FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

آنکھوں کی آبجو

               راشد امین

 

پتھر پڑے ہوئے کہیں رستہ بنا ہوا

ہاتھوں میں تیرے گاؤں کا نقشہ بنا ہوا

آنکھوں کی آبجو کے کنارے کسی کا عکس

پانی میں لگ رہا ہے پرندہ بنا ہوا

صحرا کی گرم دھوپ میں باغِ بہشت ہے

تنکوں سے تیرے ہاتھ کا پنکھا بنا ہوا

صندل کے عطر سے تری مہندی گندھی ہوئی

سونے کے تار سے مرا سہرا بنا ہوا

یادوں سے لے رہا ہوں حنائی مہک کا لطف

ٹیبل پہ رکھ کے لونگ کا قہوہ بنا ہوا

میلے میں ناچتی ہوئی جٹی کے رقص پر

یاروں کے درمیان ہے جھگڑا بنا ہوا

٭٭٭

 

شہر سے کوئی مضافات میں آیا ہوا تھا

ایک باشندہ مری گھات میں آیا ہوا تھا

یونہی کاٹے نہیں دشمن نے مرے دونوں ہاتھ

اس سے زر بڑھ کے مرے ہاتھ میں آیا ہوا تھا

اب جہاں خشک زمینیں ہیں بدن ہیں بنجر

یہ علاقہ کبھی برسات میں آیا ہوا تھا

آخری ریل تھی اور تجھ سے اچانک تھا ملاپ

میں عجب صورت حالات میں آیا ہوا تھا

اس طرح بانٹ دیا تُو نے مجھے حصوں میں

جس طرح میں تجھے خیرات میں آیا ہوا تھا

میری پہچان بنے پیڑ، پرندے اور پھول

سارا دیہات مری ذات میں آیا ہوا ہے

٭٭٭

 

ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے

گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار چھپائی ہوئی ہے

قبر پہ دیپ نہ رکھ، نام کا کتبہ نہ لگا

ہم نے مشکل سے یہ تنہائی کمائی ہوئی ہے

تخت اور تاج تو جوتوں میں پڑے رہتے ہیں

وہ گدائی ترے درویش نے پائی ہوئی ہے

ڈھول کا شور قیامت ہے کہ تیری بارات

دوسرے گاؤں سے گاؤں میں آئی ہوئی ہے

آنکھ پر شیشہ لگایا ہے کہ محفوظ رہے

تیری تصویر جو پانی میں بنائی ہوئی ہے

٭٭٭

 

تیری مہندی میں مرے خوں کی مہک آ جائے

پھر تو یہ شہر مری جان تلک آ جائے

بس پہ یہ سوچ کے چڑھتے ہوئے رہ جاتا ہوں

کیا خبر تیرے رویے میں لچک آ جائے

اونٹ اور ریت مری ذات کا حصہ تھے مگر

اب قدم گھر سے نکالوں تو سڑک آ جائے

گھر کی دیوار پہ کروا کے سفیدی پیلی

چاہتا ہوں مری آنکھوں میں چمک آ جائے

یہ بھی ممکن ہے مرا سایہ مرا ساتھ نہ دے

یہ بھی ممکن ہے مجھے تیری کمک آ جائے

٭٭٭

 

بہتا ہوا دریا بھی مری ماں کی طرح ہے

اور اس کا کنارہ بھی مری ماں کی طرح ہے

بوسیدہ کواڑوں سے بھی آتی ہیں دعائیں

ٹوٹا ہوا کمرہ بھی مری ماں کی طرح ہے

ہر روز جگاتا ہے مجھے پہلی اذاں پر

پنجرے کا پرندہ بھی مری ماں کی طرح ہے

چورا ہے سے گزروں تو جکڑ لیتا ہے پاؤں

مسجد ترا رستہ بھی مری ماں کی طرح ہے

کتنی ہو کڑی دھوپ جھلسنے نہیں دیتا

اس پیڑ کا سایہ بھی مری ماں کی طرح ہے

٭٭٭

 

جز اور کیا کسی سے ہے جھگڑا فقیر کا

کتوں نے روک رکھا ہے رستہ فقیر کا

اجلا ہے اس سے بڑھ کے کہیں روح کا لباس

میلا ہے جس قدر بھی یہ کُرتا فقیر کا

جب دھوپ کے سفر میں مرا ہمسفر بنا

برگد سے بھی گھنا لگا سایہ فقیر کا

دریا کبھی پلٹ کے نہیں آیا آج تک

بدلے گا کس طرح سے ارادہ فقیر کا

کٹیا کا ہو کہ کوئی محل کا مقیم ہو

ہر آدمی کے ساتھ ہے رشتہ فقیر کا

٭٭٭

 

آنکھ کی جھیل میں کہرام سے آئے ہوئے ہیں

چاند ڈھلنے کو ہے اور شام سے آئے ہوئے ہیں

چوڑیوں اور پراندوں کے نہیں ہیں گاہک

ہم تو میلے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں

تیری تصویر تو کمرے میں ہے یادوں کا گلاب

زرد پتے تو درو بام سے آئے ہوئے ہیں

بس کے اسٹینڈ پہ ٹھیلوں کو سجائے ہوئے لوگ

خود کسی کوچۂ نیلام سے آئے ہوئے ہیں

اتنا کر دار ہے نوٹنکی میں اپنا جیسے

دھوپ میں موم کے اندام سے آئے ہوئے ہیں

٭٭٭

تشکر: منصور آفاق

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید