چنگھاڑتا سنیں گے۔ (۱۲)
اور جب وہ اس (دوزخ) کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے (باہم زنجیروں سے) جکڑے ہوئے، تو وہاں موت کو پکاریں گے۔ (۱۳)
(کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہ پکارو، بلکہ تم پکارو بہت سی موتوں کو۔ (۱۴)
فرما دیں کیا یہ بہتر ہے یا ہمیشگی کے باغ، جن کا وعدہ پرہیز گاروں سے کیا گیا ہے، وہ ان کے لئے اجر ہے اور لوٹ کر جانے کی جگہ ہے۔ (۱۵)
اس میں ان کے لئے جو وہ چاہیں گے (موجود ہوگا) ہمیشہ رہیں گے، یہ ایک وعدہ ہے تیرے رب کے ذمے مانگا ہوا (مانگنے کے لائق ہے) ۔ (۱۶)
اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا اور جن کی وہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا، تو وہ کہے گا کیا تم میرے ان بندوں کو گمراہ کیا؟ یا وہ خود راستہ سے بہک گئے۔ (۱۷)
وہ کہیں گے تو پاک ہے، ہمارے لئے سزاوار نہ تھا کہ بناتے تیرےسوا اوروں کو مددگار، لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو آسودگی دی، یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھول گئے اور وہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔ (۱۸)
پس انہوں نے تمہاری بات جھٹلا دی، پس اب نہ تم (عذاب) پھیر سکتے ہو، اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہو، اور جو تم میں سے ظلم کرے گا، ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔ (۱۹)
اور ہم نے تم سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر یقیناً وہ کھاتے تھے کھانا، اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے، اور ہم نے تم میں سے کسی کو بنایادوسروں کے لئے آزمائش، کیا تم صبر کرو گے، اور تمہارا رب دیکھنے والا ہے۔ (۲۰)
ا ور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے انہوں نے کہا: ہم پر فرشتے کیوں نہ اتارے گئے؟یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے، تحقیق انہوں نے (اپنے زعم میں اپنے آپ کو) بڑا سمجھا، اور بڑی سرکشی کی۔ (۲۱)
جس دن وہ دیکھیں گے فرشتوں کو اس دن مجرموں کے لئے کوئی خوشخبری نہیں ہوگی اور وہ کہیں گے کوئی آڑ ہو روکی ہوئی ہو، (پناہ ہو۔ پناہ) ۔ (۲۲)
اور ہم متوجہ ہوں گے ان کے کئے ہوئے کاموں کی طرف تو ہم انہیں پراگندہ غبار کی طرح کر دیں گے۔ (۲۳)
اس دن بہشت والے بہت اچھے ٹھکانے میں اور بہترین آرام گاہ میں ہوں گے۔ (۲۴)
اور جس دن بادل سے آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے اتارے جائیں گے بکثرت۔ (۲۵)
اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے اتارے جائیں گے بکثرت۔ (۲۵)
اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا اور کہے گا اے کاش ! میں نے رسول کے ساتھ راستہ پکڑ لیا ہوتا۔ (۲۷)
ہائے میری شامت !کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (۲۸)
البتہ اس نے مجھے نصیحت سے بہکایا اس کے بعد جبکہ وہ میرے پاس پہنچ گئی، اور شیطان انسان کو (عین وقت پر) تنہا چھوڑ جانے والا ہے۔ (۲۹)
اور رسول فرمائے گا اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرا لیا (متروک کر رکھا)
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے دشمن بنائے گنہگاروں میں سے، اور تمہارا رب کافی ہے ہدایت کرنے والا اور مددگار۔ (۳۱)
اور کافروں نے کہا کیوں نہ اس پر قرآن ایک ہی بار نازل کیا گیا، اسی طرح (ہم نے بتدریج نازل کیا) تاکہ اس سے تمہارا دل مضبوط کریں اور ہم نے اس کو پڑھ کر (سنایا) ٹھہر ٹھہر کر۔ (۳۲)
اور وہ تمہارے پاس کوئی بات نہیں لاتے، مگر ہم تمہیں ٹھیک جواب اور بہترین وضاحت پہنچا دیتے ہیں۔ (۳۳)
جو لوگ اپنے مونہوں کے بل جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے، وہی لوگ ہیں بدترین مقام میں اور بہت بہکے ہوئے راستے سے۔ (۳۴)
اور البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو معاون بنایا۔ (۳۵)
پس ہم نے کہا تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں بُری طرح ہلاک کر کے تباہ کر دیا۔ (۳۶)
اور قوم نوح نے جب رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا، اور ہم نے انہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی (عبرت) بنایا، اور ہم نے ظالموں کے لئے تیار کیا ہے ایک دردناک عذاب۔ (۳۷)
اور عاد اور ثمود اور کنویں والے اور ان کے درمیان بہت سی جماعتیں۔ (۳۸)
اور ہم نے ہر ایک کو مثالیں بیان کیں (مگر انہوں نے نصیحت نہ پکڑی) اور ہم نے ہر ایک کو تباہ کر کے مٹا دیا۔ (۳۹)
تحقیق وہ (قوم لوط کی) اس بستی پر آئے جس پر (پتھروں کی) بُری بارش برسائی گئی، تو کیا وہ اسے دیکھتے نہیں رہتے؟بلکہ وہ (دوبارہ) جی اٹھنے کی امید نہیں رکھتے۔ (۴۰)
اور جب وہ تمہیں دیکھتے ہیں تو وہ تمہارا صرف ٹھٹھا اڑاتے ہیں (کہتے ہیں) کیا یہ ہے وہ جسے اللہ نےرسول (بنا کر) بھیجا؟ (۴۱)
قریب تھا کہ وہ ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دیتا، اگر ہم اس پر جمے نہ رہتے، اور وہ جلد جان لیں گے، جب وہ عذاب دیکھیں گے، کون ہے راہِ (راست) سے بدترین گمراہ !۔ (۴۲)
جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے تو کیا تم اس پر نگہبان ہو جاؤ گے ؟ (۴۳)
کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر سنتے یا عقل سے کام لیتے ہیں؟وہ نہیں ہیں مگر چوپایوں جیسے، بلکہ راہِ (راست) سے بدترین گمراہ ہیں۔ (۴۴)
کیا تم نے اپنے رب کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا، اس نے کیسے سایہ دراز کیا؟اور اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر ایک رہنما بنایا۔ (۴۵)
پھر ہم نے اس (سایہ) کو سمیٹا اپنی طرف آہستہ آہستہ کھینچ کر۔ (۴۶)
اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ، اور نیند کو راحت بنایا اور دن کو اٹھ (کھڑے ہونے) کا وقت بنایا۔ (۴۷)
اور وہی ہے جس نے اپنی رحمت کے آگے ہوائیں خوشخبری (سنائی ہوئی) بھیجیں، اور ہمنے آسمان سے پاک پانی اتارا۔ (۴۸)
تاکہ ہم اس سے مردہ شہر کو زندہ کر دیں، اور ہم اس سے پلائیں (انہیں) جو ہم نے پیدا کئے ہیں، بہت سے چوپائے اور آدمی۔ (۴۹)
اور تحقیق ہم نے اسے ان کے درمیان تقسیم کیا تاکہ وہ نصیحت پکڑیں، پس اکثر لوگوں نے قبول نہ کیا، مگر ناشکری کو۔ (۵۰)
اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔ (۵۱)
پس آپ کافروں کا کہا نہ مانیں اور اس (حکم الہی) کے ساتھ ان سے بڑا جہاد کریں۔ (۵۲)
اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو ملایا (ملا کر چلایا) یہ (اس طرف کا پانی) خوشگوار شیریں ہے، اور یہ (دوسرا) تلخ بدمزہ ہے، اور اس نے ان دونوں کے درمیان (ایک غیر محسوس) پردہ اور مضبوط آڑ بنائی۔ (۵۳)
اور وہی ہے جس نے پیدا کیا پانی سے بشر، پھر بنائے اس کے نسب (نسبی رشتے) اور سسرال اور تیرا رب قدرت والا ہے۔ (۵۴)
اور وہ بندگی کرتے ہیں اللہ کے سوا اس کی جو انہیں نہ نفع پہنچائے اور نہ ان کا نقصان کرسکے اور کافر اپنے رب کے خلاف پشت پناہی کرنے والا ہے۔ (۵۵)
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر (صرف) خوشخبری دینے والا، اور ڈرانے والا۔ (۵۶)
آپ فرما دیں میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر مگر جو شخص چاہے کہ اپنے رب تک راستہ اختیار کر لے۔ (۵۷)
اور اس ہمیشہ رہنے والے پر بھروسہ کر جسے موت نہیں، اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کر، اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے والا کافی ہے۔ (۵۸)
وہ جس نے آسمانوں کو پیدا کیا اور زمین کو، اور جو ان کے درمیان ہے چھ دن میں، پھر عرش پر قائم ہوا، جو رحم کرنے والا ہے، تو اس کے متعلق کسی باخبر سے پوچھو۔ (۵۹)
اور جب ان سے کہا جائے کہ تم رحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں کیا ہے رحمن؟کیا تو جسے سجدہ کرنے کو کہے ہم اسے سجدہ کریں؟اس (بات) نے ان کا بدکنا اور بڑھا دیا۔ (۶۰)
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے برج بنائے اور اس میں بنایا سورج اور روشن چاند۔ (۶۱)
اور وہی ہے جس نے رات دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا، یہ اس کے (سمجھنے) کے لئے ہیں جو چاہے کہ وہ نصیحت پکڑے، یا شکر گزار بننا چاہے۔ (۶۲)
اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر چلتے ہیں آہستہ آہستہ، اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو وہ بس (سلام) کہتے ہیں۔ (۶۳)
اور وہ اپنے رب کے لئے رات کاٹتے ہیں (رات بھر لگے رہتے ہیں) سجدہ کرتے اور قیام کرتے۔ (۶۴)
اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے، بے شک اس کا عذاب لازم ہو جانے والا ہے (جدا نہ ہونے والا ہے) ۔ (۶۵)
بیشک وہ بُری ہے ٹھہرنے کی جگہ اور بُرا ہے مقام۔ (۶۶)
اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں (ان کی روش) اس کے درمیان اعتدال کی ہے۔ (۶۷)
اور وہ جو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے دوسرا (کوئی اور ) معبود اور اس جان کو قتل نہیں کرتے جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے، مگر جہاں حق ہو، اور وہ زنا نہیں کرتے، اور جو یہ کرے گا وہ بڑی سزا سے دوچار ہوگا۔ (۶۸)
روزِ قیامت اس کے لئے عذاب دوچند کر دیا جائے گا، اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، خوار ہوکر۔ (۶۹)
سوائے اس کے جس نے توبہ کی، اور وہ ایمان لایا، اور اس نے نیک عمل کئے، پس اللہ ان لوگوں کی بُرائیاں بدل دے گا بھلائیوں سے، اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۷۰)
اور جس نے توبہ کی اور نیک عمل کئے تو بیشک وہ رجوع کرتا ہے اللہ کی طرف (جیسے) رجوع کرنے کا مقام (حق) ہے۔ (۷۱)
اور وہ لوگ جو جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے اور جب بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزریں تو گزرتے ہیں بزرگانہ (سنجیدگی کے انداز سے) ۔ (۷۲)
اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کے احکام سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان بہروں اور اندھوں کی طرح نہیں گر پڑتے۔ (۷۳)
اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں بنا دے پرہیز گاروں کا پیشوا۔ (۷۴)
ان لوگوں کو ان کی صبر کی بدولت (جنت کے) بالاخانے انعام دئے جائیں گے اور وہ اس میں دعائے خیر اور سلام سے پیشوائی کئے جائیں گے۔ (۷۵)
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، (کیا ہی) اچھی ہے آرام گاہ اور اچھا مسکن۔ (۷۶)
آپ فرما دیں اگر تم اس کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ نہیں رکھتا، تم نے جھٹلایا، پس عنقریب (اس کی سزا) لازمی ہوگی۔ (۷۷)
٭٭
۲۶۔ سورۃالشعراء
مکیۃ
آیات:۲۲۷ رکوعات:۱۱
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
طسم۔ (۱) یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ (۲)
شاید آپ (اُن کے غم میں) اپنے تئیں ہلاک کر لیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ (۳)
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی نشانی اتار دیں، تو اس کے آگے ان کی گردنیں پست ہو جائیں۔ (۴)
اور ان کے پاس رحمن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اس سے رو گردان ہو جاتے ہیں۔ (۵)
پس بیشک انہوں نے جھٹلایا تو جلد ان کے پاس اس کی خبریں آئیں گی (حقیقت معلوم ہو جائے گی) جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۶)
کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا؟ کہ ہم نے اس میں کس قدر عمدہ عمدہ ہر قسم کی چیزیں جوڑا جوڑا اُگائی ہیں۔ (۷)
بیشک اس میں البتہ نشانی ہے، اور ان میں اکثر نہیں ہیں ایمان لانے والے۔ (۸)
اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب ہے، نہایت مہربان۔ (۹)
آیت ۱۰ تا ۳۳؟؟
فرعون نے اپنے ارد گرد کے سرداروں سے کہا بیشک یہ ماہر جادوگر ہے۔ (۳۴)
وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے جادو (کے زور) سےتمہاری سرزمین سے نکال دے تو تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ (۳۵)
وہ بولے اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دے، اور شہروں میں نقیب بھیج۔ (۳۶)
کہ تیرے پاس تمام بڑے ماہر جادوگر لے آئیں۔ (۳۷)
پس جادو گر جمع ہو گئے ایک معین دن وقت مقررہ پر۔ (۳۸)
اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہو گے؟ (۳۹)
تاکہ ہم پیروی کریں جادو گروں کی، اگر وہ غالب ہوں۔ (۴۰)
جب جادوگر آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کیا ہمارے لئے یقینی طور پر کچھ انعام ہو گا؟ اگر ہم غالب آئے۔ (۴۱)
اس نے کہا ہاں! تم اس وقت بیشک (میرے) مقربین میں سے ہو گے۔ (۴۲)
کہا موسیٰ نے ان سے (اپنا داؤ) ڈالو جو تم ڈالنے والے ہو۔ (۴۳)
پس انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور وہ بولے فرعون کے اقبال سے بیشک ہم ہی غالب آنے والے ہیں۔ (۴۴)
پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ناگاہ نگلنے لگا جو انہوں نے ڈھکوسلا بنایا تھا۔ (۴۵)
پس جادو گر سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے۔ (۴۶)
وہ بولے ہم سارے جہانوں کے رب پر ایمان لائے۔ (۴۷)
(جو) رب ہے موسیٰ اور ہارون کا۔ (۴۸)
فرعون نے کہا تم اس پر (اس سے ) پہلے ایمان لے آئے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ البتہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، پس تم جلد جان لو گے، میں ضرور تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا، دوسری طرف کے (ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پاؤں) اور ضرور تم سب کو سولی دوں گا۔ (۴۹)
وہ بولے کچھ حرج نہیں بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (۵۰)
ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے کہ ہم پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ (۵۱)
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل بیشک تم پیچھا کئے جاؤ گے (تمہارا تعاقب ہو گا) ۔ (۵۳)
پس فرعون نے شہروں میں نقیب بھیجے۔ (۵۳)
بیشک یہ لوگ ایک تھوڑی (چھوٹی سی) جماعت ہیں۔ (۵۴)
اور بیشک ہمیں غصہ میں لانے والے (غصہ دلا رہے ہیں) (۵۵)
اور بیشک ہم ایک جماعت ہیں مسلح محتاط۔ (۵۶)
(ارشاد الہی ہے) پس ہم نے انہیں باغات سےاور چشموں سے نکالا۔ (۵۷) اور خزانوں سے اور عمدہ ٹھکانوں سے نکالا۔ (۵۸)
اسی طرح ہم نے ان کا وارث بنایا بنی اسرائیل کو۔ (۵۹)
پس انہوں نے سورج نکلتے (صبح سویرے) ان کا پیچھا کیا۔ (۶۰) پس جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھی کہنے لگے، یقیناً ہم پکڑ لئے گئے۔ (۶۱)
موسیٰ نے کہا، ہر گز نہیں، بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے، وہ مجھے جلد (بچ نکلنے کی) راہ دکھائے گا۔ (۶۲)
پس ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تو اپنا عصا دریا پر مار (انہوں نے مارا) تو دریا پھٹ گیا، پس ہر حصہ بڑے بڑے پہاڑ کی طرح ہو گیا۔ (۶۳) اور ہم نے اس جگہ دوسروں کو (فرعونیوں کو) قریب کر دیا۔ (۶۴)
اور ہم نے موسیٰ کو اور جو ان کے ساتھ تھے سب کو بچا لیا۔ (۶۵) پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا۔ (۶۶)
بیشک اس میں ایک نشانی ہے، اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۶۷)
اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۶۸)
اور انہیں ابراہیم کا واقعہ پڑھ کر (سنائیں) (۶۹)
جب انہوں نے اپنے باپ کو کہا اور اپنی قوم کو، تم کس کی پرستش کرتے ہو؟ (۷۰)
انہوں نے کہا ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں، پس ہم ان کے پاس جمے بیٹھے رہتے ہیں۔ (۷۱)
اس نے کہا کیا وہ تمہاری سنتے ہیں جب تم پکارتے ہو؟ (۷۲) یا وہ تمہیں نفع پہنچاتے ہیں؟ (۷۳)
وہ بولے (نہیں تو) بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے پایا ہے۔ (۷۴)
ابراہیم نے کہا کیا پس تم نے دیکھا (غور بھی کیا) کس کی تم پرستش کرتے تھے۔ (۷۴) تم اور تمہارے پہلے باپ دادا۔ (۷۶)
تو بیشک وہ میرے دشمن ہیں مگر (میں عبادت کرتا ہوں) سارے جہانوں کے رب کی۔ (۷۷)
وہ جس نے مجھے پیدا کیا پس وہی مجھے راہ دکھاتا ہے۔ (۷۸) اور وہی جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ (۷۹)
اور وہ جو مجھے موت (سے ہمکنار) کرے گا، پھر مجھے زندہ کرے گا۔ (۸۱)
اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ مجھے روز قیامت میری خطائیں بخش دے گا۔ (۸۲)
اے میرے رب! مجھے حکم و حکمت عطا فرما اور مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے۔ (۸۳)
اور میرا ذکر خیر (جاری) رکھ بعد میں آنے والوں میں۔ (۸۴)
اور مجھے نعمتوں والی بہشت کے وارثوں میں سے بنا دے۔ (۸۵)
اور میرے باپ کو بخش دے، بیشک وہ گمراہوں میں سے ہے۔ (۸۶)
اور مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جب سب اٹھائے جائیں گے۔ (۸۷) جس دن نہ کام آئے گا مال اور نہ بیٹے۔ (۸۸)
مگر جو اللہ کے پاس پاک (بے عیب) دل لے کر آیا۔ (۸۹)
اور جنت پرہیز گاروں کے نزدیک کر دی جائے گی (۹۰)
اور دوزخ ظاہر کر دی جائے گی گمراہوں کے لئے۔ (۹۱)
اور انہیں کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جن کی تم پرستش کرتے تھے۔ (۹۲)
اللہ کے سوا، کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں، یا (خود) بدلہ دے سکتے ہیں؟ (۹۳)
پس وہ اور گمراہ اس (جہنم ) میں اوندھے منہ ڈالے جائیں گے۔ (۹۴)
اور ابلیس کے لشکر سب کے سب۔ (۹۵)
وہ کہیں گے جب کہ وہ جہنم میں (باہم) جھگڑتے ہوں گے۔ (۹۶)
اللہ کی قسم! بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ (۹۷)
جب ہم تمہیں سارے جہانوں کے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے تھے۔ (۹۸)
اور ہمیں صرف مجرموں نے گمراہ کیا۔ (۹۹)
پس ہمارا کوئی سفارش کرنے والا نہیں۔ (۱۰۰)
اور نہ کوئی غم خواردوست ہے۔ (۱۰۱)
پس کاش ہمارے لئے دوبارہ (دنیا میں) لوٹنا ہوتا تو ہم مؤمنوں میں سے ہوتے۔ (۱۰۲)
بیشک اس میں البتہ ایک نشانی ہے، اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں۔ (۱۰۳)
اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب ہے، نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۴)
نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۰۵)
(یاد کرو) جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۰۶)
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۰۷)
پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۰۸)
میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۰۹)
پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۱۰)
وہ بولے کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں ؟جبکہ تیری پیروی رذیلوں نے کی ہے۔ (۱۱۱)
نوح نے کہا مجھے کیا خبر وہ کیا (کام کاج) کرتے تھے۔ (۱۱۲)
ان کا حساب صرف میرے رب پر ہے، اگر تم سمجھو۔ (۱۱۳)
اور میں مؤمنوں کو (اپنے پاس سے) دور کرنے والا نہیں۔ (۱۱۴)
میں تو صرف صاف صاف طور پر ڈرانے والا ہوں۔ (۱۱۵)
بولے اے نوح!اگر تم باز نہ آئے تو ضرور سنگسار کر دئے جاؤ گے۔ (۱۱۶)
نوح نے کہا اے میرے رب! بیشک میری قوم نے مجھے جھٹلایا۔ (۱۱۷)
پس میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ فرما دے اور مجھے نجات دے اور جو میرے ساتھی ایمان والے ہیں۔ (۱۱۸)
تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں سوار تھے (انہیں) نجات دی۔ (۱۱۹)
پھر اس کے بعد ہم نے باقیوں کو غرق کر دیا۔ (۱۲۰)
بیشک اس میں ایک نشانی ہے، اور ان کے اکثر نہ تھے ایمان لانے والے۔ (۱۲۱)
اور بیشک تمہارا رب غالب ہے، نہایت مہربان۔ (۱۲۲)
( قوم) عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۲۳)
جب ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۲۴)
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۲۵)
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۲۶)
میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۲۷)
کیا تم ہر بلندی پر بلا ضرورت ایک نشانی تعمیر کرتے ہو؟ (۱۲۸)
اور تم بناتے ہو مضبوط، شاندار محل کہ شاید تم ہمیشہ رہو گے۔ (۱۲۹)
اور جب تم (کسی پر) گرفت کرتے ہو تو جابر (ظالم) بن کر گرفت کرتے ہو۔ (۱۳۰)
تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۳۱)
اور اس سے ڈرو جس نے اس سے تمہاری مدد کی جو تم جانتے ہو۔ (۱۳۲)
(یعنی ) مویشیوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد کی۔ (۱۳۳)
اور باغات اور چشموں سے۔ (۱۳۴)
بیشک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۱۳۵)
وہ بولے برابر ہے ہم پر خواہ تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ (۱۳۶)
(کچھ بھی) نہیں ہے، مگر عادت ہے اگلے لوگوں کی۔ (۱۳۷)
اور ہم عذاب دئے جانے والوں میں سے نہیں۔ (۱۳۸)
پھر انہوں نے اسےجھٹلایا اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، بیشک اس میں نشانی ہے اور نہ تھے ان کے اکثر ایمان لانے والے۔ (۱۳۹)
اور بیشک تمہارا رب غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۴۰)
( قوم) ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۴۱)
جب ان سے ان کے بھائی صالح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۴۲)
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۴۳)
سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۴۴)
میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۴۵)
کیا تم یہاں کی چیزوں (نعمتوں) میں بے فکر چھوڑ دئے جاؤ گے؟ (۱۴۶)
باغات اور چشموں میں۔ (۱۴۷)
اور کھیتیوں میں اور نرم و نازک خوشوں والی کھجوروں میں۔ (۱۴۸)
اور تم خوش ہو کر پہاڑوں سے گھر تراشتے ہو۔ (۱۴۹)
سو اللہ سے ڈرو ا ور میری اطاعت کرو۔ (۱۵۰)
اور حد سے بڑھ جانے والوں کا کہا نہ مانو۔ (۱۵۱)
جو فساد کرتے ہیں زمین میں اور اصلاح نہیں کرتے۔ (۱۵۲)
انہوں نے کہا اس کےسوا نہیں کہ تم سحر زدہ لوگوں میں سے ہو۔ (۱۵۳)
تم نہیں مگر (صرف) ہم جیسے ایک بشر ہو، پس اگر تم سچے لوگوں میں سے ہو (سچےہو) تو کوئی نشانی لے آؤ۔ (۱۵۴)
صالح نے فرمایا یہ اونٹنی ہے ایک معین دن اس کے لئے پانی پینے کی باری ہے اور (ایک دن) تمہارے لئے پانی پینے کی باری ہے۔ (۱۵۵)
اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں آ پکڑے گا ایک بڑے دن کا عذاب۔ (۱۵۶)
پھر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پس پشیمان رہ گئے۔ (۱۵۷)
پھر انہیں عذاب نے آ پکڑا، بیشک اس (واقعہ) میں البتہ نشانی (بڑی عبرت) ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔ (۱۵۸)
اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۵۹)
قوم لوط نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۶۰)
جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۶۱)
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۶۲)
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۶۳)
میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۶۴)
کیا تم مردوں کے پاس (بد فعلی) کے لئے آتے ہو؟دنیا جہانوں میں سے۔ (۱۶۵)
اور تم چھوڑ دیتے ہو (انہیں) جو تمہارے رب نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، (نہیں) بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔ (۱۶۶)
وہ بولے اے لوط ! اگر تم باز نہ آئے تو ضرور (بستی سے) نکالے جاؤ گے۔ (۱۶۷)
اس نے کہا بیشک میں تمہارے فعل (بد) سے نفرت کرنے والا ہوں۔ (۱۶۸)
اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو اس (کے وبال سے) نجات دے جو وہ کرتے ہیں۔ (۱۶۹)
تو ہم نے اسے نجات دی اور اس کے سب گھر والوں کو۔ (۱۷۰)
سوائے ایک بڑھیا کے رہ گئی پیچھے رہ جانے والوں میں۔ (۱۷۱) پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا۔ (۱۷۲)
اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی، پس کیا ہی بُری بارش (اُن پر جنہیں عذاب سے) ڈرایا گیا۔ (۱۷۳)
بیشک اس میں ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۱۷۴)
اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۷۵)
ایکہ (بن) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۷۶)
(یاد کرو) جب شعیب نے ان سےکہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۷۷)
بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۷۸)
سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۷۹)
میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۸۰)
تم ماپ پورا کرو اور نقصان دینے والوں میں سے نہ ہو۔(۱۸۱)
اور وزن کرو ٹھیک سیدھی ترازو سے۔ (۱۸۲)
اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو، اور زمین میں نہ پھرو فساد مچاتے ہوئے۔ (۱۸۳)
اور ڈرو اس (ذات پاک) سے جس نے تمہیں پیدا کیا اور پہلی مخلوق کو۔ (۱۸۴)
کہنے لگے اس کے سوا نہیں کہ تو سحرزدگان میں سے ہے۔ (۱۸۵)
اور تو صرف ہم جیسا ایک بشر ہے، اور البتہ ہم تجھے جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ (۱۸۶)
سو تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے اگر تو سچوں میں سے ہے (سچا ہے) ۔ (۱۸۷)
شعیب نے فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (۱۸۸)
تو انہوں نے اسے جھٹلایا، پس انہیں (آگ کے) سائبان والے دن عذاب نے آ پکڑا، بیشک وہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔ (۱۸۹)
بیشک اس میں ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۱۹۰) اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۹۱)
اور بیشک یہ ( قرآن) سارے جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے۔ (۱۹۲)
اس کو لے کر اترا ہے جبرئیل امین۔ (۱۹۳)
تمہارے دل پر، تاکہ تم ڈر سنانے والوں میں سے ہو۔ (۱۹۴)
روشن واضح عربی زبان میں۔ (۱۹۵)
اور بیشک یہ (اس کا ذکر) پہلے پیغمبروں کے صحیفوں میں ہے۔ (۱۹۶)
کیا یہ ان کے لئے ایک نشانی نہیں؟ کہ اسے جانتے ہیں علمائے بنی اسرائیل۔ (۱۹۷)
اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی (زبان میں) پر نازل کرتے، پھر وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا (پھر بھی) وہ اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے (ایمان نہ لاتے) (۱۹۹)
اسی طرح ہم نے مجرموں کے دلوں میں انکار داخل کر دیا ہے۔ (۲۰۰) وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے جب تک وہ دردناک عذاب (نہ) دیکھ لیں۔ (۲۰۱)
تو وہ ان پر اچانک آ جائے گا اور انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ (۲۰۲)
پھر وہ کہیں گے کیا ہمیں مہلت دی جائے گی۔ (۲۰۳)
پس کیا وہ ہمارے عذاب کو جلدی چاہتے ہیں۔ (۲۰۴)
کیا تم نے دیکھا، (ذرا دیکھو) اگر ہم انہیں برسوں فائدہ پہنچائیں۔ (۲۰۵)
پھر ان پر پہنچیں جس کی انہیں وعید کی جاتی تھی۔ (۲۰۶)
جس سے وہ فائدہ اٹھاتے تھے ان کے کیا کام آئے گا ؟ (۲۰۷)
ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا، مگر اس کے لئے ڈرانے والے۔ (۲۰۸)
نصیحت کے لئے (پہلے بھیجے) اور ہم ظلم کرنے والے نہ تھے۔ (۲۰۹)
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نہیں اترے۔ (۲۱۰)
اور ان کو سزا وار نہیں (وہ اس کے قابل نہیں) اور نہ وہ (ایسا) کرسکتے ہیں۔ (۲۱۱)
بے شک وہ سننے (کے مقام) سے دور کر دئے گئے ہیں۔ (۲۱۲)
پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکارو کہ مبتلائے عذاب لوگوں میں سے ہو جاؤ۔ (۲۱۳)
اور تم اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ (۲۱۴)
اور اس کے لئے اپنے بازو جھکاؤ جس نے تمہاری پیروی کی مؤمنوں میں سے۔ (۲۱۵)
پھر اگر تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دیں جو تم کرتے ہو بیشک میں اس سے بیزار ہوں۔ (۲۱۶)
اور بھروسہ کرو غالب، نہایت مہربان پر۔ (۲۱۷)
جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم (نماز میں) کھڑے ہوتے ہو اور نمازیوں میں تمہارا پھرنا (بھی دیکھتا ہے)۔ (۲۱۹) بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے۔ (۲۲۰)
کیا میں تمہیں بتاؤں کس پر شیطان اترتے ہیں۔ (۲۲۱)
وہ اترتے ہیں ہر بہتان لگانے والے گنہگار پر۔ (۲۲۲)
(شیطان) سنی سنائی بات (ان کے کان میں) ڈال دیتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں۔ (۲۲۳)
اور (رہے) شاعر ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ (۲۲۴)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں۔ (۲۲۵)
اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں۔ (۲۲۶)
اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں۔ (۲۲۶)
سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور اللہ کو بکثرت یاد کیا، اور انہوں نے اس کے بعد بدلہ لیا کہ ان پر ظلم ہوا، اور جن لوگوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ کس کروٹ انہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (۲۲۷)
٭٭
۲۷۔ سورۃالنمل
مکیۃ
آیات:۹۳ رکوعات:۷
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
یہ آیتیں ہیں قرآن اور روشن واضح کتاب کی۔ (۱)
ہدایت اور خوشخبری مؤمنوں کیلئے ۔ (۲)
جو لوگ نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (۳)
بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ، ہم نے ان کے عمل ان کے لئے آراستہ کر دکھائے ہیں، پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ (۴)
یہی ہیں وہ لوگ جن کے لئے بُرا عذاب ہے ، اور وہ آخرت میں سب سے بڑھ کر خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ (۵)
اور بیشک تمہیں قرآن حکمت والے ، علم والے کی طرف سے دیا جاتا ہے ۔ (۶)
(یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، میں ابھی تمہارے پاس اس کی کوئی خبر لاتا ہوں، یا آگ کا انگارہ تمہارے پاس لاتا ہوں، تاکہ تم سینکو۔ (۷)
پس جب وہ آگ کے پاس آیا (اللہ تعالی کی طرف سے ) ندا دی گئی کہ برکت دیا گیا جو آگ میں (جلوہ افروز) ہے جو اس کے آس پاس ہے (موسیٰ) اور پاک ہے اللہ سارے جہانوں کا پروردگار۔ (۸)
اے موسیٰ! حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ غالب حکمت والا ہوں۔ (۹)
اور تو اپنا عصا (نیچے ) ڈال دے ، پس جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویا وہ سانپ ہے تو (موسیٰ) پیٹھ پھیر کر لوٹ گیا اور اس نے مڑ کر نہ دیکھا، (ارشاد ہوا) ا ے موسیٰ! تو خوف نہ کھا، بیشک میرے پاس رسول خوف نہیں کھاتے ۔ (۱۰)
مگر جس نے ظلم کیا پھر اس نے بُرائی کے بعد بھلائی بدل ڈالی تو میں بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔ (۱۱)
اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال وہ کسی عیب کے بغیر سفید روشن (ہو کر) نکلے گا، نو نشانیوں میں (سے یہ دو معجزے لے کر) فرعون اور اس کی قوم کی طرف (جا) بیشک وہ نافرمان لو گ ہیں۔ (۱۲)
پھر جب ان کے پاس آئیں آنکھیں کھولنے والی ہماری نشانیاں، وہ بولے یہ کھلا جادو ہے ۔ (۱۳)
حالانکہ ان کے دلوں کو اس کا یقین تھا، انہوں نے اس کا انکار کیا ظلم اور تکبر سے ، تو دیکھو فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ (۱۴)
اور تحقیق ہم نے دیا داؤد اور سلیمان کو بڑا علم، اور انہوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہ جس نے ہمیں فضیلت دی اکثر اپنے مؤمن بندوں پر۔ (۱۵)
اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اور اس نے کہا اے لوگو! مجھے سکھائی گئی ہے پرندوں کی بولی، اور ہمیں ہر چیز سے (ہر نعمت) دی گئی ہے ، بیشک یہ کھلا فضل ہے ۔ (۱۶)
اور سلیمان کے لئے اس کا لشکر جنوں، انسانوں اور پرندوں کا جمع کیا گیا، پس وہ روکے جاتے تھے ۔ (۱۷)
یہاں تک کہ وہ چیونٹیوں کے میدان میں آئے ، ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو! تم اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ، (کہیں) سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند نہ ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ (۱۸)
تو وہ ہنستے ہوئے مسکرایا، اس کی بات سے اور کہا اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر انعام فرمائی ہے ، اور میرے ماں باپ پر، اور یہ کہ میں نیک کام کروں جو تو پسند کرے ، اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما لے ۔ (۱۹)
اور اس نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا (بات ) ہے میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا، کیا وہ غائب ہو جانے والوں میں سے ہے ؟ (۲۰)
البتہ میں اسے ضرور سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا اسے ضرور کوئی وجہ میرے پاس لانی (پیش کرنی) چاہئیے ۔ (۲۱)
سو اس (ہد ہد) نے تھوڑی سی دیر کی، پھر کہا میں نے معلوم کیا ہے وہ جو تم کو معلوم نہیں، اور میں تمہارے پاس سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ (۲۲)
بیشک میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے وہ ان پر بادشاہت کرتی ہے اور (اسے ) ہر شے دی گئی ہے اور اس کے لئے ایک بڑا تخت ہے ۔ (۲۳)
میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے سوا (اللہ کو چھوڑ کر) سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے ، اور شیطان نے انہیں آراستہ کر دکھائے ہیں ان کے عمل، پس انہیں (سیدھے ) راستے سے روک دیا ہے سو وہ راہ نہیں پاتے ۔ (۲۴)
اور اللہ کو (کیوں) سجدہ نہیں کرتے ؟وہ جو آسمانوں میں اور زمین میں چھپی ہوئی (چیزوں کو) نکالتا ہے ، اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (۲۵)
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش عظیم کا مالک ہے ۔ (۲۶)
سلیمان نے کہا ہم ابھی دیکھ لیں گے کیا تو نے سچ کہا ہے ؟یا تو جھوٹوں میں سے ہے (جھوٹا ہے ) ۔ (۲۷)
میرا یہ خط لے جا، پس یہ ان کی طرف ڈال دے ، پھر اُن سے لوٹ آ، پھر دیکھ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ (۲۸)
وہ عورت کہنے لگی، اے سردارو! بیشک میری طرف ایک با وقعت خط ڈالا گیا ہے۔ (۲۹)
بیشک وہ سلیمان (کی طرف) سے ہے اور بیشک وہ (یوں ہے ) اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۳۰)
یہ کہ مجھ پر (میرے مقابلہ میں) سرکشی نہ کرو، اور میرے پاس فرمانبردار ہو کر آؤ۔ (۳۱)
وہ بولی، اے سردارو! میرے معاملے میں مجھے رائے دو، میں کسی معاملہ میں فیصلہ کرنے والی نہیں (فیصلہ نہیں کرتی) جب تک تم موجود (نہ) ہو۔ (۳۲)
وہ بولے ہم قوت والے بڑے لڑنے والے ہیں، اور فیصلہ تیرے اختیار میں ہے ، تو دیکھ لے تجھے کیا حکم کرنا ہے۔ (۳۳)
وہ بولی، بیشک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ کر دیتے ہیں، اور وہاں کے معززین کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں اور وہ اسی طرح کرتے ہیں۔ (۳۴)
اور بیشک میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں قاصد۔ (۳۵)
پس جب سلیمان کے پاس قاصد آیا تو اس نے کہا کہ کیا تم مال سے میری مدد کرتے ہو؟پس جو اللہ نے مجھے دیا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو اس نے تمہیں دیا ہے ، بلکہ تم اپنے تحفے سے خوش ہوتے ہو۔ (۳۶)
تو ان کی طرف لوٹ جا، سوہم ان پر ضرور لائیں گے ایسا لشکر جس (کے مقابلے ) کی انہیں طاقت نہ ہو گی، اور ہم ضرور انہیں وہاں سے ذلیل کر کے نکال دیں گے ، اور وہ خوار ہوں گے ۔ (۳۷)
سلیمان نے کہا اے سردارو! تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لائے گا؟اس سے قبل کہ وہ میرے پاس فرمانبردار ہو کر آئیں۔ (۳۸)
کہا جنات میں سے ایک قوی ہیکل نے ، بیشک میں اس کو آپ کے پاس اس سے قبل لے آؤں گا کہ آپ اپنی جگہ سے کھڑے ہوں، اور میں بیشک اس پر البتہ قوت والا، امانت دار ہوں۔ (۳۹)
اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب (الہی) کا علم تھا، میں اس کو تمہارے پاس اس سے قبل لے آؤں گا کہ تمہاری آنکھ پلک جھپکے ، پس جب سلیمان نے (اچانک) اسے اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، تو اس نے کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے ، تاکہ وہ مجھے آزمائے آیا میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو پس وہ اپنی ذات کے لئے شکر کرتا ہے ، اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم کرنے والا ہے۔ (۴۰)
اس نے کہا اس (ملکہ کے امتحان کے لئے ) اس کے تخت کی وضع بدل دو ہم دیکھیں کہ آیا وہ سمجھ جاتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہوتی ہے جو نہیں سمجھتے ۔ (۴۱)
وہ بولی گویا کہ یہ وہی ہے اور ہمیں اس سے قبل ہی علم دیا گیا (علم ہو گیا تھا) اور ہم ہیں مسلمان (فرمانبردار) ۔ (۴۲)
اور سلیمان نے اس کو اس سے روکا جس کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی تھی، بیشک وہ کافروں کی قوم سے تھی۔ (۴۳)
اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جب اس (ملکہ) نے اس (کے فرش) کو دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور (پائنچے اٹھا کر) اپنی پنڈلیاں کھول دیں، اس نے کہا بیشک یہ شیشوں سے جڑا ہوا محل ہے ، وہ بولی اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور (اب) میں سلیمان کے ساتھ (سلیمان کے طریق پر) تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائی۔ (۴۴)
اور تحقیق ہم نے (قوم) ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو، پس ناگہاں وہ دوفریق ہو گئے باہم جھگڑنے لگے۔ (۴۵)
اس نے کہا، اے میری قوم! تم بھلائی سے پہلے بُرائی کے لئے کیوں جلدی کرتے ہو؟تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (۴۶)
وہ بولے ہم نے تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے بُرا شگون لیا ہے ، اس نے کہا تمہاری بد شگونی اللہ کے پاس (اللہ کی طرف) ہے ، بلکہ تم ایک قوم ہو (جو) آزمائے جاتے ہو۔ (۴۷)
اور شہر میں تھے نو شخص وہ ملک میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ (۴۸)
وہ کہنے لگے باہم اللہ کی قسم کھاؤ، البتہ ہم ضرور اس پر اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے ، اور پھر اس کے وارثوں کو کہہ دیں گے ، ہم اس کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے۔ (۴۹)
اور انہوں نے ایک مکر کیا اور ہم نے (بھی) ایک خفیہ تدبیر کی، اور وہ نہ جانتے تھے (بے خبر تھے )۔ (۵۰)
پس دیکھو ان کے مکر کا انجام کیسا ہوا! کہ ہم نے انہیں اور ان کی قوم سب کو ہلاک کر ڈالا۔ (۵۱)
اب یہ ان کے گھر ہیں گرے پڑے ، ان کے ظلم کے سبب، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو جانتے ہیں۔ (۵۲)
اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور وہ پرہیز گاری کرتے تھے۔ (۵۳)
اور (یاد کرو) جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کیا تم بے حیائی پر اتر آئے ہو؟اور تم دیکھتے ہو۔ (۵۴)
کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت رانی کے لئے آتے ہو؟بلکہ تم لوگ جہالت کرتے ہو۔ (۵۵)
پس اس کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ لوط کے لوگوں کو نکال دو اپنے شہر سے بیشک یہ لوگ پاکیزگی پسند کرتے ہیں۔ (۵۶)
سو ہم نے اس کی بیوی کے سوائے اور اس کے گھر والوں کو بچا لیا، ہم نے اسے پیچھے رہ جانے والوں میں سے ٹھہرایا تھا۔ (۵۷)
ا ور ہم نے ان پر ایک بارش برسائی، سوکیا ہی بری بارش ڈرائے گئے لوگوں پر۔ (۵۸)
آ پ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کے بندوں پر سلام ہو جنہیں اس نے چن لیا، کیا اللہ بہتر ہے ؟یا وہ جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں؟ (۵۹)
بھلا کون ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے با رونق باغ اگائے ، تمہارے لئے (ممکن) نہ تھا کہ تم ان کے درخت اگا سکو، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ؟بلکہ وہ لوگ کج روی کرتے ہیں۔ (۶۰)
بھلا کون ہے ؟جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا، اور اس کے درمیان ندی نالے (جاری کئے ) اور اس کے لئے پہاڑ پیدا کئے ، اور دو دریاؤں کے درمیان حد فاصل بنائی، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ؟بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔ (۶۱)
بھلا کون ہے ، جو بیقرار (کی دعا) قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور بُرائی دور کرتا ہے ، اور تمہیں زمین میں نائب بناتا ہے ، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟تھوڑے ہیں جو نصیحت پکڑتے ہیں۔ (۶۲)
بھلا کون ہے جو خشکی (جنگل) اور دریا کے اندھیروں میں تمہیں راہ دکھاتا ہے ؟اور کون ہے جو اس کی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے ، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ، اللہ برتر ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ (۶۳)
بھلا کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے ؟پھر وہ اسے دوبارہ زندہ کرے گا اور کون ہے جو تمہیں رزق دیتا ہے ؟آسمانوں اور زمین سے ، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ؟ آپ فرما دیں لے آؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔ (۶۴)
آپ فرما دیں جو (بھی) آسمانوں اور زمین میں ہے ، اللہ کے سوا غیب (کی باتیں) نہیں جانتا، اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب (جی) اٹھائے جائیں گے۔ (۶۵)
بلکہ آخرت کے بارہ میں ان کا علم تھک کر رہ گیا ہے (کچھ بھی نہیں) بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں، بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں۔ (۶۶)
اور کافروں نے کہا کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو جائیں گے کیا ہم (قبروں سے ) نکالے جائیں گے۔ (۶۷)
تحقیق ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے اس سے قبل کہا گیا تھا، یہ صرف اگلوں کی کہانیاں ہیں۔ (۶۸)
آپ فرما دیں زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کیسا مجرموں کا انجام ہوا! (۶۹)
اور آپ غم نہ کھائیں اور دل تنگ نہ ہوں اس سے جو وہ مکر و فریب کرتے ہیں۔ (۷۰)
اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟اگر تم سچے ہو۔ (۷۱)
آپ فرما دیں شاید وہ (عذاب) تمہارے قریب آ گیا ہو جس کی تم جلدی کرتے ہو۔ (۷۲)
اور بیشک تمہارا رب البتہ لوگوں پر فضل والا ہے ، لیکن ان کے اکثر شکر نہیں کرتے۔ (۷۳)
اور بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں چھپی ہے اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (۷۴)
اور کچھ پوشیدہ نہیں زمین وآسمان میں مگر وہ کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔ (۷۵)
بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل پر (بنی اسرائیل کے سامنے ) اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۷۶)
اور بیشک یہ (قرآن) البتہ ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ (۷۷)
بیشک تمہارا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہے ، اور وہ البتہ غالب، علم والا ہے۔ (۷۸)
پس اللہ پر بھروسہ کرو، بے شک تم صریح حق پر ہو۔ (۷۹)
بیشک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے نہ بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہو (خصوصاً) جب وہ پیٹھ پھیر کر مڑ جائیں۔ (۸۰)
اور تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہدایت دینے والے نہیں، تم صرف (اس کو) سنا سکتے ہو جو ایمان لاتا ہے ہماری آیتوں پر، پس وہ فرماں بردار ہیں۔ (۸۱)
اور جب اُن پر وعدۂ عذاب پورا ہو جائے گا تو ہم ان کے لئے نکالیں گے زمین سے ایک جانور، وہ اُن سے باتیں کرے گا کیونکہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔ (۸۲)
اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گروہ جمع کریں گے اُن میں سے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے ، پھر ان کی جماعت بندی کی جائے گی۔ (۸۳)
یہاں تک کہ جب وہ آ جائیں گے (اللہ تعالی) فرمائے گا کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ تم ان کو (اپنے) احاطۂ علم میں بھی نہیں لائے تھے (یا بتلاؤ) تم کیا کرتے تھے۔ (۸۴)
اور ان پر وعدۂ عذاب پورا ہو گیا، اس لئے کہ انہوں نے ظلم کیا تھا، پس وہ بول نہ سکیں گے۔ (۸۵)
کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایا کہ وہ اس میں آرام حاصل کریں اور دن دیکھنے کو (روشن بنایا) بے شک اس میں البتہ اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ (۸۶)
اور جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی تو گھبرا جائے گا جو بھی آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سوائے اس کے جسے اللہ چاہے اور سب اس کے آگے عاجز ہو کر آئیں گے۔ (۸۷)
اور تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے تو انہیں (اپنی جگہ) جما ہوا خیال کرتا ہے ، اور وہ (قیامت کے دن) بادلوں کی طرح چلیں گے (اُڑتے پھریں گے ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر شے کو خوبی سے بنایا ہے بیشک وہ اس سے خبر دار ہے جو تم کرتے ہو۔ (۸۸)
جو آیا کسی نیکی کے سا تھ تو اس کے لئے (اس کا اجر) اس سے بہتر ہے اور وہ اس دن گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ (۸۹)
اور جو بُرائی کے ساتھ آیا تو وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں گے ، تم صرف (وہی) بدلہ دئیے جاؤ گے (بدلہ پاؤ گے ) جو تم کرتے تھے۔ (۹۰)
(آپ فرما دیں) اس کے سوا نہیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے اس شہر (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جسے اس نے محترم بنایا ہے اور اسی کے لئے ہے ہر شے اور مجھے حکم دیا گیا کہ میں مسلمانوں (فرمانبرداروں) میں سے رہوں۔ (۹۱)
اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں (سنادوں) پس اس کے سوا نہیں کہ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنی ذات کے لئے ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو آپ فرما دیں کہ اس کے سوا نہیں کہ میں تو ڈرانے والا ہوں۔ (۹۲)
اور آپ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہ تمہیں جلد دکھا دے گا اپنی نشانیاں، پس تم جلد انہیں پہچان لو گے اور تمہارا رب اس سے بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔ (۹۳)
٭٭
۲۸۔ سورۃ القصص
مکیۃ
آیات:۸۸ رکوعات:۹
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
طٰسٓمّٓ۔ (۱) یہ واضح کتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں۔ (۲)
ہم تم پر پڑھتے ہیں (تمہیں سناتے ہیں) کچھ احوال موسیٰ اور فرعون کا ٹھیک ٹھیک، ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔ (۳)
بیشک فرعون ملک میں سرکشی کر رہا تھا، اور اس نے اس کے باشندوں کو الگ الگ گروہ کر دیا تھا ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو کمزور کر رکھا تھا، ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا، اور زندہ چھوڑ دیتا تھا ان کی عورتوں (بیٹیوں) کو، بیشک وہ مفسدوں میں سے (فسادی) تھا۔ (۴)
اور ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر ا حسان کریں جو ملک میں کمزور کر دئے گئے تھے ، اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہیں (ملک کا) وارث بنائیں۔ (۵)
اور ہم انہیں حکومت دیں ملک میں اور ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر کو ان (کمزوروں کے ہاتھوں) دکھا دیں جس چیز سے وہ ڈرتے تھے۔ (۶)
اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام کیا کہ وہ اس کو دودھ پلاتی رہے ، پھر جب اس پر (اس کے بارے میں) ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دے ، اور نہ ڈرے اور نہ غم کھائے ، بیشک ہم اسے تیری طرف لوٹا دیں گے ، اور اسے بنا دیں گے رسولوں میں سے (رسول)۔ (۷)
پھر فرعون کے گھر والوں نے اسے اٹھا لیا تاکہ (آخر کار) وہ ان کے لئے دشمن اور غم کا باعث ہو، بیشک فرعون اور ہامان اور ان کا لشکر خطاکار تھے۔ (۸)
اور کہا فرعون کی بیوی نے ، یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لئے اور تیرے لئے ، اسے قتل نہ کر شاید ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور وہ (حقیقت حال ) نہیں جانتے تھے۔ (۹)
اور موسیٰ کی ماں کا دل بے قرار ہو گیا، تحقیق قریب تھا کہ وہ اس کو ظاہر کر دیتی اگر ہم نے اس کے دل پر گرہ نہ لگائی
اور موسیٰ کی والدہ نے اس کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے جا، پھر اسے دور سے دیکھتی رہ، اور وہ (حقیقت حال) نہ جانتے تھے۔ (۱۱)
اور ہم نے پہلے سے اس سے دائیوں (دودھ پلانے والیوں) کو روک رکھا تھا، موسیٰ کی بہن بولی کیا میں تمہیں ایک گھر والے بتلاؤں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کریں اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں۔ (۱۲)
تو ہم نے اس کو اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا، تاکہ ٹھنڈی رہے اس کی آنکھ اور وہ غمگین نہ ہو، اور تاکہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور لیکن ان کے اکثر و بیشتر نہیں جانتے۔ (۱۳)
اور جب (موسیٰ) اپنی جوانی کو پہنچا اور پوری طرح توانا ہو گیا توہم نے اسے حکمت اور علم عطا کیا، اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ (۱۴)
اور وہ شہر میں داخل ہوا غفلت کے وقت جبکہ اس کے باشندے (بے خبر سوئے ہوئے تھے ) تو اس نے دو آدمیوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا، ایک اس کی برادری سے تھا اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا، تو جو اس کی برادری سے تھا اس نے اس (کے مقابلے ) پر جو اس کے دشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد مانگی تو موسیٰ نے اس کو ایک مکا مارا، پھر اس کا کام تمام کر دیا، اس (موسیٰ) نے کہا یہ کام شیطان (کی حرکت) سے ہوا، بیشک وہ دشمن ہے کھلا بہکانے والا۔ (۱۵)
ا س سے عرض کی اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے بخش دے تو اس نے اسے بخش دیا، بیشک وہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۶)
اس نے کہا اے میرے رب! جیسا کہ تو نے مجھ پر انعام کیا ہے تو میں ہرگز نہ ہوں گا (کبھی) مجرموں کا مددگار۔ (۱۷)
پس شہر میں اس کی صبح ہوئی ڈرتے ہوئے انتظار کرتے ہوئے (کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے ) تو ناگہاں وہی جس نے کل اس سے مدد مانگی تھی، (دیکھا کہ) وہ پھر اس سے فریاد کر رہا ہے ، موسیٰ نے اس کو کہا بیشک تو گمراہ ہے کھلا۔ (۱۸)
پھر جب اس نے چاہا کہ اس پر ہاتھ ڈالے جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا اے موسیٰ!کیا تو چاہتا ہے کہ تو مجھے قتل کر دے جیسے تو نے کل ایک آدمی کو قتل کیا تھا، تو صرف (یہی) چاہتا ہے کہ تو اس سر زمین میں زبردستی کرتا پھرے اور تو نہیں چاہتا کہ مصلحین (اصلاح کرنے والوں ) میں سے ہو۔ (۱۹)
اور ایک آدمی شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا، اے موسیٰ! بے شک سردار تیرے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں تاکہ تجھے قتل کر ڈالیں، پس تو (یہاں سے ) نکل جا، بیشک میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں۔ (۲۰)
پس وہ نکلا وہاں سے ڈرتے ہوئے اور انتظار کرتے ہوئے (کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ) اس نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار !مجھے ظالموں کی قوم سے بچا لے۔ (۲۱)
اور جب اس نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہا امید ہے میرا رب مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا۔ (۲۲)
اور جب وہ مدین کے پانی (کے کنویں) پر آیا تو اس نے لوگوں کے ایک گروہ کو پانی پلاتے ہوئی پایا، اور اس نے دیکھا دو عورتیں ان سے علیحدہ (اپنی بکریاں) روکے ہوئے (کھڑی) ہیں، اس نے کہا تمہارا کیا حال ہے ؟وہ بولیں ہم پانی نہیں پلاتیں جب تک چرواہے (اپنے جانوروں کو پانی پلا کر) واپس نہ لے جائیں ا ور ہمارے ابا بوڑھے ہیں۔ (۲۳)
تو اس نے ان کی (بکریوں کو) پانی پلایا، پھر سایہ کی طرف پھر آیا، پھر عرض کیا اے میرے پروردگار!بیشک جو نعمت تو میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ (۲۴)
پھر ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس آئی شرم سے چلتی ہوئی، وہ بولی، بیشک میرے والد تمہیں بلا رہے ہیں کہ تمہیں اس کا صلہ دیں جو تم نے ہمارے لئے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے ، پس جب موسیٰ اس (شعیب) کے پاس آیا اور اس سے احوال بیان کیا تو اس نے کہا ڈرو نہیں تم ظالموں کی قوم سے بچ آئے ہو۔ (۲۵)
ان میں سے ایک بولی، اے میرے باپ! اسے ملازم رکھ لیں، بے شک جسے تم ملازم رکھو بہتر (وہ ہے ) جو طاقتور امانت دار ہو۔ (۲۶)
شعیب نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تم سے اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس شرط پر کر دوں کہ تم آٹھ سال میری ملازمت کرو، اگر دس (سال) پورے کر لو تو (وہ) تمہاری طرف سے (نیکی) ہو گی، میں نہیں چاہتا کہ میں تم پر مشقت ڈالوں، اگر اللہ نے چاہا تو عنقریب مجھے خوش معاملہ لوگوں میں سے پاؤ گے۔ (۲۷)
موسیٰ نے کہا یہ میرے درمیان اور تمہارے درمیان (عہد) ہے ، میں دونوں میں جو مدت پوری کروں مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں، اور اللہ گواہ ہے اس پر جو ہم کہہ رہے ہیں۔ (۲۸)
پھر جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کر دی تو اپنی گھر والی (بیوی) کو ساتھ لے کر چلا اس نے دیکھی کوہِ طور کی طرف سے ایک آگ، اس نے اپنے گھر والوں سے کہا تم ٹھہرو، بیشک میں نے آگ دیکھی ہے ، شاید میں اس سے تمہارے لئے (راستہ کی) کوئی خبر یا آگ کی چنگاری لاؤں تاکہ تم آگ تاپو۔ (۲۹)
پھر جب وہ اس کے پاس آیا تو ندا (آواز) دی گئی برکت والی جگہ میں، دائیں میدان کے کنارہ سے ، ایک درخت (کے درمیان) سے ، کہ اے موسیٰ!بیشک میں اللہ ہوں، تمام جہانوں کا پروردگار۔ (۳۰)
اور یہ کہ تو اپنا عصا (زمین پر) ڈال، پھر جب اس نے اسے دیکھا لہراتے ہوئے ، گویا کہ وہ سانپ ہے ، وہ پیٹھ پھیر کر لوٹا، اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے فرمایا) اے موسیٰ ! آگے آ اور ڈر نہیں، بیشک تو امن پانے والوں میں سے ہے۔ (۳۱)
تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال، وہ سفید روشن ہو کر نکلے گا، کسی عیب کے بغیر، پھر اپنا بازو خوف (دور ہونے کی غرض) سے اپنی طرف ملا لینا (سکیڑ لینا) ، پس (عصا اور ید بیضا) دونوں دلیلیں ہیں، تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، بیشک وہ ایک نافرمان گروہ ہیں۔ (۳۲)
اس نے کہا اے میرے رب!بیشک میں نے ان میں سے ایک شخص کومار ڈالا ہے ، سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ (۳۳)
اور میرا بھائی ہارون زبان (کے اعتبار) مجھے سے زیادہ فصیح ہے ، سواسے میرے ساتھ مددگار (بنا کر) بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کرے ، بیشک میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔ (۳۴)
فرمایا ہم ابھی تیرے بھائی سے تیرے بازو کو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کے لئے عطا کریں گے غلبہ، پس وہ ہماری نشانیوں کے سبب تم دونوں تک نہ پہنچ سکیں گے ، تم دونوں اور جو تمہاری پیروی کرے غالب رہو گے۔ (۳۵)
پھر جب موسیٰ ہماری واضح نشانیوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو وہ بولے یہ کچھ بھی نہیں مگر ایک افترا کیا ہوا (گھڑا ہوا) جادو ہے ، اور ہم نے ایسی بات اپنے اگلے باپ داداؤں سے نہیں سنی ہے۔ (۳۶)
اور موسیٰ نے کہا میرا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لایا ہے ، اور جس کے لئے آخرت کا اچھا گھر (بہشت ) ہے ، بیشک ظالم (کبھی ) فلاح (کامیابی) نہیں پائیں گے۔ (۳۷)
اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نہیں جانتا تمہارے لئے اپنے سوا کوئی معبود، پس اے ہامان ! میرے لئے مٹی (کی اینٹوں) پر آگ جلا، پھر (ان پختہ اینٹوں سے ) میرے لئے تیار کر ایک بلند محل تاکہ میں (وہاں سے ) موسیٰ کے معبود کو جھانکوں، اور میں تو اسے جھوٹوں میں سے سمجھتا ہوں۔ (۳۸)
اور وہ اور اس کا لشکر دنیا میں ناحق مغرور ہو گیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے۔ (۳۹)
تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور انہیں دریا میں پھینک دیا، سو دیکھو کیسا ظالموں کا انجام ہوا؟ (۴۰)
اور ہم نے انہیں سردار بنایا وہ جہنم کی طرف بلاتے رہے ، اور روز قیامت وہ نہ مدد دئیے جائیں گے (ان کی مدد نہ ہو گی)۔ (۴۱)
اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور روز قیامت وہ بدحال لوگوں میں سے ہوں گے۔ (۴۲)
اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو توریت عطا کی اور اس کے بعد کہ ہم نے پہلی امتیں ہلاک کیں لوگوں کے لئے بصیرت (آنکھیں کھولنے والی) اور ہدایت و رحمت، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۴۳)
اور آپ (کوہ طور کے ) مغربی جانب نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی اور آپ) اس واقعہ کے ) دیکھنے والوں میں سے نہ تھے۔ (۴۴)
اور لیکن ہم نے بہت سی امتیں پیدا کیں، پھر طویل ہو گئی ان کی مدت، اور آپ اہل مدین میں رہنے والے نہ تھے کہ ان پر ہمارے احکام پڑھتے (انہیں ہمارے احکام سناتے ) لیکن ہم رسول بنا کر بھیجنے والے تھے۔ (۴۵)
اور جب ہم نے پکارا آپ طور کے کنارے نہ تھے لیکن آپ کے رب کی رحمت سے (نبوت عطا ہوئی) تاکہ آپ اس قوم کو ڈر سنائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۴۶)
اور اگر (یہ) نہ ہوتا کہ انہیں ان کے اعمال کے سبب کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا، پس ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے اور ہم ہوتے ایمان لانے والوں میں سے۔ (۴۷)
پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ گیا کہنے لگے (ہمیں) کیوں نہ دیا گیا جیسے موسیٰ کو دیا گیا تھا، کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا ؟جو اس سے قبل موسیٰ کو دیا گیا، انہوں نے کہا وہ دونوں جادو ہیں، اور وہ دونوں ایک دو سرے کے پشت پناہ ہیں، اور انہوں نے کہا بیشک ہم ہر ایک کا انکار کرنے والے ہیں۔ (۴۸)
آپ فرما دیں تم اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لاؤ جو ان دونوں (قرآن اور توریت) سے زیادہ ہدایت ہو کہ میں اس کی پیروی کروں، اگر تم سچے ہو۔ ( ۴۹)
پھر اگر وہ آپ کی بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہے جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی، اللہ کی طرف سے (منجانب اللہ) ہدایت کے بغیر، بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۵۰)
اور البتہ ہم نے پیہم بھیجا ان کے لئے اپنا کلام تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۵۱)
جن لوگوں کو ہم نے اس سے قبل کتاب دی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔ (۵۲)
اور جب ان کے سامنے (قرآن) پڑھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، بیشک یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، بیشک ہم پہلے ہی اس کے فرمانبردار تھے۔ (۵۳)
یہی لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوہرا دیا جائے گا، اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ بھلائی سے برائی کو دور کرتے ہیں، اور جو ہم نے انہیں دیا وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (۵۴)
اور جب وہ بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے عمل اور تمہارے لئے تمہارے عمل، تم پر سلام ہو، ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے۔ (۵۵)
بیشک تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، اور ہدایت پانے والوں کو وہ خوب جانتا ہے۔ (۵۶)
اور وہ کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی سرزمین سے اچک لئے جائیں گے ، کیا ہم نے انہیں حرمت والے مقامِ امن میں ٹھکانہ نہیں دیا، اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں پھل ہر قسم کے ، ہماری طرف سے بطور رزق، لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔ (۵۷)
اور کتنی (ہی) بستیاں ہم نے ہلاک کر دیں، جو اپنی معیشت پر اتراتی تھیں، سو یہ ہیں ان کے مسکن، نہ آباد ہوئے ان کے بعد مگر قلیل (مدت) اور ہم ہی ہوئے وارث۔ (۵۸)
اور تمہارا رب نہیں ہے بستیوں کو ہلاک کرنے والا، جب تک اس کی بڑی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج دے ، وہ ان پر ہماری آیات پڑھے ، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں جب تک ان کے رہنے والے ظالم (نہ) ہوں۔ (۵۹)
اور تمہیں کوئی چیز دی گئی ہے سو وہ (صرف) دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے ، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور تا دیر باقی رہنے والا ہے ، سو کیا تم سمجھتے نہیں۔ (۶۰)
سو جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا پھر وہ اس کو پانے والا ہے ، کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جسے ہم نے دنیا کی زندگی کے سامان سے بہرہ مند کیا، پھر وہ روزِ قیامت (گرفتار ہو کر) حاضر کئے جانے والوں میں سے ہوا۔ (۶۱)
اور جس دن وہ انہیں پکارے گا، کہے گا کہاں ہیں میرے شریک جنہیں تم (میرا شریک) گمان کرتے تھے۔ (۶۲)
(پھر) کہیں گے وہ جن پر حکمِ عذاب ثابت ہو گیا کہ اے ہمارے رب! یہ ہیں وہ جنہیں ہم نے بہکایا، ہم نے انہیں (ویسے ہی) بہکایا، جیسے ہم ( خود ) بہکے تھے ، ہم تیری طرف (تیرے حضور سب سے ) بیزاری کرتے ہیں، وہ ہماری بندگی نہ کرتے تھے۔ (۶۳)
اور کہا جائے گا تم اپنے شریکوں کو پکارو، سو وہ انہیں پکاریں گے ، تو وہ انہیں جواب نہ دیں گے ، اور وہ عذاب دیکھیں گے ، کاش وہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ (۶۴)
اور جس دن وہ انہیں پکارے گا تو فرمائے گا تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟ (۶۵)
پس ان کو کوئی بات نہ سوجھے گی اس دن، پس وہ آپس میں (بھی) سوال نہ کرسکیں گے۔ (۶۶)
سو جس نے توبہ کی اور وہ ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے تو امید ہے کہ وہ کامیابی پانے والوں میں سے ہو۔ (۶۷)
اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور (جو) وہ پسند کرتا ہے ، نہیں ہے ان کے لئے (ان کا کوئی) اختیار، اللہ اس سے پاک ہے اور برتر ہے اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں۔ (۶۸)
اور تمہارا رب جانتا ہے جو ان کے سینوں میں چھپا ہے ا ور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (۶۹)
اور وہی ہے اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے لئے ہیں تمام تعریفیں دنیا میں اور آخرت میں اور اسی کے لئے ہے فرماں روائی، اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۷۰)
آپ فرما دیں بھلا دیکھو تو اگر اللہ روزِ قیامت کے لئے تم پر ہمیشہ رات رکھے تو اللہ کے سوا اور کون معبود ہے جو تمہارے لئے (دن کی) روشنی لے آئے ، تو کیا تم سنتے نہیں۔ (۷۱)
آپ فرما دیں بھلا تم دیکھو تو اگر اللہ تم پر رکھے روزِ قیامت تک کے لئے دن (کو روزِ روشن) اللہ کے سوا اور کون معبود ہے جو تمہارے لئے رات لے آئے ؟کہ تم اس میں آرام کرو، تو کیا تمہیں سوجتا نہیں؟ (۷۲)
اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ اس (رات) میں آرام کرو اور (دن میں) روزی تلاش کرو، اور تاکہ تم (اللہ کا) شکر کرو۔ (۷۳)
اور جس دن وہ انہیں پکارے گا تو وہ کہے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم میرا شریک گمان کرتے تھے۔ (۷۴)
اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال کر لائیں گے ، پھر ہم کہیں گے اپنی دلیل پیش کرو، سو وہ جان لیں گے کہ سچی بات اللہ کی ہے ، اور گم ہو جائیں گی (وہ سب باتیں) جو وہ گھڑتے تھے۔ (۷۵)
بیشک قارون تھا موسیٰ کی قوم سے ، سو اس نے ان پر زیادتی کی، اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئے تھے کہ اس کی کنجیاں ایک زور آور جماعت پر (بھی) بھاری ہوتی تھیں، جب اس کو اس کی قوم نے کہا اترا نہیں بیشک اللہ پسند نہیں کرتا اترانے والوں کو۔ (۷۶)
اور جو تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر (آخرت کی فکر کر) اور اپنا حصہ نہ بھول دنیا سے (آخرت کی زادِ راہ) اور نیکی کر جیسے تیرے ساتھ اللہ نے نیکی کی ہے ، اور فساد نہ چاہ زمین میں، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (۷۷)
کیا وہ نہیں جانتا کہ اس سے قبل اللہ نے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر دیا ہے ، جو اس سے زیادہ سخت تھیں قوت میں، اور زیادہ تھیں جمعیت میں، ان کے گناہوں کی بابت سوال نہ کیا جائے گا مجرموں سے۔ (۷۸)
پھر وہ (قارون) اپنی قوم کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ نکلا تو ان لوگوں نے کہا جو طالب تھے دنیا کی زندگی کی، جو قارون کو دیا گیا ہے اے کاش ایسا ہمارے پاس (بھی) ہوتا، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہے۔ (۷۹)
ا ورجن لوگوں کو علم (دین) دیا گیا تھا انہوں نے کہا افسوس ہے تم پر ! اللہ کا ثواب (اجر) بہتر ہے ، اس کے لئے جو ایمان لایا اور اس نے اچھا عمل کیا، اور وہ صبر کرنے والوں کے سوا (کسی کو) کو نصیب نہیں ہوتا۔ (۸۰)
پھر ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو زمین میں دھنسادیا، سو اس کے لئے کوئی جماعت نہ ہوئی جو اللہ کے سوا (اللہ سے بچانے میں) اس کی مدد کرتی، اور نہ وہ (خود) ہوا بدلہ لینے والوں میں سے۔ (۸۱)
ا ور کل تک جو لوگ اس کے درجہ کی تمنا کرتے تھے ، صبح کے وقت کہنے لگے ہائے شامت! اپنے بندوں میں سے اللہ جس کے لئے چاہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہے ) تنگ کر دیتا ہے ، اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو البتہ ہمیں (بھی) دھنسا دیتا، ہائے شامت!کافر فلاح (دو جہان کا کامیابی) نہیں پاتے۔ (۸۲)
یہ آخرت کا گھر ہے ، ہم ان لوگوں کے لئے تیار کرتے ہیں جو نہیں چاہتے زمین (ملک) میں برتری اور نہ فساد اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ (۸۳)
جو نیکی کے ساتھ آیا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ) ہے ، اور جو بُرائی کے ساتھ آیا، تو ان لوگوں کو جنہوں نے بُرے عمل کئے اس کے سوا بدلہ نہ ملے گا جو وہ کرتے تھے۔ (۸۴)
بیشک جس نے تم پر قرآن (پر عمل اور تبلیغ) کو لازم کیا ہے ، وہ تمہیں ضرور لوٹنے کی جگہ (مکہ مکرمہ) پھیر لائے گا، آپ فرما دیں میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کے ساتھ آیا اور کون کھلی گمراہی میں ہے۔ (۸۵)
اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ تمہاری طرف کتاب اتاری جائے گی، مگر تمہارے رب کی رحمت سے (نزول ہوا) سو تم ہرگز ہرگز نہ ہونا کافروں کے لئے مددگار۔ (۸۶)
اور وہ تمہیں ہرگز اللہ کے احکام سے نہ روکیں، اس کے بعد جبکہ نازل کئے گئے تمہاری طرف، اور آپ اپنے رب کی طرف بلائیں، اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا۔ (۸۷)
اور اللہ کے ساتھ نہ پکارو کوئی دوسرا معبود اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے ، اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۸۸)
٭٭
۲۹۔ سورۃالعنکبوت
مکیۃ
آیات۶۹ رکوعات:۷
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
الف۔ لام۔ میم۔ (۱) کیا لوگوں نے گمان کر لیا ہے کہ وہ (اتنے پر) چھوڑ دئیے جائیں گے کہ انہوں کہہ دیا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ (۲)
اور البتہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا، تو اللہ ضرور معلوم کرے گا ان لوگوں کو جو سچے ہیں، اور ضرور معلوم کرے گا جھوٹوں کو۔ (۳)
جو لوگ بُرے کام کرتے ہیں کیا انہوں نے گمان کیا ہے کہ وہ ہم سے بچ باہر نکلیں گے ، بُرا ہے جو وہ فیصلہ (خیال) کر رہے ہیں۔ (۴)
جو کوئی اللہ سے ملاقات (ملنے ) کی امید رکھتا ہے تو بیشک اللہ کا وعدہ ضرور آنے والا ہے ، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۵)
اور جو کوئی کوشش کرتا ہے تو صرف اپنی ذات کے لئے کوشش کرتا ہے ، بیشک اللہ البتہ جہان والوں سے بے نیاز ہے۔ (۶)
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے البتہ ہم ضرور ان سے ان کی بُرائیاں دور کر دیں گے ، اور ہم ضرور انہیں (ان کے اعمال کی) زیادہ بہتر جزا دیں گے۔ (۷)
اور ہم نے انسان کو ماں باپ سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں (زور ڈالیں) کہ تو (کسی کو) میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں، تو ان کا کہنا نہ مان، تمہیں میری طرف لوٹ کر آنا ہے ، تو میں تمہیں ضرور بتلاؤں گا، وہ جو تم کرتے تھے۔ (۸)
اور جو لوگ ایمان لائے ، اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، ہم انہیں ضرور نیک بندوں میں داخل کریں گے۔ (۹)
اور اگر تمہارے رب کی طرف سے کوئی مدد آئے تو (اس وقت) وہ ضرور کہتے ہیں، بیشک ہم تمہارے ساتھ ہیں، کیا اللہ خوب جاننے و الا نہیں جو دنیا جہان والوں کے دلوں میں ہے۔ (۱۰)
اور اللہ ضرور معلوم کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور ضرور معلوم کرے گا منافقوں کو۔ (۱۱)
اور کافروں نے ایمان والوں کو کہا تم ہماری راہ چلو، اور ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے ، حالانکہ وہ ان کے گناہ اٹھانے والے نہیں کچھ بھی، بیشک وہ جھوٹے ہیں۔ (۱۲)
اور وہ البتہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور (بھی) بہت سے بوجھ اپنے بوجھ کے ساتھ، اور قیامت کے دن البتہ ان سے ضرور اس (کے بارے میں) باز پُرس ہو گی جو وہ جھوٹ گھڑتے تھے۔ (۱۳)
اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہے ، پھر انہیں طوفان نے آ پکڑا، اور وہ ظالم تھے۔ (۱۴)
پھر ہم نے اسے اور کشتی والوں کو بچا لیا اور اس (کشتی) کو جہان والوں کے لئے ایک نشانی بنایا۔ (۱۵)
اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنی قوم کو کہا تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم جانتے ہو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ (۱۶)
ا س کے سوا نہیں کہ تم پرستش کرتے ہو اللہ کے سوا بتوں کی، اور تم جھوٹ گھڑتے ہو، بیشک اللہ کے سوا تم جن کی پرستش کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں، پس تم اللہ کے پاس (سے ) رزق تلاش کرو، اور اس کی عبادت کرو، اور اس کا شکر کرو، اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (۱۷)
اور اگر تم جھٹلاؤ گے تو جھٹلا چکی ہیں بہت سی امتیں تم سے پہلی (بھی) اور رسول کے ذمے نہیں مگر صرف صاف طور پہنچا دینا۔ (۱۸)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کیسے اللہ پیدائش کی ابتداء کرتا ہے ! پھر دوبارہ اس کو پیدا کرے گا، بیشک اللہ پر یہ آسان ہے۔ (۱۹)
پھر دیکھو اس نے کیسے پیدائش کی ابتدا کی پھر اللہ اٹھائے گا دوسری اٹھان (دوسری بار) بیشک اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۲۰)
وہ جس کو چاہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہے رحم فرماتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ (۲۱)
اور تم زمین میں عاجز کرنے والے نہیں اور نہ آسمان میں، اور تمہارے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی حمایتی ہے اور نہ کوئی مددگار۔ (۲۲)
اور جن لوگوں نے اللہ کی نشانیوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا یہی لوگ میری رحمت سے ناامید ہوئے ، اور یہی ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۲۳)
سو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا نہ تھا کہ اسے قتل کر ڈالو یا اس کو جلادو، سو اللہ نے اس کو آگ سے بچالیا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ (۲۴)
ا ور ابراہیم نے کہا اس کے سوا نہیں کہ تم نے اللہ کے سوا بت بنا لئے ہیں، دنیا کی زندگی میں آپس کی دوستی (کی وجہ) سے ، پھر قیامت کے دن تم میں سے ایک دوسرے کا مخالف ہو جائے گا، اور تم میں ایک دوسرے پر لعنت (ملامت) کرے گا، اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ، اور تمہارے لئے کوئی مددگار نہیں۔ (۲۵)
پس اس پر لوط ایمان لایا، اور اس نے کہا بیشک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا (وطن چھوڑنے والا ہوں) بیشک وہی غالب حکمت والا ہے۔ (۲۶)
اور ہم نے اس (ابراہیم) کو عطا فرمائے اسحاق اور یعقوب اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی، اور ہم نے اس کو اس کا اجر دیا دنیا میں، اور بیشک وہ آخرت میں البتہ نیکو کاروں میں سے ہے۔ (۲۷)
اور (ہم نے بھیجا) لوط کو، (یاد کرو) جب اس نے کہا اپنی قوم کو، بیشک تم بے حیائی کا (ایسا کام) کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں کسی نہ نہیں کیا۔ (۲۸)
سو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا نہ تھا کہ انہوں نے کہا ہم پر اللہ کا عذاب لے آ، اگر تو ہے سچے لوگوں میں سے۔ (۲۹)
لوط نے کہا اے میرے رب ! مفسد لوگوں پر میری مدد فرما۔ (۳۰)
اور جب آئے ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر، انہوں نے کہا بیشک ہم اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، بیشک اس (بستی) کے لوگ بڑے شریر ہیں۔ (۳۱)
ابراہیم نے کہا اس (بستی) میں لوط (بھی ہے ) وہ (فرشتے ) بولے ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو اس (بستی) میں ہے ، البتہ ہم اس کو اور اس کے گھر والوں کو اس کی بیوی کے سوا ضرور بچا لیں گے (کہ) وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (۳۲)
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے وہ اُن (کے آنے ) سے پریشان ہوا، اور ان کی وجہ سے دل تنگ ہوا، اور وہ بولے ڈرو نہیں اور غم نہ کھاؤ، بیشک ہم تیری بیوی کے سوا تجھے اور تیرے گھر والوں کو بچانے والے ہیں (کہ) وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (۳۳)
بیشک ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں، اس وجہ سے کہ وہ بدکاری کرتے تھے۔ (۳۴)
اور البتہ ہم نے اس (بستی) سے کچھ واضح نشان ان لوگوں کے لئے چھوڑے (باقی رکھے ) جو عقل رکھتے ہیں۔ (۳۵)
اور مدین (والوں ) کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) پس اس نے کہا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اور آخرت کے دن کے امیدوار رہو، اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ (۳۶)
پھر انہوں نے اس کو جھٹلایا تو اُن کو آ پکڑا زلزلہ نے ، پس وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (۳۷)
والے تھے۔ (۳۸)
اور (ہم نے ہلاک کیا) قارون اور فرعون اور ہامان کو، اور ان کے پاس موسیٰ کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے ، تو انہوں نے تکبر کیا زمین میں، اور وہ بچ کر بھاگ نکلنے والے نہ تھے۔ (۳۹)
پس ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ پر پکڑا تو ان میں سے (بعض وہ ہیں) جن پر ہم نے پتھروں کی بارش بھیجی، اور ان میں سے بعض کو چنگھاڑ نے آ پکڑا، اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسادیا، اور ان میں سے بعض کو ہم نے غرق کر دیا، اور اللہ (ایسا) نہیں کہ ان پر ظلم کرتا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (۴۰)
ان لوگوں کی مثال جنہوں نے بنائے اللہ کے سوا اور مددگار، مکڑی کی مانند ہے ، اس نے ایک گھر بنایا، اور گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہے ، کاش وہ جانتے ہوتے۔ (۴۱)
بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ پکارتے ہیں، اس کے سوا کوئی چیز، اور وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (۴۲)
اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کے لئے ، اور انہیں نہیں سمجھتے جاننے والوں کے سوا۔ (۴۳)
اور اللہ نے آسمان اور زمین پیدا کئے حکمت کے ساتھ، بیشک اس میں ایمان والوں کے لئے نشانی ہے۔ (۴۴)
آپ پڑھیں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے ، اور نماز قائم کریں، بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے ، اور البتہ اللہ کی یاد سب سے بڑی بات ہے ، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۴۵)
اور تم اہل کتاب سے نہ جھگڑو، مگر اس طریقہ سے جو بہتر ہو، بجز ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا، اور تم کہو ہم اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا، اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا، اور ہمارا معبود تمہارا معبود ایک ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔ (۴۶)
اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی، پس جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ایمان لاتے ہیں اس پر، اور اہل مکہ میں سے بعض اس پر ایمان لاتے ہیں، اور ہماری آیتوں سے انکار صرف کافر کرتے ہیں۔ (۴۷)
اور آپ اس سے (نزول قرآن سے ) قبل کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے ، اس صورت میں البتہ حق ناشناس شک کرتے۔ (۴۸)
بلکہ یہ واضح آیتیں ان لوگوں کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جنہیں علم دیا گیا، اور ہماری آیتوں کا انکار صرف ظالم کرتے ہیں۔ (۴۹)
اور وہ بولے اس پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں (معجزات) کیوں نہ نازل کی گئیں، آپ فرما دیں کہ اس کے سوا نہیں نشانیاں (معجزات) اللہ کے پاس ہیں، اور اس کے سوا نہیں کہ میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ (۵۰)
کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ان پر پڑھی جاتی ہے ، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے رحمت اور نصیحت ہے جو ایمان لاتے ہیں۔ (۵۱)
آپ فرما دیں اللہ کافی ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہ، وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے ، اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور وہ منکر ہوئے ، وہی لوگ ہیں گھاٹے پانے والے۔ (۵۲)
اور وہ آپ سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں، اور اگر میعاد نہ ہوتی مقرر، تو ان پر عذاب آ چکا ہوتا، اور وہ ان پر ضرور اچانک آئے گا اور انہیں خبر (بھی) نہ ہو گی۔ (۵۳)
اور وہ آپ سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ (۵۴)
جس دن انہیں ڈھانپ لے گا عذاب، ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ، اور (اللہ تعالی) کہے گا
(اس کا مزہ) چکھو جو تم کرتے تھے۔ (۵۵)
اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو، بیشک میری زمین وسیع ہے ، پس تم میری ہی عبادت کرو۔ (۵۶)
ہر شخص کو موت (کا مزہ) چکھنا ہے ، پھر تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۵۷)
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ، ہم ضرور انہیں جگہ دیں گے جنت کے بالاخانوں میں، اس کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، کیا ہی اچھا اجر ہے کام کرنے والوں کا۔ (۵۸)
جن لوگوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۵۹)
اور بہت سے جانور ہیں (جو) نہیں اٹھاتے (پھرتے ) اپنی روزی، اللہ انہیں روزی دیتا ہے ، اور تمہیں بھی، اور وہ سننے و الا، جاننے و الا ہے۔ (۶۰)
اور البتہ اگر تم ان سے پوچھو کس نے زمین اور آسمان کو بنایا؟اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا، تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے ، پھر کہاں وہ الٹے پھرے جاتے ہیں۔ (۶۱)
اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی فراخ کرتا ہے اور (جس کے لئے چاہے ) اس کے لئے تنگ کر دیتا ہے ، بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے و الا ہے۔ (۶۲)
اور البتہ اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمانوں سے پانی اتارا، پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیا، وہ ضرور کہیں گے اللہ نے ، آپ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، لیکن ان میں اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔ (۶۳)
اور یہ دنیا کی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ نہیں، اور بیشک آخرت کا گھر ہی (اصل) زندگی ہے ، کاش وہ جانتے ہوتے۔ (۶۴)
پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں خالص اسی پر اعتقاد رکھتے ہوئے ، پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دیتا (بچا لاتا) ہے تو وہ فوراً شرک کرنے لگتے ہیں۔ (۶۵)
تاکہ اس کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں دیا ہے ، اور تاکہ وہ فائدہ اٹھائیں، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔ (۶۶)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم (سر زمین مکہ) کو امن کی جگہ بنایا، جبکہ اور اس کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں، پس کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں۔ (۶۷)
اور اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا، یا جب حق اس کے پاس آیا اس نے اسے جھٹلایا، کیا جہنم میں کافروں کے لئے ٹھکانہ نہیں ؟۔ (۶۸)
اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں کوشش کی، ہم ضرور انہیں ہدایت دیں گے اپنے راستوں کی، اور بیشک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ (۶۹)
٭٭
۳۰۔ سورۃ الروم
مکیۃ
آیات۶۰ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
الف۔ لام۔ میم۔ (۱) رومی مغلوب ہو گئے۔ (۲) قریب کی سرزمین میں، اور و ہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوں گے۔ (۳)
چند سالوں میں، پہلے بھی اور پیچھے بھی اللہ ہی کا حکم ہے ، اور اس دن اہل ایمان خوش ہوں گے۔ (۴)
اللہ کی مدد سے ، وہ جس کو چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب، مہربان ہے۔ (۵)
(یہ) اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا، اور لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (۶)
وہ دنیا کی زندگی کے (صرف) ظاہر کو جانتے ہیں، اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔ (۷)
کیا وہ اپنے دل میں غور نہیں کرتے ؟اللہ نے نہیں پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو، اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر درست تدبیر کے ساتھ، اور ایک مقررہ میعاد کے لئے اور بیشک اکثر لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ (۸)
کیا انہوں نے زمین (دنیا) میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھتے کیسا انجام ہوا، ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے ، وہ قوت میں ان سے بہت زیادہ تھے ، اور انہوں نے زمین کو بویا جوتا، اور اس کو آباد کیا، اس سے زیادہ (جس قدر) انہوں نے آباد کیا ہے ، اور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلائل کے ساتھ آئے ، پس اللہ (ایسا) نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا اور لیکن وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (۹)
پھر جن لوگوں نے بُرے کام کئے ان کا انجام بُرا ہوا کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا، اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (۱۰)
اللہ پہلی بار خلقت کو پیدا کرتا ہے ، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۱)
اور جس دن قیامت برپا ہو گی مجرم نا امید ہو کر رہ جائیں گے۔ (۱۲)
اور ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کے سفارشی نہ ہوں گے ، اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے۔ (۱۳)
اور جس دن قیامت قائم ہو گی اس دن (لوگ) متفرق (تتر بتر) ہو جائیں گے۔ (۱۴)
پس جو لو گ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے سو وہ باغ (جنت) میں آؤ بھگت کئے جائیں گے۔ (۱۵)
اور جن لوگوں نے کفر کیا، اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور آخرت کی ملاقات کو، پس یہی لوگ عذاب میں گرفتار کئے جائیں گے۔ (۱۶)
پس اللہ کی پاکیزگی بیان کرو شام کے وقت اور صبح کے وقت۔ (۱۷)
اور اسی کے لئے ہیں تمام تعریفیں آسمانوں میں اور زمین میں، اور تیسرے پہر اور ظہر کے وقت۔ (۱۸)
اور وہ مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے ، اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے ، اور وہ زندہ کرتا ہے زمین کو اس کے مرنے کے بعد، اور اسی طرح تم (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے۔ (۱۹)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر تم ناگہاں (جا بجا) پھیلے ہوئے آدمی (ہو گئے )۔ (۲۰)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے پیدا کئے تمہاری جنس سے جوڑے (بیویاں) کہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور مہربانی (پیدا) کی، بیشک اس میں البتہ ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (۲۱)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارا سونا رات میں اور دن (کے وقت) اور تمہارا تلاش کرنا اس کے فضل سے (روزی) ، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں۔ (۲۳)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ تمہیں بجلی دکھاتا ہے خوف اور امید کے لئے ، اور نازل کرتا ہے آسمان سے پانی، پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (۲۴)
۲۵ تا ۲۷؟؟
اور وہی ہے جو پہلی بار خلقت کو پیدا کرتا ہے ، پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا، اور یہ اس پر بہت آسان ہے ، اور اسی کی ہے بلند تر شان، آسمانوں میں اور زمین میں، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۲۷)
اس نے تمہارے لئے تمہارے حال سے ایک مثال بیان کی، کیا تمہارے لئے ہے (اُن میں) سے جن کے تم مالک ہو (تمہارے غلاموں میں سے ) اس رزق میں کوئی شریک؟جو ہم نے تمہیں دیا تاکہ تم سب آپس میں برابر ہو جاؤ، کیا تم ان سے (اس طرح) ڈرتے ہو جیسے اپنوں سے ڈرتے ہو؟اسی طرح ہم عقل والوں کے لئے کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں۔ (۲۸)
بلکہ پیروی کی ظالموں نے بے جانے اپنی خواہشات کی، تو جسے اللہ گمراہ کرے (اسے ) کون ہدایت دے گا؟اور نہیں ہیں ان کے لئے کوئی مددگار۔ (۲۹)
پس (اللہ کے ) دین کے لئے (سب سے کٹ کر) یک رخ ہو کر اپنا چہرہ سیدھا رکھو، اللہ کی فطرت ہے جس پراس نے لوگوں کو پیدا کیا، اس کی خلق (بنائی ہوئی فطرت) میں کوئی تبدیلی نہیں، یہ سیدھا دین ہے ، اور لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (۳۰)
سب اس کی طرف رجوع کرنے والے (رہو) اور اسی سے ڈرو، اور تم قائم رکھو نماز اور تم شرک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ (۳۱)
ان میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر لیا، اور فرقے فرقے ہو گئے ، سب کے سب گروہ اس پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔ (۳۲)
اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے ، پھر جب وہ انہیں اپنی طرف سے رحمت (کا مزہ) چکھا دیتا ہے تو ناگہاں ایک گروہ (کے لوگ) ان میں سے اپنے رب کے ساتھ شریک کرنے لگتے ہیں۔ (۳۳)
کہ وہ اس کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں دیا سو تم (چند روز) فائدہ اٹھا لو پھر عنقریب (تم اس کا انجام ) جان لو گے۔ (۳۴)
کیا ہم نے ان پر کوئی سند نازل کی ہے ؟کہ وہ بتلاتی ہے جس کے ساتھ یہ شریک کرتے ہیں۔ (۳۵)
اور اگر انہیں اس کے سبب کوئی برائی پہنچے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا (ان کے اعمال سے ) تو وہ ناگہاں مایوس ہو جاتے ہیں۔ (۳۶)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے (اور جس کے لئے چاہتا ہے ) تنگ کرتا ہے ، بیشک جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔ (۳۷)
پس تم قرابت دار کو اس کا حق دو اور محتاج اور مسافر کو، یہ ان کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں، اور وہی لوگ فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے ہیں۔ (۳۸)
ا ور جو تم سود دو کہ لوگوں کے مال بڑھیں (اضافہ ہو) تو (یہ) اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے زکوٰۃ دیتے ہو تو یہی لوگ ہیں (اپنا مال اور اجر) چند دو چند کرنے والے۔ (۳۹)
اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے ، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے (کوئی ہے ) جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کرے ؟وہ پاک ہے اور برتر، اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ (۴۰)
فساد خشکی اور تری میں ظاہر ہو گیا (پھیل گیا) اس سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے (ان کے اعمال کے سبب) تاکہ وہ ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے ، شاید وہ باز آ جائیں۔ (۴۱)
آپ فرما دیں تم زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو ان کا انجام کیسا ہوا؟ جو پہلے تھے ، ان کے اکثر شرک کرنے والے تھے۔ (۴۲)
پس اپنا چہرہ دین راست کی طرف سیدھا رکھو اس سے قبل کہ وہ دن آ جائے جس کو اللہ (کی طرف) سے ٹلنا نہیں (اس دن (سب) جدا جدا ہو جائیں گے۔ (۴۳)
جس نے کفر کیا تو اس پر پڑے گا اس کے کفر (کا وبال) اور جس نے اچھے عمل کئے تو وہ اپنے لئے سامان کر رہے ہیں۔ (۴۴)
تاکہ (اللہ) ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے ، اور انہوں نے اچھے عمل کئے اپنے فضل سے جزا دے ، بیشک اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ (۴۵)
اور اس کے نشانیوں میں سے ہے کہ وہ بھیجتا ہے ہوائیں خوشخبری دینے والی، اور تاکہ وہ تمہیں اپنی رحمت کا مزہ چکھائے اور تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں، اور تاکہ تم تلاش کرو اس کا فضل (رزق) اور تاکہ تم شکر کرو۔ (۴۶)
اور تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ان کی قوموں کی طرف، پس وہ ان کے پاس کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے ، پھر ہم نے مجرموں سے انتقام لیا اور ہمارے ذمے ہے مؤمنوں کی مدد کرنا۔ (۴۷)
اللہ (ہی ہے ) جو ہوائیں بھیجتا ہے ، تو وہ بادل ابھارتی ہیں، پھر وہ بادل پھیلاتا ہے ، آسمان میں، جیسے وہ چاہتا ہے اور وہ اسے (بادل) کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے ، پھر تو دیکھے کہ اس کے درمیان سے مینہ نکلتا ہے ، پھر وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے وہ پہنچا دیتا ہے ، تو وہ اچانک خوشیاں منانے لگتے ہیں۔ (۴۸)
اگرچہ اس سے قبل کہ (بارش) ان پر نازل ہو وہ پہلے ہی سے مایوس ہو رہے تھے۔ (۴۹)
پس تو آثار (نشانیوں) کی طرف دیکھ اللہ کی رحمت کی، وہ کیسے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ! بیشک وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے ، اور وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۵۰)
اور اگر ہم ہوا بھیجیں، پھر وہ اسے زرد شدہ دیکھیں تو وہ ضرور ہو جائیں اس کے بعد ناشکری کرنے والے۔ (۵۱)
پس بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو آواز سنا سکتے ہیں، جب وہ پیٹھ دے کر پھر جائیں۔ (۵۲)
آپ اندھے کو اس کی گمراہی سے ہدایت دینے والے نہیں، نہیں سنا سکتے مگر (صرف اسے ) جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتا ہے پس وہی فرمانبردار ہیں۔ (۵۳)
اللہ ہی ہے وہ جس نے تمہیں کمزور پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت دی، پھر قوت کے بعد کمزوری، اور بڑھاپا دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، اور وہ علم والا قدرت والا ہے۔ (۵۴)
اور جس دن قیامت قائم ہو گی قسم کھائیں گے مجرم، کہ وہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے ، اسی طرح وہ اوندھے جاتے تھے۔ (۵۵)
اور کہیں گے جنہیں علم اور ایمان دیا گیا یقیناً تم نوشتۂ الہی کے مطابق جی اٹھنے کے دن تک رہے ہو، پس یہ ہے جی اٹھنے کا دن، لیکن تم نہ جانتے تھے۔ (۵۶)
پس اس دن نہ دے گی ان لوگوں کو ان کی معذرت (عذر خواہی) جنہوں نے ظلم کیا، اور نہ ان سے (اللہ کو) راضی کرنا چاہا جائے گا۔ (۵۷)
اور تحقیق ہم نے بیان کیں لوگوں کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں، اور اگر تم ان کے پاس کوئی نشانی لاؤ تو کافر ضرور کہیں گے ، تم صرف جھوٹ بناتے ہو۔ (۵۸)
اسی طرح اللہ ان کے دلوں میں مہر لگا دیتا ہے جو سمجھ نہیں رکھتے۔ (۵۹)
پس آپ صبر کریں بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ کسی طور آپ کو سبک (برداشت نہ کرنے والا) نہ کر دیں۔ (۶۰)
٭٭
۳۱۔ سورۃ لقمان
مکیۃ
آیات۳۴ رکوعات:۴
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
الف۔ لام۔ میم۔ (۱) یہ آیتیں ہیں پر حکمت کتاب کی۔ (۲)
ہدایت اور رحمت نیکو کاروں کیلئے۔ (۳)
جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (۴)
یہی لوگ اپنے رب (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے ہیں۔ (۵)
اور کوئی ایسا (بد نصیب بھی) ہے جو خریدتا ہے بیہودہ باتیں تاکہ وہ بے سمجھے اللہ کے راستے سے گمراہ کر دے ، اور وہ اسے ہنسی مذاق ٹھہراتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ذلت والا عذاب ہے۔ (۶)
اور جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی (سنائی) جاتی ہیں تو تکبر کرتے ہوئے منہ موڑ لیتا ہے گویا اس نے اسے سنا ہی نہیں، گویا اس کے کانوں میں گرانی (بہرا پن) ہے ، پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دو۔ (۷)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے لئے نعمت کے باغات ہیں۔ (۸)
ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۹)
اس نے ستون کے بغیر آسمانو ں کو پیدا کیا، تم انہیں دیکھتے ہو، اور اس نے ڈالے زمین میں پہاڑ کہ تمہارے ساتھ جھک نہ جائے ، اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہم نے اتارا آسمان سے پانی، پھر ہم نے اس میں اگائے ہر قسم کے عمدہ جوڑے۔ (۱۰)
یہ اللہ کا بنایا ہوا ہے ، پس تم مجھے دکھاؤ کیا پیدا کیا انہوں نے جو اس کے سوا ہیں، بلکہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۱۱)
اور (یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا اور وہ نصیحت کر رہا تھا، اے میرے بیٹے !تو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا، بیشک شرک ایک ظلم عظیم ہے۔ (۱۳)
اور ہم نے انسان کو تاکید کی اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسن سلوک کی) اس کی ماں نے کمزوری پرکمزوری (جھیلتے ہوئے ) اسے پیٹ میں رکھا، اور دوسال میں اس کا دودھ چھڑایا، کہ میرا شکر کر، اور اپنے ماں باپ کا، میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (۱۴)
اور اگر وہ دونوں تیرے ساتھ کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے ، جس کا تجھے کوئی علم (سند) نہیں، تو ان کا کہا نہ مان، اور دنیا (کے معاملات) میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بسر کر، اور اس کے راستے کی پیروی کر، جو رجوع کرے میری طرف، پھر تمہیں میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے ، سو تمہیں آگاہ کروں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔ (۱۵)
اے میرے بیٹے ! اگر (برائی) ایک رائی کے دانے کے برابر ( بھی) ہو، پھر وہ کسی سخت پتھر (چٹان) میں (پوشیدہ) ہو، یا آسمانوں میں یا زمین میں (پوشیدہ) ہو، اللہ اسے لے آئے گا (حاضر کر دے گا) بیشک اللہ باریک بین باخبر ہے۔ (۱۶)
اے میرے بیٹے ! نماز قائم کر، اور اچھے کاموں کا حکم دے ، اور بُری باتوں سے روک اور تجھ پر جو (افتاد) پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (۱۷)
اور تو لوگوں سے (بات کرتے ہوئے ) اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر، اور زمین میں اتراتا ہوا نہ چل، بیشک اللہ پسند نہیں کرتا ہر سکی اترانے والے ، خود پسند کو۔ (۱۸)
اور اپنی رفتار میں میانہ روی (اختیار ) کر، اور اپنی آواز کو پست رکھ، بیشک آوازوں میں سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہے۔ (۱۹)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور تمہیں اپنی ظاہر اور پوشیدہ نعمتیں بھر پور دیں، اور لوگوں میں بعض (ایسے ہیں) جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر علم، بغیر ہدایت، اور بغیر روشن کتاب کے۔ (۲۰)
اور جب ان سے کہا جائے جو اللہ نے نازل کیا ہے تم اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ، کیا (اس صورت میں بھی کہ) اگر شیطان ان کو دوزخ کے عذاب کی طرف بلاتا ہو۔ (۲۱)
اور جھکا دے اپنا چہرہ (سرتسلیم خم کر دے ) اللہ کی طرف، اور نیکو کار ہو، تو بیشک اس نے مضبوط حلقہ (دست آویز) تھام لیا، اور اللہ کی طرف (ہی) تمام کاموں کی انتہا ہے۔ (۲۲)
اور جو کفر کرے تو اس کا کفر آپ کو غمگین نہ کر دے ، انہیں ہماری طرف (ہی) لوٹنا ہے ، پھر ہم انہیں ضرور جتلائیں گے جو وہ کرتے تھے ، بیشک اللہ دلوں کے بھید جاننے و الا ہے۔ (۲۳)
ہم انہیں تھوڑا (چند روزہ) فائدہ دیں گے پھر ہم انہیں کھینچ لائیں گے سخت عذاب کی طرف۔ (۲۴)
اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا؟ تو وہ یقیناً کہیں گے اللہ نے ، آپ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔ (۲۵)
اللہ ہی کے لئے ہیں جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بیشک اللہ بے نیاز ستودہ صفات ہے۔ (۲۶)
اور اگر یہ ہو کہ زمین میں جو بھی درخت ہیں قلمیں بن جائیں، اور سمندر اس کی سیاہی (بن جائیں) اور اس کے بعد سات سمندر (اور ہوں) تو بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۲۷)
نہیں ہے تم سب کا پیدا کرنا اور نہیں ہے تمہارا جی اٹھانا، مگر جیسے ایک شخص (کا پیدا کرنا) بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۲۸)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور دن کو داخل کرتا ہے رات میں، اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا، ہر ایک چلتا رہے گا، مدت مقررہ (روز قیامت) تک، اور یہ کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبر دار ہے۔ (۲۹)
یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے ، اور یہ کہ وہ اس کے سوا جس کی پرستش کرتے ہیں سب باطل ہیں، اور یہ کہ اللہ ہی بلند مرتبہ، بڑائی والا ہے۔ (۳۰)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی نعمتوں کے ساتھ کشتی دریا میں چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اس کی نشانیاں دکھا دے ، بے شک اس میں ہر بڑے صبر کرنے والے ، شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۳۱)
ا ور جب موج ان پر سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے ، تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں خالص کر کے اس کے لئے عبادت، پھر جب اس نے انہیں خشکی کی طرف بچا لیا تو ان میں کوئی میانہ رَو رہتا ہے ، اور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتا سوائے ہر عہد شکن ناشکرے کے۔ (۳۲)
اے لوگو! تم اپنے پروردگار سے ڈرو، اور اس دن کا خوف کرو، (جس دن) نہ کام آئے گا کوئی باپ اپنے بیٹے کے ، اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، سو تمہیں دنیا کی زندگی ہر گز دھوکے میں نہ ڈالے ، اور دھوکہ دینے والا (شیطان) تمہیں اللہ سے ہر گز دھوکہ نہ دے۔ (۳۳)
بیشک اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم، وہی بارش نازل کرتا ہے ، اور وہ جانتا ہے جو (ماں) کے رحم میں ہے ، اور نہیں جانتا کوئی شخص کہ وہ کل کیا کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مرے گا، بیشک اللہ علم والا، خبر دار ہے۔ (۳۴)
٭٭
۳۲۔ سورۃ السجدۃ
مکیۃ
آیات۳۰ رکوعات:۳
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
الف۔ لام۔ میم۔ (۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب (قرآن) کا نازل کرنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ (۲)
کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ اس نے گھڑ لیا ہے ؟ (نہیں) بلکہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تاکہ تم اس قوم کو ڈراؤ جس کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تم سے پہلے ، تاکہ وہ ہدایت پالیں۔ (۳)
اللہ (ہی ہے ) جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے چھ دن میں، پھر اس نے عرش پر قرار کیا، تمہارے لئے اس کے سوا نہیں کوئی مددگار، اور نہ سفارش کرنے والا، سوکیا تم غور نہیں کرتے ؟ (۴)
وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے آسمان سے زمین تک، پھر (وہ کام) اس کی طرف رجوع کرے گا ایک دن میں، جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے اس (حساب) سے جو تم شمار کرتے ہو۔ (۵)
وہ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ، غالب، مہربان۔ (۶)
وہ جس نے ہر شے خوب بنائی جو اس نے پیدا کی اور انسان کی پیدائش کی ابتدا ء مٹی سے کی۔ (۷)
پھر اس کی نسل کو بے قدر پانی کے خلاصہ سے بنایا۔ (۸)
اور اس میں پھونکی اپنی (طرف سے ) اپنی روح، اور تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ، تم بہت کم ہو جوتم شکر کرتے ہو۔ (۹)
اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں گم ہو جائیں گے تو کیا نئی پیدائش میں (آئیں گے ) بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات سے منکر ہیں۔ (۱۰)
آپ فرما دیں، موت کا فرشتہ تمہاری روح قبض کرتا ہے ، جوتم پر مقرر کیا گیا ہے ، پھر تم اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۱)
اور اگر تم دیکھو جب مجرم اپنے رب کے سامنے اپنے سرکو جھکائے ہوں گے (اور کہہ رہے ہوں گے ) اے ہمارے رب! (اب) ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، پس ہمیں لوٹا دے کہ ہم اچھے عمل کریں، بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں۔ (۱۲)
اور اگر ہم چاہتے تو ضرور ہر شخص کو اس کی ہدایت دے دیتے ، لیکن (یہ) بات ثابت ہو چکی ہے میری طرف سے کہ میں البتہ جہنم کو ضرور بھر دوں گا، اکٹھے جنوں اور انسانوں سے۔ (۱۳)
پس تم اس کا (مزہ) چکھو جو تم نے بھلا دیا تھا اپنے اس دن کی ملاقات (حاضری) کو، ہم نے (بھی) بھلا دیا، جو تم کرتے تھے اس کے بدلے ہمیشہ کا عذاب چکھو۔ (۱۴)
اس کے سوا نہیں کہ ہماری آیتوں پر وہ لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب وہ انہیں یاد دلائی جاتی ہیں تو سجدہ میں گر پڑتے ہیں اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (۱۵)
ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈر اور امید سے ، اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ (۱۶)
سو کوئی شخص نہیں جانتا جو چھپا رکھا گیا ہے ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک سے ، اس کی جزا جو وہ کرتے ہیں۔ (۱۷)
تو کیا جو مؤمن ہو وہ اس کے برابر ہے جو نافرمان ہو؟ (فرما دیں) وہ برابر نہیں ہوتے۔ (۱۸)
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے تو ان کے لئے رہنے کے باغات ہیں اس کے صلہ میں جو وہ کرتے تھے۔ (۱۹)
اور رہے وہ جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ، وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اس میں لوٹا دئیے (دھکیل دئیے ) جائیں گے ، اور انہیں کہا جائے گا دوزخ کا عذاب چکھو، وہ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (۲۰)
اور البتہ ہم انہیں ضرور چکھائیں گے کچھ عذاب نزدیک (دنیا) کا (آخرت کے ) بڑے عذاب سے پہلے ، شاید وہ لوٹ آئیں۔ (۲۱)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟جسے اس کے رب کی آیات سے نصیحت کی گئی، پھر اس نے اس سے منہ پھیر لیا، بیشک ہم مجرموں سے انتقام (بدلہ) لینے والے ہیں۔ (۲۲)
تحقیق ہم نے موسیٰ کو توریت عطا کی تو تم اس کے ملنے کے متعلق شک میں نہ رہو، اور ہم نے اسے بنا دیا ہدایت بنی اسرائیل کے لئے۔ (۲۳)
اور جب ہم نے ان میں سے پیشوا بنائے ، وہ ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے ، جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے۔ (۲۴)
کیا ان کے لئے (یہ حقیقت) موجب ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے ان سے قبل کتنی (ہی) امتیں ہلاک کیں، وہ ان کے گھروں میں چلتے (پھرتے ) ہیں، بیشک اس میں نشانیاں ہیں، تو کیا وہ سنتے نہیں؟ (۲۶)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا؟کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی چلاتے (روا ں کرتے ) ہیں، پھر اس سے ہم کھیتی نکالتے ہیں، اس سے ان کے مویشی کھاتے ہیں، اور وہ خود (بھی) ، تو کیا وہ دیکھتے نہیں؟ (۲۷)
اور وہ کہتے ہیں یہ فیصلہ کب ہو گا، اگر تم سچے ہو۔ (۲۸)
آپ فرما دیں فیصلے کے دن کافروں کو ان کا ایمان (لانا) نفع نہ دے گا، ا ورنہ وہ مہلت دئیے جائیں گے۔ (۲۹)
پس تم ان سے منہ پھیر لو اور تم انتظار کرو، بیشک وہ بھی منتظر ہیں۔ (۳۰)
٭٭
۳۳۔ سورۃ الاحزاب
مدنیۃ
آیات۷۳ رکوعات:۹
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
اے نبی! اللہ سے ڈرتے رہیں اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مانیں، بیشک اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (۱)
اور جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے اس کی پیروی کریں، بیشک اللہ اس سے خبر دار ہے جو تم کرتے ہو۔ (۲)
اور آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، اللہ کافی ہے کارساز۔ (۳)
اللہ نے نہیں بنائے کسی آدمی کے لئے اس کے سینے میں دو دل، اور تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو نہیں بنایا تمہاری مائیں، اور تمہارے منہ بولے (لے پالکوں کو) (سچ مچ) تمہارے بیٹے نہیں بنایا، یہ (صرف) تمہارے منہ سے کہنے (کی بات ہے ) اور اللہ حق فرماتا ہے ، اور وہ راستہ کی ہدایت دیتا ہے۔ (۴)
انہیں ان ہی کے باپوں کی طرف (منسوب کر کے ) پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ (قرینِ) انصاف ہے ، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، اور تمہارے رفیق ہیں، اور تم پر نہیں اس میں کوئی گناہ جو تم سے بھول چوک ہو چکی، لیکن (ہاں) جو اپنے دل کے ارادے سے کرو، اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵)
نبی مؤمنوں کے (امور کے تصرف میں) ان کی جانوں سے زیادہ حقدار ہیں اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں، اور قرابت دار اللہ کی کتاب میں ان میں سے بعض (عام) مسلمانوں اور مہاجروں کی نسبت ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک (فائق) ہیں، مگر یہ کہ تم کرو اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک، یہ (اللہ کی) کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ (۶)
اور (یاد کرو) جب ہم نے لیا نبیوں سے ان کا عہد اور تم سے (بھی لیا) اور نوح سے اور ابراہیم اور موسیٰ اور مریم کے بیٹے عیسیٰٰ سے ، اور ہم نے ان سے پختہ عہد لیا۔ (۷)
تاکہ وہ (ان) سچوں سے ان کی سچائی (کے بارے میں) سوال کرے ، اور اس نے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔ (۸)
اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت (اس کا احسان) یاد کرو، جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے ، تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی، اور (ایسے ) لشکر جنہیں تم نے نہ دیکھا، اور اللہ اسے دیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۹)
جب وہ تم پر چڑھ آئے تمہارے اوپر (کی طرف) سے اور تمہارے نیچے (کی طرف) سے ، اور جب آنکھیں چندھیا گئیں، اور دل گلوں میں (کلیجہ منہ کو) آنے لگے ، اور تم اللہ کے بارے میں (طرح طرح کے ) گمان کر رہے تھے۔ (۱۰)
یہاں (اس موقع پر) مؤمن آزمائے گئے اور وہ شدید ہلائے (جھنجوڑے ) گئے۔ (۱۱)
اور جب کہنے لگے منافق اور وہ جن کے دلوں میں روگ ہے ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ کیا وہ صرف دھوکہ تھا۔ (۱۲)
اور جب ایک گروہ نے کہا ان میں سے ، اے مدینے والو!تمہارے لئے کوئی جگہ (ٹھکانا) نہیں، لہذا تم لوٹ چلو، اور ان میں سے ایک گروہ اجازت مانگتا تھا نبی سے ، وہ کہتے تھے کہ ہمارے گھر بے شک غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں، وہ تو صرف فرار چاہتے تھے۔ (۱۳)
اور ان پر مدینہ کے اطراف سے داخل ہو جائیں (آگھسیں) پھر ان سے فساد چاہا جائے (کہا جائے ) تو وہ اسے ضرور دیں گے (منظور کر لیں گے ) اور گھروں میں صرف تھوڑی سی دیر لگائیں گے۔ (۱۴)
حالانکہ وہ اس سے پہلے اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے ، اور اللہ کا (سے کیا ہوا) وعدہ پوچھا جانے والا ہے۔ (۱۵)
آپ فرما دیں فرار تمہیں ہر گز نفع نہ دے گا اگر موت یا قتل سے بھاگے ، اور اس صورت میں تم صرف تھوڑا (چند دن) فائدہ دئیے جاؤ گے۔ (۱۶)
آپ فرما دیں کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچائے ؟اگر وہ تم سے برائی (کرنا) چاہے یا تم پر مہربانی کرنا چاہے ، اور وہ اپنے لئے اللہ کے سوا کوئی دوست نہ پائیں گے اور نہ مددگار (پائیں گے )۔ (۱۷)
اللہ خوب جانتا ہے تم میں سے (دوسروں کو جہاد سے ) روکنے والوں کو، اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والوں کو کہ ہماری طرف آ جاؤ، اور وہ لڑائی میں نہیں آتے مگر بہت کم۔ (۱۸)
تمہارے متعلق بخیلی کرتے ہوئے ، پھر جب خوف آئے تو تم انہیں دیکھو گے وہ تمہاری طرف (یوں) دیکھنے لگتے ہیں (جیسے ) ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں اس شخص کی طرح جس پر موت کی غشی (طاری) ہو، پھر جب خوف چلا جائے تو تمہیں طعنے دینے لگیں تیز زبانوں سے ، مال پر بخیلی کرتے ہوئے ، یہ لوگ ایمان نہیں لائے ، تو اللہ نے اکارت کر دئیے ان کے عمل، اور اللہ پر یہ آسان ہے۔ (۱۹)
وہ گمان کرتے ہیں کہ (کافروں کے ) لشکر (ابھی) نہیں گئے ہیں، اور اگر لشکر (دوبارہ ) آئیں تو وہ تمنا کریں کہ کاش وہ دیہات میں باہر نکلے ہوتے (صحرا نشین ہوتے ) تمہاری خبریں پوچھتے رہتے ، اور اگر تمہارے درمیان ہوں تو جنگ نہ کریں مگر بہت کم۔ (۲۰)
البتہ تمہارے لئے ہے اللہ کے رسول میں ایک اچھا نمونہ، (ہر) اس شخص کے لئے جو اللہ اور روزِ آخرت پر امید رکھتا ہے ، اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔ (۲۱)
اور جب مؤمنوں نے لشکر کو دیکھا تو وہ کہنے لگے یہ ہے جس کا ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ دیا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا، اور (اس صورتحال نے ) ان میں نہ زیادہ کیا مگر ایمان اور (جذبۂ) فرماں برداری۔ (۲۲)
مؤمنوں میں کچھ ایسے آدمی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا وہ سچ کر دکھایا، سو ان میں سے (کچھ ہیں) جو اپنی نذر پوری کر چکے ، اور ان میں (کچھ ہیں) جو انتظار میں ہیں، اور انہوں نے کچھ تبدیلی نہیں کی۔ (۲۳)
( یہ اس لئے ہوا) کہ اللہ جزا دے سچے لوگوں کو ان کی سچائی کی، اور اگر وہ چاہے تو منافقوں کو عذاب دے ، یا وہ ان کی توبہ قبول کر لے ، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۲۴)
اور اللہ نے کافروں کو لوٹا دیا ان کے (اپنے ) غصہ میں بھرے ہوئے ، انہوں نے کوئی بھلائی نہ پائی، اور جنگ (کے معاملے میں) مؤمنوں کے لئے اللہ کافی ہے ، اور اللہ ہے توانا، اور غالب۔ (۲۵)
اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی تھی انہیں ان کے قلعوں سے اتار دیا، اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، ایک گروہ کو تم قتل کرتے ہو ا ور ایک گروہ کو قید کرتے ہو۔ (۲۶)
اور تمہیں وارث بنا دیا ان کی زمین کا، اور ان کے گھروں کا، اور ان کے مالوں کا، اور اس زمین کا جہاں تم نے قدم نہیں رکھا تھا، اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۲۷)
اے نبی! اپنی بیبیوں سے فرما دیں اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں اور رخصت کر دوں اچھی طرح رخصت۔ (۲۸)
اور اگر تم اللہ اور اس کا رسول، اور آخرت کا گھر چاہتی ہو، تو بیشک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لئے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ (۲۹)
اے نبی کی بیبیو! جو کوئی تم میں سے کھلی بیہودگی کی مرتکب ہو تو اس کے لئے عذاب دوچند بڑھا دیا جائے گا، اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ (۳۰)
اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور نیک عمل کرے ہم اسے اس کا دوہرا اجر دیں گے ، اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق تیار کیا ہے۔ (۳۱)
اے نبی کی بیبیو! عورتوں میں سے تم کسی ایک کی طرح (بھی) نہ ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو گفتگو میں ملائمت نہ کرو کہ جس کے دل میں کھوٹ ہے وہ لالچ (خیال فاسد) کرے اور بات کرو معقول بات۔ (۳۲)
اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو، اور اگلے زمانۂ جاہلیت کے بناؤ سنگھار کا اظہار کرتی نہ پھرو، اور نماز قائم کرو، اور زکوۃ دیتی رہو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اس کے سوا نہیں کہ اللہ چاہتا ہے اے اہل بیت! کہ تم سے آلودگی دور فرما دے ، اور تمہیں خوب (ہر طرح سے ) پاک وصاف رکھے۔ (۳۳)
اور تم یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں اللہ کی آیتیں اور حکمت (دانائی کی باتیں) پڑھی جاتی ہیں، بیشک اللہ راز دان، خبر دار ہے۔ (۳۴)
بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مؤمن مرو اور مؤمن عورتیں، اور فرماں برادر مرد اور فرماں بردار عورتیں، اور راست گو مرد اور راست گو عورتیں، اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، اور صدقہ (و خیرات) کرنے والے مرد اور صدقہ (و خیرات) کرنے والی عورتیں، اللہ نے سب کے لئے تیار کی ہے بخشش اور اجر عظیم۔ (۳۵)
اور ( گنجائش) نہیں ہے کسی مؤمن مرد اور نہ کسی مؤمن عورت کے لئے ، کہ جب فیصلہ کر دیں اللہ اور اس کے رسول کسی کام کا، کہ ان کے لئے ان کے کام میں کوئی اختیار باقی ہو، اور جو نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی تو البتہ وہ صریح گمراہی میں جا پڑا۔ (۳۶)
اور یاد کرو جب آپ اس شخص (زید بن حارثہ) کو فرماتے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا اور تم نے (بھی) اس پر انعام کیا کہ اپنی بیوی (زینب) کو اپنے پاس روکے رکھ اور اللہ سے ڈرو، اور تم چھپاتے تھے اپنے دل میں وہ (بات) جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں (کے طعن) ڈرتے تھے ، اور اللہ زیادہ سزاوار ہے کہ تم اس سے ڈرو پھر جب زید نے اس (زینب) سے اپنی حاجت پوری کر لی (طلاق دے دی) تو ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مؤمنوں پر کوئی تنگی نہ رہے اپنے لے پالکوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے میں) جب وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر لیں ( طلاق دے دیں) اور اللہ کا حکم (پورا ہو کر) رہنے والا ہے۔ (۳۷)
نبی پر اس کام میں کوئی حرج (تنگی) نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا، اللہ کا (یہی) دستور (رہا ہے ) ان میں جو پہلے گزرے ہیں، اور اللہ کا حکم (صحیح) اندازہ سے مقرر کیا ہوا ہے۔ (۳۸)
وہ جو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ، اور اللہ کافی ہے حساب لینے والا۔ (۳۹)
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور (سب) نبیوں پر مہر (آخری نبی) ہیں، اور اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے۔ (۴۰)
اے ایمان والو! اللہ کو یاد کرو بکثرت۔ (۴۱) اور صبح و شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔ (۴۲)
وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (بھی) تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائے ، اور اللہ مؤمنوں پر مہربان ہے۔ (۴۳)
ان کی دعا جس دن وہ اس کو ملیں گے سلام ہو گا اور اس نے ان کے لئے بڑا اچھا اجر تیار کیا ہے۔ (۴۴)
اے نبی! بیشک ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا، اور خوشخبری دینے والا، اور ڈر سنانے والا۔ (۴۵)
اور اس کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ۔ (۴۶)
اور مؤمنوں کو خوشخبری دیں یہ کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔ (۴۷)
اور آپ کہا نہ مانیں کافروں کا، اور منافقوں کا، اور ان کے ایذا دینے کا خیال نہ کریں، اور اللہ پر بھروسہ کریں، اور کافی ہے اللہ کارساز۔ (۴۸)
اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو، پھر انہیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم انہیں ہاتھ لگاؤ تو ان پر تمہارا (کوئی حق) نہیں کہ ان کی عدت پوری کراؤ، پس انہیں کچھ متاع دے دو اور رخصت کر دو اچھی رخصت۔ (۴۹)
اے نبی ہم نے تمہارے لئے حلال کیں تمہاری وہ بیبیاں جن کو تم نے ان کا مہر دیا، اور تمہاری کنیزیں ان میں سے جو اللہ نے (غنیمت میں سے ) تمہارے ہاتھ لگا دیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں، وہ جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی، اور وہ مؤمن عورت جو اپنے آپ کو نبی کی نذر کر دے ، اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے ، یہ عام مؤمنوں کے علاوہ خاص تمہارے لئے ہے ، البتہ ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان کی عورتوں اور کنیزوں (کے بارے (میں ان پر فرض کیا ہے ، تاکہ تم پر کوئی تنگی نہ رہے ، اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵۰)
آپ جس کو چاہیں دور رکھیں ان میں سے ، اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں، اور ان میں سے جس کو آپ نے دور کر دیا تھا (پھر) طلب کریں تو کوئی تنگی (حرج) نہیں آپ پر یہ زیادہ قریب ہے کہ (اس سے ) ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ آزردہ نہ ہوں، اور اس پر راضی رہیں جو آپ نے انہیں دیں وہ سب کے سب، اور اللہ جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے ، اور اللہ جاننے والا بردبار ہے۔ (۵۱)
حلال نہیں آپ کے لئے اس کے بعد (اور ) عورتیں، نہ یہ کہ آپ ان سے اور عورتیں بدل لیں، اگرچہ آپ کو اچھا لگے ، ان کا حسن، سوائے آپ کی کنیز کے ، اور اللہ ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۵۲)
پکنے کی راہ نہ تکو، لیکن جب تمہیں بلایا جائے تو تم داخل ہو، پھر جب تم کھانا کھالو، تو منتشر ہو جایا کرو، اور باتوں کے لئے جی لگا کر نہ بیٹھے رہو، بیشک تمہاری یہ بات نبی کو ایذا دیتی ہے پس وہ تم سے شرماتے ہیں، اور اللہ حق بات (فرمانے ) سے نہیں شرماتا، اور جب تم ان (نبی کی بیبیوں) سے کوئی شے مانگو تو ان کے پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ بات تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی (کا ذریعہ) ہے اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو ایذا دو، اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی بھی ن کی بیبیوں سے نکاح کرو، بیشک تمہاری یہ بات اللہ کے نزدیک بڑا ( گناہ) ہے۔ (۵۳)
اگر تم کوئی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ تو بیشک اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۵۴)
عورتوں پر گناہ نہیں (پردہ نہ کرنے میں) اپنے باپ اور نہ اپنے بیٹوں، اور نہ اپنے بھائیوں اور نہ اپنے بھائیوں کے بیٹوں اور نہ اپنی بہنوں کے بیٹوں اور نہ اپنی عورتوں سے اور نہ اپنی کنیزوں سے (اے عورتو!) اللہ سے ڈرتی رہو، بے شک اللہ ہر شے پر گواہ (موجود) ہے۔ (۵۵)
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو۔ (۵۶)
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی (اپنی رحمت سے محروم کر دیا) اور ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب تیار کیا۔ (۵۷)
اور جو لوگ مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ایذا دیتے ہیں، بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو تو البتہ انہوں نے اٹھایا (اپنے سر لیا) بہتان اور گناہ صریح۔ (۵۸)
اے نبی! اپنی بیبیوں اور بیٹیوں کو اور مؤمنوں کی عورتوں کو فرما دیں کہ وہ اپنے اوپر چادریں ڈال لیا کریں (گھونگھٹ نکال لیا کریں) یہ (اس سے ) قریب تر ہے کہ ان کی پہچان ہو جائے ، تو انہیں نہ ستایا جائے ، اور اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۵۹)
اگر باز نہ آئے منافق، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے ، اور مدینہ میں جھوٹی افواہیں اڑانے والے ، تو ہم ضرور ان کے پیچھے لگا دیں گے ، پھر وہ اس شہر (مدینہ) میں چند دن کے سوا تمہارے ہمسایہ (پاس) نہ رہیں گے۔ (۶۰)
پھٹکارے ہوئے ، وہ جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے ، اور بری طرح مارے جائیں گے۔ (۶۱)
اللہ کا (یہی) دستور رہا ہے ، ان لوگوں میں جو گزرے ہیں ان سے پہلے ، اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (۶۲)
آپ سے لوگ قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ اس کا علم اللہ کے پاس ہے ، اور تمہیں کیا خبر ! شاید قیامت قریب (ہی) ہو۔ (۶۳)
بیشک اللہ نے کافروں پر لعنت کی، اور ان کے لئے (جہنم کی) بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ (۶۴)
وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، وہ نہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ مددگار۔ (۶۵)
جس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے ، وہ کہیں گے اے کاش! ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی، اور اطاعت کی ہوتی رسول کی۔ (۶۶)
اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی، تو انہوں نے ہمیں راستہ سے بھٹکایا۔ (۶۷)
اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر۔ (۶۸)
اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ( الزام لگا کر) ستایا تو انہیں بری کر دیا اللہ نے اس سے جو انہوں نے کہا (الزام لگایا) اور وہ اللہ کے نزدیک با آبرو تھے۔ (۶۹)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔ (۷۰)
وہ تمہارے لئے تمہارے عمل سنوار دے گا، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو وہ بڑی مراد کو پہنچا۔ (۷۱)
بیشک ہم نے اپنی امانت کو (ذمہ داری کو) پیش کیا آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر، تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا، اور وہ اس سے ڈر گئے ، اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ ظالم، بڑا نادان تھا۔ (۷۲)
تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں ا ور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں او مشرک عورتوں کو اور اللہ توبہ قبول کرے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (۷۳)
٭٭
۳۴۔ سورۃ سبا
مکیۃ
آیات۵۴ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور اسی کے لئے ہر تعریف ہے آخرت میں، اور وہ حکمت والا، خبر رکھنے والا ہے۔ (۱)
اور کہتے ہیں کافر کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی، آپ فرما دیں ہاں میرے رب کی قسم!ٍ البتہ وہ تم پر ضرور آئے گی، اور و ہ غیب کا جاننے والا ہے ، اس سے ایک ذرہ کے برابر بھی پوشیدہ نہیں، آسمانوں میں اور نہ زمین میں، اور نہ چھوٹا اس سے اور نہ بڑا مگر (سب کچھ) روشن کتاب میں ہے۔ (۳)
تاکہ ان لوگوں کو جزا دے جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل کئے نیک، یہی لوگ ہیں جن کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ (۴)
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی ہرانے کے لئے ، انہی لوگوں کے لئے سخت دردناک عذاب ہے۔ (۵)
اور جنہیں علم دیا گیا وہ دیکھتے (جانتے ) ہیں کہ جو تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور (اللہ) غالب، سزاوارِ تعریف کے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (۶)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا؟اس کی طرف جو ان کے آگے اور ان کے پیچھے ہے ، یعنی آسمان اور زمین، اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں، یا ان پر آسمان کا ٹکڑا گرا دیں، بیشک اس میں نشانی ہے ہر رجوع کرنے والے بندہ کے لئے۔ (۹)
اور تحقیق ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضل عطا کیا، اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کرو اے پرندو (تم بھی) ، اور ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔ (۱۰)
کہ کشادہ زرہیں بناؤ، اور کڑیوں کے جوڑنے میں اندازہ رکھو، اور اچھے عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو بیشک میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔ (۱۱)
اور سلیمان کے لئے ہوا (کو مسخر) کیا اور اس کی صبح کی منزل ایک ماہ (کی راہ ہوتی) اور شام کی منزل ایک ماہ (کی راہ) اور ہم نے اس کے لئے تانبے کا چشمہ بہایا، اور جنات میں سے (بعض) اس کے سامنے کام کرتے تھے ، اس کے رب کے حکم سے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرے گا ہم اسے دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (۱۲)
وہ (جنات) جو وہ (سلیمان) چاہتے وہ اس کے لئے قلعے بناتے ، اور تصویریں اور حوض جیسے لگن، اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں، اے خاندانِ داؤد ! تم شکر بجا لا کر عمل کرو، اور میرے بندوں میں شکر گزار تھوڑے ہیں۔ (۱۳)
پھر جب ہم نے اس کی موت کا حکم جاری کیا، انہیں (جنوں کو) اس کی موت کا پتہ نہ دیا، مگر گھن کی طرح کیڑے (دیمک) نے ، وہ اس کا عصا کھاتا تھا، پھر جب وہ گر پڑا تو جنوں پر حقیقت کھلی، اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو وہ نہ رہتے ذلت کے عذاب میں۔ (۱۴)
البتہ قوم سبا کے لئے ان کی آبادی میں نشانی تھی، دو باغ دائیں اور بائیں (ہم نے کہہ دیا کہ) اپنے پروردگار کے رزق سے کھاؤ، اور اس کا شکر ادا کرو، شہر ہے پاکیزہ، اور پروردگار ہے بخشنے والا۔ (۱۵)
پھر انہوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے ان پر (بند توڑ کر) زور کا سیلاب بھیجا اور دو باغوں کے بدلے (اور ) دو باغ دئیے ، بد مزہ میوہ والے اور کچھ جھاڑ، اور تھوڑی سی بیریاں۔ (۱۶)
یہ ہم نے انہیں سزا دی اس لئے کہ انہوں نے ناشکری کی اور ہم صرف ناشکرے کو سزا دیتے ہیں۔ (۱۷)
اور ہم نے آباد کر دیں ان کے درمیان اور (شام) کی ان بستیوں کے درمیان جنہیں ہم نے برکت دی ہے ، ایک دوسرے سے متصل بستیاں، اور ہم نے ان میں آمد و رفت مقرر کر دی، تم ان میں چلو پھرو، راتوں اور دنوں میں بے خوف و خطر۔ (۱۸)
وہ کہنے لگے اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے ، اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں بنا دیا افسانے ، اور ہم نے انہیں پوری پوری طرح پراگندہ کر دیا، بیشک اس میں ہر بڑے صبر کرنے والے شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۹)
اور البتہ ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایا، پس مؤمنوں کے ایک گروہ کے سوا انہوں نے اس کی پیروی کی۔ (۲۰)
اور ابلیس کو ان پر کوئی غلبہ نہ تھا مگر (ہم چاہتے تھے ) کہ جو آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس سے (جدا کر کے ) معلوم کر لیں جو اس (کے بارے میں) شک میں ہے ، اور تیرا رب ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۲۱)
آپ فرما دیں انہیں پکارو جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) گمان کرتے ہو، وہ (تو) ایک ذرہ کے برابر بھی مالک نہیں (اختیار نہیں رکھتے ) آسمانوں میں اور نہ زمین میں، اور نہ ان میں (آسمان و زمین میں) ان کا کوئی ساجھا ہے ، اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ (۲۲)
اور شفاعت (سفارش) نفع نہیں دیتی اس کے پاس سوائے اس کے جسے وہ اجازت دیدے ، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے (گھبراہٹ) دور کر دی جاتی ہے تو کہتے ہیں کیا کہا ہے تمہارے رب نے ، وہ (فرشتے ) کہتے ہیں حق (فرمایا ہے ) ، اور وہ بلند مرتبہ بزرگ قدر ہے۔ (۲۳)
آپ فرما دیں کون تمہیں روزی دیتا ہے آسمانوں سے اور زمین سے ، فرما دیں، اللہ، بیشک ہم یا تم ہی (دونوں میں سے ایک) البتہ ہدایت پر ہے یا کھلی گمراہی میں ہے۔ (۲۴)
آپ فرما دیں (اگر ہم مجرم ہیں تو) تم سے اس گناہ کی بابت نہ پوچھا جائے گا جو ہم نے کیا، نہ ہم سے اس کی بابت پوچھا جائے گا جو تم کرتے ہو۔ (۲۵)
فرما دیں ہم سب کو جمع کرے گا ہمارا رب، پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا، اور وہ فیصلہ کرنے والا جاننے والا ہے۔ (۲۶)
آپ فرما دیں مجھے دکھاؤ جنہیں تم نے ساتھ ملایا ہے ، اس کے ساتھ شریک (ٹھہرا کر) ہر گز نہیں بلکہ اللہ ہی غالب، حکمت والا ہے۔ (۲۷)
اور ہم نے آپ کو بھیجا ہے تمام نوع انسانی کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۲۸)
اور وہ کہتے ہیں یہ وعدۂ قیامت کب (آئے گا) اگر تم سچے ہو۔ (۲۹)
آپ فرما دیں تمہارے لئے وعدہ کا ایک دن (معین) ہے ، اس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہو اور نہ تم آگے بڑھ سکتے ہو۔ (۳۰)
۳۱ تا ۳۶؟؟
اور نہیں تمہارے مال اور اولاد، (ایسے ) کہ تمہیں درجہ میں ہمارے نزدیک کر دیں، مگر جو ایمان لایا، اور اس نے اچھے عمل کئے تو ان ہی لوگوں کے لئے دوگنی جزا ہے اس کے بدلے جو انہوں نے کیا اور وہ بالاخانوں میں اطمینان سے ہوں گے۔ (۳۷)
اور جو لوگ ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کرتے ہیں، یہی لوگ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے۔ (۳۸)
آپ فرما دیں میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق وسیع فرماتا ہے ، (اور جس کے لئے چاہے) تنگ کر دیتا ہے ، اور کوئی شے جو تم خرچ کرو گے تو وہ اس کا عوض دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (۳۹)
اور جس دن وہ جمع کرے گا، ان سب کو، پھر فرشتوں سے فرمائے گا، کیا یہ لوگ تمہاری ہی پرستش کرتے تھے ؟ (۴۰)
وہ کہیں گے تو پاک ہے تو ہمارا کار ساز ہے ، نہ کہ وہ، بلکہ وہ جنوں کی پرستش کرتے تھے ، ان میں سے اکثر ان پر اعتقاد رکھتے تھے۔ (۴۱)
سو آج تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے نہ نفع کا اختیار رکھتا ہے ، اور نہ نقصان کا، اور ہم ان لوگوں کو کہیں گے جنہوں نے ظلم (شرک) کیا تم جہنم کے عذاب (کا مزہ) چکھو جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (۴۲)
اور جب ان پر پڑھی جاتی ہیں ہماری واضح آیات تو وہ کہتے ہیں یہ تو صرف (تم جیسا) آدمی ہے ، چاہتا کہ تمہیں ان سے روکے جن کی پرستش تمہارے باپ دادا کرتے تھے ، اور وہ کہتے ہیں یہ (قرآن) نہیں ہے مگر گھڑا ہوا جھوٹ، اور کافروں نے حق کے بارے میں کہا جب وہ ان کے پاس آیا :کہ یہ نہیں مگر کھلا جادو۔ (۴۳)
اور ہم نے انہیں (مشرکین عرب کو) کتابیں نہیں دیں کہ وہ انہیں پڑھتے ہوں، اور نہ آپ سے پہلے ان کی طرف کوئی ڈرانے والا بھیجا۔ (۴۴)
اور جو ان سے پہلے تھے انہوں نے جھٹلایا، اور یہ (مشرکینِ عرب) اس کے دسویں حصے کو (بھی) نہ پہنچے جو ہم نے انہیں دیا تھا، سوانہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا، تو کیسا ہوا میرا عذاب۔ (۴۵)
فرما دیں میں تمہیں صرف نصیحت کرتا ہوں ایک بات کی کہ تم اللہ کے واسطے کھڑے ہو جاؤ دو دو اور اکیلے اکیلے پھر تم غور کرو تمہارے اس ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے ، وہ تو صرف سخت عذاب آنے سے پہلے تمہیں ڈرانے والے ہیں۔ (۴۶)
آپ فرما دیں میں نے تم سے جو مانگا ہو کوئی اجر تو وہ تمہارا ہے ، میرا اجر تو صرف اللہ کے ذمے ہے ، اور وہ ہر شے کی اطلاع رکھنے والا ہے۔ (۴۷)
آپ فرما دیں بیشک میرا رب اوپر سے حق اتارتا ہے ، اور سب غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ (۴۸)
آپ فرما دیں حق آ گیا، اور نہ پیدا کرے گا باطل (کسی چیز کو) اور نہ لوٹائے گا۔ (۴۹)
آپ فرما دیں اگر میں بہکا ہوں تو اس کے سوا نہیں کہ اپنے نقصان کو بہکا ہوں، اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس کی بدولت ہوں کہ میرا رب میری طرف وحی کرتا ہے ، بیشک وہ سننے والا قریب ہے۔ (۵۰)
اے کاش! تم دیکھو جب وہ گھبرائیں گے تو (بھاگ کر) نہ بچ سکیں گے ، اور پاس ہی سے پکڑ لئے جائیں گے۔ (۵۱)
اور کہیں گے ہم اس (نبی ) پر ایمان لے آئے اور کہاں (ممکن) ہے ان کے لئے دور جگہ (دار الجزا) سے (ایمان کا) ہاتھ آنا۔ (۵۲)
اور تحقیق انہوں نے اس سے قبل اس سے کفر کیا، اور پھینکتے ہیں بن دیکھے دور جگہ سے (اٹکل بچو باتیں کرتے ہیں)۔ (۵۳)
جو وہ چاہتے تھے ، اس کے اور ان کے درمیان آڑ ڈال دی گئی، جیسے ان کے ہم جنسوں کے ساتھ اس سے قبل کیا گیا، بیشک وہ تردد میں ڈالنے والے شک میں تھے۔ (۵۴)
٭٭
۳۵۔ سورۃ فاطر
مکیۃ
آیات۴۵ رکوعات:۵
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ، فرشتوں کو پیغام بر بنانے والا ہے ، پروں والے دو دو اور تین تین اور چار چار، پیدائش میں جو وہ چاہتا ہے زیادہ کر دیتا ہے ، بیشک اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۱)
اللہ لوگوں کے لئے رحمت کھول دے تو (کوئی) اس کا بند کرنے والا نہیں، اور جو وہ بند کر دے تو اس کے بعد کوئی اس کا بھیجنے والا نہیں، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۲)
اے لوگو ! تم یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت، کیا اللہ کے سوا کوئی پیدا کرنے والا ہے ؟ وہ تمہیں آسمان سے رزق دیتا ہے ، اور زمین سے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو کہاں تم الٹے پھرے جاتے ہو؟ (۳)
اور اگر و ہ تجھے جھٹلائیں تو تحقیق جھٹلائے گئے ہیں تم سے پہلے بھی رسول، اور تمام کاموں کی باز گشت (لوٹنا) اللہ کی طرف ہے۔ (۴)
اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، پس دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے ، اور دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ سے ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (۵)
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے ، پس اسے دشمن (ہی) سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو بلاتا ہے ، تاکہ وہ جہنم والے ہوں۔ (۶)
جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے سخت عذاب ہے ، اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ (۷)
سو کیا جس کے لئے اس کا بُرا عمل آراستہ کیا گیا، پھر اس نے اس کو اچھا دیکھا (سمجھا) (کیا وہ نیکو کاروں جیسا ہو سکتا ہے ) پس بیشک جس کو اللہ چاہتا ہے گمراہ ٹھہراتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، پس تمہاری جان نہ جاتی رہے ان پر حسرت کر کے ، بیشک جو وہ کرتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے۔ (۸)
اور اللہ (ہی ہے ) جس نے بھیجا ہواؤں کو، پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں، پھر ہم اس (بادل) کو مردہ شہر کی طرف لے گئے ، پھر ہم نے اس سے زمین کو اس کے مرنے (بنجر ہو جانے ) کے بعد زندہ کیا، اسی طرح (مردوں کو روزِ حشر) جی اٹھنا ہے۔ (۹)
جو کوئی عزت چاہتا ہے تو تمام تر عزت اللہ کے لئے ہے ، اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام، اور اچھے عمل کو (اللہ) بلند کرتا ہے ، اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں، ان کے لئے سخت عذاب ہے ، اور ان لوگوں کی تدبیر اکارت جائے گی۔ (۱۰)
اور اللہ (ہی) نہ تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے ، پھر تمہیں جورے جوڑے بنایا، اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے ، اور نہ وہ جنتی ہے ، مگر اس کے علم میں ہے ، اور کوئی بڑی عمر والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر سے کمی کی جاتی ہے ٹگر (یہ سب) کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہے ہوا ہے ، یہ بیشک اللہ پر آسان ہے۔ (۱۱)
اور دونوں دریا برابر نہیں، یہ (ایک) شیریں ہے پیاس بجھانے والا، اس کا پینا بھی آسان، اور یہ (دوسرا) شور تلخ ہے ، اور ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو، اور (ان میں سے ) تم زیور (موتی) نکالتے ہو، جس کو تم پہنتے ہو، اور تو اس میں کشتیاں دیکھتا ہے کہ پانی کو چیرتی (ہوئی چلتی ہیں) تاکہ تم اس کے فضل سے روزی تلاش کرو، اور تاکہ تم شکر کرو۔ (۱۲)
وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، اور اس نے سورج اور چاند کو مسخرکیا، ہر ایک مقررہ وقت تک چلتا ہے ، یہی تمہارا پروردگار ہے ، اسی کے لئے بادشاہت، اور جن کو اس کو سوا پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے (کے برابر بھی) مالک نہیں۔ (۱۳)
اور تم ان کو پکارو تو وہ نہیں سنیں گے تمہاری پکار، اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری حاجت پوری نہ کرسکیں گے ، اور وہ روزِ قیامت تمہارے شرک کرنے کا انکار کریں گے ، اور تجھ کو خبر دینے والے (اللہ) کی مانند کوئی خبر نہ دے گا۔ (۱۴)
اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ بے نیاز سزاوارِ حمد ہے۔ (۱۵)
اگر وہ چاہے تم (سب کو) لے جائے (نابود کر دے ) اور نئی خلقت لے آئے۔ (۱۶) اور یہ نہیں ہے اللہ پر (کچھ) دشوار۔ (۱۷)
اور کوئی اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور کوئی بوجھ سے لدا ہوا (گنہگار کسی کو) اپنا بوجھ (اٹھانے) کے لئے بلائے تو وہ اس سے کچھ نہ اٹھائے گا، خواہ اس کے قرابت دار ہوں، آپ تو صرف ان کو ڈراتے (نصیحت کرسکتے ہیں) جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں بن دیکھے ، اور نماز قائم رکھتے ہیں، اور جو پاک ہوتا ہے وہ صرف اپنے لئے پاک صاف ہوتا ہے ، اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ (۱۸)
اور برابر نہیں اندھا اور آنکھوں والا، (۱۹) اور نہ اندھیرے اور نہ روشنی (برابر ہیں)۔ (۲۰) اور نہ سایہ اور نہ جھلستی ہوا۔ (۲۱)
اور برابر نہیں زندے (عالم) اور نہ مردے (جاہل) بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے ، اور تم (ان کو) سنانے والے نہیں جو قبروں میں ہیں۔ (۲۲) بلکہ تم صرف ڈرانے والے ہو۔ (۲۳)
بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، خوشخبری دینے والا اور ڈرسنانے والا، اور کوئی امت نہیں جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو۔ (۲۴)
اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں، تو تحقیق ان کے اگلے لوگوں نے بھی جھٹلایا، ان کے پاس ان کے رسول آئے ، روشن دلائل (نشانات) اور صحیفوں اور روشن کتابوں کے ساتھ۔ (۲۵)
پھر جن لوگوں نے کفر کیا میں نے انہیں پکڑا، پھر کیسا ہوا میرا عذاب۔ (۲۶)
کیا تو نے نہیں دیکھا؟ بے شک اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے پھل نکالے ، اور ان کے رنگ مختلف ہیں، اور پہاڑوں میں راستے (گھاٹیاں) ہیں سفید اور سرخ، ان کے رنگ مختلف ہیں، اور (کچھ) گہرے سیاہ رنگ کے۔ (۲۷)
اور اسی طرح لوگوں میں ا ور جانوروں اور چوپایوں میں، ان کے رنگ مختلف ہیں، اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے اس کے علم والے بندے (ہی) ڈرتے ہیں، بیشک اللہ غالب بخشنے والا ہے۔ (۲۸)
بیشک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں، اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں پوشیدہ اور ظاہر، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں (جس میں) ہرگز گھاٹا نہیں۔ (۲۹)
تاکہ اللہ انہیں ان کے اجر (و ثواب) پورے پورے دے اور انہیں (اور ) زیادہ دے اپنے فضل سے ، بیشک وہ بخشنے والا، قدر دان ہے۔ (۳۰)
ا ور وہ جو ہم نے تمہاری طرف کتاب بھیجی ہے ، وہ حق ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جوان کے پاس ہے ، بیشک اللہ اپنے بندوں سے خبر دار ہے ، دیکھنے والا ہے۔ (۳۱)
ہمیشگی کے باغات ہیں، جن میں وہ داخل ہوں گے ، ان میں کنگنوں کے زیور پہنائے جائیں گے سونے اور موتی کے ، اور ان میں ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔ (۳۳)
اور ان میں ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔ (۳۳)
اور وہ کہیں گے : تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس نے ہم سے غم دور کر دیا، بیشک ہمارا رب بخشنے والا ہے ، قدر
دان ہے۔ (۳۴)
وہ جس نے ہمیشہ رہنے کے گھر میں ہمیں اتارا اپنے فضل سے ، نہ اس میں ہمیں کوئی تکلیف پہنچے اور نہ ہمیں اس میں کوئی تھکاوٹ چھوئے۔ (۳۵)
ا ورجن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے جہنم کی آگ ہے ، نہ ان پر قضا آئے گی کہ وہ مر جائیں اور نہ ان سے ہلکا کیا جائے گا دوزخ کا کچھ عذاب، اسی طرح ہم ہر ناشکرے کو سزا دیتے ہیں۔ (۳۶)
اور دوزخ کے اندر چلائے جائیں گے : اے ہمارے پروردگار!ہمیں (یہاں سے ) نکال لے کہ ہم نیک عمل کریں، اس کے برعکس جو ہم کرتے تھے۔ کیا ہم نے تمہیں (اتنی) عمر نہ دی تھی کہ نصیحت پکڑلیتااس میں جسے نصیحت پکڑنی ہوتی، اور تمہارے پاس ڈرانے والا (بھی) آیا، سو (اب انکار کا مزہ) چکھو، ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں۔ (۳۷)
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جاننے و الا ہے ، بے شک وہ ان کے سینوں کے بھیدوں سے باخبر ہے۔ (۳۸)
وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا، سو جس نے کفر کیا تو اسی پر ہے اس کے کفر (کا وبال) اور کافروں کو ان کے رب کے نزدیک ان کا کفر غضب کے سوا کچھ نہیں بڑھاتا، اور کافروں کو نہیں بڑھاتا ان کا کفر خسارے کے سوا۔ (۳۹)
آپ فرما دیں کیا تم نے اپنے شریکوں کو دیکھا جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، تم مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین سے کیا پیدا کیا ہے ؟یا آسمانوں (کے بنانے میں) ان کا کیا ساجھا ہے ؟یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اس کی سند پر ہوں (سند رکھتے ہوں) بلکہ ظالم ایک دوسرے سے وعدہ نہیں کرتے دھوکے کے سوا۔ (۴۰)
بے شک اللہ نے تھام رکھا ہے آسمانوں کو اور زمین کو کہ وہ ٹل (نہ) جائیں، اور اگر وہ ٹل جائیں تو انہیں اس کے بعد کوئی بھی نہیں تھامے گا، بیشک وہ بردبار، بخشنے والا ہے۔ (۴۱)
اور انہوں نے (مشرکین مکہ نے ) اللہ کی بڑی سخت قسمیں کھائیں کہ اگر انکے پاس کوئی ڈرانے والا آئے وہ ضرور زیادہ ہدایت پانے والے ہوں گے (دنیا کی) ہر ایک امت سے (بڑھ کر) ، پھر جب ان کے پاس ایک نذیر آیا تو ان کے بدکنے کے سوا (اور کچھ) زیادہ نہ ہوا۔ (۴۲)
دنیا میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کے سبب اور بری چال (کے سبب) اور بری چال (کا وبال) صرف اس کے کرنے والے پر پڑتا ہے ، تو کیا وہ صرف پہلوں کے دستور کا انتظار کر رہے ہیں، سوتم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ، اور تم اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تغیر نہ پاؤ گے۔ (۴۳)
کیا وہ دنیا میں چلے پھرے نہیں کہ وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا، اور قوت میں ان سے زیادہ تھے ، اور اللہ (ایسا) نہیں کہ کوئی شے آسمانوں میں اس کو عاجز کر دے ، اور نہ زمین میں (کوئی شے اسے ہرا سکتی ہے ) بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔ (۴۴)
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب پکڑے تو وہ نہ چھوڑے کوئی چلنے پھرنے والا اس کی پشت پر، لیکن وہ انہیں ایک مدت معین تک ڈھیل دیتا ہے ، پھر جب آ جائے گی، ان کی مدت (ان کے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا) بیشک اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔ (۴۵)
٭٭
۳۶۔ سورۃ یٰسٓ
مکیۃ
آیات۸۳ رکوعات:۵
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
يٰسٓ (۱) قسم ہے با حکمت قرآن کی (۲) بیشک آپ رسولوں میں سے ہیں (۳) سیدھے راستہ پر ہیں (۴) نازل کیا ہوا غالب، مہربان کا (۵)
تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں، جس کے باپ دادا نہیں ڈرائے گئے ، پس وہ غافل ہیں تحقیق ان میں سے اکثر پر (اللہ کی) بات ثابت ہو چکی ہے ، پس وہ ایمان نہ لائیں گے۔ (۷)
بیشک ہم نے ان کی گردنوں میں ڈالے ہیں طوق، پھر تھوڑی تک (اڑ گئے ہیں) تو ان کے سر الل رہے ہیں۔ (۸)
اور ہم نے کر دی ان کے آگے ایک دیوار اور ان کے پیچھے ایک دیوار، پھر ہم نے انہیں ڈھانپ دیا، پس وہ دیکھتے نہیں۔ (۹)
اور برابر ہے ان کے لئے خواہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان نہ لائیں گے۔ (۱۰)
اس کے سوا نہیں کہ تم (اس کو) ڈراتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے ، اور بن دیکھے اللہ سے ڈرے ، پس اسے بخشش اور اچھے اجر کی خوشخبری ہو۔ (۱۱)
بیشک ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں، ہم ان کے عمل اور ان کے نشانات لکھتے ہیں (جو وہ چھوڑ گئے ہیں) اور ہر شے کو ہم نے لوح محفوظ میں شمار کر رکھا ہے۔ (۱۲)
اور ان کے لئے بستی والوں کا قصہ بیان کریں، جب ان کے پاس رسول آئے۔ (۱۳)
جب ہم نے ان کی طرف دو (رسول) بھیجے تو انہوں نے انہیں جھٹلایا، پھر ہم نے تیسرے سے تقویت دی، پس انہوں نے کہا بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ (۱۴)
وہ بولے تم محض ہم جیسے آدمی ہو، اور نہیں اتارا اللہ نے کچھ بھی، تم محض جھوٹ بولتے ہو۔ (۱۵)
انہوں نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے بیشک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ (۱۶) اور ہم پر (ہمارے ذمے ) نہیں مگر (صرف) صاف صاف پہنچا دینا۔ (۱۷)
وہ کہنے لگے ہم نے منحوس پایا تمہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور تمہیں ہم سے دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔ (۱۸)
انہوں نے کہا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے کیا تم (اس کو نحوست سمجھتے ہو) کہ تم سمجھائے گئے ہو، بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔ (۱۹)
اور شہر کے پرلے سرے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا اے میری قوم! تم رسولوں کی پیروی کرو۔ (۲۰)
تم ان کی پیروی کرو، جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے ، اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ (۲۱)
اور مجھے کیا ہوا (میرے پاس کیا عذر ہے ) کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا، اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ (۲۲)
کیا میں اس کے سوا ایسے معبود بنا لوں اگر اللہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش میرے کام نہ آئے کچھ بھی، اور نہ وہ مجھے چھڑا سکیں۔ (۲۳) بیشک میں اس وقت کھلی گمراہی میں ہوں گا۔ (۲۴)
بیشک میں تمہارے پروردگار پر ایمان لایا پس تم میری سنو۔ (۲۵)
(اس شہید کو) ارشاد ہوا تو جنت میں داخل ہو جا، اس نے کہا اے کاش! میری قوم جانتی۔ (۲۶) اس بات کو کہ مجھے بخش دیا میرے رب نے اور اس نے مجھے (اپنے ) نوازے ہوئے لوگوں میں سے کیا۔ (۲۷)
اور ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر (فرشتوں کا) کوئی لشکر نہیں اتارا آسمان سے ، اور ہم اتارنے والے ہی نہ تھے۔ (۲۸)
(ان کی سزا) نہ تھی مگر ایک چنگھاڑ، پس وہ اچانک بجھ کر رہ گئے۔ (۲۹)
اے وائے ! بندوں پر کہ ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر وہ اس کی ہنسی اڑاتے تھے۔ (۳۰)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہم نے ان سے قبل کتنی بستیاں ہلاک کیں کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (۳۱)
اور (کوئی ایسا) نہیں مگر سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے۔ (۳۲)
اور مردہ زمین ان کے لئے ایک نشانی ہے ، ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس سے اناج نکالا، پس وہ اس سے کھاتے ہیں۔ (۳۳)
اور ہم نے اس میں باغات بنائے (لگائے ) کھجور اور انگور کے ، اور ہم نے اس میں چشمے جاری کئے۔ (۳۴)
تاکہ وہ اس کے پھلوں سے کھائیں، اور اسے ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، تو کیا وہ شکر نہ کریں گے ؟ (۳۵)
پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے اس (قبیل) سے جو زمین اگاتی ہے (نباتات) اور خود انکی جانوں (انسانوں میں سے ) ا ور ان میں سے جنہیں وہ (خود بھی) نہیں جانتے۔ (۳۶)
اور ان کے لئے رات ایک نشانی ہے ہم دن کو اس سے کھینچ (نکالتے ) ہیں تو وہ اچانک اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ (۳۷)
اور سورج اپنے مقررہ راستہ پر چلتا رہتا ہے ، یہ اللہ غالب و دانا کا اندازہ (مقرر کردہ) ہے۔ (۳۸)
اور چاند کے لئے ہم نے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے (پہلی کا باریک چاند)۔ (۳۹)
نہ سورج کی مجال کے چاند کو جا پکڑے اور نہ رات پہلے آسکے دن سے ، اور سب اپنے دائرہ میں گردش کرتے ہیں۔ (۴۰)
ا ور ان کے لئے ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو سوار کیا بھری ہوئی کشتی میں۔ (۴۱) اور ہم نے ان کے لئے اس کشتی جیسی (اور چیزیں) پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔ (۴۲)
ا ور اگر ہم چاہیں تو ہم انہیں غرق کر دیں تو نہ (کوئی) ان کے لئے فریادرس (ہو) اور نہ وہ چھڑائے جائیں۔ (۴۳) مگر (یہ کہ) ہماری رحمت سے (ہو) اور ایک وقت معین تک فائدہ دینا (منظور ہے )۔ (۴۴)
اور جب ان سے کہا جائے گا تم (اس عذاب سے ) ڈرو جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے ، شاید تم پر رحم کیا جائے۔ (۴۵)
اور ان کے پاس ان کے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی نہیں آتی مگر وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ (۴۶)
ا ور جب ان سے کہا جائے کہ جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو تو کافر مؤمنوں سے کہتے ہیں کیا ہم اسے کھانے کو دیں جسے اگر اللہ چاہتا تو اسے کھانے کو دیتا، تم صرف کھلی گمراہی میں ہو۔ (۴۷)
اور وہ (کافر) کہتے ہیں کب (پورا ہو گا) یہ وعدۂ (قیامت) اگر تم سچے ہو۔ (۴۸)
وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں مگر ایک چنگھاڑ (صور کی تند آواز) کی، جو انہیں آ پکڑے گی اور وہ باہم جھگڑ رہے ہوں گے۔ (۴۹)
پھر نہ وہ وصیت کرسکیں گے ا ورنہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ سکیں گے۔ (۵۰)
اور ( دوبارہ) پھونکا جائے گا صور، تو وہ یکایک قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑیں گے۔ (۵۱)
وہ کہیں گے اے وائے ہم پر ! ہمیں کس نے اٹھا دیا ہماری قبروں سے ، یہ ہے وہ جو اللہ رحمن نے وعدہ کیا تھا، اور رسولوں نے سچ کہا تھا۔ (۵۲)
(یہ) نہ ہو گی مگر ایک چنگھاڑ، پس یکایک وہ سب ہمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ (۵۳)
پس آج نا انصافی نہ کی جائے گی کسی شخص سے کچھ (بھی) اور جو تم کرتے تھے پس اسی کا بدلہ پاؤ گے۔ (۵۴)
بے شک آج اہل جنت ایک شغل میں خوش طبعی کرتے ہوں گے۔ (۵۵)
وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے (بیٹھے ) ہوں گے۔ (۵۶)
ان کے لئے اس (جنت) میں (ہر قسم کا) میوہ ہے ، اور جو وہ چاہیں گے ان کے لئے (موجود ہو گا) مہربان پروردگار کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا۔ (۵۸)
اور اے مجرمو! آج الگ ہو جاؤ۔ (۵۹)
اے اولاد آدم! کیا میں نے تمہاری طرف حکم نہیں بھیجا تھا کہ تم پرستش نہ کرنا شیطان کی، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن
اور یہ کہ تم میری عبادت کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔ (۶۱)
اور تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا، سو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ (۶۲)
یہ ہے وہ جہنم جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ (۶۳)
تم جو کفر کرتے تھے اس کے بدلے آج اس میں داخل ہو جاؤ۔ (۶۴)
آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے ، اور ہم سے ان کے ہاتھ بولیں گے ، اور (اس کی) ان کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔ (۶۵)
اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھیں ملیا میٹ کر دیں، پھر وہ راستہ کی طرف سبقت کریں (دوڑیں) تو انہیں کہاں سوجھے۔ (۶۶)
اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہوں میں (ان کے گھر بیٹھے ) مسخ کر دیں (ان کی شکلیں) پھر وہ نہ چل سکیں، اور نہ لوٹ سکیں۔ (۶۷)
اور ہم جس کی عمر دراز کر دیتے ہیں اسے پیدائش میں اوندھا کر دیتے ہیں تو کیا وہ سمجھتے نہیں؟ (۶۸)
اور ہم نے اس کو (آپ کو) شعر نہیں سکھایا، اور یہ آپ کی شایان نہیں تھا، یہ نہیں مگر (کتاب) نصیحت اور واضح قرآن۔ (۶۹)
تاکہ آپ (اس کو) ڈرائیں جو زندہ ہو اور کافروں پر حجت ثابت ہو جائے۔ (۷۰)
یا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے جو (چیزیں) اپنی قدرت سے بنائیں، ان سے ان کے لئے پیدا کئے چوپائے پس وہ ان کے مالک ہیں۔ (۷۱)
اور ہم نے ان (چوپایوں ) کو ان کا فرمانبردار کیا، پس ان میں سے (بعض) ان کی سواری ہیں اور ان میں سے بعض کو وہ کھاتے ہیں۔ (۷۲)
اور ان میں ان کے لئے (بہت سے ) فائدے اور پینے کی چیزیں ہیں کیا پھر وہ شکر نہیں کرتے ؟ (۷۳)
اور انہوں نے بنا لئے اللہ کے سوا اور معبود (اس خیال باطل سے کہ) شائد وہ مدد کئے جائیں۔ (۷۴)
وہ ان کی مدد نہیں کرسکتے ، اور وہ ان کے لئے (مجرم) لشکر (کی شکل میں) حاضر کئے جائیں گے۔ (۷۵)
پس آپ کو ان کی بات مغموم نہ کرے ، بیشک ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (۷۶)
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفہ سے پیدا کیا؟ اور پھر ناگہاں وہ ہوا جھگڑالو کھلا۔ (۷۷)
اور اس نے ہمارے لئے ایک مثال چسپاں کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا کون ہڈیوں کو پیدا کرے گا جبکہ وہ گل گئی ہوں گی۔ (۷۸)
آپ فرما دیں اسے وہ زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا، اور وہ ہر طرح سے پیدا کرنا جانتا ہے۔ (۷۹)
جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی، پس اب تم اس سے (آگ) سلگاتے ہو۔ (۸۰)
وہ جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسا پیدا کرے ہاں (کیوں نہیں) وہ بڑا پیدا کرنے والا ہے۔ (۸۱)
اس کا کام اس کے سوا نہیں کہ وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو ہ اس کوکہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ (۸۲)
سو پاک ہے وہ (ذات واحد) جس کے ہاتھ میں ہر شے کی بادشاہت ہے ، اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۸۳)
٭٭
۳۷۔ سورۃ الصّٰٓفّٰت
مکیۃ
آیات۱۸۲ رکوعات:۵
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
قسم ہے پرا جما کر صف باندھنے والے (فرشتوں) کی۔ (۱) پھر جھڑک کر ڈانٹنے والوں کی۔ (۲) پھر قرآن تلاوت کرنے والوں کی۔ (۳)
بیشک تمہارا معبود ایک ہی ہے۔(۴)
بیشک ہم نے مزین کیا آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے۔ (۶)
اور ہرسرکش شیطان سے محفوظ کیا۔ (۷)
اور ملائے اعلی (اوپر کی مجلس) کی طرف کان نہیں لگا سکتے ، ہر طرف سے بھگانے کو (انگارے ) مارے جاتے ہیں۔ (۸)
اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے۔ (۹)
سوائے اس کے جو اچک کر لے بھاگا تو اس کے پیچھے ایک دہکتا ہوا انگارا لگا۔ (۱۰)
پس ان سے پوچھیں کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے ، یا جو (مخلوق) ہم نے پیدا کی؟بیشک ہم نے انہیں چپکتی ہوئی مٹی (گارے ) سے پیدا کیا۔ (۱۱)
بلکہ آپ نے (ان کی حالت پر) تعجب کیا، اور وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ (۱۲)
اور جب نصیحت کی جائے تو وہ نصیحت قبول نہیں کرتے۔ (۱۳)
اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو وہ ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔ (۱۴)
اور انہوں نے کہا یہ تو صرف کھلا جادو ہے۔ (۱۵)
کیا جب ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈیاں ہو گئے ؟کیا ہم پھر اٹھائے جائیں گے ؟ (۱۶)
کیا ہمارے پہلے باپ دادا ( بھی) ؟ (۱۷)
آپ فرما دیں ہاں! اور تم ذلیل و خوار ہو گے۔ (۱۸)
پس اس کے سوا نہیں کہ وہ ایک للکار ہو گی، پس ناگہاں وہ دیکھنے لگیں گے۔ (۱۹)
اور وہ کہیں گے ، ہائے ہماری خرابی ! یہ بدلے کا دن ہے۔ (۲۰)
یہ فیصلہ کا دن ہے ، وہ جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (۲۱)
تم ظالموں کو اور ان کے ساتھیوں کو جمع کرو جس کی وہ پرستش کرتے تھے۔ (۲۲)
اللہ کے سوا، پس تم ان کو جہنم کا راستہ دکھاؤ۔ (۲۳)
اور ان کو ٹھہراؤ، بیشک ان سے پُرسش ہو گی۔ (۲۴)
تمہیں کیا ہوا؟تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ (۲۵)
بلکہ وہ آج سرجھکائے فرمانبردار (اپنے آپ کو پکڑواتے ) ہیں۔ (۲۶)
اور ان میں سے ایک دوسرے کی طرف باہم سوال کرتے ہوئے رخ کرے گا۔ (۲۷)
وہ کہیں گے (نہیں) بلکہ تم ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۲۹)
اور ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا، بلکہ تم ایک سرکش قوم تھے۔ (۳۰)
پس ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہو گئی، بیشک ہم البتہ (مزہ) چکھنے والے ہیں۔ (۳۱)
پس ہم نے تمہیں بہکایا، بیشک ہم خود گمراہ تھے۔ (۳۲)
بیشک وہ اس دن عذاب میں (بھی) شریک رہیں گے۔ (۳۳)
بیشک ہم اسی طرح کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ۔ (۳۴)
بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (تو) وہ تکبر کرتے تھے۔ (۳۵)
وہ کہیں گہ بیشک تم ہم پر دائیں طرف سے (بڑے زور سے ) آتے تھے۔ (۲۸)
اور وہ کہتے ہیں کیا ہم اپن معبودوں کو چھوڑ دیں؟ ایک شاعر، دیوانے کی خاطر۔ (۳۶)
بلکہ وہ حق کے ساتھ آئے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں رسولوں کی۔ (۳۷)
بیشک تم درد ناک عذاب ضرور چکھنے والے ہو۔ (۳۸)
اور تمہیں بدلہ نہ دیا جائے گا مگر (اس کے مطابق) جو تم کرتے تھے۔ (۳۹)
(ہاں) مگر اللہ کے خاص کئے ہوئے (چنے ہوئے ) بندے۔ (۴۰)
ان کے لئے رزق معلوم (مقرر) ہے۔(۴۱)(یعنی) میوے ، اور اعزاز والے ہوں گے۔ (۴۲)
نعمت کے باغات میں۔ (۴۳)
تختوں پر آمنے سامنے۔ (۴۴)
دورہ ہو گا ان کے آگے بہتے ہوئے (صاف) مشروب کے جام کا۔ (۴۵)
سفید رنگ کا، پینے والوں کے لئے لذت (دینے والا)۔ (۴۶)
نہ اس میں درد سر ہو گا اور نہ وہ اس سے بہکی بہکی باتیں کریں گے۔ (۴۷)
اور ان کے پاس ہوں گی نیچی نگاہ والیاں، بڑی بڑی آنکھوں والیاں۔ (۴۸)
گویا وہ انڈے ہیں پوشیدہ رکھے ہوئے۔ (۴۹)
پھر ان میں سے ایک دوسرے کی طرف باہم سوال کرتے ہوئے رخ کرے گا۔ (۵۰)
ان میں سے ایک کہنے والا کہے گا بیشک (دنیا میں ) میرا ایک ہم نشین تھا۔ (۵۱)
وہ کہا کرتا تھا :کیا تو (قیامت کو) سچ ماننے والوں میں سے ہے ؟ (۵۲)
کیا جب ہم مر گئے اور ہم ہو گئے مٹی اور ہڈیاں، کیا ہمیں بدلہ دیا جائے گا؟ (۵۳)
وہ کہے گا کیا تم جھانکنے والے ہو (دوزخی کو جھانک کر دیکھ سکتے ہو؟) (۵۴)
تو وہ جھانکے گا تو اسے دیکھے گا دوزخ کے درمیان میں۔ (۵۵)
وہ کہے گا اللہ کی قسم !قریب تھا کہ تو مجھے ہلاک کر ڈالے۔ (۵۶)
اور اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں ضرور (عذاب کے لئے ) حاضر کئے جانے والوں میں ہوتا۔ (۵۷)
پس پہلی موت کے سوائے ہم مرنے والوں میں سے نہیں (آئندہ ہم پر کوئی موت نہ آئے گی) اور نہ ہم عذاب دئے جانے والوں میں سے ہوں گے۔ (۵۸، ۵۹)
بیشک یہی ہے بڑی کامیابی۔ (۶۰)
پس اس جیسی نعمت کے لئے چاہئیے ضرور عمل کریں عمل کرنے والے۔ (۶۱)
کیا یہ بہتر ضیافت ہے ، یا تھوہر کا درخت؟ (۶۲)
بیشک ہم نے اس کو ایک آزمائش بنایا ہے ظالموں کے لئے۔ (۶۳)
بیشک وہ ایک درخت ہے جہنم کی جڑ (گہرائی) میں نکلتا ہے۔ (۶۴)
اس کا خوشہ گویا کہ وہ شیطانوں کا سر (سانپوں کا پھن) ہے۔ (۶۵)
بیشک وہ اس سے کھائیں گے ، سو اس سے پیٹ بھریں گے۔ (۶۶)
پھر بیشک اس (کھانے ) پر ان کے لئے کھولتا ہوا پانی (پیپ) ملا ملا کر (دیا جائے گا)۔ (۶۷)
پھر ان کی بازگشت جہنم ہی کی طرف ہو گی۔ (۶۸)
بیشک انہوں نے اپنے باپ دادا کو گمراہ پایا تھا۔ (۶۹)
سو ان کے نقش قدم پر دوڑے جاتے تھے۔ (۷۰)
اور تحقیق ان سے پہلے گمراہ ہوئے تھے (ان کے ) اگلوں میں سے اکثر۔ (۷۱)
اور تحقیق ہم نے ان میں ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے۔ (۷۲)
سو دیکھیں کیسا ہوا ان کا انجام جنہیں ڈرایا گیا تھا؟ (۷۳)
(ہاں) مگر اللہ کے خاص کئے ہوئے بندے (بندگانِ خاص کا انجام کتنا اچھا ہوا)۔ (۷۴)
اور تحقیق نوح نے ہمیں پکارا سو ہم خوب دعا قبول کرنے والے ہیں۔ (۷۵)
اور ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی مصیبت سے نجات دی۔ (۷۶)
اور ہم نے کیا اس کی اولاد کو باقی رہنے والی۔ (۷۷)
اور ہم نے اس کا (ذکر خیر) بعد میں آنے والوں میں چھوڑا۔ (۷۸)
نوح پر سلام ہو سارے جہانوں میں۔ (۷۹)
بیشک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیتے ہیں۔ (۸۰)
بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۸۱)
پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا۔ (۸۲)
اور بیشک ابراہیم اسی کے طریقے پر چلنے والوں میں سے تھے۔ (۸۳)
جب وہ اپنے رب کے پاس آئے صاف دل کے ساتھ، (عیب سے پاک دل کے ساتھ)۔ (۸۴)
(یاد کرو) جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا :تم کس (واہیات) چیز کی پرستش کرتے ہو؟ (۸۵)
کیا تم اللہ کے سوا جھوٹ موٹ کے معبود چاہتے ہو؟ (۸۶)
سو تمام جہانوں کے پروردگار کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے ؟ (۸۷)
پھر اس نے ستاروں کو ایک نظر دیکھا۔ (۸۸)
تو اس نے کہا بیشک میں بیمار ہو جاؤں گا۔ (۸۹)
پس وہ پیٹھ پھیر کر اس سے پھر گئے۔ (۹۰)
پھر وہ ان کے معبودوں میں چھپ کر گھس گیا، پھر وہ (بطورتمسخر) کہنے لگا کیا تم کھاتے نہیں۔ (۹۱)
تمہیں کیا ہوا، تم بولتے نہیں؟ (۹۲) پھر پوری قوت سے مارتا ہوا ان پر جا پڑا۔ (۹۳)
پھر وہ (بت پرست) متوجہ ہوئے اس کی طرف دوڑتے ہوئے (آئے ) (۹۴)
اس نے فرمایا کیا تم (انکی) پرستش کرتے ہو جو تم خود تراشتے ہو۔ (۹۵)
حالانکہ اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم کرتے (بناتے ) ہو۔ (۹۶)
انہوں نے (ایک دوسرے کو) کہا: اس کے لئے ایک عمارت (آتش خانہ) بناؤ، پھر اسے آگ میں ڈال دو۔ (۹۷)
پھر انہوں نے اس پر داؤ کرنا چاہا تو ہم نے انہیں زیر تر کر دیا۔ (۹۸)
اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے بھی راہ دکھائے گا۔ (۹۹)
اے میرے رب! مجھے صالح (روحوں) میں سے (نیک اولاد) عطا فرما۔ (۱۰۰)
پس ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔ (۱۰۱)
پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے (کی عمر کو) پہنچا تو ابراہیم نے کہا اے میرے بیٹے ! بیشک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے ؟ اس نے کہا اے میرے ابا جان ! آپ کو جو حکم کیا جاتا ہے وہ کریں، آپ مجھے جلد ہی پائیں گے انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) صبر کرنے والوں میں سے۔ (۱۰۲)
پس جب دونوں نے حکم (الہٰی) مان لیا، باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا۔ (۱۰۳)
ا ور ہم نے اس کو پکارا کہ اے ابراہیم! تو نے خواب کو سچ کر دکھایا، بیشک ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں۔ (۱۰۵)
بیشک یہ البتہ کھلی آزمائش (بڑا امتحان تھا)۔ (۱۰۶)
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ (قربانی کو) اس کے عوض دیا۔ (۱۰۷)
اور ہم نے اس کا ذکر خیر بعد میں آنے والوں میں باقی رکھا۔ (۱۰۸)
سلام ہو ابراہیم پر۔ (۱۰۹) اسی طرح ہم نیکو کاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ (۱۱۰)
بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۱۱۱)
اور ہم نے اسے بشارت دی اسحاق کی (کہ وہ) ایک نبی (اور ) نیک بختوں میں سے ہو گا۔ (۱۱۲)
اور ہم نے اس پر برکت نازل کی اور اسحاق پر، اور ان دونوں کی اولاد میں نیکو کار (بھی ہیں) اور اپنی جان پر صریح
ظلم کرنے والے (بھی)۔ (۱۱۳)
اور تحقیق ہم نے موسیٰ پر اور ہارون پر احسان کیا۔ (۱۱۴)
اور ہم نے ان دونوں کواور ان کی قوم کو بڑے غم (فرعون کے مظالم) سے نجات دی۔ (۱۱۵) اور ہم نے ان کی مدد کی تو وہی غالب رہے۔ (۱۱۶)
اور ہم نے ان دونوں کو واضح کتاب دی۔ (۱۱۷)
اور ان دونوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دی۔ (۱۱۸)
اور ہم نے ان دونوں کا ذکر خیر بعد میں آنے والوں میں باقی رکھا۔ (۱۱۹)
سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر۔ (۱۲۰)
بیشک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیتے ہیں۔ (۱۲۱)
بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۱۲۲)
اور بیشک الیاس رسولوں میں سے تھے۔ (۱۲۳)
(یاد کرو) جب اس نے اپنی قوم سے کہا:کیا تم (اللہ سے ) نہیں ڈرتے ؟ (۱۲۴)
کیا تم بعل (بت) کو پکارتے ہو، اور تم سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو چھوڑتے ہو۔ (۱۲۵)
(یعنی) اللہ کو (جو) تمہارا بھی رب ہے اور تمہارے پہلے باپ دادا کا (بھی) رب ہے۔ (۱۲۶)
پس انہوں نے جھٹلایا تو بیشک وہ ضرور حاضر کئے جائیں گے (پکڑے جائیں گے )۔ (۱۲۷)
اللہ کے مخلص (خاص بندوں) کے سوا۔ (۱۲۸)
اور ہم نے اس کا ذکر باقی رکھا بعد میں آنے والوں میں۔ (۱۲۹)
سلام ہو الیاس پر۔ (۱۳۰)
بیشک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ (۱۳۱)
بیشک وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے۔ (۱۳۲)
اور بیشک لوط رسولوں میں سے تھے۔ (۱۳۳)
(یاد کرو) جب ہم نے دی اسے نجات اور اس کے سب گھر والوں کو۔ (۱۳۴)
پیچھے رہ جانے والوں میں سے ایک بڑھیا کے سوا۔ (۱۳۵)
پھر ہم نے اور سب کو ہلاک کیا۔ (۱۳۶)
اور بیشک تم تو صبح ہوتے اور رات میں ان پر (ان کی بستیوں سے ) گزرتے ہو، تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (۱۳۷۔ ۱۳۸)
اور بیشک یونس البتہ رسولوں میں سے تھے۔ (۱۳۹)
جب وہ بھاگ کر بھری ہوئی کشتی (کے پاس) گئے۔ (۱۳۹)
تو قرعہ ڈالا سو وہ ہوئے دھکیلے گئے (ملزم ٹھہرے )۔ (۱۴۱)
پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ (اپنے آپ کو) ملامت کر رہے تھے۔ (۱۴۲)
پھر اگر و ہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے۔ (۱۴۳)
تو اس کے پیٹ میں قیامت کے دن تک رہتے۔ (۱۴۴)
پھر ہم نے انہیں چٹیل میدان میں پھینک دیا اور وہ بیمار تھے۔ (۱۴۴)
اور ہم نے اگایا ان پر ایک بیلدار (کدو کا) پودا۔ (۱۴۶)
اور ہم نے انہیں ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کی طرف بھیجا۔ (۱۴۷)
سو وہ لوگ ایمان لائے ، اور ہم نے انہیں ایک مدت تک کے لئے بہرہ مند کیا۔ (۱۴۸)
پس ان سے پوچھیں کیا تیرے رب کے لئے بیٹیاں ہیں اور ان کے لئے بیٹے ہیں۔ (۱۴۹)
کیا ہم نے فرشتوں کو عورت (ذات) پیدا کیا ہے ؟ اور وہ دیکھ رہے ہیں۔ (۱۵۰)
یاد رکھو بیشک وہ بہتان طرازی سے کہتے ہیں۔ (۱۵۱)
(کہ) اللہ صاحب اولاد ہے ، اور وہ بیشک بالتحقیق جھوٹے ہیں۔ (۱۵۲)
کیا اس نے بیٹیوں کو بیٹوں پر پسند کیا ہے ؟ (۱۵۳)
تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو۔ (۱۵۴)
تو کیا تم غور نہیں کرتے ؟ (۱۵۵)
کیا تمہارے پاس کوئی کھلی سند ہے ؟ (۱۵۶)
تو اپنی وہ کتاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (۱۵۷)
اور انہوں نے اس کے اور جنات کے درمیان ایک رشتہ ٹھہرایا، اور تحقیق جان لیا جنات نے کہ بیشک وہ (عذاب میں) حاضر (گرفتار) کئے جائیں گے۔ (۱۵۸)
اللہ اس سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۱۵۹)
سوائے اللہ کے چنے ہوئے بندے۔ (۱۶۰)
تو بیشک تم اور وہ جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ (۱۶۱) وہ اس کے (اللہ کے ) خلاف (کسی کو) نہیں بہکا سکتے ، (۱۶۲)
اس کے سوا جو جہنم میں جانے والا ہے۔ (۱۶۳)
اور (فرشتوں نے کہا) ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا ایک معین درجہ نہ ہو۔ (۱۶۴)
اور بیشک ہم ہی صف بستہ رہنے والے ہیں۔ (۱۶۵)
اور بیشک ہم ہی تسبیح کرنے والے ہیں۔ (۱۶۸)
اور بیشک وہ کہا کرتے تھے۔ (۱۶۷)
اگر ہمارے پاس ہوتی پہلے لوگوں کی کوئی (کتابِ) نصیحت، تو ہم ضرور اللہ کے منتخب بندوں میں ہوتے۔ (۱۶۹)
پھر انہوں نے اس کا انکار کیا تو ہ عنقریب (اس کا انجام) جان لیں گے۔ (۱۷۰)
اور ہمارا وعدہ اپنے بندوں (یعنی) رسولوں کے لئے پہلے (ہی) صادر ہو چکا ہے۔ (۱۷۱)
بیشک وہی فتح مند ہوں گے۔ (۱۷۲)
اور بیشک البتہ ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا۔ (۱۷۳)
پس ایک وقت تک (تھوڑا عرصہ) ان سے اعراض کریں۔ (۱۷۴)
اور انہیں دیکھتے رہیں پس عنقریب وہ (اپنا انجام) دیکھ لیں گے۔ (۱۷۸)
تو کیا وہ ہمارے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں۔ (۱۷۶)
تو جب وہ ان کے میدان میں نازل ہو گا تو ان کی صبح بری ہو گی، جنہیں ڈرایا جا چکا۔ (۱۷۷)
اور ایک مدت تک (تھوڑا عرصہ) ان سے اعراض کریں۔ (۱۷۸)
اور دیکھتے رہیں پس عنقریب وہ (اپنا انجام) دیکھ لیں گے۔ (۱۷۹)
پاک ہے تمہارا رب، عزت والا رب اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۱۸۰)
اور سلام ہو رسولوں پر۔ (۱۸۱)
اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (۱۸۲)
٭٭
۳۸۔ سورۃ صٓ
مکیۃ
آیات۸۸ رکوعات:۵
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
صاد، نصیحت دینے والے قرآن کی قسم! (آپ کی دعوت بر حق ہے )۔ (۱)
بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ گھمنڈ اور مخالفت میں ہیں۔ (۲)
کتنی ہی امتیں ان سے قبل ہم نے ہلاک کر دیں تو وہ فریاد کرنے لگے اور (اب) چھٹکارے کا وقت نہ تھا۔ (۳)
اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس ان میں سے ایک ڈرانے والا آیا، اور کافروں نے کہا یہ جادوگر، جھوٹا ہے۔ (۴)
کیا اس نے سارے معبودوں کو بنا دیا ہے ایک معبود، بیشک یہ تو ایک بڑی عجیب بات ہے۔ (۵)
اور ان کے کئی سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور معبودوں پر جمے رہو، بیشک یہ کوئی اس کے مطلب کی بات ہے۔ (۶)
ہم نے پچھلے مذہب میں ایسی بات نہیں سنی یہ تو محض من گھڑت ہے۔ (۷)
کیا ہم میں سے اسی پر کلام اللہ کا نازل کیا گیا ہے ؟ (ہاں) بلکہ وہ شک میں ہیں میری نصیحت سے ، بلکہ (ابھی) انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا۔ (۸)
کیا تمہارے رب کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں؟ جو غالب، بہت عطا کرنے والا ہے۔ (۹)
کیا ان کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی اور جو ان کے درمیان ہے ، تو وہ (آسمانوں پر) چڑھ جائیں رسیاں تان کر۔ (۱۰)
شکست خوردہ گروہوں میں سے یہاں بھی ایک لشکر ہے۔ (۱۱)
ان سے پہلے جھٹلایا قوم نوح نے اور عاد اور میخوں والے فرعون۔ (۱۲)
اور ثمود اور قوم لوط اور ایکہ والوں نے ، یہی وہ گروہ ہیں۔ (۱۳)
ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا، پس (ان پر) عذاب آ پڑا۔ (۱۴)
اور انتظار نہیں کرتے یہ لوگ، مگر ایک چنگھاڑ کا، جس میں کوئی ڈھیل (گنجائش) نہ ہو گی۔ (۱۵)
اور انہوں نے (مذاق طور پر) کہا اے ہمارے رب ہمیں جلدی دے ہمارا حصہ روزِ حساب سے پہلے۔ (۱۶)
جو وہ کہتے ہیں اس پر آپ صبر کریں، اور یاد کریں ہمارے بندے داؤد قوت والے کو، بیشک وہ خوب رجوع کرنے والا تھا۔ (۱۷)
بیشک ہم نے پہاڑ اس کے لئے مسخر کر دئیے تھے ، وہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے۔ (۱۸)
اور اکھٹے کئے ہوئے پرندے (بھی اس کے مسخر تھے ) سب اسی کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ (۱۹)
اور ہم نے اس کی بادشاہت مضبوط کی اور اس کو حکمت دی اور فیصلہ کن خطاب۔ (۲۰)
اور کیا آپ کے پاس جھگڑنے والوں (اہل مقدمہ) کی خبر پہنچی ؟جب وہ دیوار پھاند کر مسجد میں آ گئے۔ (۲۱)
ان لوگوں نے کہا ڈرو نہیں ہم دو جھگڑنے والے (اہل مقدمہ) ہیں ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے تو آپ ہمارے درمیان فیصلہ کر دیں حق کے ساتھ، اور بے انصافی نہ کریں، اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کریں۔ (۲۲)
بیشک میرے اس بھائی کے پاس نناوے دنبیاں ہیں ا ور میرے پاس (صرف) ایک دنبی ہے ، پس اس نے کہا وہ (بھی) میرے حوالے کر دے ، اور اس نے مجھے گفتگو میں دبایا ہے۔ (۲۳)
داؤد نے کہا واقعی اس نے تیری دنبی مانگ کر ظلم کیا ہے (کہ) اپنی دنبیوں کے ساتھ ملا لے ، اور بیشک اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کیا کرتے ہیں، سوائے ان کو جو ایمان لائے ، اور انہوں نے نیک عمل کئے اور (ایسے لوگ) بہت کم ہیں، اور داؤد نے خیال کیا کہ ہم نے کچھ اسے آزمایا ہے تو اس نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی، اور جھک کر (سجدے میں) گر گیا، اور اس نے رجوع کیا۔ (۲۴)
پس ہم نے بخش دی اس کی یہ ( لغزش) اور بیشک اس کے لئے ہمارے پاس قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ (۲۵)
اے داؤد! بے شک ہم نے تجھے بنایا زمین (ملک) میں نائب، سوتو لوگوں کے درمیان حق (انصاف) کے ساتھ فیصلہ کر اور (اپنی) خواہش کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے بھٹکا دے اللہ کے راستے سے ، بیشک جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹکتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے ، اس پر کہ انہوں نے روزِ حساب کو بھلا دیا۔ (۲۶)
اور ہم نے آسمان اور زمین ا ور جو ان کے درمیان ہے باطل (بیکار خالی از حکمت) نہیں پیدا کیا، یہ گمان ہے ان لوگوں کا جنہوں نے کفر کیا، پس خرابی ہے کافروں کے لئے آگ سے۔ (۲۷)
کیا ہم کر دیں گے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان لوگوں کی طرح جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، کیا ہم پرہیزگاروں کو کر دیں گے بد کرداروں کی طرح۔ (۲۸)
ہم نے آپ کی طرف ایک مبارک کتاب نازل کی تاکہ وہ اس کی آیات پر غور کریں، اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔ (۲۹)
اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا، بہت اچھا بندہ، بیشک وہ (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا تھا۔ (۳۰) (وہ وقت یاد کرو) جب شام کے وقت اس کے سامنے پیش کئے گئے اصیل عمدہ گھوڑے۔ (۳۱)
تو اس نے کہا بیشک میں نے اپنے رب کی یاد سے (غافل ہو کر) مال کی محبت کو دوست رکھا، یہاں تک کہ (سورج) چھپ گیا پردہ (مغرب) میں۔ (۳۲)
ان گھوڑوں کو میرے سامنے پھیر لاؤ، پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار سے ) ہاتھ صاف کرنے لگا۔ (۳۳)
اور البتہ ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ہم نے اس کے تخت پر ایک دھڑ ڈالا، پھر اس نے (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔ (۳۴)
اس نے کہا اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما دے جو میرے بعد کسی کو سزاوار (میسر) نہ ہو، بیشک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔ (۳۵)
پھر ہم نے مسخر کر دیا اس کے لئے ہوا کو، جہاں وہ پہنچنا چاہتا، وہ اس کے حکم سے نرم نرم چلتی۔ (۳۶)
اور تمام جنات (تابع کر دئیے ) عمارت بنانے والے اور غوطہ مارنے والے۔ (۳۷) اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے۔ (۳۸)
یہ ہمارا عطیہ ہے ، اب تو احسان کر، یا رکھ چھوڑ حساب کے بغیر (تم سے کچھ حساب نہ ہو گا)۔ (۳۹) اور بیشک اس کے لئے ہمارے پاس البتہ قرب اور اچھا ٹھکانا ہے۔ (۴۰)
اور آپ یاد کریں ہمارے بندے ایوب کو، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے ایذا اور دکھ پہنچایا ہے۔ (۴۱)
(ہم نے فرمایا) زمین پر مار اپنا پاؤں، یہ (لو) غسل کے لئے ٹھنڈا اور پینے کے لئے ( شیریں پانی)۔ (۴۲)
اور ہم نے اسے اس کے اہل خانہ اور ان کے ساتھ ان جیسے (اور بھی) عطا کئے ، (یہ) ہماری طرف سے ایک رحمت تھی اور عقل والوں کے لئے نصیحت۔ (۴۳)
اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لے اور وہ اس سے (اپنی بیوی کو) مار، اور قسم نہ توڑ، بیشک ہم نے اسے صابر پایا (اور ) اچھا بندہ، بیشک اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔ (۴۴)
اور آپ ہمارے بندے ابراہیم کو یاد کریں اور اسحاق اور یعقوب کو جو ہاتھوں والے (علم و عمل کی قوتوں والے ) تھے۔ (۴۵ )
ہم نے انہیں ایک خاص صفت سے خاص کیا (اور وہ) یاد ہے آخرت کے گھر کی۔ (۴۶)
اور بیشک وہ ہمارے نزدیک سب سے اچھے چنے ہوئے لوگوں میں سے تھے۔ (۴۷)
اور آپ یاد کریں اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو، اور یہ تمام ہی سب سے اچھے لوگوں میں سے تھے۔ (۴۸)
یہ ایک نصیحت ہے ، اور البتہ پرہیزگاروں کے لئے اچھا ٹھکانا ہے۔ (۴۹)
ہمیشہ رہنے کے باغات، جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوں گے۔ (۵۰)
اور ان میں منگوائیں گے میوے بہت سے اور مشروبات۔ (۵۱)
اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی (با حیا) ہم عمر (عورتیں) ہوں گی۔ (۵۲) یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے روز حساب کے لئے۔ (۵۳)
بیشک یہ ہمارا رزق ہے اس کو (کبھی) ختم ہونا نہیں۔ (۵۴)
اور بیشک سرکشوں کے لئے البتہ بُرا ٹھکانا ہے (یعنی ) جہنم، جس میں وہ داخل ہوں گے ، سو برا ہے فرش (ان کی آرامگاہ) (۵۶)
یہ کھولتا ہوا پانی اور پیپ ہے ، پس اس کو چکھو۔ (۵۷)
اور اس کے علاوہ اس کی شکل کی کئی قسمیں ہوں گی۔ (۵۸)
یہ ایک جماعت ہے تمہارے ساتھ (جہنم میں) داخل ہو رہے ہیں، انہیں کوئی فراخی نہ ہو، بیشک وہ جہنم میں داخل ہونے والے ہیں۔ (۵۹)
وہ کہیں گے بلکہ تمہیں کوئی فراخی نہ ہو، بیشک تم ہی ہمارے لئے یہ (مصیبت) آگے لائے ہو، سو برا ہے ٹھکانا۔ (۶۰)
وہ کہیں گے ، اے ہمارے رب! جو ہمارے لئے یہ (مصیبت) آگے لایا ہے تو جہنم میں (اس کے لئے ) عذاب دوچند کر دے۔ (۶۱)
اور وہ کہیں گے ہمیں کیا ہوا؟ ہم (دوزخ میں ) ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جنہیں، ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے۔ (۶۲)
کیا ہم نے انہیں ٹھٹھے میں پکڑا تھا؟یا کج ہو گئی ہیں ان سے ( ہماری) آنکھیں؟ بیشک اہل دوزخ کا باہم یہ جھگڑنا بالکل سچ ہے۔ (۶۴)
آپ فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ میں ڈرانے والا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا، زبردست ہے۔ (۶۵)
پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا، اور جو ان دونوں کے درمیان ہے ، غالب، بڑا بخشنے والا ہے۔ (۶۶)
آپ فرما دیں یہ ایک بڑی خبر ہے۔ (۶۷) تم اس سے بے پرواہ ہو۔ (۶۸)
مجھے کچھ خبر نہ تھی عالم بالا کی۔ (بلند قدر فرشتوں کی) جب وہ باہم جھگڑتے تھے۔ (۶۹)
میری طرف اس کے سوا وحی نہیں کی جاتی کہ میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ (۷۰)
(یاد کرو) جب تمہارے رب نے کہا فرشتوں کو کہ میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ (۷۱)
پھر جب میں اسے درست کر دوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں، تو تم گر پڑواس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے۔ (۷۲)
پس سب فرشتوں نے اکھٹے سجدہ کیا۔ (۷۳) سوائے ابلیس کے کہ اس نے تکبر کیا اور وہ ہو گیا کافروں میں سے۔ (۷۴)
(اللہ نے ) فرمایا اے ابلیس ! اس کو سجدہ کرنے سے تجھے کس نے منع کیا (روکا) جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ؟کیا تو نے تکبر کیا (اپنے کوبڑا سمجھا) یا تو بلند درجہ والوں میں سے ہے ؟ (۷۵)
اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے پیدا کیا مٹی سے۔ (۷۶)
(اللہ تعالی نے ) فرمایا پس یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہے۔ (۷۷) اور بیشک تجھ پر میری لعنت رہے گی روزِ قیامت تک۔ (۷۸)
اس نے کہا اے میرے رب! مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن (مردے ) اٹھائے جائیں گے۔ (۷۹)
(اللہ نے ) فرمایا پس تو وقت معین کے دن (روزِ قیامت) تک مہلت دئیے جانے والوں میں سے ہے۔ (۸۱)
اس نے کہا مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو ضرور گمراہ کروں گا۔ (۸۲) ان میں سے تیرے مخلص (خاص) بندوں کے سوا۔ (۸۳)
میں ضرور جہنم بھر دوں گا تجھ سے اور ان سب سے جو تیرے پیچھے چلیں۔ (۸۵)
آ پ فرما دیں میں تم سے اس (تبلیغ قرآن) پر کوئی اجر نہیں مانگتا، اور میں نہیں ہوں بناوٹ کرنے والوں میں سے۔ (۸۶)
یہ (قرآن) نہیں ہے مگر تمام جہانوں کے لئے نصیحت۔ (۸۷)
اور اس کا حال تم ایک وقت کے بعد (جلد ہی) ضرور جان لو گے۔ (۸۸)
٭٭
۳۹۔ سورۃ الزّمر
مکیۃ
آیات۷۵ رکوعات:۸
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
اس کتاب کا نازل کیا جانا اللہ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے۔ (۱)
بیشک ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے ، پس اللہ کی عبادت کرو، عبادت اسی کے لئے خالص کر کے۔ (۲)
یاد رکھو ! عبادت خالص اللہ کے لئے ہے ، اور جو لوگ اس کے سوا دوست بناتے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم صرف اس لئے ان کی عبادت کرتے ہیں کہ وہ قرب کے درجے میں ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں، بیشک اللہ ان کے درمیان اس (امر) میں فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، بیشک اللہ کسی جھوٹے ، ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۳)
اگر اللہ چاہتا کہ بنا لے (کسی کو اپنی) اولاد تو وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا چن لیتا، وہ پاک ہے ، وہی ہے اللہ یکتا، زبردست۔ (۴)
اس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ، وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے (گھٹاتا ہے اور بڑھاتا ہے ) اور اس نے مسخر کیا سورج اور چاند کو ہر ایک مدت مقررہ تک چلتا ہے ، یاد رکھو وہ غالب بخشنے والا ہے۔ (۵)
اس نے تمہیں تن واحد (آدم) سے پیدا کیا، پھر اس نے اس سے اس کا جوڑا بنایا، اور تمہارے لئے چوپایوں میں سے آٹھ جوڑے بھیجے ، وہ تمہیں پیدا کرتا ہے تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں، تین تاریکیوں کے اندر ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت میں، یہ ہے تمہارا اللہ، تمہارا پروردگار، اسی کے لئے ہے بادشاہت، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تم کہاں پھرے جاتے ہو؟ (۶)
اگر تم ناشکری کرو گے تو بیشک اللہ تم سے بے نیاز ہے ، اور وہ پسند نہیں کرتا اپنے بندوں کے لئے ناشکری، اور اگر تم شکر کرو گے ، تو وہ تمہارے لئے اسے پسند کرتا ہے ، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے ، پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔ (۷)
اور جب انسان کو کوئی سختی پہنچے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے ، پھر وہ جب اسے اپنی طرف سے نعمت دے تو وہ بھول جاتا ہے ، جس کے لئے وہ اس سے قبل (اللہ کو) پکارتا تھا، اور وہ اللہ کے لئے شریک بنا لیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے گمراہ کرے ، آپ فرما دیں فائدہ اٹھا لے اپنے کفر سے تھوڑا، بیشک تو دوزخ والوں میں سے ہے۔ (۸)
(کیا یہ ناشکرا بہتر ہے ) یا وہ، جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرنے والا ہے سجدہ ریز ہو کر، اور کھڑے ہو کر، (اور ) وہ آخرت سے ڈرتا ہے ، اور اپنے رب کی رحمت سے امید رکھتا ہے ، آپ فرما دیں کیا برابر ہیں وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے ؟اس کے سوا نہیں عقل (سلیم) والے ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔ (۹)
آپ فرما دیں، میرے بندو! جو ایمان لائے ہو، تم اپنے رب سے ڈرو، جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھے کام کئے ان کے لئے بھلائی ہے ، اور اللہ کی زمین وسیع ہے ، اس کے سوا نہیں کہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب پورا پورا دیا جائے گا۔ (۱۰)
آپ فرما دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں خالص کر کے اسی کے لئے عبادت۔ (۱۱) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانوں (فرمانبرداروں) میں پہلا میں ہوں۔ (۱۲)
آپ فرما دیں بیشک میں ڈرتا ہوں اگر میں نافرمانی کروں اپنے پروردگار کی، ایک بڑے دن کے عذاب سے۔ (۱۳) آپ فرما دیں میں اسی کے لئے اپنی عبادت خالص کر کے اللہ (ہی) کی عبادت کرتا ہوں۔ (۱۴)
پس تم جس کی چاہو پرستش کرو اللہ کے سوا، آپ فرما دیں بیشک گھاٹا پانے والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو گھاٹے میں ڈالا روزِ قیامت، خوب یاد رکھو! یہی ہے صریح گھاٹا۔ (۱۵)
ان کے لئے ان کے اوپر سے آگ کے سائبان ہو ں گے اور ان کے نیچے سے بھی (آگ کی) چادریں، یہ ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ، اے میرے بندو! مجھ ہی سے ڈرو۔ (۱۶)
اور جو لوگ شیطان سے بچتے رہے کہ اس کی پرستش کریں، اور انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا، ان کے لئے خوشخبری ہے ، سو آپ میرے بندوں کو خوشخبری دیں۔ (۱۷)
جو (پوری توجہ سے ) بات سنتے ہیں، پھر اس کی اچھی اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، اور یہی لوگ ہیں عقل والے۔ (۱۸)
تو کیا جس پر عذاب کی وعید ثابت ہو گئی، پس کیا تم اسے بچا لو گے ، جو آگ میں (گر گیا) ؟ (۱۹)
لیکن جو لوگ ڈرے اپنے رب سے ان کے لئے بالا خانے ہیں، ان کے اوپر بنے بنائے بالا خانے ہیں، ان کے نیچے نہریں جاری ہیں، اللہ کا وعدہ ہے ، اللہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ (۲۰)
کیا تو نے نہیں دیکھا؟ کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھر اسے چشمے (بنا کر) زمین میں چلایا، پھر اس سے مختلف رنگوں کی کھیتی نکالتا ہے ، پھر وہ خشک ہو جاتی ہے ، پھر تو اسے زرد دیکھتا ہے ، پھر وہ اسے چورا چورا کر دیتا ہے ، بیشک اس میں البتہ نصیحت ہے عقل والوں کے لئے۔ (۲۱)
پس کیا جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہے (کیا وہ اور سنگدل برابر ہیں) ، سو خرابی ہے ان کے لئے جن کے دل اللہ کی یاد سے سخت ہیں، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۲۲)
اللہ نے بہترین کلام نازل کیا (یعنی) ایک کتاب جس کی آیتیں ملتی جلتی، بار بار دہرائی گئی ہیں، اس سے بال (رونگٹے ) کھڑے ہو جاتے ہیں ان لوگوں کی جلدوں پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں اللہ کی یاد کی طرف (راغب ہوتے ہیں) ، یہ ہے اللہ کی ہدایت، اس سے اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کے لئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (۲۳)
پس کیا جو شخص قیامت کے دن اپنے چہرے کو بُرے عذاب سے بچاتا ہے (اہل جنت کے برابر ہو سکتا ہے ) اور ظالموں کو کہا جائے گا تم (اس کا مزہ) چکھو جو تم کرتے تھے۔ (۲۴)
جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے جھٹلایا تو ان پر عذاب آ گیا جہاں سے انہیں خیال (بھی) نہ تھا۔ (۲۵)
پس اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں رسوائی (کا مزہ) چکھایا، اور البتہ آخرت کا عذاب بہت ہی بڑا ہے ، کاش وہ جانتے ہوتے۔ (۲۶)
اور تحقیق ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے بیان کی ہر قسم کی مثال تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۲۷)
قرآن عربی (زبان میں) ہے کسی (بھی) کجی کے بغیر، تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔ (۲۸)
اللہ نے ایک مثال بیان کی ہے ، ایک آدمی (غلام) ہے ، اس میں کئی (آقا) شریک ہیں جو آپس میں ضدی (جھگڑالو) ہیں، اور ایک آدمی ایک آدمی کا (غلام) ہے ، کیا یہ دونوں کی حالت برابر ہے ؟تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔ (۲۹)
بیشک تم مرنے (انتقال کرنے ) والے ہو، اور وہ (بھی) مرنے والے ہیں۔ (۳۰) پھر بیشک تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس جھگڑو گے۔ (۳۱)
پس اس سے بڑا ظالم کون؟ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا، اور سچائی کو جھٹلایا جب وہ اس کے پاس آئی، کیا کافروں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں؟ (۳۲)
اور جو شخص سچائی کے ساتھ آیا اور اس نے اس کو سچا مانا یہی لوگ متقی (پرہیزگار) ہیں۔ (۳۳)
ان کے لئے ہے ان کے رب کے ہاں جو (بھی) وہ چاہیں گے ، یہ جزا ہے نیکو کاروں کی۔ (۳۴)
تاکہ اللہ ان سے ان کے اعمال کی برائی دور کر دے اور انہیں ان کے ثواب کی جزا دے ان کے بہترین اعمال کی جو وہ کرتے تھے۔ (۳۵)
کیا اللہ اپنے (بندے کو) کافی نہیں؟وہ آپ کو ڈراتے ہیں ان (جھوٹے معبودوں) سے جو اس کے سوا ہیں، اور جن کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (۳۶)
اور جس کو اللہ ہدایت دے تو اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، کیا اللہ غالب، بدلہ لینے والا نہیں؟ (۳۷)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟تو وہ ضرور کہیں گہ اللہ نے ، آپ فرما دیں پس کیا تم نے دیکھا (دیکھو تو) تم جن کی پرستش کرتے ہو اللہ کے سوا اگر اللہ میرے لئے کوئی ضرر چاہے تو کیا وہ سب اس کا ضرر دور کرسکتے ہیں ؟یا وہ میرے لئے کوئی مہربانی چاہے کیا وہ سب اس مہربانی کو روک سکتے ہیں؟آپ فرما دیں میرے لئے اللہ کافی ہے ، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۳۸)
آپ فرما دیں، اے میری قوم! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ بیشک میں (اپنا) کام کرتا ہوں، پس عنقریب تم جان لو گے۔ (۳۹)
کون ہے ؟جس پر آتا ہے عذاب کہ اسے رسوا کر دے اور (کون ہے ) جس پر دائمی عذاب اترتا ہے ؟ (۴۰)
بیشک ہم نے آپ پر لوگوں (کی ہدایت) کے لئے کتاب نازل کی حق کے ساتھ، پس جس نے ہدایت پائی تو اپنی ذات کے لئے ، اور جو گمراہ ہوا تو اس کے سوا نہیں کہ وہ اپنے لئے گمراہ ہوتا ہے ، اور آپ نہیں ان پر نگہبان (ذمہ دار)۔ (۴۱)
اللہ روح کو اس کی موت کے وقت قبض کرتا ہے ، اور جو نہ مرے اپنی نیند میں، تو جس کی موت کا فیصلہ کیا تو اس کو (نیند کی صورت میں ہی) روک لیتا ہے ، اور دوسروں کو (زندہ رہنے کے لئے ) چھوڑ دیتا ہے ، ایک مقررہ وقت تک، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (۴۲)
کیا انہوں نے اللہ کے سوا بنا لئے ہیں شفاعت (سفارش) کرنے والے ؟آپ فرما دیں (اس صورت میں بھی) کہ وہ کچھ بھی اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ سمجھ رکھتے ہوں۔ (۴۳)
آپ فرما دیں اللہ ہی کے (اختیار میں) ہے تمام شفاعت، اسی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت، پھر اس کی طرف تم لوٹو گے۔ (۴۴)
ا ور جب ذکر کیا جاتا ہے اللہ واحد کا تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل متنفر ہو جاتے ہیں، اور جب ان کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس کے سوا ہیں (یعنی اوروں کا) تو فوراً خوش ہو جاتے ہیں۔ (۴۵)
آپ فرما دیں اے اللہ ! پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے ، جاننے والے پوشیدہ اور ظاہر کے ، تو اپنے بندوں کے درمیان (اس امر میں ) فیصلہ کرے گا، جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۴۶)
اور اگر جن لوگوں نے (کفر و شرک کر کے ) ظلم کیا جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اور اس کے ساتھ اتنا ہی (اور بھی) ان کے پاس ہو تو وہ بدلے میں دے دیں، روزِ قیامت بُرے عذاب سے (چھڑانے کے لئے ) ، اور اللہ کی طرف سے ان پر ظاہر ہو جائے گا جس کا وہ گمان (بھی) نہ کرتے تھے۔ (۴۷)
اور ان پر بُرے کام ظاہر ہو جائیں جو وہ کرتے تھے ، اور وہ (عذاب) ان کو گھیر لے گا، جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۴۸)
پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں پکارتا ہے ، پھر جب اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے یہ تو مجھے دیا گیا ہے ، میرے علم ( کی بنا) پر، (نہیں) بلکہ یہ ایک آزمائش ہے ، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (۴۹)
یقیناً یہ ان لوگوں نے (بھی) کہا تھا جو ان سے پہلے تھے تو جو وہ کرتے تھے اس نے ان سے (عذاب کو) دور نہ کیا۔ (۵۰)
پس انہیں پہنچیں (ان پر آ پڑیں) بُرائیاں جو انہوں نے کمائی تھیں، اور ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا جلد انہیں پہنچیں گی (ان پر آ پڑیں گی) بُرائیاں جو انہوں نے کمائی ہیں، اور وہ نہیں ہیں (اللہ کو) عاجز کرنے والے۔ (۵۱)
کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کر دیتا ہے (اور جس کے لئے چاہتا ہے ) تنگ کر دیتا ہے ، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان لائے۔ (۵۲)
آپ فرما دیں اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی ہے اپنی جانوں پر، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بے شک وہی بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵۳)
اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ، اس سے قبل کہ تم پر عذاب آ جائے ، پھر تم مدد نہ کئے جاؤ گے۔ (۵۴)
اور پیروی کرو سب سے بہتر (کتاب کی) جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ، تمہارے رب کی طرف سے ، اس سے قبل کہ تم پر اچانک عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔ (۵۵)
کہ کوئی شخص کہے ، ہائے افسوس جو میں نے اللہ کے حق میں کوتاہی کی، اور یہ کہ میں ہنسی اڑانے والوں میں سے رہا۔ (۵۶)
یا یہ کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت دیتا تو میں ضرور پرہیزگاروں میں سے ہوتا۔ (۵۷)
یا وہ جب عذاب دیکھے تو کہے کاش! اگر میرے لئے دوبارہ (دنیا میں جانا ہو) تو میں نیکو کاروں میں سے ہو جاؤں۔ (۵۸)
(اللہ فرمائے گا) ہاں! تحقیق تیرے پاس میری آیات آئیں، تو نے انہیں جھٹلایا، اور تو نے تکبر کیا، اور تو کافروں میں سے تھا۔ (۵۹)
اور قیامت کے دن تم دیکھو گے جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ بولا، ان کے چہرے سیاہ ہوں گے ، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں۔ (۶۰)
اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی اللہ انہیں ان کو کامیابی کے ساتھ نجات دے گا، نہ انہیں کوئی برائی چھوئے گی، نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (۶۱)
اللہ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے ، اور وہ ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۶۲)
اسی کے پاس ہے آسمانوں اور زمین کی کنجیاں، اور جو لوگ اس کی آیات سے منکر ہوئے وہی گھاٹا پانے والے ہیں۔ (۶۳)
آپ فرما دیں، اے جاہلو!تو کیا تم مجھے کہتے ہو کہ میں اللہ کے سوا (کسی اور ) کی پرستش کروں۔ (۶۴)
اور یقیناً آپ کی طرف اور آپ کے پہلوں کی طرف وحی بھیجی گئی ہے ، اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل بالکل اکارت جائیں گے اور تم خسارہ پانے والوں (زیاں کاروں) میں سے ہو گے۔ (۶۵)
بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو، اور شکر گزاروں میں سے ہو۔ (۶۶)
اور انہوں نے اللہ کو نہ پہچانا جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق تھا، اور تمام زمین روزِ قیامت اس کی مٹھی میں ہو گی، اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے ، اور وہ اس سے پاک اور برتر ہے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (۶۷)
اور صور میں پھونک ماری جائے گی تو (ہر کوئی) جو آسمانوں اور زمین میں ہے بیہوش ہو جائے گا، سوائے اس کے جسے اللہ چاہے ، پھر اس میں پھونک ماری جائے گی، دوبارہ تو وہ فوراً کھڑے ہو جائیں گے (اِدھر اُدھر) دیکھنے لگیں گے۔ (۶۸)
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (کھول کر) رکھ دی جائے گی، اور نبی اور گواہ لائے جائیں گے ، اور ان کے درمیان حق کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) فیصلہ کیا جائے گا، اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۶۹)
اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ (۷۰)
اور کافر ہانکے جائیں گے گروہ در گروہ جہنم کی طرف، یہاں تک کہ جب وہ وہاں آئیں گے تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے ، اور ان سے کہیں گے اس کے محافظ (داروغہ) کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تم پر تمہارے رب کے احکام پڑھتے تھے ، اور تمہیں ڈراتے تھے اس دن کی ملاقات سے ، وہ کہیں گے ہاں لیکن کافروں پر عذاب کا حکم پورا ہو گیا۔ (۷۱)
کہا جائے گا تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو، اس میں ہمیشہ رہنے کو، سو برا ہے تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا۔ (۷۲)
یہاں تک کہ جب وہ وہاں آئیں گے اور کھول دئیے جائیں گے اس کے دروازے اور ان سے اس کے محافظ (داروغہ) کہیں گے تم پر سلام ہو، تم اچھے رہے ، سو اس میں ہمیشہ رہنے کو داخل ہو۔ (۷۳)
اور وہ کہیں گے ، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں (اس) زمین کا وارث بنایا کہ ہم مقام کر لیں جنت میں جہاں ہم چاہیں، سو کیا ہی اچھا ہے عمل کرنے والوں کا اجر۔ (۷۴)
اور آپ فرشتوں کو دیکھیں گے حلقہ باندھے عرش کے گرد، اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے ہوئے ، اور ان کے درمیان حق کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) فیصلہ کر دیا جائے گا، اور کہا جائے گا تمام تعریفیں سارے جہانوں کے پروردگار اللہ کے لئے ہیں۔ (۷۵)
٭٭
۴۰۔ سورۃ المؤمن
مکیۃ
آیات۸۵ رکوعات:۹
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
حا میم۔ (۱) اس قرآن کا اتارا جانا اللہ غالب، ہر چیز کے جاننے والے (کی طرف) سے ہے۔ (۲)
نہیں جھگڑتے اللہ کی آیات میں مگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، سو تمہیں ان کا شہروں میں (آرا م چین سے ) چلنا پھرنا دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (۴)
ان سے قبل نوح کی قوم اور ان کے بعد (دوسرے ) گروہوں نے جھٹلایا، اور ہر امت نے اپنے رسولوں کے متعلق ارادہ کیا، کہ وہ اسے پکڑ لیں، اور ناحق جھگڑا کریں تاکہ اس سے حق کو ناچیز کر دیں، تو میں نے انہیں پکڑ لیا، سو (دیکھو) کیسا ہوا میرا عذاب۔ (۵)
اور اسی طرح تمہارے رب کی بات کافروں پر ثابت ہو گئی کہ وہ دوزخ والے ہیں۔ (۶)
جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں، وہ تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے ہیں اپنے رب کی، اور وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور جو ایمان لائے ان کے لئے مغفرت مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہر شے کو سمولیا ہے (تیری) رحمت اور علم نے ، سو تو ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی، اور تیرے راستے کی پیروی کی، اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ (۷)
اے ہمارے رب! اور انہیں ہمیشگی کے باغات میں داخل فرما، وہ جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ، اور (ان کو بھی) جو صالح ہیں ان کے باپ دادا میں سے ، اور ان کی بیویوں، اور ان کی اولاد میں سے ، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔ (۸)
اور انہیں بُرائیوں سے بچا لے ، اور جو اس دن بُرائیوں سے بچا، تو تحقیق تو نے اس پر رحم کیا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (۹)
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا، وہ پکارے جائیں گے (انہیں پکار کر کہا جائے گا) اللہ کا بیزار ہونا تمہارے اپنے تئیں بیزار ہونے سے بڑا ہے ، جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے تو تم کفر کرتے تھے۔ (۱۰)
وہ کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہمیں مردہ رکھا دو بار، اور ہمیں زندگی بخشی دو بار، پس ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا، تو کیا (اب یہاں سے ) نکلنے کی کوئی سبیل ہے ؟ (۱۱)
یہ تم پر اس لئے (ہے ) کہ جب اللہ واحد کو پکارا جاتا تو تم کفر کرتے اور اگر (کسی کو) اس کا شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے ، پس حکم اللہ کے لئے ہے ، جو بلند بڑا ہے۔ (۱۲)
وہ جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمہارے لئے آسمان سے رزق اتارتا ہے ، اور اس کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا جو (اللہ کی طرف) رجوع کرتا ہے۔ (۱۳)
پس اللہ کو پکارو، اسی کے لئے عبادت خالص کرتے ہوئے ، خواہ کافر بُرا مانیں۔ (۱۴)
بلند درجوں والا، عرش کا مالک، وہ اپنے حکم سے روح (وحی) ڈالتا ہے (بھیجتا ہے ) جس پر اپنے بندو ں میں سے چاہتا ہے ، تاکہ وہ قیامت کے دن سے ڈرائے۔ (۱۵)
جس دن وہ ظاہر ہوں گے نہ پوشیدہ ہو گی اللہ پر ان کی کوئی شے ، (ندا ہو گی) آج کس کے لئے بادشاہت ہے ؟ (اعلان ہو گا) اللہ کے لئے جو واحد، زبردست ہے۔ (۱۶)
آج ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، آج کوئی ظلم نہ ہو گا، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۱۷)
اور انہیں قریب آنے والے روزِ (قیامت ) سے ڈرائیں، جب دل غم سے بھرے گلوں کے نزدیک (کلیجے منہ کو) آرہے ہوں گے ، ظالموں کے لئے نہیں کوئی دوست، نہ کوئی سفارش کرنے والا جس کی بات مانی جائے۔ (۱۸)
وہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت اور جو وہ سینوں میں چھپاتے ہیں۔ (۱۹)
اور اللہ حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے ، اور جو لوگ اس کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی فیصلے نہیں کرتے ، بیشک اللہ ہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۲۰)
کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں ؟تو وہ دیکھتے کیسا انجام ہوا، ان لوگوں کا جو ان سے پہلے تھے ، وہ قوت میں ان سے زیادہ سخت تھے ، اور زمین میں آثار (نشانیوں کے اعتبار سے بھی) تو اللہ نے انہیں گناہوں کے سبب آپکڑا، اور ان کے لئے نہیں ہے کوئی اللہ سے بچانے والا۔ (۲۱)
اس لئے کہ ان کے پاس رسول کھلی نشانیاں لے کر آتے تھے ، تو انہوں نے کفر کیا، پس انہیں اللہ نے آ پکڑا، بیشک وہ قوی سخت عذاب دینے والا ہے۔ (۲۲)
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو بھیجا اپنی نشانیوں کے ساتھ اور روشن سند کے ساتھ۔ (۲۳)
فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو انہوں نے کہا (موسیٰ تو) جادوگر، بڑا جھوٹا ہے۔ (۲۴)
پھر جب وہ ان کے پاس ہماری طرف سے حق کے ساتھ آئے ، تو انہوں نے کہا ان کے بیٹوں کو قتل کر ڈالو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ، اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دو، اور کافروں کا داؤ گمراہی کے سوا (کچھ) نہیں۔ (۲۵)
اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور اسے اپنے رب کو پکارنے دو بیشک میں ڈرتا ہوں کہ وہ بدل دے گا تمہارا دین یا زمین میں فساد پھیلائے گا۔ (۲۶)
اور موسیٰ نے کہا، بیشک میں نے پناہ لے لی ہے اپنے اور تمہارے رب کی، ہر مغرور سے جو روزِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ (۲۷)
اور کہا فرعون کے لوگوں میں سے ایک مؤمن مرد نے (جو) اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کیا تم ایک آدمی کو (محض اس بات پر) قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانیوں کے ساتھ آیا ہے اور اگر (بالفرض محال) وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ ( کا وبال) اسی پر ہو گا، اور اگر وہ سچا ہے تو وہ جو تم سے وعدہ کر رہا ہے اس کا کچھ (عذاب) تم پر (ضرور) پہنچے گا، بیشک اللہ (اسے ) ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرنے والا جھوٹا ہو۔ (۲۸)
اے میری قوم! آج بادشاہت تمہاری ہے ، تم غالب ہو زمین میں، اگر اللہ کا عذاب ہم پر آ جائے تو اس سے بچانے کے لئے کون ہماری مدد کرے گا؟فرعون نے کہا، میں تمہیں رائے نہیں دیتا مگر جو میں دیکھتا ہوں اور میں تمہیں راہ نہیں دکھاتا مگر بھلائی کی راہ۔ (۲۹)
اور اس شخص نے کہا جو ایمان لے آیا تھا، اے میری قوم! میں تم پر سابقہ گروہوں کے دن کے مانند (عذاب نازل ہونے سے ) ڈرتا ہوں۔ (۳۰)
جیسے حال ہوا قوم نوح اور عاد اور ثمود کا اور جو ان کے بعد (ہوئے ) اور اللہ نہیں چاہتا اپنے بندوں کے لئے کوئی ظلم۔ (۳۱)
اور اے میری قوم! میں تم پر چیخ پکار کے دن سے ڈرتا ہوں۔ (۳۲)
جس دن تم بھاگو گے پیٹھ پھیر کر، تمہارے لئے اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا، اور جس کو اللہ گمراہ کر دے گا اس کے لئے کوئی نہیں ہدایت دینے والا۔ (۳۳)
اور تحقیق تمہارے پاس اس سے قبل یوسف واضح دلائل کے ساتھ آئے ، سو تم ہمیشہ شک میں رہے ، (ا سکے بارہ میں) جس کے ساتھ وہ تمہارے پاس آئے ، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گئے تو تم نے کہا اس کے بعد اللہ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا، اسی طرح اللہ (اسے ) گمراہ کرتا ہے جو حد سے گزرنے والا شک میں رہنے والا ہو۔ (۳۴)
جو لوگ اللہ کی آیتوں (کے بارے ) میں جھگڑتے ہیں کسی دلیل کے بغیر جو ان کے پاس آئی ہو، (ان کی یہ کج بحثی) سخت ناپسند ہے ، اللہ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے ، اسی طرح اللہ ہر مغرور، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (۳۵)
اور فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک بلند عمارت بنا، شاید کہ میں راستوں تک پہنچ جاؤں۔ (۳۶)
آسمانوں کے راستے ، پس میں موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں، اور بیشک میں اسے البتہ جھوٹا گمان کرتا ہوں، اور اسی طرح فرعون کو اس کے بُرے عمل آراستہ دکھائے گئے ، اور وہ روک دیا گیا سیدھے راستے سے ، اور فرعون کی تدبیر صرف تباہی ہی تھی۔ (۳۷)
اور جو شخص ایمان لے آیا تھا، اس نے کہا اے میری قوم! تم میری پیروی کرو، میں تمہیں بھلائی کار استہ دکھا دوں گا۔ (۳۸)
اے میری قوم! اس کے سوا نہیں کہ یہ دنیا کی زندگی تھوڑا سا فائدہ ہے ، اور آخرت بیشک ہمیشہ رہنے کا گھر ہے۔ (۳۹)
جس شخص نے بُرا عمل کیا اسے اس جیسا بدلہ دیا جائے گا، اور جس نے اچھا عمل کیا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو، تو یہی لوگ داخل ہوں گے جنت میں، اس میں انہیں بے حساب رزق دیا جائے گا۔ (۴۰)
اے میری قوم! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں، اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ (۴۱)
تم مجھے بلاتے ہو کہ میں اللہ کا انکار کروں اور اس کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤں جس کا مجھے کوئی علم نہیں اور میں تمہیں (اللہ) غالب، بخشنے والے کی طرف بلاتا ہوں۔ (۴۲)
تم مجھے جس کی طرف بلاتے ہو اس کا دنیا میں اور آخرت میں (کچھ بھی) نہیں اور یہ کہ ہمیں پھر جانا ہے اللہ کی طرف، اور یہ کہ حد سے بڑھنے والے ہی جہنمی ہیں۔ (۴۳)
سو تم جلدی یاد کرو گے جو میں تمہیں کہتا ہوں اور میں اپنا کام (معاملہ) اللہ کو سونپتا ہوں، بیشک اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے۔ (۴۴)
سو اللہ نے اسے بچالیا (اُن) بُرے داؤ سے جو وہ کرتے تھے ، اور فرعون والوں کو بُرے عذاب نے گھیر لیا۔ (۴۵)
(جہنم کی) آگ جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہو گا) داخل کرو فرعون والوں کو شدید ترین عذاب میں۔ (۴۶)
اور وہ جہنم میں باہم جھگڑیں گے تو کہیں گے کمزور ان لوگوں کو جو بڑے بنتے تھے ، بیشک ہم (دنیا میں) تمہارے تابع تھے تو کیا (اب) تم ہم سے دور کر دو گے آگ کا کچھ حصہ؟ (۴۷)
وہ لوگ جو بڑے بنتے تھے کہیں گے ، بیشک ہم سب اس میں ہیں، بیشک اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔ (۴۸)
اور وہ لوگ جو آگ میں ہوں گے وہ کہیں گے جہنم کے (نگہبان فرشتوں) داروغوں سے اپنے رب سے دعا کرو، ایک دن کا عذاب ہم سے ہلکا کر دے۔ (۴۹)
وہ کہیں گے ، کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ نہیں آتے تھے ؟وہ کہیں گے ، ہاں (کیوں نہیں) ، وہ کہیں گے تو تم پکارو، اور نہ ہو گی کافروں کی پکار مگر بے سود۔ (۵۰)
بیشک ہم ضرور مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں اور (اس دن بھی) جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ (۵۱)
جس دن ظالموں کو نفع نہ دے گی ان کی عذر خواہی اور ان کے لئے لعنت (اللہ کی رحمت سے دوری) ہے اور ان کے لئے بُرا گھر ہے۔ (۵۲)
اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو ہدایت (توریت) دی، اور ہم نے بنی اسرائیل کو توریت کا وارث بنایا۔ (۵۳)
(جو) عقلمندوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (۵۴)
پس صبر کریں بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور اپنے (نا کردہ) گناہوں کے لئے مغفرت طلب کریں، اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کریں شام اور صبح۔ (۵۵)
بیشک جو لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو، ان کے دلوں میں تکبر (بڑائی کی ہوس) کے سوا کچھ نہیں، جس تک وہ کبھی پہنچنے والے نہیں، پس آپ اللہ کی پناہ چاہیں، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۵۶)
یقیناً آسمانوں کا اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے بڑا ہے ، لیکن اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔ (۵۷)
اور برابر نہیں نابینا اور بینا، اور (نہ) وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، اور نہ وہ جو بدکار ہیں، بہت کم تم غور و فکر کرتے ہو۔ (۵۸)
بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (۵۹)
اور تمہارے رب نے کہا تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر (سرتابی) کرتے ہیں، عنقریب خوار ہو کر وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ (۶۰)
اللہ ہے جس نے بنائی تمہارے لئے رات تاکہ تم اس میں آرام پکڑو، اور دن دکھانے کو (روشن بنایا) بیشک اللہ فضل والا ہے لوگوں پر، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ (۶۱)
یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار ہر شے کا پیدا کرنے والا، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو؟ (۶۲)
اسی طرح وہ لوگ الٹے پھرے جاتے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (۶۳)
اللہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار گاہ بنایا، اور آسمان کو چھت (بنایا) اور تمہیں صورت دی تو بہت اچھی صورت دی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار، سو برکت والا ہے اللہ سارے جہان کا پروردگار۔ (۶۴)
وہی زندہ رہنے والا ہے ، نہیں کوئی معبود اس کے سوا، پس تم اس کے لئے عبادت خالص کر کے اسی کو پکارو، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، سارے جہان کا پروردگار۔ (۶۵)
آپ فرما دیں بیشک مجھے منع کر دیا گیا ہے کہ میں ان کی پرستش کروں جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو، جب میرے پاس آ گئیں میرے رب (کی طرف) سے کھلی نشانیاں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کے لئے اپنی گردن جھکا دوں۔ (۶۶)
وہ جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے ، پھر لوتھڑے سے ، پھر وہ تمہیں نکالتا ہے (ماں کے پیٹ سے ) بچہ سا، پھر ( تمہیں باقی رکھتا ہے ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، پھر (زندہ رکھتا ہے ) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ، اور تم میں سے (کوئی ہے ) جو فوت ہو جاتا ہے اس سے قبل، اور تاکہ تم سب (اپنے اپنے ) وقت مقررہ کو پہنچو (مقصد یہ ہے ) تاکہ تم سمجھو۔ (۶۷)
وہی ہے جو جِلاتا ہے اور مارتا ہے ، پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے سوا نہیں کہ وہ اس کو کہتا ہے ہو جا سو وہ ہو جاتا ہے۔ (۶۸)
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں؟وہ کہاں پھرے جاتے (بھٹکتے ) ہیں؟ (۶۹)
جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے جس کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا، پس وہ جلد جان لیں گے۔ (۷۰)
جب ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی، وہ گھسیٹے جائیں گے۔ (۷۱)
کھولتے ہوئے پانی میں، پھر وہ آگ میں جھونک دئیے جائیں گے۔ (۷۲)
پھر کہا جائے گا ا ن کو کہاں ہیں وہ جن کو تم شریک کرتے تھے (۷۳) اللہ کے سوا؟وہ کہیں گے وہ تم ہم سے گم ہو گئے (کہیں نظر نہیں آتے ) بلکہ ہم تو اس سے قبل کسی چیز کو پکارتے ہی نہ تھے ، اسی طرح اللہ کافروں کو گمراہ کرتا ہے۔ (۷۴)
یہ اس کا بدلہ ہے جو تم زمین میں ناحق خوش ہوتے (پھرتے ) تھے ، اور بدلہ ہے اس کا جس پر تم اتراتے تھے۔ (۷۵)
تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ اس میں رہنے کو، سوبڑا بننے والوں کا بُرا ہے ٹھکانا۔ (۷۶)
پس آپ صبر کریں، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ، پس اگر ہم آپ کو اس (عذاب) کا کچھ حصہ دکھا دیں جو ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں یا (اس سے قبل) ہم آپ کو وفات دے دیں (بہر صورت) وہ ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (۷۷)
کوئی نشانی اللہ کے حکم کے بغیر لے آئے ، سو جب اللہ کا حکم آ گیا، انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا، اور اہل باطل اس وقت گھاٹے میں رہ گئے۔ (۷۸)
اللہ (ہی) ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے تاکہ تم سوار ہو، ان میں سے (بعض پر) اور ان میں سے (بعض) تم کھاتے ہو۔ (۷۹)
اور تمہارے لئے ان میں بہت سے فائدے ہیں، اور تاکہ تم ان پر (سوار ہو کر) اپنے دلوں کی مراد (منزل مقصود) کو پہنچو، اور ان پر اور کشتیوں پر تم لدے پھرتے ہو۔ (۸۰)
اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے ، تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے۔ (۸۱)
پس کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں؟تو وہ دیکھتے کہ کیسا ہوا انجام ان لوگوں کا جو ان سے قبل تھے ، وہ تعداد اور قوت میں ان سے بہت زیادہ تھے ، اور وہ زمین میں (ان سے بڑھ چڑھ کر) آثار (چھوڑ گئے ) سو جو وہ کرتے تھے ان کے (کچھ) کام نہ آیا۔ (۸۲)
پھر جب ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے تو وہ اس علم پر اترانے لگے جو ان کے پاس تھا اور انہیں اس (عذاب) نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۸۳)
پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو وہ کہنے لگے ہم اللہ واحد پر ایمان لائے ، اور ہم اس کے منکر ہوئے جس کو ہم اس کے ساتھ شریک کرتے تھے۔ (۸۴)
تو (اب ایسا) نہ ہوا کہ ان کا ایمان ان کو نفع دیتا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا، اللہ کا دستور ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا (ہوتا چلا آیا ہے ) اور اس وقت کافر گھاٹے میں رہ گئے۔ (۸۵)
٭٭
۴۱۔ سورۃ حٰمٓ السَّجْدَۃِ
مَکِّیَّۃ
آیات۵۴ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
حم۔ (۱) (یہ کلام) نازل کیا ہوا ہے ، نہایت رحم کرنے والے مہربان (اللہ کی طرف) سے۔ (۲)
یہ ایک کتاب ہے اس کی آیتیں واضح کر دی گئی ہیں، قرآن عربی زبان میں ہے ان لوگوں کے لئے جو جانتے ہیں۔ (۳)
خوشخبری دینے والا، اور ڈر سنانے والا، سو ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا، پس وہ سنتے نہیں۔ (۴)
اور انہوں نے کہا اس (بات) سے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمارے دل پردوں میں ہیں، اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے ، اور ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان ایک پردہ ہے ، سو تم اپنا کام کرو، بیشک ہم تو اپنا کام کرتے ہیں۔ (۵)
آپ فرما دیں، اس کے سوا نہیں کہ میں تم جیسا ایک بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے ، یہ کہ تمہارا معبود، معبود یکتا ہے ، پس سیدھے رہو اس کی طرف (اس کے حضور) اور اس سے مغفرت مانگو، اور خرابی ہے مشرکوں کے لئے۔ (۶)
وہ جو زکوٰۃ نہیں دیتے ، اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔ (۷)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، ان کے لئے اجر ہے ختم نہ ہونے والا۔ (۸)
آپ فرما دیں کیا تم اس کا انکار کرتے ہو؟جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا، اور تم اس کو شریک ٹھہراتے ہو، یہی ہے سارے جہانوں کا رب۔ (۹)
اور اس نے اس میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے ، اور اس میں برکت رکھی، اور اس میں چار دنوں میں ان کی خوراکیں مقرر کیں، یکساں تمام سوال کرنے والوں کے لئے۔ (۱۰)
پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی، اور وہ ایک دھواں تھا، تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا تم دونوں آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے ، ان دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ (۱۱)
پھر اس نے دو دنوں میں سات آسمان بنائے ، اور ہر آسمان کو اس کے کام کی وحی کر دی، اور ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے زینت دی، اور حفاظت کے لئے (بھی) یہ غالب علم والے (اللہ کا ) فیصلہ ہے۔ (۱۲)
پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو آپ فرما دیں میں تمہیں ڈراتا ہوں، ایک چنگھاڑ سے جیسی چنگھاڑ سے عاد و ثمود (پر عذاب آیا تھا)۔ (۱۳)
انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا رب چاہتا تو ضرور فرشتے اتارتا، پس تم جس پیغام کے ساتھ بھیجے گئے ہو ہم اس کے منکر ہیں۔ (۱۴)
پھر جو عاد تھے ، وہ ملک میں غرور کرنے لگے ، ناحق، اور وہ کہنے لگے ہم سے زیادہ قوت میں کون ہے ؟کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے ، وہ قوت میں ان سے بہت زیادہ ہے ، اور وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ (۱۵)
پس ہم نے بھیجی ان پر نحوست کے دنوں میں تند و تیز ہوا، تاکہ ہم انہیں رسوا ئی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں، اور البتہ آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کرنے والا ہے ، اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ (۱۶)
اور رہے ثمود، سو ہم نے انہیں راستہ دکھایا تو انہوں نے ہدایت (کے مقابلے ) پر اندھا رہنا پسند کیا، تو انہیں چنگھاڑ نے آ پکڑا، (یعنی) ذلت کے عذاب نے ، اس کے سزا میں جو وہ کرتے تھے۔ (۱۷)
اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے ، اور وہ پرہیزگاری کرتے تھے۔ (۱۸)
اور جس دن اللہ کے دشمن جہنم کی طرف جمع کئے (ہانکے ) جائیں گے ، تو وہ گروہ گروہ (تقسیم) کر دئیے جائیں گے۔ (۱۹)
یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے تو ان پر ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے گوشت پوست گواہی دیں گے اس پر جو وہ کرتے تھے۔ (۲۰)
اور وہ اپنے گوشت پوست سے کہیں گے ، تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی، وہ جواب دیں گے ہمیں اس اللہ نے گویائی دی، جس نے ہر شے کو گویا فرمایا ہے اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ (۲۱)
اور جو تم چھپاتے تھے کہ تمہارے خلاف گواہی دیں گے تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں، اور تمہارے گوشت پوست، بلکہ تم نے گمان کر لیا تھا کہ اللہ اس سے (اس کے متعلق) بہت کچھ نہیں جانتا جوتم کرتے ہو۔ (۲۲)
تمہارے اس گمان (خیال باطل) نے جو تم نے اپنے رب کے متعلق کیا تھا تمہیں ہلاک کیا، سو تم ہو گئے خسارہ پانے والوں میں سے۔ (۲۳)
پھر اگر وہ صبر کریں تو (بھی) جہنم ان کے لئے ٹھکانا ہے ، اور اگر وہ (اب) معافی چاہیں، تو وہ معافی قبول کئے جانے والوں میں سے نہ ہوں گے۔ (۲۴)
اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کئے ، تو انہوں نے ان کے لئے آراستہ کر دکھایا جوان کے آگے اور جو ان کے پیچھے تھا اور ان پر قول (عذاب کی وعید) پوری ہو گئی، ان امتوں میں جو گزر چکی ہیں ان سے قبل جنات اور انسانوں کی، بیشک وہ خسارہ پانے والے تھے۔ (۲۵)
اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا (کافروں نے ) کہ تم یہ قرآن سنو ہی مت، اور اگر (سنانے لگیں) تو اس میں غل مچاؤ، شاید کہ تم غالب آ جاؤ۔ (۲۶)
پس ہم کافروں کو ضرور سخت عذاب چکھائیں گے ، اور البتہ ہم ان کے بدترین اعمال کا انہیں ضرور بدلہ دیں گے۔ (۲۷)
یہ ہے اللہ کے دشمنوں کا بدلہ جہنم، اور ان کے لئے ہے اس میں ہمیشگی کا گھر، اس کا بدلہ جو وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ (۲۸)
انسانوں میں سے کہ ہم ان دونوں کو اپنے پاؤں تلے ڈالیں، تاکہ وہ انتہائی ذلیلوں میں سے ہوں۔ (۲۹)
بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ، پھر اس پر ثابت قدم رہے ، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ تم خوف کھاؤ اور نہ غمگین ہو اور تم اس جنت پر خوش ہو جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔ (۳۰)
ہم تمہارے رفیق تھے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں (بھی) اور تمہارے لئے اس میں (موجود ہے ) جو تمہارے دل چاہیں، اور تمہارے لئے اس میں (موجود ہے ) جوتم مانگو گے۔ (۳۱)
(یہ) ضیافت ہے بخشنے والے مہربان (اللہ) کی طرف سے۔ (۳۲)
اور اس سے بہترین کس کی بات؟ جو بلائے اللہ کی طرف، اور اچھے عمل کرے اور کہے بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ (۳۳)
اور برابر نہیں ہوتی نیکی اور بُرائی، آپ (بُرائی کو) اس (انداز سے ) دور کریں جو بہترین ہو تو یکایک وہ شخص کہ آپ کے درمیان اور اس کے درمیان عداوت تھی (ایسے ہو جائے گا) گویا وہ جگری دوست ہے۔ (۳۴)
اور یہ (بات) نہیں ملتی مگر انہیں جنہوں نے صبر کیا، اور یہ نہیں ملتی مگر بڑے نصیب والے کو۔ (۳۵)
اور اگر تمہیں شیطان کی طرف سے آئے کوئی وسوسہ تو اللہ کی پناہ چاہیں، بیشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۳۶)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں رات اور دن، اور سورج اور چاند، تم نہ سورج کو سجدہ کرو، نہ چاند کو، اور تم اللہ کو سجدہ کرو، وہ جس نے ان (سب) کو پیدا کیا، اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ (۳۷)
پس اگر وہ تکبر کریں (تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ) سو وہ (فرشتے ) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہ اکتاتے نہیں۔ (۳۸)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تو زمین کو سنسان دیکھتا ہے ، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا وہ لہلہانے لگتی ہے اور پھولتی ہے ، بیشک وہ جس نے اس کو زندہ کیا، البتہ وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے ، بیشک وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۳۹)
بیشک جو لوگ ہماری آیات میں کج روی کرتے ہیں وہ ہم پر (ہم سے ) پوشیدہ نہیں، تو کیا جو شخص آگ میں ڈالا جائے بہتر ہے یا جو روزِ قیامت امان کے ساتھ آئے ؟تم جو چاہو کرو، بیشک تم جو کچھ کرتے ہو وہ دیکھنے والا ہے۔ (۴۰)
بیشک جن لوگوں نے قرآن کا انکار کیا جب وہ ان کے پاس آیا (وہ اپنا انجام دیکھ لیں گے ) بیشک یہ گرامی قدر ہے۔ (۴۱)
اس کے پاس نہیں آتا باطل اس کے سامنے سے اور نہ اس کے پیچھے سے (قرآن ) نازل کیا گیا حکمت والے ، سزاوارِ حمد (اللہ کی طرف) سے۔ (۴۲)
آپ کو اس کے سوا نہیں کہا جاتا جو آپ سے پہلے رسولوں کو کہا جا چکا ہے ، بیشک آپ کا رب بڑی مغفرت والا، اور دردناک سزا دینے والا ہے۔ (۴۳)
اور اگر ہم قرآن کو عجمی زبان کا بناتے تو وہ کہتے اس کی آیتیں کیوں نہ صاف صاف بیان کی گئیں؟کیا کتاب عجمی اور رسول عربی، آپ فرما دیں جو ایمان لائے یہ ان لوگوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے ، اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی ہے ، اور یہ ان کے لئے اندھا پن ہے ، (گویا) یہ لوگ پکارے جاتے ہیں کسی دور جگہ سے۔ (۴۴)
اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں اختلاف کیا گیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا، اور بیشک وہ ضرور اس سے تردد میں ڈالنے والے شک میں ہیں۔ (۴۵)
جس نے اچھے عمل کئے تو اپنی ذات کے لئے (کئے ) اور جس نے بُرائی کی اس کا وبال اسی پر ہو گا، اور آپ کا رب اپنے بندوں پر مطلق ظلم کرنے والا نہیں۔ (۴۶)
قیامت کا علم اسی کے حوالے کیا جاتا ہے ، اور کوئی پھل اپنے گابھوں سے نہیں نکلتا، اور کوئی عورت (مادہ) حاملہ نہیں ہوتی، اور وہ بچہ نہیں جنتی مگر (یہ سب) اس کے علم میں ہوتا ہے ، اور جس دن وہ انہیں پکارے گا کہاں ہیں میرے شریک ؟وہ کہیں گے ، ہم نے تجھے اطلاع دے دی کہ ہم میں سے کوئی (اس کا) شاہد (گواہ) نہیں۔ (۴۷)
اور وہ جسے اس سے قبل (اللہ کے سوا) پکارتے تھے ، ان سے کھویا گیا، اور انہوں نے سمجھ لیا کہ (اب) ان کے لئے کوئی خلاصی نہیں۔ (۴۸)
انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا، اور اگر اسے کوئی بُرائی لگ جائے تو ناامید ہو کر مایوس ہو جاتا ہے۔ (۴۹)
اور البتہ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اپنی طرف سے اپنی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ ضرور کہے گا یہ میرے لئے ہے ، اور میں خیال نہیں رکھتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے ، اور اگر مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا تو بیشک اس کے پاس میرے لئے البتہ بھلائی ہے ، پس ہم کافروں کو ان کے اعمال سے ضرور آگاہ کریں گے ، اور البتہ ہم انہیں ضرور چکھائیں گے ایک سخت عذاب۔ (۵۰)
اور جب ہم انسان پر انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے ، اور اپنا پہلو بدل لیتا ہے ، اور جب اُسے (ذرا) بُرائی لگے تو لمبی چوڑی دعاؤں والا (بن جاتا ہے )۔ (۵۱)
آپ فرما دیں کیا تم نے دیکھا (یہ بتلاؤ) اگر (یہ قرآن) اللہ کے پاس سے ہو، پھر تم نے اس سے کفر کیا تو اس سے بڑا گمراہ کون جو دور دراز کی ضد میں ہو؟ (۵۲)
ہم جلد اپنی آیات انہیں اطراف عالم میں اور (خود ) ان کی ذات میں دیکھا دیں گے ، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ (قرآن) حق ہے ، کیا آپ کے رب کے لئے کافی نہیں کہ وہ ہر شے کا شاہد ہے۔ (۵۳)
خوب یاد رکھو! بیشک وہ اپنے رب کی ملاقات (روبرو حاضری) سے شک میں ہیں، یاد رکھو وہ ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (۵۴)
٭٭
۴۲۔ سُوْرَۃُ الشُّوْرٰی
مَکِّیَّۃٌ
آیات۵۳ رکوعات:۵
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
حا۔ میم۔ (۱) عین۔ سین۔ قاف۔ (۲) اسی طرح آپ کی طرف اور آپ کے پہلوں کی طرف اللہ وحی فرماتا ہے ، غالب حکمت والا۔ (۳)
اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے ، اور بلند عظمت والا ہے۔ (۴)
اور فرشتے اپنے رب کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں، اور ان کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں جو زمین میں ہیں، یاد رکھو! بیشک اللہ ہی بخشنے والا، مہربان ہے۔ (۵)
اور جو لوگ ٹھہراتے ہیں اللہ کے سوا (دوسروں کو) رفیق، اللہ انہیں دیکھ رہا ہے ، آپ ان پر ذمہ دار نہیں۔ (۶)
اور آپ ڈرائیں جمع ہونے کے دن سے ، کوئی شک نہیں اس میں ایک فریق جنت میں ہو گا اور ایک فریق دوزخ میں۔ (۷)
اور اگر اللہ چاہتا تو ضرور انہیں ایک امت بنا دیتا اور لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ، اور ظالموں کے لئے نہ کوئی کارساز ہے ، اور نہ مددگار۔ (۸)
کیا انہوں نے اللہ کے سوا کارساز ٹھہرا لئے ہیں؟ پس اللہ ہی کارساز ہے ، وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۹)
اور جس بات میں تم اختلاف کرتے ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے ، وہی ہے اللہ میرا رب اس پر میں نے بھروسہ کیا، اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ (۱۰)
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا، اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لئے بنائے جوڑے اور چوپایوں کے جوڑے ، وہ تمہیں اس دنیا میں پھیلاتا ہے ، اس کے مثل کوئی شے نہیں اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۱۱)
اسی کے پاس ہیں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں، وہ رزق فراخ کرتا ہے جس کے لئے وہ چاہتا ہے (اور جس پر چاہے ) تنگ کر دیتا ہے ، بیشک وہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۱۲)
اس نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے حکم دیا تھا، نوح کو اور جن کو ہم نے آپ کی طرف وحی کی، اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰٰ کو دیا تھا، کہ تم دین قائم کرو، اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو، آپ جس کی طرف انہیں بلاتے ہیں وہ مشرکوں پر گراں گزرتی ہے ، اللہ اپنی طرف (اپنے قرب کے لئے ) جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے ، اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے اپنی طرف سے ہدایت دیتا ہے۔ (۱۳)
اور انہوں نے تفرقہ نہ ڈالا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم (وحی) آ گیا، آپس کی ضد کی وجہ سے ، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک مدت مقررہ تک مہلت دینے کا فیصلہ نہ گزر چکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا، اور بیشک جو لوگ ان کے بعد کتاب کے وارث بنائے گئے البتہ وہ اس سے تردد میں ڈالنے والے۔ (۱۴)
پس آپ اسی کے لئے بلائیں اور اس پر قائم رہیں جیسا کہ میں نے آپ کو حکم دیا ہے اور آپ ان کی خواہشات پر نہ چلیں اور کہیں میں ایمان لے آیا ہر کتاب ہر جو اللہ نے نازل کی اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ، ہمارے لئے ہمارے اعمال اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، اللہ ہمیں جمع کرے گا، اور اسی کی طرف بازگشت ہے۔ (۱۵)
ا ور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں اس کے بعد کہ اس کو قبول کر لیا گیا، ان کی حجت (جھگڑا) ان کے رب کے ہاں باطل ہے (بے ثبات) اور ان پر غضب ہے ، اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ (۱۶)
اللہ ہے جس نے کتاب حق کے ساتھ نازل کی، اور میزان (بھی) اور تجھے کیا خبر شاید قیامت قریب ہو۔ (۱۷)
اس کی وہ لوگ جلدی مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے ، اور جو لوگ ایمان لائے وہ اس سے ڈرتے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ، یاد رکھو! بیشک جو لوگ قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں وہ دور (بڑی) گمراہی میں ہیں۔ (۱۸)
اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے ، وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور وہ قوی غالب ہے۔ (۱۹)
جو شخص چاہتا ہے کھیتی آخرت کی، ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کر دیتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے اس میں سے کچھ دیتے ہیں اور اس کے لئے نہیں آخرت میں کوئی حصہ۔ (۲۰)
کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے ، جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی، اور اگر ایک قول فیصل نہ ہوتا تو ان کے درمیان (یہیں) فیصلہ ہو جاتا، اور بیشک ظالموں کے لئے عذاب ہے دردناک۔ (۲۱)
تم ظالموں کو دیکھو گے وہ اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈرتے ہوں گے ، اور وہ ان پر واقع ہونے والا ہے ، اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے ، وہ جو چاہیں گے ان کے رب کے ہاں (ملے گا) یہی ہے بڑا فضل۔ (۲۲)
یہی ہے وہ جس کی اللہ اپنے بندوں کو بشارت دیتا ہے جو ایمان لائے ا ور انہوں نے اچھے عمل کئے ، آپ فرما دیں میں تم سے قرابت کی محبت کے سوا اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا، اور جو شخص کوئی نیکی کمائے گا (کرے گا) ہم بڑھا دیں گے اس کے لئے اس میں خوبی، بیشک اللہ بخشنے والا قدر دان ہے۔ (۲۳)
کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ پر باندھا ہے جھوٹ، سو اگر اللہ چاہتا تو تمہارے دل پر مہر لگا دیتا، اور اللہ باطل کو مٹاتا ہے ، اور حق کو ثابت کرتا ہے اپنے کلمات سے ، بیشک وہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ (۲۴)
اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ، اور برائیوں کو معاف کر دیتا ہے ، اور وہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۲۵)
اور وہ (ان کی دعائیں) قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیتا ہے ، ا ور کافروں کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۲۶)
اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے رزق کشادہ کر دیتا ہے ، تو وہ زمین میں سرکشی کرتے ، لیکن وہ اندازے سے جس قدر چاہتا ہے اتارتا ہے ، بیشک وہ اپنے بندوں (کی ضرورتوں) سے باخبر ہے ، دیکھنے والا ہے۔ (۲۷)
اس کے بعد جب وہ نا امید ہو گئے تو وہی ہے جو بارش نازل فرماتا ہے ، اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے ، اور وہی ہے کارساز، ستودہ صفات۔ (۲۸)
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے پیدا کرنا آسمانوں کا اور زمین کا، اور جو اس نے ان کے درمیان چوپائے پھیلائے ، اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ (۲۹)
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کے سبب (پہنچی) جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا (کیا) اور بہت سے (گناہ) معاف (ہی) کر دیتا ہے۔ (۳۰)
اور تم زمین میں (اللہ تعالی کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور اللہ کے سوا تمہارے لئے نہ کوئی کارساز ہے اور نہ کوئی مددگار۔ (۳۱)
اور اس کی نشانیوں میں سے سمندر میں پہاڑوں جیسے جہاز ہیں۔ (۳۲)
اگر وہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے تو اس کی سطح پر وہ کھڑے رہ جائیں، بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر کرنے والے شکر کرنے والے کے لئے۔ (۳۳)
یا وہ انہیں ان کے اعمال کے سبب ہلاک کر دے یا بہتوں کو معاف کر دے۔ (۳۴)
اور جان لیں وہ لوگ جو ہماری آیات میں جھگڑتے ہیں، کہ ان کے لئے کوئی خلاصی (جائے فرار) نہیں۔ (۳۵)
پس تمہیں جو کچھ کوئی شے دی گئی ہے تو وہ دنیوی زندگی کا (نا پائیدار) فائدہ ہے ، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ، ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (۳۶)
اور جو لوگ بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے اور جب وہ غصے میں ہوتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں۔ (۳۷)
اور جن لوگوں نے قبول کیا اپنے رب کا فرمان اور انہوں نے نماز قائم کی، اور ان کا کام باہم مشورہ (پر مبنی ہوتا ہے) اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ (۳۸)
اور جو لوگ (ایسے ہیں کہ) جب ان پر ظلم و تعدی پہنچے تو وہ بدلہ لیتے ہیں۔ (۳۹)
اور بُرائی کا بدلہ اسی جیسی بُرائی ہے ، سو جس نے معاف کر دیا اور اصلاح (درستی) کر دی تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ، بیشک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ (۴۰)
اور البتہ جس نے بدلہ لیا اپنے اوپر ظلم کے بعد، سو یہ لوگ ہیں جن پر کوئی راہِ (الزام) نہیں۔ (۴۱)
اس کے سوا نہیں کہ الزام اُن پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، اور زمین میں ناحق فساد مچاتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۴۲)
اور البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو بیشک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ (۴۳)
اور جس کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کے لئے نہیں اس کے بعد کوئی کارساز، اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب دیکھیں گے (تو) وہ کہیں گے کیا لوٹنے کی کوئی راہ ہے ؟ (۴۴)
اور تو دیکھے گا جب وہ عاجزی کرتے ہوئے ذلت سے دوزخ پر پیش کئے جائیں گے تو وہ دیکھتے ہوں گے نیم کشادہ گوشۂ چشم سے ، اور مؤمن کہیں گے خسارہ پانے والے وہ ہیں جنہوں نے خسارے میں ڈالا اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو روزِ قیامت، خوب یاد رکھو! ظالم بیشک ہمیشہ رہنے والے عذاب میں ہوں گے۔ (۴۵)
اور ان کے لئے نہیں ہیں کوئی کارساز جو انہیں اللہ کے سوا مدد دیں، اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے (ہدایت کا) کوئی راستہ نہیں۔ (۴۶)
تم اپنے رب کا فرمان اس سے قبل قبول کر لو کہ وہ دن آئے جس کو اللہ (کی جانب) سے کوئی پھیرنے والا نہیں، تمہارے لئے نہیں اس دن کوئی پناہ، اور تمہارے لئے کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ (۴۷)
پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو ہم نے آپ کو ان پر نہیں بھیجا نگہبان، آپ کے ذمے (پیغام) پہنچانے کے سوا نہیں، اور بیشک جب ہم انسان کو اپنی طرف سے رحمت (کا مزہ) چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے ، اور اگر انہیں اس کے بدلے کوئی بُرائی پہنچے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا، تو بیشک انسان بڑا ناشکرا ہے۔ (۴۸)
اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت، جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، وہ عطا کرتا ہے جس کو وہ چاہے بیٹیاں، اور عطا کرتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے بیٹے۔ (۴۹)
یا انہیں جمع کر دیتا (جوڑے دیتا ہے ) بیٹے اور بیٹیاں، اور جس کو وہ چاہتا ہے بانجھ (بے اولاد) کر دیتا ہے ، بیشک وہ جاننے والا، قدرت رکھنے والا ہے۔ (۵۰)
اور کسی بشر کو (مجال) نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی (اشارے ) سے یا پردے کے پیچھے سے ، یا وہ کوئی فرشتہ بھیجے ، پس وہ اس کے حکم سے جو (اللہ) چاہے وہ وحی کرے (پیغام پہنچائے ) بیشک وہ بلند تر حکمت والا ہے۔ (۵۱)
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے قرآن کو وحی کیا، آپ نہ جانتے تھے کتاب کیا ہے ؟اور نہ ایمان (کی تفصیل) لیکن ہم نے اسے نور بنا دیا، اس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں، اور بیشک آپ ضرور رہنمائی کرتے ہیں سیدھے راستے کی طرف۔ (۵۲)
(یعنی) اللہ کا راستہ، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، یاد رکھیں تمام کاموں کی بازگشت اللہ کی طرف ہے۔ (۵۳)
٭٭
۴۳۔ سُوْرَۃُ الزُّخْرُفِ
مَکِّیَّۃٌ
آیات۸۹ رکوعات:۷
اللہ کے نام سے جو نہایت رحم کرنے والا، مہربان ہے
حا، میم۔ (۱) قسم ہے واضح کتاب کی۔ (۲) بیشک ہم نے اسے بنایا عربی زبان میں قرآن، تاکہ تم سمجھو۔ (۳) اور بیشک وہ (قرآن) ہمارے پاس لوح محفوظ میں ہے ، بلند مرتبہ، با حکمت۔ (۴)
کیا ہم یہ نصیحت تم سے اعراض کر کے اس لئے ہٹا لیں کہ تم حد سے گزرنے والے لوگ ہو۔ (۵)
اور ہم نے پہلے لوگوں میں بہت سے نبی بھیجے۔ (۶)
اور ان کے پاس نہیں آیا کوئی نبی مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرتے تھے۔ (۷)
پس ہم نے اُن (اہل مکہ) سے زیادہ سخت پکڑنے والے لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور گزر چکی ہے پہلے لوگوں کی حالت۔ (۸)
اور اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے انہیں پیدا کیا ہے غالب، علم والے (اللہ) نے۔ (۹)
اور وہ جس نے ایک اندازے کے ساتھ آسمانوں سے پانی اتارا پھر ہم نے اس سے زندہ کیا مردہ شہر کو، اسی طرح تم (قبروں سے ) نکالے جاؤ گے۔ (۱۱)
وہ جس نے ان سب کے جوڑے بنائے اور تمہارے لئے بنائیں کشتیاں اور چوپائے ، جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ (۱۲)
تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر ٹھیک طور سے بیٹھو، پھر تم یاد کرو اپنے رب کی نعمت کو، جب تم اس پر ٹھیک بیٹھ جاؤ، اور تم کہو پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے لئے مسخر (تابع فرمان) کیا اور ہم اس کو قابو میں لانے والے نہ تھے۔ (۱۳)
اور ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (۱۴)
اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے بنا لیا ہے جزو (لخت جگر) بیشک انسان صریح ناشکرا ہے۔ (۱۵)
کیا اس نے اپنی مخلوق میں سے (اپنے لئے ) بیٹیاں بنا لیں؟اور تمہیں مخصوص کیا (نوازا) بیٹوں کے ساتھ؟ (۱۶)
اور جب ان میں سے کسی ایک کو خوشخبری دی جائے جس کی مثال اس نے اللہ کے لئے (بیٹی کی) دی تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے ، اور وہ پُر از غم ہو جاتا ہے۔ (۱۷)
کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور وہ بحث مباحثہ میں غیر واضح ہو (اسے اللہ کی بیٹی کہتے ہیں)۔ (۱۸)
اور انہوں نے ٹھہرایا فرشتوں کو عورتیں، جو رحمن (اللہ) کے بندے ہیں، کیا تم ان کی پیدائش (کے وقت) موجود تھے ؟ ان کا یہ دعوی ابھی لکھ لیا جائے گا، اور ( قیامت کے دن ) ان سے پوچھا جائے گا۔ (۱۹)
اور وہ کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا ہم ان کی عبادت نہ کرتے ، انہیں ان کا کچھ علم نہیں، وہ تو صرف اٹکل دوڑاتے ہیں۔ (۲۰)
کیا ہم نے اس سے قبل انہیں کوئی کتاب دی ہے جس کو وہ تھامے ہوئے ہیں (اس سے استدلال کرتے ہیں)۔ (۲۱)
بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا، اور بیشک ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ (۲۲)
اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈر سنانے والا نہیں بھیجا مگر اس کے خوشحال لوگوں نے کہا، بیشک ہم نے پایا ہے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر اور بیشک ہم ان کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہیں۔ (۲۳)
نبی نے کہا:کیا (اس صورت میں بھی) اگرچہ میں بہتر راہ بتلانے والا (دین حق لایا) ہوں، اس سے جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا؟وہ بولے بیشک ہم اس کا انکار کرنے والے ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو۔ (۲۴)
تو ہم نے ان سے بدلہ لیاسو دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ (۲۵)
اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو کہا بے شک میں اس سے بیزار ہوں جس کی تم پرستش کرتے ہو۔ (۲۶)
اور اس (ابراہیم) نے اس کو کیا اپنی نسل میں باقی رہنے والی بات، تاکہ وہ رجوع کرتے رہیں۔ (۲۸)
بلکہ میں نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو سامانِ زیست دیا، یہاں تک کہ ان کے پاس قرآن آ گیا، اور صاف صاف بیان کرنے والا رسول۔ (۲۹)
اور جب ان کے پاس حق آ گیا تو وہ کہنے لگے یہ جادو ہے ، اور بیشک ہم اس کے انکار کرنے والے ہیں۔ (۳۰)
اور وہ بولے یہ قرآن (مکہ و طائف کی) دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟ (۳۱)
کیا وہ تمہارے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں، اور ہم نے ان کے درمیان ان کی روزی دنیا کی زندگی میں تقسیم کی ہے ، اور ہم نے ان میں سے ایک کے درجے دوسرے پر بلند کئے ہیں، تاکہ ان میں سے ایک دوسرے کو خدمتگار بنائے ، اور تمہارے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (۳۲)
اور اگر (احتمال) نہ ہوتا کہ تمام لوگ ایک طریقہ پر ہو جائیں گے تو ہم بناتے ان کے لئے جو کفر کرتے ہیں اللہ کا، ان کے گھروں کے لئے چاندی کی چھت، اور سیڑھیاں، جن پر وہ چڑھتے۔ (۳۳)
ا ور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت جن پر وہ تکیہ لگاتے۔ (۳۴)
اور (وہ بھی) سونے کے ، اور یہ سب (کچھ) نہیں، مگر دنیا کی زندگی کی پونجی، اور تمہارے رب کے نزدیک آخرت پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ (۳۵)
اور جو کوئی اللہ کی یاد سے شب کوری (غفلت) کرے ، ہم مسلط کر دیتے ہیں اس کے لئے ایک شیطان تو وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔ (۳۶)
اور بیشک وہ انہیں راستے سے روکتے ہیں، اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ (۳۷)
یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئیں گے تو وہ (اپنے شیطان ساتھی سے ) کہے گا اے کاش ! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کی دوری ہوتی تو بُرا ساتھی ہے۔ (۳۰)
اور جب تم نے ظلم کیا تو آج تمہیں یہ ہرگز نفع نہ دے گا کہ تم عذاب میں مشترک ہو۔ (۳۹)
تو کیا آپ بہروں کو سنائیں گے یا اندھوں کو راہ دکھائیں گے ؟اور اس کو جو صریح گمراہی میں ہو۔ (۴۰)
پھر اگر ہم آپ کو (دنیا سے ) لے جائیں تو بیشک ہم (پھر بھی) ان سے انتقام لینے والے ہیں۔ (۴۱)
یا اگر ہم آپ کو دکھا دیں وہ جو ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے (جب بھی) ہم ان پر قادر ہیں۔ (۴۲)
پس آپ وہ مضبوطی سے تھام لیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے ، بیشک آپ سیدھے راستہ پر ہیں۔ (۴۳)
اور بیشک یہ (قرآن) ایک نصیحت نامہ ہے آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے ، اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔ (۴۴)
آپ ہمارے ان رسولوں سے پوچھ لیں جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ، کیا ہم نے اللہ کے سوا کوئی معبود مقرر کئے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے۔ (۴۵)
اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، تو اس نے کہا بیشک میں تمام جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں۔ (۴۶)
پھر جب وہ ہماری نشانیوں کے ساتھ آئے تو ناگہاں وہ ان نشانیوں پر ہنسنے لگے۔ (۴۷)
اور ہم انہیں کوئی نشانی نہیں دکھاتے تھے ، مگر وہ پہلی نشانی سے بڑی ہوتی، اور ہم نے انہیں عذاب میں گرفتار کیا تاکہ وہ باز آ جائیں۔ (۴۸)
اور انہوں نے کہا اے جادو گر! ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کراس عہد کے سبب جو تیرے پاس ہے ، بیشک ہم ہدایت پانے والے ہیں (ہدایت پالیں گے )۔ (۴۹)
پھر جب ہم نے ان سے عذاب ہٹا دیا تو ناگہاں وہ عہد توڑ گئے۔ (۵۰)
اور فرعون نے اپنی قوم میں پکارا (منادی کی) اس نے کہا اے میری قوم! کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں؟اور یہ نہریں جاری ہیں میرے (محلات کے ) نیچے سے ، تو کیا تم نہیں دیکھتے۔ (۵۱)
بلکہ میں اس سے بہتر ہوں جو کم قدر ہے ، اور وہ معلوم نہیں ہوتا صاف گفتگو کرتا۔ (۵۲)
تو اس پر سونے کے کنگن کیوں نہ ڈالے گئے ، یا اس کے ساتھ فرشتے (کیوں نہ) آئے پرا باندھ کر۔ (۵۳)
پس اس نے اپنی قوم کو بے عقل کر دیا، تو انہوں نے اس کی اطاعت کی، بیشک وہ نافرمان لوگ تھے۔ (۵۴)
پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو ہم نے غرق کر دیا۔ (۵۵) تو ہم نے انہیں گئے گزرے کر دیا، اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک داستان۔ (۵۶)
اور جب عیسیٰٰ بن مریم کی مثال بیان کی گئی تو یکایک تمہاری قوم اس سے خوشی کے مارے چلانے لگی۔ (۵۷)
وہ بولے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں؟یا وہ (عیسیٰٰ بن مریم) وہ اس کو تمہارے لئے صرف جھگڑنے کو بیان کرتے ہیں، بلکہ وہ تو ہیں ہی جھگڑالو۔ (۵۸)
عیسیٰٰ صرف ایک بندے ہیں، ہم نے انعام کیا ان پر اور ہم نے انہیں بنی اسرائیل کے لئے ایک مثال بنایا۔ (۵۹)
اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتے پیدا کرتے زمین میں، وہ تمہارے جانشین ہوتے۔ (۶۰)
اور بیشک وہ قیامت کی ایک نشانی ہے ، تو تم ہرگز اس میں شک نہ کرو، اور میری پیروی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ (۶۱)
اور شیطان تمہیں روک نہ دے ، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (۶۲)
اور جب عیسیٰٰ آئے کھلی نشانیوں کے ساتھ، تو انہوں نے کہا تحقیق میں تمہارے پاس حکمت کے ساتھ آیا ہوں اور اس لئے کہ میں تمہارے لئے بعض باتیں بیان کر دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو، سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۶۳)
بیشک اللہ ہی ہے میرا رب اور تمہارا رب، سو تم اس کی عبادت کرو یہ راستہ ہے سیدھا۔ (۶۴)
پھر گروہوں نے آپس میں اختلاف ڈال لیا، سو ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جنہوں نے ظلم کیکا، عذاب سے دکھ دینے والے دن کے۔ (۶۵)
کیا وہ صرف قیامت کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ ان پر اچانک آ جائے اور وہ شعور (خبر بھی) نہ رکھتے ہوں۔ (۶۶)
پرہیز گاروں کے سوا اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ (۶۷)
اے میرے بندو! تم پر کوئی خوف نہیں آج کے دن اور نہ تم غمگین ہو گے۔ (۶۸)
جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ مسلم (فرمانبردار) تھے۔ (۶۹) داخل ہو جاؤ تم اور تمہاری بیویاں جنت میں، تم خوش بخت کئے جاؤ گے۔ (۷۰)
ان پر سونے کی رکابیاں اور آبخورے لئے پھریں گے ، اور اس میں (موجود ہو گا) جو (ان کے ) جی چاہیں گے اور آنکھوں کی لذت (ہو گی) اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ (۷۱)
اور یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ان (اعمال) کے بدلے جو تم کرتے تھے۔ (۷۲) تمہارے لئے اس میں بہت میوے ہیں، ان میں سے تم کھاتے ہو۔ (۷۳)
بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۷۴)
ان سے ہلکا نہ کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید پڑے رہیں گے۔ (۷۵) اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ وہی ظالم تھے۔ (۷۶)
اور وہ پکاریں گے اے مالک! (داروغۂ جہنم) اچھا ہو کہ تیرا رب ہماری موت کا فیصلہ کر دے ، وہ کہے گا بیشک تم (اسی حال میں) ہمیشہ رہنے والے ہو۔ (۷۷)
تحقیق ہم تمہارے پاس حق کے ساتھ آئے ، لیکن تم میں سے اکثر حق کو ناپسند کرنے والے تھے۔ (۷۸) کیا انہوں نے کوئی بات ٹھہرا لی ہے تو بیشک ہم (بھی) ٹھہرانے والے ہیں۔ (۷۹)
کیا وہ گمان کرتے ہیں؟ کہ ہم نہیں سنتے ان کی پوشیدہ باتوں اور ان کی سرگوشیوں کو، ہاں (کیوں نہیں) ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھتے ہیں۔ (۸۰)
آپ فرما دیں اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو میں (اس کا) پہلا عبادت کرنے والا ہوتا۔ (۸۱)
آسمانوں اور زمین کا رب، عرش کا رب اس سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۸۲)
پس ان کو چھوڑ دیں کہ وہ بیہودہ باتیں کریں اور کھیلیں یہاں تک کہ وہ اس دن کو پالیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ (۸۳)
اور وہی جو آسمانوں کا معبود ہے اور زمین کا معبود ہے ، اور وہی حکمت والا، علم والا ہے۔ (۸۴)
اور بڑی برکت والا ا ورجس کے لئے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی، اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ، اور اس کے پاس ہے قیامت کا علم اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۸۵)
اور وہ جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ شفاعت کاج اختیار نہیں رکھتے ، سوائے اس کے جس نے گواہی دی حق کی، اور وہ جانتے ہیں۔ (۸۶)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں انہیں کس نے پیدا کیا تووہ ضرور کہیں گے ، اللہ نے تو وہ کدھر الٹے پھرے جاتے ہیں؟
قسم ہے (رسول کے یہ) کہنے کی اے میرے رب! یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ (۸۸) تو آپ ان سے منہ پھیر لیں، اور سلام کہیں پس جلد وہ (انجام) جان لیں گے۔ (۸۹)
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید