فہرست مضامین
آتشِ صلیب
حصہ اول
ڈاکٹر سلیم خان
انتساب
قابلِ صد احترام مرحوم و مغفور
مولانا محمود عالم صاحب کے نام
جنہوں نے ’سلیم تم ناول لکھو‘ کہہ کر
مجھے اس وقت چونکا دیا تھا
کہ جب میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا
غصہ شیطان کے اثر سے آتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے (الحدیث)
صلیبِ دوش پہ ، زخموں سے چور چور بھی ہیں
ہمارے سینے میں جھانکو کہ اور طور بھی ہیں
خدا نہ دے کسی دشمن کو ایسی محرومی
کہ تیرے پاس بھی ہیں اور تجھ سے دور بھی ہیں
(اقبال متین)
باب اوّل
۱
عزیز از جان ساتھیو!
’’۱۱ ستمبر امریکہ کی تاریخ کا سب سے خوفناک اور ساتھ ہی تابناک دن بھی تھا۔ ‘‘
حسب معمول ولیم کنگسلے نے اپنی تقریر کے پہلے ہی فقرے سے سامعین کو چونکا کر اپنی گرفت میں لے لیا۔ ولیم کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک اس کا فن خطابت تھا۔ اسی لیے جب بھی وہ مائک پر آتا حاضرین ہمہ تن گوش ہو جاتے اور دم بخود اس کے سحر میں گرفتار رہتے۔ روانی کا یہ عالم ہوتا کہ گویا کوئی پہاڑی ندی رواں دواں ہے۔ جو کچھ بھی اس کے راستے میں آتا ہے اسے اپنے ساتھ بہائے لیے جا رہی ہے۔ وہ جب خطاب کرتا تو سب فقط سنتے تھے۔ نہ کوئی کچھ سوچتا تھا اور نہ بولتا تھا۔
ولیم کنگسلے کا شمار امریکی کانگریس (پارلیمان)کے نہایت ہونہار ارکان میں ہوتا تھا۔ سادگی اور خوش خلقی نے اس کی شخصیت میں چار چاند لگا دئیے تھے۔ برسراقتدار جماعت میں ہونے کے باوجود بدعنوان نہ ہونا اس کا امتیاز تھا۔ سیاست کے گندے تالاب میں ایسے کنول کم ہی کھلتے تھے کہ جن کا دامن داغدار نہ ہو۔
کانگریس میں منتخب ہونے سے قبل وہ اپنے ننھے سے غیر معروف شہر کا نہایت مقبول میئر تھا۔ اس کی ایک آواز پر سارا شہر جمع ہو جاتا تھا لیکن اس روز کے جلسہ کو کنگسلے نے اپنے قریب کے مخصوص لوگوں تک محدود رکھا تھا۔ اعلیٰ کمان کی جانب سے فرمان جاری ہوا تھا کہ عوام کو جنگ میں شمولیت کی خاطر ابھارا جائے اور واشنگٹن میں اسی غرض سے منعقد ہونے والی ایک اہم مشاورتی نشست میں حاضری دی جائے۔
ولیم کنگسلے کے سامنے اس کے اپنے ذاتی کاروبار کی مصروفیات تھیں اور چونکہ واشنگٹن بھی جانا تھا اس لیے اس نے فیصلہ کیا کہ شام کے وقت اپنے قریبی سرکردہ افراد اور عوام میں سے چند مخصوص لوگوں سے ملاقات کر کے ان کے رجحان کا اندازہ لگا لیا جائے۔ عوام کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے وہ اس بات کو ضروری سمجھتا تھا کہ اپنے رائے دہندگان کی آواز کو ایوان اقتدار تک پہنچائے۔ اس بابت نہ تو اس نے کبھی اپنے ووٹرس کے ساتھ خیانت کی تھی اور نہ کبھی ان کو اپنی رائے سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی۔
کنگسلے مزاجاً افہام و تفہیم کا قائل تھا۔ وہ نہ کسی پر دھونس جماتا تھا اور نہ کسی کے دباؤ میں آتا۔ واشنگٹن سے واپسی کے بعد اس کا ارادہ سارے شہر کے لوگوں سے ایک عظیم الشان جلسے میں خطاب کرنے کا تھا۔ اسے یقین تھا جب وہ دیگر احباب سے استفادے کے بعد کانگریس کے اجلاس سے لوٹے گا تو اپنا موقف بہتر اور مؤثر انداز میں بیان کر سکے گا۔
شام ہوتے ہی محلے کے چیدہ چیدہ افراد اس کی کوٹھی کے لان میں جمع ہو گئے۔ لوگ مختلف گروہوں میں منقسم بے تکلف انداز میں چائے، پیسٹری اور دیگر مشروبات سے لطف اندوز ہونے لگے۔ انھیں ویسے تو چھے بجے آنے کی دعوت دی گئی تھی مگر سب جانتے تھے کہ ولیم کی تقریر سات سے پہلے شروع نہیں ہو گی۔ پہلا گھنٹہ باہمی ملاقات کے لیے مختص تھا جس میں تمام لوگ بشمول ولیم کنگسلے ایک دوسرے مل رہے تھے۔ امریکہ کے نفس پرست معاشرے میں جہاں لوگوں نے اپنے اہل محلہ تک سے ملنا جلنا ترک کر دیا تھا اس طرح کی تقریبات کو موقع غنیمت جانا جاتا تھا۔ لوگ اس بہانے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر لیتے اور گویا انسانی جبلت کی ایک ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔
موسیقی کے تھمتے ہوئے فریاد رس ساز اس بات کا اشارہ کرنے لگے کہ اب جلسے کی کارروائی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ ولیم اپنے مصاحبِ خاص چارلس کے ساتھ اسٹیج نما چبوترے کی جانب چل پڑا۔ شرکاء نے بغیر کسی اعلان کے اپنی نشستیں سنبھال لیں اور چارلس نے حاضرین مجلس کا استقبال کرتے ہوئے تاخیر سے اطلاع ملنے کے باوجود آنے کے لیے شکریہ ادا کیا۔
چارلس نے بتایا کہ اس قدر سرعت کے ساتھ نشست کا اہتمام صرف اور صرف جدید ذرائع ابلاغ کے سبب ممکن ہو سکا۔ ای میل اور ایس ایم ایس نے عوامی رابطے کو نہایت ارزاں اور آسان بنا دیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ طریقہ کار خشک اور بے جان ہے لیکن ولیم کنگسلے کی دلنواز شخصیت ان پیغامات میں جان ڈال دیتی ہے۔ ولیم کو دعوت سخن دے کر چارلس رخصت ہوا۔
ولیم کنگسے نے زور بیان کی خاطر اپنے پہلے جملے کو دوہرا کر کہا۔
’’۱۱ ستمبر امریکہ کی تاریخ کا سب سے خوفناک اور ساتھ ہی تابناک دن بھی تھا۔ ‘‘
میں آپ لوگوں کی آنکھوں میں حیرت دیکھ رہا ہوں اس کے باوجود یہی کہوں گا کہ :
’’ ۱۱ ستمبر امریکہ کی تاریخ کا خوفناک ترین دن ہونے کے باوجود تابناک تھا۔ ‘‘ خوفناک اس لیے کہ اس دن ہماری عالمی برتری پر پہلی بار ایسا بڑا سوالیہ نشان لگا تھا۔ کسی کے خواب و خیال میں یہ بات نہیں تھی کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے عزت و وقار کو ایک گھونسے میں زمیں بوس کر کے دشمن نے ہمیں ناک آؤٹ کر دیا تھا۔ ہم اپنے نکٹے چہرے کے ساتھ کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہو سکتی تھی کہ ہمارے رحم و کرم پر جینے والے ہم سے اظہار ہمدردی کر رہے تھے۔ اس کے باوجود بڑے وثوق کے ساتھ میں اصرار کے سا تھ عرض کرتا ہوں کہ یہی ہماری تاریخ کا سب سے تابناک دن بھی ثابت ہوا۔
اس حادثے نے ہم لوگوں کو من حیث القوم خواب غفلت سے بیدار کر دیا۔ ہماری یہ خام خیالی یکلخت کافور ہو گئی کہ سرخ آندھی کا خاتمہ سارے دشمنوں کا قلع قمع کر چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ سبز بادل سارے آسمان پر چھا جائیں اور ہم پر آگ اور خون کی برسات ہونے لگے ہم نے انھیں نیست و نابود کر دینے کا عزم کر لیا ہے۔ ہم ان کا پیچھا کریں گے اور ایسا کرتے ہوئے اگر ہمیں جہنم تک جانا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
مجھے یقین ہے ہمارا دشمن دنیا کے کسی خطے میں جائے پناہ نہیں پا سکے گا۔ ہم نے انھیں ٹھکانے لگانے کا عظیم جد و جہد کا آغاز ہو چکا ہے۔ یکے بعد دیگرے ان کی حکومتوں کے تختے الٹ کر ہم نے سارے عالم کو دہشت زدہ کر دیا ہے۔ اب یہ دنیا پھر ایک بار دو قطبی ہو گئی ہے۔ ساری دنیا کے غیرجانبدار لوگوں تک ہمارا صاف پیغام پہنچایا جا چکا ہے کہ اگر وہ اپنی خیریت چاہتے ہیں تو دشمنوں کے مقابلے ہمارا تعاون کریں ورنہ انھیں بھی ملیا میٹ کر دیا جائے گا اور سارا عالم طوعاً و کرہاً ہماری پشت پناہی کرنے کے لیے مجبور ہے۔
اس حکمت عملی کے ذریعہ دشمن کو یکہ وہ تنہا کرنے میں ہم کامیاب ہو چکے ہیں لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ انتقام کی آگ ابھی بجھی نہیں ہے۔ یہ آگ اسی وقت بجھے گی جب دشمن کیفرِ کردار کو پہنچے گا۔ وطنِ عزیز کو محفوظ و مامون کرنے نیز عالم انسانیت کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے یہ لازم ہے۔ صدر محترم اعلان کر چکے ہیں کہ خداوندِ عالم نے انھیں اسی مشن پر معمور کیا ہے اور اس مقدس صلیبی جنگ میں ساری قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہے۔ میں آپ لوگوں سے سوال کرتا ہوں کیا آپ بھی …………
مجمع نے ولیم کنگسلے کو اپنا جملہ پورا کرنے کی اجازت نہیں دی اور سب یک زبان ہو کر بولے صدر محترم آگے بڑھو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ولیم نے مسکرا کر دیکھا اور کہا ایک بار اور پھر ایک مرتبہ فلک شگاف نعرہ بلند ہوا صدر محترم آگے بڑھو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ اسی کے ساتھ چارلس نے مائک پر آ کر نعرہ لگایا ولیم کنگسلے آگے بڑھو۔ عوام نے جواب دیا ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ تقریر کا انٹرویل نہایت خوشگوار تھا، لوگ نعرے لگا رہے اور ولیم پانی پی کرتا زہ دم ہو رہا تھا۔
نعروں کا طوفان تھما تو ولیم نے بات آگے بڑھائی۔ افغانستان کے بعد ہم نے عراق کی جانب پیش قدمی کی ہے لیکن ان دونوں کی صورتحال میں بنیادی فرق ہے۔ افغانستان کی فوج کشی اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت تھی جس کے باعث ساری دنیا ہمارے ساتھ اور ناٹو کے فوجی ہمارے دوش بدوش تھے۔ ہم پر فوجی دباؤ قدرے کم تھا لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔ اس بار یو این او کی توثیق ہمیں حاصل نہیں ہو سکی لیکن جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ہم کسی کی حمایت کے محتاج نہیں ہیں۔ اس مرحلے میں ہمارے خاص حواری برطانیہ اور کینیڈا کے علاوہ کوئی قابل ذکر ملک آگے نہیں آیا اس کے باوجود ہم نے اپنے تئیں اقدام کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔
عراق کی سرزمین پر ابتدا میں تو ہمیں زبردست کامیابی نصیب ہوئی لیکن بعد میں جنم لینے والی مزاحمت ہماری توقعات سے کہیں زیادہ نکلی اور اب ہمیں مزید فوجی کمک کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آزمائش کی اس نازک گھڑی میں قوم کے نوجوان آگے بڑھیں گے اور اس مقدس کشمکش میں اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کر کے امن عالم کے قیام کی راہ ہموار کریں گے۔ اس مہم میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کی تجاویز پر غور کر کے لائحہ عمل وضع کرنے کی خاطر جلد ہی قصر ابیض میں ایک اہم نشست ہونے والی ہے، میری خواہش ہے کہ آپ سب اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کریں اور اپنی آراء و تجاویز مجھے ای میل کریں۔
واشنگٹن سے واپسی کے بعد شہر کی سطح پر ہولی کراس چوک پر ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا اہتمام کیا جائے گا جس میں قرب و جوار کے لوگوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی تاکہ اس مہم میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ آپ لوگوں نے یہاں آنے کے لیے وقت نکالا اس کے لیے میں آپ سب کا تہہ دل سے ممنون و شکر گزار ہوں۔ مجھے یقین ہے عراق جانے کے لیے بھرتی ہونے والے فوجیوں کی سب سے کثیر تعداد آپ کے اپنے حلقۂ انتخاب کولاریڈوسے ہو گی۔ یہ نوجوان ہمارے ملک و قوم کے آنکھوں کا تارہ بنیں گے۔ عظیم امریکہ کا نام ساری دنیا میں روشن کریں گے۔ شکریہ۔ بہت بہت شکریہ۔
اسی کے ساتھ ولیم اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گیا۔ قبل اس کے رسماً اظہارِ تشکر کے لیے چارلس مائک پر آتا لوگ اپنی کرسیوں سے اٹھ کر صدر دروازے کی جانب چل پڑے۔ خطاب عام کے بعد لوگ مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے لگے۔ کوئی ۱۱ ستمبر کا رونا رو رہا تھا تو کوئی افغانستان کی کامیابیوں پر بغلیں بجا رہا تھا۔ کسی کو صدارتی انتخاب کی فکر ستا رہی تھی تو کوئی کاؤنسل کی رکنیت کے لیے فکر مند تھا۔ کسی کو وطن عزیز کا غم کھائے جا رہا تھا تو کوئی اسرائیل کو لاحق خطرات سے پریشان تھا لیکن ان سب سے الگ تھلگ ٹام فوبرگ اپنے بارے میں، اپنی ذات اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
کسی زمانے میں افریقہ سے جہاز میں بھر کر امریکہ لائے جانے والے ٹام کے آباء و اجداد نے اپنی زندگی کنگسلے خاندان کی خدمت میں کھپا دی تھی۔ غلامی کے باوجود وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے کہ زندہ بچ گئے ورنہ ان کے ساتھ اغوا کیے جانے والے تقریباً ۸۰ فیصد افراد راستے ہی میں جان بحق ہو گئے تھے۔ ان بے یار و مددگار لوگوں کی لاشوں کو بیدردی کے ساتھ سمندر میں پھینک دیا گیا تھا تاکہ بھوکی مچھلیوں کی شکم سیری کا سامان بنیں۔
ٹام فوبرگ کا پسندیدہ موضوع امریکہ کی جدید تاریخ تھا۔ مزاجاً وہ پڑھتا بہت تھا اور پھر غور و خوض بھی کرتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ۱۹ ویں صدی میں ابراہم لنکن نے غلامی کا کلنک تو ان کی پیشانی سے مٹا دیا لیکن جلد کا رنگ! اس کا کیا جائے کہ دنیا کے تمام صابن اسے سفید بنانے میں ناکام ہو چکے تھے۔ بالوں کا بھی یہی مسئلہ تھا کوئی شمپو ان گھنگریالے بالوں کی الجھن کو سلجھا کر سیدھا اور سنہرہ نہ بنا سکا تھا۔ آنکھیں کسی صورت بھوری ہونے کا نام نہ لیتی تھیں اس طرح نہ نظر بدلی تھی اور نہ نقطۂ نظر بدلا تھا۔ غلامی کی ساری نشانیاں چونکہ جوں کی توں موجود تھیں اس لیے غلامانہ سلوک بھی جاری و ساری تھا۔
۲۰ویں صدی میں مارٹن لوتھر کنگ کو یہی پریشانی میدانِ عمل میں لے آئی تھی۔ اس غریب نے غلامی کی سب سے بڑی علامات غربت اور عدم مساوات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن افسوس کہ ابراہم لنکن کی طرح اس کو بھی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ٹام کے دل میں ان دونوں ہستیوں کا بے حد احترام تھا لیکن ان کے عبرتناک انجام پر بے شمار افسوس بھی تھا۔ ٹام نے امریکی تاریخ سے یہی تلخ سبق سیکھا تھا کہ تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود اس نام نہاد مہذب معاشرے میں غلامی کے خاتمہ کا خیال جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
ٹام اپنے والد کی طرح ناخواندہ نہیں بلکہ عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ تھا۔ وہ ولیم کے بیٹے ہاروے کا ہم جماعت اور اچھا دوست بھی تھا۔ امتحانات میں ٹام ہاروے کو پیچھے چھوڑ دیا کرتا تھا لیکن اسکول کے بعد پیشہ وارانہ زندگی میں ہاروے ایک ہی جست میں اس قدر آگے نکل گیا تھا کہ دونوں کے درمیان ایک ناقابلِ عبور کھائی حائل ہو گئی۔ تعلیم کے ختم ہوتے ہی ہاروے کو اپنے والد کے دفتر میں ایک وسیع و عریض کمرہ مع ایک خوبصورت سکریٹری عنایت کر دیا گیا تھا۔ دفتر کا سارا عملہ چھوٹے سرکار کے آگے ہاں جی ہاں جی کرنے لگا۔
ہاروے اب پارٹی کے چھوٹے موٹے کام بھی کرنے لگا تھا اس لئے سیاسی حلقوں تک اس کی رسائی ہو گئی تھی۔ اس کے برعکس ٹام کے حصے میں بیکاری اور بیگار بھتہ آیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کنگسلے خاندان سے قربت کے سبب اس کا بیگار بھتہ آسانی سے منظور ہو گیا تھا۔ ٹام کو اپنے روزگار کی فکر دن رات ستاتی تھی اور اس کا حل ولیم کنگسلے کے بس میں نہیں تھا۔ چین، جاپان، کوریا اور مشرق بعید کے دیگر ممالک کی ترقی امریکی معیشت کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی تھی۔ بڑی بڑی کمپنیاں بند ہو رہی تھیں اور بیروزگاری میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ صنعتی اداروں نے اپنے آپ کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے یا تو اپنا مال چینیوں سے بنوانا شروع کر دیا تھا یا وہاں جا کر اپنے کارخانے کھول لیے تھے۔
یہ دونوں صورتیں چینی معیشت کو خوشحال اور امریکی عوام کو بدحال کرنے والی تھیں۔ چینی حکمراں امریکہ کے قومی بانڈ خرید کر امریکی معیشت کو افیون پلا رہے تھے جس کی حیثیت بلا واسطہ رشوت کی سی تھی۔ اس سے خزانے کا خسارہ پورا ہو جاتا تھا اور حکام کے جیب خرچ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی۔ عوام کی بدحالی کے باوجود خزانہ مالامال رہتا تھا۔ سیاسی رہنما اورسرکاری افسر عیش کرتے تھے اور عوام بیروزگاری کے باعث طیش کھاتے تھے۔ اس عیش و طیش کی چکی میں پسنے والا ایک دانہ ٹام فوبرگ بھی تھا جس کی آہ و بکا پر کان دھرنے کی فرصت کسی کو نہیں تھی۔
٭٭٭
۲
ولیم اپنے کمرے سے باہر جا رہا تھا کہ سامنے سے بیٹی ڈائنا آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے قریب آنے کے بعد کہا پاپا اب آپ کہاں جا رہے ہیں دیکھئے رات کے بارہ بجنے والے ہیں۔ اب آپ آرام کیجیے۔ سچ آپ بہت کام کرتے ہیں اور باہر سردی بھی بہت ہے۔
بیک وقت اتنے سارے بن مانگے کے مشورے سن کر ولیم کو اپنی بیٹی پر پیار آ گیا۔ وہ بولے بیٹی تم میرا بہت خیال رکھتی ہو۔
ڈائنا پھر شروع ہو گی۔ اس میں کہنے کی کیا بات ہے پاپا۔ اگر آپ کا خیال میں نہیں رکھوں گی تو کون رکھے گا؟ وہ آپ کا نا خلف بیٹا ہاروے۔ جو خود اپنا بھی خیال نہیں رکھتا۔ دیکھئے تو ذرا نہ جانے اب تک کہاں بھٹک رہا ہے؟ میں نے اسے کتنی مرتبہ منع کیا کے رات دیر گئے تک باہر نہ رہا کر لیکن میری مانتا کون ہے؟ اسے ٹھیک کرنا ہی پڑے گا۔
ولیم نے سوچا یہ تو اپنی ماں کی بھی ماں لگتی ہے۔ ہاروے کی ماں کو اپنے بیٹے کی اس قدر فکر نہیں ہے جتنی کہ اس کی بہن کو ہے۔ ولیم نے اپنے بیٹے کی صفائی دیتے ہوئے کہا۔ دیکھو بیٹی عمر کا یہ حصہ نہایت مختصر ہے۔ نہ جانے کہاں سے آتا ہے اور دیکھتے دیکھتے نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے۔ اور پھر لوٹ کر کبھی نہیں آتا۔ اس لیے اس کا تھوڑا بہت لحاظ کرنا چاہئے۔
دیکھئے پاپا آپ کے اس لاڈ پیار نے ہاروے کے حوصلے بلند کر دئیے ہیں۔ وہ دن بدن بگڑتا جا رہا ہے۔ اب وہ اپنی ماں اور نانی کے علاوہ میری بھی نہیں سنتا لیکن میں اسے نہیں چھوڑوں گی۔ اسے آنے دو میں اس کی خوب خبر لوں گی۔
ولیم کو ڈائنا پر ہنسی آ رہی تھی۔ ولیم کو سدھارنے کی ذمہ داری اس نے از خود اپنے سر لے لی تھی حالانکہ عمر میں اس سے پانچ سال چھوٹی تھی لیکن سمجھداری میں دس سال بڑی۔ وہ بولے بیٹی لاڈ پیار تو میں تمہیں اس سے زیادہ کرتا ہوں اگر اسی سے کوئی بگڑتا تو ………
میں بگڑ جاتی۔ ڈائنا بیچ ہی میں بول پڑی۔ یہی نا کہنے والے تھے آپ؟
جی ! جی نہیں بیٹی تم تو اچھے اچھوں کو سدھار سکتی ہو۔ تمھارے بگڑنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔
جی ہاں آپ کی بات درست ہے لیکن میں آپ کے لاڈلے ہاروے کی اصلاح ابھی تک نہیں کر سکی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں میں نے ابھی ہمت نہیں ہاری ہے۔ اگر خدا نے چاہا تو اسے بھی ایک نہ ایک دن بالکل تار کی طرح سیدھا کر دوں گی۔ ولیم کو اپنی بیٹی کے ارادوں اور اعتماد پر حیرت ہو رہی تھی اس لیے کہ اس کے خیال میں ہاروے کے اندر ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جو اصلاح طلب ہو پھر بھی یہ اس کی دادی نما بہن اسے سدھارنے پر تلی ہوئی تھی۔
ڈائنا بولی خیر اچھا کیا جو آپ نے باہر جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب سوجائیے۔
لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ میں باہر جا کیوں رہا تھا؟
ڈائنا بولی آپ بھول گئے؟ اس کا مطلب وہ کوئی بہت اہم کام نہیں تھا۔ اگر اہم ہوتا تو آپ ہر گز نہیں بھولتے۔ چلو اچھا ہی ہوا جو آپ بھول گئے ورنہ آپ کسی غیر ضروری کام پر اپنا وقت ضائع کرتے۔ اس لیے اب اپنی خوابگاہ میں تشریف لے جائیے اور گھوڑے بیچ کر سوجائیے۔
اس دوران ولیم کو باہر جانے کی وجہ یاد آ گئی۔ وہ بولا بیٹی میں باہر اپنی عینک بھول آیا تھا اور وہ لانے کے لیے جا رہا تھا مجھے ڈر ہے کہ صاف صفائی کے دوران کہیں وہ عینک کچرے میں نہ چلی جائے۔
عینک ! وہ تو بڑی اہم چیز ہے اور صفائی والے نہایت لا پرواہ ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً آپ کی قیمتی عینک کو پھینک دیں گے یا توڑ دیں گے لیکن باہر اس قدر سردی ہے آپ کیوں زحمت کرتے ہیں۔ میں ابھی دوڑ کر لے آتی ہوں۔ جائیے سو جائیے۔ صبح جب آپ نیند سے بیدار ہوں گے تو آپ کی عینک سرہانے رکھی ملے گی۔ ڈائنا نے ایسے کہا گویا عینک لانے کے لیے اسے دوچار سو میل کا سفر کرنا ہے جبکہ وہ باہر چند قدموں کے فاصلے پر تھی لیکن وہ ڈائنا تھی اس کے لیے چند قدموں کا فاصلہ بھی خاصہ طویل ہوتا تھا۔
بیٹی باہر سردی تمھارے لیے بھی تو ہے؟
جی ہاں میں جانتی ہوں مجھے سب پتہ ہے۔ آپ میری فکر نہ کریں اور آرام کریں۔ آپ کی عینک آپ کو مل جائے گی ڈائنا نے ناصحانہ انداز میں کہا۔
ولیم کنگسلے چپ چاپ اپنی خوابگاہ کی جانب چل دئیے۔
ڈائنا اچھلتی پھدکتی جب باہر لان میں پہنچی تو اس نے دیکھا کہ صفائی کرنے والا عملہ جا چکا ہے۔ کنارے پڑی میز پر والد کی عینک اسے گھور رہی ہے اور پاس ہی ہلکے پھلکے لباس میں ایک نوجوان کڑکڑاتی سردی کے اندر بیٹھا اونگھ رہا ہے۔
ڈائنا کے قدم جم گئے اس نے سوچا یہ نوجوان کون ہو سکتا ہے؟ یہ ابھی تک گیا کیوں نہیں؟ اسے سردی کیوں نہیں لگ رہی؟ اچانک ان سارے سوالات کا ایک جواب اس کے ذہن میں آ گیا۔ یہ منشیات کا عادی ہو گا۔ آج کل یہ وبا عام ہو گئی ہے اور نشے کی حالت میں انسان کو سردی گرمی تو کجا بھلائی اور برائی کی تمیز تک نہیں رہتی۔ ڈائنا کو اول تو عینک کے قریب جانے سے خوف محسوس ہوا پھر اس نے سوچا خود اس کے اپنے آنگن میں اسے کس بات کا ڈر اور ویسے بھی اس کے والد نے اسے بہادر لڑ کی کے خطاب سے نواز رکھا ہے۔
ڈائنا جب میز کے قریب آئی تو اس نے اپنے بھائی کے دوست ٹام فوبرگ کو پہچان لیا۔ وہ بولی اوے ٹام تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟سب لوگ چلے گئے تم نہیں گئے؟ اس سردی میں قلفی بن جانے کا ارادہ ہے کیا؟
ٹام نے چونک کر کہا سردی ! ہاں سردی۔ لیکن سردی تو تمہیں بھی لگنی چاہئے۔ خیر تم مجھے پہچانتی ہو ڈائنا؟
کیوں نہیں اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ جیسے تم مجھے جانتے ہو اسی طرح میں بھی تمہیں جانتی ہوں۔ میں تو تمہیں اس وقت سے جانتی ہوں جب تم انکل کی انگلی پکڑ کر ہمارے گھر آیا کرتے تھے اور پھر جب ہاروے کے ساتھ باسکٹ بال کھیلنے جایا کرتے تھے۔ میں ڈائنا ہوں میں سب جانتی ہوں۔ ٹام نے سوچا یہ جانتی تو کچھ ہے نہیں ہاں بولتی بہت ہے۔ ڈائنا نے ایک نیا سوال کر دیا۔ اچھا ٹام یہ بتاؤ کہ تم کیا سوچ رہے تھے؟
اس سنجیدہ سوال نے ٹام کو رنجیدہ کر دیا۔ وہ بولا کچھ خاص نہیں۔
پھر بھی؟ ڈائنا نے پوچھا۔
بس یونہی میں اپنے ماضی کے بارے میں بلکہ مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
اوہو یہ تو نہایت گمبھیر معاملات ہیں۔ تم ایسا کرو کہ خود بہت زیادہ سوچنے کے بجائے میرے والد صاحب سے بات کرو انھیں نوجوانوں کے مستقبل کی بڑی فکر رہتی ہے۔
ٹام نے پوچھا لیکن اس وقت نصف شب میں؟
ڈائنا بولی کوئی بات نہیں ممکن ہے وہ جاگ رہے ہوں چلو میرے ساتھ اندر چلو باہر بہت سردی ہے میں تمھارے لیے ہاروے کا گرم سویٹر لے کر آتی ہوں۔
ٹام فوبرگ کو ولیم کے اسٹڈی روم میں بٹھا کر ڈائنا ان کے خوابگاہ کی جانب چل پڑی۔ وہ اپنی جلدسونے والی نصیحت کو خود بھول چکی تھی۔ اب وہ اپنے والد کو سلانے کے بجائے جگانے جا رہی تھی لیکن جب وہ ان کے کمرے میں پہنچی تو ولیم ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ ڈائنا نے ولیم کو اطلاع دی کہ اسٹڈی روم میں ٹام ان کا منتظر ہے اور وہ ان دونوں کے لیے گرم گرم کافی لا رہی ہے۔
ٹام متصل کمرے سے آنے والی ڈائنا کی آواز سن رہا تھا اس نے سوچا یہ اپنے بھائی ہاروے سے کس قدر مختلف اور دردمند لڑکی ہے۔ اس کے دوست ہاروے میں اپنے والد کی کوئی صفت موجود نہیں ہے اور ڈائنا تو سراپا ولیم کنگسلے ہے۔ نہایت شفیق اور رحمدل ولیم انکل۔
ولیم کے انتظار میں ٹام پھر سوچنے لگا یہ جنگ اس کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ذریعہ روزگار کے علاوہ عزت و شرف بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ پھر ایک بار ہاروے کے مقابلے سر اٹھا کر چل سکتا ہے۔ گلی محلے میں اس کا احترام ہاروے سے اسی طرح زیادہ ہو سکتا ہے جیسا کہ اسکول کے اندر ہوا کرتا تھا۔
مسابقت کی چنگاری ٹام کے سینے میں سلگنے لگی تھی۔ وہ اس کی ہلکی ہلکی سی تپش محسوس کر رہا تھا کہ کسی نے اس کے شانے پر دھیمے سے ہاتھ رکھ دیا۔ ٹام چونک کر پیچھے مڑا تو ولیم اس کے سامنے تھے۔ وہ اچھل کر اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ ولیم نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ٹام تم کس سوچ میں غرق تھے؟ بھئی ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ ہمارے نوجوان کیا سوچتے ہیں؟
میں۔ میں در اصل …کچھ بھی نہیں …… بس یونہی………ٹام کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا گویا وہ کوئی گھناؤنی سازش کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
ولیم نے کہا نہیں ٹام یہ بات درست نہیں ہے۔ لان سے اس وقت تمھارے علاوہ سب جا چکے ہیں اور تمہیں احساس تک نہیں ہوا۔ میرا تجربہ ہے کہ یہ بغیر گہری سوچ کے نا ممکن ہے۔
ٹام اپنے آپ کو سنبھال کر بولا جی ہاں سر آپ بجا فرماتے ہیں۔ میں کچھ سوچ رہا تھا۔
وہی تو میں پوچھ رہا ہوں برخوردار کہ کیا سوچ رہے تھے؟ کوئی عشق کا چکر تو نہیں ہے؟
ٹام کو ایسا لگا جیسے ولیم نے اسے ڈائنا کے بارے میں سوچتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔ وہ گھبرا کر بولا جی!جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
پھر کیا بات ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے درمیان کسی راز داری کی ضرورت ہے۔
سر بات در اصل یہ ہے کہ میں اپنے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میرا مطلب ہے اپنے مستقبل کے بارے میں …..بلکہ ملک و قوم کے بارے میں …….. جی نہیں صرف اپنے ملک ……. نہیں بلکہ امن عالم کے بارے میں …… میں بہت کچھ سوچ رہا تھا سر بہت کچھ…..۔
ولیم نے ان ٹوٹے پھوٹے جملوں سے مطلب اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا اگر اتنی ساری باتیں سوچ رہے تھے تب تو ڈائنا کو خلل اندازی نہیں کرنی چاہئے تھی میں اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔
اس بیچ ڈائنا سویٹر اور کافی کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہو گئی۔ معذرت کیسی؟ میں نے اسے خودکشی سے بچا لیا ورنہ صبح تک یہ سردی میں برف کا ایک تودہ بن چکا ہوتا۔ خیر اب آپ لوگ بات کیجیے میں سونے کے لیے جا رہی ہوں اور دیکھو ٹام باہر جاتے ہوئے یہ سویٹر ضرور پہن کر جانا کیا سمجھے؟
ٹام بولا شکریہ۔ شب بخیر۔
ولیم نے کہا میری یہ بیٹی بہت چنچل ہے اس کی باتوں کا برا نہ مانو۔
جی نہیں سر ایسی بات نہیں آپ ہی نے اپنی تقریر میں کہا تھا ……….۔
جی ہاں میں نے اپنی تقریر وہ ساری باتیں کہی تھیں جن کا تم نے ابھی ذکر کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی تو کہا تھا کہ ہمیں کچھ کرنا چاہئے۔ نہ کہ سر پکڑ کر بیٹھ رہنا چاہئے۔
ٹام نے تائید کی اور کہا جی ہاں سر آپ بجا فرماتے ہیں میں بھی کچھ کرنے ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن کچھ کرنے سے پہلے سوچنا بھی تو پڑتا ہی ہے؟
ٹام تمھاری بات بالکل درست ہے۔ جنھیں کچھ کرنا نہیں ہوتا وہ کچھ بھی نہیں سوچتے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جو نہیں سوچتے وہ کوئی اہم کام نہیں کر پاتے لیکن یاد رکھو جو بہت زیادہ سوچتے ہیں وہ بیچارے بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ بس سوچتے ہی رہ جاتے ہیں اور حرکت و عمل کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں سر اور اسی لیے آپ کے ساتھ ملاقات کے لیے میں حاضر ہونے ہی والا تھا۔
ولیم نے قہقہہ لگا کر کہا خیر تم سے پہلے میں آ گیا ایک ہی بات خربوزہ چھری پریا چھری خربوزے پر نتیجہ ایک سا نکلتا ہے۔
آپ کی بات درست ہے کہ آخر کٹنا تو مجھے ہی میرا مطلب خربوزے ہی کو پڑے گا۔
ولیم کو ٹام کی بات پھر سمجھ میں نہیں آئی وہ بولا دیکھو باہر خنکی بڑھ گئی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں برفباری نہ شروع ہو جائے۔ کیوں نہ ہم ہیٹر چلا دیں تاکہ گفتگو گرم ہو سکے۔
ولیم جانتا تھا کہ ٹام بے روزگار ہے۔ اس ملک میں بے روزگار پیٹ تو بھرتا ہے لیکن وہ گھر نہیں بسا پاتا۔ اس لیے کہ ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کی اکثریت برسرِ روزگار ہو کوئی عورت بے روزگار مرد سے بیاہ کیوں رچائے؟ ولیم یہ چاہتا تھا کہ ٹام کو کہیں کوئی ملازمت مل جائے لیکن اس کے حلقۂ انتخاب میں نہ جانے کتنے ٹام جیسے تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ وہ لوگ اپنی قابلیت کی بنا پر معمولی نوکری نہیں کرنا چاہتے تھے۔ معاشی کساد بازاری کے چلتے اچھی نوکری نہ ملنے کے سبب وہ دربدر ٹھوکریں کھا رہے تھے۔
ٹام کی صلاحیت و صالحیت کا ولیم قائل تھا اور اس کی مدد بھی کرنا چاہتا تھا لیکن ملک کی معاشی ابتری اس راہ کا سب سے بڑا روڑا بنی ہوئی تھی۔ انتخاب سے قبل جو سبز باغ سیاستدانوں نے عوام کو فریب دینے کی خاطر دکھلائے تھے وہ سب خزاں رسیدہ ہو چکے تھے۔ ولیم کو ایسا لگتا تھا گویا اس نے اپنے رائے دہندگان کو دھوکہ دیا ہے اور اس بات کی فکر بھی اسے ستاتی تھی کہ آئندہ وہ کیا منھ لے کر اپنے لوگوں کے سامنے جائے گا۔
ا استمبر سے قبل تو کچھ تھوڑا بہت عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ بھی ہوتا تھا لیکن اب تو خزانے پر صرف تحفظ اور دفاعی اخراجات سانپ بن کر بیٹھ گئے تھے۔ جو اپنے قریب آنے والے ہر غریب اور مستحق کو بلا تردد ڈس لیتے تھے۔ جڑواں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتیں تو خیر چند گھنٹوں میں زمیں بوس ہو گئی تھیں مگر یہ چرمراتی معیشت تو گھٹ گھٹ کر مر رہی تھی جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی خوبصورت چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔
ولیم اس ادھیڑ بن میں گرفتار ہو گیا تھا کہ ٹام کو ملازمت کے لیے کہاں بھیجے کہ ٹام نے ٹوکا جناب آپ کس سوچ میں کھو گئے؟
ولیم نے چونک کر کہا نہیں کچھ نہیں ….میں سوچ رہا تھا اپنے ….. میرا مطلب ہے ….. اپنے رائے دہندگان کے بارے میں۔ ملک و قوم………. نہیں بلکہ عالمِ انسانیت کے بارے میں ……..۔
اوہو آپ تو یہی سب سوچتے رہتے ہیں اور بولتے بھی رہتے ہیں۔ آپ بہت عظیم انسان ہیں ٹام نے تائید کی۔
خیر ٹام ان تکلفات کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟
جی جناب ! میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اپنی زندگی ملک و قوم کے نام وقف کر دوں گا اور فوج میں شامل ہو جاؤں گا۔ میں عراق جاؤں گا اور وہاں جا کر دہشت گردی کا خاتمہ کر دوں گا۔ میں اس مقدس جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے امر ہو جاؤں گا۔
ٹام کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ولیم اچھل پڑا وہ بولا ٹام تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ تمھارے افکارو خیالات کس قدر بلند ہیں۔ تم ایک عظیم نوجوان ہو۔ مجھے تم پر ناز ہے۔
جی نہیں سر ایسی کیا بات ہے؟ یہ سب تو آپ کی رہنمائی اور دعاؤں کا اثر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج آپ کی تقریر نے میری دنیا بدل دی۔ میرے اندر ایک زبردست انقلاب برپا ہو گیا۔ بے معنیٰ زندگی ایک مقدس مقصد سے سرفرازہو گئی۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کے اس احسان عظیم کا بدلہ کیسے چکا سکوں گا؟
ٹام کی باتیں سن کر ولیم کا دل باغ باغ ہو گیا مگر آنکھیں فرط مسرت سے نم ہو گئیں۔ ولیم حیرت سے ٹام کو دیکھ رہا تھا اس کا سینہ فخر سے پھولا ہوا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے زور بیان میں اس قدر تاثیر ہے کہ ایک نوجوان کی زندگی کا دھارا بدل سکتا ہے۔ کسی نوجوان کو ملک و قوم کی خاطر اپنی زندگی نچھاور کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔
ولیم نے آگے بڑھ کر ٹام کی پیشانی کو چوم لیا۔ ٹام کے سیاہ ماتھے پر سفید بوسے نے اس کے مقدر کو ایک نئی روشنی سے منور کر دیا۔ یہ سعادت کولاریڈو میں شاید ہی کسی سیاہ فام کو نصیب ہوئی ہو۔ اس حلقۂ انتخاب کے بڑی بڑی سفید فام ہستیاں ولیم کنگسلے سے مصافحہ کرنے کو ترستی تھیں۔ چھوٹے موٹے سیاہ فام باشندے تو بس دور ہی سے اس کا نظارہ کرنے کو اپنے لیے باعثِ سعادت جانتے تھے۔ ان کا یہ حال تھا کہ جب ٹی وی کے پردے پر وہ اپنے چہیتے سنیٹرکو کسی سیاسی مناظرے کے دوران حریف کو پچھاڑتے ہوئے دیکھتے تو خوشی سے تالیاں پیٹنے لگتے تھے۔
ٹام جانے کے لیے کھڑا ہوا تو ولیم نے اسے استقامت کی دعا دی اور وعدہ کیا کہ وہ ٹام کی عراق روانگی کو یقینی بنانے کے لیے ذاتی دلچسپی لے کر سارے انتظامات کرائے گا۔ اسی کے ساتھ اس نے ٹام کو یہ یقین دہانی بھی کی کہ واشنگٹن سے لوٹنے پر منعقد ہونے والے جلسۂ عام میں اس کی پذیرائی کی جائے گی۔ اس لیے کہ کولاریڈو سے عراق جانے والے ہراول دستے کا سرخیل کوئی اور نہیں بلکہ ٹام فوبرگ ہے۔ اس نے جس عزم و حوصلہ کا مظاہرہ کیا ہے وہ دیگر نوجوانوں کو بھی اس کارِ خیر میں شرکت کی ترغیب دے گا لیکن کوئی اس پر سبقت نہیں لے جا سکے گا۔
ٹام کا جی چاہا کہ وہ کہے جی ہاں سر کوئی نہیں۔ ہاروے بھی نہیں۔ آج پھر اس نے ہاروے کو پچھاڑ دیا ہے لیکن ان الفاظ کو اپنے سینے میں دبائے ٹام نے ولیم کا شکریہ ادا کیا اور اجازت طلب کرتے ہوئے کہا شب بخیر۔ ولیم بھی شب بخیر کہہ کر اپنی خوابگاہ میں چلا آیا۔
ٹام نے سامنے کرسی پر پڑے سویٹر کو دیکھا تو اسے ڈائنا یاد آ گئی۔ خوش مزاج اور چنچل ڈائنا کہ جب وہ بولتی تھی تو گویا پھول جھڑتے تھے۔ ٹام نے سوچا کہاں ایک سیاہ فام ٹام اور کہاں سنیٹر ولیم کنگسلے کی چشم و چراغ ڈائنا ان دونوں کیا موازنہ؟ لیکن یہ تو آج کی صورتحال ہے۔ ٹام اچانک حال سے مستقبل کے خوابوں میں کھو گیا۔ دو دن بعد کے بجائے دوسال بعد کا جلسہ اس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔ جب وہ عراق میں اپنی دلیری کے جھنڈے گاڑ کر لوٹے گا۔ پھر ایک بار ولیم کنگسلے اس کے لیے تہنیتی جلسہ منعقد کریں گے۔ اسکوکولاریڈو کے نوجوانوں کا سردار اور اپنا سیاسی وارث بنائیں گے۔ اور پھر …….اور پھر وہ اس کے ساتھ اپنے گھر آئیں گے اور اسے حسین ترین تحفہ سے نواز دیں گے۔
ٹام فوبرگ چشمِ تصور میں ڈائنا کو سگائی کی انگوٹھی پہنا رہا تھا کہ اسے آواز آئی۔ اوہو تم ابھی تک نہیں گئے۔ کوئی ضرورت ہے کیا؟ یہ چوکیدار کی آواز تھی۔
جی! جی نہیں۔ میں جا رہا تھا لیکن پھر سوچا کیوں نہ جانے سے قبل اپنے دیرینہ دوست ہاروے سے دعا سلام کرتا چلوں۔ چوکیدار بولا لیکن وہ تو ابھی نہیں لوٹے۔
ٹام نے جواب دیا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ میں پھر کبھی اس سے مل لوں گا۔
٭٭٭
۳
اپنی کامیابی کے نشے میں بدمست ٹام کی نظریں کمرے سے نکلنے کے بعد بھی ہاروے کو تلاش کر رہی تھیں۔ وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس بار اس نے کون سی چھلانگ لگائی ہے اور یکلخت کس قدر بلند و بالا مقام پر فائز ہو گیا ہے۔ دو دن بعد ہاروے کے والد اسے سب سے ہونہار نوجوان کے خطاب سے نوازنے والے ہیں۔ اس عظیم الشان خطاب عام کے اگلے دن کولاریڈو کے سارے اخبارات میں اس کی تصویریں ہوں گی اور تمام ہی ٹیلی ویژن چینلس پر اس کا انٹرویو نشر ہو گا۔ اس طرح مقبولیت کے میدان میں وہ ہاروے کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا۔ ٹام ہاروے کو ڈھونڈ رہا تھا لیکن وہ ندارد تھا۔
باہر گیٹ پر اس نے پھر ایک بار چوکیدار سے پوچھا آخر یہ ہاروے کا بچہ گھر پر آتا کب ہے؟ بلکہ آتا بھی ہے یا نہیں؟
چوکیدار نے جواب دیا چھوٹے سرکار عام طور پر رات دیر گئے لوٹتے ہیں۔
لیکن کتنی دیر! آدھی رات تو بیت ہی چکی ہے؟ ٹام نے سوال کیا۔
محافظ ہنس کر بولا جو وقت ہاروے کے لیے ہے وہی آپ کے لیے بھی ہے۔ آپ جس طرح نصف شب کے بعد گھر جا رہے ہیں ہاروے صاحب گھر آ رہے ہیں بات تو ایک ہی ہے نا؟
میرا کیا !اس سے میرا کیا موازنہ؟میں تو ایک بہت ہی اہم کام سے رک گیا تھا۔
چوکیدار فوراً ً بولا ہاں ہاں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح کسی اہم کام سے رکے ہوئے ہوں؟ اور جناب بات در اصل یہ ہے کہ آپ جیسے اہم لوگوں کا ہر کام اپنے آپ اہم ہو جاتا ہے۔ آپ لوگوں کو غیر اہم کام کرنے کی فرصت ہی بھلا کب ہے؟ اس کے لیے ہم جیسے لوگ جو فارغ بیٹھے ہوئے ہیں۔
ٹام نے بیزاری سے بولا تمھاری بات تو درست ہے لیکن تم بولتے بہت زیادہ ہو۔
چوکیدار نے بات آگے بڑھائی صاحب سیاسی رہنما کے گھر کا چوکیدار جو ہوں۔ یہی بول بچن کا کاروبار تو یہاں ہوتا ہے۔ ہمارے صاحب اسی کی روٹی خود بھی کھاتے ہیں اور ہمیں بھی کھلاتے ہیں۔ ویسے ایک بات بتاؤں یہاں اکیلے ڈیوٹی دیتے ہوئے ہم لوگ کسی سے بات کرنے کو ترس جاتے ہیں۔ کوئی ہمیں منھ لگاتا ہی کب ہے؟ سلام کرتے ہیں تو لوگ جواب تک دینے کی زحمت نہیں کرتے۔ وہ تو آپ کی مہربانی ہے جو آپ نے ہم سے دو بات کر لی …….
اسی کے ساتھ روشنی کے بڑے سے ہیولے نے سارے جہان کو روشن کر دیا۔ چوکیدار نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور بولا، لو صاحب آپ کی من مراد پوری ہو گئی۔ وہ دیکھئے چھوٹے سرکار کی سواری آ گئی۔ میں پہلے ان کے لیے گیٹ کھول دوں پھر آپ کے پاس آتا ہوں۔
ہاروے کی نظر جونہی ٹام پر پڑی اس نے زور سے پکارا ہائے ٹام۔ تم اتنی رات گئے اندر کیا کر رہے ہو؟
ٹام مسکراتے ہوئے اس کے قریب آ کر بولا یار یہی سوال تو میں تم سے بھی کر سکتا ہوں کہ تم اتنی رات گئے باہر کیا کر رہے ہو؟
اس بیچ ہاروے اپنی گاڑی سے باہر آ کر ٹام سے بغلگیر ہو گیا تھا۔ حویلی کا سیاہ فام محافظ اس گنگا جمنی سنگم کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ گوری چٹی گنگا سانولی سلونی جمنا سے گلے مل رہی تھی۔ دیا جل رہا تھا، ہوا چل رہی تھی۔ ہاروے نے کہا ٹام آج تم ایک طویل عرصے کے بعد ملے ہو بھئی مزہ آ گیا۔ آؤ میری گاڑی میں بیٹھو، تمہیں میں گھر تک چھوڑ آتا ہوں۔
جی نہیں، شکریہ ہاروے خاصی رات ہو چکی ہے اب تمہیں آرام کرنا چاہئے۔
میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ اتنی رات میں تمہیں ٹیکسی کہاں ملے گی؟ تکلف چھوڑو اور گاڑی میں بیٹھو۔
ٹام دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور چوکیدار نے حویلی کا دروازہ بند کر دیا۔ ہاروے نے گاڑی اسٹارٹ کی، سڑک پر آیا اور ایک جانب چل دیا۔ ٹام نے کہا دوست وقت کے ساتھ تم مجھے اور میرے گھر کا پتہ بھی بھول گئے۔ میرا مکان اس طرف نہیں بلکہ ……
ہاروے نے بات کاٹ دی اور بولا ہاں بابا میں جانتا ہوں کہ تمھارا گھر گرین اسکوائر کے عقب میں ہے لیکن اس وقت اس طرف کے سارے کافی ہاوس بند ہو چکے ہوں گے اس لیے میں ۲۴ X۷کافی ہاوس کی طرف جا رہا ہوں جو اتفاق سے مخالف سمت میں ہے۔
ٹام نے چونک کر پوچھا لیکن اس وقت کافی ہاوس؟
ہاں یار دو گھڑی بات کرنے کے لیے کافی ہاوس ہے یا بار دو ہی مقامات ہوتے ہیں۔ مہ خانے کے شور میں خمار تو ہوتا ہے لیکن بات نہیں ہو پاتی اس لیے کافی ہاوس چل رہا ہوں۔ کیوں جلدی ہے کیا؟اتنے دن بعد ملے ہو۔
ٹام نے جواب دیا جلدی؟ کیسی جلدی اور اب گھر جا کر کرنا بھی کیا ہے؟ جب تک ہم لوگ بچے تھے والدین انتظار کیا کرتے تھے اب کون ہے جو ہماری راہ دیکھے؟ ویسے اتنی زیادہ دیر ہو چکی ہے کہ اب مزید تاخیر بے معنی ہے۔
ٹام کی آہ سے بے نیاز ہاروے چہک کر بولا اچھا تو آج کل فلسفہ پڑھا جا رہا ہے؟
ارے بے وقوف یہ فلسفہ نہیں منطق ہے۔
ہاروے بولا بھئی ہمارے لیے تو کیا فلسفہ اور کیا منطق سب ایک جیسا ہی ہے۔ وقت کا خالص ضیاء اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
ہاروے فی الحال تم ہندسوں کے کھلاڑی بن گئے ہو۔ کبھی نوٹ تو کبھی ووٹ گنتے ہو۔ فائدہ، نقصان اور جمع نفی سے فرصت ملے تو انسان ادب و ثقافت کے بارے میں سوچے؟
تمھاری بات ویسے تو درست ہے مگر جمع نفی کا یہ کھیل صرف نوٹ کی حد تک ہے۔ ووٹ کی دنیا میں تو مخالف کو ضرب لگا کر پہلے تقسیم کرنا پڑتا ہے اور پھر دوبارہ ضرب لگانے پر کہیں جا کر منافع نکل پاتا ہے۔
ہاروے کی جملہ بندی نے ٹام کو حیرت زدہ کر دیا۔ اس نے سوچا ہاروے ایسا بے وقوف بھی نہیں جیسا کہ وہ اسے سمجھتا تھا۔ ٹام بولا میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ میں بھول گیا تھا کہ تم اب بھی وہی ہاروے ہو جس کی زبان کو پکڑنا زباندانی کے استاد کے لیے بھی ناممکن تھا۔
اور تم؟ ہاروے نے خوش ہو کر پوچھا۔
میں ….. وہی ٹام ہوں بھولا بھالا بے ضرر ٹام فوبرگ۔
تب تو خطرہ ہے اور اپنی گاڑی کافی ہاوس کے سامنے روک دی۔
یہ شہر کا سب سے بڑا کافی ہاوس تھا بڑے سے لان میں بہت ساری کرسیاں بے ترتیبی سے بکھری ہوئی تھیں جن میں سے چند پر کچھ پریشان حال اور پراگندہ خیال لوگ مختلف موضوعات پر بہکی بہکی باتیں کر رہے تھے۔ ایسی باتیں جن کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔ زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد اس ماحول میں یہ اندازہ ہی نہ ہوتا تھا کہ نصف شب کا عالم ہے۔ دونوں دوست اندر ہال میں داخل ہوئے جہاں کرسیوں اور میزوں کو بڑے سلیقے سے لگایا گیا تھا۔ ائیر کنڈیشنڈ کے ذریعہ درجۂ حرارت کو قابو میں رکھا جا رہا تھا لیکن کافی کی بھینی بھینی خوشبو، سگریٹ کا تلخ دھواں اور گرما گرم بحث کا ہنگامہ فضا کو مکدرّ کر رہا تھا۔ ولیم نے پوچھا اندر یا باہر؟
یکساں ہے۔ ہم لوگ شبنم اور دھوئیں کے درمیان معلق ہیں اور دونوں ہی مضر ہیں۔
ولیم نے تائید کی اور کہا لیکن ان میں ظاہر و باطن کا فرق ہے۔ ایک کی ایذارسانی جلد تک محدود ہے اور دوسرے کی اندر پھیپھڑے تک جا تی ہے۔ اس بار ٹام نے تائید کی اور فیصلہ ہو گیا۔ دونوں باہر آئے، دوکرسیوں کو ٹھیک کیا۔ ایش ٹرے کو نیچے پڑے کوڑے دان میں جھاڑا اور سگریٹ کو ہونٹوں پر رکھا ہی تھا کہ ویٹریس لائٹر لے کر حاضر ہو گئی۔ اس نے دونوں کے سگریٹ یکے بعد دیگرے جلائے۔
ویٹریس جب واپس جا رہی تھی تو ٹام سوچ رہا تھا یہ عورت سیاہ فام ہے اس کے باوجود پہلے ہاروے کا سگریٹ جلا پھر اس کا۔ اگر اپنے بھی تفریق کرنے لگیں تو بھلا غیروں سے شکوہ کیسا؟ ہاروے نے اپنے لیے ترکی کافی اور ٹام کے لیے امریکن ایکسپریسو کا آرڈر دیا۔
ٹام نے کہا اتنی رات گئے اگر میں ترکی کافی پی لوں توسویرے تک نیند ہی نہ آئے۔ کس قدر کافی ڈالتے ہیں یہ ترکی لوگ؟
لیکن سونا کسے ہے؟ میں نے جان بوجھ کر ترکی کافی منگوائی ہے۔
اچھا تو کیا میں اپنا آرڈر بدل دوں؟ ٹام نے سوال کیا۔
نہیں اس کی ضرورت نہیں دوسری مرتبہ جب میں امریکن ایکسپریسو منگواؤں گا تو تم ترکی کافی لے لینا اور اسی کے دونوں دوست ہنس پڑے۔
چند منٹوں میں ٹام اور ہاروے نے برسوں کا فاصلہ طے کر لیا تھا اور وہ پھر اسکول کے زمانے میں لوٹ گئے تھے۔ ہاروے نے پوچھا یار یہ بتاؤ کہ تم کسی خاص کام سے میرے گھر آئے تھے یا بس یونہی۔ ویسے آج کل والد صاحب کا زیادہ تر کام میں ہی دیکھنے لگا ہوں تم مجھے بتاؤ کیا کام ہے؟ میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ کام ان سے پہلے میں کر دوں گا۔
ٹام بڑے اعتماد سے بولادوست بات در اصل یہ ہے کہ میں جس کام سے ان کے پاس گیا تھا وہ کام ہو چکا ہے اس لیے میں تمھاری پیش کش کا شکریہ ہی ادا کر سکتا ہوں بس۔
ہاروے کے تجسس میں اضافہ ہو گیا اس نے پوچھا مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ کام ہو گیا پھر بھی کیا تم مجھے اس کے بارے میں بتانا پسند کرو گے؟
ہاروے کی پریشانی سے ٹام محظوظ ہونے لگا تھا۔ ٹام نے کہا بات در اصل یہ ہے کہ میں تمھارے گھر گیا تو کسی اور کام سے تھا لیکن ہو گیا کوئی اور ہی کام۔
یار پہیلیاں نہ بجھواؤ۔ پہلے تو یہ بتاؤ کہ تم میرے گھر کس کام سے گئے تھے؟
سچ تو یہ ہے کہ میں کسی کام سے تمھارے گھر گیا ہی نہیں تھا۔ اب گتھی مزید الجھ گئی تھی۔
اچھا تو تمہیں کوئی کام نہیں تھا پھر بھی تم میرے گھر چلے گئے؟
جی ہاں چونکہ میرے پاس کوئی کام تھا ہی نہیں اسی لیے میں وہاں نکل گیا۔
یار تم نہیں بدلے وہی پرانی، آدھی چھپانے اور آدھی بتانے والی عادت۔
ٹام بولا لیکن میں نے ابھی تک آدھی بات بتائی کب ہے؟
جی ہاں یہ بھی سچ ہے کہ تم نے ابھی تک کچھ بھی نہیں بتلایا۔
اس لیے کہ میرے پاس بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
ہاروے نے انکار کیا اور کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کسی کے پاس بلاوجہ جائے۔ میرے لیے یہ ناقابل فہم معمہ ہے۔ تم مجھ سے راز داری برت رہے ہو اپنے اسکول کے دوست ہاروے سے۔ یہ بہت بری بات ہے ٹام تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
مجھے بھی کہنا پڑے گا کہ تم بھی نہیں بدلے ہاروے۔ وہی منھ بسور کر روٹھنے کا پرانا انداز اور دیکھو رونا نہیں۔ بڑے بچے نہیں روتے کیا سمجھے؟
اگر تم نے نہیں بتایا تو میں دہاڑیں مار مار کر رونے لگوں گا یا اٹھ کر واپس چلا جاؤں گا۔
یہ بھی تمھاری پرانی عادت ہے ٹام دل لگی کر رہا تھا۔ بات در اصل یہ ہے کہ وہ دیکھو ویٹریس ہمارے لیے کافی لا رہی کیسے سنبھل سنبھل کر آ رہی جیسے گاگر چھلک نہ جائے۔
ویٹریس سمجھ گئی اسی کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس نے مسکرا کر پوچھا سر کچھ اور؟ ہاروے نے جھنجلا کر کہا نہیں کچھ نہیں۔
ٹام بولا چھی چھی چھی اچھے بچے غصہ نہیں کرتے۔ پھرویٹریس کی جانب مڑ کر کہا دیکھو نصف گھنٹے بعد ایک مرتبہ پھر یہی سب لے آنا کیا سمجھیں؟
ویٹریس نے سر ہلا کر شکریہ ادا کیا اورمسکرا کر لوٹ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بل کون ادا کرے گا یہ گورا یاوہ کالا۔ خیر اس کو اپنی ٹپ سے مطلب تھا گورے کالے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ہاں تو ہاروے میں کیا کہہ رہا تھا؟ کہ درمیان میں وہ منحوس عورت آ گئی؟
جی ہاں تم کہہ رہے تھے کہ ……..
ٹام درمیان میں بول پڑاکسی نے صحیح کہا ہے موت اور مصیبت بول کر نہیں آتے۔
اب اس منحوس کو چھوڑو اور اپنی سناؤ ورنہ انتظار کا یہ اژدھا مجھے نگل جائے گا۔
ٹام بولا ہاں مجھے یاد آ گیا میں کہہ رہا تھا کہ آج صبح مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ہمارے چہیتے سنیٹر ولیم کنگسلے آج شام اپنی کوٹھی کے لان میں ایک قومی مسئلہ پر چند معزز لوگوں کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ اس اہم نشست میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے سوچا زہے نصیب جو مجھ جیسے بیروزگار نوجوان کی بھی یاد فرمائی ہوئی۔
پھر اس کے بعد جب میں نے اس امید پر کہ ممکن ان بہتیرے انٹرویوز میں سے کسی کی کال آ گئی ہو اپنا ای میل بوکس کھولا تو وہاں بھی یہی پیغام مسکرا رہا تھا۔ اب اس خیال سے کہ میرا شمار معزز ین شہر میں ہو رہا ہے جلسہ میں شرکت کا ارادہ کر لیا۔
سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس اس وقت کرنے کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔ ایک توقع یہ تھی کہ ممکن ہے تم سے ملاقات ہو جائے لیکن وہاں تمھارا نام و نشان نہیں تھا یہ بتاؤ کہ تم کیوں نہیں آئے؟ ٹام کے جواب کا خاتمہ ایک نہایت مشکل سوال پر ہوا تھا۔
ہاروے بولا یار کیا بتاؤں میرے والد کے نزدیک تو میں گھر کی مرغی دال برابر ہوں۔ وہ میرا شمار اہم شخصیات میں کریں تب نا مجھے دعوت دیں۔ لیکن تمھاری بات اور ہے۔
لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے اس طرح کی نشستوں میں صرف انھیں کو دعوت دی جاتی ہو جن سے شرکت کی توقع ہو؟ یہ دوسرا طنز تھا۔ جس سے امید ہی نہ ہو اسے کیوں بلایا جائے؟
ہاروے نے اپنی مدافعت میں کہا یار اس ٹکنالوجی کے دور میں ایک کو بلا یا جائے یا ایک ہزار کو، زحمت تو یکساں ہی ہوتی ہے اس لیے سبھی کو بلا لیا جاتا ہے جیسے کہ تمہیں بلا لیا گیا۔
دوستوں کی نوک جھونک جاری تھی ٹام کہہ رہا تھا لیکن پھر بھی کچھ ایسے ہوتے ہیں جنھیں تمام قربتوں کے باوجود دور رکھا جاتا ہے۔ اچھا سچ سچ بتاؤ تمہیں بلایا نہیں گیا تھا اس لیے تم نہیں آئے یا سرے سے پتہ ہی نہیں تھا۔
دونوں ہی باتیں درست ہیں میرے دوست، نہ تو مجھے پتہ تھا اور نہ بلایا گیا تھا لیکن ایک بات اور ہے اگر یہ دونوں باتیں ہوتیں تب بھی شاید ……..
کیا مطلب؟ ٹام نے چونک کر پوچھا۔
کچھ نہیں میرا مطلب ہے تب بھی شاید میں شریک نہیں ہو پاتا۔
کیوں؟ یہ ٹام کے لیے حیرت کا جھٹکا تھا۔
بات در اصل یہ ہے کہ آج کل میرے لیے الفاظ اپنے معنی کھوتے جا رہے ہیں۔
کیا مطلب؟ جو کچھ میں بول رہا ہوں وہ سب تم کو بے معنی لگتا ہے؟
جی نہیں ٹام میں تمھاری بات نہیں کہہ رہا تھا۔ تم تو وہی کہتے ہو جو تمھارا دل کہتا ہے۔ میں ان لوگوں کی بات کر رہا تھا جو دماغ سے سوچ کراسے عقل کی میزان پر تولتے ہیں اور پھر نفع نقصان کا حساب کرنے بعد بولتے ہیں۔ مجھے الفاظ کے ان بہی کھاتوں سے الجھن ہونے لگی ہے جہاں بالآخر جمع اور خرچ کو برابر کر دیا جاتا ہے اور ساری ادھیڑ بن کا نتیجہ صفر کا صفر ہی رہتا ہے۔
معاف کرنا تمھارا یہ فلسفہ میری سمجھ سے پرے ہے۔
ہاروے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا بالکل تمھاری منطق کی طرح جو میری سمجھ میں نہیں آتی اور اسی کے ساتھ دونوں دوستوں کا زوردار قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔
کافی کا پہلا دور ختم ہو چکا تھا ہاروے نے پھر سگریٹ کی ڈبیہ جیب سے نکالی اور جیسے ہی دونوں نے سگریٹ کو ہونٹوں پر رکھا وہی ویٹریس لائٹر کے ساتھ پھر حاضر ہو گئی۔ اس بار وہ پہلے ٹام کی جانب بڑھی لیکن لاشعوری طور پر ٹام نے اس سے کہا پہلے وہ پھر میں۔ وہ مسکرائی اس نے پہلے ہاروے کی سگریٹ جلائی اور پھر ٹام کی سگریٹ سلگانے کے بعد پوچھا سر اگر اجازت ہو تو میں کافی لے آؤں۔ ہاروے نے تائید کی اور دھوئیں کے مرغولے چھوڑنے لگا۔
ٹام سوچ رہا تھا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس نے ویٹریس کو پہلے اپنا سگریٹ جلانے کی اجازت کیوں نہیں دی؟وہ کیوں ضروری سمجھتا ہے کہ ہاروے کا حق اس پر مقدم ہے؟ اس سوال کا جواب وہ بچپن سے تلاش کر رہا تھا اور شاید بڑھاپے تک ڈھونڈتا رہے۔ دونوں دوست اپنی اپنی سوچ میں گم لمبے لمبے کش لے رہے تھے کہ کافی آ گئی۔ ترکی کافی ہاروے کے اور ایکسپریسو ٹام کے سامنے سجا دی گئی۔
دونوں بیک وقت بولے نہیں …….
ویٹریس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولی گستاخی معاف جناب۔ اب وہ پیالیوں کی جگہ بدل چکی تھی۔ ٹام سوچ رہا تھا کتنا آسان ہے پیالیوں کی جگہ کا بدل جانا بلکہ ان میں موجود کافی کا بدل جانا بھی کسی قدر آسان ہے لیکن حالات نہیں بدلتے اور اگر حالات بدل جائیں تب بھی انسان …..نہیں بدلتا ……… کبھی نہیں بدلتا۔
امریکن ایکسپریسو کا پہلا گھونٹ جیسے ہی ہاروے کے حلق سے نیچے اترا اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس نے پو چھا بغیرکسی کام کے میرے گھر آنے والی تمھاری بات تو سمجھ میں آ گئی لیکن پھر کام کے ہو جانے والی بات تم نے نہیں بتائی۔
جی ہاں ہاروے اسی اہم بات کو بتانے کے لیے میں تمہیں گھر کے اندر تلاش کر رہا تھا لیکن تم سے ملاقات باہر ہوئی۔
اچھا تو یہ اندر باہر کا چکر چھوڑو اور سیدھے سیدھے بتاؤ کہ آخر ہوا کیا؟
بھئی یہی ہوا کہ کام ہو گیا۔
وہی تو میرا سوال ہے کہ وہ کیا کام تھا جو ہو گیا؟
کام یہ ہوا کہ میں بے کار سے برسرِ روزگار ہو گیا۔
اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا کوئی ساری عمر تو بیروزگار نہیں رہتا۔
جی نہیں میرے دوست یہ عام روزگار کی بات نہیں ہے۔ ولیم انکل کی زوردار تقریر سننے کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں فوج میں شامل ہو کر عراق جاؤں گا اور وہاں جا کر ملک و قوم کا نام روشن کروں گا۔ امن عالم کے قیام کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دوں گا۔
ہاروے نے چونک کر پوچھا، اتم نے اپنے ارادوں سے میرے والد کو آگاہ کیا یا نہیں؟
کیوں نہیں؟ بالکل کیا۔
تو پھر انھوں نے کیا کہا؟
وہ کیا کہتے۔ ان کی باچھیں کھل گئیں۔ انھوں نے میری پیشانی کو بوسہ دیا۔ مجھے سینے لگا کر کہا ٹام !تم اس علاقے سب سے ہونہار اور قابلِ فخر نوجوان ہو
بہت خوب، ہاروے نے مصنوعی مسرت کا اظہار کیا۔
ٹام نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ وہ واشنگٹن میں صدر محترم سے میرا ذکر کریں گے۔ پریس والوں کو میرے بارے میں بتلائیں گے اور واپس آنے کے بعد ہولی کراس چوک پر منعقد ہونے والے عظیم الشان عوامی جلسہ میں میری زبردست پذیرائی ہو گی تاکہ دوسرے نوجوانوں کو مجھ سے ترغیب ملے۔ وہ بھی آگے آئیں۔ عراق جا کر قومی خدمت انجام دیں اور وطن عزیز کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالیں۔
یہ سب سن کر ہاروے کو اپنے دوست ٹام کی حالت پر رحم آ گیا لیکن ٹام تو گویا ہوا میں پرواز کر رہا تھا وہ کہہ رہا تھا اس کے بعد کیا ہو گا تم جانتے ہو۔ شاید نہیں جانتے؟ اس کے بعد تمھارا یہ دوست ٹام فوبرگ تمام ذرائع ابلاغ پر چھا جائے گا۔ جب محاذِ جنگ سے میری شجاعت کی خبریں آئیں گی تو تم فخر سے کہو گے کہ یہ وہی ٹام فوبرگ ہے جو میرا ہم جماعت تھا۔ یہ میرا دوست ہے۔ میں اس کے ساتھ رات گئے تک کافی ہاوس ۷×۲۴میں بیٹھ کر کافی پیتا تھا گپ شپ کرتا تھا۔
اسی کے ساتھ ٹام کا فلک شگاف قہقہہ فضا میں بلند ہوا لیکن اس بار ہاروے اس میں شامل نہ ہو سکا۔ اسے ایسا محسوس ہوا گویا پھر ایک بار ٹام نے اسے چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ وہ مکے بازی کے رنگ میں لہولہان پڑا ہوا ہے۔ اس کے والد ریفری ہیں جو ٹام کا ہاتھ ہوا میں اٹھا کر اس کے ورلڈ چمپئن ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ مسابقت کی چنگاری نے حسد کے شعلوں کو بھڑکا دیا تھا۔ ہاروے بڑی محنت سے مسکراکر بولا ٹام صبح ہونے والی ہے گھر چلنا چاہئے۔
ٹام کے کان مبارکباد کے الفاظ سننے کے لیے ترس رہے تھے لیکن وہ محروم ہی رہا۔ کافی ہاوس سے گھر تک کا فاصلہ خاموشی کے ساتھ طے ہو گیا۔ ۔ راستے میں ہاروے کو اپنی تنگ دلی کا احساس تو ہوا مگر اب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ ندامت بھی ہوئی لیکن چڑیا کھیت چگ چکی تھی۔ ٹام کے گھر پہونچنے کے بعد گاڑی کو روک کر ہاروے باہر آیا اور اپنے دوست ٹام کو گلے لگا کر کہا بہت بہت مبارک ہو میرے دوست۔ مجھے تم پر ناز ہے۔
مبارکباد نے زخموں کو یکسر بھر دیا۔ ہاروے کی کشادہ دلی سارے گلے شکوے نگل گئی۔ دونوں دوستوں نے نہایت پر جوش مصافحہ کیا اور ٹام شاداں و فرحاں اپنے گھر میں داخل ہو گیا۔ بوجھل قدموں کے ساتھ اداس و غمگین ہاروے واپس گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا اور ہوا سے باتیں کرنے لگا۔
٭٭٭
۴
اپنی خوابگاہ میں داخل ہونے کے بعد ہاروے کی نظر سب سے پہلے ٹک ٹک کرتی گھڑی پر پڑی تو اسے معلوم ہوا کہ صبح ہونے میں اب بھی دو گھنٹے باقی ہیں۔ سونے کے ارادے سے وہ اپنے بستر پر دراز ہو گیا لیکن دور دور تک نیند کا پتہ نہیں تھا۔ چین و سکون کی گٹھری پر ٹام نے ڈاکہ جو ڈال دیا تھا۔ ٹام اس قدر آسانی سے آگے نکل جائے گا اس خیال کو وہ ہضم نہیں کر پا رہا تھا۔ بلا ارادہ وہ ٹام کو مات دینے کی تدابیر پر غور کرنے لگا لیکن کچھ سوجھتا نہ تھا کہ آنکھ لگ گئی۔
ہاروے کے خواب میں بھی ٹام موجود تھا۔ محاذِ جنگ کے کارناموں نے اسے بہت مقبول کر دیا تھا اس نئی صورت حال میں ولیم اپنے نور نظر کو پارٹی کا ٹکٹ دلانے میں ناکام ہو چکے تھے بلکہ پارٹی سے وفاداری نے خود ان کو بھی ٹام کی حمایت پر مجبور کر دیا تھا۔
خواب نے ایک کروٹ لی تو منظر بدل گیا وہ کیا دیکھتا ہے کہ حزب اختلاف جماعت نے ہاروے کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ اب سیاسی بساط پر باپ اور بیٹا ایک دوسرے کے مدمقابل ہو گئے ہیں۔ ولیم کنگسلے کی شخصیت دو خانوں میں بنٹ گئی ہے۔ وہ اندر سے کچھ، اور باہر سے کچھ اور ہو گئے ہیں۔ درپردہ اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کے خلاف جال بُنا جا رہا ہے اور مخالف امیدوار کو کامیاب کرنے کا سازشیں ہو رہی ہیں۔ لیکن عوام کے اندر بلا کا جوش و خروش ہے۔ پہلی مرتبہ ایک ایسے حلقہ انتخاب سے جہاں سیاہ فاموں کی خاصی بڑی آبادی ہے ان کی اپنی برادری کا ایک شخص قسمت آزمائی کر رہا ہے۔ اس خیال نے سارے افریقی و ایشیائی رائے دہندگان کے اندر خوشی کی لہر دوڑا دی ہے اور ماحول ایسا ہو گیا کہ گویا بغیر پولنگ ہی کے فیصلہ سنا دیا جائے۔
سازشوں کی ناکامی نے ضرب اور تقسیم کا سارا حساب کتاب بگاڑ دیا ہے پولنگ ہو چکی ہے ووٹ گنے جا رہے ہیں۔ یہ گنتی ویسے تو بے معنی معلوم ہوتی پھر بھی نتائج کا سب کو انتظار ہے اور پھر اعلان بھی ہو جاتا ہے۔ ہاروے کنگسلے کو کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے اور ٹام فوبرگ کے ساتھ ولیم کنگسلے بھی اپنی اولین انتخابی شکست سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اسی لمحہ ہاروے کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ سے کہتا ہے ان خیالی باتوں کا حقیقت سے کیاواسطہ؟
ہاروے کی نیند ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ جسم آرام کا طلبگار تھا لیکن روح کی بے کلی کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی تھی۔ دوسرے دن بلکہ اسی رات ولیم کنگسلے کو واشنگٹن جانا تھا۔ ہاروے اس سے قبل اپنے والد سے ایک اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔ ہاروے کو یقین تھا کہ دن بھر کی مصروفیت باپ بیٹے کو سکون سے بات کرنے کا موقع نہیں دے گی اس لیے ناشتے کی میز سے اچھا کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا تھا۔ ولیم کنگسلے معمول کے مطابق ساڑھے سات بجے ناشتہ کرتے تھے اس لیے ہاروے بھی با دلِ ناخواستہ سات بجے حمام میں داخل ہو گیا۔
ولیم کنگسلے نے جب ناشتے کی میز پر اپنے بیٹے کو حاضر پایا تو بہت خوش ہوئے اس لیے کہ انھیں بھی جانے سے قبل چند اہم ہدایات دینی تھیں۔ ہاروے بولا گڈ مارننگ پاپا۔
ویری گڈ مارننگ ٹو یو مائی سن یہ کہہ کر ولیم سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے اور رسماً سوال کیا۔ بیٹے تمھاری آنکھیں اشتراکیوں کی مانند سرخ ہو رہی ہیں۔ رات دیر گئے آئے تھے کیا؟
پاپا سوویت یونین کا جنازہ اٹھ گیا۔ اشتراکیت کی تدفین ہو گئی پھر بھی آپ لوگوں کے حواس پر اس نظریہ کا بھوت سوار ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔
جی ہاں بیٹے میں جانتا ہوں کہ اب ہم لوگ سرخ نہیں بلکہ سبز آندھی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔ تم نے اگر کل رات میری تقریر سنی ہوتی تو تمہیں اس کا اندازہ ہو جاتا لیکن ان مواقع پر جب سارے اہم لوگ جمع ہو تے ہیں تم گدھے کے سر سینگ کی مانند غائب ہو جاتے ہو؟
جی ہاں پاپا جس محفل میں ٹام جیسے گدھے موجود ہو وہاں میرا کیا کام اگر آپ کے نزدیک وہ اہم ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔
ہاروے کی زبان سے ٹام کا نام سن کر ولیم چونک پڑا۔ ٹام …. تمہیں کیسے پتہ کہ کل رات ٹام یہاں آیا تھا؟ کہیں تمھاری اس سے ملاقات تو نہیں ہو گئی؟
جی ہاں ہوئی تھی کل مجھے بھی شہر کے ہونہار ترین دلیر نوجوان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو گیا۔ ہاروے کا ہر ہر لفظ نفرت کے شعلے برسا رہا تھا۔ کل رات دیر گئے میں ٹام سے آپ کی پر اثر تقریر کی روداد سنتا رہا اور محظوظ ہوتا رہا۔ آپ نے تو کل واقعی جادو کر دیا۔
بیٹے ! اس میں مجھ سے زیادہ ٹام کا حصہ ہے وہ نہایت مخلص اور حوصلہ مند نوجوان ہے۔ تقریر تو ساروں نے سنی اور اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے لیکن وہ مسحورو مجذوب لان ہی میں بیٹھا رہا اور جانے سے قبل اس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ فوج میں شامل ہو کر عراق جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نوجوان نے میرا دل خوش کر دیا۔
پاپا وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ نے اس کی پذیرائی کا بھی فیصلہ کر لیا اور مجھے بھول گئے۔
تمھیں ……… تمھیں کیسے بھول سکتا ہوں بیٹے۔ تم ہی تو میرے صلبی اور سیاسی وارث ہو۔
سو تو ہے لیکن کیا آپ نے غور کیا کہ اگر عراق جانے سے قبل اس کے چرچے شروع ہو جائیں اور وہ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر لوٹے تو اس کی مقبولیت میں کس قدر اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے بعد تو کولاریڈو کے حلقہ سے اس کے علاوہ کوئی اور انتخاب جیت ہی نہیں سکے گا۔
اپنے بیٹے کی سیاسی بصیرت نے ولیم کا دل خوش کر دیا۔ وہ بولے بیٹے تم بہت دور نکل گئے۔ ٹام اکیلا عراق نہیں جائے گا۔ وہ تو ہزاروں میں ایک ہو گا اور وہاں حاصل ہونے والی کامیابی کاسہرہ کسی فرد واحد کی نہیں، پوری قوم کے سر بندھے گا۔
ولیم کی یہ دلیل ہاروے کو مطمئن نہ کر سکی وہ بولا پاپا آپ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ ہمارے رائے دہندگان میں اکثریت افریقی و ایشیائی باشندوں کی ہے۔ ہماری کامیابی کی بنیادی وجہ یہ ہے ان سیاہ فام لوگوں کو ہم نے ناچ گانے اور شراب و منشیات میں غرق کر رکھا ہے۔ ہم ان کے اندر قائدانہ صلاحیت ابھرنے نہیں دیتے لیکن ٹام کے فوج میں جانے سے یہ صورتحال بدل جائے گی۔ ان کے اندر بیداری کی ایک نئی لہر دوڑ جائے گی۔ انھیں اپنے ہی درمیان سے ایک رہنما مل جائے گا اور پھر ہمیں کون پوچھے گا؟ مجھے تو لگتا ہے آپ کے اس فیصلے نے ایک ایسی بارودی سرنگ بچھا دی ہے جو ہمارا سامراج بھسم کر دے گی۔
ہاروے کی دلیل کے آگے ولیم پسپا ہو گیا۔ وہ مدافعانہ انداز میں بولا بیٹا پارٹی کا حکم تھا کہ عوام کو جنگ کے لیے ابھارا جائے سو میں نے اپنا فرض منصبی ادا کر دیا اب مجھے کیا پتہ تھا کہ اس کا یہ نتیجہ نکلے گا؟
پاپا آپ کی بات درست ہے اور پارٹی نے جو فیصلہ کیا اس میں بھی کوئی خرابی نہیں ہے۔ لوگوں کو جنگ کے لیے ابھارنا اور محاذ پر روانہ کرنا ہماری قومی ضرورت ہے۔ میں کب اس سے نکار کرتا ہوں لیکن پارٹی نے یہ فیصلہ تو نہیں کیا تھا کہ اس کار خیر میں شریک ہونے والوں کی جلسۂ عام میں پذیرائی کی جائے اور ایسا کر کے آپ نے اپنے ہی پیر پر کلہاڑی چلا دی جائے۔ اصل مسئلہ تو ٹام کے اعزاز میں خطابِ عام ہے جو اس سیاہ فام کو مقبولیت کے آسمان پر پہنچا دے گا۔
ہاروے کی اس کٹ حجتی پر ولیم کا پارہ چڑھ گیا۔ وہ بولا دیکھو میری تقریر کسی خاص فرد یا گروہ کے لیے نہیں تھی۔ میں نے جن لوگوں کو شرکت کی دعوت دی تھی ان میں سے اکثریت سفید فام لوگوں کی تھی۔ تم نے تو خیر آنا ہی ضروری نہیں سمجھا لیکن جو آئے بھی تو آگے نہیں آئے۔ اب جس نے پیشقدمی کی تو وہ ٹام تھا اس میں میرا کیا قصور؟ آخری بات یہ کہ ٹام کو جنگ میں شریک کرنے کا فیصلہ میں نے نہیں بلکہ اس نے خود کیا ہے۔ اب میں اسے کیونکر منع کر سکتا ہوں۔
ولیم کے دلائل نے ہاروے کو لاجواب کر دیا وہ بولا پاپا میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں لیکن میری ایک تجویز ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس پر غور فرمائیں۔ کیاکسی لکیر کو چھوٹا کرنے کا ایک طریقہ یہ نہیں ہے کہ اس کے بغل میں ایک بڑی سی لکیر کھینچ دی جائے؟
میں تمھارے سوال کا مطلب نہیں سمجھا بیٹے۔
بات صاف ہے۔ میں بھی محاذِ جنگ پر جاؤں گا۔ جلسۂ تہنیت میں ٹام نہیں بلکہ میں اسٹیج پر بیٹھوں گا۔ میڈیا میری تعریف کرے گا۔ میدانِ جنگ سے میرے کارنامے نشر ہوں گے۔ میری مقبولیت اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ سچ تو یہ ہے پاپا کہ میں ٹام کو اپنے سے آگے جاتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔ ہاروے نے روہانسے لب و لہجے میں فریاد کی۔
ولیم نے کہا دیکھو بیٹے میری بات کو غور سے سنو چونکہ میں نے ٹام سے وعدہ کر دیا ہے اسلئے اب میں اپنے عہد سے پھر نہیں سکتا۔ دو دن بعد ہونے والے جلسے میں اس کی پذیرائی تو ہو گی ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس میں تمہیں بھی شریک کر لیا جائے لیکن اس سے پہلے میری خواہش ہے کہ تم اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرو۔ ہم سیاست پیشہ لوگ ہیں جنگ و جدال سے ہمارا واسطہ نہیں ہے۔
ہاروے کو اپنے والد کے اس جواب نے حیرت زدہ کر دیا وہ بولا پاپا کیا جنگ بھی سیاسی عمل ایک حصہ نہیں ہے؟ جنگ کرنے اور روکنے کا فیصلہ اگر ہم نہیں کرتے تو کون کرتا ہے؟ اس سے فائدہ بھی ہم ہی اٹھاتے ہیں اوراس کا خسارہ بھی ہمارے ہی حصے میں آتا ہے۔ اس کے باوجود آپ کہہ رہے ہیں کہ جنگ سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے۔
جی ہاں بیٹے تمھاری بات اس حد تک درست ہے کہ ہم جنگ کرواتے اور رکواتے ہیں لیکن اس میں عملاً شریک نہیں ہوتے۔
لیکن پاپا اگر ہم جنگ لڑواتے ہیں تو لڑنے سے گریز کی وجہ کیا ہے؟
ولیم نے خوش ہو کر کہا کہ بیٹے مجھے خوشی ہے کہ یہ پہلا معقول سوال تم نے کیا ہے۔ در اصل بات یہ ہے کہ جنگ لڑانے میں مرنے کا خطرہ نہیں ہوتا مگر لڑنے میں ہوتا ہے اور کون سا ایسا کٹھور باپ ہو گا جو تم جیسے ہونہار بیٹے کو ان خطرات سے دوچار کرے؟
لیکن پاپا کچھ پانے کے لیے تو کچھ کھونا بھی پڑتا ہے اس لیے میں اس جنگ میں شرکت کر کے رہوں گا۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔ یہ ملک و قوم کے تحفظ کا سوال ہے۔ یہ امنِ عالم کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ میں اس معاملے میں خاموش تماشائی بنا بیٹھ نہیں سکتا۔
دیکھو بیٹے میں تمھاری خودمختاری کا احترام کرتا ہوں اس کے باوجود ہمدردانہ التماس ہے کہ سنجیدگی سے اس فیصلے پر غور کرو۔ میرے واشنگٹن پہنچ کر اجلاس میں جانے سے قبل اپنی حتمی رائے سے آگاہ کر دینا۔ اطمینان رکھو ہر دو صورت میں تمھارا فیصلہ سر آنکھوں پر ہو گا۔
شکریہ پاپا مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔
اور دیکھو آج مسلمانوں کا ایک وفد مجھ سے ملاقات کے لیے آنے والا تھا۔ میں نے انھیں وقت تو دے دیا تھا مگر اس ایمرجنسی میٹنگ کے سبب اسے منسوخ کرنا پڑا۔ چونکہ وہ اصرار کرنے لگے اس لیے میں نے کہہ دیا کہ اگر مناسب سمجھو تواس بار میرے بیٹے ہاروے سے مل لو۔ وہ اس پر راضی ہو گئے۔ شام چار بجے وہ تمھارے دفتر میں آئیں گے۔ میرا خیال ہے خیرسگالی گفتگو ہو گی اور ممکن ہے وہ کسی پروگرام وغیرہ میں شرکت کی دعوت بھی دیں۔
تو کیا ان کی دعوت قبول کر لی جائے۔ ہاروے نے پوچھا
تم تفصیل لے لینا۔ اگر ممکن ہوا تو اس بار ہم دونوں اس میں شرکت کریں گے۔ وہ اس علاقہ کے اچھے باشندے ہیں انھوں نے ہمیشہ ہی میرا ساتھ دیا ہے۔ میں پہلے بھی ان کے مرکز پر جا چکا ہوں۔ بڑے مہذب اور بے ضرر قسم کے لوگ ہیں۔ ان سے مل کر اچھا لگتا ہے۔
ٹھیک ہے میں ان سے ملوں گا اور ا آپ کی تلقین کا پاس و لحاظ کروں گا۔
اس کے بعد ولیم نے ہاروے کو کاروبار سے متعلق بھی کچھ ہدایات دیں۔ چند دستاویزات پر دستخط کر کے اس کے حوالے کئے کچھ چیک بھجوانے تھے ان کے بارے میں بتایا اور دیگر اہم دفتری امور کی یاددہانی کرائی۔ ہاروے کی مصروفیت کا اچھا خاصہ انتظام کر دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے احمقانہ فیصلے کے بارے میں کم سے کم غور کر سکے اور جلد از جلد رجوع کر لے۔
ولیم اس حقیقت کا معترف تھا کہ برخوردار کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کرنا آسان نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہاروے کی رگوں میں اسی کا خون دوڑ رہا تھا۔ وہ خود بھی جب کوئی ارادہ کر لیتا تھا تو شاذو نادر ہی فیصلہ تبدیل کرتا۔ خیر ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ولیم اپنی گاڑی کی جانب چل پڑا۔ ہاروے باہر پورچ تک اس کے ساتھ آیا اور الوداع کہہ کر لوٹ گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ولیم اپنی زندگی کے ایک نئے سفر پر روانہ ہو چکا تھا۔
٭٭٭
۵
ہاروے کا دن حسب توقع کافی مصروف تھا۔ ولیم کے لیے آنے والا ہر فون اس کی جانب موڑ دیا جاتا تھا اس لیے نصف وقت تو فون پر گفتگو کی نذر ہو گیا۔ اس کے علاوہ فیکس۔ ای میلس، چیکس، آرڈرس۔ سپلائرس اور گاہکوں سے ملاقات اس طرح پتہ ہی نہ چلا کہ وقت کیسے گذر گیا اور شام ہو گئی۔ وہ اپنا کام سمیٹ کر لوٹنے کی سوچ رہا تھا کہ سکریٹری نے بتلایا مسلمانوں کا ایک وفد اس سے ملاقات کا منتظر ہے۔ ہاروے نے انھیں ملاقات کے کمرے میں بٹھانے کے لیے کہا اور خود بھی پہنچ گیا۔
وہ پانچ لوگ تھے جن میں ایک بزرگ اور چار نوجوان تھے۔ دعا سلام کے بعد بزرگ ڈاکٹر فیاض نے ولیم کے ساتھ اپنے قدیم مراسم کا ذکر کیا اوراسے یاد دلانے کی کوشش کی کہ کئی سال قبل ایک مرتبہ ولیم اسے بھی اپنے ساتھ لے کر مسلم کلچرل سینٹر میں آیا تھا۔ اس وقت وہ کافی چھوٹا تھا اور اس کے ساتھ ایک سیاہ فام بچہ بھی تھا نہ جانے کیا نام تھا اس کا؟
ہاروے بولا ٹام، وہ ہمارے ملازم کا لڑکا تھا اور میرا ہم جماعت بھی تھا۔
ارے تمہیں تو سب یاد ہے۔ بلا کی یادداشت ہے بیٹے۔
ہاروے نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا حقیقت میں اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ اندھیرے میں اس نے ایک تیر چلایا جو غالباً نشانے پر بیٹھا تھا ہاروے کے اندر ایک سیاستداں پرورش پا رہا تھا۔
ابتدائی گفتگو کے بعد ایک نوجوان نے کلچرل سینٹر کے اغراض و مقاصد اور سرگرمیوں کا مختصر تعارف کرایا۔ اس نے بتایا کہ ہمارے یہاں مختلف عوامی فلاح و بہبود کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک آخر ہفتہ کی تعطیلات میں ویک اینڈ کلاسس کا انعقاد ہے۔ ہم نو عمر بچوں کو ہفتہ میں دو دن اچھے اخلاق اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے مرکز میں لائبریری اور کھیل کا میدان ہے۔ ہم لوگ بچوں کو صحت مند مصروفیت اور صاف ستھری تفریح فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آگے چل کر وہ اچھے مسلمان اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔
ہاروے سراہتے ہوئے بولا اس دورِ پر فتن میں جب کہ برائیوں کی یلغار ہے بچوں کو بگڑنے سے بچانا اور نیکی کی راہ پر گامزن کرنا سب سے بڑا کارِ خیر ہے۔
اس کے بعد ایک اور نوجوان گویا ہوا شکریہ جناب ہم سال میں ایک مرتبہ بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام وا کرام سے بھی نوازتے ہیں اور اس سالانہ تقریب میں بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس پروگرام میں ہر سال آپ کے والد محترم شرکت کرتے ہیں۔ ہماری اس ملاقات کی غرض و غایت انھیں پھرسے زحمت دینے کی تھی۔
جی ہاں والد صاحب نے صبح اس کا ذکر کیا تھا اور آج کی ملاقات میں عدم موجودگی کے لیے معذرت ظاہر کرنے کے بعد مجھے ہدایت کی کہ میں تاریخ اور وقت کی تفصیل لے لوں۔ واپس آنے کے بعد وہ اپنی مصروفیات کو دیکھ کر آپ سے از خود رابطہ کریں گے۔ انھوں نے یقین دلایا ہے اس بار ہم دونوں یا ہم میں سے کوئی ایک ضرور اس سالانہ تقریب میں شرکت کرے گا۔
ارکانِ وفد نے پھر ایک بار شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس معاملے میں ہم نے لچک رکھی ہے آئندہ ماہ کے تیسرے یا چوتھے اتوار کی شام میں سے جو بھی آپ دونوں کے لیے مناسب ہو منتخب فرما لیں ہم اس دن یہ پروگرام رکھ دیں گے۔ وقت شام پانچ بجے کا ہے۔
یہ تو بہت معقول تجویز ہے۔ چونکہ کافی وقت ہے اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ دقت ہونی چاہئے الا ّ یہ کہ کوئی ناگہانی واقعہ پیش آ جائے۔
بزرگ نے کہا خدا نہ کرے ایسا ہو۔
جی ہاں ہاروے نے تائید کی ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو مگر ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے سے ہوتا کیا ہے؟ ہوتا تو وہی ہے جو ہونا ہوتا ہے اور وہ ہو کر رہتا ہے۔
جی ہاں بیٹے تمھاری اس بات نے میری برسوں پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ تمھارے دادا بھی اسی طرح حکمت کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر فیاض کہہ رہے تھے۔ تقریباًتیس قبل جب اس مرکز کا پہلا پروگرام ہونا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ مقامی آبادی سے بھی کسی مشہورو معروف شخصیت کو اس میں شرکت کی دعوت دی جائے۔ مختلف لوگوں کے ناموں پر غور ہوا فلمی اداکاروں اور فنکاروں کے نام اس لیے خارج از بحث کر دئیے گئے کہ ہمارے مرکز کے دینی ماحول سے ان کی شخصیت میل نہیں کھاتی تھی۔ پھر سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کے نام آئے تو ان میں سے کوئی بدکردار تھا تو کوئی بدعنوان گویا اخلاق و معاملات کی میزان پر وہ پورے نہیں اترے۔
تو گویا آپ نے کسی کو بلانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا۔
جی نہیں۔ اس کے بعد ہماری نظر انتخاب تمھارے دادا جان پر پڑی جو ایک اسکول کے سابق صدرِ مدرس تھے۔ گو کہ وہ بہت مشہور نہیں تھے پھر بھی ہم سب نے انھیں کے نام پر اتفاق کیا۔ جب انھیں دعوت دی گئی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اپنی درازیِ عمر کے باوجود انھوں نے ولیم کے ساتھ ہما ری تقریب کو رونق بخشی اور آئندہ سال اپنے بیٹے ولیم کو روانہ کر دیا۔ ولیم میرا ہم عمر تھا اور بہت جلد ہمارے مراسم دوستی میں بدل گئے۔
تو کیا آپ لوگوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے والد آگے چل کر میدانِ سیاست کے شہسوار ہوں گے؟
جی نہیں، اس وقت کوئی نہیں جانتا شاید خود اسے بھی اندازہ نہیں رہا ہو گا کہ آگے چل کر وہ سنیٹر بننے والا ہے۔ تمھارے دادا تو اسے ٹیچر بنا نا چاہتے تھے لیکن اس کا رجحان تجارت کی جانب تھا۔ بالآخر اس نے تجارت کا پیشہ اپنایا اور اس میں دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔ اس کی ایمانداری اور سادگی اسے سیاست میں لے آئی اور وہ شہر کا مئیر بن گیا۔ اب تو وہ سنیٹر ہے لیکن بیٹے یقین کرو ہم اسے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اس لیے نہیں دعوت دیتے کہ وہ امریکی کانگریس کا معزز رکن ہے بلکہ اس لیے بلاتے ہیں کہ اس کا اخلاق اچھا ہے۔ کردار صاف ستھرا ا ہے اور تقریر ….تو اس کیا کہنا۔ پورے ملک میں شاید ہی اس کے برابر کا کوئی خطیب ہو۔
ہاروے بولا آپ تو میرے والد صاحب کو مجھ سے پہلے سے جانتے ہیں۔
تم نے صحیح کہا بیٹے ولیم کی شادی کی تقریب میں بھی میں شریک تھا۔
اس گفتگو کے دوران جو نوجوان خاموش تھا ان میں سے ایک کے بارے میں ہاروے کو بار بارمحسوس ہو رہا تھا کہ اسے کہیں دیکھا ہے۔ ہاروے نے از راہِ تجسس پوچھ لیا کیوں میاں تم سینٹ جارج اسکول کے طالبعلم تو نہیں تھے؟
جی نہیں میں سینٹ پال میں پڑھتا تھا۔
لیکن پھر بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے …….
وہ نوجوان بولا جی ہاں باسکٹ بال گراؤنڈ۔
اوہو یاد آیا سینٹ پال کا وہ خطرناک کھلاڑی جس کے ہاتھ میں اگر گیند آ جاتی تھی تو پھر سیدھے باسکٹ کا رخ کرتی تھی ٹھیک ہے۔
نوجوان بولا جی نہیں ایسی بات بھی نہیں تھی۔
تمہیں شاید پتہ نہ ہو کہ تمھارے آس پاس تین کھلاڑیوں کو محض اس لیے تعینات کیا جاتا تھا کہ وہ گیند کو تم تک پہنچنے نہ دیں۔ وہ لوگ سائے کی مانند تمہیں گھیرے رہتے تھے اور ان میں سے ایک میں ہوتا تھا۔
تم نے ٹھیک کہا ہاروے میں وہی احمد رمزی ہوں۔
احمد رمزی! ابھی یاد آیا لیکن ایک بات بتاؤں تم کافی بدل گئے ہو۔ ایسے سنجیدہ تو تم کبھی بھی نہیں تھے۔ تمھارے قہقہوں سے سارا میدان گونجتا تھا۔
یہ بھی درست ہے ہاروے لیکن کیا کروں حالات نے مجھ پر سنجیدگی طاری کر دی ہے۔
ہاروے بولا اچھا تو یہ بتاؤ کہ تم کرتے کیا ہو۔
رمزی نے جواب دیا میں …. میں یہاں پٹرول پمپ پر کام کرتا ہوں۔
اچھا کب سے؟
جزوقتی طور پرتو اس مشغلے کی ابتداء اسکول کے زمانے میں ہو گئی تھی اب وہ ہمہ وقتی میں بدل گیا ہے۔
ہاروے بولا اور باسکٹ بال؟
احمد رمزی نے قہقہہ لگا کر کہا اسے تو نہ جانے کب باسکٹ میں ڈال کر فضا میں اچھال دیا تھا سو ابھی تک لوٹ کر نہیں آئی اور شاید اب کبھی بھی واپس نہ آئے۔ رمزی کی ہنسی کے پیچھے چھپے ہوئے کرب کو سبھی نے محسوس کر لیا تھا۔
ڈاکٹر فیاض نے ہاروے سے مصافحہ کیا اور وقت دینے کے لیے پھرسے شکریہ ادا کیا۔
ہاروے نے بھی یاد فرمائی کے لیے اور یادِ رفتگاں میں شریک کرنے کے لیے اظہار تشکر کیا اور اسی کے ساتھ وفد نے اپنی راہ لی۔
ڈاکٹر فیاض کی پر وقار شخصیت سے ہاروے بے حد متاثر ہوا تھا۔ ان کے ہر لفظ سے اخلاس و محبت ٹپکتا تھا۔ وہ سوچنے لگا کیسے بنتے ہیں یہ انسانی رشتے؟ نسل در نسل آگے بڑھنے والے یہ تعلقات کیونکر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں؟ اس کے ضمیر نے جواب دیا اگر تعلقات کی بنیاد اخلاص و ایثار پر رکھی جائے اور باہم ایک دوسرے کا خیال کیا جائے تو یہ پاکیزہ شجر کبھی بھی خزاں رسیدہ نہیں ہوتا۔
ملاقات کے کمرے سے واپس اپنے دفتر میں آنے کے بعد وہ اپنے اور ٹام کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان وہ رشتہ کہاں چلا گیا جو ولیم اور فیاض کے درمیان اب بھی قائم ہے۔ شاید اس رشتہ کو بھی کسی نے باسکٹ میں ڈال کر احمد رمزی کے خواب کی طرح فضا میں اچھال دیا تھا اور اب اس گیند کو کبھی بھی لوٹ کر آنا نصیب نہ ہو۔
احمد رمزی کی کسم پرسی نے ہاروے سوگوار کر دیا تھا۔ ویسے تو کولاریڈو میں سیکڑوں طلبا باسکٹ بال کھیلتے تھے لیکن احمد رمزی !اس جیسا تو کوئی نہیں تھا۔ بیچارہ احمد رمزی۔
ہاروے تھک کر چور ہو چکا تھا اس نے سوچا آج کے لیے اتنا کام کافی ہے اب گھر چلنا چاہئے لیکن قبل اس کے وہ اپنا کمپیوٹر بند کرتا سکریٹری نے اطلاع دی کہ جنرل منیجر نے درخواست کی ہے وہ ایک اہم کام کو ختم کر کے نصف گھنٹے بعد اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ کیا میں انھیں ہاں کہہ دوں؟
ہاروے با دلِ ناخواستہ ہاں کہہ کر پھر ایک بار کولہو کے بیل کی مانند کام میں جٹ گیا۔
٭٭٭
باب دوم
۶
واشنگٹن میں ہونے والی حکمراں جماعت کی اس مخصوص نشست میں چنندہ وفادار اور سعادتمند ارکانِ کانگریس کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ایسے اطاعت گزار اور فرمانبردار ممبران جن سے کسی بھی صورت میں پارٹی لائن سے انحراف کا ذرہ برابر اندیشہ نہیں تھا۔ اس غیر معمولی احتیاط کی وجہ یہ تھی کہ نشست میں عوام کو جنگ میں شامل کرنے کی حکمتِ عملی پر غور و خوض ہونا تھا۔ یہاں ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جنھوں نے اپنے ضمیر کو پارٹی کے پاس رہن رکھ دیا ہو۔ یہ ایسے افراد تھے جو وہی سوچتے تھے جو پارٹی چاہتی تھی۔ وہی بولتے جو پارٹی کہلواتی تھی اور وہی کرتے تھے جس کا حکم دیا جاتا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ہائی کمان پر ایسا اعتماد اور اس سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی کہ قادرِ مطلق سے ہونی چاہئے۔
صدر محترم نے حاضرین کا استقبال کیا اور اغراض و مقاصد پر مختصر روشنی ڈالی۔ ان کے بعد حکمت عملی کی تفہیم کرانے کے لیے معمر سنیٹر جان ڈیو کو اس کے تمام القاب و آداب کے ساتھ دعوتِ خطاب دی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جان کا تعلق نہ تو فوج سے تھا اور نہ ہی انتظامیہ کا اسے تجربہ تھا۔ اس کوتو لوگ ایک ذہین اور شاطر ماہر معاشیات کے طور پر جانتے اور پہچانتے تھے۔
جان ڈیو نے اپنے خطاب کے آغاز ہی میں یہ بات صاف کرتے ہوئے کہا دوستو یہ درست ہے کہ اسلامی دہشت گردی آج عالم انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے لیکن فی الحال ہمارے سامنے اس سے بڑا مسئلہ روز بروز بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور معاشی ابتری کا ہے۔ اس لیے کہ باہر کے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے پاس بے شمار اہتمام ہے۔ بری، بحری اور ہوائی فوج ہے۔ اسلحہ ہے جاسوسی کا ایسازبردست جال پھیلا ہوا ہے کہ جس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہمارے باجگزار حکمراں برسرِ اقتدار ہیں جن کی مدد سے ہم سارے عالم پر بلاواسطہ راج کر رہے ہیں لیکن اس داخلی مصیبت میں ہماری مدد کوئی نہیں کر سکتا۔
ہماری صنعتیں تیزی کے ساتھ رو بہ زوال ہیں جس کے سبب بے روزگاری کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ جائزے کے مطابق صحت عامہ کے حوالے سے ہماری انشورنس پالیسی نے ۶۱ فیصد چھوٹے تاجروں کے مستقبل کو مشکوک کر دیا ہے اور وہ فکرمند ہیں۔ ان میں سے ۳۰ فیصد نے نئے ملازمین کی بھرتی پر روک لگا دی ہے۔ انھیں خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ وہ آئندہ چند ماہ میں اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ وہ آئے دن کسی نہ کسی چھوٹی صنعت کو بند ہوتے ہوئے جو دیکھ رہے ہیں۔
درمیان میں ایک شریک محفل نے سوال کیا کہ کیا یہ پہلی بار ہو رہا ہے؟
جی نہیں جان بولا پہلے جب صنعتکار یا سرمایہ دار کا سفینہ بھنور میں پھنس جاتا تھا تووہ بنک سے رجوع کر کے اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کی سعی کرتا تھا لیکن اب تو بنکوں کا بھی دیوالیہ پٹنے لگا ہے۔ نئی بھرتی کا تناسب بش سینئر کے زمانے میں ۳ء۱۱ فی ہزار تھا جو کلنٹن کے دور میں ۲ء۱۱ ہو گیا اور اب ۸ء۱۰ پر ہے لیکن ماہرین کے مطابق جلد ہی ۸ء۷ تک پہنچ جائے گا۔ یہ نہایت خطرناک صورتحال ہو گی۔
جان ڈیو نے اعداد و شمار کی مدد سے حاضرین مجلس کو سنجیدہ کر دیا تھا۔ اس نے گفتگو آگے بڑھاتے ہوئے کہا اب ہم نے یہ سوچا ہے کہ ایک زہر کو دوسرے زہر سے کاٹا جائے بیروزگاری کے خاتمے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بھڑا دیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے کا سدباب کر دیں۔ آج جس جنگی حکمت عملی پر گفتگو کے لیے ہم جمع ہوئے وہ فوجی مہم سیاسی مصالح کے علاوہ معاشی مقاصد کے حصول پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو وضع کرنے کی ذمہ داری ماہرین معاشیات کے سپرد کی گئی اور پیشکش کی زحمت مجھے دی گئی ہے۔ جان ڈیو کے خطاب کی وجہ تو حاضرین سمجھ گئے لیکن جنگ سے بے روزگاری کا تعلق ان کے فہم و ادراک سے پرے تھا۔
مجلس میں موجود ایک سینئر رکن لیری گومس نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جان نے ہمیں اعداد و شمار سے خوفزدہ کیا اور براہِ راست مسئلہ کے حل پر آ گیا۔ یہ توایسا ہی جیسے کوئی علامات کو دیکھ کر بیماری کی تشخیص کیے بغیر اپنی دوائی بیچنے لگے۔ ہم کسی نسخے پر اس وقت تک اتفاق نہیں کر سکتے جب تک کہ بیماری کی شناخت نہ ہو جائے۔
جان ڈیو اس سوال پر مسکراکر بولا مجھے خوشی ہے کہ ہمارے ساتھی ان معاشی اسباب کی تفصیل میں جانا چاہتے ہیں جو اس ابتر صورتحال کے لیے ذمہ دار ہیں۔ میں نے ان وجوہات کے اظہار کو یہ سوچ کر حذف کر دیا تھا کہ ممکن ہے وہ آپ لوگوں کے لیے وہ بہت زیادہ خشک موضوع ہو۔ خیر میں عام فہم انداز میں مثالوں کی مدد سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
ایک اور آواز آئی زہے نصیب شکریہ لیکن اختصار بھی ہو تو اچھا ہے۔
جان نے سر ہلا کر تائید کی اور بولا آپ سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہماری حکومت کے اخراجات اپنی آمدنی سے زیادہ ہیں جسے ہم لوگ گھریلو زبان میں آمدنی اٹھنی ّ اور خرچہ روپیہ کہتے ہیں۔ اسے آپ اسے ایک مشق سے سمجھیں :
- اس سال خزانے کی متوقع آمدنی ہے : ڈالر ۲۱۷……….
- اس سال اخراجات کا تخمینہ ہے : ڈالر۳۸۲……….
- اس سال کا خسارہ ہے : ڈالر ۱۶۵……….
- ماضی کا قومی خسارہ ہے : ڈالر۱۴۲۷۱………
- خسارے پر قابو پانے کے لیے کٹوتی: ڈالر۳۸۵……..
مجھے یقین ہے کہ اس قدر صفر آپ نے اس سے پہلے کبھی نہیں گنے ہوں گے اس لیے ہر سطر میں سے آٹھ صفر کم کر کے اسے گھریلو بجٹ میں بدل دیجیے :
- ایک خاندان کی سالانہ متوقع آمدنی ہے : ڈالر ۲۱۷۰۰
- سالانہ اخراجات کا تخمینہ ہے : ڈالر۳۸۲۰۰
- کریڈٹ کارڈ پراس سال کا قرض: ڈالر ۱۶۵۰۰
- کریڈٹ کارڈ پر پرانا قرض ہے : ڈالر۱۴۲۷۱۰
- خرچ میں کٹوتی برائے خسارہ: ڈالر۳۸۵
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارے پاس عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے لیے سرمایہ کیوں نہیں ہے؟ ہم اپنی صنعت و حرفت کو بحال کرنے کے لیے حکومت کی سطح پر کیوں بے دست و پا ہیں۔ جس گھر کی اپنی یہ حالت ہو وہ دوسروں کی کجا خود اپنے ہی خاندان کے غرباء ومساکین کے کام نہیں آ سکتا؟ آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ہم نے دیگر ممالک سے قرضہ جات حاصل کرنے کے لیے ایک نئی اصطلاح وضع کر رکھی ہے جس کا خوشنما نام قومی بانڈ ہے۔
گریگ نے مداخلت کی جان تم تو ہمارے قومی بانڈ کا مذاق اڑا رہے ہو؟
جی نہیں میں حقیقت بیان کر رہا ہوں جس قومی بانڈ کے عوض ہم سرمایہ جمع کرتے ہیں اس کی حقیقت بھی امریکی ڈالر کی مانند کاغذ کے پرزوں کی سی ہے با الفاظِ دیگر اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔ ہمارے پاس نہ تو ڈالر کے بدلے ادا کرنے کے لیے سونا ہے اور نہ بانڈ کو واپس خریدنے کے لیے سرمایہ ہے۔ یہ گورکھ دھندا کاغذ کی کشتی کی طرح ہے اور ہوا کا ایک تیز جھونکا اسے ڈبونے کے لیے کافی ہے۔
شرکائے محفل اس سنگین صورتحال کو سننے کے بعد پریشان ہو کر ایک دوسرے کو منھ تکنے لگے لیکن جان ڈیو کے چہرے پر بلا کا سکون تھا۔ ایک اور رکن تھامس کوک نے کھڑے ہو کر سوال کیا۔ اس قرض سے نکلنے کی کیا کوئی صورت ہے جس میں ہمارا رواں رواں گرفتار ہو چکا ہے؟
مجھے اس اعتراف میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ فی الحال ہمارے پاس کوئی سبیل نہیں ہے۔ کچھ سادہ لوح سعید روحیں سادگی اختیار کرنے کا مشورہ دیتی ہیں لیکن وہ قابلِ عمل نہیں ہے اس لیے کہ وقت کا پہیہ پیچھے کی جانب نہیں مڑ سکتا۔ ہم اپنا طرز زندگی نہیں بدل سکتے مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو حاصل مراعات اور سہولیات میں کمی کا تصور نہیں کر سکتا۔ اپنے عیش و آرام سے دستبردار ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
گریگ نے پھر مداخلت کی کیا ہمارے بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوجی اخراجات پر مشتمل نہیں ہے؟ ہم اس میں کٹوتی پر بھی تو غور کر سکتے ہیں۔
جان نے خندہ پیشانی سے بولا ہمارے درمیان ایسے نادان دوست بھی پائے جاتے جو فوجی اخراجات میں کمی کی بات کرتے ہیں لیکن ان باتوں کا کہنا تو سہل ہے لیکن عمل درآمد مشکل ہے بلکہ میں تو کہوں گا کہ ناممکن ہے اس لیے کہ ہم لوگ نہ ہی پنٹاگون کو ناراض کر سکتے ہیں اور نہ ان سرمایہ داروں سے پنگا لے سکتے ہیں جن کا مفاداسلحہ کی صنعت سے وابستہ ہے۔
تھامس کوک نے پھر اعتراض کیا ہمارے ملک میں تمام قوت کا سرچشمہ عوام ہیں اور ہم ان کے نمائندے ہیں اس لئے ہمیں کسی سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔
جی ہاں، لیکن اس خیال خام کا حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ انتخاب کے موقع پر عوام تک رسائی میں یہی سرمایہ دار ہمارا تعاون کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مدد کے بغیر ہم عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ آج جبکہ ساری صنعتیں چین، ہندوستان، کوریا اور جاپان وغیرہ کی جانب ہجرت کر گئی ہیں ہمارے پاس کمپیوٹر سافٹ وئیر اور اسلحہ کے علاوہ رکھا ہی کیا ہے۔ اگر یہ صنعت بھی ڈوب گئی تو امریکی سروری کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس لئے ان سرمایہ داروں کو ناراض کرنے خیال بھی ہمارے دل میں نہیں آنا چاہئے۔
گریگ اسمتھ نے بے چین ہو کر پوچھا لیکن ان لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ہمیں کس حد تک جانا پڑے گا۔
ہماری آزاد معیشت میں حدود و قیود کو گالی سمجھا جاتا ہے۔ فی الحال ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج امریکی قرض پر لگی ہوئی دستوری تحدید کا خاتمہ ہے۔ ہم لوگ جلد ہی اس پر عائد پابندی کو کم کرنے کا بل ایوان میں پیش کرنے والے ہیں ورنہ اس قومی بانڈ کے سلسلے کو جاری رکھنا دستورکی خلاف ورزی میں شمار ہو گا۔
عدم اطمینان کا شکار گریگ اسمتھ بولا کاغذ کے ڈالر اور بانڈ چھاپ چھاپ کر ہم کب تک اپنی مصیبت کو ٹالتے رہیں گے؟ یہ نسخہ صدی کی ابتدا میں اور پھر۱۹۸۰ء سے لے کر۲…ء تک چار مرتبہ آزمایا گیا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ مجھے تو یہ دعویٰ کہ ہم اقتصادی استحکام کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں کساد بازاری کا لوٹ آنا ناممکن ہے ایک مذاق لگتا ہے۔
گریگ اسمتھ کے بعد مجلس میں موجود ایک اور معمر رکن اٹھا اور بولا مجھے قرضہ جات پر تحدید میں سہولت کی تجویز احمقانہ لگتی ہے۔ میں اپنے دوست جان ڈیو سے پو چھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو اپنے گھر کے قریب پہنچنے پر پتہ چلے کہ گرد و نواح میں غلاظت کا پانی اس قدر جمع ہو گیا ہے کہ وہ آپ کے گھر کی چھت کو چھونے والا ہے تو ایسی صورتحال میں آپ کیا کریں گے؟ غلاظت کی نکاسی کا راستہ صاف کریں گے یا چھت کو اونچا کرنے کا فیصلہ کریں گے؟ اجتماع گاہ میں موجود جو ارکان جان ڈیو کے دلائل سے غیر مطمئن تھے مگر جواب نہیں دے پا رہے تھے وہ اس اعتراض پر خوش ہو گئے اور اچانک ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
جان پر اس دلیل کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ مسکرا کر بولا یہ بہت اچھی مثال ہے لیکن جناب عالی اس دولت کو جو بانڈ کی شکل میں ہمیں حاصل ہو رہی ہے سرے سے میں غلاظت ہی نہیں سمجھتا اس لئے مذکورہ مثال کا بے محل اطلاق کرنے سے قاصر ہوں۔ ویسے اگر بفرض محال اسے تسلیم بھی کر لیا جائے اور نکاسی کی کوئی صورت میرے لیے ممکن نہ ہو تو میں اپنے مکان کی چھت پر عارضی چھجہ بنا کر عارضی طور پر وہیں رات گزار لوں گا اور بعد میں سوچوں گا کہ کیا کیا جائے؟
جان ڈیو پھر ایک بار چھا گیا تھا اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا دیکھئے میری رائے یہ ہے کہ ہم لوگوں کو عملی گفتگو کرنا چاہئے خیالی فلسفہ و منطق سے مسائل حل ہونے کے بجائے الجھ جاتے ہیں۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان تمام متبادل پر ہم نے غور نہیں کیا بلکہ ان کے علاوہ بھی اور بہت ساری تجاویز زیر غور آئیں تھیں مگرسود و زیاں کا جائزہ لینے کے بعد ہی انھیں مسترد کیا گیا۔ ویسے ہم نے سرکاری اخراجات میں کٹوتی کی ابتدا کر دی ہے۔
اس بات پر پھر ایک بار لیری گومس معترض ہوئے اور کہا آپ کی کٹوتی تو گھنی زلفوں کے درمیان چھپی جوں کی مانند ہے جو بڑی مشکل سے نظر آتی ہے۔ آپ نے بانڈز کے لیے غلاظت کی مثال کو مسترد کر دیا لیکن میں تو اسے اور بھی زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے گویا یہ ہمارے دماغ میں سرطان کی گانٹھ کی مانند ہے۔ اس کا علاج اگر یوں کیا جائے کہ ہم اس بار اس کو تھوڑا سا چھوٹا کر دیں اور پانچ سال بعد مزید کچھ کم کرنے کا اعلان کریں لیکن یہ بھول جائیں کہ اس کی نوبت ہی نہ آئے گی۔ اس عرصہ میں وہ ناسور بڑھ کر ہماری جان لے چکا ہو گا۔
مجھے اندیشے ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہماری کل پیداوار کی قیمت ہمارے قرض سے کم ہو جائے گی اور ہماری حالت دیوالیہ یوروپی ممالک سے بھی بدتر ہو جائے گی۔ آپ جیسے ماہرین معاشیات کی باتیں سن کر مجھے ڈی ایلن کا مشہور قول یاد آتا ہے ’’ہم آج ایک دورا ہے پر کھڑے ہیں، یہاں سے ایک شاہراہ شدید مایوسی اور نا امیدی کی جانب جاتی ہے اور دوسرا راستہ مکمل عدمِ وجود کا رخ کرتا ہے۔ امید ہے تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہم دانشمندانہ اور صحیح فیصلہ کریں گے ‘‘۔
جان ڈیو نے کہا کہ معاف کیجیے وجوہات پر گفتگو کے دوران بات کسی اور جانب نکل گئی خیر ہمارے سامنے اس نظام کی بھی چند مجبوریاں ہیں۔ میں اجمالاً اس کا ذکر کیا تھا لیکن اب تفصیل بتا دوں۔ ہر چار سال میں ہم انتخابات پر ایک خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ اگلی مرتبہ اس کا اندازہ ۷۰ بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس سے کوئی پیداوار نہیں ہوتی اور عوام کو اس خرچ کی بدولت کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا لیکن یہ دولت سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ سرمایہ داروں سے اعانت کے طور پر وصول کی جاتی ہے۔ انتخاب کے خاتمہ پر مختلف سہولیات کی شکل میں اس کی بلاواسطہ ادائیگی عمل میں آتی ہے۔
سرمایہ دار ہمیں ٹیکس میں اضافہ کی اجازت نہیں دیتے۔ متوسط طبقہ جس قدر ادا کر رہا ہے اس سے زیادہ دے نہیں سکتا اس لیے ایک طرف خزانے کی آمدنی کم ہو رہی ہے ور دوسری جانب ہمارے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ برآمد کی بہ نسبت درآمد کا تناسب زیادہ ہو جانے کے سبب ہمارا خسارہ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے اور بے روزگاری قابو سے باہر ہو گئی ہے۔
گریگ نے سوال کیا بیروزگاری کی اس ابتر صورتحال کے لیے کیا ہمارے وہ سرمایہ کار ذمہ دار نہیں ہیں جنھوں نے اپنی مصنوعات کو بنانے کا ٹھیکہ چین اور کوریا جیسے ممالک کو دے رکھا ہے جہاں مزدور سستا ہے۔ اس خود غرضی کے سبب ہمارے سرمایہ دار خوشحال اور عوام بدحال ہوتے جا رہے ہیں۔
جان ڈیو نے گریگ کی تائید کی اور اپنا خطاب آگے بڑھاتے ہوئے کہا جناب عالی آپ نے درست فرمایا اگر بیروزگاری کی جانب ہم نے توجہ نہیں کی تو یہ خانہ جنگی میں بدل سکتی ہے۔ اس بابت سرمایہ داروں پر ہم کڑی کارروائی اس لیے نہیں کر سکتے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ان کے حقوق کا تحفظ ہمارا فرضِ منصبی ہے۔ چونکہ ہم ان کے ممنون ہیں اس لیے احسان مندی کا بھی تقاضہ ہے کہ ان کا خیال رکھا جائے۔
ہماری معیشت میں بیروزگاری کا سیدھا اثر خزانے پر اس طرح پڑتا ہے کہ جو لوگ ملک و قوم کو کچھ نہیں دیتے انھیں بٹھا کر کھلانا پڑتا ہے۔ بیروزگاری بھتے کو ختم نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ اس کا براہِ راست اثر رائے عامہ پر پڑتا ہے۔ گویا ہم لوگ ایک چکر ویوہ میں پھنس چکے ہیں اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ صرف اور صرف جنگ ہے۔ شرکائے مجلس کی سمجھ میں جان ڈیو کی باتیں جب آنے لگیں تو اس نے نئے اعلان نے سب کو چونکا دیا۔ اور ہر کوئی مبہوت ہو کر رہ گیا۔
لیری گومس سے رہا نہیں گیا تو وہ بیچ ہی میں بول پڑا ‘‘مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ ’’آپ کی ہر بات بجا مگر جنگ سے اس کا کیا تعلق؟ اس سے مہنگی تو کوئی اور مہم ہو ہی نہیں سکتی اس کے اضافی دباؤ سے تو ہماری معیشت فوراً دم توڑ دے گی۔ صدر محترم اس اعتراض پر مسکرائے
جان ڈیو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا میں آپ لوگوں کی بے چینی سمجھتا ہوں مگر گزارش کرتا ہوں کہ مجھے اپنی بات کو مکمل کرنے دیا جائے۔ اس کے بعد میں آپ لوگوں کے تمام سوالات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ ویسے ممکن ہے اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے تمام ہی خدشات اور سوالات کا جواب میری تجویز میں مل جائے گا خیر۔
در اصل ہم اپنے بے روزگار نوجوانوں کو اس بات کے لیے راضی کرنے کی کوشش کریں گے کہ فوج میں شامل ہو جائیں لیکن یہ باقاعدہ فوج نہیں ہو گی بلکہ قزاقوں کا ایک جتھا ہو گا جس کے لیے جدید اصطلاح مرسینری ہے۔ ان لوگوں کی تنخواہ عام فوجیوں سے زیادہ ہو گی لیکن وہ سہولیات سے محروم ہوں گے۔ ہم نہ ان کی تربیت پر کچھ خرچ کریں گے اور نہ ان کے رویہ کی ذمہ داری قبول کریں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ٹھیکیدار کے مزدور سے ہمارا بظاہر کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
منع کرنے کے باوجود ایک سوال ابھر آیا کہ یہ کیونکر ممکن ہے؟
اس کا حل ہم نے ڈھونڈ نکالا ہے۔ حکومت ان قزاقوں کو براہ راست تنخواہ نہیں دے گی بلکہ درمیان میں ایک ٹھیکیدار کمپنی ہو گی جو حکومت سے روپیہ لے کر اپنا منافع وضع کرنے کے بعد مرسینری کو تنخواہ ادا کر دے گی۔
اس تجویز پر ایک اور اعتراض سامنے آیا۔ کیا یہ بلاواسطہ راستہ مہنگا نہیں ہے کیوں نہ حکومت ان سے براہِ راست معاملہ کرے؟
جان ڈیو نے تردید کی اور بولا جی نہیں یہ ممکن نہیں ہے۔ حکومت کے لیے لازم ہے ہم موت کے بعد اپنے ملازمین کو پنشن دیں لیکن ٹھیکیدار کے لیے یہ ضروری نہیں ہے۔ اس لیے جب تک یہ محاذ پر کام کریں گے تنخواہ پائیں گے اور جب کام آ جائیں گے تو تنخواہ بند ہو جائے گی۔
اس جواب پر تھامس کوک نے پھر سوال کیا کہ کیوں نہ اسے تنخواہ دینے کے بجائے ہم بے روزگاری بھتہ دینا جاری رکھیں۔
جان بولا یہی تو مسئلہ ہے بیروزگاری بھتہ تو اس وقت تک دینا ہو گا جب تک کہ وہ فطری موت نہیں مر جاتا لیکن جنگ کی صورت میں تو درمیان ہی میں ٹکٹ کٹ سکتا ہے۔ جان ڈیو کی یہ انداز سبھی پر گراں گزرا۔
ایک اعتراض یہ آیا کہ کیا فوج کی حفاظت قوم کی ذمہ داری نہیں ہے؟
جان کا جواب تھا جی نہیں بلکہ قوم کی حفاظت کرنا فوج کا فرضِ منصبی ہے اوراس کی ادائیگی میں اپنی جان لگا دینا فوجیوں کی سعادت ہے۔ مرنا مارنا فوجی کا اصل کام ہے۔
لیکن انھیں مارے گا کون؟ یہ اٹ پٹا سا سوال ولیم کنگسلے نے کر دیا اس پر جان ڈیو نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کوئی بھی مار سکتا ہے مزاحمت کار یا ……
یا کیا مطلب؟ پھر سوال ہوا۔
یا کوئی اور کا مطلب آپ خود سمجھ لیں لیکن یاد رہے ان غیر رسمی فوجیوں کی ہلاکت ان کے اہل خانہ کے لیے ایک فطری امر اور ہمارے لیے بے روزگاری سے نجات کا ذریعہ بنے گی۔ اس طرح بے روزگاری ختم تو نہیں مگر اس میں خاطر خواہ کمی ضرور ہو جائے گی۔
ولیم کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی وہ بولا لیکن جناب یہ بے روزگاری کا نہیں بلکہ بے روزگاروں کا خاتمہ کرنے والی سفاک حکمتِ عملی ہے۔
جان بولا میں نے اپنا مدعا بیان کر دیا اب اس کی من مانی توجیہ فرماتے رہیں۔
ولیم کی بے کلی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا وہ بولا لیکن ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے ہی جگر گوشوں کو …………اس کی زبان سے الفاظ گر کر بکھر گئے۔ اس نے چپی سادھ لی۔
جان کہہ رہا تھا امریکہ دنیا کی عظیم ترین طاقت ہے۔ ہم اس کی عظمت و برتری کو قائم رکھنے کی خاطر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ برتری ہمیشہ ہی جنگ کے میدان میں قائم کی گئی ہے اور اس میں نوجوان کام آئے ہیں۔ یہ نہ تو انسانی تاریخ میں پہلی بار ہو گا اور نہ آخری بار۔ تاریخ شاہد ہے کہ محاذ پر دونوں جانب نوجوان ہوتے ہیں جو مرتے اور مارتے ہیں۔ فوجی اپنے بھی ہوتے ہیں اور پرائے بھی۔ کون کس کو کتنا مارتا ہے یہ اہم نہیں ہوتا بلکہ نتیجہ اہم ہوتا ہے۔ اور پھر جنگ میں سب کچھ جائز ہے یہ مقولہ کس نے نہیں سنا؟
ولیم کے لیے یہ منطق ناقابلِ فہم تھی۔ چشمِ تصور میں اسے ایسا لگ رہا تھا گویا وہ ہاروے کو میدانِ جنگ میں بھیج کراس پر گولی چلا رہا ہے۔ ولیم نے چیخ کر کہا نہیں …….ہرگز نہیں …………..یہ نہیں ہو سکتا …………..میں ہاروے کو اپنے ہاتھوں سے موت کے منھ میں نہیں جھونک سکتا۔
ولیم کی یہ حرکت آدابِ محفل کے خلاف تھی۔ مہذب و متین طبیعت کے مالک ولیم نے سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ خود صدر محترم اس کی جانب متوجہ ہو کر بولے ولیم یہ آج تمہیں کیا ہو گیا؟تم ایسے جذباتی تو کبھی بھی نہیں تھے۔ چک ڈینی کو احساس ہو گیا تھا کہ ایک غلط آدمی کو اس محفل میں بلا لیا گیا ہے۔ اس قدر کمزور اعصاب کے مالک کا یہاں کیا کام؟
اس بیچ ولیم نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا گستاخی کے لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔ میرا اکلوتا بیٹا ہاروے بھی محاذ پر جانے کے لیے بضد ہے اب آپ ہی بتائیے کہ میں اپنے جگر گوشے کے قتل کے پروانے پر دستخط کیسے کر سکتا ہوں؟
اوہو تو یہ معاملہ ہے؟ چک بولا۔ چک ایک بہت بڑا سرمایہ دار تھا۔ اور صدر مملکت کے بعدسب سے زیادہ اثر ورسوخ کا حامل تھا۔ چک نے ناصحانہ انداز میں کہا دیکھو ولیم تم اپنے بیٹے کو سمجھاؤ کہ یہ اسکیم تمھارے لیے نہیں ہے۔
میں اسے نہیں سمجھا سکتا جناب نہیں سمجھا سکتا۔
چک بولا اگر ایسا ہے تو یہ تمھارا ذاتی مسئلہ ہے۔ اس کے لیے تمام حاضرین مجلس کا وقت ضائع کرنا مناسب نہیں ہے اور پھر جان ڈیو کو مخاطب کر کے بولا اس میں صرف ملک و قوم ہی کا مفاد ہے یا ہم جیسے خادمین قوم کے لیے بھی کچھ ہے؟
جان مسکرا کر بولا یہ اب تک کا سب سے مفید سوال ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب سے پہلے اس کی باری آتی لیکن دیر آید درست آید کی مصداق ہم اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اس پراجکٹ کو فوجی مہم کی نجکاری کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اس کی ابتدا تو یقیناً کرائے کے فوجیوں سے ہو گی مگراسی نہج پر دیگر انتظامات بھی ٹھیکے پر دئیے جائیں گے تاکہ سرکاری انتظامیہ پر مزید بار نہ پڑے اور نئی بھرتی کی نوبت نہ آئے اب جو ٹھیکے دئیے جائیں گے ظاہر ہے اس کے اولین حقدار تو آپ لوگ ہیں۔ اور جو کھرچن بچ جائے گی اسے دوسروں کے آگے ڈال دیا جائے گا۔
یہ ٹھیکے کس قسم کے ہوں گے؟ ایک اور سوال سامنے آیا۔
جان ڈیو بولا مختلف قسم کے کانٹریکٹ مثلاً کوئی وردی فراہم کرے گا تو کوئی خورد و نوش کے سامان کا بندوبست کرے گا۔ کسی کے ذمے آمدورفت کا کام ہو گا یعنی یہاں سے لے جانے اور پھر واپس بھی لانے کا کام۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے وہ جیسی بھی حالت میں ہوں۔ اسی کے ساتھ رہائش کی سہولیات۔ طبی خدمات۔ مواصلات کا ٹھیکہ اور سب سے اہم اسلحہ کی فراہمی۔ غرض آپ سب کے لیے اس مہم میں بہت کچھ ہے۔
ان میں سے کون سا کام کس کے حصے میں آئے گا اس کا تعین کیوں کر ہو گا؟
یہ کوئی مشکل نہیں ہے جان بولا آپ لوگ اپنی دلچسپی اور صلاحیت سے نائب صدر کے دفتر کو آگاہ کر دیں۔ ان دونوں بنیادوں کے علاوہ صدر محترم سے آپ کی قربت آپ کی قسمت کا ستارہ چمکا دے گی۔ ویسے ایک بات کا یقین میں آپ سب کو دلا سکتا ہوں کہ سبھی کو یکساں مواقع حاصل ہوں گے کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی۔ اس مہم میں محرومی کسی کا مقدر نہیں بنے گی ہر کوئی کچھ نہ کچھ ضرور پائے گا اور وہ بہت کچھ ہو گا۔
ولیم سوچ رہا تھا کہ یہ دعویٰ غلط ہے اسے تو کھونا ہی کھونا ہے پانا کچھ نہیں ہے۔
جان ڈیو بولا اگر کوئی استفسار یا وضاحت مطلوب نہ ہو تو میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اجازت چاہتا ہوں۔
ماحول سوگوار ہو گیا تھا چک ڈینی نے دیکھا کہ کوئی تالی نہیں بجا رہا ہے تو خود بھی ارادہ ترک کر دیا۔ صدر مجلس نے جان ڈیو اور حاضرین محفل کا شکریہ ادا کیا اور طعام کی دعوت دی۔
ہال کے دوسرے حصے میں اس اعلان کے ساتھ ہی آرکسٹرا شروع ہو گیا۔ گانے اور ناچنے والے اپنے کام میں جٹ گئے۔ بجانے والے ان کا ساتھ دینے لگے۔ شراب پلانے والیاں اور کھانا کھلانے والی خواتین محو گردش تھیں۔ بنانے والے ان کی مدد کر رہے تھے۔
لوگ مختلف چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ لیکن ان سب سے الگ تھلگ ولیم یکہ و تنہا اپنے حلق کو تر کرنے کی جس قدر سعی کرتا تھا تشنگی بڑھتی ہی جاتی تھی۔ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹنے کی اس کی ساری تدابیر ناکام ہو چکی تھیں۔ ولیم کے لیے پانی اور شراب دونوں اپنی تاثیر سے محروم ہو چکے تھے۔
اس بیچ صدرِ محترم کے ایک قریبی رفیق نے ان سے آہستگی کے ساتھ پوچھا جناب یہ جان کیا آئیں بائیں شائیں بکتا ہے۔ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا۔
صدر نے مسکرا کر جواب دیا میرا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ آئندہ انتخاب میں کامیابی کے لیے عراق کی جنگ ناگزیر ہے ورنہ افغانستان کی ناکامی کے چلتے عوام کے سامنے میں کیا منھ لے کر جاؤں گا اور وہ کیا دیکھ کر دوبارہ مجھے ووٹ دیں گے۔
اجتماع گاہ کے باہر صحافی حضرات بڑی بے چینی سے اندر والوں کے منتظر تھے۔ ان کے لیے کام و دہن کا سارا اہتمام موجود تھا لیکن شرکاء سے گفتگو کی اجازت نہیں تھی۔ اس میٹنگ کی بابت ساری دنیا کے لوگوں میں تجسس پایا جاتا تھا۔ ہر ٹی وی چینل کا نامہ نگار چاہتا تھا کہ وہ سب سے پہلے اس کی بریکنگ نیوز نشر کرے۔
کچھ دیر بعد ایک ایک کر کے لوگ باہر آنے لگے لیکن کسی نے ایک لفظ نہیں کہا۔ ہر کوئی مسکرا کر صبر کی تلقین کرتا تھا اور یہ کہہ کر چل پڑتا تھا جلد ہی جان ڈیو آپ کو ساری تفصیلات سے آگاہ کر دیں گے۔ جان ڈیو کے بیان میں لوگوں کو دلچسپی اس لیے نہیں تھی کہ وہ اطلاع سارے لوگوں ایک ساتھ ملنے والی تھی۔ اس کا کوئی امتیازی پہلو نہیں تھا۔
ولیم جب لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ باہر آیا تو سارے لوگ گدھ کی مانند اس کی جانب لپکے لیکن اس نے بھی گھسے پٹے جواب کے ذریعہ انھیں مایوس کر دیا۔ میکس ٹی وی والے ولیم کو اکثر اپنے پروگرام میں بلاتے تھے اس لیے ان سے قریبی تعلقات استوار ہو گئے تھے۔ جب میکس کے شناسا رپورٹر نے اسے اپنے ساتھ ٹی وی کے اسٹوڈیو چلنے کی دعوت دی تو وہ انکار نہ کر سکا اور انٹرویو دینے کے لیے راضی ہو گیا۔
میکس چینل کے نامہ نگار نے ولیم کو اپنی گاڑی میں بٹھاتے ہی یہ خبر دفتر میں بھیج دی کہ وہ ولیم کے ساتھ آ رہا ہے پھر کیا تھا میکس ٹی وی پر بریکنگ نیوز چل پڑی چند لمحات کے اندر آپ لوگ سنیٹر ولیم کنگسلے سے آج کے اجلاس کی تفصیل براہِ راست سنیں گے اور اس کا شرف سب سے پہلے میکس چینل کے ناظرین کو حاصل ہو گا۔ جناب ولیم کسی بھی لمحہ ہمارے درمیان ہوں گے اس لیے کہیں جائیے گا نہیں بلکہ ہمارے ساتھ بنے رہئے۔ اس خبر کے نشر ہوتے ہی دیگر زبانوں کے چینل والوں نے اعلان کر دیا کہ وہ جلد ہی میکس کے توسط سے ایک اہم خبر نشر کرنے والے ہیں۔
ناشرین کے اس اعلان نے سراغ رساں ایجنسیوں کے اندر کھلبلی مچا دی۔ جان ڈیو، چک ڈینی اور صدر محترم کو فوراً اس کی اطلاع دے دی گئی۔ ان لوگوں کو ولیم کا احتجاج یاد آ گیا۔ اس کی مجبوری بھی ان کی نظروں میں گھوم گئی، ڈینی نے رائے دی ولیم کا کانٹا نکال دیا جائے۔ صدر نے اس پر مہر ثبت کی اور پھر کیا تھا ولیم کا تعاقب کرنے والے ایف بی آئی کے ایجنٹ میکس چینل کے دفتر میں داخل ہو گئے۔
مکالمے کی تیاریاں جاری تھیں لیکن اس سے پہلے کہ ولیم اپنے دل کی بات دنیا کے سامنے رکھتا اس کا سینہ چھلنی کر دیا گیا اور میکس نیوز کو ایک رقعہ اس ہدایت کے ساتھ دے دیا گیا کہ اسے من و عن نشر کر دیا جائے۔ پھر اس کے بعد ساری دنیا میں یہ خبر گونج رہی تھی کہ سنیٹر ولیم کو میکس چینل کے اسٹوڈیو میں القاعدہ کے دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا۔ وہ لوگ کولاریڈو سے ان کا پیچھا کرتے ہوئے آئے تھے اور جیسے ہی اسٹوڈیو کے اندر حفاظتی دستہ ان سے الگ ہوا، دہشت گردوں نے موقع غنیمت جان کر اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنا دیا۔
میکس پر یہ اعلان بھی ہو رہا تھا کہ عمارت کے اندر موجود کیمروں کی مدد سے قاتلوں کی تصاویر حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جلد ہی محکمۂ پولس انھیں جاری کر دے گا۔ انتظامیہ نے عوام سے استدعا کی کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی میں صبر و تحمل سے کام لیں اور ہر قسم کے رد عمل سے گریز کریں۔ قانون کو ہر گز ہاتھوں میں نہ لیں بلکہ مجرمین کو پکڑنے میں اس کا تعاون کریں۔ ناظرین کو تسلی دینے کے لیے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ پولس کو مشتبہ دہشت گردوں سے متعلق اہم سراغ مل چکے ہیں اور بہت جلد اس سازش کا پردہ فاش کر دیا جائے گا۔
حکومت کی جانب سے معزز سنیٹر کے سوگ میں تین دن کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا گیا اور قومی اعزاز کے ساتھ ولیم کی آخری رسومات ادا کرنے کا مژدہ سنایا گیا۔ آخری رسومات میں صدر محترم کے علاوہ دیگر معزز ہستیاں کے بھی موجود ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔
دنیا بھر سے تعزیتی بیانات کا تانتا بندھ گیا۔ تعزیت کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے کبھی ولیم کنگسلے کا نام تک نہیں سنا تھا لیکن ہر کوئی القاعدہ کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔ میکس چینل پر اس خبر کے نشر ہوتے ہی دنیا بھر کے چینلس نے اسے دوہرانا شروع کر دیا اور اسی کے ساتھ بھانت بھانت کی قیاس آرائیاں اور اوٹ پٹانگ تجزیوں کا لامتناہی سلسلہ بھی چل پڑا۔
٭٭٭
۷
ہاروے نے مسلمانوں کے وفد سے ملنے کے بعد دوبارہ اپنے کام کی شروعات ان پیغامات کو سننے سے کی تھی جو اس میٹنگ کے دوران اس کے فون میں ریکارڈ ہوئے تھے۔ ائیر فون پر ان کو سنتے ہوئے میل دیکھنے لگا۔ اس بیچ ایک فون آ گیا تو کان اور زبان دونوں مصروف ہو گئے آنکھیں کمپیوٹر کے مانیٹر پر اپنا کام کر رہی تھیں۔ انگلیاں ای میل کا جواب ٹائپ کر رہی تھیں اور بیچ بیچ میں وہ منھ کے اندر پڑے چیونگ گم کو چبا لیتا تھا۔ گویاحواس خمسہ کا استعمال بیک وقت ہو رہا تھا اس کے باوجود کام تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔
وہ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ نہ جانے آج کل اتنا کام کہاں سے آ جاتا ہے جو بے شمار تکنیکی سہولیات کے باوجود پورا نہیں ہو پاتا جبکہ پہلے جب یہ سب نہیں تھا تب بھی لوگ اپنے کام کو پورا کر کے اطمینان سے گھر لوٹ جاتے تھے۔ ہاروے کے اندر سے آواز آئی ممکن ہے پہلے بھی لوگوں کو یہی شکایت رہتی ہو کہ کام بہت ہے اور پورا نہیں ہوتا۔
ہاروے کو اس روز عجیب و غریب مضامین کی معرفت حاصل ہو رہی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ پرانے لوگ ہماری بہ نسبت ۱۰ فیصد کام کرتے تھے اس کے باوجود سکون کی زندگی گزارتے تھے اور آج ہم ان سے دس گنا زیادہ کام کر کے بھی بے اطمینانی کا شکار کیوں ہیں؟
شاید ان کے لیے وہ دس فیصد کام ہی صد فیصد تھا اور آج …..آج ہم ایک سو دس فیصد کام کرنا چاہتے ہیں۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی حرص وہوس۔ تھوڑے سے وقت میں زیادہ سے زیادہ جی لینے کی خواہش اور کبھی نہ مرنے کی تمنا نے انسان سے اس کی زندگی چھین لی ہے۔ ہاروے کا دل کام سے اچاٹ ہو گیا۔ کاروباری میل دیکھتے دیکھتے اس کی طبیعت اوب گئی تو اس کی انگلیوں نے بے ساختہ سی این این کی ویب سائٹ کھول دی۔
سی این این پر اپنے والد کی تصویر دیکھ کر ہاروے خوش ہوا لیکن جب اس نے نیچے بریکنگ نیوز کو دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے، انگلیاں تختہ حروف (کی بورڈ) پر منجمد ہو گئیں، دماغ ماؤف ہو گیا اور خون رگوں میں تیزی کے ساتھ دوڑنے لگا۔ دل کی دھڑکن تھی کہ بیٹھی جاتی تھی۔ سی این این اس کے والد ولیم کنگسلے کے موت کی خبر نشر کر رہا تھا۔ ہاروے سر پکڑ بیٹھ گیا۔
چند منٹوں کے اندر یہ خبر دفتر میں پھیل گئی۔ ہر کوئی سکتہ کے عالم میں تھا۔ آپس میں چہ مے گوئیاں ہونے لگیں ہاروے دفتر کے اندر کام میں لگا ہوا ہے مبادا اس کو یہ پتہ ہی نہ ہو۔ اس لیے اب یہ سوال تھا کہ اس تک کون اس منحوس خبر کو پہنچائے؟ جنرل منیجر نے ہاروے کے دستِ راست مائیکل چاؤ کو اپنے پاس بلایا اوراس کے ساتھ ہاروے کے کمرے میں داخل ہوا تو ہاروے کا چہرہ شاہد تھا اسے کسی اطلاع کی ضرورت نہیں ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور کچھ جاننا نہیں چاہتا۔
جنرل منیجر وکٹر نے ہاروے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ کھڑا ہو گیا اور گلے مل کر رونے لگا۔ ہاروے مزاجاً نرم دل واقع ہوا تھا۔ اس کے اندر قوت برداشت کی کمی تھی۔ اس کے آنسووں کا سمندر تھمنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ مائیکل چاہتا تھا کہ ہاروے ایک بار خوب اچھی طرح رو لے تا کہ اس کے دل کا غبار ہلکا ہو جائے۔ وہ ہاروے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔
ولیم کے ساتھ مائیکل ایک طویل عرصے سے کام کر رہا تھا۔ اس کی اپنی آنکھیں بھی نم تھیں۔ دفتر کے اندر کوئی بھی اس ناگہانی خبر کے لیے تیار نہیں تھا سارے لوگ حیران و ششدر تھے اور سوچ رہے تھے کہ یہ کیا ہو گیا؟ کیسے ہو گیا؟ لیکن کچھ لوگ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ یہ کیوں ہو ا؟ ہاروے کے سوچنے سمجھنے کا نظام مفلوج ہو چکا تھا۔ وہ رو رہا تھا اور بس رو رہا تھا۔
آنسووں کا طوفان ابھی تھما نہیں تھا کہ ذرائع ابلاغ کا سیلاب آ گیا۔ اخبار والے اور ٹیلی ویژن سے متعلق لوگ اپنے سازو سامان سے لیس ہو کر پہنچ گئے۔ انھیں کسی سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ وہ تو صرف خبر میں دلچسپی رکھتے تھے اور فی الحال ان کا ہدف ہاروے کے تاثرات معلوم کرنا تھا۔ ہاروے کی سکریٹری نے ڈرتے ڈرتے جب اس بارے میں استفسار کیا تو اس نے صاف انکار کر دیا لیکن پھر بھی نامہ نگار مان کر نہیں دے رہے تھے۔ ان کے بار بار اصرار پر سکریٹری نے جھنجلا کر کہا کہ وہ اگر ملنا نہیں چاہتے تو آپ لوگ کیوں ملاقات پر تلے ہوئے ہیں؟
ان میں سے ایک بولا ہم انھیں زحمت دینا نہیں چاہتے صرف مختصر سے تاثرات حاصل کرنا چاہتے ہیں بس۔
سکریٹری نے جھنجھلا کر پوچھا تاثرات !کیا آپ نہیں جانتے کہ اگر کسی کا باپ فوت ہو جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ کیا آپ لوگوں کے ساتھ اس طرح کا حادثہ نہیں پیش آیا؟
کیوں نہیں میڈم یہ تو سبھی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ہمارا کیا ہم تو معمولی لوگ ہیں۔ ہمارے تاثرات کو کوئی جاننا نہیں چاہتا لیکن ولیم کنگسلے کی بات اور ہے وہ ہمارے معزز سنیٹر تھے اور ان کی موت غیر معمولی انداز میں ہوئی ہے اس لیے ساری دنیا اس بارے میں جاننا چاہتی ہے۔
سکریٹری کا غصہ کسی قدر سرد ہوا وہ بولی میں آپ لوگوں کی مشکل سمجھتی ہوں اور جو کچھ لوگ جاننا چاہتے ہیں وہ آپ اپنے ناظرین کو بتا ہی رہے ہیں لیکن ہاروے ایک بیٹا ہے ولیم کا بیٹا۔ جس کے و الد کا ابھی ابھی بہیمانہ قتل کر دیا گیا ہے۔ آپ یہ نہ بھولیں کہ سنیٹر بھی ایک باپ ہوتا ہے اور اس کی اولاد کو موت کا اسی طرح صدمہ ہوتا ہے جیسا کہ کسی عام آدمی کو ہو سکتا ہے۔ موت عام اور خاص کے فرق کو مٹا دینے والی آفت کا نام ہے۔ میری آپ لوگوں سے مؤدبانہ گزارش یہی ہے کہ آپ سب فی الحال یہاں سے چلے جائیں۔
ٹیلی ویژن کا عملہ بحالتِ مجبوری دفتر کے باہر آ گیا اور وہاں سے اس طرح کی خبریں نشر کرنے لگا کہ ناظرین یہ سامنے ولیم کنگسلے کا دفتر ہے۔ اسی دفتر سے وہ اپنی ساری سیاسی سرگرمیاں انجام دیتے تھے۔ ان کا لڑکا ہاروے فی الحال اپنے خاص مشیروں کے ساتھ اس پیچیدہ صورتحال پر غور و خوض کر رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جلد ہی باہر آئے گا اور ہم آپ تک اس کے تاثرات اور قتل کی وجوہات پہنچا سکیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ بنے رہئے۔
سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ اس نشرئیے میں دفتر کے علاوہ سب کچھ جھوٹ تھا اور ہاروے نے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔ دس منٹ میں ہاروے نے اپنے آپ کو سنبھالا اور گھر کے لیے نکلا۔ دفتر کے باہر پھر ذرائع ابلاغ کے لوگ اس کے پیچھے پڑ گئے لیکن اس نے کسی سے بات نہیں کی۔ سارے لوگ مایوس ہو کر لوٹ گئے لیکن پھر ایک بار میکس ٹی وی والے اس کا تعاقب کرتے ہوئے گھر تک جا پہنچے اور صرف دو منٹ بات کرنے کی اجازت طلب کی۔ ہاروے نے حامی بھر دی۔
رسمی دعا سلام کے بعد میکس کے نمائندے نے پوچھا کہ کیا آپ کو کسی پر شک ہے؟
اس سوال کو سنتے ہی ہاروے جھلا کر بولا مجھے کسی پر شبہ نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ میرے والد زندہ سلامت سنیٹرس کی میٹنگ سے گھر آنے کے لیے نکلے لیکن درمیان سے آپ لوگ انھیں لے اڑے اور اپنے دفتر لے گئے جہاں ان کا قتل ہو گیا۔ اس لیے آپ کا چینل یا تو اس قتل میں براہِ راست شریک ہے یا قاتلوں کا مددگار ہے۔
میکس والوں کو اس طرح کے الزام کی ہر گز توقع نہیں تھی چونکہ وہ اس ملاقات کو اپنے چینل پر براہِ راست نشر کر رہے تھے۔ ہاروے کا بیان ان پر بم کی مانند گرا اور انھوں نے اسے فوراً ہٹا دیا لیکن اس وقت تک میکس کے سارے حریف اسے ریکارڈ کر چکے تھے۔
اب کیا تھا ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک نیا طوفان برپا ہو گیا۔ پہلی مرتبہ کسی نے ان لوگوں پر اس طرح کا سنگین الزام لگایا تھا۔ جن کا پیشہ ہی دن رات الزام تراشی تھا وہ بوکھلا گئے تھے۔ ذرائع ابلاغ کی منافقت کا یہ عالم تھا کہ غیروں پر بلا ثبوت الزام لگانا وہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے لیکن دوسروں کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مختلف ٹی وی چینلس پر یہ خبر مختلف انداز میں زیر بحث آ گئی تھی۔ کوئی میکس سے ہمدردی کا پاکھنڈ کر رہا تھا۔ کوئی پریس کی آزادی پر مگرمچھ کے آنسو بہا رہا تھا۔ کوئی جمہوریت کے چوتھے رکن کو لاحق خطرات کی دہائی دے رہا تھا حالانکہ سبھی کا مقصد میکس چینل کو بدنام کرنا تھا اور ناظرین کے ذہن میں یہ بات پیوست کرنی تھی کہ ولیم کے قتل میں میکس ملوث ہے۔
اپنے ہی بھائی کا میڈیا والے جس طرح گلا گھونٹ رہے تھے اسے اگر یوسفؑ کے بھائی دیکھ لیتے تو شرما جاتے لیکن جس دور پر فتن میں قارون اپنے آقا فرعون کی توثیق سے ہامان کو موت کے گھاٹ اتارسکتا ہے۔ اس میں وہ سب ممکن ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔
ولیم کی موت سے عراق کے بجائے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ایک گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ میکس والوں نے اس صحافی کو ملازمت سے نکال باہر کیاجس نے ہاروے سے بات چیت کی تھی حالانکہ وہ بیچارہ بالکل بے قصور تھا۔ اس سے کہا گیا تھا کہ ہاروے سے تاثرات معلوم کرے سو اس نے اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں اس وقت کامیاب جبکہ دوسرے ناکام ہو چکے تھے۔ اس کو جو سوالات لکھ کر دئیے گئے تھے وہ اس نے پوچھے۔ ان سوالات کے جوابات پر اور ان کے براہِ را ست نشریات پر اس کا کوئی اختیار نہیں تھا اس کے باوجود چونکہ وہی بدقسمت زینے کی سب سے نچلے پائیدان پر تھا اس لیے بلی کا بکرا بن گیا۔
اس روز ناظرین کی سب زیادہ تعداد میکس چینل اس لیے دیکھ رہی تھی کہ ولیم کا قتل اس کے دفتر میں ہوا تھا۔ میکس والوں نے انٹرویو کے بجائے ولیم کی ان کے اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہوئے حاصل کی گئیں تصاویر نشر کرنی شروع کر دی۔ اب وہ راہداری میں لگے خفیہ کیمروں کی فلم دکھلا رہے تھے لیکن قتل کے مناظر دکھلانے کی اجازت نہیں تھی بلکہ ایف بی آئی والے ان کیمروں کا سارا مواد اپنے ساتھ لے کر جا چکے تھے اس لیے جس شے کو دیکھنے میں ناظرین کو سب سے زیادہ دلچسپی تھی وہ گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پراس سے محروم کر دئیے گئے تھے۔
میکس چینل نے جلدی میں ولیم کی قدیم تصاویر اور انٹرویوز کی مدد سے ایک دستاویزی فلم تیار کر دی لیکن بدقسمتی سے ہاروے کی تقاریر میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف کو خاص مواد نہیں مل سکا تھا اس کے باوجود ٹی آر پی اور اشتہارات کی خاطر ناظرین کو اپنے سے جوڑے رکھنے کے لیے جو کچھ بھی ضروری تھا وہ کر رہے تھے۔
دوسرے دن تمام تر سرکاری اعزاز کے ساتھ ولیم کی لاش کو کولاریڈو کے قدیم قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اس کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے صدر محترم سمیت ساری اہم شخصیات موجود تھیں لیکن چک ڈینی کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ نہ جانے اس کا احساسِ جرم اس کو روک رہا تھا یا کینہ توزی اس کے راہ کی رکاوٹ بنی ہو ئی تھی۔ تدفین کے بعد مقامی رہنماؤں کے سامنے سوال یہ تھا کہ رات میں منعقدہ تہنیتی جلسۂ عام کا کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی ان حالات میں اسے ملتوی کر دینا چاہئے لیکن ایک رائے یہ بھی تھی کہ اسے تعزیتی جلسے میں بدل دیا جائے تاکہ دور دراز سے آنے والے جو لوگ صبح کے وقت تدفین میں شریک نہ ہو سکے تھے وہ شام میں اپنے چہیتے رہنما کو خراجِ عقیدت پیش کر سکیں۔
اب نیا سوال یہ تھا اس جلسے سے خطاب کون کرے گا؟ اس لیے کہ جسے تقریر کرنی تھی وہ تو داعیِ اجل کو لبیک کہہ چکا تھا۔ اس مسئلہ کا حل یہ نکالا گیا کہ ولیم کی جگہ ہاروے سے اس جلسہ کی صدارت کرائی جائے اس لیے کہ اس سے زیادہ نہ کوئی مستحق تھا اور نہ حقدار الّا یہ کہ وہ انکار کر دے۔ ہاروے کے سامنے جب یہ تجویز پیش کی گئی تو اس نے رسمی تکلف کے بعد اسے قبول کر لیا اور اسی کے ساتھ تشہیر کا کام زور و شور کے ساتھ شروع ہو گیا۔
اس شام سارا شہر ہولی کراس چوک پر موجود تھا۔ ولیم کے سیاسی مخالفین بھی اس موقع پر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر حاضر ہو گئے تھے۔ یہ ایک غیر معمولی جلسہ تھا جس میں انسانوں کا سمندر ٹھاٹیں مار رہا تھا۔ پہلی مرتبہ ہولی کراس چوک کے میدان کو اپنی تنگ دامانی کا احساس ہو رہا تھا۔ چوک پر موجود ہر کوئی ولیم کی موت سے سوگوار تھا مگر ٹام فوبرگ دوہرے غم کا شکار تھا۔ اس کا تابناک مستقبل، فوج میں جانے کا خواب، پذیرائی کی توقعات اور ہاروے سے آگے نکل کی جانے کی امیدیں، سب کی سب ولیم کی قبر میں دفن ہو چکی تھیں۔
ٹام اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا کہ موت کو بھی اسی وقت آنا تھا؟ اگر وہ دوچار دن تاخیر سے آتی تو اس کا کیا بگڑ جاتا؟ ان دہشت گردوں کو بھی اس قدر جلدی کیوں تھی؟ ایک آدھ ہفتہ بعد اپنا کام کرتے تو کم از کم آج میرا کام ہو جاتا۔ آج اگرسارے شہر میں اس کا بول بالا ہو جاتا تو کون سا آسمان پھٹ پڑتا؟ لیکن یہ حالات کی ستم ظریفی تھی کہ آج کے دن اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ہر کوئی ہاروے کے آگے پیچھے اس طرح منڈلا رہا تھا گویا اس کی تاجپوشی ہونے والی ہے۔
حسد کی آگ نے چولہا بدل دیا تھا۔ وہ ہاروے کے بجائے ٹام کے سینے میں بھڑک اٹھی تھی۔ اس آگ سے اس کا خون کھول رہا تھا۔ وہ نہ اس ولیم کے بارے میں سوچ رہا تھا جسے قتل کر دیا گیا تھا اور نہ اس ہاروے کے بارے میں جو یتیم ہو گیا تھا وہ تو صرف اور صرف اپنی بابت فکر مند تھا۔ اچانک اسے خیال آیا انسان کس قدر خودغرض مخلوق ہے۔ اپنے اندر پائی جانے والی خود غرضی کا احساس ٹام کو اس وقت ہوا جب حسد کی آگ میں اس کے وجود کو خاکستر کر چکی تھی۔
اپنی ذات کے گرداب میں کھویا ٹام اس وقت باہر آ گیا جب خود ہاروے نے مائک پر آ کر یہ اعلان کیا کہ آج کی اس تعزیتی نشست کا مہمانِ خصوصی ہمارے علاقے کا وہ ہونہار نوجوان ہے جس نے میرے والد کے بتائے ہوئے راستے پر اپنی زندگی نچھاور کرنے کا عظیم فیصلہ کیا۔ آج اگر میرے والد کی روح کے لیے سب سے زیادہ سکون بخش شے ٹام جیسے نوجوانوں کا عزم مصمم ہے۔ وہ جوان جو اس عظیم ملک امریکہ کے لیے جان لڑا دینے کا جذبہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔
واشنگٹن روانگی سے قبل سنیٹرولیم کنگسلے نے ٹام فوبرگ سے آخری ملاقات کی تھی۔ اس لیے میں اپنے عزیز دوست ٹام سے مؤدبانہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ مائک پر آئے اور مرحوم و مغفور رہنما کے بارے میں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرے۔ ٹام کے لیے یہ اعلان بجلی کے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ وہ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھا اس کے باوجود بوجھل قدموں کے ساتھ اسٹیج کی جانب چل پڑا۔
٭٭٭
۸
ٹام کے لئے عوام کے وسیع و عریض سمندر کو خطاب کرنے کا یہ اولین تجربہ تھا اور ایسے میں جبکہ ذہن تیار نہ ہو اس کی دقتیں خاصی بڑھ گئی تھیں۔ سوگوارمجمع پر موت کی خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ اچانک زندگی ایک لہر دوڑ گئی۔ مائک پر آنے کے بعد ٹام اس طرح گویا ہوا۔
محترم حاضرین کرام!
آپ سب کے لیے مرحوم ولیم کنگسلے ایک چہیتے سنیٹر تھے۔ لیکن میرے لیے وہ ایک شفیق بزرگ، مربی اور سرپرست تھے۔ میں نے پہلی مرتبہ اپنے والد کے ساتھ ان کو دیکھا جو ولیم انکل کے دل پسند ملازم تھے۔ مجھے دیکھتے ہی پدرانہ شفقت سے اپنی بانہوں میں بھرکر انہوں نے بوسہ لیا اور میرا نام پوچھا۔ ان کے اس رویہ سے میرے والد بھی بہت خوش ہوئے۔ انکل نے میرے والد کو ہدایت کی کہ وہ میرا داخلہ شہر کے سب سے اچھے اسکول میں کروائیں اور اس بابت سارے مسائل کو ذاتی طور پر حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
اسکول کے زمانے میں ہاروے کے ساتھ میں ان کے گھر آتا جاتا رہا اس لیے کہ ہم دونوں حسن اتفاق سے ہم جماعت تھے۔ اس دوران میرے ساتھ ان کا سلوک بالکل بیٹے جیسا ہوا کرتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے کبھی کبھی ایسا بھی لگتا کہ وہ مجھے ہاروے سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اور میں بھی انھیں اپنے والد نارمن فوبرگ سے زیادہ چاہنے لگا۔ ایسا کیوں ہوا یہ میں نہیں جانتا اور شاید وہ بھی نہیں جانتے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایسا تھا۔ کاش کے وہ آج ہمارے درمیان موجود ہوتے اور اس امر کی تصدیق کرتے۔ میدان کے اندر موجود مجمع ہمہ تن گوش تھا۔ ٹام نے اپنے زورِ بیان سے سب کو مسحور کر دیا تھا۔
حاضرین کرام !انکل ولیم میرے آئیڈیل تھے اور ان کی ذات گرامی میرے لیے ایک نمونہ تھی۔ میں ہمیشہ ہی ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا تھا اور شاید وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ میں ان کے مشن کو آگے بڑھاؤں اس لیے انھوں نے ہمیشہ ہی میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔ پرسوں ان کے گھر پر منعقد ہونے والی خصوصی تقریب کا دعوت نامہ انھوں نے ذاتی طور پر مجھے فون پر دیا اور اصرار کر کے آنے کے لیے کہا۔
ان سے ملاقات کا شرف میرے لیے باعثِ سعادت ہوتا تھا اس لیے میں حسب معمول حاضر ہو گیا اور ان کی تقریر سے اس قدر متاثر ہوا کہ ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے امریکی فوج میں شرکت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ میرے اس فیصلے سے وہ باغ باغ ہو گئے اور دوسری مرتبہ میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ ان کی اس آخری سوغات کو میں کبھی بھی بھول نہیں سکتا۔
خواتین و حضرات !میری گفتگو طویل ہو رہی ہے میں اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں لیکن کیا کروں فی الحال اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا میرے لیے ناممکن ہو رہا ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ دو دن بعد ایک عظیم جلسہ اس غرض سے منعقد کیا جائے گا کہ میری پذیرائی ہو اور اس سے دوسرے نوجوانوں کو ترغیب ملے لیکن کون جانتا تھا کہ اس موقع پر ہمارا چہیتا رہنما ہمارے درمیان موجود نہیں ہو گا۔ کسے خبر تھی کہ یہ میرے سرپرست کا تعزیتی اجلاس ہو گا؟
ٹام یہ کہہ کر روہانسا ہو گیا۔ لوگوں نے بھی رو مال سے اپنے آنسو خشک کیے۔ ٹام نے بات آگے بڑھائی اور کہا کہ یہ صحیح ہے کہ ہمیں اس کی خبر نہیں تھی لیکن اگر ہوتی بھی تو ہم کیا کر سکتے تھے۔ مشیت کے فیصلے نافذ ہونے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہم سب مجبور محض ہیں اور کچھ نہیں۔ ٹام کے انداز سے لوگ محسوس کر رہے تھے کہ وہ اپنے سفر کے آخری پڑاؤ میں داخل ہو چکا ہے۔
ٹام بولا اپنی بات کو ختم کرنے سے قبل میں اس فون کا ذکر کرتا چلوں جو ممکن ہے ان کا آخری فون رہا ہو۔ سینٹ کی میٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے مجھے فون پر بتلایا کہ میرا ذکر انھوں نے میٹنگ کے دوران صدر محترم کے سامنے بھی کیا اور وہ اوراس کو سن کر بہت خوش ہوئے۔ صدرِ محترم نے کہا آج ملک کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے۔
میں جب ان سے بات کر رہا تھا اس وقت یہ نہیں جانتا تھا کہ ولیم انکل سے مجھے اپنی زندگی کا آخری سبق سیکھنا باقی ہے۔ انسان وطن عزیز پر اپنی جانِ آفریں کس طرح قربان کرتا ہے؟ دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے؟ اور سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کوکیسے ترجیح دیتا ہے؟ اپنے اقدار اور اپنی قوم کی خاطر ان کی شہادت کا درس ہی میرے لئے زادِ راہ ہے۔
آپ سب کو گواہ بنا کر میں اعلان کرتا ہوں کہ میں ان کی اس وراثت کی حفاظت کروں گا اور آخری سانس بھی ملک کی خاطر وقف کر دوں گا۔ انکل ولیم کے قدموں پر اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کر کے میں اجازت لیتا ہوں۔ ولیم انکل زندہ باد امریکہ پائندہ باد۔ تین بار یہ نعرہ لگا کر ٹام واپس اپنی نشست پر لوٹ آیا۔
ٹام فوبرگ کی تقریر جھوٹ اور سچ کا ملغوبہ تھی۔ کچھ باتیں تو وہ تھیں جو اس نے تہنیتی جلسے میں کہنے کے لیے کی تیار کی تھیں لیکن پھر اس نے ان پر جھوٹ کی ملمع سازی اس خوبی سے کی کہ کسی کو شبہ نہیں ہوا۔ ولیم کے تعلق سے وہ بے دریغ جھوٹ بول رہا تھا اس لیے کہ اب تردید کرنے کی خاطر وہ موجود نہیں تھا۔
یہ تقریر ٹام کے لئے خوددشناسی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گئی تھی اسے اپنی خوداعتمادی پر رشک آ رہا تھا۔ اس ڈھٹائی اور روانی کے ساتھ جھوٹ بولنا تو شاید گھاگ سیاستدانوں کے لیے بھی آسان نہیں تھا۔ ٹام اس خود آگہی سے بہت خوش تھا کہ وہ ایک کامیاب سیاستداں بن سکتا ہے۔ اسے اپنے مستقبل کی روشن شاہراہ صاف دکھائی دے رہی تھی۔
ولیم کی موت کا اسے ویسے تو کوئی خاص غم نہیں تھا لیکن ہاروے کی تاجپوشی سے جو خطرہ لاحق ہوا تھا اب وہ اس سے بے خوف ہو چکا تھا۔ اسے یقین تھا ہاروے جیسا سیدھا سادہ نوجوان اس کی مکاریوں کی تاب نہ لا سکے گا اور آج نہیں تو کل پچھاڑ دیا جائے گا۔
ٹام کی تقریر نے ہاروے کے خواب کو حقیقت کا جامہ پہنا دیا تھا۔ ٹام کے بعد کئی لوگوں نے تقاریر کیں لیکن ہاروے کے کان میں اس کا ایک لفظ بھی نہیں پڑا۔ وہ اسی فکر میں غلطاں تھا کہ ٹام کے خوشنما جھوٹ کو کیسے مسترد کیا جائے۔
ہاروے جانتا تھا کہ ولیم کو ٹام جیسے افریقی نوجوان میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ورنہ یہ کیونکر ممکن ہوتا کہ ٹام ملازمت کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتا پھرتا۔ افریقہ کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد چونکہ اس کے حلقۂ انتخاب میں آباد تھی اور ان میں سے اکثر اس کے ووٹرس تھے اس لیے وہ ان سے رسماً ہنس بول لیتا تھا۔ ہاروے کو یہ بھی پتہ تھا کہ ولیم کو اپنے کاروبار سے ایسی فرصت ہی میسر نہ آتی تھی کہ وہ ٹام جیسے کسی نوجوان کو ذاتی دعوت دے۔ جہاں تک ملک کی خاطر جان نچھاور کرنے کا سوال ہے اس سے بڑا لطیفہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ ولیم نے خود ہاروے کو فوج میں شامل ہونے سے روک دیا تھا۔
ٹام کی آخری بات بھی سراسر کذب بیانی تھی اس لیے کہ سینیٹ کی میٹنگ سے نکل کر اس نے ٹام سے نہیں بلکہ اپنے بیٹے ہاروے سے بات کی تھی اور اس سے کہا تھا عراق جانے کا خیال وہ اپنے دل سے نکال دے وہاں لوگوں کو دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے نہیں بھیجا جا رہا اس لیے کہ کوئی قابلِ ذکر دشمن موجود ہی نہیں ہے۔ نوجوانوں کو وہاں بے روزگاری کا مسئلہ حل کرنے کی خاطر روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
ہاروے کا جی چاہ رہا تھا کہ یہ سب ببانگِ دہل کہہ دے اور ٹام کو پوری طرح بے نقاب کر دے لیکن بدقسمتی سے اس کا موقع محل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ جہاں ٹام کا سارا جھوٹ ولیم کے حق میں تھا وہیں یہ تلخ حقائق ولیم کے خلاف تھے۔ چونکہ ولیم کا حقیقی اور سیاسی وارث وہ خود تھا اس لیے اس حقیقت بیانی میں اس کا خسارہ تھا۔ ٹام کا نقصان کرنے کے لیے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا دانشمندی نہیں بلکہ خودکشی کے مترادف تھا۔ ہاروے کی الجھن ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جلسہ اختتام کو پہنچ گیا اور ہاروے کو صدارتی خطاب کی دعوت دی گئی۔
ہاروے نے مائک پر آنے کے بعد سب سے پہلے حاضرین جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔ ان کی محبتوں کو سلام کیا اور خندہ پیشانی سے تعزیت قبول کی۔ ہاروے نے اپنے والد کی تعریف و توصیف کے پل باندھتے ہوئے انھیں عظیم ترین شہیدانِ وطن کی صف میں کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد وہ سیدھا ٹام کی تقریر پر آیا اور بولا دوستو اور عزیزو! یہ کوئی تقریری مقابلہ تو ہے نہیں کہ آپ کے سامنے فن خطابت کے نمونے پیش کئے جائیں۔
ویسے بقول میرے بزرگ ڈاکٹر فیاض کے جن سے آپ لوگوں نے ابھی استفادہ کیا میرے مرحوم والد کے مقابلے کا خطیب فی الحال شاید امریکہ میں موجود نہیں ہے۔ خیر باتیں بنا نا بے حد آسان ہے لیکن ان پر عمل درآمد خاصہ مشکل ہوتا ہے۔ میں نے اپنے والد کو ہمیشہ ہی میدانِ عمل کا مردِ آہن پایا۔ ان کا معاملہ تو یہ تھا کہ ’’پران جائے پر وچن نہ جائے ‘‘ کی مصداق جو کہہ دیا سو کر دیا۔ میں ان کے پائے استقلال میں کبھی لرزش نہیں دیکھی۔
خواتین و حضرات !
میرے والد عدل و مساوات کے پیکر تھے۔ انھوں نے کبھی رنگ و نسل یا زبان و علاقہ کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں کیا۔ وہ پکے مذہبی ضرور تھے مگر مذہب کی بنیاد پر کسی تفریق و امتیاز کے قائل نہیں تھے انھوں مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات استوار رکھے۔ لیکن ان کے سب سے عظیم کارنامہ کا اعتراف ابھی میرے دوست ٹام نے کیا ہے۔ انھوں نے اس جیسے ہزاروں آوارہ نوجوانوں کے سر پردستِ شفقت رکھ کر انھیں عظیم مقصدِ زندگی سے روشناس کیا۔
ٹام جیسے سیکڑوں نوجوانوں کی زندگی کا دھارا میرے والد ولیم کنگسلے نے بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے مجھے بھی اس کی تعلیم دی اور آخری وقت تک اس کی تلقین کرتے رہے۔ میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ سنیٹر ولیم کنگسلے کے ادھورے خوابوں کو …….ان ادھورے خوابوں کو جو دہشت گردی کا شکار ہو کر چکنا چور ہو گئے ہیں میں شرمندۂ تعبیر کروں گا۔
میں ان خوابوں کی کرچیوں کو اپنے ہاتھوں سے سمیٹوں گا۔ ایسا کرتے ہوئے نہ میں اپنی انگلیوں کے زخمی ہونے کی پرواہ کروں گا اور نہ خون کے بہنے کی فکر مجھے ستائے گی۔ میں آپ کو یقین دلا دوں کے وہ سپنے ساکار ہو کر رہیں گے۔ ان مقاصد کے حصول کی خاطر میں سردھڑ کی بازی لگا دوں گا جن کے لیے آپ کے سنیٹر نے جان نچھاور کر دی۔
محترم حاضرین میں بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس علاقے کے ہر شہری کی بلا تفریق مذہب و ملت خدمت کرتا رہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں کا جو تعاون میرے والد سنیٹرولیم کو حاصل رہا ہے میرے بھی شاملِ حال رہے گا۔ خاص طور پر ٹام جیسے نوجوانوں کی حمایت مجھے حاصل رہے گی تا کہ میں ان کی سرپرستی کے فرائض بحسن خوبی ادا کر سکوں۔
آخری بات! خواتین و حضرات !میں آپ کے سامنے ایک اور عہد کرتا ہوں۔ میں اپنے باپ کی موت کا بدلہ لے کر رہوں گا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کہ اصل مجرم کیفرِ کردار تک نہیں پہنچ جاتے۔ یہ ہاروے کنگسلے کا وعدہ ہے۔ اسی کے ساتھ مجمع ہاروے کنگسلے زندہ باد، ولیم کنگسلے پائندہ باد کے نعرے لگانے لگا۔ یہاں تک کے دھرتی امبرسب گونج اٹھا۔
ہاروے کی تقریر میں مبالغہ آرائی تو تھی لیکن وہ کذب بیانی سے پاک تھی۔ ٹام کے علاوہ سبھی لوگ اس سے مطمئن اور خوش تھے۔ اس نے اپنے پہلے ہی مقابلے میں بازی مار لی تھی اور اپنے آپ کو ٹام کی سر پرستی کے مقام بلند پر فائز کر دیا تھا۔ عام رائے دہندگان کو ولیم کا وارث مل گیا تھا اور پارٹی کے پرانے کارکنان کو برسوں پرانا ولیم یاد آ گیا تھا۔ انھیں ایسا لگ رہا تھا گویا گھڑی کا نٹا مڑ کر پیچھے چلا گیا ہے اور ولیم کا پونر جنم ہو گیا ہے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ ہاروے اپنے رائے دہندگان کو ولیم کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گا اور پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ہاروے اپنے دونوں ہاتھوں میں تلوار لے کر میدانِ سیاست میں اترا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں والد کے تئیں پائی جانے والی ہمدردیاں تھیں اور دوسرے میں ذہانت و متانت کے ساتھ حوصلہ اور امنگ تھا۔ اس روز غیر رسمی طور پر یہ طے ہو گیا تھا کہ ولیم کی موت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اسے ہاروے پر کرے گا۔ ٹام نے من ہی من میں ارادہ کر لیا تھا کہ وہ مخالف جماعت میں شامل ہو کر ہاروے کی شکست فاش کو یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا۔
ٹام فوبرگ نے اپنے ارادے کا ابھی اظہار نہیں کیا تھا مگر ایک شخص بغیر بتلائے انہیں بھانپ گیا تھا۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ ٹام کا عزیز دوست اور ہم جماعت ہاروے تھا۔ ہاروے جانتا تھا کہ ٹام اس کی راہ کا روڑا بن سکتا ہے اس لیے وہ چاہتا تھا کہ ٹام جس قدر جلد ممکن ہو محاذ جنگ پر روانہ ہو جائے۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ وہاں جانے والوں میں سے کم ہی واپس آئیں گے۔ ممکن ہے ٹام کا نام بھی نہ آنے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائے۔ اگر اس دوران اسے سنیٹر بننے کا موقع مل جائے تب تو اپنے رسوخ کا استعمال کر کے ٹام کا کانٹا نکالنا اور بھی آسان ہو جائے گا۔
یہ عجیب و غریب اتفاق تھا کہ ولیم کو دو دہائیوں تک سیاست کا نشہ اس قدر خونخوار نہ بناس کا تھا جتنا کہ دو دنوں کے اندر ہاروے کو سفاکی کا خوگر بن گیا تھا۔ ہاروے کی رگوں میں سیاست کا زہر بڑی تیزی کے ساتھ سرائیت کر رہا تھا۔ ولیم کے دل میں اپنے بیٹے کی محبت جذبۂ رحم کو جنم دیتی تھی اور ہاروے کے دل میں دوست کی دشمنی رقابت و نفرت کو پروان چڑھا رہی تھی۔
ہاروے کو یہ اندیشہ لاحق تھا کہ کہیں ٹام اپنا عراق جانے کا ارادہ ترک نہ کر دے لیکن وہ جانتا تھا کہ ٹام کی آرزو مند زندگی اور اس کی پر پیچ را ہوں پر سب سے اہم پڑاؤ فوجی بیرک ہی ہے۔ اس فیصلے سے دستبراری سیاسی خودکشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اس صورت میں تو اس کی ہاروے سے کوئی حریفائی ہی ختم ہو جاتی تھی۔ ہاروے کی قسمت کا ستارہ بام عروج پرتھا اس لیے کہ ٹام فوبرگ کے با مقابل ہر دو صورت میں کامیابی اسی کا مقدر تھی۔
٭٭٭
۹
ہائے ڈائنا……..چرچ سے نکلتے ہوئے اپنے عقب سے آنے والی ایک جانی پہچانی آواز سن کر ڈائنا چونک پڑی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے ٹام کھڑا مسکرا رہا تھا۔
ڈائنا نے کہا ہائے ٹام تم کیسے ہو؟
میں اچھا ہوں ڈائنا۔ میرے پاس تمھارے لیے ایک خوشخبری ہے۔ ٹام نہایت ڈرامائی انداز میں ڈائنا کو ایک حیرت زدہ کرنا چاہتا تھا۔
ڈائنا نے اداس لہجے میں کہا خوشخبری یہ کیا ہوتی ہے ٹام؟ پاپا کی رحلت کے بعد میرے لیے یہ لفظ بے معنی ہو گیا ہے۔ ولیم کی موت نے ڈائنا سے اس کی ساری شوخی چھین لی تھی۔ گھر کے سارے لوگوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا تھا لیکن ڈائنا کی طبیعت سنبھلنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔
ٹام کو بیک وقت اپنی دو غلطیوں کا احساس ہوا۔ ایک تو اسے ولیم کی موت کے بعد ڈائنا سے مل کر تعزیت کرنی چاہئے تھی لیکن اس وقت وہ حسد کی آگ میں اس طرح جل رہا تھا کہ اپنی اخلاقی ذمہ داری کا بھی بھول گیا۔ ڈائنا تو دور اس نے ہاروے کو بھی باقاعدہ ذاتی طور پرسہ نہیں دیا تھا۔ لیکن کہاں ہاروے اور کہاں ڈائنا ان دونوں کیا موازنہ؟ اسے چاہئے تھا کہ وہ ڈائنا سے مل کر تعزیت ضرور کرتا خیر۔
دوسری غلطی یہ کہ بغیر کسی تمہید کے براہِ راست خوشخبری کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہئے تھا مگر ٹام کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ڈائنا کو دیکھنے کے بعد اسے خود پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس نے فوراً پینترا بدل کر کہا معاف کرنا ڈائنا میں معذرت چاہتا ہوں۔ تم تو جانتی ہو کہ انکل ولیم میرے سرپرست تھے۔ بچپن ہی سے ان کا دستِ شفقت میرے سر پر رہا اس لیے ان کی موت کا مجھے بھی ویسا ہی صدمہ ہے کہ جیسا تم کو ہے۔
ڈائنا پر ان الفاظ کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ دور خلاؤں میں کہیں دیکھ رہی تھی۔ ٹام نے اپنی بات آگے بڑھائی اور بولا لیکن ڈائنا زندگی کی مانند موت بھی ایک حقیقت ہے۔ ان دونوں کا معاملہ رات اور دن کی طرح ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں گویا یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کا سامان ہیں۔ ٹام کا جی چاہا کہ کہے بالکل تمھاری اور میری طرح لیکن وہ تیسری غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں جانتی ہوں ٹام۔ چرچ میں ہمیں اسی کا درس دیا جاتا ہے لیکن میں کیا کروں کہ دل نہیں مانتا۔ پاپا کے چلے جانے کے بعد کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ کل کارڈینل جوزف کہہ رہے تھے بیٹی تمھارے پاپا زندہ ہیں۔ وہ بہشت کی سیر کر رہے ہیں۔ میں نے انھیں جواب دیا فادر آپ کی بات صحیح ہو سکتی ہے لیکن ہم زندہ نہیں ہیں۔ ہم مر چکے ہیں۔ ہماری زندگی جہنم زار ہو چکی ہے۔ اور جب میں نے یہ کہا تو وہ لاجواب ہو گئے۔ ان کے پاس میری بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس لیے کہ یہ حقیقت ہے اور یہی حقیقت ہے۔
ٹام بولا لیکن میرے پاس تمھاری بات کاجو اب ہے ڈائنا اگر تم سننا چا ہو؟
ڈائنا نے حیرت سے پوچھا تمھارے پاس؟ کیا تم روحانی معاملات میں فادر جوزف سے زیادہ علم رکھتے ہو؟
جی نہیں کہاں فادر جوزف کا علم زخار اور کہاں میں کنجشک فرومایہ؟ لیکن پھر بھی میرے خیال میں فادر نے بالکل صحیح کہا کہ تمھارے پاپا زندہ ہیں لیکن جس طرح وہ زندہ ہیں اسی طرح تم، میں اور ہم سب بھی زندہ ہیں۔
لیکن فادر جوزف کا کہنا ہے کہ وہ بہشت میں ہیں اور ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں تو کیا ہم دوزخ میں نہیں ہیں؟
جی نہیں ڈائنا جنت اور جہنم کے درمیان میں یہ دنیا ہے۔ جہاں ہم لوگ فی الحال اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔ اس دنیا میں کبھی جنت کی عیش و عشرت میسر ہو جاتی ہے اور کبھی جہنم کے کرب و بلا سے سابقہ پیش آ جاتا ہے۔ ہم یہاں دونوں کا مزہ چکھتے ہیں اور اپنا راستہ چنتے ہیں۔
راستہ !یہ کس راستے کی بات کر رہے ہو تم ٹام؟ کہاں جاتا ہے یہ راستہ؟ ڈائنا نے نہایت معصومیت سے دریافت کیا۔
یہ راستہ دونوں سمتوں میں جاتا ہے۔ جنت میں بھی اور جہنم میں بھی؟ ہم خود اس کا انتخاب کرتے ہیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے؟
ٹام ہو سکتا ہے تمھاری بات درست ہو لیکن اگر میں اور میرے پاپا دونوں زندہ ہیں تو ایک دوسرے کے پاس کیوں نہیں ہیں؟
زندہ ہونا اور آس پاس ہونا دو مختلف باتیں ہیں۔ تمام زندہ لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے۔ جیسے کہ میں کل دور چلا جاؤں گا۔ کولاریڈو سے بہت دور لیکن اس کے باوجود ممکن ہے زندہ رہوں یا مر جاؤں۔ اگر مر بھی گیا تو امر ہو جاؤں گا۔
تمھاری ساری باتیں تو میری سمجھ میں آ گئیں لیکن آخری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ مر کے امر ہو جانے والی بات؟
ڈائنا دیکھو ایسا ہے اس دنیا میں جو بھی زندہ ہے اسے ایک دن مرنا ہے۔ اس لیے زندہ رہنا یا مر جانا اپنے آپ میں کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔
کیا؟ اگر زندگی اور موت بھی کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے؟ تو آخر اہم کیا ہے؟
مقصدِ زندگی اہم ہے ڈائنا مقصدِ زندگی۔ انسان کس لیے جیتا ہے اور کس کی خاطر موت کو گلے لگاتا ہے یہ اہم ہے۔ مثلاً تمھارے پاپا، ( ہاروے کی تقریر کو یاد کر کے ٹام اس کے الفاظ دوہرانے لگا۔ ) انھوں نے اپنی زندگی ملک اور قوم کی خدمت میں کھپا دی اور بالآخر وطن عزیز کی راہ میں اپنی جان کی بازی بھی لگا دی۔
مجھے پتہ ہے۔ ڈائنا بولی
میں نے بھی یہ عزم کیا ہے کہ میں ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے امن عالم کے قیام کی خاطر اپنے آپ کو وقف کر دوں گا۔ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی جان لڑا دوں گا اور اس جد و جہد میں اگر کام آ گیا تو مر کے امر ہو جاؤں گا۔
ڈائنا حیرت سے ٹام کو دیکھ رہی تھی۔ میں عراق جا رہا ہوں ڈائنا عراق۔
ٹام تم عراق جاؤ گے۔ جنگ کرو گے؟ تمہیں مرنے مارنے سے ڈر نہیں لگتا؟
ڈر کیسا ڈر۔ میں مرنے سے نہیں ڈرتا اس لیے کہ وہ کون ہے جسے ہمیشہ زندہ رہنا ہے؟ اور مارنے سے بھی نہیں ڈرتا اس لیے کہ اگر کسی مجرم کو مارنے سے کسی معصوم کی جان کی بچتی ہو تو وہ گناہ نہیں بلکہ کارِ ثواب ہے۔
ڈائنا ڈر گئی اور وہ بولی ٹھیک ہے ٹام میری نیک خواہشات تمھارے ساتھ ہیں۔
شکریہ ڈائنا یہی میرے لیے زادِ راہ ہے۔
ڈائنا کے دل کا بوجھ اس گفتگو سے قدرے ہلکا ہو گیا تھا مگر ڈائنا سے اس ملاقات نے ٹام کو بے حد خوش کر دیا۔ وہ ایک چھلانگ لگا کر اپنی منزلِ مقصودسے بے حد قریب آ گیا تھا۔
……………………………
عوام الانام کے بیچ ہاروے کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔ تعزیت کے لیے مختلف وفود کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ اس بیچ ڈاکٹر فیاض نے بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ کر ملاقات کی اور اپنے دیرینہ دوست کی بے وقت موت پر اظہارتاسف کیا۔ اسی طرح دیگر طبقات مثلاً گورے، کالے، ہسپانوی، افریقی، ایشیائی، عربی غرض کے بھانت بھانت کے لوگوں نے اس کو پرسہ دیا اور اپنے تعاون اور حمایت کا یقین دلایا لیکن ہاروے کو جہاں سے خوشخبری کی توقع تھی وہ پارٹی کا صدر دفتر تھا اور اس جانب مکمل خاموشی کا راج تھا۔ ایسا کوئی عندیہ ہاروے کو موصول نہیں ہوا تھا جس سے کم از کم اس قدر اطمینان ہو جاتا کہ ولیم کے وارث کی حیثیت سے اس کا نام زیر غور ہے۔ اس طرح ایک طویل عرصہ گزر گیا۔ اس دوران ہاروے اپنی تجارتی مصروفیات میں کچھ ایسا غرق ہوا کہ اسے ماہ و سال کا خیال ہی نہیں رہا۔
ٹام کے عراق چلے جانے کے ساتھ ہی ہاروے کی سیاسی آرزوئیں چادر تان کر سو گئی تھیں اور اجتماعی زندگی سے الگ تھلگ ہاروے کنگسلے اپنے گھر اور دفتر کی غلام گردشوں میں کھو گیا تھا لیکن طویل عرصہ کے بعد جب انتخابات کے بادل چھانے لگے تو واشنگٹن میں واقع پارٹی کے صدر دفتر سے اسے ایک خصوصی نشست میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ اور اسی کے ساتھ اچانک سارے ارمان پھرسے جوان ہو گئے۔ ہاروے نے اس موقع کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے ہوئے فوراً حاضری کی یقین دہانی کرا ئی اور واشنگٹن جانے کی تیاری میں لگ گیا۔
یہ ایک اہم تقریب تھی جس میں حکومت کے وزراء یعنی سکریٹریز کے علاوہ سابق صدور، مختلف ریاستوں کے گورنرس، بڑے شہروں کے میئرس اور دیگر مفکرین اور دانشوروں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ہاروے ان میں سے کسی بھی زمرے میں شامل نہیں تھا اس کے باوجود اس کی یاد فرمائی اپنے آپ میں اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ ملک کے ممتاز افراد میں شمار کیا جانے لگا ہے۔ ہاروے نے اس کا یہ اضافی مطلب بھی از خود نکال لیا کہ اس کے نام پر غور ہو رہا ہے۔ اس نشست کی صدارت سکریٹری آف اسٹیٹ کرنے والے تھے۔ اجلاس میں شریک ہونے کی خاطر جب ہاروے واشنگٹن پہونچا تو کئی ایسے لوگوں نے بھی اسے شکل و شباہت کے باعث پہچان لیا جن سے وہ پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔
ولیم کے دوستوں نے ہاروے سے مل اظہارِ تعزیت کے بعد بلاواسطہ یہ پیغام مسرت اس کے گوش گذار کیا کہ اسے ولیم کا جانشین سمجھا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں اس کے والد کی قربانی کو بھنانے کا سب سے بڑا وسیلہ ہاروے ہی تھا۔ اسے حاصل ہونے والی ہمدردی پارٹی کے لیے عظیم اثاثہ ثابت ہو سکتی تھی لیکن ولیم کے رویہ نے ڈینی کوکنگسلے خاندان کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار کر دیا تھا۔ اس نے صدرِ محترم کو مشورہ دیا کہ اس بابت جلد بازی سے گریز کیا جائے۔ چونکہ پارٹی اس گئی گزری حالت میں کسی نئے ولیم کا بوجھ انہیں سہار سکتی اس لیے احتیاط ضروری ہے۔
نشست کے دوران ہاروے زیادہ تر خاموش رہا اور بڑے غور سے مختلف لوگوں کی باتوں سے ان کے طرزِ فکر کا اندازہ لگاتا رہا۔ ایک آدھ مرتبہ اس نے سوال بھی کیا اور وضاحت بھی طلب کی۔ وہ نہایت سلیقے سے گفتگو کر رہا تھا۔ ڈینی اس کے طرزِ تکلم سے متاثر ہوا تھا۔ میٹنگ کے خاتمے پر ڈینی نے اس سے ملاقات کر کے کہاویسے تو ولیم میرا بہت اچھا دوست تھا اور اس کے اخلاص و ایمانداری کا میں اب بھی معتقد ہوں مگر اس کی دو باتیں مجھے پسند نہیں تھیں۔
ہاروے نہایت غور سے ڈینی کی باتیں سن رہا تھا۔ ڈینی نے بات آگے بڑھائی ایک تو جذبات میں آ کر اپنے موقف پر اڑ جانا دوسرے کام و دہن کی محفل میں حد درجہ کم دلچسپی لینا۔ آؤ میرے ساتھ چلو میں تمہیں عیش و مستی کے ایک نئے جہاں میں لیے چلتا ہوں۔
اب وہ دونوں ایک ایسے بنکویٹ ہال میں تھے جہاں خوبصورت پریاں جام لنڈھا رہی تھیں۔ موسیقی کی دھن پر لوگ انواع اقسام کے کھانے نوش فرما رہے تھے۔ ڈینی بولا اس جنت کا حق تو تم جیسے جوان ہی ادا کر سکتے ہیں۔
…………………….
سر میں اوور کوٹ لے کر آتی ہوں مونیکا نے کہا باہر سردی بہت ہے۔
مسکرا کر اجازت دیتے ہوئے جان ڈیو بولا جلدی آؤ۔
مونیکا کی تو جیسے من مراد پوری ہو گئی تھی۔ مونیکا نہ جانے کب سے جان ڈیو پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ میٹنگ کے ختم ہوتے ہی وہ فوراً اپنے ہاتھوں میں جام لے کر جان کی جانب بڑھی اور اسے اپنی قاتل اداؤں سے رجھانے لگی۔ جان کو احساس ہو گیا تھا کہ گزشتہ کئی مجلسوں سے یہ دوشیزہ اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ہر بار اسے کوئی اور پسند آ جاتی تھی۔ اس کے باوجود یہ لڑکی مایوس ہونے کا نام نہیں لیتی ہے۔ سنگ دل جان ڈیو بھی بالآخر موم ہو گیا اور اس نے اپنی شام اس حسینہ کے نام کرنے کا ارادہ کر لیا۔ جب جان نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا تو مونیکا کی باچھیں کھل گئیں اور وہ اوور کوٹ لینے کے لیے دوڑ پڑی۔
امریکہ کے ترقی یافتہ معاشرے میں مونیکا جیسی خوبصورت دوشیزاؤں کو پارٹی گرل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور انھیں مہمانوں کی دلجوئی کے لیے بلایا جاتا تھا۔ پارٹی کے بعد جو جس کے ساتھ چاہتا تھا نکل جاتا ہے۔ یہ خواتین بھی سماج کے اہم ترین شخصیات کے ساتھ وقت گزاری کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتی تھیں۔ جدید تہذیب کے پروردہ اہل خانہ اسے معیوب نہیں بلکہ ترقی کا زینہ گردانتے ہیں۔
کوٹ لے کر واپس آتے ہوئے جب مونیکا کی نگاہ ہاروے پر پڑی تو اچانک زمین نرم ہو گئی۔ اس کے قدم ماضی کی یادوں میں دھنسنے لگے۔ کالج سے نکلنے کے بعد مونیکا نے آج پہلی بار ہاروے کو دیکھا تھا۔ ہاروے نے بھی اسے ایک نظر میں پہچان لیا۔ دونوں چند لمحہ حیرت و استعجاب کے عالم میں ایک دوسرے کو تکتے رہے اور اس کے بعد ہاروے بولا مونیکا تم؟
ہاں ہاروے کیوں؟ اس میں حیرت کیا کیا بات ہے؟
چلو اچھا ہوا تم سے ملاقات ہو گئی۔ چلو تم میرے ساتھ چلو۔
مونیکا گھبرا کر بولی میں …. میں نے جان سے کہہ دیا ہے کہ میں اس کے ساتھ………۔
ہاروے بولا کہہ دیا ہے تو کیا ہوا پھر کہہ دو کہ تم اس کے ساتھ نہیں ……
مونیکا نے کہا ٹھیک ہے۔ وہ دونوں ایک ساتھ جان ڈیو کے پاس آئے اور مونیکا نے بڑی لجاجت سے معذرت پیش کی۔
جان تو بس ہتھے سے اکھڑ گیا۔ اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔
ہاروے بولا کیوں نہیں ہو سکتا؟
جان نے کہا تم نئے ہو۔ تم یہاں کے اصول و ضوابط نہیں جانتے۔ یہ بے وقوف لڑکی انکار نہیں کر سکتی۔
کیوں نہیں کر سکتی؟ ہاروے نے چہک کر پوچھا۔
بلاوجہ بحث نہ کرو تمھارے والد بھی اسی طرح کی بحث میں الجھ جایا کرتے تھے۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس بات کو مجھ تک محدود رکھیں میرے مرحوم والد کو بیچ میں نہ لائیں ورنہ میں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاؤں گا۔
میں جانتا ہوں ہاروے ! یہ تمہارا موروثی مرض ہے۔
مونیکا نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا سر میں آپ سے معافی چاہتی ہوں یہ ہاروے کی نہیں میری التجا ہے۔
جان بولا تم خاموش رہو۔ کیا یہاں لانے سے قبل یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ تمہیں انکار کی اجازت نہیں ہے۔ کیا تم نے آنے سے پیشتر ہی اپنی مرضی کو ہماری تابعداری میں نہیں دیا۔
اس جملے کو سن کر ہاروے نے استفہامیہ انداز میں مونیکا کی جانب دیکھا تو اس نے تائید میں سر ہلا دیا۔ جی ہاں سر ہم لوگ اپنی نہیں بلکہ آپ لوگوں کی مرضی کے بلا چوں چرا پابند ہیں۔ اسی لیے میں آپ سے گلو خلاصی کی اجازت طلب کر رہی ہوں۔
ہاروے کے لیے یہ صورتحال ناقابلِ برداشت تھی۔ اس طرح کی غلامی کا تصور بھی اس کے لیے محال تھا۔ اس کا جوان خون جوش مار گیا اور وہ زور دے کر بولا ہم لوگ کالج کے ساتھی ہیں۔ برسوں بعد ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ آج ہم دونوں ساتھ جائیں گے یہ آخری فیصلہ ہے۔
بکواس نہ کرو جان نے چلا ّکر کہا تم مجھے نہیں جانتے۔
جی ہاں اور جاننا بھی نہیں چاہتا۔
تم بہت جلد جان جاؤ گے۔
ہاروے بولا اپنی بلا سے ……
بات بڑھ گئی دوسرے لوگ درمیان میں آ گئے۔ انھوں نے ہاروے کو آدابِ محفل کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے ضابطے کی پابندی کرنے کی تلقین کی اور صبر و ضبط سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ ان لوگوں نے ہاروے کو سمجھایا کہ اب کسی صورت مونیکا ہاروے کے ساتھ نہیں جا سکتی۔ اسے جان ہی کے ساتھ جانا ہو گا وہ کل کے بعد جب چاہے مونیکا سے ملاقات کرے۔
ہاروے کو یہ بات بہت بری لگی۔ اس نے بحالتِ مجبوری سرِتسلیم خم کر دیا اور فیصلہ کر لیا کہ موقع ملنے پروہ جان سے اس ہزیمت کا بدلہ ضرور لے گا۔ اس کے بعد مونیکا کو اپنا کارڈ دیتے ہوے بولا میں کل صبح دس بجے میں ہوٹل ہلٹن کی لابی میں انتظار کروں گا۔ ہوٹل واپس آنے کے بعد اس نے اپنا ٹکٹ دوسرے دن صبح سے ملتوی کروا کر شام کا کیا اور مے نوشی میں مصروف ہو گیا۔
شراب نے نشے میں ہاروے کو اچانک ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بوتل کے اندر سے ’میں میں ‘ کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ جام کے خالی ہو جانے پر جب اس نے بوتل کو الٹا تو اس میں سے ایک بے ضرر بکری کا بچہ نکل آیا اور اپنے جسم سے شراب جھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ بکری کا وہ خوبصورت بچہ اس کی جانب دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک جانب سے ہاتھ میں قصائی کا چھرا لے کر جان ڈیو نمودار ہو گیا اور ایک جھٹکے سے بکری کا سر تن سے جدا کر دیا۔ بے بس و لاچار ہاروے کے سامنے میز پر مونیکا کا کٹا ہوا سر رکھا تھا۔
اس منظر نے شراب کا نشہ زائل کر دیا۔ ہاروے سوچ رہا تھا کہ آخر وہ کون سی مجبوری تھی جو مونیکا کو اس مذبح خانے میں لے آئی جہاں زندہ مویشیوں کی سرِ عام کھال کھینچ لی جاتی ہے اور انھیں تڑپ تڑپ کر دم توڑنے کے لیے سرِ بازار چھوڑ دیا جاتا ہے۔
٭٭٭
باب سوم
۱۰
مونیکا بحالتِ مجبوری جان کی گاڑی میں تو بیٹھ گئی لیکن اس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ جان کے رویہ نے اسے پاگل کر دیا تھا۔ اس بے ہودہ انسان نے نہ صرف اس کی بلکہ ہاروے کی بھی توہین کی تھی۔ وہ خود اپنے آپ کو اس قدر گرا چکی تھی کہ اسے اپنی تضحیک کا مطلق افسوس نہیں تھا لیکن اس کے سبب ہاروے کی تذلیل اس کے آنکھوں کا کانٹا بن گئی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا اس تیز رفتار چلتی ہوئی گاڑی سے جان ڈیو کو نیچے ڈھکیل دے لیکن ایسا کرنا خودکشی کے مترادف تھا اور وہ ابھی مرنا نہیں چاہتی تھی۔ اسے مرنے سے قبل کئی حساب بے باق کرنے تھے اور اس فہرست میں تازہ اضافہ جان ڈیو تھا۔
جان کی گاڑی جس سرعت سے رواں دواں تھی اس سے زیادہ تیز مونیکا کا دماغ دوڑ رہا تھا لیکن منزل کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ مونیکا کو محسوس ہوا کہ وہ ایک ایسے راستے پر گامزن ہے جو ہوا میں معلق ہے۔ جس آگے پیچھے، دائیں بائیں اور نیچے اوپر ہر طرف خلاء یا گہری کھائی ہے۔ یہ سواری جس میں وہ سوار ہے کسی بھی لمحہ سیکڑوں گز کی بلندی سے گر کر پاش پاش ہو سکتی ہے لیکن آخر وہ کر بھی کیا سکتی ہے؟ گاڑی اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ نہ اسٹیرنگ اس کے ہاتھ میں ہے اور نہ بریک پر اس کا پاؤں ہے۔ وہ نہ اپنا رخ طے کر سکتی اور نہ رفتار۔ ہر شے جان ڈیو کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جان ڈیو بلا شرکت غیرے ساری کائنات پرمسلط ہے۔
جان پر بھی جنون سوار تھا۔ ہاروے نے جس لب و لہجے میں گفتگو کی تھی ایسی جرأت اس سے پہلے کوئی اور نہ کر سکا تھا۔ ایوانِ اقتدار میں سارے لوگ اس کے ڈینی اور صدرِ محترم سے قربت کے قائل تھے اس لیے احتیاط ملحوظ خاطر رہتا تھا۔ وہ دیوانہ وار گاڑی دوڑا رہا تھا۔ مونیکا نے دیکھا کہ ایک سگنل پر سرخ نشان ہے اس کے باوجود جان نے رکنے کی زحمت نہیں کی بلکہ اپنی گاڑی نکالتا چلا گیا۔ اگلے اشارے پر بھی اس نے یہی حرکت کی لیکن اچانک سامنے ایک ٹرک آ گیا اور وہ بریک لگانے پر مجبور ہو گیا۔ اسی کے ساتھ چہار جانب گاڑیوں کی قطار لگ گئی۔ حادثہ تو نہیں ہوا مگر کہرام مچ گیا۔ مونیکا کو ایک ترکیب سوجھی۔ وہ فوراً دروازہ کھول کر نیچے اتر گئی۔
جان چلایا مونیکا تم یہ کیا کر رہی ہو؟
وہ بولی میں جا رہی ہوں۔
تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہے؟ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔
جان کی دھمکی کا کوئی اثر مونیکا پر نہیں ہوا وہ مسکرا کر بولی تم چھوڑو یا پکڑو تمہاری مرضی مگر میں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے کیا سمجھے؟
مونیکا بے وقوف لڑکی میں تمہیں جان سے ماردوں گا۔
جان تم مجھے جان سے نہیں مارسکتے اس لیے کہ میں شوکیس میں رکھا ہوا ایک بے جان مجسمہ ہوں۔ جسے مختلف انداز میں سجایا اور بگاڑا تو جا سکتا ہے لیکن اسے جان سے نہیں مارا جا سکتا۔ اس بیچ سگنل کھل گیا۔ پیچھے کی گاڑی والوں نے ہارن بجانا شروع کر دیا۔ جان کو مجبوراً اپنی گاڑی آگے بڑھانی پڑی اس نے آگے نکال کر اسے کنارے کھڑا کیا لیکن اس وقت تک مونیکا ٹیکسی لے کر مخالف سمت میں ہوا ہو چکی تھی۔
جان سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے؟ اس ناہنجار لڑکی کو کیسے سبق سکھایا جائے؟ مونیکا کا پیچھا کرنا اب ناممکن تھا اس لیے کہ گاڑی کو اگلے اشارے سے موڑنے تک وہ نہ جانے کہاں سے کہاں نکل چکی ہو گی۔ جان کے فتنہ پرور ذہن نے نیا شوشہ چھوڑا اور وہ قریب کے پولس تھانے میں پہنچ گیا۔ وہاں اس نے مونیکا کے خلاف قیمتی سازوسامان چرا کر فرار ہو جانے کی شکایت درج کرا دی۔ جب پولس والوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ اس بات کا سراغ لگانے میں کوئی مدد کر سکتا ہے کہ وہ لڑکی کہاں گئی ہو گی؟ تو جان نے اپنی معذوری ظاہر کی۔ اس کے اثروورسوخ کا یہ نتیجہ نکلا کہ پولس نے اس کی جھوٹی شکایت پر فوراً مونیکا کی تلاش کا آغاز کر دیا۔
مونیکا نے ٹیکسی کے اندر سے ہاروے کو فون کیا اور اس سے گزارش کی کہ وہ ہلٹن سے چیک آوٹ کر کے رامدہ اِن میں منتقل ہو جائے۔ اس کے بعد اس نے اپنی گاڑی کے پاس پہنچ کر ٹیکسی کی ادائیگی کر دی اور اپنی ذاتی گاڑی سے رامدہ اِن پہنچ گئی۔ ہاروے لابی کے اندر اس کا منتظر تھا۔ ہاروے نے گیٹ کے باہر اس کی پرانی گاڑی سے مونیکا کو اترتے دیکھا۔ وہ گاڑی کی چابی ہوٹل کے دربان کو تھما رہی تھی تاکہ اسے زیر زمین پارکنگ میں لگایا جا سکے۔
ہاروے نے ایک طویل عرصے کے بعد اپنی اس گاڑی کو دیکھا تھاجسے وہ کالج کے زمانے میں استعمال کرتا تھا اور جاتے جاتے مونیکا کو تحفہ میں دے گیا تھا۔ دعا سلام کے بعد ہاروے نے مونیکا سے پوچھا یہ گاڑی اب بھی تمھارے پاس موجود ہے؟
مونیکا بولی تمھاری ہر چیز میرے پاس محفوظ ہے سوائے تمھارے۔ ہاروے نے سوچا یہ عجیب تضاد ہے کہ اس کے پاس تو مونیکا کی کوئی چیز موجود نہیں تھی بشمول مونیکا کے۔
ہاروے نے چونکہ اپنی گاڑی مونیکا کو آخری دن حبہ کی تھی اس لیے کسی اور کو تو کجا مونیکا کو بھی اسے چلاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آج مونیکا کو اس سے اترتے ہوئے دیکھ کر اس کے دل میں نہ جانے کیوں درد کی ایک ٹیس اٹھی تھی کسی دیرینہ عزیز شے کے کھو جانے کا احساس، گو کہ وہ اسے پوری طرح بھول چکا تھا۔
ہاروے اور مونیکا نے ہوٹل رامدہ کے وسیع و عریض لابی میں اپنے لیے ایک تنہا گوشہ تلاش کر لیا۔ مونیکا سے ہاروے بہت کچھ جاننا چاہتا تھا۔ اول تو یہ کہ اس نے جان کو اپنے منھ کیوں لگایا؟ اور دوسرے اس نے جان سے نجات کس طرح حاصل کی؟ لیکن ان سوالات کو کرنے کا حوصلہ وہ نہیں جٹا پا رہا تھا۔ اسے اس بات پر افسوس تھا کہ وہ زبردستی مونیکا کو جان ڈیوسے چھڑا کر کیوں نہیں لا سکا جبکہ یہ کوئی بہت مشکل کام نہیں تھا۔ مونیکا بھی ہاروے کو اپنی داستانِ حیات سنانے کے لیے بے چین تھی لیکن وہ پہل کیسے کر سکتی تھی۔ آخر عورت جو تھی۔
ایک طویل خاموشی کو بالآخر مونیکا نے توڑا اور سوال کیا ہاروے میں نے تمہیں آج پہلی مرتبہ اس طرح کی نشست میں دیکھا ہے۔ کیوں خیریت تو ہے؟
ہاروے سمجھ گیا کہ مونیکا اس طرح کی کئی نشستوں میں شرکت کر چکی ہے لیکن اس نے اس بابت کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا اور سوال کیا یہ جان تمھارے گلے کیسے پڑ گیا؟
مونیکا نے خلا ء میں دیکھتے ہوئے کہا قصور اس کا نہیں میرا ہے۔
تمھارا؟ کیا مطلب؟؟
در اصل ایک خاص مقصد کے تحت میں نے ان نشستوں میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا اور گزشتہ کئی اجلاس سے میں جان سے قربت کی فکر میں تھی۔
بہت خوب لیکن آج جب اس کا ساتھ تمہیں میسر آ گیا تو تم نے اسے چھوڑ دیا؟
جی ہاں ہاروے یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جب اس کا ساتھ ملا تو اس کے ساتھ تم بھی مل گئے۔ پہلے کوئی متبادل نہیں تھا اب میسر آ گیا تو میں نے اسے ترجیح دی۔
ہاروے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بولا وہ تو میں سمجھتا ہوں مونیکا، لیکن کیا تم مجھے یہ بتانا پسند کرو گی کہ وہ کون سی مجبوری تھی جو تمہیں ان محفلوں میں لے گئی؟
کیوں نہیں؟ اسی راز میں تم کو شریک کرنے کی خاطر تو میں جان کو چھوڑ کر آئی ہوں۔
ہاروے ہمہ تن گوش ہو گیا مونیکا بولی تم تو جانتے ہی ہو میری ایک بہن ہوا کرتی تھی ویرونیکا۔ ہم لوگ پیار سے اسے کونیکا کہا کرتے تھے اس لیے کہ وہ بالکل جاپانی گڑیا جیسی لگتی تھی۔ اس کی ابھری ہوئی آنکھیں، چپٹی ناک اور پھولے پھولے سے گال سبھی کو بہت اچھے لگتے تھے لیکن میرے والد کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ اس کی پیدائش کے بعد وہ بڑے غور سے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے اور پھر ویرونیکا کو دھیان سے دیکھتے تاکہ اس کے اور اپنے اندر کوئی مشترک قدر تلاش کر سکیں لیکن ہر مرتبہ ان کے حصہ میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ جب لوگ اسے جاپانی گڑیا کہہ کر پکارتے تو وہ آگ بگولا ہو جاتے تھے۔ میری ماں کے بارے میں ان کے سارے شکوک و شبہات کو ویرونیکا نے یقین میں بدل دیا تھا۔ لیکن میری والدہ کو اس کی مطلق پرواہ نہیں تھی۔
ہاروے نے پوچھا اس بے نیازی کی کوئی خاص وجہ تھی؟
جی ہاں اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں ایک تو میری ماں اپنے شوہر کے تمام ناجائز تعلقات کا علم رکھتی تھی نیز معاشی عدم انحصار نے اسے میرے والد سے بے نیاز کر دیا تھا۔ ویرونیکا جیسے جیسے بڑی ہوتی رہی گھر کے اندر کی کشیدگی بڑھتی چلی گئی اور بالآخر نوبت طلاق تک جا پہنچی۔ میرے والدین ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ گھر اور جائیداد کے ساتھ بچے بھی تقسیم ہو گئے میں اپنے والد اور میری بہن ویرونیکا ماں کے حوالے کر دی گئی۔ زن و شو آزاد ہو گئے اور ہم بچے یتیم ہو گئے۔ میرے والد نے کچھ عرصہ بعد دوسری شادی کر لی۔ میری نئی ماں نے مجھے بڑے پیار سے اپنی بچی سمجھ کر سنبھالا اور محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ میں سوتیلی بیٹی ہوں۔
لیکن ویرونیکا کا کیا بنا؟
بدقسمتی اس کے ساتھ سے معاملہ الٹ گیا۔ ہماری والدہ چونکہ معاشی مصروفیات کے سبب اس کی پرورش کرنے سے قاصر تھیں اس لیے اسے ہاسٹل میں ڈال دیا گیا۔
کیا تمہاری سوتیلی ماں ملازمت پیشہ نہیں تھیں؟
جی نہیں۔ میرے والد اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ویسے ویرونیکا کے ہاسٹل میں جانے کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ میری آزاد طبع ماں ویرونیکا کو اپنے لئے بوجھ سمجھتی تھی۔ ویرونیکا جب چھٹیوں پر گھر آتی تو لوگ اسے ماں کی بدکرداری کے سبب بری نظر سے دیکھتے تھے حالانکہ وہ پوری طرح بے قصور تھی۔ ان باتوں نے اس پر منفی اثرات مرتب کیے اور وہ بری صحبت میں پڑ کر منشیات کی عادی ہو گئی۔ اس لت نے نہ صرف اس کی صحت بلکہ تعلیم کو بھی متاثر کیا اوراس کا تعلیمی سلسلہ درمیان ہی میں منقطع ہو گیا۔ اب ویرونیکا کے پاس بدمعاش دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نہیں تھا۔
لیکن تمھاری ماں نے اس کی جانب توجہ کیوں نہیں کی؟
میری ماں کے پاس ویرونیکا کی جانب توجہ دینے کی نہ فرصت تھی نہ فکر۔ اس دوران میں اس سے رابطے میں تھی اور اصلاح حال کی ناکام سعی کرتی رہتی تھی۔
ایک دن ویرونیکا نے مجھے بتایا کہ وہ مرسینریز کے اولین دستے میں شامل ہو کر عراق جا رہی ہے۔ مجھے یہ جان خوشی ہوئی میں نے سوچا کہ ممکن اسے فوج میں اچھے لوگوں کی صحبت نصیب ہو جائے اور کسی فوجی کے ساتھ شادی کر کے وہ اپنا گھر بسا لے۔ اس دوران مجھے انرون میں ملازمت مل گئی اور میرے والد اور میری سوتیلی ماں مجھے اپنا گھر بسانے کی ترغیب دینے لگے۔ اس بابت وہ میرا تعاون کر رہے تھے اور قریب تھا کہ میری سگائی ہو جاتی لیکن …..
لیکن ! لیکن کیا؟ہاروے نے تعجب سے پوچھا
اس بیچ عراق سے آنے والی ایک اندوہناک خبر نے سارے منصوبے پر پانی پھیر دیا
کیوں ویرونیکا کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہو گئی؟
جی نہیں۔ اگر وہ ہو جاتا جو تم سمجھ رہے ہو تو ہم لوگ دوچار دن رو پیٹ کر صبر کر لیتے لیکن جو کچھ ہوا وہ اس بھی زیادہ سنگین تھا۔
ہاروے حیران تھا کہ یہ کون سی مصیبت تھی جس کا عذاب موت سے بھی بھیانک تھا۔
مونیکا نے بات آگے بڑھائی ویرونیکا کو ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزام میں معطل کر دیا گیا تھا اور اب اس پر وطن واپسی کے بعد مقدمہ چلنا تھا۔
لیکن کیا وہ الزامات درست تھے؟ ہو سکتا ہے کسی نے …….
جی ہاں ! پہلے مجھے بھی ایسا لگا کہ ویرونیکا کو کسی سازش میں پھنسایا جا رہا ہے لیکن جب یو ٹیوب پر میں نے اس کی ویڈیو کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ رہا۔
اچھا تو اب تم کیا سوچتی ہو؟
میرا یہ خیال ہے کہ اس جرم کے لیے ویرونیکا تنہا قصوروار نہیں ہے۔ اس میں میری ماں کی بے توجہی شامل ہے۔ حکومت نے بغیر کسی اصلاح و تربیت کے اسے محاذ پر روانہ کر دیا۔ اعلیٰ افسران نے اسے وحشت کے لیے اکسایا۔ وہ تو ایک معمولی رنگروٹ کی حیثیت سے حالات اور احکامات کی لپیٹ میں آ گئی۔ مجھے افسوس ہے کہ دیگر تمام مجرم چھوٹ گئے۔ حکام نے اپنی ساکھ بچانے کی خاطر اس غریب کو بلی کا بکرا بنا دیا۔
ہاروے بولا خیر جو ہونا تھا سو ہو گیا اب تم اس چکر میں کیسے پھنس گئیں؟
میں کیا بتاؤں ہاروے، اپنی بہن سے ہمدردی نے مجھے زندگی کا ایک نیا مقصد عطا کر دیا۔ میں نے ویرونیکا کو بچانے کی خاطر بڑے بڑے وکلاء سے ملاقات کی لیکن کوئی خاص کامیابی ہاتھ نہیں آئی۔ اول تو ان کی فیس بہت زیادہ تھی دوسرے ان کے خیال میں ویرونیکا کے خلاف شواہد بے حد واضح تھے نیز دنیا کے سامنے عدل و انصاف کا ڈنکا پیٹنے کی جو مجبوری حکومت کو لاحق تھی اس کے چلتے ویرونیکا کو اگر پھانسی نہیں تو کم از کم عمر قید تو ہونی ہی تھی۔ لوگوں نے مجھے سمجھایا کہ اس مقدمہ پر سرمایہ اور وقت کا صرفہ کسی کام نہیں آئے گا۔
ہاروے کے لیے ویرونیکا کی کہانی بے حد دلچسپ ہو چکی تھی اس نے سوال کیا لیکن پھر اس میں جان ڈیو کہاں سے کود پڑا؟
مونیکا نے پانی کے گھونٹ سے اپنا گلا تر کیا اور بولی اس مایوس کن صورتحال میں بھی میں نے حوصلہ قائم رکھا اور مختلف لوگوں سے مدد کی گہار لگاتی رہی۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ اگر کوئی سینئرسنیٹر یا وزیر مداخلت کرے تو ممکن ہے سی آئی اے والے کیس کو کمزور کر دیں اور جج کو لامحالہ ویرونیکا کو رہا کرنا پڑ جائے۔ اب میرا ہدف ان بارسوخ افراد تک رسائی حاصل کرنا بن گیا۔ اس لیے کہ ہم جیسے عام لوگوں کی تو ان تک پہنچ نہیں تھی۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر مجھے ان پارٹیوں کا چور دروازہ استعمال کرنا پڑا۔
میں سمجھ گیا۔ اب یہ بتاؤ کہ تم نے کون سا طریقۂ کار استعمال کیا؟
اول تو میں نے اس کمپنی کا پتہ لگایا جسے اس طرح کی مجالس کے اہتمام کا ٹھیکہ ملتا ہے اور پھر اپنے حسن و شباب کی بدولت اس میں ملازمت حاصل کر لی۔ اب دوسرا مرحلہ ان افراد کی نشاندہی کا تھا جو اس قدر بارسوخ ہوں کہ سی آئی اے پر اثر انداز ہو سکیں۔ اس قبیل کے کچھ لوگ تو پارٹی گرلس کو منھ نہیں لگاتے تھے لیکن جان ڈیو ان لوگوں میں سے تھا جو بارسوخ بھی تھا اور رنگین مزاج بھی۔ اب کیا تھا میں اس پر ڈورے ڈالنے لگی۔ اتفاق سے آج جب وہ میرے دام میں گرفتار ہوا تو تم سے ملاقات ہو گئی۔
لیکن مونیکا اپنی کامیابی کو تم نے اچانک یوں ناکامی میں کیوں بدل دیا؟
مونیکا اس سوال کو سن کر کچھ دیر خلاء میں دیکھتی رہی اور پھر بولی ہاروے اس راز کو میں نے کبھی بھی کسی پر افشا نہیں کیا کہ میں نے اپنی بہن کو بچانے کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس لیے کہ مجھے چہار جانب پھیلے ہوئے سی آئی اے کے ایجنٹوں کا خوف رہتا تھا لیکن اس راز داری نے مجھے زبردست تناؤ کا شکار کر دیا تھا۔ مجھے ڈر تھا اگر میں نے کسی کو اس میں شریک نہیں کیا تو پاگل ہو جاؤنگی لیکن کوئی ایسا ہمدرد و بہی خواہ نظر ہی نہیں آتا تھا کہ جس پر اعتماد کیا جا سکے؟
لیکن پھر آج کیا ہو گیا؟
آج جب میں نے تمہیں دیکھا تو مجھے امید کی ایک کرن نظر آئی۔ میرے اندر سے آواز آئی مونیکا یہی وہ تمھارا دوست ہو جس پر تم اعتماد کر سکتی ہوں۔ اس لیے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں تمہیں اپنے درد و غم میں شریک کر کے ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کروں گی۔ میرا خیال ہے اب تمہاری سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ میں نے لب ساحل اپنے انجام سے بے پرواہ ہو کر تلاطم خیز سمندر میں چھلانگ کیوں لگائی ہے؟
دیکھو مونیکا میرا اثرو رسوخ جان ڈیو جیسا تو نہیں ہے لیکن پھر بھی اپنے والد صاحب کے دوستوں کے تعاون سے تمھاری مدد کرنے کی کوشش کروں گا نیز تم جانتی ہو میں نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ میں ویرونیکا کا مقدمہ عدالتِ عالیہ تک لڑوں گا۔
شکریہ ہاروے مجھے تم سے یہی امید تھی۔ خداوند عالم کا شکر ہے کہ اس نے مجھے منجدھار میں تنکے کا سہارا دے کر بچا لیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں کن خطرناک را ہوں پر چل نکلی تھی۔ ان تاریک اندھی گلیوں کے خاتمے سے قبل ہی راہی مر کھپ جاتے ہیں۔
مجھے تم سے اس مقدمہ کی تفصیل درکار ہے اور ویرونیکا سے ملاقات بھی ضروری ہے۔
مونیکا نے دونوں تجاویز کی تائید کی اور بولی وہ شام تک سارے کاغذات پہنچا دے گی اور جلد از جلد ملاقات کا وقت حاصل کر کے اسے مطلع کرے گی۔
مونیکا کے چلے جانے کے بعد ہاروے سوچ رہا تھا کہ:
یہ سفر جو ابھی بس شروع ہوا ہے آخر کہاں جا کر ختم ہو گا؟
کاش کہ اس سفر کا آغاز بہت پہلے ہو جاتا۔
اس صورت میں نہ تو مونیکا جان ڈیو کو لبھانے کی سعی کرتی اور
نہ اس کے چنگل میں پھنس کر نکلنے کی کوشش کرتی۔
نہ ہی اس کا جان سے جھگڑا ہوتا اور نہ جان کی مونیکا سے دشمنی ہوتی۔
لیکن پھر وقت پر کسے اختیار ہے؟
ہر کام اپنے متعین وقت پر ہوتا ہے ہماری سہولت کے مطابق نہیں ہوتا۔
ہاروے دیر تک لابی میں بیٹھا اس طرح کے
بے شمار بے معنی سوالات پر بلا وجہ غور کرتا رہا۔
٭٭٭
۱۱
لابی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آنے کے بعد ہاروے نے اپنا موبائل اٹھایا تو اس پر ۲۰ مس کالس تھیں اور سب کی سب جان ڈیو کے نمبر سے موصول ہوئی تھیں۔ ہر بار اس نے اپنا پیغام بھی چھوڑا تھا۔ ہاروے نے دلچسپی کے پیش نظر انھیں سننا شروع کیا۔ پہلا پیغام تھا ہاروے کیسے ہو؟ میں تمھارا دوست جان بول رہا ہوں؟ میں اپنی ترش کلامی کے لیے معذرت چاہتا ہوں؟ اگر مونیکا تم سے رابطہ کرے تو برائے کرم مجھے مطلع کرو۔ جان ڈیو۔
دوسرا پیغام تھا میں تمھارے جواب کا منتظر ہوں اگر ہو سکے تو مجھے فون کرو۔
تیسرا پیغام ذرا تیز آواز میں تھا۔ ہاروے کہیں تم مونیکا کے ساتھ تو نہیں ہو؟ کہیں تم جان بوجھ کر میرا فون لینے سے گریز تو نہیں کر رہے ہو۔ یہ بہت بری بات ہے۔ فوراً مجھے فون کرو۔
چوتھے پیغام میں اس کا پارہ چڑھا ہوا تھا وہ کہہ رہا تھا دیکھو ہاروے میں سمجھ گیا ہوں کہ تم مونیکا سے ملے ہوئے ہو تم دونوں نے مل کر سازش کے تحت مجھے ذلیل کیا ہے۔ میں نے اس کے خلاف چوری کا الزام لگا دیا ہے۔ پولس اس کو تلاش کر رہی ہے۔ میری مانو تو اسے فوراً پولس کے حوالے کر دو ورنہ کسی بھی وقت وہ اس کے ساتھ تمھاری بھی گرفتاری ہو سکتی ہے۔
پانچویں پیغام میں جان کچھ کمزور پڑا تھا اور کہہ رہا تھا میرے اچھے دوست ولیم کے بیٹے ہاروے، تم کیوں بلاوجہ اپنا روشن مستقبل تاریک کرنے پر تلے ہوئے ہو۔ تم مجھے نہیں جانتے میں بہت خطرناک آدمی ہوں۔ میں جس کی جان کے پیچھے پڑ جاؤں اس کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ اس لیے مجھے فوراً فون کرو۔ اسی میں تمھاری بھلائی ہے۔ اس کے بعد والے پیغامات میں سوائے مغلظات کے کچھ اور نہ تھا۔ ہاروے کے اندر کا شاطر وکیل زندہ ہو گیا تھا۔ اس نے ان تمام پیغامات کو اپنے کمپیوٹر میں ڈاؤن لوڈ کر کے محفوظ کر لیا۔
ان پیغامات کا لبِ لباب یہ تھا کہ بہت جلد مونیکا کو ویرونیکا کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔ اس لیے کہ وہ جان ڈیو کے نرغے میں آ گئی ہے۔ ہاروے نے سب سے پہلے مونیکا کو فون لگا کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ مونیکا نے بتلایا کہ وہ اپنے گھر سے قریب ہے اور بہت جلد وہاں پہنچ جائے گی۔ ہاروے نے اسے متنبہ کیا کہ وہ گھر کا رخ نہ کرے۔ ممکن ہے پولس وہاں گھات لگائے بیٹھی ہو اور اسے گرفتار کر لے۔ اس نے ہدایت کی کہ ویرونیکا سے بھی رابطے کی کوشش نہ کرے اس لیے کہ وہ بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔
مونیکا شکریہ ادا کر کے اپنی سہیلی شیری کے گھر چلی گئی۔ ہاروے نے مونیکا کو سمجھادیا کہ اب وہ شیری کے فون سے رابطہ کرے اور اپنا سم کارڈ فون میں سے نکال کر ضائع کر دے اس لیے کہ وہ اس کے محل و وقوع کی چغلی کر سکتا ہے۔ مونیکا کو ہاروے کے پرسکون انداز اور ذہانت پر حیرت ہو رہی تھی۔ وہ اب کالج کا عاشق مزاج نوجوان نہیں تھا جو لڑکیوں سے ملنے میں جھجک محسوس کرتا تھا اور معمولی سی بات پر خفا ہو کر منھ پھلا لیتا تھا۔
ہاروے کا دماغ جیٹ کی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ اب ویرونیکا کے بجائے مونیکا کو بچانے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اسے پتہ تھا کہ یہ عارضی تدابیر زیادہ دیر تک کارگر ثابت نہیں ہو سکیں گی وہ ٹھوس اقدامات پر غور کر رہا تھا کہ اس کی توجہ جان ڈیو کے پیغامات کی جانب گئی۔ وہ اپنا کمپیوٹر کھول کر انھیں دوبارہ غور سے سننے لگا۔ لیکن اس مشق سے اسے مایوسی ہوئی اپنی تمام تر بیزاری اور غصے کے باوجود ان میں کہیں بھی الزامات کے جھوٹے ہونے کا اعتراف موجود نہیں تھا۔ ہاروے اس اعتراف کے فراق میں پڑ گیا جو مونیکا کو چھڑانے کے لیے معاون ثابت ہو سکے۔
دستور کی نظر میں تو مونیکا اور اور جان کے حقوق یکساں تھے لیکن پولس تھانے اور عدالت میں ایسا نہیں ہے۔ پولس کے لیے مونیکا کے پاس سے ایسی بے شمار اشیاء کا برآمد کر لینا جنھیں جان ڈیو سے منسوب کر دیا جائے کوئی مشکل کام نہیں تھا اور اس کے بعد عدالت کے ترازو کا جان کی جانب جھک جانا فطری امر تھا اس لئے کہ جان کاسیاسی وزن مونیکا سے کئی گنا زیادہ تھا۔
ہاروے کے ذہن میں ایک تدبیر آئی اور اس کی انگلیاں فون پر چلنے لگیں۔ اس نے جان کو فون لگا کر نہایت احترام کے ساتھ سلام کیا اور دھیمے لب و لہجہ میں خیریت دریافت کی۔
دوسری جانب جان غصے سے تلملا رہا تھا اس کی آواز شراب کی بو سے شرابور تھی الفاظ لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا ہاروے تم کہاں تھے؟ بہرے ہو گئے تھے یا اس فاحشہ کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہے تھے؟ میں اس کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں تم دونوں کو دیکھ لوں گا۔ تم مجھے نہیں جانتے میرا نام جان ڈیو ہے۔
ہاروے نے کہا جناب میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ فی الحال صدر محترم کے بعد آپ ہی سب سے بارسوخ سیاستداں ہیں۔ میں آپ کا فون نہیں لے سکا اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ در اصل میں سو گیا تھا۔
تم سو رہے تھے؟ فون بند کر کے سورہے تھے تم؟
جی ہاں جناب میں فون بند کر کے ہی سوتا ہوں۔ ابھی جاگا تو آپ کا فون دیکھا۔ جواب میں فون کر رہا ہوں۔
جان کا غصہ کسی قدر ٹھنڈا ہوا وہ بولا ا چھا ایسی بات ہے۔ میں تو سمجھا تھا کہ ……..خیر یہ بتلاؤ کہ وہ لڑکی کہاں ہے؟
کون لڑکی؟ ہاروے نے بننے کی کوشش کی۔
جان دہاڑا وہی کتیا مونیکا اور کون؟ میرے فون میں اس کے بھی مس کالس ہیں ممکن ہے میری نیند کے دوران اس نے فون کیا ہو لیکن میں نے اسے ابھی جواب نہیں دیا پہلے آپ سے بات کرنا جو ضروری تھا۔
جان خوش ہو گیا وہ بولا جی ہاں اچھا کیا تم سمجھدار آدمی لگتے ہو کیا نام ہے تمھارا؟
یہ سوال سن کر ہاروے کو ہنسی آ گئی۔ وہ سمجھ گیا شراب نے جان کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ کیوں نہ اس خرابی کا فائدہ اٹھایا جائے؟ وہ بولا۔ جی میرا نام ہاروے ہے ہاروے گنگسلے۔
ہاں ہاں میں جانتا ہوں ہاروے میں تمھیں اور تمھارے والد دونوں کو جانتا ہوں۔ دیکھو تم ایسا کرو کہ اس لڑکی سے رابطہ کر کے اسے بتلا دو کہ اب وہ بچ نہیں سکتی میں نے اس کے خلاف شکایت درج کرا دی ہے پولس اسے شکاری کتوں کی مانند سونگھتی پھر رہی۔
اچھا وہ کیوں؟
اس پر چوری کا الزام ہے۔
اوہو چوری کا الزام؟ ہاروے نے حیرت کی اداکاری کی۔ اس نے کیا چیز چرائی ہے؟
جان بولا وہ ….. اس کتیا کی کیا مجال کہ میری کوئی چیز چرا سکے۔ یوں ہی اسے گرفتار کروانے کی غرض سے میں نے اس پر الزام لگا دیا ہے۔ اس جملے کو سنتے ہی ہاروے کی باچھیں کھل گئیں اسی کے لیے تو وہ جان کا فون ریکارڈ کر رہا تھا۔ جان اپنی ہذیانی کیفیت میں بولے جا رہا تھا جب پولس اسے گرفتاری کر لے گی تو اس احمق لڑکی کو پتہ چل جائے گا کہ جان ڈیو کون ہے؟ اور اس کی تضحیک کے کیا معنی ہیں؟ میں اسے ایسا سبق سکھاؤں گا کہ وہ عمر بھر بھلا نہ پائے گی۔ وہ اب بچ نہیں سکتی میں اسے ذلیل کروں گا اور اگرساری دنیا کے سامنے نشان عبرت بنا کر نہ چھوڑوں تو جان میرا نام نہیں ! کیا سمجھے؟ اس بے وقوف لڑکی کے دوست ہاروے …….
شراب کے نشے میں دھت جان ڈیو بڑبڑائے جا رہا تھا یہاں تک کہ اس کی آواز رندھ گئی لیکن فون اب بھی چل رہا تھا اور کمرے کی دوسری آوازیں نشر کر رہا تھا۔
ایک آواز آئی ارے یہ تو ڈاؤن ہو گیا؟
جواب تھا اتنی شراب پئے گا تو کیا ہو گا؟
لیکن آج اسے کیا ہو گیا تھا؟ کسی پاگل کتے نے کاٹ لیا تھا کیا؟
ارے تم اسے نہیں جانتے ایک نسوانی قہقہہ بلند ہوا، میں تو کہتی ہوں اسے تو کتا بھی نہ کاٹے اور اگر سیانا کتا کاٹے تو باؤلا ہو جائے؟
ایک اور آواز ابھری آج یہ بار بار مونیکا مونیکا کہہ کر گالیاں بک رہا تھا۔ لگتا ہے مونیکا نامی کسی ناگن نے اسے ڈس لیا ہے؟
ارے بھئی چھوڑو سانپ اور کتے کی کیا بساط۔ یہ ان دونوں سے زیادہ زہریلا اور خطرناک ہے۔ جیکی ایسا کرو کہ اس لاش کو اٹھاؤ اور اس کی خوابگاہ میں ڈال کر نکل چلو۔
اٹھانے کیا ضرورت؟ اس بدبو دار بھینسے کو یونہی گھسیٹتے ہوئے لے چلیں۔
جیکی آج تو تم اس سے کچھ زیادہ ہی خفا لگتے ہو؟
ناراض نہیں تو کیا خوش رہوں گا۔ گھر آتے ہی برس پڑا۔ کسی کا غصہ مجھ پر اتارنے لگا۔
ایسی معمولی باتوں کا برا نہیں مانتے جیکی…. بڑے لوگوں کا غم و غصہ اگر ہم برداشت نہ کریں تو کون کرے گا؟ اسی غیض و غضب کو سہنے کی تو ہمیں اس قدر موٹی تنخواہ ملتی ہے ورنہ ہم جیسا کام کرنے والے ہماری بہ نسبت ایک چوتھائی بھی نہیں کماتے۔
سوتو ہے۔
اسی لیے میں کہتا ہوں اپنا غصہ اس کے منہ پر تھوک دو۔
یہ نہیں ہو سکتا؟انسان اگر زندہ ہے تو اچھا برا لگنا ہی لگنا ہے۔ مجبوری اور بات ہے۔
ہاروے سوچ رہا تھا ایک طرف تو یہ بد دماغ سنیٹر جان ڈیو ہے اور دوسری جانب اس کے معمولی ملازم۔ کتنا فرق ہے ان دونوں میں؟ یہ نوکر چاکر کس قدر ذہین اور سمجھدار ہیں اور ان کا خودساختہ آقا جو اپنے آپ کو نمائندہ سمجھتا ہے کیسا اجڑ اور جاہل ہے۔ نہیں یہ ان کا نمائندہ نہیں ہو سکتا۔ جن کی نمائندگی کا وہ دعویدار ہے اور ان میں اور اس میں زمیں و آسمان کا فرق ہے۔ ہاروے قدرے مطمئن ہو گیا تھا کہ اب مونیکا کو جان کے چنگل سے چھڑا نا سہل تر ہے۔
صبح جان نے پولس کمشنر ونسٹن کو فون لگا کر پوچھا مونیکا گرفتار ہوئی یا نہیں؟
ونسٹن نے بتایا کہ جناب ہمیں افسوس ہے کہ وہ ابھی تک ہمارے ہاتھ نہیں لگی لیکن آپ اطمینان رکھیں جلد ہی ہم اسے حراست میں لے لیں گے۔
جلد ہی کیا مطلب؟ ساری رات گزر گئی اور ایک معمولی سی لڑکی کو آپ لوگ پکڑ نہ سکے جو کہ شہر کے اندر موجود ہے تو بھلا تورہ بورہ کی پہاڑیوں میں جا کر اسامہ کو کیا گرفتار کریں گے۔
ونسٹن کو یہ بات بہت بری لگی لیکن اپنا غصہ پی کر اس نے مسکرانے کوشش کی اور بولا جناب معاف کرنا ایک دو ٹکے کی لڑکی کے پیچھے آپ بہت دور نکل گئے۔
بکواس مت کرو تم سے تبصرہ نہیں کارکردگی مطلوب ہے۔
میں جانتا ہوں جناب لیکن اس لاکھوں کے شہر میں ایک غیر معروف عورت کو تلاش کرنا کوئی ایسا آسان کام بھی نہیں ہے؟
مجھے پتہ ہے لیکن تمھارے سیکڑوں مخبر بھی تو ہڈیاں سونگھتے پھرتے ہیں۔ ساری معیشت جس تحفظ کے ادارے کی نذر ہو رہی ہے اس کے ہاتھ ایک معمولی سی لڑکی نہیں لگتی؟
ولسٹن سپر ڈالتے ہوئے بولا جی جناب آپ درست فرماتے ہیں۔
جان نے دھمکی دی دیکھو شام تک گرفتاری عمل میں آ جانی چاہئے پھر چاہے وہ مونیکا ہو یا ٹونیکا؟ یہ معاملہ عزت و وقار کا ہے۔
جی سر میں پوری کوشش کروں گا۔
فون رکھنے کے بعد ونسٹن اپنے نائب گائیل سے بولا یار یہ جان تو بالکل پگلا گیا ہے۔
گائیل نے جواب دیا اب ان کا یہی کام رہ گیا کبھی اسامہ تو کبھی صدام کے پیچھے پڑ جاؤ اور ہمیں پریشان کرو۔
ولسٹن نے تجویز پیش کی چونکہ وہ کہہ رہا تھا مونیکا یا ٹونیکا سب چل جائے گی اس لئے کیوں نہ کسی اور لڑکی کو گرفتار کر کے اسے مونیکا قرار دے دیا جائے؟
گائیل نے کہاکسی اور کو مونیکا کیسے بنا سکتے ہیں؟ اگر وہ انکار کر دے تو؟
اول تو ہمارے آگے انکار کی جرأت کم کرتے ہیں لیکن اگر بفرضِ محال اس نے ایسا کر بھی دیا تو اس کی سنے گا کون؟ ذرائع ابلاغ تو ہمارا زر خرید غلام ہے۔ وہ صرف ہماری سنتا ہے اور ہمارے بیان کو کو بلا تصدیق دوہراتا رہتا ہے اس لئے لوگ مان بھی لیتے ہیں۔
گائیل بولا وہ بھی ٹھیک ہے۔
لیکن میرے دوست گائیل اس معاملے میں ایک اڑچن ہے۔ میں نے ٹھیکیدار سے مونیکا کی تصویر حاصل کر کے اخبار میں شائع کرنے کے لیے روانہ کر دی ہے۔ اب اس کی ہم شکل لڑکی تلاش کرنا لازم ہے۔
سر آپ کو ہمیشہ ہی اپنی غلطی کا احساس بعد میں ہوتا ہے۔ اگر ایک عام سی لڑکی کی دھندلی سی تصویر چھپ جاتی تو کسی کو بھی مونیکا کے نام پر کھپا دیا جاتا۔
ہو توسکتا تھا لیکن اب جو ہو چکا سو ہو چکا۔ یہ تیر اب کمان میں لوٹ کر نہیں آ سکتا۔
مونیکا کی تصویر اخبارات کے ساتھ ٹیلی ویژن پر بھی دکھلائی جا رہی تھی۔ مختلف چینل والے اس موضوع پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ کوئی اسے وینزویلا کے شاویز کا ایجنٹ بتلا رہا تھا تو کوئی اس پر شمالی کوریا کی جاسوس ہونے کا شبہ ظاہر کر رہا تھا۔ ہر سوایک کہرام مچا ہوا تھا مختلف چینلس نت نئے جھوٹ گھڑنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ یہ ڈالرس کا چکر تھا۔ ناظرین کو متوجہ کرنے کی خاطر سنسنی لازمی تھی اور اشتہارات کی خاطر ناظرین ضروری تھے۔ اس درمیان ایک صحافی اپنے کیمرہ مین کے ساتھ جان ڈیو کے گھر پہنچ گیا اور چوری کی تفصیل پوچھنے لگا۔
جان نے قہقہہ لگا کر کہا یار تم لوگ توپولس سے بھی آگے نکل گئے۔ مجھے توا بھی تک ان لوگوں نے بھی نہیں پوچھا کہ آخر چوری کیا ہوا ہے؟
نامہ نگار نے گھبرا کر سوال کیا جناب والا اب آپ کے پاس آئے ہیں تو کچھ نہ کچھ پوچھنا ہی پڑے گا۔ آپ ہی بتلا دیں کہ آپ سے کیا پوچھا جائے؟
جان نے ہنس کر کہا سمجھدار آدمی لگتے ہو۔ دیکھو تمھارا کام پسِ پردہ سازش کا پتہ لگانا ہے۔ اس لیے تم میرے یا پولس کے بجائے مبصر حضرات اور عوام سے رابطہ کرو جو بظاہر سب کچھ جانتے ہیں مگر حقیقت میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ ان کے تاثرات کو جمع کر کے نشر کرتے رہو۔
نا تجربہ کار نامہ نگار بولا لیکن جناب وہ بیچارے کیا جانیں کہ کیا اور کیسے چوری ہوا ہے؟
ایسالگتا ہے کہ پولس محکمہ سے تمھارا آبائی رشتہ ہے جو تم سے بار بار یہی سوال کروا رہا ہے۔ خیر یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ لوگ کچھ بھی نہیں جانتے۔ ہر ٹی وی چینل انھیں لگاتار جو کچھ بتلا رہا ہے اس سے تو وہ واقف ہی ہو گئے ہیں۔ اس لیے اب وہ لوگ بہت کچھ جان گئے ہیں بلکہ ان میں سے جن کے پاس فاضل وقت ہے وہ مجھ سے زیادہ جانکاری رکھتے ہیں یہ اور بات ہے اس میں کتنا درست اور کس قدر غلط ہے۔
آپ سے بھی؟ نامہ نگار نے حیرت سے پوچھا۔
کیوں !!! تمہیں اس پر تعجب کیوں ہے؟ کیا پولس مجھ سے زیادہ نہیں جانتی؟
نامہ نگار بولا جی نہیں جناب آپ کے پاس آنے سے قبل میں ونسٹن کے پاس گیا تھا۔ وہ تو کچھ بھی نہیں جانتے بس ایک تصویر مجھے پکڑا دی جبکہ اس سے قبل ہمارا چینل نہ جانے مونیکا کی کتنی تصاویر نشر کر چکا ہے۔
وہ ونسٹن بھی مہا بے وقوف ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ بتانے کے لیے جاننا ضروری نہیں ہے۔ اس کی وردی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کی تصدیق کرتی ہے اور ساری دنیا اسے تسلیم کر لیتی ہے۔ اس لیے اسے چاہئے کہ جو من میں آئے بولے۔ احمق آدمی، مشہور ہونے کا اس قدر قیمتی موقع ضائع کر رہا ہے۔ اسے تو چاہئے کہ مونیکا کا تعلق بین الاقوامی دہشت گردی سے جوڑ کر عالمی دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی صلیبی جنگ میں کود پڑے اور انعام و اکرام حاصل کرے۔ خیر کون سمجھائے ان احمقوں کو؟ تم ایسا کرو کہ ایک آدھ معقول سوال کر کے میرا پیچھا چھوڑو۔ میرے پاس بہت سارے اہم کام ہیں۔
نامہ نگار نے کیمرہ مین کو حکم دیا کیمرہ لگاؤ۔
کیمرہ مین مسکرا کر بولا صاحب اگر اجازت دیں تو سوال بھی بتلا دوں۔
نامہ نگار نے کہا ٹھیک ہے؟
آپا پوچھئے کہ اس چور کے پکڑے جانے یا بھاگ جانے سے کیا فرق پڑے گا؟
جان نے بھی سوال سن لیا اور نامہ نگار سے مخاطب ہو کر تحکمانہ انداز میں بولا جی ہاں یہ سوال نہایت فکر انگیز ہے۔ مجھے تو لگتا ہے یہ کیمرہ مین تم سے زیادہ ذہین ہے۔ تمھارے بجائے اسے نامہ نگار ہونا چاہئے۔ دیکھو اگلی بار جب تم میرے پاس آؤ گے تو کیمرہ تمھارے کندھے پراور مائک اس کے ہاتھ میں ہو گا، کیا سمجھے؟ خیر جلدی سے سوال کرو
نامہ نگار نے جان ڈیو کا مختصر تعارف کروانے کے بعد سوال دوہرا دیا۔
جان کا جواب تھا عام طور پر لوگ جسے معمولی سمجھتے وہ شے غیر معمولی ہوتی ہے۔ طالبان کو ایک زمانے تک بے ضررسمجھا گیا لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اس غلط فہمی کی ہمیں کیا قیمت چکانی پڑی۔ آج ہم اپنے مشہور و معروف جڑواں ٹاور سے محروم ہو گئے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں بے احتیاطی ناقابل معافی جرم ہے۔ خیر جہاں تک چوری کا سوال ہے مجرم کا پکڑا جانا اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ کون سے راز چرانے کی خاطر اس نے یہ قصد کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کا بھی سراغ لگانا لازمی ہے جنھوں نے اسے اس کام پر مامور کیا تاکہ قوم کے خلاف رچی جانے والی اس ناپاک سازش کا پردہ فاش ہو سکے۔
تفتیش کے ان ابتدائی مراحل میں اس قدر دور نکل جانا کتنا مناسب ہے؟
یہ درست ہے کہ انتظامیہ ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا ہے مگر اس طرح کی سازش کو ابتدائی مرحلے میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ یہ قوم کے تحفظ کا سوال ہے اس بابت کسی کوتاہی کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ امن عالم کا دارومدار بھی اسی پر ہے اس لیے کہ اگر ہم خود غیر محفوظ ہو گئے تو اقوامِ عالم کی نگہداشت کون کرے گا؟
جان ڈیو کا بیان جیسے ہی نشر ہوا اس پر تبصروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مبارکباد کے پیغامات آنے لگے۔ ان میں سب سے پہلے صدر محترم نے فون کر کے جان کی پیٹھ تھپتھپائی۔ ہاروے کنگسلے اس تماشے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور سیاست کے اسرارو رموز کی معرفت حاصل کر رہا تھا۔
عملی سیاست میں ہاروے کا یہ پہلا عملی اقدام نہایت دلچسپ موڑ لے چکا تھا۔ وہ خود بھی چاہتا تھا کہ اس غبارے میں خوب گرم ہوا بھری جائے۔ اس لیے کہ غبارے میں جس قدر ہلکی ہوا بھری جاتی ہے وہ تیزی کے ساتھ بلندی کی جانب اڑان بھرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نظر آتا ہے لیکن اسی کے ساتھ اس کی نزاکت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے اور اسے پھوڑنے کے لیے ایک معمولی سی نوکدار سوئی کافی ہو جاتی ہے۔
ایک بڑا سا غبارہ جب زوردار دھماکے کے ساتھ پھٹتا ہے تو سارے عالم کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور لوگ لا محالہ اسے بھی دیکھ لیتے جس نے اسے پھوڑنے کا کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہاروے کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ جان کا غبارہ بہت جلد پھٹ جائے گا۔ آسمانِ سیاست سے ایک بڑا ستارہ ٹوٹ کر بکھر جائے گا اور اس کی جگہ ایک نیا ستارہ نمودار ہو گا۔ ہاروے کے افق پر ٹام کی جگہ جان نے لے لی تھی۔
٭٭٭
۱۲
ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر مستقبل کا خواب دیکھنے والے ہاروے کے تانے بانے اس وقت بکھر گئے جب مونیکا کے گرفتار ہونے کی خبر نشر ہو گئی۔ اس کے کان اسے سننے کے لیے تیار نہیں تھے اور نہ اس کی آنکھیں اسے دیکھنا چاہتی تھیں اس لیے کہ مونیکا کی سہیلی شیری کا گھر ایک ایسے گمنام علاقے میں تھا جہاں پولس کا پہنچنا تقریباً ناممکن تھا۔ وہ اس معاملے کو طول دے کر جان ڈیو کے خلاف مزید شواہد جمع کرنا چاہتا تھا تاکہ ایک ہی وار میں کام تمام ہو جائے اور بسمل پانی بھی نہ مانگ سکے۔ ہاروے کے سارے منصوبے کو خاک میں مل گئے تھے۔ اس نے چینل بدل دیا لیکن ہر چینل پر وہی خبر نشر ہو رہی تھی۔
اس چینل پر مونیکا کی تصویر کے عقب میں ایک ماہر سیاسیات دانشور تبصرہ فرما رہے تھے۔ ان کے مطابق عالمی دہشت گردوں کی ایک نئی تنظیم ایران اور وینزویلا کے اشتراک سے عالم وجود میں آ چکی ہے۔ گزشتہ دنوں صدر شاویز کے ایرانی دورے کے موقع پر اس کے خدوخال وضع کیے گئے۔ اس تنظیم کو دونوں حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس مبصر کے مطابق یہ نیا گٹھ جوڑ اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔
اس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ شاویز نے اس لڑکی کو جان کے پاس سے اہم دستاویز چرانے کے لیے روانہ کیا ہو، تاکہ ۹۱۱ جیسی کسی نئی واردات کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ وزارتِ خارجہ کا ترجمان بھی اسی من گھڑت کہانی کی بلاواسطہ تصدیق کر رہا تھا۔ وہ نہ تو حتمی تائید کرتا تھا اور نہ اسے خارج از امکان قرار دیتا تھا۔ سرکاری ترجمان کے مطابق تحقیقات جاری تھیں اور کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت تھا۔
ہاروے نے بیزار ہو کر ٹی وی چینل بدل دیا تو اس کے حیرت کی انتہا نہ رہی۔ یہاں تو با قاعدہ انمیٹڈ(حرکت کرنے والے ) کارٹون کی مدد سے مونیکا کو ہوائی اڈے پر جہاز سے اترتے ہوئے اور پھر کرائے کی گاڑی لے کر جان کے گھر جاتے ہوئے دکھلایا جا رہا تھا۔ اس کے بعد محافظین کو جھانسہ دے کر عمارت کے اندر داخل ہونے کا منظر ہاروے کی نظروں کے سامنے تھا۔ جان کے کمرے سے اہم کاغذات لے کر جب مونیکا کو رفو چکر ہوتے ہوئے دکھلا دیا گیا تو پس منظر میں ایران اور وینزویلا کے پرچم لہرانے لگے۔
اس کے بعد چوکیدار سے بات چیت، کار کمپنی کے منیجر کا انٹرویو، کسٹم آفیسر کا بیان۔ سب کچھ اس قدر مربوط انداز میں پیش کیا جا رہا تھا گویا ایک دلچسپ فلم ہو۔ ان بیچاروں سے عمومی قسم کے سوال کیے جاتے تھے مثلاً آپ اس عمارت میں آنے والوں کا اندراج کیسے کرتے ہیں؟ یا کوئی کرائے کی گاڑی لینا چاہے تو اس سے کون سے کاغذات طلب کیے جاتے ہیں؟ کسٹم میں جانچ پڑتال کیسے ہوتی ہے وغیرہ اور آخر میں نامہ نگار کا تبصرہ ہوتا تھا دیکھا آپ نے اس نظام میں کس قدر سوراخ ہیں۔ کسی بھی دہشت گرد کا ان سے نکل جانا کس قدر آسان ہے۔ ان جملوں کے ساتھ ہی اچانک مونیکا کی تصویر نمودار ہوتی اور شک کی سوئی اپنے آپ اس کی جانب مڑ جاتی۔
ہاروے نے سوچا جب فسانے کو حقیقت بنا دیا جائے اور خبریں دکھلانے والے کہانی گھڑنے لگیں تو بھلا انسان تفریحی چینلس کیوں دیکھے؟ اسے یاد آیا سی این این در اصل کولمبیا پکچرس اور ٹائم میگزین کی جائز اولاد ہے اس لیے جب فلم بنانے والے خبر نشر کرنے کا پیشہ اختیار کر لیں تو اس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ٹیلی ویژن کے مباحثوں یہ تحقیق کس قدر مشکل ہے کہ ان میں اصلی کردار کتنے ہیں اور اداکار کون کون ہے؟
وقت گزاری کے لیے ٹی وی کھول کر بیٹھ جانے والے ناظرین کے لیے حقیقت کو فسانے سے چھانٹ کر الگ کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ فرصت۔ اور پھر خود نمائی کے اس فتنہ پرور دور میں جب کے لوگ ٹی وی کے پردے پر آنے کے لیے ترستے ہوں اصلی کرداروں کو میک اپ کر کے ان سے نقلی مکالمے بلوا لینا کون سا مشکل کام ہے؟
ہاروے نے جب محسوس کیا کہ اب چینل کے پاس کوئی نئی بات نہیں ہے اور وہ پرانی باتوں کو دوہرانے لگا ہے تو اس نے پھر چینل بدل دیا۔ نئے چینل پر ایک اور چونکا دینے والا منظر اس کا منتظر تھا۔ اس چینل کے نامہ نگار نے مونیکا کی بہن ویرونیکا تک رسائی حاصل کر لی تھی اور وہ اس کا انٹرویو نشر کر رہا تھا۔ ہاروے کو وہ زمانہ یاد آ گیا جب اس نے پہلی مرتبہ مونیکا کے ساتھ ویرونیکا کو دیکھا تھا۔ بھولی بھالی جاپانی گڑیا کہ جسے کونیکا کے نام سے بلانے پر وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش ہوتی تھی۔ اس کی شکل شباہت میں ابھی بھی کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا لیکن معصومیت، حیا اور مسرت کے لطیف جذبات نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ شاید وہ انھیں عراق میں چھوڑ آئی تھی یا ممکن ہے کہ انھیں چھوڑ کر عراق گئی ہو؟ ویرونیکا اپنی بہن مونیکا کے بے قصور ہونے کی دہائی دے رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی مونیکا ہرگز اپنے ملک سے غداری نہیں کر سکتی۔
ویرونیکا کے اس بیان پر فوراً نامہ نگار نے تبصرہ کیا۔ آپ نے دیکھا ان شواہد کے باوجود ویرونیکا اپنی بہن کو ایک خطرناک جاسوس تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے دشمن کس صفائی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ کسی کو ان پر ذرہ برابر شک نہیں ہوتا۔ ویرونیکا جیسی بھی ہے قوم کی وفادار ہے۔ اس نے اپنی جان کی بازی لگا کر امریکہ کی سر بلندی کے لیے فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور کر عراق کے محاذ پر جانے سے بھی گریز نہیں کیا لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ اس محب وطن فوجی کی بہن نے دشمنوں سے ساز باز کر لی۔
نامہ نگار نے لچھے دار تبصرے کی مدد سے ویرونیکا کی شہادت کو دفن کر دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ذرائع ابلاغ نے مونیکا کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے کر تختۂ دار تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور اس گھناؤنے مقصد کے حصول میں وہ حق و باطل کی تمیز سے بے نیاز ہے۔
ہاروے ایک طرف عدالت سے مونیکا کو چھڑانے کی تیاری کر رہا تھا اور دوسری جانب میڈیا نے کردار کشی کا ایک نیا محاذ کھول رکھا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس تہمت کا جواب کیسے دے؟ کیا کرے کیا نہ کرے؟ اپنے سفر کی ابتدا کہاں سے کرے؟ وہ اس ادھیڑ بن میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک اس کے کمرے کا دروازہ زور زور سے پیٹا جانے لگا۔
اس فائیو اسٹار ہوٹل میں انکار بھی نرمی کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ گالی بھی تہذیب کا لباس پہنا کر دی جاتی تھی۔ یہاں دروازے کا اس طرح پیٹا جانا غیر معمولی بات تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ ایسی جرأت پولس کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا اور اس بار پولس کے ارادے نیک نہیں ہیں۔
ہاروے جانتا تھا کہ دروازہ اب چند لمحات کے اندر ٹوٹنے ہی والا ہے۔ وقت کا بہترین استعمال کرنے کے لیے وہ حمام میں گھس گیا اور دروازے کو مقفل کر دیا۔ اب اس کے پاس دو منٹ بڑھ گئے تھے۔ ہاروے نے فوراً ٹیلی فون میں ریکارڈ کی گئی گفتگو کو میمری چِپ میں منتقل کیا اور اسے نکال کر پلاسٹک میں لپیٹنے کے بعد چٹ سے نگل گیا۔ یہی وہ بندوق کی گولی تھی جسے وہ جان ڈیو کے سینے میں اتارنا چاہتا تھا۔ حمام کے اندر سے اس نے باہر کا دروازہ ٹوٹنے کی صدا سنی اور پھر جوتوں کی دھمک۔ ہاروے کئی قدموں کے اندر گھسنے کی آواز سن رہا تھا۔
ہاروے نے شاور کے نیچے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو بھگویا اور تولیہ لپیٹ کر بڑے اطمینان سے باہر آ گیا۔ حمام کے دروازے کو ٹوٹنے سے بچانے میں ہاروے کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کے کمرے کی تلاشی کا کام جاری تھا لیکن اصلی بارود ایک ایسی جگہ پہنچ چکا تھا جوان پولس والوں کے وہم و گمان سے پرے تھا۔
ہاروے کے باہر آتے ہی ایک افسر نے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا اور مسکرا کر معذرت طلب کی۔ اس نے کہا معاف کیجیے ہم لوگ تو صرف احکامات کی بجا آوری کر رہے ہیں۔
ہاروے نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کوئی بات نہیں میں آپ کا تعاون کروں گا۔ میں چونکہ ایک قانون ساز کا بیٹا ہوں اس لیے دستور کی پاسداری بدرجہ اتم کرتا ہوں۔
جی ہاں ہم جانتے ہیں آپ ہمارے ہر دلعزیز سنیٹر ولیم کنگسلے کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ زحمت کے لیے معذرت۔ شاید اس پولس افسر کے ذمہ یہی کام تھا کہ وہ دیگر عملے کے ذریعہ کی جانے والی تلاشی کے وقفے میں ہاروے کو محو گفتگو رکھے۔
تفتیشی دستے کو ہاروے کی جانب سے اس قدر نرم رویہ کی توقع نہیں تھی لیکن ہاروے جانتا تھا کہ یہ بے ضرر لوگ ہیں۔ ان پر اپنی توانائی ضائع کرنا بے سود ہے۔ ہاروے تو اس طرح کے لوگوں کو اپنے لیے مفید بنانے میں یقین رکھتا تھا اور جب تک اسے محسوس نہ ہوتا کہ یہ بالکل بے فائدہ ہیں تب تک مایوس نہ ہوتا تھا۔ ہاروے کو علم تھا کہ اس کی ضرر رسانی کا حقیقی مستحق کون ہے؟ وہ اپنی توانائی کو مضر افراد پر صرف کرنے کا قائل تھا۔ حالانکہ یہ خاصہ مشکل کام تھا لیکن وہ اپنے آپ پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔
تلاشی کی تکمیل کے بعد وہ لوگ ہاروے کا کمپیوٹر اور موبائل فون اپنے ساتھ لے گئے اور جاتے جاتے اسے کام چلانے کے لیے ایک فون اور کمپیوٹر دے گئے۔ اجازت لینے سے قبل پولس افسر نے ہاروے کو غیر معمولی تعاون کے لیے شکریہ ادا کیا اور کہا اب آپ کو ایک اور کمرے میں منتقل کر دیا جائے گا جہاں آپ آرام سے رہیں گے۔
ہاروے نے مسکرا کر کہا ویسے میں یہاں بھی آرام سے ہی ہوں۔
ایک افسر نے کہا جی نہیں جناب اس کا دروازہ بلکہ قفل ٹوٹ گیا ہے۔ ممکن ہے اس کی مرمت آپ کے کام میں مخل ہو اس لیے آپ منتقل ہو جائیں یہی بہتر ہے۔
جی نہیں مجھے فرق نہیں پڑتا۔ مرمت کرنے والوں کا شور ٹیلی ویژن سے کم ہی ہو گا۔
اس افسر نے اصرار کیا کہ آپ بجا فرماتے ہیں جناب لیکن ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے مہمان کو بالکل بھی تکلیف نہیں ہونے دیتے۔
ہاروے نے چونک کر سوال کیا آپ کا تعلق ہوٹل کے عملے سے ہے یا پولس محکمہ سے؟
ہاروے کے سوال پر وہ شخص سٹپٹا گیا ا ور بولا فی الحال تو میں پولس محکمہ میں ہوں لیکن پہلے اس ہوٹل میں ملازمت کرتا تھا۔
اگر میں اسی کمرے میں رہنا پسند کروں تو؟
جی نہیں جناب ایسا نہیں ہو سکتا آپ کو بہرصورت کمرہ بدلنا ہو گا۔ یہ لوگ آپ کو اس سے بہتر کمرے میں لے جائیں گے۔ وہاں بھی اسی طرح کی کشادگی ہو گی اور آپ سمندر کا نظارہ کر سکیں گے۔ آپ کو کوئی زحمت نہیں ہو گی۔
ہاروے دل لگی کرنے لگا۔ اس نے پوچھا آپ اُس کمرے کے بارے میں یہ سب کیسے جانتے ہیں کیا آپ اس میں قیام کر چکے ہیں۔ وہ افسر کی پریشانی میں لطف اندوز ہو رہا تھا۔
جناب بات در اصل یہ ہے کہ اس ہوٹل کا ہر کمرہ آرام دہ ہے اس لیے یہ بات سبھی کمروں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔
اوہو یہی تو میں کہہ رہا تھا۔ اگر سبھی کمرے یکساں ہیں تو میں دوسرے میں کیوں جاؤں؟
دیکھئے جناب آپ کو کمرہ تو تبدیل کرنا ہی ہو گا۔
مگر کیوں؟ ایسا کیا ہے جو وہاں ہے اور یہاں نہیں ہے؟
یہ …. یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا
اگر تم نہیں بتا سکتے تو میں بھی کمرہ نہیں تبدیل کر سکتا۔ کوئی زبردستی ہے کیا؟
پولس افسر کو حیرت تھی کہ اتنی خوش اخلاقی سے پیش آنے والے کو اچانک یہ کیا ہو گیا؟
وہ گھگیا کر بولا جناب آپ معمولی سی بات پر بلاوجہ ضد کر رہے ہیں۔
ضد میں کر رہا ہوں یا تم؟ ایک تو تم زبردستی میرا کمرہ بدلوانا چاہتے ہو اور الٹا مجھ پر الزام لگا رہے ہو یہ بھی خوب ہے۔
میں آپ کو کیسے سمجھاؤں؟ آپ اتنے اچھے آدمی اور اس قدر معزز سنیٹر کے بیٹے ہیں۔ آپ کمرہ کیوں نہیں بدل دیتے؟
ہاروے نے دھمکی آمیز انداز میں کہا دیکھو میں ہوٹل بدل دوں گا لیکن کمرہ نہیں بدلوں گا کیا سمجھے۔ کیا میں ہوٹل بدل سکتا ہوں؟
ا فسر بولا جی ہاں جناب بے شک آپ اپنا ہوٹل بدل سکتے ہیں۔
ہاروے کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہوٹل کے بدلنے سے کمرہ اپنے آپ بدل جائے گا۔ ان لوگوں نے ہر ہوٹل میں ایسے کمرے بنا رکھے ہیں جن میں کیمرے نصب ہیں اور ان کی مدد سے مقیم کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اب اسے ایسے ہی کسی کمرے میں جانا ہو گا جہاں اس کی ہر حرکت کو دیکھا اور اس کے ہر لفظ کو سنا جا سکے گا۔
ہاروے بولا اب میں اس ہوٹل میں نہیں رہ سکتا اس لئے اسے بدلنے کو ترجیح دوں گا۔
جی ہاں بہت خوب جناب آپ ہوٹل کا نام بتائیں میں آپ کو اپنے سامان سمیت وہاں پہنچانے کا انتظام کیے دیتا ہوں۔
ہاروے مسکراکر بولا شکریہ جناب آپ نے تو مجھے باقاعدہ اپنا مہمان بنا لیا ہے لیکن میں محکمۂ پولس کی میزبانی قبول کرنا نہیں چاہتا۔ میرا سامان بہت ہی مختصر ہے اور میں اس کے لیے کسی تعاون کا محتاج نہیں ہوں۔
کوئی بات نہیں جناب لیکن ہماری پیشکش اب بھی موجود ہے۔ پولس افسر نے پھر ایک بار گستاخی کے لیے معافی طلب کی اور اجازت لے کر چلا گیا۔ ہاروے آگے کی حکمت عملی پر غور کر رہا تھا۔ ایک متبادل اپنے شہر کولاریڈو لوٹ جانے کا تھا لیکن حالات نہایت تیزی کے ساتھ بدل رہے تھے۔ اسے خوف تھا کہ مونیکا کسی اور بڑی مصیبت میں نہ گرفتار ہو جائے۔ مونیکا اسی کے باعث اس آزمائش کا شکار ہوئی تھی۔ اب یہ ہاروے کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ اس کو بچانے کی بھرپور سعی کرے۔
ہاروے بظاہر ہوٹل کا بل چکا رہا تھا لیکن اس کا دماغ کہیں اور تھا۔ اس نے اپنا کریڈٹ کارڈ بٹوے میں رکھا اور بل کچرے کے ڈبے میں پھینک کر کرائے کی گاڑی کے کاونٹر کی جانب بڑھا اس لیے کہ وہ پولس کی ٹیکسی میں سفر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ہاروے کی ایک مشکل یہ بھی تھی کہ ٹیکسی ڈرائیور کے پہلے سوال یعنی کہاں جانا ہے صاحب؟ کا جواب ہنوزاس کے پاس نہیں تھا۔ وہ گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھا۔
کار کی چابی لے کر وہ باہر آیا۔ بیرے نے اس کا سامان گاڑی میں رکھا اور ٹپ دینے کے بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کی تو دو گاڑیوں کے اسٹارٹ ہونے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ یہ توقع کے عین مطابق تھا۔ اسے خوشی ہوئی کہ پولس کا محکمہ مستعد ہے اور اپنا کام کر رہا تھا خیر انھیں ان کا اوراسے اپنا کام کرنا تھا۔ ہاروے دوسروں کے بارے میں سوچ کر اپنا وقت ضائع کرنے کا قائل نہیں تھا۔
سڑک پر نکلنے کے بعد ہاروے نے اپنے ان دوستوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا جن کے گھر میں وہ قیام کر سکتا تھا لیکن اس کی یہ حرکت کسی اور کو بھی مشکل میں ڈال سکتی تھی۔ وہ شخص بلاوجہ پولس کی نگرانی کی زد میں آ سکتا تھا اور پھر ٹی وی والے اسے بھی کسی دشمن کا آدمی بناسکتے تھے۔ یہی سوچتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک عجیب خیال بجلی کی مانند کوند گیا وہ سوچنے لگا کہ ایسا کون شخص ہے جس کے یہاں قیام کر کے وہ اسے مصیبت میں ڈال سکتا ہے؟ اس سوال کا صرف اور صرف ایک جواب تھا جان ڈیو ….. اس پریشانی کا جان سے زیادہ مستحق کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ ہاروے نے اپنی عقل کی داد دی اور گاڑی کو ایک جانب کھڑا کر دیا۔
ہاروے کا تعاقب کرنے والی ایک گاڑی تو گزر گئی لیکن دوسری کچھ دور رک گئی۔ جان گاڑی سے باہر آ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پیچھے کی ٹیکسی والا آہستگی کے ساتھ اس کے قریب آ گیا اور پوچھا جناب کہیں جانا ہے کیا؟
ہاروے نے سوال کیا جان ڈیو کا گھر یہی کہیں ہے؟ ڈرائیور نما افسر نے حیرت سے کہا جان کا گھر یہاں نہیں ہے وہ تو وائٹ اسٹریٹ پر رہتا ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ اس کا ایک گھر یہاں بھی ہو؟
افسر نے پر زور تردید کی نہیں جناب ہم ٹیکسی چلاتے ہیں ہم سے زیادہ ان کے گھر کا پتہ کون جان سکتا ہے؟
ا چھا اگر ایسا ہے تو یہ بتاؤ کہ وائٹ اسٹریٹ پر اس کی کوٹھی کا کیا نمبر ہے؟
کوٹھی نمبر ۲۰۳۔
ہاروے نے شکریہ ادا کیا اور گاڑی کو وائٹ اسٹریٹ کی جانب موڑ دیا۔ جان کا گھر شہر کے سب سے خوبصورت اور محفوظ ترین علاقے میں تھا۔ جان ڈیو نے جب کلوز سرکٹ کیمرے سے ہاروے کی تصویر کی دیکھی تو باغ باغ ہو گیا۔ یہ صورتحال اس کی توقع کے خلاف تھی یہ کیا کہ شکار خود چل کر برضا و رغبت پنجرے کے اندر آ رہا تھا۔ اس نے چوکیدار کو حکم دیا کہ مہمان کو اعزازو تکریم کے ساتھ اس کی خدمت میں حاضر کیا جائے۔
اسی کے ساتھ سائے کی مانند ہاروے کا تعاقب کرنے والے پولس افسران کی پریشانی بڑھ گئی۔ ہاروے کی بے سمت شہر نوردی نے انہیں یقین دلا دیا تھا کہ وہ ان لوگوں کو جُل دے کر کسی خفیہ مقام پر روپوش ہو جانا چاہتا ہے۔ وہ لوگ بہت خوش تھے کہ انھوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا تھا لیکن ہاروے کا وہ خفیہ اڈہ جان ڈیو کا مکان ہو سکتا ہے یہ بات کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھی۔
پولس والے جب اس کہانی کا تانا بانا جوڑنے کی کوشش کرتے تھے تو جہاں سے شروع کرتے تھے گھوم کر وہیں پہنچ جاتے تھے۔ جان ڈیو کے گھر مونیکا کی چوری۔ مونیکا کا ہمنوا ا ہاروے اور ہاروے کا میزبان جان ڈیو۔ یہ عجیب گتھی تھی کہ جس کا کوئی سرا نہیں تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ دنیا واقعی گول ہے اور نہ صرف گول بلکہ پولم پول ہے۔
ہاروے نے جیسے ہی مہمان خانے میں قدم رکھا جان نے آگے بڑھ کر اس کا پر جوش خیرمقدم کیا۔ ہاروے نے بھی اسی گرمجوشی کے ساتھ اس کا جواب دیا۔
جان بولا آؤ ہاروے تمھارے والد ولیم کو میں نے کئی بار اپنے گھر آنے کی دعوت دی لیکن وہ کبھی نہیں آئے یہاں تک کے دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ مجھے بے حد خوشی ہے کہ تم نے مجھے اپنا سمجھا اور میرے گھر کو رونق بخشی۔ کہو کیا پیو گے ٹھنڈا و گرم یا سخت و نرم۔
ہاروے کی سمجھ میں ٹھنڈا و گرم تو آ گیا لیکن سخت و نرم نہیں آیا اس لیے اس نے کہا سخت و نرم دونوں۔
اوہو شوقین آدمی ہو۔ صرف سخت کہتے تو نرمی اس کے ساتھ اپنے آپ آ جاتی۔
ہاروے نے سوال کیا لیکن اگر صرف نرم کہا جائے تو؟
نرمی کے ساتھ سختی نہیں آتی۔
ہاروے نے مزید استفسار کیا کیوں؟
جان بولا اس کی وجہ یہ ہے نرمی سختی کے حسن و خمار میں اضافہ کرتی ہے اس لیے اسے ساتھ رکھا جاتا ہے لیکن سختی کی وجہ سے نرمی کی نظافت و نزاکت پراگندہ ہو جاتی ہے اس لیے اسے دور رکھا جاتا ہے۔
جان صاحب! ہم سب تو آپ کو ماہر معاشیات سمجھتے تھے لیکن آپ تو فلسفی نکلے۔
برخوردار سیاست تو اچھے خاصے انسان کو حیوان بنا دیتی ہے اب اس نے اگر ایک معیشی کو فلسفی بنا دیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟
یہ معیشی والی اصطلاح تو خوب رہی اور ’ع’ کا تلفظ واقعی لا جواب تھا۔
جی ہاں وہ ضروری تھا ورنہ اگر تم ’و‘ سمجھ لیتے تو بڑی گڑ بڑ ہو جاتی۔
ہم تو مان گئے آپ کو استاد۔ ہاروے نے بے تکلف ہوتے ہوئے کہا۔
خیر تکلف چھوڑو، یہ بتاؤ کہ کیسے آنا ہوا اور میں تمھاری کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
میں چند دن کسی ضروری کام سے واشنگٹن میں رکنا چاہتا تھا کہ پولس نے میرے ہوٹل کے کمرے پر چھاپہ مار دیا۔ میں نے سوچا کہ اب اس اجنبی شہر میں کون ہے ایسا جس کے پاس میں پناہ لے سکوں تو مجھے آپ کا خیال آیا۔ آپ نے دعوت بھی دی تھی اس لیے سوچا کیوں نہ آپ کو دوچار دن کی زحمت دوں اور چین و سکون کے ساتھ اپنے کام نمٹا کر لوٹ جاؤں۔
جان نے بنتے ہوئے پوچھا اوہو پولس نے چھاپہ مار دیا۔ کارروائی کی وجہ کیا بتلائی؟
انھوں نے بتایا اور نہ میں نے جاننے کوشش کی اس لیے کہ اس طرح کے مواقع پر پولس والے سچ تو بولتے نہیں۔ اب کیوں انھیں بلاوجہ جھوٹ بولنے پر مجبور کیا جائے۔
جان بولا بھئی کیا بات ہے برخوردار تم اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھتے ہو۔ تمھارے والد بھی بالکل ایسے ہی تھے۔ خیر تم جیسے بے ضرر انسان کی رہائش پر چھاپے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ میں پھر ایک بار تمھارا استقبال کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ تم نے مجھے خدمت کا موقع دیا۔ اس غریب خانے کو اپنا ہی گھر سمجھو اور جب تک چا ہو یہاں قیام کرو۔ اگر کوئی ضرورت ہو تو بلا تکلف بتلا دینا۔ میں پتہ لگاؤں گا کہ پولس نے تمہیں کیوں زحمت دی۔
ہاروے نے شکریہ ادا کیا اور ملازم کے ساتھ مہمان خانے میں آ گیا۔ ہاروے کے سامان کی تلاشی کے بعداس کا سامان مہمان خانے کی خوابگاہ میں پہنچا یا جا چکا تھا۔
٭٭٭
۱۳
ہاروے بستر پر لیٹ کر ازسرِ نو حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔ اسے انداز ہو گیا تھا کہ مونیکا نے گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران اس سے بات چیت کا ذکر کر دیا ہو گا۔ یا مونیکا کے موبائل میں اس کا نمبر پولس کے ہاتھ لگ گیا ہو گا۔ اسی وجہ سے پولس اس کے پیچھے پڑ گئی۔ اسے اندازہ تھا کہ اس کے فون کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہو گی اور اس کے کمپیوٹر کا تیا پانچا کیا جا رہا ہو گا۔ ہاروے نے کمرے میں چہار جانب نظر دوڑا کر دیکھا اسے شک تھا کہ اس کمرے میں یا تو پہلے ہی سے کیمرے نصب ہوں گے یا اب اس کی غیر موجودگی میں لگا دئیے جائیں گے۔
جان ڈیو کے گھر میں آ کر اس نے شکوک شبہات کی ایک بڑی دوربین تو اپنی جانب سے ہٹا دی تھی اس کے باوجود ہاروے جانتا تھا کہ اس مہم میں احتیاط ہی سب سے بڑی ڈھال ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مواصلاتی آلات کی نگرانی بہت سہل ہے اور ان کا استعمال ہی اس کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ اس لیے فون، ای میل اور فیکس جیسے آلات کو ہاروے نے از خود اپنے اوپر ممنوع کر لیا تھا۔
ہاروے کو جیسے ہی پولس کے محکمے سے اپنا کمپیوٹر واپس ملا اس کا استعمال شروع ہو گیا اس لیے کہ یہ بہر حال ناگزیر تھا۔ اسے یقین تھا کہ خوابگاہ میں موجود کمپیوٹر ٹیبل کیمرے کی زد میں ہو گا۔ وہ کمپیوٹر پر کام جان ڈیو کے دیوان خانے میں ایسے وقت کرتا جب جان موجود نہ ہوتا تھا۔ ویسے بھی جان کافی مصروف آدمی تھا۔ دن بھر وہ باہر رہتا اور شام ڈھلے گھر لوٹتا تھا۔
ہاروے جان ہی کی چھت کے نیچے اس کے خلاف شواہد جمع کرتا رہا اور مونیکا کے لیے اپنا وکالت نامہ بھی تیار کر لیا۔ دن میں وہ ایک آدھ چکر اپنے ان گاہکوں کے دفاتر کا بھی لگا لیتا جو اس کا مال واشنگٹن میں سپلائی کرتے تھے یا کبھی کبھار خام مال کے بازار ہو آتا تاکہ شک نہ ہو۔ اپنی نگرانی کرنے والوں کو مصروف و مطمئن رکھنے کے لیے وہ اپنا کچھ وقت بلاوجہ کی خریداری میں بھی ضائع کیا کرتا تھا لیکن ہاروے کا اہم ترین مشغلہ اخبارات کے مطالعہ اور ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھنا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی مددسے اسے پتہ چلا تھا کہ دو دن بعد مونیکا کی عدالت میں حاضری ہے تاکہ اس کے خلاف فردِ جرم داخل کی جائے۔
ہاروے کمپیوٹر پر جو بھی کام کرتا تھا اسے اپنی فلیش میمری (چلتی پھرتی یادداشت) میں محفوظ کر کے پتلون کی اندرونی جیب میں رکھ لیا کرتا اور کمپیوٹر کے اندر سے اس کا نام و نشان مٹا دیتا۔ فون کی میمری چپ جو اس نے نگل لی تھی اس کے اندر بند جان ڈیو کی آواز بھی اب کمپیوٹر کے توسط سے اس کی فلیش میمری میں محفوظ ہو چکی تھی۔ اس کے کمرے کی تلاشی کا سلسلہ بند ہو چکا تھا وہ اپنے آپ کو قدرے محفوظ محسوس کر رہا تھا۔
چارج شیٹ سے قبل والی رات وہ جان کے ساتھ ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ مونیکا کی عدالت میں پیشی کی خبر دوہرائی گئی۔ جان نے بھی بڑے غور سے اسے دیکھا۔ جب یہ سلسلہ ختم ہوا تو ہاروے بولا جناب آپ جیسی مصروف ہستی کے قیمتی وقت کا ان لایعنی کاموں میں صرف ہونا قومی خسارہ ہے۔
جی ہاں ہاروے، تمھاری بات کسی حد تک درست ہے مگر میں اسے قومی مفاد میں سمجھتا ہوں۔ ہمیں ان کو چیزوں کو ہلکا نہ سمجھنا چاہئے ورنہ ظاہر ہے ۱۱ ستمبر ہماری لاپرواہی کا ہی نتیجہ ہے۔
ہاروے نے مسکرا کر پو چھا کیا ہر شے کا تعلق ۱۱ ستمبر سے ہونا ضروری ہے؟
جی نہیں ضروری تو نہیں، لیکن کیا کریں یہ واقعہ ہمارے اعصاب پر اس طرح سوار ہے کہ لاشعوری طور پر ذہن وہیں چلا جاتا ہے۔
کیا اس آسیب سے چھٹکارہ ممکن نہیں ہے؟ یہ ہاروے کا اگلا سوال تھا۔
یہی سمجھ لو، بلکہ شاید یہی سچ ہو۔
اچھا تو کل آپ کا کیا پروگرام ہے؟
جان بولا کل مجھے سب سے پہلے تو عدالت جانا ہے، دوپہر میں ایک اہم میٹنگ ہے اور شام میں ایک دوست کے یہاں پارٹی ہے لیکن تم یہ سوال کیوں کر رہے ہو؟
میں بھی آپ کے ساتھ عدالت میں جانا چاہتا ہوں۔
جان نے چونک کر پوچھا کیوں؟ اپنی پرانی دوست مونیکا کے دیدار کی خاطر۔
جی نہیں ! مجھے تو لگتا ہے اس سے ملنے والا عدالت سے واپس نہیں آئے گا بلکہ سیدھا جیل جائے گا۔ بشرطیکہ کہ وہ آپ کے ساتھ نہ ہو۔
ہاروے نے ہنس کر جان کی تائید کی ہاروے کی گفتگو جاری تھی۔ میں نے واشنگٹن میں عدالتی کارروائی کبھی نہیں دیکھی۔ میں اہم ترین شخصیات کے مقدمہ کی کارروائی دیکھنا چاہتا ہوں۔
جان نے پوچھا کیوں تمہیں کوئی مصروفیت نہیں ہے کیا؟
میں نے اپنے سارے کام نمٹا لیے ہیں کل چند لوگوں سے مل کر لوٹ جانا ہے۔
اگر ایسا ہے تو عدالتی کارروائی کے بعد کل دوپہر کا کھانا ساتھ کھاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم دونوں اپنے اپنے کام پر چلے جائیں گے۔ ہاروے نے تائید کی اور شکریہ بھی ادا کیا۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد جب جان کپڑے بدلنے کے لیے اپنے کمرے میں گیا تو ہاروے نے جلدی سے چند صفحات کا پرنٹ نکال کر اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ لئے۔ یہ در اصل مونیکا کا وکالت نامہ تھا۔
عدالت کا کمرہ اخبار اور ٹی وی والوں سے اٹا پڑا تھا۔ مونیکا کو کٹھہرے میں حاضر کیا گیا تو وہ نہایت کمزور اور لاغر لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں گواہی دے رہی تھیں کہ وہ کئی راتوں کی جاگی ہوئی ہیں۔ مایوس اور بے یار و مددگار مونیکا نے عدالت میں موجود لوگوں پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی تو اس کی نظر ہاروے پر مرکوز ہو گئی۔ اسے حیرت تھی کہ ہاروے نے شہر میں موجود ہونے کے باوجود اس کی مدد تو درکنار رابطہ تک نہیں کیا تھا۔ ویسے اب مونیکا کو کسی سے خیر کی توقع نہیں تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ ملک سے غداری کا الزام اسے عمر قید یا پھانسی کے پھندے تک پہنچا کر دم لے گا۔
مونیکا کی حالت فی الحال ویرونیکا سے بھی ابتر ہو گئی تھی۔ اپنی بہن کی مدد کرنے کا ارادہ کرنے والی مونیکا خود محتاجِ محض بن گئی تھی۔ ویرونیکا کی رہائی اور باز آبادکاری کے لیے بہت کچھ کرنے کی خواہشمند مونیکا بذات خود رہا ہو سکے گی یا نہیں؟ یہ سوال بلا جواب تھا۔
مونیکا کے خلاف جان ڈیو کے گھر سے اہم دستاویز چرانے کی شکایت پر جج صاحب دریافت کیا کہ تم نے اس فردِ جرم کو دیکھا ہے اور اس کا مطالعہ کیا ہے۔ مونیکا نے حامی بھری۔ جج صاحب نے پھر پوچھا کیا تم ان الزامات کو قبول کرتی ہو اگر نہیں تو کیا تمہیں اپنے دفاع کے لیے سرکاری وکیل فراہم کیا جائے؟
مونیکا نے سوچا کیسی سرکار اور کیسا وکیل اور پھر کس کا دفاع؟ یہ سب تو ایک دھوکہ ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لیے رچایا گیا فریب ہے۔ اس کے جی میں آیا کہ یکبارگی اقرار کر کے اس کرب جاں سے نجات حاصل کر لے اور اپنی تقدیر پر راضی ہو جائے۔
اس دوران جج نے پھر سوال کیا مونیکا کیا ان سنگین الزامات کو تم قبول کرتی ہو؟ کیا ہم تمھاری خاموشی کو عدالت ہاں سمجھے؟
مونیکا نے پھر ایک بار عدالت میں موجود لوگوں کو دیکھا۔ اسے نہ جانے کیوں محسوس ہوا کہ ہاروے کی حاضری بلا مقصد نہیں ہے۔ وہ اسے اعتراف کرنے سے منع کر رہا ہے۔ اس کی نگاہیں کہہ رہی ہیں کہ مونیکا تم انکار کر دو میں انھیں دیکھ لوں گا۔ ہاروے کی بات ماننے میں مونیکا کا کوئی نقصان نہیں تھا۔ اس نے اپنی منحنی سی آواز میں کہا جی نہیں۔
جج نے پوچھا تمھارا کوئی وکیل ہے یا عدالت کی جانب سے تمہیں سرکاری وکیل دفاع…….جناب میری کوئی سرکار نہیں ہے۔ میرا کوئی وکیل نہیں ہے۔ اس دنیا میں میرا کوئی نہیں ہے اور مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔
زمیں میں گڑی ہوئی مونیکا کی نگاہیں اٹھیں تو اس نے دیکھا اس کے خوابوں کا شہزادہ ہاروے کنگسلے اپنے تخت طاؤس سے اٹھ کر آگے آ رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے میں مونیکا کا ہمدرد و غم خوار ہوں۔ ہاروے نے جج سے کہا یہ میرا وکالت نامہ ہے۔ مونیکا وکالت نامے پر دستخط کر رہی تھی اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا ہاتھ کانپ رہے تھے۔ آنکھوں میں آنسو تھے۔ خوشی کے آنسو۔ وہ رو رہی تھی۔ روئے جا رہی تھی۔
مونیکا کے آنسووں کا سیلاب جو گزشتہ چار دنوں سے ٹھہرا ہوا تھا اچانک سارے بند توڑ کر بہہ نکلا تھا اور اس نے ساری عدالت کو غرقاب کر دیا۔ ہر کوئی مغموم ہو گیا تھا۔ ساری آنکھیں نمناک ہو گئی تھیں سوائے جان ڈیو کے کہ اس کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ ہاروے نے ساری عدالت کو حیران کر دیا تھا۔ جان ڈیو پر تو جیسے بجلی گر گئی تھی۔ اس کے منھ سے نکلا نمک حرام، آستین کا سانپ، بدمعاش، غدار، دھوکے باز۔
ہاروے نے اس کے کان میں کہا مجبوری کی گستاخی کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
جج صاحب نے عدالت کی کارروائی ایک ہفتہ کے لیے ملتوی کر دی۔ مونیکا جیل بھیج دی گئی۔ جان ڈیو نے گھر کا اور ہاروے نے ہوائی اڈے کا رخ کیا۔
گھر آتے ہی جان فون ملا کر اپنے کسی نائب پر دہاڑنے لگا۔ منصوبہ بدل گیا ہے …..بلکہ الٹ گیا ہے …..اب خوش آمدید کے بجائے بد آمدید کے بینر بناؤ۔ ……خیر مقدم کے بجائے شر کو مقدمّ کر دو…………
نہیں ہو سکتا؟ کیوں نہیں ہو سکتا؟ ……..
وقت کم ہے ! میں جانتا ہوں فلائیٹ دو گھنٹے بعد ہے ……اور دو گھنٹے کی فلائیٹ ہے۔ کیا چار گھنٹے ناکافی ہیں ……
اچھا تو فلائیٹ میں دو گھنٹے کی تاخیر ہو جائے گی…..
کیسے ہو گی؟ ….اس سے تمہیں کیا مطلب؟ …….بے وقوف یہ کام میں نے تمہیں کرنے کے لیے نہیں کہا۔ …….. اپنے کام سے کام رکھو کیا سمجھے؟ اس طرح تمہیں چھے گھنٹے مل جائیں گے پورے چھے گھنٹے …..۔
جان فون پر بے تکان بولے جا رہا تھا۔ تم لوگ کس دنیا میں رہتے ہو میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے ……….تمہیں کوئی آرٹ گیلری کا شاہکار تو بنا نہیں ہے۔ اسی پرانے فارمیٹ کے مواد میں چند الفاظ بدلنے ہیں بس۔ آج کل آدھے گھنٹے میں نیا پلے کارڈ بن جاتا ہے۔ پرنٹر ایک منٹ میں کئی کاپیاں چھاپ دیتا ہے ……زیادہ لوگوں کو کام پر لگاؤ۔
لوگ؟ لوگوں کا کیا مسئلہ ہے؟ تم تو کہہ رہے تھے کرائے کے لوگ ہیں ….کرائے کے لوگوں کا کیا ان سے جو نعرہ چا ہو لگوا لو……اگر اس کے کچھ حامی آ جائیں تو ان کی آواز شور غل میں دبا دینا……..
ویسے بھی آج کل کون آتا ہے ……؟کسے فرصت ہے؟ ……..وہی آتے ہیں جن کا مفاد وابستہ ہوتا ہے …..اور پھر ان مفاد پرستوں کا کیا ……….جیسا دیس ویسا بھیس……..خیر اب تم فون پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنا کام کرو ……..یہ ٹھیک ہے اور سنو اگر کوئی مشکل پیش آئے تو بلا تکلف فوراً مجھ سے رابطہ کرنا کیا سمجھے؟
میں نے اپنی ساری مصروفیات منسوخ کر دی ہیں اور ہر وقت فون پر موجود رہوں گا………..خرچ کی پرواہ نہ کرو……..ہاں ہاں انعام بھی ملے گا ….پہلے کام تو انجام دو …….اپنے آپ کو اس کا مستحق تو بناؤ……..ٹھیک ہے …….ٹھیک ہے …….گڈ بائی……آل دی بیسٹ۔
ہاروے کی تازہ حرکت سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بن گئی۔ عام رائے یہ تھی کہ ہاروے نے ایک معمولی سی حماقت سے اپنے تابناک مستقبل کو از خود ماضی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ ایک معمولی سی لڑکی کی خاطر اس نے غدارِ وطن کی حمایت کا کلنک اپنے ماتھے پر سجا لیا ہے۔ اس کی یہ حرکت بلاواسطہ قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ اس کا نام اب پارٹی کے مخالفین میں درج ہو چکا ہے۔
ہوائی اڈے کے وی آئی پی لاونج میں اخبار والوں نے جب اسے کریدنا شروع کیا اور مونیکا کے حق میں شواہد معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ اس کا موقف تھا کہ گرفتاری کے بعد ابھی تک مونیکا سے اس کی ملاقات نہیں ہو سکی ہے۔ شواہد کو جمع کرنے کا کام اس کے بعد ہی شروع ہو گا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اس نے اس مقدمے میں ہاتھ کیوں ڈالا؟ ہاروے نے بتلایا کہ مونیکا اس کی کالج کے زمانے کی دوست ہے اور قانون کی نظر میں ہر ملزم اس وقت تک بے قصور ہے جب تک کہ عدالت اسے مجرم قرار نہیں دے دیتی۔ ہاروے نے کسی ماہر وکیل کی مانند یہ بھی واضح کیا کہ ہر امریکی شہری کا یہ دستوری حق ہے کہ اسے عدالت میں اپنا موقف رکھنے کے لیے وکیل دفاع میسر ہو۔ اسی حق کی فراہمی کے لیے اس نے مونیکا کے دفاع کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ خود چاہتا ہے انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ اگر مونیکا مجرم ہے تو اسے سزا ملے لیکن اگر وہ بے قصور ہے تو رہا ہو جائے۔
ایک سوال کے جواب میں ہاروے بولا مونیکا کو مجرم ہے یا بے قصور؟ اس کا فیصلہ نہ انتظامیہ کر سکتا، نہ مدعی، نہ مدعا الیہ اور نہ اس کا وکیل یعنی وہ خود۔ عدالت فیصلہ کرے گی جو سبھی کو قبول کرنا ہو گا اور جب تک وہ فیصلہ نہیں آ جاتا اس وقت انتظار کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں ہے۔ اس نے ذرائع ابلاغ کو اوٹ پٹانگ قیاس آرائیاں کرنے کے بجائے صبر و ضبط کی تلقین کی۔
نامہ نگاروں نے گفتگو کا رخ جان ڈیو کی جانب موڑتے ہوئے سوال کیا کہ وہ ان الزامات میں کس قدر حقیقت اور کتنا افسانہ دیکھتا ہے تو ہاروے بولا چونکہ مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ اس لیے باہر اس پر گفتگو غیر ضروری اور تبصرہ نامناسب ہے۔ ہاروے کی جوابات سے صحافی حیرت زدہ تھے۔ ان کے لیے بات سے بات بنانے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی۔
اس روز صحافی برادری نے تسلیم کر لیا تھا ان کا سابقہ ایک پختہ کار سیاست داں سے پیش آیا ہے۔ ائیر پورٹ پر پریس کلب کا سماں تھا۔ ہاروے جانتا تھا کہ وہ اگر اپنے والد کے حلقۂ انتخاب کولاریڈو میں بھی کسی اہم مسئلے پر پریس کانفرنس بلاتا تو اس قدر نامہ نگار نہیں پہنچتے۔ یہ تو جان ڈیو کا احسان تھا جس نے اسے ذرائع ابلاغ کا منظورِ نظر بنا دیا تھا۔
اس دوران ایک نامہ نگار نے نفس مسئلہ سے انحراف کرتے ہوئے سوال کیا جناب یہ بتلائیں کے اس مقدمے کا آپ کے سیاسی مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟
یہ ایک مفروضہ ہے۔ یہ ایک ایسے مستقبل کی بات کرتا ہے جس کوئی حال نہیں ہے؟
لیکن ماضی تو ہے؟ ایک اور نامہ نگار کا سوال تھا۔
جی ہاں اس کا ماضی ضرور ہے۔ میرے والد ولیم کنگسلے سیاستدان تھے اور ان کا اپنا مقام تھا انھوں نے اپنی جان آفرین ملک کے لیے قربان کر کے اپنے آپ کو بلند ترین درجے پر فائز کر لیا لیکن ان میں اور مجھ میں فی الحال کوئی نسبت نہیں۔ سیاست کے آسمان پر ابھی تو میرے بال و پر بھی نہیں نکلے۔ ویسے اس مقدمے کا میری سیاست یا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ میرا ذاتی فیصلہ ہے اس لیے میری استدعا ہے کہ اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ ہاروے کنگسلے کا ہوائی اڈے پر دیا گیا انٹرویو دیکھتے دیکھتے تمام اخبارات کی ویب سائیٹ اور ٹی وی چینلس پر چھا گیا۔ لوگ مونیکا یا جان کو بھول کر اس نوجوان سیاستدان پر مختلف زاویوں سے گفتگو کرنے لگے۔ ہاروے کی نیک نامی و بد نامی دونوں اس کی ناموری کا باعث بنی ہوئی تھی۔
صحافیوں کے واپس ہو جانے کے بعد ہاروے کو بتایا گیا کہ فلائیٹ دو گھنٹے کی تاخیر سے چل رہی ہے۔ اس تنہائی نے اسے اپنی ذات کی جانب متوجہ کر دیا۔ گزشتہ چند دنوں سے وہ صرف مونیکا اور اس کے مقدمے کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ وہ اپنے آپ سے، اپنے اہل خانہ سے اور اپنے حلقۂ انتخاب سے یکسر غافل ہو گیا تھا۔ اس پر ایک جنون سوار ہو گیا تھا جس نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بالکل یکسو کر دیا تھا بلکہ اپنا یرغمال بنا لیا تھا۔
حالات کا اس تیزی سے بدلنا اس کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مونیکا سے ہونے والی ملاقات اسے کہاں سے کہاں لے جائے گی؟ اس کا موبائل فون گو کہ پولس نے لوٹا دیا تھا لیکن ہاروے نے اسے کھولنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی۔ صوفے پر پیر پسارے تھکے ماندے ہاروے کے پپوٹے بھاری ہونے لگے۔ اس نے بیرے کو بلا کر کہا کہ جب کولاریڈو کی فلائیٹ کا اعلان ہو تو اسے جگا دے اور سو گیا۔ چار دنوں کے بعد پہلی بار وہ سکون کی نیند سورہا تھا۔ نیند کا بھی کیا ہے کہ جب تک آتی نہیں ہے تب تک جاتی نہیں ہے۔
بیرے نے آ کر ہاروے کو نہایت ادب کے ساتھ اس وقت جگایا کہ جب فلائیٹ پر عام لوگوں کے لیے چلنے کا آخری اور بزنس کلاس کے مسافروں کے لیے پہلا اعلان ہوا۔ ہاروے نے آنکھیں کھولیں۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ وہ کتنی مدت اس حالت نیند میں گزار چکا ہے۔
بیرے نے کہا صاحب لگتا ہے آپ کافی تھکے ہوئے ہیں۔
ہاروے نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
ویٹر بولا ہو سکتا، لیکن آپ جس طرح سو رہے تھے اس سے مجھے ایسا ہی لگا۔
ہو سکتا ہے۔ ہاتھ منھ دھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ شاید اس گہری نیند کے سبب جس نے اس پر سے چار دنوں کا بوجھ اتار دیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی؟جان کے گھر سے نکل آنا یا مونیکا کا وکالت نامہ؟ کون جانے کیا وجہ تھی؟
ہوائی جہاز کی جانب جاتے ہوئے ہاروے سوچ رہا تھا اگلی پیشی ایک ہفتہ بعد ہے۔ نہ جانے یہ ہفتہ کیسے گزرے گا؟ جیسے بھی گزرے اس نے اپنے آپ سے کہا لیکن گزشتہ ہفتہ تو پلک جھپکتے گزر گیا۔ کچھ پتہ ہی نہ چلا کہ کب آیا اور کہاں چلا گیا؟ اور ہفتہ ہی کیوں عمر بھی تو اسی طرح گزری ہے کہ کہاں گئی کچھ خبر ہی نہیں۔ ہاروے نے سوچا ممکن ہے باقی عمر بھی یونہی گزر جائے۔ جیسے پلکوں کا جھپکنا کہ کس قدر مختصر اور کتنا طویل ہوتا ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔
پلکوں کا خیال اسے مونیکا کی آنکھوں میں لے گیا اور اس کے آنسو!
ایسے خون کے آنسو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
ان آنسووں کا ہر قطرہ اپنے اندر ایک داستان لیے ہوئے تھا۔
ایک ایسی داستان جس کا سفر آنکھ سے شروع ہو کر زمین پر ختم ہو جاتا تھا۔
لیکن آنکھوں کا تعلق صرف زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے بھی تو ہے۔
آنکھوں میں خواب آسمان سے آتے ہیں اور آنسو بن کر مٹی میں رل مل جاتے ہیں۔
اس طرح زمین و آسمان بلکہ ساری کائنات اس ادھوری داستان کا حصہ بن گئی تھی۔
٭٭٭
باب چہارم
۱۴
آسمان کی اڑان بھرنے کی غرض سے ہاروے نے ہوائی جہاز میں قدم کیا رکھا کہ اس کی خاطر مدارات شروع ہو گئی۔ ایک ائیر ہوسٹس اس کا کوٹ اپنے ساتھ لے گئی اور اس کے پاس اپنی ایک مسکراہٹ چھوڑ گئی۔ دوسری مشروبات کی ٹرے لے آئی۔ تیسری رسائل، اخبارات اور کتابیں لے کر حاضر ہو گئی۔ اب پہلے والی ناشتے کے بارے میں پوچھ رہی تھی اور دوسری ٹیلی ویژن کے پروگرام سیٹ کر رہی تھی۔ ان کا مسئلہ یہ تھا اس روز بزنس کلاس میں کل آٹھ مسافر تھے اور ان کی خدمت پر چار ائیر ہوسٹس مامور تھیں۔ پیچھے ۲۰۰ مسافر تھے جن کے لیے ۸ کا عملہ تھا۔ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل تھا۔
پریشانیاں پردے کے دونوں جانب تھیں لیکن ان کی نوعیت مختلف تھی۔ ہاروے نے سوچا کہ اس کی خدمت اس لیے زیادہ ہو رہی ہے کہ اس نے چار گنا زیادہ کرایہ ادا کیا ہے لیکن اگر ۸ کو ۴ سے تقسیم کیا جائے تب بھی دو فرد کے لیے ایک ائیر ہوسٹس اس کے برعکس اگر۸ کو ۲۰۰ سے تقسیم کر دیا جائے ۲۵ مسافروں کی خدمت ایک کا تناسب بنتا تھا۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام کی خوبی تھی کہ جس میں صاحب ثروت معمولی سی اضافی رقم کے عوض غیر معمولی فائدے حاصل کر لیتے ہیں
ہاروے کا دماغ ہواؤں میں، فضاؤں میں نہ جانے کہاں کہاں کی سیر کر رہا تھا۔ وہ بار بار کوشش کرتا تھا کہ اسے زمین پر لائے لیکن ناکام ہو جاتا تھا۔ اس نے کئی بار اپنے دفتر کے بارے سوچنے کی کوشش کی اپنے گھر کا خیال کیا لیکن پھر اِدھر اُدھر بہک گیا۔ گزشتہ چار دنوں میں جو رابطے منقطع ہو گئے تھے وہ ان کو استوار کرنا چاہتا تھا۔ پہلے تو اس کا جی چاہا کہ دفتر فون کرے لیکن وہاں اس وقت کون دستیاب ہو گا؟ سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے ہوں گے۔
گھر جی ہاں اس کا اپنا گھر جہاں اس کی ماں، اس کی نانی، اس کی بہنا، اس کا نوکر، اس کا کتا اور چوکیدار ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ مؤخر الذکر دونوں تو ہمیشہ ہی ساتھ رہتے ہیں ایک بھونکتا رہتا ہے اور دوسرا بولتا رہتا ہے۔ شاید دونوں ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ہیں یا اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے ایسا کرتے ہیں کون جانے؟ اس نے کبھی اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کیوں نہیں کی تھی؟ وہ نہیں جانتا تھا۔
بات کرنے کی غرض سے جیسے ہی ہاروے نے فون نکالا ایک ائیر ہوسٹس لپک کر اس کے پاس آ گئی اور بولی جناب آسمان کی ان بلندیوں پر آپ زمین والوں کو یاد نہیں کر سکتے۔ آپ ہمیں یاد کیجیے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ اگر کوئی یاد بہت ستا رہی ہو تو اس کا بھی علاج ہمارے پاس ہے یہ کہہ کر اس نے شراب کا مینو ہاروے کے سامنے رکھ دیا۔
اپنی پسندیدہ شمپین کے حلق سے اترتے ہی ہاروے اپنا گھر دفتر سب بھول گیا۔ اب اس کے سامنے صرف اور صرف مونیکا تھی اور اس کے متعلق بے شمار سوالات۔ نہ جانے وہ بیچاری کس حال میں ہو گی؟ کس تعذیب و اذیت سے گزر رہی ہو گی؟ نئی صورتحال نے اس کی مشکلات میں اضافہ کیا ہو گا یا کمی کی ہو گی؟شراب نے زخموں کو مندمل کرنے کے بجائے ہرا کر دیا تھا۔
ہاروے شمپین کے کڑوے کسیلے سیلاب میں ان سوالات کو بہا دینا چاہتا تھا۔ وہ مونیکا کو بھلا دینا چاہتا تھا لیکن مونیکا ! وہ تو کچھ اس طرح ازسر نواس کی زندگی میں دوبارہ داخل ہوئی تھی کہ بھلائے نہیں بھولتی تھی۔ اس نے سوچا کاش کہ جان انسان سے جانور نہ بنتا؟ لیکن قصور صرف جان کا بھی تو نہیں تھا۔ وہ مونیکا سے اپنی ملاقات ایک دن کے لیے برضا و رغبت ملتوی بھی تو کر سکتا تھا۔ا س کی مرضی کے خلاف سہی التوا ء تو ہو گیا تھا مگراس کے بعد مونیکا کو واپس آنے کیا ضرورت تھی؟
وہ اپنے آپ پر قابو کیوں نہ رکھ سکی؟ اس نے یہ جانتے بوجھتے کہ بڑے بڑے سیاسی رہنما جان کے اثرورسوخ سے کانپتے ہیں اس سے پنگا کیوں مول لیا؟ایک معمولی کبوتر نے باز پر حملہ کرنے کی جرأت کیسے کر دی؟ لیکن وہ خود بھی تو قصوروار تھا۔ اگر وہ مونیکا کو جان کے پاس واپس بھیج دیتا تو کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا؟ اس کی اپنی بھی جان ڈیو کے سامنے کیا حیثیت تھی؟
ہاروے کی خود کلامی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کے والد سنیٹر ضرور تھے لیکن ان کے رسوخ بھی جان سے کم تھے اور وہ خود ….وہ تو جان کے بالمقابل کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس نے جان ڈیو کو اپنا دشمن بنا لیا تھا۔ ان سوالات پر غور کرتے ہوئے نہ جانے کتنی بار اس کا جام بھرا گیا اور خالی ہو گیا لیکن اس کے باوجود وہ خالی الذہن نہ ہو سکا۔ مونیکا کو اپنے قلب و ذہن سے نکال نہ سکا۔ وہ کم بخت اس کے اعصاب پر سوار ہو گئی تھی۔ دماغ سے نکالتا تو دل میں گھس جاتی اور دل سے نکالتا تو آنکھوں میں بس جاتی۔ مونیکا…. کونیکا……ویرونیکا….مونیکا ان الفاظ کا ورد کرتے کرتے بالآخر ہاروے ڈھیر ہو گیا۔
ہوائی جہاز کے پائلٹ نے کولاریڈو شہر کے حدود میں داخل ہونے کے بعد اپنے آہنی طائر کے پروں کو سمٹنے کا حکم دے دیا۔ پروں کے سمٹتے ہی بلندی میں کمی واقع ہونے لگی اور زمین قریب سے قریب تر ہونے لگی لیکن اس زیر و بم سے بے خبر ہاروے خواب غفلت میں کھویا ہوا تھا۔ جب جہاز کے پہیوں نے سرزمینِ کولاریڈو کا بوسہ لیا تو سارے مسافروں نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر اس کا خیر مقدم کیا لیکن ہاروے اب بھی کسی اور ہی دنیا میں تھا۔ بزنس کلاس کے سارے مسافروں کے اتر جانے کے بعد ایک ائیر ہوسٹس ہاروے کے قریب آئی اور اس نے بڑی آہستگی سے اسے ہوشیار کیا۔ ہاروے نے شکریہ ادا کیا اور حمام کی جانب بڑھ گیا۔
منھ ہاتھ دھونے کے بعد تازہ دم ہو کر جب وہ لوٹا توہوسٹس اس کا کوٹ ہاتھوں میں لیے اوراسی پرانی مسکراہٹ کے ساتھ منتظر تھی۔ کسی مشین کے سانچے میں ڈھلی ہوئی مصنوعی مسکراہٹ۔ اس میں اور اس سابقہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ کوٹ کی درآمد و برآمد سے یکساں مسکراہٹ کا ظہور ہوتا تھا۔ ہاروے کو محسوس ہوا کہ گویا یہ لوگ ڈیوٹی کے دوران غازہ اور لالی کی مانند اسے بھی اپنے چہرے پر سجا لیتے ہیں۔ اور اس کے بعد آنسووں سے دھو دیتے ہیں۔ اس تہذیب جدید میں سبھی کچھ نقلی تھا نہ خوشی اصلی اور نہ غم۔ اس لیے کہ سارا کچھ اگر کسی کارخانے سے بن کر آئے تو اس کا مصنوعی ہونا لازمی تھا۔
ہوائی جہاز سے ٹرمنل میں آتے ہوئے ہاروے نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ یہ لوگ کیا اپنے بچوں کے سامنے بھی اسی طرح ہنستے ہوں گے؟ کیا ان کے بچوں نے انھیں کبھی ہنستے مسکراتے دیکھا ہو گا؟ یہ سوچتے ہوئے ہاروے کو اپنے آپ پر ہنسی آ گئی۔ کیسے بچے؟ یہ بے چاری اولاد کے جنم دینے کے لیے آزاد کب ہے؟ ملازمت کی شرط اول حسین ہونا ہے اور شرط آخر اولاد کے حق سے محرومی۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ انسان چند کوڑیوں کے عوض ان حقوق سے دستبردار ہو جاتا ہے جنھیں حاصل کرنے کی خاطر جان کی بازی تک لگا دینے سے گریز نہیں کرتا۔
اولاد تو درکنار ان کھلونوں کو رشتہ ازدواج کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔ یہ چھپ چھپا کر رشتہ ازدواج تو ممکن تھا لیکن اولاد کے لیے حمل لازمی تھا اور اسے پوشیدہ رکھنا ناممکن تھا۔ اس کے ساتھ ملازمت کو جاری نہیں رکھا جا سکتا تھا لیکن ان بے جان مجسموں کو اس کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ زندگی کو جنم دینے کے لیے انسان کا زندہ ہونا ضروری ہوتا ہے جو خود مر چکا ہو وہ کسی اور کی زندگی کا ذریعہ کیسے بن سکتا تھا؟
دولت کی خاطر فطرت سے جنگ اور مادیت کی انسانیت پر فتح کی ان جیتی جاگتی تماثیل کو دیکھ کر ہاروے کو مونیکا کا جملہ یاد آ گیا کہ وہ ایک بے جان مجسمہ ہے اس کا کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ وہ نہ اپنی خواہش سے ہنس سکتی ہے اور نہ رو سکتی ہے۔ وہ نہ تو اپنی مرضی سے جی سکتی ہے اور نہ مر سکتی ہے۔ ہاروے نے سوچا مر تو سکتے ہیں لیکن اپنی مرضی سے کون مرنا چاہتا ہے؟ ویسے دوسروں کی مرضی سے بھی تو کوئی مرنا نہیں چاہتا۔
اس سوال نے ہاروے کے ذہن کو کسی اور جانب موڑ دیا۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ کسی اور کو یہ حق کیوں کر حاصل ہو جاتا ہے کو وہ کسی کو موت کے منھ میں ڈھکیلے؟ جیسے کہ جان ڈیو جو مونیکا کو اپنی مرضی سے موت کے گھڑے میں کھدیڑ رہا تھا۔ ہاروے کا سفر وہیں پہنچ گیا جہاں سے شروع ہوا تھا۔ وہی مونیکا اور وہی جان اس کی آنکھوں کے سامنے تھے مگر سامنے گھومتے ہوئے پٹے ّپر اس کا سامان نظر نہیں آ رہا تھا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا یہاں تک اس نے ہاروے کا سامان بھی اس کے سامنے لا کر پھینک دیا۔
ہاروے اپنا صندوق اچک کر دروازے کی جانب بڑھا تو محافظین میں سے ایک نے آگے بڑھ کر سوال کیا۔ جناب عالی! کیا ہاروے کنگسلے آپ ہی ہیں؟
جی ہاں ! اس میں کیا شک ہے؟
جی بات در اصل یہ ہے کہ…….
بولو بولو رک کیوں گئے؟ کیا مشکل ہے؟
باہر حالات ٹھیک نہیں ہیں اس لیے آپ کچھ دیر وی آئی پی لاونج میں انتظار فرمائیں۔
کیا بکتے ہو ہاروے نے بگڑ کر کہا ساری دنیا جا رہی ہے نصف سے زیادہ مسافر جا چکے ہیں ان سب کے لیے حالات ٹھیک ہیں اور میرے لئے …..
جی ہاں جناب آپ بجا فرماتے ہیں۔ آپ لاونج میں تشریف لے چلیے وہاں اعلیٰ افسران آپ کے منتظر ہیں۔ وہ آپ کو حقیقتِ حال سے آگاہ کر دیں گے۔
ہاروے اپنے گھر جانے کے لیے بیتاب تھا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کون سی نئی مصیبت اس کی راہ کا روڑا بنائی جا رہی ہے۔ خیر اس کے پاس لاونج میں جانے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا سو وہ مجبوراً چل پڑا۔ لاونج میں موجودپولس افسران نے ہاروے کو بتایا کہ اس کے خلاف باہر زبردست احتجاج ہو رہا ہے۔
ہاروے نے وجہ دریافت کی تو خود افسران نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا ہمیں کل اطلاع دی گئی تھی کہ آپ کے زبردست استقبال کی تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن آج اچانک نقشہ ہی بدلا ہوا ہے۔ ہم لوگ نظم و ضبط بحال کرنے کی خاطر یہاں تعینات ہیں اور ہمیں اندیشہ ہے کہ آپ کے باہر جاتے ہی حالات بے قابو ہو جائیں گے اس لیے آپ کو یہاں رکنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ آپ یہاں آرام فرمائیں۔ حالات کے بہتر ہوتے ہی ہم آپ کو اطلاع دیں گے۔ ویسے فکر نہ کریں آپ کی حفاظت ہماری اولین ذمہ داری ہے اور اس کا خاطر خواہ انتظام ہے۔
ہاروے نے پوچھا اس احسان کی کوئی خاص وجہ؟
احسانمندی کیسی؟ آپ ہمارے محسن اور ہردلعزیز سنیٹر ولیم کنگسلے کے فرزند ارجمند ہیں بلکہ ہمارے ہونے والے سنیٹر بھی ہیں۔
بہت خوب، میں تو یہ سمجھ رہا تھا چونکہ حق بجانب ہوں یا مظلوم ہوں اس لیے مجھ پر یہ نظرِ عنایت ہو رہی ہے۔
جناب والا ہم پولس والوں کو حق و ناحق میں امتیاز کرنے کی نہ ہی تربیت دی جاتی ہے اور نہ اجازت۔ یہ سب تو آپ جیسے بڑے لوگوں کے کرنے کے کام ہیں۔ کون ظالم ہے اور کون مظلوم؟ اس طرح کے سوالات پر اگر ہم غور کرنے لگیں تو ہمارا محکمہ اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
ہاروے نے وجہ دریافت کی تو اسے بتایا گیا۔ در اصل بے چوں چرا اطاعت گزاری ہمارا مسلک ہے اور اس راہ میں یہ غور و خوض سدّ راہ بن جاتا ہے۔ ویسے ہم ان جھمیلوں میں پڑیں بھی کیوں ہمیں اس کی تنخواہ نہیں ملتی۔
ہاروے کے لیے یہ منطق دلچسپ تھی اس لیے اسوال کیا اچھا تو آپ لوگ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس کی آپ کو تنخواہ نہ ملتی ہو؟
جی ہاں وردی میں میرا مطلب ہے ڈیوٹی پر ہم لوگ ایسا ویسا کوئی کام نہیں کرتے۔
اچھا تو کرتے کیا ہیں؟ ہاروے اپنا وقت گزار رہا تھا۔
اپنے اعلیٰ افسران کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس سے ملازمت کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اور ترقی بھی ہوتی رہتی ہے۔
تو گویا ملازمت کے خوف نے آپ لوگوں کو صحیح اور غلط کی تمیز سے باز رکھا ہوا ہے۔
خوف کا کیا سوال؟ ہم کہاں کسی سے ڈرتے ہیں بلکہ لوگ ہم سے کانپتے پھرتے ہیں۔
اور تم اعلیٰ افسران کے آگے بھیگی بلی بن جاتے ہو؟ ہاروے کے اس سوال پر دونوں ہنس پڑے۔ ہاروے نے موضوع بدلتے ہوئے کہا یہ احتجاج کون کروا رہا ہے اور کیوں؟ کیا ان سوالات کا جواب معلوم کرنے میں آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟
افسر بولا کیوں نہیں ہمارے مخبر اس کام پر لگے ہوئے ہیں میں ان میں سے ایک کو بلاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ فون پر کسی سے بات کرنے لگا۔
ہاروے نے لاونج میں موجود بیرے سے پوچھا کیا تمھارے پاس دوربین ہے؟
بیرے نے بڑے شوخ انداز میں جواب دیا کیوں نہیں صاحب خوردبین، دوربین جو کہئے حاضر کیے دیتے ہیں۔
ہاروے نے دوربین سے دیکھا تو ایک زبردست مجمع ہاتھ اٹھا اٹھا کر نعرے بازی کر رہا تھا۔ ہاروے دوربین سے نعرے تو نہیں سن سکتا تھا لیکن جو بینر اور پلے کارڈ لوگ اٹھائے ہوئے تھے انھیں ضرور پڑھ سکتا تھا۔ ان پر لکھا ہوا تھا۔ احسان فراموش، دغا باز، نا خلف ہاروے کنگسلے مردہ باد۔ واپس جاؤ، واپس جاؤ۔ غدارِ وطن واپس جاؤ۔ ہاروے کے کانوں میں جان ڈیو کے الفاظ گونجنے لگے۔ بدمعاش، دھوکے باز، غدار، نمک حرام۔ الفاظ نے نعروں کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔ وہ ان دونوں کے تعلق کو جوڑنے کی کوشش کرنے لگا۔
مجمع کے اندر موجودمسلمانوں کی کثیر تعداد ہاروے کے لیے حیرت کا ایک اور سبب بنی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا جان کے جھانسے میں آ جانا ہاروے کی سمجھ سے باہر تھا کیونکہ وہ تو ولیم کنگسلے کے خاص مداح تھے اور پھر مونیکا سے بھی انھیں کوئی پرخاش نہیں تھی۔ ڈائس پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں ٹام فوبرگ کو دیکھ کر ہاروے کا ما تھا ٹھنکا۔ یہ کم بخت عراق سے لوٹ کر کب واپس آ گیا؟ اس سوال کا بھی اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لیکن اس کی مخالفت حسبِ توقع تھی۔
شمپین کا نشہ کب کا ہرن ہو چکا تھا۔ وہ کافی پیتے ہوئے واقعات کے تانے بانے ملا ہی رہا تھا کہ ایک ٹی وی چینل کی نامہ نگار کیتھی نے سلام کر کے اس کو اپنا کارڈ تھما دیا۔
ہاروے بولا محترمہ میں نہ یہ جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے؟ اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے معذرت چاہتا ہوں۔ میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔
کیتھی بولی جناب عالی مجھے سب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟
اگر ایسا ہے تو آپ میرے پاس اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کے لیے کیوں آئی ہیں؟
اس خاتون نے پولس افسر کی جانب اشارہ کر کے کہا در اصل میں پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ ان کے بلانے پر آپ کو یہ بتا نے کے لیے آئی ہوں کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟
ہاروے بولا بہت خوب!جلدی سے شروع ہو جائیے اور مجھے بتائیے کہ ……۔
کیتھی نے کہا سچ تو یہ ہے چونکہ میں خود نہیں جانتی کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اس لیے فی الحال نصف سوال کا جواب نہیں دے سکتی معذرت چاہتی ہوں۔
ہاروے سمجھ گیا یہ پولس کی مخبر ہے۔ ذرہ نوازی کا شکریہ۔ آپ کیا پینا پسند کریں گی؟
میں کولڈ کافی لوں گی۔
کافی اور کولڈ؟
اس میں حیرت کی کون سی بات ہے۔ میری شخصیت بھی تو جمع الاضداد ہے بیک وقت ہاٹ اینڈ کولڈ۔ میرا مطلب ہے گرما گرم صحافی اور نہایت سرد مخبر۔ کیا آپ نے ٹیلی ویژن پر میری شعلہ بیانی نہیں دیکھی؟
کیوں نہیں کیتھی ولسن سے کولاریڈو کا بچہ بچہ واقف ہے۔ ہاروے نے جواب دیا۔
صرف کولاریڈو کا یا شمالی امریکہ کا؟
ہاروے بولا معاف کرنا غلطی ہو گئی بلکہ مجھے تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ دنیا بھر کے وہ سارے لوگ جو ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں کیتھی ولسن کو جانتے ہیں۔
ایک بات بتاؤں آپ کے اندر کامیاب سیاستداں کے سارے اوصاف موجود ہیں۔
آپ مجھ پر طنز کر رہی ہیں یا میری تعریف کر رہی ہیں؟
بھئی آپ کی تعریف کے جواب میں طنز کی جرأت میں کیسے کر سکتی ہوں؟ احسانمندی کا جواب احسانمندی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
زہے نصیب۔ اچھا یہ بتاؤ کہ مخبری کا کیا چکر ہے؟
کیتھی نے کچھ دیر خلا ء میں دیکھا اور پھر بولی یہ در اصل میرا سائیڈ بزنس ہے اور اگر آمدنی کے لحاظ سے دیکھیں تو آج کل صحافت میرا سائیڈ بزنس ہو کر رہ گیا ہے۔ ویسے یہ دونوں پیشے ایک دوسرے کے خاصے معاون و مددگار ہیں۔
وہ کیسے؟
ظاہر ہے جس طرح صحافی کا کام خبریں جمع کرنا ہے مخبر کا بھی وہی کام ہے۔ ایک کام کھلے عام کیا جاتا ہے اور دوسرا خفیہ طریقے سے۔
ہاروے بولا لیکن ایک صحافی کے لیے خبریں جمع کرنے کا کام خاصہ دشوار ہے اس لئے کہ لوگ چوکنے بھی ہو جاتے ہوں گے؟
لیکن یہ تو اسی وقت ہو گا جب انہیں پتہ ہو ورنہ ایک صحافی کی حیثیت سے لوگوں تک رسائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی ٹی وی پر آنا چاہتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو تم مخبری کے پھیرے میں کیوں پڑ گئیں؟
مخبر کی حیثیت سے مجھے سرکاری تحفظ مل جاتا ہے اور مشکل حالات کے میں آمدورفت کی سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔
ہاروے نے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ تم پہلے خبر کس کو دیتی ہو؟
بھئی لازمی بات ہے جس کی پناہ میں انسان ہوتا ہے اسی کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے۔ میرا مطلب آپ سمجھ گئے ہوں گے؟ اور پھر آمدنی بھی توہے ….. میں تو کہہ چکی ہوں ….۔ پہلے اس کو جس کا پہلا حق ہے اور پھر اس کی اجازت سے دوسروں کو ……۔
حریت کے اس دور جدید میں یہ اجازت نامہ یا اجازت کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔
ہاروے صاحب آپ ایسے سوالات کیوں کرتے ہیں جن کا مطلب آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اجازت کا مطلب اجازت ہوتا ہے اور کیا؟
آپ میرے سوال کے پہلے نصف کا جواب دے دیجیے کہ باہر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
میں تو یہی بتلانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تھی لیکن آپ دیگر مسائل لے کر بیٹھ گئے۔ کیا وہی بتاؤں جس کی اجازت ہے یا؟ ؟؟
بھئی تم میری پناہ میں تو ہو نہیں اس لیے تم پر میرا کیا اختیار؟ پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے وہ سب کچھ بتاؤ جو تم جانتی ہو اس لیے کہ میں بہت پریشان ہوں۔
کیتھی بولی دیکھئے مجھے آپ کا مزاج اور باتیں بہت پسند آئی ہیں اور میں آپ کو سب کچھ بتا سکتی ہوں لیکن ایک شرط ہے ….
وہ کیا؟
آپ کسی کو بتلائیں گے تو نہیں کہ میں نے آپ کو یہ معلومات فراہم کی ہیں۔
ہاروے بولا جی نہیں ہر گز نہیں۔
وعدہ؟
جی ہاں وعدہ۔
کیتھی ہنس کر بولی ویسے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ نے میرا حوالہ دے بھی دیا تو میں صاف مکر جاؤں گی اور کذب بیانی کا الزام الٹا آپ کے سر آ جائے گا۔
٭٭٭
ا س ناول کے باقی حصے
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید