FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

یہ نہ تھی ہماری قسمت

 

حصہ اول

 

شگفتہ افسانوں کا مجموعہ

 

                عابد معز

 

 

دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے

 

 

انتساب

 

جناب کلیم چغتائی، سابق ایڈیٹر ماہنامہ رابطہ، کراچی

کے نام

 

عابد معز

 

 

 

عرضِ ناشر

 

ڈاکٹر عابد معز اردو دنیا کے نامور طنز و مزاح نگار ہیں جن کے تعارف کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ان کی تخلیقات ہی ان کا صحیح تعارف ہے۔ چند مہینے قبل ہدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس نے ڈاکٹر عابد معز کے شگفتہ افسانوں کا مجموعہ ’عرض کیا ہے ‘ شایع کیا تھا۔ کتاب ادبی حلقوں میں مقبول ہوئی اور عوام نے بھی پسند کیا۔ ’عرض کیا ہے ‘ کی مقبولیت اور قبولیت کے پیش نظر ہم ڈاکٹر عابد معز کی مزاحیہ تخلیقات کا دوسرا مجموعہ ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ شایع کر رہے ہیں۔

اس کتاب میں ڈاکٹر عابد معز کے اٹھارہ شگفتہ افسانے شامل ہیں جن میں ہماری زندگی کے روزمرہ کے مسائل کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے اور طنز کے نشتر کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنے کا ماہرانہ عمل بھی ہے۔ ہم نے پیٹ پالا، یہ نہ تھی ہماری قسمت، کالے کالے دانے، شریف بدمعاش جیسے افسانے پڑھنے والے کو بے اختیار ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ مریضانہ آئے، ڈیڈی فیل ہو گئے، کوٹھیوں کا شہر اور ہم نے گواہی دی ہمیں مسکرانے اور محظوظ ہونے کے ساتھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ باقی افسانے بھی خاصے دلچسپ اور ہنسی بردوش ہیں۔

ھدیٰ بک ڈسٹری بیوٹرس ڈاکٹر عابد معز کے شگفتہ افسانوں کا دوسرامجموعہ پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس مجموعے کا استقبال بھی پہلے جیسی گرم جوشی سے ہو گا۔

سید عبدالباسط شکیل

 

 

 

 

پیش لفظ

 

شگفتہ افسانوں کا میرا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔

میں نے شگفتہ افسانوں میں اپنی ان تخلیقات کو شامل کیا کیا ہے جن میں کہانی پن ہے۔ ان میں کردار ہیں، پلاٹ بھی ہے لیکن اسلوب طنز و مزاح ہے۔ ممتاز افسانہ نگار، شاعر اور فلمی ادیب رفیق جعفر نے پہلے مجموعے ’عرض کیا ہے ‘ کا مقدمہ لکھ کر میری بات کی تائید کی ہے۔ میرے شگفتہ افسانوں کو انھوں نے افسانوی دنیا میں خوش گوار اضافہ قرار دیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ایسی تحریروں سے اردو ادب کے نئے باب کھل سکتے ہیں جس سے نئے قاری بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

میرے اکثر شگفتہ افسانے جناب کلیم چغتائی، سابق ایڈیٹر ماہنامہ رابطہ کی خواہش اور فرمائش پر لکھے گئے ہیں۔ میں اس مجموعے کو ان کے خلوص کے نام معنون کرتا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔

جناب کلیم چغتائی صاحب ان افسانوں کو ’فکاہیہ‘ کے تحت بہت اہتمام سے شایع کرتے اور مجھے خطوط لکھتے تھے۔ خط میں پچھلے فکاہیہ کے متعلق موصوف کی گراں قدر رائے ہوتی اور مشورے بھی درج ہوتے تھے اور آخر میں نئے فکاہیہ کی فرمائش ہوتی تھی۔ ایک خط میں انھوں نے ہر ماہ ایک فکاہیہ لکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا جو میں اپنی مصروفیات کے سبب پوری نہ کر سکا۔ موصوف کے لکھے ہوئے دلچسپ خطوط وطن منتقل ہوتے وقت کہیں ضائع ہو گئے جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ وقت کے ساتھ یہ تبدیلی آئی ہے کہ پچھلے چند برسوں سے ہمارے درمیان خطوط کے بجائے ای میل سے رابطہ ہے۔ ای میل کا ریکارڈ رکھنے میں وہ لطف نہیں آتا جو خطوط محفوظ رکھنے سے حاصل ہوتا تھا۔ کبھی کبھار فون پر بات بھی ہو جاتی ہے۔

کلیم چغتائی صاحب سے صرف ایک مرتبہ ملاقات ہوئی ہے جب وہ حج پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تھے۔ میں ان سے ملنے ریاض سے مکہ گیا تھا۔ حرم شریف کے باہر آنگن میں ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اپنا رو مال ہلاتے ہوئے ایک معینہ مقام پر ایستادہ تھے اور میں ان کی جانب بے اختیار دوڑ پڑا اور بغل گیر ہو گیا۔ بہت خلوص سے وہ ملے اور ایک قلم پیش کیا تھا۔ ایک بار ہوئی ملاقات کا منظر آج بھی نظروں کے سامنے گھومتا ہے جیسے یہ چند دنوں پہلے کا واقعہ ہے۔

ماہنامہ رابطہ، کراچی سے شایع ہونے والا انٹرنیشنل میگزین تھا جو شاید1984ء یا 1986ء میں شروع ہوا تھا۔ اس زمانے میں رابطہ چھپائی، مواد اور گیٹ اپ کے اعتبار سے منفرد رسالہ تھا۔ چھپائی بنکاک میں ہوتی تھی اور یہ رسالہ دنیا کے مختلف ممالک کے بک اسٹالوں پر ملتا تھا۔ جب میں اپریل 1987ء میں سعودی عرب پہنچا تو یہاں کے تقریباً بڑے شہروں میں اس رسالے کو دکانوں اور شاپنگ مال کے اسٹانڈس پر دیکھا تھا۔ اس وقت رابطہ کے ساتھ بک اسٹالوں پر فلمی رسالہ شمع بھی ملتا تھا۔

شاندار کاغذ پر بہترین کتابت اور افسانے سے متعلق قلمی تصویر کے ساتھ فکاہیہ چھپتا تھا۔ رابطہ میں چھپنے کا لطف الگ ہی تھا۔ اس کے قاری مختلف ممالک بشمول امریکہ، کنیڈا، آسٹریلیا، لندن اور خلیجی ممالک میں تھے۔ مختلف مقامات سے قارئین کے خطوط بھی آتے تھے۔ رابطہ میں میرے ساتھ مزاحیہ شاعر اقبال شانہ کا کلام ’سخن ظریف‘ میں چھپتا رہا ہے۔ میرا پہلا فکاہیہ اپریل 1989ء میں آخری فکاہیہ نومبر 2004ء میں شایع ہوا تھا۔

ٹیلی وژن، ویڈیو اور سٹیلائٹ چینلز شروع ہوئے تو پرنٹ میڈیا اپنی اہمیت اور وقعت کھونے لگا اور رسالے بند ہونے لگے۔ رابطہ بھی بیس ایک برس کامیابی اور پابندی سے شایع ہونے کے بعد بند ہوا۔ ماہنامہ رابطہ کے بند ہونے کا خلق مجھے آج بھی ہے اور میں رابطہ بند ہونے کو اپنا ذاتی نقصان سمجھتا ہوں۔ رابطہ بند ہونے کے بعد میں نے بہت کم، بس دو یا تین شگفتہ افسانے لکھے ہیں۔

دوسرا مجموعہ جلد شایع کرنے کے محرک سید عبدالباسط شکیل صاحب ہیں۔ موصوف نے کاروباری مصروفیت سے دو دن کی چھٹی لی تھی۔ فون پر انھوں نے بتایا کہ میں گھر پر آرام کر رہا ہوں۔ فرصت میں آپ کی کتاب عرض کیا ہے پڑھنے کا موقع ملا۔ افسانے خوب ہیں۔ لطف آ رہا ہے۔ آپ کی دیگر تخلیقات بھی کتابی شکل میں شایع ہونی چاہیے۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا کہ جب پبلشر کتاب چھاپنے تیار ہے تو مصنف کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ میں نے کتاب تیار کر کے سی ڈی شکیل صاحب کے حوالے کر دی۔ اس کے بعد جو کرنا تھا وہ شکیل صاحب نے کیا ہے۔

اس موقع پر میں اپنے ان احباب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے خلوص اور تعاون کے لیے میں سراپا سپاس ہوں۔ نواب سکندر علی خان کے مشورے بہت کام آتے ہیں۔ جناب محمد یوسف مڑکی اور ڈاکٹر محسن جلگانوی کا تعاون بے مثال رہتا ہے۔ میرے ہم جماعت ڈاکٹر اعجاز احمد کو میری نئی کتابوں کا مجھ سے زیادہ انتظار رہتا ہے۔

اللہ کا بڑا کرم اور شکر ہے کہ ہدی بک ڈسٹری بیوٹرس، حیدرآباد میری کتابوں کو اہتمام سے شایع کر رہا ہے۔ پچھلے سال اس ادارے سے طب کے موضوع پر میری دو کتابیں ’ذیابیطس کے ساتھ ساتھ‘ اور ’چکنائی اور ہماری صحت‘ اور شگفتہ افسانوں کا پہلا مجموعہ ’عرض کیا ہے ‘ شایع ہوئی تھیں۔ اس سال کے آغاز پر اس کتاب کے ساتھ ’کولیسٹرال کم کیجیے ‘ بھی شایع ہو رہی ہے۔ اس لطفِ خاص کے لیے میں جناب محمد اظہر الدین اور جناب سید عبدالباسط شکیل کا ممنون ہوں۔

پچھلی کتاب کی طرح اس کتاب کا عنوان بھی کتاب کی فہرست میں سے چنا گیا ہے۔ ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ عنوان کا افسانہ شامل کتاب ہے۔

مجھے امید ہے کہ قارئین میری اس کاوش کو بھی شرف قبولیت بخشیں گے۔ اگر وہ ای میل یا فون کے ذریعہ اپنی قیمتی آرا سے نوازیں گے تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔

 

عابد معز

جنوری 2012ء حیدرآباد

 

 

 

مقدمہ

 

گواہی!

عابد معز ایک ’طرحدار‘انسان ہیں۔ شاید اسی لیے وہ نئی طرحیں ڈالنے کے لیے طرح طرح کی تدابیر سوچتے رہتے ہیں۔ اب اسی کو لیجیے۔ میرا قصور صرف اتنا ہے کہ میں نے عابد معز کو کئی فکاہیے لکھنے پر اکسایا اور ماہنامہ’ رابطہ ‘میں انہیں شائع کر کے، اردو ادب اور اس کے قارئین کی خدمت میں بصد فخر پیش کیا۔ اس معمولی سی تقصیر کی سزا موصوف، فقیر پُر تقصیر کو اس طرح دے رہے ہیں کہ انھوں نے مذکورہ فکاہیوں کو ایک ہی قطعۂ قرطاس پر بسا ڈالا، اس بستی کا نام ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ رکھ چھوڑا۔ پھراس بستی کو از راہ تلطّف (یا ترحم؟) فقیر پُر تقصیر کے نام منسوب کر دیا۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو ’عابد شاہی‘ حکم بھی دے ڈالا کہ یہ فقیر ہی اس بستی کا مقدمہ فوراً دائر کرے ! سوچیے تو کیا طرفہ تماشا ہے کہ جس ’قد آور‘ شخصیت سے کتاب کو منسوب کیا جائے، اسی کو کتاب کا وکیل بھی بنا ڈالا جائے کہ لیجیے، مقدمہ بھی لڑیے !

ہر شریف اور سفید پوش انسان (مثلاً عابد معز! ملاحظہ ہو اس کتاب میں ان کا مضمون ’ہم نے گواہی دی‘) کی طرح میں بھی مقدمہ بازی سے کوسوں دور رہنا پسند کرتا ہوں، لیکن میرا سابقہ عابد معز سے پڑا ہے جو مجھ سے کوسوں دور رہنے کے باوجود مجھ پر اپنی لطیف لیکن آہنی گرفت رکھتے ہیں۔ اپنے پُر لطف فکاہیوں کے ذریعے وہ برسوں قبل مجھے اسیر کر چکے ہیں۔ مزید یہ کہ ’اسیر‘ سے ملنے کی خاطر ایک بار ایک ہزار کلومیڑ کا سفر طے کر کے ’اسیر‘ کو اضافی بیڑیاں ڈال چکے ہیں۔ اس لیے مقدمہ لڑنے سے کوئی دلچسپی نہ ہونے کے باوجود، مجھے عابد معز کے حکم کی تعمیل کو مقدم رکھنا پڑے گا۔ یہاں یہ وضاحت مناسب ہو گی کہ یہ درست ہے کہ میں خود کو عابد معز کا با اعتماد وکیل سمجھتا ہوں اور ان کی بلند قامت ادبی حیثیت کے حق میں گواہی دینے کے لیے بھی ہر وقت تیار رہتا ہوں، پھر بھی میرے نزدیک مقدمہ لکھنا، مقدمہ لڑنے سے زیادہ مشکل کام ہے !

میں کئی بار ’اعترافِ ضعف‘ کر چکا ہوں کہ مزاح میرا’ نقطۂ ضعیف ‘ یعنی ’ویک پوائنٹ‘ ہے۔ با مقصد، معیاری اور شائستہ مزاح مجھے ہمیشہ اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ ایسا مزاح لکھنے والوں کو میں بالعموم انسانیت کا اور بالخصوص اپنا، محسن خیال کرتا ہوں اور ان کے احسانات تلے (ہنس ہنس کر) دوہرا ہو کر ان کے حق میں دعاگو رہتا ہوں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس پُر فتن اور پُر آلام دور میں جو طنز و مزاح نگار اداس دلوں کو شاد کرتے ہیں، ہنسی ہنسی میں گراں قدر اصلاح معاشرہ کرتے ہیں، ان کے لیے ربِ کریم نے بڑا اجر تیار کر رکھا ہو گا۔ میرے ایسے چند محسنوں میں عابد معز بھی شامل ہیں۔

طنز و مزاح کی اہمیت یوں تو ہر دور میں رہی ہے لیکن موجودہ دور میں شاید یہ پہلے سے کئی گُنا بڑھ چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصائب و آلام نے ہمارے معاشرے میں گھر بنا لیا ہے۔ انسانوں کی اکثریت ان مصائب کے ہاتھوں نڈھال ہے۔ کشیدگی عروج پر ہے۔ جذبات و احساسات میں تناؤ ہے۔ ہر چہرے پر تشویش کا بسیرا ہے اور کوئی بھی سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں۔ سید ضمیر جعفری کے الفاظ میں ع

جس کو سمجھاؤ وہ لڑنے کے لیے تیار ہے

ایسے عالم میں بسنے والے انسانوں کے محسن، یہ مزاح نگار ہیں جن کی شوخ  و شریر تحریریں، کشیدہ اعصاب کو سکون بخشتی ہیں، پیشانیوں پر کندہ ناراض لکیروں کا قلع قمع کرتی ہیں۔ بسورتے چہروں پر بشاشت اور بھنچے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ لاتی ہیں۔ یوں، حالات کی سنگینیوں کا مارا ہوا انسان نہ صرف ہلکا پھلکا ہو کر مصائب و شدائد کا سامنا کرنے کے لیے تازہ دَم ہو جاتا ہے بلکہ ظرافت کے پیرایہ میں وہ ان بہت سی ناپسندیدہ عادات، رسومات اور وجوہات سے بھی واقفیت حاصل کر لیتا ہے جو اس کی زندگی کو مزید اجیرن بنا رہی ہوتی ہیں۔

چند سال قبل لندن یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے دعویٰ کیا تھا کہ غصے کی حالت میں انسان کے اعصاب و عضلات میں کھنچاؤ پیدا ہو جاتا ہے جبکہ ہنسنے کی حالت میں یہ اعصاب و عضلات ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور یاسیت لاشعوری طور پر دور ہو جاتی ہے۔ اس طالب علم نے الیکٹرانک آلات کی مدد سے تجربات کیے اور ثابت کیا کہ پُر مزاح گفتگو کے بعد لوگ زیادہ پُر سکون اور مطمئن پائے گئے۔ اس طالب علم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہنسی متعدی ہوتی ہے، ایک فرد ہنسے تو اس کی دیکھا دیکھی دوسرا بھی ہنسنے لگتا ہے۔ گاندھی جی سے ایک بار کسی نے پوچھا تھا کہ کون سی شے آپ کو سیاسی بحران میں خوش و خرم رکھتی تھی تو انھوں نے بلا تامل جواب دیا:’مزاح کا شعور۔ ‘

میں عابد معز کو اسی لیے اپنا محسن سمجھتا ہوں کہ ان کی تحریروں نے مجھے بے شمار شگفتہ لمحات دیے۔ میرے نزدیک وہ ایک با اعتماد، با ہمت، باخبر اور باکمال مزاح نگار ہیں۔ باری تعالیٰ نے عابد معز کو شگفتہ نگاری کی بہت عمدہ صلاحیت سے نوازا ہے۔ وہ اس صلاحیت کا استعمال بڑے وقار، شائستگی، تہذیب اور سلیقے سے کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں جگت بازی، پھکڑ پن، سوقیانہ فقرے اور ذو معنی تراکیب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اگر ایک آدھ بار انھیں کسی قابلِ حجاب بات کا تذکرہ کرنا بھی پڑا تو انھوں نے اسے ظریفانہ انداز میں اس احتیاط سے نباہا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ نمونہ ملاحظہ ہو:

پیٹ میں ابھار کے سبب گیس فرار کے راستے ڈھونڈنے لگی اور پھر میٹھے اور ہولے درد کے ساتھ ’تنہائی اور فرصت کے لمحات‘ کا بار بار مطالبہ ہونے لگا! (نیم حکمت)

٭

وکیل نے سوال کیا۔ ’آپ نے کہا کہ ملزم نے شرافت شریف صاحب کو گالیاں دیں۔ وہ گالیاں کیا تھیں؟‘

ہم تذبذب میں پڑ گئے۔ وکیل نے اپنا سوال دہرایا تو ہم نے جواب دیا۔ ’ہم گالیاں کیسے سنائیں۔ یہ اچھی باتیں تو ہیں نہیں کہ دہرائی جائیں۔ ‘

وکیل نے سمجھایا۔ ’عدالت جانتی ہے کہ گالیاں خراب ہوتی ہیں۔ ہمیں معلوم تو ہو وہ کون سی گالیاں تھیں جنھیں سن کر شرافت شریف صاحب مرنے مارنے بلکہ خودکشی کر لینے پر آمادہ ہوئے۔ کیا وہ حقیقت میں گالیاں تھیں؟ کیا گالیوں کو سن کر شرافت شریف صاحب کا انتہائی قدم اٹھانا مناسب تھا؟‘

ہم نے اس سوال کو آخری جان کر زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار گالیاں دینے کا قصد کیا۔ پھر خیال آیا کہ معززین ہمیں گالیاں بکتے ہوئے سن کر ہمارے بارے میں پتا نہیں کیا سوچیں گے۔ پس و پیش میں تھے کہ وکیل نے ہمیں عدالت کا وقت ضائع نہ کرنے کی تاکید کی۔ ہم نے آنکھیں بند کیں، گردن جھکائی اور کانوں میں انگلیاں ٹھونسیں اور وہ تمام گالیاں دیں جو ہم نے لڑاکو خاں پہلوان سے سنی تھیں۔ ! (ہم نے گواہی دی)

٭

عابد معز جسمانی امراض کے ماہر معالج تو ہیں ہی، میرا خیال ہے کہ وہ اردو ادب کے قارئین کے اخلاقی اور روحانی امراض کے علاج میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ان دونوں علوم میں مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ قاری کے لیے فیصلہ کرتے ہیں کہ اسے کس قسم کی ادبی خوراک کتنی مقدار میں دینا مناسب ہو گا۔ ہر سمجھ دار معالج کی طرح وہ قاری کو یک دم بھاری خوراک دیناپسند نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ اپنے مضمون کا آغاز کسی دھماکے سے کرنے کے قائل نہیں۔ وہ قاری کے ذہن و دل پر دھیرے دھیرے اثر انداز ہونے کا آغاز کرتے ہیں اور پھر اپنی گرفت بتدریج مضبوط کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے مضمون کو سہج سہج پھیلاتے ہیں۔ پڑھنے والا ایک لطیف احساس اور انبساط آمیز کیفیت کو اپنے اندر اترتا محسوس کرتا ہے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے، لطف و انبساط کی کیفیت مزید کیف آور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس پورے سفر میں عابد معز قاری کو تنہا کبھی نہیں چھوڑتے۔ قاری کبھی خود کو عابد معز کے ہمراہ عاشقوں کی عید (ویلنٹائن ڈے ) مناتا محسوس کرتا ہے اور بیگم کے ہاتھوں مصنف کی درگت کا احوال پڑھ کر ترحم آمیز قہقہے لگاتا ہے۔ کبھی وہ مصنف کی رفاقت میں پرانی کار خریدتا پھرتا ہے اور ان سودوں کے نتیجے میں پیش آنے والی مضحکہ خیز دشواریوں کا مشاہدہ کر کے لطف اٹھاتا ہے۔ کبھی وہ مصنف کے ساتھ لائبریری میں جا نکلتا ہے جہاں کے قواعد و ضوابط، لائبریری میں آنے والوں کی بے پروائیوں یا نا پسندیدہ عادات کے سبب ادھ موئے نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ مصنف کی بیگم کی سہیلی کی شادی میں مصنف کے ساتھ شرکت کرتا ہے جہاں غلط فہمی کی بنا پر مصنف کو پہلے ملازم اور پھر کوئی نوسر باز سمجھ کر اس کے شایان شان سلوک کیا جاتا ہے اور کبھی وہ مصنف اور اس کی بیگم کے درمیان ’پہلے بلی مارنے ‘ کے مقابلے کی دلچسپ روداد پڑھ کر کھلکھلا اٹھتا ہے۔

عابد معز کے مزاح کی طرح ان کا طنز بھی بہت لطیف ہوتا ہے۔ ان کے طنز میں کڑواہٹ نہیں ہوتی جو تحریر کو بد مزہ بنا دے۔ اس کے برعکس ایسا تیکھا پن ہوتا ہے جو تحریر کو چٹپٹا اور ذائقہ دار بنا دیتا ہے۔ اپنے معصوم طنز کی ننھی سی اَنی سے وہ قاری کے دل کو گدگداتے اور اس کے بحرِاحساس میں تموّج پیدا کرتے ہیں۔ ان کی شگفتہ اور ترو تازہ تحریر پڑھ کر بار بار مسکرا اٹھنے والا قاری اپنے دل کے نہاں خانوں میں ان تیکھے فقروں کی باز گشت محسوس کرتا رہتا ہے۔ یہ شوخ و طنّاز فقرے قاری کے ضمیر پر بار بار دستک دیتے رہتے ہیں۔ یوں تو عابد معز کی تحریروں میں ایسے کٹیلے فقروں کی کمی نہیں لیکن اسی کتاب میں شامل فکاہیوں سے چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں :

عدالت کے حوالے سے لکھتے ہیں :

دورِ حاضر میں یہی ایک جگہ باقی رہ گئی ہے جہاں سچ بولنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور وہ بھی حلفیہ! (ہم نے گواہی دی)

اپنی علالت کا ذکر کرتے ہوئے :

اس قدر جلد ڈاکٹر کے پاس جانے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کی ایک وجہ کہنہ امراض میں مبتلا کہنہ مریضوں کا دانا قول ہے کہ انسان اس وقت تک صحت مند رہتا ہے جب تک وہ ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتا۔ ڈاکٹر سے ملنے کے بعد اچھا بھلا شخص مریض بن جاتا ہے یا بنا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم مزید چند دن اپنے آپ کو صحت مند بنائے رکھنا چاہتے تھے۔ دوسری وجہ ڈاکٹروں کی کمر توڑ فیس اور علاج کے سر پھوڑ اخراجات ہیں۔ مختلف معائنے کے بغیر تشخیص نہیں ہوتی ہے۔ جب تک معائنے مکمل ہوتے ہیں، مریض خود بخود صحت یاب ہو جاتا ہے۔

تیسری وجہ ایک قسم کا ڈر ہے جو ڈاکٹر کے پاس جانے سے باز رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہیں اپنی قابلیت اور علم کے بل بوتے پر کوئی مہلک مرض نہ دریافت کر لیں۔ ہماری گناہ گار آنکھوں نے ایسے نظارے بھی دیکھے ہیں جہاں تشخیص کے بعد مریض بیماری کی بجائے ڈاکٹر اور مرض کے خوف سے جاں بحق ہوا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس نہ جانے کے لیے ویسے تو یہ تین وجوہات کافی ہیں لیکن ہمارے ایک دوست چوتھی وجہ بھی بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق آج کل اچھے ڈاکٹر عنقا ہیں اور جو ڈاکٹر قابل ہیں وہ بیرون ملک اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ (نیم حکمت)

خوش حال لوگوں کی بستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

میں نے سارا محلہ چھان مارا لیکن کہیں بھی گوشت، ترکاری، دودھ یا پنکچر بنانے کی دکان نظر نہیں آئی۔ چائے خانے اور نہ ہی ان کے بغل میں پان کے ڈبے دکھائی دیے۔ کپڑوں پر استری کرنے والی میز بھی فٹ پاتھ پر کہیں دکھائی نہیں دی۔ محلہ کے یہ وہ مقامات ہیں جہاں سے نہ صرف کسی کا پتا حاصل ہو سکتا ہے بلکہ اس کی زندگی کے دوسرے حالات بھی آسانی سے معلوم ہو جاتے ہیں۔ (کوٹھیوں کا شہر)

زبان اردو کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہوئے :

ایک دوسرے صاحب نے سوال کیا۔ ’مشاعرے میں کون کون سے شاعر حصّہ لے رہے ہیں؟‘

ہم نے چند نام لیے۔ شعرا کے نام سن کر موصوف نے رائے دی۔ ’سب نئے شاعر ہیں۔ ‘ پھر انھوں نے فرمائش کی۔ ’جناب غالب کو بلائیے۔ بہت اچھا شاعر ہے۔ ‘

ایک اور صاحب نے مشورہ دیا۔ ’غلام علی کے بغیر مشاعرے کا لطف نہیں آتا۔ کیا گلا پایا ہے۔ ہر شعر پر ڈھیروں داد ملتی ہے۔ ‘

ہم نے انھیں بتایا کہ غالب اور غلام علی مشاعرے میں شریک نہیں ہو رہے ہیں تو احباب نے ہمیں ڈانٹا۔ ’آپ مشاعرہ کیوں کر رہے ہیں؟ مشاعرے میں اچھے شاعروں کو بلانا چاہیے اور سامعین کی پسند کا خیال بھی رکھا جانا چاہیے۔ ‘ (دھوم ہماری زباں کی ہے )

انگریز ہو یا انگریزی موسیقی، دونوں ہمیں خوب نچاتے ہیں۔ (ہمارا موٹاپا)

عابد معز کی حسِ مزاح بہت عمدہ ہے۔ ان کی شگفتہ تحریر پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ننھی ننھی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہوں۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں :

مطب کے کونے میں رکھی ایک گٹھڑی میں وقفہ وقفہ سے ہونے والی جنبش اس بات کی دلیل تھی کہ یہ گٹھڑی ’بقید حیات‘ ہے۔ (مریضانہ آئے )

انتظار گاہ میں ’ہائے، وائے اور آئے ‘ کا ورد ہو رہا تھا۔ تکلیف سے ہائے اور وائے نکلتی تھی تو ڈاکٹر کے انتظار میں ’آئے؟‘ مختصر سوال پوچھا جاتا تھا۔ ! (مریضانہ آئے )

خیال تھا کہ اگر معدے کو ہم سر نہ چڑھائیں گے تو وہ راہِ راست پر آ جائے گا! (نیم حکمت)

ہمارے موٹاپے سے درزی خوش رہنے لگے۔ وہ ہماری آؤ بھگت کرتے، ہمارے اطراف دوڑ کر ناپ لیتے اور جلد کپڑے تیار کر کے دیتے کہ دیر ہو جائے تو کپڑے چھوٹے نہ پڑ جائیں۔ چند مہینوں میں ہمارے پاس تنگ اور چھوٹے کپڑوں کا خاصا اسٹاک جمع ہو گیا۔ ہم پرانے کپڑوں کو اس طرح دیکھتے جیسے کوئی ماں اپنے بڑے بچے کے چھوٹے کپڑوں کو دیکھ کر اس کا بچپن یاد کرتی ہے۔ (ہمارا موٹاپا)

پرانی کار خریدنے کے لیے بیوی کو راضی کرنا ایک مسئلہ تھا۔ ان کی کسی سہیلی کے شوہر نے پرانی کار نہیں خریدی تھی۔ حتیٰ کہ ان کی ایک سہیلی کے پرانے شوہر نے بھی نئی کار خریدی تھی۔ (پرانی کار نیا مالک)

عابد معز بات سے بات نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ کسی عام سے مسئلے پر بات شروع کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اتنے بہت سے پہلوؤں سے اس ایک مسئلے کا جائزہ لے ڈالتے ہیں کہ قاری اچنبھے میں پڑ جاتا ہے کہ اس بظاہر عام سے معاملے کے اتنے بہت سے رُخ کہاں سے دریافت ہو گئے۔ لطف یہ ہے کہ عابد معز کی تحریر میں ایک ہی بات کی تکرار بھی نہیں ملتی۔ عابد معز کا قلم بیک وقت کیمرے اور خورد بین کا کام انجام دیتا ہے۔ میری رائے میں اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت نے عابد معز کو غضب کی قوتِ مشاہدہ بخشی ہے۔ اس مشاہدے کے بل بوتے پر عابد معز نے کئی شاہکار انشائیے تحریر کیے ہیں۔ اس کتاب میں شامل بیشتر مضامین میں عابد معز نے موضوع کا ہمہ جہتی جائزہ لینے کے فن کا مظاہرہ کیا ہے، مثلاً ہماری کہانی، ترک سگریٹ نوشی، ہمارا موٹاپا، پرانی کار نیا مالک‘ وغیرہ۔

میں نے عابد معز کے تخلیقی ذہن کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اردو ادب کے بہت سے ’سر بفلک‘ مزاح نگاروں کے درمیاں اپنی شناخت قائم کی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے کسی مزاح نگار کے اسلوب کو نہیں اپنایا بلکہ اپنا منفرد رنگ منوایا۔ انھوں نے مزاح لکھنے کے لیے موضوعات بھی کہیں سے مستعار نہیں لیے۔ اگر انھوں نے کسی ’استعمال شدہ‘ موضوع پر قلم اٹھایا بھی ہے تو اس کے بالکل نئے پہلو ڈھونڈ لائے ہیں۔

عابد معز اپنی تحریر کو ادق الفاظ، دشوار تراکیب اور مشکل بندشوں کی مدد سے بھاری بھرکم اور بوجھل نہیں بناتے۔ وہ سبک اور رواں انداز میں سادہ زبان لکھتے ہیں۔ مضمون کی ابتدا ہی سے وہ قاری کے ساتھ دوستانہ انداز میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ قاری کی توجہ اس طور حاصل کر لیتے ہیں کہ قاری کوکسی بھی مرحلے میں اپنا ہاتھ چھڑانے کا دھیان تک نہیں آتا، یہاں تک کہ مضمون کا اختتام ہو جاتا ہے۔ عابد معز کے فکاہیوں میں حسبِ ضرورت مکالمے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ مکالمے بھی اپنے اندر فطری رنگ رکھتے ہیں اور دلچسپی سے معمور ہیں۔

عابد معز ایک جرأت مند مزاح نگار ہیں۔ انھوں نے بارہا خود ہی کو اپنے طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ انھیں اس ’قربانی‘ کے دو فائدے حاصل ہوئے۔ ایک یہ کہ مصنف اپنے اندر جن کمزوریوں اور خامیوں کا تذکرہ کر رہا ہوتا ہے وہ اگرچہ قارئین کے اندر بھی کم یا زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن چونکہ ہدفِ ملامت قارئین کو نہیں بنایا جا رہا اس لیے وہ ظرافت کے رنگ میں، مصنف پر ہونے والی تنقید سے چوکنا ہوئے بغیر لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مصنف اس طرح معاشرتی خامیوں اور نا ہمواریوں کی نشاندہی کامیابی کے ساتھ کر گزرتا ہے جو قارئین کے احساسات کو بیدار کر دیتی ہے۔

عابد معز اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب سے حد درجہ محبت رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے نہایت خلوص سے کوشاں رہتے ہیں۔ زبانِ اردو سے بے توجہی (اس کی جو بھی وجوہ ہوں ) کے خلاف وہ قلمی و عملی جہاد کرتے رہتے ہیں، جس کے بہت سے مثبت اور خوشگوار نتائج بر آمد ہوئے ہیں۔ وہ جس طرح اپنی ذاتی زندگی میں خلوص، محبت، اپنائیت اور سادگی کے قائل ہیں، اسی طرح اپنی ادبی زندگی اور تحریروں میں انہی قدروں کے بالواسطہ داعی ہیں۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے خاندان اور گھر کے انسیت آمیز ماحول کو برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ انھوں نے اس اہم حقیقت پر بھی ظریفانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ فطرت نے مرد اور عورت کی ذمہ داریاں الگ الگ رکھی ہیں اور جب کوئی ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کیسی مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو ’ہم کچن میں ‘۔

عابد معز کی تحریروں میں مزاح کا تناسب طنز کی بہ نسبت زیادہ ہے اور ان کی بہت سی تحریریں سماجی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں لیکن انھوں نے اس کتاب سے ہٹ کر اپنے دیگر مضامین اور کالموں میں ظلم، نا انصافی، عالمی سطح پر جارحیت، دخل اندازی اور تہذیب جدید کی برائیوں کے خلاف بھی قلم اٹھایا ہے۔ انھوں نے اپنے مخصوص شگفتہ اسلوب میں ان عوارض کی جانب بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ جدید ٹیکنالوجی، بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کے بھی مخالف ہیں جس نے مہمان نوازی جیسے اعلیٰ وصف سے مشرقی معاشرے کو محروم کر دیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ان تلخ موضوعات پر لکھتے ہوئے بھی عابد معز کبھی تلخ نوائی نہیں کرتے۔ مثلاً اس کتاب کے مضمون ’ڈیڈی فیل ہو گئے ‘ کو لیجیے۔ بچے کو نرسری میں داخلہ دینے سے پہلے اونچے درجے کے اسکول والے، والدین کا جو حشر کرتے ہیں اسے کوئی دوسرا بیان کرے گا تو انتہائی جلا بھنا انداز اپنائے گا لیکن عابد معز نے اسکول انتظامیہ کے ہاتھوں والدین کی گت بننے کا احوال بے حد شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس طرح طنز کے تقاضے بھی پورے ہو گئے ہیں اور مضمون کی دلچسپی پر کوئی حرف نہیں آیا ہے۔ اسی طرح ’لائبریری کی سیر‘، ’دھوم ہماری زباں کی ہے ‘اور ’کوٹھیوں کا شہر‘ میں عابد معز نے خود کو بڑے کٹھن مرحلوں سے گزرتے، نہایت پُر لطف انداز میں دکھایا ہے۔ عابد معز خود کہتے ہیں کہ میں اپنے غصہ کا اظہار طنز و مزاح لکھ کر کرتا ہوں۔ وہ حسِ مزاح کو انسان کی چھٹی حس قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول یہ حس، تناؤ دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔

عابد معز کی تحریر کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دل آزاری سے پاک ہے۔ انھوں نے کسی زبان، قوم یا پیشے کو کبھی تضحیک یا تنقیص کا نشانہ نہیں بنایا۔

بہت سے مزاح نگاروں کا ایک محبوب موضوع بیگم ہے۔ عابد معز نے بھی بارہا برتے جانے والے اس موضوع پر خوب خوب طبع آزمائی کی ہے، بلکہ اپنے پُر لطف افسانے ’داستان معرکۃ الزوجہ ‘ میں وہ خود پر ایک دوست کا تبصرہ نقل کرتے ہیں :’لگتا ہے، تم نے صرف مزاح نگاری کے لیے شادی کی ہے !‘لیکن عابد معز کا کمال ہے کہ انھوں نے اپنی ندرتِ فکر سے کام لیتے ہوئے اس نازک موضوع کے نئے پہلو ڈھونڈ نکالے ہیں، لیکن ایک باریک اور نہایت اہم فرق ہے۔ دیگر مزاح نگاروں کے برعکس وہ اپنے مزاح کے ذریعے بیگم کے کردار کی تحقیر یا تنقیص نہیں کرتے۔ ان کی تحریروں سے ذرا سا شائبہ تک پیدا نہیں ہوتا کہ وہ بیگم کو ناپسندیدہ اور باعثِ آزار سمجھتے ہیں اور ان سے نجات میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس عابد معز کا قلم، بیوی کے تقدس اور احترام کو اجاگر کرتا اور قائم رکھتا ہے۔ خود عابد معز کا دعویٰ ہے : تمام مزاح نگار اچھے شوہر ثابت ہوئے ہیں۔ ایک اچھا مزاح نگار اچھا شوہر بھی ہوتا ہے۔ ‘

خواتین، خصوصاً بیگم کی فطری عادات کے حوالے سے جو لطیف نکتے عابد معز بیان کرتے ہیں ان سے خود خواتین بھی یقیناً لطف اندوز ہوں گی۔ عابد معز، شوہر پر بیگم کے مان سے پیدا ہونے والی دلچسپ صورتِ حال کی عکاسی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ دوسری طرف ان کے فکاہیوں میں شوہر بھی بیگم کی ان بے ضرر اور معصوم خواہشات کا احترام کرتے ہوئے دوستوں کی پھبتیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔ عابد معز بیگم کی سادگی اور نسائی ضد یعنی تریا ہٹ کے اشتراک سے بڑی پُر لطف صورتِ حال پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شوہر کی ہر لمحہ خبر لینے والی وہی بیگم، شوہر پر کوئی افتاد پڑنے کی صورت میں آبدیدہ ہو کر شوہر کی ہمت بندھانے لگتی ہے اور اس کے لیے بے قرار ہو جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عابد معز کی خاتونِ اوّل بھی اپنی ’شان‘ میں لکھے گئے یہ مضامین پڑھ کر بہت محظوظ ہوئی ہوں گی۔

عابد معز نے بیگم کے حوالے سے جو فکاہیے لکھے ہیں، ان میں ’داستان معرکۃ الزوجہ‘، ’گربہ کشتن‘ اور ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ بہت پُر لطف ہیں۔ ان میں سے آخر الذکر دو مضامین اس کتاب میں شامل ہیں جن میں مصنف کی اپنی بیگم کے ساتھ نوک جھوک بہت محظوظ کرتی ہے۔ ان دونوں فکاہیوں میں میاں بیوی کے مابین مکالماتی جنگ بہت خوب ہے۔ ’گربہ کشتن‘ میں عابد معز نے یہ تلخ حقیقت، مزاح کے پیراہن میں، بین السطور اجاگر کر دی ہے کہ ہمارے بعض بزرگ کسی نو بیاہتا جوڑے کو، اپنے ’دانشورانہ‘ مشوروں کے ذریعے، کن غلط فہمیوں اور نفسیاتی الجھنوں سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ میں، جسے اس کتاب کا عنوان بنایا گیا ہے، مصنف نے قاری کے تجسس کو بڑی خوبی سے ہوا دی ہے اور عربی زبان کے ایک لفظ سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کی بنیاد پر ایک دلچسپ تمثیل تخلیق کی ہے جس میں نہایت فطری رنگ پایا جاتا ہے۔ اس تمثیل میں عابد معز نے بیوی بچوں کی خاطر دیار غیر میں جا بسنے والے مردوں کی بے کیف زندگی کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔ دوسری جانب بچوں کی خاطر شوہر سے جدائی کا دکھ جھیلنے والی وفا شعار بیوی کی جذباتی کیفیات کی بھی عمدہ عکاسی کی ہے۔

ایسانہیں ہے کہ عابد معز کا مزاح بیگم سے شروع ہو کر بیگم پر ختم ہو جاتا ہے۔ انھوں نے انواع و اقسام کے موضوعات پر لکھا ہے اور بہت لکھا ہے، مثلاً، کار کی خریداری، عدالت کا احوال، لائبریری، اردو زباں، اسکول، علاج معالجہ، موٹاپا، سگریٹ نوشی، کمپیوٹر، انٹر نیٹ، مشاعرہ، موسیقی، کتے، ٹریفک، مچھر، برڈ فلو، ہوائی اڈا، فسادات، فرقہ واریت، جھوٹ، وی آئی پی، پیاز کے چھلکے، مرغی اور انڈا، وغیرہ۔ لیکن یہ تمام تحریریں ظاہر ہے کہ اس ایک کتاب میں نہیں سما سکتیں۔ اس کتاب میں شامل اٹھارہ مضامین، حد درجہ شگفتگی کے ساتھ ہماری معاشرتی کمزوریوں پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔

عابد معز عصر حاضر کے پُر جمال و باکمال مزاح نگار ہیں جو قلم کا نشتر تھامے، معاشرے کے اخلاقی اور روحانی امراض کا علاج اپنی شگفتگی سے کر رہے ہیں۔ وہ چونکہ اپنی عملی زندگی میں بھی با اصول اور شائستہ انسان ہیں اس لیے ان کی تحریر بھی انہی اوصاف سے مزیّن ہے۔ میں ربِ کریم کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے ایک لائقِ محبت اور قابلِ تکریم مزاح نگار عابد معز کے مداحوں میں شامل فرمایا، ان کی محبت مجھے عطا فرمائی اور ان کی خندہ آور تحریروں کے ذریعے مسرت بخشی۔ عابد معز کی سلامتی، صحت، مسرتوں، ان کے قلم کے یوں ہی رواں رہنے اور دنیا و آخرت میں ان کی سرخروئی کے لیے میرا دل ہمیشہ دعاگو رہے گا۔

کلیم چغتائی

سابق ایڈیٹر، ماہنامہ ’رابطہ‘ کراچی

9دسمبر2011ء

 

 

 

عاشقوں کی عید

 

بعض اوقات غیر ارادی طور پرایسی کوئی حرکت سرزد ہو جاتی ہے، جس کے بارے میں جلد یا دیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سر پکڑ کر سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیوں کیا؟ کوئی معقول وجہ بھی سجھائی نہیں دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ حرکت بے وقوفی یا نادانی کے نام سے یاد رہ جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک حرکت پچھلے ہفتے مجھ سے سرزد ہو گئی۔

عاشقوں کی عید قریب آ رہی تھی۔ ’عاشقوں کی عید‘ کا نام سن کر آپ چونک گئے ہوں گے۔ پہلی مرتبہ جب میں نے اس عید کے بارے میں سنا تھا، تب میں بھی چونک پڑا تھا۔ اب تک میں دو عیدوں کے بارے میں سنتا اور ان کو مناتا رہا ہوں۔ عاشقوں کی عید میرے لیے نئی عید تھی۔ ’عیدِ عشّاق‘ سے میرا تعارف ایک ماہ قبل ہوا۔ مختلف ذرائع ابلاغ سے پتا چلا کہ عیدِ عشّاق یا عاشقوں کی عید، چاہنے اور محبت کرنے والوں کی عید ہے۔ اس دن محبت کرنے والے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اپنی وفاؤں کا اظہار کرتے ہیں اور یہ عہد بھی کرتے ہیں کہ ہر دم یوں ہی ایک دوسرے کو چاہتے رہیں گے۔ اس عید کی مبارک باد دینے اور اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے کاغذ کا ایک ٹکڑا اہم رول ادا کرتا ہے۔ عاشق اس دن ایک دوسرے کو کارڈ پیش کرتے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ یہ کاغذ کا ٹکڑا دل کی علامت ہے اور عاشقوں کے پاس ایسے کئی کاغذ کے ٹکڑے رہتے ہیں !

عاشقوں کی عید کے دن صرف کارڈ سے کام نہیں چلتا بلکہ ’علامتی دل‘ کے ساتھ حسبِ مقدور تحفے تحائف دیے جاتے ہیں۔ تحفے محبت کی پائیداری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی رشوت ہے جو محبت کرنے والے ایک دوسرے کو دیتے اور لیتے رہتے ہیں۔

میرے دل نے بھی چاہا کہ میں عاشقوں کی عید مناؤں اور کسی کو کارڈ اور تحفہ بھیجوں۔ میں نے اپنی زندگی کا جائزہ لیا تو ایک بھی لڑکی ایسی نہ ملی، جس سے مجھے عشق ہوا تھا۔ عشق تو دور کی بات ہے، کوئی لڑکی ایسی بھی نہ تھی، جو پہلی نظر میں پسند آئی تھی۔ کسی کو پسند کرنے اور چاہنے یا کسی سے عشق کرنے سے پہلے ہی بزرگوں نے غالباً حفظ ماتقدم کے طور پر میری شادی کر دی تھی۔ اب میرے لیے بیگم ہی ایک ایسی ہستی تھیں بلکہ ہیں، جنھیں میں عاشقوں کی عید پر کارڈ بھیج سکتا تھا لیکن مجھے بیگم میں ایسی کوئی خاص بات نظر نہیں آئی کہ میں انھیں خوشی خوشی کارڈ بھیجتا۔ دوسروں کے بارے میں سوچا تو اپنی عزت اور اپنا سر یاد آیا۔ ادھیڑ عمر میں دونوں کے متاثر ہونے کا امکان تھا۔ آخر مجبور ہو کر میں نے بیگم ہی کو کارڈ بھیج کر عاشقوں کی عید منانے کا ارادہ کیا۔

عاشقوں کی عید کے لیے شہر میں جگہ جگہ کارڈ کی دکانیں کھل گئی تھیں۔ کبھی ان دکانوں میں جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا تھا۔ میں پہلی بار ان دکانوں میں بیگم کے لیے کارڈ لینے کی غرض سے قدم رکھا۔ بھانت بھانت کے کارڈ دیکھ کر میں چند لمحوں کے لیے چکرا گیا۔ مختلف شکل و صورت کے کارڈ دستیاب تھے۔ کوئی دل تو کوئی بیضوی شکل کا کارڈ تھا۔ کسی کارڈ میں پھول لگے تھے تو کسی میں دل لٹک رہا تھا۔ کسی میں خوبصورت فقرے لکھے تھے تو کسی میں اشعار درج تھے۔ کسی میں ہونٹ ’دست بوس‘ تھے تو کسی میں دل معانقہ کر رہے تھے۔ چند کارڈ ناکام محبت کی داستان تھے۔ ایک کارڈ پر دل زخمی تھا تو دوسرے کارڈ میں آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ قصّہ مختصر، ڈھیر سارے اچھے کارڈ دیکھ کر میں سب سے بہترین کارڈ کا انتخاب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا تھا۔ دوچار گھنٹے یوں ہی ’کارڈ گردانی‘ میں ضائع ہو گئے۔ آخر آنکھ بند کر کے ایک کارڈ اٹھا لیا اور اسے اپنی محبت یعنی بیگم کے لیے پسند کر لیا۔ اس کارڈ کی یہ خوبی مجھے پسند آئی کہ کارڈ کھولنے پر موسیقی بجتی تھی۔ ایک طرح سے یہ کارڈ ایک ساز بھی تھا۔ کھول بند کر کے اسے بجایا جا سکتا تھا۔

کارڈ سادہ تھا۔ اس پر کچھ لکھا نہ تھا۔ دام چکانے کے بعد میں سوچنے لگا کہ اگر پہلے سے کارڈ پر ’اقوالِ زرّیں ‘لکھے بلکہ چھپے ہوئے ہوتے تو میں کچھ لکھنے کی زحمت سے بچ جاتا لیکن اب کارڈ پر کچھ نہ کچھ تو لکھنا تھا۔ کم سے کم نام لکھنا ضروری ہے لیکن صرف نام لکھنا کون سا کمال ہے۔ اپنا نام تو اَن پڑھ شخص تک لکھ بلکہ اتار لیتا ہے۔ میں تو پڑھا لکھا ہوں۔ ثبوت کے طور پر دوچار ڈگریاں میرے پاس ہیں۔ اس لیے دل نے مشورہ دیا کہ کارڈ پر مجھے بہت کچھ لکھنا چاہیے۔ لیکن کیا لکھوں؟

بہت سوچا۔ کچھ سجھائی نہ دیا۔ کارڈ لکھنے کا پہلے سے مجھے تجربہ بھی نہ تھا۔ ایک دوست سے مدد چاہی تو انھوں نے صلاح دی۔ ’جو دل میں آئے لکھ دو، یہ دل کا معاملہ ہے۔ کارڈ پر لکھی عبارت کو نقاد نہیں پڑھتے۔ دل کی بات دل والے تک پہنچانا مقصد ہے۔ بات کی نہیں کارڈ بھیجنے والے کی اہمیت ہوتی ہے اور اس کی قدر کی جاتی ہے۔ ‘

اس مخلص مشورہ کے باوجود کوئی خیال ذہن میں نہ آیا۔ بیگم کا تصور کرتے ہوئے لکھنے کا ارادہ کیا۔ قیاس تھا کہ بیگم کے خیال سے الفاظ ڈھلتے چلے آئیں گے یا چند اشعار ہی یاد آ جائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس جمالیاتی تصور کے برخلاف ذہن میں بیگم کی خواہشات اور یاد دہانیاں ابھرنے لگیں۔ شام جلد آئیے، شاپنگ کے لیے جانا ہے۔ دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے مت بیٹھ جایئے۔ گیس ختم ہو گئی ہے، واپس آ کر گیس لانا ہے، تبھی ڈنر ملے گا۔ اسکول میں بچی کے داخلے کے لیے سفارش کروانی ہے۔ ٹیلر ماسٹر پچھلے دو ہفتوں سے چکر لگوا رہا ہے، اس کی خبر لیجیے، وغیرہ۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ ’کارڈ پر کیا بیگم کی فرمائشوں اور گھر کے کاموں کی فہرست لکھ دوں؟‘

تصور اور حقیقت کے درمیان کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے جھنجھلا کر ٹیلی ویژن پر بجنے والے ایک گیت کے ابتدائی دو بولوں کو کارڈ کے بیچ میں سرخ رنگ کی روشنائی سے لکھ ڈالا ؎

آپ کا دل ہمارے پاس ہے

ہمارا دل آپ کے پاس ہے

’فلمی شعر‘ تحریر کرنے کے بعد میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوا۔ یہ شعر نہیں، کسی بنیے کا بہی کھاتہ لگتا ہے۔ یہ کوئی بات ہوئی کہ آپ کا دل میں نے اپنے پاس رکھ لیا ہے اور آپ نے بدلے میں میرا دل لے رکھا ہے۔ چلیے حساب برابر ہوا۔ میں اس تک بندی سے مطمئن نہیں تھا لیکن کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اب اسے مٹایا اور نہ ہی کاٹا جا سکتا تھا۔ کارڈ خراب ہو جاتا اور اس کارڈ کو ضائع کرنے میں پورے سو روپے کا نقصان تھا۔ نیا کارڈ خریدنا اور پھر سے سوچنے کی مشقّت الگ تھی۔ اس لیے اسی شعر اور کارڈ سے کام چلا لینے کا فیصلہ کیا۔ یہ سوچ کر بھی اپنے آپ کو بہلا لیا کہ کارڈ لکھنے کا پہلا تجربہ ہے۔ اگلے برس عاشقوں کی عید پر اچھی عبارت اور اچھے اشعار کا انتخاب کروں گا۔

ابھی کارڈ پر بہت جگہ باقی تھی۔ اس شعر کے علاوہ بھی مجھے اور بھی کچھ لکھ کر خالی جگہ پُر کرنی تھی۔ میں نے پھر ایک مرتبہ سوچا کہ کیا لکھوں۔ کیا بیگم کے حسن کی تعریف کروں؟

عقل نے سمجھایا۔ جب تعریف کرنی چاہیے تھی تب کچھ نہیں کہتے تھے۔ خاموش رہتے تھے۔ اب بیس سال بعد بیگم کی خوبصورتی کے گن گاؤ گے تو وہ سوچیں گی کہ طنز کر رہے ہو۔ بیگم کے حسن کی مدح سرائی سے میں دستبردار ہوا۔ بہت دیر تک بھی کچھ بہتر سجھائی نہ دیا تو میں نے شعر کے اطراف ’آئی لَوْ یو‘ لکھ کر حصار باندھا۔ یہ کام بہت آسانی سے ہو گیا لیکن قرار نہ آیا۔ آئی لَوْ یُو کے علاوہ بھی کچھ ہونا چاہیے۔ بہت غور کیا۔ کوئی ڈھنگ کی بات نہ سوجھی۔ پھر خیال آیا کہ اپنی محبت کا اظہار دوسری زبانوں میں بھی کرنا چاہیے۔ انٹرنیٹ پر اس موقع یعنی ’عیدِ عشّاق‘ کے لیے ’آئی لویو‘ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ فراہم کیا گیا تھا کہ معلوم نہیں معشوق کون سی زبان جاننے والا ہو گا۔ میں نے ’میں تم سے محبت کرتا ہوں ‘ کو چند مختلف زبانوں میں کارڈ پر نقل کیا۔ اب کارڈ بھر چکا تھا۔ آخر میں جلی حروف میں اپنا نام لکھ کر میں نے اس اکتا دینے والے کام سے نجات پائی۔

کارڈ کو معطر کیا اور معطر کارڈ کو لفافے میں ڈال کر لفافہ اچھی طرح بند کیا۔ اب کارڈ کو مکتوب الیہ یعنی بیگم تک پہنچانا تھا۔ خیال آیا کہ گل دستہ اور چاکلیٹ کے ڈبے کے ساتھ میں خود بیگم کی خدمت میں کارڈ پیش کروں۔ ایسا کرنے میں دو عدد خدشات لاحق تھے۔ پھول خریدنے کو بیگم فضول خرچ قرار دیں گی اور چاکلیٹ کے ڈبے کو دیکھ کر بد پرہیزی کا الزام دھریں گی کہ ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے باوجود چاکلیٹ خریدے گئے اور دونوں صورتوں میں بیگم ڈانٹیں گی ضرور!

میں نے گل دستہ اور چاکلیٹ کے ساتھ کارڈ دینے کا خیال ترک کیا اور صرف کارڈ دینے کا ارادہ کیا لیکن نہ جانے کیوں کارڈ دینے کے خیال سے ہی دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ شاید اس لیے کہ میں یہ کام زندگی میں پہلی مرتبہ کرنے جا رہا تھا یا پھر دوستوں کے مطابق میں بیگم سے ڈرتا ہوں۔

دوست غلط کہتے ہیں۔ بھلا عید کی مبارک باد اور آئی لَوْ یو لکھا ہوا کارڈ دینے میں ڈر کیسا؟ یہ میری دوسری شادی کا کارڈ تو ہے نہیں کہ بیگم اسے دیکھ کر پھٹ پڑیں گی۔ اس طرح اپنے آپ کو ڈھارس دینے کے باوجود ذاتی طور پر کارڈ دینے کی ہمت نہ ہوئی تو میں نے محکمۂ ڈاک کو تکلیف دی۔ لفافے پر احتیاطاً ضرورت سے زیادہ ڈاک ٹکٹ چپکائے کہ کارڈ کے سفر میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور کارڈ کا سفر آسان ہو جائے۔ جلی حروف میں بیگم کا نام اور اپنے گھر کا پتا کمپیوٹر سے کمپوز کر کے چسپاں کیا کہ ڈاکیے کو پڑھنے میں آسانی ہو۔ کارڈ کو ڈاک کے حوالے کرتے ہوئے دعا کی ’خدایا، کارڈ کو اپنی منزل تک وقت پر اور خیریت سے پہنچا دے۔ ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ کارڈ کئی برسوں بعد اس وقت پہنچے جب ہم دونوں میں سے کوئی بقیدِ حیات نہ ہو۔ تب ہمارے بچے یا بچوں کے بچے کارڈ وصول کر کے ہمیں یاد کریں اور یہ بات خبر بن کر اخباروں میں چھپے !

کارڈ کو ڈاک کے حوالے کرنے کے بعد میں بے چینی سے انتظار کرنے لگا کہ دیکھوں کارڈ کیا گل کھلاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ بیگم کارڈ پا کر خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گی۔ وہ ممنون اور شکرگزار نگاہوں سے مجھے دیکھیں گی اور پھر نظریں جھکائے مجھے ’عیدِ عشّاق ‘ کی مبارک باد پیش کریں گی۔ شاید گھٹی گھٹی آواز میں ’آئی لَوْ یو۔ ۔ ۔ ٹو‘ کہیں اور شرما کر میری نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں۔ میں کمرہ کمرہ ڈھونڈوں اور انھیں کچن میں میرے لیے چائے بناتا پاؤں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کارڈ کو مجھ سے چھپا کر رکھیں اور خود بھی سرپرائز دینے کے لیے میرے نام ایک جوابی کارڈ پوسٹ کریں۔ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو انتظار بہت طویل ہو جائے گا اور میں کارڈ ملنے پر بیگم کو خوش ہوتے ہوئے دیکھ نہ سکوں گا۔

اس طرح کے کسی بھی غیر متوقع واقعہ سے بچنے کے لیے میں نے دفتر سے دو دن کی چھٹی لی اور گھر پر کارڈ کی آمد کے باعث ہونے والے ہنگامے کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے کارڈ ملنے کے بعد کا پروگرام بھی بنایا۔ بچوں کو گھر پر رکھ کر صرف ہم دونوں لانگ ڈرائیو پر جائیں گے اور اکٹھے باہر ڈنر اُڑائیں گے۔ اس طرح دو چار گھنٹے ساتھ گزارنے کے بعد پھر بچوں سے آ ملیں گے۔

عاشقوں کی عید کا دن آ پہنچا۔ میں بے چینی سے ڈاکیہ کا انتظار کرنے لگا۔ دوپہر کے قریب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ڈاکیہ لفافہ لے آیا۔ میں چھپ کر بیگم کو کارڈ وصول کرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ بیگم نے لفافہ ہاتھوں میں لیا۔ کچھ حیران اور کچھ پریشان ہوئیں۔ لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ کچھ بڑبڑائیں اور پھر لفافے کا تفصیل سے جائزہ لینے لگیں۔ بند لفافے کے اندر جھانکنے کی ناکام کوشش کی۔ چہرے پر فکر مندی کے آثار نمایاں ہوئے۔ کچھ دیر یوں ہی لفافے کو ہاتھ میں اٹھائے سوچا اور لفافہ کھولا اور ڈرتے ڈرتے کارڈ باہر نکالا۔

کارڈ کھولتے ہی موسیقی بجنے لگی۔ بیگم گھبرا گئیں۔ ہاتھوں سے کارڈ چھوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ چند لمحے بیگم گم صم رہیں۔ پھر انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ فرش سے کارڈ اٹھا کر پڑھنے لگیں۔ چہرے پر خوشی اور شرم و حیا کا رنگ چھانے کے بجائے غصّہ کی سرخی ابھرنے لگی اور پھر غصّہ سے ’ لال پیلی‘ ہوتے ہوئے انھوں نے فرمایا۔ ’لفنگا۔ ۔ ۔ لُچا۔ ۔ ۔ بدمعاش۔ ۔ ۔ ‘

غیر متوقع اختتام جسے ’اینٹی کلائمکس‘ کہتے ہیں، دیکھ کر میں الجھن میں پڑ گیا۔ بہت سوچا کہ کیا بات ہو گئی۔ کچھ پلے نہ پڑا تو میں نے بیگم سے پوچھا۔ ’کیا بات ہے؟‘

بیگم نے کارڈ میری جانب بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔ ’کسی بدمعاش اور آوارہ شخص نے یہ کارڈ بھیجا ہے۔ ‘

’کیا مطلب، کون بدمعاش۔ کون آوارہ۔ ‘ میں نے کارڈ کو ہاتھ نہ لگاتے ہوئے استفسار کیا۔

’کسی نے آپ کے نام سے مجھے محبت بھرا کارڈ بھیجا ہے۔ معلوم کرنا پڑے گا کہ کس نے ایسی اوچھی حرکت کی ہے؟‘ بیگم نے وضاحت کی۔

’آپ ایسا کیوں سوچتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ کارڈ میں نے ہی بھیجا ہو۔ ‘ میں نے حقیقت کی جانب اشارہ کیا۔

’نہیں۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ حرکت کسی پاکھنڈی نے کی ہے۔ ‘ بیگم نے مجھے ایک نئے خطاب سے نوازا۔

’بھلا میں آپ کو کارڈ کیوں نہیں بھیج سکتا؟‘

’ اس لیے کہ آپ نے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا۔ یہ ایک آسان جواب ہے۔ اس کے علاوہ کارڈ کلچر ہمارے یہاں رائج نہیں ہے۔ میں آپ کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ آپ نمائش اور نمود کے حامی نہیں ہیں۔ آپ نے کبھی اپنی زبان سے اقرار نہیں کیا، جو اس کارڈ میں لکھا ہے۔ ڈھنگ سے دو گھڑی بیٹھ کر مجھ سے بات کرنے کی توفیق آپ کو کبھی ہوئی نہیں۔ آپ بھلا کارڈ کیا لکھیں گے۔ اور پھر آپ مجھ سے دور کہاں رہتے ہیں۔ روز ہی آمنا سامنا رہتا ہے۔ کارڈ بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ کارڈ دینا ہی تھا تو ہاتھ میں تھما دیتے، جیسے دفتر سے آتے ہی ٹفن کا ڈبّہ مجھے پکڑا دیتے ہیں۔ ‘ بیگم نے اپنی دانست میں میرے کارڈ نہ بھیجنے کی وجوہات گنائیں۔

میرے جذبات کا خون تو ہوہی چکا تھا۔ کچھ دیر سوچتا رہا کہ معاملے کو کیسے رفع دفع کروں۔ کچھ نہ سوجھا تو میں نے پوچھا۔ ’ کارڈ میں کیا لکھا ہے؟‘

’خود دیکھ لیجیے۔ ‘ بیگم نے پھر کارڈ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’ایک فلمی گانے کے بول لکھ کر کسی بے حیا چھوکرے کی طرح آئی لَوْیو کا وظیفہ پڑھا ہے۔ ‘

میں نے اس بار بھی کارڈ کو ہاتھ نہ لگایا اور عرض کیا۔ ’مجھے کبھی اپنی محبت کا اعتراف کرنے کا موقع نہیں ملا۔ شاید اسی لیے میں نے یہ تحریری بیان دیا ہے کہ سند رہے اور وقتِ ضرورت کام آئے۔ ‘

’اس کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اور آپ کو پتا ہے اور ہمیں ایک دوسرے پر بھروسا ہے۔ یوں ہی بیس سال نہیں بیت گئے۔ اگر ہمیں یہ پتا نہ ہوتا تو بیس دن بھی گزارہ مشکل تھا۔ ‘ بیگم میرے عذر کو رد کرتے ہوئے بولیں۔

کچھ دیر خاموش رہ کر بیگم نے سوال کیا۔ ’آپ بتائیے، آپ کا کون سا دوست اس قسم کا مذاق کر سکتا ہے؟‘

بیگم میرے جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی میرے دوستوں کا محاسبہ کرنے لگیں۔ ایسی حرکت عاطف صاحب کر نہیں سکتے۔ مجھے پتا ہے، وہ بہت شریف انسان ہیں۔ خان صاحب سے اس قسم کی حرکت کی امید کی جا سکتی ہے لیکن وہ ڈرتے بہت ہیں۔ کوئی ان کا ساتھ دے تو وہ ایسا مذاق کر سکتے ہیں۔ ہو نہ ہو شریف صاحب نے یہ کارڈ بھیجا ہو گا۔ وہ بہت ماڈرن اور روشن خیال بنے پھرتے ہیں۔ آپ کے ان دوست پر بھی شک کیا جا سکتا ہے جن کا بھلا سا نام ہے لیکن بھونڈے مذاق کرتے رہتے ہیں۔ پچھلی ملاقات میں کہہ رہے تھے کہ بھابی آپ اپنے شوہر پر نظر رکھیں اور اس کی جاسوسی کرائیں، وہ اوور ٹائم کرنے لگا ہے۔ ‘

اپنے دوستوں کا امیج خراب ہوتا دیکھ کر میں نے سنجیدگی سے کہا۔ ’بیگم۔ یہ کارڈ میں نے ہی بھیجا ہے۔ ‘

’آپ نے !‘ بیگم نے تعجب سے کہا۔ ’نہیں۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ آپ اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ‘

’یقین کرو۔ میں نے ہی یہ حرکت کی ہے۔ ‘میں نے اقبالِ جرم کرنے کے ساتھ ثبوت پیش کیا۔ ’غور سے دیکھیے تو آپ میری ہینڈ رائٹنگ پہچان پائیں گی۔ ‘

بیگم چشمہ لگا کر کارڈ کو نظروں کے قریب کر کے دیکھنے لگیں تو میں نے ندامت سے کہا۔ ’میں ہی وہ لُچا، لفنگا، بدمعاش، آوارہ اور بے حیا شخص ہوں جس نے آپ کو کارڈ بھیجا ہے۔ ‘

’۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ آپ نے۔ ۔ ۔ مجھے کارڈ کیوں بھیجا؟ ‘ بیگم نے حیرانی اور بے یقینی کی کیفیت میں دریافت کیا۔

’ہرسال چودہ فروری کو عاشقوں کی عید منائی جاتی ہے۔ اس دن عاشق اور چاہنے والے ایک دوسرے کو کارڈ بھیجتے ہیں، تحفے دیتے ہیں، پھول پیش کرتے ہیں، چاکلیٹ کھلاتے ہیں۔ سو میں نے بھی آپ کو یہ کارڈ روانہ کیا تھا۔ ‘ میں نے بیگم کو’ ویلنٹائن ڈے ‘ کے بارے میں بتایا۔

’عاشقوں کی عید! ویلنٹائن ڈے !!بھلا یہ بھی کوئی عید ہوئی۔ میں نے پہلے کبھی ایسی کسی عید کے بارے میں نہیں سنا۔ ‘ بیگم کی حیرانی برقرار رہی۔

’میں نے بھی پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ پچھلے سال دوسال سے ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ پر ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سنتا اور دیکھتا آ رہا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے، فروری کے مہینے کو رومانی مہینہ کہتے ہیں اور شاید اسی لیے اس مہینے کے دن سب مہینوں سے کم ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر یہ بھی بتایا گیا کہ اس دن، نئے سال کے بعد سب سے زیادہ کارڈ بیچے اور بھیجے جاتے ہیں اور۔ ۔ ۔ ‘

میں معلومات کا خزانہ لٹا رہا تھا کہ بیگم نے بات مکمل کرنے نہیں دی اور تیوریاں چڑھا کر میرا جملہ مکمل کیا’۔ ۔ ۔ اور میں ٹیلی ویژن دیکھ کر بگڑ گیا اور خود بھی کارڈ بھیجنا شروع کر دیا!‘

صورتِ حال کی نزاکت کے پیش نظر میں خاموش رہا، کیا جواب دیتا۔

بیگم نے طیش میں آ کر کارڈ کے پرزے پرزے کر دیے اور آنکھیں نکال کر اونچی آواز میں پوچھا۔ ’عاشق صاحب، آپ نے اور کس کس کو عاشقوں کی عید کی مبارک باد بھیجی ہے؟‘

اب یہ بتانا غیر ضروری ہے کہ میں بغلیں جھانکتے ہوئے اس گھڑی کو کوس رہا تھا، جب میں نے ویلنٹائن ڈے کارڈ بیگم کو بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، فروری 2002ء

 

 

 

پرانی کار، نیا مالک

 

ترقی کے ساتھ انسان مشینوں کے چنگل میں پھنستا جا رہا ہے۔ ریفریجریٹر، ٹیلی فون، ٹیلی وژن، ویڈیو، استری، سلائی مشین، کپڑے دھونے اور سکھانے کی مشین، فرش دھونے کی مشین، ویکیوم کلینر، مسالا پیسنے کی مشین، چائے بنانے کی مشین، کھانا پکانے کی مشین، برتن دھونے اور سکھانے کی مشین، بال سکھانے کی مشین، مساج کر کے نیند لانے کی مشین اور ایسی کئی دوسری مشینوں کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ ہمارا آرام کدہ بھی مختلف مشینوں سے لیس ہے۔

ہم نے کچھ مشینیں بیوی کے اصرار پر خریدیں اور چند مشینیں آس پاس کے لوگوں کو دیکھ کر گھر لے آئے۔ ہمہ اقسام کی مشینوں کی موجودگی میں ہم ’بے کار‘ تھے۔ سیدھے اور بائیں طرف کے پڑوسیوں کے پاس کار تھی۔ سامنے کے گھر میں ایک نہیں دو کاریں تھیں۔ اوپر فلیٹ والے کار بک کروا چکے تھے۔ نیچے کے فلیٹ کے مکین کے یہاں سرکاری اور خانگی دونوں کاریں تھیں جن کا وہ حسب ضرورت و منشا استعمال کرتے تھے۔ دفتر میں رعب ڈالنے کے لیے خانگی کار میں آتے تھے اور دوست احباب کو مرعوب کرنے کے لیے سرکاری ڈرائیور اور سرکاری کار استعمال کرتے تھے۔ آس پاس کی کاروں کا دباؤ ہم پر پڑنے لگا۔ بیوی اصرار کرنے لگیں کہ ہم ’بے کار‘ سے ’باکار‘ ہو جائیں۔

لیکن نہ جانے کیوں کار خرید نے کے لیے ہماری طبیعت مائل نہ تھی۔ شاید اس لیے کہ گھر سے نکلتے ہی کوئی نہ کوئی سواری دستیاب ہو جاتی ہے۔ کبھی ہمیں اپنی سواری یعنی کار کی حاجت محسوس نہیں ہوئی۔ بیوی کی فرمائش ٹالنے کے لیے ہم نے ایک سوشلسٹ کا روپ دھار کر کہا۔ ’کار وہاں رکھنی چاہیے جہاں سڑکوں پر صرف موٹر گاڑیاں دندناتی پھرتی ہیں۔ ہماری سڑکوں پر ہمہ اقسام کی سواریاں ہوتی ہیں جن میں انسان سے لے کر جانور تک جوتے جاتے ہیں۔ کار رکھنے کا فائدہ نہ ہو گا اور کار سہولت کی بجائے زحمت بن جائے گی۔ کیا تم چاہتی ہو کہ سائیکل رکشہ کے پیچھے کار شرمندگی سے چلتی رہے۔ ‘

ہمیشہ کی طرح بیوی نے ضد کی۔ ’میں صرف کار چاہتی ہوں۔ چاہے وہ سڑک پر دوڑے یا پیادے کے پیچھے رینگتی رہے لیکن ہمارے دروازے پر کار کھڑی ہونی چاہیے۔ ‘

سمجھانے میں ناکام رہے تو ہم نے انھیں ڈرایا۔ ’کار سے بڑے بھیانک حادثات ہوتے ہیں۔ مالی نقصان کے ساتھ جان بھی جاتی ہے۔ تم کیوں اپنے سہاگ کی زندگی کے پیچھے پڑی ہو!‘

جواب ملا۔ ’کئی سہاگنوں کے پاس کار اور سہاگ دونوں سلامت ہیں۔ میں کار کے آگے کوئی بہانہ چلنے نہ دوں گی۔ ‘

اس تریا ہٹ کے سامنے ہمیں ہتھیار ڈالنا پڑا۔ ہم نے صاحب کار ہونے کی ہامی بھری تو بیوی نے اپنی سہیلیوں میں ڈھنڈورا پٹوایا کہ وہ عنقریب ایک کار کی مالک بننے والی ہیں۔ ہم نے دوستوں سے کار خریدنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ متفقہ مشورہ یہ تھا کہ حکمِ حاکم ہے تو کار ضرور خریدی جائے۔ چوں کہ ہمیں اور ہماری بیوی کو کار چلانی نہیں آتی، ڈرائیور کی تنخواہ ہم دے نہیں سکتے اور نہ ڈرائیور ہمارے خاندان سمیت کار میں سماسکتا ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ پرانی کار خریدیں۔ پرانی کار پر ہاتھ صاف کر لیں۔ کارِ ثواب کے طور پر دوستوں کو بھی کار چلانا سکھائیں۔ جب کار رکھنے کا سلیقہ اور کار چلانے میں مہارت آ جائے تو نئی چمچماتی کار خریدیں۔

پرانی کار خریدنے کے لیے بیوی کو راضی کرنا ایک مسئلہ تھا۔ ان کی کسی سہیلی کے شوہر نے پرانی کار نہیں خریدی تھی۔ حتیٰ کہ ان کی ایک سہیلی کے پرانے شوہر نے بھی نئی کار خریدی تھی۔ بیوی نے پرانی کار خریدنے پر اعتراض کیا تو ہم نے جواب دیا۔ ’یہی بات ہماری انفرادیت ہو گی۔ ‘

’یہ انفرادیت نہیں مجبوری معلوم ہوتی ہے۔ ‘ بیوی نے بحث کا آغاز کیا۔ کچھ دیر ہمارے درمیان بحث ہوتی رہی اور پھر بیوی پرانی کار کے لیے راضی ہو گئیں۔ انھیں اندازہ ہونے لگا تھا کہ کہیں ہم کار خریدنے کا ارادہ ہی ترک نہ کر دیں۔ انھوں نے کار نہ خریدنے کی بہ نسبت پرانی کار پر سمجھوتا کیا۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ شوہر بیوی کے آگے ہتھیار ڈالتا ہے جبکہ بیوی کبھی ہار نہیں مانتی، اکثر کامیاب رہتی ہے لیکن بعض مرتبہ سمجھوتا بھی کر لیتی ہے۔ بیوی پرانی کار قبول کرنے کے لیے تیار ہوئیں تو ہم پرانی کار کے نئے مالک بننے نکل پڑے۔

پرانی کار خریدنے کے پہلے مرحلہ میں تجربہ کار، ایماندار اور قابل میکانک کی تلاش شروع ہوئی تاکہ موصوف پر تکیہ کر کے کار خریدی جائے۔ ہم تجربہ کار، ایماندار اور قابل میکانک کو ڈھونڈنے لگے۔ ہمیں کوئی بھی میکانک ایسا نظر نہ آیا جس میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ اس ماڈل کے میکانک آج کل شاید بن نہیں رہے ہیں۔ اسی لیے میکانک کی مدد سے ہم جیسی پرانی کار چاہتے تھے وہ خرید نہ سکے۔ ہم چاہتے سفید رنگ کی کار لیکن میکانک کا اصرار ہوتا کہ کالی کار موقع سے مل رہی ہے، خرید لیں۔ ہم ہاتھ والے گیئر چاہتے تو میکانک کا مشورہ ہوتا کہ ایسے گیئر پائیدار نہیں ہوتے۔ ہم فر نٹ وہیل ڈرائیوپسند کرتے تو ارشاد ہوتا کہ ہماری فطرت کے حساب سے فرنٹ وہیل ڈرائیو کار ہمارے لیے مناسب نہیں ہے۔ انھوں نے ہمارے لیے بیک وہیل ڈرائیو کار پسند کی۔ ہم میکانک کی مردم شناسی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ واقعتاً ہم نے آج تک خود سے کچھ نہیں کیا۔ ہمیں کچھ کرنے کے لیے ہمیشہ سے دوسروں کے دھکوں کی ضرورت رہی ہے۔ بچپن میں والدین اور اب بیوی یہ فرض بہ احسن انجام دے رہی ہیں۔

مطلوبہ میکانک کی تلاش میں ہم ورک شاپ در ورک شاپ بھٹکتے رہے۔ کامیابی حاصل نہ ہونے پر آخر اسی مردم شناس میکانک پر تکیہ کیا اور آنکھیں بند کر کے ان کی تجویز کردہ کار خرید لی۔ سودا ہونے کے بعد میکانک نے ہماری کار مرمت کے لیے اپنے پاس رکھ لی اور ہم سے کہا۔ ’معمولی کام ہے۔ میں پرانی کار کو نیا بنا کر دوں گا۔ ‘

کار میکانک کے پاس رہی۔ جب بھی ہم اپنی کار لینے جاتے میکانک اجرت اور فاضل پرزوں کا بل پیش کر کے کہتے۔ ’ابھی تھوڑا سا کام باقی ہے۔ جلد ہو جائے گا۔ ‘

تین چکروں کے بعد میکانک کے پاس جانے سے ڈر ہونے لگا۔ معلوم نہیں اس مرتبہ کتنا جرمانہ طلب کیا جائے گا۔ ادھر بیوی کار کے انتظار میں سوکھی جا رہی تھیں۔ انھوں نے ایک دن ہمیں ڈانٹا۔ ’کار خرید کر میکانک کے پاس چھوڑ آئے اور جب جاتے ہو الٹا پیسے دے کر آتے ہیں ! آخر آپ اپنی کار لانے سے کتراتے کیوں ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ نے کار خریدی ہی نہیں اور مجھے بے وقوف بنا رہے ہیں؟‘

’توبہ۔ ۔ ۔ توبہ۔ ۔ ۔ میں جھوٹ، وہ بھی آپ سے کیوں بولوں گا۔ ‘ ہم نے اپنے گال پیٹتے ہوئے کہا۔ ’میں ابھی اس نا ہنجار کے پاس سے کار لے آتا ہوں۔ ‘

’پچھلے دو ماہ سے یہ نیک کام آپ سے ہو نہیں پایا۔ آپ کار نہیں لا سکتے۔ چلیے، میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ کار کو دیکھ لوں گی اور اس میکانک سے نمٹ بھی لوں گی۔ ‘ بیوی نے طنز کیا۔

اپنے فرائض میں بیوی کی دخل اندازی ہمیں پسند نہ آئی اور ہم میکانک سے خود اکیلے نمٹنے چل پڑے۔ میکانک نے ہمارے بگڑے تیوروں کو پہچان کر کار حوالے کرتے ہوئے ہدایت کی۔ ’کار میں ایک بہت ہی معمولی کام رہ گیا ہے، مصروفیت کے سبب نہ کر سکا۔ اب آپ کا بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ کسی دوسرے میکانک سے یہ کام ضرور کروا لیں۔ ‘

ہم نے کار کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ میکانک کے پاس رہنے سے پرانی کار مزید پرانی ہو چکی تھی۔ نئے میکانک سے پرانی کار ٹھیک کروانے سے بہتر تھا کہ اس کار کو فروخت کر دیا جائے۔ چنانچہ پہلی پرانی کار جو ہم نے خریدی، اسے چلائے بغیر ہی مالی نقصان اٹھا کر بیچ دیا۔

نئی کار خریدنا آسان ہے۔ جیب میں صرف پیسے ہونے چاہئیں۔ دوستوں کے مشوروں کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی میکانک کی قابلیت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پیسے ادا کیجیے اور نئی کار اٹھا لایئے لیکن پرانی کار خریدنے کے لیے اپنی ناقص معلومات، قسمت، دوستوں کے غلط مشوروں اور میکانک کی نا تجربہ کاری کو آزمانا پڑتا ہے۔ میکانک کی فن کاری سے ہم واقف ہو چکے تھے۔ دوستوں سے مشورہ کیسا؟ وہ سب ہمارا اپنا عکس تھے۔ ورنہ وہ ہمارے دوست کیوں کر بنتے !

ہم نے اپنی معلومات اور قسمت کو آزمانا چاہا لیکن مشکل یہ تھی کہ کاروں کے تعلق سے ہماری معلومات صفر تھیں۔ ہم نے کاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ مختلف کار بنانے والی کمپنیوں، ان کی بنائی کاروں اور ان کے مختلف ماڈلز، انجن کی کارکردگی، کار میں فراہم کی جانے والی سہولتوں، پٹرول کی بچت کا نظام، کاروں کی طبعی عمر، کاروں کی تاریخ، کاروں کے حادثات، وغیرہ جیسے موضوعات کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چند دنوں میں ہمیں کاروں کے متعلق اتنی معلومات حاصل ہو گئیں کہ لوگ ہمیں کار پرا تھارٹی ماننے لگے اور ہمارے مفید اور مفت مشوروں سے فیضیاب بھی ہونے لگے۔ ہم نے سوچا کہ کار کے حوالے سے اتنا کچھ جان چکے ہیں کہ اب ہمارے لیے کار رکھنا بے معنی سا لگتا ہے۔ ہم نے ’بے کار‘ رہنے کا فیصلہ کیا لیکن بیوی بچوں کے اصرار پر ہمیں یہ شوق چرایا کہ کیوں نہ ہم ایک ونٹیج کار خریدیں۔ فیشن کے ساتھ ضرورت پوری ہو جائے گی اور ہماری معلومات کام بھی آ جائیں گی۔

ہم ونٹیج کار کی تلاش میں نکل پڑے۔ کئی ونٹیج کاریں بتائی گئیں جو سڑک کے کنارے معذور کھڑی اپنے فنا ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ ایک ونٹیج کار ملی جو تھوڑی بہت بقیدِ حیات تھی۔ ہم نے مالک سے سودا کیا۔ مالک خوش ہوا اور ہماری تعریف کی۔ ’ہیرے کی قدر جوہری ہی کر سکتا ہے۔ کئی لوگ کار کو کباڑ سمجھ کر خریدنے آئے لیکن میں نے تہیّہ کر رکھا تھا کہ ایسے شاندار ماضی کو دفن کر دوں گا لیکن کباڑیے کے ہاتھ کبھی فروخت نہ کروں گا۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے ہاتھ سستے دام میں ایسا شاندار ماضی آیا ہے۔ ‘

از راہ ہمدردی مالکِ کار نے اس میکانک کا پتا بتایا جو اس کار کے میکانزم سے واقف تھا۔ دوچار کباڑیوں کے پتے بھی بتائے جہاں سے اس کار کے پرزے مل سکتے تھے۔ مالک کی اس ہمدردی کے صلہ میں ہم نے موصوف کی کاروں کے بارے میں معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

ہم ونٹیج کار گھر لائے تو احباب کار کا دیدار کرنے آنے لگے۔ لوگ ہماری کار کو پرانی اور چھکڑا کار کہتے تو ہمیں دلی تکلیف پہنچتی تھی۔ ہم انھیں سمجھاتے۔ ’بھائی۔ اس عظیم ماضی کو چھکڑا نہ کہو۔ ونٹیج کار کہہ کر اس کی عزت کرو۔ ‘

لیکن لوگوں کو نہ کار کی پروا تھی اور نہ ہی ہمارے جذبات کا خیال تھا۔ جو جی میں آیا کہتے تھے۔ ایک صاحب نے حد کر دی۔ انھوں نے کہا۔ ’چوں کہ حضرت آدمؑ کے زمانے میں کار نہیں تھی، اس لیے ہم یہ قیاس نہیں کر سکتے کہ باوا آدم دنیا میں اسی کار میں بیٹھ کر تشریف لائے تھے۔ لیکن یہ بات مسلمہ ہو سکتی ہے کہ یہ وہی پرانی کار ہے جو پہلے وائسرائے کے زیر استعمال رہتی ہو گی۔ ‘

ایک صاحب نے ونٹیج کار کا معائنہ کر کے سوال کیا۔ ’ آپ اسے چلائیں گے یا اس کی نمائش کریں گے؟‘

’ہم اس ونٹیج کار میں بیٹھ کر آپ کے گھر چائے پینے آئیں گے۔ ہمارا انتظار کرنا۔ ‘ ہم نے موصوف سے اپنے مصمم ارادے کا اظہار کیا اور اتوار کے دن ہم نے ونٹیج کار کو صاف کیا، اسے نہلایا اور سجایا۔ بیوی اور بچوں کو بھی تیار کروایا اور شہر کی سیر کرانے کے لیے انھیں کار میں بٹھایا۔ کار اسٹارٹ کرنے کے لیے ہم کنجی نما ڈنڈا گھمانے لگے۔ ڈنڈا گول گھومتا رہا اور مختلف قسم کی آوازیں آتی رہیں لیکن کار اسٹارٹ نہ ہوئی۔ شاندار ماضی کے اطراف، حال کے لوگ جمع ہونے لگے۔ بیوی اور بچے ہمیں ونٹیج کار کے حوالے کر کے گھر میں چلے گئے۔ باہر جانے کا پروگرام ملتوی بلکہ منسوخ ہوا۔

ہمیں ونٹیج کار سے نبرد آزما دیکھ کر پڑوسیوں نے چند فقرے کسے۔ ’لوہا کیا بھاؤ بیچو گے؟ کباڑ کہاں سے اٹھا لائے؟ ہمارے گھر میں اس سے بھی پرانا سامان ہے، خریدو گے؟‘

لوگوں سے بچنے کے لیے ہم گھر میں داخل ہوئے تو بیوی اور بچوں کے طعنے پریشان کرنے لگے۔ گھبرا کر ہم اس میکانک کے پاس پہنچے جس کا پتا ونٹیج کار کے پرانے مالک نے دیا تھا۔ میکانک سے مل کر یوں محسوس ہوا جیسے بزرگ میکانک اس کار کو ٹھیک کرنے کی آخری خواہش پوری کر کے رخت سفر باندھیں گے۔ ایک آنکھ سے معذور، کمزور سماعت، ہاتھوں میں رعشہ اور پیروں میں لڑکھڑاہٹ، شہر میں اس ’ونٹیج میکانک‘ کے علاوہ کوئی دوسرا میکانک بقید حیات نہ تھا جو اس کار کے میکانزم سے واقف ہوتا۔ میکانک نے آخری خواہش کے طور پر ہماری ونٹیج کار کا معائنہ کیا اور نحیف آواز اور اشاروں سے سمجھایا کہ اس کار کا ایک پرزہ غائب ہے۔ نیا پرزہ تو اب بنتا نہیں ہے، پرانا ڈھونڈنا پڑے گا۔

پرزے کا نام حاصل کر کے ہمیں یوں لگا جیسے کسی پرانی کہانی میں حکیم نے نیند میں غرقاب شہزادی کو ہوش میں لانے کے لیے کسی دوا کا نام بتایا ہے اور شہزادے کو اپنی محبت کی خاطر یہ کارنامہ انجام دینا ہے۔ شہر کے تمام کباڑیوں کے پاس ہم گئے لیکن وہ پرزہ نہ ملا۔ تب ونٹیج میکانک نے ہمیں ان لوگوں سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جن کے پاس ایسی ہی ونٹیج کاریں تھیں۔ ان لوگوں نے پہلے ہمیں ونٹیج کار ایسوسی ایشن کا ممبر بنایا۔ ایسوسی ایشن میں ونٹیج کار کے ایسے جید عالم موجود تھے کہ ہمیں محسوس ہوا ابھی ہم ان کے سامنے پانی بلکہ پٹرول بھرتے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمیں درکار پرزے کا نام سن کر بتایا کہ اب یہ نایاب ہو چکا ہے۔ صرف چھ پرزے کرۂ ارض پر موجود ہیں۔ چار برطانیہ کے شاہی خاندان میں اور دو ہمارے ممبروں کی کار میں لگے ہیں، اب آپ کو اس قسم کا ساتواں پرزہ ملنا ناممکن ہے۔

مایوس ہو کر ہم نے ونٹیج کار فروخت کرنا چاہا لیکن ہماری طرح اس کا چاہنے والا نہ ملا۔ ایک عرصہ تک ونٹیج کار گھر کے سامنے کھڑی رہی۔ ہم ونٹیج کار کے نئے مالک اور پرانے پرزے کی تلاش میں سرگرداں رہے اور محلہ کے بچے کار سے کھیلتے رہے۔ کبھی وقتِ ضرورت کباڑیے پرزے چرا بھی لے جانے لگے۔ ونٹیج کار کا صرف ایک فائدہ ہمیں ہوا کہ اس کی مدد سے اپنے گھر کا پتا آسانی سے سمجھاتے تھے۔ آخر ایک مبارک دن کچرا اٹھانے والے اس ونٹیج کار کو اٹھا لے گئے۔ ہم نے اطمینان کا سانس لیا لیکن اس کار نے ہمیں اتنا مقبول بنایا کہ محلہ میں ہمارا نام ’ونٹیج کار‘ پڑ چکا ہے۔ ہمیں لوگ اصلی نام سے کم اور ونٹیج کار کے نام سے زیادہ پہچانتے ہیں۔

پرانی کار کی تلاش کے دوران ہمیں ایک کم سن، خوش رنگ اور آرام دہ کار ملی۔ ہمیں اس سے پہلی نظر میں الفت ہو گئی۔ دوسری نظر ڈالنا بھی گوارا نہ کیا اور اس کار کو اپنا بیٹھے۔ جب کار چلانے لگے تو پہلی نظر میں ہونے والی محبت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ دائیں جانب چلانا چاہتے تو سبک اندام کار بائیں طرف جانا چاہتی تھی۔ دائیں جانب لے جانے کے لیے اسٹیرنگ پر اتنا زور ڈالنا پڑتا کہ محسوس ہوتا جیسے ہم کار کو دھکیل رہے ہیں۔ بائیں طرف موڑتے تو کار خوشی سے بے قابو ہو کر اور سڑک چھوڑ کر راہ گیروں اور دکانوں میں گھس جاتی۔ غلط راہ پر جانے سے روکنے کے لیے باضابطہ بریک پر کھڑا ہونا پڑتا۔

محسوس ہونے لگا کہ ہم کار نہیں چلا رہے ہیں بلکہ کار سے فری اسٹائل کشتی لڑ رہے ہیں۔ صرف دو ہی دنوں میں کار نے ہمیں ناک آؤٹ کر دیا۔ ہمارے ہاتھوں اور پیروں میں درد ہونے لگا۔ جوڑ جوڑ سے آواز آنے لگی۔ ہتھیلی اور انگلیوں میں چھالے پڑ گئے۔ تیسرے دن ہم نے کار بیچنے کا فیصلہ کیا۔ کار بیچنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ایجنٹ نے کار کے متعلق کچھ نہ پوچھا، ورنہ ایجنٹ حضرات مختلف سوالات کر کے کار کی قیمت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کار کیوں بیچنا چاہتے ہیں؟ کار چوری کی تو نہیں ہے؟ ایکسیڈنٹ والی کار تو نہیں ہے؟ آپ نے کار کتنے میں اور کب خریدی تھی؟ کس سے خریدی تھی؟وغیرہ۔

ہماری خواہش سن کر ایجنٹ نے جواب دیا۔ ’ٹھیک ہے جناب، پچیسویں مرتبہ بھی فروخت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن شاید اب مشکل ہو گی۔ ‘

ایجنٹ کی بات سن کر ہمیں حیرت ہوئی اور اصرار کرنے پر اس نے بتایا کہ عرصہ سے یہ کار لین دین میں ہے۔ بعض پرانی کاریں سڑک پر کم چلتی ہیں، خریدی اور بیچی زیادہ جاتی ہیں۔ یہ کار بھی ان خوش نصیب کاروں میں سے ایک ہے۔ لوگ خوشی خوشی اسے خریدتے ہیں اور کار چلانے سے زیادہ پریشان ہو کر صرف چند دن میں اسے واپس بیچنے چلے آتے ہیں۔

ہم نے پوچھا۔ ’اب کیا ارادہ ہے۔ کس کے سر اسے باندھو گے؟‘

ایجنٹ نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔ ’شہر کے آدھے لوگ اس کار سے واقف ہو چکے ہیں۔ اس لیے اسے فروخت کرنے میں اب مشکل پیش آ رہی ہے۔ سوچتا ہوں کہ کمپنی کو یہ باور کروا کے کار واپس کر دوں کہ اس کار کے وجود سے کمپنی کی ساکھ کو خطرہ ہے اور کمپنی سے منہ مانگی قیمت وصول کر لوں۔ ‘

’آپ کار کیوں فروخت کر رہے ہیں؟‘ یہ ایک اہم سوال ہوتا ہے جو کار خریدنے والا بیچنے والے سے کرتا ہے۔ بیچنے والے کو تین مرتبہ قسم بھی دلائی جائے تو شاید ہی وہ اس سوال کے جواب میں سچ کہتا ہو گا۔ پرانی کار کے پرانے مالک اکثر ایک شانِ بے نیازی سے جواب دیتے ہیں۔ ’کار سے دل بھر گیا ہے۔ اسے بیچ کر دوسری خریدوں گا۔ ‘ لیکن حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ پرانی کار صاحبِ کار کو اتنا پریشان کرتی ہے کہ تنگ آ کر وہ کار بیچ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کا خیال ہے کہ اچھی سواری اور اچھی بیوی کا ملنا نصیب کی بات ہوتی ہے۔ اور ہر کوئی خوش قسمت نہیں ہوتا۔

ہم نے ایک پرانی کار کے پرانے مالک سے سوال کیا۔ ’آپ کار کیوں بیچ رہے ہیں؟‘

صاحبِ کار نے صاف گوئی سے جواب دیا۔ ’اس کار سے ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ ‘

جواب سن کر ہم نے یہ کار نہ خریدنے کا فیصلہ کیا لیکن ہمیں ان کی صاف گوئی پر رحم آیا۔ ہم نے انھیں مشورہ دیا۔ ’ایسی منحوس کار سے پیچھا چھڑانا چاہیے لیکن کار فروخت کرتے وقت حادثے والی بات نہ بتائیں۔ لوگ ایکسیڈنٹ کے نام سے ڈر جاتے ہیں۔ ‘

موصوف ہمیں سمجھانے لگے۔ ’کار بہت اچھی ہے۔ چلنے میں شاندار، بیٹھنے میں آرام دہ اور اپنے مالک کی وفادار۔ ایکسیڈنٹ دوسری کار چلانے والے کی غلطی سے ہوا تھا۔ اس حادثے میں میری بیوی فوت ہو گئی۔ میں کار سے پیچھا نہیں چھڑانا چاہتا۔ مجھے کار عزیز ہے لیکن جس لڑکی سے میں دوسری شادی کرنے والا ہوں، اس کا اصرار ہے کہ میں یہ کار بیچ دوں۔ میں مجبوراً اور بہت دکھ کے ساتھ اس کار کو فروخت کر رہا ہوں۔ آپ اسے خرید لیں۔ آپ کے بہت کام آئے گی۔ ‘

کچھ لمحوں کے لیے ہم لالچ میں آ گئے لیکن اس خیال نے ہمیں یہ کار خریدنے سے باز رکھا کہ کیا ضروری ہے کہ کار دوسری مرتبہ بھی وہی غلطی کرے، دائیں اور بائیں سیٹ سے بہت فرق ہو جائے گا۔ مشینری کا کیا بھروسا!

پرانی کار کی چاہ میں ہمیں ایک ایسی کار بھی ہاتھ لگی جس کا ماڈل اور ہماری بیوی کا سنہ پیدائش ایک تھا۔ بیوی اور ان کی ہم عمر کار میں ہم نے کئی باتیں مشترک پائیں۔ کار اسٹارٹ ہونے میں وقت لگاتی تو بیگم میک اپ کرنے میں وقت گنواتی تھیں۔ کار بگڑ کر کھڑی ہو جاتی تھی تو بیوی روٹھ کر منہ پھلائے بیٹھی رہتی تھیں۔ کار ٹھیک ہونے کے لیے میکانک کے پاس جاتی تو بیوی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے انھیں میکے بھیجنا پڑتا تھا۔

چونکہ بیوی کی پیدائش اور کار کے ماڈل کا سنہ ایک تھا اور دونوں میں مشترکہ خوبیاں تھیں، ہمیں قوی امید تھی کہ بیوی کار کو سگی اور جڑواں بہن کی طرح عزیز رکھیں گی لیکن اس توقع کے خلاف بیوی کار کو اپنی سوت سمجھنے لگیں۔ کار کا رویہ بھی بیوی کے ساتھ اپنائیت والا نہ تھا۔ کار میں سوار ہونے سے قبل بیوی کار کو برا بھلا کہنے اور کوسنے لگتی تھیں۔ بیوی کار میں بیٹھتیں تو کار کبھی چلنے سے انکار کر دیتی یا پھر کچھ دیر انجن اول فول بکتے ہوئے بند ہو جاتا تھا۔ بیوی کو اپنی سوت کا وجود کھٹکنے لگا اور ہمیں دو بیویوں کو سنبھالنا مشکل ہونے لگا۔ آخر وہ وقت بھی آن پہنچا جب بیوی نے دھمکی دی۔ ’آپ مجھے اپنے ساتھ رکھیں یا اس موئی کار کے ساتھ رہیں۔ اب میں اس کار کے ساتھ نباہ نہیں کر سکتی!‘

’پہلے آیئے، پہلے پایئے ‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہم نے کار کو الوداع کہا۔ بیوی نے خوشیاں منائیں۔ ہم نے سوچا کہ بیوی اب کار کا مطالبہ نہیں کریں گی لیکن کار کو فروخت کیے بمشکل چالیس دن گزرے تھے کہ بیوی پھر کار کے لیے اصرار کرنے لگیں۔ ہم نے بیوی سے دریافت کیا۔ ’کون سے ماڈل کی کار چاہیے۔ پچھلی کار کی طرح۔ ۔ ۔ ‘

بیوی ہمیں بیچ ہی میں روک کر بولیں۔ ’مجھے سوتن اور آپ کو دوسری بیوی نہیں، ہمیں اولاد چاہیے۔ پپو بہت لکی ہے۔ اس کی پیدائش کے سنہ کا ماڈل ڈھونڈیے۔ ‘

پرانی شے میں پرانے مالک کی باقیات اور یادیں موجود رہتی ہیں۔ پرانی کار اس کلیہ سے مستثنی نہیں ہے۔ ہم نے ایک کار خریدی تھی جس پر پرانے مالک کا اثر کچھ زیادہ ہی تھا۔ پرانے مالک پستہ قد تھے۔ ڈرائیونگ سیٹ اوپر اٹھی ہوئی تھی۔ جب ہم سیٹ پر بیٹھے تو ہمارا سر، کار کا چھپّر پھاڑ کر باہر نکلنے لگا۔ سیٹ کو نیچے کرنا چاہا تو سیٹ نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ سیٹ کو جھکانے کے لیے ماہر کی خدمات بھی رائے گاں گئیں۔ آخر وہی ہوا، جو جھکتے نہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں یا توڑ  دیے جاتے ہیں۔ سیٹ توڑی گئی اور ہمیں اپنی سائز کی سیٹ لگوانی پڑی۔ تب کہیں ہم کار چلاس کے۔

ایک دوسری کار میں صاحبِ کار کے بچوں کی باقیات تھیں۔ اسکول جاتے وقت بچے پچھلی سیٹ کے فوم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ربر کا کام لیتے تھے۔ جب ہم نے کار خریدی تو پچھلی سیٹ کی جگہ سیٹ کا ڈھانچہ تھا۔ بچے کرکٹ کے کھلاڑی بھی تھے۔ کار میں کرکٹ کھیل کر پیچھے کے آئینہ پر مکڑی کا جال بنا چکے تھے۔ ایک صاحب کی شاندار ڈرائیونگ کا ریکارڈ کار کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے موجود تھا۔

ہم نے صرف ظاہری نشانات کی بات کی ہے۔ کار کے انجن اور اندرونی پرزوں پر بھی پرانے مالک کے اثرات موجود رہتے ہیں جو نئے مالک پر آہستہ آہستہ عیاں ہوتے ہیں۔ پرانی کار خرید کر چلانے سے پہلے نیا مالک پرانی کار میں پرانے مالک کی باقیات کو مٹانے کی سعی کرتا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ پرانے گھر، پرانی بیوی اور پرانی کار کو ہر دم نئے رنگ و روغن کی حاجت ہوتی ہے۔ نیا مالک رنگ و روغن کرواتے کرواتے اپنا دیوالیہ نکلوا بیٹھتا ہے۔

ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ جب کوئی پرانی کار خریدنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ایک پرانی کار خرید کر اپنی ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ اسے ایک کے بعد ایک پرانی کار خریدنی اور بیچنی پڑتی ہے۔ اس لت میں چار کی قید بھی نہیں ہوتی۔ ہمیں ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے کتنی پرانی کاریں خریدیں لیکن یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جتنی پرانی کاریں خریدیں، اتنی ہم نے بیچی نہیں ہیں۔ چند یوں ہی ہمارے گلے پڑ گئیں۔

پرانی کاریں خریدنے کے ہمارے تجربے نے بزرگوں کی بنائی کہاوت ’نیا روئے ایک بار اور پرانا روئے بار بار‘ کو سچ کر دکھایا۔ پرانی کاروں سے تنگ آ کر ہم نے نئی کار خریدنے کا فیصلہ کیا۔ بیوی بہت خوش ہوئیں اور ہمیں دعائیں دینے لگیں۔

ہم نے نئی کار خریدی اور پرانی کاروں کے تجربہ کو قلمبند کر کے موم کے کاغذ میں لپیٹ کر نئی کار میں لٹکایا ہے۔ دوست احباب کا خیال ہے کہ نئی کار کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے ہم کار میں تعویذ رکھتے ہیں۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی،ا گسٹ 1990ء

 

 

 

 

ہم نے گواہی دی

 

چھٹی کا دن تھا۔ ہم گھر میں بیٹھے بور ہو رہے تھے۔ بوریت دور کرنے کے لیے اخبارات پڑھ ڈالے، دوستوں سے فون پر غیر ضروری بات کر لی اور دو کپ چائے بھی پی لی تھی لیکن بوریت دور نہیں ہوئی تھی۔ خالی بیٹھے سوچ رہے تھے کہ کیا کریں؟ کچھ سجھائی نہ دیا تو چہل قدمی کرنے کے ارادے سے گھر کے باہر نکلے۔ گھر کے سامنے لوگوں کا جم گھٹا نظر آیا۔ پتا چلا کہ بچوں کی شرارت بڑوں کی لڑائی بن گئی ہے۔ ہمارے پڑوسی جناب شرافت شریف صاحب کا مقابلہ محلہ کے لڑاکو خاں پہلوان سے چل رہا ہے۔ لڑائی تو تو میں میں تک محدود تھی۔ ابھی ہا تھا پائی کی نوبت نہیں آئی تھی۔ زبانی لڑائی میں بھی لڑاکو خاں پہلوان کا پلڑا بھاری تھا۔ موصوف گالیاں یوں دے رہے تھے جیسے ان کی مادری زبان یہی ہے۔ شرافت شریف صاحب کو عزت، شرافت اور اخلاق نے جکڑ رکھا تھا۔ انھوں نے لڑاکو خاں پہلوان کی گالیوں کے جواب میں کہا۔ ’آپ چپ بے۔ میں ہوں کہ برداشت کیے جا رہا ہوں اور تو ہے کہ حد دسے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘

’تیری تو۔ ۔ ۔ ‘ لڑاکو خاں پہلوان نے پھر ایک گالی دی۔

گالی کھا کر شرافت شریف صاحب کا چہرہ لال پیلا ہوا۔ غصّہ سے پھٹی آواز میں کہنے لگے۔ ’آپ حد سے مت بڑھ۔ مجھے دیکھ اور تو دیکھیے۔ شرافت، اخلاق اور مروت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ‘

لڑاکو خاں پہلوان کو گالیوں کے بغیر بات کرنا آتا نہ تھا۔ اس نے مزید گالیاں بکیں جن میں سے اکثر گالیاں ہم نے زندگی میں پہلی بار سنیں۔ شرافت شریف صاحب کا پیمانۂ صبر لبریز ہوا۔ وہ سر سے پیر تک غصّہ میں کانپنے لگے۔ پھر انھوں نے آستین چڑھائی۔ پائنچے اوپر کیے۔ چپل چھوڑی۔ گھڑی اور چشمہ اتار کر بچے کے حوالے کیا اور چار قدم پیچھے ہٹ کر لڑاکو خاں پہلوان پر حملہ کرنے کے لیے دم بھرنے لگے۔ ہم نے انھیں روکا۔ دیگر پڑوسیوں نے انھیں جکڑا۔ پھڑ پھڑاتے ہوئے شرافت شریف صاحب کہنے لگے۔ ’مجھے چھوڑ دیجیے صاحب۔ میں اسے مزہ چکھاؤں گا۔ اسے سکھاؤں گا کہ شرافت کیا ہوتی ہے اور شرفا سے کیسے گفتگو کی جاتی ہے۔ ‘

ہمیں یقین تھا کہ اگر ہا تھا پائی ہوئی تو لڑاکو خاں پہلوان ان کا سرمہ بنا دے گا۔ ہم انھیں سمجھانے لگے۔ ’آپ لڑائی کیا جانیں۔ وہ غنڈہ ہے موالی ہے۔ صبر کیجیے اور اپنے آپ کو سنبھالیے۔ ‘

ڈھیلے پڑتے ہوئے شرافت شریف صاحب نے بھرائی آواز میں کہا۔ ’آپ نے سنا نہیں وہ کیسی نازیبا باتیں کر رہا ہے۔ اس بے عزتی سے بہتر ہے کہ لڑ کر ختم ہو جائیں۔ ‘

ہم نے معاملہ کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے کہا۔ ’مریں آپ کے دشمن۔ قانون آپ کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔ آپ ازالہ حیثیت عرفی کا دعوی کیجیے۔ ‘

شرافت شریف صاحب نے نارمل ہوتے ہوئے سوال کیا۔ ’گواہی کون دے گا؟‘

’ہم سبھی دیں گے۔ ‘ آس پاس لوگوں کو دیکھ کر پر جوش لہجہ میں ہم نے جواب دیا۔

اس جملے کے بعد ہم نے دیکھا کہ محلہ کے شرفا جو شرافت شریف صاحب کو تھامے ہوئے تھے، انھیں چھوڑ کر چار قدم پیچھے ہٹ گئے۔ کچھ لوگوں نے گھر کی راہ بھی لی۔ شرافت شریف صاحب کے ساتھ ہم تنہا رہ گئے۔ انھوں نے پریشان ہو کر ہمیں دیکھا تو ہم نے انھیں یقین دلایا۔ ’کوئی اور گواہی دے یا نہ دے۔ ہم ضرور آپ کا ساتھ دیں گے۔ آخر طوفان بدتمیزی کو روکنا ضروری ہے۔ ‘

باہر ہنگامے سے نمٹنے کے بعد گھر میں داخل ہوئے تو بیوی کو محاذ کھولے ہوئے پایا۔ کہنے لگیں۔ ’آپ ہی ایک خدائی فوجدار بچے ہیں۔ بیچ بچاؤ کیا۔ نیکی کی۔ اب گواہی دیں گے۔ کبھی عدالت کی سیڑھیاں چڑھی ہیں۔ کیا شرفا عدالت جاتے ہیں؟‘

بیوی کی تقریر جاری تھی اور ہم حسبِ عادت ان کی سنتے ہوئے سوچنے لگے کہ عدالت کی سیڑھیاں چڑھنا تو دور، عدالت کے قریب جانے سے بھی ہمیں ڈر ہوتا ہے۔ لڑائی، مار دھاڑ، چوری، ڈکیتی، آبرو ریزی، قتل، غارت گری جیسے واقعات پر بحث اور مباحثے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے قابل لوگوں کی بھیڑ۔ ہمیں خوف ہونے لگا۔ اگر گواہی دینی پڑی تو کیا ہو گا۔ غیرت نے للکارا۔ امن پسند شہری اگر ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تو کیوں کر امن قائم ہو گا۔ آج شرافت شریف صاحب پر حملہ ہوا ہے، کل ہماری باری آ سکتی ہے۔ گواہی ہی تو دینی ہے، سچ بول کر کون سا زہر کا پیالہ پینا یا سولی پر لٹکنا ہے۔ اپنے آپ کو دلاسا دے لینے کے باوجود ہم پر ایک انجانا خوف طاری تھا۔

ہم شرافت شریف صاحب سے ملنے سے کترانے لگے۔ دو مرتبہ وہ ہمارے گھر آئے۔ ہم نے سچ بات ’گواہی دینے سے ہم گھبراتے ہیں ‘ کہنے سے بچنے کے لیے بچوں سے جھوٹ بلوایا کہ ہم گھر پر نہیں ہیں۔ باہر گئے ہوئے ہیں۔

ایک دن شرافت شریف صاحب نے ہمیں راستے میں پھانس لیا۔ کہنے لگے۔ ’آپ کے مشورے پر میں نے ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ آپ کو گواہی دینے آنا ہے۔ ‘

چند دنوں بعد عدالت سے ہمارے نام سمن آیا۔ ہم نے کانپتے ہاتھوں سے وصول کیا۔ بیوی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے کہ ان کی قسمت میں یہ دن دیکھنا بھی لکھا ہے۔ ہم نے انھیں بے بسی سے دیکھا تو انھوں نے آنسو پونچھتے ہوئے ہماری ڈھارس بندھائی کہ جیت ہمیشہ سچ بولنے والوں کی ہوتی ہے۔

ہم گواہی دینے کی تیاری کرنے لگے۔ لائبریری گئے۔ گھنٹوں قانون کی موٹی موٹی کتابوں میں سر کھپایا کہ دیکھیں گواہی دینے کے لیے کیا ہدایات دی گئی ہیں۔ کچھ پلے نہ پڑا۔ دوستوں سے مشورہ کیا تو ان کی نظروں میں ہم مشکوک ہوئے۔ آخر وکیل سے رجوع کیا۔ فیس لے کر وکیل نے استفسار کیا کہ کہیں ہمارا ارادہ پیشہ ور گواہ بننے کاتو نہیں ہے۔

ہم نے دونوں گال پیٹتے ہوئے جواب دیا۔ ’ہم ایک شریف اور ذمہ دار شہری ہیں۔ مجبوراً گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے کسی منحوس گھڑی میں گواہی دینے کا وعدہ کر لیا تھا۔ یہ ہماری پہلی اور آخری گواہی ہو گی۔ ‘

وکیل نے گوا ہوں کی اقسام اور گواہی دینے کے مختلف طریقوں پر روشنی ڈالی۔ اس فن کے اہم نکات اور پینترے بتائے۔ وکیل نے ہمیں ڈرایا بھی کہ گواہی کو مخالف وکیل نے اگر غلط ثابت کر دیا تو گواہ کو سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اس لیے گواہی بھی کسی اچھے اور نامور وکیل کے مشورے سے دی جانی چاہیے۔

مقررہ دن ہم نے امام ضامن بندھوایا اور گواہی دینے عدالت پہنچے۔ عدالت کی سیڑھیوں کی چڑھائی شروع ہوئی۔ ہمیں اختلاج ہونے لگا۔ ڈھیر سارے کالے جبوں کو دیکھ کر گرمی کا احساس ہوا اور پسینہ چھوٹنے لگا۔ محسوس ہوا کہ تمام وکلا فریق کی جانب سے ہمارے خلاف کھڑے ہیں۔ جوں توں کر کے ہم اس اجلاس پر پہنچے جہاں شرافت شریف صاحب کی عزت داؤ پر لگی تھی۔ ہماری نظر لڑاکو خاں پہلوان پر پڑی۔ وہ ہمیں گھور رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔ ’میرے خلاف گواہی دینے آیا ہے ! باہر نکل تجھے بھی دیکھ لوں گا۔ تیری۔ ۔ ۔ ‘ ہمیں لڑاکو خاں پہلوان کی گالیاں یاد آنے لگیں۔

ہمیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ ایسے میں ہمارا نام پکارا گیا۔ کسی نے ہمیں اٹھایا اور کٹہرے کی جانب ڈھکیلا۔ کٹہرے میں پہنچنے سے پہلے ہی ہماری حالت غیر ہوئی اور ہم میز پر رکھی قانون کی کتابوں پر گر پڑے۔ حواس بجا ہوئے تو پتا چلا کہ پیشی ملتوی کر دی گئی ہے۔

اگلی پیشی تک ہمیں خاصا وقت ملا۔ عدالت اور وکیلوں کا خوف دور کرنے کے لیے ہم کئی مرتبہ عدالت کی سیڑھیاں چڑھے اور اترے۔ مقدموں کی کارروائیاں سنیں۔ پیشہ ور گوا ہوں کو دیکھا اور سنا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا۔ شرافت شریف صاحب ہماری وجہ سے پریشان تھے۔ ہمیں ان کے وکیل کے پاس لے گئے۔ وکیل نے ہمیں دیکھ کر کہا۔ ’گواہی دینا ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ آپ کچھ روپے خرچ کریں، میں گوا ہوں کا انتظام کر لوں گا۔ ‘

خفت مٹانے کے لیے ہم نے بہانہ بنایا۔ ’اس دن ہم ناشتہ کیے بغیر عدالت آ گئے تھے۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ آپ خاطر جمع رکھیں۔ ہم کامیاب گواہی دیں گے۔ ‘

وکیل نے سوال کیا۔ ’آپ کیا کہیں گے؟‘

ہم نے جواب دیا۔ ’وہی جو ہم نے دیکھا، سنا اور محسوس کیا ہے۔ ‘

’کیا آپ کو چھ مہینے پہلے کا واقعہ یاد ہے۔ ‘ وکیل نے پھر سوال پوچھا۔

ہم اس لڑائی کو یاد کرنے لگے تھے کہ وکیل نے مشورہ دیا۔ ’جو کچھ ہوا تھا، اسے بھول جایئے بلکہ اب تک بھول بھی گئے ہوں گے۔ اب میں جیسا کہوں آپ ویسی گواہی دیجیے۔ ہمیں کسی بھی حال میں یہ مقدمہ جیتنا ہے۔ ‘

پیشی کا دن آ پہنچا۔ شرافت شریف صاحب نے ہمیں پیٹ بھر ناشتہ کروایا اور ہمیں ساتھ لے کر عدالت پہنچے۔ اس مرتبہ ہم نے عدالت کی سیڑھیاں سکون سے طے کر لیں۔ کمرۂ انصاف میں داخل ہوئے اور دیکھا کہ منصف صاحب اونچی کرسی پر براجمان ہیں۔ ان کے آگے میدان کارزار لگا ہے۔ کٹہروں میں ملزمین اور گواہان، کالے جبوں میں وکلا اور ان کے مدد گار، عدالت کے کارندے، پولس، فریقین اور ان کے حمایتی اور ہمنوا۔ اتنے لوگوں کی بھیڑ اور شور شرابے کے درمیان مقدموں کی کارروائی جاری ہے اور انصاف ہو رہا ہے۔

شرافت شریف صاحب کا مقدمہ پیش ہوا۔ رسمی کارروائی کے بعد گواہی کے لیے ہمارا نام پکارا گیا۔ ہم بغیر کسی مدد کے اٹھے اور گوا ہوں کے کٹہرے میں جا کھڑے ہوئے۔ لڑاکو خاں پہلوان اور ان کے وکیل پر نظر پڑی تو کچھ خوف ہوا لیکن جلد ہی ہم نے اپنے آپ پر قابو پا لیا۔ سچ اور صرف سچ کہنے کے لیے قسم دلائی گئی۔ دور حاضر میں یہی ایک جگہ باقی رہ گئی ہے جہاں سچ بولنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور وہ بھی حلفیہ!

سچ کہنے کی قسم دلانے کے بعد شرافت شریف صاحب کے وکیل کرسی سے اٹھے اور کالا جبہ ٹھیک کیا اور ہم سے سوالات کرنے لگے۔ نام، عمر اور پیشہ پوچھا۔ دماغی صحت کا اندازہ کرنے کے لیے تاریخ، دن، وقت اور تاج محل کے معمار کا نام دریافت کیا اور اس ملک کا نام بتانے کو کہا جس میں دریائے نیل بہتا ہے۔ پھر شرافت شریف صاحب کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ ’کیا آپ انھیں جانتے ہیں؟‘

ہم نے کہا۔ ’جی ہاں۔ بہت اچھی طرح۔ یہ ہمارے پڑوسی ہیں۔ ‘

ہمارا جواب سننے کے بعد وکیل نے واقعہ کی روداد بیان کرنے کے لیے کہا۔ ہم پہلے سے تیاری کر چکے تھے، فر فر سنادیا جیسے کوئی بچہ ’ایک کوا پیاسا تھا۔ ۔ ۔ ‘کہانی سناتا ہے۔

وکیل نے سوال کیا۔ ’آپ نے کہا کہ ملزم نے شرافت شریف صاحب کو گالیاں دیں۔ وہ گالیاں کیا تھیں؟‘

ہم تذبذب میں پڑ گئے۔ وکیل نے اپنا سوال دہرایا تو ہم نے جواب دیا۔ ’ہم گالیاں کیسے سنائیں۔ یہ اچھی باتیں تو ہیں نہیں کہ دہرائی جائیں۔ ‘

وکیل نے سمجھایا۔ ’عدالت جانتی ہے کہ گالیاں خراب ہوتی ہیں۔ ہمیں معلوم تو ہو وہ کون سی گالیاں تھیں جنھیں سن کر شرافت شریف صاحب مرنے مارنے بلکہ خودکشی کر لینے پر آمادہ ہوئے۔ کیا وہ حقیقت میں گالیاں تھیں؟ کیا گالیوں کو سن کر شرافت شریف صاحب کا انتہائی قدم اٹھانا مناسب تھا؟‘

ہم نے اس سوال کو آخری جان کر زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار گالیاں دینے کا قصد کیا۔ پھر خیال آیا کہ معززین ہمیں گالیاں بکتے ہوئے سن کر ہمارے بارے میں پتہ نہیں کیا سوچیں گے۔ پس و پیش میں تھے کہ وکیل نے ہمیں عدالت کا وقت ضائع نہ کرنے کی تاکید کی۔ ہم نے آنکھیں بند کیں، گردن جھکائی اور کانوں میں انگلیاں ٹھونسیں اور وہ تمام گالیاں دیں جو ہم نے لڑاکو خاں پہلوان سے سنی تھیں۔

گالیاں سننے کے بعد وکیل نے کہا۔ ’ان گالیوں کو نوٹ کیا جائے۔ یہ گالیاں بندوق کی گولیوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے گواہ سے کچھ نہیں پوچھنا ہے۔ ‘

ہم کٹہرا چھوڑ کر جانا چاہتے تھے لیکن ہمیں روک لیا گیا۔ ابھی وکیل مخالف کی جرح باقی تھی۔ لڑاکو خاں پہلوان کے وکیل ہمیں گھورتے ہوئے اپنی کرسی سے اٹھے اور ہمارے قریب پہنچ کر سوال کیا۔ ’کیا نام بتایا تھا آپ نے؟‘

ہم نے انھیں اپنا نام بتایا۔

ہمارا نام جاننے کے بعد وکیل مخالف نے جرح کا آغاز کیا۔ ’آپ نے عدالت کو بتایا کہ آپ شرافت شریف صاحب کو اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ‘

’جی۔ ‘ ہم نے مختصر جواب دیا۔

’کتنے برسوں سے؟‘

’پچھلے پندرہ برسوں سے۔ ‘

’اس سے پہلے؟‘ وکیل مخالف نے استفسار کیا۔

’ہم نہیں جانتے کہ وہ کہاں تھے۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

’اس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ انھیں اچھی طرح جانتے ہیں، مجھے حیرت ہے۔ ‘ وکیل مخالف نے تبصرہ کر کے عدالت سے درخواست کی کہ یہ نکتہ نوٹ کیا جائے۔

وکیل مخالف کی جرح جاری رہی۔ ’آپ نے میرے فاضل دوست کے سوال کے جواب میں کہا کہ آپ ادیب ہیں، یعنی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک!‘

ہم خوش ہوئے کہ وکیل صاحب با ذوق معلوم ہوتے ہیں اور جھوم کر جواب دیا۔ ’جی۔ ‘

ہمارے ادیب ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وکیل مخالف نے تبصرہ فرمایا۔ ’عین ممکن ہے کہ آپ کا بیان کردہ واقعہ آپ کی تخلیق ہو۔ میرے خیال میں یہ آپ کے کسی نئے افسانے کا پلاٹ ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ‘

ہم چیں بہ جبیں ہوئے۔ ہمیں وہ سوال یاد آیا جو اکثر ہم سے کیا جاتا ہے۔ ’آپ افسانے اور کہانیاں کیسے لکھتے ہیں؟‘ ہمارا مختصر جواب ہوتا۔ ’ہم حقیقت کو بنیاد بنا کر افسانے اور کہانیاں گھڑتے ہیں۔ ‘ عدالت آ کر ہمیں محسوس ہوا کہ وکلا ہم سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ وہ حقیقت کو افسانہ ثابت کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ہم وکیل مخالف کے سوال کا مناسب جواب دینے کے لیے کچھ دیر سوچتے رہے۔ کچھ سجھائی نہ دیا تو انھیں سے پوچھا۔ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘

جواب ملا۔ ’بہت آسانی سے۔ آپ اپنی صلاحیتوں کو میرے با عزت موکل کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ کاغذ کالا کرنے کی بجائے اپنی تخلیق کو حقیقی کرداروں کے ذریعہ عدالت میں بیان کر دیا۔ یوں عدالت کا وقت ضائع نہ کیجیے۔ ‘

ہمیں حیرت ہوئی کہ لڑاکو خاں پہلوان کو وکیل صاحب ’با عزت‘ ہونے کا سرٹیفکٹ عطا کر رہے ہیں جبکہ اس ’با عزت‘ شخص سے سارا محلہ پریشان رہتا ہے۔ ہم نے بے بسی سے شرافت شریف صاحب کے وکیل کی جانب دیکھا۔ وہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہا۔ ’معزز گواہ حلف لے چکا ہے کہ وہ سچ بولے گا۔ اس کے بیان کو جانچنے کے لیے سوالات کیے جائیں نہ کہ اس کے بیان کو سرے سے جھوٹ کہہ کر ہراساں کیا جائے۔ ‘

شرافت شریف صاحب کے وکیل کا اعتراض قبول ہوا اور وہ لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے بیٹھ گئے۔ وکیل مخالف کو غصّہ آیا۔ اپنے جبہ کے کنارے کھینچتے ہوئے، جیسے ہمارے کان کھینچ رہے ہوں بولے۔ ’اچھا تو آپ نے فلاں تاریخ کو دیکھا کہ لڑاکو خاں پہلوان صاحب نے اپنے پڑوسی کو گالیاں دیں۔ ‘

ہم نے اثبات میں سر ہلا کر ’جی ہاں ‘ کہا۔

وکیل مخالف نے برہم ہوتے ہوئے کہا۔ ’گالیاں سنی جاتی ہیں۔ گالیوں کو کھاسکتے اور نہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ سچ سچ بتایئے آپ نے کیا دیکھا تھا۔ ‘

ہمیں غصّہ آیا۔ ہم بھی آخر ادیب ہیں۔ موضوع وہی رکھ کر اندازِ بیان بدل سکتے ہیں۔ ہم نے جواب دیا۔ ’ہم نے دیکھا کہ لڑاکو خاں پہلوان کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے۔ کبھی دانت بھی دکھائی دیتے تھے۔ ساتھ میں وہ ہاتھ نچا رہے تھے۔ ان کی حرکات سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ کچھ بک رہے ہیں۔ ‘

وکیل مخالف نے حکم دیا۔ ’انھوں نے کیا کہا، عدالت کو سنایئے۔ ‘

یعنی ہمیں پھر گالیاں دہرانی تھیں۔ ہم خاموش رہے۔ وکیل مخالف نے ہماری خاموشی کا یوں مطلب نکالا۔ ’آپ کی خاموشی کہتی ہے کہ لڑاکو خاں پہلوان صاحب بھی چپ تھے۔ ‘

ہم نے احتجاج کیا۔ ’نہیں محترم لڑاکو خاں پہلوان گالیاں ارشاد فرما رہے تھے۔ ‘

وکیل مخالف نے ہمیں زیر کرنا چاہا۔ ’لیکن ابھی تو آپ خاموش ہو گئے تھے جس کا مطلب۔ ۔ ۔ ‘

ہم نے وکیل مخالف کو اپنا جملہ مکمل کرنے نہیں دیا اور طیش میں آ کر گالیاں دوبارہ سنائیں۔ وکیل مخالف غور سے گالیاں سنتے رہے۔ ہم خاموش ہوئے تو فرمایا۔ ’اس مرتبہ دو نئے الفاظ کا اضافہ ہے۔ ‘

ہم نے کہنا چاہا کہ ہماری یہ فیاضی آپ کے لیے ہے، لیکن عدالت اور قانون کا احترام کرتے ہوئے چپ رہے۔ وکیل مخالف نے ہم پر جرح جاری رکھی، محسوس ہونے لگا کہ وہ ہمیں یوں آسانی سے چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا۔ ’حیرت ہے آپ میرے موکل کی حالت غصّہ میں کہی ہوئی باتوں کو گالیاں کہہ رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ان میں جنسی اعضا کا نام ہی تو لیا گیا ہے۔ جنسی اعضا کا نام لینے کو آپ گالیاں سمجھتے ہیں۔ آپ کے بیان پر مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان الفاظ کو سن کر مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ ‘

جی میں آیا کہ کہہ دیں۔ آپ سچ کہتے ہیں۔ لڑاکو خاں پہلوان گالیاں نہیں بک رہے تھے۔ ان کے منہ سے پھول جھڑ رہے تھے۔ ان الفاظ سے انسانیت کی توقیر ہوتی ہے۔ لیکن صبر و ضبط سے کام لیتے ہوئے اپنے بیان پر قائم رہے۔ ’یقیناً وہ گالیاں تھیں اور ان سے کسی کی بھی بلکہ انسانیت کی ہتک ہوتی ہے۔ ‘

’میں ایسا نہیں سمجھتا۔ ‘ وکیل مخالف نے بتایا۔

ہمارے دل نے چاہا کہ ان سے کہیں یہ آپ کی ’گالیاں نوازی‘ ہے۔ شرافت شریف صاحب کے وکیل نے اعتراض کیا۔ ’لڑاکو خاں پہلوان کے ارشادات گالیاں ہیں یا نہیں، یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ میرے گواہ کو پریشان نہ کیا جائے۔ ‘

شرافت شریف صاحب کے وکیل کا اعتراض قبول کر لیا گیا اور وکیل مخالف کو احتیاط سے کام لینے کی تاکید کی گئی۔

احتیاط کی ہدایت کے باوجود وکیل مخالف نے اپنے انداز سے جرح جاری رکھی۔ ’آپ نے عدالت کو بتایا کہ لڑاکو خاں پہلوان صاحب کی باتیں سن کر شرافت شریف اپنے فریق پر حملہ کرنے گئے۔ ہو سکتا ہے کہ شرافت شریف کے حملہ آور ہونے کے بعد میرے موکل نے اپنی مدافعت میں غصّہ کا اظہار کیا ہو گا۔ آپ یاد کر کے بتایئے۔ ‘

ہم وکیل مخالف کو جان چکے تھے اور اب ان کے چکموں میں آنے والے نہیں تھے۔ ہم نے جواب دیا۔ ’وکیل صاحب۔ لڑاکو خاں پہلوان نے شروعات ہی گالیوں سے کی تھی۔ گالیاں کھا کر، معاف کیجیے کھا کر نہیں سن کر شرافت شریف صاحب لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوئے لیکن ہم نے انھیں روک لیا۔ ‘

ہماری وضاحت پر سوال ہوا۔ ’بہت خوب، اچھا کام کیا لیکن آپ نے کیوں روکا۔ ‘

ہم نے لاپرواہی سے جواب دیا۔ ’امن و امان قائم رکھنا ہر شہری کا فرض ہے اور یوں بھی ہمیں شرافت شریف صاحب کی زندگی عزیز تھی۔ ‘

وکیل نے پھر وار کیا۔ ’جب آپ شرافت شریف کو روک سکتے تھے تو آپ لڑاکو خاں پہلوان صاحب کو بھی خاموش بٹھاسکتے تھے لیکن آپ نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر رہے تھے۔ ‘

ہم نے کہا۔ ’ہمارے بس میں جو کام تھا سو ہم نے انجام دیا۔ کیا ہمیں اپنی عزت اور جان عزیز نہیں جو ہم لڑاکو خاں پہلوان کو چھیڑتے۔ ہم شرافت شریف صاحب کا حشر دیکھ رہے تھے۔ ‘

اس موقع پر شرافت شریف صاحب کے وکیل نے پھر اعتراض اٹھایا۔ ایک مرتبہ پھر لڑاکو خاں پہلوان کے وکیل کو غیر ضروری سوالات سے پرہیز کرنے کی ہدایت ملی۔ ہم سوچنے لگے کہ اگر وکلا غیر ضروری سوالات کر کے گوا ہوں کو پریشان نہ کریں تو انھیں اپنے بیان سے کیسے منحرف کرواسکتے ہیں۔ سوالات کا مقصد شاید یہ ہوتا ہے کہ گواہ کو سچ بولنے کی قسم دلا کر مطلب کی باتیں اگلوا لیں۔

لڑاکو خاں پہلوان کے وکیل خاموش ہوئے۔ ہم شش و پنچ میں مبتلا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ بے بسی سے کبھی شرافت شریف صاحب کے وکیل کو دیکھتے تو کبھی چور نگاہوں سے منصف کا جائزہ لیتے کہ سرکار کے کیا ارادے ہیں۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔ منصف نے لڑاکو خاں پہلوان کے وکیل سے پوچھا۔ ’کیا آپ کو مزید کوئی سوال کرنا ہے؟‘

لڑاکو خاں پہلوان کے وکیل ہمیں گھورتے ہوئے کٹہرے کے قریب آئے۔ راستے میں رکھے ہوئے اسٹول کو پاؤں سے دھکیلا۔ ہم جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو کے وظیفہ کا ورد کرنے لگے۔ کٹہرے کی منڈیر پر وکیل مخالف نے ہاتھ مارا اور کہا۔ ’اچھا۔ عدالت کو بتایئے کہ لڑاکو خاں پہلوان صاحب کی باتوں یا غصّہ کے اظہار کے جواب میں شرافت شریف نے کیا کہا۔ ‘

’وہ خاموش تھے۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

’کیا وہ گونگے ہیں؟‘ ہمارے جواب پر سوال ہوا۔

’نہیں میرا مطلب تھا کہ گالیوں کے جواب میں انھوں نے کوئی گالی نہیں دی۔ ‘ ہم نے وضاحت کی۔

’آخر انھوں نے کیا کہا؟‘ وکیل مخالف نے آواز اونچی کر کے، شاید ہمیں ڈرانے کے لیے پوچھا۔

’گالیوں کے جواب میں شرافت شریف صاحب نے کہا کہ مجھے چھوڑ دیجیے۔ میں اسے مزہ چکھاؤں گا۔ اسے بتاؤں گا کہ شرافت کیا ہوتی ہے۔ ‘ ہم نے جواب دیا۔

وکیل مخالف نے ہمارے اس بیان پر کہا۔ ’عدالت نوٹ کرے کہ شرافت شریف صاحب نے معمولی اور بے ضرر باتوں کے جواب میں میرے موکل کو دھمکیاں دی ہیں۔ انھیں مزہ چکھانے اور مارنے کی باتیں کی ہیں۔ ‘

ہم صرف حیرت سے وکیل مخالف کو تکتے رہے جو اپنا نکتہ بیان کرنے کے بعد خاموشی سے کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر انھوں نے ہم سے کہا۔ ’مجھے کچھ نہیں پوچھنا ہے۔ آپ جا سکتے ہیں۔ ‘

ہم تیر کی طرح عدالت سے نکلے اور سیدھے گھر پہنچے۔ پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ مبادا پھر گواہی دینے کے لیے بلا لیے جائیں۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد،ا گسٹ 1999ء

 

 

 

 

ہماری کہانی

 

ہماری کہانی اس وقت سے شروع ہوئی جب ہمارا بڑا لڑکا مدرسہ جانے کے قابل ہوا۔ دانشوروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ ہم نے ماہرین کی بات مان کر اپنے بچے کو اردو میڈیم اسکول میں داخل کرنا چاہا۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ لڑکے نے اردو میڈیم اسکول جانے سے انکار کر دیا اور دوسرے بچوں کے ساتھ انگلش میڈیم اسکول جانے کے لیے ضد کرنے لگا۔ بیوی ہمیں لعن طعن کرنے لگیں۔ ’باپ ہیں کہ قصائی۔ بچے کی زندگی برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں !‘

دوستوں نے سمجھایا۔ ’میاں تمھیں اردو ذریعہ تعلیم کے اچھے مدارس کہاں ملیں گے۔ اردو زبان اب تفریح طبع کے لیے رہ گئی ہے۔ ہندستانی فلمیں، پاکستانی ڈرامے، غزلوں اور گیتوں کے کیسٹس، شعرا کے لیے مشاعرے، ادیبوں کی تسکین کے لیے چند رسالے اور اشتہارات کے لیے انگلیوں پر گنے جانے والے اخبارات کے علاوہ اردو کی زنبیل میں اور کیا رکھا ہے۔ علمی اور تیکنیکی زبان کی حیثیت سے انگریزی زبان کا کیا مقابلہ! اپنے لڑکے کو علم کی دولت سے مالامال کرو تاکہ اس کا مستقبل سنور سکے۔ اسے انگلش میڈیم اسکول میں ایڈمیشن دلاؤ۔ ‘

بیوی اور بچے کی ضد اور دوستوں کے قیمتی مشوروں کے آگے ہم نے ہتھیار ڈالا اور اپنے بچے کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروایا۔ ہمارا نورِ چشم ہنستے کھیلتے انگلش میڈیم اسکول جانے لگا۔ اسکول پر انگریزی زبان میں علم حاصل کرنے اور گھر پر اردو میں زندگی گزارنے لگا۔ دوہری زندگی سے پریشان ہو کر وہ گم صم ہو گیا۔ چھ مہینوں کے دوران اس نے ’گڈ مارننگ‘ کہنا سیکھا اور انگریزی زبان کے چند احکامات جیسے سٹ ڈاؤن، اسٹینڈ اپ، شٹ اپ کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کے قابل ہوا۔ ہم بچے کی شاندار تعلیمی حالت کے بارے میں بات کرنے اسکول گئے۔ مِس نے ہمیں مورد الزام ٹھہرایا۔ ’آپ کا ماحول اردو زدہ ہے۔ آپ کا بچہ انگریزی نہیں سیکھ رہا ہے بلکہ انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم پا رہا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ گھر پر بھی میڈیم انگلش ہو۔ گھر میں آپ انگریزی بولیں، بچے سے انگلش میں بات کریں۔ تب کہیں آپ کے بچے کا اسٹینڈرڈ بہتر ہو گا۔ ‘

اسکول انتظامیہ نے ہماری شکایت کے جواب میں یہ دھمکی بھی دی کہ اگر بچے کی تعلیمی حالت یوں ہی برقرار رہی تو ہم بچے کو اسکول سے نکال دیں گے۔ پھر آپ اسے کسی اردو میڈیم اسکول میں بھرتی کروا لینا۔

ہمیں ڈونیشن کے نام پر وصول کی گئی خطیر رقم ڈوبنے کے امکانات روشن نظر آئے۔ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ہم نے گھر پر انگریزی بولنے اور انگریزی میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ پہلی کے بعد ہماری دوسری، تیسری اور چوتھی اولاد بھی انگلش میڈیم کی نذر ہوتی گئی اور ہم بقول ہمارے دشمنوں کے فرنگی بنتے گئے۔

ہماری بیوی کو انگریزی نہیں آتی تھی لیکن وہ اپنی اس خوبی کا اعتراف کرنے کے بجائے دعوی کرتی تھیں کہ انھیں انگریزی آتی ہے۔ ہماری بیوی کی انگریزی دانی یس، نو، تھینک یو، یا، ویل کم اور چند دوسرے الفاظ برتنے تک محدود تھی۔ دوسروں سے مسکرا کر ملنے اور خوش اخلاقی سے بات کرنے کو بھی وہ ’انگریزی‘ سمجھتی تھیں۔ انگلش میں زندگی گزارنے کا فیصلہ سن کر بہت خوش ہوئیں۔ ’بچوں کے ساتھ میں بھی انگلش سیکھ لوں گی۔ ‘

ہم نے پوچھا۔ ’یعنی اعتراف کرتی ہیں کہ آپ کو انگریزی نہیں آتی۔ ‘

’نو۔ ۔ ۔ نو۔ ۔ ۔ نو۔ ۔ ۔ ‘ بیوی نے سختی سے تردید کی۔ ’آپ میری بات کا غلط مطلب نکال رہے ہیں۔ مجھے انگریزی پہلے سے آتی ہے۔ اب بچوں کے ساتھ میموں والی انگلش بھی سیکھ لوں گی۔ ‘

ہماری بیوی خواب بننے لگیں۔ انگریزی سیکھ کر وہ ہمارے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پارٹی میں جائیں گی۔ بانہوں میں بانہیں ڈالے ڈانس کریں گی۔ ڈرائیونگ سیکھیں گی اور کتے کو بازو کی سیٹ پر بٹھا کر شہر کی سڑکوں پر کار دوڑائیں گی!

ہمارے گھر، انگریزی کی ابتدا رشتوں کے تراجم سے ہوئی۔ امی جان ممی ڈارلنگ ہوئیں اور ابو ڈیڈی بنے۔ بی خالہ، اماں خالہ، چھوٹی بڑی اور منجھلی پھوپھی، چاچی، تائی اور ممانی سبھی آنٹی کے سائے تلے جمع ہوئے تو چچا جان، چاچو، چچا، تایا، پھوپھا، ماموں اور خالو انکل کی چھتری میں سمائے۔ بچوں کو اپنے بڑے بزرگوں کے نام جو معلوم نہ تھے، آنٹی اور انکل کی بہتات کی وجہ سے جاننا ضروری ہوا۔ دادا حضرت، دادی امی اور نانا اور نانی گرنڈپا اور گرانی ہوئے۔ انکل اور آنٹی انگریزی میں مخاطب ہو کر خوش ہوئے لیکن گرنڈپا اور گرانی نے برا مانا۔ ابا حضور نے ہمیں ڈانٹا۔ ’آنٹی گھنٹی، انکل اٹکل اور گرانی مہنگائی، تمھارے بچے یہ کس قسم کی مہمل باتیں کر رہے ہیں۔ انھیں اپنی تہذیب سکھاؤ۔ کوا ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھولتا ہے۔ ‘

ہم نے سر اور زبان ہلا کر ’جی‘ کہا اور اپنے جی میں آئے جیسا کرتے رہے۔

بڑے رشتے انگریزی میں تبدیل ہوئے تو چھوٹے رشتے بھی بدلنے لگے۔ بھائی جان اور بھائی میاں برادر کہلائے گئے تو آپا، آپی اور باجی سسٹر ہوئے۔ برادر اور سسٹر کہتے ہوئے ایک دوسرے کو مخاطب کرنا عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔ سسٹر کہہ کر پکارا جاتا تو محسوس ہوتا کہ گھر دوا خانہ ہے۔ برادر سننے پر گمان ہوتا کہ کسی پرائیویٹ سیکٹر کمپنی کا نام لیا جا رہا ہے۔ بچوں نے ایک دوسرے کو نام لے کر پکارنا شروع کیا۔ کوئی چھوٹا رہا اور نہ کوئی بڑا۔ سب ایک انگریزی صف میں کھڑے ہو گئے۔ حقیقی بھائی بہن آپس میں جب نام سے مخاطب ہوئے تو رشتے کے بھائی بہن کس شمار میں، تایا زاد، چچازاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد، ماموں زاد بھائی بہن کزن کا لقب پا کر بیباک ہوئے۔

انگریزی میں بات چیت کی ابتدا عجیب طریقے سے ہوئی۔ اردو خیالات کو انگریزی میں ترجمہ کر کے بولتے تھے۔ جہاں انگریزی کا لفظ نہ ملا وہاں ہم نے بلا جھجک اردو کا ورڈ استعمال کیا۔ ہمارے خاندان کی انگریزی دوست احباب میں موضوع گفتگو بنی۔ احباب عش عش کرتے کہ ہم فرفر انگلش بول رہے ہیں۔ احباب اپنی انگلش بہتر کرنے ہمارے گھر آنے جانے لگے۔

وقت کے ساتھ ہماری انگریزی بہتر ہوئی۔ انگلش میں اردو الفاظ کی کمی ہوئی اور وہ وقت بھی آیا جب ہم اردو بھولنے لگے۔ دوست احباب ہمارے بچوں کو انگریزی میں بات کرنے اور انگریزی میں اٹھتے بیٹھتے دیکھ کر رشک اور حسرت کرنے لگے۔ ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے ہم مزید انگلش بولنے لگے۔ پھر ہمارے دل میں انگریزوں کی طرح انگلش بولنے کی خواہش کروٹ لینے لگی۔ تھوڑی محنت کر کے ہم نے اس فن میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ کچھ الفاظ کو کچا چبانے، چند کو حلق سے کھینچنے اور چند کو حلق میں انڈیلنے سے ہماری انگلش انگریزوں جیسی ہوئی۔ اب ہم انگریزی میں سوچنے، بولنے اور خواب دیکھنے لگے۔ احباب ہماری انگلش سے خوف کھانے لگے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ اردو میں ارشاد فرماتے تو ہم انگریزی میں کاٹ کھانے دوڑ پڑتے۔ آخر تنگ آ کر احباب نے ہمارے منہ لگنا چھوڑ دیا۔

انگریزی بہتر ہونے کے ساتھ ہمارے بچوں کی اردو بدتر ہوئی۔ ہماری اردو اس لیے متاثر نہ ہو سکی کہ اردو ہماری گھٹی میں پڑی تھی۔ بچے اینگلو اردو بولنے لگے۔ ’تم آئے گا، بیٹھے گا، اٹھے گا ‘ کرنے لگے۔ بچوں کی اردو بہتر کرنے کی کوشش کی تو جواب ملا۔ ’او ڈیڈی۔ ہم تم سے ہنڈرڈ ٹائم بولا کہ ہم اردو نہیں مانگتا۔ تم اردو اپنے پاس رکھو اور ہم کو چھوڑ دو!‘

ہم اپنا سا منہ لے کر خاموش ہوئے اور بچوں کی اردو بہتر کرنے کی کوششوں کو خیرباد کہا۔ ایک گونہ اطمینان تھا کہ بچوں کو اردو نہیں آتی نہ سہی ان کی مادری زبان تو اردو ہے۔ کسی نے واقعی سچ کہا ہے کہ مادری زبان ماں کو آتی ہے، اولاد کو نہیں !

ہمارے رہن سہن میں بھی آہستہ آہستہ تبدیلی آتی گئی۔ دیوان خانے کو ڈرائنگ روم، سونے کے کمرے کو بیڈروم، دلان کو لیونگ ہال، باورچی خانے کو کچن اور حمام کو ریسٹ روم اور واش روم کہنے لگے۔ دیوان خانے میں گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھنے سے کپڑوں کی استری خراب ہونے لگی اور کمر میں ’بیک پین‘ ہونے لگا تو ہم صوفوں پر سستانے لگے۔ آرام کی خاطر بیت الخلا کو فرش سے اونچا اٹھانا پڑا اور اس سہولت کو بیڈروم سے اٹیچ کرنا پڑا۔ روایتی بے تکلفی اور بے ترتیبی ختم ہوئی۔ وقت پر سونے، جاگنے اور کھانے لگے۔ شام میں بھاگنے بھی لگے۔

وضعداری اپنائی۔ اونچی آواز میں بولنا اور قہقہہ لگانا چھوڑا۔ تھینک یو، ویل کم، مائی پلیژر اور سوری کا ورد شروع کیا۔ لوگوں سے ایک فاصلہ رکھ کر ملنے لگے۔ بغیر وقت طے کیے کسی کے گھر جانا اور کسی کا ہمارے گھر آنا خلاف تہذیب ٹھہرا۔ دوست احباب سے ملاقاتیں مختصر ہوئیں۔ ہائے ہیلو کیا، خیریت پوچھی، موسم کا حال بتایا اور پھر بائی بائی کیا۔ لوگوں سے بحث کرنا چھوڑا۔ ایک دوسرے کے بارے میں گفتگو سے پرہیز شروع کیا۔ اس قسم کی باتوں کو نجی باتیں گردانا۔ انگریزی تہذیب اپنانے کا نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ عزیز و اقارب ہم سے دور ہوئے۔

بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے احتراز کرنے لگے کہ یہ حرکت دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہوتی ہے۔ بچوں کو ان کے حال پر چھوڑا اور ان کے لیے الگ الگ کمرے مختص کیے تاکہ کوئی ان کی آزادی میں مخل نہ ہو۔ بچوں سے ملنا ہوتا تو ہم ان کے حجرے پر دستک دے کر دھیمی آواز میں کہتے۔ ’آپ سے ملاقات کرنی ہے، لیونگ روم میں تشریف لائیے۔ ‘

مختلف ڈے اینڈ نائٹ منائے جانے لگے۔ آدھی رات میں گا بجا کر نئے سال کا استقبال کرنے لگے۔ بچوں کی برتھ ڈے پر کیک کاٹنے اور ان کی خوشی کی خاطر ان کی پسند کی پارٹی کا اہتمام ہوا۔ ہمیں اپنی تاریخ پیدائش معلوم نہ تھی۔ اس زمانے میں عام آدمی کی پیدائش کو یاد نہیں رکھا جاتا تھا۔ اسکول میں داخلے کا وقت آیا تو مدرس نے عمر کا اندازہ کر کے اپنی پسند کا دن اور مہینہ لکھ دیا۔ بچوں کے اصرار پر ہم نے بھی غلط تاریخ پر اپنی سال گرہ منائی اور اس روز دن بھر کی خوشیاں وصول کیں۔ ہماری بیوی نے اپنی برتھ ڈے منانے سے انکار کر دیا لیکن شادی کی سال گرہ منانے کے لیے اصرار کرنے لگیں۔ ان کے لیے ہم نے ہر سال شادی کی سال گرہ منائی اور اپنے بچوں سے نیک تمنائیں وصول کیں۔

پالتو جانور رکھنا ’انگریزیت‘ کی راہ میں ایک سنگ میل ہے۔ ہمارے گھر اپنی اپنی پسند کے پیٹ پلنے لگے۔ بڑے لڑکے نے کتا پالا تو لڑکی نے بلی رکھی۔ ہم نے توتا اپنایا تو چھوٹے لڑکے نے لوبرڈس پالے اور ہماری بیوی نے گھر سجانے اور سنوارنے کا روگ پالا۔ پودے اور مختلف بیل لگ رہی ہیں۔ دیواروں پر نقش و نگار اور پینٹنگس بدل رہی ہیں۔ گل دان ادھر ادھر ہو رہے ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں کے نئے نئے پردے تیار ہو رہے ہیں۔ غرض انگریزی ماحول میں ہر کوئی غیر ضروری طور پر مصروف ہوا۔

ہم لباس کا خاص خیال رکھنے لگے۔ موسم اور وقت کی مناسبت سے کپڑے بنائے اور پہنے جانے لگے۔ بغیر نائٹ ڈریس پہنے نیند نہ آنے لگی۔ کالے کپڑے پہن کر غم کا اظہار کیا۔ سفید رنگ میں پنہاں خوشی اور سادگی کو پہچانا۔ گرمی ہو کہ سردی گھر سے سوٹ بوٹ پہنے بغیر نہ نکلنے لگے۔ کرتا، پاجامہ، شیروانی اور ٹوپی کو فرائیڈے پریئر اور عید ڈے کے لیے مختص کیا۔

فرش پر دستر خوان بچھائے ماحضر تناول کرنا ترک کر کے ہم ڈائننگ ٹیبل پر ڈائیٹنگ کرنے لگے۔ ہاتھ سے کھانا معیوب سمجھا گیا۔ چینی پلیٹوں میں چھری اور کانٹے سے کھچڑی، چٹنی، سالن اور چپاتی کھانے میں تکلیف اور تکلف ہونے لگا اور بچے ہندستانی پکوان کے انگریزی نام دریافت کر کے الگ تنگ کرنے لگے۔ مثال کے طور پر بگھارے بیگن کی جانب اشارہ کر کے سوال ہوا۔ ’What is this?‘

ہماری انگریزی جواب دے جاتی۔ ہم بگھارے بیگن سمیت دوسرے دیسی کھانوں کو انگلش میں منتقل کرنے میں ناکام رہے تو ہم نے اپنے کھانوں کو چھوڑا۔ فاسٹ فوڈز پر جان چھڑکنے اور آلو بے تحاشا کھانے لگے۔ نمک مرچ اور کھٹے کا استعمال کم ہوا۔ اور پھر ہم ناشتے کی بجائے بریک فاسٹ کرنے لگے، دوپہر میں لنچ اور رات میں ڈنر ہونے لگا اور پانی کے بدلے مشروبات حلق میں انڈیلنے لگے۔

اردو پڑھنے والے نہ رہے تو اردو اخبار اور رسائل گھر آنا بند ہوئے۔ انگلش پیپر اور میگزین ٹیبل کی زینت بنے۔ ابتدا میں بچے انگریزی ناول نصابی کتاب کی طرح پڑھتے اور انگریزی ماحول اور کلچر کو سمجھنے کے لیے محنت اور مشقت کرتے تھے۔ ریاضت کے بعد وہ اس قابل ہوئے کہ واقعتاً انگریزی ادب سے محظوظ ہونے لگے۔ ہمیں اور ہماری بیوی کو انگریزی تہذیب کے بارے میں بتاتے اور اس کے فائدے گناتے۔ ہم کچھ نہ سمجھتے ہوئے گردن ہلاتے اور جب ہم اپنی تہذیب کے بارے میں بتانا شروع کرتے تو انھیں جمائیاں آنے لگتیں۔

بچے پاپ اور ڈسکو میوزک پر تھرکنے لگے۔ ہمیں انگریزی گیت شور شرابا اور چیخ پکار کا مجموعہ نظر آتے جبکہ ہمارے بچے غزلیں سن کر انھیں sad and misery songsکا خطاب عطا کرتے۔ ہم غزلیں اور گیت سننا چاہتے لیکن ان کی مدھم مدھم موسیقی اور دھیمی دھیمی آواز تیز پاپ میوزک تلے دفن ہو جاتی۔ بچے شوق سے انگریزی فلمیں نہ صرف دیکھنے لگے بلکہ ہمیں بھی اصرار کر کے دکھانے لگے۔ انگلش فلموں میں ہمیں دکھائی تو سب کچھ دیتا لیکن سوائے بندوق کی گولیوں اور بوس و کنار کی آوازوں کے علاوہ کچھ پلے نہ پڑتا تھا۔ بچوں کی نقل کرتے ہوئے ہنستے یا آہ اور واہ کرتے تھے۔ کبھی کبھار بچے ہماری انگریزی دانی کے مطابق ڈائیلاگ سمجھا دیتے تھے۔

ہم اور ہماری اولاد کے درمیان فرق واضح اور گہرا ہونے لگا۔ ہم اسے generation gapجان کر انجان بنے رہے اور جب بچوں کے پاؤں ہمارے جوتوں میں سمانے لگے تو مجبوراً ہمیں خاموش رہنا پڑتا۔ کبھی پھٹ بھی پڑتے۔ بچے ہمیں مشرقی old manسمجھ کر برداشت کر لینے لگے۔

بچے بڑے اور قابل ہوئے تو انھیں اپنا ماحول عجیب اور اجنبی محسوس ہونے لگا۔ کسی صورت ایڈجسٹ نہ ہوئے۔ ہمیں مجرم گردانا کہ ہم نے انھیں امریکہ یا لندن میں کیوں نہ پیدا کیا۔ چھوٹے بیٹے نے ایک دن اپنی مام سے انگلش میں پوچھ ہی لیا۔ ’آپ نے مجھے امریکہ میں کیوں ڈیلیور نہیں کیا؟ گرانڈ پا کے گھر جانے کی بجائے امریکہ چلی جاتیں !‘

ہماری غلطی سدھارنے اور اپنے بہتر مستقبل کی خاطر ہمارے بچوں نے برطانیہ، امریکہ، کناڈا اور آسٹریلیا کو پرواز کرنے اور نقل وطن کرنے کا ارادہ کیا۔ ہم نے انھیں روکنا اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایک ایک کر کے بچوں نے ہمارا ساتھ چھوڑا۔ دو نے امریکہ پہنچ کر وہیں شادی کر لی اور اپنا گھر بسالیا۔ تیسرا لڑکا فرماں بردار تھا۔ ہماری خوشی کی خاطر آسٹریلیا سے چند دنوں کے لیے وطن آیا۔ شادی کی اور پھر اپنی مسز کو ساتھ لے کر چلا گیا۔ چوتھا نیوزی لینڈ کو اسمگل ہوا۔ دس برس بعد پتا چلا کہ اب اس کا ٹھکانا جائز ہوا ہے۔ لڑکیوں کو ہم ہی نے برطانیہ اور کناڈا میں بیاہا۔

بچے اصرار کرتے ہیں کہ ہم ان کے پاس آئیں اور ان کے شہر میں رہیں۔ وہاں Home for Agedمیں اچھا خیال رکھا جاتا ہے اور پھر ہر ہفتہ چند لمحوں کے لیے ہمارے بچے اپنے بچوں کے ساتھ ہم سے ملنے بھی آئیں گے !

لیکن ہماری ہمت نہیں ہوتی کہ ایک غیر ملک میں غیروں کے درمیان زندگی گزاریں۔ ہم نے انکار کیا۔ بچوں نے ہمارے انکار کا برا بھی نہیں مانا۔ ’your wish‘ کہہ کر چپ رہے۔ اب ہم وطن میں تنہا بوڑھا اور بوڑھی، ہم وطنوں کی مدد کے خواستگار، مختلف دوائیں کھاتے اور بچوں کے خطوط، کیسیٹس اور فون کا انتظار کرتے ہوئے باقی ماندہ زندگی کی قید بھگت رہے ہیں۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ افکار، کراچی، جولائی1991ء

 

 

 

 

 

لائبریری کی سیر

 

ہم نے انگریزی زبان کا یہ محاورہ پڑھ رکھا تھا کہ مطالعہ سے انسان کی تشکیل ہوتی ہے۔ سو ہم اپنی تشکیل یا ترتیب کی غرض سے گاہے ما ہے کتب خانے کا رخ کرتے رہتے ہیں۔ وہاں پیش آئے تجربوں سے آپ کو آگاہ کرنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں تاکہ آپ کے کام آ سکیں۔

مضمون کا عنوان در اصل کتب خانے کی سیر ہونا چاہیے تھا لیکن موجودہ دور میں کتب خانے لائبریری کے نام سے زیادہ پہچانے جاتے ہیں۔ یوں بھی اب کثرتِ استعمال سے لائبریری اردو زبان کا ہی لفظ محسوس ہوتا ہے۔ خالص اردو داں حضرات کی تسکین کے لیے بورڈ پر لائبریری کے ساتھ ’کتب خانہ‘ کبھی غلط املا تو کبھی عجیب سے خط میں لکھا ہوتا ہے۔

لائبریری کی تعریف پوچھی جائے تو ہم کہیں گے کہ کتابوں کے گودام یا اسٹور روم کو لائبریری کہتے ہیں۔ لائبریری کو کتابوں کا یتیم خانہ بھی کہا جائے تو زیادتی نہ ہو گی۔ لائبریری میں قارئین کتابوں سے یتیموں جیسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ بہت سی کتابیں جن کو خریدار نہیں ملتے وہ لائبریری کی زینت بنتی ہیں۔ جو بھی کتاب چھپتی ہے اس کا یہ پہلا حق ہے کہ اسے لائبریری میں جگہ ملے، چاہے اس کی صرف دس جلدیں ہی فروخت ہوئی ہوں اور وہ بھی مصنف کے تنگ کرنے پر اس کے دوستوں نے خریدی ہوں۔ بعض مصنف ایسے بھی ہیں جو صرف لائبریری کے لیے کتابیں لکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک کام کی بات آپ کے گوش گزار کرتے ہیں کہ ہاتھوں ہاتھ پڑھی جانے والی کتابیں لائبریری میں عنقا ہوتی ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ لائبریری میں آنے والوں کے اغراض و مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ بعض سستانے اور آرام کرنے آتے ہیں تو بعض حضرات دوست احباب سے ملنے کے لیے لائبریری کا رخ کرتے ہیں۔ لائبریری جانا آج کے ترقی یافتہ انسان کا معمول بھی ہے۔ اکثر لوگ کتابیں لینے اور انھیں بغیر پڑھے واپس کرنے لائبریری آتے ہیں تاکہ لوگ انھیں پڑھا لکھا سمجھیں۔ بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جو علم کی دولت حاصل کرنے کے لیے لائبریری جاتے ہیں۔

اپنے ساتھ موجود اشیا کو باہر چھوڑ کر صرف اپنی ذات کے ساتھ لائبریری میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ سامان کی حفاظت کے لیے دروازے کے پاس ایک آدمی بیٹھا رہتا ہے جو یا تو سوتا ہے یا کتب بینی میں مصروف رہتا ہے۔ اگر وہ سورہا ہے اور آپ نے اسے جگا دیا تو وہ خفا ہو گا۔ وہ کہے گا کچھ نہیں، صرف آپ کی چیزوں کو پٹخ کر اپنے غصّہ کا اظہار کرے گا۔ اگر وہ کتب بینی کر رہا ہو تو اس کے رویہ کا انحصار کتاب پر ہو گا۔ کتاب دلچسپ ہو تو اشاروں میں بات کرے گا اور اگر  کتاب غیر دلچسپ ہے تو آپ کے وقت کو چند فضول سوالوں میں ضائع کرے گا۔

لائبریری کے اندر ایک رجسٹر رکھا ہوتا ہے جس پر آنے والوں کو اپنا نام اور پتا لکھنا اور دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ نام اور پتا کوئی نہیں لکھتا، آپ بھی مت لکھیے۔ ہم بھی نہیں لکھتے۔ احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔ اکثر لوگ دستخط کرنا پسند کرتے ہیں۔ بعض دستخط کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ دستخط نہ کرنے والوں میں سے اکثر صاحبان کتابوں اور میز پر دستخط کرتے ہیں۔ باقی حضرات دستخط کرنے کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں۔ چند لوگ اس اہتمام سے دستخط کرتے ہیں جیسے آٹو گراف دے رہے ہیں۔ اگر آپ دستخط کے نمونے دیکھنا چاہیں تو لائبریری کے رجسٹر کا مطالعہ ضرور کریں۔ اکثر دستخط چند آڑی ترچھی لکیروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ہم بھی لائبریری کے رجسٹر میں دستخط کے نام پر دو سیدھی اور ایک آڑی لکیر کھینچتے ہیں۔

لائبریری میں داخل ہونے کے بعد نظر ایک تختی پر پڑتی ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ’خاموشی سے مطالعہ کیجیے !‘ اس تختی کے سائے میں لائبریری کے کرتا دھرتا گپ شپ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بات بات پر قہقہے دبانے کی کوشش میں عجیب و غریب آوازیں نکلتی رہتی ہیں۔ ان آوازوں پر خاموش احتجاج کرنے والے قارئین لائبریری کے لیے نئے ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان آوازوں سے بے نیاز ہوتے ہیں، وہ روز آنے والے قارئین ہوتے ہیں یا پھر وہ جو سوتے رہتے ہیں۔ لائبریری میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جن کے گھروں میں ڈرائنگ روم نہیں ہوتا۔ اس قسم کے لوگ کونوں میں سر جوڑے محو گفتگو ملیں گے، جہاں سے کھسر پھسر کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ لائبریری میں ایسے حضرات کی بھی کمی نہیں ہوتی جو گھر کے ماحول سے گھبرا کر لائبریری کا سکون برباد کرنے چلے آتے ہیں اور بے مقصد ادھر ادھر کتابیں الٹ پلٹ کرتے پھرتے رہتے ہیں۔

کتابوں کو کیٹلاگ کی مدد سے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ کیٹلاگ میں ڈھیر ساری کتابوں کے حوالے درج ہوتے ہیں لیکن تلاش کرنے پر ایک کتاب بھی نہیں ملتی۔ ہمارے ایک دوست کا طریقۂ کار ہے کہ وہ ہمیشہ دس کتابوں کے حوالے لکھ لیتے ہیں تاکہ مطلوبہ کتاب نہ ملنے پر مایوسی سے بچ رہیں۔ دس میں سے ایک کتاب خیر سے مل ہی جاتی ہے۔ حوالے لکھتے وقت بہتر ہو گا کہ فل اس کیپ کاغذ ساتھ رکھیں۔ محبوبہ کی زلف کی طرح کتابوں کے حوالے بھی طویل ہوتے ہیں۔ بعض کتابوں کے حوالوں میں کئی حروف تہجی کے ساتھ نمبر لاکھوں میں ہوتا ہے۔ حوالے نوٹ کرنے کے بعد کتابیں حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ لائبریری میں ویسے ہی روشنی کم ہوتی ہے اور جب بجلی گل ہو جائے تو صبر کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا!

کتابیں الماریوں میں چھپی بلکہ ٹھونسی ہوئی رہتی ہیں۔ کتابیں قطار میں سجی رہنے کی بجائے اوپر نیچے اور دائیں بائیں بے ترتیبی سے رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ بعض کتابیں دو تین حصوں میں ادھر ادھر بکھری ہوتی ہیں۔ لائبریری میں کتابوں کو رکھنے کے طریقے سے کتابوں کے ساتھ روا سلوک کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ الماری پر پہلی اور آخری کتابوں کے حوالے درج ہوتے ہیں۔ اس تحریر کو پڑھنے کے لیے محدب عدسوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک ہمدرد کے پاس سے چشمہ مانگ کر ہم نے مطلوبہ الماری تلاش کی اور اسے کھولا۔ چند کتابیں ہمارے اوپر گریں اور پھر ہم نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے الماری میں سے پھڑپھڑاتی ہوئی ان کتابوں کو بھی سہارا دیا جو باہر آنے کی پر زور کوشش کر رہی تھیں۔ کتابیں گرنے کی آواز کے ساتھ ہی لائبریری کا ایک کارندہ پاس آیا۔ کتابیں اٹھاتے ہوئے ’سوری۔ ۔ ۔ آئی ایم سوری۔ ۔ ۔ ‘ کہہ کر ہم نے اسے اپنا طرفدار بنا لیا۔ کتابیں الماری میں واپس ٹھونسنے کے بعد کتابیں ڈھونڈنے کا جوش اور ولولہ سرد پڑ گیا۔ جو کتاب ہاتھ لگی اسے لے کر آگے بڑھ گئے۔ کیا بھروسا، الماری جو چار کے بجائے تین پاؤں پر کھڑی تھی ہم پر نہ گر پڑے۔ تیزی میں ہم نے میز کو ٹھوکر ماری اور کرسی سے ٹھوکر کھائی۔ ہم لڑکھڑا کر سنبھل گئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کسی انسان سے سے ٹکر نہ ہوئی ورنہ ہمیں اندھا ہونے کا خطاب ملتا!

ہم اتنے بدحواس ہو چکے تھے کہ جہاں بھی جگہ ملی بیٹھ گئے۔ پیشانی پر آئے پسینہ کو رو مال میں جذب کیا۔ ذرا سکون پایا تو محسوس ہوا کہ جس کرسی پر ہم براجمان ہیں وہ بیٹھنے کے قابل نہیں ہے۔ کرسی کے بیچ میں ایک سوراخ ہے۔ منوں گرد جمی ہوئی ہے اور ایک ہاتھ سے معذور بھی ہے۔ کرسی پر بیٹھتے ہی چہار طرف سے کھٹملوں نے حملہ کر دیا۔ بہت دنوں بعد انھیں غذا ملی تھی۔ مختلف سوراخوں سے دیمک اور جھینگر جھانکنے لگے۔ ہم کرسی سے اٹھنا چاہتے تھے لیکن ڈر لگا کہ ہماری یہ حرکت آس پاس کے لوگوں کو گراں نہ گذرے۔ یوں بھی ہمیں دوسرے لوگ دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ ٹھیک سے بیٹھنا چاہا تو کرسی رقت انگیز لہجہ میں ہمارے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے لگی۔

ان حالات سے گزرنے کے بعد ایک قاری کو کتب بینی سے دلچسپی باقی نہیں رہتی اور اسے کئی غیر ضروری کام یاد آنے لگتے ہیں۔ ہم نے اپنا دھیان کتاب میں لگانا چاہا لیکن جب مصیبتیں آتی ہیں تو آتی ہی چلی جاتی ہیں۔ کتاب تو ہم اٹھا لائے لیکن اس کی زبان سے ہم واقف ہی نہیں تھے۔ اس زبان کا الٹا اور سیدھا بھی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ تصویریں دیکھنے لگے۔ چند تصویریں ایسی بھی نظر آئیں جن پر آنکھوں کا پردہ واجب ہو جاتا تھا۔

تصویریں گھورنا ختم ہوا تو سوچا کہ آس پاس لوگوں کا جائزہ لیا جائے۔ اس شغل میں کتب بینی سے زیادہ لطف آیا۔ ایک صاحب کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے۔ محسوس ہوتا تھا کہ وہ دماغ کی بجائے ہونٹوں سے پڑھ رہے ہیں۔ ’سی۔ ۔ ۔ سی۔ ۔ ۔ سی۔ ۔ ۔ ‘ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ایک صاحب پڑھتے وقت طرح طرح سے منہ بنا رہے تھے۔ کبھی زبان دکھا کر ڈاکٹر کی یاد دلاتے تو کبھی بتیسی نکال کر ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بنتے۔ کبھی آنکھیں باہر نکال دیتے تو کبھی ہونٹوں کو سکوڑ لیتے۔ کبھی مسکرا پڑتے تو کبھی آنکھوں میں پانی بھر لاتے۔ ہمیں محسوس ہوا جیسے کوئی خاموش فلم چل رہی ہے۔ ایک اور صاحب ورق الٹتے وقت انگوٹھے کو تھوک لگا کر اس زور سے ورق کو پکڑتے کہ زوردار ’تا‘ اور ’پھڑ‘ کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ ایک نحیف و ناتواں صاحب اپنے سے زائد وزنی کتاب گود میں کھولے سو رہے تھے۔ جب کبھی نیند سے بیدار ہوتے، ایک صفحہ پلٹتے تھے۔ پتا نہیں یہ ان کے سونے کا انداز تھا یا پھر وہ اس ہنر سے واقف تھے کہ آنکھیں بند کر کے کتاب کیسے پڑھی جاتی ہے۔

ایک صاحب کتب بینی کے ساتھ تاثرات کا اظہار بھی فرما رہے تھے۔ ہم نے انھیں کہتے سنا۔ ’یہ کیوں کر ہو سکتا ہے !‘ کچھ دیر خاموشی کے بعد انھوں نے خود اپنے سوال کا جواب تلاش کر لیا۔ ’ایسے ہی ہو سکتا تھا، میں بے وقوف ہوں جو غلط سمجھا۔ ‘ ہمارے دل نے ان سے کہنا چاہا۔ ’دیر سے سہی آپ نے خود کو پہچانا خوب!‘ لیکن چپ رہے کہ لائبریری میں باتیں کرنا منع ہوتا ہے۔

ایک صاحب پڑھتے وقت ٹانگیں ہلا رہے تھے جیسے پڑھنے کی مشین چلا رہے ہوں۔ ایک اور صاحب میز پر طبلہ بجاتے ہوئے کتب بینی میں مصروف تھے۔ کبھی آہستہ تو کبھی زور سے وہ میز تھپتھپاتے تھے۔ جب وہ زور سے میز پر ہاتھ مارتے تو آس پاس کی کتابیں پھڑ پھڑا  کر رہ جاتیں اور میز میں ارتعاش پیدا ہوتا۔ دوسرے لوگ انھیں گھور گھور کر دیکھتے اور موصوف سب سے بے نیاز طبلہ بجا کر پڑھنے میں مصروف تھے۔ ایک صاحب بازو بیٹھے شخص سے بار بار ’مشکل الفاظ‘ کے معنی پوچھ رہے تھے۔ تنگ آ کر اس بھلے آدمی نے انھیں ایک لغت لا کر دی اور اپنا پیچھا چھڑایا۔

لوگوں کے پڑھنے کا انداز دیکھ کر ہم لطف اندوز ہو رہے تھے کہ دل نے قارئین کے بیٹھنے کے مختلف طریقوں کے مشاہدے کا مشورہ دیا۔ چند اصحاب الماریوں کے پاس کھڑے ہو کر مطالعہ کی ضرورت پوری کر رہے تھے۔ لائبریری میں کرسیوں پر براجمان قارئین کی اکثریت تھی۔ ایک صاحب کرسی پر پیر رکھے اور پیروں کے بیچ ہاتھوں کو ٹھونسے ایسے بیٹھے تھے کہ ہمیں اسکول میں ملنے والی سزا یاد آ گئی۔ جب ہم شرارت کرتے تو مرغا بنا دیے جاتے تھے۔ ایک صاحب کرسی پر بیٹھے نہیں لیٹے تھے۔ ان کی گردن اور ہاتھ کرسی پر تھے جبکہ بقیہ جسم ہوا میں لیٹا ہوا تھا۔ مضمون شروع کرنے سے پہلے اس طرح کرسی پر بیٹھنے کی کوشش میں ہم دو مرتبہ گر چکے ہیں۔ ایک اور صاحب کرسی کے دو پائے زمین سے اٹھائے ایک ہی جانب بیٹھے تھے۔ ایک بازو بیٹھنے کے باوجود کرسی اور قاری کا توازن برقرار تھا۔ ایک صاحب کے دونوں پیر میز پر اس انداز سے اٹھے ہوئے تھے کہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ یوگا کر رہے ہیں۔ ایک صاحب کرسی پر بیٹھے جھول رہے تھے۔ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں وہ گر نہ جائیں مگر وائے حیرت کرسی الٹ کر رہ گئی اور وہ اچھل کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔

کرتب بازی پر آتی ہوئی ہنسی کو ضبط کرنے کے لیے ہم میز پر بکھری کتابوں کو اٹھا کر دیکھنے لگے۔ ایک کتاب دلچسپ معلوم ہوئی۔ پڑھنے لگے۔ تجسس بڑھتا گیا اور ایک مقام پر ہمارا تجسس بے بسی میں بدل گیا۔ کتاب کے چند صفحے غائب تھے۔ ہم نے دوسری کتاب اٹھائی۔ کتاب اٹھائی کہنا شاید غلط ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ ہم نے بکھرے ہوئے اوراق کو سمیٹا۔ پہلے صفحہ پر لکھا تھا ’میں کتاب پڑھ کر الّو بنا ہوں۔ ‘ اس جملے کے نیچے ’نئے الّو‘ کے دستخط ثبت تھے۔ ہم نے الو بننا گوارا نہ کیا اور تیسری کتاب کھولی۔ کتاب میں جنسی امراض، ان کی پیچیدگیوں اور علاج کے بارے میں اشتہار کا ایک کاغذ رکھا ہوا ملا۔ ہم نے اس اشتہار کو متعلقہ ذوق رکھنے والوں کے لیے رہنے دیا ا۔

ہم نے چوتھی کتاب اٹھائی۔ ایک صفحہ کے حاشیے پر نوٹ لکھا تھا۔ ’آپ تھک چکے ہیں۔ کینٹین میں گرم چائے اور سگریٹ پی کر آئیے !‘ یہ حقیقت تھی کہ ہم تھک چکے تھے لیکن کینٹین جانے کی بجائے ہم نے پانچویں کتاب اٹھائی۔ ایک صفحہ پر فون نمبر کے ساتھ یہ جملہ تحریر تھا۔ ’آپ مجھ سے مل کر یقیناً بہت خوش ہوں گے !‘

کتابوں کے ساتھ اس قسم کا ’حسن سلوک‘ ہماری برداشت سے باہر تھا۔ ہم کڑھتے ہوئے بیٹھے تھے کہ ہماری نگاہ میز پر پڑی جس پر کئی نام مع تاریخ کندہ تھے۔ قارئین کے لیے مشورے بھی میز پر تراشے گئے تھے۔ زیادہ مت پڑھیے، بینائی کمزور ہوتی ہے۔ لائبریری میں اچھی نیند آتی ہے۔ آئی لو یو۔ وغیرہ وغیرہ۔ گھبرا کر ہم نے میز کو کتابوں سے ڈھانکا اور چھٹی کتاب اٹھائی۔ اس کتاب میں محبوب اور محبوبہ کی تحریری گفتگو درج تھی۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ ۔ ۔ آئی لو یو ٹو۔ ۔ ۔ منگل کو چھٹی ہے۔ مارننگ شو میں جنگل میں منگل دیکھنے چلیں گے۔ ۔ ۔ چھٹی کے دن باہر نہیں آ سکتی۔ بدھ کو چلیں گے۔ ۔ ۔ پیار کرتی ہو اور زمانے سے ڈرتی ہو۔ ۔ ۔ یہ ڈر نہیں ہے۔ احتیاط ضروری ہے۔ ۔ ۔ بدھ کے دن دس بجے لائبریری کے پچھلے دروازہ پر ملیں گے۔ ۔ ۔ بائی بائی۔ ۔ ۔

ہماری برداشت کی حد گزر چکی تھی۔ ہم شکایت کرنے کے ارادے سے اٹھے اور متعلقہ افسر سے ملاقات کی۔ پہلے تو انھوں نے ہمیں گھور کر دیکھا۔ پھر آنکھیں باہر نکالیں اور تھوک اڑاتے ہوئے کہنے لگے۔ ’کتابیں گراتے ہو۔ ٹھوکریں مار کر فرنیچر کو نقصان پہنچاتے ہو۔ پڑھنے کی بجائے اِسے اُسے تکتے بیٹھتے ہو۔ اس پر شکایت بھی کرنا چاہتے ہو! چوری اور سینہ زوری، کیا خراب زمانہ آیا ہے۔ ‘

نہ جانے وہ اور کیا کچھ کہتے۔ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں شکایت کرنے کی پاداش میں یہ لائبریری ہمارے لیے ’ورکشاپ‘ میں تبدیل نہ ہو جائے، ’مرمت‘ کے خوف سے ہم لائبریری سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شاداب، حیدرآباد،ا گسٹ1986ء

 

 

 

 

کوٹھیوں کا شہر

 

تازہ افسانہ، ایک ادبی رسالے کے دفتر میں دینے کے بعد، میں نئے موضوع کی سوچ میں گم پیدل خراماں خراماں سڑک پر چلا جا رہا تھا۔ اچانک کار کے بریک چرمرائے۔ ایک شاندار مرسڈیز کار میرے بازو رکی۔ کھڑکی کا شیشہ نیچے ہوا اور آواز آئی۔ ’منشی، او منشی جی۔ ‘

آواز جانی پہچانی لگی۔ کار کے اندر جھانکا تو اسکول کے ہم جماعت دولت خان رئیس کو بہترین سوٹ میں ملبوس پائپ پیتا ہوا پایا۔ میں نے سلام کیا اور اپنا ہاتھ کھڑکی کے اندر بڑھایا۔ گرمجوشی سے مصافحہ کے بعد دولت خان رئیس نے سوال کیا۔ ’کیا حال ہے منشی۔ ابھی پڑھائی لکھائی میں الجھے ہوئے ہو یا کچھ مال بھی بنایا ہے؟‘

چونکہ مجھے ادب سے دلچسپی اسکول کے زمانے سے تھی اور میں اپنا زیادہ وقت لکھنے پڑھنے میں گزارتا تھا اسی لیے دولت خان رئیس نے مجھے منشی کا خطاب دے رکھا تھا۔ دولت خان رئیس کو شاید نام کی مناسبت سے پیسہ کمانے کا شوق بلکہ جنون تھا۔ وہ ہمیشہ دولت مند بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ روپیہ پیسہ کتابوں میں سر کھپانے سے نہیں ملتا۔ اس کے لیے عمل چاہیے۔ دولت خان رئیس نے معمولی حساب کتاب سے زیادہ تعلیم کو غیر ضروری جانا اور وہ عملی دنیا میں جٹ گیا۔ محنت اور جوڑ توڑ کے ذریعہ وہ دولت کے انبار لگاتا چلا گیا۔ میں تعلیم ختم کر کے تدریس کے پیشہ سے وابستہ ہو گیا۔ ایک طویل عرصہ بعد ہماری ملاقات ہو رہی تھی۔

کار کے اندر جھانکتے ہوئے میں نے دولت خان رئیس کے سوال کا جواب دیا۔ ’وہی حال جو پہلے تھا سو اب بھی ہے۔ ‘

کار کے اندر اس کا قہقہہ گونجا۔ ’تم نہیں سدھرو گے۔ سنا ہے تمہاری تین چار کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ‘

’چار نہیں، صرف تین۔ ‘ میں نے وضاحت کی۔

’سنا ہے کہ اچھا لکھنے لگے ہو۔ اخباروں میں تمہارا ذکر ہوتا ہے۔ کبھی مجھے سناؤ کہ تم کیا لکھتے ہو۔ ‘ دولت خان رئیس نے فرمائش کی اور گھڑی دیکھ کر کہا۔ ’اس وقت مجھے بینک جانا ہے۔ ایسا کیوں نہیں کرتے، تم کسی دن میرے گھر آ جاؤ۔ ‘

’میں حاضر ہو جاؤں گا۔ ‘ میں نے وعدہ کیا۔

دولت خان رئیس نے اپنے پرس میں کارڈ تلاش کیا۔ نہیں ملا۔ ڈرائیور سے پوچھا، اس کے پاس بھی کارڈ نہیں تھا۔ شاید ختم ہو چکے تھے، اس نے اپنے گھر کا پتا زبانی بتایا اور ڈرائیور سے چلنے کو کہا۔

مجھے خوشی ہوئی کہ بچپن کے دوست سے ملاقات ہو گئی اور مزید خوشی اس بات پر ہوئی کہ ایک دولت مند شخص میرے افسانے اور مضامین سننا چاہتا ہے۔ ایسے موقعوں کے لیے محفل سجائی جاتی ہے اور دولت خان رئیس جیسے ذی حیثیت شخص کو مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے۔ لیکن میں نے جلد بازی مناسب نہیں سمجھی اور محفل بپا کرنے سے پہلے دولت خان رئیس سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا۔

دولت خان رئیس کا دولت کدہ شہر کے اس خطہ میں تھا جہاں پیسے والوں نے شہر کے شور شرابے اور ہنگامے سے دور اپنی ایک الگ دنیا ’شانتی نگر‘ کے نام سے آباد کر رکھی تھی۔ عام آدمی اس محلے میں شاذونادر ہی جاتے ہیں۔ دولت مند لوگ ہی پیسہ کمانے، اپنے غریب رشتہ داروں سے ملنے اور شاپنگ کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں۔

پرانے دوست سے ملاقات کی اتنی خوشی ہوئی کہ مجھے دولت خان رئیس کے محلے کا نام یاد رہ گیا تھا لیکن اسٹریٹ اور ولا نمبر ذہن سے نکل گئے تھے۔ جلدی میں فون نمبر بھی لینا بھول گیا تھا۔ ایسے میں کوٹھی کا پتا لگانا مشکل تھا لیکن میں نے سوچا کہ محلہ شانتی نگر میں سو ڈیڑھ سو کوٹھیاں ہوں گی، گلی گلی گھومتے ہوئے لوگوں سے پوچھ لوں گا۔ اسم بامسمیٰ کا پتا چل ہی جائے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پتا پوچھنے کے دوران خود دولت خان رئیس نظر آ جائیں۔

کسی کا پتا معلوم کرنا ہو تو صبح سے بہتر شام کا وقت ہوتا ہے۔ لوگوں کو اتنی فرصت ہوتی ہے کہ وہ گھڑی دو گھڑی رک کر اجنبی کی مدد کر سکتے ہیں۔ صبح کے وقت جسے دیکھیے اپنی غرض سے بھاگا جا رہا ہے۔ صبح کے وقت گھر تلاش کرنے کے تلخ تجربے سے میں گزر چکا ہوں۔ کئی لوگوں نے چلتے چلتے ’معلوم نہیں ‘ کہا اور اپنی راہ پر دوڑتے چلے گئے۔ کسی نے گوشت اور ترکاری کی دکان کا پتا بتایا تو کسی نے دودھ والے کی طرف بھیجا۔ دو ایک اصحاب نے یوں ہی مخالف سمت کی طرف اشارہ کر دیا۔ گھنٹے بھر کی بھاگ دوڑ اور پوچھ گچھ کے بعد منزل ملی تو معلوم ہوا کہ صاحب مطلوب کام پر جا چکے ہیں۔ اس دن کے بعد سے میں کسی کا گھر ڈھونڈنے صبح کے وقت نہیں جاتا۔

بڑے لوگوں کے محلہ میں جانے اور بڑے آدمی سے ملنے کے لیے میں نے بہترین کپڑے پہنے اور اپنی کتابوں کو بغل میں دبائے بس اسٹاپ پر پہنچا۔ پتہ چلا کہ شانتی نگر کو عوامی سواری نہیں جاتی اس لیے کہ اس طرف عوام ہی کم جاتے ہیں۔ اپنی حیثیت چھپانے کے لیے میں سائیکل پر جانا نہیں چاہتا تھا اور ٹیکسی کا کرایہ ادا کرنا میرے بس میں نہ تھا۔ کچھ دیر کے لیے میں سائیکل اور ٹیکسی کے انتخاب پر الجھا رہا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ اس سواری پر سفر کیا جائے جس پر میرا پورا اختیار ہو گا۔ میں سائیکل پر دولت خان رئیس سے ملنے چل پڑا۔

شہر کی پر ہجوم سڑکوں اور گندی بستیوں سے گزر کر میں شانتی نگر پہنچا۔ یوں محسوس ہوا جیسے صحرا میں نخلستان ہے۔ صاف ستھری اور کشادہ سڑکیں، وسیع اور پر شکوہ کوٹھیاں۔ محسوس ہوتا تھا کہ ہر کوٹھی ایک دوسرے کے مقابلے پر اور مقابلے کے لیے بنائی گئی ہے۔ خوبصورت باغ اور باغیچے تھے اور راستوں پر سبزہ بچھا تھا۔ چند لمحوں کے لیے میں بڑے لوگوں کے محلہ کی خوبصورتی میں کھو گیا۔

میں نے سارا محلہ چھان مارا لیکن کہیں بھی گوشت، ترکاری، دودھ یا پنکچر بنانے کی دکان نظر نہیں آئی۔ چائے خانے اور نہ ہی ان کے بغل میں پان کے ڈبے دکھائی دیے۔ کپڑوں پر استری کرنے والی میز بھی فٹ پاتھ پر کہیں دکھائی نہیں دی۔ محلہ کے یہ وہ مقامات ہیں جہاں سے نہ صرف کسی کا پتا حاصل ہو سکتا ہے بلکہ اس کی زندگی کے دوسرے حالات بھی آسانی سے معلوم ہو جاتے ہیں۔ چند دن قبل میں نے ایک شاعر دوست کا پتا گوشت والے سے دریافت کیا تو اس نے یوں رہنمائی کی تھی۔ ’ہفتہ میں ایک بار چھٹانک گوشت لے جانے والے شاعر صاحب، اس گلی کی بائیں جانب تیسرے دروازے میں رہتے ہیں۔ ‘

پتا دریافت کرنے کے روایتی مقامات نہ پا کر میں شانتی نگر کی سڑکوں پر گھومنے لگا کہ صورت خضر کوئی راہ گیر یا مکین نظر آ جائے لیکن مایوسی ہوئی۔ محسوس ہوتا تھا کہ اس بستی میں سکون ہی سکون ہے۔

شانتی نگر میں کوٹھیوں کی قد آدم اونچی دیواروں میں مضبوط پھاٹک لگے ہوئے تھے۔ میں پھاٹک در پھاٹک کان لگائے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ آیا ان کوٹھیوں میں زندگی کے کوئی آثار پائے جاتے ہیں۔ دو کوٹھیوں سے کتوں کے بھونکنے اور غرانے کی آوازیں آئیں اور ایک کوٹھی سے پاپ میوزک کی تیز آواز کانوں سے ٹکرائی۔ آس بندھی کہ اس کوٹھی سے مدد ملے گی۔ میں نے پھاٹک کھٹکھٹایا۔ ایک کہرام مچ گیا۔ کتوں نے گویا کوٹھی کو اپنی ٹیڑھی دم پر اٹھا لیا ہو۔ گلا پھاڑ کر بھونکتے ہوئے کتے اپنے پنجے پھاٹک پر مارنے لگے۔ میں ڈرا اور سہما پھاٹک سے دور جا کھڑا ہوا۔

چند لمحوں بعد ایک دبلا پتلا نازک اندام نوجوان جس کی زلفیں شانوں پر لہرا رہی تھیں، کان میں واک مین لگائے دو طاقتور اور خونخوار کتوں کی باگ ڈور تھامے پھاٹک میں آ کھڑا ہوا۔ میں قریب جا کر عرض مدعا کرنے سے گھبرانے لگا۔ قہر آلود نگاہوں سے ان تینوں نے مجھے گھورا۔ نوجوان نے کچھ بڑبڑاتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک سکہ نکال کر میری جانب اچھال دیا۔ اپنی زلفوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک ادا سے اپنے حمایتیوں سمیت واپس چلا گیا۔ میں ماتھے پر ابھر آنے والا پسینہ پونچھنے لگا۔

مجھے امید تھی کہ اس ہنگامے پر آس پاس کے مکین باہر نکل آئیں گے۔ شاید کسی کوٹھی سے دولت خان رئیس برآمد ہوں۔ لیکن مجھے مایوسی ہوئی۔ کتوں کا بھونکنا بند ہوا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ اس قسم کا ہنگامہ اگر ہمارے محلہ میں ہوتا تو دن بھر اس واقعہ کا اثر رہتا۔ مختلف افواہیں اڑائی جاتیں اور امن و امان کو خطرہ لاحق ہوتا۔ میں شانتی نگر کی بے حسی پر شانے اچکاتا ایک طرف چل پڑا۔

ایک صاحب بڑی توند لیے ٹریک سوٹ پہنے ایک لحیم شحیم کتے کی زنجیر سنبھالے اپنی دانست میں دوڑے جا رہے تھے۔ میں نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے دریافت کیا۔ ’کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ دولت خان رئیس کی کوٹھی کون سی ہے؟‘

جواب میں موصوف گہری سانسیں لیتے ہوئے ’ہر۔ ۔ ۔ رر۔ ۔ ۔ پر۔ ۔ ۔ رر۔ ۔ ۔ ‘ کرنے لگے اور کتا غرانے لگا۔ کتے کی زبان میری سمجھ میں آئی لیکن انسان کی زبان میری عقل و فہم سے باہر تھی۔ میں نے اپنے قدم روک لیے۔

میں سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے میرے سامنے کا پھاٹک کھلا اور ایک صاحب باہر آئے۔ ان کے ساتھ بھی ایک کتا تھا۔ باہر آتے ہی کتا موج مستی کرنے لگا اور صاحب کتے کی اچھل کود دیکھ کر خوش ہونے لگے۔ میں مخل ہوا۔ ’جناب والا۔ کیا آپ مجھے دولت خان رئیس کی کوٹھی بتاسکتے ہیں؟‘

جواب میں سوال ہوا۔ ’کیا پتا ہے؟‘

میں نے جواب دیا۔ ’اسی محلہ میں رہتے ہیں۔ ‘

اس مرتبہ بھی جواب کی بجائے سوال ہوا۔ ’اسٹریٹ اور ولا نمبر!‘

میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو انھوں نے پھر سوال کیا۔ ’پھر کیسے پتا چلے گا؟‘

میں نے چاہا کہ ان سے کہوں، اگر ان سوالوں کے جواب ہوتے تو میں آپ کے معاملات میں کیوں مخل ہوتا لیکن خاموش رہا۔ اس دوران کتا اچھلتے کودتے ’ رفع حاجت ‘ سے فارغ ہوا اور صاحب کتے کو لیے واپس پھاٹک میں بند ہو گئے۔

میں حیران اور پریشان وہیں کھڑا رہا۔ ایک کار آندھی کی طرح کہیں سے نمودار ہوئی۔ میں بمشکل اپنے آپ کو بچاس کا۔ کار کے بریک چیخ پڑے اور کار رک گئی۔ غصّہ میں بھری آواز آئی۔ ’دکھائی نہیں دیتا؟‘

میں نے صاحب کار کے غصّے کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے مطلب کا جواب دیا۔ ’دکھائی دیتا ہے اور نہ ملتا ہے۔ ‘

’وہاٹ!‘ کار کے اندر سے چنگھاڑا گیا۔

نرمی سے میں نے کہا۔ ’دولت خان رئیس کا مکان۔ کیا آپ انھیں جانتے ہیں؟‘

جواب میں مزید غصّہ کا اظہار ہوا۔ ’یہ کوئی پتا معلوم کرنے کا طریقہ ہے، نان سینس!‘ اور کار آگے بڑھ گئی۔ میں نے جاتی ہوئی کار میں ایک مادام کو کتا گود میں بٹھائے بڑبڑاتے ہوئے دیکھا۔

میں نے جھنجھلا کر ایک کوٹھی کے دروازے کو شاید کچھ زور سے کھٹکھٹایا۔ صاحبِ کوٹھی بندوق اٹھائے میری چھاتی کا نشانہ لیے آ کھڑے ہوئے۔ ان سے دولت خان رئیس کا پتا کیا پوچھتا، جان پر بن آئی تھی۔ قضا کو ٹالنے کی فکر کرنے لگا۔ میں ہاتھ جوڑ کر گھگیایا۔ ’کار کی ٹکر سے بچنے کی کوشش میں آپ کی پھاٹک سے ٹکرایا۔ میری سائیکل اس طرف پڑی ہے۔ معاف کر دیں۔ ‘

موصوف نے گردن گھما کر دیکھا، کچھ مطمئن ہوئے اور سوال کیا۔ ’چور ڈاکو تو نہیں ہو؟‘

گال پیٹتے ہوئے میں نے کہا۔ ’خدا کی قسم۔ میں نے کبھی چوری نہیں کی ہے۔ ‘

’آئندہ احتیاط سے سائیکل چلانا!‘ وارننگ دے کر موصوف پھر آہنی دروازے میں بند ہو گئے۔

میں مایوس ہو کر واپس لوٹنے کا قصد کر رہا تھا کہ ایک بزرگ نزدیک آئے اور مجھ سے پوچھا۔ ’کیا بات ہے میاں؟‘

میں نے بزرگوار کے آس پاس دیکھا، ان کے ساتھ کتا نہیں تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اس محلہ میں کوئی انسان تو ملا جس کے ساتھ کتا نہیں تھا۔ شاید اسی لیے وہ ڈھنگ سے پیش آئے۔ میں نے انھیں سلام کر کے جواب دیا۔ ’ایک دوست کا مکان تلاش کر رہا ہوں۔ ‘

جواب سن کر موصوف سوالات کرنے لگے کہ دولت خان رئیس صاحب کیا کرتے ہیں؟ ان کا حلیہ کیسا ہے؟ فون نمبر کیا ہے؟ کتنے بچے ہیں اور کتنے کتے پال رکھے ہیں؟ میں نے جواب دیا۔ ’تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ میرے افسانے اور مضامین پڑھنا چاہتے ہیں۔ ‘

’اچھا تم ادیب ہو!‘ بزرگوار نے خوشی اور حیرت سے کہا اور میرے ہاتھ میں موجود کتابیں مانگیں اور ورق گردانی کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ’ایک عرصہ بعد اردو کتابیں دیکھ رہا ہوں۔ ہمارے گھر میں کتابیں ہی نہیں ہیں۔ بچے ہر دم ٹی وی اور کمپیوٹر کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔ موسیقی کی آواز اتنی تیز ہوتی ہے کہ کان کے پردے پھٹ جائیں۔ دو گھڑی اطمینان سے تنہا بیٹھ کر کتابیں پڑھنے کی انھیں توفیق ہی نہیں ہوتی۔ عجیب زمانہ آیا ہے۔ ‘

میں دولت خان رئیس کا پتا پوچھنا چھوڑ کر ان کا اتا پتا دریافت کرنے لگا۔ ’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘

ایک جانب اشارہ کر کے بزرگوار نے کہا۔ ’اسی محلہ میں، اس کوٹھی میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہوں۔ بیٹے اور اس کے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی تنہا ہوں۔ ‘

گفتگو کا رخ بدلنے کے لیے میں نے سوال کیا۔ ’آپ کے پڑوس میں کون رہتا ہے؟‘

بزرگوار نے فرمایا۔ ’کبھی کسی سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ پتا نہیں کوئی رہتا بھی ہے یا نہیں۔ ‘

بزرگوار سے مزید گفتگو بے کار تھی۔ ان سے ملاقات پر میں نے خوشی کا اظہار کیا اور اپنی کتابیں ان کی نذر کر کے میں آگے بڑھ گیا۔

ایک کوٹھی کی دیوار میں ایک چھوٹا اور خوبصورت دروازہ نظر آیا۔ دروازے پر صاحب خانہ کے نام کی تختی لگی تھی۔ نام کی تختی کے نیچے کال بیل تھی۔ کال بیل کے نیچے ڈاک کا ڈبہ نصب تھا۔ ڈاک کے ڈبے کے نیچے اخبار اور رسائل کے لیے ایک ڈبہ لگا تھا۔ اخبار اور رسائل کے ڈبے کے نیچے دودھ کی بوتلوں کے لیے تیسرا ڈبہ موجود تھا اور دودھ کے ڈبے کے نیچے گوشت ترکاری کے لیے ایک ڈبہ نما حصّہ محفوظ تھا۔ ڈبوں کی قطار کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ اس کوٹھی کے تمام کاروبار مختلف ڈبوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں۔ میں نے کال بیل دبائی۔

’کون ہے؟‘آواز سنائی دی۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ آواز صاحب خانہ کے نام کی تختی سے آ رہی ہے۔

’میں ایک اجنبی ہوں۔ ‘ میں نے جواب دیا۔

سوال ہوا۔ ’کیا نام ہے؟‘

میں نے نام بتایا تو سوال پھر سوال ہوا۔ ’کیا چاہتے ہو؟‘

میں نے کہنا شروع کیا۔ ’ایک گزارش ہے۔ میں۔ ۔ ۔ ‘

میری بات مکمل ہونے سے پہلے آواز نے حکم دیا۔ ’تمہاری بائیں جانب کاغذ اور قلم ہے۔ گزارش قلم بند کر کے ڈاک کے ڈبے میں ڈال دو۔ ساتھ میں اپنا پتا بھی لکھ دینا۔ جواب مل جائے گا۔ ‘

میں گھبرا گیا اور ڈر بھی گیا کہ اگر میں نے مزید کچھ کہا تو عجب نہیں کہ دیوار سے کوئی ہاتھ نمودار ہو اور وہ ہاتھ مجھے دھکا دے کر آگے بڑھا دے۔ میں وہاں سے ہٹ گیا۔

کچھ دور چلا تو دیکھا کہ ایک کوٹھی سے میرے جیسا کوئی عام انسان سائیکل لیے باہر آ رہا ہے۔ میں رک گیا۔ اس سے ملاقات کی اور عرض مدعا بیان کیا۔ اس نے کہا۔ ’میں یہاں نہیں رہتا۔ ‘

میں نے جواب دیا۔ ’آپ کی سائیکل سے ظاہر ہے۔ آپ بھی یقیناً کسی رئیس کی کوٹھی تلاش کر رہے ہوں گے۔ ‘

جواب ملا۔ ’نہیں جناب میں اس کوٹھی میں ملازم ہوں۔ ‘

میں نے گزارش کی۔ ’اپنے مالک سے پوچھ کر میری مدد کیجیے۔ ‘

’بے کار ہے۔ وہ کسی کو نہیں جانتے، میں انھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ ‘ موصوف نے جواب دیا۔

میں نے سوال کیا۔ ’کیا میں آپ کے مالک سے مل سکتا ہوں؟‘

جواب ملا۔ ’بغیر اپائنٹمنٹ وہ کسی سے نہیں ملتے۔ ‘

تھک ہار میں نے دولت خان رئیس کو تلاش کرنے کی مہم ترک کی اور واپس لوٹنے لگا۔ ابھی میں شانتی نگر کی حدود ہی میں تھا کہ پولس کی جیپ قریب آ کر رکی۔ انسپکٹر نے مجھ سے کہا۔ ’کیوں جناب آپ شام سے یہاں کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ ہمیں فون پر شکایت درج کرائی گئی ہے کہ آپ دروازے کھٹکھٹاتے پھر رہے ہیں۔ لوگوں کو روک کر ستا رہے ہیں۔ ان سے غیر ضروری باتیں کر رہے ہیں اور لوگوں کے خیالات تبدیل کرنے کے لیے لٹریچر تقسیم کر رہے ہیں۔ ‘

میں نے کان پکڑتے ہوئے کہا۔ ’انسپکٹر صاحب، میں ایک دوست دولت خان رئیس کی کوٹھی کا پتا لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ناکام ہو کر واپس جا رہا ہوں۔ ‘

انسپکٹر نے خیال ظاہر کیا۔ ’کیسے یقین کر لوں، ہو سکتا ہے کہ تم پتا پوچھنے کی آڑ لے کر یہ کام کر رہے ہوں گے !‘وہ مجھے اپنے ساتھ پولس اسٹیشن لے گیا۔

ایک گھنٹہ تک انسپکٹرتفتیش کرتا رہا اور میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسے میری بے گناہی پر یقین آ ہی گیا لیکن اس نے مجھے یوں ہی چھوڑ دینے سے معذوری ظاہر کی کہ میرے خلاف شکایت کسی بڑے آدمی نے کی ہے۔ آخر کار ایک شاعر دوست کی ضمانت پر رات دیر گئے گلو خلاصی ہوئی۔

٭ ٭ ٭

ماہنامہ شگوفہ، حیدرآباد، جنوری 1995ء

 

 

 

 

شریف بدمعاش

 

شادی کے بعد لڑکیوں کی باہمی دوستی عموماً ختم ہو جاتی ہے۔ سہیلیوں کے درمیان شوہر، سسرال اور پھر بچے آ جاتے ہیں۔ یوں وہ ایک دوسرے سے دور ہو جاتی ہیں۔ اس روایت کو توڑنے کے لیے میری بیوی اور ان کی سہیلی صدیقہ نے قسم کھائی کہ وہ شادی کے بعد بھی اپنی پرانی اور بچپن کی دوستی کو باقی و برقرار رکھیں گی اور اپنے شوہروں کو دوست بننے پر مجبور بھی کریں گی۔ ہماری شادی میں صدیقہ پیش پیش تھیں۔ انھوں نے مہندی لگائی، مٹھائی کھلائی، ڈھولک بجائی، گیت گائے اور سہیلی کی وداعی کے وقت پھوٹ پھوٹ کر روئی بھی تھیں۔

چند دن بعد صدیقہ کی شادی مقرر تھی۔ ہنگامہ برپا کرنے کی باری اب میری بیوی کی تھی۔ بیوی نے اعلان کیا کہ صدیقہ کی شادی کی تقریبات میں وہ مجھے ساتھ لے کر شریک ہوں گی۔ میں نے انھیں سمجھایا۔ ’مجھے کوئی جانتا ہے اور نہ میری کسی سے واقفیت ہے۔ میں شادی میں جا کر کیا کروں گا۔ آپ چلی جائیں۔ میری جانب سے تحفہ اور مبارک باد پیش کریں۔ مانجھے سے جمعگی تک رہیں۔ چاہیں تو دو چار دن کے لیے دلھن کے ساتھ سسرال جا کر وہاں کے طور طریقے سمجھا کر آئیں۔ ‘

جواب ملا۔ ’آپ کو چلنا پڑے گا۔ آپ کی پہچان مجھ سے ہو گی۔ کوئی پوچھے گا تو اپنا تعارف کروائیے۔ میرا حوالہ دیجیے۔ اپنا نام بتائیے اور کہیے کہ میں دلھن کی عزیز ترین، ایک جان دو قالب سہیلی کا شوہر ہوں۔ میری بیوی اور دلھن ساتھ پڑھتے تھے اور ان سے میری شادی ہوئے پینتالیس دن گزرے ہیں۔ ‘

میں چونک پڑا اور چاہتا تھا کہ شناخت کے مسئلہ پر بیوی سے الجھ پڑوں۔ انھیں بتاؤں کہ ان کی شناخت مجھ سے ہے اور وہ میری دلھن کہلائی جاتی ہیں نہ کہ ان کی وجہ سے میں پہچانا جاتا ہوں۔ لیکن میں خاموش رہا۔ یوں بھی ہماری شادی ہوئے صرف پینتالیس دن گزرے تھے۔ پڑوسیوں کو ابھی سے اپنی آوازیں سنانا اچھا نہیں لگا۔ ابھی تو ہم ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ میں نے مجبوراً ہامی بھری۔ ’ٹھیک ہے آپ کا یہ خادم آپ کے پیچھے پیچھے شادی میں شریک ہو گا۔ ‘

بیوی نے ٹوکا۔ ’ہر دم پیچھے نہیں، کبھی آگے بھی۔ ‘

شادی کا دن آ پہنچا۔ بیوی کے کہنے کے مطابق میں نے دفتر میں رخصت اتفاقی بھیج کر چھٹی لی۔ بیوی نے صبح سے شادی میں جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ میرے لیے سوٹ نکال کر رکھ دیا۔ حکم ہوا کہ استری کر لوں۔ سو میں نے کپڑوں پر استری پھیر لی۔ جوتوں پر پالش کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے یہ کام بھی کر دیا۔ صبح شیو کرنے سے منع کر دیا گیا کہ شام میں داڑھی بڑھی ہوئی نظر آئے گی۔ دوپہر بارہ بجے حکم ہوا کہ شیو کر لوں اور چلنے کے لیے کپڑے تبدیل کر لوں۔ میں نے حیرت سے کہا۔ ’ابھی دوپہر ہے۔ سہ پہر باقی ہے۔ شام ہو گی تب چلیں گے۔ ‘

بیوی نے کہا۔ ’جی نہیں۔ ہم ابھی اور اسی وقت چل رہے ہیں۔ میری سہیلی کی شادی ہے۔ ہمیں دو دن پہلے ہی پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن آپ کا خیال کر کے میں چپ رہی۔ ویسے بھی ہم مہمان نہیں ہیں، میزبان ہیں۔ ‘

شام کی تقریب کے لیے میں نے دوپہر میں سوٹ بوٹ پہنا۔ بیوی نے آگے پیچھے گھوم کر دیکھا اور مشورہ دیا۔ ’شانے سامنے جھکا کر نہ رکھیے۔ شانوں کو پیچھے کر کے سینہ آگے کیجیے۔ ‘

میں نے اثبات میں گردن ہلائی تو بیوی نے ڈانٹا۔ ’ گنوار کی طرح گردن مت ہلائیے۔ لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ فنکشن میں زبان سے کام لیجیے۔ ‘

اب میں انھیں کیا بتاتا کہ نکاح کے وقت انھوں نے مجھے گردن ہلا کر قبول کیا تھا۔ بیوی نے میرے بال سنوارے اور بالوں کو نیا انداز دیا۔ ٹائی کی گرہ ٹھیک کی۔ مجھے سینٹ سے معطر کیا۔ قصّہ مختصر میری بیوی اپنے شوہر کو تیار کرنے کے بعد اسے ساتھ لے کر سہیلی کی شادی میں شرکت کے لیے روانہ ہوئیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بیوی سہیلی کی شادی میں اپنے شوہر کی نمائش کرنے لے جا رہی ہیں جبکہ میں بیوی کے پیچھے بوجھل قدموں سے ایسے چل رہا تھا جیسے قصائی کے پیچھے بکرا کھینچا چلا جاتا ہے۔

ہم شادی خانہ پہنچے۔ بیوی مجھے بے یار و مددگار مردانے میں چھوڑ کر زنان خانے میں چلی گئیں اور اپنی سہیلی کو پا کر مجھے بھول گئیں۔ نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ یہ وہی شادی خانہ ہے جہاں چند دن قبل مجھے ایک ہنگامے کے ساتھ لایا گیا تھا۔ خوب خاطر مدارت ہوئی تھی۔ ایک سالم کالے بکرے سے نظر اتاری گئی تھی۔ لوگوں نے گلے مل مل کر دلھن ملنے کی مبارک باد دی تھی۔ لیکن آج کوئی مجھے پوچھنے والا موجود نہ تھا کہ بچو! بیوی کے سنگ کیسے گزر رہی ہے۔

ہال میں کوئی نظر نہ آیا۔ کرسیاں اِدھر اُدھر بکھری پڑی تھیں۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ کل بھی یہاں کسی کی درگت بنی تھی۔ کچھ دیر بعد آج پھر ایک تماشا ہو گا۔ رنگ منچ پھر سجے گا اور ہنگامہ ہو گا۔ ایک گوشہ منتخب کر کے میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور پاؤں ہلاتے ہوئے اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب تماشا شروع ہو گا۔ تنہائی میں پاؤں ہلا کر وقت کاٹنا اچھا شغل ہے۔

کچھ وقت گزرا۔ ایک نحیف و ناتواں شخص ہال میں آیا اور بڑبڑاتے ہوئے کرسیاں ترتیب سے رکھنے لگا۔ وقفہ وقفہ سے وہ کھانستا بھی جاتا۔ میں نے گھڑی میں لگے کیلکولیٹر سے حساب کیا کہ وہ ایک منٹ میں دو کرسیاں سیدھی کرتا ہے تو ہال میں موجود اندازاً سات، آٹھ سو کرسیوں کو ترتیب دینے کے لیے چھ گھنٹے لگ جائیں گے۔ تب تک عقد کا وقت نکل جائے گا۔ وقت گزارنے اور ایک کمزور شخص کی مدد کی خاطر میں اٹھا اور کرسیاں ٹھیک کرنے لگا۔ وہ شاید مجھ سے اس نیک کام کی توقع کر رہا تھا۔ دعائیں دینے لگا۔ ’شکریہ بیٹا۔ خدا تمھارا بھلا کرے۔ شادی نہیں ہوئی ہے تو جلد ہو جائے اور اگر ہو چکی ہے تو زندگی خوشگوار گزرے۔ ‘

میں نے زیر لب کہا۔ ’خوشگوار زندگی کا نمونہ دیکھ بلکہ بھگت رہا ہوں۔ ‘

ابھی میں نے کرسیوں کی ایک قطار ہی ترتیب سے رکھی تھی کہ ایک بزرگوار میرے نزدیک آتے ہوئے چار قدم پہلے سے برسنے لگے۔ ’پتا نہیں۔ شادی خانے کا کیا نظام اور انتظام ہے۔ چار بجنے آ رہے ہیں۔ ابھی تک اسٹیج ویران پڑا ہے۔ کیا گیٹ پر دولھے کو ٹھہرا کر اسٹیج سجایا جائے گا۔ اور آپ سوٹ پہن کر نزاکت سے کرسیاں یوں جما رہے ہیں جیسے کرسی پر آپ کی محبوبہ بیٹھی ہے اور احتیاط لازم ہے۔ سوٹ اتاریے اور جلدی جلدی ہاتھ پاؤں چلائیے۔ ‘

بزرگوار کا حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا۔ میں جواب میں جی جی کرتا رہ گیا اور بزرگوار مجھ پر برس کر کہیں اور برسنے چلے گئے۔ میں سوٹ کے بارے میں سوچنے لگا۔ ہم گرم ملک میں سوٹ کیوں پہنتے ہیں۔ شاید سوٹ اسٹیٹس سمبل ہے۔ امارت اور قابلیت کی نشانی ہے۔ سوٹ پہننے والے کی قدر ہوتی ہے۔ جب سوٹ کا رعب نہ پڑے اور سوٹ سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہو توسوٹ وزنی محسوس ہونے لگتا ہے۔ گرمی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ مجھے سوٹ میں گرمی ہونے لگی۔ میں رو مال سے پسینہ پونچھنے لگا۔ دوچار منٹ بعد پھر وہی بزرگوار کا گزر میرے سامنے سے ہوا۔ انھوں نے قہر آلود نگاہوں سے مجھے گھورا اور میں نے گھبرا کر ٹائی کی گرہ کھولی اور کوٹ اتار کر ایک کرسی کو پہنا دیا۔

کوٹ اتارنے کے بعد میں تیزی سے کام کرنے لگا۔ کرسیوں کی ترتیب ٹھیک ہوئی تو دیکھا کہ ایک شخص اسٹیج سجانے میں مصروف ہے۔ میں اپنی جگہ کھڑا اسے کام کرتے دیکھنے لگا۔ دور سے وہی پریشان حال بزرگ نے پھر مجھے ڈانٹا۔ ’او سوٹ والے بابا۔ آپ کو اسٹیج ٹھیک کرنے کے لیے کیا دعوت نامہ دے کر بلانا پڑے گا؟‘

مدد کے لیے میں نے بیوی کو بلانا چاہا لیکن آس پاس بلکہ دور دور تک کوئی بچہ نظر نہ آیاجسے میں زنان خانے میں دوڑا سکتا تھا۔ بوجھل قدموں سے میں اسٹیج سجانے چل پڑا اور اسٹیج سجانے والے کی ماتحتی میں کام کرنے لگا۔ برقی قمقموں، رنگین کاغذوں، کاغذ کے گولوں اور پھولوں کی لڑیوں سے دولہا میاں کی لمحاتی خوشیوں کو سجایا گیا۔ ایک صاحب اسٹیج کو سجانے کا کام دیکھ رہے تھے۔ ان کی عمر ساٹھ برس کے لگ بھگ تھی ہو گی۔ سفید داڑھی، سر پر ٹوپی اور صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میں نے قیاس کیا کہ یہ صاحب بابل ہوں گے۔ میں نے جھک کر ادب سے انھیں سلام کیا اور اپنا تعارف کروانے کی فکر میں تھا کہ بابل نے پوچھا۔ ’کیا تم الکٹریشین ہو؟‘

میں بوکھلا گیا اور مناسب الفاظ تلاش کرنے لگا کہ بابل کی غلط فہمی دور کروں اور انھیں بتاؤں کہ میں آپ کی دختر نیک اخترجس کا عقد مسعود آج مقرر ہے کی عزیز ترین سہیلی کا شوہر نامدار ہوں اور فی الوقت بہت پریشان ہوں۔ خدارا میری مدد فرمایئے۔ ایک لڑکا آیا اور بابل سے کہنے لگا۔ ’استاد، بریانی تیار ہو چکی ہے چل کر دیکھ لیجیے۔ ‘

بابل مجھے حیران اور پریشان چھوڑ کر پکوان کی طرف چل دیے۔ میں بابل کی تلاش ملتوی کر کے اپنی خفت مٹانے شادی خانے سے باہر چلا آیا۔ شادی خانے میں خود تماشا بننے کی بجائے سڑک پر چہل قدمی کرتے ہوئے آس پاس کا تماشا دیکھنا اچھا لگا۔ ایک جگہ مداری بندر اور بندریا کا کھیل دکھا رہا تھا۔ میں ہجوم میں شامل ہو کر محظوظ ہونے لگا۔ بندریا مختلف طریقوں سے بندر کو پریشان کرتی ہے۔ بندر غصّہ میں بندریا کی پٹائی کرنے جھپٹتا ہے اور بندریا روٹھ کر مداری کی گود میں جا بیٹھتی ہے۔ مداری نے دونوں میں مصالحت کروائی۔ تماشا ختم ہوا، تالیاں بجیں۔ لوگ پیسے دینے لگے۔ میں نے بھی انعام دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو پتا چلا کہ منی پرس غائب ہے۔ تمام جیبیں دوچار مرتبہ دیکھ ڈالیں لیکن بٹوہ ہاتھ نہ آیا۔ آس پاس نظر دوڑائی کہ کس کو مورد الزام ٹھہراؤں۔ کچھ سجھائی نہ دیا۔ بے بسی کے لمحات میں تقدیر کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے سو میں اپنی قسمت کو برا بھلا کہتا ہوا بوجھل قدموں سے شادی خانے کی جانب چل پڑا۔

راستے میں بارات آتی دکھائی دی۔ ایک لمحہ کے لیے خیال آیا کہ تیزی سے مجھے شادی خانہ پہنچ کر دولھے کا استقبال کرنا چاہیے۔ دلھن کی سہیلی کا شوہر جو ہوں۔ بیوی کی ہدایت بھی یہی تھی۔ لیکن ڈر ہوا کہ کہیں پیچھا کرنے والے بزرگ کا سامنا نہ ہو جائے اور وہ میرے ذمہ کوئی کام نہ لگا دیں۔ دولھے کا استقبال کرنے کا ارادہ ترک کر کے میں نظریں جھکائے بارات کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ بارات منزل مقصود پہنچ کر رک گئی۔ نظریں اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں کسی دوسری بارات کے ساتھ قریب کے کسی دوسرے شادی خانے میں پہنچ گیا ہوں۔ میں گھبرا کر تیزی سے وہاں سے نکل آیا اور اس شادی خانے جا پہنچا جہاں بیوی میرے حشر سے بے نیاز اپنی سہیلی کی شادی میں مگن تھیں۔

میری بیوی کی سہیلی کے ہونے والے شوہر یعنی آج کے دولھا جس سے حسب حکم مجھے دوستی کرنی ہے، شادی خانے میں آ چکے تھے۔ وہ شرما اور مسکرا رہے تھے۔ براتی انھیں گھیرے میں لے چکے تھے کہ عین وقت پر کہیں وہ غائب نہ ہو جائیں۔ حسن اتفاق سے قاضی صاحب بھی وقت پر موجود تھے اور ضروری کارروائی کے لیے کاغذات پر جھکے ہوئے تھے۔

میں اپنا چھوڑا ہوا کوٹ تلاش کرنے لگا۔ کوٹ کرسی پر نظر نہ آیا۔ اِدھر اُدھر ڈھونڈا تو دیکھا کہ کرسیاں ترتیب سے رکھنے والا نحیف و ناتواں شخص میرا کوٹ پہنے انعام کی آس میں اسٹیج کے پاس کھڑا ہے۔ میں نے اس سے اپنا کوٹ واپس طلب کرنے کے بارے میں سوچا لیکن پھر وہی میرا پیچھا کرنے والے بزرگوار کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آیا کہ کہیں بات کا بتنگڑ نہ بن جائے۔ میں ڈر کر خاموش رہا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ بد بختی اکیلے نہیں آتی۔ بٹوہ اور کوٹ کا غم کھاتے ہوئے میں ایک کرسی پر نڈھال بیٹھ گیا۔

پر امید نظروں سے ہال کا جائزہ لیا کہ کوئی جان پہچان والا نکل آئے اور وہ رحمت خداوندی بن کر مجھے اس جنجال سے نکالے۔ لیکن مایوسی ہوئی۔ ہر دوسرے چہرے پر گمان ہوتا کہ میں ان صاحب کو جانتا ہوں لیکن یاد نہیں آتا کہ وہ کون ہیں اور کہاں ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ دو ایک حضرات کو دیکھ کر میں نے مسکرا کر اپنائیت کا اظہار کیا تاکہ وہ مجھے جانتے ہیں تو پہچان جائیں۔ اس عمل کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ شادی خانے میں، میں اجنبی ہی رہا۔

مبارک سلامت کا شور بلند ہوا۔ دولھا سے گلے ملنے اور فوٹو اور ویڈیو سیشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ لوگ کم ہوئے تو میں اپنی جگہ سے اٹھا اور دولہا کو مبارک باد دینے اسٹیج پر پہنچا۔ اسٹیج پر پھر وہی بزرگ کا سامنا ہوا جو دوپہر سے میرے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے تھے۔ انھوں نے پوچھا۔ ’آپ یہاں کہاں؟‘

میں نے جواب دیا۔ ’دولہا کو مبارک باد دینے اور گلے ملنے حاضر ہوا ہوں۔ ‘

جواب ملا۔ ’مبارکباد دینے اور گلے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے کام سے مطلب رکھیے۔ بخشش مل جائے گی۔ چل کر ڈائننگ ٹیبل سجائیے۔ ‘

میں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔ ’آپ جو سمجھ رہے ہیں وہ میں نہیں ہوں اور جو میں ہوں وہ آپ جاننے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ میں آپ کا ایک معزز مہمان ہوں۔ کیا آپ کے یہاں مہمانوں سے کام لیا جاتا ہے؟‘

میری وضاحت پر بزرگوار نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور سوال کیا۔ ’آپ کس کے مہمان ہیں۔ دلھن کی جانب سے یا دولہا کی طرف سے؟‘

میں نے سینہ ٹھونک کر جواب دیا۔ ’دلھن کا مہمان خاص ہوں۔ ‘

جواب میں ایک معنی خیز ’اچھا‘ کہا گیا اور اس دوران کسی نے انھیں ایک ضروری کام سے بلا یا۔ وہ مجھے متحیر چھوڑ کر دوسری جانب چلے گئے۔ میں افسوس سے ہاتھ ملنے لگا کہ اپنا تعارف کرانے کا موقع نہ مل سکا، ورنہ میں انھیں بتاتا کہ میں دلھن کی عزیز ترین سہیلی کا شوہر ہوں۔

میں نے دولہے کو مبارک دی۔ ملنے والوں کی بھیڑ تھی اور میں پریشان بھی تھا۔ ایسے میں دولہا کو کیا بتاتا کہ میں کون ہوں اور ہماری بیویوں کی خواہش پر ہمیں دوستی کرنی ہے۔ میں پھر ایک کرسی پر جا بیٹھا۔ میرے تعاقب میں دو لڑکے آئے اور کچھ فاصلے پر بیٹھ کر کھسر پھسر کرنے لگے۔ میں کان کھڑے کیے غور سے سننے لگا۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ’چاچو نے ان صاحب پر نظر رکھنے کے لیے کہا ہے۔ کہہ رہے تھے کہ صبح سے یہاں منڈلا رہے ہیں۔ بڑا ہاتھ مارنے کا ارادہ ہے۔ میں نے چاچو سے کہا کہ شکل سے شریف دکھائی دیتے ہیں۔ تب انہوں نے بتایا کہ شریف بدمعاش ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بھولی بھالی صورت، اچھے کپڑے اور با اخلاق۔ مال لوٹ کر چلتے بنتے ہیں۔ بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے کہ ان کی نگرانی کی جائے اور رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔ دیکھنا بہت مزا آئے گا۔ ‘

بچوں کی باتیں سن کر مجھے پسینہ آنے لگا۔ محسوس ہوا، کچھ دیر میں چوری کا الزام لگا کر پولس کے حوالے کر دیا جاؤں گا۔ میں اپنے ضامن کو بلوانے کی ترکیب کر رہا تھا کہ بیوی مردانے میں جھانکتی نظر آئیں۔ میں ان کی طرف لپکا۔ میرے پیچھے دونوں بچے اور دو چار قدموں کے بعد بچوں کے چاچو یعنی وہی بزرگوار بھی میرے پیچھے آ پہنچے۔ رندھی ہوئی آواز میں، میں نے بیوی کو پکارا۔ چاچو کا ہاتھ میرے گریبان کی طرف بڑھ رہا تھا کہ بیوی بیچ میں حائل ہو گئیں۔ چاچو کو سلام کر کے ہمارا تعارف کروانے لگیں۔ ’یہ میرے شوہر ہیں اور یہ صدیقہ اور ہم سب کے منہ بولے چاچو۔ ‘

چاچو کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔ ’اچھا تو یہ آپ کے شوہر ہیں۔ دولہا بنا ہوا دیکھا تھا، اس لیے شکل یاد نہ رہی۔ دوپہر سے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ ‘

میری جان میں جان آئی۔ ’آپ نے بھی مجھے کہاں بخشا ہے۔ شریف بدمعاش کے خطاب سے نوازا ہے۔ ‘ میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو چاچو مجھ سے بغل گیر ہوئے۔

میں نے اپنی بپتا بیوی کو سنائی تو وہ بھی مجھے شریف بدمعاش کہہ کر ہنسنے لگیں۔ ۔ ۔ !

٭ ٭ ٭

ماہنامہ رابطہ، کراچی، فروری 1991ء

٭٭٭

دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید