FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

آرزوئے صبح

(شاعری)

               ولی اللہ ولیؔ

 

بے نیازِ نغمۂ دنیا ہوں میں

اپنے دل کی دھڑکنیں سنتا ہوں میں

 

 

انتساب

والد مرحوم محمد امین اللہ

اور

والدہ مرحومہ زاہدہ خاتون

کے نام

 

سوانحی اشاریہ

نام        :           محمد ولی اللہ

قلمی نام   :           ولی اللہ ولی ؔ

ولادت :           ۷ جنوری ۱۹۶۷ء

جائے ولادت       :           حسن پور وسطی، مہوا، ویشالی، بہار

والدکا نام               :           محمد امین اللہ ابن علی کریم

والدہ کا نام          :           زاہدہ خاتون بنت عبد السعید عرف محمد موسیٰ

تلمّذ                   :           ڈاکٹر معراج الحق برقؔ، جناب قیصرؔ صدیقی

تعلیم     :           ایم۔ اے، پری پی ایچ۔ ڈی(فارسی)، جواہر لعل نہرویونیورسٹی، نئی دہلی

مشغلہ    :           ملازمت، فارسی نشریات، آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی۔

شریکِ حیات      :           عشرت پروین بنت محمد معین الدین

اولاد     :                       طلعت آفرین، شہریار عادل

پتا         :

R-181/C-4, 3rd Floor, Ramesh Park,

Street No. 09, Laxmi Nagar,

Delhi-110092.

Mob: 09868012174

 

               ڈاکٹر واحد نظیرؔ

اسسٹنٹ پروفیسر
اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔ ۲۵

مقدمہ

ولی اللہ ولیؔ جتنے اچھے شاعر ہیں، اس سے زیادہ اچھے انسان ہیں۔ میں یہ بات اتنے وثوق سے اس تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اب تک میری ملاقات جن شعرا سے ہوئی اُن میں بیشتر کے مسلکِ خودستائی میں دوہی سلوک کی حکمرانی نظر آئی، اوّل اپنی شاعری کی عظمت پر کامل یقین اور دوم دوسروں کی شاعری پر ایسے جذبے سے ملامت کا اہتمام جو شیطان پر لاحول بھیجنے میں ایک مومن کے دل میں کار فرما رہتا ہے۔ اس کے برعکس ولی اللہ ولیؔ ان شعرا میں ہیں جو اپنی شاعری کو کسی لائق نہیں سمجھتے۔ ان کے اس رویّے سے مجھے حیرت بھی ہوئی، خوشی بھی اور تجسّس بھی۔ میں نے ان کی غزلیں دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور وہ ٹال گئے، لیکن اچھے آدمی میں ایک خرابی ضرور ہوتی ہے کہ وہ کسی معاملے میں کسی کو زیادہ دنوں تک ٹالنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ یہ بھی اپنی اس خرابی کے ہاتھوں مجبور ہوئے اور اس کام کے لیے آئندہ سنیچر کی شام طے ہوئی۔

وعدے کے مطابق میں ان کے دولت خانے پر حاضر ہوا، چائے ناشتے کے بعد یہ اندرونی کمرے میں گئے اور پلاسٹک کی تین ایسی تھیلیوں کے ساتھ نمودار ہوئے جن کے منھ گٹھّوں کے باوجود اَدھ کھُلے تھے۔ ان تھیلیوں کی دبازت دیکھ کر میں بے ساختہ بول پڑا کہ ولیؔ بھائی ! ماشا اللہ اچھا خاصا کلام جمع ہو گیا ہے۔ مجھے حیرت اس لیے بھی ہوئی کہ جو بیچ بیچ میں دو دو تین تین سال تک شاعری کو منھ بھی نہ لگاتا ہو، ایسے گنڈے دار شاعر کے پاس غزلوں کی تین تین تھیلیاں کیسے ہوسکتی ہیں ؟تھیلیوں کا مال باہر آیا تو اس سوال کا جواب مل گیا لیکن حیرت دوسری حیرت میں بدل گئی۔

ہندوستان میں پائے جانے والے کاغذ کی اکثر و بیشتر نسلیں ان تھیلیوں میں آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے قد اور رنگ بھی جدا جدا تھے۔ بہر حال میں ان کا غذی نسلوں کے ظاہری اوصاف سے صرفِ نظر کرتا ہوا، ان میں محفوظ اشعار کے باطن میں اترنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ ایک ہی غزل کا مطلع کسی چِٹ پر، شعر کسی ڈاکٹر کے نسخے پر تو مقطع کسی شادی کے کارڈ پر۔ کم ہی غزلیں تھیں جو دو تین پُرزوں میں مکمل ہو گئی تھیں اور ایک ہی کاغذ پر پوری غزل کی تعداد تو ایک ہاتھ کی انگلیوں برابر بھی نہ تھی۔ عشرت بھابی(ولی بھائی کی اہلیہ)نے کہا کہ بھائی صاحب! جو پونجی نظر آ رہی ہے، اللہ کا شکر ہے۔ آپ اسے لے جائیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا بھی وہی حال ہو جو گھر کی صاف صفائی کے دوران اسی طرح کے دوسرے پُرزوں کا ہو چکا ہے۔

ان تھیلیوں کے علاوہ ولیؔ صاحب کے ہاتھ میں ایک ڈائری بھی تھی جسے اب تک وہ میرے حوالے نہیں کیے تھے، ہاتھ میں لیے بیٹھے تھے۔ دیکھا تو اس بیاض میں ایک ایک حمدو مناجات اور چند نعتیں بڑے اہتمام سے لکھی ہوئی تھیں۔ ان کی یہ ادا ان کے اچھا ہونے پر تصدیقِ مزید کی مہر ثبت کر گئی۔ میں نے سوچا کہ جب شاعر اچھا انسان ہوتواس کی شاعری فکری اور فنی لحاظ سے بڑی ہو یا نہ ہو موضوع اور مفہوم کے اعتبارسے ضرور اچھی ہو گی۔ کم از کم اتنی اچھی تو ضرور کہ اچھائی کی حمایت اور برائی کی مخالفت میں سینہ سپر ہوسکے۔ آپ محسوس کریں گے کہ ولی کی شاعری میں یہ خوبی جا بجا موجود ہے اسے سجا سنوار کر کتابی شکل میں پیش کرنے پر ان کی اسی خوبی نے مجھے آمادہ کیا۔

’’آرزوئے صبح‘‘ حمد، مناجات، نعت، غزل اور نظم پر مشتمل ہے۔ اس میں ولیؔ کے گریجویشن کے زمانے سے اب تک یعنی تقریباً پچیس سال کی طویل مدت میں کہے گئے کلام شامل ہیں۔ آپ اسے خام سے تام کے سفر سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہاں نہ کوئی منصوبہ بند اور منظم شاعری کا تصور ہے اور نہ ہی شاعری کے توسط سے ادب میں نمایا ں مقام حاصل کرنے کا جذبہ  کار فرما ہے بلکہ عنفوانِ شباب سے ڈھلتی ہوئی عمر تک ایک حساس انسان کے اندر کیسے کیسے  جذبات و احساسات جنم لیتے ہیں، انھیں شعری روپ دینے کی سادہ سی کوشش ہے اور بس۔ ایسی کوشش جس میں تصنع سے پرہیز اور احساسات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے رویّے سے احتراز آپ قدم قدم پر محسوس کریں گے:

ہستی ہے وہی، رونقِ ہستی بھی اسی سے

گلزار وہی، زینتِ گلزار وہی ہے

جو کچھ بھی تماشا ہے، تماشا ہے اسی کا

مخفی بھی وہی، مظہر و اظہار وہی ہے

پہلے شعر میں حمدیہ شاعری کا بنیادی وصف بیانِ توحید یعنی خدائے واحد کی یکتائی و بے ہمتائی کا نہایت سلیقے سے اظہار ہوا ہے۔ ہستی اور رونقِ ہستی کے لیے گلزار اور زینتِ گلزار کے مناسبات سے شعری لطف دو بالا ہو جاتا ہے۔ دوسرے شعر میں بھی تو حید کا ہی موضوع بیان ہوا ہے لیکن ’’ہمہ ازوست‘‘ سے زیادہ ’’ہمہ اوست‘‘ کا رنگ غالب ہے۔ ’’تماشا‘‘ کی تکرار اور تما شا کی مناسبت سے ’’مظہرو اظہار‘‘ کا استعمال توجہ طلب ہے۔ یہاں اظہار تماشا ہے اور مظہر تماشا گاہ۔ مخفی اور اظہار کا مضمون ’’ہمہ ازوست‘‘ کے صوفیانہ فلسفے کا نمائندہ تھا لیکن ’’مظہر ‘‘  یعنی  ’’ جائے ظہور‘‘ کی شمولیت نے ’’ہمہ اوست‘‘ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

’’آرزوئے صبح‘‘ میں حمد کے بعد ایک مناجات شامل ہے۔ بارگاہِ رب العزت میں بندے کا فریادی ہونا اور التجائیں کرنا مناجات کا موضوعاتی محور ہے۔

ولیؔ نے بھی خدا کی برتری اور اپنی عاجزی کے توسط سے مختلف الفاظ و انداز میں عرض گزاری کی ہے لیکن ایک شعر ولیؔ کے ایک خاص جذبے کی طرف اشارہ کرتا ہے:

تو مسیحائے کونین ہے میرے مولا

میں مریضوں کے حق میں شفا مانگتا ہوں

میں شاعر کے جس جذبے کی بات کر رہا ہوں آپ نے محسوس کر لیا ہو گا۔ خلقِ خدا سے محبت کا جذبہ، بنی نوعِ انسان کی بھلائی اور بہتری کا جذبہ جو خدمتِ خلق پر آمادہ کرتا ہے، دوسرے مصرعے سے ظاہر ہے۔ مطلقاً مریضوں کے حق میں شفا کی خواستگاری شاعر کی انسانی ہمدردی کو آئینہ کرتی ہے۔ اللہ کو ’’مسیحائے کونین‘‘ سے مخاطب کر کے یہ جواز بھی فراہم کر لیا گیا ہے کہ معبود کی عطائیں اور عبد کی دعائیں دونوں ہی حدو حساب سے پرے ہیں۔

ولیؔ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن ہر صاحبِ ایمان شاعر کی طرح انھوں نے بھی چند نعتِ پاک کہہ کر مدّاحِ رسول ہونے کی سعادت حاصل کی ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر نعت نہ ہوتی تو نہ صرف یہ کہ شاعری اپنے ہونے کے کسی مستحسن جواز سے محروم ہو جاتی بلکہ قرطاس و قلم بھی سخنہائے لا یعنی کی تحریرو تحفیظ کے مرحلے میں اپنے وجود کے عدم کی دعائیں کرتے۔ ولیؔ نے بھی اپنی شاعری کو عشقِ نبیؐ کے فیضان سے منسوب کر کے جوازِ سخن قائم کیا ہے:

ولیؔ یہ عنایت ہے عشقِ نبیؐ کی

مری شاعری ورنہ کیا شاعری ہے

اللہ نے اپنے محبوب کی تعریف قرآن میں کی ہے اور انسان اس کا نائب ہے۔ لہٰذا نیابت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بھی اللہ کے محبوب کی تعریف کرے۔ حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ محبوبِ خدا کی تعریف ان کے شایانِ شان ممکن نہیں۔ صرف یہ جذبہ کار فرما ہو نا چاہیے کہ ان کے مدحت گزاروں میں اپنا بھی شمار ہو جائے۔ ملّا عبد الرحمن جامیؔ نے ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر ‘‘ اور غالبؔ نے   :

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم

کآن ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است

کہہ کر اس مر لے میں اپنی عجز بیانی اور قاصر الکلامی کا اعتراف و اظہار کیا تھا۔ یہ اعتراف ہر اس شاعر کے یہاں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے، جس نے نعت لکھنے کی سعادت سے اپنے آپ کو مشرف کیا ہے۔ ولیؔ کی نعتوں میں یہ مضمون مختلف انداز میں موجود ہے   ؎

کوئی کیا کرے گا محمدؐ کی مدحت

خدا خود ہی قرآں میں رطب اللساں ہے

مری عقل کو تاہ میں کیا بتاؤں

محمدؐ کا رتبہ خدا جانتا ہے

مکینِ لامکاں کہیے، امام الانبیا کہیے

خدا کے بعد انھی کا ہے مقام و مرتبہ کہیے

مدحتِ رسول بلاشبہ آسان نہیں۔ ذرا سا غلوقابَ قوسین اوا دنیٰ کی حدوں کو توڑ کر الوہیت کے دائرے میں ڈال سکتا ہے اور ذراسی تنقیص ایمان و آخرت کی تباہی کی وجہ بن سکتی ہے۔ آیتِ قرآنی لاترفعوااصواتکم فوقَ صوتِ النبی کا شانِ نزول ہمارے پیشِ نظر ہے۔ حضرت شرف الدین ابو عبداللہ محمد بن زید المعروف بہ امام بو صیری نے نعت گو شعرا کے لیے ایک نہایت پیارا نسخہ اپنے ایک شعر میں پیش کیا ہے:

دَعْ مَا ادَّعَتْہ النَّصاریٰ فِی نَبِیّھِمْ

وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحاً فِیْہِ وَحْتَکِمْ

یعنی اپنے رسولؐ کی تعریف کرتے ہوئے صرف وہ بات چھوڑ دو جس کا دعویٰ نصرانیوں نے اپنے نبی کے بارے میں کیا ہے۔ اس کے بعد جو تمھارا جی چاہے حضور کی مدح میں کہو اور جو حکم چاہو لگاتے جاؤ۔ ’’بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر ‘‘ اسی تفصیل کا اجمال ہے اور ولیؔ کا مصرع ’’خدا کے بعد انھی کا ہے مقام و مرتبہ کہیے‘‘ بہ زبانِ اردو اس اجمال کی تصدیق۔

ولیؔ کی نعتوں کے موضوعات پر غور کریں تو وسیع تناظر میں ان کی دو قسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک قسم وہ جس میں ولیؔ نے اپنے داخلی جذبات و کیفیات کو بارگاہِ رسالت مآبؐ میں پیش کیا ہے اور دوسری قسم کا تعلق حیاتِ رسولؐ اور سیرت و شمائل کی پیش کش سے ہے۔ داخلی جذبات سے متعلق اشعار میں آرزو، استغاثہ، اظہارِ عشق و محبت اور مدینے سے جغرافیائی دوری کے احساسات جیسے موضوعات شامل ہیں :

سنا ہے بے کسوں کو وہ کلیجے سے لگاتے ہیں

انھی سے التجا کیجیے، انھی سے مدعا کہیے

غم زندگی جب دکھاتا ہے تیور

نظر سوئے خیرالوریٰ دیکھتی ہے

چھپا لیجیے سرکار دامن میں اپنے

میں عاصی ہوں احساسِ شرمندگی ہے

ہوئی جب سے آقا کی چشمِ عنایت

مقدر بھی مجھ پر بہت مہرباں ہے

ان اشعار میں بنیادی موضوع آرزو اور استغاثہ ہے جہاں عقیدت کے ساتھ عقیدے کا بھی خوبصورت پیرایے میں اظہار ہوا ہے۔ پہلے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص عادتِ شریفہ یعنی بے کسوں او مجبوروں کے ساتھ شفقت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے غم و اندوہ میں ڈوبی دنیا کو استعانت کے لیے بارگاہِ رسولؐ کا پتا بتا یا گیا ہے تو دوسرے شعر میں غم ہائے حیات کی یورش کے مداو ا کے لیے خود شاعر کی نگاہ اس ذاتِ رحمت شعار پر ٹِک جاتی ہے جو غم گساری کا سر چشمہ ہے۔ تیسرے شعر میں شاعر اس اعتراف کے ساتھ دامنِ سرکارؐ میں پناہ کا طالب ہے کہ میرے اعمال اگرچہ اس لائق نہیں ہیں کہ مجھ پر عنایت کی جائے لیکن آپ کی رحمت بے پایاں اور بے کراں ہے۔ چوتھے شعر میں عنایاتِ رسولؐ کے نتیجے میں بخت آوری اور خوش نصیبی کا مضمون نہایت خوبصورتی سے منظوم ہوا ہے۔ عشقِ رسولؐ، عنایاتِ رسولؐ اور نسبتِ رسولؐ کی فیض سامانیوں کا ذکر ولیؔ کی نعتوں میں بار بار اور الگ الگ انداز میں ہوا ہے:

سبب جا کے اس کا ہوا اب عیاں ہے

کہ مہکا ہوا کیوں مرا آشیاں ہے

نبیؐ راضی ہوئے جس سے، خدا راضی ہوا اس سے

رضائے سرورِ دیں کو رضائے کبریا کہیے

مرے خانۂ دل میں جو روشنی ہے

یقیناً یہ فیضانِ حبِّ نبی ہے

آپ کی جس کو نسبت ملی

تھا وہ کیا اور کیا ہو گیا

جب دیا آپؐ کا واسطہ

میں نے جو بھی کہا ہو گیا

عشقِ رسولؐ صاحبِ ایمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے بغیر خانۂ ہستی کے سارے طاق سیاہ ہیں۔ دماغ، دل، نگاہ سب ویرانے ہیں، کھنڈر ہیں، سُنسان ہیں۔ ولیؔ خوش نصیب شاعر ہیں کہ ان کا سینہ عشقِ رسولؐ کا مدینہ ہے۔ انھیں اس کا عرفان ہے کہ اس دولت کے بغیر دل کی وفا شعاری اور محبت شناسی کا تصور، فریب ہے۔ دل کو دل کے اوصاف سے متصف ہونے کے لیے لازم ہے کہ یہ عشقِ نبیؐ کے آداب سے مزین ہو۔ حبِّ نبیؐ کے بغیر دل کے گھر میں اجالا ہو جائے یہ ممکن نہیں۔ نبیؐ کی محبت حاصلِ زندگی ہے، ان کی یاد ہی طاقِ دل کا چراغ ہے۔ ان کا تصور ہی ذہن و دل کے خرابے کو منور کرتا ہے، آباد رکھتا ہے۔ تصور کا یہ حلقہ کبھی     یادِ رسولؐ، کبھی نقشِ کفِ پائے رسولؐ اور کبھی کوچۂ رسولؐ کے اردگرد طواف کرتا ہے:

اگر عشقِ محمدؐسے یہ دل معمور ہو جائے

تو اس کو با وفا کہیے، محبت آشنا کہیے

دل وفا آشنا ہو گیا

عاشقِ مصطفیؐ ہو گیا

مرے خانۂ دل میں جو روشنی ہے

یقیناً یہ فیضانِ حبِّ نبیؐ ہے

نبیِ مکرّمؐ ہیں نورِ مجسّم

کرو یاد اُن کو بہت تیرگی ہے

ہے تصور میں یہ کس کا نقشِ پا

ذہن سے دل تک اجالا ہو گیا

ابھی ذکرِ فردوس رہنے دے واعظ

تصور میں اس دم نبیؐ کی گلی ہے

عشق کی معراج دیدار ہے۔ یہی عاشق کی عید ہے۔ ہجر اسے تڑ پاتا ہے،  بے چین رکھتا ہے۔ حضرت آسیؔ غازی پوری نے کہا تھا:

آج پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسیؔ

آج کی رات ہے اُس گُل سے ملاقات کی رات

چوں کہ قبر میں دیدارِ مصطفیؐ، وعدۂ خداوندی ہے اس لیے عاشقِ رسولؐ کے لیے     یومِ مرگ، اصلاً یومِ عید ہے۔ ہر عاشقِ رسولؐ کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ خواب میں ہی سہی جلوۂ رسولؐ نصیب ہو جائے، عشق کی معراج ہو جائے۔ اس بار گاہِ نورانی کی دید ہو جائے جہاں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما ہیں۔ اس شہر اور اُن گلیوں کی خاک نصیب ہو جائے جنھیں رسولؐ کے قدموں کی نسبت میسّر ہے۔ ظاہر ہے ان آرزوؤں میں عاشق تڑپتا ہے، مچلتا ہے، بلکتا ہے، کبھی ہجر کی کیفیات بیان کرتا ہے، کبھی یہ سوچ کر خوش ہوتا ہے کہ خواب حقیقت ہوں گے تو کیسی سعادت کی گھڑی ہو گی۔ ان داخلی کیفیات و واردات کا شعری اظہار تمام نعت گو شعرا کے یہاں موجود ہے۔ ولیؔ نے اگرچہ چند ہی نعتیں کہی ہیں لیکن اس قبیل کے اشعار ان کے باطن کا پتا دیتے ہیں :

اسے بھی مشرف بہ دیدار کیجیے

بہت مضطرب آپ کا یہ ولیؔ ہے

جو حاصل ہو آقا کے در کی گدائی

تو سمجھوں دو عالم کی دولت ملی ہے

فرشتے جب کہیں گے قبر میں ’یہ کون ہیں بولو‘

صدا یہ دل سے آئے اے ولیؔ صلِّ علیٰ کہیے

گزشتہ سطورمیں میں نے ولیؔ کی نعتوں کی موضوعاتی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے دو حصّوں میں منقسم ہونے کی بات کی تھی۔ داخلی جذبات و احساسات سے متعلق اشعار پر گفتگو کے بعد آئیے ایک نگاہ حیاتِ رسولؐ اور سیرت و شمائل کے موضوعات سے متعلق اشعار پر ڈالتے چلیں۔ حیاتِ رسولؐ اور سیرت و شمائل کے حوالے سے ولیؔ کے یہاں عظمتِ رسولؐ، معجزاتِ رسولؐ او ر اوصافِ رسولؐ وغیرہ سے متعلق اشعار موجود ہیں :

محمدؐ کی منزل سرِلامکاں ہے

محمدؐ کی مٹھی میں سارا جہاں ہے

نبیؐ کا تصرّف ہے دونوں جہاں پر

یہاں سروری ہے، وہاں سروری ہے

لوائے محمدؐ کی عظمت نہ پوچھو

پریشان حالوں کا یہ سائباں ہے

عظمتِ رسولؐ کے حوالے سے یہا ں نہ صرف واقعۂ معراج کا ذکر کرتے ہوئے شاعر نے دنیا و آخرت پر ان کے تصرفات کو ظاہر کیا ہے بلکہ میدانِ حشر میں لوائے محمدی کی عظمت کے بیان سے ’’یہاں سروری ہے وہاں سروری ہے‘‘ کی دلیل بھی فراہم کی ہے۔ دنیا کی شہنشاہی یہ ہے کہ شاہانِ زمانہ ان کی غلامی سے بھی آگے ان کے غلاموں کی غلامی پر بھی ناز کریں اور ’’وہاں سروری‘‘ ہے کی تفصیل یہ ہے کہ رسولؐ مالکِ حوضِ کوثر بھی ہیں اور شافعِ محشر بھی۔

معجزاتِ رسولؐ کا تعلق بھی بلا واسطہ طور پر عظمتِ رسولؐ سے ہی قائم ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو کچھ نہ کچھ معجزے عطا کیے لیکن نبیِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ تمام معجزات مجتمع تھے۔ ’’آنچہ خوبان ہمہ دارندتو تنہا داری‘‘ کا مضمون اسی کا اشارہ ہے۔

ولی اللہ ولیؔ کی نعتوں میں بھی معجزاتِ رسولؐ سے متعلق اشعار نہایت سلیقے سے پیش ہوئے ہیں۔ معجزات کو شعر میں پیش کرتے ہوئے بسا اوقات صداقت کا دامن شعرا کے ہاتھوں سے جاتا رہتا ہے لیکن ولیؔ کے یہاں یہ بہ حسن و خوبی نظم ہوئے ہیں :

قمر دونیم ہوتا ہے، پلٹ آتا ہے سورج بھی

نبیؐ کے ہر اشارے کو یقیناً معجزہ کہیے

عمر ہی کو معلوم ہے یہ حقیقت

کہ کیسی نظر اُن پہ ڈالی گئی ہے

مسیحائی پر اُن کی قربان جاؤں

کہ جن کا لعابِ دہن بھی دوا ہے

کرے نقشِ پا ثبت دل پر

یہ سب کا مقدر نہیں ہے

اُن کا ہونا ہی اِک معجزہ ہے ولیؔ

اس کے بعد اور کیا معجزہ دیکھیے

ان اشعار میں مصطفیؐ  کے اشارے پر نظامِ شمسی کا موقوف ہونا، انگشتِ مصطفیؐ کے تصرفات کا معجزہ ہے۔ حضرت عمر پر نظر پڑتے ہی اُن کے دل کی دنیا کا بدل جانا، نگاہ رسولؐ کی تاثیر کا معجزہ ہے۔ لعابِ پاک سے مریض کا شفا یاب ہونا، زبان و دہن کا معجزہ ہے۔ پائے نبیؐ کے پڑتے ہی سنگ کا موم صفت ہو جانا، قدمِ رسولؐ کا معجزہ ہے۔ گویا انگشت، نگاہ، لعاب اور قدمِ مبارک سے معجزے کا ظہور یہ مزاج دیتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سرتاپا معجزہ ہیں۔ پیش کردہ آخری شعر میں ولیؔ نے اسی مضمون کو باندھنے کی کوشش ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہر نبی کے معجزے کا تعلق ان کے جسمِ مبارک کے کسی ایک عضو سے تھا لیکن پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک عضوِ مبارک سے معجزے کا ظہور ہوا ہے۔

ولی اللہ ولیؔ کی غزلیہ شاعری عصرِ حاضر کی دنیا اور اس دنیا میں زندگی کرنے والے انسانوں کے مسائل کی تشریح و تعبیر سے وجود میں آتی ہے، جہاں مسئلۂ تلاشِ ذات، بیزاری و بے بسی، برگشتگی و برہمی، معاشی عدمِ توازن، سیاسی جبرو استحصال اور ٹوٹتی پھوٹتی قدروں کے نتیجے میں زندگی کے تضادات و کشمکش جیسے مسائل شاعری کا حصہ بنے ہیں۔ میں ابتدائی سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ ولیؔ کے یہاں کسی منظم اور منصوبہ بند شاعری کا تصور نہیں بلکہ عنفوانِ شباب سے ڈھلتی ہوئی عمر تک ایک حساس انسان جن تجربات و مشاہدات سے دو چار ہوتا ہے اور اس کے دل میں جو جذبات و احساسات جنم لیتے ہیں، انھیں بغیر تصنع کے پیش کر دیا گیا ہے۔ اس عمل میں ولیؔ صرف اپنی ذات کے جامِ جہاں نما میں کائنات کی تصویر یں نہیں دیکھتے بلکہ گردشِ ایام کی روداد میں اپنی ذات کے نقوش بھی تلاش کرتے ہیں اور اسی مقام پر وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عرفانِ ذات کے بغیر عرفانِ کائنات ممکن نہیں :

دیکھ کر مجھ کو ہنستی ہے دنیا ولیؔ

جیسے پاگل ہنسے آئینہ دیکھ کر

مخاطب ہونے لگتی ہے خود اپنی زندگی مجھ سے

ولیؔ جب بھی میں شرحِ گردشِ ایام لکھتا ہوں

ساری دنیا کی اس کو خبر ہو گئی

اپنی ہستی سے جو باخبر ہو گیا

مذکورہ پہلے شعر میں ذات کی مناسبت سے آئینہ اور دنیا کی مناسبت سے پاگل کے استعمال سے مضمون کی پیش کش کا سلیقہ سامنے آتا ہے۔ صنعتِ اشتقاق اور صنعتِ تکرار کے علاوہ ’’دیکھ کر‘‘ سے شعر کا آغاز و اختتام ہونے سے صنعتِ ردِّ عجز علی الصدر کی خوبی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ دوسرے شعر میں ذات کے حوالے سے کائنات نہیں بلکہ کائنات کے حوالے سے ذات زیرِ غور آئی ہے۔ تیسرے شعر میں تفہیمِ کائنات کو تفہیمِ ذات پر معلّق کرنے سے جہاں صنعتِ تعلیق کا استعمال سامنے آتا ہے وہیں خبر اور با خبر سے تجنیس و تکرار کی صورت بھی سامنے آتی ہے۔

ولیؔ نے اپنی شاعری کے اسباب و مقاصد اور شعری رویوں سے متعلق جا بجا اشارے کیے ہیں۔ کہیں موہوم اور کہیں واضح۔ اس قبیل کے اشعار سے شاعر او راس کے شاعرانہ منصب پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ان کی شاعری پر مزید گفتگو سے قبل یہ چند شعر ملاحظہ کریں :

ولیؔ شاعری کیا ہے اپنی

یہ بس اپنے دل کی صدا ہے

روشنی جن سے ملے دل کو ولیؔ

ایسے شعروں کو گہر کہتے ہیں لوگ

یہ کہتی ہے زمانے سے مرے اشعار کی خوشبو

روایت ہے مری غزلوں میں پھولوں کے گھرانے کی

آپ کیجیے فکر اس محشر کی لیکن میں ولیؔ

جو بپا ہے آج اس محشر پہ کہتا ہوں غزل

کب تلک الجھی رہے گی زلفِ جاناں میں غزل

دوستو! کچھ آج کے حالات کی باتیں کرو

ایسی اور بھی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو ولیؔ کی شاعری کو سمجھنے میں معاون ہیں۔ ان اشعار سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاعر کے نزدیک شعری مقاصد و مناصب کیا ہیں۔ شاعری صدائے دل بھی ہے اور ایسا گہر بھی جس کی تابانی سے دل کی انجمن روشن ہو۔ شاعری سے خوشبو کا کام بھی لیا جا سکتا ہے اور اپنے عہدو ماحول کی حشر سامانیوں کے ذکر کے ساتھ ایسے امکانات بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں جن سے عصری کربناکیوں سے نجات کی راہ ہموار ہوسکے۔

عہد اور ماحول کے حالات کی ترجمانی خواہ مثبت ہو یا منفی، شاعر کی عصری آگہی اور سماجی انسلا کات کو روشن کرتی ہے۔ ولیؔ کی شاعری میں ایسے معاملات و مسائل گھر سے شروع ہوکر شہر، ملک اور دنیا تک بس پھیلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل بوجھل فکری فضا میں تکمیل کے منازل طے نہیں کرتا بلکہ فطری اندازو رجحان کار فرما رہتا ہے:

بھوکے بچّوں کو سُلانے کے لیے

ماں نے پتھر کو پکایا دیر تک

ایسا ہو گا‘ ویساہو گا‘ کیسا ہو گا چاند

بھوک کے ماروں کو روٹی سا لگتا ہو گا چاند

جس طرف دیکھو قیامت کا سماں ہے

کچھ نہیں باقی فقط آہ و فغاں ہے

کلیاں لہو لہو ہیں چمن داغدار ہے

ہر سمت شورِ ماتمِ قتلِ بہار ہے

جس کی پیشانی سے صبحیں پھوٹتی تھیں

وہ مرا ہندوستاں ڈھونڈو کہاں ہے

امن کی فاختہ بتائے گی

فتنۂ عقل و آگہی کیا ہے

ان اشعار میں حقیقت کے وہ نقوش ہیں، جن کی موجود گی ہر ذی حس انسان کے چہرے کی لکیروں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ ولیؔ ان کڑوی سچّائیوں کو صرف دیکھتے ہی نہیں بلکہ انھیں اپنے احساس کا حصہ بنا کر شعر کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ زمانے کی ناہمواری، انسانوں کی کربناکی، رشتوں کی پامالی اور ان سب کے نتیجے میں نفسیاتی الجھن، ذہنی کشمکش اور وجود کی لایعنیت سے شاعر کبھی بے بس نظر آتا ہے اور کبھی مایوسی میں گرفتار ہوتا ہے:

دردِ لا دوا ہوں میں

آہِ نارسا ہوں میں

مرا حال جب مجھ سے پوچھا گیا

زباں چپ رہی آنکھ تر ہو گئی

آپ کی نظروں میں شاید اس لیے اچھا ہوں میں

دیکھتا سنتا ہوں سب کچھ پھر بھی چپ رہتا ہوں میں

اُس کے بارے میں سنتا تھا کیا کیا ولیؔ

اُس کو دیکھا تو سب آئینہ ہو گیا

کوئی اپنے واسطے محشر اٹھا کر لے گیا

یعنی میرے خواب کا منظر اٹھا کر لے گیا

لیکن ان نامساعد حالات سے پیدا شدہ بے بسی و مایوسی فتح آشنا نہیں ہوتی۔ شاعر کے دل میں کہیں نہ کہیں صبحِ روشن اور حالات کی ساز گاری کا چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ وہ اس چراغ کے لیے کبھی مذہب سے روغن مستعار لیتا ہے، کبھی اپنے دیکھنے کے زاویے بدلتا ہے، کبھی حوصلے کا دامن پکڑتا ہے اور کبھی تعبیر کی پروا کیے بغیر خواب بنتے رہنے پر خود کو آمادہ کرتا ہے۔ رحمتِ خداوندی کی بیکرانی پر مکمل یقین، حسنِ اشیا کا حسنِ نظر پر انحصار، پائے تمنا کے حوصلوں کے آگے دشوار گزار راہوں کی بے بسی اور خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کی امیدیں ان شعروں میں ملاحظہ کریں :

کفر ہے مایوس ہونا رحمتوں سے

اے ولیؔ اس کا کرم تو بیکراں ہے

نظر میں اگر حسن ہے تو

ہر اک شے یہاں خوش نما ہے

مجھے کیا روک پائے گی بھلارستے کی دشواری

مرے پائے تمنّا کو ٹھہر جانا نہیں آتا

فکر کیجیے نہ تعبیر کی

خواب بنتے رہا کیجیے

ولیؔ چونکہ بنیادی طور پر فارسی زبان و ادب کے طالب علم رہے ہیں اس لیے زبان و بیان اور فکرو موضوعات میں فارسی شاعری کی روایات بھی اپنی جھلکیاں دکھا جاتی ہیں۔ مرزا عبدالقادر بیدلؔ عظیم آبادی کو اہلِ ایران ’’شاعرِ آئینہ ہا‘‘ یعنی آئینوں کا شاعر اس لیے کہہ کر یاد کرتے ہیں کہ ان کی شاعری میں آئینے کی مختلف جہتیں بار بار مذکور ہوئی ہیں۔ ولیؔ کے یہاں بھی آئینہ کئی زاویوں سے اپنے عکس بکھیر تا ہے۔ آئینے سے متعلق کچھ اشعار دیگر حوالوں سے زیرِ بحث آ چکے ہیں۔ چند شعر اور:

آئینے کے رو برو حیران ہوں

جانے کس کا گم شدہ چہرہ ہوں میں

کیوں وہ میرے سامنے آنے سے ڈرتا ہے ولیؔ

خامشی فطرت ہے میری ایک آئینہ ہوں میں

جیسا دِکھتا ہے ویسا نہیں ہے ولیؔ

پھر بھی ہے آئینہ دیکھیے تو ذرا

کون اب بتائے گا جھوٹ کیا ہے سچ ہے کیا

کھوگیا ہے آئینہ خود حسین چہروں میں

میں ولیؔ سمجھتا ہوں راز یہ مگر چُپ ہوں

کیوں وہ پھول سا چہرہ آئینے سے ڈرتا ہے

ان اشعار میں آئینے کی مختلف جداگانہ معنویتیں پیش کی گئی ہیں۔ کہیں انسانی بے چہرگی کے عرفان کا ذریعہ بنتا ہوا آئینہ حیرانی کا سبب ہے تو کہیں انسان آئینے کا سامنا کرنے سے خوف زدہ ہے کہ اس کے وجود کی قباحتیں اور کریہہ پہلو اسے خود سے اور بھی متنفر نہ کر دیں۔ تیسرے شعر میں سماج کے ان افراد کو بھی آئینے کے توسط سے سامنے لایا گیا ہے جن کے ظاہر و باطن یکساں نہیں ہیں۔ یہاں شاعر نے خود اپنی ذات کو ہدفِ طنز بناتے ہوئے نہ صرف سماج کو فریب میں مبتلا کرنے والے انسانوں کو آئینہ کیا ہے بلکہ اِس رویے کو خود انسان کی فریب خوردگی سے تعبیر کیا ہے۔ آخری شعر میں پھول جیسے چہروں کے پسِ پردہ سنگ صفت وجود رکھنے والے افراد جو سماج میں مرکزِ کشش بنے ہوئے ہیں ان کی دوروئی کو شاعر نے نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

ولی اللہ ولیؔ کے یہاں ’’ماں ‘‘کے موضوع پر بھی جذبات و احساسات کی الگ الگ جہتیں شعری شکل لیتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ وہ موضوع ہے جس کی گرفت میں صرف شاعر ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر فرد کبھی نہ کبھی ضرور آتا ہے۔ ولیؔ اپنے احساسات کا اظہار کبھی لفظ ’’ماں ‘‘ کے استعمال کے ساتھ کرتے ہیں اور کبھی ماں تصور میں ہوتی ہے اور فکر شعر کے پیکر میں ڈھل جاتی ہے:

دردِ دل حد سے ہونے لگے جب سوا

ذہن میں اس مسیحا کو لے آئیے

سر بلندی کیوں نہ ہو مجھ کو عطا

اپنے سر ماں کی دعا رکھتا ہوں میں

جس کے دل پہ برسے گا، ماں کے پیار کا بادل

پھول بن کے مہکے گا، ایک دن فضاؤں میں

ولیؔ میں ہر اک غم سے آزاد ہوں

مرے ساتھ ہے میرے ماں کی دعا

ماں سراپا کرم ہے، سراپا عطا

اُس کا کوئی بدل ہو تو بتلائیے

ادا اس کی رحمت ادا ہے

یقیناً یہ ماں کی دعا ہے

ماں کے چہرے پر نظر جس دم پڑی

دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا

ان اشعار میں ماں کا وجود فیض رسانی کا ایسا منبع ہے جو نزدیک و دور ہر حالت میں شفقتوں اور محبتوں کا چشمہ جاری رکھتا ہے۔ شاعر نے ماں کے تصور کو بھی دافعِ آفات قرار دیا ہے۔ مصائب و آلام میں ماں کی دعا نہ صرف سایۂ رحمت کا کام کرتی ہے بلکہ سر بلندی کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔ ماں کے پیار کے بادل میں قوتِ نمو کی ایسی کثرت ہے کہ بچے کے وجود پر جب برستا ہے تو ایسے چمن زار میں تبدیل کر دیتا ہے کہ اس کی خوشبو سے اطراف و جوانب معطر ہو جاتے ہیں۔ ماں کرم کا ایسا مجسمہ ہے جس کا بدل ممکن نہیں۔ ماں کی دعا میں اتنی طاقت ہے کہ اغیار بھی رحمت ادائی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت ہے اور ماں کے دیدارسے یہ دنیا جنت نما ہو جاتی ہے۔

ماں کی مناسبت سے ولیؔ کے یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جو اس نعمتِ عظمیٰ سے محرومی کے احساسات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کیفیت میں شاعر بادل کے ٹکڑوں کو دیکھتا ضرور ہے لیکن ان میں اپنا کوئی حصہ محسوس نہیں کرتا۔ وہ یہ مشورہ بھی دیتا ہے کہ جب ماں کا سایہ سر پر نہ ہو تو لازم ہے کہ ہر قدم سنبھل کر رکھا جائے کہیں ایسانہ ہو کہ وقت اور حالات کی دھوپ زندگی کو جھُلسا دے۔ ھَل جَزاء ا لاِحْسَانَ اِلَّاالا حسانَ کی خاموش تائید کرتے ہوئے عرض گزار بھی ہوتا ہے کہ ایسی محرومیوں میں صبر و شکیبائی کا یہی ایک راستہ ہے کہ اللہ سے ان کے حق میں دعا کی جائے:

سر پہ جب سے ماں ترا آنچل نہیں

کوئی بھی بادل مرا بادل نہیں

آپ کے سر پہ جب ماں کا سایہ نہیں

ہر قدم پھر سنبھل کر چلا کیجیے

ساتھ جن کا نہیں یاد آئیں وہ جب

اُن کے حق میں خدا سے دعا کیجیے

حا صلِ گفتگو کے بہ طور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ولیؔ کی شاعری عمیق نکتے اور دقیق فسلفے سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ احساسات و جذبات اورمسائل و مشاہدات کے پُر خلوص بیان سے عبارت ہے۔ از دل خیز د بردل ریزد کی مصداق اس شاعری میں سادگی بھی ہے اور پُر کاری بھی۔ یہی سبب ہے کہ چھوٹی چھوٹی بحروں میں ایسے اشعار دل کو چھو جاتے ہیں جن میں سہلِ ممتنع سے موسوم ہونے کی صلاحیت اور خوبی موجود ہے:

یہ دنیا فقط دیکھنے میں نئی ہے

وہی بات ہو گی جو ہوتی رہی ہے

مرا حال جب مجھ سے پوچھا گیا

زباں چپ رہی آنکھ تر ہو گئی

محبت کو عیاں کرنا

محبت کی اہانت ہے

نازنیں، نازنیں گلبدن کے لیے

شبنمی، شبنمی پیرہن چاہیے

ان اشعار میں ازلی حقائق کی پیش کش بھی ہے، کربِ ذات کی تصویر یں بھی ہیں، مشاہدے بھی ہیں اور غنائیت بھی۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ ان تمام اوصاف کو نہایت سہل، رواں اور دل پذیر انداز میں شاعری بنا دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ  صَرف و نحو کی پابندی اظہارِ خیال کے ڈھانچے کو نثری پیکر عطا کرتی ہے، جب کہ  صَرف و عروض کی پابندی سے وہی اظہارِ خیال شعر کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ گویا قواعدی اعتبار سے صَرف نثر اور شعر کی مشترک خصوصیت ہے اور نحو یا عروض کی پابندی سے ہی ہم یہ فیصلہ کر پاتے ہیں کہ اظہارِ خیال میں شعری وسیلہ اپنایا گیا ہے یا نثری۔ البتہ اس وسیلے میں اگر صَرف کے ساتھ عروضی اور نحوی دونوں خصوصیات مجتمع ہو جائیں تو ہم یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ اس شعر کی نثر نہیں بنائی جا سکتی اور یہی خصوصیت کسی شعر کو سہلِ ممتنع کے وصف سے متصف کرتی ہے۔ ولی اللہ ولیؔ کے یہاں ایسے درجنوں اشعار ہیں جنھیں سہلِ ممتنع کا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔

توقع ہے کہ ایوانِ شاعری کے دروازے پر ولی اللہ ولیؔ کی شعری دستک سچّے جذبات اور بے ریا اظہار کی آمد کا اعلان تصور کیا جائے گا اور انھی امتیازات کے   پیشِ نظر، اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔            ٭٭٭

 

               ڈاکٹر محمد معراج الحق برقؔ

ذکریا کالونی، سعد پورہ
مظفر پور

’’آر زوئے صبح‘‘ : فکر و فن کے آئینے میں

بلاشبہ ایک باغباں کے دل کی کلیاں فرطِ مسرت سے کھل اُٹھتی ہیں، جب وہ اپنے ہاتھوں سے بصد تمنا و آرزو لگائے ہوئے اور خونِ دل سے سینچے ہوئے نرم و نازک نونہال کو ایک سر سبزو شاداب اور تنا ور درخت کی شکل میں مشاہدہ کرتا ہے۔ میں اپنے تلمیذ عزیز اور سعادت مند ولی اللہ ولیؔ کے شعری مجموعہ بعنوان ’’آرزوئے صبح‘‘ کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں اور اس کا خلوص دل سے خیر مقدم کرتا ہوا انھیں مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں :

قائم رہے دائم یہ ترا جہدِ مسلسل

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

رنگیں  ہو ترا لوح و قلم خونِ جگر سے

کیوں کر نہ ہو پھر حسنِ رقم اور زیادہ

موصوف اپنے شعری مجموعہ کا آغاز تبرکاً و تیمناً حمدو مناجات سے کرتے ہیں اور بارگاہِ رب العزت میں اپنے نازک احساسات و جذبات کا نذرانہ نہایت خلوص و عاجزی کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ نعتیہ کلام کے ذریعے دربارِ رسالت میں گلہائے عقیدت نچھاور کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ حمد گوئی یا نعت نگاری ایک مشکل اور نازک صنفِ سخن ہے۔ اس دشوار گزار وادی سے کامیابی کے ساتھ عہد بر آ ہونا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ایک معمولی سی لغزش اور بے احتیاطی ایمان و عقیدہ کی غارت گری کے لیے کافی ہے۔ عرفیؔ جیسا قادر الکلام اور یکتائے روز گار شاعر بھی اس وادی میں سرنگوں نظر آتے ہیں اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکے   ؎

عرفیؔ مشتاب این رہِ نعت است نہ صحراست

ہشدار کہ رہ بردمِ تیغ است قدم را

صاحبِ مجموعہ نے حمد گوئی اور نعت نگاری کے سلسلے میں کمال احتیاط سے کام لیا ہے اور اُن مقدس ولا ثانی ہستیوں کے شان و شکوہ، جاہ و جلال اور وقاروتقدس کو مجروح ہونے سے بچالیا ہے۔

موصوف کے ذریعے پیش کردہ سبھی نعتوں میں دینی ماحول اور اسلامی معاشرہ کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے حمدو نعت گوئی کے سلسلے میں سارے اصول و ضوابط، آداب اور تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ یہ نعتیں شاعر کے ذہنی رجحانات اور اسلامی احساسات و جذبات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بطور نمونہ مناجات اور نعتیہ کلام کے چند اشعار ملا خطہ ہوں :

مناجات  :

ماسوا اِس کے کیا اے خدا مانگتا ہوں

تجھ سے میں مانگنے کی ادا مانگتا ہوں

کیا کروں، کیا کہوں، کچھ نہیں جانتا ہوں

تجھ سے میں مانگنے کی ادا مانگتا ہوں

جن کے صدقے میں دنیا بنائی گئی ہے

اُن کا صدقہ بروزِ جزا مانگتا ہوں

جس کو قرآں میں واللَّیل تو نے کہا ہے

حشر کی دھوپ میں وہ گھٹا مانگتا ہوں

نعت  :

کوئی ایسا منظر نہیں ہے

جو اُن سے مُنّور نہیں ہے

نہیں جس میں سودائے الفت

وہ سر واقعی سر نہیں ہے

نہ بدلے جہاں جا کے قسمت

وہ در آپ کا در نہیں ہے

کرے نقشِ پا ثبت دل پر

یہ سب کا مُقّدر نہیں ہے

شعری مجموعہ میں اخلاقیات اور صوفیانہ عقائد سے متعلق مضامین کثرت سے پیش کیے گئے ہیں جن میں بیش قیمت درسِ حیات اور اصول زندگی پوشیدہ ہیں۔ موصوف نے اخلاقی اور تہذیبی قدروں کو نہایت خوبصورتی سے اُجاگر کیا ہے۔ ہر جگہ فنی حسن اور فکری توانائی کار فرما ہے۔ بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ ہوں  :

جو لہو سے ہوں ہمارے روشن

اُن چراغوں کو جلایا جائے

دھن والوں کے پاس ہے دھن اور کچھ بھی نہیں

دھن کے علاوہ سب کچھ دیکھا نر دھن میں

باغِ جنت نہ مجھ کو عدن چاہیے

دوستو مجھ کو خاکِ وطن چاہیے

چشتی  و نانک و بدھ کی دھرتی ہے یہ

بس محبت چمن در چمن چاہیے

میری دھرتی کرے ناز جس پر ولیؔ

ایسا تن چاہیے ایسا من چاہیے

صوفیانہ عقائد :

اللہ اللہ یہ اعجازِ چشمِ نبیؐ

اُس نے دیکھا جسے دیدہ ور ہو گیا

کفر ہے مایوس ہونا رحمتوں سے

اے ولیؔ اس کا کرم تو بے کراں ہے

چاہے جتنا ہی پٹک لے سر کوئی

اذنِ حق ہی سے کھلے گا در کوئی

زندگی بھر سامنے دنیا کے میں روتا رہا

اپنے رب کے سامنے اک دن تو روکر دیکھتا

جرأت و بے باکی اور حق گوئی و حق بینی کا شمار فضائلِ حمیدہ میں ہوتا ہے۔ یہی وہ صفات ستودہ ہیں جو جہاد زندگانی میں شمشیر اور انسانیت کے ارتقا اور تحفظ و بقا کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہیں۔ بالغ نظر شاعر نے ایک ایسے مرد مجاہد کا تصور پیش کیا ہے جو کارزارِ حیات میں ہمہ دم تیغ و سناں سے نبرد آزما ہے اور نامساعدو حوصلہ شکن حالات میں بھی صبر و قناعت کا دامن نہیں چھوڑتا۔ وہ قنوطیت کو بہ نظرِ استحقار دیکھتا ہے اور رجائیت پسندی اُس کا اصل معیار زندگی ہے۔ وہ جنازہ بردوش قسم کا انسان نہیں، بلکہ نازک ترین اور پیچیدہ ترین حالات میں بھی مسکرانا جانتا ہے۔ چند جُرأت مندانہ اشعار ملاحظہ ہوں :

مجھے کیا روک پائے گی بھلا رستے کی دشواری

مرے پائے تمنا کو ٹھہر جانا نہیں آتا

کوئی آخر مجھے دارو رسن سے کیوں ڈراتا ہے

جنون پیشہ ہوں میں جاؤں گا سوئے دار چٹکی میں

وہ جو رکھتے ہیں منزل پہ اپنی نظر

راہ چلتے نہیں فاصلہ دیکھ کر

موت ہے دراصل پیغامِ حیات

موت سے اہلِ جنوں گھبرائیں کیوں

عشقیہ شاعری  :

غزل نگاری موصوف کی محبوب ترین صنف سخن رہی ہے۔ اس میدان میں انھوں نے مہارت تامہ اور کمالِ فن کا جو ہر دکھایا ہے۔ شعری مجموعہ کا زیادہ تر حصہ اسی صنف شاعری پر مشتمل ہے۔

یہ ایک عالمی صداقت اور ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ شاعری کے ابتدائی مرحلے میں ہر شاعر فطری طور پر جمال پرست نظر آتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ دلدادۂ حسن ہو یا نہ ہو، شاعری کی وادی میں قدم رکھتے ہی وہ ایک عاشقِ زار کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ افسرؔمیرٹھی کو عصر حاضر کے نوجوان شاعروں پر طنزیہ وار کرتے ہوئے کہنا پڑا:

ہے شاعری میں یہ پہلا اصول موضوعہ

کہ جھوٹ موٹ کے بن جائیں ایک عاشق زار

بلکہ شدتِ نفرت میں انھوں نے یہاں تک کہہ دیا  ع

یہ ان کی نور بھری شاعری خدا کی مار

ان کا قول سر اور آنکھوں پر، مگر وہ شاید اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں کہ عشق ایک ایسا محور ہے جس کے گرد اخلاق، تصوف اور فکرو فن ہمہ دم محوِ گردش ہیں۔ چنانچہ دنیا کے عظیم صوفی اورفلسفی شاعروں نے شاعری کی ابجد مکتبِ عشق ہی سے حاصل کی۔

موصوف بنیادی طور پر عشقیہ شاعری کے دلدادہ رہے ہیں۔ وہ اس وادی میں ایک عاشق جانباز اور کسی تصوراتی محبوبِ دلنواز و عشوہ طراز کے اسیرِ زلف ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں حسن و عشق سے متعلق سارے حرکات و سکنات اور لوازمات و کیفیات مثلاً و صل و فراق   شراب و شباب، شوخی، شرارت، بے نیازی، کج ادائی اور بے وفائی و دلرُبائی کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور تلخ و شیریں احساسات و جذبات اور تجربات و مشاہدات کی ترجمانی کی ہے۔ حسبِ ذیل اشعار میں حسن و عشق کی  کار فرمائیاں ملاحظہ ہوں :

جھیل سی اُن آنکھوں میں، میں ہوں اور زمانہ بھی

دیکھنا یہ ہے تہہ میں کون اب اُترتا ہے

میں اسی پری رو کو دیکھ دیکھ جیتا ہوں

جس کے اک تبسم پر اک جہان مرتا ہے

آپ جلوؤں کو اپنے سمیٹے رہیں

مجھ سے کوئی خطا ہو نہ جائے کہیں

ہر نفس کربِ مسلسل لمحہ لمحہ خوں چکاں

تو نہیں تو زندگی ہے اک متاعِ رائیگاں

خدا جانے ڈھائے گا کیا کیا قیامت

لڑکپن چلا اب شباب آ رہا ہے

محبت میں بجز رسوائیاں کچھ بھی نہیں ملتا

سمجھتا ہوں مگر اس دل کو سمجھانا نہیں آتا

کیا جفا اور کیا وفا اُن کی ولیؔ

ہر ادا ہے دِلفریب و دِلرُبا

جنابِ شیخ یہ مسجد نہیں ہے بزمِ جاناں ہے

یہاں دیوانے آتے ہیں کوئی دانا نہیں آتا

شعری مجموعے میں اس قسم کے سینکڑوں دل کے تاروں کو جھنجھوڑنے والے اشعار دستیاب ہیں۔ ہر جگہ فکری جو لانیت اور فنی لطافت کا منظر ہے الفاظ کا درو بست، صوتی آہنگ، حسنِ ترتیب، غنائیت وموسیقیت نے شانِ دِلرُبائی پیدا کر دی ہے۔ غزل نگاری کے سارے آداب اور تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔

رازِ درونِ میخانہ کو بے نقاب تو کیا ہے مگر عامیانہ پن، سوقیانہ پن، سطحیت اور سستی جذباتیت سے دامن بچانے کی کوششِ بلیغ کی ہے۔ وہ سودائی ہیں لیکن  جنس زدگی کے شکار نہیں۔ سنجیدگی و متانت کو بہر حال برقرار رکھا ہے۔ اُن پرنسائیت کا جن سوار نہیں۔ اُن کی دیوانگی میں فرزانگی اور سنبھلی ہوئی کیفیت ہے۔ جب کہ اس حمام میں کیسے کیسے لوگ ننگے نظر آتے ہیں۔

جہاں تک اسلوبِ بیان اور طرزِ نگارش کا تعلق ہے، شاعر نے بہت حد تک روایتی انداز بیان اختیار کیا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ روایت پسند ہیں، روایت پرست نہیں۔ روایتی اندازِ بیان میں بھی صفائی، شستگی اور نیا رنگ و آہنگ کی جھلک ہے جس کی وجہ سے لطف و جاذبیت کی مخصوص فضا پیدا ہو گئی ہے اور انفرادی شان کی نقل و حرکت واضح طور پر نظر آتی ہے۔

ان کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ما فی الضمیر کو براہِ راست پیش کرنے کے عادی ہیں۔ انھوں نے ایسے ابہام، رمزو کنا یہ اور پیچیدگی سے پرہیز کیا ہے جو افہام و تفہیم میں رکاوٹ پیدا کرے۔ وہ پیش پا افتادہ اور پامال مضامین کو ایسے تخلیقی شعور اور فنی نزاکت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ ان میں جدّت و تازگی کی فضا پیدا ہو جاتی ہے اور روایت کی قدامت اور کہنگی کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہی شعریت ہے۔ شاعری کی روح اور حقیقت یعنی شعریت یہ ہے کہ شاعر اپنے احساسات، جذبات اور محسوسات و مشاہدات کو ایسے لطیف اور شائستہ انداز میں پیش کرے کہ سامعین یا قارئین ان کو اسی شدت سے محسوس کریں جیسا کہ شاعر نے محسوس کیا تھا اور انھیں وہی فرحت و مسرت یا رنج و کلفت کا احساس ہو جس سے شاعر گزر چکا ہے۔ بالفاظ دِگر شاعر کے سارے احساسات و جذبات تجسیمی کیفیت اختیار کر کے قلب و جگر پر مجلّٰی ہو اٹھتے ہیں۔ یہی انفرادیت ہے جو نئے نئے اُسلوب اور لب و لہجے کو جنم دیتی ہے اور یہ وہ حد فاصل ہے جو شاعر اور متشاعر کے مابین فرق و امتیاز قائم کرتی ہے۔ اس امر کے حصول کے لیے شاعر کو ایسے جامع، موضوع، فعال اور ناطق الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے جو شاعر کے تلخ و شیریں احساسات، جذبات اور تجربات و مشاہدات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ایسے حسنِ ترتیب سے مُزیّن و آراستہ ہو جاتے ہوں کہ موسیقیت اور معنویت کی ایک حسین فضا قائم ہو جائے۔ ایک فطری اور وہبی شاعر کے ذہنی تارو پود اس قدر متحرک و حسَّاس اور غیر معمولی قوت متخیلہ اور مدرکہ کے حامل ہوتے ہیں کہ اسے تخلیقی عمل کے دوران الفاظ کے ترک و اخذ اور حذف و اضافے کی صلیب سے گزرنا نہیں پڑتا۔ وہ الفاظ صفحۂ قرطاس پر آنے سے پہلے ہی شاعر کی ذہنی سطح پر خود بخود شعری پیکر میں ڈھل جاتے ہیں۔

زیر بحث شعری مجموعے میں متعدد ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں فطری بہاؤ، تسلسل و روانی اور زیر و بم کی کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ تکلمانہ شان اور مخصوص جوشِ بیان نے عجیب اثر و جاذبیت پیدا کر دی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی آبشار بلندی سے گرتی پڑتی، اُچھلتی کودتی، بل کھاتی، بپھرتی اور اٹکھیلیاں کرتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ بطور نمونہ تلاطم خیز یاں ملاحظہ ہوں :

پھول ہے یا شیشہ ہے یا کوئی پتھر دیکھتا

کاش وہ بھی آئینے میں اپنا پیکر دیکھتا

چاند ہے یا چاندنی ہے پھول ہے یا رنگ ہے

کاش اس پیکر کو میں ہاتھوں سے چھوکر دیکھتا

یہ بھی اچھّا ہی ہوا، مجھ کو نہ نیند آئی کبھی

ورنہ خوابوں میں بھی میں سوکھا سمندر دیکھتا

سوزِ دل سے آشنا ہوتی تری ہستی ولیؔ

اپنے دل کے داغ کو اشکوں سے دھوکر دیکھتا

اس شعری مجموعے میں دو مختصر فارسی تخلیقات بھی نظر آتی ہیں۔ ایک پابند اور دوسری آزاد بعنوان ’’باغباں ‘‘ہے۔ فارسی غزل میں شاعر نے مروجہ عشقیہ خیالات اور درد و غم سے بھرے جذبات کی ترجمانی نہایت سادہ سلیس اور سہل انداز میں کی ہے۔ ان میں حسرت ویاس اور زندگی سے بیزاری کی جھلک نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ نمونہ کے چند اشعار پیش ہیں :

درد دارم لیک درمانی ندارم

بر درِدلِ ھیچ دربانی ندارم

مدتی در آرزوی التفاتش

حق بگویم جز پشیمانی ندارم

کی برآید حرفِ شکوہ بر لبِ من

عاشقم عشقِ نمایانی ندارم

نظم ’’باغبان‘‘ میں شاعر ایک سر سبز تنا ور درخت سے سوال کرتا ہے کہ کیا اُسے دنیا سے رخصت ہو جانے والے باغبان کی یاد آتی ہے جس نے اس کی آبیاری کی تھی۔ وہ درخت بہ زبانِ حال جواب دیتا ہے کہ ہاں ! جب کوئی تھکا ماندہ مسافر اس کے نیچے آرام کرنے کے لیے بیٹھ جاتا ہے اور اس کے پھل اور پھول سے متمتع ہوتا ہے تو باغباں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یعنی جب تک اس میں تازگی ہے باغباں کی یاد بھی تازہ رہے گی۔ اشعار ملاحظہ ہوں :

یادش تازہ ترمی گردد

وقتی کسی درسایۂ من می آید

گل و ثمر را زشاخہایم می گیر د

یادش می آید آن پیر مردی

موصوف نے اس شعری مجموعے میں فکرو فلسفہ، عصری رجحان، سماجی شعور، نفسیاتی حقائق اور تہذیبی قدروں کی پیش کش کر کے تنوع پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ مجموعہ جلوۂ صد رنگ ہے جو ادب شناسوں کو اپنی جانب متوجہ ہونے پر مجبور کرتا ہے۔

واضح رہے کہ موصوف درس و تدریس سے نہیں بلکہ آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی میں محکمۂ نشریات سے منسلک ہیں۔ یہ اُن کا غیر معمولی علمی شغف اور شعر و ادب سے فطری وابستگی ہے جس نے انھیں پرورشِ لوح و قلم کرنے پر مجبور کر رکھا ہے اور یہ مجموعہ موصوف کے ادبی سفر کا پہلا پڑاؤ ہے۔ ابھی شعری تجربات کے بہت سے مراحل طے کرنے باقی ہیں۔ اس پہلے مجموعہ میں دستیاب فکری توانائی اور فن کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم بلا تردد کہہ سکتے ہیں کہ ان کا جہدِ مسلسل بارگاہِ شعر و ادب میں باریابی کے لیے ضامن کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان تفصیلات کے پیش نظر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موصوف اپنے ہم عصروں میں منفرد و ممتاز اور صفِ اوّل کے شاعر ہیں۔ دعا ہے کہ شعر و ادب کے طویل سفر کی صعوبتوں اور پُر خار راہوں کی پروا کیے بغیر وہ سدا رواں دواں رہیں۔

زفرق تا بقدم ہرکُجا کہ می نگرم

کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا انیجاست

٭٭٭

 

               ڈاکٹر احمد محفوظ

ایسوسی ایٹ پروفیسر
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی۔ ۲۵

ولی اللہ ولیؔ کی شاعری

آج سے بیس اکیس سال پہلے جب میں طالب علم کی حیثیت سے دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں داخل ہوا تو تھوڑے ہی عرصے کے دوران اپنے ہم جماعت ساتھیوں کے علاوہ یونیورسٹی کے جن دیگر احباب کی رفاقت کا مجھے موقع ملا ان میں ولی اللہ ولیؔ کا نام خصوصیت سے شامل ہے۔ ولیؔ صاحب میرے ہاسٹل کے قریب ہی ایک دوسرے ہاسٹل میں رہتے تھے اور فارسی میں ایم فل کر رہے تھے۔ اس وقت میں اردو میں ایم فل کا طالب علم تھا۔ یونیورسٹی کیمپس کی فضا اردو زبان و ادب کے طالب علموں کے لیے اس لحاظ سے خاصی خوشگوار تھی کہ وہاں وقتاً فوقتاً علمی وا دبی پروگرام منعقد ہوتے رہتے تھے اور شعری نشستوں کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔ ان میں عموماً ہاسٹل کے طلبا شریک ہوتے تھے۔ چونکہ ولیؔ صاحب بھی اردو میں شعر گوئی کا اچھا ذوق رکھتے تھے اس لیے ان شعری محفلوں میں ان کی شرکت لازمی ہوا کرتی تھی۔ انھی محفلوں میں پہلی بار ان سے میرا تعارف ہوا، اور یہ تعارف بہت جلد دوستی میں بدل گیا۔ پھر کچھ ہی دنوں کے اندر وہ میرے قریبی اور عزیز دوستوں میں شامل ہو گئے۔ خدا کا شکر ہے کہ ان سے یہ تعلق تا حال قائم ہے۔

جے این یوکے دوران قیام ولیؔ صاحب اگر چہ رسمی طور پر فارسی زبان کے بہت اچھے طالب علم تھے، لیکن انھیں اردو ادب اور شاعری سے بھی گہرا شغف تھا۔ چنانچہ ہم لوگ اکثر اردو شعر و ادب کے مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیالات کرتے تھے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو اپنے تازہ اشعار بھی سناتے تھے۔ فارسی کی شعری روایت سے ولیؔ صاحب کا براہ راست تعلق تھا کہ وہ ان کا مضمون ہی تھا، اس کے ساتھ ہی وہ اردو کے کلا سیکی شعرا کو بھی شوق اور دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ اس کے نتیجے میں ان کی اردو شعر گوئی کو ایک مستحکم بنیاد فراہم ہو گئی۔ حالانکہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے ولیؔ صاحب اپنی شعر گوئی پر اتنی توجہ نہ دے سکے جس کی وہ متقاضی تھی، لیکن مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے اپنے کلام کو یکجا کر کے مجموعے کی صورت میں اہلِ ذوق کے سامنے پیش کر دیا ہے، اور یہ مجموعہ’’ آرزوئے صبح‘‘ کے نام سے اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

ولیؔ صاحب کی شاعری پر اظہارِ خیال سے پہلے میں دو ایک باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ ولیؔ کو جب سے میں جانتا ہوں، میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ وہ اپنی شعر گوئی کے تعلق سے کسی خوش فہمی کے شکار کبھی نہیں رہے۔ اس میں ایک حد تک اگر چہ ان کی منکسرالمزاجی اور شریف النفسی کا بھی دخل ہے، لیکن اسے ان کی ادبی دیانتداری بھی کہا جا سکتا ہے جو ہمارے زمانے میں بہت کم نظر آتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ولیؔ صاحب کو اپنی شاعری کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ انھوں نے بسا اوقات اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ میں خود کو باقاعدہ شاعر نہیں سمجھتا کیونکہ میں شاعری کو دیگر معروف شعرا کی طرح اختیار نہیں کرسکا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی اس بات کی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ولیؔ صاحب کے ان خیالات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ہمارے زمانے کے نام نہاد معروف اور مشہور شعرا کے  بر خلاف شاعری کے مختلف مدارج اور اس کی حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ جس سطح کا کلام اس مجموعے میں شامل ہے اور جو کئی لحاظ سے اچھا خاصا ہے، اس سے کمتر سطح کے شعر کہنے والے اپنے بارے میں نہ جانے کیا کیا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہر طرف، ’’ہمچومن دیگرے نیست‘‘ کی نعرہ زنی ہے۔

ولی اللہ ولیؔ نے غزل کو بنیادی طور پر اپنا وسیلۂ اظہار بنایا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نعت گوئی بھی کی ہے۔ چنانچہ اس مجموعے میں کئی نعتیں بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا، ولیؔ صاحب کو فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کی کلاسیکی شاعری پڑھنے کا بھی موقع ملا لہٰذا انھوں نے دونوں روایتوں سے کسبِ فیض کرنے کی کوشش کی ہے۔ ویسے بھی اردو شاعری بالخصوص غزل کا رشتہ چونکہ فارسی سے بہت گہرا ہے اور مضامین اور دیگر چیز یں چونکہ فارسی سے براہ راست اردو میں آئی ہیں، اس لیے ان دونوں روایتوں سے بیک وقت واقفیت عام طور سے زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے۔ یہاں ولیؔ صاحب کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو :

غموں کی تیرگی میں ہائے ان کی جلوہ سامانی

گھٹا کے درمیاں روشن رخِ مہتاب دیکھا ہے

شعر کے مضمون سے قطع نظر اس میں جو استعاراتی پیکر لائے گئے ہیں اور انھیں جس اہتمام کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھالا گیا ہے وہ بلاشبہ قابلِ تعریف ہے۔ غموں کو تیر گی کہنا اور اس تیرگی میں معشوق کے نظر آنے کے لیے ’’جلوہ سامانی‘‘ کا استعمال کس قدر مناسب اور بامعنی ہے۔ پھر دوسرے مصرعے میں تیرگی کی مناسبت سے گھٹا کا پیکر اور معشوق کی جلوہ سامانی کی مناسبت سے رخ مہتاب کو روشن دیکھنے کا ذکر نہایت عمدہ ہے۔ اس کے علاوہ ذرا غور کیجیے کہ ردیف ’’دیکھا ہے‘‘ کا تعلق پورے شعر کے کتنے الفاظ سے ہے یعنی تیرگی، جلوہ، گھٹا، روشن، رخ اور مہتاب ان تمام چیزوں کا تعلق دیکھنے سے ہے۔ یہ ساری باتیں شعر کو نہ صرف مضمون اور معنی کے لحاظ سے مکمل بناتی ہیں بلکہ اس میں حسن اور دلکشی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور شعر دیکھیے  :

دیدۂ بے خواب انجم کی طرح

رُت کوئی ہو جاگتا رہتا ہوں میں

یہاں ’’دیدۂ بے خواب انجم‘‘ کی ترکیب کو محض فارسی کہہ کر نہیں ٹالا جا سکتا۔ اس میں جو اہتمام کیا گیا ہے اس کی بنیاد کلاسیکی شعری تصور کے تحت اس بات پر ہے کہ ستاروں کو آنکھ سے مشابہ کہتے ہیں اور چونکہ یہ چمکتے ہیں اس لیے ان آنکھوں کو  بے خواب کہا جاتا ہے۔ یعنی جب تک ستارے چمکتے ہیں تو وہ گویا ’’دیدۂ بے خواب‘‘ کا حکم رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ شعر میں چیزوں کو ان پہلوؤں کے ساتھ برتنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک شاعر اپنے روایتی تصورات اور اس کے نظام سے اچھی طرح واقف نہ ہو۔

’’آرزوئے صبح ‘‘میں شامل غزلیں اوپری سطح پر یہ تاثر قائم کرتی ہیں کہ یہاں شاعر نے زیادہ تر روایتی قسم کے عشقیہ مضامین باندھنے پر اپنی توجہ صرف کی ہے۔ یہ تاثر ایک حد تک حقیقت کی ترجمانی کرتا ہوا محسوس بھی ہوتا ہے۔ لیکن ہم اگر ان اشعار پر ذرا غور کریں تو ان میں جگہ جگہ ایسے شعر بھی نظر آتے ہیں جو جدید غزل کی حسّیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ولی اللہ ولیؔ نے اپنی روایتی غزل کی از اوّل تا آخر تقلید نہیں کی ہے بلکہ انھوں نے غزل کے نئے رجحانات سے بھی اپنا رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہاں جدید غزل سے میری مراد اس غزلیہ شاعری سے ہے جو ترقی پسندی کا زور ٹوٹنے کے بعد نمایاں ہوئی اور جس کے زیرِ اثر اردو غزل موضوعات اور طرزِ اظہار کے بالکل نئے ابعاد سے روشناس ہوئی۔ اس غزل میں جدید حسیت اور نئے طرزِ اظہار کو جس طرح لایا گیا وہی نئے شاعر کی پہچان بنا۔ نئی غزل کا یہ خوشگوار پہلو بھی ولی اللہ ولیؔ کے یہاں ہمیں نظر آتا ہے :

کیوں زمیں محور پہ اپنے گھومتی ہے

کس لیے گردش میں آخر آسماں ہے

کیا کہوں کہ کیا ہوں میں

سنگِ بے صدا ہوں میں

وہ مجھے بہلا رہے ہیں یوں ولیؔ

جیسے کوئی ناسمجھ بچّہ ہوں میں

سارے عالم کی اس کو خبر ہو گئی

اپنی ہستی سے جو باخبر ہو گیا

مندرجہ بالا اشعار میں ابتدائی دونوں اشعار پہلی ہی نظر میں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کا تعلق اس جدید حسیت سے ہے جس کی ابتدا غالبؔ کی غزل سے ہوئی تھی اور بعد میں جدید غزل گویوں کے یہاں جو زیادہ عام ہوئی۔ یہاں پہلے شعر میں جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں دونوں مصرعے استفہام کی صورت میں ہیں۔ ہماری کائنات میں جو سب سے بڑی خارجی حقیقت یعنی زمین اور آسمان ہمارے سامنے ہیں، ان کے وجود پر سوالیہ نشان قائم کیا گیا ہے۔ اس شعر میں بھی فنی پہلو کو نہایت خوبی کے ساتھ بروئے کار لایا گیا ہے۔ چونکہ پورا شعر سوال کی صور ت میں ہے، اس لیے پہلی نظر میں تو ہم اس سوال ہی پر غور کرنے لگتے ہیں۔ لیکن جب مزید توجہ کے ساتھ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مصرعوں میں گھومنے اور چکّر لگانے کی بات لائی گئی ہے اور لطف یہ کہ یہ صفت زمین او رآسمان دونوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ پہلو شعر کو زیادہ جامع اور خوبصورت بنا دیتا ہے۔ یہ شعر جس غزل میں شامل ہے، اس کے بارے میں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ ولیؔ صاحب نے اس غزل کو بحرِ رمل مسدس سالم یعنی فاعلاتن  فاعلاتن  فاعلاتن کے وزن میں کہا ہے جو بالکل غیر معروف تو نہیں لیکن کم معروف ضرور ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کی معروف صورت میں تیسرا رکن محذوف ہو کر فاعلن کے ساتھ یعنی فاعلاتن  فاعلاتن  فاعلن(رمل مسدس محذوف) بہت رائج ہے اور اسی کو شعرا نے اکثر استعمال کیا ہے۔ لیکن یہاں رمل مسدس کی سالم صورت کو استعمال کر کے ولیؔ صاحب نے غزل میں تازگی کا مزید ایک پہلو پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ معروف وزن کے بجائے کم معروف اوزان کا استعمال اس مجموعے کی کچھ اور غزلوں میں بھی ہوا ہے۔

میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ’’آرزوئے صبح ‘‘ میں شامل کلام مجموعی حیثیت سے اس قابل ہے کہ اسے شوق سے پڑھا جائے اور اس کا کچھ حصَّہ تو یقیناً ایسا ہے کہ اسے نئے احساس کا حامل کہاجا سکتا ہے۔ اس میں فنی پہلوؤں کی کارفرمائی بھی جا بجا دیکھی جا سکتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزل گوئی کے فن سے صاحبِ مجموعہ کی اچھّی خاصی واقفیت ہے۔ اس مجموعے کی اشاعت پر میں اپنے عزیز دوست ولی اللہ ولیؔ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ با ذوق قارئین اس کلام سے ضرور کچھ نہ کچھ حاصل کریں گے۔

٭٭٭

 

                ڈاکٹر مولا بخش

 صدر شعبۂ اردو، دیال سنگھ کالج
 دہلی یونیورسٹی، دہلی

آرزوئے صبح میں جینے والا شاعر:ولی اللہ ولیؔ

 آرزوئے صبح میں جینا ہے مجھ کو اس لیے

اپنے خوابوں کے حسیں منظر پہ کہتا ہوں غزل

            جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایم۔ فل میں داخلے کے بعد مجھے بہت سے دوست ملے ان میں ایک دبلا پتلا لیکن پر کشش چہرے والا اسکالر بہت جلد میرا دوست بن گیا۔ وقت کس طرح پر لگا کر اڑتا چلا جاتا ہے۔ جے این یو کی وہ صبحیں اور شامیں اور وہاں کی ثقافتی سرگرمیاں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ رفتار ادبی فارم ہم دوستوں نے بنائی تھی۔ ابرار رحمانی، انور پاشا، توحید احمد خاں اور دیگر سینیر اسکالروں نے ہماری تربیت میں خاصا رول ادا کیا۔ اس فارم کے تحت منعقدہ ہفتہ وار نشستوں میں ہم سب شریک ہوتے۔ میں ذرا تقریر کی طرف زیادہ مائل تھا اور بحر رجز میں کچھ شاعری کر لیا کرتا تھا لیکن شرمیلے سے ولی اللہ صاحب ہر محفل میں غزل پڑھتے اور داد بٹورتے تھے۔

            پھر اچانک ہم سب اپنی اپنی دنیا میں کھو گئے۔ برسوں بعد ولی اللہ ولیؔ صاحب سے میری ملاقات آل انڈیا ریڈیو میں ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ ان دنوں میں اس بھرے پُرے شہر میں روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر اخباروں اور میگزین میں تواتر کے ساتھ کچھ نہ کچھ لکھتا تھا اور ریڈیو پر زیادہ سے زیادہ پروگرام نشر کرنے کی فکر میں لگا رہتا تھا تاکہ آمدنی اتنی ہو کہ ضرورتیں پوری ہو جائیں۔ ان دنوں کے ریڈیو سے وابستہ کئی ایسے نام ہیں جنھوں نے میری حوصلہ افزائی کی مثلاً معین اعجاز، ثروت عثمانی، ڈاکٹر انوار احمد خاں، مسعودصاحب اور ڈاکٹر شکیل اختر۔ ان حضرات نے میری بے کاری کو باکار بنانے میں میری اعانت کی۔ ولیؔ بھائی کو یہاں دیکھ کر ایسا معلوم ہوا کہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس میرے لیے اجنبی جگہ نہیں۔ تب سے گاہے گاہے ملاقاتوں میں میں نے اکثر ان سے شاعری سے متعلق سوالات کیے تو کہا ’’فکر سخن جاری ہے‘‘ اور ایک دن ایک مسودہ میرے ذمّے کر دیا کہ میں اس پر اظہار خیال کروں۔

            مذکورہ بالا شعر جو میں نے بطور سرنامہ درج کیا ہے، وہ اس بات کی غمّازی کرتا ہے کہ دنیا کے ہر فن کار کی طرح ولیؔ صاحب کا خواب بھی اپنی طرح کی دنیا کی تشکیل سے وابستہ ہے۔ ادبا اور شعرا کی یہ آرزوئیں ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے دنیا میں چاروں طرف لگی مطلب پرستی کی آگ کی حدّت قابل برداشت شے میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ولیؔ صاحب نے اپنی شاعری کے لیے صنف غزل کو چنا ہے اور اس فن سے انھوں نے خود کو کس ہنر مندی کے ساتھ جوڑا ہے اس کا فیصلہ میں نہیں قارئین کریں گے۔

            غزل بین المتونی صنف شاعری ہے جسے میں اکثر تناسل مثنیٰ یعنیGenetic  Duplication کی شاعری کہا کرتا ہوں۔ یہ بڑی ظالم صنف ہے جس سے وابستہ ہو کر شاعر اپنی رسوائی کا سامان کرتا ہے۔ غزل میں انفرادیت کی لکیر کھینچنی حاتم طائی کے سات سوالوں کو حل کرنے جیسا عمل معلوم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کے غزل گو اپنی غزل کہے۔ غزل کی پہلے سے چلی آ رہی صدیوں کی روایت بنے بنائے قافیے مقبول عام غزل کا علامتی اور استعاراتی نظام، غزل گو کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے اور بیشتر غزل گو شاعر اپنی غزل کے بجائے غزل کی غزل کہہ کر رسوا ہوتے ہیں۔ غزل ایک ایسی شاعری ہے جو شاعر کو اپنے چند اشعار کی بنیاد پر بھی مشہور کر سکتی ہے۔ ولیؔ کا پہلا مجموعۂ کلام منظر عام پر آیا ہے اور اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ ولیؔ نے غزل کی غزل کہی ہے یا اپنی غزل بھی۔ مجھے ان کے مسودے سے گزرتے ہوئے کئی مقام پر ٹھہرنا پڑا اور اشعار کی بلاغت پر دل ہی دل میں داد دینی پڑی۔ ایسا ہی ایک شعر آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

گوشہ گوشہ آئینہ خانہ نظر آیا مجھے

خود کو جب باہرسے میں اندر اٹھا کر لے گیا

یہ شعر ہر گز ایسا نہیں ہے کہ آپ سنیں اور مطلب حل ہو جائے۔ یہ دوسری اور تیسری قرأت اور مزید غور و فکر کا متقاضی شعر ہے۔ صوفیا کے نزدیک یہ دنیا ایک آئینہ ہے جس میں خدا اپنی شکل دیکھتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب یہ دنیا آئینہ ہے اور خدا اس میں اپنی شکل دیکھ رہا ہے تو گویا دنیا میں جو کچھ بھی نظر آ رہا ہے وہ حقیقتاً خدا ہے یا خدا کا عکس ہے۔ اسی لیے صوفیا قطرے میں سمندر کو دیکھتے ہیں۔ شعر میں ضمیر ’مجھے‘ ولی اللہ ولیؔ نہیں بلکہ یہ ایک سالک کا کردار ہے جس نے یہ تجربہ اس وقت کیا جب اس نے باہر یعنی ظاہری آنکھوں سے نظر آنے والی دنیا سے انکار کرتے ہوئے باطن کی دنیا کا راز داں بن گیا۔ ایسے ہی لوگ اس دنیا کے بنانے والے کو ہر جا اور ہر مقام پر حتیٰ کہ آتی جاتی سانسوں میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ شعر کو دوسرے حوالے سے بھی سمجھنے کی کوشش کی  جا سکتی ہے یہ قاری کی استطاعت پر منحصر ہے۔ سر دست ولیؔ کا ایک حمدیہ شعر اسی ذیل میں ایک بلیغ کوشش معلوم ہوتا ہے:

کیا کروں، کیا کہوں، کچھ نہیں جانتا ہوں

تجھ سے میں مانگنے کی ادا مانگتا ہوں

کیا خدا کی تعریف ہماری مروجہ زبان میں ممکن ہے؟حمدیہ شعر میں ولیؔ نے ایک ایسے عامل کو پیش کیا ہے جو یہ جان چکا ہے کہ کچھ جاننا یا زیادہ جاننے کی انتہا دراصل خاموشی ہی ہے۔ البتہ اگر طلب کی ادا حاصل ہو جائے تو دونوں جہاں سنور جائے گا۔ شعر میں استفہامیہ انداز کی تکرار نے فلسفیانہ لہجہ پیدا کر دیا ہے۔ غزل کی شاعری میں عشق کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ پختہ شاعر عشق کا خام مواد پیش نہیں کرتا بلکہ عشق کے ایسے پہلو کو سامنے لاتا ہے جس میں لطیف جذبے چٹکیاں لے رہے ہوں۔ کچھ اشعار اس نوعیت کے ملاحظہ فرمائیں :

گُلوں کی رفاقت نے یہ کیا کیا

وہ شبنم بھی آخر شرر ہو گئی

آپ جس کو کھلونا سمجھتے رہے

ہے وہی دل مرا دیکھیے تو ذرا

     یہ اشعار بھلے عشق کے تہذیبی و تخلیقی رنگ کی اعلیٰ ترین مثالیں نہیں ہیں۔ ان پر روایتی انداز غزل کی چھاپ محسوس کی جا سکتی ہے لیکن شاعر نے ان اشعار میں اپنی سی ندرت پیدا کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ آئیے کچھ مزید اشعار پر ایک نگاہ ڈالیں جو ولی اللہ ولیؔ کے اس مجموعے کی ورق گردانی پر قاری کو ضرور مجبور کریں گے:

اس لیے مجھ سے خفا رہتی ہے اکثر یہ زمیں

آسماں کو سر پہ لے کر گھومتا پھرتا ہوں میں

یہ دنیا فقط دیکھنے میں نئی ہے

وہی بات ہو گی جو ہوتی رہی ہے

سوچنا فضول ہے

پھر بھی سوچتا ہوں میں

عیَّاری ابلیس کی دیکھو

کام کرے اور نام نہ آئے

ہو رہی ہیں مشکلیں تدبیر سے کچھ کم نہیں

میری حالت وادیِ کشمیر سے کچھ کم نہیں

مذکورہ بالا اشعار میں قاری کے ذوقِ حسن کو بیدار کرنے کی بھر پور صلاحیتیں موجود ہیں۔ یہاں میں مذکورہ بالا اشعار میں سے صرف اس شعر پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گا جس میں کہا گیا ہے کہ’’ زمیں مجھ سے اس لیے خفا رہتی ہے کہ میں نے آسماں کو سر پہ اٹھا لیا ہے۔ ‘‘اس محاورے کے معنی کی توسیع قابل تعریف ہے۔ یہاں زمین علامت ہے اپنی جڑوں کی یا یہ علامت ہے اپنی ثقافت کی۔ آسماں سے مراد چھلاوا ہے، باہری چمک دمک ہے۔ دوسری ثقافتوں کو اپنی ثقافت پر ترجیح دینا ہے جو اکثر عامل کے اندر احساس کمتری سے پیدا ہوتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی اپنی جڑیں ہی سوکھ جاتی ہیں۔ ولی اللہ ولیؔ کی شاعری کے اس مختصر سے تعارف سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ولیؔ کے اندر مستقبل کا ایک اہم شاعر پوشیدہ ہے جو شاعری کی دنیا میں اپنا پہلا مجموعہ پیش کرتے ہوئے ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ اس برق رفتار زمانے میں بھی شعر و شاعری انسان کو زندہ رہنے کا اپنا ایک جواز فراہم کرتی ہے۔ امید ہے قارئین ولیؔ کی شاعری سے محظوظ ہوں گے۔

٭٭٭

 

               ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

صدرِ شعبۂ فارسی نشریات، آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی

 آرزوئے صبح: منظوم تاثرات

’’ آرزوئے صبح ‘‘کے شاعر ولی اللہ ولیؔ

جس کی غزلوں سے نمایاں ہے شعورِ آگہی

فکر و فن پر ہے انہیں حاصل مکمل دسترس

روحِ عصری حسیت ہے اُن کی اردو شاعری

ہیں مرے ہمکار وہ جن کا ہوں میں جوہر شناس

’’ قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘‘

یوں توعصری کرب کا غزلیں ہیں اُن کی شاہکار

بیشتر اشعار ہیں اُن کے حدیثِ دلبری

رنگ و بو گلدستۂ اشعار کے ہیں جانفزا

اُن کے گلزارِ سخن کی ہے شگفتہ ہر کلی

سوز و سازِ عشق کا اظہار ہے ان کا کلام

کیوں نہ ہو مداح اُن کے فن کا برقیؔ اعظمی      ٭٭٭

 

اظہارِ تشکّر

’’آرزوئے صبح‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں ۱۹۸۷ء سے اب تک کی تخلیقات شامل ہیں۔ یوں تو میٹرک کے زمانے میں ہی میں شعر موزوں کرنے لگا تھا لیکن بی۔ اے (آنرنس) میں داخلہ کے بعد اِس میں با ضابطگی آنے لگی۔ خوش قسمتی سے مشفق استاد ڈاکٹر  معراج الحق برقؔ کی سر پرستی میَّسر تھی لہٰذا شعری ذوق رفتہ رفتہ پروان چڑھنے لگا۔ موصوف میرے درسی استاد تھے اور شعری بھی۔ اِسی اثنا میں میری ملاقات جناب قیصرؔ صدیقی سے ہوئی، اِن سے میرا بھائی کا رشتہ تھا، انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور بہت سارے شعری رموزو نکات سے بھی مجھے آشنا کیا۔ برقؔ صاحب کے علاوہ مجھے ان کی تلّمذی کا بھی شرف حاصل رہا۔

بی۔ اے کے بعد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی چلا آیا ’’رفتار ادبی فورم‘‘ کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی شعری اور ادبی نشستوں میں مسلسل شرکت سے میرا شعری ذوق مزید بالیدہ ہوتا رہا۔ اِس دوران جناب انور پاشا، ابرار رحمانی، تو حید خان، مظہر مہدی، خواجہ اکرام الدین، احمد محفوظ، شکیل جہانگیری، مولا بخش اسیرؔ، ظفر اسلم ظفرؔ، پرویز شہریار، طفیل آزاد صابرؔ، شکیل احمد خان، شمس اقبال، غلام مصطفی، محمد کاظم، راشد انور  راشدؔ، شاہد رزمی اور آصف زہری جیسے اہل ذوق سینئر اور جونئیر احباب کی مصاحبت میں میرا شعری ذوق نکھر تا اور سنور تا رہا۔ اس مادرِ علمی میں استادِ محترم پروفیسرمحمود عالم جو خود بھی ایک کہنہ مشق شاعر تھے، نے میری رہنمائی فرمائی۔

تعلیمی سلسلہ ختم ہوا۔ فکرِ معاش نے احباب کو مختلف راہوں پر ڈال دیا، میں بھی آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت سے منسلک ہو گیا لیکن شاعری وقفہ وقفہ سے ہی سہی جاری رہی، البتَّہ اِسی درمیان بہار یونیورسٹی سروس کمیشن، پٹنہ سے بحیثیت لکچرر (فارسی) میری تقرری ہوئی اور میں ارریہ کالج، ارریہ، بی۔ این منڈل یونیورسٹی مدھے پورہ میں درس و تدریس سے منسلک ہو گیا۔ حالات کی ناساز گاری نے مجھے دوسال میں ہی دہلی لوٹنے پر مجبور کر دیا اور میں نے اپنی سابقہ ملازمت ہی کو ترجیح دی۔ میری طبیعت بھی ناساز رہنے لگی تھی اور تقریباً سات آٹھ سال تک میرے اندر کا شاعر خوابیدہ رہا۔ حسنِ اتفاق کہیے کہ محترم جناب قیصر ؔصدیقی صاحب کا ادبی کاموں کے سلسلے میں دہلی آنا جانا ہونے لگا اور میرے تعلقات پھر سے قائم ہو گئے۔ انھوں نے میری حالت دیکھ کر یہ نسخہ تجویز کیا کہ میں شعر گوئی کا بھولا ہوا سبق پھر سے یاد کروں۔ اِس مرحلے میں اِنھی کی تحریک پر میں دوبارہ شعر گوئی کی طرف مائل ہوا اور ایسا کرنا میری صحت کے لیے بہت کار گر ثابت ہوا۔ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے بھی میری حوصلہ افزائی کی اور وہ موقع بہ موقع طرحی مصرعوں پر غزل کہلواتے رہے۔

۲۰۱۱ء میں میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر واحد نظیرؔ کی تقرری بحیثیت اسسٹینٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ہوئی موصوف سے ملاقات کے بعد اُن کا پہلا سوال یہی تھا ’’آپ کی شاعری کا کیا حال ہے؟ ‘‘میں ٹال گیا۔

ان سے دنیا جہان کی باتیں ہوتی رہیں لیکن ہر ملاقات میں شاعری سے متعلق موصوف کچھ نہ کچھ ضرور بات کرتے۔ ایک دن میں نے اپنی ساری چیزیں اُن کے سامنے رکھ دیں اور یہ دریافت کیا کہ کیا یہ قابلِ اشاعت ہیں بھی کہ نہیں ؟انھوں نے حوصلہ افزائی کی کہ اِسے منظرِ عام پر آنا چاہیے۔ میں نے ساری چیزیں موصوف  کے حوالے کر دیں کہ وہ جو مناسب سمجھیں، کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ اب یہ کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔

میرے اِس شعری سفر میں جن اساتذہ اور احباب نے راہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائی، میں اُن تمام حضرات کا شکر گزار ہوں۔ ساتھ ہی قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان۔؂،  نئی دہلی کا بھی ممنون ہوں جس نے اشاعتی امداد فراہم کر کے اِس مرحلے کو آسان کر دیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر غضنفرؔ، ڈاکٹر معراج الحقؔ برقؔ، ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین، ڈاکٹر احمد محفوظؔ اور ڈاکٹر مولا بخش کا مزید سپاس گزار ہوں جنھوں نے مصروفیات کے باوجود اپنی قیمتی آراسے نوازا۔ ساتھ ہی ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی، برادرِ عزیز ڈاکٹر ظفر انصاری ظفرؔ، ڈاکٹر سجّاد اختر، برادرِ محترم سید لائق علی،    جناب نور الہدیٰ، برادرم ڈاکٹرشاہدتسلیم اور عزیز گرامی مرتضیٰ علی کا بھی ممنون ہوں کہ اس کتاب کے اشاعتی مرحلے میں ان کے نیک مشورے مفید ثابت ہوئے۔

اخیر میں اپنے برادرانِ محترم جناب محمد صفی اللہ، محمد کلیم اللہ، محمد خلیل اللہ نقی، محمد عطی اللہ، انوارالحسن وسطوی اور ماموں جان جناب محمدداؤدحسن، محمد یوسف اور شریکِ حیات عشرت پروین کا بھی متشکر ہوں کہ جن کی کرم فرمائیاں میرے شاملِ حال رہیں۔ میں اس موقع پر اپنی والدہ مرحومہ کی قربانیوں کو یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ والد محترم کے انتقال کے بعد ہزارہا صعوبتوں کے باوجود میری تعلیم و تربیت کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ کاش کہ یہ کتاب ان کی حیات میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئی ہوتی۔ افسوس کہ وہ گزشتہ ۷ دسمبر ۲۰۱۲ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔ میری شاعری جو کچھ ہے اور جیسی بھی ہے اب آپ کے بہترین مطالعے کے حوالے ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

                                                                ولی اللہ ولیؔ

                                                     شعبۂ نشریاتِ فارسی، آل انڈیا ریڈیو

                                                                      نئی دہلی۔

٭٭٭

 

روشن ہے ثنا اُس کی جو لَبہائے ولیؔ پر

لفظوں میں وہی اور پسِ گفتار وہی ہے

 

حمد و نعت

ولیؔ یہ عنایت ہے عشقِ نبی کی

مِری شاعری ورنہ کیا شاعری ہے

 

حمد

رزَّاق ہے، غفّار ہے، ستَّار وہی ہے

وہ خالقِ کونین ہے، مختار وہی ہے

آئینہ وہی اور وہی آئینہ گر بھی

 اظہار وہی، صورتِ اظہار وہی ہے

ظلمات اُسی کے ہیں، اُجالے بھی اُسی کے

دیوار وہی، سایۂ دیوار وہی ہے

ہستی ہے وہی، رونقِ ہستی بھی اُسی سے

گلزار وہی، زینتِ گلزار وہی ہے

ہر غائب و موجود میں جلوے ہیں اُسی کے

افکار وہی، پرتوِ افکار وہی ہے

جو کچھ بھی تماشا ہے، تماشا ہے اُسی کا

مخفی بھی وہی، مظہرو اظہار وہی ہے

روشن ہے ثنا اُس کی جو لَبہائے ولیؔ پر

لفظوں میں وہی اور پسِ گفتار وہی ہے

٭٭٭

 

مناجات

ماسوا اِس کے کیا، اے خدا مانگتا ہوں

کچھ نہیں، صرف تیری رضا مانگتا ہوں

کیا کروں، کیا کہوں، کچھ نہیں جانتا ہوں

تجھ سے میں، مانگنے کی ادا مانگتا ہوں

جن کے صد قے میں دنیا بنائی گئی ہے

اُن کا صدقہ بروزِ جزا مانگتا ہوں

جس کو قرآں میں والّلیل تو نے کہا ہے

حشر کی دھوپ میں وہ گھٹا مانگتا ہوں

بعد جس کے نہ ہو اور مجھے کوئی حاجت

ہاتھ میں دامنِ مصطفٰے مانگتا ہوں

تو مسیحائے کونین ہے میرے مولیٰ!

میں مریضوں کے حق میں شفا مانگتا ہوں

بالیقین آزمائش کے لایق نہیں میں

ہوں خطاکار، فضل و عطا مانگتا ہوں

اے ولیؔ، خاتمہ میرا ایمان پر ہو

بس یہی آخری اِک دعا مانگتا ہوں

٭٭٭

 

مکینِ لا مکاں کہیے، امام الانبیا کہیے

خدا کے بعد اُنھی کاہے مقام و مرتبہ کہیے

اُنھی سے روشنی کی بھیک مہر و ماہ لیتے ہیں

اُنھیں شمس الضحٰی کہیے، اُنھیں بدر الدجیٰ کہیے

قمر دونیم ہوتا ہے پلٹ آتا ہے سورج بھی

نبیؐ کے ہر اشارے کو یقیناً معجزہ کہیے

اگر عشقِ محمدؐ سے یہ دل معمور ہو جائے

تو اِس کو با وفا کہیے، محبت آشنا کہیے

سنا ہے بے کسوں کو وہ کلیجے سے لگاتے ہیں

اُنھی سے التجا کیجیے، اُنھی سے مُدعّا کہیے

اُنھی کا نام ہو لب پر شفاعت کے جو ضامن ہیں

خدا کے فضل سے محشر میں ہو ایسا تو کیا کہیے

دو عالم جس کے انوارِ صدا سے جگمگاتے ہیں

تو پھر اُس ذاتِ انور کو نہ کیوں نور الہدیٰ کہیے

دھڑکنے سے اگر عکسِ جمالِ مصطفیٰ اُبھرے

تو اس دل کو جمالِ کبریا کا آئینہ کہیے

نبی راضی ہوئے جس سے خدا راضی ہوااُس سے

رضائے سرورِ دیں کو رضائے کبریا کہیے

غلامانِ محمد کی غلامی ہم کو حاصل ہے

غلامی کا یہ کیسا ہے ہمارا سلسلہ کہیے

فرشتے جب کہیں گے قبر میں ’’یہ کون ہیں بولو‘‘!

صدا یہ دل سے آئے، اے ولیؔ! صلِّ علیٰ کہیے

٭٭٭

 

یہ خُلقِ شہ دین کا معجزہ ہے

کہ دشمن بھی نقشِ قدم چومتا ہے

بھلا اُن کی قسمت کا کیا پوچھنا ہے

جنھوں نے محمدؐ کو دیکھا سنا ہے

مری عقل کوتاہ، میں کیا بتاؤں ؟

محمدؐ کا رتبہ خدا جانتا ہے

کسی اور شے کی نہیں مجھ کو حاجت

مرے ہاتھ میں دامن مصطفٰے ہے

بھلا روز محشر سے میں کیوں ڈروں جب

یہاں آپؐ کا ہے، وہاں آپؐ کا ہے

دو عالم میں اُن کا نہیں کوئی ثانی

بزرگی محمدؐ کی بعد از خدا ہے

مسیحائی پر اُن کی قربان جاؤں

کہ جن کا لعابِ دَہن بھی دوا ہے

ولیؔ پر عنایاتِ مخصوص آقاؐ

ولیؔ تو اسیرِ کمندِ ہوا ہے

٭٭٭

 

محمدؐ کی منزل سَرِ لا مکاں ہے

محمدؐ کی مٹّھی میں سارا جہاں ہے

سبب جا کے اِس کا ہوا اب عیاں ہے

کہ مہکا ہوا کیوں مِرا آشیاں ہے

وہی جانِ ایماں، وہی نورِ یزداں

وہی عبد و معبود کے درمیاں ہے

کوئی کیا کرے گا محمدؐ کی مِدحَت؟

خدا خود ہی قرآں میں رطبُ اللسا ں ہے

شفیعِ دو عالم کا سایہ نہیں تھا

مگر اُن کے سائے میں سارا جہاں ہے

ہوئی جب سے آقاؐ کی چشمِ عنایت

مُقّدر بھی مجھ پر بہت مہرباں ہے

وہ، شہرِ حرم جس کو کہتی ہے دنیا

وہ دار الشفا ہے، وہ دارالاماں ہے

لوائے محمد کی عظمت نہ پوچھو

پریشان حالوں کا یہ سائباں ہے

کروں جس سے تعریف محبوب رب کی

ولیؔ میرے منھ میں کہاں وہ  زباں ہے

٭٭٭

 

ہے جو کچھ  وہ عکسِ جمالِ نبیؐ ہے

محمدؐ کے صدقے میں دنیا بنی ہے

جبینِ عقیدت جھُکی جا رہی ہے

مِری بندگی بھی عجب بندگی ہے

خبر آ کے روح الامیں نے یہ دی ہے

غلام نبیؐ، جو بھی ہے جنّتی ہے

نبیؐ مکّرم ہیں نورِ مجسّم

کرو یاد اُن کو بہت تیرگی ہے

وہ ذاتِ گرامی ہے قرآنِ ناطق

پیامِ خدا ہے، زبانِ نبیؐ ہے

مِری چشمِ بے نور دیکھے جو طیبہ

تو سمجھوں مسافر کو منزل ملی ہے

ابھی ذکر فردوس رہنے دے واعظ

تصّور میں اِس دم نبیؐ کی گلی ہے

اگر ہاتھ آئے نبیؐ کی محبت

تو سمجھو کہ یہ حاصلِ زندگی ہے

غمِ زندگی جب دکھاتا ہے تیور

نظر سوئے خیرالوریٰ دیکھتی ہے

اِسے بھی مشّرف بہ دیدار کیجیے

بہت مضطرب آپؐ کا یہ ولیؔ ہے

٭٭٭

 

مرحبا! رتبۂ مصطفیٰ دیکھیے

آپؐ کے روبرو ہے خدا دیکھیے

لامکاں کے مکیں ہیں ہمارے نبیؐ

نور سے نور کا واسطہ دیکھیے

دیکھ کر رفعتِ شاہِ کون و مکاں

سارا عالم ہے ٹھہرا ہوا دیکھیے

معجزہ یہ بھی ہے میرے سرکار کا

خاکِ پا بھی ہے خاکِ شفا دیکھیے

سرورِ دیں کی جن کو غلامی ملی

اُن غلاموں کا بھی مرتبہ دیکھیے

کارِ تخلیق کی ابتدا بھی وہی

ہیں وہی خاتم الانبیا دیکھیے

اُن کا ہونا ہی اِک معجزہ ہے ولیؔ

اِس کے بعد اور کیا معجزہ دیکھیے

٭٭٭

 

دل وفا آشنا ہو گیا

عاشقِ مصطفیٰ ہو گیا

جو کوئی آپؐ کا ہو گیا

اُس سے راضی خدا ہو گیا

آپؐ کی جس کو نسبت ملی

تھا وہ کیا اور کیا ہو گیا

سر قلم کرنے آیا تھا جو

خود قتیلِ وفا ہو گیا

ذکرِ خیرالوریٰ میں مِرا

خود خدا ہم نوا ہو گیا

جب دیا آپؐ کا واسطہ

میں نے جو بھی کہا ہو گیا

جو ہوا راہِ حق میں فنا

رازدارِ بقا ہو گیا

عشقِ احمد کے فیضان سے

یہ ولیؔ کیا سے کیا ہو گیا

٭٭٭

 

غلامی محمدؐ کی جس کو ملی ہے

وہی جانتا ہے کہ کیا بندگی ہے

مرے خانۂ دل میں جو روشنی ہے

یقیناََ یہ فیضانِ حُبِّ نبیؐ ہے

نبیؐ کا تصرف ہے دونوں جہاں پر

یہاں سروری ہے، وہاں سروری ہے

جہاں جا کے جبریل کے پر ہیں لرزاں

وہاں سے بھی آگے مقام نبیؐ ہے

جو حاصل ہو آقاؐ کے در کی گدائی

تو سمجھوں دو عالم کی دولت ملی ہے

تمھیں حوضِ کوثر پہ آقاؐ ملیں گے

اگر عشق میں ذوقِ وارَفْتگی ہے

چھُپا لیجے سرکار دامن میں اپنے

میں عاصی ہوں احساسِ شرمندگی ہے

عمرؓ ہی کو معلوم ہے یہ حقیقت

کہ کیسی نظر اُن پہ ڈالی گئی ہے

یہی وقت ہے مانگ لو جو بھی چاہو

ابھی دیدۂ التجا میں نمی ہے

ولیؔ یہ عنایت ہے عشق نبیؐ کی

مِری شاعری ورنہ کیا شاعری ہے

٭٭٭

 

کوئی ایسا منظر نہیں ہے

جو اُن سے مُنّور نہیں ہے

نہیں جس میں سودائے اُلفت

وہ سر واقعی سر نہیں ہے

نہ بدلے جہاں جا کے قسمت

وہ در آپؐ کا در نہیں ہے

کرے نقشِ پا ثبت دل پر

یہ سب کا مُقَّدر نہیں ہے

نہ سایہ ہے اُن کا نہ ثانی

کوئی اُن کا ہمسر نہیں ہے

غلامِ شفیعِ امم ہوں

مجھے اے ولیؔ ڈر نہیں ہے

٭٭٭

 

ابھی سے دید کے قابل ہے یہ بجلی کی بے تابی

ابھی بنیاد ہی رکھّی ہے میں نے آشیانے کی

غزلیں

ہے یہ معراجِ فکرِانسانی

اے ولیؔ اور شاعری کیا ہے

 

کتابِ زندگی کا اِک انوکھا باب دیکھا ہے

کہ اپنی خواب خواب آنکھوں کو بھی بے خواب دیکھا ہے

نہ کچھ کمیاب دیکھا ہے، نہ کچھ نایاب دیکھا ہے

گُلِ رُخسار کو دیکھا، مگر شعلاب دیکھا ہے

غموں کی تیرگی میں ہائے ان کی جلوہ سامانی

گھٹا کے درمیاں روشن رخِ مہتاب دیکھا ہے

وہ یکجا کر رہے ہیں میرے اوراق پریشاں کو

کتابِ دل میں شاید قصّۂ نایاب دیکھا ہے

جنھیں سینچا گیا ہے آنسوؤں کے گرم پانی سے

گُلوں نے اَب کے موسم میں وہی شوراب دیکھا ہے

کبھی خوابوں میں بھی دیکھی نہیں تھی جس نے بے تابی

اُسے بے چین دیکھا ہے، اُسے بے تاب دیکھا ہے

ولیؔ کے اشکِ خونیں نے یہ کیسے گُل کھلائے ہیں

کہ اُن کے دل کے زخموں کو بہت شاداب دیکھا ہے

٭٭٭

 

ہے ہماری دسترس میں دوستو سارا جہاں

پیر کے نیچے زمیں ہے اور سر پر آسماں

تیرگی کی رخصتی ہے صبحِ صادق کا نشاں

تیرا گھر اے خواب میرے واسطے دار الاماں

ہر نفس کرب مسلسل، لمحہ لمحہ خوں چَکاں

تو نہیں تو زندگی بھی اک متاعِ رائیگاں

اب کسی کو لب کُشائی کی اجازت بھی کہاں

چشم پر نم، اشکِ پیہم بے زبانوں کی زباں

میری رودادِ محبت داستان در داستاں

میرے دل میں جو بھی کچھ ہے، میرے چہرے پر عیاں

پیکرِ رنگیں ہے تیرا یا قیامت کا سماں

تیرا جلوہ جب سے دیکھا نیند آنکھوں میں کہاں

اے ولیؔ میری غزل کا رنگ جانِ گلستاں

یہ مِرا طرزِ تکلّم، میرا اندازِ بیاں

٭٭٭

 

فضائیں راس آ جاتیں اگر ہم کو زمانے کی

تو ہم بھی سوچتے پتھّر کو آئینہ بنانے کی

بالآخر کھِل کے مرجھانا پڑا معصوم کلیوں کو

سزا کتنی کڑی ہے اک ذراسا مُسکرانے کی

ابھی سے دید کے قابل ہے یہ بجلی کی بے تابی

ابھی بنیاد ہی رکھّی ہے میں نے آشیانے کی

زمیں پر بوجھ بن کر رہ گئی ہے زندگی میری

بھلا سوچوں میں کیسے آسماں سر پر اُٹھانے کی

مرے زخمِ جگر کو کیوں نہ دیکھیں لوگ حیرت سے

ادا شامل ہے اِس میں اُن لَبوں کے مُسکرانے کی

تمھاری راہ میں پتھرا گئیں یہ منتظر آنکھیں

مگر زحمت نہ کی تم نے ہمارے پاس آنے کی

یہ کہتی ہے زمانے سے مِرے اشعار کی خوشبو

روایت ہے مِری غزلوں میں پھولوں کے گھرانے کی

کسی کی فکر میں ہوں میں ولیؔ کچھ منہمک ایسا

مجھے فرصت کہاں ہے داستانِ دل سنانے کی

٭٭٭

 

ذہن کے دریچوں سے جب کوئی گزرتا ہے

ہر قدم ٹھہرتا ہے، ہر قدم سنورتا ہے

جھیل سی اُن آنکھوں میں، میں ہوں اور زمانہ بھی

دیکھنا یہ ہے تہہ میں کون ابَ اترتا ہے

میں اُسی پری رو کو دیکھ دیکھ جیتا ہوں

جس کے اِک تبسّم پر اِک جہان مرتا ہے

وہ مرا  پڑوسی ہے پھر بھی اُس کی آنکھوں پر

میرا ہرحسیں لمحہ کیوں گراں گزرتا ہے

میں ولیؔ سمجھتا ہوں راز یہ مگر چپ ہوں

کیوں وہ پھول سا چہرہ آئینے سے ڈرتا ہے

٭٭٭

 

کل تلک جو تھا تصّور انجمن آرائیوں کا

وہ مُقدّر بن گیا ہے اب مری تنہائیوں کا

زندگانی پھر بکھرنے ٹوٹنے والی ہے شاید

اے زمیں ! پھر آ گیا موسم تری انگڑائیوں کا

اِس جہاں میں آج جس کے سر پہ  تاجِ    خسر و ی ہے

سارا قصّہ بس اُسی کے نام ہے دانائیوں کا

آدمی مجھ کو بنایا ہے اِنھی رسوائیوں نے

ہے ازل سے ساتھ میرا اورمِری رسوائیوں کا

اے ولیؔ رشتہ سمندر سے ہے دل کا کچھ یقیناً

کوئی اندازہ لگا پایا نہ اِن گہرائیوں کا

٭٭٭

 

حسن کیا شے ہے، عاشقی کیا ہے؟

لذّتِ ذوقِ بندگی کیا ہے؟

میں نے دیکھی ہیں میکدہ آنکھیں

مجھ سے پوچھو کہ میکشی کیا ہے؟

یوں تو جینے کو جی رہا ہوں میں

یہ نہ جانا کہ زندگی کیا ہے؟

لاکھ سمجھا، مگر نہ سمجھا میں

یہ خودی کیا ہے، بیخودی کیا ہے؟

اَمن کی فاختہ بتائے گی

فتنۂ عقل و آگہی کیا ہے؟

خونِ ناحق ہے جس کی گردن پر

وہ بتاتا ہے منصفی کیا ہے؟

یہ تو اُن کی نظر کا ہے اعجاز

اپنے دل کی یہ روشنی کیا ہے؟

ہے یہ معراجِ فکر انسانی

اے ولیؔ اور شاعری کیا ہے؟

٭٭٭

 

سر پہ جب سے ماں ترا آنچل نہیں

کوئی بھی بادل مِرا بادل نہیں

جانتا ہوں میرا کوئی کل نہیں

میری پیشانی پہ پھر بھی بل نہیں

پتھّروں کو آئینہ کہتا ہوں میں

میرے جیسا اور کوئی پاگل نہیں

فکر کی نبضیں ہیں کیوں ٹھہری ہوئیں ؟

کیوں مرے اندر کوئی ہلچل نہیں ؟

میں کہ ہوں مختار، یا مجبور ہوں

بس اِسی اِک مسئلے کا حل نہیں

صبح کا چہرہ بھی ہے اُترا ہوا

شام کی آنکھوں میں بھی کاجل نہیں

جس میں کھویا کھویا  رہتا تھا ولیؔ

اب تری آنکھوں میں وہ جنگل نہیں

٭٭٭

 

اپنا لہو جب کام نہ آئے

کیوں گردش میں جام نہ آئے

عیّاری ابلیس کی دیکھو

کام کرے اور نام نہ آئے

دل کا سودا وہ سودا ہے

بِکنے پر بھی دام نہ آئے

کیسا قاتل، کیسا مجرم

قتل کرے اور نام نہ آئے

ایسی صبحیں بے معنی ہیں

جن کی کوئی شام نہ آئے

٭٭٭

 

کوئی اپنے واسطے محشر اُٹھا کر لے گیا

یعنی میرے خواب کا منظر اُٹھا کر لے گیا

زخم خوردہ تھا یقیناً کوئی خوشبو آشنا

جو لگا تھا سر پہ وہ پتھّر اُٹھا کر لے گیا

گوشہ گوشہ آئینہ خانہ نظر آیا مجھے

خود کو جب باہر سے میں اندر اُٹھا کرے لے گیا

کیوں سرابوں کو سمجھتا ہے وہ بحرِ بیکراں ؟

کیوں وہ میری ذات کا پیکر اُٹھا کر لے گیا

کچھ نہ کچھ لے کر ہی کچھ دیتی ہے دنیا اِس لیے

خود غرض دنیا سے میں دفتر اُٹھا کر لے گیا

میں تو سنگِ میل ہوں ہر راہ رو کے واسطے

کیا ملے گا کوئی مجھ کو گر اُٹھا کر لے گیا

اطلس و کم خواب میں ملبوس تھا جس کا بدن

کیوں مِری میلی سی وہ چادر اُٹھا کر لے گیا

کل تلک جو کہہ رہا تھا میرے فن کو رائیگاں

آج وہ میرا غزل سا گر اُٹھا کر لے گیا

کس نے مجھ کو انجمن میں کر دیا تنہا ولیؔ

کون میری فکر کا محور اُٹھا کر لے گیا

٭٭٭

 

رنگ رنگ کے پھول کھلے ہیں ہریالی ہے گلشن میں

پھر بھی پت جھڑ کا موسم ہے میرے من کے آنگن میں

ساقی میری پیاس بُجھا دے اِک مُدّت سے پیاسا ہوں

ہر موسم ہے پیار کا موسم کیا رکھّا ہے ساون میں

ذرّہ ہو یا قطرہ سب کی اپنی اپنی قیمت ہے

چاہے تو ننھّی چنگاری آگ لگادے خرمن میں

جب بھی ٹھوکر کھاتا ہوں ، میں من ہی من مُسکاتا ہوں

کیا بتلاؤں لطف ملے کیا مجھ کو غم کے دامن میں

ہر صورت سے، ہر پہلو سے وہی نظر آیا مجھ کو

جب بھی جھانک کے دیکھا   میں نے  ا پنے  من کے  درپن   میں

مہکی مہکی سی پُروائی گلشن، تتلی، بچے، پھول

میرا بچپن لوٹ آیا ہے کھویا ہوں میں بچپن میں

یوں سردی کے موسم میں وہ چاند جھیل کو تکتا ہے

جیسے کوئی بیوہ اپنا چہرہ دیکھے درپن میں

جو کچھ بھی مالک نے دیا ہے،وہی بہت ہے میاں ولیؔ

دروازے پر پھول کھلے ہیں، چاند ہے میرے آنگن میں

٭٭٭

 

کچھ تو اپنے کیے کا صِلہ دیکھیے

جو کیا ہے بُرا تو بُرا دیکھیے

آپ تو آپ ہیں آپ کی بات کیا

گر نہ آئے یقیں آئینہ دیکھیے

بے سبب کوئی مرتا نہیں آپ پر

اِک نظر اپنی قاتل ادا دیکھیے

آندھیوں میں بھی لپٹی رہی پھول سے

ایک تتلی کا یہ حوصلہ دیکھیے

لا دوا کرنے والے مِرے درد کو

درد اپنا بھی اب لا دوا دیکھیے

جس کی راہوں میں آنکھیں بچھی تھیں مِری

اُس نے مجھ سے کہا، راستہ دیکھیے

سچ ہے کیا جھوٹ کیا راز کھل جائے گا

ہوسکے تو ذرا آئینہ دیکھیے

پردہ داری کا جن کی ہے شہرہ بہت

اُن کو ہر شے میں جلوہ نما دیکھیے

میں نے پوچھا کہ کیسا ہے چہرہ ترا

اُس نے مجھ سے کہا آئینہ دیکھیے

اپنے ہاتھوں سے لکھیے مُقَّدر ولیؔ

کیا مُقَّدر کا لکھّا ہوا دیکھیے

ﷲ٭٭

 

وقت رخصت شبنمی سوغات کی باتیں کرو!

ذکر اَشکوں کا کرو! برسات کی باتیں کرو!

اپنی مٹی کا بھی تم پر حق ہے سمجھو تو سہی!

چاند سورج کی نہیں ذرَّات کی باتیں کرو!

خونِ انساں سے ہوئی ہے صبح جس کی داغدار

چند ہی لمحے سہی اُس رات کی باتیں کرو!

کب تلک اُلجھی رہے گی زلفِ جاناں میں غزل

دوستو! کچھ آج کے حالات کی باتیں کرو!

موسمِ گل میں اگر کرنی ہوں کچھ باتیں ولیؔ

پھول کی، خوشبو کی اور نغمات کی باتیں کرو!

٭٭٭

 

کبھی جب داستانِ گردشِ ایَّام لکھتا ہوں

تو پھر عنوان کی صورت میں اپنا نام لکھتا ہوں

کبھی آغاز لکھتا ہوں، کبھی انجام لکھتا ہوں

اسیرانِ محبت کی جو صبح وشام لکھتا ہوں

جلانے لگتی ہے جب شدّتِ تشنہ لبی مجھ کو

تِری آنکھوں کو میخانہ، نظر کو جام لکھتا ہوں

کسی پر کس لیے تہمت رکھوں خانہ خرابی کی

میں اپنے نام بربادی کے سب الزام لکھتا ہوں

محبت کے تقدس کو کبھی پامال مت کرنا

محبت کا یہی پیغام سب کے نام لکھتا ہوں

مخاطب ہونے لگتی ہے خود اپنی زندگی مجھ سے

ولیؔ جب بھی میں شرحِ گردشِ ا  یَّام لکھتا ہوں

٭٭٭

 

ضبط کو مرے نہ آزمائیے جناب

ہوسکے تو اور قہر ڈھائیے جناب

آسماں کو سرپہ  مت اٹھائیے جناب

اِس زمیں کو آسماں بنائیے جناب

اور میرے دل کو مت جلائیے جناب

جائیے خدا کے لیے جائیے جناب

آئینہ نہیں تو کوئی غم نہ کیجیے!

پتھّروں کو آئینہ بنائیے جناب

نفرتوں کا زہر دل کو چاٹ جائے گا

پیار اور وفا کے گیت گائیے جناب

زخم کے گلاب تو کھِلا چکے بہت

آج کوئی اور گُل کھِلائیے جناب

یہ سنی ہوئی ہے، جو سنا رہے ہیں آپ

جو نہیں سنی ہے، وہ سنائیے جناب

میں نہیں ہوں وہ کہ سب کی طرح بُت کہوں

اِک ذراسا اب تو سر ہلائیے جناب

کیا پتہ اسے کوئی کچھ اور ہی کہے

سر ولیؔ کے آگے مت جھکائیے جناب

٭٭٭

 

آپ کی نظروں میں شاید اِس لیے اچّھا ہوں میں

دیکھتا، سنتا ہوں سب کچھ پھر بھی چُپ رہتا ہوں میں

اِس لیے مجھ سے خفا رہتی ہے اکثر یہ زمیں

آسماں کو سر پہ لے کر گھومتا پھرتا ہوں میں

خاک میں ملنا ہی اشکوں کا مُقدّر ہے مگر

کیا یہ کم ہے اُس کی پلکوں پر ابھی ٹھہرا ہوں میں

خار ہی کو ہو مبارک خار کی عمرِ دراز

گُل صفت ہوں، بس جو ا ں ہوتے ہی مر جاتا ہوں میں

بادلوں کو شاید اِس کا کوئی اندازہ نہیں

عین دریا میں ہوں لیکن کس قدر پیاسا ہوں میں

غم زدہ دل کو ستم سے دور رکھنے کے لیے

بارہا خود اپنے ہی دل پر ستم ڈھاتا ہوں میں

کیوں وہ میرے سامنے آنے سے ڈرتا ہے ولیؔ

خامشی فطرت ہے میری ایک آئینہ ہوں میں

٭٭٭

 

زیرِ لب کبھی جو مسکراؤ ہو

دل پہ میرے بجلیاں گراؤ ہو

جھوم جھوم اُٹھے ہے اُس طرف حیات

جس طرف نگاہ تم اُٹھاؤ ہو

روحِ نغمہ محو رقص ہوتی ہے

جب غزل کے شعر تم سناؤ ہو

میں بناؤں ہوں زمیں کو آسماں

آسماں کو تم زمیں بناؤ ہو

جیتے جی نہ پوچھا تم نے حالِ دل

اَب لحد پہ اشک کیوں بہاؤ ہو

کانپ کانپ جائے ہے یہ دل ولیؔ

دوستی کا ہاتھ جب بڑھاؤ ہو

٭٭٭

 

باعثِ تسکینِ جاں ہے تیری زلفِ مُشکبار

آ بھی جا، شام و سحر ہے مجھ کو تیرا انتظار

تو سراپا رنگ بھی ہے، گل بھی ہے، خوشبو بھی ہے

تیرے آنے سے ہی آئی صحنِ گلشن میں بہار

مستقل دست و گریباں ہے مِرا جوشِ جنوں

ایک دن میں کب ہوا کرتا ہے دامن تار تار

کس کو فرصت ہے کہ آئے اور مِرا چہرا پڑھے

کون سنتا ہے یہاں اب بے زبانوں کی پُکار

جانے کب سے منتظر بیٹھا ہے تیری راہ میں

کون ہے وہ جس کا دل ہے اِس قدر جویائے یار

جانے کب شرمندۂ تعبیر ہوں گے میرے خواب

جانے کب تسکین پائے گی یہ روحِ بیقرار

کیوں وہی رہتا ہے ہر لمحہ تصوّر میں مِرے

میں ولیؔ جس کو بھُلانا چاہتا ہوں بار بار

٭٭٭

 

بے نیازِ نغمۂ دنیا ہوں میں

اپنے دل کی دھڑکنیں سنتا ہوں میں

وادیِ قرطاس میں بہتا ہوں میں

آبشارِ فکر کا دریا ہوں میں

دیدۂ بیخواب انجم کی طرح

رُت کوئی ہو جاگتا رہتا ہوں میں

آئینے کے روبرو حیران ہوں

جانے کس کا گم شدہ چہرہ ہوں میں

سر بلندی کیوں نہ ہو مجھ کو عطا

اپنے سر، ماں کی دعا رکھتا ہوں میں

جانے کیوں خود بھی نگاہوں کی طرح

اُن کی راہوں میں بچھا جاتا ہوں میں

وہ مجھے بہلا رہے ہیں یوں ولیؔ

جیسے کوئی ناسمجھ بچَّہ ہوں میں

٭٭٭

 

اگر تیرا چہرہ سوالی نہیں ہے

تجھے بھیک بھی ملنے والی نہیں ہے

مرا دستِ حاجت، ترے در کی زینت

کہ داتا ہی کیا جب سوالی نہیں ہے

وفا اِس سے تو چاہے جتنی بھی کر لے

یہ دنیا تری ہونے والی نہیں ہے

تو پھر ہر قدم پر ہے خطرہ ہی خطرہ

جو تیری روش اعتدالی نہیں ہے

یہ لب ہائے شیریں کا اعجاز دیکھو

حسینوں کی گالی بھی گالی نہیں ہے

ہر اِک رات ہونے لگے جب دِوالی

تو پھر وہ دِوالی، دِوالی نہیں ہے

اُسی نے اُچھالی ہے دستار میری

کبھی جس نے دستار ڈالی نہیں ہے

ولیؔ میری ویران آنکھیں نہ دیکھو

مرا دل محبت سے خالی نہیں ہے

٭٭٭

 

لوگ اب پڑھنے لگے چہرہ مِرا

میں بھی گویا میل کا پتھّر ہوا

خواب بھی آنکھوں سے رخصت ہو گئے

نامرادی کے سوا اور کیا ملا

چاند کے پتھّر میں آخر کچھ تو ہے

کیوں مِرے محبوب کا پیکر لگا؟

ابَ بھلا کس پر بھروسہ کیجیے

راہبر جو تھا، وہی رہزن ہوا

میرے دل میں بھی وفا کا نور ہے

میرا دل بھی ہے محبت آشنا

ایک بحرِ بیکراں تھا اور میں

کیا اُبھرنے ڈوبنے میں تھا مزا

کیا وفا اور کیا جفا اُن کی ولیؔ

ہر ادا ہے دل فریب و دل رُبا

٭٭٭

 

اسیرانِ محبت میں مِرا بھی نام لکھ لینا

مِرے آغاز سے پہلے مِرا انجام لکھ لینا

اسیری ہی اگر لکھّی ہوئی ہے میری قسمت میں

خدا را تم مجھے اپنا اسیرِ دام لکھ لینا

اگرمسدود ہوں سب راستے، دشوار ہو ملنا

تو اشکو ں سے دوپٹّے پر ہمارا نام لکھ لینا

اُجالوں نے اندھیروں کے سوا مجھ کو دیا کیا ہے

مِری روداد گر لکھنا سحر کو شام لکھ لینا

غزل کو لوگ رودادِ محبت کہتے آئے ہیں !

اب اِس کے آگے تم جانو، جو چاہو نام لکھ لینا

اگر ہونٹوں پہ میرے شکوۂ  جو رو ستم آئے

مجھے پھر شوق سے تم عاشقِ ناکام لکھ لینا

غزل کا دامنِ رنگیں کشادہ ہے ولیؔ، لیکن

بہت دشوار ہے اُس بے وفا کا نام لکھ لینا

٭٭٭

 

دل ستم آشنا ہو نہ جائے کہیں

درد ہی ابَ دوا ہو نہ جائے کہیں

راہ زن رہنما ہو نہ جائے کہیں

غیر بھی آشنا ہو نہ جائے کہیں

چھیڑتے رہیے زخموں کے مضراب سے

سازِ دل بے صدا ہو نہ جائے کہیں

اُن کے ہاتھوں پہ میرا یہ خونِ جگر

ابَ کے رنگِ حنا ہو نہ جائے کہیں

تیغ سے کم نہیں ہے یہ احسان بھی

میرا قتلِ اَنا ہو نہ جائے کہیں

اِس قدر ٹوٹ کر مجھ کو چاہا نہ کر

ابتدا انتہا ہو نہ جائے کہیں

آپ جلوؤں کو اپنے سمیٹے رہیں

مجھ سے کوئی خطا ہو نہ جائے کہیں

اے ولیؔ تیرے اشعار سن کر جہاں

درد میں مبتلا ہو نہ جائے کہیں

٭٭٭

 

ہے قانون فطرت کوئی کیا کرے گا

جو ہوتا ہے، دنیا میں ہو کر رہے گا

نہ نیزے پہ جب تک ترا سر چڑھے گا

ترے سر کو سر کوئی کیسے کہے گا

میں انجامِ حق گوئی سے با خبر ہوں

پتہ ہے کہ اِک دن مِرا سر کٹے گا

وہی، روٹیاں جن سے چھینی گئی ہیں

اگر اُٹھ کھڑے ہوں تو کیسا رہے گا؟

ترا حُسن ہے شعلۂ آسمانی

کوئی اِس سے آخر کہاں تک بچے گا

یقیناً کہیں آج بجلی گرے گی

یقیناً کوئی آشیانہ جلے گا

یہ درد محبت ہے میرے مسیحا

دوا سے نہ کوئی دُعا سے گھٹے گا

محبت کی قسمت میں آوارگی  ہے

کہاں تک کوئی اس کے پیچھے پڑے گا

ولیؔ جو ہے ناآشنائے محبت

مِرے دل کی دھڑکن وہ کیوں کر سنے گا

٭٭٭

 

خواب پلکوں پہ اپنی سجاتا رہا

آئینہ پتھّروں کو دکھاتا رہا

بے گناہی کے نغمے سناتا رہا

میں سرِ دار بھی مسکراتا رہا

میرے ہمراہ جو میرا ہمزاد ہے

مجھ کو منزل کی صورت دکھاتا رہا

اُس کی فطرت میں شاید ہو ردّ و بدل

آزمودہ کو بھی آزماتا رہا

وہ ستم کر کے بھی خوش نہیں رہ سکا

زخم کھا کر بھی میں مُسکراتا رہا

آنچ احساس کی سرد پڑنے لگی

ناز و انداز کا دور جاتا رہا

دورِ حاضر کا میں یوسفِ مصر ہوں

جو سزا بے گناہی کی پاتا رہا

وہ بہر طور ہنگامہ کرتے رہے

میں بہر حال غزلیں سناتا رہا

ابنِ مریم سمجھ کر ولیؔ یہ جہاں

روز سولی پہ مجھ کو چڑھاتا رہا

٭٭٭

 

ہو گیا فرعونیت کا اختتام

صبح روشن ہو گئی تاریک شام

زندگی ہی پر نہیں جب اختیار

موت سے میں کیسے لونگا انتقام

وہ  تو دل کی دھڑ کنوں میں ہے بسا

ڈھونڈتا پھرتا ہوں جس کو صبح و شام

میں ہوں دیوانہ اُسی کے نام کا

تا ابَد باقی رہے گا جس کا نام

کیوں نہ آئے مجھ کو جینے کا شعور

چشمِ ساقی سے ملا ہے مجھ کو جام

کب تلک تشنہ رہے گی آرزو

کب تلک ترسے گا مے کو میرا جام

دیکھ لی ساقی تری دریا دلی!

تیرے میخانے سے جاتا ہوں ، سلام

سانس بھی لینا ہوا مشکل ولیؔ

زندگی ہے زندگی کا اِتّہام!

٭٭٭

 

مِری سمت جب وہ نظر ہو گئی

تو یہ زندگی مُعتبر ہو گئی

غمِ دل کو میں نے چھُپایا مگر

نظر ہی نظر میں خبر ہو گئی

گُلوں کی رِفاقت نے یہ کیا کیا

وہ شبنم بھی آخر شرر ہو گئی

مِرا حال جب مجھ سے پوچھا گیا

زباں چپ رہی آنکھ تر ہو گئی

جو دنیا پہ اُس نے نظر ڈال دی

تو دنیا اِدھر سے اُدھر ہو گئی

مِرے دل کی بے تابیاں بڑھ گئیں

شبِ غم کی جوں ہی سحر ہو گئی

ولیؔ اُن نگاہوں کا اعجاز تھا

غزل آپ کی مُعتبر ہو گئی

٭٭٭

 

یہ دنیا فقط دیکھنے میں نئی ہے

وہی بات ہو گی جو ہوتی رہی ہے

خدا را مرے آنسوؤں کو نہ پونچھو

اِنھی سے مری فکر کی تازگی ہے

ابھی زخم کے پھول کھلتے رہیں گے

ابھی میرے دل کی زمیں شبنمی ہے

مِری عاجزی کو سمجھتی ہے دنیا

کہ یہ میرا احساسِ بے مائیگی ہے

برسنے لگیں جب صداؤں کے پتھّر

تو سمجھو، محبت مکّمل ہوئی ہے

سَرِ طور موسیٰ نے دیکھا تھا جس کو

وہ بجلی کئی بار مجھ پر گِری ہے

یہ کیا انقلابِ زمانہ ہے یارو!

کہ بیٹھا ہوا میکدے میں ولیؔ ہے

٭٭٭

 

محبت اَبرِ رحمت ہے

خدا کی خاص نعمت ہے

محبت کو عیاں کرنا

محبت کی اِہانت ہے

مسیحا کیا خبر تجھ کو

یہ دل بیمارِ الفت ہے

وفا کے نام پر مرنا

عبادت ہی عبادت ہے

کسی کا سایۂ گیسو

مِرے خوابوں کی جنّت ہے

کوئی بے درد کیا جانے

محبت میں جو لذَّت ہے

بھکاری کی صدا ہوں میں

عجب میری بھی حالت ہے

تِرا در ہو، مِرا سر ہو

کہاں میری یہ قسمت ہے

کسی کی یاد اِس دل میں

حسیں خوابوں کی صورت ہے

ولیؔ کی زندگی یارو!

گرفتارِ محبت ہے

٭٭٭

 

گُل رُخوں کی گُل نُمائی ہے غزل

دلبروں کی دل رُبائی ہے غزل

شکوۂ ناآشنائی ہے غزل

کون سی منزل پہ آئی ہے غزل

اُس گُل رعنا کے ذکرِ خیر پر!

دل سے اِک آواز آئی ہے ’’غزل،،

روح پر شبنم کی بارش ہو گئی

جب کسی نے گُنگُنائی ہے غزل

آج پھر زاہد نے پی لی ہے شراب

آج پھر رندوں نے گائی ہے غزل

کس قدر مشکل بیانِ حسن ہے

میں نے لکھ لکھ کر مٹائی ہے غزل

ہوں اِسی کے دم سے میں بھی اے ولیؔ

میری رگ رگ میں سمائی ہے غزل

٭٭٭

 

چہرہ اپنا دیکھیں گے ہم درپن میں

کب تک یونہی پڑے رہیں گے اُلجھن میں

یونہی دھرتی نہیں ہے پیاسی ساون میں

دھوپ چھُپی بیٹھی ہے اُس کے دامن میں

فِطرت کی تہذیب بدلتی جاتی ہے

رقص شرر ہوتا ہی رہے گا جیون میں

کرتے ہیں پھولوں کی تمنّا اوروں سے

آگ لگا کر خود ہی اپنے گُلشن میں

دھن والوں کے پاس ہے دھن اور کچھ بھی نہیں

دھن کے علاوہ سب کچھ دیکھا نِردھن میں

شاید مجھ کو جان سکو، پہچان سکو

جھانک کے دیکھو تُم میرے من درپَن میں

کب جائے گی گھر سے ولیؔ یہ تاریکی

کب اُترے گا چاند ہمارے آنگن میں

٭٭٭

 

کارِ مشکل کشا کیجیے

دردِ دل کی دوا کیجیے

چاہے جو فیصلہ کیجیے

پر مری سن لیا کیجیے

دیدۂ لُطف وا کیجیے

کچھ تو میرا بھلا کیجیے

گھر سے باہر ہیں رسوائیاں

گھر کے اندر رہا کیجیے

دامنِ رنگ و بو کے لیے

خود کو دستِ صبا کیجیے

آپ کیوں ہو گئے مطمئن

زیست کا سامنا کیجیے

فکر کیجیے نہ تعبیر کی

خواب بُنتے رہا کیجیے

آپ میرے خدا تو نہیں

چاہے کچھ بھی ہوا کیجیے

اُس نے دیکھا مجھے اور کہا

آپ پاگل ہوا کیجیے

جس کی تکمیل ممکن نہیں

ایسی خواہش کا کیا کیجیے

عشق کی زندگی ہے یہی

بس تڑپتے رہا کیجیے

چاند کو چاندنی رات میں

دور سے ہی تکا کیجیے

جانِ من شہر قاتل ہے یہ

یوں نہ ہر سو پھرا کیجیے

شہرِ ظلمات میں ، اے ولیؔ

شمع بن کر جلا کیجیے

٭٭٭

 

باغِ جنّت نہ دُرِّ عدن چاہیے

دوستو! مجھ کو خاکِ وطن چاہیے

چشتی و نانک و بدھ کی دھرتی ہے یہ

بس محبت چمن در چمن چاہیے

تاکہ خوابوں کی دنیا میں کھوجاؤں میں

میری آنکھوں کو بھی کچھ تھکن چاہیے

نازنین نازنیں گُلبدن کے لیے

شبنمی شبنمی پیرہن چاہیے

میری تنہائیوں کی سیہ رات کو

چاندنی، چاندنی اِک بدن چاہیے

جس کے دامن میں ہو رنگ و بوئے غزل

مجھ کو احساس کا وہ چمن چاہیے

میری دھرتی کرے ناز جس پر ولیؔ

ایسا تَن چاہیے ایسا مَن چاہیے

٭٭٭

 

عداوت اور نفرت سے ہمیشہ کام لیتا ہے

خطا چاہے کسی کی ہو،وہ میرا نام لیتا ہے

ہمیں اُس وقت رشک آتا ہے قاتل کے مُقّدر پر

وہ دستِ حضرتِ منصف سے جب انعام لیتا ہے

کچھ ایسا درد پنہاں ہے مری رودادِ الفت میں

غزل سنتے ہی میری وہ کلیجہ تھام لیتا ہے

شکستِ ابرہہ اِس امر کی واضح شہادت ہے

خدا چاہے تو چڑیوں سے بھی فوجی کام لیتا ہے

اُسے اتنی محبت ہے نہ جانے کیوں مِری جاں سے

میں جب بھی لڑکھڑاتا ہوں وہ مجھ کو تھام لیتا ہے

ولیؔ میری شکیبائی اُسے معلوم ہے لیکن

مِرا کیوں امتحاں پھر بھی وہ صبح و شام لیتا ہے

٭٭٭

 

سوا نیزے پر آفتاب آ رہا ہے

مرا دلرُبا بے نقاب آ رہا ہے

جو آتے ہوئے مجھ کو دیکھا تو بولے

کہ دیکھو وہ خانہ خراب آ رہا ہے

خدا جانے ڈھائے گا کیا کیا قیامت

لڑکپن چلا، اب شباب آ رہا ہے

مرے دل کی دھڑکن بڑھی جا رہی ہے

شبِ وصل اُن کو حجاب آ رہا ہے

لگاتار میری طرف ہیں وہ نظریں

لگاتار جام شراب آ رہا ہے

بہارو! مرے گھر کو گُل پوش کر دو

سناہے وہ رشکِ گُلاب آ رہا ہے

نگاہوں کی تاریکیاں دور کرنے

بصد ناز، وہ ماہتاب آ رہا ہے

اِدھر وصل کی تاب لانا ہے مشکل

اُدھر ماہ رخ کو حجاب آ رہا ہے

ولیؔ اُن نگاہوں کا اعجاز ہے یہ

تری فکر میں انقلاب آ رہا ہے

٭٭٭

 

میرے جیسا ہی قسمت کا مارا ہو گا چاند

ساری دنیا سوجائے، پر جگتا ہو گا چاند

جب خوابوں کے نیل گگن میں نکلا ہو گا چاند

اپنے آئینے میں خود کو تکتا ہو گا چاند

دل ہی دل میں جانے کیا کیا کہتا ہو گا چاند

جب ساون کی مست گھٹا میں چھپتا ہو گا چاند

آخر کب تک سوچو گے، ابَ سستاہو گا چاند

ساری چیزیں مہنگی ہیں تو مہنگا ہو گا چاند

ایسا ہو گا، ویسا ہو گا، کیسا ہو گا چاند

بھوک کے ماروں کو روٹی سا لگتا ہو گا چاند

یہ تو تاروں کی محفل میں رہنے والا تھا

تنہا تنہا آخر کیسے رہتا ہو گا چاند

٭٭٭

 

موت پر میری بجائیں آپ نے شہنائیاں

پار حد کو کر گئی ہیں اب کرم فرمائیاں

میرے ہونے ہی سے تو اُن کا بھی ہونا ہے، مگر

میری دشمن بن گئی ہیں خود مِری پر چھائیاں

میرا اپنا آئینہ خانہ ہے دنیائے غزل

آپ ہی کو ہوں مبارک انجمن آرا ئیاں

کب تلک لُٹتی رہے گی آبروئے زندگی

کب تلک سہتے رہیں گے ہم ستم آرائیاں

خواب کی رعنائیوں کو قتل کرنا چھوڑیے

یہ زمیں لینے نہ لگ جائے کہیں انگڑائیاں

پھر کوئی زُلفوں کا بادل مہر باں ہونے کو ہے

پھر غزل گانے لگی ہیں، یہ مِری تنہائیاں

مجھ کو جو شہرت مِلی اِن کی بدولت ہی ملی

ہیں ولیؔ میری متاعِ زندگی رسوائیاں

٭٭٭

 

زخم پر زخم کھاتے رہے

ہم مگر مسکراتے رہے

کوئی چہرہ بدلتا رہا

آئینے سچ بتاتے رہے

بارشِ سنگ ہوتی رہی

ہم لہو میں نہاتے رہے

آبروئے وفا  کے لیے

درد کو دل بتاتے رہے

سچ تو یہ ہے کہ ہم عمر بھر

خود سے نظریں چُراتے رہے

میری آنکھیں برستی رہیں

اور وہ مُسکراتے رہے

آپ کی ایک آواز پر

جان و دل ہم لٹاتے رہے

اُن کی راہوں میں کیوں اے ولیؔ

لوگ پلکیں بچھاتے رہے

٭٭٭

 

پھول ہے، شیشہ ہے یا ہے کوئی پتھّر دیکھتا

کاش وہ بھی آئینے میں اپنا پیکر دیکھتا

دیکھتا مجھ کو مگر منظر بہ منظر دیکھتا

وہ کبھی تو جھانک کر اس دل کے اندر دیکھتا

اپنے اندازِ ستم پر ناز وہ کرتا نہ پھر

میرا اندازِ تحمل جو پلٹ کر دیکھتا

یہ بھی اچھَّا ہی ہوا مجھ کو نہ نیند آئی کبھی

ورنہ خوابوں میں بھی میں سوکھا سمندر دیکھتا

چاند ہے یا چاندنی ہے، پھول ہے یا رنگ ہے

کاش اُس پیکر کو میں ہاتھوں سے چھوکر دیکھتا

زندگی بھر سامنے دنیا کے میں روتا رہا

اپنے رب کے سامنے اِک دن تو روکر دیکھتا

نورِ غم سے آشنا ہوتی تری ہستی ولیؔ

اپنے دل کے داغ کو اشکوں سے دھوکر دیکھتا

٭٭٭

 

جب یہ سَر واقفِ سَنگِ در ہو گیا

ذوقِ سجدہ مِرا معتبر ہو گیا

دل مِرا، آپ کا جب سے گھر ہو گیا

سارے عالم سے میں بے خبر ہو گیا

ساری دنیا کی اُس کو خبر ہو گئی

اپنی ہستی سے جو باخبر ہو گیا

اللہ اللہ یہ اعجازِ چشمِ نبیؐ

اُس نے دیکھا جسے دیدہ ور ہو گیا

درپہ اُن کے پڑا تھا تو محفوظ تھا

در سے اُن کے اُٹھا دربدر ہو گیا

میرے اشکِ ندامت کا کیا پوچھنا

دیدۂ تر سے گر کر گُہر ہو گیا

اے ولیؔ جب ملی پیار کی روشنی

میرا دل آشنائے سَحر ہو گیا

٭٭٭

 

رہِ الفت میں جس کو جل کے مر جانا نہیں آتا

کبھی شمع فروزاں تک وہ پروانہ نہیں آتا

جنابِ شیخ یہ مسجد نہیں ہے، بزم جاناں ہے

یہاں دیوانے آتے ہیں، کوئی دانا نہیں آتا

محبت میں بُجز رسوائیاں، کچھ بھی نہیں ملتا

سمجھتا ہوں مگر اِس دل کو سمجھانا نہیں آتا

صداقت پر کسی تصدیق کی حاجت نہیں ہوتی

مجھے ہر بات پر یونہی قسم کھانا نہیں آتا

ترے نازو ادا پر کیوں نہ ہو قربان یہ دنیا

کسی کو بھی ترا انداز دکھلانا نہیں آتا

تری آنکھوں میں کیسا بادۂ پُر کیف ہے ساقی

جسے پی کر کسی کو بھی سنبھل جانا نہیں آتا

مجھے کیا روک پائے گی بھلا رستے کی دشواری

مِرے پائے تمنّا کو ٹھہر جانا نہیں آتا

ولیؔ کانٹوں کو بھی تم تو ہمیشہ پھول لکھتے ہو

انھیں کچھ بھی بجز تکلیف پہنچانا نہیں آتا

٭٭٭

 

ذکر جن کا ہوتا ہے شاعروں کی غزلوں میں

صد ہزار فتنے ہیں اُن کی شوخ نظروں میں

کھیل نورو ظلمت کا دیکھنے کے قابل ہے

رات مسکراتی ہے چاندنی کی بانہوں میں

صبح کو بتاتی ہیں سِلوٹیں یہ بستر کی

کوئی شوخ آیا تھا رات میرے خوابوں میں

کون اب بتائے گا جھوٹ کیا ہے، سچ ہے کیا

کھوگیا ہے آئینہ، خود حسین چہروں میں

ہر رگِ تخیّل میں عشق کی حرارت ہے

رازِ زندگانی ہے میرے دل کے نغموں میں

جن میں ڈوب کر کوئی آج تک نہیں اُبھرا

میں اُتر کے دیکھوں گا جھیل سی اُن آنکھوں میں

چاندنی برستی ہے آپ کی نگاہوں سے

جانے کون رہتا ہے آپ کی نگاہوں میں

اُس سے اے ولیؔ جا کر کوئی اتنا پوچھے تو

کیوں وہ تھک کے بیٹھا ہے زندگی کی راہوں میں

٭٭٭

 

دی ہے کیسی سزا، دیکھیے تو ذرا

کیا ہے میری خطا، دیکھیے تو ذرا

ایک مٹّی کا چھوٹا دیا رات بھر

ظلمتوں سے لڑا، دیکھیے تو ذرا

ہنس کے سہتا رہا آپ کا ہر ستم

یہ مِرا حوصلہ، دیکھیے تو ذرا

آج پھر محفلِ آئینہ رنگ میں

ہے کوئی سر پھرا، دیکھیے تو ذرا

اک تبسّم کی ہستی میں یہ بانکپن

پھول کی یہ ادا، دیکھیے تو ذرا

جانے کیوں سچ چھُپانے لگا آج کل

وہ جوہے آئینہ، دیکھیے تو ذرا

آپ جس کو کھلونا سمجھتے رہے

ہے وہی دل مِرا، دیکھیے تو ذرا

جیسا دکھتا ہے ویسا نہیں ہے ولیؔ

پھر بھی ہے آئینہ، دیکھیے تو ذرا

٭٭٭

 

آج تیری یاد ایسی آئے ہے

شُعلۂ غم اور لَپکا جائے ہے

آپ کے بارے میں سوچوں یا نہیں

خود ہی کہیے، آپ کی کیا رائے ہے

رفتہ رفتہ درد ہوتا ہے سوا

دھیرے دھیرے دل کو غم کھاجائے ہے

بس کر اے درد محبت، تھم بھی جا!

اور اب مجھ سے نہ رویا جائے ہے

یہ خدا جانے بُرا ہے یا بھلا

جیسا ہے، لیکن ولیؔ کہلائے ہے

٭٭٭

 

دیکھ کر میں مفلسوں کو کیوں نگاہیں پھیرتا ہوں

بے سرو ساماں زمیں پر میں بھی جب پیدا ہوا ہوں

کیوں مِری تنہائیوں پر اس قدر حیرت ہے تم کو

عہد کوئی بھی ہو یارو! میں سدا تنہا رہا  ہوں

آج میں اونچا ہوں سب سے اور سب سے محترم بھی

تیغ میرے ہاتھ میں ہے اور لاشوں پر کھڑا ہوں

اپنے ہی لوگوں کی خاطر وقف میری زندگی تھی

اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں بے سبب مارا گیا ہوں

مبتلائے عیش کوشی ہی رہی میری تمنّا

لذّتوں کی انتہا سے آج تک ناآشنا ہوں

اِس حقیقت کو سمجھ کر بھی نہیں سمجھا ہے میں نے

کس لیے آیا ہوں، اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہوں

عزم محکم ہو تو خود آسان ہو جاتے ہیں رستے

میں ولیؔ یہ جان کر ہی سوئے منزل چل پڑا ہوں

٭٭٭

 

دل کو اپنے وفا آشنا کیجیے

آئینے کو حقیقت رسا کیجیے

یہ شہادت اُسی کی بدولت تو ہے

یاد قاتل کو بھی کر لیا کیجیے

ہے تقاضہ یہی رسمِ منصور کا

دار پر رقص کرتے رہا کیجیے

پا بہ زنجیر بھی ہوں تو کچھ غم نہیں

پیار کے گیت گاتے رہا کیجیے

خود کو پتھّر بنانے سے کیا فائدہ؟

موم بن کر پگھلتے رہا کیجیے!

صرف انسان ہونا ہی کافی نہیں

حقِّ انسانیت بھی ادا کیجیے!

آپ کے سر پہ جب ماں کا سایہ نہیں

ہر قدم پھر سنبھل کر چلا کیجیے

ساتھ جن کا نہیں، یاد آئیں وہ جب

اُن کے حق میں خدا سے دُعا کیجیے

کچھ بھی اِس زندگی کا بھروسہ نہیں !

موت کو یاد کرتے رہا کیجیے

آ کے ساحل پہ ڈوبی ہے کشتی مری

اے ولیؔ ایسی قسمت کا کیا کیجیے

٭٭٭

 

آپ کیا چاہتے ہیں، یہ فرمائیے

اپنی باتوں میں مجھ کو نہ اُلجھائیے

ماں سَراپا کرم ہے سَراپا عطا

اُس کا کوئی بدل ہو تو بتلائیے

آگ دل کی بجھے، اب یہ ممکن نہیں

اشکِ خوں چاہے جتنا بھی برسائیے

دردِ دل حد سے ہونے لگے جب سوا

ذہن میں اُس مسیحا کو لے آئیے

قسمت اہلِ فن بے کسی، بے بسی

پیجئے اشکِ خوں اور غم کھائیے

ایسی منزل پہ لے آئی ہے زندگی

آئینہ دیکھیے اور ڈر جائیے

آپ کے بھولنے کی ادا خوب ہے

یہ ادا آپ مجھ کو بھی سکھلائیے

اس کی رحمت پہ کامل بھروسہ رہے

جب کبھی غم کے طوفاں میں گھر جائیے

غم کے بارے میں کیا پوچھتے ہیں ولیؔ

غم ہے ایسا کہ رو رو کے مر جائیے

٭٭٭

 

درد سے جب دل کا رشتہ ہو گیا

دوسروں کا غم بھی اپنا ہو گیا

دل ہی دل میں، میں فُغاں کرتا رہا

آنسوؤں پر جب سے پہرا ہو گیا

میں نے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کہ بس

بے سبب اک حشر برپا ہو گیا

ماں کے چہرے پر نظر جس دم پڑی

دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا

ہے تصّور میں یہ کس کا نقشِ پا

ذہن سے دل تک اجالا ہو گیا

گھِرتے ہی تاریکیوں میں اے ولیؔ

دور مجھ سے میرا سایہ ہو گیا

٭٭٭

 

در کرتے کہیں ہو، کہیں دیوار کرو ہو

ویرانہ کہیں اور کہیں گلزار کرو ہو

جنّت سے نکالا ہوا رسوا ہوں مِری جاں

تم کیا مجھے رسوا سَرِ بازار کرو ہو

دیکھو ہو مِرے دل کی طرف ایسی نظر سے

سوئے ہوئے جذبات کو بیدار کرو ہو

تم حسنِ جواں سال کو پردے میں تو رکھَّو

کیوں میری نگاہوں کو گنہ گار کرو ہو

پہلے ہی سے دشوار کیے بیٹھے تھے جینا

مرنا بھی ولیؔ کے لیے دشوار کرو ہو

٭٭٭

 

ہو رہی ہیں مشکلیں تدبیر سے کچھ کم نہیں

میری حالت وادیِ کشمیر سے کچھ کم نہیں

کیا بتاؤں کیا ہے فتنہ اُس کرشمہ ساز کا

اُس کی فطرت ایک ماہی گیر سے کچھ کم نہیں

میں بھی تارے توڑ لاتا اپنے بچّوں کے لیے

میری غربت پاؤں کی زنجیر سے کچھ کم نہیں

آج بھی ہیں گیسوئے جانا ں کے پیچ و خم وہی

میری خاطر وہ مِری تقدیر سے کچھ کم نہیں

وقف تھی یہ زندگی جن کی خوشی کے واسطے

بات اُن کی آج دل پر تیر سے کچھ کم نہیں

اس لیے جاری ہیں مجھ پر آپ کے جو رو ستم

یہ مِرا دل آپ کی جاگیر سے کچھ کم نہیں

اے مسیحا! تیرے اس بیمارِ الفت کے لیے

تیری اِک چشمِ کرم اکسیر سے کچھ کم نہیں

تو جو میرے فکرو فن کی خوش نما تعمیر ہے

میں بھی تیرے خواب کی تعبیر سے کچھ کم نہیں

بارہا لوٹا گیا ہوں میں بھی اپنے شہر میں

درد میرا بھی ولیؔ اب میرؔ سے کچھ کم نہیں

٭٭٭

 

کلیاں لہو لہو ہیں ، چمن داغدار ہے

ہرسمت شورِ ماتمِ قتلِ بہار ہے

جب بھی چلی ہوائے کرم منتشر ہوا

گویا مِرا وجود ہی مشتِ غبار ہے

الفاظ ساتھ ہی نہیں دیتے کہ کچھ کہوں

جو چاہو مجھ کو دے دو تمھیں اختیار ہے

کیا جانیے یہ کون سی منزل ہے عشق کی

دل پر ترا تبسُّمِ نازک بھی بار ہے

دیوانگی نہیں ہے تو کیا ہے تمھی کہو

تم مل گئے ہو پھر بھی یہ دل بیقرار ہے

اس پر کوئی بھروسہ کیا جائے کس طرح

کمبخت اپنا دل بھی تو بے اختیار ہے

شاید تجھے خبر نہیں اے غیرتِ بہار

تیرے ولیؔ کو صرف ترا انتظار ہے

٭٭٭

 

ہے سچ، دوستی اُن کی سچّی نہیں ہے

مگر دشمنی بھی تو اچھی نہیں ہے

مرض ہو کوئی بھی، دوا ہے محبت

کبھی بات نفرت سے بنتی نہیں ہے

کبھی اِس کے سینے میں چنگاریاں تھیں

زمیں آگ یونہی اُگلتی نہیں ہے

رخِ گُل سے شبنم کو چنتا ہے سورج

اگرچہ بظاہر یہ موتی نہیں ہے

جلے بھی تو کیسے چراغِ محبت

تری بزم میں جب ولیؔ ہی نہیں ہے

٭٭٭

 

وہ کہاں میسّر ہے شہر کی فضاؤں میں

جو سکون ملتا ہے گاؤں کی ہواؤں میں

جس کے دل پہ بر سے گا  ماں کے پیار کا بادل

پھول بن کے مہکے گا ایک دن فضاؤں میں

صبح کی نئی کرنیں دے رہی ہیں آوازیں

کب تلک گزاروگے زندگی گپھاؤں میں

سانحہ یہ کیسا ہے اپنی زندگانی کا

جل رہا ہے دل میرا گیسوؤں کی چھاؤں میں

لاکھ تم جتن کر لو سچ کو اب چھپانے کا

چاند چھپ نہیں سکتا دیر تک گھٹاؤں میں

کوئی بچ نہیں سکتا آپ کی اداؤں سے

جانے کیسا جادو ہے آپ کی اداؤں میں

تیری ہی دعاؤں کا ہے ولیؔ اثر شاید

ہے جو پیار کی خوشبو چارسو فضاؤں میں

٭٭٭

 

ستم یہ کیسا کرتے ہو مِرے سرکار چٹکی میں

کبھی اقرار چٹکی میں، کبھی انکار چٹکی میں

ہوئیں جس  دم کسی سے میری آنکھیں چار چٹکی میں

خزاں دیدہ مِرا دل ہو گیا گلزار چٹکی میں

نہ جانے کیا عجب انداز ہے عشوہ طرازوں کا

کبھی تو وعدۂ اُلفت، کبھی اِنکار چٹکی میں

تمھارے عشق نے مجھ کو بنا ڈلا ہے سودائی

تمھی کرتے ہو یوں مجھ کو ذلیل و خوار چٹکی میں

مِرے ہاتھوں میں ہے بس اِک اِسی اُمّید کا دامن

بدل دیتی ہے قسمت اِک نگاہِ یار چٹکی میں

کوئی آخر مجھے دارورسن سے کیوں ڈراتا ہے

جنوں پیشہ ہوں میں، جاؤں گا سوئے دار چٹکی میں

شفاعت ہو میسّر جس کو روزِ حشر آقاؐ کی

ولیؔ بن جائے گا جنّت کا وہ حقدار چٹکی میں

٭٭٭

 

مجھے ہونے لگا ہے پیار لگتا ہے

ترا اِنکار بھی اقرار لگتا ہے

کبھی تلوار لگتی تھی ادا اُس کی

مگر ابَ خود بھی وہ تلوار لگتا ہے

غمِ ہستی میں جو مستی کا ہے عالم

یہ اعجازِ نگاہِ یار لگتا ہے

یہاں بھی یوسفی نیلام ہوتی ہے

کہ یہ بھی مصر کا بازار لگتا ہے

پسینہ پاؤں سے آتا ہے جب سر تک

کہیں تب جا کے بیڑا پار لگتا ہے

متاعِ غم، عطا کی ہے ہمیں جس نے

نہ جانے کیوں وہی غم خوار لگتا ہے

جہاں آکر بدل جاتی ہیں تقدیریں !

مجھے وہ تیرا ہی دربار لگتا ہے

وہ جس کی عادتیں ہیں رہزنوں جیسی

ہمارا قافلہ سالار لگتا ہے

اِسے جائے اماں کہیے ولیؔ کیوں کر

یہاں ہر روز اِک بازار لگتا ہے

٭٭٭

 

جب نہ ہو ربط آستانے سے

فائدہ کیا ہے؟ سر جھکانے سے

آ، کسی روز تو بہانے سے

منتظر ہے کوئی زمانے سے

یار! تیرے قریب آنے سے

ہو گیا دور میں زمانے سے

فاصلے دوریاں بڑھاتی ہیں

بات بنتی ہے آنے جانے سے

درد میں کچھ کمی تو آئی ہے

قصّۂ غم اُنھیں سُنانے سے

تلخیوں کے سوا ملا کیا ہے؟

زندگی کے شراب خانے سے

حالِ دل کا ہے عکس آنکھوں میں

راز چھُپتا نہیں چھپانے سے

ائے ولیؔ کتنے بن گئے قصّے

اِک مِرے درد کے فسانے سے

٭٭٭

 

قبر پہ میری آئے کون

دستِ دُعا اُٹھائے کون

ضبط کو آزمائے کون

اُس کی گلی میں جائے کون

ہوش و خرد گنوائے کون

اُن کے قریب جائے کون

جَور کی آندھیاں ہیں تیز

شمعِ وفا جلائے کون

سنگِ رہِ حیات ہوں

مجھ کو گلے لگائے کون

دل میں جو ہے ولیؔ مِرے

اُس کو بھلا بتائے کون        ٭٭٭

 

دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہو گیا

میرا سایہ بھی مجھ سے بڑا ہو گیا

زہر آلود کا نٹوں کی اِس بھیڑ میں

ایک غنچہ کھِلا بھی تو کیا ہو گیا

خواب کے آئینے ریزہ ریزہ ہوئے

آئینہ خانہ ماتم کدہ ہو گیا

اِس تلوّن مزاجی کا کیا پوچھنا

تھا ابھی خوش، ابھی وہ خفا ہو گیا

میرے دل میں اُتر کر تو دیکھے کوئی

اِس نگر میں جو آیا مِرا ہو گیا

دل میں بن کر رہا جذبۂ بیکسی

لب پہ آیا تو حرفِ دُعا ہو گیا

اُس کے بارے میں سنتا تھا کیا کیا ولیؔ

اُس کو دیکھا تو سب آئینہ ہو گیا

٭٭٭

 

اپنی نظروں پر عیاں ہوں

آپ اپنا ترجماں ہوں

لفظِ کُن کا راز داں ہوں

میں یقیناً بیکراں ہوں

آپ کہتے ہیں کہاں ہوں ؟

میں تو سب کے درمیاں ہوں

روشنیِ رائیگاں ہوں

شمع کے دل کا دھواں ہوں

ہوں محبت کا امیں میں

میں صداقت کی زباں ہوں

گفتگو میری خموشی

میں نگاہوں کی زباں ہوں

یہ ہے حدِّ بد گمانی

خود ہی خود سے بد گماں ہوں

بس یہی پونجی ہے میری

میں خیالوں کا جہاں ہوں

ہے اثر تقدیر میری

میں نگاہوں کی فُغاں ہوں

اے ولیؔ مانندِ خوشبو

میں گُلوں کے درمیاں ہوں

٭٭٭

 

سبب اِس کے جلنے کا کیا پوچھنا ہے

خود اپنے دیے سے مِرا گھر جلا ہے

وہ اَسرارِ ہستی سے واقف ہو کیسے

جو موجِ حوادث سے ناآشنا ہے

بھلا کیسے اپنا سمجھنے لگوں میں

کبھی آپ نے مجھ کو اپنا کہا ہے؟

مِرا عزم محکم ہے یہ جان کر بھی

زمانہ مجھے آزماتا رہا ہے

بہاروں کا عالم ہے حدِّ نظر تک

ترا مُسکرانا بھی اِک معجزہ ہے

عجب چیز ہے یہ جنونِ محبت

پتہ بھی نہیں کس کو دل دے دیا ہے

میں جب ٹوٹ کر آسماں سے گرا ہوں

مِرے ساتھ ہی آسماں گر پڑا ہے

ولیؔ ذکر ہے جس کا میری غزل میں

وہی آج میری غزل سن رہا ہے

٭٭٭

 

جس طرف دیکھو قیامت کا سماں ہے

کچھ نہیں باقی، فقط آہ و فغاں ہے

ابتدا تا انتہا یہ داستاں ہے

زندگی بھی کیا بجز بارِ گراں ہے

ہر قدم پر اُن کو احساسِ زیاں ہے

گویا میرا پیار جنسِ رائیگاں ہے

ہے جو حاصل میرے ذوقِ بندگی کا

وہ یقیناً تیرا سنگِ آستاں ہے

کیوں زمیں محور پہ اپنے گھومتی ہے؟

کس لیے گردش میں آخر آسماں ہے؟

بد گماں جس روز سے تم ہو گئے ہو

خود ہمارا دل بھی ہم سے بد گُماں ہے

جس کی فطرت میں نہیں ہے مہربانی

جانے کیوں وہ آج مجھ پر مہر باں ہے

اُس نے جب سے پھیر لیں اپنی نگاہیں

میرا دل بھی میرے پہلو میں کہاں ہے؟

اُس سے پوشیدہ نہیں ہے راز کوئی!

وہ ہمارا ہم نفس ہے، راز داں ہے

جس کی پیشانی سے صبحیں پھوٹتی تھیں !

وہ مِرا ہندوستاں، ڈھونڈو کہاں ہے

کفر ہے مایوس ہونا رحمتوں سے

اے ولیؔ اُس کا کرم تو بیکراں ہے      ٭٭٭

 

ترے در پہ یہ سر جھُکا ہے

یہ سب سے بڑا سانحہ ہے

اگر وہ نہیں ہیں تو کیا ہے

زمانہ مِرا ہم نوا ہے

ادا اِس کی رحمت ادا ہے

یقیناً یہ ماں کی دُعا ہے

کبھی تم نے جھانکا ہے دل میں

کبھی تم نے چہرہ پڑھا ہے

نظر میں اگر حُسن ہے تو

ہر اِک شے یہاں خو ش نما ہے

کہاں پھول دیکھے ہے خود کو

کہ وہ چاک دامن ہوا ہے

ولیؔ شاعری کیا ہے اپنی

یہ بس اپنے دل کی صدا ہے

٭٭٭

 

میں نہیں پوچھتا سزا کیا ہے؟

یہ بتا دو مِری خطا کیا ہے؟

کاش اُس کو مِرا خیال آئے

مجھ سے پوچھے تجھے ہوا کیا ہے؟

جس کو دیکھو اُسی کا شیدائی

کیا بتاؤں وہ دلرُبا کیا ہے؟

اُس کو معلوم ہی نہیں شاید

آہ کیا چیز ہے؟ دُعا کیا ہے؟

کوئی جینا ہے ایسا جینا بھی

ایسے جینے سے فائدہ کیا ہے؟

یہ بتاؤ کہ کب ملو گے تم

یہ نہ پوچھو مجھے ہوا کیا ہے؟

٭٭٭

 

جس نے میرا دل دکھایا دیر تک

وہ بھی مجھ کو یاد آیا دیر تک

ہم اگر اپنا بنانا سیکھ لیں

کیا رہے کوئی پرایا دیر تک

اُس کے غم کا بوجھ ہلکا ہو گیا

جس نے حالِ دل سنایا دیر تک

بھوکے بچّوں کو سُلانے کے لیے

ماں نے پتھر کو پکایا دیر تک

تھا یقیناً وہ محبت کا چراغ

جو ہوا میں جگمگایا دیر تک

اب نہیں آؤں گا تیرے دام میں

میں نے تجھ کو آزمایا دیر تک

میں نے تیری لاج رکھ لی ساقیا

بے پیے ہی لڑکھڑایا دیر تک

درد کو میرے وہ سمجھے گا ولیؔ

زخم جس کو راس آیا دیر تک

٭٭٭

 

دل میں نورِ جلوۂ ایمان ہے

مومنوں کی بس یہی پہچان ہے

کون سنتا ہے مِری آہ و فُغاں

یہ جہاں اب حشر کا میدان ہے

میں وفا کی دھوپ میں جلتا رہوں

گیسوؤں والے ترا احسان ہے

درد دے کر مجھ کو دیتے ہیں دوا

اُن کا مجھ پر یہ بڑا احسان ہے

ہمدم دیرینہ بے شک بن ترے

زندگی اپنی بہت ویران ہے

ہو گئے رنج و الم حد سے سوا

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

پوچھتے کیا ہو ولیؔ کی داستاں

بس سمجھ لو میرؔ کا دیوان ہے

٭٭٭

 

حُسن کو حسن نظر کہتے ہیں لوگ

شام کو عکسِ سَحر کہتے ہیں لوگ

آئینے کی آبرو جاتی رہی

بے ہنر کو با ہنر کہتے ہیں لوگ

سچ تو یہ ہے رازِ فتح زندگی

زندگی کو ہار کر کہتے ہیں لوگ

لی ہے کروٹ آدمی کی سوچ نے

اب قفس کو اپنا گھر کہتے ہیں لوگ

جس کا دنیا میں نہیں کچھ اعتبار

اُس کو بھی ابَ مُعتبر کہتے ہیں لوگ

لفظ کی صورت بدل کر رہ گئی

عیب کو بھی اب ہنر کہتے ہیں لوگ

روشنی جن سے ملے دل کو ولیؔ

ایسے شعروں کو گُہر کہتے ہیں لوگ

٭٭٭

 

کیا کہوں کہ کیا ہوں میں

سنگ بے صدا ہوں میں

دردِ لا دوا ہوں میں

آہِ نارسا ہوں میں

درد کی دوا ہوں میں

پیار کی صدا ہوں میں

جس کی ابتدا ہو تم

اُس کی انتہا ہوں میں

خود ہی راہ رو بھی ہوں

خود ہی رہنما ہوں میں

سوچنا فضول ہے

پھر بھی سوچتا ہوں میں

اُن پہ ہے نظر مِری

خود کو دیکھتا ہوں میں

لب پہ ہوں چکور کے

چاند کی دُعا ہوں میں

جانے کیا ہوا مجھے

خود  سے بھی  خفا  ہوں  میں

آؤ دیکھ لو ولیؔ

کیسا آئینہ ہوں میں

٭٭٭

 

کس لیے آج کل

ابروؤں پر ہے بل

شمع ہے تو، پگھل

میرے سانچے میں ڈھل

زندگی اور کیا

خواب کا اِک محل

ابَ تو بیدار ہو

اپنی آنکھوں کو مل

چھوڑ، آوارگی

یار، ابَ تو سنبھل

روشنی کو سمجھ

تیرگی سے نکل

مت بدل، پیر ہن

اپنی فطرت بدل

درد کو دل بنا

غم کے سانچے میں ڈھل

تو ہی شامِ ابد

تو ہی صبحِ ازل

کیسے میٹھا نہ ہو

یہ ہے محنت کا پھل

کیوں ہے بیٹھا ہوا

چل، مِرے ساتھ چل

دل مِرا پھول ہے

یوں نہ اِس کو مسل

تجھ پہ قرباں ولیؔ

میری جانِ غزل

٭٭٭

 

رہے دل میں ہر دم جو خوفِ خدا

تو پھر کیوں کسی سے ہو سرزد خطا

محبت نبیؐ ہے، محبت خدا

محبت ہر اِک درد کی ہے دوا

شفیع اُمم ہیں، حبیبِ خدا

کرم ہی کرم ہیں، عطا ہی عطا

نہ چھوٹے کبھی دامنِ مصطفیٰ

خدا کو بھی محبوب ہے یہ ادا

نبیؐ کی محبت کا صدقہ ہے یہ

ہوا ہے مِرا دل وفا آشنا

نہ کچھ اِس سے زیادہ نہ کچھ اِس سے کم

ملے گا مُقَّدر کا لکّھا ہوا

ولیؔ میں ہر اِک غم سے آزاد ہوں

مِرے ساتھ ہے میری ماں کی دُعا

٭٭٭

 

درد ہوں میں، اِن کے دل میں جابسوں گا

اشک بن کر اُن کی آنکھوں میں رہوں گا

کیوں کہ جھوٹا ہو گیا ہے آئینہ بھی

اس کا چہرا اپنی آنکھوں سے پڑھوں گا

اپنی نظروں سے کہیں میں گر نہ جاؤں

سوچتا ہوں اور کب تک چپ رہوں گا

گنگنائے گا ولیؔ مجھ کو زمانہ

میں دلوں کے ساز کو آواز دوں گا

٭٭٭

 

اِک دن نیزے پر ہوتا ہے

وہ سر جو خود سر ہوتا ہے

چاہے جیسا بھی ہو لیکن

گھر تو آخر گھر ہوتا ہے

پھولوں والے گھر میں اکثر

کانٹوں کا بستر ہوتا ہے

دیکھ کے تم کو میں نے جانا

شیشہ بھی پتھّر ہوتا ہے

لفظوں کی جب جنگ چھڑی ہو

چپ رہنا بہتر ہوتا ہے

یہ بھی ہے ولیؔ دستورِ مشیت

منظر پس منظر ہوتا ہے

٭٭٭

 

زخم جب سینے کو مہکا نے لگا

میں محبت کے مزے پانے لگا

پھر تصّور میں بنامِ زلفِ یار

ریشمی سایہ سا لہرانے لگا

پھر مِرے دل کی تمنّا جاگ اُٹھی

پھر مجھے وہ شخص یاد آنے لگا

تھی زمیں آمادۂ ظلم و ستم

آسماں بھی قہر برسانے لگا

ننگِ آئینہ ہے خود جس کا وجود

وہ مجھے آئینہ دِکھلانے لگا

شکریہ چشمِ کرم کا شکریہ

ابَ زمانہ مجھ کو ٹھکرانے لگا

آپ کے افکار میں بھی اے ولیؔ

رنگ غزلوں کا نظر آنے لگا

٭٭٭

 

چاہے جتنا بھی پٹک لے سر کوئی

اذنِ حق ہی سے کھُلے گا در کوئی

روبرو ہو جب نگارِ آرزو

کیوں تراشے خواب کا پیکر کوئی

کوئی باہر رہ کے بھی گھر میں رہا

گھر میں رہ کر بھی رہا باہر کوئی

میرے دل میں آ کے بن بیٹھا صنم

ٹھوکریں کھاتا ہوا پتھّر کوئی

جب کبھی بھی ٹھوکریں کھاتا ہوں میں

یاد آتا ہے مجھے اکثر کوئی

میں کہ خلوت میں بہت مصروف تھا

چیختا ہی رہ گیا باہر کوئی

اشک ہوں میں، بے گھری تقدیر ہے

کب خوشی سے چھوڑتا ہے گھر کوئی

لے کے آئی ہے کہاں قسمت ولیؔ

کوئی منظر ہے، نہ پس منظر کوئی

٭٭٭

 

بہت کی ہے میں نے بھی بخت آزمائی

مگر راس آئی تو مجھ کو گدائی

میاں جاؤ رہنے بھی دو پارسائی

کہاں کے بڑے اور کہاں کی بڑائی

محبت سے جب آشنائی نہیں ہے

تو کس کام کی یہ پڑھائی لکھائی

جو تیری اسارت کا لُطف آشنا ہے

بھلا کیوں کرے وہ دعائے رہائی

مرے مُدّعی نے بہت زور مارا

مگر بے گناہی مِرے کام آئی

جبینِ محبت کی تقدیر بدلے

ترے آستاں تک اگر ہو رسائی

ولیؔ داغِ دل آپ کہتے ہیں جس کو

وہی ہے مِری عمر بھر کی کمائی

٭٭٭

 

شرم کی کیا بات ہے، شرمائیں کیوں ؟

ہم گنہگارِ وفا پچھتائیں کیوں َ؟

موت ہے دراصل پیغامِ حیات

موت سے اہلِ جنوں گھبرائیں کیوں ؟

دل کے کیف و کم سے جو ہیں آشنا

نفس کی چالوں سے دھوکا کھائیں کیوں ؟

یہ نہیں کہ اُٹھ کے ہم جائیں کہاں

یہ کے تیرے در سے اٹھ کے جائیں کیوں ؟

آئینے کی خود ضرورت ہے ہمیں

آئینہ اوروں کو ہم دکھلائیں کیوں ؟

ہم ہیں اپنی ذات میں خود انجمن

ہم کسی کی انجمن میں جائیں کیوں ؟

پاؤں سے گرداب لپٹی ہے ولیؔ

گردشِ ایَّام سے گھبرائیں کیوں

٭٭٭

 

دسترس نہیں جس پر وہ جہاں خریدا ہے

بیچ کر زمیں اپنی آسماں خریدا ہے

مقصد ایک جیسا ہے، بات ایک جیسی ہے

یا یقین بیچا ہے یا گماں خریدا ہے

دیکھیے کہ ہوتی ہے کب یہ آرزو پوری

جو خریدنا چاہا وہ کہاں خریدا ہے

جس میں دفن ہے میری آرزوؤں کی میّت

آج میرے بیٹے نے وہ مکاں خریدا ہے

کل کی میزبانی میں تھا خلوصِ دل شامل

آج کا یہ عالم ہے، میزباں خریدا ہے

سچ کہا ولیؔ تم نے بیچ کر اَنا اپنی

ہم نوا خریدا ہے، ہم زباں خریدا ہے

٭٭٭

 

رونما جو بھی ہوا ہے وہ فنا ہو جائے گا

اپنا سازِ دل بھی اِک دن بے صدا ہو جائے گا

میرے دل کا آپ سے جب رابطہ ہو جائے گا

تیرگی چھٹ جائے گی یہ آئینہ ہو جائے گا

میں نے سوچا بھی نہ تھا ایسا خیال و خواب میں

پھول جیسا آدمی پتھّر نُما ہو جائے گا

جان کر یہ وہ ستمگر بھی بہت محتاط ہے

درد حد سے بڑھ گیا تو پھر دوا ہو جائے گا

مطمئن اپنے لہو کی تربیت سے ہوں ولیؔ

میرا بیٹا ایک دن میرا عَصا ہو جائے گا

٭٭٭

 

وہ جو ملتا ہے کچھ فائدہ دیکھ کر

مجھ کو اپنا کہے بھی تو کیا دیکھ کر

بعد مرنے کے آنکھیں کھلی رہ گئیں

تاکہ آئے کوئی دَر کھلا دیکھ کر

رُخ سے پردہ ہٹا کر یہ اُس نے کہا

لوگ پاگل ہوئے جانے کیا دیکھ کر

تاکہ اُس کی فضیلت مسلم رہے

چاند چھُپتا ہے کالی گھٹا دیکھ کر

تجھ کو معلوم ہے اے مسیحا مرے

درد بڑھتا ہے اکثر دوا دیکھ کر

وہ جو رکھتے ہیں منزل پہ اپنی نظر

راہ چلتے نہیں فاصلہ دیکھ کر

ہے ستم کیا؟ ستم کی علامت ہے کیا؟

میں نے سمجھا ہے چہرہ ترا دیکھ کر

کیا گزرتی ہے آنکھوں پہ مت پوچھیے

اپنے خوابوں کو لٹتا ہوا دیکھ کر

آئینہ بن گئے ہیں یہ دیر و حرم

در پہ تیرے مِرا سر جھُکا دیکھ کر

دیکھ کر مجھ کو ہنستی ہے دنیا ولیؔ

جیسے پاگل ہنسے آئینہ دیکھ کر

٭٭٭

 

کب کسی کے حسنِ فتنہ گر پہ کہتا ہوں غزل

جو چڑھے نیزے پہ میں اُس سر پہ کہتا ہوں غزل

بھوکے معصوموں کی آنکھوں نے بھلا کیا کہہ دیا!

میں کہ اب اپنی ہی چشمِ تر پہ کہتا ہوں غزل

جس نے بخشی ہیں مِرے سجدوں کو یہ رسوائیاں

میں اُسی ظالم کے سنگِ درپہ کہتا ہوں غزل

میرا آہنگِ غزل ہے اِس لیے سب سے الگ

دیدۂ تر یا دلِ مضطر پہ کہتا ہوں غزل

آرزوئے صبح میں جینا ہے مجھ کو اِس لیے

اپنے خوابوں کے حسیں منظر پہ کہتا ہوں غزل

پھیکا پھیکا سا لگے ہے میرؔ کی دلّی کا رنگ

اَب جو اپنے شہر کے منظر پہ کہتا ہوں غزل

آپ کیجیے فکر اُس محشر کی لیکن میں ولیؔ

جو بپا ہے آج اُس محشر پہ کہتا ہوں غزل

٭٭٭

 

خواب مجھ کو نہ دکھایا جائے

عَہدِ تعبیر بھی لایا جائے

آنکھیں ابَ دل میں اُتر جاتی ہیں

کیسے زخموں کو چھُپایا جائے

جن سے ملتا ہے محبت کا سبق

اُن کتابوں کو پڑھایا جائے

جو لہو سے ہوں ہمارے روشن

اُن چَراغوں کو جلایا جائے

کھیت میں چاندنی بوئی جائے

ہر طرف چاند اُگایا جائے

اُن سے کیا آنکھ چرائی جائے

جن سے دامن نہ بچایا جائے

آئینہ خانے ہیں خاموش ولیؔ

کسی وحشی کو بلایا جائے

٭٭٭

 

فارسی غزل

درد دارم لیک درمانی ندارم

بر درِدل ہیچ دربانی ندارم

مُدّتی در آرزوی التفاتش

حق بگویم، جز پشیمانی ندارم

من کہ یارِ یوسفِ یعقوب ہستم

بی گناہم ہیچ نگرانی ندارم

کی برآید حرفِ شکوہ بر لبِ من

عاشقم عشقِ نمایانی ندارم

٭٭٭

 

مُتفرقات

مستقل دست و گریباں ہے مِرا جوشِ جنوں

ایک دن میں کب ہوا کرتا ہے دامن تار تار

 

                   کیا سچ مانوں ؟

آخر کیا سچّا ئی ہے ؟؟

 

فارسی نظم

باغبان

ای درخت! تو امروز ھم تن و من ھستی

گُل و ثمرداری

ہرچہ داری جاذبِ نظرداری

یادت ہست، آن پیرمردی

کہ ترا آبیاری میکرد

اکنون و جودش نیست برصفحۂ ھستی

چرا ا ندوہِ اُوبرچہرہ ات نیست

درخت گفت کہ ای شاعر!

کسی کی چیزی نگزارداینجا

کی گوید کہ بماند، نمانداینجا

یادش تازہ ترمی گردد

وقتی کسی درسایۂ من می آید

گُل وثمررا از شاخہایم میگیرد

ھنگامی کسی بہ من می نگرد

یادش می آید، آن پیر مردی

زندگی من پیوستہ باوست

باورنمی کنم کہ ازمیان مارخت بربستہ باشد

یادِ او شادابیِ من است

٭٭٭

 

سچَّائی

مجھ کو تو اب چاند کا چہرہ

کچھ رویا سا لگتا ہے

وہ کہتا ہے چاند ہمیشہ ہنستا ہے

اُس نے دیکھا وہ سچ ہے؟

یا میں نے دیکھا وہ ہے سچ؟

کیا سچ مانوں ؟

آخر کیا سچّائی ہے؟؟

سچ تو یہ ہے

چاند کا چہرہ

خود میں اک سچّائی ہے

وہ تو بس اک درپن ہے

جو جیسا ہے اُس کو ویسا لگتا ہے

٭٭٭

 

سہرا

نگارِ آرزو سہرا، تمناؤں کی جاں سہرا

بھلا کیسے نہ ہو پھر دو دلوں کا راز داں سہرا

سناتا ہے زمانے کو وفا کی داستاں سہرا

رِفاقت کی ادا سہرا، محبت کی زباں سہرا

فضائے نور میں کھوئی ہوئی ہیں بزم کی نظریں

مُنوّر اِس طرح سے ہے مثال کہکشاں سہرا

نگاہِ بد سے بچنے کی یہی بس ایک صورت تھی

رخِ روشن کی خاطر بن گیا ہے پاسباں سہرا

اِسی سے ابتدا ہوتی ہے حُسنِ آدمیت کی

نگاہِ جلوۂ فطرت ہے تیرا ضو فشاں سہرا

وہ دیکھو عاجزی میں لوٹتا ہے پائے نوشہ پر

بلندی میں ہے یوں تو غیرتِ صد آسماں سہرا

نئی صبح تمنّا کی بشارت دل رُبا لڑیاں

حسیں نو خیز کلیوں سے بنا ہے نو جواں سہرا

گُلوں کی خامشی یونہی تو نغمہ بن نہیں جاتی

سر نوشہ پہ آ کر ہو گیا اہلِ زباں سہرا

ولیؔ کی اِس دُعا پر سب یہاں آمین کہتے ہیں

تر و تازہ رہے تا حشر جانِ گلستاں سہرا

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید