FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

آب حیات

(افسانوی مجموعہ)

               انجینئر محمد فرقان سنبھلی

 

 

انتساب

                        اپنی

                                    شریک حیات

                                                شمیم فاطمہ

                                                            کے نام

                                                                        کہ

                                                                             یہ مجموعہ جن کا مرہون منت ہے

 

پیش گفتار

            اردو کی با وقار شخصیت جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۰ء کے بعد اچھا اردو افسانہ لکھا ہی نہیں گیا۔ جو لکھا بھی گیا ہے وہ افسانہ کم رپورٹنگ زیادہ ہے۔ اس پر کچھ الگ انداز سے ڈاکٹر ابرار رحمانی روشنی ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب اچھے افسانے آٹے میں نمک کے برابر لکھے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افسانوں کا انبار نہیں شاہکار چاہیے۔ شاید اس سب کے درمیان میرٹھ کی چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو اور معروف نقاد افسانہ نگار ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب کو یہ منفرد خیال آیا کہ تمام بڑے افسانہ نگاروں اور نقادوں کے سامنے نئی نسل کے افسانہ نگاروں کو پیش کریں تا کہ نہ صرف ان کی اصلاح اور ترقی کی راہیں ہموار ہوں بلکہ ناقدین کو بھی تسلی ہو کہ ابھی افسانہ ختم نہیں ہو رہا ہے۔ ۳۰جولائی تا ۲ اگست ۲۰۱۰ء چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کیمپس میں چار روزہ اردو فیسٹیول منعقد ہوا جو کہ نہایت کامیاب رہا۔ ریکارڈ ۵۶مقالے جدید اردو افسانے کے تعلق سے پیش کیے گئے۔ شام غزل، مشاعرہ، کتابوں کا اجرا، اردو فلم کی نمائش وغیرہ بہت سے پروگرام منعقد ہوئے۔ان میں ’’شام افسانہ‘‘  کے لیے انھوں نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ بین الاقوامی سطح کے اس فیسٹیول میں قابل قدر جناب شمس الرحمن فاروقی،پیغام آفاقی،سید محمد اشرف، شوکت حیات، نور الحسنین ،نذیر فتح پوری، عظیم راہی، پروفیسر ابن کنول،بیگ احساس، ڈاکٹر مولا بخش، زین رامش،مشرف عالم ذوقی، پروفیسر زماں آزردہ وغیرہ جیسی نہ جانے کتنی معروف ہستیاں موجود رہیں۔

            تیسرے دن شام میں وہ لمحے بھی میسر ہوئے جن کا میں بے صبری سے منتظر تھا۔ ڈاکٹر اسلم صاحب نے ’’شام افسانہ‘‘  کے لیے جن لوگوں کو افسانہ پڑھنے کے لیے مدعو کیا تھا ان کے نام مخفی رکھے گئے تھے۔ یہ بھی ان کی منفرد حکمت عملی تھی۔جب انھوں نے اعلان کیا کہ نئے لوگ افسانے پڑھیں گے جب کہ امریکہ سے تشریف لائیں معروف افسانہ نگار انور نزہت تبرک بطور افسانہ پیش کریں گی تو حاضرین چونک گئے۔مجھے تیسرے نمبر پر افسانہ پڑھنا تھا جو کہ میرے لیے بے حد اچھا رہا۔ دراصل اس سے قبل میں نے کبھی کسی بھی اسٹیج سے افسانہ نہیں پڑھا تھا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ افسانہ کیسے پڑھنا ہے بس یہ موقع غنیمت جانا کہ مجھے بعد میں پڑھنا ہے۔ میں نے خود سے قبل سالک جمیل برار (پنجاب) اور ارشد اقبال(مرادآباد) کے افسانوں کو غور سے سنا۔ جس کا فائدہ بھی ملا اور جب میں نے اپنا افسانہ ’’باپ‘‘  (جو کہ اس مجموعہ میں ’’نوکری‘‘  کے عنوان سے شامل ہے )پڑھا تو مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تمام لوگ میرے افسانے کو بغور سن رہے تھے کیونکہ افسانہ ختم کر کے جب میں واپس اپنی سیٹ پر آیا تو مجھے فوری طور پر افسانے کے متعلق تبصرے سننے کو ملے۔ بشیر مالیر کوٹلوی (پنجاب)ڈاکٹر فاروق بخشی (راجستھان) نورالحسنین (اور نگ آباد) شوکت حیات (بہار) زین رامش وغیرہ نے سبھی افسانوں پر اظہار رائے کیا۔ مثبت تبصروں نے میرے اندر افسانہ نگاری کے تعلق سے نئی آگ بھر دی۔ محترم شوکت حیات صاحب نے میری پیٹھ ٹھونکی اور پہلے اسٹیج سے اور بعد میں ناشتے کے دوران مجھے افسانے کے لیے مبارکباد دی۔ اور بس یہی وہ وقت تھا جب میں نے اس مجموعہ کی اشاعت کا ارادہ کر لیا تھا۔

            ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب کا میں بے حد شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ایک بیش قیمتی موقع فراہم کیا۔ یہ انہی کا فیضان ہے کہ میں نے کچھ پرانے اور نئے افسانے جمع کر کے مجموعہ تیار کر دیا ہے۔ میں حالانکہ اپنی سیمائیں جانتا ہوں لیکن پھر بھی میں نے مختلف نوعیت کے موضوعات کو افسانے کی شکل میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔یہ کس مقام کے حق دار ہیں یہ تو قارئین ہی طے کریں گے۔میں بس اتنا ہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میری اصلاح کے لیے جو بھی پہلو سامنے آئیں ان سے مجھے ضرور مطلع فرمانے کی زحمت کریں۔

            ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب (کہ جنھوں نے میرے اندر سوئے ہوئے افسانہ نگار کوجگانے اور اسے تراشنے کی کوشش کی)کا اظہار تشکر کے لیے میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں۔ جناب نورالحسنین صاحب، نذیر فتح پوری صاحب ،عظیم راہی،بشیرمالیر کوٹلوی صاحب ،شوکت حیات صاحب اور اپنے دوستوں قمر عالم (مرکز تحقیقات فارسی ،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ )سالک جمیل اور ارشد اقبال صاحب کا بھی مشوروں کے لیے شکر گزار ہوں۔ میں شاہد سعید خاں صاحب کا بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے کتابت کے فرائض کم وقت اور حسن و خوبی سے انجام دیئے۔

            اس سب کے علاوہ اس مجموعہ کی اشاعت کے لیے اگر کوئی بڑا ذمہ دار ہے تو وہ میری شریک حیات شمیم فاطمہ ایڈووکیٹ کی ذات ہے۔ جنھوں نے مجھے جلد سے جلد مجموعہ کی اشاعت کے لیے پر خلوص مشوروں سے تونوازا ہی ساتھ ہی تمام افسانوں کو خود پڑھ کر ان میں ضروری تبدیلی کے لیے پر مغز بحث بھی کی۔ یہ اقرار کرنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ خودبھی ایک تخلیقی ذہن رکھتی ہیں اور اپنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے زمانے میں کافی کچھ کام کرتی رہی ہیں۔ میں ان کا اس لیے بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے خانگی     ذمہ داریوں سے چھو ٹ دی۔ میں اپنے پیارے بیٹوں عاطر فرقان اور عبداللہ یافی کا بھی مشکور ہوں کہ مجموعہ کی تیاری میں مصروفیت کے سبب میں انھیں ضروری وقت نہ دے سکا۔ آخر میں اپنی شفیق ماں عبیدہ خاتون کا بھی بے حد ممنون ومشکور ہوں کہ جن کی دعاؤں کے سبب میں آج اس مقام تک پہنچ پایا ہوں۔ اپنے مرحوم والد محمد غفران صاحب کا بھی تاعمر مشکور وممنون رہوں گا کہ انھوں نے مجھے بنانے میں خود کو فنا کردیا۔

            ایک مرتبہ پھر اس درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ اپنے عالمانہ اور اصلاحی مشوروں سے نوازنے کی زحمت ضرور کریں۔ اشتیاق اور امید و یاس کے ساتھ مجموعہ ’’آب حیات‘‘  آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

(انجینئر محمد فرقان سنبھلی )

 

تعارفی کلمات

                                                                                                 (شمیم فاطمہ)

            ’’جب آپ ہندوستانی آفسوں کی غلیظ سیاست کا شکار ہو جائیں تو آپ کتنے نالاں ہوتے ہیں۔ جب ماں کو بعد مدت سکھ کی چھاؤں نصیب ہو اور آپ چاہ کر بھی اس کی بلند ہوتی خواہشات کو پورا  نہ کر پاتے ہوں تو آپ کتنا بے بس محسوس کرتے ہیں۔ جب آپ کی بیوی گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے شغل میں آ پ کو شدید مطالبے کے باوجود چائے دینا بھول جائے تو آپ کتنا مایوس ہوتے ہیں۔ جب آپ کے شرارتی بچے آپ کے ضروری کاغذات کی کشتی بنا کر پانی میں چھوڑ دیں تو آپ کتنا برہم ہوتے ہیں۔

            ان حالات میں بھی جب آپ صبر و تحمل سے کام لیں اور لکھنے پڑھنے کے جوش اور جنون میں کوئی کمی نہ آنے دیں تو ثابت ہو  جاتا ہے کہ آپ ادب کے حقیقی پرستار ہیں۔ اگر آپ ایسے پر آشوب حالات میں کوئی ادبی تخلیق کر گزریں تو صحیح معنوں میں آپ ادیب ہیں۔‘‘

             انجینئر محمد فرقان سنبھلی کا بچپن بے حد ناز نخروں اور لاڈ پیار میں گزرا۔ دادا کیپٹن عرفان والی بال کے معروف قومی کھلاڑی رہے اور ان کے کھیل کی دھمک سارے ہندوستان میں گونجتی تھی۔ ادب سے گہرا شغف تھا۔ لیکن خود کچھ لکھا ہو ایسا کبھی سنا نہیں۔ والد محمد غفران سے لے کر چچاؤں تک سبھی کو کھیلوں سے دلچسپی تھی لیکن ادب سے زیادہ واقفیت نہیں تھی۔ اس گھرانے میں کو ئی ادیب بھی ہوا ہو ایسا بھی نہیں سنا۔

            فرقان سنبھلی نے لکھنے اور شعر کہنے کی ابتدا تو انٹر کے بعد ہی شروع کر دی تھی لیکن رفتار بہت سُست تھی۔ حقیقی معنوں میں انھوں نے لکھنے کا آغاز ۱۹۹۴ء سے ہی کیا۔ فرقان سنبھلی کے اندر کی تشنگی نے انھیں ادیب بنایا اور مارچ ۱۹۹۴ء کے مشرقی آنچل میں جب ان کا افسانہ ’’زخمی دل‘‘  شائع ہوا تو اسے خاطر خواہ پذیرائی ملی۔ جس نے فرقان سنبھلی کو حوصلہ عطا کیا۔ انٹر میڈیٹ میں داخلے کے ساتھ سال ۱۹۸۸ء میں انھیں ریڈیو سننے کا شوق پیدا ہوا۔ لیکن یہ شوق گیت سنگیت سننے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس میں بی بی سی ، چائنا ریڈیو، ریڈیو جاپان ،ڈچ ویلے، دی وائس آف جرمنی اور ریڈیو ماسکو وغیرہ کی سروس کو سننا اور ان کی خبروں اور پروگرام وغیرہ میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی شدید خواہش کارفرما تھی۔ ریڈیو ماسکو سے پول جوٹ کمپنی کی رسٹ واچ کے طور پر انعام سے نوازے گئے بعد ہٗ کئی ریڈیو سروسیز کے مختلف پروگرام میں شرکت کی اور انعامات و اعزازات حاصل کیے۔بعدہٗ پین فرینڈشپ کا دور چلا۔ دنیا بھر میں دوست بنائے اور لکھنے کے منفرد انداز سے بہتوں کو متاثر کیا۔ اسی کی وجہ سے انھیں دہلی کی مزاحیہ میگزین ’’ہاسیہ اٹیک‘‘  میں لکھنے کا موقع ملا۔ جس میں کئی مزاحیہ مضامین شائع ہوئے۔ اچھے اشعار ڈائری میں نوٹ کرتے کرتے کب اشعار کہنے لگے پتہ بھی نہیں چلا۔لیکن جلد نثر کے لیے شاعری کو ترک کر دیا۔ شفیق استاد کی کمی تو کھلی مگر جوش، جنوں ، عزم ،محنت اور لگن کو ہی اپنا استاد مان لیا۔ راشٹریہ سہارا ، تہذیب الاخلاق وغیرہ سے وابستگی ہوئی تو مضامین لکھنے کا طویل سلسلہ چل نکلا۔ بیچ بیچ میں افسانے بھی لکھے اور اشعار بھی کہے لیکن بہت کم۔

            محمد فرقان سنبھلی ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔میں جب بھی انھیں دیکھتی ہوں یہ الفاظ میرے ذہن میں ابھرتے ہیں :

خوش بیاں خوش رنگ خوش خوں خوش نظر خوش دید ہے

خوبیوں کا آئینہ وہ مرکز امید ہے

            فرض شناس بیٹے،ذمہ دار بھائی،محبت کرنے والے شوہر اور شفیق باپ یعنی ہر کردار میں فٹ فرقان سنبھلی حلقہ احباب میں پر خلوص اور با ادب شخصیت کے طور پر مقبول ہیں۔ جتنا خوبصورت ان کا دل ہے اس سے کہیں زیادہ پاکیزہ ان کا ذہن ہے ،جو ان کے افسانوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔آج جب کہ بیشتر افسانہ نگار سیکس، رومانس، عورت اور مرد کے آپسی رشتوں کے الجھاؤ کو ہی موضوع افسانہ بنا رہے ہیں وہیں فرقان سنبھلی نے معاشرہ کے حقائق پر نظریں مرکوز کی ہیں۔ ان کے افسانے زندگی کے تلخ حقائق کو خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے لاتے ہیں جنھیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو ہمارا خود کا جھیلا ہوا سچ ہے۔ فرقان سنبھلی کی زندگی اسٹرگل کے درمیان ہی طویل عرصہ سے رواں دواں ہے۔لمبی مسافت کے باوجود ان کا اسٹرگل ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہربار لگتا ہے کہ جیسے یہ آخری مرحلہ ہے لیکن نہیں۔ پھر ایک نیا اسٹرگل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کے کئی افسانوں میں یہ اسٹرگل بھی کسی نہ کسی طور پر محسوس ہوتا ہے۔

 فرقان سنبھلی نے کئی مرتبہ مجھ سے کہا کہ آگرہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے کرنا ہے اس لیے علی گڑھ پہنچ کر امتحان فارم کا پتہ کر لینا۔ میں حیران ہوتی کہ بھلا سول انجینئر کو ایم۔ اے کر کے کیا لینا ہے۔ پھر لگا کہ وہ شاید ڈپلوما انجینئرنگ کی جگہ پوسٹ گریجویٹ ڈگری کا اضافہ اپنے نام کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اردو سے ان کی والہانہ محبت کا پتہ مجھے تب چلا جب کہ انھوں نے سال ۲۰۰۸ء میں نہ صرف فرسٹ ڈویژن کے ساتھ اردو میں ایم اے کر لیا بلکہ اگلے ہی سال اردو میں نیٹ (NET)جیسا قومی سطح کا امتحان بھی امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کر لیا۔ مجھے حیرانی اس بات پر تھی کہ محض چند دنوں کی تیاری میں ایسا کر لیا۔ اور یہی نہیں بلکہ انھوں نے ہائی اسکول اور انٹر میں بھی اردو سنگل سبجیکٹ کے ساتھ امتحان پاس کیے۔ انجینئر اور صحافت جیسے مصروف ترین مشغلوں کے ساتھ اردو سے اس درجہ انسیت قابل ستائش ہی کہی جائے گی۔

فرقان سنبھلی جن نشیب و فراز کا سامنا کر اس مقام تک پہنچے ہیں اس میں سب سے شدید جھٹکا انھیں تب لگا جب کہ ڈپلوما سول انجینئرنگ کی پڑھائی پوری کر کے وہ فکر معاش میں مبتلا تھے کہ ان کے والد محمد غفران کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ اب ایک طرف معاشی فکر دامن گیر تھی تو دوسری طرف گھریلو ذمہ داریاں منھ بائے کھڑی تھیں۔ بس شروع ہو گیا اسٹرگل کا ابھی تک بھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ زندگی کی رعنائیوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی تلخ ترین سچائیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ان کے قدم ڈگے نہیں۔ فرقان سنبھلی نے کبھی خود کو ٹوٹنے بکھرنے نہ دیا۔ فکر معاش کے ساتھ شوق اردو بھی پروان چڑھا۔ انھوں نے ہندی میں بھی بہت سے مضامین اور اخبارات کے لیے ایڈیٹوریل لکھے۔

فرقان سنبھلی کی پہلی کتاب ’’مصر قدیم‘‘  سال ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے خرید کر ہندوستان بھر کی لائبریریوں کو تقسیم کیا۔ قومی کونسل کی امداد کے ذریعہ ان کی دوسری کتاب ’’آئینہ فلکیات ‘‘  (۲۰۰۴ئ) میں شائع ہو کر مقبول عام ہوئی۔ اس کتا ب کے لیے انھیں شمس الرحمن فاروقی صاحب اور اے پی جے عبدالکلام (سابق صدر جمہوریہ )وغیرہ کی طرف سے خطوط موصول ہوئے۔ ان کی اس کتاب کو بہا راور یوپی اردو اکادمیوں سے گراں قدر انعامات بھی موصول ہوئے۔ ان کی تیسری کتاب ’’اردو صحافت اور ضلع مرادآباد‘‘  سال ۲۰۰۸ء میں شائع ہوئی اور بے پسند کی گئی۔اس پر بھی یوپی اردو اکادمی سے انعام ملا۔ اور قومی کونسل نے کاپیاں خریدیں جو کہ لائبریریوں کو بھیجی گئیں ،یہ ایک تحقیقی کارنامہ ہے۔

فرقان سنبھلی کو اس کے علاوہ یش بھارتی اعزاز کے لیے نامزدگی ملی لیکن انتخابی عمل (اسمبلی انتخابات )شروع ہونے کی وجہ سے ایوارڈز کا اعلان نہیں ہو سکا۔اس کے علاوہ بھی کئی جگہ انھیں اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا ہے۔

چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو اور معروف افسانہ نگار ڈاکٹر اسلم جمشید پوری نے جب محمد فرقان سنبھلی کو بین الاقوامی اردو فیسٹیول میں مدعو کیا تو جیسے انھوں نے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر ماردیا۔ اور اسی ہلچل نے فرقان سنبھلی کے اندر سوتے جا رہے افسانہ نگار کو بیدا ر کر دیا۔ فرقان سنبھلی نے چار روزہ اس اردو فیسٹیول میں افسانہ ’’باپ‘‘  پڑھا جس پر جناب شوکت حیات، جناب نورالحسنین، جناب بشیر مالیر کوٹلوی وغیرہ تقریباً چھ معروف افسانہ نگار اور ناقدین نے اظہار رائے کیا۔ یہاں کی پذیرائی نے فرقان سنبھلی کو افسانے  لکھنے کا جنون دوبارہ عطا کر دیا۔ بس پھر کیا تھا وہ ایک کے بعد ایک افسانے لکھتے گئے اور آج یہ افسانوی مجموعے کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔

خشک مضامین سے نکل کر فکشن کی دنیا میں پہنچے فرقان سنبھلی ہمیشہ کی طرح مطمئن نہیں ہیں خوب سے خوب تر کی تلاش میں وہ اب بھی سرگرم عمل ہیں۔ سازگار حالات اور سکون کے چند لمحے ملیں تو شاید اچھے ناول اور شعری مجموعے بھی جلد منظر عام پر آ جائیں۔ خدا تعالیٰ ان کی ادبی دلچسپی ،ذوق اور شوق کوتا حیات زندہ رکھے۔ ان کا جنون، لگن اور محنت کا جذبہ ہمیشہ قائم رہے۔ آمین

شمیم فاطمہ ایڈووکیٹ

۱۶ ستمبر ۲۰۱۰ء

سنبھل

 

اردو افسانے کا مختصر جائزہ

            فن افسانہ مغرب سے ہندوستان میں آیا اور ایک مقبول ترین صنف کے درجے میں یوں فٹ ہو گیا کہ جیسے یہیں اس کا جنم ہوا ہو۔ داستان گوئی اور ناول کی ضخامت جب قاری کے لیے مسئلہ بن گئی تو افسانے کو تقویت حاصل ہوئی۔ زمانہ بدلا تو ایک ایسی کہانی کا وجود سامنے آیا جو کہ زندگی کی ساری وسعتوں پر حاوی اور اس کی گہرائی کی ترجمان ہوتے ہوئے بھی ایجاز و اختصار کا نمونہ تھی۔ جاگیردارانہ نظام اور عشرت پسندی والی تہذیب کے تقاضوں نے فن داستان گوئی جیسی صنف کی تخلیق کی جب کہ تلخ حقائق اور زندگی کے مسائل کو کہانی کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کے سبب ناول کا جنم ہوا۔ تیزی سے ترقی کی طرف قدم تال کرتی زندگی کو جب اپنے تفریحی مشاغل کے لیے وقت نکالنا دشوار ہونے لگا تو اس نے ایسی صنف کا مطالبہ کیا جو کہ ذہنی سرور ومسرت کے ساتھ زندگی کے مسائل کا حل تو پیش کرے لیکن اتنی مختصر ہو کہ وقت پر ا س کی گرفت مضبوط رہے اور انسان اپنے بے شمار مشاغل کے درمیان اسے پڑھنے کے لیے وقت نکال سکے۔ عصری تقاضے اور انسانی ضروریات کے پیش نظر مختصر افسانے کی تخلیق کی بنیاد پڑی۔

اردو میں ناول کو جس طرح داستان کے فن کے ساتھ ہی عروج نصیب ہوا اسی طرح ناول کے فنی عروج کے زمانے میں مختصر افسانہ پروان چڑھا۔’’امراؤ جان ادا‘‘  اور ’’خواب ہستی ‘‘  ناولوں کی تخلیق کا دور افسانہ کی پیدائش کا دور ہے۔ اردو کے پہلے افسانہ نگار پریم چند تسلیم کیے گئے ہیں جن کے خود کے قول کے مطابق ان کی پہلی کہانی کا جنم ۰۷-۱۹۰۶ء کے درمیان ہوا۔ اس طرح اردو افسانہ تقریباً ایک صدی کا گواہ بن چکا ہے۔  پریم چند کے تقریباً ساتھ ساتھ یا ان سے کچھ پیچھے سلطان حیدر جوش، نیاز فتح پوری اور سجاد حیدر یلدرم نے بھی افسانے کی صنف میں اپنی جولانیاں دکھائیں۔ یہ چاروں ابتدائی افسانہ نگار اپنے اپنے مذاق اور مزاج کی مناسبت سے کہانی سے مختلف کام لیتے رہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب افسانہ ایک ادبی صنف بطور اردو میں داخل ہوا تو زندگی کے بہت قریب تھا۔ حکایتوں ، سیاست، معیشت، مذہب ،اخلاق، محبت اور نفرت وغیرہ اس کے اہم موضوعات تھے۔

چاروں ابتدائی افسانہ نگار تقریباً ۱۹۳۰ء تک افسانے کے فن کو کامیابی کے ساتھ برتتے تھے۔ دریں اثنا کئی دیگر ادیب بھی میدان میں اترے لیکن تھوڑی سی چمک بکھیر کر غائب ہو گئے۔ ان کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے تقلید کا دامن تھام لیا اپنی منفرد راہ بنانے سے وہ چوک گئے۔ ان کے علاوہ علی عباس حسینی، مجنوں گورکھپوری ،حامد اللہ افسر، احمد اکبرآبادی کے نام بھی سنے گئے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ابتدائی چاروں فنکاروں کے قریب نہیں پہنچ پایا۔

سلطان حیدر جوش نے جہاں اصلاح پسندی کی روایت قائم کی تو سجاد حیدر یلدرم رومانیت کے پرستار بن کر ابھرے۔ نیاز فتح پوری کے افسانوں میں رومانیت ، عورت کا ذکر اور اس کی محبت سے دین و دنیا دونوں سنوار لینے کی توقع صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔اگر بات پریم چند کی ہو تو پتہ لگتا ہے کہ ان کے افسانوں پر گرد و پیش کی زندگی کے بعض اہم تقاضوں کا عکس ہے۔ نیا ز فتح پوری کے افسانے ’’دو گھنٹے جہنم میں ‘‘  اور پریم چند کے کفن، نمک کا داروغہ وغیرہ اہم افسانے ہیں۔

۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۵ء کے درمیان سدرشن اور راشد الخیری وغیرہ بھی افسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ ان کے افسانے اس ماحول کے مصور ہیں جن پر ان کی نظر گہری ہے اور اس مقصد کے ترجمان ہیں جس سے انھیں جذباتی لگاؤ ہے۔ بعد میں کئی افسانہ نگاروں نے دوسری زبانوں سے اردو میں ترجمے کر کے اردو افسانے کو ان نزاکتوں اور لطافتوں سے روشناس کرایا جس سے اردو افسانہ ابھی تک نابلد تھا۔ ان میں محمد مجیب، خواجہ منظور اور منصور احمد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ترجمہ کرنے والے افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ حیات اللہ انصاری، سجاد ظہیر، احمد علی، فیاض محمود اور اختر وغیرہ افسانہ نگاروں  نے مغربی شاہکاروں سے متاثر ہو کر ایسے طبع زاد افسانے لکھے جو زندگی اور فن کے امتزاج کے موثر اور دلکش نمونے ہیں۔

مختصر افسانے کی تاریخ میں سنہ ۱۹۳۵ء اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پریم چند کا ’’کفن‘‘  اور افسانوی مجموعہ ’’انگارے‘‘  نے اسی وقت انقلاب برپا کیا۔ ’’کفن‘‘  جہاں زندگی کے گہرے اور ہمدردانہ مشاہدے و مطالعے اور فن کے مخلصانہ احساس کا مثالی نمونہ ہے وہیں ’’انگارے‘‘  کے افسانے اس ذہنی اور باغیانہ روش کے علم بردار ہیں جس کے بغیر فن میں نئی راہوں کا کھلنا بندہو جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اسی کے ساتھ وجود میں آئی ترقی پسند تحریک نے مختصر افسانے کو بڑی تیزی سے ایسا بننے میں مدد دی جس کے سبب دس سال کے اندر بعض ایسی بہترین افسانوی تخلیقات منظر عام پر آئیں جن کا معیار بین الاقوامی سطح کا تھا۔

۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۷ء کے درمیان افسانے کے فن نے عروج حاصل کیا۔ اس دور کے افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، سہیل عظیم آبادی، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی ،عصمت چغتائی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ذرا تاخیر سے کچھ اور ناموں کا اضافہ ہوتا ہے۔ غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، ممتاز شیریں ، قرۃ العین حیدر اور بلونت سنگھ وغیرہ وہ افسانہ نگار ہیں جنھیں پڑھنے والوں کے ایک وسیع حلقے میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان افسانہ نگاروں نے اسلوب و فن میں نئے تجربے بھی کیے۔ ۱۹۴۷ء کے پر آشوب دور سے قبل ہی اردو افسانہ فن کی اس بلندی پر پہنچ چکا تھا جہاں زندگی کے حقائق، فن کار کی شخصیت اور فن کا حسن ایک دوسرے میں جذب اور مدغم ہو جاتے ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد اردو افسانے میں بھی زبردست انقلاب رونما ہوا۔ تقسیم اور اس کے بعد ہوئے فسادات کو لے کر بہت سے افسانے لکھے گئے۔تقسیم کے وقت انسانی زندگی ایک ناقابل بیان بحران کا شکار تھی۔ یہ ایسا المیہ تھا کہ بہت سے فنکار متوازن فنی تخلیق کی جگہ تعصب اور جذبات کا شکار ہو گئے۔ سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر نے تقسیم کے بعد بھی کثرت سے لکھا اور کئی اچھے افسانے انہی پر آشوب حالات پر لکھے۔

تقسیم کے بعد بعض نئے افسانہ نگار بھی سامنے آئے جنھیں خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ انتظار حسین، اے حمید، ابن الحسن وغیرہ کے نام خاصے اہم ہیں۔ یہ افسانہ نگار بین الاقوامی سیاست اور معیشت کے بدلتے ہوئے حالات پر بھی نظر رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ شوکت صدیقی، خلیل احمد، اشفاق احمد وغیرہ کے نام بھی اسی دور میں شامل ہیں۔ جنھوں نے کئی اچھے افسانے لکھے ہیں۔

۱۹۵۵ء کے بعد ملک میں سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر مختلف نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جنھوں نے عام زندگی کو بے حد متاثر کیا۔جن کے سبب جدید اردو افسانہ معرض وجود میں آیا۔ تمام طر ح کے مسائل اور مشکلات کے باوجود افسانہ نگاروں نے اس دور کے تمام انقلابات اور تبدیلیوں کو جدید طرز پر پیش کرنے کی کوششوں کو ترک نہیں کیا۔ اس دور کے افسانہ نگار نئی ذہنی تربیت کے ساتھ سطحی روایتوں کو چھوڑ کر نئے افق کی تلاش میں سرگرم عمل ہو رہے تھے۔ جس کے سبب ایک نیا ذہنی نظام وجود میں آیا۔ جو زمانے کے ساتھ قدم تال کرنے کو بیقرار تھا۔

افسانے کی مقبولیت نے اسے ہر دور میں نئی شناخت دی۔ ساتویں دہائی میں اسے ’’جدید افسانہ‘‘  کے ساتھ ساتھ ’’نئی کہانی‘‘  اور ’’ تخلیقی افسانہ‘‘  جیسے نام بھی دیئے گئے۔ جدید اردو افسانے نے ۱۹۵۰ء تا ۱۹۵۵ء کے درمیان رفتار پکڑی لیکن اسکے واضح خدوخال ۱۹۶۰ء کے بعد ابھر کر سامنے آئے۔ جس نے ساتویں اور آٹھویں دہائی میں جدید افسانے کو نئی جہت دی۔ اس دور میں اردو افسانے کا کینوس کافی وسیع ہوا۔ فنکاروں نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا اور اسلوب وہیئت میں نئے نئے تجربے کیے۔آٹھویں دہائی میں جو تبدیلیاں سیاسی سماجی اور تہذیبی سطح پر رونما ہوئیں۔ انھوں نے زندگی کے سانچے کو بڑی حد تک بدل دیا۔ اس دور کا کرب اس وقت کے افسانوں میں صاف محسوس کیا جاتا ہے۔ یہاں افسانوں میں نہ روایات کی پابندی تھی نہ سماجی اور نہ ہی اخلاقی و مذہبی بندشیں تھیں۔ لہٰذا نئے تجربات تو کیے گئے لیکن روایات سے پوری طرح  رشتہ منقطع نہیں ہوا۔

’’آج کل ‘‘  ماہنامہ دہلی کے اگست ۲۰۱۰ء کے شمارے میں نقاد اور مدیر ماہنامہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے قیصر تمکین کے مضمون کو بنیاد بنا کر کئی سوال افسانے کے تعلق سے اٹھائے ہیں۔ کیا واقعی اردو افسانہ ترقی کے منازل طے کر رہا ہے؟وہ کہتے ہیں کہ آج کل افسانہ نگاروں کی بھیڑ ہے۔افسانوں کے انبار لگ رہے ہیں لیکن کوئی شاہکار انھیں ڈھونڈے بھی نہیں مل رہا ہے۔ ایک طرح سے وہ ایک پورے ۲۵سالہ دور کو افسانے کے لحاظ سے بوگس  قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ واقعی حقیقت ہے ؟جیلانی بانو،سید محمد اشرف ،سلام بن رزاق، شوکت حیات، غضنفر ،رتن سنگھ، بیگ احساس، ذکیہ مشہدی وغیرہ کے بارے میں وہ کیا رائے رکھتے ہیں ؟

۳۰ جولائی ۲۰۱۰ء کو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ،میرٹھ میں چار روزہ اردو فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں اردو ادب کی بے باک ہستی شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بھی کہا کہ ۱۹۸۰ء کے بعد افسانہ لکھا ہی نہیں گیا۔ لوگ افسانے کی جگہ رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ انکے خیالات پر اسی مقام پر مشرف عالم ذوقی نے کہا کہ فکشن کے نقادوں نے ۱۹۸۰ ء کے بعد کے افسانوں کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ اور نہ ہی انھیں پڑھنے کی ضرورت محسوس کی۔وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ہمارے دور کے دونوں عظیم نقاد اگر گزر جائیں تبھی اردو ادب اور افسانے کا بھلا ہو سکتا ہے۔جس پر خاطر خواہ اعتراض بھی درج ہوا۔

باوجود اس کے میرا ماننا ہے کہ آج بھی اچھے افسانے لکھے جا رہے ہیں اور اب بھی اچھے افسانہ نگار موجود ہیں۔ ضرورت ہے ان پر اعتماد کرنے کی اور ان کی تخلیقات پر انصاف پسند تنقید کی۔

 

مرادآباد میں ۱۹۸۵ء کے بعد اردو افسانہ

ضلع مرادآباد علمی و ادبی، سیاسی اور تاریخی اعتبا رسے ہر عہد میں ممتاز رہا ہے۔ مرادآباد اور ا س کی تحصیلیں سنبھل، چندوسی، بلاری وغیرہ تاریخی، سیاسی اور علمی و ادبی ذوق و شوق والی بستیاں ہمیشہ سے رہی ہیں۔ ضلع مرادآباد جگر مرادآبادی، ڈاکٹر عندلیب شادانی، قیوم راہی ،مصور سبزواری، قمر مرادآبادی ،قاضی عبدالغفار، پروفیسر محمد حسن، باغ سنبھلی ،ڈاکٹر سعادت علی صدیقی، شاہ حاتم سنبھلی ،ملا عبدالقادر بدایونی وغیرہ جیسے کاملان فن کی جائے پیدائش اور کرم بھومی رہا ہے۔ یہاں شاعروں کی طویل فہرست موجود ہے لیکن فکشن اور وہ بھی افسانہ نگاری کے میدان میں بہت کم فنکار نکلے ہیں جنھوں نے فن افسانہ نگاری میں باقاعدہ کام کیا ہے۔ دور حاضر میں بھی افسانہ کے حوالے سے کوئی زیادہ امید نہیں جگتی۔ شاعری سے زیادہ رغبت، نثر سے عدم دلچسپی، قصہ گوئی کی صلاحیتوں کا فقدان، سہل پسندی اور اساتذہ کے ذریعہ نئی نسل کو افسانہ نگاری کی طرف متوجہ نہ کر پانے کی وجہ سے اس میدان میں سناٹے کی سی کیفیت محسوس کی جا رہی ہے۔

کافی تلاش کے بعد ضلع مرادآباد میں افسانہ نگاری کے تعلق سے جو نام سامنے آتے ہیں ان میں ڈاکٹر فہمیدہ خان، نفیس سنبھلی، قمر قدیر ارم، یامین سنبھلی، تسکین زیدی، ارشد اقبال، جاوید رشید عامر، ڈاکٹر نسیم الظفر باقری، شکیل انوارصدیقی، ڈاکٹر ایس آئی فہیم، عبدالحمید شمشی، ذا کر فیضی، ڈاکٹر طاہر رزاقی، انجینئر فرقان سنبھلی (راقم الحروف)، مصور سبزواری، کشور زیدی وغیرہ قابل ذکر نام ہیں۔ ان میں سے بعض نام ایسے ہیں جنھوں نے شاعری میں تو خوب نام کمایا ہے لیکن افسانہ کے تعلق سے محض چند افسانوں کی اشاعت پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ڈاکٹر فہمیدہ خان، نفیس سنبھلی، قمر قدیر ارم،یامین سنبھلی، ارشد اقبال ایسے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے جدید افسانے کے فن کو برت کر کثیر تعداد میں افسانے لکھے ہیں اور ان کے مجموعے بھی شائع ہو کر مقبول عام ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ خان (ادھورے سپنے)،سید نفیس سنبھلی(چار مجموعے لمحوں کی گرفت، حرفوں کے چراغ، سوگند تری سوگندہ، خوابوں کا سفر)قمر قدیر ارم(پاؤں جلتے ہیں میرے) ارشد اقبال (چھتیں )یامین سنبھلی (خزاں کے پھول)کی اشاعت ضلع مرادآباد کی جدید افسانہ نگاری کے تعلق سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

مرادآباد میں افسانہ نگاری کے تعلق سے ۲۰۰۰ء میں ڈاکٹر فہمیدہ خان کا افسانوی مجموعہ ’’ادھورے سپنے ‘‘ شائع ہوا تھا۔ ’’امتحان‘‘  اور ’’وہ ‘‘  مجموعہ کے اہم افسانے ہیں۔موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے یہ افسانے اپنے دور کے طرز کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔خواتین کی نفسیات اور مرد و عورت کے رشتوں پر مبنی یہ افسانے دور حاضر کی ان سچائیوں کو سامنے رکھتے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر حیرت اور تجسس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور سماج میں سچ کو سننے کی ہمت بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔ محبت اور جنس کے درمیان باریک فرق کو جس خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے  اس نے افسانوں کو فنی نقطہ نظر سے اہم بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی ان کے افسانوں میں سعادت حسن منٹو جیسی بے باکی بھی صاف محسوس ہوتی ہے۔موثر پلاٹ پر ’’میں ‘‘ اور ’’وہ‘‘  دو کرداروں کے ذریعہ مرد اور عورت کے تبدیل ہوتے رشتوں کی ضرورت اور  اہمیت پر روشنی ڈالنے والا افسانہ ’’وہ ‘‘  زمانے کی بے حسی کا شکار عورت کی نفسیات اور اس کی خواہشات کی بہتر عکاسی کرتا ہے۔

’’تم مجھے مار سکتے ہو؟‘‘ وہ اس سے پوچھتی۔

’’تم میری ماں ہو‘‘

سوال پھر ہوتا ہے

’’تو میرا کون ہے ‘‘

’’بیٹا‘‘

’’تیرا فرض کیا ہے ؟‘‘

’’تجھے چین و سکون عطا کرنا‘‘

’’مجھے جنسی تسکین دے ‘‘ اس نے التجا کی۔

ڈاکٹر فہمیدہ خان کا دوسرا افسانہ ’’امتحان ‘‘ بچوں پر باپ کے ذریعہ تھوپی جانے والی خواہشات کے خلاف احتجاج ہے۔ افسانے کے مرکزی کردار ’’سنجو‘‘  کو اس کے پِتا اپنے اثر و رسوخ کے ذریعہ چھٹی کلاس پاس کرتے ہی نویں کلاس میں داخلہ دلا دیتے ہیں۔ بنا یہ سوچے سمجھے کہ سنجو کا ذہن اور مزاج ڈاکٹری کی پڑھائی کے مطابق نہیں ہے اسے سی۔پی۔ایم۔ٹی کے ٹیسٹ میں بیٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جس سے سنجو کے اندر امتحان کو لے کر خوف سما جاتا ہے اور اس کی شخصیت باپ کی خودفریبی کی وجہ سے پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔

مرادآباد کی ہی زمین سے ۲۰۰۵ء میں افسانہ نگاری کے تعلق سے قمر قدیر ارم کا افسانوی مجموعہ ’’پاؤں جلتے ہیں میرے‘‘  شائع ہوا۔ اس کے دو ا فسانے ’’نگیٹو‘‘  اور ’’حلالہ‘‘  خاصے مقبول ہوئے ہیں۔’’نگیٹو‘‘ (Negative)ایک ایسی آزادی نسواں کی تحریک سے متاثر خاتون کی ازدواجی زندگی میں نا ہمواریت کی کہانی ہے جو کہ برسر روزگار ہونے کے سبب شوہر سے فوقیت کی جنگ لڑتی رہتی ہے۔برسر روزگار شوہر اور بیوی کے درمیان فوقیت کی تکرار کے درمیان ایک برتن فروخت کرنے والی ’’چھمیا‘‘  کا کردار نمودار ہوتا ہے۔ جو کہ دن بھر تلاش معاش کی خاطر گلی گلی بھٹکتی ہے اور شام کو اپنے ناکارہ شرابی شوہر کے مظالم بھی سہتی ہے۔ باوجود اس کے وہ اپنے شوہر کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کرتی۔ افسانے میں قمر قدیر ارم نے نہ صرف یہ کہ منظر نگاری بلکہ مکالموں میں بھی روانی بھری ہے۔ جس کی وجہ سے کہانی میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور قاری آگے کیا ہو گا کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ انھوں نے ازدواجی زندگی کے دو منفی پہلوؤں کی انتہا کی نشاندہی کی ہی ہے جو کہ قدیم تا جدید ہندوستانی معاشرہ کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ان منفی پہلوؤں کے درمیان کے مثبت پہلو کو قاری خود محسوس کر لیتا ہے۔یہی افسانے کی خوبی بھی ہے۔دو نسوانی کردار جو کہ ازدواجی زندگی کے لیے مختلف نظریہ رکھتے ہیں کے مکالموں نے مضبوط پلاٹ پر دلکش زبان و بیان کے ذریعہ سماج میں شوہر بیوی کے درمیان اسٹیٹس کو لے کر رسہ کشی اور شوہر کی خوشی میں ہی خوشی ڈھونڈ لینے والے دو نظریوں کے فرق کو واضح کیا ہے۔

’’کیا وہ کچھ کام دھام نہیں کرتا؟‘‘

’’کرتا ہوتا تو میں کاہے کو ٹھوکریں کھاتی پھرتی ‘‘

’’پھر تو تیری قدر کرتا ہو گا‘‘

’’کاہے‘‘

’’ا س کے لیے بچے بھی جنے ہے اور کما کے بھی کھلاوے ہے ‘‘

چھمیا کے سانولے چہرے پر ایک معصوم حیا آمیز مسکراہٹ کھِل اٹھی۔

’’ہم کون احسان کریں ہیں۔ جو وہ کدر کر لے گا۔ وہ تو مرد جات ہے ،روجانا جوتیوں سے پوجا کرے ہے بیوی‘‘

’’اچھا اور تو تب بھی خوش ہے۔ اور یہ تو ظلم ہے سراسر تو چھوڑ کیوں نہیں دیتی ایسے نکھٹّو کو۔ کم بخت حرام کی کھاتا ہے اور مردانگی جھاڑتا ہے ‘‘

’’اے خبردار بی بی جی‘‘  اچانک چھمیا تلملا کر اٹھ گئی۔

’’اپنے مرد کو بولو تو بولو۔ ہمرے مرد کو تم ایسی ویسی بات مت بولو‘‘

قمر قدیر ارم کا دوسرا افسانہ ’’حلالہ ‘‘ مسلم معاشرہ کی زمین پر لکھا گیا ایسا افسانہ ہے جو کہ مسلم معاشرہ کی ازدواجی زندگی میں بوالہوسی کے چلن پر زبردست طنز کرتا ہے۔ چھوٹی موٹی باتوں پر بیویوں کو طلاق دے کر بعد میں اشک ندامت لیے شوہر افسانے کے مرکزی کردار مولوی رحمت اللہ کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔طلاق شدہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے ’’حلالہ‘‘  کا شرعی مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور اس عبوری عمل کے لیے لوگ مولوی رحمت اللہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ مولوی صاحب طلاق شدہ عورتوں سے نکاح کر کے اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں اور دوسرے دن طلاق دے کر اس کے پہلے شوہر کے لیے حلال قرار دے دیتے ہیں۔ دھیرے دھیرے انھیں اس عمل کا ذائقہ ایسا پسند آتا ہے کہ وہ اس عمل کے لیے بیقرار رہنے لگتے ہیں لیکن جب وہ مرزا نامی کردار کی طلاق شدہ بیوی کو طویل عرصہ تک زوجیت میں رکھنے کے مسئلے سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے پاؤں تلے سے زمین کھسک جاتی ہے۔افسانہ کا موضوع منفرد ہے اور قمر قدیر ارم نے منظر نگاری کے ہنر کو خوب صورتی کے ساتھ برتا ہے۔ مسلم معاشرہ کے اس نادر سنکی پہلو پر افسانہ لکھ کر صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اردو فکشن خصوصاً اردو افسانہ نگاری کے تعلق سے مرادآباد بھر میں سید نفیس سنبھلی واحد شخص ہیں جن کے چار افسانوی مجموعے ’’لمحوں کی گرفت‘‘  ،’’حرفوں کے چراغ‘‘ ،’’سوگندھ تیری سوگندھ‘‘  اور ’’خوابوں کا  سفر ‘‘ شائع ہوئے ہیں۔

’’خوابوں کا سفر‘‘ (اشاعت سال ۲۰۰۹ء)کے دو افسانے ’’پشیماں ‘‘  اور ’’آگ‘‘  اہم افسانے ہیں جن میں سید نفیس سنبھلی نے دیہاتی زبان اور فضا کے ذریعہ جدید سماجی مسائل اور سماج کی پریشان کن انفرادی و اجتماعی صورت حال کو پیش کیا ہے۔ روہیل کھنڈ خطہ کی مقامی زبان اور مقامی مسائل کے ذریعہ روہیل کھنڈ خطہ کے معاشرے کی عمدہ تصویر پیش کی ہے۔’’پشیماں ‘‘  شک جیسی تباہ کن بیماری پر مبنی افسانہ ہے جس میں شک کی بیماری مرکزی کرداروں کی ازدواجی زندگی کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔شک میں مبتلا شخص کو جب ہر رشتے میں ملاوٹ نظر آنے لگے تو زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ سادہ لیکن با محاور ہ زبان کے ذریعہ اس عام کہانی کو خاص انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

عمدہ پلاٹ اور منظر نگاری کے ذریعہ قاری کے تجسس کو ہر لمحہ برقرار رکھا گیا ہے۔ اسلوب بیان پیچیدگیوں سے پاک ہے جس سے عام قاری کا ذہن بھی افسانے سے جڑنے میں دقت محسوس نہیں کرتا۔ دوسرا افسانہ ’’آگ ‘‘  بھی سماجی ادب کا حصہ ہے۔ اس افسانے میں کردار، منظر نگاری اور زبان و بیان کے سلیقے سے استعمال نے جدید معاشرہ کے مسائل کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔

اولاد کی چاہت میں دوسرے کے گھر کو جلانے کی کوشش کرنے جیسے اندھ وِشواس کو موضوع بنا کر افسانے کا پلاٹ تیار کیا گیا ہے۔ سماجی اصلاح کے جذبے سے بھر پور یہ افسانہ چست اور برمحل مکالموں کی وجہ سے بھی خاص بن گیا ہے۔ مکالموں میں دیسی مٹی کی خوشبو  اور سادہ سلیس زبان کے ساتھ ہندی الفاظ کا برمحل استعمال جا بجا دکھائی دیتا ہے۔

بشیشر پردیپ ’’خوابوں کا سفر‘‘  کے دیباچے میں رقم طراز ہیں :

’’نفیس احمد سنبھلی کے افسانوی ادب کو ہم سماج کا ادب یا سماجی ادب کہہ سکتے ہیں۔ ان کا ہر افسانہ سماج کی کسی نہ کسی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔افسانوں کے کردار اسی سماج کے مکالمے بولتے ہیں جس سماج کے وہ فرد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری ان کے کرداروں کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘

محمد یامین سنبھلی نے افسانہ نگاری کی ابتدا ’’سراب‘‘  افسانے سے کی تھی جو کہ مرادآباد کے ایک ماہنامہ میں شائع ہوا تھا۔انھیں ’’ادب برائے زندگی ‘‘ کے فلسفے نے بہت متاثر کیا۔’’خزاں کے پھول‘‘  عنوان سے محمد یامین سنبھلی کا افسانوی مجموعہ ۲۰۰۹ء میں شائع ہوا ہے ان کے اس مجموعہ میں یوں تو کئی افسانے اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان میں ’’دوج‘‘  اور ’’کٹی پتنگ‘‘  کے نام قابل ذکر ہیں۔ ’’دوج‘‘  افسانہ ایک ایسی بہن کی ایثار و قربانی اور خلوص و محبت سے پُر جذباتی کہانی ہے جس میں مرکزی کردار ’’انجلی‘‘  اپنے بھائی کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے اپنی عزت کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتی۔یامین سنبھلی نے انجلی کے کردا ر کو بڑی مہارت سے تشکیل دیا ہے۔ افسانہ ’’کٹی پتنگ‘‘  میں بے سہارا عورت کی مجبوریوں ،اس کے عزم و حوصلے اور شرم و حیا کے بیان کو یامین سنبھلی نے بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔

’’آپ کا نام؟‘‘  صاحب نے فائل میں لگی اسناد پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔

’’فائزہ احمد‘‘

’’تعلیم؟‘‘

’’ایم۔اے۔انگلش‘‘

……

’’ماں باپ‘‘

’’بچپن میں ہی چل بسے۔ ایک بھائی تھا وہ بھی دنیا کے جھمیلوں سے گھبرا کر دنیا کو چھوڑ گیا۔ شوہر نے طلاق دے دی۔ اب میں کٹی پتنگ ہوں۔ جسے ہر شخص لوٹنا چاہتا ہے۔میں بچتے بچتے تھک گئی ہوں ‘‘ فائزہ بے خودی کے عالم میں بولتی چلی گئی۔

’’گزارہ کیسے ہوتا ہے ‘‘

’’مہر کی رقم اور جہیز کے سامان سے اب تک گزار ہ کر لیا‘‘

’’اب کیا کرو گی‘‘

’’دنیا کا مقابلہ‘‘

’’پہلے کیوں نہ کیا ‘‘

’’کل تک مجھ میں حوصلہ نہ تھا۔آج مجھ میں حوصلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اب میں بتا دوں گی کہ میں صرف صنف نازک ہی نہیں بلکہ تلوار بھی ہوں۔ جو اپنے دشمن کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتی ہے ‘‘

’’اگر یہ جگہ بھی نہ ملی تو‘‘

’’رازق بہت بڑا ہے۔اس نے زندگی دی ہے تو رزق بھی کہیں نہ کہیں اتارا ہو گا؟‘‘             (’’خزاں کے پھول‘‘  از یامین سنبھلی صفحہ ۹۲)

یامین سنبھلی کے دونوں افسانوں کا خصوصی وصف زبان کا عام فہم سادہ اور سلیس ہونا ہے۔ان کے افسانوں میں کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو اور پیغام بھی مخفی ہے۔ افسانوں میں عصری صورت حال سے باخبری، سماجی بیداری اور سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف رد عمل بھی ہے۔

ضلع مرادآبا د کے تعلق سے سال ۲۰۱۰ء میں ارشد اقبال کا مجموعہ کلام ’’چھتیں ‘‘   کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کے ایک افسانے ’’امن‘‘  پر نظر ٹھہرتی ہے۔اس افسانے میں ارشد اقبال نے موجودہ نظام کی بدعنوانی اور ناکامی کے سبب مذہبی منافرت پھیلانے اور معاشرہ میں زہر گھولنے والی کاوشوں کے خلاف ایک ایسے شخص کو کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ نہ مرد ہے اور نہ عورتوں میں ا س کی گنتی ہے۔آزاد زنانہ کو امن کمیٹی انتخاب میں اس لیے امیدوار بنانے پر راضی ہوتی ہے کیونکہ اسے نہ تو گھر اور گھر والوں سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی وہ دولت کے لیے بدعنوانی میں ملوث ہو سکتا ہے۔سادہ سلیس زبان میں ارشد اقبال نے بدعنوانی سے لڑنے کا جو تجربہ کرنا چاہا ہے اسے سماج سے منظوری ملنا تو دشوار ہے لیکن جدید موضوع کے اعتبار سے یہ اہم افسانہ کہا جا سکتا ہے۔

دنیا بھر کی تمام بڑی زبانوں میں اردو زبان کا تعارف افسانے کے حوالے سے ہی ہوا ہے۔ دور حاضر کے پر آشوب ماحول میں زندگی کے مسائل کی موثر ترجمانی افسانہ کے ذریعہ ہی ہو رہی ہے۔ افسوس یہی ہے کہ مرادآباد میں افسانہ نگاری کی رفتار بے حد سست ہے۔لیکن یہ بات دیگر ادبی اصناف کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔بہر حال مرادآباد میں افسانہ نگاری کے فروغ پر کام کے لیے خطہ کے اساتذہ کوششیں کریں تو حالات بدل بھی سکتے ہیں۔مذکورہ بالا سطور میں جن افسانہ نگاروں کے افسانوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ان میں سے کئی ابھی اس فن کے تشکیلی مرحلے سے گزر رہے ہیں اور ان کے خد و خال واضح نہیں ہوئے ہیں۔ ان کا ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ ان کے فن سے مستقبل کے امکانات وابستہ ہیں۔

٭٭٭

 

افسانے

جس سمت دیکھئے وہیں رِستے ہوئے سے زخم

ویسے بڑا حسین ہے دور ترقیات

                                                                                                (حفیظ میرٹھی)

 

انصاف

۳۰ ستمبر ۲۰۱۰ء ! الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤبینچ بابری مسجد ملکیت مقدمے کا عجیب و غریب فیصلہ سنا چکی تھی۔ ثبوت پر اعتقاد کو فوقیت دیتے ہوئے جج صاحبان نے ایک ایسا فیصلہ سنادیا تھا جس سے ایک فریق اور اس کے ہمنواؤں کے جذبات بری طرح مجروح ہوئے تھے۔ٹی وی چینلوں پر فیصلے کو لے کر تنقیدی نشریات جاری تھیں۔ شہر کے گنجان آبادی والے علاقے کے ایک گھر میں کئی دوست چائے کی چسکیوں کے درمیان ٹی وی پر نظریں گڑائے تھے۔

’’حدہو گئی یہ تو‘‘ ۔ احسان نے مایوسی کے عالم میں کہا۔

’’یہ بھی بھلا کوئی فیصلہ ہے۔‘‘  منجیت سنگھ بھی بولے بنا نہ رہ سکا۔

’’کیوں بھئی اس فیصلے میں کیا برائی ہے۔ تینوں فریقین کو برابر جگہ تو  مل گئی ہے نا۔‘‘  ارجن تیاگی نے فیصلے کی حمایت میں ووٹ دیا۔

’’کیا اعتقاد کی بنیاد پر عدالتیں فیصلہ کر سکتی ہیں ‘‘ ۔ احسان نے بری طرح جھنجھلا تے ہوئے کہا۔’’اگر آئین اور ثبوت کو نظر اندا ز کر کے فیصلے دیئے جانے لگے تو کتنا بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کسی نے سوچا بھی ہے ‘‘ ۔

’’بیشک عدالتوں کو ثبوت کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ تو آئین کا نفاذ مشکل ہو جائے گا اور ہر طرف بدامنی پھیل جائے گی ‘‘ ۔منجیت نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’جس طرح اعتقاد کی بنیاد پر فیصلہ ہندوؤں کے حق میں کیا گیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ فیصلے کے پس پشت مذہبی تعصب کارفرما ہے۔‘‘ مائیکل نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

’’اگر ہمارے فاضل جج صاحبان خود کو مذہب سے بالاتر نہیں رکھ سکتے تھے تو بہتر تھا کہ وہ ججی کے فرائض سے خود ہی ہٹ جاتے اور کسی دیگر کو یہ ذمہ داری دے دیتے۔ ‘‘ منجیت سنگھ نے کہا تو تینوں اس کا منھ دیکھنے لگے۔

’’یہ بھلا کیسے ہو سکتا تھا۔‘‘ ارجن نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔

’’دنیا میں کون سا کام ممکن نہیں ہے دوست۔ ‘‘ احسان نے منجیت کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔

’’ہمارے پیارے نبی ؐ نے تو خود ایسا کیا تھا جب کہ ان کے سامنے ان کے داماد کا مقدمہ پیش ہوا تھا۔‘‘

’’چلو دوست تم ہمیں سناؤ کہ کیسے تمہارے نبی ؐ نے مثال قائم کی تھی۔‘‘ تینوں ہمہ تن گوش ہو گئے۔

٭

’’زینب ؓ…خیریت تو ہے بیٹی‘‘

حضرت خدیجہؓ نے زینبؓ کو پسینے میں شرابور وحشت زدہ ہرنی کی طرح گھر میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو بے اختیار ان کی طرف لپکیں۔ زینبؓ کو بانہوں میں بھر کر محبت بھرے لہجے میں بولیں :

’’کیا ہوا بیٹی… تم اس قدر بدحواس سی کیوں ہو؟‘‘

’’اماں … میں نے دین اسلام میں مکمل شمولیت کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ زینبؓ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا اور اپنے اندر طویل عرصہ سے جاری کفرو ایمان کی جنگ کی پوری داستان خدیجہؓ کے گوش گزار کر دی۔

خدیجہؓ زینبؓ کو ساتھ لے کر حضور اکرمؐ کے پاس پہنچی۔ انھیں زینبؓ کے دل کا حال کہہ سنایا۔ زینبؓ کے فیصلے پر حضور ؐ بہت خوش ہوئے اور ان کی آنکھ سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے۔

’بیٹی میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کوئی اور نہیں کہ تم داخل اسلام ہو جاؤ۔مگر بیٹی …‘‘

’’مگر کیا ابّا جان‘‘

’’یہ راہ بڑی پر خار ہے بیٹی ‘‘ ۔حضورؐ نے آگاہ کیا۔

’’مجھے علم ہے ابا جان‘‘ ۔ زینبؓ پر عزم تھیں۔

’’داخل اسلام ہوتے ہی تمہارا سسرال سے رشتہ بھی منقطع ہو جائے گا۔‘‘

’’لیکن اللہ سے تو رشتہ جڑ جائے گا۔‘‘

’’اور ابوالعاص… اس کے بارے میں بھی تم نے سوچ لیا ہے ‘‘ ۔

زینبؓ حضورؐ کی بات مکمل ہوتے ہی زار و قطار رونے لگیں۔ شوہر کی محبت اور تڑپ ان کے چہرے سے عیاں تھی۔زینبؓ بے حد جذباتی ہو گئی تھیں۔

’’اب تک ان ہی کی وجہ سے مجبور تھی ورنہ دل تو کب کا اللہ کی وحدانیت پر ایمان لا چکا تھا۔‘‘ زینبؓ کا گلا رندھ گیا تھا۔ ’’میں جانتی ہوں ابا حضور ؐ کہ ہمارا جدا رہنا مشکل ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ بھی جلد اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ تب میں ایک مرتبہ پھر ان کی خدمت کر سکوں گی۔‘‘

حضور ؐ بیٹی کے جذبۂ ایمان سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے زینبؓکو ڈھیروں دعائیں دیں۔’’اللہ تم پر رحمت کی بارش فرمائے اور وہ دن جلد آئے کہ ابوالعاص بھی راہ حق پر آ جائے۔ ‘‘

٭

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت ملے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔نئے دین میں کم ہی لوگ شامل ہوئے تھے لیکن اس نے مکہ میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ مشرکین حضورؐ کے خلاف لام بند ہونے لگے تھے۔ نئے دین میں حضورؐ کی بیٹی زینب ؓ اور ان کے داماد ابوالعاص ابن الربیع بقیط بھی شامل نہیں تھے۔ ان کی شادی حضورؐ کی نبوت سے قبل ہو چکی تھی۔ ابوالعاص حضرت خدیجہؓ کی سگی بہن ہالہ کے بیٹے تھے۔ حضورؐ نے ابوالعاص کو ان کی نیک فطرت اور پاکیزہ خصلت کے سبب زینبؓ کے لیے منتخب کیا تھا۔ جبکہ ہالہ بھی زینبؓ کی عادات اور اخلاق میں شائستگی کی وجہ سے انھیں پسند کرتی تھیں۔دونوں شادی کے بعد اپنی ازدواجی زندگی سے پوری طر ح مطمئن تھے۔

بعد نبوت جب زینبؓ مائکے جاتیں تو اپنے والد کی ایمان سے بھری باتیں سن کر دم بخود رہ جاتیں۔ دھیرے دھیرے ان کے اندر بھی ایمان کی شمع روشن ہونے لگی تھی۔لیکن ابوالعاص کو کسی مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے کاروبار اور زینبؓ کی قربت میں ہی خوش تھے۔ زینبؓ نے نئے دین کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کسی سے نہیں کیا تھا۔وہ ابوالعاص کے مذہب کے متعلق خیالات سے واقف تھیں اس لیے انھیں بھی اپنے جذبات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ان کے اندر کفر و ایمان کے درمیان جنگ جاری تھی۔زینبؓ کو جب محسو س ہوا کہ اب اللہ پر ایمان اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ بد عقیدہ شوہر کی محبت بھی ان کے قدموں کو نہیں روک سکتی تو انھوں نے دین اسلام میں داخل ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا اور وہ سسرال کو خیرباد کہہ کر مائکے چلی آئیں۔

حضورؐ نے اگلے ہی دن زینبؓ کو کلمہ پڑھا کر مشرف بہ اسلام کر لیا۔ یہ خبر اہل مکہ پر بجلی بن کر ٹوٹی۔ خبر نے اہل مکہ کو بے حد متفکر کر دیا تھا۔ وہ فکر مند تھے کہ اب اسلام نے بڑے گھرانوں پر بھی ہاتھ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔

حضورؐ کی دو بیٹیاں رقیہؓ اور ام کلثومؓ ابولہب ہاشمی کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے منسوب تھیں۔ حضورؐ کے ذریعہ اعلان حق بلند کرنے اور بتوں کی پوجا ترک کرنے کو کہنے پر ابولہب سخت ناراض ہو گیا تھا۔ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں کو غضبناک لہجے میں حکم دیا۔

’’میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ تم رقیہؓ اور ام کلثومؓ سے اپنا رشتہ منقطع کر لو۔‘‘

دونوں والد کے احکام پر بہت حیران ہوئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو تکنے لگے۔

’’لیکن ابّا … ‘‘ عتبہ نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا۔

’’میرا حکم ہے تم ایسا کرو۔‘‘ ابو لہب نے سخت لہجے میں کہا۔

’’لیکن کیوں …؟‘‘ عتیبہ نے جاننا چاہا۔

’’ اس لیے کہ ان کے باپؐ نے ہمارے بتوں سے بغاوت کی ہے۔‘‘

’’مگر اس میں رقیہؓ اور ام کلثومؓ کا کیا قصور …‘‘  عتیبہ نے احتجاج کیا۔

’بھلے ہی نہ ہو…لیکن اس سے ان کی حوصلہ شکنی تو ہو گی۔‘‘  ابو لہب کا لہجہ مزید تیز ہو گیا تھا۔ ’’اور مجھے یقین ہے کہ تم میرے حکم کو ضرور مانو گے۔‘‘

ابو لہب نے بہ غور دونوں بیٹوں کو باری باری دیکھا۔ دونوں بیٹوں نے فوراً اپنے سر خم کر دیئے۔ ابو لہب کا چہرہ مسرت سے کھل اٹھا۔ بیٹوں پر فتح کی روداد سنانے   ابو لہب کفار مکہ کے پاس دوڑ گیا۔ کفار مکہ نے ابو  لہب کے کارنامے کو بہت سراہا۔ نتیجہ یہ کہ ابو لہب کفار مکہ کی جماعت لے کر ابو العاص کے گھر بھی جا دھمکا۔

ابو  لہب نے اپنے بیٹوں کے کارنامے کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہوئے ابوالعاص سے کہا ’’تمہیں بھی اب زینبؓ سے رشتہ توڑ لینا چاہیے۔‘‘

’’میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘ ‘ابو العاص نے دو ٹوک انداز میں منع کر دیا۔ ابوالعاص زینبؓ کے چلے جانے سے رنجیدہ تو تھے لیکن بیوی سے محبت ابھی سرد نہیں ہوئی تھی۔

’’توہم سمجھ لیں کہ تم بھی نئے مذہب کے دامن گیر ہو گئے ہو۔‘‘

’’بالکل نہیں۔ میں کسی مذہب کا پرستار نہیں۔‘‘

’’تو پھر وعدہ کرو کہ تم زینب ؓ کو محمد ؐ کے گھر ہی چھوڑ دو گے۔ اسے واپس نہ لاؤ گے۔‘‘

’’میں آپ سے اجازت چاہوں گا کہ مجھے زینبؓ کو گھر واپس لانے دیا جائے۔ ‘‘ ابوالعاص نے ابو لہب سے مودبانہ گزارش کی۔

’’اب یہ ممکن نہیں ابوالعاص۔‘‘  ابو لہب غصے سے بے قابو ہو رہا تھا۔ مصلحتاً ضبط کے ساتھ بولا۔ ’’قبیلہ قریش میں خوبصورت اور خوب سیرت  لڑکیوں کی کمی نہیں ہے ابوالعاص۔ ہم تمھاری شادی ان میں سے کسی سے بھی کرادیں گے جسے تم پسند کروگے۔‘‘

’’میری پہلی اور آخری پسند زینبؓ ہے۔‘‘

’’زینبؓ …زینبؓ…زینبؓ میں ایسا کیا ہے جو تم اپنے قبیلے سے بغاوت پر …‘‘

’’زینبؓ میری بیوی ہے اور اس جیسا خلوص ،محبت اور خدمت گزاری اہل قریش کی کسی اور لڑکی میں ممکن نہیں۔ بے شک زینبؓ کا بدل ممکن نہیں۔‘‘

ابوالعاص نے ابو لہب کو مزید غصہ دلا دیا تھا۔ وہ تیز لہجے میں بولا۔

’’تم جس کے لیے مرے جا رہے ہو وہ خود تمہیں چھوڑ کر جا چکی ہے۔ اسے تمہاری فکر ہوتی تو وہ تمھیں یوں چھوڑ کر نہیں چلی جاتی۔ ‘‘ ابو لہب نے ایک اور داؤ کھیلا۔

’’مجھے زینبؓ کے جانے کا ملال نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے ساتھ رہی۔ ‘‘

’’صاف کیوں نہیں کہتے کہ تم نے بغاوت کا پورا ارادہ کر لیا ہے۔ ‘‘

’’نہیں …بلکہ میں زینبؓ کی واپسی کا مطالبہ…‘‘

’’خاموش ابوالعاص کہ تمہارے منھ سے بغاوت کی بو آ رہی ہے۔ خبردار ہو کہ اب تم ہمارے دشمن ہو۔‘‘  ابو لہب غصے سے پاگل ہو گیا تھا۔وہ ابواالعاص کو دھمکا کر واپس چلا گیا۔

ابوالعاص نے بھلے ہی اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ حضورؐ کی بے حد عزت و احترام کرتے تھے۔ ابوالعاص کو یقین تھا کہ وہ زینبؓ کی واپسی کا مطالبہ نہیں ٹھکرائیں گے۔ اسی یقین کے سہارے ابوالعاص حضورؐ کے گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔

ابوالعاص جب اپنی سسرال پہنچے تو حضورؐ صحابہ ؓ کے ساتھ نماز میں مشغول تھے۔ ابوالعاص انھیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے لگے۔ انھیں بھی اس روح پرور منظر نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ انھیں محسوس ہوا کہ ایک عجیب سا سکون ان کے اندر اتر آیا ہے۔ نماز کے بعد جب صحابہؓ رخصت ہو گئے تو ابوالعاص نے حضورؐ سے زینبؓ کی واپسی کا مطالبہ کیا۔

’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ زینبؓ اب دین اسلام میں داخل ہو چکی ہے۔‘‘  حضورؐ نے ابوالعاص سے سوال کیا۔

’’مجھے معلوم ہے جنابؐ۔‘‘

’’اسلام کے مطابق اب اس کی واپسی ممکن نہیں۔‘‘

’’پھر بھی میرا مطالبہ ہے کہ آپؐ زینبؓ کو میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں۔‘‘

’’لیکن کیوں …؟‘‘

’’اس لیے کہ آپ ؐ کے اعلان حق     اور بتوں کی پرستش ترک کرنے کے اعلان سے اہل مکہ ناراض ہیں او زینبؓ کے قبول اسلام نے انھیں مزید ناراض کر دیا ہے۔‘‘

’’پھر…‘‘

’’اگر زینبؓ یہاں رہیں گی تو یہ لوگ آپؐ اور آپ کے صحابہؓ سے دشمنی کریں گے۔‘‘

’’لیکن میں ان سے لڑنا نہیں چاہتا۔‘‘

ابوالعاص نے فوراً کہا۔ ’’ اگر آپ ؐ زینبؓ کو میرے ساتھ جانے دیں گے تو ان کا عتاب مجھ پر نازل ہو گا۔ آپ ؐ اور آ پکے صحابہ ؓ محفوظ رہیں گے۔ ‘‘

حضورؐ سوچ میں پڑ گئے۔ ’’مجھے اپنی فکر نہیں لیکن صحابہؓ کے لیے مجھے تمہاری تجویز کو ماننا ہو گا۔‘‘ حضورؐ نے مزید ارشاد فرمایا۔’’مجھے امید ہے کہ تم زینبؓ کو اس کے دین سے غافل کرنے کی کوشش نہیں کرو گے۔‘‘

’’میں بھلے ہی کسی دین کا پیروکار نہیں لیکن کسی کے مذہب میں مداخلت بھی میرا اصول نہیں۔‘‘

حضورؐ جانتے تھے کہ ابوالعاص کتنا بھی بد مذہب کیوں نہ ہو لیکن وہ بات کا سچا اور پکّا ہے۔  انھوں ؐ نے زینبؓ کو ابوالعاص کے ساتھ وداع کر دیا۔

٭

مکہ میں حضورؐ کے ذریعے نئے دین کی آمد نے جو ہلچل مچائی تھی اس کی وجہ سے حضورؐ اور مسلمانوں پر مشرکین نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی۔ حضورؐ صحابہ ؓ کے لیے فکر مند تھے کہ اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم صادر ہوا۔ مسلمانوں کا قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ مدینہ پہنچ کر مسلمان دین کی تبلیغ میں بے خوف و خطر  مصروف ہو گئے۔

ہجرت کے دوسرے ہی سال مشرکین بڑے کروفر کے ساتھ مکہ سے بڑا لشکر لے کر تحریک اسلامی کو کچلنے کی غرض سے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ مجبوراً حضورؐ کو بھی جنگ کے لیے تیار ہونا پڑا۔کفار نے حضور ؐ کے چچا عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے بڑے بھائی عقیلؓ کو تو اپنے ساتھ ملا ہی لیا تھا ساتھ ہی ابوالعاص کو بھی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے آمادہ کر لیا تھا۔ تین سو تیرہ جہادیوں کا اسلامی لشکر جنگ بدر میں اپنے جوش و جذبے اور اللہ کی مدد سے فتح یاب ہوا۔ بہت سے مشرکین قیدی بنا لیے گئے۔ ابوالعاص بھی ابن جبیر ؓ انصاری کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔

سبھی جنگی قیدیوں کو حضورؐ کے سامنے پیش کیا گیا۔بہت سے قیدی ایمان لے آئے تھے اور بہت سے قیدیوں کے گھروں سے فدیہ آ چکا تھا اس لیے انھیں رہائی مل گئی تھی۔زینبؓ کو جب ابوالعاص کی گرفتاری کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے دیور عمرو بن الربیع کے ہاتھ وہ بیش قیمتی ہار بطور فدیہ بھجوا دیا جو کہ حضرت خدیجہؓ نے انھیں جہیز میں دیا تھا۔

ابوالعاص کو جب حضور ؐ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ؐ بہت دیر تک ابوالعاص کو دیکھتے رہے۔ حضورؐ نے جب فدیہ بطور بھیجا گیا ہار دیکھا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ حضورؐ نے صحابہ سے کہا ’’میں ابوالعاص کا فیصلہ تم لوگوں پر چھوڑتا ہوں۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ ؐ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ صحابہؓ نے جب حضورؐ کو اشکبار دیکھا تو وہ خود بھی رنجیدہ ہو گئے۔ انھوں نے سمجھا کہ ہار دیکھ کر حضورؐ اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے تڑپ اٹھے ہیں۔

صحابہؓ نے فیصلہ دیا ’’ابوالعاص کو رہا کر دیا جائے گا لیکن انھیں وعدہ کرنا ہو گا کہ وہ مکہ پہنچ کر زینبؓ کو حضورؐ کے پاس بھیج دیں گے اور فدیہ بطور بھیجا گیا ہار بھی واپس کر دیا جائے گا۔ ‘‘

ابوالعاص رہا ہو کر اپنی قوم میں واپس لوٹ گئے۔لیکن زینبؓ کو مدینہ بھیجنے کا وعدہ نبھانا نہیں بھولے۔زینب ؓ کی جدائی میں وہ غمگین رہنے لگے تھے۔ غم ہلکا کرنے کے لیے انھوں نے خود کو کاروبار میں بری طرح مصروف کر لیا۔ادھر زینبؓ بھی ابوالعاص سے جدائی کا غم برداشت نہیں کر پار ہی تھیں۔انھوں نے بھی خود کو دین کی خدمت میں اس طرح غرق کر لیا کہ ابوالعاص کی جدائی کا غم بھول جائیں۔ لیکن دونوں کو پوری طرح قرار میسر نہیں ہوا۔

ابوالعاص کاروباری سلسلہ میں مشرکین کے قافلے کے ساتھ ملک عراق روانہ ہوئے تھے کہ راستہ میں اسلامی لشکر سے اس قافلے کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ایک مرتبہ پھر اسلامی لشکر کامیاب ہوا اور مشرکین کو گرفتار کر لیا گیا۔ صرف ابوالعاص ہی کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو سکے۔ اتفاق سے وہ زینبؓ سے جا ملے اور زینبؓ نے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا۔

جب حضورؐ کے سامنے تمام قیدیوں کو پیش کیا گیا تو زینبؓ نے ابوالعاص کے سلسلہ میں انکشاف کیا کہ وہ ان کی پناہ میں ہیں۔ حضورؐ کو اس با ت کا قطعی علم نہ تھا۔ا س لیے انھیں تعجب ہوا۔

حضورؐ نے صحابہؓ سے ارشاد فرمایا۔

’’آپ سب نے سنا کہ زینبؓ نے کیا کہا‘‘

’’ہاں رسول ؐ اللہ ہم نے خوب سنا۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا۔

حضورؐ نے مزید فرمایا ’’قسم اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں میری جان ہے زینبؓ کے بتانے سے قبل مجھے کچھ علم نہ تھا کہ ابوالعاص کہاں ہے۔‘‘

حضورؐ نے آگے کہا ’’اگر کوئی ادنیٰ مسلمان بھی کسی کو پناہ دے تو سب پر لازم ہے کہ وہ اسے پناہ دیں۔‘‘

حضورؐ نے فوراً منصف کی حیثیت کو تر ک کر دیا۔اور فرمایا ’’میں ابوالعاص کا معاملہ صحابہؓ کے سپرد کرتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں۔ ‘‘ اتنا کہہ کر حضورؐ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ جہاں زینبؓ ان کی منتظر تھیں۔

’’بابا جان …ابوالعاص …‘‘

’’بیٹی ابوالعاص تمہاری پناہ میں ہے اس لیے اس کی خاطر تواضع کا خاص خیال رکھنا لیکن اس سے باہمی ربط و ضبط بھی نہ بڑھانا۔‘‘

’’بابا جان …ابوالعاص اپنا وہ مال واپس چاہتے ہیں جو کہ لشکر نے ان سے لیا تھا۔‘‘ زینبؓ نے عرض کیا۔

حضورؐ نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا  ’’بیٹی اب یہ صحابہؓ کے درمیان کا معاملہ ہے کہ میں یہ اختیار انھیں دے چکا۔اگر وہ واپس دینا چاہیں گے تو ابوالعاص کو مل جائے گا ورنہ میں مجبور ہوں۔ ‘‘

زینبؓ نے جب یہ سنا کہ حضورؐ نے ابوالعاص کا معاملہ صحابہؓ پر چھوڑ دیا ہے تو ہ شدت جذبات سے رو پڑیں۔

’بابا جان …آپ نے کتنے ہی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ پھر کیا ابوالعاص ان سے بھی گئے گزرے ہیں کہ آپ نے انھیں صحابہؓ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔‘‘ زینبؓ کا شکوہ زبان پر آہی گیا تھا۔

حضورؐ بیٹی کے شکوہ پر تڑپ اٹھے۔ انھوں نے زینبؓ سے کہا۔

’’بیٹی میں نے کہا نہ تھا کہ دین کی راہ میں بہت کانٹے ہیں۔‘‘

’’لیکن بابا…‘‘

’’اسلام اور اللہ کی راہ میں ہمیں ثابت قدم رہنا ہو گا بیٹی۔‘‘

’’پر ابوالعاص کا فیصلہ بھی تو آپ خود کر سکتے تھے۔‘‘

’’ کیا تم نہیں جانتیں کہ ابوالعاص مجھے بھی عزیز ہے لیکن اس کا فیصلہ اگر میں خود کرتا تو طرفداری کے جرم کا مرتکب ہو سکتا تھا۔ کیونکہ ابوالعاص آخر کو میرا داماد ہے۔ اس لیے میں نے اسے صحابہؓ کے حوالے کر دیا کہ وہ اسلام کی روح کے مطابق فیصلہ کر لیں۔‘‘

٭

’’اس طرح حضورؐ کے انصاف اور ان کے اخلاق حسنیٰ کا ہی اثر تھا کہ ابوالعاص کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہو گئی اور وہ مکہ واپس گئے تووہاں اپنے تمام قرض چکا کر واپس لوٹ آئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔‘‘

تینوں دوست احسان کی زبان سے نکلے الفاظ کو سن کر مبہوت ہو گئے تھے۔

٭٭٭

 

راجہ کا محل

تبصرہ کیا پوچھتے ہو آج کے حالات پر

آج سر اپنا ہتھیلی پر لیے پھرتا ہوں میں

                                                                                                            (جگن ناتھ آزاد)

کہرے کی چادر میں لپٹا یہ ایک اور نیا سویرا تھا۔ بھارت پور ضلع کا بہت بڑا اور تاریخی شہر۔ جس کے شاہراہ پر سیکڑوں لوگ دور کسی کے انتظار میں نظریں گڑائے  تھے۔

’’وہ دیکھو…وہ دیکھو…‘‘  اچانک بھیڑ میں ہلچل پیدا ہوئی۔’’وہ آ گئے …‘‘  بھیڑ میں سے کچھ آوازیں نمودار ہوئیں۔ کچھ میں تجسس تھا۔کچھ میں خوف اور کچھ میں جانے کیوں مسکراہٹ کی آمیز ش تھی۔

سب نے دیکھا اور وہ بس دیکھتے ہی رہ گئے۔

یہ بہت سے فیل سواروں کا غول تھا جو کہ دھیرے دھیرے بھیڑ کے قریب آتا جا رہا تھا۔

’’وہ آ گئے …وہ آ گئے…وہ آ گئے‘‘  اچانک بھیڑ میں سے کچھ کمزور دل لوگ گھروں کی طرف دوڑ گئے۔تو کچھ فیل سواروں کی آگوانی کرنے لگے۔

فیل سواروں کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے اور کچھ کھدائی کا سامان بھی۔ وہ چنگھاڑتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے تو جیسے زمین کانپ اٹھی۔ فلک شگاف چنگھاڑ نے ماحول پر خوف طاری کر دیا تھا۔ فیل سواروں نے مست چال کے ساتھ چلتے ہوئے سرجو ندی کے کنارے ڈیرا جما لیا۔شہر بھر میں فیل سواروں کی آمد کی ہی چرچا تھی۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ وہ کیوں آئے ہیں لیکن انھیں اس بات میں دلچسپی تھی کہ وہ کیا کرنے آئے ہیں ؟فیل سوار جب بازار سے گزر رہے تھے تو کچھ کمزور دل لوگوں کو فیلوں کے پاؤں کی دھمک ہتھوڑوں کی چوٹ کی مانند محسوس ہو رہی تھی لیکن شہر کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو کہ اسی دھمک کو ڈھولک کی تھاپ کی طرح محسوس کر رہا تھا۔

شہر کی ایک مشہور بیٹھک میں بزرگوں کی ٹولی بھی فیل سواروں کی آمد پر گفتگو کر رہی تھی۔ بزرگوں کی ٹولی کا سردار ’’کبیر ‘‘  بے حد متفکر نظر آ رہا تھا۔ ’’آخر یہ لوگ یہاں کیا کرنے والے ہیں۔‘‘  کبیر نے جھنجلائے لہجے میں کہا۔

’’وہ اپنے راجہ کا نیا محل تعمیر کریں گے‘‘ ایک بزرگ نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ کہا۔

’’لیکن جس راجہ کی بادشاہت سارے جہاں پر ہو اسے یہیں اپنا محل بنانے کی ضد کیوں ہے ‘‘ ۔کبیر نے کہا تو کئی بزرگوں کے چہرے پر ناگواری کے سائے پھیل گئے۔

’’ارے بھیا جہاں تم پیدا ہوئے تھے وہیں تمھارا گھر ہے نہ ‘‘ ایک دیگر بزرگ نے بڑے پتے کی بات کہی تھی۔

’’ یہ فیل سوار تو شہر بھر میں دہشت پھیلا رہے ہیں۔جو ان کے خلاف کچھ بولتا ہے اسے یہ جبراً خاموش کرا دیتے ہیں۔ اس طرح تو راجہ کا محل تعمیر ہو یا نہ ہو لیکن شہر میں بدامنی ضرور پھیل جائے گی۔ اور اس کا خمیازہ ہم سب بھگتیں گے۔ ‘‘ کبیر کی بات سے کئی بزرگ متفق تھے۔

کبیر تقریباً ۶۰سال کا ایسا مرد تھا جس کے بازوؤں نے کبھی شیر کی گردن مروڑی تھی اور اب بھی خاصے مضبوط جسم کا مالک تھا۔لمبے قد چہرے پر داڑھی چھوٹی اور اندر کو دھنسی آنکھیں۔ گول چہرے والے کبیر کی زندگی شان سے گزری تھی۔کسرتی جسم اس کا شوق رہا تھا۔ وہ بلا کا ذہین بھی تھا اور اس عمر میں بھی اس کی ذہانت قابل دید تھی۔ لوگ بیٹھک میں اس سے مشورے طلب کرتے تھے۔ اب بھی لوگ اس سے مشورہ طلب کر رہے تھے۔

’’فیل سوار بہت طاقت ور ہیں ہم کریں بھی تو کیا؟‘‘

’’فیل سواروں کے بابت میں نے شہر انتظامیہ سے بھی بات کی تھی۔‘‘ کبیر نے اطلاع دی۔‘‘ لیکن شہر انتظامیہ نے کوئی بات سنی تک نہیں۔ ایسا  لگتا ہے کہ وہ تو خود فیل سواروں کو تعاون کر رہے ہیں۔‘‘ کبیر بے حد غصے میں تھا۔بنا کسی نتیجے پر پہنچے بیٹھک برخاست ہو گئی تھی۔

فیل سواروں نے گلی اور محلوں میں اپنی آمدو رفت تیز کر دی تھی۔ وہ لوگوں کے پاس جا کر انھیں اپنے راجہ کے محل کی تعمیر میں تعاون کے لیے اکسا رہے تھے۔وقت مقر رہ پر سرجو کے کنارے جمع ہونے کی تاکید کر رہے تھے۔ وہ اپنے راجہ کے بلوان ہونے کا بھی پورا یقین دلا رہے تھے۔ ان کے منصوبے تو خفیہ تھے ہی ان کی حکمت عملی کو لے کر شہریوں میں بڑی تشویش تھی۔

فیل سواروں کے غول کے غول تاریخی شہر کی فضا کو خوف زدہ کرنے کے لیے روز ہی وارد ہو رہے تھے۔ روز بہ روز فیل سواروں کی چنگھاڑ میں تیزی آتی جا رہی تھی۔ شہریوں پر محل کی تعمیر میں تعاون کرنے کی اپیلیں اب احکام میں بدلنے لگی تھیں۔وقت مقر رہ اب بہت قریب تھا۔ شہر میں فیل سواروں کا آتنک چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انھوں نے شہر کی تمام طاقت اور طاقتور اشیا کو سحر زدہ کر دیا ہے۔ کوئی بھی ان کے خلاف کچھ بولنے کو تیار نہ تھا۔

لیکن شہر بھر میں ایک شخص تھا جو کہ مسلسل فیل سواروں کے ذریعہ پھیل رہی بد امنی پر فکرمند تھا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کا پیارا شہر مصیبتوں میں گھرتا جا رہا ہے۔ اس کی نظروں کے سامنے دو مختلف نظارے گھوم رہے تھے ایک میں وہ فیل سواروں کو چنگھاڑتے اور مغرور انداز میں زمین پھاڑتے دیکھ رہا تھا تو دوسری طرف ان کمزور لوگوں کا گروہ تھا جو کہ فیل سواروں کے خلاف غم و غصہ تو دکھا رہا تھا لیکن اندر سے خود کو بے آسرا سمجھ رہا تھا۔ کبیر کو محسوس ہوا کہ اگر یہی حال رہا تو چنگاری سلگ کر شہر کو تباہ کر ڈالے گی۔  لیکن وہ کرے تو کیا کرے۔

کبیر نے راجہ کے حضور درخواست گزاری کہ اب وہ ہی کچھ کر سکتا تھا۔ لیکن اسے سکون نہ ملا۔تب اس نے اپنی بزرگ ٹولی کے ساتھ وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ انھوں نے کبیر کی بات سے اتفاق جتاتے ہوئے شہر کو فوج کے حوالے کر دیا۔ شہر پر فوج کی تعیناتی کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنے کمانڈر کو احکام دیئے تھے کہ وہ پرانے راجہ کے محل کا تحفظ کرنے کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ فیل سواروں کی غلط حرکات کو روکنا ہے مگر تب جب کہ تمھیں یقین ہو جائے کہ محل کے تحفظ کے لیے ا ب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔ شرط سے بندھا فوج کا کمانڈر تاریخی شہر کا گھیرا ڈال کر بیٹھ گیا اور  کبیر مطمئن ہو کر اپنی بیٹھک میں بیٹھ کر حقہ گڑگڑانے لگا۔

وقت مقر رہ پر دریائے سرجو کے کنارے تمام فیل سواروں کا جم گھٹ لگا تھا۔ پتہ نہیں یہ فیل سواروں کے آتنک کا خوف تھا یا پھر بلوان راجہ سے عقیدت کہ بڑی تعداد میں شہری بھی محل تعمیر کی تقریب میں پہنچ گئے تھے۔ شہر انتظامیہ آج بڑی حرکت میں نظر آ رہا تھا۔ کوئی جگہ نہ تھی جہاں پولس کے سپاہی موجود نہ تھے۔ خبر نویسوں کی بھی بڑی فوج جٹی تھی۔ کبیر بھی اپنی بزرگوں کی ٹولی کے ساتھ موجود تھا۔

فیل سواروں کے سرداروں نے اتنا بڑا مجمع دیکھا تو ان کا جوش دوگنا ہو گیا۔ انھوں نے اپنی چنگھاڑ کی فریکوئنسی (Frequency)اتنی زیادہ کر دی کہ آسمان میں شگاف پڑنے کا خطرہ لاحق ہونے لگا تھا۔

فیل سواروں کے ایک سردار نے اپنے بلوان راجہ کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے۔جذباتی انداز میں اس نے یہ بھی اشارہ دیا کہ آج کل ان کا راجہ بہت رنجیدہ ہے کیونکہ اس کے محل کی جگہ دوسرے راجہ نے اپنا محل بنوا دیا ہے۔ ہمیں واپس راجہ کا محل وہیں تعمیر کرنا ہے تاکہ ہمارا بلوان راجہ خوش ہو جائے اور ہمارے گناہ کبیرہ بخش دے۔

فیل سواروں نے دیکھا کہ شہریوں میں بھی جوش آنے لگا ہے۔ انھوں نے فلک شگاف نعرہ لگایا۔ ’’ہمیں آدیش کرو…راجہ کا محل کہاں بنانا ہے۔ ‘‘

لوہا گرم دیکھ فیل سواروں کے سردار نے آخری چوٹ کر دی۔

’’وہاں …‘‘ انگلی کے اشارے سے اس نے سامنے بنے قدیمی محل کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ محل وہیں بنانا ہے غلامی کی نشانی کو مٹانا ہے۔ ‘‘

فیل سواروں کے ساتھ پورے مجمعے کی نگاہیں قدیمی محل کی طرف اٹھ گئیں۔

’’ارے…یہ تو دوسرے راجہ کا قدیمی محل ہے۔یہ گرے گا تو شہر میں آگ لگ جائے گی۔‘‘

کبیر نے چلا کر کہا لیکن بھیڑ کے جوشیلے نعروں میں اسکی آواز دب کر رہی گئی۔ اس نے قدرے تیز آواز میں کہا ’’سردار ہم تمھیں اس سے بھی اچھی جگہ دے سکتے ہیں جہاں پر راجہ کا عالی شان محل بن سکے اور وہ زیادہ حسین لگے گا۔‘‘

فیل سواروں کے سردار نے قدرے خفگی سے کہا ’’نہیں ہمارے بلوان راجہ کو تبھی اصلی خوشی ملے گی جب کہ غلامی کی یہ نشانی مٹے گی اور اس کی جگہ بلوان راجہ کا عالی شان محل تعمیر ہو گا۔‘‘

’’لیکن اس جگہ ہی کیوں …یہ محل گرا تو دوسرا راجہ ہم سے خفا ہو جائے گا۔‘‘  کبیر نے دریافت کیا تو بھیڑ میں کھسر پھسر ہونے لگی۔

’’اس لیے کہ ہمارا بلوان راجہ اسی جگہ پیدا ہوا تھا۔ کیا تم اپنی جائے پیدائش کو کسی کو دے سکتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے ابھی غلامی کی نشانی کو مٹانے اور بے مثال محل کی تعمیر کرنے کا آغاز کرنا ہے۔‘‘ سردار نے پر جوش انداز میں مزید کہا ن’’اور تم دوسرے راجہ سے بالکل خوف مت کھاؤ کیونکہ ہمارا راجہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ‘‘

’’پھر تمہارا بلوان راجہ خود ہی نیا محل کیوں نہیں تعمیر کر لیتا۔ ہم غریبوں کو کیوں ناحق اس امتحان میں مبتلا کر رہا ہے۔ ‘‘ کبیر کی بات خود اس کے ساتھیوں کو بھی پسند نہیں آئی تھی۔

’’خاموش گستاخ…راجہ کی خوشی کا خیال رکھنا پرجا کا اہم فریضہ ہے اور تم تو خودپر جتنا رشک کرو کم ہے کہ اس عظیم کار خیر کے لیے تمہارا انتخاب کیا گیا ہے۔‘‘

کبیر کو محسوس ہوا کہ اب اس کی باتوں سے بھلا کیا ہونے والا ہے۔ فیل سواروں نے سردار کی طرف دیکھا تو اس نے محتاط اشارہ دے کر آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔ تمام فیل سواروں نے اپنے کھدائی کے اوزار نکالے اور قدیمی محل کی طرف دوڑ پڑے۔ کبیر اور اس کی بزرگ ٹولی کو احسا س ہو گیا کہ اب راجہ کا قدیمی محل نیست و نابود  ہو کر رہے گا۔ وہ انتہائی بے چارگی کی حالت میں کھڑا تھا اچانک اس نے دیکھا کہ    خبر نویسوں کو کئی فیل سواروں نے اپنے نرغے میں لے لیا ہے اور و ہ اپنی چنگھاڑ سے انھیں ڈرانے دھمکانے میں لگے ہیں۔ اس نے انتظامیہ کو تلاش کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پوری انتظامیہ خواب خرگوش میں بدمست تھی اور وہ پورے معاملے سے انجان بنی ہوئی تھی۔

کبیر نے مایوسی کے ساتھ قدیمی محل کی طرف دیکھا۔فیل سواروں نے راجہ کے قدیم محل کو مسمار کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا ایک ستون منہدم ہو چکا تھا اور دوسرا عنقریب زمیں بوس ہونے والا تھا۔ اس کی نگاہ نے ایسا منظر بھی دیکھا کہ پولس کے لوگ فیل سواروں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ بہت سے شہری  بھی فیل سواروں کے تعاون کے لیے پہنچ گئے تھے۔ اچانک کبیر کو وزیر اعظم کے ذریعہ بھیجی گئی فوج کی یاد آئی۔ ’’ارے وہ کمانڈر کہاں ہے ‘‘ کبیر نے پوچھاتوپتہ لگا کہ ایک نوجوان شہری نے پوری فوج کو شہر کے باہر تعینات دیکھا تھا اور وہ اب بھی وہیں ہے۔

کبیر تقریباً دوڑتے ہوئے فوج کے کمانڈر کے پاس پہنچا۔ اسے حالات سے آگاہ کیا تو کمانڈر فوراً حرکت میں آ گیا اور اس نے قدیمی محل اور جلسہ گاہ کا محاصرہ کرلیا۔ بزرگ ٹولی کے دم میں دم آیا کہ اب شاید حالات قابو میں آ جائیں۔ لیکن یہ کیا، فوج تو کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی۔ فیل سوار چاروں طرف دوڑ رہے تھے اور اپنے ہاتھ میں موجود کدال ،پھاوڑے اور ہتھوڑوں سے قدیمی محل کی دیواریں توڑنے میں لگے تھے۔

کبیر کمانڈر سے چلا کر بولا’’کمانڈر کیا تم بھی فیل سواروں سے ملے ہوئے ہو۔روکتے کیوں نہیں انھیں۔‘‘

’’نہیں ہم ابھی کچھ نہیں کر سکتے ‘‘ ۔کمانڈر نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا جہاں چیل اور کوؤں کی اڑان کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آیا۔

’’کمانڈر …’’کبیر گرجا‘‘ راجہ کا قدیمی محل منہدم ہونے والا ہے۔اگر یہ ہوا نہ رکی توعذاب نازل ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔آخر تمہیں کس کا انتظار ہے۔‘‘

’’ہمیں ابابیلوں کے لشکر کا انتظار ہے ‘‘ کمانڈر نے اطمینان سے کہا۔

’’کیا‘‘ کبیر کی آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑی تھیں۔

’’ہاں …ہم ابابیلوں کے لشکر کا انتظار کریں گے۔ ‘‘ تمہیں پتہ نہیں ہے۔

ہمیں حکم ملا ہے کہ ہم تبھی حرکت میں آئیں جب کہ ہمیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔‘‘

’’لیکن یہ بیسویں صدی ہے کمانڈر…اب ابابیلوں کے لشکر کہاں سے آئیں گے ‘‘ ۔کبیر بے بسی کے ساتھ کبھی کمانڈر سے مخاطب ہوتا تو کبھی گرد و پیش کا جائزہ لینے لگتا تھا۔ اور اس کے دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا ستون بھی منہدم ہو گیا تھا۔ فیل سواروں کے سردار نے جشن منایا تھا اور وہ ٹھہاکے پر ٹھہاکے لگاتا جار ہا تھا۔ کبیر کا صبر اب جوا ب دیتا جا رہا تھا۔اس نے پھر کمانڈر سے کہا۔

’’کمانڈر اب تو حرکت میں آ جائیے۔ آپ تو خود طاقت ور ہیں آپ کو بھلا ابابیلوں کے لشکر کی کیا ضرورت ہے۔‘‘

’’ارے کیا تم نہیں جانتے کہ ماضی میں جب ایک عظیم محل پر فیل سواروں نے حملہ کیا تھا تو ابابیلوں کے لشکر نے ہی اس کا تحفظ کیا تھا۔‘‘ فوج کے کمانڈر نے نہایت فلسفیانہ انداز میں کبیر سے کہا‘‘ مجھے یقین ہے دوست کہ آج بھی ابابیلوں کا لشکر ضرور آئے گا۔‘‘

کبیر التجا کرتے کرتے تھک چکا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح کمانڈر کو سمجھائے کہ جب ابابیلوں کے لشکر آئے تھے تب عظیم مرتبہ متقی اور پرہیزگار صحابہؓ موجود تھے لیکن آج جب کہ انسان بھی انسان کہلانے کا حقدار نہیں تو غیبی مدد کیوں کر ملے گی۔

’’پریشان نہ ہو بزرگوار۔‘‘  کمانڈر نے جیسے اس کے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔

’’جب ماضی میں لشکر آیا تھا تو اب بھی ضرور آئے گا۔ہمیں اس کا انتظار کرنا ہے۔‘‘

کمانڈر نے ایک اچٹتی سی نگاہ قدیم محل منہدم کرتے فیل سواروں پر ڈالی اور پھر آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔

کمانڈ ر کے دو ٹوک انداز نے کبیر کو بے حد مایوس کر دیا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ سب کوئی بڑی سازش ہے۔دو را جاؤں کے محل کی آپسی رنجش برسوں کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کر رہی ہے اور ساتھ میں انسانیت کو بھی۔

’’لیکن اس سازش کو ناکام کیسے کریں۔ ‘‘ اس نے سوچا

کبیر کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برس رہے تھے اسے محسوس ہوا کہ جیسے شہر کی طرف سے آگ کا گولا اٹھ کر آسمان کی طرف جا رہا ہے۔

’’اوہ…لگتا ہے عذاب نازل ہو چکا ہے۔‘‘ کبیر نے آسمان کی طرف دیکھا جہاں اب دھوئیں اور آگ کے گولے کے سوا کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ ابھی وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اسے فیل سواروں کے تیزی کے ساتھ چنگھاڑنے کی آوازیں سنائی پڑیں۔ محل کا تیسرا اور آخری ستون بھی ختم ہو چکا تھا۔

’’راجہ کا قدیمی محل منہدم ہو گیا۔ عذاب بھی نازل ہو چکا …اور …اب وہی ہو گا جس کا خدشہ تھا۔‘‘ کبیر بڑ بڑایا۔

اچانک اس نے کمانڈر کو آواز دی۔’’کمانڈر تم کب تک ابابیلوں کے لشکر کا انتظار کرو گے۔دیکھو سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔‘‘ کبیر نے قدیمی محل کی جگہ مٹی اور اینٹوں کے ڈھیر کو دیکھا اور گھٹنوں کے درمیان منھ چھپا کر پھپھک پڑا۔

’’ہاں …شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے لشکر کا انتظار کیا کیوں کہ یہ مرے لیے حکم تھا لیکن اب میں فیل سواروں کو روکتا ہوں۔‘‘ اور اب کمانڈر اور اس کی فوج اینٹ مٹی کے ڈھیر پر لال تنبو بناتے فیل سواروں کی طرح کوچ کر گئی۔

کبیر نے منھ اوپر اٹھایا۔ فیل سواروں کے سردار رقص کر رہے تھے ان کے پیروں کی دھمک فیل سواروں کو ڈھولک کی تھاپ کا لطف دے رہی تھی۔وہ ناچ کود کے درمیان اپنے بلوان راجہ کا گڑ گان بھی کر رہے تھے۔کبیر بھرے من سے اٹھا اور اپنی بزرگ ٹولی کے ساتھ شہر کی طرف چل دیا۔

بوجھل قدموں سے شہر کی طرف لوٹتے کبیر نے دیکھا کہ سارا شہر جل رہا ہے۔ سڑکوں پر جلی کٹی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ شہری آپس میں دست و گریباں ہیں۔ کشت و خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔

بزرگ ٹولی کے لوگوں نے شہریوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ دو را جاؤں کے محل کی رنجش میں وہ کیوں کشت و خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ آپس میں کیوں دست و گریباں ہیں۔بزرگوں کی ٹولی یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر یہ  لوگ کیوں ایسا کر رہے ہیں۔

کبیر جانتا تھا کہ یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں وہ جانتا تھا کہ یہ دونوں را جاؤں کے ایسے عقیدت مند ہیں جو کہ اپنے اپنے راجہ سے لاشوں کی گنتی بتا کر اس کی قربت اور خوشنودی کا مطالبہ کرنے والے ہیں لیکن کبیر کو یہ بھی پتہ تھا کہ یہ ان کی ناکام کوشش ہے۔ کیونکہ نرم دل راجہ نازک بدن سے بہتا خون نہیں دیکھ سکتے۔

٭٭٭

 

تقسیم کے داغی

ڈوبنا ہی تھا جو کشتی کا مقدر یارب

آنکھ کے سامنے اے کاش نہ ساحل ہوتا

                                                                                    (عندلیب شادانی)

دوسری عالمی جنگ میں کامیابی کے باوجود انگریز سمجھ چکے تھے کہ اب ان کی پکڑ ہندوستان پر کمزور ہو چلی ہے اور انھیں لگنے لگا تھا کہ اب وہ زیادہ دن تک ہندوستان کو غلام نہیں رکھ پائیں گے۔تب ۱۰ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں برطانیہ کے وزیر اعظم کلیمینٹ ایٹلی نے ایڈمرل ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان پہنچ کر ہندوستان کو آزادی دینے کا کام سپرد کیا۔ شاید تبھی ہندوستان کو سبق سکھانے کی ترکیب ماؤنٹ بیٹن نے سوچ لی تھی۔

ہندوستان میں ایڈونا جیسی خوبصورت بیوی کے ساتھ پہنچ کر ماؤنٹ بیٹن نے شاطرانہ چالیں چلنا شروع کر دی تھیں۔ہندوستان میں اپنی شاندار رہائش گاہ میں آدم قد شیشے کے سامنے کھڑا ماؤنٹ بیٹن خود کو نہار رہا تھا۔

’’ہیلو مسٹر ایڈمرل‘‘ اچانک اس کا ہم شکل آدم قد شیشے کے اندر ابھرا۔

’’تم کون ہو‘‘ ماؤنٹ بیٹن ہڑبڑا گیا۔

’’مجھے نہیں پہچانتے ایڈمرل۔میں وہی ہوں جسے تاریخ ایک نیا ملک بنانے کے لیے ہمیشہ یاد رکھے گی۔‘‘

’’خاموش رہو‘‘ ماؤنٹ بیٹن مخفی خیالات کے ظاہر ہونے پر چیخ اٹھا۔

’’ایڈمرل-جس ملک کو سکندر، محمد بن قاسم، ترک اور افغان بھی یہاں رہ کر تقسیم کرنے کی ہمت نہ جٹا سکے اسے تم کیوں اور کیسے تقسیم کر سکو گے؟‘‘

ہم شکل کے سوال پر ماؤنٹ بیٹن کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

’’تم دیکھو گے کہ ہندوستان تقسیم ہو کر رہے گا۔ یہ ملک ہم سے آزاد تو ہو جائے گا  لیکن میں یہاں ایسا بیج بو جاؤں گا کہ اگلے کچھ سالوں بعد یہ پھر ہمارے قدموں میں واپس آ جائے گا۔‘‘

اچانک ایڈونا کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ماؤنٹ بیٹن کا ہم شکل شیشے سے غائب ہو گیا۔

’’ایڈمرل ہم ہندوستان کیوں آئے ہیں جب کہ یہاں کا ماحول ہمارے لیے سازگار نہیں ہے۔‘‘

’’میں ہندوستان کو آزادی دینے آیا ہوں۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے انھیں آزادی دینے کا اعلان کرو اور واپس چلنے کی تیاری کرو۔‘‘

’’اتنی جلدی کیا ہے مائی ڈیئر۔یہ تاریخ بنانے کا مقام ہے ذرا تاخیر تو ہو گی ہی۔‘‘

’’مطلب…‘‘

’’ایڈونا…تم نہرو کی اچھی دوست ہو میں چاہتا ہوں تم انھیں تیار کرو کہ وہ جناح کی منشا کے مطابق ملک تقسیم کی بات کو تسلیم کر لیں۔‘‘

’’وہ یہ بات کبھی تسلیم نہ کریں گے ‘‘ ایڈونا نے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’لیکن تم ان سے یہ بات منوا سکتی ہو ڈیئر۔‘‘ اتنا کہتے ہوئے ماؤنٹ بیٹن کمرے سے باہر نکل گیا۔

٭

ماؤنٹ بیٹن اپنے وسیع و عریض لان میں بیٹھا شام کی چائے پی رہا تھا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے ایک اردلی برابر اس پر پنکھا جھل رہا تھا۔ اچانک اس کا ہم شکل پھر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

’’ہیلو ایڈمرل‘‘ ہم شکل کی آواز کے سماعت سے ٹکراتے ہی ماؤنٹ بیٹن الرٹ ہو کر بیٹھ گیا۔

’’تم…تم اب کیوں آئے ہو‘‘

’’ایڈمرل میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کی بات تمہارے دماغ میں کب اور کیسے آئی۔‘‘ ہم شکل کے سوال پر ماؤنٹ بیٹن چراغ پا ہو گیا۔

’’میں نے ہمیشہ ہندوستان کومتحدرکھنے کی پیش کش کی ہے۔میں قطعی تقسیم ہند نہیں چاہتا۔‘‘

ہم شکل نے زور کا ٹھہاکا لگایا۔

’’خود سے جھوٹ بول رہے ہو ایڈمرل‘‘

’’آخر تم میرے پیچھے کیوں پڑے ہو۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔

’’میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم نے تقسیم ہند کا منصوبہ کب اور کیوں تیار کیا ‘‘

’’تم مجھ پر غلط الزام لگا رہے ہو۔تقسیم ہند کا منصوبہ میں نے نہیں محمد علی جناح نے تیار کیا ہے۔‘‘

’’تم غلط کہہ رہے ہو ایڈمرل۔ ‘‘ ہم شکل کو بھی طیش آ گیا تھا۔‘‘ کیا تم نہیں جانتے کہ جب لندن میں ۱۹۳۳ء میں رحمت علی نے پاکستان بنانے کی تجویز جناح کے سامنے رکھی تھی تو جناح نے اسے ناممکن اور غلط خواب سے تعبیر کیا تھا۔‘‘ ہم شکل کی بات پر ماؤنٹ بیٹن خاموش رہ گیا۔ہم شکل نے بات جاری رکھی۔

’’کیا تمھیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ۱۹۳۴ء میں جناح اپنے ممبئی میں جما جمایا وکالت کا پیشہ اور سیاست چھوڑ کر لندن رہنے کے لیے چلے گئے تھے۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن اب بھی خاموش تھا۔

’’تم کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن نے آخر چپی توڑتے ہوئے کہا۔

’’یہی کہ تقسیم ہندکی تیاری تمہاری حکومت نے بہت پہلے طے کر لی تھی جسے انجام دینے کے لیے تمہیں بھیجا گیا۔‘‘

’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن نے احتجاج کیا۔

’’ارے رُکو ایڈمرل مجھے کہنے دو‘‘ ہم شکل پھر بول پڑا ’’تمہاری حکومت نے تمہارا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ تمہاری حکومت کا مقصد تھا کہ جہاں تک ممکن ہو ہند کی آزادی کو ٹالا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسے تقسیم کر کے اس حالت میں چھوڑا جائے کہ اگلے کچھ عرصے بعد پھر اس پر تسلط قائم کیا جا سکے۔‘‘

’’یہ سراسر الزام ہے۔میں نے کبھی بھی تقسیم کی بات نہیں کی ہمیشہ متحد ہندوستان کی با ت کی لیکن میں جناح کی ضد کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔

’’خود کو دھوکہ دے رہے ہو ایڈمرل۔تم اور تمہاری حکومت نے جناح کو مہرہ بنا کر شہ اور مات کا کھیل کھیلا ہے۔‘‘

’’تم …حد سے بڑھ رہے ہو۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن کا چہرہ تمتما گیا۔

’’غصہ مت کرو…ایڈمرل…کیا یہ تم  لوگوں کی ہی چال نہیں تھی کہ جناح جیسا بے مذہب جو نہ قرآن پڑھتا تھا نہ عربی اردو سے اس کا کوئی واسطہ تھا جو نماز تک نہیں پڑھتا تھا پھر بھی وہ ہندوستان کے مذہبی مسلمانوں کا قائد بن گیا تھا۔‘‘

’’میں کہتا ہوں بکواس بند کرو‘‘ ماؤنٹ بیٹن زور سے چیخ اٹھا۔تو ہم شکل بھی غائب ہو گیا۔ہم شکل کے جاتے ہی ماؤنٹ بیٹن نے ماتھے پر چھلکا پسینہ صاف کیا۔

٭

ماؤنٹ بیٹن کی رہائش گاہ پر ایک گاڑی رکی اس میں سے محمد علی جناح ہونٹوں میں سگار دبائے اترے اور سدھے قدموں سے وائس رائے ماؤنٹ بیٹن کی ملاقات گاہ میں پہنچ گئے۔

’’تو آپ نے کیا فیصلہ کیا مسٹر جناح۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن نے پوچھا۔

’’میں مسلم لیگ کے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر کے ایک ہفتے میں کوئی جواب دے سکوں گا۔‘‘ جناح نے جواب دیا اور سگار کا لمبا کش لیا۔

’’مسٹر جناح میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے میں ۳  جون ۱۹۴۷ء کو ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘

’’آپ کے پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنس نے تو آزادی جون ۱۹۴۸ء میں دینے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر آپ اتنی جلد بازی کیوں کر رہے ہیں۔ آج ۲ جون ۱۹۴۷ء ہے اور آپ کل کو تقسیم ہند پر آمادہ ہیں۔ ایسا کیوں ؟‘‘

جناح کے سوال کو ماؤنٹ بیٹن نے غور سے سنا۔

’’تم نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اب اگر برطانیہ حکومت تمھیں پاکستان دے رہی ہے تو تم کیوں نہیں موقع سے فیضیاب ہونا چاہتے۔‘‘

’’میں نے کبھی الگ ملک نہیں مانگا بلکہ ہندوؤں کے برابر حقوق کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘

’’تو تم یہ سمجھتے ہو کہ نہرو پٹیل کے رہتے تم ہند کے وزیر اعظم بن سکتے ہو ‘‘ ۔ ماؤنٹ بیٹن نے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ جناح کی خاموشی سے ماؤنٹ بیٹن کا حوصلہ بڑھا۔

’’آخر آپ کو طشتری میں سجا کر پاکستان دیا جا رہا ہے تو آپ ہچک کیوں رہے ہیں۔‘‘

’’میرا ضمیر اسے گوارا نہیں کر رہا۔‘‘

’’کل کی میٹنگ میں کانگریس کی طرف سے نہرو، پٹیل اور آچاریہ کرپلانی موجود رہیں گے۔آپ کے ساتھ مسلم لیگ کی نمائندگی کے لیے لیاقت خان اور عبدالرب رہیں گے۔ میں میٹنگ میں تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کروں گا۔ آپ اس کی کھل کر حمایت کریں گے۔نہرو بھی مخالفت نہیں کریں گے۔‘‘

’’میں منصوبے کی کھل کر حمایت نہیں کر سکتا۔‘‘ جناح کی بات ماؤنٹ بیٹن کا موڈ بگڑ گیا۔

’’لیکن کیوں …تم نے عوام کے سامنے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔بھلے ہی یہ جوش میں لیا گیا فیصلہ ہو لیکن اب آپ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔اگر تم نے ایسی کوشش کی تو تم مسلم قیادت کھو بیٹھو گے۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن کا تیر صحیح نشانے پر لگا تھا۔

’’لیکن پھر بھی …‘‘ جناح تذبذب کا شکار ہو گئے۔

قائد کی یہی طاقت اور کمزوری ہے کہ وہ اپنی عام سبھا میں کہی بات کی نفی نہیں کر سکتا۔وہ اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ چاہے اس کا دل کتنا بھی کیوں نہ پچھتاتا رہے۔ وہ فیصلہ بدل نہیں سکتا۔یہی جناح کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے ایک بار پاکستان کا مطالبہ کیا تو وہ اب اس سے کیسے قدم واپس کھینچ سکتے تھے۔

’’کانگریسی لیڈر تقسیم کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔سکھ لیڈر بلدیو سنگھ بھی تقسیم کو منظوری دے چکے ہیں اب اگر آپ اپنی منظوری دے دیں تو تقسیم کا معاملہ ابھی اور اسی وقت حل ہو سکتا ہے۔‘‘ ماؤنٹ بیٹن نے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔

’’کیا گاندھی جی اور مولانا آزاد بھی تیار ہیں۔‘‘ جناح نے صفر میں گھورتے ہوئے سوال کیا۔

ماؤنٹ بیٹن نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا ’’شاید نہیں۔یہی لوگ دراصل تقسیم کے درمیان روڑہ ہیں۔‘‘

’’میں مسلم لیگی ساتھیوں سے مشورہ کر کے کوئی جواب دوں گا۔‘‘ جناح نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن نے جناح کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

’’میں ایک تجویز اور پیش کرتا ہوں۔‘‘

’’کیا‘‘

’’میں کل جب تقسیم ہند کا منصوبہ میٹنگ میں پیش کروں تو آپ اس کی تائید…‘‘

’’میں تائید نہیں …‘‘ جناح کی بات بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے کہا۔

’’اگر آپ اچانک جاگ اٹھے ضمیر کی بنیاد پر کھلے الفاظ میں تقسیم کی حمایت نہ کر سکیں تو آپ کسی بھی انداز میں اپنے سر کو تھوڑی جنبش دے دیں۔ اس کے کیا معنی ہوئے یہ طے کرنے کی ذمہ داری میں بہ خوبی نبھاؤں گا۔‘‘

ماؤنٹ بیٹن کی عیاری سے بھر پور یہ باتیں جب جناح کی سماعت سے ٹکرائیں تو انھیں محسوس ہوا کہ شطرنج کی بساط پر وہ انگریز حکومت کا مہرہ بن کر رہ گئے ہیں۔ انھیں ان ہی کے ہتھیار سے قتل کرنے کی تیاری ہو چکی ہے۔ جناح کے اندر کسی کونے میں موجود ہندوستانی خون میں حرارت پیدا ہوئی۔ وہ تڑپے چھٹپٹائے لیکن جلد انھیں احساس ہو گیا کہ باہمی نااتفاقی، ضد اور سیاسی تدابیر کبھی کبھی کیسے ہوش ربا چیلنج پیدا کر دیتے ہیں۔

میٹنگ میں کانگریسی لیڈران اور مسلم لیگی لیڈران کی موجودگی میں ایڈمرل ماؤنٹ بیٹن نے وہ دل توڑ دینے والا منصوبہ پیش کر ہی دیا جس کے سبب دلوں کے درمیان سرحدیں حائل ہو جانے والی تھیں۔

ماؤنٹ بیٹن نے جب تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا تو جناح خاموش رہے۔ انھوں نے نہ ’’ہاں ‘‘ کی اور نہ ’’نا‘‘ کہا۔ محض اپنے چہرے کو جنبش دے کر ذرا سا جھکا لیا۔ ان کے ہونٹوں میں لگا سگار زمین پر گر پڑا تھا اور وہ صفر میں جانے کیا تلاش کر رہے تھے۔

٭٭٭

 

آب حیات

تہذیب نو کے عہد میں انسانیت کے ساتھ

انساں نے کیا سلوک کیا دیکھتے چلیں

                                                                                                            (حفیظ میرٹھی)

            زندگی کبھی کبھی کتنی خوشنما محسوس ہونے لگتی ہے۔جب انسان جو سوچے اور وہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ قابل رشک انسان کون ہو گا۔ عادل صدیقی بھی ایک ایسا ہی خوش قسمت انسان تھا اس نے بہت جلد اپنے خوابوں کی تعبیر پالی تھی۔ عادل نے اپنے جوش، اپنے جذبہ اور شوق کی آمیزش سے خلائی سائنس میں ڈگری حاصل کر لی تھی اور اب اس کا محض ایک خواب تھا کہ وہ خلاء میں پرواز کرے اور اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے سیارہ کی کھوج کرے۔

بچپن سے عادل نے ایلینس (Aliens)کی پرکشش اور پر اسرار کہانیاں پڑھی اور سنی تھیں۔ اس لیے ان سے ملنے کا بھی انھیں بڑا اشتیاق تھا۔ جانے کیوں اسے بڑا یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور کسی دوسرے سیارہ پر پہنچے گا۔اور وہاں کی مخلوق سے رابطہ   کر کے ان تمام مِتھکوں کو توڑ دے گا جو کہ ایلینس کی موجودگی کو سراب مانتے تھے۔ اور آج اسے وہ موقع اپنے بالکل سامنے کھڑا دکھائی دے رہا تھا۔عادل کو ناسا(NASA)نے خلا میں جانے کا موقع فراہم کر دیا تھا۔ وہ بے انتہا خوش ا ور مطمئن تھا۔

’’ابا…امی…کہاں ہو سب…‘‘ عادل کی مسرور آواز پر سبھی اس کے پاس دو ڑ پڑے۔

’’کیا ہوا…میاں …کیوں چیخ رہے ہو…‘‘ ابّا سدا کے بیزار لہجے میں گویا ہوئے۔وہ عادل کے خلا ئی سائنس کے شوق سے بہت بیزار رہتے تھے اور ہمیشہ کلپنا چاولا کے شٹل کرافٹ کے ایکسیڈینٹ کا رونا روکر عادل کو ہمیشہ مایوس کر تے رہتے تھے۔

ہمیشہ کی طرح ابا کی کرخت آواز پر دھیان نہ دیتے ہوئے عادل امی سے لپٹ گیا اور انھیں خوش خبری سنائی۔ پھر تو سبھی اچھل پڑے لیکن انجانے خوف نے انھیں اندر ہی اندر ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بیٹے کی خوشی کا خیال کر کے سب نے دلوں کو سمجھا لیا تھا۔ لیکن ابّا اب بھی عادل کو خلا میں نہ جانے کے لیے منا رہے تھے۔ اچانک اخبار اور ٹی وی چینلوں کے رپورٹروں نے جب عادل کو آ گھیرا تو سب نے خوشی خوشی انٹرویو دینے شروع کر دیئے۔

عادل کو زمین سے روانہ ہوئے تقریباً ۸ گھنٹے ہو چکے تھے اور وہ اب خلا میں چکر لگا رہا تھا۔ دھیرے دھیرے عادل کا خلائی طیارہ اپنی منزل ’’مشن ٹو مارش‘‘ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ عادل دل ہی دل میں بے حد خوش تھا اسے خلا کے نادر نظارے کرنے کا موقع جو مل گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ خلا سے زمین بھی کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہے۔ اور ہندوستان کیسا لگ رہا تھا ؟عادل نے بھی دل میں سوچا کہ راکیش شرمانے کہا تھا ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اور یقیناً وہ بھی کچھ ایسا ہی کہتا۔ ابھی وہ اور کچھ سوچ پاتا کہ اچانک طیارے کا رخ تبدیل ہو گیا۔زمین سے طیارے کا رشتہ منقطع ہو گیا تھا اور طیارہ بہت تیز رفتار سے ایک چمک دار گولے کی طرف بڑھ رہا تھا۔عادل گھبرا اٹھا اس نے اور اس کی ٹیم کے تمام لوگوں نے زمین سے رابطہ بحال کرنے اور واپس اپنی راہ پر طیارہ کو لوٹانے کی کوشش کی لیکن سب بیکار ہو گئیں۔عادل کا طیارہ دھند اور غبار کے بادلوں کو چیرتا چمکدار گولے میں سما گیا تھا۔

٭

عادل نے اپنے چہرے پر کسی جاندار چیز کا لمس محسوس کیا تو اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔آنکھیں کھولتے ہی اس کی حیرت کی کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

’’ت…تم…کون ہو‘‘ ۔عادل نے سامنے کھڑی ایک بے حد حسین دوشیزہ سے پوچھا جو کہ اس پر جھکی ہوئی تھی اور عادل کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ اسے چھو کر لے رہی تھی۔

دوشیزہ کے لب بدبدائے۔لیکن عادل نہ سمجھ سکا کہ اس حسین و جمیل دوشیزہ نے کیا کہا۔

عادل نے پھر پوچھا ’’تم کون ہو لڑکی‘‘

اچانک لڑکی نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک آلہ نکال کر اس کے کچھ بٹن دبائے اور اس کے ہیڈ فون کو کانوں سے لگا لیا۔

’’اوہ…ڈیر…تم زمین (Earth)سے آئے ہو۔‘‘ دوشیزہ نے بڑی مدہوش کر دینے والی آواز میں کہا جسے عادل نے صاف  طور پر سنا۔

’’کیا مطلب ہے تمہارا …اور یہ جگہ کون سی ہے ‘‘ عادل نے دوشیزہ سے ایک اور سوال کر دیا۔

’’مائی ڈیر …یہ زمین سے دس کروڑ پرکاش ورش دور…کوثر سیارہ ہے۔ اور تم یقیناً زمین کے واسی ہو۔‘‘ دوشیزہ کی گھنگھرو بجاتی آواز پھر عادل کی سماعت سے ٹکرائی۔

’’لیکن میں یہاں کیسے آ پہنچا…‘‘ عادل چونکا۔

’’تم تو مارش پر جا رہے تھے نہ۔‘‘ دوشیزہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’ہاں … لیکن تمھیں یہ سب کیسے پتا۔‘‘ عادل حیران تھا۔

دوشیزہ پھر ہنسی۔’’ہمارا سیارہ ترقی کے معاملے میں زمین سے سیکڑوں سال آگے ہے۔‘‘

’’اوہ…‘‘ عادل نے گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ یقیناً یہاں کی ترقی بہت آگے تھی۔  اس نے دیکھا کہ آسمان میں ہیلی کوپٹر اور ہوائی جہاز ایسے اڑ رہے تھے جیسے دہلی کی سڑکوں پر کاریں دوڑتی ہیں ،۔ چاروں طرف ہریالی تھی اور اونچی  اونچی بلڈنگوں کی جگہ بہت دور دور بنگلہ نما مکان تھے۔ عادل نے یہ بھی محسوس کیا کہ یہ ہریالی کچھ مصنوعی سی لگ رہی ہے اور دہلی جیسی بھیڑ بھاڑ بھی یہاں نہیں ہے۔

’’یہاں کی ہریالی مصنوعی سی کیوں لگ رہی ہے‘‘ عادل نے دوشیزہ سے پوچھا۔

دوشیزہ نے بڑی سرد آہ بھری اور درد بھری آوا زمیں کہا۔’’دراصل ہمارے سیارہ کی مخلوق نے ترقی تو بہت کی لیکن ترقی کی دوڑ میں اس نے قدرت کو بالکل ہی فراموش کر دیا تھا۔ جس کے سبب یہاں کی زندگی بھی مصنوعی سی بن کر رہ گئی ہے۔‘‘

اچانک دوشیزہ نے کہا۔’’تمہارا نام عادل صدیقی ہے اور تم زمین کے ایک ملک ہندوستان سے آئے ہو۔‘‘ دوشیزہ کی معلومات پر عادل کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔دوشیزہ نے پھر اپنا تعارف کرایا۔’’میرا نام عدینہ ہے اور میں اس سیارے کی راجکماری ہوں۔ تم اب ہمارے شاہی مہمان ہو ‘‘ عدینہ نے کہا۔’’اب ہم شاہی محل چلتے ہیں ‘‘ عدینہ نے کہا اور اپنے ایک ہاتھ سے عادل کا بازو تھاما اور دوسرے ہا تھ پر لگی خوبصورت گھڑی کے ایک بٹن کو دبا دیا۔ اگلے ہی پل دونوں شاہی محل کے مہمان خانے میں تھے۔

’’تم یہاں آرام کرو۔میں تمہارے لیے کھانا بھجواتی ہوں۔ ‘‘  عدینہ جانے لگی تو عادل نے کہا’’ سنئے…میں نہانا چاہتا ہوں۔ ‘‘  عدینہ نے باتھ روم کی طرف اشارہ کیا اور بولی ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو یہاں پانی کی جگہ گرین کیمیکل سے نہانا پڑے گا۔‘‘ عدینہ کی بات سے عادل بڑا حیران تھا۔ وہ خوبصورت باتھ روم میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ وہاں چند بٹنوں کے علاوہ نہ کہیں ٹونٹی تھی اور نہ ہی شاور ۔وہ جیسے ہی کپڑے اتار کر آگے بڑھا اچانک اسے اپنے اوپر نرم و نازک پانی جیسی کوئی چیز گرنے کا احساس ہوا اس کا رنگ ہرا تھا۔

عادل نے ایک دم خود کو فریش محسوس کیا۔گرین کیمیکل خود بہ خود نکلنا بند ہو چکا تھا۔ عادل نے صفائی کے لیے تولیا کے بارے میں سوچا تو اچانک اسے ہلکی گرم ہوا جسم پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی اور چند سیکنڈ میں ہی وہ سوکھ چکا تھا۔

عادل باتھ روم سے باہر نکلا تو عدینہ اس کے انتظار میں صوفے پر دراز تھی۔ اسے آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی۔

عادل نے پہلی مرتبہ عدینہ کو غور سے دیکھا۔ درمیانہ قد، لب جیسے گلاب کی پنکھڑی، ستواں ناک، پرکشش نقشہ اور ہرنی جیسی آنکھیں ،چہرے کا رنگ سرخ سپید،بالکل کسی حور کی طرح تھی عدینہ۔ لمبے گاؤن نما کپڑے جس پر بے حد باریک کام تھا جو کہ چاندی جیسی چمک بکھیر رہا تھا۔لباس نے عدینہ کی خوبصورتی کو دوبالا کر دیا تھا۔ لیکن عادل نے محسوس کیا کہ اس کے چہرے پر شادابی نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ اتنے حسین پیکر میں یہ نقص کیوں رہ گیا۔

عادل بھی تقریباً ۲۶ برس کا خوش رو نوجوان تھا۔ لمبا قد چوڑی پیشانی ،مضبوط بازو اور ہلکی سانولی رنگت اسے جاذب پیکر عطا کرتے تھے۔ دونوں نے ساتھ کھانا کھایا اور پھر کچھ دیر آرام کرنے کی نصیحت کر کے عدینہ چلی گئی۔

عادل نرم بستر پر  لیٹ گیا۔ اس کے دماغ میں بہت سے سوال گھوم رہے تھے ’’آخر اس سیارہ نے اتنی ترقی کی لیکن سب کچھ نقلی سا کیوں لگ رہا ہے۔کہیں کوئی تازگی کا احساس نہیں۔‘‘ عادل سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ عادل سوچوں میں گم کب سوگیا اسے پتہ ہی نہ لگا۔

عادل جب جاگا تو اسے شدید پیاس لگی۔ اس نے کمرے میں چاروں طرف نگاہ دوڑائی کہ کہیں پانی رکھا ہو لیکن اسے کہیں پانی دکھائی نہ دیا۔ ابھی وہ عدینہ کو بلانے کے بارے میں سوچ ہی  رہا تھا کہ اچانک عدینہ کمرے میں داخل ہوئی۔

’’لگتا ہے آپ کو پیاس لگی ہے۔‘‘ عدینہ نے پوچھا۔

’’ہاں کیا ایک گلاس پانی مل سکتا ہے۔‘‘

’’نہیں مائی ڈیئر ایک گلاس تو چھوڑو ایک بوند بھی نہیں مل سکتا۔ ‘‘ عدینہ نے مایوسی سے کہا۔’’لو یہ گلابی شربت ہے یہ تمہاری پیاس بجھا دے گا۔‘‘ عدینہ نے ایک گلابی شربت سے بھرا گلاس عادل کے ہاتھ میں دے دیا۔

عادل ایک ہی گھونٹ میں پورا گلاس خالی کر گیا۔ لیکن اس کی پیاس نہیں بجھی۔ اس نے ایک ایک کر کے کئی گلاس شربت پیا مگر اس کی پیاس پوری طرح نہیں بجھی۔

’’پلیزمجھے ایک گلاس پانی دو۔‘‘ عادل نے عدینہ سے وِنتی کی۔

’’کاش کہ میں تمہارے لیے پانی لا سکتی۔‘‘ عدینہ نے عادل کا  ہاتھ پکڑ کر بڑے مایوس انداز میں کہا۔

’’کیا تمہارے سیارے پر پانی نہیں ہے۔‘‘ عادل نے پوچھا۔پانی کی طلب سے اس کا برا حال تھا اور اس کا گلا ابھی بھی خشک ہو رہا تھا۔

’’ہمارا سیارہ بھی تمہاری زمین کی طرح کبھی بڑا ہرابھرا تھا۔یہاں جھیلیں ،تالاب اور ندیاں بھی تھیں اور سمندر بھی۔ زمین کی طرح یہاں بھی حسین موسم ہوتے تھے۔ لیکن ہمارے بزرگوں کی غلطی کا خمیازہ ہماری نسل کو بھگتنا پڑ ر ہا ہے۔ ‘‘ عدینہ کی بات ختم ہوئی لیکن عادل کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔

’’کیا غلطی کی تمہارے بزرگوں نے ‘‘ عادل نے دریافت کیا۔

’’ہمارے بزرگوں نے ترقی کے ایسے ایسے خواب دیکھے کہ ہمارا سیارہ ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ گیا کہ تمام آکاش گنگاؤں میں ہمارے برابر ترقی یافتہ کوئی سیارہ نہیں ہے۔یہاں تک کہ ہمارے سیارے کی مخلوق اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ وہ اب دور دراز کے سیاروں پر جا کر رہائش اختیار کرنے لگی ہے۔ تمہاری زمین پر بھی ہمارے بہت سے سائنسداں جا چکے ہیں۔اور تم لوگ انھیں ایلینس بلاتے ہو ‘‘ ۔عدینہ کی باتوں کاعادل پر بڑا اثر ہوا۔

’’لیکن تمہارے اتنے ترقی یافتہ ہونے پر یہ بات سوالیہ نشان نہیں لگاتی کہ تم اپنے مہمان کو ایک گلاس پانی بھی مہیا نہیں کر سکتیں۔ حالانکہ تم نے بڑی بڑی سہولیات میری مہمان نوازی میں مہیا کی ہیں۔‘‘

عادل کے دل کی بات عدینہ کے دل کو چبھی تھی۔وہ دل برداشتہ ہو کر بولی۔

’’کیا تمہیں واقعی پانی کی اتنی زیادہ ضرورت ہے۔ ‘‘

’’ہاں …تم نہیں سمجھتی لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر جلد مجھے پانی نہ ملا تو میں اپنی تمام تر توانائی کھو بیٹھوں گا۔‘‘ عادل بیقراری کے عالم میں بولا۔

’’ٹھیک ہے میرے ساتھ آؤ ‘‘ عدینہ نے عادل کی کلائی پکڑی اور اپنی گھڑی کاگرین بٹن دبایا۔

اگلے ہی پل وہ دونوں ایک اسٹیڈیم میں تھے جہاں کافی تماشائی جمع تھے۔ بیچ اسٹیڈیم میں گول گھیرے میں دوڑنے کا میدان بنایا گیا تھا جس میں تقریباً ۱۰۰ سے بھی زائد لوگ دوڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔

’’یہ کیا جگہ ہے اور مجھے یہاں کیوں لائی ہو‘‘

’’یہ ہمارے سیارہ کا وسیع وعریض اسٹیڈیم ہے جس میں ہر سال آج ہی کے دن ایک خاص قسم کامقابلہ ہوتا ہے اور اسے جیتنے والے شخص کو ملتا ہے وہ سامنے رکھا انعام۔‘‘ عدینہ نے اپنے سامنے رکھے ایک شیشے کے جار کی طرف اشارہ کیا۔

’’اس میں کیا ہے‘‘ عادل نے پوچھا

’’آب حیات‘‘

’’کیا‘

’’ہاں اس جار میں آب حیات ہے ‘‘ عدینہ نے عادل کو معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔‘‘ کیا تم اسے حاصل کرنا چاہو گے۔

عدینہ کے چیلنج پر عادل کی مردانگی میں ابال آ گیا۔

’’کیوں نہیں ڈیئر۔‘‘ عادل نے اچانک کچھ یاد کرتے ہوئے کہا ’’لیکن پانی…‘‘

’’ہمارے سیارے پر ہر سہولت اور ہر اشیاء موجود ہے جو کسی بھی آکاش گنگا میں پائی جاتی ہو گی۔ لیکن ہمارے بزرگوں نے ترقی کی اندھی خواہش میں نہ صرف کنکریٹ کے جنگل کھڑے کیے بلکہ تالاب پاٹ ڈالے ،ہرے بھرے پیڑ کاٹ ڈالے اور یہاں تک قدرت کے ساتھ دشمنی کی کہ سیارے کی آب و ہوا آلودہ ہو گئی پانی سوکھ گیا۔  ندی نالے ختم ہو گئے۔یہاں کی مخلوق پانی کی قلت سے تِل تِل کر مرنے لگی۔اور دیکھتے دیکھتے کنکریٹ کے جنگل سوٗنے ہوتے گئے۔ ‘‘ عدینہ شایدماضی کو سامنے دیکھ رہی تھی اس لیے اس کی آنکھوں میں سے چند قطرے بہہ گئے۔ لیکن شاید وہ بھی آنسو نہیں تھے کوئی نیلا کیمیکل ہی تھا۔

عادل کو اچانک یاد آیا کہ خود اس کے شہر میں بھی توپانی کی قلت ہونے لگی تھی۔ اس کے باوجود اسے نالیوں میں بہانے میں لوگ جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اس کا شہر بھی تو کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے کہیں اس کا سیارہ بھی تو اس سیارہ کی طرح پانی سے محروم نہ ہو جائے گا۔

دوڑ شروع ہونے کی سیٹی بج چکی تھی۔ عادل بھی میدان میں اتر چکا تھا۔ تمام دیگر امیدوار اس کی جسمانی قوت کو دیکھ کر ہراساں ہو رہے تھے۔سیارہ کے دیگر امیدواروں کے جسم ظاہری طور پر تو طاقت ور لگ رہے تھے لیکن حرکات سے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ انسان نہیں کوئی مصنوعی روبوٹ ہیں۔ عادل نے دوڑشروع کی یہ تقریباً پانچ میل فاصلے کے برابر کی دوڑ تھی۔

عادل نے جب زمین سے مارش سیارہ کا سفر شروع کیا تھا اس سے قبل ہی اسے بڑی سخت ٹریننگ دی گئی تھی۔اسی ٹریننگ کی بنیاد پر عادل دوڑ میں شریک ہوا تھا۔ پانچ میل کی مسافت طے کرنے کے درمیان بہت سی رکاوٹیں بھی حائل تھیں۔ جن سے پار پانے میں عادل کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ اب دوڑ کے آخری مرحلہ میں تھا۔لیکن طویل مسافت اور پیاس کی شدت نے اسے بے چین کر دیا تھا۔اس کے قدم لڑکھڑانے لگے تھے۔

عدینہ عادل کو مسلسل جوش دلا رہی تھی۔ عادل جب مشکل سے پانچ میٹر کے فاصلے پر تھا تو اسے لگا کہ وہ اب اور نہیں دوڑ سکے گا۔تبھی عدینہ کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

’’دوڑو عادل …اب تم جیت چکے ہو …آب حیات تمہاری پہنچ میں آچکا ہے۔‘‘

عادل نے اپنی تمام تر قوت کو جمع کیا اور وہ پانچ میل کی لائن کراس کرتے ہی گر پڑا۔

عادل جیت چکا تھا لیکن اس کی تمام تر توانائی صرف ہو چکی تھی۔ عدینہ نے اسے اٹھایا اور ’’آب حیات ‘‘ کا جار اسے سونپ دیا۔

’’پانی…پلیز مجھے پانی چاہیے۔‘‘ عادل نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے عدینہ سے کہا۔

عدینہ نے جار کا منھ کھولا اور اسے عادل کے منھ میں دے دیا عادل جی بھر کے سیراب ہوا۔ اسے لگا کہ آب حیات نے اسے دوسری زندگی دے دی ہے۔

’’عدینہ یہ آب حیات کون سا کیمیکل ہے۔‘‘

’’یہ تمہاری زمین کا پانی ہے عادل جسے ایلینس تمہاری زمین سے لے کر آتے ہیں۔کیوں کہ ہمارے سیارے پر پانی ختم ہو چکا ہے۔جسے پانی کی خواہش ہوتی ہے اسے اس سخت مقابلے سے گزرنا پڑتا ہے جس میں کئی لوگ اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں۔ ‘‘

عادل عدینہ کامنھ تکتا رہ گیا۔ اس نے سوچا ’’تو کیا وہ اتنی سخت مشقت محض ایک جارپانی کے لیے کر رہا تھا۔‘‘ اسے پھر دھیان آیا کہ اگر زمین کے لوگ بھی پانی کو یوں ہی ضائع کرتے رہے اور قدرت سے مذاق بند نہ کیا تو خود ان کا سیارہ بھی پانی جیسی نعمت سے محروم ہو جائے گا۔‘‘

’’نہیں نہیں وہ زمین کے لوگوں کو اس سیارے کے حوالے سے خبردار کرے گا۔‘‘ عادل نے سوچا۔

’’عادل اگر تم اپنے سیارہ کے لوگوں کو بیدا رکردوگے تو ہمارے ایلینس وہاں سے پانی نہیں لا پائیں گے۔‘‘ عدینہ نے عادل کے خیالات کو پڑھ لیا تھا۔ اس نے مزید کہا ’’اس لیے اب تم واپس نہیں جاپاؤ گے زمین پر۔‘‘

’’نہیں عدینہ پلیز مجھے واپس جانے دو۔ ورنہ تمہارے سیارے کی طرح میری پیاری زمین بھی پانی سے محروم ہو جائے گی۔ ‘‘ عادل کے گڑگڑانے کا بھی عدینہ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ عدینہ نے عادل کی کلائی پکڑی اور واپسی کا ریڈ بٹن دبا دیا۔

٭٭٭

 

آنر کلنگ

خود اپنی پستیٔ اخلاق کو نہ دیکھ سکا

جو آج اوج ثریا پہ ڈالتا ہے کمند!

                                                                                    (ابوالمجاہد زاہدؔ)

ارشد خاں اور بختاور خاں اکبر پور گاؤں کے سابقہ زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں بھائی قد  و قامت کے اعتبار سے جہاں مساوی تھے وہیں مزاج اور اخلاق کے معاملے میں دونوں میں کوئی مطابقت نہیں تھی۔ جہاں ارشد خاں بے حد نرم گفتار اور مخلص انسان بطور مشہور تھے وہیں بختاور اپنے بداخلاق اور بد مزاج انداز کے لیے مشہور تھے۔اسی طرح ان کی بیویاں بھی مزاج اخلاق کے معاملے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔ارشد خان کی بیوی شاہین بیگم خوش اخلاق ،نرم دل اور بے حد  محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ ارشد خاں اور شاہین بیگم کی اکلوتی اولاد منیرا تھی جو کہ  انٹر میڈیٹ کی طالبہ تھی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ جب کہ بختاور خاں کی شادی چند ماہ قبل ہی ہوئی تھی ان کی بیوی طاہرہ بلا کی منہ پھٹ اور حسد رکھنے والی عورت تھی۔ وہ بظاہر تو سبھی سے بہت اخلاق سے پیش آتی لیکن اندر ہی اندر حسد میں گھلتی رہتی تھی۔باتوں کا ہنر وہ خوب جانتی تھی۔ بختاور خاں اس کی شوخ اداؤں اور لچھے دار باتوں میں کچھ اس قدر کھوئے ہوئے تھے کہ انھیں اس کی بدکلامی بھی شیریں معلوم ہوتی تھی۔

منیرا طاہرہ کی باتوں سے بہت لطف اندوز ہوتی تھی اس کا جب دل کرتا بختاور خاں کے گھر پہنچ جاتی جو کہ گاؤں سے شہر جانے والے راستہ پر واقع تھا اور منیرا کے اسکول کے راستے میں ہی پڑتا تھا۔

’’طاہرہ چچی…طاہرہ چچی…ارے کہاں ہو بھئی۔‘‘ منیرا آج اسکول سے آتے ہوئے بختاور خاں کے گھر چلی آئی تھی۔ بختاور خاں تو کھیتوں پر گئے ہوئے تھے۔ منیرا اس سے بہت ڈرتی تھی اس لیے وہ چچا کی عدم موجودگی میں ہی طاہرہ سے ملنے آتی تھی۔

’’کہاں چھپی ہو چچی‘‘

’’آئی …بنو…ابھی آئی۔‘‘ طاہرہ کی عجلت بھری آواز پر منیرا چونکی۔وہ آواز کی سمت میں مزید آگے بڑھی اور سیدھے طاہرہ کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ تبھی کوئی بھاگتے ہوئے اس کے کمرے کے پچھلے دروازے سے نکلا۔ جب کہ طاہرہ اپنے است ویست کپڑے درست کرتی جلدی سے دروازہ پر آئی۔

’’چچی یہ ابھی کون بھاگا ہے۔‘‘

’کک…کوئی نہیں بنو…یہاں تو کوئی بھی نہیں۔‘‘ طاہرہ گھبرا گئی۔اسے کاٹو تو خون نہیں۔

’’ارے یہ تو کلو سیفی کا لڑکا تھا نہ ملّن‘‘ منیرا نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا تو طاہرہ خوف زدہ ہو گئی۔

’’نہیں بیٹا…یہاں کوئی نہیں تھا…تمھیں دھوکہ ہوا ہے۔‘‘

’’مگر چچی…میں نے …‘‘

’’اچھا یہ بتاؤ تمہار اس وقت کیسے آنا ہوا۔ ‘‘ طاہرہ نے فوراً بات بدلی۔

’’وہ میں آپ سے ایک ساڑی لینے آئی تھی۔‘‘ منیرا نادان فوراً طاہرہ کی باتوں میں الجھ گئی۔

’’ہاں …آؤ…دیتی ہوں نا‘‘ ۔ طاہرہ فورا ً تیار ہو گئی۔

منیرا کو بڑی حیرانی ہوئی۔چچی آج ایک دم کیسے ساڑی دینے تیار ہو گئیں۔ ورنہ تو وہ بہت کہنے پر بھی کچھ دینے کو تیار نہ ہوتی تھیں۔

’’کیا واقعی آپ…مجھے …یہ فریشر پارٹی میں پہننی ہے۔‘‘ منیرا نے حیران ہوتے ہوئے بتایا۔

’’لے لو بنّو رانی …جو پسند آئے لے جاؤ۔ طاہرہ نے خلاف توقع اس کے لیے پوری الماری کھول دی۔

منیرا نے فوراً موقع کا فائدہ اٹھانا غنیمت جانا اور ایک نیلے رنگ کی ساڑی منتخب کر لی۔دراصل منیرا اور طاہرہ کی عمروں میں زیادہ فرق نہ تھا اور قد کاٹھی بھی تقریباً ایک ہی تھی۔

’’یہ لو اور جلدی گھر جاؤ تمہاری امی تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں گی۔ ‘‘ طاہرہ نے اسے جلدی ٹالنے کی کوشش کی۔منیرا بھی خوشی خوشی جلد طاہرہ کے گھر سے نکل گئی۔

’’آ جاؤ …ملن ڈیر…آفت جا چکی۔‘‘

’’شکر ہے بلا ٹلی …آ ج تو مر ہی گئے تھے جانم۔‘‘ ملن نے طاہرہ کو بانہوں میں بھر لیا۔

٭

منیرا آج جب کالج سے واپس لوٹی تو طاہرہ اس کی امّی شاہین بیگم کے پاس بیٹھی باتوں میں مشغول تھی۔

’’سلام طاہرہ چچی‘‘ ۔منیرا نے شرارتی انداز میں سلام کیا تو طاہرہ کا موڈ آف ہو گیا۔ اسے لگا کہ منیرا اس پر طنز کر رہی ہے۔ طاہرہ کا موڈ آف ہوتا دیکھ شاہین بیگم نے منیرا کو جھڑک دیا۔

’’چلو اوپر جاؤ …تمیز نہیں تمہیں منیرا…بڑوں سے ایسے کلام کرتے ہیں۔‘‘

’’اب اوپر جاؤ اور چائے بنا کر لاؤ چچی کے لیے۔‘‘

طاہرہ کے سامنے اپنی انسلٹ سے منیرا بھی خفا ہو گئی اور پیر پٹختی ہوئی اندر چلی گئی۔

’’دیکھا بھابھی …منیرا کے بھی اب پر نکلنے لگے ہیں۔ اسے ذرا قید کر کے رکھیے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ ‘‘ طاہرہ نے بھڑاس نکالی۔

طاہرہ کے کہنے پر شاہین بیگم کو بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ انھیں طاہرہ کی بات بے حد ناگوار گزری تھی لیکن وہ خاموش رہیں۔ سچ تو یہ تھا کہ وہ بھی منیرا کی جوانی سے متفکر ہونے لگی تھیں۔ انھیں منیرا پر تو بڑا اعتماد تھا لیکن وہ زمانے سے بہت ڈرتی تھیں۔ اب طاہرہ کی باتوں نے اور ان کے دل میں پھانس چبھو دی تھی۔

اور پھر وہ دن آہی گیا جس سے شاہین بیگم خوف کھاتی تھیں۔

گاؤں کے کئی لوگوں نے کالج سے لوٹتی منیرا کی بختاور خاں کے مکان کے قریب ملن سے باتیں کرتے دیکھا تھا اور اس کی شکایت بہ ذریعہ طاہرہ ارشد خاں کے گوش گزار ہوئی تھی۔

’’ارے تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے طاہرہ…منیرا بہت اچھی لڑکی ہے۔‘‘ ارشد خاں نے طاہرہ کو ٹالتے ہوئے کہا۔ لیکن طاہرہ کہاں ماننے والی تھی۔

’’آپ غفلت برت رہے ہیں بھائی صاحب۔ اس کا انجام بہت برا ہو سکتا ہے۔ ‘‘ طاہرہ نے پر شکوہ انداز میں کہا اور پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔

’’میں منیرا کو سمجھا دوں گا۔ تم پریشان نہ ہو۔‘‘ ارشد خاں کے یہ جملے طاہرہ نے سنے ہی نہیں۔

’’منیرا …بیٹی…تم ملن سے کیا بات کر رہی تھیں۔‘‘ شاہین بیگم نے منیرا سے پیار سے پوچھا تو وہ چونکے بغیر نہ رہ سکی۔

’’امی وہ بختاور چچا کے گھر میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں نے اسے منع کیا کہ بختاور چچا نہیں ہیں۔ ‘‘ منیرا نے بڑی معصومیت سے کہا۔

’’بس…‘‘

’’ہاں اور پھر وہ وہاں سے بھاگ گیا۔‘‘

’’چلو ٹھیک ہے بیٹا…لیکن اب تم اس کے منھ مت لگنا…زمانہ بہت خراب ہے بیٹی…‘‘ ماں نے بیٹی کو سمجھانا چاہا لیکن منیرا کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ شاید وہ ابھی ایسی باتیں سمجھنے کی اہل نہیں ہوئی تھی۔

اور پھر ایک دن منیرا کالج سے گھر آتے وقت غائب ہو گئی تھی۔ ارشد خاں اور شاہین بیگم بیٹی کی جدائی اور زمانے میں ہوئی فضیحت سے بے خد غمزدہ تھے۔

’’بھائی صاحب منیرا نے تو ہمیں منھ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔‘‘ طاہرہ زہر اگلنے ارشد خاں کے گھر آ دھمکی۔ جانے کیوں اسے منیرا سے بلا کا بیر ہو گیا تھا۔

’’میں نے تو آپ کو خبردار بھی کیا لیکن آپ نے ایک نہ سنی میری۔‘‘ طاہرہ ہاتھ نچا نچا کر ارشد خاں کو غیر ت دلا رہی تھی۔

’’ضرور وہ ملن کو بھگا لے گئی ہے۔‘‘ طاہرہ نے جیسے بم پھوڑا ہو۔

’’نہیں …نہیں یہ نہیں ہو سکتا ‘‘ ۔ارشد خاں چیخ پڑے۔

’’کیا کمی چھوڑی تھی ہم نے منیرا کی پرورش میں جو اس نے ہمیں یہ دن دکھایا۔‘‘

شاہین بیگم بہت آبدیدہ ہو رہی تھیں۔

’’ارے نہیں بیگم منیرا تو بچی ہے اس کا کوئی قصور نہیں ہے وہ تو اس حرامزادے ملن نے اسے بہکادیا ہو گا۔‘‘ ارشد خاں بھی شاہین بیگم کی طرح غمزد ہ تھے لیکن انھیں بیٹی پر بہت بھروسہ تھا۔

’’لود یکھو تو صحیح…اپنی لونڈیا تو سنبھلی نہیں۔دوسرے کو گالی دیتے ہیں۔‘‘  طاہرہ نے ناک بھوں سکوڑی۔

تبھی ارشد خاں کے سامنے بختاور نے منیرا کو لا پٹکا۔

’’لو بھائی جان یہ رہی منیرا…اس کو ملن کی گاڑی سے خود اترتے دیکھا ہے میں نے۔‘‘

ارشد خاں کو کاٹو تو خون نہیں۔وہ بختاور کی بات پر کچھ بولنا چاہتے تھے لیکن ان کے لب جیسے سِل گئے تھے۔وہ بدبدا کر رہ گئے۔

’’اس  لڑکی نے تو سارے خاندان کی ناک کٹوا دی۔ ‘‘ طاہرہ نے شوہر کو مزید غصہ دلا دیا۔

’’نہیں چچا جان میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں تو جیسے کالج سے گھر کی طرف نکلی تو اچانک قریب آئی گاڑی کا دروازہ کھلا اور پتہ نہیں مجھے کسی نے اندر کھینچ لیا۔پھر کسی نے میرے منھ پر رومال رکھ دیا اور میں بے ہوش ہو…گئی۔‘‘ منیرا نے صفائی دینے کی کوشش کی۔

’’خاموش ‘‘ بختاور خاں خونی آنکھوں سے منیرا کو گھور رہے تھے۔

٭

’’بھائی صاحب رات کو چودھری نے برادری کی پنچایت بلائی ہے‘‘ بختاور خاں کی اطلاع پر ارشد خاں کادل مزید دھڑ ک اٹھا۔

’’کس لیے‘‘ ارشد خاں جان بوجھ کر انجان بن رہے تھے۔

’’منیرا کو سزا دینے کے لیے۔‘‘

’’لیکن منیرا بچی ہے اگر اسے کسی نے ورغلا بھی دیا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔‘‘ ارشد خاں نے مری آواز میں صدائے احتجاج بلند کرنی چاہی۔

’’چودھری کا کہنا ہے کہ برادری کی عزت کے لیے منیرا کو سزا دینی ہی ہو گی۔ ‘‘

بختاور کی باتوں نے ارشد خاں پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔ وہ خاموش بیٹھے خلا میں گھور رہے تھے۔بختاور خاں بھی بظاہر پریشان سے تھے۔ لیکن طاہرہ -اس کی طرف تو کسی کا دھیان نہیں تھا جو کہ چپکے چپکے مسکرا رہی تھی۔اس کے لبوں پر بڑی زہریلی مسکراہٹ تھی۔ جسے کوئی بھی محسوس نہیں کر سکا۔

٭

’’تو بس فیصلہ ہو گیا ارشد خاں۔‘‘ چودھری نے کھاٹ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ تو ارشد خاں کا جسم تھرتھرا گیا۔

’’رحم چودھری …رحم…بچی نادان ہے …میں اسے سمجھا دوں گا۔‘‘

’’نہیں چودھری اور برادری کا فیصلہ کبھی نہیں بدلتا۔‘‘

’’چودھری میں اپنی بیٹی کو لے کر اس گاؤں سے چلا جاؤں گا۔اس کی شادی کر دوں گا اور تمام واسطے تعلق ختم کر لوں گا…مگر اتنی بڑی سزا مت دو چودھری۔‘‘

’’نہیں ارشد خاں …اگر آج منیرا کو چھوڑا گیا تو برادری کی تمام لڑکیوں کے سر بے حیائی سے کھل جائیں گے اور سب کی سب غیر برادری کے لڑکوں سے جا ملیں گی۔تب ہم کسے منھ دکھانے لائق رہ جائیں گے۔‘‘

چودھری پر ارشد خاں کے مسلسل بہتے آنسوؤں کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔‘‘  ’’چپ چاپ گھر میں ہی معاملہ نپٹا دو…ورنہ ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔‘‘ حکم دے کر چودھری اور دیگر لوگ اٹھ کر چلے گئے۔

ارشد خاں پتھرائی آنکھوں سے دروازہ کو دیکھتے ہی رہ گئے۔

’’کیا انھیں خود ہی اپنی بیٹی کا گلا گھونٹنا ہو گا۔‘‘

ارشد خاں نے سوچا تو ان کی سبکی نکل گئی۔

’’نہیں نہیں وہ بھلا اپنی نازوں پلی اکلوتی اولاد کو اتنی سی بات کے لیے کیسے مار سکتے ہیں۔‘‘ ارشد خاں سوچتے سوچتے اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔

گھر پر شاہین بیگم ان کی منتظر تھیں۔بے صبری سے دروازہ پر ہی برادری کی پنچایت کا حال معلوم کرنے لگیں۔ ارشد خاں خاموش رہے۔

’’آپ کچھ بولتے کیوں نہیں۔‘‘

ارشد خاں کے خشک ہوئے آنسو ایک مرتبہ پھر بہہ نکلے۔

انھوں نے روتے ہوئے چودھری کا حکم شاہین بیگم کے گوش گزار کر دیا۔

’’نہیں …یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ شاہین بیگم پچھاڑ کھا کر گر پڑیں۔

ارشد خاں نے بمشکل تمام انھیں سنبھالا۔

’’چلو بیگم سامان باندھو…ہم لوگ اسی وقت گاؤں چھوڑ دیں گے۔‘‘

ابھی وہ تیاری کر ہی رہے تھے کہ طاہرہ اور بختاور خاں آ دھمکے۔

’’بھائی صاحب بھاگنے سے بدنامی کا داغ نہیں دھل سکتا۔‘‘ طاہرہ نے کہا تو ارشد خاں آبدیدہ ہو کر بولے۔

’’تو تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔‘‘ ارشد خاں کی چیخ سن کر منیرا اچانک کمرے سے نکل کر باہر آ گئی۔

’’کیا ہوا ابا…آپ کیوں رو رہے ہیں۔‘‘ وہ باپ کو چپ کرانے لگی۔

تبھی طاہرہ نے بختاور خاں کی طرف دیکھا۔آنکھوں آنکھوں میں اشارے ہوئے۔

بجلی کی سی تیزی سے بختاور خاں نے منیرا کو دبوچ لیا اور اسے لے کے برابر کے کمرے میں بند ہو گیا۔ اندر سے منیرا کی گھٹی گھٹی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔

ارشد خاں اور شاہین بیگم نے بری طرح دروازہ پیٹ ڈالا۔

’’چھوڑ دے ظالم …میری پھول سی بچی کو …شاہین بیگم چیختی رہ گئیں۔ لیکن وحشی چچا کا دل نہ پسیجا اس کے ہاتھ کی پکڑ منیرا کے گلے پر سخت ہوتی گئی۔

دھیرے دھیرے منیرا کی آوازیں آنی بند ہو گئیں اور سکوت چھا گیا۔

پھر دروازہ کھلا اور وحشی چچا باہر آیا۔ اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ دروازہ کھلتے ہی منیرا کے ماں باپ اندر دوڑے۔

’’جلاد تو نے میری بیٹی کو مار ڈالا‘‘ شاہین کی آواز پر منیرا نے بے حد مری سی آواز نکالی۔’’امی …ابا‘‘

’’میری بیٹی…‘‘

’’بڑی سخت جان ہے یہ تو ‘‘ طاہر ہ نے اپنے خاوند کو دیکھا جس پر وحشت سوار تھی۔

اس نے طاہرہ کی آنکھوں کی طرف دیکھا اور وہ اس کی جادوگری میں ایسا بدمست تھا کہ اچھے برے کا خیال نہ کر سکتا تھا۔

اس نے لاٹھی اٹھائی اور اسے منیرا کی گردن پر ٹھیک اس جگہ ٹکا دیا جہاں سے سانس کی نلی گزرتی تھی۔

’’گ…گوں …گو‘‘ منیرا کا دم گھٹنے لگا اور وہ بے دم ہو کر لڑھک گئی۔ ارشد خاں نے اس کی پلکیں بند کر دیں۔

’’خبر دار کسی سے مت کہنا کہ منیرا کے ساتھ کیا ہوا۔ اسے صبح تک دفنانے کا انتظام کرنا ہے …چلو طاہرہ‘‘ ارشد خاں دھمکا کر واپس جانے لگا۔

’’ارے او جلّاد سن…میں سب کو چیخ چیخ کر بتاؤں گی کہ میری بیٹی کا قتل تم دونوں نے کیا ہے۔ ‘‘

’’او…و‘‘ طاہرہ نے مڑ کر دیکھا۔اس کی آنکھیں سوچنے والے انداز میں گھومیں۔چندلمحے کو اسے لگا کہ جیسے اس کا جسم کانپ گیا لیکن وہ جلد نارمل ہو گئی اور خاوند کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکل گئی۔

صبح فجر کی نماز کے بعد منیرا کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔

ارشد خاں اور شاہین بیگم غمزدہ سے گھر کے باہر آنگن میں بیٹھے تھے کئی رشتہ دار بھی مغموم سے ان کے پاس موجود تھے تبھی پولس کی جیپ ان کے قریب آ کر کی۔

’’ارشد خاں اور شاہین بیگم کو اپنی بیٹی کو عزت کی خاطر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ ‘‘

’’لیکن یہ تو غلط ہے …‘‘ گاؤں کے پردھان نے مزاحمت کی۔

’’پردھان جی یہ آنر کلنگ کا معاملہ ہے۔خود ان کے بھائی بھابی گواہ ہیں کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو گلا گھونٹ کر مار ڈالا ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

امداد

تارا ٹوٹتے دیکھا سب نے یہ نہیں دیکھا ایک نے بھی

کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا کس کا سہارا ٹوٹا ہے

                                                                                    (آرزو لکھنوی)

’’یا اللہ …اب تو بارش روک دے ‘‘

’’میرے مالک… ہم پر رحم کر۔‘‘

تیز موسلا دھار بارش نے تین دن سے بجرنگ پور گاؤں پر ڈیرا جما رکھا تھا۔ کچے مکان کی ٹپکتی چھت کے نیچے مصلّا بچھائے عارف علی بارگاہ تعالیٰ میں دعا گوتھے۔ عارف علی پچاس سالک ے صحت مند کسان تھے اور ا پنی تھوڑی سی زمین میں کھیتی کر کے جیسے تیسے زندگی کا پہیا گھما رہے تھے۔محدود آمدنی کے سبب مکان کو پختہ کرانے کی قوت تو ان میں یوں بھی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی ہر سال برسات سے قبل ضرور سوچتے کہ اس بار خیریت سے برسات کا موسم نکل جائے تو مکان کو پختہ کرا لیں گے۔ لیکن بارش کا موسم ختم ہوتے ہی وہ دل سے کیا وعدہ بھول جاتے تھے۔

محض دو کمروں اور چھوٹے سے آنگن پر مشتمل عارف علی کا مکان گاؤں کے باہری طرف واقع تھا۔ تین دنوں سے ہو رہی بارش نے عارف علی کے مکان کا سخت امتحان لیا تھا۔ جہاں چھت بری طرح ٹپک رہی تھی وہیں دیواروں میں پانی گھس جانے سے ان کے بھر بھرا کر گرنے کا خطرہ  لاحق تھا۔ سیلن بھرے کمرے میں لکڑی کی چوکی پر جانماز بچھائے عارف علی یاد الٰہی میں مشغول تھے۔ تقریباً بارش کی رفتار سے ٹپکتی چھت کے نیچے خوفزدہ سا عارف علی کا بیٹا صدام بھی چارپائی پر بیٹھا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ جانے کب یہ مکان گر پڑے۔ لیکن وہ کرے بھی تو کرے کیا۔ یہ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا۔

’’میرے خدا …رحم کر…اس باران رحمت کو باعث زحمت نہ بنا۔‘‘ عارف علی مغموم سے دعائیں مانگے جا رہے تھے۔ تبھی باہر سے کچھ شور کی آوازیں سنائی پڑیں تو صدام گھر سے باہر دوڑ گیا۔

’’کیا ہوا پردھان جی‘‘ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اسے گاؤں پردھان دکھائی پڑ گئے تھے۔ ’’ارے بھائی ندی کا پانی اچانک تیزی سے چڑھنے لگا ہے اور جلد ہی پانی گھروں تک پہنچنے کا امکان ہے۔اس لیے علاقہ خالی کر کے …‘‘ ابھی پردھان کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ تیز دھماکے کی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔

٭

’’اے میرے رب…میرے گھر اور ہم سب کا تحفظ فرما۔‘‘ عارف علی کا دل اب اپنے خستہ حال مکان کو دیکھ کر ڈوبنے لگا تھا۔ انھوں نے دل ہی دل میں سوچا ’’اگر بارش رُکے تو چھت کی مرمت ہو سکتی ہے اور دیواروں پر پلاسٹر بھی۔ تب شاید انہدام کا خطرہ ٹل جائے۔ ‘‘ عارف علی دل ہی دل میں پھر دعا میں مشغول ہو گئے تھے۔و ہ دعاگو تھے کہ ’’کاش اللہ چھت مرمت کی مہلت دے دے۔‘‘ لیکن ہونی کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔

اچانک تیز بجلی چمکی اور بادلوں کی تیزی سے ہوئی گڑگڑاہٹ نے قہر برپا کر دیا۔ عارف علی کے مکان کی دیواریں اور چھت بھربھرا کر گر پڑی تھیں۔

تیز دھماکے کی آوا ز سن کر عارف علی کا لڑکا صدام اور پردھان تیزی سے عارف علی کے مکان کی طرف لپکے۔

’’ابّا…ابّا…اٹھو…ابّا‘‘ صدام نے دیکھا کہ عارف علی مکان کے ملبے میں بری طرح دب گئے ہیں۔ اس نے پردھان جی کی مدد سے ملبے سے نکالا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اچانک باہر سے بھی شور و غل سنائی پڑنے لگا تھا۔

’’لگتا ہے ندی کاپانی گھروں تک آ گیا ہے۔‘‘ ۔کہتے ہوئے پردھان جی فوراً باہر کی طرف لپکے۔

ٹھیک تبھی پانی کی لہر نے ان کے پا جامے کو گیلا کر دیا۔اب ان کے گھٹنے گھٹنے تک پانی چڑھ چکا تھا۔

’’باڑ ھ آ گئی …جلد گاؤں خالی کرو۔‘‘  پولس کی جیپ نے جیسے ہی لاؤڈاسپیکر پر اعلان کیا۔ گاؤں میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔ لوگ بے تحاشہ ادھر سے ادھر دوڑنے لگے۔

٭

’’منتری جی …کئی ضلعوں میں باڑھ سے بھاری تباہی ہوئی ہے آپ نے راحت پہنچانے کا کیا انتظام کیا ہے۔‘‘ ٹی وی چینل پر صوبے کے وزیر راحتی امور برائے قدرتی آفات سر اونچا کیے بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھے صحافیوں کی ٹولی مسلسل سوالوں کے گولے داغ رہی تھی۔

’’دیکھئے ہم نے فوری طور پر مکان بنوانے کا کام شروع کرایا ہے اور جلد اسپتال و اسکول کی تعمیر کے لیے رقم جاری کر دی جائے گی۔‘‘ وزیر موصوف نے جواب دیا۔

’’لیکن حکومت پر الزام لگ رہے ہیں کہ وہ راحت کے کام میں دیری کر رہی ہے اور باڑھ سے متاثر ہ افراد کو کھانا اور دوائیاں وغیرہ مہیا نہیں ہو پا رہی ہیں۔‘‘ ایک صحافی نے سوال داغا تو وزیر موصوف سنجیدہ ہو گئے۔

’’یہ مرکزی حکومت بے حد نکمی ہے ہم نے ان سے ۷۰۰ کروڑ روپئے کا مطالبہ کیا ہے لیکن وہ لوگ کان ہی نہیں دھر رہے ہیں۔

وزیر موصوف نے بھرائی آواز نکال کر رونے کا سا ناٹک شروع کر دیا۔

’’ہم اپنی بساط بھر ہر ممکنہ امداد فراہم کر رہے ہیں۔ جلد ہی مکانات تعمیر کرا کر باڑھ سے متاثرہ لوگوں کو رہنے کا انتظام کیا جائے گا۔ اور …‘‘

’’لیکن چار دن گزرنے کے باوجود بھی باڑھ سے متاثرہ علاقوں میں کوئی راحت کا کام کیوں شروع نہیں ہوا ہے۔‘‘ صحافی کے سوال پر وزیر موصوف کا موڈ بگڑ گیا۔  ’’کون کہتا ہے تمام ٹیمیں روانہ کر دی گئی ہیں۔‘‘

’’لیکن جناب لوگ تین دنوں سے بھوکے پیاسے حالات سے جوجھ رہے ہیں اور آپ کی طرف سے کھانے کے پیکٹ تک نہیں مہیا کرائے جا رہے ہیں۔‘‘ ایک صحافی نے قدرے خفگی کے ساتھ سوال کیا تو وزیر موصوف پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ اٹھ کھڑے ہوئے۔

’’ارے ہم کو ئی روبوٹ تو نہیں ہیں کہ پلک جھپکتے سب کام ہو جائیں۔‘‘

’’لیکن سر…‘‘

’’سنئے تو سر…‘‘

صحافیوں کی آواز پر دھیان نہ دیتے ہوئے وزیر موصوف گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔

٭

ٹی وی کے دوسرے چینل پر اپوزیشن لیڈر کا بیان چل رہا تھا۔

’’یہ حکومت بدعنوانیوں میں بری طرح ملوث ہے۔ یہ لوگ متاثرہ افراد کو کھانا دوائیاں مہیا کرانے کی جگہ تعمیری کاموں کو جلد کرانے پر زور دے رہے ہیں کیونکہ انھیں اس سے بھاری کمیشن ملنے کی امید ہے۔‘‘

’’جناب…میں پچھلے کئی دن سے آپ کے آفس کے چکر لگا رہا ہوں۔‘‘  دبلے پتلے سے نوجوان نے بڑے مہذب انداز میں کاؤنٹر کلرک سے کہا۔

’’کیوں چکر لگا رہے ہو میں کیا تمہاری دعوت کر کے آیا تھا۔‘‘ کلرک نے  روکھے پن سے کہا۔تو نوجوان کی آنکھوں کی چمک مدھم پڑ گئی۔

’’میں بجرنگ پور گاؤں سے آیا ہوں۔باڑھ کی وجہ سے کئی دنوں سے بھوکا ہوں۔ اگر حکومت سے جاری ہوئی امداد مل جاتی تو …‘‘

’’ارے لو…امداد ہے تو ملے گی کیوں نہیں …گھر جاؤ وہیں پہنچے گی۔‘‘

’’جناب اگر چار سو روپئے یہیں مل جاتے تو …‘‘ نوجوان نے التجا دی۔وہ چاہتا تھا کہ اگر امداد کی چارسو روپئے کی رقم اسے یہیں مل جاتی تو وہ کچھ راشن لے کر گھر چلا جاتا۔اس نے پھر التجا کرنی چاہی۔

’’جناب…مجھے …در اصل میرے باپ کا مکان گرنے سے انتقال …‘‘

’’ارے بھائی تم گھر پہنچو توصحیح…راحت مل جائے گی۔‘‘ کلرک نے دھتکارا۔

مایوس ہو کر نوجوان لڑکھڑاتے قدموں سے گھر لوٹ گیا۔یہ عارف علی کا بیٹا صدام تھا۔

کئی دن گزر گئے کہ شاید آج راحت کی رقم مل جائے لیکن اس کا انتظار ختم نہ ہو سکا۔ پھر ایک دن

’’کوئی گھر میں ہے کیا …‘‘ اچانک دروازے کی کنڈی کھڑکی تو صدام تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ پر پہنچا۔

’’حکومت نے آپ کو امداد بھیجی ہے۔‘‘ آنے والے شخص نے رجسٹر نکالتے ہوئے کہا۔

’’یہاں دستخط کر دو۔‘‘ صدام کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔ اس نے فوراً دستخط کر دیئے۔

’’یہ لو ساٹھ روپئے ‘‘

’’لیکن سرکار نے تو چار سو روپئے کا اعلان کیا ہے بھیا۔‘‘ عارف نے نوٹ پکڑتے ہوئے کہا۔

’’ارے تو راستہ میں خرچہ بھی تو ہوتا ہے۔میرے پاس تو ساٹھ روپئے فی آدمی راحت پہنچی ہے سو تمھیں دے رہا ہوں۔ ‘‘

نوجوان کی آنکھوں کی چمک فوراً غائب ہو گئی۔

’’سنو…دوست…کچھ انعام نہ دو گے کیا۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں صدام سے کہا۔

’’انعام‘‘ صدام حیران ہوا۔

اچانک اس کا چہرہ سخت ہو گیا اور اس نے بے حد زہریلے انداز میں کہا ’’یہ لو انعام‘‘ صدام نے مٹھی میں پکڑے ساٹھ روپئے اس شخص کے ہاتھ میں ٹھونس دیئے اور بے حد حقارت کی نگاہ ڈالتا گھر کے اندر چلا گیا۔

٭٭٭

 

زلزلہ

بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں

کچھ باغباں ہیں برق و شر ر سے ملے ہوئے

                                                                                    (ساغر صدیقی)

’’دھڑ…دھڑ…‘‘

مسلسل دروازہ پیٹے جانے سے اکبر کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

’’یا خدا رحم…اتنی رات کون آ گیا‘‘ اکبر نے گھڑی دیکھی رات کا ایک بجا تھا۔‘‘ اس وقت کون ہو سکتا ہے ‘‘ اس نے سوچا اور بستر سے اتر کر دروازہ تک آیا۔

’’کون ہے ‘‘  اس نے آواز لگائی۔

’’جلدی دروازہ کھولو۔‘‘ اکبر نے آواز پہچان لی۔’’فراز بھائی کیا ہوا‘‘  اکبر نے دروازہ کھولتے ہوئے اپنے چچا زاد بھائی فراز سے دریافت کیا۔

’’جلدی سب لوگ باہر نکلو ‘‘ فراز بھائی اپنے دو سال کے بچے کو سینے سے چپٹائے اندر آئے۔

’’لیکن کیوں ‘‘ اکبر نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’زلزلہ آنے والا ہے۔‘‘

’’کیا‘‘

’’ہاں رات دو بجے خطرناک زلزلہ آنے والا ہے۔ ‘‘

’’ارے لیکن یہ کیسے پتہ کہ زلزلہ آنے والا ہے۔ ‘‘

’’مساجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اذانیں دی جا رہی ہیں اور اعلان ہو رہا ہے۔ جلدی کرو دونوں بچوں کو لو اور باہر نکلو۔‘‘ فراز بھائی عجلت میں تھے۔

تبھی اکبر نے لاؤڈ اسپیکر کی آواز سنی جس پر رات دو بجے زلزلہ آنے اور ہوشیار رہنے کی تاکید کے ساتھ کھلے میدان میں جمع ہو کر دعائیں کرنے کی اپیل کی جا رہی تھی۔اکبر کے موبائل کی گھنٹی بھی بج اٹھی۔

’’ہیلو اکبر بھائی آپ لوگ فوراً بچوں اور بھابھی کو لے کر مکان سے باہر نکل جائیں۔ ‘‘ یہ اکبر کی بہن نرگس تھی جوکہ اپنے خاوند کے کہنے پر اکبر کو باخبر کر رہی تھی۔

’’لیکن یہ خبر ملی کہاں سے ہے ‘‘ اکبر حیران تھا۔

’’باہر نکل کر دیکھئے بھائی جان پورا شہر جاگ رہا ہے اور سب ایک دوسرے کو مطلع کر رہے ہیں۔‘‘

تبھی ایک ساتھ کئی لاؤڈ اسپیکروں پر زلزلہ آنے کی اطلاع پھر سنائی پڑی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ ابھی وہ کچھ سوچتا تبھی کئی موٹر سائیکلوں کے دوڑنے کی آوازیں اسے سنائی پڑیں۔ کئی نوجوان پر جوش انداز میں زلزلہ آنے کی اطلاع دیتے گھوم رہے تھے۔

’’فراز بھائی کچھ نہیں ہونے والا۔ابھی تک کوئی ایسی تکنیک ایجاد نہیں ہوئی ہے جو کہ زلزلہ آنے کی پیشگی اطلاع فراہم کر سکے۔ ضرور یہ کسی کی شرارت ہے۔‘‘ اکبر نے فراز بھائی کو سمجھایا لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے اور جلدی سے میدان کی طرف نکل گئے۔

’’امی یہ کسی نے افواہ اڑائی ہے سب لوگ آرام کرو۔ کچھ نہیں ہونے والا۔‘‘

اکبر نے اپنی ماں اور بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی جو کہ اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ بیوی تو مطمئن ہو جا سوئی لیکن اماں کی نیند اچاٹ ہو چکی تھی انھوں نے صحن میں بیٹھ کر ہی قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔ اکبر کے موبائل کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی لوگ اس سے مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ تھا۔ اکبر نے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن سب بے سود۔ اس نے موبائل بند کر لینے میں ہی عافیت جانی اور بستر پر دراز ہو گیا۔ تبھی اسے دور کہیں سے با جماعت کلمہ کا ورد کرنے کی آوازیں سنائی پڑیں۔ لیکن تھکا ہارا اکبر جلد نیند کے آغوش میں چلا گیا۔

زلزلہ آنے کی خبر جنگل میں آگ لگنے کے مترادف سارے شہر میں تیزی کے ساتھ پھیلی تھی۔ ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ مرد و زن، بوڑھے اور بچے کھلے میدانوں میں جمع تھے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے خوف سے اپنی ماؤں کے کلیجے سے چپکے تھے تو سہمے ہوئے نوعمر طلباء اپنے باپ کی بانہہ تھامے ہوئے تھے۔ بزرگ یاد الٰہی میں مصروف تھے تو تمام ہی لوگ دل ہی دل میں خطرہ ٹلنے کی دعائیں کر رہے تھے۔

اللہ اللہ کر کے دو بجے کا وقت گزر گیا۔ ابھی لوگوں نے راحت کی سانس لی ہی تھی کہ مساجد سے ایک مرتبہ پھر اعلان ہوا۔ ساتھ ہی موبائل پر میسج بھی پہنچنے لگے۔

’’ہشیار رہو دینی بھائیو ،تین بجے زلزلہ آنے والا ہے۔‘‘

نارمل ہوتا ماحول اچانک پھر سے کشیدہ ہو گیا۔ با جماعت کلمہ کا ورد دوبارہ شروع ہو چکا تھا۔ نیندیں پوری طرح غائب ہو چکی تھیں۔

ملی جلی آبادی والے محلہ میں چند لوگ ایک چبوترے پر بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔ زلزلہ کی خبروں سے یہ بھی خوف زدہ تھے لیکن دانشور طبقے سے تعلق رکھنے کے سبب اوپر سے خود کو مضبوط دکھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ٹوپی اوڑھے ہوئے شخص نے کہا ’’لگتا ہے یہ محض افواہ ہے اور بابری مسجد مقدمہ کے فیصلے کی وجہ سے یہ افواہیں اڑائی گئی ہیں۔‘‘

’’اور نہیں تو کیا بھلا زلزلہ کی پیشین گوئی ممکن ہے کیا۔‘‘ دوسرا شخص بھی بولے بغیر نہ رہ سکا۔

’’مجھے تو لگتا ہے یہ آر ایس ایس کی کوئی نئی چال ہے۔ انھوں نے تو ایک مرتبہ مورتیوں کو بھی دودھ پلا دیا تھا اور بعد میں سب سائنس کا چمتکار ثابت ہوا تھا۔‘‘

پہلے والے شخص نے کہا تو لانگ کی دھوتی میں پالتی مارے شخص نے بڑے رازدارانہ انداز میں کہا ’’مجھے تو یہ آئی ایس آئی کی شرارت لگتی ہے۔‘‘

’’تم ہندوؤں کو ہر بات میں آئی ایس آئی ہی کیوں نظر آتی ہے۔‘‘  پہلے شخص کو بات ناگوار لگی تھی۔

’’کیوں کیا یہ سی آئی اے اور موساد کی حرکت نہیں ہو سکتی۔‘‘ خاموشی سے سن رہے تیسرے شخص نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

’’کچھ بھی ہو زلزلہ نہیں آنے والا یہ سب شرارتی عناصر کی طرف سے پھیلائی گئی افواہیں ہیں ‘‘ ۔چوتھے شخص نے بھی رائے کا اظہار کیا۔ اس کی بات سے تقریباً سبھی متفق لگے۔

’’لیکن مجھے تو یہ بازارواد کا کھیل نظر آتا ہے۔ نئے دور کی ایسٹ انڈین کمپنیوں کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ کب کیا کر گزریں۔ ‘‘ پوری بحث سننے کے بعد پانچویں شخص نے فیصلے نما رائے کا اظہار کیا جس کے بعد طویل خاموشی چھا گئی۔

تین بج چکے تھے زلزلہ کونہ آنا تھا نہ وہ آیا۔ لوگ حواس درست کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ یکایک موبائل فون کی گھنٹیاں پھر بجنے لگیں۔میسج کے ذریعہ اطلاع ملی تھی کہ زلزلہ اب چار بجے آئے گا۔ ایک بار پھر مسلم علاقوں میں لوگ سجدے میں گر پڑے تھے تو ہندوؤں میں مندر کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔

شہر کا سب سے بڑا بزنس کامپلیکس ’’راشی ٹاور ‘‘  رات کے تین بجے بھی روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ اس کے شاندار میٹنگ ہال میں چند سوٹیڈ بوٹیڈ نوجوان پارٹی میں مگن تھے۔ ان کے چہروں پر فتح کی چمک صاف محسوس ہو رہی تھی۔ سرور کی محفل میں تیز میوزک نے زیادہ مستی بھر دی تھی۔

’’کیلاش ڈیئر…آج تم نے مجھے مالامال کر دیا اس لیے میں تمھیں کمپنی کانیا سی۔ای۔او بناتا ہوں۔‘‘ اے ون موبائل کمپنی کے مالک گھنشیام داس نشے میں پوری طرح ڈوب چکے تھے۔آج ان کی کمپنی کو ریکارڈ آمدنی ہوئی تھی۔ زلزلے کی خبروں کی وجہ سے کمپنی کے موبائل فون سے بات چیت اور ایس ایم ایس میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا تھا۔ اسی لیے گھنشیام داس نے اپنے خاص لوگوں کو اتنی رات گئے خاص دعوت دی تھی۔ کیلاش کے چہرے پر کامیابی کا نشہ تھا اور نظریں گھنشیام داس کی خوبصورت سکریٹری پر جمی تھیں جو کہ خود اسے بے حد دلچسپی سے نہار رہی تھی۔

’’چیئرس‘‘ گھنشیام داس نے پوری وودکا کی بوتل ایک ہی گھونٹ میں خالی کر دی تھی اس کا سر گھومنے لگا تھا۔اچانک وہ نڈھال ہو کر گر پڑا۔ وہ بے سدھ ہو چکا تھا۔

’’آؤ ڈیئر …چلیں ‘‘ سکریٹری نے بڑی ادا کے ساتھ کیلاش کا ہاتھ تھاما اور قاتل مسکراہٹ کا ایسا وار کیا کہ کیلاش کانپ کر رہ گیا۔

’’رکو…ابھی چلتے ہیں۔‘‘ کیلاش نے کہا اور اپنا موبائل نکال کر کوئی میسج ٹائپ کرنے لگا۔

’’کیا کر رہے ہو ڈیئر…اب چلو بھی ‘‘ سکریٹری نے بیتابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیلاش کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔

’’آج کی کامیابی کا یہ آخری میسج مس ٹینا ساہنی کے نام ‘‘ ۔کیلاش نے سکریٹری ٹینا کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اور میسج سینڈ کر دیا۔ تبھی ٹینا کے موبائل کی اسکرین پر نیا میسج آنے کی رِنگ بجی۔

’’اوہ نو…جلدی نیچے چلوکیلاش …بھوکمپ آنے والا ہے۔‘‘ ٹینا اچانک بدحواس ہو گئی اور اس نے جیسے ہی بھاگنے کی کوشش کی۔کیلاش نے بازو پکڑ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔’’کہاں جا رہی ہو ڈارلنگ‘‘

’’مذاق چھوڑو کیلاش جلدی باہر چلو ورنہ ہم سب مارے جائیں گے۔‘‘

کیلاش نے اچانک زور دار قہقہہ لگایا۔ ’’فکر نہ کرو ڈارلنگ۔بھوکمپ میرے کہے بغیر نہیں آ سکتا۔ کیوں کہ یہ بھوکمپ میرے موبائل سے ہو کر ہی تو باہر نکلا ہے۔‘‘  کیلاش کی معنی خیز مسکراہٹ بھی ٹینا کو مطمئن نہ کر سکی تھی۔ لیکن ٹینا کی آغوش میں کیلاش پوری طرح سکون محسوس کر رہا تھا۔

پوری رات جاگنے کی وجہ سے چوک میں جمع تمام مرد و زن کی آنکھیں نیند کی وجہ سے بوجھل تھیں۔ لیکن موت اور زلزلہ کا خوف تھا کہ انھیں جاگنے پر مجبور کر رہا تھا۔ موبائل پر نئی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔میسج دھڑادھڑ ٹرانسفر کیے جا رہے تھے کہ چار بجے یقیناً زلزلہ آنے والا ہے۔مندروں میں گھنٹیاں بجنے کی آوازیں پھر آنے لگی تھیں۔ مساجد سے اذان کی آوازیں پھر آنی شروع ہو چکی تھیں۔ خوف و ہراس کے نیچے ایک بار پھر شہریوں کے دلوں کو اپنے شکنجے میں لے چکے تھے۔

دھیرے دھیرے خوف کے بادل چھٹنے لگے صبح کے پانچ بج چکے تھے۔زلزلہ نہیں آیا تھا۔ مساجد سے فجر کی نماز کے لیے اذانیں شروع ہو گئی تھیں۔ لوگ اظہار تشکر کے لیے مساجد کا رخ کر رہے تھے۔

فجر کی نماز کے بعد جب دل مطمئن ہو گئے تو لوگ گھروں میں واپس آ گئے۔ نیند سے بوجھل آنکھوں نے بھی اب ہتھیار ڈال دیئے تھے اور شہر کی تمام مخلوق خواب غفلت میں مبتلا ہو چکی تھی۔

زمین میں ہوئی ہلکی تھر تھراہٹ نے اچانک اکبر کو بیدار کر دیا۔گھڑی پر نگاہ پڑی تو صبح کے سات بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ابھی وہ بستر سے اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ زمین ایک مرتبہ پھر تیزی کے ساتھ تھرتھرائی۔ اس نے چھت کی طرف دیکھاتو سیلنگ فین بری طرح ڈول رہا تھا۔ تبھی اسے لگا کہ جیسے اس کا پلنگ کپکپا رہا ہے۔

’’باہر نکلو زلزلہ آ گیا ہے۔‘‘ چیختے ہوئے اکبر اپنے بچوں کو اٹھا کر تیزی سے باہر کی طرف بھاگا۔

باہر ایک دم سناٹا تھا۔ وہ خالی میدان میں جا کر زور  سے چیخا۔

گھر میں رکھے برتن گرنے لگے۔ لیمپ اور دیواروں پر لٹکی تصاویر ہلنے لگیں۔کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔یہاں تک کہ دیواروں کا پلستر تک اکھڑ گیا۔

باہر نکل آؤ زلزلہ آ گیا ہے۔‘‘ لیکن اس وقت اس کی آواز سننے والا کوئی نہ تھا۔

زلزلے کا انتظار کرتی مخلوق خدا بس کچھ دیر پہلے ہی تو سوئی تھی اس لیے اکبر کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی تھی۔ہاں چند بزرگوں نے ضرور اس کی آواز سنی لیکن وہ بھی رات بھر کی تھکان کے سبب گھروں سے باہر نکلنے کی ہمت نہ کر سکے۔پھر اکبر کو محسوس ہوا کہ خطرہ ٹل چکا ہے۔ زلزلہ گزر چکا ہے۔اس کا دماغ سن سن کر رہا تھا۔ اسے ایک پرانی بھیڑیئے کی کہانی یاد آ رہی تھی۔کسی گاؤں میں ایک شخص گاؤں کے لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے رات میں چلانے لگتا تھا ’’بھیڑیا آیا…بچاؤ…بھیڑیا آیا۔‘‘

لیکن جب گاؤں والے اس کے پاس پہنچتے تو وہ قہقہے لگا کر ان کا مذاق اڑاتا تھا۔ لیکن ایک دن سچ مچ اس کے گھر بھیڑیا آ گیا اور اس کے بچے کو گلے سے اٹھا منھ میں دبا لیا تو وہ چیخنے لگا ’’بھیڑیا آ گیا۔بچاؤ ‘‘ لیکن اس وقت کوئی بھی اسکی بات سننے کا روادار نہیں ہوا۔

اکبر نے شہر کا جائزہ لینے کا خیال کیا کیونکہ اسے اخبار کے لیے خبریں بھی جٹانی تھیں۔اس نے اپنی موٹر سائیکل نکالی اور شہر کی سڑکوں پر گردش کرنے لگا۔ اس نے ملی اطلاعات پر غور کیا تو حیران رہ گیا۔زلزلہ بہ خیر و عافیت گزر گیا تھا سوائے اس کے کہ کئی موبائل کمپنیوں کے اونچے اونچے ٹاور زمیں دوز ہو گئے تھے اور ان کی چپیٹ میں آ کر نہ صرف کچھ افراد زخمی ہوئے تھے بلکہ مکانات کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے موبائل آن کیا۔

’’کیا خبر ہے جناب‘‘ اکبر نے دریافت کیا۔ دوسری طرف سے پولس انسپکٹر یونس خاں کی آواز ابھری۔

’’زلزلہ کی وجہ سے ایک بڑا حادثہ ہوا ہے۔شہر کا بزنس کامپلیکس ’’راشی ٹاور ‘‘  پوری طرح زمیں دوز ہو گیا ہے‘‘

’’اوہ‘‘

’’اور اے ون موبائل کمپنی کے مالک گھنشیام داس اور ان کے چند ملازمین کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔‘‘

٭٭٭

 

واپسی

تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن

وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے

                                                                                    (حفیظ میرٹھی)

حسن میاں بیس سال سے روڈویز محکمہ میں بس کنڈکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ حسن میاں جیسا ایماندار کنڈکٹر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا یہ ان کے اعلیٰ افسران بھی خوب جانتے تھے۔یہ شاید ان کی ایمانداری کی شہرت ہی تھی جس نے انھیں بیس سال نوکری کرنے کے باوجود بس کنڈکٹر ہی بنائے رکھا تھا اور ان کا پروموشن نہیں ہوا تھا۔

حسن میاں کی عمر تقریباً ۴۰سال ہو گی۔ عام قد کاٹھی کے باوجود چہرے پر بڑی کشش تھی۔ چوڑی پیشانی، قدر لمبی ناک، چھوٹی چھوٹی آنکھیں کھچڑی بال اور شرعی داڑھی ان کے چہرے کو پرکشش بناتے تھے۔ حسن میاں کے والد روڈویز میں ملازم تھے۔ ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں آن ڈیوٹی وہ ہلاک ہو گئے تھے ان کی جگہ حسن میاں کو بہت کم عمر میں ہی نوکری مل گئی تھی۔وہ ابھی بی۔اے کی تعلیم مکمل کر پائے تھے۔ماں اور دو بہنوں کی ذمہ داری نوکری ملتے ہی ان کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔انھوں نے ماں کے مشورے پر جلدی جلدی دونوں بہنوں کی شادی کر کے جنت مستحکم کر لی تھی۔ لیکن ان شادیوں کی وجہ سے وہ مقروض ہو گئے تو اپنی شادی طویل مدت کے لیے ٹال دی تھی۔

حسن میاں نے جب سے کنڈکٹری شروع کی تھی کبھی ایک ٹکٹ کی بھی ہیر پھیر نہیں کی تھی کبھی ان کے خلاف کوئی شکایت بھی درج نہیں ہوئی تھی۔ ان کے ساتھی کنڈکٹر انھیں کئی مرتبہ سمجھاتے بھی۔

’’ حسن بھائی کبھی کبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیا کرو۔‘‘

’’نہیں بھائی مجھے تنخواہ ہی کافی ہے ‘‘

’’مگر شادی ہو گی۔بیوی بچے ہوں گے تو اس تنخواہ میں کیسے گزارہ کرو گے۔‘‘

’’اللہ بہت بڑا ہے۔‘‘ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر ہمیشہ یہی کہتے تھے۔

اللہ اللہ کر کے ان کا قرض ادا ہوا تو ماں کو شادی کی فکر لاحق ہوئی اور ایک روز بڑی سادگی کے ساتھ ان کا نکاح سلمیٰ بیگم سے ہو گیا۔

سلمیٰ بیگم بھی ان کے مزاج میں ایسی رنگی کہ دوستوں کی باتیں انھیں مذاق ہی لگیں۔ کیونکہ ان کی تنخواہ کے مطابق ہی گھر کا نظام سلمیٰ بیگم نے ڈھال لیا تھا۔ اور اگلے سال ان کے گھر میں ننھی معصوم سی گڑیا ’’ثنا‘‘ نے قدم رکھے تو حسن میاں کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہ رہا۔ لیکن جب وہ چار سال میں ہی تین بچوں کے باپ بن گئے تو انھیں پہلی بار تنخواہ کے کم ہونے کا احساس ہوا۔ ظاہر ہے تین بچوں کی پرورش اور گھر کے دیگر مسائل کے چلتے اخراجات بڑھ گئے تھے۔

اصغر بھی حسن میاں کے ساتھ ہی روڈویز میں ملازم ہوا تھا۔ اس نے جب حسن میاں کو پریشان دیکھا تو پوچھنے لگا۔’’کیا ہوا حسن ،کیوں پریشان ہو۔‘‘

’’کچھ نہیں ،بس ذرا مہینہ تنگ چل رہا ہے۔‘‘

’’کتنی بار سمجھایا تمہیں ،موقع دیکھ کر کچھ آمدنی کر لیا کرو۔اس زمانے میں سب ایسے ہی چلتا ہے دوست۔‘‘ اصغر نے کہا۔

’’لیکن یہ گناہ ہے۔‘‘ حسن میاں ابھی دین پر قائم تھے۔

’’ارے یار اگر تم دس ٹکٹ کی رقم بچا لو گے تو کون سا روڈویز کنگال ہو جائے گا۔‘‘

’’لیکن میرا ایمان تو ضائع ہو جائے گا۔‘‘

’’اف۔حسن تم کس مٹی کے بنے ہو۔ اس دنیا میں تم کہاں سے پیدا ہو گئے جہاں لوگوں کے ہر دن ایمان بکتے ہیں۔‘‘ اصغر اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔

حسن میاں کو کبھی لمبے روٹ کی گاڑی پر کنڈکٹر نہیں بنایا گیا۔شاید اس کی وجہ بھی ان کی ایمانداری ہی تھی افسران کو پتہ تھا کہ یہ تو خود کچھ نہیں کماتے تو بھلا انھیں کیا دیں گے۔ اس لیے وہ محض سنبھل -مرادآباد روٹ پر ہی چلتے تھے۔

حسن میاں کی تنخواہ مہینے کی ۲۵تاریخ آتے آتے آخری سانسیں لینے لگتی تھی۔ پھر اس مرتبہ تو عید کا تہوار بھی پڑ گیا تھا اس لیے ہاتھ کچھ زیادہ ہی تنگ ہو گیا تھا۔

’’ابا کل مجھے اپنی فیس جمع کرنی ہے ورنہ میرانام اسکول سے کاٹ دیا جائے گا۔‘‘

حسن میاں کی بیٹی ثنا نے کہا تو حسن میاں کو بڑی تکلیف ہوئی۔ وہ نم آنکھوں سے ثنا کو تسلی دینے لگے۔ ’’نہیں بیٹا تمہاری فیس کا انتظام ہو جائے گا۔‘‘ حسن میاں نے سوچا کہ انچارج آفیسر سے کچھ ایڈوانس کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن جب وہ روڈویز پر پہنچے تو پتہ لگا کہ انچارج چھٹی پر تھے۔

اب وہ کیا کریں۔ انھوں نے سوچا چلو اصغر سے ہی کچھ اُدھار لے لیں۔ لیکن ان کی خوددار طبیعت نے گوارہ نہ کیا کہ وہ کسی سے ادھار مانگیں۔ پھر وہ فیس کا انتظام کیسے کریں۔ اسی سوچ میں گُم وہ ڈیوٹی جوائن کر کے بس میں سوار ہو گئے۔

انھوں نے ٹکٹ بنانے شروع کیے ہی تھے کہ ان کے تھیلے میں کل کے کئی ٹکٹ پڑے ہوئے مل گئے۔ جو کہ رقم واپسی کرنے کے بعد کوئی مسافر ان کے ہی پاس چھوڑ گیا تھا۔

’’اگر میں ان ٹکٹوں کو فروخت کر دوں تو ثنا کی فیس کا انتظام ہو سکتا ہے۔‘‘

حسن میاں نے پہلی بار غلط بات سوچی تو ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک اٹھیں۔

’’نہیں نہیں …یہ گناہ مجھ سے نہیں ہو گا۔‘‘  حسن میاں کے اندر سے آواز آئی۔

’’لیکن پھر ثنا کی فیس کا انتظام کیسے ہو گا۔‘‘ ان کے اندر سے پھر آواز آئی۔

حسن میاں تذبذب کا شکار ہو گئے تھے وہ کیا کریں۔چند روپئے کے لیے کیا وہ اپنا ایمان فروخت کر دیں۔ اگر وہ پکڑے گئے تو کتنی بدنامی ہو گی۔ ارے نہیں تمام لوگ کتنی کتنی بے ایمانی کرتے ہیں دہ کہاں پکڑے جاتے ہیں۔ وہ تو محض ایک بار ثنا کی فیس کے لیے ہی جرم کر رہے ہیں۔آئندہ کے لیے توبہ کر لیں گے۔

حسن میاں کے اندر بھیانک جنگ جاری تھی۔ انسان اور شیطان کے درمیان ہوئی اس جنگ میں آخرکار شیطان ہی جیت گیا۔

حسن میاں نے جلدی جلدی ٹکٹ فروخت کیے اور گاڑی سنبھل کے لیے روانہ ہو گئی۔راستے میں حسن میاں کادل دھڑ دھڑ کر رہا تھا کہ کہیں گاڑی چیک نہ ہو جائے۔ ایک ایک کر کے تمام اسٹیشن چھوٹ گئے اور اب وہ سرسی کے قریب تھے کہ اچانک ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔

’’کنڈکٹر صاحب …اے آر ایم صاحب گاڑی چیک کریں گے۔ ‘‘

ڈرائیور کی آواز حسن میاں کے کانوں میں پگھلے شیشے کی مانند داخل ہوئی۔ حسن میاں کا دل دھک سے رہ گیا۔ ان کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چھلک آئیں۔ وہ بے حرکت اپنی سیٹ پر بیٹھے ہی رہ گئے۔

’’ارے یہ تو حسن میاں کی گاڑی ہے۔‘‘  اے آر ایم جیسے ہی بس میں چڑھے تو ان کی نظر دروازے کے قریب ہی بیٹھے حسن میاں پر پڑ گئی۔

اے آر ایم نے مسافروں کی گنتی کرتے ماتحت کو آواز لگائی۔

’’ارے سنو چلو نیچے آ جاؤ اور دوسری گاڑی روکو۔ یہ حسن میاں کی گاڑی ہے۔ بیس سال میں ان کی گاڑی میں کبھی بے ایمانی نہیں ملی تو اب کیا ملے گی۔بے کار وقت ضائع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ اے آر ایم صاحب نے کہا تو ان کے ماتحت نے مسافروں کی گنتی کرنا ترک کر دیا۔ اور وہ نیچے اتر کر دوسری گاڑی روکنے کے لیے الرٹ ہو گیا۔

بس سے اترتے ہوئے اے آر ایم کی نگاہ حسن میاں کے چہرے پر پڑی تو وہ پریشان ہو کر بولے۔ ’’لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔دیکھو حسن اگر صحت ٹھیک نہیں رکھو گے تو روڈویز کی خدمت کیسے کر پاؤ گے۔ اس لیے ابھی جا کر ڈاکٹر کو دکھانا۔‘‘  اے آرایم صاحب ہدایت دے کر نیچے اتر گئے۔ حسن میاں کو کاٹو تو خون نہیں۔ وہ تو بیہوش ہوتے ہوتے بچے تھے۔

جب ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھائی اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم سے ٹکرائے تو وہ ہوش میں آئے۔

ہوش میں آتے ہی انھیں تمام باتیں یاد ہو آئیں۔

’’اف…ان کی برسوں کی ایمانداری پر آ ج داغ لگتے لگتے رہ گیا۔‘‘ انھوں نے دل میں سوچا۔ اور یہ ان کی ایمانداری کا ہی بھروسہ تھا کہ ان کی عزت بچ گئی تھی۔ لیکن انھوں نے جو کچھ کیا تھا کیا وہ ٹھیک تھا۔

’’نہیں …ان کے دل نے کہا۔ تو انھیں لگا کہ ان کا ایمان ان میں سما گیا ہے۔ وہ شیطان کی قید سے رہا ہو گئے تھے۔ اب وہ خود کو بے حد ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔

حسن میاں جیسے ہی سنبھل بس اڈہ پر اترے انھوں نے تمام ٹکٹوں کا کیش جمع کرایا۔

’’یہ تو دس ٹکٹوں کے فالتو روپئے جمع کر دیئے حسن صاحب آپ نے۔‘‘  کلرک نے پوچھا۔’’نہیں جناب، دراصل مجھ سے غلطی سے دس ٹکٹ کل کے واپسی والے بھی فروخت ہو گئے تھے۔ جنھیں کیش کے ساتھ جمع کر لیجئے۔ ‘‘ حسن میاں کے جواب پر کلرک اور کیشیئر حسن میاں کا چہرہ تکتے رہ گئے۔

حسن میاں نے کمرے سے باہر نکل کر اپنی گیلی ہوئی آنکھیں رومال سے پونچھیں اور گھر کی طرف بڑھ چلے۔ ان کے قدم جیوں جیوں گھر کی طرف بڑھ رہے تھے وہ سوچتے جا رہے تھے کہ ثنا کی فیس کا انتظام کیسے ہو گا؟ لیکن وہ مطمئن تھے کہ ان کے دل میں بیٹھا شیطان نکل گیا تھا اور وہ ایمان پر واپس لوٹ آئے تھے۔                  ٭٭٭

 

کریڈٹ کارڈ

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونا دے کے بہلایا گیا ہوں

                                                                        (شاد عظیم آبادی)

            گزرے زمانے میں سود خور مہاجن کس طرح قرض داروں کا خون چوستے تھے اور کس طرح قرض دارسود دیتے دیتے اپنی زندگی ختم کر دیتے تھے یہ قصے کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔ اب جب کہ ہم جمہوریت اور آزادی کی بات کرتے ہوئے خوش ہوتے ہیں تو کیا وہ زمانہ بیت گیا ہے۔ کیا واقعی اب کوئی کسان سود کی وجہ سے خودکشی نہیں کرتا؟لیکن نظام میں تو بہت تبدیلی آ چکی ہے۔مہاجنوں پر شکنجہ کسنے کے لیے بینک نظام کو مستحکم کیا گیا۔ اب تو زمانہ اے ٹی ایم، ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ زندگی کو تابناک بنانے کا ہے۔ لیکن کیا واقعی اب سب کچھ اتنا ہی آسان اور اتنا ہی اچھا ہو گیا ہے۔

رشید کی عمر ۵۰ کو تجاوز کر گئی تھی۔زندگی کے ان پچاس سالوں میں دنیا کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اب اس کی کمر بھی دہری ہو چکی تھی۔ تیس سال پہلے جب نوکری نہ ملنے کی امید کے بعد بوجھا اٹھانے کا کام شروع کیا تھا تو اسے زندگی کی رعنائیوں کا زیادہ پتہ بھی نہ تھا۔اس کی تمام تر کمائی گھر کے اخراجات اور ماں باپ کی دوا میں ہی صرف ہو جاتی جو کچھ جوڑتا اس سے بہنوں کی شادی کرنے کی خواہش ہلورے لینے لگتی۔ جیسے تیسے اس نے اپنی تین بہنوں کی شادیاں کیں۔ اپنی شادی کا خیال جب تک آیا تو اسے احساس ہوا کہ گنگا میں کافی پانی بہہ چکا ہے۔

بہر حال ایک غریب گھرانے کی بیٹی اس کی قسمت میں لکھی ہی تھی سو ا س کی شادی بھی ہو گئی اور اولاد سے بھی جھولی بھر گئی۔ لیکن عمر کا بڑا حصہ تو پہلے ہی گزر چکا تھا۔ باقی مشکلات میں بیوی کی روز بہ روز خراب ہوتی طبیعت نے خاصہ اضافہ کر دیا تھا۔ قرض لیتے لیتے اس کی پوزیشن اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اب اسے کوئی قرض تک دینے کو تیار نہ تھا۔

بیوی کا علاج کیسے کرائے اسی پریشانی میں گُم وہ چارپائی پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک دروازہ پر دستک ہوئی۔ وہ چونک اٹھا۔ آج اس کے دروازہ پر کون آ گیا۔ بچے تھے نہیں سو  خود ہی اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔

’’سر کیا آپ کو روپئے کی ضرورت ہے ؟‘‘

رشید نے دیکھا کہ ایک سوٹیڈ بوٹیڈ نوجوان چمڑے کا بیگ سنبھالے اس کے دروازہ پر کھڑا اس سے سوال کر رہا ہے۔

’’آپ کون‘‘ رشید نے پوچھا۔

’’سر آپ کو رقم کی ضرورت ہے ‘‘ نوجوان نے پھر اپنا سوال دہرایا۔ رشید کو اچھا لگا کہ آج اسے اتنی عزت سے کوئی سر کہہ کر پکا ر رہا ہے۔اس نے بشاش لہجے میں کہا ’’رقم کی ضرورت کسے نہیں ہوتی‘‘ ۔’’تو آپ کو روپئے چاہیے‘‘ ۔ نوجوان چہکا۔

اچانک رشید کو لگا کہ نوجوان کوئی چھلاوا ہے اس کے دل میں آیا کہ منع کر دے لیکن اس کے منھ سے بے اختیار نکلا ’’ہاں ‘‘

’’گڈ-تو آ پ مجھے اندر آنے دیں۔‘‘

نوجوان سدھے قدموں سے چلتا بے جھجھک رشید کے گھر میں داخل ہو گیا اور اس کی کھاٹ پر براجمان ہو گیا۔اس نے اپنے بیگ کو گھٹنے پر ٹکایا اور اس میں سے کچھ کاغذ نکال کر رشید کی طرف بڑھائے۔ ’’اس پر دستخط کر دیں۔‘‘

’’آپ مجھے واقعی روپئے دیں گے؟‘‘ رشید نے پر تجسس لہجے میں پوچھا اور جلدی سے دستخط کر کے کاغذ لوٹا دیئے۔

’’کیوں نہیں ‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔ اور اس کی طرف ایک چھوٹے سائز کا چمکدار کارڈ بڑھا دیا۔’’یہ کریڈٹ کارڈ ہے۔ اسے رکھ لیں۔ جہاں بھی خریداری کرنی ہو اسے استعمال کریں یہ کھرے نوٹ کی طرح چلے گا۔‘‘  نوجوان نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ رشید کو کریڈٹ کارڈ پکڑا دیا۔

رشید کو خیال آیا کہ بیوی کو ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے اسے رقم چاہیے تھی۔اس نے معصومیت کے ساتھ نوجوان سے پوچھا۔

’’کیا ڈاکٹر بھی اسے لے گا۔‘‘

’’اگر نہ بھی لے تو اے ٹی ایم سے جا کر رقم نکال لینا اور ڈاکٹر کے منھ پر مار دینا۔‘‘

’’لیکن میرا تو بینک کھاتہ خالی پڑا ہے روپئے کیسے نکالوں گا۔‘‘ رشید ایک بارگی پھر مایوس ہو گیا۔

’’فکر نہ کریں جناب آپ ہر من اسپتال میں ڈاکٹر کو دکھائیں۔ وہاں آپ کو ڈاکٹر کو دکھانے سے لے کر دوائیاں لینے تک تمام کام اسی کریڈٹ کار ڈ سے نبٹ جائیں گے۔اور ہاں آپ ٹینشن بالکل نہ لیں۔آ پ کی بیوی کے صحت یاب ہوتے ہی ہم آپ سے خود آ کر رقم وصول کر لیں گے۔ ‘‘ کہتے کہتے دونوں کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔

رشید کو تو کریڈٹ کارڈ کے روپ میں رقم کا بندوبست ہو گیا تھا اس لیے اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی لیکن نوجوان کی آنکھیں کیوں اس قدر چمکیں یہ وہ نہیں سمجھ پایا۔

کریڈٹ کارڈ نے تو واقعی کمال کر دکھایا تھا۔اسپتال میں ہر جگہ اسی کے ذریعہ رشید نے بلوں کی ادائیگی کی۔ کچھ ماہ کے علاج کے بعد اس کی بیوی ٹھیک ہونے لگی۔ ایک دن گھر بیٹھے وہ بیوی سے کریڈٹ کارڈ کے بارے میں باتیں کرنے میں مشغول تھا کہ تبھی دروازہ پر ہوئی دستک نے اسے چونکا دیا۔

اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ تیز ہو گئی۔

دروازہ پر وہی فرشتہ صفت نوجوان کھڑا تھا۔ لیکن آج وہ بشاش نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے اندر آتے ہی مطلب کی بات شروع کر دی۔’’آپ کے کریڈٹ کارڈ کا بل دو ہزار روپئے آیا ہے۔ اسے ادا کر کے قرض سے فراغت حاصل کر لیں۔‘‘ اتنا سنتے ہی رشید کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔

’’لیکن میرے پاس تو اتنے روپئے نہیں ہیں۔‘‘

’’کوئی بات نہیں اس ماہ اس کا سود چکا دیں۔ باقی آگے وصول کر لیے جائیں گے۔‘‘

’’سود کی رقم کتنی دینی ہو گی ‘‘ ۔ ’’محض بیس روپئے۔‘‘  اس نے رشید کو بتایا۔

’’رشید نے خوشی کے ساتھ بیس روپئے نوجوان کودے دیئے۔

’’کیا یہ کارڈ بھی واپس کرنا ہو گا۔‘‘  رشید کا دل پھر اداس ہونے لگا تھا کیونکہ کارڈ نے تو ا س کے لیے جادو جیسا کام کیا تھا۔

’’نہیں -نہیں -آپ اس کا استعمال جاری رکھیں۔ ہم ہیں نہ۔‘‘

نوجوان کی بات نے رشید کو بڑی ہمت بندھائی تھی۔

یہ ایک منحوس دن تھا کہ بیوی کی بیماری ٹھیک ہوتے ہی وہ ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ لگا بیٹھا تھا۔ ایک مسافر کا بوجھ اٹھاتے ہوئے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آ گئی تھی۔ وہ نہ صرف بستر پر پڑ گیا تھا بلکہ درد کی شدت سے اس کا برا حال تھا۔ اسے کسی بھی طرح سکون نہیں مل رہا تھا۔ اس نے بیوی کو ہرمن اسپتال چلنے کی ہدایت کی۔

جنرل وارڈ میں لیٹے ہوئے اسے جسم کے درد سے زیادہ ذہن کے درد نے پریشان کر رکھا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کر کے آپریشن کرانے کا مشورہ دیا تھا لیکن وہ آپریشن کے لیے دو لاکھ روپئے جتنی بڑی رقم کہاں سے لائے گا۔ یہی سوچ سوچ کر وہ ہلکان ہوا جا رہا تھا۔

اچانک اس کی بیوی نے کہا ’’کریڈٹ کارڈ سے زیادہ روپئے نکالنے کی ترکیب اس نوجوان سے کیوں پتہ نہیں کر لیتے۔‘‘ رشید کی آنکھیں بھی اچانک چمک اٹھیں۔ اس نے بیوی کو نوجوان کا فون نمبر دیتے ہوئے اسے بلانے کی ہدایت دی۔

محض آدھے گھنٹے میں ہی نوجوان اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اسپتال میں حاضر تھا۔’’رقم نکالنے کی لمٹ تو بڑ ھ جائے گی لیکن آپ کو سود کی رقم کچھ زیادہ دینی ہو گی۔‘‘ نوجوان نے رشید کو آگاہ کیا۔ لیکن جیسے رشید یہ باتیں سن ہی نہ سکا۔ اس نے فوری طور پر نوجوان کی تمام تر شرائط قبول کرنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا تھا۔

صحت مند ہو کر رشید گھر آچکا تھا اور اب وہ کوئی ایسا کام کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اسے بوجھا نہ اٹھانا پڑے۔ دراصل اسے خوف ستا رہا تھا کہ کہیں دوبارہ اسے چوٹ نہ لگ جائے۔اسی ادھیڑ بن میں وہ کھاٹ پر لیٹا ہوا تھا کہ دروازہ پر دستک سن کر وہ اٹھا اور سامنے فرشتہ صفت نوجوان کو دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔لیکن نوجوان نے رقم کا مطالبہ کر کے اس کے سکون میں کنکری ماردی۔

’’جناب آ پ کو صحت یاب ہونے پر مبارک باد‘‘ نوجوان نے رشید کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’اب آپ ۵۔۲لاکھ روپئے کی رقم چکا کر قرض سے فراغت حاصل کر لیں تو بہتر رہے گا۔‘‘

’’لیکن میرے پاس تو اتنے روپئے نہیں ہیں۔‘‘

’’کوئی بات نہیں آپ پانچ ہزار روپئے سود کے ہی جمع کر دیں۔‘‘

’’لیکن یہ تو بہت زیادہ ہیں۔‘‘ رشید گھٹی گھٹی آوا ز میں بولا۔

’’تو آپ پوری رقم ایک بار میں چُکتا کر کے فارغ کیوں نہیں ہو جاتے۔‘‘  نوجوان کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا۔’’دیکھئے ضرورت کے وقت تو کوئی نہیں سوچتا کہ سود زیادہ ہے لیکن جب دینے کا وقت آتا ہے تو سبھی یہی کہتے ہیں۔‘‘

رشید نے کسی طرح بیوی سے جھاڑ پونچھ کر ’’پانچ ہزار ‘‘ روپئے تو چکا دیئے لیکن اسے اب سمجھ آ گیا تھا کہ وہ کسی جال میں بری طرح پھنس گیا ہے اور اب محض پھڑ پھڑانے کے کچھ نہیں کر سکتا۔

رشید ابھی اس جھٹکے سے ٹھیک طرح سے اُبرا بھی نہیں تھا کہ اچانک اس کی بیوی اس کا ساتھ چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا ملی۔ رشید غم سے نڈھال ہو گیا۔ اس کے بچے اس سے لپٹ کر رو رہے تھے اور وہ اس فکر میں مبتلا تھا کہ اب کیسے وہ آگے کی زندگی کو گزارے گا۔

گھر کے باہر بیٹھا رشید ابھی تک بیوی کے غم سے نڈھال مستقبل کی فکر میں ہی غوطہ زن تھا تبھی کسی نے اس کو آواز دی۔ اس نے سراٹھایا تو وہی نوجوان بنا کسی مسکراہٹ کے اس کے پاس بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر تو رشید کی جان ہی  نکل گئی۔

نوجوان نے اسے دلاسہ دیا۔’’مجھے آپ کی بیوی کی موت کا بے حد افسوس ہے ‘‘ ۔’’لیکن ہونی کو تو کوئی نہیں ٹال سکتا۔‘‘

جلد ہی وہ اپنے اصل مطلب پر آ گیا ’’ویسے میں وصولی کے لیے آیا تھا اگر آپ رقم جمع کرا دیتے تو …‘‘

’’لیکن میرے پاس تو اب اتنے روپئے نہیں ہیں ‘‘

’’کوئی بات نہیں آپ سود ہی جمع کر دیجئے۔‘‘

’’سچ کہتا ہوں میرے پاس سود لائق بھی رقم نہیں ہے۔‘‘

’’دیکھئے سود کی ادائیگی کے بغیر تو چھٹکارا ممکن نہیں۔ ‘‘  …’’بیوی  کا تو کچھ زیور وغیرہ ہو گا۔ اسی کو فروخت کر دیں۔ ویسے بھی وہ اب آپ کے کس کام کا ہے۔‘‘ نوجوان نے بے حد سخت لیکن سمجھانے والے انداز میں کہا۔

رشید کو اب سمجھ آ چکا تھا کہ کریڈ ٹ کار ڈ نامی ماڈرن مہاجن نے اسے بڑے شائستہ انداز میں لوٹ لیا ہے۔ انگریزوں نے بھی تو ہندوستانیوں کو چائے مفت پلا کر ہی  چائے کا شوقین بنایا تھا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔

اور اس طرح وقت گزرتا گیا۔ رشید گھر کی کوئی نہ کوئی چیز فروخت کر کے کریڈٹ کارڈ کا سود چکا تا رہا۔ سود چکاتے چکاتے اس کی اولاد بھی اب بڑی ہو چکی تھی لیکن قرض تھا کہ سُرسا کی ناک کی طرح ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔

سود چکاتے چکاتے ایک دن رشید بھی دنیا ے فانی سے کوچ کر گیا۔ گھر کے تمام سامان کو وہ فروخت کر چکا تھا۔ لیکن اس کی موت کے غم کے ساتھ ساتھ اس کے بچوں کو ایک سکون ضرور تھا۔کہ ان کا دو کمروں کا چھوٹا سا مکان ابھی بچ گیا تھا۔ رشید جلدی ہی موت کے آغوش میں چلا گیا تھا ورنہ تو سود کی ادائیگی میں اس کا مکان بھی فروخت ہوہی جانا تھا۔ پھر بھلا بچوں کو کیا ملتا۔

٭٭٭

 

خوابوں کا تاجر

نہ جس کا نام ہے کوئی نہ جس کی شکل ہے کوئی

ایک ایسی شے کا مجھے ازل سے انتظار ہے

                                                                                                (شہر یار)

            ’’کیا بندہ کو رات قیام کا سکون میسر ہو گا؟‘‘ کالے تندرست گھوڑے سے اترتے ہوئے مسافر نے سرائے کے مالک سے دریافت کیا۔

’ضرور ملے گا۔ گھوڑے کو اصطبل میں چھوڑ دو اور میرے ساتھ آؤ۔‘‘ بزرگ سے دکھائی دینے والے شخص نے مسافر کو اسی لہجے میں جواب دیا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ بھی کر دیا۔ پتلے گلیارے کو پار کر کے وہ دونوں ایک بڑے ہال نما کمرے میں داخل ہوئے جس میں کئی پلنگ صاف چادروں سے آراستہ موجود تھے۔ سبھی پلنگ بھرے ہوئے تھے۔

’’تم یہاں بیٹھو۔‘‘ بزرگ سرائے مالک نے مسافر کو کرسی پیش کرتے ہوئے کہا۔

’’میں تمہارے لیے ایک پلنگ کا انتظام کرتا ہوں ‘‘ بزرگ فوراً باہر نکل گیا۔

’’کہاں سے آرہے ہو میاں ‘‘ لمبی سی داڑھی اور سفید جُبّے میں ملبوس شخص نے مسافر سے دریافت کیا۔

’’جی میرا نام سراج الدین ہے اور میں رام گڑھ راجیہ سے مرشدآباد جا رہا ہوں واسطے تجارت کے۔‘‘ مسافر سراج الدین نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنا تعارف کرایا۔ بعدہٗ باری باری کمرے میں موجود سبھی لوگوں نے اپنا تعارف کرایا۔

’’ہاں تو بھائیو سنو میں نے رات ایک بڑا حسین خواب دیکھا۔‘‘ جمیل نے کہا۔

’’ضرور کوئی حسینہ نے دل دیا ہو گا ‘‘ ساتھی بشیر نے مذاق اڑایا تو جمیل نے برا سا منھ بنایا۔ جمیل اور بشیر اچھے دوست تھے اور دونوں ایک ہی شہر کے رہنے والے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی باتوں کو مذاق میں اڑا کر تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے۔

’’اچھا بتاؤ کہ تم نے کیا دیکھا۔‘‘ بشیر نے جمیل کو راضی کرنے کے لیے کہا۔

’’میں نے دیکھا کہ میں ایک خوبصورت مکان کے لان میں نرم گھاس پر لیٹا ہوا ہوں۔میرے اوپر چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھکا ہوا ہے اور میری بغل میں سورج بیٹھا مجھے نہار رہا ہے۔ ‘‘

’’ارے میاں تم تو اب آسمان کی سیر پر نکل گئے ہو۔ذرا جلدی لوٹ آنا کہ ہمیں زمیں کے مسائل پر بات کرنی ہے۔‘‘ بشیر نے پھر جمیل کا مذاق اڑانے کی کوشش کی۔

’’بھائی میں ایک تاجر ہوں اور میں تم سے تمہارا یہ حسین خواب خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘ سراج الدین نے جمیل کے پاس پہنچ کر اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔

’’لیکن خواب بھی کہیں فروخت ہوتے ہیں میاں ‘‘ ۔جمیل نے قدرے حیرانی سے کہا۔

’’بس آپ ہاں کر دیں۔ مجھے آپ سے یہ خواب خریدنا ہے۔ جو قیمت کہو دوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے مابدولت نے یہ خواب تمھیں ایک ہزار اشرفیوں میں فروخت کیا۔‘‘ سچ مچ سراج الدین نے اپنی انٹی میں لگی تھیلی سے ایک ہزار اشرفیاں گن کر جمیل   کو دیں۔

’’اب یہ خواب میرا ہو گیا۔‘‘  سراج الدین نے فرط مسرت سے جمیل کا ہاتھ چوم لیا۔ جمیل اور بشیر سراج الدین کو اب بھی حیرت سے تکے جا رہے تھے۔

’’اچھا دوستو شب بخیر‘‘ سراج الدین اپنے پلنگ پر لیٹا اور جلد ہی نیند کے آغوش میں چلا گیا۔

صبح اٹھ کر سراج الدین نے تازہ دم گھوڑے پر سوار ہو کر اسے شاہراہ پر دوڑا دیا۔ برق رفتار گھوڑے نے شام ہوتے ہوتے سراج الدین کو مرشد آباد پہنچا دیا۔ مرشدآباد پہنچ کر وہ سیدھا بازار پہنچا اور اس نے اونچے چبوترے پر کھڑے ہو کر اعلان کیا۔

’’میں سراج الدین ہوں۔مشہور خوابوں کا تاجر۔آؤ اور مجھ سے جیسا چاہو خواب خرید لو۔‘‘ سراج الدین کا اعلان اتنا عجیب و غریب تھا کہ اس کے چاروں طرف  بھیڑ جمع ہو گئی۔

’’چاہیے کسی کو کوئی بہترین خواب جو سچ ہو جائے۔‘‘ سراج الدین کی آواز پر مجمع میں کانا پھوسی ہونے لگی۔خفیہ ذرائع نے سراج ا لدین تاجر کے خوابوں کی تجارت کے فلسفے کو معمہ بنا کر مرشد آباد کے بادشاہ شاہ زماں کو رپورٹ کی۔ بادشاہ خود بہت حیران ہوا۔اس نے اپنے مشیروں اور نجومیوں کو فوراً طلب کر کے اس بابت دریافت کیا۔

’’بادشاہ حضور آپ خوابوں کے تاجر سے وہ خواب خرید لیں جو اس نے مرشدآباد آتے وقت سرائے میں خریدا تھا۔ ‘‘ بادشاہ کے ایک قابل نجومی نے بادشاہ کو مشورہ دیا۔

’’وہ خواب اگر آپ خریدنے میں کامیاب رہے تو آپ کی منھ مانگی مراد پوری ہو جائے گی۔‘‘ نجومی نے بادشاہ کے تجسس کی آگ بھڑکا دی۔

بادشاہ خود بازار میں سراج الدین کی قیام گاہ پہنچا اور اس سے سرائے والا خواب فروخت کرنے کی درخواست کی۔

’’لیکن میں وہ خواب آپ کو فروخت نہیں کر سکتا۔وہ میں نے اپنی تجارت کے لیے نہیں بلکہ اپنی خواہش کے لیے خریدا ہے۔‘‘

’’لیکن مجھے وہی خواب چاہیے۔‘‘

’’آپ کوئی دوسرا خواب لے لیں بادشاہ حضور۔ میرے پاس اور بھی بہت سے اچھے خواب ہیں۔‘‘

’’اگر تم مجھے وہ خواب فروخت نہیں کرو گے تو میں تم کو گرفتار کر وا کر جیل بھیج دوں گا۔‘‘ بادشاہ سراج الدین کی نا سے بے حد خفا ہو گیا تھا۔

’’بادشاہ حضور مجھے معاف فرمائیں …‘‘

’’گرفتار کر لو اسے اور تب تک قید میں رکھو جب تک کہ یہ اپنا خواب فروخت کرنے کو راضی نہ ہو جائے۔‘‘

’’رحم حضور …رحم…‘‘

سپاہیوں نے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کی۔ وہ تاجر کو گرفت میں لے کر شاہی محل کی طرف چل پڑے۔ جمع ہوئی بھیڑ یہ سوچ کر حیران پریشان تھی کہ بادشاہ کی سنک کا تو کوئی علاج نہیں لیکن یہ تاجر تو بادشاہ سے بھی گیا گزرا معلوم پڑتا ہے بھلا وہ خواب فروخت کرنے کیوں تیار نہ ہوا۔

سراج الدین تاجر کو لے کر سپاہیوں کا جتھا شاہی محل میں پہنچا۔ وہ قید خانے کی طرف جاہی رہے تھے کہ راستے میں شاہی باغ پڑا۔ باغ میں گلاب کے درخت کے قریب کھڑی ایک بے مثال حسن کی دیوی پر یکایک تاجر کی نگاہ پڑ گئی۔

’’آہ…بے مثال‘‘ تاجر کے منھ سے بربس نکلا۔

’’کیا ہوا…‘‘ سپاہیوں نے تاجر کی آہ سنی تو پوچھنے لگا۔

’’یہ پری رو کون ہے دوستو۔‘‘ سراج الدین تاجر نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سپاہیوں سے کہا۔ تو سپاہیوں نے اسے لات گھونسوں پر رکھ لیا۔

’’خبردار گندے انسان…وہ بادشاہ کی ہونے والی رانی ہیں۔‘‘

’’اوہ…لیکن یہ اتنی اداس کیوں ہے اور اس کے گرد سخت پہرہ کیوں ہے۔‘‘

’’اس نے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بادشاہ سے شادی نہیں کر سکتی۔ ‘‘

’’کیا…کیا خواب دیکھا ہے اس نے۔‘‘ تاجر محو حیرت تھا۔

سپاہیوں کے سربراہ نے تاجر کے دوہتھڑ جمایا تو وہ  لڑکھڑا کر گر گیا۔

’’اسے کیوں مارا جا رہا ہے۔‘‘ حسن کی دیوی نے سیدھے سپاہیوں کے قریب آ کر سوال کیا۔

’’ملکہ حضور …یہ بادشاہ سلامت کا قیدی ہے اور آپ کے بارے میں نازیبا کلمات بول رہا تھا۔‘‘ ایک سپاہی نے خوش آمدانہ لہجے میں جواب دیا۔

’’میرا نام عارفہ ہے۔ تم کون ہو اجنبی۔لگتا ہے میں نے تمھیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘   حسن کی دیوی نے تاجر کا بغور جائزہ لیا۔

لمبا قد، چوڑا ما تھا، چوڑا سینا اور گھنگھرالے بال تاجر کی مردانہ وجاہت کے اہم عنصر  معلوم ہو رہے تھے۔

’’میرا نام سراج الدین ہے اے ملکہ ٔحسن،اور میں خوابوں کا تاجر ہوں۔‘‘

’’چلو چلو اسے لے جا کر قید خانے میں ڈال دو۔‘‘ سربراہ نے ہانک لگائی۔

سراج الدین کو لے جا کر قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ تاجر کو خواب فروخت کرنے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن بھلا کون ایسا کر سکتا تھا جب کہ تاجر نے بادشاہ کو صاف انکار کر دیا تھا۔ جو بھی سنتا وہی حیران ہوتا کہ بادشاہ کو یہ کیا سنک سوار ہوئی ہے کہ وہ من چاہا خواب خریدنا چاہتا ہے اس سے زیادہ لوگ تاجر کی قسمت کو کوستے کہ وہ بھلا کیوں نہیں راجہ کو کہہ دیتا کہ لو یہ خواب تمہارا ہوا۔ بھلا کہنے بھر سے کہیں ممکن تھا کہ اس کا خواب راجہ کومل جاتا۔

تاجر کو قید ہوئے پورے ایک ہفتے کا وقت گزر چکا تھا۔تاجر کو اب فکر کھائے جا رہی تھی کہ اگر وہ یہاں سے نہ نکل سکا تو اس کا خواب کیسے پورا ہو گا۔ بھلا ایک ہزار اشرفیاں کیا وہ یوں ہی ضائع ہو جانے دے گا۔ ان ہی خیالات میں گم و ہ قید خانے کے جالی دار دروازے پر پالتی مارے بیٹھا تھا کہ گھنگھرو کی طرح بجتی نرم و نازک نسوانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

’’کس سوچ میں گم ہو سوداگر۔‘‘

’’آپ…ملکہ حسن اور …یہاں ‘‘ وہ عارفہ ہی تھی۔

’’ہاں …تم خوابوں کی تجارت کرتے ہو نہ ‘‘ عارفہ کی مترنم آواز اس کے کانوں میں شہد گھول رہی تھی۔

’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ …‘‘ سراج الدین کو اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ عارفہ اس کے اتنے قریب موجود ہے۔وہ تو اسے دیکھنے کے بعد ہی اس کا اسیر ہو چکا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح اس سے گفتگو کا موقع ملے۔ اور خدا نے اسے یہ حسین موقع فراہم کر دیا تھا۔ خوشی خود اس کے گاؤں چلی آئی تھی اپنے پاؤں چل کر۔

’’میں بھی تم سے ایک خواب خریدنا چاہتی ہوں سوداگر۔‘‘

’’کیا…لیکن آپ تو خود سراپا خواب ہیں پھر آپ کو کسی خواب کی کیا ضرورت۔‘‘

عارفہ کھلکھلا کر ہنس پڑی لیکن ایک دم سے سنجیدہ ہو گئی۔

’’کیا تم مجھے ایک خواب دو گے۔‘‘  اس نے اصرار کیا۔

’’کون سا خواب چاہتی ہو۔میرے پاس تو بہت سے خواب ہیں۔‘‘

’’عام سی لڑکی ہوں بہت عام سی سوچ ہے میری ،ایک گھر ہو دریچہ ہو اور پھول سا بچہ ہو۔‘‘ عارفہ نے گنگنا کر خواب بتایا۔

’’لیکن تم مجھ سے اور بھی اچھا خواب مانگ سکتی ہو…‘‘

’’نہیں مجھے صرف اتنی ہی خواہش ہے۔‘‘

’’لیکن تم تو بادشاہ کی رانی بننے جا رہی ہو تو پھر یہ خواب…‘‘

’’نہیں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔‘‘ عارفہ نے بے حد سختی سے انکار کیا تو سراج الدین خاموش ہو گیا۔

’’بولو خواب فروخت کروگے۔‘‘

’’ہاں -یہ خواب تو میرے پاس ہے اور میں تمھیں ابھی اسی وقت یہ خواب سونپتا ہوں۔ ‘‘

’’شکریہ میرے محسن…اور اس کی قیمت…‘‘

’’یہ میں نے تحفتاً تمھیں دیا ہے ‘‘ سوداگر نے کہا تو عارفہ کی ہرنی جیسی آنکھوں نے خاموشی کے ساتھ اظہار تشکر کیا۔ پھر عارفہ پلٹی اور واپس چلی گئی۔

تاجر کو قید ہوئے ایک ماہ گزر گیا تھا۔ اس کی داڑھی مزید بڑھ گئی تھی ،کھانا پیٹ بھر نہ کھا سکنے کی وجہ سے جسم بھی قدرے کمزور ہو گیا تھا۔اس کے کپڑے بھی میلے تھے۔ اسے آج بادشاہ نے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔بادشاہ کے سپاہی اسے لینے آ چکے تھے۔وہ ان کے ہمراہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہونے چل دیا۔ جیسے ہی وہ اس باغ کے قریب سے گزرا جہاں اس نے عارفہ کو پہلی بار دیکھا تھا تو شوق تجسس میں اس کی نظر باغ کی طرف اٹھی لیکن اسے وہاں عارفہ نظر نہیں آئی، اس کی اچانک چمک اٹھی آنکھیں مایوس ہو گئیں۔

’’کیا کہتے ہو تاجر…کیا تم اپنا خواب فروخت کرو گے۔تمھیں منھ مانگا دام ملے گا۔‘‘ بادشاہ کے مشیر خاص نے اونچی آواز میں تاجر سے کہا۔

’’میرا فیصلہ اب بھی وہی ہے بادشاہ حضور۔‘‘

’’کیا بکتے ہو۔ ‘‘ بادشاہ کا غصہ پھٹ پڑا۔ ’’تم دو ٹکے کے سوداگر تمہاری یہ مجال کہ تم میری حکم عدولی کرو۔‘‘

’’لیکن بادشاہ سلامت صرف اسی خواب کو کیوں خریدنا چاہتے ہیں جب کہ میرے پاس …‘‘

وزیر اعظم نے تاجر کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’بادشاہ سلامت عارفہ کو اپنی رانی بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ منع کرتی ہے۔ اگر تم وہ خواب بادشاہ کو دے دو تو عارفہ بادشاہ کے رشتہ میں آسکتی ہے۔کیوں کہ دنیا میں اگر چاند کے مشابہ کوئی ہے تو وہ عارفہ ہی ہے۔‘‘

’’وزیر اعظم کی بات پر تاجر کا سر چکرا گیا۔وہ جانتا تھا کہ عشق کے معاملات میں بادشاہ کبھی ہار ماننے والا نہیں۔ اسے اب اپنی زندگی تاریک نظر آنے لگی۔ اسے لگا کہ یا تو اب اس کی زندگی ختم ہوئی یا پھر اس کا خواب ٹوٹا۔

اچانک اسے یاد آیا کہ عارفہ تو اس سے عام لڑکی بننے کا خواب خرید چکی ہے تو بھلاوہ بادشاہ کی رانی کیسے بن سکتی ہے۔

’’لیکن بادشاہ حضور گستاخی معاف۔عارفہ تو مجھ سے پہلے ہی عام سی لڑکی ہونے کا خواب خرید چکی ہے۔اس لیے اب بھلا وہ کیسے رانی بن سکتی ہے۔‘‘

’’کیا…کیا کہا تم نے۔‘‘ مشیر خاص اور بڑے نجومی نے ایک ساتھ کہا تو بادشاہ بھی مایوس ہو کر دھم سے سنگھاسن پر گر پڑا۔

’’ہاں وہ تو پہلے ہی عام لڑکی کا خواب مجھ سے لے چکی ہے۔‘‘

’’تب تو بادشاہ حضور یہ خواب خریدنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔‘‘ نجومی نے مدھم آواز میں بادشاہ سے کہا اور ہاتھ باندھ کر گردن جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

’’ٹھیک ہے تاجر کو آزاد کر دیا جائے اور اسے ایک ہزار ایک سو اشرفیاں دے کر وداع کردو۔‘‘ بادشاہ بے حد غمزدہ تھا۔

’’اور عارفہ…‘‘ بادشاہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔

’’عارفہ عام زندگی چاہتی ہے نا…تو…اس کی شادی سراج الدین تاجر سے کر دی جائے۔‘‘ بادشاہ نے بے حد ہلکی آواز میں حکم دیا اور اٹھ کر آرام گاہ میں چلا گیا۔

سراج الدین کو تو جیسے منھ مانگی مراد مل گئی تھی اس نے بادشاہ سے اشرفیاں وصول کیں اور عارفہ کے خیالوں میں گم ہو گیا۔

’’ہمیں افسوس ہے کہ عارفہ خانم سپاہیوں کو دھوکہ دے کر غائب ہو گئی ہیں۔‘‘ سپاہ کے سربراہ نے سراج الدین کو مطلع کیا تو اس کا دل غمگین ہو گیا۔اسے فوراً خیال آیا کہ اس نے بادشاہ سے جو اشرفیاں وصول کی ہیں شاید یہ ا س کی لعنت ہے کہ اس کا خواب ادھورا رہ گیا۔ اسے بادشاہ نے خواب کی قیمت تو ادا نہیں کی اسے اچانک خیال آیا کہ بادشاہ کے دل میں یہ خیال آیا ہو گا کہ اگر چاند اسے نہ ملا تو کیا تاجر کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔شاید اسی لیے اس نے سو اشرفیاں زیادہ اسے دی ہیں۔ تاجر نے سوچا کہ وہ اشرفیاں واپس کر دے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا بادشاہ اپنی خوابگاہ میں جا چکا تھا۔ سوداگر بھرے من اور بوجھل قدموں سے محل سے باہر آیا اور اپنے کالے گھوڑے پر سوار ہو کر چل دیا۔وہ سیدھا بازار میں آیا۔ اس نے اپنی قیام گاہ پہنچ کر آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔

سراج الدین دو دن اور رات تک مسلسل سوتا رہا۔ ایک ماہ کی قید اور عارفہ کے داغ مفارقت نے اسے بہت تھکا دیا تھا۔وہ جب دو دنوں کے بعد نیند سے جاگا تو اسے تیز بھوک لگی تھی۔ وہ اٹھا اور بازار سے اپنے لیے کھانا اور گھوڑے کے لیے چنے خرید لایا۔ پیٹ کی آگ بجھی تو اسے مستقبل کی فکر لاحق ہوئی۔اس نے پہلی فرصت میں طے کر لیا تھا کہ وہ اب خوابوں کا کاروبار نہیں کرے گا۔وہ اب اپنے خواب کی تکمیل و الی بات بھی بھول جانا چاہتا تھا۔اس نے طے کیا کہ وہ اب ظروف کا کاروبار کرے گا۔

سراج الدین نے دھیرے دھیرے ظروف کا کاروبار خوب جما لیا۔اس نے محل کے قریب ہی ایک کشادہ مکان بھی تعمیر کرا لیا تھا جس میں کافی بڑا سا لان بھی تھا۔ وہ دن رات تجارت کے فروغ میں مصروف رہتا تھا۔ حمید جو کہ اس کا وفادار نوکر تھا نے اسے کئی مرتبہ شادی کرنے کا مشورہ دیا لیکن سراج الدین کو فرصت ہی کہاں تھی کہ وہ اس طرف غور کر پاتا۔ وہ پرانی تمام باتیں بھول چکا تھا۔

سراج الدین کافی عرصے کے بعد کاروباری ضرورت سے سفر پر نکلا تھا۔ وہ اپنے پسندیدہ کالے گھوڑے پر سوار تھا اور  سکندرآباد کی طرف جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا وفادار نوکر حمید بھی تھا۔ راستے میں سراج الدین کو تیز پیاس لگی۔ اتفاق سے اس کے پاس جتنا بھی پانی تھا وہ راستے میں ختم ہو چکا تھا۔

’’حمید کہیں پانی مل سکتا ہے کیا۔‘‘ سراج نے حمید سے پوچھا۔

’’وہ سامنے ایک مکان ہے شاید وہاں پانی مل جائے۔‘‘

حمید اور سراج مکان کے نزدیک پہنچ کر گھوڑوں سے اتر گئے۔ حمید نے دروازہ پر دستک دی۔’’کون ہے ‘‘ ؟ایک نسوانی آواز آئی۔

’’ہم مسافر ہیں کیا پینے کا پانی مل سکتا ہے خاتون۔‘‘ حمید نے بے حد مہذب انداز میں خاتون سے درخواست کی۔

کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر اچانک دروازہ کھلا۔

’’لیجئے پانی پی لیجئے۔‘‘ نسوانی آواز کی طرف دونوں کی نظریں اٹھیں۔

پانی سے بھری صراحی ہاتھ میں لیے ایک خوبصورت خاتون انھیں پکار رہی تھی۔ دونوں نے خوب ڈٹ کر پانی پیا۔

’’شکریہ خاتون‘‘ سراج نے جیسے ہی واپسی کا ارادہ کیا اچانک اس کی نظر خاتون پر پڑی۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔

’’عارفہ…‘‘ سراج کے منھ سے بے خودی کے عالم میں جو لفظ نکلا اس نے اس خاتون کو بھی چونکا دیا۔ خاتون نے بغور سراج کا جائزہ لیا۔

’’سوداگر‘‘ فرط مسرت سے اس کا چہرہ لال ہو گیا۔

’’اوہ میرے خدا یہ تم ہو…عارفہ …تم کہاں غائب ہو گئیں تھیں۔ ‘‘ سراج نے عارفہ سے شکوہ کیا۔

’’میں نے تم سے خواب تو حاصل کر لیا لیکن یہ اب تک بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ لگتا ہے تم نے مجھے ادھورا تحفہ دیا تھا۔ ‘‘ عارفہ نے بھی سراج سے شکوہ کر ڈالا۔ حمید دونوں کی بات کرتے ہوئے دیکھ کر حیران تھا۔

’’نہیں تمہارا خواب ضرور پورا ہو گا۔‘‘ سراج نے دل میں سوچا۔پھر اچانک اس نے عارفہ سے سوال کیا۔’’لیکن تم محل سے غائب کیسے ہو گئیں۔‘‘

’’مجھے ایک سپاہی نے بڑا خطرہ اٹھا کر بھاگنے میں مدد کی اور اپنے اس گھر کا پتہ بھی دیا کہ مجھے یہاں چھپنے میں دقت نہ ہو۔ لیکن افسوس کہ وہ بادشاہ کے قہر سے محفوظ نہ رہ سکا۔‘‘

حمید نے ما حول کو مزید رنگین کرتے ہوئے عارفہ سے درخواست کی کہ وہ سراج سے نکاح کر لے اور مرشدآباد والے گھر کو آباد کرے۔ عارفہ نے فوراً ہی رضامندی کا اظہار کیا۔ اور سراج کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو گئی۔

عارفہ کی رفاقت میں سراج بے حد خوش اور مطمئن تھا اسے ایک سال کب گزرا پتہ ہی نہ چلا۔ عارفہ نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا۔ اس مشغلے نے دونوں کی زندگی کو زیادہ گلزار کر دیا تھا۔

سراج الدین کو تین سال کے عرصہ میں حمید نے کاروباری مصروفیت سے دور رکھا تھا لیکن اب دھیرے دھیرے سراج نے اپنے کاروبار پر دھیان دینا شروع کر دیا تھا۔وہ حساب کتاب کرتے کرتے لان میں ہی لیٹ گیا۔ اس کا دو سال کا بیٹا بھاگتا ہوا آیا اور اس کی بغل میں آ کر بیٹھ گیا۔ چند سیکنڈ کے لیے تھکان کے سبب آنکھ لگ گئی اور جب اس کی آنکھ کھلی تو عارفہ اس کے اوپر جھکی ہوئی تھی اور اسے اندر جا کر سونے کی تاکید کر رہی تھی۔

بالکل اچانک سراج الدین کے ذہن میں بجلی سی کوند گئی۔اسے اپنا وہ خواب یاد ہو آیا جس کے لیے وہ بادشاہ تک سے لڑ گیا تھا۔

’’میں ایک خوبصورت مکان کے لان میں نرم گھاس پر لیٹا ہوا ہوں۔میرے اوپر چاند اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جھکا ہوا ہے اور میری بغل میں سور ج بیٹھا مجھے نہار رہا ہے۔‘‘ اور مکمل ہو گیا تھا عارفہ کا خواب بھی۔

٭٭٭

 

دائمی جہیز

جس شجر کو پھلوں سے نوازا گیا

اس کی قسمت میں لکھے ہیں پتھر بہت

                                                                                    (عزیز بگھروی)

            جس نے بھی سنا کہ اشرف میاں اپنے بیٹے کا رشتہ ایک معمولی سے گھرانے میں طے کر آئے ہیں وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بات تھی ہی ایسی محلہ بھر میں یہ بات مشہور تھی کہ اشرف میاں بلا کے لالچی شخص ہیں۔انھوں نے اپنے تین بڑے بیٹوں کی شادیاں ایسے گھرانوں سے کی تھیں جہاں سے انھیں من موافق جہیز ملا تھا۔ پھر آخر چوتھے اور آخری لڑکے کو جان بوجھ کر کیوں کھائی میں دھکیلا گیا یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

میں صبح چہل قدمی کرنے نکلا تو راستے میں طارق چچا مل گئے۔

’’کہاں جا رہے ہو چچا جان‘‘ میں نے سلام کے بعد طارق چچا سے کہا۔

’’ارے بٹیا…ذرا ہوا خوری کرنے نکلا تھا۔ ‘‘

’’گھر پر تو سب خیریت ہے۔‘‘

’’ہاں گھر پر تو سب ٹھیک ہے پر محلہ میں …‘‘ طارق چچا کو اپنے گھر سے زیادہ محلہ پڑوس کی فکر لگی رہتی تھی۔

’’کیا ہوا محلہ میں چچا۔‘‘

’’ارے سنا ہے اشرف میاں نے اپنے ڈاکٹر لڑکے کی شادی ایک ادنیٰ سے ماسٹر کی بیٹی سے طے کر دی۔ بھئی یہ تو کمال ہی ہو گیا۔‘‘

’’چچا اس میں کمال جیسی کیا بات ہے۔انھیں لڑکی پسند ہو گی تو رشتہ طے کر دیا۔‘‘

’’ارے تم اشرف کو جانتے نہیں ہو کیا۔ وہ ایک نمبر کا لالچی بنا جہیز لیے لڑکے کی شادی کرے تو کمال نہ ہو گا بھلا۔‘‘ چچا طارق شروع ہو گئے۔‘‘ اور بیٹا اس نے لڑکی دیکھ کر بھلا کب شادی کی ہے۔ہمیشہ مال ہی دیکھا ہے تبھی باقی تین بہوئیں سانولی، موٹی اور نہایت بے ڈول ہیں۔‘‘

چچا طارق اشرف میاں کی بہوؤں کے جسمانی جغرافیہ سے کچھ زیادہ ہی واقف لگ رہے تھے۔ویسے بھی محلہ بھر کی نسوانی جماعت سے انھیں کچھ زیادہ ہی لگاؤ تھا۔ ان کی صبح کی ہوا خوری بھی کچھ اسی وجہ سے ہوتی تھی۔

’’ہو سکتا ہے کہ اشرف میاں اب سدھر گئے ہوں۔اور اب وہ واقعی غریب گھرانے میں شادی کر کے پرانے پاپ دھونا چاہتے ہوں۔ ‘‘ میں نے بے وجہ جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔جسے طارق چچا نے فوراً مسترد کر دیا۔

’’میاں اشرف جیسے لوگ کبھی نہیں بدلتے۔دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ‘‘  طارق چچا نے اپنی لمبی سی داڑھی سہلاتے ہوئے کہا۔ تو میرا دل چاہا کہ ان سے کہہ دوں دال کالی ہو یا دال میں کالا ہو وہ سب اشرف میاں کا گھریلو اور ذاتی مسئلہ ہے اس میں مجھے اور آپ کو ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن پتہ تھا کہ اتنا سنتے ہی چچا بھڑک جائیں گے اور پھر انھیں سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اس لیے کنارے سے گزرنے میں ہی عافیت جان میں آگے بڑھ گیا۔

آج صبح ہلکی بارش ہونے سے موسم نہایت خوشگوار ہو گیا تھا۔ اس لیے صبح کی سیر کرنے والوں کی بھیڑ کچھ زیادہ ہی تھی۔ محلہ کے کئی کھوسٹ قسم کے بوڑھے آج سیر کو کیوں نکلے ہیں میں یہ سمجھ گیا تھا۔ اچانک استاد قمرو سامنے پڑ گئے۔

’’کیسے ہو برخوردار‘‘ انھوں نے میری پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔ابّا کے قریبی دوستوں میں استاد قمرو بھی شامل تھے اس لیے وہ جب بھی ملتے پدرانہ شفقت ضرور ظاہر کرتے تھے۔

’’جی اچھا ہوں۔آج آپ کیسے مارننگ واک پر نکل آئے۔‘‘

میرے سوال پر وہ کچھ گڑبڑا گئے۔’’بس ذرا طبیعت بھاری ہو رہی تھی تو سوچا کہ موسم کا مزہ ہی چکھ لوں۔ ‘‘ میں پوری طرح جانتا تھا کہ وہ کس موسم کا مزہ چکھنا چاہتے ہیں۔

’’ارے بیٹا تم نے سنا وہ اشرف نے اپنے بیٹے کی شادی غریب …‘‘

’’خاندان میں ماسٹر کی لڑکی سے طے کر دی ہے ‘‘ میں نے ان کی بات پوری کر دی۔

’’ہاں بیٹا سمجھ نہیں آتا اشرف اس رشتے پر تیار کیسے ہو گیا ‘‘ انھوں نے ٹھوڑی کو سوچنے والے انداز میں ہاتھ سے پکڑا اور پھر داڑھی کے بال کھجانے لگے۔

’’انکل وہ اشرف میاں کا ذاتی معاملہ ہے ہم آپ کیوں پریشان ہوں۔ ‘‘ میں اب واقعی سوچنے لگا تھا کہ آخر اس رشتے میں کوئی انوکھی بات ضرور ہے جس نے محلہ کے تمام بڈھوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

’’ضرور لڑکی جادوگرنی ہے ورنہ اشرف میاں کو اس رشتے پر رام کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔‘‘ استاد قمرو نے اپنا خدشہ بھی بیان کر ڈالا۔ اب تو برداشت کی حد ہی ہو گئی تھی۔میں نے ضروری کام کا بہانہ بنایا اور آگے بڑھ گیا۔

ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ ممبر شکیل سامنے پڑ گئے۔

سلام دعا اور خیریت وغیرہ کی رسمی گفتگو کے بعد وہ بھی اشرف میاں کے بیٹے کی شادی کو لے کر چرچا میں مشغول ہو گئے۔اور میرے احتجاج کے باوجود انھوں نے بھی فیصلہ صادر فرما ہی دیا۔

’’ضرور لڑکی اور لڑکے کا معاشقہ چل رہا ہو گا۔ میاں -کچھ ایسی ویسی حرکت بھی ہو گئی ہو گی کہ اشرف میاں کو منھ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ ‘‘

اب تو میرے  دل میں بھی اشتیاق پیدا ہو گیا کہ جس بات اور رشتے کو لے کر محلہ کے تمام بوڑھے پیٹ میں درد کیے بیٹھے ہیں اس کا راز ضرور پتہ لگانا چاہیے۔

میرے پاؤں بربس ہی اشرف میاں کے گھر کی طرف اُٹھ گئے۔ جلد ہی میں اشرف میاں کی بیٹھک پر پہنچ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی اشرف میاں نے اندر سے آواز لگائی۔

’’آؤ بھئی اندر آ جاؤ …بڑے دنوں بعد آنا ہوا۔‘‘ اشرف میاں نے دانت نکال کر ہلکی مسکراہٹ سے استقبال کیا۔

’’جی جناب بس کاروباری ذمہ داریوں نے الجھا لیا تھا۔‘‘

’’اور سناؤ آج کل کیا لکھ پڑھ رہے ہو ‘‘ ۔اشرف میاں نے میری لکھنے پڑھنے کی عادت کے متعلق سوال کیا۔‘‘

’’جی آج کل جہیز سے متعلق ایک ناول لکھ رہا ہوں۔ سنا ہے آپ نے اپنے بیٹے ڈاکٹر راشد کا رشتہ طے کر دیا ہے۔‘‘  میں جلد ہی مدعے کی بات پر آ گیا تھا۔

’’ہاں بیٹا اپنے رشتہ دار ہیں ماسٹر شرافت ان کی بیٹی کے ساتھ۔بڑی پیاری بچی ہے۔ ‘‘ ان کی آنکھوں میں یکایک جگنو روشن ہو گئے تھے۔

’’لیکن جناب آپ نے اپنے تینوں بڑے لڑکوں کی شادی تو ایسی جگہوں پر کی تھی جہاں سے اچھا جہیز ملے اور آ پ کو ملا بھی۔ پھر ڈاکٹر صاحب کی شادی معمولی گھرانے میں کیوں …‘‘ میں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔

میرے سوال پر اشرف میاں نے زورکا قہقہہ لگایا۔

’’تم سے کس نے کہا کہ مجھے بہت سا جہیز اب نہیں ملے گا۔‘‘ اشرف میاں نے الٹا مجھ سے ہی سوال کر دیا۔

’’ظاہر ہے معمولی گھرانے کے معمولی سے ماسٹر کی حیثیت بھلا زیادہ جہیز دینے کی کہاں ہو گی۔‘‘

میری بات پر اشرف میاں تھوڑے چوکنّے ہو کر بولے۔

’’اب تم سے کیا چھپانا بیٹے۔میں نے تین لڑکوں کی شادیاں کیں۔ انھوں نے مجھے بہت سا جہیز دیا لیکن وہ کتنے سال ساتھ دیتا چار پانچ سال میں تمام جہیز کا مال ختم ہو گیا۔‘‘  اشرف میاں چند سیکنڈ کے لیے رکے۔

’’اس بار میں چاہتا تھا کہ مجھے ایسا جہیز ملے جو کہ طویل عرصے تک ہمارے ساتھ رہے۔ ‘‘

’’ایسا کون سا جہیز ہے۔‘‘ میں بھی اشرف میاں کی بات پر الجھ کر رہ گیا۔

اچانک اشرف میاں کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔وہ رازدارانہ انداز میں گویا ہوئے۔

’’در اصل ماسٹر شرافت کی لڑکی ڈگری کالج میں لکچر ر بن گئی ہے اسے ماہ میں چالیس ہزا رکی تنخواہ تو ملے گی ہی۔ایسے میں اسے سال میں ۸۰۔۴لاکھ روپئے ملیں گے۔ تینوں لڑکوں کے جہیز میں کل دس دس لاکھ ہی تو ملے تھے۔ اتنا تو یہ لڑکی ڈھائی سال میں ہی کما کر لے آئے گی۔ تو بتاؤ میرا انتخاب کہاں سے غلط ہے۔‘‘

اشرف میاں کے حساب کتاب پر میں واقعی حیران رہ گیا تھا۔

’’اور میں نے ماسٹر شرافت سے طے کر لیا ہے کہ وہ بیس فیصدی تنخواہ گھریلو مصرف کے لیے مجھے دیا کرے گی۔

٭٭٭

 

نوکری

درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

                                                                                                                                                                                                                                    (فیض احمد فیضؔ)

اندھیرے کمرے میں بیٹھے معمر شخص کی آنکھوں سے بہہ رہے آنسو کمرے کے ماحول کو بے حد اداس بنائے ہوئے تھے ایسا لگتا ہے کہ کمرے کا ہر حصہ اور ہر اشیاء اس معمر شخص کے غم میں آنسو بہا رہا ہے۔ واقعی اس کا غم تھا  بھی تو کتنا بھیانک؟ انسان مستقبل کو لے کر کتنی بھی فکر کیوں نہ کرے لیکن ہوتا وہی ہے جو اس کی قسمت میں لکھا ہے اور اس نے اپنے بیٹے کو کتنے ناز سے پالا تھا کہ وہ آگے چل کر اس کا سہارا بنے گا۔جو دکھ وہ اب اس کے لیے اس کی پڑھائی کے لیے اٹھا رہا ہے اس کا صلہ مستقبل میں تو ملے گا ہی۔ پر قسمت کی مار کب بھلا کون پہچان سکا ہے۔

یہ معمر شخص کوئی اور نہیں بلکہ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر شاہد بابو تھے۔ انھوں نے تمام زندگی بچوں کی تدریس میں ایمانداری سے صرف کی تھی۔محدود آمدنی کے باوجود اپنے بچوں کی پرورش میں بھی کوئی کمی نہ آنے دی تھی۔ انھیں نہ صرف ایمانداری کا درس دیا بلکہ خدا کی خلق کا بھی دھیان دلایا تھا۔

اور پھر اچانک ان کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔

گاؤں میں پھیلے ڈینگو نے ان کے گھر میں کہرام مچا دیا۔ان کے تین میں سے دو بیٹے اس پلیگ کے مرض کا شکار ہو کر مالک حقیقی سے جا ملے۔ بنا یہ سوچے کہ ان کی جدائی کا غم ماسٹر شاہد کو کیسا بدحال کر دے گا۔ یہ پہلا موقع تھا جب انھیں اپنے کندھے جھکنے کا احساس ہوا اور یہ بھی کہ وہ اب جوان نہیں رہے۔

بہر حال صبر تو کرنا ہی تھا سو کیا۔ بیوی کو سمجھایا، بیمار ماں کو دلاسا دیا اور قدرت کے فیصلے پر سر خم کر دیا۔ دھیرے دھیرے وقت گزرتا رہا۔اب ان کی نگاہوں کا مرکز ان کا اکلوتا بیٹا واحد ہی تھا۔ انھوں نے اپنے سارے غم واحد کی عمدہ پرورش کرنے کے جنون میں بھلا دیئے تھے۔زندگی بھی اب معمول پر آنے لگی تھی۔

واحد بارہویں پاس کر کے انجینئرنگ میں داخلہ لے چکا تھا۔ وہ بے حد سلیقہ مند اور پڑھاکو قسم کا لڑکا تھا جس نے ماسٹر صاحب کی خواہشوں کو پنکھ لگا دیئے تھے۔

ماسٹر شاہد کا خیال تھا کہ جیسے ہی اس کا انجینئرنگ کا کور س مکمل ہو گا ایک اچھی سی نوکری دلا کر واحد کی شادی کر دیں گے۔انھوں نے تو آگے تک کی سوچ لی تھی کہ وہ جلد ریٹائر ہو کر پوتوں پوتیوں سے کھیلتے ہوئے بڑھاپے کا لطف اٹھائیں گے۔ انھیں خیالوں میں گم ماسٹر شاہد ایک بار پھر شاید قدرت کو بھول سے گئے تھے۔ انھیں قسمت اور اس کے نرالے کھیل کا احساس ہی نہ رہا تھا۔

واحد نے بڑے انہماک سے پڑھائی کی تھی وہ پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔اب اسے امید تھی کہ جلد کوئی اچھی نوکری مل ہی جائے گی۔

اور پھر ایک دن۔

’’ابا دیکھو میرے انٹرویو کے لیے لیٹر آیا ہے۔‘‘ وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔ اسے اپنے خواب ایک ہی پل میں سچ ہوتے لگ رہے تھے۔ ماسٹر صاحب نے بھی اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی تھی۔

واحد انٹرویو والے دن اپنی باری کے انتظار میں محکمۂ تعمیرات کے ریسپشن ہال میں بیٹھا تھا۔ تبھی ریسپشن پر بیٹھے شخص نے اس کا نام پکارا۔

’’واحد حسین …‘‘

’’جی سر…‘‘

’’اندر جا کر اپنی اسناد چیک کرا لیں۔‘‘

بے قراری کے عالم میں واحد نے کمرے کے اندر قدم رکھے اور وہاں بیٹھے شخص کو اپنی فائل سے تمام ا سناد ایک ایک کرکے دکھانی شروع کر دیں۔

’’کیا تم نوکری حاصل کرنے کے لیے واقعی اہل ہو۔‘‘ اسناد چیک کرتے ہوئے وہ شخص واحد سے بڑے عجیب و غریب انداز میں گویا ہوا۔

’’یس سر…‘‘ واحد نے تھوڑا حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔

’’یہاں اور بھی بہت سے اہل امیدوار موجود ہیں میاں ،اور تم نے تو کسی سے سفارش بھی نہیں کرائی ہے۔‘‘

’’سفارش…‘‘ اس کے منھ سے بربس نکلا۔

’’ہاں میاں …بنا سفارش تو آج کل کسی کو نوکری نہیں ملتی …‘‘ سکہ اچھالنے والے انداز میں انگوٹھے کا اشارہ کرتے ہوئے اس نے مزید کہا ’’دور حاضر کے حکومتی نظام کا یہی دستور ہے۔‘‘

’’لیکن اگر سفارش نہ ہو تو …‘‘ اس شخص نے بنا کوئی تاثر کے جواب طلب نظروں سے واحد کی طرف دیکھا۔

’’تب تو مشکل ہے میاں …‘‘

’’اگر کچھ رقم خرچ کر سکو تو کہو…‘‘ اس شخص نے بنا کوئی تاثر کے جواب طلب نظروں سے واحد کی طرف دیکھا۔

’’لیکن سر میں نے تو پہلی پوزیشن میں ڈگری …‘‘

سامنے بیٹھے شخص نے قہقہہ لگایا تو واحد کا دل کانپ کر رہ گیا۔

’’بیٹے تم ابھی پہلی مرتبہ انٹرو یو دے رہے ہو۔ سرکاری انجینئر بننے کے لیے تمھیں پہلی پوزیشن کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ دس لاکھ روپئے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

واحد کے تو پاؤں تلے سے زمین ہی کھسک گئی۔

’’دس لاکھ روپئے …اتنی رقم تو اس کے والد نے بھی کبھی نہ دیکھی ہو گی۔‘‘ واحد نے دل ہی دل میں سوچا۔

جیسے تیسے اس نے انٹرویو دیا اور وہ لڑکھڑاتے قدموں سے باہر نکلا۔

اس کے ذہن میں دس لاکھ کی آوازیں مسلسل گونج رہی تھیں۔

واحدنے آفس سے باہر نکل کر سڑک پار کرنے کی کوشش کی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا دماغ سن ہو گیا ہے۔ ایسے میں اُسے احساس نہ رہا کہ وہ سڑک پر پہنچ چکا ہے اور جب تک اسے کچھ خیال آتا وہ ایک تیز رفتار ٹرک کی زد میں آچکا تھا۔

ماسٹر شاہد بدحواس حالت میں اسپتال پہنچے تو واحد کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا جا چکا تھا۔واجد کے جسم کے کئی حصوں میں چوٹیں آئی تھیں لیکن سب سے تشویشناک بات یہ تھی کہ واحد کے دماغ کو گہری چوٹ لگی تھی۔ اس کو خطرے سے باہر لانے کے لیے آپریشن کی فوراً ضرورت تھی۔ آپریشن کے لیے بڑی رقم درکار تھی۔ وہ تو ماسٹر شاہد کا فنڈ وقت پر کام آ گیا ورنہ تو واحد کا کیا ہوتا یہ سوچ کر ہی ماسٹر شاہد کا کلیجہ منھ کو آتا تھا۔

واحد کو اسپتال میں داخل ہوئے دس دن ہو چکے تھے۔اس کا آپریشن کامیاب رہا تھا۔ اور وہ تیزی سے رو بہ صحت ہو رہا تھا۔ شاہد بیٹے کے ایکسیڈینٹ سے بری طرح ٹوٹ کر رہ گئے تھے انھیں احساس ہو رہا تھا کہ ان کے کندھے مزید جھک گئے ہیں۔ وہ دل ہی دل میں آنسو بہاتے اور بیٹے کی جلد صحت یابی کے لیے دعا مانگتے۔ان کے لیے تو دوہری مشکل پیدا ہو گئی تھی۔

وہ خود کتنے غمزدہ تھے یہ تو وہ خود ہی جانتے تھے لیکن گھر میں واحد کی ماں اور اپنی بیمار ماں کی دلجوئی کرتے اور اسپتال میں پہنچ کر بیٹے کو دلاسا دیتے لیکن جب کبھی اکیلے ہوتے تو چپ چاپ آنسو بہا کر دل ہلکا کر لیتے۔

تاریک کمرے میں بیٹھے وہ آج بھی قسمت پر آنسو بہا رہے تھے۔ ماسٹر شاہد اپنی قسمت سے بہت زیادہ شاکی تھے۔وہ سوچتے تھے کہ انھوں نے تو کبھی کسی کا دل نہ دکھایا تھا پھر اللہ کی طرف سے ان کی ایسی آزمائش کیوں ہو رہی ہے۔

ماسٹر شاہد سوچ رہے تھے کہ بیٹے کو نوکری دلانے اور شادی کرنے کا جو انھوں نے منصوبہ بنایا تھا وہ اب کیسے پورا ہو گا۔

انھیں سوچوں میں گم انھیں اچانک احساس ہوا کہ باہر کچھ شور ہو رہا ہے۔ ابھی وہ اٹھنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی بیوی نے کمرے کی لائٹ آن کرتے ہوئے کہا ’’سنئے جی شہر کے حالات بہت کشیدہ ہو گئے ہیں ایسے میں ہم اسپتال کیسے جائیں گے۔‘‘

’’تم رکو میں بدھا کوبلاتا ہوں وہ ہمیں اسپتال چھوڑ دے گا۔‘‘

بدھا ان کے قریب ہی رہتا تھا اور ان کا شاگرد بھی تھا۔ اس نے نوکری نہ ملنے پر ٹیمپو چلانی شروع کر دی تھی۔ماسٹر شاہد نے بدھا کو ساتھ لیا اور وہ اسپتال پہنچ گئے۔راستے میں انھیں احساس ہوا کہ حالات واقعی بہت خراب ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت فساد برپا ہو سکتا ہے۔

’’کیسے ہو بیٹے‘‘ باپ کو دیکھ کر واحد کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔

’’نہیں بیٹے روتے نہیں تم اب بالکل ٹھیک ہو اور کل تمہیں اسپتال سے چھٹی بھی مل جائے گی۔‘‘

اتنا کہتے کہتے ماسٹر شاہد کا گلارندھ گیا تھا۔بیٹے کو حوصلہ دیتے دیتے خود بے حوصلہ ہوتے جا رہے تھے۔

شہر کی فضا بے حد کشیدہ ہو چکی تھی۔ اور کئی جگہ جھڑپیں ہونے کی خبریں بھی اخبارات کے ذریعہ پتہ لگ رہی تھیں۔ایسی حالت میں بھی بدھا کی مدد سے ماسٹر شاہد واحد کو گھر لے آئے تھے۔

واحد گھر کے ماحول میں آ کر بہت جلد نارمل ہو گیا تھا۔اب اسے مستقبل کی فکر لاحق ہونے لگی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ بنا دس لاکھ دیئے اسے نوکری نہیں ملے گی۔ اس کے والد اس کے علاج میں اپنا تمام فنڈ پہلے ہی گنوا چکے ہیں ایسے میں ا س کے لیے دس لاکھ کی رشوت دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔انھیں سوچوں میں گم وہ بیٹھا تھا کہ ماسٹر شاہد کی آواز نے اس کے خیالات کو منتشر کر دیا۔

’’کیا سوچ رہے ہو۔‘‘

’’سوچ رہا ہوں کہ مجھے نوکری کیسے ملے گی۔‘‘

’’مل جائے گی تم پریشان نہ ہو ‘‘ بیٹے کو الجھن میں دیکھ ماسٹر شاہد نے تسلی دی۔

’’کیسے ابا …دس لاکھ…کہاں سے آئیں گے ‘‘ واحد نے کہا تو ماسٹر شاہد کے دماغ میں چھناکا ساہوا۔بیٹے کے ایکسیڈینٹ نے اس فکر سے ان کی توجہ ہٹا دی تھی۔ ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے۔

وہ اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے دس لاکھ کے انتظام کی بابت سوچ رہے تھے کہ ان کی نگاہ اخبار کی ایک سرخی پر پڑی۔ کل شہر میں بھیانک فساد برپا ہوا تھا۔ اس فساد میں دو لوگوں کی جانیں بھی ضائع ہوئی تھیں۔ حالات کے مد نظر حکومت کی طرف سے مرنے والوں کے وارثین کو دس دس لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ماسٹر شاہد کی نظریں اخبار کی انہیں سطروں میں الجھ کر رہ گئی تھیں۔

’’مرنے والوں کے وارثین کو دس لاکھ روپئے دینے کا حکومت نے فیصلہ کیا ہے۔‘‘

ماسٹر شاہد نے یہ سطر کئی مرتبہ پڑھی۔ا چانک ان کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ بیٹے کے سکون کے لیے انھوں نے من ہی من ایک خطرناک پلان تیا رکر لیا تھا۔

باہر سے توڑ پھوڑ اور فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں شاید ان کا محلہ بھی فساد کی زد میں آ چکا تھا۔ماسٹر شاہد نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اپنی ماں اور بیوی کو دل بھر کر دیکھا۔ بیٹے کے قریب پہنچ کر اس کی پیشانی کو چوما اور نصیحت کی ’’اپنی دادی اور ماں کاخیال رکھنا اور تمھیں پیسوں کے لیے پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘

اپنے آنسوؤں کو چھپاتے ماسٹر شاہد دروازہ کھول کر باہر نکل گئے۔            ٭٭٭

 

چوراہے والا بھکاری

گفتگو یہ کہ خدا ہے سب کچھ

اور عمل یہ کہ خدا کچھ بھی نہیں

                                                                                                (دوا کر راہیؔ)

            ’’لالہ جی میں بے روزگار ہوں اور چار دنوں سے بھوکا بھی ہوں۔ مجھے کچھ کام دے دو۔‘‘ پتلے دبلے سے درمیانے قد کے شخص نے لالہ ہری رام کی دوکان پر پہنچ کر عرضداشت گزاری۔ یہ صولت علی تھے جو کہ کام کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔

’’کیا کام کر سکتے ہو۔‘‘ لالہ نے پوچھا

’’جی کچھ بھی کر لوں گا۔آپ بس مجھے کام پر رکھ لو۔ میرا بیٹا بھی دو دنوں سے بھوکا ہے۔‘‘

’’لیکن تم بھوکے کیوں ہو۔‘‘

’’مجھے کوئی کام نہیں دیتا۔‘‘ دبلے پتلے صولت علی نے مایوسی سے گردن جھکا لی۔

’’معاف کرنا بھائی میرا بھی کاروبار مندا چل رہا ہے۔اس لیے میں …‘‘ لالہ نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

’’لالہ ہم باپ بیٹے پر رحم کرو…کچھ کام دے دو تاکہ ہم بھی دو جون کی روٹی کما سکیں۔ ‘‘

’’لیکن بھیا میرے پا س کوئی کام نہیں ہے۔‘‘ کہتے ہوئے لالہ ہری رام دوکان کے اندر چلے گئے۔مایوس صولت علی نے اپنے دس سال کے مریل سے بچے کی انگلی پکڑی اور دونوں باہر سڑک پر آ گئے۔

تیز چمک دار دھوپ نے دونوں کو تھوڑی دیر میں ہی جھلسا دیا۔چلتے چلتے دونوں کے گلے پیاس کی شدت سے سوکھنے لگے تھے۔ وہ نامعلوم منزل کی طرف گامزن تھے۔ بھوک نے دونوں کو اور زیادہ بے حال کر دیا تھا۔ چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں پیڑوں کاسایہ بھی تھا اور ہینڈ پمپ بھی۔ دونوں نے بھر پیٹ پانی پی لیا۔

’’کیا ہوا ناظم بیٹے۔‘‘ صولت علی نے ناظم سے پوچھا جو کہ اپنے پیٹ اور سینے پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ بھوکے پیٹ زیادہ پانی پی لینے سے اسے سینے میں کچھ تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ صولت علی کو بھی کچھ ایسا ہی احساس ہو رہا تھا۔

’’چلو کچھ دیر پیڑ کی چھاؤں میں آرام کرتے ہیں۔‘‘ صولت علی نے ناظم کو اپنے ساتھ لٹا لیا۔

ابھی ناظم کو سوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا جیسے اس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہو۔

’ابا…اٹھو ابّا…‘‘ ناظم نے باپ کو آوازیں دیں لیکن صولت علی نہیں جاگے۔

’’ابّا اٹھو…مجھے ڈر لگ رہا ہے ‘‘ ناظم رونے لگا۔ لیکن صولت علی پھر بھی نہیں اٹھے۔خالی پیٹ پر زیادہ پانی پینے سے صولت علی کی طبیعت بھی ایسی بگڑی تھی کہ پھر وہ کبھی نہ کھلنے والی نیند سو گئے تھے۔چھوٹا سا ناظم صولت علی کے سینے پر سر ٹکائے زار و قطار رو رہا تھا۔ روتے روتے کب اس کی آنکھ لگ گئی اسے احساس ہی نہ ہوا۔

اپنے ہاتھ پر کسی چیز کے ٹکرانے سے ناظم کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ اس کا باپ ابھی بھی گہری نیند میں سویا ہوا تھا۔ اور اس کے اوپر ایک دو پانچ اور دس دس کے بہت سارے سکے اور نوٹ پڑے ہوئے تھے۔ناظم نے باپ کو دیکھا اور پھر اسے آوازیں دے کر ا ٹھانے لگا۔

’’اٹھو …ابّا…اٹھو…‘‘ دیکھو ہمارے کھانے کے لیے اللہ نے بہت سے نوٹ دے دیئے ہیں …اٹھو‘‘ ناظم ابا کو آواز لگا کر تھک گیا تھا لیکن جب صولت علی نہ اٹھے تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔

’’بیچارا…کتنا پیارا بچہ ہے۔‘‘ ایک خاتون نے ناظم کی معصومیت کو سراہا اور اس کی طرف پچاس کا نوٹ بڑھایا۔ ناظم نے خاتون کی طرف دیکھا۔

’’رکھ لو بیٹا…سنو تمہارا باپ اب مر چکا ہے  اور اس کے دفن کا فرض تم پر ہے۔اٹھو اور اسے دفن کرو۔‘‘ خاتون نے ناظم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ آج ابّا اٹھ کیوں نہیں رہے۔‘‘ اس کے ابّا اتنی سی دیر میں ہی کیسے مر سکتے ہیں۔‘‘ ناظم نے دل میں سوچا۔’’یہ عورت جھوٹ بولتی ہے۔‘‘ اس نے پھر ابّا کو آواز  لگائی لیکن جب صولت علی نہیں اٹھے تو ناظم کا دماغ سن ہو گیا۔ وہ نہیں سمجھ پایا کہ اب وہ کیا کرے۔

ناظم نے ابّا کو دیکھا جن کے چہرے پر اب سکون نظر  آ رہا تھا۔ پھر اس نے ان پر پڑے سکوں اور نوٹوں کو دیکھا۔اس نے جلدی سے تمام سکے اور نوٹ اٹھا لیے۔

’’کیا وہ ان روپیوں سے باپ کو دفن کرے۔‘‘ ناظم نے دل ہی دل میں سوال کیا۔

’’لیکن پھر وہ پیٹ کی آگ کیسے مٹائے گا۔‘‘ ناظم کے اندر سے آواز آئی۔

’’اگر اس کی بھوک نہ مٹی تو وہ بھی جلد ابّا کے پاس چلا جائے گا۔‘‘  ناظم نے آخرکار طے کیاکہ وہ پہلے ابّا کو دفن نہیں کرے گا۔

روپئے لے کر ناظم سیدھے بازار گیا اور اس نے ہوٹل پر پہلی بار کھانا مانگا۔

’’اللہ کے نام پر کھانا کھلا دو بابو جی …میں کئی دنوں سے بھوکا ہوں۔‘‘

’’چل دور ہٹ بھکاری …یہاں خیرات میں کھانا نہیں ملتا۔ ‘‘  ہوٹل مالک نے ڈانٹا۔

ناظم کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ بے روزگار باپ کے بیٹے سے اچانک بھکاری بن چکا ہے۔ لیکن اس کے منھ تو خون لگ چکا تھا اس لیے اب اسے ’’بھکاری ‘‘  لفظ پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔اس نے پھر مطالبہ کیا۔وہ تب تک مطالبہ کرتا رہا جب تک کہ ہوٹل مالک نے تنگ آ کر اسے کھانا فراہم نہ کر دیا۔ کھانے کا پتّل ملنے پر ناظم دھیرے سے مسکرایا۔

کھانے سے فارغ ہو کر اس نے بھیک میں ملے روپیوں سے ایک ٹھیلہ خریدا۔ اور اسے لے کر باپ کی لاش کے پاس پہنچا۔ اس نے ایک دوسرے بھکاری کی مدد سے باپ کو ٹھیلے پر لٹا دیا۔ ناظم ٹھیلے کو کھینچتے ہوئے شہر کے سب سے زیادہ بھیڑ بھاڑ والے چوراہے پر پہنچا۔ فٹ پاتھ پر اس نے ٹھیلے کو کھڑا کیا اور دھیرے دھیرے آنسو بہاتے ہوئے اس نے آتے جاتے لوگوں سے مانگنا شروع کیا۔

’’میرا باپ مر گیا…اس کے کفن دفن کے لیے کچھ دیتے جاؤ بابوجی ‘‘

’’میں کئی دن سے بھوکا ہوں بابوجی…میرا باپ مر گیا۔‘‘

ناظم کی محنت شام ہوتے ہوتے رنگ لے آئی تھی۔ ا س نے کافی روپئے جمع کر لیے تھے۔

’’تو کیا اب اسے اپنے باپ کا کفن دفن کر دینا چاہیے۔ ‘‘ ناظم کو اچانک خیال آیا تو اس کا دل بھر آیا۔ اسے خیال آیا کہ اس کے باپ نے اس کی بھوک کے لیے کس طرح در در کی ٹھوکریں کھائی تھیں۔ اور اس نے کیا کیا اسی باپ کی لاش پر سوداگری کرنے لگا۔

’’لعنت ہے تجھ پر ناظم‘‘  اس کے دل نے دھتکارا۔

’’نہیں اب میں اپنے باپ کی لاش کی اور بے حرمتی نہیں کروں گا۔اب اس کو پہلے دفن کروں گا تب گھر واپس جاؤں گا۔‘‘ ناظم نے فیصلہ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

’’لیکن پھر کل میں کہاں سے کھانا لاؤں گا۔ ‘‘ یہ سوچتے ہی ناظم کے پاؤں رک گئے۔

٭

ناظم نے کئی دن گزرنے کے باوجود باپ کو دفن نہیں کیا تھا۔ وہ اسے ٹھیلے پر رکھ کر شہر کے کئی دوسرے چوراہوں پر کھڑا ہو کر بھیک مانگتا رہا تھا۔ پچھلے دو روز سے وہ علوی چوراہے پر ہی جما ہوا تھا یہاں اسے اچھی بھیک ملی تھی۔ اب لاش بھی خراب ہو چکی تھی اس لیے مجبوراً وہ اسے لے کر قبرستان گیا اور آخری رسوم ادا کر کے بھاری دل کے ساتھ واپس علوی چوراہے پر آ بیٹھا۔ وہ آج بہت زیادہ غمگین تھا۔ اسے باپ کی موت کا صدمہ تو تھا ہی ساتھ ہی کمائی کا ذریعہ ختم ہو جانے کا خوف بھی تھا۔ غم اور خوف کی ملی جلی کیفیت کے درمیان ناظم فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر سو گیا۔ اپنا گھر تو جیسے وہ بھول ہی چکا تھا۔

’’ٹن…ٹن‘‘ کی آواز پر ناظم نے آنکھیں کھول دیں۔دن کافی چڑھ آیا تھا اور سورج ٹھیک اس کے ماتھے پر چمک رہا تھا۔ اس نے جیسے تیسے آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی چادر پر کافی سکے پڑے ہوئے تھے۔ سکے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں …

’’اللہ کے نام پر دے دے بابا‘‘ ناظم نے لوگوں کو ادھر سے گزرتا دیکھ کر آوازیں لگانی شروع کر دیں۔ بھیک کے مطالبے کی آوازیں لگانے میں اب وہ ایکسپرٹ ہو چکا تھا۔ اس پر سکّے برسنے لگے تھے اور اب اس کا یہی کام پیشہ بن چکا تھا۔

’’اے تم تینوں کیا کرتے ہو۔‘‘ ناظم نے تین بچوں کو سڑک کے کنارے روتے دیکھا تو وہ ان سے پوچھنے لگا۔‘‘

’’ہمارا باپ مر گیا اور ماں چھوڑ کر بھاگ گئی۔ ‘‘ کہہ کر بچے رونے لگے۔

’’بھوکے ہو‘‘ ناظم نے بے دم سے ہو رہے بچوں سے پوچھا تو انھوں نے ہاں میں گردن ہلائی۔ ناظم نے تینوں کو اپنے پاس سے بھر پیٹ کھانا کھلایا۔

’’اب تم کیا کرو گے۔‘‘ ناظم نے بچوں سے پوچھا۔

جواب میں تینوں بچے خلا میں گھورنے لگے۔

’’سنو تم اگر میری طرح بھیک مانگو تو کافی روپئے کما سکتے ہو۔‘‘

’’لیکن کیسے‘‘ سب سے بڑے بچے نے کہا۔

’’وہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘

ناظم نے تینوں بچوں کو تین الگ الگ چوراہوں پر بٹھا دیا۔ان جگہوں پر وہ پہلے باپ کی لاش رکھ کر کافی روپئے اکٹھا کر چکا تھا۔

’’اب تم لوگ یہاں بیٹھ کر بھیک مانگو۔اور ہاں شام کو میرے پاس لوٹ آنا۔‘‘

بچوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’اللہ کے نام پر دے دو بابا‘‘ تینوں بچے پھٹا پھٹ کام پر لگ گئے۔

شام کو تینوں بچے ایک ساتھ ناظم کے پاس پہنچے۔

’’آؤ…بھائیو کتنی کمائی ہوئی۔‘‘

’’سو روپئے‘‘ تین نے جوڑ کر بتایا۔

’’ٹھیک ہے بیس روپئے مجھے دے دو۔‘‘ ناظم نے کہا تو بچے دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔

’’کیوں …یہ تو ہماری کمائی ہے۔‘‘

’’لیکن ہوئی تو میری وجہ سے ہے نہ۔اس لیے اب تم مجھے میرا حصہ دو گے۔ ورنہ تم ان جگہوں پر نہیں بیٹھو گے۔‘‘ ناظم کی دھمکی سے بچے سہم گئے اور فوراً ناظم کے حوالے بیس روپئے کر دیئے۔

’’اور سنو تم سب میرے گھر پر ہی رہو گے۔ اگر تم جیسے کچھ اور بچے ملیں تو انھیں بھی میرے پاس لے آیا کرنا تاکہ میں انھیں بھی روزگار مہیا کرا سکوں۔‘‘ ناظم کو برسوں بعد اپنے گھر کی یاد آئی تھی۔

٭

ناظم نے اپنے ورکروں کی آج خاص میٹنگ بلائی تھی۔بھیک کے اس دھندے میں ناظم نے بہت نام کمایا تھا۔ وہ اب ساٹھ سال کاہو چکا تھا اور اب بھی علوی چوراہے پر بیٹھا بھیک مانگتا تھا۔ لیکن اب وہ خود بھیک مانگنے میں وقت ضائع نہیں کرتا تھا۔ بلکہ اپنے ورکروں کی نگرانی اس کے لیے زیادہ ضروری تھی جو کہ تعداد میں سیکڑوں ہو چکے تھے۔ اس کے ورکر اب بھی اسے بیس فیصدی حصہ آمدنی سے نکال کر روز دیتے تھے۔

میٹنگ شرو ع ہوتے ہی ناظم نے کہا ’’بھائیو اور میرے بچو …میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری طبیعت بھی اب خراب رہتی ہے۔اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آج اپنے جانشین کا اعلان کر دوں تا کہ تم اس کی رہنمائی میں کام کرتے رہو۔‘‘

’’گروجی جیسی آپ کی مرضی‘‘ سارے ورکروں نے ناظم کی بات پر لبیک کہا۔

ناظم نے فوراً ان تین بچوں میں سے سب سے بڑے ارشد کو اپنا جانشین مقر ر کیا جو کہ اس کے سب سے پہلے ورکر بنے تھے۔ اتفاق رائے سے ناظم کی بات کو سبھی نے تسلیم کر لیا۔

اور ایک دن اچانک ناظم چل بسا۔ اس کے جانشین ارشد نے تمام ورکروں کو جمع کیا اور ناظم کی تدفین کیسے ہو اس پر غور و خوض کیا جانے  لگا۔ کئی مشورے آئے۔

’’ہمارے گروجی بہت مشہور ہو چکے تھے اس لیے انھیں نہایت شان کے ساتھ قبرستان لے جانا چاہیے تا کہ وہ شان کے ساتھ اپنا آخری سفر طے کر سکیں۔‘‘ ایک ورکر نے تجویز رکھی۔کئی نے اس کی حمایت کی۔

’’لیکن اس کے لیے کافی روپیہ درکار ہو گا۔ ارشد نے کہا۔’’اتنے روپئے ہم کہاں سے لائیں گے۔‘‘

اس پر سب خاموش ہو گئے تب ارشد نے کہا ’’ہم ایسا کرتے ہیں کہ گروجی کی لاش کو ان کے پرانے ٹھیلے پر لے کر چلتے ہیں اور علوی چوراہے والی ان کی گدی پر ہم سب ان کے لیے بھیک مانگیں گے۔تاکہ کل انھیں شان کے ساتھ دفن کر سکیں۔ ‘‘

سب نے اس با ت کو پسند کیا۔ ناظم کو بھی اسی ٹھیلے پر لٹا دیا گیا جس پر اس نے کبھی اپنے باپ کی لاش کو رکھا تھا۔ علوی چوراہے پر ناظم کی لاش کئی دنوں تک ٹھیلے پر رکھی رہی کیونکہ ’’چوراہے والے بھکاری ‘‘  کے نام پر کافی سکے اور نوٹ روزانہ برس رہے تھے۔ سکّوں کی چمک نے ورکروں کے دل سے گروجی کی تدفین کا عمل غائب کر دیا تھا۔

٭٭٭

 

احساس

بات کرنے کا سلیقہ چاہیے

پھر جو کہنا ہے وہ کہنا چاہیے

                                                                                    (دوا کر راہیؔ)

                        دریائے گنگا کے کنارے کنارے ایک گھوڑ سوار اپنے عربی النسل گھوڑے کو سرپٹ دوڑائے چلا جا رہا تھا۔اس کے ٹھیک پیچھے تین دیگر گھوڑ سوار ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے سرپٹ دوڑے چلے آرہے تھے۔ اگلے گھوڑ سوار سے ان کا فاصلہ مسلسل کم ہوتا جا رہا تھا۔ یہ گھوڑ سوار نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ جنگی پوشاک سے آراستہ تھا  اور کسی ملک کا راجکمارجیسا دکھائی دیتا تھا۔ اس نے بھی اپنے ہاتھ میں چمچماتی تلوار لے رکھی تھی۔اس کے چہرے پر تناؤ تھا اور ماتھے پر پڑی سلوٹیں بھی صاف محسوس کی جا سکتی تھیں۔ اس کا پیچھا کر رہے تینوں گھوڑ سوار فوجی پوشاک میں تھے اور راجکمار کو گرفت میں لے لینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ خطرہ محسوس کر کے راجکمار نے اچانک گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑے نے ہوا سے باتیں کرنا شروع کر دیا۔ اب حریفین کے درمیان فاصلہ میں اضافہ ہو گیا۔

راجکمار کا گھوڑا مختلف گلیوں سے ہوتا ہوا ایک دھوبی کی دکان کے سامنے جا کر ٹھہر گیا۔ راجکمار گھوڑے سے اتر کر تیزی کے ساتھ دوکان میں داخل ہوا۔ راجکمار کا گھوڑا اچانک پھر دوڑنے لگا تھا۔

’’اے بزرگوار میں راجکمار نیل سنگھ ہوں۔ میری تلاش میں کچھ دشمن ادھر ہی آرہے ہیں۔ مجھے اپنی دوکان میں پناہ دے دو۔‘‘

راجکمار کی التجا سن کر بزرگ دھوبی خلاف توقع تیزی کے ساتھ حرکت میں آیا۔

ٓٓ’میرے پیچھے آئیے جناب۔‘‘

’’کہاں ‘‘ تیزی سے دھوبی کے پیچھے چلتے ہوئے راجکمار نے پوچھا۔

’’یہاں ‘‘ دوکان سے متصل کمرہ میں پہنچ کر دھوبی نے کہا۔’’آپ اس کپڑے کے گٹھر میں چھپ جائیے۔ دشمن آپ تک نہیں پہنچ پائے گا۔ ‘‘

راجکمار نے دھوبی کے میلے کچیلے سے کپڑوں کے ڈھیر پر نظر ڈالی تو اس کی ہمت نہ پڑی کہ اس ڈھیر میں گھس جائے۔

’’جلدی کریں جناب۔لگتا ہے دشمن آن پہنچا ہے۔‘‘ دھوبی نے گھوڑوں کی ہنہناہٹ سنی تو راجکمار کو ٹوکا۔ راجکمار نے بھی خطرہ محسوس کیا اور پھر وہ ان گندے کپڑوں کے ڈھیر میں اس طرح گھس کر غائب ہوا کہ پتہ ہی نہ لگتا تھا کہ اس کپڑے کے ڈھیر میں کوئی انسانی جسم موجود ہے۔

دھوبی ابھی راجکمار کو چھپا کر دوکان میں داخل ہوا ہی تھا کہ راجکمار کے تینوں دشمن ہاتھوں میں ننگی تلواریں لیے دوکان میں داخل ہوئے۔

’’بوڑھے بتاؤ نیل سنگھ کو کہاں چھپا رکھا ہے۔‘‘

’’حضور …کون نیل سنگھ‘‘

’’راجکمار نیل سنگھ۔جو ہمیں دھوکہ دے کر تمہاری دوکان میں آ چھپا ہے۔‘‘

’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے جناب ‘‘ دھوبی نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا۔

’’بھلا اس ٹوٹی پھوٹی دوکان میں راجکمار نیل سنگھ کیوں آئیں گے۔‘‘

’’باتیں نہ بناؤ بوڑھے دھوبی۔‘‘ دوسرے سپاہی نے کڑکدار آواز میں کہا تو بزرگ دھوبی کانپنے لگا۔’’موت کا خوف انسان کو دلدل میں بھی چھپنے کو مجبور کر دیتا ہے۔‘‘  جلدی بتاؤ کہاں ہے وہ۔‘‘

فوجی سپاہی کی کڑک دار آواز سے بزرگ دھوبی کی کپکپاہٹ مزید بڑ ھ گئی تھی۔ خوف سے اس کے ہونٹ سل گئے تھے اور اس کی آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی تھی۔

دھوبی کی خستہ حالت دیکھ کر سپاہیوں نے پوچھ تاچھ ملتوی کر کے دوکان میں راجکمار کی کھوج بین شروع کر دی۔ انھوں نے بے رحمی کے ساتھ دھوبی کے دھلے کپڑے تلوار کی نوک سے تار تار کر ڈالے۔ سامان ادھر اُدھر بکھیر دیا۔وہ راجکمارکی تلاش کرتے کرتے کپڑے کے ڈھیر تک پہنچ گئے۔بنا دیر کیے سپاہیوں نے کپڑے کے ڈھیر میں ایک ساتھ تلواریں گھسا دیں۔

دھوبی نے جب دیکھا کہ سپاہیوں نے گندے کپڑوں کے ڈھیر میں تلواریں گھسا دی ہیں تو اس کی جان حلق میں آ کر اٹک گئی۔ وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کی زبان تالوٗ سے چپک کر رہ گئی تھی۔

دشمن سپاہ نے اس کی دوکان اور کمرے کا سارا سامان چیک کر ڈالا تھا اور مایوس ہو کر واپس لوٹنے کی تیاری میں تھے کہ انھوں نے دھوبی سے کہا۔

’’لگتا ہے راجکمار یہاں نہیں آیا لیکن اگر وہ یہاں آئے توہم کو خبر دینے کے لیے تم دوکان کے باہر یہ کراس کا نشان بنا دینا۔ سمجھے۔‘‘ دھوبی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

تینوں سپاہی اپنے گھوڑوں پر سوا رہو کر آگے بڑھ گئے۔ ابھی دھوبی دوکان کے اندر پہنچا ہی تھا کہ دس بارہ فوجی سپاہی اس کے قریب آ کر رک گئے ان کی پوشاک دیکھ کر بزرگ دھوبی سمجھ گیا کہ یہ راجکمار کا حفاظتی دستہ ہے۔

’’کیا راجکمار نیل سنگھ تمہارے گھر میں چھپے ہیں۔‘‘

’’ہاں ‘‘

’’تو ہمیں ان کے پاس لے چلیے‘‘

’’لیکن آپ ‘‘ دھوبی نے ہچکچاہٹ دکھائی۔

’’بزرگ دوست یہ میرے حفاظتی دستے کے ساتھی ہیں جو کہ شکار کا پیچھا کرتے ہوئے مجھ سے الگ ہو گئے تھے۔ ‘‘ کمرہ سے دوکان میں داخل ہوتے راجکمار نے کہا تو سب کی نگاہیں اس پر اٹھ گئیں۔

’’راجکمار آپ ٹھیک تو ہیں۔‘‘ حفاظتی دستے کے فکر مند سپاہیوں نے دریافت کیا۔

’’ہاں میں اس بزرگ دھوبی کی وجہ سے آج زندہ ہوں۔اگر یہ مجھے پناہ نہ دیتے تو میرے نامعلوم دشمن مجھے قتل کر چکے ہوتے۔‘‘ راجکمار نے دھوبی کو تشکر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’راجکمار آ پ کو قتل کرنے کی کوشش پڑوسی دشمن راجہ ہرمیت سنگھ نے کی تھی ہم نے ان گھوڑ سواروں کو گرفتار کرنے کے لیے ایک فوجی ٹکڑی روانہ کر دی ہے۔ جلد وہ تینوں دشمن آپ کے چرنوں میں ہوں گے۔ ‘‘ حفاظتی دستے کے سربراہ نے راجکمار کو اطلاع دی۔

’’بہت اچھا میرے سپاہیو۔‘‘ راجکمار اب قدر بشاش نظر آ رہا تھا ا سکے چہرے سے تناؤ اور خوف کے بادل چھٹ چکے تھے۔

راجکمار نے دھوبی سے کہا ’’بزرگ دوست تم نے ہم پر احسان کیا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ تم ہم سے کوئی تین چیزیں مانگو۔ہم تمہاری مراد پوری کریں گے۔‘‘

دھوبی کو لگا کہ کچھ دیر پہلے جو شخص اس سے پنا ہ کی التجا کر رہا تھا بھلا وہ اس کی کون سی مراد پوری کر سکتا ہے۔ دھوبی کو خاموش دیکھ راجکمار نے پھر کہا۔

’’بزرگ مانگو کیا مانگتے ہو۔میں اس راجیہ کا راجکمار ہوں تمھیں جو مانگو گے ملے گا۔‘‘

’’میری دکان برسات میں ٹپکتی ہے کیا آپ اس کی چھت ٹھیک کرا دیں گے۔‘‘ دھوبی نے معصوم اندا ز میں کہا تو راجکمار ٹھہاکہ لگا کر ہنس پڑا۔

’’بزرگوار تم کتنے سیدھے ہو۔ میں تمہاری دوکان ہی دوبارہ تعمیر کرا دوں گا۔‘‘ راجکمار نے دھوبی سے کہا ’’مانگو اور کیا مانگتے ہو۔‘‘

’’حضور…میرے سامنے والی گلی میں ایک دوسرا دھوبی بھی کپڑے دھوتا ہے اگر تم اس کی دوکان بند کرا دو تو میری دوکان چل نکلے گی۔‘‘ دھوبی کے سوال پر راجکمار حیران ہوا۔’’بے وقوف انسان !تم نے ایک اور اچھا موقع گنوا دیا تم چاہتے تو مجھ سے کوئی بڑی خواہش کا اظہار کر سکتے تھے اور میں اس کو فوراً پورا کر دیتا۔ ‘‘

’’اب تمہارا  آخری مطالبہ کرنے کا وقت ہے ذرا سوچ سمجھ کر مانگنا۔ ‘‘ حفاظتی دستے کے سربراہ نے بزرگ دھوبی کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’’جناب…اگر آپ میر ا مطالبہ پورا ہی کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی مجھے یہ بتا دیں کہ جب آپ کے دشمن سپاہی اس کپڑے کے ڈھیر میں تلواریں چبھو رہے تھے جس میں آپ چھپے تھے تو آپ کو کیسا محسوس ہو رہا تھا۔‘‘ دھوبی نے ڈرتے ڈرتے سوال کر ہی ڈالا۔

سوال سنتے ہی راجکمار کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔’’تم بے وقوف دھوبی …اس دھوبی کو فوراً گرفتار کر لو‘‘ راجکمار نے غصے میں بھر کر سپاہیوں کو حکم دیا۔انھوں نے فوراً دھوبی کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ’’باہر لے جا کر اس کی گردن قلم کر دو۔‘‘

سپاہیوں کو حکم دے کر راجکمار نیل سنگھ اپنے گھوڑے پر سوار ہو ا اور وہاں سے تیزی کے ساتھ دور ہوتا چلا گیا۔

راجکمار کے حفاظتی دستے کے سپاہیوں نے دھوبی کو لے جا کر چوراہے پر کھڑا کر دیا۔ ان کے ارد گرد گھروں سے نکل کر لوگ جمع ہو گئے تھے۔تماشبین کے درمیان سپاہیوں کی گرفت میں کھڑے دھوبی کا برا حال تھا۔ اس کا جسم پیلا پڑ چکا تھا اور تھر تھر کانپ رہا تھا۔ وہ مدد طلب نظروں سے تماش بینوں کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن کس میں ہمت تھی کہ راجکمار کی حکم عدولی کرتا۔

حفاظتی دستے کے سربراہ نے اشارہ کیا تو سب سے طاقت ور سپاہی نے اپنی ننگی اور تیز دھار تلوار دھوبی کی گردن سے سٹا دی۔

’’ایک…دو…تین‘‘ سربراہ نے گنتی شروع کر دی۔

’’نہیں۔مجھے مت مارو‘‘ دھوبی چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز اندر ہی گھٹ کر رہ گئی۔

’’چار…پانچ…چھ‘‘

’’میں نے تو تمہارے راجکمار کی جان بچائی تھی اور تم مجھے ہی …‘‘ وہ کہنا چاہتا تھا لیکن پوری کوشش کے باوجود اس کی آواز دہشت کی دیوار کے دوسری طرف ہی رہ گئی۔

’’سات …آٹھ…‘‘

تلوار پر طاقتور سپاہی کی گرفت مضبوط ہو گئی اس نے تلوار کو گردن کے پیچھے لے جا کر گردن ایک ہی وار میں اڑانے کی پوزیشن لے لی۔

’’نو…‘‘

’’ٹھہرو‘‘ اچانک گھوڑے کی ٹاپوں کے ساتھ ساتھ راجکمار کے خاص مشیر کی گرج دار آواز نے سربراہ کو گنتی سے رو ک دیا۔

’’راجکمار نے اس کی سزا معاف کر دی ہے۔‘‘ مشیر خاص نے دھوبی کو آزاد کراتے ہوئے اسے کپڑے پر راجکمار کا لکھا سندیش سونپا۔

دھوبی نے کانپتے ہاتھوں سے کھول کر اسے پڑھنا شروع کیا۔

’’کیوں بزرگوار اب تو آ پ کو احساس ہو گیا ہو گا کہ جب دشمن سپاہی مجھے کپڑے کے ڈھیر میں ڈھونڈ رہے تھے تو مجھے کیسا لگا تھا۔‘‘

٭٭٭

 

آخری خواہش

تمام عمر گزاری ہوس کے سائے میں

اَجَل کا وقت جو آیا تو ہم نے ہاتھ ملے

                                                                                                (عامر عثمانی)

’’عمران …میرے بیٹے‘‘

’’ابّا…آپ پریشان نہ ہوں …ماہر طبیب آپ کا علاج کر رہے ہیں۔ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔‘‘

رام نگر علاقہ کا بادشاہ ارکان بستر مرگ پر تھا۔ اس کا بیٹا عمران باپ کی بیماری کی اطلاع پر شکار سے ابھی واپس لوٹا تھا۔

’’نہیں عمران…مجھے انداز ہ ہو گیا ہے کہ اب میں نہیں بچوں گا۔‘‘

’’آپ جلد ٹھیک ہو جائیں گے ابّا‘‘ عمران کے آنسو بھی چھلک آئے۔

’’تم میری بات دھیان سے سنو…بیٹا میں نے اپنے دور حکمرانی میں کوئی بھی اچھا کام نہیں کیا۔شاید اللہ بھی میرے گناہوں کو معاف نہ کرے۔ پھر بھی میرے بیٹے میرے دل میں ایک آخری خواہش ہے۔‘‘

’’بولئے ابّا جان…آپ کی ہر خواہش پوری کی جائے گی۔‘‘ عمران نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔

’’بیٹے میرے ظلم سے عاجز میری پرجا مجھے بہت برا جانتی ہے۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری پرجا تمھیں مجھ سے زیادہ اچھا سمجھتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔

’’جی…‘‘

’’میں چاہتا ہوں کہ تم میرے بعد بادشاہ بنو تو کچھ ایسے کام ضرور کرو کہ یہی پرجا مجھے تم سے اچھا کہنے لگے۔‘‘

’’میں وعدہ کرتا ہوں ابّا جان ‘‘ عمران نے بنا سوچے سمجھے وعدہ کر لیا۔

بادشاہ ارکان کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔عمران باپ سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

٭

باپ کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد عمران بادشاہ وقت مقر ر ہوا اور اس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ اس نے رام نگر کی ترقی اور نظم و نسق میں بہتری کے لیے تمام تر توجہ مرکوز کر دی۔ اس نے باپ کے ذریعہ نافذ ان تمام قوانین کو بدل ڈالا جس کی وجہ سے پرجا پر ظلم ہو رہا تھا۔ اس سے پرجا عمران کو زیادہ چاہنے لگی تھی۔

بادشاہ عمران خوش تھا کہ اس کی پرجا کا اعتماد حکومت میں بحال ہو رہا تھا۔پرجا میں عمران کی تعریفیں ہو رہی ہیں یہ اطلاعات اسے محکمہ خفیہ سے مسلسل مل رہی تھیں لیکن اس کے لیے ایک تشویشناک بات تھی جو اسے اندر ہی اندر پریشان کر رہی تھی۔ لوگ اسے اچھا تو کہتے تھے لیکن اس کے باپ کو بہت برا جانتے تھے۔ اسے خود فکر لاحق تھی کہ کس طرح باپ کی آخری خواہش پوری کی جائے۔کہ اچانک ایک دن جب وہ حکومتی امور ختم کر کے محو خواب تھا تو اسے اس کے والد خواب میں نظر آئے۔ اس نے جب ان سے بات کر نی چاہی تو وہ واپس مڑ کر اس سے دور چلے گئے۔ عمران کو بڑا صدمہ ہوا۔

اگلے دن بھرے دربار میں بادشاہ عمران نے اپنے خواب کی تعبیر اپنے مشیروں سے پوچھی تو انھوں نے ایک رائے سے کہا کہ ’’بادشاہ حضور آپ سے کسی بات کو لے کر خفا ہیں۔‘‘ عمران کو فوراً یاد آیا۔

’’تم کچھ ایسے کام ضرور کرو گے جس کی وجہ سے پرجا مجھے تم سے زیادہ اچھا جانے۔‘‘ عمران نے والد کی آخری خواہش کا ذکر مشیروں سے کرتے ہوئے مشورہ طلب کیا کہ اسے ایسا کون سا کام کرنا چاہیے کہ لوگ والد کو مجھ سے اچھا کہیں۔

’’بادشاہ سلامت …آپ زیادہ سے زیادہ غرباء کی مدد کریں ‘‘ ایک مشیر بولا۔

’’بادشاہ حضور۔آپ دین کی تبلیغ میں زیادہ رقم خرچ کریں۔‘‘ دوسرا مشیر بولا۔

’’بادشاہ حضور آپ پرجا کی ترقی کے لیے نئی اسکیموں کا اعلان کریں۔‘‘ تیسرا بولا۔

غرض مختلف نوعیت کے مشورے جمع ہو گئے۔ عمران کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کون سے مشورہ کو عمل میں لائے۔ اس نے تمام مشوروں پر فوری طور پر عمل درآمد کا حکم نافذ کر دیا۔

٭

بادشاہ عمران ایک دن اپنے علاقہ میں گھومنے نکلا۔ وہ ایک جھونپڑی نما مکان کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ اندر سے آ رہی زنانی آوازوں نے اس کے کان کھڑے کر دیئے۔

’’اللہ ہمارے بادشاہ کو لمبی عمر دے۔ اس نے ہمارے لیے کتنے فلاحی کام کیے ہیں۔‘‘ ایک عورت کہہ رہی تھی۔

’’ہاں بہن…لیکن ا س کا باپ بڑا ظالم تھا۔‘‘ دوسری عورت کی آواز سن کر بادشاہ عمران بڑا دکھی ہوا۔’’اس کا مطلب میرے و الد کی آخری خواہش اب بھی ادھوری ہے۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔

بادشاہ عمران بھاری کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔اس نے جب جب نئے منصوبے نافذ کیے ان سے پرجا کی ترقی ہوئی اور اسکی حکومت پر پرجا کا اعتماد مزید پختہ ہوا۔ پرجا اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی تھی۔ لیکن جب ا س کے باپ کا ذکر آتا تو یہی کہا جاتا کہ ’’بادشاہ عمران کا باپ بڑا ظالم تھا۔ اور یہ بادشاہ اس سے اچھا ہے۔‘‘

عمران نے اپنے علاقہ میں منادی کرا دی کہ جو کوئی شخص اسے باپ کی آخری خواہش کا حل بتائے گا اسے وہ ڈھیر سارا مال عطیہ کرے گا۔ اس کے راج میں بڑے بڑے عالم فاضل موجود تھے۔ مختلف حل بادشاہ عمران کی خدمت میں پیش کیے گئے لیکن کوئی خاص فرق حالات میں نہیں آیا۔

’’مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے چلو میں اس کے مسئلے کا حل بتا سکتا ہوں۔‘‘  ایک جادوگر نے بادشاہ کے پہریداروں سے درخواست کی۔ وہ جادوگر کو بادشاہ کے حضور لے گئے۔

’’کیا حل ہے میری پریشانی کا تمہارے پاس‘‘ بادشاہ نے دریافت کیا۔

جادوگر نے بادشاہ کے کان میں سرگوشی کی۔بادشاہ کاچہرہ حیرت اور غصے سے لال ہو گیا۔

’’کیا بکتے  ہو…یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘

’’ا س کے علاوہ تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں۔‘‘ کہہ کر جادوگر غائب ہو گیا۔‘‘

بادشاہ نے جادوگر کی بات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا تو اسے لگا کہ یہی اس کی پریشانی کا واحد حل ہے۔

اگلے ہی دن بادشاہ نے بھرے دربار میں پرجا کے حق میں چلائی جا رہی تمام فلاحی اسکیمیں ختم کر دیں۔ان کی دولت اور دوشیزاؤں کو قرق کر لیا۔ کسانوں پر لگان وصولی سختی سے کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ چور ڈکیتوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔حد یہ ہوئی کہ اس نے پرجا پر ظلم کی انتہا کر دی۔

ایک دن بادشاہ اپنے علاقہ کے دورہ پر نکلا۔ وہ اسی جھونپڑی کے پاس سے گزرا اور خواتین کی آوازوں پر رک گیا۔

’’اف ہمارا یہ بادشاہ کتنا ظالم ہے اس نے پرجا کے تمام حقوق صلب کر لیے ہیں اور ٹیکس وصولی کے لیے اس کے ملازم کس قدر مظالم کرتے ہیں۔‘‘ پہلی خاتون نے کہا۔

’’ہاں بہن …اس ظالم سے تو اس کا باپ ہی اچھا تھا۔‘‘ دوسری عورت نے کہا۔

٭٭٭

 

افسانچے

غلطی

            ’’سنو تم اگر چاہو تو میرے ساتھ میرے گھر چل سکتی ہو۔‘‘ ارشد نے شلوار سوٹ میں ملبوس نوعمر لڑکی کو دعوت دی۔

’’لیکن …آپ بھلا میری وجہ سے کیوں پریشان ہوں۔‘‘ لڑکی نے ہچکتے ہوئے کہا۔

’’نہیں مجھے کیا پریشانی ہو گی۔میں تو گھر پر اکیلا ہی رہتا ہوں۔‘‘ ارشدنے سمجھایا۔

’’ہاں اگر تمھیں مجھ سے خوف لگتا ہے تو پھر کوئی اور جگہ کی بات سوچیں۔‘‘

ارشد کی بات پر لڑکی تڑپ اٹھی ’’ارے نہیں …بھلا آپ سے میں کیوں ڈروں گی۔آپ نے مجھ ابلا کی جان بچائی ہے۔‘‘

دونوں ایک رکشے پر سوار ہو گئے۔

’’تم اکیلی گھر سے اتنی دور کیسے اور کیونکر آ گئیں۔‘‘ ارشد نے پوچھا تو لڑکی اداس ہو گئی۔

’’میرا ایک پڑوسی لڑکا مجھے بہلا پھسلا کر یہاں بھگا لایا اور پھر مجھے غنڈوں کے ہاتھ فروخت کر کے بھاگ گیا۔ یہ وہی غنڈے تھے جن سے آپ نے میری جان بچائی ہے۔‘‘

ارشد کو لڑکی سے جانے کیوں بڑی ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔ گھر پہنچ کر ارشد نے لڑکی کو آرام کرنے کو کہا اور خود کھانا لانے چلا گیا۔

راستے میں کئی لوگوں نے لڑکی کے بابت دریافت کیا تو ارشد کو بڑی کوفت ہوئی۔ کئی لوگوں نے تو مشورہ بھی دیا کہ کہیں اس لڑکی ک اشکار مت بن جانا۔ آج کل ایسے کیس بہت ہو رہے ہیں کہ انجان لڑکی نے گھر لوٹے۔ارشد کو ان لوگوں کی باتوں پر غصہ تو بہت آیالیکن پھر بھی اس نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ لڑکی سے محتاط رشتہ رکھے گا اور جلد ہی اسے اس کے گھر روانہ کر دے گا۔

خیالات میں گم ارشد کھانا لے کر گھر پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ لڑکی نہا دھو کر سلیپنگ گاؤن پہنے اخبار پڑھ رہی تھی۔ارشد نے لڑکی کوکنکھیوں سے دیکھا تو وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ کھانا کھا کر دونوں سونے کے کمرے میں آ گئے۔ اچانک بہت تیز بجلی چمکی اور بادل گرجا تو لڑکی ڈر کر ارشد سے لپٹ گئی۔پھر برسات کی پھواروں کے درمیان وہ سب کچھ ہو گیا جس کے بارے میں ارشد نے سوچا بھی نہ تھا۔ بارش تھم چکی تھی۔ارشد کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ پر اکیلا ہی س ورہا تھا۔اچانک اسے لڑکی کا خیال آیا تو اس نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ اچانک اسے ٹیبل پر رکھا کاغذ دکھا۔ اس نے جیسے ہی اسے پڑھا اس کا جسم کانپ کر رہ گیا۔

کاغذ میں لکھا تھا ’’ویلکم ان ایڈز فیملی‘‘

٭٭٭

 

اپنے دکھ مجھے دے دو

’’کتنی بار کہا ہے کہ تم کسی بات کی بھی ٹینشن مت لیا کرو۔ میں ہوں نا۔‘‘

ارسلان نے خوشی کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تو خوشی اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔دونوں ایک ہی کمپنی میں نوکری کرتے تھے اور موقع ملنے پر سکھ دکھ بانٹنے بیٹھ جاتے تھے۔

’’اب کیا پریشانی ہے ‘‘ ارسلان نے کہا۔

’’ایک ہو تو کہوں ‘‘ ۔ خوشی نے قدر خفگی سے کہا۔

’’کہو تو صحیح‘‘

’’میری نوکری چھوٹ گئی۔‘‘

’’چلو یہ تو ا چھا ہوا۔میں تو کب سے کہہ رہا تھا کہ نوکری چھوڑ ہی دو۔‘‘

’’لیکن نوکری نہیں ہو گی تو میری بیمار ماں کی دوا، گھر کا خرچ اور بہن کی شادی کیسے ہو گی۔‘‘

’’میں ہوں نا -تم اپنے تمام دکھ مجھے دے دو۔‘‘

’’ماں کی دوائی …‘‘

’’میں لا دیا کروں گا۔‘‘

’’گھر کا خرچ کیسے چلے گا میرا تو کوئی بھائی بھی نہیں ہے۔‘‘

’’میرا تو اس دنیا میں تمہارے سوا کوئی نہیں ہے میں تمہارا گھر ہی اپنا سمجھوں گا اور گھر کا خرچ چلاؤں گا۔ ‘‘

’’سچ مچ تم مجھ سے بہت پیار کرتے ہو نا‘‘

’’ہاں بہت زیادہ ‘‘

’’تو میری ایک بات مانو گے‘‘

’’کہو‘‘

’’تم میری بہن سے شادی کر لو ‘‘ خوشی نے کہا تو جیسے ارسلان کو بچھونے ڈنک مار دیا ہو ’’کیا…کیا    کہہ   رہی ہو خوشی‘‘

’’ہاں اور تم میرے بھیا بن جاؤ ‘‘ خوشی کی بات پر ارسلان اچھل ہی تو پڑا۔

’’اگر تم میرے دکھ لے لو گے تبھی تو میں سکون سے ارشد کی دلہن بن سکوں گی جو کب سے میرے لیے انتظار کے دیپ جلائے بیٹھا ہے۔‘‘

٭٭٭

مصنف کی اجازت سے

تدوین اور کتاب کی سیٹنگ: اعجاز عبید