FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آسان ترجمہ قرآن

 

حصہ دوم، انفال تا  نور

 

                حافظ نذر احمد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

۸۔ سورۂانفال

 

مدنیہ

آیات:۷۵  رکوعات:۱۰

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

 

آپ سے غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیں غنیمت اللہ اور رسول کے لئے ہے ، پس اللہ سے ڈرو اور درست کرو آ پس میں (تعلقات) اور اللہ اور اس کے رسول کی  اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔ (۱)

در حقیقت مومن وہ لوگ ہیں جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اور ان  پر (ان کے سامنے ) اس کی آیتیں پڑھی جائیں تو وہ (آیات) ان کا ایمان زیادہ کریں، اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۲)

وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں، اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں خرچ کرتے ہیں۔ (۳)

یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس درجے ہیں، اور بخشش اور رزق عزت والا۔ (۴)

جیسا کہ آ پ کو آ پ کے رب نے آ پ کے گھر سے حق (درست تدبیر) کے ساتھ نکالا، اور بیشک اہل ایمان کی ایک جماعت نا خوش تھی۔ (۵)

وہ آ پ سے حق میں جھگڑتے تھے جبکہ وہ ظاہر ہو چکا، گویا کہ وہ ہانکے جا رہے ہیں موت کی طرف اور وہ (اسے ) دیکھ رہے ہیں۔ (۶)

اور (یاد کرو) اللہ تمہیں وعدہ دیتا ہے کہ (ابو جہل اور ابو سفیان کے ) دو گروہ میں سے ایک تمہارے لئے اور تم چاہتے تھے کہ (جس میں) کانٹا نہ لگے تمہارے لئے ہو اور اللہ چاہتا تھا کہ ثابت کر دے حق اپنے کلمات سے ، اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ (۷)

تا کہ حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل خواہ، مجرم نہ پسند کریں۔ (۸)

یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کر لی کہ میں تمہاری مدد کروں گا ایک ہزار لگاتار آ نے والے فرشتوں سے۔ (۹)

اور اللہ نے اس کو نہیں بنایا مگر خوشخبری، اور تاکہ اس سے مطمئن ہوں تمہارے دل اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے ، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۱۰)

یاد کرو جب اس نے تم پر اونگھ تاری کر دی، یہ اس (اللہ) کی طرف سے تسکین (تھی) اور اس نے تم پر آ سمان سے پانی اتارا ، تا کہ تمہیں پاک کر دے اس سے ، اور تم سے شیطان کی ناپاکی دور کر دے ، اور تاکہ تمہارے دل مضبوط کر دے ، اور اس سے جما دے (تمہارے ) قدم۔ (۱۱)

یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں کو وحی بھیجی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تم ثابت رکھو مؤمنوں کے (دل)، میں عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا، تم ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ایک ایک پور پر ضرب لگاؤ۔ (۱۲)

یہ اس لئے ہوا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہوئے ، اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہو گا (وہ یاد رکھے ) بیشک اللہ کی مار سخت ہے۔ (۱۳)

تو تم یہ چکھو اور یقیناً کافروں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے۔ (۱۴)

اے ایمان لانے والو! جب ان سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو جنہوں نے کفر کیا، میدان جنگ میں، تو تم ان سے پیٹھ نہ پھیرو۔ (۱۵)

اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے ، سوائے اس کے کہ گھات لگاتا ہو جنگ کے لئے یا اپنی جماعت کی طرف جا ملنے کو، پس وہ لوٹا اللہ کے غضب کے ساتھ، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور یہ برا ٹھکانہ ہے۔ (۱۶)

تو تم نے انہیں قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا، اور آ پ نے (مٹھی پھر خاک ) نہیں پھینکی جب آ پ نے پھینکی،  بلکہ اللہ نے پھینکی، اور تاکہ مؤمنوں کو اپنی آزمائش (احسان) سے اچھی طرح آزمائے ، بیشک اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (۱۷)

یہ تو ہوا، اور یہ کہ اللہ کافروں کا داؤ سست کرنے والا ہے۔ (۱۸)

کافرو! اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو البتہ تمہارے پاس فیصلہ (اسلام کی فتح کی صورت میں) آ گیا ہے اور اگر تم باز آ جاؤ تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے ، اور اگر پھر (یہی) کرو گے توہم بھی پھر کریں گے اور تمہارا جتھا ہر گز تمہارے کام نہیں آئے گا، خواہ اس کی کثرت ہو اور بیشک اللہ مؤمنوں کے ساتھ ہے۔ (۱۹)

اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو، اور اس سے نہ پھرو جب کہ تم سنتے ہو۔ (۲۰)

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا ہم نے سُنا حالانکہ وہ سنتے نہیں۔ (۲۱)

بیشک جانوروں سے بدترین اللہ کے نزدیک (وہ ہیں جو) بہرے ، گونگے ہیں، جو سمجھتے نہیں۔ (۲۲)

اور اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انہیں ضرور سنا دیتا، اور اگر اللہ انہیں سنا دے تو ضرور پھر جائیں، اور وہ منہ پھیرنے والے ہیں۔ (۲۳)

اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول (کی دعوت) قبول کرو، جب وہ تمہیں اس کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے ، اور جان لو کہ اللہ حائل ہو جاتا ہے آ دمی اور اس کے دل کے درمیان، اور یہ کہ تم اسی کی طرف (روز حشر) اٹھائے جاؤ گے۔ (۲۴)

اور اس فتنہ سے ڈرو جو نہ پہنچے گا تم میں سے خاص طور پر ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا، اور جان لو کہ اللہ شدید عذاب والا ہے۔ (۲۵)

اور یاد کرو جب تم زمین میں تھوڑے تھے ، کمزور سمجھے جاتے تھے ، تم ڈرتے تھے کہ تمہیں اچک کر لے جائیں گے لوگ، پس اس نے تمہیں ٹھکانہ دیا اور اپنی مدد سے قوت دی، اور پاکیزہ چیزوں سے تمہیں رزق دیا تاکہ تم شکر گزار ہو جاؤ۔ (۲۶)

اے ایمان والو! خیانت نہ کرو اللہ کی اور رسول کی، اور خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں جب کہ تم جانتے ہو (دیدہ و دانستہ)۔ (۲۷)

اور جان لو کہ در حقیقت تمہارے مال اور تمہاری اولاد بڑی آزمائش ہیں، اور یہ کہ اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (۲۸)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے بنا دے گا (حق اور باطل جدا کرنے والا) فرقان، اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (۲۹)

اور (یاد کرو) جب کافر آ پ کے بارہ میں خفیہ تدبیریں کرتے تھے کہ آ پ کو قید کر لیں، یا قتل کر دیں، یا مکہ سے نکال دیں اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے اور اللہ بھی خفیہ تدبیریں کرتا ہے ، اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (۳۰)

اور جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں، البتہ ہم نے سن لیا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس جیسی (آیات) کہہ لیں، یہ تو صرف قصہ کہانیاں ہیں اگلوں کی۔ (۳۱)

اور جب وہ کہنے لگے اے اللہ ! اگر تیری طرف سے یہی سچ ہے تو برسا ہم پر آ سمان سے پتھر، یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ۔ (۳۲)

اور اللہ (ایسا) نہیں ہے کہ انہیں عذاب دے جبکہ آ پ ان میں ہیں، اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہوں۔ (۳۳)

اور ان میں کیا ہے ؟ کہ اللہ انہیں عذاب نہ دے جبکہ وہ مسجد حرام سے روکتے ہیں، اور وہ نہیں ہیں اس کے متولی اس کے متولی تو صرف متقی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (۳۴)

اور خانۂ کعبہ کے نزدیک ان کی نماز نہ تھی مگر صرف سیٹیاں اور تالیاں، پس عذاب چکھو اس کے بدلے جو تم کفر کرتے تھے۔ (۳۵)

بے شک کافر اپنے مال خرچ کرتے ہیں تا کہ وہ روکیں اللہ کے راستہ سے ، سو اب وہ خرچ کریں گے پھر ان پر حسرت ہو گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے ، اور کافر جہنم کی طرف اکھٹے کیے جائیں گے۔ (۳۶)

تاکہ اللہ گندے کو پاک سے جدا کر دے اور گندے کو ایک دوسرے پر رکھے ، پھر سب کو ایک ڈھیر کر دے ، پھر اس کو جہنم میں ڈال دے یہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے۔ (۳۷)

کافروں سے کہہ دیں اگر وہ باز آ جائیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا جو گزر چکا، اور اگر وہ پھر وہی کریں تو تحقیق پہلوں کی روش گزر چکی ہے۔ (۳۸)

اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے ، اور دین سب اللہ کا ہو جائے ، پھر اگر وہ باز آ جائیں تو بیشک اللہ دیکھنے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۳۹)

اور اگر وہ منہ موڑ لیں تو جان لو کہ اللہ تمہارا ساتھی ہے ، کیا خوب ساتھی اور کیا خوب مدد گار ہے۔ (۴۰)

اور جان لو کہ تم جو کچھ کسی چیز سے غنیمت لو اس کا پانچواں حصہ ہے اللہ کے لئے ، اور رسول کے لیے ، اور (ان کے ) قرابت داروں کے لیے ، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور جو ہم نے اپنے بندہ پر فیصلہ (بدر) کے دن نازل کیا، جس دن (کفر و اسلام) کی دونوں فوجیں بھڑ گئیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (۴۱)

جب تم ادھر والے کنارے پر تھے اور وہ پرلے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ترائی میں) تھا اگر تم باہم وعدہ کرتے تو البتہ وعدہ میں اختلاف کرتے ( وقت پر نہ پہنچتے ) لیکن (اللہ نے جمع کیا) تاکہ پورا کر دے اللہ وہ کام جو ہو کر رہنے والا تھا ، تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل سے ہلاک ہو، اور جس کو زندہ رہنا ہے وہ زندہ رہے دلیل سے اور بیشک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۴۲)

اور جب اللہ نے تمہیں تمہارے خواب میں ان (کافروں) کو دکھایا تھوڑا، اور اگر وہ تمہیں ان (کی تعداد) کو بہت دکھاتا تو تم بزدلی کرتے اور (جنگ کے ) معاملے میں جھگڑتے لیکن اللہ نے بچا لیا، بیشک وہ دلوں کی بات جاننے والا ہے۔ (۴۳)

اور جب تم آمنے سامنے ہوئے تو وہ تمہیں دکھلائے تمہاری آنکھوں میں تھوڑے اور تمہیں ان کی آنکھوں میں دکھلایا تھوڑا تاکہ اللہ پورا کر دے وہ کام جو ہو کر رہنے والا تھا اور تمام کاموں کی بازگشت اللہ کی طرف ہے۔ (۴۴)

اے ایمان والو ! جب کسی جماعت (کفار) سے تمہارا آمنا سامنا ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو تاکہ تم فلاح (دو جہانوں میں کامیابی) پاؤ۔ (۴۵)

اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور آپس میں جھگڑا نہ کرو کہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا جاتی رہے گی (اکھڑ جائے گی) اور صبر کرو بیشک اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے۔ (۴۶)

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو اپنے گھروں سے نکلے اتراتے ، اور لوگوں کے دکھاوے کو، اور اللہ کے راستے سے روکتے ہوئے اور وہ جو کرتے ہیں اللہ احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (۴۷)

اور جب شیطان نے ان کے کام خوشنما کر کے دکھائے ، اور کہا آج لوگوں میں سے تم پر کوئی غالب (آنے والا) نہیں، اور میں تمہارا رقیق (حمایتی) ہوں، پھر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو وہ اپنی ایڑیوں پر الٹا پھر گیا، اور بولا میں تم سے لا تعلق ہوں، میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ، میں اللہ سے ڈرتا ہوں (کہ مجھے ہلاک نہ کر دے ) اور اللہ سخت عذاب والا ہے۔ (۴۸)

جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا کہنے لگے کہ انہیں (مسلمانوں کو) ان کے دین نے مغرور کر دیا ہے ، اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۴۹)

تشریح: جب مسلمانوں نے بے سروسامانی کی حالت میں اتنے بڑے لشکرسے ٹکر لے لی تو منافقین نے کہا تھا کہ یہ اپنے دین کے گھمنڈ میں بڑا دھوکہ کھا رہے ہیں، ان میں کفار مکہ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ (۴۹)

اور اگر تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں مارتے (جاتے ) ہیں ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پراور (کہتے جاتے ہیں ) دوزخ کا عذاب چکھو۔ (۵۰)

یہ اس کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھوں نے (اعمال) آگے بھیجے ہیں اور یہ کہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (۵۱)

جیسا کہ فرعون والوں کا اور ان سے پہلے لوگوں کا دستور تھا، انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، اور اللہ نے انہیں ان کے گناہوں پر پکڑا، بیشک اللہ قوت والا، سخت عذاب والا ہے۔ (۵۲)

یہ اس لیے ہے کہ اللہ (کبھی) اس نعمت کو بدلنے والا نہیں جو اس نے کسی قوم کو دی جب تک کہ وہ نہ بدل ڈالیں جو ان کے دلوں میں ہے (اپنا عقیدہ و احوال) اور یہ کہ اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۵۳)

جیسا کہ دستور تھا فرعون والوں کا جو ان سے پہلے تھے انہوں نے اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر دیا، اور فرعون والوں کو غرق کر دیا، اور وہ سب ظالم تھے۔ (۵۴)

بیشک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا سو وہ ایمان نہیں لاتے۔ (۵۵)

وہ لوگ جن سے تم نے معاہدہ کیا پھر وہ اپنا معاہدہ توڑ دیتے ، ہر بار، اور وہ ڈرتے نہیں۔ (۵۶)

پس اگر تم انہیں جنگ میں پاؤ تو (انہیں ایسی سزا دو کہ) ان کے ذریعہ بھگا دو جو ان کے پیچھے ہیں، عجب نہیں کہ وہ عبرت پکڑیں۔ (۵۷)

اگر تمہیں کسی قوم سے دغا بازی کا ڈر ہو تو (ان کا معاہدہ ) پھینک دو ان کی طرف برابری پر (برابری  کا جواب دو) بیشک اللہ دغا بازوں کو پسند نہیں کرتا۔ (۵۸)

اور کافر ہر گز خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے ( بچ گئے ) ہیں، بیشک وہ عاجز نہ کر سکیں گے۔ (۵۹)

اور ان کے لیے تیار رکھو جو تم سے ہو سکے قوت سے ، اور پلے ہوئے گھوڑوں سے ، اس سے تم دھاک بٹھاؤ اللہ کے دشمنوں پر، اور دوسروں پر ان کے سوا، تم انہیں نہیں جانتے ، اللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا دیا جائے گا، اور تمہارا نقصان نہ کیا جائے گا۔ (۶۰)

اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو (تم بھی) اس (صلح) کی طرف جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۶۱)

اور اگر وہ تمہیں دھوکہ دینا چاہیں تو بیشک تمہارے لیے اللہ کافی ہے ، وہ جس نے تمہیں اپنی مدد سے اور مسلمانوں سے زور دیا۔ (۶۲)

اور الفت ڈال دی ان کے دلوں میں، اگر تم سب خرچ کر دیتے جو زمین میں ہے ، ان کے دلوں میں الفت نہ ڈال سکتے ،  لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی، بیشک وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۶۳)

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اللہ کافی ہے تمہیں اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں۔ (۶۴)

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مومنوں کو جہاد پر ترغیب دو، اگر تم میں سے بیس صبر والے (ثابت قدم ) ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے ، اور اگر تم میں سے ایک سو ہوں تو وہ ایک ہزار پر غالب آئیں گے ، اس لیے کہ وہ لوگ (کافر) سمجھ نہیں رکھتے۔ (۶۵)

اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں کمزوری ہے ، پس اگر تم میں سے ایک سو صبر والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے ، اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے ، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (۶۶)

کسی نبی کے لیے ( لائق) نہیں کہ اس کے (قبضہ میں ) قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں خونریزی نہ کر لے ، تم دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۶۷)

اگر اللہ (کی طرف) سے پہلے ہی لکھا ہوا نہ ہوتا تو اس کے لینے (بدلہ) میں تمہیں پہنچتا، بڑا عذاب۔ (۶۸)

پس اس میں سے کھاؤ جو تمہیں غنیمت میں حلال پاک ملا، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۶۹)

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ (قبضہ) میں جو قیدی ہیں، ان سے کہہ دیں کہ اگر اللہ تمہارے دلوں میں کوئی بھلائی معلوم کر لے گا تو تمہیں اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیا گیا اور وہ تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۷۰)

اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خیانت کا ارادہ کریں گے تو انہوں نے اس سے قبل اللہ سے خیانت کی تو اللہ نے انہیں (تمہارے ) قبضہ میں دے دیا اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے   ۔ (۷۱)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اور جن لوگوں نے ٹھکانہ دیا اور مدد کی، وہی لوگ ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور جو لوگ ایمان لائے ، اور انہوں نے ہجرت نہ کی، تمہیں نہیں ہے کچھ سروکار ان کی رفاقت سے یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں، اور اگر وہ تم سے دین میں مدد مانگیں تو تم پر مدد لازم ہے ، مگر اس قوم کے خلاف نہیں جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو، اور جو تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھنے والا ہے۔ (۷۲)

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو فتنہ ہو گا زمین میں، اور بڑا فساد ہو گا۔ (۷۳)

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کے راستہ میں، اور جن لوگوں نے ٹھکانہ دیا اور مدد کی وہی لوگ سچے مؤمن ہیں، ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ (۷۴)

اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور تمہارے ساتھ (مل کر) جہاد کیا پس وہی تم میں سے ہیں، اور قرابت دار (آپس میں) ایک دوسرے سے زیادہ حق دار ہیں اللہ کے حکم کی رو سے ، بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ (۷۵)

٭٭

 

 

 

۹۔ سورۂتوبۃ

 

 

مدنیہ

 

آیات:۱۲۹ رکوعات:۱۶

 

 

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) (کی طرف) سے قطع تعلق ہے ان مشرکوں سے جنہوں نے تم سے عہد کیا ہوا تھا۔ (۱)

پس (مشرکو) زمین میں چار مہینے چل پھر لو، اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں، اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔ (۲)

اور اللہ اور اس کے رسول (کی طرف) سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مشرکوں سے قطع تعلق ہے ، پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں، اور آگاہ کر دو ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا عذاب دردناک سے۔ (۳)

سوائے ان مشرک لوگوں کے جن سے تم نے عہد کیا تھا، پھر انہوں نے تم سے عہد میں کچھ بھی کمی نہ کی اور نہ انہوں نے تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ان سے ان کا عہد ان مقررہ مدت تک پورا کرو بیشک اللہ پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے۔ (۴)

پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں تم انہیں پاؤ، اور انہیں پکڑو، اور انہیں گھیر لو، اور ان کے لیے ہر گھات میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۵)

اور اگر مشرکین ہی سے کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ سن لے اللہ کا کلام، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دیں، یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگ علم نہیں رکھتے (نادان ہیں)۔ (۶)

کیونکر ہو مشرکوں کے لیے اللہ کے پاس اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کوئی عہد، سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے عہد کیا مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے پاس، سو جب تک وہ تمہارے لیے (عہد پر) قائم رہیں تم (بھی) ان کے لیے قائم رہو، بیشک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ (۷)

کیسے (صلح ہو، حال یہ ہے ) اگر وہ تم پر غالب آ جائیں تو وہ نہ لحاظ کریں تمہاری قرابت کا، اور نہ عہد کا، وہ تمہیں اپنے منہ سے (محض زبانی) راضی کر دیتے ہیں، لیکن ان کے دل نہیں مانتے اور ان میں اکثر نافرمان ہیں۔ (۸)

انہوں نے اللہ کے احکام تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالے ، پھر انہوں نے اس کے راستے سے روکا، بیشک برا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۹)

وہ کسی مؤمن کے بارے میں نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں، نہ عہد کا، اور وہی لوگ ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (۱۰)

پھر اگر وہ توبہ کر لیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں، تو وہ تمہارے بھائی ہیں دین میں، اور ہم آیات کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ (۱۱)

اگر وہ اپنی قسمیں توڑ دیں اپنے عہد کے بعد، اور تمہارے دین میں عیب نکالیں، تو کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں، شاید وہ باز آ جائیں۔ (۱۲)

کیا تم ایسی قوم سے نہ لڑو گے ؟ جنہوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا اور انہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نکالنے (جلا وطن کرنے ) کا ارادہ کیا اور انہوں نے تم سے پہل کی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ تو اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔ (۱۳)

تم ان سے لڑو (تاکہ) اللہ انہیں عذاب دے تمہارے ہاتھوں سے ، اور انہیں رسوا کرے اور تمہیں ان پر غالب کرے ، اور دل ٹھنڈے کرے مومن لوگوں کے۔ (۱۴)

اور ان کے دلوں سے غصہ دور کرے ، اور اللہ جس کی چاہے توبہ قبول کرتا ہے ، اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔ (۱۵)

کیا تم گمان کرتے ہو کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے (جبکہ) اللہ نے ابھی ان کو معلوم نہیں کیا، تم میں سے جنہوں نے جہاد کیا اور انہوں نے نہیں بنایا کسی کو اللہ کے سوا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مومنوں کے سوا۔ راز دار اور اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ (۱۶)

مشرکوں کا (کام) نہیں کہ وہ آباد کریں اللہ کی مسجدیں (جبکہ) اپنے اوپر کفر کو تسلیم کرتے ہوں، وہی لوگ ہیں جن کے عمل اکارت گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (۱۷)

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام (خانہ کعبہ) کو آباد کرنا ٹھہرایا ہے اس کے مانند جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لایا، اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہ برابر برابر نہیں ہیں اللہ کے نزدیک، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۱۹)

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا (ان کے ) درجے اللہ کے ہاں بہت بڑے ہیں، اور وہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ (۲۰)

ان کا رب انہیں اپنی طرف سے رحمت اور خوشنودی اور باغات کی خوشخبری دیتا ہے ، ان میں ان کے لیے دائمی نعمت ہے۔ (۲۱)

اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، بیشک اللہ کے ہاں اجرِ عظیم ہے۔ (۲۲)

اے ایمان والو ! اپنے باپ دادا کو اور اپنے بھائیوں کو رفیق نہ بناؤ، اگر وہ لوگ ایمان کے خلاف کفر کو پسند کریں، اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (۲۳)

کہہ دیں، اگر تمہارے باپ دادا، تمہارے بیٹے ، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے کنبے ، اور مال جو تم نے کمائے ، اور تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو، اور حویلیاں جن کو تم پسند کرتے ہو، تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیارے ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے ، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۲۴)

البتہ اللہ نے تمہاری مدد کی بہت سے میدانوں میں، اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے ، تو اس (کثرت) نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا، اور تم پر زمین فراخی کے باوجود تنگ ہو گئی، پھر تم پیٹھ دے کر پھر گئے۔ (۲۵)

پھر اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور مومنوں پر اپنی تسکین نازل کی، اور اس نے لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے ، اور کافروں کو عذاب دیا، اور یہی سزا ہے کافروں کی۔ (۲۶)

پھر اس کے بعد اللہ جس کی چاہے توبہ قبول کرے گا، اور اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۲۷)

اے مومنو! اس کے سوا نہیں کہ مشرک پلید ہیں، لہٰذا وہ قریب نہ جائیں اس سال کے بعد مسجدِ  حرام ( خانہ کعبہ) کے اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہو تو اللہ تمہیں جلد غنی کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے ، بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۲۸)

تم ان لوگوں سے لڑو جو ایمان نہیں لائے اللہ پر، اور نہ یوم آخرت پر، اور نہ حرام جانتے ہیں وہ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حرام ٹھہرایا ہے ، اور نہ دینِ حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جو اہلِ کتاب ہیں، یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر۔ (۲۹)

یہود نے کہا عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے ، اور کہا نصاریٰ نے کہ مسیح (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے ، یہ باتیں ہیں ان کے منہ کی وہ ریس کرتے ہیں پہلے کافروں کی بات کی اللہ انہیں ہلاک کرے ، کہاں بہکے جا رہے ہیں۔ (۳۰)

انہوں نے بنا لیا اپنے علماء، اور اپنے درویشوں کو رب، اللہ کے سوا، اور مسیح (علیہ السلام) ابن مریم کو بھی اور انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ وہ معبود واحد کی عبادت کریں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (۳۱)

وہ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا دیں، اور اللہ (اس کے بغیر) نہ رہے گا مگر یہ کہ اپنے نور کو پورا کرے خواہ کافر پسند نہ کریں۔ (۳۲)

وہ جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھیجا، ہدایت کے ساتھ اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ اسے تمام دینوں پر غلبہ دے ، خواہ مشرک پسند نہ کریں۔ (۳۳)

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو (مومنو) ! بیشک بہت سے علماء اور درویش لوگوں کے مال ناحق طور پر کھاتے ہیں، اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں، اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، سو انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری دو (آگاہ کر دو)۔ (۳۴)

جس دن ہم اسے دہکائیں گے جہنم کی آ گ میں، پھر اس سے ان کی پیشانیوں، اور ان کے پہلوؤں، اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا کہ یہ  ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جمع کر کے رکھا تھا، پس مزہ چکھو جو تم جمع کر کے رکھتے تھے۔ (۳۵)

بیشک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں، جس دن اس نے آ سمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار حرمت والے (ادب کے ) مہینے ہیں، یہی ہے درست دین، پس تم ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔ (۳۶)

یہ جو مہینے کا ہٹا کر (آگے پیچھے کرنا ہے ) کفر میں اضافہ ہے ، اس سے کافر گمراہ ہوتے ہیں وہ اسے (اس مہینے کو) ایک سال حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام کر لیتے ہیں تاکہ وہ گنتی پوری کر لیں اس کی جو اللہ نے حرام کیے ، سو وہ حلال کرتے ہیں جو اللہ نے حرام کیا، ان کے برے اعمال انہیں مزین کر دئیے ہیں اور اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۳۷)

اے مومنو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں کوچ کرو تو تم گرے جاتے ہو زمین پر، کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ سو (کچھ بھی) نہیں ہے دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلہ میں مگر تھوڑا۔ (۳۸)

اگر تم (راہ اللہ) میں نہ نکلو گے تو (اللہ ) تمہیں عذاب دے گا دردناک، اور تمہارے سوا کوئی اور قوم بدلے میں لے آئے گا، اور تم اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے ، اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۳۹)

اگر تم اس (نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم) ) کی مدد نہ کرو گے ، تو البتہ اللہ نے مدد کی ہے جب کافروں نے انہیں نکالا تھا، وہ دوسرے تھے دونوں میں، جب وہ دونوں غارِ (ثور) میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی (ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے کہتے تھے ، گھبراؤ نہیں، یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے ، تو اس نے ان پر اپنی تسکین نازل کی اور ایسے لشکروں سے ان کی مدد کی جو تم نے نہیں دیکھے ، اور کافروں کی بات پست کر دی، اور اللہ کا کلمہ (بول) بالا ہے ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۴۰)

تم نکلو ہلکے ہو یا بھاری، اور اپنے مالوں سے جہاد کرو اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ (۴۱)

اگر مالِ غنیمت قریب، اور سفر آ سان ہوتا تو وہ آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیچھے ہو لیتے ، لیکن دور نظر آیا انہیں راستہ، اور اب اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم سے ہو سکتا تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکلتے ، وہ اپنے آ پ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ (۴۲)

اللہ تمہیں معاف کرے آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (اس سے بیشتر) انہیں کیوں اجازت دے دی، یہاں تک کہ آ پ پر ظاہر ہو جاتے وہ لوگ جو سچے ہیں، اور آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) جان لیتے جھوٹوں کو۔ (۴۳)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ رخصت نہیں مانگتے ، جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ جہاد کریں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے ، اور اللہ متقیوں (ڈرانے والے ، پرہیز گاروں) کو خوب جانتا ہے۔ (۴۴)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے صرف وہ لوگ رخصت مانگتے ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں، سو وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔ (۴۵)

اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے ضرور تیار کرتے کچھ سامان، لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا نا پسند کیا، سو ان کو روک دیا، اور کہہ دیا گیا (معذور) بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ (۴۶)

اور اگر وہ تم میں (تمہارے ساتھ) نکلتے تمہارے لیے خرابی کے سوا کچھ نہ بڑھاتے ، اور تمہارے درمیان دوڑے پھرتے ، چاہتے ہوئے تمہارے لیے بگاڑ، اور تم میں ان کے جاسوس ہیں، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ (۴۷)

البتہ انہوں نے چاہا تھا اس سے قبل بھی بگاڑ، اور انہوں نے تمہارے لیے تدبیریں الٹ پلٹ کیں، یہاں تک کہ حق آ گیا، اور غالب آ گیا امرِ الہٰی اور وہ پسند نہ کرنے والے (نا خوش) رہے۔ (۴۸)

اور ان میں سے کوئی کہتا ہے مجھے اجازت دیں اور مجھے آزمائش میں نہ ڈالیں، یاد رکھو وہ آزمائش میں پڑ چکے ہیں، اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ (۴۹)

اگر تمہیں پہنچے کوئی بھلائی تو انہیں بری لگے ، اور تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہیں ہم نے اپنا کام سنبھال لیا تھا اس سے پہلے اور وہ خوشیاں مناتے لوٹ جاتے ہیں۔ (۵۰)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں ہمیں ہرگز نہ پہنچے گا مگر (وہی) جو اللہ نے ہماری لیے لکھ دیا ہے ، وہی ہمارا مولا ہے ، اور مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ (۵۱)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں کیا تم ہر دو خوبیوں میں سے ہم پر ایک کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمہارے لیے انتظار کر رہے ہیں کہ تمہیں پہنچے اللہ کے پاس سے عذاب یا ہمارے ہاتھوں سے ، سو تم انتظار کرو، ہم (بھی) تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔ (۵۲)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں تم خوشی سے خرچ کرو یا نا خوشی سے ہر گز تُم سے قبول نہ کیا جائے گا، بے شک تُم قوم ہو فاسقین۔ (۵۳)

اور ان کا خرچ قبول ہونے میں مانع نہ ہوا مگر یہ کہ وہ منکر ہوئے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ، اور وہ نماز کو نہیں آ تے مگر سستی سے ، اور وہ خرچ نہیں کرتے مگر نا خوشی سے۔ (۵۴)

سو تمہیں تعجب نہ ہو ان کے مالوں پر، اور نہ ان کی اولاد پر، اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں اس سے دنیا کی زندگی میں عذاب دے ، اور ان کی جانیں نکلیں تو ( اس وقت) بھی وہ کافر ہوں۔ (۵۵)

اور وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ بیشک وہ تم میں سے ہیں، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں، لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں۔ (۵۶)

اگر وہ پائیں کوئی پناہ کی جگہ، یا غار، یا گھسنے (سر سمانے ) کی جگہ، تو وہ اس کی طرف پھر جائیں رسیاں تڑاتے ہوئے۔ (۵۷)

اور ان میں سے بعض آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صدقات (کی تقسیم میں) طعن کرتے ہیں، سو اگر اس سے ان کو دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جائیں اور اگر انہیں اس سے نہ دیا جائے تو وہ اسی وقت ناراض ہو جاتے ہیں۔ (۵۸)

کیا اچھا ہوتا اگر وہ (اس پر) راضی ہو جاتے جو اللہ نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں دیا، اور وہ کہتے ہمیں اللہ کافی ہے ، اب ہمیں دے گا اللہ اپنے فضل سے ، بیشک ہم اللہ اور اس کے رسول کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔ (۵۹)

زکوٰۃ (حق ہے ) صرف مفلسوں کا، اور محتاجوں کا، اور اس پر کام کرنے والے (کارکنوں کا)، اور (ان لوگوں کا) جنہیں (اسلام کی) الفت دی جائے ، اور گردنوں کے چھڑانے (آزاد کرانے میں) اور قرض داروں کا (قرض ادا کرنے میں)، اور اللہ کی راہ میں، اور مسافروں کا (یہ) اللہ کی طرف سے ٹھہرایا ہوا فریضہ ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔ (۶۰)

اور ان میں بعض لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ تو کان ہے (کانوں کا کچا ہے ) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں کان تمہاری بھلائی کے لیے ہے ، وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں، اور مومنوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے رحمت ہیں جو تم میں سے ایمان لائے ، اور جو لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ستاتے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (۶۱)

وہ تمہارے لیے (تمہارے سامنے ) اللہ کی قسمیں کھاتیں ہیں تاکہ تمہیں خوش کریں اور اللہ اور کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا زیادہ حق ہے کہ وہ انہیں خوش کریں اگر وہ ایمان والے ہیں۔ (۶۲)

کیا وہ نہیں جانتے کہ جو مقابلہ کرے گا اللہ کا اور اس کے رسول کا تو بیشک اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی رسوائی ہے۔ (۶۳)

منافقین ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی ایسی سورۃ نازل (نہ) ہو جائے جو انہیں ( مسلمانوں کو) بتا دے جو ان (منافقوں) کے دلوں میں ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں تم ٹھٹھے (ہنسی مذاق) کرتے رہو، بیشک تم جس سے ڈرتے ہو اللہ اسے کھولنے والا ہے (کھول کر لائے گا)۔ (۶۴)

اور گر تم ان سے پوچھو تو وہ ضرور کہیں گے ہم تو صرف دل لگی اور کھیل کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں کیا تم اللہ سے ، اور اس کی آیات سے ، اور ا سے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ہنسی کرتے ہو۔ (۶۵)

بہانے نہ بناؤ تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے ، اور ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر دیں تو دوسرے گروہ کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے۔ (۶۶)

منافق مرد اور منافق عورتیں ان میں سے بعض، بعض کے (ایک دوسرے کے ہم جنس ) ہیں، برائی کا حُکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں، اور اپنے ہاتھ (مُٹھیاں خرچ کرنے سے ) بند رکھتے ہیں، وہ اللہ کو بھول بیٹھے ہیں تو اللہ نے اُنہیں بُھلا دیا بے شک منافق ہی نافرمان ہیں۔ (۶۷)

اللہ نے منافق مردوں، اور منافق عورتوں، اور کافروں کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے ، اس میں ہمیشہ رہیں گے ، وہی ان کے لیے کافی ہے اور ان پر اللہ نے لعنت کی، اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔ (۶۸)

جس طرح وہ لوگ جو تم سے قبل تھے وہ تم سے بہت زور والے تھے قوت میں، اور زیادہ تھے مال میں، اور اولاد میں، سو انہوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا، سو تم اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لو، جیسے انہوں نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا جو تم سے پہلے تھے ، اور تم (بری باتوں میں ) گھسے جیسے وہ گھسے تھے ، وہی لوگ ہیں جن کے عمل دنیا اور آخرت میں اکارت گئے ، اور وہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے۔ (۶۹)

کیا ان تک ان لوگوں کی خبر نہ آئی (نہ پہنچی) جو ان سے پہلے تھے ، قومِ نوح اور عاد اور ثمود، اور قومِ ابراہیم اور مدین والے ، اور وہ بستیاں جو الٹ دی گئیں ان کے پاس ان کے رسول آئے واضح احکام و دلائل کے ساتھ، سو اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا، لیکن وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ (۷۰)

اور مومن مرد اور مومن عورتیں ان میں سے بعض، بعض کے (ایک دوسرے کے ) رفیق ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں، اور وہ نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں، وہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (۷۱)

اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ کیا ہے ، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے ، اور پاکیزہ مکانات ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں، اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑی بات ہے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۷۲)

اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں، اور ان پر سختی کریں، اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ پلٹنے کی بری جگہ ہے۔ (۷۳)

وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا، حالانکہ انہوں نے ضرور کفر کا کلمہ کہا، اور اپنے اسلام (لانے کے ) بعد انہوں نے کفر کیا، اور انہوں نے (اس چیز کا) قصد کیا جو انہیں نہ ملی، اور انہوں نے بدلہ نہ دیا مگر (صرف اس بات کا) کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا، سو اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا، اور اگر وہ پھر جائیں تو اللہ انہیں دردناک عذاب دے گا دنیا میں اور آخرت میں، اور ان کے لیے نہ ہو گا زمین میں کوئی حمایتی، اور نہ مددگار۔ (۷۴)

اور ان میں سے (بعض وہ ہیں) جنہوں نے اللہ سے عہد کیا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے دے تو ہم ضرور صدقہ دیں گے اور ہم ضرور ہو جائیں گے صالحین (نیکو کاروں) میں سے۔ (۷۵)

پھر جب اس نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو انہوں نے اس میں بخل کیا اور وہ پھر گئے اور وہ روگردانی کرنے والے ہیں۔ (۷۶)

تو (اللہ نے ) اس کا انجام کار ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا روزِ قیامت تک کہ وہ اس سے ملیں گے ، کیونکہ انہوں نے جو اللہ سے وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ (۷۷)

کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کے بھید اور ان کی سرگوشیوں کو جانتا ہے ، اور یہ کہ اللہ غیب کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (۷۸)

وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں، جو خوشی سے خیرات کرتے ہیں، اور وہ لوگ جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت (کا صلہ) وہ ( منافق) ان سے مذاق کرتے ہیں، اللہ نے ان کے مذاق (کا جواب) دیا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (۷۹)

آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے بخشش مانگیں یا ان کے لیے بخشش نہ مانگیں (برابر ہے ) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے ستر بار (بھی) بخشش مانگیں اللہ انہیں ہر گز نہ بخشے گا، یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول  (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کفر کیا، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۸۰)

پیچھے رہ جانے والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیچھے اپنے بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے اور انہوں نے ناپسند کیا کہ وہ جہاد کریں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں، اور انہوں نے کہا گرمی میں کوچ نہ کرو، آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں جہنم کی آگ گرمی میں سب سے زیادہ ہے ، کاش وہ سمجھ سکتے۔ (۸۱)

چاہئے کہ وہ ہنسیں تھوڑا اور روئیں زیادہ، یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کماتے ہیں۔ (۸۲)

پھر اگر اللہ آپ کو کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے ان میں سے ، پھر وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے (جہاد کے لیے ) نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیں تم میرے ساتھ کبھی بھی ہر گز نہ نکلو گے ، اور ہرگز نہ لڑو گے دشمن سے میرے ساتھ (مل کر)، بیشک تم نے پہلی بار بیٹھ رہنے کو پسند کیا، سو تم پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھو۔ (۸۳)

ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی ان پر نمازِ (جنازہ) نہ پڑھنا، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کفر کیا، اور وہ (اس حال میں) مرے جبکہ وہ نافرمان تھے۔ (۸۴)

اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تعجب میں نہ ڈالیں ان کے مال اور ان کی اولاد، اللہ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ انہیں اس سے دنیا میں عذاب دے اور (اس حال میں) ان کی جانیں نکلیں جب وہ کافر ہوں۔ (۸۵)

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ (مل کر) جہاد کرو تو ان میں سے مقدور والے آپ سے اجازت چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیں کہ ہم بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ہو جائیں۔ (۸۶)

وہ راضی ہوئے کہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ ہو جائیں، اور مہر لگ گئی ان کے دلوں پر، سو وہ سمجھتے نہیں۔ (۸۷)

لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں سے ، اور اپنی جانوں سے جہاد کیا، اور انہی لوگوں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی لوگ فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے ہیں۔ (۸۸)

اللہ نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں، ان کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۸۹)

اور دیہاتیوں میں سے بہانہ بنانے والے آئے کہ ان کو رخصت دی جائے ، اور وہ لوگ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جھوٹ بولا، عنقریب پہنچے گا ان لوگوں کو دردناک عذاب جنہوں نے کفر کیا۔ (۹۰)

نہیں ضعیفوں پر، اور نہ مریضوں پر، اور نہ ان لوگوں پر جو نہیں پاتے کہ وہ خرچ کریں، کوئی حرج، جبکہ وہ خیر خواہ ہوں اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے ، نیکی کرنے والوں پر کوئی الزام نہیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۹۱)

اور نہ ان لوگوں پر (کوئی حرج ہے ) کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے کہ آپ انہیں سواری دیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا کوئی سواری نہیں جس پر تمہیں سوار کروں تو وہ (اس حال میں) لوٹے اور غم سے ان کی آنکھوں سے آ نسو بہہ رہے تھے کہ وہ کچھ نہیں پاتے جو وہ خرچ کر سکیں۔ (۹۲)

الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو آ پ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اجازت چاہتے ہیں اور وہ (غنی) مالدار ہیں، وہ اس سے خوش ہوئے کہ وہ رہ جائیں پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ، اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی سو وہ کچھ نہیں جانتے۔ (۹۳)

جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تووہ تمہارے پاس عذر لائیں گے ، آپ کہہ دیں عذر نہ کرو، ہم ہرگز یقین نہ کریں گے تمہارا، اللہ ہمیں تمہاری سب خبریں بتا چکا ہے ، اور ابھی اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھے گا، پھر تم پوشیدہ اور ظاہر جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے ، تم جو کرتے تھے ، پھر وہ تمہیں جتا دے گا۔ (۹۴)

جب تم ان کی طرف واپس جاؤ گے اب تمہارے آگے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو، سو ان کا خیال نہ کرو، بیشک وہ پلید ہیں، اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اس کا بدلہ جو وہ کماتے تھے۔ (۹۵)

وہ تمہارے آگے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ سواگر تم ان سے راضی (بھی) ہو جاؤ توبے شک اللہ راضی نہیں ہوتا نافرمان لوگوں سے۔ (۹۶)

دیہاتی کفر و نفاق میں بہت سخت ہیں، اور زیادہ لائق ہیں کہ وہ نہ جانیں جو احکام اللہ نے اپنے رسول پر نازل کئے اور اللہ جاننے و الا حکمت والا ہے۔ (۹۷)

اور بعض دیہاتی ہیں جو (اللہ کی راہ میں) جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے لئے گردشوں کا انتظار کرتے ہیں، انہی پر ہے بری گردش، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۹۸)

اور بعض دیہاتی ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ سے نزدیکیوں اور رسول کی دعائیں (لینے کا ذریعہ) سمجھتے ہیں، ہاں ہاں!یقیناً وہ نزدیکی (کا ذریعہ) ہے ان کے لئے ، اللہ جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا، بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۹۹)

اور سب سے پہلے (ایمان اور اسلام میں ) سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار میں سے ، اور جنہوں نے نیکی کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا، اور وہ اس سے راضی ہوئے ، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (۱۰۰)

اور جو دیہاتی تمہارے ارد گرد ہیں ان میں سے بعض منافق ہیں، اور مدینہ والوں میں سے بعض نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں، اور ہم جلد انہیں دوبارہ عذاب دیں گے ، پھر وہ عذاب عظیم کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (۱۰۱)

اور کچھ اور ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، انہوں نے ایک اچھا اور دوسرا برا عمل ملا لیا، قریب ہے کہ اللہ انہیں معاف کر دے ، بیشک اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۲)

آپ ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے لیں، آپ انہیں پاک اور صاف کر دیں اس سے اور ان پر دعائے (خیر) کریں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) سکون ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۱۰۳)

کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور قبول کرتا ہے صدقات اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۴)

اور آپ کہہ دیں تم عمل کئے جاؤ پس اب دیکھے گا اللہ اور اس کا رسول اور مؤمن تمہارے عمل اور تم جلد پوشیدہ اور ظاہر جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے ، سووہ تمہیں جتا دے گا جو تم کرتے تھے۔ (۱۰۵)

اور کچھ اور ہیں وہ اللہ کے حکم پر موقوف رکھے گئے ہیں، خواہ وہ انہیں عذاب دے اور خواہ ان کی توبہ قبول کر لے ، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۱۰۶)

اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد ضرار (نقصان پہنچانے کے لئے ) بنائی اور کفر کرنے کے لئے ، اور مؤمنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے اور اس کے واسطے گھات کی جگہ بنانے کے لئے ، جس نے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی اس سے پہلے اور وہ البتہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے صرف بھلائی چاہی اور اللہ گواہی دیتا ہے وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ (۱۰۷)

آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہونا، بیشک و ہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوے پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ محبوب رکھتا ہے پاک رہنے والوں کو (۱۰۸)

سوکیا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور (اس کی) خوشنودی پر رکھی وہ بہتر ہے ؟یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد رکھی گرنے والی کھائی (گڑھے ) کے کنارہ پر رکھی، سووہ اس کو لے کر دوزخ کی آگ میں گر پڑی، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۱۰۹)

وہ عمارت جس کی انہوں نے بنیاد رکھی ہے ہمیشہ شک ڈالتی رہے گی ان کے دلوں میں، مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۱۱۰)

بیشک اللہ نے خرید لیں مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال، اس کے بدلے کہ ان کے لئے جنت ہے ، وہ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں، سووہ مارتے ہیں اور مارے (بھی) جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ ہے توریت میں اور انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے زیادہ کون اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے ؟ پس اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو تم نے اس سے سودا کیا ہے ، اور یہ عظیم کامیابی ہے۔ (۱۱۱)

توبہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے ، حمد و ثنا کرنے والے ، (راہِ خدا میں) سفر کرنے والے ، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، اور برائی سے روکنے والے ، اور اللہ کی (قائم کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ، اور مؤمنوں کو خوشخبری دو۔ (۱۱۲)

نبی کے لئے اور مؤمنوں کے لئے (شایاں) نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش چاہیں، خواہ وہ ان کے قرابت دار ہوں، اس کے بعد جبکہ ان پر ظاہر ہو گیا کہ وہ دوزخ والے ہیں۔ (۱۱۳)

اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے بخشش چاہنا نہ تھا مگر ایک وعدہ کے سبب جو وہ اس سے کر چکے تھے ، پھر جب ان پر ظاہر ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تووہ اس سے بیزار ہو گئے بیشک ابراہیم نرم دل بردبار تھے۔ (۱۱۴)

اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو اس کے بعد گمراہ کرے جبکہ انہیں ہدایت دے دی جب تک ان پر واضح نہ کر دے جس سے وہ پرہیز کریں، بیشک اللہ ہر شے کا جاننے و الا ہے۔ (۱۱۵)

بیشک اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی، وہ زندگی دیتا ہے اور (وہی) مارتا ہے ، اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی حمایتی ہے اور نہ مدد گار۔ (۱۱۶)

البتہ توجہ فرمائی اللہ نے نبی پر، اور مہاجرین و انصار پر، جنہوں نے تنگی کی گھڑی میں اس کی پیروی کی، اس کے بعد جب کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک فریق کے دل پھر جائیں، پھر وہ ان پر متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (۱۱۷)

اور ان تین پر (جن کا معاملہ) پیچھے رکھا گیا تھا، یہاں تک کہ ان پر تنگ ہو گئی زمین اپنی کشادگی کے باوجود، اور ان پر ان کی جانیں تنگ ہو گئیں (اپنی جانوں سے تنگ آ گئے ) اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے کوئی پناہ نہیں مگر اسی کی طرف ہے ، پھر وہ ان پر (اپنی رحمت سے ) متوجہ ہوا،  تاکہ وہ توبہ کریں بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۸)

اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ (۱۱۹)

(لائق) نہ تھا مدینہ والوں کو (اور انہیں) جو ان کے اردگرد دیہاتی ہیں کہ وہ اللہ کے سول سے پیچھے رہ جائیں، اور یہ کہ زیادہ چاہیں اپنی جانوں کو ان کی جان سے ، یہ اس لئے کہ ان کو نہیں پہنچتی کوئی پیاس اور نہ کوئی مشقت، اور نہ کوئی بھوک، اللہ کی راہ میں اور نہ وہ ایسا قدم رکھتے ہیں کہ کافر غصے ہوں، اور نہ وہ چھینتے ہیں دشمن سے کوئی چیز، مگر اس سے (ا سکے بدلے ) ان کے لئے نیک عمل لکھا جاتا ہے ، بیشک اللہ اجر ضائع نہیں کرتا نیکوں کاروں کا۔ (۱۲۰)

اور وہ کوئی چھوٹا یا بڑا (کم یا زیادہ) خرچ نہیں کرتے اور نہ وہ طے کرتے ہیں کوئی میدان، مگر ان کے لئے لکھ دیا جاتا ہے ، تاکہ اللہ ان کے اعمال کی انہیں بہترین جزا دے۔ (۱۲۱)

اور (ایسے تو) نہیں کہ مؤمن سب کے سب کوچ کریں، پس کیوں نہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت کوچ کرے ، تاکہ وہ سمجھ حاصل کریں دین میں اور تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈر سنائیں جب ان کی طرف لوٹیں، عجب نہیں کہ وہ بچتے رہیں۔ (۱۲۲)

اے مؤمنو! اپنے نزدیک کے کافروں سے لڑو، اور چاہئے کہ وہ تمہارے اندر پائیں سختی، اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔ (۱۲۳)

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کر دیا؟سوجو لو گ ایمان لائے ہیں، اس نے زیادہ کر دیا ہے ان کا ایمان، اور خوشیاں مناتے ہیں۔ (۱۲۴)

اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے ، اس نے زیادہ کر دی ان کی گندگی پر گندگی، اور و ہ مرنے تک کافر ہی رہے۔ (۱۲۵)

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال آزمائے جاتے ہیں، ایک بار یا دو بار، پھر نہ وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ (۱۲۶)

اور جب اتاری جاتی ہے کوئی سورت تو ان میں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے ، کیا تمہیں کوئی (مسلمان) دیکھتا ہے ؟پھر وہ پھر جاتے ہیں، اللہ نے ان کے دل پھیر دئے ، کیونکہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ (۱۲۷)

البتہ تمہارے پاس آیا ایک رسول تم میں سے جو تمہیں تکلیف پہنچے اس پر گراں ہے ، تمہاری (بھلائی کا) بہت خواہشمند ہے ، مؤمنوں پر شفیق، نہایت مہربان ہے۔ (۱۲۸)

پھر اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دیں مجھے کافی ہے اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا، اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (۱۲۹)

٭٭

 

۱۰۔ سورۃ یونس

 

 

مکیہ

آیات:۱۰۹       رکوعات:۱۱

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

 

الٓرٓ۔ یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں۔ (۱)

کیا لوگوں کو تعجب ہوا؟کہ ہم نے وحی بھیجی ایک آدمی پر ان میں سے کہ وہ لوگوں کو ڈرائے اور ایمان والوں کو خوشخبری دے کہ ان کے لئے سچا پایہ (مقام) ہے ان کے رب کے پاس، کافر بولے بیشک یہ تو کھلا جادوگر ہے۔ (۲)

بیشک تمہارا رب اللہ ہے ، جس نے پیدا کیا چھ دنوں میں آسمانوں کو اور زمین کو، پھر وہ عرش پر قائم ہوا، کام کی تدبیر کرتا ہے ، کوئی سفارش کرنے والا نہیں، مگر اس کی اجازت کے بعد، وہ اللہ ہے تمہارا رب، پس اس کی بندگی کرو، سوکیا تم دھیان نہیں دیتے۔ (۳)

اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے ، اللہ کا وعدہ سچا ہے ، بیشک وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے ، پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا، تاکہ ان لوگوں کو انصاف کے ساتھ جزا دے ، جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے کھولتا ہوا پانی ہے ، اور دردناک عذاب ہے ، کیونکہ وہ کفر کرتے تھے۔ (۴)

وہ جس نے سورج کو جگمگاتا اور چاند کو چمکتا بنایا، اور اس کی منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی جان لو اور حساب، اللہ نے یہ نہیں پیدا کیا مگر درست تدبیر سے ، وہ علم والوں کے لئے نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے۔ (۵)

بیشک رات اور دن کے بدلنے میں اور جو اللہ نے آسمانوں میں اور زمین میں پیدا کیا (اس میں) نشانیاں ہیں پرہیز گاروں کیلئے۔ (۶)

بیشک جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے اور اس پر مطمئن ہو گئے ، اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ (۷)

یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اس کا بدلہ جو وہ کماتے تھے۔ (۸)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ، ان کا رب انہیں راہ دکھائے گا ان کے ایمان کی بدولت (ایسے محلات کی) ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، نعمت کے باغات ہیں۔ (۹)

اس میں ان کی دعا (ہو گی) اے اللہ! تو پاک ہے ، اور اس میں ان کی وقتِ ملاقات کی دعا ‘‘سلام’’ ہے اور ان کی دعا کا خاتمہ ہے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ (۱۰)

اور اگر اللہ لوگوں کو جلد برائی بھیجتا جیسے وہ جلد بھلائی چاہتے ہیں تو پوری ہو چکی ہوتی ان کی عمر کی میعاد، پس ہم ان لوگوں کو سرکشی میں بہکتے چھوڑ دیتے ہیں جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے۔ (۱۱)

اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تووہ لیٹا ہوا اور بیٹھا ہوا اور کھڑا ہوا، ہمیں پکارتا ہے ، پھر جب ہم دور کر دیں اس سے اس کی تکلیف، تو (یوں ) چل پڑا گویا کہ کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا، اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کو بھلا کر دکھایا وہ کام جو وہ کرتے تھے۔ (۱۲)

اور ہم نے تم سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر دیں، جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے پاس آئے ان کے سول کھلی نشانیوں کے ساتھ، وہ ایمان نہ لاتے تھے ، اسی طرح ہم مجرموں کی قوم کو بدلہ دیتے ہیں۔ (۱۳)

پھر ہم نے تمہیں زمین میں ان کے بعد جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے کام کرتے ہو۔ (۱۴)

اور جب پڑھی جاتی ہیں ان کے سامنے ہماری واضح آیتیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آؤ، یا اسے بدل دو، آپ کہہ دیں میرے لئے (روا) نہیں کہ میں اپنی جانب سے بدلوں، میں پیروی نہیں کرتا مگر (اس کی) جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے ، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تومیں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۱۵)

آپ کہہ دیں اگر اللہ چاہتا تو میں اسے تم پر (تمہارے سامنے ) نہ پڑھتا، اور نہ تمہیں اس کی خبر دیتا، میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر رہ چکا ہوں، سوکیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ (۱۶)

سواس سے بڑا ظالم کون ہے ؟جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے ، بیشک مجرم فلاح (دوجہاں کی کامیابی) نہیں پاتے۔ (۱۷)

اور وہ اللہ کے سوا، انہیں پوجتے ہیں جو انہیں نہ ضرر پہنچاس کیں اور نہ نفع دے سکیں انہیں، اور وہ کہتے ہیں یہ سب اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہہ دیں کیا تم اللہ کو اس کی خبر دیتے ہو جو وہ نہیں جانتا آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وہ پاک ہے اور وہ بالاتر ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (۱۸)

اور لوگ نہ تھے مگر امت واحد، پھر انہوں نے اختلاف کیا، اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے بات نہ ہو چکی ہوتی تو فیصلہ ہو جاتا ان کے درمیان (اس بات کا) جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (۱۹)

اور وہ کہتے ہیں اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟تو آپ کہہ دیں اس کے سوا نہیں کہ غیب اللہ کے لئے ہے سو تم انتظار کرو میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔ (۲۰)

اور جب ہم چکھائیں لوگوں کو رحمت (کا مزہ) ایک تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی تھی تواسی وقت وہ ہماری آیات میں حیلہ (بنانے لگیں)، آپ کہہ دیں اللہ سب سے جلد خفیہ تدبیر (بنا سکتا ہے )، بیشک تم جو حیلہ سازی کرتے ہو ہمارے فرشتے لکھتے ہیں۔ (۲۱)

وہی ہے جو تمہیں چلاتا ہے خشکی میں اور دریا میں، یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہو اور وہ ان کے ساتھ (انہیں لے کر) پاکیزہ ہوا کے ساتھ چلیں اور وہ اس سے خوش ہوئے ، اس (کشتی) پر ایک تند و تیز ہوا آئی اور ان پر ہر طرف سے موجیں آ گئیں اور انہوں نے جان لیا کہ انہیں گھیر لیا گیا ہے ، وہ اللہ کو پکارنے لگے اس کی بندگی میں خالص ہو کر کہ اگر تو نے ہمیں اس سے نجات دے دی توہم ضرور تیرے شکر گزاروں میں ہوں گے۔ (۲۲)

پھر جب میں نے انہیں نجات دے دی، اس وقت وہ زمین میں ناحق سرکشی کرنے لگے ، اے لوگو! اس کے سوا نہیں کہ تمہاری شرارت (کا وبال) تمہاری جانوں پر ہے ، دنیا کی زندگی کے فائدے (چند روز ہیں) پھر تمہیں ہماری طرف لوٹنا ہے ، پھر ہم تمہیں بتلا دیں گے جو تم کرتے تھے۔ (۲۳)

اس کے سوا نہیں کہ دنیا کی زندگی کی مثال پانی جیسی ہے ، ہم نے اسے آسمان سے اتارا تواس سے زمین کا سبزہ ملا جلا نکلا، جس سے لوگ اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین نے اپنی رونق پکڑ لی اور مزین ہو گئی اور زمین والوں نے خیال کیا کہ وہ اس پر قدرت رکھتے ہیں تو (اچانک ) ہمارا حکم رات میں یا دن کے وقت آیا توہم نے اسے کٹا ہوا ڈھیر کر دیا گویا وہ کل تھی ہی نہیں، اسی طرح ہم آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (۲۴)

اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ، اور جسے چاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ (۲۵)

جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لئے بھلائی ہے ، اور (اس سے بھی) زیادہ، اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چڑھے گی اور نہ ذلت، وہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲۶)

اور جن لوگوں نے برائیاں کمائیں (ان کا) بدلہ اسی جیسی برائی ہے ، اور ان پر ذلت چڑھے گی ان کے لئے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں، گویا ان کے چہرے ڈھانک دئے گئے تاریک رات کے ٹکڑے سے ، وہی لوگ جہنم والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲۷)

اور جس دن ہم ان سب کو اکھٹا کریں گے ، پھر ان لوگوں کو کہیں گے جنہوں نے شرک کیا اپنی جگہ (رہو) تم اور تمہارے شریک، پھر ہم ان کے درمیان جدائی ڈال دیں گے ، اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری بندگی نہ کرتے تھے۔ (۲۸)

پس ہمارے اور تمہارے درمیان کافی ہے اللہ گواہ، کہ ہم تمہاری بندگی سے بے خبر تھے۔ (۲۹)

وہاں ہر کوئی جانچ لے گا جو اس نے آگے بھیجا تھا، اور وہ اپنے سچے مولی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے ، اور ان سے گم ہو جائے گا جو وہ جھوٹ باندھتے تھے۔ (۳۰)

آپ پوچھیں کون آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دیتا ہے ؟یا کون کان اور آنکھوں کا مالک ہے ؟اور کون زندہ کو مردے سے نکالتا ہے ؟اور نکالتا ہے مردے کو زندہ سے ؟اور کون کاموں کی تدبیریں کرتا ہے ، سووہ بول اٹھیں گے اللہ آپ کہہ دیں کیا پھر تم ڈرتے نہیں؟۔ (۳۱)

پس یہ ہے اللہ!تمہارا سچا رب، پھر سچ کے بعد گمراہی کے سوا کیا رہ گیا؟پھر تم کدھر پھرے جاتے ہو؟ (۳۲)

اسی طرح تیرے رب کی بات ان لوگوں پر جنہوں نے نافرمانی کی سچی ہوئی کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ (۳۳)

آپ پوچھیں کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے ؟جو پہلی بار پیدا کرے پھر اسے لوٹائے ؟آپ کہہ دیں اللہ پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا، پس کدھر پلٹے جاتے ہو؟ (۳۴)

آپ پوچھیں کیا تمہارے شریکوں میں سے (کوئی ہے ) جو صحیح راہ بتائے ؟آپ کہہ دیں اللہ صحیح راہ بتاتا ہے ، پس کیا جو صحیح راہ بتاتا ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے ؟یا وہ جو (خود بھی) راہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اسے راہ دکھائی جائے ، سوتمہیں کیا ہو گیا، تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟ (۳۵)

اور ان میں سے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی، بیشک گمان حق (کی معرفت) کا کچھ بھی کام نہیں دیتا، بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۳۶)

اور یہ قرآن (ایسا) نہیں ہے کہ کوئی اللہ کے (حکم کے ) بغیر (اپنی طرف سے ) بنا لے ، لیکن اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوا) اور کتاب کی تفصیل ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام جہانوں کی رب (کی طرف) سے ہے۔ (۳۷)

کیا وہ کہتے ہیں؟کہ وہ اسے بنا لایا ہے ، آپ کہہ دیں پس اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ اور جسے تم بلا سکو بلالو، اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔ (۳۸)

بلکہ انہوں نے اسے جھٹلایا جس کے علم پر انہوں نے قابو نہیں پایا، اور اس کی حقیقت ابھی ان کے پاس نہیں آئی، اسی طرح ان سے پہلوں نے جھٹلایا، پس دیکھو کیسا ہوا ظالموں کا انجام۔ (۳۹)

اور ان میں سے بعض اس پر ایمان لائیں گے اور ان میں سے بعض اس پر ایمان نہ لائیں گے اور تیرا رب فساد کرنے والو ں کو خوب جانتا ہے۔ (۴۰)

اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو آپ کہہ دیں میرے لئے میرا عمل اور تمہارے لئے تمہارے عمل، تم اس کے جواب دہ نہیں جو میں کرتا ہوں اور میں اس کا جواب دہ نہیں جو تم کرتے ہو۔ (۴۱)

اور ان میں سے بعض کان لگاتے ہیں آپ کے طرف، تو کیا تم بہروں کو سناؤ گے ؟خواہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں۔ (۴۲)

اور ان میں سے بعض دیکھتے ہیں آپ کی طرف، تو کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا دیں گے ؟خواہ وہ دیکھتے نہ ہوں۔ (۴۳)

بیشک اللہ ظلم نہیں کرتا لوگوں پر کچھ بھی، لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (۴۴)

اور جس دن وہ (یوم حشر) انہیں جمع کرے گا گویا وہ (دنیا میں) نہ رہے تھے ، مگر دن کی ایک گھڑی، آپس میں پہچانیں گے ، البتہ وہ خسارے میں رہے جنہوں نے جھٹلایا اللہ سے ملنے کو اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے۔ (۴۵)

اور اگر ہم تجھے دکھا دیں جو ہم ان سے کر رہے ہیں یا ہم تمہیں (دنیا سے ) اٹھالیں، پس انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے ، پھر اللہ اس پر گواہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۴۶)

اور ہر ایک امت کے لئے ایک سول ہے ، پس جب ان کا رسول آ گیا ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا، اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ (۴۷)

اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہو گا؟اگر تم سچے ہو۔ (۴۸)

آپ کہہ دیں میں اپنی جان کے لئے مالک نہیں ہوں کسی نقصان کا نہ نفع کا، مگر جو اللہ چاہے ، ہر ایک امت کے لئے ایک وقت مقرر ہے ، جب ان کا وقت آ جائے گا پس نہ وہ ایک گھڑی تاخیر کریں گے نہ جلدی کر سکیں گے۔ (۴۹)

آپ کہہ دیں بھلا تم دیکھو اگر تم پر اس کا عذاب آئے رات کو یا دن کے وقت تو وہ کیا ہے جس کی مجرم جلدی کر رہے ہیں؟ (۵۰)

کیا پھر جب واقع ہو جائے گا (اس وقت) تم اس پر ایمان لاؤ گے ؟اب (مانتے ہو) البتہ تم اس کی جلدی مچاتے تھے۔ (۵۱)

پھر ظالموں کو کہا جائے گا تم ہمیشگی کا عذاب چکھو، تمہیں وہی بدلہ دیا جاتا ہے جو تم کماتے تھے۔ (۵۲)

اور تم سے پوچھتے ہیں کیا وہ سچ ہے ؟آپ کہہ دیں ہاں! میرے رب کی قسم ! بیشک وہ ضرور سچ ہے اور تم عاجز کرنے والے نہیں۔ (۵۳)

اور اگر (خواہ) ہر ظالم شخص کے لئے (وہ سب کچھ) ہو جو زمین میں ہیں (اور ) وہ اس کو فدیہ میں دیدے ، اور چپکے چپکے پشیمان ہوں گے ، جب وہ عذاب دیکھیں گے ، اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا، اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۵۴)

یاد رکھو! اللہ کے لئے ہے جوآسمانوں اور زمین میں ہے ، یاد رکھو!بیشک اللہ کا وعدہ  سچ ہے ، لیکن ان کے اکثر جانتے نہیں۔ (۵۵)

وہی زندگی دیتا ہے اور وہی مارتا ہے اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۵۶)

اے لوگو!تحقیق تمہارے پاس آ گئی نصیحت تمہارے رب کی طرف سے ، اور شفا اس (روگ) کے لئے جو دلوں میں ہے اور مؤمنوں کے لئے ہدایت و رحمت۔ (۵۷)

آپ کہہ دیں، اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے سواس کی خوشی منائیں یہ اس (سب) سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (۵۸)

آپ کہہ دیں بھلا دیکھو جو اللہ نے تمہارے لئے رزق اتارا پھر تم نے اس میں سے کچھ حرام بنا لیا، اور کچھ حلال، آپ کہہ دیں کیا اللہ نے تمہیں حکم دیا؟یا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو؟ (۵۹)

اور ان لوگوں کا کیا خیال ہے ؟جو گھڑتے ہیں اللہ پر جھوٹ، قیامت کے دن (ان کا کیا حال ہو گا) بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے ، لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔ (۶۰)

اور تم نہیں ہوتے کسی حال میں، اور نہ اس میں سے کچھ قرآن پڑھتے ہو، اور نہ کوئی عمل کرتے ہو، مگر ہم تم پر گواہ (باخبر) ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو اور نہیں تمہارے رب سے غائب ایک ذرہ برابر بھی زمین میں، اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا مگر روشن کتاب میں ہے۔ (۶۱)

یاد رکھو! بیشک (جو) اللہ کے دوست ہیں نہ کوئی خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (۶۲)

اور جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ (خوف خدا اور پرہیز گاری) کرتے رہے۔ (۶۳)

ان کیلئے بشارت ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔ (۶۴)

اور ان کی بات تمہیں غمگین نہ کرے ، بیشک تمام غلبہ اللہ کے لئے ہے ، وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۶۵)

یاد رکھو! بیشک جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے اللہ کے لئے ہے ، اور کسی کی پیروی (نہیں ) کرتے وہ لوگ جو اللہ کے سواشریکوں کو پکارتے ہیں، مگر (صرف) گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور وہ صرف اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ (۶۶)

وہی ہے جس نے بنائی تمہارے لئے رات کہ اس میں سکون حاصل کرو، اور دن روشن، بیشک اس میں سننے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۶۷)

وہ کہتے ہیں اللہ نے بنا لیا (اپنا) بیٹا وہ پاک ہے وہ بے نیاز ہے اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے تمہارے پاس نہیں ہے اس کے لئے کوئی دلیل کیا تم اللہ پر وہ بات کہتے ہو جو تم جانتے نہیں؟۔ (۶۸)

آپ کہہ دیں، بیشک وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں، فلاح (دو جہان کی کامیابی) نہیں پائیں گے۔ (۶۹)

دنیا میں کچھ فائدہ ہے پھر ان کو ہماری طرف لوٹنا ہے ، پھر ہم انہیں شدید عذاب (کا مزہ) چکھائیں گے ، اس کے بدلے جو وہ کفر کرتے تھے۔ (۷۰)

اور انہیں نوح کا قصہ پڑھ کر سنائیں، جب اس نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم !اگر تم پر گراں ہے میرا قیام اور میرا اللہ کی آیتوں سے نصیحت کرنا، تو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، پس تم اور تمہارے شریک اپنا کام مقرر (پکا) کر لو (تاکہ) پھر تمہیں اپنے کام پر کوئی شبہ نہ رہے ، پھر میرے ساتھ کر گزرو، اور مجھے مہلت نہ دو۔ (۷۱)

پھر اگر تم منہ پھیر لو، تومیں نے تم سے کوئی اجر نہیں مانگا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رہوں فرمانبرداروں میں سے۔ (۷۲)

تو انہوں نے اسے (نوحؑ) جھٹلایا، سوہم نے بچا لیا اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے ، اور ہم نے انہیں جانشین بنایا، اور ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، سودیکھو (ان لوگوں کو) انجام کیسا ہوا جنہیں ڈرایا گیا تھا۔ (۷۳)

پھر ہم نے اس (نوحؑ) کے بعد کئی رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے ، وہ ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے ، سوان سے نہ ہوا کہ وہ ایمان لے آئیں اس (بات ) پر جسے وہ اس سے قبل جھٹلا چکے تھے ، اسی طرح ہم حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر مہر لگاتے ہیں۔ (۷۴)

پھر ہم نے بھیجا ان کے بعد موسی اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں (درباریوں) کی طرف، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار لوگ تھے۔ (۷۵)

تو جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق پہنچا تووہ کہنے لگے ، بیشک یہ البتہ کھلا جادو ہے۔ (۷۶)

موسیؑ نے کہا کیا تم حق کی نسبت (ایسا) کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آ گیا، کیا یہ جادو ہے ؟اور جادوگر کامیاب نہیں ہوتے (۷۷)

وہ بولے کیا تو ہمارے پاس (اس لئے ) آیا ہے کہ ہمیں اس سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، اور ہو جائے تم دونوں کیلئے زمین میں بڑائی (سرداری مل جائے ) اور ہم تم دونوں کے ماننے والوں میں سے نہیں۔ (۷۸)

اور فرعون نے کہا میرے پاس ہر علم والا جادوگر لے آؤ۔ (۷۹)

پھر جب جادوگر آ گئے توموسی نے کہا تم ڈالو، جو ڈالنے والے ہو۔ (۸۰)

پھر انہوں نے ڈالا توموسی نہ کہا تم جو لائے ہو جادو ہے ، بیشک اللہ ابھی اسے باطل کر دے گا، بیشک اللہ فساد کرنے والوں کے کام درست نہیں کرتا۔ (۸۱)

اور حق کو اللہ اپنے حکم سے حق (ثابت) کر دے گا، خواہ گنہگار نا پسند کریں۔ (۸۲)

سوموسی پر کوئی ایمان نہ لایا مگر اس کی قوم کے چند لڑکے خوف کی وجہ سے فرعون اور ا سکے سرداروں کے ، کہ وہ انہیں آفت میں نہ ڈال دے ، اور بیشک فرعون زمین (ملک) میں سرکش تھا، اور بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔ (۸۳)

اور موسی نے کہا اے میری قوم!اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تواسی پر بھروسہ کرو اگر تم فرمانبردار ہو۔ (۸۴)

تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب!ہمیں نہ بنا ظالموں کی قوم کا تختۂ مشق۔ (۸۵)

اور ہمیں اپنی رحمت سے کافروں کی قوم سے چھڑا دے۔ (۸۶)

اور ہم نے موسی اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر بناؤ اور بناؤ اپنے گھر قبلہ رو (نماز کی جگہ) اور نماز قائم کرو اور مؤمنوں کو خوشخبری دو۔ (۸۷)

اور موسی نے کہا اے ہمارے رب!بیشک تو نے فرعون اور اس کے لشکر کو دنیا کی زندگی میں زینت اور بہت سے مال دئے ہیں، اے ہمارے رب!کہ وہ تیرے راستہ سے گمراہ کریں، اے ہمارے رب! ان کے مال مٹا دے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ وہ ایمان نہ لائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ (۸۸)

اس نے فرمایا تمہاری دعا قبول ہو چکی ہے سوتم دونوں ثابت قدم رہو، اور ان لوگوں کی راہ نہ چلنا جو نا واقف ہیں۔ (۸۹)

اور ہم نے بنی اسرائیل کو پار کر دیا دریا سے ، پس فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ اس کو غرقابی نے آ پکڑا وہ کہنے لگا میں ایمان لایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں ہوں فرمانبردار۔ (۹۰)

کیا اب؟ (ایمان کی بات کرتا ہے ) اور البتہ پہلے تو نا فرمانی کرتا رہا اور توفساد کرنے والوں میں سے رہا۔ (۹۱)

سوآج ہم تجھے تیرے بدن سے بچا دیں گے (غرق نہیں کریں گے ) تاکہ تو (تیری لاش) ان کے لئے جو تیرے بعد آئیں (عبرت کی) ایک نشانی رہے ، اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ (۹۲)

اور ہم نے بنی اسرائیل کو اچھا ٹھکانہ دیا، اور ہم نے انہیں رزق دیا پاکیزہ چیزوں سے ، سوانہوں نے اختلاف نہ کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم (قرآن) آ گیا، بیشک تمہارا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا روز قیامت جس (بات) میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۹۳)

پس اگر تو اس (کے بارہ) میں شک میں ہے جو ہم نے اتارا تیری طرف، تو ان لوگوں سے پوچھ جو تجھ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں، تحقیق تیرے پاس حق آ گیا ہے تیرے رب کی طرف سے ، پس شک کرنے والوں سے نہ ہونا۔ (۹۴)

اور نہ ان لوگوں سے ہونا جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی آیتوں کو، پھر خسارہ پانے والوں سے ہو جائے۔ (۹۵)

بیشک جن لوگوں پر تیرے رب کی بات ثابت ہو گئی وہ ایمان نہ لائیں گے۔ (۹۶)

خواہ ان کے پاس ہر نشانی آ جائے ، یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ (۹۷)

پس کیوں نہ ہوئی کوئی بستی کہ وہ ایمان لاتی تواس کا ایمان نفع دیتا مگر یونس کی قوم (کہ وہ ایمان لے آئی) جب وہ ایمان لائے توہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب اٹھا لیا، اور انہیں ایک مدت تک نفع پہنچایا۔ (۹۸)

اور اگر چاہتا تیرا رب البتہ جو زمین میں ہیں سب کے سب ایمان لے آتے ، پس کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا، یہاں تک کہ وہ مؤمن ہو جائیں۔ (۹۹)

اور کسی شخص کے لئے (اپنے اختیار میں) نہیں کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر ایمان لے آئے اور وہ ڈالتا ہے (کفر کی) کی گندگی ان لوگوں پر جو عقل نہیں رکھتے۔ (۱۰۰)

آپ کہہ دیں دیکھو کیا کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور نشانیاں اور ڈرانے والے (رسول) ان لوگوں کو فائدہ نہیں دیتے جو نہیں مانتے۔ (۱۰۱)

تو کیا وہ انتظار کر رہے ہیں مگر انہیں لوگوں جیسے واقعات کا جو ان سے پہلے گزر چکے ، آپ کہہ دیں پس تم انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔ (۱۰۲)

پھر ہم بچا لیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور اسی طرح ان کو جو ایمان لائے پم پر حق (ذمہ) ہم بچالیں گے مؤمنوں کو۔ (۱۰۳)

آپ کہہ دیں، اے لوگو!اگر تم میرے دین (کے متعلق) کسی شک میں ہو تو میں عبادت نہیں کرتا ان کی جن  کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، لیکن میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں (دنیا سے ) اٹھا لیتا ہے ، اور مجھے حکم دیا گیا کہ مؤمنوں میں سے رہوں۔ (۱۰۴)

اور یہ کہ اپنا منہ سب سے موڑ کر دین کے لئے سیدھا رکھ، اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا۔ (۱۰۵)

اور اللہ کے سوا اسے نہ پکار جو نہ تجھے نفع دے ، اور نہ نقصان پہنچا سکے ، پھر اگر تو نے (ایسا ) کیا تواس وقت تو بیشک ظالموں میں سے ہو گا۔ (۱۰۶)

اور اگر اللہ تجھے پہنچائے کوئی نقصان تواس کے سوا کوئی اس کو ہٹانے والا نہیں، اور اگر وہ تیرا بھلا چاہے تو کوئی اس کے فضل کو روکنے والا نہیں، وہ پہنچاتا ہے اس کو اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ، اور وہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۷)

آپ کہہ دیں، اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق پہنچ چکا، توجس نے ہدایت پائی صرف اپنی جان کے لئے ہدایت پائی، اور جو گمراہ ہوا تو صرف اپنے برے کو گمراہ ہوا، اور میں تم پر مختار نہیں ہوں۔ (۱۰۸)

اور (اس کی) پیروی کرو جو تمہاری طرف وحی ہوئی ہے ، اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے ، اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (۱۰۹)

٭٭

 

 

 

 

۱۱۔ سورۃ ہود

 

 

مکیہ

 

آیات:۱۲۳       رکوعات:۱۰

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

 

الٓر۔ یہ کتاب ہے ، اس کی آیات مضبوط کی گئیں، پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کے پاس سے۔ (۱)

یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بیشک میں اس (کی طرف) سے تمہارے لئے ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔ (۲)

اور یہ کہ مغفرت طلب کرو اپنے رب کی، پھر اس کی طرف رجوع کرو، وہ تمہیں فائدہ پہنچائے گا اچھی متاع، ایک وقت مقرر تک، اور دے گا ہر فضل والے کو اپنا فضل، اور اگر تم پھر جاؤ تو بیشک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۳)

اللہ کی طرف تمہیں لوٹنا ہے ، اور وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔ (۴)

یاد رکھو! بیشک وہ اپنے سینے دوہرے کرتے ہیں تاکہ اس (اللہ) سے چھپا لیں، یاد رکھو!جب وہ اپنے کپڑے پہنتے ہیں وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ (۵)

اور کوئی زمین پر چلنے ( پھرنے ) والا نہیں، مگر ا س کا رزق اللہ پر (اللہ کے ذمے ) ہے ، اور وہ جانتا ہے اس کا ٹھکانا اور اس کے سونپے جانے کی جگہ، سب کچھ روشن کتاب (لوح محفوظ) میں ہے۔ (۶)

اور وہی ہے جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین چھ دن میں، اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر ہے عمل میں؟اور اگر آپ کہیں کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تووہ لوگ ضرور کہیں گے جنہوں نے کفر کیا کہ یہ صرف کھلا جادو ہے۔ (۷)

اور اگر ہم ان سے عذاب روک رکھیں ایک مدت معین تک، وہ ضرور کہیں گے کیا چیز اسے روک رہی ہے ؟یاد رکھو جس دن ان پر (عذاب) آئے گا، ان سے نہ ٹالا جائے گا، اور انہیں گھیر لے گاجس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۸)

اور اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھا دیں پھر وے اس سے چھین لیں، تو بیشک وہ مایوس، ناشکرا ہو جاتا ہے۔ (۹)

اور اگر اسے ہم سختی کے بعد آرام چکھا دیں جو اسے پہنچی ہو تووہ ضرور کہے گا مجھ سے برائیاں جاتی رہیں، بیشک وہ اترانے والا شیخی خور ہے۔ (۱۰)

مگر جن لوگوں نے صبر کیا اور نیک عمل کئے ، یہی لوگ ہیں جن کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ (۱۱)

تو کیا تم چھوڑ دو گے (اس کا) کچھ حصہ جو تمہاری طرف وحی کیا گیا ہے ، اور اس سے تمہارا دل تنگ ہو گا کہ وہ کہتے ہیں کہ اس پر کیوں نہ اترا کوئی خزانہ یا اس کے (ساتھ) فرشتہ (کیوں نہ ) آیا؟ا سکے سوا نہیں کہ تم ڈرانے والے ہو اور اللہ ہر شے پر اختیار رکھنے والا ہے۔ (۱۲)

کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے ، آپ کہہ دیں تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور جس کو تم (مدد کیلئے ) بلا سکوبلالو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔ (۱۳)

پھر اگر وہ تمہارے (اس چیلنج کا) جواب نہ دے سکیں تو جان لو کہ یہ تو اللہ کے علم سے نازل کیا گیا ہے ، اور یہ کہ ا سکے سوا کوئی معبود نہیں، پس کیا تم اسلا م لاتے ہو؟ (۱۴)

جو کوئی چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی زینت، ہم ان کیلئے ان کے عمل اس (دنیا) میں پورے کر دیں گے اور اس میں ان کی کمی نہ کی جائے گی۔ (۱۵)

یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور اکارت گیا جواس (دنیا) میں انہوں نے کیا اور جو وہ کرتے تھے نابود ہوئے۔ (۱۶)

پس کیا (یہ اس کے برابر ہیں) جو اپنے رب کے کھلے راستہ پر ہو اور ا سکے ساتھ اس (اللہ کی طرف) سے گواہ ہو، اس سے پہلے موسی کی کتاب امام (راہ نما) اور رحمت (تھی) یہی لوگ اس (قرآن) پر ایمان لاتے ہیں اور گروہوں میں سے جو اس کا منکر ہو تو دوزخ اس کا ٹھکانا ہے ، پس توشک میں نہ ہواس سے ، بیشک وہ تیرے رب (کی طرف) سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (۱۷)

اور کون ہے اس سے بڑھ کر ظالم؟جو اللہ پر جھوٹ باندھے ، یہ لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور کہیں گے گواہ یہی ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا، یاد رکھو!ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ (۱۸)

جو لوگ اللہ کے راستہ سے روکتے ہیں، اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں، اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔ (۱۹)

یہ لوگ زمین میں عاجز کرنے والے نہیں، اور ان کے لئے نہیں ہے اللہ کے سوا کوئی حمایتی، ان کے لئے دوگنا عذاب ہے ، وہ نہ سننے کی طاقت رکھتے تھے اور نہ وہ دیکھتے تھے۔ (۲۰)

یہی لو گ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کا نقصان کیا اور ان سے گم ہو گیا جو وہ جھوٹ باندھتے تھے۔ (۲۱)

کوئی شک نہیں کہ وہ آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (۲۲)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور اپنے رب کے آگے عاجزی کی، یہی لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۲۳)

دونوں فریق کی مثال (ایسے ہے ) جیسے اندھا اور بہرا اور (دوسرا) دیکھتا ہے اور سنتا ہے ، کیا دونوں برابر ہیں حالت میں، کیا تم غور نہیں کرتے۔ ؟ (۲۴)

اور ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ بیشک میں تمہارے لئے (تمہیں) ڈرانے والا ہوں کھلا (کھول کر)۔ (۲۵)

کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو، بیشک میں تم پر ایک دکھ دینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۲۶)

تواس قوم کے وہ سردار جنہوں نے کفر کیا، بولے ہم تجھے نہیں دیکھتے مگر ہمارے اپنے جیسا ایک آدمی اور ہم نہیں دیکھتے کہ کسی نے تیری پیروی کی ہو ان کے سوا ج وہم میں نیچ لوگ ہیں (وہ بھی) سرسری نظر سے (بے سوچے سمجھے ) اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے لئے اپنے اوپر کوئی فضیلت بلکہ ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ (۲۷)

اس نے کہا اے میری قوم دیکھو تو اگر میں واضح دلیل پر ہوں اپنے رب (کی طرف) سے اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت دی ہے وہ تمہیں دکھائی نہیں دیتی، توکیا ہم وہ تمہیں زبردستی منوائیں، اور تم ا س سے بیزار ہو۔ (۲۸)

اور اے میری قوم! میں تم سے اس پر کچھ مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے ، اور جو ایمان لائے ہیں میں انہیں ہانکنے والا (دور کرنے والا) نہیں، بیشک وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں، لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک قوم ہو کہ جہالت کرتے ہو۔ (۲۹)

اور اے میری قوم ! اگر میں انہیں ہانک دوں تو مجھے اللہ سے کون بچا لے گا؟کیا تم غور نہیں کرتے۔ (۳۰)

اور میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب (کی باتیں) جانتا ہوں، اور میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں، اور جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقیر سمجھتی ہیں (تم حقیر سمجھتے ہو) میں نہیں کہتا اللہ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نے دے گا، جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اللہ خوب جانتا ہے (اگر ایسا کہوں تو) اس وقت البتہ میں ظالموں سے ہوں گا۔ (۳۱)

وہ بولے اے نوح تو نے ہم سے جھگڑا کیا سوہم سے بہت جھگڑا کیا پس وہ (عذاب) لے آ جس کا توہم سے وعدہ کرتا ہے ، اگر توسچا ہے۔ (۳۲)

اس نے کہا تم پر لائے صرف اللہ اس (عذاب ) کو اگر وہ چاہے گا اور تم عاجز کر دینے والے نہیں ہو۔ (۳۳)

اور میری نصیحت تمہیں نفع نہ دے گی اگر میں چاہوں کہ میں تمہیں نصیحت کروں جبکہ اللہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۳۴)

آپ کہہ دیں اگر میں نے اس کو بنا لیا ہے تو مجھ پر ہے میرا گناہ اور میں اس سے بری ہوں جو تم گناہ کرتے ہو۔ (۳۵)

اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم سے (اب) ہرگز کوئی ایمان نہ لائے گا، سوائے   اس کے جو ایمان لاچکا، پس اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے ہیں۔ (۳۶)

اور تو ہمارے سامنے کشتی بنا اور ہمارے حکم سے ، اور ظالموں (کے حق) میں مجھ سے بات نہ کر، بیشک وہ ڈوبنے والے ہیں۔ (۳۷)

اور وہ (نوح) کشتی بناتا تھا اور جب بھی اس کی قوم کے سردار اس (کے پاس) سے گزرتے تو وہ اس پر ہنستے ، ، اس (نوح) نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو بیشک ہم (بھی) تم پر ہنسیں گے جیسے تم ہنستے ہو۔ (۳۸)

سوعنقریب تم جان لو گے کس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اس کو رسوا کرے اور اترتا ہے اس پر دائمی عذاب۔ (۳۹)

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آیا اور تنور نے جوش مارا (ابل پڑا) ہم نے کہا اس (کشتی) میں چڑھا لے ہر ایک کا جوڑا، نر اور مادہ اور اپنے گھر والے ، مگر جس پر (غرقابی کا) حکم ہو چکا ہے اور جو ایمان لایا (اسے بھی سوار کر لے ) اور اس پر ایمان نہ لائے تھے مگر تھوڑے۔ (۴۰)

اور اس نے کہا اس میں سوار ہو جاؤ، اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا، بیشک البتہ میرا رب بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۴۱)

اور وہ (کشتی) ان کو لے کر پہاڑ جیسی لہروں میں چلی اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ (اس سے ) کنارے تھا، اے میرے بیٹے !ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔ (۴۲)

اس نے کہا میں کسی پہاڑ کی طرف جلدی پناہ لے لیتا ہوں وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، اس نے کہا آج کوئی بچانے والا نہیں اللہ کے حکم سے سوائے ا سکے جس پر وہ رحم کرے ، اور ان کے درمیان موج آ گئی (حائل ہو گئی) تووہ بھی ڈوبنے والوں میں (شامل) ہو گیا۔ (۴۳)

اور کہا گیا اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا، اور پانی کو خشک کر دیا گیا، اور تمام   ہو گیا کام اور (کشتی) جا لگی جودی پہاڑ پر، اور کہا دوری (لعنت) ہو ظالم لوگوں کے لئے۔ (۴۴)

اور پکارا نوح نے اپنے رب کو، پس اس نے کہا اے میرے رب، بیشک میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے ، اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو حاکموں میں سب سے بڑا حاکم ہے۔ (۴۵)

اس نے فرمایا، اے نوح بیشک وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں، بیشک اس کے عمل ناشائستہ ہیں، سو مجھ سے ایسی بات کا سوال نہ کر جس کا تجھے علم نہیں، بیشک میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو نادانوں میں سے (نہ) ہو جائے۔ (۴۶)

اس نے کہا اے میرے رب! میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں کہ میں تجھ سے ایسی بات کاسوال کروں جس کا مجھے علم نہ ہو، اور اگر تو مجھے نہ بخشے اور مجھ پر رحم نہ کرے تومیں نقصان پانے والوں میں سے ہو جاؤں۔ (۴۷)

کہا گیا، اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اتر جا ؤ اور برکتیں ہوں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں اور کچھ گروہ ہیں کہ ہم انہیں جلد (دنیا میں) فائدہ دیں گے ، پھر انہیں ہم سے پہنچے گا عذاب دردناک۔ (۴۸)

یہ غیب کی خبریں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں، نہ تم ان کو جانتے تھے اس سے پہلے اور نہ تمہاری قوم (جانتی تھی) پس صبر کرو بیشک پرہیز گاروں کا انجام اچھا ہے۔ (۴۹)

اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (کو بھیجا) اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، ا سکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تم صرف جھوٹ باندھتے ہو (افترا کرتے ہو)۔ (۵۰)

اے میری قوم! اس پر میں تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا صلہ اسی پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا، پھر کیا تم سمجھتے نہیں؟ (۵۱)

اور اے میری قوم ! اپنے رب سے بخشش مانگو، پھراس کی طرف رجوع کرو (توبہ کرو) وہ تم پر آسمان سے زور کی بارش بھیجے گا، اور تمہیں قوت پر قوت بڑھائے گا اور مجرم ہو کر روگردانی نہ کرو۔ (۵۲)

وہ بولے اے ہود!تو ہمارے پاس کوئی سند لے کر نہیں آیا، اور ہم چھوڑنے والے نہیں اپنے معبودوں کو تیرے کہنے سے اور ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں۔ (۵۳)

ہم یہی کہتے ہیں کہ تجھے آسیب پہنچایا ہے ہمارے کسی معبود نے بری طرح، اس نے کہا بیشک میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم (بھی) گواہ رہو، میں ان سے بیزار ہوں جن کو تم شریک کرتے ہو۔ (۵۴)

اس کے سوا، سو میرے بارہ میں سب مکر (بری تدبیر) کر لو، پھر مجھے مہلت نہ دو۔ (۵۵)

میں نے اللہ پر بھروسہ کیا (جو) میرا رب ہے اور تمہارا رب ہے ، کوئی چلنے (پھرنے ) والا نہیں مگر وہ اس کو چوٹی سے پکڑ نے والا ہے (قبضہ میں لئے ہوئے ہے ) بیشک میرا رب ہے راستہ پرسیدھے۔ (۵۶)

پھر اگر تم روگردانی کرو گے توجس کے ساتھ مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا وہ میں تمہیں پہنچا چکا، اور قائم مقام کر دے گا میرا رب تمہارے سوا کسی اور قوم کو، اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑسکو گے ، بیشک میرا رب ہر شے پر نگہبان ہے۔ (۵۷)

اور جب ہمارا حکم آیا، ہم نے ہود کو اور جو اس کی قوم اس کے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت سے بچا لیا، اور ہم نے انہیں بچا لیا سخت عذاب سے۔ (۵۸)

اور یہ عاد تھے اور انہوں نے اپنے رب کی کی آیتوں کا انکار کیا، اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کی، اور ہر سرکش ضدی کی پیروی کی۔ (۵۹)

اور لعنت ان کے پیچھے لگا دی گئی اس دنیا میں اور روزِ قیامت، یاد رکھو !عاد اپنے رب کے منکر ہوئے ، یاد رکھو ہود کی قوم عاد پر پھٹکار ہے۔ (۶۰)

اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو ( بھیجا) اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، اور تمہیں اس میں بسایا، پس اس سے بخشش مانگو، پھر اس سے توبہ کرو، بیشک میرا رب نزدیک ہے ، قبول کرنے والا ے۔ (۶۱)

وہ بولے اے صالح! تو ہمارے درمیان اس سے قبل مرکز امید تھا (تجھ سے بڑی امیدیں تھیں) کیا تو ہمیں منع کرتا ہے کہ ہم اس کی پرستش کریں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھے ، توجس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اس میں ہم قوی شبہ میں ہیں۔ (۶۲)

اس نے کہا اے میری قوم! تم کیا دیکھتے ہو (بھلا دیکھو تو) اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت دی ہے ، تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں، مجھے اللہ سے کون بچائے گا؟تم میرے لئے نقصان کے سوا کچھ نہیں بڑھاتے۔ (۶۳)

اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی ہے ، تمہارے لئے نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی (پھرے) اور اس کو نہ چھوؤ (نہ پہنچاؤ) کوئی برائی (نقصان) پس تمہیں بہت جلد عذاب پکڑ لے گا۔ (۶۴)

پھر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تواس (صالح) نے کہا تم اپنے گھروں میں برت لو تین دن، اور یہ جھوٹا نہ ہونے والا وعدہ ہے (پورا ہو کر رہے گا)۔ (۶۵)

پھر جب ہمارا حکم آیا، ہم نے صالح کو بچا لیا اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت (کے ذریعے ) اور اس دن کی رسوائی سے ، بیشک تمہارا رب قوی غالب ہے۔ (۶۶)

اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ پکڑا، پس انہوں نے صبح کی (صبح کے وقت) اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (۶۷)

گویا وہ کبھی یہاں بسے ہی نہ تھے ، یاد رکھو ! بیشک قوم ثمود اپنے رب کے منکر ہوئے۔ یاد رکھو!ثمود پر پھٹکار ہے۔ (۶۸)

اور ہمارے فرشتہ البتہ ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ، وہ سلام بولے ، اس (ابراہیم) نے سلام کہا، پھر اس نے دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ (۶۹)

پھر جب اس (ابراہیم) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں پہنچتے تو وہ ان سے ڈرا اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا، وہ بولے ڈرو مت، بیشک ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (۷۰)

اور ا س کی بیوی کھڑی ہوئی تھی تووہ ہنس پڑی سوہم نے اسے خوشخبری دی اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ (۷۱)

وہ بولی اے ہے ! کیا میرے بچہ ہو گا؟ حالانکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرا خاوند بوڑھا ہے ، بیشک یہ ایک عجیب بات ہے۔ (۷۲)

وہ بولے کیا تو اللہ کے حکم سے (اللہ کی قدرت پر) تعجب کرتی ہے ؟تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں اے گھر والو! بیشک وہ خوبیوں والا، بزرگی والا ہے۔ (۷۳)

پھر جب ابراہیم کا خوف جاتا رہا اور اس کے پاس خوشخبری آ گئی وہ ہم سے قوم لوط (کے بارہ) میں جھگڑنے لگا۔ (۷۴)

بیشک ابراہیم بردبار، نرم دل رجوع کرنے والا ہے۔ (۷۵)

اے ابراہیم! اس سے اعراض کر (یہ خیال چھوڑ دے ) بیشک تیرے رب کا حکم آ چکا، اور بیشک ان پر نہ ٹلا جانے والا عذاب آنے والا ہے (آیا ہی چاہتا ہے )۔ (۷۶)

اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے وہ ان سے غمگین ہوا اور تنگدل ہوا ان ( کی طرف) سے اور بولا یہ بڑا سختی کا دن ہے۔ (۷۷)

اور اس کے پاس اس کی قوم دوڑتی ہوئی آئی، اور وہ اس سے قبل برے کام کرتے تھے ، اس نے کہا اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں (موجود) ہیں، یہ تمہارے لئے پاکیزہ ہیں پس اللہ سے ڈرو، اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو، کیا تم میں ایک آدمی (بھی) نیک چلن نہیں؟۔ (۷۸)

وہ بولے توتو جانتا ہے ، تیری بیٹیوں میں ہمارے لئے کوئی حق (غرض) نہیں، اور بیشک تو خوب جانتا ہے ہم کیا چاہتے ہیں ؟۔ (۷۹)

اس نے کہا کاش میرا تم پر کوئی زور ہوتا، یا میں کسی مضبوط پایہ کی پناہ لیتا۔ (۸۰)

وہ (فرشتے ) بولے اے لوط! بیشک ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں وہ تم تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے ، سوتم اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصہ میں (راتوں رات) لے نکلو، اور مڑ کر نہ دیکھے تم میں سے تمہاری بیوی کے سوا کوئی، بیشک جوان کو پہنچے گا، اس کو پہنچنے والا ہے (پہنچ کر رہے گا)، بیشک ان پر (عذاب کے ) وعدہ کا وقت صبح ہے ، کیا صبح نزدیک نہیں؟۔ (۸۱)

پس جب ہمارا حکم آیا ہم نے ان کا بلند پست کر دیا (زیر و زبر کر دیا) اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر سنگریزے کے پتھر تہہ بہ تہہ (لگاتار)۔ (۸۲)

تیرے رب کے پاس نشان کئے ہوئے ہیں اور یہ نہیں ہے ظالموں سے کچھ دور۔ (۸۳)

اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (کو بھیجا) اس نے کہا، اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ تول میں کمی نہ کرو، بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں، اور بیشک میں تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۸۴)

اور اے میری قوم انصاف سے ماپ تول پورا کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو، اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔ (۸۵)

اللہ کا دیا ہوا جو بچ رہے تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان والے ہو، اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں۔ (۸۶)

وہ بولے اے شعیب ! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے (سکھاتی ہے ) کہ انہیں چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا پرستش کرتے تھے ، یا اپنے مالوں میں جو چاہیں نہ کریں، (طنزاً بولے ) بیشک تم ہی با وقار، نیک چلن ہو۔ (۸۷)

اس نے کہا اے میری قوم! تمہارا کیا خیال ہے ؟میں اپنے رب کی طرف سے اگر روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے اچھی روزی دی ہے ، اور میں نہیں چاہتا کہ میں (خود) اس کے خلاف کروں جس سے تمہیں روکتا ہوں، جس قدر مجھ سے ہو سکے میں صرف اصلاح چاہتا ہوں اور میری توفیق صرف اللہ ہی سے ہے ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ا سی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (۸۸)

اور اے میری قوم تمہیں میری ضد آمادہ نہ کر دے کہ تمہیں (عذاب) پہنچے اس جیسا جو پہنچا قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح کو، اور قوم لوط نہیں ہے تم سے کچھ دور۔ (۸۹)

اور اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف رجوع کرو بیشک میرا رب رحم کرنے والا محبت والا ہے۔ (۹۰)

انہوں نے کہا اے شعیب تو جو کہتا ہے ان سے ہم بہت (سی باتیں ) نہیں سمجھتے اور بیشک ہم تجھے دیکھتے ہیں اپنے درمیان کمزور اور تیرا کنبہ (بھائی بند) نہ ہوتے توہم تجھ پر پتھراؤ کرتے اور تو ہم پر غالب نہیں۔ (۹۱)

اس نے کہا اے میری قوم !کیا میرا کنبہ تم پر اللہ سے زیادہ زور والا ہے ؟اور تم نے اسے اپنی پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے ، بیشک میرا رب جو تم کرتے ہو اسے احاطہ (قابو) کئے ہوئے ہے۔ (۹۲)

اور اے میری قوم تم اپنی جگہ کام کرتے رہو میں (اپنا ) کام کرتا ہوں، تم جلد جان لو گے کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اس کورسوا کر دے گا؟اور کون جھوٹا ہے ؟اور تم انتظار کرو، بیشک میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔ (۹۳)

ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ا سکے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت سے بچا لیا، اور جن لوگوں نے ظلم کیا انہیں چنگھاڑ نے آ لیا، سوانہوں نے صبح کی (صبح کے وقت) اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (۹۴)

گویا وہ وہاں بسے (ہی ) نہ تھے ، یاد رکھو! (رحمت سے ) دوری ہو مدین کے لئے جیسے دور ہوئے ثمود۔ (۹۵)

اور ہم نے بھیجا موسیؑ کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ۔ (۹۶)

تو انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی اور فرعون کا حکم درست نہ تھا۔ (۹۷)

قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے ہو گا، تووہ انہیں دوزخ میں لا اتارے گا اور برا ہے گھاٹ (ان کے ) اترنے کا مقام۔ (۹۸)

اور اس (دنیا) میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن۔ برا ہے (یہ) انعام جو انہیں دیا گیا۔ (۹۹)

یہ بستیوں کی خبریں ہیں کہ ہم تجھ کو بیان کرتے ہیں ان میں کچھ موجود ہیں، اور (کچھ کی جڑیں) کٹ چکی ہیں۔ (۱۰۰)

اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، سوان کے کچھ کام نہ آئے وہ معبود جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے ، جب تیرے رب کا حکم آیا، اور انہیں ہلاکت کے سوا انہوں نے کچھ نہ بڑھایا۔ (۱۰۱)

اور ایسی ہی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ بستیوں کو پکڑتا ہے اور وہ ظلم کرتے ہیں، بیشک اس کی پکڑ دردناک، سخت ہے۔ (۱۰۲)

بیشک اس میں البتہ اس کے لئے نشانی ہے جو ڈرا آخرت کے عذاب سے ، یہ ایک دن ہے جس میں سب لوگ جمع ہوں گے ، اور یہ ایک دن ہے پیش ہونے (حاضری) کا۔ (۱۰۳)

اور ہم پیچھے نہیں ہٹاتے (ملتوی نہیں کرتے ) مگر (صرف) ایک مقررہ مدت تک کیلئے۔ (۱۰۴)

جب وہ دن آئے گا کوئی شخص بات نہ کر سکے گا، مگر اس کی اجازت سے ، سوکوئی ان میں بدبخت ہے ، اور کوئی خوش بخت۔ (۱۰۵)

پس جو بد بخت ہے وہ دوزخ میں ہیں، ان کے لئے اس میں (گدھے کی طرح) چیخنا اور دھاڑنا ہے۔ (۱۰۶)

وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، جب تک زمین اور آسمان ہیں، مگر جتنا تیرا رب چاہے ، بیشک تیرا رب جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ (۱۰۷)

اور جو لوگ خوش بخت ہیں سووہ ہمیشہ رہیں گے ، جب تک زمین اور آسمان ہیں، مگر جتنا تیرا رب چاہے ، (یہ) بخشش ہے ختم نہ ہونے والی۔ (۱۰۸)

پس ا س سے شک و شبہ میں نہ رہو جو یہ (کافر) پوجتے ہیں، وہ نہیں پوجتے مگر جیسے اس سے قبل ان کے باپ دادا پوجتے تھے ، اور بیشک ہم انہیں ان کا حصہ گھٹائے بغیر پورا پھیر دیں گے۔ (۱۰۹)

اور ہم نے البتہ موسیؑ کو کتاب دی، سواس میں اختلاف کیا گیا، اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات پہلے نہ ہو چکی ہوتی تو البتہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا، اور البتہ وہ اس (قرآن کی طرف) سے دھوکہ میں ڈالنے والے شک میں ہیں۔ (۱۱۰)

اور بیشک جب (وقت آئے گا) سب کو پورا پورا بدلہ دے گا تیرا رب ان کے اعمال کا، بیشک جو وہ کرتے ہیں وہ اس سے باخبر ہے۔ (۱۱۱)

سو تم قائم رہو جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے ، اور وہ بھی جس نے توبہ کی تمہارے ساتھ، اور سرکشی نہ کرو، بیشک جو تم کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ (۱۱۲)

اور ان کی طرف نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، پس تمہیں آگ چھوئے گی (آ لگے گی)، اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں، پھر مدد نہ دئے جاؤ گے (مدد نہ پاؤ گے )۔ (۱۱۳)

اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں طرف (صبح و شام) اور رات کے کچھ حصہ میں، بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں برائیوں کو، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لئے۔ (۱۱۴)

اور صبر کرو بیشک اللہ اجر ضائع نہیں کرتا نیکی کرنے والوں کا۔ (۱۱۵)

پس تم سے پہلے جو قومیں ہوئیں ان میں صاحبان خیر کیوں نہ ہوئے ، کہ روکتے زمین میں فساد سے ، مگر تھوڑے سے جنہیں ہم نے ان سے بچا لیا اور ظالم (ان ہی لذتوں کے ) پیچھے پڑے رہے جو انہیں دی گئیں تھیں، اور وہ گنہگار تھے۔ (۱۱۶)

اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے ہلاک کر دے جب کہ وہاں کے لوگ نیکو کار ہیں۔ (۱۱۷)

اور اگر تیرا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک (ہی) امت کر دیتا اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ (۱۱۸)

مگر جس پر تیرے رب نے رحم کیا واراسی لئے انہیں پیدا کیا، اور پوری ہوئی تیرے رب کی بات، البتہ جہنم بھر دوں گا جنوں اور انسانوں سے اکھٹے۔ (۱۱۹)

اور ہر بات ہم تم سے رسولوں کے احوال کی بیان کرتے ہیں،  تاکہ اس سے تمہارے دل کو تسلی دیں، اور تمہارے پاس آیا اس میں حق، اور مؤمنوں کے لئے نصیحت اور یاد دہانی۔ (۱۲۰)

اور ان لوگوں کو کہہ دیں جو ایمان نہیں لاتے ، تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ ہم (اپنی جگہ) کام کرتے ہیں۔ (۱۲۱)

اور تم انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں۔ (۱۲۲)

اور اللہ کے پاس ہیں آ سمانوں اور زمین کے غائب (چھپی ہوئی باتیں) اور اس کی طرف تمام کاموں کی باز گشت ہے۔ (۱۲۳)

٭٭

 

۱۲۔ سورۃیوسف

 

 

مکیہ

 

آیات:۱۱۱        رکوعات:۱۲

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

 

الٓرٰ۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ (۱)

بیشک ہم نے اسے عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھو۔ (۲)

ہم تم پر بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں، اس لئے کہ ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن بھیجا اور تحقیق تم اس سے قبل البتہ بے خبروں میں سے تھے۔ (۳)

(یاد کرو) جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا، اے میرے باپ! بیشک میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو (خواب میں) دیکھا، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا۔ (۴)

اس نے کہا اے میرے بیٹے ! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا کہ وہ تیرے لئے کوئی چال چلیں گے ، بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (۵)

اور تیرا رب اسی طرح تجھے چن لے گا اور تجھے سکھائے گا باتوں کا انجام نکالنا ( خوابوں کی تعبیر) اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کر دے گا اور یعقوب کے گھر والوں پر، جیسے اس سے پہلے تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر اسے پورا کیا، بیشک تیرا رب علم والا، حکمت والا ہے۔ (۶)

بیشک یوسفؑ اور اس کے بھائیوں میں پوچھنے والوں کے لئے کھلی نشانیاں ہیں۔ (۷)

جب انہوں نے کہا ضرور یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں، جبکہ ہم ایک جماعت (قوی) ہیں، بیشک ہمارے باپ صریح غلطی میں ہیں۔ (۸)

یوسف کو مار ڈالو، یا اسے کسی سرزمین میں ڈال آؤ کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہارے لئے خالی (خاص) ہو جائے اور تم ہو جاؤ (ہو جانا) اس کے بعد نیک لوگ۔ (۹)

ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا، یوسف کو قتل نہ کرو، اور اسے ڈال آؤ اندھے کنویں میں کہ اسے کوئی مسافر اٹھا لے (جائے ) اگر تمہیں کرنا ہی ہے۔ (۱۰)

کہنے لگے اے ہمارے باپ ! تجھے کیا ہوا ہے ؟تویوسف کے بارہ میں ہمارا اعتبار نہیں کرتا، اور بیشک ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں۔ (۱۱)

کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دے وہ (جنگل کے پھل) کھائے اور کھیلے کودے اور بیشک ہم اس کے نگہبان ہیں۔ (۱۲)

اس نے کہا بیشک مجھے یہ غمگین کرتا ہے کہ اسے لے جاؤ اور میں ڈرتا ہوں کہ اسے بھڑیا کھا جائے اور تم اس سے بے خبر رہو۔ (۱۳)

وہ بولے اگر اسے بھیڑیا کھا جائے جبکہ ہم ایک قوی جماعت ہیں، اس صورت میں بیشک ہم زیاں کار ٹھہرے۔ (۱۴)

پھر جب وہ اسے لے گئے اور انہوں نے اتفاق کر لیا کہ اسے اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ تو انہیں ان کے اس کام کو ضرور جتائے گا اور وہ نہ جانتے (تجھے نہ پہچانتے ) ہوں گے۔ (۱۵)

اور اندھیرا پڑے وہ اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔ (۱۶)

اور اندھیرا پڑے وہ اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے ، بولے اے ہمارے ابّا! ہم لگے دوڑنے آگے نکلنے کو، اور ہم نے یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ دیا، تواسے بھیڑیا کھا گیا، اور تو نہیں ہم پر باور کرنے والا خواہ ہم سچے ہوں۔ (۱۷)

اور وہ اس کی قمیص پر جھوٹا خون (لگا کر) لائے ، اس نے کہا (نہیں) بلکہ تمہارے لئے تمہارے دلوں نے ایک بات بنا لی ہے ، پس (صبر) ہی اچھا ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس پر اللہ (ہی) سے مدد چاہتا ہوں۔ (۱۸)

اور (ادھر) ایک قافلہ آیا، پس انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا، اس نے اپنا ڈال ڈالا اس نے کہا آہا خوشی کی بات ہے ، یہ ایک لڑکا ہے ، اور اسے مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا، اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے تھے۔ (۱۹)

اور انہوں نے (بھائیوں نے ) اسے بیچ دیا کھوٹے داموں گنتی کے چند درہموں میں، اور وہ اس سے بیزار ہو رہے تھے۔ (۲۰)

اور مصر کے جس شخص نے اس کو خریدا اس نے کہا اپنی عورت کو اسے عزت سے رکھ، شاید کہ ہمیں نفع پہنچائے ، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی، اور تاکہ ہم اسے باتوں کا انجام نکالنا (خوابوں کی تعبیر) سکھائیں، اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۲۱)

اور جب وہ (یوسف) اپنی قوت (جوانی) کو پہنچ گیا، ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ (۲۲)

اسے (یوسف کو) اس عورت نے پھسلایا، وہ جس کے گھر میں تھے اپنے آپ کو روکنے (قابو رکھنے ) سے ، اور دروازے بند کر دئے اور بولی آ جا جلدی کر، اس نے کہا اللہ کی پناہ!بیشک وہ (عزیز مصر) میرا مالک ہے ، اس نے میرا رہنا سہنا بہت اچھا رکھا، بیشک ظالم بھلائی نہیں پاتے۔ (۲۳)

اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی اس کا ارادہ کرتے اگر یہ نہ ہوتا کہ وہ اپنے رب کی دلیل دیکھ لیتے ، اسی طرح ہم نے اس سے پھیر دی برائی اور بے حیائی، بیشک وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔ (۲۴)

اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے اس کی قمیص پھاڑ دی پیچھے سے ، اور دونوں کو اس کا خاوند دروازے کے پاس ملا، وہ کہنے لگی اس کی کیا سزا جس نے تیری بیوی سے برا ارادہ کیا؟سوائے اس کے کہ قید کیا جائے یا دردناک عذاب دیا جائے۔ (۲۵)

اس (یوسف) نے کہا اس نے مجھے میرے نفس (کی حفاظت) سے پھسلایا، اور گواہی دی اس کے لوگوں میں سے ایک گواہ نے ، کہ اگر اس کی قمیص آگے سے پھٹی ہوئی ہے تووہ سچی ہے اور وہ (یوسف) جھوٹوں میں سے ہے۔ (۲۶)

اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو وہ جھوٹی ہے اور وہ (یوسف) سچوں میں سے ہے۔ (۲۷)

تو جب اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی دیکھی تواس نے کہا یہ تم عورتوں کا فریب ہے ، بیشک تمہارا فریب بڑا ہے۔ (۲۸)

یوسف!اس (ذکر ) کو جانے دے اور اے عورت! اپنے گناہ کی بخشش مانگ، بیشک تو گنہگاروں میں سے ہے۔ (۲۹)

اور شہر میں عورتوں نے کہا، عزیز کی بیوی نے پھسلایا ہے اپنے غلام کو اس کے نفس (کی حفاظت) سے ، ا س کی محبت (اس کے دل میں) جگہ پکڑ گئی ہے ، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھتی ہیں۔ (۳۰)

پھر جب اس نے ان کے فریب (کا ذکر ) سنا تو انہیں دعوت بھیجی اور ان کے لئے ایک محفل تیار کی، اور (پھل کاٹنے کو) دی ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری اور کہا ان کے سامنے آ، پھر جب انہوں نے (یوسف) کو دیکھا ان پر اس کا رعب (حسن) چھا گیا، اور انہوں نے (پھلوں کی جگہ) اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہنے لگیں اللہ کا پناہ! یہ بشر نہیں مگر یہ تو بزرگ فرشتہ ہے۔ (۳۱)

وہ بولی سو یہ وہی ہے جس (کے بارے ) میں تم نے مجھے ملامت کی اور میں نے اسے اس کے نفس (کی حفاظت) سے پھسلایا، تو اس نے (اپنے آپ کو) بچا لیا، اور جو میں یہ کہتی ہوں اگر اس نے نہ کیا تو البتہ وہ قید کر دیا جائے گا اور بے عزت لوگوں میں سے ہو گا۔ (۳۲)

اس (یوسف) نے کہا اے میرے رب!مجھے قید اس سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف وہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو نے مجھ سے ان کا فریب نہ پھیرا تومیں مائل ہو جاؤں گا ان کی طرف، اور جاہلوں میں سے ہوں گا۔ (۳۳)

سواس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی پس اس سے ان کا فریب پھیر دیا بیشک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۳۴)

پھر نشانیاں دیکھ لینے کے بعد انہیں سوجھا کہ اسے ضرور قید میں ڈال دیں ایک مدت تک۔ (۳۵)

اور اس کے ساتھ دو جوان قید خانہ میں داخل ہوئے ، ان میں سے ایک نے کہا بیشک میں (خواب میں) دیکھتا ہوں کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں، اور دوسرے نے کہا میں (خواب میں) دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوں، پرندے ا س سے کھا رہے ہیں، ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے ، بیشک ہم آپ کو نیکو کاروں میں سے دیکھتے ہیں۔ (۳۶)

اس (یوسف) نے کہا تمہارے پاس کھانا نہیں آئے گا جو تمہیں دیا جاتا ہے ، مگر میں تمہیں اس کی تعبیر تمہارے پاس اس کے آنے سے پہلے بتلا دوں گا، یہ اس (علم) سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے ، بیشک میں نے اس قوم کا دین چھوڑ دیا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے ، اور وہ روز آخرت سے انکار کرتے ہیں۔ (۳۷)

اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین کی پیروی کی، ہمارا (کام) نہیں کہ ہم شریک ٹھہرائیں اللہ کاکسی شی کو، یہ ہم پر اور لوگوں پر اللہ کا فضل ہے ، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (۳۸)

اے میرے قید کے ساتھیو! کیا جدا جدا کئی معبود بہتر ہیں؟یا ایک اللہ (سب پر) غالب۔ (۳۹)

اس کے سوا تم کچھ نہیں پوجتے مگر نام ہیں جو تم نے رکھ لئے (تراش لئے ) ہیں، اور تمہارے باپ دادا نے ، اللہ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری، حکم صرف اللہ کا ہے ، اس نے حکم دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہ سیدھا دین ہے ، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۴۰)

اے میرے قید خانہ کے ساتھیو! تم میں سے ایک ا پنے مالک کو شراب پلائے گا، اور جو دوسرا ہے توسولی دیا جائے گا، پس پرندے اس کے سر سے کھائیں گے ، اس بات کا فیصلہ ہو چکا جس (کے بارہ) میں تم پوچھتے تھے۔ (۴۱)

اور (یوسف) نے ان دونوں میں سے جس (کے متعلق) گمان کیا کہ وہ بچے گا، اس سے کہا کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا، پس شیطان نے اسے بھلا دیا اپنے مالک سے ذکر کرنا، تووہ قید میں چند برس رہا۔ (۴۲)

اور بادشاہ نے کہا میں دیکھتا ہوں سات موٹی تازی گائیں، انہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں، اور سات سبز خوشے اور دوسرے خشک، اے سردارو! مجھے میرے خواب کی تعبیر بتلاؤ، اگر تم خواب کی تعبیر دینے والے ہو (تعبیر دینا جانتے ہو۔ (۴۳)

انہوں نے کہا (یہ) پریشان خواب ہیں اور ہم (ایسے ) خوابوں کی تعبیر جاننے والے نہیں (نہیں جانتے )۔ (۴۴)

اور وہ جو ان دونوں (میں) سے بچا تھا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا، اس نے کہا میں تمہیں اس کی تعبیر بتلاؤں گا، سومجھے بھیج دو۔ (۴۵)

اے یوسف! اے بڑے سچے ! ہمیں (خواب کی تعبیر) بتا، سات موٹی تازی گایوں کو کھا رہی ہے سات دبلی پتلی گائیں، اور سات خوشے سمز ہیں اور دوسرے خشک، تاکہ میں لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤں، شاید وہ آگاہ ہوں۔ (۴۶)

اس نے کہا تم سات سال لگاتار کھیتی باڑی کرو گے ، پھر جو تم کاٹو تواسے اس کے خوشے میں چھوڑ دے ، مگر تھوڑا جتنا تم اس میں سے کھالو۔ (۴۷)

پھر اس کے بعد آئیں گے سات سخت سال، کھا جائیں گے جو تم ان کے لئے (بچا) رکھا، سوائے اس کے جو تم تھوڑا بچاؤ گے۔ (۴۸)

پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا اس میں لوگوں پر بارش برسائی جائے گی اور وہ اس میں (رس) نچوڑیں گے۔ (۴۹)

اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لے آؤ، پس جب قاصد اس کے پاس آیا تواس نے کہا اپنے مالک کے پاس لوٹ جاؤ اور اس سے پوچھو ان عورتوں کا کیا حال ہے ؟جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے ، بیشک میرا رب ان کے فریب سے خوب واقف ہے۔ (۵۰)

بادشاہ نے (ان عورتوں سے ) کہا تمہارا کیا حال (واقعی) تھا جب تم نے یوسف کو اس کے نفس (کی حفاظت) سے پھسلایا، وہ بولیں پناہ بخدا! ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں معلوم کی (نہیں پائی)، عزیز (مصر) کی عورت بولی اب حقیقت ظاہر ہو گئی ہے ، میں نے (ہی) اسے اس کے نفس کی حفاظت سے پھسلایا اور بیشک وہ سچوں میں سے ہے۔ (سچا ہے )۔ (۵۱)

(یوسف نے کہا) یہ (اس لئے تھا) تاکہ وہ جان لے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی، اور بیشک اللہ چلنے نہیں دیتا دغا بازوں کا فریب۔ (۵۲)

اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بیشک نفس برائی سکھانے والا ہے ، مگر جس پر میرے رب نے رحم کیا، بیشک میرا رب بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۵۳)

پھر جب (ملک) نے اس سے بات کی کہا بیشک تم آج ہمارے پاس با وقار امین (صاحب اعتبار) ہو۔ (۵۴)

اس نے کہا مجھے (مقرر) کر دے ملک کے خزانوں پر، بیشک میں حفاظت کرنے والا علم والا ہوں۔ (۵۵)

اور اسی طرح ہم نے یوسف کو ملک پر قدرت دی، وہ اس میں جہاں چاہتے رہتے ، ہم جس کو چاہتے ہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں، اور ہم بدلہ ضائع نہیں کرتے نیکی کرنے والوں کا۔ (۵۶)

اور جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے رہے ان کے لئے آخرت کا بدلہ بہتر ہے۔ (۵۷)

اور یوسف کے بھائی آئے ، پس وہ اس کے پاس داخل ہوئے ، تو اس نے انہیں پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچانے۔ (۵۸)

اور جب ان کا سامان انہیں تیرا کر دیا توکہا اپنے بھائی کو میرے پاس لاؤ جو تمہارے باپ (کی طرف) سے ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پیمانہ پورا (بھر) کر دیتا ہوں، اور میں بہترین مہمان نواز ہوں۔ (۵۹)

پھر اگر تم اس کو میرے پاس نہ لائے تو تمہارے لئے کوئی ناپ (غلہ) نہیں میرے پاس، اور نہ میرے پاس آنا۔ (۶۰)

وہ بولے ہم اس کے متعلق اس کے باپ سے خواہش کریں گے اور ہمیں (یہ کام) ضرور کرنا ہے۔ (۶۱)

اور اس نے اپنے خدمتگاروں کو کہا ان کی پونجی (غلہ کی قیمت) ان کے بوروں میں رکھ دو، شاید وہ اس کو معلوم کر لیں جب وہ لوٹیں اپنے لوگوں کی طرف، شاید وہ پھر آ جائیں۔ (۶۲)

پس جب وہ اپنے باپ کی طرف لوٹے ، بولے اے ہمارے ابّا! ہم سے ناپ (غلہ) روک دیا گیا، پس ہمارے ساتھ بھائی کو بھیج دیں کہ ہم غلہ لائیں، اور بیشک ہم اس کے نگہبان ہیں۔ (۶۳)

اس نے کہا میں اس کے متعلق تمہارا کیا اعتبار کروں مگر جیسے اس سے پہلے میں نے اس کے بھائی کے متعلق تمہارا اعتبار کیا، سواللہ بہتر نگہبان ہے ، اور وہ تمام مہربانوں سے بڑا مہربانی کرنے والا ہے۔ (۶۴)

اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو انہوں نے اپنی پونجی پائی جو واپس کر دی گئی تھی انہیں، بولے اے ہمارے ابّا! (اور ) ہم کیا چاہتے ہیں؟یہ ہماری پونجی ہے ، ہمیں لوٹا دی گئی ہے ، اور ہم اپنے گھر غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے ، اور ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ لیں گے ، یہ (جو ہم لائیں) تھوڑا غلہ ہے۔ (۶۵)

اس نے کہا میں اسے ہرگز نہ بھیجوں گا تمہارے ساتھ یہاں تک کہ تم مجھے اللہ کا پختہ عہد دو کہ تم اسے میرے پاس ضرور لے کر آؤ گے ، مگر یہ کہ تمہیں گھیر لیا جائے ، پھر جب انہوں نے اسے (یعقوب کو) پختہ عہد دیا، اس نے کہا جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ضامن ہے۔ (۶۶)

اور کہا اے میرے بیٹو! تم سب داخل نہ ہونا ایک (ہی) دروازہ سے ، (بلکہ) جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا اور میں تمہیں بچا نہیں سکتا اللہ کی کسی بات سے ، اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں، اس پر میں نے بھروسہ کیا، پس چاہئے اس پر بھروسہ کریں بھروسہ کرنے والے۔ (۶۷)

اور جب داخل ہوئے جہاں سے انہیں ان کے باپ نے حکم دیا تھا، وہ انہیں نہیں بچا تھا اللہ کی کسی بات سے ، مگر یعقوب کے دل میں ایک خواہش تھی سووہ اس نے پوری کر لی، اور بیشک وہ صاحب علم تھا اس کا جو ہم نے اسے سکھایا تھا، لیکن اکثر لو گ نہیں جانتے۔ (۶۸)

اور جب وہ یوسف کے پاس داخل ہوئے اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی، کہا بیشک میں تیرا بھائی ہوں، جو وہ کرتے تھے تواس پر غمگین نہ ہو۔ (۶۹)

پھر جب ان کا سامان تیار کر دیا اپنے بھائی کے سامان میں (پانی) پینے کا پیالہ رکھ دیا، پھر ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا اے قافلہ والو !تم البتہ چور ہو۔ (۷۰)

وہ ان کی طرف منہ کر کے بولے ، کیا ہے جو تم گم کر بیٹھے ہو؟ (۷۱)

انہوں نے کہا ہم بادشاہ کا پیمانہ نہیں پاتے ، اور جو کوئی وہ لائے گا اس کے لئے ایک اونٹ کا بوجھ ہے (بار شتر ملے گا) اور میں اس کا ضامن ہوں۔ (۷۲)

وہ بولے اللہ کی قسم! تم خوب جانتے ہو ہم (اس لئے ) نہیں آئے کہ ملک میں فساد کریں، اور ہم چور نہیں۔ (۷۳)

انہوں نے کہا اگر تم جھوٹے ہو (جھوٹے نکلے ) پھر اس کی کیا سزا ہے۔ (۷۴)

کہنے لگے اس کی سزا یہ ہے کہ پایا جائے جس کے سامان میں پس وہی ہے اس کا بدلہ، اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیتے ہیں۔ (۷۵)

پس ان کے بوروں سے تلاش کرنا شروع کیا اپنے بھائی کے بورے سے پہلے ، پھر اس کو اپنے بھائی کے بورے سے نکال لیا، اسی طرح ہم نے یوسف کیلئے تدبیر کی، وہ بادشاہ کے دین میں قانون کے مطابق اپنے بھائی کونہ لے سکتا تھا مگر یہ کہ اللہ چاہے (اللہ کی مشیت ہو)، ہم درجے بلند کرتے ہیں جس کے ہم چاہیں، اور ہر صاحب علم کے اوپر ایک علم والا ہے۔ (۷۶)

بولے اگر اس نے چرایا تو چوری کی تھی اس سے قبل اس کے بھائی نے ، پس یوسف نے (اس بات کو) اپنے دل میں چھپایا اور ان پر ظاہر نہ کیا، کہا تم بدتر درجہ میں ہو، اور تم جو بیان کرتے ہو اللہ خوب جانتا ہے۔ (۷۷)

کہنے لگے اے عزیز! بیشک ا س کا باپ بڑی عمر کا بوڑھا ہے ، پس اس کی جگہ ہم میں سے ایک کو رکھ لے ، ہم دیکھتے ہیں کہ تواحسان کرنے والوں میں سے ہے۔ (۷۸)

اس نے کہا اللہ کی پناہ کہ اس کے سوا (کسی اور ) کو پکڑیں، جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا (اس صورت میں) ہم ظالموں سے ہوں گے۔ (۷۹)

پھر جب وہ اس سے مایوس ہو گئے تو مشورہ کرنے کے لئے اکیلے ہو بیٹھے ان کے بڑے (بھائی) نے کہا، کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کا پختہ عہد لیا، اور اس سے قبل تم نے یوسف کے بارہ میں تقصیر کی، پس ہر گز نہ ٹلوں گا زمین سے (یہاں سے ) یہاں تک کہ میرا باپ مجھے اجازت دے یا میرا اللہ میرے لئے کوئی تدبیر نکالے ، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (۸۰)

اپنے باپ کے پاس لوٹ جاؤ، پس کہو اے ہمارے باپ! تمہارے بیٹے نے چوری کی اور ہم نے گواہی دی تھی (صرف وہی کہا تھا) جو ہمیں معلوم تھا اور ہم غیب کے نگہبان (باخبر ) نہ تھے۔ (۸۱)

اور پوچھ لیں اس بستی سے جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے جس میں ہم آئے ہیں، اور بیشک ہم سچے ہیں۔ (۸۲)

اس نے کہا (نہیں) بلکہ تمہارے دل نے بنا لی ہے ایک بات، پس صبر ہی اچھا ہے ، شاید اللہ ان سب کو میرے پاس لے آئے ، بیشک وہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۸۳)

اور اس نے منہ پھیر لیا اور کہا ہائے افسوس !یوسف پر، اور اس کی آنکھیں سفید ہو گئیں غم سے ، پس وہ گھونٹ رہا تھا (غم ضبط کر رہا تھا)۔ (۸۴)

وہ بولے اللہ کی قسم!تم ہمیشہ یوسف کو یاد کرتے رہو گے یہاں تک کہ تم ہو جاؤ بیمار یا ہلاک ہو جاؤ۔ (۸۵)

اس نے کہا میں تو اپنی بیقراری اور اپنا غم بیان کرتا ہوں، صرف اللہ کے سامنے اور اللہ (کی طرف) سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (۸۶)

اے میرے بیٹو !تم جاؤ پس کھوج نکالویوسف کو اور ا سکے بھائی کا، اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے مایوسں نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔ (۸۷)

پھر جب وہ اس کے سامنے داخل ہوئے انہوں نے کہا اے عزیز! ہمارے گھر کو پہنچی ہے سختی اور ہم ناقص پونجی لے کر آئے ہیں، ہمیں پورا ناپ (غلہ) دیں اور ہم پر صدقہ کریں، بیشک اللہ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (۸۸)

(یوسف نے ) نے کہا کیا تمہیں خبر ہے ؟ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سلوک) کیا؟جب تم نادان تھے۔ (۸۹)

وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟اس نے کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، اللہ نے البتہ ہم پر ا حسان کیا ہے بیشک جو ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو بیشک اللہ ضائع نہیں کرتا نیکی کرنے والوں کا اجر۔ (۹۰)

کہنے لگے اللہ کی قسم! اللہ نے تجھے ہم پر فضیلت دی ہے ، اور ہم بیشک خطاوار تھے۔ (۹۱)

اس نے کہا آج تم پر کوئی ملامت (الزام ) نہیں، اللہ تمہیں بخشے ، اور وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ (۹۲)

تم میری یہ قمیص لے کر جاؤ، پس اس کو میرے باپ کے چہرہ پر ڈالو، وہ بینا ہو جائیں گے ، اور میرے پاس تمام گھر والوں کو لے آؤ۔ (۹۳)

اور جب قافلہ روانہ ہوا، ان کے باپ نے کہا، بیشک میں یوسف کی خوشبو پارہا ہوں اگر نہ جانو (نہ کہو) کہ بوڑھا بہک گیا ہے۔ (۹۴)

وہ کہنے لگے اللہ کی قسم! بیشک تو اپنے پرانے وہم میں ہے۔ (۹۵)

پھر جب خوشخبری دینے والا آیا اور اس نے کرتہ اس کے (یعقوب کے ) منہ پر ڈالا تووہ لوٹ کر دیکھنے لگا (بینا) ہو گیا، بولا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا ؟کہ میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (۹۶)

وہ بولے اے ہمارے باپ! ہمارے لئے بخشش مانگئے ہمارے گناہوں کی، بیشک ہم خطا کار تھے۔ (۹۷)

اس نے کہا جلد اپنے رب سے تمہارے گناہوں کی بخشش مانگوں گا، بیشک وہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۹۸)

پھر جب وہ یوسف کے پاس داخل ہوئے تواس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس ٹھکانہ دیا اور کہا اگر اللہ چاہے تو تم مصر میں دلجمعی کے ساتھ داخل ہو۔ (۹۹)

اور اپنے ماں باپ کو تخت پر اونچا بٹھایا، اور وہ اس کے آگے گر گئے سجدہ میں اور اس نے کہا اے میرے باپ! یہ ہے میرے اس سے پہلے خواب کی تعبیر، اس کو میرے رب نے سچا کر دیا، اور بیشک اس نے مجھ پر احسان کیا جب مجھے قید خانہ سے نکالا، اور تم سب کو گاؤں سے لے آیا اس کے بعد کہ میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان شیطان نے جھگڑا (فساد ) ڈال دیا تھا، بیشک میرا رب جس کے لئے چاہے عمدہ تدبیر کرتا ہے ، بیشک وہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۱۰۰)

اے میرے رب!تو نے مجھے ایک ملک عطا کیا اور مجھے سکھایاباتوں کا انجام (خوابوں کی تعبیر) نکالنا، اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے !تو میرا کارساز ہے دنیا میں اور آخرت میں، مجھے (دنیا سے ) فرمانبرداری کی حالت میں اٹھانا اور مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملانا۔ (۱۰۱)

یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنا کام پختہ کیا اور وہ چال چل رہے تھے۔ (۱۰۲)

اور اگرچہ تم کتنا ہی چاہو اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ (۱۰۳)

اور تم ان سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتے یہ (اور کچھ) نہیں، مگر سارے جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔ (۱۰۴)

اور آسمانوں میں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں وہ ان پر گزرتے ہیں، لیکن وہ ان سے منہ پھیر نے والے ہیں۔ (۱۰۵)

اور ان میں اکثر اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر وہ مشرک ہیں۔ (۱۰۶)

پس کیا وہ (اس سے ) بے خوف ہو گئے کہ ان پر اللہ کے عذاب کی آفت آ جائے ، یا ان پر آ جائے اچانک قیامت، اور انہیں خبر (بھی) نہ ہو۔ (۱۰۷)

آپ کہہ دیں یہ میرا راستہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، سمجھ بوجھ کے مطابق، میں (بھی) جس نے میری پیروی کی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ (۱۰۸)

اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں میں رہنے والے لوگوں میں سے صرف مرد بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے ، پس کیا انہوں نے سیر نہیں کی ملک میں؟کہ وہ دیکھتے ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا، اور البتہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جنہوں نے پرہیز کیا، پس کیا تم نہیں سمجھتے ؟۔ (۱۰۹)

یہاں تک کہ جب (ظاہری اسباب سے ) رسول مایوس ہونے لگے اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، ان کے پاس ہماری مدد آ گئی، پس جنہیں ہم نے چاہا وہ بچا دئیے گئے اور ہمارا عذاب نہیں پھیرا جاتا مجرموں کی قوم سے۔ (۱۱۰)

البتہ ان کے قصوں میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ، یہ بنائی ہوئی بات نہیں، بلکہ تصدیق ہے اپنے سے پہلے کی، اور بیان ہے ہر بات کا اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔ (۱۱۱)

٭٭

 

 

 

۱۳۔ سورۃالرعد

 

مدنیہ

آیات:۴۳  رکوعات:۶

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

 

الف لام میم را، یہ کتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں، اور جو تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا حق ہے، مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (۱)

اللہ جس نے آسمانوں کو بلند کیا کسی ستون (سہارے) کے بغیر تم دیکھتے ہو، پھر عرش پر قرار پکڑا، اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا، ہر ایک چلتا ہے مدت مقررہ تک، اللہ کام کی تدبیر کرتا ہے، وہ نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو۔ (۲)

اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ بنائے اور نہریں (چلائیں) اور ہر قسم کے پھل (پیدا کئے) اور اس میں دو دو قسم کے (تلخ و شیریں) پھل بنائے، اور وہ دن کو رات سے ڈھانپتا ہے، بیشک اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے۔ (۳)

اور زمین میں پا س پاس قطعات ہیں، اور باغات ہیں انگوروں کے، اور کھیتیاں  اور کھجور ایک جڑ سے دو شاخوں والی اور بغیر دو شاخوں کی (حالانکہ) ایک ہی پانی سے سیراب کی جاتی ہے اور ہم فوقیت دیتے ہیں ان میں سے ایک کو دوسرے پر ذائقہ میں، اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (۴)

اور اگر تم تعجب کرو تو ان کا کہنا عجب ہے، کیا جب مٹی ہو گئے ہم (از سرنو) نئی زندگی پائیں گے؟وہی لوگ ہیں جو اپنے رب کے منکر ہوئے اور وہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور وہی دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۵)

اور وہ تم سے رحمت سے پہلے جلد عذاب مانگتے ہیں، حالانکہ گزر چکی ہیں ان سے قبل (عبرتناک) سزائیں، اور بیشک تمہارا رب ان کے ظلم کے باوجود لوگوں کے لئے مغفرت والا ہے، اور بیشک تمہارا رب سخت عذاب دینے والا ہے۔ (۶)

اور کافر کہتے ہیں اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانی کیوں نہ اتری، ا سکے سوا نہیں کہ تم ڈرانے والے ہو، اور ہر قوم کے لئے ہادی ہوا ہے۔ (۷)

اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ پیٹ میں رکھتی ہے، اور جو رحم میں سکڑتا اور بڑھتا ہے، اور اس کے نزدیک ہر چیز ایک اندازہ سے ہے۔ (۸)

جاننے والا ہے ہر غیب اور ظاہر کا، سب سے بڑا، بلند مرتبہ۔ (۹)

(اس کیلئے) برابر ہے تم میں سے جو آہستہ بات کہے اور جو اس کو پکار کر کہے اور جو رات میں چھپ رہا ہے اور جو دن میں چلنے (پھرنے) والا ہے۔ (۱۰)

اس کے پہرے دار ہیں انسان کے آگے اور اس کے پیچھے، وہ اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں، بیشک اللہ کسی قوم کی اچھی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ خود اپنی حالت بدل لیں، اور جب اللہ کسی قوم سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تواس کے لئے پھرنا نہیں (وہ ٹل نہیں سکتی) اور ان کے لئےاس کے سوا کوئی مددگار نہیں۔ (۱۱)

وہی ہے جو تمہیں بجلی دکھاتا ہے ڈرانے کو اور امید دلانے کو، اور اٹھاتا ہے بوجھل بادل۔ (۱۲)

اور گرج اس کے تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کے ڈر سے (اس کی تسبیح کرتے ہیں) اور وہ گرجنے والی بجلیاں بھیجتا ہے، پھر انہیں جس پر چاہتا ہے گراتا ہے اور وہ (کافر) اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور وہ سخت پکڑنے والا ہے۔ (۱۳)

اس کو پکارنا   حق ہے، اور وہ اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ انہیں کچھ بھی جواب نہیں دیتے، مگر جیسے (کوئی) اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلا دے تاکہ (پانی) اس کے منہ تک پہنچ جائے اور وہ اس تک پہنچنے والا نہیں، اور کافروں کی پکار گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ (۱۴)

اور اللہ ہی کو سجدہ کرتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے اور صبح و شام ان کے سائے (بھی)۔ (۱۵)

آپ پوچھیں آسمانوں اور  زمین کا رب کون ہے، کہہ دیں اللہ ہے، کہہ دیں تو کیا تم اس کے سوا بناتے ہو حمایتی، جو اپنی جانو ں کے لئے (بھی) بس نہیں رکھتے، کچھ نفع کا اور نہ نقصان کا، کہہ دیں کیا برابر ہوتا ہے اندھا اور دیکھنے والا؟یا کیا اجالا اور اندھیرے برابر ہو جائیں گے؟کیا وہ اللہ کے لئے جو شریک بناتے ہیں انہوں نے (مخلوق) پیدا کی ہے، اس کے پیدا کرنے کی طرح؟سوپیدائش ان پر مشتبہ ہو گئی، کہہ دیں اللہ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے، اور وہ یکتا غالب ہے۔ (۱۶)

اس نے آسمانوں سے پانی اتارا، سو ندی نالے اپنے اپنے اندازے سے بہہ نکلے، پھر اٹھا لایا (اوپر لے آیا) نالہ پھولا ہوا جھاگ، اور جو آگ میں تپاتے ہیں، زیور بنانے کو یا اور اسباب بنانے کو (اس میں بھی) اس جیسا جھاگ (میل) ہوتا ہے، اسی طرح اللہ حق اور باطل کو بیان کرتا ہے، سو جھاگ دور ہو جاتا ہے (ضائع ہو جاتا ہے) سوکھ کر، لیکن جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے (باقی رہتا ہے) اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔ (۱۷)

جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مان لیا ان کے لئے بھلائی ہے، اور جنہوں نے اس کا حکم نہ مانا اگر جو کچھ زمین میں ہے سب ان کا ہو اور ا سکے ساتھ اس جیسا (اور بھی ہو) کہ وہ ا سکو فدیہ میں دیدیں (پھر بھی بچاؤ نہ ہو گا) انہی لوگوں کے لئے حساب برا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور (وہ ) بری جگہ ہے۔ (۱۸)

کیا جو شخص جانتا ہے کہ جو اتارا گیا تم پر تمہارے رب کی طرف سے، وہ حق ہے اس جیسا (ہو سکتا ہے) جو اندھا ہو، اس کے سوا نہیں کہ عقل والے ہی سمجھتے ہیں۔ (۱۹)

وہ جو کہ اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور پختہ قول و اقرار نہیں توڑتے۔ (۲۰)

اور وہ لوگ جو جوڑے رکھتے ہیں جس کے لئے اللہ نے حکم دیا جوڑا جائے اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں، اور برے حساب کا خوف کھاتے ہیں۔ (۲۱)

اور جن لوگوں نے اپنے رب کی خوشی حاصل کرنے کے لئے صبر کیا اور انہوں نے نماز قائم کی اور جو ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کیا پوشیدہ اور ظاہر اور وہ نیکی سے برائی کو ٹال دیتے ہیں، وہی ہیں جن کے لئے آخرت کا گھر ہے۔ (۲۲)

ہمیشگی کے باغات (ہیں) ان میں وہ داخل ہوں گے، اور وہ جو ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور اولاد میں سے نیک ہوئے اور ان پر ہر دروازے میں سے فرشتے داخل ہوں گے۔ (۲۳)

(یہ کہتے ہوئے کہ) تم پر سلامتی ہو اس لئے کہ تم نے صبر کیا، پس خوب ہے آخرت کا گھر۔ (۲۴)

اور جو لوگ اللہ کا عہد اس کو پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور وہ کاٹتے ہیں جس کے لئے اللہ نے حکم دیا کہ اسے جوڑا جائے، اور وہ زمین (ملک) میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ (۲۵)

اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے، اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے، اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں، اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں متاع حقیر ہے۔ (۲۶)

اور کافر کہتے ہیں اس پر اس کے رب (کی طرف ) سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟آپ کہہ دیں بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اپنی طرف اس کو راہ دکھاتا ہے جو (اس کی طرف) رجوع کرے۔ (۲۷)

جو لوگ ایمان لائے اور اطمینان پاتے ہیں جن کے دل اللہ کی یاد سے، یاد رکھو اللہ کی یاد (ہی) سے دل اطمینان پاتے ہیں۔ (۲۸)

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل کئے نیک، ان کے لئے خوشحالی ہے اور اچھا ٹھکانا۔ (۲۹)

اسی طرح ہم نے تمہیں اس امت میں بھیجا ہے گزر چکی ہیں اس سے پہلے امتیں تاکہ جو ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے تم ان کو پڑھ کر (سناؤ) اور وہ (خدائے) رحمٰن کے منکر ہوتے ہیں، آپ کہہ دیں وہ میرا رب ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس پر میں نے بھروسہ کیا اور اس کی طرف میرا رجوع ہے (رجوع کرتا ہوں)۔ (۳۰)

اور اگر ایسا قرآن ہوتا کہ اس سے پہاڑ چل پڑتے، یا اس سے زمین پھٹ جاتی، یا اس سے مردے بات کرنے لگتے (پھر بھی یہ ایمان نہ لاتے) بلکہ اللہ ہی کے لئے تمام کاموں (کا اختیار) تو کیا مؤمنوں کو (اس سے) اطمینان نہیں ہوا کہ اگر اللہ چاہتا توسب لوگوں کو ہدایت دیتا، اور کافروں کو ان کے اعمال کے بدلے ہمیشہ سخت مصیبت پہنچتی رہے گی، یا اترے گی ان کے گھر کے نزدیک، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ جائے، اور بیشک اللہ وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (۳۱)

اور البتہ تم سے پہلے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا، تومیں نے کافروں کو ڈھیل دی، پھر میں نے ان کی پکڑ کی سو میرا بدلہ (عذاب) کیسا تھا؟ (۳۲)

پس کیا جو ہر شخص کے اعمال کا نگران ہے (وہ بتوں کی طرح ہو سکتا ہے) اور انہوں نے بنا لئے اللہ کے شریک، آپ کہہ دیں ان کے نام تولو یا تم (اللہ) کو بتلاتے ہو جو پوری زمین میں اس کے علم میں نہیں، یا محض ظاہری (اوپری) بات کرتے ہو، بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے فریب خوشنما بنا دئے گئے اور وہ راہ (ہدایت ) سے روک دئے گئے، اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کے لئے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (۳۳)

ان کے لئے دنیا کی زندگی میں عذاب ہے، اور البتہ آخرت کا عذاب نہایت تکلیف دہ ہے، اور ان کے لئے کوئی اللہ سے بچانے والا نہیں۔ (۳۴)

اور اس جنت کی کیفیت جس کا پرہیز گاروں سے وعدہ کیا گیا ہے (یہ ہے) اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس کے پھل دائم (ہمیشہ) ہیں اور اس کا سایہ (بھی) یہ ہے انجام پرہیز گاروں کا، اور کافروں کا انجام جہنم ہے۔ (۳۵)

اور جن لوگوں کو ہم نے دی ہے کتاب (اہل کتاب) وہ اس سے خوش ہوتے ہیں جو تمہاری طرف اتارا گیا اور بعض گروہ اس کی بعض (باتوں) کا انکار کرتے ہیں، آپ کہہ دیں اس کے سوا نہیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اور اس کا شریک نہ ٹھہراؤں، میں اس کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف میرا ٹھکانا ہے۔ (۳۶)

اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو عربی زبان میں نازل کیا ہے، اور اگر تو نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اس کے بعد جبکہ تیرے پاس آ گیا علم، نہ تیرے لئے اللہ سے (اللہ کے سامنے) کوئی حمایتی ہو گا، نہ کوئی بچانے والا۔ (۳۷)

اور البتہ ہم نے رسول بھیجے تم سے پہلے اور ہم نے ان کو دیں بیویاں اور اولاد اور کسی رسول کے لئے (اختیار میں) نہیں ہوا کہ وہ لائے کوئی نشانی اللہ کی اجازت کے بغیر، ہر وعدہ کے لئے ایک تحریر ہے۔ (۳۸)

اور اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور باقی رکھتا ہے (جو وہ چاہتا ہے) اور ا سکے پاس لوح محفوظ ہے۔ (۳۹)

اور اگر ہم تمہیں کچھ حصہ (اس عذاب کا) دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، یا تمہیں وفات دے دیں، تو اس کے سوا نہیں کہ تمہارے ذمے پہنچانا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (۴۰)

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم چلے آتے ہیں زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے، اور اللہ حکم فرماتا ہے، کوئی اس کے حکم کو پیچھے ڈالنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۴۱)

اور جو ان سے پہلے تھے انہوں نے چالیں چلیں تو ساری چال تو اللہ ہی کی ہے وہ جانتا ہے جو کماتا ہے ہر شخص اور عنقریب کافر جان لیں گے عاقبت کا گھر کس کے لئے ہے۔ (۴۲)

اور کافر کہتے ہیں تورسول نہیں، آپ کہہ دیں میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ (۴۳)

٭٭


 

 

۱۴۔ سورۃابراہیم

 

 

مکیہ

 

آیات:۵۲  رکوعات:۷

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

 

الف، لام، را، یہ ایک کتاب ہے، ہم نے تمہاری طرف اتاری، تاکہ تم لوگوں کو نکالو، ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف، غالب، خوبیوں والے اللہ کے راستے کی طرف۔ (۱)

اسی کیلئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، اور کافروں کے لئے سخت عذاب سے خرابی ہے۔ (۲)

جو دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں آخرت پر اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں، یہی لوگ دور کی گمراہی میں ہیں۔ (۳)

اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان کے لئے (اللہ کے احکام) کھول کر بیان کر دے، پھر اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۴)

اور البتہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال، اور انہیں اللہ کے (عظیم واقعات کے) دن یاد دلا، بیشک اس میں ہر صبر کرنے والے، شکر گزار کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۵)

اور (یاد کرو) جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو، تم اپنے اوپر اللہ کی نعمتیں یاد کرو، جب اس نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دی، وہ تمہیں برا عذاب پہنچاتے تھے، اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے، اور تمہاری عورتوں (لڑکیوں) کو زندہ چھوڑ دیتے تھے، اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔ (۶)

اور جب تمہارے رب نے آگا ہ کیا، البتہ اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمہیں اور زیادہ دوں گا، البتہ اگر تم نے ناشکری کی تو بیشک میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ (۷)

اور موسیٰ نے کہا اگر ناشکری کرو گے تم اور جو زمین میں ہیں سب تو بیشک اللہ بے نیاز، سب خوبیوں والا ہے۔ (۸)

کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے (مثلاً) قوم نوح، عاد اور ثمود اور وہ جو ان کے بعد ہوئے، ان کی خبر (کسی کو) نہیں اللہ کے سوا، ان کے پاس ان کے رسول نشانیوں کے ساتھ آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ میں لوٹائے (خاموش کر دیا) اور بولے تمہیں جس (رسالت) کے ساتھ بھیجا گیا ہے ہم نہیں مانتے، اور البتہ تم ہمیں جس کی طرف بلاتے ہو ہم شک میں ہیں تردد میں ڈالتے ہوئے۔ (۹)

ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں زمین اور آسمانوں کے بنانے والے اللہ کے بارے میں شبہ ہے؟وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے اور ایک مدت مقررہ تک تمہیں مہلت دے، وہ بولے تم صرف ہم جیسے آدمی ہو، تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان سے روک دو جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، پس ہمارے پاس روشن دلیل (معجزہ) لاؤ۔ (۱۰)

ان کے رسولوں نے ان سے کہا (بیشک) ہم صرف تم جیسے آدمی ہیں، لیکن اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے احسان کرتا ہے، اور ہمارے لئے (ہمارا کام) نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر تمہارے پاس کوئی دلیل (معجزہ) لائیں، اور مؤمنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔ (۱۱)

اور ہمیں کیا ہوا؟ کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں، اور اس نے ہمیں راہیں دکھا دیں ہیں، اور تم ہمیں جو ایذا دیتے ہو ہم اس پر صبر کریں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ (۱۲)

اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ضرور نکال د یں گے اپنی زمین (ملک) سے، یا تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ، تو ان کے رب نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ضرور ہلاک کر دیں گے۔ (۱۳)

اور البتہ ہم تمہیں ان کے بعد زمین میں آباد کریں گے، یہ اس کے لئے ہے جو ڈرا میرے روبرو کھڑا ہونے سے، اور ڈرا میرے اعلان عذاب سے۔ (۱۴)

اور انہوں نے (انبیاء نے) فتح مانگی، اور نامراد ہوا ہر سرکش، ضدی۔ (۱۵)

اس کے پیچھے جہنم ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ (۱۶)

وہ اسے گھونٹ گھونٹ پئے گا، اور اسے گلے سے نہ اتار سکے گا، اور اسے موت آئے گی ہر طرف سے اور وہ مرے گا نہیں، اور اس کے پیچھے سخت عذاب ہے۔ (۱۷)

ان لوگوں کی مثال جو اپنے رب کے منکر ہوئے، ان کے عمل راکھ کی طرح ہیں کہ اس پر آندھی کے دن زور کی ہوا چلی (اور سب اڑا لے گئی) جو انہوں نے کمایا، انہیں کسی چیز پر قدرت نہ ہو گی، یہی ہے دور کی (پرلے درجہ کی) گمراہی۔ (۱۸)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے حق کے ساتھ (ٹھیک ٹھیک) اگر وہ چاہے تمہیں لے جائے اور لے آئے کوئی نئی مخلوق۔ (۱۹)

اور یہ اللہ پر کچھ دشوار نہیں۔ (۲۰)

وہ سب اللہ کے آگے حاضر ہوں گے، پھر کہیں گے کمزور ان لوگوں سے جو بڑے بنتے تھے، بیشک ہم تمہارے تابع تھے تو کیا تم ہم سے دفع کر سکتے ہو؟کسی قدر اللہ کا عذاب، وہ کہیں گے اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو البتہ ہم تمہیں ہدایت کرتے، اب ہمارے لئے برابر ہے خواہ ہم گھبرائیں یا صبر کریں، ہمارے لئے کوئی چھٹکارا نہیں۔ (۲۱)

اور (روز حساب) جب تمام امور (کاموں) کا فیصلہ ہو گیا، شیطان بولا بیشک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے (بھی) تم سے وعدہ کیا، پھر میں نے تم سے اس کے خلاف کیا، اور نہ تھا میرا تم پر کوئی زور، مگر یہ کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہا مان لیا، لہذا مجھ پر کچھ الزام نہ لگاؤ، الزام اپنے اوپر لگاؤ، نہ میں تمہاری فریادرسی کر سکتا ہوں، اور نہ تم میری فریادرسی کر سکتے ہو، بیشک میں انکار کرتا ہوں ا س کا جو تم نے اس سے قبل مجھے شریک بنایا، بیشک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۲۲)

اور داخل کئے گئے وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے باغات میں ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ہمیشہ رہیں گے اس میں اپنے رب کے حکم سے، اس میں ان کا تحفۂ ملاقات سلام ہے۔ (۲۳)

کیا تم نے نہیں دیکھا؟اللہ نے کیسی مثال بیان کی ہے پاک بات کی؟جیسے پاکیزہ درخت، اس کی جڑ مضبوط اور اس کی شاخ آسمان میں (۲۴)

وہ دیتا ہے ہر وقت اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (۲۵)

اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی طرح ہے جسے زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا گیا اس کے لئے کچھ بھی قرار نہیں۔ (۲۶)

اللہ مؤمنوں کو مضبوط بات سے مضبوط رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں (بھی) اور اللہ ظالموں کو بھٹکا دیتا ہے، اور اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ (۲۷)

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا، اور اپنی قوم کو اتارا تباہی کے گھر میں۔ (۲۸)

وہ جہنم ہے وہ اس میں داخل ہوں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ (۲۹)

اور انہوں نے اللہ کے لئے شریک ٹھہرائے تاکہ وہ ا سکے راستہ سے گمراہ کریں، آپ کہہ دیں فائدہ اٹھا لو، بیشک تمہارا لوٹنا (باز گشت) جہنم کی طرف ہے۔ (۳۰)

آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیں جو ایمان لائے کہ وہ نماز قائم کریں اور اس میں سے خرچ کریں جو میں نے انہیں دیا ہے چھپا کر ظاہری طور پر، اس سے قبل کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوستی۔ (۳۱)

اللہ ہے جس نے آ سمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اس سے نکالا تمہارے لئے پھلوں سے رزق، اور تمہارے لئے کشتی کو مسخر (تابع فرمان) کیا تاکہ اس (اللہ) کے حکم سے دریا میں چلے اور مسخر کیا تمہارے لئے نہروں کو۔ (۳۲)

اور تمہارے لئے مسخر کیا سورج اور چاند کہ وہ ایک دستور پر چل رہے ہیں، اور تمہارے لئے مسخر کیا رات اور دن۔ (۳۳)

اور اس نے تمہیں دی ہر چیز جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت گننے لگو تم اسے شمار میں نہ لا سکوگے، بیشک انسان بڑا ظالم، ناشکرا ہے۔ (۳۴)

اور جب ابراہیم نے کہا اے ہمارے رب! بنا دے اس شہر کو امن کی جگہ، اور مجھے اور میری اولاد کو اس سےدور رکھ کہ ہم بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔ (۳۵)

اے میرے رب!بیشک انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا، پس جس نے میری پیروی کی، بیشک وہ مجھ سے ہے، اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تو بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۳۶)

اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی کچھ اولاد کو ایک بغیر کھیتی والے میدان میں بسایا ہے تیرے احترام والے گھر کی نزدیک، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں، پس لوگوں کے دلوں کو (ایسا) کر دے کہ وہ ان کی طرف مائل ہوں، اور انہیں پھلوں سے رزق دے، تاکہ وہ شکر کریں۔ (۳۷)

اے ہمارے رب! بیشک تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں، اور اللہ پر کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں زمین میں اور نہ آسمان میں۔ (۳۸)

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جس نے مجھے بڑھاپے میں بخشا اسمٰعیل اور اسحٰق، بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔ (۳۹)

اے میرے رب! مجھے بنا نماز قائم کرنے والا، اور میری اولاد کو بھی، اے ہمارے رب! میری عدی قبول فرما لے۔ (۴۰)

اے ہمارے رب!جس دن حساب قائم ہو گا (روز حساب) مجھے اور میرے ماں باپ کو، اور مؤمنوں کو بخش دے۔ (۴۱)

اور تم ہر گز گمان نہ کرنا کہ اللہ اس سے بے خبر ہے جو وہ ظالم کرتے ہیں، وہ صرف انہیں اس دن تک مہلت دیتا ہے، جس میں کھلی رہ جائیں گی آنکھیں۔ (۴۲)

وہ اپنے سر (اوپر کو) اٹھائے ہوئے دوڑتے ہوں گے، ان کی نگاہیں ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی، اور ان کے دل ( خوف سے ) اُڑے ہوئے ہوں گے۔ (۴۳)

اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب آئے گا تو کہیں گے ظالم، اے ہمارے رب! ہمیں ایک تھوڑی مدت کے لئے مہلت دے دے کہ ہم تیری دعوت قبول کر لیں، اور ہم پیروی کریں رسولوں کی، کیا تم اس سے قبل قسمیں نہ کھاتے تھے؟کہ تمہارے لئے کوئی زوال نہیں۔ (۴۴)

اور تم رہے تھے ان لوگوں کے گھروں میں جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر ظاہر ہو گیا تھا کہ ہم نے ان سے کیسا سلوک کیا، ہم نے تمہارے لئے مثالیں بیان کیں۔ (۴۵)

اور انہوں نے اپنے داؤ چلے اور اللہ کے آگے ہیں ان کے داؤ، اور اگرچہ ان کا داؤ ایسا تھا کہ اس سے پہاڑ ٹل جاتے۔ (۴۶)

پس تو ہرگز خیال نہ کر کہ اللہ خلاف کرے گا اپنے رسولوں سے اپنا وعدہ، بیشک اللہ زبردست بدلہ لینے والا ہے۔ (۴۷)

جس دن (اس) زمین سے بدل دی جائے گی اور زمین اور ( بدلے جائیں گے) آسمان، اور وہ سب اللہ یکتا و غالب کے آگے نکل کھڑے ہوں گے۔ (۴۸)

اور تو دیکھے گا مجرم اس دن باہم زنجیروں میں جکڑے ہوں گے۔ (۴۹)

ان کے کرتے گندھک کے ہوں گے اور آگ ان کے چہرے ڈھانپے ہو گی۔ (۵۰)

تاکہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی (اعمال) کا بدلہ دے، بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۵۱)

یہ (قرآن) لوگوں کے لئے پیغام ہے، اور تاکہ وہ اس سے ڈرائے جائیں، اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہی معبود یکتا ہے، اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔ (۵۲)

٭٭


 

 

 

۱۵۔ سورۃالحجر

 

 

مکیہ

 

آیات:۹۹   رکوعات:۶

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

الف۔ لام۔ را۔ یہ آیتیں ہیں کتاب کی، اور واضح (روشن) قرآن کی۔ (۱)

بسا اوقات کافر آرزو کریں گے کاش وہ مسلمان ہوتے!۔ (۲)

انہیں چھوڑ دو، وہ کھائیں اور فائدہ اٹھا لیں، اور امید انہیں غفلت میں ڈالے رکھے، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔ (۳)

اور نہیں ہلاک کیا ہم نے کسی بستی کو، مگر ا سکے لئے ایک لکھا ہوا مقررہ وقت۔ (۴)

نہ کوئی امت سبقت کرتی ہے اپنے مقررہ وقت سے اور نہ وہ پیچھے رہتے ہیں۔ (۵)

اور وہ (کافر) بولے اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے بیشک تو دیوانہ ہے۔ (۶)

تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتا ؟اگر توسچوں میں سے ہے۔ (۷)

ہم نازل نہیں کرتے فرشتے مگر حق کے ساتھ، اور وہ اس وقت مہلت نہ دئیے جائیں گے۔ (۸)

بیشک ہم ہی نے قرآن ناز ل کیا، اور بیشک ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔ (۹)

اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے گروہوں میں (رسول) بھیجے۔ (۱۰)

اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر وہ اس سے ہنسی کرتے تھے۔ (۱۱)

اسی طرح ہم اسے ڈال دیتے ہیں گنہگاروں کے دلوں میں۔ (۱۲)

وہ اس (قرآن) پر ایمان نہیں لائیں گے، اور یہ پہلوں کی رسم پڑ چکی ہے۔ (۱۳)

اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ اس میں (دن بھر) چڑھتے رہیں۔ (۱۴)

تو (یہی) کہیں گے کہ اس کے سوا نہیں کہ ہماری آنکھیں باندھ دی گئیں ہیں (ہماری نظر بند کر دی گئی ہے) بلکہ ہم جادو زدہ ہیں۔ (۱۵)

اور یقیناً ہم نے آسمانوں میں برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لئے زینت دی۔ (۱۶)

اور ہم نے ہر مردود شیطان سے اس کی حفاظت کی۔ (۱۷)

مگر جو چوری کر کے (چوری سے) سن لے، تو چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ (۱۸)

اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا، اور ہم نے اس پر پہاڑ رکھے، اور اس میں ہر چیز موزوں اگائی۔ (۱۹)

اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان معیشت بنائے (اور اس کے لئے بھی) جسے تم رزق دینے والے نہیں۔ (۲۰)

اور کوئی چیز نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم نہیں اتارتے مگر ایک مناسب اندازے سے۔ (۲۱)

اور ہم نے ہوائیں بھیجیں (پانی سے) بھری ہوئیں، پھر ہم نے آسمان سے پانی اتارا پھر وہ ہم نے تمہیں پلایا، اور تم اس کے خزانے ( جمع) کرنے والے نہیں۔ (۲۲)

اور بیشک ہم (ہی) زندگی دیتے ہیں، اور ہم ہی مارتے ہیں، اور ہم ہی وارث ہیں۔ (۲۳)

اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں تم میں سے آگے گزر جانے والے، اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں پیچھے رہ جانے والے۔ (۲۴)

اور بیشک تیرا رب (ہی) انہیں (روز قیامت) جمع کرے گا، بیشک وہ حکمت والا، علم والا ہے۔ (۲۵)

اور تحقیق ہم نے انسان کو پیدا کیا ایک کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے۔ (۲۶)

اور جنوں کو ا س سے پہلے ہم نے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا۔ (۲۷)

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بیشک میں انسان کو بنانے والا ہوں ایک کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے۔ (۲۸)

پھر جب میں اسے درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تواس کے لئے سجدہ میں گر پڑو۔ (۲۹)

پس سجدہ کیا سب کے سب فرشتوں نے۔ (۳۰)

ابلیس کے سوا، اس نے انکار کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو۔ (۳۱)

اس نے فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ توسجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا۔ (۳۲)

ا س نے کہا میں (وہ) نہیں ہوں کہ سجدہ کروں انسان کو، تو نے اس کو کھنکھناتے ہوئے سیاہ سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔ (۳۳)

اللہ نے فرمایا پس یہاں (جنت) سے نکل جا بیشک تو مردود ہے۔ (۳۴)

اور بیشک تجھ پر روز انصاف (قیامت) تک لعنت ہے۔ (۳۵)

اس نے کہا اے میرے رب مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن مردے اٹھائے جائیں گے۔ (۳۶)

اس نے فرمایا بیشک تو مہلت دئے جانے والوں میں سے ہے۔ (۳۷)

اس دن تک جس کا وقت مقرر ہے۔ (۳۸)

اس نے کہا اے میرے رب ! جیسا کے تو نے مجھے گمراہ کیا تو میں ضرور ان کے لئے (گناہ کو) زمین میں آراستہ کروں گا، اور میں ضرور ان سب کو گمراہ کروں گا۔ (۳۹)

سوائے ان میں سے جو تیرے مخلص بندے ہیں۔ (۴۰)

اس نے فرمایا یہ راستہ سیدھا مجھ تک (آتا ہے)۔ (۴۱)

بیشک وہ میرے بندے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں، مگر گمراہوں میں سے جس نے تیری پیروی کی۔ (۴۲)

اور بیشک ان سب کے لئے جہنم وعدہ گاہ ہے۔ (۴۳)

ا س کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان کا ایک حصہ تقسیم شدہ ہے۔ (۴۴)

بیشک پرہیز گار باغوں اور چشموں میں ( ہوں گے)۔ (۴۵)

تم ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف خطر داخل ہو۔ (۴۶)

اور ہم نے ان کے سینوں سے کھینچ لئے کینے، بھائی بھائی (بن کر) تختوں پر آمنے سامنے (بیٹھے ہوئے)۔ (۴۷)

اس میں انہیں کوئی تکلیف نہ چھوئے گی، اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (۴۸)

میرے بندوں کو خبر دے دو کہ بیشک میں بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔ (۴۹)

اور یہ کہ میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔ (۵۰)

اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (حال) سنادو۔ (۵۱)

جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کہا، اس نے کہا ہمیں تم سے ڈر لگتا ہے۔ (۵۲)

انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں علم والے کی۔ (۵۳)

اس (ابراہیم) نے کہا کیا تم مجھے اس حال میں خوشخبری دیتے ہو کہ مجھے بڑھاپا پہنچ گیا ہے؟سو کس بات کی خوشخبری دیتے ہو؟۔ (۵۴)

وہ بولے ہم نے تمہیں خوشخبری دی ہے سچائی کے ساتھ، آپ مایوس ہونے والوں میں سے نہ ہوں۔ (۵۵)

اس نے کہا اپنے رب کی رحمت سے کون مایوس ہو گا، گمراہوں کے سوا۔ (۵۶)

اس نے کہا اے فرشتو! پس تمہاری مہم کیا ہے،۔ (۵۷)

وہ بولے بیشک ہم بھیجے گئے ہیں مجرموں کی ایک قوم کی طرف۔ (۵۸)

سوائے لوط کے گھر والوں کے، البتہ ہم ان سب کو بچا لیں گے۔ (۵۹)

سوائے اس کی عورت کے، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بیشک پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (۶۰)

پس جب فرشتے لوط کے گھر والوں کے پاس آئے (۶۱)

اس نے کہا بیشک تم ناآشنا لوگ ہو۔ (۶۲)

وہ بولے بلکہ ہم تمہارے پاس اس (عذاب) کے ساتھ آئے ہیں جس میں وہ شک کرتے تھے۔ (۶۳)

اور ہم تمہارے پاس حق کے ساتھ آئے ہیں اور بیشک ہم سچے ہیں۔ (۶۴)

پس اپنے گھر والوں کو رات کے ایک حصہ میں (کچھ رات رہے) لے نکلیں اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں، اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے، اور چلے جاؤ جیسے تمہیں حکم دیا گیا۔ (۶۵)

اور ہم نے اس کی طرف اس بات کا فیصلے بھیج دیا کہ صبح ہوتے ان لوگوں کی جڑ کٹ جائے۔ (۶۶)

اور شہر والے خوشیاں مناتے آئے، اس (لوط) نے کہا یہ میرے مہمان ہیں، مجھے رسوا نہ کرو۔ (۶۸)

اور اللہ سے ڈرو اور مجھے خوار نہ کرو۔ (۶۹)

وہ بولے کیا ہم نے تجھے سارے جہاں (کی حمایت) سے منع نہیں کیا؟۔ (۷۰)

اس نے کہا یہ میری بیٹیاں ہیں (ان سے نکاح کر لو) اگر تمہیں کرنا ہے۔ (۷۱)

(اے محمد) تمہاری جان کی قسم! یہ لوگ بیشک اپنے نشہ میں مدہوش تھے۔ (۷۲)

پس انہیں سورج نکلتے چنگھاڑ نے آ لیا۔ (۷۳)

پس ہم نے اس (بستی) کا اوپر کا حصہ نیچے (تہ و بالا) کر دیا اور ہم نے ان پر کھنگر کے پتھر برسائے۔ (۷۴)

بیشک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۷۵)

اور بیشک وہ (بستی) سیدھے راستہ پر (واقع ) ہے (۶۶)

بیشک اس میں ایمان والوں کے لئے نشانی ہے۔ (۷۷)

اور بیشک وہ (بستی) سیدھے راستہ پر (واقع ) ہے (۶۶)

بیشک اس میں ایمان والوں کے لئے نشانی ہے۔ (۷۷)

اور تحقیق قوم شعیب کے لوگ ظالم تھے۔ (۷۸)

اور ہم نے ان سے بدلہ لیا، اور وہ دونوں (بستیاں واقع ہیں) ایک کھلے راستہ پر۔ (۷۹)

اور البتہ حجر کے رہنے والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۸۰)

اور ہم نے انہیں اپنی نشانیاں دیں پس وہ ان سے منہ پھیرنے والے تھے۔ (۸۱)

اور وہ پہاڑوں سے بے خوف و خطر گھر تراشتے تھے۔ (۸۲)

پس انہیں صبح ہوتے چنگھاڑ نے آ لیا۔ (۸۳)

تو جو وہ کمایا کرتے تھے (ان کا کیا دھرا) ان کے کام نہ آیا۔ (۸۴)

اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے نہیں پیدا کیا مگر حق (حکمت) کے ساتھ، اور بیشک قیامت ضرور آنے والی ہے پس اچھی طرح درگزر کرو۔ (۸۵)

بیشک تمہارا رب ہی پیدا کرنے والا جاننے والا ہے۔ (۸۶)

اور تحقیق ہم نے تمہیں (سورۂ فاتحہ کی) بار بار دہرائی جانے والی سات (آیات) دیں اور عظمت والا قرآن۔ (۸۷)

اور ہر گز اپنی آنکھیں نہ بڑھائیں (آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں) (ان چیزوں کی) طرف جو ہم نے ان کے کئی جوڑوں (گروہوں) کو دیں، اور ان پر غم نہ کھائیں، اور اپنے بازو جھکا دیں مؤمنوں کے لئے۔ (۸۸)

اور کہہ دیں بیشک میں علانیہ ڈرانے والا ہوں۔ (۸۹)

جیسے ہم نے تقسیم کرنے والوں (تفرقہ پردازوں) پر عذاب نازل کیا۔ (۹۰)

جن لوگوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا (کچھ کو مانا کچھ کو نہ مانا)۔ (۹۱)

سو تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔ (۹۲)

اس کی بابت جو وہ کرتے تھے۔ (۹۳)

پس جس بات کا تمہیں حکم دیا گیا ہے صاف صاف کہہ دیں اور مشرکوں سے اعراض کریں (منہ پھیر لیں)۔ (۹۴)

بیشک مذاق اڑانے والوں (کے خلاف) تمہارے لئے ہم کافی ہیں۔ (۹۵)

جو لوگ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بناتے ہیں پس وہ عنقریب جان لیں گے۔ (۹۶)

اور البتہ ہم جانتے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں اس سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے۔ (۹۷)

توتسبیح کریں پاکیزگی بیان کریں اپنے رب کی حمد کے ساتھ، اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوں۔ (۹۸)

اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ تمہارے پاس یقینی بات (موت) آ جائے۔ (۹۹)

٭٭

 

 

 

۱۶۔ سورۃالنحل

 

 

 

مکیہ

 

آیات:۱۲۸ رکوعات:۱۶

 

 

اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے

آ پہنچا اللہ کا حکم سو اس کی جلدی نہ کرو، وہ پاک ہے اور اس سے برتر جو وہ (اللہ کا) شریک بناتے ہیں۔ (۱)

وہ فرشتے اپنے حکم کے ساتھ نازل کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے کہ تم ڈراؤ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس مجھ ہی سے ڈرو۔ (۲)

اس نے پیدا کئے آسمان اور زمین حکمت کے ساتھ وہ اس سے برتر ہے جو وہ شریک کرتے ہیں۔ (۳)

اس نے انسان کو پیدا کیا نطفے سے، پھر وہ کھلا جھگڑالو ہو گیا۔ (۴)

اور اس نے چوپائے پیدا کئے تمہارے لئے، ان میں گرم سامان (جڑاول) اور فائدے ہیں، اور ان میں سے (بعض کو) تم کھاتے ہو۔ (۵)

اور تمہارے لئے ان میں خوبصورتی اور شان ہے جس وقت شام کو چرا کر لاتے ہو اور جس وقت صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔ (۶)

اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک لے جاتے ہیں جہاں جانیں ہلکان کئے بغیر تم پہنچنے والے نہ تھے، بیشک تمہارا رب مہربان نہایت رحم والا ہے۔ (۷)

اور گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے (پیدا کئے) اور وہ پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ (۸)

اور سیدھی راہ اللہ تک پہنچتی ہے اور ان میں سے (کوئی) راہ ٹیڑھی ہے اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ (۹)

وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، اس سے تمہارے لئے پینے کو ہے اور اس سے درخت (سیراب ہوتے) ہیں اور اسی میں (مویشی) چرتے ہیں۔ (۱۰)

وہ اس سے تمہارے لئے اگاتا ہے کھیتی، اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل، بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۱)

اور اس نے تمہارے لئے مسخر کیا رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو اور ستارے مسخر (کام میں لگے ہوئے) ہیں ا سکے حکم سے، بیشک اس میں عقل سے کام لینے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۲)

اور تمہارے لئے زمین میں پیدا کیں مختلف (چیزیں) رنگ بہ رنگ کی بیشک اس میں سوچنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۳)

اور وہی ہے جس نے دریا کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے (مچھلیوں کا) گوشت کھاؤ اور اس سے زیور نکالو جو تم پہنتے ہو، اور تم دیکھتے ہو اس میں کشتیاں پانی کو چیر کر چلتی ہیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ (۱۴)

اور اس نے زمین پر پہاڑ رکھے کہ تمہیں لے کر (زمین) جھک نہ پڑے اور نہریں اور راستے (بنائے) تاکہ تم راہ پاؤ۔ (۱۵)

اور علامتیں (بنائیں) اور ستاروں سے راستہ پاتے ہیں۔ (۱۶)

کیا جو (اللہ) پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرتا، پس کیا تم غور نہیں کرتے؟۔ (۱۷)

اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرو تو انہیں پورا نہ گن سکوگے، بے شک اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۸)

اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (۱۹)

اور وہ جنہیں پکارتے ہیں اللہ کے سوا وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں۔ (۲۰)

مردے ہیں زندہ نہیں (بے جان ہیں) اور وہ نہیں جانتے وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (۲۱)

تمہارا معبود، معبود یکتا ہے، پس جو لوگ ایمان نہیں رکھتے آخرت پر، ان کے دل منکر (انکار کرنے والے) ہیں، اور وہ مغرور (تکبر کرنے والے) ہیں۔ (۲۲)

یقینی بات ہے اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

(۲۳)

اور جب ان سے کہا جائے کیا نازل کیا تمہارے رب نے ؟تو وہ کہتے ہیں پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (۲۴)

انجام کار وہ اپنے پورے بوجھ اٹھائیں گے قیامت کے دن، اور  کچھ ان کے بوجھ جنہیں وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں، خوب سن لو، برا ہے جو وہ لادتے ہیں۔ (۲۵)

جو ان سے پہلے تھے انہوں نے مکاری کی پس ان کی عمارت پر اللہ (کا عذاب) بنیادوں سے آیا، پس چھت ان پر

ان کے اوپر سے گر پڑی، اور ان پر عذاب آیا جہاں سے انہیں خیال نہ تھا۔ (۲۶)

پھو وہ انہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا، اور کہے گا کہاں ہیں؟ میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے

تھے، علم والے کہیں گے بیشک آج کے دن رسوائی اور برائی ہے کافروں پر۔ (۲۷)

وہ جن کی جان فرشتے (اس حال میں) نکالتے ہیں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہے ہوتے ہیں، پھر وہ اطاعت کا پیغام ڈالیں گے کہ ہم کو ئی برائی نہ کرتے تھے، ہاں ہاں ! اللہ جاننے والا ہے جو تم کرتے تھے۔ (۲۸)

سو تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو، اس میں ہمیشہ رہو گے، البتہ تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانہ ہے۔ (۲۹)

اور پرہیز گاروں سے کہا گیا تمہارے رب نے کیا اتارا؟ وہ بولے بہترین (کلام)، جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لئے اس دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت کا گھر (سب سے) بہتر ہے، اور کیا خوب ہے پرہیز گاروں کا گھر۔ (۳۰)

ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے، ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہاں جو وہ چاہیں گے ان کے لئے ہو گا، اللہ پرہیز گاروں کو ایسی ہی جزا دیتا ہے۔ (۳۱)

وہ جن کی جان فرشتے (اس حال میں) نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں، وہ (فرشتے) کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو، اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہو۔ (۳۲)

کیا وہ صرف (یہ ) انتظار کرتے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تیرے رب کا حکم آئے، ایسا ہی ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے، اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (۳۳)

پس انہیں پہنچیں ان کے اعمال کی برائیاں، اور انہیں گھیر لیا اس (عذاب) نے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۳۴)

اور کہا جن لوگوں نے شرک کیا (مشرکوں نے) اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم پرستش کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے ساتھ کسی شے کی، اور ہم اس کے حکم کے سوا کوئی شے حرام نہ ٹھہراتے، اسی طرح ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے، پس کیا ہے رسولوں کے ذمے؟مگر صاف صاف پہنچا دینا۔ (۳۵)

اور تحقیق ہم نے ہر امت بھیجا کوئی نہ کوئی رسول کہ اللہ کی عبادت کرو اور سرکش سے بچو، سو ان میں سے کسی کو اللہ جھٹلانے والوں کا۔ (۳۶)

اگر تم ان کی ہدایت کے لئے للچاؤ تو بیشک اللہ ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے، اور ان کا کوئی مدد گار نہیں۔ (۳۷)

اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنی سخت (پر زور) قسم کہ جو مر جاتا ہے اسے اللہ (روز قیامت) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں اس پر وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۳۸)

تاکہ ان کے لئے ظاہر کر دے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، اور تاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ (۳۹)

جب ہم کسی چیز کا ارادہ کریں تو ہمارا فرمانا ا سکے سوا نہیں کہ ہم اس کو کہتے ہیں کہ ہو جا تووہ ہو جاتا ہے۔ (۴۰)

اور جن لوگوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، ہم انہیں ضرور جگہ دیں گے دنیا میں اچھی، اور بیشک آخرت کا اجر بہت بڑا ہے، کاش وہ (ہجرت سے رہ جانے والے) جانتے۔ (۴۱)

جن لوگوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۴۲)

اور ہم نے تم سے پہلے مردوں کے سوا (رسول) نہیں بھیجے، ہم وحی کرتے ہیں ان کی طرف، یاد رکھنے والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے (ان رسولوں کو ہم نے بھیجا تھا)۔ (۴۳)

نشانیوں اور کتابوں کے ساتھ، اور ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگوں کے لئے واضح کر دو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (۴۴)

جن لوگوں نے برے داؤ کئے کیا وہ اس سے بےخوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسادے؟ یا ان پر عذاب آ جائے جہاں سے ان کو خبر ہی نہ ہو۔ (۴۵)

یا انہیں پکڑ لے چلتے پھرتے، پس وہ (اللہ کو) عاجز کرنے والے نہیں۔ (۴۶)

یا انہیں ڈرانے کے بعد پکڑ لے، پس بیشک تمہارا رب مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (۴۷)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جو چیز اللہ نے پیدا کی ہے، اس کے سائے ڈھلتے ہیں، دائیں سے اور بائیں سے، اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے، اور وہ عاجزی کرنے والے ہیں۔ (۴۸)

اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو بھی آسمانوں میں ہے اور جو بھی جانداروں میں سےزمین میں ہے اور فرشتے بھی، اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (۴۹)

اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں (جو) ان کے اوپر ہے، اور وہ وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (۵۰)

اور اللہ نے کہا نہ بناؤ دو معبود، اس کے سوا نہیں کہ وہ معبود یکتا ہے، پس مجھ ہی سے ڈرو۔ (۵۱)

اور تمہارے پاس جو کوئی نعمت ہے سواللہ کی طرف سے ہے، پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تواسی کی طرف تم روتے چلاتے ہو۔ (۵۳)

اور اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور اسی کے لئے طاعت و عبادت لازمی ہے، تو کیا اللہ کے سوا (کسی اور سے) تم ڈرتے ہو۔ (۵۲)

پھر وہ جب تم سے سختی دور کر دیتا ہے تو تم میں سے ایک فریق اس وقت اپنے رب کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے۔ (۵۴)

اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے وہ ان کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں، جن (معبودوں) کو وہ نہیں جانتے، اللہ کی قسم تم سے اس (کے بارے) میں ضرور پوچھا جائے گا جو تم جھوٹ باندھتے تھے۔ (۵۶)

اور وہ اللہ کی بیٹیاں ٹھہراتے ہیں، وہ پاک ہے، اور اپنے لئے وہ جو ان کا دل چاہتا ہے۔ (۵۷)

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔ (۵۸)

لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب جو اسے دی گئی (اب سوچتا ہے) آیا اس کو رسوائی کے ساتھ رکھے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، یاد رکھو برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ (۵۹)

جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کا حال برا ہے اور اللہ کی شان بلند ہے، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۶۰)

اور اگر اللہ گرفت کرے لوگوں کی ان کے ظلم کے سبب تووہ زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے، لیکن وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے ایک مدت مقررہ تک، پھر جب ان کا وقت آ گیا، نہ وہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ آگے بڑھیں گے۔ (۶۱)

اور وہ اللہ کے لئے ٹھہراتے ہیں جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ ان کے لئے بھلائی ہے، لازمی بات ہے کہ ان کے لئے جہنم ہے، ، بیشک وہ (جہنم میں) آگے بھیجے جائیں گے۔ (۶۲)

اللہ کی قسم !تحقیق ہم نے بھیجے تم سے پہلے امتوں کی طرف (رسول) پھر شیطان نے ان کے عمل انہیں اچھے کر دکھائے، پس آج وہ ان کا رفیق ہے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۶۳)

اور ہم نے تم پر کتاب نہیں اتاری مگر (صرف) اس لئے کہ ان کے لئے واضح کر دو جس میں انہوں نے اختلاف کیا، اور ہدایت و رحمت ان کے لئے جو ایمان لائے۔ (۶۴)

اور اللہ نے آسمانوں سے پانی اتارا، پھر اس سے زمین کو اس کی موت (بنجر ہونے) کے بعد زندہ کیا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو سنتے ہیں۔ (۶۵)

اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (مقام) عبرت ہے، ہم تمہیں پلاتے ہیں دودھ خالص اس سے جو گوبر اور خون کے درمیان ان کے پیٹوں میں ہے، پینے والوں کے لئے خوشگوار۔ (۶۶)

اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے (رس) تم اس سے شراب بناتے ہو، اور اچھا رزق (حاصل کرتے ہو) بیشک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ (۶۷)

اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا لے، اور درختوں میں اور اس جگہ میں جہاں وہ چھتریاں بناتے ہیں۔ (۶۸)

پھر کھا ہرقسم کے پھل، پھر اپنے رب کے نرم  و ہموار راستوں پر چل، ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) اس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو سوچتے ہیں۔ (۶۹)

اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے اور تم میں سے بعض کو ناکارہ عمر کی طرف پہنچایا جاتا ہے تاکہ وہ کچھ علم کے بعد بے علم ہو جائے، بیشک اللہ جاننے والا قدرت والا ہے۔ (۷۰)

اور اللہ نے فضیلت دی تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں، پس جن لوگوں کو فضیلت دی گئی وہ اپنا رزق لوٹا نے (دینے) والے نہیں، اُنہیں جن کے مالک ان کے ہاتھ ہیں (اپنے مملوکوں کو) کہ وہ اس میں برابر ہو جائیں، پس کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں؟۔ (۷۱)

اور اللہ نے تم سے تمہارے لئے تمہاری بیویاں بنائیں، اور تمہاری عورتوں سے تمہارے لئے پیدا کئے بیٹے اور پوتے، اور تمہیں پاک چیزیں عطا کیں، تو کیا وہ باطل کو مانتے ہیں؟اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔ (۷۲)

اور اللہ کے سوا ان کی پرستش کرتے ہیں، جنہیں اختیار نہیں ان کے لئے رزق کا آسمانوں اور زمین سے کچھ بھی، اور نہ وہ قدرت رکھتے ہیں۔ (۷۳)

پس چسپاں نہ کرو اللہ پر مثالیں، بے شک، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (۷۴)

اللہ نے ایک مثال بیان کی (کسی کی) ملک میں آئے ہوئے غلام کی جو کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا، اور (دوسرا) وہ جسے ہم نے اچھا رزق دیا سووہ اس سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا ہے، کیا وہ (دونوں) برابر ہیں؟تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، بلکہ (لیکن) ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (۷۵)

اور اللہ نے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کی، ان میں سے ایک گونگا ہے، وہ اختیار نہیں رکھتا کسی چیز پر، اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے، وہ جہاں کہیں اسے بھیجے وہ کوئی بھلائی نہ لائے، کیا برابر ہے یہ اور وہ جو انصاف کا حکم دیتا ہے، اور وہ سیدھی راہ پر ہے۔ (۷۶)

اور اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں، اور قیامت کا آنا صرف ایسے ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، یا وہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے، بیشک اللہ ہر شے پر قدرت والا ہے۔ (۷۷)

اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا تم کچھ بھی نہ جانتے تھے، اور اللہ نے تمہارے بنائے کان اور آنکھیں اور دل تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (۷۸)

کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا آسمان کی فضا میں حکم کے پابند، انہیں (کوئی) نہیں تھامتا سوائے اللہ کے، بیشک اس میں ایمان لانے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۷۹)

اور اللہ نے تمہارے لئے بنایا تمہارے گھروں کو رہنے کی جگہ، اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے ڈیرے بنائے، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے قیام کے دن، اور ان کی اون اور پشم اور ان کے با لوں سے (بنائے) سامان اور برتنے کی چیزیں ایک مدت مقررہ تک۔ (۸۰)

اور اللہ نے جو پیدا کیا ا س سے تمہارے لئے سائے بنائے اور تمہارے لئے بنائیں پہاڑوں سے پنا گاہیں، اور تمہارے لئے کرتے بنائے جو تمہارے لئے گرمی کا بچاؤ ہیں اور کرتے (زرہیں) جو تمہارے لئے بچاؤ ہیں تمہارے لڑائی میں، اسی طرح وہ تم پر اپنی نعت مکمل کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو۔ (۸۱)

پھر اگر وہ پھر جائیں تواس کے سوا نہیں کہ تم پر (تمہارا ذمہ) صرف کھول کر پہنچا دینا ہے۔ (۸۲)

وہ اللہ کی نعمت پہچانتے ہیں، پھر اس کے منکر ہو جاتے ہیں، اور ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں۔ (۸۳)

اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھائیں گے، پھر نہ اجازت دی جائے گی کافروں کو اور نہ ان سے عذر قبول کئے جائیں گے۔ (۸۴)

اور (یاد کرو) جب ظالم عذاب دیکھیں گے پھر نہ ان سے (عذاب) ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ (۸۵)

اور (یاد کرو) جب مشرک اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے اے ہمارے رب! یہ ہیں ہمارے شریک جنہیں ہم تیرے سوا پکارتے تھے، پھر وہ (ان کے شریک) ان کی طرف ڈالیں گے قول (جواب دیں گے کہ) بیشک تم جھوٹے ہو۔ (۸۶)

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم ان کے لئے عذاب پر عذاب بڑھا دیں گے، کیونکہ وہ فساد کرتے تھے۔ (۸۸)

اور وہ اس دن اللہ کے سامنے عاجزی (کا پیغام) ڈالیں گے اور ان سے گم ہو جائے گا (بھول جائیں گے) جو وہ جھوٹ گھڑتے تھے۔ (۸۷)

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم ان کے لئے عذاب پر عذاب بڑھا دیں گے، کیونکہ وہ فساد کرتے تھے۔ (۸۸)

اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت میں ان پر ان ہی   میں سے ایک گواہ، اور ہم آپ کو ان پر گواہ لائیں گے، اور ہم نے آپ پر قرآن مجید نازل کیا، ہر شے کا مفصل بیان اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری مسلمانوں کے لئے۔ (۸۹)

بیشک اللہ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا، اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نا شائستہ کاموں سے اور سرکشی سے، تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم دھیان کرو۔ (۹۰)

اور جب تم (پختہ) عہد کر لو تو اللہ کا عہد پورا کرو، اور قسمیں پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو، اور تحقیق تم نے اپنے اوپر اللہ کو ضامن بنایا ہے، بےشک اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۹۱)

اور اگر اللہ چاہتا تو البتہ تمہیں ایک امت بنا دیتا، لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے، اور تم سے اس کی بابت ضرور پوچھا جائے گا جو تم کرتے تھے۔ (۹۳)

اور اپنی قسموں کو نہ بناؤ اپنے درمیان دخل کا بہانہ کہ کوئی قدم اپنے جم جانے کے بعد پھسل جائے اور تم اس کے نتیجے میں وبال چکھو کہ تم نے روکا اللہ کے راستے سے اور تمہارے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۹۴)

اور تم اس عورت کی طرح نہ ہو جانا جس نے اپنا سوت مضبوط کرنے (کاتنے) کے بعد ٹکڑے ٹکڑے توڑ ڈالا، تم بناتے ہو اپنی قسموں کو اپنے درمیان دخل دینے کا بہانہ کہ ایک گروہ دوسرے گروہ پر غالب آ جائے، اس کے سوا نہیں کہ اللہ تمہیں آزماتا ہے، اور وہ روز قیامت تم پر ظاہر کر دے گا جس میں تم اختلاف کرتے تھے۔ (۹۲)

اور تم اللہ کے عہد کے بدلے نہ لو تھوڑا مول (مال دنیا) بے شک جو اللہ کے پاس ہے اگر تم جانو تو وہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ (۹۵)

جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ (ہمیشہ) باقی رہنے والا ہے، اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ضرور انہیں ان کا اجر دیں گے اس سے بہتر جو وہ (اعمال) کرتے تھے۔ (۹۶)

جس نے کوئی نیک عمل کیا وہ مرد ہو یا عورت، جبکہ ہو وہ مؤمن توہم ضرور اسے (دنیا میں) پاکیزہ زندگی دیں گے اور (آخرت) میں ان کا اجر ضرور اس سے بہتر دیں گے جو (اعمال) وہ کرتے تھے۔ (۹۷)

پس جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ لو شیطان مردود سے۔ (۹۸)

بیشک اس کا کوئی زور نہیں ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۹۹)

اس کے سوا نہیں کہ اس کا زور ان لوگوں پر ہے جو اس کو دوست بناتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ (۱۰۰)

اور جب ہم کوئی حکم کسی دوسرے حکم کی جگہ بدلتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ نازل کرتا ہے، وہ (کافر) کہتے ہیں اس کے سوا نہیں کہ تم (خود) گھڑ لیتے ہو (نہیں) بلکہ ان میں اکثر علم نہیں رکھتے۔ (۱۰۱)

آپ کہہ دیں کہ اسے جبرئیل امین نے تمہارے رب کی طرف سے اتارا ہے حق کے ساتھ تاکہ مؤمنوں کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت و خوشخبری ہے۔ (۱۰۲)

اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اس کے سوا نہیں کہ اسے ایک آدمی سکھاتا ہے، جس کی طرف وہ نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی (غیر عربی) ہے، اور یہ واضح عربی زبان ہے۔ (۱۰۳)

بیشک جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ کی آیتوں پر، اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۱۰۴)

اس کے سوا نہیں کہ وہی لوگ جھوٹ بہتان باندھتے تھے جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے، اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔ (۱۰۵)

جو اللہ کا منکر ہوا اس (اللہ) پر ایمان کے بعد، سوائے ا سکے جو مجبور کیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل مطمئن ہو، بلکہ جو کفر کے لئے سینہ کشادہ کرے (من مرضی سے کفر کرے) تو ان پر اللہ کا غضب ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۱۰۶)

یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر پسند کیا اور یہ کہ اللہ ہدایت نہیں دیتا کافر لوگوں کو۔ (۱۰۷)

یہی لوگ ہیں اللہ نے مہر لگا دی ہے جن کے دلوں پر، اور ان کے کانوں پر، اور ان کی آنکھوں پر، اور یہی لوگ غافل ہیں۔ (۱۰۸)

کچھ شک نہیں کہ یہی لوگ آخرت میں خسارہ (نقصان) اٹھانے والے ہیں۔ (۱۰۹)

پھر بیشک تمہارا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ہجرت کی، اس کے بعد کہ وہ ستائے گئے اور پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا، بیشک تمہارا رب اس کے بعد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۰)

جس دن ہر شخص اپنی ( ہی) طرف سے جھگڑا کرتا آئے گا اور ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کیا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۱۱۱)

اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی وہ مطمئن بے خوف تھی، ہر جگہ سے اس کے پاس رزق با فراغت آ جاتا تھا، پھر اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، تو اللہ نے اس کے بدلے جو وہ کرتے تھے اس کو بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا (بھوک اور خوف ان کا لبادہ بن گیا) (۱۱۲)

اور بیشک ان کے پاس ان ہی میں سے ایک رسول آیا سو انہوں نے اسے جھٹلایا تو عذاب نے انہیں آ پکڑا اور وہ ظالم تھے۔ (۱۱۳)

اس کےسوا نہیں کہ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے مردار، اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے علاوہ (کسی اور) کا نام پکارا جائے، پس جو لاچار ہو جائے نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا ہو تو بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۵)

پس جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال اور پاک کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ (۱۱۴)

اور نہ کہو تم وہ جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، کہ تم اللہ پر جھوٹ بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں، وہ فلاح (دو جہان میں کامیابی) نہ پائیں گے۔ (۱۱۶)

(ان کیلئے) فائدہ تھوڑا ہے اور ان کے لئے عذاب دردناک ہے۔ (۱۱۷)

اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا تھا جو اس سے قبل ہم نے تم سے بیان کیا ہے اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ، بلکہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ (۱۱۸)

پھر بیشک تمہارا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی سے برے عمل کئے پھر ا سکے بعد انہوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی، بیشک تمہارا رب اس کے بعد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۹)

بیشک ابراہیم امام تھے، اللہ کے فرمانبردار، یک رخ (سب کو چھوڑ کر ایک اللہ کہ ہو رہنے والے) اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (۱۲۰)

اس کی نعمتوں کے شکر گزار (اللہ نے) انہیں چن لیا اور ان کی رہنمائی کی سیدھی راہ کی طرف۔ (۱۲۱)

اور ہم نے انہیں دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں نیکو کاروں میں سے ہیں۔ (۱۲۲)

پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ ہر ایک سے جدا ہو رہنے والے (یک رخ) ابراہیم کی پیروی کرو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (۱۲۳)

اس کے سوا نہیں کہ ہفتہ ان لوگوں پر (عظمت کا دن) مقرر کیا گیا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا، اور بیشک تمہارا رب البتہ قیامت کے دن ان کے درمیان اس (بات) کا فیصلہ کر دے گاجس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۱۲۴)

اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ دانائی سے، اور اچھی نصیحت سے، اور ان سے ایسے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو، بیشک تمہارا رب اس کو خوب جاننے والا ہے جو اللہ کے راستے سے گمراہ   ہوا، اور وہ راہ پانے والوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (۱۲۵)

اور اگر تم تکلیف دو تو ایسی ہی تکلیف دو، جیسی تمہیں تکلیف دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔ (۱۲۶)

اور صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ ہی کی مدد سے ہے اور غم نہ کھاؤ ان پر اور وہ جو فریب کرتے ہیں اس سے تنگی میں (دل تنگ) نہ ہو۔ (۱۲۷)

بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے پرہیز گاری کی اور وہ لوگ جو نیکو کار ہیں۔ (۱۲۸)

٭٭


 

 

 

 

۱۷۔ سورۃ بنی اسرائیل

 

 

مکیہ

آیات:۱۱۱  رکوعات:۱۲

 

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو راتو ں رات مسجد حرام (خانہ کعبہ سے) مسجد اقصی (بیت المقدس) تک لے گیا، جس کے ارد گرد (اطراف) کو ہم نے برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھا دیں، بیشک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (۱)

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا کہ میرےسوا ( کسی کو) کارساز نہ ٹھہراؤ۔ (۲)

اے (ان لوگوں کی) اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا، بیشک وہ شکر گزار بندہ تھا۔ (۳)

اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں صاف کہہ سنایا، البتہ تم فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور تم ضرور زور پکڑو گے (سرکشی کرو گے)۔ (۴)

پس جب دونوں میں سے پہلے وعدہ ( کا وقت) آیا تو ہم نے تم پر اپنے سخت لڑائی والے بندے بھیجے وہ شہروں کے اندر گھس گئے (پھیل گئے) اور یہ ایک وعدہ تھا پورا ہونے والا۔ (۵)

پھر ہم نے ان پر تمہاری باری پھیر دی (تمہیں غلبہ دیا) اور مالوں سے اور بیٹوں سے ہم نے تمہیں مدد دی اور ہم نے تمہیں بڑا جتھا (لشکر) کر دیا۔ (۶)

اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانو ں کیلئے اور اگر تم نے برائی کی تو ان (اپنی جانوں) کے لئے، پھر (یاد کرو) جب دوسرے وعدہ (کا وقت) آیا کہ وہ (دشمن) تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور وہ مسجد (اقصی) میں گھس جائیں جیسے وہ پہلی بار گھسے تھے اور یہ کہ جہاں غلبہ پائیں، پوری طرح برباد کر ڈالیں۔ (۷)

امید ہے (بعید نہیں) کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے اور اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم (بھی) وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے۔ (۸)

بیشک یہ قرآن اس راہ کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھی ہے، اور مؤمنوں کو بشارت دیتا ہے جو اچھے عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے۔ (۹)

اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے، ہم نے ان کے لئے تیار کیا ہے عذاب دردناک۔ (۱۰)

اور انسان برائی کی دعا کرتا ہے جیسے وہ بھلائی کی دعا کرتا ہے اور انسان جلد باز ہے۔ (۱۱)

اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا (ماند کر دیا) اور ہم نے دن کی نشانی کو دکھانے والی بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (روزی) تلاش کرو، اور تاکہ برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو اور ہر چیز کو ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ (۱۲)

اور ہم نے ہر انسان کی قسمت اس کی گردن میں لٹکا دی، اور ہم اس کے لئے نکالیں گے روز قیامت ایک نوشتہ وہ اسے کھلا ہوا پائے گا۔ (۱۳)

اپنا نامۂ اعمال پڑھ لے آج تو خود اپنے اوپر کافی ہے حساب لینے والا (محتسب)۔ (۱۴)

جس نے ہدایت پائی اس نے صرف اپنے لئے ہدایت پائی اور جو کوئی گمراہ ہوا تو وہ گمراہ ہوا صرف اپنے برے کو اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، اور جب تک ہم کوئی رسول نہ بھیجیں ہم عذاب دینے والے نہیں۔ (۱۵)

ور جب ہم نے کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہا توہم نے اس کے خوشحال لوگوں کو حکم بھیجا تو انہوں نے اس میں نافرمانی کی پھر ان پر پوری ہو گئی بات (حکم ثابت ہو گیا) پھر ہم نے انہیں بری طرح ہلاک کر دیا۔ (۱۶)

اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں اور تیرا رب کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے والا دیکھنے والا ہے۔ (۱۷)

جو کوئی جلدی (دنیا میں) چاہتا ہے، ہم اس کو جتنا چاہیں جلدی (دنیا میں) دیدیں گے، پھر ہم نے اس کے لئے جہنم بنا دیا ہے وہ اس میں داخل ہو گا مذمت کیا ہوا دھکیلا ہوا۔ (۱۸)

اور جو کوئی آخرت چاہے اور اس کے لئے اس کی سی کوشش کرے، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہوئی۔ (۱۹)

ہم تیرے رب کی بخشش سے اِن کو بھی اور اُن کو بھی ہر ایک کو دیتے ہیں اور تیرے رب کی بخشش (کسی پر) روکی جانے والی نہیں۔ (۲۰)

دیکھو!ہم نے کس طرح ان کے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور البتہ آخرت کے درجے سب سے بڑے اور فضیلت میں سب سے برتر ہیں۔ (۲۱)

اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہرا، پس تو بیٹھ رہے گا مذمت کیا ہوا بے بس ہو کر۔ (۲۲)

اور تیرے رب نے حکم فرما دیا کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو، اور ماں باپ سے حسن سلوک کرو، اور ان میں سے ایک یا وہ دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں نہ کہو ا ُ ف (بھی) اور انہیں نہ جھڑ کو، اور ان سے ادب کے ساتھ بات کہو (کرو)۔ (۲۳)

اور ان کے لئے عاجزی کے ساتھ بازو جھکا دو مہربانی سے اور کہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی (۲۴)

تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے، اگر تم نیک ہو گے تو بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔ (۲۵)

اور دو قرابت دار کو اس کا حق اور مسکین اور مسافر کو اور اندھا دھند فضول خرچی نہ کرو۔ (۲۶)

بیشک فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ (۲۷)

اور اگر تو اپنے رب کی رحمت (فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تو امید رکھتا ہے، ان سے منہ پھیر لے تو ن سے کہہ دیا کر نرمی کی بات۔ (۲۸)

اور اپنا ہاتھ اپنی گردن تک بندھا ہوا نہ رکھ (کنجوس نہ ہو جا) اور نہ اسے کھول پوری طرح (بالکل ہی) کہ پھر تو ملامت زدہ تھکا ہارا بیٹھا رہ جائے۔ (۲۹)

بیشک تیرا رب جس کی چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور (جس کی چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں کو خبر رکھنے والا دیکھنے والا ہے۔ (۳۰)

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم ہی انہیں رزق دیتے ہیں اور تم کو (بھی) بیشک ان کا قتل بڑا گناہ ہے۔ (۳۱)

اور زنا کے قریب نہ جاؤ بیشک یہ بے حیائی ہے اور برا راستہ۔ (۳۲)

اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق پر، اور جو مظلوم مارا گیا تو تحقیق ہم نے اس کے وارث کے لئے ایک اختیار (قصاص) دیا ہے، بس وہ حد سے نہ بڑھے قتل میں، بیشک وہ مدد دیا گیا ہے۔ (۳۳)

اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ (تصرف نہ کرو) مگر اس طریقہ سے جو سب سے بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور عہد کو پورا کرو، بیشک عہد ہے پر سش کیا جانے والا (ضرور پرسش ہو گی)۔ (۳۴)

اور جب تم ماپ کر دو تو پیمانہ پورا کرو، اور وزن کرو سیدھی ترازو کے ساتھ، یہ بہتر ہے اور سب سے اچھا ہے انجام کے اعتبار سے۔ (۳۵)

اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک پرسش کیا جانے والا ہے (ہر ایک کی پرسش ہو گی)۔ (۳۶)

اور زمین میں اتراتا ہوا نہ چل بیشک تو زمین کو ہر گز نہ چیر ڈالے گا، اور نہ پہاڑ کی بلندی کو پہنچے گا۔ (۳۷)

یہ تمام برائیاں تیرے رب کے نزدیک نا پسندیدہ ہے۔ (۳۸)

یہ حکمت کی (ان باتوں) میں سے ہے جو تیرے رب نے تیری طرف وحی کی ہے، اور نہ بنا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود، کہ پھر تو جہنم میں ڈال دیا جائے ملامت زدہ دھکیلا ہوا (راندۂ درگاہ)۔ (۳۹)

کیا تمہیں چن لیا تمہارے رب نے بیٹوں کے لئے اور اپنے لئے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا، بیشک تم بڑا بول بولتے ہو۔ (۴۰)

اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں اور (اس سے) انہیں نہیں بڑھتی مگر نفرت۔ (۴۱)

کہہ دیں اگر جیسے وہ کہتے ہیں اس کے ساتھ اور معبود ہوتے تو اس صورت میں وہ عرش کے مالک کی طرف ضرور ڈھونڈتے کوئی راستہ۔ (۴۲)

وہ اس سے بے نہایت پاک ہے اور برتر جو وہ کہتے ہیں۔ (۴۳)

اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو ان میں ہے، کوئی چیز نہیں مگر (ہر شے) پاکیزگی بیان کرتی ہے، اس کے حمد کے ساتھ، لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ (۴۴)

اور جب تم قرآن پڑھتے ہو ہم تمہارے اور ان کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے کر دیتے (ڈال دیتے ) ہیں ایک چھپا ہوا (دبیز) پردہ۔ (۴۵)

اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے کہ وہ نہ سمجھیں، اور ان کے کانوں میں گرانی ہے اور جب تم قرآن میں اپنے یکتا رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر نفرت کرتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔ (۴۶)

ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ اس کو کس غرض سے سنتے ہیں جب وہ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں اور جب وہ سرگوشی کرتے ہیں (یعنی) جب کہتے ہیں ظالم کہ تم پیروی نہیں کرتے مگر ایک سحر زدہ آدمی کی۔ (۴۷)

دیکھو! انہوں نے تم پر کیسی مثالیں چسپاں کیں سو وہ گمراہ ہوئے، پس وہ کوئی اور راہ نہیں پاتے۔ (۴۸)

اور وہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو گئے، کیا ہم پھر نئی پیدائش (از سر نو) جی اٹھیں گے۔ (۴۹)

کہہ دیں تم پتھر یا لوہا ہو جاؤ۔ (۵۰)

یا کوئی اور مخلوق جو تمہارے خیالوں میں اس سے بھی بڑی ہو، پھر اب کہیں گے ہمیں کون لوٹائے گا؟ فرما دیں وہ جس نے تمہیں پیدا کیا پہلی بار، تو وہ تمہاری طرف اپنے سر مٹکائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہو گا ؟ (قیامت کب آئے گی) آپ فرما دیں شاید کہ نزدیک ہی ہو۔ (۵۱)

جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی تعریف کے ساتھ تعمیل کرو گے (قبروں سے نکل آؤ گے) اور تم خیال کرو گے کہ تم (دنیا میں) رہے ہو صرف تھوڑی دیر۔ (۵۲)

اور میرے بندوں کو فرما دیں کہ (بات) وہ کہیں جو سب سے اچھی ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے، بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (۵۳)

تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے، اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے یا اگر وہ چاہے تو تمہیں عذاب دے اور ہم نے تمہیں ان پر داروغہ (بنا کر) نہیں بھیجا۔ (۵۴)

اور تمہارا رب خوب جانتا ہے، جو کوئی آسمانوں میں اور زمین میں ہے، اور تحقیق ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی، اور ہم نے داؤد کو زبور دی۔ (۵۵)

کہہ دیں پکارو انہیں جن کو تم اس کے سوا (معبود) گمان کرتے ہو، پس وہ اختیار نہیں رکھتے تم سے تکلیف دور کرنے کا اور نہ بدلنے کا۔ (۵۶)

وہ لوگ جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ (خود) ڈھونڈتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ کہ ان سے کون زیادہ قریب ہے، اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بیشک تیرے رب کا عذاب ڈر (ہی) کی بات ہے۔ (۵۷)

اور کوئی (نافرمان) بستی نہیں مگر ہم اسے ہلاک کرنے والے ہیں، قیامت کے دن سے پہلے، یا اسے سخت عذاب دینے والے ہیں، یہ کتاب میں ہے لکھا ہوا۔ (۵۸)

اور ہمیں نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا، مگر (اس بات نے) کہ ان کو اگلوں نے جھٹلایا، اور ہم نے ثمود کو اونٹنی دی ذریعۂ بصیرت و عبرت، انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں نہیں بھیجتے مگر (صرف) ڈرانے کو۔ (۵۹)

اور جب ہم نے تم سے کہا کہ بیشک تمہارا رب لوگوں کو (احاطہ) قابو کئے ہوئے ہے، اور جو دکھاوا ہم نے تمہیں دکھایا وہ ہم نے نہیں کیا مگر آزمائش کے لئے، اور تھوہر کا درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو انہیں بڑھتی ہے صرف بڑی سرکشی۔ (۶۰)

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا ان سب نے سجدہ کیا، اس نے کہا کیا میں اسے سجدہ کروں؟ جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔ (۶۱)

اس نہ کہا بھلا دیکھ تو یہ ہے وہ ؟ جسے تو نے مجھ پر عزت دی ہے، البتہ اگر تو مجھے روز قیامت تک ڈھیل دے تو میں چند ایک کے سوا اس کی اولاد کو جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔ (۶۲)

اس نے فرمایا جا، پس ان میں سے جس نے تیری پیروی کی تو بیشک جہنم تمہاری سزا ہے، سزا بھی بھر پور۔ (۶۳)

اور پھسلالے جس پر ان میں سے اپنی آواز سے، تیرا بس چلے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، اور ان سے ساجھا کر لے مال اور اولاد میں، اور ان سے وعدے کر، اور ان سے شیطان کا وعدہ صرف دھوکہ ہے۔ (۶۴)

بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں اور تیرا رب کار ساز ہے۔ (۶۵)

تمہارا رب ہے جو کہ تمہارے لئے دریا میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (روٹی) تلاش کرو، بیشک وہ تم پر نہایت مہربان ہے۔ (۶۶)

اور جب تمہیں دریا میں تکلیف پہنچتی ہے گم ہو جاتے ہیں (بھول جاتے ہیں) جنہیں اس کے سوا تم پکارتے تھے، پھر جب وہ تمہیں بچا لایا، خشکی کی طرف تو تم پھر جاتے ہو، اور انسان بڑا ناشکرا ہے۔ (۶۷)

سو کیا تم نڈر ہو گئے ہو کہ وہ زمین میں دھنسا دے تمہیں خشکی کی طرف (لے جاکر) یا تم پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجے، پھر تم اپنے لئے کوئی کارساز نہ پاؤ۔ (۶۸)

یا تم بے فکر ہو گئے ہو کہ وہ دوبارہ اس (دریا) میں لے جائے، پھر تم پر ہوا کا سخت جھونکا (طوفان) بھیج دے، پھر تمہیں ناشکری کے بدلے میں غرق کر دے، پھر تم اپنے لئے اس پر ہمارا کوئی پیچھا کرنے والا نہ پاؤ۔ (۶۹)

اور تحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی، اور ہم نے انہیں خشکی اور دریا میں سواری دی، اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بڑائی دے کر فضیلت دی۔ (۷۰)

جس دن ہم تمام لوگوں کو بلائیں گے، ان کے پیشواؤں کے ساتھ، پس جس کو اس کی کتاب (اعمال نامہ) دائیں ہاتھ میں دی گئی تو وہ لوگ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے ایک دھاگے کے برابر (بھی)۔ (۷۱)

اور جو اس دنیا میں اندھا رہا پس وہ آخرت میں (بھی) اندھا (اٹھے گا) اور راستے سے بہت بھٹکا ہوا۔ (۷۲)

اور اس وحی سے جو ہم نے تمہاری طرف کی ہے قریب تھا کہ وہ تمہیں ا س سے بچلا دیں (پھسلادیں) تاکہ پر ہم اس (وحی) کے سوا تم جھوٹ باندھو، اور اس صورت میں البتہ وہ تمہیں دوست بنا لیتے۔ (۷۳)

اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو البتہ تم ان کی طرف جھکنے لگتے کچھ تھوڑا۔ (۷۴)

اس صورت میں ہم تمہیں زندگی میں دوگنی (سزا) چکھاتے اور دوگنی موت (کے بعد) پھر تم اپنے لئے نہ پاتے ہمارے مقابلہ میں کوئی مدد گار۔ (۷۵)

آپ سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے (یہی) سنت (چلی آ رہی ) ہے اور تم ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (۷۷)

سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کریں اور صبح کا قرآن، بیشک صبح کا قرآن (پڑھنے میں فرشتے) حاضر ہوتے ہیں۔ (۷۸)

اور رات کا کچھ حصہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ بیدار رہیں، اور تمہارے لئے زائد ہے، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود میں کھڑا کر دے۔ (۷۹)

اور کہیں اے میرے رب! مجھے داخل کر سچا داخل کرنا، اور مجھے نکال سچا نکالنا (اچھی طرح) اور اپنی طرف سے میرے لئے عطا کر غلبہ، مدد دینے والا۔ (۸۰)

اور کہہ دیں حق آیا اور باطل نابود ہو گیا، ، بیشک باطل ہے ہی مٹنے والا (نیست و نابود ہونے والا)۔ (۸۱)

اور ہم قرآن نازل کرتے ہیں جو مؤمنوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے، اور ظالموں کے لئے زیادہ نہیں ہوتا گھاٹے کے سوا۔ (۸۲)

اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں وہ رو گردان ہو جاتا ہے، اور پہلو پھیر لیتا ہے، اور جب اسے برائی پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔ (۸۳)

کہہ دیں ہر ایک اپنے طریقے پر کام کرتا ہے، سو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کون زیادہ صحیح راستہ پر ہے؟ (۸۴)

اور آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں روح میرے رب کے حکم سے ہے، اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا سا۔ (۸۵)

اور اگر ہم چاہیں تو البتہ ہم لے جائیں (سلب کر لیں) جو وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے، پھر تم اس کے لئے اپنے واسطے نہ پاؤ ہمارے مقابلہ پر کوئی مدد گار۔ (۸۶)

مگر تمہارے رب کی رحمت سے ہے (کہ ایسا نہیں ہوتا) بیشک تم پر اس کا بڑا فضل ہے۔ (۸۷)

آپ کہہ دیں اگر تمام انسان اور جن (اس بات) پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مانند لے آئیں تو وہ اس کے مانند نہ لاس کیں گے، اگرچہ ان کے بعض، بعض کے لئے (وہ ایک دوسرے کے) مددگار ہو جائیں۔ (۸۸)

اور ہم نے لوگوں کے لئے طرح طرح سے بیان کر دی ہے ہر مثال، پس اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا قبول نہ کیا۔ (۸۹)

اور وہ بولے کہ ہم تجھ پر ہر گز ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ تو ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ رواں کر دے۔ (۹۰)

یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، پس تو اس کے درمیان بہتی نہریں رواں کر دے۔ (۹۱)

یا جیسے تو کہا کرتا ہے ہم پر آسمان سے ٹکڑے گرا دے، یا اللہ کو اور فرشتوں کو روبرو لے آوے۔ (۹۲)

یا تیرے لئے ایک سونےکا گھر ہو، یا تو آسمان پر چڑھ جائے، اور ہم ہر گز تیرا چڑھنا نہ مانیں گے جب تک تو ہم پر ایک کتاب نہ اتارے جسے ہم پڑھ لیں، آپ کہہ دیں پاک ہے میرا رب، میں صرف ایک آدمی ہوں (اللہ کا) رسول۔ (۹۳)

اور لوگوں کو (کسی بات نے) نہیں روکا کہ وہ ایمان لائیں جب ان کے پاس ہدایت آ گئی، مگر یہ کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک آدمی کو رسول (بنا کر) بھیجا ہے؟۔ (۹۴)

آپ کہہ دیں، اگر ہوتے زمین میں فرشتے چلتے پھرتے، اطمینان سے رہتے، تو ہم ضرور ان پر آسمانوں سے فرشتے رسول (بنا کر) اتارتے۔ (۹۵)

آپ کہہ دیں میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کافی ہے، بیشک وہ اپنے بندوں کا خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۹۶)

اور ہم قیامت کے دن انہیں ان کے چہروں کے بل اندھے اور گونگے اور بہرے اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی جہنم کی آگ بجھنے لگے گی ہم ان کے لئے اور بھڑکا دیں گے۔ (۹۷)

یہ ان کی سزا ہے کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور انہوں نے کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، کیا ہم از سر نو پیدا کر کے ضرور اٹھائے جائیں گے؟۔ (۹۸)

کیا انہوں نے نہیں دیکھا؟کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس پر قادر ہے کہ ان جیسے پیدا کرے، اور اس نے ان کے لئے مقرر کیا ایک وقت، اس میں کوئی شک نہیں، ظالموں نے ناشکری کے سوا قبول نہ کیا۔ (۹۹)

آپ کہہ دیں اگر تم مالک ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے، تو تم خرچ ہو جانے کے ڈر سے ضرور بند رکھتے، اور انسان بہت تنگ دل ہے۔ (۱۰۰)

اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں، پس بنی اسرائیل سے پوچھو، جب وہ (موسی) ان کے پاس آئے تو فرعون نے اس کو کہا بیشک میں گمان کرتا ہوں تم پر جادو کیا گیا ہے (سحر زدہ ہو)۔ (۱۰۱)

اس نے کہا، البتہ تو جان چکا ہے اس کو نازل نہیں کیا مگر زمین اور آسمانوں کے پروردگار نے بصیرت (سمجھ بوجھ کی باتیں) اور اے فرعون ! بیشک میں تجھے گمان کرتا ہوں ہلاک شدہ (ہلاک ہوا چاہتا ہے)۔ (۱۰۲)

پس اس نے ارادہ کیا کہ انہیں سر زمین (مصر) سے نکال دے تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو غرق کر دیا۔ (۱۰۳)

اور ہم نے کہا اس کے بعد بنی اسرائیل کو تم اس ملک میں رہو، پھر جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تم سب کو لے آئیں گے جمع کر کے (سمیٹ کر)۔ (۱۰۴)

اور ہم نے اس ( قرآن کو) حق کے ساتھ نازل کیا اور وہ سچائی کے ساتھ نازل ہوا اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوشخبری دینے والا، ڈر سنانے والا۔ (۱۰۵)

اور قرآن ہم نے جدا جدا کر کے (تھوڑا تھوڑا) نازل کیا تاکہ تم لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ (بتدریج) نازل کیا۔ (۱۰۶)

آپ کہہ دیں تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، بیشک جنہیں اس سے قبل علم دیا گیا ہے، جب وہ ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں۔ (۱۰۷)

اور وہ کہتے ہیں ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ (۱۰۸)

اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں اور یہ (قرآن) ان میں عاجزی اور زیادہ کرتا ہے۔ (۱۰۹)

آپ کہہ دیں تم پکارو اللہ (کہہ کر) یا پکارو رحمن (کہہ کر) جو کچھ بھی پکارو گے اسی کے لئے ہیں سب سے اچھے نام، اور نہ اپنی نماز میں (آواز بہت) بلند کرو اور نہ اس میں بالکل پست کرو (بلکہ) ا سکے درمیان کا راستہ ڈھونڈو۔ (۱۱۰)

اور آپ کہہ دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہ جس نے کوئی اولاد نہیں بنائی، اور سلطنت میں اس کا کوئی شریک نہیں، اور نہ اس کا کوئی مددگار ہے ناتوانی کے سبب، اور خوب اس کی بڑائی (بیان) کرو۔ (۱۱۱)

٭٭


 

 

 

۱۸۔ سورۃالکھف

 

 

مکیہ

 

آیات:۱۱۰  رکوعات:۱۲

 

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندہ پر (یہ) کتاب ناز ل کی، اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔ (۱)

ٹھیک سیدھی تاکہ ڈر سنائے اس کی طرف سے سخت عذاب سے، اور مؤمنوں کو خوشخبری دے، جو اچھے عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے اچھا اجر ہے۔ (۲)

وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۳)

اور وہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ (۴)

اس کا نہ انہیں کوئی علم ہے، نہ ان کے باپ دادا کو تھا، بڑی ہے بات (جو) ان کے منہ سے نکلتی ہے، وہ نہیں کہتے مگر جھوٹ۔ (۵)

تو شاید آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کرنے والے ہیں، اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات پر، غم کے مارے۔ (۶)

جو کچھ زمین میں ہے بیشک ہم نے ا سکے لئے زینت بنایا ہے تاکہ انہیں آزمائیں کہ ان میں کون ہے عمل میں بہتر۔ (۷)

اور جو کچھ اس (زمین ) پر ہے، بیشک ہم اسے (نابود کر کے) صاف چٹیل میدان کرنے والے ہیں۔ (۸)

کیا تم نے گمان کیا کہ کہف (غار) اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے۔ (۹)

جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی تو انہوں نے کہا، اے ہمارے رب! ہمیں اپنی طرف سے رحمت دے، اور ہمارے کام میں درستی مہیا کر۔ (۱۰)

پس ہم نے پردہ ڈالا، ان کے کانوں پر (سلایا) غار میں کئی سال۔ (۱۱)

پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کس نے خوب یاد رکھا ہے کہ وہ کتنی مدت (غار میں) رہا۔ (۱۲)

ہم تجھ سے ٹھیک ٹھیک ان کا حال بیان کرتے ہیں:وہ چند نوجوان تھے، وہ ایمان لائے اپنے رب پر اور ہم نے انہیں ہدایت اور زیادہ دی۔ (۱۳)

یہ ہے ہماری قوم، اس نے اس کے سوا اور معبود بنا لئے وہ ان پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ پس کون ہے اس سے بڑا ظالم جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے۔ (۱۵)

اور جب تم نے ان سے اور  جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں ان سےکنارہ کر لیا ہے، تو غار میں پناہ لو تمہارا رب تمہارے لئے اپنی رحمت پھیلا دے گا، اور تمہارے کام میں سہولت مہیا کرے گا۔ (۱۶)

اور تم دیکھو گے جب دھوپ نکلتی ہے، وہ ان کی غار سے دائیں طرف بچ کر جاتی ہے اور جب وہ ڈھلتی ہے تو ان سے بائیں طرف کو کترا جاتی ہے، اور وہ غار کی کھلی جگہ میں ہیں، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، جسے ہدایت دے اللہ، سو وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے گمراہ کرے تو اس کے لئے ہر گز کوئی رفیق، سیدھی راہ دکھانے والا نہ پائے گا۔ (۱۷)

اور تو انہیں بیدار سمجھے حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں طرف (کروٹ) بدلواتے ہیں، اور ان کا کتا دونوں ہاتھ (نیچے) پھیلائے ہوئے ہے دہلیز پر، اگر تو ان پر جھانکے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگتا، اور ان سے دہشت میں بھر جاتا۔ (۱۸)

اور ہم نے اسی طرح انہیں اٹھایا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں، ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم (یہاں) کتنی دیر رہے؟ انہوں نے کہا ہم رہے ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ، انہوں نے کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے تم کتنی مدت رہے ہو، پس اپنے میں سے ایک کو اپنا یہ روپیہ دے کر بھیجو شہر کی طرف، پس وہ دیکھے کون سا کھانا پاکیزہ تر ہے، تو وہ اس سے تمہارے لئے آئے اور نرمی کرے اور کسی کو تمہاری خبر نہ دے بیٹھے۔ (۱۹)

بیشک اگر وہ تمہاری خبر پالیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں لوٹا لیں گے اپنی ملت میں، اور اس صورت میں تم ہر گز کبھی فلاح نہ پاؤ گے۔ (۲۰)

اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان پر خبر دار کیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں، (یاد کرو) جب وہ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑتے تھے، تو انہوں نے کہا ان پر ایک عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے، جو لوگ اپنے کام پر غالب تھے انہوں نے کہا ہم ضرور بنائیں گے ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ)۔ (۲۱)

اب (کچھ) کہیں گے وہ تین میں چوتھا ان کا کتا ہے، اور  (کچھ) کہیں گے وہ پانچ ہیں اور ان کا چھٹا ہے ان کا کتا، بن دیکھے بات پھینکتے ہیں (اٹکل کے تکے چلا رہے ہیں) کچھ کہیں گے وہ ساتھ ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے آپ کہہ دیں میرا رب خوب جانتا ہے ان کی تعداد، انہیں صرف تھوڑے جانتے ہیں پس سرسری بحث کے سوا، ان کے (بارے میں) نہ جھگڑو اور نہ پوچھو ان کے بارے میں ان میں سے کسی کو۔ (۲۲)

اور ہر گز کسی کام کو نہ کہنا کہ میں کل کرنے والا ہوں (کل کر دوں گا)۔ (۲۳)

اور وہ اس غار میں تین سو سال رہے، اور ان کے اوپر نو سال (۳۰۹ سال)۔ (۲۵)

آپ کہہ دیں اللہ خوب جانتا ہے وہ کتنی مدت ٹھہرے، اسی کو ہے آسمانوں اور زمین کا غیب، کیا (خوب) وہ دیکھتا ہے اور کیا (خوب) وہ سنتا ہے، ان کے لئے ا سکے سوا کوئی مدد گار نہیں، وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (۲۶)

اور آپ پڑھیں جو آپ کی طرف آپ کے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور تم ہر گز نہ پاؤ گے اس کے سوا کوئی پناہ گاہ۔ (۲۷)

اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے (لگائے) رکھو جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح اور شام، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں، اور تمہاری آنکھیں ان سے نہ پھریں کہ تم دنیا کی آرائش کے طلبگار ہو جاؤ، اور ا س کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑ گیا اور اس کا کام حد سے بڑھا ہوا ہے۔ (۲۸)

اور آپ کہہ دیں حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے سو ایمان لائے اور جو چاہے سو نہ مانے، ہم نے بیشک تیار کی ہے ظالموں کے لئے آگ، اس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ فریاد کریں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کے مانند (کھولتے) پانی سے داد رسی کئے جائیں گے، وہ ان کے منہ بھون ڈالے گا، برا ہے ان کا مشروب اور بری ہے (ان کی) آرام گاہ (جہنم)۔ (۲۹)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل کئے نیک، یقیناً ہم اس کا اجر ضائع نہیں کریں گے جس نے اچھا عمل کیا۔ (۳۰)

یہی لو گ ہیں ان کے لئے ہمیشگی کے باغات ہیں، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، اس میں انہیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، اور وہ کپڑے پہنیں گے سبز باریک ریشم کے اور دبیز ریشم کے، اس میں مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے، اچھا ہے بدلہ اور خوب ہے آرام گاہ۔ (۳۱)

اور ان کے لئے دو آدمیوں کا حال بیان کریں ہم نے ان میں سے ایک کے لئے دو باغ بنائے انگوروں کے، اور ہم نے انہیں کھجوروں کے درختوں (کی باڑ) سے گھیر لیا، اور ان کے درمیان کھیتی رکھی۔ (۳۲)

دونوں باغ اپنے پھل لائے، اور اس (پیداوار) میں کچھ کمی نہ کرتے تھے، اور ہم نے ان دونوں کے درمیان میں ایک نہر جاری کر دی۔ (۳۳)

اور اس کے لئے (بہت) پھل تھا، تو وہ اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے بولا، میں مال میں تجھ سے زیادہ تر ہوں، اور آدمیوں (جتھے) کے لحاظ سے زیادہ با عزت ہوں۔ (۳۴)

اور وہ اپنے باغ میں داخل ہوا (اس حال میں کہ) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہا تھا، وہ بولا میں گمان نہیں کرتا کہ یہ کبھی برباد ہو گا۔ (۳۵)

اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت برپا ہونے والی ہے، اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا تو میں ضرور اس سے بہتر لوٹنے کی جگہ پاؤں گا۔ (۳۶)

اس کے ساتھی نے اس سے کہا اور وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، کیا تو ا س کے ساتھ کفر کرتا ہے؟جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تجھے بنایا (پورا) مرد۔ (۳۷)

لیکن میں (کہتا ہوں) وہی اللہ میرا رب ہے، اور میں اپنے رب کےساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (۳۸)

اور کیوں نہ جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں، تو نے کہا ماشاء اللہ (جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے) کوئی قوت نہیں مگر اللہ کی (دی ہوئی) اگر تو مجھے اپنے سے کم دیکھتا ہے مال میں اور اولاد میں۔ (۳۹)

تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دے اور اس (تیرے باغ ) پر آفت بھیجےآسمان سے، پھر وہ مٹی کا چٹیل میدان ہو کر رہ جائے۔ (۴۰)

یا اس کا پانی خشک ہو جائے، اور تو ہر گز نہ کر سکے اس کو تلاش۔ (۴۱)

اور اس کے پھل (عذاب میں ) گھیر لئے گئے اور اس میں جو اس نے خرچ کیا تھا وہ اس پر اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا اور وہ (باغ) اپنی چھتریوں پر گرا ہوا تھا اور وہ کہنے لگا اے کاش، میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ (۴۲)

اور اس کے لئے کوئی جماعت نہ ہوئی کہ اللہ کے سوا اس کی مدد کرتی، اور وہ بدلہ لینے کے قابل نہ تھا۔ (۴۳)

یہاں اختیار، اللہ برحق کے لئے ہے، وہی بہتر ہے ثواب دینے میں اور بہتر ہے بدلے دینے میں۔ (۴۴)

اور ان کے لئے بیان کریں دنیا کی مثال (وہ ایسے ہے) جیسے ہم نے آسمان سے ایک پانی اتارا، پھر اس کے ذریعہ زمین کا سبزہ مل جل گیا (خوب گھنا اُگا) پھر وہ چورا چورا ہو گیا کہ اس کو ہوائیں اڑاتی ہیں، اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۴۵)

مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک بہتر ہیں ثواب میں اور بہتر ہیں آرزو میں۔ (۴۶)

اور جس دن ہم پہاڑ چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور ہم انہیں جمع کر لیں گے، پھر ہم ان میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے۔ (۴۷)

اور وہ تیرے رب کے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے، (آخر) البتہ تم ہمارے سامنے آ گئے، جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، جبکہ تم سمجھتے تھے کہ ہم تمہارے لئے ہرگز کوئی وقت موعود نہ ٹھہرائیں گے۔ (۴۸)

اور رکھی جائے گی کتاب، جو اس میں (لکھا ہو گا) سو تم مجرموں کو اس سے ڈرتے ہوئے دیکھو گے، اور وہ کہیں گے ہائے ہماری شامت اعمال! کیسی ہے یہ تحریر! یہ نہیں چھوڑتی چھوٹی سی بات اور نہ بڑی بات، مگر اسے قلم بند کئے ہوئے ہے، اور وہ پالیں گے جو انہوں نے کیا (اپنے) سامنے، اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (۴۹)

اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا تم سجدہ کرو آدم کو تو (اُن) سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ (قوم) جنّ سے تھا، اور وہ اپنے رب کے حکم سے باہر نکل گیا، سو کیا تم ا س کو اور اس کی اولا دکو میرے سوا دوست بناتے ہو؟اور وہ تمہارے دشمن ہیں، برا ہے ظالموں کے لئے بدلا۔ (۵۰)

میں نے انہیں نہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے (کے وقت) حاضر کیا (بلایا) اور نہ خود انہیں پیدا کرتے (وقت)، میں گمراہ کرنے والوں کو (دست و) بازو بنانے والا نہیں ہوں۔ (۵۱)

اور جس دن وہ (اللہ) فرمائے گا: بلاؤ میرے شریکوں کو جنہیں تم نے ( معبود) گمان کیا تھا، پس وہ انہیں پکاریں گے تو وہ جواب نہ دیں گے، اور ہم ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ بنا دیں گے۔ (۵۲)

اور دیکھیں گے مجرم آگ تو وہ سمجھ جائیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں، اور وہ ا س سے (بچ نکلنے کی) کوئی راہ نہ پائیں گے۔ (۵۳)

ہم نے البتہ اس قرآن میں لوگوں کے لئے پھیر پھیر کر ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں، اور انسان ہر شے سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ (۵۴)

اور لوگوں کو (کسی بات نے) نہیں روکا کہ وہ ایمان لے آئیں جبکہ ان کے پاس ہدایت آ گئی اور وہ اپنے رب سے بخشش مانگیں، بجز اس کے کہ ان کے پاس پہلوں کی روش آئے یا ان کے پاس آئے سامنے کا عذاب۔ (۵۵)

اور ہم رسول نہیں بھیجتے مگر خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے، اور جھگڑا کرتے ہیں کافر ناحق کی باتوں کے ساتھ، تاکہ وہ اس سے حق (بات) کو پھسلادیں، اور انہوں نے بنایا میری آیتوں کو اور جس سے وہ ڈرائے گا ایک مذاق۔ (۵۶)

اور اس سے بڑا ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں سے سمجھایا گیا تو اس نے اس سے منہ پھیر لیا اور وہ بھول گیا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے (اس سے) آگے بھیجا ہے، بیشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں کہ وہ اس (قرآن) کو سمجھ سکیں، اور ان کے کانوں میں گرانی ہے (بہرے ہیں) اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ تو جب بھی وہ ہر گز ہدایت نہ پائیں گے کبھی بھی۔ (۵۷)

اور تمہارا رب بخشنے والا، رحمت والا ہے، اگر ان کے کئے پر وہ ان کا مواخذہ کرے تو وہ جلد بھیج دے ان کے لئے عذاب،  بلکہ ان کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور وہ ہرگز اس کے ورے پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔ (۵۸)

اور ان بستیوں کو جب انہوں نے ظلم کیا ہم نے ہلاک کر دیا اور ہم نے ان کی تباہی کے لئے ایک وقت مقرر کیا۔ (۵۹)

اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا میں ہٹوں گا نہیں (چلتا رہوں گا) یہاں تک کہ پہنچ جاؤں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ (سنگم پر) یا مدت دراز چلتا رہوں گا۔ (۶۰)

پھر جب وہ دونوں (دریاؤں) کے سنگم پر پہنچے تو وہ اپنی مچھلی بھول گئے تو اس (مچھلی) نے اپنا راستہ بنالیا دریا میں سرنگ کی طرح۔ (۶۱)

پھر جب وہ آگے چلے تو موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا ہمارے لئے صبح کا کھانا لاؤ، البتہ ہم نے اس سفر سے بہت ( تکلیف) تھکان پائی۔ (۶۲)

اس نے کہا کیا آپ نے دیکھا، جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تو بیشک میں مچھلی بھول گیا اور مجھے نہیں بھلایا مگر شیطان نے، کہ میں (آپ سے) ا سکا ذکر کروں، اور اس نے بنا لیا اپنا راستہ دریا میں عجیب طرح سے۔ (۶۳)

موسیٰ نہ کہا یہی ہے (وہ مقام) جو ہم چاہتے ہیں، پھر وہ دونوں لوٹے اپنے نشاناتِ قدم پر دیکھتے ہوئے۔ (۶۴)

پھر انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ (خضر) کو پایا، اسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی، اور ہم نے اسے اپنے پاس سے علم دیا۔ (۶۵)

موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں تمہارےساتھ چلوں؟اس (بات) پر کہ تم مجھے سکھادو اس بھلی راہ میں سے جو تمہیں سکھائی گئی ہے۔ (۶۶)

اس (خضر) نے کہا بیشک تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔ (۶۷)

اور تو اس پر کیسے صبر کر سکے گا جس کا تو نے واقفیت سے احاطہ نہیں کیا (جس سے تو واقف نہیں)۔ (۶۸)

موسیٰ نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے پاؤ گے صبر کرنے والا، اور میں تمہاری کسی بات کی نافرمانی نہ کروں گا۔ (۶۹)

خضر نے کہا پس اگر تجھے میرے ساتھ چلنا ہے تو مجھ سے نہ پوچھنا کسی چیز سے متعلق، یہاں تک کہ میں خود تجھ سے ذکر کروں۔ (۷۰)

پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہوئے، اس (خضر ) نے ا س میں سوراخ کر دیا، موسیٰ نے کہا تم نے اس میں سوراخ کر دیا کہ اس کے سواروں کو غرق کر دو، البتہ تم نے ایک بھاری (خطرہ کی) بات کی ہے۔ (۷۱)

خضر نے کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ (۷۲)

موسیٰ نے کہا اس پر میرا مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا، اور میرے معاملہ میں مجھ پر مشکل نہ ڈالیں۔ (۷۳)

پھر وہ دونوں چلے! یہاں تک کہ وہ ایک لڑکے کو ملے، تو خضر نے اسے قتل کر دیا، موسیٰ نے کہا کیا تم نے ایک پاک جان کو جان کے (بدلے کے) بغیر قتل کر دیا، البتہ تم نے ایک ناپسندیدہ کام کیا۔ (۷۴)

خضر نے کہا کہ کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہ کر سکے گا۔ (۷۵)

موسیٰ نے کہا اگر ا س کے بعد میں تم سے کسی چیز سے (متعلق) پوچھوں تو تم مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا، البتہ تم میری طرف سے پہنچ گئے ہو (حدِ) عذر کو۔ (۷۶)

پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، انہوں نے ا س کے باشندوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کر دیا ان کی ضیافت کرنے سے، پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گر ا چاہتی تھی تو خضر نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا اگر تم چاہتے تو اس پر تم اجرت لے لیتے۔ (۷۷)

اس نے کہا یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تمہیں تعبیر (حقیقت حال) بتائے دیتا ہوں جس پر تم صبر نہ کر سکے۔ (۷۸)

رہی کشتی! سو وہ چند غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں کام (محنت مزدوری) کرتے تھے اور  ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی پکڑ لیتا (چھین لیتا) تھا، سو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں۔ (۷۹)

اور رہا لڑکا! تو اس کے ماں باپ دونوں مؤمن تھے، سو ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ انہیں سرکشی اور کفر میں نہ پھنسادے۔ (۸۰)

پس ہم نے ارادہ کیا کہ ان دونوں کو ان کا رب بدلہ دے (جو پاکیزگی) میں اس سے بہتر اور شفقت میں زیادہ قریب ہو۔ (۸۱)

اور رہی دیوار! سو وہ تھی شہر کے دو یتیم بچوں کی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے خزانہ تھا، اور ان کا باپ نیک تھا، سو تمہارے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں تو وہ دونوں تمہارے رب کی رحمت سے خزانہ نکالیں اور یہ میں نے نہیں کیا اپنی مرضی سے، یہ ہے (وہ) حقیقت! جس پر تم صبر نہ کر سکے۔ (۸۲)

اور آپ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کی بابت، فرما دیں، میں تمہارے سامنے ابھی اس کا کچھ حال پڑھتا ہوں (بیان کرتا ) ہوں۔ (۸۳)

بیشک ہم نے اس کو زمین میں قدرت دی اور ہم نے اس کو ہر شے کا سامان دیا تھا۔ (۸۴)

سو وہ ایک سامان کے پیچھے پڑا (۸۵)

چاہے ان سے کوئی بھلائی اختیار کرے۔ (۸۶)

اس نے کہا اچھا جس نے ظلم کیا تو جلد ہم اسے سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت عذاب دے گا۔ (۸۷)

اور اچھا جو ایمان لایا اور اس نے عمل کئے نیک تو اس کے لئے بدلہ ہے بھلائی اور عنقریب ہم اس کے لئے اپنے کام میں آسانی (کی بات) کہیں گے۔ (۸۸)

پھر وہ ایک (اور) سامان کے پیچھے پڑا۔ (۸۹)

یہاں تک کہ وہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام تک پہنچا تو اس کو پایا (دیکھا) وہ ایک ایسی قوم پر طلوع کر رہا ہے جن کے لئے ہم نے اس (سورج) کے آگے نہیں بنایا تھا کوئی پردہ (اوٹ)۔ (۹۰)

یہ ہے (حقیقت) اور جو کچھ اس کے پاس تھا اس کی خبر ہمارے احاطہ (علم) میں ہے۔ (۹۱)

پھر وہ (ایک اور ) سامان کے پیچھے پڑا۔ (۹۲)

یہاں تک کہ جب وہ پہنچا دو پہاڑوں کے درمیان، اس نے ان دونوں کے درے میں ایک قوم پائی، وہ لگتے نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں۔ (۹۳)

انہوں نے کہا اے ذوالقرنین! بیشک یاجوج اور ماجوج زمین میں فسادی ہیں، تو کیا ہم تیرے لئے (جمع) کر دیں کچھ مال؟ تاکہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دے۔ (۹۴)

اس نے کہا جس پر مجھے میرے رب نے قدرت دی وہ بہتر ہے، پس تم میری مدد کرو قوت (بازو) سے، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک آڑ بنا دوں گا۔ (۹۵)

مجھے لوہے کے تختے لادو، یہاں تک کہ جب ا س نے برابر کر دیا دونوں پہاڑوں کے درمیان، اس نے کہا (اب) دھونکو، یہاں تک کہ جب (دھونک کر) اسے آگ کر دیا، اس نے کہا میرے پاس لاؤ میں اس پر پگھلا ہوا تانبہ ڈالوں۔ (۹۶)

پھر وہ (یاجوج ماجوج) ا س پر نہ چڑھ سکیں گے، اور نہ اس میں نقب لگاس کیں گے۔ (۹۷)

اس نے کہا یہ میرے رب کی (طرف سے) رحمت ہے، پس جب میرے رب کا وعدہ (مقررہ وقت) آئے گا، اس کو ہموار کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔ (۹۸)

اور ہم چھوڑ دیں گے ان کے بعض کو اس دن دوسرے کے اندر ریلا مارتے ہوئے، اور صور پھونکا جائے گا، پھر ہم ان سب کو جمع کریں گے۔ (۹۹)

اور ہم اس دن جہنم سامنے کر دیں گے کافروں کے، بالکل سامنے۔ (۱۰۰)

اور میرے ذکر سے ان کی آنکھیں پردۂ (غفلت) میں تھیں، وہ سننے کی طاقت نہ رکھتے تھے (سن نہ سکتے تھے)۔ (۱۰۱)

جن لوگوں نے کفر کیا، کیا وہ گمان کرتے ہیں؟ کہ وہ میرے بندوں کو بنا لیں گے میرے سوا کار ساز، بیشک ہم نے کافروں کے لئے جہنم کو ضیافت تیار کیا ہے۔ (۱۰۲)

فرما دیں کیا ہم تمہیں بتلائیں اعمال کے لحاظ سے بدترین گھاٹے میں کون ہیں۔ (۱۰۳)

وہ لوگ جن کی کوششیں دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی، اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ (۱۰۴)

یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، پس اکارت گئے ان کے عمل، پس قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے (دونوں کے عمل بے وزن ہوں گے) (۱۰۵)

یہ ان کا بدلہ ہے جہنم، اس لئے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں کو اور میرے رسولوں کو ہنسی مذاق ٹھہرایا۔ (۱۰۶)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے ضیافت ہیں فردوس (بہشت) کے باغات۔ (۱۰۷)

ان میں ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔ (۱۰۸)

فرما دیں اگر سمندر میرے رب کی باتیں (لکھنے کیلئے) روشنائی بن جائے تو سمندر (کا پانی) ختم ہو جائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں اگرچہ ہم اس کی مدد کو اس جیسا (اور سمندر بھی ) لے آئیں۔ (۱۰۹)

فرما دیں کہ میں تم جیسا بشر ہوں (البتہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے، تمہارا معبود معبود واحد ہے، سو جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اچھے عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (۱۱۰)

٭٭


 

 

 

۱۹۔ سورۃمریم

 

 

مکیہ

آیات:۹۸  رکوعات:۶

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

كٓہٰيٰعٓصٓ (۱) یہ تذکرہ ہے تیرے رب کی رحمت کا اس کے بندے زکریا پر۔ (۲)

(یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو آہستہ سے پکارا۔ (۳)

اس نے کہا اے میرے رب! بیشک (بڑھاپے سے) میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں، اور میرا سر سفید بالوں  سے شعلہ مارنے لگا ہے (بالکل سفید ہو گیا ہے) اور میں (کبھی) تجھ سے مانگ کر اے میرے رب محروم نہیں رہا ہوں۔ (۴)

اور البتہ میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں، اور میری بیوی بانجھ ہے، تو مجھے عطا فرما اپنے پاس سے ایک وارث۔ (۵)

وہ وارث ہو میرا، اور اولاد یعقوب کا، اور اے میرے رب! اسے پسندیدہ بنا دے۔ (۶)

(ارشاد ہوا) اے زکریا! بیشک ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں، ا سکا نام یحیی ہے، ہم نے اس سے قبل کسی کو اس کا ہم نام نہیں بنایا۔ (۷)

اے میرے رب میرے لڑکا کیسے ہو گا؟ جبکہ میری بیوی بانجھ ہے، اور میں پہنچ گیا ہوں بڑھاپے کی انتہائی حد کو۔ (۸)

اس نے کہا اسی طرح تیرا رب فرماتا ہے، یہ (امر) مجھ پر آسان ہے اور اس سے قبل میں نے تجھے پیدا کیا، جبکہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ (۹)

ا س نے کہا اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی (مقرر) کر دے، فرمایا تیری نشانی (یہ ہے) کہ تو لوگوں سے بات نہ کرے گا تین رات (دن) ٹھیک (ہونے کے باوجود)۔ (۱۰)

پھر وہ محرابِ (عبادت) سے اپنی قوم کے پاس نکل کر ( آیا ) تو اس نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو صبح و شام۔ (۱۱)

(ارشاد الٰہی ہوا) اے یحیی! کتاب کو مضبوطی سے تھام لو، اور ہم نے اسے بچپن (ہی) سے نبوت و دانائی دے دی۔ (۱۲)

اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی (عطا کی) اور وہ پرہیز گار تھا۔ (۱۳)

اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا، اور نہ تھا گردن کش نافرمان۔ (۱۴)

اور سلام (سلامتی) ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا، اور جس دن وہ فوت ہو گا، اور جس دن وہ زندہ ہو کر اٹھایا جائے گا۔ (۱۵)

اور کتاب (قرآن) میں مریم کا ذکر کرو، جب وہ اپنے گھر والوں سے یکسو ہو گئی ایک مشرقی مکان میں۔ (۱۶)

پھر ڈال لیا ان کی طرف سے پردہ، پھر ہم نے اس کی طرف اپنے فرشتہ کو بھیجا، وہ اس کے لئے ٹھیک ایک آدمی کی شکل بن کر آیا۔ (۱۷)

وہ بولی بیشک میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، اگر تو پرہیز گار ہے (یہاں سے ہٹ جا)۔ (۱۸)

اس نے کہا اس کے سوا نہیں کہ میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں ، تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ (۱۹)

وہ بولی میرے لڑکا کیسے ہو گا ؟جبکہ نہ مجھے کسی بشر نے چھوا، اور نہ میں بد کار ہوں۔ (۲۰)

اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنائیں، اور اپنی طرف سے رحمت، اور یہ ہے ایک طے شدہ امر۔ (۲۱)

پھر اسے حمل رہ گیا، پس وہ اسے لیکر ایک دور جگہ چلی گئی۔ (۲۲)

پھر درد زہ اسے کھجور کے درخت کی طرف لے آیا، وہ بولی اے کاش! میں اس سے قبل مر چکی ہوتی، اور میں ہو جاتی بھولی بسری۔ (۲۳)

اس کے نیچے (وادی) سے (فرشتے نے) آواز دی تو گھبرا نہیں، تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ (جاری) کر دیا ہے۔ (۲۴)

اور کھجور کا تنا اپنی طرف ہلا، تجھ پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔ (۲۵)

پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دیے کہ میں نے رحمن کے لئے روزہ کی نذر مانی ہے، پس آج کسی آدمی سے کلام نہ کروں گی۔ (۲۶)

پھر وہ اسے اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لائی، وہ بولے اے مریم! تو لائی ہے غضب کی شے۔ (۲۷)

اے ہارون کی بہن! تیرا باپ برا آدمی نہ تھا، اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ (۲۸)

تو مریم نے اس (بچہ) کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم گہوارہ (گود) کے بچے سے کیسے بات کریں؟۔ (۲۹)

بچے نے کہا بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ (۳۰)

اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے حکم دیا ہے نماز کا اور زکوٰۃ کا۔ (۳۱)

اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے کا، اور اس نے مجھے نہیں بنایا سرکش بد نصیب۔ (۳۲)

اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ (۳۳)

یہ ہیں عیسیٰ ابن مریم، سچی بات جس میں وہ (لوگ) شک کرتے ہیں۔ (۳۴)

اللہ کے لئے (سزا وار ) نہیں ہے کہ ہو کوئی بیٹا بنائے وہ پاک ہے، جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے سوا نہیں کہ وہ کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے۔ (۳۵)

اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ (۳۶)

(پھر اہل کتاب کے) فرقوں نے اختلاف کیا باہم، پس خرابی ہے کافروں کے لئے (قیامت کے) بڑے دن کی حاضری سے۔ (۳۷)

کیا کچھ سنیں گے، اور کیا کچھ دیکھیں گے، جس دن وہ ہمارے سامنے آئیں گے، لیکن آج کے دن ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۳۸)

اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیں، جب کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا، لیکن وہ غفلت میں ہیں، اور وہ ایمان نہیں لاتے۔ (۳۹)

بیشک ہم وارث ہوں گے زمین کے اور جو کچھ اس پر ہے اور وہ ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ (۴۰)

اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو، بیشک وہ سچے نبی تھے۔ (۴۱)

اے میرے ابا !تم کیوں اس کی پرستش کرتے ہو؟ جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ کام آئے تمہارے کچھ بھی۔ (۴۲)

اے میرے ابا ! بیشک میرے پاس وہ علم (وحی) آیا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا، پس میری بات مانو، میں تمہیں ٹھیک سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ (۴۳)

اے میرے ابا! شیطان کی پرستش نہ کر، بیشک شیطان رحمن کا نافرمان ہے۔ (۴۴)

اے میرے ابا ! بیشک میں ڈرتا ہوں کہ رحمن کا عذاب تجھے (نہ) آ پکڑے، پھر تو ہو جائے شیطان کا ساتھی۔ (۴۵)

ا س نے کہا اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے روگرداں ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے ضرور سنگسار کر دوں گا، اور مجھے ایک مدت کے لئے چھوڑ دے۔ (۴۶)

ابراہیم نے کہا تجھ پر سلام ہو، میں ابھی تیرے لئے اپنے رب سےبخشش مانگوں گا، بیشک وہ مجھ پر مہربان ہے۔ (۴۷)

اور میں کنارہ کشی کرتا ہوں تم سے اور اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو، اور میں اپنے رب کی عبادت کروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت سے محروم نہ رہوں گا۔ (۴۸)

پھر جب وہ (ابراہیم) ان سے اور اللہ کے سوا وہ جن کی پرستش کرتے تھے ان سے کنارہ کش ہو گئے، ہم نے اس کو اسحا ق اور یعقوب عطا کئے، اور (ان) سب کو ہم نے نبی بنایا۔ (۴۹)

اور ہم نے اپنی رحمت سے انہیں (بہت کچھ) عطا کیا، اور ہم نے ان کا ذکر جمیل نہایت بلند کیا۔ (۵۰)

اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ برگزیدہ تھے، اور رسول نبی تھے۔ (۵۱)

اور ہم نے اسے کوہِ طور کی داہنی جانب سے پکارا، اور اسے راز بتلانے کو نزدیک بلایا۔ (۵۲)

اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون عطا کیا۔ (۵۳)

اور کتاب میں اسمٰعیل کو یا د کرو، بیشک وہ وعدہ کے سچے تھے، اور رسول نبی تھے۔ (۵۴)

اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے۔ (۵۵)

اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو، بیشک وہ سچے نبی تھے۔ (۵۶)

اور ہم نے اسے ایک بلند مقام پر اٹھا لیا۔ (۵۷)

یہ ہیں نبیوں میں سے وہ جن پر اللہ نے انعام کیا اولاد آدم میں سے، اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا، اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد میں سے، اور ان میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی، اور چنا، جب ان پر رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں وہ (زمین پر) گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے ہوئے۔ (۵۸)

پھر ان کے بعد چند نا خلف جانشین ہوئے، انہوں نے نماز گنوا دی، اور خواہشات (نفسانی) کی پیروی کی، پس عنقریب انہیں گمراہی (کی سزا) ملے گی۔ (۵۹)

مگر جس نے توبہ کی، اور نیک عمل کئے، پس یہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے، اور ذرہ بھر بھی ان کا نقصان نہ کیا جائے گا۔ (۶۰)

ہمیشگی کے باغات ہیں، جن کا وعدہ رحمن نے غائبانہ اپنے بندوں سے کیا، بیشک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔ (۶۱)

اور اس میں سلام کے سوا کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے اور ان کے لئے اس میں صبح و شام ان کا رزق ہے۔ (۶۲)

یہ وہ جنت ہے جس کا ہم اپنے (اُن) بندوں کو وارث بنائیں گے جو پرہیز گار ہوں گے۔ (۶۳)

اور (فرشتوں نے کہا) ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے، اسی کے لئے ہے جو ہمارے آگے، اور ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے، اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں۔ (۶۴)

وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو ان کے درمیان ہے، پس اس کی عبادت کرو، اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہو، کیا تو کوئی اس کا ہم نام جانتا ہے ؟ (۶۵)

اور (کافر) انسان کہتا ہے کیا جب میں مرگیا تو پھر میں زندہ (کر کے زمین سے) نکالا جاؤں گا! (۶۶)

کیا انسان یاد نہیں کرتا (کیا اسے یاد نہیں) کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا، جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ (۶۷)

سو تمہارے رب کی قسم ہم انہیں اور شیطانوں کو ضرور جمع کریں گے، پھر ہم انہیں ضرور حاضر کر لیں گے جہنم کے گرد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے۔ (۶۸)

پھر ہر گروہ میں سے ہم اسے ضرور کھینچ نکالیں گے جو ان میں اللہ رحمن سے بہت زیادہ سرکشی کرنے والا تھا۔ (۶۹)

پھر ہم البتہ ان سے خوب واقف ہیں جو اس (جہنم) میں داخل ہونے کے زیادہ مستحق ہیں۔ (۷۰)

اور تم میں سے کوئی نہیں مگر اسے یہاں سے گزرنا ہو گا، یہ تمہارے پروردگار پر لازم مقرر کیا ہوا ہے۔ (۷۱)

بل گرے ہوئے۔ (۷۲)

پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جنہوں نے پرہیز گاری کی اور ہم ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے گھٹنوں کے  بل گرے ہوئے۔ (۷۲)

اور جب ان پر ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جنہوں نے کفر کیا وہ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں دونوں فریق میں سے کس کا مقام (مرتبہ) بہتر اور مجلس اچھی ہے؟۔ (۷۳)

اور ان سے پہلے ہم کتنے ہی گروہ ہلاک کر چکے ہیں، وہ سامان اور نمود میں (ان سے) اچھے تھے۔ (۷۴)

کہہ دیجئے جو گمراہی میں ہے تو اس کو اللہ گمراہی میں اور خوب ڈھیل دے رہا ہے، یہاں تک کہ وہ دیکھ لیں گے خواہ عذاب خواہ قیامت، جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے، پس اب وہ جان لیں گے کون ہے بدتر مقام (مرتبہ) میں اور کمزور تر لشکر میں۔ (۷۵)

اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی اللہ انہیں اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور تمہارے پروردگار کے نزدیک باقی رہنے والی نیکیاں بہتر ہیں باعتبار ثواب اور بہتر ہیں باعتبار انجام۔ (۷۶)

پس کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہمارے حکموں کا انکار کیا؟اور کہا میں ضرور مال اور اولاد دیا جاؤں گا۔ (۷۷)

کیا وہ غیب پر مطلع ہو گیا ہے ؟یا اس نے اللہ رحمن سے لے لیا ہے کوئی عہد۔ (۷۸)

ہر گز نہیں! جو وہ کہتا ہے اب ہم لکھ لیں گے اس کو عذاب اور لمبا بڑھا دیں گے۔ (۷۹)

اور ہم وارث ہوں گے (لے لیں گے) جو وہ کہتا ہے اور وہ ہمارے پاس اکیلا آئے گا۔ (۸۰)

اور انہوں نے اللہ کے سوا (اوروں کو) معبود بنا لیا ہے،  تاکہ ان کے لئے موجب عزت ہوں۔ (۸۱)

ہر گز نہیں، جلد ی وہ ان کی بندگی سے انکار کریں گے اور ان کے مخالف ہو جائیں گے۔ (۸۲)

کیا تم نے نہیں دیکھا؟ بیشک ہم نے شیطان بھیجے ہیں کافروں پر، وہ انہیں خوب اکساتے رہتے ہیں۔ (۸۳)

سو تم ان پر (نزول عذاب کی) جلدی نہ کرو ہم تو صرف ان کی گنتی پوری کر رہے ہیں (ان کے دن گن رہے ہیں)۔ (۸۴)

(یاد کرو) جس دن ہم پرہیز گاروں کو اللہ رحمن کی طرف مہمان بنا کر جمع کر لائیں گے۔ (۸۵)

اور گنہگاروں کو ہانک کر لے جائیں گے جہنم کی طرف پیاسے۔ (۸۶)

وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے سوائے اس کے جس نے اللہ رحمن سے لیا ہو اقرار۔ (۸۷)

اور وہ کہتے ہیں اللہ رحمن نے بیٹا بنا لیا ہے۔ (۸۸)

تحقیق تم ( زبان پر) بری بات لائے ہو۔ (۸۹)

قریب ہے (بعید نہیں) کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین ٹکرے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔ (۹۰)

کہ انہوں نے اللہ کے لئے منسوب کیا بیٹا (۹۱)

جبکہ رحمن کی شایان نہیں کہ وہ بیٹا بنائے۔ (۹۲)

نہیں کوئی جوآسمانوں میں ہے اور زمین میں، مگر رحمن کے (حضور) بندہ ہو کر آتا ہے۔ (۹۳)

اس نے ان کو گھیر لیا ہے اور  گن کران کا شمار کر لیا ہے۔ (۹۴)

اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلا آئے گا۔ (۹۵)

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے پیدا کر دے گا رحمن (دلوں میں) محبت۔ (۹۶)

پس اس کےسوا نہیں کہ ہم نے (قرآن) کو آپ کی زبان پر آسان کر دیا تاکہ اس سے آپ پرہیز گاروں کو خوشخبری دیں اور جھگڑالو لوگوں کو اس سے ڈرائیں۔ (۹۷)

اور ان سے قبل ہم نے کتنے ہی گروہ ہلاک کر دئیے، کیا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو؟ یا ان کی آہٹ سنتے ہو؟ (۹۸)

٭٭

 

 

 

 

۲۰۔ سورۃطٰہٰ

 

 

 مکیہ

آیات:۱۳۵       رکوعات:۸

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

طٰہٰ (۱) ہم نے قرآن تم پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ (۲)

مگر اس کے لئے نصیحت ہے جو ڈرتا ہے۔ (۳)

ناز ل کیا ہوا (ا س کی طرف) جس نے زمین اور اونچے آسمان بنائے۔ (۴)

رحمن عرش پر قائم ہے۔ (۵)

اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو گیلی مٹی (آخری کرۂ ارض) کے نیچے ہے۔ (۶)

اور اگر تو پکار کر کہے بات تو بیشک وہ بھید جانتا ہے اور نہایت پوشیدہ (بات کو بھی)۔ (۷)

اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے لئے ہے سب اچھے نام۔ (۸)

اور کیا تمہارے پاس موسیٰ کی خبر آئی۔ (۹)

جب اس نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا تم ٹھہرو، بے شک میں نے دیکھی ہے آگ، شائد میں تمہارے پاس اس سے چنگاری لے آؤں، یا میں آگ کے راستہ (کا پتہ) پالوں۔ (۱۰)

پس جب وہ وہاں آئے تو آواز آئی اے موسی۔ (۱۱)

بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو اپنی جوتیاں اتار لو، بیشک تم طوی کے پاک میدان میں ہو۔ (۱۲)

اور میں نے تمہیں پسند کیا پس جو وحی کی جائے اس کی طرف کان لگا کر سنو۔ (۱۳)

بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو، اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (۱۴)

میں چاہتا ہوں کہ اسے پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص کو بدلہ دیا جائے اس کوشش کا جو وہ کرے۔ (۱۵)

پس تجھے اس سے وہ نہ روک دے، جو اس پر ایمان نہیں رکھتا، اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے، پھر تو ہلاک ہو جائے۔ (۱۶)

اور اے موسی! یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ (۱۷)

اس نے کہا یہ میرا عصا ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں، اور اس سے پتے جھاڑتا ہوں اپنی بکریوں پر، اور اس میں میرے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ (۱۸)

اس نے فرمایا اے موسیٰ اسے ( زمین پر) ڈال دے۔ (۱۹)

پس اس نے اسے ڈال دیا، تو ناگاہ وہ دوڑتا ہوا سانپ (بن گیا)۔ (۲۰)

فرمایا اسے پکڑ لے، اور نہ ڈر، ہم جلد اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ (۲۱)

اور اپنا ہاتھ اپنے بغل میں لگا لے، وہ کسی عیب کے بغیر سفید (چمکتا ہوا) نکلے گا (یہ) دوسری نشانی ہے۔ (۲۲)

تاکہ ہم تجھے دکھائیں اپنی بڑی نشانیوں میں سے۔ (۲۳)

تو فرعون کی طرف جا، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ (۲۴)

موسیٰ نے کہا، اے میرے رب! میرے لئے کشادہ کر دے میرا سینہ۔ (۲۵)

اور میرے لئے میرا کام آسان کر دے۔ (۲۶)

اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ (۲۷)

کہ وہ میری بات سمجھ لیں۔ (۲۸)

اور میرے لئے میرے خاندان سے میرا وزیر (معاون) بنا دے۔ (۲۹)

میرا بھائی ہارون۔ (۳۰)

اس سے میری قوت مضبوط کر دے۔ (۳۱)

اور اسے شریک کر دے میرے کام میں۔ (۳۲)

تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں۔ (۳۳)

اور کثرت سے تجھے یاد کریں۔ (۳۴)

بیشک تو ہمیں خوب دیکھتا ہے۔ (۳۵)

اے موسی! جو تو نے مانگا تحقیق تجھے دیدیا گیا۔ (۳۶)

اور تحقیق ہم نے تجھ پر ایک بار اور بھی احسان کیا تھا۔ (۳۷)

جب ہم نے تیری والدہ کو الہام کیا جو الہام کرنا تھا۔ (۳۸)

کہ تو اسے صندوق میں ڈال، پھر صندوق دریا میں ڈال دے، پھر دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا، میرا اور اس کا دشمن اس کو لے لے گا (دریا سے نکال لے گا) اور میں نے ڈال دی تجھ پر محبت اپنی طرف سے (کہ مخلوق تجھے محبت کرے) تاکہ تو میرے سامنے پرورش پائے۔ (۳۹)

اور (یاد کر) جب تیری بہن جا رہی تھی تو (فرعون سے) کہہ رہی تھی کیا میں تمہیں (اس کا پتہ) بتاؤں جو اس کی پرورش کرے؟ پس ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کرے، اور تو نے ایک شخص کا قتل کر دیا، تو ہم نے تجھے غم سے نجات دی، اور تجھے کئی آزمائشوں سے آزمایا، پھر تو کئی سال مدین والوں میں ٹھہرا رہا، پھر اے موسی! تو وقت مقررہ پر (مطابق تقدیر الہی) آیا۔ (۴۰)

اور ہم نے تجھے خاص اپنے لئے بنایا۔ (۴۱)

تم اور تمہارا بھائی دونوں جاؤ میری نشانیوں کے ساتھ، اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔ (۴۲)

تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ (۴۳)

تم اس کو نرم بات کہو شائد وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جائے۔ (۴۴)

وہ بولے، اے ہمارے رب! بیشک ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی (نہ) کرے یا حد سے (نہ) بڑھے۔ (۴۵)

اس نے فرمایا تم ڈرو نہیں، بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں، میں سنتا اور دیکھتا ہوں۔ (۴۶)

پس اس کے پاس جاؤ اور کہو بیشک ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں سزا نہ دے، ہم تیرے رب کی نشانی کے ساتھ آئے ہیں، اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ (۴۷)

بیشک ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ عذاب ہے اس پر جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔ (۴۸)

اس نے کہا اے موسی! پس تمہارا رب کون ہے؟ (۴۹)

موسیٰ نے کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کواس کی شکل و صورت عطا کی پھر اس کی رہنمائی کی۔ (۵۰)

اس نے کہا پھر پہلی جماعتوں کا کیا حال ؟ (۵۱)

وہ جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور تمہارے لئے چلائیں اس میں راہیں، اور آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے سبزی کی مختلف اقسام نکالیں۔ (۵۳)

تم کھاؤ اور اپنے مویشی چراؤ، بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۵۴)

اس (زمین) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اور اس میں تمہیں لوٹا دیں گے، اور اسی سے ہم تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔ (۵۵)

اور ہم نے اسے (فرعون کو) اپنی تمام نشانیاں دکھائیں تو اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔ (۵۶)

اس نے کہا اے موسی!کیا تو ہمارے پاس آیا ہے کہ تو ہمیں اپنے جادو کے ذریعہ ہماری زمین (ملک) سے نکال دے۔ (۵۷)

پس ہم تیرے مقابل ضرور لائیں گے اس جیسا ایک جادو، پس ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تو، ایک ہموار میدان (میں مقابلہ ہو گا)۔ (۵۸)

موسیٰ نے کہا تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کئے جائیں۔ (۵۹)

پھر لوٹ گیا فرعون، سو اس نے اپنا داؤ (جادو کاسامان) جمع کیا پھر آیا۔ (۶۰)

موسیٰ نے ان سے کہا تم پر خرابی ہو، اللہ پر نہ گھڑو جھوٹ، کہ وہ تمہیں عذاب سے ہلاک کر دے اور جس نے جھوٹ باندھا وہ نا مراد ہوا۔ (۶۱)

تو وہ (جادو گر) باہم اپنے کام میں جھگڑنے لگے اور انہوں نے چھپ کر مشورہ کیا۔ (۶۲)

وہ کہنے لگے تحقیق یہ دونوں جادوگر ہیں یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری سر زمین سے نکال دیں اپنے جادو کے ذریعہ، اور تمہارا اچھا طریقہ لے جائیں (نابود کر دیں)۔ (۶۳)

اور تحقیق آج وہی کامیاب ہو گا جو غالب رہا۔ (۶۴)

وہ بولے اے موسی! یا تو (پہلے اپنا داؤ) ڈال یا ہم پہلے ڈالیں۔ (۶۵)

اس نے کہا (نہیں) بلکہ تم ڈالو، تو ناگہاں ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں اس (موسی) کے خیال میں آئیں (ایسے نمودار ہوئیں) ان کے جادو سے، گویا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ (۶۶)

تو موسیٰ نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا۔ (۶۷)

ہم نے کہا تم ڈرو نہیں، بیشک تم ہی غالب رہو گے۔ (۶۸)

اور آج جو تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے ڈالو وہ نگل جائے گا جو کچھ انہوں نے بنایا ہے، بیشک (جو کچھ) انہوں نے بنایا ہے وہ جادو کا فریب ہے، اور وہ جادو گر کہیں آئے وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ (۶۹)

پس جادوگر سجدہ میں ڈال دئیے گئے (گر پڑے)، وہ بولے ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔ (۷۰)

فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے (اس سے) پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ (موسی) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، پس میں ضرور کاٹ ڈالوں گا تمہارے ہاتھ پاؤں (جانب) خلاف سے (ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پاؤں) اور میں ضرور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا، اور تم خوب جان لو گے ہم میں کون عذاب میں سخت ہے، اور تا دیر رہنے والا ہے۔ (۷۱)

انہوں نے کہا ہم تجھے ہر گز ترجیح نہ دیں گے ان واضح دلائل پر جو ہمارے پاس آئے ہیں اور اس پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، پس تو کر گزر جو تو کرنے والا ہے، اس کے سوا نہیں کہ تو (صرف) اس دنیا کی زندگی میں کرے گا۔ (۷۲)

بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں بخش دے اور اس کے بارے میں جو ت ونے ہمیں جادو سے مجبور کیا، اور اللہ بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ (۷۳)

بیشک وہ جو اپنے رب کے سامنے آیا مجرم بن کر تو بیشک اس کے لئے جہنم ہے نہ وہ اس میں مرے گا اور نہ جئے گا۔ (۷۴)

اور جو اس کے پاس مؤمن بن کر آیا، اور اس نے اچھے عمل کئے، پس یہی لوگ ہیں جن کے درجے بلند ہیں۔ (۷۵)

ہمیشہ رہنے والے باغات، جاری ہیں ان کے نیچے نہریں، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ جزا ہے (اس کی) جو پاک ہوا۔ (۷۶)

اور تحقیق ہم نے وحی کی موسیٰ کو کہ راتوں رات میرے بندوں کو (نکال) لے جا، ان کے لئے دریا میں (عصا مار کر) خشک راستہ بنا لینا، نہ پکڑنے کا خوف ہو گا اور نہ (غرق ہونے کا) ڈر ہو گا۔ (۷۷)

پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انہیں دریا (کی موجوں) نے ڈھانپ لیا، جیسا کہ ڈھانپ لیا (بالکل غرق کر دیا)۔ (۷۸)

اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور ہدایت نہ دی۔ (۷۹)

اے بنی اسرائیل (اولاد یعقوب) ! تحقیق ہم نے تمہارے دشمن سے تمہیں نجات دی اور کوہ طور کے دائیں جانب تم سے (توریت عطا کرنے کا) وعدہ کیا اور ہم نے تم پر اتارا من اور سلوی۔ (۸۰)

جو ہم نے تمہیں دیا اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور اس میں سرکشی نہ کرو کہ تم پر اترے میرا غضب، اور جس پر میرا غضب اترا وہ نیست و نابود ہوا۔ (۸۱)

اور بیشک میں بڑا بخشنے والا ہوں اس کو جس نے توبہ کی، اور وہ ایمان لایا اور اس نے عمل کیا نیک، پھر ہدایت پر رہا۔ (۸۲)

اور اے موسی! اور کیا چیز تجھے اپنی قوم سے جلد لائی (کیوں جلدی کی) ؟ (۸۳)

ا س نے کہا وہ یہ میرے پیچھے (آرہے ہیں) میں نے تیری طرف (آنے میں) جلدی کی تاکہ تو راضی ہو۔ (۸۴)

اس نے کہا پس ہم نے تحقیق تیری قوم کو آزمائش میں ڈالا، اور انہیں سامری نے گمراہ کیا۔ (۸۵)

پس موسیٰ اپنی قوم کی طرف لوٹے، غصہ میں بھرے ہوئے، افسوس کرتے ہوئے، کہا اے میری قوم! کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا طویل ہو گئی تم پر (میری جدائی کی) مدت؟ یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اترے؟ پھر تم نے خلاف کیا میرے وعدہ کے (وعدہ خلافی کی)۔ (۸۶)

وہ بولے ہم نے اپنے اختیار سے تمہارے وعدہ کے خلاف نہیں کیا، بلکہ ہم پر بوجھ لادا گیا (فرعون) کی قوم کے زیور کا، توہم نے اسے (آگ میں) ڈال دیا، پھر اسی طرح سامری نے ڈالا۔ (۸۷)

وہ بولے ہم نے اپنے اختیار سے تمہارے وعدہ کے خلاف نہیں کیا، بلکہ ہم پر بوجھ لادا گیا (گویا) ایک قالب جس کی آواز گائے کی تھی، پھر انہوں نے کہا یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا معبود ہے، وہ (موسی) تو بھول گیا ہے۔ (۸۸)

بھلا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ (بچھڑا) ان کی طرف بات نہیں پھیرتا (ان کو جواب نہیں دیتا) نہ ان کے نقصان کا اختیار رکھتا ہے اور نہ نفع کا۔ (۸۹)

اور تحقیق ان سے ہارون نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اے میری قوم! اس کے سوا نہیں کہ تم اس سے آزمائے گئے ہو اور بیشک تمہارا رب رحمن ہے سو میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔ (۹۰)

انہوں نے کہا ہم ہر گز اس سے جدا نہ ہوں گے جمے ہوئے (بیٹھے رہیں گے) یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹے۔ (۹۱)

اس (موسی) نے کہا اے ہارون! جب تو نے دیکھا وہ گمراہ ہو گئے ہیں تجھے کس چیز نے روکا (۹۲)

میری پیروی کرنے سے ؟ تو کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی۔ (۹۳)

اس نے کہا اے میرے ماں جائے! میری داڑھی اور سر (کے بال) نہ پکڑیں، بے شک میں ڈرا کہ تم کہو کہ تو نے تفرقہ ڈال دیا بنی اسرائیل کے درمیان، اور میری بات کا خیال نہ رکھا۔ (۹۴)

(پھر موسیٰ نے سامری سے) کہا اے سامری! تیرا کیا حال ہے۔ (۹۵)

وہ بولا میں نے وہ دیکھا جس کو انہوں نے نہیں دیکھا، پس میں نے فرشتے کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی تو میں نے وہ (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دی، اور اسی طرح میرے نفس نے مجھے پھسلایا۔ (۹۶)

موسیٰ نے کہا پس تو جا بیشک تیرے لئے زندگی میں (یہ سزا) ہے تو کچھ کہتا پھرے کہ نہ چھونا مجھے، اور بیشک تیرے لئے ایک وقت مقرر ہے، ہر گز تجھ سے خلاف نہ ہو گا (نہ ٹلے گا) اور آپ نے معبود کی طرف دیکھ جس پر تو (بیٹھا) رہتا تھا جما ہوا، ہم اسے البتہ جلا دیں گے پھر اس (کی راکھ) اڑا کر دریا میں ضرور بکھیر دیں گے۔ (۹۷)

اس کے سوا نہیں کہ تمہارا معبود اللہ ہے، وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، ا سکا علم ہر شے پر محیط ہے۔ (۹۸)

اسی طرح ہم تم سے (وہ) احوال بیان کرتے ہیں جو گزر چکے، اور تحقیق ہم نے تمہیں اپنے پاس سے کتاب نصیحت (قرآن) دیا۔ (۹۹)

جس نے اس سے منہ پھیرا وہ بے شک لادے گا قیامت کے دن بھاری بوجھ۔ (۱۰۰)

وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور برا ہے ان کے لئے قیامت کے دن کا بوجھ۔ (۱۰۱)

جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور ہم مجرموں کو اکھٹا کریں گے اس دن (ان کی) آنکھیں نیلی (بے نور ہوں گی)۔ (۱۰۲)

آپس میں آہستہ آہستہ کہیں گے تم (دنیا میں) صرف دس دن رہے ہو۔ (۱۰۳)

وہ جو کہتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں جب ان کا سب سے اچھی راہ والا (ہوشمند) کہے گا تم صرف ایک دن رہے ہو۔ (۱۰۴)

اور وہ آپ سے پہاڑوں سے متعلق دریافت کرتے ہیں، تو کہہ دیں میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ (۱۰۵)

اسے (زمین کو) ایک ہموار میدان کر چھوڑے گا۔ (۱۰۶)

اور تو نہ دیکھے گا اس میں کوئی کجی (نا ہمواری) اور نہ کوئی بلندی۔ (۱۰۷)

اس دن سب پیچھے چلیں گے ایک پکارنے والے کے، اس کے لئے کوئی کجی نہ ہو گی، اور اللہ کے سامنے آوازیں پست ہو جائیں گی، پس تو صرف پست آواز سنے گا۔ (۱۰۸)

اس دن کوئی شفاعت نفع نہ دے گی مگر جس کو اللہ اجازت دے، اور اس کی بات پسند کرے۔ (۱۰۹)

وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے اور ان کے پیچھے ہے، اور وہ (اپنے علم میں) اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ (۱۱۰)

اور چہرے جھک جائیں گے حی و قیوم (زندہ و قائم) کے سامنے اور نامراد ہوا وہ جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔ (۱۱۱)

اور جو کوئی نیکی کرے، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو نہ اسے کسی ظلم کا خوف ہو گا اور نہ کسی نقصان کا۔ (۱۱۲)

اور اسی طرح ہم نے اس پر عربی قرآن نازل کیا اور ہم نے اس میں طرح طرح سے ڈراوے بیان کئے تاکہ وہ پرہیز گار ہو جائیں یا وہ ان کے لئے کوئی نصیحت پیدا کر دے۔ (۱۱۳)

سو اللہ بلند تر ہے سچا بادشاہ اور تم قرآن (پڑھنے) میں جلدی نہ کرو، اس سے قبل کہ تمہاری طرف پوری کی جائے اس کی وحی، اور کہئے اے میرے رب! مجھے اور زیادہ علم دے۔ (۱۱۴)

اور ہم نے اس سے قبل آدم کی طرف حکم بھیجا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں پختہ ارادہ نہ پایا۔ (۱۱۵)

اور یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو، توسب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا۔ (۱۱۶)

پس ہم نے کہا اے آدم! بیشک یہ تمہاری بیوی کا کھلا دشمن ہے، سو تمہیں نکلوا نہ دے جنت سے، پھر تکلیف میں پڑ جاؤ۔ (۱۱۷)

بیشک تمہارے لئے (جنت میں) یہ ہے کہ اس میں نہ بھوکے رہو، نہ ننگے۔ (۱۱۸)

اور یہ کہ تم نہ پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ میں تپو گے۔ (۱۱۹)

اس نے کہا اے آدم! کیا میں تیری رہنمائی کروں ہمیشگی کے درخت پر؟ اور وہ بادشاہت جو زوال پذیر نہ ہو؟ (۱۲۰)

پس ان دونوں نے اس سے کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں، اور اپنے (جسم کے ) اوپر جنت کے پتے ڈھانپنے لگے، اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بہک گیا۔ (۱۲۱)

اس کے رب نے اسے رحمت سے چن لیا پھر اس پر (رحمت سے) توجہ فرمائی (توبہ قبول کی) اور اسے راہ دکھائی۔ (۱۲۲)

فرمایا تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ تمہاری (اولاد میں سے) بعض بعض کے دشمن ہوں گے، پس اگر (جب بھی) میری طرف سے تمہارے پاس میری ہدایت آئے، تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ بد بخت ہو گا۔ (۱۲۳)

اور جس نے میری یاد (نصیحت ) سے منہ موڑا تو بیشک اس کی معیشت (گزران) تنگ ہو گی اور ہم اسے اٹھائیں گے قیامت کے دن اندھا۔ (۱۲۴)

وہ کہے گا، اے میرے رب!تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟میں دنیا میں بینا ( دیکھتا) تھا۔ (۱۲۵)

وہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو نے انہیں بھلا دیا اور اسی طرح آج ہم تجھے بھلا دیں گے۔ (۱۲۶)

اور اسی طرح ہم (اس کو) بدلہ دیتے ہیں جو حد سے نکل جائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور البتہ آخرت کا عذاب شدید ترین ہے اور زیادہ دیر تک رہنے والا ہے۔ (۱۲۷)

کیا (اس حقیقت نے بھی ) انہیں ہدایت نہ دی کہ ان سے قبل ہم نے کتنی ہی جماعتیں ہلاک کر دیں وہ ان کے مساکن میں چلتے پھرتے ہیں، البتہ بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۲۸)

اور اگر تمہارے رب کی (طرف ) سے ایک بات (طے) نہ ہو چکی ہوتی اور میعاد مقرر (نہ ہوتی) تو عذاب ضرور (نازل) ہو جاتا۔ (۱۲۹)

پس وہ جو کہتے ہیں اس پر صبر کریں، تعریف کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کریں (پاکیزگی بیان کریں)، طلوع آفتاب سے پہلے، اور غروب آفتاب سے پہلے، اور کچھ رات کی گھڑیوں میں، پس اس کی تسبیح کریں، اور دن کے کنارے (دوپہر ظہر کے وقت) تاکہ تم خوش ہو جاؤ۔ (۱۳۰)

اور اپنی آنکھیں (ان چیزوں کی) طرف نہ پھیلانا، جو ہم نے برتنے کو دی ہیں ان کے جوڑوں کو، دنیا کی زندگی کی آرائش و زیبائش (بنا کر) تاکہ ہم اس میں انہیں آزمائیں، اور تیرے رب کا عطیہ بہتر ہے اور سب سے زیادہ تا دیر رہنے والا ہے۔ (۱۳۱)

اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر قائم رہو، ہم تجھ سے نہیں مانگتے رزق (بلکہ) ہم تجھے رزق دیتے ہیں اور انجام (بخیر) اہل تقوی کے لئے ہے۔ (۱۳۲)

اور وہ کہتے ہیں ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے اپنے رب کی طرف سے، کیا ان کے پاس (وہ) واضح نشانی نہیں آئی جو پہلے صحیفوں میں ہے۔ (۱۳۳)

اور اگر ہم انہیں ہلاک کر دیتے (رسولوں کے) آنے سے قبل کسی عذاب سے، تو وہ کہتے اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا؟تو ہم اس سے قبل کہ ذلیل اور رسوا ہوں ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے۔ (۱۳۴)

آپ کہہ دیں سب منتظر ہیں پس تم (بھی) انتظار کرو، سو عنقریب تم جان لو گے، کون سیدھے راستہ والے، اور کون ہے جس نے ہدایت پائی۔ (۱۳۵)

٭٭

 

 

 

 

۲۱۔ سورۃالانبیاء

 

مکیہ:۷۳

آیات:۱۱۲  رکوعات:۷

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

لوگوں کے لئے ان کے حساب (کا وقت) قریب آ گیا، اور و ہ غفلت میں (اس سے) منہ پھیر رہے ہیں۔ (۱)

ان کے پاس ان کے رب (کی طرف) سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے (بے پرواہ ہو کر) سنتے ہیں۔ (۲)

ان کے دل غفلت میں ہیں اور ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشی کی کہ یہ (محمدرسول اللہ ہیں) کیا ہیں؟ مگر ایک بشر تم ہی جیسے، کیا (پھر بھی) تم جادو کے پاس آؤ گے؟جبکہ تم دیکھتے ہو۔ (۳)

آپ نے فرمایا میرا رب جانتا ہے ہر بات جو آسمانوں میں اور زمین میں (ہوتی ہے) اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۴)

بلکہ انہوں نے کہا (یہ) پریشان خواب ہیں، بلکہ اس نے گھڑ لیا ہے، بلکہ وہ تو ایک شاعر ہے، پس وہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جیسے پہلے (نبی نشانیاں دیکر) بھیجے گئے تھے۔ (۵)

ان سے قبل کوئی بستی جس کو ہم نے ہلاک کیا (نشانیاں دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لائی تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے؟ (۶)

اور ہم نے (رسول) نہیں بھیجے تم سے پہلے مگر مرد، ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے، پس یاد رکھنے والوں سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ (۷)

اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور وہ نہ تھے ہمیشہ رہنے والے۔ (۸)

پھر ہم نے ان سے اپنا وعدہ سچا کر دیا، پس ہم نے انہیں بچا لیا، اور جس کو ہم نے چاہا، اور ہم نے حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کر دیا۔ (۹)

تحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی اس میں تمہارا ذکر ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں؟ (۱۰)

اور ہم نے ہلاک کر دیں کتنی ہی بستیاں، کہ وہ ستم گار تھیں، اور ہم نے ان کے بعد دوسرے گروہ (اور لوگ) پیدا کئے۔ (۱۱)

پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کی آہٹ پائی تو اس وقت اس سے بھاگنے لگے۔ (۱۲)

مت بھاگو اور لوٹ جاؤ اس طرف جہاں تمہیں آسائش دی گئی تھی، اور اپنے گھروں کی طرف، تاکہ تمہاری پوچھ گچھ ہو۔ (۱۳)

وہ کہنے لگے ہائے ہماری شامت! بیشک ہم ظالم تھے۔ (۱۴)

پس (برابر) ان کی یہ پکار رہی، یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی ہوئی آگ (کی طرح ڈھیر) کر دیا۔ (۱۵)

اور ہم نے نہیں پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو ان کے درمیان میں ہے کھیلتے ہوئے (فعل عبث)۔ (۱۶)

اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے تو ہم اس کو اپنے پاس سے بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہوتے (اگر ہمیں یہ کرنا ہوتا)۔ (۱۷)

بلکہ ہم پھینک مارتے ہیں حق کو باطل پر پس وہ اس کا بھیجا (کچومر) نکال دیتا ہے، تو وہ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، اور تمہارے لئے اس (بات) سے خرابی ہے جو تم بناتے ہو۔ (۱۸)

اور اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے، اور جو اس کے پاس ہیں وہ سرکشی نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہ وہ تھکتے ہیں۔ (۱۹)

اور رات دن تسبیح (اس کی پاکیزگی) بیان کرتے ہیں سستی نہیں کرتے۔ (۲۰)

کیا انہوں نے زمین سے کوئی اور معبود بنا لئے ہیں کہ وہ انہیں (مرنے کے بعد) دوبارہ اٹھا کھڑا کریں گے۔ (۲۱)

اگر ان دونوں (آسمان و زمین) میں اور معبود ہوتے اللہ کے سوا تو البتہ (زمین وآسمان) درہم برہم ہو جاتے، پس عرش عظیم کا رب اللہ اس سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۲۲)

اس سے باز پرس نہیں اس کے (متعلق) جو وہ کرتا ہے ، بلکہ وہ باز پرس کئے جائیں گے۔ (۲۳)

کیا انہوں نے اس کے سوا اور معبود بنائے ہیں؟ فرما دیں پیش کرو اپنی دلیل، یہ کتاب ہے (ان کی) جو میرے ساتھ ہیں، اور کتاب (ان کی) جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں، البتہ ان میں اکثر نہیں جانتے حق کو، پس وہ روگردانی کرتے ہیں۔ (۲۴)

اور تم سے پہلے ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم نے وحی بھیجی اس کی طرف کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو۔ (۲۵)

ان (مشرکوں) نے کہا اللہ نے ایک بیٹا بنا لیا ہے وہ اس (تہمت) سے پاک ہے، بلکہ (فرشتے) معزز بندے ہیں۔ (۲۶)

وہ بات میں اس سے سبقت نہیں کرتے، اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ (۲۷)

وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے، اور وہ سفارش نہیں کرتے، مگر جس کے لئے اس کی رضا ہو، اور وہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔ (۲۸)

اور جو کوئی یہ کہے کہ بے شک اس کے سوا میں معبود ہوں پس اس شخص ک وہم سزائے جہنم دیں گے، اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیتے ہیں۔ (۲۹)

کیا کافروں نے نہیں دیکھا؟کہ آسمان اور زمین دونوں (بارش اور روئیدگی سے) بند تھے، پس ہم نے دونوں کو کھول دیا، اور ہم نے پانی سے ہر شے کو زندہ کیا، تو کیا (پھر بھی) تم ایمان نہیں لاتے؟ (۳۰)

اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ وہ ان (لوگوں) کے ساتھ جھک نہ پڑے، اور ہم نے اس میں کشادہ راستے بنائے تاکہ وہ راہ پائیں۔ (۳۱)

اور ہم نے بنائے آسمان ایک محفوظ چھت اور وہ اس کی نشانیوں سے روگردانی کرتے ہیں۔ (۳۲)

اور وہی ہے جس نے پیدا کیا رات اور دن کو اور سورج اور  چاند کو، سب (اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں۔ (۳۳)

اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشہ رہنا نہیں (تجویز) کیا، پس اگر آپ انتقال کر گئے تو کیا وہ ہمیشہ رہیں گے؟ (۳۴)

اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی سے آزمائش میں مبتلا کریں گے اور ہماری طرف ہی تم لوٹ کر آؤ گے۔ (۳۵)

اور جب کافر تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں صرف ایک ہنسی مذاق ٹھہراتے ہیں کہ کیا یہ ہے؟ وہ جو تمہارے معبودوں کو (برائی سے) یاد کرتا ہے، اور وہ اللہ کے ذکر کے منکر ہیں۔ (۳۶)

انسان کو پیدا کیا گیا ہے جلد باز، عنقریب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہوں سو تم جلدی نہ کرو۔ (۳۷)

عنقریب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہوں سو تم جلدی نہ کرو اور وہ کہتے ہیں کہ وعدہ (عذاب) کب (آئے گا) ؟اگ رتم سچے ہو۔ (۳۸)

کاش کافر اس گھڑی کو جان لیتے جب وہ نہ روک سکیں گے (دوزخ کی) آگ کو اپنے چہروں سے، اور نہ اپنی پیٹھوں سے، اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ (۳۹)

بلکہ (قیامت) ان پر اچانک آئے گی تو انہیں حیران (بد حواس) کر دے گی، پس انہیں اس کو لوٹانے کی سکت نہ ہو گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ (۴۰)

اور البتہ مذاق اڑائی گئی آپ سے پہلے رسولوں کی، پس ان میں سے جنہوں نے مذاق اڑایا انہیں اس ( عذاب نے) آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۴۱)

فرما دیں، رحمن (کے عذاب) سے دن رات تمہاری کون نگہبانی کرتا ہے؟ بلکہ وہ اپنے رب کی یاد سے روگردانی کرتے ہیں۔ (۴۲)

کیا ہمارے سوا ان کے کچھ اور  معبود ہیں؟ جو انہیں (مصائب سے) بچاتے ہیں، وہ سکت نہیں رکھتے اپنی مدد کی (بھی) اور نہ وہ ہم سے (بچانے کے لئے) ساتھی پائیں گے۔ (۴۳)

بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو ساز وسامان دیا، یہاں تک کہ ان کی عمر دراز ہو گئی، پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے ہیں (منکروں پر تنگ کرتے) آرہے ہیں، پھر کیا وہ غالب آنے والے ہیں۔ (۴۴)

فرما دیں اس کے سو ا نہیں کہ میں تمہیں وحی سے ڈراتا ہوں، اور بہرے پکار نہیں سنتے جب بھی انہیں ڈرایا جائے۔ (۴۵)

اور اگر انہیں تیرے رب کے عذاب کی ایک لپیٹ چھوئے تو وہ ضرور کہیں گے ہائے ہماری شامت! ہم ظالم تھے۔ (۴۶)

اور ہم قیامت کے دن میزان عدل قائم کریں گے، تو کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا، اور اگر (کوئی عمل) رائی کے ایک دانہ کے برابر بھی ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے، اور کافی ہیں ہم حساب لینے والے۔ (۴۷)

اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو (حق و باطل میں) فرق کرنے والی (کتاب) اور روشنی عطا کی، اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت۔ (۴۸)

جو لوگ اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ قیامت سے خوف کھاتے ہیں۔ (۴۹)

اور یہ بابرکت نصیحت ہے (جو) ہم نے نازل کی ہے تو کیا تم اس کے منکر ہو؟ (۵۰)

اور تحقیق البتہ ہم نے اس سے قبل ابراہیم کو فہم سلیم دی تھی، اور ہم اس کے جاننے والے تھے۔ (۵۱)

جب اس نے کہا اپنے باپ سےاور اپنی قوم سے، کیا ہیں یہ مورتیاں؟ جن کے لئے جمے بیٹھے ہو۔ (۵۲)

وہ بولے ہم نے پایا اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے۔ (۵۳)

اس (ابراہیم) نے کہا تحقیق تم اور تمہارے باپ دادا صریح گمراہی میں رہے۔ (۵۴)

وہ بولے کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو، یا دل لگی کرنے والوں میں سے ہو۔ (۵۵)

اس نے کہا بلکہ تمہارا رب مالک ہے آسمانوں کا اور زمین کا، وہ جس نے انہیں پیدا کیا اور اس بات پر میں گواہوں میں سے (گواہ) ہوں۔ (۵۶)

اور اللہ کی قسم! البتہ میں تمہارے بتوں سے ضرور چال چلوں گا، اس کے بعد جبکہ تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤگے۔ (۵۷)

پس اس نے ان کے ایک بڑے کے سوا سب کو ریزہ ریزہ کر ڈالا، تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (۵۸)

کہنے لگے کون ہے جس نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا؟بیشک وہ تو ظالموں میں سے ہے۔ (۵۹)

بولے ہم نے سنا ہے ایک جوان (بتوں) کے بارے میں باتیں کرتا ہے، اس کو ابراہیم کہا جاتا ہے۔ (۶۱)

بولے تو اسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ دیکھیں۔ (۶۱)

انہوں نے کہا اے ابراہیم! کیا یہ تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ کیا ہے؟ (۶۲)

اس نے کہا بلکہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے، تو ان (ہی) سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔ (۶۳)

پس وہ سوچ میں پڑ گئے اپنے دلوں میں، پھر انہوں نے کہا بیشک تم ہی ظالم ہو (ناحق پر ہو)۔ (۶۴)

پھر وہ اپنے سروں پر اوندھے کئے گئے (سروں کے بل جھک گئے) تو خوب جانتا ہے یہ جو کچھ بولتے ہیں۔ (۶۵)

ا س نے کہا کیا تم پھر اللہ کے سوا ان کی پرستش کرتے ہو؟جو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچاس کیں اور نہ نقصان پہنچاس کیں۔ (۶۶)

تف ہے تم پر! اور (ان بتوں پر) جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو، کیا تم پھر (بھی ) نہیں سمجھتے۔ (۶۷)

وہ کہنے لگے تم اسے جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ (۶۸)

ہم نے حکم دیا، اے آگ!تو ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی۔ (۶۹)

اور انہوں نے اس کے ساتھ فریب کا ارادہ کیا تو ہم نے انہیں کر دیا انتہائی زیاں کار۔ (۷۰)

اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سر زمین کی طرف (بھیج کر) بچا اور اس کو عطا کیا اسحاق (بیٹا) اور یعقوب پوتا، اور ہم نے ان سب کو نیکو کار بنایا۔ (۷۲)

اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا، وہ ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی نیک کام کرنے کی، اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی، اور وہ ہماری ہی عبادت کرنے والے تھے۔ (۷۳)

اور ہم نے لوط کو حکم دیا (حکمت و نبوت) اور  علم (دیا) اور ہم نے اسے اس بستی سے بچا لیا جو گندے کام کرتی تھی، بیشک وہ تھے برے اور بدکار لوگ۔ (۷۴)

اور ہم نےاسے اپنی رحمت میں داخل کیا، بے شک وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔ (۷۵)

اور (یاد کرو) جب اس سے قبل نوح نے پکارا توہم نے اس کی (دعا) قبول کر لی، پھر ہم نے اسے اور اس کے لوگوں کو نجات دی بڑی بے چینی (سختی) سے۔ (۷۶)

اور ہم نے اس کو مدد دی ان لوگوں پر جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، بے شک وہ بُرے لوگ تھے، پھر ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔ (۷۷)

اور (یاد کرو) جب داؤو اور سلیمان ایک کھیتی کے بارہ میں فیصلہ کر رہے تھے، جب اس میں رات کے وقت ایک قوم کی بکریاں چر گئیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے۔ (۷۸)

اور  ہر ایک کو ہم نے حکم (حکمت و نبوت) اور علم دیا، اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد کا مسخر کر دیا، وہ تسبیح کرتے تھے اور پرندے (بھی مسخر کئے) اور کرنے والے ہم تھے۔ (۷۹)

اور ہم نے اسے تمہارے لئے ایک لباس (بنانے) کی کاریگری سکھائی تاکہ وہ تمہیں تمہاری لڑائی سے بچائے، پس کیا تم شکر کرنے والے ہو؟ (۸۰)

اور ہم نے تیز چلنے والی ہواسلیمان کیلئے (مسخر کی) وہ اس کے حکم سے اس سر زمین (شام) کی طرف چلتی، جس میں ہم نے برکت دی، اور ہم ہر شے کو جاننے والے ہیں۔ (۸۱)

اور شیطانوں میں سے (مسخر کئے) جو غوطہ لگاتے تھے اس کے لئے، اور اس کےسوا اور کام (بھی) کرتے تھے، اور ہم ان کو سنبھالنے والے تھے۔ (۸۲)

اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (۸۳)

تو ہم نے قبول کر لی اس کی (دعا) پس اسے جو تکلیف تھی ہم نے کھول دی ( دور کر دی) اور ہم نے اسے اس کے گھر والے دئیے، اور ان کے ساتھ ان جیسے (اور بھی) رحمت فرما کر اپنے پاس سے، اور عبادت کرنے والوں کے لئے نصیحت۔ (۸۴)

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ (۸۵)

اور ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کیا، بیشک وہ نیکو کاروں میں سے تھے۔ (۸۶)

اور (یاد کرو) جب مچھلی والے (یونس اپنی قوم سے) غصہ میں بھر کر چل دئیے، پس اس نے گمان کیا کہ ہم ہر گز اس پر تنگی (گرفت) نہ کریں گے، (جب مچھلی نگل گئی) تواس نے اندھیروں میں پکارا کہ (اے اللہ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں (قصور واروں) میں سے تھا۔ (۸۷)

پھر ہم نے اس کی (دعا) قبول کر لی اور ہم نے اسے غم سے نجات دی، اور اسی طرح ہم مؤمنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ (۸۸)

اور (یاد کرو) جب زکریا نے اپنے رب کو پکارا، اے میرے رب! مجھے اکیلا (لا وارث) نہ چھوڑ اور تو (سب سے) بہتر وارث ہے۔ (۸۹)

پھر ہم نے اس کی (دعا) قبول کر لی اور ہم نے اسے عطا کیا یحیی اور ہم نے اس کے لئے اس کی بیوی کو درست (اولاد کے قابل) کر دیا، بیشک وہ سب نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے، اور وہ ہمیں امید اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔ (۹۰)

(اور یاد کرو مریم کو) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی، پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی، اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے کو جہانوں کے لئے نشانی بنایا۔ (۹۱)

بیشک یہ ہے تمہاری امت (ملت) یکتا امت، اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو۔ (۹۲)

اور انہوں نے اپنا کام (دین) باہم ٹکڑے ٹکڑے کر لیا، سب ہماری طرف رجوع کرنے والے (لوٹنے والے) ہیں۔ (۹۳)

پس جو کچھ نیک کام کرے اور وہ ایمان والا ہو تو اکارت نہیں (جائے گی) اس کی کوشش، اور بیشک ہم اس کے لکھ لینے والے ہیں۔ (۹۴)

اس بستی پر (دنیا میں لوٹ کر آنا) حرام ہے جسے ہم نے ہلاک کر دیا کہ وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (۹۵)

یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دئے جائیں گے، اور ہر ٹیلہ سے دوڑتے آئیں گے۔ (۹۶)

اور سچا وعدہ قریب آ جائے گا تو اچانک منکروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، ہائے ہماری شامت!تحقیق ہم اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظالم تھے۔ (۹۷)

بیشک تم اور  وہ جن کی تم پرستش کرتے ہو اللہ کے سوا، جہنم کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔ (۹۸)

اگر یہ معبود ہوتے تو اس میں داخل نہ ہوتے، اور وہ سب اس میں سدا رہیں گے۔ (۹۹)

ان کے لئے وہاں چیخ پکار ہے، اور وہ اس میں کچھ نہ سن سکیں گے۔ (۱۰۰)

بیشک جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے (ہی) بھلائی ٹھہر چکی وہ لوگ اس سے دور رکھے جائیں گے۔ (۱۰۱)

وہ نہ سنیں گے اس کی آہٹ (بھی) اور ان کے دل جو چاہیں گے وہ اس (آرام و راحت) میں ہمیشہ رہیں۔ (۱۰۲)

انہیں غمگین نہ کرے گی بڑی گھبراہٹ، اور فرشتے انہیں لینے آئیں گے، یہ ہے (وہ) دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ (۱۰۳)

جس دن ہم آسمان لپیٹ دیں گے، جیسے تحریر کا طومار لپیٹا جاتا ہے، جیسے ہم نے پہلی بار پیدائش کی تھی ہم اسے پھر لوٹا دیں گے یہ وعدہ ہم پر (ہمارے ذمے) ہے، بیشک ہم پورا کرنے والے ہیں۔ (۱۰۴)

اور تحقیق ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ (۱۰۵)

بیشک اس میں عبادت گزار لوگوں کے لئے (بشارت) پہنچا دینا ہے۔ (۱۰۶)

اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ (۱۰۷)

فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ بس تمہارا معبود معبود یکتا ہے، پس کیا تم حکم بردار ہو؟ (۱۰۸)

پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو میں نے تمہیں خبر دار کر دیا ہے برابری پر (یکساں طور سے) اور میں نہیں جانتا جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور؟ (۱۰۹)

بیشک وہ جانتا ہے پکار کر کہی ہوئی بات کو (بھی) اور وہ (بھی) جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔ (۱۱۰)

اور میں نہیں جانتا شاید (عذاب میں تاخیر) تمہارے لئے آزمائش ہو اور ایک مدت تک فائدہ پہنچانا ہو۔ (۱۱۱)

نبی نے کہا اے میرے رب! تو حق کے ساتھ فیصلہ فرما، اور ہمارا رب نہایت مہربان ہے، اس سے مدد طلب کی جاتی ہے (ان باتوں) پر جو تم بیان کرتے (بناتے) ہو۔ (۱۱۲)

٭٭

 

 

 

۲۲۔ سورۃالحج

 

 

مدنیۃ

آیات:۷۸  رکوعات:۱۰

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی بھاری چیز ہے۔ (۱)

جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی جس (بچہ) کو دودھ پلاتی ہے، اسے بھول جائے گی، اور ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی، اور تو لوگوں کو دیکھے گا (جیسے وہ) نشے میں ہوں حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب سخت ہے۔ (۲)

اور کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارہ میں بے جانے بوجھے جھگڑا کرتے ہیں، اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ (۳)

اس کی نسبت لکھ دیا گیا کہ جو اس سے دوستی کرے گا تو وہ بیشک اسے گمراہ کر دے گا اور اسے دوزخ کے عذاب کی طرف راہ دکھائے گا۔ (۴)

اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) جی اٹھنے سے شک میں ہو تو (سوچو) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کی بوٹی سے، صورت بنی ہوئی اور بغیر صورت بنی (ادھوری)، تاکہ ہم تمہارے لئے (اپنی قدرت) ظاہر کر دیں اور ہم (ماؤں کے) رحموں میں جو چاہیں ایک مدت تک ٹھہراتے ہیں، پھر ہم تمہیں نکالتے ہیں بچہ (کی صورت میں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں کوئی (عمر طبعی سے قبل) فوت ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی پہنچتا ہے نکمی عمر تک، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے (ناسمجھ ہو جائے)، اور تو زمین کو دیکھتا ہے خشک پڑی ہوئی، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو وہ تر و تازہ ہو گئی، اور ابھر آئی، اور وہ اگا لائی ہر (قسم) کا جوڑا رونق دار۔ (۵)

یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور یہ کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۶)

اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں شک نہیں، اور یہ کہ اللہ اٹھائے گاجو قبروں میں ہے۔ (۷)

اور لوگوں میں کوئی (ایسا بھی ہے) جو اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے، بغیر کسی علم کے، اور بغیر کسی دلیل کے، اور بغیر کسی کتاب روشن کے۔ (۸)

(تکبر سے) اپنی گردن موڑے ہوئے تاکہ اللہ کے راستہ سے گمراہ کرے، اس کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ہم اسے روز قیامت جلتی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔ (۹)

یہ اسی سبب سے جو تیرے ہاتھوں نے (آگے) بھیجا (تیرے اعمال) اور یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (۱۰)

اور لوگوں میں (کوئی ایسا بھی ہے) جو ایک کنارے پر اللہ کی بندگی کرتا ہے، پھر اگر اسے بھلائی پہنچ گئی تو اس (عبادت) سے اطمینان پا لیا، اور اسے اگر کوئی آزمائش پہنچی تو اپنے منہ کے بل پلٹ گیا، دنیا اور آخرت کے گھاٹے میں رہا، یہی ہے کھلا گھاٹا۔ (۱۱)

وہ اللہ کے سوا پکارتا ہے (اس کو) جو نہ اسے نقصان پہنچاس کے اور نہ اسے نفع پہنچاس کے، یہی ہے انتہا درجہ کی گمراہی۔ (۱۲)

وہ پکارتا ہے اس کو جس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے، بیشک برا ہے (یہ) دوست، اور برا ہے (یہ) رفیق۔ (۱۳)

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے درست عمل کئے، بیشک اللہ انہیں ان باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (۱۴)

جو شخص گمان کرتا ہے کہ اللہ اس (رسول) کی ہرگز مدد نہ کرے گا دنیا اور آخرت میں، تو اسے چاہئے کہ ایک رسی آسمان کی طرف تانے پھر اسے کاٹ ڈالے (اپنے گلے میں پھندا ڈال لے) (۱۵)

اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو اتار ا روشن آیتیں اور یہ کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (۱۶)

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے، اور ستارہ پرست، اور نصاریٰ اور آتش پرست، اور مشرک، بےشک اللہ فیصلہ کر دے گا روز قیامت ان کے درمیان، بے شک اللہ ہر چیز پر مطلع ہے۔ (۱۷)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے لئے سجدہ کرتا ہے جو (بھی) آسمانوں میں اور جو (بھی) زمین میں ہے، اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے انسان (بھی) اور بہت سے ہیں کہ ثابت ہو گیا ہے اس پر عذاب، اور جسے اللہ ذلیل کرے اس کے لئے کوئی عزت دینے والا نہیں اور بیشک اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ (۱۸)

یہ دونوں فریق اپنے رب کے بارے میں جھگڑے، پس جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے قطع کئے گئے (بیونتے گئے) ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ (۱۹)

اس سے پگھل جائے گا جو ان کے پیٹوں میں ہے  (۲۰)

اور (ان کی) کھالیں (بھی) اور ان کے لئے لوہے کے گرز ہیں۔ (۲۱)

جب بھی وہ غم کے مارے اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو۔ (۲۲)

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے بیشک اللہ انہیں باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، اس میں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے، اور اس میں ان کا لباس ریشم (کا ہو گا)۔ (۲۳)

اور انہیں ہدایت کی گئی پاکیزہ بات کی طرف، اور ہدایت کی گئی تعریفوں کے سزا وار (اللہ) کے راستہ کی طرف۔ (۲۴)

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ روکتے ہیں اللہ کے راستہ سے اور بیت اللہ سے جسے ہم نے مقرر کیا ہے سب لوگوں کے لئے، اس میں رہنے والے اور پردیسی برابر ہیں (حقوق میں) اور جو اس میں ظلم سے گمراہی کا ارادہ کرے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (۲۵)

(۲۶)

اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو کہ وہ تیرے پاس پیدل اور دبلی اونٹنیوں پر (بھی) آئیں، وہ آتی ہیں ہر دور دراز راستہ سے۔ (۲۷)

تاکہ وہ اپنے فائدوں کی جگہ آ موجود ہوں، اور وہ اللہ کا نام لیں مقررہ دنوں میں (ذبح کرتے وقت) ان مویشی چوپائیوں پر جو ہم نے انہیں دئیے ہیں، پس ان میں سے تم (خود بھی) کھاؤ اور بد حال محتاج کو (بھی ) کھلاؤ۔ (۲۸)

پھر چاہئیے کہ اپنا میل کچیل دور کریں، اور اپنی نذریں (منتیں) پوری کریں، اور قدیم گھر (بیت اللہ ) کا طواف کریں۔ (۲۹)

یہ (ہے حکم) اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرے، پس وہ (تعظیم ) اس کے رب کے نزدیک اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارے لئے مویشی حلال قرار دئے گئے ان کے سوا جو تم پر پڑھ دئیے گئے (سنادئے گئے ) پس تم بچو (کنارہ کش رہو) بتوں کی گندگی سے، اور  بچو جھوٹی بات سے۔ (۳۰)

اللہ کے لئے یک رخ ہو کر (کسی کو) نہ شریک کرنے والے اس کے ساتھ، اور جو کوئی اللہ کا شریک کرے گا تو گویا وہ آسمان سے گرا، پھر اسے (مردار خوار) پرندے اچک لے جاتے ہیں، یا پھینک دیتی ہے اس کو ہوا کسی دور دراز کی جگہ میں۔ (۳۱)

یہ (ہے حکم) اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرے گا تو بیشک یہ (اللہ کی نشانیوں کی تعظیم) دلوں کی پرہیز گاری سے ہے۔ (۳۲)

تمہارے لئے ان (مویشیوں) میں ایک مدت مقررہ تک فائدے (حاصل کرنا جائز) ہے، پھر ان کے پہنچنے کا مقام بیت قدیم (بیت اللہ) تک ہے۔ (۳۳)

اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ اللہ کا نام لیں (ذبح کرتے وقت) ان مویشیوں چوپائیوں پر جو ہم نے انہیں دئیے ہیں، پس تمہارا معبود، معبود یکتا ہے، پس اس کے فرمانبردار ہو جاؤ، اور  (اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ) عاجزی سے گردن جھکانے والوں کو خوشخبری دیں۔ (۳۴)

وہ (جن کی کیفیت یہ ہے) جب اللہ کا نام لیا جائے ان کے دل ڈر جاتے ہیں، اور صبر کرنے والے ہیں، اس پر جو انہیں پہنچے، اور نماز قائم کرنے والے ہیں، اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (۳۵)

اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) مقرر کئے، تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے، پس اللہ کا نام لو (ذبح کرتے وقت) ان پر قطار باندھ کر، پھر جب ان کے پہلو (زمین پر ) گر جائیں (ذبح ہو جائیں) لو ان میں سے (خود بھی) کھاؤ اور کھلاؤ، سوال نہ کرنے والوں کو، اور سوال کرنے والوں کو، اسی طرح ہم نے انہیں تمہارے لئے مسخر (زیر فرمان) کیا ہے تاکہ تم شکر کرو (احسان مانو)۔ (۳۶)

اللہ کو ہر گز نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، بلکہ اس کو پہنچتا ہے تقوی (تمہارے دلوں کی پرہیز گاری ) اسی طرح ہم نے انہیں تمہارے لئے مسخر (زیر فرمان) کیا ،  تاکہ تم اللہ کو بڑائی سے یاد کرو اس پر جو اس نے تمہیں ہدایت دی، اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیں۔ (۳۷)

بیشک اللہ دور کرتا ہے مؤمنوں سے (دشمنوں کے ضرر) بیشک اللہ کسی بھی دغا باز (خائن) ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔ (۳۸)

جن سے (کافر) لڑتے ہیں ا ن لوگوں کو اذن (جہاد) دیا گیا کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللہ ان کی مدد پر ضرور قدرت رکھتا ہے۔ (۳۹)

جو لوگ نکالے گئے اپنے شہروں سے ناحق، صرف (اس بنا پر) کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے، اور اگر اللہ دفع نہ کرتا لوگوں کو ایک دوسرے سے تو صومعے (راہبوں کے خلوت خانے) اور (نصاریٰ کے) گرجے اور (یہود کے) عبادت خانے اور  (مسلمانوں کی ) مسجدیں ڈھا دی جاتیں، جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے، اور البتہ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے، بیشک اللہ توانا غالب ہے۔ (۴۰)

وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں ملک میں دسترس (اختیار) دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور نیک کاموں کا حکم دیں، اور برائی سے روکیں، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کہ لئے ہے۔ (۴۱)

اور اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے قبل جھٹلایا نوح کی قوم نے اور عاد اور ثمود نے۔ (۴۲)

اور ابراہیم کی قوم نے اور قوم لوط نے۔ (۴۳)

اور مدین والوں نے اور موسیٰ کو (بھی) جھٹلایا گیا، پس میں نے کافروں کو ڈھیل دی، پھر میں نے انہیں پکڑ لیا، تو کیسا ہوا میرے انکار (کا انجام) ! (۴۴)

سو کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا اور وہ ظالم تھیں، تو یہ (اب) اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں، اور (کتنے ہی) کنوئیں بے کار پڑے ہیں، اور بہت سے گچ کاری کے (پختہ) محل (ویران پڑے ہیں)۔ ( ۴۵)

کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں جو ان کے دل (ایسے) ہو جاتے کہ ان سے سمجھنے لگتے، یا ان کے کان (ایسے ہو جاتے کہ) ان سے سننے لگتے، کیونکہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں، بلکہ دل جو سینوں میں ہیں اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔ (۴۶)

اور وہ تم سے عذاب جلدی مانگتے ہیں اور ہر گز اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا اور بیشک تمہارے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے مانند ہے اس سے جو تم گنتے ہو (تمہارے حساب میں)۔ (۴۷)

اور کتنی ہی بستیاں ہیں میں نے ان کو ڈھیل دی اور وہ ظالم تھیں، پھر میں نے انہیں پکڑا، اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ (۴۸)

فرما دیں، اے لوگو! اس کے سوا نہیں کہ میں تمہارے لئے آشکارا ڈرانے والا ہوں۔ (۴۹)

پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے، ان کے لئے بخشش اور با عزت روزی ہے۔ (۵۰)

اور جن لوگوں نے کوشش کی (اپنے زعم میں) ہماری آیات کے ہرانے میں، وہی ہیں دوزخ والے۔ (۵۱)

اور ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی، مگر جب اس نے آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈالا، پس شیطان جو ڈالتا ہے، اللہ مٹا دیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا ہے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۵۲)

تاکہ (اس وسوسہ کو) جو شیطان ڈالا ان لوگوں کے لئے آزمائش بنا دے جن کے دلوں میں روگ ہے، اور ان کے دل سخت ہیں، اور بیشک ظالم البتہ سخت ضد میں ہیں۔ (۵۳)

اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہ یہ تمہارے رب (کی طرف سے) حق ہے تو اس پر ایمان لے آئیں، اور اس کے لئے جھک جائیں ان کے دل، اور بیشک اللہ ان لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت دینے والا ہے جو ایمان لائے۔ (۵۴)

اور وہ ہمیشہ رہیں گے اس سے شک میں جن لوگوں نے کفر کیا، یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آ جائے، یا ان پر آ جائے منحوس دن کا عذاب۔ (۵۵)

اس دن بادشاہی اللہ کے لئے ہے، وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے وہ نعمت کے باغات میں ہوں گے۔ (۵۶)

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا انہی کے لئے ہے ذلت کا عذاب۔ (۵۷)

اور جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، پھر مارے گئے (شہید ہو گئے) یا مر گئے، اللہ البتہ انہیں اچھا رزق دے گا، اور اللہ بے شک سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ (۵۸)

وہ البتہ انہیں ضرور ایسے مقام میں داخل کرے گا جسے وہ پسند فرمائیں گے، اور اللہ بیشک علم والا، حلم والا ہے۔ (۵۹)

اور جس نے دشمن کو (اسی قدر) ستایا جیسے اسے ستایا گیا تھا، پھر اس پر زیادتی کی گئی تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا، بیشک اللہ البتہ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔ (۶۰)

یہ اس لئے ہے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور یہ کہ اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (۶۱)

یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور یہ کہ جسے وہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے، اور یہ کہ اللہ ہی بلند مرتبہ، بڑا ہے۔ (۶۲)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں سے پانی اتارا تو زمین سر سبز ہو گئی، بے شک اللہ نہایت مہربان، خبر رکھنے والا ہے۔ (۶۳)

اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے اور بیشک اللہ وہی بے نیاز، تمام خوبیوں والا ہے۔ (۶۴)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے مسخر کیا جو کچھ زمین میں ہے، اور کشتی اس کے حکم سے دریا میں چلتی ہے، اور وہ آسمانوں کو روکے ہوئے ہے کہ وہ زمین پر نہ گر پڑے، مگر اس کے حکم سے، بیشک اللہ لوگوں پر بڑا شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۶۵)

اور وہی ہے جس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تمہیں مارے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، بے شک انسان بڑا ناشکرا ہے۔ (۶۶)

ہم نے ہر امت کے لئے ایک طریقِ عبادت مقرر کیا ہے، وہ اس پر (اسی کے مطابق) بندگی کرتے ہیں، سوچاہئیے کہ اس معاملہ میں نہ جھگڑیں، اور اپنے رب کی طرف بلائیں، بیشک تم ہو سیدھی راہ پر۔ (۶۷)

اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۶۸)

اللہ روز قیامت تمہارے درمیان اس بات کا فیصلہ کرے گا، جس میں تم اختلاف کرتے تھے۔ (۶۹)

کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے، بیشک یہ کتاب میں ہے، بے شک یہ اللہ پر آسان ہے۔ (۷۰)

کوئی علم نہیں، اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں۔ (۷۱)

اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو تم کافروں کے چہروں پر ناخوشی (کے آثار) پہچان لو گے، قریب ہے کہ وہ ان پر حملہ کر دیں جو ان پر ہماری آیتیں پڑھتے ہیں، فرما دیں کیا میں تمہیں بتلاؤں اس سے بدتر ہے، وہ دوزخ، جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کیا اور برا ہے (وہ) ٹھکانا (۷۲)

اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے پس اس کو (کان کھول کر) سنو، بیشک جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ہرگز ایک مکھی (بھی) نہ پیدا کر سکیں گے خواہ اس کے لئے وہ سب جمع ہو جائیں، اور اگر مکھی ان سے چھین لے تو وہ اس سے نہ چھڑاس کیں گے (کتنا) بودا ہے چاہنے والا، اور جس کو چاہا (وہ بھی)۔ (۷۳)

انہوں نے اللہ کی قدر نہ جانی (جیسے) اس کی قدر کرنے کا حق تھا، بیشک اللہ قوت والا غالب ہے۔ (۷۴)

اللہ فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے پیغام پہنچانے والا چن لیتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (۷۵)

وہ جانتا ہے جو ان کے آگے اور جو ان کے پیچھے ہے اور اللہ (ہی) کی طرف سارے کاموں کی باز گشت ہے۔ (۷۶)

اے ایمان والو! تم رکوع کرو، اور سجدہ کرو، اور عبادت کرو اپنے رب کی اور اچھے کام کرو تاکہ تم دو جہان میں کامیابی پاؤ (۷۷)

اور (اللہ کی راہ میں) کوشش کرو (جیسے) کوشش کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں چنا، اور تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، (یعنی) تمہارے باپ ابراہیم کا دین، اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے قبل (بھی) اور اس (قرآن) میں بھی، تاکہ رسول (اکرم) تمہارے نگران و گواہ ہوں اور تم نگران و گواہ ہو لوگوں پر، پس نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ (کی رسی) کو مضبوطی سے تھام لو، وہ تمہارا کار ساز ہے، سو کیا ہی اچھا ہے کار ساز اور کیا ہی اچھا ہے مددگار۔ (۷۸)

٭٭

 

 

 

 

۲۳۔ سورۃالمؤمنون

 

 

مکیۃ

آیات:۱۱۸        رکوعات:۶

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

(دونوں جہان میں) کامیاب ہوئے وہ مؤمن جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ (۱)

اور وہ جو بیہودہ باتوں سے منہ پھیر نے والے ہیں۔ (۳)

اور وہ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ (۴)

اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۵)

مگر اپنی بیویوں سے یا جن کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ (کنیزوں سے) بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (۶)

پس جو ان کے سوا چاہے تو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (۷)

اور (کامیاب ہیں وہ مؤمن) وہ جو اپنی امانتوں کی اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ (۸)

اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۹)

یہی لوگ ہیں جو وارث ہوں گے۔ (۱۰)

جو وارث ہوں گے (جنت) فردوس کے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۱۱)

اور البتہ ہم نے انسان کو چنی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (۱۲)

پھر ہم نے اسے مضبوط جگہ میں نطفہ ٹھہرایا (۱۳)

پھر بیشک اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو۔ (۱۵)

پھر بلا شبہ تم روزِ قیامت اٹھائے جاؤ گے۔ (۱۶)

اور تحقیق ہم نے تمہارے اوپر بنائے سات راستے اور ہم پیدائش سے غافل نہیں۔ (۱۷)

اور ہم نے آسمانوں سے پانی اتارا ایک اندازہ کے ساتھ، پھر اس کو ہم نے زمین میں ٹھہرایا، اور بیشک ہم اس کو لے جانے پر (بھی) قادر ہیں۔ (۱۸)

پس ہم نے پیدا کئے اس سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات، تمہارے لئے ان میں بہت سے میوے ہیں، اور اس سے تم کھاتے ہو۔ (۱۹)

اور درخت (زیتون) جو طور سینا سے نکلتا ہے، وہ اگتا ہے تیل اور سالن لئے ہوئے کھانے والوں کی لئے۔ (۲۰)

اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں مقام عبرت ہے، ہم تمہیں ان سے پلاتے ہیں (دودھ) جو ان کے پیٹوں میں ہے، اور تمہارے لئے ان میں (اور) بہت سے فائدے ہیں، اور ان میں سے (بعض ) تم کھاتے ہو۔ (۲۱)

اور ان میں (بعض ) تم کھاتے ہو، اور ان پر اور کشتی پر سوار کئے جاتے ہو (۲۲)

اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے لئے کوئی معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۲۳)

تو اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کیا، بولے یہ (کچھ بھی) نہیں مگر تم جیسا ایک بشر ہے، وہ چاہتا ہے کہ تم پر بڑا بن بیٹھے، اور اگر اللہ چاہتا تو اتارتا فرشتے، ہم نے اپنے پہلے باپ دادا سے یہ (کبھی) نہیں سنا۔ (۲۴)

وہ (کچھ بھی) نہیں مگر ایک آدمی ہے جس کو جنون ہو گیا ہے سو تم اس کا ایک مدت تک انتظار کرو۔ (۲۵)

اس نے کہا اے میرے رب ! میری مدد فرما اس پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا۔ (۲۶)

تو ہم نے وحی بھیجی اس کی طرف کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے حکم سے کشتی بناؤ، پھر جب ہمارا حکم آئے اور تنور ابلنے لگے، تو اس (کشتی ) میں ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو (ایک نر ایک مادہ) رکھ لو، اور اپنے گھر والے (بھی سوار کر لو) اس کے سوا (اس کے غرق ہونے پر) حکم ہو چکا  ہے ان میں سے، اور مجھ سے ان کے بارے میں بات نہ کرنا جنہوں نے ظلم کیا ہے، بیشک وہ غرق کئے جانے والے ہیں۔ (۲۷)

پھر جب بیٹھ جاؤ کشتی پر تم اور تمہارے ساتھی، تو کہنا تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہ جس نے ہمیں نجات دی ظالموں کی قوم سے۔ (۲۸)

اور کہو اے میرے رب! مجھے مبارک (جگہ) منزل پر اتار، اور تو بہترین اتارنے والا ہے۔ (۲۹)

بیشک اس میں البتہ نشانیاں ہیں، اور بیشک ہم آزمائش کرنے والے ہیں۔ (۳۰)

پھر ہم نے ان کے بعد پیدا کیا دوسرا گروہ۔ (۳۱)

پھر ہم نے ان کے درمیان انہی میں سے رسول بھیجے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۳۲)

اور اس کی قوم کے ان سرداروں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، اور آخرت کی حاضری کو جھٹلایا، اور ہم نے انہیں دنیا کی زندگی میں عیش دیا تھا، یہ نہیں ہے مگر تمہیں جیسا ایک بشر ہے، وہ اسی میں سے کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو، اور اسی میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔ (۳۳)

اور اگر تم نے اپنے جیسے ایک بشر کی اطاعت کی، تو بیشک تم اس وقت گھاٹے میں رہو گے۔ (۳۴)

کیا وہ تمہیں وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مر گئے اور تم مٹی اور ہڈیاں ہو گئے تو تم (پھر) نکالے جاؤ گے۔ ( ۳۵)

بعید ہے، بعید ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ (۳۶)

(اور کچھ) نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم نہیں ہیں پھر اٹھائے جانے والے۔ (۳۷)

وہ (کچھ) نہیں مگر ایک آدمی ہے، اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اور ہم نہیں ہیں اس پر ایمان لانے والے۔ (۳۸)

اس نے عرض کیا اے میرے رب! اس پر میری مدد فرما کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ (۳۹)

اس نے فرمایا وہ بہت جلد ضرور پچھتاتے رہ جائیں گے۔ (۴۰)

پس انہیں چنگھاڑ نے وعدۂ حق کے مطابق آ پکڑا، سو ہم نے انہیں خس و خاشاک کی طرح کر دیا، پس مار ہو ظالموں کی قوم کے لئے۔ (۴۱)

پھر ہم نے ان کے بعد اور امتیں پیدا کیں۔ (۴۲)

کوئی امت اپنی (مقررہ) میعاد سے نہ سبقت کرتی ہے اور نہ پیچھے رہ جاتی ہے۔ (۴۳)

پھر ہم نے پے درپے رسول بھیجے جب بھی کسی امت میں اس کا رسول آیا انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم (ہلاک کرنے کے لئے) پیچھے لائے (بھولی بسری باتیں) ان میں سے ایک کو دوسرے کے، اور ہم نے انہیں افسانے بنایا سو (اللہ کی) مار ان لوگوں کے لئے جو ایمان نہیں لائے۔ (۴۴)

پھر ہم نے بھیجا موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلے دلائل کے ساتھ۔ (۴۵)

فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔ (۴۶)

پس انہوں نے کہا کیا ہم اپنے جیسے (ان) دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں؟ اور ان کی قوم (کے لوگ) ہماری خدمت کرنے والے تھے۔ (۴۷)

پس انہوں نے دونوں کو جھٹلایا تو وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہو گئے۔ (۴۸)

اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تاکہ وہ لوگ ہدایت پالیں۔ (۴۹)

اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسی) اور ان کی ماں کو ایک نشانی بنایا اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا ایک بلند ٹیلہ پر جو ٹھہرنے کا مقام اور جاری پانی کی (شاداب) جگہ تھی۔ (۵۰)

اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک جو تم کرتے ہو میں اسے جاننے والا ہوں (جانتا ہوں)۔ (۵۱)

اور بیشک یہ تمہاری امت ایک امت واحدہ ہے، اور میں تمہارا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو۔ (۵۲)

پھر انہوں نے آپس میں اپنا کام ٹکڑے ٹکڑے کاٹ لیا، (پھر) ہر گروہ والے اس پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔ (۵۳)

پس انہیں ان کی غفلت میں ایک مدت مقررہ تک چھوڑ دے۔ (۵۴)

کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ ان کی مدد کر رہے ہیں مال اور اولاد کے ساتھ۔ (۵۵)

ہم ان کے لئے بھلائی میں جلدی کر رہے ہیں، (نہیں) بلکہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ (۵۶)

بیشک جو لوگ اپنے رب کے ڈر سے سہمے ہوئے ہیں۔ (۵۷)

اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ (۵۸)

اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔ (۵۹)

اور جو لوگ دیتے ہیں، جو کچھ وہ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (۶۰)

یہی لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور وہ ان کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں۔ (۶۱)

اور ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق، اور ہمارے پاس (اعمال کا) ایک رجسٹر ہے ٹھیک ٹھیک بتلاتا ہے، اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔ (۶۲)

بلکہ ان کے دل اس (حقیقت) سے غفلت میں ہیں اور ان کے اس کے علاوہ (اور بھی برے عمل ہیں) جو وہ کرتے ہیں۔ (۶۳)

یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے خوشحال لوگوں کو پکڑا عذاب میں تو اس وقت وہ فریاد کرنے لگے۔ (۶۴)

آج فریاد نہ کرو تم ہماری (طرف) سے، مدد نہ دئیے جاؤ گے (مطلق مدد نہ پاؤ گے)۔ (۶۵)

البتہ میری آیتیں تم پر پڑھی جاتی تھیں، تو تم اپنی ایڑیوں کے بل (الٹے) پھر جاتے تھے۔ (۶۶)

تکبر کرتے ہوئے اس کےساتھ افسانہ گوئی کرتے، بیہودہ بکواس کرتے ہوئے۔ (۶۷)

کیا پس انہوں نے (اس) کلام (حق) پر غور نہیں کیا؟ یا ان کےپاس وہ آیا جو نہیں آیا تھا ان کے پہلے باپ دادا (بڑوں) کے پاس۔ (۶۸)

یا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا تو اس لئے ان کے منکر ہیں۔ (۶۹)

یا وہ کہتے ہیں اس کو دیوانگی ہے؟بلکہ وہ ان کےپاس حق بات کے ساتھ آیا ہے اور ان میں سے اکثر حق بات سے نفرت رکھنے والے ہیں۔ (۷۰)

اور اگر اللہ تعالی ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو البتہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے درہم برہم ہو جاتا، بلکہ ہم ان کے پاس ان کی نصیحت لائے ہیں، پھر وہ اپنی نصیحت (کی بات سے) روگردانی کرنے والے ہیں۔ (۷۱)

کیا تم ان سے اجر مانگتے ہو؟تو تمہارے رب کا اجر بہتر ہے، اور وہ بہتر روزی دہندہ ہے۔ (۷۲)

اور بیشک تم انہیں بلاتے ہو راہِ راست کی طرف۔ (۷۳)

اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے، بیشک وہ راہِ حق سے ہٹے ہوئے ہیں۔ (۷۴)

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو ان پر تکلیف ہے وہ دور کر دیں تو وہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں، بھٹکتے پھریں۔ (۷۵)

اور البتہ ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا پھر نہ انہوں نے عاجزی کی اور نہ وہ گڑ گڑائے۔ (۷۶)

ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اس وقت وہ اس میں مایوس ہو گئے۔ (۷۷)

 

رکوع 5 ؟؟

 

اے میرے رب ! جو ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اگر تو مجھے دکھا دے۔ (۹۳)

اے میرے رب! پس تو مجھے ظالم لوگوں میں (شامل) نہ کرنا۔ (۹۴)

اور بیشک ہم اس پر قادر ہیں کہ ہم ان سےجو وعدہ کر رہے ہیں تمہیں دکھا دیں۔ (۹۵)

سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو، ہم خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۹۶)

اور آپ فرما دیں، اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے۔ (۹۷)

اور میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ (۹۸)

(وہ غفلت میں رہتے ہیں) یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہتا ہے، اے میرے رب! مجھے (پھر دنیا میں) واپس بھیج دے۔ (۹۹)

ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک برزخ (آڑ) ہے جس دن (قیامت) تک کہ وہ اٹھائے جائیں گے۔ (۱۰۰)

پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتے رہیں گے اس دن ان کے درمیان اور نہ کوئی ایک دوسرے کو پوچھے گا۔ (۱۰۱)

پس جس (کے اعمال ) کا پلہ بھاری ہوا پس وہی لوگ فلاح (نجات) پانے والے ہوں گے۔ ( ۱۰۲)

اور جس (کے اعمال) کا پلہ ہوا تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارہ میں ڈالا، وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ (۱۰۳)

آگ ان کے چہرے جھلس دے گی اور وہ اس میں تیوری چڑھائے ہوں گے۔ (۱۰۴)

کیا میری آیتیں تم پر نہ پڑھی جاتی (سنائی جاتی) تھیں؟پس تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ (۱۰۵)

وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بد بختی غالب آ گئی، اور ہم راستے سے بھٹکے ہوئے لوگ تھے۔ ( ۱۰۶)

اے ہمارے رب! ہمیں اس سے نکال لے پھر اگر ہم نے دوبارہ (وہی) کیا تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ (۱۰۷)

فرمائے گا :پھٹکارے ہوئے اس میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔ (۱۰۸)

بیشک ہمارے بندوں کا ایک گروہ تھا وہ کہتے تھے اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے سو ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (۱۰۹)

پس تم نے انہیں ٹھٹھا بنا لیا، یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں میری یاد بھلا دی اور تم ان ےس ہنسی کیا کرتے تھے۔ (۱۱۰)

اس کے بدلے کہ انہوں نے صبر کیا بیشک میں نے آج انہیں جزا دی، بیشک وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ (۱۱۱)

(اللہ تعالی) فرمائے گا تم دنیا میں سالوں کے حساب سے کتنی مدت رہے؟ (۱۱۲)

وہ کہیں گے ہم ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ رہے، پس شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔ (۱۱۳)

فرمائے گا تم صرف تھوڑا عرصہ رہے کاش! تم (یہ حقیقت دنیا میں) جانتے ہوتے۔ (۱۱۴)

کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا؟ اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۱۵)

کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا ؟ اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے، پس بلند تر ہے اللہ حقیقی بادشاہ، اس کےسوا کوئی معبود نہیں، عزت والا عرش کا مالک۔ (۱۱۶)

اور جو کوئی پکارے اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود، اس کے پاس اس کے لئے کوئی سند نہیں سواس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے، بیشک کامیابی نہیں پائیں گے کافر۔ (۱۱۷)

٭٭

 

 

 

 

۲۴۔ سورۃالنور

 

 

مدنیۃ

آیات:۶۴  رکوعات:۹

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

یہ ایک سورۃ ہے جو ہم نے نازل کی، اور اس (کے احکام) کو لازم کیا، اور ہم نے اس میں واضح آیتیں نازل کیں، تاکہ تم یاد رکھو (دھیان دو)۔ (۱)

بد کار عورت اور بد کار مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سوکوڑے مارو، اور ان پر نہ کھاؤ ترس، اللہ کا حکم (چلانے) میں، اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان کی سزا (کے وقت) حاضر ہومسلمانوں کی ایک جماعت۔ (۲)

بدکار مرد بد کار عورت یا مشرکہ کے سوا نکاح نہیں کرتا، اور بدکار عورت (بھی) بدکار یا شرک کرنے والے مرد کے سوا (کسی سے) نکاح نہیں کرتی، اور یہ (ایسا نکاح) مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے۔ (۳)

اور جو لوگ تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر، پھر وہ (اس پر) چار گواہ نہ لائیں تو تم انہیں اسی کوڑے مارو، اور تم قبول نہ کرو کبھی انکی گواہی، یہی نافرمان لوگ ہیں۔ (۴)

مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور انہوں نے اصلاح کر لی، تو بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۵)

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں، تو ان میں سے ہر ایک کی گواہی یہ ہے کہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے (سچا ہے)۔ (۶)

اور پانچویں بار یہ کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے (جھوٹا ہے)۔ (۷)

اور اس عورت سے ٹل جائے گی سزا اگر وہ چار بار اللہ کی قسم کے ساتھ گواہی دے کے وہ (مرد) البتہ جھوٹوں میں سے ہے (جھوٹا ہے)۔ (۸)

اور پانچویں بار یہ کہ اس عورت پر (مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچوں میں سے ہے (سچا ہے) (۹)

اور اگر تم پر نہ ہوتا اللہ کا فضل اور اس کی رحمت (تو یہ مشکل حل نہ ہوتی) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا، حکمت والا ہے۔ (۱۰)

بیشک جو لوگ بڑا بہتان لائے تم (ہی) میں سے ایک جماعت ہیں، تم اسے اپنے لئے برا گمان نہ کرو،  بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے، ان میں سے ہر آدمی کے لئے جتنا اس نے کیا (اتنا) گناہ ہے، اور جس نے اس کا بڑا (طوفان) اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۱۱)

جب تم نے وہ (بہتان ) سنا تو کیوں نہ گمان کیامسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے بارے میں (گمانِ) نیک اور انہوں نے (کیوں نہ) کہا یہ صریح بہتان ہے۔ (۱۲)

وہ کیوں نہ لائے اس پر چار گواہ، پس جب وہ گواہ نہ لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ (۱۳)

اور اگر تم پر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس (شغل میں) تم پڑے تھے تم پر ضرور پڑتا بڑا عذاب۔ (۱۴)

جب تم ( ایک دوسرے سے سن کر) اسے اپنی زبان پر لاتے تھے، اور تم اپنے منہ سے کہتے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا، اور تم اسے ہلکی بات گمان کرتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ (۱۵)

اور جب تم نہ وہ سنا کیوں نہ کہا؟ کہ ہمارے لئے (زیبا) نہیں ہے کہ ہم ایسی بات کہیں (اے اللہ ) تو پاک ہے، یہ بڑا بہتان ہے۔ (۱۶)

اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، (مبادا) ایسا کام پھر کبھی کرو، اگر تم ایمان والے ہو۔ (۱۷)

اور اللہ تمہارے لئے احکام (صاف صاف) بیان کرتا ہے، اور اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (۱۸)

بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مؤمنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ (۱۹)

اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہو جاتا) اور یہ کہ اللہ شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۲۰)

اے مؤمنو! تم شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، اور جو شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو وہ (شیطان) حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور بری بات کا، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی آدمی کبھی بھی پاک نہ ہوتا، اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۲۱)

اور قسم نہ کھائیں تم میں سے فضیلت والے، اور  (مال میں) وسعت والے کہ وہ قرابت داروں کو، مسکینوں کو، اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے، اور چاہئیے کہ وہ معاف کر دیں، اور درگزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟ اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۲۲)

بیشک جو لوگ پاکدامن، انجان مؤمن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۲۳)

جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے اس کی جو وہ کرتے تھے۔ (۲۴)

اس دن اللہ انہیں ان کی سزا ٹھیک ٹھیک پوری دے گا، اور جان لیں گے کہ اللہ ہی برحق ہے (حق کو) ظاہر کرنے والا ہے۔ (۲۵)

گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لئے ہیں، اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں، اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہیں، یہ لوگ اس سے مبرا (بری) ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔ (۲۶)

اے مؤمنو! تم اپنے گھروں کے سوا (دوسرے) گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کر لو، یہ تمہارے لئے بہتر، تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ (۲۷)

پھر اگراس (گھر) میں تم کسی کو نہ پاؤ تو اس میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تمہیں اجازت دی جائے، اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو تم لوٹ جایا کرو، یہی تمہارے لئے زیادہ ستھرا ہے، اور جو تم کرتے ہو اللہ جاننے والا ہے۔ (۲۸)

تم پر (اس میں) کوئی گناہ نہیں اگر تم ان گھروں میں داخل ہو جن میں کسی کی سکونت (رہائش) نہیں، جس میں تمہاری کوئی چیز ہو اور اللہ (خوب) جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ (۲۹)

آپ فرما دیں مؤمن مردوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ ستھرا ہے بیشک اللہ اس سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۳۰)

اور آپ فرما دیں مؤمن عورتوں کو کہ وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت (کے مقامات) کو ظاہر کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوا (جس کا ظاہر ہونا ناگزیر ہے) اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت (کے مقام) ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر، یا اپنے باپ، یا اپنے خسر، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے شوہر کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں پر، یا اپنے بھتیجوں پر، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی مسلمان عورتوں، یا اپنی کنیزوں، یا وہ خدمت گار مرد جو (عورتوں سے) غرض نہ رکھنے والے ہوں، یا وہ لڑکے جو ابھی واقف نہیں عورتوں کے پردے (کے معاملات سے) اور وہ اپنے پاؤں (زمین پر) نہ ماریں کہ وہ اپنی زینت چھپائے ہوئے ہیں پہچان لی جائے، اے ایمان والو! تم سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم دو جہان کی کامیابی پاؤ۔ (۳۱)

اور تم نکاح کرو اپنی بیوہ عورتوں کا اور اپنے نیک غلاموں، اور اپنی کنیزوں کا، اگر وہ تنگدست ہوں تو اللہ انہیں غنی کر دے گا اپنے فضل سے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (۳۲)

(۳۳)

اور تحقیق ہم نے تمہاری طرف نازل کئے واضح احکام، اور ان لوگوں کی مثالیں جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور نصیحت پرہیز گاروں کے لئے۔ (۳۴)

اللہ نور ہے زمین اور آسمانوں کا، اس کے نور کی مثال (ایسی ہے) جیسے ایک طاق ہو، اس میں ایک چراغ ہو، چراغ ایک شیشہ کی (قندیل میں) ہو، وہ شیشہ گویا ایک چمکدار ستارہ ہے، وہ روشن کیا جاتا ہے مبارک زیتون سے (جس کا رخ) نہ مشرق ہے، نہ مغرب، قریب ہے کہ ا سکا تیل روشن ہو جائے خواہ اسے آگ نہ چھوئے، نور علی نور (سراسر روشنی) ہے، اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف راہ نمائی کرتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے، اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۳۵)

(یہ روشنی ہے) ان گھروں میں (جن کی نسبت) اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے وہ ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ (۳۶)

وہ لوگ (جنہیں) غافل نہیں کرتی کوئی تجارت، نہ خرید و فروخت اللہ کی یاد سے نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں، جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں، تاکہ اللہ ان کے اعمال کی بہتر جزا دے، اور انہیں اپنے فضل سے زیادہ دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ (۳۷)

تاکہ اللہ ان کے اعمال کی بہتر سے بہتر جزا دے، اور انہیں اپنے فضل سے زیادہ دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ (۳۸)

اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال سراب (چمکتے ریت کے دھوکے) کی طرح ہیں چٹیل میدان میں، پیاسا اسے پانی گمان کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں آتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، اور اس نے اللہ کو اپنے پاس پایا تو اللہ نے اس کا حساب پورا کر دیا، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۳۹)

(یا ان کے اعمال ایسے ہیں) جیسے گہرے دریا میں اندھیرے، جنہیں ڈھانپ لیتی ہے موج اس کے اوپر دوسری موج اس کے اوپر بادل، اندھیرے ہیں ایک پر دوسرا، جب وہ اپنا ہاتھ نکالے تو توقع نہیں کہ اسے دیکھ سکے، اور جس کے لئے اللہ نور نہ بنائے اس کے لئے کوئی نور نہیں۔ (۴۰)

کیا تو نے نہیں دیکھا؟کہ اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے جو (ابھی) آسمانوں اور زمین میں ہے، اور پھیلائے ہوئے پرندے (بھی) ہر ایک نے جان لی ہے اپنی دعا، اور اپنی تسبیح، اور اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۴۱)

اور اللہ (ہی) کی بادشاہت ہے آسمانوں کی اور زمین کی اور اللہ (ہی) کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (۴۲)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادل چلاتا ہے، پھر انہیں آپس میں ملاتا ہے، پھر وہ انہیں تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے، پھر تو دیکھے ان کے درمیان سے بارش نکلتی ہے، اور آسمانوں (میں جو اولوں کے) پہاڑ ہیں ان سے اتارتا ہے اولے، پھر وہ جس پر چاہے اسے ڈال دیتا ہے، اور جس سے چاہے وہ اسے پھیر دیتا ہے، قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں (کی بینائی) لے جائے۔ (۴۳)

اللہ رات اور دن کو بدلتا ہے، بیشک اس میں عبرت ہے عقلمندوں کے لئے۔ (۴۴)

اور اللہ نے ہر جانور پانی سے پیدا کیا پس ان میں سے کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے، اور ان میں سے کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے، اور ان میں سے کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے، اللہ پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے، بیشک اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۴۵)

تحقیق ہم نے واضح آیتیں نازل کیں، اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ (۴۶)

اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے حکم مانا، پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فریق پھر گیا، اور وہ ایمان والے نہیں۔ (۴۷)

اور جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں تو ناگہاں ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے۔ (۴۸)

اور اگر ان کے لئے حق (پہنچتا ) ہو تو وہ اس کی طرف گردن جھکائے (خوشی سے) چلے آتے ہیں۔ (۴۹)

کیا ان کے دلوں میں روگ ہے، یا وہ شک میں پڑے ہیں، یا وہ ڈرتے ہیں کہ اللہ اور  اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے، (نہیں) بلکہ وہی ظالم ہیں۔ (۵۰)

مؤمنوں کی بات اس کےسوا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جا تے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں، تو وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور وہی ہیں فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے۔ (۵۱)

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے، اور پرہیزگاری کرے، پس وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (۵۲)

اور انہوں نے اللہ کی زور دار قسمیں کھائیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو وہ ضرور (جہاد کیلئے) نکل کھڑے ہوں گے، آپ فرما دیں تم قسمیں نہ کھاؤ، پسندیدہ اطاعت (مطلوب ہے) بیشک اللہ اس کی خبر رکھتا ہے وہ جو تم کرتے ہو۔ (۵۳)

آپ فرما دیں تم اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، پھر اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا نہیں کہ رسول پر اسی قدر ہے جو اس کے ذمے کیا گیا ہے اور تم پر (لازم ہے) جو تمہارے ذمے کیا گیا ہے، اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پالو گے، اور رسول پر صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ (۵۴)

اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے انہیں ضرور خلافت (سلطنت) دے گا زمین میں، جیسے ان کے پہلوں کو خلافت دی، اور البتہ ان کے لئے ان کا دین ضرور قوت (استحکام) دے گا، جواس نے ان کے لئے پسند کیا، اور البتہ ان کے لئے خوف کے بعد ضرور امن بدل دیگا، وہ میری عبادت کریں گے، میرا شریک نہ کریں گےکسی شے کو، اور جس نے اس کے بعد ناشکری کی، پس وہی لوگ نافرمان ہیں۔ (۵۵)

اور تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (۵۶)

ہر گز گمان نہ کرنا کہ کافر زمین میں عاجز کرنے والے ہیں، اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور (وہ) برا ٹھکانہ ہے۔ (۵۷)

اے ایمان والو! چاہئیے کہ تمہارے غلام تم سے اجازت لیں، اور وہ جو نہیں پہنچے تم میں سے ( حد ) شعور کو، تین وقت (یعنی) نماز فجر سے پہلے اور جب تم اپنے کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو دوپہر کو، اور نماز عشاء کے بعد، تمہارے لئے (یہ) تین پردے (کے اوقات) ہیں، نہیں تم پر اور نہ ان پر ان کے بعد کوئی گناہ، تم میں سے بعض، بعض کے پاس پھیرا کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے احکام واضح کرتا ہے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۵۸)

اور جب تم میں سے لڑکے پہنچیں حد شعور کو، چاہئیے کہ وہ اجازت لیں   جیسے ان سے پہلے اجازت لیتے تھے، اسی طرح اللہ واضح کرتا ہے تمہارے لئے اپنے احکام، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۵۹)

اور جو خانہ نشین بوڑھی عورتیں نکاح کی آرزو نہیں رکھتیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے (زائد) کپڑے اتار رکھیں، زینت (سنگھار) ظاہر نہ کریں، اور اگر وہ (اس سے بھی) بچیں تو ان کے لئے بہتر ہے، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۶۰)

کوئی گناہ نہیں نابینا پر اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے، اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے اور نہ خود تم پر کہ تم کھاؤ اپنے گھروں سے، یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا جس گھر کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہوں، یا اپنے دوست کے گھر سے، تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اکھٹے مل کر کھاؤ، یا جدا جدا، پھر جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، دعائے خیر اللہ کے ہاں سے، بابرکت، پاکیزہ، اسی طرح اللہ تمہارے لئے احکام واضح کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ (۶۱)

اس کےسوا نہیں کہ مؤمن وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول پر یقین کیا، اور جب وہ کسی جمع ہو کر کرنے کے کام میں (شرکت کیلئے) اس کے ساتھ (رسول کے پاس) ہوتے ہیں تو جب تک وہ اس سے اجازت نہ لے لیں چلے نہیں جاتے، بیشک جو لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں، پس جب وہ تم سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت مانگیں تو اجازت دیدیں جس کو آپ چاہیں، اور ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۶۲)

تم نہ بنا لو اپنے درمیان رسول کو بلاناجیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، تحقیق اللہ جانتا ہے ان لوگوں کو جو تم سے نظر بچا کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں، جو لوگ اس کے حکم کے خلاف کرتے ہیں چاہئیے کہ ڈریں کہ ان پر کوئی آفت پہنچیں یا ان کو دردناک عذاب پہنچے۔ (۶۳)

یاد رکھو! بیشک اللہ کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے، تحقیق وہ جانتا ہے جس (حال) پر تم ہو، اور اس دن کو جب اس کی طرف وہ لوٹائے جائیں گے، پھر وہ انہیں بتائے گاجو کچھ انہوں نے کیا، اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۶۴)

٭٭٭

ماخذ:

http://anwar-e-islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید