FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

آخری منصوبہ

محمد عادل منہاج

مکان نمبر ۲۴۲۔ویسٹ سرکلر روڈ۔ پاکستان ٹاؤن ۔ لوہی بھیر ۔ اسلام آباد

                                    Phone # 90166598(Office) , 03345226938

                                    Email : maminhaj@yahoo۔com

 

(۱)

چھوٹے قد کا وہ آدمی ایک لمبی سی کار سے اترا ۔ سامنے ایک عظیم الشان بلڈنگ تھی جس کی سب سے اونچی منزل کو دیکھنے کے لیے اگر سر اوپر اٹھایا جائے تو شاید آدمی پیچھے گر پڑے مگر ا س شخص کو بلڈنگ کی اونچائی سے کوئی سروکار نہ تھا ۔ وہ تو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آٹومیٹک دروازے سے اندر داخل ہو گیا ۔ لفٹ میں داخل ہو کر اس نے ۸۵ ویں منزل کا بٹن دبایا اور سبک رفتار لفٹ تیزی سے اوپر چڑھنے لگی۔۸۵ ویں منزل پر اتر کر وہ راہداری میں آگے بڑھتا گیا اور کمرہ نمبر ۴۲۰ کے دروازے پر رکا ۔ ا سنے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر کارڈ مشین میں لگایا تو دروازہ کھل گیا ۔ اندر ایک لمبی چوڑی میز کے پیچھے بیٹھا ہوا  چالاک قسم کا ادھیڑ عمر آدمی اسے دیکھ کر چونک اٹھا۔

’تم اس وقت۔۔۔!‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔

’جی سر ۔ میں نے ایک ایسا منصوبہ ترتیب دیا کہ پھر خود پر قابو نہ رکھ سکا اور فورا آپ کے پاس دوڑا آیا۔‘ پستہ قد والا بولا۔

’ایسی بھی کیا خاص بات ہے اس میں ۔‘ چالاک شخص عام سے لہجے میں بولا۔

’سر آپ خود پڑھ کر دیکھ لیں ۔یہ برسوں پر محیط ایک ایسا منصوبہ ہے کہ اگر اس پر پوری طرح عمل ہو گیا تو پھر اس کے بعد ہمیں دنیا پر قبضہ کرنے کے لیے پھر کچھ اور نہیں کرنا پڑے گا۔‘پستہ قد والے نے کہا۔

’تم تو بہت بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہے ہو۔ لاؤ دکھاؤ ذرا اپنا منصوبہ۔‘

پستہ قد والے نے اپنے ہینڈ بیگ سے کاغذوں کا موٹا سا پلندہ نکالا اور اس کے حوالے کیا۔ چالاک شخص نے سرسری انداز میں اسے پڑھنا شروع کیا مگر چند صفحات پڑھنے کے بعد وہ چونکا اور پھر غور سے پڑھنے لگا۔ پستہ قد والا اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اب چالاک شخص کے چہرے پر جوش کے آثار نمودار ہو چکے تھے ۔وہ منصوبہ پڑھنے میں یوں مگن تھا کہ اسے اب کسی چیز کا ہوش نہیں تھا ۔ پھر کئی گھنٹوں بعد اس نے وہ مسودہ میز پر رکھا ۔اس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے ۔

’یو۔۔۔۔۔ یو آر جینیئس۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا منصوبہ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔‘ چالاک شخص بولا۔

’تھینک یو سر۔ مجھے امید ہے کہ اس بار مجھے میری امیدوں سے بڑھ کر معاوضہ ملے گا۔‘

’ہاں ہاں یقینا~۔۔۔۔۔یوں بھی ا س منصوبے کے بعد ہمیں مزید کوئی پروگرام بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔مگر۔۔۔۔تم جانتے ہو کے اس منصوبے میں سب سے بڑی شرط راز داری ہے ۔ہمیں ساری دنیا کو بے وقوف بنانا ہو گا۔ اگر کسی کو ذرا بھی بھنک پڑ گئی کہ یہ ہمارا بنایا ہوا منصوبہ ہے تو ساری دنیا ہمارے خلاف ہو جائے گی۔‘

’یہ تو ہے سر۔ ہمیں اس سارے معاملے کو راز میں رکھنا ہو گا۔ آخر کئی حکومتیں اس منصوبے کی لپیٹ میں آ جائیں گی۔اور۔۔۔۔اور یہ عظیم بلڈنگ بھی تو اس منصوبے میں استعمال ہو جائے گی۔‘ وہ مسکرایا۔

’ہاں ۔ اور اس معاملے کو راز میں رکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کم سے کم لوگ اس سے واقف ہوں ۔اس لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس منصوبے کی خاطر تمہیں بھی قربانی دینا ہو گی۔‘ اچانک چالاک شخص کا لہجہ بدل گیا۔

’قربانی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب !؟‘ پستہ قد والا چونک اٹھا۔

’اپنی قربانی۔۔۔۔ تم اس منصوبے کی خاطر قربان ہو جاؤ یوں بھی اس منصوبے کی تکمیل تک ہمیں بہت کچھ قربان کرنا ہو گا۔‘ اچانک چالاک شخص کا ہاتھ میز کے نیچے سے نکلا تو اس میں پستول تھا۔

’یہ۔۔۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں سر؟‘پستہ قد والا خوفزدہ لہجے میں بولا اور اچھل کر کرسی سے کھڑا ہو گیا مگر ساتھ ہی پستول نے شعلہ اگلا اور پستہ قد والا اپنا سینہ پکڑے ہوئے گرتا چلا گیا۔مرتے وقت اس کی آنکھوں میں خوف سے زیادہ حیرت تھی ۔شدید حیرت۔شاید آج تک اپنے کسی منصوبے کا اسے اس انداز میں معاوضہ نہیں ملا ہو گا۔

’اب اس منصوبے سے پوری دنیا میں صرف میں واقف ہوں ۔اور میرے سوا کوئی نہیں جان پائے گا کہ اب دنیا میں کیا کھیل شروع ہونے والا ہے ۔ ایک ایسا کھیل جس میں استعمال ہونے والے مہرے خود بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔ ‘ چالاک شخص کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ تھی۔ پھر اس نے فون کا ریسیور اٹھایا اور بولا۔ ’صدر سے بات کراؤ۔‘

***

اس چھوٹے سے مگر خوبصورت گھر میں اس وقت بہت سے لوگ جمع تھے ۔ایک لمبی سی داڑھی والا نوجوان ان سب کی نگاہوں کا مرکز تھا۔پھر اس کے لب ہلے ۔

’دوستو آپ جانتے ہیں کہ ہمارے دوست ملک افغان پور پر دشمن نے عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے ۔افغان پور کے باشندے انتہائی تنگ دستی کے عالم میں بھی دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ دنیا میں کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر رہا۔ ہم سب مسلمان عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ذرا سوچیں کل یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔‘

’آپ ٹھیک کہتے ہیں عامر بن ہشام۔‘ ایک نوجوان بولا۔

’ اس لیے ساتھیو میں نے سوچا ہے کہ ہمیں ان کی مدد کرنا چاہیے ۔آپ جانتے ہیں کہ میں ایک بہت بڑے کاروبار کا مالک ہوں ۔ اﷲ نے مجھے اتنا کچھ دیا ہے تو اب اس کا وقت آ چکا ہے کہ اسے اﷲ ہی کی راہ میں خرچ دیا جائے ۔‘ عامر بن ہشام نے کہا۔

’کیا آپ افغان پور والوں کی اسلحے سے مدد کرنا چاہتے ہیں ۔؟‘دوسرے نوجوان نے پوچھا۔

’صرف اسلحے سے نہیں ۔ میں خود بھی وہاں جا کر ان کے شانہ بشانہ دین کے دشمنوں کے خلاف لڑنا چاہتا ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ اس طرح شاید میری حکومت میرے خلاف ہو جائے مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ۔ آپ میں سے جو بھی میرا ساتھ دینا چاہیں مجھے خوشی ہو گی مگر میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں ہمیں صرف شہادت ہی ملے ۔‘عامر بن ہشام بولے ۔

’ہم سب بھی شہادت کی آرزو رکھتے ہیں اور دل و جان سے آپ کے ساتھ ہیں ۔‘ملی جلی آوازیں ابھریں ۔

’تو پھر ٹھیک ہے ۔میں پہلے اس سلسلے میں سارا بندوبست کرتا ہوں پھر آپ لوگوں کو آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بتاؤ ں گا۔‘عامر بن ہشام نے کہا۔

****

یہودیوں کے ناجائز ملک گبرائیل کا صدر الجھن کے علم میں چالاک شخص کی طرف دیکھ رہا تھا۔

’میں آپ کی بات سمجھا نہیں مسٹر پولس۔‘صدر نے کہا۔

’آپ کو بات سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ۔بس جو میں کہ رہا ہوں وہ کرتے جائیں ۔‘چالاک شخص پولس نے کہا۔

’لیکن اشریکہ کا صدر مجھ سے پوچھے گا کہ ہم عامر بن ہشام کی مدد کیوں کریں ۔ایک مسلمان کی مدد کر کے ہمیں کیا ملے گا؟‘صدر نے سوالیہ لہجے میں کہا۔

’یہ باتیں آپ نہیں سمجھ سکتے ۔یہ سب ایک بہت عظیم منصوبے کا حصہ ہے ۔اس کے اثرات کئی سالوں بعد پتہ چلیں گے جب مسلمان ہمارے جال میں پھنس چکے ہوں گے اور اشریکہ کے صدر کی آپ فکر نہ کریں ۔ وہ تو ہماری مٹھی میں ہے ۔ اس کے ملک پر اس کا نہیں بلکہ ہمارا حکم چلتا ہے ۔ہم ایک اشارے پر اشریکہ کی حکومت بدل سکتے ہیں ۔‘پولس مغرور لہجے میں بولا۔

’ ایک تو یہ بڑی مصیبت ہے کہ آپ منصوبے کے بارے میں کچھ بتاتے نہیں ۔اس طرح میں الجھن میں ہوں ۔‘صدر نے کہا۔

’اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کو اس کا پتہ نہ ہو۔اسی لیے تو میں نے اس کے خالق ایلن کو بھی ہلاک کر دیا حالانکہ وہ میرا بڑا پرانا ساتھی تھا۔دیکھیں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ صدر آتے جاتے رہتے ہیں ۔ مگر ہماری خفیہ سروس کبھی نہیں بدلے گی۔ اس لیے منصوبہ جاننے کی ضد نہ کریں ۔اور یہ راز میرے سینے میں ہی دفن رہنے دیں ۔‘ پولس نے کہا۔

’اور اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ منصوبہ تو پھر ادھورا رہ جائے گا۔کیونکہ کوئی اور اس سے واقف نہیں ۔‘صدر نے کہا۔

’ایسا نہیں ہو گا ۔میں اس کا بندوبست کر چکا ہوں ۔آپ ا س سلسلے میں پریشان نہ ہوں اور جیسا میں کہ رہا ہوں ویسے کریں ۔فورا اشریکہ کے صدر کو فون کریں اور اس سے کہیں کہ وہ عامر بن ہشام کی ہر طرح مدد کرے تاکہ وہ افغان پور سے قابض فوج کو بھگا سکے ۔‘ پولس نے کہا اور صدر نے سر ہلاتے ہوئے فون کا ریسیور اٹھایا اور اشریکا کے صدر کے نمبر گھمانے لگا۔

’ہیلو۔ میں گبرائیل کا صدر ہوں ۔‘ وہ بولا۔

’ اوہ آپ ۔۔۔۔۔ کہیے کیسے یاد کیا؟‘ اشریکا کے صدر نے پوچھا۔

’سنیے ۔‘ گبرائیل کا صدر اسے تفصیل بتانے لگا۔

’مگر یہ سب کرنے کا فائدہ۔۔۔؟‘ اشریکا کے صدر نے حیرت سے پوچھا۔

’فائدے نقصان کا صرف مسٹر پولس کو پتہ ہے ۔‘گبرائیل کے صدر نے جواب دیا۔

’اوہ۔۔۔ پولس!‘ اشریکا کے صدر کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور اس کے ہونٹ نفرت زدہ انداز میں سکڑ گئے ۔

’ٹھیک ہے میں بندوبست کرتا ہوں ۔‘وہ بولا اور ریسیور رکھ دیا۔

’ نہ جانے ہمیں اس منحوس سے کب نجات ملے گی۔ اب اگر میں نے یہ سب نہ کیا تو یہ یقینا میرا تختہ الٹ دے گا۔ہر محکمے میں یہودی موجود ہیں جو صرف پولس کی بات مانتے ہیں ۔مجھے یہ سب کرنا ہی ہو گا ورنہ کوئی اور آ کر کر دے گا۔‘ اشریکا کا صدر بڑبڑایا۔

***

عامر بن ہشام نے حیرت سے اس کی بات سنی۔ ا سکی بات پر یقین کرنا خاصا مشکل کام تھا۔

’میری سمجھ سے باہر ہے کہ اشریکہ میری مدد کیوں کرنا چاہتا ہے ۔‘عامر بن ہشام بولے ۔

’آپ جانتے ہیں کہ افغان پور پر لاس نے قبضہ کر رکھا ہے اور ہمارا دشمن ملک ہے کیونکہ ہم کمیونسٹوں کو پسند نہیں کرتے ۔افغان پور پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہمیں گوارا نہیں ۔اس کے مقابلے میں ایک مسلمان ریاست ہمیں زیادہ پسند ہے ۔ مگر ہم ڈائرکٹ لاس سے جنگ مول نہیں لے سکتے ۔اس طرح عالمی جنگ چھڑ جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ جہاد کے لیے افغان پور جارہے ہیں ۔ہم آپ کی روپے اور اسلحے سے مدد کریں گے ۔ آپ افغان پور کے لوگوں کو ٹرینڈ کریں اور وہاں سے لاس کو نکال دیں ۔ ‘ عامر بن ہشام کے سامنے بیٹھا اشریکا کا سفیر بولا۔

’اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس کے بعد اشریکا وہاں قبضہ نہیں کر لے گا۔‘عامر بن ہشام بولے ۔

’ہم تو ڈائرکٹ اس معاملے میں انوالو ہوں گے ہی نہیں ۔ہم آپ کو اسلحہ وغیرہ بھی افغان پور کے پڑوسی اسلامی ملک پاک کے ذریعے دیں گے ۔‘ سفیر نے بتایا۔

’کیا پاک کی حکومت اس پر راضی ہے ؟‘ عامر بن ہشام نے پوچھا۔

’جی ہاں ۔ ہم ان سے بات کر چکے ہیں ۔وہ بھی افغان پور پر لاس کے قبضے سے پریشان ہیں کیونکہ اس طرح لاس براہ راست پاک کی سرحدوں تک آ پہنچا ہے ۔یوں ہم تینوں ہی لاس کے قبضے سے پریشان ہیں ۔ اب اگر آپ ہمارا ساتھ قبول کریں تو آپ کو وافر مقدار میں اسلحہ مل سکتا ہے اور آپ جلد ہی لاس کو افغان پور سے نکال باہر کر سکتے ہیں ۔ا س میں ہم سب کا فائدہ ہے ۔‘ سفیر عامر بن ہشام کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا جو شش و پنج میں مبتلا ہو چکے تھے ۔

***

 

 (۲)

ملک پاک کے صدر اپنے آفس میں بے چینی سے ٹہل رہے تھے ۔ کچھ دیر انتظار کے بعد دروازہ کھلا ۔انہوں نے چونک کر دیکھا اور بولے ۔’آئیے کرنل خرم مراد۔ میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا۔‘

’خیریت تو ہے سر؟‘ خرم مراد بولے ۔

’ہاں بیٹھیے ۔آپ جانتے ہی ہیں کہ ہم آج کل افغان پور پر لاس کے قبضے کی وجہ سے کتنے پریشان ہیں ۔‘ وہ بولے ۔

’جی سر۔ مجھے تمام حقائق کا علم ہے ۔ ہماری سرحدیں اس وجہ سے غیر محفوظ ہو چکی ہیں ۔‘ خرم مراد نے کہا۔

’اب ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے ۔ آپ جانتے ہیں گذشتہ دنوں اشریکا کے نائب صدر دورے پر آئے تھے ۔انہوں نے اس معاملے میں ہماری مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔‘صدر نے بتایا۔

’مدد۔۔۔۔۔۔ کس قسم کی مدد؟‘ خرم مراد نے چونک کر پوچھا۔

’ہر طرح کی مدد۔وہ اپنا جدید ترین اسلحہ ہمیں دینے کو تیار ہے تاکہ ہم افغان پور کے لوگوں کو ٹرینڈ کر سکیں اور انہیں اسلحہ سپلائی کریں تاکہ وہ لاس کا مقابلہ کر سکیں ۔‘ صدر نے کہا۔

’مگر اس سے اشریکا کو کیا فائدہ ہو گا۔معاف کیجیے گا اشریکا ہر کام اپنے مفاد کے لیے کرتا ہے ۔‘خرم مراد بولے ۔

’ہاں میں جانتا ہوں ۔ا س میں اس کا بھی فائدہ ہے ۔ اس طرح وہ لاس کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہتا ہے ۔آپ جانتے ہیں لاس اور اشریکا دونوں سپر پاور ہیں ۔دونوں دنیا پر اپنا ہولڈ چاہتے ہیں ۔ہمیں اس سچویشن سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔اگر ہ اشریکا کی مدد سے لاس کو افغان پور سے نکال دیں تو ا س طرح ہماری سرحدیں بھی محفوظ ہو جائیں گی۔‘صدر بولے ۔

’جی ہاں ۔یہ  تو ہے ۔ مگر آپ ان سے ہر بات اچھی طرح طے کر لیں کہ لاس کو نکالنے کے بعد وہ کوئی اور مطالبہ نہ کر دیں ۔‘خرم مراد نے کہا۔

’بالکل ہم ہر کام سوچ سمجھ کر کریں گے ۔اشریکا تو اس کام کے لیے ہمارے ملک میں اپنے آدمی متعین کرنا چاہتا تھا مگر میں نے انکار کر دیا کہ وہ ہمیں اسلحہ سپلائی کرے آ گے افغان پور ہم خود پہنچائیں گے ۔میں اشریکا کو افغان پور میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔‘صدر بولے ۔

’پھر تو ٹھیک ہے ۔اس سے ڈیل ہو سکتی ہے ۔‘خرم مراد نے کہا۔

’بس پھر میں ان سے فائنل بات کرتا ہوں ۔اور اس سارے معاملے کا انچارج میں آپ کو بنا رہا ہوں ۔آج سے یہ مہم آپ کے حوالے ۔‘صدر نے کہا اور خرم مراد نے انہیں سیلوٹ کیا۔

***

 

’اب آپ لوگ اسلحے کے استعمال میں کافی ماہر ہو چکے ہیں ۔امید ہے کہ اب آپ لاس کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکیں گے ۔‘ خرم مراد بولے ۔ ان کے ساتھ ا س وقت افغان پور کے بہت سے لیڈر موجود تھے ۔

’ہم آپ کے شکرگزار ہیں ۔ پاک کی حمایت اور مدد کی وجہ سے ہمیں لاس کے خلاف بہت اہم کامیابیاں ملی ہیں ۔اور اب اس کے قدم اکھڑنے شروع ہو گئے ہیں ۔‘ایک لیڈر بولا۔

’انشاء اﷲ اب جلد ہی لاس کو افغان پور سے بھاگنا پڑے گا۔‘عامر بن ہشام بولے ۔

’ہم عامر بن ہشام کے بھی شکرگزار ہیں کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں ہمارا ساتھ دینے آئے ۔‘ ایک اور لیڈر نے کہا۔

’دنیا کے کسی بھی حصے میں جب کسی مسلمان پر افتاد پڑے تو باقی مسلمانوں پر اس کی مدد کرنا فرض ہو جاتا ہے ۔میں تو اپنا فرض ادا کر رہا ہوں ۔‘ عامر بن ہشام بولے ۔

’بس اب آپ لوگ لاس کی فوجوں پر پے در پے حملے شروع کر دیں تاکہ وہ بوکھلا جائے ۔اسلحہ آپ کو مسلسل ملتا رہے گا ۔امید ہے جلد ہی ہمیں خوش خبری سننے کو ملے گی۔‘ خرم مراد نے کہا۔

***

لاس کے دارالحکومت میں ایک اہم میٹنگ جاری تھی۔

’ہمیں افغان پور میں فوجیں داخل کیے کئی سال ہو چکے ہیں مگر اب تک ہم اس پر قبضہ نہیں کر سکے ۔ایک سپر پاور کی فوج مٹھی بھر لوگوں پر قابو نہیں پا سکی۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے ۔‘ لاس کا صدر ناگواری سے کہ رہا تھا

’سر ۔ آپ جانتے ہیں کہ افغان پور تنہا نہیں ۔پاک اس کی پشت پر ہے اور اسے براہ راست اشریکا سے اسلحہ مل رہا ہے۔ اگر اشریکا درمیان میں نہ ہوتا تو ہم کئی سال پہلے ہی افغان پور پر قبضہ کر چکے ہوتے ۔ مگر اب ایک طرح سے ہمارا مقابلہ اشریکا سے ہے ۔‘ بری فوج کا سربراہ بولا۔

’پھر بھی مقابلے پر اصل میں تو افغان پور کے جاہل لوگ ہیں جن کا ملک آج بھی پس ماندہ ترین ہے ۔‘صدر بولا۔

’سر وہ لوگ جاہل سہی مگر لڑنے مرنے میں ماہر ہیں ۔وہ تو پہلے ناکارہ بندوقوں کے ساتھ ہمارے مقابلے پر آ گئے تھے ۔ اب تو پاک انہیں تربیت دے رہا ہے اور جدید اسلحہ بھی انہیں وافر مقدار میں مل رہا ہے ۔ صورتحال اتنی آسان نہیں ۔‘فوج کے سربراہ نے کہا۔

’تو پھر یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا۔آپ نہیں جانتے کہ اب تو عوام بھی میرے خلاف ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ہماری ریاستیں بغاوت پر آمادہ ہیں ۔اپوزیشن شور مچا رہی ہے ۔یہ سب کچھ بہت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘صدر مٹھیاں بھینچتا ہوا بولا۔

’سر میرا مشورہ تو یہی ہے کہ افغان پور سے با عزت واپسی کا کوئی راستہ نکالا جائے ۔‘فوج کے سربراہ نے کہا۔

’واٹ ۔۔۔۔۔ واپسی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک سپر پاور کی پسپائی۔۔۔۔۔۔۔ ساری دنیا ہمارا مذاق اڑائے گی۔‘

’آپ سیاسی طور پر کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ شرمندہ ہوئے بغیر ہم وہا ں سے نکل سکیں ۔ اشریکا کے صدر سے بات کریں ۔ورنہ کچھ عرصے بعد اس کا موقع بھی نہیں ملے گا۔‘

’ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ خیر اب کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ورنہ افغان پور کے ساتھ ساتھ کہیں لاس کی حکومت بھی میرے ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔‘صدر بڑبڑایا۔

***

اشریکا کے صدر کے سامنے اس وقت اس کی حکومت کے کچھ سینیٹر بیٹھے تھے ۔

’سر آپ جانتے ہیں کہ چند دن بعد سینیٹ میں پھر وہ بل پیش کیا جانے والا ہے جس کے تحت آپ کو ضمانت دینا پڑتی ہے کہ پاک ایٹمی پروگرام پر عمل نہیں کر رہا۔‘ ایک سینیٹر بولا۔

’یس مسٹر ہڈسن میں جانتا ہوں ۔‘اشریکا کا صدر بولا۔

’جناب ہم چاہتے ہیں کہ اس بار آپ اس بل پر دستخط نہ کریں ۔‘ ہڈسن نے کہا۔

’مگر کیوں ۔۔۔۔۔؟‘ صدر نے چونک کر کہا۔

’وہ اس لیے کہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک گذشتہ کئی سالوں سے ایٹمی پروگرام پر عمل کر رہا ہے ۔اور آپ نے جانتے بوجھتے ہوئے اس کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔آپ دھڑا دھڑ اسے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں ۔ اور اب وہ ہمارے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے ۔‘دوسرا سینیٹر بولا۔

’دیکھیں مسٹر جان آپ جانتے ہیں کہ وہ اسلحہ افغان پور میں استعمال ہو رہا ہے ۔اس لیے اس وقت پاک کی مدد کرنا ہماری مجبوری ہے ورنہ افغان پور پر لاس کا قبضہ ہو جائے گا جو ہمیں منظور نہیں ۔اس مرحلے پر ہم پاک کو ناراض نہیں کر سکتے ۔‘ صدر نے وضاحت کی۔

’مگر وہ ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ایٹمی طاقت بنتا جا رہا ہے ۔اس کا پڑوسی ملک جبرستان بھی ہم سے ناراض ہے کہ ہم پاک کو جو اسلحہ دے رہے ہیں وہ جبرستان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے ۔‘ جان نے کہا۔

’آپ لوگ جبرستان کے ہمدرد ہیں اسے سمجھائیں کہ اب یہ جنگ بس ختم ہی ہونے والی ہے ۔ افغان پور میں لاس کا کباڑہ ہو چکا ہے ۔اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے ۔اس کی ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں ۔ فوج میں بغاوت ہو رہی ہے ۔ بس چند مہینوں کی بات ہے ۔ پھر لاس کو افغان پور سے نکلنا پڑے گا ۔اس کے بعد ہمیں پاک کی ضرورت نہیں رہے گی پھر میں اس سے سمجھ لوں گا۔اور اس کا ایٹمی پروگرام بھی بند کروا دوں گا۔ ‘ صدر نے وعدہ کیا۔

’بہر حال آپ اس سے سختی سے پیش آئیں ۔ اس کا ایٹمی پروگرام اور آگے نہیں بڑھنا چاہیے ورنہ جبرستان اس پر حملہ کر دے گا۔‘ ہڈسن نے دھمکی دی۔

***

’خرم مراد مجھے خوشی ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب جا رہے ہیں اور اب افغان پور آزاد ہونے ہی والا ہے ۔‘صدر پاک خوشی سے بولے ۔

’جی سر۔ مگر یہ جو جبرستان نے اپنی فوجیں ہماری سرحدوں پر لگا دی ہیں اس کا کیا ہو گا؟‘ خرم مراد بولے ۔

’اس کی آپ فکر نہ کریں ۔ یہ لاس کا آخری حربہ ہے کہ اس نے جبرستان کو اشارہ کر دیا ہے کہ پاک پر حملہ کر دے ۔مگر وہ ایسا کر نہیں سکتا۔ابھی اسے پتہ نہیں کہ ہم بھی ایٹمی طاقت بن چکے ہیں اگرچہ اس کا اظہار نہیں کر رہے ۔ میں ڈھکے چھپے لفظوں میں جبرستان کے وزیر اعظم کے کان میں یہ بات ڈال دوں گا پھر اسے حملے کی جرات نہ ہو گی۔‘صدر نے کہا۔

’چلیے یہ مسئلہ تو حل ہوا۔مگر افغان پور کے حوالے سے ایک مسئلہ اور ہے ۔‘ خرم مراد نے کہا۔

’وہ کیا؟‘ صدر نے پوچھا۔

’ابھی تو افغان پور کے سارے لیڈر مل کر لاس کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔چند دوسرے مجاہدین مثلاً عامر بن ہشام بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان میں آپس میں اتحاد نہیں ۔لاس کے جانے کے بعد ان میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ہمیں ابھی سے اس کا تدارک کرنا چاہیے ۔‘

’ہوں ۔مگر اس مسئلے میں آپ ہی کچھ کر سکتے ہیں ۔آپ ان سے قریب ہیں ۔ان سے بات کریں انہیں سمجھائیں کہ لاس کے جانے کے بعد مل جل کر کام کریں ۔ میری مجبوری یہ ہے کہ میں پارلیمنٹ کا محتاج ہوں ۔وہاں زیادہ تر ممبران میرے خلاف ہیں ۔وہ میری افغان پور کی پالیسی کے بھی خلاف ہیں ۔‘صدر نے کہا۔

’میں تو اپنی پوری کوشش کروں گا کہ لاس کے جانے کے بعد افغان پور میں سب لیڈروں کے اشتراک سے ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قائم ہو سکے ۔‘ خرم مراد بولے ۔

’مجھے امید ہے کہ آپ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ہاں مجھے آپ سے ایک اور مسئلے پر بھی گفتگو کرنی ہے ۔‘ صدر نے کہا۔

’جی فرمائیے ۔‘ خرم مراد نے انہیں غور سے دیکھا۔

’آپ جانتے کہ جبرستان نے ہمارے علاقے کاشیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔اور اس کی فوج عرصے سے وہاں ظلم ڈھا رہی ہے ۔‘صدر نے کہنا شروع کیا ۔

’جی ہاں ۔میرا دل اس پر بہت دکھتا ہے ۔‘ خرم مراد دکھ بھرے لہجے میں بولے ۔

’میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ کیوں نہ ہم افغان پور والی پالیسی کاشیر میں بھی آزمائیں ۔‘ صدر نے کہا۔

’کیا مطلب!‘ خرم مراد چونک اٹھے ۔

***

 

 (۳)

’مطلب یہ کہ اس وقت اشریکا کو ہماری ضرورت ہے ۔ وہ ہمیں اسلحہ دے رہا ہے ۔ جنگ کے بعد ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں پوچھے بھی نہ۔ تو کیوں نہ ہم افغان پور کی طرح کاشیر کے مجاہدین کو بھی اسلحہ سپلائی کریں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کریں تو وہ بھی جبرستان کا بیڑہ غرق کر سکتے ہیں ۔‘صدر بولے ۔

’تجویز تو اچھی ہے مگر کاش ہم کچھ عرصہ پہلے سے اس پر عمل شروع کر دیتے تو آج نتائج مختلف ہوتے ۔اب افغان پور کا مسئلہ تو کچھ عرصے میں حل ہونے ہی والا ہے ۔ اس کے بعد اشریکا ہماری کوئی مدد نہیں کرے گا۔‘ خرم مراد بولے ۔

’ہاں مگر ہمیں اس کام کی شروعات تو کر ہی دینی چاہیے ۔آگے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘ صدر بولے ۔

***

ملک کی ایک خفیہ عمارت میں اس وقت ایک اہم اجلاس ہو رہا تھا۔صدارت کی کرسی پر بوڑھا پولس بیٹھا تھا جس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح خباثت تھی۔ اس کے سامنے ایسے ایسے لوگ بیٹھے تھے کہ اگر دنیا دیکھ لیتی تو چونک اٹھتی اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ جاتا۔

پولس کہ رہا تھا ۔’ آپ جانتے ہیں کہ ہم سب کا ایک ہی مشن ہے دنیا سے مسلمانوں کا خاتمہ۔ اس مقصد کے لیے آج سے کئی سال پہلے ایک منصوبہ بنایا گیا تھا جس پر کامیابی سے عمل ہو رہا ہے ۔ اگرچہ درمیان میں کچھ مسائل بھی پیش آئے مگر منصوبے میں ہر چیز کا حل موجود ہے ۔اب صورت حال یہ ہے کہ افغان پور کا فیصلہ ہونے والا ہے ۔لاس وہاں سے نکل جائے گا۔کیوں مسٹر بیف آپ کیا کہتے ہیں ۔‘ پولس ایک شخص سے مخاطب ہوا تو سامنے بیٹھا لاس کی فوج کا سربراہ کھڑا ہو گیا۔

’آپ ٹھیک کہتے ہیں سر ۔میں نے صدر کو اچھی طرح بتا دیا ہے کہ وہ جنگ ہار چکا ہے ۔اب کوئی با عزت معاہدہ کر کے افغان پور سے نکل جائے ۔‘لاس کی فوج کا سربراہ بولا۔

’ہوں ۔ اسے یہ موقع ہم دیں گے ۔وہ بہر حال غیر مسلم ہے اس ناطے ہمارا بھائی ہے ۔مسلمان دشمنی میں ہم سب ایک ہیں ۔پاک کے صدر کو سمجھادیا جائے کہ وہ لاس سے معاہدہ کر لے ۔‘ پولس بولا۔

’پاک کا صدر آج کل ہماری بات نہیں مان رہا ہے ۔‘یہ کہنے والا اشریکا کا نائب صدر تھا۔

’کیا مطلب۔۔۔۔۔ اس کی یہ مجال۔‘ پولس ناگواری سے بولا۔

’دراصل ایک عرصے تک وہ ہماری مجبوری بنا رہا ۔اب وہ ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔وہاں کے چند سیاستدان تو ہمارے ساتھ ہیں مگر صدر کے تیور کچھ اور ہیں ۔وہ افغان پور میں وہاں کے سب لوگوں کو ملا کر ایک مضبوط حکومت بنانا چاہتا ہے ۔‘نائب صدر نے بتایا۔

’ناممکن ۔ ۔۔ یہ کبھی نہیں ہو گا۔کیونکہ یہ بات منصوبے کے خلاف ہے ۔افغان پور پر آج یا کل ہمارا قبضہ ہو گا۔مگر ابھی وہاں افراتفری ہی رہے تو بہتر ہے ۔ اگر وہاں کے مجاہدین نے ایک مضبوط حکومت بنا لی تو وہ ہمارے لیے درد سر بن جائیں گے ۔لہذا پاک کے صدر کو سمجھاؤ ۔وہاں کی عوام کو اس کے خلاف کر دو۔ پارلیمنٹ کو اس کے خلاف کر دو۔اگر پھر بھی بات نہ بنے تو راستے سے ہٹا دو۔‘ پولس غرا کر بولا۔

’ایسا ہی ہو گا جناب۔‘ نائب صدر نے کہا۔

’اور ملک راک کی کیا صورت حال ہے ؟‘پولس نے پوچھا۔

’اس کی بھی اپنے پڑوسی سے لڑ لڑ کر حالت خراب ہو چکی ہے ۔‘ نائب صدر نے بتایا۔

’ہوں اب منصوبے کا دوسرا حصہ وہاں سے شروع ہو گا۔فی الحال راک کے صدر کو اپنے اعتماد میں لیے رکھو۔ اس کا حوصلہ بڑھاتے رہو پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ وہاں کون سا کھیل شروع کرنا ہے ۔‘ پولس عیاری سے مسکرایا پھر وہ ایک اور شخص کی طرف متوجہ ہوا۔

’مسٹر راڈ ۔آپ کے لیے کچھ اور ہدایات ہیں ۔‘ وہ بولا۔

’ حکم سر۔‘ راڈ کھڑا ہو گیا۔

’آپ دنیا کے سب سے مشہور نشریاتی ادارے ڈی این این کے سربراہ ہیں ۔آپ اپنا کام بہت اچھی طرح کر رہے ہیں اور مسلسل گبرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں ۔‘پولس بولا۔

’شکریہ جناب ۔میں بھلا کیوں نہ ایسا کروں آخر میں بھی گبرائیل کا ہی ایک حصہ ہوں ۔‘ راڈ بولا۔

’ہاں آپ نے ٹھیک کہا ہماری کامیابی کی وجہ یہی ہے کہ ایک یہودی دنیا میں جہاں بھی ہو وہ گبرائیل کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے ۔خیر آپ نے افغان پور کی اچھی کوریج کی ہے ۔ اب وہاں جنگ کا خاتمہ ہونے والا ہے ۔آپ کا کام یہ ہے کہ اس کا سارا کریڈٹ اشریکا کو دینا ہے ۔اسے مجاہدین کی کامیابی نہ کہا جائے ۔بس یہی پروپیگنڈہ ہو کہ یہ سارا اشریکا کا کمال ہے ۔اس کے علاوہ آپ اس مجاہد عامر بن ہشام کی بھی کوریج کریں اور اسے مسلمانوں کے ہیرو کے طور پر پیش کریں ۔‘ پولس نے کہا۔

’ اس سے کیا فائدہ ہو گا؟‘راڈ چونکا۔

’یہ بات ابھی آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی ۔ا س شخص سے ہمیں بہت کام لینا ہے ۔ابھی اسے ہیرو بنائیں ۔پھر اسے زیرو بھی کریں گے ۔‘پولس مسکرایا۔

***

اپنے عالیشان آفس میں بیٹھا پولس کسی گہری سوچ میں گم تھا۔پھر اس نے میز پر لگا ایک بٹن دبایا اور بولا۔’منصوبہ ساز نمبر نو کو میرے پاس بھیجو۔‘

جلد ہی دروازہ کھلا اور ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔

’آپ نے مجھے یاد کیا سر۔‘ وہ ادب سے بولا۔

’نمبر نو تم ہمارے بہت ذہین منصوبہ ساز ہو۔تمہارے کئی منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہو چکے ہیں ۔اب تمہیں ایک اور ذمہ داری سونپ رہا ہوں ۔‘پولس نے کہا۔

’میں اس بار بھی آپ کی توقع پر پورا اتروں گا۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’ہوں سنو۔ پاک کا صدر اب ہمارے لیے بے کار ہے ۔وہ افغان پور کے علاوہ کاشیر میں بھی معاملات خراب کر رہا ہے ۔ اسے راستے سے ہٹانا ہے ۔‘پولس سفاکی سے بولا۔

’یہ کون سا مشکل کام ہے جناب۔‘ نمبر نو بولا۔

’پہلے پوری بات سن لو۔صرف صدر کو ہٹانے سے بات نہیں بنے گی۔کیوں کہ افغان پور کے سارے معاملات خرم مراد کے ہاتھ میں ہیں ۔ اسے بھی ساتھ ہی اڑانا ہو گا۔اس کے علاوہ بھی فوج میں جو جو اس کے ہمدرد ہیں ان سب کو ختم کر دو۔ اس طرح ایک تو ہمارا راستہ صاف ہو جائے گا دوسرے پاک میں افراتفری پھیل جائے گی اور اس حالت میں ہم ان سے اپنی باتیں منوا سکیں گے ۔‘پولس نے کہا۔

’ میں سمجھ گیا سر۔ میں اس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کرتا ہوں ۔‘ نمبر نو بولا۔

’ایک بات کا خیال رہے ۔ ا س ملک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اشریکا کو پسند نہیں کرتے اور ا سکی چالوں کو سمجھتے ہیں لہذا ان کا ذہن فورا اشریکا کی طرف جائے گا۔ منصوبہ ایسا ہو کہ صدر اور اس کے ساتھی بھی ختم ہو جائیں اور کوئی اشریکا پر شک بھی نہ کرے ۔‘ پولس بولا۔

’سر کیا اس مقصد کے لیے اشریکا کے ایک دو آدمی قربان کیے جا سکتے ہیں ؟‘نمبر نو نے پوچھا۔

’ہمارا منصوبہ اتنا عظیم ہے کہ ہم اس کے لیے اشریکا کے صدر کو بھی قربان کر سکتے ہیں ۔ساری دنیا اشریکا کو سپر پاور سمجھتی ہے انہیں کیا معلوم کہ اصل سپر پاور گبرائیل ہے ۔جس کا حکم اشریکا پر بھی چلتا ہے ۔ایک دن آئے گا جب ساری دنیا پر اشریکا کی حکومت ہو گی۔تم جو چاہو کرو تمہیں پوری آزادی ہے ۔‘پولس مضبوط لہجے میں بولا۔

***

’مبارک ہو سر۔ بالآخر لاس نے اپنی فوجیں افغان پور سے نکالنا شروع کر دی ہیں ۔‘ خرم مراد بولے ۔

’ہاں یہ معرکہ تو ہم نے مار لیا ۔مگر افسوس کہ ہم افغان پور کے مجاہدین کو متحد نہ کر سکے اور پھر لاس کے ساتھ معاہدہ بھی میری مرضی کے خلاف ہو گیا۔‘ صدر پاک افسوس سے بولے ۔

’اب ہم اور کیا کر سکتے ہیں ۔آپ نے حکومت تو برخواست کر ہی دی ہے ۔‘خرم مراد بولے ۔

’’ہاں ۔اب کیا ہو سکتا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک بار پھر افغان پور والوں سے بات چیت کریں اور انہیں ایک متفقہ حکومت بنانے پر رضامند کریں ورنہ وہاں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔‘صدر بولے ۔

’میں اپنی سی پوری کوشش کروں گا۔۔۔۔۔ ہاں آج اشریکا کے سفیر کا فون بھی آیا تھا۔‘ خرم مراد بولے ۔

’وہ کس لیے ؟‘ صدر چونکے ۔

’وہ شاید آپ کے ساتھ اسلحے کے معائنے کے لیے جا رہا ہے ۔‘خرم مراد بولے ۔

’ہاں میں نے تین دن بعد اسلحہ کا معائنہ کرنے دوسرے شہر جانا ہے ۔ اشریکا کے سفیر کی خواہش ہے کہ وہ بھی میرے ساتھ جائے ۔‘صدر بولے ۔

’اب اس نے فون کر کے کہا ہے کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں ۔‘ خرم مراد نے کہا۔

’یہ کیا چکر ہے ۔وہ آپ کو کیوں ساتھ لے جانا چاہتا ہے ؟‘صدر حیرت سے بولے ۔

’اﷲ ہی بہتر جانتا ہے ۔نہ جانے وہ کس چکر میں ہے ۔مجھے تو اشریکا پر کبھی بھی اعتبار نہیں رہا۔‘ خرم مراد بولے ۔

’خیر دیکھا جائے گا۔آپ بھی ساتھ چلیں ۔دیکھتے ہیں وہ کیا کرتا ہے ۔‘صدر نے کہا۔

***

ملک پاک پر ایک سوگ طاری تھا۔پورے ملک میں ہائی الرٹ تھا کیوں کہ جس طیارے میں صدر پاک اسلحے کے معائنے کے لیے جا رہے تھے وہ راستے ہی میں تباہ ہو گیا تھا۔طیارے میں ان کے ساتھ خرم مراد،  اشریکا کا سفیر اور دوسرے فوجی افسران بھی تھے ۔جس جگہ طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا اس جگہ کو فوج نے گھیرے میں لے لیا تھا۔خفیہ پولیس کے چیف امیر علی کی جیپ اس وقت جائے حادثہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ان کے ساتھ ان کا اسسٹنٹ ریاض ملک بھی تھا۔ حادثے سے کافی دور ہی فوجیوں نے انہیں رکنے کا اشارہ کر دیا۔

’آپ آگے نہیں جا سکتے ۔‘ ایک فوجی بولا۔

’میرا نام امیر علی ہے ۔چیف خفیہ پولیس۔‘امیر علی نے اپنا کارڈ دکھایا۔’میں اس حادثے کی تحقیقات پر مامور کیا گیا ہوں ۔‘ اس نے کہا۔

’کسی کو بھی تحقیق کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔اس مقصد کے لیے اشریکا سے ایک ٹیم آ رہی ہے ۔پہلے وہ تحقیق کرے گی۔اس وقت تک کوئی آگے نہیں جا سکتا۔‘فوجی بولا۔

’اشریکا کی ٹیم۔۔۔۔۔!‘ امیر علی کی پیشانی پر بل پڑ گئے ۔’حادثہ ہمارے ملک میں ہوا ہے اور تحقیق اشریکا کی ٹیم کرے گی۔یہ کیا مذاق ہے ۔‘وہ بھنا کر بولے ۔

’میں کچھ نہیں جانتا ۔آرڈر از آرڈر۔آپ جا سکتے ہیں ۔‘فوجی روکھے لہجے میں بولا اور واپس مڑ گیا۔

’تم نے دیکھا ریاض ملک یہ کیسا اندھیر ہے ۔ہمیں ہمارے ہی ملک میں اتنے بڑے حادثے کی تحقیق کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔اور تحقیق کرے گی اشریکا کی ٹیم۔ اشریکا تو خود اس حادثے کا ذمہ دار ہے ۔‘ امیر علی غصے میں بولے ۔

’مگر سر اس حادثے میں تو اشریکا کا سفیر بھی مارا گیا ہے ۔‘ریاض ملک بولا۔

’اسے تو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے ۔میری بات لکھ لو۔اس حادثے میں سو فی صد اشریکا کا ہاتھ ہے اور اب اشریکا کی ٹیم آ کر سارے ثبوت مٹا دے گی۔پھر ہمیں معائنے کی اجازت دی جائے گی مگر پھر وہاں کیا ملے گا۔‘ امیر علی غصے میں تھے ۔

’ ہم کیا کر سکتے ہیں سر۔ یہ تو اوپر والوں کی گیم ہے ۔‘ ریاض ملک بولا۔

’ ہاں ۔ ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ ہم سب تو اشریکا کے غلام ہیں ۔ وہ جو چاہے ہمارے ملک میں کرتا پھرے ۔ آؤ واپس چلیں ۔یہاں دل جلانے سے کیا فائدہ۔‘ امیر علی دکھ بھرے لہجے میں بولے اور ان کی جیپ واپس مڑ گئی۔

****

 

(۴)

پولس کے دفتر میں اس کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے ۔ پولس ان سے مخاطب تھا۔

’تم چاروں میرے سب سے ذہین منصوبہ ساز ہو۔ حال ہی میں نمبر نو نے پاک کے صدر کو راستے سے ہٹانے کا شاندار منصوبہ بنایا کہ کسی کو ہم پر شک بھی نہ ہوا۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میں گذشتہ کئی سالوں سے ایک عظیم منصوبے پر عمل کر رہا ہوں جو تمہارے ہی جیسے ایک ذہین منصوبہ ساز ایلن نے بنایا تھا۔ اس کا منصوبہ جب پورا ہو گا تو دنیا سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹ چکا ہو گا اور ہر طرف یہودیت کا راج ہو گا ۔ اگرچہ اس کا منصوبہ کامیابی سے جاری ہے مگر پھر بھی کبھی کبھی اس میں حالات و واقعات کے مطابق کچھ تبدیلی کرنا پڑ جاتی ہے جو میں تم چاروں کے مشورے سے کرتا ہوں کیوں کہ تم چاروں میرے قریبی ساتھی ہو۔‘

’سر ہمیں خوشی ہے کہ آپ ہم پر اتنا اعتماد کرتے ہیں ۔‘ نمبر نو بولا۔

’ہوں ۔۔ سنو منصوبے کے مطابق لاس افغان پور سے جا چکا اور خود لاس کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا ہے ۔ یوں ہمارا ایک دشمن کم ہو گیا ہے ۔ اب اشریکا واحد سپر پاور ہے ۔ اسے ہم نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے پھر ایک دن یوں ہی اشریکا بھی ختم ہو جائے گا۔ اور پوری دنیا پر گبرائیل کی حکمرانی ہو گی۔منصوبے کے مطابق ہمیں افغان پور پر قبضہ کرنا ہے مگر ابھی فوری طور پر یہ ممکن نہیں ۔ کیوں کہ ہم ڈائیرکٹ ایسا کریں گے تو دنیا شور مچائے گی۔ اس مقصد کے لیے بھی ایلن نے منصوبہ بندی کی ہوئی ہے ۔ بس چند سالوں کی بات ہے پھر افغان پور ہمارا ہو گا۔ ابھی فی الحال منصوبے کا دوسرا حصہ ملک راک میں شروع کرنا ہے ۔ ‘ پولس نے کہا۔

’راک میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں سر؟‘ نمبر پانچ نے پوچھا۔

’سنو۔راک کا حاکم کافی عرصے سے اپنی پڑوسی عرب ریاست پر قبضہ کرنے کے چکر میں ہے مگر چونکہ ریاست کے تعلقات اشریکا سے ہیں اس لیے وہ حملہ کرتے ہوئے ڈرتا ہے ۔اب اسے یہ یقین دلانا ہے کہ اگر وہ ریاست پر حملہ کر دے تو اشریکا دخل اندازی نہیں کرے گا۔ ایک بار وہ ریاست پر حملہ کر دے تو پھر ہم دنیا کو اس کے خلاف کر دیں گے اور اسے تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ عرب ریاستوں میں اشریکا کی فوج داخل کر دیں گے ۔ یوں غیر محسوس طور پر ساری ریاستیں ہمارے کنٹرول میں آجائیں گی۔‘ پولس بولا۔

’واہ کیا شاندار منصوبہ ہے ! واقعی ایلن بہت ذہین تھا۔‘ نمبر چار نے کہا۔

’ہاں مگر وہ نہ جانے غائب کہاں ہو گیا؟‘ نمبر نو بولا۔

’چھوڑو اس ذکر کو۔۔۔۔‘ پولس جلدی سے بولا۔’ بس اب منصوبے پر عمل کرنے کے لیے حالات سازگار کرو۔ پہلے تو میں خود بھی منصوبے پر عمل کے لیے کاروائی کر لیا کرتا تھا مگر اب میں چاہتا ہوں کہ کم سے کم منظر عام پر آؤں ۔ اس لیے اب تم پر زیادہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے ۔ راک میں موجود اپنے ایجنٹوں کو تفصیلات بتاؤ تاکہ وہ راک کے حاکم کو حملہ کے لیے تیار کریں ۔‘

***

میٹنگ سے واپسی پر نمبر نو اور نمبر چار کار میں واپس جا رہے تھے ۔

’یار بعض اوقات کتنا عجیب لگتا ہے کہ ساری دنیا میں گبرائیل کی خفیہ تنظیم کے بنائے ہوئے منصوبے چل رہے ہیں مگر دنیا اس سے بالکل بے خبر ہے ۔‘ نمبر چار بولا۔

’ہاں یہی تو ہماری تنظیم کا کمال ہے ۔ بڑے بڑے ملکوں کے حکمرانوں تک کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’ اب اس ایلن کے منصوبے کو ہی دیکھ لو جس کا پوری طرح ہمیں پتہ بھی نہیں ۔ صرف پولس ہی اس منصوبے سے واقف ہے اور وہ کہتا ہے اس منصوبے کے پورا ہونے پر ساری دنیا ہمارے قبضے میں ہو گی۔‘ نمبر چار بولا۔

’ہاں پولس واقعی عظیم شخص ہے ۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’مگر اصل ذہین شخص تو ایلن تھا جس نے یہ عظیم منصوبہ بنایا۔ جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا۔ پتہ نہیں ہماری زندگی میں مکمل ہو گا بھی یا نہیں ۔‘ نمبر چار بولا۔

’ہاں میں بھی بعض اوقات ایلن کے بارے میں سوچتا ہوں کہ اتنا عظیم منصوبہ بنانے کے بعد وہ اچانک غائب کہاں ہو گیا۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’مجھے تو کبھی کبھی پولس پر شک ہوتا ہے ۔‘ نمبر چار بولا۔

’کیا مطلب ! ‘ نمبر نو چونک اٹھا۔

’تم نے دیکھا نہیں کہ جب ہم نے ایلن کے غائب ہونے کا ذکر چھیڑا تو پولس نے فورا بات پلٹ دی۔میرا خیال ہے کہ ایلن کو پولس ہی نے مروا دیا ہے ۔‘ نمبر چار بولا۔

’مگر کیوں ؟‘ نمبر نو نے پوچھا۔

’تاکہ منصوبہ راز میں رہے ۔اب دیکھو پولس کے سوا کوئی بھی اس منصوبے سے واقف نہیں ۔یہاں تک کہ گبرائیل کا صدر بھی کچھ نہیں جانتا۔اب اگر کل کو پولس نہ رہا تو اس منصوبے کا کیا بنے گا۔‘ نمبر چار بولا۔

’ایسی باتیں نہ کرو۔اگر پولس کو بھنک پڑ گئی تو ہماری بھی خیر نہیں ۔‘ نمبر نو خوفزدہ انداز میں بولا۔

’اب یہاں پولس کہاں ؟ تم تو یونہی ڈرتے ہو۔ پولس کوئی ہوا تو نہیں ۔‘ نمبر چار بولا۔

’اسے ہوا ہی سمجھو۔ ساری دنیا پر اس کی حکومت ہے اور کتنی بے فکری سے اپنے آفس میں بیٹھا ہوتا ہے ۔اسے کسی کا ڈر نہیں ۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’کیا تمہیں یقین ہے کہ دفتر میں پولس ہی ہوتا ہے ۔‘ نمبر چار عجیب سے لہجے میں بولا۔

’کیا مطلب! پولس نہیں تو پھر وہ کون ہے ؟‘ نمبر نو حیرانگی سے بولا۔

’میرا خیال ہے کہ پولس کو آج تک کسی نہ نہیں دیکھا۔ ہر میٹنگ میں پولس کی ڈمی سامنے ہوتی ہے ۔ ‘نمبر چار بولا۔

’یہ کیسے ہو سکتا ہے ! ڈمی اتنے اہم منصوبوں پر کیسے بات کر سکتی ہے ۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’یہ سائنس کا دور ہے ۔ ڈمی کے لباس میں ریسیور ،مائیک اور اسپیکر چھپے ہوتے ہیں ۔اصل پولس کہیں اور بیٹھا بول رہا ہوتا ہے اور ڈمی ہونٹ ہلاتی ہے ۔ تم نے دیکھا نہیں کہ پولس ہمیشہ نیم تاریکی میں بیٹھتا ہے تاکہ نہ اس کے نقوش اچھی طرح دیکھے جا سکیں اور نہ ہی یہ نوٹ کیا جا سکے کہ وہ صرف ہونٹ ہلا رہا ہے ۔‘ نمبر چار بولا۔

’یہ تو تم بڑی عجیب باتیں کر رہے ہو۔ مگر خیر۔۔۔۔ میں پھر یہ کہوں گا کہ پولس کے چکر میں نہ پڑو۔ بس اپنا کام کیے جاؤ ورنہ کسی مصیبت میں پھنس جاؤ گے ۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’ہاں کہتے تو تم بھی ٹھیک ہو۔ دراصل ایلن کا بیٹا میرا دوست ہے ۔ وہ اکثر اپنے باپ کا ذکر چھیڑ دیتا ہے اور پولس پر شک اسی کو ہے ۔ وہ پولس کے بہت خلاف ہے ۔‘ نمبر چار بولا۔

’یہ تم نے نیا انکشاف کیا۔ ایلن کا بیٹا تمہارا دوست کیسے بنا؟‘ نمبر نو نے پوچھا۔

’ایک پارٹی میں ملاقات ہوئی تھی۔پھر کافی عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ ایلن کا بیٹا ڈیوڈ ہے ۔ ایک سرکاری ادارے میں کمپیوٹر پروگرامر ہے ۔‘ نمبر چار نے بتایا۔

’ہوں کبھی ملوانا مجھ سے بھی۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’ضرور ضرور۔‘ نمبر چار بولا۔

***

پاک کی انٹیلی جنس کی ایک ٹیم اس وقت ایک اہم اجلاس میں مصروف تھی۔ اجلاس کی صدارت انٹیلی جنس کے ڈائرکٹر اختر شاہ کر رہے تھے ۔

’اس وقت ہمارے ملک اور دنیا کی صورت حال ہمارے سامنے ہے ۔ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ۔ہم نے افغان پور سے لاس جیسی سپر پاور کو نکالا مگر ہمیں کیا ملا؟ اب وہاں خانہ جنگی ہو رہی ہے اور اشریکا نے بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔ کل تک وہ ہمارے ایٹمی طاقت نہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیتا رہا اور اب وہ ہمارا ایٹمی پروگرام ختم کرانے کے درپے ہے ۔دوسرے ہمارے ملک میں کوئی مستحکم حکومت نہیں بنتی جو اشریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے ۔ ہر حکومت کو اپنی فکر پڑی رہتی ہے ملک کی نہیں ۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ اب ہم اپنے طور پر اپنا کام جاری رکھیں گے کیوں کہ حکومت سے مدد ملنے کی امید نہیں ۔‘ اختر شاہ کہ رہے تھے ۔

’آپ کا خیال درست ہے سر۔‘ ایک نوجوان بولا۔

’تو پھر سنیے ۔میں آپ لوگوں کی ڈیوٹیاں لگا رہا ہوں ۔ ہمیں اپنے ملک کے لیے قربانی دینا ہو گی۔ دوسرے ملکوں میں جا کر جاسوسی کرنا ہو گی۔ جس طرح اشریکا اور گبرائیل نے ہمارے ملک میں ہر جگہ اپنے آدمی گھسائے ہوئے ہیں اسی طرح ہمیں بھی ان کے اندر گھس کر کام کرنا ہو گا۔اس میں وقت لگے گا لیکن انشا اﷲ کامیابی ہمارا مقدر بنے گی۔‘اختر شاہ بولے ۔

’ہم سب آپ کے ساتھ ہیں سر۔‘ ایک اور جوان بولا۔

’تو پھر حسن علی آپ کی ڈیوٹی افغان پور میں ہے ۔وہاں جا کر حالات کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ وہاں ایک مستحکم حکومت بن سکے ۔جو پاک کا ساتھ دے ۔۔۔۔۔۔ کامران خان آپ کو سب سے خطرناک مہم پر جانا ہے ۔ آپ کو گبرائیل جانا ہو گا۔ وہاں جاسوسی کرنا ہو گی۔ پتہ چلانا ہو گا کہ گبرائیل ہمارے ملک کے خلاف کیا منصوبے بنا رہا ہے ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’میں تیار ہوں سر۔بس مجھے کسی طرح گبرائیل میں داخل کروا دیں پھر آگے میں دیکھ لوں گا۔‘ کامران خان بولا۔

’اس کا بندوبست ہو چکا ہے ۔ آپ ایک ایسے ملک کے شہری کے طور پر جائیں گے جو گبرائیل کا دوست ہے ۔آپ کو خود کو یہودی ظاہر کرنا ہو گا۔پھر وہاں تعلقات بڑھائیں اور ان کی جڑوں تک جا پہنچیں ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’رائٹ سر۔ مجھے یہ چیلنج قبول ہے ۔‘ کامران خان کی نگاہوں میں عزم تھا۔

***

راک کے دارالحکومت میں ہونے والی اس میٹنگ میں اس وقت سبھی سوچ میں گم تھے ۔

’سر آپ سوچ لیں ۔ ریاست پر قبضہ کرنا تو اتنا مشکل نہیں مگر ریاست کے اشریکا سے بھی تعلقات ہیں ۔پھر دوسرے ممالک بھی ہمارے خلاف ہو جائیں گے ۔‘وزیر دفاع نے کہا۔

’اشریکا کی آپ فکر نہ کریں ۔ مجھے میرے جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ اگر ہم پڑوسی ریاست پر قبضہ کر لیں تو اشریکا اس معاملے میں دخل نہیں دے گا۔بلکہ وہ درپردہ ہمارا ساتھ دے گا۔او رباقی دنیا کی مجھے پروا نہیں ۔‘ راک کا حاکم بولا۔

’تو پھر ٹھیک ہے ۔ہم ریاست پر حملہ کر دیتے ہیں ۔اس طرح اس ریاست کی تیل کی دولت بھی ہمارے قبضے میں آجائے گی۔‘ ایک فوجی مشیر بولا۔

’ ہاں میرا خیال ہے کہ ہمیں اگلے ہی ہفتے ریاست پر حملہ کر دینا چاہیے اور اسے راک میں شامل کر لینا چاہیے ۔‘ حاکم نے کہا۔

***

پولس کے آفس میں اس وقت نمبر نو اور نمبر چار موجود تھے ۔

’تم لوگوں نے راک میں خوب کام کیا ہے اور اب راک نے ریاست پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا ہے ۔تم دونوں واقعی میرے ذہین منصوبہ ساز ہو۔‘ پولس بولا۔

’تھینک یو سر۔‘ نمبر نو نے کہا۔

’اور تمہاری ذہانت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ تم نے وہ بات جان لی جو کوئی نہیں جانتا یعنی کہ میں اصل پولس نہیں بلکہ پولس کی ڈمی ہوں ۔‘ پولس مسکرایا اور دونوں کے ہوش اڑ گئے ۔انہیں کار میں کی جانے والی گفتگو یاد آ گئی۔

 

 (۵)

’ سس۔۔۔۔۔ سر ۔۔۔۔ ہم سے غلطی ہو گئی۔‘ نمبر نو گھبرا کر بولا۔

’نہیں بھئی غلطی کیسی۔تم نے تو یہ اندازہ بھی لگا لیا کہ ایلن کو میں نے ہلاک کیا ہے ۔ دراصل غلطی مجھ سے ہی ہوئی مجھے ایلن کا نام منظر پر لانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ویسے آج میں تمہیں بتا دوں کہ تمہارے دونوں اندازے درست ہیں ۔ایلن کو میں نے ہی راستے سے ہٹایا تھا اور میں واقعی پولس کی ڈمی ہوں ۔‘پولس کا لہجہ بدل گیا تھا اور نمبر نو اور نمبر چار کو اپنی نگاہوں کے سامنے موت ناچتی نظر آ رہی تھی۔

’سر ہم نے آپ کے لیے بہت کام کیا ہے اور آیندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ہماری یہ غلطی معاف کر دیں ۔ہم اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کریں گے ۔‘نمبر نو گڑگڑایا۔

’پولس کے پاس معافی کی گنجائش نہیں ہوتی۔اگر میں اسی طرح لوگوں کو معاف کرتا رہتا تو آج میرا کوئی منصوبہ کامیاب نہ ہوتا۔میں نے کہا تھا نا کہ میں اس منصوبے کی خاطر بہت کچھ قربان کر سکتا ہوں ۔تم جیسے ذہین لوگوں کی موت سے مجھے افسوس تو ہو گا مگر کیا کریں عظیم تر گبرائیل کے لیے قربانیاں تو دینا ہی ہوں گی۔‘پولس نے کہا۔

اس کے الفاظ ختم ہوتے ہی نمبر نو اور نمبر چار کے پیروں کے نیچے سے فرش نکل گیا اور دونوں دھڑام سے نیچے جا گرے ۔ وہاں سخت اندھیرا تھا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا ۔اور پھر آہستہ آہستہ ا س جگہ کا درجہ حرارت گرنے لگا ۔سردی بڑھنے لگی۔ دونوں کو اپنا خون منجمد ہوتا محسوس ہونے لگا۔ ان کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں ۔ وہ پولس کو برا بھلا کہنے لگے ۔مگر وہاں ٹھنڈ بڑھتی چلی گئی اور آہستہ آہستہ ان کی آوازیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں ۔

****

فون کی گھنٹی بجی۔ راک کے حاکم نے ریسیور اٹھایا۔

’ہیلو۔ یہ میں ہوں ۔یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔‘ دوسری طرف سے آواز آئی تو راک کا حاکم چونک اٹھا۔ دوسری طرف اشریکا کا صدر تھا۔

’اوہ یہ آپ ہیں ! مگر یہ آپ نے کیا کہا؟‘ وہ الجھن کے عالم میں بولا۔

’ میں کہ رہا ہوں کہ تم نے پڑوسی ریاست پر قبضہ کر کے اچھا نہیں کیا۔ فورا اپنی فوجیں وہاں سے نکال لو ورنہ انجام برا ہو گا۔‘ اشریکا کے صدر نے دھمکی دی۔

’ یہ۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں ! آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ اس معاملے میں دخل نہیں دیں گے ۔‘ راک کا حاکم حیرت سے بولا۔

’کہاں کا وعدہ۔۔۔۔؟ کون سا وعدہ۔۔۔۔؟ تم سے جو کہا جا رہا ہے وہ کرو۔پندرہ دن کے اندر اندر ریاست خالی کر دو ورنہ تمہارے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔سمجھے ۔۔۔‘ اشریکا کا صدر غرایا اور فون بند کر دیا۔

راک کے حاکم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔

’دغا باز ۔۔۔ دھوکے باز ۔۔۔‘ وہ غصے میں بولا۔’میرے ساتھ اتنا بڑا فراڈ ۔مگر اب میں بھی اس کو مزا چکھا دوں گا۔راک پر حملہ اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہا ہے ۔اب تو میں ریاست کسی قیمت پر بھی خالی نہیں کروں گا۔‘ اس نے غصے میں کہا اور فورا ہنگامی میٹنگ کا بندوبست کرنے لگا۔

***

’میں نے راک کے حاکم کو الٹی میٹم دے دیا ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر ریاست خالی کر دے ۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’خوب ۔ اب تم فورا اقوام متحدہ کا اجلاس طلب کرو اور اس میں یہ قرار داد پاس کرواؤ کہ اگر راک ریاست سے نہ نکلا تو اس پر حملہ کر دیا جائے گا۔‘ پولس نے کہا۔

’ ٹھیک ہے ۔ یہ کیا مشکل ہے ۔اقوام متحدہ تو میرے گھر کی لونڈی ہے ۔اور اب تو ویسے بھی ساری دنیا راک کے اس اقدام کے خلاف ہے ۔ قرارداد آسانی سے منظور ہو جائے گی۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’ہاں تم یہ کام کرو ۔میں راک میں موجود اپنے جاسوسوں کو کہتا ہوں کہ وہ راک کے حاکم کو چڑھاتے رہیں کہ وہ ریاست خالی نہ کرے ۔اسے طاقت کا احساس دلاتے رہیں تاکہ وہ غرور میں آکر اشریکا کے خلاف اعلان جنگ کر دے ۔یوں ہمیں اس پر قبضہ کا موقع ہاتھ آ جائے گا۔‘ پولس نے کہا۔

’ٹھیک ہے میں اقوام متحدہ کا اجلاس بلواتا ہوں ۔‘ صدر بولا ۔

’اور ہاں فورا تمام عرب ملکوں کا دورہ کرو۔انہیں ڈراؤ کہ راک سب عرب ملکوں پر قبضہ کرنا چاہ رہا ہے ۔لہذا وہ اشریکا کی فوجوں کو مدد کے لیے طلب کریں ۔یوں ہم ہر عرب ملک میں اپنے اڈے بنا لیں گے اور ان کے تیل پر عملا ہمارا قبضہ ہو جائے گا۔ ‘ پولس عیاری سے مسکرایا۔

’یہ تو میں کر لوں گا مگر ایک مسئلہ ہے ۔میرے کچھ سینیٹر راک پر حملے کے خلاف ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس جنگ پر بہت خرچہ آئے گا۔‘ صدر بولا۔

’وہ بے وقوف ہیں انہیں سمجھاؤ کہ سارا خرچہ عرب ریاستیں برداشت کریں گی۔اور ان کا تیل بھی ہمیں ملے گا۔یعنی چت بھی اپنی اور پت بھی۔‘پولس مسکرایا۔’ اور ہاں ۔۔۔۔ یہ میں نے چند وڈیو تیار کروائے ہیں ۔یہ جا کر عرب ملکوں کے سربراہوں کو دکھا دینا ۔وہ فورا تمہاری بات مان لیں گے ۔‘پولس نے کچھ وڈیو ٹیپ اسے دیتے ہوئے کہا۔

***

’یہ۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں ؟‘ ایک عرب ملک  کا سربراہ بوکھلا کر بولا۔

’یہ سچ ہے ۔ راک ایک ریاست پر قبضہ کرنے کے بعد اب آپ کی ریاست کا رخ کر رہا ہے ۔ہم نے اپنے سیٹیلائٹ سے سارا منظر دیکھا ہے ۔آپ بھی ثبوت کے طور پر یہ وڈیو دیکھ سکتے ہیں ۔‘اشریکا کا سفیر بولا اور ایک وڈیو سربراہ کے حوالے کی۔اس نے فورا وڈیو چلا کر دیکھی اور پھر دنگ رہ گیا۔وڈیو میں راک کے بے شمار فوجی ا س کی ریاست کی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے ۔

’صرف دو دن بعد یہ آپ کی ریاست تک پہنچ جائیں گے ۔‘ سفیر بولا۔

’اب ۔۔۔۔ اب میں کیا کروں ۔میری ریاست اس قابل نہیں کہ راک کا مقابلہ کر سکے ۔‘سربراہ پریشانی کے عالم میں بولا۔

’اس کی آپ فکر نہ کریں ۔ اشریکا آپ کا دوست ہے ۔وہ آپ کی بھرپور مدد کرے گا۔اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم اپنی فوج ریاست کی حفاظت کے لیے بھیج سکتے ہیں ۔‘ سفیر بولا۔

’مم۔۔۔۔ میں آپ کا شکریہ کس طرح ادا کروں ۔‘سربراہ نے کہا۔

’اس میں شکریے کی کیا بات ہے ۔بس فوج کا سارا خرچہ آپ کو برداشت کرنا ہو گا۔ ریاست میں فوج کے لیے اڈا مہیا کرنا ہو گا۔ اور ہاں تیل کے سارے کنوؤں کا انتظام بھی ہماری فوج سنبھال لے گی کیونکہ راک کا ارادہ ان پر قبضہ کرنے کا ہے ۔‘سفیر بولا۔

’مجھے آپ کی سب شرائط منظور ہیں ۔بس مجھے کسی طرح راک سے بچا لیں ۔‘سربراہ پریشانی کے عالم میں بولا۔

’بس اب آپ بے فکر ہو جائیں ۔اب آپ کی ریاست کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ۔‘سفیر نے کہا۔

***

’میں نے آپ سب کو ایک اہم مسئلہ ڈسکس کرنے کے لیے بلایا ہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ راک نے اپنی پڑوسی ریاست پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اور اب اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کر لی ہے کہ راک ریاست خالی کر دے ورنہ اس پر حملہ کر دیا جائے گا۔‘ پاک کے صدر بولے ۔

’جی ہاں ہم جانتے ہیں ۔‘ وزیر دفاع بولا۔

’اشریکا نے راک پر حملے کے لیے ہماری فوج کی مدد بھی طلب کی ہے ۔‘ پاک کے صدر نے کہا۔

’اوہ! مگر اس پر حملہ تو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہو گا۔‘ انٹیلی جنس کے سربراہ اختر شاہ بولے ۔

’ہاں ۔ مگر کمان اشریکا کے ہاتھ میں ہو گی۔بہت سے دوسرے اسلامی ملکوں نے بھی فوج بھیجنے کی حامی بھر لی ہے ۔‘ صدر نے کہا۔

’پھر تو ہمیں بھی فوج بھیجنا ہو گی۔کیونکہ یہ اقوام متحدہ کا فیصلہ ہے جس کے ہم ممبر ہیں ۔‘ وزیر دفاع بولا۔

’ہاں میرا بھی یہی خیال ہے ۔اور ہاں مجھے عرب کے شاہ کا فون بھی ملا ہے ۔انہوں نے بھی اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اشریکا کی فوج بلوالی ہے ۔مگر وہ مکہ معظمہ کی حفاظت کے لیے پاک کی فوج بلوانا چاہتے ہیں ۔‘  صدر نے کہا۔

’یہ تو ہمارے لیے فخر کی بات ہے ۔بلکہ انہیں تو اشریکا کو مدد کے لیے بلانا ہی نہیں چاہیے تھا۔وہ اسلامی ممالک سے مدد مانگتے ۔ ہر ملک اپنی فوج عرب کی حفاظت کے لیے خوشی سے بھیجتا۔‘ اختر شاہ بولے ۔

’معاف کیجیے گا۔اسلامی ملکوں کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے ۔ہر ملک کے اپنے اندرونی مسائل ہی بے شمار ہیں ۔اشریکا کے پاس ہی اتنی طاقت ہے کہ وہ عرب کی بہتر حفاظت کر سکے ۔‘ وزیر دفاع نے کہا۔

’یہ تو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اپنے ملکوں کی حفاظت کے لیے کافروں کو بلا رہے ہیں ۔سر میری بات لکھ لیں کہ راک کا مسئلہ ختم ہونے کے بعد بھی اشریکا عرب ملکوں سے نہیں نکلے گا بلکہ وہاں مستقل ڈیرہ ڈال لے گا۔عملا اب ساری عرب ریاستیں اشریکا کے قبضے میں چلی جائیں گی۔‘اختر شاہ بولے ۔

’یہ آپ کا وہم ہے ۔عرب ممالک اپنا برا بھلا سمجھتے ہیں ۔‘وزیر دفاع نے کہا۔

’میرا خیال ہے ہمیں اس بحث کی ضرورت نہیں ۔میں تو بس اپنی فوج مکہ معظمہ روانہ کر دیتا ہوں اور اشریکا کو بھی بتا دیتا ہوں کہ اگر راک پر حملہ ہوا تو ہم اس کا ساتھ دیں گے ۔‘صدر نے کہا۔

***

’فون کی مسلسل بجتی ہوئی گھنٹی نے نمبر پانچ کو اٹھنے پر مجبور کر دیا۔

’ہیلو۔کون ہے اس وقت؟‘ وہ ناگواری سے بولا۔

’سنو ۔ایلن کا بیٹا ڈیوڈ ہمارے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے ۔اسے فورا راستے سے ہٹا دو۔‘ دوسری طرف سے پولس کی آواز آئی تو نمبر پانچ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

’یس سر۔۔۔ یس سر ۔ڈیوڈ کو راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔‘ وہ تیزی سے بولا اور پولس نے ریسیور رکھ دیا۔

نمبر پانچ گہری سوچ میں گم تھا۔’ڈیوڈ ۔۔۔۔۔ ایلن کا بیٹا۔۔۔۔۔۔ جس کے منصوبے پر ہم سب عمل کر رہے ہیں ۔ بھلا ڈیوڈ ہمارے لیے خطرہ کیوں بنے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پولس کی باتیں کون سمجھ سکتا ہے ۔مجھے ڈیوڈ کو ختم کرنا ہی ہو گا۔ ‘ وہ بڑبڑایا اور سر جھٹک کر غسل خانے کی طرف بڑھا۔

***

ڈیوڈ اپنے گھر سے نکلا مگر پھر چونک اٹھا۔اسے خطرے کی بو محسوس ہوئی۔ وہ فورا واپس مڑا اور اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا وہ چھت پر پہنچا اور محتاط طریقے سے گلی میں جھانکنے لگا۔ گلی کے ایک سرے پر ایک کار کھڑی تھی اور دوسرے سرے پر ایک موٹر سائیکل سوار اپنا ٹول بکس کھولے کچھ دیکھ رہا تھا۔ ڈیوڈ کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ وہ ایلن کا بیٹا تھا اور اسی کی طرح ذہین تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ گلی کے دونوں سروں پر اس کی موت اس کا انتظار کر رہی ہے ۔ وہ پہلے ہی نمبر نو اور نمبر چار کے غائب ہو جانے پر فکرمند تھا۔

’پولس ۔۔۔۔۔ تم مجھے کبھی نہیں پکڑ سکو گے ۔اور ایک دن آئے گا جب تمہاری موت میرے ہاتھوں ہو گی۔‘ ڈیوڈ غصے میں بولا ۔پھر وہ احتیاط سے قدم اٹھاتا ہوا اپنی چھت سے ملی ہوئی پیچھے والے مکان کی چھت پر کود گیا۔ اس کی خوش قسمتی کہ زینے کا دروازہ کھلا تھا۔وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا ہوا صحن میں پہنچا۔ باورچی خانے سے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ وہ دبے پاؤں مین گیٹ کی طرف بڑھا اور آہستگی سے گیٹ کھول کر باہر نکل آیا۔ اب وہ پچھلی گلی میں تھا۔ گلی کے کونے پر موٹر سائیکل سوار اسی طرح جھکا ہوا گلی میں دیکھ رہا تھا۔ ڈیوڈ نے دوسری طرف کا رخ کیا اور کچھ دور تک تیز تیز چلنے کے بعد دوڑ لگا دی۔

دوڑنے کی آواز سن کر موٹر سائیکل والے نے مڑ کر دیکھا اور پھر وہ زور سے چونکا۔ اس نے کار والے کو اشارہ کیا اور تیزی سے موٹر سائیکل پر سوار ہوا اور موٹر سائیکل ڈیوڈ کے پیچھے لگا دی۔ ڈیوڈ ایک گلی سے دوسری گلی میں مڑتا چلا گیا۔ اور پھر ایک گلی میں مڑتے ہی وہ دھک سے رہ گیا۔ گلی آگے سے بند تھی۔

***

 

(۶)

 اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا ۔اچانک اسے گلی کے ایک مکان کا دروازہ کھلا نظر آیا۔ وہ تیزی سے اس مکان میں گھس گیا اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔

’کون ہو تم۔۔۔۔؟‘ ایک آواز گونجی تو ڈیوڈ چونک کر مڑا۔ ایک نوجوان اسے گھور رہا تھا۔

’دیکھو دوست ۔کچھ لوگ میرے پیچھے لگے ہیں ۔مجھے کچھ دیر کے لیے پناہ چاہیے ۔‘ڈیوڈ جلدی سے بولا۔

’کچھ لوگ۔۔۔۔ یا پولیس۔‘ نوجوان نے اسے گھورا۔

’تم غلط سمجھ رہے ہو ۔میں کوئی مجرم نہیں ہوں ۔چند لوگ میری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔‘ ڈیوڈ بولا۔

’ہوں ۔تم اندر آ جاؤ۔‘ نوجوان اسے لے کر اندر آگیا۔

’اب بتاؤ کیا معاملہ ہے ۔مجھے تمہاری آنکھوں میں سچائی نظر آ رہی ہے ۔‘نوجوان نے پوچھا۔

’شکریہ۔ مگر میرے معاملے سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ۔میں بس کچھ دیر میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘ ڈیوڈ بولا۔

’میرا خیال ہے کہ ایسا کرنا خطرناک ہو گا۔وہ لوگ تمہیں نہ پا کر پورے علاقے کی نگرانی کر سکتے ہیں ۔تم کم از کم آج کا دن باہر نہ نکلو۔ا س گھر میں ایک تہ خانہ ہے ۔ میں تمہیں وہاں چھپا سکتا ہوں ۔مگر پہلے تمہیں اپنے بارے میں سچ سچ بتانا ہو گا۔‘ نوجوان نے کہا۔

ڈیوڈ نے کچھ دیر سوچا پھر وہ بولا۔’میرا خیال ہے کہ میں تم پر اعتماد کر سکتا ہوں ۔نہ جانے کیوں تم پر اعتماد کرنے کو جی چاہ رہا ہے ۔سنو۔۔۔ میرا نام ڈیوڈ ہے ۔میرا باپ ایلن ایک بہت مشہور منصوبہ ساز تھا۔۔۔۔۔ ‘ڈیوڈ نے مختصرا اسے ساری کہانی سنائی۔

’ناقابل یقین۔۔۔۔۔ تمہارا کہنا ہے کہ پولس ساری دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے !‘ نوجوان حیرت سے بولا۔

’ہاں ۔ اس کا مقصد گبرائیل کو عظیم تر بنانا ہے ۔اگرچہ میں بھی یہودی ہوں مگر میں ظلم کے خلاف ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ ہر ملک دوسرے کا احترام کرے ۔ گبرائیل دنیا پر جو ظلم و ستم کر رہا ہے وہ غلط ہے ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’تمہارے خیالات جان کر خوشی ہوئی۔میں خود بھی ایسا ہی سمجھتا ہوں ۔‘ نوجوان بولا۔

’ بہت خوب۔۔۔۔۔ پھر تو ہماری دوستی پکی۔‘ ڈیوڈ نے ہاتھ آگے بڑھایا۔

’ہاں ۔بالکل پکی۔میرا نام رابرٹ ہے ۔تم پولس کو اپنے باپ کا قاتل کیوں سمجھتے ہو؟ہو سکتا ہے اس کے ساتھ کوئی اور حادثہ پیش آگیا ہو۔‘ رابرٹ بولا۔

’نہیں ۔ مجھے سو فی صد یقین ہے ۔ آخری بار وہ پولس سے ملنے ہی گیا تھا۔وہ اس دن بہت پر جوش تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ایک ایسا منصوبہ بنایا ہے جس پر عمل کر کے ساری دنیا پر یہودیت کا راج ہو جائے گا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ اس کا آخری منصوبہ ہے ۔اس کے بعد ہمیں کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اسے پولس سے توقع سے زیادہ معاوضہ ملے گا۔ بس یہ کہ کر وہ گھر سے گیا اور پھر واپس نہ آیا۔‘ڈیوڈ نے بتایا۔

’اوہ۔۔۔۔۔ کاش ہمیں پتہ چل سکتا کہ وہ آخری منصوبہ کیا ہے ؟‘ رابرٹ حسرت سے بولا۔

’میرے باپ کی عادت تھی کہ وہ اپنے ہر منصوبے کی ایک کاپی اپنے پاس بھی رکھتا تھا۔ یقینا آخری منصوبے کی کاپی بھی اس نے رکھی ہو گی مگر وہ کہاں چھپا کر رکھی ہے مجھے نہیں معلوم۔ میں نے کئی بار اپنے پورے گھر کی تلاشی لی مگر مجھے کسی منصوبے کی کاپی نہ مل سکی۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’ہوں ۔۔۔۔ اچھا دوست تم میرا ایک کام کر سکو گے ۔‘ رابرٹ نے پوچھا۔

’ہاں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔ اب تو ہم دوست ہیں ۔ اور دوست ایک دوسرے کے کام آتے ہیں ۔‘ ڈیوڈ بولا۔

جب رابرٹ نے اسے بتایا کہ وہ کیا چاہتا ہے تو ڈیوڈ چونک اٹھا۔

***

یہودیوں کے نشریاتی ادارے ڈی این این کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی تھی۔ کیونکہ اشریکا نے بیسیوں دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر راک پر حملہ کر دیا تھا۔ڈی این این دن رات جنگ کی خبریں دے رہا تھا اور راک کے خلاف محاذ قائم کر رہا تھا۔ راک اگرچہ مسلمان تھا مگر اس وقت کسی کو اس سے ہمدردی نہ تھی۔ کیونکہ اس نے اپنے ہی مسلمان پڑوسی پر شب خون مارا تھا۔ مگر جب راک نے کچھ میزائل گبرائیل پر دے مارے تو کئی ملکوں کی عوام اس کی ہمدرد ہو گئی کیونکہ سب مسلمان ہی گبرائیل سے نفرت کرتے تھے ۔ مگر ساری حکومتیں راک کے خلاف تھیں ۔اور یوں چند دن میں ہی جنگ کا فیصلہ ہو گیا۔ راک نے ریاست خالی کرنے کا وعدہ کر لیا ۔اس مہم جوئی میں اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا اور اشریکا نے مسلمان ملکوں میں اپنی فوجیں بٹھا کر سب کچھ حاصل کر لیا۔

***

گبرائیل کے خفیہ ادارے میں آج پھر سارے بڑے جمع تھے اور پولس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔

’ہم نے منصوبے کے دونوں حصوں پر عمل کر لیا ہے ۔ اب منصوبے کا تیسرا حصہ شروع ہو گا مگر اس پر عمل درآمد کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کیا جائے گا۔اب اس درمیانی عرصے میں ہمارا کام یہ ہو گا کہ افغان پور میں خانہ جنگی قائم رکھی جائے تاکہ وہاں کوئی مستحکم حکومت نہ بن سکے ۔ راک پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیاں لگ چکی ہیں ۔ اب اسے سیاسی طور پر تنہا کرنا ہے ۔ وہاں کے لوگوں کو راک کے حاکم کے خلاف کرنا ہے تاکہ وہ اس کے خلاف بغاوت کر دیں اور ہم وہاں اپنی مرضی کی حکومت بنا سکیں ۔ملک پاک کا بھی خیال رکھنا ہے کہ وہاں بھی استحکام نہ آسکے ۔اگر کوئی حکومت پکی ہونے لگے تو اسے فورا گرادو۔ وہاں ویسے بھی سارے جاگیردار،سرمایہ دار ہمارے ساتھ ہیں ۔ بڑے بڑے سیاستدان ہمارے اشاروں پر چلتے ہیں ۔ وہاں علیحدگی کی تحریکوں کو ہوا دو۔صوبوں میں نفاق پھیلاؤ۔فرقہ وارانہ فساد کرواؤ تاکہ پاک ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے ۔اگر وہاں کوئی مضبوط حکومت بن گئی تو وہ گبرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جائے گا۔دیگر اسلامی ملکوں میں سے بہت سے تو پہلے ہی ہمارے ساتھ ہیں ۔ عرب ملکوں میں بھی اب اشریکا کی فوج اڈے بنا چکی ہے یوں وہ اب عملاً ہمارے قبضے میں آ چکے ہیں ۔اس دوران کوشش جاری رکھی جائے کہ دیگر اسلامی ممالک بھی گبرائیل کو تسلیم کر لیں ۔ اب چند سالوں تک یہی کام ہو گا۔ پھر ہم ڈائیرکٹ ایکشن کریں گے اور ایک ایک کر کے سب اسلامی ملکوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیں گے ۔ آپ سب لوگ سمجھ گئے ۔‘پولس نے لمبی چوڑی تقریر کی اور اس کے سامنے بیٹھے بڑے بڑے ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم سر ہلانے لگے ۔

***

وہ پولس کے آفس میں داخل ہوا تو اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا مگر چہرہ پرسکون تھا۔ آج اس کی پولس سے پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے وہ خفیہ ادارے کے دوسرے لوگوں سے ہی ملتا رہا تھا۔

پولس اسے دیکھ کر چونکا اور بولا۔’آؤ رابرٹ تمہیں ہمارے ادارے میں شامل ہوئے سال ہونے کو آیا ہے ۔ہم نے تمہیں کئی طرح آزمایا ہے ۔تم ہمارے اعتماد پر پورے اترے ہو۔ تم ایک ذہین شخص ہو اور میں ذہین لوگوں کی قدر کرتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ تم بھی منصوبہ بندی کی تربیت حاصل کرو۔ میں تمہیں بھی اپنے منصوبہ سازوں میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔‘

’یہ میرے لیے ایک اعزاز ہو گا جناب۔‘رابرٹ بولا۔

’ہوں ۔ میں تمہیں نمبر سات کے حوالے کرتا ہوں ۔وہ تمہاری تربیت کرے گا۔‘پولس نے کہا اور میز پر لگابٹن دبایا۔

***

’میں پولس کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گیا ہوں ۔وہ اب مجھے منصوبہ بندی کی تربیت دے رہا ہے ۔‘رابرٹ بولا۔

’بہت خوب! یہ تو تم نے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے ۔مجھے حیرت ہے کہ پولس دھوکہ کیسے کھا گیا ۔وہ تو بہت چالاک ہے ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’ہر چالاک شخص غرور میں آ کر مار کھا جاتا ہے ۔اور پھر تم نے مجھے ایسے گر بتائے کہ میں خفیہ تنظیم تک پہنچ سکا اور اس میں شامل ہو سکا۔تمہاری مدد کے بغیر یہ ناممکن تھا۔‘ رابرٹ بولا۔

’ہاں یہ سب باتیں مجھے میرے باپ سے پتہ چلی تھیں ۔وہ مجھے بھی خفیہ تنظیم میں شامل کروانا چاہتا تھا مگر میرا ذہن نہیں مانتا تھا۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’بس اب میں اس تنظیم کی جڑوں تک پہنچنا چاہتا ہوں ۔ پھر ایک دن آئے گا کہ ہم پولس کو بے نقاب کر سکیں گے ۔‘رابرٹ بولا۔

’یہ کام بہت مشکل ہے ۔پولس سات پردوں میں چھپا ہوا ہے ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’مشکل ہے ناممکن تو نہیں ۔ہمیں آہستہ آہستہ چلنا ہو گا۔جلد بازی نقصان دیتی ہے ۔اب دیکھ لو ایک سال بعد مجھے موقع ملا کہ میں پولس سے مل سکا۔ابھی میں اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا۔مجھے ایسے کام بھی کرنے پڑیں گے جن پر دل راضی نہیں ۔مگر پولس کا اعتماد جیتنے کے لیے یہ سب کرنا ہو گا۔‘رابرٹ بولا۔

’ہاں خدا ہمیں کامیاب کرے ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

***

سب کی نظریں اختر شاہ پر تھیں ۔ان کے سامنے میز پر کچھ کاغذات تھے ۔وہ ان کا جائزہ لے رہے تھے ۔پھر وہ بولے ۔

’ساتھیو۔مجھے اپنے دو جاسوسوں کی طرف سے اچھی رپورٹیں ملی ہیں ۔میں نے سوچا کہ آج ان کو ڈسکس کر لیا جائے اور آیندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے ۔پہلی رپورٹ حسن علی نے افغان پور سے بھیجی ہے ۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ لاس کے جانے کے بعد سے افغان پور خانہ جنگی کا شکار ہے ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ کل تک جو مجاہدین لاس کے خلاف متحد ہو کر  لڑ رہے تھے ۔ آج وہ حکومت کے لالچ میں آپس میں دست و گریبان ہیں ۔ یہ ہم مسلمانوں کی بہت بڑی کمزوری ہے کہ ہم مشکل میں تو متحد ہو جاتے ہیں مگر ذرا سی آسانی ملتے ہی پھر آپس میں لڑنے لگتے ہیں ۔ دنیا کے لالچ نے ہمیں تباہ کر دیا ہے ۔ بہرحال ایک خوشی کی خبر یہ ہے کہ افغان پور میں مدرسوں کے پڑھے ہوئے کچھ طالب علم جہاد کا علم لے کر اٹھے ہیں اور وہ خاصی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ۔ انہوں نے افغان پور کے کچھ حصے پر قبضہ بھی کر لیا ہے ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آپس میں متحد ہیں اور سچے مسلمان ہیں ۔ وہ حکومت کے لالچ میں نہیں بلکہ افغان پور کے لوگوں کی مدد کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ افغان پور کے دوسرے سردار اس صورت حال سے پریشان ہیں ۔‘

’سر پھر تو ہمیں بھی ان طالب علموں کی مدد کرنا چاہیے ۔‘ ایک آفیسر بولا۔

’ہاں میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہمیں انہیں سپورٹ کرنا چاہیے ۔ہو سکتا ہے کہ ان کی مدد سے افغان پور میں ایک مستحکم حکومت بن سکے ۔اور وہاں امن و امان قائم ہو سکے ۔اگر وہاں سکون ہو گا تو ہمیں بھی اپنی سرحدوں کی فکر نہیں رہے گی۔‘ اختر شاہ بولے ۔

’مگر کیا ہماری حکومت ان کی مدد کرنے پر راضی ہو گی؟‘ ایک آفیسر نے پوچھا۔

’میں بات کر کے دیکھتا ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ وہ مان جائیں گے کیوں کہ حکومت بھی افغان پور کے مسئلے سے پریشان ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس یہ سنہری موقع ہے اور پھر وہ طالب علم بھی ہمارے ملک کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔۔۔۔ خیر اب دوسری رپورٹ پر بات کرتے ہیں ۔یہ رپورٹ گبرائیل سے ہمارے جاسوس کامران خان نے بھیجی ہے ۔اور یہ بہت چونکا دینے والی رپورٹ ہے ۔‘اختر شاہ نے کہا۔

’سر اس رپورٹ میں کیا ہے ؟‘ سب جاننے کے لیے بے چین ہو گئے ۔

’کامران خان نے وہاں کی خفیہ تنظیم کے سربراہ پولس کے بارے میں خاصے انکشافات کیے ہیں ۔پولس یہودیوں کی عالمی خفیہ تنظیم کا سربراہ ہے ۔ وہ کئی دہائیوں سے یہ تنظیم چلا رہا ہے ۔اس کا مقصد دنیا پر یہودیت کا راج ہے ۔وہ دنیا سے سارے مذاہب ختم کر کے یہودیت پھیلانا چاہتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ دشمنی اسلام سے ہے کیوں کہ اسلام آج دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے ۔ا سلیے پولس سب سے پہلے اسلام کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔آج عیسائی ممالک خاص طور پر اشریکا گبرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں ۔مگر وہ نہیں جانتے کہ گبرائیل عیسائیوں کے بھی خلاف ہے ۔ فی الحال وہ مسلمانوں کے خاتمے کے لیے عیسائیوں کا ساتھ دے رہا ہے ۔ مگر بعد میں وہ لاس کی طرح اشریکا کو بھی مٹا دے گا اور دنیا پر گبرائیل کا راج ہو گا۔کامران خان کی رپورٹ کے مطابق آج سے کئی سال پہلے پولس کے ایک منصوبہ ساز ایلن نے اسلام کے خاتمے اور یہودیت کے فروغ کے لیے ایک عظیم منصوبہ بنایا تھا۔ پولس ایک عرصے سے اسی منصوبے پر عمل کر رہا ہے ۔ وہ منصوبہ کیا ہے صرف پولس کو پتہ ہے کیوں کہ اس کا بانی ایلن غائب ہو چکا ہے ۔ پوری رپورٹ پڑھنے کے بعد مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ افغان پور اور راک میں ہونے والے واقعات اسی منصوبے کا ایک حصہ ہیں ۔‘ اختر شاہ نے تفصیل سے بتایا۔

’اوہ مگر اس منصوبے میں ہے کیا؟ یہ کس طر ح پتہ چلے گا؟‘ ایک افسر نے بے چین ہوکر پوچھا۔

’جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ صرف پولس کو پتہ ہے ۔کامران خان کا کہنا ہے کہ ایلن نے اس منصوبے کی ایک کاپی اپنے پاس بھی رکھی تھی مگر وہ کسی کو مل نہیں سکی۔اگر وہ کاپی مل جائے تو ہم اس منصوبے کے بارے میں جان سکتے ہیں اور دنیا کو بھی اس کے بارے میں بتا کر گبرائیل کا پول کھول سکتے ہیں ۔مگر فی الحال تو یہ ممکن نہیں ۔کامران خان اپنی کوششوں میں لگا ہے ۔ہمیں بھی غور کرنا ہو گا ۔کوئی طریقہ سوچنا ہو گا کہ اس منصوبے کے بارے میں جان سکیں او ریہ پتہ چل سکے کہ پولس آیندہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔‘ اختر شاہ بولے ۔ سب لوگ سوچ میں گم تھے ۔

***

 

 (۷)

پولس کے چہرے پر سختی کے آثار تھے ۔اس کے سامنے بیٹھے لوگ دم بخود اسے دیکھ رہے تھے ۔

’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ افغان پور میں یہ طالب علم کہاں سے نکل آئے جنہوں نے افغان پور پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے ۔ یہ پہلی بار ہے کہ کوئی بات میرے منصوبے کے خلاف ہوئی ہے ۔‘پولس بولا۔

’سر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ہم ان طالب علموں کو کچل کر رکھ دیں گے ۔‘نمبر پانچ بولا۔

’نہیں ۔ہم کوئی کام ڈائرکٹ نہیں کر سکتے ۔تم نے دیکھا نہیں کہ عرب ریاستوں پر قبضے کے لیے کتنا لمبا منصوبہ بنایا گیا۔پہلے راک سے پڑوسی ریاست پر قبضہ کروایا ۔پھر دنیا کو اس کے خلاف کیا۔عرب ریاستوں کو راک کا خوف دلا کر اشریکا کی فوج وہاں داخل کی۔اگر ہم ڈائرکٹ عرب ممالک میں اڈے قائم کرنا چاہتے تو وہ کبھی اس کی اجازت نہ دیتے ۔بلکہ الٹا ہمارے خلاف ہو جاتے ۔ اب اگر ان طالب علموں کے خلاف کاروائی کی گئی تو دنیا ہمارے خلاف ہو جائے گی کہ ہم افغان پور میں مداخلت کر رہے ہیں ۔‘ پولس بولا۔

’تو پھر کیا کیا جائے ؟‘ نمبر آٹھ نے پوچھا۔

’ایلن کے منصوبے میں افغان پور پر قبضے کا طریقہ تو بیان کیا گیا ہے مگر اس میں وقت لگے گا۔ خیر فی الحال سیاسی  طور پر کوششیں کی جائیں کہ عالمی فضا ان طالب علموں کے خلاف ہو جائے ۔ملک پاک کو دھمکایا جائے کہ وہ ان کی مدد نہ کرے ۔‘ پولس نے کہا۔

’ہم نے پاک کے وزیر اعظم سے بات کی تھی مگر وہ کہتا ہے کہ ہم ان کی مدد نہیں کر رہے ۔‘ اشریکا کا نمائندہ بولا۔

’وہ غلط کہتا ہے ۔ پاک کی انٹیلی جنس ان کی مدد کر رہی ہے ۔خیر اسے دوبارہ سختی سے کہو ورنہ اس کی امداد بند کر دو۔ دوسرے راک میں بھی اب تک حاکم برسراقتدار ہے ۔ اتنی پابندیاں بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں ۔ مسٹر راڈ۔ ‘ پولس نے کہا تو ڈی این این کا ڈائرکٹر کھڑا ہو گیا۔

’حکم جناب۔‘ وہ بولا۔

’تم ڈی این این پر مسلسل راک کے حاکم کے خلاف خبریں لگاؤ کہ وہ کیمیائی ہتھیار بنا رہا ہے اور اپنے ملک کی اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہا ہے ۔‘ پولس نے کہا۔

’ٹھیک ہے سر۔ ایسا ہی ہو گا۔‘ راڈ بولا۔

’اور ہاں تمہیں یاد ہے کچھ عرصہ قبل افغان پور کی جنگ کے دوران تم نے عامر بن ہشام کی بھی خوب تعریفیں کی تھیں ۔ اسے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔‘ پولس نے کہا۔

’جی ہاں ۔ وہ آپ کا ہی حکم تھا۔‘راڈ بولا۔

’ہاں ۔مگر اب سنو۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ عامر بن ہشام کی ایک چھوٹی سی تنظیم ہے البرکہ۔۔۔ اب تم عامر اور اس کی تنظیم کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دو کہ یہ دہشت گردوں کی تنظیم ہے ۔ جہاں بھی کوئی گڑبڑ ہو البرکہ کا نام لگا دو۔ یہ پروپیگنڈہ بھی کرو کہ عامر بن ہشام افغان پور کے طالب علموں کی مدد کر رہا ہے ۔انہیں اسلحہ دے رہا ہے ۔ان طالب علموں کے ظلم کے قصے بیان کرو کہ وہ افغان پور میں اپنے مخالفین پر ظلم و ستم کر رہے ہیں ۔ عورتوں کے حقوق کی پامالی کر رہے ہیں ۔ساری این جی اوز کو ان کے خلاف بھڑ کا دو۔‘ پولس نے کہا۔

’ٹھیک ہے سر ۔میں ابھی جا کر ہدایات دے دیتا ہوں ۔‘ راڈ بولا۔

***

مبارک ہو سر۔‘ فون پر حسن علی کی آواز سن کر اختر شاہ چونک اٹھے ۔

’حسن تم۔۔۔! تم کہاں سے بات کر رہے ہو؟‘انہوں نے چونک کر پوچھا۔

’سر میں ابھی ابھی افغان پور سے لوٹا ہوں ۔‘وہ بولا۔

’ اوہ اچھا۔تم مبارک باد کس چیز کی دے رہے تھے ؟‘ انہوں نے پوچھا۔

’سر طالب علموں نے افغان پور فتح کر لیا ہے ۔انہوں نے دار الحکومت پر قبضہ کر لیا ہے اور کمیونسٹ لیڈر کو پھانسی دے دی ہے ۔‘ حسن نے بتایا۔

’اوہ ! یہ تو واقعی خوشی کی خبر ہے ۔شاید اب وہاں امن قائم ہو جائے ۔‘ اختر شاہ بولے ۔

’ایسا ہی ہو گا سر۔ میں نے ان طالب علموں کے ساتھ خاصا وقت گذارا ہے ۔وہ پکے مسلمان ہیں اور افغان پور میں امن قائم کرنے کے خواہاں ہیں ۔سر ہماری حکومت کو انہیں تسلیم کر لینا چاہیے ۔‘ حسن علی بولا

’میرا خیال ہے کہ حکومت انہیں تسلیم کر لے گی کیونکہ حکومت میں ان کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے ۔‘اختر شاہ نے کہا۔

’اشریکا اس صورت حال پر برہم ہے ۔اشریکا کے اخبارات اور ڈی این این مسلسل ان کے خلاف بول رہے ہیں کہ وہ افغان پور میں ظلم کر رہے ہیں ۔‘ حسن علی بولا۔

’ظاہر ہے ۔ اشریکا بھلا کسی بھی ملک میں سچی اسلامی حکومت کیسے برداشت کر سکتا ہے ۔افغان پور کے حالات اشریکا ہی نے تو بگاڑے تھے ۔وہ چاہتا تو لاس کے نکلنے کے بعد وہاں ایک متفقہ حکومت بنوا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ ہر اسلامی ملک میں افراتفری پھیلی رہے ۔ عدم استحکام رہے ۔خیر اسے تڑپنے دو۔ وہ  فی الحال ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’یس سر ۔ ویسے بھی وہ طالب علم اشریکا کو خاطر میں نہیں لاتے ۔وہ ہمارے لیڈروں کی طرح بزدل اور دوغلے نہیں ۔‘حسن علی بولا۔

’تم ایسا کرو کہ شام میں دفتر آ جاؤ ۔شاید اس وقت تک طالب علموں کی حکومت کا سرکاری اعلان بھی ہو جائے ۔‘ اختر شاہ نے کہا

’ٹھیک ہے سر ۔میں شام میں آپ سے ملتا ہوں ۔‘حسن علی بولا۔

***

’بالآخر ان طالب علموں نے افغان پور پر قبضہ کر لیا۔کچھ ممالک نے انہیں تسلیم بھی کر لیا اور تم منہ دیکھتے رہے ۔‘پولس بولا۔

’جناب ہم بھلا دوسرے ملکوں کو انہیں تسلیم کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں ۔تاہم میں نے اقوام متحدہ کو ہدایت کر دی ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے ۔انہیں کم از کم اقوام متحدہ میں تو سیٹ نہیں ملے گی۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’ہوں ٹھیک ہے ۔ اس کے علاوہ تم افغان پور کے دوسرے لیڈروں کی امداد جاری رکھو تاکہ وہ ان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہیں ۔اخبار ٹی وی ہر جگہ سے ان کے خلاف پروپیگنڈہ جاری رکھو کہ یہ لوگ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ۔عورتوں پر ظلم کر رہے ہیں ۔انہیں گھروں میں قید کر رہے ہیں ۔لوگوں کو زبردستی داڑھی رکھوا رہے ہیں ۔دنیا میں ان کا امیج خراب کرو۔‘پولس نے کہا۔

’یہ سب تو میں کر ہی رہا ہوں ۔ مجھے خود یہ لوگ پسند نہیں ۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’ہوں ۔ اور گبرائیل فلسان امن منصوبے کا کیا ہوا؟‘ پولس نے پوچھا۔

’آپ جانتے ہیں ہیں کہ سب مسلمان گبرائیل کو غاصب کہتے ہیں جس نے مسلمانوں کے مقدس ملک فلسان پر قبضہ کر رکھا ہے ۔فلسان کے نہتے لوگ کب سے گبرائیل کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔پھر بھی آپ کے کہنے پر میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ فلسان کے لیڈر گبرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیں ۔مگر اس کے لیے ہمیں فلسان کو کچھ علاقے پر حکومت دینا ہو گی۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’ٹھیک ہے ان کا منہ بند کرنے کے لیے کچھ علاقہ انہیں دے دو۔تاکہ یہ لڑنا چھوڑیں ۔میں ان کے خود کش حملوں سے تنگ آگیا ہوں ۔اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ۔‘پولس نے کہا۔

’میں کوشش کرتا ہوں کہ اسی مہینے میں فلسان اور گبرائیل میں امن معاہدہ ہو جائے ۔فلسان کا اصل لیڈر تو ہمارے ساتھ ہے ۔بس ایک عسکری تنظیم مزاحمت کر رہی ہے ۔ خیر اس کا علاج بھی کر لیں گے ۔‘صدر بولا۔

***

’جناب آپ نے یہ خبر پڑھی۔‘ایک نوجوان نے اخبار عامر بن ہشام کی طرف بڑھایا۔

’ہاں ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ عرصے سے ہماری پرامن تنظیم البرکہ کو دہشت گرد مشہور کیا جا رہا ہے ۔ اب یہ جو بم دھماکہ ہوا ہے ا س میں بھی البرکہ کو ملوث کر دیا گیا ہے ۔حالانکہ ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم کہ یہ کام کس کا ہے ۔‘ عامر بن ہشام نے کہا۔

’آپ کو فورا تردیدی بیان دینا چاہیے ۔‘ نوجوان بولا۔

’وہ تو میں دوں گا ہی۔ مگر اسے کسی اخبار میں جگہ نہیں ملے گی۔ہر جگہ یہودی اور ان کے ایجنٹ چھائے ہوئے ہیں ۔ہر ملک کے بڑے بڑے نشریاتی اداروں میں ان کے ہمدرد موجود ہیں ۔ اب میری سمجھ میں آ رہا ہے کہ افغان پور میں اشریکا نے میری مدد کیوں کی تھی۔ وہ پہلے مجھے مسلمانوں کے لیڈر کے طور پر مشہور کرانا چاہتا تھا اور اب مجھے دہشت گرد ثابت کرنا چاہ رہا ہے تاکہ یہ ثابت ہو کہ ساری دہشت گردی مسلمان کر رہے ہیں ۔ کاش اس وقت یہ سازش میری سمجھ میں آ جاتی۔‘ عامر بن ہشام افسوس سے بولے ۔

’میرا تو خیال ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے ۔ہمیں واقعی اشریکا اور گبرائیل کے خلاف کاروائیاں کرنی چاہئیں تاکہ انہیں عقل آئے ۔‘ نوجوان غصے میں بولا۔

’نہیں ۔ اس طرح تو ان کی بات سچ ثابت ہو جائے گی۔انہیں بکنے دو جو بکتے ہیں ۔ ہمیں خلوص کے ساتھ اپنا کام کرتے رہنا چاہیے نتیجہ اﷲ پر چھوڑ دو۔فی الحال تو ہم ریاست سان جائیں گے جہاں لاس مسلمانوں پر ظلم ڈھارہا ہے ۔وہاں کے لوگوں کو ہماری ضرورت ہے ۔ ‘ عامر بن ہشام نے کہا۔

***

’آپ تو جانتے ہیں کہ جبرستان دو ہفتے قبل ایٹمی دھماکے کر چکا ہے ۔ اب سیاسی جماعتوں اور عوام کی طرف سے مجھ پر مسلسل دباؤ پڑ رہا ہے کہ ہمیں بھی ایٹمی دھماکہ کر دینا چاہیے ۔ آج کی یہ میٹنگ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔‘ پاک کے وزیر اعظم نے کہا۔

’سر یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاک بھی ایٹمی طاقت ہے ۔ اس لیے دھماکے کرنے نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔بلکہ اگر ہم دھماکے نہ کریں تو جبرستان پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ساری دنیا اسے برا کہے گی۔‘ ایک وزیر نے کہا۔

’میں اس سے متفق نہیں ۔ ہم ایک عرصے سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ دنیا کا رویہ جبرستان کے ساتھ اور ہے اور پاک کے ساتھ اور۔ اشریکا ،لاس اور دوسرے بہت سے ممالک جبرستان کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اسی لیے جبرستان ہر وقت ہمیں دھمکاتا رہتا ہے ۔ اور اب خود کو ایٹمی طاقت منوانے کے بعد تو وہ اور بھی شیر ہو جائے گا۔ اگر ہم نے دھماکے نہ کیے تو اسے ہماری بزدلی سمجھا جائے گا۔‘ ایک ایم این اے زور دار انداز میں بولا۔

’مگر میں آپ کو یہ بتا دوں کہ مجھے اشریکا کا صدر مسلسل فون کر رہا ہے اور دھمکیاں دے رہا ہے کہ ہم دھماکے نہ کریں ۔اگر ہم نے ایسا کیا تو وہ ہم پر پابندیاں لگا دے گا۔‘ وزیر اعظم نے کہا۔

’پابندیاں تو ہم پر پہلے سے بھی لگی ہوئی ہیں ۔پہلے اشریکا نے کب ہمارا ساتھ دیا ہے ۔ وہ ہر معاملے میں جبرستان کو سپورٹ کرتا ہے ۔کاشیر کے مسئلے پر اس نے آج تک ہماری حمایت میں ایک بیان نہیں دیا۔لہذا اس کی دھمکیوں کی پروا نہ کی جائے ۔‘ اختر شاہ بولے ۔

’مگر ہم اشریکا کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔دھماکوں کے بعد وہ کھلم کھلا دشمنی پر اتر آئے گا۔‘ دوسرا وزیر بولا۔

’لیکن اگر دھماکے نہ کریں تو عوام ہمارے خلاف ہو جائے گی۔اپوزیشن ہمارے خلاف تحریک شروع کر دے گی۔ہمیں حکومت بچانا مشکل ہو جائے گا۔‘ ایک وزیر نے خدشہ ظاہر کیا۔

’دیکھیں میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہمیں دھماکے کرنا ہی پڑیں گے ورنہ حالات ہمارے خلاف ہو جائیں گے ۔اشریکا تو دھمکیاں دے رہا ہے مگر کچھ دوست ممالک ہمارے ساتھ بھی ہیں ۔ پڑوسی دوست ملک شین بھی چاہتا ہے کہ ہم دھماکے کر دیں کیونکہ جبرستان ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد اب شین کے مقابلے پر آنا چاہتا ہے ۔‘ وزیر اعظم نے کہا۔

’بس تو پھر دیر کس بات کی ہے ۔ آپ اپنے سائنسدانوں کو اشارہ کر دیں ۔‘ اختر شاہ بولے ۔

***

 

 (۸)

’پاک نے ایٹمی دھماکے کر ڈالے اور تم منہ دیکھتے رہے ۔‘ پولس غصے میں بولا۔

’میں نے پاک کے وزیر اعظم کو کئی بار فون کیا،دھمکیاں بھی دیں مگر اس معاملے پر اس نے میری ایک نہ سنی۔اور پھر شین بھی اس کا ساتھ دے رہا ہے ۔اب بھلا اور میں کیا کر سکتا ہوں ۔‘ اشریکا کا صدر منہ بنا کر بولا۔

’اس پاک کو بھی سبق سکھانا ہو گا ۔ بس افغان پور،راک اور اس کے پڑوسی ملکوں کے بعد پاک ہی کی باری آئے گی۔پاک پر قبضہ ہوتے ہی ساری اسلامی دنیا ہمارے زیر نگیں ہو جائے گی۔اب وہ وقت دور نہیں ۔ فی الحال تو تم پاک پر سخت پابندیاں لگوا دو۔ اس کی ہر طرح کی امداد بند کر دو۔‘پولس نے کہا۔

’مگر ہمیں ساتھ ہی جبرستان پر بھی پابندیاں لگانا پڑیں گی کیونکہ اس نے بھی دھماکے کیے ہیں ۔ ورنہ دنیا اعتراض کرے گی۔‘ صدر بولا۔

’ٹھیک ہے دکھاوے کے لیے جبرستان پر بھی پابندیاں لگا دو۔بعد میں اٹھا لینا۔ یوں بھی جبرستان کی معیشت اتنی مضبوط ہے کہ پابندیوں سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔البتہ خفیہ طور پر اس کی امداد کرتے رہنا۔‘ پولس نے کہا۔

’وہ تو میں کرتا ہی رہتا ہوں ۔جبرستان آخر ہمارا دوست ہے ۔‘ صدر بولا۔

’ہوں اب پاک کے وزیر اعظم کا بھی بندوبست کرنا ہو گا۔ اس کے خلاف تحریک چلواؤ تاکہ یہ کرسی سے اترے ۔‘ پولس نے کہا۔

’اس وقت یہ مشکل ہے ۔ دھماکے کر کے وہ ہیرو بن چکا ہے ۔ اس کے خلاف تحریک نہیں چلے گی۔ پھر اسمبلی کی اکثریت اس کے ساتھ ہے ۔‘ صدر بولا۔

’پھر مجھے ہی کوئی منصوبہ بنانا پڑے گا۔میرا خیال ہے کہ اس کے فوج کے ساتھ تعلقات خراب کروائے جائیں ۔ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جائے تو ہمارا کام بن سکتا ہے ۔‘ پولس نے کہا۔

’ یہ اب آپ کا مسئلہ ہے ۔ جیسے چاہیں ا س معاملے کو ہینڈل کریں ۔‘ صدر بولا۔

’میں اپنے کسی منصوبہ ساز کی ڈیوٹی لگاتا ہوں ۔ بس چند مہینوں کی بات ہے ۔ ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ اسے کرسی تو کیا ملک بھی چھوڑنا ہو گا۔‘پولس نے کہا۔

’افغان پور پر طالب علموں کی حکومت خاصی مستحکم ہو چکی ہے ۔ ان کا بھی کوئی بندوبست کرنا ہی ہو گا۔‘ صدر بولا۔

افغان پور کی فکر نہ کرو۔ طالب علموں کو کچھ عرصہ حکومت کر لینے دو۔ بس انہیں بدنام کرنے کی مہم جاری رکھو۔ اور عامر بن ہشام  پر بھی دہشت گردی کے الزامات لگاتے رہو۔اب بس کچھ عرصے کی بات ہے پھر منصوبے کا تیسرا حصہ شروع ہو گا اور ایک ایک کر کے تمام اسلامی ممالک پر ہمارا قبضہ ہو جائے گا۔‘ پولس نے فخریہ لہجے میں کہا اور اشریکا کا صدر سر ہلانے لگا۔ پولس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دل ہی دل میں سوچا کہ اسلامی ممالک پر قبضے کے بعد عیسائیوں کی باری آئے گی۔ پھر پوری دنیا پر یہودیت راج کرے گی۔ مگر اشریکا کا صدر اس بات سے بے خبر خوش ہو رہا تھا۔

***

اگلے چند سالوں میں عالمی حالات و واقعات خاصے بدل چکے تھے ۔اشریکا کی فوجیں عرب ملکوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھیں اور عملاً عرب ممالک ان کے قبضے میں تھے ۔ بہت سے اسلامی ملکوں میں اسلامی حکومتوں کے تختے الٹے گئے ۔ جہاں کوئی اسلامی حکومت برسراقتدار آنے لگتی۔ اس کے خلاف بغاوت کروا دی جاتی۔بہت سے ملکوں پر دباؤ ڈال کر گبرائیل کو تسلیم کروا لیا گیا۔ اور فلسان کو ایک چھوٹا سا علاقہ دے کر ٹرخا دیا گیا۔ مگر فلسان کے لوگوں نے خودکش حملے شروع کر دیے جس سے گبرائیل خاصا پریشان تھا۔ کئی ملکوں کے ایٹمی پروگرام بند کروا دیے گئے ۔ پاک پر بھی مسلسل دباؤ پڑ رہا تھا مگر حیرت انگیز طور پر وہ ابھی تک بچا ہوا تھا۔

جگہ جگہ مسلمانوں پر ظلم ہو رہے تھے مگر مسلمان آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے ۔ کسی کو کسی کی پروا نہ تھی۔ایک ملک پر ظلم ہوتا تو باقی سارے چپ رہتے ۔اسی لیے ظالموں کے حوصلے بڑھ رہے تھے ۔ ہر مسلم حکومت کو بس اپنی فکر تھی کہ اپنے آپ کو بچاؤ ۔باقی دنیا جائے بھاڑ میں ۔ اور مسلمانوں کی اس نا اتفاقی سے کافر فائدہ اٹھا رہے تھے ۔ یہی وہ حالات تھے جن میں گبرائیل کی خفیہ تنظیم کے سربراہ پولس نے گبرائیل کے صدر کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں اور کوئی شریک نہیں تھا۔ پولس جو اب کافی بوڑھا ہو چکا تھا گبرائیل کے صدر کے ساتھ ایک خفیہ مقام پر موجود تھا۔

’اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس عظیم منصوبے کے تیسرے اور سب سے اہم حصے پر عمل شروع کریں ۔ آج میں آپ کو مختصرا ًبتا دوں کہ ایلن کا منصوبہ دنیا پر یہودیت کے قبضے کے لیے ہے ۔ پہلے حصے میں مسلمان ملکوں پر قبضے کا منصوبہ ہے ۔ اور دوسرے میں عیسائیوں اور دیگر ممالک پر۔ پہلے حصے کے پھر تین حصے ہیں جس میں سے پہلے حصے میں ہم نے افغان پور پر کام کیا اور لاس کو وہاں سے نکالا۔ ورنہ وہ ایک بڑی طاقت بن کر ایشیا پر قبضہ کر لیتا۔ اب لاس ایک معمولی سا ملک بن کر رہ گیا ہے ۔ دوسرے حصے میں راک پر کام کیا گیا اور اس سے پڑوسی ریاست پر قبضہ کروا کے ہم نے تمام عرب ممالک می ں اشریکا کی فوجیں بٹھا دیں ۔ اب تیسرا حصہ شروع ہو گا اور ایک ایسا بھیانک کھیل شروع ہو گا جس میں ساری دنیا ملوث ہو جائے گی مگر کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ ہو کیا رہا ہے ۔ اب ہر اسلامی ملک پر ہمارا قبضہ ہونے والا ہے ۔ بظاہر سارا کام اشریکا کرے گا مگر اس کے پیچھے ہمارا ہاتھ ہو گا۔ آج کی میٹنگ میں اشریکا کے صدر کو اسی لیے نہیں بلایا کہ اگر اسے پتہ چل گیا کہ ہم کیا کرنے والے ہیں تو وہ ہمارے خلاف ہو جائے گا۔‘ پولس نے کہا۔

’آخر آپ کیا کرنا چاہتے ہیں ؟‘ گبرائیل کا صدر بے چین ہو گیا۔

’سنیے ۔۔۔۔۔۔ ‘ پولس نے اسے منصوبے کی تفصیلات بتائیں ۔

’یہ۔۔۔۔۔ یہ تو بہت خطرناک کام ہو گا۔ ہزاروں لوگ مارے جائیں گے ۔خود بہت سے یہودی بھی ہلاک ہو جائیں گے جب کہ ہم تعداد میں پہلے ہی تھوڑے ہیں ۔‘ گبرائیل کا صدر پریشان ہو کر بولا۔

’نہیں ۔ ہم یہودیوں کو بچا لیں گے ۔انہیں پہلے ہی خبردار کر دیا جائے گا۔بس اب آپ دیکھتے جائیں کہ کیا ہو گا۔‘ پولس سفاکانہ لہجے میں بولا۔

***

 وہ اپنی کار سے اترا ۔ سامنے ایک عظیم الشان بلڈنگ تھی جس کی سب سے اونچی منزل کو دیکھنے کے لیے اگر سر اوپر اٹھایا جائے تو شاید آدمی پیچھے گر پڑے مگر ا س شخص کو بلڈنگ کی اونچائی سے کوئی سروکار نہ تھا ۔ وہ تو تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آٹومیٹک دروازے سے اندر داخل ہو گیا ۔ لفٹ میں داخل ہو کر اس نے ۶۵ ویں منزل کا بٹن دبایا اور سبک رفتار لفٹ تیزی سے اوپر چڑھنے لگی۔۶۵ ویں منزل پر اتر کر وہ راہداری میں آگے بڑھتا گیا اور کمرہ نمبر۱۱۵ کے دروازے پر رکا ۔ ا سنے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر کارڈ مشین میں لگایا تو دروازہ کھل گیا۔یہ اس کا شاندار آفس تھا۔آفس میں بیٹھ کر اس نے چند فون کیے اور پھر دراز کھول کر کچھ دیکھنے لگا۔ مگر وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ اس نے میز پر لگا بٹن دبا کر دروازہ کھول دیا۔ ایک لمبے قد کا آدمی اندر داخل ہوا۔

 ’ہیلو میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟‘ اس نے پوچھا۔

 لمبے آدمی نے جواب میں جیب سے ایک کارڈ نکال کر اسے دکھایا تو وہ چونک اٹھا۔

’آپ ۔۔۔۔۔۔ ‘ اس کے منہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا۔

’کل آپ آفس نہیں آئیں گے ۔‘ لمبا آدمی بولا۔

’مگر کیوں ؟‘ اس نے چونک کر پوچھا۔

’کوئی سوال کرنے کی اجازت نہیں ۔ بس کل آپ آفس نہیں آئیں گے اور اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کریں گے ۔‘ یہ کہ کر لمبا آدمی باہر نکل گیا اور یہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔

جلد ہی لمبا آدمی ایک اور آفس میں داخل ہوا ۔وہاں بھی اس نے کارڈ دکھایا اور بولا۔’ کل آپ آفس نہیں آئیں گے ۔‘

’وہ کیوں ؟‘ آفس والا چونک اٹھا۔

’دس از آرڈر۔۔۔ اور اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کرنا۔‘ لمبا آدمی بولا اور نکل گیا۔

وہ بلڈنگ کی مختلف منزلوں میں چکر لگاتا رہا اور کئی آفسوں میں جا کر اسی طرح ہدایات دیتا رہا۔ جو بھی اس کی بات سنتا شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا۔نہ جانے کل آنے میں کیا قباحت تھی؟

***

 جہاز میں موجود سب لوگ اپنے آپ میں مگن تھے ۔ اندر باتوں کا ملا جلا سا شور تھا۔ ائر ہوسٹس لوگوں کو کافی پیش کر رہی تھی۔ کاک پٹ میں بیٹھے پائلٹ بھی خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ مگر پھر اچانک پائلٹ کی آنکھوں میں الجھن نظر آئی۔

’کیا ہوا؟‘ کو پائلٹ نے پوچھا۔

’عجیب سی بات ہے ۔ جہاز کا رخ خود بخود دائیں طرف ہو گیا ہے ۔‘ پائلٹ نے کہا۔

’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘ کو پائلٹ حیرت سے بولا پھر اس نے سامنے نقشے پر نظر ڈالی تو وہ بھی گھبرا گیا۔

’اوہ واقعی! فورا اس کا رخ بدلو۔ یہ تو روٹ سے ہٹ گیا ہے ۔‘ کو پائلٹ گھبرا کر بولا۔

پائلٹ نے جہاز کا رخ بدلنے کی کوشش کی مگر پھر اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔

’یہ ۔۔۔۔۔ یہ کیا ! آلات نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ۔‘ وہ پریشان ہو کر بولا۔

’یہ آخر ہو کیا رہا ہے ؟‘ کو پائلٹ بولا اور پھر جلدی جلدی دونوں آلات کا جائزہ لینے لگے ۔

’ یہ۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے ! پورا سسٹم جام ہو چکا ہے ۔ کنٹرول ٹاور سے رابطہ بھی منقطع ہو گیا ہے ۔اور جہاز خود ہی ایک نئی سمت میں اڑا جا رہا ہے ۔‘ کو پائلٹ خوفزدہ انداز میں بولا۔

’جہاز کے کمپیوٹرائزڈ پروگرام میں گڑبڑ کی گئی ہے اور اس میں ایک نیا روٹ آٹو فیڈ کر دیا گیا ہے ۔جہاز اس وقت اسی روٹ پر جا رہا ہے ۔اس کے علاوہ تمام آلات جام ہو گئے ہیں ۔‘ پائلٹ نے کہا۔

’مم۔۔۔۔ مگر یہ ہوا کیسے ؟ جہاز کو تو پرواز سے پہلے چیک کیا جاتا ہے ۔‘ کو پائلٹ حیرانگی سے بولا۔

’ہاں ۔اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ گڑبڑ چیک کرنے والوں نے ہی کی ہے ۔‘ پائلٹ نے کہا۔

’اب۔۔۔ اب کیا ہو گا ؟ جہاز تو نہ جانے کس طرف جا رہا ہے ۔‘ کو پائلٹ بولا۔

’ہم اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں کہ ایک بار پھر آلات کا جائزہ لیں ۔شاید ہم اسے ٹھیک کر سکیں ۔‘ پائلٹ نے کہا۔

دونوں پھر آلات کھ طرف متوجہ ہو گئے مگر پھر ان کی نگاہوں میں خوف دوڑ گیا۔جہاز کی ونڈ اسکین سے انہیں ایک بہت بلند عمارت نظر آ رہی تھی۔اور جہاز ٹھیک اس عمارت کی طرف بڑھ رہا تھا۔

’یہ۔۔۔ یہ جہاز تو اس عمارت سے ٹکرا جائے گا۔۔۔۔ اسے روکو۔۔۔۔ روکو۔۔۔‘ کو پائلٹ گھبرا کر بولا۔

’ہم۔۔۔ ہم بھلا اسے کس طرح روکیں ؟بس ہماری موت کا وقت قریب آ چکا ہے ۔‘ پائلٹ نے ڈھیلی ڈھالی آواز میں کہا ۔ اس کے جسم سے جان نکل چکی تھی۔

اب مسافروں کو بھی صورت حال کا اندازہ ہو چکا تھا۔وہ سب چیخ چلا رہے تھے ۔کچھ لوگ دھڑا دھڑ کاک پٹ کے دروازے کو پیٹ رہے تھے ۔مگر اندر موجود پائلٹوں کو تو جیسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔وہ تو پھٹی پھٹی نگاہوں سے سامنے دیکھ رہے تھے ۔جہاز تیزی سے عمارت کے قریب ہوتا جا رہا تھا اور پھر وہ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ عمارت سے جا ٹکرایا۔

***

 

(۹)

راڈ کے موبائل کی گھنٹی بجی۔

’ہیلو راڈ سپیکنگ۔‘ وہ بولا۔

’پولس کا حکم ہے کہ آپ اپنی ایک ٹیم فورا ٹون بلڈنگ کے پاس بھیج دیں جو بلڈنگ کی مووی بناتی رہے اور وہاں کی کوریج کرے ۔‘ دوسری طرف کی آواز سن کر راڈ چونک اٹھا۔وہ پولس کے خاص آدمی کی آواز تھی۔

’مگر کس چیز کی کوریج؟ وہاں کیا ہو رہا ہے ؟‘ راڈ الجھن کے عالم میں بولا۔

’یہ وہاں جا کر پتہ چل جائے گا۔‘آواز آئی اور فون بند ہو گیا۔

راڈ کے پلے کچھ بھی نہ پڑا کہ معاملہ کیا ہے مگر وہ پولس کے حکم سے مجبور تھا۔اس نے فورا ایک ٹیم بلڈنگ کی طرف روانہ کر دی۔ٹیم نے اس بلڈنگ کے سامنے والی ایک عمارت کی چھت پر چڑھ کر جائزہ لینا شروع کر دیا۔ایک شخص بلڈنگ کی مووی بنا رہا تھا۔پھر اچانک وہ چونک اٹھا۔ایک جہاز تیزی سے بلڈنگ کی طرف بڑھ رہا تھا۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جہاز بلڈنگ سے جا ٹکرایا۔آس پاس سے گزرنے والے لوگوں نے بھی یہ حیرت انگیز منظر دیکھا اور پھر وہاں ایک ہڑبونگ مچ گئی۔ڈی این این کا نمائندہ چابک دستی سے مووی بنا رہا تھا۔بلڈنگ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔جلد ہی پولیس کی گاڑیوں اور ایمبولینسوں کے سائرن بجنا شروع ہو گئے ۔مگر چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک اور جہاز بلڈنگ کی طرف آتا دکھائی دیا۔لوگوں کی چیخیں نکل گئیں ۔اس بار جہاز بلڈنگ کے دوسرے حصے سے ٹکرایا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری کی پوری بلڈنگ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ زمین بوس ہو گئی۔ہر طرف آگ کے شعلے اور دھواں تھا۔

’حیرت ہے بلڈنگ اتنی جلدی پوری کی پوری تباہ ہو گئی۔جہاز تو اوپر والے حصے سے ٹکرائے تھے !‘ڈی این این کا نمائندہ بڑبڑایا۔

***

اشریکا کا صدر اس وقت ایک میٹنگ میں تھا ۔ جب اس نے یہ خبر سنی تو اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔

’اشریکا پر بھی کوئی حملہ کر سکتا ہے !‘ وہ حیرت سے بولا۔

پھر وہ افراتفری کے عالم میں دارالحکومت کی طرف بھاگا۔ اشریکا میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔صدر نے فوری طور پر ایک ٹیم تشکیل دی جو جائے حادثہ کا جائزہ لے ۔اس نے فورا قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ’ابھی میں کچھ نہیں کہ سکتا کہ یہ کام کس کا ہے ۔یہ حادثہ ہے یا دہشت گردی۔ہم حالات کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ جلد ہی قوم کو حقائق سے آگاہ کریں گے ۔‘

***

کیپٹن برنٹ کی نگرانی میں ایک ٹیم تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر پہنچی۔ ان سے ساتھ آئے ہوئے ماہرین نے وہاں سے ملبے کے نمونے اٹھائے جب کہ کیپٹن برنٹ ارد گرد کا جائزہ لیتا رہا اور وہاں موجود لوگوں سے حادثے کی تفصیلات پوچھتا رہا۔ اس نے ماہرین سے کہا کہ وہ فورا رپورٹ اس تک پہنچائیں ۔

اگلی دوپہر وہ اپنے آفس میں موجود تھا۔ ماہرین کی رپورٹیں اسے مل چکی تھیں ۔

’چند باتیں بہت حیرت انگیز ہیں ۔ ایک تو یہ کہ دونوں جہاز پرواز سے پہلے چیک کیے گئے تھے ۔ ان میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ جہاز کے تمام مسافروں کی لسٹ بھی میرے پاس ہے ۔ اس میں بھی کوئی مشکوک شخص نظر نہیں آتا۔پھر یہ کہ دونوں جہاز بلڈنگ کے اوپر والے حصے سے ٹکرائے ۔ اس صورت میں اوپر کا حصہ تو تباہ ہونا ہی تھا مگر یہاں تو پوری بلڈنگ چند منٹوں میں زمین بوس ہو گئی اور اس کا نام و نشان ہی مٹ گیا۔ ‘ کیپٹن برنٹ نے کہا۔

’آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے ۔‘اس کے ماتحت نے پوچھا۔

’ ماہرین کی رپورٹ اس بات کا جواب دے رہی ہے ۔ ملبے کا جائزہ لینے سے پتہ چلا ہے کہ اس میں دھماکہ خیز مادے کے اثرات ہیں ۔ یعنی بلڈنگ میں کئی جگہ بم فٹ کیے گئے تھے ۔ اگر جہاز نہ بھی ٹکراتے تو وہ بم پھٹ جاتے اور بلڈنگ پھر بھی تباہ ہو جاتی۔ مگر وار دو طرح سے کیا گیا۔ ایک تو جہاز ٹکرائے گئے اور عین اسی لمحے بم پھٹ گئے ۔یوں بلڈنگ پوری کی پوری تباہ ہو گئی۔‘ کیپٹن برنٹ نے بتایا۔

’یعنی تمام کام خاصے جدید اور سائنٹیفک طریقے سے کیا گیا۔یہ کام تو کوئی بہت ہی ماہر شخص کر سکتا ہے جس نے اتنی زبردست منصوبہ بندی کی۔‘ ماتحت بولا۔

’ہاں ۔ مگر یہ بات پھر بھی سمجھ سے باہر ہے کہ جہاز بلڈنگ سے کس طرح ٹکرائے ۔ ظاہر ہے پائلٹ نے جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیا ہو گا۔‘ کیپٹن برنٹ نے کہا۔

’ سر ایک اور بھی عجیب بات ہے ۔‘ ایک اور ماتحت بول اٹھا۔

’وہ کیا البرٹ؟‘ برنٹ نے پوچھا۔

’سر ٹی این این اس سارے واقعے کی جو وڈیو دکھا رہا ہے ۔ ا سسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وہاں پہلے سے ہی موجود تھا۔ اس نے پہلے جہاز کے ٹکرانے کی مکمل وڈیو بنائی ہے ۔آخر اسے کس طرح پتہ چلا کہ وہاں کچھ ہونے والا ہے ۔‘ البرٹ نے سوال اٹھایا۔

’اوہ! پھر تو ٹی این این سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے ۔‘ کیپٹن برنٹ بڑبڑایا۔

اسی وقت فون کی گھنٹی بجی ۔برنٹ نے ریسیور اٹھایا اور دوسری طرف کی بات سن کر وہ حیران رہ گیا۔

’کیا ہوا سر؟‘ البرٹ نے پوچھا۔

’حیرت انگیز خبریں ہیں ۔ ایک تو یہ کہ عمارت کا ملبہ اٹھوایا جا رہا ہے حالانکہ ابھی تحقیقات پوری نہیں ہوئیں ۔ دوسرے یہ کہ صدر نے مجھے مزید انکوائری سے روک دیا ہے ۔ وہ آج شام قوم سے خطاب بھی کرنے والے ہیں ۔‘ کیپٹن برنٹ نے بتایا۔

’حیرت ہے ۔۔۔! دونوں باتیں ہی سمجھ سے باہر ہیں ۔‘ ماتحت بڑبڑایا۔ برنٹ کی پیشانی پر بھی شکنیں پڑیں ہوئی تھیں ۔ وہ گہری سوچ میں گم تھا۔

***

 ’ہیلو ۔ تم فورا حادثے سے متعلق ہونے والی تحقیقات روک دو۔‘ پولس کی بات سن کر اشریکا کا صدر حیران رہ گیا۔

’مگر وہ کیوں ؟ اشریکا کی تاریخ کا اتنا بڑا حادثہ ہو گیا اور اس کی تحقیق بھی نہ کی جائے ۔‘اشریکا کا صدر حیران ہو کر بولا۔

’میں جو کہ رہا ہوں وہ کرو۔تم فورا ٹی وی پر اعلان کرو کہ اس حادثے کا ذمہ دار عامر بن ہشام ہے ۔‘ پولس نے کہا۔

’عامر بن ہشام!‘ صدر کے منہ سے حیرت سے نکلا۔’ وہ بھلا یہ کام کیسے کر سکتا ہے ! اگرچہ ہم اس کے خلاف بہت پروپیگنڈہ کر رہے ہیں مگر میں تو حقیقت سے واقف ہوں ۔ عامر محض ایک چھوٹا سا جنگجو ہے اور اس کی تنظیم البرکہ بھی چند لوگوں پر مشتمل ایک معمولی سی تنظیم ہے ۔ وہ لوگ اتنا منظم اور سائنٹیفک طریقے سے کیا گیا حملہ نہیں کر سکتے ۔ نہ ان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے نہ صلاحیت۔‘ صدر بولا۔

’تمہیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ کون کیا کر سکتا ہے کیا نہیں ۔بس تم فورا عامر بن  ہشام کے خلاف بیان دو اور اسے دھمکی دو کہ وہ خود کو اشریکا کے حوالے کر دے ۔ بس اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔‘ پولس نے قطعیت سے کہا اور اشریکا کا صدر دانت پیس کر رہ گیا ۔ا سکا بس چلتا تو وہ اس بوڑھے کا گلا دبا دیتا مگر وہ مجبور تھا کہ پورا اشریکا یہودیوں کے قبضے میں تھا ۔دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور مٹھی بھر یہودیوں کے آگے بے بس تھی۔

***

 ’سر میں پوچھ سکتا ہوں کہ مجھے انکوائری سے کیوں ہٹایا گیا ہے ۔‘ کیپٹن برنٹ خشک لہجے میں بولا۔

’اب انکوائری کی ضرورت نہیں رہی۔ ہم پتہ چلا چکے ہیں کہ یہ کام عامر بن ہشام کا ہے ۔‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔

’میں ٹی وی پر آپ کا بیان سن چکا ہوں ۔مگر مجھے حیرت ہے کہ کس بنیاد پر عامر پر الزام عاید کیا گیا ہے ۔وہ تو کسی بھی طرح اس معاملے میں ملوث ہی نہیں ۔ جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے یہ کام کسی بہت منظم کروپ کا ہے جن کے پاس جدید ترین سائنسی آلات ہیں ۔ بھلا عامر بن ہشام کے پاس کیا ہے محض چند بندوقیں ،رائفلیں یا زیادہ سے زیادہ چند بم۔‘ کیپٹن برنٹ بولا۔

’تم ان باتوں کو نہیں سمجھو گے ۔ بس تم اس معاملے کو ختم سمجھو۔اب تو کسی بھی طرح عامر بن ہشام کو پکڑنا ہے ۔‘ صدر نے کہا۔

’اس طرح کر کے آپ چند بہت برے مجرموں کی پشت پناہی کریں گے ۔ میرے ماتحتوں نے تحقیق کر کے پتہ چلایا ہے کہ حادثے کے روز بلڈنگ میں کوئی بھی یہودی حاضر نہیں تھا۔ حالانکہ وہاں سینکڑوں یہودی کام کرتے ہیں ۔ انہیں کیسے پتہ چلا کہ حادثہ ہونے والا ہے ۔اگر ان سب کو پکڑ کر پوچھ گچھ کی جائے تو اصل مجرم تک پہنچا جا سکتا ہے ۔‘ کیپٹن برنٹ بولا۔

’خبردار ۔ایسا کرنے کے بارے میں سوچنا بھی مت۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اشریکا میں ہر اہم عہدے پر یہودی موجود ہیں ۔ سارا ابلاغ، ساری معیشت ان کے قبضے میں ہے ۔ ہم ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ۔‘ صدر نے اسے تنبیہ کی۔

’یہی تو ہماری کمزوری ہے ۔ساری دنیا ہمیں سپر پاور سمجھتی ہے ۔ اور ہم گبرائیل کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ کام گبرائیل کا ہے ۔ اس نے ہمارے ہزاروں شہری ہلاک کر دیے اور ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔‘ کیپٹن برنٹ نفرت سے بولا۔

’بس اپنی زبان بند رکھو اور چلے جاؤ ۔ اس معاملے میں آگے بڑھے تو انجام اچھا نہیں ہو گا۔‘ صدر نے اسے دھمکی دی۔

کیپٹن برنٹ اپنے ہونٹ کاٹتا ہوا ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا اور وہاں سے نکل گیا۔

***

 پولس آج کل اشریکا کے صدر سے کچھ زیادہ ہی ملاقاتیں کر رہا تھا۔اس وقت بھی وہ اشریکا کے صدر کے ساتھ تھا۔

’تم فورا افغان پور پر حملے کی تیاری کرو۔‘ پولس بولا۔

’تیاریوں کی تو کوئی ایسی خاص ضرورت نہیں ۔ افغان پور میں رکھا ہی کیا ہے ۔ مگر ابھی تو ہمیں عامر بن ہشام کے جواب کا انتظار کرنا ہو گا۔اگر اس نے افغان پور چھوڑ دیا تو پھر وہاں حملے کا کیا جواز رہ جائے گا۔‘ صدر نے کہا۔

’عامر وہاں رہے یا نہ رہے افغان پور پر اب حملہ کرنا ہی ہے ۔ویسے تم فکر نہ کرو عامر اب طالب علموں کی پناہ میں ہے اور وہ اپنی پناہ میں آئے ہوئے شخص کو کبھی افغان پور سے جانے کو نہیں کہیں گے ۔‘ پولس بولا۔

’پھر بھی ہمیں حملے کے لیے دنیا کو راضی کرنا ہو گا۔ اقوام متحدہ سے اجازت لینا ہو گی۔‘ صدر نے کہا۔

’میں نے کہا نا افغان پور پر حملے کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ اور یہ فیصلہ آج نہیں بلکہ کئی سال پہلے ہی ہو چکا ہے ۔اتنے سال تو حالات سازگار کیے گئے ہیں ۔ لہذا کوئی ساتھ دے یا نہ دے اور دنیا کتنا ہی شور کیوں نہ مچائے حملہ ضرور ہو گا۔ ویسے تو دنیا اس بار بھی تمہارا ساتھ دے گی کیوں کہ ٹون بلڈنگ کے حادثے میں ساری دنیا کے لوگ مارے گئے ہیں ۔ سب افغان پور کے خلاف ہیں یہاں تک کہ اسلامی ممالک بھی اس کے خلاف ہو چکے ہیں ۔ سب نے اس سے تعلقات توڑ لیے ہیں ۔ صرف عرب اور پاک رہ گیا ہے ۔ان پر بھی دباؤ ڈالو کہ وہ بھی افغان پور سے تعلقات منقطع کر لیں ۔ پھر طالب علم ساری دنیا میں تنہا رہ جائیں گے ۔‘ پولس بولا۔

’ٹھیک ہے ۔ مجھے تو آپ جب کہیں گے افغان پور پر حملہ کر دوں گا۔‘ صدر نے کہا۔

***

 

 (۱۰)

پاک کے صدر بہت فکرمند تھے ۔ اختر شاہ ان کے سامنے خاموش بیٹھے تھے ۔

’رات اشریکا کے صدر کا فون آیا تھا۔ اس نے دھمکی دی ہے کہ افغان پور پر حملے میں ہم اشریکا کا ساتھ دیں ورنہ وہ افغان پور کے ساتھ ساتھ پاک کو بھی تباہ کر دے گا۔‘ صدر بولے ۔

’پھر آپ نے اسے کیا جواب دیا؟‘ اختر شاہ نے پوچھا۔

’جواب کیا دینا تھا ۔بھلا ہم اشریکا کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ میں نے کہ دیا کہ ہم اس کے ساتھ ہیں ۔‘ صدر بولے ۔

’آپ نے بڑی جلدی کی ۔ آپ کو اس سے کچھ مہلت مانگ لینی چاہیے تھی۔افغان پور کی حکومت ہماری دوست ہے ۔اس کی وجہ سے ہماری افغان پور والی سرحدیں محفوظ ہیں ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’ہاں مگر اب ہمیں ان سے دوستی ختم کرنا ہو گی۔ہم نے پہلے اپنے ملک کو بچانا ہے ۔افغان پور کے چکر میں ہم خود کو تباہ کیوں کریں ۔‘ صدر بولے ۔

’جناب پاک پر حملہ کرنا اتنا آسان نہیں ۔اشریکا بھی جانتا ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں ۔ ملک شین ہمارے ساتھ ہے ۔اور پھر پاک پر حملے کا اس کے پاس کوئی جواز نہیں ۔اس نے یونہی دھمکی دی ہے ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’اشریکا کہیں حملہ کرنے کے لیے کبھی جواز نہیں ڈھونڈتا ۔ اور ملک شین بھی افغان پور کی موجودہ حکومت سے خوش نہیں ۔ اس معاملے میں وہ بھی اشریکا کا ساتھ دے گا۔‘ صدر بولے ۔

’بہرحال آپ کو اتنی جلدی جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ اگر اشریکا کا ساتھ دینا ہی تھا تو اس سے اپنی کچھ شرائط منوا لیتے ۔ اپنا قرضہ ہی معاف کروا لیتے ۔اشریکا یہ جنگ ہماری مدد کے بغیر نہیں لڑ سکتا۔ اس وقت ہم اس سے اپنی باتیں منوا سکتے تھے ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’ا سنے کہا ہے کہ وہ جنگ کے بعد کاشیر کا مسئلہ حل کروا دے گا۔‘ صدر بولے ۔

’ہنہ۔یہ محض ہمیں ٹرخانے والی بات ہے ۔اشریکا نے آج تک کاشیر کے معاملے میں ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ کام نکلنے کے بعد اشریکا ہمیشہ آنکھیں پھیر لیتا ہے ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’بہر حال اب تو میں اس سے کہ چکا ہوں ۔ہمیں اس معاملے میں اشریکا کا ساتھ دینا ہی ہو گا۔میں نے تو آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ آپ کے افغان پور کے طالب علموں کے ساتھ تعلقات ہیں ۔ آپ انہیں سمجھائیں کہ وہ عامر بن ہشام کو اشریکا کے حوالے کر دیں ۔تاکہ اشریکا افغان پور پر حملہ نہ کرے اور ہم بھی اس مشکل میں نہ پڑیں ۔‘ صدر بولے ۔

’سر اشریکا نے افغان پور پر حملہ کرنا ہی کرنا ہے ۔ اگر وہ عامر بن ہشام کو اشریکا کے حوالے کر بھی دیں تو وہ کوئی اور بہانہ ڈھونڈ لے گا۔اور اول تو طالب علم عامر کو اشریکا کے حوالے کریں گے ہی نہیں ۔ وہ لوگ جس کو پناہ دے دیں پھر اس کی مرتے دم تک حفاظت کرتے ہیں ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’پھر بھی آپ ان سے بات کریں ۔ انہیں سمجھا کر دیکھیں ۔ کیا پتہ کوئی بہتر حل نکل آئے ۔‘ صدر بولے ۔

’آپ کہتے ہیں تو میں ان سے بات کر کے دیکھ لیتا ہوں ۔‘ اختر شاہ نے کندھے اچکائے ۔

***

 ڈی این این کے لیے پھر حق نمک ادا کرنے کا وقت آگیا تھا۔ کیونکہ توقعات کے مطابق اشریکا نے افغان پور پر حملہ کر دیا تھا۔ افغان پور کے طالب علم جواں مردی سے لڑ رہے تھے ۔ مگر ان کے پاس اشریکا کے ہوائی حملوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ کیونکہ وہ فضائیہ کی قوت سے محروم تھے ۔پھر بھی وہ اپنی سی کوشش کر رہے تھے ۔پوری دنیا میں کوئی بھی ان کا ساتھ دینے والا نہیں تھا۔ سب مسلمان ملکوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی تھیں ۔ بلی نے پہلے کبوتر پر حملہ کر دیا تھا اور باقی سمجھ رہے تھے کہ وہ اسی سے پیٹ بھر کر چلی جائے گی۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اس بلی کا پیٹ ایک گہرے کنویں کی طرح ہے جو سارے مسلمان ملکوں کو ہڑپ کر کے ہی بھرے گا۔ افغان پور پر حملے کے ساتھ ساتھ اشریکا طالب علموں کے باغی اتحادیوں کی بھی مدد کر رہا تھا تاکہ وہ بھی ان پر حملے کریں ۔ یوں طالب علم دو طرف سے مشکل میں تھے ۔ اس کے علاوہ اشریکا افغان پور کے عوام کے دل جیتنے کے لیے جہازوں کے ذریعے خوراک کے پیکٹ بھی پھینک رہا تھا مگر وہ پیکٹ چاروں طرف سے بموں میں گھرے ہوئے ہوتے تھے ۔ تباہ حال افغان پور مزید تباہ ہو رہا تھا۔

***

 ماں ۔بھوک لگی ہے ۔‘ وہ چھوٹی سی بچی بولی۔

’فکر نہ کر بیٹی ۔تیرے ابا کھانا لے کر آتے ہی  ہوں ہوں گے ۔‘ اس کی ماں آہ بھر کر بولی۔اسے پتہ تھا کہ بچی کا باپ اب کبھی نہیں آئے گا۔

’ماں کیا آج بھی جہاز اوپر سے کھانا پھینکیں گے ؟‘ بچی نے پوچھا۔

’ہاں ۔۔۔۔ شاید۔۔۔۔ ‘ ماں کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔

اسی وقت فضا میں طیاروں کی گھن گرج گونجی۔

’ماں ۔ماں ۔جہاز کھانا لے کر آ گئے ۔ میں لے کر آتی ہوں ۔‘ بچی بولی اور تیزی سے باہر بھاگی۔

’ٹھہر جا۔۔ٹھہر جا۔۔۔‘ ماں چلائی مگر بچی باہر جا چکی تھی۔ اس نے دیکھا کہ جہازوں نے کئی لمبوتری سی چیزیں نیچے پھینکی تھیں ۔

’کھانا آ رہا ہے ۔‘ اس نے خوشی سے تالی بجائی اور پیکٹ پکڑنے کے لیے دونوں ہاتھ اوپر کر دیے ۔ پھر وہ لمبوترا سا پیکٹ اس کے ہاتھوں پر آ گرا اور ساتھ ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا اور بچی کو خوش ہونے کا موقع بھی نہ ملا۔ کھانے کا پیکٹ مانگنے والی کو اشریکا نے موت کا پیکٹ دے دیا تھا۔

ہسپتال میں مریض تڑپ رہے تھے ۔ نہ ان کو دینے کو دوا تھی نہ کھانا۔ ڈاکٹر موت کی سی سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھے اور زخموں پر پٹیاں باندھ رہے تھے ۔زخمیوں میں چھوٹے بچے اور عورتیں بھی تھیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی بستیوں پر اشریکا نے بم برسائے تھے ۔ وہ ہر ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑاتا ہوا پورے افغان پور کو تباہ کرنے پر تلا تھا۔ڈاکٹر اپنے کام میں مصروف تھے کہ فضا میں پھر گھن گرج سنائی دی۔ ان کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے ۔ ایک ڈاکٹر تیزی سے باہر نکلا اور پھر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ طیاروں نے ہسپتال کو بھی نہ چھوڑا اور اس پر بھی بم باری کر دی۔اب ان زخمی عورتوں اور بچوں کو کسی دوا کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اشریکا نے ان کی مدد کر دی تھی۔ انہیں موت کی وادی میں پہنچا دیا تھا تاکہ انہیں ان تکلیفوں سے نجات مل جائے ۔

ڈی این این اور دوسرے نشریاتی ادارے جنگ کی رپورٹنگ کر رہے تھے ۔ مگر انہیں صرف زخمی اشریکی نظر آ رہے تھے ۔ چیتھڑوں میں اڑتے ہوئے افغان پور کی عورتیں ،بچے اور بوڑھے نظر نہیں آ رہے تھے ۔ان کے کیمرے صرف افغان حملہ آوروں کو دکھاتے یا اشریکیوں کے تابوت۔ اور وہ جنہیں تابوت تو کیا دو گز زمین بھی نہ مل سکی وہ ان کیمروں کی زد میں آنے سے بچ جاتے ۔ایک اشریکی مارا جاتا تو پورا اشریکا انتقام انتقام چلا اٹھتا ۔کئی ہزار افغان بچے مارے جاتے تو کوئی آواز بلند نہ ہوتی۔ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ ظالم کی رسی کھینچے جانے میں ابھی وقت تھا۔

***

 عامر بن ہشام اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک غار میں چھپے تھے ۔ ان کے چہرے پر ندامت تھی۔

’یہ سب میری وجہ سے ہوا ۔اگر میں افغان پور سے چلا جاتا تو یہ تباہی نہ ہوتی۔‘ انہوں نے کہا۔

’نہیں جناب۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ آپ کا تو محض بہانہ بنایا گیا ورنہ اشریکا نہ افغان پور پر حملہ کرنا ہی تھا۔ اس نے اپنے ملک میں خود دہشت گردی کروائی اور الزام آپ پر دھر دیا ۔یہ سارا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔‘ ایک ساتھی بولا۔

’میرا خیال ہے کہ اب ہمیں اس جگہ کو بھی چھوڑ دینا چاہیے ۔یہ اب غیر محفوظ ہو چکی ہے ۔‘ ایک اور ساتھی نے کہا۔

’ہاں تمہارا خیال ٹھیک ہے ۔ آؤ کہیں اور چلتے ہیں ۔ ‘ عامر بن ہشام بولے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ غار سے نکلے ۔وہ پہاڑوں میں آگے ہی آگے جا رہے تھے کہ انہیں دور سے چند طیارے ادھر آتے نظر آئے ۔

’جلدی چلو ۔طیاروں کا رخ اسی طرف ہے ۔‘ عامر چلائے ۔سب جھکے جھکے تیزی سے آگے بڑھے ۔ادھر طیاروں نے پہاڑوں پر شدید ترین بم باری شروع کر دی۔

***

 ’مبارک ہو جناب۔افغان پور پر ہمارا قبضہ بھی ہو گیا اور وہاں ہماری مرضی کی حکومت بھی بن گئی۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’ہاں ۔ یہ ہماری پہلی کامیابی ہے ۔اب تم راک پر حملے کی تیاری کرو۔‘ پولس نے کہا۔

’راک پر حملہ! مگر وہ کیوں ؟‘ اشریکا کا صدر چونک اٹھا۔

’تم یہ مت پوچھا کرو کہ کیوں ۔ بے وقوف افغان پور تو شروعات ہے ۔ اب ایک ایک کر کے تمام اسلامی ملکوں پر قبضہ کرنا ہے ۔‘ پولس نے کہا۔

’لیکن راک پر حملے کی کوئی وجہ تو ہو۔پچھلی بار تو اس نے پڑوسی ریاست پر قبضہ کیا تھا تو اس وجہ سے اس پر حملہ کیا گیا۔اور افغان پور پر عامر بن ہشام کے بہانے قبضہ کیا گیا۔‘ صدر بولا۔

’اس بار بھی کوئی بہانہ بنا لیں گے ۔ فی ا لحال تم یہ پروپیگنڈہ تیز کر دو کہ راک خطرناک کیمیائی اور ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے ۔اور یہ بھی کہ عامر بن ہشام کی تنظیم البرکہ کے دہشت گردوں نے راک میں پناہ لے لی ہے ۔‘ پولس نے کہا۔

’وہ تو ٹھیک ہے ۔مگر میرا خیال ہے کہ اس بار ہمیں مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان پور کے معاملے میں بھی کئی ممالک اب اشریکا کے خلاف بول رہے ہیں ۔کہ ہم نے وہاں نہتے لوگوں ،بچوں اور عورتوں کو مارا اور اب بھی ان پر ظلم ڈھا رہے ہیں ۔‘ صدر بولا۔

’جو کہتا ہے کہنے دو۔ اسلامی ممالک کی تو ہمیں پروا نہیں ۔ بس یورپ والوں کو سمجھانا ہو گا اور یہ کام میں کر لوں گا۔ ہر ملک میں ہمارے ایجنٹ موجود ہیں ۔ تم بس راک پر حملہ کی تیاری کرو ۔جلد ہی حملہ ہو گا۔‘ پولس نے کہا۔

***

 ’اتنا عرصہ ہو گیا ہے مجھے تنظیم میں شامل ہوئے مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔‘ رابرٹ افسردگی سے بولا۔

’ہاں میں بھی اتنے عرصے سے روپوشی کی زندگی گذار رہا ہوں ۔لگتا ہے قسمت پولس کے ساتھ ہے ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’اس کا آخری منصوبہ تو اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہا ہے ۔یہ ساری دنیا پر قبضے کا منصوبہ ہے ۔ پہلے اشریکا میں دہشت گردی پھر اس کا الزام عامر بن ہشام پر۔اور پھر اس بہانے افغان پور پر قبضہ ۔یہ سب سوچی سمجھی سازش ہے ۔‘ رابرٹ بولا۔

’ہاں اور اب شاید راک کی باری ہے کیوں کہ اس کے خلاف پروپیگنڈہ تیز ہو گیا ہے ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں ۔ دنیا کو یہ کس طرح سمجھائیں کہ یہ پولس کی سازش ہے ۔‘ رابرٹ بولا۔

’اس کا تو ایک ہی طریقہ ہے ۔کہ کسی طرح  اس آخری منصوبے کی کاپی مل جائے ۔‘ڈیوڈ نے کہا۔

’وہ تو آج تک نہیں مل سکی۔ نہ جانے تمہارے والد نے کہاں چھپا کر رکھی ہے ۔‘رابرٹ بولا۔

’میں خود حیران ہوں ۔ اچھا سنو تم آج رات میرے گھر جاؤ اور میں نے تمہیں اپنے کمرے میں جو تہ خانے کا راستہ بتایا ہے ۔وہاں سے جا کر میرے کاغذات نکال لاؤ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’وہ کیوں ؟‘ رابرٹ نے پوچھا۔

’میں نے سنا ہے کہ وہاں کے سارے مکانات مسمار کیے جا رہے ہیں ۔نہ جانے کیا وجہ ہے ۔ وہاں کے سب لوگوں سے مکانات خرید لیے گئے ہیں ۔ میرا مکان چونکہ عرصے سے بند پڑا ہے ۔اس لیے اسے وہ ویسے ہی گرا دیں گے ۔ اس لیے وہاں سے میری چیزیں نکال لاؤ۔‘ ڈیوڈ نے کہا۔

’ٹھیک ہے میں آج رات خاموشی سے جا کر نکال لاؤں گا۔‘ رابرٹ بولا۔

***

 

 (۱۱)

 رات کی تاریکی میں رابرٹ ڈیوڈ کے گھر پہنچا تو حیران رہ گیا۔ وہاں موجود زیادہ تر گھر مسمار کیے جا چکے تھے ۔یہاں تک کہ ڈیوڈ کے پیچھے والا مکان بھی گرایا جا چکا تھا۔

’اگر میں آج یہاں نہ آتا تو شاید کل تک یہ گھر بھی مسمار ہو چکا ہوتا۔‘ رابرٹ بڑبڑایا اور پھر لاک کھول کر ڈیوڈ کے گھر میں داخل ہو گیا۔وہ سیدھا ڈیوڈ کے کمرے میں گیا اور وہاں دیوار میں لگا ایک خفیہ بٹن دبایا تو فرش کا ایک حصہ ایک طرف کو سرک گیا اور سیڑھیاں نیچے جاتی نظر آنے لگیں ۔ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے تہ خانے میں پہنچا تو دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ اس نے بلب جلایا تو تہ خانہ جگمگا اٹھا۔یہاں ایک الماری تھی جس میں ڈیوڈ کے کاغذات اور ضروری چیزیں تھیں ۔رابرٹ نے جلدی جلدی سارے کاغذات بیگ میں بھر لیے اور واپسی کے لیے قدم اٹھائے ۔مگر ایک دم وہ چلتے چلتے رک گیا۔تہ خانے کی دائیں دیوار میں ایک بڑی سی دراڑ پڑ چکی تھی۔ شاید پیچھے والا گھر مسمار کرنے کے دوران جھٹکا لگنے سے یہ دراڑ پڑی تھی۔رابرٹ بے خیالی میں آگے بڑھا اور اس دراڑ میں سے جھانکا تو چونک اٹھا۔دراڑ کے دوسری طرف ایک اور کمرہ نظر آ رہا تھا۔

’یہ ۔۔۔ یہ کیا ۔ڈیوڈ کہ کہنے کے مطابق تو گھر میں بس یہی ایک تہ خانہ ہے ۔پھر یہ دراڑ کے دوسری طرف کون سا کمرہ ہے ؟‘ وہ حیرت سے بولا۔

’کک۔۔۔ کہیں یہ کوئی ایسا خفیہ کمرہ تو نہیں جو ایلن نے بنایا ہو اور جس سے ڈیوڈ بھی ناواقف ہو۔‘ اس نے سوچا پھر اس پر جوش طاری ہو گیا۔اس نے تہ خانے میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں ۔اسے لوہے کی ایک راڈ مل گئی۔وہ راڈ سے دراڑ کے ارد گرد سیمنٹ کھرچنے لگا۔ جلد ہی اینٹیں نظر آنے لگیں ۔ وہ راڈ دراڑ میں پھنسا کر اینٹ نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔اس پر جنون طاری تھا۔کافی زور لگانے کے بعد اینٹ نکل گئی۔ دوسری طرف بھی ایسا ہی ایک کمرہ نظر آ رہا تھا۔ رابرٹ مزید اینٹیں نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد وہ دیوار میں اتنا خلا بنانے میں کامیاب ہو گیا کہ دوسری طرف جا سکے ۔وہ خلا سے نکل کر دوسرے تہ خانے میں پہنچ گیا۔ یہ نسبتاً چھوٹا کمرہ تھا۔ اس میں ایک میز ،کرسی اور ایک الماری تھی۔الماری میں تالا لگا تھا۔رابرٹ نے ایک اینٹ اٹھا کر زور زور سے تالے پر ماری تو وہ ٹوٹ گیا۔اس نے الماری کھولی تو اندر فائلیں ہی فائیلیں بھری نظر آئیں ۔

’کہیں یہ ایلن کے بنائے ہوئے منصوبے تو نہیں ۔‘جوش کی حالت میں وہ بڑبڑایا اور جلدی جلدی فائلیں دیکھنے لگا۔پھر اس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ یہ واقعی ایلن کے بنائے ہوئے منصوبے تھے ۔ ا سنے ہر منصوبے کی ایک کاپی اپنے پاس رکھی ہوئی تھی۔ پھر رابرٹ کی نظر ایک موٹی سی فائل پر پڑی جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا۔’میری زندگی کا آخری منصوبہ‘

یہ الفاظ پڑھ کر رابرٹ کا دل دھڑکنا بھول گیا۔اس نے کئی سالوں کے بعد بالآخر وہ منصوبہ پا لیا تھا جس پر پولس عمل کر رہا تھا۔ جث دنیا میں یہودیت پھیلانے کا منصوبہ تھا۔جس پر کامیابی سے عمل درآمد جاری تھا۔جس میں لپیٹ میں ساری دنیا آئی ہوئی تھی۔رابرٹ کرسی پر بیٹھ کر جلدی جلدی منصوبہ پڑھنے لگا۔یہ کافی ضخیم مسودہ تھا۔مگر اب رابرٹ کو کسی چیز کا ہوش نہیں رہ گیا تھا۔ وہ تو تیزی سے ورق گردانی کرتا جا رہا تھا۔اسے وقت گزرنے کا بھی احساس نہیں تھا۔اور پھر پوری فائل پڑھنے کے بعد اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ اس کے جسم سے جیسے جان نکل چکی تھی۔

’اف میرے خدا! اتنا بھیانک منصوبہ! افغان پور سے لاس کا انخلا،عامر بن ہشام کو ہیرو بنانا،پھر راک کا ریست پر قبضہ اور راک پر حملہ،اشریکا میں دہشت گردی ،عامر بن ہشام پر اس کا الزام اور افغان پور پر قبضہ ۔ یہ سب اس منصوبے کے تحت ہوا اور دنیا میں کسی کو اس کا احساس نہیں کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے ۔ اور۔۔۔۔ اور اب راک پر حملہ ہو گا اور راک پر بھی اشریکی حکومت بن جائے گی۔ پھر ملک سام ، جاردن وغیرہ پر قبضہ ہو گا اور اس کے بعد پاک کی باری آئے گی۔اور تو اور اس کے بعد اشریکا کو بھی لاس کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا۔ مجھے فورا دنیا کے سامنے اس منصوبے کو لانا چاہیے تاکہ دنیا گبرائیل اور پولس کی سازشوں سے آگاہ ہو سکے ۔ مجھے فورا یہ کام کرنا ہو گا ورنہ ۔۔۔ ورنہ راک پر حملہ ہونے ہی والا ہے ۔‘ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور منصوبے کی فائل اٹھا کر تیزی سے دیوار میں موجود سوراخ کی طرف دوڑا۔اسی وقت اس کے کانوں میں گڑگڑاہٹ کی آواز گونجی اور ایک دھماکہ سنائی دیا۔وہ اچھل پڑا اور اس نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی تو اس کے ہوش اڑ گئے ۔ منصوبہ پڑھنے کے چکر میں رات گزر چکی تھی۔ دن نکل آیا تھا اور یقینا اوپر مکانات مسمار کیے جا رہے تھے ۔وہ تیزی سے سوراخ سے نکل کر دوسرے کمرے میں آیا ۔سیڑھیاں چڑھ کر اس نے ایک بٹن دبایا تو چھت ایک طرف کو سرک گئی۔وہ جلدی سے اوپر ڈیوڈ والے کمرے میں چڑھا اور پھر صدر دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔اسی وقت ایک دھماکے کے ساتھ پچھلا کمرہ گر پڑا۔شاید اس گھر کے گرانے کی باری بھی آ چکی تھی۔وہ بھاگ کر گھر سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ بلڈوزر گھر پر چڑھائی کر رہا تھا۔ا سنے باہر نکلتے ہی دوڑ لگا دی۔

’ اے ۔۔۔اے ۔۔۔ کون ہو تم؟ رکو۔‘ پیچھے سے کوئی چلایا مگر رابرٹ نے مڑ کر نہ دیکھا اور بھاگتا چلا گیا۔اسے اپنے پیچھے دوڑتے قدموں کی آواز آئی تو اس نے اپنی رفتار اور تیز کر دی۔

’خبردار ۔۔۔۔ رک جاؤ ورنہ ہم فائر کر دیں گے ۔‘ پیچھے سے کوئی چیخا مگر رابرٹ نے اس دھمکی پر کان نہ دھرے ۔اس کا گھر قریب آتا جا رہا تھا۔جونہی اس نے گلی کا موڑ مڑا پیچھے سے کسی نے فائر کر دیا۔گولی اس کی کمر میں لگی۔ وہ لڑکھڑا گیا۔ اس کے سینے میں شدید درد اٹھا ۔ایک لمحے کو رک کر وہ پھر تیزی سے دوڑا ۔جلد ہی وہ اپنی گلی تک پہنچ گیا اور اپنے گھر میں گھس کر دروازہ بند کر لیا۔ تعاقب کرنے والے دوڑتے ہوئے اس گلی سے آگے نکل گئے ۔وہ رابرٹ کو گلی میں داخل ہوتا نہ دیکھ سکے تھے ۔

اندر ڈیوڈ اس کی حالت دیکھ کر اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

’رابرٹ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ کیا ہوا؟‘ وہ چلایا۔

’مجھے گولی لگی ہے ۔‘ وہ کمزور آواز میں بولا اور لڑکھڑا کر گر پڑا۔منصوبے والی فائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ڈیوڈ تیزی سے آگے بڑھا اور رابرٹ کا سر اپنی گود میں لے لیا۔

’یہ کیسے ہوا رابرٹ ؟‘ وہ دکھ بھرے لہجے میں بولا۔

’میں تمہارے گھر کے تہ خانے سے کاغذات نکال کر پلٹ رہا تھا کہ مجھے ا س تہ خانے کے برابر ایک اور کمرے کا سراغ ملا۔ میں دیوار توڑ کر اس کمرے میں گیا تو پتہ چلا کہ اس کمرے میں تمہارے والد نے اپنے سارے منصوبوں کی کاپیاں رکھی ہوئی تھیں ۔‘ رابرٹ کمزور آواز میں بولا۔

’کیا!!‘ ڈیوڈ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔

’ہاں ان میں سے مجھے اس کا آخری منصوبہ بھی مل گیا۔ یہ اس کی کاپی ہے ۔‘ اس نے فائل کی طرف اشارہ کیا۔’میں فائل لے کر باہر نکلا تو وہاں پولیس والے گھر مسمار کرنے پہنچے ہوئے تھے ۔انہوں نے مجھے نکلتے دیکھ لیا اور مجھ پر گولی چلا دی۔‘وہ بولا۔

’اوہ۔مگر اب کیا ہو گا ۔تم تو بہت زخمی ہو۔ تمہیں فورا ہسپتال لے کر جانا ہو گا۔‘ ڈیوڈ گھبرا کر بولا۔

’اب اس کی ضرورت نہیں رہی میرے دوست۔گولی میرے دل تک پہنچ گئی ہے ۔میرا آخری وقت آ پہنچا ہے ۔ ہم نے ایک دوسرے کا بہت ساتھ دیا ۔کیا اس آخری وقت میں تم میرا ایک کام کرو گے ۔‘رابرٹ ہانپتا ہوا بولا۔

’یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ میں بھلا تمہارے کسی کام سے انکار کر سکتا ہوں ۔‘ ڈیوڈ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔

’تو پھر آخری منصوبے کی فائل ملک پاک میں اختر شاہ تک پہنچا دو۔‘ رابرٹ بولا۔

’ملک پاک میں ! مگر وہ کیوں ؟‘ ڈیوڈ نے چونک کر پوچھا۔

’میں نے تم سے آج تک چھپائے رکھا ۔ میں دراصل پاک کا جاسوس کامران خان ہوں ۔ یہاں جاسوسی کے لیے آیا تھا ۔قسمت نے تم سے ملوا دیا۔اور تمہارے مشوروں کی بدولت میں پولس تک جا پہنچا۔‘ کامران خان نے کہا۔

’اوہ!!‘ ڈیوڈ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔

’ڈیوڈ ۔مجھے غلط نہ سمجھنا۔ہم مسلمان کسی کے دشمن نہیں ۔ تم جانتے ہو کہ گبرائیل ساری دنیا خصوصاً مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے ۔ تم خود بھی اس ظلم کے خلاف ہو۔ ہمیں مجبوراً اپنے بچاؤ کے لیے جوابی کاروائی کرنا پڑتی ہے ورنہ ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ۔ اگر دنیا ہمیں چین سے رہنے دے تو ہم بھی کسی کو تنگ نہیں کرتے ۔ میرے دوست پولس کا یہ منصوبہ انسانیت کے خلاف ہے ۔اس نے دنیا پر بہت ظلم ڈھائے ہیں ۔ اگر یہ منصوبہ جاری رہا تو دنیا ختم ہو جائے گی۔دنیا کو بچا لو۔۔۔ انسانیت کو بچا لو۔۔۔۔ یہ فائل اختر شاہ تک پہنچا دو تا کہ ساری دنیا اس سے واقف ہو جائے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ اور پولس اپنے انجام کو پہنچ سکے ۔۔۔۔۔ ڈیوڈ میرا یہ کام کر دو۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ یہ تمہارا مجھ پر ۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا احسان۔۔۔۔۔احسان۔۔۔۔۔۔‘ کامران خان کے الفاظ درمیان میں رہ گئے ۔

’رابرٹ۔۔۔۔رابرٹ۔۔۔‘ ڈیوڈ نے اسے پکارا مگر اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔ ڈیوڈ سکتے کے عالم میں بیٹھا تھا۔ پھر اس نے آہستہ سے کامران کا سر فرش پر رکھا اور منصوبے کی فائل  اٹھا لی۔ فائل کھول کر وہ پڑھنے لگا پھر اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹنے لگے ۔ پوری فائل پڑھنے کے بعد وہ سکتے کے عالم میں تھا۔ اس کی نظریں کامران خان پر تھیں اور وہ گہری سوچ میں گم تھا۔

***

 

 ’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ راک پر حملہ کس بنیاد پر کیا جائے ؟‘ اشریکا کا صدر پریشانی کے عالم میں بولا۔

’کیوں ؟ تمہیں کیا پریشانی ہے ؟‘ پولس نے اسے گھورا۔

’دیکھیں ہم نے اس پر کیمیائی ہتھیار بنانے کا الزام لگایا اور اسے معائنہ کروانے کو کہا۔میرا خیال تھا کہ وہ نہیں مانے گا اور میں اس بہانے اس پر حملہ کر دوں گا۔ مگر وہ راضی ہو گیا۔اقوام متحدہ کی ایک ٹیم معائنے کے لیے گئی تو راک نے اس کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور ہر جگہ کا معائنہ کروا دیا۔اب اس ٹیم کے سربراہ نے اپنی رپورٹ مجھے دی ہے جس کے مطابق راک میں کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں ۔ اس کے علاوہ راک نے اس بات سے بھی انکار کیا ہے کہ عامر بن ہشام وہاں ہے یا البرکہ کے دہشت گرد وہاں چھپے ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد ہے تو اسے گرفتار کر لیں ۔ اب بھلا میں کیا کروں ۔وہ کوئی موقع ہی نہیں دے رہا کہ میں بہانہ بنا کر اس پر چڑھائی کر دوں ۔‘ صدر نے کہا۔

’میں نے تم سے کہا تھا نا کہ راک پر حملے کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ اگر کوئی بہانہ نہ بنا حملہ تب بھی ہو گا۔ فی الحال تم ایسا کرو کہ راک کے حاکم سے کہو کہ وہ اقتدار چھوڑ دے ورنہ اس پر حملہ کر دیا جائے گا۔‘ پولس بولا۔

’مگر وہ کس بنیاد پر اقتدار چھوڑے ۔ عوام اس کے خلاف نہیں ۔اور اس پر لگایا گیا کوئی الزام بھی درست ثابت نہیں ہوا۔‘ صدر نے کہا۔

’ان باتوں کی پروا نہ کرو ۔بس اسے الٹی میٹم دے دو۔‘ پولس بولا۔

’ٹھیک ہے میں یہ بھی کر دوں گا۔ لیکن اس بار حالات خاصے خراب ہیں ۔ ساری دنیا میں اشریکا کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ بھی مجبوراً ساتھ دے رہی ہے ورنہ اس کی اکثریت میرے خلاف ہے ۔ سب کا خیال ہے کہ اشریکا راک پر بے بنیاد الزام لگا رہا ہے اور دراصل وہ راک کے تیل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔‘ صدر نے کہا۔

’ہوں ۔ مجھے بھی امید نہیں تھی کہ غیر مسلم ممالک بھی آنکھیں پھیر لیں گے ۔ خیر چار پانچ ملک تو تمہارے ساتھ ہیں ۔باقیوں کو بھی تیل کا لالچ دے کر ساتھ ملالو۔ اور یہ جو مظاہرے ہو رہے ہیں ہونے دو۔ عوام کو بھی تو کوئی ایکٹیوٹی Activityچاہیے ۔انہیں شور شرابا کرنے دو۔ راک پر حملہ ہر حالت میں ہو گا چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے ۔‘ پولس مضبوط لہجے میں بولا۔

***

 دنیا چیختی رہ گئی۔ لوگ مظاہرے کرتے رہ گئے مگر اشریکا نے کسی کی ایک نہ سنی ۔تنہا سپر پاور ہونے کے زعم نے اس نے دوسرے شکار پر جھپٹا مار دیا اور راک پر حملہ کر دیا۔ ایک بار پھر چنگیزیت کی تاریخ دہرائی جانے لگی۔ افغان پور کی طرح راک پر بھی ان بموں کی بارش ہونے لگی جو ایک عرصے سے اشریکا کے اسلحہ خانوں میں بیکار پڑے تھے ۔ اس بار بھی عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں میں کوئی تمیز نہ کی گئی۔ کبھی کسی اسکول پر بم برسائے گئے کبھی کسی ہسپتال پر۔ کبھی شادی کی تقریب پر اور کبھی جنازے کے جلوس پر۔ مگر اس بار ًنیاد الزٓا ور جلدی جلدی فائی نطکی جنگ مختصر رہی کیونکہ راک کا حاکم اپنے ساتھیوں کے ساتھ روپوش ہو گیا اور اس کے بعد راک نے گھٹنے ٹیک دیے ۔

اشریکی فوج فاتح بن کر داخل ہوئی اور مظلوموں پر ظلم کر کے فتح کا جشن منانے لگی۔اس کے لیے کوئی قانون اور کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا۔ وہ جسے چاہتی گرفتار کر لیتی، جسے چاہتی مار ڈالتی۔ کوئی اسے پوچھنے والا نہ تھا۔

مسلمان دم بخود تھے اور انتظار میں تھے کہ اب کس کی باری آتی ہے ۔آثار نظر آ رہے تھے اور اشریکا نے اب ملک سام پر الزام لگانے شروع کر دیے تھے ۔

***

 

 (۱۲)

 ’ہمارے منصوبے کا تیسرا حصہ بھی مکمل ہونے کو ہے ۔ افغان پور اور راک میں ہماری حکومتیں قائم ہو چکی ہیں ۔ اب ملک سام کی باری ہے ۔ اب ہمیں تیزی سے کام کرنا ہو گا کیونکہ کچھ غیر مسلم ملکوں کو بھی اب شک ہونے لگا ہے ۔‘ پولس کہ رہا تھا۔

’ہاں حالات کافی خراب ہو چکے ہیں ۔ اشریکا نے راک میں بہت ظلم ڈھائے ہیں ۔ اسے ہاتھ ہلکا رکھنا چاہیے تھا ۔بس راک پر قبضہ کر لیتا۔ نہتے لوگوں پر مظالم ڈھانے کی وجہ سے ساری دنیا میں لے دے ہو رہی ہے ۔ اشریکا کے خلاف رپورٹیں شایع ہو رہی ہیں ۔ اس ھرح تو ہمارا کام مشکل ہو جائے گا۔‘ گبرائیل کا صدر بولا۔

’ہاں اشریکا کے صدر کو سمجھانا ہو گا کہ وہ حد سے نہ بڑھے ۔ دراصل اشریکی بھی تو مسلمانوں کے بہت خلاف ہیں ۔ ان پر قابو پاتے ہی بے قابو ہو جاتے ہیں ۔ مگر واقعی ہمیں اب سنبھل کر چلنا ہو گا۔ اگر عیسائی ممالک ہمارے خلاف ہو گئے تو پھر منصوبے پر آسانی سے عمل نہیں ہو سکے گا۔بس اب سام پر حملہ کر دیتے ہیں ۔ دو تین ممالک کا ایٹمی پروگرام تو ہم ختم کروا چکے ہیں پھر ان کو قابو کر لیں گے ۔ اس کے بعد جن عرب ممالک میں اشریکی فوج ہے وہ وہاں بغاوت کر کے وہاں کے شاہوں کو تخت سے اتار دے گی اور وہاں بھی جمہوریت قائم کر دی جائے گی تاکہ ہمارے ہمدرد لوگ برسراقتدار آجائیں ۔ پھر ہم پاک کی خبر لیں گے ۔اس نے بہت پریشان کیا ہے ۔کوئی بھی حکومت ہو ایٹمی پروگرام پر سودے بازی نہیں کرتی۔اب اسے ڈائیرکٹ اشریکا سے ٹکرا دیں گے ۔دو تین اور ممالک بھی اس کا ساتھ دیں گے ۔ یوں ان سب کا بیڑہ غرق ہو جائے گا اور اشریکا بھی لاس کی طرح ٹوٹ پھوٹ کر ایک معمولی ملک بن جائے گا۔ پھر ہم تمام اسلامی ممالک سے اسلام کو ختم کر دیں گے جس طرح طارق بن زیاد کے علاقے اسفین سے عیسائیوں نے اسلام مٹا دیا تھا۔‘ پولس مغرور لہجے میں بولا۔

’تو پھر جلد ہی کام شروع کریں ۔ا س سے پہلے کہ عیسائی ہمارے خلاف ہو جائیں ۔‘ گبرائیل کا صدر بے چین ہو کر بولا۔

’ہاں بس میں اشریکا کو اشارہ کرتا ہوں کہ سام پر حملہ کر دے ۔ اس کے بعد تو مسلمانوں پر یوں آفتیں ٹوٹیں گی جس طرح ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے ایک ایک کر کے گرتے ہیں ۔ ‘ پولس یہیں تک کہ پایا تھا کہ اس کے لباس میں لگا ہوا ایک ننھا سا بلب جلنے بجھنے لگا۔

’اوہ! کوئی اہم خبر ہے ۔‘ پولس نے فورا جیب سے ایک وائل لیس نما آلہ نکالا اور کسی سے بات کرنے لگا ۔ پھر اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔

’ کیا ہوا؟‘ صدر نے حیران ہو کر کہا۔ اس نے پہلی دفعہ پولس کو خوفزدہ دیکھا تھا ۔

’بہت بڑی گڑبڑ ہو گئی۔ہم جو ہل اسٹریٹ کے مکان گرا رہے تھے تاکہ وہاں جاسوسی کا اڈا بنایا جا سکے ۔ ان میں ایک مکان ایلن کا بھی تھا۔وہاں ایک تہ خانے سے بہت سی فائیلیں ملی ہیں ۔جو دراصل ایلن کے بنائے ہوئے منصوبوں کی کاپیاں ہیں ۔‘ پولس پریشان ہو کر بولا۔

’اوہ!!‘ صدر ہکا بکا رہ گیا۔

’وہاں یقیناً اس کے آخری منصوبے کی کاپی بھی ہو گی۔اور وہاں سے کوئی شخص نکل کر بھاگا بھی ہے ۔اگر وہ آخری منصوبے کی کاپی لے گیا ہے تو پھر سمجھو کہ ہم تباہ ہو گئے ۔اتنے سالوں کی محنت برباد ہو گئی۔ ساری دنیا خاص طور پر اشریکا ہمارے خلاف ہو جائے گا جس پر ہمارا سب سے زیادہ دارومدار ہے ۔‘ پولس بے حد فکر مند تھا۔

’اوہ۔۔۔! اب ۔۔۔۔ اب کیا ہو گا۔‘ صدر بھی گھبرا گیا۔

’وہ شخص ابھی گبرائیل میں ہی کہیں چھپا ہو گا۔فورا پورے ملک کی ناکہ بندی کروا دو۔کوئی جہاز ،ٹرین  ملک سے باہر نہیں جائے گی۔سرحدوں پر کڑی نگرانی کرواؤ۔گبرائیل کے ایک ایک گھر کی تلاشی لو۔ میں بھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس تلاش کرواتا ہوں ۔‘ پولس اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ صدر بھی تیزی سے باہر بھاگا۔

خود کو فرعون سمجھنے والے بھول گئے تھے کہ اﷲ انہی کے گھر موسی کی پرورش کرتا ہے ۔ انہیں تباہ کرنے کے لیے اﷲ نے موسی کو بھیج دیا تھا۔

***

 ڈیوڈ رسیوں سے جکڑا ہوا پڑا تھا۔اس کا سارا جسم زخمی تھا۔

’تمہارے روپوش ہونے پر میں پہلے ہی پریشان تھا ۔ مگر میں نے تمہیں اتنی اہمیت نہ دی کیونکہ تم بھی بہر حال ایک یہودی تھے ۔ کاش میں اسی وقت تمہیں تلاش کروا کر تمہارا گلا دبا دیتا۔ بتاؤ منصوبے کی فائل کہاں ہے ؟‘ پولس نے اس کے سر پر ایک ٹھوکر رسید کی۔

’اب کچھ نہیں ہو سکتا مسٹر پولس۔۔۔ میرے باپ کے قاتل۔۔۔۔۔ ساری انسانیت کے قاتل۔۔۔۔۔ تم فرعون بننے چلے تھے ۔ ساری دنیا پر قبضے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ مگر تم بھول گئے کہ ہر فرعون ایک دن دریا میں غرق ہو جاتا ہے ۔ساری کائنات پر اﷲکی حکمرانی ہے ۔اسی نے تمہیں میری طرف سے غفلت میں ڈالے رکھا۔اور میرا سینہ سچائی کے لیے کھول دیا۔ میرے دوست رابرٹ یعنی کامران کی باتوں نے میری آنکھیں کھول دیں ۔ میں نے اپنے باپ کی غلطی کا کفارہ ادا کر دیا ہے ۔ وہ فائل تمہاری ناکہ بندیوں سے پہلے ہی میں ڈاک کے ذریعے ایک خاص جگہ بھجواچکا ہوں ۔ اب تک تو پہنچ بھی چکی ہو گی۔ تم ہار گئے پولس۔۔۔ تمہارا منصوبہ اب ختم ہوا ۔۔۔۔ تم بھی ختم ہو جاؤ گے ۔۔۔۔۔ ‘ ڈیوڈ دانت بھینچ کر بولا۔

’میں ۔۔۔۔ میں تمہیں دیکھ لوں گا۔۔۔۔ میں سب کو تباہ کر دوں گا۔۔۔۔ یہ منصوبہ ناکام نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔ ‘ پولس غرایا اور اسے ایک ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل گیا۔

اپنے آفس میں آ کر اس نے صدر کے نمبر ملائے اور کہا۔’ڈیوڈ وہ فائل ڈاک کے ذریعے کہیں بھجوا چکا ہے ۔ فورا پچھلے دو تین دن کا سارا ریکارڈ چیک کرواؤ کہ کہاں کہاں پارسل بھیجے گئے ۔جس جس ملک میں پارسل گئے ہیں میں وہاں اپنے جاسوسوں کو خبر دار کر دوں گا کہ پارسل منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی قبضے میں کر لیں ۔ بس دعا کرو کہ ابھی ڈاک راستے میں ہی ہو۔‘ پولس بولا۔

’ میں ابھی سارا ریکارڈ چیک کرواتا ہوں ۔‘ صدر جلدی سے بولا۔

’ ہاں جلدی کرو ۔ میں خاص طور پر پاک میں موجود جاسوسوں کو خبر دار کرتا ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ پارسل ان ڈائیرکٹ INDIRECTوہیں پہنچے گا۔‘پولس بولا اور فون بند کر دیا۔

پھر اس نے دوسرے فون سے نمبر ملا کر کہا۔’ ڈیوڈ کی زبان کھلوانے کی کوشش کرو اور اس سے پتہ کرو کہ اس نے فائل کہاں بھیجی ہے ۔‘

ریسیور پٹخ کر اس نے کرسی کی پشت سے سر لگا لیا۔خوف اس کی آنکھوں سے جھانک رہا تھا۔اسے اپنا انجام نظر آرہا تھا۔

***

 اختر شاہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں ۔ان کے سامنے میز پر وہ فائل پڑی تھی جس میں ایلن کا آخری منصوبہ درج تھا۔ یہ فائل انہیں آج ہی یورپ کے ایک ملک سے بھیجی گئی تھی۔ ڈیوڈ نے لکھا تھا کہ وہ یہ فائل ایک یورپی ملک میں اپنے دوست کو بھیج رہا ہے جو اسے اختر شاہ کو پوسٹ کر دے گا۔اس نے کامران خان کی شہادت اور پولس کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا تھا۔اور یہ لکھا تھا کہ جلد ہی دنیا کو اس منصوبے سے خبردار کر دیا جائے تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے ۔ کوئی بھی اس فائل کو جھٹلا نہیں سکے گا کیوں کہ اس پر ایلن کے دستخط اور انگلیوں کے نشانات ہیں جو ریکارڈ سے چیک کیے جا سکتے ہیں ۔

ایلن کا منصوبہ پڑھ کر اختر شاہ سکتے میں آ گئے تھے ۔

’مجھے فورا ہی کاروائی کرنا ہو گی۔ یہی موقع ہے کہ ہم گبرائیل کو سبق سکھا سکتے ہیں ۔‘ اختر شاہ تیزی سے فون کی طرف لپکے ۔

***

 ’یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں ؟‘ صدر پاک حیرت سے بولے ۔

’منصوبہ آپ کے سامنے ہے آپ خود پڑھ سکتے ہیں ۔ ساری دنیا میں تباہی پھیلانے والا اور دہشت گردی کرنے والا پولس اور گبرائیل ہے اور الزام سارا مسلمانوں پر لگایا جاتا رہا ہے ۔ گبرائیل نے ساری دنیا کو بے وقوف بنا رکھا ہے ۔ ہم سب کو مل کر اس کے خلاف کاروائی کرنا ہو گی۔‘اختر شاہ بولے ۔

’ہوں ۔ بقول آپ کے پولس تو اشریکا اور عیسائی ممالک کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے ۔ لہذا پھر تو اشریکا سمیت سارے عیسائی ممالک بھی گبرائیل کے خلاف ہو جائیں گے ۔‘صدر نے کہا۔

’ہاں ۔ اسی لیے میں نے اس منصوبے کی ایک ایک کاپی اشریکا،لاس اور دوسرے یورپی ممالک کو بھی بھیج دی ہے ۔ ‘اختر شاہ بولے ۔

’ اوہ ! آپ نے بڑی جلدی کی۔‘ صدر نے کہا۔

’ نہیں ۔مجھے خدشہ تھا کہ ہماری حکومت پھر کسی مصلحت کا شکار نہ ہو جائے ۔ اس لیے میں نے فورا یہ قدم اٹھایا۔اب آپ اشریکا کے صدر سے بات کریں تاکہ فورا اقوام متحدہ کا اجلاس طلب کیا جائے اور گبرائیل کے خلاف قرار داد منظور کی جائے ۔ سب کو مل کر اس پر حملہ کر دینا چاہیے ۔‘ اختر شاہ جوش کے عالم میں بولے ۔

’ہوں میں اشریکا کے صدر سے بات کرتا ہوں ۔‘ صدر نے کہا۔

***

 اشریکا کے دارالحکومت میں ایک اہم میٹنگ تھی۔ سب بے حد پریشان اور فکرمند تھے ۔

’آپ لوگ سارے حالات سے واقف ہو چکے ہیں ۔ گبرائیل کا یہ روپ ہمارے لیے بے حد تکلیف دہ ہے ۔ ہم نے گبرائیل کی خاطر ساری دنیا کی مخالفت اور دشمنی مول لی۔یہودیوں کو عرب کے درمیان ایک ریاست قائم کر کے دی اور وہ ہمیں ہی مٹانے پر تل گئے ہیں ۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’واقعی گبرائیل نے بہت ظلم کیا۔ اگر عوام کو پتہ چل گیا کہ اشریکا میں دہشت گردی کرنے والے یہودی تھے تو اشریکا میں یہودیوں کی شامت آ جائے گی۔ اشریکا میں خانہ جنگی ہو جائے گی۔‘ایک گورنر بولا۔

’سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے ؟ مجھ پر ہر طرف سے دباؤ پڑ رہا ہے کہ گبرائیل پر حملہ کر کے اسے ختم کر دیا جائے ۔‘ صدر نے کہا۔

’ ظاہر ہے ساری دنیا اس کے خلاف ہو چکی ہے ۔یہ یہودی تو آستین کے سانپ ہیں ۔ ہمارا کھاتے ہیں اور ہمیں کو ڈس رہے ہیں ۔‘ ایک سینیٹر بولا۔

’میرا خیال ہے کہ پہلے گبرائیل کے صدر سے بات کر کے دیکھیں کہ وہ کیا کہتا ہے ۔‘ ایک یہودی نواز سینیٹر نے کہا۔

’ وہ بھلا کیا کہے گا۔ کیا اب بھی اس کے پاس کہنے کو کچھ بچا ہو گا۔‘ ایک اور سینیٹر منہ بنا کر بولا۔

’میرا خیال ہے کہ میں ایک بار اس سے بات کر کے دیکھ لوں ۔ پھر جو ساری دنیا کا فیصلہ ہو گا وہ ہمیں ماننا ہی پڑے گا۔ کیوں کہ ہم لاکھ سپر پاور سہی مگر ساری دنیا سے بیک وقت ٹکر نہیں لے سکتے ۔‘ صدر نے کہا۔

***

 گبرائیل کا صدر بہت پریشان تھا۔

’اب۔۔۔ اب کیا ہو گا؟ ہمارا کیا بنے گا؟ اشریکا کا صدر دھمکی دے رہا ہے کہ وہ گبرائیل پر حملہ کر دے گا۔‘ گبرائیل کا صدر پریشان ہو کر بولا۔

’اب بلائیں اپنے پولس کو۔ جس کے مشوروں پر آپ اندھا دھند عمل کرتے رہے ۔‘ ایک وزیر غصے میں بولا۔

’میں خود اسے ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ اپنے دفتر میں نہیں ۔ نہ جانے کہاں ہے ۔‘ صدر نے کہا۔

’اب وہ کہیں نہیں ملے گا۔ وہ غائب ہو چکا ہے ۔ اسے پتہ ہے کہ اب اس کی تباہی کا وقت قریب ہے ۔‘ وزیر منہ بنا کر بولا۔

’پولس کی فکر چھوڑو۔ یہ اس کی وجہ سے نہیں بلکہ ایلن کے منصوبے کے بے نقاب ہونے کی وجہ سے ہوا۔ ورنہ تو ہم آخری فتح کے قریب پہنچ چکے تھے ۔ ساری دنیا پر ہمارا قبضہ ہونے ہی والا تھا۔ اب تو یہ سوچو کہ اس صورت حال سے کس طرح نمٹیں ۔ اپنے آپ کو کس طرح بچائیں ۔‘ صدر فکرمند ہو کر بولا۔

’خیر اتنا پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں ۔ گبرائیل پر حملہ اتنا آسان نہیں ۔ ہمارے پاس سینکڑوں ایٹم بم ہیں ۔‘ ایک اور وزیر بولا۔

’بے وقوفی کی باتیں مت کریں ۔ ہم کس کس ملک پر ایٹم بم پھینکیں گے ۔ہمارا تو چھوٹا سا ملک ہے ۔ اس پر تو ایٹم بم کا بچہ بھی کسی نے گرا دیا تو ہم صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے ۔ ‘ فوج کا سربراہ بولا۔

اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔صدر نے چونک کر ریسیور اٹھایا۔

’ہیلو یہ میں ہوں پولس۔‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

’پولس تم !۔۔۔۔ تم کہاں سے بول رہے ہو؟‘ صدر نے چونک کر پوچھا۔اور ساتھ ہی فون میں لگا ایک بٹن دبایا تاکہ سب لوگ گفتگو سن سکیں ۔

’میری فکر چھوڑو اور میری بات غور سے سنو۔‘ پولس نے کہا۔

’اب تم کون سا گل کھلانا چاہتے ہو۔ ہم تمہاری کوئی بات سننا نہیں چاہتے ۔‘ وزیر غصے میں بولا۔

’پہلے میری پوری بات سن لیں ۔ جو کچھ ہوا اس کا مجھے تم سب سے زیادہ افسوس ہے ۔ میری ساری عمر کی محنت ضایع ہو گئی مگر میں یہودیت کو ختم ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ سنو۔ ساری دنیا کے غم و غصے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے ۔ تم اعلان کرو ا دو کہ یہ سب کیا دھرا پولس کا ہے ۔وہ اکیلا اس ذمہ دار ہے ۔ تم لوگ اس کے منصوبے سے ناواقف تھے ۔ خاص طور پر اشریکا کے صدر کو بتاؤ کہ تمہیں قطعی علم نہ تھا کہ یہ منصوبہ عیسائیوں کے بھی خلاف ہے ۔ ورنہ تم اس پر عمل نہ کرتے ۔ تم نے تو صرف مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے پولس کا ساتھ دیا۔ اشریکا کے صدر کو یقین دلاؤ کہ گبرائیل اس کے ساتھ ہے وہ عیسائیوں کے خلاف ہرگز نہیں ۔ اشریکا کے غصے کا رخ پولس کی طرف موڑ دو۔ تم بھی میرے خلاف خوب باتیں کرو۔ اگر اشریکا کا صدر تمہاری باتوں میں آگیا تو گبرائیل بچ سکتا ہے ۔ یہودی بچ سکتے ہیں ۔‘ پولس پر زور لہجے میں بولا۔

سب لوگ سکتے کے عالم میں اس کی باتیں سن رہے تھے ۔

***

 اشریکا کا صدر گبرائیل کے صدر کو گھور رہا تھا جو اس سے ملنے کے لیے اشریکا آیا تھا۔

’کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے بہت رسک لے کر تمہیں یہاں بلوایا ہے ورنہ میرے اکثر سینیٹر تمہارے خلاف ہو گئے ہیں ۔‘ اشریکا کا صدر بولا۔

’دیکھیے میں ایک غلط فہمی دور کرنے کے لیے آیا ہوں ۔‘ گبرائیل کا صدر بولا۔

’ غلط فہمی۔۔۔۔ کیسی غلط فہمی؟‘ اشریکا کے صدر نے اسے گھورا۔

’یہی کہ گبرائیل اشریکا کو ختم کرنا چاہتا ہے اور عیسائی ممالک پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔‘ گبرائیل کا صدر بولا۔

’یہ غلط فہمی نہیں ۔ سب پولس کا منصوبہ پڑھ چکے ہیں ۔‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔

’ہاں یہی میں بھی کہتا ہوں کہ یہ پولس کا منصوبہ تھا گبرائیل کا نہیں ۔‘ گبرائیل کا صدر بولا۔

’مگر پولس کی پشت پر گبرائیل ہی ہے ۔ یہ یہودیت پھیلانے کا منصوبہ ہے جسے تم سپورٹ کر رہے تھے ۔‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔

’اصل صورت حال یہ ہے کہ پولس نے کسی کو بھی اس منصوبے کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی۔ یہاں تک کہ میں بھی اس منصوبے سے ناواقف تھا۔ مجھے اس نے اتنا ہی بتایا تھا کہ یہ دنیا سے اسلام ختم کرنے کا منصوبہ ہے ۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ وہ اسلام کے بعد عیسائیت کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے ۔ اگر مجھے اس کا علم ہوتا تو کبھی اس کا ساتھ نہ دیتا۔ دیکھیں ہم بھی اور آپ بھی مسلمانوں کے خلاف ہیں اور دنیا سے اسلام کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ اس بات سے تو آپ متفق ہیں نا۔‘ گبرائیل کا صدر بولا۔

’ہاں اسی لیے تو میں تمہارا ساتھ دے رہا تھا مگر تمہارا منصوبہ تو اشریکا کو بھی ختم کرنے کا تھا۔‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔

’بھلا اشریکا کو کون ختم کر سکتا ہے ۔ یہ تو دیوانے کا خواب ہے ۔ اور پولس میرا خیال ہے کہ دیوانہ ہی تھا۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ اس پر اندھا اعتماد کر بیٹھا اور پورا منصوبہ پڑھ کر نہ دیکھا ورنہ آج یہ صورت حال نہ ہوتی۔ آپ یقین کریں کہ گبرائیل اشریکا کے ساتھ ہے ۔ ہم صرف مسلمانوں کے خلاف ہیں ۔‘ گبرائیل کا صدر بولا۔

’مگر اب تو ساری دنیا تمہارے خلاف ہو چکی ہے ۔سب غیر مسلم ممالک بھی غم و غصے میں بھرے ہیں ۔‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔

’آپ انہیں سمجھائیں ۔ اس وقت پوری دنیا میں اشریکا ہی واحد سپر پاور ہے ۔ سب آپ کی بات مانتے ہیں ۔ عیسائی ممالک کی غلط فہمی دور کریں ۔ ان کا دل گبرائیل کی طرف سے صاف کر دیں تاکہ ہم سب مل کر مسلمانوں کو ختم کر سکیں ۔ ورنہ ہمارے انتشار سے مسلمان فائدہ اٹھائیں گے ۔ اس منصوبے پر اب بھی عمل ہو سکتا ہے ۔ افغان پور اور راک آپ کے قبضے میں ہیں اور سام پر حملے کی تیاری ہو چکی ہے ۔‘ گبرائیل کا صدر پر زور انداز میں بولا۔

’اب یہ اتنا آسان نہیں رہا۔ مسلمان جان چکے ہیں کہ ساری دہشت گردی گبرائیل کر رہا ہے ۔ اب میں کیا بہانہ بنا کر مسلمان ممالک پر حملے کروں ۔‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔

’مسلمانوں کے احتجاج کی پروا نہ کریں ۔ ان میں اتنا دم نہیں کہ آپ کے آگے بول سکیں ۔ ہم ان پر حملوں کے لیے کوئی نیا بہانہ ، نیا منصوبہ بنا لیں گے ۔ فی الحال تو اپنے سینیٹروں کو اصل حقیقت بتائیں اور عیسائی اور یورپی ممالک کو راضی کریں ۔ انہیں راک میں تیل کے منصوبوں کے ٹھیکے وغیرہ دے کر خاموش کر دیں ۔ انہیں بتائیں کہ ہمیں اصل خطرہ مسلمانوں سے ہے ۔ اگر ہم آپس میں لڑ پڑے تو مسلمان دنیا پر چھا جائیں گے ۔‘ گبرائیل کے صدر نے جال پھینکا۔

’ہوں ۔ کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو۔ میں خود حیران تھا کہ گبرائیل ایسا کیسے کر سکتا ہے ۔ خیر میں سب کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مگر تم اس پولس کو میرے حوالے کر دو تاکہ اسے سخت سزا دی جا سکے ۔اس کے خلاف کاروائی سے عیسائی ممالک خوش ہو جائیں گے ۔‘ اشریکا کے صدر نے کہا۔

’ٹھیک ہے میں پولس کو گرفتار کر کے آپ کے حوالے کر دوں گا۔‘ گبرائیل کے صدر نے سکون کی سانس لی۔

***

 گبرائیل کے صدر کے موبائل کی گھنٹی بجی۔

’میں ہوں پولس۔ کیا رہا؟‘ پولس کی آواز آئی۔

’بڑی مشکل سے اشریکا کے صدر کا غصے ٹھنڈا کیا ہے ۔ شکر ہے کہ یہودیت بچ گئی، گبرائیل بچ گیا۔مگر وہ تمہیں سزا دینا چاہتا ہے ۔ میں وعدہ کر چکا ہوں کہ تمہیں اشریکا کے حوالے کر دوں گا۔‘ گبرائیل کا صدر بولا۔

’ٹھیک ہے ۔ دنیا میں کوئی بھی میری اصل شکل سے واقف نہیں ۔ کسی بھی ڈمی پولس کو اشریکا کے حوالے کر دیں گے تاکہ دنیا کا منہ بند ہو جائے ۔ پھر ہم نئے سرے سے ا س منصوبے پر عمل شروع کریں گے ۔ دنیا پر یہودیت کا راج ہو گا اور ضرور ہو گا۔‘ پولس مضبوط لہجے میں بولا۔

***

 ’یہ۔۔۔۔ یہ میں کیا سن رہا ہوں ! ‘ اختر شاہ کا منہ حیرت سے کھللے کا کھلا رہ گیا۔

’ یہ سچ ہے اشریکا پھر گبرائیل کے ساتھ مل گیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ سارا منصوبہ پولس کا تھا۔ گبرائیل اس میں شامل نہیں تھا۔ دنیا میں ہونے والی ساری دہشت گردی کو پولس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے ۔ اور اسے گرفتا ر کر کے سزائے موت سنا دی گئی ہے ۔‘ پاک کے صدر نے بتایا۔

’یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔ گبرائیل پوری طرح پولس کی پشت پر تھا ورنہ وہ اکیلا بھلا کیا کر سکتا تھا۔ حیرت ہے اشریکا نے آنکھوں دیکھے مکھی نگل لی۔ وہ پھر یہودیوں کے جال میں آگیا۔‘ اختر شاہ بولے ۔

’اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔‘ صدر نے بے بسی سے کہا۔

’ کرنے کو تو بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ دنیا میں پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں ۔ سب مل کر گبرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیں ۔‘ اختر شاہ نے کہا۔

’اگر وہ اکیلا ہوتا تو شاید ہم ایسا کر سکتے تھے مگر اب اشریکا اور دوسرے غیر مسلم ممالک پھر اس کے ساتھ مل گئے ہیں ۔ ہم ان سب سے کس طرح ٹکر لے سکتے ہیں ۔‘ صدر بولے ۔

’جس طرح ۳۱۳ مسلمانوں نے ۱۰۰۰ کافروں سے ٹکر لی تھی۔ آج ہم تعداد میں بہت زیادہ ہیں ۔ ہمارے پاس دولت بھی ہے اور اسلحہ بھی مگر ایمان کی دولت نہیں ہے ۔ اسی لیے کافروں کا رعب ہمارے دلوں پر چھا گیا ہے ۔ خدا کے لیے آپ تمام اسلامی ممالک کا اجلاس طلب کریں ۔ انہیں سمجھائیں کہ یہی موقع ہے دشمن پر ضرب لگانے کا۔ قبلہ اول آزاد کروانے کا۔‘ وہ جذباتی آواز میں بولے ۔

’کوشش کرتا ہوں مگر مجھے پتہ ہے کہ ہو گا کچھ نہیں ۔ تم عالم اسلام کی حالت سے واقف ہو۔‘ صدر نے کہا۔

’کاش آج بھی کوئی عمر ہوتا ، کوئی صلاح الدین ہوتا جو دشمن کو للکار سکتا۔ افسوس ساری حقیقت سامنے آنے کے بعد بھی ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں ۔ کافر پھر متحد ہو گئے ہیں اور مسلمان پھر بے بس۔ یہ بے بسی کب تک رہے گی۔۔۔۔۔۔ یہ بے حسی کب تک رہے گی۔۔۔۔۔۔ کب تک۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟‘

***

                                                                        اختتام

***

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے ہی فائل فراہم کی

ان ہیج سے تبدیلی، پرو ف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید