FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

یہودی کی لڑکی

               آغا حشرؔ کاشمیری

﴿  ترتیب و تصحیح 

               ڈاکٹر انجمن آرا  انجمؔ

 

انتساب

اپنے  مرحوم والدین کے نام

 جنھوں نے مجھے علم کی وہ شمعِ فروزاں

عطا کی جس کی  روشنی میں

دینی، دنیوی اور روحانی سعادت و مسرت کے لازوال خزینوں تک

 میری رسائی ہو سکی

                                                انجمن آرا  انجمؔ

(اصل کتاب میں تین ڈرامے شامل ہیں، یہاں ڈرامے الگ الگ کر دئے گئے ہیں، اصل مقدمہ ہر ای بک میں شامل ہے)

 

مقدمہ

          ڈرامے کو یونانی اور سنسکرت روایات میں قدیم زمانہ سے بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ان روایات میں وہ مذہب کا بھی حصہ تھا اور شعری و ادبی سرمایہ کا بھی۔ لیکن دونوں ہی زبانوں میں یہ اپنے عروج تک پہنچ کر زوال کا شکار ہو گیا۔ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی یہ روایات آگے نہ بڑھ سکی۔ اردو شعرو ادب کا آغاز ہوا تو مختلف شعری و نثری اصناف پر توجہ دی گئی۔ لیکن ڈرامے کی طرف کوئی التفات نہ ہوا۔ اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں. لیکن شاید ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ڈراما لکھنے پڑھنے سے زیادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’کھیلنے ‘‘کا متقاضی ہوتا تھا جس میں مختلف کرداروں کا بہروپ بھرنا ہوتا تھا اور یہ کام بھانڈوں اور نقالوں سے وابستہ قرار دیا جاتا تھا اور متانت اور سنجیدگی کے خلاف۔ شاید اسی لیے اربابِ قلم نے اس کو قابلِ اعتنا نہ خیال کیا۔ تاآنکہ علم و ادب کے رسیا، کھیل تماشوں کے شوقین، رقص و موسیقی کے دلدادہ اور جدت پسند طبع کے مالک نواب واجد علی شاہ کا اس طرف میلان ہوا۔ انھوں نے ’’رادھا کنھیا کا قصہ‘‘ کو ۱۸۴۳ء میں رہس کی شکل میں اسٹیج پر پیش کیا۔ خود اس میں کردار ادا کیا۔ اور بھی کئی رہس اس شاہی اسٹیج پر دکھائے گئے۔ اس طرح شاہی سرپرستی میں ڈراما کھیلا گیا۔ تو لوگوں کی جھجھک دور ہوئی اور جلد ہی اہل اردو ڈراما نگاری کی طرف مائل ہو گئے۔ دس سال کے اندر اندر ہی امانت کی ’’اندر سبھا‘‘ نے اسٹیج کی دنیا میں دھوم مچا دی۔ اسی دوران تھیئٹر کا رواج شروع ہو گیا تھا۔ مغربی اثرات کے تحت بہت سی تھئیٹریکل کمپنیاں وجود میں آ گئیں۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے  کے لیے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آئی۔

          آغا حشرؔ (۱۸۷۹۔۱۹۳۵) اردو ڈرامے کی دنیا میں ایک بلند قامت حیثیت سے ابھرے۔ انھوں نے ڈرامے کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انھوں نے مختلف تھئیٹریکل کمپنیوں میں کام کیا۔ اپنی کمپنی قائم کی، متواتر ڈرامے لکھے ، خود ان کی ہدایت کاری کی ا ور ڈرامے کھیلنے کے معیار کو  بلندی بخشی۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ماخوذ ہیں۔ انگریزی کے مقبول و معروف ڈراموں کو انھوں نے اردو جامہ پہنایا۔ انھوں نے کرداروں کے ناموں،مکالمات،گانوں اور ڈراموں کی پوری فضا کو مشرقی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ کہیں اجنبیت اور پردیسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے کرداروں کو ہندوستانی تہذیب و معاشرت میں اس طرح ڈھال دیا کہ وہ نامانوس نہیں معلوم ہوتے۔ اپنے چست مکالموں، اعلیٰ پایہ کے گانوں،بر جستہ گوئی اور زبان کے اعلیٰ معیار سے ان ڈراموں کو ادبی وقار بخشا۔

          بیسویں صدی میں سنیما کا چلن عام ہونا شروع ہوا تو  تھئیٹر اور اسٹیج پر پھر زوال  کے سائے منڈلانے لگے۔ فلمیں عوامی دلچسپی اور تفریح کا ذریعہ بن گئیں۔ دھیرے دھیرے تھئیٹر کی عوامی مقبولیت ختم ہو گئی۔ ان ڈراموں کی طباعت و اشاعت بھی معدوم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اب ان کا دستیاب ہونا مشکل ہے۔

          اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہ ڈرامے (جو تقریباً ایک صدی پر محیط ہیں) ہماری ادبی روایت کا اہم حصہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھنا اور ان کا ادبی مطالعات میں شامل رکھنا ہمارا  فرض  ہے۔تھئیٹر کا رواج ختم ہونے کے باوجود ہم ان ڈراموں سے صرف  نظر نہیں کر سکتے۔ بالکل  اسی طرح جیسے  قصیدے کا ماحول ختم ہونے کے باوجود ہم اس کے مطالعہ کو نظر انداز نہیں کر سکتے یا کلاسیکی غزل کو ادبی  مطالعہ سے خارج نہیں کر سکتے۔لیکن اگر متون ہی دستیاب نہ ہوں تو پھر کوئی بھی مطالعاتی کوشش نہیں کی جا سکتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دور کے اُن تمام ڈراموں کے متون مہیا کرائے  جائیں جن کی اپنے زمانہ میں عام مقبولیت رہی تاکہ یہ ادبی مطالعہ کے لیے بنیا د فراہم کریں۔ ا س کے بغیر ہماری ادبی تاریخ تشنہ رہ جائیگی۔

          ڈاکٹر انجمن آرا  انجمؔ جن کے تحقیقاتی کاموں کا مرکز و محور آغا حشر اور ان کے ڈرامے رہے ہیں، مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے حشر کے تین ڈراموں  …………سفید خون،یہودی کی لڑکی اور رستم و سہراب کے معتبر متون پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہت  ہی دشواریوں کے باوجود،بقول مؤلفہ،’’ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ان نقائص و اسقام سے پاک حشر کے ڈراموں کا صحیح متن پیش کر دیں۔ چنانچہ جو اشعار یا گانے وزن سے گرے ہوئے نظر آئے اُن کا وزن درست کر دیا گیا ہے۔،مقفیٰ عبارتوں میں جہاں جھول نظر آیا، اسے نکال دیا گیا ہے۔ مکالموں کے غلط  انتساب کی تصحیح کر دی گئی ہے۔الفاظ اور  فقرے اگر رہ گئے ہیں  تو انھیں فراہم کر دیا گیا ہے اور اگر عبارت میں کسی طرح کا اضافہ دخیل ہو گیا ہے تو اسے خارج کر دیا گیا ہے۔‘‘

          ابتدائی تین ابواب ڈرامے کی مختصر تاریخ ، آغا حشر کے حالاتِ زندگی اور آغا حشر کے فن پر گفتگو کے لیے  وقف کیے گئے ہیں۔ آخر میں تینوں ڈراموں کا متن دیا گیا ہے۔ ہر ڈرامے کے شروع میں قصہ کا خلاصہ، اس کا مختصر تعارف اور اس پر تبصرہ  بھی لکھا گیا ہے جس سے اس  پیش کش کی افادیت بڑھ گئی ہے۔

           مؤلفہ نے ایک اہم ضرورت کی تکمیل کی بنیاد ڈالی ہے۔ممکن ہے حشر کے  باقی ڈراموں کے متون بھی وہ مرتب کر سکیں اور یہ اس بات کا  پیش خیمہ بن جائے کہ دوسرے محققین دوسرے ڈراما نگاروں کے ڈراموں کے متون کی تدوین و ترتیب کا کام انجام دے سکیں۔

                                                   پروفیسر عتیق احمد صدیقی

                                                   سابق صدر شعبۂ اردو اور ڈین فیکلٹی آف آرٹس

                                                   اے۔ایم۔ یو۔ علی گڑھ

 

تعارف

یہودی کی لڑکی ، حشرؔ کے تیسرے دور کی تمثیل ہے جس کا پلاٹ ڈبلیو۔ٹی۔  مانکریف (W.T. MONCRIEFF) کے میلو ڈرا ما ’’دی جیوس، THE JEWESS)) سے ماخوذ ہے۔

حشرؔ نے ’’یہ ڈراما اپنی دوسری کمپنی انڈین شیکسپئیر تھیئٹریکل کمپنی کے لیے ۱۹۱۳ میں لکھا‘‘۔(۱)  ’’ یہودی کی لڑکی ‘‘ کی مقبولیت کے بارے میں ڈاکٹر نامی کا خیال ہے ’’یہودی کی لڑکی، ، خود آغا حشرؔ کی کمپنی’’ دی انڈین تھئیٹر یکل کمپنی‘‘ نے  دہلی میں اسٹیج کیا۔ دوسرے سال جب کمپنی بنارس پہونچی اور اس کو طالب کے ’’کرشمۂ قدرت‘‘ سے مقابلہ کرنا پڑا کیونکہ بالیوالا کمپنی اس وقت کلکتہ میں تھی تو حشرؔ نے اصل ڈراما ، سین اور کرداروں میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور جدید انتظامات کے تحت الفریڈ تھیئٹر میں پیش کیا‘‘۔(۲)

’’ اس کے بعد ’’دی نیو کھٹاؤ پارسی تھئیٹریکل کمپنی آف بمبئی نے لکشمی تھیئٹر حیدرآباد میں اس کو ’’وفا کی پتلی‘‘ کے نام سے اسٹیج کیا ‘‘۔(۳)

 ’’یہودی کی لڑکی‘‘ تین ایکٹ کی تمثیل ہے ، پہلے ایکٹ میں آٹھ سین ، دوسرے میں سات اور تیسرے میں تین ہیں، کل اٹھارہ سین  ہیں۔

پلاٹ :۔ یہودی قوم پر رومی حکمرانوں کا ظلم و استبداد ، اس کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے نیز اس سے نفرت و حقارت اور قدم قدم پر اس کی آزمائش کے علاوہ با عصمت وبا وفا را حیل (یہودی کی لڑکی) کی داستانِ محبت اور اس کے ایثار و قربانی پر مبنی ہے۔

سلطنتِ روم میں یہودی قوم کے علاوہ عیسائی اور پارسی بھی آباد ہیں۔ مذہبی رہنما بروٹس ، یہودیوں سے سخت نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ انھیں حقیر اور ذلیل بھی سمجھتا ہے۔عزرا اسی یہودی قوم کا سردار ہے ، اس کے ایک لڑکی راحیل ہے۔ شہزادہ مارکس(شہزادی ڈیسیا  کا منگیتر) راحیل سے محبت کرتا ہے۔ راحیل بھی اسے بیحد چاہتی ہے۔ جب راحیل کو معلوم ہوتا ہے کہ مارکس یہودی نہیں رومی ہے تو اسے بہت افسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجود مارکس کے لیے وہ اپنی محبت میں کوئی کمی نہیں پاتی۔ مارکس اسے اپنے ساتھ بھاگ چلنے کا مشورہ دیتا ہے اور وہ اس پر عمل کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ عین وقت پر عز را نمودار ہوتا ہے اور معاملے کو جان کر بیحد ناراض ہوتا ہے اور مارکس کو سخت سست کہتا ہے۔ وہ دونوں کی شادی صرف اس شرط پر منظور کرتا ہے کہ مارکس یہودی مذہب قبول کر لے لیکن رومی مارکس کسی قیمت پر راضی نہیں ہوتا۔ انتہائی غصے میں عزرا اسے گھر سے نکال دیتا ہے۔

راحیل ، مارکس پر دغا بازی کا الزام عائد کر کے اپنا مقدمہ بادشاہ (مارکس کا باپ) کے دربار میں پیش کرتی ہے۔ بروٹس ، یہودیوں کے خلاف زہر اُگلتا، اور دلی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ بادشاہ چونکہ انصاف پسند اور قانون کا محافظ ہے اس لیے راحیل کی شکایت غور سے سنتا ہے اور مارکس کو اس کی نازیبا حرکت اور دھوکے بازی کے جرم میں سخت سزا کا مستحق قرار دیتا ہے۔ بروٹس ، عزرا اور راحیل کی مخالفت اور مارکس کی موافقت میں بادشاہ کو مطمئن کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر بادشاہ اپنے منصفانہ مزاج کی بدولت آئینِ حکومت کی عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے شہزادے کو ہتھکڑی پہنانے اور مذہبی عدالت میں اس پر مقدمہ چلانے کا حکم صادر کر دیتا ہے۔

ادھر ڈیسیا ، راحیل کے پاس جاتی اور اس سے مارکس کو معاف کر دینے کی درخواست کرتی ہے۔ بڑی منت سماجت کے بعد راحیل اپنا مقدمہ واپس لے لیتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی سزا موت ہے۔ مارکس کو رِہا کر دیا جاتا ہے۔ عزرا اور راحیل کو اس جرم کی پاداش میں کہ انھوں نے مارکس پر غلط الزام لگایا ہے ، کھولتے ہوئے تیل کے کڑھاؤ میں ڈال دینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب عزرا اس راز کا انکشاف کرتا ہے کہ راحیل بروٹس کی بیٹی ہے اس کی نہیں۔ جس وقت شہر میں آگ لگی ہوئی تھی وہ راحیل کو بچا کر لے آیا تھا اور اسے اپنی بچی کی طرح پرورش کیا۔ بروٹس عزرا کی فراخ دلی ، عالی ظرفی اور انساں دوستی کا قائل ہو جاتا ہے اور راحیل کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔ راحیل یہ پسند کرتی ہے کہ وہ عزرا ہی کے ساتھ رہے اور بروٹس بھی بخوشی اُسے اِس کی اجازت دے دیتا ہے کہ وہ جس مذہب میں پروان چڑھی ہے اور جس کی گود میں اس کی پرورش ہوئی ہے ، زندگی بھر اسی کے ساتھ رہے۔ آخر میں مارکس ، راحیل سے اپنی بے وفائی کی معافی مانگتا ہے۔ مارکس اور ڈیسیا کی شادی ہو جاتی ہے اور اس طرح کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے۔

          کردار نگاری:۔عزرا، راحیل اور مارکس ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں۔ ان کے علاوہ بادشاہ ، کینشش، بروٹس اور ڈیسیا کے کردار بھی اہمیت کے حامل ہیں۔

عزرا ایک راسخ الاعتقاد یہودی ہے جو رومیوں کے جبر و استبداد اور سخت سے سخت مخالفت کے باوجود اپنے مذہب پر قائم رہتا ہے۔ اس نے ایمان کے مقابلے میں کبھی جان کی پروانہ کی۔ رومی حاکموں کے آگے کبھی سر خم نہ کیا۔

 رومی حکمران اپنے دیوتاؤں کا جشنِ عام منانے کے موقع پر پوری رعایا کو جس میں وہ اقوام بھی شامل ہیں جو ان کے دیوتاؤں کو نہیں مانتیں ، اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ انھیں اپنا ہر کام چھوڑ کر اس میں حصہ لینا ہو گا اور اگر وہ ایسا نہ کریں گی تو ان کو زندہ آگ میں جلا دیا جائے گا۔ کینشش (را ہبِ سلطنت) عزرا کو پکڑوا کر بلواتا ہے۔ ایک سردار اسے سجدہ کرنے پر مجبور کرتا ہے مگر وہ انکار کر دیتا ہے اور اس طرح منھ توڑ جواب دیتا ہے۔

عزرا :۔ جھکوں!کس کے آگے ؟ ان قدموں کے آگے جن قدموں نے اس سر سے بھی زیادہ سفید بوڑھے مردوں کو ٹھوکریں ماری ہیں،جنھوں نے اپنی جوانی کی ضربوں سے مظلوم قوم کے سینوں کی ہڈیاں توڑ ڈالی ہیں۔ نہیں میں کبھی نہیں جھکوں گا    ؂

اس کی چوکھٹ پہ ہو گا سجدہ، جدھر وہ ہو گا اُدھر جھکے گا

بحز خدا کے کسی کے آگے نہ دل جھکا ہے نہ سر جھکے گا

عزرا کے کردار کا دوسرا پہلو ہے محبت ، رحم دلی اور انسان نوازی۔ وہ اپنے دشمن بروٹس کی بیٹی راحیل کو اپنی بیٹی کی طرح پالتا ہے اور اس سے بیحد محبت کرتا ہے۔ راحیل کو کبھی محسوس نہیں ہونے دیتا کہ وہ اس کی بیٹی نہیں ہے۔ راست بازی، قومی جوش اور مذہبی تشخص کی ایک اعلیٰ مثال ہے عزرا۔

راحیل، وفا شعاری ، نسائیت اور جرأت مندی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے ، وہ عزرا کا بیحد احترام کرتی ہے اور وہ اس کی راسخ الاعتقادی سے بھی خوب واقف ہے۔ جیل خانے میں مارکس جب راحیل سے ملنے جاتا ہے تو اس سے کہتا ہے کیا تمھارا باپ تمھارے لیے اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتا؟ اس پر راحیل جواب دیتی ہے    ؂

وہ  بندۂ حق راہِ وفا سے  نہ پھرے گا

پھر جائے گا دنیا سے خدا سے نہ پھرے گا

راحیل، مارکس کو دل و جان سے چاہتی ہے۔ وہ مارکس سے اس وقت بھی بیحد محبت کرتی ہے جب اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ مارکس یہودی نہیں رومی ہے۔ مارکس ، راحیل کو اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے اور اس کو اپنے ساتھ بھاگ چلنے کا مشورہ دیتا ہے جسے وہ منظور کر لیتی ہے ، مگر بروقت عزرا  آ جاتا ہے اور وہ دونوں اپنے ارادے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔عزرا ،مارکس سے راحیل کی شادی کرنے پر اس صورت میں راضی ہوتا ہے کہ وہ یہودی مذہب اختیار کر لے مگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ عزرا ، مارکس سے راحیل کی شادی کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ راحیل کو اس کا انکار سن کر بہت صدمہ ہوتا ہے اور وہ مارکس کو دھوکہ باز سمجھتی ہے۔ وہ اپنی  بے عزتی برداشت نہ کرتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ بادشاہ رومی ہوتے ہوئے بھی عادل اور حق پرست ہے۔ وہ راحیل کی فریاد پر اپنے بیٹے مارکس کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیتا ہے اور راحیل اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

راحیل ، انسانیت اور وفا کا پیکر ہے۔ وہ عورت کے درد اور اس کی دلی کیفیت کو خوب سمجھتی ہے۔ اسی لیے ڈیسیا کی التجا پر مارکس کو معاف کر دیتی ہے اور مقدمہ واپس لے لیتی ہے۔

راحیل :۔ نہیں ! نہیں! عورتوں کا نام نہیں ہنساؤں گی۔ مردوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں دوں گی کہ ایک رومن شہزادی نے سر جھکایا اور ایک مغرور یہودن نے رحم نہ کھایا۔ جب میرا جسم، پاک خاک میں مل جائے اور بے وفا دنیا ہماری قوم کو خود غرض بتائے ،اُس وقت تم پکار کر کہہ دینا کہ شکستہ دل راحیل اگر چہ یہودی تھی مگر سچی ، وفادار اور پیار کا گلشن تھی۔

بادشاہ کا رول مختصر ہی سہی مگر راحیل کے لیے اس کا عادلانہ رویہ اور منصفانہ سلوک اس کے کردار کو عظمت اور بلندی بخشتا ہے۔ ایک طرف بیٹا ہے اور دوسری طرف قانون، مگر بادشاہ بیٹے کی محبت پر قانون کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کی انصاف پسندی ہی اس کے کردار کا جمال بھی ہے اور جلال بھی۔

مارکس رومی شہزادہ ہوتے ہوئے بھی راحیل سے محبت کرتا ہے مگر اس سے شادی کرنے کے لیے اپنے مذہب کو ترک کرنے پر راضی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے ملک کے قانون کے خلاف کسی یہودی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہے اور راحیل کو بھُلا بھی نہیں سکتا۔ راحیل جب بادشاہ سے اپنی داستانِ غم سناتی ہے تو مارکس اپنے جرم کا اقرار کرنے میں ہچکچاتا نہیں۔ یہی اس کے کردار کی خوبی ہے کہ وہ سچ کا دامن نہیں چھوڑتا اور اسی وجہ سے وہ سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ جب عزرا اور راحیل پر مقدمہ چلتا ہے تو وہ بروٹس سے راحیل کو بچانے کی درخواست کرتا ہے۔ آخر میں وہ راحیل سے اپنی گزشتہ زیادتیوں کی معافی مانگتا ہے۔

مارکس کے کردار کے ذریعہ حشرؔ نے ایسے افراد کی تصویر کشی کی ہے جو قانون کے سامنے بے بس اور محبت کے ہاتھوں مجبور ہیں اور کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر ساتھ ہی انھیں اپنی کمزوریوں کا احساس بھی ہے۔

بروٹس انتہائی ظالم ، سفاک اور جابر رومی ہے۔ راحیل جب مارکس پر دغا بازی کا مقدمہ واپس لیتی ہے تو عزرا اور راحیل کو کھولتے ہوئے تیل کے کڑھاؤ میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے۔ اس وقت عزرا جب یہ راز بتاتا ہے کہ راحیل در اصل بروٹس کی بیٹی ہے اس کی نہیں ، یہ ایک لمحہ بروٹس کی زندگی اور شخصیت کا رخ بدل دیتا ہے۔ ظالم بروٹس کے سینے میں پدرانہ محبت کا طوفان برپا ہو جاتا ہے اور وہ عزرا سے گڑگڑا کر التجا کرتا اور راحیل کی زندگی کی بھیک مانگتا ہے۔

ڈیسیا کا کردار بھی صاف ستھرا اور نسائیت سے بھر پور ہے۔ وہ مارکس سے بیحد محبت کرتی ہے اور شہزادی ہوتے ہوئے راحیل سے اپنے محبوب اور منگیتر مارکس کی زندگی بچانے کی التجا کرتی ہے۔

اس ڈرامے کے کردار ایسے کردار ہیں جو قاری اور ناظر پر گہرا  تأثر چھوڑتے ہیں۔ یہ کردار ہمارے معاشرے کے جانے پہچانے انسان ہیں جو اچھائی برائی،نیکی بدی اور انسانی احساسات و جذبات کی زندہ اور متحرک تصویریں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔

          زبان و بیان:۔مکالموں میں جوشِ بیان اور شدتِ جذبات کے باوجود تکلّف اور تصنّع بہت کم ہے۔ تشبیہات خوبصورت اور د ل آویز ہیں۔ اشعار کا استعمال کرداروں کی شخصیت اور ان کی قلبی کیفیات کو ابھارنے کے لیے بڑی فنکاری سے کیا گیا ہے۔ مقفیٰ اور غیر مقفیٰ نثری مکالموں اور چھوٹے چھوٹے فقروں سے ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے میں حشر نے بڑی چابکدستی سے کام لیا ہے۔ حشرؔ نے قافیے کو اس خوبصورتی سے نباہا ہے کہ عبارت میں بے ساختگی و پرکاری اور ادبی حسن کے ساتھ ساتھ ڈرامائی لطف و اثر قاری کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ زبان کی سلاست ، سادگی اور روانی اس ڈرامے کا طرّۂ امتیاز ہے۔

’’یہودی کی لڑکی‘‘ میں گانے بہت کم ہیں۔ جو ہیں وہ بیحد دلکش اور مترنم ہیں۔

’’یہودی کی لڑکی ‘‘ میں اصل ڈرامے کے ساتھ کامک بھی شامل ہے۔ اس کامک کا اصل کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہے سوائے اس کے کہ   رومن سرداروں کی مہربانی سے ’’گھسیٹا‘‘ حجام پوسٹ مین بن جاتا ہے۔

اس کامک میں آغا حشرؔ نے انگریزی تہذیب و معاشرت پر بھر پور مزاح کے ساتھ ساتھ نشتر زنی بھی کی ہے اس کے علاوہ شاعری کے نام پر کی جانے والی تُک بندی پر طنز کیا گیا ہے۔

بہرحال یہ کامک عام دلچسپی اور پسندیدگی کا حامل ہے۔

آغا حشرؔ کے اس ڈرامے کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر چھوٹی بڑی کمپنی نے اس کو پیش کیا۔

’’یہودی کی لڑکی‘‘ ادبی، سیاسی ، اور سماجی، ہر صورت سے حشرؔ کا ایک عظیم کارنامہ اور اردو زبان کا ایک شاہکار ہے۔

 

               ڈرامے کے کردار

          مردانہ

بادشاہ :۔          مارکس کا باپ

کینشش:۔         راہبِ سلطنت

مارکس:۔         راحیل اور ڈیسیا کا عاشق

عزرا  :۔*          یہودی سوداگر

بروٹس :۔         مذہبی پیشوا

          زنانہ

ڈیسیا :۔ شہزادی، مارکس کی محبوبہ

راحیل : عزرا کی بیٹی

جونا:۔    شاہی خادمہ

       نیز چوب دار، سپاہی ، منادی والا، گانے والی سہیلیاں ، سردار وغیرہ

*عزرا  ’’یہودی کی لڑکی ‘‘  میں مرد کا کردار ہے ، اس لئے عزرا لکھنا ہی صحیح اور درست ہے۔  دوسرے نسخوں میں عذرا لکھا ہے جو غلط ہے۔

کامک

          مردانہ

          گھسیٹا     :۔       حجام ،  پوسٹ مین ، چمپا کا خاوند روز کا عاشق

          مسیتا      :۔      ایک  بیرا ، روز کا طالب

          پھول من :۔      چمپا کا عاشق

          مسٹر وڈ   :۔       ایلس کا بدمزاج شوہر

          زنانہ

          چمپا      :۔       گھسیٹا کی بیوی

          ایلس    :۔       مسٹر وڈ کی بیوی

          روز       :۔       الفریڈ

          بڑھیا    :۔

پہلا باب

               پہلا سین

(سہیلیوں کا حمد گاتے ہوئے  آنا)

          گانا

          والی تو جگ کا ہے مالی،جل میں تھل میں تیرے  نور کی تجلی دیکھی مورے والی، ڈالی ڈالی کوئلیا کوکے گن تورے ، برگ وبار کوہسار  ہرا بھرا،کُنجن کے بن میں ، صدف کے من میں ، ہے لعل یمن میں ،سیّاں کے من میں۔والی تو  جگ  کا ہے مالی …

(سین ختم)

                دوسرا سین

محل

(سہیلیوں کا گاتے دکھائی دینا)

سکھی جوبن کے ماتے ہیں ، کیسے تیکھے پیارے نجریا کے بان جن نینن کے سنگ چھیڑ  کرے ، وارے اپنی جان۔سکھی جوبن…

ڈیسیا:۔ باتیں نہ ایسی بناؤ ناری۔گوئیاں بول نہ لاگے مو کو بھلے ، برکھا رین   موہے سو ہے ناہیں۔ سکھ چندر جوت نہ آئے۔

سب:۔مانو ری جوبن کیسی سندریا۔ سکھ درشن امرت واپر۔ مانوری گوئیاں کرو نہ ابھمان۔

(ڈیسیا کا گانا)

وقت کانٹا سا کھٹکتا ہے نکلتا ہی نہیں

دن عجب چھاتی کا پتھر ہے کہ ڈھلتا ہی نہیں

گردشِ تقدیر سے الٹا ، اثر تدبیر کا

وہ بھی اب ملتا نہیں جو تھا مری تقدیر کا

جونا :۔ پیاری ڈیسیا ! پہلے تو شہزادے صاحب نے مجھے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا ، مگر میں نے سامنے ہو کر انھیں گھیر لیا۔

ڈیسیا :۔ تب تو ضرور خوش ہو کر مجھے پوچھا ہو گا؟

جونا:۔ پوچھا نہ پریکھا، وہاں تو کچھ اور ہی ہے لیکھا    ؂

تمھیں بت مان کر کرتا تھا جو توقیر پتھر کی

اب اس کے دل میں شاید آ گئی تاثیر پتھر کی

ڈیسیا:۔   ؂

تو اس کا پیار کیا سمجھے گی اے تصویر پتھر کی

اگر سمجھے تو ہو جائے  بتِ بے پیر پتھر کی

جونا:۔   ؂

نہ رکھو اس بتِ عیار کا خنجر کلیجے میں

بس اب رکھ لو تم اس بت کی جگہ پتھر کلیجے میں

ڈیسیا :۔    ؂

چبھوتی ہے تو اے جلاّد کیوں خنجر کلیجے میں

زباں تیری اترتی ہے چھری بن کر کلیجے میں

جونا:۔ پیاری ڈیسیا ! شہزادے کی سواری آ رہی ہے ، اب جی بھر کر دیکھ لیجیے۔

(سہیلیوں کا جانا)

(ڈیسیا کا آ کر شہزادے مارکس سے اظہارِ محبت کرنا اور گانا)

(گانا)

دیکھو بلماں موری ، بالی عمر یا … میں بل بل جاؤں، گروا لگاؤں ، سجن موہن کو رجھاؤں ، آؤ جان، ہوئے نیناں دشمن میری جان کے ، جگر پر ہیں چر کے نجربان کے ، دلدار ، غم خوار، جان نثار ! توپ ہ جوبن اپنا واروں۔ آؤ جان …

          مر مٹی تیرے لیے اور تجھے دھیان نہیں

          غیر کا درد نہ ہو جس میں وہ انسان نہیں

          اے دغا باز، جفا کار نہ ٹھکرا دل کو

          توڑنا سہل ہے پر جوڑنا آسان نہیں

ڈیسیا:۔ مارکس! میرے پیارے دل رُبا !

مارکس:۔ڈیسیا! تم یہاں کس فراق میں ؟

ڈ  یسیا:۔ تمھارے اشتیاق میں    ؂

 آئے نہ میرے پاس کئی دن گزر گئے

اب کیا ہم ایسے آپ کے دل سے اتر گئے

مارکس:۔

جو دن تھے آنے جانے کے وہ دن گزر گئے

اب تو خبر نہیں کدھر آئے کدھر گئے

 ڈ  یسیا:۔ بے وفا ! کیا دل دینے والی کی یہی سزا ہوتی ہے ؟

مارکس:۔ غبار اسی طرف کو جاتا ہے جدھر کی ہوا ہوتی ہے۔

ڈیسیا:۔ ڈیر مارکس! نگاہوں کا وہ میل کیا ہو ا؟

مارکس:۔ کیا جانوں پتلیوں کا وہ کھیل کیا ہوا !

ڈ یسیا:۔ پیارے مارکس ! تمھاری چال ڈھال۔ صورت وہی ہے ، مگر نہ وہ دل ہے نہ وہ نظر۔ ہائے    ؂

جو نظر اب ہے وہ پہلے تری بے دید نہ تھی

اس طرح آنکھ بدل لے گا یہ امید نہ تھی

         آخر پیارے مارکس! اس بے رخی کا سبب ؟

مارکس:۔ کچھ نہیں۔

ڈیسیا:۔ اس ناراضگی کا باعث؟

مارکس :۔ کوئی نہیں۔

ڈیسیا:۔ پھر کیا ہو گیا؟

مارکس:۔ سودا ہو گیا۔

ڈیسیا:۔ ہوش و    والــحواس کدھر گئے ؟

مارکس:۔ محروم آرزوؤں کے ساتھ وہ بھی مر گئے۔

ڈیسیا:۔ تو کیا اب تم سے کوئی امید نہیں؟

مارکس:۔ امید دلانے والی چیز ہی میرے پاس نہیں۔

ڈیسیا:۔ وہ کیا؟

مارکس:۔ دل!

میں دل کو روؤں گا دل روئے گا عمر بھر مجھ کو

نہ میری دل کو خبر ہے ، نہ دل کی ہے خبر مجھ کو

ڈیسیا:۔ ارے یہ کیا رمز ، کیا معمہ ہے ؟

مارکس:۔ یہی کہ دل اب نکما ہے۔ میرا ساتھ چھوڑ دو ، اپنا ہاتھ ہٹا لو۔

ڈیسیا:۔ میرا دل دے دو۔ اپنا ہاتھ چھڑا لو۔

(منہ پھیر کر شہزادے کا چلا جانا ، ڈیسیا کا افسوس کرنا اور گانا)

گانا

کسی ظالم کے پھندے میں آنا نہیں

دل کسی بے وفا سے لگانا نہیں

اس کی زلفوں میں دل کو پھنسانا نہیں

ہائے ظالم کو اس دل نے جانا نہیں

چاہ کر نا کسی نے بھی جانا نہیں

پیار کرنے کا گویا زمانا نہیں

(ڈیسیا اور سہیلیوں کا مل کر گانا)

ڈیسیا:۔ موہے کا ہے عالی رے پیروا تر ساوے ، نارے غم جیاں کلپنیاں جل گیاں سیاّں۔

سہیلی:۔ آہیں یہ بھرنا ، جیا میں جلنا ، من کو کرو نہ ہلکان، ذی شان۔

ڈیسیا:۔ پیت نے ماری بر ہا کٹاری، جائے جیا کے پار۔

سہیلی:۔ دکھ ہا ری، اے پیاری ، ہر باری ہم واری۔

ڈیسیا:۔ گئے چھانٹر موہے بلماں، اک آگ لگی ہے تن ماں،جل خاک بھئی من ماں،دکھ دیت ہے اب سیّاں۔

سہیلی:۔ بے قرار بار بار ہو کر چین رکھو جان۔

ڈیسیا:۔ موہے کا ہے …

(سین ختم)

                 تیسرا سین

ر ا ستہ

(راحیل کا گانا)

دل تیرِ ادا  کا نشانہ ہوا،یہ نشانہ ہوا،تھا اپنا مگر اب بیگانہ ہوا،آنکھ مِلتے ہی ظالم  روانہ ہو ا۔ دل…

شیدا ہوا  یہ دل نازک  بدن پر ،غنچہ دہن پر۔ تیرے ہونٹ ہیں لعلِ یمن، یہ زلف ہے مُشکِ ختن    ؂

کیفِ شرابِ ہستی ہے اک عذاب ہم کو

زنجیرِ آتشیں ہے موجِ شراب ہم کو

آرام ہجر کی شب آئے تو کیوں کر آئے

ہے موت ہی میسر ہم کو ، نہ خواب ہم کو

(مارکس کا یہودی لباس میں آنا)

مارکس:۔

 کرتی ہے آتشِ غم تیری کباب ہم کو

پھونکے ہی جا رہا ہے یہ اجتناب ہم کو

الفت میں تم پریشاں، فرقت میں ہم ہیں نالاں

وہاں اضطراب تم کو ، یہاں اضطراب ہم کو

پیاری راحیل !میری یہ خواہش ہے کہ تم چہرے پر نقاب ڈالے بغیر گھر سے باہر نہ نکلا کرو۔

راحیل:۔ کیوں پیارے ! اس کی وجہ؟

مارکس:۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح بارش سے دُھلے ہوئے صاف آسمان پر چاند کی شعاعیں دور دور پھیل جاتی ہیں تو تمام دنیا مستی میں ڈوبی ہوئی پُر شوق نگاہوں سے دلفریبی پر قربان ہونے لگتی ہے ، اس طرح جب تمھارے گلابی رخساروں کے عکس سے کائنات کا ذرہ ذرہ جگمگانے اور ہنسنے لگتا ہے تو قدر ت کی مخلوق ہی نہیں خود قدرت بھی تمھیں پیار سے دیکھنے لگتی ہے     ؂

ہے نظر کاتب کی اپنے ہاتھ کی تحریر پر

خود مصوّر ہی لٹا جاتا ہے اس تصویر پر

راحیل:۔ تو کیا پیارے تم رشک کرتے ہو؟

مارکس:۔ رشک ! میں اس لباس پر رشک کرتا ہوں جو تمھارے خوبصورت جسم کو ہر وقت آغوش میں لیے رہتا ہے ، میں اس گلے کے ہار پر رشک کرتا ہوں جو اس دلفریب سینے کے ابھار کو ہر وقت بوسے دیا کرتا ہے ، میں ہوا کے جھونکے پر ر شک کرتا ہوں جو ان ناگنوں کے پاس سے نڈر ہو کر نکلتا ہے۔ یہاں تک کہ میں تمھارے سایے سے رشک کرتا ہوں جو تمھارے قدموں کے ساتھ ساتھ لپٹا ہوا چلتا ہے۔   ؂

بندھی ہے ٹکٹکی سب آزما تے ہیں نصیب اپنا

جسے میں دیکھتا ہوں اس کو پاتا ہوں رقیب اپنا

جو حسرت ہے تو یہ حسرت نہ کوئی ہو مقابل میں

تمھیں آنکھوں میں رکھ لوں اور ان آنکھوں کو اس دل میں

(دونوں کا گانا)

سمندِ ناز پر کھولے ہوئے وہ بال پھرتے ہیں

بچے کب طائرِ دل جب ہوا میں جال پھرتے ہیں

پھول سے گالوں پر ، ناگن سے بالوں پر ، میں ہوا فدا ، دل رُبا۔

راحیل:۔ مت واری چالوں کی ، گھونگر سے بالوں کی زنجیر میں ہوں  اسیر    ؂

اسیر پنجۂ عہدِ شباب کر کے مجھے

کہا ں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے

کسی کے دردِ محبت نے عمر بھر کے لیے

خدا سے مانگ لیا، انتخاب کر کے مجھے

مارکس:۔ ا برو کٹاری ، سینے یہ ماری تیغِ دودھاری۔ اے جان! پھول سے گالوں …

(دونوں کا گاتے ہوئے جانا)

(منادی والے کا  آنا)

منادی والا:۔اے باشندگانِ روم!تم کو تاج دار دینی کونسل کا حکم  ڈھنڈورے کی بلند آواز کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ آج چونکہ رومی دیوتاؤں کا مقدس دن ہے اس لیے روم کے قانون کے مطابق ہر جگہ جشنِ عام ہو۔ ہر صحبت  میں ہنگامۂ بادہ و جام ہو۔ تین شبانہ روز تک تعطیل ہی تعطیل ہو۔ ہر کام میں التوا ، ہر دھندے میں ڈھیل ہو۔ جو شاہی کونسل کے خلاف عمل میں لائے گا وہ روم کے قانون کے مطابق زندہ آگ میں جلایا جائے گا۔

ایک شخص :۔ اجی میاں منادی والے !یہ تو کہو کہ تین دن تک تمام کارو بار بند کر کے جشن منانے کا حکم صرف دیوتا کی پیاری قوم ، یعنی رومن لوگوں کے لیے ہے یا پارسی ، عیسائی ، یہودی ، سب کو تین دن کی مدت قابلِ احترام ہے۔

منادی والا:۔ سب کے لیے ، جو لوگ رومی دیوتاؤں کو نہیں مانتے ان کے لیے بھی۔

وہی شخص:۔مگر جو لوگ تمھارے دیوتاؤں کو مانتے ہی نہیں وہ کیوں کر جشن منائیں گے۔

منادی والا:۔ نہ منائیں گے تو رومن قوم کے دشمن قرار دے کر زندہ آگ میں جلائے جائیں گے۔

 (سب کا جانا ، رومن افسروں کا داخل ہونا، شور و غل کی آوازیں)

کینشش:۔ آج کے دن یہ شور و شر کیسا ؟ عین عبادت میں یہ ضر ر کیسا؟

ایک سردار :۔ عالی جاہ ! یہ اسی لا یعنی عبرانی کا کارنامہ ہے۔

کینشش:۔کیا  ڈھنڈورے کی آواز اس کے مکان کے دروازوں اور کھڑکیوں سے ہو کر اس کے کان تک نہیں پہنچی؟کیا اس نے ہمارے شہنشاہ اور ہماری مذہبی کونسل کا حکم نہیں سنا؟

دوسرا سردار:۔ نہیں !حضور سنا ہو گا ، مگر یہ کمترین یہودی ہمارے رومن دیوتاؤں سے قلبی خصومت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمارے کسی حکم کی پروا نہیں کرتے۔

کینشش:۔اَن دیکھے خدا پر بھروسہ رکھنے والے کا فر کی یہ حرکت !ہم سے اور ہمارے مذہبی حکم سے یہ نفرت  ! جاؤ اور اسے ڈاڑھی سے پکڑ کر منہ پر تھوکتے ہوئے یہاں لے آؤ۔

(یہودی کو پکڑ کر لانا)

سردار  (۱):۔ کرو سجدہ۔

یہودی:۔ کسے سجدہ ؟

سردار:۔ اس عا لی شان کو۔

یہودی:۔ (عزرا) اس فانی انسان کو ؟ ہم سجدہ کرتے ہیں اپنے سبحان کو   ؂

ٹکڑے مرے اڑ جائیں گے یہ ڈر کر نہ جھکے گا

آگے کسی انسان کے یہ سر نہ جھکے گا

دوسرا سردار:۔ آگے بڑھ اور جھک ان قدموں کے آگے

عزرا:۔ جھکوں؟ کس کے آگے ؟ ان قدموں کے آگے جن قدموں نے اس سر سے بھی زیادہ سفید اور بوڑھے سروں کو ٹھوکریں ماری ہیں ، جنھوں نے اپنی جوانی کی ضربوں سے مظلوم قوم کے سینوں کی ہڈیاں توڑ ڈالی ہیں۔ نہیں ،میں کبھی نہیں جھکوں گا۔   ؂

قیامتیں ہوں کہ آفتیں ہوں ، جہان جائے کہ جان جائے

مگر یہ ممکن نہیں ہے ہرگز کہ اس بندے کی آن جائے

اس کی چوکھٹ پہ ہو گا سجدہ، جدھر وہ ہو گا اُدھر جھکے گا

بجز خدا کے کسی کے آگے نہ دل جھکا ہے نہ سر جھکے گا

کینشش:۔ مفسد ! باغی ! ہماری رسموں اور مذہبی تیوہاروں کے ساتھ اعلانیہ نفرت کا اظہار کرنا اور پھر دنیا کے سامنے اپنی بے گناہی آشکار ا کرنا۔ ذلیلو! اگر ہم جانتے تو تمھیں آزادی اور زندگی کبھی نہ بخشتے۔

عزرا:۔ اس ملک میں آزادی اور زندگی! یہ دونوں کہاں ہیں ؟ ہماری قوم کے لیے یہ دونوں چیزیں کسی قیمت پر نہیں مل سکتیں۔ تم میں رحم ،انصاف اور ایمانداری کہاں ہے ؟ ہماری زندگی کے لیے قدم قدم پر ذلت ہے ، ندامت ہے ، شرمندگی ہے۔    ؂

شجرِ زیست کے چن چن کے ثمر توڑے ہیں

تم نے دل توڑے ہیں سب کے کہ جگر توڑے ہیں

ایسے ظالم ہو کہ تم نے کوئی دو چار نہیں

سینکڑوں لاکھوں ہی اللہ کے گھر توڑے ہیں

کینشش:۔

صاحبو ! سنیں  تم نے باتیں خصومت کی

یہ سراسر توہین ہے رومن حکومت کی

عزرا:۔ اگر رحم نہ ہو تو حکومت کس کام کی؟ بے انصاف کی بہادری ہے بے نام کی، تم نے اگلے وقتوں میں ہماری قوم پر جو جو ظلم کیے ہیں وہ اس دل پر خون کے حرفوں سے لکھے ہوئے ہیں۔     ؂

ہمارے سر پہ ہزاروں ستم ہیں ڈھائے گئے

ہمارے جھونپڑے توڑے گئے جلائے گئے

تمھیں ہو جو کہ ہمیشہ ہمیں ستائے گئے

ہمیں ہیں جو کہ تمھارے ستم اٹھائے گئے

سردار:۔ یہ ہمارے دیوتاؤں کا سخت دشمن ہے۔

عزرا:۔ نہ ہم کسی کے دشمن نہ بد خواہ۔ تم اپنی راہ لو اور ہم اپنی راہ۔    ؂

ہر ایک اپنے مذہب کا دور بین خود ہے

عیسیٰ بدین خود ہے موسیٰ بدین خود ہے

سردار:۔ ہمارا خدا عیاں ہے ، مگر تمھارا خدا کہاں ہے ؟

عزرا:۔ ہمارا خد ا یہاں ہے ، وہاں ہے ، محیطِ زمیں ہے ، مدارِ آسماں ہے۔

سردار :۔ خدا اگر ظاہر نہیں ، بر ملا نہیں تو کچھ نہیں۔

عزرا:۔ خدا ہی سے ہے خدائی ساری، خدا نہیں تو کچھ نہیں۔

(راحیل کا آنا)

راحیل :۔ کیا ہوا  اے نیک حاکمو! ہماری کیا خطا؟

کینشش:۔ خاموش ! اے سر زن ، سر انداز ! ابھی یہ آواز  کیسی تھی؟

راحیل:۔ ہمارے کام کاج کی تھی اور آواز کیسی تھی؟

کینشش:۔ کیا آج کے دن کام کاج کے لیے امتناعِ عام نہ تھا۔

عزرا:۔ تمھارا امتناعِ عام خدا کا کلام نہ تھا۔

کینشش:۔ ہمارے یہاں بادہ و جام کا نیک انجام نہیں۔

عزرا:۔   ؂

نہ شوقِ بادہ رکھتے ہیں ،نہ ذوقِ جامِ کرتے ہیں

خدا کا نام جیتے ہیں اور اپنا کام کرتے ہیں

کینشش:۔

صاحبو ! سنیں آپ نے باتیں خصومت کی

یہ سراسر توہین ہے رومن حکومت کی

عزرا:۔ آگ پر جب تپتی ہوئی دیگچی چڑھائی جائے گی تو ضرور جوش کھائے گی۔   ؂

دل میں شرارِ درد ہو ، لب پر فغاں نہ ہو

ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو

(یہودی کو سزا دینے کا حکم دیتا ہے )

کینشش:۔

یہ تو پہلی چھیڑ ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

راحیل:۔ پیارے ابّا ! غم نہ کھاؤ۔ اے رومن سردار ! میں تمھاری کنیز بنوں گی، خطِ غلامی لکھ دوں گی ، ہمارا گھر لو مگر ہماری جانیں بخش دو ، رحم کو کام میں لاؤ۔

کینشش:۔ جان کبھی نہ بچے گی اس بوڑھے نادان کی ، اب خیر نہیں اس بد زبان کی۔

راحیل:۔ جو پانی کا قطرہ انگلی کے سرے پر آ رہا ہے اور آپ ہی ٹپکا چاہتا ہے اُسے خاک میں ملا کر گنہ گار نہ  بنو ، جہنم کے سزاوار نہ بنو۔

کینشش:۔ تیری التجا بیکار ہے۔ یہ گنہ گار سزا کا سزاوار ہے۔ لے جاؤ اور اسے کھولتے ہوئے تیل کے کڑھاؤ میں تل کر قعرِ عدم کو پہنچاؤ۔

عزرا:۔ بیٹا ! ظالم  کی نگاہ میں رحم کی جھلک نہیں ہوتی۔ دیکھ لو سانپ کی نگاہ میں جھپک نہیں ہوتی۔

کینشش:۔ بس چپ کراؤ اس دیوانے کو اور لے جاؤ آگ میں ، جلانے اس کو ، جان سے مٹانے کو۔

راحیل:۔ (رومن سردار سے ) اے رحم کے دشمنو ! اس قدر سخت دل نہ بن جاؤ۔ للہ رحم کھاؤ۔    ؂

رحم کا ساماں کیا ہوتا نہیں خونخوار میں

آگ بھی موجود ہے ،پانی بھی ہے ، تلوار میں

چھوڑو نہ عفو و رحم کے سامان کا سامنا

اک دن تمھیں بھی کرنا ہے یزداں کا سامنا

راحیل:۔ (عزرا سے ) میں نے سنا ہے کہ رومن دیوتا بہت رحم دل ہوتے ہیں۔ پیارے ابّا اِدھر آؤ اور ان کے دیوتاؤں کے دروازے میں پناہ لے کر جان بچاؤ۔

عزرا:۔ نہیں ! زنہار نہیں ! کیا میں ان کے مندر میں خدا سے بے وفائی کرنے جاؤں۔ ان کے دیوتاؤں کی پناہ میں بھاگ کر جان بچاؤں۔    ؂

دنیائے چند روزہ کی خواہش فضول ہے

ایسے ذلیل جینے سے مرنا قبول ہے

کینشش:۔بس لے جاؤ ! لے جاؤ !

راحیل :۔ نہیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔

کینشش :۔ نہ ہو گا؟ اچھا نہ سہی ، لے جاؤ، دونوں کو سزا دو، اس یہودی کے ساتھ اس لڑکی کو بھی جلا دو۔

عزرا:۔ ارے نہیں ، اس پر ستم نہ ڈھاؤ۔ اس دن کو بھی یاد کرو ، جب تمھیں پیس کر کھا نے والی بتیس دانتوں کی چکی بے وفا ہو کر تم سے جدا ہو جائے گی ، جب اس دروازے  کے دربانوں پر بلائے نا گہانی آئے گی ، میں اب تک پتھر تھا ، اب پانی ہوں ، گدائے مہربانی ہوں ، مجھے مارو ، جلاؤ، مگر اس پر رحم کھاؤ۔

کینشش:۔ مجرم پر رحم کھانا قانون کے خلاف ہے ، ایسے سرکشوں کا مارا جانا بہترین انصاف ہے۔

عزرا:۔ ایک معصوم کی جان کو پناہ نہیں ، اچھا کچھ پروا نہیں۔ اندیشہ نہیں ، اچھا چلو اور مردانہ وار چلو۔ بھر لو، او ستم شعار و ! اس خونِ ناحق سے اپنا دامن بھر لو ، کوئلے کی دلاّلی سے اپنا ہاتھ منہ کالا کر لو۔

کینشش :۔ لے جاؤ ، بس فوراً لے جاؤ۔

(مارکس کا آنا)

مارکس :۔ ٹھہر ، او بے درد رومن سردار ٹھہر !

راحیل :۔ پیارے منشیہ بھاگ جاؤ، بھاگ جاؤ ، ورنہ یہ جنونی تمھیں بھی یہودی سمجھ کر مار ڈالیں گے۔

مارکس:۔ پیاری ! بھروسہ کرو، یہ ہمارا کچھ نہیں کر سکتے     ؂

ہو گی نہ اماں ہرگز شمشیر سے دم کی

دم بھر میں دکھائے گی یہ راہ عدم کی

تلوار نہیں پیکِ اجل کی یہ چھڑی ہے

دوزخ کی زبانوں سے بھی آگ  اس کی بڑی ہے

کینشش:۔ کیوں دیر لگا ر ہے ہو ؟ لے جاؤ۔

مارکس :۔ معاف کر ، اے رومن سردار معاف کر۔

کینشش:۔ کسے ؟

مارکس:۔ اسے۔

کینشش:۔ کس لیے ؟

مارکس:۔ اس لیے کہ یہ تمھارے قدموں کے آگے گرا ہوا ہے اور گری ہوئی دیوار پر چڑھ کرکو دنا مردانگی نہیں ، اس لیے ہٹ جاؤ، اسے نہ ستاؤ۔

کینشش:۔ یہ حمایت کس لیے ؟ اس خود سر یہودی کے لیے ؟  ہمارے دین کے دشمن کے لیے ؟

مارکس:۔یہودی ہو یا عیسائی ، یورپ کا باشندہ ہو یا ایشیائی ، بد ہو یا نیک ، مگر خدا کے رحم و کرم کی نظر سب پر ہے ایک۔

کینشش:۔ مجرم کا حمایتی بھی مجرم ہوتا ہے۔ اسے بھی باندھ لو۔ دیر نہ لگاؤ۔

مارکس:۔ کم بختو !   مردارو !بھالے نیچے جھکا لو۔

کینشش:۔ کس کے حکم سے ؟

مارکس:۔ میرے حکم سے۔

کینشش :۔ تو کون ہے ؟

مارکس:۔ ادھر دیکھو۔

کینشش:۔ کون؟ شہزادہ مارکس !

مارکس:۔ چپ رہ ، ذلیل ناکس۔

(سین ختم )

               چوتھا سین

کامک .. مکان

گھسیٹا:۔ ہت تیری اے ، بی،سی،ڈی کی قسمت میں نمدا ہمارا نصیبا آج کل سکندر کی جوتی کے ساتھ مل گیا۔اب کسی سے کلام بھی نہیں کرتا ہوں اور سلام بھی لیتا ہوں تو سر کے اشارے سے۔ اب پوچھیے کیوں؟ اس لیے کہ میں پہلا جیسا گھسیٹا حجام نہیں رہا، ایک دم ڈاک منشی ہو گیا ہوں۔ اوو!ٹائم از اوور  (O! time is over)

گانا

                               نائی سے ٹائی لگا کر بنا میں کیسا جنٹلمین۔ چھوڑی ہے دیسی لین،  مجھ سے ڈرتے ہیں اب پوسٹ مین، واہ وا ! جس کو ہو ایک ماہ میں تھری تھاؤزنڈ انکم، اسی ملکہ کو بناؤں اپنی میڈم ، تا کہ کہلاؤں میں جنٹلمین۔       ؂

پہلے کنجڑے چمار بھی کہتے تھے باربر

 اب اچھے اچھے کہتے ہیں دی پوسٹ ماسٹر

          دیکھو استرے کی صفائی ، کہاں تک ہے رسائی ، رومن سرداروں کی مہربانی، قدردانی سے پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر ہوں جائنٹ۔نائی سے ٹائی لگا کر…

(سین ختم)

               پانچواں سین

ڈاک خانہ

گھسیٹا: اچھا اب پارسلوں کی قیمت جمانی چاہئے اور سرکاری رقم کی بِدھ ملانی چاہئے ،۳،۳،۳،۶،۶،۶ اور چھ بارہ ، بارہ کا ایک آنہ۔

(چپر اسی کا  آنا)

چپراسی : با بو جی! دوگُڈ مین آیا ہے۔

 گھسیٹا   :  ہیں ! گُڈ مین؟ کیا بکتا ہے الّو؟

چپراسی : ارے بابو جی ! آپ سے دو گڈ مین ملنا چاہتا ہے۔

 گھسیٹا : ارے کیا ! جنٹلمین ، جنٹلمین!

چپراسی : ارے ڈیم ! ان سے بولو کہ بابو جی اس وقت ولایت کی ڈاک دیکھتا ہے۔

 چپراسی : ارے ، پروہ تو یہ کھڑے ہیں۔ وہ آ گئے !

جنٹلمین: کیوں بابو صاحب ! ہم آ سکتے ہیں؟

 گھسیٹا: کبھی نہیں۔آپ کو کمرے کے اندر بغیر اجازت کے نہیں آنا چاہیے۔

دوسرا: مگر جس نے اجازت مانگی اسے تو آپ نے دھت بتائی ، کچھ پوچھنا ہو تو کس سے پوچھا جائے بھائی؟

گھسیٹا :ان کو میر ے آفس کا پتا بتاؤ، ہیڈ آفس کا دروازہ کھٹکھٹا ؤ، ہمارا سر نہ کھاؤ۔ دیوانہ!

پہلا:مگر یہ ڈاک خانہ ہے یا پاگل خانہ ! یہاں آدمی رہتے ہیں یا جانور ؟

گھسیٹا: جانور کا بچہ! خچر کے موافق ہم کیا تمھارے واسطے بیکار بیٹھا ہے۔بیس، بیس ، چھ چھبیس،چھبیس اور چھبیس باون، باون کے چار۔

 دوسرا : اجی میں مارتا ہوں اتار کر ایک پیزار۔

 پہلا :ٹھہرو تو یار، اجی سر کار ہم گولڈ اسٹون اینڈ کو کے ایجنٹ ہیں، ہم نے کچھ غلہ بھیجا تھا اس کی رسید نہیں آئی۔

 گھسیٹا: رسید نہیں آئی؟ تو کیا میں گولڈ اسٹون کا چچا ہوں جو یہیں سے رسید کاٹ دوں۔

 پہلا:  شاید کوئی چٹھی آئی ہو اس وقت کی ڈاک سے۔

 گھسیٹا: چٹھی آئے گا تو تمہارے گھر پر مل جائے گا۔ تم کیا جانتا ہے ؟ یو ایڈیٹ۔

دوسرا: ہیں! ایڈیٹ ! ایڈیٹ ، تو اور تیرا باپ، پبلک کا نوکر ہو کر ایسی گستاخی؟  آخر کو ہے نا پاجی۔

گھسیٹا: ہیں! ہیں! پاجی! ایک ڈاک منشی پاجی! نکل جاؤ ، چلے جاؤ۔ایک سرکاری ملازم اور سرکاری کام، اگر میرا جیسا دوسرا ہوتا تو مداخلت بے جا کا دعویٰ کر دیتا ، دونوں پاجی کے بچوں کو ابھی ابھی جیل خانہ کرا دیتا۔ چالیس، بیالیس اور آٹھ پچاس ، پچاس کا صفر۔

 پہلا: واہ صاحب واہ! بے شک اپنے بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے ، آیئے صاحب آیئے !

گھسیٹا: اکّیس چھ ستائیس اور تین تیس۔

 دوسرا : افسوس قانون اجازت نہیں دیتا۔ اگر ہمارے بدلے کوئی دوسرا ہوتا تو لمبے بوٹ کی ٹھوکر مارتا اور بابو صاحب کا حلیہ بگاڑ دیتا۔

 گھسیٹا: ابے جا جا تجھ جیسے چھتیس پھرتے ہیں ،کمبخت جنٹلمین بنتے ہیں، لکچر بازیاں کرتے ہیں، ڈیم یو۔ تریپن، تریپن چھ انسٹھ ، اکسٹھ۔باسٹھ۔

خریدار: ٹکٹ ٹکٹ بابو جی ٹکٹ!

گھسیٹا: چھیالیس ، سنیتالیس، انچاس ، پچاس۔

 خریدار: ارے یہ کیا بکواس، دو آنے کے ٹکٹ دیجیے ، پیسے پیسے والے۔

 گھسیٹا: شٹ اپ یو فول! پہلے ہم اپنی میزان تو ملا لیں۔ رکھ دے پیسے اور کھڑا رہ  چپکا۔

 خریدار:ارے واہ! یہ ڈاک منشی ہے یا ہڑکا کتّا۔کھڑا کیوں رہوں؟ کیا میں چاکر ہوں؟

گھسیٹا: اور کیا میں تیرے باوا کا نوکر ہوں؟

خریدار: ابے تو نہیں دے گا؟ اس میں نقصان ہے کس کا ؟

گھسیٹا: نقصان کا بچہ ! کیا دو آنے کے ٹکٹ نہ بکنے سے آ جاتا ہے ٹکسال میں دھکا؟

خریدار: اچھا تو ہم آئندہ سے خط ہی نہ لکھیں گے۔ ڈاک کا سلسلہ ہی اڑا دیں گے۔ کم بخت کمیشن کے ڈر سے پھیر میں یہ اندھیر۔ ڈاک خانہ کے ٹکٹ بکنے لگے اور دینے والے ایسے الو کے پٹھے رہ گئے۔

(جانا )

گھسیٹا:چلو یہ بھی ٹلا، کم بختوں نے میرا بھیجا کھا لیا، تراسی تراسی اور چھ نواسی اور ایک نوے اور بارہ ایک سو دو۔ ہاتھ لگے دو۔

 (بڑھیا کا آنا)

بڑھیا: (آواز دے کر) ارے منشی جی: کیا دفتر میں ہیں؟ کیا یہی کمرہ ہے منشی جی کا؟

گھسیٹا: پھر آئی کو ئی بلا۔کم بختوں نے میرا حساب خراب کر دیا۔ آج تو تمام الّوؤں کا ڈربہ کھل گیا۔ ابے کون ہے ؟

بڑھیا: اجی منشی جی سلام۔

 گھسیٹا: اوہو یہ تو کسی بڑھیا کا ہے تام جھام۔ارے بڑھیا کیا بکتی ہے ؟جلدی بتا؟

بڑھیا: ہیں۔ بڑھیا کا لگا ! موئے تو نے بڑھیا کس کو کہا؟

گھسیٹا:ارے واہ نہ پیٹ میں تھاپ نہ منہ میں بھاپ اور ابھی تک ہے بڑھیا کو جوانی کا الاپ۔مگر تجھے کیا کام ہے نیک بخت؟

 بڑھیا:ہیں! نیک بخت ؟ ایک نو جوان عورت کی توہین۔ موئے۔ نیک بخت ہو گی تیری ماں، تیری بہن، تیرے ہوتے سوتے ، لو اور سنو؟ مجھ کو نیک بخت کہتا ہے۔

گھسیٹا: ارے تو کیا کہوں؟ بی مغلانی،کم بخت یا بد بخت؟

 بڑھیا: ارے جانی کیوں نہیں کہتا؟ جانی ، دل جانی۔

 گھسیٹا: ارے واہ رے نانی، لو بڑھیا سٹھیا گئی ہے۔ باؤلی ہو گئی ہے۔ ارے یہاں پر تو ہے ڈاک خانہ ،نہ کہ تیرے بڑھاپے کے عاشقوں کا دیوان خانہ۔ تو یہاں کیوں آئی ؟

بڑھیا: ارے آئی ہوں اپنے پوڈر کا پارسل لینے۔ اوئی مجھ نگوڑی کا تو آج کئی دن سے سنگھار ہی نہیں ہوا۔ میں حیران ہوں۔

 گھسیٹا: واہ رے تیرا سنگار، تجھ پر خدا کی مار، تن پر نہیں لتّا،پان کھاؤں البتہ ، چل نکل، پارسل آئے گا  تو تیرے منہ پر مارا جائے گا۔

بڑھیا: موئے بد زبان! تجھے اپنی ایڑی چوٹی پر کروں قربان، زیادہ بکواس لگائے گا  تو جوان عورت سے چھیڑ خانی کا مزہ پائے گا۔ہتک عزت کی نالش کروں گی۔ٹانگ میں رسی باندھ کر گلی گلی کھینچتی پھروں گی۔ ذلیل کروں گی۔

گھسیٹا: غضب ، غم، غصہ، آفت ، میں ڈاک منشی کیا ہوا کہ ایک عذاب میں پھنس گیا، کم بخت میرا دماغ چاٹ گئے ، مجھے دیوانہ بنا دیا۔

(گانا )

           ڈاک منشی، میں کیا بنا،آفت زحمت میں پھنس گیا، کوئی کہتا ہے لاؤ ٹکٹ، کوئی ڈنڈا مارے پھٹ پھٹ ، بھیجا ہوا پلپلا میرا، آفت زحمت میں پھنس گیا ، اب جو کوئی آئے کرے مجھ سے ایک بات ،سربھی اس کا توڑ ڈالوں، ماروں بھی لات، اسٹیم میرا بھی فل ہو گیا، ڈاک منشی میں کیا بنا…

(سین ختم )

                 چھٹا سین

عبادت گاہ

(یہودیوں کا گانا)

اے خداوند قدوس و برتر

اپنے بندوں پہ بھی اک نظر

ہیں بھکاری ترے در پہ آئے

تیری چوکھٹ پہ سر کو جھکائے

عاصی پُر معاصی ہیں ہم ، تیری رحمت کے امیدوار

غرقِ عصیاں پریشان ہیں ، تیری رحمت لگائے گی پار

عزرا:۔ بھائیو !  اسے سرپر چڑھاؤ اور ادب و احترام سے کھاؤ۔

مارکس:۔ (سائڈ میں*)  میں رومن ہو کر یہودیوں کی نذر نیاز کھاؤں ؟ نہیں ، میں ہرگز نہیں کھاؤں گا۔

راحیل:۔ ہیں ! سب نے کھایا مگر منشیہ نے لب تک نہ لگایا!اس نے پھینک دیا ! یہ کیا اسرار ہے۔     ؂

کیا مخالف کو دیا کیا صاحبِ   کیں  کو  د یا ؟

ہائے ہم نے اپنا دل کیا دشمنِ دیں کو دیا

(*گفتگو کا یہ حصہ مکالمہ نہیں کردار اپنے آپ سے مخاطب ہے۔ ڈراما کی اصطلاح میں اسے ASIDEیا علیحدہ کہتے ہیں ،یعنی کردار ایک طرف ہٹ کر کوئی ایسی بات کہتا ہے جو تماشائی تو سنتے ہیں ، لیکن اسٹیج کے دوسرے کردار نہیں سنتے۔)

عزرا:۔بھائیو ! اپنی جلا وطنی کا قریب اب زمانہ ہے ، حکمِ حاکم سے اسی مہینے ہمیں پیارا وطن چھوڑ جانا ہے۔ اس لیے     ؂

رہنا اس انجمن میں بہم اتفاق سے

سر کے نہ زینہار قدم اتفاق سے

آئے گا ہم کو ٹھگنے جو اس بزمِ پاک میں

اس کو خدا کا قہر ملا دے گا خاک میں

مارکس:۔ (سائڈ میں )اگر یہ مجھے اس وقت پہچان جائے تو اس دلِ دیوانہ کی بدولت میری جان جائے۔

(اندر سے آواز کا آنا)

آواز :۔ آہا بجھا دو ، سب قندیلیں بجھا دو ، رسم کے آثار چھپا دو۔

عزرا:۔ کون ہے یہ نرالے وقت کا آنے والا ؟

جونا:۔ (اندر سے ) شاہی آدمی ضروری کام پر۔ کھولو دروازہ شاہ ٹائٹس کے  نام پر۔

عزرا:۔ شاہی آدمی ؟ سب کے سب چور دروازے سے نکل جاؤ ؟ جلد اپنی جان بچاؤ۔

(سب کا جانا)

مارکس:۔ کیا میں بھی جاؤں؟

عزرا:۔ نہیں تم ایسے نازک وقت میں نہ جانا، کوئی آفت آ جائے تو مجھے بچانا۔

راحیل:۔ علیٰحدہ) یہ خلل بھی فائدے سے خالی نہیں۔ آج میں نیاز کی روٹی کا بھید اس سے لیے بغیر زنہار چھوڑ دینے والی نہیں (ظاہرا) منشیہ مل کر جانا۔ خبردار پتا نہ بتانا۔

(راحیل کا جانا)

مارکس:۔کیسی کڑی نگاہیں ! کہیں تاڑ تو نہیں گئی     ؂

شاہ سے چور ستم گرنے بنایا مجھ کو

کس مصیبت میں مرے دل نے پھنسایا مجھ کو

قصد کرتا ہوں جو اس جا سے کہیں جانے کا

دل یہ کہتا ہے تو جا میں نہیں جانے کا

(گانا )

عجب جان الجھن میں میری پڑی ہے

کہ زلفوں کی دل پر پڑی ہتھکڑی ہے

اجل ہی کے ہاتھوں سے نکلے گی آخر

جو تیری نگہ میرے دل میں گڑی ہے

نظر ملتے ہی زلفِ پیچاں میں الجھا

مرے پاؤں میں کیسی بیڑی پڑی ہے

نہ رہنے کی ہمت نہ جانے کا یارا

میرے سر پہ کیسی یہ آفت پڑی ہے

مری قبر ٹھوکر سے ہموار کر کے

کہا کیسی رستے میں ڈھیری پڑی ہے

عزرا:۔ آہا، شہزادی با شان و شوکت۔

مارکس:۔(سائڈ میں )ہیں! کون ؟ ڈیسیا۔ میری منگیتر    ؂

اب ایسے میں کہاں بھاگوں ، کدھر چپکا چلا جاؤں

زمین پھٹ جائے گر اے آسماں تا میں سما جاؤں

عزرا:۔ اے نشانِ والا شاہی ،کیا ہے فرمانِ شاہی؟

ڈیسیا:۔ خاص کار ہے۔ کون یہ گلِ بے خار ہے ؟

عزرا:۔ غلام کے کارخانہ کا کاریگر۔ آزمودہ کار ہے۔

ڈیسیا:۔ جونا دیکھ تو اس کی صورت پیارے مارکس سے ملتی ہے۔

مارکس:۔ (سائڈ میں) افسوس یہ مجھے پہچان جائے تو اس دلِ دیوانہ کی بدولت میری جان جائے۔

ڈیسیا:۔ تمھارے پاس نو لکھا ہار ہے ؟

عزرا:۔ جی جناب تیار ہے۔

ڈیسیا:۔لاؤ ، میں دیکھوں تو سہی کہ وہ ہار میرے عیسیٰ نفس مارکس کی صراحی دار گردن کا سزا وار ہے۔

مارکس:۔(سائڈ میں) ہائے کاش اسے خبر ہوتی کہ بو الہوس ما رکس کے گلے کا ہار کسی دوسرے ہی کی زلفوں کا تار ہے۔

عزرا :۔ تو ہار لاؤں؟

ڈیسیا:۔ ہاں، لاؤ جلدی لاؤ۔

مارکس:۔ میں جاؤں ؟

عزرا:۔ نہیں تم یہیں رہو۔

مارکس:۔ (سائڈ میں)

ہائے کیسے پھنس گئے کس پیچ کے پالے پڑے

کھل گئی قلعی اگر تو جان کے لالے پڑے

ڈیسیا:۔ جونا ! میں اس جوان یہودی سے بھی ایک کام بنواؤں گی یعنی پیارے مارکس کا ایک مونوگرام بنواؤں گی۔ ذرا ادھر تو آنا بھائی۔

مارکس:۔ (سائڈ میں) اب کم بختی آئی۔

جونا:۔ چلے آؤ۔ چلے آؤ،شہزادی بلاتی ہے۔

ڈیسیا:۔ تمھیں نقاشی آتی ہے ؟ (مارکس کا اشارے سے انکار) او باغ کے بوتے ، کچھ منھ سے بھی پھوٹے     ؂

یہ نگاہیں شرمگیں ، یہ آنکھ شرمائی ہوئی

ہے تو شکلِ یار یہ لیکن ہے مرجھائی ہوئی

راحیل:۔

ہے نظر حسرت زدہ اور آنکھ للچائی ہوئی

کیا مرے دل دار کی یہ بھی تمنائی ہوئی

عزرا:۔

یہ بھی گھبرایا ہوا اور وہ بھی گھبرائی ہوئی

دونوں پر یکساں تحیّر کی گھٹا چھائی ہوئی

حضور یہ رہا وہ ہار۔

ڈیسیا:۔ بے شک یہ ہار پُر بہار ہے ، اسے کل دربار میں لانا ، منہ مانگے دام لے جانا۔ کل یہ ہار اپنے نو بہار کو پہناؤں گی اور اس کے گلے کا ہار بن جاؤں گی۔   ؂

دل توڑ کے دل اس کا مسخرّ بناؤں گی

یہ گھر بگاڑ ڈالوں گی وہ گھر بناؤں گی

مارکس :۔ (سائڈ میں)

اس طرح کی با وفا سے بے وفائی تو نے کی

اے دلِ ناداں کیسی کج ادائی تو نے کی

ڈیسیا:۔ عزرا،اس ہار پر میرا اور میرے مارکس کا نام اس کاریگر سے کھدوانا

(جانا)

مارکس:۔

شکر ہے آج بچی جان بڑی مشکل سے

میری مشکل ہوئی آسان بڑی مشکل سے

راحیل:۔ منشیہ ، تمھارا پیار خاکستر ہے۔

مارکس:۔ راحیل، میرا پیار کا النقش فی الحجر ہے۔

راحیل:۔ کیا یہ کوئی طلمساتی گُل کھِلا ہوا ہے ؟

مارکس:۔ پیاری یہ دل تم سے ملا ہوا ہے۔

راحیل:۔ پھر تم رومنوں سے کیوں ملتے ہو ؟

مارکس:۔ کیا رومنوں سے مجھے کوئی لگاؤ ہے ؟

راحیل:۔ بلکہ ان پر تمھارا دباؤ ہے۔    ؂

ماہ جو تھا اب وہ ہے شبنم ہمارے سامنے

اب ترے میٹھے سخن ہیں سَم ہمارے سامنے

مارکس:۔

 پُر خطا ہی گر سمجھتی ہو تو دو ہم کو سزا

لو کھڑے ہیں ہاتھ باندھے ہم تمھارے سامنے

راحیل :۔

آہا کھڑے ہیں کیا یہ بچارے بنے ہوئے

گویا ہیں ہر طرح سے ہمارے بنے ہوئے

مارکس:۔

ہے کون اس جگہ پہ مری جاں تمھیں تو ہو

اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمھیں تو ہو

راحیل:۔

یہ باتیں جا کے تم کسی نادان سے کہو

کیا دین ہے تمھارا ؟ تم ایمان سے کہو

مارکس:۔

کہوں گا سب کہوں گا ، مو بمو تم کو جتا دوں گا

تم آنا باغ میں کل رات کو میں سب بتا دوں گا

(گانا )

سیر کر کے مرا گل رو جو چمن سے نکلا

مرحبا ، آفریں ہر گل کے دہن سے نکلا

ڈوب کر آدمی دریا سے ہزاروں نکلے

غرق ہو کر نہ کوئی چاہِ  ذقن سے نکلا

جادو بھرے نیناں یہ جاناں سنبھال۔ قتل کر دیں گے ، دیکھیں گے جدھر کو ، پیاری بے گناہوں کو کرو نہ حلال۔

راحیل :۔ خنجرِ ابرو سے دلبر نے دیے وہ چر کے ، ہوئے دو ٹکڑے ہیں دل و جگر کے۔ آن بان تیری دل دار ، بار بار دلِ زار کو کرتی ہے پامال۔

(سین ختم)

 

               ساتواں سین

کامک ..(چمپا کا گانا)

اٹھتی جوانی پہ جوبنا بھیو نثار۔ نیناں رسیلے متوارے پیارے مورے ، ابرو کٹاری، دو دھاری کٹار، بالی عمریا، ترچھی نجریا،البیلے الگرجی*لاکھوں نثار، ناگن لہرائی انکھیاں کمار، سندر ہے ، سوگھڑ ہے ، سنگھار۔

چمپا:۔میں کون ؟ چمپا اکیلی۔ باغِ ہاں میں مثل چمیلی ،آہ مرد کی آواز سے دل پر تیر لگتا ہے ، ہاتھ پاؤں میں تھکن،  بدن میں سنسنی چھا جاتی ہے ، ہائے کیا کروں؟

(پھول من کا آنا)

پھول من:کیوں کیوں میری جان! کیوں گھبراتی ہے ؟ اجی دیکھو تو جانِ من!

چمپا:۔کون ؟ میرا پیارا پھول من؟ آؤ پیار ے۔  میں اس وقت تمھیں کو یاد کر رہی تھی۔

پھول من:۔ مجھ کو نہیں، میری پیاری تو فریاد کر رہی تھی۔

چمپا:۔ ہائے پیارے ،وہی اجڑا میرا خاوند گھسیٹا ، اس کا تھا رونا۔

پھول من:۔ اجی اس کے لیے بساؤ قبر کا کونا۔

چمپا:۔ہے !ہے ! وہ موا مرے بھی۔

پھول من:۔ پر اس کے مرنے کا کوئی فکر کرے بھی۔

الغرض :

 چمپا:۔ میرا بس ہو تو موئے کو زندہ دفن کر دوں۔

پھول من:۔ اور مجھے مل جائے تو بم کے گولے سے ختم کر دوں۔

چمپا:۔ پر کہیں مطلب نہ ہو جائے فوت،کہیں بچ نہ جائے وہ لعنتی۔

پھول من:۔ارے یہ تو ہے فیشن ایبل موت، جہنم تک تو پیچھا نہیں چھوڑتی

چمپا:۔ ہائے کمبخت نہ مرتا ہے نہ طلاق دے کر میرا پیچھا چھوڑتا ہے۔ ارے موا مروں کا تھیلا ، قدم شریف کا ڈیوٹ۔مُوا دُم کٹا پھاندی سانی کھاتے کھاتے اکتا گیا ہے ، اس لیے اب پلاؤ پر ہاتھ مارنے چلا ہے۔

پھول من:۔ یعنی، یعنی؟

چمپا:۔ یعنی دقیانوسی ویرانے کا الّو اب جنٹلمین بنا ہے ، کسی میم سے شادی رچانے پر تنا ہے    ؂

دیا سلائی جو بیچتے تھے یا کہ سرکنڈا

ہوئے ہیں صاحبِ لشکر بنا کے اک جھنڈا

ہوائے باغِ جہاں سے ہو کیوں نہ دل ٹھنڈا

کہ مرغ ٹینی کا بچہ کٹکتے ہی انڈا

 حضورِ بلبلِ بستاں کرے نو استجی

پھول من:۔اجی تو اس میں تمھارا کیا جاتا ہے ،تم کڑک مرغی کی طرح ٹیٹیا کر ادھر آ جاؤ،اور یاروں کے پروں میں گٹھ جاؤ۔

چمپا:۔    اور کیا؟ یہی تو ہونا ہے آخر۔

(دونوں کا گانا)

چمپا:۔ چھبیلا سندر دارو من پیارا۔موٹر بنا دے پیارو، ہاں ہاں

پھول من:۔ ہاں، لاڈو پیاری  تو ہے فیشن ایبل بوٹ۔

چمپا:۔ بالے جو بنا پہ ہوں بیوٹی فل، ہاں ہاں۔

پھول من:۔

کیا چاند سی تصویر ہے دل چھیننے والی

 بد مست کیے دیتی ہے یہ آنکھوں کی لالی

اللہ رے نزاکت ،یہ نزاکت نہیں خالی

جس طرح لچکتی ہے کوئی پھولوں کی ڈالی

چمپا:۔بانکا سپہیا،ڈاروں گلے بہیاں ، چھبیلا مورے من بھایورے۔

پھول من:۔ بوسہ دے دسے جو بنوا کا دانی ، ماں

(گھسیٹا اور مسیتا  کا آنا)

گھسیٹا:۔تیرا نام مسیتا اور میرا  نام گھسیٹا اب بتا۔

مسیتا:۔ ہائے ہائے اس نے نام سے نام بھی ملا دیا پر خو ب ہے یاد آیا۔ ابے او الّو اس نے مجھ سے شادی کا اقرار کیا ہے۔مگر بندے خاں تو اس کے ساتھ چھوٹے بڑے نا چ بھی ناچا ہے۔

گھسیٹا:۔ ار رر ر چھوٹا بڑا ناچ ! یہ ناچ واچ تو میں اس کے ساتھ کبھی نہیں ناچا۔ اسے کبھی آنکھوں سے بھی نہیں دیکھا اور بے دیکھے اس کا عاشق ہو گیا، ارے پر دیکھ وہ کون آ رہا ہے ؟

پھول من:۔ اِدھر سے چلیے بیگم صاحبہ اِدھر سے۔

روز:۔ مگر وہ ممبا والی گاڑی کب جاوے گی۔

 پھول من:۔ کل تک ابھی کوئی گاڑی نہیں آوے گی۔

روز:۔افسوس تو کل صبح تک مجھے یہیں ٹھہرنا پڑے گا۔ اچھا میرے لیے کوئی کمرہ؟

پھول من:۔ آیئے ،آیئے ،اِدھر آیئے۔ یہ چھ نمبر کا کمرہ خالی ہے۔

روز:۔ کیا مصیبت ، کیا پریشانی ! اِدھر بیچ میں پڑے رہنے سے اتنی گرانی ! ہاں میں اپنے نام کا خط تو دریافت کرنا بھول گئی، کم بخت،میر ی ڈاک بھی تو نہیں آئے گی۔

مسٹر وڈ:۔ چور،ا چکے ، بدمعاش۔

روز:۔ ارے شاید اور مسافر بھی آ رہے ہیں۔ اوہ ہو یہ تو مسٹر وڈ ہیں، بد مزاج مسٹر وڈ اور میری سہیلی ایلس بھی، چلو اب تو خوب گزرے گی۔

 مسٹر وڈ:۔ تھکا دیا۔ سارے رستے بھونکتے بھونکتے دماغ اڑ گیا، جاؤ جاؤ اندر جاؤ۔

مس روز:۔  مسٹر وڈ ، مسٹر وڈ ، پھر وہی غصہ ،پھر وہی گھبراہٹ،

مسٹر وڈ: کیا کہوں بیگم صاحبہ! اس نامراد سفر نے تو ہلاک کر دیا۔ سارا اسباب خاک کر دیا،ذرا  میں اسے دیکھ آؤں تو حاضر ہوتا ہوں۔

ایلس:۔ ارے ارے روزی، میری روزی ،تم یہاں کہاں؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ تم موسم بہار کے مزے لوٹ رہی ہو گی۔

روز:۔ خاک! وہاں بھی موئے بد نظروں نے چین نہ لینے دیا، جسے دیکھو عاشق، جسے دیکھو شیدائی، اس شہر کے لوگ مال دار بیوہ پر اس طرح گرتے ہیں جیسے اناج پر ٹڈیاں ، گڑ پر مکھیاں اور مردار پر موئی اوپر وا لیاں،اوئی تو بہ توبہ  مجھے تو نفرت ہو گئی۔

ایلس:۔ ہاں ہاں روزی بہن، آج کل تم عاشقوں میں ایسی گھری ہو جیسے پروانوں کے جھرمٹ میں فانوس۔

روز:۔ وہ بالکل غیر مانوس ، پروانے غریب تو جا ن سے گزر جاتے ہیں، جل جل کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ، مگر آج کل کے عاشق تو پوچھنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔

 ایلس:۔ مگر روزی بہن، یہ تمھارا خاوند کب کب…

روز:۔ چُپ چُپ! میں پھر کہوں گی سب۔ یہ ایک راز ہے راز۔

 ایلس:۔ ہیں راز!بھلا راز ، مجھ سے بھی راز ! دیکھ تو میں کیسی خیر لیتی ہوں۔

(مسٹر  وڈ کا آنا)

 مسٹر  وڈ :۔ مہربان بیگمو! یہ تو میں جانتا ہوں کہ اس وقت آپ کچھ ضروری باتوں میں مشغول ہیں مگر میرے لیے یہ بالکل فضول ہیں۔ مجھ کو اس سفر کی کوفت نے بالکل اٹیرن کر دیا ہے ،اب بندہ ایک منٹ بھی صبر نہیں کر سکتا۔ کیوں مس روز، آپ بھی ٹیبل پر شریک ہوں گی؟

ایلس:۔ ضرور، ضرور

مسٹر وڈ:۔ اچھا تو ضرور۔ ارے کوئی ہے یا سب مر گئے ؟

پھول من:۔ حاضر حضور۔

 مسٹر وڈ:۔ حاضر کا بچہ! جلدی جا تین آدمیوں کا کھانا ٹیبل پر لگا۔

پھول من:۔ ابھی ابھی لگایا، چلیے ، اس کمرے میں تشریف لے چلیے۔

مسٹر وڈ:۔ مگر سن ، بالکل گرم کھانا چاہیے ،جیسا ہو مگر آگ کا پکا ہوا نہ ہو، نہیں تو میں تیرا بھیجا پلپلا کر دوں گا۔

پھول من:۔ ارے باپ رے۔

 مسٹر وڈ :۔ بالکل بد انتظامی،بالکل بے ایمانی، ٹیبل پر نمک دانی تک نہیں، بدمعاش ہوٹل والے مسافروں کوکیسا دق کرتے ہیں۔ او بوائے ، بوائے کہاں مرگیا؟ بوائے۔

ایلس:۔ آتا ہو گا، آ جائے گا ذرا صبر بھی کیا کرو۔

 مسٹر وڈ :۔ ٹھہرو جی، تم چپ رہو، میں بلاؤں گا اور زور سے بلاؤں گا۔ان بدمعاشوں کو تہذیب کا سبق پڑھاؤں گا ، ارے چلو کوئی ہے۔

گھسیٹا:۔ باپ رے یہ تو وحشی غل مچا رہا ہے۔

مسیتا:۔ار رر ر مجھے تو بہشت کا مزا آ رہا ہے ، مل گیا میری محنت کا بدل مل گیا۔

 گھسیٹا:۔ کہاں کہاں؟ابے کیا مل گیا؟

مسیتا:۔ ابے وہ میری آنکھوں سے دیکھ ذرا۔

 گھسیٹا:۔ ابے وہ کون ؟

مسیتا:۔ وہی میری پیاری بیوہ۔

 گھسیٹا:۔ ہیں کیا بیوہ؟ وہی ہماری بیوہ۔

 مسیتا:۔ ہاں ہاں وہی وہی، قسم ہے اڑان چیلے کی ، میں بھلا اس عورت کو بھول سکتا ہوں جس کے ساتھ برسوں چھوٹے بڑے ناچ بھی ناچا ہوں، مگر یار گھسیٹا!

گھسیٹا:۔ ہاں بھائی مسیتا۔

 مسیتا:۔ میر ی طرف دیکھتے ہی اس نے منہ پھیر لیا، شاید پہچانا نہیں، اچھا ذرا میں اسے جتاتا ہوں۔

 گھسیٹا:۔ تو مجھے بھی جتانا چاہیے۔

 مسیتا:۔ ابے تو پیچھے ہٹ،اُلّو تیرا حق کیا ہے ؟

گھسیٹا:۔ ابے واہ تو نے کون سا ڈپلوما حاصل کیا ہے۔

مسیتا:۔ابے گدھے کی دم  تو تو اسے جانتا بھی نہیں،کبھی دیکھا ہے ؟

گھسیٹا:۔ ابے دیکھا نہیں تو کیا ہوا۔ اب تو وہ جتنی تیر ی ہے اتنی میری ہے۔

 مسٹر وڈ :۔ او ہو بیگم! یہ کون الّو ہوں گے بھلا؟

 ایلس:۔ (سائڈ میں) ہے ہے برا ہوا (زور سے ) جی میں انھیں کیا جانوں بھلا؟

مسٹر وڈ:(سائڈ میں )ضرور کوئی بھید ہے ، یہ عورت چھپتی کیوں ہے۔(زور سے ) ابے کیوں اُلّوؤ! تم کیوں ادھر بڑھے چلے آ رہے ہو، کس کو بلاتے ہو؟

مسیتا:۔ ام ام، جناب آپ کو دیکھتے ہیں۔

 گھسیٹا:۔ جناب دیکھتے ہیں آپ؟ ام ام ام۔

 مسٹر وڈ:۔ ابے بکرا بکری کے موافق مم مم کرتے ہو۔

 مسیتا:۔ ہائے ہائے کمر پر چوٹ کھائی۔

 گھسیٹا:۔ باپ رے پھر وہی شامت آئی پھر وہی ٹکر ، ٹکر نمبر پانچ۔

 مسیتا:۔ ہائے ہائے مفت کی جوتا کاری ، مفت کی ٹکڑا ٹکڑی، ابے تو آدمی ہے یا عین غین؟

گھسیٹا:۔ خبردار!  ابے ہم ہیں ایک فسٹ کلاس جنٹلمین۔

مسیتا:۔ ابے یہ منہ اور گرم مسالا، ابے تو توہے گھاس بیچنے والا۔اچھا اگر تو جنٹلمین ہے تو مجھ سے ڈویل* ہی لڑ (DUEL   * ۔ دو آدمیوں کی فیصلہ کن لڑائی۔)

(گھسیٹا کا گانا)

لگے گھونسا او مسیتا ، ماروں تجھ کو ایسا پھٹ جائے بھیجا ، ابے جاجا  بچہ،کھا جاؤں کا کچا ، پھٹ جائے گا بھیجا۔

(مسیتا کا گانا)

           آج اس طرح سے تجھ کو میں ٹھنڈا کروں شادی بیوہ سے کر، تجھ کو مُر نڈ ا کر و ں ،  بھر کے بجلی سے تیری خاک کو ٹھنڈا کروں، ایسا بائل کروں، ابلا ہوا انڈا کروں۔

(سین ختم )

               آٹھواں سین

باغیچہ..(مارکس کا گاتے ہوئے آنا)

ضرورت کیا انھیں تیغ و  تبر کی

ادا کافی ہے اِک ترچھی نظر کی

وہ کیا جانیں کسے کہتے ہیں الفت

خبر کیا ہے انھیں دردِ جگر کی

تجھے معلوم ہے کچھ او ستم گر

شبِ غم کس طرح ہم نے بسر کی

چلے جاتے ہو مڑ کر دیکھ جاؤ

قسم ہے آپ کو ترچھی نظر کی

لگا کر دل کسی سے ہائے ہم نے

مصیبت مول لے لی عمر بھر کی

راحیل :۔ پیارے منشیہ قسم کھاؤ اور صاف صاف بتاؤ کہ تمھارا خیال بد ہے یا نیک ہے ، کیا تمھارا دل اور زبان ایک ہے۔

تم نظر آتے ہو اکثر مجھ کو گھبرائے ہوئے

فکر کے بادل ہیں تم پر اس قدر چھائے ہوئے

مارکس :۔ پیاری !میں نے بھی تمھیں اسی لیے یہاں آنے کی تکلیف دی ہے کہ تمھاری آنکھوں پر میں نے جو طلسمی پردہ ڈا ل رکھا ہے اسے اتار کر صاف  اور کھلے لفظوں میں اپنی حقیقت آشکار کر دوں۔

مرے ہونٹوں پہ شہد اور زہرِ قاتل تھا چھپا دل میں

بنو لہ روئی میں ہو جس طرح یوں تھی دغا دل میں

حقیقت کو نہ ظاہر آج تک ہونے دیا میں نے

مری جاں معاف کرنا تم کہ ہے تم کو ٹھگا میں نے

راحیل:۔ او خدا کیا تم نے مجھے ٹھگا، دھوکا دیا ،بُتّا دیا ، مجھے دامِ محبت میں پھنسایا؟

مارکس:۔ ہاں پیاری!حقیقت یہ ہے کہ میں ابھی تک عشق کے اسٹیج پر یہودی کا لباس پہن کر ایک دھوکے باز عاشق کا پارٹ ادا کر رہا تھا ورنہ۔    ؂

میرا گماں الگ ہے میرا یقیں الگ

ہے تیرا دیں الگ اور میرا دیں الگ

راحیل:۔تو کیا تم ہمارے ہم مذہب نہیں ہو؟

مارکس:۔ نہیں ، میں تمھارے دشمنوں کی ڈالی ہوئی بنیاد ہوں ، رومن خون اور رومن باپ کی اولاد ہوں۔

راحیل:۔ تم یہودی نہیں ہو؟

مارکس:۔نہیں۔

 راحیل:۔ پھر تمھیں یہودی بننے کو کس نے کہا؟

مارکس:۔ تمھاری دل فریب صورت نے۔ اس موہنی مورت نے۔

راحیل:۔ تمھیں ایک یہودی لڑکی سے محبت کرنے کی جرأت کس نے دلائی؟

مارکس :۔ تمھاری محبت نے۔

راحیل:۔ اُف نور میں نار، شربت میں کفِ مار ، زہریلا سانپ اور گلے کا ہار۔  ؂

کیوں الجھتا اپنا دامن گر نہ پھنستی بھول میں

مجھ کو کیا معلوم تھا کانٹا چھپا ہے پھول میں

میری بربادی کا آخر کچھ سبب بتلا مجھے

کیا خطا تھی میری تو نے کیوں دیا دھوکا مجھے

مارکس:۔ دھوکا نہیں پیاری راحیل ! دھوکا تو اس وقت تھا جب میں تمھارے خوبصورت ہونے سے انکار کرتا یا تمھیں چھوڑ کر کسی اور کو پیار کرتا یا تمھارے صاف صاف پوچھنے پر بھی اپنی حقیقت سے نہ خبر دار کرتا۔    ؂

یہودی ہوں کہ رومن ہوں ،میں نوری ہوں کہ ناری ہوں

کوئی ہوں ، کچھ بھی ہوں ، پر تیری صورت کا پجاری ہوں

راحیل:۔ مگر اب تم اس صورت کی طرف دیکھنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔

مارکس :۔ کیوں؟

راحیل:۔ کیوں کہ اس چہرے کو دیکھنے کے لیے وہی آنکھ چاہیے جو بت پرست اور کفر کی چمک دمک سے نفور ہو۔جس میں یہودی مذہب اور یہودی یقین کا نور ہو۔

مارکس :۔ تو کیا تم رومن ہونے کی وجہ سے اپنا دل مجھ سے پھیر لینا چاہتی ہو ؟

راحیل:۔ کاش یہ ممکن ہوتا ! ظالم ! نہیں اب تجھ سے اپنا دل واپس نہیں لے سکتی جس طرح پروانہ شمع پر جلنے کے لیے ، پتنگ جس طرف کی ہوا ہو اس طرف اڑنے کے لیے ، پانی نشیب کی طرف بڑھنے کے لیے ، مجبور  و ناچار ہے اسی طرح میرا دل بھی تیری محبت میں بے اختیار ہے۔

مارکس:۔ تو کیا میں امید رکھوں کہ یہ ہاتھ ہمیشہ کے لیے میرے ہاتھ میں دے دو گی؟

راحیل:۔نہیں۔

مارکس:۔ کیوں آخر کس وجہ سے انکار ہے ، کس لیے جی بے زار ہے ؟

راحیل:۔ دل پر میرا قبضہ ہے لیکن ہاتھ پر میرے باپ کا اختیار ہے۔

مارکس:۔ مگر تمھارا باپ تو متعصب یہودی ہے ، کیوں کر اپنی لڑکی کا ہاتھ ایک رومن کے ہاتھ میں دینے کو تیار ہو گا۔ ایسی محبت اور ایسی شادی کا کیسے روادار ہو گا؟

راحیل:۔ پھر میں کیا کر سکتی ہوں؟

مارکس:۔ پیاری راحیل تم چاہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ میری جان کے لیے اپنے باپ کو چھوڑ کر میرے ساتھ نکل چلو ، ہم دوسرے شہر میں پہنچ کر نکاح پڑھا لیں گے اور واپس آ جائیں گے۔     ؂

مریضِ درد کی اس طرح عید ہو جائے

تمام عمر کو راحت نصیب ہو جائے

راحیل:۔ (سائڈ میں) اُو خدا یہ تو اپنے ساتھ بھاگنے کو کہتا ہے۔

مارکس:۔ پیاری راحیل ، کہو کس سوچ میں پڑ گئیں  ؟    ؂

تمھیں ہو رازِ دل اپنا ، تمھیں ہو بس خوشی اپنی

تمھاری ایک ہاں پر منحصر ہے زندگی اپنی

امیدیں جی اٹھیں وہ لفظ منہ سے میری جاں کہہ دو

میں صدقے پیارے ہونٹوں کے ،لبِ نازک سے ہاں کہہ دو

راحیل:۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔    ؂

اس زندگی پہ داغ لگایا نہ جائے گا

مجھ سے پدر کا نام ہنسایا نہ جائے گا

مارکس:۔ اگر تمھارا انکار ہے تو میرا اس دنیا میں جینا بیکار ہے۔

خوشی میری ، مری راحت فقط تیری نہیں تک تھی

سمجھ لینا کہ میری زندگی بھی بس یہیں تک تھی

سوائے موت کوئی غم کا چارہ کار نہیں

عبث یہ گلشنِ ہستی ہے جب بہار نہیں

راحیل:۔ ٹھہر و ٹھہرو ، پیارے ٹھہرو، مجھے سوچنے دو۔

مارکس:۔ بس ، ہاں یا نہیں ، ایک لفظ۔

راحیل:۔ تھوڑی دیر غور کرنے کے لیے ، تھوڑی دیر۔

مارکس:۔ ایک منٹ نہیں۔

راحیل:۔ منشیہ! منشیہ!

مارکس:۔ بس پیاری راحیل کہو کہ مجھے منظور ہے۔

راحیل :۔ لے چل خوبصورت جادو گر لے چل۔ راحیل اس دل سے مجبور ہے۔   ؂

تیری ہوں ترے ساتھ ہوں دیتی ہوں زباں میں

اب سائے کے مانند جہاں تو ہے ، وہاں میں

مارکس:۔ اب باپ کو خبر ہونے سے پہلے یہاں سے نکل چلو    ؂

جیسے یہ جسم و روح اس طرح ساتھ دو

لو آؤ ، اب چلو ، میرے ہاتھوں میں ہاتھ دو

(عزرا کا آنا)

عزرا:۔خبردار! ٹھہرو! کہاں جاتے ہو ؟ کہاں بھاگ کر منہ چھپانا چاہتے ہو ؟ ؂

نکل جانے کی یہ حسرت بڑی مشکل سے نکلے گی

کلیجہ توڑ دے گی بد دعا جو منہ سے نکلے گی

تمھاری آرزو دنیا سے خالی ہاتھ جائے گی

جہاں جاؤ گے میری بد دعا بھی ساتھ جائے گی

راحیل :۔ رحم ، رحم ، اچھے ا بّا ، ہم گنہگاروں پر رحم!

عزرا:۔ رحم ! تجھ جیسی نافرمان ، نا ہنجار پر ، رحم ! اس جیسے بدکردار پر ! کیوں اس دن کے لیے میں نے تجھے آنکھوں میں رکھ کر پالا تھا۔ اس برے نتیجے کے لیے اپنی جا ن کی طرح سنبھالا تھا ،کیوں؟ او رومن قوم کے ذلیل کتے ! جس نے محبت سے تیری پیٹھ کو تھپتھپایا ، جس نے شریف اور وفادار سمجھ کر تجھے اپنی گود میں بٹھایا ، اس محسن پر موقع پا کر حملہ کرنے کو آمادہ ہوا۔ جس نے تجھے راحت دی اور عزت دی اس کے آرام کو دن رات مٹانے کا ارادہ ہوا۔    ؂

قہر خدا سے گڑ نہ گیا تو زمین میں

کیا بے وفائی جرم نہ تھی تیرے دین میں

وہ بات کی ، نہ تھی جو گمان و یقین میں

اک سانپ گویا پالا تھا اس  آستین میں

کیا جانتا تھا میں کہ اک  آفت ہے قہر ہے

آبِ بقا میں سمجھا تھا جس کو وہ زہر ہے

مارکس:۔ بزرگ عزرا !بے شک میں نے قصور کیا اور ضرور کیا۔ مگر یہ میری دانستہ خطا نہ تھی بلکہ اس صورت اور اس دل نے مجھے مجبور کیا   ؂

بڑھو آگے ، چھری لو اور سینہ چاک کر ڈالو

خطا اس دل کی ہے اس دل کو پھونکو خاک کر ڈالو

راحیل:۔نہیں ، پیارے ابّا نہیں۔    ؂

اس کی نہ کچھ خطا ہے نہ دل کا قصور ہے

میں اس کو چاہتی ہوں یہ میرا قصور ہے

اِس زندگی کی یو نہیں کسی طرح شام ہو

پھیرو چھری گلے پہ کہ قصہ تمام ہو

عزرا:۔ بدبخت لڑکی ! غیر قوم اور غیر مذہب کی چاہ چھری ہوتی ہے۔

راحیل:۔ سچ ہے۔ لیکن دل کی لگی بُری ہوتی ہے ، اس سے انسان مجبور ہوتا ہے ، جو کام نہیں کرتا وہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔     ؂

جو کہ شیروں کو بھی ٹھوکر سے گرا دیتے ہیں

وہ بھی بے درد محبت کو دعا دیتے ہیں

زور چلتا ہی نہیں عشق کے دربار میں کچھ

یہ وہ چوکھٹ ہے کہ سب سر کو جھکا دیتے ہیں

عزرا:۔ افسوس ، میں نے کیا سوچ رکھا تھا اور یہاں کیا روبکار ہے۔ سچ ہے جس طرح دریا کے سامنے ایک تنکا بے بس ہے اسی طرح تقدیر کے آگے تدبیر نا چار ہے۔    ؂

مجھ کو ہے خیال اور ، انھیں مدِّ نظر اور

ارمان طبیعت میں اِدھر اور اُدھر اور

راحیل:۔ پیار ے ا بّا ، بے شک ہم دونوں محبت کرنے کے مجرم ہیں ، مگر اب تک ہمار ا جرم گناہوں سے پاک صاف ہے اس لیے ہم سے نفرت کرنا انصاف کے خلاف ہے۔

مارکس:۔

ہے پاک گناہوں سے ہماری یہ خطا بھی

غارت ہوں اگر ہم کو بدی نے ہو چھوا بھی

ہم چشمۂ الفت میں ہیں مانند کنول کے

جو پانی کے اندر ہے پانی سے جدا بھی

عزرا:۔ اچھا تم محبت کرنے کے سوائے اور ہر طرح بے قصور ہو ؟ چاند کی طرح اس زمین کی برائیوں سے دور ہو ؟

مارکس :۔ ہاں بزرگ عزرا ایسا ہی ہے۔    ؂

پرواز کی طاقت تھی مگر پر نہیں نکلے

اخلاق کے قانون سے باہر نہیں نکلے

یہ قلب و جگر پاک ہیں ، یہ دیدۂ تر پاک

اللہ ہے شاہد کہ ہے دل پاک ، نظر پاک

عزرا:۔ منشیہ !  راحیل میں کون سی خوبی نظر آئی جو تم اس کے قدر دان ہو ؟

مارکس:۔ صورت !  اور صورت سے زیادہ اس کی سیرت۔

عزرا:۔ تو کیا تم اس کو چاہو گے ؟

مارکس:۔ اپنی جان کی طرح۔

عزرا:۔ اس کو عزیز رکھو گے ؟

مارکس:۔ اپنی عزت اور شان کی طرح۔

عزرا:۔ اس کی حفاظت کرو گے ؟

مارکس:۔ اپنے دین و ایمان کی طرح۔

عزرا:۔ اچھا تو میں اپنے پچھلے الفاظ واپس لیتا ہوں اور خوشی سے اس کا ہاتھ     تمھارے ہاتھ میں دیتا ہوں۔ بڑھو اور دو زانو ہو۔

مارکس:۔ کیا آپ مجھ سے کوئی مزید اقرار کرانا چاہتے ہیں ؟

عزرا:۔ ہاں، ایک رومن کی بغیر مذہب بدلے ایک یہودی سے کبھی شادی نہیں ہو سکتی اس لیے میں پہلے تمھیں اپنے دین کا کلمہ پڑھا کر اپنے مذہب میں لاؤں گا۔ پھر اپنی شریعت کے مطابق اس کے ساتھ تمھارا نکاح پڑھاؤں گا۔ تمھیں منظور ہے ؟

مارکس:۔ تو کیا محبت کرنے کا جرمانہ مجھے مذہب سے ادا کرنا ہو گا؟

عزرا:۔ ہاں اگر تم اس ہاتھ کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی قیمت فقط تمھارا دین ہے۔

راحیل :۔ پیارے مارکس    ؂

سوچ میں کیوں پڑ گئے آخر ہو کوئی بات بھی

ہاں کہو مل جائیں تاکہ دل کی صورت ہات بھی

مارکس:۔

کس کو چاہوں ، کس کو چھوڑوں ، کس غضب میں جان ہے

اک طرف یہ حور ہے اور اک طرف ایمان ہے

عزرا:۔ جواب دو کیا خیال ہے ؟

مارکس:۔ میں راحیل کو چھوڑ سکتا ہوں مگر مذہب چھوڑنا محال ہے۔

عزرا :۔ تو پھر نہیں؟

مارکس:۔ کبھی نہیں۔

عزرا:۔ تو انکار؟

مارکس :۔ ناچار۔

عزرا :۔ دوری ؟

مارکس:۔ مجبوری     ؂

ساری دنیا سے زیادہ یہ شکر لب مجھ کو

اور اس سے بھی زیادہ مرا مذہب مجھ کو

ایسی شے سہل سے انسان نہیں دے سکتا

جان دے سکتا ہے ایمان نہیں دے سکتا

عزرا:۔ تب کیا رومن کتّے ، تو ہمارے گھر میں گناہوں کی بدبو پھیلا کر ، فسق و فجور کا جال بچھا کر ایک بھولی بھالی دوشیزہ کو حرام کاری کے راستے پر لگانے آیا تھا۔     ؂

رسائی پیدا کی میرے گھر میں عزیز، ہمدرد و یار بن کر

مگر یہ ٹھا نے ہوا تھا دل میں کہ باغ اجاڑے بہار بن کر

دغا اور اس سے دغا ،بھروسا کیا تھا جس نے مدام تجھ پر

زمیں سے نفرت ، فلک سے لعنت پڑے گی ہر صبح و شام تجھ پر

راحیل:۔ پیارے    ؂

میرے پیارے کیا ہوا یہ اور تمھیں کیا ہو گیا

با وفا دل آج کیوں بے درد ایسا ہو گیا

جان کی، دل کی لگی کی، قدر اب بھی جان لو

یہ نہ کہنے کو میں رہ جاؤں کہ دھوکا ہو گیا

مارکس:۔ راحیل ! میرے چاروں طرف تاریکی چھا گئی ، میں جاتا ہوں۔

عزرا:۔مگر یہ سن کر جاؤ کہ جس واحد بر تر خدا کو گواہ کر کے تم نے اس بھولی لڑکی کو دھوکا دیا ہے ، جس قہار کے پُر جلال نام کی قسمیں کھا کھا کر تم نے اُسے ٹھگا ہے وہ وحدت اور جلال والا خدا بغیر سزا دیے تمھیں کبھی اس دنیا میں نہ چھوڑے گا۔ جس بے دردی سے اس غریب کا دل توڑا ہے اسی طرح وہ تمھارے غرور کو توڑے گا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اس کا قہر عاجل تم پر نازل ہو۔ جاؤ  جہنم واصل ہو  ؂

خدا ہی اب اس کا لے گا بدلہ جو دکھ دیا تو نے دل جلے کو

اسی کے ہاتھوں میں سونپتا ہوں میں اپنے تیرے معاملے کو

(ڈراپ سین)

 

دوسرا  با ب

               پہلا سین

باغیچہ

ڈیسیا:۔  پیارے مارکس انسان کی فطرت ہی بھول ہے ، جو کچھ ہوا سو ہوا، اب گزشتہ باتوں کا زبان پر لانا فضول ہے     ؂

شکر ہے اس کا کہ جینے کا سہارا ہو گیا

غیر کا جو ہو چکا تھا پھر ہمارا ہو گیا

مارکس:۔ تو تم میری بے پروائی کا گناہ معاف کرتی ہو؟

ڈیسیا:۔ میری جان مارکس ، میں تمھاری کنیز ہوں اور کنیز پر آقا کو ہر طرح کا اختیار ہوتا ہے    ؂

قبضہ ہے دل پہ جان پہ عقل وتمیز پر

آقا کو اختیار ہے اپنی کنیز پر

      جانان نیناں لاگے ہیں۔ کھٹن ملور ہے موہن ہم سنگ۔ جاناں۔۔۔  جیا میں بَسَت توری رے پیاری صو رتیا ، دکھ میں جان پڑی ہے ، آن مانو رے جان ہمری بات ، جاناں نیناں … سگری رین موری گزری تڑپ تڑپ ، نیاری توری شان ، پیاری پیاری توری آن مانو جی مانو جی دل جاناں ، دل جاناں نیناں …

 مارکس:۔  (سائڈ میں) او فریبی، اُو دغا باز رومن! تو کس قدر ذلیل ہے کتنا جھوٹا ہے ، تیرے ہونٹ جھوٹے لفظوں سے ڈیسیا کے ساتھ محبت کا اقرار کر رہے ہیں اور تیرا دل و جگر دونوں ابھی تک راحیل کو پیار کر رہے ہیں۔    ؂

بس اب بھی باز آ وہ کام کیوں بے دین کرتا ہے

کہ جس پر خود ترا دل تجھ کو سو نفرین کرتا ہے

(راحیل آتی ہے )

مارکس :۔( سائڈ میں) کیوں، راحیل یہاں کس لیے آئی ہے ؟

راحیل :۔ منشیہ ٹھہرو     ؂

جاتے کہاں ہو مجھ کو ٹھکانے لگا کے جاؤ

مارا ہے جس کو اس کا جنازہ اٹھا کے جاؤ

مارکس:۔ راحیل ! تم یہاں کہاں؟

راحیل:۔ اپنے صیاد کے پاس۔ قتل کر کے بھول جانے والے جلاّد کے پاس۔

وہ ولولے وہ جوش وہ سب پیار کیا ہوا

او بے وفا بتا ترا اقرار کیا ہوا

مارکس:۔ راحیل ہم دونوں محبت کے نشے میں سرشار ہو کر امیدوں سے بھرا ہوا ایک دلچسپ خواب دیکھ رہے تھے ، اب اس خواب کی باتوں پر اعتبار کر کے ہوا پر مستقبل کا قلعہ بنانا بے کار ہے کیونکہ تقدیر کے آگے تدبیر ناچار ہے    ؂

دخل کب تدبیر کو تقدیرِ انسانی میں ہے

پیش آتی ہے وہی جو کچھ کہ پیشانی میں ہے

راحیل :۔ اگر یہی کرنا تھا، آگے بڑھ کر دھوکا ہی دینا تھا تو ایک بھولی بھالی سیدھی سادی لڑکی کو جو اپنے باپ سے محبت کرنے کے سوا اور کسی کی محبت سے واقف ہی نہ تھی ، ایک معصوم بچے کی طرح جوان ہو کر بھی ان زہریلی باتوں سے خبردار نہ تھی، اس کے سامنے دو زانو بیٹھ کر ، آنسو بہا کر ، گڑ گڑا کر کیوں محبت کا یقین دلایا؟ کیوں اس کی زندگی کے آبِ حیات میں جھوٹی محبت کے اظہار سے زہر ملایا ؟    ؂

تمھیں ہو پھونک ڈالا ساتھ دل کے جان و تن جس نے

بگاڑا ہے یہ گھر جس نے ، اُجاڑا یہ چمن جس نے

تم اپنا ظلم آ کر اس دلِ رنجور سے دیکھو

ہمارا گھر جلے اور تم تماشا دور سے دیکھو

مارکس:۔ راحیل، جب تک ستار کے تار آپس میں ملے رہتے ہیں تب ہی تک اس سے دل بہلانے والا سریلا نغمہ پیدا ہوتا ہے مگر تمھارے باپ کی ضد نے ٹھوکر مارکر اس محبت کے ساز کا تار تار الگ الگ کر دیا ، اب اس ٹوٹے ہوئے ساز سے دوبارہ محبت کا زمزمہ پیدا ہونا محال ہے۔ پہلے میرا کچھ اور خیال تھا اب کچھ اور خیال ہے۔     ؂

اب نہ وہ بات رہی اور نہ وہ جوش مجھے

تم بھی اب کر دو مری طرح فراموش مجھے

راحیل:۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا ، جس طرح ایک خدا پرست کی طبیعت دو خداؤں کے سامنے اطاعت کا اظہار نہیں کر سکتی اس طرح ایک شریف اور پاکباز لڑکی ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو پیار نہیں کر سکتی ؂

عمر بھر کو تجھ پہ صدقے جان میری ہو چکی

تو نہ ہو میرا مگر میں دل سے تیری ہو چکی

مارکس:۔ (سائڈ میں) اب مجھے راز کے چہرے سے ضرور پردہ ہٹانا ہو گا۔ (زور سے ) راحیل ! تم اب تک مجھے کیا سمجھتی رہی ہو ؟

راحیل:۔ ایک شریف یہودی۔

مارکس:۔ اور اب کیا سمجھتی ہو ؟

راحیل:۔ ایک وفادار رومن۔

مارکس:۔ مگر میں نہ وہ تھا اور نہ یہ ہوں۔

راحیل:۔ پھر؟

مارکس:۔ پھر ؟ میں سلطنت روم کا ولی عہد اور ہونے والا شہر یار ہوں اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی ہم مذہب اور ہم قوم کے ساتھ شادی کرنے کے لیے  لا چار ہوں۔

راحیل:۔ تم ولی عہد ؟ ہونے والے بادشاہ ہو ؟

مارکس:۔ ہاں ،اب اس قصے کو طول دینا سرا سر نادانی ہے کیوں کہ میری       شادی ہونے والی ہے اور کل کا دن مقدر کے فیصلے کی طرح اٹل ہے۔

راحیل:۔ تو مقدر کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ شادی ہرگز نہ ہو۔

مارکس:۔ ضرور ہو گی۔

راحیل:۔کبھی نہ ہو گی۔

مارکس:۔ کل ہی ہو جائے گی امید بر آئے گی۔

راحیل:۔ قیامت تک نہ ہو گی۔

مارکس:۔ میں جو کہتا ہوں۔

راحیل:۔ میں بھی جو کہتی ہوں۔

مارکس:۔ اس شادی کو کون روک سکتا ہے ؟

راحیل:۔ میں ، میں ! عزرا یہودی کی لڑکی راحیل۔

مارکس:۔ تو !تو ؟

راحیل:۔ ہاں ، ہاں ، میں ، میں ! اور میرے ساتھ روم کا رواج ، روم کا قانون ، روم کا بادشاہ۔ میں ان سب کو مجبور کر دوں گی کہ دغا باز کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا جائے ، اس بد انجام شادی کے گھروندے کو پیر کی ٹھوکروں سے ڈھا دیا جائے۔    ؂

بے آس میں رہی تو رہے نا مراد تو

نا شاد مجھ کو کر کے رہے گا نہ شاد تو

اس بے کس و غریب کو دکھ دے کے بے وفا

پھل پائے گا نہ دہر میں رکھ خوب یاد تو

مارکس:۔ یہ ناممکن ہے۔

راحیل:۔ اگر یہ نا ممکن ہوا تو میں سمجھوں گی کہ ظالموں اور نوجوانوں کے            لیے میدان صاف ہے۔ روم میں نہ کوئی قانون ہے نہ انصاف ہے۔   ؂

باطن میں بزدلے ہیں بظاہر دلیر ہیں

یہ دُور سے ڈرانے کو مٹی کے شیر ہیں

مارکس:۔ چپ!

راحیل:۔  آہ !

(گانا)

یہ کن بے وفاؤں کے پالے پڑے ہیں

کہ فرقت میں جینے کے لالے پڑے ہیں

یہ ظالم نگاہوں کی بے داد دیکھو

کہ چتون کے سینے پہ بھالے پڑے ہیں

دل لگانا تھا دل لگی دل کی

اب رلانے لگی ، ہنسی دل کی

شمع رو دیکھ حالِ پروانہ

بُری ہوتی ہے یہ لگی دل کی

محبت نے کچھ آگ ایسی لگائی

کہ جل جل کے سینے میں چھالے پڑے  ہیں

یہ کن بے وفاؤں کے پالے پڑے ہیں

(سین ختم)

                 دوسرا سین

کامک..مکان

(چمپا کا گانا)

 سویرے سویرے ساون بدریا ، سونی رے سجریا موری، ایسے گئے پیروا گھر سے۔ چین نہیں اُن بن مو ہے آوے۔ جیا مورا اُن بن گھبراوے۔کاگا پیا کی خبریا لاوے۔

رتیاں موری بیتی جاویں،سیّاں بنا میں تو بھئی ہوں باوریا، رتیاں کٹت گن گن تارے ،آگ برہاکی دیہ جلا وے ، نین سے خون برسے ، سویرے …

ہائے اللہ ، یہ جوانی جاڑوں کی چاندنی کی طرح گزری جاتی ہے ، آہ یہ اٹھتے  جوبن کمسن بیوہ کے ابھار کی طرح خاک میں ملے جاتے ہیں۔سینے میں تکان، دل میں درد ہاتھ پاؤں میں سنسنی آتی ہے ، اُف مری جان نکلی جاتی ہے۔

(پھول من کا  آنا)

پھول من:۔ کیوں پیاری، کیا بڑبڑا رہی ہو بھوکی شیرنی کی طرح گڑگڑا رہی ہو، کیا کیا کلام منہ سے نکل رہا ہے ،پیشانی پہ بل پڑ رہا ہے۔

چمپا:۔   اجی وہی رونا موئے خاوند کا۔اب تم کیا چاہتے ہو؟

پھول من:۔ میں چاہتا ہوں کہ چمپا میر ی عورت بن جائے ، باغ امید کا میرا گلِ اُلفت بن جائے    ؂

پھر یہ ہے خوف کہ نائی کے ٹھنے گر دل میں

اور پھر استرا  مقراضِ کدورت بن جائے

کاٹ چھانٹ اس کی کرے بال برابر نہ کمی

تم الگ ہو رہو اور میری حجامت بن جائے

چمپا:۔ ارے دیکھو ، دیکھو سامنے کون آ رہا ہے ؟

پھول من:۔ ہیں وہ توجگادری بندر اچھلتا کودتا آ رہا ہے۔ بیٹا پھول من اب خیر نہیں، خوب مرمت ہو جائے گی ، بغیر اوزار کے حجامت ہو جائے گی۔

چمپا:۔ ارے ٹھہر ٹھہر کیوں گھبراتا ہے (روئی کی بوری میں پھول من کو بند کرنا)

گھسیٹا:۔ او مائی گاڈ! یہ راستے میں کیا کچھوا پڑا ہے ، ہمارا گیٹ ٹوٹ گیا، اٹھاؤ اس کو جلدی اٹھاؤ۔

 چمپا:۔ میاں ہماری پڑوسن جمالو کے میاں نے کہا ہے کہ جب بابو صاحب آئیں تو ان سے کہنا ذرا ممبا پارسل کر دیں۔

 گھسیٹا:۔ پارسل پرائیوٹ ہاؤس میں ہوتا ہے ، پرائیوٹ ہاؤس میں۔ میں کیا اس کے باوا کا نوکر ہوں؟

چمپا:۔ میا ں کیا ہوا ذرا اٹھا کر لے جاؤ۔

 گھسیٹا:۔ میں کوئی قلی ہوں۔

 چمپا:۔ میا ں انھوں نے چار پیسے بھی تمھارے سگریٹ کو دیے ہیں اور کہا ہے کہ بابو صاحب سے کہہ دینا کہ اسے پارسل کر دو۔

گھسیٹا:۔ ہم پوسٹ ماسٹر ہیں یا قلی؟ لے جاؤ ، ہٹاؤ، ہم نہیں لے جائے گا ، تم لے جاؤ۔

چمپا:۔ اچھا تو میں لے جاتی ہوں اور اپنے پیارے کو بچاتی ہوں، میاں تم بولتے کیوں نہیں ؟

 (گانا)

پیارے میرے جوبن کی دیکھو بہار

کا ہے غیروں سے رکھتے ہو پیار

گھسیٹا:۔ تیری صورت سے ہوں بیزار۔

        نہیں پیار ،مجھے نفرت ہے اودیسی انار۔

چمپا:۔ کا ہے روٹھے ہو شام ، نہیں دل کو آرام ، کروں کیوں نہ کہرام ،تیری فرقت میں یار۔

گھسیٹا:۔ ملے وسکی کا جام، تب ہو دل کو آرام۔ ملے روزی گلفام ، بنوں بیوہ کا یار۔

چمپا:۔ میاں،اچھے میاں،منہ سے بولو۔

 گھسیٹا:۔ نہیں بولتے تیرے باپ کا کچھ دینا آتا ہے ؟

چمپا:۔ میاں کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ میرے باپ نے تو تمھیں کھلا کھلا کر گدھے کی طرح پھلا دیا ہے۔

 گھسیٹا:۔ اور اس کتیا کو میرے پیچھے لگا دیا ہے۔

 چمپا:۔ ذرا اپنی کھال میں رہو حجام۔

گھسیٹا:۔ میں حجّام؟ میں حجّام ؟ صاحب بہادر حجّام؟ چل چل وہ کوئی اور ہو گا۔

 چمپا:۔ موئے بے شرم، تیرے پھوٹے کرم، میں تیری گھر والی ہوں، تو تو چڑکٹا معلوم ہوتا ہے۔

 گھسیٹا:۔ ارے میں چڑکٹا؟ یہ فرسٹ کلاس سوٹ اور چڑکٹا۔یہ فیشن ایبل کالر، یہ لونڈر بھرا رومال، یہ ولایتی ٹائی اور پھر نائی کا نائی۔ چل چل نکل بھی۔

چمپا:۔ ارے یہ تو بالکل پاگل ہو گیا ہے ، اسے نئی روشنی کا بخار چڑھ گیا ہے۔چل چل موئے ہوش میں آ۔کھارے کنویں کا پانی پی۔باپ نہ جانے اے ، بی،سی۔بیٹے ایل ،ایل ،بی۔

گھسیٹا:۔ ہیں یہ گستاخی! ایک جنٹلمین کی ایسی انسلٹ    ؂

کہتی ہم سے کیا تو پدڑی کہتی ہم سے کیا تو ری

تو کیا جانے لہنگے والی آبرو جو ہے گِٹ پِٹ کی

رعب جمائے دام گھٹائے گھٹری مٹھری سب کی کھول

سوٹ پہن ،نکٹائی لگا،فل بوٹ اڑا انگریزی بول

چمپا:۔ ارے ارے۔ یہ تو کالر کرتی پہن کر ماش کے آٹے کی طرح اکڑا جاتا ہے۔ اپنے چیتھڑوں میں نہیں سماتا ہے۔ او بوڑھے بندر، بھلا یہ بھلی چنگی ڈاڑھی کو کیا کیا    ؂

ڈاڑھی منڈائی اس قدر ، مونچھیں بڑھائیں اس قدر

ہے ناک میں مرغی کاپر،آدھا اِدھر آدھا اُدھر

گھسیٹا:۔چل چل دیوانی ، تو کیا جانے شیونگ کی کہانی ، کیا تو نے نہیں سنا    ؂

اگر خواہی کہ ماند حسن اول

گھٹوَّل کن، گھٹوَّل کن،گھٹوَّل

چمپا:۔ واہ رے تیرے گھٹوَّل ،ابھی سر پر پڑے چپوَّل ، تو سیدھا بریلی کا راستہ معلوم ہو جائے ، ہیں یہ کیا؟ تو اسی رومال سے جو تا صاف کرتا ہے ، اسی سے منہ پوچھتا ہے !

گھسیٹا:۔ کچھ فکر نہیں ، جنٹلمین کا منہ اور جوتا ایک موافق ہوتا ہے۔

چمپا:۔ تیرا کھو جڑا جائے ، یہ ہیے کی کیوں پھوٹ گئیں، بھلا یہ کولھو کا بیل بننے کی کیا ضرورت تھی؟

گھسیٹا:۔ ہشت احمق ،یہ عینک ہے عینک ، اس سے جنٹلمین دوربین بن جاتا ہے۔

 چمپا:۔دوربین بن جاتا ہے ، یا آسمانی اندھا کہلاتا ہے ؟

گھسیٹا:۔ یو ڈیم ، اب تم گول مال مانگتا ہے ، تم یوں نہیں جائے گا تو ہم انگریزی قاعدے سے بھگائے گا ، نہیں مانگتا۔صاحب تم دونوں کو نہیں مانگتا۔

 چمپا:۔ ارے ارے تیرا ستیاناس۔

(گھسیٹا کا آنا)

کر حکمت فطرت، بنا میں کیسا جنٹلمین ، پوسٹ آفس کا ہوں افسر، سارے ڈرتے ہیں پوسٹ مین، رتبہ اعلیٰ پا کر موٹر پر کروں نئی پھین سے سیر، آہاہا ہاہاہا،او ہوہو ہو ہو ہو۔لُک ہِیَر، لُک ہِیَر ، بوٹ سوٹ کالر ٹائی ، کیا ہے پوزیشن اعلیٰ ،وائی انکل وائی ،کر حکمت فطرت ہوں، بنا میں کیسا جنٹلمین۔

(سین ختم)

               تیسرا سین

در بار

(سہیلیوں کا گانا)

   جام بھکر کے ،نہ ڈر کے ، سُود لبر کے ہاں ، لوجی صاحب لو پیار لو جی، جھوٹی بتیاں نہ بناؤ۔ نہ شرماؤ۔ پیاری ذرا کڑکے ، جام بھر کے ، نت پیا پیا کرت ری۔ ساجنا سلونا من بھاوے۔

رنگ رنگیلے چھیل چھبیلے ، من بھائے ، جیرا لبھائے ، جانی گلے لگ جاؤ۔ شبھ گھڑی ، شبھ ہاتھ ، واہ واہ واہ، ہاں ! یہ چر کے بجھیں گے جگر کے جام بھر کے …

نمبر(۱) :۔

لچک ہے شاخوں میں، جنبش ہوا سے پھولوں میں

بہار جھول رہی ہے خوشی کے جھولوں میں

نمبر(۲):۔

ہوائے عیش نے پھیلا دی نکہتِ شادی

اُڑا ہے مشکِ ختن خاک کے بگولوں میں

چوب دار:۔ عالی مرتبت شہزادی ، عزرا یہودی درِ دولت پر آیا ہے اور وہ بیش قیمت ہار جس کی تیاری کا حضور عالیہ نے حکم دیا تھا ساتھ لایا ہے۔

ڈیسیا:۔ حاضر کرو۔

بروٹس:۔ دیوتا خیر کرے۔ یہ نحوست کی نشانی ، مصیبت کا پیش خیمہ اس ہنسی خوشی کے جلسے میں کہاں سے نازل ہوا۔

پہلا درباری:۔ بزرگ باپ، آپ نے نفرت کا اظہار کیوں کیا ؟ کیا وہ کوئی چور یا خونی ہے ؟

بروٹس:۔ اس شادی کے جلسے میں ایک یہودی کا ہار لانا بد شگونی ہے۔

پہلا:۔ مگر اس کے یہاں آنے سے ہمارا کیا نقصان ہو سکتا ہے ؟

بروٹس:۔ راتوں کو ایک بھونکنے والا کتّا کیا نقصان پہنچاتا ہے جو محلے سے ڈھیلے مارکر بھگا دیا جاتا ہے۔ مکان کی چھت پر غم زدہ اور کریہہ آواز سے بولنے والا الّو کیا تکلیف دیتا ہے جو فوراً بانس اور ڈھیلوں سے اڑا دیا جاتا ہے۔ جس طرح یہ دونوں اپنی اپنی موجودگی سے نحوست پھیلاتے ہیں اسی طرح یہ منحوس یہودی بھی جہاں جاتے ہیں کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور لاتے ہیں۔

ڈیسیا:۔ عزرا !خوش آمدید !غالباً تم ہار میر ی مرضی کے موافق ہی تیار کر کے لائے ہو گے۔

عزرا:۔خادم نے کوشش تو اسی بات کی کی ہے۔ یقین ہے کہ حضور عالیہ دیکھ کر بہت پسند فرمائیں گی اور خوشنودیٔ مزاج کا سرٹیفکٹ عطا فرمائیں گی۔

ڈیسیا:۔ بہت اچھا ، بہت خوبصورت !یہ دلکش ہار جب میرے عیسیٰ نفس مارکس کی صراحی دار گردن کا ہار ہو گا تو بڑا پُر بہار ہو گا۔

بروٹس:۔ عزیز شہزادی ، چونکہ یہ ہار ایک یہودی کے ہاتھ کا بنا ہوا ہے اس لیے اسے پہلے مندر میں بھیج کر دعائیں دم کر کے پاک بنایا جائے۔ اس کے بعد شہزادہ مارکس کے گلے میں پہنایا جائے۔

عزرا:۔ عالی مرتبت دینی سردار ، جس طرح رومن قوم بادشاہ کی فرمانبردار ہے اسی طرح یہودی قوم بھی اس کی دعا گزا رہے ، جس طرح وہ شاہی احکام کی حرمت کرتے ہیں ہم بھی کرتے ہیں ، جس طرح وہ شاہی دشمنوں کو اپنا دشمن جانتے ہیں اسی طرح ہم بھی ان کو حقیر جانتے ہیں ،  جب بادشاہ کا اپنی رعیت کے ہر چھوٹے بڑے پر یکساں ہاتھ ہے تو محض مذہبی تعصب کی بنا پر اس کی ایک شریف رعایا کو سرِ دربار ذلیل کرنا کتنی شرم کی بات ہے۔

بروٹس:۔ ذلیل کو ذلیل کہنا میری نظر میں کوئی برائی نہیں۔ کیا تم یہودیوں نے اپنی سود خواری، اپنی کینہ پروری ، اپنی بے رحمی سے ہم رومیوں کے سر پر طرح طرح کی مصیبت ڈھائی نہیں ہے ؟ ان کے حصے میں کون سی برائی ہے جو آئی نہیں ہے ؟

عزرا:۔ لیکن اگر واقعی ہم ایسے ہیں تو ہمیں ایسا بے رحم بنانے والے بھی تم اور تمھاری قوم ہے۔ جب تم ہمارے پاک مذہب کی حقارت کرو گے اور ہمارے منہ پر تھوکو گے ، ہمیں ایک کتّا سمجھ کر ٹھکراؤ گے تو پھر ہمارے دل میں بھی انتقام کا سویا ہوا جذبہ بیدار نہ ہو گا؟جب غریب جانور بھی اپنے ستانے والے پر پلٹ کر حملہ کرتا ہے تو دل اور کلیجہ رکھنے والا انسان کیوں کر بدلہ لینے کو تیار نہ ہو گا؟

بروٹس:۔ جھوٹے ! اگر ہم واقعی ایسے ہی ہوتے تو تم لوگ ہماری سلطنت میں رہنے ہی نہ پاتے۔ چیل اور کوّوں کی غذا ہو جاتے۔

عزرا:۔ کیوں نہیں!یہ آفتاب جو ہمیں روشنی پہنچاتا ہے۔ یہ دریا جو ہمیں پانی پلاتا ہے ، یہ زمین جو ہمارے لیے غذا اُگاتی ہے۔ غرض قدرت کی ہر ایک قوت جو ہماری خدمت بجا لاتی ہے ،یہ سب تمھاری ہی مہربانی ہے ، تمھاری ہی وجہ سے ہماری زندگانی ہے ، کیا ہمارے خدا تم ہی ہو ؟

بروٹس:۔ اچھا تو بتاسکتا ہے کہ تیری قوم کے ساتھ ہم نے کون سا بُرا سلوک کیا ہے ، کون سا عذاب دیا ہے ؟

عزرا:۔ یہ مجھ سے نہیں ، اپنے بے درد دل سے پوچھو! اپنے خون بھرے ہاتھوں سے پوچھو !اپنی چھریوں اور خنجروں سے پوچھو!کیا ہزاروں یہودیوں کو محض اس قصور پر کہ وہ یہودی مذہب کے خدا کو پوجتے ہیں ، سخت سے سخت عذاب کے ساتھ قتل نہیں کرا یا،ہزاروں بچوں کو یتیم اور ہزاروں عورتوں کو بیوہ نہیں بنایا؟ ہماری قوم کے مظلوم بیکسوں سے اپنا قید خانہ نہیں بسایا؟ اگر یہی اچھا سلوک ہے ، یہی اچھا کام ہے تو مجھے بتاؤ کہ نا انصافی اور ظلم کس چیز کا نام ہے۔    ؂

تم ستم کرتے رہے اور ہم ستم دیکھا کیے

خانماں برباد ہو کر رنج وغم دیکھا کیے

سر ہوئے تیغِ عدوات سے قلم دیکھا کیے

تم نے کیں لاکھوں جفائیں اور ہم دیکھا کیے

بغض کا ہم پر مگر الٹا اثر ہوتا  گیا

چھانٹنے سے نخلِ مذہب بارور ہوتا گیا

ڈیسیا:۔ ناعاقبت اندیش یہودی خاموش رہ !کیا زندگی سے نا امید ہے ؟ بزرگ باپ، ایک فرسودہ حو اس بوڑھے کو اپنا مخاطب بنانا آپ کی شان سے بعید ہے۔

شاہ ٹائنس:۔میں ڈیسیا کی رائے کو پسند کر کے آپ کو اس احمقانہ جرأت سے چشم پوشی کرنے اور اس یہودی کو خاموش رہنے کا حکم دیتا ہوں۔ خیر سنیے اور برکت دے کر میرے عزیز بچوں کا ہاتھ ملائیے۔

بروٹس:۔

خوش اور ایک دوسرے پر مہرباں رہو

دنیا میں بامراد رہو ، شادماں رہو

راحیل:۔ ٹھہرو ، ٹھہرو! جب تک بادشاہِ عادل کے حضور میں ایک مظلوم باوفا کی عرضی پیش ہو کر دغا بازی کے مقدمے کا فیصلہ نہ ہولے اس وقت تک ٹھہرو۔

شاہ ٹائنس:۔ یہ کون؟

مارکس:۔

باعثِ تکلیف راحت میں گراں جانی ہوئی

سن رہا ہوں صاف اک آواز پہچانی ہوئی

عزرا:۔ راحیل! تو یہاں کیوں آئی؟

راحیل:۔ انصاف پانے۔

عزرا:۔ کیا تجھے یقین ہے کہ ایک رومن شہزادی کے خلاف ایک مظلوم یہودی کی لڑکی کی فریاد سنی جائے گی؟

راحیل:۔ اگر اس دربار کا یہ دعویٰ ہے کہ یہاں امیر اور غریب دونوں کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے تو اسے اِس دعوے کی شرم رکھنے کے لیے میری فریاد ضرور سننی پڑے گی۔

بادشاہ:۔ اے اجنبی لڑکی ، صاف لفظوں میں حال بیان کر۔ اگر تو مظلوم ہے تو تیر ا حریف چاہے شاہی نسل کا ہی آدمی کیوں نہ ہو ، انصاف ضرور تیری طرف داری کرے گا۔ بول تو کس کی ستائی ہے اور کس کے خلاف فریاد لائی ہے ؟

راحیل:۔ مجھے ستانے والا ، دین و دنیا سے مٹانے والا  ؂

جفا پیشہ ، وفا دشمن، ستم گر ، کون ہے ؟ یہ ہے !

شکایت جس کی کرتا ہے مقدر کون ہے ؟ یہ ہے !

ڈیسیا:۔ کون ! شہزادہ مارکس؟

بادشاہ:۔ ولی عہدِسلطنت؟

راحیل:۔ ہاں ، یہی ، یہی !

اس کے دم سے خزاں باغ کی بہار ہوئی

یہی ہے جس سے مری زندگانی خوار ہوئی

بادشاہ:۔ مارکس!سنتا ہے ؟ اس الزام کا تیرے پاس کیا جواب ہے ؟

مارکس:۔     ؂

ستائی گئی تھی برا کہہ رہی ہے

جو یہ کہہ رہی ہے بجا کہہ رہی ہے

راحیل:۔بچیے !  بچیے ! شہزادی صاحبہ !اس خوبصورت سانپ سے بچیے۔    ؂

بے رحم ہے یہ، رحم سرِ مو نہیں رکھتا

یہ روح میں درد ، آنکھ میں آنسو نہیں رکھتا

آزاد ہے جذبات پہ قابو نہیں رکھتا

وہ پھول ہے یہ پھول ، جو خوشبو نہیں رکھتا

ڈیسیا:۔ بس بس ، خاموش!میں ایسا کوئی لفظ ، جس سے میرے منگیتر کی توہین ہو ، سن نہیں سکتی۔

راحیل:۔ شہزادی    ؂

سراسر مکر زسرتا پا وفا نا آشنا ہے یہ

مری آنکھوں سے دیکھو تم ، تو ہو روشن کہ کیا ہے یہ

کنواری رہنا بہتر جانیے، اس سے عقد ہونے سے

وفا کی ہے عبث امید ، مٹی کے کھلونے سے

بروٹس:۔عالی جاہ !اگر آپ میری عرض سماعت فرمائیں تو میں یہ کہوں گا کہ عورتوں کے بیان پر کبھی یقین نہ کرنا چاہیے ،یہ عورتیں شیطان کے مکتب سے تعلیم پا کر نکلی ہیں اس لیے ان سے ہر وقت ڈرنا چاہیے۔    ؂

جفا سے ربط کریں اور وفا سے عار کریں

جگر پہ ضرب لگائیں تو دل پہ وار کریں

جو شرمناک عمل ہوں ہزار بار کریں

یہ  بے گناہ کو دم میں گناہگار کریں

ہزاروں فکر کے پہلو نکلتے بات سے ہیں

جہاں میں جتنے ہیں فتنے سب ان کی ذات سے ہیں

عزرا:۔ سر یر آرائے عدالت!سلطنت کا ایک معزز رکن ہو کر انصاف کے راستے میں روڑا اٹکائے !دباؤ ڈال کر شاہی انصاف اور شاہی رائے کو ایک مظلوم فریادی کے خلاف بنائے !کیا یہ ان جیسے مقدس آدمی کو سزوار ہے ؟ کیا بادشاہِ حق پسند کا انصاف مظلوموں کا سرپرست ہونے کے بدلے ظالموں کا طرف دار ہے ؟

بادشاہ:۔ نہیں یہودی!کبھی نہیں !جس طرح آفتاب  کی روشنی امیروں کے محل اور غریب کے جھونپڑے میں فرق نہیں کرتی اسی طرح میں بھی انصاف کے وقت ادنیٰ اور اعلیٰ سب کو یکساں جانتا ہوں۔ اپنی ذمہ داری اور اپنا فرض پہچانتا ہوں۔

عزرا:۔ بس تو پھر جھگڑا صاف ، آج کے دن آپ کے لیے صرف یہی ایک کام ہے اور وہ ان کا انصاف ہے۔

بادشاہ:۔ میں انصاف کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کر دوں گا۔

راحیل:۔ خدا آپ کو مظلوموں کی حمایت کے لیے قیامت تک زندہ رکھے ! فرمائیے !اگر آپ کی رعایا میں سے کوئی شخص کسی عورت سے شادی کا وعدہ کر کے اس کی محبت کا شکار کرے اور اس کے کنوارے ہونٹوں کو اور گالوں کو ناپاک بنانے کے بعد اسے چھوڑ کر کسی دوسری عورت سے پیار کرے تو اس کے لیے حضور والا قانون کیا سزا تجویز کرتا ہے ؟

بادشاہ:۔ موت !بغیر رحم کے موت !

عزرا:۔ تو بس ہو چکا ، فیصلہ ہو چکا۔ آپ شاہی نام کی عزت ہیں ، تختِ سلطنت کے اہل ہیں۔ قلم اٹھائیے اور ولی عہد سلطنت کے قتل کا حکم صادر فرمائیے۔

بادشاہ:۔ مگر پہلے مجھے اس کا گناہ تو معلوم ہونا چاہیے۔

راحیل:۔ یہ آپ کی عزت اور شہرت کو برباد کرنے والا ، اس ملک کی غریب لڑکیوں کے سر پر تباہی لا رہا ہے۔ اس نے پہلے مجھ سے شادی کا وعدہ کر کے مجھے دھوکا دیا اور اب شہزادی ڈیسیا کو بھی فریب کے پھندے میں پھنسا رہا ہے۔     ؂

مجھ کو نہ کیا جب ، تو اسے شاد کرے گا!

اس کو بھی مری طرح یہ برباد کرے گا!

بادشاہ:۔ مارکس !اٹھ کھڑا ہو ، جواب دے ، ورنہ بدترین قسم کی سزائے موت تیرے لیے تیار ہے۔

مارکس :۔ بے شک غلام آپ کا خطا وار ہے اور دست بستہ حضور والا سے رحم کا امیدوار ہے۔

بادشاہ :۔ رحم یہ کر سکتی ہے ، میں کچھ نہیں کر سکتا۔

بروٹس :۔ جہاں پناہ!

بادشاہ:۔ بس کچھ نہیں !

بروٹس:۔ یہ نہ ہونا چاہیے۔

بادشاہ:۔ یہ ضرور ہو گا۔

بروٹس:۔ میری عرض یہ ہے کہ قانون گمراہوں کے واسطے ہے نہ کہ خیرخواہوں کے واسطے۔

بادشاہ:۔ اگر بادشاہ گمراہ ہے تو وہ بھی قانون کی رسی میں جکڑا جائے گا۔ اگر شہزادہ چور ہے تو اس جرم میں ضرور پکڑا جائے گا۔

بروٹس:۔میں پھر عرض کرتا ہوں کہ عام رعیت سے ایک شہزادہ زیادہ قابل توقیر ہے۔جس ہتھیار سے غلام پر ضرب لگائی جائے اسی ہتھیار سے آقا کو قتل کرنا مرتبہ اور شان کی تحقیر ہے۔

بادشاہ:۔ مگر انصاف کی تلوار آقا اور غلام دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔    ؂

یہاں تمیز نہ آقا میں اور نہ بندے میں

کہ صاف دونوں کی گردن ہے ایک پھندے میں

بروٹس:۔ عشق کا جوش  ایک قسم کا جنون ہوتا ہے۔

راحیل:۔ اس خوشامد بازی سے انصاف کا خون ہوتا ہے۔

بروٹس:۔ ارے چپ چپ ! تو ایک بھک منگے کنگال کی ذلیل چھوکری اور چراغِ سلطنت بجھانے کا ارادہ !ایک مفلس بے ننگ و نام لڑکی ، اور خاندانِ شاہی کو مٹانے کا ارادہ !

راحیل:۔ تو پھر یہ کیوں نہیں کہتے کہ امیروں کے سرتاجِ زر کے لیے ہیں اور غریبوں کے سر امیروں کے ٹھوکر کے لیے ہیں۔

بروٹس:۔ بے شک!

عزرا:۔ واہ رہے مذہب اور واہ رے مذہبی پیشوا۔     ؂

 تمھارا غم ہے غم ، مفلس کا صدمہ اک کہانی ہے

 تمھارا عیش ہے عیش اور ہمارا عیش فانی ہے

یہاں بچپن بڑھاپا ، واں بڑھاپا بھی جوانی ہے

 تمھارا خون ہے خون اور ہمارا خون پانی ہے

یہ زر ، یہ نخوتیں کیا لے کے اپنے ساتھ جائے گا

 یہیں رہ جائے گا  سب ،یاں سے خالی ہاتھ جائے گا

راحیل:۔ عادل سلطان !اب مجھے انصاف ملنے میں کیا دیر ہے ؟ اگر آپ نے ابھی تک نہ سنا ہوتو میں اس سے بھی زیادہ بلند آواز سے انصاف انصاف پکارسکتی ہوں۔

بادشاہ:۔ آہ کیا کروں کیا نہ کروں۔     ؂

گھڑی شادی کی جو شاد آئی تھی ناشا د جاتی ہے

اِدھر انصاف جاتا ہے اُدھر اولاد جاتی ہے

اندھیرے میں پڑا تھا کیا خبر تھی مجھ کو اِس دن کی

جوانی اس کی اور محنت مری برباد جاتی ہے

عزرا:۔ عادل سلطان !کیا بیٹے کی محبت اور انصاف میں جنگ ہورہی ہے ؟

بادشاہ:۔ ہاں مگر فتح انصاف ہی کو ملے گی۔

راحیل:۔ پھر تو انصاف ملنا چاہیے۔

بادشاہ:۔ ضرور ملے گا۔

راحیل:۔ جناب والا سے ؟

بادشاہ :۔ ہاں مجھ سے !

راحیل:۔ تو کہاں؟

بادشاہ:۔ یہاں!

راحیل :۔ کس وقت؟

بادشاہ:۔ اسی وقت !بڑھو اے شاہی حکم کے پر ستارو !اس نا خلف کو بیڑیاں ہتھکڑیاں پہناؤ ا ور مقدمہ کا فیصلہ ہونے کے لیے کل اسے مذہبی عدالت  میں لے جاؤ۔

سب :۔ خاقانِ عالم !

بادشاہ:۔ خاموش!

(سین ختم)

               چوتھا سین

کامک۔۔باغیچہ

پھول من:۔ کہتے ہیں کہ جس طرح ہاتھی ،بھینس اور موٹا آدمی بغیر پانی کے جی نہیں سکتا،اس ہوٹل کا بیرا پھول من بغیر بیوی کے رہ نہیں سکتا    ؂

کسی حجام کی بیوی کو اڑایا تو کیا

ہم تو اچھے بھلے شلغم کوجُڑِیلا کر دیں

کوئی آئے تو اڑنگے میں ذرا یاروں کے

 بانسری کی طرح گاجر کو سُرِیلا کر دیں

چمپا:۔ اجی !اجی یہ کیا کہا؟

پھول من:۔ او ہو بندگی ،بندگا بلکہ تا بہ زندگا۔

چمپا:۔ہیں کیا کہا؟ میں تم سے نہیں بولوں گی۔

 پھول من:۔ ہیں، کیوں نہیں بولو گی؟ تمھیں بولنا پڑے گا۔

 چمپا:۔نہیں نہیں، تمھیں مجھ سے کچھ محبت نہیں۔

 پھول من:۔ ہیں محبت نہیں؟ پیاری محبت تو ایسی ہے کہ اگر تو مر جائے تو میں تیری قبر کی خاک تک جوتیوں سے اڑا دوں۔

چمپا:۔ ہیں؟ جوتیوں سے !

پھول من:۔ ہاں ہاں،یعنی اتنے ہیرے پھیرے کروں کہ مجنوں کا بچہ بھی میری گرداوری کا قائل ہو جائے ، استادفرہاد سر پھوڑ کر مر جائے۔

چمپا:۔ جاؤ ، میں سمجھ گئی۔

پھول من:۔ارے ناکند  بچھیری کی طرح کب تک کودے گی ، کبھی تھان پر بھی بندھے گی؟

چمپا:۔ چلو، اٹھو، میرا ایسی باتوں سے جی جلتا ہے۔

پھول من:۔ جی جلتا ہے تو چلو برف، سوڈاواٹر پیو یا لیمن جوس۔

چمپا:۔ چلو چلو، تمام زمانے کے مکھی چوس، ملاقات تو میسر نہیں،جب دیکھو غیر حاضر ، جب دیکھو موئے نوکری پر۔

 پھول من:۔ اوہ یہ بات؟ مگر پیاری تم نے اپنے آنے کا ٹیلی گرام کیوں نہ دیا؟

چمپا:۔ اونہہ پھر وہی مذاق؟ خدا کرے مٹ جائے یہ مذاق ، تو بہ میرے اللہ۔

پھول من:۔مٹ جائے کیسے ؟ دام نہیں خرچ کیا؟

(گانا)

 چمپا:۔ گلے لاگ چھیل سیّاں من بھایو، جاؤں واری!

پھول من:۔ ذرا نیناں سے نیناں ملا تو موری جان!

چمپا:۔ نہ ستاؤ سیّاں ، نہ جراؤسیّاں، جاؤں داری (جانا)

(سین ختم)

               پانچواں سین

راحیل کا گھر۔۔(راحیل کا گانا)

ترچھی نظروں سے مورا من ہر گیورے :

وہ کہتے ہیں کہ ترا دل چرا کے کیا لیتے

کہ جتنا چاہتے اتنا مجھے ستا لیتے

نہ اپنے کام کا دل ہے نہ یہ کسی قابل

وہ ایسی چیز ہی کیا تھی کہ ہم چھپا لیتے

پیادل لے کے مورا سگر گیورے :

چمن میں بادِ صبا مست مست پھرتی ہے

چٹک چٹک کے ہر اک شاخ سے نکلتی ہے

جو خُم سے شیشے میں محفل میں مے اترتی ہے

تو منہ سے مستوں کے آواز یہ نکلتی ہے

آ کے گلشن میں مورا گلِ تر گیورے :

ترچھی نظر وں سے  …

جس دن سے ہم آئے یہاں ملکِ عدم سے

دن بھر ہمیں فرصت نہ ملی رنج والم سے

دنیا میں خوشی کا نہ کبھی جام ملے گا

جب قبر میں جائیں گے تب آرام ملے گا

       اوہ شہزادی میری رقیب آتی ہے ،مضائقہ نہیں ، جو حالت میری ہے وہی اس کی ہے ، جیسی میں دکھی ہوں ویسی ہی وہ بھی دکھی ہے۔

ڈیسیا:۔ او آسمان کے فرشتو !مجھے توفیق دو کہ میں باوفا مارکس کی جان بچاؤں اور شکستہ دل یہاں سے اٹھ نہ جاؤں۔

(گانا)

ساجن پر ہے کیسی سکھی بپت آئی ، سوتن جھنجلائی!

کا ہے کون جتن کروں رے مائی۔ ساجن پر…

من کی کہوں کا سے کٹھن بپت کی بتیاں

آس پوری موری کرو، تورے شرن بے جگ دَھر بَر مانگن آئی۔

راحیل:۔ حضور !کیا آپ اس جنم جلی کی دبی ہوئی  آگ کو بھڑکانے آئی ہیں؟ کیا اس بجھتے چراغ کو اور جلانے آئی ہیں؟

(ڈیسیا کا آنا)

ڈیسیا:۔ اے حور شمائل راحیل!

راحیل:۔

کون ہے حور و پری ، شمس و قمر؟ آپ ، کہ ہم

کون ہے یار کی منظورِ نظر ؟ آپ، کہ ہم

ڈیسیا:۔

بخت لایا ہے مجھے تیری بڑائی کرنے

میں ترے قدموں میں آئی ہوں گدائی کرنے

راحیل:۔ جو مرا مال تھا سو تم نے چھپا رکھا ہے

اب یہاں کیا ہے ، مرے ہاتھ میں کیا رکھا ہے

ڈیسیا:۔ تمھارے ہاتھ میں اس نادان مارکس کی جان ہے۔

راحیل:۔ وہ جان ہماری جان کے ساتھ جانے کی شایان ہے۔    ؂

 بُرے کا حال دنیا میں بُرا ہی ہو تو اچھا ہو

مجھے رسوا کیا جس نے الہٰی وہ بھی رسوا ہو

ڈیسیا:۔ جب میدانِ قیامت میں نفسی نفسی پکاری جائے گی ، وہاں کس کی جان تمھارے کام آئے گی۔ راحیل یہاں کی عدالت جابر ہے ، شہزادے کی جان ناحق جائے گی۔    ؂

آئینہ عدالت کا یہاں صاف نہیں ہے

آئین ہے اس میں مگر انصاف نہیں ہے

راحیل:۔ یہی آئینی انصاف ہو گا ، اسی سے میرا آئینۂ دل صاف ہو گا۔

ڈیسیا:۔ نہیں ، یوں کہو گو کہ اس نے تمھیں ٹھگا ہے مگر اس دغا باز کو خدا پر چھوڑ دینا اچھا ہے۔     ؂

آپ مر جائے بشر ، پر غیر کی جاں بخش دے

آرزو بخشش کی رکھتا ہو تو انساں بخش دے

راحیل:۔  چھوڑ دوں اس کو کہ تم چین کرو اِس کے ساتھ

چھوڑ دوں اس کو کہ تم بولو، ہنسو اِس کے ساتھ

ڈیسیا:۔  میں کبھی دل نہ ان اہلِ دغا کو دوں گی

دل اگر دوں گی تو بس اپنے خدا کو دوں گی

راحیل:۔  اس کو میں آپ کی خاطر نہ کبھی چھوڑوں گی

اپنا دم توڑوں گی اور اس کا بھی دم توڑوں گی

ڈیسیا:۔ نہیں !عزیز راحیل!نیکی کا نتیجہ بے کار نہیں ، چلو آؤ عدالت میں کہہ دو کہ شہزادہ قصور وار نہیں۔

راحیل:۔ قصوروار نہیں ؟ جس نے مجھ کو گور کنارے لگا دیا وہ قصور وار نہیں    ؂

میں نہ گوارا اِس کی جدائی جیتے جی منظور کروں گی

ساتھ جیوں گی ، ساتھ مروں گی ، پیار کیا ہے ، پیار کروں گی

ڈیسیا:۔ بے خبر پیار کا جینا تجھے معلوم نہیں

سچے عاشق کا قرینہ تجھے معلوم نہیں

پیار میں یار کی راحت میں توقف نہ کرے

سر بھی کٹ جائے رہِ یار میں تو اُف نہ کرے

راحیل:۔

اپنے کیے کی آپ سزا کیوں نہ پائے شمع

خود کیوں جلے اگر نہ کسی کو جلائے شمع

ڈیسیا:۔ تم اپنے جوشِ غضب میں صرف رشک و رقابت کی صداؤں پر زور لگا رہی ہو ، سچی محبت کے دلربا فرائض کو بھولی جا رہی ہو ، مگر مجھے تم دیکھو کہ میں جنم کے ساتھ اس کی ہونے والی حق دار بیوی اس سے دست بردار ہو کر بھی اس کی سلامتی کے لیے اپنی شان کے خلاف ذلّتیں اٹھا رہی ہوں ، تمھارے پاؤں پر سر جھکا رہی ہوں ، مجھے اس کی جان کی خیرات دو، چاہے اس کے بدلے میری جان لے لو۔

راحیل:۔ آہا !یہ قدرت کا انتقام ہے ، یہ عبرت کا مقام ہے ، کہ جو مغرور کسی کا سر ذلیل سمجھ کر ٹھکراتے ہیں وہی مجبور ہو کر ایک دن اس کے پیروں پر سر جھکاتے ہیں !اچھا اس کی جان بخشی کا انعام ؟

ڈیسیا:۔ منہ مانگا معاوضہ !جو چاہو سولو ، پر شہزادے کی جان بچا لو۔

راحیل:۔ نہیں۔ یہ ٹوٹا ہوا دل اور بھی چور چور کروں گی ، مگر تمھارا سخن نہ کبھی  منظور کروں گی۔

ڈیسیا:۔ میں منظور کراؤں گی ، پاؤں پر پڑ کر تمھیں مناؤں گی۔ اگر سچی اشر ا ف  عورت ہو تو مردمی دکھاؤ۔ جہنمی دیوتا بن کر نیک عورت کا نام نہ ہنساؤ۔

راحیل:۔ نہیں نہیں ، عورتوں کا نام نہیں ہنساؤں گی ، مردوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں دو ں گی کہ ایک رومن شہزادی نے سر جھکایا اور ایک مغرور یہود ن نے رحم نہ کھایا !اٹھو، شہزادی اٹھو۔گو میں اس میں اپنی واجبی داد نہ پاؤں گی مگر تمھاری اس گر یہ و زاری سے جفا پر بھی وفا دکھاؤں گی۔سر اٹھاؤ ، جاؤ ، خوف نہ کھاؤ ، جب میرا جسم پاک خاک میں مل جائے اور بے وفا دنیا ہماری قوم کو خود غرض بتائے ، اس وقت تم پکار کر کہہ دینا کہ شکستہ دل راحیل اگر چہ یہودی تھی، مگر سچی  وفادار اور پیار کا سدا بہار گلشن تھی۔

ڈیسیا:۔ آفریں !او سچے پیار کی پتلی آفریں !اگر چہ موت کا دروازہ اس وقت تمھارے سامنے کھلا ہے مگر جنت کا داروغہ تمھاری پیشوائی کو کھڑا ہے۔

راحیل:۔ میں چلوں گی اور اس بے وفا کا آخری دیدار کر کے مروں گی۔ راحیل مر جائے گی مگر جو کہا ہے اسے کر دکھائے گی۔ بچائے گی اور اسے ضرور بچائے گی۔    ؂

غریبوں کا بھی کوئی آسرا ہوتا تو کیا ہوتا

بتِ کافر ہمارا بھی خدا ہوتا تو کیا ہوتا

کوئی لذت نہیں ہے پھر بھی دنیا پیار کرتی ہے

خداوندا محبت میں مزا ہوتا تو کیا ہوتا

جب اتنی بیوفائی پر دل اس کو پیار کرتا ہے

جو یارب وہ ستم گر با وفا ہوتا تو کیا ہوتا

سنا ہے حشرؔ وہ ذکرِ وفائے غیر کرتے ہیں

جو میں بھی بیچ میں کچھ بول اٹھا ہوتا تو کیا ہوتا

(سین ختم)

               چھٹا سین

کامک

مس روز:۔ کیوں جی، تم نے اپنے دوست کو میرا پیغام پہنچایا؟

گھسیٹا:۔ نہیں پہنچایا اور میں پہنچانا بھی نہیں چاہتا۔

 مس روز:۔ کیوں کیوں؟

گھسیٹا:۔ اس لیے کہ مسٹر گھسیٹا بہادر خاں ہر گز ایسا بے وقوف آدمی نہیں ہے جوتم جیسی نقلی بیوہ کے دھوکے میں آ جائے۔

مس روز:۔ ہیں، یہ کیا جناب؟

گھسیٹا:۔جناب و ناب کچھ نہیں، بس جس طرح آدمی کے بدلے کوئی ہاتھی کا بچہ الّو کا پٹھا نہیں ہوتا اس طرح تم بھی اصل میں وہ روز نہیں ہو۔

 مس روز :۔ ارے یہ تو کوئی بڑا پاگل ہے۔ میں مس روز نہیں ہوں، اس سے تمھارا مطلب؟

گھسیٹا:۔ مطلب کی بچی! ہم آپ کو جانتے ہیں،ابھی ابھی آپ کے خاوند سے ملنے کی عزت حاصل ہوئی ہے۔

مس روز:۔ میرا خاوند!

گھسیٹا:۔ اور نہیں تو کیا آپ کے باپ؟ وہ ، وہی صاحب جو نہایت ہی غریب ہیں ! گائے کی طرح۔ کیا نام ہے ؟ وہی لکڑ توڑ۔ کفن پھاڑ۔

مس روز:۔ ارے توبہ! تجھ کو جلائے بھاڑ! کیا مسٹر وڈ ، مسٹر وڈ۔

 گھسیٹا:۔ ہاں ہاں، وہی ہدہد۔

 مس روز:۔ مگر وہ تو دوسری میم صاحب کے خاوند ہیں۔ بے وقوف !

گھسیٹا:۔ نہیں تو وہ تمھارے خاوند نہیں؟

مس روز:۔ ہر گز نہیں

(مسیتا  کا آنا)

مسیتا:۔ ارے یہ کون پاجی؟ یہ تو پھر جی گیا اور کس خوبصورتی سے مٹھار مٹھار کر باتیں کر رہا ہے۔بس میں بھی یہاں چھپ کر موقع ڈھونڈھتا ہوں۔

 گھسیٹا:۔ ہاں تو جناب ذرا خلاصہ کیجیے۔ دیکھیے میں اس گڑبڑ گھٹالے سے بہت ہی گھبرا گیا ہوں۔

 مس روز:۔ کس قدر دیوانگی ہے ! ارے بے وقوف وہ مسٹر وڈ میری بہن ایلس کے خاوند ہیں جو جھوٹ موٹ کی بیوہ بن کر اصلی مس روز کے نام سے اس   مسیتا ، تیرے دوست کے ساتھ ناچی تھی۔

مسیتا:(سائڈ میں) ار رر کیا! یہ کیا کہا؟

گھسیٹا:۔ کیا کہا؟ جھوٹ موٹ ، نقلی مس روز ناچی تھی۔

 مس روز:۔ہاں ہاں،وہ ایک مسخری تھی مسخری۔

گھسیٹا:۔ مسخری؟ یعنی چھوٹی سی دل لگی ! بالکل ننھی سی !

مس روز:۔ ہاں ! بس اس روز مس ایلس میرے نام سے مسیتا کے ساتھ ناچی تھی۔

 مسیتا:(سائڈ میں) ارے یہ کیا تاتا تھیّا ہوئی ؟

گھسیٹا:۔ اچھا اچھا ! اس احمق مسیتا کو اس دن خوب بنایا۔

مسیتا:۔ (سائڈ میں ) ہیں؟ احمق تیرا باپ ہو گا۔

مس روز:۔ اور نقلی مس روز کے ساتھ جھوٹ موٹ ناچ نچایا۔

 مسیتا:(سائڈ میں) او خدا! یہ کیا پروگرام سنایا۔

 گھسیٹا:۔ ٹھیک ٹھیک ! اب میری سمجھ میں آیا۔ جب تو تم ہی سچی مس روز ہونا؟

مس روز:۔ ہاں ہاں ، میں ہی۔

مسیتا:(سائڈ میں) ہائے ہائے۔ تب تو میری ساری محنت برباد ہوئی۔کمبخت وہ اصلی بیوہ تو یہ نکلی۔

 گھسیٹا:۔ واہ! پھر تو پوبارے ہیں۔پانچوں گھی میں سر کڑھائی میں۔ اچھا تو بیگم بس اب کوئی دھوکے کی بات نہ کرنا، وہ تمھیں ہو تین ہزار روپے ماہوار والی۔

مس روز:۔ ہاں ہاں، وہ تین ہزار روپے ماہوار والی بیوہ میں ہی ہوں ، میرے بے غرض نوجوان۔

 مسیتا:(سائڈ میں) ہیں! بے غرض نوجوان یا مجسم شیطان؟

گھسیٹا:۔ جب تو اے عورتوں کی لاج، مال داروں کی سرتاج! میں نے اپنی عمر میں صرف تم ہی کو اپنا دل دیا ہے ، یہ بندہ جان و دل سے آپ پر قربان ہو گیا ہے۔ او مائی ! توبہ توبہ! اپنی دولت کے واسطے شادی کرو۔

(گانا)

 مس روز:۔ موئے کوّے کی خو ہے ساری،کہیں ڈکھلا دو، کہیں بھجوا دو، مورا بھوکا بھکاری ،ہے مجھ پر قربان۔

 گھسیٹا:۔ جوبن رسیلے نہ باتیں بنا، تیری فرقت میں دلبر نہ پاؤں قرار۔

مس روز:۔ واہ واوا!

 گھسیٹا:۔ میر ی قسم جاؤ جی جاؤ۔

 مس روز:۔ نہ منہ کو دکھاؤ۔

 گھسیٹا:۔ اے جنیاں! نہ مجھ کو کرو بے قرار موئے کوّے کی …

مس روز:۔ ابے کیا ہوا سودائی؟

 گھسیٹا:۔ گھبراؤ نہیں۔ تمھارے لیے میرے پاس ایک سفارش نامہ ہے۔ پر کہیں وہ ڈاک سے آیا ہوا خط اور سفارشی نوشتہ دونوں ایک جگہ نہ ہو گئے ہوں، لیجیے اور اس کو پڑھیے کہ میں کیسا خاندانی آدمی ہوں۔

 مسیتا:۔ نہ سننا نہ سننا اس کو سرکار!

مس روز:۔ ہیں! یہ کون دوسرا مکار؟

مسیتا:۔ بیگم بیگم یہ تو ہے گھسیٹا حجّام اور میں ہوں آپ کا پرانا خادم،مسٹر مسیتا نام۔ اجی میری طرف مخاطب ہو، اے دنیا کی حسینوں میں سب سے اچھی مال دار بیوہ! لیجیے میرا سفارش نامہ۔

گھسیٹا:۔ جھوٹا ہے ! اجی آپ اس نو شتے پر اپنی خوبصورت نظریں دوڑائیں۔

 مسیتا:۔ ابے ہٹ تو الّو! میں چلنے نہیں دوں گا۔

 گھسیٹا:۔ ابے گدھے ، بے پیندی کے کدّو۔ میں کب چلنے دوں گا۔

مسیتا:۔ ابے الّو ! سب سے پہلے تو میں عاشق ہوا ہوں یہ دیکھیے جناب بالمشافہ۔

گھسیٹا:۔ ابے گدھے ! سچی اور اصلی بیوہ کا پتہ تو میں نے لگایا ہے۔حضور یہ لیجیے لفافہ۔

 مسیتا:۔ اجی اُدھر نہ جائیے اِدھر آئیے۔

گھسیٹا:۔ اجی صاحب ! اِدھر آئیے۔

 مسیتا:۔ مگر اِدھر تو سنیے۔

 گھسیٹا:۔ ہائے ہائے ذرا اِدھر تو دیکھیے۔

 مس روز:۔ ارے ہائے ہائے ! یہ کیا مصیبت؟

مسیتا:۔ ارے ! دھکا کیوں دیتا ہے او منحوس؟

گھسیٹا:۔ ابے اوپر کیوں گرا پڑتا ہے کنجوس؟

مسیتا:۔ دوں جھانپڑ؟

 گھسیٹا:۔ دوں لپّڑ؟

مسٹر وڈ:۔ او یو بلاڈی راسکل۔ تم پھر آیا۔ یو فارسی کتّا۔ تم پھر غل مچایا۔ یو کالے پّلے ! ہم تم کو جوتی کے موافق نیچے گرائے گا،اور گردن سے پکڑ کر باہر بھگائے گا۔

 مس روز:۔ او خدا ، او خدا یہ حرف؟

گھسیٹا:۔ دیکھا آخر نہ میری طرف!

مسیتا:۔ اجی یہ ہٹا دیجیے ! اس کو پڑھیے ایک طرف۔

 مس روز:۔ دونوں وحشی ، دونوں دیوانے ، خدا کے کارخانے کون جانے ؟ ارے دیوانو! اس خط نے تمھاری اور میری تکلیفوں کا خاتمہ کر دیا۔

 گھسیٹا:۔ پھر کام پٹخ ہو گیا۔

مس روز:۔ نہیں ایلس اور مسٹر وڈ ! آپ بھی اس خط کو بغور سنیں اور لکھنے والے کی تعریف کریں۔

گھسیٹا:۔ کریں اور ضرور کریں۔

 مس روز:۔ میری پیاری روز! میرے خالو کے اچانک مر جانے سے جو ہمیں اپنی شادی کے چھپانے کی ضرورت ہوئی تھی اب وہ شبہ نکل گیا۔ کیونکہ بندہ ہی تمام جائداد کا مالک بن گیا، اب تم اس خط کو دیکھتے ہی فوراً کیپ ٹاؤن چلی آؤ۔ میں ہوں تمھارے انتظار میں ہاف ڈیڈ*   تمھارا خاوند جان الفریڈ۔

 ایلس:۔ ہیں، بہن تمھارا خاوند؟

 گھسیٹا:۔ ہیں، اس کا خاوند ؟ ہائے ہائے سفارش نامہ کے بدلے میں نے کون سا کاغذ دے دیا۔ ار رر ٹکر نمبر آٹھ۔

سب:۔   ہُرّے۔ ہُرّے۔

مسیتا:۔ ار رر یہ بات تو بہت بُری رہی۔ یہ بیوہ تو آپ کی نہ رہی نہ میری ، تو کونہ مُوکو، چولھے میں جھونکو۔

*  ہاف ڈیڈ۔  Half Daed یعنی نیم جان

 گھسیٹا:۔ ارے بُری سے بُری۔ میر ی تو ساری بنی بنائی عمارت ڈھے گئی۔ ہائے نہ ڈاک منشی، نہ بیوہ کے سکریٹری۔ کم بخت وہی موچی کے موچی۔

مسیتا:۔ ہائے کس مصیبت سے بیوہ کا پتہ لگایا۔

گھسیٹا:۔ پھر اس کو بھی خاوند والی بیوہ پایا۔

 مسیتا:۔ مگر سنو جی یہ کیسا دھوکا!کیسی بے ایمانی! اس عورت پر میرے خیال میں مقدمہ چلانا چاہیے۔

 گھسیٹا:۔ ضرور چلانا چاہیے بلکہ لندن تک جانا چاہیے۔کم بخت پہلے تو بیوہ بن کر اچھے اچھے بھلے مانسوں کو شیدائی بنانا اور جب روپے دینے کا وقت آنا،  تو پھر جھٹ پٹ خاوند والی بن جانا۔ ڈیم یو!

مسیتا:۔ چلو بھائی، اب ٹھنڈے ٹھنڈے گھر چلیں۔ نہ تو کمپا لگا نہ جال، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

 گھسیٹا:۔ ہائے ہائے نہ تھالی ملی نہ تھال۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

 مسیتا:۔ نہ وہ حسن ملا نہ جمال نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

 گھسیٹا:۔ نہ وہ بیوہ ملی نہ مال۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔

(سین ختم )

               ساتواں سین

مذہبی عدالت

بروٹس :۔ تو ہوش میں ہے ؟

راحیل:۔ ہاں!

بروٹس :۔ تجھ پر کوئی دباؤ تو نہیں ڈالا گیا؟

راحیل:۔ نہیں۔

بروٹس:۔ تو تو اپنا پہلا بیان واپس لیتی ہے ؟

راحیل:۔ ہاں۔

عزرا:۔ راحیل! راحیل!کیوں محبت میں اندھی ہو گئی ہے ؟

راحیل:۔ اس لیے کہ اب اور کچھ نظر نہیں آتا۔

عزرا:۔ کیوں اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہی ہے ؟

راحیل:۔ اس لیے کہ قبر میں جاؤں گی تو بے وفاؤں کے ظلم سے نجات پاؤں گی۔

عزرا:۔ عدالت اس کی باتوں کا یقین نہ کرے ، ضرور اس پر کسی نے جادو کر دیا۔

بروٹس:۔ راحیل!میں روم کے قانون کے مطابق تجھ سے تیسری بار اور پوچھتا ہوں کہ تو شہزادہ مارکس پر لگائے ہوئے تمام الزامات واپس لیتی ہے۔

راحیل:۔ ہاں لفظ بلفظ۔

عزرا:۔           دل آیا جب تو رک سکتا نہیں زنہار عورت کا

        مزاجِ مرگ سے بھی مستقل ہے پیار عورت کا

مارکس :۔

یہ کیا معنی؟ زباں بدلی ، سخن بدلے ، ادا بدلی

یہ کیوں کر اس جفا دیدہ نے پھر طرزِ وفا بدلی

چھپاتی ہے گھٹا بن کر یہ میرے جرمِ عصیاں کو

الہی آج اس گلزار کی کیسی ہوا بدلی

بروٹس:۔ عزرا چونکہ تم بھی اس دعوے کی تائید کرنے والے تھے اس لیے اب تم کیا کہتے ہو ؟

عزرا:۔ جس قدر افریقہ کے بیاباں میں ریگ کے ذرے ہیں ان سے بھی زیادہ میرے پاس الفاظ تھے مگر اس ناعاقبت اندیش کی وجہ سے اب کچھ نہیں کہنا چاہتا اور عدالت کے فیصلے کے سامنے اپنا سر جھکا تا ہوں۔

بروٹس:۔ تو اب میرا فرض اتنا رہ گیا ہے کہ اپنا آخری حکم سناؤں ، شہزادہ مارکس ! عزت وآبرو کے ساتھ آپ کی رہائی کی جاتی ہے۔ راحیل اور عزرا تمھیں ایک رومن شہزادے پر بلا ثبوت جھوٹا الزام لگانے کے جرم میں زندہ آگ میں جلائے جانے کی سزا دی جاتی ہے۔

راحیل:۔میرے باپ کو سزا ؟ میرے باپ کو میرے جرم سے کیا سروکار؟

بروٹس :۔ اس لیے کہ یہ تمھارا معاون و مددگار ہے۔

راحیل:۔ نہیں نہیں!یہ نا انصافی ہے۔ ظلم ہے۔ مجھے ماردو۔ برباد کر دو،مگر میرے بوڑھے باپ کو آزاد کر دو۔

بروٹس:۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اجلاس برخاست!

مارکس:۔ بزرگ باپ ، اس وفادار لڑکی نے چونکہ میرے ساتھ نہایت شریفانہ سلوک کیا ہے اس لیے اگر آپ اپنے ولی عہد اور ہونے والے شہر یار کو ہمیشہ کے لیے حلقہ بگوش بنانا چاہتے ہیں تو اس کی رہائی کی تدبیر فرمائیے۔

بروٹس:۔ شہزادے میرے دل میں خود نا معلوم جذبات کا تلاطم ہے۔ میں خود اس لڑکی پر رحم کرنا چاہتا ہوں مگر افسوس کہ قانون کا شکنجہ اسے نہیں چھوڑ سکتا۔

مارکس :۔ کچھ بھی تدبیر فرمائیے ، مگر اس کی جان بچائیے۔

بروٹس:۔ اچھا آپ جائیے ، مجھ سے جو ممکن ہو گا وہ کروں گا۔ راحیل اگر تمھارا باپ تمھارے بچانے کے لیے تم سے کوئی درخواست کرے تو تم منظور کرو گی؟

راحیل:۔ دل و جان سے۔

بروٹس:۔ عزرا تم اپنی لڑکی کو موت کے پنجے سے بچانا چاہتے ہو؟

عزرا:۔ دل و ایمان سے۔

بروٹس:۔ تو اجازت دو کہ یہ اپنا مذہب چھوڑ کر ہمارے مذہب میں شامل ہو اور اس کے ساتھ تم بھی ہمارے مذہب میں داخل ہو۔

عزرا:۔ کیا دو روزہ زندگی کے لیے تبدیلِ مذہب کریں ؟ نہیں زینہار نہیں ، مرنا منظور ہے مگر یہ دل فگار عزرا تبدیلِ مذہبِ آبائی سے مجبور ہے۔    ؂

کب نباہتی ہے یہ دنیا کسی انسان کے ساتھ

قسمت اس شخص کی ، اُٹھ جائے جو ایمان کے ساتھ

بروٹس:۔ تو کیا میری صلاح منظور نہیں؟

عزرا:۔ ہر گز نہیں ، اپنی بچی کو بچانے کو اور سب کچھ کرنے کو تیار ہوں ، مگر اپنا مذہب چھوڑنے سے ناچار ہوں۔

بروٹس:۔ بدبخت یہودی میری صلاح تمھاری بقائے حیات کے لیے اور روح کی نجات کے لیے ہے۔

عزرا:۔ آدمی کی نجات کا سچا رہنما ، اس کا دینی طریقہ اور آبائی عقیدہ ہے۔   ؂

ہر طرف سے راستہ ہے خانۂ اللہ کا

دیر، کعبہ یا کلیسا پھیر ہے اک راہ کا

بروٹس:۔ اپنی گر جان ہے تو سب کچھ ہے۔

عزرا:۔ اپنا ایمان ہے تو سب کچھ ہے۔

بروٹس:۔ اپنا امکان ہے تو سب کچھ ہے۔

عزرا:۔ اپنا یزدان ہے تو سب کچھ ہے۔

بروٹس:۔ عزرا ، عزرا۔ یہ میری مہربانی ہے کہ میں اس وقت تیری جان بچانے کو تیا ر ہوں ورنہ تو جانتا ہے کہ میں یہودیوں کی صورت تک سے بیزار ہوں۔

عزرا:۔ ہاں! اور یہ اس بیزاری اور نفرت کا نتیجہ ہے کہ قدرت نے تمھارا غرور توڑ دیا ہے ، تمھارا گھر بار، بیوی بچے سب کچھ تم سے چھین کر تمھیں اس دنیا میں تنہا جلنے اور کڑھنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

بروٹس :۔ میری پچھلی زندگی کے واقعات تو کیسے جانتا ہے ؟

عزرا:۔ بے درد رومن !عزرا آج سے نہیں تجھے سولہ برس سے پہچانتا ہے ،    تمھیں ہو جس نے لاکھوں بچوں کو یتیم اور لاکھوں عورتوں کو بیوہ بنایا     ؂

خدا پر ہے ظلم آشکارا تمھارا

ہمیں یاد ہے زور سارا تمھارا

کُھلے گی حقیقت ہماری تمھاری

جب انصاف ہو گا ہمارا تمھارا

بروٹس:۔ میں نے تیری قوم کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اس کی مستحق تھی مگر اب میری مہربانی دیکھ کہ تجھے سراسر مجرم پاتا ہوں ، پھر بھی تیری جان بچاتا ہوں۔

عزرا:۔ مجھے اب جان کی پروا نہیں ہے۔ البتہ یہ آرزو ہے کہ مرنے سے پہلے ایک پُر فن قاتل رومن کا سارا کس بل نکال دوں اور اس کے پتھر جیسے کلیجے میں چٹکیاں لے لے کر چھالے ڈال دوں۔

میں ہنستا ہوں کلیجہ تھام کر روتا ہوا تو ہو

مری آنکھوں میں نفرت اور تری آنکھوں میں آنسو ہو

بروٹس:۔ میں تجھے سخت بیوقوف پاتا ہوں۔

عزرا:۔ میں تجھے آج سے سولہ برس پیشتر کا واقعہ یاد دلاتا ہوں جب شاہ سیزر کے قلم سے تمام روما میں ہر طرف آگ بھڑکی تھی ، اس وقت تیرے گھر میں ایک خوبصورت بیوی اور بیوی کی گود میں چھ مہینے کی خوبصورت لڑکی تھی۔

بروٹس:۔ اس بات کے یاد دلانے سے تمھاری کیا مراد ہے ؟

عزرا:۔ میں پوچھتا ہوں کہ ان دونوں کے آگ میں جلنے کا واقعہ تو خوب یاد ہے ؟

بروٹس:۔ ہاں میں اس منحوس دن کو جب موت نے میری بیوی اور بچی کو مجھ سے چھین لیا، کبھی نہیں بھول سکتا۔

ابھی تک غم سے کُڑھتا ہے ابھی تک یاد کرتا ہے

مرا ٹوٹا ہوا دل آج تک فریاد کرتا ہے

عزرا:۔ تمھاری بیوی ضرور اس آگ میں جل کر مر گئی ، مگر بچّی…!

بروٹس:۔ کیا وہ زندہ رہی؟

عزرا:۔ ہاں!

بروٹس:۔ اسے کس نے بچایا؟

عزرا:۔ خدا کی قدرت نے !

بروٹس:۔ کس نے آگ سے نکالا؟

عزرا:۔ ایک رحم دل یہودی کے ہاتھ نے۔

بروٹس:۔ وہ کون ہے ؟

عزرا:۔نہیں بتا سکتا۔

بروٹس:۔ اس کا نام ؟

عزرا:۔ نہیں بتا سکتا۔

بروٹس :۔ اس کا ٹھکانا ؟

عزرا:۔ نہیں بتا سکتا۔

بروٹس:۔ نہیں عزرا تمھیں بتانا ہو گا۔

عزرا:۔ ہرگز نہیں ، یہ میرا راز ہے جو زندگی کا دم ساز ہے۔

بروٹس:۔ نہیں عزرا ، مجھ پر رحم کرو۔

عزرا:۔ رحم ! رحم! آج پہلا روز ہے کہ رحم کا لفظ تمھاری زبان پر آیا ہے۔ اب تمھیں معلوم ہوا ہو گا کہ رحم کی ضرورت یہودیوں ہی کو نہیں ظالم رومنوں کو بھی ہوا کرتی ہے۔ ایک کنگال ، مفلس یہودی کے پاس رحم کہاں سے آیا۔ جاؤ اپنے قانون سے مانگو، اپنے دیوتاؤں سے طلب کرو، اپنی قوم کے آگے گڑگڑاؤ   ؂

کیا کیا ہے عمر میں جو رحم کی سوغات آئے

بیج ہی بو یا نہیں تو پھل کہاں سے ہات آئے

بروٹس:۔ بتا دے عزرا بتا دے۔ میں تجھ سے اپنے پچھلے قصوروں کی معافی چاہتا ہوں ، یہ سر جو مذہبی پیشوا کا تاج پہننے کے بعد اس ملک کے بادشاہ کے سامنے بھی نہیں جھکا ، وہ تیرے قدموں میں جھکا تا ہوں۔

عزرا:۔ کیوں کیسا جھٹکا لگا؟ جب اپنے سر مصیبت آئی تو کتنی جلدی گردن جھکائی۔ جب تم نے ترس کھانے سے انکار کیا تھا ، اب میں رحم کھانے سے انکار کرتا ہوں۔

بروٹس:۔ تو انکار؟

عزرا:۔ ہزار بار۔

بروٹس:۔ نہیں بتائے گا؟

عزرا:۔ نہیں۔

بروٹس:۔ جواب نہیں دے گا۔

عزرا:۔ نہیں۔

بروٹس:۔ رحم نہیں کرے گا؟

عزرا:۔ نہیں ، نہیں ، نہیں۔

بروٹس :۔ اچھا نہیں تو نہ سہی اب میں زبردستی تیرے سینے سے یہ راز نکلواؤں گا۔ تیری ایک ایک بوٹی کا قیمہ بنا کر کُتّوں کو کھلاؤں گا۔ جاؤ لے جاؤ    ؂

جلا دو ، بھونک دو ، جھگڑا ہی سارا پاک کر ڈالو

شجر کے ساتھ ہی اس کا ثمر بھی خاک کر ڈالو

رکھو اسے بھی وہیں جس جگہ پہ آپ رہے

اب اس زمین پہ بیٹی رہے نہ باپ رہے

 راحیل:۔ مغرور سردار!

بروٹس :۔ مردار !

عزرا:۔ خبر دار!

(ڈراپ سین)

 

 تیسرا  باب

               پہلا سین

جیل خانہ

(گانا راحیل کا)

برہن کے گھر چھائی بدریا  برست ہے گھنگھور۔

       پاپی پپیہا پیو نہیں آئے۔ مور مچائے شور، من کی کلی کھِلے ، آؤ سنو ریا سونی بگیا میں مور۔ کوئلیا کالی کالی بولے بول بھولے بھولے۔ جیا میں رس گھولے۔ ہاں پاپی پپیہا …

نہ گل پایا ، نہ باغِ دہر میں کوئی ثمر پایا

گلستاں جس کو کہتے تھے اُسے کانٹوں کا گھر پایا

کہیں اب جلد خالی ہو مرا پیمانۂ ہستی

کہ میں اس عالمِ امکاں کے میخانے سے بھر پایا

مارکس:۔ پیاری راحیل!تم کہاں ہو ؟

راحیل:۔ آہا یہ تو اسی فتنہ پرداز کی آواز ہے  ؂

زہے تقدیر ، جذبِ دل نے کی تاثیر دشمن پر

پسِ مردن وہ آیا فاتحہ کو میرے مدفن پر

مارکس:۔ آہ راحیل!میں اپنے برتاؤ سے سخت شرمسار ہوں ، جو سزا دو اسے قبول کرنے کو تیار ہوں۔

راحیل:۔ پیارے منشیہ۔    ؂

کیوں آئے بزمِ عیش سے بزمِ عزا میں تم

کیوں آئے میرے واسطے پڑنے بلا میں تم

نہ دیکھا جائے گا صدمہ تمھارے دل سے عاشق کا

مری جاں دم نکلتا ہے بڑی مشکل سے عاشق کا

مارکس:۔

 اس وقت تجھ سے آنکھ چراؤں تو حیف ہے

اب بھی نہ تجھ کو پوچھنے آؤں تو حیف ہے

راحیل:۔

شہزادی سے اب عقد مری جان کرو تم

بے خوف و خطر عیش سے گزر ان کرو تم

مارکس:۔

اب پیار کسی سے مرا زنہار نہ ہو گا

جب تو ہی نہ ہو گی تو مرا پیار نہ ہو گا

راحیل:۔

تم مرے غم میں نہ دل اپنا دُکھانا پیارے

میرے خوں بہنے پہ آنسو نہ بہانا پیارے

مارکس:۔ پیاری راحیل!کیا تمھارا باپ تمھارے لیے اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتا؟

راحیل:۔ نہیں۔    ؂

وہ بندۂ حق ، راہِ وفا سے نہ پھرے گا

پھر جائے گا دنیا سے ، خدا سے نہ پھرے گا

مارکس:۔

مجھ کو کچھ ایسے وقت میں فرمان تو کرو

اظہار اپنے دل کا کچھ ارمان تو کرو

راحیل:۔ ارمان یہ ہے کہ میرے باپ کا دیا ہوا خریطہ اپنے پاس رکھنا ہم دونوں کے بعد اسے کھولنا۔ اگر کوئی حکم قابلِ تعمیل پا ناتو اسے میری روح وجان کی خاطر بجالانا۔

مارکس:۔   ع      منظور !جو کچھ خطا ہوئی ہے اسے کرنا تو عطا

راحیل:۔    ع          پیارے معاف کرنا تو میرا کہا سنا

میری قسمت نے مجھے پیکِ قضا کو سونپا

جا مری جان ! تجھے میں نے خدا کو سونپا

(سین ختم)

               دوسرا سین

کامک ..(گھسیٹا کا آنا لباس بدل کر)

گھسیٹا:۔ تسلیم! تسلیم لڑھکاتا ہوں، آداب پھینکتا ہوں، یعنی وہ بیوہ سب غتربود۔ اب ہم نے ایک اور ڈگری بڑھائی ہے یعنی اس لائن کو چھوڑ کر تک بندوں کی جون میں پناہ لی ہے۔

(مسیتا کا آنا)

مسیتا : ہیں یہ کون؟

گھسیٹا:۔ کم بخت پھر آن مرا۔ تم کون ہو بیٹا؟

 مسیتا:۔ ہیں کہیں یہ وہی تو نہیں کا لیا۔ ابے ہم شاعر ہیں،شاعر۔

 گھسیٹا:۔ اچھا تم شاعر بن گئے ،تو ہم ماعر ہیں ماعر۔

 مسیتا:۔ ہیں ،ابے ماعر کیا؟

 گھسیٹا:۔ ہیں، ابے یہ شاعر کیا؟

مسیتا:۔ احمق کہیں کا، ابے بے وقوف ، شاعر وہ جو شعر  کہے۔

گھسیٹا:۔ گدھا کہیں کا، ابے ماعر وہ جو معر کہے۔

مسیتا:۔ بھلا معر کیا؟

 گھسیٹا:۔ اور شعر کیا؟

مسیتا:۔ دیکھ بھائی شعر ایسا ہوتا ہے    ؂

رفتارِ تو شرمندہ کند کبکِ دری را

گھسیٹا:۔ کیا کہا یہ کیا کہا؟

مسیتا:۔           رفتا رِ تو شرمندہ کند کبکِ دری را

گھسیٹا:۔ تو مفتارِ تو مرمندہ کند مبکِ مری را

مسیتا:(ہنس کر) ہیں ہیں، ابے مُبک کیا ؟مُبک ؟

گھسیٹا:۔ اور کبک کیا ؟ کبک؟

 مسیتا:۔ ارے بھائی ! کبک ایک جانور ہوتا ہے جو کوہستان میں رہتا ہے ، سنگریزے کھاتا ہے۔

گھسیٹا:۔ ارے میاں! مبک ایک جانور ہے جوموہستاں میں رہتا ہے اور ممریزے کھاتا ہے۔

 مسیتا:۔ بھئی واہ۔ جوابِ جاہلاں باشد خموشی۔

گھسیٹا:۔ مواتِ ماہلاں باشدمموشی۔

 مسیتا:۔ افسوس یہی لوگ ہیں جو فن شریف کو بدنام کرتے ہیں      ؂

جاہلاں دانند آساں از خری

شاعری جزویست از پیغمبری

گھسیٹا:۔

مجھ سے یہ کہتی تھی اک ٹہنی ہری

پھولوں سے اپنی بھروں گی ٹوکری

مسیتا:۔

 کس طرح سے رہے شعر کے منہ پر رونق

 جب کہ ہیں اس کی تگ و دو میں دو احمق

 گھسیٹا:۔

ابجد کم جماؤں کہ جمد جد بتاؤں حق

المغتنا العلم کہ لما تن لماتن لق

مسیتا:۔

 کس کھیت کی مولی ہے یہ کیا بکتا ہے احمق

 یہ کون سے الفاظ ہیں کس لفظ سے مشتق

گھسیٹا:۔

بم چق چما چا چم کہ چما چم چما قن چق

عاشق شما شق کہ شقا شما شم سما قن شق

مسیتا:۔ اچھا بے جمادن کے جما حق اگر تجھے الّو بنا کے نہ چھوڑا تو مجھے مسیتا کون کہے ، اب میں جاتا ہوں اور اس کی بیوی کولے کر آتا ہوں۔

 (مسیتا  کا جانا )

 گھسیٹا:۔ کہاں؟ہیں! کہاں؟ ابے ! ہیں !ہتّے ہی پر سے القط ،رخصت(قہ قہ) کیا جھوٹی شاعری نے سچی صناعی کا ناطقہ بند کیا ہے۔

 (مسیتا کی بیوی کا مسیتا کی تلاش میں)

عورت :بد بختی، مصیبت ، تباہی۔

گھسیٹا:(سائڈ میں) ارے ارے ! یہ لومڑی کہاں سے آئی؟

عورت:۔ کم بخت میرا خاوند مسیتا مدتوں سے پھنسا ہے اور سنا ہے کہ کسی مال دار بیوی کے فراق میں پھرتا ہے۔

 گھسیٹا:(سائڈ میں) بھئی واہ ! کیا موقع ملا ہے ! اب ذرا میں چھپ جاؤں۔

عورت:۔ ہائے یہ بھی کیا زمانہ ہے کہ موئے نکھٹو پرائی عورتوں کے پیچھے پھرتے ہیں اور اپنے ننگ و ناموس کی خبر نہیں رکھتے۔

 گھسیٹا:۔ اجی بیگم صا حبہ سلام ، کورنس کا انتظام ، مجرے کی ٹیم ٹام۔

 عورت :۔ ہیں ! تو او غلام!

مسیتا:۔ ارے میں غلام؟ بہ ایں ریش خش !بہ ایں جبہ و عمامہ ، ایسا شریف، ایسا لمبا چوڑا ، موٹا مسٹنڈا! بیوی صاحبہ میں تو ایک پرانا گریز پا مرغ بے ہنگام ہوں۔ مجھے دیکھ کر کیوں کڑکراتی ہو؟ ذرا پر جھاڑ کر میر ی بغل میں اؤ۔

عورت :۔ چل موئے بڈھے بکرے۔ پرائی عورت کو بد نظر سے تکتا ہے۔

 گھسیٹا:۔ پرائی کس کی؟ اجی یار کی عزت اپنی عزت ،یار کے بچے کچے اپنے بچے اور یار کی جورو اپنی جورو۔ بس اس میں مضائقہ ہی کیا ہے۔

 عورت:۔ ارے واہ رے خبطی! کہیں بھنگ تو نہیں پی گیا ہے ! اچھا مسیتا کو جانتا ہے ؟

گھسیٹا:۔ اجی جاننا کیسا؟ میرا ان کا تو مہینوں استنجا لڑا ہے۔

 عورت:۔ ہیں ہیں!

گھسیٹا:۔ ہیں ہیں کیا؟ ابھی ابھی وہ ایک پُر نیا کو بیاہ کر لے گیا ہے۔

عورت:۔ کیا کہا؟ کیا کہا؟

گھسیٹا:۔ یہی کہ تم اس کے لیے جھک مارتی ہو۔

 عورت:۔ ہے ہے ، اس کا ستیاناس ، ذرا دکھا تو سہی مجھے چل کر۔

گھسیٹا:۔ اجی دکھانا کیسا؟ جو توں سے مار مار کر اس کا بھیجا اڑا دو۔

 عورت:۔ چلو تو آؤ۔

گھسیٹا:۔ آؤ تو ہاتھ ملاؤ(لے کر چلنا چاہتا ہے اور سامنے مسیتا اس کی بیوی کو نقاب پہنا کر لاتا ہے )۔

 مسیتا:۔ دیکھو یہ رہا واہ! …مگر ہیں؟

گھسیٹا:۔ ارے وہ تو آ گیا،مگر یہ برقع والا مضمون؟

عورت:۔ کیوں ابے حجام۔ یہ اپنی بہنا کے ساتھ ہی تام جھام۔

 گھسیٹا:۔ ارے باپ رے۔ وہ تو تھا ہی حرام زادہ ، مگر یہ کون ہے ، الّو کی مادہ؟

عورت:۔ کیوں موئے نکٹے ؟؟ اتنے دن بعد آنا اور اپنی ماں کو بھی ساتھ لانا۔

مسیتا:۔ ارے ارے بیوی ، میری ایسی اچھی بیوی؟

 عورت:۔ ہاں، اب بیوی بیوی، اور یہ کون ہے مال زادی ؟(مسیتا سے ) پھر تو کیوں نہیں بولتا لعنتی! ٹھہر پہلے نوچ تو لوں تیر ی ڈاڑھی۔

 گھسیٹا:۔ ارے یہ عورت کیسی ہے پگلی ؟

مسیتا:۔ یہی ہے یہی ہے حرام زادہ۔ پھر اب اتار بھی دے اپنا لبادہ۔(نقاب اتارنا)

گھسیٹا:۔ ار رر کون بیوی چمپا؟

 عورت:۔ ہاں میاں ڈاک منشی ! اب ذرا آنکھیں کھول ڈالو۔

 دوسری عورت:۔ لو اب چپکے سے تم بھی جوتیاں کھالو۔

گھسیٹا:۔ باپ رے ،پھر ٹکر کی بات۔

 مسیتا:۔ اور ٹکر بھی ٹکر نمبر دو سو ساٹھ۔

       (دونوں پر جوتیاں پڑتی جاتی ہیں،وہ ما رکھاتے ہوئے جاتے ہیں)

(گانا)

عورتیں:۔ کیا پڑ کے بیوقوفی میں دونوں ہوئے ہیں خوار۔

گھسیٹا:۔ سونٹا ،کبھی گھونسا، کبھی کھائی پیزار۔

مسیتا:۔ لعنت ہو تیری شکل پر موذی ہزار بار۔

چمپا:۔ حجام سے منشی بنا اور پھر ہوا چمار۔

گھسیٹا:۔ بس بس او ناری۔

سب:۔ دور دور دور دور بد شعاری ، آؤ آؤ، واہ واہ۔

(سین ختم )

                تیسرا سین

(کڑاہی والا سین)

عزرا:۔ ا و ظالم رومنو!متواتر دو صدی تک ستانے ، مٹانے اور برباد کرنے کے بعد بھی تمھارا حیوانی جوش اور حیوانی تعصب ٹھنڈا نہیں ہوا … او خدا ، او خدا !  آخر کب تک یہ خوں چکاں نظارہ دیکھا جائے گا۔کب تک تیر ا قہر و غضب جو انتقام کی تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھے ہوئے ان کی گستاخی کو نفرت سے دیکھ رہا ہے ، جوش میں نہ آئے گا۔    ؂

میرے مولا کب تلک غصہ نہ ان پر آئے گا

ظالموں پر رحم آخر کب تلک فرمائے گا

کب تلک ہوتے رہیں گے بے کسوں پر ظلم و جور

کب تلک یہ منظرِ خونی تو دیکھے جائے گا

بروٹس:۔ بدبخت بڈھے ! اپنا مذہب چھوڑ کر ہمارے مذہب کے دائرے میں کیوں نہیں آتا ؟ اپنے خدائے نا دیدہ کو چھوڑ کر کیوں نہیں ہمارے خداؤں کے سامنے سر جھکا تا۔    ؂

درست پھر سے تیری سر گذشت ہو جائے

ابھی بدل کے یہ دوزخ بہشت ہو جائے

عزرا:۔ ظالم رومن ! فانی زندگی کا لالچ دکھا کر تو اس بوڑھے کو اپنے آبائی عقیدے اور الہی دین سے نہیں بہکا سکتا۔ دنیا کی زندگی ایک خواب ہے اور خواب کے لیے میں اپنی آخرت کی مسرتوں کو خاک میں نہیں ملا سکتا۔     ؂

موت کیا ہے زندگی کا لازمی انجام ہے

موت سے ڈرنا سراسر احمقوں کا کام ہے

غم تو جب ہوتا کہ میں مرتا خیالِ خام پر

جان جس نے دی ہے دے دوں گا اسی کے نام پر

بروٹس:۔ اچھا دیکھا جائے گا۔ لے جاؤ ان کو اٹھا کر کھولتے ہوئے تیل کے کڑھاؤ میں ڈال دو۔

عزرا:۔ چند منٹ صرف چند منٹ ٹھہرو۔ راحیل ، آخر وہ وقت آ گیا جس کا مجھے انتظار تھا ، جس کے لیے سولہ برس سے میرا دل بیقرار تھا۔ میرے دل میں ایک تلاطم برپا ہے۔ بتا تو دنیا اور دین دونوں میں سے کس چیز کو پسند کرتی ہے۔

راحیل:۔ ابا جان ! دکھ بیمار ی اور دیگر تکالیف سے بھری ہوئی دنیا کے لیے حقیقی مسرت اور جاودانی سرور سے آنکھیں بند کروں ؟ لعل کو ٹھوکر  ما ر کر پتھر کو پسند کروں ؟     ؂

اس زندگی کے واسطے لب پر نہ آہ ہو

ہاں صرف ہو تو اَ شہدُ اَن لَّا اِلہ ہو

عزرا:۔ شاباش !اے میری نور العین شاباش۔    ؂

یہ آگ تیرے واسطے باغِ خلیل ہو

یہ موجِ نار تیرے لیے موجِ نیل ہو

جس وقت تری جان ترے تن سے جدا ہو

اس وقت ترے ہونٹوں پہ بس نامِ خدا ہو

بروٹس:۔ جب اسے تبدیلِ مذہب پر انکار ہے تو دیر بیکار ہے۔ جاؤ، لے جاؤ۔   ؂

تڑپ تڑپ کے مریں اس طرح ہلاک کرو

جھلس دو آگ میں ان کو جلا کے خاک کرو

عزرا:۔ اس لڑکی پر ، صرف اس شاداب گلاب کی کلی پر رحم کرو۔

بروٹس:۔ کبھی نہیں ، بس بوڑھے۔ اگر اس کی اور اپنی جان بچانا ہے تو بتا کہ روما کی خوفناک اور تباہ کن آگ سے میری بچی کو کس نے نکالا اور کس نے پالا۔

عزرا:۔ اچھا بتاتا ہوں ، مگر ایک شرط پر۔

بروٹس :۔ بول وہ کیا ہے ؟

عزرا:۔ جب میں تمام راز ظاہر کر دوں تو میرے ہاتھ کا اشارہ پاتے ہی اس لڑکی کو آگ کے شعلوں میں جھونک دیا جائے اور میرے سینے میں بھی آبدار خنجر بھونک دیا جائے۔

بروٹس:۔ منظور ہے۔

عزرا:۔ اچھا تو سنو ! روما کی آتش زدگی سے دو برس پہلے کا واقعہ ہے کہ تم نے محض سلام نہ کرنے کے جرم میں میری بچی کو اس کی ماں کی گود سے چھین کر آگ کے تنور میں ڈال دیا تھا، مگر آہ ظالم ، خونخوار رومن اس وقت جب کہ روما کی گلی کوچوں میں نیزوں کی آگ سے زلزلہ انگیز تلاطم برپا تھا۔ میں تمھارے گھر کی چھت پر چڑھا اور تمھاری چھ مہینے کی شیر خوار بچی کو جو اپنی مردہ ماں کے سینے پر پڑی ہوئی دھوئیں کی گرمی سے بلک رہی تھی اٹھا لیا اور اپنی اولاد بنا کر پالا۔

بروٹس:۔ تم نے ؟ آہ عزرا ! میرے مہربان عزرا !تم نے نکالا؟ اور تم نے پالا؟

عزرا:۔ ہاں ! میں نے مظلوم اور کنگال یہودی نے ، جس کی مظلوم اور بے زباں بچی کو تو نے موت کے تنور میں جلایا۔ اس نے تیری اولاد کو خوفناک شعلوں کی لپیٹ اور تباہ کن آگ کے منہ سے بچایا۔    ؂

ستم گری سے چمن میرا پائمال کیا

قصائی تو نے مرے خون کو حلال کیا

سلوک میرا ، گریباں میں ڈال منہ اور دیکھ

کہ تیری بیٹی کو ہے سنیچ کر نہال کیا

بروٹس:۔ مگر وہ کہاں ہے ؟

عزرا:۔ وہ ہے ، غور سے دیکھ۔

بروٹس:۔ کون ، یہ یہودن لڑکی راحیل؟

عزرا:۔ یہودن نہیں رومن ہے ، یہ میری نہیں تیری بچی پُر محن ہے۔

بروٹس:۔ مگر اس کا ثبوت ؟

عزرا:۔ ثبوت چاہیے ؟ دیکھ کنٹھی اور مالا۔

بروٹس:۔ آہ یہی ، یہی ہے میری لختِ جگر، نورِ نظر پولیناؔ، آ میرے دل کے سرور۔

راحیل:۔ میرا باپ ؟

عزرا:۔ خبردار وعدہ پورا کرو، چلو اس کو آگ میں جھونک دو اور مجھ مبتلائے محن کے سینے میں آبدار خنجر بھونک دو۔

بروٹس:۔نہیں ، میرے محسن عزرا !اب یہ نہیں ہو سکتا۔

عزرا:۔ کیوں نہیں ہو سکتا ؟    ؂

غیر کی آواز کا دل میں نہ تھا کچھ رنج و درد

اپنی حالت یاد کر کے کھینچتے تھے آہِ سرد

میری بچی جان کر ، کر تے تھے اس پر ظلم و جور

جب ہوا معلوم ، اپنی ہے ، تو پھر کرتے ہو  غور

چلو ، لے جاؤ۔

بروٹس:۔نہیں عزرا رحم کر ، میرا قصور معاف کر ، میری طرف سے اپنے دل کو صاف کر۔

عزرا:۔ آہ راحیل !میری سولہ برس کی کمائی۔ جا۔ اپنے باپ کے دل کو ٹھنڈک پہنچا۔

بروٹس:۔ نہیں ، میرے بزرگ بھائی!چونکہ اس نورِ نظر نے جس طرح آج تک تمھیں اپنا باپ سمجھا ہے اسی طرح عمر بھر سمجھے گی اور جس دین کے دامن میں پرورش گر دان ہوئی ہے اسی میں آخری سانس تک رہے گی۔

راحیل:۔ میرے محترم بزرگ ، میرے مقدس باپ !جس کے تقدس نے مجھے بت پرستی سے نکال کر خدا کی توحید کے گلشن کی گل چینی کا افتخار بخشا ہے ، کبھی نہ چھوڑوں گی آپ کی عزت اور ہمیشہ کی خدمت سے منہ نہ موڑوں گی۔

مارکس:۔ پیاری راحیل ! میں اپنی گزشتہ بے وفائی سے نہایت شرمسار ہوں اور جو سزا اس جرم کی دی جائے اسے قبول کرنے کو تیار ہوں۔

راحیل:۔ میری جان !یہ دنیا مکار ، دھوکہ باز اور فریب سے پُر خار ہے۔

ڈیسیا:۔ میری عزیز بہن ! جب کہ تم رومن نسل اور مقدس پیشوائے مذہب کی معزز بیٹی ہو تو پھر انصاف چاہتا ہے کہ جس ہاتھ کی میں امیدوار ہوں ، اسے تمھارے گلوئے آبدار کا زیور بنایا جائے ، میری خوشی میں تمھیں بھی حصہ دار بنایا جائے۔

بادشاہ:۔ ہا ں ایسا ہی ہونا چاہیے۔

راحیل:۔نہیں۔ (اور وہ ڈیسیا کا ہاتھ مارکس کے ہاتھ میں دے دیتی ہے )

(سین کا بدلنا)

(سب کا آنا شادی کا اہتمام)

بادشاہ:۔   ؂

فرخ سعید رشکِ سمار و سمک رہو

زندہ رہو ، نہال رہو ، حشر تک رہو

بروٹس:۔   ؂

خوش، ایک دوسرے پہ سدا مہرباں رہو

 زندہ رہو،نہال رہو،شادماں رہو

(گانا)

         آؤ گُیّاں مل گاویں ، گا ویں سجن موہن کو رجھاویں

         پیا جیا، میں تو پہ واروں سب جان ، آؤ…

         سجن موہن آؤ ، آؤ، بربا اگن کو بجھاؤ۔

       کارے نیناں من بھاویں ، لبھاویں، جیا میں بسے تورے نین، نا ہے چین۔

        کٹے نارین، سجن سکھ دکھلاؤ،آؤ…

(ڈراپ سین)

***

حوالے

۱۔       عشرت رحمانی : اردو ڈراما تاریخ و تنقید۔ ص ۲۴۳، ۲۴۴

۲، ۳۔  یہ تحریر ڈاکٹر نامی مرحوم سے راقمہ کو حاصل ہوئی

٭٭٭

تشکر: مرتبہ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید