FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

آتشِ صلیب

 

 

حصہ دوم

 

                ڈاکٹر سلیم خان

 

 

اس ناول کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے

 

۱۵

 

ہاروے نے کیتھی کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا میں آپ کے ساتھ وعدہ خلافی کر کے اس مرغی کو ذبح نہیں کروں گا جو ہر روز سونے کے انڈے دیتی ہو۔ اس لیے اطمینان رکھو کیتھی !تم جو کچھ بھی بتاؤ گی وہ معلومات تمھاری اجازت کے بغیر کسی کے کانوں میں نہیں پڑے گی۔

اگر ایسا ہے تو سن لیجیے جناب ہاروے صاحب!گزشتہ ایک ہفتہ سے کولاریڈو میں قیامت بپا ہے۔ مسلم کلچرل سینٹر پر چھاپہ پڑا اور پولس نے وہاں سے چار افراد کو گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ وہ القاعدہ سے منسلک ہیں اور وہی آپ کے والد ولیم کنگسلے کے قاتل ہیں۔

ہاروے بیچ میں بول پڑا یہ ناقابلِ فہم ہے۔ اگر انھیں ولیم کو قتل کرنا ہی ہوتا تو وہ کولاریڈو سے واشنگٹن کیوں جاتے؟ اور میکس چینل کے دفتر میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اس جرم کا ارتکاب کیوں کرتے؟ جبکہ انھیں یہاں پر اس کام کو با آسانی کیا جا سکتا ہے۔

کیتھی مسکرا کر بولی قاتلوں کی مشکلات اور دشواریوں کو بھلا ہم کیسے جان سکتے ہیں؟

جی ہاں لیکن اس قتل وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ میرے والد ایک مسلم دوست سیاستداں تھے ان کا قتل کر کے القاعدہ کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کہانی پر کوئی بھی یقین نہیں کر سکتا۔

یہ آپ کا خیالِ خام ہے ہاروے صاحب۔ شاید آپ کو ذرائع ابلاغ کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ ہم نے دن رات دوہرا دوہرا کر یہ بات عوام کے ذہن نشین کر دی ہے۔ یہاں کے مقامی چینل پر اسی خبر کا غلبہ رہا ہے۔ آپ کو یقین نہیں ہو گا کہ ایک تازہ جائزے کے مطابق کولاریڈو کی بڑی اکثریت اس مفروضے کو تسلیم کر چکی ہے۔

یہ تو ناقابلِ اعتبار ہے کیتھی بالکل غیر عقلی اور احمقانہ ….

آپ جو چاہیں کہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہفتے بھر ہم لوگ آپ کے والد سے متعلق نت نئی کہانیاں گھڑ کر مقامی چینل پر نشر کرتے رہے۔ فرضی شواہد سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کے انٹرویو پیش کیے جاتے رہے۔ ان کی تصویریں اخبارات کی زینت بنتی رہیں اور آپ کے حق میں ماحول سازگار ہوتا رہا۔ ہمدردی کی ایک زوردار لہر آپ کے حق میں چل پڑی۔

لیکن مسلمانوں کا کیا بنا ہاروے نے سوال کیا۔

وہ بیچارے کیا کرتے انھوں نے بارہا احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے رہنماؤں کو انتظامیہ نے ڈرا دھمکا کر خاموش کر دیا۔ چار لوگوں کو تو با قاعدہ گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا لیکن سیکڑوں کو پولس چوکیوں کی غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔ کچھ گھروں کے اندر نظر بند ہونے پر مجبور کر دیئے گئے۔ گویا احتجاج کر سکنے والوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔

پھر آج یہ کیا ہو گیا؟ دوربین سے مسلمانوں کی کثیر تعداد کو میں یہاں دیکھ رہا ہوں۔

دھمکیوں اور نگرانی نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دئیے تھے لیکن آج نہ جانے کیوں بازی پلٹ گئی۔ ایک طرف احتجاج کا اعلان ہوا اور دوسری جانب سرکاری تحفظ میں انھیں یہاں پہنچا دیا گیا۔ وہ جو آتش فشاں گزشتہ ایک ہفتے سے اندر ہی اندر پک رہا تھا آج اچانک پھٹ پڑا اور یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں اسی کی تباہ کاریاں ہیں۔

لیکن اس سے میرا کیا تعلق؟

ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم عوام کو بتلائیں آپ ہی نے واشنگٹن میں بیٹھ مسلم سینٹر پر چھاپا ڈلوایا ہے۔ آج دوپہر سے یہ بریکنگ نیوز ہر مقامی چینل پر چل رہی ہے۔

ہاروے نے دوسرا سوال کیا لیکن یہ احکامات کس نے جاری کئے؟

دیکھئے جناب میں آپ کے ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتی معذرت چاہتی ہوں۔ لیکن یہ بتلا دوں کہ ہم لوگ خبروں کی درآمد اور برآمد کا کاروبار کرتے ہیں۔ نیچے کی خبریں اوپر اور اوپر کی خبروں کو نیچے تک پہنچانا ہی ہمارا پیشہ ہے۔ اور اسی کے تحت یہ سب ہو رہا ہے۔

ہاروے نے کچھ سوچ کر پوچھا۔ اچھا تو گویا یہ آج دوپہر کے بعد کی پیش رفت ہے۔

جی ہاں جناب، اچانک یہ تبدیلی کیوں واقع ہوئی اس گتھی کو سلجھایا نہیں جا سکا ہے۔

ہاروے کی سمجھ میں اس کے تانے بانے آنے لگے تھے۔ اس نے مسکرا کر کیتھی کا شکریہ ادا کیا اور اس سے دریافت کیا کہ کیا وہ اگلے دن ملاقات کر سکتی ہے؟

کیتھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی ضرور اور اجازت لے کر رخصت ہو گئی۔ ہاروے سے تعلقات استوار کرنے میں کیتھی کامیاب ہو گئی تھی۔ اور یہ اعتماد ایک مخبر اور صحافی دونوں کے لیے بڑی کامیابی تھی۔

کیتھی کے نکل جانے کے بعد ہاروے نے پھر ایک بار دوربین کو آنکھوں سے لگا لیا۔ یہ دیکھ کر ڈیوٹی پر موجود پولس افسر اس کے قریب آیا اور کہنے لگا۔ باہر کا نہایت صاف و شفاف حال احوال آپ ٹیلی ویژن کے پردے پر دیکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ وہاں کے شور شرابے کو سن بھی سکتے ہیں۔

ہاروے نے کہا جو کچھ سننا تھا میں سن چکا ہوں۔ اب میں حقیقتِ حال اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں۔

افسر مسکرا کر بولا جناب گستاخی معاف آپ ٹیلی ویژن بھی اپنی ہی آنکھوں سے دیکھیں گے کسی اور کی نہیں۔

دیکھو بھائی میں اپنی آنکھوں پر دوسروں کی عینک لگا کر منظر نہیں دیکھنا چاہتا ا۔

اس پولس افسر کو ہاروے کی باتوں میں لطف آنے لگا تھا اس نے سوال کیا جناب یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کوئی اپنی آنکھوں پر کسی اور کی عینک لگا لے۔

کیوں نہیں ممکن؟ ہاروے نے اپنا دھوپ والا چشمہ افسر کی جانب بڑھا کر کہا یہ کس کی عینک ہے؟

اس نے دانت نکال دئیے اور بولا آپ کی اور کس کی؟

تو ایسا کرو کہ اسے لگا کر دیکھو۔ اگر باہر کی چلچلاتی دھوپ چھاؤں میں نہ بدل جائے تو بلا تکلف توڑ دینا اور شام کے بجائے رات نہ دکھائی دے تو گھر لے جانا۔

افسر کو ہاروے نے لاجواب کر دیا تھا وہ بولا اگر آپ میری نمبر والی عینک لگا لیں تو؟

تب تو اشیاء کی کمیت اور کیفیت دونوں بدل جائے گی۔

جناب آپ نے بڑی بذلہ سنج طبیعت پائی ہے اور حاضر جواب بھی ہیں اس لیے سیاست میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

کیوں؟ حاضر جوابی کا سیاسی کامیابی سے کیا تعلق؟

اوہو! تو کیا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ آج کل رائے عامہ کو خدمت یا صلاحیت سے نہیں بلکہ ٹی وی پر دکھلائے جانے والے مناظروں سے ہموار کیا جاتا ہے اور لوگ باگ اپنی حاضر جوابی کی مدد سے صدر مملکت تک کے عہدے پر فائز ہو جاتے ہیں۔

اچھا! تو تم اس وردی میں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں تو کسی سیاستداں کا مشیر ہونا چاہئے تھا۔

جی ہاں سر آپ نے بجا فرمایا لیکن ہمیں کوئی اس قابل سمجھے تو۔ ویسے اگر آپ کو کبھی کسی صلاح کار کی ضرورت پیش آئے تو اس ناچیز کو یاد فرما لیجیے گا۔

پیشکش کا شکریہ مگر مختلف وجوہات کی بناء پر میں پولس والوں سے دور ہی رہتا ہوں۔

اس افسر نے پھر دانت نکال دئیے اور کہا جناب جب آپ مجھے یاد فرما لیں گے تومیں پولس افسر تھوڑے ہی رہوں گا۔ میں اپنی اس وردی کو جلا کر آپ کی خدمت میں آؤں گا۔

ہاروے کو جواب پسند آیا وہ بولا دیکھو افسر میری رائے ہے تم سیاستدانوں کا چکر چھوڑ کر ہالی ووڈ میں قسمت آزمائی کرو۔ تم بہت جلد کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ جاؤ گے۔

شکریہ جناب میں پھر اعتراف کرتا ہوں کہ آپ کامیاب سیاستداں بن چکے ہیں۔

اچھا یہ انکشاف تم پر کیسے ہوا؟

افسر نے کہا دیکھئے میں آپ کے دروازے پر مدد کے لیے آیا تو آپ نے مجھے کچھ دئیے بغیر خوش فہمی کا شکار کر کے دوسروں کا پتہ تھما دیا۔ ہمارے سیاستداں دن رات یہی تو کرتے ہیں۔ خیر آپ مجھے بتلائیں کے ٹیلیویژن سے آپ کو پرخاش کیوں ہے؟

در اصل بات یہ ہے کہ ٹی وی پر جو کچھ دکھلایا جاتا ہے وہ ایک بے جان عکس ہوتا ہے زندہ حقیقت نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر انسان کے لیے ممکن ہو تواسے عکس کے بجائے حقیقت کے مشاہدے کو ترجیح دینا چاہئے۔

پولس افسر نے تائید کی آپ کی بات درست ہے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ حقیقت کے عکس کو حقیقت سے مختلف کیوں سمجھتے ہیں؟

بات یہ ہے کہ ہر حقیقت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اسے مختلف سمتوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کیمرہ ایک وقت میں صرف ایک ہی رخ بتلاتا ہے اور دیگر پہلو ناظرین کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔

لیکن کم از کم ایک پہلو تو صاف اور واضح ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔

جی نہیں ایسا بھی نہیں ہوتا بلکہ اس میں قینچی چل جاتی ہے۔ عکس کے طول و عرض کو روشنی کی چکا چوند سے نہ صرف بڑھایا اور گھٹایا بلکہ مٹایا بھی جاتا ہے۔

پولس افسر ہاروے کی منطق کو نگل نہیں پا رہا تھا اس نے کہا آپ کی روشنی اورعکس والی بات سن کر مجھ کو آپ جیسے کسی بڑے آدمی کا مقولہ یاد آ گیا۔

اچھا بہت خوب ہمیں بھی تووہ علم و حکمت کی بات سناو۔

ارے جناب آپ تو مجھے شرمندہ کر رہے ہیں خیر میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر انسان کا عکس اس کے آگے چلنے لگے تو سمجھ لو کہ روشنی پیچھے چھوٹ گئی ہے۔

اوہو یہ تو بہت بڑی بات کہہ دی تم نے بھئی کمال کا مقولہ ہے۔

ہو سکتا ہے لیکن مجھے تو صرف یاد ہے اس کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔

کوئی بات نہیں ہاروے بولا۔ ہر بات کا سمجھ میں آنا ضروری بھی تو نہیں اور پھر بات کو سمجھنے کے لیے کان کے ساتھ عقل بھی تو درکار ہے۔

ہاروے کی بات بھی پولس افسر کے سر کے اوپرسے نکل گئی مگر وہ دانت نکال کر مسکرا رہا تھا۔ ہاروے نے بات آگے بڑھائی اچھا دیکھو تم اسے ایک مثال سے سمجھو۔

وہ خوش ہو کر بولا جی ہاں۔ مجھے مثالوں کی مدد سے بات جلد سمجھ میں آ جاتی ہے۔

اچھا بتاؤ کہ انسان کا سایہ کیسے بنتا ہے؟

سورج سے۔ جب سورج ہوتا ہے تو سایہ بھی ہوتا ہے اور جب وہ چلا جاتا ہے تو سایہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔

بہت خوب یعنی سایہ تو انسان کا ہوتا ہے مگر اس کی موجودگی اور معدومیت کا انحصار سورج پر ہے !!! کچھ بات سمجھ میں آئی؟

جی ہاں کچھ کچھ …. اب یہ دیکھو کہ دن بھر میں انسان کا سایہ بڑھتا اور گھٹتا بھی تو رہتا ہے حالانکہ انسان کی ہئیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اب اگر کوئی اس شخص کے بجائے اس کے سائے کو دیکھے تو غلط فہمی کا شکار ہو گا یا نہیں؟

پولس افسر نے سر ہلا کر تائید کی جی ہاں جناب ضرور ہو گا۔

اور اگرعکس کے ہونٹوں پر بیرونی آوازچسپاں کر دی جائے جس میں سچ کے ساتھ جھوٹ کی بھی آمیزش ہو تو کیا ہو گا؟

یہ مجھ جیسا معمولی انسان کیسے جان سکتا ہے؟

یہ جاننے کے لیے آنکھیں کھولو اور باہر جو کچھ ہو رہا اسے غور سے دیکھو۔ ایسا کرنے سے وہی ہو گاجو باہر ہو رہا ہے۔

واہ جناب واہ ! کیا غضب کی مثال دی آپ نے؟ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے اور دل خوش ہو گیا۔ میں تو کہتا ہوں آپ کو سیاست کا چکر چھوڑ کر کسی یونیورسٹی میں پروفیسر بن جانا چاہئے طلباء کا، قوم کا اور ہم جیسوں کا بھی بھلا ہو جائے گا۔

تم یہ بن مانگے کے مشورے دینا بند کرو اور یہ بتاؤ کہ کب تک مجھے یہاں نظر بند رہنا پڑے گا؟ مجھے اس قید سے نجات ملے گی بھی یا نہیں؟

آپ مزید کچھ دیر زحمت فرمائیں مجمع کے منتشر ہو تے ہی فوراً آپ کو اپنے گھر پہنچانے کا اہتمام کر دیا جائے گا۔

لیکن اس اجتماع کو منتشر کرنے کے لیے آپ لوگوں نے کوئی اقدام کیا ہے یا بس اس کے تھک کر از خود لوٹ جانے کے منتظر ہیں۔

جی نہیں جناب ہم نے یہ افواہ پھیلا دی ہے کہ آپ نے اپنا پروگرام تبدیل کر کے سفر ملتوی کر دیا ہے۔ اس اختتامی تقریر کے بعد لوگوں کو بتلایا جائے گا کہ آپ فی الحال نہیں آ رہے ہیں۔ جب آپ کی آمد ہو گی تواس کی اطلاع انھیں دے دی جائے گی۔ اس وقت وہ واپس آئیں اور فی الحال اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔

ہاروے بولا یہ عجب مذاق ہے کہ جب میں یہاں موجود ہوں تو کہا جا رہا ہے نہیں ہوں۔ اور جب نہیں آؤں گا تو کہا جائے گا کہ آنے والا ہوں۔

دیکھئے جناب میں پہلے ہی آپ سے کہہ چکا ہوں یہ فیصلے اوپر والے کرتے ہیں ہمارا کام تو صرف ان کو نافذ کرنا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں ………

ہاں ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں کو………………..۔

………………………….

ہاروے نے ہوائی اڈے سے اپنے کولاریڈو پہنچنے کی اطلاع ڈائنا کو دے دی تھی لیکن گھر کے سارے لوگ اس کو دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔ ہاروے ً ایک ہفتہ تک اپنے گھر والوں سے قطع تعلق رہا تھا۔ نہ ہی اس نے انھیں فون کیا اور نہ ان کے فون کا جواب دیا۔ اس کے اس رویے نے اہل خانہ کو فکرمند کر دیا تھا۔ نانی طرح طرح کے اندیشوں کا شکار ہو رہی تھی۔ ماں کی دعاؤں کا سلسلہ تھمتا نہ تھا۔ ڈائنا غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی یہ بھائی ہے یا قصائی۔ اسے کسی کا خیال ہی نہیں ہے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر اپنے آپ کو بہلا لیتی تھی کہ خیر جو خود اپنی فکر نہیں کرتا وہ بھلا دوسروں کے لئے کیسے متفکر ہو سکتا ہے؟ لیکن ہاں اسے ٹھیک کرنا پڑے گا۔

ہاروے کے گھر میں داخل ہوتے ہی خوشی کی لہر دوڑ گئی ہر کوئی اسے صحیح سلامت دیکھ کر پھولا نہیں سما رہا تھا سوائے ڈائنا کے کہ اس کا منھ پھولا ہوا تھا۔ وہ بار بار ایک ہی سوال کرتی تھی کہ کون ہے یہ ڈائن مونیکا جس نے میرے بھولے بھالے بھائی کو اپنے سارے خاندان سے غافل کر دیا تھا اور تو اور جس کے چکر میں اس نے اپنا سیاسی مستقبل تباہ و برباد کر دیا۔ والد کی برسوں پرانی ساکھ یکلخت خاک میں ملا دی۔ ہاروے کو اپنی غلطی کا شدید احساس تھا وہ بار بار اپنی بہن سے یہی کہتا تھا کہ تم جو سوچتی ہو بات وہ نہیں ہے۔

دوسرے دن ہاروے دیر تک بستر پر پڑا رہا یہاں تک کے ڈائنا اخبارات کا ڈھیر اور چائے کی پیالی لے کر اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ صبح بخیر بھائی صاحب صبح بخیر۔

ڈائنا کی پیار بھری آواز ہاروے کے کان میں رس گھول رہی تھی۔ ہاروے نے کہا یہ اتنے سارے اخبار؟ تم تو پوری دوکان لے آئیں۔

کیوں نہیں آج کے دن ہر اخبار میں آپ ہی آپ ہیں۔

ہاروے نے پوچھا وقت کیا ہوا ہے۔

یہی دس بجنے والے ہیں مگر صبح سے دس بیس فون مختلف ٹیلی ویژن اور اخبارات کے دفاتر سے آ چکے ہیں۔ میں تو انھیں بتلاتے بتلاتے تھک گئی کہ بھائی صاحب بہت تھکے ہوئے ہیں اور آرام فرما رہے ہیں۔

ڈائنا ایک بات بولوں تم بولتی بہت اچھا ہو مگر بولتی ہی جاتی ہو……….

اب تم اپنی بولتی بند کرو اور جلدی سے کلی کر کے چائے پیو ورنہ ٹھنڈی ہو جائے گی۔

ٹھیک ہے۔ ہاروے نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا تمھارے اس ہونہار بھائی کے بارے میں اخبارات نے کیا لکھا ہے یہ تو بتاؤ؟ اب تک تو تم ان تمام خبروں کو چاٹ چکی ہو گی۔

جی ہاں اخبارات تو چاٹ چکی اب مستقبل کے سنیٹر ہاروے کنگسلے کا دماغ چاٹنا ہے۔

ہاروے اپنی بہن کی میٹھی میٹھی باتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ بولا چلو اچھا ہوا جو تمھارا دماغ ٹھنڈا ہو گیا۔ میری اچھی بہن میں اپنی گزشتہ ہفتے کی غفلت پر نادم ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے آپ سب کو………

ڈائنا نے جملہ کاٹ دیا اور بولی بھیا بس بھی کرو یہ منافقت بھری ڈپلومیٹک باتیں۔ ہم سب تو تمھاری خیریت کے لیے فکر مند تھے۔ تمہیں بخیر و عافیت دیکھا تو ہمارے سارے دکھ درد دور ہو گئے۔ ڈائنا کی پلکیں نم تھیں۔

ہاروے بھی جذباتی ہو گیا۔ اس نے کہا  تم امی اور نانی کو بھی بتلا دو کہ یہ آخری بار تھا۔ میں یقین دلاتا ہوں آئندہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔

ڈائنا نے اپنے آپ کو سنبھالا اور نہایت بزرگانہ انداز میں بولی۔ کوئی بات نہیں …… ہم سمجھتے ہیں ….یہ عمر کا تقاضہ ہے ……عشق کا چکر ہی ایسا ہے کہ انسان سب کو بھول جاتا ہے ……. اپنے آپ کو بھی۔

ہاروے نے کہا چل بھاگ بدمعاش۔

ہاں ہاں جاتی ہوں اور ناشتہ لگواتی ہوں۔ پانچ منٹ کے اندر نہا دھوکر میز پر پہنچو!

جی سرکا ر ابھی آیا۔ا ہاروے حمام کی طرف بڑھا اور ڈائنا باورچی خانے کی جانب۔

………………………………….

 

دو روٹی کا سوال ہے بابا؟ ہاروے کی شوخ اور بلند آواز جیسے ہی گھر میں گونجی تو ہر کوئی خوشی سے جھوم اٹھا۔ ماں اور نانی اپنے کمرے سے نکلیں اور چوکیدار کے ساتھ کتا میز کی جانب چل پڑا۔ چوکیدار نے سر ہلا کر اور کتے نے دم ہلا کر سلامی دی۔ ہاروے نے دونوں کی خیریت دریافت کر کے انھیں اپنی ڈیوٹی پر روانہ کر دیا۔

اس بیچ امی اور نانی بھی پہنچ گئیں۔ بیٹے کیسے ہو؟ نیند آئی؟

ہاروے نے جواب دیا سچ کہوں بہت اچھی نیند آئی۔

نانی بولیں بیٹا تمھارے والد کی بھی یہی خوبی تھی۔ کھاتے وقت اور سوتے وقت وہ اپنی تمام دشواریاں بھلا دیتے تھے۔ ڈٹ کر کھاتے اور گہری نیند سوجاتے شاید اسی وجہ سے وہ مشکلات کا مقابلہ ہنستے ہنستے کر جاتے تھے۔ لیکن تمھاری امی ……. یہ بلاوجہ فکر مند رہتی ہے۔ جب دیکھو روتی ہی رہتی ہے۔

ہاروے کی ماں بولی امی کیا یہ سب ہاروے کو بتانا ضروری ہے؟

ہاں ہاں شاید یہ بتلانا ضروری ہے۔ سبھی لوگ تم دونوں کو ہنستا روتا جوڑا کہہ کر پکارتے تھے۔ لیکن افسوس کہ اب وہ ہنس مکھ چہرہ ہمارے درمیان نہیں رہا۔ ہمیشہ کے لیے ہمیں روتا چھوڑ گیا…. ہم سب کو….۔ خدا غارت کرے ان لوگوں کو جن لوگوں نے اسے ہم سے چھین لیا۔ نانی روہانسی ہو گئی۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہاروے غمگین ہو گیا تھا۔

ناشتے کے سا تھ ملازم اور اس کے آگے آگے ڈائنا کمرے میں داخل ہوئی تو ہاروے کو چوکیدار اور کتا یاد آ گیا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اُن میں سے ملازم کون تھا اور ڈائنا کون تھی؟

ڈائنا نے سارے لوگوں کو اداس و غمگین دیکھا تو بولی یہ کیا ماتم کدہ بنا رکھا ہے۔ میرا بھائی ویسے ہی عشق کے غم میں گھلا جا رہا ہے اور اوپر سے آپ لوگ آگ میں گھی ڈال رہے ہیں۔ چلیے جلدی جلدی ناشتہ کیجیے۔ آج کا یہ خاص اہتمام میں نے اپنی خصوصی نگرانی میں کیا ہے۔ سب سے پہلے تو میں نے خود خریداری کی اور پھر اپنے بھائی کا ہر پسندیدہ پکوان بنوایا۔

ہاروے بولا میری پیاری بہنا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سب چیزیں مجھے بہت پسندہیں لیکن ان سب کو میں ایک ہی وقت میں نہیں کھا سکتا۔ چلو ایک ہفتے کا تمھارا کام ہو گیا۔ اب ایسا کرو کہ ان پر ایکسپائری کی تاریخ لکھ کر سرد خانے میں رکھ دو اور یہ بتاؤ کہ آج کے لیے کیا حکم ہے؟

ڈائنا چہک کر بولی آج کے لیے حکم یہ ہے کہ ایک برتن سے سات چمچ کے بجائے ساتوں میں سے ایک ایک چمچ کھاؤ۔ یہ کہتے ہوئے اس نے کھانا نکالنے والابڑاسا چمچ اٹھا لیا۔ ایک ایک کا مطلب یہ چمچ ہے وہ نہیں کیا سمجھے؟

چل بدمعاش۔ کیا چھری کے بجائے چمچے سے ہلاک کرنے کا ارادہ ہے؟

بھائی بہن کی اس نوک جھونک کو سن کر ماں بیٹی ہنسنے لگیں۔ نانی نے کہا تم دونوں ہمیشہ سے ایسے ہی تھے اور میری دعا ہے کہ ایسے ہی رہو۔

ڈائنا نے لپک کر کہا نانی ایک بات بتائیں آپ ہر بات میں فلیش بیک میرا مطلب ماضی میں کیوں چلی جاتی ہیں؟

نانی بولیں بیٹی در اصل عمر کے اس حصے میں آگے بڑھنے کی سکت تو باقی نہیں رہی اس لیے پیچھے کھسکتی رہتی ہوں۔ ایسا کرنے کے لیے نہ محنت درکار ہے اور نہ توانائی۔

ڈائنا کا داؤں الٹا پڑا نانی کی دلیل نے سب کو سنجیدہ کر دیا۔ ہاروے بولا نہیں نانی ایسی بات نہیں آپ تو اب بھی ماشا اللہ صحتمند ہیں۔ ہم سب سے زیادہ چست اور چاک و چوبند۔

چھوڑو بیٹے ! ان دل بہلانے والی باتوں کو میں خوب سمجھتی ہوں۔

ناشتہ اپنے آخری مراحل میں تھا۔ سارے لوگ چائے یا کافی پی رہے تھے لیکن نانی اماں پھلوں کا رس نوش فرما رہی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ انھیں توانائی کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ڈائنا سوچ رہی تھی یہ بھی عمر کا تقاضہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۱۶

 

ناشتے سے فارغ ہونے پر ڈائنا نے پوچھا دفتر سے فون آیا تھا۔ تم وہاں جاؤ گے یا ضروری کاغذات کو دستخط کے لیے یہیں منگوا لیں۔

ہاں یہی اچھا ہے آج میرا کہیں جانے کا موڈ نہیں ہے اس لیے یہیں منگوائے لیتا ہوں۔ ہاروے دفتر میں فون لگا کر اپنے دستِ راست مائیکل چاؤ سے بات کرنے لگا۔

مائک نے اچانک غائب ہو جانے پر تشویش کا اظہار کیا اور آگے کا منصوبہ پوچھا۔

ہاروے نے بتایا کہ وہ آج کے دن گھر ہی سے کام کرنا چاہتا ہے اس لیے دستخط کے لیے ضروری کاغذات گھر بھیج دئیے جائیں۔

گھر بھجوا دوں یا لے کر خود آ جاؤں ! اگر اعتراض نہ ہو؟

ضرور ضرور بصد شوق۔ در اصل میں تمہیں زحمت نہیں دینا چاہتا تھا۔

زحمت! کیسی زحمت؟ یہ توسعادت ہے۔ کتنی دیر میں حاضر ہو جاؤں۔

جب مرضی ہو آ سکتے ہو۔ میں ناشتے سے فارغ ہوں۔ اور تمھارا انتظار کر رہا ہوں۔

مائیکل نے شکریہ ادا کر کے فون رکھ دیا۔

مائیکل نصف انگریز اور نصف چینی تھا۔ در اصل اس کی ماں یوروپین تھی اور باپ چینی۔ وہ خود بھی ملا جلا تھا شکل و شباہت والد کا اور رنگ و روغن والدہ کے۔ لب و لہجہ ایسا کہ جب انگریزی بولتا تو انگریز مات کھا جاتے اور جب چینی زبان بولتا تو چین کے لوگ شرما جاتے۔ مائک بلا کا ذہین اور نہایت دلکش شخصیت کا مالک تھا۔ دلیری اور ایمانداری اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کالج کی تعلیم ختم کرنے کے بعد ہی وہ ولیم کے پاس ملازم ہو گیا۔ جب ہاروے دفتر آنے جانے لگا ولیم نے مائک کو ہاروے کے حوالے کر دیا۔

ان دونوں میں  بلا کی انسیت اور محبت تھی۔ دفتر کے اندر وہ آقا اور ملازم ضرور تھے لیکن دفتر سے باہر یار دلدار تھے۔ وہ ہم عمر تھے اور ان کی دلچسپیاں یکساں تھیں۔ فٹ بال اور موسیقی کا شوق مشترک تھا۔ بازاری سیاست سے دونوں کو خداواسطے کا بیر تھا حالانکہ ایک سیاستداں کا بیٹا تو دوسرا اس کادستِ راست تھا۔

ہاروے کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا جب اس نے مائک کے انتظار میں وقت گذاری کے لیے اخبار دیکھنا شروع کیا۔ سارے اخبارات پر اس کی ذات چھائی ہوئی تھی۔ اس کے عشق کی نت نئی داستانوں سے اخبار اٹے پڑے تھے۔ مونیکا کے ساتھ اس کی طرح طرح کی تصاویر ہر اخبار کی زینت بنی ہوئی تھیں۔ کسی نے مونیکا کی مختلف تصاویر کو اس کی تصاویر کے ساتھ جوڑ کر اخبار والوں میں تقسیم کر دیا اور سب نے بلا تحقیق انھیں شائع کر دیا تھا۔

عام لوگوں کا مزاج تو ایسا تھا کہ وہ الفاظ سے زیادہ تصویر پر ایمان لاتے تھے۔ ان کو یہ جاننے کی ضرورت یا فرصت نہیں  تھی کہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں ہے۔ ہاروے خود اپنے بارے میں ایسی باتیں پڑھ رہا تھا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔ اب اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ ڈائنا کا دماغ خراب کرنے والا کون ہے؟ اس کے اہل خانہ بھی اس کذب و افتراء پر یقین کرنے پر مجبور تھے۔

اس کے علاوہ احتجاج کی تصاویر تھیں اور اس پر من گھڑت الزامات کی بھرمار مع زہر افشانی موجود تھے۔ مسلمانوں پر مظالم کی درد بھری داستانیں اور ان کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جانا اس کے سامنے بکھرا پڑا تھا۔ ہاروے نے اخبارات کو ایک طرف رکھ کر ٹیلی ویژن کا ریموٹ اٹھایا اور اسے واپس رکھ دیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہاں بھی یہی سب ہو گا۔ اس لیے کہ بیشتر بڑے اخبار والے کسی نہ کسی ٹی وی چینل کے مالک تھے۔

مائیکل فائلوں کا بیگ اٹھائے کمرے میں داخل ہوا تو دونوں دوست بغلگیر ہو گئے۔ خیریت دریافت کرنے کے ساتھ ہی مائک نے صندوق کو کھولا اور اس میں سے ایک لال فائل نکال کر ہاروے کے سامنے رکھ دی۔ ہاروے نے بغیر پڑھے دستخط کرنا شروع کر دیا۔

مائیکل بولا بھئی ایک بار پڑھ تولو۔

ہاروے نے جواب دیا مجھے یقین ہے کہ ان کاغذات کو تم نے دیکھ لیا ہو گا اور جب تم نے دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے دیکھ لیا۔ چند منٹوں کے اندر یہ کام ختم ہو گیا۔

مائیکل نے چوکیدار کو بلا کر بیگ تھماتے ہوئے کہا اسے گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کو دے دو اور کہو فوراً دفتر جا کر یہ بیگ جنرل منیجر کے حوالے کر دے۔ جی سرکار کہہ کر چوکیدار رفو چکر ہو گیا۔

اب مائیکل بولا تم سوچو گے خیریت تک نہیں پوچھی اور دفتر کھول کر بیٹھ گیا۔

جی نہیں۔ میں ایسا نہیں سوچوں گا اس لیے کہ کسی بھی چیز کے جلد بند ہونے کے لیے اس کا جلد کھلنا ضروری ہے۔ تم نے اچھا کیا جو جلدی سے وہ کام تمام کر دیا۔

میں اپنے ساتھ ایک زرد فائل بھی لایا ہوں جس میں کم ضروری کاغذات ہیں۔ تم انھیں فرصت کے اوقات میں دیکھ سکتے ہو۔

ہاں سمجھ گیا یعنی تمھارے چلے جانے کے بعد؟

جی ہاں مائک نے تائید کی اور کہا اچھا اب یہ بتاؤ کہ گزشتہ ہفتے تم کہاں کھو گئے تھے؟

ہاروے نے ہنس کر کہا اوہو تو کیا تم نے آج کا اخبار نہیں دیکھا اور کل کے احتجاج میں شرکت نہیں کی؟میں واشنگٹن میں بیٹھا مسلم کلچرل سینٹر پر چھاپہ ڈلوا رہا تھا اور مونیکا او…مائی ڈارلنگ کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہا تھا۔

بہت خوب! لیکن سچی بات تو یہ ہے دوست کہ میں ان افسانوں پر ذرہ برابر بھی یقین نہیں کرتا۔ یہ سراسر سیاست ہے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ اس تیسرے درجے کی سیاست سے مجھے نفرت ہے۔ سیاست سے میری بیزاری کی بنیادی وجہ یہی کذب بیانی اور بہتان طرازی ہے۔ خیر ہنسی مذاق چھوڑو اور مجھے بتاؤ کہ آخر ہوا کیا تھا مجھے یقین ہے کہ تم کسی بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ تم اس طرح قطع تعلق کر لیتے۔

تمھارے سوال کا جواب ہاں بھی ہے اور نا بھی۔ ویسے تو میں سنیٹر جان ڈیو کی محل نما کوٹھی میں تعیش کی زندگی گذار رہا تھا۔ بظاہر مجھے وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن ……..

جی ہاں میں اسی لیکن کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ اگر تم مناسب سمجھو……

اس لیکن کے پیچھے ایک طویل داستان ہے جس کا ذکر ان اخبارات میں نہیں ہے۔

مائیکل بڑے غور سے اپنے دوست کی داستانِ ہوشربا سن رہا تھا۔ اس بیچ نوکر چائے، کافی اور بسکٹ لا کر رکھ گیا لیکن اس کی جانب کسی نے دیکھا تک نہیں۔ جب ہاروے اپنی بات کہہ چکا تو مائیکل کچھ دیر خلا ء میں دیکھتا رہا پھر کیتلی سے کافی پیالی میں انڈیلنے لگا۔ کافی کی چسکیوں کے دوران مائیکل نے سگریٹ جلالی اور دھوئیں کے مرغولے چھوڑتے ہوئے ان واقعات کے تانے بانے ایک دوسرے سے جوڑنے لگا۔ ہاروے اپنے پاس میں پڑے ہوئے ریموٹ کنٹرول کو اٹھا کر مختلف ٹی وی چینلس کی سیر پر نکل گیا۔ اتفاق سے ایک چینل پر اسے کیتھی جانسن کا چہرہ نظر آ گیا اور ہاروے کی انگلیاں منجمد ہو گئیں۔ میک اپ سے سجی سنوری کیتھی بہت مختلف لگ رہی تھی۔ وہ گزشتہ دن کے احتجاج کی تفصیل پیش کر رہی تھی۔

ہاروے نے ٹی وی کی آواز کو بند کر دیا اور بولا میں نے تمہیں واشنگٹن میں رونما ہونے والے واقعات تو بتلا دئیے لیکن کل کولاریڈو ہوائی اڈے پر جو کچھ ہوا وہ نہیں بتایا۔ یہ سن کر کہیں اور کھویا ہوا مائیکل کمرے میں لوٹ آیا۔ ہاروے پھر ایک بار اپنی آپ بیتی سنانے لگا۔ رات کی بات سننے کے بعد مائیکل نے پوچھا اچھا تو یہی ہے وہ کیتھی۔

جی ہاں یہ بہت نیک صفت اور نہایت رحمدل خاتون ہے۔

مونیکا سے بھی اچھی مائیکل نے مذاق کیا۔

اتفاق سے اسی وقت ڈائنا کمرے میں آ گئی اور اٹھلا کر بولی ان دوستوں میں کیا کھسر پسر چل رہی ہے میں بھی تو سنوں۔ کون ہے یہ کیتھی اور وہ مونیکا؟

ہاروے بولا اوہو سب سے بڑی جاسوس تو ہمارے اپنے گھر میں موجود ہے۔ اچھا تو دیکھو یہ جو محترمہ ٹی وی پر نظر آ رہی ہیں وہ کیتھی ہے اور وہ جس کے بارے میں بتلا رہی ہیں وہ مونیکا ہے بس قصہ ختم۔ مل گیا تمہیں اپنے دونوں سوالات کا جواب؟

ڈائنا بولی مل گیا، لیکن اب یہ بتائیں حضور والا کہ دوپہر میں کیا کھانا پسند کریں گے؟

ارے بھئی ابھی ناشتہ تو ہضم ہوا نہیں اور تم کھانے کا بکھان لے کر بیٹھ گئیں؟ اتنی جلدی ہم کھانے کا آرڈر نہیں دے سکتے؟

ڈائنا نے کہا بھائی یہ آپ کا پسندیدہ مطعم تو ہے نہیں کہ آپ نے آرڈر دیا اور چند منٹوں میں کھانا پروس دیا گیا۔ آپ ابھی بتائیں گے تو نوکر بازار جائے گا۔ سودہ سلف لائے گا۔ اسے دھوئے گا، کاٹے گا بنائے گا اور پھر جا کر کھاناپروسا جائے گا۔ ان سب کاموں میں وقت تو لگے گا ہی تب تک آپ کا ناشتہ ہضم ہو جائے گا اور بھوک بھی لگ جائے گی۔

وہ تو ٹھیک ہے۔ نوکر تو بیچارہ اتنے سارے کام کرے گا لیکن اس دوران عزت مآب ڈائنا کنگسلے کیا کریں گی؟ یہ بھی تو پتہ چلے۔

ہم سب سے پہلے تو فہرست بنائیں گے۔ اشیائے خوردنی کی جانچ پڑتال کریں گے تاکہ معیار مطلوب کے مطابق ہونے کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے بعد ہم سارے پکوان اپنی نگرانی میں بنوائیں گے۔ سجائیں گے اور کھانے کی میز پر آپ کا انتظار کریں گے۔ اس کے علاوہ ایک کام اور بھی ہے جو ہم آپ کو نہیں بتائیں گے۔

ہاروے بولا وہ کام مجھے پتہ ہے اس لیے بتانے کی ضرورت نہیں

اچھا آپ کو کیسے پتہ جبکہ ہم نے ابھی بتلایا ہی نہیں۔

ڈائنا میں تیری ساری شرارتوں سے واقف ہوں۔

اچھا اگر آپ نے جان لیا تو ہم وہ نہیں کریں گے لیکن پہلے بتائیے کہ وہ کیا کام ہے؟

وہی جاسوسی جس سے لاکھ انکار کے باوجود تم باز نہیں آؤ گی میں جانتا ہوں۔ خیر اب تم جاؤ اور اپنے کاموں میں لگ جاؤ اور ہمیں اپنا کام کرنے دو کیا سمجھیں؟

لیکن حضور آپ نے اپنی پسند تو بتائی نہیں؟ اب ہم کریں تو کیا کریں؟

دیکھو آج یہ چینی دوست میرے ساتھ کھانا کھائے گا اس لیے تمہیں جو بھی چینی پکوان ٹھیک سے بنانا آتا ہے بنوا لو لیکن ایک بات کا خیال رکھنا یہ چینی کھانا بھی انگریزی میں کھاتا ہے۔

مائیکل جو ان دونوں کی نوک جھونک کا مزہ لے رہا تھا بولا شکریہ جناب یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے کہ آپ میری پسند بہت خوب جانتے ہیں۔

ڈائنا کا کام ہو گیا تھا وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ ہاروے کے دوستوں میں اگر کوئی ڈائنا کو اچھا لگتا تھا تو وہ مائیکل چاؤ تھا۔ نہایت مہذب اور پر وقار۔ مائیکل مزاجاً بہت ہی کم گو تھا مگر جو کچھ بھی بولتا بہت ہی ناپ تول کر بولتا تھا۔ ڈائنا کی مانند اول فول بکنے کا وہ عادی نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس نے کبھی ڈائنا کو ٹوکنے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ وہ اس کی ساری باتیں بلا روک ٹوک نہایت غور سے سنتا اور اس کا بہت ہی مختصر جواب کم سے کم الفاظ میں دیتا۔ مائیکل نے کبھی بھی ڈائنا سے اختلاف نہیں کیا تھا۔ در اصل اس کا اندازِ گفتگو اس قدر دلنشین تھا کہ اختلاف نہ محسوس ہوتا تھا اور نہ گراں گزرتا تھا۔

ڈائنا کے خوابوں کا شہزادہ اسی طرح کا نوجوان ہو سکتا تھا جو اس کی سنے اور بلا چوں چرا تابعداری کرے۔ وہ اختلاف و دخل اندازی بالکل بھی پسند نہیں کرتی تھی اور چونکہ مائیکل ایسا ہی تھا اس لیے وہ اسے پسند کرتی تھی۔ مائیکل جب بھی ہاروے سے ملنے آتا تو ڈائنا کی باچھیں کھل جاتیں۔ وہ اس کا خاص خیال رکھتی اور مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی۔

ڈائنا کے چلے جانے کے بعد مائیکل بولا مجھے لگتا ہے کہ یہ معاملہ خاصہ الجھ چکا ہے اور اس بارے میں بہت ہی سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کے بعد حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

لیکن یہ ساری باتیں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں اور کیسے کریں؟

مائیکل نے تجویز رکھی ایسا کرتے ہیں کہ کیتھی کو بلاتے ہیں۔ اس سے پتہ چل جائے گا کہ اندر ہی اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ جب مطلع صاف ہو جائے گا تو منصوبہ بندی آسان ہو جائے گی۔

یہ مناسب ہے لیکن کیتھی سے بات کرنے میں دو خطرات ہیں۔ ایک تو وہ کمبخت صحافی ہے اور دوسرے مخبر مجھے ڈر ہے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔

سو تو ہے لیکن اسی کے ساتھ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ صاف گو عورت ہے۔ وہ اپنی شناخت تم سے چھپا بھی سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ میرا خیال اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی حکمت عملی اس پر ظاہر کرنے کے بجائے صرف اس سے معلومات حاصل کرنے پر اکتفا کریں۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔

ہاروے نے تائید کی ویسے بھی باہر کی دنیا کے بارے میں جاننے کا وہی بہترین ذریعہ ہے۔ اس لئے کیتھی ہماری مجبوری ہے ورنہ کل کوئی نیا احتجاج شروع ہو جائے یا اخبارات کوئی اور شوشہ چھوڑ دیں توہم محض ایک تماشائی بنے رہ جائیں گے۔ ہمارے پاس سب سے قیمتی سرمایہ وقت ہے اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔

جی ہاں ہاروے چونکہ ہم کیتھی کی حقیقت جانتے ہیں اس لئے احتیاط کر سکتے ہیں کسی اور کے ساتھ تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ویسے یہ لڑکی مزاجاً کیسی ہے سیدھی سادی یا ناز نخرے والی؟

بھئی بڑی دلچسپی لے رہو تم کیتھی میں !کہیں شادی وادی کا تو ارادہ نہیں ہے؟

ارے بھئی میں ہاروے کنگسلے تو ہوں نہیں جو مونیکا کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال دوں اور اسی کے ساتھ دونوں دوستوں کا مشترکہ قہقہہ ہوا میں بلند ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

۱۷

 

ہاروے نے کیتھی کو فون لگایا تو وائس میل کھل گیا جس میں سے کیتھی کی مشینی آواز نشر ہونے لگی۔ کیتھی جانسن کے میل بکس میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ فی الحال میں مصروف ہوں۔ بیپ کے بعد آپ اپنا نام اور کام ریکارڈ کروا دیں۔ میں پہلی فرصت میں رابطہ قائم کروں گی۔ زحمت کے لیے معذرت۔ شکریہ۔ ہاروے اپنا پیغام ریکارڈ کروا کر جواب کا انتظار کرنے لگا۔

مائیکل بولا فی الحال ہمارے سامنے دو محاذ ہیں ایک مونیکا اور دوسرے مسلم ثقافتی مرکز میرا مطلب ہے کلچرل سینٹر۔ کیوں نہ ہم ان لوگوں سے رابطہ قائم کریں۔

ہاروے نے کہا جی ہاں ان کا ایک وفد مجھ سے ملاقات کرنے کے لیے آیا تھا بلکہ وہ لوگ دو مرتبہ آئے تھے۔ ایک بار تو دعوت دینے اور دوسری مرتبہ تعزیت کرنے بڑے اچھے لوگ ہیں بیچارے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر صاحب تو میرے دادا جان تک سے واقف ہیں۔

کیا تمھارے پاس ان کا نام اور فون نمبر وغیرہ ہے؟

فون نمبر تو نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا نام ممکن ہے کچھ دیر سوچنے پر یاد آ جائے۔ ویسے اس وفد کے ایک شخص کا نام مجھے اچھی طرح یاد ہے احمد رمزی۔

احمد رمزی کو تم کیسے جانتے ہو؟

ارے بھئی اسکول کے زمانے میں وہ باسکٹ بال کا کھلاڑی تھا اور بین المدارس مقابلوں کے دوران اس سے ملاقات ہو جاتی تھی۔

مائک کے تجسس میں اضافہ ہو رہا تھا اس نے پھر سوال کیا کیسا آدمی ہے وہ؟

غریب، نیک اور سیدھا سادہ کیوں؟

جن لوگوں کو پولس نے القاعدہ کے نام پر گرفتار کیا ہے ان میں وہ بھی شامل ہے۔

رمزی؟ ؟؟ہاروے نے حیرت سے پوچھا۔

جی ہاں رمزی۔

نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ وہ میرے باپ کا قاتل ہر گز نہیں ہو سکتا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ گیس اسٹیشن پر کام کرنے والا ایک مسکین نوجوان میرے باپ کو کیسے قتل کر سکتا ہے؟

پٹرول پمپ صحیح کہا تم نے اس کے بارے میں یہی لکھا تھا۔ مائیکل نے تائید کی۔ اس کی بابت انکشاف کیا گیا کہ وہ پولس کو دھوکہ دینے کے لیے پمپ پر ملازمت کرتا تھا تاکہ آنے جانے والوں کی نگرانی کر سکے۔ در اصل القاعدہ سے رابطے کی کڑی اسی کو بتایا گیا تھا۔ القاعدہ کے لوگ اس کے اسٹیشن پٹرول لینے کے بہانے آتے تھے اور ساری معلومات لے جاتے تھے۔

یہ بکواس ہے۔ سچ تو یہ ہے میرے والد اسی پٹرول پمپ سے گیس لیا کرتے تھے۔

لیکن ہفتے بھر سے اخبارات اور ٹی وی پر وہی خبر چھائی رہی جو میں کہہ رہا ہوں۔

لیکن اخبار تو میں بھی دیکھتا تھا۔

مائیکل نے کہا ارے بھئی واشنگٹن ایڈیشن میں اس خبر کی بھلا کیا اہمیت؟ وہاں تو بس مونیکا اور جان ڈیو کی خبریں چھپتی رہی ہوں گی۔ جس طرح ہم لوگ کل سے پہلے تک مونیکا سے ناواقف تھے اسی طرح تم یہاں کے ہنگامے سے بے خبر تھے۔

یار اسی لیے میں اخبار نہیں پڑھتا۔ اس کو پڑھنے کے بعد بھی ہم بہت کم جانتے ہیں اور جو کچھ جانتے ہیں اس میں بھی سچ کی مقدار نہیں کے برابر ہوتی ہے۔ بین الاقوامی خبروں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ معیشت کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اس کے علاوہ مقامی جرائم کی خبریں اور ہوتا ہی کیا ہے؟ نہ کولاریڈو کا آدمی واشنگٹن کے بارے میں جانتا ہے کہ وہاں کے لوگ کس مصیبت میں گرفتار ہیں اور نہ واشنگٹن والوں کو پتہ چلتا ہے کا دیگر علاقوں میں کیا ہو رہا ہے؟

لگتا ہے اخبارات حقائق بتا نے کے لیے نہیں بلکہ چھپانے کے لیے شائع کئے جاتے ہیں۔

مسلم کلچرل سینٹر کے اس ڈاکٹر کا کارڈ اپنے دفتر میں ہو گا اس پران کا فون نمبر مل جائے گا۔

مائیکل نے کہا اس کی ضرورت نہیں میں فون انکوائری سے سینٹر کا نمبر حاصل کر کے انھیں فون کیے دیتا ہوں اس لیے کہ ہمارے دفتر والے اس کارڈ کو تلاش کرنے میں زیادہ وقت لگائیں گے اور جو چہ مے گوئیاں شروع ہو جائیں گی وہ الگ۔

ہاروے نے تائید کی ایک منٹ میں مسلم سینٹرکا نمبر مل گیا۔ مائیکل نے فون لگا کر پوچھا آپ کے یہاں کوئی ڈاکٹر ہیں؟ میں ان کا نام بھول گیا ہوں۔ مجھے ان کا نمبر چاہئے۔

ڈاکٹر صاحب؟ یہاں تو کئی ڈاکٹر س ہیں بغیر نام کے ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔

مائک بولا ا رے بھئی وہ عام ڈاکٹر نہیں ہیں بلکہ آپ کی انتظامیہ کے رکن ہیں۔

مائیکل کے اصرار کا جواب تھا۔ جی اگر ایسا ہے تب بھی آپ کو نام یا کوئی اور تفصیل بتانی ہو گی اس لیے کہ انتظامیہ کے ۱۲ ارکان میں سے ۷ ڈاکٹر ہیں۔ اور کوئی خدمت ……

میں کچھ دیر بعد پھر فون کرتا ہوں۔ زحمت کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔

کوئی بات نہیں۔ فون بند ہو گیا۔

ہاروے نے ہنستے ہوئے کہا دیکھا تم نے جلدی بازی میں یہی ہوتا ہے ڈھاک کے تین پات۔ میری مانو تو دفتر سے کارڈ نکلوا لو۔

مائیکل نے اپنی خجالت مٹاتے ہوئے کہا یار اتنے سارے ڈاکٹر س وہاں کیا کرتے ہیں یہ کوئی کلچرل سینٹر ہے یا ہسپتال؟ اور دونوں دوست ہنسنے لگے۔

ہاروے کے فون کی گھنٹی بجی۔ بولو کیتھی کیسی ہو ہاروے نے کہا۔

میں تمھارا فون لوٹا رہی ہوں۔

جی شکریہ در اصل میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔

کیتھی بولی لیکن میں تم سے ملاقات کرنا نہیں چاہتی۔

کیوں؟ کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں۔ خیر ہوا کیا؟

کیتھی بگڑ کر بولی وہ کس ڈائن کو تم نے فون پر بٹھا رکھا ہے۔ میں نے صبح میں کئی مرتبہ رابطہ کیا پہلے تو اس نے کہا تم سو رہے ہو اور پھر دوسری مرتبہ بری طرح ڈانٹ دیا۔

ہاروے سمجھ گیا یہ ڈائنا کے کرتوت ہیں۔ وہ بولا میری چھوٹی بہن ڈائنا….. مزاج کی تھوڑی سی تیز ہے۔ میں اس کی جانب سے معذرت چاہتا ہوں۔ اب تو خوش ہو۔

فی الحال میں مصروف ہوں ایک گھنٹے بعد ملاقات ہو سکتی ہے۔ کہاں ملنا پسند کرو گے۔

اگر میرے گھر آ سکو اچھا ہے ورنہ جگہ کا انتخاب تمہیں خود کرنا ہو گا۔

کیتھی نے کہا ٹھیک ہے میں ۴۵ منٹ بعد فون کرتی ہوں۔

جی بہت شکریہ۔ فون بند ہو گیا۔

ہاروے بولا ایک گھنٹے بعد۔

مائیکل نے کہا بہت خوب۔

مائیکل جو دوسرے فون پر ہاروے کی سکریٹری سے مسلم سنیٹرکے ارکانِ وفد کا کارڈ تلاش کروا رہا تھا بولا تم نے کیتھی کو یہاں گھر پر تو بلا لیا لیکن کیا یہ اس کے لیے مناسب جگہ ہے؟

کیوں گھر پر کیا مسئلہ ہے؟

کوئی خاص نہیں پھر بھی۔

ہاروے نے تائید کی لگتا ہے تمھاری بات درست ہے اس لیے کہ یہاں بھی ایک مخبر موجود ہے ڈائنا۔ وہ اپنی امی اور نانی کی جاسوس ہے۔ نیز وہ بھی صحافیوں کی مانند بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہے۔ اس لیے معاملہ بگڑ سکتا ہے۔

ایک اور خطرہ ہے۔ اگر ہماری بات چیت کے دوران کھانا تیار ہو گیا تو بات بند کروا کر پہلے کھانا کھلائے گی اور اس کا ایسا کرنا شاید کیتھی کو ناگوار گذرے۔

یار تم بہت سوچنے لگے ہو۔ ویسے میں بھی کیتھی کو ڈائنا سے ملانا نہیں چاہتا وہ اسے کریدنے لگے گی اور مبادا میرے بارے میں الٹی سیدھی باتیں ذرائع ابلاغ میں آنے لگیں گی۔

ویسے ایک بات بتاؤں اگر تمھارا یہ خیال ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتیں تو یہ غلط فہمی ہے۔ گزشتہ ہفتے کیتھی اپنے چینل سے ڈائنا کی ایک ملاقات نشر کروا چکی ہے۔

ہاروے نے چونک کر کہا واقعی؟ پھر تووہ خطرناک لڑکی معلوم ہوتی ہے !

اس دنیا میں بے ضرر لوگ کسی کام کے نہیں ہوتے لیکن وہ تیز بہت ہے۔

ٹھیک ہے تو ہم لوگ کسی ریسٹورنٹ میں ملاقات کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو اگر ہم نے وہاں کھانا کھا لیا تو ڈائنا بڑی بے رحمی کے ساتھ ہمیں قتل کر دے گی اور کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔

اچھا تو کیوں نہ کسی کافی ہاوس میں ملا جائے لیکن وہ سب تو شام میں کھلتے ہیں۔

سب نہیں مثلاً ۷×۲۴۔

جی ہاں وہ مناسب ہے۔

ہاروے بولا اچھا تو ہم کیتھی کے فون کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ لو فون آ گیا۔

ہیلو کیتھی تم تو وقت کی بڑی پابند نکلیں ٹھیک ۴۵ منٹ بعد !

جی ہاں اہم لوگوں کے ساتھ وقت کی پابندی کرنی پڑتی ہے اور آج کی تاریخ میں کولاریڈو کے اندر تم سے زیادہ کوئی اور اہم نہیں ہے۔

شکریہ کیتھی یہ تمھاری ذرہ نوازی ہے ورنہ بندہ کس قابل ہے۔ خیر میرا خیال ہے ملاقات کے لیے گھر سے بہتر کافی ہاوس ہے تم کیا سوچتی ہو؟

کوئی دقت نہیں بس شور شرابہ نہ ہو اس لیے کہ اس سے بات چیت میں خلل پڑے گا۔

یہ بھی درست ہے۔ تو ایسا کرتے ہیں کہ ۲۴×۷ کے عقب میں واقع بار میں ملتے ہیں وہ اس وقت کھلا بھی ہو گا اور بھیڑ بھاڑ بھی نہیں ہو گی۔

کیتھی نے تائید کی یہ بہتر ہے۔

میں اپنے لیے وہاں ایک میز مختص کرائے لیتا ہوں۔

کیتھی کا جواب مختصر تھا شکریہ۔

میرے ساتھ ایک دوست مائیکل چاؤ کے ہونے پر تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔

کیتھی بولی وہ آدھا چینی اور آدھا انگریز۔

جی ہاں وہی تم اسے جانتی ہو؟

صرف چہرے سے۔

اچھا تو آج بالمشافہ تعارف بھی ہو جائے گا

کیتھی بولی جی ہاں میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اچھا تو ملتے ہیں دس منٹ بعد۔ ٹھیک ہے۔

بالکل ٹھیک۔ کیتھی بولی اور فون بند ہو گیا۔

یار یہ تو تمہیں بھی جانتی ہے ہاروے نے کہا اور دونوں دوست گاڑی کی جانب بڑھے۔

مائیکل نے جواب دیا تو کیا آنجناب یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ صرف انھیں کو جانتے ہیں؟

نہیں بھائی ایسی بات نہیں۔ میں اسے کب جانتا تھا کل ہی تواس شعلہ بدن سے ملاقات ہوئی۔

جی ہاں لیکن اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ وہ تمہیں نہیں جانتی تھی۔ کولاریڈو میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جنہیں تم نہیں جانتے مگر وہ تمہیں جانتے ہیں۔ اس میں حیرت کیا بات ہے؟

ہاروے بولا اب باتیں بنانا چھوڑ و اور یہ بتاؤ کہ تم اسے کیسے جانتے ہو؟

میں نے کب کہا کہ میں اسے جانتا ہوں؟

ابھی ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ ………

جی نہیں میں نے صرف اس بات کی تائید کی تھی وہ مجھے جانتی اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں بھی اسے جانتا ہوں۔ ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔

میں سمجھتا ہوں اب تم بھی ڈائنا کی طرح بحث کرنے لگے ہو۔ الفاظ پکڑ لیتے ہو۔

جی نہیں ایسی بات نہیں وہ دیکھو بار سامنے ہے اس لیے گاڑی پارک کر دو مائیکل نے کہا اور دونوں دوست اپنی مخصوص میز پر ابھی بیٹھ ہی رہے تھے کہ عقب سے آواز آئی۔

ہیلو ایوری باڈی۔ میرا نام کیتھی ہے۔ کیتھی ولسن۔

مائیکل بولا ہم اپنے معزز مہمان کا استقبال کرتے ہیں۔

شکریہ بہت شکریہ۔

ان تینوں کے درمیان خیریت و عافیت کا سلسلہ چل ہی رہا تھا بیرا آ گیا۔

ہاروے نے کہا اب یہ نئی مصیبت ہے کہ یہاں بیٹھنے کے لیے پینا ضروری ہے اور بات چیت کے لیے پینے سے بچنا لازمی ہے ایسے میں بھلا انسان کیا کرے؟

مائیکل بولا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ہم اس سے جو کچھ منگوائیں گے وہ لا کر ہمارے سامنے رکھ دے گا۔ اب ہم اسے نوش فرمائیں یا نہیں یہ ہماری مرضی پر منحصر ہے۔ اس بیچارے ویٹر کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم اس کا بل ادا کرتے ہوئے اچھی سی ٹپ دے دیں گے۔ اس کے لیے یہ کافی سے زیادہ ہے۔

کیتھی نے مسکرا کر ہاروے سے کہا آپ کا دوست ذہین بھی ہے اور سمجھدار بھی۔

مائیکل بولا ذرہ نوازی کا شکریہ لیکن کیا ذہین اور سمجھدار دو مختلف صفات ہیں۔

جی ہاں بالکل کیتھی چہک کر بولی۔ ذہانت تو خدا داد صلاحیت ہے جو اکثر لوگوں میں کم و بیش پائی جاتی ہے لیکن جو لوگ اس کا صحیح استعمال کرتے ہیں وہ سمجھدار ہوتے ہیں۔

اور جو نہیں کرتے؟ مائیکل نے لپک کر پوچھا

وہ بے وقوف کہلاتے ہیں بے وقوف کیا سمجھے؟

مائیکل نے سوال کیا اچھا تو آپ نے مجھے بے وقوف کہا۔

جی نہیں جناب عالی میں ایسی گستاخی کیسے کر سکتی ہوں۔ میں نے تو پہلے ہی آپ کے سمجھدار ہونے کا اعتراف کر لیا تھا۔

ہاروے بیزار ہو کر بولا اب چھوڑو یہ بے وقوفی کا جھگڑا اور بیچارے ویٹر کا میرا مطلب ہے منتظر کا انتظار ختم کرو۔

جب پینا ہی نہیں ہے تو سوچنا کیا؟ مائیکل نے بیرے کی جانب دیکھ کر کہاسنو جو شراب تمہیں پسند ہے اس کے تین پیگ لے آؤ، اس لیے کہ بالآخر پینا تو تم کو ہی ہے اور ساتھ میں پیپسی، برف اور کچھ نمکین چٹپٹا۔

کیتھی بولی آپ نے انتخاب اسی پر چھوڑ دیا۔ بیروں کو ہمیشہ مہنگی چیز پسند ہوتی ہے۔

مائیکل بولا محترمہ کیتھی مہنگی چیز کسے پسند نہیں ہوتی؟ یہ اور بات ہے اس کا حصول کی سکت اکثر لوگوں میں نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ انگور کو چکھے بغیر ہی کھٹا کہہ دیتے ہیں۔

کیتھی بولی لیکن کیا مہنگے انگور کا میٹھا ہونا ور سستے انگور کا کھٹا ہونا لازم ہے؟ میرے خیال میں تو مہنگے اور سستے دونوں طرح کے انگور کھٹے میٹھے ہوتے ہیں۔

ہاروے نے پھر ٹوکا آپ لوگ پیئے بنا ہی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ممکن ہے یہ ماحول کا اثر ہو لیکن افسوس کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔

دونوں نے یک زبان ہو کر تائید کی ویٹر شراب اور پیپسی رکھ کر چلا گیا۔

کیتھی نے کہا کیا میں اپنی یاد فرمائی کی وجہ جان سکتی ہوں؟

ہاروے بولا شاید تم جانتے بوجھتے یہ سوال کر رہی ہو پھر بھی میں بتا دوں یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقصد ہماری سمجھ سے باہر ہے ؛ کل تک تو تم بھی وجوہات سے نا واقف تھیں لیکن اگر آج کوئی اہم سراغ ہاتھ لگا ہو تو ہمیں بتاؤ۔

کل رات سے اس خبر کا مسلسل تعاقب کے باوجود ہنوز میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

کیا مطلب؟کوئی خاص وجہ؟ ہاروے نے سوال کیا؟

کیتھی بولی در اصل کچھ کڑیاں ایسی ہیں جو آپس میں مل نہیں پا رہی ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مونیکا کی حقیقت اور اس سے آپ کے تعلق کی نوعیت کا مجھے علم ہو۔ مائیکل نے میز کے نیچے سے ہاروے کا پیر دبایا۔ ہاروے سمجھ گیا کیتھی نے جاسوسی والی فائل کھول دی ہے۔

اس موضوع پر اخبارات میں اتنا کچھ چھپ چکا ہے اپھر بھی تم یہ سوال کر رہی ہو؟

جی ہاں کیتھی بولی میں خود اس تالاب کی مچھلی ہوں اس لیے مجھے پتہ ہے کہ اس میں کس قدر سچائی ہے اور کتنا جھوٹ ملا ہوا ہے۔

ہاروے نے پوچھا تمھارے خیال میں اس کے اندر کتنی سچائی ہے؟

میرے خیال میں یہ صد فیصد جھوٹ ہے۔

یہ تم مجھے خوش کرنے کے لیے کہہ رہی ہو یا مجھ سے سچ اگلوانے کے لیے۔

کیتھی بولی دیکھو مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں کیمرے کے سامنے جھوٹ بھی بولتی ہوں۔ ایسا کرنا میری مجبوری ہے جسے ہم پیشہ ورانہ ضرورت کہتے ہیں۔

ہاروے بولا بھئی واہ۔ اپنے جھوٹ کو حق بجانب ٹھہرانے کی غرض سے کیا زبردست اصطلاح ایجاد کر رکھی ہے آپ لوگوں ’’پیشہ ورانہ ضرورت‘‘۔

مائیکل نے کہا لیکن غالباً تمھارے چینل کا سلوگن ہے ’’سچ دکھاتے ہیں ہم‘‘

کیتھی بولی مائیکل میرے خیال میں اس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم سچ بالکل نہیں دکھاتے۔ وہ سچ جو ہمارے لیے مفید ہو، یا وہ سچ جو بے ضرر ہو بلکہ وہ سچ بھی جو دشمن کے لیے نقصان دہ ہو اسے بھی ہم ضرور بضرور نشر کرتے ہیں۔

لیکن مائیکل نے جملہ کاٹا۔

کیتھی نے بھی اسے کہنے نہیں دیا اور بولی نہیں دکھاتے بس…….۔

مائیکل نے سوال کیا اچھا تو یہ دشمن کون ہے؟ ہمارا دشمن سے کیا مراد ہے؟

کیتھی بولی دشمن، دشمن تم نہیں جانتے؟ ملک و قوم کا دشمن۔

مائیکل نے کہا لیکن تم نے جو ابھی ابھی کہا تھا کہ تم صرف کیمرے کے سامنے جھوٹ بولتی ہو کیا وہ بھی جھوٹ تھا؟

کیتھی بولی مائیکل تم واقعی بے حد ذہین آدمی ہو۔ بے خیالی میں ایک غلط جملہ میرے منھ سے نکل گیا جسے تم نے پکڑ لیا۔ دشمن یعنی ہمارے نظام کے دشمن، ہمارے اربابِ اقتدار کے دشمن، ہمارے استعمار کے دشمن۔ ان سرمایہ داروں کے دشمن جو ہمیں اشتہار دیتے ہیں۔ جن کے مفاد کی حفاظت کے لیے یہ گورکھ دھندہ ایجاد کیا گیا ہے۔ یہ ڈھونگ یہ چینل چلائے جاتے ہیں۔

لیکن اس میں تم کہاں  ہو تمھارا کیا رول ہے؟ مائیکل نے ایک تیکھا سوال کیا۔

میرا…..میرا بھی اس میں فائدہ ہے۔ چونکہ اس سے میرا مالی مفاد وابستہ ہے اس لیے میں ان کے لیے کام کرتی ہوں۔

مائیکل نے پھر سوال کیا اور اگر تمہیں یہی فائدہ ہم سے حاصل ہو جائے تو؟

میں آپ لوگوں کے لیے کام کرنے لگوں گی۔

تمھارا واحد محرک مالی مفاد ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی اور شے ہے؟

کیتھی کا سیدھا جواب تھا شاید نہیں ……شاید ……..بلکہ یقیناً ……یا نصف ……نصف۔

مائیکل جلدی جلدی سولات کی بوچھار کر رہا تھا تاکہ کیتھی کوسوچ کر بات بنانے کا موقع نہ ملے۔ وہ کیتھی کا ذہن پڑھنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ اندر ہے وہ بغیر کسی ملاوٹ کے سامنے آ جائے۔

کیتھی پھر رکی اور بولی یقیناً سمجھ لیں۔

مائیکل بولا دیکھو کیتھی ہماری صرف ایک شرط ہے اگر تم ہمارے لیے کام کرو گی تو کسی اور کے لیے کام نہیں کر سکتیں۔

اس بار کیتھی نے سوال کیا۔ کیوں؟ میں فی الحال دو اداروں کے لیے کام کر رہی ہوں۔ اس میں تیسرے کا اضافہ کیوں نہیں ہو سکتا؟

اس لیے کہ ہمارے اس کام میں راز داری کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ چونکہ ہمارے مفادات ان سے ٹکراتے ہیں۔ وہ بے دریغ جھوٹ پھیلا رہے ہیں اور ہم بے کم و کاست سچ دکھلانا چاہتے ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ اندھیرا اور اجالا جس طرح یکجا نہیں ہو سکتے اسی طرح ……

کیتھی درمیان میں بول پڑی شاید میں سمجھ گئی۔ میں سب سمجھ گئی …….یقیناً …….یقیناً سمجھ لو۔

اب تم کیا کہتی ہو بولو کیتھی بولو۔ مائیکل اصرار کر رہا تھا۔

ہاروے درمیان میں بولا ہمیں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے بلکہ کیتھی کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے موقع دینا چاہئے۔ کیتھی کیا ایک دن کا وقت تمھارے سوچ بچار کے لیے کافی ہے۔

کیتھی نے جواب دیا شاید۔

خیر کوئی بات نہیں کل ہم دوبارہ اسی وقت اسی جگہ ملیں گے۔ لیکن یاد رکھو کہ تمھارے پیشکش قبول کرنے یا نہ کرنے سے ہمارے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی ایسا عہدو پیمان نہیں کرنا چاہئے جس کی پاسداری ہمارے لیے ناممکن بلکہ مشکل ہو۔

کیتھی نے تائید کی اور بولی یہ بہتر ہے کہ ہم کل ملیں لیکن یہاں نہیں بلکہ کسی اور جگہ۔ ہمیں اپنی ملاقات کے مقام کو تبدیل کرتے رہنا چاہئے۔

مائک نے تائید کی یہ نہایت معقول مشورہ ہے۔

ہاروے بولا ہم اپنے نئے مقام کا تعین کل کریں گے۔

کیتھی نے کہا یہ بھی مناسب ہے۔

مائک بولا اب چلنا چاہئے۔

یہ سب سے مناسب بات ہے کیتھی نے زور دے کر کہا۔ اور شراب سے بھرے ہوئے تینوں جام پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ پھر اس میں سے ایک کی جانب ہاتھ بڑھا کر اس نے کہا یہ محکمۂ سراغ رسانی کے نام اور اسے خالی کر دیا۔ اس سے پہلے کہ ہاروے اور مائیکل کچھ سمجھ پاتے کیتھی نے دوسرا جام اٹھاتے ہوئے کہا یہ ہے نام نہاد سچ دکھانے والے ٹی وی چینل کے نام اور اسے بھی غٹا غٹ پی گئی

اس سے پہلے کے وہ تیسرے کی جانب بڑھتی مائیکل بولا کیتھی اس کی باری کل آئے گی۔ جب ہمارے بیچ معاملہ طے ہو جائے گا۔

کیتھی بولی یہ بھی م۰۰من…منا…مناسب …..ہے۔ میں در اصل سونا چاہتی ہوں اور یہ گفتگو، یہ سوالات مجھے سونے نہیں دیں گے۔ میں انھیں بھول جانا چاہتی ہوں تاکہ گہری نیند سو سکوں اور تر و تازہ ہو کر اٹھوں تو آپ کی پیشکش پر کما حقہ غور کر سکوں۔ اسی لیے میں نے یہ جام خالی کر دئیے۔ مجھے خوشی ہے کہ محکمہ اور چینل کے جام خالی ہو گئے۔

ہاروے نے کہا مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارا جام بھرا ہوا ہے۔

کیتھی بولی میں جام کے خالی اور بھرے ہوئے ہونے پر مسرور و شادمان ہوں۔

اور اسی کے ساتھ تینوں اپنی اپنی گاڑیوں کی جانب چل پڑے۔

کیتھی پہلی بار اس قدر تیزی کے ساتھ شراب کے دو گلاس نگل گئی تھی اس کے باوجود اس کی آنکھوں میں نہ خمار تھا اور نہ نیند کا کوئی نام و نشان تھا۔ تیز طرار صحافی کیتھی جانسن جو اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتی آج پہلی بار زیر دام آئی تھی۔ آج اسے پتہ چل گیا تھا کہ مخاطب کو کس طرح سحر زدہ کیا جاتا ہے؟ کس طرح اس کے دل و دماغ کی گرہ کو کھولا جاتا ہے؟ سچائی کو اگلوانے کی بہترین تکنیک کیا ہوتی ہے؟ کسی کو اس کے ماضی سے کیسے کاٹا جاتا ہے؟ اور کسی کو اپنے مستقبل سے کیسے جوڑا جاتا ہے؟

کیتھی جانسن جب ہاروے اور مائیکل سے ملاقات کی خاطر گئی تھی تو اس کا اپنا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ اس کے اپنے اہداف تھے۔ جو دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ کیتھی محض ایک کٹھ پتلی بن گئی تھی جس کی ڈور مائیکل کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ جو پوچھتا تھا وہ بولتی تھی۔ وہ جو کہتا ہے روبوٹ مانند کرتی چلی جا تی تھی۔ اس کا اپنی ذات پر کوئی اختیار باقی نہیں رہا تھا۔

کیتھی سوچ رہی تھی اس نے بلاوجہ ایک دن کا وقت مانگا تھا۔ وہ تو فیصلہ کر چکی ہے۔ مائیکل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیتھی جانسن نے کر لیا تھا۔ اس قدر سرعت کے ساتھ اتنے بڑے فیصلے کروا لینا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا لیکن کیتھی پوری طرح سے بے بس ہو چکی تھی۔ دیوانی ہو گئی تھی کیتھی جانسن۔ دیوانی ہو گئی تھی دیوانی ………یہی سوچتے سوچتے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۱۸

 

گاڑی کے اندر بیٹھنے کے بعد مائیکل نے ہاروے سے کہا میں تو ڈر ہی گیا تھا کہ کہیں تم اس جاسوس کے سامنے اپنا راز نہ فاش کر دو۔

کیسی باتیں کرتے ہو مائک۔ میں اگر بتاتا بھی تو کچھ صحیح اور کچھ غلط ملا جلا کر بتاتا۔

مائیکل نے کہا صحیح میں اگر غلط کی ملاوٹ ہو جائے تو وہ غلط ہو جاتا ہے اس لیے یہ کہو کہ میں اسے غلط سلط کچھ نہ کچھ بتلا دیتا۔ لیکن ایسا کرنا بھی مناسب نہیں تھا۔ ہم اپنی دوستی کو اعتماد کی بنیاد پر اٹھانا چاہتے ہیں اور اعتبار کی عمارت سچائی کی اینٹوں سے تعمیر ہوتی ہے۔ اس میں اگر بال آ جائے تو بات بگڑ جاتی ہے۔ مجھے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس لڑکی کے بارے میں تمھاری رائے درست ہے۔ وہ واقعی سچی اور صاف گو ہے۔

ہاروے نے چٹکی لی کیوں ارادے تو نیک ہیں؟

گھر آتے ہوئے راستے میں ہاروے کی سکریڑی نے اسے فون کر کے مسلم سینٹر کے ڈاکٹر فیاض کا نمبر دیا۔ ہاروے نے فوراً ان سے رابطہ کیا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ فوراً تیار ہو گئے اور شام سات بجے کا وقت طے ہو گیا۔ فون بند کرنے کے بعد ہاروے نے مائیکل سے کہا شام سات بجے ڈاکٹر فیاض آنے والے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی آ جاؤ۔

میں …. میں کیوں؟ اس لیے کہ اس مہم میں اب تم بھی شریک کار ہو۔

میرے علاوہ بھی کوئی؟ مائیکل نے سوال کیا۔

ابھی تک تو نہیں لیکن ممکن ہے کل سے کیتھی بھی شریک ہو جائے۔

گاڑی رکی تو مائیکل نے سوال کیا لیکن یہ تم مجھے اپنے گھر کیوں لے آئے؟ کافی تاخیر ہو چکی ہے مجھے اپنے گھر کے پاس چھوڑ دیتے تو بہتر تھا۔

ہاروے بولا اپنے گھر کے پاس؟ کیسی بات کرتے ہو مائیکل ہمیں کھانا بھی تو کھانا ہے۔ اگر میں تمہیں ساتھ نہ لاتا تو گھر اندر داخل نہیں ہو پاتا تھا۔

مائک نے سوال کیا میں سمجھا نہیں؟

ا و ہو تم بھول گئے آج ڈائنا نے ہم دونوں کے لیے کھانا بنوایا ہے۔

لیکن اب تو تین بج رہے ہیں۔

تین بجیں یا تیس۔ ہمیں وہ کھانا زہر مار کرنا ہی ہو گا۔

مائک نے پوچھا۔ ورنہ؟

عقب سے ڈائنا کی آواز آئی، بغیر زہر کے گھٹ گھٹ کر مرنا ہو گا۔ ڈائنا چوکیدار کے کمرے میں ان کی راہ تک رہی تھی۔

ارے تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ ہاروے نے سوال کیا

تم سے مطلب؟ ڈائنا نے ڈانٹ کر کہا، میں تم مردوں کی ذات سے واقف ہوں اور ابھی ابھی تم نے میرے اندیشوں کی تصدیق کر دی ہے۔ اگر تم اس مہمان کے بغیر آتے جس کے لیے ہمارا باورچی خانہ چینی بنا ہوا ہے تو میں اسی دروازے سے تمہیں لوٹا دیتی کیا سمجھے۔

اور اگر یہ نہ آتا تو؟

ڈائنا بولی یہ کیسے نہ آتا میں اسے اغوا کر کے منگوا لیتی۔

مائیکل بولا یہ تو عجب زبردستی ہے۔

ڈائنا نے اعتراض کیا زبردستی نہیں انصاف کا تقاضہ ہے۔ اگر انسان کو نہ کھانا ہو تو پہلے منع کر دے لیکن اگر کھانا بنوائے اور نہ کھائے تو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے اور میں ظلم و زیادتی برداشت کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ کیا سمجھے مسٹر مائیکل؟

مائیکل بولا سمجھ گیا میڈم سب سمجھ گیا۔ اب جلدی سے کھانا کھلوائیے ورنہ آپ کا یہ مہمان بھوک سے مر جائے گا۔

اگر مر جاتا ہے تو مر جائے۔ اپنی خودکشی کے لیے وہ خود ذمہ دار ہو گا، اس لیے کہ کھانا دو گھنٹے سے اس کا انتظار کر رہا ہے۔

یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ باورچی نے آ کر اطلاع دی محترم و مکرم حضرات و خواتین۔ کھانا لگا ہوا ہے آپ لوگ فوراً میز پر تشریف لائیں۔ اس قدر تاخیر کے باوجود ڈائنا کو یقین تھا کہ مائیکل کھانا کھانے ضرور آئے گا۔ اس نے خود بھی ابھی تک ایک دانہ زبان پر نہیں رکھا تھا۔ وہ بے حد خوش تھی کہ اس کا اندازہ بالکل درست نکلا حالانکہ مائیکل کے حوالے سے اس کی ساری خوش گمانیاں بیجا تھیں۔ وہ تو ہاروے کی زبردستی سے آیا تھا۔ ڈائنا کی دعوت مائیکل کے ذہن سے محو ہو چکی تھی۔

…………………..

 

مائیکل کے چلے جانے کے بعد ہاروے اپنے بستر پر دراز ہو گیا اور گزشتہ ایک دن کی اتھل پتھل کا جائزہ لینے لگا۔ ایک دن قبل وہ عدالت میں وکالت نامہ داخل کر رہا تھا لیکن ان ۲۴ گھنٹوں میں وقت کا پہیہ کچھ اس تیزی کے ساتھ گھوما کہ دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہو گیا۔ اس کا مقصد حیات بدل گیا۔ اس کے اہدافِ زندگی تبدیل ہو گئے۔ سوچ و فکر میں عظیم انقلاب برپا ہو گیا گویا کل کائنات بدل گئی۔ یہ سب کیسے ہو گیا ہاروے نہیں جانتا تھا۔ وہ خود یہ سب کر رہا ہے یا کوئی غیر مرئی ہستی اس سے بزورِ قوت یہ سب کروا رہی ہے اس کا بھی اسے علم نہیں تھا۔

یہ سارے کام ہاروے کے وہم و گمان میں نہیں تھے۔ اس نے نہ منصوبہ بنایا تھا اور نہ کوئی خاص سعی کی تھی۔ سب کچھ اپنے آپ ہوتا چلا گیا تھا۔ اگر دو دن قبل کوئی اس سے پوچھتا کہ کیا یہ اس کے بس میں ہے تو اس کا جواب نفی میں ہوتا۔ ہاروے ایک تاریک و بے سمت راستے پر بگ ٹٹ دوڑا چلا جا رہا تھا۔ اس مصمم ارادے کے ساتھ کہ وہ درمیان میں اسے خیرباد نہیں کرے گا حالانکہ اپنی منزل کا اسے اب بھی شعور نہیں تھا۔ ہاروے کو احساس ہو گیا تھا کہ زندگی کے اس دلچسپ سفر میں اس کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق کچھ بھی نہیں ہوتا اس کے باوجود وہ اپنے سفر کی حکمتِ عملی پر غور کر رہا تھا۔

ڈاکٹر فیاض ٹھیک سات بجے تشریف لے آئے۔ ان سے پانچ منٹ قبل مائیکل بھی آ چکا تھا۔ ملاقات کی ابتداء میں دونوں کے درمیان احساسِ جرم کی ایک دیوار حائل تھی۔ ہاروے کو ایک بڑی آزمائش کی گھڑی میں اپنے رائے دہندگان سے غافل رہنے کا افسوس تھا اور ڈاکٹر فیاض کومحسوس ہو رہا تھا کہ ایک دن قبل کے احتجاج میں شرکت کرنا مسلمانوں کی غلطی تھی۔ ان لوگوں کو بلاوجہ سیاسی رنجش کی بساط کا مہرہ بنایا گیا تھا لیکن دونوں واقعات باہم مربوط تھے۔ اگر ہاروے کی جانب سے کوتاہی نہ ہوتی تو احتجاج کی نوبت ہی نہ آتی خیر یہ سب ماضی کی داستان تھی۔ جو ہونا تھا سو ہو چکا تھا۔

ہاروے نے پوچھا آپ کیسے ہیں؟ اور کیسی گزر رہی ہے؟

ڈاکٹر صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ بولے بیٹا پچھلا ہفتہ کیسے گزرا یہ ہم سے نہ پوچھو تو اچھا ہے۔ ان سات دنوں میں ہم ستر سال پیچھے چلے گئے۔ میرے والد صاحب کسی زمانے میں یہاں آئے تھے۔ اپنی شادی سے قبل۔ یہاں سے واپس جا کر انہوں نے نکاح کیا۔ میری پیدائش گو کہ پاکستان میں ہوئی لیکن میں نے یہاں آنے کے بعد ہوش سنبھالا۔ میں نے یہیں کی ہواؤں میں اور فضاؤں میں دنیا کو دیکھا۔

ہم نے اس ملک کو اپنا وطن بنا لیا۔ پہلے یہ وطنِ ثانی تھا پھر پاکستان وطن ثانیہ بن گیا۔ ہمارا آنا جانا رفتہ رفتہ کم ہوتا چلا گیا مگر ہم جب کبھی پاکستان جاتے تو یہیں کے گن گاتے۔ وہ بیچارے تو یہ سمجھنے لگے تھے ہمیں جنت کا کوئی ٹکڑا نصیب ہو گیا ہے اور ہم اس بات پر خوش تھے کہ ہم دنیا ہی میں بہشت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

یہاں کے حالات کو، انسانی حقوق کی پاسداری کو، مساوات و آزادی اور قانون کی بالا دستی کو ہم خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔ اس لیے کہ ہم ان تمام چیزوں کو اپنا سمجھنے لگے تھے لیکن بیٹے گزشتہ ہفتے یہ طلسم ٹوٹ گیا۔ ہماری ساری خوش فہمیاں یکلخت دور ہو گئیں۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم جسے اپنا سمجھ رہے ہیں وہ اپنا نہیں پرایا ہے۔ ہم نے اپنوں کو پرایا کر دیا اور پرائے ہمارے اپنے نہ ہو سکے۔ ہم اس دنیا میں تنہا ہو کر رہ گئے ہاروے بالکل یکہ و تنہا۔

جی ہاں جناب ہاروے بولا میں آپ سے صد فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ جو کچھ ہوا مجھے اس کا بے حد افسوس ہے۔

ڈاکٹر صاحب پھر بولے اس آزمائش کی گھڑی میں ہمارا سب سے بڑا سہارا ولیم کنگسلے ہو سکتا تھا لیکن یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ اس سانحہ سے پہلے ہی ہمیں اپنے غمگسار اور رحمدل رہنما سے محروم ہونا پڑا۔ ہم نے سوچا کہ تم ہمارے کام آؤ گے لیکن تم بھی نہ جانے کہاں غائب ہو گئے۔ تمھارا اس طرح غائب ہو جانا اور قطع تعلق کر لینا ہمارے لیے ناقابلِ فہم تھا۔

اس کے لیے بے حد نادم ہوں اور معافی چاہتا ہوں۔

ہاروے کی جانب سے غلطی کے بلا جواز برملا اعتراف نے ڈاکٹر فیاض کو بہت متاثر کیا۔ انھوں نے اسلسلۂ کلام جاری رکھتے ہو کہا ہماری اذیتیں ابھی جاری تھیں کہ اچانک تمہیں اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرا دیا گیا۔ پہلے تو یہ ہمارے لیے ناقابلِ یقین بات تھی اس کے باوجود اس کی تصدیق یا تردید کی کوئی صورت ممکن نہیں تھی اس لیے لامحالہ ہم اس جھانسے میں آ گئے۔

ہاروے نے سوال کیا لیکن آپ لوگوں کو کیا کہہ کر ورغلایا گیا؟

ہمیں بتلایا گیا کہ تم اپنے والد کی موت کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہو۔ ان کے حق میں ہمدردی کی لہر چلا کر اپنا مستقبل چمکانے کے خواہشمند ہو۔ اسی لیے واشنگٹن میں بیٹھ کر یہ سازش رچا رہے ہو اور یہی وجہ تمہیں ہم لوگوں سے رابطہ کرنے سے روک رہی ہے۔

یہ سب آپ کو کس نے اور کب بتایا؟

ڈاکٹر فیاض بولے یہ کل دوپہر تقریباً تین بجے کی بات ہے جب ٹام فوبرگ نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ تمھاری اس احسان فراموشی کے خلاف ایک احتجاج کی اجازت، انتظامیہ سے لے لی گئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم سب اس میں شریک ہوں۔ ہم تو پچھلے ایک ہفتہ سے انتظامیہ کے ظلم و زیادتی خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے لیے بے چین تھے لیکن وہ مسلسل حوصلہ شکنی کے کر رہا تھا۔ اس لیے ہم نے موقع غنیمت جانا اور ٹام کی پکار پر احتجاج میں شامل ہو گئے۔

ہاروے بولا میں اس کیفیت کو سمجھ سکتا ہوں پھر بھی اس مرکز کو چونکہ نہایت تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور متین افراد کی خدمات حاصل ہیں اسلئے مجھے تشویش ہوئی۔

اس مسئلہ پر ہمارے درمیان معمولی سا اختلاف ہوا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی نت نئی افترا پردازیوں سے خوفزدہ احتیاط پسند لوگوں کی رائے تھی کہ ہمارا احتجاج میں شامل ہونا مزید مصیبتوں کو دعوت دے سکتا ہے اس لیے ہمیں سڑک پر آنے سے گریز کرنا چاہئے لیکن ٹام نے ہمیں یقین دلایا کہ حکام اور انتظامیہ کی حمایت اس احتجاج کو حاصل ہے۔ یہ ہائی کمانڈ کا فیصلہ ہے اس لیے اس کے خلاف کوئی رد عمل نہیں ہو گا بلکہ اسے مکمل تحفظ حاصل رہے گا۔

ٹام کو آخری جواب دینے سے قبل ہم نے پھر ایک بار تم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اس لیے کہ ہم کسی نئی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے تھے لیکن ہمیں ناکامی ہوئی تو پھر ہم نے ٹام کی تائید کر دی۔ مسلم معاشرے میں احتجاج اور مسلم سینٹر کی اس میں شرکت کی خبر جنگل کی آگ بن کر پھیل گئی۔ پریشر والو ایک جھٹکے کے ساتھ کھل گیا اور لوگ جوق در جوق نکل آئے۔

مائیکل نے سوال کیا لیکن اتنے کم وقت میں اتنے سارے بینر اور پلے کارڈس آپ لوگوں نے کیسے تیار کر لیے؟ کیا یہ پہلے ہی سے تیار تھے؟

مائیکل نے گویا ڈاکٹر فیاض کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا وہ بولے ہم نے نہ کوئی بینر بنوایا اور نہ پلے کارڈ ہمارے پاس جو وقت تھا وہ تو اطلاع دینے کے لیے بھی ناکافی تھا اس لئے ہم اسی کام میں لگے رہے لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب ہم نے ہوائی اڈے پر یہ تمام سامان موجود پایا۔ احتجاج کے جوش میں شرکاء نے انھیں اٹھا لیا لیکن میں نے اسی وقت محسوس کر لیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ تیاری بغیر کسی منصوبے یا وسائل کی فراہمی کے ناممکن تھی۔

تو کیا آپ لوگوں نے یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں محسوس کی کہ ان پر کیا لکھا ہے؟

جی ہاں ہمیں اس پر بھی حیرانی تھی وہ انتظامیہ جس نے ظلم کی انتہا کر دی تھی اس کے خلاف ان پلے کارڈس میں ایک حرف بھی نہیں تھا۔ سارا ٹھیکرا تمھارے سر پھوڑا گیا تھا۔ اس وجہ سے میں اس کے پس پشت کارفرما پوشیدہ ہاتھ کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ ہمارے کچھ اور ساتھیوں کو بھی سازش کا احساس ہو گیا لیکن اس وقت تک حالات بے قابو ہو چکے تھے۔ نوجوان وہی نعرے لگا رہے تھے جو بینر اور پلے کارڈس پر درج تھے۔ انھیں روکنا ناممکن تھا اس لیے ہم نے صبر کر لیا اور احتجاج کر کے گھر لوٹ آئے۔

ہاروے نے پوچھا اس کے بعد کیا ہوا؟

ڈاکٹر فیاض بولے ہم لوگ اس بابت تم سے ملاقات کر کے بات کرنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ تمھارا فون آ گیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اس شدید احتجاج پر تم ناراضگی کا اظہار کرو گے لیکن تمہاری خندہ پیشانی نے مجھے یقین دلا دیا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو بظاہر نظر آ رہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب! ہاروے نے کہا جو کچھ بھی ہوا اس کی اولین ذمہ داری تو میرے ہی سر آتی ہے اس لیے میں شکایت کرنے میں حق بجانب نہیں ہوں۔ مگر میں خود بھی پچھلے ہفتہ ایک ایسی مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا کہ اپنے اہل خانہ اور دفتر والوں تک سے منقطع رہا۔ اگر انھوں نے آپ کو یہ بتایا کہ وہ میرے محل و وقوع سے ناواقف ہیں تو اس میں کوئی کذب و مبالغہ نہیں تھا۔ لیکن میں آپ کو یقین دلا دوں کہ اس چھاپے سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

میں سمجھتا ہوں بیٹے ڈاکٹر فیاض نے کہا۔

ہاروے نے اپنی بات جاری رکھی پھر بھی اس کی وجوہات واضح کیے دیتا ہوں۔ اول تو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میرے والد کے قاتلوں کا کوئی تعلق کولاریڈو سے ہے اس لیے کہ اگر وہ یہاں کے باشندے ہوتے تو انھیں واشنگٹن جا کر اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اس کام کو یہاں زیادہ صفائی کے ساتھ محفوظ انداز میں کر سکتے تھے۔ ثانیاً میں اتنا بارسوخ سیاستداں نہیں ہوں کہ انتظامیہ پر اثر انداز ہو کر کچھ لوگوں کو گرفتار کروا سکوں۔ ثالثاً میرے ایسے سیاسی خواب نہیں ہیں کہ جنھیں شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر میں ایسے گھناؤنے مظالم کا ارتکاب کروں۔ میں ایسا نہیں کر سکتا چاہے مجھے اس کی کوئی بڑی سے بڑی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ یہ میرے دل کی بات تھی جس میں شریک کرنے کے لیے میں نے آپ کو یہاں آنے کی زحمت دی۔

ڈاکٹر فیاض ہاروے کی صاف گوئی سے پسیج گئے اور بولے میرا دل گواہی دیتا ہے کہ تم جو کچھ کہہ رہو یہی سچ ہے۔ میں تمھارے خاندان کی تین پشتوں کو جانتا ہوں مجھے محسوس ہوتا رہا کہ کنگسلے خاندان کا کوئی فرد یہ سب نہیں کر سکتا لیکن چونکہ تم سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا اور ہم پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اس لیے ہم احتجاج میں شامل ہو گئے۔ مجھے بھی افسوس ہے کہ عدم رابطہ نے ہمارے درمیان غلط فہمی کی دیوار اٹھا دی۔ خیر تم نے وضاحت کر دی اور ہمارے دل صاف ہو گئے۔ کاش کہ یہ سب ایک دن قبل ہو جاتا تو وہ نہ ہوتا جو کل ہوا۔

ہاروے بولا فیاض انکل وقت سے پہلے کچھ بھی نہیں ہوتا اور جب وقت آ جاتا ہے۔

دونوں نے ایک ساتھ کہا ’’ہو کر رہتا ہے ‘‘چائے آ گئی تینوں نے خاموشی کے ساتھ چائے نوش کی۔ فیاض نے ہاروے کو گلے لگا کر کہا ہاروے تم کس مصیبت میں تھے یہ میں نہیں جانتا لیکن میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تمھاری اس مشکل کو آسان کرے۔

ہاروے اور مائیکل نے آمین کہا اور یقین دلایا کہ اب چونکہ وہ واپس آ گیا اس لیے معصوم لوگوں کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کرے گا نیز اگر درمیان میں کوئی مشکل پیش آئے تو اس سے یا مائیکل سے بلا تکلف رابطہ کیا جائے وہ دونوں اس کے تدارک کی بھرپور سعی کریں گے۔

ڈاکٹر فیاض سے ملاقات کے بعد ہاروے کو ایسا محسوس ہوا گویا اس کے والد کو دوسری بار قتل کر دیا گیا ہے۔ کسی انسان کے ایک سے زیادہ مرتبہ قتل ہو جانے کا یہ عجیب و غریب احساس تھا۔ ہاروے کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ کسی قتل عام کا پیش خیمہ نہ ہو۔ ولیم کنگسلے کا قتل اس لحاظ سے بڑا منفرد تھا کہ پہلی مرتبہ جب یہ واردات سرزد ہو تو کوئی بھی گرفتار نہیں ہوا اور دوسری مرتبہ میں کئی گرفتار ہو گئے۔ کوئی کے بطن سے ’واو‘ کے نکل جانے سے ہونے والی تباہی کا مشاہدہ ہاروے کر رہا تھا۔

ڈاکٹر فیاض کے چلے جانے کے بعد ہاروے نے مائیکل سے کہا یار ایک بہت بڑی غلطی ہم سے سرزد ہو گئی۔

وہ کیا؟ مائیکل نے پوچھا۔

ہمیں چاہئے تھا ڈاکٹر فیاض سے گرفتار شدگان کے بارے پوچھتے اور ان مصیبت زدگان کی مزاج پرسی کرتے۔

مائیکل بولا مجھے اس بات کا خیال آیا تو تھا لیکن آپ لوگوں کی گفتگو جس انداز سے ہو رہی تھی اس میں مداخلت کرنا مناسب نہیں لگا۔ اور جب آخر میں تم نے تعاون کی یقین دہانی کرا دی تو میں نے سوچا کہ آج کے لیے یہی کافی ہے۔

ہاروے بولا نہیں وہ کافی نہیں تھا۔

ویسے میں نے جو معلومات حاصل کی ہیں ہاروے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ سب کے سب بے قصور لوگ ہیں۔ اول تو ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ کچھ کے چہرے پر داڑھی ہے لیکن کچھ تو پینے کھانے والے من موجی بھی ہیں۔ شاید ان کا واحد قصور یہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور ایک سیاسی ضرورت کی قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں۔

ان کے اہل خانہ کس حال میں ہیں؟

مائک بولا ان میں زیادہ تر معاشی طور پر بدحال اور پریشان حال ہیں۔ جن لوگوں کے گھر کی حالت بہت خراب ہے ان میں سے ایک تمھارا جانکار احمد رمزی بھی ہے۔ چونکہ اس کے والد ضعیف ہیں اور گھر کا معاشی بوجھ اسی کے شانے پر ہے اس لیے حالات سنگین ہیں۔ دیگر لوگ مالی طور پر خوشحال ہیں لیکن ذہنی اذیت سبھی کے لیے یکساں ہیں۔ چونکہ معاملہ ایک حزب اقتدار سنیٹر کے قتل کا ہے اور اسے القاعدہ سے جوڑ دیا گیا ہے اس لیے انتظامیہ کے لیے انھیں ہر طرح کی تعذیب کا نشانہ بنانا نہ صرف مباح بلکہ مستحب ہو گیا ہے۔

ہاروے نے پاس پڑوس کے لوگوں کے بارے میں پوچھا تو مائیکل نے بتلایا ان میں سے ہر کوئی خوفزدہ ہے کچھ شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے ہیں۔ احتیاط کے پیشِ نظر لوگوں نے ان سے فاصلہ بنا لیا ہے بلکہ مسلم سینٹر میں بھی لوگوں کی آمدورفت کم ہو گئی ہے۔

تم نے یہ ساری معلومات کب حاصل کیں؟

آج جب کھانا کھا کر میں دفتر گیا تو یہی سوال میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا۔ وہاں جانے کے بعد میں نے اپنے ساتھ زیر ملازمت تین چارمسلمانوں کو بلا کر پوچھا تو یہ ساری تفصیل معلوم ہو گئی۔ مجھے افسوس ہے کہ پچھلے ہفتے اس کا خیال کیوں نہیں آیا؟ میں نے ان لوگوں سے یہ بات چیت کیوں نہیں کی؟

جی ہاں یہ ہماری کوتاہی بلکہ بے حسی ہے۔

بالکل میں اس کا اعتراف کرتا ہوں۔ آج ان میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ میں پہلا شخص ہوں جو اس موضوع پر گفتگو اور مزاج پرسی کر رہا ہوں۔ میں اخبار میں ان کی بابت نہ جانے کیا کیا جھوٹ پڑھتا رہا۔ ٹیلی ویژن پر دنیا بھرکی افواہیں سنتا رہا لیکن براہ راست حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی۔ میرے خیال میں یہ خود غرضی کی انتہا ہے کہ ہم لوگ اپنے ساتھ کام کرنے والے افراد کے دکھ درد سے بے بہرہ ہو گئے ہیں۔

میرے دوست مائیکل مجھے تو لگتا ہے کہ ہم لوگ اپنی ذات کے اندر محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے از خود اپنے قلب و ذہن پر بیڑیاں ڈال دی ہیں۔ قفل چڑھا دئیے ہیں اور کنجی …….. ذرائع ابلاغ کے گہرے سمندر میں پھینک دی ہے جو ایسا سمندر ہے اس کی تہہ میں جانے والا سلامت لوٹ کر نہیں آتا مگر اس چابی کی بازیافت کے لیے وہاں جانا ناگزیر ہے۔

شاید ہمارا مقدر ہی تا عمر محصوری ہے۔ اس خود ساختہ حصار سے ہم کبھی بھی رہائی حاصل نہیں کر سکتے۔ نہیں کبھی نہیں۔ مائیکل نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

اب تمہیں گھر جا کر آرام کرنا چاہئے تاکہ کل تازہ دم ہو کر دفتر آ سکو۔

مائیکل نے مصافحہ کیا تو ڈائنا کمرے میں داخل ہوئی اور بولی شام بخیر۔ میرے بھائی ہاروے تم بھی بہت اچھے دوست ہو کہ تمہیں دنیا بھرکے لوگوں سے تو ہمدردی ہے لیکن جو شخص صبح سے خدمت میں لگا ہوا ہے اس کا پاس و لحاظ نہیں۔

مائیکل ڈر گیا کہیں یہ بے وقوف لڑکی کھانے پر اصرار نہ کر بیٹھے گی جبکہ وہ تھک کر چور ہو چکا تھا اور اولین فرصت میں گھر جانا چاہتا ہے۔ مائیکل بولا ڈائنا میں تمھارے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن اسی کے ساتھ فوراً گھر بھی جانا چاہتا ہوں۔

مجھے پتہ ہے مگر تمہیں روک کون رہا ہے؟ میں تو یہ بتلانے کے لیے آئی تھی کہ تمھارے کھانے کا بکس چوکیدار کے پاس ہے۔ بغیر بھولے اسے اپنے ساتھ لیتے جانا۔

اوہو ڈائنا۔ تم کس قدر دردمند ہو بالکل اپنے والد ولیم صاحب کی طرح اور ایک یہ تمھارا بھائی ہے۔

ڈائنا بولی ہاں ہاں بس کرو میرے بھائی کو کچھ نہ کہو۔ یہ کتنا اچھا ہے میں خوب جانتی ہوں کیا سمجھے؟

ہاروے اپنی بہن کی وکالت پر خوش ہو گیا۔

مائیکل نے شکریہ ادا کیا اور کہا شب بخیر۔

بھائی بہن نے یک زبان ہو کر جواب دیا شب بخیر۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۱۹

 

ہاروے جب اپنے دفتر پہنچا تو ملاقاتیوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر کوئی اپنے مخصوص انداز میں اس سے خیریت پوچھ رہا تھا اور ہمدردی کا اظہار کر رہا تھا۔ ہاروے نے دفتر میں کام کرنے والے مسلمانوں سے خاص طور پر ملاقات کی۔ ان سے بھی جن سے کہ مائیکل نے ایک روز قبل بات چیت کی تھی اور ان سے بھی جن سے ابھی تک کسی نے ملاقات نہیں کی تھی۔ ہاروے نے مسلم ملازمین کے دکھ درد کو سنا اور ان کا غم بانٹا۔ ان کو اپنی حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔ ہاروے کا یہ اقدام ان کے زخموں پر مرہم کا کام کر رہا تھا۔

اس کے بعد وہ ضروری کاغذات کی جانب بڑھا اور ان سے فارغ ہو کر ای میلس اور فون کی جانب متوجہ ہوا۔ درمیان میں خریدو فروخت کرنے والے لوگ بھی آتے جاتے رہے۔ اس بیچ پارٹی کے دفتر سے چند افراد نے آ کر اس سے ملاقات کی رسم ادا کی۔ ان کینہ پرور لوگوں سے مل کر ہاروے کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ غرض دوپہر کب ہوئی اس کا پتہ ہی نہ چلا۔

کھانے کے وقفے میں مائیکل اس کے کمرے میں آ گیا اور بولا کیتھی!

جی ہاں ہاروے بولا کیتھی!! کل ہم لوگوں نے ملاقات کی جگہ طے نہیں کی تھی۔ ایسا کرتے ہیں ملینیم ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں۔ اس کا ہال بہت کشادہ ہے۔ ویسے بھی شہر سے الگ تھلگ ہونے کے باعث وہاں لوگ شام ہی میں آتے ہیں۔

مائک نے تائید کی جی ہاں مجھے لگتا ہے ہم وہاں سکون سے بات کر سکیں گے۔

ہاروے نے فون لگا کر کیتھی کو ہوٹل کا نام بتایا اور مائیکل نے ہوٹل میں فون کر کے اپنے لیے نشست محفوظ کروائی حالانکہ یہی دو کام وہ لوگ ادل بدل کر کرتے تو کیتھی کو زیادہ خوشی ہوتی لیکن جو لوگ اپنے آپ میں مگن ہوتے ہیں انھیں دوسروں کی خوشی اور غم کا احساس بھلا کب ہوتا ہے۔ ہاروے اور مائیکل کی جوڑی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل تھی۔

ہاروے اور مائیکل جب ملینیم پہنچے تو کیتھی کو منتظر پایا۔ وہ لوگ دعا سلام کے بعد اپنی میز پر آ گئے اور سب سے پہلے کھانے کا آرڈر دیا۔ اس کے بعد گفتگو کا آغاز مائیکل نے کیا کیتھی تم نے اپنا ذہن بنا لیا ہے یا تمہیں کچھ اور وقت درکار ہے؟

کیتھی بولی جی نہیں اگر مجھے وقت درکار ہوتا تو میں اس دعوت کو ملتوی کر دیتی۔

ہاروے خوش ہو کر بولا تو کیا تم اپنا فیصلہ ہمیں بتانا مناسب سمجھتی ہو؟

کیتھی نے کہا در اصل میرے فیصلے کا انحصار کچھ توقعات کی تصدیق پر ہے۔ اگر وہ مثبت ہوئے تو میرا فیصلہ ہاں میں ہو گا ورنہ………

مائیکل نے سوال کیا۔ ورنہ ……..

مجھے افسوس کے ساتھ نہ کرنا پڑے گا۔

ہاروے بولا ٹھیک ہے تو بتاؤ تمھاری توقع کیا ہے یا تم کون سی وضاحت چاہتی ہو؟

در اصل میں جان ڈیو اور تمھارے درمیان چپقلش کی حقیقت جانے بغیر آگے بڑھنے سے معذور ہوں۔ کیتھی نے نہایت رکھائی سے کہا۔

مائیکل نے پوچھا کیتھی کیا تم بھی اس سے خوفزدہ ہو؟

میں کسی سے نہیں ڈرتی۔ تم میرے مزاج سے واقف نہیں ہو ورنہ یہ سوال نہیں کرتے۔

میں اپنے دوست کی جانب سے معذرت چاہتا ہوں۔ ہاروے نے مداخلت کی۔

کوئی بات نہیں، میں دیکھ رہی ہوں کہ فی الحال تم دونوں بظاہر ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہو لیکن میں اس کی حقیقت جانے بغیر کوئی فیصلہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے۔

مائیکل نے پھر ایک بار ہاروے کا پیر میز کے نیچے ٹخنے سے دبایا لیکن ہاروے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، اس لیے کہ وہ سوچ چکا تھا کیا بتانا ہے اور کیا چھپانا ہے۔ ہاروے جانتا تھا کہ بات کو آگے بڑھانے میں مکمل پردہ پوشی سدّراہ ہے۔ اس نے پوچھا کیا تمہیں میری اور جان ڈیو کی مخاصمت مشکوک نظر آتی ہے۔

بظاہر تو ایسا نہیں ہے مگر پھر بھی تصدیق ضروری سمجھتی ہوں۔ انتخابی سیاست میں لوگ جس طرح دوستی کا ناٹک کر کے ایک دوسرے کو دغا دیتے ہیں اسی طرح دشمنی کا ڈرامہ کر کے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ میں در اصل یہ جاننا چاہتی تھی کہ کہیں جان کے ساتھ تم نورا کشتی تو نہیں کھیل رہے ہو جس کا اصل مقصد ڈبلیو  ڈبلیو ای کی طرح عوام کو بہلانا پھسلانا ہے؟

ہاروے نے حیرت کے ساتھ استفسار کیا۔ کیتھی تمھاری باتیں میری سمجھ سے پرے ہیں اس لیے اب مجھے تفصیل درکار ہے۔ مائیکل کو مزہ آ رہا تھا۔ ہاروے کو کچھ بتانے کے بجائے کیتھی کو پہلے تو اِدھر اُدھر گھماتا رہا پھر خود اسی سے سوال کر بیٹھا۔

کیتھی بولی لگتا ہے تم سیاست میں نئے ہو۔ یہاں مقبولیت بڑھانے کے لیے بے معنی تنازعات کھڑے کیے جاتے ہیں۔ لوگ خبروں میں رہنے کی غرض سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھار کر دیتے ہیں۔ اور جب مقصد حاصل ہو جاتا ہے تو معافی تلافی کے ساتھ من مٹاؤ ہو جاتا ہے۔ اگر ایسی کوئی حکمتِ عملی ہے تو مجھے ابتدا سے اس کی واقفیت ضروری ہے۔

ہاروے نے ایک اور سوال داغ دیا کیا اس اندیشے کی کوئی ٹھوس وجہ ہے یا یونہی؟

کیتھی بولی میں جان ڈیو کے رگ رگ سے واقف ہوں۔ ہمارا چینل اس کی پارٹی کا خفیہ ترجمان ہے۔ اس لیے پردے کے پیچھے جو کچھ ہوتا ہے اس کا ہمیں علم ہو جاتا ہے۔

ہاروے بولا میں تمھاری بات سمجھ گیا اب میں تمہیں بتا دوں کہ جان ڈیو کے ساتھ نہ تو میری دوستی ہے اور نہ دشمنی۔ میں نے تو بس مونیکا کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور جان ڈیو نے مجھے اپنا دشمن بنا لیا۔ اس سے قطع نظر میں اپنے فیصلے پر قائم ہوں اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ میرے اس فیصلے سے کسے خوشی ہوتی ہے اور کون ناراض ہوتا ہے؟

کیتھی نے مسکرا کرسوال کیا لیکن کیا تم نے اس کی قیمت کا اندازہ کیا ہے؟

جی نہیں میں اس کی ضرورت نہیں  محسوس کرتا۔ میں اپنے اصول و اقدار کے تحفظ کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔ کاروبار، معیشت، شہرت اور سیاست سب کو داؤں پر لگا دوں گا۔

کیتھی خوش ہو کر بولی یہ ہوئی نا مردوں والی بات۔ میری ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ کسی ایسے مردِ آہن کے ساتھ کام کروں جو اس دنیا کی ہر شے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھے لیکن افسوس کہ ماضی میں اس توقع کے ساتھ جب بھی کسی کا ساتھ دیا اس نے مجھے مایوس ہی کیا۔ مجھے امید ہے کہ اس بار تم پورا اترو گے۔ میں تمھارے عزم و ارادے کو سلام کرتی ہوں اور تمھاری اس مقدس مہم میں برضا و رغبت شریک ہونے پر فخر محسوس کرتی ہوں۔

ہاروے بولا شکریہ کیتھی۔ میں تمھارے فیصلے کی قدر کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ اس مہم کی ابتداء ہی میں ہمیں کیتھی جیسا باصلاحیت، قابل اعتماد اور تجربہ کار شریک کار نصیب ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری کامیابی کا بہترین شگون ہے۔

کیتھی بولی شکریہ ہاروے بہت شکریہ۔

میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کیتھی کہ کسی قیمت پر تم سے دغا نہیں کروں گا۔ میں تمہارے ساتھ مکمل شفافیت برتوں گا اور آج سے ہمارے درمیان کوئی بات صیغۂ راز میں نہیں رہے گی۔ ہاروے نے آخری جملہ مائیکل کی جانب دیکھ کر کہا۔

مائیکل کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ کیتھی کو ان میں اپنے چمکتے خواب دکھلائی دئیے۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ زمین پر گر کر مٹی میں رل مل نہ جائیں۔ وہ ان موتیوں کو چن کر اپنی پلکوں پہ سجا لینا چاہتی تھی۔ گزشتہ مرتبہ مائیکل نے اپنی زبان سے کیتھی کے ذہن کو مسخر کر لیا تھا لیکن اس بار اس نے آنکھوں سے کیتھی کا دل جیت لیا تھا۔ کیتھی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اچانک اسے یہ کیا ہو جاتا ہے۔ مائک کے آگے اس کی چٹان جیسی شخصیت ریزہ ریزہ ہو کرکیسے بکھر جاتی ہے؟

کھانے کے دوران مکمل خاموشی رہی۔ مائیکل کے ذہن پر جان ڈیو چھایا ہوا تھا۔ ہاروے ٹام کی بابت سوچ رہا تھا اور کیتھی صرف اور صرف مائیکل کے بارے میں محو خیال تھی۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آئندہ کی حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے اگلے دن شام میں ملنے کا فیصلہ ہوا۔ حالانکہ یہ وقت بہت کم تھا لیکن عدالت کی تاریخ دو دن قریب آ چکی تھی۔ اب جنگی پیمانے پر کام کرنا ان کا اختیار نہیں مجبوری تھی۔

باہر نکل کر دونوں دوستوں نے کیتھی کے ساتھ مصافحہ کیا مائیکل بولا ہم اپنے معزز دستِ راست کا اپنی ٹیم میں استقبال کرتے ہیں۔

ہاروے بولا اس ٹیم میں سارے ارکان ایک دوسرے کے دست راست ہیں۔

کیتھی بولی اب یہ جنگ کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ ہم سب کی ہے۔

مائیکل نے کہا اب ہماری حیثیت ایک جان تین قالب کی ہے۔

اس جملے نے کیتھی پر لرزہ طاری کر دیا۔ وہ اپنے آپ کو سنبھال کر آگے بڑھی۔

ہاروے اور مائیکل گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔ خلاف معمول ہاروے گاڑی چلا رہا تھا۔

تیسرے دن ان تینوں کی تیسری ملاقات ایک پراعتماد ماحول میں ہوئی۔ شکوک و شبہات کے بادل چھٹ چکے تھے۔ کیتھی بے خوفی کی علامت تھی۔ ہاروے مصمم ارادے کا مظہر تھا اور مائیکل ذہانت و ذکاوت کا پیکر گویا ایک عظیم مہم کے تمام اجزائے ترکیبی یکجا ہو گئے تھے۔ اس نشست کی نظامت مائیکل چاؤ نے سنبھالی جو اپنی انتظامی صلاحیت کا لوہا منوا چکا تھا۔

اس مہم میں سب سے زیادہ اہمیت راز داری کی تھی اس کے پیش نظر مائیکل نے اپنے بیگ سے تین نئے موبائل فون نکال کر ان کے نمبر آپس میں تقسیم کیے اور بولا اب ہم اس کام کے لئے صرف یہی فون استعمال کریں گے نیز اس پر کوئی اور بات نہیں ہو گی۔ دونوں نے تائید کی اور اپنے اپنے فون اٹھا لیے گلابی فون کیتھی کے ہاتھ میں تھا اور نیلا ہاروے نے اٹھا لیا تھا۔ ٹیبل پر لیٹا ہوا زرد رنگ کا فون مائیکل کا منھ تک رہا تھا۔

مائیکل نے بات آگے بڑھائی اس مہم میں چونکہ سرعتِ کار ناگزیر ہے۔ اس لیے اب آئندہ چند دنوں تک ہمیں اپنی تمام تر توجہات اسی کام پر مرکوز کرنا لازم ہے۔ میں نے اس کے لیے ذاتی ضرورت کا بہانہ بنا کر دفتر سے رخصت لے لی ہے۔ میری کیتھی سے گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی صحافتی مصروفیات سے وقتی طور پر کنارہ کش ہو جائے۔

اور مخبری والے معاملے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ کیتھی نے سوال کیا۔

میرا خیال ہے اسے بالکل بند کر دینا شکوک و شبہات پیدا کر سکتا ہے اس لیے کسی نہ کسی حد تک اسے جاری رہنا چاہئے۔ ویسے تم صحت کا بہانہ بنا کر اپنی سرگرمیوں کو کم کر سکتی ہو۔

کیتھی بولی یہ بہتر ہے۔

ہاروے نے پوچھا کیا میں بھی دفتر جانا بند کر دوں؟

نہیں ایسا کرنا تو خودکشی کے مترادف ہے۔ میرے خیال میں تمھاری نقل و حرکت زیرِ نگرانی ہے اس لیے تمھارے معمولاتِ زندگی میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آئندہ چار دنوں کے اندر ہماری کرو یا مرو کی جنگ کا رخ متعین ہو جائے گا۔

جی ہاں میں اس کی تائید کرتی ہوں۔

مائیکل نے کہا اس ابتدائی گفتگو کے بعد اب ہم اپنے اہداف کی جانب بڑھتے ہیں۔ ہم ہر ہدف کی حکمت عملی پر غور کریں گے اور جب وہ طے ہو جائے تو اس کو آپس میں تقسیم کر کے اس کے لیے درکار مدتِ کار کا تعین کر دیں گے۔

ہاروے نے تائید کی اور بولا یہی درست طریقۂ کار ہے۔ سب سے پہلے ترجیحات کے مسئلہ پر میں آپ لوگوں کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں؟

مائیکل نے کہا ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ آئندہ کے چار دن ہم اپنی ساری توجہات مونیکا اور جان کی جانب مرکوز رکھیں گے یا مقامی نوجوانوں کی رہائی کے لیے بھی کچھ کریں گے؟

کیتھی بولی مجھے لگتا ہے مونیکا کا مقدمہ ایک ہی سماعت میں نمٹا کر اس کو سمیٹا جا سکتا ہے لیکن مقامی جنگ طویل ہے اس لیے ان چار دنوں کو مونیکا کے لیے مختص کر دینا بہتر ہے۔

ہاروے نے تائید کی۔ ٹھیک ہے اگر ایسا ہے تو آج ہم صرف آئندہ کی سماعت تک کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کیتھی بولی

ہاروے نے کہا کہ جان ڈیو کے خلاف ہمارا سب سے بڑا ہے ہتھیار فون پر اس کی آواز کی ریکارڈنگ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی ایک نقل تم دونوں کے پاس بھی ہونی چاہئے تاکہ اگر یہ مجھ سے چھن جائے تم میں سے کوئی ایک اس کا استعمال کر سکے یہ کہہ کر اس نے ایک ایک یو ایس بی کیتھی اور مائیکل کے حوالے کی۔

کیتھی بولی میں تو سمجھتی ہوں کہ اسے دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ خاص لوگوں تک میل کے ذریعہ روانہ کر دینا چاہئے۔ وہ ایسے با اعتماد لوگ ہوں جو ہماری اجازت کے بغیر اس کی جانب نہ دیکھیں لیکن بوقتِ ضرورت اس کا استعمال کر سکیں۔ یہ اقدام حفظ ماتقدم کے طور پر اس لیے ضروری ہے کہ جان ڈیو سے لڑائی ہے جو کچھ بھی کر سکتا ہے۔

مائیکل اور ہاروے نے اس مشورے کی تائید کی اور کیتھی سے کہا کہ اس کام کی ذمہ داری وہ خود لے۔ عدالت کے کاغذات بنانے کی ذمہ داری ہاروے کو سونپا گیا لیکن ساتھ ہی یہ طے پایا کہ جیسے ہی کوئی دستاویز تیار ہو جائے گی اس کی ایک نقل باقی دونوں تک بھی پہنچ جائے گی۔

واشنگٹن جانے کے بارے میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ تینوں کو مقدمے کے دن واشنگٹن ہی میں ہونا چاہئے اس لیے کہ وہی میدانِ کارزار ہے۔ احتیاط کے طور پر مائیکل اور کیتھی الگ الگ تاریخوں میں مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے واشنگٹن جائیں گے۔ ہاروے کا براہ راست واشنگٹن جانا بہتر ہے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔

واشنگٹن میں تینوں نے مختلف ہو ٹلوں میں قیام کا فیصلہ کیا نیز ہر ایک کے انفرادی طور پر اپنے انتظامات کرنے پر اتفاق ہوا۔

اس بات کو بہتر سمجھا گیا کہ کیتھی اپنے چینل کی نمائندگی کرنے کے لیے عدالت میں جائے۔ اس کے لیے پہلے کے فیصلے میں تبدیلی کی گئی اور چھٹی کو صرف دو دن تک محدود کر کے چوتھے دن دفتر کی جانب سے کیتھی کا عدالت کی کارروائی کو کور کرنے کے لیے جانا طے ہوا۔

مائیکل نے اپنی رخصت کو منسوخ کر کے اگلے دن تجارتی دورے پر نیویارک جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں سے ہو کر واشنگٹن آ سکے۔ مائیکل کی روانگی سے قبل ایک اور ملاقات طے کی گئی اور تینوں لوگ اپنے اپنے راستوں پر نکل کھڑے ہوئے۔

چوتھے دن ان لوگوں کو اپنی مہم کو لاحق متوقع خطرات پر غور کرنا تھا اور اس گفتگو کو کیتھی چلا رہی تھی۔ اس کی نظر میں سب سے بڑا خطرہ ہاروے کو عدالت میں پہنچنے سے روکا جانا تھا۔

ہاروے نے تائید کی اور کہا کہ ہمیں اس کے امکان کے پیش نظر غور کرنا چاہئے کہ اگر وہ لوگ مجھے روکنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری جانب سے کیا اقدامات کئے جائیں گے؟

مائیکل نے کہا میرے خیال میں اگر وہ تمہیں روک دیں تو تمھاری جگہ کوئی فرضی وکیل بھی کھڑا کر سکتے ہیں جو ان کا اپنا آدمی ہو۔

ہاروے نے حیرت سے کہا اچھا؟

کیتھی بولی جی ہاں وہ جان ڈیو ہے۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ میں اس کی …..

مائیکل نے جملہ کاٹ دیا اور بولا…. واقف ہوں۔

کیتھی نے بگڑ کر کہا تمہیں ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔

اس سے پہلے کہ مائیکل جواب دیتا ہاروے نے مداخلت کی اور بولا دیکھو یہ روٹھنے اور منانے کا وقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس کام زیادہ اور وقت کم ہے۔ یہ بتاؤ کہ اس ناگہانی صورتحال میں ہم کیا کریں گے؟

یہ بھی کوئی سوال ہے؟ ہمیں متبادل ایڈوکیٹ کا بندوبست کرنا ہو گا جوان کی سازش کو ناکام بنا دے۔ مائیکل بولا

لیکن وہ کون ہو گا؟ کیتھی نے پوچھا اور اس کے پاس اجازت نامہ میرا مطلب ہے وکالت نامہ ہونا چاہئے تاکہ وہ ہاروے کی نمائندگی کر سکے۔

مائیکل بولا متبادل وکیل کا بندوبست میں کر دوں گا۔

ہاروے نے کہا میں اس کے حق میں حلف نامہ بنا کر اسے اپنا نمائندہ نامزد کر دوں گا۔

کیتھی بولی میں اس بیچ مزید معلومات حاصل کروں گی اور اگر کوئی اہم اطلاع ملتی ہے تو اپنے نئے فون سے تم دونوں تک پہنچا دوں گی۔

اسی کے ساتھ وہ تینوں واشنگٹن میں ملنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب پنجم

 

 

۲۰

 

کولاریڈو ہوائی اڈے پر اپنا بورڈنگ کارڈ حاصل کر لینے کے بعد ہاروے نے اپنے خصوصی ٹیلیفون سے پہلے کیتھی کو فون کیا۔ وہ واشنگٹن پہنچ چکی تھی اور اپنے معاونین کے ساتھ اگلے دن کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اس کے بعد ہاروے نے مائیکل کو فون ملایا۔ وہ بھی واشنگٹن میں موجود تھا اور متبادل وکیل سے ملاقات کر کے اسے ہاروے کی جانب سے مقدمہ لڑنے کا اجازت نامہ دے چکا تھا۔ مائیکل نے نئے وکیل ڈیوڈ کو مقدمہ کے سلسلے میں مختصر معلومات دے کر سمجھا دیا تھا کہ ہاروے کی عدم موجودگی میں اسے کیا کرنا ہو گا۔

ہاروے نے مائیکل کو کیتھی کی اطلاع دی۔ سارا کچھ منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا ہر کوئی بہت خوش تھا۔ کچھ دیر بعد فلائیٹ میں سوار ہونے کا اعلان ہوا اور گیٹ سے قریب سارے لوگوں کا بورڈنگ کارڈ اور شناختی کارڈ پھر ایک بار دیکھا جانے لگا۔ اس دوران جیسے ہی ہاروے نے اپنا بورڈنگ کارڈ دکھایا اسے کنارے کر کے تفتیش کے لیے روک لیا گیا۔

ہاروے کے لیے یہ غیر متوقع نہیں تھا پھر بھی اس نے وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ اس کے بیگ میں کوئی مشکوک شے پائی گئی ہے۔ ہاروے بولا آپ ایسا کریں کے مجھے بغیر بیگ کے جانے دیں۔ میں یہیں کولاریڈو کا رہنے والا ہوں واپس آ کر اسے لے لوں گا۔

افسر بولا یہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ آپ کے بیگ کو اچھی طرح جانچ نہیں لیا جاتا ہم آپ کو نہیں چھوڑ سکتے۔

ہاروے نے کہا لیکن یہ بیگ تو تفتیشی مشین سے گزر چکا ہے۔

افسر نے کہا دیکھئے جناب آپ حجت نہ کریں ابھی ہماری مشین نے الارم بجایا ہے اور ہمیں اس کی جانچ پڑتال کرنی ہو گی۔ ہم نے منشیات کو سونگھنے والے کتے بلوا بھیجے ہیں۔ اب ان کی جانچ پڑتال کے بعد ہی یہ بیگ اور آپ آگے جا سکیں گے۔

ہاروے نے کہا کہ اگر ان کے آنے تک جہاز چلا جائے تو؟

افسر بولا کوئی بات نہیں یہ آخری جہاز تو ہے نہیں آپ اگلے جہاز میں چلے جائیں گے۔

اور اگر بعد والے جہاز میں کوئی نشست خالی نہ ہو تو؟

تب بھی کوئی مضائقہ نہیں افسر مسکرا کر بولا آپ اس کے بعد والے جہاز میں چلے جائیں گے۔ میرا مطلب ہے کسی نہ کسی جہاز سے انتظام ہو جائے گا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔

ہاروے تھک ہار کر بولا گویا یہ بات طے ہے کہ میں اس جہاز سے نہیں جاؤں گا جس سے کہ مجھے جانا ہے۔

افسر نے وضاحت کی جناب یہ ہم نے نہیں کہا۔ کتے آتے ہی ہوں گے۔ آپ اطمینان سے یہاں موجودکرسیوں پر آرام کریں جوں ہی آپ کے سامان کی تفتیش مکمل ہو جائے گی آپ کے نام کا اعلان کر دیا جائے گا۔

ہاروے سمجھ گیا اس کے ستارے گردش میں آ چکے ہیں۔ وہ جا کر سامنے کی کرسی پر بیٹھ گیا اور حسرت بھری نگاہوں سے مسافروں کو جاتے ہوئے دیکھنے لگا۔ اس کے بعد اٹھ کر حمام میں گیا اور اپنے خصوصی فون سے دو ایس ایم ایس روانہ کیے جس میں صرف ‘اے ’ لکھا ہوا تھا جو ارسٹیڈ یعنی گرفتار کا مخفف تھا۔ اس کے بعد اس نے فون کے اندر سے سم کارڈ کو نکال کر فون کو کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا اور سم کارڈ پانی میں بہا دیا۔ ہاروے کا گمان تھا کہ اسے واشنگٹن میں روکا اور پریشان کیا جائے گا لیکن ان لوگوں کے ارادے تو کولاریڈو میں ہی خراب ہو گئے تھے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا مسٹرہاروے تمھارا دشمن بھی خاصہ محتاط ہے۔ کیا سمجھے؟

ہاروے کی فلائٹ چلی گئی اور وہ ہوائی اڈے پر بیٹھا رہ گیا۔ حسبِ توقع کچھ دیر بعد ایک پولس افسر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا جناب والا مجھے خوشی ہے کہ آپ کے سامان کی تلاشی میں کوئی مشکوک چیز نہیں پائی گئی اب آپ جا سکتے ہیں۔

لیکن مجھے افسوس ہے کہ میرا جہاز جا چکا ہے۔ اب میں جاؤں تو کہاں جاؤں۔ میرا کل صبح واشنگٹن میں رہنا بے حد ضروری تھا لیکن سارا پروگرام آپ لوگوں کی بیجا تفتیش کی نذر ہو گیا۔

میں اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں جناب لیکن اگر آپ کا جانا ضروری ہو تو میں یہاں موجود عملہ سے بات کر کے کسی اور راستے سے آپ کو واشنگٹن پہنچانے کا انتظام کر سکتا ہوں۔

ہاروے بولا ٹھیک ہے جو کرنا ہے کرو لیکن میرا واشنگٹن جانا بہت ضروری ہے۔ وہ افسر ٹھیک ہے کہہ کر چلا گیا۔ ہاروے کو پولس کے رویے پر حیرت تھی اول تو ان لوگوں نے اسے جانے سے روکا اور اب پہنچانے کا بندوبست کر رہے تھے۔ اس کی چھٹی حس خطرے کا لال نشان بتانے لگی وہ سمجھ گیا دال میں کالا ہے۔ ہاروے نے سوچا کہیں اور جا کر پھنسنے سے بہتر اپنے گھر جانا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہاروے کسی حتمی نتیجے پر پہنچتا وہی افسر سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا وہ بولا جناب مجھے خوشی ہے کہ ابھی ابھی ٹکساس روانہ ہونے والی فلائٹ میں آپ کے لیے ایک نشست کا انتظام ہو گیا ہے۔ اس کے ذریعہ آپ ٹکساس اور وہاں سے ہوتے ہوئے آدھی رات کو واشنگٹن پہنچ جائیں گے۔ اس طرح کل صبح عدالت میں حاضر ہو سکیں گے۔

ہاروے چونکنے کی اداکاری کرتے ہوئے بولا۔ عدالت؟ کیسی عدالت؟ یہ تمہیں کس نے بتایا کہ میں عدالت میں جا رہا ہوں؟

افسرکو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا آپ نے جس بے چینی کا اظہار کیا اس سے میں نے محسوس کیا ضرور کوئی کورٹ کچہری کا معاملہ ہے جو آپ اس قدر پریشان ہیں۔ ویسے آپ کا جو بھی کام ہو کل صبح آپ اسے کر سکتے ہیں۔

ہاروے نے ہنس کر پوچھا اور اگر ٹکساس میں میرا بیگ مشکوک ہو جائے تو کیا ہو گا؟

آپ کیسی بات کرتے ہیں جناب۔ میرا خیال آپ وقت ضائع کیے بغیر جلدی سے چلیں ورنہ یہ فلائٹ بھی نکل جائے گی اور یاد رہے کل صبح تک واشنگٹن پہنچنے کا یہ آخری موقع ہے۔ میں نے دونوں جہازوں میں آپ کے لیے سیٹ رکوا لی ہے۔

ہاروے مسکرا کر بولا شکریہ آپ نے بہت زحمت اٹھائی لیکن میں رات دیر گئے سفر نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اگر رات کی نیند خراب ہو جائے تو اگلے دن مجھ سے کوئی کام نہیں ہوتا۔

یہ جواب پولس افسر کی توقع کے خلاف تھا وہ بولا جناب آپ مذاق تو نہیں کر رہے میں نے بڑی منت سماجت کر کے یہ نشستیں مختص کروائی ہیں اور آپ ہیں کہ انکار کر رہے ہیں۔

میں آپ کا ممنون ہوں مگر مجبور بھی ہوں۔ اب میں واپس گھر جانا چاہتا ہوں۔

گھر جانا چاہتے ہیں؟ آپ تو کہہ رہے تھے آپ کا واشنگٹن جانا بہت ضروری ہے۔

جی ہاں یہ اس وقت کی بات ہے جب یہاں سے براہ راست جہاز واشنگٹن جا رہا تھا لیکن اب وہ جا چکا ہے اور میں آپ کی مہربانی سے یہیں بیٹھا ہوا ہوں۔

میں اس زحمت کے لیے معافی چاہتا ہوں لیکن ہم نے متبادل انتظام بھی تو کر دیا ہے۔

اچھا تو کیا اس متبادل کو تسلیم کرنے کے لیے مجھ پر زبردستی بھی کریں گے؟ ہاروے نے سخت لہجے میں جواب دیا۔

افسر بولا جی نہیں ایسی بات نہیں ہے۔

تو پھر مجھے جانے دیجیے میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ میری نیند۔

افسر نے بات کاٹ دی سرصرف دو گھنٹے کی تاخیر ہو گی۔

ہاروے بولا لیکن وہ دو گھنٹے میرے لیے بائیس گھنٹے کی اذیت بن جائیں گے۔

اگر آپ گھر جانے پر اصرار کر رہے ہیں تو مجھے پوچھنا پڑے گا۔

پوچھنا پڑے گا؟ کس سے پوچھنا پڑے گا؟

اپنے اعلیٰ افسر سے۔

ہاروے ہنس کر بولا میں تمھارے اعلیٰ افسر کے نہیں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں کیا سمجھے؟

تب بھی مجھے پوچھنا پڑے گا۔

ہاروے نے کہا اچھا تو میں اپنے گھر جا سکتا ہوں یا نہیں اس کا فیصلہ تمھارے اعلیٰ افسر کریں گے۔ کیا تم مجھے جانتے ہو؟

جی ہاں ہم جانتے ہیں آپ سابق سنیٹر ولیم کنگسلے کے بیٹے ہاروے کنگسلے ہیں۔

پولس افسر نے چونکہ سب سے زیادہ زور سابق پر دیا تھا اس لیے ہاروے سمجھ گیا کہ اب مزید بحث و مباحثہ بے سود ہے۔ وہ بولا اچھا تو جاؤ اور پوچھ کر آؤ اس لیے کہ میں تو ٹیکساس جانے سے رہا۔ اب تم واپس آ کر مجھے بتانا کہ مجھے جانا کہاں ہے؟

میں زحمت کے لیے معافی …..

ہاروے نے کہا اس کی ضرورت نہیں وہ تو تمھارے افسر ……..

جی نہیں ان کے افسر ……….۔

ہاروے صوفے پر بیٹھ کر اطمینان سے اس نئی صورتحال کا جائزہ لینے لگا۔ چونکہ ان لوگوں نے اس امکان پر غور کر لیا تھا اور متبادل انتظام بھی ہو گیا تھا اس لیے وہ قدرے مطمئن تھا لیکن اسے ٹیکساس نہیں جانے کے اپنے فیصلے پر خوشی تھی۔ انتظامیہ کے رویے نے اس کے اندیشوں کی تصدیق کر دی تھی۔

افسر نے آ کر بتایا کہ جناب چونکہ آپ حراست میں ہیں اس لئے گھر نہیں جا سکتے۔

ہاروے بولاحراست! اچھا تو کیا میں اپنی گرفتاری کا وارنٹ دیکھ سکتا ہوں؟

کیوں نہیں۔ وہ فی الحال زیر ترتیب ہے۔ تیار ہونے پر آپ کو دکھا دیا جائے گا۔

لیکن مجھ پر الزام کیا ہے؟

افسر بولا وہ آپ کے بیگ میں منشیات…

ہاروے نے بات کاٹ دی لیکن ابھی ابھی تو تم نے کہا تھا ……..

جی ہاں لیکن اس وقت تو آپ واشنگٹن جا رہے تھے۔ آپ نے بھی تو……اپنا ارادہ بدل دیا۔

ہاروے نے کہا جی ہاں اسی طرح تم نے بھی ……..

پولس والا بولا جی نہیں ہمارے افسر …..

ہاروے نے کہا ہاں ہاں سمجھ گیا ان کے افسر…..

جی ہاں جناب آپ بجا فرماتے ہیں ویسے آپ بہت سمجھدارآدمی ہیں۔ اس لیے اگر مناسب سمجھیں تو ہمارے ساتھ چلیں۔

ہاروے نے پوچھا لیکن جانا کہاں ہے؟

میں تو آپ کو بتا چکا ہوں کہ آپ حراست میں ہیں۔ فی الحال میرے ساتھ چل کر آرام کریں۔ آپ کے کاغذات جلد ہی آپ کی خدمت میں پیش کر دئیے جائیں گے۔

یہ تو گاڑی آگے اور گھوڑا پیچھے والی بات ہوئی۔ کاغذات پہلے ملنے چاہئیں اور گرفتاری بعد میں ہونی چاہئے۔

وہ تو درست ہے جناب لیکن اس وقت تک آپ کو یہاں انتظار کی زحمت سے گزرنا پڑے گا آپ کی نیند بھی خراب ہو جائے گی۔ اس سے بہتر ہے کہ آپ میرے ساتھ چل کر مہمان خانے میں آرام فرمائیں کاغذی کارروائی کا کیا ہے سو تو ہوتی رہے گی۔

ہاروے سمجھ گیا اس کو مجھ سے زیادہ اپنے آرام کی فکر ستا رہی ہے۔ ایک مرتبہ مجھے جیل میں پہنچانے کے بعد اس کی جان چھوٹ جائے گی۔ پھر بھی اس نے چھیڑنے کے لیے کہا بھئی تمہیں میرے آرام کا بڑا خیال ہے خیر یہ بتاؤ کہ مجھے کب تک مہمان بنانے کا ارادہ ہے؟

افسرنے بڑے وثوق سے بتایا میرا خیال ہے صرف ایک دن۔ کل دوپہر تک آپ کو رہا ئی مل جائے گی۔

یہ تمہیں کیسے پتہ؟

میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا۔ یہ میراقیاس ہے بس۔

اور تمھاری قیاس آرائی ہمیشہ درست نکلتی ہے؟

جی نہیں ایسا کون ہے جس کے سارے اندازے صحیح نکلیں۔ اندازہ تو خیر اندازہ ہوتا ہے جو کبھی صحیح تو کبھی غلط نکل جاتا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

ہاروے نے چھیڑتے ہوئے کہا اگر ایسا ہے تو اندازے لگاتے ہی کیوں ہو؟

جناب بات در اصل یہ ہے کہ اندازہ لگانے کے لیے کوئی محنت تو کرنی نہیں پڑتی۔ اپنے آپ لگ جاتا ہے اور اگر غلط بھی نکل جائے تو نہ کوئی نقصان اور نہ پریشانی۔

ہاروے نے تائید کی اور پوچھا۔ اچھا اپنا نام تو بتاؤ؟

غیاث الدین۔

ہاروے نے حیرت سے کہا اوہو تو کیا تم مسلمان ہو؟

جی ہاں جناب اس میں کیا شک ہے کہ میں مسلمان ہوں۔

تو کیا پولس محکمہ میں مسلمان بھی کام کرتے ہیں۔

جی ہاں لیکن بہت کم۔

اچھا تو تمہیں یہ ملازمت کیسے مل گئی؟

میں بے روزگاری کے زمانے میں مخبری کرتا تھا۔ اس سے میرا وقت بھی گزر جاتا تھا اور گزارہ بھی ہو جاتا تھا۔ میرا مطلب دو پیسے آمدنی بھی ہو جاتی تھی۔ اسی دوران میرے بہت سارے پولس افسران سے تعلقات ہو گئے۔ پھر کیا تھا ان میں سے ایک کو میرا کام اس قدر پسند آیا کہ اس نے مجھے باقاعدہ بھرتی کروا لیا۔

تب تو تم بڑے خوش نصیب ہو۔

جی ہاں سرکار ورنہ مجھ جیسے معمولی انسان کا امریکہ کی پولس محکمہ میں کام کرنا کوئی معمولی بات ہے؟ غیاث الدین اب کچھ کھل گیا تھا وہ بولا جناب آپ تو جلدی سونے کے عادی ہیں۔ اب رات بھر یہاں اسی طرح باتیں کریں گے یا میرے ساتھ چل کر آرام بھی فرمائیں گے؟

تو کیا میں کاغذات کا انتظار یا اصرار چھوڑ دوں؟

میرا خیال ہے یہی بہتر ہے غیاث الدین بولا۔

اگر میں اخبار والوں کو فون کر دوں تو؟

غیاث الدین کا جواب تھا تو اس میں آپ ہی کی بدنامی ہو گی اس لیے کہ ہم انھیں بتائیں گے آپ کے بیگ سے ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔

اچھا تو وہ مان جائیں گے؟

کیسے نہیں مانیں گے۔ امریکی پولس کا الزام ان کے لیے الہام کا درجہ رکھتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ انکار کی صورت میں جو کچھ آپ کے بیگ سے نکلا ہے وہ ان کے بیگ میں بھی…

سمجھ گیا بھائی میں سمجھ گیا۔ ہاروے نے سوچا اب بات بڑھانا کل کے منصوبے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ چلیے جناب غیاث الدین صاحب میں تیار ہوں۔

زہے نصیب۔ آپ کا سامان ہماری گاڑی میں رکھا جا چکا ہے۔

تم ساتھ چلو گے یا یہیں سے رخصت کر دو گے؟

آپ کو آرام گاہ تک پہنچانا میرے ذمہ ہے اس لیے ساتھ چلوں گا۔

اچھا یہ بتاؤ کہ تم میرے قید خانے کو بار بار آرام گاہ کیوں کہتے ہو؟

غیاث الدین بولا اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو وہاں قید و بند کی کوئی صعوبت نہیں ہے میرا مطلب ہے کہ آرام و آسائش کا سارا اہتمام ہے۔ دوسرے ہم لوگ بھی وہیں آرام کرتے ہیں۔ اب اپنی قیام گاہ کو قید خانہ تو کوئی نہیں کہتا۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی پھر سے گفتگو کا سلسلہ چل پڑا۔ ہاروے نے پوچھا غیاث الدین ایک بات بتاؤ کیا آرام و آسائش کا سامان قید خانے کو آرام گاہ میں تبدیل کر دیتا ہے؟

جی ہاں کیوں نہیں؟ غیاث الدین نے جواب کے ساتھ سوال کیا۔

تو کیا قید و بند آرام گاہ کو قید خانہ بنا دیتی ہے؟

غیاث الدین بولا کیوں نہیں؟ اس میں کیا شک ہے؟

اگر ایسا ہے تو ساری دنیا ہی ایک قید خانہ ہے۔

غیاث الدین نے زوردار تائید کی۔ جی ہاں گھر میں انسان بیوی کی قیدی ہوتا ہے اور دفتر میں اپنے مالک کا پابند ہوتا ہے اس لئے آپ کی بات صد فیصد درست ہے۔

ہاروے کو منطق پسند آئی وہ بولا لیکن گھر اور دفتر کے علاوہ بھی تو زندگی ہے؟

غیاث الدین نے کہا جی ہاں۔ میں تو کہتا ہوں انسان جہاں کہیں بھی ہو اپنی تمناؤں کی بیڑیوں میں گرفتار رہتا ہے۔ اس کے قلب و ذہن پر بے شمار نفسانی خواہشات کے تالے پڑے ہوتے ہیں۔ آنکھوں پر عصبیت کا پردہ کانوں میں تفریق کی بالیاں۔ ناک پر کبر و نخوت کی نتھنی اور زبان پر کذب کی میل چڑھی ہوتی ہے۔ انگلیاں حرام کے سکے گنتی رہتی ہیں اور قدم عدل و انصاف کو بے دریغ روندتے پھرتے ہیں۔ جس انسان کا انگ انگ قیدی ہو وہ بھلا کیسے اپنے آزاد ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔

اس کا جواب کو سن کر حیرت زدہ ہاروے بولا جس طرح ہم ہیں۔

جی ہاں جناب آپ نے درست فرمایا۔ حقیقت میں ہم دونوں قیدی ہیں فرق صرف ظاہر و باطن کا ہے۔ ایک کا وارنٹ نکلے گا دوسرے کو وہ بھی نصیب نہیں ہو گا۔

ہاروے بولا بھئی غیاث الدین تم تو اچھے خاصے فلسفی ہو یار۔

جی نہیں جناب میں نہ فلسفی ہوں اور نہ پولس افسر۔ میں تو ایک سیدھا سادہ انسان ہوں بس۔ یہ لیجیے ہماری گاڑی اپنی قیام گاہ پر پہنچ گئی۔

یہ ایک عام سی کوٹھی تھی۔ اس کے استعمال کی معلومات ہم سائے کو بھی نہیں ہو گی۔ ہاروے نے پوچھا یہاں کھانا وانا ملے گا یا پھر صبر کا پتھر پیٹ پر باند ھ کر سوجانا ہو گا۔

جناب عالی میں عرض کر چکا ہوں کہ یہاں کام و دہن کا سارا انتظام ہے۔ جو نہیں ہے وہ منٹوں میں حاضر ہو سکتا ہے۔ آپ اس کے اندر آزاد ہیں بس اپنی مرضی سے باہر نہیں آ سکتے۔

کہیں اس عمارت کا نام امریکہ تو نہیں ہے؟

ہاروے کے اس سوال پر غیاث الدین کا زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ جناب آپ نے میرا دل خوش کر دیا۔ کیا بات کہی آپ نے بھئی مزہ آ گیا۔

اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تم بھی یہیں میرے ساتھ کھانا کھاؤ گے یا اپنے گھر جاؤ گے؟

ویسے تو میرا ارادہ گھر جانے کا تھا لیکن آپ کے احترام میں یہیں دو نوالہ کھالوں گا۔

ہاروے بولا شکریہ زہے نصیب۔

٭٭٭

 

 

۲۱

 

اس بے ضرر سی کو ٹھی میں بظاہر ایک چوکیدار تک نہیں تھا مگر اس کے چپے چپے میں کیمرے نصب تھے اور آس پاس کے مکانوں سے اس کے اندر مقیم افراد کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھی جاتی تھی۔ یہ جدید طرز کی خودکار جیل تھی بالکل ڈرون طیاروں کی مانند پائلٹ کے بغیر کسی اور کے اشارے پر کام کرنے والی۔ ڈرون ہی کی طرح نہ اس کو کسی پر رحم آتا تھا اور نہ یہ حق و ناحق کی درمیان تفریق کرتی تھی۔ ہاروے کے کمرے کی ٹھاٹ باٹ فائیو اسٹار سے برتر تھی۔ ہر قسم کے لوازمات سے لیس یہ سرکاری سسرال ہاروے کو وی آئی پی داماد ہونے کا احساس دلا رہی تھی۔

ہاروے کپڑے بدلنے لگا تو اچانک کیمروں کے خیال سے سہم گیا۔ یہ عجیب و غریب احساس اسے پہلی بار ہوا تھا۔ بڑے احتیاط سے اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ حمام میں گیا تو وہاں بھی شرمایا اور گھبرایا ہوا سا تھا۔ ہاتھ منھ دھوکر ترو تازہ ہونے کے بعد وہ کھانے کی میز پر آ گیا جہاں غیاث الدین اس کا منتظر تھا۔

یہ ایک زبردست طعام گاہ تھی جس میں ایک طرف انواع اقسام کی شراب سجی ہوئی تھی اور دوسری جانب مختلف قسم کے کھانے چنے ہوئے تھے۔ اس کمرے کے ایک جانب چار نہایت خوبصورت خواتین ہاروے کی خدمت میں کمربستہ تھیں۔ ہاروے جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا۔ ان میں سے ایک آگے بڑھی اور بولی ہم اپنے معزز مہمان کا استقبال کرتے ہیں۔

ہاروے نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور ایک کرسی کی جانب بڑھا۔ اس خاتون نے کرسی درست کی اور بولی محترم کیا نوش فرمائیں گے؟

ہاروے نے کہا فی الحال میں کچھ دیر غیاث الدین کے ساتھ بات کروں گا اور اس کے بعد جب آپ کی خدمت درکار ہو گی تو یاد کروں گا۔

وہ سمجھ گئی کہ یہ احمق مہمان تنہائی چاہتا ہے۔ ایک ریموٹ کنٹرول ہاروے کو تھماتے ہوئے وہ بولی جناب عالی جب بھی آپ کو ہماری ضرورت پیش آئے اس پر لگے مختلف رنگوں میں سے جو بھی بٹن آپ دبائیں اس رنگ کے لباس والی خادمہ حاضر خدمت ہو جائے گی۔

ہاروے کے لیے یہ حیرت انگیز تجربہ تھا۔ اس نے پھر شکریہ ادا کیا۔ اسی کے ساتھ وہ چاروں خواتین کسی اور کمرے میں چلی گئیں۔

ہاروے نے سکون کا سانس لے کر غیاث الدین سے کہا عجیب مصیبت ہے۔

غیاث الدین قریب آ کر بیٹھ گیا اور بولا جناب یہ مصیبت نہیں فرحت ہے۔

تم اس کو جانتے ہو؟

جی نہیں میں نے اسے آج پہلی بار دیکھا ہے۔

پھر تمہیں اس کا نام؟ ؟؟

سر بات یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والی ہر لڑکی کا ایک ہی نام ہوتا ہے فرحت۔

ہاروے نے غیر یقینی انداز میں اس کی جانب دیکھا تو وہ بولا اگر آپ کو مجھ پر اعتبار نہ ہو تو گھنٹی بجا کر بلوائیے اور خود نام پوچھ لیجیے۔

جی نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ ہاروے نے چاروں طرف دیکھ کر پوچھا کیا یہ سب اہتمام صرف میرے لیے ہے۔

جی ہاں سر ابھی تک تو آپ ہی کے لیے ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد میں کوئی اور مہمان بھی یہاں آ جائے۔ اس کوٹھی میں کل ملا کر آٹھ خوابگاہیں ہیں اس لیے جملہ آٹھ اہم ترین مہمانوں کی یہاں گنجائش ہے لیکن شاذو نادر ہی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے عام طور پر صرف ایک یا دو بس۔

ہاروے نے پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ یہ خواتین کون ہیں اور یہاں کیا کر رہی ہیں؟

میں سوچ ہی رہا تھا کہ ابھی تک آپ نے ان کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا خیر اب جبکہ آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو بتلا دوں یہ ویسے تو محکمہ پولس میں ملازمت کرتی ہیں لیکن ان کا کام اس عمارت تک محدود ہے۔

ہاروے نے سوال کیا، کیا مطلب؟

مطلب یہ ہے سرکار کہ ان کا کام اول تو اس کوٹھی کی دیکھ ریکھ کرنا ہے۔ یہاں آنے والوں کی نگرانی اور ان کی نگہداشت کرنا۔ مختصر یہ کہ انھیں خوش رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ یہ یہیں رہتی ہیں ان کا گھر اور دفتر یہی حویلی ہے۔

غیاث الدین خاص طور پر قیدی، حراست اور جیل جیسے الفاظ کے استعمال سے گریز کر رہا تھا لیکن ہاروے نے کہہ دیا گویا یہ تو مستقل قیدی ہیں۔

جی نہیں صاحب آپ کیسی بات کرتے ہیں؟ یہاں آنے والے مہمان ان کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوتے ہیں۔ یہ تو بالکل آزاد پنچھی کی طرح جب چاہتی ہیں جہاں چاہتی ہیں چلی جاتی ہیں لیکن یہاں آنے والے ان کی اجازت کے بغیر حویلی کے صدر دروازے تک پھٹک نہیں سکتے۔

اس بیچ ہاروے نے سامنے کی الماری سے بیئر کی بوتل اٹھا لی اور غیاث الدین سے پوچھا تمہیں پینے پلانے میں دلچسپی ہے یا نہیں؟

ہے بھی اور نہیں بھی۔

میں تمھاری بات نہیں سمجھا۔

بھئی اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ آپ نے پینے اور پلانے کے بارے میں پوچھا تو میرا جواب ہے پینے میں تو نہیں ہاں پلانے میں ہے۔

ہاروے نے کہا مذہبی آدمی ہو؟

مذہبی تو نہیں لیکن ایسا مذہب بیزار بھی نہیں کہ …..

ہاروے نے کہاسمجھ گیا لیکن امریکی پولس میں ایسا کٹر مسلمان؟ کہیں یہ تمہیں القاعدہ کا آدمی نہ قرار دے دیں۔

جناب یہ امریکہ ہے یہاں اقتدار کے ہر مخالف کو القاعدہ کا آدمی بنایا جا سکتا ہے۔

کیا یہ لوگ مجھے بھی القاعدہ سے جوڑ سکتے ہیں۔

خدا نہ کرے غیاث الدین نے جواب دیا لیکن صاحب یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کیا آپ ان لوگوں کو جانتے ہیں جنھیں آپ کے والد کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟

سب کو تو نہیں لیکن ان میں سے ایک کو جانتا ہوں۔

آپ کسے جانتے ہیں؟

میں احمد رمزی سے واقف ہوں۔

غیاث الدین نے کہا چلیے احمد رمزی ہی کی مثال لے لیجیے۔ وہ ملک شام کا رہنے والا شیعہ مسلمان ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر اہل تشیع اور القاعدہ کی آپس میں نہیں بنتی اس کے باوجود اس بیچارے کو القاعدہ کا آدمی بنا کر گرفتار کر لیا گیا۔

اچھا تو کیا تم بھی اسے گرفتار کرنے والوں میں شامل تھے۔

جی ہاں جناب۔ مجھے افسوس ہے کہ میں بھی اس گناہ میں شریک تھا۔ قسم خدا کی اس رات میں سو نہیں سکا۔ بار بار جی چاہتا تھا کہ قفل کھول کر ان معصوموں کو رہا کر دوں اور خود پھانسی پر چڑھ جاؤں لیکن افسوس کہ میں ایسا نہیں کر سکا۔ میں ایک نہایت بزدل اور ناکارہ انسان ہوں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے انسان کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ میں شرمندہ ہوں جناب میں اپنے آپ پر نادم ہوں میں اپنی ذات کو کبھی بھی معاف نہیں کر سکتا۔ مجھے اس کی سزا ملے گی۔ ضرور مجھے اس کی سزا ملے گی۔ غیاث الدین کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔

تم پولس کے آدمی ہو۔ حکومت کے تحفظ میں تمہیں کون سزا دے سکتا۔

مجھے وہی سزا دے گا جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی جو احکم الحاکمین ہے۔ اور اس کی پکڑ سے کوئی کسی کو بچا نہیں سکتا۔

ہاروے سمجھ گیا تھا غیاث الدین کا اشارہ کس طرف ہے۔ اس نے موضوع بدلتے ہوئے کہا غیاث الدین ایک بات بتاؤ معصوم تو معصوم ہوتا ہے۔ میرا بھی کوئی قصور نہیں ہے اس کے باوجود تم مجھے گرفتار کر کے یہاں لے آئے ہو۔ اس کا تمہیں کوئی افسوس نہیں ہے؟ لیکن ان لوگوں کی گرفتاری کا بڑا قلق ہے۔ کیا اس طرح تفریق و امتیاز بجا ہے۔

آپ کی بات درست ہے۔ تفریق بجا نہیں ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کی گرفتاری محض ایک دکھاوا ہے۔ آپ پر کوئی سنگین الزام نہیں لگائے گئے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی گرفتاری کے کاغذات نہ بنے ہیں اور بنیں گے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ محض ایک نظر بندی ہے۔ کل آپ کو رہا کر دیا جائے گا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ کہ آپ رات کہاں تھے۔

لیکن اگر میں خود اس راز کو نہ فاش کر دوں تو؟

یہ آپ کی مرضی ہے صاحب ورنہ تو آپ کے اہل خانہ سوچیں گے کہ آپ واشنگٹن میں ہیں۔ ہر قسم کی نفسیاتی ہیجان سے مبرا وہ پرسکون ہیں اور کل جب آپ واپس جائیں گے تو انھیں لگے گا کہ اپنا کام ختم کر کے لوٹ آئے۔ لیکن ان بیچاروں پر ایک سنیٹر کے قتل کا جھوٹا الزام لگا دیا گیا ہے۔ انھیں ذرائع ابلاغ میں سرعام رسوا کیا جا چکا ہے۔ ان کے گھر والے شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کر دئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے کچھ تو دانے دانے کے محتاج ہو گئے ہیں۔ ان لوگوں کے توسط سے ایک پوری قوم کو اور اس کے دین کو دہشت گردی کا علمبردار قرار دے دیا گیا ہے۔ ان کا آپ سے کیا موازنہ۔

مجھے اس کا افسوس ہے لیکن تمہیں میری گرفتاری کا کوئی قلق نہیں ہے۔

جی نہیں۔ ایسی بات نہیں ہے مجھے آپ کی گرفتاری پر بھی رنج ہے لیکن اتنا ہی جتنا کہ آپ کا خسارہ ہوا ہے اور ان کی گرفتاری کا غم ان کی تباہی کے لحاظ سے ہے۔

غیاث الدین تم چہرے سے توا حمق نظر آتے ہو مگر باتیں سمجھداری کی کرتے ہو۔

جناب، ہماری احمقانہ اداکاری کو ہمارے افسران پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ہاروے کو اس کا پرانا مکالمہ یاد آ گیا وہ بولا اور ان کے افسران …….

جی ہاں …..

اور ان کے ان کو…….

جی ہاں جناب آپ نے بالکل صحیح سمجھا۔

ہاروے بولا آج میری سمجھ میں آ گیا کہ احمقوں کی جنت میں رہنے کا مطلب کیا ہے؟

جی ہاں پولس کے محکمہ میں کام کرنا۔ ایک اور مشترکہ قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔ ماحول کی تبدیلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیاث الدین نے کہا جناب اس سے قبل میں کئی لوگوں گرفتار کر چکا ہوں۔ ان میں کچھ تو آپ کی طرح بے قصور ہوتے تھے اور کچھ مجرم پیشہ لیکن سچ تو یہ ہے میں نے ان میں سے کسی کو بھی آپ جیسا زندہ دل نہیں پایا۔ گزشتہ دو گھنٹے سے ہم لوگ ساتھ میں ہے لیکن ایسا محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں کسی …….غیاث الدین رک گیا

ہاروے نے جملہ مکمل کیا …..کسی قیدی کے ساتھ ہوں۔

جی ہاں اور وہ بھی نہایت بارسوخ اور بے قصور ……. در اصل اسی قسم کے لوگ ہمیں سب سے زیادہ پریشان کرتے ہیں لیکن آپ کی پرسکون طبیعت پر میں حیران ہوں۔

اس کا سہرہ تو تمھارے سر جاتا ہے غیاث الدین کیوں کہ گزشتہ دو گھنٹوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی تم نے مجھے یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ میں زیرِ حراست ہوں۔

دیکھئے جناب ہمیں تربیت دی گئی ہے کہ ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کریں اور ہم یہی کرتے ہیں لیکن اس کا رد عمل ایسا نہیں ہوتا۔ مجھے لگتا ہے کہ بات کوئی اور ہے۔

کھانے کا دور اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا تھا۔ ہاروے نے پوچھا کیا تم اس کی وجہ جاننے کے بارے میں سنجیدہ ہو یا بس یونہی میری دلجوئی کے لیے یہ سب کہہ رہے ہو؟

مجھے خوشی ہو گی اگر آپ ……

ہاروے نے جواب دیا یہ سب توقعات کا کھیل ہے اگر کسی انسان کے ساتھ کوئی غیر متوقع واردات پیش آ جائے تو پہلے وہ خود پریشان ہوتا ہے او پھر دوسروں میں بھی اپنی پریشانی کو تقسیم کرنے لگتا ہے۔

غیاث الدین نے احمقانہ انداز میں سوال کیا میں نہیں سمجھا۔

واقعی نہیں سمجھے یا افسران کو خوش کرنے کے لیے اداکاری …..

جی نہیں جناب میں واقعی نہیں سمجھا۔

چونکہ تمھارا اشارہ بارسوخ اور بے قصور لوگوں کی جانب تھا اس لیے میں ان کے حوالے سے گفتگو کر رہا تھا۔ وہ لوگ شاذو نادر ہی نامساعد حالات کی تیاری کرتے ہیں۔

لیکن آپ بھی تو انھیں میں سے ہیں؟

یہ سب میرے لیے غیر متوقع نہیں ہے۔ میں نے جس راہ پر قدم رکھا ہے اس پر یہ نشانِ منزل ہے اور اگر منزل سے عشق ہو تو مسافر نشانِ راہ دیکھ کر جھنجھلانے کے بجائے یک گونہ مسرت محسوس کرتا ہے۔ جس کی نظر منزل مقصود پر مرکوز ہو وہ اپنے پیروں میں پڑی زنجیر نہیں دیکھتا۔ اگر تمہیں تاخیر نہ ہو رہی ہو تو میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔

تاخیر کو گولی مارئیے صاحب آپ کی صحبت میرے لیے عظیم سعادت ہے۔

میں تم سے ان لوگوں کی تفصیل جاننا چاہتا ہوں جن کو میرے والد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟

آپ ان کے بارے میں کیا جاننا چاہتے ہیں؟

میں حقیقت جاننا چاہتا ہوں احمد رمزی کو تو میں تھوڑا بہت جانتا ہوں لیکن اس کے علاوہ کون کون لوگ ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں؟ وغیرہ۔ ان کے گھر کی اب کیا حالت ہے یہ بھی میں جاننا چاہتا ہوں۔

غیاث الدین سمجھ گیا کہ یہ سوال انسانی ہمدردی کے پیش نظر کیا گیا ہے وہ بولا کل چار لوگ ہیں ان میں سے ایک احمد رمزی ہے جو پٹرول پمپ پر معمولی ملازمت کرتا ہے دوسرا یوسف فریدی ہے جو مصر کا رہنے والا ہے اور ایک اسکول میں ٹیچر ہے۔ منظور خان ٹیکسی چلاتا ہے اور اس کا تعلق پاکستان سے ہے اور چوتھا محمود پاشا ہے جو ہندوستان کا باشندہ ہے۔

اور کرتا کیا ہے؟

میں نہیں جانتا۔

تم جھوٹ بول رہے ہو تم مجھ سے کوئی بات چھپا رہے ہو تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے۔

اعتماد تو ہے لیکن پھر بھی ……

پھر بھی کیاَ؟

احتیاط…..

کیسا احتیاط؟ تمہیں اس کے بارے میں بھی بتانا ہو گا اور اب جبکہ تم نے تجسس بڑھا دیا ہے تو بتانا ہی ہو گا۔

جناب ذرائع ابلاغ کو تو ہم نے یہی بتایا ہے کہ وہ نامہ نگار ہے لیکن ……..

لیکن وہ کیا ہے ہاروے نے لپک کر پوچھا

در اصل وہ بھی میری ہی طرح پولس کا آدمی ہے۔

اچھا اگر ایسا ہے تواسے گرفتار کیوں کیا گیا؟

محمود پاشا کو ان تین لوگوں پر نگرانی کرنے کی خاطر ان کے ساتھ قیدی کی حیثیت سے رکھا گیا ہے۔ ان کو اعتماد میں  لے کر ان کے دل کی بات کا پتہ لگانے پر وہ تعینات ہے۔

یہ تو خطرناک چال ہے۔

جی نہیں جناب اس سے بھی خطرناک چال یہ ہے کہ وہ ان کے دل میں دن رات نفرت و عناد کی آگ بھڑکاتا ہے۔ انھیں نامہ نگار ہونے کے ناطے من گھڑت واقعات سناتا ہے اور دہشت گردی کی جانب مائل کرتا رہتا ہے۔

پولس ایجنٹ کا دہشت گردی کی جانب مائل کرنا سمجھ میں نہیں آتا اور اگر وہ کامیاب بھی ہو جائے تو اس سے کیا ہو گا؟ہاروے نے پوچھا

جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا تو انھیں فرار ہونے کا موقعہ دیا جائے گا اور وہ اس کی مدد سے نادانستہ طور پر حکومت کے زیر سرپرستی چلنے والے کسی تربیتی کیمپ میں پہنچا دئیے جائیں گے۔ جہاں کئی محمود پاشا موجود ہوں گے جو انھیں اسلحہ کے استعمال کی تربیت دیں گے۔ اس کے بعد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں حکومت ہی کی زیر سرپرستی کسی مہم کا آلۂ کار بنا لیا جائے اور انھیں خود بھی پتہ نہ چلے کہ وہ کس کے لیے کیا کر رہے ہیں۔

اگر ان قیدیوں کو شک ہو جائے اور درمیان میں کام کرنے سے انکار کر دیں تو؟

اس میں کیا مسئلہ ہے۔ اسلحہ سمیت گرفتار کر کے ذرائع ابلاغ میں پیش کر دو۔ قصہ ختم۔

اس سازش سے تو کسی کا بچ نکلنا مشکل ہی ہے۔

جی ہاں آپ درست فرماتے ہیں۔

ہاروے نے پوچھا تو اب تک کی کیا پیش رفت ہے؟

در اصل اس گروہ میں ایک غلط آدمی آ گیا ہے یوسف۔ وہ غیر معمولی ذہانت کا حامل ہے۔ ماضی میں اس کا تعلق اخوان سے رہا ہے۔ چونکہ وہ زندگی کے نشیب و فراز دیکھ چکا ہے اس لیے اسے محمود پاشا پر شک ہو گیا ہے اور اس نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنے دونوں ساتھیوں کو پاشا کے دام سے محفوظ رکھا ہوا ہے لیکن ممکن اب اس کو باقی لوگوں سے جدا کر دیا جائے۔ اس صورت میں انھیں بتلایا جائے گا کہ وہ کسی اہم مہم پر روانہ کر دیا گیا ہے یا فرار ہو گیا ہے۔ اس کے بغیر منظور اور احمد کو ورغلانا ممکن نہیں ہے۔

اچھا خیر اب ان کے گھر والوں کے بارے میں بتاؤ۔ ان کا کیا حال ہے؟

ان ستم رسیدہ لوگوں کے بارے میں نہ پوچھئے۔ مسلم سینٹر کے لوگ خفیہ چندہ جمع کر کے کفالت کا بندوبست کر رہے ہیں لیکن افسوس کے سب سے زیادہ مدد محمود پاشا کے گھر والوں کو مل رہی جس کو اس کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ مرکز کے لوگ بیچارے اندر کی بات نہیں جانتے اور سچ تو یہ ہے کہ آپ پہلے باہر کے آدمی ہیں جو اس حقیقت کو جان گئے ہیں اگر کہیں آپ نے میرے حوالے سے یہ راز فاش کر دیا تو میرا ٹھکا نہ سیدھے گونٹے نامو بے ہو گا۔ کیا سمجھے؟

دیکھو غیاث الدین میں سچائی کی قدر کرتا ہوں۔ تم نے مجھ پر جو اعتماد کیا ہے میں اسے کبھی ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا۔ محمود پاشا کے بارے میں تو بہت کچھ بتلا دیا لیکن احمد رمزی؟ ؟؟

احمد رمزی ! غیاث الدین سرد آہ بھر کر ایک ساعت کے لیے خاموش ہو گیا اور پھر بولا جناب اس جیسے نیک اور جری نوجوان اس دور میں کم ہی پائے جاتے ہیں۔ اسے کسی نے مشورہ دیا کہ تم کہہ دو میں شیعہ ہوں میرا القاعدہ سے کیا رشتہ؟ اس طرح اکیس کمزور ہو جائے گا اور شاید وہ رہا ئی بھی مل جائے۔

ہاروے نے کہا اچھا؟ تواس نے کیا جواب دیا۔

وہ بولا میں ایسا نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ اس کے معنیٰ ہوں گے چونکہ باقی تین قیدی سنی ہیں اس لیے ان کا القاعدہ سے تعلق ہے۔ یہ تو ہمارے آپسی مسلکی اختلاف ہیں۔ عالمی دہشت گردوں کے لیے ہم صرف مسلمان ہیں۔ میں ان کے ساتھ گرفتار ہوا ہوں تو انھیں کے ساتھ چھوٹ کر جاؤں گا۔ میں انھیں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔

لیکن وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ ہاروے نے پوچھا

وہ تو کچھ نہیں کر سکتا لیکن آپ اگر چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ نہ صرف سابق سنیٹر کے بیٹے ہیں بلکہ مقتول کے وارث ہیں۔ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں صاحب بہت کچھ۔

غیاث الدین کی دردمندانہ التجا اور احمد رمزی کے ایمان افروز موقف نے ہاروے کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مونیکا اور ویرونیکا کو رہا کرانے کے ارادوں کو مزید جِلا ملی۔ رات کافی ڈھل چکی تھی۔ ہاروے نے غیاث الدین کا شکریہ ادا کیا اور کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ ضرور کچھ نہ کچھ کروں گا جو بھی مجھ سے بن پڑے گا کروں تم نے مجھے بیدار کر دیا ہے اور اپنی خوابگاہ کی جانب بڑھا۔

غیاث الدین اس روز اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر چکا تھا۔ اس کا احساس جرم کسی درجہ کم ہو گیا تھا۔ وہ ہلکے ہلکے قدموں کے ساتھ دروازے کی جانب بڑھا۔ دوسرے کمرے میں بیٹھی خواتین نے اپنے ٹی وی کے مانیٹر پر یہ دیکھا تو ان میں سے ایک اپنی جگہ سے اٹھ کر ہاروے کی خواب گاہ میں آئی اور مسکرا کر بولی۔ جناب عالی میں بھی مونیکا ہوں۔

ہاروے پر یہ جملہ بجلی بن کر گرا۔ اس نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ غیاث الدین کے ساتھ ایک طویل گفتگو میں جو نام ایک مرتبہ بھی نہیں آیا تھا وہ اس لڑکی کے پہلے ہی جملے میں موجود تھا۔ ہاروے نے کہا شب بخیر مونیکا۔

اس دوشیزہ نے جواب دیا شب بخیر۔

اس کے بعد ہاروے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور وہ اپنے کمرے میں بے نیل و مرام لوٹ آئی۔ ہاروے کے دماغ میں اس لڑکی کا جملہ گونج رہا تھا۔ اسے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ یہ بدمعاش مونیکا کو جانتی ہے؟

یہ اس کے بارے میں کیا جانتی ہے؟

وہی سب جو اخبارات میں چھپتا رہا ہے یا وہ اس کی حقیقت سے بھی واقف ہے؟

کہیں وہ ہاروے کا منصوبہ بھی تو نہیں جانتی؟

یہ ناممکن ہے۔ ناممکن لیکن پھر اس کی سوچ کا دھارا دوسری جانب مڑ گیا

کہیں وہ اس سے یہ تو نہیں کہنا چاہتی کہ وہ بھی مظلوم ہے اور

مونیکا ہی کی طرح کسی جال میں پھنسی ہوئی ہے؟

کیا وہ اس سے مدد کی طلبگار ہے اور چاہتی ہے کہ میں اسے بھی رہائی دلاؤں؟

سولات کا آتش فشاں لاوہ اگل رہا تھا کہ ہاروے کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا۔

دوسری صبح ہاروے نے اپنے گھر پر فون لگا کر ڈائنا کو بتایا کہ وہ خیریت سے ہے۔ ایک تجارتی مصروفیت سے اسے ٹیکساس جانا پڑا ہے اور بہت جلد وہ گھر لوٹ آئے گا۔

ہاروے اپنے ماضی کی غلطی کو دوہرانا نہیں چاہتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

۲۲

 

ہاروے کا ایس ایم ایس پاتے ہی مائیکل سمجھ گیا تھا اب پلان نمبر۲ پر عمل درآمد کا وقت آ گیا ہے۔ مائیکل نے اپنے مخصوص فون کے ذریعہ کیتھی سے رابطہ قائم کیا۔ کیتھی نے مائیکل کے اندیشے کی تائید کی اور بتایا کہا ب انھیں ہاروے کے بغیر ہی اپنے کام کو آگے بڑھانا ہو گا۔ ان دونوں نے ہاروے کی گمشدگی پر غور کرنے کے لئے ایک ویران کافی ہاوس میں ملنے کا منصوبہ بنایا

کیتھی بولی ہم لوگوں نے اپنی ساری توجہ مقدمہ تک محدود رکھی لیکن یہ نہیں سوچا کہ اگر جان ڈیو نے ہاروے کو اغوا کر کے نقصان پہنچانے کوشش کی تو ہماری حکمتِ عملی کیا ہو گی۔

دیکھو کیتھی ہم نے جانتے بوجھتے یہ تمام فیصلے کیے ہیں اگر ہاروے کو خطرات کا خوف ہوتا تو وہ اس بکھیڑے میں پڑتا ہی کیوں۔ فی الحال ہمیں کسی الجھن کا شکار ہونے کے بجائے اپنی توجہات کو کل کی عدالتی کارروائی پر مرکوز رکھنا چاہئے۔ اس کے بعد ہم سو چیں گے کہ ہاروے کے لیے کیا کیا جائے؟

ٹھیک ہے یہ بتاؤ متبادل وکیل کی کیا صورتحال ہے۔

وہ بالکل تیار ہے میرے خیال میں کل اس سلسلے میں کوئی دقت نہیں پیش آئے گی۔

دوسرے دن عدالت کاوسیع و عریض کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ساری نگاہیں ہاروے کو تلاش کر رہی تھیں اس لیے کہ وہی اس دن کا ہیرو تھا۔ مونیکا کی نگاہیں اس کو دیکھنے کے لیے ترس رہی تھیں۔ وہ اسی تنکے کے سہارے نہ صرف خود طوفان سے نکلنے کی خواہشمند تھی بلکہ اسے امید ہو چلی تھی کہ ہاروے اس کی بہن ویرونیکا کو بھی چھڑا لے گا لیکن اس کے خوابوں کا شہزادہ نہ جانے کہاں کھویا ہوا تھا۔

عدالت میں پیش کار نے جیسے ہی مقدمے کے آغاز کا اعلان کیا فوراً شہر کے نامور وکیل ٹائسن نے ہاروے کی جانب سے ایک معذرت نامہ جج صاحب کی جانب بڑھایا اور کہا ہاروے نے اپنی کاروباری مصروفیت کے سبب اس مقدمہ سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

جان ڈیو کی یہ ایک ایسی چال تھی جس کا اندازہ مونیکا کے فرشتوں کو بھی نہیں تھا اس پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ ہر کوئی ہکا بکا رہ گیا، مائیکل کے وکیل ڈیوڈ  کلارک نے اس کی جانب حیرت و استعجاب سے دیکھا تو مائیکل نے اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔

ڈیوڈ اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر بولا۔ مائی لارڈ مجھے افسوس ہے کہ ابھی ابھی جو معذرت نامہ ہاروے کی جانب سے داخل کیا گیا ہے وہ جعلی ہے۔ ہاروے کسی وجہ سے عدالت میں آج نہیں آ سکے لیکن انھوں نے مجھے اپنی جانب سے اختیار دے کر بھیجا ہے کہ آج ان کے بجائے میں مقدمے کی پیروی کروں۔ یہ کہہ کر ڈیوڈ نے ہاروے کا پاور آف اٹارنی پیش کار کی جانب بڑھایا اور کہا میں عدالت سے گزارش کرتا ہوں کہ اسے ملاحظہ فرمائیں۔

جج نے ٹائسن کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ اس نے ندامت سے سرجھکا کر کہا میرے اسسٹنٹ سے غالباً کوئی چوک ہوئی ہے۔

اس کے بعد جب جج نے دوبارہ ڈیوڈ کو دیکھا تو وہ بولا شکریہ مائی لارڈ ہاروے نے میرے ہاتھ ایک شہادت بھی روانہ کی ہے جسے میں امانت کے طور پر عدالت کی تحویل میں دیتا ہوں۔ جج صاحب نے پیش کار کو اشارہ کیا کہ وہ ڈیوڈ سے لفافہ لے کر محفوظ کر لے۔

ہاروے نے دوسری مرتبہ جان ڈیو کے نہلے پر دہلا رکھ دیا تھا۔ جان کے ہاتھوں سے پھر ایک بار طوطے اڑ گئے تھے۔ مونیکا اس منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ امریکہ کی عدالتی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک ہی شخص کی جانب سے دو متضاد کاغذات عدالت میں جمع کرائے گئے۔ ایک میں شواہد مع درخواست تھی اور دوسرے میں برخواستگی کی گزارش تھی۔ جج صاحب نے تمام کاغذات پنے قبضہ میں لے کر اگلی سماعت کے لیے دو ہفتوں کے بعد کا دن مقرر کر دیا۔

عدالت میں کہرام مچا ہوا تھا۔ جج صاحب اس معاملے میں نہایت محتاط تھے اس لیے کہ تنازع ایک نہایت طاقتور سنیٹر اور بہت ہی معروف سابق سنیٹر کے بیٹے کے درمیان تھا۔ ولیم کی حادثاتی موت نے اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا۔

ذرائع ابلاغ کی ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ گئی تھیں۔ ٹیلی ویژن والے ان واقعات کوئی توجیہ نہیں کر پا رہے تھے۔ کیتھی سب کچھ جان کر بھی انجان بنی ہوئی تھی اس لیے کہ وہ جلد بازی کی غلطی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسے خوشی اس بات کی تھی ابھی تک سب کچھ ان کے منصوبے کے مطابق ہوا تھا۔ جان ڈیو فوراً گدھے کے سر سے سینگ کی مانند عدالت غائب ہو گیا تھا۔ اس کا تیار شدہ جواب اب بے معنی ہو کر رہ گیا تھا۔ دونوں وکلاء نے مقدمہ کے زیر سماعت ہونے کا بہانہ بنا کر معذرت کر لی تھی۔ ہاروے جو سارے ہنگامہ کا مرکز تھا فی الحال نہ جانے کہاں غائب تھا۔ وہ نہ اپنے گھر پر تھا اور نہ دفتر میں تھا۔

ہاروے کا چونکہ کہیں اتا پتہ نہیں تھا اس لئے اس کے متعلق مختلف قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا تھا۔ حزب اختلاف نے اس گومگو کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمراں جماعت کے رہنماؤں کو گھیرنا شروع کر دیا تھا اس لیے کہ عدالت کے پالے میں ایک ہی جماعت کے دو پہلوان ایک دوسرے کے ساتھ پنجہ آزمائی کر رہے تھے۔ انتظامیہ کو کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔ یہ واقعہ نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ ساری دنیا میں امریکہ کی جگ ہنسائی کا سبب بن گیا تھا۔

ان ہنگاموں سے دور پارٹی کے صدر دفتر میں اس پیش رفت کا سخت نوٹس لیا گیا اور تازہ صورتحال کو سمجھ کر اس پر اپنی حکمت عملی طے کرنے کی خاطر ایک نامعلوم مقام پر تمام اہم عہدیداران کو طلب کر لیا گیا تاکہ جان ڈیو پر لگام کسی جائے۔ میٹنگ کی ابتدا ایک معمر اور قابلِ احترام رہنما لیری گومس سے ہوئی۔ انھوں نے بتلایا کہ ہماری یہ آپسی چپقلش اپنے حدود و قیود کو پار کر چکی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی جڑ میں صرف اور صرف ہمارے ایک ساتھی کی انانیت ہے۔ لیکن اگر اس کو قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو یہ سیلاب ایک اور واٹر گیٹ بن جائے گا جو ہمارے اقتدار کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔

گومس کی تقریر کے ختم ہوتے ہی جان اسپرنگ لگے گڈّے کی طرح اپنی کرسی سے اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بولا مجھے اپنے بزرگ ساتھی کی اس گفتگو نے بہت دکھ پہنچایا۔ انھوں نے سارا الزام میرے سر منڈھ دیا۔ جب کہ حقیقت میں ساری غلطی اس نادان ہاروے کی ہے جس نے بات کا بتنگڑ بنا دیا اور ایک دو کوڑی کی لڑکی کے لیے اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ایسی لڑکیوں پر آئے دن گدھ منھ مارتے رہتے ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔

جان بولے جا رہا تھا ہمارے منصوبے سے آپ سب واقف ہیں آج عدالت ہاروے کی جانب سے داخل کیا جانے والا معذرت نامہ قبول کر لیتی۔ شام میں ہم اسے رہا کر کے اپنے والد کی نشست پر انتخاب لڑنے کا ٹکٹ دے دیتے اور سارا معاملہ رفع دفع ہو جاتا لیکن وہ احمق اپنے اڑیل رویہ پر قائم رہا اور اس نے ایک نئی چال چل کرسارا کھیل بگاڑ دیا۔ ہاروے کو اپنی اس حماقت کی قیمت چکانی پڑے گی۔ جان کے منھ سے جھاگ نکل رہا تھا۔

جان کے بعد گریگ اسمتھ اپنی جگہ سے اٹھے اور کہا کہ جان کی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنا زر خرید غلام سمجھتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اگر آج عدالت میں وہ جعلی کاغذ منظور بھی ہو جاتا تب بھی ہاروے کے لیے باہر آنے کے بعد اس کے انکار کا موقع تھا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہاروے رہا ہونے کے بعد جان کی پیشکش کو مسترد کر کے اپنے موقف پر قائم رہتا اور اس صورت میں پھر ہماری وہی حالت ہوتی جو فی الحال ہے۔ اصل مسئلہ ہاروے نہیں بلکہ جان ڈیو ہے۔ یہ شرمناک بات ہے کہ وہ مسلسل حماقتیں کئے چلا جا رہا ہے اور ہاروے ان کا فائدہ اٹھا کر اسے مات دے رہا ہے۔

جان بولا ہاروے کے لیے ہماری پیشکش کو ٹھکرانا ایسا آسان بھی نہیں تھا اس لیے کہ اس صورت میں نہ صرف اس کو پارٹی کے ٹکٹ سے محروم ہونا پڑتا بلکہ ہم اسے پارٹی سے نکال کر کہیں کا نہیں چھوڑتے۔

ہو سکتا ہے وہ اسے بھی منظور کر لیتا اسمتھ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

صدر نشین نے مداخلت کی اور بولے ہمارے جمع ہونے کا مقصد آپس میں لڑنا نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ کا حل نکالنا ہے تاکہ جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا آگے مزید نقصان نہ ہو۔

جان نے معذرت طلب کی اور بولا میں معافی چاہتا ہوں۔

لیری گومس بولے اب ہمارے سامنے مصالحت کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے اور جتنی جلد یہ ہو جائے اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اس دوران سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر طرح کی بیان بازی سے مکمل احتراز کرتے ہوئے ہاروے کو برضا و رغبت مقدمہ واپس لینے کے لیے تیار کریں۔ اس لیے کہ وہ دباؤ میں آنے والوں میں سے نہیں لگتا۔

اس رائے پر سب کا اتفاق ہو گیا لیری گومس، گریگ اسمتھ اور تھامس کوک پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور ہاروے کو خصوصی طیارے کے ذریعہ نیویارک بلوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ میڈیا کی نظروں سے بچ کر درمیان کا راستہ نکالنے کی حکمتِ عملی تھی اور اس پر عمل درآمد کے لیے جان ڈیو سمیت کمیٹی کے افراد کو نیویارک پہنچنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔

………………..

عدالت میں کامیابی حاصل کر لینے کے بعد مائیکل چاؤ اور کیتھی جانسن بڑی سنجیدگی سے اپنے اپنے ہوٹل میں ہاروے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ وہ کہاں ہو گا؟ کس حال میں ہو گا؟ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟اور اب ان دونوں کو کیا کرنا ہو گا؟ اس طرح کے بیسیوں سوالات ایک ساتھ سر ابھار رہے تھے۔ انھیں اس کھو جانے والے نقطے کی فکر ستا رہی تھی جس نے اس مثلث کو ایک خطِ مستقیم میں بدل دیا تھا۔

مائیکل کو اپنے منصوبے کے ناقص ہونے کا احساس ہو گیا تھا۔ اس کے خیال میں یہ ان کی جلد بازی کا نتیجہ ہے اگر وہ اس امکان پر سنجیدگی سے غور کرتے کہ ہاروے کا اس طرح یرغمال بھی بنایا جا سکتا ہے تو اسے کولاریڈو میں ہی روک دیا جاتا اور براہ راست منصوبہ نمبر ۲ پر عمل درآمد ہوتا۔ اس صورت میں کسی کو شک نہیں ہوتا۔ سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی لیکن اب یہ ہوا تھا کہ ایک سانپ تومر گیا تھا مگر وہ اپنے ساتھ لاٹھی بھی نگل گیا تھا۔ آئندہ جن اژدہوں سے انھیں نمٹنا تھا اس کے لیے ہاتھ تو تھے مگر لاٹھی ندارد تھی۔ ٹیم کے اندر ہاروے کی مرکزی حیثیت کا شدید احساس انھیں اس وقت ہوا جب وہ لوگ پوری طرح بے دست و پا ہو گئے۔

مائیکل اور کیتھی کو بالیقین اس بات کا علم تھا کہ یہ مذموم حرکت کس کی ہے لیکن جان جیسے آدمی پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے الزام تراشی شہد کی مکھی کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھی۔ جو شخص اپنے خلاف تمام شواہد کے باوجود ہاروے جیسے بارسوخ آدمی کو اٹھوا سکتا ہے؟ مونیکا جیسی لڑکی پر بے بنیادسنگین الزامات لگا کراسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا سکتا ہے اس سے چھیڑ خانی کی جرأت بہت پر خطر تھی۔

مائیکل اب ہاروے کے بجائے مونیکا کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ کیا قصور تھا اس ابلہ ناری کا؟ کون سا ناجائز کام کرنا چاہتی تھی وہ بیچاری؟ اس کی غلطی صرف یہ تھی کہ اس نے اپنی بہن کو رہا کروانے کے لیے سیدھا اور بظاہر طویل راستہ اختیار کرنے کے بجائے منحنی اور مختصر راہ کو اختیار کیا اور خود اس پر کھو گئی بلکہ اپنے ساتھ ہاروے کو بھی لے ڈوبی۔ مونیکا نے ہاروے پر نہ کوئی دباؤ ڈالا تھا اور نہ اس کو مجبور کیا تھا۔ ہاروے نے اپنے آپ کو خود جانتے بوجھتے اس مصیبت میں گرفتار کیا تھا۔ وہ اپنے زندہ ضمیر کی آواز پر جان ڈیوسے جا کر ٹکرا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تمام تر اندیشوں کے باوجود مائیکل کا دل کہتا تھا ہاروے جہاں کہیں بھی ہے خیریت سے ہے۔ اس جیسے نیک انسان کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔

مائیکل کا ذہن پھر مونیکا کی جانب مڑ گیا۔ وہ بھی تو ایسی بری نہیں ہے اور نہ خیریت سے ہے۔ بے کس و مجبور مونیکا کس قدر امیدوں کے ساتھ ہاروے سے ملی تھی لیکن اسے عدالت میں نہ پاکر اس پرکیا گزری ہو گی؟ وہ کس قدر مایوسی کے عالم میں اپنے دن گزار رہی ہو گی؟ اس سوال نے مائیکل کے دل میں مونیکا سے ملاقات کرنے کی خواہش کو جنم دیا۔ مائیکل نے مونیکا سے مل کر اس کی ڈھارس بندھانے کا ارادہ کیا۔

مونیکا سے مل کر مائیکل اس کے خدشات دور کرنا چاہتا تھا۔ مونیکا کو بتانا چاہتا کہ ہاروے کی غیر موجودگی میں وہ نیابت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ وہ اس جنگ میں اپنی شرکت کا یقین دلانا چاہتا تھا۔ مونیکا سے کہنا چاہتا تھا اسے بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جائے گا اور وہ اس بازی کو ضرور کھیلے گا۔ اس میں اپنے لہو کا آخری قطرہ لگا دے گا۔ ہاروے سے ملاقات ممکن نہیں تھی اس لئے کہ اس کا ٹھکانہ کوئی نہیں جانتا تھا لیکن مونیکا کا پتہ تو ساری دنیا جانتی تھی۔

مونیکا سے ملاقات میں بظاہر دو مشکلات تھیں۔ ایک تو پولس کی نظر میں مشکوک ہو جانا۔ دوسرے ملاقات کے لیے کسی معقول جواز کی عدم موجودگی۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ شکوک و شبہات کے اس ماحول میں مونیکاکسی اجنبی سے ملنا نہ پسند کرے اور انکار کر دے۔ اس ادھیڑ بن میں مائیکل کو کیتھی کا خیال آیا۔

کیتھی ایک مشہور صحافی ہے اور خاتون بھی ہے۔ اس کے پاس پولس سے کہنے کے لیے جواز ہے۔ مائیکل نے اس کام کے لیے کیتھی کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک لمحہ کے لیے اسے خیال آیا کہ اس تجویز کے بارے میں کیتھی کیا سوچے گی؟ پھر اس نے اپنے آپ کو سمجھایا کیتھی جو بھی سوچے جب ملنا ہے تو ملنا ہے۔ اس نے فون اٹھا کر کیتھی کا نمبر ملانا شروع کیا اور اس طرح یہ خطِ مستقیم پھر ایک بار مثلث میں تبدیل ہو گیا۔

مائیکل کے فون سے قبل کیتھی بھی ہاروے کے بارے میں اسی قسم کے سوالات پر غور کر رہی تھی۔ سوالات کا یہ دھارا نہ جانے کب خود اس کی اپنی ذات کی طرف مڑ گیا اور سوچنے لگی کے گزشتہ ایک ہفتہ کے اندر حالات کس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئے ہیں۔ کہاں پولس کی مخبری، صحافت کی کثافت اور کہاں ایک عظیم جد و جہد کی لطافت۔ ان میں کس قدر فرق تھا

کیتھی کی روز مرہ کی سرگرمیاں تو وہی پہلے جیسی تھیں۔ سونا جاگنا، کھانا پینا، ملنا جلنا، پڑھنا لکھنا سب کچھ وہی تھا لیکن مقصد کی تبدیلی نے اس کے قلب و ذہن میں ایک زبردست انقلاب برپا کر دیا تھا۔ وہ اپنی ذات سے نکل کر بے کراں کائنات میں آ گئی تھی۔ اب زندگی کا مرکز و محور اس کا اپنا مادی مفاد نہیں تھا۔ بتانِ سود و زیاں اب اسے نہایت حقیر لگنے لگے تھے۔ بظاہر وہ اپنا مالی خسارہ کر رہی تھی لیکن اس کے عوض حاصل ہونے والاسکونِ قلب بے پایاں تھا۔ اس کی بے معنی زندگی کو گویا ایک غرض و غایت میسر آ گئی تھی۔

کیتھی جب اپنی ذات سے باہر نکلی تو اس کے سامنے مائیکل کا ہنستا مسکراتا چہرہ تھا۔ ہلکی سی خوشگوار مسکراہٹ۔ کیتھی نے اسے کبھی قہقہہ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ مائیکل کی شخصیت میں عجیب و غریب کشش تھی۔ نہایت ذہین مگر کم گو۔ بولتا تو ایسے لگتا جیسے ہر لفظ کو تول رہا ہے۔ اسے اپنے الفاظ کی قیمت کا اندازہ تھا۔ وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی ضائع کرنا یا بلاوجہ اِدھر اُدھر پھینک دینا گوارہ نہیں کرتا تھا۔ مائیکل سے ملنے کے بعد کیتھی کو احساس ہوا کہ وہ بہت بولتی ہے۔ غیر ضروری اور بے تکان بولنا اس کی عادتِ ثانیہ ہے۔ مبہم جملوں اور بے معنی آوازوں سے اس کی زندگی اٹی پڑی ہے۔

ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران بولنا کیتھی کی ایک پیشہ ورانہ ضرورت تھی مگر اس کی زبان تو قینچی کی طرح اس وقت بھی چلتی رہتی تھی جبکہ کیمرے کی آنکھ بند ہوتی تھی۔ خود آگہی کے سمندر میں غوطہ زن کیتھی نے اس کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی تو اسے پتہ چلا چونکہ وہ سوچتی بہت کم ہے اس لیے بولتی بہت زیادہ ہے اور جب اس نے سوچا کہ وہ سوچتی کیوں کم ہے تو معلوم ہوا وہ بولتی بہت زیادہ ہے اس لیے اسے سوچنے کے لیے فرصت ہی نہیں ملتی۔ گویا سوچنے اور بولنے کا معکوس تناسب ہی اس کے طرز زندگی پر چھا یا ہوا ہے۔

اس کے برعکس مائیکل یکسرمتضاد بلکہ ممتاز شخصیت کا حامل ہے۔ وہ بولتا کم ہے مگر سوچتا بہت زیادہ ہے۔ جو کچھ سوچتا تھا سب کا سب نہیں اگل دیتا تھا بلکہ غور و فکر کی آنچ سے الفاظ کو کشید کر کے مخاطب کی ضرورت کے لحاظ کرتے ہوئے انھیں ادا کرتا ہے۔ کیتھی نے مائیکل کو کبھی بھی الفاظ کو چباتے یا نگلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ الفاظ کے استعمال میں وہ نہ بخیل تھا اور نہ فضول خرچ بلکہ میانہ روی کا قائل تھا۔

میانہ روی مائیکل کے رگ و پئے میں سمائی ہوئی تھی۔ انتہا پسندی کو وہ کبھی بھی اپنے قریب پھٹکنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اسی لیے شاید وہ جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا تھا۔ ہر مسئلہ کا نہایت سنجیدگی سے جائزہ لینا۔ بغیر کسی اشتعال انگیزی کے متوقع نتائج پر غور کرنا اور مناسب ترین طرز عمل اختیار کرنا اس کا طرۂ امتیاز تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کھل کر مشورہ کرتا۔ اپنے موقف پر اصرار سے گریز کرتا۔ بڑی سرعت کے ساتھ نتائج اخذ کر کے فیصلے پر پہنچ جاتا اور ارادہ کر لینے کے بعد نتائج سے بے پرواہ ہو کر اس پر قائم ہو جاتا۔

اس شخص میں بلا کیا ستقامت تھی۔ استقلال اور اعتماد کے حسین امتزاج کا دوسرا نام مائیکل چاؤ تھا۔ وہ اس موضوع پر کسی کے سامنے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرنا چاہتی تھی مگر اس پر مائیکل یا ہاروے کے علاوہ کسی سے گفتگو ممکن نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس کا تعلق مقصدِ حیات سے تھا۔ مائیکل کے بارے میں کیتھی کے سوچ کا سلسلہ اس کے فون سے ٹوٹا۔

مائیکل نے کہا ہائے کیتھی کیسی ہو؟

مائیکل کے سوال کا روایتی جواب دینے کے بعد کیتھی بولی یاد فرمائی کا شکریہ، زہے نصیب، آپ نے اس ناچیز کو یاد کرنے کی زحمت کی۔ آج میرے بھاگ کھل گئے۔ میں تو فلاح پا گئی۔ کہیے جناب کیسے ہماری یاد آ گئی؟ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں؟ حکم دیجیے باندی حاضر ہے۔

مائیکل نے مسکرا کر کہا اگر آپ کچھ کہنے کا موقع دیں تو …….

کیتھی بول پڑی معاف کرنا مائیکل میری زبان پر بڑی دیر سے خارش ہو رہی تھی۔

اور اب میرے کان میں …….

مائیکل کا جملہ پھر سے کیتھی نے کاٹ دیا اور بولی خراش پڑ گئی ہے۔ میں در اصل بولتی ہی اس قدر تلخ ہوں کہ سمع خراشی ہو جاتی ہے۔

نہیں کیتھی، تمہاری تلخ نوائی کا شکوہ تو کوئی دشمن ہی کر سکتا ہے لیکن مٹھائی بھی تو کم مقدار میں کھائی جاتی ہے۔

کیتھی نے پلٹ وار کیا اب تم بھی وقت ضائع کرنے لگے ہو بولو فون کیوں کیا تھا؟

یاددہانی کا شکریہ میں ہاروے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

بہت خوب میں بھی وہی سوچ رہی تھی۔ کیتھی بولی یہ بتاؤ کہ تم اس کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے۔

وہ دونوں جھوٹ بول رہے تھے مائیکل مونیکا اور کیتھی مائیکل کے بارے میں سوچ رہی تھی لیکن ہاروے ان سب کا مشترک نقطہ تھا۔

میرے خیال میں ہاروے کی بابت ہم اس قدر مجبور بھی نہیں کہ جتنا سمجھتے ہیں۔

میں اتفاق کرتی ہوں لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

میں یہ نہیں جانتا کہ کیا کرنا چاہئے؟ کیسے کرنا چاہئے؟ اور آغاز کار کہاں سے ہو؟ میں توبس یہ جانتا ہوں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔

لیکن صرف یہ جاننا کافی تو نہیں ہے۔ کیتھی بولی راستہ اگر واضح نہ ہو تو سفر پر خطر ہو جاتا ہے اور اس راستے کے خطرات معمولی نہیں ہیں۔

کیتھی میں تمھارے دلائل تسلیم کرتا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ بغیر سوچے سمجھے کوئی احمقانہ اقدام کر دیا جائے۔

پھر آخر تم چاہتے کیا ہو؟

میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہم مل بیٹھ کر اپنی آئندہ کی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کریں۔ مجھے امید ہے کہ ہمارا سر جوڑ کر بیٹھنا کسی نہ کسی راستے کی طرف از خود رہنمائی کر دے گا۔

جی ہاں مائیکل تم صحیح کہتے ہو۔ فی الحال ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور متبادل بھی نہیں ہے۔ اس طرح بیٹھے رہنا مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔

تم تو جانتی ہی ہو کہ ہماری مہم میں مایوسی کا شائبہ بھی زہرِ ہلاہل سے کم نہیں ہے۔

ٹھیک ہے اب بتاؤ کہ کب اور کہاں ملتے ہیں؟

ابھی چند منٹوں کے اندر تمھارے پسندیدہ کافی ہاوس اسٹار بک میں۔

کیوں تمھیں میری بک بک سننے کے لیے یہی جگہ پسند آتی ہے؟

اسٹار بک والے اپنے گاہکوں سے دس گنا زیادہ قیمت کافی کی نہیں بلکہ وقت گزاری کی لیتے ہیں۔ ویسے کافی تو وہاں کی بکواس ہوتی ہے۔

کیتھی بولی بھئی جب نام ہی میں بک ہے تو کافی کیوں نہ بکواس ہو؟

خیر یہ بتاؤ کہ کتنے منٹ میں پہنچ رہی ہو اس لیے کہ مجھے ایک اور بات بھی کرنی ہے۔

ایک اور بات؟ اس جملے نے کیتھی کو چونکا دیا یہ اور بات کیا ہے؟ کیتھی نے چہک کر شوخی بھرے انداز میں پوچھا۔

ارے بھئی آؤ تو سہی بتلا دوں گا۔

جی نہیں ابھی بتلاؤ، ابھی کے ابھی ورنہ میں نہیں آؤں گی۔

مائیکل بولا کیتھی یہ جو تمھارے اندر ایک ننھی سی کیتھی ہے نا تین سال کی۔ جو بات بات میں روٹھ جاتی ہے اور باتوں باتوں میں مان بھی جاتی ہے، مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔

سچ!!! کیتھی نے خوش ہو کر کہا لیکن میں تمھاری چالاکی خوب سمجھتی ہوں تم نے میری تعریف کر کے میرے سوال کو گول کر دیا۔

مائیکل بولا اب مجھے پتہ چلا کہ کیتھی ننھی ضرور ہے لیکن ذہین بھی ہے اسے آسانی سے بہلایا پھسلایا نہیں جا سکتا۔

باتیں نہ بناؤ۔ سیدھے سیدھے وہ دوسری بات بتاؤ۔ ورنہ۔

مائیکل نے پوچھا ورنہ کیا؟

ورنہ یہ کہ اسٹار بک میں تمھارا انتظار کروں گی تاکہ تم مجھے وہاں وہ بات بتاؤ۔

اور اگر وہاں بھی نہ بتاؤں تو؟

تو ….تو پھر میں انتظار کروں گی۔ انتظار، انتظار اور بس انتظار۔

اوہو تم تو شاعری کرنے لگیں کیتھی۔ در اصل میں تو مونیکا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

مونیکا؟ کون مونیکا؟ کیتھی نے بے خیالی میں کہا اور پھر اپنے آپ کو سنبھال کر بولی وہی مونیکا جو سارے فساد کی جڑ ہے۔ نہ وہ ہاروے سے ملتی اور نہ یہ مسائل پیدا ہوتے۔

جی ہاں کیتھی لیکن اس کے اپنے مسائل بھی تو ہیں۔

میں جانتی ہوں مائیکل اس کی بہن جیل میں تھی اس کے بعد وہ خود جیل میں پہنچ گئی اور ہاروے کو بھی وہاں پہنچا دیا۔ مجھے تو اس سے ڈر لگتا ہے کون جانے وہ آسیب زدہ مخلوق کس کس کو کہاں کہاں پہنچا دے؟

کیتھی تم بہت دور نکل گئیں میں تو صرف یہ سوچ رہا تھا عدالت میں ہاروے کو ندارد پاکر اسے بہت مایوسی ہوئی ہو گی۔ اس لیے ہمیں اس سے مل کر اس کی ہمت بندھانی چاہئے۔

کیتھی نے بیزاری سے کہا کیا ہم یہ باتیں کافی ہاوس میں نہیں کر سکتے؟

بالکل کر سکتے ہیں بلکہ میں تو یہی چاہتا تھا لیکن تم ابھی کہنے پر اصرار کرنے لگیں۔

میں نے کب کہا تھا کہ تم مونیکا کی داستانِ الم چھیڑ دو؟

اوہو تمہیں نے تو کہا تھا کہ دوسری بات…..کیتھی بولی ہاں ہاں دوسری بات چلو ملتے ہیں دس منٹ میں پھر پہلی دوسری تیسری اور ساری باتیں ایک ساتھ کر لیں گے۔

ٹھیک ہے کیتھی کا فون بند ہو گیا۔

عدالت کے اندر ہاروے کے غیر موجود ہونے سے جس قدر مایوسی مونیکا کو ہوئی تھی اس سے زیادہ مایوسی مائیکل کی زبان سے مونیکا کا نام سن کر کیتھی کو ہوئی تھی۔ لیکن مائیکل کو کیتھی کی اس کیفیت کا احساس نہیں تھا۔ وہ میلوں دور جیل میں بیٹھی مونیکا کا غم تومحسوس کر رہا تھا لیکن اس کیتھی کے درد سے نا آشنا تھا جو اس سے فون پر محوِ گفتگو تھی۔ مونیکا کے ذکر نے کیتھی کو مائیکل سے بہت دور کر دیا تھا۔ سیکڑوں، کروڑوں میل دور۔ پلک جھپکتے یہ طلسمی فاصلہ نہ جانے کیسے حائل ہو گیا تھا؟

کیتھی کی گاڑی بتدریج کافی ہاؤس سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی اس کے باوجود ان دونوں کے درمیان کی کھائی پھیلتی جا رہی تھی۔ یہ عجیب و غریب سفر تھا کہ جس کے مسافر پاس پاس بھی تھے اور دور دور بھی تھے۔ اس سفر میں منزل کا فاصلہ اپنے آپ بڑھتا اور گھٹتا تھا۔ شاید اس لیے کہ نہ صرف مسافر، راستے بلکہ منزل بھی سرگرمِ سفر تھی۔ یہاں کسی کو قرار نہیں تھا۔

اس کارگہِ ہستی میں ہر شے ثبات کی نعمت سے محروم ہے اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کی سبھی کی رفتار ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ یہ رفتار ہمیشہ یکساں نہیں رہتی بلکہ وقت کے ساتھ کسی کی رفتار تیز ہو جاتی تو کوئی سبک خرام ہو جاتا۔ رفتار کا یہ تغیر فاصلوں کو بڑھاتا گھٹاتا رہتا ہے۔

زندگی کے اس سفر کا ہر مسافر جلد از جلد اپنی منزل سے ہمکنار ہو جانا چاہتا ہے لیکن اسے دوسروں پر تو کجا خود اپنی رفتار پر بھی مکمل اختیار نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود سفر مقدر ہے۔ مدت و مقدار طے ہے۔ جبرو قدر کے پہیوں پر سوار انسان اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

کیتھی اور مائیکل کے درمیانی راستے میں بے شمار پیچ و خم تھے۔ زندگی کے اس سفرمیں مونیکا اور ہاروے وہ نشیب و فراز تھے جن سے گزر کر کیتھی کو اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنا تھا۔ لیکن اس راستے کاسب سے بڑا پتھر ڈائنا تھی۔ ڈائنا کنگسلے جو کیتھی تو کجا مائیکل کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ خیر مائیکل کا کیا؟ اس نے تو ابھی اس راستے پر قدم ہی نہیں رکھا تھا جس پر کیتھی بہت دور نکل گئی تھی اور ڈائنا بھی خراماں خراماں اس پر رواں دواں تھی۔ مونیکا کا اس راستے پر کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ وہ تو کسی اور ہی راستے کی مسافر تھی۔ ان سب سے بے نیاز زندگی اپنے انوکھے انداز میں اپنی منفرد راہ پر گامزن تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۲۳

 

کیتھی کے اندرون میں چلنے والی آندھی سے بے خبر مائیکل نے اپنے لیے بغیر دودھ اور بغیر چینی کے خالص کافی منگوائی تو کیتھی نے سوچا اس شخص کی زندگی کس قدر بے لذت ہے۔ اس کے اندر کڑواہٹ کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں ہے۔ کیتھی یہ سوچتے ہوئے اپنی گرم کافی میں ٹھنڈا دودھ انڈیل رہی تھی اور اس کے بعد چینی کے پیکٹ پر پیکٹ خالی کیے چلی جا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر مائیکل نے کہا ارے یہ کیا غضب کر رہی ہو۔ تمہیں کافی پینا ہے یا شربت؟

کیتھی بولی میں تمھاری طرح بدنما اور بے لذت کافی نہیں پی سکتی اس لیے پہلے تو دودھ ڈال کر میں اسے خوشنما بناتی ہوں اور پھر شکرسے خوش ذائقہ بنا کر نوش فرماتی ہوں۔

مائیکل بولا مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سب تمھاری خوش فہمی ہے۔ یہ مصنوعی مٹھاس کافی کا ذائقہ سنوارنے کے بجائے بگاڑتی ہے اور دودھ تو اس کی مہک کو ضائع کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ساری ملاوٹ کافی کی تپش کو بھی سرد کر دیتی ہے۔

مونیکا نے تو تمہیں فلسفی بنا دیا۔ کیتھی اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پائی۔

دیکھو کیتھی کافی کی روح تو اس کی خوشبو اور گرمی ہے۔ یہ دونوں چیزیں دکھلائی نہیں دیتیں۔ رنگ اور ذائقہ تو اس کا جسم ہے لوگ اسی کو سجانے اور سنوارنے میں لگے رہتے ہیں۔

بس بہت ہو چکی کڑوی کسیلی تعریف و توصیف۔ اب مناسب سمجھو تو کام کی بات کرو۔

گستاخی معاف جہاں پناہ۔ میں تو صرف یہ عرض کر رہا تھا کہ مونیکا سے ہمیں ملاقات کرنی چاہئے۔

میں ہم کی وضاحت چاہتی ہوں؟ اس سے مراد میں ہوں؟ آپ ہیں؟ یا ہم دونوں؟

جہاں تک میرا سوال ہے میں تنہا تو اس وقت مونیکاسے ملاقات نہیں کر سکتا اور دونوں کا پہلے ہی مرحلے میں وہاں جانا شکوک و شبہات کو جنم دے سکتا ہے اس لیے ابتدا میں صرف تمہیں کو ملنا ہو گا اور دوسرے مرحلے میں ہم دونوں چلیں گے …….

کیتھی نے جملے کو پورا کیا اور آخری مرحلے میں صرف آپ ملاقات کریں گے۔

مائیکل بولا یہ بھی ہو سکتا ہے۔

جی نہیں یقیناً یہی ہو گا۔ لیکن آج کیا بات ہے کہ آپ ترجیح و ترتیب بھول گئے؟ یہ تو دوسری بات تھی، پہلی بات جس کے لیے ہم نے ملنے کا فیصلہ کیا تھا وہ ہاروے سے متعلق گفتگو تھی۔

جی ہاں کیتھی آج ہمارے یہاں آنے اصل مقصد وہی ہے۔

واقعی !!!کیتھی نے طنزیہ انداز میں سوال کیا۔

اس میں کیا شک ہے کیتھی ہمارے درمیان تعلق کا مشترکہ نقطہ ہاروے ہی تو ہے۔

جی ہاں وہ تو ہے لیکن اب لاتعلقی کا بھی ایک نقطہ آ گیا ہے۔

اوہو کیتھی شاید تم نے مونیکا کی ملاقات کو کچھ زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا ہے۔

اچھا تو کیا میں اسے محض دل لگی سمجھوں یا دل کی لگی؟

اوہو مائیکل بولا میں بھول ہی گیا تھا کہ تمھارے اندر تین سالہ معصوم گڑیا کے بغل میں ایک تین سو سالہ کھوسٹ بڑھیا بھی رہتی ہے۔

مائیکل یہ تین سال اور تین سو سال کا فرق حقیقی نہیں مجازی ہے۔ یہ تو محض ایک فریبِ نظر ہے جو تیس سالہ کیتھی کو گڑیا اور بڑھیا میں تبدیل کر دیتا ہے۔

مائیکل سمجھ گیا تھا کہ معاملہ خاصہ بگڑ چکا ہے اس لیے بولا تم جانتی ہو کہ یہ نظر کا فریب ہے پھر بھی جب تم میری زبان سے گڑیا سنتی ہو تو کیا تمہیں خوشی نہیں ہوتیں؟ اور جب میں بڑھیا کہتا ہوں تو کیا صدمہ نہیں ہوتا؟ حالانکہ میرے یہ کہنے سے تم نہ بوڑھی ہو جاتی اور نہ بچی تم تو وہی رہتی ہو حسن و شباب کا بیش بہا امتزاج عظیم صحافی کیتھی ولسن دی گریٹ۔

مائیکل یہ حقیقت ہے کہ حقیقت نہیں بدلتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فرق پڑتا ہے۔ انسان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ صرف وہی اپنے آپ کو اچھا سمجھے۔ اس لیے کہ وہ تو اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہی ہے بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی اور بھی اس کی خوبیوں کا معترف ہو۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کریں۔ اکثر لوگ دوسروں کی خامیوں پر اعتراض کرتے ہیں۔

اس بات نے مائیکل کو بھی سنجیدہ کر دیا۔ ہاں کیتھی تمھاری بات صد فیصد درست ہے۔ اسی لیے انسان اپنی خامیوں کو لوگوں سے چھپاتا ہے اور اپنی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ لوگ اس کو عظیم سمجھیں اور اس سے محبت و عقیدت کا رشتہ استوار کریں۔

سچ مائیکل! اس اتوار کو چرچ کے اندر فادر اپنے وعظ میں یہی فرما رہے تھے۔ انسان اگر کسی اور کی کوئی خامی جان جاتا ہے تو اس سے نفرت کرنے لگتا ہے لیکن خدا انسانوں کی ساری خامیوں کو جاننے کے باوجود موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔ اس لیے کہ وہ ان سے سچی محبت کرتا ہے۔ اسی لیے انسان کی حقیقی محبت بھی صرف اور صرف خدا کے لیے مختص ہونی چاہئے۔

مائیکل نے تائید کی جی ہاں اس لیے بھی کہ وہی اس کا حقدار اور سزاوار ہے۔ فادر توسچ کہتے ہیں لیکن بچے ان کی بات مانتے کب ہیں۔ وہ تو انسانوں ہی سے محبت کرتے ہیں ……

اور نفرت بھی کیتھی جملہ پورا کیا۔

کافی ختم ہو چکی تھی لیکن بات شروع بھی نہیں ہو سکی تھی۔ ویسے باتیں بہت ہوئیں لیکن ہاروے کی وہ بات شروع نہ ہوئی بظاہر جس نے ان کو وہاں جمع کیا تھا۔ لیکن شاید وہ اصلی مقصد بھی نہیں تھا۔ کیتھی تو در اصل مائیکل سے ملنے کی خاطر آئی تھی لیکن مائیکل مونیکا سے ملاقات کی راہ ہموار کرنے کی خاطر آیا تھا۔ مونیکا کے سبب کیتھی مائیکل سے مل کر بھی نہ مل سکی اور نہ مائیکل کیتھی سے ملاقات کر سکا۔

اس روز مائیکل کے لیے کیتھی کی حیثیت مونیکا سے ملاقات کی ایک سواری سے زیادہ نہیں تھی اور سواری نے چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ مائیکل جانتا تھا کہ سواری کے بغیر بھی سفر کو جاری رکھا جا سکتا ہے مگر صعوبتیں بڑھ جاتی ہیں اور اگر سواری از خود مصیبت بن جائے تو پیدل سفر ہی بہتر ہوتا ہے۔ مونیکا سے ملاقات کی حسرت سینے میں دبائے مائیکل اپنے ہوٹل کی جانب نکل کھڑا ہوا اور مائیکل سے ملنے کا اشتیاق اپنے دل سے نکال کر کیتھی اپنے کمرے میں لوٹ آئی۔

مائیکل جب ہوٹل پہنچا تو اسے اپنے وکیل دوست ڈیوڈ کلارک کا پیغام ملا۔ وہ اس سے فوراً ملنا چاہتا تھا۔ اس پیغام نے مائیکل کے لیے مونیکا سے ملاقات کی نئی راہ سجھا دی۔ ڈیو ڈ چونکہ مونیکا کے وکیل کا نمائندہ تھا اس لیے اپنے مؤکل سے ملاقات کا دستوری حق رکھتا تھا اور ڈیوڈ کے معاون کی حیثیت سے مائیکل کی ملاقات بھی ممکن ہو سکتی تھی۔ اس ملاقات کا مقصد تو صرف مونیکا کو یقین دلانا تھا کہ نہ صرف ہاروے بلکہ وہ خود بھی کیتھی کے ہمراہ اس کو جان ڈیو کے چنگل سے نکالنے کی بھرپور کوشش کرے گا لیکن کیتھی ……؟ اچانک یہ سوال مائیکل کے ذہن میں آیا جسے اس نے جھٹک دیا اور ڈیوڈ کو فون لگانے لگا۔

دعا سلام کے بعد ڈیوڈ نے کہا وہ فوراً ملاقات کا خواہشمند ہے۔ مائیکل بھی تیار تھا وہ بولا کہاں میرے ہوٹل پر ملا جائے یا تمھارے دفتر میں؟ ڈیوڈ نے دونوں تجاویز مسترد کر دیں وہ کافی گھبرایا ہوا تھا۔ یہ عجیب کیفیت تھی کہ انسان ملنا بھی چاہے اور ملنے سے بھی ڈرے۔ خیر مائیکل نے پوچھا اگر مقام کا تعین نہ ہو تو ملاقات کیونکر ممکن ہے؟ اگر وہ چاہے تو فون پر بات کر لے لیکن ڈیوڈ نے اس سے بھی انکار کر دیا۔

بالآخر ڈیوڈ بولا کہ وہ دس منٹ بعد فون پر بتلائے گا کہ ملاقات کب اور کہاں ہو گی؟

مائیکل نے حامی بھری اور فون رکھ دیا پانچ منٹ کے اندر دوبارہ فون کی گھنٹی بجی۔ ڈیوڈ ما موبائل پر رابطہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے احتیاط کے پیشِ نظر ہوٹل کے نمبر پر فون ملا رہا تھا۔ ڈیوڈ نے اسے اپنے ایک دوست کے گھر کا پتہ بتایا اور کہا کہ وہ نصف گھنٹے بعد وہاں پہنچے نیز تاکید کی کہ اگر کوئی اس سے پوچھے کہ کہاں جا رہا ہے تو ہر گز ڈیوڈ کا ذکر نہ کرے۔

ڈیوڈ کے رویے نے مائیکل کے ذہن میں بے شمار شکوک و شبہات پیدا کر دئیے۔ وہ سوچنے لگا کہ کہیں ہاروے کسی بڑی مصیبت میں تو نہیں پھنس گیا۔ یہ ڈیوڈ اس قدر گھبرایا ہوا کیوں ہے؟ اس نے اپنے مخصوص فون سے کیتھی کا نمبر ملایا کیتھی بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی لیکن اس نے مائیکل کو احتیاط برتنے کا مشورہ دیا اس کا گمان ہے کہ ضرور کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوا ہو گا جس نے ڈیوڈ کو اس قدر پریشان کر دیا ہے۔

ملاقات کے بعد پھر سے اسٹار بک میں ملنا طے پایا اسی کے ساتھ کیتھی بولی کہ وہ بات چیت کے دوران فون کا ٹیپ ریکارڈر چلا دے تاکہ اگر کسی بات کو دوبارہ سننے کی ضرورت پیش آئے تو دقت نہ ہو۔

مائیکل نے اس کا شکریہ ادا کر کے فون بند کر دیا۔ کیتھی مائیکل کی سلامتی کی دعا کرنے لگی۔ پانچ منٹ کے بعد کیتھی نے مائیکل کو فون لگا کر پتہ دریافت کیا اور اس سے کہا کہ وہ بھی میٹنگ کے دوران آس پاس موجود رہے گی تاکہ ناگہانی صورتحال میں جائے وقوع پر فوراً پہنچ سکے۔ اس کے بعد تاکید کی دیکھو اس میٹنگ میں اپنا کھلونا لے جانا نہیں بھولنا۔

مائیکل اشارہ سمجھ گیا اور بولا شکریہ کیتھی اور پستول کو کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا۔

مائیکل مقامِ متعین پر پہنچا تو ڈیوڈ اس کا منتظر تھا۔ اس نے بتلایا کہ یہ اس کے دوست کا مکان ہے۔ چونکہ دوست شہر سے باہر گیا ہوا ہے اس لیے فی الحال خالی ہے اور ان دونوں کے علاوہ یہاں کوئی اور نہیں ہے۔

مائیکل نے اچانک ملاقات کی وجہ دریافت کی تو ڈیوڈ بولا میرا خیال ہے کہ یہ مقدمہ لے کر میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے مجھے اس روز ہاروے کی نیابت کے کاغذات نہیں جمع کرانے چاہئے تھے۔

کیوں اس میں کیا پریشانی ہے؟ تم ایک وکیل ہو تم جس کی چا ہو نیابت کر سکتے ہو اور تمھارا مؤکل کوئی بڑا سے بڑا مجرم بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر کسی کو وکیل کرنے کی آزادی ہے اور پھر یہ تمھارا پیشہ ورانہ حق بھی تو ہے کہ جس کی چا ہو پیروی کرو۔

ڈیوڈ بولا جی ہاں میرے دوست مائیکل میں بھی یہی سوچتا تھا لیکن میں اس حقیقت کو بھول گیا تھا مجھے یہ مقدمہ کس کے خلاف لڑنا ہے؟

تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ڈیوڈ۔ مقدمہ تو کسی کے بھی خلاف ہو سکتا ہے۔ ہم ایک جمہوری ملک کے باشندے ہیں یہاں سبھی کے حقوق یکساں ہیں۔

جی ہاں میرے دوست مائیکل میں بھی یہی سمجھتا تھا۔ ڈیوڈ نے سر جھکا کر کہا۔ میں عام لوگوں کے بے شمار مقدمات کی پیروی کر چکا ہوں۔ میں نے ایسے لوگوں کے مقدمات بھی لڑے جو نامی گرامی مجرم تھے اور انھیں قرار واقعی سزا سے بچانے کے لیے آسمان و زمین کے قلابے ملا دئیے بلکہ کئی مرتبہ میں اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو گیا جس سے مجھے بڑی شہرت اور دولت حاصل ہوئی لیکن کبھی کوئی مصیبت نہیں آئی۔

تو پھر اب کیا ہو گیا؟ اس بار تو تم حق پر ہو اور تمھارے مخالف نے جعلی کاغذات کو جمع کر کے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ تمھاری جیت تو سامنے ہے دوست پریشانی کیا ہے؟ یا تو تم آئندہ پیشی میں جیت جاؤ گے ورنہ آگے سے مقدمہ ہاروے لڑے گا۔

مائیکل تمھاری ہر بات درست ہے لیکن کیا تم مجھے اس بات کی یقین دہانی کر سکتے ہو کہ میں اگلی پیشی تک زندہ رہوں گا۔

مائیکل کو اس سوال کی توقع نہیں تھی۔ وہ بولاکیسی باتیں کرتے ہو۔ ویسے تو زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ کون کب تک جیے گا اور کب کوچ کر جائے گا اس بات کی ضمانت کوئی نہیں لے سکتا۔

لیکن مجھے یقین ہے کہ میرا وقت قریب آ گیا ہے، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔

مائک نے پوچھا کس بات کا ڈر؟

ڈیوڈ بولا میں کہہ چکا ہوں مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔

کیوں؟ مائیکل نے سوال کیا۔

اس لیے کہ جس دن سے میں اس بکھیڑے میں پڑا ہوں مسلسل میری نگرانی ہو رہی ہے۔ مجھے دھمکی بھرے فون آ رہے ہیں۔ میری اجازت کے بغیر میرے دفتر کی تلاشی لی جا چکی ہے۔ اب تمہیں بتاؤ اگر تلاشی لینے والے خود ہی کوئی مشتبہ شے رکھ دیتے تو میرا کیا حشر ہوتا؟ ذرائع ابلاغ تو طوطے کی طرح وہی بات دوہراتا رہتا جو پولس اور انتظامیہ اس سے کہتی۔ اور وہی دکھلاتا جو ان لوگوں نے رکھا ہوا ہوتا۔ میں تو بنا موت مارا جاتا۔

مائیکل کو ڈیوڈ کی ہذیانی کیفیت پر ہنسی آ گئی اس نے کہا کیا بکتے ہو ڈیوڈ تم جیسا پڑھا لکھا اور معروف وکیل یہ کہہ رہا ہے جو قانون کی رگ رگ سے واقف ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ ہم دنیا کے سب سے مہذب ملک کے شہری ہیں اور یہاں کے سارے باشندوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔

میں یہ سب جانتا ہوں مائیکل لیکن تم نے مجھے دھوکے سے ایک ایسے آدمی سے بھڑا دیا جو یہ سب نہیں جانتا۔ وہ طاقتور بھی ہے اور سفاک بھی۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

کیا کر سکتا ہے؟

وہی کر سکتا ہے جو اس نے ہاروے کے ساتھ کیا؟

ہاروے کے ساتھ اس نے کیا کیا؟ مائیکل نے پوچھا

یہ تم مجھ سے پوچھ رہے ہو۔ اس نے مائیکل جیسے بارسوخ آدمی کو اغوا کروا لیا مونیکا جیسی بے ضرر خاتون کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔ اس کے سامنے میں کس کھیت کی مولی ہوں۔

ڈیوڈ تم سچ کہتے ہو۔ تمھاری ہر بات درست ہے لیکن میری مانو تو دل چھوٹا نہ کرو۔ انسان کے اندرسب سے اہم عضو دل ہے۔ جدل والے ڈر ڈر کر نہیں جیتے ہیں وہ بے خوف زندگی گزارتے ہیں۔

ڈیوڈ بولا دیکھو مائیکل اب میں تمہاری ان چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آؤں گا۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ میں کیا؟ کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہمارے یہاں قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ اس لیے کہ وہ اندھا ہے۔ اندھے کی نگاہ میں تو سب برابر ہی ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ کسی کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن جو آنکھ والے ہیں ان کی نظر میں سب لوگ برابر نہیں ہیں۔ جو ہاتھ والے ہیں ان کے ہاتھ بھی یکساں نہیں ہیں بلکہ کچھ لوگوں کے ہاتھ تو بہت لمبے ہیں مائیکل…. قانون سے بھی لمبے۔ اور جو پیر والے ہیں ان کے پیر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اپنے قدموں تلے مجھ جیسے کئی وکیلوں کو روند سکتے ہیں۔ ان پیروں میں کوئی بیڑی نہیں ڈال سکتا اس لیے کہ وہ خود قانون ساز ہیں۔ سیاست اور عدالت دونوں ان کے آگے سرنگوں ہے وہ قانون کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ ان پر کوئی لگام نہیں لگا سکتا۔

مائیکل ہار کر بولا اب تم کام کی بات کرو جو ہو چکا سو ہو چکا۔ اب تمہیں کیا کرنا ہے؟

میں اپنے آپ کو اس مقدمے سے الگ کرنا چاہتا ہوں۔

تو کر لو اپنے آپ کو الگ۔ تمہیں ایسا کرنے سے کس نے روکا ہے؟

میں ایک نیا حلف نامہ داخل کر کے اپنے ذریعہ جمع شدہ ثبوت واپس لینا چاہتا ہوں۔

یہ کیسے ممکن ہے ڈیوڈ۔ مائیکل نے کہا وکیل ہو کر تم ایسی احمقانہ بات کر رہے ہو۔ تم نے تو عدالت سے صرف یہ کہا کہ ہاروے اس بار نہیں آئے گا۔ اب اگر اگلی بار وہ آ گیا تو آ گیا۔ نہیں آیا تو تمھاری ذمہ داری ختم۔ جہاں تک شواہد کا تعلق ہے وہ تم نے ہاروے کی جانب سے جمع کروائے ہیں۔ انھیں ہاروے تو واپس لے سکتامگر تم نہیں لے سکتے۔

ڈیوڈ بولا جی ہاں مائیکل لیکن میں جانتا ہوں کہ اگلی پیشی میں بھی ہاروے نہیں آئے گا۔ اسے کسی نہ کسی بہانے روک لیا جائے گا۔ اس لیے میں پھر اس کی نیابت کے لیے کھڑا ہو جاؤں گا اور اسی کی جانب سے عدالت کو شواہد واپس کرنے کی درخواست کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ غیردستوری عمل ہے پھر بھی عدالت مجھے شواہد واپس کر دے گی۔

اچھا اگر ایسا ہے تو تم ان شواہد کو واپس لے کر کیا کرو گے؟

ڈیوڈ خاموش ہو گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مائیکل کو کیا جواب دے۔ مائیکل نے اصرار کیا اور پوچھا تم بولتے کیوں نہیں ڈیوڈ۔ تم ان کا کیا کرو گے؟

میں ….میں انھیں واپس لے کر ضائع کر دوں گا۔

لیکن تم ایسا کیوں کرو گے؟ اس میں تمھارا کیا فائدہ ہے؟

فائدہ تو کچھ بھی نہیں ہے؟

ہاروے نے سوال کیا تو پھر تم یہ سب کیوں کرو گے تمہیں اس کے عوض کیا ملے گا؟

مجھے کچھ بھی نہیں ملے گا۔

اگر ایسا ہے تو تم یہ سب کیوں کرنا چاہتے ہو؟

ڈیوڈ سوالات کی بوچھار سے گھبرا گیا تھا وہ بولا میں ….یونہی ….. میں بس یونہی یہ سب کرنا چاہتا ہوں۔

ڈیوڈ ہوش کے ناخن لو۔ یہ ناممکن ہے۔ ہاروے تمہیں اس کی اجازت نہیں دے گا۔

میں کسی ہاروے کو نہیں جانتا ہوں مائیکل۔ ڈیوڈ بولا میں تو صرف تمہیں جانتا ہوں۔ میں نے تمھارے کہنے پر جو کاغذات داخل کیے تھے ان کے بارے میں مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ اصلی ہیں یا جعلی۔ میں نے تم پر بھروسہ کیا اور انھیں عدالت میں جمع کرا دیا۔ اب میں دوبارہ عدالت میں نیا حلف نامہ داخل کروں گا۔

مائیکل نے ٹوکا….. اور جو جعلی ہو گا۔

جی ہاں مائیکل تم نے بالکل صحیح سمجھا لیکن اس کا علم تمھارے اور میرے سوا کسی اور کو نہیں ہو گا۔ اب تمہیں صرف یہ کرنا ہے کہ اپنی زبان بند رکھو۔ خاموش رہو۔ اسی میں میری، تمھاری اور ہاروے کی۔ ہم سب کی بھلائی ہے۔

یہ نہیں ہو سکتا۔ ہم محض اپنا ذاتی تحفظ نہیں بلکہ انسانی بھلائی کا فروغ چاہتے ہیں اور ڈیوڈ ایک بات یاد رکھو ایسا نہیں کہ جو کچھ تم نے عدالت میں جمع کر دیا وہ اس کی واحد نقل ہے۔ اس کی مختلف نقول نہ صرف ہمارے پاس بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں محفوظ ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ کی مددسے ہمارے ایک اشارے پر یہ دھماکے دنیا بھر میں بیک وقت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ان کا ضائع کرنا بھی کسی کے کام نہ آ سکے گا۔ الٹے تم پھنس جاؤ گے۔

میں تو پھنس ہی چکا ہوں میرے دوست مائیکل۔ میرے ایک جانب آگ ہے اور دوسری طرف کھائی ہے۔ ہر دو صورت میری تباہی یقینی ہے۔ اسے مائیکل پر حیرت ہو رہی تھی جو بلا خوف و خطر نہایت اطمینان و سکون سے بات کر رہا تھا۔ ڈیوڈ نے پوچھا یار اب تم ہی بتاؤ کہ میں کیا کروں؟ مجھے بہت ڈر لگتا ہے؟

میرے دوست گھر جاؤ اورسکون سے سو جاؤ۔ ان لوگوں کے بارے میں سوچو جو مشکلات میں گرفتار ہیں۔ ہاروے جسے اغوا کیا جا چکا ہے، مونیکا جو گرفتار کر لی گئی ہے اور ولیم جسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کیا ہوا ان لوگوں کا؟ کیا چھن گیا ان سے؟ ….. وہی جو ان کو حاصل تھا اور ایک دن چھن جانے والا تھا لیکن تمہیں تو وہ سب اب بھی حاصل ہے۔ اس کے باوجود تم اس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہو۔ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے ان کے چھن جانے کے کرب میں مبتلا ہو۔ تم سے تو وہ اچھے ہیں کہ انھیں کسی شے کے گنوا دینے کا خوف نہیں ہے۔ اب تمہیں بتاؤ ڈیوڈ کے وہ بہتر حالت میں ہیں یا تم؟ ؟؟ بتاؤ ڈیوڈ کون بہتر حالت میں ہے؟

ڈیوڈ نے سرجھکا کر کہا کوئی نہیں ہے نہ وہ اور نہ میں سب ابتر حالت میں ہیں سب کے سب…… بدسے بدتر ہیں۔ مائیکل اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا۔ مونیکا تک پہنچنے والی دوسری سواری کا پہیہ بھی پنچر ہو چکا تھا۔

عمارت سے باہر آ کر مائیکل نے اپنی گاڑی نکالی تو اسے پتہ چلا کہ دو گاڑیاں اس کا تعاقب کر رہی ہیں۔ ایک تو پولس کی گاڑی تھی اور دوسری کیتھی کی۔ شہر کا ایک چکر لگا کر مائیکل ہوٹل میں آ گیا۔ کمرے کے اندر آ کر مائیکل نے اپنے مخصوص موبائل سے کیتھی کو بتایا کہ اب ان دونوں کا ملنا مناسب نہیں ہے اس لیے کہ وہ پولس کی نظر میں آ چکا ہے اور اس کی نگرانی شروع ہو گئی ہے۔

مائیکل کسی صورت یہ نہیں چاہتا تھا کہ کیتھی پولس کی نظر میں آ جائے۔ اس تین پتوں کے کھیل میں بادشاہ اور غلام تو کھل چکے تھے لیکن بیگم ابھی صیغۂ راز میں تھی۔ مائیکل نے سوچا لیکن اس کھیل میں اکا ّکون ہے؟

وہی جوسب پر آشکار بھی ہے اور سبھی کی آنکھوں سے اوجھل بھی۔

جس کے آگے شاہ وگدایکساں ہیں۔

جو جب چاہتا بیگم کو لونڈی اور باندی کو بیگم بنا دیتا ہے۔

وہ وحدہٗ لاشریک جس کے اشارے پر کائنات کا نظام نہ جانے کب سے چل رہا ہے

اور جس کی مرضی سے نہ جانے کب تک چلنے والا ہے؟ ؟؟

٭٭٭

 

 

 

 

۲۴

 

ڈیوڈ کے خوف کی آنچ سے مائیکل قدرے متاثر ہوا تھا۔ اس سانحہ نے مائیکل کو پہلی مرتبہ فکر مند کر دیا تھا۔ ہاروے کے بارے میں طرح طرح کے اندیشے اس کے دل میں ابھرنے لگے تھے۔ مائیکل کو اپنی جان کا خوف نہیں تھا اور نہ وہ اپنے بارے میں سوچ رہا تھا۔ نہ جانے وہ اپنے آپ سے متعلق اس قدر بے پرواہ کیوں تھا؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ اس کا توکل ہے یا تقدیر کے خیرو شر پر پختہ یقین؟ لیکن بہرحال یہ حقیقت تھی کہ وہ اپنے ذات کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا اتنا بھی نہیں کہ جتنا کیتھی اس کے بارے میں سوچتی تھی۔

مائیکل اپنے مقصد حیات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ایک بے قصور کو بچانے اور ایک گناہ گار کو سزا دلانے کے مقصدِ جلیل کی بابت فکر مند تھا۔ ویسے تو اس کو یقینِ کامل تھا کہ وہ ناکام نہیں ہو گا لیکن چونکہ اس کے منصوبے ناکامی و نامرادی سے دوچار ہونے لگے تھے۔ توقعات کے خلاف واقعات رونما ہونے لگے تھے اس لیے بے اطمینانی کا ایک بیج کونپل نکال رہا تھا۔

مائیکل جانتا تھا ناکامی کی ابتدا اسی طرح سے ہوتی ہے۔ یہی بے اطمینانی آگے جا کر بے زاری کو جنم دیتی اور پھر اس کی کوکھ سے انتشار فکر کا آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے جس کے نتیجے میں اعتماد کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ اس کی دراڑ سے رونما ہونے والی جھنجھلاہٹ مایوسی کے راستے سے ہوتی ہوئی خودشکستگی کے دروازے پر دستک دینے لگتی ہے۔

مائیکل کے خیال میں جو شخص اپنے آپ سے ہار چکا ہو اسے ہرانے میں غیروں کو بہت زیادہ محنت و مشقت نہیں کرنی پڑ تی تھی۔ وہ اپنے آپ کو اس گرداب سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا اس لیے کہ ایسے بھنور سے کوئی زندہ و سلامت نہیں لوٹ پاتا تھا۔ امید اور حوصلہ کا چراغ روشن رکھنے کے لیے مائیکل کو کیتھی ولسن جیسے کسی ایک ہمدم و دمساز کی ضرورت تھی۔

کیتھی سے ملاقات کے لیے ایک محفوظ مقام کی تلاش اسے اپنے قدیم شناسا چنگ چاؤ کی جانب لے گئی جو دور کا رشتہ دار بھی تھا۔ چنگ چاؤ کا واشنگٹن میں بہت بڑا کاروبار تھا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر دن رات دولت کمانے کی دھن میں لگا رہتا تھا۔ چنگ نہ خود اس سراب کی حقیقت جانتا تھا اور نہ جاننا چاہتا تھا کہ جس کے تعاقب میں وہ سرپٹ دوڑ رہا تھا۔ اسے تو بس زیادہ سے دنیا کمانے کی فکر ستاتی رہتی تھی اور وہ اس فن کا ماہر تھا۔ وہ مال کمانے میں دن رات غرق رہتا اورایسے لوگوں سے کم ہی ملتا تھا جن سے کوئی تجارتی مفاد وابستہ نہ ہو۔

مائیکل نے اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو چنگ بڑا خوش ہوا۔ اس نے مائیکل کو شام کے وقت اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ مبادا اسے آنے میں تاخیر ہو جائے۔ لیکن وہ اس کا خیال نہ کرے۔ اس کی بیوی منگ ماؤ میزبانی کے فرائض انجام دے گی۔ دیگر مہمانوں کے ساتھ وہ اپنی خوبصورت شام کا لطف اٹھائے۔ فرصت ملتے ہی وہ بھی اس محفل میں شریک ہو جائے گا۔ مائیکل جانتا تھا کہ وہ نہیں آئے گا۔ اسے فرصت نہیں ملے گی اس لیے کہ ھل من مزید کے چکر میں چنگ مادی وسائل کے بہتر استعمال تک سے محروم ہو چکا تھا۔

مائیکل کو  چونکہ چنگ سے ملنے کا کوئی اشتیاق نہیں تھا اس لیے اس کی غیر موجودگی کا افسوس بھی نہیں تھا۔ وہ تو بس کیتھی سے کسی پارٹی میں ایک اجنبی کی حیثیت سے مل کر بات چیت کر لینا چاہتا تھا۔ چنگ چاؤ کی اہلیہ منگ ماؤ نے نہایت مختصر وقت میں ایک زبردست دعوت کا اہتمام کر دیاجس میں ایک مثالی پارٹی کے سارے لوازمات موجود تھے۔ بیس پچیس منتخب مہمان، کھانا پینا، رقص و سرود وغیرہ وغیرہ۔

اس دعوت میں اعلیٰ سوسائٹی کے لوگ ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ ہنس بول رہے تھے۔ یہ ایسے نام نہاد بڑے لوگ تھے جنہیں دوست و احباب سے ملنے کا اور ہنسنے بولنے کا موقع اور وقت کم ہی ملتا تھا۔ زیادہ تر وقت حصول دنیا میں صرف ہو جاتا تھا۔ اس طرح کا موقع غنیمت جان کر عارضی طور پر وہ سکے ّ ڈھالنے والی مشینیں انسان بن جاتی تھیں۔ ایسا انسان جو دنیا کمانے کے ساتھ اسے لٹا تا بھی ہے تاکہ زندگی کے مزے لوٹ سکے۔

ویسے تو یہ زندگی کی نہایت بھونڈی تصویر تھی لیکن جس طرح کی خشک زندگی وہ گزار رہے تھے اس کے بالمقابل کسی قدر خوشنما تھی۔ اس کے اندر دکھاوا روزمرہ کے دفتری تصنع کے مقابلے کم مقدار میں ہوتا تھا۔ اس طرح کی مجلسوں سے محظوظ ہونے نادان چند کلیوں پر قناعت کر جاتے تھے۔ لیکن چنگ چاؤ ان اس سے بھی محروم تھا اور ایسی مشین بن چکا تھا جو جذبات و احساسات سے عاری اپنا کام کرتی رہتی تھی۔ جب اس مشین کے کل پرزے خراب ہو جاتے تو ان کی مرمت کر دی جاتی یا انھیں بدل دیا جاتا مگر جب یہ پوری طرح کام کرنا بند کر دیتی تو اس کو بیکار سمجھ کر ’’ری سائیکل بن‘‘ میں جھونک دیا جاتا۔

موت کے کنوئیں میں ایسوں کی لاش کو گدھ اور چیلوں کے حوالے کر دیا جاتا۔ زندگی بھر تو وہ کسی کے کام نہیں آتے مگر موت کے بعد ان کے گوشت پوست سے مردہ خور پرندے اپنی بھوک مٹاتے اور ان کی ہڈیوں سے ایک اندھے کنوئیں کا پیٹ بھرتا تھا۔ یہ سب اس قدر خاموشی سے ہوتا کہ زرتشتی عقائد کے لوگ اسے خاموش کنواں کہتے تھے۔

دعوت میں تمام لوگوں کے چلے جانے کے بعد چنگ چاؤ کی اہلیہ منگ ماؤ نے مائیکل سے اپنے خاوند کی غیر موجودگی کے لیے معذرت طلب کی۔

مائیکل نے کہا کوئی بات نہیں اسے چنگ چاؤ کی مصروفیات کا احساس ہے۔ اسی کے ساتھ گزارش کی کہ اگر اجازت ہو تو وہ کچھ وقت اپنی دوست کیتھی ولسن کے ساتھ تنہائی میں گزارے۔ اس لیے کہ ایک طویل عرصے کے بعد ان کی ملاقات ہوئی ہے۔

منگ ماؤ نے اس درخواست کو بصد شوق قبول کر لیا اور جھیل کی جانب کھلنے والے ایک نہایت پر تکلف مہمان خانے تک ان کی رہنمائی کرنے کے بعد رخصت ہو گئی۔ منگ نے جانے سے قبل بتایا کہ اگر انھیں کوئی ضرورت ہو تو وہ اس گھنٹی کو بجائیں۔ گھر میں موجود خادم اور خادمائیں حاضر ہو جائیں گی۔ اگر چنگ یا منگ سے کوئی ضروری بات کرنی ہو تو خادمہ کی مدد سے انھیں بلانے میں تکلف نہ کریں۔

جاتے جاتے منگ سامنے پڑے پردے کی جانب اشارہ کر کے بولی ادھر ایک دروازہ ہے جو باہر کی جانب کھلتا ہے۔ اسی کے ساتھ مسکرا کر شب بخیر کہا، دونوں سے مصافحہ کیا اور اپنی تنہائی کا غم سینے میں دبائے خوابگاہ کی جانب لوٹ گئی۔ ایک ایسی خوابگاہ جس میں خواب تو تھے مگر تعبیر نہیں تھی۔

چنگ چاؤ کے وسیع و عریض مہمان خانے میں پہلے تو کچھ دیر مائیکل اور کیتھی خاموش بیٹھے رہے۔ اس کے بعد مائیکل نے دبیز پردوں کو ہٹا کر کھڑکیاں کھول دیں۔ کیتھی کو ایسا لگا کہ ہوا کے ایک تیز جھونکے کے ساتھ ساری کائنات اس کمرے میں داخل ہو گئی ہے۔ خاموش جھیل کی طرف دیکھ کر کیتھی بولی فطرت کے ان مناظر میں کس قدر وسعت اور تازگی ہے لیکن لوگ نہ جانے کیوں ائیر کنڈیشن کی مصنوعی حراست سے نکلنا نہیں چاہتے؟ ایک ایسی پر فریب فضا سے جو بظاہر کھلی نظر آتی ہے مگر حقیقت میں بند ہوتی ہے۔ جہاں سے شیشوں کی نظر نہ آنے والی دیوار کے پرے قدرت کی نیرنگیوں کو دیکھا تو جا سکتا ہے مگر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔

مائیکل نے کھڑکی کو کھول کر دیوار کا سینہ چاک کر دیا تھا۔ وہ لوگ واشنگٹن کی بلند ترین عمارت میں سب سے اوپری منزل پر تھے۔ یہ کمرہ زمین سے چار سو میٹر دور اور آسمان سے اسی قدر قریب تھا۔ کیتھی اور مائیکل پہلی مرتبہ آسمان سے زمیں کو دیکھ رہے تھے۔ ہو امیں خنکی تھی اور بہاؤ اس قدر زیادہ تھا اگر دوسری جانب کی کھڑکی کھول دی جائے تو وہ کیتھی اور مائیکل سمیت اس کمرے کی تمام اشیاء کو اپنے ساتھ اڑا لے جائے اور پھر ہر چیز ہوا میں تیرنے لگے۔

اس کمرے کا نقشہ بنانے والے نے کھڑکی کے اطراف دیوار بنا کر اس صورتحال کو خارج از امکان کر دیا تھا۔ یہاں پر ایک جانب کھڑکی تینوں طرف صرف دیواریں تھیں جو ہوا کو آر پار جانے سے روک رہی تھیں اور دیگر سازوسامان کو ٹھہراؤ عطا کر رہی تھیں۔ جو ہلکی پھلکی چیزیں اپنی جگہ سے لڑھک کر زمین پر گر گئیں تھیں کسی کو ان کی پرواہ نہیں تھی۔

مائیکل نے کیتھی کو ڈیوڈ کی داستان سنانے کے بعد کہا ایسا لگتا ہے ہمارے منصوبے کے مطابق کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے؟

کیتھی نے سوال دوہرایا کچھ بھی نہیں؟

یہ تو نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں توقع تو تھی کہ ہاروے کے راستے میں تاخیر کی غرض سے رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی لیکن یہ امید نہیں تھی کہ اسے اس طرح غائب کر دیا جائے گا اور وہ سلسلہ طویل تر ہوتا چلا جائے گا۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہاروے کی غیر موجودگی میں جج کوئی لکھا لکھایا فیصلہ پڑھ کر سنا دیں گے اور ساری کارروائی کو جلد از جلد نمٹا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہمارے متبادل وکیل کو پیش آنے والی مشکلات سے بھی ہم نابلد تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے عدالتی کارروائی سے ناواقفیت کی بناء پر ہمارے منصوبے میں یہ بنیادی خامیاں رہ گئی تھیں۔

کیتھی بولی تمھارا جائزہ درست ہے مائیکل، لیکن انسان حقیقت کا مکمل ادراک نہیں کر سکتا اس لیے کہ امکانات لامحدود ہوتے ہیں اور انسانی عقل و فہم کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس اپنے علم و فہم کی روشنی میں منصوبہ بندی کے علاوہ کوئی اور متبادل بھی تو نہیں تھا۔ مسئلہ کی نزاکت کے پیش نظر ہم کسی سے مشورہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے جو کچھ ممکن تھا ہم نے کیا لیکن ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اسی منصوبے کی برکت سے آج یہ مقدمہ زندہ ہے ورنہ اگر وہ دم توڑ دیتا تو مونیکا اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہوتی۔

میں مانتا ہوں کہ اس بیچ ہاروے کی غیر موجودگی کے باوجود ہم اپنے شواہد عدالت کے اندر جمع کرانے میں کامیاب ہو گئے۔

ذرائع ابلاغ میں اس کے حوالے سے بڑا تجسس پایا جاتا ہے میں جانتی ہوں۔ مختلف قیاس آرائیوں نے مقدمہ کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگرسب کچھ ہمارے منصوبے کے عین مطابق ہوتا تب بھی صورتحال اس سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔

لیکن کیتھی اگر آج ہاروے ہمارے درمیان موجود ہوتا اور ہم اس کے ساتھ آگے کی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے تو بات کچھ اور ہی ہوتی۔ کیا اس کے تعلق سے پائی جانے والی غیر یقینی تشویشناک نہیں ہے؟

ہے کیوں نہیں۔ تشویش تو مجھے بھی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اب ہمیں سوچنا چاہئے کہ وہ کہاں اورکس حال میں ہے؟ اوراس کی مدد ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ اس کی منصوبہ بندی لازم ہے۔

ویسے کل ہم اسی غرض سے اسٹار بک میں جمع ہوئے تھے …….

کیتھی نے جملہ کاٹ دیا لیکن تم مونیکا کے چکر میں پڑ گئے۔

تمھاری بات درست ہے مجھے اس وقت حالات کی سنگینی کا احساس نہیں تھا۔ ڈیوڈ سے ملاقات نے تصویر کا رخ بدل دیا۔

میں سمجھتی ہوں کہ ڈیوڈ کے گھبرانے میں ہمارے لیے خیر کا پہلو ہے۔ اس نے ہماری آنکھ کھول دی ورنہ اگر وہ خاموشی کے ساتھ ہمارے دشمنوں کا آلۂ کا بن جاتا اور اس کا انکشاف عدالت کے اندر ہوتا تو ہم بے دست و پا ہو جاتے۔ اب ہم احتیاط و پیش بندی کر سکتے ہیں۔

کیتھی کمال ہے تم ہر تاریکی میں روشنی ایک لکیر ضرور دیکھ لیتی ہو۔ ہر پریشانی کے اندر امید کی کرن تلاش کر لیتی ہو۔

کیتھی نے قہقہہ لگا کر کہا ایک اصلاح ہے۔ ……..

وہ کیا؟ ……..

ہر پریشانی میں نہیں کیتھی بولی۔ ….

اچھا؟ ……

جی ہاں مائیکل چاؤ نام کی پریشانی کے اندر کوئی امید افزاء کرن مجھے ہنوز نظر نہیں آئی۔ کیتھی کی ظرافت پر مائیکل بھی ہنس پڑا۔

کیتھی نے آگے جھک کر میز پر پڑی بجلی کی کیتلی کا بٹن دبا دیا اور ایک کپ میں بہت ساری کافی نیز دوسرے میں کافی، شکر اور دودھ کا پاؤڈر ملا کر پانی کے گرم ہونے کا انتظار کرنے لگی، کافی کی خوشبو اور گرمی نے مائیکل کے اندر بجلی کی لہر دوڑا دی تھی۔ وہ بولا خیر ماضی کا فسانہ بہت ہو چکا اب مستقبل کے بارے میں تم کیا سوچتی ہو؟

مستقبلِ بعید کے بارے میں تو تم سے سنوں گی لیکن مستقبلِ قریب کے اندر ہمارے سامنے دو مسائل ہیں۔ اول تو ہاروے کا پتہ لگانا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے؟ دوسرے ڈیوڈ کا متبادل وکیل تلاش کرنا۔

مائیکل بولا ڈیوڈ کے قدموں کا ڈگمگانا دوسرے وکلاء کو خوفزدہ کر دے گا۔ ایسے میں کسی وکیل کو تیار کرنے کا کام آسان نہیں ہو گا۔

جی ہاں لیکن یہ کام ہمیں کرنا ہی ہو گا اور اگر ضروری ہوا تو ہم کولاریڈو میں موجود کسی ایسے ایڈوکیٹ کی خدمات حاصل کریں جو ہمارا بہی خواہ ہو اور تعاون کے لیے راضی ہو جائے۔

یہ کام مجھ پر چھوڑ دو میں دو دن کے اندر وکیل کو تیار کرنے کی کوشش کروں گا۔

بہت خوب کیتھی بولی اور جہاں تک ہاروے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا سوال ہے یہ کام تمھارے لیے مشکل بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اس لیے کہ تم مسلسل نگرانی میں ہو۔

میرے خیال میں ہمیں اپنی ٹیم میں ایک اور رکن کا اضافہ کرنا چاہئے جو اس کام کے لیے مفید و معاون ہو۔

تمھاری بات درست ہے لیکن نئے فرد کا انتخاب ہمیں بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔ ڈیوڈ جیسا آدمی ہمیں راحت پہنچانے کے بجائے ہمارے لیے عذابِ جان بن جائے گا۔ اس کا ذہین، ایماندار، نڈر اور بارسوخ ہونا ضروری ہے۔

مائیکل نے تائید کی اور بولا اس کی اصول پسندی نیز مقصد کی خاطر ایثار و قربانی کا جذبہ بھی کم اہم نہیں ہے۔

لیکن مائیکل اس کام کے لیے ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ دو دن کے اندر اس کا تعین کرنے کے بعد تیسرے دن اس کے ساتھ بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ عدالت کے دو ہفتوں میں سے دو دن گزر چکے ہیں۔

مائیکل نے کھڑکی کو دوبارہ بند کرتے ہوئے کہا اس بیچ کسی ناگہانی صورتحال کے علاوہ احتیاط کے پیش نظر ہمیں باہم رابطہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

کیتھی نے زمین پر گرے پڑے سامان کو سلیقہ سے رکھتے ہوئے تائید کی۔ اس کے بعد اپنے کارڈس پر چنگ اور منگ کے نام شکریہ لکھ کر پاس رکھے گلدان میں لگا دیا اور وہ دونوں خفیہ دروازے کے ذریعہ سے باہر نکل کر اپنی اپنی گاڑی میں ہوٹلوں کی جانب روانہ ہو گئے۔

کیتھی ہوٹل کی راہداری سے گزر کر لفٹ کی جانب جا رہی تھی کہ اسے درمیان میں سی آئی اے کے ایک افسر نے روک کر ملاقات کی درخواست کی۔ کیتھی بلا جھجک تیار ہو گئی۔

اس نے پوچھا کہ وہ کہاں گئی تھی؟ منگ ماؤ کو کیسے جانتی ہے؟ وہ اجنبی کون تھا جس کے ساتھ وہ فلک بوس عمارت سے باہر آئی تھی؟

کیتھی سمجھ گئی ساری تمہید کے بعد اصل سوال یہی ہے؟ کیتھی نے بتایا کہ وہ اس کے اپنے شہر کولاریڈو کا رہنے والا مائیکل چاؤ ہے۔ اتفاقاً دعوت میں ان دونوں کی بڑے عرصے بعد ملاقات ہو گئی۔ اب کیا اس نجی ملاقات کی تفصیل بھی بتانا ضروری ہے؟

افسر بولا جی نہیں محترمہ ہم کسی کے ذاتی معاملات سے سروکار نہیں رکھتے۔ آپ کو زحمت دینے کے لیے معذرت چاہتے ہیں اور آپ کے تعاون کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ٹیلی ویژن کے پردے پر ایک صحافی کی حیثیت سے سچ کو چھپانے اور جھوٹ دکھانے کے فن میں ماہر کیتھی سی آئی اے کے تفتیش کار کو فریب دینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

……………………………

 

ہاروے نے ڈائنا کو یہ بتایا تھا کہ وہ ٹیکساس جا رہا ہے لیکن پھر اس کے بعد اپنے اہلِ خانہ سے قطع تعلق ہو گیا تھا۔ نہ وہ فون کرتا تھا اور نہ ہی فون کا جواب دیتا تھا۔ ڈائنا کو ہاروے کی اس حرکت پر تشویش بھی تھی اور غصہ بھی آ رہا تھا۔ وہ کبھی کبھار سوچتی تھی کہ کاش وہ ہاروے کی ماں ہوتی تو اس کی خوب جم کر پٹائی کرتی لیکن افسوس کہ وہ اس کی چھوٹی بہن تھی۔ ہاروے کے بارے میں پتہ لگانے کے لیے اس نے پہلے تو دفتر میں اس کی سکریٹری سے رابطہ قائم کیا تو پتہ چلا وہ خود ہی تاریکی میں ہے اور ہاروے کی بابت دریافت کرنے کے لئے ڈائنا کو فون کرنے والی تھی۔

ڈائنا نے سوچا اب کیا کیا جائے؟ اس کے ذہن میں اچانک مائیکل کا نام آیا۔ مائیکل یقیناً ہاروے کا حال احوال جانتا ہو گا؟ لیکن اپنے بھائی کے بارے میں وہ غیر سے کیوں پوچھے؟ اس سوال نے ڈائنا کو روک دیا۔ پھر ڈائنا نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ مائیکل غیر تھوڑے ہی ہے؟

اس سوال نے ڈائنا کو خود کلامی میں مبتلا کر دیا۔ اگر مائیکل غیر نہیں ہے تو کون ہے؟

کیا وہ اس کا اپنا ہے؟

مائیکل ہاروے کا وہ دوست ضرور ہے لیکن ڈائنا سے اس کا کیا رشتہ ہے؟

ڈائنا رشتوں ناطوں کے جال میں الجھ گئی تھی۔

وہ اپنے آپ کو سمجھا رہی تھی کہ کچھ ایسے رشتے بھی ہوتے ہیں جن کی کوئی متعین تعریف نہیں ہوتی۔ مبہم سا کوئی بندھن جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟ لیکن ایسا ہوتا ہے۔ یہ بندھن بغیر باندھے بندھ جاتے ہیں …………

لیکن وہ ٹوٹ بھی تو جاتے ہیں۔ بغیر توڑے ایسے بندھن اپنے آپ ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟ کب ہوتا ہے؟ ان سوالات کا کوئی جواب ڈائنا کے پاس نہیں تھا۔

ان سوالات کے مکڑ جال میں بنیادی مسئلہ ہاروے کا محل و وقوع نہ جانے کہاں کھو گیا۔ ڈائنا پھراس پر واپس آئی اب وہ سوچ رہی تھی ہاروے کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ اور کب لوٹ کر آئے گا۔ یہ سوالات اسے پھر ایک بار مائیکل کی چوکھٹ پر لے گئے تھے اور وہ اسے فون ملا نے لگی۔

مائیکل نے فون پر ایک اجنبی نمبر دیکھ کر سوچا لگتا ہے اس ملک میں خفیہ ایجنسی کو کوئی کام نہیں ہے۔ مائیکل کو وہ لوگ آئے دن نت نئے ناموں سے فون کر کے اوٹ پٹانگ سوال کیا کرتے تھے جن کا جواب دیتے دیتے وہ تنگ آ چکا تھا لیکن پھر بھی اس نے سوچا کہ اسے ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جس میں شبہ کی گنجائش ہو اس لیے متانت کی اداکاری کرتے ہوئے اس نے سوال کیا۔ کون؟

سامنے سے جواب ملا تم واقعی مجھے نہیں جانتے یا اداکاری کر رہے ہو؟

یہ سوال کچھ مختلف انداز میں کیا گیا تھا لیکن مائیکل نے سوچا ممکن ہے یہ پولس کی کوئی نئی چال ہو۔ مائیکل نے جواب دیا کہ کاش میں فلمسٹار ہوتا بہت بڑا فلمسٹار اور آپ کو مجھ سے بات کرنے کے لیے میرے دس سکریٹریز سے گزر نا پڑتا۔

ڈائنا کے لیے مائیکل کے الفاظ اور لب و لہجہ دونوں حیرت انگیز تھے۔ وہ توقع کر رہی تھی کہ مائیکل بنا پوچھے اسے ہاروے کے بارے میں بتا دے گا یا معذوری ظاہر کر دے گا لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔

ڈائنا بولی تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے۔

یہ سوال خلاف توقع تھا۔ وہ بولا ابھی تک تو نہیں ہوا لیکن بہت جلد آپ کی من مراد پوری ہو جائے گی۔

میری من مراد تم کہنا کیا چاہتے ہو؟

یہی کہ بہت جلد میرا دماغی توازن بگڑ جائے گا اور شاید آپ لوگ یہی چاہتے ہیں۔ مائیکل کا پارہ چڑھ گیا تھا۔ سی آئی اے کی یہ جھک جھک بک بک اس کے برداشت سے باہر ہو گئی تھی۔

ڈائنا سمجھ گئی کہ شاید مائیکل کو کوئی غلط فہمی ہو گئی اس لیے وہ بولی مائیکل میں ڈائنا بول رہی ہوں کیا تم واقعی مجھے نہیں جانتے؟

مائیکل بولا ڈائنا؟ کون ڈائنا؟ میں کسی ڈائن یا ڈائنا کو نہیں جانتا۔

اچھا اب تو تم کہو گے کہ میں ہاروے کو بھی نہیں جانتا۔

جی ہاں میں یہی کہوں گا اور آپ لوگوں کو جو کرنا ہے کر گزریں میں نہیں ڈرتا۔ میں کسی ہاروے کو نہیں جانتا۔ مائیکل سے پہلی بار براہ راست ہاروے کا نام لے کر سوال کیا جا رہا تھا۔

اس نے سوچا کہ اب ان لوگوں نے اسے پھنسانے کا کوئی منصوبہ بنا لیا ہے اور بہت جلد اسے گرفتار کر کے مونیکا کے پاس پہنچا دیا جائے گا۔ اس طرح مونیکا سے ملاقات کی خواہش تو پوری ہو جائے گی لیکن وہ اس کی حوصلہ افزائی نہ کر سکے گا۔ وہ اس سے یہ نہیں کہہ سکے گا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ جس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی ہوئی ہوں وہ دوسروں کے پیروں کی زنجیر کیوں کر کھول سکتا ہے۔

مائیکل پر مایوسی کے سائے منڈلانے لگے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔ پھیلتا ہی چلا جائے گا اور ایک دن کیتھی کو بھی اپنے دام میں گرفتار کر لے گا۔ وہ دن دور نہیں جب جان ڈیو کے اشارے پر یکے بعد دیگرے ویرونیکا، مونیکا، ہاروے، مائیکل اور کیتھی سب کے سب پھانسی چڑھا دئیے جائیں گے۔

ڈائنا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مائیکل کو یہ کیا ہو گیا؟ وہ مائیکل جو اس کے سپنوں کا شہزادہ تھا اس نے پہچاننے تک سے انکار کر دیا تھا۔

اس نے اپنے عزیز ترین دوست ہاروے سے اس قدر بیزاری کا اظہار کیوں کیا؟

شاید مائیکل کی اپنی پیشن گوئی پوری ہو گئی ہے جو ابھی ابھی اس نے خود اپنے بارے میں کی تھی۔ اس کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ ڈائنا اپنے آپ سے بولی اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو یہ بہت برا ہوا۔ اس نے سوچا مائیکل کے دماغ کا علاج ہاروے کے سوا کوئی اور درست نہیں کر سکتا اور بدقسمتی سے ہاروے خود غائب تھا۔

ڈائنا نے اپنے آپ بہلانے کے لیے یہ مفروضہ قائم کر لیا کہ ممکن ہے اپنے عزیز دوست کی فرقت مائیکل کے دماغ پر اس طرح اثر انداز ہوئی کہ وہ اپنا توازن کھو بیٹھا ہے۔ یہ حقیقت بھی تھی اور فسانہ بھی لیکن جہاں تک ڈائنا کا سوال تھا اس کے لیے دل کے بہلانے کا یہ معقول ترین جواز تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب ششم

 

 

۲۵

 

نیویارک کے اندر ایک سرکاری مسافر خانے ( گیسٹ ہاوس) کے وسیع و عریض دیوان خانے میں کمیٹی کے تینوں معزز ارکان سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ جان ڈیو متصل کمرے میں شراب پی رہا تھا اور ہاروے کی بس آمد آمد تھی۔ ہر کوئی احساس جرم کا شکار تھا کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہاروے سے کیسے آنکھ ملائی جائے؟ اس لیے کہ وہ حق پر تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب اس کی کھل کر حمایت کرتے لیکن سیاسی دباؤ، پارٹی کا مفاد اور اقتدار کا لالچ راہ میں حائل تھا۔

ایک ایسے شخص کو جو حق کی لڑائی لڑ رہا تھا یہ لوگ منافقت کا درس دینے کے لیے اکٹھا ہوئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہاروے اس فرد سے مصالحت کرنے پر راضی ہو جائے جو اول دن سے ظلم و زیادتی پر تلا ہوا تھا۔ جو اپنے سیاسی اثرورسوخ کی مدد سے ایک بے قصور کو مجرم بنا رہا تھا اور اپنے جرائم کی پردہ پوشی کر رہا تھا۔

انھیں ہاروے سے یہ توقع تھی کہ وہ بھی جان ڈیو کی مانند خوب گرجے گا اور وہ چاہتے بھی تھے کہ ہاروے گرج برس کرسرد پڑ جائے۔ اس لیے ان لوگوں نے پہلے مرحلے کی گفتگو سے جان ڈیو کو دور رکھا تھا۔ انھیں خطرہ تھا کہ ہاروے کہیں ان کی باتوں کو یکسر مسترد نہ کر دے اس لیے اپنی تجاویز پیش کرنے سے قبل وہ اس کا ذہن پڑھنا چاہتے تھے۔

کمرے کا دروازہ کھلا تو ہاروے مسکراتا ہوا ہشاش بشاش اندر داخل ہوا۔ اس پر سفر کی تھکان کا نام و نشان نہیں تھا۔ مصافحہ کرنے کے بعد اس نے بڑے تپاک سے سب کی خیریت دریافت کی اور یاد فرمائی کا شکریہ ادا کیا۔ ہاروے کا رویہ ان کی توقع کے خلاف تھا۔ لیری گومس نے اس کی یہ توجیہ کی کہ ہاروے کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور وہ از خود مصالحت کے لیے تیار ہو کر آیا ہے۔ تھامس کوک نے اندازہ لگایا کہ یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے بات جیسے جیسے آگے بڑھے گی آتش فشان پھٹتا چلا جائے گا

ان کے برعکس ولیم کنگسلے کا قریبی واقف کار گریگ اسمتھ جان رہا تھا کہ یہ عزمِ مصمم ہے جس نے ہاروے کو اس قدر متین اور سنجیدہ بنا دیا ہے۔ ہاروے کو اپنی حکمت عملی کا ادراک ہے۔ اسے اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ وہ اپنے مقصد کا شعور رکھتا ہے اور اس کے حصول کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کر سکتا ہے اس لیے اس کو مصالحت پر راضی کرنا آسان نہ ہو گا۔

گومس نے ابتدا کی، بیٹے تمہیں ہشاش بشاش دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہو رہی ہے۔

کیوں؟ ہاروے نے سوال کیا چونکہ میں خفیہ ایجنسی کی حراست سے آ رہا ہوں اس لیے کہیں آپ کو یہ توقع تو نہیں تھی کہ اسٹریچر پر لایا جاؤں گا؟

ہاروے کے جواب نے گومس کو لاجواب کر دیا لیکن یہ جواب تھامس کی توقع کے مطابق تھا۔ اس نے سوچا ہاروے کر برسنے کا وقت قریب آ لگا ہے اس لیے بولا بھئی ہاروے تم نے بالکل اپنے والد ولیم کنگسلے کی مانند کمال کی حاضر جوابی پائی ہے۔ ہم سب مرحوم کی اسی ادا پر فدا تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ تم بھی ان کی مانندسیاسی افق پر جگمگاؤ گے۔ اب بولو کیا سوچا ہے تم نے؟

آپ جانتے بوجھتے سوال کر رہے ہیں اس لیے میں بھی عمداً پوچھوں گا کس بارے میں؟

گریگ بول پڑا جان ڈیو کی بابت؟

جان کے بارے میں کیا سوچوں۔ وہ بیچارہ خود میرے بارے میں اس قدر سوچتا ہے کہ مجھے کچھ سوچنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

گومس بولا دیکھو ہاروے بات کا بتنگڑ بنانے سے کوئی فائدہ نہیں۔

انکل یہ مشورہ تو درست ہے مگر غلط آدمی کو دیا جا رہا ہے۔ آپ یہ نصیحت اسے کیجیے جو مسئلہ کو بلاوجہ طول دیتا چلا جا رہا ہے۔

گومس نے پوچھا کیا تم ایسا نہیں کر رہے ہو؟

ہر گز نہیں۔ ہاروے کے لہجے میں پہاڑ کا سا اعتماد تھا۔

گومس نے پھر سوال کیا اچھا تو تم کیا کر رہے ہو؟

میں ! تو وہی کر رہا ہوں جو نیوٹن کا تیسرا قانون ہے۔ ہر عمل کا رد عمل مساوی اور مخالف

آخر یہ عمل اور رد عمل کا سلسلہ بند بھی ہو گا یا لامتناہی چلتا ہی رہے گا؟

دیکھئے جناب اگر آپ رد عمل پر قدغن لگا کر اس سلسلے کو روکنا چاہتے ہیں تو یہ ناممکن ہے۔ اسے روکنے کے لیے عمل کا دروازہ بند ہونا ضروری ہے۔ جب عمل بند ہو جائے گا تو رد عمل آپ سے آپ رک جائے گا۔

تھامس کوک کی خوش فہمی دور ہو چکی تھی۔ ہاروے آپے سے باہر ہونے کے بجائے اطمینان سے گفتگو کر رہا تھا اس لیے اس کو قابو میں کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ لیری گومس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا وہ چڑ کر بولا ہاروے تم اپنی حدود کو پھلانگ رہے ہو۔

ہاروے پر یہ دھمکی بے اثر رہی۔ میری حدود کا تعین کون کرے گا؟ میں یا آپ؟

گومس نے کہا لگتا ہے تمھارے دماغ کی خرابی ابھی درست نہیں ہوئی۔

ہاروے نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اچھا تو کیا میں یہ سمجھ لوں کہ گزشتہ دو دنوں سے میرے دماغ کو درست کرنے کی جو کوشش ہو رہی ہے وہ آپ کے ایماء پر ہے اور آپ اسے درست سمجھتے ہیں؟

تھامس کوک نے دیکھا کہ لیری گومس ناک آوٹ ہو کر میدان سے باہر جا رہا ہے تو خود درمیان میں کود پڑا اور بولا ہاروے تم شاید جان ڈیو کو نہیں جانتے؟

جی نہیں انکل آپ کی بات غلط ہے۔ میں تو اس کو جان ہی چکا ہوں لیکن وہ دن دور نہیں جب ساری دنیا اس کی حقیقت سے واقف ہو جائے گی۔

گومس نے مچل کر کہا یہ ہٹ دھرمی تمہیں مہنگی پڑے گی۔

جان کا بھی کسی زمانے میں یہی خیال تھا لیکن اب آپ جان چکے ہیں کہ یہ کس کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے اور جہاں تک میرا سوال ہے میں اس کی قیمت چکانے کے لیے تیار ہوں۔

تب تو بات ہی ختم ہے۔ گومس نے سر جھٹک کر کہا۔

اسمتھ نے مداخلت کی اور بولا۔ دوستو ہم لوگ یہاں جھگڑا نمٹانے کے لیے آئے تھے لیکن افسوس کہ ہم خود لڑ پڑے۔ دھمکی اور دباؤ مصالحت کی راہ کے سنگ گراں ہیں۔

تھامس نے تائید کی اور بولا لیکن ہم کیا کریں۔ دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ دھونس اور دھمکی کا لہجہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے۔ ’’ پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے ‘‘یا ’’ہمارے ساتھ یا دشمن کے ساتھ‘‘۔ اس طرح کی دھمکیوں کو ہم نے ضرب المثال بنا دیا ہے۔ اسی لیے ہمارے دوست بھی اب دشمن بنے ہوئے ہیں۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں کام خراب کر دیتے ہیں۔

اسمتھ نے بات آگے بڑھائی قوم اور پارٹی کے مفاد میں درمیان کی راہ ناگزیر ہے۔

میرے نزدیک عدل و انصاف کی اقدار کا قیام پارٹی یا قومی مفادات سے زیادہ اہم ہیں۔ جب تک مونیکا پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہمارے درمیان مصالحت کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ عدل و قسط کی لڑائی ہر قیمت پر جاری رہے گی۔

گومس پھر ایک بار گفتگو میں شامل ہو گیا۔ اس نے کہا ہاروے یہ باتیں کتابوں اور تقریروں میں بھلی معلوم ہوتی ہیں مگر حقیقت کی دنیا سے ان کا کیا تعلق؟

انکل اگر یہ باتیں ناقابلِ عمل ہیں تو انھیں تحریرو تقریر سے بھی خارج کر دیا جانا چاہئے اس لیے کہ منافقت کی تعریف یہی ہے کہ انسان جو کہے وہ نہ کرے۔

گومس بولا نہیں بیٹے یہ منافقت نہیں سیاست ہے۔

اگر یہی سیاست ہے تو میں اس سے پناہ مانگتا ہوں۔

گومس بولا جان درست کہتا ہے تم مجھے بھی اڑیل اور ضدی معلوم ہوتے ہو۔

ہاروے نے پہلی مرتبہ تائید کی اور بولا جی ہاں میں اڑیل ہوں اور انصاف کی خاطر اڑیل بنا رہوں گا لیکن آپ نے بھی تو نا انصافی کی ضد پکڑی ہوئی ہے۔ آپ جان ڈیو کو ظلم سے روکنے بجائے اس کی حمایت کر رہے ہیں کیا یہ لچکدار رویہ ہے؟

لیری گومس بولا مجھے لگتا ہے کہ ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

جی ہاں آپ لوگ تو آج اپنا وقت خراب کر رہے ہیں لیکن میں پرسوں رات سے حراست میں ہوں۔ میرے وقت کا بھی آپ کو خیال ہونا چاہئے۔

لیری گومس نے جواب دیا یہ تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ مجھے لگتا ہے اب تمہیں اپنی باقی زندگی بھی اسی طرح گزارنی پڑے گی۔

ہاروے نے کہا مجھے اس کی پرواہ نہیں لیکن آپ لوگ ایک بات یاد رکھیے کہ اگر میں سکون سے نہیں رہوں گا تو میں جان کو بھی چین نہیں لینے دوں گا۔ جان ڈیو کی آواز میری حراست میں ہے۔ اس کی ایک نقل جج صاحب کے پاس ہے لیکن اس کی دوسری نقل کسی بھی لمحہ ٹی وی چینلس سے نشر ہو جائے گی۔ دنیا بھر میں بے شمار چینلس ایسے ہیں جو ہمارے قبضۂ قدرت سے باہر ہیں ایک مرتبہ وہ ان پر نشر ہو جائے تو ہمارے قومی چینل بھی اس کی اشاعت پر مجبور ہو جائیں گے اور پھر اس کے بعد ہمارے نام نہاد قومی وقار کا کیا حشر ہو گا اسے آپ لوگ خوب سمجھتے ہیں۔ اس ایک دھماکے سے ہماری عزت وناموس کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔

اور تمھاری بھی۔ تھامس بولا۔

میں آپ لوگوں کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ حق و باطل کی اس جنگ میں اسے میں اپنی سعادت سمجھوں گا۔

جان ڈیو بغل والے کمرے میں بیٹھا مانیٹر پر گفتگو دیکھ رہا تھا اور سن بھی رہا تھا۔ ہاروے کے الفاظ اس پر بم کی مانند برس رہے تھے۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا کسی عراقی یا فلسطینی خودکش حملہ آور کا انٹر ویو دیکھ رہا ہے۔ وہ ہاروے کے ہر جملے پر شراب کا ایک اور گھونٹ زہر مار کرتا تھا۔ وہ شراب کے نشے میں ہاروے کو بلکہ اپنے آپ کو بھول جانا چاہتا تھا۔

تھامس نے لیری گومس کو خاموش کیا اور بولا ایک معمولی سی لڑکی کی خاطر یہ پاگل پن ناقابلِ فہم ہے۔ پہلے تو جان کا جنون ہماری سمجھ کے باہر تھا اور اب تم بھی اسی جذباتیت کا مظاہرہ کر رہے ہو؟ آخر کیا رکھا ہے اس لڑکی میں؟

جنابِ والاسوال لڑکی کا نہیں ہے۔ مونیکا پر نہ جان پاگل ہے اور نہ میں اس کا دیوانہ ہوں۔ جان اپنی انا کی جنگ لڑ رہا ہے اور میں انصاف کی لڑائی لڑ رہا ہوں۔ لڑکی تو محض ایک علامت ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جان نے اور میں نے اپنا اپنا ہدف ظاہر کر دیا ہے اب آپ لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس معرکے میں آپ کس کے ساتھ ہیں؟ میں آپ کو بتا دوں کہ اب آپ لوگ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔ آپ کو ہم دونوں میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا ہی ہو گا۔

اسمتھ بولا ویسے تو ہم لوگ تم دونوں کے خیر خواہ ہیں۔ میں تمھارے اس موقف کی تائید کرتا ہوں کہ یہ لوگ جسے مسئلہ سمجھ رہے ہیں وہ تو محض ایک علامت ہے بلکہ اصل بات کوئی اور ہے لیکن چونکہ مصالحت مقصور ہے اس لئے ہمیں اس گتھی کو سلجھانا ہو گا۔ اب یہ بتاؤ کہ اس سلسلے تم ہمارا تعاون کر سکتے ہو یا نہیں؟

میں اپنے دستِ تعاون کا یقین دلاتا ہوں لیکن اس کا دارومدار آپ کی تجویز پر ہے۔ اس لیے برائے کرم اپنا مدعا بیان فرمائیں۔

مجھے خوشی ہے کہ تم میری بات سمجھ رہے ہو اسمتھ نے کہا لیکن اس سے پہلے کہ ہم لوگ آگے بڑھیں میں چاہتا ہوں کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد اپنے دل سے نکال پھینکیں اس لیے کہ وہ زہر دوا کے اثر کو زائل کر دے گا۔

یہ مطالبہ صرف مجھ ہی سے ہے یا…….؟ ہاروے نے پوچھا۔

جی نہیں دونوں سے ہے۔ پاس والے کمرے میں جان ہمیں سن اور دیکھ رہا ہے۔

ہاروے کو غیاث الدین کی کیمرے والی بات یاد آ گئی، وہ بولا تب ٹھیک ہے میں اپنے دل کو پاک کیے دیتا ہوں اب میرے دل میں جان کے خلاف کوئی ذاتی کدورت نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں جان نے بھی میرے ساتھ یہی معاملہ کر دیا ہو گا۔

جی ہاں میں نے بھی اپنا دل صاف کر دیا۔ یہ کہتا ہوا جان ڈیو کمرے میں داخل ہوا۔

ہاروے نے اس سے مصافحہ کیا اور بولا اب ہمارے بیچ صرف اصولی اختلاف ہے۔

لیری گومس اور تھامس کوک پہلے ہی بازی ہار چکے تھے اس لیے اب گیند اسمتھ کے کورٹ میں تھی۔ بجائے اس کے کہ میں اپنی جانب سے کوئی تجویز پیش کروں میری خواہش ہے کہ آپ لوگ اپنا اپنا موقف بیان کریں۔

ہاروے اور جان نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ہاروے بولا جان چونکہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں اس لیے پہلے ان کا حق بنتا ہے۔

جان بولا نہیں ایسی بات نہیں پہلے تم بولو۔

گومس نے کہا یہ پہلے آپ کے چکر میں کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے اس لیے جان پہلے تم اپنا موقف بیان کرو۔

میں کیا بولوں۔ میں تو بس یہی چاہتا ہوں کہ انصاف ہو اور مجرم کو اس کے کیے کی سزاملے۔ لیکن افسوس کے ہاروے اسے بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ وہ اگر اپنے رویہ میں ذرا سی بھی لچک پیدا کرے تو مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہو جائے گا۔

ہاروے بولا آپ بجا فرماتے ہیں میں بھی چاہتا ہوں کہ مجرم کو سزا ملے لیکن پہلے یہ تو طے ہو کہ مجرم ہے کون؟اس نے ایک ماہر وکیل کی طرح جرح کی۔

جان اس سوال پر سٹپٹا گیا۔ مجرم مونیکا کے علاوہ کون ہے؟

ہاروے بولا اچھا اگر وہ مجرم ہے تو اس کا جرم کیا ہے؟

اس کا جرم ساری دنیا جانتی ہے وہ …. وہ وینزویلا کی ایجنٹ ہے۔ اس نے میرے گھر سے راز چرانے کی کوشش کی اور پکڑی گئی۔ اس بات سے بچہ بچہ واقف ہے۔

اس بات سے بچہ بچہ واقف ہے لیکن کیا یہ الزام درست بھی ہے؟

اس سوال نے جان کی حالت خراب کر دی۔ وہ گھبرا کر بولا صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ اس کا فیصلہ وہیں ہو گا۔

آپ نے بالکل بجا فرمایا اگر فیصلہ وہیں ہونا ہے تو پھر مجھے اغوا کیوں کیا گیا؟ میرے نام سے جعلی حلف نامہ کیوں جمع کیا گیا اور آج کی نشست کے اہتمام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اسمتھ بولا بیٹے تمھاری بات بالکل درست ہے۔ ان سوالات کی تمام تر اہمیت کے باوجود آج ہم ان پر گفتگو نہیں کریں گے اس لیے کہ ہم سب ان کے جوابات سے واقف ہیں۔ ہماری گفتگو کا موضوع وہ سوال ہے جس کا جواب ہم نہیں جانتے۔ میرا مطلب ہے :

آگے کیا کیا جائے؟

جو ہو چکا سو ہو چکا، ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل؟

ہم مستقبل کی حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔

گومس بولا ہم نے جان کی تجویز سن لی اب ہمیں ہاروے کی بات سننی چاہئے۔

ہاروے بولا شکریہ میں بھی جان ڈیو کے الفاظ دوہراتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ انصاف ہو اور مجرم کو اس کی قرار واقعی سزا ملے۔

اسمتھ نے بھی تائید کی بولا اب چونکہ تم دونوں یہی چاہتے ہو تو میں اپنی رائے بھی یہی ہے میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ تم دونوں کا کیا خیال ہے۔ اشارہ گومس اور کوک کی جانب تھا۔

ہم ….ہم بھی وہی چاہتے کہ ……

ہاروے نے جملہ مکمل کیا انصاف ہو اور مجرم کو سزا ملے۔

اسمتھ بولا ہمارا یہ اتفاق رائے بے حد قیمتی ہے۔ یہ ایک نہایت خوشگوار ابتداء ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہماری یہ نشست بالآخر اسی طرح اتفاق رائے پر انجام پذیر ہو گی۔ ہم لوگ بہت دیر سے بلا توقف گفتگو کر رہے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ایک مختصر سا وقفہ لے لیا جائے تاکہ یہاں موجود شراب اور شباب سے بھی استفادہ ہو سکے۔

پھر ایک بار سارے لوگوں کا اسمتھ کی تجویز پر متفق ہو گئے اور اسی کے ساتھ موسیقی کے سر گونجنے لگے۔ خدمت گزار پریاں حرکت میں آ گئیں۔ شراب کباب کا دور چل پڑا۔ دباؤ کے بادل چھٹ چکے تھے۔

سب کا مقصد ایک تھا لیکن سوچ مختلف تھی اس کے باوجود وہ سارے پر امید تھے کہ اب اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا اور سمجھوتہ ہو جائے گا۔ گفت و شنید کے اس ماحول کو سازگار کرنے کا سہرہ اسمتھ کے سرتھا۔

ثالث اگر فریق بن جائے تو مسئلہ سلجھنے کے بجائے الجھ جاتا ہے۔ گومس اور کوک سے یہی غلطی سرزد ہوئی تھی لیکن گریگ اسمتھ نے چونکہ خود کو اس نقص سے محفوظ رکھا تھا اس لیے وہ کامیاب ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۲۶

 

وقفہ کے بعد پانچوں حضرات میز کے آس پاس جمع ہو چکے تھے، ۔ گومس کے سواسبھی لوگ خوش باش نظر آ رہے تھے۔ گفتگو کی ابتدا ءاس بار بھی اسی نے کی اور بولا مجھے خوشی ہے کہ ہم لوگوں کا نفس مسئلہ یعنی انصاف پر اتفاق ہو گیا ہے۔

ہاروے نے تائید کی اور بولا بزرگِ محترم انصاف کی بحالی اور سزا کا نفاذ ان دونوں باتوں پر ہم سب متفق ہیں۔

تھامس کوک نے کہا جی ہاں سزا کے بغیر انصاف کا عمل ادھورا ہے۔

گریک اسمتھ نے بھی حامی بھری۔ جان ڈیو کے لیے یہ الفاظ بے معنی تھے۔ وہ سیاست اور مفاد کے علاوہ کسی اور شے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا لیکن چونکہ فی الحال ان اصطلاحات کے استعمال میں اسے فائدہ نظر آ رہا تھا اس لیے وہ بھی جی ہاں جی ہاں کر رہا تھا۔

گومس بولا اگر انصاف کی تفہیم پربھی ہم متفق ہو جائیں تو مسئلہ با آسانی حل ہو سکتا ہے

ہاروے نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں انصاف کا سب سے بنیادی تقاضہ مونیکا کی با عزت رہائی ہے۔

گریگ بولا ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہو گا اس قدر سنگین الزامات سے کسی کایکسر رہا ہو جانا عوام کی نظر میں انتظامیہ کا کردار مشکوک کر دے گا۔

کوک بولا کہ کہیں اس اقدام سے عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے۔

جی نہیں انکل میں ایسا نہیں ہو گا۔ عدلیہ کا مقصد ہی چونکہ انصاف کی بحالی ہے اس لئے جب وہ اس کو پورا کرے تو عدلیہ پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا بلکہ اس کے برعکس اگر اس میں کوتاہی سرزد ہو تو عدالتی نظام ایک بے مصرف شے بن کر رہ جائے گا۔

جان ڈیو بولا لیکن لوگ تسلیم کر چکے ہیں کہ مونیکا دشمن کی ایجنٹ ہے۔

جی ہاں یہ درست ہے لیکن سوال عوام کے رجحان کا نہیں بلکہ عدلیہ پر اعتماد کا ہے۔ عدلیہ کا کسی عمومی غلط فہمی کی تائید کر دینا اس کے احترام میں اضافہ نہیں کرتا بلکہ اگر وہ رائے عامہ کے خلاف حق کا ساتھ دے تو لوگوں کی نظر میں اس کی قدر و منزلت بڑھتی ہے۔ عدالت کا فیصلہ جیسے ہی آئے گا ذرائع ابلاغ کا رخ بدل جائے گا اور رائے عامہ کے بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔

گومس بولا اس طرح کے فیصلے کو لوگ عدالت پر دباؤ کا نتیجہ سمجھ سکتے ہیں۔

گریگ نے کہا معاف کیجیے جنابِ گومس عوام بھولی ضرور ہے لیکن احمق نہیں ہے۔

سبھی نے حیرت سے گریگ کی جانب دیکھا گویا یہ پوچھ رہے ہوں کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ گریگ نے بات آگے بڑھائی اور کہا فرق نازک ہے اس لیے اوجھل رہتا ہے۔ عوام کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر انھیں بے وقوف تو بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ مونیکا کے معاملے میں کیا گیا لیکن وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کون کس کے پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ مونیکا جیسی کمزور عورت کا جان ڈیو جیسے طاقتورسیاستداں کے خلاف عدالت میں دباؤ ڈالنا بعید ازقیاس ہے۔ ہاں یہ بات عوام کو کھٹک سکتی ہے کہ جان ڈیو اپنے سیاسی رسوخ کی بناء پر عدالت پر اثر انداز ہوا ہو۔

گریگ کی دلیل سن کر ہاروے نے کہا بھئی کیا بات ہے دل خوش ہو گیا۔

جان بولا اس طرح کی فقرے بازی سے ماحول خراب ہو سکتا ہے۔

ہاروے نے فوراً معذرت پیش کی اسمتھ نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا لیکن ہمیں حقائق کو تسلیم کرنا ہی ہو گا۔ مونیکا بے قصور ہے اس لیے اس کی رہائی کے بارے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے مگراس بابت جان ڈیو کا تعاون بے حد اہمیت کا حامل ہے۔

لیری گومس نے کہا لیکن یہ کہنا جس قدرسہل ہے شاید کرنا ایسا آسان بھی نہیں۔

اسمتھ نے کہا آسان اگر نہیں ہے تو مشکل بھی نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں اگر عدالت شواہد کے ناکافی ہونے کی بنیاد پر مونیکا کو جاسوسی کے الزام سے بری کر دے تو اس پر صرف چوری کا الزام رہ جائے گا جو زیادہ سنگین نہیں ہے۔ اس لیے میڈیا کی توجہ ہٹ جائے گی اور لوگ اسے بھول جائیں گے۔ اس کے دوچار ماہ کے بعد اگر وہ رہا کر دی جائے تو اس میں کیا دقت ہے؟

جان بولا لیکن اس سے تو میرے کردار پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

نہیں تمھارے کردار پر کیوں؟ تھامس نے کہا تم نے اس پر جاسوسی کا الزام تو نہیں لگایا وہ تو پولس کا شک ہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ تفتیش کر کے شواہد پیش کرے۔ ہم انتظامیہ کو اس معاملے میں آگے بڑھنے سے روک دیں گے۔ عدالت اس کے پیش کردہ ثبوت تسلیم نہیں کرے گی۔ انتظامیہ اور عدالت سے دور تم صرف خاموش تماشائی بنے رہو گے۔

ہاروے نے محسوس کیا کہ مونیکا کی رہائی کا راستہ بظاہر صاف ہوتا جا رہا ہے۔

لیری گومس نے کہا یہ بڑا اچھا حل ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جان از خود اپنا الزام واپس لے کرانسانی ہمدردی کے تحت اسے معاف کر دیں۔ ان کے ایسا کرنے سے مونیکا کے حق میں پیدا ہونے والی ساری ہمدردیاں جان ڈیو کے توسط سے ہماری پارٹی کی جھولی میں آ جائیں گی۔ جو سیاسی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی ہو سکے گی بلکہ ہو سکتا ہے کچھ فائدہ ہو جائے۔

یہ جان ڈیو کے دل کی بات تھی اس لیے اس نے بڑی گرمجوشی سے تائید کی لیکن ہاروے نے اسے مسترد کر دیا ا ور بولا میں نہیں چاہتا کہ اس معاملے میں سیاست بازی کی جائے۔ ہمیں اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرنے کے بے شمار مواقع حاصل ہوتے ہیں جن کا بھرپور استعمال ہونا چاہئے۔ کسی کا گھر جلا کر اس پر سیاسی روٹیاں سینکنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔

جان ڈیو کو محسوس ہوا گویا ہاروے کے اندر ولیم کی روح بول رہی اس نے کہا اچھا!!!

اسمتھ نے مداخلت کی اور بولا اخلاقیات کے مسئلے پر ہمارے درمیان اختلافِ رائے ہو سکتا ہے اور فی الحال وہ ہماری گفتگو کا موضوع نہیں ہے۔ ہمیں اس بابت ایک دوسرے کے خیالات کا احترام کرنا چاہئے۔ جان ڈیو کو محسوس ہوا کہ گویا اس کی گھیرا بندی کی جا رہی ہے۔

گومس نے کہا کہ انصاف کا اصل تقاضہ مونیکا کی رہائی ہے۔ اس مقصد کو کیسے حاصل کیا جاتا ہے یہ ایک فروعی بحث ہے۔

ہاروے بولا نیک مقاصد کا حصول اگر جائز ذرائع سے ہو تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟

جی ہاں تھامس بولا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عدالت کہہ دے کہ اس معمولی سی چوری کے عوض مونیکا جو سزا بھگت چکی ہے وہ کافی ہے۔ اس طرح سزا بھی ہو جائے گی اور رہائی بھی۔

ہاروے نہیں چاہتا تھا کہ مونیکا چوری کی سزا یافتہ مجرم کے طور پر بری ہو لیکن چونکہ اس کی رہائی پر سب کا اتفاق ہو گیا تھا اس لیے اس نے اعتراض نہیں کیا۔

تھامس کوک بولا مجھے خوشی ہے کہ ہم نے یہ معاملہ بحسن و خوبی نمٹا لیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ گتھی اس آسانی کے ساتھ سلجھ جائے گی۔ مجھے یقین ہے کہ صدرِ محترم اور پارٹی کے دیگر عہدیداران ہماری اس کوشش کو ضرور سراہیں گے۔

گومس بولا لیکن اس معاملے میں جان ڈیو نے جس وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کوک نے بھی اس کی تائید کی اور کہا جان ڈیو ایک پختہ کار سیاستداں ہیں۔ وہ پارٹی اور قوم کے مفادات سے بھی واقف ہیں اس لیے ہمیں ان سے اسی بالغ نظری کی توقع تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے تعاون کے بغیر یہ معاملہ نمٹ نہیں سکتا تھا اس لیے ہمیں ان کا ممنون و شکرگزار ہونا چاہئے۔ جان ڈیو اپنی تعریف و توصیف سے محظوظ ہو رہا تھا۔

ہاروے نے کوک اور گومس کی جانب دیکھ کر سوال کیا کہیں آپ لوگ اس خوش فہمی کا شکار تو نہیں ہو گئے کہ یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے؟

کوک بولا اس میں کیا شک ہے۔ ہم سب اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ انصاف کا تقاضہ مونیکا کی رہائی ہے۔ اب طریقۂ کار پر تمہیں اصرار نہیں کرنا چاہئے۔

جی نہیں جناب میں طریقۂ کار کی بات نہیں کر رہا ہوں، مونیکا جیسے بھی رہا ہو جائے یہ میرے لیے قابلِ قبول ہے۔

تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ گومس نے پوچھا۔

ہاروے بولا شاید آپ بھول گئے کہ ہم نے انصاف کی بحالی اور سزا کے نفاذ پر اتفاق کیا تھا اور آپ نے بجا طور پر کہا تھا کہ سزا کے بغیر انصاف نامکمل ہے۔

گومس نے کہا جی ہاں میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔

کوک بولا اسی لیے تو ہم مونیکا کو سزا سے بچا رہے ہیں۔

ہاروے بولا کسی کو سزا سے بچانا سزا کا نفاذ نہیں بلکہ انصاف کی بحالی ہے۔

گومس نے بیزاری سے کہا ہاروے تمھاری کٹ حجتی ہماری سمجھ میں نہیں آتی تم چاہتے ہو کہ مونیکا رہا ہو جائے اور اسے سزا بھی ملے۔ بیک وقت یہ دونوں چیزیں کیوں کر ممکن ہیں؟

ہاروے نے کہا محترم بزرگوار آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے یہ کب کہا کہ مونیکا کو سزا دی جائے۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ جس طرح ایک بے قصور کو سزا دینا نا انصافی ہے اسی طرح کسی قصوروار کو سزا نہ دینا بھی انصاف کے منافی ہے۔

تھامس بولا لیکن ہم کہاں کسی کو سزا دے رہے ہیں۔ ہم تو ایک ایسی ملزمہ کو رہا کروا رہے ہیں جسے سخت سزا ہو سکتی تھی۔

جی ہاں مونیکا کی رہائی اس کا حق ہے ہاروے بولا لیکن اسی کے ساتھ ہم کسی اور کو قرار واقعی سزا سے محفوظ کر رہے ہیں۔

گومس بولا اس کہانی میں مونیکا کے علاوہ کوئی‘‘ اور ’’ کہاں سے آ گیا؟

ہاروے بولا دیکھئے جناب یہ کہانی مونیکا اور جان ڈیو کی ہے۔ مونیکا بے قصور ہے اس کی رہائی کا بندوبست ہو گیا یہ تو انصاف ہے لیکن جان نے جھوٹا الزام لگا کراسے جو اذیت دی ہے اس کا کیا؟ کیا وہ سنگین جرم نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو اس کی سزا کسے ملے گی؟

جان اپنے الزامات کو واپس لینے پر تیار ہو گیا ہے اس لیے اب گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ تھامس کوک بولا۔

مونیکا پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ بے بنیاد تھے اس لیے انھیں واپس لے کر جان نے کوئی احسان نہیں کیا۔ اگر وہ واپس نہ لیتا تو عدالت مسترد کر دیتی۔ لیکن اگر مونیکا عدالت سے رجوع کر کے جان پر مقدمہ دائر کر دے کہ اس کو جو اذیت پہنچائی گئی ہے اس کی سزا جان کو دی جائے تو کیا ہو گا؟

وہ دو کوڑی کی لڑکی یہ جرأت ہر گز نہیں کر سکتی۔ اس لیے کہ اب اسے پتہ چل گیا ہے جان ڈیو کون ہے؟ جان نے چلا ّکر کہا۔ بڑی دیر کے بعد اس کا اصلی لب و لہجہ ظاہر ہوا تھا۔

ہاروے بولا جی ہاں یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ پہلے تو ممکن ہے کہ اسے آپ کے حوالے سے غلط فہمی رہی ہو لیکن اب تو آپ کے دم خم کا اسے اندازہ ہو چکا ہے اور چونکہ آپ اسے نہیں جانتے میں جانتا ہوں اس لیے بڑے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ وہ یقیناً مقدمہ کرے گی۔

جان بولا اگر اس نے یہ حماقت کی تو اس سے بڑی مصیبت میں پھنس جائے گی۔ ویسے یہ اچھا کیا کہ تم نے اس پہلو کی پیشگی نشاندہی کر دی۔ ہم یہ مقدمہ کمزور کرنے سے قبل جیل کے اندر اس سے تحریری یقین دہانی حاصل کر لیں گے کہ وہ بات کو آگے نہیں بڑھائے گی۔

جناب عالی شاید آپ کو نہیں معلوم کہ دورانِ حراست دی جانے والی ہر یقین دہانی سے مکرنے کا جو دستوی حق مونیکا حاصل ہے اسے کوئی سلب نہیں کر سکتا۔

جان بولا دیکھو ہاروے میں تمھاری ان قیاس آرائیوں کو سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ اگر مونیکا نے اس طرح سے خودکشی کی کوشش کی تو وہ اس کائنات میں کسی کو اپنا مددگار نہیں پائے گی اور اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودنے کا ارتکاب کرے گی۔

ہاروے بولا اگر مونیکا اس طرح کی گیدڑ بھپکیوں سے ڈرنے والی لڑکی ہوتی تو آپ کی گاڑی سے اتر کر چلتی نہ پڑتی اور جہاں تک حامی و مددگار کا سوال ہے یہ میں نہیں جانتا کہ وہ کتنے ہوں گے لیکن ان میں سے ایک کو میں یقیناً جانتا ہوں۔

اسمتھ کو ہاروے کے پرسکون انداز پر حیرت تھی اور وہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ لمبی ریس کا گھوڑا ہے اس لیے نہ جان ڈیو کی طرح ہانپتا ہے اور نہ گومس کی مانند کانپتا ہے۔ تھامس کوک نے ہاروے کا اشارہ سمجھ لیا اور بولا لیکن یہ تو بدعہدی ہے۔

جی نہیں ہاروے نے جواب دیا۔ بدعہدی تو اس وقت ہو گی جب ہم طے شدہ دونوں نکات پر کسی فیصلے پر اتفاق کر لیں۔ ہم لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے نصف مسئلہ حل کیا اور اسے مکمل قرار دے دیا۔ ایسے میں اگر دوسرے نصف کو معلق چھوڑ دیا جائے تو پہلے نصف کی پابندی بشمول میرے کسی فریق پر لازمی نہیں ہو گی۔

لیری گومس نے بگڑ کر سوال کیا اس کا کیا مطلب ہے؟

مطلب صاف ہے ہاروے نے جواب دیا، میں اس نامکمل فیصلے کو تسلیم نہیں کروں گا۔

اچھا تو کیا کرو گے؟ یہ کوک کا سوال تھا۔

میں وہی کروں گا جو کر رہا تھا۔ میں عدالت سے انصاف اور سزا کی گہار لگاؤں گا۔

گریک اسمتھ بولا عدالت کے دروازے تو کبھی بھی بند نہیں ہوتے ہاروے لیکن ہم سب عدالت سے باہر اس مسئلے کو حل کرنے پر راضی ہو گئے تھے۔

جی ہاں جناب میں اب بھی اس فیصلے کو تسلیم کرتا ہوں بشرطیکہ ہم اس قضیہ کو پوری طرح نمٹائیں۔ اسے آدھا ادھورا نہ چھوڑیں۔

اسی کے ساتھ جان ڈیو کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ وہ بولا میں تو اول دن سے اس طریقۂ کار کے حق میں نہیں تھا لیکن درمیان میں ہاروے کی سمجھداری سے کچھ امید بندھی تھی اس لیے مونیکا کی رہائی پر رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ شاید ہاروے نے اس خیرسگالی کو میری کمزوری سمجھ لیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں صاف کر دوں کہ عدالت کے ذریعہ مونیکا قیامت تک رہا نہیں ہو سکتی۔ میں اسے گونٹے نامو بھیج کر رہوں گا۔

ہاروے بولا جناب عالی میں آپ کا یہ چیلنج قبول کرتا ہوں۔ میں تو اپنے گھر سے عدالت میں جانے کے لیے نکلا تھا اگر آپ کو اپنے آپ پر ایسا ہی اعتماد تھا تو مجھے وہاں جانے سے نہ روکتے۔ میں نے نہ تو اس نشست کا مطالبہ کیا اور نہ اپنے طور سے یہاں آنے کا قصد کیا بلکہ بزور قوت لایا گیا ہوں۔ اگر آپ کی خوداعتمادی میں دم خم ہے تو آپ وہاں آئیں اور مجھے بھی وہاں جانے دیا جائے اور ہمارے درمیان فیصلہ وہیں ہو۔ اگر آپ چاہیں تو عدلیہ کے ذریعہ مونیکا کے ساتھ مجھے بھی گونٹے نامو روانہ کروا دیں۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔

ہاروے گونٹے نامو کا ذکر اس طرح کر رہا تھا گویا وہ سوئزرلینڈ ہے۔ جان بولا بیٹے ایک بار گونٹے نامو جاؤ گے نا تو دال آٹے کا بھاؤ ٔ معلوم ہو جائے گا۔ عاشقی کا سارا نشہ ہرن ہو جائے گا۔

ہاروے نے کہا آپ تو جیسے اپنا ہنی مون وہیں منا کر آئے ہیں۔

اسمتھ جو ہاروے کی نوک جھونک کا مزہ لے رہا تھا بولا دیکھئے ساحل سے اس قدر قریب آنے کے بعد کشتی کا ڈوب جانا اچھی بات نہیں ہے۔ ہمیں جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و تحمل سے اپنی گفتگو جاری رکھنی چاہئے۔ ہماری اس نشست میں مونیکا کی رہائی کا اہم فیصلہ اتفاق رائے سے ہو گیا اس کے لیے سارے شرکاء کا تعاون قابلِ قدر ہے۔ اب سزا والا قضیہ ہم دوسری نشست میں تر و تازہ ہو کر چکائیں گے۔

مجھے یقین ہے کہ اس کا حل بھی نکل آئے گا۔ کوک نے گھڑی کی جانب دیکھا تو اسمتھ بولا میری تجویز یہ بھی ہے کہ آج کے لیے اتنا کافی ہے۔ ہماری آئندہ گفتگو کل صبح ہو گی۔

سب نے اسمتھ کی تائید میں ہاتھ اٹھا دیا اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ جان ڈیو غیض و غضب کے عالم میں وہیں بیٹھا رہا۔ اس کے قدم زمین میں دھنس گئے تھے۔

٭٭٭

اس ناول کا تیسرا حصہ پڑھنے کے لیے

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید