FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شاہ رشاد عثمانی

 

  

انتساب

ان جیالے اور نرالے

اہل قلم کے نام!

جو اپنے حیات بخش فکر و فن سے

ادب اور زندگی کی تاریک راہوں کو منور کر رہے ہیں۔

جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے

نگاہِ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو

(اقبالؔ )

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نظریاتی ادب

ادب میں نظر یے کے استعمال و اظہار سے اب کسی کو مجال انکار نہیں ، آج کا ہر قلمکار جس تصور کو بھی اپنی پسند کا نظریہ سمجھتا ہے اسے اپنی فکری بنیاد بنا کر اس پر اپنے ادب کی عمارت تعمیر کرنے میں مصروف ہے خواہ وہ نظریہ تمام نظریوں سے انکار اور ناوابستگی پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔ نظریاتی زندگی کی ضروریات سے بے تعلق اور غیر جانبدار بن کر غیر نظریاتی انداز میں آ کر پرورش پانے والے ادب کی آج کوئی حقیقت نہیں ، ایسا ادب گویا خلاء میں آوارہ ہے۔ ادب نظریہ کے سہارے کے بنا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ادب میں نظریہ کہ اہمیت کو اقبال نے بڑے بلیغ انداز میں پیش کیا ہے۔

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

آج ادب و زندگی میں جو انتشار اور نراج ہے، وہ کسی مثبت نظریہ اور تعمیر ی لائحہ عمل سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایساکامل اور حیات بخش نظریہ ’’ اسلام ‘‘کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ گذشتہ نصف صدی میں ایسے جیالے فنکار بڑی تعداد میں دنیائے ادب میں سامنے آئے جنہوں نے اسلامی اقدار حیات پر اپنے ادب کی بنیاد ڈالی، اقبال نے اپنے یقین و عمل کی روشنی اور اخلاقی و روحانی تصورات کی تابانی سے فکر و فن کا جو چراغ جلایا تھا، آج اکیسویں صدی میں وہ پوری تابانیوں کے ساتھ روشن ہے، روشن ہی نہیں بلکہ اس کی ضیا باریوں سے ہزاروں شمعیں جل رہی ہیں۔

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

یہاں اب میرے راز داں اور بھی ہیں

اردو میں تحریک ادب اسلامی کے آغاز و ارتقاء، رفتار و ترقی ، فکری بنیادوں ، رشتوں اور تقاضوں ساتھ ہی مختلف اصناف ادب ، مثلاً : فکشن ، شاعری اور تنقید کے تعلق سے اسلام پسند اہل قلم کی خدمات کے مجموعی جائزے پر مشتمل اپنے چند مضامین پیش خدمت کر رہا ہوں ، تاکہ آپ کے سامنے تحریک ادب اسلامی کا مختصر تعارف ایک نظر میں آ جائے۔ یہی افادیت اس مجموعۂ مضامین کے اشاعت کا جواز ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ موجودہ عالمی تناظر میں تحریک ادب اسلامی کے مسائل اور امکانات کا جائزہ لیا جائے آج ہم جس صارفی سماج میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ایک طرف تو سائنس و ٹکنالوجی کی روز افزون ترقی کا دور ہے انسان سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر رہا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے ، دوسری طرف عالمگیریت کے نرغے یاست کے سائے تلے ہانپ رہے ہیں اور یہی کون آشام عالمی منظر نامہ ہمارے عہد کا اضطراب ہے یہ تمام حالات ایک ادیب بلکہ کسی بھی حساس شہری کا سکون قلب چھیننے کیلئے کافی ہیں ، ان حالات میں ادب کی ضرورت دو چند ہو جاتی ہے کیونکہ ادب ہی وہ دستاویز ہے جس کی مدد سے ان تمام سفاک حقیقوں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے اس ظلم و جبر و ناانصافی اس خونریزی و نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا جا سکتا ہے اور موثر احتجاج اپنے آپ میں خود ایک جہاد ہوتا ہے ، چنانچہ ایسا ادب ہی نظام باطل کے بدلنے کا نقیب اور انقلاب صالح کا پیش رو ہوتا ہے۔

تحریک ادب اسلامی گزشتہ نصف صدی سے ادب میں توازن کو بروئے کار لانے ، فنی آداب اور تہذیبی اقدار کے درمیان مکمل ارتباط قائم کرنے کیلئے ملک کے تعمیری رجحانات رکھنے والے تمام اہل قلم کو متحرک کر رہی ہے اس نے ماضی میں بھی فن کی جمالیات کو فکر کی اخلاقیات سے ہم آہنگ کرنے، ادیب کو اپنے عہد کے سنگین اقتصادی            نے زندگی کی صورت ہی بدل دی ہے گلوبلائزیشن کا مطلب دراصل کمرشیلائزیشن اور ایک عامیانہ و سوقیانہ تہذیب کا فروغ ہے ذرائع ابلاغ کی برق رفتاری ، فلموں کی چکا چوند اور نتیجہ میں عریانی و فحاشی اور مادی اقدار کی غیر مشروط بالادستی نے عام آدمی کو شعر و ادب سے بیگانہ کر دیا ہے اب غالب وا قبال کے اشعار کی جگہ اشتہاروں کی بھدی تک بندیاں گونجتی ہیں ، اقتصادی خوشحالی کی دوڑ میں انسان زندگی کے اعلیٰ پہلوؤں سے اجنبی ہوتا جا رہا ہے ،آج ہر چیز نفع و نقصان کی ترازو میں تولی جا رہی ہے تیسری طرف ہمارا یہ دور جنگ و جدال اور خونریزی کا دور ہ مغربی سیاست کی استعمامریت ، امریکہ و برطانیہ کے جنگ پرستی اور دہشت گردی، نوسامراجی استحصال و جارحیت ، عراق اور افغانستان پر غیر قانونی جنگیں لاد کر ان کی تباہی و بربادی، ایران کو ہمہ وقت جنگ کے سائے میں دہشت زدہ کرنے کی جابرانہ کوششیں ، مشرقی اقوام کو ذہنی طور پر محکوم بنا کر ان کے آرٹ کلچر زبان اور تہذیب کو مٹانے کی پرُ اسرار چالیں ، آج ہم مغرب کی اس جارحانہ ، تہذیبی اور روحانی عدم توازن کا حل تلاش کرنے اور ایسی تمام کوششوں کو تقویت پہنچانے کے لئے فنکاروں کی ایک پوری نسل کو سرگرم سفر کیا تھا اور آج بھی نئی نسل کے با شعور ادباء و شعراء خدا پرستی ، انسان دوستی اور حمایت مظلوم کے اعلیٰ و ارفع جذبات سے سرشار ہیں اور منظم جدوجہد کر رہے ہیں۔

آخر میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض ذہنوں میں آج بھی ادب کے ساتھ اسلام کا لاحقہ غلط فہمی اور الجھن کا باعث بنا ہوا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جدید ادب کا ایک اہم معنویتی کشش رکھنے والا منظر نامہ اسلام پیش کر رہا ہے اسے اب تک جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے یا اس کی تحقیر کی گئی ہے وہ علمی عصبیت کی عبرتناک مثال ہے سب سے عبرت انگیز بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے اپنے شعرو ادب میں ایمان کعبہ نماز مصلی سجدہ عابد زاہد جنت دوزخ وغیرہ کا دیدہ دلیری کے ساتھ مذاق اڑایا ہے اور اس کے برخلاف میخانہ، شراب زند ساقی پیمانہ جام صراحی وغیرہ کا اس شان سے ذکر کیا ہے کہ خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد، اچھا تو حرام بن گیا اور حرام حلال اسی طاؤس و رباب کی سرپرستی نے مسلم معاشرہ کو زوال آمادہ اور ان کے اقتدار کو کرم خورہ بنا دیا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب صورت حال بدل رہی ہے اسلام عصر حاضر کا ایک اہم حوالہ بن چکا ہے ، زندگی کے تمام دائرے اور علوم و فنون کو اسلامیانے (islamisation )کا عمل جاری ہے ظاہر ہے کہ ہمارے ادب کا شعبہ بھی اس سے الگ نہیں رہ سکتا ، آج ساری دنیا میں اسلامی انقلاب کا غلغلہ بلند ہو چکا ہے اس سلسلہ میں ہمیں کسی احساس کمتری ، مرعوبیت اور تحفظات کا شکار نہیں ہونا چاہئے بقول جگر مرادآبادی ؂

نمود صبح کاذب ہی دلیل صبح صادق ہے

افق سے زندگی کی دیکھ یہ ابھری کرنے ساقی

رشاد عثمانی

عسکری اپارٹمنٹ گورنمنٹ ہوسپٹل روڈ ، بھٹکل (کرناٹک) 25/اکتوبر2008ء

٭٭٭

تحریک ادب اسلامی کی رفتار

دوسری جنگ عظیم کا وہ ایک بحرانی دور تھا، جب برّ صغیر ہند میں ایک نئی آواز اُٹھی جو جنگ کے شور و غل میں سنی نہ جا سکی ،پھر تقسیم ملک کے ہنگاموں نے اس آواز کو دبائے رکھا لیکن تقسیم کے بعد ہندو پاک کے تمام ادبی حلقے اس نئی پکار پر چونک اٹھے کوئی خاموش دیکھتا رہا کسی نے ناک بھوں چڑھائی کچھ پیشانیوں پر بل آئے اور کئی ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی ، بہت سے ایسے بھی تھے جو اس پکار پر چونکنے کے بعد آگے بڑھے، قریب آ کر مسکرائے اور خوشی خوشی پکارنے والوں میں آملے، اب بھی بہت سے لوگ جھجکے کھڑے ہیں اور پھر وہ بھی اس کارواں سے زور آزمائی کرتے دیکھ رہے ہیں دیر یا سویران کی جھجک بھی مٹنے والی ہے پھر وہ بھی اس کارواں میں شامل ہو جائیں گے جو ایک ہی شخص کے جانب منزل چلنے سے بنا تھا لیکن پھر لوگ ساتھ آتے گئے اور وہ بڑھتا گیا، رفتہ رفتہ اس نئی آواز کی طاقت بڑھی ذہنی قوت بڑھی فکری ہم آہنگی بڑھی پھر ان کی ترجمانی کے لئے قلم آگے بڑھا اور نئے خیالات ، نئی قدریں نیا فکر و فن نئی ہئیت اور نیا مواد سامنے آیا یہ نئی آواز ’’اسلامی ادب ‘‘ کی تھی۔

اسلامی ادب کا نظریہ ہر عہد ، ہر ملک اور ہر زبان کے ادب میں ایک توانا فکر رہا ہے۔ اس نظریہ کی توانائی یہ ہے کہ اس کی فکری بنیاد توحید ، رسالت اور آخرت متعیّن بھی ہیں ، معلوم بھی اور غیر متزلزل بھی اس نظریہ کی ہمہ گیری یہ ہے کہ حیات کائنات اور انسان کے بارے میں کوئی ایسا سوال نہیں ہے جس کا واضح اور تسلی بخش جواب اس کے پاس نہ ہو۔اس نظریئے کی آفاقیت یہ ہے کہ اس کا ادبی مزاج اور فنّی معیار کسی دور کے لئے بھی آؤٹ آف ڈیٹ نہیں ہے کائنات کے متعلق اس کا تصور یہ ہے کہ یہ کوئی بازیچہ اطفال نہیں بلکہ کار گاہ حکیم ہے۔ انسان کے لئے اس کا تصور یہ ہے کہ وہ مادّے کی ترقی یافتہ صورت نہیں بلکہ خلاق دو عالم کی بہترین تشکیل ہے مطلق آزاد اور غیر ذمہ دار نہیں بلکہ پابند اور جوابدہ ہے زندگی کے متعلق اس کا تصور یہ ہے کہ وہ بندگی کے بغیر ’’ فرصت لایعنی ‘‘ ہے حیات کا مقصد اس کے تصور میں یہ ہے کہ وہ ان تمام بھلائیوں اور کمالات سے جو اس نظریئے کو محبوب ہیں اپنے آپ کو آراستہ کریں۔ ادب و زندگی کے یہی وہ تعمیری تصورات تھے جنھیں لے کر ادب اسلامی کا کارواں آگے بڑھا۔

ادب اسلامی کی اصطلاح کو ماضی میں اعتراضات اور غلط فہمیوں کی متعدد یلغاروں کا سامنا کرنا پڑا ہے، ادب کے تمام مکاتب فکر اور تحریکات کے لئے قدرشناسان ادب کے دل میں گنجائش موجود ہے مگر جب اسلامی ادب کا ذکر آتا ہے تو ان میں سے بہت سے لوگ چراغ پا ہو جاتے ہیں۔ ادب کی اسلام کے ساتھ وابستگی تو ان لوگوں کے لئے ناگوار خاطر ہے ہی جو ادب کو کسی بھی نظریہ کسی بھی تحریک اور کسی بھی نظام زندگی کے ساتھ وابستہ کرنے کے اصولا مخالف رہے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ وہ لوگ بھی ادب اور اسلام کے باہمی تعلق کو ایک ناگوار خاطر یا غیر ضروری پیوند کاری قرار دیتے ہیں ، جنھوں نے باضابطہ ادب کیلئے نظریہ کو ناگزیر قرار دیا ہے اور ادب اور سماج کے باہمی رشتے پر برابر زور دیتے رہے ہیں اور روح عصر کی ترجمانی کو ادیب کی اہم ذمہ داری قرار دیتے رہے ہیں۔ ان دونوں حلقہ فکر و ادب کے تمام اعتراضات کی قلعی اب کھل چکی ہے اور ان فرسودہ سوالات کا واضح اور تفصیلی جواب متعدد بار دیا جا چکا ہے ، جبکہ کود موجودہ ادبی صورت حال یہ ہے کہ جدید ادب اس وقت ایک خلاء میں آوارہ ہے ترقی پسند تحریک کے نام پر اشتراکی ضابطہ بندی اپنے فطری انجام کو پہنچ چکی ہے اور اس کے خلاف ایک زبردست ردّ عمل بے مہار آزادہ روی کا رونما ہو چکا ہے۔ ترقی پسندی نے ادب کے قارئین کے عقائد کو غارت کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ جدیدیت نے ادب کے فنی لوازم پر ہی شب خوں مار دیا ہے۔ نتیجتاً آج ادب کی دنیا میں ایک برہمی اور ابتری سی پھیلی ہوئی ہے اشتراکی اور جدیدی دونوں ادب کے عام قارئین کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں چیلینج بھی ہے ، بہترین موقع اور مناسب مہلت بھی ہے ، جیساکہ میں نے عرض کیا تحریک ادب اسلامی کی تاریخ زیادہ طویل نہیں ہے اس کی ابتداء چاہے جب سے قرار دی جائے لیکن ایک تحریک کی حیثیت سے اس کا باقاعدہ بڑھنا تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہوا اس سے پہلے کچھ لوگ اسے فکری غذا دے دے کر بیج سے ایک کونپل تک لا رہے تھے مگر یہ کوششیں انفرادی تھیں ، جس میں اسلامی نظریات تو پیش ہوتے رہے مگر بحیثیت مربوط نظام حیات نہ پیش ہوسکے۔ خود حالی کی مسدس مد و جزر اسلام یا اکبر الہٰ آبادی کی طنزیات میں تنقیدی عنصر تو موجود ہے لیکن ایجادی عنصر کی کمی ہے، انیس و دبیر کے مرثیوں میں یا د ایام اور ماتم کنی تو ہے مگر مستقبل کے لئے لائحہ عمل موجود نہیں ہے شائد اس لئے کہ اس دور تک اسلام کے طرز فکر اور نظام حیات کو فروغ دینے کے لئے اجتماعی کوششیں سرد پڑتی جا رہی تھیں اور جو لوگ ہاتھ پیر مار رہے تھے، ان سے اس طبقہ کو لاتعلقی سی تھی اقبال پہلے شاعرو مفکر تھے جنھوں نے اس کمی کو محسوس کیا اور انھوں نے ادب کو منضبط اور مربوط نظریہ حیات سے متعارف کرایا مگر انفرادی کوشش کی حیثیت سے ان کے یہاں بھی ابتدا میں منزل کے عدم تعین کی سی کیفیت ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک ادب اسلامی کے ابتدائی ایّام میں اس کی صف میں کہنہ مشق مقام و مرتبہ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے شامل ہونے کی زحمت گوارہ نہ کی ، اس کی سب سے بڑی وجہ غالباً  یہ تھی کہ وہ اپنا حاصل کیا ہوا مقام کھونا یا گم نامی کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے اس طرح تحریک ادب اسلامی کو جو فنکار میسر آئے وہ نو مشق تھے، انھیں نہ صرف یہ کہ اپنا نظریہ حیات اور نظریۂ ادب متعارف کرانا تھا بلکہ سکّہ بند ادیبوں میں اپنا مقام حاصل کرنا اور اپنی راہیں خود تلاش کرنا تھیں چنانچہ ادب اسلامی کی تحریک دو طرفہ تجرباتی مراحل سے گزری ، ایک طرف ادبی تجربہ اور دوسری طرف نظریاتی تجربہ، یہ تجربہ ان حالات میں اور بھی مشکل تھا کہ ان کے سامنے ایسی کوئی ادبی روایات موجود نہیں تھی جن کو سامنے رکھ کر یہ اپنی راہ متعّین کرسکیں چنانچہ اس نو نژاد ادبی تحریک کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلیں اور ان پر سخت تنقید یں شروع ہو گئیں ، دوسری طرف محمد حسن عسکری ، محمد احسن فاروقی اور ابو اللیث صدیقی وغیرہم نے جس اسلامی ادب کی وکالت کی وہ بھی بڑی حد تک اسلام کے اساسی فکر کی ترجمانی نہیں کرتا یہاں صوفیانہ زندگی، ترک دنیا اور رسم و رواج کو اسلامی قرار دیا جانے لگا اور روایت سے مراد تصوف و روحانیت لیا جانے لگا جو بہر حال تحریک ادب اسلامی سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ، یہ صرف ادھوری سچائیاں تھیں ، چنانچہ تحریک ادب اسلامی کو ان شخصیات کو پورے طور سے قبول کرنے میں تکلف ضرور رہا ہے۔ مختصر یہ کہ تحریک ادب اسلامی کو اپنے آغاز میں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس انداز کی رکاوٹوں کا سامنا دوسری تحریکوں کو بھی کرنا پڑا ہے مگر فرق یہ ہے کہ وہاں آزمودہ کار افراد تھے اور یہاں نا تجربہ کار نوخیز قوت ، ایسی صورت میں ان خام اور نا پختہ اہل قلم نے پختگی کی طرف سفر کرتے ہوئے اسلامی ادب کے نظریہ فکر کو فروغ دینے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ قابل لحاظ ہے۔

تحریک ادب اسلامی کی ابتداء ۱۹۴۲؁ء کے آس پاس نعیم صدیقی کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ ’’ چراغ راہ‘‘ کراچی سے ہوتی ہے جب کہ ۱۹۴۸ ؁ء میں حیدرآباد سے اصغر علی عابدی اور عمر بن عبداللہ ایم اے کی ادارت میں ماہنامہ ’’ انوار ‘‘ کا اجراء ہوا اپریل ۱۹۵۰؁ء میں اس رسالہ کے ادبیات نمبر ‘‘ کے ذریعے تعمیری و اخلاقی اقدار کے علمبردار شعراء و ادبا ء خاصی تعداد میں نمایاں ہوتے ہیں جو ایوان ادب میں اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں ۱۹۵۲؁ء میں نجم الاسلام اور بدر فاروقی کی ادارت میں ’’ ماہنامہ معیار میرٹھ‘‘ اور ۱۹۵۴؁ء میں م، نسیم اور طیب عثمانی کی ادارت میں نکلنے والے ماہنامہ نئی نسلیں لکھنؤ نے اس تحریک کو کافی آگے بھی بڑھایا منظّم بھی کیا اور مہمیز بھی لگائی یہی وہ زمانہ تھا جب تحریک ادب اسلامی ملک کے مختلف ادبی حلقوں کو متاثر بھی کرہی تھی اور متحرک بھی۔ چنانچہ اسی دور میں رام پور میں موجود اہل نظر حضرات نے ایک خود کار و خود کفیل ادبی ادارہ کی تشکیل کیلئے سوچنا شروع کر دیا تھا، حسن اتفاق کہ اسی دور میں جناب ابن فرید رام پور میں آ کر کچھ تحریکی فرائض انجام دینے کیلئے خیمہ زن ہو گئے تھے، انھوں نے ملک کے تمام تعمیر پسند اہل قلم سے خط و کتابت شروع کر دی تاکہ ایک ادبی تنظیم کا دستور اور اس کا ڈھانچہ وجود میں آسکے ۱۹۵۲؁ء میں ہی لکھنؤ، رام پور اور ٹانڈہ وغیرہ میں ادارہ ادب اسلامی کی بنیاد پڑ چکی تھی اس وقت محمد اسحاق کی ادارت میں الہ آباد سے ’’ الانصاف ‘‘ شائع ہو رہا تھا اور شبنم سبحانی ،حسان کلیمی اور فضل الرحمن فریدی وغیرہ وہاں قیام پذیر تھے لہذا ۱۶ / اگست ۱۹۵۴؁ء کو رام پور کی ایک نشست میں ایک اعلان نامہ پر دستخط اور ادارہ کی دستور کی منظوری کے ساتھ مرکزی نظم کا قیام عمل میں آیا ، جناب ابن فرید پہلے صدر اور جناب سبحانی پہلے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے سرگرم سفر ہوئے، یہاں تک کہ ۵ اور ۶ جنوری ۱۹۵۷؁ء کو لکھنؤ میں ادارہ ادب اسلامی ہند کی جانب سے ایک آل انڈیا ادبی کانفرس منعقد کی گئی جس میں ملک کے مقتدر اور بزرگ ادباء شعراء شریک ہوئے شفیق جونپوری اور عامر عثمانی نے صدارتی خطبے دئے، مولانا عبد الماجد دریابادی اور پروفیسر ضیا احمد بدایونی نے اپنے پیغامات سے نوازا ، دوسرے شرکاء میں معززّ علی بیگ سیّد زین العابدین ابوالفہیم وحید ، سہیل احمد زیدی ، مختار احمد مظاہری ، محمد نیاز، ابو المجاہد زاہد، رشید کوثر فاروقی ،م۔ نسیم احمد، حسین انصاری ،  شبنم سبحانی، برق علوی اور تسنیم فاروقی وغیرہ قابل ذکر ہیں ، اب گویا ادب اسلامی کی تحریک منظم جدوجہد کا آغاز کر چکی تھی جس سے متاثر ہو کر بعض بزرگ شعراء مثلاً شفیق جونپوری ، ماہر القادری روش صدیقی ، عرشی بھوپالی اور نازش پرتاب گڑھی نے اپنا دست تعاون تحریک کو پیش کیا، اس وقت ماہنامہ معیار میرٹھ اور ماہنامہ نئی نسلیں لکھنو کی فائلیں ہمارے پیش نظر ہیں ، اس کے اکثر و بیشتر شماروں میں پروفیسر عنوان چشتی کی غزلیں عنوان چشتی منگلوری اور پروفیسر مشیرالحق کی افسانوی تخلیقات مشیرالحق بحری آبادی کے نام سے نظر آتی ہیں۔

پروفیسر انور صدیقی تو تحریک ادب اسلامی کے لئے ناقابل فراموش ہیں جن کی غزلیں اور مقالات اسلامی ادب کی نمائندہ تخلیقات ہیں معیار و نئی نسلیں کا شاید ہی کوئی شمارہ ہو جو ان کی کسی نگارش سے محروم رہا ہو۔ یہ بات شاید کتنے نوجوان ادب دوستوں کو حیرت زدہ کر دے کہ جدیدیت کے جدید رہنما جناب شمس الرحمن نے فاروقی اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز تحریک ادب اسلامی ہی سے کیا تھا ، اس وقت آپ کی فکر بڑی راسخ اور راست تھی ’’ نئی نسلیں ‘‘ میں آپ کے مقالات اور تخلیقات ادب اسلامی کے کاز کو آگے بڑھانے اور پشتہ لگانے کے سبب بنے ہیں ، سردست ان کے صرف ایک مقالہ ’’ ادب اور اس کی غایت‘‘ کا بطور خاص میں یہاں یہاں تذکرہ کرنا چاہوں گا جو ماہنامہ ’’ نئی نسلیں ‘‘ لکھنؤ ستمبر ۱۹۵۵؁ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے اس مقالے کے چند جملے پیش خدمت ہیں :

 ادب کو زندگی سے مفر نہیں ، ادب ہوا پر یا ہوا میں نہیں رہ سکتا ، ادب خوابو ں کی دنیا کی تعمیر کا نام نہیں ہے اور چاہے آپ میری دی ہوئی ادب کی تعریف کو ماننے سے انکار کر دیں آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ادب اور زندگی کا رشتہ اٹوٹ ہے آج ہم اسی ادب کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جن میں کسی فلسفہ حیات کی تبلیغ ہو، یا کم  سے کم اس میں نفسیاتی اور اخلاقی اقدار ہوں ، فرانسیسی شاعر ورلائن verlaine نے کہا تھا ، آج خواب کی دنیا کا رشتہ عمل کی دنیا سے ٹوٹ چکا ہے ، دنیا جو شعراء کی بات سن کر گھبرا اُٹھتی ہے شعراء کو جلاوطن کر دیتے ہیں۔۔۔۔ اس لئے شعراء دنیا کو جلاوطن کر دیتی ہیں ادیب کا کام اس صورتحال کو بدلنا ہے اور خواب کی دنیا کو حقیقت کی دنیا سے نزدیک لانا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ادیب اپنے قصر تخیل lvory tower سے باہر نکل کر دنیا کے مسائل کو سمجھے اور ان کے مسائل کو سلجھا نے کے لئے کسی فلسفہ حیات کی تبلیغ کرے اور یہ فلسفہ حیات کیا ہو یہ طے کرنا ادیب اور فلسفی کا کام ہے نہ کہ نقّاد کا۔ خدا پر ایمان اور یقین ایک خوش آئند جذبہ ہے جسے اپنا نا ہمارے ادیبوں کا کام ہے۔

نصف صدی قبل اس مقالے میں جو باتیں کہی گئی تھیں کیا وہ اب قابل رد ہیں ؟ یہ سوال مذکورہ بالا تمام فنکار خود اپنے ضمیر سے کریں ، ماضی میں انھوں نے جو کچھ کہا اور کیا اسے محض ابتدائی ایّام کی باتیں کہہ کر فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ، اب جب کہ ان حضرات نے فکر و خیال کی مختلف وادیوں میں سفر کرنے کے بعد وسیع تجربے حاصل کر لئے ہے، ساتھ ہی گہرے مطالعہ اور عمیق مشاہدہ نے زندگی کے اسرار ان پر منکشف کئے ہیں ’’میری ان سے گذارش گذشتہ فکر و عمل پر غور و خوض کی ہے اس لئے کہ حقائق کبھی تبدیل نہیں ہوتے ، اسلامی اقدار دائمی ہیں زندگی کی صداقتیں اٹل ہیں ، کیا میں اس بات کی توقع رکھوں کہ زندگی کے ابتدائی دور میں حق و صداقت کی جس راہ پر وہ تھوڑی دور سہی ساتھ چلے تھے آج فکر و شعور کی پختگی اور تجربات کی تکمیل کے مرحلے میں ایک بار پھر اس تحریک کے ساتھ دست تعاون پیش کرسکیں گے۔

کسی تحریک کا عروج و زوال اور نشیب و فراز کی وادیوں سے گذرنا فطری عمل ہے، چنانچہ تحریک ادب اسلامی بھی مختلف مرحلوں میں جمودو تعطل کا شکار رہی ہے مگر پھر  جلدی جوش جنوں آمادہ پیکار ہوا اور کارواں مختلف مرحلوں میں جادہ پیما ہوتا رہا۔’’ معیار‘‘ و ’’ نئی نسلیں ‘‘کے بعد ۱۹۶۰؁ء میں ماہنامہ ’’ دانش‘‘ رامپور عروج قادری ، زین العابدین ، حفیظ میرٹھی اور ابن فرید کے زیر ادارت جاری ہوا ، پھر ۱۹۶۶؁ء میں ٹانڈہ سے ماہنامہ ’’ دوام ‘‘ مختار احمد مظاہری اور شبنم سبحانی کے زیر ترتیب نکلا جو ادارہ ادب اسلامی کو منظم و متحرک کرتا رہا۔ مئی ۱۹۸۰؁ء میں ایک بار پھر ماہنامہ’’ نئی نسلیں ‘‘ م، نسیم، الوالمجاہد زاہد ، شبنم سبحانی اور عزیز بگھروی کی ادارت میں دہلی سے تعمیری ادب کا نمائندہ بنکر سامنے آیا جو ۱۹۸۳؁ء تک جاری رہ سکا۔ فروری ۱۹۸۴؁ء میں ڈاکٹر احمد سجاد اور مسعود جاوید ہاشمی کی ادارت میں حیدرآباد سے ماہنامہ ’’فنکار‘‘ کا اجراء ہوا جو تقریباً چار سال تک جاری رہا اور اب گزشتہ پندرہ برسوں سے ماہنامہ ’’ پیش رفت‘‘ دہلی ، ڈاکٹر سید عبد الباری اور انتظار نعیم کی ادارت میں ادب اسلامی کی ترجمانی کر رہا ہے۔

   تحریک ادب اسلامی نے اردو ادب کو بلاشبہ ایک سمت و رفتار عطا کی ہے عصر حاضر میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان ایک تیسرا واضح اور نمایاں رجحان تعمیری ادب یا اسلامی ادب کا سامنے آیا ہے اس حلقہ سے وابستہ فنکاروں نے ہر صنف ادب میں کچھ نمایاں کوششیں ضرور کی ہیں آج بھی شاعری میں حفیظ میرٹھی ،کلیم عاجز، ابوالمجاہد زاہد، شبنم سبحانی ، رشید کوثر فاروقی ، کیف نوگانوی، فاروقی بانسپاری ،ابوالبیان حماد ، محسن انصاری ، انتظار نعیم ،سہیل احمد زیدی ، مصلح الدین سعدی ، طاہرتلہیری ، عزیز بگھروی، تابش مہدی، مائل خیر آبادی ، مسعودجاوید ہاشمی، رؤف خیر، مظہر محی الدین وغیرہ پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں۔ فکشن کے فن میں تعمیری حلقے میں ایک کمی کا احساس ضرور ہوتا ہے ، تاہم م،نسیم، ابن فرید، منظور الحسن ہاشمی، عزیز مرادآبادی ،ظفر حبیب ،وصی اقبال ، منظر حسین ،بدنام رفیعی ،اقبال انصاری ،محمود عالم ، عبدالباسط انور، مسرور جہاں ، انجم بہارسمشی ، بازغہ تبسم وغیرہ کی تخلیقات اسلامی ادب کا بہترین نمونہ ہیں۔ تنقیدی میدان میں بلاشبہ پہلے بھی گراں قدر کام ہوا ہے اور اس حلقے کے بعض ناقدین آج بھی اردو تنقید میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ، گرچہ ادبی گروہ بندی اور تنگ نظری حقائق کے اعتراف میں ہمیشہ حائل رہی ہے تاہم عبد المغنی ،ابن فرید، سید عبد الباری ،طیب عثمانی ، منظر اعظمی، احمد سجاد وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس وقت ادب اسلامی کی تحریک سے وابستہ افراد کی فہرست سازی مقصود نہیں ہے بلکہ تعمیری ادبی تحریک مختلف مراحل میں جو حتی المقدور کوششیں کرتی رہی ہے اس کی ہلکی سی نشاندہی مطلوب ہے جسے کبھی شعوری اور کبھی بے شعوری میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، ہندوستان میں تحریک ادب اسلامی کی رفتار و ترقی کا یہ مختصر جائزہ تھا۔

ادب اسلامی کا حلقہ اس پار ارض پاک میں کچھ زیادہ ہی متحرک رہا ہے جیسا کہ میں نے اس مقالہ کی ابتداء میں عرض کیا تھا ، ادب اسلامی کی تحریک کا باضابطہ آغاز نعیم صدیقی کے زیر ادارت ماہنامہ ’’ چراغ راہ‘‘ کراچی سے ہوتا ہے ، واقعہ یہ ہے کہ جناب نعیم صدیقی کی شخصیت برصغیر ہند کی تحریک ادب اسلامی کی سالارکارواں ہے۔ انھوں نے اپنے محدود دائرے میں تخلیق تنقید کے جووسیع کا م کئے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں اور اس میں بلاشبہ انھیں اولیت حاصل ہے، خصوصاً مختلف و متنوع اصناف سخن ، ڈرامہ و افسانہ نظم و غزل تحقیق و تنقید ہر میدان میں کامیاب تجربے کئے اور خاص طورسے ادھر نعتیہ شاعری میں ان کے نت نئے تجربے سامنے آرہے ہیں اس طرح مختلف اصناف شعر و ادب میں انھوں نے اسلامی ادب کے ماڈل تیار کئے، جس سے مستقبل کے امکانات واضح ہوئے اور ایک نسل نے ان سے فیضان حاصل کیا۔ ۱۹۶۳؁ء میں انھوں نے ماہنامہ سیّارہ لاہور کا اجراء کیا ، جو آج بھی برصغیر کے ان قلم کاروں کا جریدہ ہے جو  اپنے خدا پرستانہ میں تحریک ادب اسلامی کی تمام سرگرمیاں اس سیارے کے گرد گھوم رہی ہیں۔ ’’ سیارہ (سہ ماہی اشاعت خاص) کے چند شمارے ادھر مجھے پابندی سے دستیاب ہوئے ہیں جن کے مطالعہ سے خطہ پاک میں ہونے والے وسیع اور ہمہ جہت تخلیقی کام کا انداز ہوتا ہے مناسب ہے کہ بروقت ان کا بھی مختصر تذکرہ کر دیا جائے۔

تحقیق و تنقید کے باب میں ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ، ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریاء ، ڈاکٹر تحسین فراقی، پروفیسر اسرار احمد سہاوری ، پروفیسر خورشید احمد ، پروفیسر آسی ضیائی، مسعود جاوید ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، پروفیسر فروغ احمد ، ڈاکٹر ملک حسن اختر، ڈاکٹر شفیق احمد ، جعفر بلوچ اور سراج منیر کے نام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ ادبا و ناقدین جدید اردو ادب میں سیکولر، مغرب ردہ اور مارکسٹ ادیبوں اور ناقدوں سے کسی طرح کم نہیں بلکہ فکری بلندی اور فنی پختگی کے ساتھ بعض دوسری حیثیتوں سے بھی ممتاز ہیں ، اسی طرح ،ناول ، افسانہ ،ڈرامہ انشائیہ اور کالم نگاری کے میدان میں نمایاں تخلیقات اور نامور شخصیات موجود ہیں نسیم حجازی سید اسعد گیلانی محمود فاروقی ابو الخطیب عطاء الحق قاسمی آثم میرزا، اعجاز فاروقی ،جیلانی جی ، اے آباشاہ پوری حسرت کا سگنجوی ، طاہر نقوی اکرم جلیلی مرزا ادیب حمید شاہد امجد طفیل افضل علوی ، حسین صحرائی محمد یونس بٹ فضل من اللہ سلمی یا سمین نجمی، فرزانہ رباب ، نیر بانو ، ام زبیر اور صالحہ صبوحی چند اہم نام ہیں ،ان میں سے بیشتر فکشن کے فن میں اپنا انفرادی مقام حاصل کر چکے ہیں۔

شعری تخلیقات کے لئے سرزمین پاک خاص طور سے کافی زرخیز ہے یہاں اسلامی حلقے میں بھی شعراء کی عظیم اکثریت موجود ہے جسکی نغمہ سنجیوں سے ایوان ادب گونج رہا ہے مذکورہ بالا شخصیات کی بڑی اکثریت نثر کے ساتھ شعری اظہار میں بی دلچسپی رکھتی ہے اور ان کی تخلیقات رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ اس وقت میرے سامنے ان شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جو اس نام نہاد روشن زمانے میں بھی اسلام کی حمایت کا دم بھرتے ہیں اسلامی شاعری صرف پرانے لوگوں کی کی بڑھاپے کی آواز نہیں بلکہ ان میں بڑی اکثریت جوانوں اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے مسلمان فنکاروں کی یہ نسل گالی گفتارسے مسلح ہو کر آگے نہیں بڑھی ہے بلکہ اپنی قدروں کے تخلیقی اظہار میں نہایت شریفانہ اور با وقار لب و لہجہ لے کر اپنے تجربوں سے قوم کو آگاہ کر رہی ہے ان شعراء میں چند اسمائے گرامی یہ ہیں۔

حفیظ جالندھری ، احسان دانش ،ماہرالقادری ،شورش کاشمیری ، حافظ مظہر الدین ، راز کاشمیری زکی زاکانی(مرحومین) عبدالعزیز خالد، عارف عبدالمتین ، طفیل ہوشیارپوری، ضیاء صبا مٹھراوی، انورمسعود ، حافظ لدھیانوی ،یزدانی جالندھری قیوم نظر، گوہر ملسیانی، رسخ ،انجم رومانی حفیظ نائب حفیظ صدیقی،پروفیسر عنایت علی خان جعفری بلوچ، خالد بزمی، وفا براہی ، طاہر شاہدانی ،سید نظیر زیدی بشیر ساجد ، حمید جالندھری ،باقی احمد یوسفی ، حفیظ الرحمن بزمی، مظفر وارثی، اسلم یوسفی، حفیظ الرحمن احسن فیروز نظر، احسان رانا گلزار بخاری ضمیر اظہر منیر نیازی ،یعقوب پرواز، آفتاب ثاقب ، افضل آرش وغیرہ اور کئی دوسرے شعراء ہیں جن کی شاعری اردو شاعری کے افق پر روشن ستاروں کی مانند جگمگا رہی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جن کی شاعری کے اندر بیک وقت جذبہ کا خلوص اثر آفرینی ، درد و نقش فکر و دانش سوز وساز اور درد و داغ اس طرح ہم آہنگ ہو گئے ہیں کہ ان سے زندگی کے کیف آور نغمے پھوٹے پڑتے ہیں جن سے ہمارے سرمایہ مسرت و بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔

آخر میں تحریک ادب اسلامی کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ ہماری ادبی تحریک کے فروغ میں فنکار اور فن کی خوبیوں سے زیادہ فکر و خیال کی پاکیزگی اور نظریہ کی توانائی کا دخل ہے، ہمارے بعض فنکاروں میں ابھی وقت نظر اور جوئے شیر لانے کا جذبہ پوری طرح پیدا نہیں ہوسکاہے ، حالانکہ اگر ہم ادب کی اثر انگیزی کے قائل ہیں تو اس کے ساتھ انصاف لازم ہے ورنہ ہمارا اپنے نظریہ کے ساتھ خلوص مشکوک قرار پائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت تعمیری ادبی تحریک کے لئے حالات زیادہ ساز گار ہیں موجودہ صدی میں باطل نظریات کی ناکامی اور شکست د ریخت کے بعد اسلامی نظریہ و  افکار کی عوامی مقبولیت اور عالمی بیداری کے نتیجہ میں اسلامی انقلاب کا غلغلہ ساری دنیا میں بلند ہو چکا ہے اور اس صدی کو اسلامی صدی بنانے کی بات شروع ہو چکی ہے، ظاہر ہے اس نئی فکری لہر نے معاشرے اور تہذیب کے ساتھ ادب کو بھی متاثر کیا ہے اور اس طرح تحریک ادب اسلامی کے مستقبل کو زیادہ روشن بھی کر دیا ہے۔

 

تحریک ادب اسلامی کے تقاضے

ادب ،تحریک اور اسلام کے باہمی تعلق اور تقاضوں پر اظہار خیال سے پیشتر ادب کیا ہے۔فردو معاشرے اور زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے؟ جیسے سوالوں پر غور کر لینا مناسب ہے۔ ہمارے خیال میں ادب کی کوئی منطقی تعریف نہیں کی جا سکتی ،اگر ایک طرف ادب کو وقت اور زمانے کا آئینہ کہا جا سکتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ اسے ہم حسن کلام اور تاثیر کلام کے نام سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ، دراصل ادب نام ہے احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کا ، جذبات کو مترنم پیکر عطا کرنے کا ، تصورات کو قابل فہم اشاروں میں تبدیل کرنے کا ادب انسانی زندگی کا حسین ترجمان اس کے افکار کا پر تو اور اس کے خیالات کا عکس ہوتا ہے ، ادب زندگی سے پیدا ہوتا ہے زندگی کا ترجمانی کرتا ہے زندگی ہی کے کام آتا ہے اور ہمیشہ م معاشرہ سے اور زندگی کی تعمیر یا تخریب میں مشغول رہتا ہے، یہ ناممکن ہے کہ کسی معاشرے کا ادیب اپنے کو معاشرے سے خارج کر کے کوئی اور ہی ادب پیش کرے یا یہ کہ جو کچھ وہ پیش کرے وہ دوسروں پر اثر انداز نہ ہو، وہ ادب ہی نہیں جو معاشرے اور اس میں رہنے والے فرد اور اس کی زندگی کو اپنے مخصوص رنگ سے متاثر نہ کرے۔ مغربی لادینی نظریات اور مختلف مادی افکار کے حوالے سے ادب نے معاشرے کو جس طرح متاثر کیا  ہے اور اس کے نتیجہ میں نئے معاشرے کا انسان جس بحران ،انتشار، ناآسودگی ، روحانی کرب ،اخلاقی انارکی ،جنسی بے راہ روی، فحاشی و بے حیائی، قتل و غارت گری،معاشی استحصال ، معاشرتی نابرابری ،منافقت ،فریب اور تہذیبی شکست و ریخت سے دوچار ہے، آج کے ادب میں ان کا اظہار بھی ہوا ہے ور مختلف الحادی اداروں کے ذریعہ ان کا فروغ بھی۔ چنانچہ نیا ادب چائے وہ ترقی پسندی ہو یا جدیدیت، لوگ اس کے پھیلائے ہوئے جراثیم سے مسموم ہوتی ہوئی فضا کو اب محسوس کونے لگے ہیں اور اس سے نجات کی راہ ڈھونڈھنے لگے ہیں۔یہی وہ حالات تھے جنھوں نے ادب میں تحریک اسلامی کا شعور پیدا کیا اور اسلامی رجحانات کے فروغ اور نشو نما کی منظم کوششیں شروع ہو گئیں۔

ادب کی طاقت کو دنیا کی تمام تحریکات نے تسلیم کیا ہے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے لئے اسے بطوروسیلہ استعمال کیا ہے۔ اب ایک ایسی انقلابی تحریک جو زندگی کے ہر پہلو اور ہر ادارے کی اصلاح چاہتی ہے، جو تعلیم ،سیاست اور معاشرے کو بدلنا چاہتی ہے ،وہ ادب کے شعبے کو کیسے نظرانداز کرسکتی ہے، ہندو پاک کے مشہور ادیب افسانہ نویس اور تحریکی رہنما جناب سید اسعد گیلانی نے ایک جگہ بڑی عمدہ بات لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ :

’’کوئی تحریک بھی ادب کا تعاون حاصل کئے بغیر جڑ نہیں پکڑ سکتی اور کسی تحریک کا کو ئی پروگرام بھی بروئے کار نہیں لایا جا سکتا، جب تک ادب اس پروگرام کو اپنی آغوش میں لے کر دل و دماغ میں اسے بیٹھا نہ دے، یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم سی ہیں۔ ایک مسافر ہے تو دوسرا زاد راہ، ایک سپاہی ہے تو دوسرا اس کا اسلحہ ، ایک قافلہ ہے تو دوسرا اس کا پیش رو۔‘‘

ہر تحریک اپنے دامن میں ایک انقلاب کا تصور رکھتی ہے اور ہر انقلاب قلب و نظر کے زاویوں سے لے کر زندگی کے تمام مادی و اخلاقی پہلوں پر ایسے ہمہ گیر اثرات ڈالتا ہے اور یہ اثرات ادب کے ذریعے غیر محسوس طریقے پر دل کی ایک لرزش سے جو جسد انسانی میں سرایت کرتا رہتا ہے دراصل دل و دماغ اور قلب و نظر کی تبدیلی اور تعمیر جدید میں ادب کسی بھی تحریک کا سب سے بڑا ایجنٹ ہوتا ہے وہ چپکے چپکے آنکھوں کے راستے دلوں میں اتر تا ہے یا کانوں کے راستے قلوب میں گھر بناتا ہے اور آنے والے انقلاب کے لئے جذبات اور احساسات کے مورچہ بناتا ہے، یہ ادب ہی ہے جو براہ راست حملہ کر کے شکار کو بھڑکاتا نہیں بلکہ اس کے گرد تصورات و تخیلات کی سوندھی سوندھی فضاء پیدا کرتا ہے خود بخود اس خوشبو کو اپنے دل میں جذب کرنے کے لئے اپنے جسم کے تمام بند ڈھیلے چھوڑ دیتا ہے۔ ادب کی اسی طاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے ہندو پاک کے مشہور ادیب شاعر اور مصنف جناب نعیم صدیقی نے لکھا ہے کہ:

’’ ادب خیال انگیز اور خیالات افروز قوت ہے وہ معاشرہ کی کھیتی میں خیالات کے بیج ڈالتا ہے اور پھر ان کی آبیاری کرتا ہے وہ خیال کے جمود کو توڑتا ہے او ر حرکت پیدا کرتا ہے وحی الہٰی کے بعد اگر کوئی دوسرا ذریعہ انسانیت کو خیالات سے مالامال رکھنے کا ہے تو وہ ادب ہے ادب خیالات کو ابھارتا ہے۔‘‘

واقعہ یہ ہے کہ ادب انسانی خیالات ،جذبات اور اقدار کو زندہ رکھنے اور بنانے بگاڑنے والی عظیم طاقت ہے ، دنیا کی تمام تحریکات نے اس طاقت کا خوب خوب ادراک بھی کیا ہے اور بہتر سے بہتر استعمال بھی ، فرانس کا عوامی انقلاب والٹیر اور روسو کے قلموں کو نہیں بھول سکتا ، ان کے قلموں کی سیاہی اس انقلاب کا جیتا جاگتا خون ہے۔ روس کا اشتراکی انقلاب مارکسؔٹراٹسکی ؔ گورکی ؔ اور دوسرے اہل قلم حضرات کے قلموں کی جنبش پر چلتا ہے ہو ا نظر آتا ہے جرمنی کا نازی انقلاب، اس تصور سے ابھرا ہے ، جو نٹشے نے اپنی تحریروں میں چھوڑا تھا ، اسی طرح خود انبیائی تاریخ پر اگر آپ ایک نگاہ ڈالیں تو دیکھیں گے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنے اپنے دور میں جو تحریکیں چلائیں ، ان میں خدا کے لکھائے ہوئے اسالیب بیان کو اپنی دعوت کے فروغ کے لیے پورے طور پر استعمال کیا۔ خدا کا کوئی پیغمبر ایسانہ تھا جو ادب کے بارے میں معمولی ذوق کا مالک ہو، آج بھی الہامی کتابوں کے ذخیرے میں پورا پورا ادبی زور موجود ہے حضرت عیسی ؑ کی دعوت کے انجیل میں جو ٹکڑے ملتے ہیں ، ان کی قدرو قیمت دوامی ہے یہی حال زبور کا ہے، اگرچہ ان میں تحریف ہو چکی ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ ان میں ادب کا پورا پوار اہتمام ہے قرآن مجید اس سلسلے میں آخری چیز ہے جسے ادبی چیلینج کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ، عرب میں اسلام کی انقلابی تحریک جب اٹھی ، جاہلی ادب کے مقابلے میں قرآن کی ادبیت کو استعمال کرنا پڑا اور جب جاہلی ادب کو قرآنی ادب نے چیلینج کیا تو عرب کے کسی بڑے سے بڑے ادیب کو اس کے مقابلے کی ہمت نہ ہوسکی کہ اس کی عظمت کے سامنے اپنا چراغ جلا سکے۔

 ادب کی طاقت کو تمام آسمانی کتابوں میں استعمال کیا گیا ہے بلکہ یہ تقاضہ کیا گیا ہے کہ اس کے علمبردار ادب کی طاقت کو معرکہ خیر و شر میں استعمال کریں خود مدینہ منورہ میں جب اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا او ر بزم رسالت سجائی گئی تو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ جنھوں نے خدا اور رسول کی مدد تلواروں سے کی ہے آخر وہ شعرو ادب سے اس مقصد خاص کی اشاعت کیوں نہیں کرتے ، یہ سنتے ہی حضرت حسان بن ثابت جو اپنے زمانے کے جلیل القدر شاعت تھے، اٹھے اور عرض کیا ’’ میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں۔’’ چنانچہ اس دور میں جب حق و باطل کی قوتیں نبرد آزما تھیں ، اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ مخالفین کا سرنیچا کرنے کیلئے فن ہجو گوئی سے بھی کام لیا جائے، عرب میں یہ صنف بہت زیادہ مقبول اور موثر تھی اس وجہ سے مشرکین قریش کی ہجوئیں شعرائے اسلام نے لکھیں ،حضرت حسان بن ثابت اس فن میں زیادہ دستگاہ رکھتے تھے رسول اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’ حسان کے اشعار مخالفین اسلام پر تیر سے کہیں زیادہ ضرب کاری لگاتے ہیں ‘‘ حضرت حسان بن ثابت ؓ، کعب بن زبیرؓ اور ثابغتہ الجعدی وغیرہ نے اپنے شعرو ادب سے اس عہد کی تحریکی ضرورتوں کو خوب خوب پورا کیا ہے۔

مختصر یہ ہے کہ اسلامی تحریک جو دنیا کی تحریکوں میں سب سے زیادہ انسان کی فطرت کے قریب ہے۔ وہ کبھی بھی ادب کی خدمت سے محرومی کی حمایت نہیں کرسکتی چنانچہ اب آخر میں تحریک ادب اسلامی کی ضرورت و اہمیت کے سلسلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی ایک تقریر کا آخری اقتباس پیش خدمت ہے، جو انھوں نے حلقہ ادب اسلامی پاکستان کے اجلاس مورخہ ۳۱ /جولائی ۱۹۵۰؁ء میں کی تھی ، یہ پوری تقریر وابستگان تحریک اسلامی کے لئے ایک واضح نشان راہ ہے مولانا مرحوم فرماتے ہیں :

’’ ہر شخص کو اپنے آپ کو ٹٹول کر دیکھنا چاہئے جو ادب کے جس شعبے کیلئے موزوں ہے وہ اپنے آپ کو اسی کے لئے تیار کریں ، جو خطابت کی صلاحیت پاتے ہوں ، وہ اپنے آپ کو اسی کے لئے تیار کریں تاکہ ان کی یہ قوت ناطقہ اور قوت کلام خدا کے کام میں آئے ،جن کے اندر لکھنے کی صلاحیت ہو تو اپنا جائزہ لیں کہ وہ کس نوعیت کے کام کے لئے زیادہ موزوں۔ صحافت، شاعری ،افسانہ نویسی جس چیز کے لئے اپنے آپ کو موزوں پائیں اسی کے لئے نفس کی تربیت کریں اور جو لوگ بہتر علمی اور دماغی صلاحیت رکھتے ہوں ،وہ علم کے مختلف شعبوں میں آگے قدم بڑھائیں۔‘‘

ہم ایک بڑے طوفانی دور سے گذر رہے ہیں اس وقت دنیا میں دو نظریوں کی کشمکش جاری ہے اور وہ ساری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رہی ہے ہم ان کے درمیان تیسرے نظریئے والے ہیں ،ہمیں کوشش کرنی ہے کہ اپنی ساری قوتوں سے اپنے نظریہ حق کو کامیاب بنائیں ،جو اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہیں۔ قوت ناطقہ اور قوت فکر و فہم سب سے زیادہ ضروری ہے جسمانی طاقتیں بھی ان طاقتوں سے علیحدہ استعمال نہ کی جائیں گی۔ میں خاص طور پر اپنے نوجوانوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس جمود کو ختم کریں اور ادب کے ہر شعبے میں آگے بڑھیں مجھے توقع ہے کہ میری یہ اپیل بہرے کانوں سے نہ سنی جائے گی اور رفتہ رفتہ ادب کے محاذ کی طرف ہمارے نوجوان کثرت سے متوجہ ہو جائیں گے۔

مولانا مودودی ؒ کا یہ فکر انگیز بیان نہ صرف موجودہ حالات میں شعرو ادب کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے بلکہ اس حقیقت کا اظہار بھی کہ اگر ہم اب بھی اس طرف متوجہ نہ ہوں گے تو ابلاغ عامہ کے جدید وسائل ریڈیو، ٹیلیوژن اور اخبارات و رسائل پر باطل پرستوں کا نہ صرف قبضہ برقرار رہے گا بلکہ وہ اپنے ڈراموں ،نغموں ، حتی کہ خبروں اور ان پر تبصروں کے ذریعہ اسلام دشمنی ،الحاد و بے دینی اور عریانی و فحاشی کے فروغ میں کوشاں رہیں گے اور ہم ان کا کوئی توڑ نہ کرسکیں گے۔ لہذا اب بھی موقع ہے کہ ہم اپنے ادبی محاذ کی اہمیت سمجھیں اور نہ صرف اسے اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریں بلکہ ہمارے اہل فکرو فن نوجوان اس میدان علم دانش میں قدم رکھیں اور تمام اصناف ادب اسلامی اقدار کے فروغ کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کریں۔

تحریک ادب اسلامی سے وابستہ قلمکاروں کو ایک بار پھر اپنے عہد کے ادبی و تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے برسر پیکار ہونا ہے، انھیں اسی خلوص، جذبے اور نیت سے قلم اٹھانا ہے، جس نیت سے وہ مسجد میں نماز کے لئے یا میدان میں جہاد کے لئے داخل ہوتے ہیں ، کیونکہ ان کا ادب عبادت کے لئے وقف ہے، لیکن اسی کے ساتھ دوسری اہم چیزفن ہے۔ ادب میں فن کی کمزوری خلوص نیت او جذبہ نمود سے بے نیازی کا بدل نہیں بن سکتی ، ہماری فنی کوتاہیاں ،مقصد و نصب العین کی خدمت کے بجائے اس کا وزن کم کرنے کا موجب ہوسکتی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کن کن الفاظ کا استعمال کس کس جگہ مفید ہے، جس سے ہم اپنا راستہ نکال سکیں۔الفاظ ادیب کے لئے آلات کار ہیں۔ ان آلات کا مناسب اور بر محل استعمال ہی ایک سپاہی کو میدان جنگ میں کامران کرتا ہے لہذا موجودہ معاشرے کو رائج الوقت الحادی ادب کے پنجے سے نکال کر اپنے تحت لانے کے لئے ہمیں شدید محنت اور فنی ریاض کرنا ہو گی، اس سلسلہ کی دوسری اہم ترین چیز مطالعہ کی وسعت ہے موجودہ ادب اور اس کے سرچشمے کو اچھی طرح جانے بغیر ان پر غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔اس کے لئے ماضی و حال کے تمام ادب ،مختلف مادی افکار و نظریات و مذاہب کا تنقیدی و تقابلی مطالعہ ضروری ہے ، اس سے فن میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے، ادبی رسوخ بڑھتا ہے تخلیق کو عمر دوام نصیب ہوتی ہے۔

تیسری چیز جو ہمیشہ دل و دماغ میں تازہ رکھنے کی ہے، وہ یہ کہ ہمیں بہر حال ایک نصب العین کی خدمت کرنی ہے اور ایک مقصد کو فروغ دینا ہے۔چنانچہ ہماری کوئی چیز میدان ادب میں آئی جو اس نصب العین کو تقویت کے بجائے اس کی تذلیل اور سبکی کا باعث ہوئی تو یہ خود اس نصب العین کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو گا۔ لہذا یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ ہمارے ادبی محاذ پر کوئی ایسی چیز نہ آنے پائے جو اجتماعی نصب العین کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ آخری بات یہ ہے کہ ادب میں الحاد و بے دینی کے غلبہ اور فحاشی و بے حیائی کے سیلاب کو روکنے کے لئے منظم جدوجہد کا عزم اسلامی فنکاروں کا فرض ہے، ہمارا کام یہ ہے کہ اس محاذ پر اپنی قوتوں کو رتی رتی جمع کر دیں۔جس محاذ پر جاہلیت کے کارندوں نے جاہلی ادب کے پہاڑ کھڑے کر رکھے ہیں ، وہاں ہم حقائق کے سنگریزوں کو لا کر ڈال دیں اور اس طرح اپنی اجتماعی کوششوں کے ذریعہ ایک ایسی تحریک کا آغاز کریں جس سے ادبی جاہلیت کا غلبہ ختم ہو اور انسانی فطرت کے صحیح رجحانات کی حفاظت ہو۔

٭٭٭

اسلامی ادب کی فکری بنیادیں

سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بعض ذہنوں میں آج بھی ادب کے ساتھ اسلام کا لاحقہ غلط فہمی اور الجھن کا باعث بنا ہوا ہے حالانکہ جدید ادب کا ایک اہم معنویتی کشش رکھنے والا منظر نامہ اسلام پیش کر رہا ہے ، اسے اب تک جس طرح نظر انداز کیا گیا ہے یا اس کی تحقیر کی گئی ہے وہ علمی عصبیت کی ایک عبرتناک مثال ہے، آج بھی ایسے ادبی حلقے ہیں کہ جب وہ اسلامی ادب کا نام سنتے ہیں تو ان کی جبین ادب پر شکن پڑ جاتی ہیں اور پھر نہایت ہی ترش رو ہو کر وہ اپنے مخصوص ادبی پندار کے ساتھ فرماتے ہیں ، یہ اسلامی ادب کیا ہے؟یہ بھی کوئی ادب ہے؟ اسلامی ادب سے مراد مسجد کے لوٹے کا ادب ہے اور ایک طنزیہ مسکراہٹ ان کے لبوں پر کھیل جاتی ہے، ترقی پسندوں کی سستی پھبتیوں اور طنز و استہزاء سے ہٹ کر ادب کے ساتھ لفظ اسلامی اکثر سنجیدہ فکر لوگوں کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے، کیوں کہ بعض حلقوں میں اسلام کے متعلق یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ صرف ایک گروہ کا مذہب ہے اور مذہب کا کا م صرف خدا اور فرد کے تعلق کو بتانا ہے۔ اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ لفظ اسلامی مذہب کے محدود تصور سے ہٹ کر جہاں بھی استعمال ہوا لوگوں کی حیرت کا باعث بنا، چنانچہ جب کبھی یہ حقیقت بیان کی گئی کہ اسلام اس قسم کا محض ایک مذہب نہیں ہے جو صرف ایک شعبہ ء زندگی سے متعلق ہو بلکہ یہ پوری کی پوری زندگی کا ایک نقطہ نظر ہے، ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے ، تو اکثر حیرت و اجنبیت کا اظہار ہوا ، لیکن واقع یہ ہے کہ آج انسانی زندگی کا ہر مسئلہ صرف اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی سیاست ، معیشت ،معاشرت اور علوم و فنون کو اسلام کے مطابق ڈھال لے۔  فنون لطیفہ کے سلسلہ میں خاص طور سے آج یہ تصور عام ہے کہ ان کا اسلام سے کیا تعلق انھیں تو بہر صورت آزاد ہونا چاہئے لہذا آج انھیں حیوانیت اور انسانیت سوز محرکات کے پھیلانے کا موثر ترین ذریعہ بنالیا گیا ہے، ایک سیلاب بلا خیز ہے جو تمام سماجی اقدار اور اخلاق کو درہم برہم کئے جا رہا ہے ، چنانچہ اس محاذ پر مضبوط بند باندھنا ضروری ہے اور ایسے تمام لوگوں کے لئے سب سے مناسب طریقہ ہے کہ وہ پہلے اسلامی ادب کی فکری بنیادوں کو پوری طرح سمجھ لیں اور اس کے بعد ہی اس پر اظہار خیال فرمائیں ، اسلامی ادب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود ادب کو متعین کر لیا جائے کہ یہ فن کیا ہے اس کے تقاضے کیا ہیں اور اسلام ادب کے معاملے میں کیا رہنمائی دیتا ہے۔

ادب درحقیقت فنون لطیفہ میں ایک فن شمار ہوتا ہے ان فنون کی تخلیق میں انسان کے دل کی کیفیات و اردات کو سب سے زیادہ دخل ہے ، انسان میں احساسات و جذبات جیسی لطیف کیفیات کہ رنگینیاں پائی جاتی ہیں جو اس کے اعمال پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ اسی کے ساتھ انسان میں مستقل طورپرجمالیات کا ایک ذوق (Aesthetic Sense) موجود ہے جو اسے قوت تمیز عطا کرتا ہے جن سے ادب کی تخلیق ہوتی ہے ، لیکن کھبی کھبی انسان کا یہ جمالیاتی ذوق توازن کھوبیٹھتا ہے اور ادیب افراط و تفریط کا شکار ہو جاتا ہے، اگر ذہن میں توازن قائم رکھنے کی پوری صلاحیت موجودنہ ہو تو وہ بے اعتدالی سے بچ نہیں سکتا ، یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر کبھی اونچی قسم کی بات کرتا ہے اور کبھی نہایت پست خیالات بیان کرتا ہے اور متضاد باتیں بیان کرتا ہے۔ ادب میں اس کمی کو اسلام پوری کرتا ہے کیونکہ وہ زندگی کو ایسی صحیح دائمی اور لازوال قدریں عطا کرتا ہے جو ادیب کو انسانی فطرت سے ہم آہنگ رکھتی ہیں اور انکار یقین ادب کے صحیح ادب کے صحیح ذوق و جدان کو غیر متوازن ہونے سے بچاتا ہے، اسی لئے اسلامی ادب اسی کو کہا جا سکتا ہے جس کی اساس ان اعلی اقدار پر ہو جن سے جمالیاتی حِس پوری شدت سے ابھرتی ہے اور واضح اور مضبوط ہو کر اپنا کام انجام دیتی ہے یہ اساسی اقدار مندرجہ ذیل ہیں۔

رسالت ؛ یہ حیات و کائنات جہاں خدا کی قوت تخلیق کا نتیجہ ہے وہیں نبوت کا یقین ظلمت شب میں مسافروں کیلئے ایک روشن قندیل اور حق تو یہ ہے کہ حیات و کائنات کی ساری تہذیب و تعمیر کا انحصار نبوت ہی کے سرچشمہ صافی پر ہے خدا نے اس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی کائنات کی تعمیر و تہذیب اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے انبیاء کا یک سلسلہ بھی شروع کیا ، انبیاء کی یہ آمد کائنات کی تہذیبی و تعمیری ضرورت تھی اور اس کے مستحق اقدام پر جزا دیتی ہے تب بھی اس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ یہاں پوری طرح سزادے سکے،مثلاً ہٹلر جیسے شخص کو جو زیادہ سے زیادہ سزا ہوسکتی ہے وہ اس کی ہلاکت ہے لیکن کیا یہ اس کی واقعی سزا ہے جس نے لاکھوں انسان ہلاک کرا دیا تھا اسی طرح وہ شخص جس نے لاکھوں کی زندگی کو تباہ حالی سے بچایا ہوا سکا انعام بھی اس دنیا میں ممکن نہیں ، لہذا عقل تقاضہ کرتی ہے کہ ایک ایسی جگہ لازماً ہونی چاہئے جہاں انسان کے اعمال پر پوری جزا و سزا ہو یہ عین فطرت انسانی کا مطالبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ادیبوں اور مفکروں نے ایک ایسے آنے والے وقت کی طرف بے شمار اشارات کئے ہیں جب انسان کو پورا پورا عدل حاصل ہو گا۔ اسلامی ادب جس حیثیت سے زندگی میں اس قدر کو اجاگر کرتا ہے، اس سے انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات پیدا ہوتے ہیں اس کا یقین احساسات میں ایک زبردست انقلاب پیدا کر دیتا ہے ، انسان کو ظلم و ناانصافی سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے، اس میں احساس ذمہ داری ابھرنے لگتا ہے اجتماعی فلاح اور سماجی خوشحالی کا جذبہ اس کے اندر سے ابھرتا ہے انسانیت کی محبت اور کائنات کی تعمیر اس کا مقصد زندگی بن جاتا ہے ایک آخرت پسندادیب خود غرض اور مفاد پرست نہیں ہوسکتا ہے مفاد پرستی اور نفع طلبی سے اس کا دامن پاک ہو گا، اس کا قلم اس کی تخلیقی صلاحیت اس کا ذہن و فکر سب اللہ کی دین اور اس کی امانت ہے۔ ایک ایک حرف کا اپنے خدا کے حضور جواب دہ ہونا ہے اس کے اسی شدید اندرونی احساس کی بنا پر ہی اس کا قلم ہمیشہ حق و صداقت اور راست بازی کے اردگرد گھومے گا، شہرت ، نام و نمود ، بے عملی اور جاہ و منصب کی طلب جو مادہ پرست ادیب و شاعر کا طرہ امتیاز ہے اس سے اس کا دامن نہ صرف پاک ہو گا بلکہ وہ ادبی دنیا سے ان غلط جذبات کو دبانے اور کم کرنے کے لیے کوشاں ہو گا۔

مختصر یہ کہ مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے۔ کہ تجربے اور مشاہدے کے لیے یہ وہ مضبوط فکری بنیادیں ہیں جن پر ادیب کا جمالیاتی ذوق صحیح سمت میں پروان چڑھ سکتا ہے۔ دنیا نے آج تک انہی ادیبوں کی تخلیقات کو غیر فانی ادب میں شمار کیا ہے جو جمالیاتی جس کے فطری پہلو سے زیادہ قریب رہے ہیں۔ بعض افراد کا مذاق بگڑ سکتا ہے لیکن پوری کی پوری انسانیت ہمیشہ خرابی پسند نہیں ہوسکتی وہ اگر پوری طرح اپنے جمالیاتی حس کے معیار پر کامل نہیں اترتی تو کم سے کم وہ اس کے قریب ضرور رہتی ہیں۔ اس طرح ان دائمی اقدار پر گہرا یقین جو ادیب کی شخصیت کا جزو بن جائے، اور ان کی روشنی میں حیات و کائنات اور انسان کا مطالعہ ہی اسلامی ادب کی تخلیق کرتا ہے علاوہ ازیں یہ اسلامی ادب ہی ہے جس کو انبیاء علیہم السلام نے خدا کی طرف سے آسمانی کتابوں کی صورت میں پیش کیا ہے جس نے انسانی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب برپا کیا، چنانچہ ہم اسلامی ادب سے وہ ادب مراد لیتے ہیں جو اسلام کی صالح اقدار کو فروغ دینے کی جدوجہد کرے لہذا توحید و رسالت اور آخرت کی فلسفیانہ اساس کے بعد اسلامی ادب کی چند دوسری بنیادی اقدار کی تفصیلات پیش خدمت ہے۔

معروف و منکر : ادب میں ایک اہم قدر معروف و منکر کا احساس ہے، یہ وہ بنیادی سچائیاں ہیں جن کو ہر زمانہ میں انسان نے تسلیم کیا ہے معروف وہ چیز کہلاتی ہے جو جانی پہچانی ہو یعنی تمام خوبیاں جو متفقہ طور سے خوبیاں تسلیم کی جاتی ہیں مثلاً صداقت ، امانت، شجاعتِ رحم ہمدردی ، فیاضی ، حق گوئی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح منکر میں وہ تمام برائیاں شمار ہوتی ہیں جن کو ساری دنیا بر امانتی ہے۔ جیسے جھوٹ، فریب، چوری، ظلم ، بخل ، سخت دلی، ریاکاری، منافقت وغیرہ وغیرہ۔ ادب کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ معروفات کو انسانی زندگی کے ہر گوشے میں غالب کرنے کی جدوجہد کرے اور اپنی کاوشوں سے ان تمام منکرات پر کاری ضرب لگائے جو سوسائٹی میں موجود ہوں۔

مختصر یہ کہ مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے۔ کہ تجربے اور مشاہدے کے لیے یہ وہ مضبوط فکری بنیادیں ہیں جن پر ادیب کا جمالیاتی ذوق صحیح سمت میں پروان چڑھ سکتا ہے۔ دنیا نے آج تک انہی ادیبوں کی تخلیقات کو غیر فانی ادب میں شمار کیا ہے جو جمالیاتی جس کے فطری پہلو سے زیادہ قریب رہے ہیں۔ بعض افراد کا مذاق بگڑ سکتا ہے لیکن پوری کی پوری انسانیت ہمیشہ خرابی پسند نہیں ہوسکتی وہ اگر پوری طرح اپنے جمالیاتی حس کے معیار پر کامل نہیں اترتی تو کم سے کم وہ اس کے قریب ضرور رہتی ہیں۔ اس طرح ان دائمی اقدار پر گہرا یقین جو ادیب کی شخصیت کا جزو بن جائے، اور ان کی روشنی میں حیات و کائنات اور انسان کا مطالعہ ہی اسلامی ادب کی تخلیق کرتا ہے علاوہ ازیں یہ اسلامی ادب ہی ہے جس کو انبیاء علیہم السلام نے خدا کی طرف سے آسمانی کتابوں کی صورت میں پیش کیا ہے جس نے انسانی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب اردو پر پڑے ہیں۔ پھر حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے تمام صاحبزادگان کتب کثیرہ کے مصنف ہیں۔ ولی اللہی تحریک نے بر صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اور زبان و ادب پر بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اسی کے ساتھ تحریک مجاہدین کے جو وسیع اثرات اردو ادب پر پڑے ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں۔ بقول مولانا غلام رسول مہر، ’’ خدمت دین میں حضرت سید احمد شہید کے اختصاص و امتیاز کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے پاس جس علم و فن کا کوئی آدمی آیا ، اس کے مناسب حال دینی کا م میں لگا دیا، جن میں تصنیف و تالیف کی قابلیت تھی انہیں تبلیغی کتب و رسائل لکھنے پر اور جن میں قوت شعر گوئی تھی انہیں اسلامی نظمیں لکھنے کی طرف متوجہ کیا۔‘‘ تحریک مجاہدین کو مخالفوں نے وہابی تحریک کا نام دیا ، اس تحریک کے زیر اثر تخلیق کیا جانے والا لٹریچر تعداد اور کیفیت دونوں لحاظ سے مہتم بالشان ہے اور یہ سب ادب اسلامی ہے۔ جس کا جائزہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے۔

٭٭٭

 

تحریک ادب اسلامی۔ ایک جائزہ

تحریک ادب اسلامی کی گذشتہ نصف صدی کی ادبی و تخلیقی کاوشوں کا جائزہ لینے کے لئے آج ہم سب عروس البلاد ممبئی میں جمع ہیں۔ اس موقع پر میں بطور خاص یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تقسیم ہند سے دو سال قبل یعنی ۱۹۴۵؁ء کے آس پاس جب اسی ممبئی میں ترقی پسندادیبوں کے بلند بانگ دعووں کے خلاف پہلے پہل ماہر القادری نے یہ آواز بلند کی تھی کہ ایک اور نیا ادب جنم لے رہا ہے تو اس وقت ماہر القادری کی اس آواز پر یہ فقرہ چست کیا گیا تھا کہ ممبئی کی خشک سرماکی راتوں میں یہ ایک نحیف آواز سنائی دے رہی ہے ، لیکن کسے معلوم تھا کہ ممبئی کی خشک راتوں کی یہ نحیف و نرالی آواز ایک دن پورے بر صغیر ہند و پاک کی ایک توانا اور با اثر آواز بن جائے گی۔ کسے معلوم تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو فطری تقاضے ابھریں گے وہ اردو ادب کی محفل میں ایک نئی شمع جلا کر رہیں گے تحریک اسلامی کے عملی تقاضوں کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں اسلام کے تحریک اور انقلابی رجحان کی کارفرمائی ایک بالکل قدرتی بات تھی۔ چنانچہ ادب اسلامی میں تخلیق و تنقید کا آغاز تقسیم ہند کے ساتھ ہی کراچی سے نکلنے والے رسائل مولانا نعیم صدیقی کے چراغ راہ ،مولانا ماہر القادری کے فاران اور پروفیسر سید اسعد گیلانی کے جہان نو سے ہوتا ہے۔ ابتداء میں نعیم صدیقی نے ذہنی زلزلے کے عنوان سے ۱۴ / افسانے لکھے ، مگر اس زلزلے نے وہی کا م کیا جو ۱۹۳۲؁ء میں سجاد ظہیر کے ’’ انگارے ‘‘ نے کیا تھا۔ حالانکہ نعیم صدیقی کا زمانہ سجاد ظہیر کے زمانے سے ہزار گونہ زیادہ پر آشوب تھا۔ نعیم صدیقی کے ذہنی زلزلوں نے بڑا کام کیا، اس سے اسلامی ادب کی ابتدائی لہروں کے جو دائرے بنے وہ آہستہ آہستہ پھیلتے ہی چلے گئے۔ اس دور میں نعیم صدیقی اور ماہر القادری ادب اسلامی کے کامیاب افسانہ نولیس ، شاعر اور مقالہ نگار تھے۔ خصوصاً اس دور میں فاران کے صفحات میں شائع ہونے والے ماہر القادری کے بے  لاگ تنقیدی تبصرے ، زبان و بیان کے نکتوں اور فنی تقاضوں کی وضاحت کے لئے بڑے مقبول ہوئے اور اب یہ تبصرے کئی جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ نعیم صدیقی کے ادبی و تنقیدی مقالات ’’ سیارہ‘‘ لاہور کی پچاس اشاعت خاص میں سیکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ عصر حاضر کے تقریباً تمام ادبی و تہذیبی مسائل پر یہ تنقیدی نگار شات اردو ادب میں قیمتی اضافہ ہیں۔

جب ماہر القادری اور نعیم صدیقی مرحومین کا ذکر خیر آ گیا ہے تو مناسب یہ ہے کہ آغاز ہی میں ارض پاک کے مزید اسلام پسند تنقید نگاروں کا کچھ تعارف و تذکرہ پیش کر دیا جائے۔ مگراس سے پہلے کچھ باتیں خود تنقید کے تعلق سے ضروری ہیں۔ یوں تو تنقید کی روایت بہت قدیم ہے، جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ شعوری طور پر چیزوں کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اردو ادب میں تنقید کی روایت سر سید تحریک کے زیر اثر نمودار ہوئی۔ مغربی طرز تفکر، نئے خیالات اور نئی ضروریات کے باعث ادب کو نئے موضوعات فراہم ہوئے اور نئے اسالیب کو برتنے کا موقع ملا۔ سرسید خود کوئی بڑے نقاد نہ تھے مگر انھوں نے جو اثر اپنے بعد آنے والوں پر ڈالا اس نے تنقید کے لئے نئے راستے کھول دئے۔ حالی و شبلی اس عہد کی ممتاز شخصیتیں ہیں اور آج تک تنقید کا جو رجحان ملتا ہے وہ دراصل اسی روایت کا تسلسل ہے جو حالی و شبلی سے شروع ہوئی، حالانکہ پیروی مغرب کی تلقین کے باوجود حالی کا نظریہ ادب نہ غیر اسلامی تھا نہ غیر اخلاقی اور مسدس مد و جزر اسلام میں تو وہ سراپا اسلام و اخلاق ہی ہیں۔ جبکہ شبلی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے داعی اول ہیں۔ اس کے باوجود ان کے بعد ادب کی جمالیاتی قدروں کی اسلامی تشریح کے لئے آگے بڑھنے والے بہت کم نظر آتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں نے اس جہت سے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ، جن کا تعارف پیش خدمت ہے۔

پروفیسر فروغ احمد اسلامی ادیبوں میں ممتاز مقام کے حامل ہیں ، ڈھاکہ میں رہتے ہوئے وہ اردو ادب میں اسلامی رجحانات کے فروغ میں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ ۱۹۶۸ ؁ء میں ان کی ایک کتاب ’’ اسلامی ادب کا جائزہ‘‘ لاہور سے شائع ہوئی تھی جس میں اسلامی ادب کی نظریاتی اساس،اس کا تاریخی پس منظر اور اردو ادب پر اسلامی تحریکات کے اثرات پر مضامین شامل ہیں۔ اسی طرح پروفیسر اسرار حمد سہاوری نے ’’ادب اور اسلامی قدریں ‘‘ کے عنوان سے باہمی تعلق، ادب اور مقصدیت ،ادب کے اجزائے ترکیبی جذبہ و حسن ادا ، اسلامی ادب کی خصوصیات ،اسلامی ادب کے موضوع وغیرہ پر بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد بنیادی طور سے معاشیات کے اسکالر ہیں مگر اسلامی ادب کی بنیادوں پر انھوں نے کئی مضامین لکھے ہیں۔’’ ادبیات مودودی‘‘ آپ کی ایک مشہور کتاب ہے ، جس میں مولانا مودودی کے ادبی اسلوب پر کئی مضامین شامل ہیں۔

جناب سلیم احمد مرحوم اپنے ادبی کالموں ، ڈراموں ، شاعری اور تنقیدی معرکہ آرائی کے لئے راچی کے بے حدمتحرک  و فعال اور معروف و مقبول شخصیت رہے ہیں۔ عام طور سے اردو تنقید میں وہ اپنے مربی پروفیسر محمد حسن عسکری سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ، مگر ڈاکٹر ابن فرید نے ایک جگہ سلیم احمد کی تنقیدی بصیرت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ محمد حسن عسکری کے تزکیۂ نفس اور خود احتسابی کے انفرادیت پسندانہ مسلک کے برخلاف وہ (سلیم احمد ) اجتماعیت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کی نظر میں جو دینی بصیرت رکھنے والے شخصیات غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ، ان میں شاہ ولی اللہ ، علامہ اقبال، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمود الحسن عثمانی اور مولانا مودودی خصوصیت کے ساتھ ان کے لئے رہنما بنتے ہیں۔ چنانچہ سلیم احمد اسلام کی اجتماعیت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں جبکہ محمد حسن عسکری ابن العربی اور رینے گینوں کی متصوفانہ روایت پر اصرار کر کے مولانا اشرف علی تھانوی تک پہنچتے ہیں۔ ‘‘ایک جگہ سلیم احمد خود لکھتے ہیں : ’’ ہمیں مولانا مودودی کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ اسلام ایک کل ہے جس کے عقائد ،عبادات، اخلاق اور سماجی و سیاسی اصولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ سلیم احمد نے اپنا تنقیدی نقطہ نظر جو تمام تر اخلاقی و روحانی اور اسلامی ہے، اپنی کتاب ’’ محمد حسن عسکری ، آدمی یا انسان ‘‘ جوش اور آدمی ، نئی نظم اور پورا آدمی ، ادھوری جدیدیت اور جھلکیاں وغیرہ میں تفصیل سے پیش کر دیا ہے۔

مرحوم سراج منیر جدید اردو تنقید میں اپنے وسیع مطالعہ ، کشادہ انداز نظر اور فکر انگیز نظریہ سازی کے لئے خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ انھوں نے ادبی مسائل اور معاصر ادب پر متعدد مضامین و مقالات لکھے ہیں ، جن میں سے چند سیارہ کے ذریعہ استفادے کا باعث بنے ہیں۔ لیکن انھوں نے خود کو خالص ادب اور ادبی مباحث تک محدود نہ رکھا، بلکہ اپنے لئے ایک ایسے وسیع تر تہذیبی تناظر کا انتخاب کیا جس کا ایک اہم شعبہ ادب بھی ہے۔ چنانچہ ان کی ایک کتاب ’’ ملت اسلامیہ ، تہذیب و تقدیر‘‘ بہت مشہور ہے۔جس کے متعلق ڈاکٹر تحسین فراقی لکھتے ہیں : اس کتاب میں انھوں نے ہمارے لئے تہذیب اور بالخصوص مسلم تہذیب کا ایک ایساتناظر فراہم کیا ہے جس میں مظاہر تہذیب، فنون لطیفہ، اصول تہذیب ، مغرب کے تصور تہذیب ، روایتی اسلامی تہذیب میں فنون کے تصور ، اسلام میں فنون مقدسہ کی جمالیاتی بنیادوں اور ذہن جدید کی کشمکش جیسے متنوع موضوعات پر بہت حد تک اطمینان بخش اور چشم کشا گفتگو کی ہے۔‘‘

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحقیقی کاوشیں ، بالخصوص اقبالیات کے سلسلہ میں اسلامی تصور ادب سے متاثر ہیں۔ ان کی تصنیفات میں اقبال کی طویل نظمیں ، خطوط اقبال ،کتابیات اقبال ، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ،اقبالیاتی جائزے ، علامہ اقبال اور میر حجاز ، اقبال بچوں اور نوجوانوں کے لئے، تحقیق اقبالیات کے مآخذ وغیرہ مشہور ہیں۔

ڈاکٹر تحسین فراقی کی تنقید نگاری کا رخ صریحاً اسلامی ہے، ان کی تحقیقی و تنقیدی نگار شات گاہے۔ بگاہے لاہورسے آنے والے رسائل میں نظر آ جاتی ہیں ، البتہ ایک زبردست تحقیقی کتاب ’’ عبدالماجد دریاآبادی ، احوال و آثار‘‘ کے عنوان سے ساڑھے سات سو صفحات پر محیط ہے او ۱۹۹۳؁ء میں لاہور سے شائع ہوئی جو ایک جگہ لائبریری میں مجھے دیکھنے کو ملی۔ مولانا عبد الماجد دریاآبادی برصغیر ہندو پاک کے ایک معروف ادبی علمی شخصیت ہیں۔ جن ہفتہ وار سچ ،صدق اور صدق جدید نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مولانا مرحوم کی علمی شخصیت کا جائز تقاضہ تھا کہ ان کی پہلو دار شخصیت پر سنجیدہ کام کیا جائے۔ چنانچہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اس مشکل موضوع پر قلم اٹھایا اور منسوط مقالہ سپرد قلم کیا۔ ’’جستجو‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔

آزادی ہند کا پہلا عشرہ ختم ہوتے ہوتے چند اسلام پسند ادیب تحقیق و تنقید کے دائرے میں ہندوستان میں بھی نمودار ہوئے اور انھوں نے حالی و شبلی کے بعد رونما ہونے والے علمی انحراف کو چیلنج کیا ، پہلے ترقی پسند کہلا نے والی اشتراکیت سے نبرد آزما ہوئے ، پھر جدیدیت کی بے راہ روی پر قدغن لگائی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اصغر علی عابدی مرحوم کا ذکر ضروری ہے۔ وہ ایک اچھے ادیب، دانشور اور صحافی تھے۔ انھوں نے ۱۹۴۸؁ء میں حیدرآباد سے ماہنامہ ’’انور ‘‘ کا اجراء کیا اور مارچ ۱۹۵۰؁ء میں اس کا ضخیم ادبیات نمبر شائع کیا ، اس طرح پہلی بار بڑی تعداد میں اسلام پسند ادباء و شعراء دنیائے ادب میں نمایاں ہوئے پھر عابدی مرحوم حیدرآباد سے دہلی منتقل ہوئے جہاں وہ سہ روزہ دعوت دہلی کے بانی مدیر بنائے گئے۔ آپ نے اسلامی ادب کے مختلف پہلوؤں پر ادبی رسائل میں متعدد ادبی و تنقیدی مقالات تحریر کئے ہیں۔ جنھیں کتابی میں صورت میں شائع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اسی طرح اسلامی تحقیق و تنقید کے میدان میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت ناقابل فراموش ہے۔ آپ نے یوں تو عالمی سطح پر اسلامی معاشیات میں عظیم تحقیقی کام انجام دیا ہے۔ لیکن آغاز کا ر میں آپ نے ’’اسلامی ادب‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ مضامین شائع کیا جس سے پہلی بار اسلامی ادب کے خدوخال نمایاں ہوئے۔ ابھی حال میں ’’ معاشیات ، ادب اور اسلام ‘‘ کے نام سے آپ کے خطوط کا مجموعہ شائع ہوا ہے جو اپنے آپ میں نہایت مفید اور قیمتی دستاویزہے۔

ادب اسلامی کے حلقہ میں ڈاکٹر عبد المغنی کی تنقیدی فتوحات عظیم الشان مرتبے کی حامل ہیں ،وہ ایک منفرد ،ممتاز اور عبد ساز نقاد تھے بقول ڈاکٹر سید عبدالباری : ’’ جنھوں نے اپنی قرآنی بصیرت اور فکر اسلامی کے سرچشموں سے حاصل ہونے والی تازگی کی بدولت انسانی تخیل و تفکر کی راہ میں خلل ڈالنے والی بڑی بڑی چٹانوں کو پاش پاش   کے نئی نسلوں کے لئے تخلیقی ادب کی راہ ہموار بنا دی۔ وہ مشرق کا سچا مزاج شناس تھا، اس نے مغرب کے اہل علم و ارباب ادب کو بھی اچھی طرح جانچا پرکھا تھا۔‘‘ عبد المغنی مرحوم کے تنقید جہت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ نقطہ نظر ،جادہ اعتدال، تشکیل جدید،معیار و اقدار، تصورات ،تنقید مشرق، اسلوب تنقید ،تنقیدی زاویئے اور فروغ تنقید۔

عبدالمغنی اپنی تحریروں میں تنقید کے اصولوں اور اس کے فنی تقاضوں ، نقاد کی ذمہ داریوں اور متوازن تنقید کے تقاضوں پر تفصیل سے نظریاتی مضامین لکھے ہیں اور کئی حیثیتوں سے ان کی تحریریں سب سے الگ محسوس ہوتی ہیں۔اسی طرح جب وہ عملی تنقید کی وادی میں قدم رکھتے ہیں تو نہایت صاف گوئی، بے باکی اور جرأت کے ساتھ ماضی کے استذہ اور حال کے رفقاء کی ادبی نگار شات کا جائزہ لیتے ہیں۔ انھوں نے متنوع ادبی شخصیات کے مختلف پہلوؤں سے منفرد کارناموں کا مطالعہ اور ادب میں ان کی قدرو قیمت متعین کی ہے۔

عبدالمغنی کا پہلا تنقیدی مجموعہ نقطہ نظر ۱۹۶۵؁ء میں منظر عام پر آیا ،جس میں بڑی بلند آہنگی کے ساتھ اس حقیقت کو پیش کیا کہ ہر لکھنے والے ادیب ،شاعر تمثیل نگار۔افسانہ نویس۔ انشاء پرداز اور نقاد کوئی نہ کوئی نقطہ نظر ہوتا ہے، جو اس کی ساری نگارشات میں رچابساہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر کو بنانے میں جہاں بہت سے عوام کام کرتے ہیں ، وہاں اس شخص کا مخصوص فلسفہ حیات ،نظریہ کائنات ، تصورانسان اور اس کے ساتے عقیدے اس کے نقطہ نظر کی تشکیل میں غیر معمولی دخل رکھتے ہیں۔ادب و  شغف میں براہ راست عقیدے اور نظریے فلسفہ مذہب یا سائنس کی مخصوص زبان میں صریحتہً پیش نہیں کئے جاتے بلکہ وہ صرف نقطہ نظر بن کر ہی اثر انداز ہوتے ہیں ، یہی ان کی کتا ب نقطہ نظر کا ماحصل ہے۔

عبدالمغنی کو علامہ اقبال سے تعلق خاطر بلکہ عشق تھا، چنانچہ کن کے ہر مجموعے میں اقبال کی شخصیت اور شاعری پر کئی کئی مضامین شامل ہیں اور تمام مجموعوں کے اکثر و بیشتر مضامین میں اقبال کے کسی نہ کسی تصور کا حوالہ موجود ہے، آگے چل کر انھوں نے اقبال پر چار مستقل کتابیں لکھیں۔ (۱) اقبال اور عالمی ادب (۲) اقبال کا نظام فن (۳) اقبال کا نظریہ خودی (۴)اقبال کا ذہنی و فنی ارتقاء۔ ان تصانیف میں اقبال کا عالمی ادب میں مقام متعین کیا گیا ہے اور ان کے فن کی باریکیوں اور لطافتوں پر نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے علاوہ مولانا ابو الاکلام آزاد،ذہن و کردار ، مولانا مودودی کی ادبی خدمات ، قرۃ العین حیدر کا فن، غالب کا فن ،میر کا تغزل ، فیض کی شاعری وغیرہ ان کی قابل ذکر تحقیقی تصانیف ہیں۔

ڈاکٹر ابن فرید اپنے ہم عصر تنقید نگار ڈاکٹر عبدالمغنی سے بڑی حد تک مماثلت رکھتے ہیں ، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ عبد المغنی اپنا نقطہ نظر راست انداز میں وضاحت و صراحت کے ساتھ پیش کرنے کے عادی ہیں ، جبکہ ابن فرید ’’ چہرہ پس چہرہ‘‘ کے قائل ہیں۔ان کے ادبی انداز  نظر کا اظہار بیشتر مضامین کے بین السطور میں نظر آتا ہے۔ابن فرید بنیادی طور پر تخلیقی فنکار ہیں۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی ،خاکے اور انشایئے بھی ، اسلامیات ، عمرانیات اور نفسیات پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔لیکن ڈاکٹر ابن فرید کی اصل شناخت ایک نقاد کی ہے،انھوں نے ’’ ہم اور ادب ‘‘ چہرہ پس چہرہ اور ادب داد طلب جیسے فکر انگیز تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں اپنی بین العلومی آگہی کا ثبوت دیا ہے۔ اپنے پہلے مجموعہ مقالات کے دیباچہ میں ہی وہ اپنی جہت کا تعارف کرا دیتے ہیں۔

’’ میں ، ہم اور ادب کے درمیان نفسیات ، عمرانیات اور ادب کا تعلق ہے۔ ادب کے Puritans اس نوعیت کے مطالعوں پر کبیدہ خاطر ہوتے ہیں ، لیکن کیا کیجئے کہ ادب اپنی میکانک سے باہر نکل کر آدم اور بنت آدم کی نبض بھی ٹٹولتا ہے، ادب کا صرف ایک پہلو فنی پہلو ہی تو نہیں ہے۔ برحق کے نفسیات و عمرانیات ادب کا جامع و عامل مطالعہ نہیں ہیں ، لیکن یہ تو مان لیجئے کہ مطالعہ کے اہم زاویئے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر ابن فرید کے یہ مطالعات متوازن ،مدلل اور واضح ہیں۔ ان کے اس بین العلومی مطالعات کا محور تعمیر و اخلاقی فکر ہے۔ ’’علامت ‘‘ ابن فرید کا محبوب موضوع ہے۔پہلے مجموعہ مضامین کا پہلا مضمون ہی ’’ علامت کا تصور ‘‘ کے عنوان سے شریک اشاعت ہے، جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں یہ ایک عالمانہ مضمون ہے، جس میں انھوں نے علامت کا یہ تصور پیش کیا ہے۔

’’ علامت کبھی بھی محدودیت پر قانع نہیں رہی ہے ، اسے جب بھی ماضی سے منقطع کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ سسکنے لگی ہے اور نا قابل فہم ہوئی ہے۔ اسی طرح جب اسے ماضی تک محدود ر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے تو سمٹ کر یا تو نشان بن گئی ہے یا پھر رقیق ہو کر تمثال ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں جب ایک علامت کو سرزمین سے اٹھا کر کسی اجنبی مٹی میں بونے کی کوشش کی گئی ہے تو اس کے گل و برگ مرجھا گئے ہیں۔ علامت کے لئے یہ بھی ضروری نہیں رہا ہے کہ وہ صرف دیو مالا اساطیر یا داستانوں تک اپنی عملداری محدود رکھے بلکہ اس نے معاشرہ اور مذہب سے بھی خاطر خواہ اخذ و مواخذہ کیا ہے۔‘‘

اسی طرح دوسرے مجموعہ مضامین چہرہ پس چہرہ میں بھی اس موضوع پر دو اولین مقالے ’’علامت کا تصور زمانی و مکانی‘‘ اور ’’ دیومالااور علامت‘‘ بے حد اہم ہیں۔ مغربی مفکرین کے نظریات کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے علامت کے بارے میں اپنا ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے۔ ان کے خیال میں علامت بدل اور موازنہ کے بجائے نمائندگی ہے، یہ من و عن دوسری شئے کی جگہ نہیں لیتی بلکہ زیادہ مرتفع انداز میں تہذیبی معیار کے ساتھ کسی شئے ،تاثر یا خیال کی نمائندگی کرتی ہے۔

نظریاتی مضامین کے علاوہ ابن فرید کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ ان کی عملی تنقید سے کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے جن ادیبوں یا شاعروں پر قلم اٹھایا ہے، ان کے کھرے کھوٹے کو پرکھنے کی کوشش کی ہے ، ان کی خامیوں کی نشاندہی کی ہے خوبیوں کا دل کھول کر اعتراف کیا ہے۔ میر ،غالب،اقبال، جوش فیض، خالد اور حفیظ اسی طرح نثر نگاروں میں عبدالحق، ابو الکلام آزاد، رشید احمد صدیقی ،محمد حسن عسکری پر ان کے مضامین پڑھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے فن کا محاکمہ کیسی دیدہ وری کے ساتھ کیا گیا ہے۔ شبلی چوں بہ خلوت می رود ، کے عنوان سے ایک ورت ہے۔ تنقید کا حقیقی فریضہ ہے ادب کی فضا کو بہتر بنانا اور فنکاروں نیز قارئین کے ذہن و کردار کو بلند تر کرنے کی کوشش کرنا۔ ڈاکٹر ابن فرید نے یہ فریضہ انجام دیا ہے، یہی ان کی شناخت ہے اور اسی سے ان کی ناقدانہ حیثیت کا اندازہ لگایا جانا چاہئے۔‘‘

ڈاکٹر سید عبدالباری جدید اردو تنقید میں ادب کے تہذیبی و تمدنی مطالعہ کے لئے معروف ہیں۔ آپ نے تنقیدی مسائل پر کثرت سے لکھا ہے۔ آپ کے تنقیدی مقالات کے پانچ مجموعے’’ ادب اور وابستگی ،نقد  نو عیار، افکار تازہ، اور کاوش نظر اور آداب شناخت‘‘ منظر عام پر آ چکے ہیں۔ان کے علاوہ مذہبی ، تہذیبی اور سیاسی مسائل پر بھی آپ کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ’’لکھنؤ کے ادب کا معاشرتی و سیاسی پس منظر‘‘ آپ کی وہ تصنیف ہے جو اردو تحقیق و تنقید کی دنیا میں ادب کے تہذیبی و معاشرتی مطالعہ کی روایت کو آگے بڑھاتی ہے۔ آپ نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دبستان لکھنؤ کے ادب کی جملہ اصناف کا تہذیبی و ،معاشرتی تناظر میں بھر پور بہت ہی اہم اور نازک موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور پہلی بار یہ افواہ غلط ثابت کی ہے کہ شبلی کو عشق عطیہ تھا۔ اپنے مضمون میں وہ مختلف نفسیاتی رویہ کو برت کر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شبلی اس معاملہ میں بالکل بے داغ ہیں۔ چاند پر دھول پھینکنے کی کوشش جنھوں نے کی ہے، وہ چاند کو گرد آلود کرنے سے تو قاصر رہے، البتہ وہ دھول خود ان کی آنکھوں میں پڑ گئی۔

’’ ادب داد طلب ‘‘ ان کا تیسرا تنقیدی مجموعہ ہے، اسلامی ادبی مسائل پر ان کے خیالات و نظریات پر مشتمل ہے۔ ابن فرید کی تنقیدی بصیرت کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالغنی نے بہت صحیح رائے قائم کی ہے کہ: ’’ ڈاکٹر ابن فرید نے اپنی تنقید نگاری میں ادب کی اسی مرکب اور متوازن جہت کی ترجمانی کی ہے، انھوں نے ادبی تنقید لکھی ہے، خواہ ان کا طرز تنقید نفسیاتی ہو یا عمرانیاتی یا بین العلومی۔ تنقید اور وہ بھی ادبی تنقید لکھنا، کوئی آسان کام نہیں ، یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا ادبی تخلیق پیش کرنا۔ یہ قدر شناسی ہے جس کیلئے اعلیٰ ذوق اور وسیع شعور کی جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے ادب ، تہذیب اور معاشرہ کے باہم روابط پر بھی مشرق و مغرب کے نقادوں کے خیالات کے حوالے سے فکر انگیز گفتگو کی ہے۔یہ کتاب ۱۸۵۷؁ء سے ۱۹۴۷؁ء تک کے عہد سے متعلق ہے جس میں ادب پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے اس کی طرف نشاندہی کی ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر عبدالباری نے ۱۸۶۵؁ء تا ۱۸۵۷؁ء تک نوابین اودھ کے دور کے ادب کا بھی مفصل جائزہ اپنی کتاب ’’ لکھنو کا شعرو ادب‘‘ میں لے چکے ہیں اور بقول پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ’’ مصنف نے ان ضخیم مجلدات کے ذریعہ ادب کے ثقافتی و عمرانی مطالعہ کی راہ آسان کر دی ہے اور اس فکری و تنقیدی کارنامے کے لئے وہ لائق تحسین ہیں۔‘‘

ڈاکٹر احمد سجاد تنقید و تحقیق میں مشرقی بالخصوص دینی و اخلاقی قدروں کی بنیادی اہمیت دینے والے وہ معروف نقاد ہیں جنھوں نے اپنی متعدد تصانیف اور مقالات میں اس پہلو پر سب سے زیادہ توجہ دہ ہے۔ ’’ تنقید و تحریک ‘‘ آپ کا پہلا تنقیدی مجموعہ ہے، جس میں تیرہ مقالات  شامل ہیں اور یہ نظریات ، شخصیات اور مسائل کے عنوانات کے تحت ترتیب دئے گئے ہیں۔ مثلاً نظریات کے تحت ادب کی بنیادی قدریں اور موجودہ رجحان ، تخلیق و تحریک ، اور جدیدیت ایک مطالعہ ہیں تو شخصیات کے ضمن میں میر غلام علی ، عشرت بریلوی ،غالب، اقبال، جمیل مظہری اور عروج زیدی کے شاعرانہ کمالات و انفرادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور مسائل کے ذیل میں زبان ، داستان ور افسانہ کے حوالہ سے اردو کے تعلیمی و تدریسی مسائل پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔

تعمیری ادبی تحریک ، افکار و مسائل ، ڈاکٹر احمد سجاد کے تنقید ی مضامین ، اداریوں اور بعض نمائندہ کتب و رسائل پر تبصراتی مضامین کا ایک ایسامجموعہ ہے جس میں شامل مضامین اپنے تنوع کے باوجود فکری جہت کے نقطہ نظر سے ایک واضح زاویہ نگاہ رکھتے ہیں۔ اس کتاب کے بیشتر مضامین میں کئی پہلوؤں سے تعمیری ادب اور اس کے مسائل کی وضاحت کی گئی ہے۔ چند مضامین کے عنوانات اس طرح ہیں۔: (۱)تعمیر ادب فکر و فن کی روشنی میں (۲) تعمیری ادب چند سوالات(۳) تعمیر ادب اور اس کے مسائل(۴) موجودہ ادبی منظر نامے میں تعمیری ادب کا رول(۵) عالمی تعمیری ادبی چند نظری و عملی مباحث۔

ڈاکٹر احمد سجاد نے ان مضامین کے ذریعہ دراصل تحریک ادب اسلامی کی رفتار کو اپنے آغاز سے عصر حاضر تک ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس تناظر میں پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے ان مضامین کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ :’’ جن لوگوں کو نقوش اور بعض دوسرے موقر ادبی جرائد کی بحثوں کا آموختہ ابھی نہیں بھولا جو اسلامی ادب،تعمیری ادب ، پاکستانی ادب یا اس قسم کے کسی اور فکری پس منظر کے ادب کے سلسلہ میں اٹھائی جاچکی ہیں ، ان کے دل و دماغ میں اتنی وسعت ضرور باقی ہو گی کہ وہ اپنے نقطہ نظر سے اتفاق یا اختلاف کی پروا کئے بغیر تعمیری ادبی تحریک کا پس منظر رکھنے والے ان مضامین کا مطالعہ سنجیدگی اور ہمدردی سے کریں اور اس کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ آیا مصنف کا موقف کسی حد تک قابل قبول ہے یا نہیں۔‘‘

اردو تنقید میں اخلاقی اقدار کے حامل مولانا طیب عثمانی ندوی کے تنقیدی مضامین کے دو مجموعے ’’افکار و اقدار ‘‘ اور ’’ ادبی اشارے‘‘ اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ان مضامین میں انھوں نے ادب و اخلاق پر بڑی فکر انگیز بحث کی ہے۔ ان کے تنقیدی مباحث کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کسی بھی اعلیٰ ادب کی تخلیق کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اول ادب میں ایک نظریہ کا وجود ، دوسرے ادب میں فنی جمال و کمال اور تیسرے نظریہ و فن کے امتزاج سے بروئے کار آنے والی تخلیق کا اخلاقی اقدار کے تابع ہونا۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے ان کے قدرت کلام کا اندازہ ہوتا ہے، دلکش استعاروں اور حسین تشبیہوں سے اپنی بات کو سحر انگیز بنانے کا فن جانتے ہیں۔ ایک جگہ اسلامی ادب کی تعریف یوں کرتے ہیں : ’’ ادب لفظوں کا فن ہے، الفاظ کی بامعنی ترتیب کا مقصد ہی خیال کی شمع روشن کرنا ہے۔ حسن خیال جب جذبہ میں ڈھل گیا تو حسن کلام بن گیا۔ یہی کمال ادب ہے ، جسے ہم اسلامی ادب کہتے ہیں۔‘‘

مولانا طیب عثمانی کی اردو تنقید اخلاقی نقطہ نظر کا اظہار ہے، ان کا یہ انداز نظر مندرجہ ذیل اقتباس سے نمایاں ہے:

’’ ادب میں اخلاقی اقدار کی اہمیت یوں بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ہم اس مسئلہ کو زندگی سے قریب ہو کر دیکھتے ہیں اس لئے کہ زندگی صرف حسن ، خیر اور آسودگی ہی کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں شر ، بدصورتی اور نا آسودگی بھی شامل ہے۔ ایسی صورت میں ادب اور اخلاق دونوں ہی کا فرض ہو جاتا ہے کہ ان کے ذریعہ زندگی میں اعلیٰ اخلاقی جذبات ابھریں اور پروان چڑھیں ، پست جذبات و محرکات دبیں اور فنا ہوں۔ ادب کی عظمت اور اس کا حسن یہ ہے کہ انسان کی اچھی خواہشوں اور روحانی محرکات کا وہ آئینہ دار ہو اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب ہم ادب کو اخلاقی اقدار کے تابع بنائیں ، اس سے ہمارے ادب کا معیار و وقار بڑھے گا اور قابل وسعت سمجھاجائے گا۔

اس بات کی وضاحت میں ’’ افکار و اقدار ‘‘ کے دو مقالے ’’ ادب میں اقدار و معیار کا مسئلہ اور ادب میں اخلاقی اقدار کا تصور ‘‘ نظریاتی تنقید کے مسئلہ پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے ان کے مشرقی اور اسلامی ادبیات پر گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ مولانا طیب عثمانی علامہ اقبال اور ان کی شاعری کے بھی زبردست شیدائی ہیں۔ ان کی کتاب ’’ اقبال شخصیت اور پیام‘‘ بجا طور پر طلباء اور نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’ اقبال نہ صرف اسلامی افکار و اقدار کے ترجمان تھے بلکہ اسلام ان کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا ، جو خون جگر بن کر ان کی آنکھوں سے ٹپکا اور جس نے زندہ جاوید شاعری کو جنم دیا۔‘‘

ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی اردو کے اسلامی ادبی حلقہ کے بے حد معروف و مقبول اہل قلم ہیں۔ ان کا دائرہ فکر  و تخلیق خاصا وسیع ہے۔ عربی زبان و ادب پر قدرت کے ساتھ وہ اردو نثر میں ایک دلکش اسلوب کے مالک ہیں۔ موصوف، اسلامیات و لسانیات کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین ، سفر نویسی ، انشاء پردازی اور کالم نگاری کے علاوہ ملی و دینی اور عالمی مسائل کے موضوعات پر بھی مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ مطالعہ شعراء ادب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تو پروفیسر عبدالحق نے تعارف میں لکھا کہ ’’ محسن عثمانی کے تجزیہ میں فن پاروں کا تہذیبی تفکر ایک نئی بصیرت کی نشاندہی کرتا ہے جسے تنقیدی عمل کا حاصل کہہ سکتے ہیں۔ ادب کی تدریس و ترسیل میں اس گریز پائی کی گنجائش نہیں ہے، پروفیسر محسن عثمانی نے ادبی انتقاد کے اصل الاصول کی پیشکش کو دلکشی بخشی ہے ’’ مطالعہ شعر و ادب کے سترہ مضامین جہاں تنقیدی رویہ کے ضامن ہیں وہیں شخصیات ، ادبی تحریکات، تصنیفات اور نگارشات کی درجہ بندی کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ ان مضامین میں بعض ادب اسلامی کے نظریہ کے بارے میں ہی ، بعض ادبی شخصیتوں کے بارے میں اور بعض ادب کے مسائل اور اصناف کے سلسلہ میں ہیں اور بعض میں کچھ اہم کتابوں کا جائزہ ہے۔ شخصیات میں اقبال کو کئی مضامین میں موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ ان مضامین کا اسلوب  شبلی اسکول کا بہترین نمونہ ہے۔

پروفیسرعبدالحق ایک ادیب،دانشور اور نقاد کی حیثیت سے محتاج تعارف نہیں ، اقبال ان کے مطالعہ کا خصوصی عنوان رہا ہے۔ انھوں نے اقبالیات کے تنقیدی جائزہ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ سپرد قلم کیا ہے، اس کا ایک باب اقبال کے ابتدائی افکار ، کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اقبال اور اقبالیات پر ان کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور ہر جگہ ان کا تعمیر ذہین اور اخلاقی نقطۂ نظر پوری طرح نمایاں ہے۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب ’’ اقبال اور اقبالیات ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اور اقبال شناس قارئین سے داد وتحسین حاصل کر چکی ہے۔ تصورات تحقیق ان کی دو اہم تنقیدی تصانیف ہیں ، جن سے ان کے تعمیری فکر و فن کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر منظر اعظمی مرحوم تعمیری ادبی حلقہ کے ممتاز محقق اور نقاد تھے۔ آپ کے ڈی لٹ کا مقالہ اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ ‘‘ یوپی اردو اکیڈمی لکھنؤ نے شائع کیا ہے۔ ۶۴۲ صفحات پر پھیلا ہوا یہ ایک مبسوط تحقیقی کارنامہ ہے،جس میں پہلی بار کم و بیش پورے ادبی ورثے کا نئے زاویئے اور ایک خاص ترتیب سے جائزہ لیا گیا ہے اور اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ غیر جانبداری کے ساتھ ادبی شخصیات کے مختلف الجہات کارناموں کا تاریخی تناظر میں مطالعہ کے ساتھ ساتھ تعین قدر و مقام کا فریضہ بھی انجام دیا جائے۔

جناب ناوک حمزہ پوری ایک کثیر الجہت ادیب ،نقاد ، افسانہ ،نویس، انشائیہ نگار اور شاعر ہیں۔ ’’ تادیب ادب ‘‘ آپ کے ۲۵ تنقید ی مضامین کا مجموعہ ہے۔یہ مضامین مختلف ارباب قلم کی شعری و نثری نگار شات کے تجزیاتی مطالعہ سے متعلق ہے۔ یہ مضامین جہاں ناوک صاحب کے خاصے وسیع المطالعہ ہو نے کے غماز ہیں وہیں نظم و نثر کی بیشتر اصناف پر مصنف کی مضبوط گرفت کے نتیجہ میں ان کا ایک واضح، فیصلہ کن اور دو ٹوک موقف بھی ہمارے سامنے لاتا ہے۔ متعلقہ موضوعات کے تمام اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے محاسن و معائب کا بے تکلفانہ اور بے باکانہ اظہار ان مضامین کی خصوصیت ہے۔ ناوک صاحب تخلیق میں مقصدیت کے فنی برتاؤ کے قائل ہیں ، لامقصدیت ان کی نگاہ میں عیب ہی نہیں گمراہی ہے۔

جناب خالد عرفان مرحوم کرناٹک کے معروف ادیب ،نقاد مترجم اور ادب اطفال کے کامیاب قلمکار تھے۔ تحریک ادب اسلامی سے ان کی عملی وابستگی ان کی ہر تخلیق میں موجود ہے۔ ’’ جذب و احتساب ‘‘ ان کے ۱۵ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ آپ کی دلچسپی کا دائرہ خاصا وسیع تھا، اس کتاب میں جہاں ادبی میلانات اور نظریات پر مضامین ہیں ، وہیں ادب اطفال سے وابستہ قلمکاروں اور مزاح نگاروں کے ساتھ ساتھ خواجہ حسن نظامی ، میر تقی میر، اقبال ، احمد ندیم قاسمی اور کرشن چندر کے فن سے متعلق نگار شات عملی تنقید کے کامیاب نمونے ہیں۔

جناب محمود عالم مرحوم ادب اسلامی کے صاحب طرز ادیب ، مصنف ، افسانہ نویس، تبصرہ نگار اور تنقید نگار تھے۔ خاص طور سے وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور بے باک تنقید کے لئے حلقۂ یاراں میں بے حد مشہور رہے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ’’ تفقیح و تشریح ، توضیح اور تحصیل و ترسیل ‘‘ کے نام سے ان کے منتخب تبصروں اور تنقیدی مضامین کے تین مجموعے شائع ہ وچکے ہیں۔ انھیں احساس تھا کہ عام طور سے ادبی دنیا میں اسلامی فنکاروں کو موضوع گفتگو نہیں بنایا جاتا ، چنانچہ محمود صاحب نے اسلام پسند شعراء پر تعارفی مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ساتھ ہی تواتر کے ساتھ مختلف موضوعات کی کتابوں پر تبصرے لکھے جو بڑے بھر پور ،معلوماتی اور خاصے دلچسپ ہوتے۔ تحریک ادب اسلامی کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ افسوس کہ وہ جواں مرگ ہوئے اور شعلۂ مستعجل بود ثابت ہوئے۔

جناب سلیم شہزاد ، بقول ڈاکٹر ابن فرید ’’ بہت دور تک جدیدیوں کے ساتھ سفر کرنے کے بعداس طرف مڑے ہیں جہاں ابھی ان کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ ان کا وسیع مطالعہ اور انگریزی ادب سے ربع صدی کے تعلق نے ذہن و قلم کو نئی بالیدگی اور وسعت نظری عطا کی ہے‘‘ سلیم شہزاد بنیادی طور سے تخلیقی فنکار ہیں۔ افسانے ان کا چھوٹا کینویس اور ناول ان کے لئے قدرے بڑا کینویس ہے۔ ان کا ناول دشت آدم ، زندگی کی بڑی کھردری تصویر ہے۔ ادھر ادبی رسائل میں آ پ کے تنقیدی مقالات کثرت سے شائع ہو رہے ہیں۔ تنقید میں آپ کی تین کتابیں (۱) جدید شاعری کی ابجد(۲) قصہ جدید افسانے کا اور (۳) فرہنگ اصطلاحات ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔

ڈاکٹر محمود شیخ جدید افسانے کا ایک اہم نام ہے۔ ساتھ ہی جدید ادبی دنیا میں اپنے تخلیقی و تعمیری ذہن کے ساتھ تنقیدی بصیرت کی وجہ سے بھی بے حد معروف ہیں۔ انھوں نے وسیع مطالعہ ، تلاش و جستجو اور عصری علوم کی روشنی میں چند اہم ادبی مسائل اور فنی رموز و نکات پر بڑے فنکار انداز میں خامہ فرسائی کی ہے۔ ’’علامیائی تفہیم کا بیان‘‘ ڈاکٹر محمود شیخ کے تیرہ کثیر الجہات ادبی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں خاص طور سے معیشت و علامت کا ادبی شعور ، ادب فلسفہ اور تکنیک ، جذبہ و تخلیق نئی ادبی تاریخیت ،نفسیاتی شعور و عمل ،فلسفۂ جمال نفسی کا ادبی شعور ،ادبی مقصد اور تحریک جیسے نئے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

جناب رؤف خیر تعمیری ذہن و فکر کے ممتاز شاعر،محقق اور نقاد ہیں۔اقراء، ایلاف ،شہداب، لالۂ طور اور قنطار جیسے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ آج کل تنقید اور تبصرے بھی خوب لکھ رہے ہیں۔خط خیر، بچشم  خیر اور دکن کے رتن اور ارباب گن کے نام تین تنقیدی مضامین کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ حیدرآباد کی خانقاہیں ،ان کی ایک تحقیقی کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر زینت اللہ جاوید، اسلامی ادبی حلقہ کے معروف شاعر،محقق اور نقاد ہیں۔ آپ کی ترتیب کر دہ اہم کتاب ’’ عزیز بگھروی شخصیت اور فن ‘‘ ابھی حال میں شائع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط اسلام پسندادیب ہیں۔ خصوصاً نعتیہ شاعری پر انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ مراٹھی ادب کے تعلق سے ادھر آپ کے بعض اہم مقالات شائع ہوئے ہیں۔ آپ کی ایک ضخیم کتاب’’ اسطوری فکر و فلسفہ اردو شاعری میں ‘‘ کے عنوان سے اسی سال شائع ہوئی ہے ، جو اردو تنقید میں اہم مقام کی حامل ہے۔

ڈاکٹر تابش مہدی ممتاز محقق اور خوش گو شاعر ہیں ، جن کی نعتوں اور غزلوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ نثر و نظم میں آپ کی پندرہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ’’ اردو تنقید کا سفر، جامعہ ملیہ کے تناظر میں ‘‘ آپ کا گران قدر تحقیقی مقالہ ہے۔ جو ۱۹۹۱؁ء میں شائع ہو ا ، جس میں مقالہ نگار نے اپنی بہترین تحقیقی و استدلالی صلاحیت کا مظاہر کیا ہے۔

ڈاکٹر ممتاز احمد خان کا نا م بھی حلقہ ادب اسلامی میں نمایاں اور ممتاز ہے۔تنقید کے علاوہ ادبی تحقیق ،توضیحی لسانیات ، اقبالیات، اسلوبیات اور املا و تلفظ کے مسائل ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ آپ نے ۱۹۸۸؁ء میں مرصع نثر کی روایت پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ ’’ ادب اور ادبی رویہ‘‘ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے ۱۹۹۰؁ء میں شائع ہوا تھا۔

جناب عطا عابدی اسلامی فکر سے وابستہ صحافی ،شاعر اور تنقید نگار ہیں ،ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ بیاض غزلوں کا مجموعہ ہے، عکس عقیدت حمد و نعت پر مشتمل ہے۔ مطالعہ سے آگے ادبی و تنقیدی مضامین اور تبصروں کا مجموعہ ہے۔آپ نے نئی نسل کے ایک معتبر شاعر کے ساتھ ساتھ اچھے تنقید نگار کی شناخت بھی قائم کر لی ہے۔

اسی طرح راقم الحروف نے اردو کی نعتیہ شاعری کو اپنے تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کا خصوصی موضوع بنایا ہے۔ ساتھ ہی مختلف ادبی مسائل اور شخصیات پر مسلسل تلاش و تحقیق اور تصنیف کاسلسلہ جاری ہے۔ نظریۂ ادب اور ادیب ، ادب کا اسلامی تناظر اور تعبیر و تشکیل کے عنوان سے تنقیدی مضامین کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

اس جائزہ کا ماحصل یہ ہے کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں اسلام پسند اہل قلم ، محققین اور ناقدین کا ایک بڑا حلقہ منظر عام پر آیا ، جس نے تنقید میں توازن اور ہر طرح کی انتہا پسندیوں سے کنار ہ کشی کی روش اختیار کی اور کچھ ٹھوس اصولوں کی روشنی میں اپنے عہد کے قلمکاروں کا جائزہ لیا۔اس سے بڑی حد تک اس ادبی بے راہ روی کا ازالہ ہوا جس نے ہمارے ادیب کا رشتہ اپنی تہذیب ،تاریخ ، معاشرہ اور مطمح نظر سے کاٹ دیا تھا۔ آج اکیسیوں صدی کی دہلیز پر جبکہ قدم رنجہ ہیں یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ مغرب کے گمراہ کن فلسفوں اور نظریوں سے مرعوبیت کا دور ختم ہو رہا ہے۔ قرآن و حدیث کے فرمودات اور اسلامی تعلیمات کے لامحدود امکانات منکشف ہو رہے ہیں ، جس کی روشنی میں فکر و نظر کی رہگذر پر بے شمار چراغ جلائے جا رہے ہیں اور انہیں چراغوں سے نئی نسل کے قلمکاروں کی انجمن فکر و خیال  منور ہو رہی ہے۔

اردو افسانے میں اسلامی ادیبوں کا حصہ ۱۹۳۶؁ء سے قبل اردو ادب کا دھار اپنی فطری رفتار سے بہہ رہا تھا، ادب کی تمام اصناف اپنی تہذیبی و اخلاقی روایات کے پس منظر میں برگ و  بار لا رہی تھیں ، گذشتہ نصف صدی میں افسانے کا فن اپنے بڑھنے والوں کی تعداد اور افسانہ نگاروں کی کاوش کے اعتبارسے مقبول عام رہا ہے۔ بیسوی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی مختصر افسانہ نگاری کی ابتداء ہوئی منشی پریم چند، سلطان حیدر جوش اور سجاد حیدر یلدرم نے ابتدائی نمونے پیش کئے اردو افسانے کو پہلے پہل یلدرم کے زیر اثر رومانیت اور جمالیاتی اقدار کاعکاس ہونا پڑا اور اس کے ساتھ ہی پریم چند کی کہانیوں کے روپ میں اسے سماجی حقیقت نگاری کے وسیلے کے طور پر استعمال کیا گیا، مگر پریم چند اپنے دور کے افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ اخلاقی قدروں کا احترام کرتے تھے اور ان کے افسانوں سے ذہن پر اچھا اثر پڑتا تھا کیونکہ وہاں زیادہ اخلاقی قدروں کا احترام کرتے تھے اور ان کے افسانوں سے ذہن پر اچھا اثر پڑتا تھا کیونکہ وہاں ان کا اصلاحی مسلک ہمیشہ پوشیدہ رہتا تھا چنانچہ فکشن کے فن میں متوسط طبقہ کی گھر یلو زندگی اور مسائل کو اصلاحی نقطۂ نظر سے پیش کرنے کا رجحان اور اس کا مضبوط سلسلہ اگر ایک طرف ڈپٹی نذیر احمد سے تو دوسری طرف سلطان حیدر جوش سے جا ملتا ہے۔ مرزا ہادی حسن رسوا، راشد الخیری، افضل الحق قریشی ، عبدالحلیم شرر اور عظیم بیگ چغتائی نے اپنے اپنے ڈھنگ سے اس اخلاقی و تعمیری رجحان کی نمائندگی کی جو اردو ادب کی غالب تہذیبی روایت رہی ہے۔

۱۹۳۶؁ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس کے بعد افسانہ نگاری کے میدان میں ایک نئی پود سامنے آئی جس نے اردو افسانے کا رشتہ ماضی اور روایت سے پوری طرح منقطع کر کے اسے جدلیاتی مادیت اور طبقاتی شور کے مسائل کا ترجمان بنا دیا۔ فرائیڈ کے نظریہ تحلیل نفسی نے افکار کی دنیا میں وہی انقلاب پیدا کیا جو سیاسی دنیا میں مارکس کی اشتراکیت نے کیا تھا۔ مارکس نے اگر انسان کی پوری زندگی کو پیٹ کے گرد گھما کر رکھ دیا تو فرائیڈ نے جنس کا چکر چلایا۔

اس کے شعور و لاشعور کی دریافت نے ہر نیت اور ارادے کو شک کی نذر کر دیااس کے اس دعویٰ نے کہ ہمارے تمام اعمال کی تہ میں جنسی خواہشات کا عکس ہوتا ہے۔ فکر و خیال کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔افسانے اور ادبی اصناف کا پیشتر حصہ جنسی ہیجانات سے بھر گیا، فحاشی ،عریانی اور بے باکی یہاں تک پہونچ گئی کہ اشرف المخلوقات کے بلند مرتبے پر فائز انسان اسفل السافلین سے بھی بیچے نظر آیا۔

افسانوی مجموعہ ’’ انگارے‘‘ کی اشاعت اردو کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے ، جس نے مذہب، اخلاق اور روایت کی تمام اقدار کو دہکتے انگاروں ، شعلوں اور شراروں میں خاکستر کر دینے کی کوشش کی ، نئے مغربی افکار و نظریات سے مرعوب فنکاروں نے اپنی ذات اور اپنے معاشرے کو بھی اس انتشار فکر اور گمراہی کا شکار بنایا ، جن سے خود مغربی معاشرہ دوچار ہے۔ ظاہر ہے کہ ترقی پسند فنکاروں کی وجہ سے اردو افسانے کی ہئیت اور اسلوب کی حد تک تو خوش آئند ہے لیکن بد قسمتی سے مواد کے معاملے میں اس نے مغرب کی اس پراگندہ فکری اور گمراہی کو بھی بڑھ کر گلے لگایا جو بہر صورت فرد اور معاشرہ دونوں کے لئے تباہ کن ہے بقول ڈاکٹر سید عبدالباری اس دور کے بیشتر فنکاروں نے سماج کی عکاسی اور زندگی کی ترجمانی کے نام پر سوسائٹی کے مفاسد کو چن چن کر اچھا لا اور اپنی اس بے دانشی سے انہوں نے ماحول کو اور بھی زہر آلود بنا دیا۔ عوام میں مریضانہ جنسی تلذذ کی چاٹ پیدا کر کے ان فنکاروں نے اپنے افسانوں سے افیون کی گولیوں کا کام لیا۔ یہاں تک کہ اردو کی اس پر تاثیر صنف نے اپنی تعمیر ی قوت کھودی ، مگر حالات نے بالآخر کروٹ بدلی۔ فرائیڈ ، ڈارون اور مارکس کا جادو ٹوٹا۔ زندگی کی مقدس و پائیدار قدروں کی پیاس ابھر آئی اور ادب و فن کے دوسرے شعبوں کی طرح افسانے کے میدان میں بھی بطرز نو تجربات کئے گئے۔

چنانچہ ایسے ادیبوں ،ایسے ادیبوں ،شاعروں اور قلم کاروں کا ایک کارواں اردو ادب میں گامزن ہوا جس نے غلط راہوں میں بہتے ہوئے دھاروں کو موڑنے اور نئے جذبات اور نئی امنگوں سے فکر و فن کے دامن کو سیراب کرنے کی کوشش کی، حلقہ اسلامی سے وابستہ جہاں خوش فکر شعراء ابھر کر سامنے آئے ، وہیں تعمیری و اخلاقی اقدار کے علمبردار افسانہ نگاروں کی اچھی خاصی تعداد بھی نمایاں ہوئی جن کے مقصدی اور پاکیزہ افسانوں کو پڑھ کر لوگو ں نے محسوس کیا کہ ان حضرات نے اپنے افسانوں میں زندگی کے عظیم تقاضوں کو خدا پر ستانہ نقطۂ نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ان فنکاروں کے یہاں جہاں فکری کی صالحیت اور آفاقیت پائی جاتی ہے۔ وہیں افسانے کے فنی لوازم اور ہیئت کے جدید تقاضوں کو بھی بڑی خوبی سے برتا گیا ہے۔ایسے تمام اسلام پسند افسانہ نگاروں کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک جگہ پروفیسر فروغ احمد لکھتے ہیں۔

’’ افسانہ نگاروں میں ہمارے یہاں نعیم صدیقی ، آسی ضیائی اور اسعد گیلانی کے ہراول اقانیم ثلاثہ کے بعد محمود فاروقی ،جیلانی ،بی اے اور م  نسیم کے اقانیم ثلاثہ سامنے آتے ہیں اور اب ابن فرید نے بھی آگے بڑھ کر ان کو جا لیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ نعیم صدیقی کی شخصیت اسلامی ادبی حلقے کی اہم شخصیت ہے۔ مگر نعیم صدیقی نے ابتداء میں ’’ دینی زلزلے‘‘ کے عنوان سے ۱۴ افسانے لکھے اس زلزلے نے وہی کام کیا جو سجاد ظہیر کے ’’انگارے‘‘ نے کیا تھا ، جنھوں نے نظم و نثر کے مختلف و متنوع اصناف ادب میں کامیاب تجربے کئے ہیں ، ان کے افسانوں میں ’’ نقطے اور لکیریں ‘‘ اور ’’ یوں بھی ہوتا ہے ‘‘ خاص طور سے پسند کئے گئے ہیں۔آسی ضیائی کے خاکوں ، افسانوں اور پیروڈیز کا مجموعہ ’’کھوٹے سکے‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا جن میں تقابل اور چھینٹ بہت مقبول ہوئے۔ اسعد گیلانی اپنے زور تخیل ،انشاء پردازی اور مقصدی جارحانہ پن کی وجہ سے اس صنف میں نمایاں ترین مقام کے حامل ہیں ان کے افسانوں میں ’’ میناکشی کا مندر، ایک عورت دو ملک ،روشنی اور سائے ،پتھر اور پرند اور لاشوں کا شہر‘‘ مشہور افسانے ہیں ان کا ایک ذریعہ انسانی زندگی کے مختلف ادوار پر بھر پور روشنی ڈالی ہے اسی طرح اپنے منفی طرز کے افسانے ’’ لال کوٹھی ‘‘ جو تخریب برائے تعمیر کے اصولوں پر لکھا گیا ہے جس میں گیلانی ہماری سوسائٹی کے ایک نمایاں کردار کی تصور پیش کرتے ہیں۔

جیلانی بی ،اے کا افسانوی مجموعہ ’’ اذان‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۵۴؁ء میں شائع ہوا تھا ، جو پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے، جس میں کچھ استعاراتی تمثیلی او ر علامتی کہانیاں ہیں۔ جیلانی کے دوافسانہ افسانے احوبہ اور بعلم بن  بعور ان کے فن کے بہترین نمائندے  ہیں جن سے جیلانی کی افسانہ نگاری کا قد اور قد ر دونوں متعین ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں افسانوں میں جیلانی نے بے حد تاثراتی تاریخ، اس کے ارتقاء کی کہانی ،ساتھ ہی فرد کے داخلی و خارجی انتشار کا نقشہ پیش کیا ہے جہاں انھوں نے حقیقت اور رومانیت کی آمیزش سے ایک جان پیدا کر دی ہے۔ جیلانی کے دوسرے افسانوں میں دیواروں کے پیچھے جھلسی ہوئی زمیں اور پکار ہوا پھل وغیرہ قابل ذکر افسانے ہیں۔ جن میں زندگی کی مخصوص حیثیت کا سراغ ملتا ہے۔

اردو کی اسلامی افسانہ نگاری میں محمود فاروقی نمایاں ترین مقام کے حامل ہیں ، ان کے افسانوں کی روح ان کی پر اسرار رومانیت ہے۔ جوان کی شخصیت میں پیوست ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں ایسی فضا پیدا کرتے ہیں کہ قاری شدت تاثر سے مسحور ہو جاتا ہے دوسری چیز فاروقی کا نفسیاتی اپروچ بھی ہے وہ اپنی تخلیقات میں ایسے سریع التاثیر نفسیاتی اشارے پیوست کر دیتے ہیں کہ بجائے کسی طرح کا انقباض محسوس کرنے کے ہم اپنے آپ کو ان واقعات و کردار کا ایک جزو لاینفک خیال کرنے لگتے ہیں۔ ان کے افسانے ’’ ایمان بالغیب ،اشتیاق ،شاشن ری ،ذہنی مجرم ،وغیرہ میں یہی اپروچ ملتا ہے ،ذہنی مجرم تو محمود فاروقی کا لازوال افسانہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تعمیری ادبی تحریک سے وابستہ اسی پود کے نمائندے م ،نسیم بھی ہیں جنھوں نے درجنوں پیروڈیز ، ڈرامے طنزیہ مزاحیہ خاکے اور افسانوں میں چھوٹ جا آدمی ،نور الہٰی سیلز گرل سب سے نمایاں ہیں ان افسانوی پیکروں میں شدت احساس سے دھڑکتا ہوا دل اور کرب و اضطراب سے موجیں مارتا ہوا گرم لہو موجود ہے۔

اسلامی فکر سے وابستہ جدید افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ابن فرید کا بھی آتا ہے ،جن کا تازہ ترین افسانوی مجموعہ ’’ یہ جہاں اور ہے‘‘ تمام ادبی حلقوں میں مقبول و معروف ہے ابن فرید نے اس صدی کی پانچویں دہائی میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا تھا اور متعدد مختصر افسانے لکھ کر انھوں نے ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا ، لیکن پھر بہت جلد انھوں نے اپنی سمت سفر تبدیل کر دی اور اردو تنقید کے بین العلومی مطالعہ کو اپنی کد و کاوش کا مرکز بنایا اور اس موضوع پر موصوف کی وقیع اور عالمانہ تحریروں کے تین مجموعے شائع ہوئے، لیکن مقام مسرت ہے کہ ایک بار پھر ابن فرید اردو افسانے کی طرف متوجہ ہوئے اور افسانوی پیکروں میں زندگی کا عمرانی و نفسیاتی مطالعہ پیش کیا ، اس مطالعہ نے ان کی ایک منفرد افسانہ نگار کی شناخت کو نمایاں کر دیا ہے واقعہ ہے کہ ہم ان کے افسانوں میں ان کی دلکش شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو پڑھتے ہیں۔ اس مجموعہ کے پہلے افسانہ ’’ عشرت لاج میں ایک اجنبی ‘‘ میں جدید تمدن کے سانچے مین ڈھلے ہوئے ایک مراعات یافتہ خاندان کی تصور پیش کی گئی ہے۔اسلم اس افسانے کا وہ مثالی اور مرکزی کردار ہے جس نے عشرت لاج کے ہر فرد کو آئینہ دکھایا ہے اس مجموعہ کا دوسرا افسانہ ا’’ یہ جہاں اور ہے‘‘ جو عنوان کتاب بھی بنا ہے خاصا معنی خیز اور اشاراتی ہے۔ یہاں دیہات کی سادہ پر سکون زندگی اپنی پوری رعنائی کے ساتھ جلوہ گر ہے اور شہر کے خوشحالی افراد کس طرح اپنی چھٹیاں گذارتے ہیں ، اس کی بہترین تصویر پیش کی گئی ہے۔ اسی طرح دوسرے افسانوں میں ساحل سے طوفان کا نظارہ رشک کرتا ہے سواد آسمان ،چاند سمندر اور شہر، نیلوفر وغیرہ کامیاب افسانے ہیں ، جو اپنی نفسیاتی زرف نگاہی اور نظریاتی بالیدگی کے باعث اردو افسانے کی تاریخ میں مصنف کو منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔

آثم میرزا کے افسانے گذشتہ تین دہائیوں سے ہند و پاک کے ادبی رسائل میں شائع ہو رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کی مثبت قدروں کی ترجمانی کی ہے ان کا نقطہ نظر اصلاحی ہے اور یہ کہ انسان بہر حال عظیم ہے، بڑے سے بڑے انسان میں بھی نیکی کی روشنی نظر آسکتی ہے۔ آپ کے افسانے منفی تاثر پیدا نہیں کرتے ،بلکہ شر کے مقابلے میں خیر کی قوتیں ابھر تی نظر آتی ہیں مثال کے طور پر ان کا ایک افسانہ ’’ پھندا‘‘ پیش کیا جا سکتا ہے۔ فیروز ہ اور رخسانہ کے کردار خیر و شر کی قوتوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں۔آثم میرزا نے بے شمار کہانیاں لکھی ہیں اور مستقل لکھ رہے ہیں۔ میں اپنی تلاش میں ہوں ‘‘ ان کی ایک خوبصورت کہانی ہے جو ڈرامائی اور نفسیاتی عناصر سے ابلاغ پاتی ہے۔ ان کے افسانہ ’’ بہتے لمحوں کا المیہ‘‘ میں یہ احساس پوری شدت کے ساتھ ابھر تا ہے کہ درد کے بیج بو کر ہم کرب کی فصلوں کے سوا اور کیا کاٹ سکتے ہیں۔روح کے لہولہان ہونے کا المیہ آثم میرزا کے فن کی اساس ہے۔ لاڈلا اور کھلونے‘‘ ان کی ایک نمائندہ کہانی ہے، دولت کی سنہری کرنوں کے پس پردہ روح کی چیخیں اور جسم کے نوحے صاف سنائی دے رہے ہیں۔ واقعہ نگاری ، منظر نگاری اور جذبات نگاری کی خوبصورت مثالیں اس کہانی میں ملتی ہیں۔

ابوالخطیب کا قلم گذشتہ چوتھائی صدی سے مسلسل افسانے تخلیق کر رہا ہے۔ ان کے افسانوں کا موضوع مجبور ، ستم رسیدہ مفلس اور بیمار انسان ہے جن میں ابھی انسانیت کی رمق باقی ہے ابو الخطیب محض ماحول کی عکاسی کر کے قاری کو بد مزہ نہیں کرتے بلکہ وہ گندگی کے انبار کو کرید کر اس میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ’’ لندن کے افسانے‘‘ ان کا افسانوی مجموعہ ہے لندن میں رہ کر ابوالخطیب کی بنیادی فکر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ان کا فن اور نکھر گیا ہے، اسلامی فکر اور لندن کی زندگی نے ان کے فن کو مزید جلا بخشی ہے۔ لندن کے افسانے کا بنیادی موضوع رنگ دار لوگوں کے ساتھ گوروں کا اہانت آمیز سلوک ،رنگ دار مزدوروں کا استحصال اور گوروں کی زندگی کا کھو کھلا پن ہے۔ گوروں کی زندگی میں پائے جانے والے روحانی اور نفسیاتی خلا کو بے حد کامیابی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مگر وہ گوروں سے نفرت نہیں کرتا اس کا روّیہ ہمدردانہ ہے، کیونکہ وہ بھی انسان ہیں ، وہ گوروں ہی میں ایسے گورے تلاش کر لیتا ہے جن کے دل بھی گورے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ اس صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں اردو ادب فکشن اور قصہ گوئی کے اعتبار سے بڑا سرسبزو شاداب نظر آتا ہے اسلامی ادبی حلقہ میں مذکورہ بالا فنکاروں کے علاوہ چند اہم نام اور بھی ہیں جن میں بیشتر کے افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ خاص طور سے ظفر حبیب، بد نام رفیعی ، ساحل خیرآبادی ،عزیز مرادآبادی ، وصی اقبال ،اقبال انصاری یعقوب سروش ، شلیم شہزاد ، مصطفی کمال منظور الحسن ہاشمی ، عبدالوہاب تسنیم، محمود شیخ آباد شاہ پوری ، حسرت کا سگنجوی، طاہر نقوی ، اکرم جلیلی ، حمید شاہد، عبدالباسط انور، فیاض قریشی، اور ضیاء کرناٹکی کا نام قابل ذکر ہے اسی طرح خواتین افسانہ نگاروں میں سلمیٰ یاسمیں نجمی، فرزانہ رباب ، نّیر بانو، امر زبیر ، صالحہ صبوحی، مسرور جہاں ، بازعہ تبسم ، عفت عائشہ، ام صہیب اور نجم بہار شمسی وغیرہ کی تخلیقات اسلامی ادب کا نمونہ ہیں۔

اس وقت تمام اسلام پسند افسانہ نگاروں کی فہرست سازی ہمارا مقصود نہیں تا ہم ان چند افسانہ نویسوں کا تذکرہ ضروری تھا ، جن کی کاوشوں نے بڑی حد تک اردو افسانے نئے رجحان کو متعارف کرایا ہے ، اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ آج اسلامی نظریہ ادب پر یقین رکھنے والی افسانہ نگاروں کی ایک کھیپ اردو ادب میں پائی جاتی ہے۔ جنھوں نے اپنے جنبش قلم سے تعمیر حیات کے فرائض انجام دئے ہیں اور تعمیری انداز فکر و نظر کے ساتھ ساتھ فنی نقطہ نگاہ سے بھی اس صنف ادب میں نئی نئی راہیں تلاش کی ہیں۔

جدید غزل ، فکر اسلامی کے تناظر میں ادب سے ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ہم کس لئے زندہ ہیں ؟ اور کیسے زندہ رہیں ؟ یوں تو یہ سوال پوری انسانیت کے سامنے ہے مگر ادب میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ادب زندگی سے پیدا ہوتا ہے، زندگی سے وابستہ رہتا ہے، اور زندگی ہی کی خدمت کرتا ہے۔ ادب اور زندگی کا تعلق اس قدر گہرا اور مضبوط ہے کہ ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ جب ہم ادب اور زندگی کا تعلق اس قدر ناقدین کو فطری طور سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید ہماری مراد بھی وہی ہو جو ترقی پسند ادیب سمجھتے ہیں ، جن کے یہاں ادب برائے زندگی کے روپ میں ادب برائے عوام کا پرچار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کافسکی کی کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پوری کائنات اور زندگی کا لفظ بولتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک طبقہ (class) یا انسانوں کا ایک چھوٹا یا بڑا گروہ نہیں ہوتا بلکہ پوری نسل انسانی پیش نظر ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کائنات کا ایک خالق بھی ہے اور وہی مالک و حاکم بھی۔ اس لئے اقتدار کی ساری باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ انسان اس کا بندہ ہے، یہ بندگی اس کے لئے باعث فخر ہے، ظاہر ہے ہم عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہو سکتے ،ہمیں تو صرف خالق کائنات کی خوشنودی درکار ہے۔ جب ہم ادب اور زندگی کے باہمی تعلق پر گفتگو کر تے ہیں تو ہمارے سامنے ایک خدا پرستانہ تصور حیات ہوتا ہے ، اور ہمارا ادب اسی تصور حیات کا ایک طاقتور ترجمان اور بے مثل عکاس ہوتا ہے۔

اس محتصرسی توضیح سے جہاں یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ ادب و زندگی کے ربط باہمی سے ہماری مراد کیا ہے وہاں یہ چیز بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ہم ادب کی ہر صنف میں ایک واضح اور صحت مند تصور حیات کی جھلک بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تصور حیات جس قدر مربوط اور نمایاں ہو کر سامنے آئے گا اسی قدر ادب میں نکھار ،اثر انگیزی اور عالمگیریت پیدا ہو گی۔ یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ ہم ادب میں مقصدی میلانات کے قائل ہیں ، کیونکہ جب انسان اور کائنات کی تخلیق ایک عظیم مقصد اور غایت کے تحت وجود میں آئی ہے تو پھر ادب بغیر کسی غایت یا میلان کے ناقابل تصور ہے۔ دوسری بات یہ کہ حق و باطل کی کشاکش میں غیر جانبداری ناممکن ہے، یا تو ادیب خیر کی حمایت کرے گا یا شر کی ، ان دونوں کے درمیان کوئی راہ اعتدال نہیں۔ آج انھیں نظریات کی روشنی میں اسلام پسندادیبوں شاعروں اور قلمکاروں کا ایک کارواں آگے بڑھ رہا ہے۔ یوں تو ہر صنف ادب میں ان رجحانات کے شعوری التزام پر توجہ دی جا رہی ہے مگر شاعری پر خصوصیت کے ساتھ نگاہ ڈالی گئی ہے، کیوں کہ ادب کی یہ سب سے اہم صنف ہے، دنیا کے ادب کا تین چوتھائی حصہ شاعری پر مشتمل ہے۔ یہی شاعری ورڈسورتھ کی زبان میں انسان اور فطرت کا عکس ہے اور اسی کو کافسکی ایک موثر ترین حربہ ( Weapon) قرار دیتا ہے۔ اردو شاعری میں خصوصاً غزل کی صنف جسے غنائی شاعری Lyric Poetry)) سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، یہ ایک ایسی صنف ہے جسے ہم بجا طور پر ایک موثر ترین حربہ کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ اس حربہ کا استعمال تمام نظریاتی فنکاروں نے کیا ہے۔ البتہ ان میں اپروچ اور طریقۂ استعمال میں فرق رہا ہے۔ ظاہر یہ فرق بنیادی اور اصولی ہے، جہاں سے نظریۂ حیات بدلتا ہے۔ وہیں سے فن کا تصور اور فن کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔ یہیں سے ادب میں نظریئے کی پیش کش کا مسئلہ سامنے آ جاتا ہے۔ چنانچہ جہاں پروفیسر آل احمد سرور ادب میں نظریہ کے قائل ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ’’ ادب غزل کی بحث کسی نہ کسی نظریئے کے زیر سایہ ہی میں ممکن ہے صرف رائے زنی سے کام نہیں چل سکتا ‘‘ وہیں دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ تخلیقی کاموں میں نظریئے کی تلاش براہ راست نہیں ہوتی ،یہ بالواسط ادب میں جگہ پاتے ہیں ‘‘ بالواسطہ سے مراد ان کی یہ ہے کہ تخلیقی ادب میں نظریئے کا اظہار تشبیہات، استعارات، اور رمز و کنایات میں ہونا چاہئے۔جس طرح تنقید یا دوسرے علوم میں نظریئے کا کھل کر اظہار کیا جاتا ہے، وہ طریقہ تخلیقی ادب کے منافی ہے۔ اس بات کے اعتراف میں یقیناً تامل نہیں ، تخلیقی ادب اور دوسرے علوم کا معاملہ کافی حد مختلف ہے غزل جو ایک داخلی صنف سخن ہے، اس میں جالندھری، عزیز بگھروی،انور صدیقی عرشی بھوپالی ، سہل احمد زیدی ، عروج قادری ، جمال احمد امین آبادی ، فاروق بانسپاری، رسید کوثر فاروقی (مرحومین) ابوالمجاہد زاہد، شفیع مونس ، محسن انصاری ، کلیم عاجز، اعجاز رحمانی، حفیظ الرحمن احسن ،فراز سلطانپوری، شبنم سبحانی، انتظار نعیم، تابش مہدی ، مسعود جاوید ہاشمی ، ابوالبیان حماد ، مظہر محی الدین، یوسف راز، رؤف خیر ، ابوالفاروق شعور ، عزیز بیلگامی، اور حنیف شباب وغیرہ وغیرہ۔

تحریک ادب اسلامی کے جیالے شعراء میں بیشتر کی مشق سخن کی عمر چالیس اور پچاس سال رہی ہے اور جنھوں نے فن کا رسوخ حاصل کر لیا ہے۔ ہاں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جب اس تحریک میں شامل ہوئے تھے تو نوعمر تھے مگر اب ذہنی و فنی پختگی کے مراحل طے کر رہے ہیں۔ یہ وہ فنکار ہیں جنھوں نے اسلامی اقدار حیات پر اپنے فن کی بنیاد ڈالی ہے۔ اقبال نے کہا تھا ؂

گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ورنہ

گہر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں

رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل

حیات سوز جگر کے سوا کچھ اور نہیں

فن میں نظریئے کا استعمال بظاہر تو آسان ہے مگر حقیقت میں وہ دلوں کی گہرائیوں میں اس وقت تک نہیں اتر سکتے جب تک سوز یقین اور خون جگر کی آمیز ش نہ ہو۔ انور صدیقی مرحوم نے بڑی عمدہ بات کہی تھی؂

سوز یقین کے بغیر خاتم بے نگیں ہے فن

دست ہنروراں میں ہے معجزہ ہنر تو کیا

چنانچہ ان فکر ی محرکات کے ساتھ ساتھ گہرے سماجی شعور اور انسانی مسائل کے شدید ادراک و احساس کے تحت تعمیر پسندوں نے اپنی شاعری شروع کی۔ عالمی امن کے نام پر دو دو جنگ کا تجربہ اور تیسری جنگ لڑنے کی تیاریاں ، اخلاقی قدروں کی پامالی ، جرائم کی ترقی ، مغربی مادی تحریکوں کی لائی ہوئی دہریت اور مادیت کی تباہیاں ، ذہنی اور روحانی انتشار ، بھوک ، افلاس، اور بیماریوں کا سیلاب اور پھر سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظاموں کی لائی ہوئی طبقاتی کش مکش اور منافرت۔ ان حالات میں تعمیر پسند فنکاروں نے یہ محسوس کیا کہ ان تمام مشکلات کا حل کہیں اور ہے۔ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں کامل توافق اور توازن بر قرار رکھنے کے لیے ایک ایسے ہمہ گیر نظام کو لانا ہو گا جس میں انسان کی تمام اعلی صلاحیتیں خیر ہی کے کاموں میں لگائی جا سکیں۔ ظاہر ہے ان فنکاروں کو اس واضح نصب العین تک پہنچنے کے لئے بڑی کٹھن منزلوں سے گذرنا پڑا ہے بقول حضرت روشؔ صدیقی؂

کس کو معلوم کہ ہم حسن شناسان ازل

کتنے اوہام سے گذرے تو یقیں تک پہنچے

چنانچہ غزل جیسی صنف سخن کی تمام روایتی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہوئے ان تعمیری فنکاروں کو جن آزمائشوں سے گذرنا پڑا ہے اور آج وہ جس منزل پر ہیں ، اس سے اردو غزل گوئی کی ایک نئی تاریخ بنتی ہے۔ یہ تاریخ ایک ایسے دور کی ترجمان ہے، جس میں ان فنکاروں نے بڑی توانائی اور تازگی کے ساتھ زندگی کی اعلیٰ قدروں کو ایک ایجابی ، مستحکم اور جاندار نظام حیات کی شکل میں جدید غزل میں سمویا ہے۔ چنانچہ موضوعات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تعمیری غزل کا دامن بیشمار اور متنوع مضامین سے مالامال ہے، مگر ہم تین عنوانات کے تحت ان سب کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ماحول سے شدید کشمکش اور اس کے اثرات ہماری شاعری میں نمایاں ہیں۔ آ ج امن اور مسرت کے پیچھے فساد اور معصیت کوشی کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ مادی فوائد کے ساتھ ساتھ اخلاقی انحطاط بڑھتا جا رہا ہے۔ انتشار اور پراگندگی ہر شعبے میں نمایاں ہے۔ ہر جگہ ایک شدید قسم کا روحانی بحران برپا ہو گیا ہے۔ خیر و شر کی اس رزم گاہ میں ہمارے فنکار سب سے آگے ہیں۔

انھوں نے رائج الوقت باطل نظاموں پر بڑی سخت تنقیدیں کی ہیں۔ ان میں ایک شاعر کا دل و دماغ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے با شعور اور خدا پرست انسانوں کے دل کی دھڑکنیں شامل ہو گئی ہیں۔ ایک طرف استعماریت و مادیت اور دوسری طرف صداقت و عدالت اور وحدانیت و روحانیت۔ یہ کشمکش کوئی معمولی کشمکش نہیں۔ پوری انسانیت اس کشمکش سے دوچار ہے اور پوری زندگی مظہر؂

انساں پہ ہے انساں کی حکومت اگر اے دوست

فردوس بریں بھی ہو تو آرام نہیں ہے

ہر چند آفتاب نمودار ہو چکا

تھرا رہی ہے صبح کی پہلی کرن ابھی

حدود گلستاں ہی تک نظر محدود ہو جس کی

بھلا اس پھول کو پرواز شبنم کی خبر کیا ہو

(شفیق جونپوری)

زمانے میں نظام خاک و آہن ہی ا گر ہوتا

تو انسانوں کے دل کے آئینہ خانے کہاں جاتے

ظلمت غم کے گر انبار سلا سل ہیں وہی

یوں تو تاروں کو بجھے رات ڈھلے دیر ہوئی

اب بھی مجبور ہے بلبل کا مذاق پرواز

یوں تو ہر حلقۂ زنجیر کئے دیر ہوئی

(انور صدیقی)

ہو گئی شاید مسرت کی حقیقت بے نقاب

ہر مغنی کی صد ا ہے آج بھرائی ہوئی

یہ ناچتی گاتی ہو ئی اس دور کی تہذیب

کیا جانئے کس کرب کا اظہار کرے ہے

سہمی سہمی دھوپ سائے لرزہ بر اندام سے

کون ٹکرانے اٹھا یہ گردش ایام سے

(حفیظ میرٹھی )

ہر آدمی اوڑھے ہے تقدس کا لبادہ

لگتا ہے یہاں کوئی گنہگار نہیں ہے

(تابش مہدی )

ان اشعار میں صرف حقیقت کے مظاہر کی عکاسی نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی تہوں کو بھی ٹٹولا گیا ہے۔ وہ کیڑے جو ہماری سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی کو کھوکھلا کرتے جا رہے ہیں۔ ان پر بھر پور وار کئے گئے ہیں۔ احساس کی گرمی اور بے پناہ جذبۂ خلوص کی آمیزش ان اشعار میں پوری طرح ہے جس سے ایک ایسا اجتماعی شعور جھلکتا ہے جو ہمیں ایک خدا پرستانہ انقلابی جدوجہد کے ذریعہ پورے انسانی معاشرے کی تنظیم نو پر اکسانا ہے۔ اردو غزل میں اقبال کے بعد اسلام کی تہذیبی قدروں کو اس قدر شعور انداز اور فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ سمو کر پیش کرنے میں ان اسلام پسند شعراء نے ایک ایسی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے جس سے نہ صرف نظریئے کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ تمام اصناف سخن میں خود غزل کے امکانات کا بڑا تابناک اور روشن تصور سامنے آتا ہے۔

رنگ گل کا ہے سلیقہ نہ بہاروں کا شعور

ہائے کن ہاتھوں میں تقدیر حنا ٹھہر ی ہے

وہی خزاں ہے وہی ہیں لہو کے نذرانے

تمہیں بتاؤ کے مہکے کہاں یہ ویرانے

یہ کیا غضب ہے کہ الحاد کے اندھیروں میں

حیات ڈھونڈتی پھرتی ہے آئینہ خانے

(عرشی بھوپالی)

ہماری راہ میں کانٹا بچھانا جس کا شیوہ ہے

وہ ملتا ہے تو پھولوں کی قبا ہم لوگ دیتے ہیں

اس لئے ہم سے خفا ہے مصلحت پوشوں کی بھیڑ

شہر یاروں کی نہ ہم سے ناز برداری ہوئی

(انتظار نعیم)

کیا خبر کون کب لوٹ لے راہ میں

قافلے سے الگ مت رہا کیجئے

٭٭٭

 

٭٭٭

ماخذ:

www.islamiadab.org/BOOKS/nazaryati-adab/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید