FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

یہ نہ تھی ہماری قسمت

 

حصہ دوم

 

شگفتہ افسانوں کا مجموعہ

 

                عابد معز

 

 

 پہلا حصہ پڑھنے کے لیے

 

 

دھوم ہماری زباں کی ہے

 

اردو زبان کے حوالے سے حضرت داغ دہلوی ایک بے مثال مصرع کہہ گئے ہیں کہ ’ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے۔ ‘ لیکن اب اردو صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہی۔ اردو کی دھوم سارے جہاں میں ہے۔ اردو کے چاہنے والوں نے اردو کی ہمہ گیر مقبولیت کے اظہار کے لیے اس مصرع میں ترمیم کر دی اور اسے ’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے ‘ بنا دیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ حضرت داغ کے زمانے میں جو دھوم تھی، وہ دورِ حاضر میں اردو کی دھوم سے بالکلیہ مختلف اور متضاد ہے۔

حضرت داغ کے زمانے میں اردو زبان کی شہرت چہار طرف تھی۔ اردو کی شیرینی اور لطافت کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔ اردو زبان کی شان و شوکت قابلِ دید تھی۔ ہر سو اردو تہذیب کی علامتیں عیاں تھیں۔ ادبی محفلیں، مذاکرے، مباحثے، بیت بازی، مشاعرے، تقریری مقابلے اور جلسے منعقد ہوا کرتے تھے۔

آج، ہماری زبان کی دھوم کے رنگ ہی نرالے ہیں۔ اردو زبان بحیثیت ذریعہَ تعلیم معدوم ہو چلی ہے۔ ایک مضمون کی حیثیت سے بھی اردو آج بہت کم لوگوں کو نصیب ہے۔ ایک پوری نسل اردو لکھے اور پڑھے بغیر تیار ہو چکی ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ یہ لوگ اردو بول اور سن لیتے ہیں۔ مجبوری بھی ہے، اردو کے علاوہ ہم کوئی دوسری زبان روانی سے بول نہیں سکتے۔ مجھے اردو نہیں آتی کہنے والی نسل بھلا اپنے بچوں کو اردو کیا پڑھائے گی۔ اردو کتابوں کی اشاعت اور خرید و فروخت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اردو رسم الخط تبدیل کرنے کی پر زور وکالت ہو رہی ہے۔ اگر یہی حالات برقرار رہے تو عجب نہیں کہ مستقبل قریب میں اردو کو یونانی، لاطینی اور سنسکرت جیسی تقریباً متروک زبانوں کا درجہ حاصل ہو جائے !

نامساعد حالات میں چند فرزانے اردو کا پرچم لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اردو کو جلا بخشنے کی باتیں کرنے اور پھر سے اردو کی دھوم مچانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے ہیں۔ ہم بھی ’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے ‘گنگناتے ہوئے ان کے پیچھے ہولیے اور اپنی زبان کے لیے کچھ کر گزرنے کی نیت کی۔ ہم اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے بارے میں سوچنے لگے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ احباب سے ذکر کیا تو چند نے بغور ہمارا جائزہ لیا۔ ہماری صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور ہم سے پوچھا۔ ’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ اردو کی ترقی سے کیا ہو گا؟ ‘

اور جواب کا انتظار کیے بغیر مشورہ دیا۔ ’میاں اردو کی چھوڑو، اپنی ترقی کی فکر کرو۔ ‘

احباب کے رویّے سے ہمیں اردو کی زبوں حالی کی وجہ معلوم ہوئی۔ ہم احباب کی سردمہری سے باز نہ آئے بلکہ اپنی کمر کس لی کہ’ بہت کام‘ کرنا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے حصّے کا کام بھی کرنا ہے۔

ہم نے بنیادی کام کرنے کے لیے نئی نسل میں اردو کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا بیڑا اٹھایا اور بچوں کو اردو پڑھانے کا قصد کیا۔ اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور اردو کا قاعدہ کھول کر انھیں اردو کی الف، ب، پ، بتانے لگے۔ بچوں نے ہمیں روک دیا اور سوالات کی بوچھار کر دی۔ ’اردو پڑھنے سے ہمیں کیا ملے گا؟ کیا ہم ڈاکٹر اور انجینیر بن سکتے ہیں؟ کیا سرکاری نوکری مل سکتی ہے؟ ہم اردو کیوں پڑھیں؟ اردو پڑھنے کے لیے ہمارے پاس وقت کہاں ہے؟ کیا اردو پڑھ لکھ کر ہم کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ جا سکتے ہیں؟

ہم بچوں کو سمجھانے لگے۔ ’بیٹا اردو میں تمہاری شناخت پوشیدہ ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننے اور اپنے ماضی سے رشتہ استوار رکھنے کے لیے اردو پڑھنا لکھنا ضروری ہے اور جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو اپنے بوڑھے باپ کو اردو ہی میں خط لکھو گے۔ ‘

بچے ہماری باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ بچوں کی ماں ہمارے درمیان میں آ گئیں اور ہم سے مخاطب ہوئیں۔ ’بچے بوڑھے باپ کو خط نہیں لکھیں گے، وہ فون پر بات کر لیں گے۔ بچوں کو کیا الٹی سیدھی باتیں سکھا رہے ہیں۔ اردو کے مجاہد صاحب میں آپ سے پوچھتی ہوں۔ اردو سے پڑھنے کے لیے کون سے مدرسے ہیں؟ ان کا معیار کیا ہے؟ اردو کی درسی کتابیں کہاں سے لائیں؟ کیا اردو میں اعلی تعلیم کے مواقع میسر ہیں؟‘

ہم نے جواب دیا۔ ’بات سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ ہم بچوں سے اردو کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ ہم انہیں ’آپ کی زبان‘ سکھانا چاہتے ہیں۔ ‘

’میری زبان!‘ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔

’ہماری مراد مادری زبان سے ہے۔ ‘ ہم نے وضاحت کی۔ ’اردو ہماری مادری زبان ہے۔ ہم بچوں کو اردو پڑھنا اور لکھناسکھانا۔ ۔ ۔ ‘

بیگم ہماری بات کاٹتے ہوئے گویا ہوئیں۔ ’تاکہ بچے اردو پڑھ لکھ کر شاعر بن جائیں یا غزلیں گانے لگیں اور اپنی زندگی برباد کر لیں۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ اب آپ اردو کی کتاب طاق نسیاں پر رکھیے اور بچوں کو کام کے مضامین پڑھائیے۔ بڑا انگلش میں کمزور ہے۔ چھوٹا سائنس میں پیچھے ہے اور بیٹی میتھس میں گڑبڑ کرتی ہے۔ ‘

ہم نے با دلِ ناخواستہ اردو کے قاعدے کو بند کیا اور اسے طاق پر رکھ دیا۔

نئی پود سے مایوس ہو کر ہم نے ایک نئے عزم کے ساتھ ’اردو پڑھے لکھے ‘ لوگوں میں اردو عام کرنے کی ٹھانی۔ مطالعہ کے شوق کو اجاگر کرنے کا ارادہ کیا۔ اردو کتابوں اور جرائد کی تلاش شروع کی۔ بک اسٹورس چھان مارے۔ کہیں بھی اردو کتابیں اور رسالے نظر نہ آئے۔ دو ایک کمر خمیدہ اردو اخبار دوسری زبانوں کے اخباروں کے نیچے دبے پڑے کراہتے دکھائی دیے۔ کتب فروشوں سے پوچھا۔ ’کیا آپ کے پاس اردو کتابیں نہیں ہیں؟‘

اکثر کتب فروشوں نے مختصر جواب ’نہیں ہیں ‘ دیا۔ ایک نوجوان کتب فروش نے الٹا ہم سے دریافت کیا۔ ’کیا اب بھی اردو کتابیں چھپتی ہیں؟ کون چھاپتا ہے؟ اردو کتابوں کو کوئی پوچھتا نہیں ہے، اس لیے ہم انھیں رکھتے بھی نہیں ہیں۔ ‘

ہم نے ہمت نہ ہاری اور ڈینگ ماری۔ ’کیا بات کرتے ہو میاں۔ اردو کتابیں نہ صرف چھپتی ہیں بلکہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ یہ تمہارا نقصان ہے کہ تم اردو کتابیں نہیں رکھتے !‘

چند کتب فروشوں نے اردو کتابوں کے حصول کے لیے دو ایک پرانی کتابوں کی دکانوں کا پتہ بتایا۔ ایک کتب فروش نے ردی کی دکان میں جھانکنے کا مشورہ بھی دیا۔ ہم اردو کتابوں کی تلاش میں شہر کی تاریک گلیوں میں پہنچے۔ ہمیں وہاں دوچار چھوٹی چھوٹی خستہ حال دکانیں نظر آئیں، جن پر شکستہ خط میں ’یہاں اردو کتابیں اور رسالے دستیاب ہیں ‘ لکھا تھا۔ ایک خاص بات ہم نے نوٹ کی کہ ان دکانوں میں نئی کتابیں کم اور پرانے جرائد زیادہ دکھائی دیئے۔ ہم نے چند پرانی کتابیں اور پرانے رسائل کوڑیوں کے مول خریدے۔ نئی کتابوں کے متعلق پوچھا تو چند مصنفین کے نام اور پتے تھما دیے کہ ان حضرات نے حال ہی میں اپنی کتابیں چھپوائی ہیں۔ ہم نئی کتابوں کے مصنفین کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے پاس پہنچے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ ہمیں گلے سے لگایا اور ہمارے ذوق کی تعریف کرتے ہوئے دستخط ثبت کر کے کتابیں ہمارے حوالے کیں۔ ایک مصنف نے ہمارے آٹو گراف لیے اور بتایا کہ وہ ان محترم قاری کے دستخط لیتے ہیں جو اردو کتابیں خریدنے آتے ہیں۔

گلی گلی گھوم کر ہم نے کتابیں اور رسالے اکٹھا کیے اور انہیں لے کر اردو والوں کی خدمت میں پہنچے۔ اردو کی زبوں حالی کا تذکرہ کیا۔ اردو کتابوں، رسالوں اور مصنفوں کی کسمپرسی کا رونا رویا اور مدعا بیان کیا کہ آپ یہ رسالے اور کتابیں خرید کر اردو کی ترقی اور فروغ میں حصّہ لیجیے۔ کوئی تیار نہ ہوا۔ کسی نے سینہ تان کر فخر سے اعلان کیا ’مجھے اردو پڑھنا نہیں آتا‘ تو کسی نے وقت کی تنگی کا بہانہ بنایا۔ ’میں بہت مصروف رہتا ہوں۔ مجھے پڑھنے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ‘ ایک صاحب نے یوں بہانہ بنایا۔ ’میں اب پڑھتا نہیں ہوں صرف دیکھتا ہوں، ٹیلی وژن یا کمپیوٹر۔ کیا آپ کے پاس سی ڈیز ہیں؟‘ ایک صاحب نے پڑھنے کا ارادہ ظاہر کر کے مفت میں کتاب ہتھیا لی۔ دو احباب کے پاس ہم نے کتابیں اس امید پر چھوڑیں کہ اخلاقاً وہ دام ادا کر دیں گے لیکن مایوسی ہوئی۔ وقت اور پیسہ برباد کرنے کے بعد اردو والوں میں مطالعہ کا ذوق بیدار کرنے اور اردو رسالے اور کتابیں خریدنے کا شوق پیدا کرنے کے پروگرام سے ہم دست بردار ہوئے۔

اردو پڑھوانے میں ناکام ہونے کے بعد ہم نے اردو سننے اور سنانے کا پروگرام بنایا۔ بیت بازی اور تقریری مقابلے منعقد کرنے کی ٹھانی۔ شاعری بلکہ غزلیات سے شغف رکھنے والے احباب سے رابطہ کیا۔ انھیں بتایا کہ ہفتہ کے دن ہم بیت بازی کا ایک مقابلہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک صاحب نے، جو ہر دم غزلیات سنتے رہتے ہیں، ہم سے دریافت کیا۔ ’بیت بازی کا مقابلہ کس میدان میں ہو گا؟‘

ہم نے حیرت سے جواب دیا۔ ’میدان کی کیا ضرورت ہے۔ بیت بازی کا مقابلہ ڈرائنگ روم میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ‘

ہمارے جواب میں انھوں نے بھی حیرت سے سوال کیا۔ ’وہ کس طرح؟‘

ہم نے انھیں تفصیل بتائی کہ بیت بازی کیا ہوتی ہے۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے۔ ’میں بیت بازی کو پتنگ بازی، مرغ بازی، بٹیر بازی قسم کا مقابلہ سمجھ رہا تھا جس کے لیے کھلی جگہ درکار ہوتی ہے۔ بیت بازی کو شعر بازی کہو بلکہ یہ تو انتاکشری ہے۔ یار میری آواز گانے کے لیے مناسب نہیں ہے اور مجھے گانا بھی نہیں آتا۔ ‘

ایک صاحب نے کہا۔ ’اشعار کسے یاد رہتے ہیں۔ اردو بول اور سن لیتے ہیں۔ یہی مشقت بہت ہے۔ ‘

ہم اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور بیت بازی اور شعر بازی کے مقابلے سے توبہ کر لی۔

عوام کے ہاتھوں اردو کا حشر دیکھ کر ہمیں بہت مایوسی ہوئی۔ دو چار دن گم صم، اردو کے مستقبل کے بارے میں سوچتے اور فکر مند رہے۔ ایسے میں ہمیں ادیبوں اور شاعروں کی یاد آئی۔ ان کی خدمت کا ارادہ کیا کہ وہ حتی المقدور زوال پذیر زبان کی خدمت کیے جا رہے ہیں۔ ہم ادیبوں اور شاعروں سے ملنے اور ان کے ساتھ اٹھنے اور بیٹھنے لگے۔ اٹھنا کم اور بیٹھنا بہت زیادہ ہوتا تھا۔ گھنٹوں ہمہ تن گوش ان کی تخلیقات اور شکوے سنا کیے۔ بے چارے بہت زیادہ نا امیدی اور محرومی کا شکار ہیں۔ زمانہ ان کو پہچانتا نہیں۔ ان کی تخلیقات کی کوئی قدر نہیں کرتا۔ افسانوں، کہانیوں اور نظموں کو چھپوانے کا انتظام بھی خود کو کرنا پڑتا ہے۔ ہم ان کی ڈھارس بندھاتے اور ان کا غم غلط کرنے کے لیے انھیں کھلانے اور پلانے بھی لگے۔

ایک بزرگ شاعر نے ایک دن ہمیں مشورہ دیا۔ ’میاں تم میں ادیبوں اور شاعروں کی خدمت کا جذبہ دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ کبھی کبھار ادبی محافل کا اہتمام کر لیا کرو۔ یہ بھی کارِ خیر ہے۔ تم صاحبِ استطاعت ہو اور خدا نے تمھیں توفیق بھی دی ہے۔ ادبی محفل سجاؤ، مشاعرہ منعقد کرو اور شاعروں کا جشن بھی مناؤ۔ ان محافل کے ذریعہ عوام میں اردو سے دلچسپی پیدا ہو سکتی ہے۔ ‘

بزرگ شاعر کی بات دل کو لگی اور ہم ایک ادبی محفل کے لیے تگ و دو کرنے لگے۔ ادبی اجلاس کے لیے نثر نگاروں کو تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ شعرا کے مقابلے میں ادیبوں کی تعداد ایسی ہے جیسے آٹے میں نمک کی مقدار ہوتی ہے۔ ایک شاعر نے اس کی وجہ بتائی۔ ’آج نثر لکھنے اور پڑھنے دونوں کے لیے وقت نہیں ہے اور جو حضرات یہ کام کر رہے ہیں، وہ وقت گنوا رہے ہیں۔ شاعری برق رفتار زمانے کا ساتھ دے سکتی ہے اور دے رہی ہے۔ کاغذ اور قلم لے کر گھنٹوں وقت برباد کرنا نہیں پڑتا اور سننے والے بھی چلتے پھرتے شاعری سن لیتے ہیں۔ ‘

ہم نے دو نثر نگاروں کا انتخاب کیا اور ان سے ادبی اجلاس میں شرکت کی درخواست کی۔ وہ راضی ہوئے تو ہم نے سامعین کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ لوگوں کو ادبی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تو سوال ہوا۔ ’ادبی اجلاس کیا ہوتا ہے؟‘

ہم نے بتایا۔ ’محفل میں ادیب، ادب یعنی افسانے، کہانیاں اور مضامین سنائیں گے۔ ‘

’کیوں؟‘ دوسرا سوال کیا گیا۔

ہم لاجواب ہوئے تو انھوں نے کہنا شروع کیا۔ ’کہانیاں سننے کا زمانہ ختم ہوا۔ اب کہانیاں دیکھنے کا دور ہے۔ آپ کے ادیب اپنی کہانی پر فلم یا ٹی وی سیریل کیوں نہیں بناتے؟ ہم ویڈیو پر ان کی فلم دیکھ لیں گے۔ ‘

مختلف وجوہ بیان کر کے کئی افراد نے معذرت کر لی۔ مقررہ دن ادبی اجلاس میں ایک مصنف، دو نقاد اور ہم بطور اکلوتے سامع شریک ہوئے۔ ایک نقاد بخوشی صدر بن گئے اور دوسرے نقاد پس و پیش کے بعد نظامت کے لیے تیار ہوئے۔ وہ بھی صدر بننے کے متمنی تھے۔ ادیب نے افسانہ سنایا۔ ہم مروت میں غور سے سنتے رہے۔ صدر اونگھنے لگے اور ناظم کے ہاتھ میں چونکہ کاغذ اور قلم تھا، وہ مختلف نقشے بناتے رہے۔

افسانہ ختم ہونے کے بعد افسانے پر بحث شروع ہوئی۔ ناظم نے افسانے کی تاریخ بیان کی۔ نئے تجربات کا ذکر کیا اور جدے دیت پر روشنی ڈالی۔ اپنے مضامین کا حوالہ دیا اور آخر میں مصنف اور افسانے کی تعریف کی۔

صدر نے کہا کہ ناظم نے موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہوئے اپنی قابلیت اور علمیت کا ’حاضرین‘ پر رعب ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ افسانے میں زبان اور بیان کی غلطیاں ہیں۔ پلاٹ کمزور ہے۔ کردار ادھورے ہیں لیکن مجموعی طور پر افسانہ مصنف کے شاندار مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔

ناظم نے اپنے دفاع میں صدر پر چوٹ کی۔ صدر نے ناظم پر جوابی وار کیا اور پھر دونوں بے تکان بولنے لگے۔ مصنف نے لب کشائی کرنی چاہی لیکن موقع نہ ملا۔ صدر اور ناظم کے درمیان معاملہ زبان درازی سے دست درازی تک جا پہنچا۔ محفل کا یہ جارحانہ رنگ دیکھ کر ہم نے امن و امان قائم رکھنے کے لیے فوری طور پر ادبی اجلاس کی برخاستگی کا اعلان کیا اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

ناکام ادبی اجلاس منعقد کرنے کے بعد اصولاً ہمیں چاہیے تھا کہ اردو زبان کے فروغ کی کوششوں کو خیرباد کہہ دیتے لیکن ہماری قسمت میں مزید خوار ہونا لکھا تھا۔ ہم نے مشاعرہ منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ کئی افراد نے ہم سے رابطہ قائم کیا اور ہماری سخن پروری کو سراہا۔ ہم خوشی خوشی ان کا شکریہ ادا کرتے لیکن ہماری خوشی اس وقت رنج میں تبدیل ہو جاتی جب وہ کہتے۔ ’میں شاعر ہوں اور مشاعرہ پڑھنا چاہتا ہوں۔ ‘

بلا مبالغہ ہم نے اتنے شعرا سے ملاقات کی کہ محسوس ہوتا تھا کہ ہر دوسرا اردو داں شاعر ہے۔ کسی دوسری زبان میں شاید ہی اتنے زیادہ شعرا ہوں گے۔ شاعروں کی بہتات کے سبب بھی ہماری زباں کی دھوم ہے جبکہ ہمارے ایک دوست کا خیال ہے کہ شعرا کی بہتات اردو زبان کی زبوں حالی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہم شعرا سے معذرت کرنے لگے تو بعض نے سفارش کروائی۔ ایک شاعر کے لیے وزیر تعلیم نے فون کیا کہ مشاعرے میں موصوف کو ’اہم رول‘ دیا جائے۔ چند شاعروں نے بحث کی۔ ایک شاعر نے مشاعرہ پڑھنے کا جواز یوں پیدا کیا کہ وہ صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنا مجموعہ کلام ہماری نذر کیا۔ ہم نے استفسارکیا۔ ’کس نے آپ کا کلام چھپوایا ہے؟‘

جواب ملا۔ ’کسی نے نہیں۔ میرا کلام ہے میں نے خود بہ صرف زر کثیر چھپوایا ہے۔ ‘

ایک دوسرے شاعر نے استاد ہونے کی دلیل پیش کی۔ دو ایک شاعروں نے دھمکی تک دی۔ ’ہمارے بغیر مشاعرہ ہوا تو ہم تمھیں دیکھ لیں گے۔ ‘

ایک شاعر نے بد دعا بھی دی۔ ’خدا کرے کہ میرے بغیر تمہارا مشاعرہ ناکام ہو جائے۔ ‘

ہم نے ان شاعروں کو مشاعرہ پڑھنے کی بجائے سننے کی دعوت دی تو وہ خفا ہو گئے، کہنے لگے۔ ’ہم سنائے بغیر دوسروں کو سنیں، یہ ہماری توہین ہے۔ ‘

شعرا کی بہتات اور دلچسپی کو دیکھ کر ہمیں اطمینان ہوا کہ شعر سنانے والے بہر حال مل جائیں گے۔ شعرا کی دستیابی سے مطمئن ہو کر ہم سامعین کی تلاش میں سرگرم ہو گئے۔ احباب کو مشاعرے میں شرکت کی دعوت دینی شروع کی تو استفسارات ہونے لگے۔ ایک صاحب نے سوال کیا۔ ’مشاعرہ صرف سنانے کا ہے یا گانے بجانے کا؟‘

سوال سمجھنے کے لیے کریدنے پر پتا چلا کہ وہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ غزل گائیکی کا پروگرام ہے یا صرف شاعر اپنا کلام سنائیں گے۔ لوگوں کے سوالات سے ہمیں اندازہ ہوا کہ دورِ حاضر میں اردو کی کسی بھی محفل کو مشاعرہ کا نام دیا جانے لگا ہے۔ چار افراد اکٹھا ہو کر خالص اردو میں گفتگو کریں تو اس کو بھی مشاعرہ سمجھا جاتا ہے۔ فصیح اور بلیغ اردو میں بات کرنے کو شاعری کا درجہ ملنے لگا ہے۔ ہماری زبان کی دھوم یوں بھی ہے۔

ایک دوسرے صاحب نے سوال کیا۔ ’مشاعرے میں کون کون سے شاعر حصّہ لے رہے ہیں؟‘

ہم نے چند نام لیے۔ شعرا کے نام سن کر موصوف نے رائے دی۔ ’سب نئے شاعر ہیں۔ ‘ پھر انھوں نے فرمائش کی۔ ’جناب غالب کو بلائیے۔ بہت اچھا شاعر ہے۔ ‘

ایک اور صاحب نے مشورہ دیا۔ ’غلام علی کے بغیر مشاعرے کا لطف نہیں آتا۔ کیا گلا پایا ہے۔ ہر شعر پر ڈھیروں داد ملتی ہے۔ ‘

ہم نے انھیں بتایا کہ غالب اور غلام علی مشاعرے میں شریک نہیں ہو رہے ہیں تو احباب نے ہمیں ڈانٹا۔ ’آپ مشاعرہ کیوں کر رہے ہیں؟ مشاعرے میں اچھے شاعروں کو بلانا چاہیے اور سامعین کی پسند کا خیال بھی رکھا جانا چاہیے۔ ‘

اکثر لوگوں کو مشاعرے کے دعوت نامے کے ہدیہ پر اعتراض ہوا۔ ایک صاحب نے کہا۔ ’لو بھئی۔ گرانی کا عالم دیکھو۔ اب مشاعرے کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑے گا۔ ‘

ہمیں بہت غصّہ آیا۔ بچوں کو ہم اردو پڑھانا نہیں چاہتے۔ اردو کتابیں اور رسالے خریدنا ہمیں گوارا نہیں اور مشاعروں میں شرکت بھی ہم مفت چاہتے ہیں۔ ہم اپنے غصّہ کا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اردو کا کام کرنے والوں کو غصّہ نہیں آنا چاہیے۔ چپ رہے۔ موصوف نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’ہمیں پیسے دے کر مشاعرہ نہیں سننا ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک شاعر رہتے ہیں۔ کھانا کھلا کر اور چائے پلا کر اپنا کلام سناتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کے پاس دو ایک شاعر اور آ جاتے ہیں۔ مفت میں مشاعرہ ہو جاتا ہے اور وہ بھی تناول طعام کے ساتھ!‘

دوسرے احباب نے بتایا۔ ’مشاعرہ کبھی وقت پر منعقد نہیں ہوتا۔ رات دیر گئے شروع ہوتا اور صبح دم تک چلتا رہتا ہے۔ چھ آٹھ گھنٹے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھنے سے جوڑوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ واہ واہ اور ہوٹ کرنے سے گلے میں خراش ہونے لگتی ہے۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد گھر پہنچنا مسئلہ بن جاتا ہے۔ سواری نہیں ملتی۔ راستے میں پولس پریشان کرتی ہے اور کتے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ گھر کا دروازہ جلد نہیں کھلتا۔ منت اور سماجت کے بعد جب دروازہ کھلتا ہے تو بیگم کا ’فی البدیہہ کلام‘ بھی سننا پڑتا ہے۔ بعض سامعین کو سزا کے طور پر صبح تک گھر کے باہر کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ دوسرا دن سوتے یا اونگھتے گزرتا ہے۔ مزید دو، تین دن طبیعت سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ اردو کے لیے ہم اتنی مصیبتیں برداشت نہیں کر سکتے !‘

سامعین کو اکٹھا کرنے میں ناکام ہونے کے باوجود ہم نے مشاعرہ منعقد کرنا چاہا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ مشاعرہ میں خود شعرا کی خاصی تعداد شریک ہو گی جو سامعین کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی۔ شعرا سے ہال بھر جائے گا اور شاعر حضرات ہوٹ ہوئے بغیر ایک دوسرے کو جی بھر کر سنا اور سن سکیں گے۔

مشاعرے کی صدارت کے لیے کئی امیدوار تھے۔ صدر مشاعرہ کا انتخاب مشکل تھا۔ ہر شاعر کی خواہش تھی کہ وہ مشاعرے کی صدارت کرے بلکہ دعویٰ تھا کہ مشاعرے کی صدارت کی اہلیت صرف اسی کے پاس ہے۔ ہمارے ذہن میں بھی دو تین نام تھے۔ آخر ہم نے اس مسئلہ کا حل قرعہ اندازی کر کے نکالا۔

مشاعرہ کا مہمان خصوصی ایک ایسا شخص ہوتا ہے جسے اردو زبان سے کم سے کم واقفیت ہوتی ہے لیکن وہ اردو زبان کی بڑائی ہانک سکتا ہے۔ ایسے شخص کو تلاش کرنے میں ہمیں دشواری نہیں ہوئی۔ ہر سیاسی لیڈر اور مالدار تاجر میں یہ خوبیاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں۔ ہم نے ایسے مہمان خصوصی کا انتخاب کیا جس نے مشاعرے کے انعقاد میں سب سے زیادہ سہولتیں فراہم کی تھیں۔

صدر اور مہمان خصوصی کے بعد ناظم مشاعرہ کا انتخاب درپیش تھا۔ ناظم کے لیے ایک چرب زبان اور چالاک شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی صورت شاعروں کو خوش اور سامعین کو مطمئن رکھ سکے۔ ایک شاعر نما لطیفہ گو شخص میں ہمیں یہ دونوں خوبیاں مل گئیں اور ہم نے اسے ناظمِ مشاعرہ مقرر کر دیا۔ بنیادی انتظامات مکمل ہونے کے بعد ہم دعوت نامے لیے شعرا سے رجوع کرنے لگے۔ ایک شاعر نے پوچھا۔ ’صدارت کون کر رہا ہے؟‘

ہم نے صدر مشاعرہ کا نام لیا تو کہنے لگے۔ ’اچھا اب وہ مشاعروں کی صدارت بھی فرمانے لگے ہیں۔ ‘ پھر وہ ہم سے سوالات کرنے لگے۔ ’انھیں صدر بنانے کے لیے کس نے کہا؟ آپ نے انھیں صدر کیوں بنایا؟ وہ چندہ دینے سے رہے۔ کیا آپ کو کوئی دوسرا قابل شخص نہیں ملا؟ آپ نے مجھے صدر کیوں نہیں بنایا؟‘

دو شاعروں نے ’ہمارے صدر‘ کی صدارت میں مشاعرہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ ایک شاعر کو ایک دوسرے شاعر کی موجودگی پر اعتراض ہوا۔ ’انھیں شاعری کہاں آتی ہے۔ اُوٹ پٹانگ لکھ کر گا لیتے ہیں۔ ‘

ہم نے اونگ پٹانگ شاعر کی مدافعت میں کہا۔ ’ان کا مجموعہ کلام چھپ چکا ہے۔ ‘

جواب ملا۔ ’اس میں سینکڑوں غلطیاں ہیں۔ ‘

جب ہم نے ’اوٹ پٹانگ‘ شاعر کو یہ بات بتائی تو انھوں نے صفائی پیش کی۔ ’دو ایک کتابت کی غلطیاں ہوں گی۔ یوں بھی اب فنی پیچیدگیوں کا دور نہیں رہا۔ ابلاغ کا زمانہ ہے۔ شاعری میں الفاظ کے ڈھانچے کے ساتھ معانی کا لبادہ چاہیے۔ ڈھانچے کی اتنی اہمیت نہیں رہی۔ لبادہ اچھا ہونا چاہیے۔ ‘ پھر ہم سے دریافت کیا۔ ’یہ باتیں کس نے کہی ہیں؟‘

ہم خاموش رہے تو انہوں نے صحیح اندازہ لگایا۔ ’مجھے معلوم ہے۔ فلاں نے کہا ہو گا۔ در اصل وہ بڑا سازشی ہے اور مخالف گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اسے غزلیں کون لکھ کر دیتا ہے۔ وقت آنے پر بتاؤں گا۔ ‘

چند شعرا نے مشاعرے میں مشروط آمادگی کا اظہار کیا۔ ’آپ فلاں شاعر کو بھی بلائیں گے تو میں آؤں گا۔ استاد شاعر ہیں، ان کے بغیر مشاعرہ نہیں ہو سکتا!‘

ہم نے استاد شاعر کو دعوت دی تو انھوں نے شرط رکھی۔ ’فلاں شاعر کے ساتھ ہم مشاعرہ نہیں پڑھ سکتے۔ آپ انھیں مدعو نہ کیجیے۔ ‘

ہر شاعر نے ہمیں تاکید کی کہ اسے پہلے نہ پڑھایا جائے۔ مشاعرے میں پہلے پڑھنے والے شاعر طفلِ مکتب ہوتے ہیں اور اردو زبان میں کوئی مبتدی نہیں، سب استاد شاعر ہیں۔ مشاعرے دیر سے شروع ہونے کی وجہ بھی ہماری سمجھ میں آئی۔ ہر شاعر بعد میں پڑھنے کے لیے دیر سے آتا ہے تو ظاہر ہے کہ مشاعرہ وقت پر کیسے شروع ہو سکتا ہے۔

دو ایک شاعروں نے شرط رکھی کہ وہ سب سے آخر میں پڑھیں گے۔ ہم نے انھیں یاد دلایا۔ ’مشاعرے میں آپ سے سینئر شاعر بھی ہیں۔ ‘

جواب ملا۔ ’عمر میں بے شک وہ مجھ سے بڑے ضرور ہیں لیکن شاعری میں ابھی میرے سامنے بچے ہیں۔ میں نے بڑے بڑے مشاعروں میں صفِ اول کے شعرا کے ساتھ شرکت کی ہے۔ ‘

ہم حیران اور پریشان کہ مشاعرے میں پہلے کسے پڑھائیں۔ ہم نے چند شعرا سے پہلے پڑھنے کے لیے درخواست کی اور چند سے التجا کی۔ دو ایک کے آگے ہاتھ بھی جوڑے۔ لیکن کوئی شاعر مشاعرے کا اوپننگ بیٹسمین بننے تیار نہ ہوا۔

مشاعرہ منعقد کرنے کی پاداش میں اتنا کچھ بھگتنے کے باوجود ہمارے پاس مشاعرہ شروع کرنے کے لیے ’پہلا شاعر‘ نہ تھا۔ تنگ آ کر ہم نے مشاعرہ ہی منسوخ کر دیا اور ساتھ ہی اپنی مادری زبان کے لیے کچھ کر گزرنے کے جذبے سے بھی توبہ کر لی۔ اب تو صرف ہاتھ اٹھائے دعا کرتے ہیں۔ ’خدایا۔ اردو کی حالت زار پر رحم فرما اور اردو والوں کو اپنی زبان کی بقا کے لیے کمربستہ ہونے کی توفیق عطا کرتا کہ ہم حضرت داغ کی زبان میں کہہ سکیں

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، فروری 1998ء

 

 

 

 

ڈیڈی فیل ہو گئے

 

میرا بلکہ ہمارا تین سالہ لڑکا ہر کسی سے سینہ پھلا کر تتلی زبان میں کہتا ہے۔ ’اسکول میں ہمارا امتحان تھا، میں اور ممی پاس ہوئے لیکن ڈیڈی فیل ہو گئے۔ ‘ پھر وہ خوشی سے مجھ پر پنسنے بھی لگتا ہے۔ ’ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ‘

اس نے یہی بات آج شام اپنے داچّا، یعنی میرے چچا جنھیں وہ دادا چچا کا مخفف داچّا کہتا ہے سے کہی تو انھوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ’نتیجہ توقع کے مطابق ہے۔ شروع سے تمھارا تعلیمی ریکارڈ ایسا ہی شاندار رہا ہے۔ ‘

اور لڑکے سے پوچھا۔ ’بیٹا۔ ڈیڈی فیل کیسے ہوئے؟‘

تین سالہ لڑکا بھلا اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ داچّا کو یوں دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو۔ ’جو فیل ہوئے ہیں انھیں سے باز پرس کیجیے۔ میں تو کامیاب ہوا ہوں۔ ‘ پھر اس نے اپنی کھلونے کی بندوق سے ہوا میں فائر کر کے خوشی کا اظہار کیا۔ ‘ڈیڈی فیل ہو گئے۔ ۔ ۔ ہا ہا ہا۔ ۔ ۔ ڈیڈی فیل ہو گئے۔ ۔ ۔ ‘ اور باہر کھیلنے چلا گیا۔

چچا میری جانب یوں متوجہ ہوئے جیسے آج سے پچیس سال قبل، چھٹی جماعت میں انگریزی میں فیل ہونے پر مجھے غصّہ سے دیکھا تھا۔ میں نے نظریں جھکا لیں تو انھوں نے سوال کیا۔ ’تم بتاؤ گے یا میں دلھن سے پوچھوں۔ ‘

’وہ بے چاری کیا بتائے گی۔ میری ناکامی میں اس کا ہاتھ نہیں ہے۔ مجھ سے سنیے، میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں۔ ‘ میں نے چچا سے کہا اور فیل ہونے کی روداد سنانے لگا۔

نیا تعلیمی سال شروع ہوا تو علم کے زیور سے آراستہ کرنے اور علم کی دولت سے مالامال کرنے کے لیے لوگ اپنے ننھے منے پھول سے بچوں کو گھسیٹ کر اسکولوں کے چکر لگانے لگے۔ ایک صبح میں اور بیگم نے پڑوسی کو اپنے روتے ہوئے بچے کو زبردستی اسکول بھیجتے دیکھا۔ بچے پر ظلم ہوتا دیکھ کر مجھے رحم آیا لیکن بیگم پر اس منظر کا الٹا ہی اثر ہوا۔ انھوں نے کہا۔ ’ہمارے لڑکے کو بھی اسکول میں داخلہ دلوانا ہے۔ ‘

چونک کر میں نے انھیں دیکھا اور حیرت سے پوچھا۔ ’کیا تم اس کی سوتیلی ماں ہو؟‘

’کیوں۔ اسکول بھیجنے میں سگے سوتیلے کا کیا سوال ہے۔ ‘ بیگم نے وضاحت چاہی۔

’ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ اسے کھیل کود کر بڑا ہو لینے دو۔ پھر اطمینان سے وہ اسکول جائے گا اور کالج بھی۔ ‘ میں نے بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی۔

’آئندہ ماہ وہ تین برس پورے کر لے گا اور یہی عمر اسکول جانے کی ہے۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔

بیگم کا جواب سن کر میں سوچنے لگا کہ ہمیں بچوں کو اسکول بھیجنے کی بہت جلدی ہوتی ہے۔ ہم انھیں بمشکل تین سال گھر پر برداشت کر پاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بچہ اپنا تیسرا برتھ ڈے اسکول میں منائے۔ بعض والدین اتنے اتاولے ہوتے ہیں کہ تین سال سے پہلے ہی بچوں کو پری پریٹری اور پلے اسکول میں داخل کروا دیتے ہیں۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ میٹرنٹی ہوم سے بچے کو لے کر سیدھے اسکول چلے جاتے !

ہمیں خدشہ رہتا ہے کہ اگر اسکول بھیجنے میں جلدی نہ کی گئی تو بچہ مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح ہم بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ انھیں کم از کم مزید دو سال کھیلنے کودنے کا موقع دینا چاہیے اور پانچویں سال گرہ کے بعد اسکول بھیجنا چاہیے۔ امریکہ میں یہی کیا جاتا ہے۔ وہاں بچوں کو پانچ بلکہ چھ برس سے پہلے اسکول نہیں بھیجا جاتا۔ تاہم میرے ایک دوست، امریکہ میں ہم سے دو برس بعد اسکول بھیجنے کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ تین سال کا بچہ ٹھیک سے بندوق نہیں پکڑ پاتا اور امریکہ میں گھر سے باہر نکلنے کے لیے بندوق پر مضبوط گرفت ضروری ہے !

میرے خیالات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بیگم نے کہا۔ ’آج ہی آپ دوچار اچھے اسکولوں کے داخلہ فارم لیتے آئیے۔ ۔ ۔ ‘ ساتھ ہی انھوں نے چند مشہور اسکولوں کے نام بھی گنائے۔

داخلہ فارم کی فرمائش کا مطلب یہ ہوا کہ بیگم بچے کو تین سال کی عمر ہی سے اسکول بھیجنا چاہتی ہیں۔ اس کے باوجود میں نے بیگم کو ماہرین کے مشورے سے واقف کروانا ضروری سمجھا۔ شاید وہ اپنے لخت جگر پر ظلم کرنے سے باز آ جائیں۔ میں نے بیگم سے کہا۔ ’بڑھتے ہوئے بچوں پر وقت سے پہلے تعلیم کا بوجھ نہیں لادنا چاہیے۔ وہ جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ہم دو سال بعد اپنے بیٹے کو اسکول بھیجیں گے تا کہ۔ ۔ ۔ ‘

’۔ ۔ ۔ اس وقت تک اچھے اسکولوں میں داخلے بند ہو چکے ہوں گے۔ ‘ بیگم نے میری بات کاٹی۔ ’ اور ہمارے لڑکے کو سرکاری اسکول میں داخلہ لینا پڑے گا۔ وہ انجینئر، ڈاکٹر یا کوئی بڑا افسر بننے کے بجائے آپ کی طرح کسی دفتر میں لکیر کا فقیر یعنی کلرک بنے گا۔ میں اپنے بیٹے کی زندگی خراب نہیں کروں گی۔ آپ اسکولوں سے داخلہ فارم لے آتے ہیں یا میں میکے سے کسی کو بھیج کر منگوا لوں۔ ‘ بیگم نے فیصلہ سنانے کے ساتھ دھمکی بھی دی۔

نامور اسکولوں کے داخلہ فارم کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ بعض اسکول دو یا تین دن ہی فارم فروخت کرتے ہیں۔ فارم حاصل کرنے کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں۔ چند کلو میٹر کا فاصلہ کھسکتے ہوئے طے کر کے کاونٹر تک یہ سننے کے لیے پہنچتے ہیں کہ ’ فارم ختم ہو چکے ہیں۔ اب آپ آئندہ برس آئیے۔ ‘

لیکن اس الجھن کا جواب نہیں ملتا کہ آئندہ سال کیا اسی بچے کو لے آئیں یا داخلے کے لیے نیا بچہ درکار ہو گا۔ چند اسکولوں کے داخلہ فارم بہت آسانی سے، کسی مشہور کمپنی کے شیرز فارم کی طرح خریدے جا سکتے ہیں لیکن ان اسکولوں میں داخلہ شیرز الاٹمنٹ کی طرح مشکل سے ملتا ہے۔ صرف چند خوش قسمت بچے ہی ان میں داخلہ لے پاتے ہیں۔ دو ایک اسکولوں کے داخلہ فارم کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ صرف اسمگلر، لیڈر یا کرپٹ عہدیدار ہی انھیں خرید پاتے ہیں۔ اسی لیے کہنے والے کہتے ہیں کہ داخلہ فارم بھی اسکول کی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔

زر کثیر صرف کر کے اور پسینہ ٹپکا کر میں دو اسکولوں کے فارم لے آیا۔ احباب نے مبارک باد دی کہ ہم نے بچے کے اسکول میں داخلہ کا تین چوتھائی معرکہ سر کر لیا ہے۔ اب صرف خانہ پُری باقی ہے۔ داخلہ فارم اتنے ہی بڑے تھے جتنے کہ ان کے اسکولوں کے نام مشہور تھے۔ کئی باتوں کی تفصیل مانگی گئی تھی اور ہمہ اقسام کے مختلف سوالات پوچھے گئے تھے۔ بچہ کب، کیوں، کہاں اور کن حالات میں پیدا ہوا تھا۔ ڈیلیوری کیسے اور کتنی دیر میں ہوئی تھی۔ کس نے کی تھی۔ پیدائشی وزن کیا تھا اور اب وزن کیا ہے۔ لڑکا کتنا لانبا ہے۔ پیدائش کے وقت سر کا محیط کیا تھا اور اس میں اب تک کتنا اضافہ ہوا ہے۔

بچے کی صحت کیسی رہتی ہے۔ مہینے میں کتنی مرتبہ بیمار پڑتا ہے۔ کتنی مرتبہ بستر گیلا کرتا ہے۔ رات کب سوتا اور صبح کب اٹھتا ہے۔ صبح مسکراتے ہوئے اٹھتا ہے یا روتے ہوئے دن کا آغاز کرتا ہے۔ کیا اسے چڈی پہننا آتا ہے۔ کیا بٹن لگا سکتا ہے۔ کیا زپ کھینچ سکتا ہے۔ کیا وہ جوتے کی ڈوریاں باندھ سکتا ہے۔ وہ خود سے کھاتا ہے یا اسے کھلانا پڑتا ہے۔ بچے کو کیا کھلاتے اور پلاتے ہیں۔ کیا اس کا الگ کمرہ ہے۔

بچہ کہاں کھیلتا کودتا ہے؟ گلی میں، میونسپلٹی کے پارک میں یا کلب میں۔ سیر و تفریح کے لیے آپ بچے کو کہاں لے جاتے ہیں۔ کیا بچہ کبھی بیرون ملک گیا ہے۔ اگر گیا ہے تو کہاں کہاں اور اگر نہیں گیا تو کیوں نہیں گیا۔ بچے کے کتنے بھائی بہن ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں۔ کس اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اگر اس اسکول میں نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں۔ کیا گھر پر ملازمہ ہے اور اگر ہے تو اس کے بارے میں بتائیے۔ آس پڑوس کا ماحول کیسا ہے۔ پڑوسیوں کے بارے میں بتلائیے۔

ماں اور باپ کون ہیں۔ کیا ان میں پہلے سے رشتہ داری ہے۔ انھوں نے کیا اور کہاں تعلیم پائی ہے۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ کیسا تھا۔ اگر ممکن ہو تو اسکول رپورٹس کی کاپیاں منسلک کریں۔ والدین کیا کام کرتے ہیں۔ ان کے باہمی تعلقات کیسے ہیں۔ ہفتہ میں کتنی بار لڑتے ہیں۔ مادری زبان کیا ہے۔ گھر اور محلے میں کون سی زبان بولی جاتی ہے۔ ماں باپ کو کتنی زبانیں آتی ہیں۔ اسکول میں تعلیم کے علاوہ کیا گھر پر بھی بچے کو کوئی دوسری تعلیم دی جائے گی۔ اسکول سے گھر کتنی دور ہے۔ بچہ اسکول کیسے آئے گا۔ ساتھ کون آیا کریں گے۔ وغیرہ۔ وغیرہ۔

بہت سوچ سمجھ کر اور صلاح و مشورہ کر کے ہم نے ایک اسکول کا انتخاب کیا۔ تین چار گھنٹے سر جوڑ کر ہم نے فارم پُر کیا اور بچے کی پیدائش اور اس کے وجود اور دیگر معلومات کو ثابت کرنے کے لیے صداقت نامے منسلک کر کے داخلہ فارم اسکول میں جمع کروایا۔

اسکول والوں نے داخلہ فارم لے لیا تو ہم خوش ہوئے کہ ہمارے لڑکے کو داخلہ مل گیا ہے۔ ہم شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو مبارک باد دے کر اپنے نور چشم کو چوم رہے تھے کہ کلرک نے فارم کی وصولی کی رسید دیتے ہوئے کہا۔ ’فارم کے قبول یا مسترد ہونے کی اطلاع آپ کو ڈاک کے ذریعہ دی جائے گی۔ ‘

’کیا مطلب، کیا داخلہ فارم مکمل نہیں ہے۔ ‘ میں نے استفسار کیا۔

’فارم مکمل ہے۔ اسی لیے تو لے لیا ہے۔ اگر آپ اور آپ کا بچہ ہمارے معیار اور کسوٹی پر پورا اتریں گے تو آپ کو انٹرویو کے لیے بلایا جائے گا۔ بصورت دیگر ہم معذرت کر لیں گے۔ ‘ کلرک نے وضاحت کی۔

یعنی کہ ابھی کچھ نہیں ہوا، ہنوز روز اول والا معاملہ ہے۔ ہم ہر دن دعا کرنے لگے۔ ’یا اللہ۔ تو ہمیں اور ہماری اولاد کو اسکول کے معیار پر کھرا اتاریو۔ ‘

تین چار ہفتوں بعد ڈاک کے ذریعہ ہمیں اسکول سے ایک لفافہ ملا۔ ہم نے کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل سے لفافہ لیا۔ جھاڑ پھونک کر لفافہ کھولا۔ ہماری دعا قبول ہوئی تھی۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اسکول میں داخلہ لینے کے اہل ثابت ہوئے اور ہمیں انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا۔ ہم سب بہت خوش ہوئے اور بیگم نے اپنے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوئے کہا۔ ’ مجھے یقین تھا کہ اس کا سیلکشن ہو گا۔ میرا بیٹا کروڑوں میں ایک ہے۔ ‘

’ہاں بیگم۔ وہ کروڑوں میں سے ایک ہے۔ ‘ میں نے بیگم کی ہاں میں ہاں ملائی۔

ہمیں اپنی اولاد کے اسکول میں داخلے کے لیے انٹرویو دینے کا تجربہ نہ تھا۔ ایسا ہمارے ساتھ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا۔ ہم پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے۔ ہم نے تجربہ کار لوگوں کو ڈھونڈا جو اپنے بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوا چکے تھے۔ ہم نے اپنے انٹرویو کی تیاری کے لیے ان کا انٹرویو کیا۔ سینیئر لوگوں نے بتایا کہ اسکول میں داخلہ کے لیے انٹرویو در اصل ایک سخت قسم کا امتحان ہے۔ ماں، باپ اور بچے، تینوں سے مشکل سوالات کیے جاتے ہیں۔ بعض سوال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے جواب آپ کے پاس نہیں ہوتے !

ہم ڈرنے لگے تو احباب نے ہمت بندھائی۔ ’گھبرائیے مت۔ انٹرویو اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔ ہم آپ کی مدد کریں گے۔ ‘

ہم نے انٹرویو میں کیے جانے والے ممکنہ سوال اور ان کے جواب لکھ لیے۔ یہ بھی دریافت کیا کہ انٹرویو دینے کے لیے کس قسم کے کپڑے پہن کر جائیں اور اپنے ساتھ تحفے لے جانے کے لیے مشورہ مانگا۔ انٹرویو میں کسی قسم کا تحفہ دینے سے ہمیں منع کر دیا گیا۔ ’آپ کے ساتھ کئی دوسرے والدین بھی ہوں گے ہیں۔ سب کے سامنے تحفہ دینے سے بات بگڑسکتی ہے۔ لیکن آپ انٹرویو کے دوران مستقبل میں تحفے تحائف دیتے رہنے کا وعدہ ضرور کر لیں۔ ‘

ہم انٹرویو کے لیے تیاری کرنے لگے۔ میں نے دفتر سے پندرہ دن کی چھٹی لی۔ بیگم اپنے لڑکے کو انگریزی سکھانے لگیں کہ اب اس کا داخلہ انگلش میڈیم اسکول میں ہونے والا ہے۔ وہ بچے سے انگریزی میں ہم کلام ہونے لگیں اور مجھے ہدایت دی کہ میں بھی اس سے انگریزی ہی میں بات کروں۔ بچے کے مستقبل کا سوال تھا۔ مجھے بیگم کا حکم بجا لانا ہی پڑا۔ گھر میں انگریزی بولتے ہوئے مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میں چھٹی پر ہونے کے باوجود دفتر میں ہوں۔

بیگم نے لڑکے کو اے ٹو زیڈ حروف رٹائے۔ ون ٹو ہنڈرڈ گنتی سکھائی۔ رنگوں کی انگریزی میں پہچان کروائی۔ آنکھ، ناک، کان، سر، ہاتھ، پیر کے انگریزی نام یاد دلائے۔ گڈ مارننگ اور ہیلو کہنا اور اپنا، ممی اور ڈیڈی کا نام، گھر کا پتا، ٹیلی فون نمبر اور تاریخ پیدائش بتانا سکھایا۔ ٹونکل ٹونکل لٹل اسٹار اور جانی جانی یس پپا نظمیں رٹائیں اور ایپل، بیٹ، کیٹ اور ڈاگ کے ہجے بھی سکھائے۔ احباب نے بتایا کہ بچے کو نرسری میں داخلے کے لیے اتنی انگریزی کافی ہے۔

بیگم نے خوب تیاری کی۔ مختلف ملکوں کے سربراہان حکومت کے نام، یوم آزادی، خواندگی کا فیصد اور اپنے ملک کے وزیر تعلیم کا نام اور ان کے بارے میں معلومات اکٹھا کیں۔ یہ جان کر انھیں حیرت ہوئی کہ ہمارے وزیر تعلیم معمولی تعلیم یافتہ ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات اور انسداد دہشت گردی کے بارے میں واقفیت حاصل کی۔ بچوں کو دنیا کے امن پسند اور سیکیولر شہری بنانے کے طریقے یاد کیے۔ اتنی تیاری کے باوجود بیگم خوف زدہ تھیں کہ انٹرویو میں کچھ بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ انھیں یہ فکر بھی کھائے جا رہی تھی کہ اگر انٹرویو میں پوچھ لیا جائے کہ وزیر تعلیم اعلی تعلیم کیوں نہیں حاصل کوسکے؟ تو وہ یقیناً ناکام ہو جائیں گی۔

میں نے بھی انٹرویو میں پیش ہونے کی تیاری کی۔ دفتر سے کام اور آمدنی کا صداقت نامہ اور بنک سے نئی چیک بک حاصل کی۔ تجربہ کار دوستوں نے بتایا کہ میری اتنی تیاری کافی ہے۔ اس سے زیادہ محنت بے کار ہو گی۔

انٹرویو کا دن آ پہنچا۔ ہم نے نہا دھوکر نئے کپڑے زیب تن کیے اور اپنے آپ کو معطر کر کے سجے سجائے اسکول پہنچے۔ وہاں اور بھی بچے اپنے والدین کے ساتھ انٹرویو دینے کے لیے موجود تھے لیکن کسی کو کسی سے سروکار نہ تھا۔ ہر کسی کو اپنے بچے کے مستقبل کی فکر دامن گیر تھی۔ انتظار کا وقت ہم نے دعائیں کرتے ہوئے گزارا۔ ہمیں انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا۔ انٹرویو لینے والوں کی خدمت میں ہم نے کورس میں گڈ مارننگ کہا۔ جواب میں ویری کا اضافہ کر کے گڈ مارننگ لوٹائی گئی۔ ٹیچر نے لڑکے کو مسکرا کر دیکھا اور پوچھا۔ ’کیا تمھیں انگریزی آتی ہے؟‘

لڑکے کی بجائے ماں نے انگریزی میں جواب دیا۔ ’یس میڈم۔ آپ میرے لال سے انگریزی میں بات کر لیں۔ ‘

لڑکے سے انگریزی میں نام، فادر کا نام، تاریخ پیدائش اور پسندیدہ کھانا پوچھا گیا جو اس نے فر فر بتا دیا۔ کالے اور پیلے رنگ کو پہچاننے اور ناک اور کان پکڑنے کے لیے کہا گیا۔ اس نے یہ کام آسانی سے کر دیے۔ پھر اس سے ایپل اور کیٹ کے ہجّے پوچھے گئے۔ لڑکے نے یہ معرکہ بھی سر کر لیا۔ ٹیچر کبھی گڈ تو کبھی ویری گڈ کہتی رہیں۔ لڑکے کا انٹرویو ختم ہوا۔ اسے امتیازی نشانات حاصل ہوئے۔ ٹیچر نے پیٹھ تھپتھپائی تو لڑکا خوش ہوا اور ماں کا چہرہ دمک اٹھا۔

بیگم کی باری آئی۔ ان سے چند سوالات کیے گئے۔ آپ بچے کو پڑھانے کے لیے کتنا وقت دیں گی۔ کیا ہر دن چار گھنٹے کافی ہوں گے۔ بچے کو اس عمر میں کتنی نیند درکار ہوتی ہے۔ کون سی غذا سے دماغی صلاحیت میں چار چاند لگتے ہیں۔ بیگم نے تمام سوالوں کے تشفی بخش جوابات دیے۔ اس طرح بیگم نے بھی بازی مار لی۔

اب جگر تھام کے بیٹھو، میری باری آئی والا معاملہ تھا۔ ایک صاحب جو، اب تک خاموش بیٹھے تھے، گلا صاف کر کے مجھ سے بات کرنے لگے۔ قابلیت اور کام کے تعلق سے پوچھا اور ڈھکے چھپے سوالات کر کے آمدنی کا اندازہ لگایا۔ میری تخمینہ آمدنی شاید ان کے لیے کافی نہ تھی، اس لیے انھوں نے سیدھا سوال داغا۔ ’کیا آپ بچے کی تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں گے؟‘

جواب دینے بلکہ وعدہ کرنے سے پہلے میں نے داخلہ کا خرچ اور اسکول کی فیس دریافت کی۔ انھوں نے جو رقم بتائی اس سے میرے ہوش اڑ گئے۔ ماہانہ بچے کی تعلیم کا خرچ اٹھانے کے بعد ہمیں صرف چنے کھا کر اور پانی پی کر گزارا کرنا پڑتا۔ مجھے شک ہوا کہ میں نے غلط سنا ہو گا۔ میں نے سوال دہرایا تو جواب بھی دہرایا گیا۔ لیکن تعلیم کے خرچ میں کمی بیشی نہیں ہوئی۔ مکرر جواب سن کر بھی مجھے یقین نہ آیا اور میں بے اختیار بول اٹھا۔ ’میں نے اسکول خریدنے کی بات نہیں کی ہے۔ میں آپ کے اسکول میں اپنے لڑکے کو صرف تعلیم دلوانے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ ‘

صاحب موصوف نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اسی سنجیدگی سے کہا۔ ’جی۔ میں نے تعلیم کا خرچ ہی آپ کے گوش گزار کیا ہے۔ آپ کی حیرانی دیکھ کر اندازہ کر سکتا ہوں کہ آپ بھلا اسکول کیا خرید پائیں گے !‘

میں کچھ دیر یوں ہی گم صم بیٹھا رہا۔ اس وقت مجھے پتا چلا کہ علم کو دولت کیوں کہا جاتا ہے۔ اپنے حواس یکجا کر کے میں نے کہا۔ ’شکریہ۔ میں سوچ کر بتاؤں گا۔ ‘

میں بیگم اور لڑکے کو ساتھ لیے بوجھل قدموں سے اسکول سے باہر نکلنے لگا۔ ہمارے لڑکے نے میرا ہاتھ تھام کر پوچھا۔ ’ڈیڈی۔ کیا میں پاس ہوا؟‘

میں نے اسے گود میں لے کر کہا۔ ’ہاں بیٹا آپ پاس ہوئے اور ممی بھی پاس ہوئیں لیکن میں فیل ہو گیا۔ ‘

اپنی داستان مکمل کر کے میں نے چچا کی جانب دیکھا کہ وہ میری ناکامی پر پچّیس برس پہلے کی طرح برس پڑیں گے، لیکن وہ بھی نظریں جھکائے گم صم تھے۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، اکٹوبر2002ء

 

 

 

 

ہم نے پیٹ پالا

 

ایک دن ہماری بیوی نے کہا۔ ’اللہ کا کرم ہے۔ اس نے ہمیں دنیا کی کئی نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔ شاندار گھر ہے۔ گھر کے پورٹیکو میں ایک نہیں دو کاریں کھڑی رہتی ہیں۔ اچھا کھانے اور پہننے کو دیا ہے۔ خوب صورت بچے دیے ہیں۔ خدمت کے لیے نوکر چاکر موجود ہیں۔ ایک کمی کا پھر بھی احساس ہوتا ہے۔ گھر سونا سونا اور ویران لگتا ہے۔ کوئی رونق ہے اور نہ چہل پہل۔ سوچتی ہوں۔ ۔ ۔ ‘

ہم نے بیوی کی بات کاٹی۔ ’اجازت ہے تو لے آؤں۔ دونوں کا دل لگا رہے گا اور دلچسپ نوک جھوک سے میں بھی محظوظ ہوا کروں گا۔ ‘

آواز اونچی کرتے ہوئے بیوی نے کہا۔ ’میں سوت لانے کے لیے نہیں کہہ رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم پیٹ پالیں۔ ‘

’بیگم کچھ تو خیال کرو۔ ابھی آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا ہے۔ ہمارے پیٹ بہت شاندار طریقے سے پل رہے ہیں۔ صبح انگریزی ناشتہ ہوتا ہے۔ دوپہر میں کانٹی ننٹل لنچ ہوتا ہے، شام میں ٹی اور رات میں اورینٹل ڈشس کھاتے ہیں۔ ماشاء اللہ، میرا پیٹ پل کر بڑا بھی ہونے لگا ہے۔ دو ڈھائی انچ آگے نکل آیا ہے اور ڈاکٹر نے آگے بڑھنے والے پیٹ کو روکنے اور کم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ‘ میں نے بیگم کی عجیب و غریب خواہش سن کر جواب دیا۔

’آج آپ میری ہر بات کا الٹا مطلب کیوں نکال رہے ہیں؟‘ سوال کر کے بیوی وضاحت کرنے لگیں۔ ’میں اردو والے پیٹ کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ میری مراد انگریزی پیٹ سے ہے۔ ‘ اور انگریزی پیٹ کے ہجے کر کے بتایا۔ ’پی ای ٹی یعنی پیٹ جس کے معنی پالتو جانور ہے۔ کیوں نہ ہم ایک چوپایہ پالیں۔ اس سے گھر کی رونق بڑھے گی۔ گھر میں چہل پہل ہو گی اور گھر کا سوناپن بھی دور ہو گا۔ ‘

ہم نے کہا۔ ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنا شمار دولت مند لوگوں میں کروانا چاہتی ہیں اور اپنی امارت کا رعب جانوروں پر بھی ڈالنا چاہتی ہیں۔ ٹھیک ہے، آپ کی یہی خواہش ہے تو ایک بندر پال لیجیے۔ ‘

’بندر پال لیں !‘ ہمارا جملہ دہرا کر بیوی کچھ دیر ہمیں گھورتی رہیں۔ یوں محسوس ہوا جیسے وہ سوچ رہی ہوں کہ ذہن میں آئے خیال ’وہ تو پال رہی ہوں۔ ۔ ۔ ‘ کو قوت گویائی دینی چاہیے یا نہیں۔ ہم بھی چپ رہے۔ چند منٹ سوچتے رہنے کے بعد بیوی نے خاموشی توڑی۔ ’بندر پالنے میں بے ادبی کا خدشہ ہے۔ بقول ڈارون بندر ہمارے آباء و اجداد جو ٹھہرے۔ ‘

’مرغیوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘میں نے سوال کیا۔

’مرغیاں خیر سے چند دنوں سے زیادہ نہیں پل سکیں گی۔ بہت جلد ہم انہیں اپنے پیٹ میں اتار لیں گے۔ ‘ بیوی نے مرغیاں نہ پالنے کا عذر پیش کیا۔

’ کبوتر لے آؤں؟‘ میں نے استفسار کیا۔

’جی نہیں نواب صاحب! آپ کو بگڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ‘بیوی نے ہماری پسند پر طنز کیا۔

’تو پھر طوطا کیسا رہے گا۔ ‘میں نے دوسرا انتخاب پیش کیا۔

’اگر طوطے کی صحبت میں آپ نے طوطا چشمی کی تو۔ ۔ ۔ ‘ بیوی نے خدشے کا اظہار کیا۔

’اس صورت میں ہم طوطے کو اڑا دیں گے۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

’پال پوس کر اڑانے سے بہتر ہے کہ آپ طوطے کو پہلے ہی اڑا دیجیے۔ ہم طوطا نہیں پالیں گے۔ معصوم پرندوں کو پنجرے میں بند کر کے رکھیے گا!توبہ کیجیے، گناہ ہو گا۔ ‘ ہماری بیوی اپنے گال پیٹنے لگیں۔

’ٹھیک ہے، ہم پیٹ نہیں پالیں گے۔ ‘ ہم نے فیصلہ سنایا۔

بھلا بیویاں کب شوہروں کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں۔ بیوی نے ہمارے فیصلہ کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ ’ہم گھر پر کتا رکھیں گے۔ ‘

ہم نے مخالفت کی۔ ’جی نہیں گھر پر بلی پلے گی۔ ‘

’بلی نہیں کتا۔ ‘ بیوی نے اصرار کیا۔

’کتا نہیں بلی۔ ‘ ہم نے جوابی اصرار کیا اور پھر ہم دونوں میں کتے بلی کے لیے ٹھن گئی۔ بیوی کتے کی تائید اور بلی کی مخالفت کرنے لگیں جبکہ ہم بلی کی موافقت میں اور کتے کے خلاف کہنے لگے۔

’بلی شیر کی خالہ ہے۔ ‘

’کتا خود بہادر ہے۔ شیر کی خالہ پر جھپٹتا ہے۔ ‘

’بلی گھر کے چوہوں کا صفایا کرتی ہے۔ ‘

’کتا گھر کی رکھوالی کرتا ہے۔ ‘

’امن پسند شہری بلی پالتے ہیں۔ ‘

’جی نہیں، ڈرپوک لوگ بلی پسند کرتے ہیں جبکہ بہادر اور ترقی یافتہ لوگ کتا پالتے ہیں۔ ‘

’کتے کی دم ٹیڑھی ہوتی ہے۔ ‘

’اور بلی دم دبا کر بھاگتی ہے۔ ‘

’کتے کا رونا مشکلات اور مصیبتوں کی آمد کا اعلان ہے۔ ‘

’بلی کا راستہ کاٹنا منحوس ہوتا ہے۔ ‘

’کتا ہمیں پسند نہیں، ٹانگ اٹھا کر ضرورت سے فارغ ہوتا ہے۔ ‘

’بلی گندی ہوتی ہے۔ جہاں جی چاہے ضرورت سے فارغ ہوتی ہے۔ ‘

’کتے کے تصور سے ہی چودہ انجکشن کا خیال آتا ہے۔ ‘

’بلی کو چوہا کھاتے دیکھ کر کرا ہت ہوتی ہے۔ ‘

’کتے کو رال ٹپکاتے ہڈی کو بھنبھوڑتے ہوئے دیکھ کر ابکائی آتی ہے۔ ‘

’بلی بے وقوف ہوتی ہے۔ آنکھیں بند کر کے دودھ پیتی اور سمجھتی ہے کہ اسے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔ ‘

’کتا اپنے گھر میں شیر ہوتا ہے اور گھر کے باہر گیدڑ۔ ‘

’بلی ایک گھر میں نہیں رہتی، چالیس گھر پھرتی ہے۔ بلی بے کار جانور ہے، کچھ کام نہیں آتی۔ کتا وفادار اور وفا شعار جانور ہے۔ زمانہ قدیم سے انسانوں کا دوست اور خدمت گزار ہے۔ کتا گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ کتا پولس کی مدد کرتا ہے بلکہ کتے کی کارکردگی پولس سے بہتر ہوتی ہے۔ کتا سونگھ کر مجرموں کو پکڑتا اور چھپی اور چھپائی ہوئی چیزوں کا پتا لگاتا ہے۔ کتا بھیڑ بکریوں کی رکھوالی کرتا ہے اور انھیں چراتا ہے۔ کتا شکار پر انسان کے ساتھ جاتا اور شکار میں مدد کرتا ہے۔ کتا اندھوں کی لاٹھی بن کر راستہ دکھاتا ہے۔ کتا ڈوبتے ہوئے کو بچاتا ہے۔ کتا کچن میں نہیں آتا۔ کتا چوری نہیں کرتا۔ بچوں کو شرارت کرنے سے باز رکھتا ہے۔ کتا گھر والوں سے پہلے مہمانوں کا استقبال کرتا اور انھیں گھر سے بھگاتا ہے۔ کتے کو ساتھ لیے شان سے سڑک پر اترا کر چل سکتے ہیں۔ اور تو اور کتا ہم خواتین کی حفاظت کر سکتا ہے۔ تاریخ کتے کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ کتے کے آگے بلی کی کیا حیثیت اور کیا مقام۔ ۔ ۔ ‘

کتے کی مدح سرائی اور کتا پالنے سے حاصل ہونے والے ڈھیر سارے فائدوں کو سن ہم نے ہار مان لی۔ ’ٹھیک ہے ہم کتا پالیں گے۔ ‘

دوسرے دن صبح ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملازم شابو گوشت ترکاری کے ساتھ ایک عدد کتا بھی ساتھ لیے آ رہا ہے۔ مریل سا نحیف و ناتواں کتا شابو کے پیچھے اپنی کٹی دم ہلاتے چلا آ رہا ہے۔ ہم نے خیال کیا کہ ہماری بیوی کو عبرت دلانے اور کتا پالنے سے باز رکھنے کے لیے شابو اس کتے کولے آیا ہے۔ لیکن شابو نے ہماری غلط فہمی دور کی۔ ’صاحب، کل آپ اور بیگم صاحبہ کی باتیں سن کر میں اس کتے کو پالنے لایا ہوں۔ گوشت کی دکان پر پڑا زندگی برباد کر رہا تھا۔ ترس کھا کر اسے آپ کے سائے میں لے آیا ہوں۔ پچکارنے کی دیر تھی، دم ہلاتے میرے پیچھے چلا آیا۔ ‘

’شابو اس نے کون سی دم ہلائی؟ اس کی دم ہی نہیں ہے !‘ ہم نے حیرت سے پوچھا۔

’صاحب آپ کو شاید نہیں معلوم۔ کتوں کو ہوشیار، تیز اور سمجھدار بنانے کے لیے بعض لوگ کتوں کی دم اور کان کاٹتے ہیں۔ ‘ شابو نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔

’اس کتے کا نام کیا ہے؟‘ ہم نے استفسار کیا۔

’بے نام ہے۔ آپ اپنا نام۔ ۔ ۔ ‘ ہمارے گھور کر دیکھنے پر شابو نے سنبھل کر کہا۔ آپ ہی کوئی اچھا سا نام تجویز کر دیں۔ ‘

ہم گھر والے اس دم کٹے کتے کا نام سوچنے لگے۔ ایک آسان نام تو اس کا ’دم کٹا ‘ ٹھہرا۔ کسی نے اسے ٹائگر کہنا چاہا لیکن اکثریت کی رائے تھی کہ بغیر دم والے کتے کو ٹائگر کہنا، اصلی ٹائگر کی بے عزتی ہے۔ کچھ دیر سوچ بچار کے بعد طے پایا کہ اسے رستم پکارا جائے۔ ہماری بیوی رستم کو گود لینے تیار نہ تھیں لیکن شابو کی ناراضگی کا خیال کرتے ہوئے اس ’کتے کی بدنامی‘ کو گھر پر رکھنے کے لیے تیار ہوئیں۔ آج کل اچھے نوکر مشکل سے ملتے ہیں اور اچھے نوکر کی چھوٹی بڑی ہر خواہش کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یوں رستم شابو کی سرپرستی میں ہمارے گھر پلنے لگا۔

رستم عجیب کتا تھا۔ گوشت کی دکان پر لوگوں کی مار کھاتے، دم کٹاتے اور ذلت کی زندگی گزارتے ہوئے اپنا کتا پن کھو چکا تھا۔ غرّانا تو وہ جانتا ہی نہ تھا، خوشامدی بھونکنا بھونکتا تھا۔ ہر ایک کے آگے کٹی دم ہلاتا اور ہر ایک کے قدموں میں لوٹتا تھا۔ جو بھی ملے، جب بھی ملے اور جتنا بھی ملے کھا لیا کرتا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ روٹی کے علاوہ اس کا کوئی نصب العین نہیں ہے۔ چند دنوں میں وہ تر و تازہ ہو گیا۔

روٹی کی فکر سے آزاد ہونے کے باوجود، روٹی کے لیے اس کی چوری چکاری کی پرانی عادتیں نہ صرف باقی و برقرار رہیں بلکہ ان میں کچھ اضافہ ہی ہو گیا تھا۔ موقع ملنے پر کچن کا رخ کرتا اور اِدھر اُدھر منہ مارتا۔ شابو کے ہاتھوں پٹنے کے بعد بھی وہ باز نہیں آیا۔ دو چار مرتبہ پڑوس میں بھی رستم نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور ہمیں چار مرغیاں، ایک کلو گوشت، دو لیٹر دودھ، تین پاؤنڈ روٹی اور چار افراد کا ڈنر پڑوسیوں کو بطورِ جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ شابو نے رستم کو سمجھانے کے لیے اس کے کان کاٹنا چاہا لیکن ہم نے منع کر دیا۔ بچوں نے بھی رستم کو سدھانے کی کوشش کی لیکن ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود رستم واپس کتا نہ بن سکا۔

ایک دن ہمارے ایک دوست جو جانوروں کے ڈاکٹر ہیں تشریف لائے۔ وہ اپنے پیشے سے تعلق خاطر کے سبب خالص چمڑے کی چپل اور جوتے پہنتے ہیں۔ رستم نے موصوف کی ایک چپل آدھی سے زیادہ کھا لی۔ رستم کی اس گستاخی پر انھوں نے ہمیں ڈانٹا۔ ’کتا پالنے کا ارمان تھا تو مجھ سے کہتے۔ بازاری اور آوارہ کتے جس کی اصل معلوم نہ نسل، پالے نہیں جاتے۔ وہ اپنے آپ پلتے ہیں۔ پالنے کے لیے اعلیٰ نسل کا خاندانی کتا چاہیے جس کے آباء و اجداد کا اتا پتا اور حسب نسب معلوم ہو۔ ‘

نامعقول رستم کو واپس گوشت کی دکان پر چھوڑ دیا گیا اور ہم ایک اعلیٰ نسل اور اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ کی جستجو کرنے لگے۔ جانوروں کے ڈاکٹر دوست سے مدد لی تو انھوں نے ہمیں کتا دینے سے پہلے چند کتابیں کتوں پر اور کتے پالنے کے تعلق سے پڑھنے کے لیے دیں۔ ہم نے ان سے کہا۔ ’بھائی، خدا کے فضل سے ہم چار بچوں کے شفیق باپ ہیں۔ انھیں پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اچھی تربیت دی ہے جس کے آپ بھی معترف ہیں۔ اس فرض کے آگے کتا پالنا کیا اہمیت رکھتا ہے۔ ‘

جواب ملا۔ ’اپنے بچوں کو پالنے کے لیے کتابوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کتا بھی اپنے پِلّے بغیر کتابیں پڑھے پالتا ہے۔ لیکن دوسروں کے بچوں کو پالنے کے لیے ان کے بارے میں جاننا ضروری ہو جاتا ہے۔ کتے پالنے کے لیے معلومات درکار ہوتی ہیں کہ وہ کیا کھاتے ہیں، کتنا کھاتے اور کیا پیتے ہیں۔ ان کی آنکھیں کب کھلتی ہیں۔ کس عمر میں چلنا سیکھتے ہیں۔ کب اور کتنا سوتے ہیں۔ کاٹتے کیوں ہیں۔ بھونکنے والے کتے کاٹتے کیوں نہیں، وغیرہ۔ تم پہلے یہ کتابیں پڑھ لو۔ پھر میں تمھیں ایک کتے کا پلّا دلا دوں گا۔ ‘

ہم کتوں پر اور کتا پالنے کے تعلق سے انسانوں کی لکھی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے۔ کئی انکشافات ہوئے۔ ٹانگ اٹھا کر رفع حاجت کی وجہ معلوم ہوئی۔ لکھا تھا کہ اس عمل سے کتا اپنی اجارہ داری اور اپنی حدود قائم کرتا ہے۔ کتوں کی اقسام، کتوں کی نسل، کتوں کا رہن سہن، کتوں کی چال چلن اور ایسی ہی ضروری اور غیر ضروری معلومات حاصل ہوئیں۔ انسان اور کتے کی ٹھن جانے پر لکھا تھا کہ انسان کو میدان چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہیے۔ کتا شیر ہو جاتا ہے۔ کتے کے آگے ٹھہر کر مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیے۔ کتے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آنکھ لڑانا چاہیے۔ آنکھ پھیر لینے سے کتا انسان پر حاوی ہوتا ہے۔ غصّہ کا اظہار کرتے ہوئے کتے کو ڈانٹنا چاہیے اور پھر پیار سے پچکارنا چاہیے۔ انسان کے اس عمل سے کتا متاثر ہو کر اپنی کھڑی دم دبانے لگے تو کتے کی پیٹھ تھپتھپانا چاہیے۔ کتا اپنی ٹیڑھی دم ہلانے لگے تو سمجھیے کہ مفاہمت ہو گئی اور کتا آپ کا بہترین ساتھی بن گیا ہے۔ جب نامساعد حالات میں بات نہ بنے اور کتے نے آپ پر حملہ کر ہی دیا تو اپنے پیر کے گھٹنے سے کتے کے سینہ پر ضرب لگانی چاہیے۔ اور جب کتا کاٹ ہی لے تو اسے جانور جان کر معاف کرتے ہوئے اپنا اور کتے کا علاج کروانا چاہیے۔

ڈاکٹر دوست کے توسط سے ہم کتوں کی افزائش نسل کرنے والے ایک صاحب کے پاس پہنچے۔ ان کے پاس مختلف اعلیٰ نسل کے کتے تھے۔ ہم نے ایک کتے کا پلّا پسند کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس پِلّے کا تعلق برطانیہ کے شاہی خاندان میں پلنے والے کتوں سے ہے۔ اس کے پردادا نے ولی عہد برطانیہ کے ساتھ چمبل کے جنگلوں میں شکار کھیلا تھا۔ ۔ ۔ ہمارے لیے کتے کا ’اتنا خاندانی‘ ہونا کافی تھا۔ ہم نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا تو موصوف نے وہ قیمت بتائی کہ ہم نے حیرت سے کہا۔ ’اس قیمت میں تو ہاتھی مل سکتا ہے۔ ‘

جواب میں مشورہ دیا گیا۔ ’تو پھر ہاتھی پالیے، کتا پالنے کا شوق کیوں؟‘

کچھ دیر بھاؤ تاؤ کر کے ہم نے بصرفِ زرِ کثیر شاہی کتا خریدا۔ پِلّے کی آنکھیں اور کان بند تھے۔ ہم اسے رو مال میں باندھ کر گھر لائے۔ ڈاکٹر دوست کی نگرانی میں کتے کے پِلّے کی پرورش شروع ہوئی۔ گھر کے سبھی افراد مصروف ہو گئے۔ ہماری بیوی نے چاؤ سے نرم بستر تیار کیا۔ بچے بازار سے شیشی، نپل اور کتے کا دودھ اور بسکٹ خرید لائے۔ ڈاکٹر دوست نے ہدایت دی کہ کتے کا نام انگریزی ہونا چاہیے اور بتایا کہ اعلی نسل کے کتے اُردو مشکل سے سمجھتے ہیں، ان سے انگریزی میں ہم کلام ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہم نے کتے کا نام ایڈورڈ رکھا اور دوستوں میں نام رکھائی کے لڈو تقسیم کیے۔

ایڈورڈ نے ہوش سنبھالا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے لگا تو صحن میں اس کے لیے ایک خوب صورت بنگلہ ’ایڈورڈ کاٹیج ‘ تیار کیا گیا۔ بہترین بستر اور برتن مہیّا کیے گئے۔ ہمارے بچے اپنی تعلیم سے بے پروا ہو کر ایڈورڈ کی تعلیم و تربیت میں جٹ گئے۔ ہاتھوں اور پیروں سے چوپائے بن کر بھوں بھوں کرتے ہوئے ایڈورڈ کو بھونکنا سکھایا۔ ایڈورڈ کو پیر سے سیلیوٹ کرنا اور پیر ملانا سکھایا۔ گھر میں صبح و شام ایڈورڈ کے گن گائے جانے لگے۔ ایڈورڈ نے قلابازی کھائی، ایڈورڈ نے پچھلے پیروں پر چلنا سیکھا، ایڈورڈ نے ہوا میں اچھل کر گیند پکڑی۔ غرض یہ کہ ایڈورڈ گھر والوں کے لیے کتے سے زیادہ ایک عجوبہ تھا۔

ڈاکٹر دوست ایڈورڈ کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے ہماری ناک میں دم کرنے لگے۔ وقت پر طبی معائنہ کرتے اور اسے ٹیکے لگاتے۔ ایڈورڈ کے کھانسنے، چھینکنے یا کھجانے پر بے چین ہو کر اپنا دوا خانہ لیے ہمارے گھر آ دھمکتے۔ ایڈورڈ کی تکالیف اور شکایات ہم سے پوچھتے۔ اجابت تو صاف آئی تھی۔ غذا میں بد احتیاطی تو نہیں ہوئی۔ رات آرام سے سویا تو تھا۔ نہلایا تو نہیں تھا اور اگر نہلایا تھا تو پونچھا تو تھا۔ تنگ آ کر ہم نے کہا۔ ’بھائی اس طرح کی عام شکایتیں ہر کسی کو ہوتی ہیں اور خود سے ٹھیک بھی ہو جاتی ہیں۔ اور پھر ایڈورڈ تو جانور ہے۔ تم اس کی اتنی فکر نہ کرو۔ ‘

ڈاکٹر دوست نے ہمیں ڈرایا۔ ’جانوروں پر ظلم اور زیادتی کرنا جرم ہے۔ اگر انجمنِ انسدادِ بے رحمی جانوران کو پتا چلے گا تو دھر لیے جاؤ گے۔ ‘

ہم ڈر کر خاموش ہوئے۔ ڈاکٹر دوست من مانی کرنے لگے۔ محسوس ہوتا تھا کہ موصوف ایڈورڈ سے ساز باز کر کے ہمیں مالی بحران میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ ایڈورڈ کو بچا کھچا اور ہمارا جھوٹا کھلانے نہ دیتے، حالانکہ اس قسم کی غذا سے کئی پیٹ پلتے ہیں۔ گھر کی تازہ ڈشس بھی ایڈورڈ سے دور رکھتے۔ مخصوص دکانوں پر ملنے والی جانوروں کی ڈبوں میں سیل بند غذا استعمال کرواتے۔ اعلیٰ قسم کے کتوں کے بسکٹ اور کتوں کی چائے الگ سے آتی تھی۔ ایڈورڈ کے نہانے کے لیے مخصوص شیمپو اور اس کے بال سکھانے کے لیے ہیر ڈرایئر خریدا گیا۔ ایڈورڈ کے جسم سے خوش بو آنے کے لیے اس پر سینٹ چھڑکا بھی جانے لگا۔

چند مہینوں میں ایڈورڈ جوان، بہادر اور وفادار کتے کی شکل میں نام کمانے لگا۔ گھر پر دستک ہونے یا کال بیل بجنے پر سب سے پہلے وہ متوجہ ہوتا اور اپنوں اور غیروں کے آنے کی اطلاع دیتا۔ اپنوں کی آمد پر خاموش رہتا اور غیروں کی آنے پر بھونک کر گھر اپنی ٹیڑھی دم پر اٹھا لیتا۔ مہمانوں کی بے تکلفی پر غصہ میں آ کر ان پر غرّاتا۔ ہمارے بچے ایڈورڈ کی شہ پر اپنے دوستوں پر رعب جھاڑنے لگے۔ ایڈورڈ کی ’کتا گیری‘ کے سبب دروازے پر لگی تختی پر ہمارے نام کے نیچے جلی حرفوں میں ’کتے سے ہوشیار رہیے !‘ کا اضافہ کرنا پڑا۔

ہمارے گھر ایڈورڈ کی موجودگی کے سبب مہمان کم آنے لگے۔ احباب گھر آنے کے لیے شرط رکھتے کہ ایڈورڈ کو اس کے گھر میں باندھ دیا جائے اور ہمارے رہنے تک آپ کا چہیتا قریب نہ آئے۔ فقیر اور چندہ مانگنے والوں نے ہمارے گھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا کہ سوال کرنے پر ایڈورڈ کی بھوں بھوں سننی پڑتی ہے۔ ہمیں دعائیں ملنی بند ہوئیں۔ گھر کے باہر بھی لوگ ہم سے ملنے سے کترانے لگے۔ زبردستی ملنے پر محسوس ہوتا جیسے وہ ہم سے اور ایڈورڈ سے یکساں خوف زدہ اور محتاط ہیں۔

ہماری بیوی اور بچے ایڈورڈ کی کارکردگی پر پھولے نہیں سمائے۔ ایڈورڈ کے معالج ڈاکٹر دوست کی شہ پر ڈاگ شو میں مقابلے کے لیے ایڈورڈ کا نام لکھوایا۔ مقابلہ کی تیاری ہونے لگی۔ ایڈورڈ کو مزید سدھایا جانے لگا۔ ڈاگ شو سے ایک رات قبل معلوم نہیں کیا بات ہوئی ایڈورڈ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ہماری بیوی پریشان ہوئیں۔ ہمیں جھنجھوڑ کر نیند سے جگایا اور ہماری صحت کے تعلق سے دریافت کرنے لگیں۔ ’آپ ٹھیک تو ہیں۔ کیا سینہ میں تکلیف ہے؟ کہیں بخار تو نہیں چڑھ گیا۔ کیا ہاتھ پیر صحیح سلامت ہیں، ہلا کر بتایئے۔ ‘

ہم حیران اور پریشان کہ ماجرا کیا ہے۔

بیوی نے جواب دیا۔ ’ایڈورڈ دھاڑیں مار کر رو رہا ہے۔ کتوں کا رونا بہت منحوس سمجھا جاتا ہے۔ میری نانی کتے کی رونے کی آواز سنتے ہی مصلے بچھائے دعا کرنے بیٹھ جاتی تھیں۔ ‘

ایڈورڈ کو خاموش کرنے کی کوشش بے کار ہوئی۔ نہ جانے اسے کون سا غم تھا کہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔ ہماری مشرقی شوہر پرست بیوی کے اوسان خطا ہونے لگے۔ وہ ہماری سلامتی کے لیے دعائیں مانگنے لگیں۔ ہمارا صدقہ اتارا گیا۔ ہم اور بچوں کی متفقہ کوشش سے ایڈورڈ خاموش تو ہوا لیکن وہ رونے کی وجہ بتانے سے قاصر تھا۔ ہماری بیوی اسی وقت ایڈورڈ کو ڈاکٹر دوست کے پاس چھوڑ آئیں اور خدا کا شکر ادا کیا کہ بلا ٹل گئی اور برا وقت گزر گیا۔

ہم نے بیوی کو سمجھایا۔ ’یہ سراسر توہم پرستی ہے۔ کتا پالنے کی کتابوں میں ایسی کوئی بات لکھی نہیں ہے۔ انسان ہو یا جانور تکلیف کے مارے روتا ہے۔ اس میں بد شگونی کیا ہے۔ معلوم نہیں ایڈورڈ کو کون سی تکلیف تھی۔ شاید ہمارے پیٹ کے پیٹ میں یا جوڑوں میں درد تھا یا سر میں ٹیس تھی، جو وہ یوں رو رہا تھا۔ ڈاکٹر کو بتا کر ایڈورڈ کو واپس لے آتیں۔ ‘

بیوی نے فیصلہ سنایا۔ ’میں اس منحوس کو گھر پر رکھ کر کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ اب ایڈورڈ واپس نہیں آئے گا۔ ‘

ایڈورڈ کی غیر موجودگی سے گھر ویران لگنے لگا۔ کتے کی بھونکنے کی آواز تھی اور نہ کتے کی غراہٹ۔ ایک طویل خاموشی تھی۔ گھر کی چہل پہل بھی ماند پڑ گئی تھی۔ ایڈورڈ کے سبب جو مصروفیت تھی وہ ختم ہو چکی تھی۔ ایڈورڈ کے جانے سے گھر کی رونق بھی بہت حد تک کم ہو گئی تھی۔ آس پاس کی بلیاں ایڈورڈ کے گھر میں بسیرا کرنے لگیں۔

گھر میں کتے کے بغیر بچے بور ہونے لگے۔ وہ اپنی بوریت کے خاتمہ کے لیے ایک نئے کتے کا مطالبہ کرنے لگے۔ ہم بھی کتوں سے کچھ حد تک مانوس ہو چلے تھے۔ ہمیں بھی کتے کی چاہت بے چین کرنے لگی۔ ہم نے اخبار میں ’ضرورت ہے ‘ کالم میں ایک عدد اصیل کتے کے لیے اشتہار دیا۔ مختلف لوگوں کی آفر ہمیں ملیں۔ ہم گھر والوں کو ایک پِلّا پسند آیا۔ یہ پِلّا پولس کے کتوں کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔

ہم نے نئے پِلّے کے دام چکائے اور احتیاط سے اسے تولیا میں لپیٹ کر گھر لائے۔ گھر کی رونق واپس لوٹ آئی۔ سب غیر ضروری طور پر مصروف ہوئے۔ پِلّے کی پرورش ہماری نگرانی میں شروع ہوئی۔ کتا پالنے کا ہمیں تجربہ ہو چکا تھا۔ اب ہمیں اپنے ڈاکٹر دوست کے مشوروں اور راہنمائی کی ضرورت نہ تھی۔ ایک دن انکشاف ہوا کہ ہمارا پیٹ نر نہیں مادہ ہے۔ یعنی ہم کتیا پالنے لگے ہیں۔ کتیا کہتے ہوئے ہمیں یوں لگتا جیسے ہم گالی بک رہے ہیں۔ گالی دینے سے بچنے کے لیے ہم نے اپنے مادہ پیٹ کا نام روزی رکھا۔

روزی بڑی ہوئی تو اس کا حسن نکھر آیا۔ روزی ایڈورڈ سے تیز اور طرار نکلی۔ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دینے لگی۔ روزی کی بو محلے کے کتوں تک پہنچ گئی اور پھر جہاں بیری ہو وہاں ڈھیلے آتے ہی ہیں۔ آس پاس کے کتے ہمارے گھر کے اطراف منڈلانے لگے۔ روزی بھی گاہے ما ہے ان میں دلچسپی لینے لگی۔ ہمیں تشویس لاحق ہوئی۔ ہم روزی کے لیے بر تلاش کرنے لگے۔ ہم نے ڈاگ کلب کا رخ کیا اور دوچار کتے والوں سے روزی کے رشتے کی بات چلائی۔

لیکن دولھے والوں کے پاس سے جواب ملنے سے پہلے ہی روزی ہمارے منہ پر کالک پوت کر نو دو گیارہ ہو گئی۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ روزی گوشت کی دکان سے رستم کو لے کر فرار ہوئی ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ اعلی نسل کی روزی کو دم کٹے رستم میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ ہم سر جھکائے سوچتے بیٹھے تھے کہ ہماری بیوی نے کہا۔ ’پیٹ پالنا ہمیں راس نہیں آیا۔ ‘

’تو پھر اب کیا خیال ہے؟‘ ہم نے دریافت کیا۔

بیوی نے کان پکڑ کر گال پیٹتے ہوئے توبہ کی۔ ہم اٹھے اور گھر کے دروازے میں لگی نام کی تختی سے ’کتے سے ہوشیار رہیے !‘ مٹایا اور صحن میں موجود ’ایڈورڈ کاٹیج‘ کو بھی ڈھا دیا۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ افکار، کراچی، مارچ 1991ء

 

 

 

 

نیم حکمت

 

پچھلے دو ہفتوں کے دوران ہم نے بھوک سے زیادہ دعوتوں پر ہاتھ صاف کیا۔ مجبور تھے، شادیوں کاموسم تھا۔ احباب کا اصرار اور دعوتوں کی بوچھار تھی۔ معدے پر بن آئی تو مختلف شکایات لاحق ہوئیں۔ منہ کا مزہ تبدیل ہوا اور عجیب و غریب ذائقہ کے ساتھ منہ بھر آنے لگا۔ سینہ کی جلن دل کو پریشان کرنے لگی۔ پیٹ میں ابھار کے سبب گیس فرار کے راستے ڈھونڈنے لگی اور پھر میٹھے اور ہولے درد کے ساتھ ’تنہائی اور فرصت کے لمحات‘ کا بار بار مطالبہ ہونے لگا!

ہم نے دو ایک دن خاموشی سے اپنی بدلی ہوئی حالت اور کیفیت کو برداشت کیا۔ خیال تھا کہ اگر معدے کو ہم سر نہ چڑھائیں گے تو وہ راہِ راست پر آ جائے گا لیکن ہمارا معدہ خاموشی کی زبان سمجھنے میں ناکام رہا تو ہم نے بھوکے رہنے کا ارادہ کیا۔ سن رکھا تھا کہ بھوکے رہنے سے معدہ کی صفائی ہونے کے ساتھ معدہ کو آرام بھی ملتا ہے۔ بھوکا رہنے کی نیت سے رات میں کھانے سے انکار کیا تو بیگم وجہ جاننے پر مصر ہوئیں۔ جواب دیا کہ بھوک نہیں ہے۔ بیگم نے پوچھا۔ ’کیا باہر سے کھا کر آئے ہیں؟‘

’نہیں۔ ‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔

بیگم اپنا فلسفہ بگھارنے لگیں۔ ’رات کھائے بغیر سونا صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ مرحومہ دادی ماں کہا کرتی تھیں کہ رات نہ کھانے سے ایک کبوتر کے ہم وزن گوشت کم ہوتا ہے۔ ‘

ہم نے استفسار کیا۔ ’کون سا کبوتر کالا یا سفید۔ ‘ پھر ہم نے انتظار کیے بغیر جواب تجویز کیا۔ ’شاید کالا، اس لیے کہ رات کا کھانا ناغہ ہو رہا ہے۔ ‘

بیگم نصیحت کرنے لگیں۔ ’بزرگوں کی باتوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے بلکہ ان پر صدق دل سے عمل کرنا چاہیے۔ آپ خالی پیٹ سوئیں گے تو پتا نہیں رات کس پہر بھوک لگے اور نیند اچاٹ ہو جائے۔ تب اٹھ کر برتن اور فریج ٹٹولنے سے بہتر ہے کہ کچھ کھا کر سوجائیں۔ ‘

ہم نے حقیقت بتائی۔ ’بھوک نہ لگنے کے ساتھ پیٹ میں کچھ گڑبڑ بھی ہے۔ شاید چکی ٹھیک سے کام نہیں کر رہی ہے۔ ‘

’آپ باہر کا کھانا شوق سے کھاتے ہیں اور گھر کے کھانے سے بیزار رہنے لگے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ ‘ بیگم نے ہمارے خراب معدے کا سبب تشخیص کرنے بعد مشورہ دیا۔ ’اس کے باوجود بھی رات سونے سے قبل پیٹ میں کچھ نہ کچھ جانا ہی چاہیے۔ ‘اور زبردستی ہمیں ایک گلاس دودھ پلا کر ہی سلایا۔

صبح ہوئی لیکن ہماری حالت جوں کی توں برقرار رہی بلکہ شکایات میں کچھ اضافہ ہی ہوا۔ رات نیند بھی ٹھیک طرح سے نہ آئی۔ جاگتے سوتے اور سوتے جاگتے رہے۔ اب ہم اپنی مختلف شکایات سے، جو اب تکالیف کا درجہ اختیار کر گئی تھیں، پریشان ہو کر پیٹ میں برپا فساد کو رفع دفع کرنے کی تدبیر سوچنے لگے۔

اس قدر جلد ڈاکٹر کے پاس جانے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کی ایک وجہ کہنہ امراض میں مبتلا کہنہ مریضوں کا دانا قول ہے کہ انسان اس وقت تک صحت مند رہتا ہے جب تک وہ ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتا۔ ڈاکٹر سے ملنے کے بعد اچھا بھلا شخص مریض بن جاتا ہے یا بنا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم مزید چند دن اپنے آپ کو صحت مند بنائے رکھنا چاہتے تھے۔ دوسری وجہ ڈاکٹروں کی کمر توڑ فیس اور علاج کے سر پھوڑ اخراجات ہیں۔ مختلف معائنے کیے بغیر تشخیص نہیں ہوتی ہے۔ جب تک معائنے مکمل ہوتے ہیں مریض خود بخود صحت یاب ہو جاتا ہے۔

تیسری وجہ ایک قسم کا ڈر ہے جو ڈاکٹر کے پاس جانے سے باز رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہیں اپنی قابلیت اور علم کے بل بوتے پر کوئی مہلک مرض نہ دریافت کر لیں۔ ہماری گناہ گار آنکھوں نے ایسے نظارے بھی دیکھے ہیں جہاں تشخیص کے بعد مریض بیماری کی بجائے ڈاکٹر اور مرض کے خوف سے جاں بحق ہوا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس نہ جانے کے لیے ویسے تو یہ تین وجوہات کافی ہیں لیکن ہمارے ایک دوست چوتھی وجہ بھی بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق آج کل اچھے ڈاکٹر عنقا ہیں اور جو ڈاکٹر قابل ہیں وہ بیرون ملک اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہوتے ہیں۔

خود اپنے علاج کے لیے ہم نے چند باتیں تجویز کر لیں۔ بغیر دانت برش کیے بیڈ ٹی نہیں پئیں گے۔ خوب اچھی طرح منہ کی صفائی کریں گے اور دوچار دن ہلکی پھلکی شیر خوار بچوں کی غذا استعمال کریں گے۔

ڈرائیور کو ہمارے پیٹ کی گڑبڑ کا علم ہوا تو وہ ادرک کا مربّہ لے آیا اور کہا کہ صبح اور شام ایک چمچہ استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ گھریلو کام کاج کرنے والی ماما لیمو میں کالی مرچ کے کچوکے لگا نے کے بعد بھون کر لے آئی اور اصرار کیا کہ اسے ہم نہار پیٹ کھالیں۔

بیگم نے ہمارے علاج کے لیے ایک سرد گرم منصوبہ پیش کیا۔ چائے اور کافی بالکل بند۔ نمک، مرچ اور مسالوں کا استعمال وقتی طور پر موقوف۔ ابلے ہوئے پکوان زیادہ بنیں گے۔ چکنائی کم سے کم ہو گی اور ٹھنڈے مزاج والی غذا کو گرم مزاج غذا پر ترجیح دی جائے گی۔ ان کے مطابق انڈا گرم مزاج کا تو مرغی سرد مزاج۔ دودھ گرم تو دہی سرد۔ گرم پانی سرد تو ٹھنڈا پانی گرم، اسی لیے پانی ابال کر پینا پڑے گا۔ روٹی گرم تو چاول سرد۔ لیمو، سنگترہ سرد تو آم گرم اور خربوزہ گرم تو تربوز سرد!

ہم نے تجسّس کی خاطر دوسری غذائی اشیا کا مزاج دریافت کیا تو بیگم نے جواب دیا۔ ’اکثر کا مزاج معتدل ہے جن کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن چائے، کافی، مرچ، مسالا، اچار، انڈا، دودھ، مچھلی، گیہوں، آم اور پپیتے کا مزاج نہایت گرم ہے۔ ان سے پرہیز لازمی ہے۔ ‘

ہم نے بیزار ہوتے ہوئے کہا۔ ’چھوڑئیے بھی! آپ بھی کمال کا سرد گرم نظام لے کر بیٹھ گئیں، جیسے غذا نہ ہوئی جغرافیائی خطوں کا موسم ہوا۔ اس وقت چائے کی طلب ستارہی ہے۔ گرم گرم ایک پیالی چائے پلائیے۔ ‘

’کیا کہا؟‘ بیگم کی آنکھیں باہر نکل پڑیں۔ ’صحت کا کچھ تو خیال کیجیے، اتنی لاپروائی اچھی نہیں ہوتی!‘

’صرف چائے مانگنے پر اس قدر خفا کیوں ہوتی ہیں۔ ‘

’چائے آپ کے لیے زہر ہے، سمجھے !‘

’جی سمجھ گیا۔ بیگم کا مزاج گرم اور بے چارے شوہر کا مزاج سرد۔ بہت سرد!‘ ہم اپنے آپ بڑ بڑا کر خاموش ہو بیٹھے۔

بیگم نے ہمارا علاج شروع کیا۔ سرد مزاج غذائی اشیا کھلائیں۔ گرم پانی پلایا اور دفتر جانے کی بجائے گھر پر آرام کرنے کا حکم دیا۔ اخبار پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے سے بھی منع کر دیا۔ ہم نے وجہ نہیں پوچھی اور قیاس کر لیا کہ شاید دونوں کا مزاج گرم ہو گا!

اگلے وقتوں کے ہمارے ایک بزرگوار جو اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ ابھی ان کا خون سفید نہیں ہوا، ناشتہ کے بعد احباب کی خیریت دریافت کرنے نکل پڑتے ہیں۔ وہ ہمارے گھر آ دھمکے۔ خلاف توقع ہمیں گھر پر پایا تو خیریت پوچھی۔ خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے منہ کھولنے سے قبل ہماری بیگم کہنے لگیں۔ ’خیریت کہاں کی دابّا۔ ‘ ہم سب انھیں دادا ابّا کا مخفف دابّا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ’کل سے پیٹ میں گڑبڑ ہے۔ ‘

دابّا ہماری صحت کے متعلق سوالات کرنے لگے کہ کیا کھایا تھا؟ کب کھایا تھا؟ کہاں کھایا تھا؟ کیوں کھایا تھا؟ کتنی اجابتیں آئیں؟ درد کہاں ہے؟وغیرہ وغیرہ۔

دابّا نے ہمارا معائنہ بھی کیا۔ پپوٹوں کو الٹ پلٹ کر یرقان تلاش کیا۔ منہ کھلوا کر اندر جھانکا۔ ہاتھ پکڑ کر نبض دیکھی اور ہماری قمیض اٹھا کر پیٹ ٹٹولا اور ہمارے بارے میں اپنی رائے دی۔ ’مزاج صفراوی ہے۔ تبخیر معدہ کی شکایت لگتی ہے۔ میرے پاس کالا چورن ہے۔ دو چٹکی کالا چورن نیم گرم پانی کے ساتھ صبح اور شام استعمال کرنے سے فائدہ ہو گا۔ ‘

ہم نے استفسار کیا۔ ’دابّا کیا آپ حکمت میں دخل رکھتے ہیں؟‘

جواب ملا۔ ’میاں جب گلی گلی ڈاکٹر اور گھر گھر بیماریاں نہ تھیں، اس وقت گھر کے بڑے بزرگ ہی علاج کیا کرتے تھے۔ شاذونادر ہی حکیم کے پاس جانے کی نوبت آتی تھی۔ میری مثال لو۔ اسّی برس پورے کر چکا ہوں۔ آج تک انگریزی دوائیں استعمال نہیں کی۔ اپنا علاج خاندانی نسخوں کی مدد سے خود کر لیتا ہوں۔ ‘

دابّا کے کالے چورن کی خاندان میں خاصی شہرت ہے۔ ڈٹ کر کھانے کے بعد کالا چورن فائدہ پہنچاتا ہے۔ دابّا اپنے گھر جا کر کالا چورن لے آئے اور ہمیں نیم گرم پانی کے ساتھ کھلایا۔ چورن کھانے کے بعد ہماری حالت بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ گئی۔ تمام شکایات کی شدت میں اضافہ ہوا۔ کالے چورن کی ناکامی کی وجہ دابّا نے بتائی۔ ’انگریزی دواؤں کے سبب تمھارا قدرتی مزاج بگڑ چکا ہے۔ اب تم پر بے ضرر جڑی بوٹیوں کا کوئی اثر نہیں ہونے والا ہے۔ آرام کے لیے اب تم گولی کھانا، کیپسول نگلنا اور انجکشن لگوانا!‘

پڑوسی کو معلوم ہوا تو وہ ہماری عیادت کرنے آئے۔ شکایات اور تکالیف دریافت کی۔ ہمدردی کا اظہار کیا اور پوچھا۔ ’کیا ڈاکٹر کو دکھایا؟‘

’نہیں۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

’اچھا کیا۔ پیٹ کے امراض کا علاج ڈاکٹر سے بہتر حکیم کرتے ہیں۔ ‘ اپنی رائے کا اظہار کر کے چائے کا گھونٹ لیا اور اپنا تجربہ بیان کرنے لگے۔ ’پچھلے سال مجھے بھی کچھ اسی قسم کی تکلیف ہوئی تھی۔ ڈاکٹر کو دکھایا۔ کسی نے ایسڈ تو کسی نے گیس کو ذمہ دار قرار دیا۔ مختلف شربت اور گولیاں دی گئیں، افاقہ نہ ہوا۔ اتفاق سے ایک دعوت میں حکیم حکمت اللہ شفا سے ملاقات ہوئی۔ وہ حکمت کے ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں، شفا ان کا تخلص ہے۔ انھوں نے صرف تین دن میں مجھے بھلا چنگا کر دیا۔ آپ بھی انھیں سے علاج کروائیے۔ ‘

ہم نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ ’اس قسم کا علاج ہم کروا چکے ہیں۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ‘

’آپ ایک مرتبہ ہمارے حکیم صاحب کو اپنی نبض دکھائیے۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکیم صاحب خود آپ کی تمام شکایات بیان کرنا شروع کر دیں گے۔ ایسے نباض ہیں کہ کیا سناؤں۔ حکیم صاحب کے دادا جان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خواتین کے پردے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ خواتین کی کلائی پر دھاگا باندھ دیا جاتا اور حکیم صاحب دوسرا سرا پکڑ کر مریض کی کیفیت بتا دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نواب زادے کو شرارت سوجھی۔ انھوں نے بھینس کی ٹانگ پر دھاگا باندھا اور دوسرا سرا حکیم صاحب کو تھما دیا۔ حکیم صاحب کچھ دیر غور کرنے بعد فرمایا۔ ’نواب صاحب بچھڑا ہو گا لیکن دودھ بہت کم آئے گا۔ بچھڑے کے لیے ہی مشکل سے کافی ہو گا۔ اپنے لیے کسی دوسری بھینس کا انتظام کر لیجیے۔ ‘ نواب زادے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ ایسے قابل حکیم صاحب کے پوتے ہیں حکمت اللہ شفا صاحب! آپ انھیں اپنی نبض ضرور دکھائیے۔ ‘

’جی ضرور۔ ہم حکیم حکمت اللہ شفا صاحب سے مشورہ کرنا چاہیں گے لیکن گھر میں ہمارے باہر جانے پر روک لگا دی گئی ہے۔ ہم اپنے ہاتھ پر دھاگا باندھ لیں گے۔ آپ براہ کرم دھاگے کا دوسرا سرا حکیم صاحب کو دکھا کر نسخہ لے آئیں تو نوازش ہو گی۔ ‘ ہم نے اپنے پڑوسی سے درخواست کی۔

’میں آپ کا یہ کام کر دیتا لیکن حکیم صاحب ایک مشاعرہ میں شرکت کی غرض سے شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ ‘ موصوف بہانہ بنا کر چلتے بنے۔

دوست احباب کو علم ہوا کہ ہم علیل ہیں تو وہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رسمِ دنیا نبھانے آنے لگے۔ احباب کے رویّے کو ہم نے عیادت کے آداب سے یکسر مختلف پایا۔ سن رکھا تھا کہ پھل پھلاری اور پھولوں کے ساتھ عیادت کے لیے جانا چاہیے۔ صحت کے بارے میں نیک تمناؤں اور چند دعائیہ کلمات کا اظہار کر کے مریض سے جلد رخصت ہو جانا چاہیے تاکہ مریض کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ اس کے برخلاف احباب کی آمد ہمیں مختلف شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے لگی۔

ایک قریبی دوست کی عیادت پر گمان ہوا کہ ہم نے بیمار ہو کر کوئی جرم کیا ہے اور وہ خدائی فوجدار بن گئے ہیں۔ پوچھنے لگے کہ کس نے دعوت دی تھی؟ کیوں دی تھی؟ کیا تم نے انھیں بتایا کہ ان کی دعوت کھانے کے بعد سے تمھاری حالت بگڑی ہے؟ سوالوں کے بعد وہ ہمیں ہی قصور وار ٹھہرانے لگے۔ ’اپنی حالت کے تم خود ذمہ دار ہو۔ تم دعوتوں میں شکم سیر ہو کر کھاتے ہو!‘

پھر سوال کیا۔ ’ایسا کیوں؟ کیا گھر پر کھانا نہیں ملتا؟‘

ہم خاموشی سے موصوف کی باتیں سنتے رہے تو انھوں نے تنبیہ کے ساتھ مشورہ دیا۔ ’آئندہ سے احتیاط کریں۔ ہر دعوت میں نہ جائیں۔ صرف مخصوص محافلِ طعام میں حاضری دیں۔ حاضری کا مطلب سمجھتے ہو؟‘

ہم ہنوز خاموش رہے تو موصوف نے حاضری کا مطلب سمجھایا کہ ہم گھر سے کھا کر دعوت میں جائیں اور وہاں دستر خوان پر موجود کھانے محض چکھیں اور ان پر نکتہ چینی کریں۔

بعض احباب وقتی طور پر معالج بن بیٹھے۔ ہماری تکالیف سنیں، چند سوالات پوچھے اور تشخیص کی۔ ’اجابت کا معائنہ کراؤ، کہیں پرانی پیچش نہ ہو!‘

دوسرے صاحب نے ان سے اختلاف کیا۔ ’میرے خیال میں السر ہے۔ کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ‘

تیسرے صاحب نے شکایات کی بنیاد پر تشخیص کے بغیر، چند دواؤں کے نام تجویز کیے۔ یہ دوائیں موصوف کے بقول انھوں نے پچھلے سال ایسی ہی تکالیف میں مبتلا ہونے پر استعمال فرمائی تھیں اور انھیں تکالیف سے نجات ملی تھی۔

ہم نے کسی سے مشورہ نہیں مانگا لیکن ہر کسی نے مشورہ یوں دیا جیسے عیادت کرنے کا مطلب مشورہ دینا ہے۔ مختلف ڈاکٹروں کے نام تجویز کیے گئے۔ ماہر ڈاکٹروں کی ایک طویل فہرست تیار ہوئی۔ بعض ڈاکٹروں کے بارے میں متضاد آرا بھی وصول ہوئیں۔ ایک صاحب نے کہا۔ ’قابل ڈاکٹر ہے۔ ہاتھ میں شفا اور طبیعت میں ہمدردی ہے۔ ‘ دوسرے صاحب نے اسی ڈاکٹر کے بارے میں رائے دی۔ ’لالچی اور لاپروا ہے۔ میرے خالو کی موت اس کے ہاتھوں واقع ہوئی۔ ‘

احباب کی عیادت سے ہماری حالت میں ابتری پیدا ہوئی اور مرض اور ڈاکٹروں کے بارے میں ہم الجھن کا شکار ہوئے۔ مستقل بیٹھے رہنے سے کمر اور پیٹھ میں درد ہونے لگا۔ احباب کی خاطر مدارت کرتے کرتے بیگم الگ بیزار ہونے لگیں۔

ہم نے احباب کی عیادت سے کچھ وقفہ کے لیے ہی سہی چھٹکارا پانے کے لیے ایک ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ سواری منگائی اور مطب پہنچے۔ استقبالیہ پر موجود خاتون نے تین دن بعد ڈاکٹر سے ملنے کا وقت دیا۔ اس سے پہلے ملاقات ممکن نہ تھی۔ ہم نے ایمرجنسی کی دہائی دی لیکن بے سود۔ کہہ دیا گیا کہ ڈاکٹر صاحب بہت مصروف ہیں۔

ناکام لوٹنا ہمیں اچھا نہیں لگا۔ واپس ہوتے ہوئے ہم دواؤں کی ایک دکان پر رکے۔ دکان دار کو سلام کیا اور اپنی تکالیف بیان کیں۔ دکان دار نے ہمیں غور سے سنا اور چند گولیاں اور ایک شیشی شربت نکالا۔ پیسے وصول کیے اور استعمال کی ترکیب بتا کر پرہیز اور چند دوسری ہدایات سے ہمیں سرفرازبھی کیا۔ اس قسم کا علاج سستا ہے اور ہمارے یہاں رائج بھی ہے۔ دوا خریدنے پر مفت مشورہ ملتا ہے۔

ہم نے دواؤں کی دکان سے خریدی ہوئی دوا کی تین خوراک، صبح، دوپہر اور شام نوش جاں کی۔ اس طریقۂ علاج سے بھی ہمیں افاقہ نہ ہوا۔ ہم پھر دکان دار سے رجوع ہونا چاہتے تھے لیکن بیگم نے ہمیں ڈرایا کہ نیم حکیم خطرۂ جان ثابت ہو سکتا ہے۔

اس دوران ہماری بگڑی ہوئی حالت کی اطلاع خوش دامن صاحبہ کو ہوئی۔ وہ اپنی بیٹی کے پاس دوڑی چلی آئیں۔ انھیں اطلاع نہ دینے پر ناراض ہوئیں اور ہماری صحت کے بارے میں استفسار کرنے لگیں۔ ہم اپنی تکالیف اتنی مرتبہ دہرا چکے تھے کہ اب ہمیں ازبر ہو چکی تھیں۔ اپنی شکایات فر فر سنادیں۔ خوش دامن صاحبہ ہمارا حال احوال سن کر خوش ہونے لگیں۔ ہم حیران ہو کر خاموش ہوئے تو فرمایا۔ ’بالکل ایسی ہی شکایتیں پچھلے ہفتے مجھے بھی ہوئی تھیں۔ ‘

ہمیں خوش دامن صاحبہ کی خوشی کی وجہ سمجھ میں آئی۔ انھوں نے ہم سے پوچھا۔ ’کیا دعوت میں خوبانی کا میٹھا کھایا تھا؟‘

ہم نے اثبات میں سر ہلایا تو خوش دامن صاحبہ خوشی سے اچھل پڑیں۔ ’میں نے بھی خوبانی کا میٹھا کھایا تھا۔ اس کے بعد تمھاری طرح بلکہ تم سے کچھ زیادہ ہی میری طبیعت خراب ہوئی تھی۔ کسی پل قرار نہ آتا تھا۔ ڈاکٹر کو دکھایا اور صرف دو مرتبہ دوا استعمال کرنے سے آرام آ گیا۔ ‘

اپنے پرس میں سے ڈھونڈ کر خوش دامن صاحبہ نے چند کاغذ کی پُڑیاں برآمد کیں اور ہم سے کہا۔ ’ان پُڑیوں میں چھوٹی چھوٹی گولیاں ہیں۔ ان گولیوں کو زبان کے نیچے رکھ لینا۔ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔ ‘

ہم نے خوش دامن صاحبہ کی دوائیں احترام کے ساتھ وصول کیں کہ ان کی بیٹی کے جہیز میں یہی ایک چیز کی کمی رہ گئی تھی۔ احباب کے مشوروں کو بھگت چکے تھے، اس لیے خوش دامن صاحبہ کی بچی ہوئی دوا کو آزمانے کا ارادہ نہ تھا۔ بیگم ہمارے سر ہو گئیں۔ ’آخر اس دوا میں کیا برائی ہے؟‘

’یہ دوا خواتین کے لیے ہے، اس کے استعمال سے انہی کو فائدہ پہنچے گا، ہمیں نہیں !‘ہم نے بات ٹالنے کے لیے کہا۔

لیکن بات ٹلی نہیں۔ بیگم آنکھوں میں پانی بھر کر کہنے لگیں۔ ’دوست احباب نے جو مشورے دیے اور چٹکلے بتائے، آپ نے ان سب پر خوشی خوشی عمل کیا لیکن میری امی کی دی ہوئی دوا سے آپ کو کیوں بیر ہے۔ آپ انھیں اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں۔ ‘

ہمیں خوش دامن صاحبہ کی دوا کی مدد سے بیگم کے آنسو پونچھنے پڑے۔ ہم نے چھوٹی چھوٹی گولیوں کو منہ میں گھولا۔ میٹھی میٹھی گولیاں مزہ دے گئیں لیکن ہماری تکالیف میں کمی نہیں ہوئی بلکہ ان میں کچھ اضافہ ہی ہوا۔ بیگم اور خوش دامن صاحبہ پریشان اور تشویش میں مبتلا ہوئیں۔ کیا یہ وہی آٹھ دن پہلے والی دوا ہے؟ کہیں دوا بدل تو نہیں گئی۔

اپنی قابلیت اور احباب کے مشوروں کو ہم بھگت رہے تھے۔ شکایتیں اور تکالیف نہ صرف جوں کی توں تھیں بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا تھا۔ صدق دل سے توبہ کر کے ڈاکٹر کے پاس جانے کے علاوہ اب ہمارے پاس کوئی اور راستہ بچا نہ تھا۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، اکٹوبر1992ء

 

 

 

 

مریضانہ آئے

 

ہوا یوں کہ دعوتوں کی کثرت کے سبب ہمارے معدہ میں فساد بپا ہوا۔ مختلف شکایات اور تکالیف لاحق ہوئیں۔ اپنی معلومات اور احباب کی قابلیت کے بل بوتے پر کچھ کم دو ہفتے ہم اپنا علاج کرتے رہے۔ مایوسی ہوئی بلکہ کہنا چاہیے کہ نقصان ہوا۔ مرض بڑھ گیا، چٹکلوں نے کچھ کام نہ کیا۔ ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہی پڑا۔

ہمارے درمیان ہمہ اقسام کے ڈاکٹر پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی بہتات کے دور میں صحیح معالج کا انتخاب ایک اہم مسئلہ ہے۔ بعض مرتبہ خود ڈاکٹر سے مشورہ کرنا پڑتا ہے کہ ہماری شکایات اور تکالیف کے ازالہ کے لیے کون سا معالج بہتر ثابت ہو گا۔ سرجن کو بتائیں کہ فزیشین سے ملیں۔ دل کے ماہر سے رجوع ہوں کہ اعصابی امراض کے ماہر سے مشورہ کریں۔ فیس لے کر ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ کس سے مشورہ کرنا مناسب رہے گا۔

تجارتی نقطۂ نظر سے ہم نے ڈاکٹر برادری کو دو زمروں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ پہلی قسم کے ڈاکٹر بہت مشہور ہوتے ہیں۔ ہول سیل پریکٹس یعنی تھوک کے بھاؤ کاروبار کرتے ہیں۔ شاندار مطب سجائے رکھتے ہیں اور مختلف دوا خانوں سے ان کی وابستگی ہوتی ہے۔ یکمشت تگڑی فیس لے کر ڈھیر ساری دوائیں تجویز کرتے ہیں۔

دوسرے زمرے کے ڈاکٹر نسبتاًکم مشہور ہوتے ہیں اور ریٹیل پریکٹس یعنی پھٹکل دھندہ کرتے ہیں۔ کسی گلی یا محلہ میں اس قسم کے ڈاکٹر سرِ شام سرخ بتی جلائے اپنا دربار سجاتے ہیں۔ اپنے پاس سے ہر روز دوائیں دیتے اور معمولی فیس وصول کرتے ہیں۔

ہم نے دوسرے زمرے کے ڈاکٹر کا انتخاب کیا کہ اس طریقۂ علاج کا بار ہم ہنستے کھیلتے اٹھاسکتے ہیں۔ ہماری بیوی ناراض ہوئیں۔ ’بیمار کوئی روز روز ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ کا خرچہ ہے، کنجوسی ٹھیک نہیں ہے۔ یوں بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کی فیس آدھا علاج ہے۔ ‘

ہم نے بیوی کے اعتراض کا نوٹس نہ لیا کہ خواتین مہنگائی پسند ہوتی ہیں۔ قیمت دیکھ کر اشیا کا انتخاب کرتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈھیر سارا جہیز اور گھوڑے جوڑے کی رقم کے عوض شادی جیسے سستے سودے کو اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ ڈاکٹر اور انجینئر قسم کے نوجوان عام اشخاص کی فرزندی میں اب شاذونادر ہی آتے ہیں۔

ہم ڈاکٹر کے پاس جانے لگے تو بیوی نے ہمارے بازو پر امامِ ضامن باندھا۔ ہم نے حیران ہو کر دریافت کیا۔ ’ڈاکٹر کے یہاں ہم صحت لانے جا رہے ہیں یا۔ ۔ ۔ ‘

بیوی نے ہمارے منہ پر ہاتھ رکھ کر بد شگونی سے منع کر دیا۔

ہم ڈاکٹر کے مطب پہنچے۔ مطب کی حالت قابلِ دید تھی۔ ہر شخص ایک تماشا بنا ہوا تھا۔ کوئی سر ٹانگوں کے درمیان لیے بیٹھا تھا تو کوئی کھانستے کھانستے دہرا ہو کر اپنا سر تیمار دار کے پیٹ میں دیتا تھا۔ کوئی اپنا سر تھامے ہوئے تھا تو کوئی اپنی کمر سنبھالے ہوئے تھا۔ مطب کے کونے میں رکھی ایک گٹھڑی میں وقفہ وقفہ سے ہونے والی جنبش اس بات کی دلیل تھی کہ یہ گٹھڑی ’بقید حیات‘ ہے۔ ایک صاحب قے کے ذریعہ اپنے برابر رکھی کرسی کو ماڈرن آرٹ میں تبدیل کر چکے تھے۔ تیمار داروں کی پریشانی ان کے چہرے اور حرکات سے عیاں تھی۔ مریض پانی مانگتا تو ناک صاف کرنے کے لیے رو مال دیا جاتا۔ مریض کا نام پوچھا جاتا تو شکایات گنانا شروع کر دیتے تھے۔

پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب ابھی تشریف نہیں لائے ہیں۔ دیر سے آنا ڈاکٹروں کا شیوہ ہے۔ مریضوں پر دھاک جمی رہتی ہے کہ ڈاکٹر مصروف ہیں۔ ایک نہایت پیچیدہ مریض کو اٹینڈ کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں جانے بھی دیجیے ! نجی باتوں سے ہمیں کیا لینا دینا۔

کوئی کراہتے ہوئے تو کوئی کھانستے ہوئے ڈاکٹر کا انتظار کر رہا تھا۔ کسی مریض کی آنکھیں گر بند تھیں تو وہ کان کھڑے کئے بیٹھا تھا۔ انتظار گاہ میں ’ہائے، وائے اور آئے ‘ کا ورد ہو رہا تھا۔ تکلیف سے ہائے اور وائے نکلتی تھی تو ڈاکٹر کے انتظار میں ’آئے؟‘ مختصر سوال پوچھا جاتا تھا۔ ہم بھی اس شغل میں خاموشی سے شریک ہوئے۔ ہر کسی کو پتا تھا کہ ڈاکٹر ابھی تشریف لائیں گے لیکن کوئی جانتا نہ تھا کہ کب آئیں گے۔ خدا خدا کر کے انتظار کی بیماری کو شفا ملی۔ ڈاکٹر تشریف لائے اور ایک شانِ بے نیازی سے منہ بناتے ہوئے کمرۂ تشخیص میں گھس گئے۔

مریض کمرۂ تشخیص میں جاتے، حالِ بیماری سناتے اور پرچۂ مسیحائی لکھوا لاتے تھے۔ ہماری باری آئی۔ ہم اندر گئے۔ ڈاکٹر موٹا چشمہ لگائے گھومنے والی کرسی پر بیٹھے، ایک ہاتھ سے نسخہ لکھ رہے تھے تو دوسرے ہاتھ سے ایک مریض کی نبض ملاحظہ فرما رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر مسکرائے۔ ہم نے سلام کیا تو ڈاکٹر نے پلکیں جھپکائیں اور کہا۔ ’فرمائیے۔ ‘

ہم نے دوسرے مریضوں کی موجودگی میں اپنا حال سنانے میں تکلف کیا تو ڈاکٹر نے سوال کیا۔ ’آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘

اپنی باری کو ضائع ہوتا دیکھ کر ہم نے تکالیف بیان کرنا شروع کیں۔ اس دوران ڈاکٹر نے ’ہوں۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ‘ کہتے ہوئے ہماری نبض دیکھی اور پیٹ کو چھوا۔ ڈاکٹر معائنہ کرنے لگے تو ہم خاموش ہو گئے اور ہم چپ ہوئے تو ڈاکٹر نے نسخہ لکھ کر ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ پھر دوسرے مریض کی جانب یہ کہتے ہوئے متوجہ ہوئے کہ کل وقت پر آنے سے آپ بچ گئے۔ آج کیسی طبیعت ہے؟

ہم ڈاکٹر کا آٹو گراف لیے کمپوڈر سے دوائیں لینے کی بجائے گھر واپس آ گئے۔ بغیر مطمئن ہوئے ہم کچھ نہیں کر سکتے اور اگر کوئی قائل کر دے تو ہم سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ بیوی نے ہماری روداد سنی تو کہا۔ ’میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ سستے علاج سے فائدہ نہیں ہوتا!‘

ہم خاموش رہنے کے علاوہ کیا کہہ سکتے تھے۔

بیوی نے ایک مشہور ڈاکٹرسے مشورے کے لیے اپائنٹمنٹ لیا۔ ہم مقررہ وقت پر ڈاکٹر کے مطب پہنچے۔ ڈاکٹر کا مطب فائیو اسٹار طرز پر سجا ہوا تھا۔ اسی مطب میں موصوف کے علاوہ اور بھی دوسرے ڈاکٹر باری باری اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ ایک سے فائدہ نہ ہونے کی صورت میں مریض دوسرے ڈاکٹرسے رجوع کر سکتے ہیں۔ دوسرے سے مایوس ہونے پر تیسرے سے مشورہ لینے کی سہولت بھی یہاں حاصل ہے بلکہ ڈاکٹر خود مریض کو ایک دوسرے کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس طرح ایک ساتھ اور ایک مقام پر مطب کرنے کا ڈاکٹروں کو بھی فائدہ ہے۔ وہ مل بانٹ کر مریض کا علاج کرتے ہیں۔

مطب میں موجود مریض کسی صورت مریض نہ لگتے تھے۔ اپنے چہرے اور حرکات سے مرض اور نہ ہی تکلیف کا اظہار ہونے دے رہے تھے۔ کمالِ برداشت سے بس ایک دوسرے کو تک رہے تھے۔ مطب میں خاموشی کے علاوہ جو چہل پہل تھی وہ خاتون ریسپشنسٹ کی مرہونِ منت تھی۔ وہ مسکرا کر مریضوں کا استقبال کرتی، احترام کے ساتھ احوال پوچھتی اور ادب کے ساتھ ڈاکٹر سے ملاقات کرواتی اور امید کے ساتھ رخصت کرتی تھی۔

ڈاکٹر نے اٹھ کر ہمارا استقبال کیا۔ ہماری بیماری کا حال ہم سے زیادہ بیوی کی زبانی سنا۔ بیوی خاموش ہوئیں تو ڈاکٹر نے مختلف سوالات کیے۔ نام، عمر اور پیشہ پوچھا۔ آمدنی کے بارے میں اندازہ کیا۔ عادات و اطوار اور چال چلن کے تعلق سے چند غیر ضروری باتیں دریافت کیں۔ خاندان کے دوسرے افراد کی صحت کے متعلق سوالات کیے۔ بھوک پیاس، غذا، نیند اور دوسری ضروریات کے بارے میں پوچھا۔

شکایات سننے اور سوالات کرنے کے بعد طبی معائنہ کا پر اسرار اور بے ربط عمل شروع ہوا۔ ڈاکٹر نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور منہ کے اندر جھانکا۔ کچھ دیر نبض پر اپنا ہاتھ رکھا اور ہمارے ہاتھ پر پٹا باندھ کر بلڈ پریشر دیکھا۔ سینہ اور پیٹھ کو سنا کہ مرض اپنا نام اور پتا بتا دے۔ پیٹ میں مرض کو ٹٹولا۔ یہاں وہاں دبایا کہ مرض ہاتھ لگے۔ ہاتھ اور پیروں پر ہتھوڑے سے دستک دی کہ مرض کا کچھ تو سراغ ملے۔ یوں ڈاکٹر کا طبی معائنہ مکمل ہوا۔ کچھ دیر سوچا اور نسخہ تحریر کر دیا۔ پرہیز کے متعلق پوچھا تو ارشاد ہوا۔ ’کوئی پرہیز نہیں ہے۔ ‘

ہمیں خوشی ہوئی لیکن بیوی مختلف سوالات کرنے لگیں۔ ’مرچ مسالا کھا سکتے ہیں؟ انڈا اور گوشت نقصان تو نہیں پہنچائیں گے؟ کیا کھٹا استعمال کر سکتے ہیں؟‘

ڈاکٹر نے خندہ پیشانی سے بیوی کے سوالوں کے جوابات دیے لیکن وہ انھیں مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

ہم دونوں ڈاکٹر کے مطب سے خوش و خرم واپس لوٹے۔ ہم خوش تھے کہ ڈاکٹر نے تفصیل سے شکایات سنیں، دلجوئی سے معائنہ کیا اور سوچ کر نسخہ لکھا۔ بیوی ڈاکٹر کے کلینک سے متاثر ہوئیں اور انھیں ایک کثیر رقم فیس کے نام پر دے کر شادماں ہوئیں۔ ہم ڈاکٹر کے حسنِ سلوک اور بیوی ان کے مطب کی تعریف کرتے رہے۔ قوی امید بندھی کہ اب افاقہ ہو گا۔ عقیدت سے ڈاکٹر کا نسخہ استعمال کیا پورے ایک مہینہ کا کورس تھا۔ ڈھیر ساری دوائیں کھائیں لیکن افاقہ نہ ہوا۔ ہماری حالت جوں کی توں برقرار رہی۔

ایک مہینہ بعد ہم ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ ہمیں فائدہ نہ ہونے پر ڈاکٹر نے تعجب کا اظہار کیا۔ پھر سے ہمارا طبی معائنہ کیا۔ اس مرتبہ بھی انھیں کچھ ہاتھ نہ لگا۔ کچھ دیر سوچا اور پھر گویا ہوئے۔ ’طبی معائنہ نارمل ہے۔ میں چا ہوں گا کہ آپ اپنے پیشاب، پاخانے اور خون کا معائنہ کروائیں۔ ‘

ہم دوسرے ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ نئے ڈاکٹر کو فیس کے ساتھ اپنا خون بھی دیا۔ پیشاب، فضلہ اور خون کا معائنہ کروایا۔ معائنوں کی رپورٹ حاصل کی۔ سن کر خوشی ہوئی کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا لیکن ہمارے مرض کی تشخیص کا مسئلہ بہرحال باقی رہا۔ ہم نے ڈاکٹر سے پوچھا۔ ’ہمارا خون اور پیشاب بھی نارمل ہے۔ آخر ہمیں کون سا مرض لاحق ہے؟‘

ڈاکٹر نے سچ اگلا۔ ’سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘

ڈاکٹر کے جواب پر بیوی چونک پڑیں اور ہم دونوں کو گھورتے ہوئے اپنی رائے دی۔ ’بد پرہیزی اصل مرض ہے !‘

’شاید۔ ‘ ڈاکٹر نے ہتھیار ڈالے اور نیا نسخہ لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ ڈاکٹر کی اس ادا پر ہمیں ایک دوست کی یاد آئی جن کے خیال میں ڈاکٹر کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ کسی کو نہ اپنے پاس خالی ہاتھ آنے دیتا ہے اور نہ خالی ہاتھ جانے دیتا ہے۔

ہم بے دلی سے نیا نسخہ اٹھا لائے اور تذبذب میں مبتلا ہوئے کہ اس نسخہ کو شرفِ استعمال بخشیں یا بالائے طاق رکھیں۔ بیوی نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’ڈاکٹر مرض کی تشخیص نہیں کر پائے اور اندازے پر اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں۔ شکایتیں سن کر دوا تجویز ہو رہی ہے۔ ‘

ہم نے لقمہ دیا۔ ’فائدہ ہو گیا تو ڈاکٹر کی جے جے کار ورنہ اللہ کی مرضی تو ہر حال میں شامل ہے۔ میرے خیال میں ڈاکٹروں کا یہی کامیاب طریقۂ علاج ہے۔ ‘

’ہم کسی دوسرے ڈاکٹر کو دکھائیں گے۔ ‘ بیوی نے تجویز رکھی۔

’وہاں بھی یہی مشق ہو گی۔ بہتر ہے کہ پیسے بچائیں اور شفا کے لیے دعا کریں۔ ‘ ہم نے مشورہ دیا جسے بیوی نے رد کر دیا۔

بیوی نے معائنوں کے نتائج اور ڈاکٹر کے نسخوں کی ایک فائل تیار کی اور ہمیں دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ پھر وہی گھسی پٹی ڈاکٹری کارروائی کے بعد نئے ڈاکٹر نے رعب ڈالنے کے لیے پیٹ کا ایکس رے کروانے کو کہا۔ یوں ہماری بیماری سے مستفید ہونے والوں میں ایک اور ڈاکٹر کا اضافہ ہوا۔

ہم نے اپنی بیماری کا ’سیاہ اعمال نامہ‘ حاصل کیا۔ ڈاکٹر نے ایکس رے کو ہلکی اور تیز روشنی میں دیکھا، ہونٹ سکوڑے اور منہ بنایا تو ہم نے پریشان ہوتے ہوئے سوال کیا۔ ’کیا ایکس رے میں کوئی خرابی ہے؟‘

’نہیں ایکس رے تو نارمل ہے۔ ‘ڈاکٹر نے جواب دیا۔

ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ بیوی نے دریافت کیا۔ ’تو پھر انھیں کون سا مرض لاحق ہے۔ ‘

ڈاکٹر نے ایک لمبا چوڑا انگریزی نام لیا جو ہماری سمجھ میں آیا نہ ہماری بیوی کی۔ اب تو وہ نام بھی یاد نہیں رہا۔ بیوی نے استفسار کیا۔ ’یہ کیا ہوتا ہے؟‘

جواب ملا۔ ’سمجھانا مشکل ہے۔ سمجھنے کے لیے علمِ طب حاصل کرنا پڑتا ہے۔ ‘

’پھر بھی موٹے الفاظ میں بتائیے۔ ‘ بیوی نے اصرار کیا۔

’معدے میں گڑبڑ ہے۔ ‘ ڈاکٹر نے مختصر جواب دے کر نسخہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔

’اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں۔ ‘ بیوی نے بحث کرنا چاہی۔

’اور آپ کے لیے اتنا جاننا کافی ہے !‘ ڈاکٹر نے بحث کا موقع نہیں دیا۔

نسخے میں کچھ نئی اور کچھ پرانی دوائیں شامل تھیں۔ ہم نے نئی دواؤں کو استعمال کیا اور پرانی دواؤں کو چھوڑ دیا۔ لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ افاقہ نہ ہوا بلکہ مرض کچھ اور بڑھ گیا۔

تھا مرض کچھ، مگر دوا کچھ اور

اس لیے درد بڑھ گیا کچھ اور

یہ ڈاکٹروں کے علاج کا فیض تھا یا ان سے وابستگی کا نتیجہ کہ ہماری شکایتوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا تھا۔ اب یہاں وہاں درد بھی رہنے لگا۔ بھوک نہ لگنے لگی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ ایک انجانا خوف ہم سے زیادہ ہماری بیوی پر طاری ہوا۔

ہم اپنا مرض لیے ڈاکٹر ڈاکٹر بھٹکنے لگے کہ نیلی چھتری کے نیچی وہی ہمارے ناخدا ہیں۔ جب بھی کسی ڈاکٹر کی تعریف سنتے ہم اپنا پرانا مرض لیے نئے ڈاکٹر کے مطب میں پہنچ جاتے تھے۔ رقت انگیز لہجہ میں تکالیف بیان کرتے اور پرانے ڈاکٹروں سے علاج اور ان سے وابستگی کا ذکر کرتے۔ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے بعد نیا ڈاکٹر نیا نسخہ لکھتے۔ ہمیں پھر بھی فائدہ نہ ہوا۔ شاید نئے نسخہ میں وہی پرانی دوائیں ہوتی ہوں گی!

ایک دن ہمارے ایک دوست نے مشورہ دیا۔ ’زمانہ ترقی کر چکا ہے۔ بیماریوں اور ان کے علاج میں کافی وسعت آ گئی ہے۔ مختلف اعضا اور بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر پیدا ہونے لگے ہیں۔ تم معدے اور اس کے امراض کے ماہر سے مشورہ کرو۔ ہو سکتا ہے کہ شفا مل جائے۔ ‘

ہم نے ان کے مشورے کو قبول کیا۔ ماہر ڈاکٹر کی عرفیت بھی کسی خطرناک مرض کے نام سے کم نہ تھی۔ معدہ اور آنتوں کے ماہر ڈاکٹر کو ’گیاسٹروانٹرالوجسٹ‘ کہتے ہیں۔ موصوف سے ملاقات ہوئی۔ ہمیں تو ماہر اور عام ڈاکٹر میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔ سبھی ایک جیسے نظر آئے۔ فیس وصول کی، شکایات سنیں، معائنہ کیا اور کروایا اور آخر میں نسخہ ہاتھ میں تھما دیا۔

معدے کے امراض کے ماہر ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ڈاکٹر نے ہمارے منہ اور ناک کے ذریعہ چند نلکیاں معدے میں اتاریں اور اندر کا منظر دیکھا۔ بعد میں ہمیں بھی اسکرین پر دکھایا۔ ہمیں خیر کچھ سمجھ میں نہ آیا لیکن ڈاکٹر بھی اپنی تجربہ کار آنکھوں سے مرض کو دیکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ حسبِ سابق ماہر ڈاکٹر کی محنت بھی رائے گاں گئی۔

ڈاکٹروں کو آزمانے کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈاکٹر ہماری بیماری سے اپنے تجربے اور بینک بیلنس میں اضافہ کرتے رہے اور ہمیں مقروض اور ہمارے جسم کو ’میڈیکل اسٹور‘ بناتے گئے۔ دوائیں کھا کھا کر پیٹ کے میڈیکل اسٹور بننے کی شکایت بیوی نے ایک ڈاکٹر سے کی تو موصوف نے جواب دیا۔ ’بی بی، آپ ہر دن تین مرتبہ کھاتی ہیں۔ کیا پیٹ کبھی غلے کا گودام بنا ہے جو آپ کے شوہر کا پیٹ دوائیں کھا کر ڈرگ اسٹور بنے گا۔ ‘

جب بھی کوئی ہم سے ملتا، وہ ہماری بیماری کا حال سن کر اور ہم پر ترس کھا کر صحت یابی کی دعا دینے کے ساتھ کسی ڈاکٹر کا پتا ضرور دیتا۔ ہمارے ایک سسرالی عزیز نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے مشورہ دیا۔ ’میرے خیال میں تمھاری آنت بڑھ گئی ہے۔ فلاں سرجن سے ملو۔ ‘

ہمیں ان کے مشورے پر عمل کرنے کے لیے بیوی نے مجبور کیا۔ سرجن نے ہمیں ٹھوک بجا کر دیکھا اور رائے دی۔ ’آپ میں اوپر سے تو کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ میں اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘

ہم حیران اور پریشان کہ سرجن ہمارے اندر کیوں کر داخل ہوں گے۔ وہ ہماری پریشانی کو بھانپ گئے اور فرمایا۔ ’آپریشن کر کے میں بتاؤں گا کہ آپ کو کیا عارضہ لاحق ہے۔ ‘

گویا آپریشن بھی مرض کی تشخیص کی ایک کڑی ہے۔ آپریشن کا نام سنتے ہی ہماری روح ناتواں جسم سے پرواز کرنے کے لیے پر تولنے لگی۔ ہم نے سرجن سے سوچنے کی مہلت مانگی اور سرپٹ دوڑے چلے آئے۔

ہمارا تجربہ ثابت کر رہا تھا کہ ڈاکٹر تبدیل کرنے سے مرض اور علاج دونوں پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم میں مختلف امراض تشخیص ہوئے، پیچش، السر، بدہضمی، پتے کی بیماری، آنت کا بڑھنا، اور بھی لانبے چوڑے انگریزی بیماریوں کے نام! لیکن افسوس کسی ایک کا بھی علاج نہ ہو سکا۔ ہم الگ حیران کہ ہمارا ناتواں جسم اتنی ساری بیماریوں کا بوجھ کیسے برداشت کر پا رہا ہے۔

ہمارے ایک بزرگ نے ہم سے کہا۔ ’بیٹا مایوسی کفر ہے۔ جہاں اتنے ڈاکٹروں کو معائنہ، تشخیص اور علاج کا شرف بخشا ہے، وہیں نفسیاتی معالج سے بیر کیوں؟ چل کر انھیں بھی دکھا لیتے ہیں۔ ‘

نئے ڈاکٹر کا نام ہمیں اچھا لگا۔ محسوس ہوا کہ موصوف ہمیں دوائی اور انجکشن سے دور رکھیں گے۔ ہم اور بیوی نفسیاتی معالج کے پاس صحت کے دام لگانے پہنچ گئے۔ اس قسم کے ڈاکٹر سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ڈاکٹر نے ہمارا معائنہ کیا اور نہ ہی کروایا۔ ہم سے گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔ ہماری زندگی کے بارے میں پوچھا۔ اہم واقعات پر روشنی ڈالنے کے لیے کہا۔ ڈاکٹروں سے ملاقات کے دوران پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ مرض سے زیادہ مریض کی اہمیت ہے اور ہم بھی کچھ ہیں۔

ہمارے متعلق جی بھر کر گفتگو کرنے کے بعد نفسیاتی معالج نے ہم سے اور ہماری بیوی سے الگ الگ ملاقات کی۔ انھوں نے ہم سے شادی اور ازدواجی زندگی کے بارے میں پوچھا۔ کیا آپ نے محبت کی شادی کی ہے۔ کیا آپ شادی شدہ زندگی سے خوش ہیں۔ کیا بیگم آپ پر ظلم ڈھاتی ہیں۔ شادی کے اتنا عرصہ بعد بھی آپ اپنی بیگم سے پہلے جیسا ہی پیار کرتے ہیں۔ کیا آپ کسی دوسری لڑکی میں دلچسپی رکھتے تھے یا ہیں، وغیرہ۔

بیوی نے نفسیاتی معالج سے ملاقات کے بعد بتایا۔ ’ڈاکٹر بڑے عجیب و غریب سوالات کر رہے تھے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود کسی نفسیاتی مسئلہ کا شکار ہیں۔ ‘

ہم سے ملاقات مکمل ہونے کے بعد نفسیاتی معالج نے تشخیص فرمائی۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ بہت زیادہ سوچنے کی وجہ سے آپ کو یہ عارضہ لاحق ہے۔ اتنے عرصہ تک اگر کوئی بیماری رہتی تو مرض نہیں یا مریض نہیں والی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ماشاء اللہ مریض موجود ہے اور اس کا مرض بھی! اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو کوئی مرض نہیں ہے۔ آپ اپنی بیماری کے بارے میں سوچنا بالکل بند کر دیں۔ بہت جلد فائدہ ہو گا۔ ‘

نفسیاتی معالج کی منطق ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ ٹھیک ہے، ہم اپنے بارے میں نہ سوچیں گے لیکن کیا ہم ان ڈاکٹروں اور بیماریوں کے متعلق بھی نہ سوچیں جو ہم سے وابستہ رہی ہیں۔ ہم یہ سوال نفسیاتی معالج سے کرنا چاہتے تھے لیکن اس لیے چپ ہو رہے کہ جواب ہمیں معلوم تھا۔ وہ یہی کہیں گے کہ آپ سوچنا بالکل ہی بند کر دیں۔

بیوی ڈاکٹروں سے مایوس ہوئیں اور ان کا ڈاکٹروں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ڈاکٹروں کے پیچھے وقت اور پیسہ برباد کرنے کی بجائے وہ دعا میں مصروف رہنے لگیں۔ ہم نے بھی مصمم ارادہ کر لیا کہ اب کسی ڈاکٹر کو دیکھیں گے اور نہ انھیں اپنا مرض بتائیں گے۔ چاہے مرض سے ہم جاں بحق کیوں نہ ہو جائیں۔ ہم نے اپنے آپ کو تقدیر کے حوالے کر دیا۔

آخر وہی ہوا جو منظور خدا ہوتا ہے۔ کئی دن طبیعت یوں ہی رہی پھر اپنے آپ، ڈاکٹروں کی مدد اور علاج کے بغیر، سنبھلنے لگی اور اب تو ماشاء اللہ کافی سنبھل چکی ہے جس کا ثبوت یہ حاصل صحت مضمون ’مریضانہ آئے ‘ ہے۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، جون 1994ء

 

 

 

 

ہم کچن میں

 

مرد روٹی روزی کماتا ہے اور عورت گھر گرہستی سنبھالتی ہے۔ یہ بات ماضی میں حقیقت ہوا کرتی تھی۔ لیکن جب سے مساوات کا دور دورہ اور مہنگائی کا بول بالا ہوا ہے یہ جملہ اپنی اہمیت کھونے لگا ہے۔ آج مرد وزن مل کر کماتے اور گھر سنبھالتے ہیں۔

مساوات کے اس دور میں بھی، ہم کماتے ہیں اور ہماری بیوی گھر سنبھالتی ہیں۔ آپ چاہیں تو ہمیں قدامت پسند کہہ سکتے ہیں۔ ویسے اس بات سے بعض اوقات ہم خوش ہوتے ہیں تو اکثر اداس بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں وزارت داخلہ سے بے دخل کر دیا گیا ہے لیکن فینانس کے معاملہ میں ہماری قابلیت کا لوہا مانا جاتا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کے لیے خود ہمیں کتنے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں۔

ایک اور بات جو ہمیں کھٹکتی ہے وہ یہ کہ ہماری بیوی گھرداری میں ہم سے سبقت لے جا رہی ہیں اور گھر میں ہم ان کے مرہونِ منت ہو گئے ہیں۔ گھر میں ’ ان کی‘ مرضی اور مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہیں ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ بچے اسکول کب جاتے اور کب واپس آتے ہیں۔ ان کی پڑھائی کیسے چل رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں بالخصوص کچن میں کیا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات بیوی ’سب ٹھیک ہے ‘ کی اطلاع دیتی ہیں تو کبھی کبھار کوئی مسئلہ ہمارے آگے رکھ بھی دیتی ہیں۔

اپنے گھر میں ’باہر والا‘ بننے کی سوچ اور آفس میں لنچ کے وقت دوستوں کے ہاتھ کا بنایا ہوا پکوان کھا کر ہمارے دل نے چاہا کہ ہم بھی اپنے گھر کے معاملات میں حصّہ لیں۔ ہماری عین خواہش تھی کہ ہم کچن میں جائیں اور کچھ پکوان کر کے، کم از کم چائے ہی بنا کر دیکھیں۔ ہم کچن میں داخل ہونے کی کوشش بھی کی لیکن ہماری مشرقی شوہر پرست بیوی نے کبھی اس کا موقع نہ دیا۔ ہر مرتبہ کچن سے باہر کر دیتیں کہ یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے۔

آخر ایک مرتبہ قسمت ہم پر مہربان ہوئی۔ بیوی کو جاڑا بخار آیا اور وہ صحابۂ فراش ہوئیں۔ رضائی اور بلانکٹ تلے وہ کمرے میں قید ہوئیں تو ہماری دیرینہ آرزو پوری ہوتی ہوئی نظر آئی۔ ہم نے دفتر سے پورے چار دن کی چھٹی لی اور کچن میں دھاوا بول دیا۔

کچن میں داخل ہونے سے پہلے ہم پر امید تھے کہ نئی ایجادات کے ذریعہ صنفِ نازک پر احسان کریں گے لیکن پکوان کے سلسلہ میں ہم پر کئی انکشافات ہوئے۔ پکوان کے لیے سب سے پہلے ایندھن کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ ہم کچن میں داخل ہوئے اور سوچنے لگے کہ خواتین کے سر کو چولہے میں جھونکنے (جیسا کہ وہ کہتی ہیں ) سے بچانا چاہیے۔ کچن میں ایٹمی بیٹریاں مہیا کی جانی چاہییں کہ ایندھن کا سب سے زیادہ استعمال کچن میں ہوتا ہے۔ لکڑی اور کوئلہ کو صدیوں سے جلاتے ہوئے ان کے ذخائر کو تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ گیس کے ذخائر اگر ختم نہیں تو کم ضرور ہو رہے ہیں۔ بجلی مہنگی ثابت ہو رہی ہے۔ اسی لیے مستقل اور اطمینان بخش ایندھن کی فراہمی کے لیے ہمیں ایٹمی بیٹریاں مناسب معلوم ہوتی ہیں۔

جب ایٹمی بیٹریاں ہوں گی تو کمپیوٹر قسم کی پکوان مشین بھی چاہیے جو مطلوبہ کھانا تیار کر دے۔ ہم کھچڑی بنانا چاہیں تو ہدایت نامے کے مطابق درکار اشیا مشین میں ڈال دیں۔ چند سکنڈ انتظار کیا۔ بٹن دبایا اور ’کمپیوکوکر‘ سے گرم گرم کھچڑی کی قاب نکل آئی۔

خوابوں کی دنیا میں بے دھڑک دوڑتے ہوئے ہم کچن میں ایٹمی بیٹری اور کمپیوٹر سے لیس پکوان مشین رکھنے کی جگہ تلاش کرنے لگے تھے کہ ہماری نظر جھوٹے برتنوں پر پڑی۔ ہمیں یہ برتن صاف کرنے تھے۔ کچن میں صفائی پکوان سے مقدم ہے۔ ہمیں یاد آیا کہ برتن دھونے کا مسئلہ سائنس نے حل کر دیا ہے۔ برتن دھونے کی ہمہ اقسام کی مشینیں بازار میں ملتی ہیں۔ ہم نے برتن دھونے کی مشین اب تک اس لیے نہیں خریدی کہ بیوی نے ادھر ہماری توجہ مبذول نہیں کروائی۔ موقع ملتے ہی ہم بات کا بتنگڑ بناتے ہوئے بیوی پر برسنے لگے۔ ’آپ خواہ مخواہ خود کو تکلیف دیتی رہی ہیں۔ یاد دلایا ہوتا تو ہم برتن دھونے کی مشین خرید لاتے !‘

بیوی مسکراتی رہیں اور جب ہم خاموش ہوئے تو کہا۔ ’آپ کی آمدنی برتن دھونے کی مشین خریدنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، اس لیے کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ گھر کی سیاست اور معیشت آپ مردوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ پہلے ہی دن آواز اونچی کرنے لگے !‘

منہ کی کھا کر آستین اور پائینچے چڑھائے برتن دھونا شروع کیا۔ آدھے برتن دھونے پر ہماری وہ درگت بنی کہ خود کو دھونے اور صاف ہونے کے لیے دوگنا وقت اور دو ٹکیہ صابن خرچ ہوا۔ معلوم نہیں خواتین کیسے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے برتن صاف کر لیتی ہیں۔ کبھی بیوی کی ماتحتی میں کام کیا ہوتا تو شاید یہ کام مشکل نہ ہوتا!

کچن میں دوسرا سبق دودھ گرم کرنا ہے۔ دودھ کو دیکھا تو اس میں پانی زیادہ نظر آیا اور اس سفید سیال کو دودھ کے بجائے ‘پانی دودھ‘ یا ’دودھیا پانی‘ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوا۔ ہم بے اختیار ملاوٹ کرنے اور ملاوٹی اشیا کا کاروبار کرنے والوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ہماری بیوی ہر صبح یہی کام کیا کرتی ہیں، تب ہم صبر کی تلقین کرتے تھے۔ ہم نے اس تبدیلی پر غور کرتے ہوئے دودھ کو چولہے پر رکھا۔ دودھ میں موجود پانی بھاپ بن کر اڑنے لگا۔ ہمارے خیالات بھاپ کا تعاقب کرتے ہوئے اسٹیم انجن تک جا پہنچے اور ہم اس کے موجد کا نام یاد کرنے لگے۔ باوجود کوشش کے نام یاد نہ آیا۔ بچپن میں اس محسن سائنسداں کا نام ہماری زبان کی نوک پر تھا۔ اس وقت ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ اسٹیم انجن کیا اور کیسے ہوتا ہے۔ اب ہمیں ان باتوں کا علم ہے لیکن موجد کا نام بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا ہے۔

ہم اسٹیم انجن میں کھوئے ہوئے تھے کہ دودھ ابل کر برتن سے باہر بہنے لگا۔ اپنے خیالات اور اپنے آپ کو واپس کچن میں لانے تک آدھے سے زیادہ دودھ ضائع ہو چکا تھا۔ ہم حیران تھے کہ دودھ میں بھی ابال آتا ہے۔ ہم نے تو صرف کڑھی وہ بھی باسی، میں ابال آنے کی بات سنی تھی۔

دودھ گرم کرنے کے بعد کا سبق چائے بنانا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ چائے بنانا سب سے آسان پکوان ہے۔ پانی اور چائے کی پتی کو ابالا اور حسبِ ذائقہ دودھ ڈالا اور شکر گھول لی، لیجیے چائے تیار ہے لیکن چائے بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ اسی لیے کسی کے ہاتھ کی چائے اچھی ہوتی ہے، کسی کی بہت اچھی اور کسی کے ہاتھ سے بے مزہ چائے بنتی ہے۔ اچھی چائے بنانا ایک فن ہے۔ اس فن میں ماہر بھی ہوتے ہیں۔ ایک ماہر فرماتے ہیں کہ چائے تیار کرنا سب سے مشکل پکوان ہے۔ چائے تیار کر کے پینے کے بعد ہم اس خیال سے متفق ہوئے۔

چائے کئی قسم کی بنائی جاتی ہے۔ سادہ چائے، الائچی چائے، مسالا چائے، کشمیری چائے، ایرانی چائے، سلیمانی چائے، پانی کم چائے، لیمو چائے، دم کی چائے وغیرہ۔ ہم نے صرف چائے بنانے کی ٹھانی۔ اسی وقت خسر صاحب ہمارے گھر تشریف لائے تھے۔ یہ سنہری موقع تھا جب ہم انھیں چائے پیش کر کے بتاسکتے تھے کہ آپ نے اپنی لڑکی کو ہم جیسے سگھڑشخص کے ساتھ بیاہ کر عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔

ہمیں معلوم نہ تھا کہ چائے کی پتی کس ڈبے یا مرتبان میں رکھی ہے۔ شکر کہاں ہے اور پیالے کدھر ہیں؟ انھیں ڈھونڈ نکالنے میں ہم نے دو مرتبان، چند برتن اور تین گلاس پھوڑ ڈالے۔ چائے تیار کی اور خسر صاحب کو پیش کیا۔ وہ ہماری کارکردگی پر بہت خوش ہوئے۔ اپنی خوشی کا اظہار انھوں نے ہمیں ایک پیالی چائے دے کر کیا۔

ہم نے چائے کا گھونٹ حلق سے اتارا۔ کانوں میں گھنٹیاں بج اٹھیں۔ چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ رنگ چائے کا تھا لیکن مزا صرف اور صرف مرچی کا تھا۔ ہم نے خسر صاحب کا اور انھوں نے ہمارا خیال کرتے ہوئے چائے نما سیال کو زہر مار کیا۔ ’مرچ کی چائے ‘ پیتے ہوئے ہم منہ ایسے بنا رہے تھے جیسے ایک دوسرے کو چڑا رہے ہوں۔ اس پر تکلفات اور رشتہ کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ خسر صاحب چائے کی تعریف کر رہے تھے کہ واہ کیا چائے ہے اور ہم انکساری سے کام لیتے ہوئے شکریہ اور ذرہ نوازی کی ہانک لگاتے رہے۔

تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ چائے کی پتی کی بجائے ہم نے کالی مرچ کا سفوف استعمال کیا تھا۔ ہم اتنے قابل ہیں کہ چائے پر کئی صفحوں کا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ ہم بتاسکتے ہیں کہ چائے کب دریافت ہوئی۔ چائے کی کتنی قسمیں ہیں۔ کہاں کہاں چائے اگائی جاتی ہے۔ ہر روز دنیا میں کتنی چائے پی جاتی ہے اور یہ بھی کہ ایک آدمی اوسطاً دن میں کتنے کپ چائے پیتا ہے۔ لیکن افسوس ہم اتنے نادان ہیں کہ چائے کی پتی کی شکل سے واقف نہیں ! ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسی ہوتی ہے۔ اس کا رنگ اور روپ کیسا ہوتا ہے۔ سچ ہے تجربہ کا نعم البدل علم نہیں ہے۔

روٹی بنانے کے خیال سے پاپڑ بیلنا محاورہ یاد آیا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ روٹی بیلنا بھی پاپڑ بیلنے سے کچھ کم نہیں ہے۔ آٹے میں پانی ملا کر گوندھا جاتا ہے۔ مانسون کی طرح پانی کبھی زیادہ ہو جاتا تو کبھی خشک سالی کا ماحول پیدا ہو جاتا تھا۔ تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر ہم نے آٹا بھگویا۔ آٹے کو گوندھنا اس لیے غیر ضروری سمجھا کہ ہمیں گوندھنا آتا ہی نہ تھا۔

گردہ اور بیلن کے بیچ گیلے آٹے کو رکھا اور بیلنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ روڈ رولر چلانا آسان ہے لیکن روٹی بیلنا مشکل امر ہے۔ روٹی بیلنے کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب گردہ اور بیلن جدا نہیں ہونا چاہتے تھے۔ آٹے نے انھیں اٹوٹ بندھن میں جکڑ دیا تھا۔ ہم نے زور لگایا، گردہ اور بیلن الگ الگ ہوئے۔ روٹی بلکہ آٹے کے کئی ٹکڑے ہوئے، کچھ ٹکڑے گردہ اور کچھ ٹکڑے بیلن کے ساتھ رہ گئے۔

مسلسل کوشش کے بعد ہم آٹے کو بیلنے میں کامیاب ہوئے تو دیکھا روٹیاں گول ہیں نہ تکون اور نہ ہی چوکور۔ روٹیاں مختلف ملکوں کے نقشوں جیسی شکل اختیار کر گئی تھیں۔ ہمارے بچے ایک عرصہ تک ان روٹیوں پر ندی، پہاڑ اور سڑکیں اتار کر سری لنکا، آسٹریلیا اور آفریقہ کا جغرافیہ سیکھتے رہے۔ ہم مطمئن ہوئے کہ ہماری محنت رائے گاں نہیں گئی۔

آٹا گوندھنے اور بیلنے کی مشکل کے نتیجے میں آج گھروں میں روٹیاں خال خال ہی بنتی ہیں، تنور، بیکری یا ہوٹل سے منگوا لی جاتی ہیں۔ اسی لیے ہمیں روٹی نہ بنانے کا ملال نہیں ہوا اور ہم نے بھی بازار سے روٹی منگوائی۔ ناشتے کا آدھا انتظام ہونے کے بعد ہم نے انڈے کو فرائی پین میں تلنا چاہا۔ چاقو سے ہم نے انڈے کے چھلکے کو کاٹنا چاہا، ناکام رہے۔ انڈے کے چھلکے نے کٹنے کے بجائے ٹوٹنے کو فوقیت دی۔ ہم نے دوسرا انڈا ہاتھ میں لیا اور اسے کفگیر سے پھوڑا۔ سفیدی ہاتھ آئی، زردی کپڑوں پر گری اور چھلکے کڑھائی میں جا پڑے۔ دو انڈوں کا انجام دیکھ کر ہم نے تیسرے انڈے میں ایک چھوٹا سوراخ کیا اور اس میں سے سفیدی اور زردی کو دھار کی شکل میں فرائی پین میں انڈیلا۔ یکمشت فرائی پین میں نہ گرنے کی وجہ سے انڈا عجیب و غریب شکل اختیار کر گیا۔ ہمیں تلا ہوا انڈا چاند کی زمین جیسا دکھائی دینے لگا۔ رنگ کہیں بھورا تو کہیں سیاہی مائل بھورا اور کہیں تو بالکل کالا۔ کہیں چٹان جیسا ابھار تو کہیں وادی جیسی گہرائی۔ ہم نے اپنے اس شاہکار انڈے کو کچرے میں چھپا دیا کہ اس پر کسی کی نظر نہ پڑے اور ہم لوگوں کی تنقید سے محفوظ رہیں۔ انڈے کے اس حشر کو دیکھ کر ہمیں اپنا وہ رویّہ یاد آیا کہ جب کبھی آملیٹ اچھا نہیں بنتا تھا تو تنقید کرنا شروع کر دیتے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ تنقید کرنا آسان ہے اور محنت کر کے اپنی تخلیق کو تنقید کے لیے پیش کرنا بلند ہمت والوں کا کام ہے۔

دودھ گرم کرنے، چائے بنانے اور روٹی اور آملیٹ تیار کرنے کے لیے کسی راہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ وہ پکوان ہیں جو ہر کوئی بنا سکتا ہے لیکن دوسری چیزیں بنانے کے لیے کسی ’استاد‘ کی شاگردی قبول کرنی پڑتی ہے۔ سگھڑ ماں اپنی بیٹی کو چٹ پٹے پکوان سکھا کر شوہر کا دل جیتنے کا راز بتاتی ہے۔ بعض صورتوں میں اچھے پکوان کی وجہ شوہر کا چٹوراپن یا سسرال والوں کے طعنے اور تشنیع ہوتے ہیں۔ چند لوگوں کو اچھا پکانے کی خواہش اور عادت بھی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے دوست احباب مزے میں رہتے ہیں۔ وہ ہر دم اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش میں احباب کی دعوتیں کرتے رہتے ہیں۔

پکوان کی کتابیں بھی اچھا کھانا بنانا سکھاتی ہیں۔ دستر خوان کے نام والی پکوان کی کتابیں مقبول ہیں۔ شاہی دستر خوان، غریب کا دستر خوان، بھوکے کا دستر خوان، پیٹو کا دستر خوان، ماما کا دستر خوان، رضیہ کا دستر خوان، رادھا کا دستر خوان جیسی نامی گرامی کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ ایک بات ہم نے محسوس کی کہ پکوان کی کتابوں کے مؤلفین میں اکثریت خواتین کی ہے جبکہ پکوان کے ماہرین یعنی استاد اور شیف اکثر مرد ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خواتین مردوں کو اچھا پکوان تیار کرنا سکھاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ چھٹی کے دن گھروں میں اچھا پکوان تیار ہوتا ہے۔

پکوان سیکھنے کے لیے ہمیں بیوی کی شاگردی قبول کرنے کا خیال آیا لیکن یکسانیت پیدا ہونے کے خدشے کے پیش نظر ہم نے پکوان کی کتاب سے رہنمائی حاصل کرنے کو فوقیت دی۔ ہم نے ایک دستر خوان والی کتاب خریدی۔ کتاب میں دیے گئے پکوان کے نسخوں کو پڑھ کر ہی بھوک کھل اٹھتی ہے۔ ہمارے خیال میں بھوک بڑھانے کے لیے ٹانک کے استعمال کی بجائے کھانے سے پہلے کسی پکوان کی کتاب کے چند صفحے پڑھ لینا زیادہ مفید ہے۔ پکوان کے نام اور انھیں تیار کے طریقوں سے ہم متاثر ہوئے اور کچن میں اپنے دو دن کے تجربے کے بل بوتے پر ہم نے اپنے چند دوستوں کو مدعو کیا کہ آؤ اور پہلی بار ہمارے ہاتھ کے بنے پکوانوں کے مزے لوٹو۔

پلاؤ بنانے کی ترکیب نکالی اور بنانا شروع کیا۔ ہر شے کو مقدار سے بڑھ کر اس نظریے سے ڈالا کہ جو مقدار کتاب میں درج ہے وہ اصلی اشیا کی ہو گی اور جب ملاوٹی چیزوں کو زیادہ مقدار میں استعمال کریں گے تو شاید اصلی کا مزا آئے۔

پکوان کی ترکیب پر عمل کرتے تو نتیجہ کچھ الٹا ہی برآمد ہوتا تھا۔ لکھا تھا کہ پانچ منٹ پکائیے اور عمل کرنے پر پکوان جل جاتا تھا۔ ہلکی آنچ پر آدھا گھنٹہ چھوڑ دینے کی ہدایت پر عمل پیرا ہوتے تو اشیا جیسی کی ویسی رہ جاتی تھیں۔ آخر تنگ آ کر ہم نے تمام اشیا کو برتن میں ڈالا اور ایک اوسط وقت کے لیے چولہے پر رکھا۔ پلاؤ کو دیکھا تو اس میں چند اشیا گھل کر پانی ہو چکی تھیں اور چند تک بھاپ بھی نہ پہنچی تھی۔ دعوت کا وقت ہو چلا تھا اور پلاؤ بہت خراب بنا تھا۔ اسے پیش کرنا نہ صرف تہذیب اور صحت کے اصولوں کے خلاف تھا بلکہ بے تکلف دوستوں کے ہاتھوں پٹنے کا بھی اندیشہ تھا۔

دوستوں کی آمد شروع ہوئی۔ کچھ نہ سوجھا تو ہم نے ہوٹل سے کباب، پلاؤ، رائتہ اور میٹھا منگوایا۔ دستر خوان سجایا اور احباب سے اسے اپنے کارنامہ کے طور پر پیش کیا۔ پکوان کے تعلق سے خوب ڈینگیں ماریں۔ کہا کہ خواتین خواہ مخواہ اتراتی پھرتی ہیں۔ ان سے بہتر پکوان ہم کر سکتے ہیں اور ہم نے اپنی مثال دی۔ ’صرف چند دن کچن میں گزار کر ہم نے اس دعوت کا اہتمام کیا ہے۔ ‘

احباب نے ’ہمارے پکوان ‘ کی جی کھول کر تعریف کی اور پر تکلف ضیافت کا خوب لطف اٹھایا۔

ذات برادری کی برائی ہماری بیوی کو پسند نہ آئی اور انھوں نے کھانے کے بعد پان کے ساتھ ہوٹل کا بل بھی بھیجا۔ بل کو دیکھ کر ہمارے دوست ہمیں گھورنے لگے، جس کا جواب ہم نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے دیا۔ ’جنابِ والا۔ ہوٹلوں میں خواتین نہیں مرد پکوان کرتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ کا یہ پکوان گر نہیں ہے تو کیا غم ہے۔ اسے ہمارے کسی بھائی ہی نے بنایا ہے۔ ‘

یہ تھا کچن میں ہمارا پہلا تجربہ ! جو ہماری بیوی کے الفاظ میں تباہ کن رہا۔ لیکن ہم اپنی پرفارمنس سے مایوس نہیں ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اسی طرح کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ معلوم نہیں مرد و زن کے مساوات کے دور میں کب ہم کچن کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے چولہے میں جھونکے جائیں۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد، اپریل 1982ء

 

 

 

 

ہمارا موٹاپا

 

ہماری زندگی میں وہ وقت بھی آیا جب ہم موٹے ہونے لگے۔ شادی ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ ہمارا وزن جس کو بڑھتے بڑھتے قرار آ گیا تھا پھر سے بڑھنے لگا۔

احباب کا خیال تھا کہ بیوی ملنے کی خوشی میں ہم پھولتے جا رہے ہیں۔ لیکن شادی ہونے پر ہمیں ایسی کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی جو غیر متوقع طور پر کچھ حاصل ہونے پر محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ہم کسی حسینہ کے شوہر ضرور بنیں گے۔ رسم دنیا یہی ہے۔ بچپن میں ہم خواب دیکھا کرتے تھے کہ ایک دن ہم بڑے ہوں گے۔ چڈی چھوڑ کر پتلون پہنیں گے۔ ہماری مونچھ اور ڈاڑھی نکل آنے پر ہماری شادی ہو گی۔

بچپن میں دادی اماں نے کئی مرتبہ ہمارے لیے دلھن لانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ وہ کہا کرتی تھیں۔ ’میرا راجہ بیٹا دولہا بنے گا۔ سہرے کے پھول کھلیں گے۔ میں راجہ بیٹا کے لیے چاند سی دلھن لاؤں گی۔ اچھا بیٹا، پیارا بیٹا۔ چل ضد نہ کر، دودھ پی لے۔ ‘

مختصر یہ کہ ان باتوں کے حوالے سے ہم تردید کرتے ہیں کہ بیوی ملنے کی خوشی میں ہم موٹے ہو رہے ہیں۔ ہماری وضاحت پر یہ گمان ہو سکتا ہے کہ ہم شادی کا غم غلط کرنے کے لیے خوب کھا اور پی رہے ہوں گے۔ اگر یہ اندازہ صحیح مان لیا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم میں حالات بلکہ بیوی کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور ہمت نہیں ہے۔ اس قسم کی قیاس آرائی بھی غلط ہے۔ عرصے سے شوہر بے چاروں کی حالت زار دیکھ کر کسی بھی قسم کی بیوی کو قبول کرنے کے لیے ہم اپنے آپ کو آمادہ کر چکے تھے۔ یوں بھی بزرگوں نے پیروں پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کے بعد ہی ہماری شادی رچائی تھی اور ہم خود راضی خوشی بیوی کو شادی خانے سے اٹھا کر گھر لائے تھے۔

تردید در تردید کے باوجود ہم خود اعتراف کرتے ہیں کہ کچھ تو ہے اور کچھ تو ہوا ہے کہ شادی کے بعد ہم موٹے ہونے لگے۔ ہماری بیوی اتنا اچھا نہیں پکاتیں کہ برتن چاٹنے اور انگلیاں کاٹ لینے کی نوبت آ جائے۔ اچھا پکوان کر لیتی ہیں، دو لقمے زیادہ کھانے کو جی چاہتا ہے۔ حلف لے کر صرف سچ کہنا اس لیے نہیں چاہتے کہ بیوی سے ہمارے تعلقات کافی حد تک خوش گوار ہیں اور ابھی ہمیں ان کے ساتھ نباہ کرنا ہے۔

شادی کے بعد موٹے ہونے کے اسباب دریافت کرنے کی کوشش میں ہمیں ایک وجہ معقول نظر آتی ہے کہ شادی سے پہلے جو آزادی تھی وہ شادی کے ساتھ ختم ہو گئی تھی۔ شادی سے پہلے صبح جب جی چاہا اٹھتے۔ اکثر دیر ہو جاتی تو بغیر ناشتہ کیے گھر چھوڑتے تھے۔ دوپہر کے لیے ٹفن کبھی نہیں لے گئے، اِدھر اُدھر سے الم غلم کچھ کھا لیا۔ جیب خالی ہوئی تو انجان بھی ہو گئے۔ مٹر گشتی کے بعد رات دیر گئے تھکے ماندے گھر لوٹتے تھے، کسی نے کھانا پروس دیا تو کھا لیا ورنہ پیر پیٹ میں دابے سوگئے۔ دعوتوں میں کبھی جاتے اور کبھی نہیں جاتے اور جاتے بھی تو غذا سے زیادہ ہماری دلچسپی کے دوسرے سامان تھے۔

شادی کے بعد ذمہ داری کا احساس دلایا جانے لگا۔ ’آج بیوی ہے، خیر سے کل بچے ہوں گے۔ اب تو انسان بنو۔ وقت پر ہر کام کیا کرو اور ڈھنگ کی زندگی گزارو۔ ‘

صبح جلد اٹھا دیا جانے لگا۔ بیوی سامنے بیٹھ کر ناشتہ کروانے لگیں۔ گھر چھوڑتے وقت ہاتھ میں ٹفن تھمایا جانے لگا۔ رات کسی وقت بھوکے یا کھا کر گھر آتے تو بیوی کو انتظار کرتا پاتے۔ بارہا سمجھایا کہ آفس میں دیر ہو جاتی ہے، انتظار نہ کیا کرو لیکن بیوی نے اپنی عادت نہ بدلی۔ ہم ہی وقت پر گھر پہنچنے لگے۔ رات کا کھانا بیوی کے ساتھ کھایا۔ کچھ دیر ٹی وی گھورا اور وقت پر سو گئے۔ ہماری کیفیت اس شریر لڑکے جیسی تھی جسے سدھارنے کے لیے بورڈنگ اسکول میں داخل کیا جاتا ہے۔ ہم بورڈنگ اسکول تو خیر نہیں گئے لیکن بیوی کے روپ میں وارڈن کو ہمارے ماحول اور ہماری زندگی میں لایا گیا۔ وقت پر ڈٹ کر کھانے، گھر پر رہنے اور ضرورت سے زیادہ سونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم موٹے ہونے لگے۔

ہمارا موٹاپا یک لخت طاری نہیں ہوا۔ آہستہ آہستہ ہر قدم پر اپنی آمد کا پتا دیتا ہوا موٹاپا ہمارے جسم میں سرایت کرنے لگا۔ موٹاپے کا احساس کپڑے تنگ ہونے سے ہوا۔ کپڑے پہننے کے بجائے انھیں اپنے اوپر چڑھانے کی نوبت آئی۔ بٹن ٹوٹنے لگے۔ ہم نے بٹن اور کاجوں کو مضبوط کیا تو بعض مقامات سے سیون کھلنے لگی اور کپڑے پھٹنے لگے۔ نئے کپڑے سلوانے پڑے۔ نئے کپڑے ہمارے موٹاپے کا چند دن ہی ساتھ دیتے۔ نئے کپڑے بھی تنگ ہونے لگے۔ ہم نے اپنے نئے جسم کے لیے پھر کپڑے سلوائے۔ کچھ ہی دنوں بعد ان سے بھی ہمارے موٹاپے کی ستر پوشی نہ ہو سکی تو ہمیں ایک نئے جامہ میں آنا پڑا۔ یوں وقفہ وقفہ سے کپڑے بنوانے کا ایک سلسلہ چل پڑا۔

ہمارے موٹاپے سے درزی خوش رہنے لگے۔ وہ ہماری آؤ بھگت کرتے، ہمارے اطراف دوڑ کر ناپ لیتے اور جلد کپڑے تیار کر کے دیتے کہ دیر ہو جائے تو کپڑے چھوٹے نہ پڑ جائیں۔ چند مہینوں میں ہمارے پاس تنگ اور چھوٹے کپڑوں کا خاصا اسٹاک جمع ہو گیا۔ ہم پرانے کپڑوں کو اس طرح دیکھتے جیسے کوئی ماں اپنے بڑے بچے کے چھوٹے کپڑوں کو دیکھ کر اس کا بچپن یاد کرتی ہے۔ ہمیں اپنا وہ چھریرا بدن یاد آتا جو کبھی ہمارا تھا اور ہم دل مسوس کر رہ جاتے !

کپڑوں کے علاوہ چپلیں اور جوتے بھی پاؤں میں فٹ نہ ہونے لگے۔ عام چپلیں اور ہمارے کسی کام کے نہ تھے۔ بڑھتے وزن کو برداشت نہ کر کے جلد داغِ مفارقت دے جاتے تھے۔ جوتے کا سائز وہی تھا لیکن موٹاپے سے پیر جیسے دو منزلہ ہو چکا تھا۔ جوتے میں سماتا نہ تھا۔ دکان دکان ڈھونڈ کر ہم ایسے جوتے اور چپلیں تلاش کرتے جس میں ہمارے دو منزلہ پیر گھس سکیں۔ اس طرح کے ’موٹے جوتے ‘ نہ ملنے پر ہم اپنے لیے اسپیشل جوتے اور چپلیں بنوانے لگے۔

انگوٹھیاں انگلیوں میں پھنسنے لگیں۔ پہلے تو وقتاً فوقتاً انگوٹھیاں بدلتے رہے اور پھر موٹی انگلیوں کے سائز کی انگوٹھیاں نہ ملنے پر انگوٹھیاں پہننا ہی ترک کر دیا۔ موٹے ہاتھ کے لیے تسمہ دستیاب نہ ہوا تو ہاتھ کی گھڑی کو طاقچے میں رکھنا پڑا اور جیبی گھڑی میں اپنا برا وقت دیکھنے لگے۔

موٹاپے سے ہماری جسمانی ہیئت اور شکل میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ چہرے پر بڑی حد تک گالوں نے قبضہ کیا۔ پھیلتے گالوں نے ٹھوڑی کو بے دخل کیا۔ آنکھوں کو اندر دھکیلا اور ناک پر چڑھائی کی۔ ٹھوڑی بے دخل ہو کر گردن پر اتر آئی تو گردن غائب ہوئی اور لگتا تھا کہ سر سیدھے دھڑ پر ٹکا ہوا ہے۔ پیٹ غبارے کی طرح ابھر آیا۔ پیٹ پھول کر اتنا گول گپا ہوا کہ پتلون کمر پر ٹھہرتی ہی نہ تھی۔ پتلون کو شانوں پر باندھنا پڑا۔ غبارہ نما پیٹ کا توازن برقرار رکھنے کے لیے قدرت نے آگے اور پیچھے بھی ابھار پیدا کیے۔

موٹاپے کی خرابی یا خوبی ہے کہ وہ ہمیں لانبا نہیں صرف چوڑا کرتا ہے۔ فربہ ہوئے تو پیروں کے درمیان جگہ غائب ہوئی اور دونوں ہاتھ جسم سے قریب تر ہو گئے۔ ہماری چوڑائی قد کے برابر ہوئی تو ہم گنبد کی طرح دکھائی دینے لگے۔ غرض ہماری شکل ایسی ہوئی کہ کوئی لڑکی ہمیں نظر بھر دیکھنا گوارا نہیں کرتی بلکہ یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ہم کسی کی نظروں میں سما نہ سکتے تھے۔ ہماری بیوی خوش ہوئیں کہ ان کے سر سے سوت کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا۔

ہماری بدلی ہوئی ہیئت ایسی تھی کہ کوئی ہمیں دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔ زیر لب مسکراتا اور کچھ نہ کچھ کہتا ضرور تھا۔ ہمدرد وزن کم کرنے کا مشورہ دیتے تو اغیار مختلف القاب سے نوازتے۔ گوشت کی دکان، کنگ کانگ، جینٹ، سفید ہاتھی، تھیلا، ہاتھی میرے ساتھی، موٹو، پیٹو، غرض جتنے منہ اتنے نام۔ بعض بچے ہمیں دیکھ کر سہم جاتے تو چند بچے تجسس سے ہمیں دیکھتے اور تالیاں بجاتے ہوئے ہمارے پیچھے ہولیتے تھے۔ ہمارا موٹاپا بچوں کو ڈرانے کے کام آنے لگا۔ مائیں اپنے بچوں سے کہتیں۔ ’بیٹا جلد دودھ پی لے ورنہ وہ موٹا جن تجھے کھا جائے گا۔ ‘

کرسی پر بیٹھنا ہمارے لیے مشکل ہونے لگا۔ اول تو کرسی میں سماتے نہ تھے اور اگر کسی طرح سما جاتے تو کرسی ہمیں بانہوں میں جکڑ لیتی۔ ہمیں چھوڑنا ہی نہیں چاہتی۔ کرسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسے توڑنا پڑتا۔ دوچار کرسیوں کا نقصان اٹھا کر ہم نے کرسی پر بیٹھنا ترک کر دیا۔ بنچ استعمال کرنے لگے۔ تین آدمیوں کی بنچ پر یکہ  و تنہا قابض ہوتے۔ پلنگ پر لیٹتے تو پلنگ کے جوڑ جوڑ سے دل خراش آوازیں آنے لگتیں۔ کروٹ بدلتے تو پلنگ جھولنے لگتا۔ مضبوط سے مضبوط پلنگ کی گود بھی جب ہمیں برداشت نہ کر سکی اور پلنگ کے پائے لڑکھڑانے لگے تو ہم سمنٹ کے چبوترے پر آرام کرنے لگے۔ بیٹھتے تو لگتا کوئی چٹان ہے اور لیٹتے تو محسوس ہوتا کوئی زندہ پہاڑ ہے جو محو خواب ہے۔ بچے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لیے ہم پر چڑھائی کرتے !

موٹے ہوئے تو سانس لینے کا انداز بھی بدلا۔ محسوس ہوتا کہ ہم جاگتے میں خراٹے لے رہے ہیں۔ جب سوتے تو خراٹوں کی ایسی آوازیں آتیں جیسے طوفان آیا ہوا ہے۔ ہوا کی سائیں سائیں، ناک کی سنسناہٹ اور حلق کی غر غراہٹ سے وہ خطرناک ماحول پیدا ہوتا کہ دوسرے ڈر کر بھاگ جاتے جن میں ہماری بیوی بھی شامل تھیں۔ ہم تنہا رہنے اور سونے لگے۔

عام سواریوں میں قدرت نے ہمارا داخلہ ممنوع کر دیا۔ ہم یکمشت ان سواریوں میں داخل ہو نہیں سکتے تھے اوراقساط میں داخل ہونا ہمارے لیے جیتے جی ممکن نہ تھا۔ سواری کے لیے ہم ٹرک استعمال کرنے لگے۔ چھوٹے دروازوں کی بات چھوڑیے، بڑے دروازوں میں سے ہم سیدھے جا نہیں سکتے تھے۔ آڑے ہو کر سانس روکے، پیٹ اندر کیے، اور ہاتھوں اور پیروں کو سمیٹ کر اپنے آپ کو دروازے میں سے گزارنا پڑتا۔ اس طرح مخصوص مقامات تک ہی ہماری رسائی تھی اور ہمارا شمار ’بڑے لوگوں ‘ میں ہونے لگا۔

بھاگنا تو عرصہ ہوا چھوٹ چکا تھا۔ سڑک پر کبھی تیز چلتے تو لوگوں کا مجمع لگ جاتا۔ لوگ ہمیں چلتا بلکہ لڑھکتا دیکھ کر محظوظ ہوتے۔ ہم تیز چلتے تو دھم دھم کی آواز کے ساتھ زمین میں ارتعاش پیدا ہوتا اور یوں محسوس ہوتا جیسے فوج پریڈ کر رہی ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب چلنا پھرنا دوبھر ہونے لگا تو ہم لوگوں سے پردہ کرنے لگے۔

ہمارے بڑھتے ہوئے وزن سے دشمن کچھ عرصہ کے لیے خوف زدہ رہے کہ ہم انھیں روند نہ ڈالیں لیکن جلد ہی انھوں نے ہمیں زیر کرنے کے لیے گوریلا لڑائی اختیار کی۔ وہ ہمیں گدگدیاں کرتے اور جب ہم ان کے پیچھے، اپنی دانست میں دوڑتے تو وہ اِدھر اُدھر چکمے دے کر ہمیں تھکا دیتے۔ ہم تھک کر دشمن کو گالیاں بکنے لگتے۔ ہمارے دشمن گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہوتے بلکہ مزید گد گدی کرتے۔ ہم مجبور و لاچار ایک جگہ بیٹھے انھیں کوسنے لگتے۔ ’موٹے آدمی کو ستاتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ خدا تمھیں بھی موٹا کر دے۔ میری طرح، ہاتھی کی طرح!‘

دو گنا سے زیادہ ہمارا وزن دیکھ کر احباب نے مشورہ دیا کہ ہم اپنے نام کو صیغۂ واحد سے صیغۂ جمع میں تبدیل کر لیں۔ یعنی عابد کو ’عابدے ‘ سے بدل لیں اور ’ے ‘ پر زور ہمارے وزن کی طرح بہت زیادہ ہو۔

سرکس میں کام اور فلموں میں رول کے آفر بھی ملے۔ ہم نے ان لوگوں سے کہا۔ ’موٹاپے نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔ اب ہمارا وجود خود ہمیں بھاری لگتا ہے۔ ہم اپنے ہی کام کے نہ رہے، بھلا ہم آپ کے کیا کام آ سکتے ہیں؟‘

جواب ملا۔ ’آپ کو کچھ کرنا نہیں ہے۔ ہم نمائش کے لیے آپ کو عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ خودبخود قہقہے بلند ہوں گے۔ ‘

یہ مت سمجھیے گا کہ موٹے ہونے پر ہماری صحت بہتر ہوئی ہو گی۔ ہمارا جسم جہاں غلہ کا گودام تھا وہیں مختلف امراض کا مسکن بھی بننے لگا۔ کمزور پیروں کی بنیاد پر مضبوط جسمانی عمارت غضب ڈھانے لگی۔ پیروں کا جوڑ جوڑ متاثر ہوا۔ کمر اور گھٹنوں میں دائمی درد رہنے لگا۔ جلد تھک جاتے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہمیشہ تھکے ہوئے ہی رہتے۔ پسینہ میں نہال رہنے لگے۔ سردیوں میں بھی گرمی کا احساس بے چین کر دیتا تھا۔ غیر ضروری سانس پھولنے لگی۔ شکر کا مرض دستک دینے لگا۔ گردوں اور پتہ میں پتھر پڑنے لگے۔ بلڈ پریشر میں اضافہ ہوا۔ مختلف شکایات لیے ڈاکٹر سے رجوع ہوئے تو ارشاد ہوا۔ ’آپ کا اصل مرض موٹاپا ہے۔ اپنا وزن کم کیجیے۔ ‘

ہم نے وزن گھٹانے کے لیے دوا مانگی تو جواب ملا۔ ’موٹاپے کا علاج کم کھانا اور ورزش کرنا ہے۔ ‘

ہم نے استفسار کیا۔ ’کیا کھائیں؟‘

ڈاکٹر نے جواب دیا۔ ’انسانوں کی غذا اور انسانوں کی خوراک!‘ اور پھر ڈاکٹر نے وزن کم کرنے کے لیے کم کھانے اور ورزش کے مختلف طریقے بتا کرتا کید کی۔ ’دوڑ لگانا بہت اچھی ورزش ہے۔ آپ آج ہی سے دوڑنا شروع کر دیجیے۔ ‘

یہ عام بات ہر کوئی جانتا ہے کہ جب وزن بڑھنے لگے تو بھاگنا چاہیے۔ غذا سے دور۔ غذا قریب آتے ہی دوڑ لگانی چاہیے۔ اگر دوڑ نہ سکیں تو چہل قدمی ضرور کرنی چاہیے۔ ورزش کے لیے صبح کا وقت بہتر ہوتا ہے۔ اعتراض کرنے اور ہنسنے والے سوتے رہتے ہیں۔ ہم دوڑ لگانے کا مخصوص لباس اور جوتے خرید لائے۔ احباب کا مشورہ تھا کہ مخصوص ’بھگوڑے کپڑوں اور جوتوں ‘ میں بھاگنا آسان رہتا ہے۔ ہم نے صبح اٹھ کر بھاگنے کی نیت کی۔ چار بجے کا الارم رکھا اور سوگئے۔

صبح ہم سے اٹھا نہ گیا۔ صبح نیند سے جلد بیدار ہونا خود ایک قسم کی ورزش ہے۔ ہم نے گھڑی کو قصوروار ٹھہرایا۔ گھڑی خراب ہے، ہمیں وقت پر نہیں جگاتی۔ ہم نے گھڑی بدلی۔ دوسری اور تیسری گھڑی بھی ہمیں صبح جگانے میں ناکام رہی تو ہم نے شام میں دوڑنے کا قصد کیا۔ دوڑنے کے لیے پارک میں جگہ نہ تھی۔ مختلف لوگ بسیرا کئے ہوئے تھے۔ سڑک پر ٹریفک کا ازدحام تھا۔ گلیوں میں بھاگنا چاہا تو بچے پتھر اٹھائے ہمارے پیچھے دوڑنے لگے۔ شام میں دوڑ لگانے میں ناکام ہونے پر ہم نے پھر صبح میں دوڑنے کا فیصلہ کیا۔

گھر والوں کی متفقہ کوششوں سے ہم صبح نیند سے جلد بیدار ہوئے۔ مخصوص جوتے اور کپڑے پہن کر سڑک پر چلنے لگے۔ کبھی کبھار دو چار قدم دوڑ بھی لیتے۔ دوسرے موٹے لوگ بھی نظر آئے جنھیں دیکھ کر محسوس ہوا کہ لوگ خاصی تعداد میں موٹے ہو رہے ہیں اور فربہ ہونا بہت آسان ہے۔ دو ایک سینئر نے رنگروٹ کو دیکھ کر ’ہری اَپ‘ اور ’کیپ اَپ‘ کے نعرے لگا کر ہماری ہمت افزائی کی۔ سڑک کے کتوں نے بھی ہمیں دیکھا اور انھیں ایک نئے شخص کا دوڑنا پسند نہ آیا۔ ان میں بعض بھونکنے لگے تو کچھ غرانے لگے۔ ایک خرانٹ کتے سے رہا نہ گیا، وہ ہمارے ساتھ ہولیا۔ ہم نے ڈر کر رفتار بڑھائی۔ کتے کو ناگوار گزرا کہ نیا رنگروٹ مقابلہ کرتا ہے۔ اس نے ہماری ٹانگ اپنے کئی دانتوں میں پکڑ لی۔

کتے کے کاٹنے کے بعد ہمیں پیٹ میں چودہ انجکشن لگوانے پڑے۔ اس کے بعد سے ہمارا یہ حال ہوا کہ کتے کے ڈر سے قدم دوڑنے کے لیے اٹھتے ہی نہیں تھے۔ ہمت کر کے قدم بڑھاتے بھی تو کانوں میں کتے کی بھونکنے کی آوازیں آنے لگتیں۔ باہر دوڑنے میں ناکام ہونے کے بعد ہم نے گھر پر ورزش کرنے کا پروگرام بنایا اور ورزش کرنے کے لیے ساز و سامان اٹھا لائے۔ ورزش کے دوران دل لگا رکھنے کے لیے ساز اور ورزش کا سامان۔

ٹیپ ریکارڈ پر موسیقی بجائی اور ورزش شروع کی۔ موسیقی سے محظوظ ہوتے ہوئے خیال آیا کہ کیوں نہ موسیقی کی لَے پر ناچیں۔ بریک یا ڈسکو ڈانس خوب رنگ جماتا ہے۔ ورزش کے ساتھ تفریح ہو جائے گی اور ایک فن میں مہارت حاصل کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ جدید ناچ فن سے زیادہ ورزش ہی تو ہے۔ جدید ناچ ناچنے کے لیے کم سے کم دو پارٹنر درکار ہوتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ ہم نے بیوی کو اپنے ساتھ بریک ڈانس کرنے کی دعوت دی۔ انھوں نے ہماری خواہش کو ٹھکرا دیا۔ ہمیں طیش آیا اور ہم انگریزی دھن پر خود ہی تھرکنے لگے۔ انگریز ہو یا انگریزی موسیقی، دونوں ہمیں خوب نچاتے ہیں۔

پتا نہیں اکیلے ناچنے کے جوش میں ہمارے قدم سیدھے پڑے یا الٹے، پیر کا ایک پٹھا دوسرے پر چڑھ گیا۔ دایاں پاؤں بائیں سے دو انچ چھوٹا ہو گیا۔ تکلیف سے کراہتے ہوئے ہم ڈاکٹر کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر نے وجہ دریافت کی۔ ’ایسا کیوں کر ہوا؟‘

ہم نے ڈاکٹر کو بتایا۔ ’ ہم باؤلر ہیں اور نہ ہی ڈسکو ڈانسر، اکسس بیاگیج (excess baggage) سے پریشان ہیں اور وزن کم کرنے کے لیے آپ جیسے ایک ڈاکٹر کے مشورے پر بریک ڈانس کر رہے تھے۔ ‘

’یہ تو ٹھیک ہے، لیکن بریک ڈانس نے آپ کے پٹھوں کو بریک کر دیا ہے۔ ‘ڈاکٹر نے معائنہ کر کے تشخیص کی۔

دواؤں، دعاؤں اور شعاعوں کی مدد سے چڑھا ہوا پٹھا اپنی جگہ واپس آیا۔

ڈانس نما ورزش سے مایوس ہو کر ہم نے دیسی ریاضت کے لیے دنگل کا رخ کیا۔ استاد پہلوان کی شاگردی قبول کی۔ بیوی سے اجازت چاہی اور لنگوٹ باندھا۔ ابتدائی چند دن دنگل کی تیاری میں نکل گئے۔ ’ پہلوان شاگرد‘ مٹی چھان کر، چھنی ہوئی مٹی میں گڑ اور تیل ملا کر ’پہلوانی مرکب‘ کو دنگل کے فرش پر بچھاتے رہے۔ دنگل تیار کرنے کے بعد استاد پہلوان کے شاگرد آپس میں ایک دوسرے کے جسم کو تیل پلا کر تیار کرنے لگے۔ ہمارے جسم کو بھی تیل پلایا گیا۔ موٹے تو تھے ہی اب چکنے ہونے کے ساتھ چمکنے بھی لگے۔

چکنے اور چمکنے کے بعد باضابطہ ورزش ہونے لگی اور کشتی کے گر بتائے جانے لگے۔ دورانِ تربیت استاد پہلوان نے ہاتھ بڑھایا۔ ہم نے خوشی خوشی اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا۔ پہلوان استاد نے دوسروں پر بھروسا نہ کرنے کا سبق دینے کے لیے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دھوبی پچھاڑ ماری۔ ہم فرش پر چاروں خانے چت گر پڑے۔ نتیجہ میں پیر کی ہڈی ٹوٹی اور اترا ہوا پٹھا پھر چڑھ بیٹھا۔ کئی دن صاحب فراش رہے۔ ہوا میں ٹانگ لٹکتی رہی۔ استاد پہلوان عیادت کو آتے اور جاتے وقت اس طرح پیٹھ تھپتھپاتے جیسے پیٹھ پھوڑنے کا قصد کر رہے ہوں۔ ہم نے ہسپتال کے بستر پر بارہا قسم کھائی کہ اب کبھی دنگل کا رخ نہیں کریں گے۔ چنانچہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے لنگوٹ کھول دی۔

ہمارے موٹاپے سے بیوی کچھ حد تک مطمئن اور خوش رہیں۔ احباب تعریف کرتے تھے کہ بیوی کے ہاتھ کا کھا کر اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے ہماری صحت بہتر بلکہ بہت زیادہ بہتر ہوئی ہے اور ہنوز یہ عمل جاری و ساری ہے۔ دبلے، مریل، نحیف اور ناتواں شوہروں کی بیویاں ہماری بیوی سے مشورہ کرنے کے لیے رجوع ہوتیں کہ کیسے ’ان کی‘ صحت بہتر بنائی جائے۔ ہماری بیوی انھیں پکوان کے طریقے بتا کر اپنے آپ کو ترم خانم سمجھنے لگیں۔ اپنے نام کا دستر خوان لکھنے کا ارادہ کیا۔ سرورق پر ہماری تصویر دینا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے ہمارے آگے دستر خوان چن کر تصویر بھی اتاری گئی لیکن صد افسوس کہ ہماری تصویر سرورق میں سما نہ سکی۔

لوگ ہمیں پہاڑ اور گلہری خانم کہہ کر ابن صفی کے ناولوں کے کردار کی یاد تازہ کرنے لگے۔ لوگ ہمیں پہاڑ کہیں، بیوی کو گوارا تھا لیکن جب انھیں گلہری کہا جانے لگا تو انھیں بھی ہمارے موٹاپے سے تشویش ہونے لگی۔ انھوں نے سنجیدگی سے ہمیں دبلا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ہمیں ناپ تول کر کھلانے پلانے لگیں۔ ناشتہ میں ایک سوکھا توس اور پھیکی چائے۔ دوپہر میں دو چمچے بھر چاول اور ایک چمچہ دال اور رات میں ایک سلائس بریڈ کے ساتھ وٹامن کی گولی!

ہمارا وزن پھر بھی کم نہ ہوا۔ بیوی نے ہم سے دشمنی شروع کی اور سخت سے سخت پرہیز کروانے لگیں۔ صبح سے شام تک ترکاری کے نام پر ہمیں صرف گھاس پھوس کھلانے اور خود مرغن غذائیں اڑانے لگیں۔ گھاس پھوس کھا کر بھی ہم موٹے ہونے لگے جبکہ ہمارے حصّہ کی مرغن غذائیں استعمال کرنے کے باوجود ہماری بیوی کا وزن گھٹنے لگا۔

ہماری بیوی کی ایک سہیلی نے مشورہ دیا کہ ہمیں بھوکا رکھ کر ورزش کرائی جائے اور ڈیڑھ گھنٹے کی ورزش کے بعد لیٹر بھر پانی کے ساتھ وزن کم کرنے کی گولی دیں۔ دو دن ہم بھوکے رہے اور ورزش کے نام پر بیوی کے اطراف چکر لگاتے رہے۔ تیسرے دن ورزش کے دوران ہمیں چکر آنے لگی۔ ہم نے ورزش بند کرنا چاہی لیکن ہماری بیوی ’چل چل رے نوجوان۔ ۔ ۔ ‘ گاتے ہوئے ہماری ہمت بندھانے لگیں۔ ناگاہ ہماری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ گئے اور ہم دھڑام سے کھڑے قد گر پڑے۔

نیم بے ہوشی سے حواس بجا ہوئے تو دیکھا بیوی ہمارے نیچے بے ہوش پڑی تھیں۔ ان کی دو ایک ہڈیاں بھی ٹوٹیں۔ ہماری ورزش اور بھوکا رہنا ختم ہوا اور بیوی کی تیمار داری شروع ہوئی۔ اب ہمیں کوئی روکنے والا نہ تھا۔ ہم نے میوے اور صحت بخش غذائیں بیوی کو کم کھلائیں اور خود زیادہ کھائیں۔ ہمارے موٹے ہونے کی رفتار کچھ تیز ہو گئی۔

بیوی کی صحت بہتر ہونے کے بعد وہ ہم سے دور دور ہی رہنے لگیں۔ ہمیں کھانے کے لیے بھی ٹوکتی نہ تھیں۔ ہم سے چار گز دور احتیاط سے کھڑے ہو کر وزن کم کرنے کا مشورہ دیتیں۔ بیوی کے رویہ نے ہمیں سنجیدگی سے وزن کم کرنے کے تعلق سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس مرتبہ ہم نے ماہرین کی نگرانی میں اپنا علاج شروع کیا۔ انہوں نے جتنا اور جب کھانے کو کہا، ہم نے اتنا ہی نوش جاں کیا۔ اکثر اوقات صرف ہوا کھائی۔ کبھی گرم تو کبھی ٹھنڈی۔ سخت پرہیز اور احتیاط کے باوجود ہمارا وزن بڑھتا رہا۔ ماہرین کو ہماری بات پر یقین نہ آیا۔ وہ اپنے آپ سے سوال کرتے کہ کیا یہ شخص غبارہ ہے جو صرف ہوا کھا کر پھول رہا ہے؟

ماہرین نے بیوی کو ہماری جاسوسی پر مامور کیا۔ انھوں نے ہماری بیوی کو ہدایت دی کہ وہ ہم پر کڑی نظر رکھیں اور ہر وہ چیز لکھ کر بتائیں جو منہ اور ناک کے ذریعہ ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ بیوی کی خفیہ رپورٹ دیکھ کر ماہرین نے ہمارے جبڑوں کو مضبوط تار سے بند کیا۔ بات کرنے اور پانی اور سیال غذا پینے کے لیے منہ کھلتا تھا۔ اس عمل سے بھی فائدہ نہ ہوا۔ ایسے محسوس ہونے لگا جیسے ہمارے جسم میں اب غذا کی جگہ پانی بھرنے لگا ہے۔

وزن کم کرنے کی تمام کوششوں کے ناکام ہونے پر ماہرین نے ہمارے جسم سے معدے کو نکال باہر کرنا چاہا۔ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ ماہرین کا مشورہ سن کر ہمیں آپریشن کا خوف ہونے لگا۔ وزن کم کرنے کی آس میں ہم نے اتنا جو کیا وہ کیا کم تھا جو اب معدے کی قربانی دیں؟ معدے کے بعد آنتیں باقی رہتی ہیں اور آنتیں قل ہو اللہ پڑھنا جانتی ہیں۔ اگر وہ معدے کا زائد کام سنبھال لیں گی تو پھر ماہرین کیا کریں گے؟

تنگ آ کر ہم نے موٹاپا کم کرنے کی تمام کوششوں کو خیرباد کہا اور اپنے آپ کو موٹاپے کے حوالے کر دیا ہے۔ ہمارا وزن اب بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک دن آئے گا جب ہمارا نام گنیس بک آف ریکارڈز میں سب سے موٹے شخص کے طور پر شامل ہو گا۔ اس دن آپ چونکیے گا نہیں، ہمیں مبارک باد دیجیے گا!

٭ ٭ ٭

سہ ماہی اردو پنچ، لاہور، جولائی/ا گسٹ1991ء

 

 

 

 

ترکِ سگریٹ نوشی

 

ایک گھنٹہ کی اخبار بینی کے دوران جب میں نے پانچواں سگریٹ جلایا تو بیوی سے رہا نہ گیا۔ انھوں نے پوچھا۔ ’آپ بڑی رغبت سے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، آپ کو سگریٹ نوشی کے فائدے تو معلوم ہی ہوں گے !‘

مجھے یقین ہو چلا کہ اب سگریٹ نوشی ترک کرنے کی مہم کا آغاز ہو گا اور مجھے ڈیڑھ گھنٹے کا طویل لیکچر سننا پڑے گا۔ تمباکو نوشی کے لیے اتنا تو سہنا پڑے گا۔ اس خیال سے میں نے جواب دیا۔ ’نہیں، آپ بتائیے۔ میری معلومات میں اضافہ ہو گا۔ میں سن رہا ہوں۔ ‘

’سگریٹ پینے والے کے گھر چوری نہیں ہوتی۔ بیوی نے پہلا فائدہ بتایا۔

’کیوں؟‘میں نے سوال کیا۔

’سگریٹ پینے والا اپنی کمائی کا ایک ضخیم حصّہ دھوئیں میں پھونک دیتا ہے۔ اس کے یہاں چوری کرنے کے لائق کوئی قیمتی شے نہیں رہتی اور دوسرے یہ کہ سگریٹ پینے والا کھانستے ہوئے رات بھر جاگتا رہتا ہے۔ چور کی شامت آئی ہے جو اس کے یہاں پکڑے جانے کے لیے چوری کرے گا۔ ‘بیوی نے وضاحت کی۔

میں خموشی سے سنتارہا تو بیوی نے سگریٹ نوشی کا دوسرا فائدہ بتایا۔ ’سگریٹ پینے والے کو کتا نہیں کاٹتا۔ صرف بھونک کر رہ جاتا ہے۔ ‘

میں سوالیہ نظروں سے بیوی کو دیکھتا رہا۔ چند لمحوں بعد انھوں نے وجہ بتائی۔ ’صحت خراب رہنے کے سبب سگریٹ پینے والے کو لکڑی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں لکڑی دیکھ کر کتا ڈر کر کاٹتا نہیں، صرف بھونک کر رہ جاتا ہے۔ ‘

میں نے برا مانتے ہوئے سگریٹ کا کش لے کر کہا۔ ’سیدھی طرح کیوں نہیں کہتیں کہ سگریٹ پینا چھوڑ دو۔ ‘

’کتنی مرتبہ کہا ہے۔ ہر بار آپ میری بات کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔ ‘

’تو پھر مت کہا کرو۔ ‘ میں نے مشورہ دیا۔

’آپ خواہ مخواہ ناراض ہونے لگے۔ ‘ بیوی مجھے منانے لگیں۔ ’سگریٹ نوشی کا سب سے اہم فائدہ تو میں نے بتایا ہی نہیں۔ ‘

’چلیے یہ احسان بھی کر دیجیے۔ ‘میں نے طنز کیا۔

’سگریٹ پینے والا بوڑھا نہیں ہوتا۔ ‘بیوی نے سگریٹ نوشی کا سب سے اہم فائدہ بتایا۔

’یہ کیوں کر ممکن ہے؟‘میں نے حیرت سے پوچھا۔

بیوی نے جواب دیا۔ ’اس لیے کہ وہ بوڑھا ہونے سے پہلے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر جوانی ہی میں چل بستا ہے۔ ‘

بیوی اخبار میں کینسر سوسائٹی کی جانب سے چھپا اشتہار دکھانے لگیں۔ اعداد و شمار دے کر بتایا گیا تھا کہ سب سے زیادہ ہونے والے کینسر کی اہم وجہ سگریٹ نوشی ہے اور کینسر سے ہونے والی اموات دوسرے نمبر پر ہیں۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے بیوی کبھی مجھے اور کبھی اشتہار کو دیکھتی رہیں۔ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ اس خواہش کا اظہار کر رہی ہیں کہ میں جلد بیوہ ہونا نہیں چاہتی، تا قیامت سہاگن رہنا چاہتی ہوں !

مجھے آتا ہوا غصّہ کافور ہوا۔ میں بیوی کو سمجھانے کے لیے سگریٹ نوشی کا جواز پیش کرنے لگا۔ ’انسان فرشتہ نہیں ہے کہ وہ صرف خوبیوں کا مالک ہو۔ انسان میں کچھ برائیاں بھی ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ‘

بیوی نے بات کاٹی۔ ’اور آپ میں یہ برائی ہے کہ صرف سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ ‘

بیوی کی بات کو اٹھاتے ہوئے میں کہنے لگا۔ ’دوسروں کو دیکھیے۔ کیسی کیسی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ ‘ اپنے گال پیٹ کر توبہ توبہ کا ورد کرتے ہوئے میں لوگوں کی مختلف برائیاں گنانے لگا۔ ’لوگ جوا کھیلتے ہیں۔ رات رات بھر گھر سے غائب رہتے ہیں۔ ریس کورس جاتے ہیں۔ اپنی کمائی پونجی گھوڑوں پر لٹاتے ہیں۔ کرکٹ اور فٹ بال پر سٹہ کھیلتے ہیں۔ مقروض ہو جاتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں۔ اپنا ہوش نہیں رہتا۔ مدہوش ہو کر کسی گندے نالے میں پڑے رہتے ہیں۔ اور تو اور ناچ دیکھتے، گانا سنتے اور اِدھر اُدھر۔ ۔ ۔ ‘

بیوی نے مجھے آگے بولنے سے روک دیا۔ ’آپ کے سوچنے کی حد بھی یہیں تک ہے۔ اس سے آگے مت بڑھیے گا۔ ‘

’میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے ایسی ویسی کوئی لت نہیں ہے۔ صرف سگریٹ نوشی کرتا ہوں۔ آپ بھی شکر اور فخر کیجیے کہ آپ کا شوہر ایک شریف اور نیک انسان ہے۔ ‘میں نے بیوی کے سمجھانے کی کوشش کی۔

بیوی زچ ہوتے ہوئے بولیں۔ ’آپ اتنے برے بھی کیوں ہیں۔ آخر آپ سگریٹ کیوں پیتے ہیں؟‘

میں مجبوراً سوچنے لگا کہ میں سگریٹ کیوں پیتا ہوں۔ خوشی میں پیتا ہوں یا غم سے گھبرا کر سگریٹ پیتا ہوں۔ سرور کے لیے پیتا ہوں یا دماغ کی کھڑکیوں کو کھولنے کے لیے سگریٹ کے کش لیتا ہوں۔ وقت کاٹنے کے لیے پیتا ہوں کہ تنہائی سے گھبرا کر سگریٹ سلگاتا ہوں۔ دیر تک سوچتے رہنے پر بھی کوئی وجہ سمجھ میں نہ آئی کہ میں سگریٹ کیوں پیتا ہوں۔ بس ایک خواہش ہوتی ہے، ایک کسک سی اٹھتی ہے۔ دل چاہتا ہے تو ہاتھ سگریٹ کی جانب بڑھ جاتا ہے اور میں سگریٹ پینے لگتا ہوں۔ جب کوئی معقول وجہ دریافت نہ کر سکا تو میں نے جواب دیا۔ ’بس، سگریٹ کی عادت پڑ گئی ہے۔ ‘

’سگریٹ کی عادت پڑی کیسے؟‘ بیوی نے سوال کیا۔

میں نے سگریٹ کا کش لے کر بتایا۔ ’ایسے۔ ۔ ۔ پہلے کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اور پھر ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتے پیتے عادت پڑ گئی۔ ‘

’آپ نے پہلا سگریٹ کب پیا تھا؟‘ بیوی باضابطہ تفتیش کرنے لگیں۔

’ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا۔ شاید بچپن میں۔ چودہ پندرہ سال کی عمر کو بچپن ہی کہنا چاہیے۔ اس وقت فلم دیکھنا، ہوٹل جانا اور سگریٹ پینا بڑا ہونے اور آزادی کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ جلد بڑے ہونے کے شوق میں ہم دو چار دوستوں نے ایک سگریٹ پی کر تمباکو نوشی کی ابتدا کی تھی۔ شروع میں چوری چوری سگریٹ پیا کرتا تھا۔ جب میرا بڑا ہونا تسلیم کر لیا گیا تو میں اپنے سے چھوٹوں کے سامنے سگریٹ پینے لگا۔ ۔ ۔ ‘

’اور اب تو آپ کو بارہ خون معاف ہیں۔ ‘ بیوی نے درمیان میں روک کر کہا۔ ’گھر میں دندناتے دھواں چھوڑتے یوں پھرتے ہیں جیسے آپ نہیں کوئی اسٹیم انجن ہے۔ ویسے دن میں آپ کتنے سگریٹ پیتے ہیں؟‘

بیوی کے سوالوں سے تنگ آ کر میں نے کہا۔ ’آپ پولس والوں کی طرح یوں تفتیش کر رہی ہیں جیسے میں کوئی مجرم ہوں اور مجھ سے کوئی بہت بڑا جرم سرزد ہوا ہے۔ میں صرف سگریٹ ہی تو پیتا ہوں۔ ‘

’آپ کے صرف سگریٹ پینے سے ہر مہینے تین سو روپے برباد ہوتے ہیں۔ دائمی نزلہ اور کھانسی کے سبب ڈاکٹر حضرات الگ فائدے میں ہیں۔ سگریٹ نوشی سے آپ کی صحت جو خراب ہوئی ہو گی، ہمیں ابھی اس کا اندازہ نہیں ہے۔ گھر کی فضا خراب ہے۔ کپڑوں میں تمباکو کی بو ہے۔ بچوں کے لیے غلط مثال قائم ہو رہی ہے۔ ‘ اور پھر بیوی نے منصف بن کر فیصلہ سنایا۔ ’آپ کو سگریٹ نوشی ترک کرنی ہو گی۔ ‘

میں خود بھی سگریٹ چھوڑنا چاہتا ہوں۔ کئی مرتبہ کوشش کی لیکن کبھی بھی تین چار گھنٹوں سے زیادہ سگریٹ نوشی ترک کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے بیوی کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا۔ ’اس پیکٹ کے ختم ہونے کے ساتھ میری سگریٹ نوشی بھی بند۔ ‘

بیوی نے میرے ہاتھ سے جلتا ہوا سگریٹ چھین کر بجھاتے ہوئے کہا۔ ’ابھی اور اسی وقت سے آپ کی سگریٹ نوشی ختم۔ ‘

شام سے رات تک بیوی میری ٹوہ میں رہیں۔ مجھے باتوں میں لبھائے رکھا۔ کئی مرتبہ سگریٹ کی طلب ہوئی لیکن بیوی نے سگریٹ پینے نہ دیا۔ رات میں بھی بیوی نے پہرہ دے کر مجھے سگریٹ سے محروم رکھا۔ شام اور رات بالکل سوکھی یعنی بغیر سگریٹ پیے گزری۔ صبح ہوئی تو تمباکو کی طلب مختلف طریقوں سے پریشان کرنے لگی۔ کسی صورت حاجت سے فارغ نہ ہونے دیتی تھی۔ بیوی کو سمجھایا کہ پرانی عادت ہے آہستہ آہستہ چھوٹے گی۔ منت سماجت کے بعد ایک سگریٹ کی اجازت ملی۔ سگریٹ کا پہلا کش لیا تو جیسے مشکل کا حل نکل آیا اور میں تیار ہو کر دفتر چلا آیا۔

دفتر پہنچ کر اطمینان کا سانس اور سگریٹ کا کش لیا۔ بیوی سے کیے ہوئے وعدے کو گھر پر ہی چھوڑا۔ شام تک دفتر میں معمول سے زیادہ سگریٹ پیے کہ گھر واپس ہونے کے بعد سگریٹ نوشی پر پابندی ہے۔ شام گھر پہنچا تو بیوی نے سلام دعا سے پہلے سوال کیا۔ ’دفتر اور راستے میں آپ نے کتنے سگریٹ پیے ہیں؟‘

معصوم بن کر میں نے جھوٹ بولا۔ ’ایک بھی نہیں !‘

میرے جواب کا یقین نہ کرتے ہوئے بیوی نے میری تلاشی لی اور ایک جیب سے سگریٹ کی ڈبی برآمد کر کے میری جانب قہر آلود نگاہوں سے دیکھا۔

’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ سگریٹ نوشی کی عادت آپ سے بھی پرانی ہے، مشکل سے چھوٹے گی۔ دفتر میں بغیر سگریٹ پیے کام سوجھتا نہ تھا۔ صرف دو سگریٹ پیے ہیں۔ ‘ میں نے صفائی پیش کی۔

’ڈبیا میں دو سگریٹ باقی ہیں۔ یعنی آپ نے اٹھارہ سگریٹ پھونکے ہیں۔ آخر کیوں آپ اپنی اور ہماری صحت کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ‘

’ہماری صحت !‘ میں نے حیرت سے دریافت کیا۔ ’میرے سگریٹ پینے سے بھلا آپ کی صحت کیسے متاثر ہوتی ہے؟‘

’سکنڈ ہینڈ اسموکنگ یعنی آپ کا چھوڑا ہوا دھواں دوسروں کی صحت بھی خراب کرتا ہے۔ آپ کے سگریٹ کا دھواں اچھی اور صاف ہوا کو آلودہ کرتا ہے اور ہم آپ کے ساتھ رہنے کی سزا خراب ہوا میں سانس لے کر بھگتتے ہیں۔ میرے خیال میں منے کی ناک جو بار بار بند ہوتی ہے وہ آپ کی تمباکو نوشی کی وجہ سے ہے۔ اگر میں یورپ یا امریکہ میں ہوتی تو آپ سے ہرجانہ وصول کرتی۔ ‘ پھر بیوی نے فرسٹ اور سکنڈ ہینڈ اسموکنگ کے اثرات پر روشنی ڈالنے کے بعد التجا کی۔ ’ہماری خاطر آپ سگریٹ نوشی سے پرہیز کیجیے۔ پلیز۔ ‘

میں نے پھر سگریٹ نوشی ترک کرنے کا وعدہ کیا۔ شام اور رات بغیر سگریٹ پیے گزاری۔ نیند نہ آتی تھی۔ ٹی وی دیکھنے، اخبار پڑھنے اور پہلو بدل بدل کر بستر پر لوٹنے کے بعد مشکل سے نیند آئی۔ صبح آنکھ جلد کھلی اور آنکھ کھلتے ہی سگریٹ کی طلب شدت سے ستانے لگی۔ مجبوری کا رونا رونے کے بعد صرف ایک سگریٹ پینے کی اجازت کیا ملی، جیسے بند تالے کی چابی مل گئی۔ تیار ہو کر وقت سے پہلے دفتر روانہ ہوا۔

دفتر پہنچتے ہی میں نے سگریٹ نوشی یوں شروع کی جیسے دفتر میں میرا یہی کام ہے۔ مجھے سگریٹ سے سگریٹ سلگاتا دیکھ کر ساتھیوں نے وجہ دریافت کی۔ ’سگریٹ بہت زیادہ پی رہے ہو۔ کیا پریشانی ہے؟‘

’بیوی۔ ‘ مختصر جواب دے کر میں سگریٹ پینے میں مشغول ہو گیا۔

’وہ تو شادی سے ہے، اب کیا ہوا؟‘ میرے ایک ساتھی نے وضاحت چاہی۔

’بیوی سگریٹ نوشی ترک کرنے پر اصرار کر رہی ہیں۔ گھر پر سگریٹ پینا منع ہے۔ اس لیے تمباکو نوشی کا کوٹا دفتر میں پورا کر رہا ہوں۔ ‘ میں نے جواب دیا۔

’تم تمباکو نوشی ترک کیوں نہیں کر دیتے !‘ ایک سگریٹ نہ پینے والے ساتھی نے مشورہ دیا۔

’یہ کام تمھارے لیے آسان ہے لیکن ہمارے لیے بہت مشکل!‘ میری طرح سگریٹ کے عادی ایک دوسرے ساتھی نے جواب دیا۔

’سگریٹ نوشی ترک کرنا ناممکن تو نہیں، مشکل ضرور ہے۔ ‘ میں نے اپنے خیال کا اظہار کر کے ایک ساتھی سے پوچھا۔ ’تمھاری بیوی بھی ایک وقت سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے تمہارے سر ہو گئیں تھیں، تم نے کیا کیا؟‘

’میں نے انھیں بھی سگریٹ نوشی کا عادی بنا دیا۔ اب ہم دونوں سگریٹ پیتے ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ تم بھی کوشش کرو۔ ‘ ساتھی نے جواب دینے کے ساتھ مشورہ بھی دیا۔

’عورت کا سگریٹ پینا نسوانیت کے خلاف اور عجیب سا لگتا ہے۔ ‘ میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

’عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب عورتیں آزادیِ نسواں کا نعرہ بلند کر کے مردوں سے زیادہ سگریٹ نوشی کر رہی ہیں۔ ‘ میرے ساتھی نے دلیل پیش کی۔

’لیکن میں نہیں چاہتا کہ بیوی میری برابری کرے۔ میں اکیلا ہی سگریٹ پینا چاہتا ہوں۔ ‘ میں جواب دے کر خاموشی سے سگریٹ کے کش لینے لگا۔

دفتر میں خوب سگریٹ پینے کے بعد میں مجرم بنا ڈرتے ڈرتے گھر پہنچا تو گھر بدلا ہوا نظر آیا۔ مختلف مقامات سے ایش ٹرے غائب تھیں اور ان کی جگہ خوبصورت گل دان رکھے ہوئے تھے۔ ہر شے قرینے سے لگی تھی۔ سگریٹ کا کچرا ڈالنے اور راکھ جھاڑنے کے لیے کوئی مناسب جگہ نظر نہ آتی تھی۔ میز اور دیواروں پر کیلنڈر اور تصویریں رکھی یا ٹنگی ہوئی تھیں جن پر تمباکو نوشی کے خلاف فقرے درج تھے۔

بیوی نے مجھے دور ہی سے سونگھ کر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔ ’محسوس ہوتا ہے آج دفتر میں آپ نے کام نہیں کیا۔ صرف سگریٹ پھونکتے رہے ہیں۔ جایئے، نہا دھوکر اور معطر ہو کر آیئے۔ آپ کی سگریٹ نوشی ترک کرنے سے اس مہینہ جو رقم بچنے والی ہے، اس سے میں نے آپ کے دوستوں کے لیے پارٹی کا اہتمام کیا ہے۔ ‘

اس اچانک پارٹی کے اہتمام سے خوشی بھی ہوئی اور غصّہ بھی آیا۔ غصّہ ضبط کرتے ہوئے میں پارٹی میں شریک ہوا۔ بیوی نے اعلان کیا کہ ان کے سرتاج کی ترکِ سگریٹ نوشی کی خوشی میں پارٹی منعقد ہو رہی ہے۔ انھوں نے شرکا سے میرے ثابت قدم رہنے کے لیے دعا کی درخواست کی۔

احباب نے استفہامیہ نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ میں نے گردن جھکائی تو احباب نے تالیاں بجا کر میری ترکِ سگریٹ نوشی کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔ پر تکلف عشائیہ کے بعد یار دوستوں نے سگریٹ پیا کہ مجھ پر عائد کردہ پابندی سے وہ مستثنیٰ تھے۔ میں حسرت سے انھیں تمباکو نوشی کرتے دیکھتا رہا اور ان کے چھوڑے ہوئے دھوئیں کو پیتا رہا۔

پارٹی ختم ہونے کے بعد میں نے اپنا غصّہ اتارا۔ ’پرانی عادت ہے مشکل سے ختم ہو گی۔ میں نے سگریٹ نوشی ترک کرنے کا آپ سے وعدہ کیا ہے اور سنجیدگی سے کوشش بھی کر رہا ہوں۔ آہستہ آہستہ عادت چھوٹ جائے گی۔ یہ تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘

’عادتیں آہستہ آہستہ نہیں چھوٹتیں بلکہ عادتیں آہستہ آہستہ پڑتی ہیں۔ آپ کو سگریٹ نوشی ترک کرنے کا فیصلہ اور عمل یکدم سے کرنا ہو گا، جس کا اعلان آج پارٹی میں ہو چکا ہے۔ ‘

’میں یکلخت سگریٹ نہیں چھوڑسکتا۔ ‘

’آپ کو سگریٹ چھوڑنا ہی پڑے گا۔ میں دیکھوں گی کہ آپ سگریٹ کیسے نہیں چھوڑتے۔ ‘

’دیکھیے آپ میرے ذاتی معاملات میں دخل دے رہی ہیں۔ ‘

ہمارے درمیان بحث چھڑ گئی۔ میری آواز کرخت اور اونچی ہوئی تو بیوی کے آنسو نکل پڑے اور بیوی کے آنسو میرا غصّہ بہا لے گئے۔ بیوی بھی یکلخت سگریٹ نوشی ترک کرنے کے مطالبہ سے دستبردار ہوئیں۔ ہم نے بتدریج تمباکو نوشی ترک کرنے کا پروگرام بنایا۔ طے پایا کہ میں سگریٹ کی ڈبیا نہیں خریدوں گا۔ ایک ایک سگریٹ خرید کر اپنی عادت کی تسکین کروں گا۔ میں کسی سے سگریٹ مانگ کر نہیں پیوں گا۔ ابتدا میں چوبیس گھنٹوں کے لیے چھ سگریٹ کا کوٹہ مقرر ہوا۔ دو مہینوں بعد اس میں دو سگریٹوں کی کمی ہو گی۔ مقررہ سگریٹوں کے دام کے علاوہ پیسے نہیں ملیں گے۔ گھر پر کسی صورت سگریٹ نوشی نہیں ہو گی۔ میں اپنے ساتھ دیاسلائی یا لائٹر نہیں رکھوں گا۔ ہر دن صبح میں سگریٹ نوشی کے مضر اثرات پر ایک مضمون کا مطالعہ کروں گا اور شام میں بیوی کے سامنے سگریٹ نوشی ترک کرنے کے وعدہ کا اعادہ کروں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔

سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے وضع کیے گئے قوانین پر عمل ہونے لگا۔ میں صبح بیدار ہونے کے بعد اپنی طلب پوری کرنے کے لیے باہر چلا جاتا۔ گلی کے نکڑ کے پنساری سے ایک سگریٹ خریدتا اور سڑک پر سگریٹ پی کر گھر واپس آتا۔ ایک صبح جب میں سگریٹ پینے باہر جا رہا تھا تو بیوی نے پانی کا لوٹا تھماتے ہوئے طنز کیا۔ ’سگریٹ تو چھوٹ نہیں سکتا۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آپ پانی کا لوٹا بھی ساتھ لیتے جائیں۔ ‘

میں خاموش رہنے کے سوائے کیا کر سکتا تھا۔

پنساری سے چار سگریٹ خرید کر دفتر جاتا اور واپس ہوتے ہوئے شام میں ایک سگریٹ خریدتا۔ پنساری سگریٹ دیتے وقت کچھ سوچ کر مسکرانے لگتا۔ میں اس سے گھڑی دو گھڑی ٹھہر کر بات کرنے لگا۔ شناسائی بڑھی تو میں ادھار سگریٹ لینے لگا۔ دن میں تین پیکٹ سے زیادہ سگریٹ پھونکنے والے کا گزارہ بھلا چھ سگریٹ پر کیسے ہوتا! پنساری سے ادھار اور احباب کے مفت سگریٹوں سے میرا کام چلنے لگا۔

گھر سے باہر سگریٹ پینے کی شرط میرے لیے مشکل کا باعث بنی رہی۔ گھر سے باہر نکلنے کے بہانے تلاش کرنے لگا۔ بازار سے سودا سلف اور دوسری چیزیں لانے لگا، جو میں پہلے کبھی نہ کرتا تھا۔ عمداً کوئی شے بھول کر آتا اور پھر بازار جا کر سگریٹ پی آتا۔ دوست احباب سے بھی غیر ضروری ملنے لگا۔ قصّہ مختصر گھر اور باہر کے درمیان آوک جاوک ہونے لگی۔ رات میں دروازہ کھٹکھٹایا جانے کا بہانہ بناتا اور باہر آ کر سگریٹ نوشی کرتا۔ بیوی جلد تاڑ گئیں کہ میری غیر ضروری بھاگ دوڑ سگریٹ نوشی کے لیے ہے۔ اور جب پنساری ادھار وصول کرنے آیا تو ان کا شک یقین میں بدل گیا۔ غصّے اور بے بسی سے ان کے آنسو بہہ نکلے کہ میں نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

میں نے قسمیں کھا کر انہیں یقین دلایا۔ ’میں نے ایسا دانستہ نہیں کیا ہے۔ سگریٹ کی لت نے مجھ سے وعدہ خلافی اور بے ایمانی کروائی ہے۔ کم بخت سگریٹ میرے منہ سے نہیں چھوٹتا۔ میں اپنی عادت کا غلام ہوں۔ یقین کرو میں خود اس لعنت سے چھٹکارا چاہتا ہوں۔ خدارا میری مدد کرو۔ ‘

بیوی آنسو پونچھ کر میری مدد کرنے کے لیے تیار ہوئیں۔ اپنی سہیلیوں سے مشورہ کیا۔ ایک سہیلی نے بتایا کہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ ایک عادت کو چھوڑنے کے لیے کوئی دوسری کم نقصان دہ عادت ڈال لینی چاہیے جس سے چھٹکارا پانا آسان ہوتا ہے۔

سگریٹ نوشی کی عادت سے پہلے ہی سے مجھے چائے اور کافی کا روگ پڑ چکا تھا۔ اب چیونگم، ناس اور پان کی عادتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ چیونگم چبانا بچکانہ شوق ہے اور پھر میری دیکھا دیکھی بچے بھی جگالی کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ ناس کے استعمال سے بیوی کو میرے ستیاناس ہونے کا گمان ہونے لگا۔ آخر بات پان پر ٹھہری۔ میں نے پان کھانا شروع کیا۔ چار دن تک پان کھانے اور گھر کے در و دیوار کو رنگنے کے باوجود بھی سگریٹ کی طلب کم نہ ہوئی۔ الٹا میں پان کے ساتھ سگریٹ نوشی کرنے لگا۔ کچھ زیادہ ہی سرور حاصل ہوا۔ یک نہ شد دو شد، اب طبیعت سگریٹ کے ساتھ پان بھی طلب کرنے لگی۔

اپنے تئیں ناکام ہو کر بیوی مجھے سگریٹ نوشی ترک کروانے والے ماہر کے پاس لے گئیں۔ موصوف نے مختلف سوالات کر کے مجھے پریشان کیا۔ آپ سگریٹ کب سے پیتے ہیں؟ کیوں پیتے ہیں؟ یہ عادت کیسے پڑی؟ کیا کوئی پریشانی یا غم لاحق ہے؟ کیا آپ ناکام عاشق ہیں؟ کیا آپ شاعری کرتے ہیں؟ کس برانڈ کا سگریٹ پیتے ہیں؟ دن میں کتنے سگریٹ پھونکتے ہیں؟ سگریٹ کب پیتے ہیں؟ کیسے پیتے ہیں؟ دھواں کتنی دیر تک اندر رکھتے ہیں؟ دھواں منہ سے نکالتے ہیں یا ناک اور کان سے بھی دھواں چھوڑتے ہیں؟ سگریٹ کون سے ہاتھ میں اور کس انداز سے پکڑتے ہیں؟ سگریٹ کیسے جلاتے ہیں؟ سگریٹ اطمینان سے پیتے ہیں یا جلدی جلدی کش مارتے ہیں؟ ایک منٹ میں کتنے کش لگاتے ہیں؟ خالص سگریٹ پیتے ہیں یا تمباکو میں کچھ دوسری اشیا بھی ملاتے ہیں؟ سگریٹ اکیلے پیتے ہیں یا دوست احباب کے ساتھ؟ ان کے نام اور ان کی عادات و اطوار بتلایئے؟ سگریٹ پورا پیتے ہیں یا کچھ بچا کر پھینک دیتے ہیں؟ اگر بچاتے ہیں تو کتنا؟ سگریٹ کیسے بجھاتے ہیں؟ سگریٹ نہ پییں تو کیا ہوتا ہے؟ اور آپ سگریٹ کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟

آخری سوال کے جواب میں، میں نے بیوی کی جانب دیکھا جیسے کہنا چاہتا ہوں کہ ان کے سبب! لیکن میرے جواب دینے سے پہلے بیوی نے کہا۔ ’یہ سگریٹ پینا کہاں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میں چھڑوانا چاہتی ہوں۔ ‘

جواب سن کر معالج نے کہا۔ ’تب تو علاج مشکل ہے۔ لیکن کوشش کرنے میں ہرج بھی نہیں ہے۔ ‘

معالج نے جتنے سوالات کیے تھے سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے اتنے بلکہ کچھ زیادہ ہی مشورے دیے۔ پہلا مشورہ تھا کہ سگریٹ کی طلب ستانے لگے تو اپنا دھیان کسی دوسری طرف لگایئے۔ موصوف کا مشورہ سن کر مجھے اپنا ایک چھوڑا ہوا پرانا شوق یاد آیا۔ میں نے شاعری کو جلا بخشنے کا ارادہ کیا۔ جب بھی سگریٹ کی طلب ہو گی تو میں ایک شعر کہوں گا۔ سگریٹ نوشی ترک کرنے کے لیے میں نے شعر گوئی شروع کی۔ پہلا مصرعہ ہو جاتا لیکن دوسرے مصرعے کے لیے سگریٹ پینا پڑتا، بعض مرتبہ تین چار سگریٹ پھونکنا پڑتا تب کہیں شعر مکمل ہوتا۔ اصلاح کی غرض سے سگریٹ نوشی ترک کرنے کی کوشش میں کہا ہوا کلام استاد کو پیش کیا تو ارشاد ہوا۔ ’تم شاعری بند کر دو اور سگریٹ نوشی جاری رکھو۔ اس سے ادب کی صحت برقرار رہے گی اور ساتھ میں تمہاری عزت بھی!‘

معالج نے کئی دوسرے مشورے بھی دیے تھے۔ سگریٹ نکالنے میں دیر کرو۔ سگریٹ کو چھپا کر رکھ دو اور اپنا وقت اسے ڈھونڈنے میں لگاؤ۔ جب سگریٹ مل جائے تو اسے جلانے کی بجائے سگریٹ سے کھیلتے رہو۔ طلب ستانے پر سگریٹ کے ٹکڑے کر دو اور سب سے چھوٹا ٹکڑا منتخب کر کے ہونٹوں سے پکڑے رہو۔ دوسرے ٹکڑوں کو کچرے میں پھینک دو اور ہو سکے تو ہونٹوں کے درمیان پھنسے ٹکڑے کو بھی پھینک دو۔ جب ناکام ہو جاؤ تو سگریٹ جلانے کا ارادہ کرو۔ جیب میں دیاسلائی یا لائٹر کسی صورت نہ رکھو۔ دوسروں سے مانگ کر یا کچن میں جا کر سگریٹ جلاؤ۔ سگریٹ جلانے کے بعد کش لینا بھول جاؤ اور سگریٹ بجھا دو۔ کش لینے کے لیے طبیعت مجبور کرے تو سگریٹ کو ہونٹوں سے دور رکھ کر کش لگاؤ اور پھر سگریٹ کو بجھا دو۔ دوسری تیسری بلکہ ہر مرتبہ یہی عمل دہراؤ۔ اس طرح جلد ہی سگریٹ نوشی ترک ہو جائے گی۔

موصوف کے قیمتی مشورے سن کر مجھے، سردرد کے علاج کے تعلق سے ایک سواری کے پیچھے لکھا یہ شعر یاد آیا۔

دردِ سر کے واسطے صندل لگانا ہے مفید

اس کو گھسنا اور لگانا دردِ سر یہ بھی تو ہے

سوچ سمجھ اور ناپ تول کر سگریٹ پینا اگر بس میں ہوتا تو میں سگریٹ نوشی کرتا ہی کیوں۔ سگریٹ نوشی ترک کروانے والے ماہر کے مشورے دھرے کے دھرے رہ گئے اور میری سگریٹ نوشی جاری رہی۔ کبھی زیادہ تو کبھی کم لیکن ختم نہ ہوئی۔ ہر طرف اور ہر طریقے سے مایوس ہو کر بیوی نے سگریٹ نوشی ترک کروانے کی مہم کو خیر باد کہا اور مجھے سگریٹوں کے حوالے کر دیا۔ میں سگریٹ جلاتا تو وہ اٹھ کر دور چلی جاتیں۔ میں پہلے کی طرح بلکہ کچھ زیادہ ہی سگریٹ نوشی کرنے لگا۔ سگریٹ زیادہ مزے دار محسوس ہو رہے تھے۔ تمباکو کی بھینی بھینی بو مسحور کر دیتی تھی۔

اچانک ایک رات میری نیند ایک بھیانک خواب کے سبب بیدار ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ادھ جلے سگریٹوں کی چتا پر میں لوٹن کبوتر کی طرح لوٹ رہا ہوں۔ درد اور تکلیف سے چلا رہا ہوں۔ ڈاکٹر دوائیں دے رہے ہیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ احباب بے بس کھڑے آرام کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔ بیوی اور بچوں کا روتے روتے برا حال ہے۔ دیر تک میں اپنے آپ کو بہلاتا رہا۔ نیند اڑ چکی تھی۔ کوشش کے بعد دو گھڑی سویا تھا کہ پھر وہی خواب نظر آیا۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ سگریٹ مجھے جانی دشمن دکھائی دینے لگا۔ میں نے سگریٹ کی ڈبیا کو اسی وقت کچرے میں پھینکا۔ ایش ٹرے کو ہٹایا اور سگریٹ نوشی سے ہمیشہ کے لیے توبہ کی۔

وہ رات اور آج کا دن، چھ مہینے بیت چکے ہیں میں نے سگریٹ کو منہ کیا ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اور ہاں بیوی بھی اپنی اور میری کامیابی پر خوش ہیں۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، اکٹوبر1992ء

 

 

 

کالے کالے دانے

 

ایک صبح سنگھار میز پر چند کالے کالے دانوں کی شکل میں کوئی نامعلوم شے پائی گئی۔ دیر تک بیگم ان دانوں کو غور سے دیکھتی اور سر کھجاتی رہیں۔ جب کچھ پلے نہ پڑا تو مجھ سے پوچھا۔ ’یہ کیا ہیں؟‘

میں بھی چند لمحے کالے کالے دانوں کو گھورتا رہا۔ مجھے کچھ سجھائی نہ دیا تو میں نے بے پرکی اڑائی۔ ’جوؤں کے گھر لگتے ہیں۔ ‘

جواب ملا۔ ’جی نہیں۔ جوئیں گھر نہیں بناتیں۔ ‘

’آپ بہتر جانتی ہیں، جوئیں آپ کے سر میں بسیرا کرتی ہیں۔ ‘ میں نے اظہار خیال کیا۔

بیگم نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا۔ ’اس وقت جوئیں نہیں، یہ کالے کالے دانے بحث اور تحقیق کا موضوع ہے۔ معلوم نہیں یہ کیا ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ ‘

بیگم سنجیدگی سے کالے کالے دانوں کی شانِ نزول اور ہیئت ترکیبی پر غور کرنے لگیں۔ آس پاس اور اِدھر اُدھر کی اشیا کو الٹ پلٹ کر دیکھا کہ کوئی سراغ مل جائے لیکن ناکام رہیں۔ انھیں تگ و دو کرتے دیکھ کر میں نے مشورہ دیا۔ ’ان دانوں کو کچرے میں پھینکیے۔ رائی کے دانے لگتے ہیں۔ آپ کیوں رائی کا پربت بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ ‘

میرے مشورے کا کچھ اثر نہ ہوا۔ بیگم محدب عدسہ کی مدد سے کالے کالے دانوں کا معائنہ کرنے لگیں۔ ’دانوں کا رنگ کالا ہے۔ کوئی مخصوص شکل نہیں ہے۔ بھدّے ہیں۔ لمبائی چار تا چھ ملی میٹر، چوڑائی دو سے تین ملی میٹر اور ان کی تعداد سات ہے۔ ‘

میں نے شوشہ چھوڑا۔ ’شاید مریخ کی مٹی ہے۔ ‘

’مریخ لال رنگ کا سیّارہ ہے، آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم!‘ مجھے ڈانٹ کر بیگم نے ایک منجھے ہوئے جاسوس کی طرح کاغذ کی مدد سے ان دانوں کو ایک لفافے میں ڈالا اور دن، تاریخ اور وقت نوٹ کر کے مزید تحقیق کے لیے انہیں محفوظ کر لیا۔

اس واقعہ کے دو دن بعد شام کے وقت جب میں دفتر سے گھر پہنچا تو بیگم کو غصّہ اور بے بسی کے عالم میں لال بجھکڑ بنا پایا۔ مجھے دیکھا تو پھٹ پڑیں۔ ’سمجھ میں نہیں آتا۔ اس گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ‘

غصّے اور بے بسی کے عالم میں شوہر اور بیوی اکثر ایک دوسرے سے یوں ہی الجھ جاتے ہیں اور اس کیفیت سے گزرنے کے بعد آپس میں پیار کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ اسی لیے میں نے بیگم کے غصّہ کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔ ’بتاؤ تو سہی کیا ہوا ہے۔ ‘

بیگم نے شادی کی سال گرہ پر بنے اپنے پسندیدہ سوٹ کی طرف اشارہ کیا۔ قیمتی اور نیا سوٹ تین چار مقامات پر پھٹا ہوا تھا۔ مجھے بھی تشویش لاحق ہوئی۔ ہم دونوں سر جوڑے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے۔ بیگم کہنے لگیں۔ ’ہم پر کسی نے جادو کروایا ہے یا گھر میں کوئی بھوت گھس آیا ہے۔ ‘

میں نے بیگم کو سمجھایا۔ ’فضول باتیں نہ کرو۔ جادو ہے نہ جادو کا اثر۔ بھوت ہے نہ پریت۔ یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں۔ ‘

بیگم نے سوال کیا۔ ’پھر بتائیے، وہ کالے کالے دانے کیا ہیں اور میرا سوٹ خود بخود کیسے پھٹ گیا۔ ‘

میں نے تسلی دی۔ ’دو مختلف واقعات اتفاق سے ایک ساتھ ہو گئے ہیں۔ صبر کرو دوچار دن میں پتا چل جائے گا۔ ‘

’آپ تو ایسے کہہ رہے جیسے یہ کوئی امتحان ہے اور دوچار دنوں بعد نتیجہ اخبار میں چھپنے والا ہے۔ ‘ بیگم نے طنز کیا۔

’یہی سمجھ لو۔ ‘ میں نے بات ختم کرنے کے لیے کہا۔

رات آئی۔ بیگم کو سوٹ کے غم میں نیند نہ آتی تھی۔ کروٹیں بدلتی رہیں جبکہ میں چادر تان کر سورہا۔ رات دیر گئے بیگم نے مجھے جھنجھوڑ کر جگایا اور گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔ ’بازو کے کمرے سے آوازیں آ رہی ہیں۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘

میری نیند کافور ہوئی۔ میں کان کھڑے کر کے غور سے سننے کی کوشش کرنے لگا۔ کانوں سے ہلکی اور مدھم آوازیں ٹکرانے لگیں۔ محسوس ہوتا تھا کہ کوئی کسی چیز کو ادھیڑ رہا ہے۔ کٹر کٹر کاٹنے کی آوازیں بھی سنائی دیں اور پھر لگا کوئی چھوٹا جانور بھاگ رہا ہے۔ اس ساری کارروائی سے مجھے کالے کالے دانوں کی موجودگی اور بیگم کے سوٹ کی بربادی کی وجہ معلوم ہو گئی۔ میں خوشی سے چلایا۔ ’وہ مارا۔ بیگم مجھے پتا چل گیا ہے۔ ‘

میرے چلانے سے بیگم خوف زدہ ہو کر کہنے لگیں۔ ’کیا پتا چلا ہے؟ جلد بتائیے۔ ڈر کے مارے میرا برا حال ہے۔ ‘

میں نے بیگم کی ہمت بندھائی۔ ’ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کالے کالے دانے کیا ہیں اور آپ کا سوٹ کیسے پھٹا ہے۔ ‘

’اب بتائیے بھی۔ ۔ ۔ ‘ بیگم زچ ہوتے ہوئے بولیں۔

’ہمارے گھر چوہا مہمان ہے۔ کالے کالے دانے اسی کی شرارت ہے۔ آپ کے قیمتی سوٹ پر اسی نے منہ مارا ہے اور اب بازو کے کمرے میں وہی دھوم مچا رہا ہے۔ ‘ میں نے بتایا۔

’اب کیا ہو گا!‘ بیگم روہانسی ہو کر بولیں۔

’کیا ہو گا کیا۔ اب چوہے کا جنازہ دھوم سے نکلے گا۔ ‘ میں نے آستین چڑھا کر بیگم سے کہا ‘ذرا ہماری خاندانی لاٹھی دیجیے۔ ابھی اس کا کام تمام کرتا ہوں۔ ‘

’کیا لاٹھی سے چوہا ختم ہو جائے گا؟‘ بیگم نے استفسار کیا۔

’بالشت بھر کی مخلوق کے لیے کیا بندوق لے کر جاؤں۔ ننھا منا، بدمعاش، چور اچکا سا جانور ہے۔ آپ کی سینڈل کی اونچی ایڑی سے بھی مر جائے گا۔ جلدی کیجیے ورنہ چوہا چکمہ دے جائے گا۔ ‘

بیگم چوہے کے ڈر سے پلنگ پر سمٹتے ہوئے بولیں۔ ’دادا ابّا کی لاٹھی برآمدے میں رکھی ہے۔ آپ ہی لے لیں۔ ‘ اور التجا کی۔ ’اپنا اور میرا خیال رکھیے۔ ‘

میں ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے ہاتھ میں اونچی ایڑی کی سینڈل لیے دبے پاؤں چوہے کے کمرے میں داخل ہوا۔ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے اور کانوں سے آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔ اچانک میرا بڑھتا قدم میز سے ٹکرایا اور میز پر رکھا ہوا کانچ کا جگ فرش پر گر کر چکنا چور ہو گیا۔ خوف کے مارے بیگم کی چیخ نکل گئی۔ ’ہائے اللہ۔ ‘

چوہے کو میری آمد کی خبر ہو چکی تھی اور وہ کسی کونے میں دبک کر بیٹھ گیا تھا۔ میں نے بتی جلائی۔ بیگم ڈرتے ڈرتے کمرے میں آئیں۔ جگ کو فرش پر بکھرا پڑا دیکھ کر کپکپاتی آواز میں دریافت کیا۔ ’یہ کیسے ہوا۔ آپ ٹھیک تو ہیں۔ ‘

ایسے نازک موقع پر میں سچ بولنے سے رہا۔ میں نے کہا۔ ’چوہے نے جگ گرا دیا۔ ‘

’جگ ٹوٹ گیا، کوئی غم نہیں، آپ تو ٹھیک ہیں نا۔ ‘بیگم نے اطمینان کا اظہار کیا اور پھر حیرت سے پوچھا۔ ’کیا چوہا بہت بڑا ہے؟‘

’اتنا بڑا تھا کہ اندھیرے میں نظر نہیں آیا۔ ‘ میں نے طنز کیا۔

بیگم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ شکر ہے، اس بڑے چوہے نے آپ پر حملہ نہیں کیا اور پوچھا۔ ’کیا چوہے کو اندھیرے میں دکھائی دیتا ہے؟‘

میں بیگم کے سوال کا اس وقت جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور دروازہ بند کر کے چوہے کو تلاش کرنے لگا اور بیگم ڈری سہمی میز پر جگ کی جگہ بیٹھ گئیں۔ کمرے کی ہر چیز کو الٹ پلٹ کر اندر اور باہر سے دیکھا۔ سجا سجایا کمرہ کباڑ خانہ بن گیا لیکن چوہے کا دیدار نصیب نہ ہوا۔ چوہے کی موجودگی اور کارکردگی کے مزید ثبوت ہاتھ لگے۔ چند کتابیں مجروح تھیں۔ دوچار مقامات پر کالے کالے دانے ہمارا منہ چڑا رہے تھے۔ بیگم نے غصّہ سے مٹھیاں بھینچ کر عہد کیا۔ ’میں چوہے کو دیکھ لوں گی۔ ‘

میں نے خیال ظاہر کیا۔ ’بیگم پہلے ہم کو یہ سراغ لگانا ہے کہ ہمارے گھر پر صرف ایک چوہے نے یلغار کی ہے یا ہمارا مقابلہ چوہوں کی فوج سے ہے۔ کالے کالے دانوں کی بہتات اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ چوہے کافی تعداد میں موجود ہیں۔ ہمیں دوسرا سوال بھی حل کرنا ہے کہ چوہے کہاں سے آئے ہیں۔ زمین سے، بذریعہ دروازہ یا پھر ان کے پاس نقل و حمل کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ آیا چوہوں نے مستقل ڈیرہ ڈال کھا ہے یا ان کا قیام عارضی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ گھس پیٹھیے ہیں اور پاس پڑوس سے ہمارے یہاں آ کر دہشت گردی کرتے ہیں۔ ‘

صبح ہونے کو تھی، رات میں نیند برابر نہ ہونے سے مجھے سر میں درد محسوس ہونے لگا اور مستقل جمائیاں آنے لگیں۔ ہم نے چوہا مار مہم ملتوی کی اور سونے کا فیصلہ کیا۔ دفتر کو رخصت اتفاقی بھجوائی کہ چوہوں کے سبب طبیعت ناساز ہے۔

دفتر میں ساتھی سر جوڑے میری ناسازیِ صحت کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ ایک ساتھی کا قیاس تھا کہ مجھے چوہے نے کاٹا ہو گا۔ دوسرے نے اندازہ لگایا کہ مجھے چوہوں سے وہ بیماری تحفتاً ملی ہے جس میں مریض سے دور بھاگا جاتا ہے۔ اب یہ وبا شہر میں پھیلے گی۔ اس مرض کے خلاف احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہیے۔ محکمہ صحت کو اطلاع دینے سے پہلے دفتر والوں نے میری خیریت پوچھی۔ ’بخار کیسا ہے۔ کیا غدود بڑھے ہوئے ہیں۔ غذا میں کیا استعمال کر رہے ہیں۔ گھر پر کیوں علاج کروا رہے ہیں۔ ڈاکٹر نے آپ کو شہر بدر کیوں نہیں کیا؟‘

میں نے دفتر والوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اپنی بپتا سنائی کہ رات چوہوں نے سونے نہ دیا، سو رخصت لے کر ’قضا نیند‘ پوری کر رہا ہوں۔ دفتر والوں نے اطمینان کا سانس لیا۔

گھر میں چوہوں کی موجودگی سے بیگم کا چین غارت ہو چکا تھا۔ سہیلیوں کو فون کر کے اپنے گھر چوہوں کے مہمان ہونے کی اطلاع دیتیں۔ ان کی شرارتیں اور کارنامے بیان کر کے دریافت کرتیں۔ ’کیا تمھارے گھر میں چوہے ہیں؟‘

کسی نے کہا ہیں تو سوال ہوا۔ ’کیا کرتے ہیں۔ ‘

جواب ملا کہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو بیگم اور ان کی سہیلی کے درمیان چوہوں کے متعلق مفصل گفتگو شروع ہوتی ہے۔

’تمہیں چوہوں سے ڈر نہیں ہوتا۔ ‘

’شروع میں کچھ کچھ ڈر ہوا لیکن جلد ہی خوف نکل گیا۔ اب چوہے گڑبڑ نہ کریں تو گھر سونا لگتا ہے۔ ‘

’کیا تم نے چھٹکارا پانے کی کوشش نہیں کی؟‘

’بہت کی لیکن چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہے۔ جنم جنم کا ساتھ لگتا ہے۔ ‘

کسی نے کیا تمہارے گھر میں چوہے ہیں؟ سوال کے جواب میں ’نہیں ہیں ‘ کہا تو بیگم نے حیرت کا اظہار کیا۔ ’کیوں نہیں ہیں؟‘

جواب ملا۔ ’چند دن پہلے تک تھے۔ اب نہیں ہیں۔ کچھ آرام ہے لیکن امید ہے کہ جلد ہی واپس آ جائیں گے۔ ‘

فون پر سہیلیوں سے بیگم کی پر مغز گفتگو سے بیزار ہو کر میں نے بیگم سے کہا۔ ’اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔ ہر گھر میں کم سے کم ایک چوہا ضرور رہتا ہے۔ ‘

بیگم نے تیوریاں چڑھائیں۔ ’کیا مطلب، میں سمجھی نہیں۔ ‘

’میرا مطلب دو پاؤں والے چوہے سے ہے۔ آنکھیں روشن، بڑی بڑی مونچھ، چمکدار دانت اور گرجدار آواز۔ اس کے باوجود ڈرا سہما ہوا بل میں چھپا رہتا ہے۔ لیکن گھر سے باہر یہی چوہا شیر بنا گھومتا ہے۔ ‘

’کیا پہیلیاں بجھا رہے ہیں۔ جو کہنا ہے صاف الفاظ میں کہیے۔ ‘ بیگم الجھتے ہوئے بولیں۔

بیگم کو سمجھانے کے لیے میں نے ایک دوست کا بیان کردہ لطیفہ سنایا۔ ’ایک دن شیر ڈرا سہما اور خوف زدہ بھاگا جا رہا تھا۔ اس کی ملاقات چوہے سے ہوئی۔ چوہے نے پوچھا۔ جنگل کے بادشاہ، خیر ہو۔ آپ ایسے پریشان اور گھبرائے ہوئے کہاں بھاگے جا رہے ہیں۔ شیر نے جواب دیا۔ یار کیا بتاؤں، قاضی میرے پیچھے پڑا ہے کہ شادی کر لو۔ شادی سے بچنے کے لیے بھاگ رہا ہوں۔ یہ سن کر چوہے نے کہا۔ ’جنگل کے بادشاہ، آپ بہت ہوشیار ہیں۔ شادی سے پہلے میں بھی شیر تھا۔ ‘

شیر کی بہادری کا قصّہ سن کر بیگم نے طنز کیا۔ ’تو کیا آپ اپنی برادری کو گھر میں پناہ دیں گے۔ میں کہے دیتی ہوں، چوہوں کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ‘

مجھے بھی کہنا پڑا۔ ’ظاہر ہے آج کون سی بہو سسرال سے نباہ کر رہی ہے۔ ‘

بیگم نے کہا۔ ’اس بحث کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیے اور چوہوں سے چھٹکارا پانے کی ترکیب سوچیے۔ ‘

ہم سر جوڑے چوہوں سے نجات پانے کی مہم کے بارے میں غور کرنے لگے۔ احباب سے مشورہ کیا۔ چوہا مار دوائی کے تعلق سے دوستوں نے انتباہ دیا کہ چوہا دوائی کھا کر کسی کونے میں جان بحق ہو جائے گا۔ اگر وقت پر کریا کرم نہ ہوا تو گھر میں بو پھیل جائے گی اور مکینوں کو ناک پکڑے گھر چھوڑنا پڑے گا۔ اس خطرے کے پیشِ نظر چوہا مارنے کے اس طریقے کو خیرباد کہنا پڑا۔

انگریزی کہاوت کے مطابق بلی کی غیر موجودگی میں چوہے ادھم مچاتے ہیں۔ لہذا ہم نے طے کیا کہ چوہوں سے نجات پانے کے لیے ایک بلی پالی جائے۔ تلاش کے بعد ایک چوہے مار بلی کو گھر لے آئے۔ لیکن آزاد گھومنے پھرنے والی بلی کو گھر پر رکھنا مشکل ہونے لگا۔ بلی گھر میں ٹکتی نہ تھی۔ پاس پڑوس میں دوسری بلیوں سے بات چیت، مشاورت یا لڑائی جھگڑے میں مصروف رہتی۔ گھر آتی تو آنکھیں بند کیے دودھ پیتی اور غائب ہو جاتی تھی۔ بلی کو گھر پر روکنے کے لیے ہم اسے زیادہ دودھ دینے لگے۔ بلی گھر پر رہنے تو لگی لیکن آسانی سے پیٹ بھرنے کی وجہ سے عدم تشدد پر عمل پیرا ہو گئی۔ چوہوں کو پکڑنا تو کجا چوہوں کو تلاش کرنا بھی چھوڑ دیا۔

موٹی بلی بیگم کو ایک نظر نہ بھانے لگی۔ وہ بلی کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے اور آوازیں نکال کر بھگانے کی کوشش کرنے لگیں۔ بلی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بیگم نے لکڑی اٹھائی تو بلی ان پر غرانے لگی۔ مجھے بیچ بچاؤ کروانا پڑا۔ چوہوں سے چھٹکارا پانے کی مہم کو ملتوی کر کے بلی کو گھر سے بھگانے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ بڑی مشکل سے بلی کو تھیلے میں بند کیا اور گھر سے دور، بہت دور چھوڑ آئے۔

تیسری ترکیب چوہوں کو چوہے دان میں پکڑنے کی تھی۔ ایک اہم سوال تھا کہ چوہوں کو پکڑنے کے بعد کیا کریں؟ کبھی سن رکھا تھا کہ بعض مقامات پر لوگ رغبت سے چوہے کھاتے ہیں۔ خیال آیا کہ چوہے پکڑنے کے بعد انھیں پیش کیا جائے۔ یہ بھی پڑھ رکھا تھا کہ سائنس کے کئی تحقیقی مقالے چوہوں کے مرہونِ منت ہیں۔ دل نے چاہا کہ کیوں نہ تھیلا بھر چوہے پکڑ کر ایک مقالہ تیار کیا جائے۔ بیٹھے بٹھائے ڈاکٹر کہلائیں گے۔ اس ضمن میں احباب سے مشورہ کیا تو پتا چلا کہ گھر کے چوہوں سے تحقیقی مقالے تیار نہیں ہوتے۔ اس کام کے لیے لیبارٹری کے چوہے درکار ہیں جو اسی مقصد کے لیے پنجرے میں پیدا کیے جاتے ہیں۔

اس خیال سے خوشی ہوئی کہ چوہوں کو پنجرے میں پکڑنے کے بعد دشمنوں کے گھر چھوڑا جا سکتا ہے۔ ہم نے پنجرے خرید کر مختلف مقامات پر رکھے اور چوہوں کو پنجرے میں آنے کے لیے مرغن غذا رکھی۔ ترقی پذیر سماج کے چوہے بھی ہوشیار اور چالاک ہو گئے ہیں۔ چوہے چکمہ دینے لگے۔ پنجرے میں رکھی غذا کھا جاتے لیکن خود پکڑ میں نہ آتے اور ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے کالے کالے دانے چھوڑ جاتے تھے۔

ایک صبح ایک چھوٹا چوہا پنجرے میں پھنسا دیکھ کر ہم بہت خوش ہوئے۔ شام میں اس چوہے کو ایک شاعر دوست کے گھر چھوڑنے کا پروگرام بنایا، جو ہمیں اکثر ویک اینڈ پر رات دیر گئے تک اپنا کلام سنا کر نیند خراب کرتے ہیں۔ لیکن شام میں وہ ایک چھوٹا چوہا بھی پنجرے سے غائب تھا۔ شومیِ قسمت دیکھیے، اسی شام شاعر دوست تازہ کلام موزوں کیے گھر وارد ہوئے اور ایک علامتی نظم ’چوہوں کی فریاد ‘ سنائی۔

بیگم چوہوں کے خلاف اپنی بے بسی کا رونا رونے لگیں۔ ہر ایک سے چوہوں کو مار بھگانے کی ترکیب پوچھتیں۔ پڑوسن کی ایک چھوٹی بچی نے مشورہ دیا۔ ’آنٹی۔ چوہوں کو پکڑنا بہت آسان ہے۔ ان کے گھرکو بند کر دینا چاہیے۔ ‘

’وہ کیسے؟‘ بیگم نے سوال کیا۔

’جیسے ٹام کرتا ہے۔ وہ جیری کے گھر کے دروازے کو لکڑی مار کر بند کرتا ہے۔ ‘جواب دے کر مشورہ دیا گیا کہ آپ ٹام اینڈ جیری کارٹونس دیکھیے، اس میں چوہوں کو پکڑنے کے کئی طریقے بتائے جاتے ہیں۔

بیگم نے ’ٹام اینڈ جیری ‘کارٹون فلمیں دیکھیں اور گھر میں چوہوں کا مسکن تلاش کرنے لگیں۔ دو چار گھنٹوں کی تگ و دو کے باوجود جیری کا گھر نہ ملا تو وہ تھک ہار کر بیٹھ گئیں۔

ایک شام میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے بیٹھا تھا۔ بیگم ہمارے لیے چائے تیار کر رہی تھیں۔ اچانک بیگم کی چیخ سنائی دی۔ میں بھاگا کچن میں گیا تو دیکھا بیگم آنکھیں بند کیے ہاتھ کانوں پر رکھے تھر تھر کانپ رہی تھیں۔ میں نے پوچھا ’کیا ہوا؟‘

جواب میں بیگم فرش کی جانب اشارہ کر کے ہکلانے لگیں۔ ’چچ چچ چوہاہا۔ ۔ ۔ ‘

میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ’بس چوہے سے ڈر گئیں۔ ‘

’وہ گول گول آنکھوں سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کی مونچھ بھی ہے۔ دانت نوکیلے لگ رہے تھے اور اس نے آواز بھی نکالی تھی۔ ‘

میں نے آستین چڑھا کر بیلن ہاتھ میں لیے پوچھا۔ ’اس کی یہ ہمت ! میرے ہی گھر میں میری بیگم کو چھیڑے۔ سڑک چھاپ، لوفر کہیں کا۔ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔ کدھر گیا وہ مردود۔ میں اس کا بھرتا بنا دوں گا۔ ‘

بیگم نے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ ’اس طرف غائب ہوا ہے۔ ‘

میں بیگم کو دلاسا دے کر کچن سے باہر لے آیا اور کچن کے دروازے کو تالا لگا دیا کہ دوستوں سے فارغ ہو کر رقیب سے نمٹ لوں گا۔ دیوان خانہ پہنچا تو دوست پریشان تھے۔ میں نے ماجرا سنایا۔ ’بیگم چوہے کو دیکھ کر ڈر گئی تھیں۔ ‘

ایک دوست نے حسرت سے کہا۔ ’کاش ہم چوہے ہوتے !‘

دوسرے دوست نے تجربے کی بات بتائی۔ ’شوہر چاہے کچھ ہو، چوہا یا شیر، لکڑہارا یا بادشاہ۔ بیوی شوہر سے نہیں ڈرتی!‘

بیگم نے میکہ فون کر کے چوہوں کے خلاف مدد چاہی۔ بیگم کے بھائی اپنے حمایتیوں کے ساتھ ہمارے گھر آ پہنچے۔ سالارجنگ بہادر کو بہت ناگوار گزرا کہ ان کی ہمشیرہ کو خود ان کے گھر کے چوہوں نے پریشان کر رکھا ہے۔ بیگم کے میکے کے لاؤ لشکر کے ہاتھوں میں سبل، پھاؤڑا، لاٹھیاں اور بلا مبالغہ تلواریں بھی تھیں۔ ان لوگوں نے چوہوں کی تلاش میں گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دو گھنٹے جنگی کاروائی ہوتی رہی، جس کا حاصل ایک بالشت لمبا چوہا رہا۔ اچھا ہوا کہ ان کے ہاتھ کچھ تو لگا ورنہ عین ممکن تھا کہ سالار جنگ اینڈ پارٹی کا نزلہ دولھا بھائی پر اترتا جو معمولی چوہوں سے ان کی بہن کی حفاظت کرنے میں ناکام تھا۔

بیگم نے اپنے بھائی کی عظیم الشان کامیابی پر چوہا مار ٹروپ کی خوب خاطر تواضع کی اور انہیں انعام سے نواز کر عزت و احترام سے رخصت کیا۔ بھائی کے جانے کے بعد بیگم نے کہا۔ ’اب میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔ ان چوہوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ‘

میں نے جواب دیا۔ ’یوں بھی آپ کے پہلوان بھائی اور ان کے حمایتیوں نے اس گھر کو رہنے کے قابل کہاں چھوڑا ہے۔ چلیے سامان باندھیے۔ نیا آشیانہ ڈھونڈتے ہیں۔ ‘

’چوہوں کے ڈر سے گھر جلانا‘ سنا ہے۔ ہم نے چوہوں کے خوف سے صرف گھر تبدیل کرنے پر اکتفا کیا ہے میں سوچتا ہوں کہ نئے گھر میں بھی اگر کالے کالے دانے دکھائی دیے تو پھر کیا ہو گا؟

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، اپریل 1995ء

 

 

 

 

یہ نہ تھی ہماری قسمت

 

وطن سے خطوط آتے رہتے ہیں، لیکن اس مرتبہ بیگم کا عجیب و غریب خط آیا۔ ایسا خط انھوں نے پہلے کبھی نہیں لکھا تھا۔ خط کیا تھا، ایک معما تھا۔ معما حل کرنے کے لیے میں نے خط کو ایک مرتبہ پڑھا، دوسری بار غور سے پڑھا، پھر پڑھا اور پھر بار بار پڑھتا ہی چلا گیا۔ بعض باتیں اور جملے ذہن سے چمٹ کر رہ گئے تھے اور وقفہ وقفہ سے مجھے پریشان کرنے لگے۔ تحریر بھی پہلے جیسی نہ تھی۔ محسوس ہوتا کہ بہت مشکل سے چٹھی لکھ پائی ہیں۔ لکھا تھا:

’ مجھ میں کیا کمی تھی؟۔ ۔ ۔ آپ ایسے تو نہ تھے !۔ ۔ ۔ آخر آپ نے ایسا کیوں کیا؟

میں نے خواب میں کبھی سوچا نہ تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔

میں اپنی مرضی سے آپ کو چھوڑ کر نہیں آئی۔ بہت سوچ سمجھ کر بچوں کے مستقبل کی خاطر ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ پھر آپ اتنی جلد کیوں پریشان ہو گئے؟ اگر تنہائی ستانے لگی تھی تو نوکری چھوڑ کر آ جاتے یا ہمیں بلا لیتے !

ہم آپ کے بغیر کہاں خوش ہیں۔ ۔ ۔ ہر آتی جاتی سانس میں، میں آپ کو یاد کرتی ہوں۔ ہر لمحہ آپ کا چہرہ میرے سامنے رہتا ہے۔ آپ کی آنکھیں میرا تعاقب کرتی رہتی ہیں اور آپ کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے۔

یقین نہیں آتا کہ یہ وہی معصوم چہرہ ہے جو ہر دم اور ہر پل اپنی وفا کا اقرار کرتا رہتا تھا۔ کیا آپ کو وہ عہد و پیماں بھی یاد نہیں آئے؟

پپو آسمان میں اڑتے جہاز کو دیکھ کر کہتا ہے کہ ڈیڈی اس پلین سے گھر آ رہے ہیں۔ چلو ہم ایرپورٹ جا کر ڈیڈی کو لے آتے ہیں۔ رانی بٹیا ہر وقت آپ کو یاد کرتے ہوئے تصور میں آپ کو دیکھتی رہتی ہے۔ ڈیڈی اس وقت دفتر میں ہوں گے۔ اب گھر میں کھانا پکا رہے ہوں گے۔ سالن جل گیا ہو گا۔ پریشان ہوں گے کہ کیا کریں اور پھر جھنجھلا کر بھوکے سوگئے ہوں گے۔ ۔ ۔ آپ کو  اپنے معصوم بچوں کا بھی خیال نہیں آیا؟

میں ان سے کیا کہوں۔ وہ میری پریشانی اور رونے کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انھیں کیسے بتاؤں کہ آپ نے ہم پر کیا ظلم ڈھایا ہے !‘

دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھامے سوچنے لگا کہ آخر میں نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہے، جس کے سبب بیگم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے اور بچوں پر ظلم ہوا ہے۔ میں نے ایسا کون سا کام کیا ہے، جسے بیگم بچوں کو بتا نہیں سکتیں۔

سعودی عرب کے ریگ رواں کا تنہا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ویزا، کفیل، اقامہ، خروج و عودہ اور شورطہ کے مسائل سے نبرد آزما ہونا، مجنوں کی صحرا نوردی سے کم نہیں ہے۔ بیگم اور بچوں کے بغیر بیتنے والی میں اپنی پچھلی چار سالہ زندگی کا ایک ایک دن یاد کرنے لگا۔

پیاز کاٹ کر آنسو بہانا، ترکاری بنانا، کھانا پکانا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا، جوتے پالش کرنا، جھاڑو پونچھا کرنا، دفتر جانا، ٹیلی وژن گھورنا، دیر سے سونا، جلد اٹھنا اور بے خوابی کی نیند سونا، ویک اینڈ تفریح کے نام پر دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا، فلمیں دیکھنا، کبھی کبھار شاپنگ کرنا، مشاعروں اور ادبی محافل میں شریک ہونا، مختلف منصوبوں اور تجاویز پر لا حاصل بحث کرنا، وطن کی یاد میں سر دھننا، اپنوں کو خط لکھنا اور فون کرنا اور احباب کو چھوڑنے اور لانے ائیرپورٹ جانا۔ یہی تو یہاں دیار غیر میں مجھ جیسے ’غریب الوطن‘ اور ’بعید العیال‘ لوگوں کی کہانی ہے۔ آپ فیصلہ کیجیے یہ کہانی ٹریجیڈی ہے یا کامیڈی!

اس معمول سے ہٹ کر میں نے کچھ بھی تو نہیں کیا ہے۔ کہیں تاک جھانک کی ہے اور نہ ہی کوئی دیوار پھاندنے کا سوچا ہے۔ یہاں پر اس قسم کے مواقع ہی میسّر نہیں ہیں۔ اگر کوئی موقع پیدا کر بھی لے تو اس کا وہ حشر ہوتا ہے جس کے تصور ہی سے کپکپی طاری ہونے لگتی ہے۔

یہاں ’چھڑے ‘ در اصل اچھوت ہیں۔ کنواروں کے گھر الگ ہوتے ہیں، خاندان والوں بلکہ آبادی سے دور کسی سنسان اور ویران لیکن گنجلک مقام پر’ مجردات‘ کا بسیرا ہوتا ہے۔ ان کے تفریحی حصّے جدا ہوتے ہیں اور’ عوامی مقامات‘ پر بھی ان کی جگہ مختص ہوتی ہے۔ انھیں ہر دم شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انھیں ایک خاموش خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہاں ’سنگلس‘ کو بہت احتیاط اور شرافت سے زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اکثر بیویاں سَوت کے خطرے سے بے نیاز ہو جاتی ہیں اور بہت آسانی سے اپنے شوہروں کو دیوانہ بنا کر صحرا میں مجنوں کی طرح بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہیں۔

بیگم کے خط کے ساتھ چچا جان کی چٹھی بھی تھی۔ چٹھی میں بزرگوار مجھ سے سخت ناراض معلوم ہو رہے تھے۔ اپنی ناراضگی کا انھوں نے سلیقے سے یوں اظہار کیا تھا۔

’میاں، تمھاری فرماں برداری کی مثال ہم فخر سے تمھارے چھوٹوں کو دیا کرتے تھے۔ یہ تمھاری عادت رہی تھی کہ معمولی سے معمولی بات پر تم ہم سے مشورہ لیتے تھے۔ مشورے کا صرف نام ہوتا، ہمارے کہنے کو تم حکم سمجھتے تھے لیکن اس مرتبہ تم نے اپنے بزرگوں سے صلاح و مشورہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اگر تمہیں اپنی بیوی سے شکایت تھی تو اس مسئلہ کو خاندان والوں کے سامنے رکھتے۔ ہم بڑے بزرگ (معلوم نہیں اب تم ہمیں ایسا سمجھتے بھی ہو یا نہیں ) خاندانی انصاف پسندی کی روایت کے مطابق تمھارے ساتھ زیادتی نہ ہونے دیتے۔ تمھاری بیوی میں ہمیں تو کوئی خرابی نظر نہیں آتی۔ خوب صورت اور خوب سیرت بھی ہے۔ پتا نہیں، کس کی باتوں میں آ کر تم نے اتنا بڑا فیصلہ کر لیا اور اپنی بیوی بچوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے۔ ۔ ۔ ‘

سب کچھ ہو جانے کے باوجود چچا جان مجھ سے مایوس نہیں تھے۔ انھوں نے آگے لکھا تھا۔ ’ہمیں یقین نہیں آتا کہ ایسا ہوا ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ ہمارا بھروسا سلامت رہے۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو تم اپنی بیوی اور بچوں سے غفلت نہ برتنا، ان سے وہی سلوک روا رکھنا جس کے وہ مستحق ہیں اور ہاں، انصاف کا دامن کبھی نہ چھوڑنا۔ ‘

میں حیران اور پریشان کہ یا الٰہی ماجرا کیا ہے۔ آخر میں نے کیا کیا ہے۔ میرے اور بیگم کے درمیان ایسا کون سا مسئلہ درپیش تھا بلکہ اب بھی موجود ہے، جسے حل کرنے کے لیے میں نے بزرگوں سے مشورہ کیے بغیر، خود غرضی سے کام لیتے ہوئے اپنی بیوی اور بچوں پر ظلم ڈھایا ہے۔ بہت سوچا کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔ کیا میں نے اپنی دولت جوے میں ہار دی ہے یا کسی پر لٹا دی ہے۔ کیا میری جمع پونجی کسی بنک میں ڈوب گئی ہے۔ کیا میری کمائی بیوی اور بچوں کو نہیں مل رہی ہے اور گھر والے تنگدستی کا شکار ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے غافل ہو گیا ہوں اور انھیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

ایسی کوئی بات نہ تھی۔ تھک ہار کر میں نے بیگم کو فون کیا۔ سلام دعا کے بعد ’کیسی ہو؟ ‘ پوچھنا غضب ہو گیا۔ بیگم زار و قطار رونے لگیں۔ میری پریشانی بڑھ گئی۔ پیشانی پر نمودار ہونے والے پسینہ کو پونچھتے ہوئے میں نے دریافت کیا۔ ’خدارا مجھے بتلاؤ، ہوا کیا؟‘

بیگم نے سنبھلتے ہوئے جواب دیا۔ ’کچھ نہیں، سب خیر ہے۔ ‘

میں پریشانی میں مختلف سوالات کرنے لگا۔ ’کیا کسی کا انتقال ہوا ہے؟ کیا کوئی حادثہ کا شکار ہوا ہے؟کیا کوئی بیمار ہے؟ کیا کسی سے لڑائی ہوئی ہے؟کیا گھر میں چوری ہوئی ہے؟ کیا پلاٹ پر کسی لینڈ گرابر یا فلیٹ پر کرائے دار نے قبضہ کر لیا ہے؟‘

سب سوالوں کے جوابات نفی میں ملے تو میں نے گھبراہٹ میں نام بنام بچوں اور قریبی رشتہ داروں کے متعلق پوچھا۔ جواب ملا۔ ’سب خیریت سے ہیں، بس میری قسمت۔ ۔ ۔ ‘

ٹھنڈی آہ کے ساتھ بیگم پھر رونے لگیں۔ جھنجھلا کر میں فون پر دہاڑا۔ ’ آخر مجھے بتاتی کیوں نہیں کہ ہوا کیا ہے۔ تمھارا خط ملنے کے بعد سے میں سخت پریشان ہوں۔ ‘

جواب ملا۔ ’ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں۔ آپ کی خوشی ہی میری خوشی ہے۔ ‘

میں نے اسی سختی سے پوچھا۔ ’ میری خوشی میں اگر تمھاری خوشی ہے تو پھر یہ رونا دھونا کیا ہے اور یہ ماتم کیوں ہے؟‘

’سب کچھ لٹ جانے پر کیا رونا نہیں آتا؟ اب یہ رونا دھونا تو زندگی بھر کا ہے۔ ‘ محسوس ہوتا تھا کہ بیگم آنسوؤں کو بمشکل ضبط کر پا رہی ہیں۔

صبر کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا۔ میں نے فون پر چیخ کر غصّہ سے سوال کیا۔ ’تم بتاتی کیوں نہیں کہ میں نے کیا کیا ہے؟‘

بیگم نے بھرائی آواز میں جواب دیا۔ ’آپ نے جو کیا، ٹھیک ہی کیا ہے۔ آپ غصّہ کریں اور نہ پریشان ہوں۔ آپ کی خوشی میں ہم سب کی خوشی ہے۔ ‘

’پھر وہی بکواس، میری خوشی میں تمھاری بلکہ ہم سب کی خوشی ہے ! آخر میری وہ خوشی ہے کیا؟‘

’ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے جانتے نہیں ہیں۔ ‘ بیگم نے جواب دیا۔ زخموں پر نمک چھڑکنا اسی کو کہتے ہیں۔ ‘

کچھ لمحوں کے لیے دونوں طرف سے خاموشی رہی، پھر بیگم گویا ہوئیں۔ ’چلیے میں ہی پوچھ لیتی ہوں۔ کیسی ہے وہ؟ کیا نام ہے؟ کہاں کی رہنے والی ہے؟کیا مقامی ہے؟ عمر کیا ہے؟ غیر شادی شدہ، مطلقہ یا بیوہ ہے؟ پڑھی لکھی تو ہو گی؟رنگ کیسا ہے؟ بال کیسے ہیں؟ آپ ہمیشہ سے میرے چھوٹے قد کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ وہ لانبی تو ضرور ہو گی؟ اسے ساتھ لے کر گھومنے میں آپ کو اب شرمندگی نہیں ہو گی۔ وہ آپ کا خیال تو رکھتی ہو گی۔ کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے؟ کیا آپ اسے مجھ سے زیادہ پسند کرتے ہیں؟‘

بیگم نے جواب میں سوالوں کی بوچھار کر دی۔ چند لمحوں کے لیے مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ خیال کیا کہ بیگم ہیجانی کیفیت میں کچھ کا کچھ بک رہی ہیں۔ لیکن اب مطلع صاف ہونے لگا تھا۔ اطمینان ہوا کہ خطرناک حالات درپیش نہیں ہیں۔ میں نے پرسکون لہجے میں استفسار کیا۔ ’ کون کیسی ہے؟‘

’خدارا۔ اتنے بھولے بن کر میرے صبر کا امتحان تو نہ لیجیے۔ ‘ بیگم نے التجا کی۔

’یقین کرو۔ تمھاری باتیں میرے پلے نہیں پرہی ہیں۔ تم کس کی بات کر رہی ہو؟‘ میں نے پھر سوال کیا۔

’آپ کی دوسری۔ ۔ ۔ ‘ اتنا کہہ کر بیگم پھر رونے لگیں۔

’دوسری کون؟‘ میں نے شرارتاً وضاحت چاہی۔

’آپ کی دوسری بیوی اور میری سوت!‘ بیگم نے روتے ہوئے جواب دیا۔

میں نے آرام سے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ ’کاش یہ سچ ہوتا۔ اس شریف آدمی میں اتنی ہمت کہاں ہے کہ وہ کسی کو بیاہ کر لاتا! ‘

ویسے بعض باہمیت مرد حضرات یہاں کے سخت پرہیزی حالات کی پرواہ کیے بغیر، تو نہیں اور سہی کے فلسفہ پر یقین رکھتے ہوئے دوسری جگہ اپنا دل لگا لیتے اور شادی بھی کر لیتے ہیں۔ ہوشیاری سے وہ ایسی دوسری بیوی کا انتخاب کرتے ہیں جو مختلف ملک، زبان، تہذیب اور کلچر سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ احتیاط انھیں دو کشتیوں میں کامیاب سفر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ میں اس معاملہ میں اناڑی ہوں۔

’جھوٹ، سفید جھوٹ!‘ بیگم نے میری بات کا یقین نہ کرتے ہوئے کہا۔

میں نے بیگم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ’میری بات کا یقین کیجیے۔ آپ کے ہوتے ہوئے دوسری کی کیا ضرورت ہے۔ میرے لیے آپ ہی بہت بلکہ بہت زیادہ ہیں۔ دوسری کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ مطمئن رہیے، میں بلا شرکت غیرے صرف اور صرف آپ ہی کا ہوں۔ ‘

’دل رکھنے کے لیے آپ باتیں خوب کرتے ہیں۔ انہی باتوں کے چکر میں، میں آپ کو سمجھ نہ پائی۔ خیر، جو ہو چکا سو ہو چکا۔ مجھے سوت قبول ہے۔ ‘

’کاش یہ بات آپ نے چند برس پہلے کہی ہوتی!‘ میں نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ’اب اجازت مرحمت فرمانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ‘

’اچھا تو یہ آپ کی دیرینہ خواہش تھی۔ دیر آید درست آید کے مصداق آپ نے اچھا ہی کیا۔ آپ خوش رہیے اور اسے بھی خوش رکھیے۔ میری جانب سے اسے شادی کی مبارک باد دیجیے اور کہیے کہ آپ کا خیال رکھے۔ وقت پر کھانا اور دوائیں کھلائے۔ ۔ ۔ ‘ اتنا کہہ کر بیگم فون بچوں کے حوالے کر کے مزید رونے کے لیے چلی گئیں۔

بات صاف ہولی تھی۔ بیگم کے مطابق دیارِ غیر میں ان کی غیر موجودگی اور تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے دوسری شادی کر لی ہے۔ بیگم کا رونا دھونا در اصل سوت کا غم ہے۔ چچا جان کو دوسری شادی کرنے سے پہلے ان سے مشورہ نہ کرنے کا دکھ ہے، جبکہ میرا غم ان دونوں سے الگ اور عجیب قسم کا درد ہے۔ غم روزگار کا بوجھ اٹھائے تنہا اپنوں سے دور پڑا ہوں۔ دوری اپنوں سے محبت کی چنگاری کو بھڑکا دیتی ہے۔ ایسے حال میں کہاں اور کس سے دل لگے۔ کبھی کسی سے دل لگانے کا خیال آیا بھی تو اس سے پہلے شورطہ کا ہاتھ گریبان کی جانب بڑھتا دکھائی دیتا ہے یا پھر مطوع کا بید ہوا میں لہرانے لگتا ہے۔ اس خوف سے قطع نظر، میرا دل اپنے پاس ہے کہاں؟ میں اسے ہزاروں میل دور اپنوں کے پاس چھوڑ آیا ہوں۔ میرا دل تو وطن میں دھڑکتا ہے جبکہ جسم یہاں چند ریالوں کے لیے تنہائی کا بوجھ ڈھوتا ہے۔

تو پھر یہ دوسری شادی کی افواہ اٹھی کیسے اور بیگم تک کیوں کر پہنچی۔ میں سوچنے لگا شاید کسی نے بیگم کو بیوقوف بنایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میرے کسی دوست کی شرارت ہو! بیگم کو چاہیے تھا کہ پریشان ہونے سے پہلے مجھ سے دریافت کر لیتیں، لیکن بیگم نے اپنا اور میرا تماشا بنا دیا۔

بیگم کو مزید مضطرب ہونے سے بچانے اور حقیقت جاننے کے لیے میں نے فون کیا اور صفائی پیش کی۔ ’بیگم میں نے دوسری شادی نہیں کی ہے۔ میری ایک ہی شادی ہوئی ہے اور وہ بھی بڑے بزرگوں نے دھوم دھام سے تمھارے ساتھ کی تھی۔ تمھیں بھی یاد ہو گا۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ وداعی کے وقت تم اسی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئیں تھیں، جس طرح اب رو رہی ہو۔ میرے لیے یہی ایک شادی کافی ہے۔ میرا دوسری شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر کبھی سوچا تو سب سے پہلے تمھیں بتاؤں گا اور تمھاری اجازت اور رضامندی ہی سے تمھارے لیے سوت لے آؤں گا بلکہ جب تم مناسب سمجھو اپنے لیے ایک سوت لے آنا۔ فی الحال ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے تمھیں بیوقوف بنایا ہے۔ ۔ ۔ ‘

’مجھے کسی اور نے نہیں، آپ نے بیوقوف بنایا ہے اور آپ ہی نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ ‘ بیگم نے میری بات کاٹی۔ ’آپ نے سوچا ہو گا کہ میں کیا کر لوں گی۔ دوچار دن رو دھوکر خاموش ہو جاؤں گی۔ ‘ پھر ٹھنڈی آہ بھر کر بولیں۔ ’سب آپ کے پلان کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔ ‘

’میں نے نرمی سے بیگم کو سمجھایا۔ ’فرضی سوت کے بارے میں سوچ کر کیوں ہلکان ہو رہی ہو۔ میری بات کا یقین کرو۔ اچھا بتاؤ تم سے کس نے کہا ہے کہ میں نے شادی کی ہے، میں اسی سے تردید کرواؤں گا۔ ‘

جواب ملا۔ ’میں کانوں کی کچی نہیں ہوں۔ لوگ اگر کہتے تو میں کبھی یقین نہ کرتی۔ شادی کی اطلاع خود آپ نے دی ہے۔ ‘

’میں نے؟!‘ میں نے حیرت سے استفسار کیا۔

’جی ہاں ! آپ نے اپنے ہاتھوں سے یہ خوش خبری تحریر کی ہے۔ ‘ بیگم نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔

’ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ جو کام میں کر نہیں سکتا، اس کی اطلاع تمھیں کیسے دے سکتا ہوں اور وہ بھی لکھ کر، ناممکن۔ ‘ میں نے صفائی پیش کرنے کے ساتھ دعویٰ کیا۔

’اسے چوری اور سینہ زوری کہتے ہیں۔ ‘ بیگم نے طنز کیا۔

’اچھا بتاؤ میں نے کب اور کیا لکھا ہے؟ ‘ میں نے مسئلہ کا حل رکھا۔

’سنیے آپ نے کیا لکھا ہے۔ ‘ بیگم جواب دینے لگیں۔ ’میں نے نیا عقد کیا ہے۔ اسی لیے چھٹی پر نہ آ سکوں گا۔ ظاہر ہے کہ عقد کے بعد چھٹی میں نئی بیوی کے ساتھ ہنی مون پر جائیں گے۔ مجھے تو ہنی مون پر نہیں لے گئے لیکن اسے ضرور لے جایئے۔ میری طرف سے آپ دونوں کو اجازت ہے۔ ۔ ۔ ‘

میں ہنسنے لگا تو بیگم کہنے لگیں۔ ’ آپ کو اپنی کامیابی پر یوں ہی خوش ہونا چاہیے۔ ‘

میں نے ہنسی روک کر کچھ کہنے کی کوشش کی تو بیگم نے کہا۔ ’اب آپ مجھے بہلانے کے لیے کہیں گے کہ میں نے یوں ہی مذاق میں لکھا ہے، لیکن میں جانتی ہوں، یہ سچ ہے۔ ‘ بیگم کی آواز رندھ گئی۔

میں نے ٹیلی فون کا ریسیور اپنے سر پر دے مارنا چاہا لیکن کیا فائدہ۔ دیار غیر میں تیمار داری کے لیے کوئی اپنا بھی تو نہیں ہے اور پھر یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ ایک اور عقد ہوتا اور دوسری بیوی خیال رکھنے کے لیے موجود ہوتی!

میں نے بیگم کو سمجھایا۔ ’ یہ عقد وہ عقد و نکاح والا نہیں ہے، جس میں دلہن کو بیاہ کر لایا جاتا ہے۔ یہاں عقد سے مراد عقد العمل یعنی جاب کنٹراکٹ ہے۔ میرے جملے کا آسان ترجمہ یوں ہے کہ میں نے نئی نوکری کر لی ہے۔ نئے دفتر میں اتنی جلد چھٹی نہیں مل سکتی۔ پورے گیارہ مہینوں کی قید با مشقت کے بعد ایک ماہ کی چھٹی نصیب ہو گی۔ اسی لیے میں وطن نہیں آ سکتا لیکن تم نے سوچ لیا کہ میں نئی دلہن کے ساتھ ہنی مون پر۔ ۔ ۔ ‘

’سچ۔ ۔ ۔؟ آپ نے شادی نہیں کی! کھایئے میری قسم۔ ۔ ۔ ‘ بیگم خوشی سے چیخ پڑیں۔

’خدا کی قسم، میں نے دوسرا عقد کیا ہے۔ ‘ پھر دوسری ہی سانس میں تصحیح کر دی۔ ’یعنی دوسری نوکری کر لی ہے اور دوسری شادی نہیں کی، نہیں کی، نہیں کی ہے !‘

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی،ا گسٹ 1999ء

 

 

 

گُربہ کشتن۔ ۔ ۔

 

کسی سے پہلی ملاقات دلچسپ اور عجیب و غریب تجربہ ثابت ہوتی ہے اور جب معاملہ شریکِ حیات سے پہلی ملاقات کا ہو تو ہر دو کا اللہ حافظ ہے۔ دوسروں کے لیے دل جوئی کا سامان بنتے ہیں۔ شادی کی رسوم کی مثال لیجیے۔ دولھا دلھن تماشا بنتے بلکہ بنائے جاتے ہیں اور دوست احباب موج کرتے ہیں۔ ویسے بھی عورت اور مرد کی باہمی کوششوں کا نتیجہ دو صورتوں میں برآمد ہوتا ہے۔ ایک اولاد اور دوسرے بے وقوفیاں !

کہتے ہیں محبت پہلی نظر میں ہو جاتی ہے۔ ہم نے پہلی نظر کی محبت کے قصّے سنے اور افسانے پڑھ رکھے تھے۔ کئی مرتبہ چاہا کہ اپنی پہلی نظر کو محبت کی نظر بنائیں لیکن دل نے دوسری اور تیسری نظر ڈالنے کے لیے اکسایا۔ عقل نے محبت کرنے کے فیصلہ پر نظرِ ثانی کا مشورہ دیا اور ہماری پہلی نظر اندھی محبت کو اجاگر نہ کر سکی۔ ہم اس وجدانی کیفیت اور طوفانی دور سے محروم رہے جو پہلی نظر کی محبت کے بعد آتا ہے۔ ہم نے تنگ آ کر اپنی قسمت کا فیصلہ بڑوں پر چھوڑ دیا۔

خاندان کے جہاندیدہ بزرگوں نے خوب چھان بین کے بعد ایک لڑکی کا انتخاب کیا جو ہماری شریکِ حیات بننے کے لائق تھی۔ ہمارے سامنے اس کی خوب صورتی، تعلیم، سلیقہ مندی، اخلاق اور نفاست پسندی کے گن گائے جانے لگے جبکہ ہم اس فکر میں گھلنے لگے کہ موصوفہ سے پہلی ملاقات کیسی ہونی چاہیے۔ ان سے کس طرح اور کیا بات کرنی چاہیے۔ مختلف منصوبے سوچے گئے۔ ایک منصوبہ بنایا کہ پہلے دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ خیال آیا کہ دروازہ کیوں بند ہو گا؟ ہمارے انتظار میں دروازہ تو کھلا ہو گا!

دوسرے منصوبے میں موصوفہ کا نام اور تعلیم کے بارے میں دریافت کرنے کا خیال آیا لیکن یاد آیا کہ’ ان کا‘ نام بمع ولدیت پہلے سے معلوم ہے۔ تعلیم کے بارے میں بھی معلوم ہے کہ گریجویٹ ہیں اور ماسٹرس میں داخلہ لیا ہے۔ ویسے بھی تعلیم کے بارے میں پوچھ کر کیا کرنا ہے۔ وہ ہم سے ٹیوشن پڑھنے تو نہیں آئی ہیں۔ عقل نے مشورہ دیا کہ بے وقوفی چھوڑو اور کوئی ڈھنگ کا منصوبہ بناؤ۔

تیسرے منصوبے میں سوچا کہ ان کے حسن کی تعریف کی جائے، یہ ڈھنگ کا کام ہو گا۔ کئی فلموں کے مکالمے یاد آئے لیکن انہیں دہرانے سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ہم فلموں کے دیوانے ہیں۔ خود کوشش کرنے لگے۔ سوچا کہ ان سے کہیں۔ آپ کا چہرہ کھلے ہوئے پھول کی مانند ہے۔ آپ کی آنکھیں نرگسی اور ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہیں۔ اور قد و قامت جیسے سرو کا درخت۔ عقل نے پھر طنز کیا۔ آپ کی ہونے والی شریکِ زندگی شاید باغ باغیچہ ہے اور کیا آپ مالی ہیں؟ ڈھنگ سے تعریف کرنا بھی نہیں آتا۔ پھر سوچا کہ موصوفہ کی مدح سرائی کوئی گیت یا غزل گا کر کروں۔ لیکن پہلی ملاقات میں انھیں ڈرانا اور اپنے بے سرے ہونے کا ثبوت پیش کرنا ہمیں گوارا نہ ہوا۔

چوتھے منصوبے کے لیے ہم نے سوچا کہ مستقبل کی پلاننگ کرنی چاہیے۔ ہنی مون کے لیے کہاں جائیں گے۔ ہم ازدواجی زندگی کیسے گذاریں گے۔ بچے کب اور کتنے ہوں گے۔ بچوں کو کیا بنائیں گے۔ وغیرہ۔ عقل نے اس منصوبے پر بھی طنز کیا کہ حال کی فکر کرو میاں۔ بات کرنے سے پہلے لڑکھڑا رہے ہو اور چلے ہیں مستقبل کی پلاننگ کرنے !

تنگ آ کر ہم نے منصوبہ سازی کا کارخانہ بند کیا اور بھائجو سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھائجو ہمارے خالہ زاد بھائی ہیں۔ یوں تو عمر میں ہم سے دس بارہ سال بڑے ہیں لیکن خوب بے تکلفی ہے۔ بھائجو ہمیں دیکھ کر خوش ہوئے اور کہا۔ ’مبارک نوشہ، دلھن کو پا کر ہمیں بھول نہ جانا۔ ‘

مبارک باد کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے اپنی بپتا سنائی۔ ’بھائجو شادی میں دو دن باقی ہیں اور ہم پریشان ہیں۔ ۔ ۔ ‘

بھائجو نے ہماری بات کاٹی۔ بھویں چڑھائیں اور اپنا کان ہمارے منہ کے قریب لا کر سوال کیا۔ ’خیریت تو ہے۔ ۔ ۔ ‘

ہم نے ان کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔ انہیں اطمینان دلاتے ہوئے اپنی پریشانی بتائی۔ ’ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم یہ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ ہماری پہلی ملاقات کیسی ہونی چاہیے؟‘

بھائجو ہنسنے لگے۔ ’تم نے مجھے ڈرا دیا تھا۔ اچھا بتاؤ تم نے کیا سوچا ہے؟‘

ہم نے جواب دیا۔ ’سجھائی نہیں دیتا کہ سلام کے بعد کلام کیا ہو اور کیوں کر ہو۔ ‘

بھائجو نے تعجب سے ڈانٹا۔ ’سلام کرو گے ! تم سرتاج بننے جا رہے ہو میری جان۔ وہ تمھیں سلام کریں گی۔ ‘

’وعلیکم السلام۔ ‘ ہم نے شوشہ چھوڑا۔

’ساتھ میں دعائیں بھی دو۔ جگ جگ جیو، دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔ ‘ بھائجو نے طنز کیا۔

’تو پھر ہم کیا کریں؟‘ ہم نے پوچھا۔

بھائجو نے جواب دیا۔ ’گربہ کشتن روزِ اول۔ پہلی ملاقات میں ایسا تاثر چھوڑو کہ بیوی چرن داسی بن جائے۔ بیوی کو اپنی پسند کے سانچے میں ڈھال لو۔ سلام کے جواب میں خاموش رویا اشارے سے جواب دو اور اطمینان سے کرسی پر بیٹھ جاؤ۔ جوتے نکال کر ایک اِدھر اور ایک اُدھر اچھال دو۔ شیروانی اتار کر کرسی پر ڈال دو۔ ایک شانِ بے نیازی کا مظاہرہ کرو۔ گفتگو کے دوران وہ جو کہے اس کا الٹا جواب دو۔ وہ کہے کہ مجھے چائے پسند ہے تو تم کہنا، چائے گنوار پیتے ہیں۔ مجھے کافی چاہیے۔ دیر سے گھر پہنچو تاکہ شروع ہی سے صبر کرنے کی عادت پڑے۔ اپنی سلیقہ مندی چھوڑو۔ بیوی کے سلیقہ کا امتحان لو۔ چیزیں اِدھر اُدھر بے ترتیبی سے رکھو۔ ‘ بھائجو نے اور بھی چند مشورے دیے۔

ہم نے بھائجو سے درخواست کی۔ ’بھائجو آپ کے مشورے بہت شاندار ہیں لیکن ان پر عمل کرنے سے بیوی سمجھے گی کہ ہم بڑے سخت اور جلاد قسم کے شوہر ہیں۔ کیوں نہ کچھ نرم گفتاری کی جائے۔ کیا ہم بیوی کی مدح سرائی کر سکتے ہیں۔ یوں بھی کسی سے پہلی ملاقات میں رسماً تعریف کی جاتی ہے۔ ‘

’کیا کہنا چاہتے ہو؟‘بھائجو نے سوال کیا۔

ہم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ ’یہی کہ آپ لاکھوں میں ایک ہیں۔ آپ بہت خوب صورت ہیں۔ ۔ ۔ ‘

بھائجو نے میری بات کاٹی۔ ’صرف میرے لیے بنائی گئی ہیں۔ زمین پر قدم نہ رکھیے۔ پاؤں میلے ہو جائیں گے۔ پاؤں میں چھالے پڑ جائیں گے۔ خدا آپ کو نظرِ بد سے بچائے۔ آپ کے حسن کے ہم صدقے۔ ‘ بھائجو نے وارننگ دی۔ ’بچو! بیوی ملنے کی خوشی میں ہوش وحواس کھو بیٹھو گے اور بیوی کی پسند اور خواہش سے سمجھوتا کرنے لگے تو پھر تم وہی کرتے رہ جاؤ گے جو وہ چاہے گی۔ زن مرید بن جاؤ گے اور وہ تمھیں انگلیوں پر نچائے گی۔ سمجھے !‘

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بھائجو نے پوچھا۔ ’کیا تم زن مرید یا جورو کا غلام کہلوانا پسند کرو گے؟‘

’نہیں، کبھی نہیں۔ ‘ ہم نے ڈر کر فوری جواب دیا۔

’تو پھر میرے مشوروں پر عمل کرو اور یاد رکھو، گربہ کشتن روز اول۔ ‘ بھائجو نے سمجھایا۔

پہلی ملاقات کا دن آ پہنچا۔ ہمیں نئے چمکیلے کپڑے پہنا کر، خوب رنگ و روغن لگا کر، سر سے پیر تک معطر کر کے، پھولوں سے لاد کر اور مختلف رسوم سے گزار کر سجے سجائے کمرے میں دھکیلا گیا جہاں ہماری قبول کردہ دوشیزہ سے پہلی ملاقات بلکہ ’پہیلی ملاقات‘ ہونے والی تھی۔ دلہا بننے کے بعد ایک مرتبہ باتھ روم جانے کے بہانے خود کو آئینے میں دیکھنے کا موقع مل گیا تھا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہم، ہم نہیں ہیں بلکہ کسی شریف آدمی کو جوکر بنا کے شادی خانے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اب پتا چلا کہ لوگ ہم سے ہنس ہنس کر کیوں مل رہے تھے !

ہم کمرے میں داخل ہو کر بھائجو کی ہدایت کے مطابق انتظار کرنے لگے کہ بیوی اپنے سرتاج کو سلام کریں گی۔ اپنے کمرے کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ سجا سجایا معطر کمرہ خوب ہے۔ ہر شئے قرینے سے سجی ہوئی ہے۔ شاندار فرنیچر اور ڈریسنگ ٹیبل کی موجودگی سے محسوس ہوا کہ ہم کسی اور کے کمرے میں گھس آئے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ اس کمرے میں آئی بہار اور رونق کی وجہ ہماری شریکِ حیات ہیں۔ دل نے چاہا کہ کچھ رد و بدل کے ساتھ یہ شعر وجہ بہار کی نظر کریں۔

آپ آئیں ہمارے کمرے میں خدا کی رحمت ہے

کبھی ہم آپ کو کبھی اپنے کمرے کو دیکھتے ہیں

لیکن بھائجو کی ہدایت ’گربہ کشتن روز اول‘ یاد آئی۔ شعر عرض کرنے کے بجائے ہم کھنکھار کر رہ گئے۔ کچھ وقت گذرا لیکن ’السلام علیکم‘ کی نقرئی آواز نہ گونجی۔ ہم نے گلا صاف کیا۔ اُدھر خاموشی رہی۔ ہماری نظریں ہماری دلھن پر پڑیں۔ موصوفہ کی حالت بھی ہم سے مختلف نہ تھی۔ وہ بھی رشتہ داروں اور سہیلیوں کی زیادتیوں کا نشانہ بن چکی تھیں۔ محسوس ہوتا تھا کہ ان پر ہم سے زیادہ ظلم ہوا ہے۔ لال پیلی بنی، کپڑوں اور زیور میں لپٹی اور سمٹی، آنکھیں موندے لیکن کان کھڑے کیے جلوہ افروز تھیں۔ سہیلیوں نے دیر سے ان کی گردن بھی نیچی کر رکھی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے ہمیں ان پر ترس آیا۔ لیکن بھائجو۔

کچھ دیر ہم بے بسی سے اپنی دلھن کو گھورتے اور بھائجو کو یاد کرتے رہے۔ آخر تنگ آ کر خود ہی سلام کیا۔ سلام میں کیا رکھا ہے۔ ویسے بھی آنے والے کو پہل کرنی چاہیے۔ جواب میں گھونگھٹ ہٹا، ہاتھ ہلا، گردن اٹھی اور آنکھ کھلی۔ یوں ہمارے سلام کا جواب ملا اور ہماری اور ان کی نظریں باہم ٹکرائیں۔ نظروں کا ٹکرانا تھا کہ لب خاموش ہوئے اور زبان گوں گی۔ آنکھوں نے بہت کچھ کہا، تعارف ہوا اور یوں تکلف اور شرم اور جھجک کے پردے اٹھتے گئے۔

جب قوتِ گویائی واپس آئی تو دلھن نے کہا۔ ’سنیے۔ ‘

ہم نے کہا۔ ’سنایئے۔ ‘

سوال ہوا۔ ’کیا آپ نے کبھی کسی سے دل لگایا تھا؟‘

ہم نے جواب دیا۔ ’نہیں کسی سے نہیں۔ اب آپ سے دل لگائیں گے۔ ‘

جواب میں ارشاد ہوا۔ ’آپ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں۔ میں نے سن رکھا ہے کہ کالج میں آپ لڑکیوں کے درمیان خاصے مقبول تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کا دل کہیں نہ لگا ہو۔ ‘

ہمارے کان کھڑے ہوئے اور بھائجو کی ہدایات یاد آئیں۔ ہم نے اس موقع پر جھوٹ بولنا مناسب خیال کیا۔ ’ایک آدھ لڑکی سے کبھی کبھار آنکھ لڑ گئی ہو گی۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔ ‘

’لیکن اب کبھی ایسا نہیں ہو گا۔ آپ کی نظریں کسی دوسری طرف نہیں اٹھیں گی۔ وعدہ کیجیے۔ ‘

بھائجو نے ایسا کوئی وعدہ کرنے سے منع کیا تھا اس لیے جواب دیا۔ ’انسان ہوں غلطی کا امکان رہتا ہے۔ اس لیے وعدہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ کیا فائدہ اگر بعد میں وعدہ خلافی ہوئی تو!‘

فیصلہ صادر ہوا۔ ’ایسی غلطی نہیں ہو گی وعدہ کیجیے۔ ‘

حسبِ ہدایت ہم خاموش رہے۔ ہماری دلھن مایوس ہوئیں اور نظریں نیچی کئے ناخنوں کے پینٹ کو کریدنے لگیں۔ دل نے چاہا کہ وعدہ کر لیں اور انہیں خوش کر دیں۔ لیکن گربہ کشتن۔ ۔ ۔

دوسرے دن بیوی نے ہمیں کپڑے نکال کر دیے۔ ہم نے فوراً اعتراض کیا۔ ’اس سوٹ کے ساتھ یہ شرٹ اور ٹائی ٹھیک نہیں ہے۔ ‘

جواب ملا۔ ’حیرت ہے۔ بلیو سوٹ پر نیلی شرٹ اور لال ٹائی خوب کھلتی ہے۔ آپ پہنیے تو سہی۔ اسمارٹ دکھائی دیں گے۔ ‘

’لیکن ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ گرے کلر کی ٹائی دیجیے۔ ‘

بیوی نے اپنی پسند پر اصرار کیا۔ ’اب سے آپ میری پسند کے کپڑے پہنیں گے۔ ‘

’آپ کی پسند ٹھیک نہیں ہے۔ ‘ ہم نے بھائجو کے ورغلانے پر بد تمیزی سے جواب دیا۔ لیکن سچ بات یہ تھی کہ نیلی شرٹ پر لال ٹائی خوب جچ رہی تھی۔

’کسی دوسرے کی رائے لیتے ہیں۔ پتا چل جائے گا کہ کس کی پسند اچھی ہے۔ ‘ بیوی نے اپنی پسند منوانے کے لیے تجویز رکھی۔

اتنا جلد، شادی کے دوسرے ہی دن ہمیں اپنے درمیان کسی اور کی مداخلت اچھی نہ لگی۔ مجبوراً ہم نے نیلی شرٹ پر لال ٹائی باندھی اور بھائجو کی ہدایت کے مطابق دن بھر منہ پھلائے رہے۔

گفتگو کے دوران ہمارے درمیان اختلافِ رائے کے ساتھ بحث ہونے لگی۔ ٹیلی وژن کے بارے میں ہم نے کہا۔ ’ٹیلی وژن دیکھنا وقت گنوانا اور آنکھیں خراب کرنا ہے۔ کوئی پروگرام ڈھنگ کا نہیں ہوتا۔ ‘

جواب ملا۔ ’ٹی وی اتنا برا تو نہیں ہے۔ کئی اچھے پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ جب ہم گھر میں اکیلے ہوتے ہیں تو ٹی وی ایک اچھا ساتھی ثابت ہوتا ہے۔ ‘

’آپ کا ساتھی ہو گا لیکن ٹیلی وژن ہمیں ایڈیٹ باکس لگتا ہے۔ ‘ہم نے وار کیا۔

’اپنے اپنے نظریے اور ذہن کی بات ہے۔ ‘ بیوی نے جوابی وار کیا۔

ڈائننگ ٹیبل پر بیوی نے اپنی پسند بتائی۔ ’ میں روٹی کھاتی ہوں۔ روٹی کھانے سے وزن قابو میں رہتا ہے۔ ہمیں چاول کم کھانا چاہیے۔ ‘

بھائجو کی ہدایت کے موجب ہم نے خواہ مخواہ ہی مخالفت کی۔ ’روٹی کھانے سے بے شک وزن قابو میں رہتا ہے لیکن روٹی چبانے سے دانتوں میں درد ہوتا ہے اور جلد ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔ بہتر ہے کہ چاول کھائیں۔ ‘

ہم نے تفریح کے لیے باہر جانے کے خلاف رائے دی۔ ’پکنک پر جانے اور لوگوں کے درمیان تماشا بننے کی بجائے گھر پر موسیقی سنتے ہوئے چائے کی چسکیاں لیتے گپ ہانکنا اور تاش کھیلنا ہمیں پسند ہے۔ ‘

بیوی کی جانب سے فوراً مخالفت میں قابلیت کا اظہار ہوا۔ ’باہر جانے سے حرکت ہوتی ہے۔ جسم چست رہتا ہے۔ دھوپ سے وٹامن ڈی بنتا ہے۔ ‘

ہم نے بحث کی۔ ’کبھی کبھار پکنک پر جانے سے صحت بہتر نہیں ہوتی۔ ہمیں ہر دن ریاضت کی ضرورت ہے۔ برتن اور کپڑے دھونا چاہیے۔ جھاڑو لگانی چاہیے۔ کپڑوں پر استری پھیرنی چاہیے۔ ناشتہ تیار کرنا اور کھانا بنانا چاہیے۔ ‘

بیوی نے طنز کیا۔ ’محسوس ہوتا ہے آپ کو ماما کی تلاش تھی۔ ‘

ہم نے ترکی بہ ترکی حیرت کا اظہار کیا۔ ’آپ ماما کو جہیز میں نہیں لائیں !‘

بیوی جھینپ کر خاموش ہوئیں تو ہم بھی چپ ہو بیٹھے۔

ہمارا وقت کچھ عجیب گزر رہا تھا۔ شادی کا وہ لطف آ ہی نہیں رہا تھا جس کا تذکرہ ہم دوستوں سے سنتے آئے تھے۔ شادی شدہ زندگی ہمیں بے کیف اور بور لگنے لگی تھی۔ ہم پھر مدد کے لیے بھائجو کے پاس پہنچے۔ اپنی مشکلات بتائیں۔ انہوں نے ہمیں سمجھایا۔ ’یہی ابتدائی چند دن اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ ہمت نہ ہارنا۔ مقابلے پر ڈٹے رہو۔ مخالف پارٹی ہار مان کر اپنے آپ کو تمہارے حوالے کر دے گی۔ پھر بچو عیش کرنا اور مجھے دعائیں دینا۔ ‘

بھائجو نے ہمیں کھانا کھلایا اور رات دیر گئے تک اپنے پاس روکے رکھا۔ ہم گھر پہنچے تو بیوی کو انتظار میں روٹھا ہوا پایا۔ ہمیں دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ہم شرمندہ ہوئے اور چاہا کہ انھیں منائیں لیکن بھائجو کی ہدایت کے مطابق انجان بنے رہے۔ کچھ دیر ہم دونوں خاموشی سے گھڑی کی ٹک ٹک سنتے رہے۔ آخر بیوی نے خاموشی توڑی اور غصّہ سے کہا۔ ’کھانا میز پر ہے، زہر مار کر لیجیے۔ ‘

ہم نے بے رخی سے جواب دیا۔ ’ ہم کھانا کھا چکے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ نے زہر مار کر لیا ہو گا۔ ‘

’جی نہیں، میں نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ آپ کے انتظار میں سوکھ رہی ہوں۔ ‘

ہم نے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرنے کی بجائے کہا۔ ’ وقت پر کھا لیا ہوتا! ‘

بیوی نے کہا۔ ’آپ نے بتا دیا ہوتا کہ میں باہر سے کھا کر آ رہا ہوں۔ ‘

ہماری غلطی کی نشاندہی کرنے پر ہم نے بیوی کو مشورہ دیا۔ ’آئندہ سے آپ وقت پر کھا لیا کریں، مہربانی ہو گی۔ ‘

گھڑی کچھ دیر اور ٹک ٹک کرتی رہی۔ پھر بیوی ہی نے خاموشی توڑی اور بھرائی آواز میں کہا۔ ’مجھے بھوک لگی ہے۔ ‘

ہم نے کہا۔ ’پھر آپ کھاتی کیوں نہیں ! ‘

بیوی کے آنسو جھلک پڑے۔ ’آپ مناتے کیوں نہیں۔ خالہ بی نے۔ ۔ ۔ ‘

بیوی آنسو پونچھنے کے لیے رکیں تو ہم چونک پڑے۔ ’خالہ بی۔ ۔ ۔ خالہ بی نے کیا کہا تھا؟‘

بیوی نے اپنی کہانی سنائی۔ ’خالہ بی نے مجھے مشورہ دیا کہ پہلے دن ہی سے میں آپ کو گانٹھ کر رکھوں۔ ڈھیلی ڈوری نہ چھوڑوں۔ آپ مرد حضرات بڑے بے بھروسا ہوتے ہیں۔ خالہ بی نے کہا کہ میں جھوٹ موٹ جھگڑا کر کے روٹھ جاؤں۔ آپ منا لیں گے لیکن خالہ بی کے مشورے آپ پر اثر ہی نہیں کر رہے ہیں۔ ‘

’ہمارے پاس خالہ بی کے مشوروں کا توڑ بھائجو جو موجود ہیں۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

بیوی نے آنسو پونچھتے ہوئے خوشی سے پوچھا۔ ’تو کیا آپ ایسے نہیں ہیں؟‘

ہم نے جواب دیا۔ ’بالکل نہیں۔ وہ تو بھائجو کا مشورہ تھا۔ گربہ کشتن روزِ اول۔ ہم تو بہت سیدھے سادے گاودی قسم کے انسان ہیں۔ ‘

ہمارے درمیان جو کھنچاؤ اور تناؤ تھا وہ یکلخت دور ہوا۔ اب ہم دونوں ایک مثالی شوہر اور بیوی ہیں۔ یقین نہ آتا ہو تو بھائجو اور خالہ بی سے پوچھ لیجیے۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، نومبر2004ء

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید