FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

یوسف کا بکا جانا

               یوسفِ ثانی

 

دیباچہ 1998

سچ کی صلیب

پہلی کتاب کی اشاعت کو کسی بھی ادیب کی زندگی کا ایک اہم واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہمارا شمار محض "اہل کتاب” میں ہوتا تھا۔ آج کے بعد سے ہمارا تعارف "صاحب کتاب” کہہ کر کرایا جائے گا۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران شائع ہونے والی بہت سی تحریروں میں سے چند منتخب تحریروں کا انتخاب "یوسف کا بکا جانا” کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔

کتاب کا نام دیکھ کر ایک خاتون فرمانے لگیں: مانا کہ آپ کی جملہ تحریریں آپ کی بکواس ہی کی مانند ہیں۔ مگر اس امر کا برملا اعتراف کرنے کیا ضرورت تھی۔ اگر میری عزت کا پاس نہیں تو کچھ بچوں ہی کا خیال کیا ہوتا۔ صحافتی دنیا سے تعلق رکھنے رکھنے والے ہمارے ایک دوست تو بہت دور کی کوڑی لائے۔ کتاب کا سرورق دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمانے لگے : کتاب کا نام آپ نے بہت اچھا اور معنی خیز رکھا ہے "یوسف کا بکا جانا”۔ مستقبل میں ایسے "واقعات” کی روک تھام کی غرض سے ہمیں سرورق پر کتاب کے نام کے ساتھ میر تقی میر کے اس شعر کا حوالہ بھی دینا پڑا، جس سے استفادہ کرتے ہوئے ہم نے اس کتاب کا نام رکھا ہے۔ کچھ ایسا ہی مسئلہ کتاب کی پروف ریڈنگ کے دوران ہمارے ایک شاعر دوست کو بھی پیش آیا۔ انہوں نے متن میں ایسے بے شمار "اغلاط” کی نشاندہی کی، جن کا تعلق "اعراب” وغیرہ سے ہے۔ سو ایسے تمام قارئین سے پیشگی معذرت جنہیں اب بھی ایسی "اغلاط” کتاب میں جا بجا نظر آئیں گی۔ کیوں کہ کہ کتاب جس کمپیوٹر پر کمپوز ہوئی ہے، اس میں اعراب اور ہمزہ وغیرہ کی مطلوبہ سہولت موجود نہیں۔

صحافیوں کے مقابلہ میں ادیبوں کو سچ لکھنے کی نسبتاً زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ ادب و صحافت کا بیک وقت طالب علم ہونے کے ناطے مجھے سچ لکھنے کی ہمیشہ سے سہولت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ "خبر نویسی” کے دوران نوک قلم سے سرزد ہونے والے "گناہوں” کا "کفارہ” دیگر اصناف سخن کے ذریعہ کرتا رہا ہوں۔ اس کتاب کے مندرجات یقیناً میرے اس دعویٰ کی صداقت کی گواہی دیں گے۔

میں اس کتاب کا آغاز اپنی ایک نظم "سچ کی صلیب” سے کرنا چاہوں گا، جو میں کوئی ایک عشرہ قبل کہی تھی۔

سچ کی صلیب

کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا

یا پھر تم ہی سچے ہوتے

ہم تم میں یہ فرق نہ ہوتا

جھوٹ کی ارضی جنت نہ ہوتی

سچ کی صلیب پہ دنیا نہ چڑھتی

کاش کہ میں بھی جھوتا ہوتا

================

اس جنت سے گو صلیب بھلی ہے

مجھ کو کب یہ تاب ملی ہے

پھر میں کیسے منہ کو کھولوں

میں جو بولوں، کیسے بولوں

ہمہ تن گوش کیاں کر رہوں میں

کانوں کو جو بند کروں میں

کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا

================

یارب! یا پھر ایسا ہوتا

گونگا ہوتا، بہرا ہوتا

نہ جھوٹ کی جنت میں جینا ہوتا

نہ سچ کی صلیب پہ مرنا ہوتا

کاش میں گونگا، بہرا ہوتا

==============

٭٭٭

 

نوائے وقت فیچر

یوسفِ ثانی کی انشائیہ نگاری

    اردو میں انشائیہ نگاری پہلے بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے مگر پہلے اور آج میں فرق یہ ہے کہ کل کا انشائیہ نگار، انشائیہ نگاری کا دعویٰ نہیں کرتا تھا جبکہ آج کا انشائیہ نگار نہ صرف یہ کہ اپنی تحریروں کو انشائیہ قرار دینے پر "بضد” ہے بلکہ اپنے جیسے دیگر تمام لکھنے والوں کی تحریروں کو انشائیہ سے خارج قرار دینے پر "مصر” بھی ہے۔ کل تک ہر انشائیہ نگار اپنی تحریروں کے ذریعہ اپنے قارئین کو کچھ نہ کچھ فیض پہنچاتا رہا ہے جبکہ آج کے قد آور انشائیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر انشائیہ میں کسی قسم کی "مقصدیت” داخل ہو جائے تو وہ تحریر انشائیہ سے خارج ہو جاتی ہے۔ انشائیہ کے بارے میں یہ رویہ دراصل ادب برائے ادب کے پٹے ہوئے نظریہ کی جزوی بازگشت ہے جو آج کے سائنسی عہد میں ادب برائے زندگی کے سائنٹیفک نظریہ سے عملاً مات کھا چکا ہے۔

    ادب برائے زندگی کے علمبردار قلم کاروں کی صف میں نوجوان انشائیہ نگار یوسف ثانی ایک خوشگوار اضافہ ہیں جو گزشتہ ایک عشرے سے خاموشی سے مشق انشائیہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کا شمار با صلاحیت نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی اس مختصر سی ادبی زندگی میں اب تک مختلف اصناف و موضوعات پر بعض اس قدر خوبصورت اور فکر انگیز تخلیقات پیش کی ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ آپ کے انشائیے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے کے علاوہ ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔ آپ کی تحریروں کی نمایاں خوبی وہ ہلکا پھلکا طنز و مزاح ہے جو قارئین کو نہ صرف محظوظ کرتا ہے بلکہ صاحب تحریر کی فکر سے بھی متاثر کرتا ہے۔ مثلاً "انشائیہ” ٹک روتے روتے” کا یہ حصہ ملاحظہ ہو

    گو رونے کی ابتداء بچوں نے کی مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے عطا کیا جبکہ اس کی موجودہ پروفیشنل حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پرفیشلزم کے اس دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش” کرانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔۔۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا آرٹ ہے جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور "عین دال شین ششٹرز” یعنی عزت دولت شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ہے۔ ایکا ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے سامنے جھکنا نہیں پڑتا صرف ہر ایک کے سامنے رونا پڑتا ہے۔

    یوسف ثانی کے ہاں روایتی لفظوں اور فقروں کو اپنی ضرورت کے مطابق برتنے کا فن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات تو وہ خود بھی نئے نئے فقرے اور منفرد تراکیب تراشتے نظر آتے ہیں۔ اب "لب چھڑی” ہی کی مثال لے لیں آپ کہیں گے کہ یہ لب چھڑی کیا بلا ہے؟ لیجئے یوسف ثانی ہی کی زبانی سنئے۔

    یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں۔ جی ہاں! انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں یہ اسم بامسمیٰ صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔۔۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ اساتذہ قدیم کے ان اشعار کا حوالہ دیتے ہیں جن میں خواتین کے لبوں کو گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار اب خواتین "ضرورت” کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شیڈ استعمال کر سکتی ہیں اور آج کے علامتی دور میں اس قدر بھولا کون ہے جو ان رنگوں کے مفہوم سے آگاہ نہ ہو۔

    یوں تو اب تک یوسف ثانی بہت سے انشائیے تحریر کر چکے ہیں جو وقتاً فوقتاً اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مگر ان کے تحریر کردہ تمام انشائیے اب تک کسی ایک جگہ یکجا دستیاب نہیں کہ ان سب کا ایک نظر جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم ہو انشائیے جو ہماری نگاہ سے گزر چکے ہیں ان میں ناموں سے نہ پہچان، قرض اور مرض، سچ گپ، پہلا کالم، گرلز سینٹر، پوچھنا منع ہے، یوسف کا بکا جانا، وعدہ فردا اور مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یوں تو یوسف ثانی کی تحریروں میں تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کا استعمال جا بجا نظر آتا ہے، مگر ان کا استعمال اس خوبی سے ہوتا ہے کہ تحریر کا بنیادی مقصد، جو یوسف ثانی کی جملہ تحریروں میں مشترک ہے نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ قاری تک پہنچ بھی جاتا ہے مثلاً ان کی ایک تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’    آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نہ کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ آج کی کسی بھی "نمائندہ شاعرہ” کے مجموعہ کلام کو اٹھا کر دیکھ لے۔ غزل کے اکثر اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک شاعرہ کی جنس "واضح” نہیں ہوتی، شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو” کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر” رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کو بکواس طرح پھیلی کہ اخباری کالموں تک جا پہنچے، حالانکہ کسی "نیک پروین” سے تو اس قسم کی توقع سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی "تصحیح” سے شعر وزن وغیرہ سے گر جائے گا لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کیئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرئے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔‘‘

    ادبی تقریبات میں ادیبوں کے فن اور شخصیت پر مقالات پڑھنا آج کل ایک وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس قسم کے مقالوں میں کیسی کیسی گل افشانی کی جاتی ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی یوں پیش کرتے ہیں

    ایسے موقع پر بعض عقل مند مقالہ نگار اپنے ممدوح کے نام ہی کو غنیمت جانتے ہیں مثلاً بین السطور والے صبیح محسن پر مضمون لکھتے وقت ایک مضمون نگار نے نام کی رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم اسٹار صبیحہ خانم پر ہی سیر حاصل گفتگو کر ڈالی۔ میری مشکل یہ ہے کہ فی الحال مجھے اس قسم کی کوئی فنکارہ دستیاب نہیں جس پر نظر عنایت کی جا سکے۔ رہ گئی ان کی شاعری تو اس سلسلہ میں آپ سے معذرت چاہوں گا کہ پروفیسر صاحب نے اس ضمن میں مجھے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں کا دستور ہے بلکہ بعض اوقات تو یار لوگ اپنے فن اور شخصیت پر پورا مقالہ لکھ کر فراہم کرتے ہیں اور بسا اوقات تو مقالہ پڑھنے کا معاوضہ بھی ملتا ہے اور مجھے تا حال اس قسم کی کوئی ایڈ یا ایڈز نہیں ملی ہیں۔

    یوسف ثانی کی گرفت اپنے عہد کے ادبی مسائل پر بھی کوب ہے۔ ڈاکٹر سلمان معظم کے تحقیقی مقالہ "سرقہ کی روایت” پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب کوئی زبان وسعت پذیر ہوتی ہے اور اس میں لکھنے لکھانے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی ہے تو زبان و بیان میں نئی نئی تراکیب "تخلیق” تو کوئی ایک فرد کرتا ہے مگر اسے استعمال بے شمار افراد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لکھاریوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے تو قلمی ناموں اور علمی و ادبی شہ پاروں کے عنوانات میں مشابہت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر ہمیں ایسی کوئی مشابہت نظر آئے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہیے اور سرقہ جیسے الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر بات سے بات بڑھی تو پھر خیالات کے سرقہ تک جا پہنچے گی اور یوں متعدد علمی و ادبی شہہ پارے محض ایک اچھے "ادبی سرقہ” بن کر رہ جائیں گے۔

    آج ہم جس نفسا نفسی اور مادہ پرستی کے عہد میں جی رہے ہیں اس میں روایتی محبت اور دوستی بھی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا عصری ادب بھی اس صورتحال کی خوبصورتی سے عکاسی میں مصروف ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی کا انشائیہ "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ” ہے

    وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ” کیونکہ اس عہد کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو بھی ان چاہتوں کا شکار ہوتا، چیخ اٹھتا کہ ع اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے۔ آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے، تو دوست کا مارا دوستوں سے سہم سہم کر ملتا ہے۔زیر لب یہ کہتے ہوئے کہ ع دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔

    اسی طرح آج کل ہر فرد ہر بات میں اپنا ہی مفاد دیکھنے کا عادی سا ہو گیا ہے۔ یہ فقرہ تو آج کل زبان زد خاص و عام ہے کہ تم ہمارے گھر آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم تمہارے ہاں آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔ کچھ اسی قسم کے رویہ کا اظہار ہمیں یوسف ثانی کے انشائیہ "پلیز اور سوری” میں نظر آتا ہے

    پلیز اور سوری ایک ایسی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن پر سوار ہو کر آپ ہر قسم کی گاڑیوں سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں بڑے کام کی چیزیں ہیں۔ ان کا اسٹاک ہر وقت اپنے پار رکھیں نہ جانے کس وقت ان کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔ اگر کسی کو زحمت دینے کا ارادہ ہو تو پلیز کا پیشگی استعمال سودمند رہتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ آپ کو پلیز کہنا یاد نہ رہا ہو تو فکر کی کوئی بات نہیں قبل اس کے کہ وہ جسے آپ زحمت ہی میں مبتلا کر چکے ہیں۔ آپ پر جوابی کاروائی کرنے کا سوچے۔ آپ فوراً ایک عدد "سوری” اس کے منہ پر دے ماریں۔

    ہم امید کرتے ہیں کہ یوسف ثانی آئندہ بھی اسی طرح کے خوبصورت انشائیے لکھتے رہیں گے تا کہ انشائیہ کی اس خوبصورت نثری صنف کو بے مقصدیت کی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے بچا کر اسے واپس تعمیری مقصدیت کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکے کہ ایسا ادب ہی معاشرے کی حقیقی ترقی میں معاونت کر سکتا ہے۔

٭٭٭

 

یوسف کا بکا جانا

غیب سے مضامین تو ہمارے خیال میں بھی آتے رہتے ہیں جسے ہم قرطاس پر منتقل کر کے قارئین کے استفادہ کے لئے رسائل و جرائد میں بھیج دیا کرتے ہیں اور پھر سے خالی الذہن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ مضامین کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ اسی خاطر ہم نے اپنے خیال میں خیال یار کو بھی کم کم ہی جگہ دی ہے چنانچہ ہمارا ذہن اکثر خالی خالی سا ہی رہتا ہے اور یار لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم کسی کے خیال میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے۔

لیکن جب کبھی ہم نے نالے کو پابند نے کرنے کی کوشش کی تو ذہن و قلم دونوں نے ایک ساتھ، ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ امتحانی سوالات کے لگے بندھے اور خطوط کے رسمی جوابات دینا، نالے کو پابند نے کرنے کے مترادف ہی تو ہے۔ جی ہاں! کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمیں اس وقت بھی درپیش ہے کہ خواتین میں مقبول، ماہنامہ "قبول” کی مدیرہ مسئول "مادام سین” کا خط ہمارے سامنے پڑا ہے اور ہمارے ذہن و قلم کا یہ حال ہے کہ ؂

گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل

    یادش بخیر! کبھی ہم نے "ان” سے متاثر ہو کر انہی کی فرمائش پر ان کے "شکوہ” کو (اپنے جواب شکوہ کی نتھی کے ساتھ) "مجازی خدا” کے عنوان سے ایک نظم کا لبادہ پہنایا تھا۔ اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو تھوڑی دیر کے لئے ہمیں اقبال ثانی تصور کرتے ہوئے "شکوہ جواب شکوہ” کا نیا روپ ملاحظہ فرمائیے :

شکوہ

    خدا نے مجھ کو

    میں نے جگ کو

    پیدا کیا، سنوارا‘ سجایا!

    خدا کی خدائی میں

    میں حصہ دار تھی۔

    لیکن

    جسے میں نے پیدا کیا

    منے سے کڑیل جوان کیا

    مجھے صنف نازک قرار دے کر

    میرا مجازی خدا بن بیٹھا۔

جواب شکوہ

    خدا نے مجھ کو

    مجھ سے تجھ کو

    تجھ سے جگ کو

    پیدا کیا، سنوارا، سجایا۔

    خدا کی خدائی میں

    خدا کی بڑائی میں

    نہ تو حصہ دار تھی

    نہ میں حصہ دار تھا

    لیکن!

    جس نے مجھ کو

    مجھ سے تجھ کو

    تجھ سے جگ کو پیدا کیا

    اسی نے مجھ کو

    ہاں، تجھی پر مجھ کو

    نگراں بنایا” برتر بتایا

    میں کب خدا تھا

    میں کب خدا ہوں

    کہنے کو کہہ لو

    مجازاً خدا ہوں

    جب ہماری یہ نظم مادام "سین” کی نظروں سے گزری تو انہوں نے جھٹ اسے اپنے پرچے کی زینت (امان کے لاحقہ کے بغیر) بنا لیا۔ چنانچہ ہم نے خوش ہو کر از راہ سرپرستی انہیں اپنی گراں قدر تحریریں شائع کرنے کے جملہ حقوق سونپ ڈالے۔ اور یوں ہمارے تحریریں جو اکثر و بیشتر انشائیہ کا روپ (یا بہروپ) دھارے ہوتی ہیں ماہنامہ مذکورہ میں چھپنے لگیں۔ ابھی ہمارے چند مضامین ہی شائع ہوئے تھے کہ "قبول” کی فضول سی قاریاؤں نے مراسلات کے کالم "محشر خیال” میں ایک حشر برپا کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم اسی طرح لکھتے رہے تو یقیناً ایک نہ ایک دن ہمیں لکھنا آ ہی جائے گا۔ چنانچہ ہماری اس مقبولیت سے متاثر ہو کر فاضل مدیرہ نے ہمارے مضامین کی اشاعت میں وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور یوں ہمیں عملاً یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ؂

    وقفہ بہت ضروری ہے

 ماہناموں میں لکھنا اور پھر لکھ کر چھپنے کا انتظار عموماً انتظار یار سے بھی طویل ہو جاتا ہے۔ مثلاً بچوں کا ایک ماہنامہ "ہاتھی” ہے جسے ہم اپنے تئیں بڑی عمر کا بچہ تصور کرتے ہوئے بڑی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں مگر اللہ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اسے اپنی کوئی تحریر بغرض اشاعت ارسال نہیں کی کیونکہ مدیر محترم بار بار اپنے قارئین کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ تحریر ارسال کرنے کے بعد کم از کم نو ماہ ضرور انتظار کیا کریں۔ اگر آپ بھی اس رسالہ کے قاری ہیں تو یقیناً یہ ہدایت آپ کی نظروں سے بھی گزری ہو گی۔ اب آپ ہی انصاف کریں کہ محض ایک ادبی تخلیق کے منظر عام پر آنے کے لئے نو ماہ کا انتظار ہماری طرح کے کسی بھی سمجھدار فرد کے لئے کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں آدمی دو گواہوں کی موجودگی میں قبول ہے” کہہ کر اس عرصہ میں ۔۔۔

کچھ یہی حال محترمہ سین کا بھی ہے کہ آخر کو موصوفہ بھی ایک ماہنامہ کی مدیرہ ہیں۔ اپنے اس خط میں جو انہوں نے ہمیں لکھا ہے اور جس کا غیر رسمی ’جواب‘ ہم مضمون ہذا کی صورت میں دے رہے ہیں، آپ لکھتی ہیں

۔۔۔ بہت ممکن ہے آپ ناخوشی کے دور سے گزر رہے ہیں ورنہ ماہنامہ میں لکھنے کا سلسلہ بند نہ ہوتا۔ صاحب! آپ کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔

تو صاحبو! ہم انہیں کیسے بتلائیں کہ جو "سلسلہ” ہم نے شروع کیا تھا، ہم از خود اسے کیسے بند کر سکتے ہیں۔ آخری مرتبہ ہم نے اپنی دو تحریریں ساتھ ساتھ ارسال کی تھیں۔ پہلی تو خیر فوراً ہی شرمندہ اشاعت ہو گئی۔ مگر دوسری کو شرمندہ” ہونے میں کوئی سات ماہ لگے۔ ہو سکتا ہے صنف نازک ہونے کے ناطے مدیرہ محترمہ کو ایک تخلیق (مجازی ہی سہی) کے منظر عام پر آنے کے لئے یہ عرصہ "معمول” کے مطابق لگا ہو گا۔ مگر ہم جیسے صنف قوی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تو "معمول” کا عرصہ بھی غیر معمولی لگتا ہے۔ ہمارا بس چلے تو ہر قسم کی تخلیق۔۔۔ مگر ہمارا بس تو سڑکوں پر دوڑنے والی بس پر بھی نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ گھر ہو یا باہر ہم ہر جگہ بالعموم بے بس ہی رہتے ہیں۔ سو یہاں اس معاملہ میں بھی بے بس ہیں۔

 ادیب لوگ مزاج نازک رکھتے ہیں۔ ان کی تعریف نہ کی جائے ان سے لکھنے کی درخواست نہ کی جائے تو وہ ناخوش بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔ ان جملوں کو پڑھ کر پہلے تو ہم کچھ نہ سمجھے کہ روئے سخن کس طرف ہے۔ شاید متعدد شاہکار ناولوں کی مصنفہ بین السطور یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر لوگ ان کی تعریف کریں اور ان سے مزید لکھنے کی درخواست کریں تو وہ ایسے اور بھی بہت سے ناول لکھ سکتی ہیں۔ لیکن لفظ "ادیب” یعنی صیغہ تذکیر پر ہم چونکے کہ آخری اطلاع آنے تک تو موصوفہ کا تعلق صیغہ تانیث ہی سے تھا۔ ہو نہ ہو، روئے سخن ہماری طرف ہی ہے اور آگے کی عبارت پڑھ کر اس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہر خاص و عام کو بذریعہ ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ آج سے ہمارا شمار بھی ادیبوں میں ہو گیا ہے لہذا آئندہ ہمارا نام ادیب کے سابقہ کے ساتھ لکھا اور پکارا جائے۔ اور اگر حفظ ماتقدم کے طور پر ادیب سے پہلے معروف تھی لگایا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ ہاں اگر کسی اور کو اعتراض ہو تو اندرون نو (۹) ماہ بذریعہ ماہنامہ "قبول” ہمیں مطلع کرے اس کے بعد کوئی دعویٰ قابل قبول نہ ہو گا اور بعد از مدت ہمارے گھر کے نیم پلیٹ پر ہمارے نام کے ساتھ لفظ ادیب لکھا ہوا ملا کرے گا۔ محکمہ ڈاک سے وابستہ کوئی فرد اگر ہمارے یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو متعلقہ ڈاکیہ تک یہ اطلاع پہنچا کر انہی سے شکریہ وصول کر سکتے ہیں۔

اسی خط میں مادام سین مزید لکھتی ہیں : ۔۔۔ امید ہے آپ ہر طرح خیریت سے ہوں گے (خیریت سے تو بفضل تعالیٰ ہیں مگر ہر طرح کی گواہی نہیں دے سکتے) چاہیں تو اپنے بارے میں کچھ لکھیں (وہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے) کہ آپ کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ اور کیوں مشہور ہیں (اگر ہیں تو)”۔ یہ آخر میں اگر والا جملہ انہوں نے یونہی لکھ دیا ہے آپ اس سے گمراہ نہ ہوں تمام سوالات غالباً لازمی ہیں کہ چوائس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ گو کہ ہم اپنے بارے میں دیگر کالم نویسوں کی طرح جملہ معلومات اپنے متعدد کالموں میں پیش کر چکے ہیں (حوالے لیے دیکھو ہمارا کالم "من آنم کہ من دانم”) پھر بھی مکتوب الیہ اور دیگر قارئین کے استفادہ کے لئے اپنی تعریف قند مکرر کے طور پر پیش کیے دیتے ہیں۔

ہم کون ہیں؟ ہم آدمی ہیں اور کون ہیں۔ البتہ انسان ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ بقول شخصے اکثر آدمیوں کو انسان ہونا میسر نہیں۔ نام ظاہر ہے قلمی ہے اصلی نہیں۔ اگر (خدانخواستہ) حقیقتاً یوسف ثانی ہوتے تو آج کے شاعر کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی کہ

ہر ایک زلیخا ہے مگن دھیان میں اپنے

کیا ایک بھی یوسف نہیں کنعان میں اپنے

رہا یہ سوال کہ ہم کیا کرتے ہیں تو ہمارے خیال میں پوچھنا یہ چاہیے تھا کہ ہم کیا نہیں کرتے۔ مختصراً عرض کئے دیتے ہیں ہماری ادبی حیثیت تو آپ پر آشکار ہو چکی ہے چنانچہ یہ تو طے ہے کہ ہم ادیب (بھی) ہیں چونکہ اخبارات و رسائل میں (بھی ) لکھتے ہیں اس لئے "سکہ رائج الوقت” کے مطابق صحافی بھی ہیں۔ کوچہ ادب و صحافت کی آوارہ گردی کی وجہ سے اگر آپ ہمیں بالکل ہی "آوارہ” سمجھنے لگے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے کہ مابدولت معروف (معنوں میں نہ سہی) سائنس دان بھی ہیں۔ بھئی آخر کو سائنس میں بیچلر کی ڈگری جو رکھتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم "بیچلر” (معنی کے لئے دیکھئے لغت) کی جھوٹی "سند” نہیں رکھتے۔ کم از کم تا دم تحریر (تا دم اشاعت کی ضمانت نہیں) ان سب باتوں کے علاوہ ایک "مقامی افسر” بھی ہیں حالانکہ ع

کچھ افسری ذریعہ عزت نہیں مجھے

کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دوسرا فرد یا تو شاعر ہے یا شاعر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ آپ کو شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں ہے لہذا دوسرا ہونے کے ناطے کبھی کبھی ہمیں یہ رسم نبھانی پڑتی ہے۔ شاعری کیا کرتے ہیں۔ بس بقول میر "درد و غم” جمع کرتے ہیں۔ ویسے بھی ہم اور میر دونوں "چاہ” کے مارے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں میر کا شکوہ تو آپ بارہا پڑھ چکے ہوں گے، ذرا ہمیں بھی سنتے جائیے ع

چاہ” کا مارا یوسف اپنا، "چاہ زخنداں” سے بھی ڈرے ہے

رہتے کہاں ہیں؟ کا کیا جواب دیں کہ۔ ؂

اپنا کیا کنعان میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

تاہم تا دم تحریر اپنے گھر بلکہ مکان میں رہتے ہیں دعا کریں (ہو سکے تو "دوا” بھی) کہ جس مکان میں ہم رہتے ہیں خدا اسے گھر کر دے یا جس "گھر” میں ہم اب تک نہیں رہ سکے خدا اسے ہمارا کر دے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا یہ شاہکار خط نما انشائیہ (یا انشائیہ نما خط) محض مدیرہ مسئول کے استفادہ کی خاطر آفس فائل میں جگہ پاتا ہے یا استفادہ عام کے لئے ماہنامہ کے صفحات پر۔ خیر یہ تو ان کی مرضی پر منحصر ہے جن کے نام یہ خط ہے۔ تاہم اگر یہ خط ابھی نہ بھی چھپے تو طالبان ادب مایوس نہ ہوں۔ ان شاء اللہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے خطوط پر کام کرنے والا کوئی نہ کوئی محقق اسے ضرور برآمد کر لے گا۔ ہم اس محقق کو پیشگی مبارکباد دیتے ہیں اور اس سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں یہ ضرور لکھے کہ ہمارے زندگی میں ہمارے "ادبی حیثیت” سے ناواقف ایک مدیرہ (انجانے میں ہی سہی) ہماری کس قدر بے قدری کی مرتکب (بمطابق ذیل) ہوئی تھیں۔

اسی خط کے آخر میں مادام سین لکھتی ہیں! "صاحب کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔ (کیونکہ) مجھے خود بھی آپ کی تحریریں (بے حد) پسند ہیں۔” اسی کے ساتھ ہمارے تحریر کی (قدر و) قیمت بھی لگا دی کہ : "پرچہ آپ کے نام اعزازی جاری کیا جا رہا ہے۔ جب تک آپ کا ماہنامہ کے ساتھ تعلق رہے گا (یعنی مضمون ملتا رہے گا) ماہنامہ بھی یہ تعلق نبھائے گا” – مطلب صاف ظاہر ہے کہ بصورت دیگر پرچہ ملنا بند ہو جائے گا۔ صاحبو! دیکھا آپ نے برسوں قبل میر نے ہمارے بارے میں غلط تھوڑا ہی کہا کہ

            کیا پانی کے مول آ کر، مالک نے گہر بیچا

            ہے سخت گراں، سستا یوسف کا بکا جانا

٭٭٭

 

ذکر اُس پری وش کا

اللہ کی ایک مشہور اور اشرف مخلوق کی دو اقسام ہیں۔ ایک کو انسان کہتے ہیں اور دوسری کو عورت۔ عورتیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن پر شاعر حضرات غزل کہتے ہیں اور جن کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ بھرا جاتا ہے۔ دوسری قسم بیوی کہلاتی ہے۔ جس طرح کسی بچے کی معصومیت اُس وقت ختم ہو جاتی ہے جب وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی ساری خوبیاں اُس وقت ہوا ہو جاتی ہیں جب وہ زَن سے رَن، میرا مطلب ہے بیوی بن جاتی ہے۔ بیوی کو بیگم بھی کہتے ہیں۔ شنید ہے کہ سنہرے دور میں یہ بے غم کہلاتی تھی کیونکہ ان کا کام شوہروں کو ہر غم سے بے غم کرنا ہوتا تھا۔ دور اور کام تبدیل ہوتے ہی نام بھی تبدیل ہو کر بیگم رہ گیا۔

 اعلیٰ ثانوی جماعت کے ایک استاد نے طلباء سے پوچھا کہ بیویاں زیادہ تر کس کے کام آتی ہیں؟ ایک شریر طالبعلم نے فوراً جواب دیا "سر لطیفوں کے۔” جی ہاں بیویاں زیادہ تر لطیفوں ہی کے کام آتی ہیں۔ دُنیا میں اب تک جتنے بھی لطیفے تخلیق کئے گئے ہیں، اُن میں سے بھاری اکثریت کا تعلق بیویوں ہی سے ہے۔ بیوی کو ہندی زبان میں استری بھی کہتے ہیں۔ ایک صاحب کی کپڑے پریس کرنے والی استری خراب ہو گئی تو وہ اپنے پڑوسی سکھ سے استری ادھار مانگنے پہنچ گیا جو مزاج کے ذرا تیز تھے۔ سردار جی جب دروازے پر آئے تو وہ ہچکچاتے ہوئے بولے، "سردار جی وُہ ذرا آپ کی استری ۔۔۔ ۔ سردار جی نے اُسے گھورتے ہوئے ذرا با آواز بلند کہا، "کیا ہوا میری استری کو؟” سردار جی کی بلند آواز سُن کر اُن کی دھرم پتنی بھی دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ سردار جی غصے سے اپنی بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے، یہ رہی میری استری۔۔۔ پڑوسی نے جلدی سے کہا نہیں سردار جی وُہ کپڑوں والی استری۔۔۔ سردار جی چلائے "تو کیا تمہیں اس کے کپڑے نظر نہیں آ رہے؟” پڑوسی مزید گھبراہٹ میں بولا، سردار جی۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ وہ وہ والی استری جو کرنٹ مارتی ہے۔ سردار جی ایک زور دار قہقہہ بلند کیا اور بولے، پُتر ذرا ہتھ لا کے تے ویکھ۔

    تعلیم بالغاں کی ایک کلاس میں ایک استاد نے ایک شادی شدہ شاگرد سے پوچھا، بیوی اور ٹی وی کیا فرق ہے؟

    شاگرد نے جواب دیا، "ہیں تو یہ دونوں بڑے مزے کی چیز لیکن ٹی وی میں ایک اضافی خوبی بھی ہے اور وہ یہ کہ آپ جب چاہیں، اُس کی بولتی (ہوئی آواز) بند بھی کر سکتے ہیں۔”

    دُنیا بھر کے مَردوں (مُردوں نہیں) کی معلومات بیویوں کے بارے میں کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بیوی کے بارے میں کم سے کم اور دوسروں کی بیویوں کے بارے میں بیش یعنی زیادہ سے زیادہ جانتے ہیں۔ بیویاں غیر شوہروں کو مرغوب اور شوہروں کو غیر مرغوب ہوتی ہیں۔ بیویوں کے بارے میں ایک محقق نے اپنی تحقیق کو شائع کرنے سے انکار کر دیا، وجہ پوچھی تو کہنے لگا، میں اپنی تحقیق اُس وقت شائع کرواؤں گا جب میرا ایک پاؤں قبر میں ہو گا اور کتاب شائع ہوتے ہی میں اپنا دوسرا پاؤں بھی قبر میں ڈال لوں گا۔ بیویوں کے بارے میں زیادہ تر تفصیلات کنواروں نے لکھی ہیں۔ کیونکہ شادی کے بعد وہ بیوی کو پیارے ہو چُکے ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں منہ کھولنے کے قابل نہیں رہتے۔ معروف مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے بیویوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا ہے (اور اس کے علاوہ انھوں نے لکھا ہی کیا ہے) وہ سب کے سب ان کے کنوار پنے (گنوار پنے نہیں) کی تحریریں ہیں۔

بیوی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل اور بیوی کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل تر ہے۔ بیویاں غریبوں کے لئے باعثِ رحمت اور خوشحال لوگوں کے لئے باعثِ زحمت ہوتی ہیں۔ جب ایک غریب جوان باورچی، دھوبی، چوکیدار، ملازم وغیرہ کی تنخواہوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تو شادی کر کے ان سب کی جگہ چند ہزار روپے تا حیات تنخواہ پر ایک بیوی کو گھر میں لے آتا ہے۔ اگر کسی شوہر یا بیوی کے جذبات تا حیات تنخواہ کی اصطلاح سے مجروح  ہوتے ہیں تو وہ اس کی جگہ حق مہر پڑھ لے۔

اُردو کا ایک محاورہ ہے اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ گمان غالب ہے کہ اس محاورے کا موجد کنوارہ ہی مرا ہو گا۔ اگر وہ شوہر بن چُکا ہوتا تو وہ اس محاورے کا اَپ ڈیٹ کئے بغیر نہیں مرتا۔ ایسا ہی انگریزی کا ایک مقولہ ہے

No Life Without Wife

یہاں

Without

سے پہلے

With Or

بھی ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ بچے ہمیشہ اپنے اور بیوی دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ جس نگاہ کو کوئی عورت اچھی لگ رہی ہوتی ہے، بدقسمتی یا خوش قسمتی سے وہ اُس کی بیوی نہیں ہوتی۔ جبکہ اُسی محفل میں وہ عورت اپنے شوہر کو ذرا بھی اچھی نہیں لگ رہی ہوتی کیونکہ اُس کے شوہر کو دیگر خواتین اچھی لگ رہی ہوتی ہیں۔ بیک وقت اچھی لگنے اور اچھی نہ لگنے کا اعجاز صرف ایک بیوی ہی کو حاصل ہے۔ دُنیا کی کوئی اور ہستی یا تو اچھی ہوتی ہے یا بُری (دونوں ہر گز نہیں) جیسے دُنیا کی سب سے اچھی ہستی ماں ہوتی ہے (بشرطیکہ وہ آپ کی ہو، آپ کے بچوں کی نہیں)۔ آپ کی ماں اگرچہ آپ کے باپ کی بیوی ہی ہوتی ہے لیکن جب تک آپ اپنی ماں کی عظمت کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں وہ بیچاری اُس وقت تک صرف اور صرف ماں بن چُکی ہوتی ہے۔ پھر ماں کی عظمت کی ایک وجہ اُس کی لازوال مامتا بھی ہے۔ بیوی کے پاس لازوال مامتا نہیں ہوتی اور جو کُچھ ہوتا ہے، وہ سب زوال پذیر ہوتا ہے۔

میرا ایک دوست "ج” اپنی اہلیہ کو نا اہلیہ کہہ کر پکارتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اہلیہ تو تُم اُس وقت کہلاتیں جب میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا۔ اور اگر میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا تو کم از کم تُم میری اہلیہ نہ ہوتیں۔ ایک دانشور کہتا ہے کہ اگر آپ کے فادر غریب ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، یہ سراسر آپ کی قسمت کا قصور ہے لیکن اگر آپ کے فادر ان لا بھی غریب ہیں تو یہ سراسر آپ کا قصور ہے۔ جس کی سزا آپ کی اہلیہ، میرا مطلب ہے کہ نا اہلیہ کو ضرور ملنی چاہیے۔ اگرچہ اُسے ایک سزا پہلے ہی ملی ہوئی ہے لیکن کم از کم آپ اُس سزا کا تصور نہیں کر سکتے۔ بھلا کوئی اپنا تصور خود کیسے کر سکتا ہے؟

دُنیا کا بیشتر مزاحیہ ادب بیوی کے گرد، اور رومانوی ادب غیر بیوی کے گرد گھومتا ہے۔ حتیٰ کہ مزاحیہ شاعری بھی بیوی ہی پر کہی جاتی ہے۔ جبکہ غیر بیوی پر شاعر جو کچھ کہتا ہے، اُسے غزل کہتے ہیں۔

    میری بیوی قبر میں لیتی ہے کس ہنگام سے

    میں بھی ہوں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے

    اپنی زندہ بیوی پر یہ شعر سید ضمیر جعفری مرحوم نے کہا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک فوجی میجر بھی تھے۔ میں بھی بیویات پر یہ تحریر اُس وقت لکھ رہا ہوں جبکہ میں اپنی ذاتی بیوی سے سینکڑوں میل دُور ہوں۔ اوور دُور دُور تک اُس کے قریب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ شاید یہ اُس سے دُوری کا فیض ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔ مردم شناس تو سارے ہی ہوتے ہیں، لیکن خانم شناس صرف اور صرف ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور شعر ۔۔۔ ۔

    ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے

    ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

    کی مندرجہ ذیل پیروڈی جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے، میں نے اُس وقت کی تھی جب میں اپنی بیوی سے ہی نہیں بلکہ اپنے مُلک سے بھی دور تھا۔ اور اس وقت تک نیک بخت کا پاسپورٹ بھی نہیں بنا تھا۔

    ایک شوہر جسے تُو گراں سمجھتی ہے

    ہزار شوہروں سے دیتا ہے عورت کو نجات

٭٭٭

 

ٹک روتے روتے

شہنائیوں کی گونج میں دلہن رخصت ہو رہی تھی۔ حسب روایت دلہن سمیت سب ہی کی آنکھیں اشکبار تھیں مگر دلہن کی چھوٹی مگر سیانی بہن نے تو رو رو کر گویا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ سب ہی اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک خاتون انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں بھئی اب اتنا بھی کیا رونا۔ کوئی تمہاری تو رخصتی نہیں ہو رہی۔ محفل میں سے آواز آئی : اسی لئے تو رو رہی ہیں۔

صاحبو! ہمیں موصوفہ کے رونے کا سبب تو نہیں معلوم۔ مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ فی زمانہ رونا سب سے آسان کام ہے۔ جبھی تو کہتے ہیں رونا اور گانا کسے نہیں آتا۔مگر یہ اس زمانے کی بات ہے جب مرد گایا اور عورتیں رویا کرتی تھی۔ تاریخ اس بات پہ خاموش ہے کہ پھر بچے کیا کرتے تھے؟ ویسے ہم آج تک یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہے کہ مردوں کے گانے پر عورتیں رویا کرتی تھیں یا عورتوں کے رونے کی آواز محلہ والوں سے چھپانے کے لئے مرد گانے لگتے تھے۔ خیر وجہ کچھ بھی ہو اب اس کی توجیہہ کی قطعاً ضرورت نہیں رہی، کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ مرد و زن کے مساوات کا دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین و حضرات نے اپنے بیشتر "فرائض‘ ایک دوسرے سے بدل لئے ہیں اور "بقیہ فرائض” بدلنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج کل خواتین نے گانے اور مرد حضرات نے رونے کا فریضہ سنبھال لیا ہے۔

رونے کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً بچوں کا رونا، عورتوں کا رونا اور مردوں کا (عورتوں کی طرح) رونا وغیرہ وغیرہ۔ بچے عموماً آواز سے اور بلا آنسو روتے ہیں۔ بچوں کو اس طریقہ سے رونے میں اسی طرح ملکہ حاصل ہے جس طرح ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کو۔ (رونے میں نہیں بلکہ گانے میں)۔ صفر سے سو سال تک "بچے” جب کسی کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس ہمدردی کی آڑ میں انہیں دامے در قدمے یا سخنے کچھ مطلوب ہو تو وہ مختلف آوازوں کے ساتھ (بلا آنسو) رونا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی حالات کا رونا روتے ہیں تو کبھی اپنی بے چسی کا۔ کبھی دوسروں کی زیادتی کا رونا روتے ہیں تو کبھی تقدیر کی ستم ظریفی کا۔ غرض کہ کسی نہ کسی سبب سے رو کر اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔

رونے کی دوسری قسم عورتوں کا رونا ہے۔ یہ ایک معروف قسم ہے۔ اس قسم کا رونا بچوں کے رونے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح کے رونے میں آنسوؤں کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ اگر دنیا بھر کی عورتیں رونا دھونا بند کر دیں تو دنیا میں سیلاب کبھی نہ آئے۔ مگر ہم اسی تجویز کے حق میں ہرگز نہیں ہیں۔ کیونکہ اس طرح ہم جہا ں سیلاب بلا کی آفات سے محفوظ ہو جائیں گے وہیں "چشم زن” کے متعدد فیوض سے بھی تو محروم ہو جائیں گے کیونکہ اس بات پر تو تمام طبی ماہرین متفق ہیں کہ خواتین کی آنکھوں کی خوبصورتی میں سامان آرائش چشم سے زیادہ ان کے آنسوؤں کا دخل ہے۔ پھر بن موسم کے برسات کا مزہ بھی تو انہی آنکھوں میں ہے کہ

مزے برسات کے چاہو، تو آ بیٹھو ان آنکھوں میں

سیاہی ہے، سفیدی ہے، شفق ہے، ابر باراں ہے

رونے کی اس قسم کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ اسے جہاں "دکھ” میں استعمال کیا جا سکتا ہے وہیں اس کا استعمال "سکھ” کے موقع پر بھی بلا تکلف و بے دریغ جائز ہے۔ بلکہ بیشتر خواتین تو رونے کے لئے دکھ سکھ کا بھی انتظار نہیں کرتیں اور اکثر اوقات بات بے بات بھی رونے لگ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی خاتون کو روتا دیکھ کر عقلمند سے عقلمند شخص بھی ان کے رونے کی وجہ نہیں بتلا سکتا۔ تاہم "متعلقہ فرد” کو عموماً یہ پیشگی علم ہوتا ہے۔کہ خاتون خانہ (یا غیر خاتون خانہ۔۔۔ جو بھی صورت ہو) کے آئندہ رونے کا سبب کیا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہماری پولیس کے متعلقہ افراد کو یہ پیشگی علم ہوتا ہے کہ شہر میں ہونے والا اگلا جرم کب اور کہاں وقوع پذیر ہو گا۔

رونے کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو سکہ رائج الوقت کی طرح آجکل مقبول عام ہے۔ جی ہاں! یہ رونا مردوں کا رونا ہے۔ گو رونے کی ابتدا بچوں نے کی ہے۔ مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے بخشا جبکہ اس کی موجودہ "پروفیشنل” حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پروفیشنلزم کے اس جدید دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش” کروانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔ آپ خود دیکھتے رہتے ہیں کہ اگر کسی حکومت کو رونے دھونے پر ملکہ حاصل ہوتا ہے تو وہ "بین الاقوامی خطرات” کا رونا رو کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیتی ہے اور اپنے اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر حزب اختلاف رونے دھونے میں حزب اقتدار سے بازی لے جائے تو وہ عوام کو حزب اقتدار کی غلامی سے آزاد کرا کر اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ اگر آجر رونے میں کمال حاصل کر لے تو اپنے ملازمین کے سامنے اپنے "بُرے حالات” اور دوسروں کی "زیادتی” کا رونا رو کر اسے کم سے کم تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی ملازم اپنے خود ساختہ مصائب کا رونا رو کر آجر کی ہمدردیاں حاصل کر لے تو تنخواہ کے علاوہ بونس بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تاجر رونے کے فن میں ماہر ہو جائے تو وہ اپنے مال کی قیمتوں میں اضافہ کروانے اور اپنے اوپر عائد ٹیکسوں کو کم کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا فن ہے کہ جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا، وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اور (نام نہاد) عزت (جائز و ناجائز) دولت اور (اچھی بری) شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے "پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ” ہے۔ ایک ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے آگے جھکنا نہیں پڑتا۔ صرف ہر ایک کے آگے رونا پڑتا ہے۔

قارئین کرام! ہم نے بھی اس فن میں مہارت حاصل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ابتدائی مشق کے طور پر ہم یہ انشائیہ تحریر کر رہے ہیں بعد ازاں "ریاض” کا باقاعدہ آغاز ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوران ریاض ہم روتے روتے (تھک ہار کر) سو جائیں ایسے میں اگر متذکرہ بالا عزت دولت شہرت یعنی "عین دال شین سسٹرز” ہمارے گھر پر دستک دینے لگیں تو بلا تکلف ہمیں اٹھا دیجئے گا۔ اور ہماری امی جان کی اس ممانعت پر ہرگز کان نہ دھریئے گا کہ

    سرہانے "میر” کے آہستہ بولو

    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    واضح رہے کہ "میر” ہمارے اصلی نام کا مخفف ہے اور ہماری امی جان پیار سے ہمیں اسی نام سے پکارتی ہیں۔ دیکھئے! ہمیں جگا ضرور دیجئے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں سوتا پا کر "عین دال شین سسٹرز” ہمارے پڑوسی کے گھر پہنچ جائیں۔ اور رونے میں مہارت حاصل کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا پڑے کہ ؂  منزل انہیں ملی جو (رونے دھونے میں) شریک سفر نہ تھے۔

٭٭٭

 

گُربہ کشتن روز اول

گربہ کشتن روز اول والی مثل تو تم لوگوں نے سنی ہی ہو گی؟

"سر سنی تو ہے مگر۔۔۔”

"ارے بھئی کمال ہے کالج میں پہنچ گئے اور۔۔۔ خیر اس میں تم لوگوں کا اتنا زیادہ قصور بھی نہیں۔ عربی فارسی تو تم لوگوں کو کبھی پڑھائی ہی نہیں گئی”۔

"سر اب عربی فارسی والا زمانہ کہا؟”

ارے نادانو! اب تم لوگوں کو فارسی عربی کی اہمیت بھی بتانی پڑے گی۔ دیکھو جب تک عربی فارسی تھوڑی بہت نہ آتی ہو تو صحیح طور سے اردو بھی نہیں آسکتی۔ کیا سمجھے؟

"مگر سر! وہ گربہ کشتن والی بات۔۔۔”

"ہاں! وہ گربہ کشتن روز اول کا مطلب ہے پہلے ہی روز گربہ یعنی بلی کو مارنا۔”

"بلی کو مارنا؟”

"بھئی یہ ایک روایتی کہانی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب کی شادی ہونے والی تھی۔ ان کے کسی دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ پہلی ہی شب جب تمہاری ملاقات اپنی زوجہ سے ہو تو اس پر اپنی بہادری و شجاعت کا رعب ضرور ڈالنا تاکہ ساری عمر اس پر تمہارا رعب قائم رہے۔”

"یعنی کہ سر! فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن پر عمل پیرا ہو۔ مگر سر! اس میں بلی کہاں ہے؟”

"بلی کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب اس سیدھے سادھے شخص نے پوچھا کہ میں اپنی زوجہ پر رعب ڈالوں تو آخر کیسے؟ اس پر اس کے دوست نے بتا کہ کمرے میں پہلے سے ایک بلی چھوڑ دینا اور جب تم کمرے میں داخل ہو گی تو لا محالہ بلی کی میاؤں میاؤں کی آواز تمہیں سنائی دے گی۔ بس تم غصہ سے بلی کی طرف جھپٹنا اور تلوار سے اس کی گردن اڑا دینا۔ یہ دیکھتے ہی تمہاری زوجہ سہم جائے گی اور ساری عمر تمہارے سامنے سر نہ اٹھا سکے گی۔”

"سر پھر کیا ہوا تھا؟”

"ہونا کیا تھا! جب سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی یعنی جب کہیں فرسٹ امپریشن ہی شجاعت و بہادری کا دینا مقصود ہو تو ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ گربہ کشتن روز اول۔”

"سر بلی مار کر؟”

"ارے نہیں بھئی! ضروری نہیں کہ بلی مار کر ہی یہ امپریشن قائم کیا جائے۔ اس کے طریقے وقت زمانہ اور موقع کی مناسبت سے بدلتے رہتے ہیں۔ تاہم اس قسم کے موقع پر فارسی میں۔ بلکہ اب تو اردو میں بھی یہی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ "گربہ کشتن روز اول۔”

"شاباش! مگر دیکھو تم میں سے جو کوئی بھی اس پر عمل پیرا ہونا چاہے، وہ اپنی ذمہ داری پر ایسا کرے۔”

"وہ کیوں سر!”

"وہ اس لیے کہ برعکس نتائج برآمد ہونے کی صورت میں ذمہ داری ہم پر عائد نہ ہو۔”

 (مشترکہ قہقہہ)

***

"کیوں بھئی حامد! تم میری بارات میں آ رہے ہو نا؟”

"یار دیکھو کوشش تو میں ضرور کروں گا لیکن اگر۔۔۔”

"کوشش؟ نہیں بھی میں نہیں جانتا۔ تمہیں ہر حال میں آنا ہے۔ ورنہ؟”

"ورنہ یہ شادی نہیں ہو سکتی؟”

"خیر اب ایسی خوش فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسی بات ہے تو تم بے شک مت آنا۔ تمہاری شرکت کے بغیر بھی مابدولت کی شادی ہو سکتی ہے۔ سمجھے؟”

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ تم تو سچ مچ ہی ناراض ہو گئے۔ میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔ تمہاری شادی ہو اور میں نہ آؤں۔۔۔؟”

"یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ ہے نا؟”

"ہاں! ہاں! ہاں بالکل۔ آخر ہم نے بھی تو شادی کرنی ہے۔”

"تو تم شادی کب کر رہے ہو؟”

"بس ذرا تمہاری شادی کے بوجھ سے فارغ ہو لیں۔ پھر اپنے بارے میں بھی سوچیں گے؟”

"بس۔۔۔ بس۔ اب زیادہ بڑی اماں قسم کی چیز بننے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی بات گول کرنے کی ضرورت ہے۔ تم بارات والے دن صبح سویرے میرے گھر آ جانا۔”

"تاکہ رات ہوتے ہی تم مجھے اپنے گھر سے نکال سکو۔”

"کیا مطلب؟”

"بھئی دیکھو نا۔ تم کس چاؤ سے مجھے صبح سویرے اپنے گھر بلا رہے ہو۔ برات میں اپنے ساتھ لے جا رہے ہو۔ لیکن جب تم اپنی دلہن لے کر رات گئے گھر پہنچو گے تو ہم سے فوراً گھر سے نکل جانے کا کہو گے تاکہ ۔۔۔”

"حامد کے بچے!”

"ارے بھئی آہستہ بولو۔ ابھی تو حامد میاں کی شادی بھی نہیں ہوئی۔ اگر حامد میاں کی ہونے والی زوجہ نے سن لیا تو۔ حامد میاں کی شامت ہی آ جائے گی۔ اچھا خیر بارات والی صبح ملاقات ہو گی لیکن بارات والی رات وہ سبق مت بھول جانا۔”

"کونسا سبق؟”

"بھئی وہی جو سر نے بتلایا تھا۔ یعنی گربہ کشتن روز اول”

"مگر وہ گربہ کہاں سے آئے گی؟”

"بھئی ایک "گربہ مسکین” تو کمرے میں ہو گی ہی۔۔۔ اسی سے کام چلا لینا۔”

"حامد کے بچے۔۔۔ میں کہتا ہوں۔۔۔ باز آ جاؤ۔۔۔ ورنہ۔۔۔”

"اوکے۔۔۔ بائی ۔۔۔ بائی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔”

"خدا حافظ۔”

***

"آداب عرض ہے۔”

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

"میں نے کہا حضور سلام عرض ہے۔”

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

"اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔ اگر سلام قبول نہیں تو ہم جاتے ہیں۔”

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ آپ۔۔۔؟”

"بھئی آپ کچھ بولی ہی نہیں تو ہم سمجھے۔۔۔؟”

"آپ کیا سمجھے۔۔۔”

"بھئی ہم سمجھے ، شاید آپ ناراض ہوں۔ یا شاید آپ گونگی ہوں۔”

"ہم نہ تو ناراض ہیں اور۔ اب تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ نہ ہی گونگی ہیں۔”

"واللہ کیا بات ہے آپ کے بولنے کی۔ آپ تو خوب بولتی ہیں۔”

"ویسے ایک بات پوچھوں۔”

"کون سی بات؟”

"آپ ناراض تو نہیں ہوں گی؟”

"بھئی پہلے پتہ تو چلے کہ آپ نے کون سی بات پوچھنی ہے؟ ناراض ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔”

"دراصل میں میں ایک کہاوت کی بابت جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ تم نے وہ مثل سنی ہے "گربہ کشتن روز اول”۔

"دیکھیں۔۔۔ دیکھیں۔ میں ایک بات صاف صاف کہے دیتی ہوں۔ آئندہ آپ میرے سامنے عربی وربی کا رعب مت جھاڑیئے گا۔”

"لیکن بیگم! یہ تو فارسی کی کہاوت ہے۔۔۔”

"عربی ہو یا فارسی! کان کھول کر سن لیجئے۔ آئندہ آپ مجھ سے سیدھی سادی زبان میں بات چیت کریں گے اور مجھے کم علمی کا طعنہ نہیں دیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں آپ جتنی پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن۔۔۔ سب کچھ سمجھتی ہوں۔ ہاں! "

"اوہو! تو اس میں لڑنے والی کون سی بات ہے۔ اگر تمہیں نہیں معلوم تو دفع کرو۔”

"بس بس! مجھے تو جیسے کچھ معلوم ہی نہیں اور آئندہ مجھے یہ طعنہ بھی مت دینا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہاں نہیں تو۔”

"بیگم! میں طعنہ تو نہیں دے رہا تھا۔ خیر چھوڑو اس کم بخت کو۔۔۔”

"کم بخت کس کو کہا؟”

"بھئی میں تو اس کہاوت کو کہہ رہا تھا جس نے تمہارا موڈ بگاڑ دیا۔ تمہیں نہیں کہہ رہا تھا۔۔۔ تمہیں تو وہی کچھ کہوں گا جو تم کہو گی۔۔۔ جو تم چاہو گی۔”

"یہ ہوئی نا بات! اگر میری مرضی کے خلاف اس گھر میں آپ نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔”

"بیگم! اب میں اتنا بے وقوف بھی نہیں کہ آئندہ ایسی کوئی کوشش بھی کروں۔”

"بس اسے باندھ لینا اپنی گرہ میں۔”

"ہاں اب تو یہی کرنا پڑے گا۔ کہ پچھلی گرہ کو کھول کر اس میں یہ نئی بات باندھ لوں۔۔۔ اچھا آؤ اب۔۔۔ کچھ "دوسری” باتیں۔۔۔ ہو جائیں۔۔۔ ہو جائیں؟”

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

***

"بیگم! پھر تم نے بیٹے کے بار ے میں کیا سوچا ہے؟”

"سوچنا کیا ہے؟ میں نے تو شروع ہی سے اپنی بہن کی لڑکی کو اپنے بیٹے کے لیے پسند کر چکی ہوں۔”

"کون؟۔۔۔ وہ صائمہ مگر وہ تو۔۔۔؟”

"دیکھو تم میری صائمہ کو کچھ نہ کہنا۔۔۔ ورنہ؟”

"میں اسے کچھ نہیں کہتا۔ لیکن یہ تو سوچو کہ میرا دوست حامد کیا سوچے گا۔ میں نے اس کے بیٹے کو اپنا داماد بنانے کا خیال ظاہر کیا تو وہ راضی ہو گیا مگر تم نے ایک نہ چلنے دی اور اپنے بھائی کے بیٹے کو داماد بنا لیا۔ اب میں نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اس کی اعلیٰ ظرفی دیکھو کہ ۔۔۔”

"میں نہیں جانتی کسی کی اعلیٰ ظرفی؟”

"مگر پہلے تو تم راضی تھیں بلکہ تم ہی نے تو مجھے حامد سے بات کرنے پر مجبور کیا تھا میں۔۔۔”

"اس وقت کی بات اور تھی۔۔۔ جب آپا کے میاں نہیں مان رہے تھے۔ اب تو وہ بھی مان گئے ہیں۔ اب اس گھر میں صرف میری بہن کی بیٹی بہو بن کر آئے گی سمجھے؟”

"سمجھ گیا۔ تم نے کب میری بات مانی ہے جو آج مان جاؤ گی۔ جو تمہاری مرضی۔”

"بس اگلے جمعہ کو آپ کے گھر چلنا ہے۔ انہوں نے پیغام بھجوایا تھا۔”

"ٹھیک ہے تو چلی جانا۔”

"آپ نہیں چلیں گے؟”

"میرے جانے کا کوئی مصرف تو نہیں۔ لیکن جب تم کہہ رہی ہو تو جانا ہی پڑے گا۔”

***

    "اچھا بیٹا! آج ہم نے تمہارا فرض بھی پورا کر دیا۔ تم خوش، تمہاری ماں خوش۔ ظاہر ہے اس سے بڑی اور کیا خوشی ہو گی میرے لئے۔۔۔ اب جاؤ تم اپنے کمرے میں دلہن تمہارا انتظار کر رہی ہو گی۔۔۔ لیکن دیکھو وہ تمہاری ماں آ رہی ہے۔ پہلے اس سے مل لو ورنہ ۔۔۔ "

    "جی اچھا! ابا جان۔”

    "جی امی جان! آپ کچھ کہہ رہی تھیں کیا؟”

”    ہاں وہ آخری بات تو کرنا بھول ہی گئی۔۔۔ دلہن کے پاس جا رہے ہو تو۔ گربہ کشتن روز اول والی مت بھولنا۔ اگر تم نے پہلی ملاقات میں اپنی بیوی کو رعب میں نہیں لیا تو یاد رکھنا بیٹا! ساری عمر بیوی کے رعب میں گزارنی پڑے گی۔ سمجھے کہ نہیں۔”

    "جج۔۔۔ جی سمجھ گیا۔۔۔ اب میں سب کچھ سمجھ گیا۔۔۔ امی جان!”

    "کیا سمجھ گئے؟”

    "یہی کہ گربہ کشتن روز اول ہے نا امی جان؟”

    "ہاں بیٹا!۔۔۔ یہ تو ہے۔۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں”

٭٭٭

 

پوچھنا منع ہے

دو سہیلیاں آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ ایک کہنے لگی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میں ۲۵ برس کی نہیں ہو جاتی شادی نہیں کروں گی۔ دوسری بولی میں نے بھی ایک فیصلہ کیا ہے۔ پہلی سہیلی کے پوچھنے پر بولی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میری شادی نہیں ہو جاتی میں ۲۵ کی نہیں ہوں گی۔ یہ پھلجڑی جس حد تک لطیفہ ہے اس سے زیادہ حقیقت بھی ہے۔ یہ تو سب ہی کہتے ہیں کہ لڑکیاں بڑی تیزی سے بڑھتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ لڑکیاں جلد ہی (عمر میں) بڑھنا "بند” بھی تو کر دیتی ہیں اور عمر کے ایک "پسندیدہ” مقام پر پہنچ کر تو اس طرح "رک ” جاتی ہیں جیسے ۔۔۔ ایک فلمی ہیروئن جو گزشتہ تیس برسوں سے ہیروئن چلی آ رہی تھی، فلم کے ایک سین میں اپنے حقیقی بیٹے سے بھی چھوٹی عمر کے ہیرو سے کہنے لگی۔ اچھا یہ تو بتائیں کہ آپ کے نزدیک میری عمر کیا ہو گی۔ ہیرو کہنے لگا بھئی تمہاری باتوں سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تم بائیس برس کی ہو مگر تمہاری فیگر بتلاتی ہے کہ تم بیس برس سے زائد کی نہیں ہو سکتیں اور اگر چہرے کی معصومیت دیکھو تو یوں لگتا ہے جیسے تم صرف اٹھارہ برس کی ہو۔ ہیروئن اٹھلاتی ہوئی بولی اللہ آپ کتنے ذہین ہیں آپ نہ صرف اسمارٹ بلکہ بلا کے "خانم شناس” بھی ہیں۔ ہیرو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ اور ان تمام عمروں کو جمع کر کے کوئی بھی تمہاری اصل عمر کا تخمینہ لگا سکتا ہے۔ "کٹ” ڈائریکٹر کی آواز گونجی اور فلم میں سے ہیرو کا یہ آخری جملہ کاٹ دیا گیا۔

ہمارے ہاں بہت سی باتوں کو پوچھنا ایٹی کیٹس کے خلاف سمجھا جاتا ہے جیسے آپ "عمر نازنین” ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کسی خوبصورت سی محفل میں کسی خوبصورت نازنین کی عمر دریافت کر لیں تو نہ صرف خوبصورت نازنین کی خوبصورتی ہوا ہو جاتی ہے بلکہ خوبصورت محفل کی خوبصورتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ اسی کے ساتھ ہی آپ کو بھی محفل سے جبراً رخصت کر دیا جائے۔ اب بھلا ایسی باتوں کو پوچھنے کا کیا فائدہ کہ لوگوں کو آپ کی خیریت پوچھنی پڑ جائے۔

جس طرح خواتین سے (اس کی ذاتی) عمر پوچھنا منع ہے اسی طرح مرد حضرات سے ان کی تنخواہ پوچھنا بھی بقول شخصے ۔”بے فضول” ہے۔ خواتین اپنی عمر نفی اور تقسیم کے عمل سے کشید کر کے بتلاتی ہیں تو حضرات اپنی تنخواہ کو جمع ۔ جمع الجمع اور ضرب جیسے الاؤنس سے گزار کر بتلاتے ہیں مگر یہاں یہ واضح ہو کہ مرد حضرات اس قسم کی حرکت گھر سے باہر ہی کیا کرتے ہیں۔ گھر میں تو۔۔۔ شوہر نے نئی نویلی بیوی کے ہاتھ میں پہلی تنخواہ لا کر رکھی۔ وہ روپے گنتے ہوئے بولی : باقی پیسے؟ کون سے باقی پیسے؟ تنخواہ تو یہی ملی ہے۔ بیوی شوہر کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔ مگر تمہاری امی نے تو میری امی سے کہا تھا کہ ۔۔۔ ہاں! ہاں! انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔ اور تمہارے بہن تو کہہ رہی تھی کہ میرے بھیا کو۔۔۔ بھئی وہ بھی ٹھیک کہہ رہی تھی۔ بیوی نے تنخواہ کی رقم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تو پھر یہ کیا ہے؟ ۔۔۔ بھئی یہ بھی ٹھیک ہے۔ شوہر سمجھانے کے انداز میں بولا۔ بھئی دیکھو! تنخواہ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتی ہے بنیادی تنخواہ، جو تمہارے ہاتھ میں ہے، یہ سب سے کم ہوتی ہے اور یہی اصل تنخواہ ہوتی ہے۔ جب اس تنخواہ میں مختلف الاؤنس کو جمع کر لیا جائے جو کٹوتی کی مد میں کٹ جاتی ہے تو تنخواہ کی رقم اتنی بڑھ جاتی ہے جتنی میری امی نے تمہاری امی کو تمہارا رشتہ مانگتے وقت بتلایا تھا۔ اور اگر سال بھر تک آجر کی طرف سے ملنے والی سہولتوں کو جمع کر کے اسے رقم میں تبدیل کر لیں اور حاصل ہونے والی فرضی رقم کو بارہ سے تقسیم کر کے تنخواہ اور الاؤنس میں جمع کر لیا جائے تو بننے والی تنخواہ وہ ہوتی ہے جو میری بہن نے تمہیں منگنی والے روز بتلائی تھی۔ یہ سب سے زیادہ تنخواہ ہوتی ہے۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی! میں پوچھتی ہوں آخر تمہارے گھر والوں نے میرے گھر والوں کو تمہاری صحیح تنخواہ کیوں نہیں بتلائی تھی۔ بھئی دیکھو! اول تو یہاں کچھ پوچھنا منع ہے۔ دوم یہ کہ تمہارے گھر والوں نے کب میرے گھر والوں کو تمہارے اصل عمر بتلائی تھی۔

سو پیارے قارئین! آپ میں سے اول الذکر کبھی موخر الذکر سے اس کی عمر اور موخر الذکر اول الذکر سے اس کی تنخواہ نہ پوچھے کہ اس سے امن و امان خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ اور جب امن و امان کو خطرہ لاحق ہو تو مارشل لا آتا ہے اور جب مارشل لا آتا ہے تو بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں اور جب بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں تو انقلاب آتا ہے اور جب انقلاب آتا ہے تو جمہوریت بحال ہوتی ہے اور جب جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امن و امان پھر سے خطرے میں پڑ جاتا ہے اور جب امن و امان خطرے میں ہو تو ۔۔۔ آگے پوچھنا منع ہے۔ ویسے نہ پوچھنے کو اور بھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں نہ پوچھ کر ہی امن و امان برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی سیاسی پارٹی سے تو یہ پوچھنا یکسر منع ہے کہ اس کے پاس جلسے جلوس کے لئے اتنا سرمایہ کہاں سے آتا ہے۔ قرضدار سے قرضہ کی رقم کی واپسی کا پوچھنا تو صحت کے لئے بھی مضرو ہے۔ اسی طرح اپنی نصف بہتر کے سامنے کسی خاتون کا حال پوچھنا، کلاس روم میں استاد سے سوال پوچھنا، ڈرائیور سے ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھنا، گرفتار شدگان کا اپنا جرم پوچھنا اور اخبار و جرائد سے اس کی تعداد اشاعت پوچھنا۔۔۔ مگر ٹھہریئے آخر میں ہم شاید کچھ زیادہ ہی غلط بات پوچھ بیٹھے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدیر محترم ہم سے ہمارے گھر کا پتہ پوچھ بیٹھیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچے کہ لوگ ہمیں اٹھائے ہمارے گھر کا رستہ پوچھتے نظر آئیں۔ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ۔۔۔ پوچھنا منع ہے۔ ہے نا؟

٭٭٭

 

بات مولوی مدن کی

مولوی اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :

بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

مولوی مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔

کبھی مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ از خود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں جتنی گالی مولویوں کو دی جاتی ہے اتنی تو شاید شیطان کو بھی نہی دیجاتی۔ مولوی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا سب کھانے سے منسلک ہوتا ہے۔ یعنی حلوہ اور گالی کھا کر جیتے ہیں تو گولی کھا کر مرتے ہیں۔ مولوی ہمارے معاشرے کے لئے بڑی رحمت ہیں۔ ناکارہ اولاد کو کھپانا ہو تو مولوی بنا دو۔ کھانا فالتو ہو تو مولوی کی دعوت کر دو۔ جب کوئی خوف تنگ کرنے لگے تو صدقہ و خیرات کے نام پر مولوی اور اس کے اداروں کو نواز دو۔ لیکن جب یہی مولوی ہم سے دین کے راستے پر چلنے کا تقاضہ کرنے لگے تو ہم انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور مولوی کا اسلام نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان بے چاروں کے پاس اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ اپنا دین وضع کر سکیں۔ یہ تو بس قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کے سہارے گذارا کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو کیا ہم نعوذ باللہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دیتے۔ مولوی لاکھ برا سہی لیکن وہ بلاتا تو ہمیں شریعت ہی کی طرف ہے۔

ہم مولوی کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مولوی ہمارا۔ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سنتے ہی ہم لڈو کے ساتھ ایک عدد مولوی کا بھی آرڈر دے دیتے ہیں تاکہ بچے کے کان میں اذان تو دی جا سکے، ہم تو اس کے بھی اہل نہیں۔ کسی مولوی کی مدد کے بغیر دلہا، سیج تک اور مردہ اپنی قبر تک نہیں پہنچ سکتا کہ نکاح اور جنازہ پڑھانا صرف ایک مولوی ہی کو آتا ہے۔ اور تو اور صدر مملکت کی تقریر ہو یا ناچ گانے کا ثقافتی پروگرام، افتتاحی تقریب میں تلاوت کلام پاک کے لئے کسی مولوی ہی کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ فرمان خداوندی کو ادا کرنے کا ذمہ دار بھی مولوی ہی قرار پائے اور ہم اس سے مطلقاً بری الذمہ ہوں۔ یا اللہ اگر ہمارے درمیان مولوی نہ ہوتا ہمارا کیا حشر ہوتا۔ ہم کیسے پیدا ہوتے اور کیسے مرتے۔ کیا ہمارا آغاز و انجام بھی، ہماری زندگی کے بقیہ عرصہ حیات کی طرح ملحدانہ ہی ہوتا۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں مولوی کی نعمت موجود ہے۔ شکریہ مولوی صاحب بہت بہت شکریہ۔

٭٭٭

 

مولانا فضول کی سیاست

ایک وقت تھا کہ لوگ رشوت کی حرام کمائی کو طنزاً فضل ربی یعنی رب کا فضل کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ ہمارے ممدوح مولانا فضول کو بھی یار لوگ رحمن کا فضل قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنے ارادے کے پکے مگر قول کے قدرے کچے ہیں۔ کرتے وہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جلسے جلوسوں اور سیاسی اجلاسوں میں ایسی باتیں بھی کرتے پائے جاتے ہیں جو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوتی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کہ ہم عوام کی ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں، گو زمینی حقائق نے ہمیں ان پر عمل درآمد کا موقع نہیں دیا۔

مولانا فضول ہل من مزید کی ایک عملی تصویر ہیں۔ نہ صرف خوش خوراک ہیں، بلکہ خوش گفتار بھی۔ ہر دو کام بے تکان کرتے ہیں اور موقع محل دیکھے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے بھی لیتے ہیں اور قائد حزب اختلاف بھی کہلوانے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ صنف نازک کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی نہیں کا مطلب بھی ہاں ہوتا ہے۔ موصوف کا تعلق چونکہ صنف مخالف سے ہے، اس لئے موصوف اگر ہاں بھی کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ناں ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسمبلیوں سے بروقت استعفیٰ دینا ہو یا مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا، برسر مجلس ان کی ہر دو ہاں کا مطلب ناں ہی تھا، جو انہوں نے عملاً ثابت بھی کر دکھایا۔ آپ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے کے سبب شاعروں کے خیالات کے حامی نہیں۔ اسی لئے آپ؂

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

کے قطعاً قائل نہیں۔ آپ ہمیشہ ایسے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے خدا بھی ملے اور وصال صنم میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ قاضی سے بھی رشتہ برقرار رہے اور بی بی بے مثال بھی اندرون خانہ خوش رہیں۔ طالبان سے بھی رابطہ برقرار رہے اور امریکہ بہادر کے لئے بھی قابل قبول نظر آئیں۔ اپوزیشن کے لیڈر بھی بنے رہیں اور مشرف حکومت کے نور نظر بھی۔

مولانا فضول پاکستان میں ایک نئی طرز سیاست کے بانی ہیں۔ ایسی سیاست جس میں چت بھی اپنی ہو اور پٹ بھی اپنی۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں شامل رہنے کا ہنر آپ ہی کی ایجاد کردہ ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنا ہو یا اپوزیشن لیڈر رہتے ہوئے حکومت وی وی آئی پی پروٹوکول بمع سہولیات سے استفادہ کرنا، یہ ہنر آپ سے قبل کسے آتا تھا؟ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ ایک طرف دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم ہے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیوں سے انڈر اسٹینڈنگ بھی جاری ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں بھی مولانا فضول کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کر لیں تو پاکستانی سیاست سے محاذ آرائی کا یکسر خاتمہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات جیتنے والی پارٹیاں اقتدار کے اندر اور ہارنے والی پارٹیاں اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہیں۔ نہ حکومت کو اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور ان کے جلسے جلوسوں پر لاٹھی چارج اور گولیاں چلانے کی زحمت ہو گی نہ اپوزیشن کو لاٹھی گولی کھانے اور جیل جانے کی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔ ہر دو گروپ، ہر دو صورتحال میں مل جل کر مزے میں رہیں گے۔

البتہ اس طرز سیاست میں عوام کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ عوام کا کام صرف انہیں ووٹ دے کر باری باری برسراقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن بنانا ہو گا۔ وہ جلسے جلوسوں کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی کمائی سیاست اور اہل سیاست کی نذر کر سکتے ہیں۔ عوام ہر دو انتخابات کے درمیان حسب سابق اپنی روٹی روزی کی فکر میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں، تاکہ ان کی نگاہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کے رہنماؤں کی طرف نہ اٹھنے پائے۔ مولانا فضول کی فضول سیاست زندہ بات۔

کی قاضی نے سیاست، اگرچہ اصول کی سی

مگر وہ بات کہاں مولانا فضول کی سی

٭٭٭

 

اداکارہ، اداکاری اور کاری ادا

یہ ایک اداکارہ ہے۔ اداکاری کے پردے میں کاری ادا دکھانے اور کاری حملہ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر وہیں بسیرا کر لیتی ہے۔ اور یوں دل اپنی من مانی کرنے پر اتر آتا ہے۔ ان کا حملہ ٹین ایجرز پر فوری اثر کرتا ہے اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو بڑھاپے تک اس کا سحر قائم رہتا ہے۔

اداکارہ کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بیشتر مشہور و معروف اداکاراؤں نے گھر سے بھاگ کر ہی اپنی اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ گھریلو رشتے ادا کارہ کی ادا کاری کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہوتی ہے، جسے یہ پہلے ہی ہلے میں گرا دیتی ہے۔ کوئی شریف لڑکی اس وقت تک اداکارہ نہیں بن سکتی جب تک وہ شرافت کا لبادہ اتار اور قدرتی رشتوں کو چھوڑ نہیں دیتی۔ ایک وقت تھا جب ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں کو اداکاراؤں کی سپلائی صرف اور صرف طوائفوں کے کوچہ سے ہوا کرتی تھی مگر شیطان کی کرپا سے اب یہ محتاجی نہیں رہی۔ ایک فلم ساز جب ایک خوبرو طوائف کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے تو اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ بھولی طوائف بولی۔ یہاں بڑے بڑے لوگ میرے پیچھے آتے ہیں۔ فلموں میں مجھے ٹکے ٹکے کے لوگوں کے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ جب اللہ نے مجھے یہاں عزت دولت سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر میں فلموں میں کیوں جاؤں؟

فلم یا ڈرامہ کی مرکزی اداکارہ کو ہیروئین بھی کہتے ہیں۔ ان کا نشہ بھی پوست والے ہیروئین سے کم نہیں ہوتا۔ البتہ ہر فلم بین کا برانڈ یعنی پسندیدہ ہیروئین جدا جدا ہوتی ہے۔ پرستار اپنی پسندیدہ ہیروئین کے نشہ میں دنیا و مافیہا سے بےگانہ ہو جاتے ہیں جبکہ اداکارہ کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ؂

کون مرتا ہے مری زلف کے سر ہونے تک

 زیادہ سے زیادہ ہیرو کے ساتھ کام کرنے والی ہیروئین کی زیادہ سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔ جبکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں یہ جتنے کم لوگوں سے وابستہ رہتی تھی، اس کی عزت و توقیر اتنی ہی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ سچ ہے، وقت اور اس کے اقدار بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بولڈ اینڈ بیوٹی کسی بھی اداکارہ کی دو بنیادی وصف شمار ہوتی ہے۔ اداکاراؤں کے حوالے سے بولڈنس نسبتاً ایک نئی اصطلاح ہے۔ قبل ازیں اسے بے شرمی کہا جاتا تھا۔ اداکاراؤں کے پیشے کی ابتدا ہی شرم و حیا کے لباس کو اتارنے سے ہوتی ہے۔ اور جوں جوں یہ آگے بڑھتی جاتی ہے، اس کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے۔ لیکن میرا ایک دوست بالکل الٹ بات کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس تیزی سے ایک اداکارہ کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے، وہ اسی تیزی سے ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ لباس کے بارے میں اداکارائیں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ لباس قدرتی لباس ہے۔ اس لباس میں ان کی اداکاری کی مانگ اور قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اداکارائیں شادی کو اپنے کیرئیر کی تباہی اور طلاق کو ترقی کا زینہ سمجھتی ہیں۔ اسی لئے اداکارائیں شادی سے کم اور طلاق سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔

کوئی اداکارہ اس وقت تک پرفیکٹ ایکٹریس نہیں کہلاتی جب تک وہ محبت کے مناظر کی عکاسی کروانے میں مہارت نہ حاصل کر لے۔ یعنی ایسے مکالمے و افعال جو ایک شریف زادی صرف اپنے بیڈ روم میں اور اپنے سر کے تاج کے سامنے، یا ایک طوائف زادی اپنے کوٹھے کی چہار دیواری کے اندر صرف اپنے گاہک کے سامنے انجام دیتے ہوئے بھی شرما جاتی ہے۔ اسے ایک اداکارہ چکا چوند روشنی میں بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس خوبصورتی اور بولڈنس یعنی بے شرمی کے ساتھ ریکارڈ کرواتی ہے کہ اس کی ہر ادا، جسمانی خد و خال اور نشیب و فراز تمام باریکیوں کے ساتھ محفوظ ہو جاتے ہیں، جنہیں دیکھ دیکھ کر ان کے پرستار محظوظ اور ہیروئین کے نشے میں چور ہو جاتے ہیں۔

ایک کامیاب اداکارہ صرف لوسین ہی نہیں بلکہ اینٹی لو سین میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ جہاں یہ بہ رضا و رغبت اپنے پورے جسم کو پیش کرنے میں رتی بھر بھی نہیں ہچکچاتی وہیں یہ ولن کے ہاتھوں اپنی عزت لٹوانے کے تمام مراحل کو بڑی تفصیل سے پیش کرنے میں بھی یکساں مہارت رکھتی ہے۔ حالانکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں کوئی ایسا کرنے کی جرات کرے تو وہ اسے اپنے پالتو غنڈوں سے یا سرکاری اہلکاروں سے پٹوا دیا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ جسم فروش خواتین نے خود کو بیچنے کا آغاز ناچ گانے سے کیا تھا۔ پہلے یہ امراء کے لئے مجرا کیا کرتی تھیں۔ بعد ازاں عوام کی خاطر گلوکاری اور اداکاری شروع کر دی۔ مجرا یا تو امراء کی کوٹھی پر ہوا کرتا تھا یا طوائف کے کوٹھے پر۔ عوام کے لئے گلوکاری کا آغاز ریڈیو سے ہوا۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے جب ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام کا آغاز کیا تو پہلے پروگرام کی بکنگ کے لئے وہ خود بہ نفس نفیس طوائفوں کے کوٹھے پر گئے تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان اس معاملہ میں نہ صرف خود کفیل ہو گیا بلکہ ریڈیو سے تربیت یافتہ گلو کاراؤں کو ٹی وی اور فلم کے لئے ایکسپورٹ بھی کرنے لگا۔ آج پاکستان دنیا بھر کو بالعموم اور مڈل ایسٹ کو بالخصوص بولڈ اینڈ بیوٹی وافر تعداد و مقدار میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور خاصہ زر مبادلہ کماتا ہے۔

اداکارہ چھوٹی ہو یا بڑی، سب کی منزل ایک ہوتی ہے۔ قد آور اداکارہ وہ کہلاتی ہے جو اپنے قد و قامت اپنے کپڑوں سے باہر نکال سکے۔ اداکاراؤں کا کوئی دین، کوئی نظریہ یا کوئی کیریکٹر نہیں ہوتا سوائے فلمی کیریکٹر کے۔ یہی وجہ ہے کہ اداکارہ ایک فلم میں جسے بھائی بناتی ہے، اگلے فلم میں اسے پریمی یا شوہر بناتے ہوئے کوئی عار نہیں ہوتا۔ ایک اداکارہ سین کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا اپنا دھرم اور ایمان سمجھتی ہے۔ خواہ وہ سین اس کے اپنے دین دھرم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اداکارہ پہلے مسلمان ہو ہندو ہو یا عیسائی، اداکاری کے شعبہ میں داخل ہونے کے بعد صرف اور صرف اداکارہ رہ جاتی ہے۔ لہذا کسی اداکارہ کے کسی بھی فعل کو کسی دین دھرم بالخصوص اسلام کے حوالے سے تو دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں جاوید شیخ نے کیا خوب کہا تھا کہ فلم انڈسٹری کی بات کرتے ہوئے آپ اسلام کی بات نہ کیا کریں۔ اسلام کا فلم سے یا فلم کا اسلام سے کیا تعلق۔

 کہتے ہیں کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو یقیناً وہاں اداکاری کرنے والی عورتوں ہی کی بہتات ہو گی۔ خواہ ایسی عورتیں ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کرتی رہی ہوں یا گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔ اچھے وقتوں میں جب کوئی غلط کام کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کرتا تھا تو لوگ خوش گمانی کے تحت کہا کرتے تھے کہ زیادہ اداکاری نہ کرو اور سدھر جاؤ ورنہ ۔۔۔ اب یہی اداکاری بولڈنس یعنی بے حیائی کے ساتھ ایک پیشہ بن چکی ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو اداکارہ کی اداکاری اور اس کی کاری ادا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

٭٭٭

 

پلیز اور سوری

    پلیز اور سوری ایک ایسی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن پر سوار ہو کر آپ ہر قسم کی گاڑیوں سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے پائیدان تک بھری ہوئی بس کو حسرت سے تکنے کی بجائے لپک کر قریب جائیے۔ بس سے باہر لٹکے ہوئے ایک جم غفیر کی گھورتی ہوئی نگاہوں سے خوف کھانے کے بجائے بلا تکلف ایک پاؤں پائیدان کی طرف اور ہاتھ ڈنڈے تک بڑھائیں اور لٹکے ہوئے حضرات کی طرف مسکراتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کچھ کھینچ کر جادو اثر لفظ پلیز ادا کیجئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کو پائیدان میں پاؤں رکھنے کیلئے اور ڈنڈے کو پکڑنے کیلئے جگہ مل جائے گی۔ اور بس فراٹے بھرتی ہوئی آپ کو آپ کی منزل مقصود تک پہنچا دے گی۔

    یہ پلیز بڑے کام کی چیز ہے۔ اس کا اسٹاک ہر وقت اپنے پاس رکھیے۔ آپ کا اس پر کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں آئے گا۔ پتہ نہیں کس وقت ضرورت پڑ جائے۔ مثلاً آپ کہیں چلے جا رہے ہیں کہ اچانک آپ کو سامنے چند منچلے نظر آتے ہیں جنہوں نے سامنے سے گزرنے کا راستہ روک رکھا ہے۔ آپ راستہ تبدیل کرنے کے بجائے بلا دھڑک آگے بڑھتے چلے جائیے۔ اور قریب پہنچ کر ایک لمبی سی پلیز ان کے منہ پر دے ماریئے۔ گویا آپ نے بدتمیزی کے سمندر میں عصائے موسیٰ مار دیا۔ آپ کو فوراً راستہ مل جائے گا۔ یہ نسخہ کیمیا خواتین بھی اپنی ذمہ داری پر استعمال کر سکتی ہیں۔

    اگر کسی کو پیشگی "زحمت” دینے کا ارادہ ہو تو پلیز کا قبل از زحمت استعمال سود مند رہتا ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ آپ کو پلیز کہنا یاد نہ رہا تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ قبل اس کے کہ وہ جسے آپ زحمت میں مبتلا کر چکے ہیں آپ پر جوابی کاروائی کا سوچے، آپ فوراً لفظ "سوری” کا سہارا لیں۔ وہ دل میں پیچ و تاب کھانے کے باوجود آپ سے صرف یہی کہنے پر اکتفا کرے گا کہ کوئی بات نہیں۔

    اس نسخہ کے طریقہ استعمال کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔ آپ بھرے بازار میں چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ دانستہ یا نا دانستہ (جو بھی آپ پسند کریں) کسی ننگے پیر یا چپل (یا پھر سینڈل۔۔۔) پہنے ہوئے پاؤں کو اپنے جوتے سے کچلتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صاحب ِ پاؤں یا اس کا کوئی "حمایتی” آپ کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور آپ فرار کے مواقع کو مسدود پائیں تو خطرہ محسوس کرتے ہی فوراً پیچھے مڑ کر مذکورہ فرد کے منہ پر ایک زور دار سی "سوری” دے ماریں۔ اور قبل اس کے کہ وہ کچھ سمجھنے یا بولنے کی کوشش کرے آپ تیزی سے کسی بھی سمت کھسک جائیں۔

    ۔۔۔ یا پھر آپ حسب معمول کسی بھری ہوئی بس میں سفر کر رہے ہوں اور آپ کا پان کھانے کو جی چاہے تو بٖغیر کسی جھجک کے اپنی خواہش پوری کریں۔ ہاں جب پیک تھوکنے کا مسئلہ ہو تو اپنا ایک ہاتھ (واضح رہے کہ دوسرے ہاتھ سے آپ ڈنڈا پکڑے ہوں گے) دائیں بائیں یا آگے پیچھے بڑھائیں۔ آپ کا ہاتھ کسی نہ کسی جیب میں ضرور چلا جائے گا۔ بس بے دھڑک رومال نکال لیں۔ رومال میں پیک جذب کر لیں اور پہلے کی طرح کسی کی بھی جیب میں ڈال دیں۔ اگر خدانخواستہ رومال نکالتے یا ڈالتے وقت صاحبِ جیب یا رومال کی نظر آپ پر پڑ جائے تو قطعی فکر مند نہ ہوں۔ بس آہستگی سے منہ اوپر اٹھا کر سوری کہہ دیں۔ اگر آپ نے مخاطب کی طرف منہ کر کے کچھ کہنے کی کوشش کی تو۔۔۔ تو ظاہر ہے مخاطب کے ساتھ ساتھ آس پاس والوں کے لباس بھی پیک کے خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہو جائیں گے۔ اور مجھے یقین ہے آپ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ کیونکہ آخر آپ ایک با شعور شہری بھی تو ہیں۔

٭٭٭

 

پہلا کالم

قارئین کے پُر زور اصرار پر ۔۔۔ زور کس پر ہوا "اصرار” پر۔ اور اصرار کس بات پر ہے یہ ہم بتلانے سے سختی سے انکار کرتے ہیں۔ ہاں تو قارئین کے پُر زور اصرار پر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھی اب باقاعدگی سے کالم لکھا کریں گے۔ اور ہماری تحریروں کے جملہ حقوق ہمارے ہی نام محفوظ ہونگے۔ اس میں ہمارے علاوہ کسی اور کو دخل اندازی کی اجازت صرف اسی حد تک ہو گی جس حد تک وہ ہمارے لئے سود مند ہو۔ مثلاً مدیر محترم کو ہمارے اس کالم سے استفادہ کرنے کی اجازت صرف اس لئے ہو گی کہ وہ اسے "او کے” کر سکیں۔ کاتب صاحب صرف اس بنیاد پر اسے ہاتھ لگا سکیں گے کہ ہاتھ لگائے بغیر وہ کتابت جو نہیں کر سکتے۔ پروف ریڈر صاحب اپنی عینک کی اوٹ سے محض اس بنا پر ہمارے کالم پر نظر عنایت فرمانے کے اہل ہوں گے کہ وہ اس کی نوک پلک درست یا غلط (حسب ضرورت و حسب منشاء) کر سکیں۔ اس کے علاوہ کسی اور کو ہمارے اس کالم میں دخل در معقولات و نا معقولات کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں بلا اجازت وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔

قارئین کرام! کالم لکھنے کی ذمہ داری تو ہمارے قلم ناتواں پر ہو گی، لیکن پڑھنا آپ کا کام ہو گا یعنی لکھے عیسیٰ پڑھے موسیٰ – ہاں! اس سلسلے میں نہ آپ کو مجھ سے پوچھنے کی اجازت ہو گی کہ میں یہ کالم کس سے لکھواتا ہوں، نہ ہی میں آپ سے یہ دریافت کرنے کی جرات کروں گا کہ آپ کالم کس سے پڑھوا کر سنتے ہیں۔ البتہ جب کبھی ہمارا دل لکھتے لکھتے اکتانے لگے (یا بالفاظ دیگر کالم لکھ کر دینے والا بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کبھی کالم لکھ کر دینے سے انکار کر دے) اور آپ کالم دیکھ کر ہی بوریت محسوس کرنے لگیں (مطلب یہ کہ کالم پڑھ کر سنانے والا پڑھنے کے بعد بوجوہ سنانے سے انکار کر دے) تو ہم اپنے فرائض آپس میں بدل بھی سکتے ہیں۔ ہم بلا تکلف اسے اپنے نام نامی اسم گرامی کے ساتھ اس کالم میں شائع کر کے پڑھ یا پڑھوا لیا کریں گے۔

قبل اس کے کہ ہمارا کالم منظر عام آ کر دنیائے علم و ادب پر چھا جائے، ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ چند باتیں کالم سے متعلق، متعلقین سے کرتے چلیں۔ سب سے پہلے ہم کاتب محترم سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہم کراماً کاتبین کے بعد انہیں سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہی کی برادری کی شوخیِ طبع کے باعث ہمارے ساتھ اکثر ؂

ہم دعا (غیر منقوط) لکھتے رہے وہ دغا (منقوط) پڑھتے رہے

کا سا معاملہ رہا ہے۔ کاتب محترم سے ہماری دو گزارشات ہیں اول تو یہ کہ وہ گھر سے دفتر جانے سے کچھ دیر پہلے ہمارا کالم تحریر کرنے سے گریز فرمایا کریں۔ کیونکہ قلم قبیلہ والے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایسا کرنے سے کالم پر درون خانہ کے سیاسی حالات کی چھاپ پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اور ہم سیاست سے ویسے ہی دور بھاگتے ہیں جیسے بی سیاست بی شرافت سے دور بھاگتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے تحریر کردہ لفظوں بلکہ نقطوں تک کے ہیر پھیر سے گریز کیجیے گا۔ کیونکہ؂

نقطوں کے ہیر پھیر سے خدا بھی ہوتا ہے جدا

ہم تو کسی شمار قطار میں بھی نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ذرا سی بھول سے یوسف ثانی یوسف آنجہانی ہو جائے۔ نتیجتاً آپ کے پاس تعزیتی پیغامات کی بھرمار ہو جائے جسے کتابت کرتے کرتے خود آپ کے اپنے تئیں تعزیت کرنے کی نوبت آن پہنچے۔ علاوہ ازیں کالم کے لفظوں اور سطور کے درمیان ہمیشہ مناسب جگہ چھوڑا کیجئے گا کہ ہم بین السطور بھی بہت کچھ کہنے کے عادی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم بین السطور کچھ کہنا چاہیں اور آپ سطور کے درمیان کچھ کہنے کے لئے جگہ ہی نہ چھوڑیں۔

پروف ریڈر صاحبان سے بس اتنا کہنا ہے کہ اس کالم کی کتابت کے لئے ہدایت نامہ کتابت کروا کر ہم کاتب محترم کے حوالے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آپ کتابت شدہ مواد کی اصلاح کی کوشش ہر گز نہ کیجئے گا۔ اگر کوئی جملہ یا لفظ مہمل نظر آئے یا آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ زیر نظر تحریر تجریدی ادب کا نمونہ ہے۔ عنقریب آپ پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہمارا ہر کالم تجریدی ادب کا شاہکار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے وسائل اجازت دیں تو آپ اپنے خرچ پر ہمارے تجریدی کالم پر مذاکرہ یا سیمینار وغیرہ منعقد کروا کر علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی خدمت بھی کر سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ یہ پیش کش لامحدود مدت کے لئے اور سب کے لئے ہے۔ آخر میں ایک بات ہم آپ کو چپکے سے بتاتے چلیں کہ یہ ساری باتیں ہم نے آپ سے نہیں بلکہ کسی اور سے کہی ہیں۔ بھئی دیکھیں نا! اگر ہم ان سے یہ باتیں براہ راست کہیں تو پھر ہمارا کالم کون چھاپے گا۔

اللہ نہ کرے کبھی سنسر بورڈ کی نظر ہمارے کالم پر پڑے تاہم حفظ ماتقدم کے طور پر ہم سنسر بورڈ کے معزز ارکان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کالم کی روز افزوں مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر اگر حکام بالا ہمارے کالم کو سنسر کرنے کا خیال ظاہر کریں تو بورڈ ہمیں اردو لغت کی ضخیم سی جلد (جس میں قابل اعتراض لفظوں کو سنسر کر دیا گیا ہو) پیشگی ارسال کرے۔ آئندہ ہم اپنا کالم اسی جلد کے سنسر شدہ الفاظ سے تحریر کیا کریں گے۔ اس طرح آپ پڑھنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے اور کالم سنسر (یعنی سیلف سنسر) بھی ہو جایا کرے گا۔ سیاست تو خیر ہمارا موضوع ہے ہی نہیں۔ البتہ ہم آپ سے یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ ہمارا کالم فحاشی سے بھی پاک ہو گا۔ ہم "دلبرداشتہ” جیسے الفاظ کو ہمیشہ واوین بلکہ خطوط وحدانی کے اندر لکھا کریں گے تاکہ آپ غلطی سے بھی ایسے الفاظ کے بیچ وقف کر کے اسے فحش نہ قرار دے بیٹھیں۔

چلتے چلتے ہم مشتہرین حضرات کو بھی مطلع کرتے چلیں کہ وہ ہمارے کالم کی مقبولیت سے جائز و ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے کالم کے بیچ یا آس پاس اپنے اشتہارات شائع کروانے سے گریز کریں۔ اور اگر اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے ایسا ناگزیر ہو تو شعبہ اشتہارات کے بعد ہم سے بھی رجوع کریں تاکہ حسب ضرورت ان کی جیب ہلکی اور اپنی جیب بھاری کر کے ملکی اقتصادی توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔

٭٭٭

 

لب چھڑی

یہ کیا ہے؟ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے لب چھڑی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں جی ہاں انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں۔ یہ اسم با مسمی صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر لب چھڑیوں کی مارکیٹ ویلیو اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ مکمل طور پر اسم با مسمی بن جائے گی۔ یہ ایک کارآمد شے ہے۔ بقول شاعر، خواتین اسے اپنے نازک ہونٹوں کو گلاب جیسا بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں جب کہ مرد حضرات اس سے بچوں کی کاپیاں چیک کرنے کا کام لیتے ہیں۔ آخر خواتین بھی تو شیونگ بلیڈ سے پنسلیں بنانے کا کام لیتے ہیں۔

آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ ابتدا میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ مقبرہ کتب (جسے کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے) میں مدفون کتابوں کے وہ بوسیدہ اوراق پیش کرتے ہیں جن کے بیشتر اشعار میں ہونٹوں کو (غلطی سے ہی سہی) گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار خواتین ضرورت کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شید استعمال کر سکتی ہیں۔ اور آج کے موٹر گاڑیوں کے اس دور میں کون ایسا بھولا ہے جو ان رنگوں کا "مفہوم” نہ سمجھتا ہو۔

بعض رجعت پسند حضرات (خواتین نہیں) لب چھڑی کا شمار سامان تعیش میں کرتے ہیں، مگر اس سے متفق نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ خواتین کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کی جرات کریں گے کہ لب چھڑی کے بغیر صنف نازک کی پہچان تک مشکل ہے۔ اب آپ ہی دیکھئے۔ دور حاضر میں تراش خراش (زلف و لباس دونوں) چال ڈھال اور شکل و صورت کے لحاظ سے تو دونوں اصناف میں کوئی فرق نہیں رہا۔ لب چھڑی ہی وہ واحد چھڑی ہے جس کا استعمال، تا دم تحریر صنف قوی نہیں کرتی۔ ہم لب چھڑی کے موجد کی روح کو دعا دیتے ہیں کہ اس نے لب چھڑی ایجاد کر کے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلا دی ہے۔ آج ہم بلیک اینڈ وہائٹ اور کلرڈ ہونٹ دیکھ کر ہی اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس ہستی سے ہم محو گفتگو ہیں اس کا تعلق کس صنف سے ہے۔

اگر مضمون ہذا کی اشاعت کے بعد خواتین لب چھڑی کا استعمال ترک بھی کر دیں تو اس سے اس کی افادیت اور مانگ میں کمی نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس صورت میں بھی سادہ اور رنگین لب دونوں اصناف کے درمیان وجہ امتیاز بنے رہیں گے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ رنگین لب کے تصور سے ہمارے ذہنوں میں صنف قوی کا خیال آیا کرے گا۔

ابھی ہم رنگ برنگ لپ اسٹکس کے تراکیب استعمال پر غور و فکر کرتے ہوئے مندرجہ بالا سطور لکھ ہی پائے تھے کہ لب چھڑی سے متعلق ایک اہم خبر درآمد ہوئی، جس نے متذکرہ بالا تراکیب کو بیک خبر کالعدم کر دیا۔ سات سمندر پار سے خبر موصول ہوئی ہے کہ سائنس دان ایک ایسی لب چھڑی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو انسانی (مطلب یہ کہ نسوانی) جذبات کی عکاسی کیا کرے گی۔

ہم جب مختلف قسم کے جذباتی قسم کیفیات سے گزرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہمارا دوران خون گھٹتا بڑھتا ہے بلکہ ہمارے جسم کی بیرونی جلد پر مخصوص کیمیاوی تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں۔ انہی کیمیاوی تبدیلیوں کے ظہور پذیر ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس دانوں نے جدید لپ اسٹکس میں ایسی کیمیاوی اشیاء شامل کر دی ہیں جو جلدی کیمیاوی تبدیلیوں کے زیر اثر اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہیں۔ اور رنگوں کی یہ تبدیلی مستقل نہیں بلکہ گرگٹ کی طرح تغیر پذیر ہوتی ہے۔ یعنی اب ہمیں خاتون خانہ کے موڈ کو سمجھنے کے لئے فقط ان کے ہونٹوں کا رنگ دیکھنا ہی کافی ہو گا۔ رنگ ڈھنگ دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ابھی تو یہ لپ اسٹکس تجرباتی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جب یہ تجارتی بنیادوں پر تیار ہو کر گھر گھر پہنچ جائے گی تو کیا صورت حال پیش آئے گی۔ ملاحظہ فرمائیں : صاحب خانہ گھر میں داخل ہوتے ہیں کہ گڈو "ابو آ گئے! ابو آ گئے!” کہتا ہوا لپٹ جاتا ہے۔ "بیٹے! آپ کی امی کہاں ہیں؟”۔۔۔ "ابو ابو آج گھر میں کچھ ہونے والا ہے۔ صبح سے امی کے ہونٹوں کا رنگ مستقل بدل رہا ہے۔” ممی کی آہٹ سن کر ابو کی گود میں چڑھتے ہوئے۔ "ابو مجھ تو ڈر لگ رہا ہے "۔۔۔ ” ارے آپ؟ کب آئے؟ اور یہ گڈو جوتوں سمیت آپکی گود میں۔۔۔؟ "۔۔۔ بھئی تمہارے ہونٹوں کا رنگ تو بڑا خوشگوار ہے، گڈو تو بڑا سہما ہوا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ صبح سے ممی کے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔” "۔۔۔ اس گڈو کے بچے کو تو ۔۔۔  بس ۔۔۔ بیگم ۔۔۔ بس۔۔۔ دیکھو!۔۔۔ دیکھو! پھر تمہارے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔

٭٭٭

 

قربانی کے بکرے

ان سے ملئے یہ ہیں قربانی کے بکرے۔ معاف کیجئے گا آپ غلط سمجھے۔

یہ محاورے والے بکرے نہیں ہیں، بلکہ سچ مچ کے قربانی کے بکرے ہیں۔ اسی لئے تو یہ ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں۔ یوں تو یہ سارا سال انسانی ضرورتوں کی قربان گاہ پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں مگر عید قربان پر ان کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دام یوں آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں جیسے یہ زمینی مخلوق نہ ہوں بلکہ آسمانی مخلوق ہوں بلکہ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے آسمانی مخلوق ہی ہیں۔ کیونکہ خدا کی راہ میں قربان ہونے کے فوراً بعد ان کی حیثیت آسمانی ٕمخلوق سے بھی بڑھ جاتی ہے۔

اب ان سے ملئیے۔ جی ہاں یہ بھی قربانی کے بکرے ہی ہیں۔ معاف کیجئے گا آپ پھر غلط سمجھے۔ یہاں میری مراد محاورے والے بکروں سے ہے۔ مگر یہ کسی طرح بھی اصلی بکروں سے کم نہیں ہوتے بلکہ دیکھا جائے تو کسی حد تک ان کی حیثیت اصلی بکروں سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات دنیا کے بازار میں ان کی قیمت ایک بکرے سے بھی کم لگائی جاتی ہے۔

آج کل تو بازار مصر شہر شہر قریہ قریہ لگا ہوا ہے۔ سماج کے ان نام نہاد بازاروں میں راقم جیسے نہ جانے کتنے یوسف قربانی کے بکروں کی مانند، بلکہ بکروں سے بھی سستے بک رہے ہیں، کوئی اف تک کرنے والا نہیں۔ قربانی کے ایک بکرے (اصلی والے) سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ بھئی کیوں قربان ہوتے ہو تو موصوف پہلے تو مسکرائے پھر گویا ہوئے ہم تو ہیں ہی قربانی کے بکرے۔ ہم اگر قربان نہ ہوں گے تو کیا حضرت انسان خود اپنے آپ کو قربان کرے گا؟ ہم تو حضرت انسان کو قربانی سے بچانے کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیتے ہی مگر یہ نا قدرے پھر بھی ہماری قربانی کو خاطر میں نہیں لاتے اور چند ٹکے خرچ کر کے یہی کہتے پھرتے ہیں کہ قربانی تو ہم نے دی ہے۔

قربانی کے بکرے کی یہ بات سن کر صاحب بکرا یعنی محاورے والے بکرے۔۔۔ حضرت انسان برہم ہو گئے۔ کہنے لگے صاحب! قربانی کے اصل بکرے تو ہم ہیں جو گود سے گور تک قسطوں میں خود کو قربان کرتے رہتے ہیں۔ یہ چار پاؤں والے بکرے تو زندگی میں صرف ایک مرتبہ قربان ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ مگر دیکھئے نا ہمیں ہر لمحہ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہر آن قربان ہوتے رہتے ہیں۔ سماج کی قربان گاہ پر ہمیں ہر لمحہ مار کر دوسرے لمحہ زندہ کر دیا جاتا ہے تاکہ تیسرے لمحہ پھر مارا جا سکے۔ مارنے اور جلانے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تاوقتیکہ فرشتہ اجل تقدیر کی قربان گاہ پر ہمیں قربان کرنے چلا آتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ قربانی کا اصل بکرا کون ہے؟ چار ٹانگوں والا بے زبان بکرا یا یہ دو ٹانگوں پر چلنے والا حیوان ناطق۔

دو افراد باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ ایک نے غصہ میں آ کر دوسرے سے کہا کہ تم تو بالکل گدھے ہو۔ دوسرے نے کہا گدھے تو تم ہو۔ بس پھر کیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گدھا ثابت کرنے کے لئے گدھے پن کا ثبوت دینا شروع کر دیا۔ پہلا فرد غصہ کو کم کرتا ہوا بولا چلو ایسا کرتے ہیں کہ ووٹنگ کرا لیتے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ ملے گا اصل میں وہی گدھا ہو گا۔ دوسرا بولا کرا لو ووٹنگ ابھی فیصلہ ہوا جاتا ہے کہ کون گدھا ہے۔ پہلا گویا ہوا تو مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں "گدھے ہونے” کے امیدوار ہیں۔ اور جسے زیادہ ووٹ ملے وہی گدھا ہو گا، تمہیں منظور ہے نا؟ دوسرے فرد کے اقرار پر پہلے شخص نے جلدی سے کہا تو پھر ٹھیک ہے میں اس مقابلے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اب تم بلا مقابلہ گدھے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ رفوچکر ہو گیا۔

دیکھا آپ نے ووٹنگ کا کمال یعنی اس میں بڑے بڑے گدھے بھی منتخب ہو جاتے ہیں بلکہ بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے ۔۔۔ ۔۔۔  ہر دم انتخابات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ وہ بھی منتخب ہو جائیں۔ گدھے کے تذکرے پر یاد آیا گزشتہ دنوں میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ صاحب بہادر نہ جانے کسی بات پر مسلسل انکار کئے جا رہے تھے اور میں انہیں منانے کی کوششیں کر رہا تھا۔ آخرکار میں نے ترپ کا پتہ پھینکتے ہوئے کہا۔ تم میری اتنی سی بات بھی نہیں مانتے حالانکہ میں تو تمہیں اپنے بھائیوں کے برابر عزیز رکھتا ہوں۔ موصوف تقریباً رضامند ہوتے ہوئے بولے : واہ صاحب! یہ اچھی رہی۔ جب تمہیں کوئی بات منوانی ہو تو فوراً بھائی بنا لیتے ہو۔ میں نے کہا میرے بھائی! لوگ تو وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بھی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو صرف بھائی بنایا ہے۔ بس موصوف دوبارہ ناراض ہو گئے اور اب تک ناراض ہیں۔ پتہ نہیں کیوں؟

ویسے ناراض ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی ہے۔ لوگ تو ذرا ذرا سے بات پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ اب پچھلی عید کی بات ہے ہم نے سوچا چلو کچھ نہیں تو جوتے ہی سہی۔ چنانچہ ایک جوتے کی دکان پر پہنچ گئے۔ سیلزمین نے کئی خوبصورت جوتے دکھائے جو قیمت معلوم ہوتے ہی ہمیں ناپسند آنے لگتے۔ جوتوں کا ڈھیر لگ گیا مگر ہمیں کوئی جوتا پسند ہی نہیں آ رہا تھا کہ پسندیدگی کے لئے جیب کی پیشگی اجازت ضروری تھی۔ چنانچہ ہم جب بکھرے ہوئے لاتعداد جوتوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اٹھنے لگے تو سیلزمین گویا جوتے مارتے ہوئے بولا، صاحب! اتنے جوتے پڑے ہیں لیکن آپ اب بھی مطمئن نہیں۔ ہم نے فوراً خود کو سنبھالا اور سیلزمین کی دیکھتے ہوئے خوبصورت سے بارہ سو روپے والے جوتے پہن لئے۔ سیلزمین اپنی اس کامیابی پر مسرور نظر آنے لگا۔ ہم نے جیب سے بٹوا اور بٹوے سے پانچ سو روپے کا اکلوتا نوٹ نکالتے ہوئے کہا۔ یہ پانچ سو روپے لیتے ہو یا اتاروں جوتا؟

آگے کا احوال کیا بیان کریں۔۔۔ جی ہاں مجبوراً مجھے جوتا۔۔۔ اب دیکھیں نا! جنگ محبت اور مجبوری میں تو سب جائز ہوتا ہے نا؟ آپ محبت سے مجبور ہوں یا مجبوراً محبت کر رہے ہوں ہر دو صورتوں میں نتیجہ عموماً ایک ہی نکلتا ہے۔ مثلاً اس محفل ہی کو لے لیجیے جس میں ایک شمع محفل ہیروں کے زیورات سے سجی دیگر تمام خواتین و حضرات کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک خاتون تو اپنے شوہر کے سر ہو گئیں کہ مجھے بھی ایسا ہی سیٹ لا کر دو۔ شوہر نے سمجھایا اری نیک بخت پاگل ہوئی ہے کیا؟ تمہیں کچھ اندازہ ہے یہ کتنا قیمتی ہے؟ بیوی بولی مجھے کیا پتہ؟ اچھا چلو اس سے پوچھ لو کہ کتنے میں خریدا ہے؟ شوہر نے لاکھ سمجھایا کہ یہ آداب محفل کے خلاف ہے، لوگ کیا کہیں گے۔ مگر خاتون نہ مانیں۔ مجبوراً صاحب بہادر مذکورہ خاتون کے قریب پہنچے۔ سب کی نظریں ادھر ہی جم گئیں کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ صاحب بہادر نے خاتون کے قریب جا کر کہا ایکسکیوز می پلیز! کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سیٹ آپ نے کتنے میں خریدا ہے؟ پہلے تو خاتون نے اسے سر تا پا گھور کر دیکھا مگر محفل کا رنگ انہماک دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا "نیویارک سے خریدا ہے ڈھائی ہزار ڈالر میں آیا تھا” قیمت سن کر صاحب بہادر کے ہوش اڑنے ہی والے تھے کہ انہوں نے خود کو سہارا دیا اور یہ کہتے ہوئے پلٹ پڑے کہ مگر اتنے میں تو نیا سیٹ مل جاتا ہے۔

٭٭٭

 

کرفیو اور اہل کراچی

اہل کراچی اب کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لا سے۔ اگر ہمارے پاکستانی بھائی تھوڑا عرصہ بھی مارشل لا کی چھتری سے باہر گزار لیں تو ان کی طبعیت ناساز ہو جاتی ہے۔ اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتے مارشل لا کا ورد شروع ہو جاتا ہے۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے اگر حالات یہی رہے تو نئے مارشل لا کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری طرف سے تسلی دی جاتی ہے کہ نہیں فی الحال مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں۔ اور تیسرے ہی دن یہ اطلاع آتی ہے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔

بات ہم کرفیو کی کر رہے تھے کہ یہ مارشل لا نہ جانے کہاں سے ٹپک پرا۔ ویسے بھی مارشل لا عموماً ٹپک ہی پڑتا ہے۔ یہ کبھی "تھرو پراپر چینل” نہیں آتا لہذا سطور بالا میں اس کے اس طرح ٹپک پڑنے کو اس کی عادت ثانیہ جانتے ہوئے ہم درگزر کرتے ہیں۔ اور اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہاں اب تو اہل کراچی کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے۔۔۔۔ ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اب اہل کراچی کرفیو سے ذرا بھی نہیں گھبراتے بلکہ اسے "معمولات” میں تصور کر کے اپنے معمولات زندگی میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ کرفیو تو پھر کرفیو ہے۔ کسی زمانے میں محض مارشل لا کی بھی بڑی "قدر” ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ہاں جب مارشل لا نیا نیا آیا تھا تو مائیں اپنے بچوں کو باہر گلی میں کھیلنے سے منع کرتے ہوئے کہتی تھیں بیٹے باہر مت جانا۔ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ پھر جب یہی مائیں اور بچے مارشل لا سے مانوس ہو گئے تو ایک مارشل لا سے دوسرے مارشل لا تک کے درمیاں وقفے میں مائیں بچوں بلکہ بڑوں تک سے کہنے لگیں ذرا دیکھ بھال کر باہر جانا اب مارشل لا نہیں ہے نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے۔

قارئین کرام! آپ نے دیکھا ہم تذکرہ مارشل لا سے اپنے کالم کے دام کو جتنا بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی اس تذکرے میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم اپنے ملک کو جتنا مارشل لا سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی مارشل لا سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ خدا ہمارے ملک کو مارشل لا سے اور ہمارے کالم کو تذکرہ مارشل لا کے اثرات بد سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ مگر اس سلسلہ میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ہم جس قدر کسی کو کسی چیز سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے وہ اسی قدر ہی اس چیز سے قریب ہونے کی سعی کرے گا۔ اس قسم کے ماہرین اپنے بیان کی وضاحت میں عموماً یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ جہاں "تھوکنا منع ہے” لکھا ہوتا ہے ماسوائے تھوک کے اور کچھ نظر نہیں آتا اسی طرح اگر آپ کسی فٹ پاتھ پر چلے جا رہے ہیں اور آپ کو یکایک ناگوار سی بو محسوس ہونے لگے تو سمجھ لیجیئے کہ یہیں کہیں آس پاس لکھا ہو گا ۔۔۔ ۔ کرنا منع ہے۔ نو پارکنگ کے بورڈ کے آس پاس گاڑیوں کا ہجوم نہیں تو چند گاڑیاں ضرور کھڑی ہوئی ملیں گی۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچ ہے کہ جہاں کسی گوشے میں چند گاڑیاں پارک نظر آئیں پولیس کے سپاہی وہاں نو پارکنگ کا پور ٹیبل بورڈ نصب کر کے گاڑیوں کے مالکان کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی سنتے جائے۔ ماضی کی ایک حکومت کے دور میں حزب اختلاف کے ایک رکن اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اسمبلی کی بلڈنگ پہنچے تو ان کی نسبتاً پرانی گاڑی کا سیکورٹی کے عملے نے شایان شان اور پر تپاک خیر مقدم نہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ایک بیان داغ دیا کہ ان جیسے غریب ارکان اسمبلی کا سرکاری کارندے مناسب طور پر استقبال نہیں کرتے۔ لہذا وہ کل احتجاجاً گدھا گاڑی پر سوار ہو کر اسمبلی ہال پہنچیں گے۔ چنانچہ موصوف اگلے روز بدست خود گدھا گاڑی "ڈرائیو” کرتے ہوئے اسمبلی پہنچے۔ سیکورٹی کے عملے نے احتیاطاً ان کے ساتھ کسی کا کوئی سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے قریب ہی ایک پول سے گدھا گاڑی کو باندھا اور اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اندر چلے گئے۔ واضح رہے کہ انہوں نے جس "پول” سے گدھا گاڑی کو باندھا تھا وہ دراصل "نو پارکنگ” کا بورڈ تھا اور اس منظر کو ہمارے تمام قومی اخبارات نے اپنے صفحے کی زینت بنایا تھا۔

ابھی ابھی آپ یہ پڑھ رہے تھے کہ جب مذکورہ رکن اسمبلی کو ان کی منشاء کے مطابق "ٹریٹ” نہیں کیا گیا تو انہوں نے جھٹ ایک بیان داغ دیا کہ "غریب ارکان اسمبلی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے”۔ اسی بیان پو ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ آپ اسے لطیفہ سمجھتے ہوئے سن لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمارے ایک سماجی کارکن کو بیان سینے کا بہت شوق تھا۔ انہیں روزانہ کے معمولات میں جو بھی پریشانی ہوتی وہ اسے عوام کی پریشانی سمجھتے ہوئے اس کے خلاف بیان داغ دیتے۔ علاوہ ازیں متعلقہ احکام کو بھی ٹیلی فون کر دیتے کہ صاحب آپ فوراً اس مسئلہ کو حل کروائیں’ عوام بہت پریشان ہیں۔ یہ آخری جمہ تو ان کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔ گزشتہ دنوں ان کی بیگم شاپنگ کرنے گئیں تو ان کئ واپسی سے قبل کرفیو لگ گا۔ چنانچہ وہ اپنے گھر نہ پہنچ سکیں۔ موصوف نے شام تک ہر ممکن جگہ انہیں تلاش کیا مگر ناکامی ہوئی چنانچہ انہوں نے اپنے علاقے کے تھانیدار کو ٹیلی فون کیا کہ صاحب! میری بیوی صبح شاپنگ کرنے گئی تھی۔ ابھی تک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ آپ فوراَ ان کی تلاش کے لیے سپاہی بھیجیں’ عوام بہت پریشان ہے۔

موصوف کی بیگم تو کرفیو میں گم ہو گئی تھیں مگر ان کے دوران کرفیو گم ہونے کے تذکرے پر ہمیں ہمارا گم شدہ موضوع "کرفیو” مل گیا ہے۔ اگر آپ کی یادداشت قابل اعتبار ہے تو یقیناً آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے کرفیو سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تھا مگر الفاظ و واقعات کی بھول بھلیوں میں اس طرح گم ہو گئے کہ اپنا موضوع تک گم کر بیٹھے جو ابھی ابھی ملا ہے۔ سو ہم تانے سے بانا ملاتے ہوئے اب تک کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اہل کراچی کرفیو سے اسی طرح مانوس ہو چکے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لا سے۔ مارشل لا کے ذکر پر ہم نے کہا تھا کہ ہم جتنا اس ذکر سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں یہ اتنا ہی ہم سے چمٹ جاتا ہے۔ کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔ ۔ اور ماہرین نفسیات کے بیان کے ثبوت میں جب ہم گدھا گاڑی کی ڈرائیونگ اور پارکنگ والے مقام تک پہنچے تو ہمیں ایک سماجی کارکن کا واقعہ یاد آ گیا جن کی بیوی دوران کرفیو گم ہو جاتی ہیں۔ اور اسی گمشدگی کے نتیجے میں ہمیں ہمارا گمشدہ موضوع "کرفیو” ابھی ابھی ملا ہے۔ چنانچہ ہمارا خیال ہے کہ اب ہمیں اصل موضوع پر لکھنا شروع کر دینا چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

٭٭٭

 

مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ

    بھئی آپ مجھے اس طرح کیا گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کیا میں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے؟ نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔ کیونکہ اس وقت کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو ان چاہتوں کا شکار ہوتا چیخ اٹھتا۔ ؂

    اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

    آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے تو دوست کا مارا دوستوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگتا ہے کہ حق دوستی ادا کرنے کے لئے اب کون پر تول رہا ہے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ آج کل حق دوستی ادا کرتے وقت دوست احباب حق و ناحق کی تمیز کے چکر میں نہیں پڑتے ویسے بھی حق تو صرف ایک ہی ذات ہے جس کی ضیا پاشیوں نے سارے عالم کو حق پرست بنا رکھا ہے خواہ کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار۔

    نفسا نفسی کے اس دور میں کسی دوست کا ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً محال بھی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی ماننے والی بات ہے جو شخص لوگوں کے درمیان رہتا ہو اس کے دوست احباب تو ہوں گے دس بیس نہیں تو دو چار تو کہیں نہیں گئے۔ پھر یہ دوست کی عدم دستیابی چہ معنی دارد؟ ہم ایسے تمام خوش فہم حضرات کی خوش فہمی دور کرنے کے لئے صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ؂

    دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

    مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے مطلب یہ کہ کوئی فرد اپنی عادت ثانیہ کو یکسر ترک نہیں کر سکتا اور اگر ایسا کر بھی لے تو کبھی نہ کبھی اپنی اس عادت کا اظہار ضرور کرے گا۔ اسی طرح دوست کے بارے میں آجکل یہ بات بلا کھٹکے کہی جا سکتی ہے کہ دوست دوستی سے جائے خود غرضی سے باز نہ آئے۔ اگر کسی دوست کو ہماری یہ بات بری لگے تو وہ فوراً سمجھ لے کہ ہماری یہ بات سچی ہے کیونکہ سچ کے بارے میں ماہر حسیات پہلے ہی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ سچ تلخ تو ہوتا ہے مگر دافع امراض خبیثہ ہوتا ہے۔ اور اس کا تا دم مرگ استعمال آدمی کو تمام برائیوں سے پاک رکھتا ہے۔ چچا غالب تو رہنے دیجئے کہ وہ اپنے قول میں صادق تھے (خدا گواہ ہے) مگر پطرس بخاری مرحوم جیسے "جھوٹے” بھی سچ کہنے پر مجبور تھے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا تھا بلکہ وہ خود کہہ گئے ہیں۔ ع

    کہتا ہوں سچ گرچہ عادت نہیں مجھے

    ذکر ہو رہا تھا، دوست کی دوستی کا اور بات پہنچی جا کر۔۔۔ خیر یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ آخر جب قیامت کا ذکر چھڑتا ہے تو اس وقت بھی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور اگر بات کے ساتھ ساتھ آپ خود بھی بنفس نفیس وہیں پہنچ جائیں تو آپ کا یہ اقدام قاب دست اندازی پولیس بھی ہے۔ ہاں تو ہم عدم دستیابی دوست کا تذکرہ کر رہے تھے اور تذکرہ کیا کر رہے تھے حقیقت بیان کر رہے تھے اگر آپ اپنے ارد گرد جمع تمام دوستوں کو دوستی کی کسوٹی پر ذرا سا بھی آزما کر دیکھیں تو حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے گی۔ ویسے ایک دانشور کا قول ہے کہ آپ اپنے دوست کو کبھی نہ آزمائیں ہو سکتا ہے کہ بوجوہ وہ آپ کی آزمائش پر پورا نہ اتر سکے اور آپ ایک اچھے دوست سے محروم ہو جائیں۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ دانشور صاحب نے دوست کو آزمانے سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ انہیں پتہ تھا کہ اس طرح دوست کا بھرم کھل جائے گا اور آپ اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے کہ آپ کا بھی کوئی دوست ہے۔ اب آپ بتلائیں ایسے میں ہم، "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ” کی صدا نہ لگائیں تو کیا کریں۔ ویسے ہم دوست کے وجود کے یکسر منکر بھی نہیں۔ بلکہ ہم نے تو یہ کالم لکھا ہی تلاش دوست کے لئے ہے کیونکہ اس کی پہنچ بہرکیف مجھ سے زیادہ وسیع ہے۔ سوائے مری پیاری تحریر! تو ؂

    اب "انہیں” ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

٭٭٭

 

سچ گپ

باتیں یا تو سچی ہوتی ہیں یا پھر جھوٹی یعنی گپ۔ لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نہ تو سچی ہوتی ہیں اور نہ جھوٹی۔ ایسی باتوں کو سچ گپ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کسی مخلوط محفل میں جب ایک صاحب نے از راہ مزاح یہ کہہ دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی گپ یہ ہے کہ ایک جگہ چند خواتین بیٹھی تھیں اور وہ سب خاموش تھیں۔ تو خواتین نے احتجاجاً شور مچانا شروع کر دیا۔ چنانچہ موصوف کو وضاحت کرنا پڑی کہ بھئی یہ گپ نہیں بلکہ سچ گپ ہے۔ خواتین نہ جانے کیا سمجھیں بہر حال خاموش ہو گئیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ملا دو پیازہ کی زوجہ محترمہ خاموش ہو گئی تھیں۔

راوی کی روایت ہے کہ ملا دو پیازہ کے گھر کے باہر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آئیں تو وہ بارہ  نکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو افراد آپ میں دست و گریباں ہیں۔ ماجرا دریافت کرنے پر ایک نے اپنا دعویٰ ملا دو پیازہ کے گوش گزار کیا تو ملا بولے بھئی بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ اس پر دوسرے نے احتجاج کیا کہ آپ نے میری بات تو سنی نہیں اور فیصلہ یکطرفہ سنا دیا۔ ملا کے استفسار پر دوسرے صاحب نے بھی اپنی رام کہانی سنائی تو ملا نے کہا : کہتے تو تم بھی ٹھیک ہی ہو۔ ملا کی بیوی جو دروازے سے لگی یہ ساری باتیں سن رہی تھی فوراً پکار اٹھیں : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دونوں کی باتیں درست بھی ہوں اور دونوں لڑ بھی رہے ہوں۔ ملا دو پیازہ تھوڑی دیر تک تو بیوی کی اس بات پر غور کرتے رہے۔ پھر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے بھاگوان! کہتی تو تم بھی ٹھیک ہو۔ اور یوں وہ اپنی بات کی تائید پر حسب سابق خاموش ہو گئیں۔ راوی بھی یہیں پر خاموش ہو جاتا ہے مگر گمان غالب ہے کہ ملا اور راوی کے رخصت ہونے کے بعد دونوں نے دوبارہ لڑنا شروع کر دیا ہو گا۔

بالکل اسی طرح جیسے امریکہ کے ایک انتخابی جلسہ میں حاضرین جلسہ اپنے صدارتی امیدوار سے لڑ پڑے تھے۔ صدارتی امیدوار نے جوش خطابت میں کہیں یہ کہہ دیا کہ ہماری آدھی قوم بے وقوف ہے۔ حاضرین کے احتجاج پر فاضل مقرر نے اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آدھی امریکی قوم بے وقوف نہیں ہے۔ اس امریکی رہنما کی نظر میں آدھی قوم بے وقوف ہو یا نہ ہو مگر ہمارے ہاں کا تو ایک پاگل بھی اپنے آپ کو بے وقوف کہلانے پر راضی نہیں ہوتا۔ ایک صاحب کی گاڑی ایک پاگل خانے کے قریب پنکچر ہو گئی۔ وہ پنکچر وھیل کھول کر اسپئیر وھیل لگانے لگا تو پتہ چلا کہ پنکچر وھیل سے کھولے ہوئے سارے نٹ غائب ہیں۔ بہت تلاش کیا مگر نہ ملے۔ موصوف پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ پاگل خانے کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ایک پاگل جو یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا کہنے لگا آپ کے سارے نٹ تو ایک بچہ لے اُڑا۔ صاحب نے پوچھا۔ ارے کب؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ اب میں کیا کروں گا؟ پاگل بولا اب وہ بچہ تو ملنے سے رہا۔ آپ ایسا کریں کہ بقیہ تینوں وھیل سے ایک ایک نٹ کھول کر کام چلا لیں۔ موصوف نے حیرت کی نگاہوں سے پاگل کو دیکھا اور بولے بات تو تمہاری معقول ہے مگر تم تو پاگل ہو تم نے یہ بات کیسے سوچی؟ پاگل کہنے لگا۔ حضرت میں پاگل ضرور ہوں مگر آپ کی طرح بیوقوف نہیں۔

بات سچ گپ سے شروع ہوئی تھی اور پاگل کی عقل مندی تک آ پہنچی۔ مگر دیکھئے ہم اپنے موضوع سے پھر بھی نہیں ہٹے کہ پاگل کا بے وقوف ہونے سے انکار کرنا سچ گپ کی بہترین مثال ہے۔ اب ایک اور تقریب کی بات سنئے۔ اس موقع پر کسی ستم ظریف نے یہ اعلان کر دیا کہ جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا اس کے لیے ایک ہزار روپے کا انعام رکھا جاتا ہے۔ تمام مرد حضرات خاموش ہو گئے اور خواتین میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ اس ستم ظریف نے پھر کہا کہ اپنی بیوی سے ڈرنے والے تمام مرد حضرات اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام مرد اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ گئی مگر ایک دبلا پتلا شخص سہما سہما سا اپنی بیوی کے ہمراہ کھڑا رہا۔ لوگوں نے اسے مبارکباد دی اور اس کی جرات کی تعریف کی کہ اتنے بڑے مجمع میں وہ واحد مرد ہے جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا۔ انعام کی رقم دینے سے قبل لوگوں نے اس کی بیوی سے تصدیق کی کہ کیا واقعی اس کا شوہر اس سے نہیں ڈرتا اور اسے کس بات سے اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھنے سے روکے رکھا۔ بیوی نے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور گویا ہوئی۔ میں نے اس کے کان میں کہہ دیا تھا کہ خبردار جو تم میرے قدموں میں بیٹھے، بس سیدھے کھڑے رہو۔ مجھے ایک ہزار روپے کی شدید ضرورت ہے۔

آپ ماشاء اللہ خود سمجھدار ہیں لہذا ہمیں امید ہے کہ اس واقعہ پر کسی قسم کا تبصرہ ہر گز نہیں فرمائیں گے۔ نہ جانے آپ کی نصف بہتر کو کونسی بات ناگوار محسوس ہو۔ اور وہ آپ کے "بقیہ نصف” ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ پر حملہ آور ہو جائے اور آپ ہوائی حملہ سے بچاؤ کے مسلمہ اصول کے مطابق گھر میں خندق کی عدم دستیابی کی صورت میں پلنگ ہی کے نیچے جا بیٹھیں۔ ایسے میں اگر گڈو آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپ تک پہنچ جائے تو پوچھ بیٹھے کہ ابو ابو کیا آپ بھی میری طرح امی سے ڈرتے ہیں اور آپ دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے کہیں کہ نہیں بیٹے! ایسی تو کوئی بات نہیں۔ لازماً گڈو آپ سے پوچھے گا پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اب آپ کے پاس اس کے سوا اور چارہ کیا ہو گا کہ بھئی یہ میرا گھر ہے۔ میری مرضی میں پلنگ کے اوپر بیٹھوں یا پلنگ کے نیچے۔ میں کوئی ملازم ہوں جو اپنی مرضی نہ چلا سکو۔ ملازم پر یاد آیا کہ کسی گھر کا ملازم روتا ہوا صاحب خانہ کے پاس آیا۔ صاحب نے پوچھا بھئی رو کیوں رہے ہیں۔ ملازم نے روتے ہوئے جواب دیا۔ بیگم صاحب نے مارا ہے۔ یہ سننا تھا کہ صاحب کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ملازم رونا بھول کر انہیں حیرت سے دیکھنے لگا۔ صاحب نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے فرمایا : اس مین رونے والی کون سی بات ہے۔ ارے او احمق! کبھی ہمیں بھی روتے ہوئے دیکھا ہے۔

دیکھئے دیکھئے! ہم آپ کو ہرگز ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس آخر الذکر واقعہ پر آپ کوئی تبصرہ کریں کیونکہ ہم اس واقعہ کو نہ تو سچ مانتے ہیں نہ بالکل ہی گپ۔ البتہ آپ کی آسانی اور مضمون ہذا کی رعایت سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ گپ کی بہترین مثال ہے اور اسی کو کہتے ہیں سچ گپ۔

٭٭٭

 

جھوٹ بولیے

مثل مشہور ہے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت اور سچوں پر خدا کی رحمت۔ مگر اس مشہوری سے جھوٹ کی اپنی صحت پر نہ اب تک کوئی اثر پڑا اور نہ آئندہ پڑنے کا امکان ہے لہذا ہم نے سوچا کہ کیوں نہ روز افزوں پھلتے پھولتے اس جھوٹ کی جھوٹی سچی کہانی پر طبع آزمائی کی جائے۔ سو ہم آج کے کالم مین جھوٹ کی گردان، دروغ بر گردن راوی کہتے ہوئے شروع کرتے ہیں کہ جھوٹ پھر جھوٹ ہے کھلے گا تو سہی۔ جھوٹ کی یوں تو کئی اقسام ہیں مگر چند ایک زبان زد خاص و عام ہیں۔ مثلاً ایک تو سفید جھوٹ ہوتا ہے جسے سب بالاتفاق جھوٹ کہتے ہیں۔ خواہ اس میں سچ کی کتنی ہی آمیزش کیوں نہ ہو اسے عموماً جھوٹے لوگ بولتے ہیں۔ کسی اور کی یہ مجال نہیں کہ وہ سفید جھوٹ بول سکے۔ اس جھوٹ کو بولنے والے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے کہ ایک جھوٹ کو نبھانے کے لئے انہیں مزید کتنا جھوٹ بولنا پڑے گا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس قسم کے افراد ہر دم ہر جگہ اور ہر ایک کے سامنے جھوٹ بولنے کو تیار رہتے ہیں۔ تجربہ کار جھوٹوں کا کہنا ہے کہ جھوٹ ایسا بولنا چاہیے جو اگر صبح بولا جائے تو کم از کم شام تک تو اس کا بھرم باقی رہے جبکہ غیر تجربہ کار جھوٹے عموماً جھوٹ بولتے ہی پکڑے جاتے ہیں۔

جھوٹ کی ایک بہترین قسم مصلحت آمیز جھوٹ ہے۔ ایسا جھوٹ عموماً سچے لوگ بولتے ہیں گو ہوتا تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے مگر اسے مصلحت کا خوبصورت لبادہ پہنا دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے بولنے والے نہ صرف یہ کہ کوئی کراہیت محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔

راویان جھوٹ اس کی تمثیل میں یہ روایت کرتے ہیں کہ کسی دربار میں کوئی درباری بادشاہ سلامت کو زیر لب برا بھلا کہہ رہا تھا کہ بادشاہ کی نظر اس درباری پر پڑ گئی۔ بادشاہ نے ساتھ والے سے دریافت کیا کہ یہ زیر لب کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے مصلحت آمیز جھوٹ کا سہار لیتے ہوئے کہا کہ حضور یہ آپ کی شان میں تعریفی کلمات ادا کر رہا ہے۔ بادشاہ نے خوش ہوتے ہوئے اسے زر و جواہر سے نوازنا چاہا تو قریب ہی بیٹھا ایک بد نیت درباری بول پڑا حضور یہ جھوٹ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ درباری آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اس پر بادشاہ بولا۔ تمہارے اس سچ سے تو اس کا یہ جھوٹ ہی بہتر تھا کہ کم از کم اس کی نیت تو نیک تھی۔

ان دنوں جھوٹ کی مثال رشک و حسد کی بھول بھلیوں سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جب حسد کرنے والے لوگوں کو معاشرے نے ذلت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا تو "پارسا” قسم کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ ہم کیا کریں حسد نہیں کر سکتے اور کئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے رشک جیسا خوبصورت لفظ تراش لیا۔ تاکہ اپنا گزارہ حسد بھی ہوتا رہے اور پارسائی کا بھرم بھی برقرار رہے۔ ایسے ہی پارساؤں کے بارے میں تو شاعر کہہ گیا ہے کہ :

ہم گناہ گار تو آسودہ ملامت ہیں

یہ پارسا ہیں، ذرا ان پر بھی نظر رکھنا

ماہرین کلریات کے مطابق "جھوٹ” خوابوں کی طرح رنگین بھی ہوتے ہیں۔ بھئی سفید جھوٹ سے کون واقف نہیں۔ اب ظاہر ہے سفید جھوٹ کے ہوتے ہوئے سیاہ جھوٹ بھی ہو گا کہ سفید کا تصور سیاہ کے بغیر ممکن نہیں اور جب سفید و سیاہ جھوٹ سے آپ واقف ہو گئے ہیں تو رفتہ رفتہ دیگر رنگوں کے جھوٹ سے بھی واقف ہو جائیں گے۔ ویسے اگر سائنسی نگاہ سے دیکھا جائے تو سفید رنگ بذات خود سات رنگوں کا مرکب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے تو سفید جھوٹ بھی سات رنگین جھوٹوں کا مجموعہ ہوا۔ اب یہ ماہرین جھوٹ کا کام ہے کہ اس مجموعہ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام الناس کو متعارف کرائیں۔ بالکل اس طرح جیسے سائنس دانوں نے سفید روشنی کو سات رنگوں میں علیحدہ کر کے دکھا دیا ہے۔ جھوٹ کے بارے میں آخر میں ایک "زنانہ جھوٹ” بھی سنتے جائیے کہ جھوٹ بولنے والوں کو کالا کوا کاٹا کرتا ہے یعنی (اگر سیاں) جھوٹ بولے (تو) کوا کاٹے، (لہذا اے سیاں!) کالے کوے سے ڈریو۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔

٭٭٭

 

عینک

ایک دیہاتی اپنے لیے چشمہ بنوانے شہر گیا۔ ڈاکٹر نے اس کی آنکھیں ٹیسٹ کر کے اس کے لئے ایک چشمہ منتخب کیا تو دیہاتی نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ ڈاکٹر صاحب! میں یہ عینک لگا کر آسانی سے پڑھ لکھ تو سکتا ہوں نا؟ ڈاکٹر نے جواب دیا ہاں! ہاں کیوں نہیں۔ دیہاتی نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے بغیر عینکوں کے تو مجھے ساری عمر پڑھنا آیا۔ اب میں بھی عینک لگا کر بابو صاحب بن جاؤں گا۔

دیکھا آپ نے عینک کا کارنامہ! پلک جھپکتے، بلکہ عینک لگاتے ہی ایک دیہاتی بابو صاحب بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے عینک اتارتے ہی۔۔۔ ایک سائنس دان ٹرین میں سفر کر رہے تھے کہ یکایک انہیں اپنے کسی اہم خط کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ پڑھنے والی عینک تو گھر ہی بھول آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے وہ خط اپنے ساتھ والے صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ ذرا دیکھنا تو اس میں کیا لکھا ہے؟ موصوف نے ان کی طرح دیکھا اور معذرت کے انداز میں بولے معاف کیجئے گا میں بھی آپ ہی کی طرح ان پڑھ ہوں۔

عینکوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک دھوپ کی عینک جسے عرف عام میں سن گلاس کہتے ہیں ۔ اور دوسری نظر کی عینک۔ جی ہاں اس دوسری قسم کو عرف عام میں پاور گلاس کہتے ہیں۔ اس پاور گلاس کی پھر مزید دو اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہوتی ہے جو دور کی چیزوں کو واضح کر کے دکھاتی ہے ۔ جبکہ دوسری قسم قریب کی چیزوں کو بڑا اور نمایاں کر کے دکھاتی ہے۔

جن خواتین و حضرات کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ وہ موخر الذکر قسم کی عینک سے استفادہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قریب و دور دونوں نظریں کمزور ہوتی ہیں۔ وہ دونوں اقسام کے گلاسز باری باری(حسب ضرورت) استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ترتیب استعمال الٹ ہو جائے تو بڑی دلچسپ صورتحال پیش آتی ہے۔ ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ شاپنگ کر کے واپس آ رہی تھیں کہ محترمہ کے ایک بچہ نے ریڑھی والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ امی مجھے یہ لے دیں پسینے میں شرابور خاتون نے رومال سے چہرہ صاف کیا اور عینک لگاتے ہوئے ریڑھی والے کے پاس آئیں اور ریڑھی والے سے کہا بھئی کیسے کلو دے رہے ہو۔ ریڑھی والے نے پہلے تو مشتبہ نگاہوں سے خاتون کی طرف دیکھا پھر بولا : بیگم صاحب آپ غبارے بھی تول کر خریدیں گے۔ خاتون کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے فوراً عینک تبدیل کی تو پتہ چلا کہ جسے وہ انگور سمجھ رہی تھیں وہ دراصل غبارے تھے۔

دھوپ کی عینک یوں تو آنکھوں کو دھوپ کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لئے ایجاد کی گئی تھی مگر اس اس کا استعمال آشوب چشم کے مریضوں کے علاوہ خواتین خاص خاص مواقع پر کثرت سے کرتی ہیں۔ سن گلاس کے شیشے عموماً رنگین ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو کئی کئی رنگوں پر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔ جبکہ پاور گلاس یعنی نظر کی عینک عموماً شفاف شیشوں کی ہوتی ہے۔ مگر خواتین کے پاور گلاس عموماً رنگین ہی ہوتے ہیں تاکہ سن گلاس کا شائبہ رہے اور ان کی بینائی کی کمزوری کا اسرار کھلنے نہ پائے۔

٭٭٭

 

مردوں والی بات

راشد بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ جب بھی گھڑی کی جانب دیکھتا، اس کی بیوہ ماں کی نگاہ بے اختیار گیٹ کی طرف اٹھ جاتی۔ آج راشدہ کو کالج میں خاصی دیر ہو گئی تھی اور جب تک وہ گھر نہ آ جاتی راشد کھانا کھانے سے انکار ہی کرتا رہتا۔ حالانکہ اسے اخبار کے دفتر جانے میں دیر ہو رہی تھی جہاں وہ بطور پروف ریڈر ملازم تھا۔ اس کی ماں بھی کئی بار دبے لفظوں میں اسے کھانا کھانے اور دفتر جانے کا کہہ چکی تھی مگر راشد کے شدت سے انکار کرنے پر وہ بھی خاموش ہو جاتی اور تشکر بھری نگاہوں سے بیٹے کا چہرہ تکنے لگتی۔ یہ تقریباً روز ہی کا معمول تھا۔

راشد گو راشدہ سے ایک برس چھوٹا تھا مگر ذہانت اور محنت میں راشدہ سے کسی طور کم نہ تھا اسی لئے والدین نے دونوں کو ایک ہی کلاس میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ پڑھنے پڑھانے میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میٹرک میں پہنچ گئے۔ اساتذہ کے مشورہ اور بچوں کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے ان کے ابو نے انہیں سائنس گروپ میں داخلہ دلا دیا۔ خیال تھا کہ بیٹے کو آگے جا کر انجینئرنگ اور بیٹی کو میڈیکل میں داخلہ دلائیں گے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس روز میٹرک کا نتیجہ متوقع تھا جب راشد اور راشدہ کے ابو دفتر کے لئے گھر سے نکلنے لگے تو ان دونوں نے ایک بار پھر انہیں یاد دلایا کہ اخبار کا سپلیمنٹ نکلتے ہی وہ دفتر سے چھٹی لے کر گھر آ جائیں گے۔ اور انہوں نے بھی وعدہ کر لیا تھا کہ وہ صرف اخبار لے کر نہیں بلکہ مٹھائیوں کے ڈبے بھی لے کر آئیں گے۔ اور جب وہ حسب وعدہ اخبار کا سپلیمنٹ اور مٹھائی کے ڈبے لے کر خوشی خوشی تیز رفتاری سے اسکوٹر چلاتے ہوئے گھر لوٹ رہے تھے کہ اچانک سامنے آ جانے والے ایک بچے کو بچاتے ہوئے مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹرک سے ٹکرا گئے اور جائے حادثہ پر ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

غمزدہ مختصر سا خاندان سرکاری کوارٹر چھوڑ کر ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گیا۔ راشد کے بے حد اصرار اور والد مرحوم کی خواہش کے مطابق راشدہ نے انٹر سائنس پری میڈیکل گروپ میں داخلہ لے لیا جبکہ راشد نے صبح ایک آرٹس کالج میں داخلہ لے کر شام کو ایک اخبار میں ملازمت کر لی۔ اب یہ روز کا معمول تھا کہ راشد کالج سے چھٹی ہوتے ہی گھر آ کر کھانے پر ماں کے ساتھ راشدہ کا انتظار کرتا کیونکہ پریکٹیکل کے باعث ہفتہ میں تین چار دن تاخیر سے گھر لوٹتی جب تک وہ گھر نہ لوٹ آتی راشد نہ تو کھانا کھاتا اور نہ دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلتا۔

آج بھی وہ راشدہ کے انتظار میں ماں کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا، تاکہ ماں کی توجہ بھی بٹی رہے اور انتظار کے لمحات بھی با آسانی کٹ جائیں۔ "اماں ایسا لگتا ہے جیسے اس گھر میں ہم ہمیشہ تین ہی افراد رہیں گے” راشد نے پیار بھری نظروں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ارے کیا منہ سے بد فال نکالتا ہے۔” ماں نے جھوٹ موٹ کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "جب میں تیرے لئے ایک چاند سی دلہن لے آؤں گی تو۔۔۔” راشد ماں کا فقرہ درمیان ہی سے اچکتے ہوئے بولا "اماں اس وقت تک باجی کی شادی بھی تو ہو جائے گی۔ اس گھر میں ہم تو پھر تین کے تین ہی رہیں گے ناں!” "ارے بیٹا تو کتنا بھولا ہے۔ دیکھ جب میرا پوتا اس گھر میں آئے گا تو ہم پھر۔۔۔”۔ "مگر اماں!” بیٹے نے شوخ نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا "اس وقت تک تم اللہ میاں کے پاس نہ ۔۔۔ "! ارے اب تو میرے۔۔۔۔ !” اتنے میں گیٹ کسی نے زور سے دھڑدھڑایا۔ یہ راشدہ کے گھر آنے کا مخصوص انداز تھا۔ راشد نے ماں کی توجہ بٹاتے ہوئے کہا "اماں۔۔۔ لو باجی بھی آ گئی۔ اب جلدی سے کھانا نکالئے۔ مجھے پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔” کھانا تو پہلے ہی سے تیار تھا۔ بس راشدہ ہی کے آنے کی دیر تھی وہ آئی تو سب کھانے پر بیٹھ گئے اور راشد جھٹ پٹ کھانا کھا کر راشدہ اور ماں کو دسترخوان پر ہی چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔

 دن اسی طرح کٹتے رہے۔ راشد نے انٹر کر کے بی اے میں اور راشدہ نے مطلوبہ مارکس نہ آنے پر بی ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ ابھی وہ فائنل ایئر ہی میں تھی ماں بیٹے نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر اسے پیا گھر بھیج دیا۔ بی اے پاس کرتے ہی راشد کو اپنے ہی اخبار میں سب ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔ گھر میں ذرا خوشحالی آئی تو ماں کو چاند سی بہو لانے کا ارمان دل میں جاگا۔ یوں راشد کی بھی شادی ہو گئی۔ گھر کے بے تکلفانہ ماحول کی جگہ رکھ رکھاؤ نے لے لی۔ راشدہ اب میکے آتی تو ماں اور بھائی کے ساتھ مل کر پہلے کی طرح گھنٹوں بے تکلفانہ گفتگو کرنے کی بجائے بھائی بھابھی سے علیک سلیک کرنے کے بعد ماں کے کمرے میں جا گھستی اور ماں بیٹی گھنٹوں نہ جانے کیا کھسر پھسر کرنے لگتیں۔ ایسے میں راشد اگر گھر میں ہوتا تو اسے بڑی کوفت ہوتی۔ اس کی بیوی کچن میں کھانا پکانے میں مصروف ہوتی تو وہ اپنے کمرے میں تنہا لیٹا بہن اور ماں سے ماضی کی طرح بے تکلفانہ ماحول میں گفتگو کرنے کی تمنا کیا کرتا۔ اس روز بھی وہ جب دفتر جانے کے لیے کھانا کھانے گھر میں داخل ہی ہوا تھا کہ ساتھ والے کمرے سے راشدہ اور ماں کے درمیان باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیں جو نسبتاً تیز ہونے کی وجہ سے صاف سنائی دے رہی تھیں۔ غالباً انہیں راشد کے گھر آنے کی اطلاع نہ تھی۔ راشدہ ماں سے اپنے سسرال کی شکایتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی، "امی وہ میری تو بالکل ہی نہیں سنتے۔ ہر کام ماں اور بہنوں سے پوچھ کر ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی مردوں والی بات تو نہ ہوئی نا!” قبل اس کے کہ بیٹی ماں سے مزید شکوہ شکایت کرتی راشد کی بیگم نے کمرے میں آ کر راشد کے آنے اور کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔ اور یوں بات آئی گئی ہو گئی۔ راشد نے حسب معمول سب کے ساتھ کھانا کھایا اور سب کو گپ شپ کرتا چھوڑ کر دفتر کو روانہ ہو گیا۔

دن اسی طرح ماہ و سال میں تبدیل ہونے لگے۔ اب راشدہ میکے آتی تو اس کی گود میں اس کا بیٹا بھی ہوتا۔ اور وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ دن ماں کے ہاں قیام کرتی۔ ادھر راشد کی بیگم ہنوز اپنی گود ہری ہونے کے انتظار میں تھی۔ راشد کو تو اس بات کی چنداں فکر نہ تھی۔ مگر ماں اور بہن دونوں مل کر راشد کے کان بھرتیں تو وہ بھی کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔ اور پھر اس کی اپنی بیگم سے ان بن ہو جاتی مگر وہ بالآخر بیوی ہی کی بات کو معقول پا کر ماں اور بہن کی باتوں کو نظر انداز کر دیتا۔ اور اپنے روز مرہ کے معمول میں گم ہو جاتا۔ یہ دیکھ کر ماں بیٹی دونوں راشد سے روٹھ جاتیں۔

راشد کے رویہ میں کسی تبدیلی کو نہ دیکھ کر بالآخر ماں بیٹی نے راشد سے دو ٹوک گفتگو کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ خوش قسمتی سے انہیں اس بات کا موقع بھی مل گیا۔ راشدہ اس مرتبہ جب میکے آئی تو پتہ چلا کہ بھابھی اپنے میکے گئی ہوئی ہے۔ ماں بیٹی نے موقع غنیمت جانتے ہوئے راشد کو گھیر لیا۔ راشدہ کہنے لگی : میں کہتی ہوں کیا ہر بات میں بیوی کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہو۔ مرد بنو مرد۔ اپنے اندر کچھ تو مردوں والی بات پیدا کرو۔ اور ہاں اب کان کھول کر سن لو۔۔۔۔

راشدہ بولے جا رہی تھی مگر راشد بظاہر متوجہ ہونے کے باوجود کچھ سننے سے قاصر تھا۔ کیونکہ اس کے کانوں میں راشدہ کے وہ جملے گونج رہے تھے جو اس نے ماں سے اپنے شوہر کے متعلق کچھ عرصہ پہلے کہے تھے : امی وہ میری تو بالکل ہی نہیں سنتے۔ ہر کام ماں اور بہنوں سے پوچھ کر ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی مردوں والی بات تو نہ ہوئی نا!

٭٭٭

 

شہید صحافت

یہ دسمبر94ء کے پہلے اتوار کی شام تھی۔ میں حسب معمول اپنے اخبار کے لئے لندن سے موصول ہونے والی خبروں کی تدوین و ترجمہ میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک روزنامہ کے مدیر تھے جو ممتاز صحافی محمد صلاح الدین سے متعلق ایک خبر کی تصدیق چاہ رہے تھے۔ متعلقہ رپورٹر سے فوری رابطہ کے بعد اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ کچھ ہی دیر قبل صلاح الدین صاحب کو ان کے دفتر سے نکلتے ہی نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کر دیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

جب ذرا اوسان بحال ہوئے تو صلاح الدین صاحب کے ایک دیرینہ رفیق کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ جمعیت الفلاح گئے ہوئے ہیں اور جب میں وہاں پہنچا تو اجلاس کا اختتامی سیشن چل رہا تھا۔ اور صدر مجلس بتلا رہے تھے کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی تو صلاح الدین صاحب نے فون پر اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی اطلاع دی تھی۔ اے کاش کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کے لئے دفتر سے جلد اٹھ جاتے تو یہ سب کچھ تو نہ ہوتا جو ہو گیا ہے۔۔۔ مگر اس طرح تو وہ شہادت کی سعادت سے محروم نہ ہو جاتے؟۔۔۔ پھر کیا ہوتا، کم از کم ہم تو ان سے محروم نہ ہوتے۔۔۔ ہم بھی کتنے خود غرض ہیں کہ ہر دم اپنی غرض۔۔۔ اپنی محرومی ہی کا خیال رہتا ہے۔ ایک وہ تھے جو اپنے شہر، اپنے ملک بلکہ پورے عالم اسلام کی محرومیاں دور کرنے کی سعی مسلسل کرتے ہوئے اپنی جان تک کی بازی لگا بیٹھے۔

گو صلاح الدین صاحب سے جمعیت الفلاح کے اجلاسوں اور شہر میں ہونے والی دیگر تقاریب کے علاوہ کبھی براہ راست فیض حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی کبھی ان کے ساتھ کسی اخبار یا رسالہ میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر اس کے باوجود مجھے ان کی تحریروں اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں کے مطالعہ سے براہ راست بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے صلاح الدین صاحب پر ایک بھرپور خاکہ لکھا جو غالباً ان کی زندگی میں ان پر لکھی گئی اپنی نوعیت کی پہلی تحریر ہے۔ یہ خاکہ تکبیر ہی میں شائع ہونے والے معروف سیاسی شخصیات پر لکھے گئے خاکوں کے مقبول عام سلسلہ "تاب سخن” کی طرز پر لکھا گیا تھا۔ یہ خاکہ اس اعتبار سے منفرد نوعیت کا حامل ہے کہ صلاح الدین صاحب کے پرستاروں نے اسے ان کے خلاف اور ان کے مخالفین نے حمایت میں لکھا ہوا خاکہ قرار دیا۔

مجلس ادب کی ایک تنقیدی نشست میں ممتاز شاعر جمیل علوی نے کہا کہ یہ کالم لکھ کر موصوف "گڈول” بنانے کے چکر میں ہیں۔ شمس الدین خالد نے کہا کہ یوسف ثانی نے خاکہ اڑانے والے کا خاکہ خوب اڑایا ہے۔ کمانڈر عبد الجلیل صاحب نے کہا کہ خاکہ نویس اپنا بھرپور روایتی انداز پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، غالباً ان پر زیر بحث شخصیت کا خوف طاری رہا ہے۔ جبکہ اس خاکسار نے یہ خاکہ صلاح الدین صاحب کو ارسال کرتے ہوئے ان کے نام اپنے پہلے اور آخری مکتوب میں صاف صاف واضح کر دیا تھا کہ : "کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خود مضمون نگار اپنے تحریر کردہ مضمون کے نفس سے متفق نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب لکھنے والا کالم نویس یا فکاہیہ نگار ہو۔ وہ اکثر و بیشتر خلق خدا کی آراء کو زبان عطا کرتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کالم نویس نے لکھا ہے وہ دراصل خود اس کے ذاتی نظریات و خیالات ہیں۔

    صلاح الدین صاحب کی زندگی میں لکھا گیا یہ خاکہ گو اپنی جگہ ایک مکمل اور مربوط تحریر ہے جس کے حصے بخرے کرنے سے اس کا حسن اور تسلسل متاثر ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے منتخب حصے پیش خدمت ہیں جو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہونگے۔

    صحافیوں کے نزدیک نِرے مولوی ہیں تو بعض مولویوں کے نزدیک نَر صحافی۔ نتیجتاً موصوف میں نہ صحافیوں والی مخصوص "بُو” پائی جاتی ہے نہ مولویوں والی روایتی "خُو”۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ موصوف کا اصل پیشہ سیاست ہے یا صحافت؟ یہی وجہ ہے کہ ہر دو کو اسپانسر کرنے والے ہمارے ممدوح کے سلسلے میں ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں خسارے کی سرمایہ کاری نہ کر بیٹھیں۔ موصوف کو چاہیے کہ وہ ان اسپانسرز کی پریشانی دور کر دیں۔ ان کی اپنی (مالی) پریشانیاں خود بخود دور ہو جائیں گی۔

    ہمارے ممدوح کی سیاسی وابستگی بھی عورت ذات کی طرح ایک ایسا معمہ ہے جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ سمجھایا جا سکتا ہے۔ گو کہ ہر دو کام پہلے بھی جارے تھے اور غالباً آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ عوام الناس انہیں "جماعتی” سمجھتے تھے، سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ جبکہ جماعتی انہیں جماعتی سمجھتے تو تھے مگر اب ایسا ہرگز نہیں سمجھتے اور آئندہ کے لئے تو انہوں نے توبہ ہی کر ڈالی ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو کبھی پیدائشی مسلم لیگی کہتے ہیں تو کبھی الجماعت (جس کا وجود ع ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے، کی طرح متنازعہ ہی ہے) کارکن گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جماعت سے متفق ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ جماعت میں متفقین ہی کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس جمہوری دور میں لوگ عموماً اکثریتی گروہ کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ پھر شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے قارئین کی اکثریت کا تعلق مبینہ طور پر متفقین جماعت ہی سے ہے۔

     صلاح الدین دھن کے بڑے پکے ہیں۔ جس راگ کو اپنا لیں اسے ہر موسم میں الاپتے رہتے ہیں۔ حکومت خواہ اپنوں کی ہو یا پرایوں کی۔ اپنوں کی حکومت میں گھر اور دفتر جلوا کر سرکاری امداد ببانگ دہل وصول کرتے ہیں۔ مگر راس نہ آنے پر اسی طرح لوٹا دیتے ہیں جیسے بیت المال کی رکنیت۔ یہ اتنے بڑے صحافی ہیں کہ اچھے اچھے صحافی پلاٹ پرمٹ حاصل کر کے بھی اچھے ہی رہے اور یہ نہ حاصل کر کے بھی بُرے کے بُرے۔ گو تکبیر کا آغاز "مجھے ہے حکم اذاں” سے کرتے ہیں مگر بد خواہوں کا کہنا ہے کہ یہ بین السطور "اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں” بھی کہنا چاہتے ہیں۔ غالباً اسی عقیدہ کی بنیاد پر جماعت میں "بت” ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی "شکنی” کرتے رہتے ہیں۔ گویا محمود غزنوی بننے کے خواہاں ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اوپر یہ الزام بھی لگنے نہیں دینا چاہتے۔ احتیاطاً موصوف اپنا دفتر بھی محمود غزنوی روڈ کے قریب سے اٹھا کر بہت دور لے گئے ہیں۔

    صوفیائے کرام کی تعلیمات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے (نفس کے) تن کو قید رکھنے کے قائل ہیں تو یہ خود کو "تن قید” پر مائل پاتے ہیں۔ اب تک جتنی تنقید سیاست اور سیاست دانوں پر کر چکے ہیں اگر اتنی تنقید ادب اور ادیبوں پر کی ہوتی تو اب تک پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریوں کی مالا گلے میں لٹکائے ادب کے سادھو بنے بیٹھے ہوتے اور اردگرد ادیبوں کا میلہ لگا ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس۔ عورتیں تو محض "پی” کو کوستی ہیں یہ پی۔۔۔ پی کو کوستے رہتے اور وہ بھی ایسے جیسے پی پی کے کوس رہے ہوں۔ چنانچہ کود بھی بند ہوئے اور اپنی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار کو بھی بند کرواتے رہے۔ غالب کو تو شکایت تھی کہ ع پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ مگر یہ ایسے بھولے نکلے کہ دوسرے کے لکھے اداریوں پر بارہا پکڑے گئے مگر کبھی شکایت نہیں کی۔ نہ لکھنے والے سے نہ پکڑنے والوں سے۔ چنانچہ بالا آخر اخبار سے یہ کہتے ہوئے نکلے یا نکالے گئے کہ ع بہت "با آبرو” ہو کر تیرے کوچے سے میں نکلا۔ جس کی حمایت کرتے ہیں اسے شہید کا درجہ دلوا کر رہتے ہیں۔ مثلاً ضیاء الحق شہید۔ جس کی مخالفت کرتے ہیں اسے پھانسی پر لٹکوا کر ہی چھوڑتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو۔ شنید ہے کہ آج کل موصوف نواز شریف کی حمایت اور قاضی حسین احمد کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر دو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔

    جماعت سے گو متفق ہیں مگر "جماعتوں” سے غیر متفق۔ مطلب یہ کہ گڑ تو پسند ہے مگر گلگلوں سے پرہیز فرماتے ہیں۔ گل بہار (بانو نہیں) سے خاصی انسیت ہے۔ مگر جب سے وہاں کے باسی بزور کلاشنکوف اسے دوبارہ گولی مار بنانے پر تل گئے ہیں، طبیعت کچھ اچاٹ سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جیل کی کوٹھڑی میں ہوتے تھے تو کوٹھڑی کے باہر پولیس والا کھڑا ہوتا تھا کہ مبادا کوٹھڑی سے نکل کر باہر نہ بھاگ جائیں۔ پھر خدا نے وہ دن دکھایا کہ یہ گل بہار میں ہوتے تھے تو گھر کے باہر پولیس کا پہرہ ہوتا تھا کہ مبادا اردگرد موجود ان گنت کلاشنکوف بردار قریب سے گزرنے والی بسوں، منی بسوں کے کنڈیکٹروں کی صدا۔ گولی مار!گولی مار! پر عمل ہی نہ کر بیٹھیں۔

    کوچہ صحافت میں جہاں کہیں بھی رہے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ اپنی صحافتی ٹیم کے کارکنوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو کسی مشاعرہ میں شاعر یا اکھاڑے میں پہلوان اپنے شاگردوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی قافیہ، ردیف اور داؤ پیچ خود بتلاتے ہیں، شاگرد انہی پر عمل کر کے کامیاب یا ناکام ہوتا ہے۔ کثیر الشاگرد صحافی ہیں۔ جو شاگردی سے انکار کر دے اسے اپنی ٹیم سے ہی نکال دیتے ہیں۔ ایک غیر خواہ کے بقول خود کو صحافت کا وڈیرہ اور قاری کو اپنا ہاری تصور کرتے ہیں۔ ایک عرصہ سے نیوز میگزین کے نام پر "ویوز میگزین” نکال رہے ہیں۔ اداریہ سے لے کر ادبی کالم تک کے تمام صفحات موصوف کے ذاتی ویوز کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ قارئین کے تعریفی خطوط انہیں اور تنقیدی خطوط ان کی ردی کی ٹوکری کو بہت مرغوب ہیں۔ سیاستدانوں کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہوئے اس کی تکا بوٹی کرنا جائز تصور کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی سطر ان کے پرچہ میں شائع ہوئی ہو جو ان کے خلاف جاتی ہو۔ جو دوست کا دوست ہے وہ ان کا بھی دوست ہے چنانچہ دوست کے دوست کا سات خون بھی معاف کر دیتے ہیں۔ اپنی رائے کو اس تواتر سے لکھتے ہیں کہ ہر پرچہ پر گذشتہ شمارے کا گمان ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو (جو اکثر ہوتا ہے) سابقہ تجزیوں اور جائزوں ہی کو نئی کمپوزنگ کے ساتھ شائع کر کے فروخت کے لئے مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ جس شخص یا جماعت کو ملک دشمن سمجھ لیں اس کی ہر اچھی بات (فعل) پر بھی شک کا اظہار کرتے ہیں اور جسے ایک مرتبہ ملک کا خیر خواہ قرار دے دیں، اس کی ہر ملک دشمنی سے صرف نظر کرتے ہیں۔

    ہم موصوف کے خیر خواہ ہونے کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ ان کا پرچہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ وہ اپنے پرچہ کی ترقی کی خاطر اپنے پرچے میں اپنا کالم شائع کرنا بند کر دیں بلکہ ہر وہ کالم بند کر دیں جو ان کے کالموں کے رنگ و روپ سے ملتا جلتا ہو تاکہ ان کا پرچہ کم از کم ان کے قارئین کے بچوں کی ضرورت تو پوری کر سکے جو ہر ہفتے نئی کاپیوں کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں۔ او ریہ کوئی انہونی بات نہ ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اب تک ایسی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن کے تمام صفحات سادہ ہیں۔ اگر موصوف نے ہمارے اس مشورے پر عمل کیا تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہر جماعت کے نصاب میں موصوف کے ہفتہ وار پرچے کو شامل نصاب کرنے میں محکمہ تعلیم کو کوئی عار نہ ہو گا اور یوں ان کا پرچہ اپنے ہم عصر کثیر الاشاعت پرچوں سے بہت آگے نکل جائے گا۔

    سیاسی تجزیہ نگاری میں اپنے ثانی خود آپ ہیں۔ مستقبل کا جائزہ اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی خوش قسمت رپورٹر کسی وقوعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔۔۔ خفیہ اجلاسوں کا آنکھوں دیکھا حال” اس طرح قلمبند کرتے یا کرواتے ہیں کہ خفیہ اجلاس منعقد کرنے والے اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنا سر اس لئے کہ اس "کار خیر” کے لئے موصوف کے سر تک رسائی نہیں ہو پاتی، درمیان میں "ایجنسیاں” جو حائل ہو جاتی ہیں۔۔۔”

    اور قارئین کرام! آپ نے دیکھ ہی لیا جونہی "ایجنسیاں” درمیان میں سے ہٹیں۔ اور شہر سے نکل کر واپس بیرکوں میں پہنچیں، صلاح الدین صاحب کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس کی "پیشن گوئی” ٹھیک ایک برس قبل یعنی دسمبر ۹۳ء میں لکھے گئے اس خاکہ میں کی گئی تھی۔ غالباً یہی وہ احساس تھا جس کے باعث صلاح الدین شہید کے جنازہ کو اشکبار آنکھوں سے کاندھا دیتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کاش میں نے یہ خاکہ نہ لکھا ہوتا۔۔۔ مگر میرے یا کسی کے لکھنے یا نہ لکھنے سے کیا ہوتا ہے، ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہے۔

    صلاح الدین صاحب کی شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاریخ ساز شخصیات کی زندگیوں میں ۵۹ برس کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ میدان صحافت میں ربع صدی سے زائد بھرپور سال گزار کر ریٹائرمنٹ کی رسمی عمر سے بھی قبل ریٹائر ہونے والے اس شہید صحافت بلکہ شہید وفا کے لئے میں اس کے سوا اور کیا کہوں کہ وہ ۔۔۔ اللہ کی عطا کردہ زندگی ۔۔۔ اللہ ہی کی راہ میں خرچ کر کے ع حق تو یہ کہ حق ادا کر گیا۔

٭٭٭

 

محمد نقوش

اگر بالفرض محال آج میں مر جاؤں تو کیا ہو گا۔ بعض لوگ خوش ہوں گے تو بعض کہیں گے کہ چلو اچھا ہی ہوا۔ شاید چند ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ ہاں مرحوم ایک اچھا آدمی تھا۔ اس نے چند اچھے اچھے نمبر نکالے اور بس۔ کیا میں صرف ان چند جملوں کے لیے دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ کیا صرف ان چند جملوں کے لیے؟

جی ہاں یہ ان الفاظ کا مفہوم ہے جو مدیر نقوش محمد طفیل مرحوم نے اپنی کتاب "جناب” میں اپنے ہی اوپر لکھے گئے ایک خاکے میں اپنے بارے میں کہے اور آج یہ بات صد فیصد درست ثابت ہوئی کہ مرحوم کی وفات پر پاکستان ٹیلی ویژن نے بیس منٹ کے مختصر سے وقت میں چند اصحاب کے تاثرات پیش کیے جو ان ہی چند جلموں پر مشتمل تھے جن کا تذکرہ مرحوم نے اپنے ذاتی خاکے میں کیا تھا۔

محمد طفیل کا شمار ان اصحاب میں ہوتا ہے جن کے بارے میں سیلف میڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ آپ نہ تو معروف سکہ بند ادیبوں میں سے تھے نہ مدیروں میں۔ مگر آپ نے اپنے آپ کو بحیثیت ادیب و مدیر اس طرح منوایا کہ بڑے بڑے سکہ بند ادباء بھی آپ کے سامنے بونے نظر آنے لگے۔ آپ نے علم و ادب کی دنیا میں بحیثیت ایک کاتب کے قدم اٹھایا۔ آپ کو کتابت کرنے کا شروع ہی سے شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مشہور ادباء سے فرمائش کر کے ان کی کتابیں کتابت کیا کرتے، بعد ازاں آپ نے ادیبوں ک کتابیں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ادب نوازی کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو آپ کو ایک ایسے رسالے کی ضرورت محسوس ہوئی جسے ادبی دنیا میں انسائیکلوپیڈیا کا مرتبہ حاصل ہو۔ چنانچہ آپ نے نقوش جاری کیا۔ ابتدا میں آپ نے اس کی ادارت احمد ندیم قاسمی کے سپرد کی مگر پھر آپ اور نقوش اس طرح یکجان ہو گئے کہ نقوش کے لیے آپ کی ادارت ناگزیر ہو گئی۔ نقوش سے آپ کا والہانہ لگاؤ اتنا بڑھا کہ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے آپ کو محمد طفیل کی بجائے محمد نقوش کہنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب کی دنیا آپ کو محمد نقوش کے نام سے پہچاننے لگی۔ علمی و ادبی دنیا میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ نقوش کے خصوصی نمبرز ہیں۔ بقول پطرس بخاری مرحوم’ طفیل صاحب کا ہر شمارہ خاص نمبر ہوتا ہے۔ آپ نقوش کے عام شمارے خاص خاص موقع پر شائع کرتے ہیں۔ انہوں نے نقوش کے جتنے بھی موضوعاتی نمبر نکالے ہیں’ وہ تمام کے تمام اپنے موضوع پر حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس عطاء اللہ سجاد کے بقول نقوش کے یہ نمبرز تحقیق کی نئی راہیں استوار کر سکتے ہیں۔ منفرد اسلوب کے مالک صدیق سالک کہتے ہیں کہ "محمد طفیل کے لاکھوں عقیدت مندوں میں سے ایک ہوں۔ میرا ان سے تعارف نقوش کے ذریعے ہوا۔ جب میں نے نقوش کے پیچھے طفیل صاحب کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اگر نقوش عظیم ہے تو طفیل صاحب عظیم تر”۔

محمد طفیل مرحوم نے نقوش 1948 میں احمد ندیم قاسمی کی زیر ادارت شروع کیا۔ اس زمانے میں منفرد ادیبہ ہاجرہ مسرور بھی نقوش سے منسلک تھیں۔ احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے میں نقوش کے عالمی امن نمبر اور جشن آزادی نمبر نکالے جو بےحد مقبول ہوئے۔ حامد علی خان اپنے تاثرات میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے انہیں سب سے پہلے مدیر اعلی کا خطاب دیا۔ کیونکہ انہوں نے نقوش کی ادارت کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے جدید اور قدیم دونوں ادب پر کام کیا ہے جو اردو ادب کی تاریخ میں بلند مقام رکھتا ہے۔ گو اس سے پہلے اس قسم کا کام امتیاز علی تاج نے بھی اسی طرز پر کیا تھا مگر محمد طفیل مرحوم جیسا کام وہ بھی نہیں کر پائے۔

معروف ڈرامہ نگار انتظار حسین کہتے ہیں کہ مدیر کی حیثیت سے طفیل مرحوم کا سب سے برا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔ محمد طفیل مرحوم نے یوں تو نقوش کے متعدد شاہکار نمبر نکالے مگر ان کا سب سے برا اور آخری کارنامہ تیرہ جلدوں پر مبنی رسول نمبر ہے جو پوری دنیا میں کسی بھی زبان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر لکھے گئے رسالوں سے کہیں زیادہ مستند ہے۔ رسول نمبر کی تدوین کے دوران ایک مرتبہ صدر مملکت نے ان کی خدمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ عقیدت کے پیش نظر انہیں یہ پیشکش کی کہ آپ سرکاری خرچ پر حج کر آئیں تو آپ نے فرمایا: میں خالی ہاتھ روضہ رسول پر حاضری نہیں دے سکتا جب تک کہ رسول نمبر مکمل نہ کر لوں۔ صدر نے جواباً فرمایا بھئی لطف تو اسی میں ہے کہ آپ خالی ہاتھ در مصطفے (صلی اللہ علیہ و سلم) پر جائیں اور جھولی بھر کر لائیں۔ چنانچہ اس طرح محمد طفیل صاحب حج پر گئے۔ کسی نے ان کی موت پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ انہوں نے نقوش کے بہت سے نمبر نکالے۔ ان نمبروں میں سے سب سے شاہکار نمبر رسول نمبر تھا۔ اس رسول رسول نمبر سے بڑھ کر آپ کوئی اور نمبر نہیں نکال سکتے تھے لہذا آہ کو مر ہی جانا چاہیے تھا۔ ہم اپنے کالم کا اختتام پروفیسر مرزا محمد منور کے اس قول پر کرتے ہیں کہ "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فرد واحد کے زیر انتظام کسی ادارے نے کی ہو” ؂

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

٭٭٭

 

زندہ ہیں مسٹر دہلوی

مسٹر دہلوی اظہار بیان میں الجھاؤ اور مصلحت کے قائل نہ تھے کیونکہ مصلحت پسندوں کا ضمیر تو کیا ما فی الضمیر بھی نہیں ہوتا۔ آج تو لوگ سچ بھی اس طرح اٹک اٹک کر بولتے ہیں گویا جھوٹ بول رہے ہوں۔

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی جمعیت الفلاح میں منعقدہ مسٹر دہلوی کی تیسری برسی کے موقع پر اپنے مخصوص انداز تحریر میں، بحیثیت مہمان خصوصی تقریر فرما رہے تھے اور میری نگاہوں کے سامنے ۳۱ جولائی ۱۹۸۸ء کی وہ شام تھی جب فلاح مجلس ادب کے تحت اسی جگہ مسٹر دہلوی کے ساتھ ایک شام منائی گئی تھی۔ موتمر عالم اسلامی کے جناب ایس ایس جعفری کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر عنایت علی خان اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے مسٹر دہلوی کے فن و شخصیت پر مقالے پڑھے۔ جبکہ مجلس کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس خاکسار نے بھی اظہار خیال کیا۔ مسٹر دہلوی کی زندگی میں ان کے ساتھ منائی جانے والی یہ آخری شام تھی۔ ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی یاد میں پہلے تعزیتی جلسہ کے اہتمام کا اعزاز بھی فلاح مجلس ادب نے ہی حاصل کیا۔

مسٹر دہلوی کے ساتھ منائی جانے والی اس آخری شام کے صرف ایک ہفتہ بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو اس خاکسار کے لئے ابھی تک پشیمانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ہوا یوں کہ ایک مقامی روزنامہ میں مسٹر دہلوی کا ایک تفصیلی مضمون "موسمی معاشیات دان” کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ مسٹر دہلوی ایک مزاح گو شاعر و ادیب کے علاوہ ایک معاشیات دان بھی تھے۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک ضخیم کتاب "مکالمات سقراط” بھی شائع ہو چکی ہے۔ مرحوم کی وفات پر اس خاکسار نے یہ چار مصرعے کہے تھے جن میں مسٹر دہلوی کی چاروں کتابوں کے نام موجود ہیں۔

گر "عطر فتنہ”، "سوئے ادب” کی بات تھی

تو "مکالمات سقراط” کیونکر "سپرد قلم” ہوئے

گلشن شعر و ادب میں، زندہ ہیں مسٹر دہلوی

ہاں! مشتاق احمد چاندنا رخصت ہوئے

مسٹر دہلوی کا چار ہزار الفاظ کا یہ تفصیلی مضمون جس صبح اخبار میں شائع ہوا اس روز میں دفتر جانے کی بجائے اس مضمون کا جواب لکھنے بیٹھ گیا اور ایک ہی نشست میں "موسمی ماہرین معاشیات اور مسٹر دہلوی” کے عنوان سے تقریباً ڈھائی ہزار الفاظ تحریر کئے۔ یہ مضمون اسی ہفتہ شائع ہوا۔ اس مضمون میں خاکسار نے مسٹر دہلوی کے متذکرہ بالا مضمون کے بقول شخصے، دھجیاں بکھیر دیں۔ مضمون میں پیش کردہ جملہ خیالات کی رد میں نہ صرف ذاتی دلائل دیئے بلکہ سند کے طور پر ممتاز علماء کی تحریروں سے اقتباسات بھی پیش کئے۔ میرا یہ مضمون پڑھ کر متعدد اصحاب علم نے خاکسار کے اس جرات اظہار کی تعریف کی۔ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ میری اس گستاخی پر مسٹر دہلوی اپنے شدید رد عمل کا اظہار کریں گے۔ مگر میرے دل کی یہ "خواہش” دل ہی دل میں رہ گئی۔ اس واقعہ کے بعد بھی دو ایک بار ان سے شرف ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا مگر انہوں نے اس بات کا تذکرہ تک نہ کیا۔

مگر جب میرے اس مضمون کی اشاعت کے ٹھیک دو سال بعد جب مسٹر دہلوی کے انتقال کی خبر ملی تو میری حالت عجیب ہو گئی۔ دل نے کہا مسٹر دہلوی جیسے زندہ دل شخص کا دل دکھا کر تم ہی نے ان کے دل کو مزید دھڑکنے سے رکنے پر مجبور کیا ہے۔ تمہارے اس مضمون کو پڑھ کر مسٹر دہلوی کا نہ جانے کیا حال ہوا ہو۔ اپنے ہم رتبہ اور بڑے بڑوں کے سامنے بے دھڑک بولنے والے کے سامنے جب تم جیسا ڈیڑھ بالشتیا آن کھڑا ہو تو انہوں نے خلاف معمول "جواب جاہلاں باشد خموشی” پر عمل کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ مگر ان کا نازک دل یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا اور انہوں نے دنیا کو خیر باد کہنے میں عافیت محسوس کی۔ آج وہ یقیناً جنت الفردوس میں عافیت سے ہیں۔۔۔ ایک تم ہو ۔۔۔ ایک وہ تھے۔

تلسی کھڑے بجار میں، مانگے سب کی کھیر

نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بیر

مشتاق احمد یوسفی بتا رہے تھے کہ کوئی بیس برس قبل بارہ، گیارہ بہتر (۱۲/۱۱/۱۹۷۲) کو مسٹر دہلوی کے "عطر فتنہ” کی تقریب رونمائی میری ہی صدارت میں منعقد ہوئی تھی اور آج ان کی تیسری برسی پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود مجھے تقریر کرنی پڑ رہی ہے۔

پروفیسر اقبال عظیم نے اپنی صدارتی تقریر میں یہ انکشاف کیا کہ مسٹر دہلوی کو سرور کائنات (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے دیدار سے نوازا تھا۔ مگر مسٹر دہلوی نے اس کا اظہار کبھی نہیں کیا بس ایک بار میرے سامنے ان کے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ اقبال عظیم کہہ رہے تھے مسٹر دہلوی نہ صف اول کے شاعر تھے نہ صف اول کے نثر نگار مگر انہیں ہر محفل میں وضاحت اور جرات کے ساتھ گفتگو کرنے کا فن آتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مصلحت اور مصالحت کے بغیر لکھا۔ ان کی تحریریں اور تقریریں ایک خاص مقصد کے لئے ہوتی تھیں۔ وہ ایک کھرے آدمی تھے جس میں صرف اس حد تک کھوٹ تھا کو بقول ان کے کھرے سونے کو زیور میں تبدیل کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اقبال عظیم گواہی دے رہے تھے :”جو شخص نمازی پرہیز گار ہو، رزق حلال کماتا ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو، اعلیٰ اسناد نہ ہونے کے باوجود ادبی خدمت کو ضروری سمجھتا ہو، وہ یقیناً ایک اچھا شخص ہی ہو سکتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر فردوس بریں میں "مسٹر” کے حضور اظہار پشیمانی کے لئے میرا یہ مضمون پیش کیا جائے تو وہ اس "ذود پشیماں” پر غالب کے کسی شعر کی پھبتی کسنے کے بجائے زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگاتے ہوئے اقبال عظیم کا یہ شعر پڑھنا پسند کریں گے۔

آشنا ہوتے ہوئے بھی، آشنا کوئی نہیں

جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کوئی نہیں

٭٭٭

 

غزل کہتے ہیں

    غزل کے معروف شاعر جگر مراد آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ مرحوم خواتین کی غزل گوئی کے سخت خلاف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ "مجسم غزل” کی غزل گوئی چہ معنی دارد؟ کاش آج مرحوم زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نے کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ کسی بھی شاعرہ کے مجموعہ کلام کو دیکھ لے۔ غزل کے اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک تخلیق کار کی جنس واضح نہیں ہوتی شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو” کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر” رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کو بکو اس طرح پھیلی کہ اخباری رپورٹروں تک جا پہنچی۔ کم از کم کسی "نیک پروین” سے ایسی "ایکٹی ویٹی” کی توقع تو سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔

    بزم کی ایک حالیہ نشست میں اردو کی ایک معروف صنف سخن "غزل” پر بحث کی جا رہی تھی۔ بحث کیا ہو رہی تھی بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایک مجسم "غزل” کے سامنے )جو خیر سے غزل گو شاعرہ بھی ہیں( عصر حاضر کے چند نامور اہل قلم "غزل سرائی” فرما رہے تھے۔ اگر یہاں "غزل سرائی” والی بات آپ کی سمجھ میں نہ آئی ہو تو سمجھے سمجھانے کی خاطر یہ واقعہ سن لیجئے جس کے جھوٹا یا سچا ہونے کی ذمہ داری حسب دستور راوی پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ہاں تو راوی کی روایت ہے کہ ایک طالبہ اپنے استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بیٹھی تھی اور استاد محترم تنگنائے غزل کی گتھیاں سلجھا رہے تھے کہ یکایک کچھ سوچ کر بولے : تمہیں معلوم ہے کہ غزل کے اصل معنی کیا ہیں؟ فرمانبردار شاگردہ کیا جواب دیتی سوالیہ نگاہوں سے استاد کی شکل تکنے لگی۔ استاد نے مسکراتے ہوئے کہا : بھئی! غزل کے لغوی معنی ہیں۔ "عورتوں سے باتیں کرنا” طالبہ جو ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ شوخ بھی تھی اپنی سیاہ چمکدار آنکھیں گھماتے ہوئے بولی : "استاد محترم” ایک بات تو بتائیں یہ آپ مجھے پڑھا رہے ہیں یا غزل سرائی فرما رہے ہیں۔

    ہاں تو تذکرہ ہو رہا تھا مجسم غزل کی غزل سرائی کا۔۔۔ معاف کیجیے گا تذکرہ ہو رہا تھا، اہل بزم، کی غزل سرائی کا۔ بھئی قلم آخر قلم ہے جب چلتا ہے تو کبھی کبھی بہک بھی جاتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب بہکنے کی معقول وجوہ بھی موجود ہوں۔ ایسے میں تو اچھے اچھے ادیبوں کی زبان تک بہک جاتی ہے ہمارا تو صرف قلم ہی بہکا ہے جو بہکنے کے بعد کم از کم بہکے ہوئے لفظوں کو قلم زد بھی کر سکتا ہے جبکہ زبان سے نکلی ہوئی بات تو اس تیر کی مانند ہوتی ہے جو کمان سے نکل جائے۔

    دیکھئے ہم پھر اپنے موضوع سے بھٹکتے جا رہے ہیں۔ بات غزل کے تذکرے سے چلی تھی اور تیر کمان تک آ پہنچی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تیر اسی قلم ناتواں پر چل جائے اور جب کمین گاہ کی طرف نظر پڑے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جائے۔ یہ تو طے ہے کہ یہ وہی دوست ہوں گے جن کی "دوستی” پر آسماں اپنی دشمنی تک بھول جاتا ہے اور بھول کیا جاتا ہے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔

        لہذا آئیے ہم آپ کو دوبارہ اسی بزم میں لئے چلتے ہیں جہاں "اُن” کے آتے ہی بقول طرفداران میر، علم و ادب کے جملہ چھوٹے بڑے حاضر "چراغوں” کی روشنی ماند سی پڑ گئی تھی۔ اگر آپ میر کے طرفداران میں شامل نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں خود انہی کا اعتراف نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ع

        سج گئی بزم رنگ و نور ایک نگاہ کے لئے

        بام پہ کوئی آ گیا، زینت ماہ کے لئے

        اب جب بزم میں "آنے والا” خود اپنی آمد کی وجہ "بزم کی سجاوٹ” قرار دے تو ہم آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم نے "آنے والا” کی اصطلاح شعر میں موجود لفظ "آ گیا” کی رعایت سے لکھی ہے ورنہ آپ بھی بخوبی واقف ہیں کہ یہاں ہم دونوں کو علی الترتیب "آ گئی” اور آنے والی لکھنا چاہیے تھا کہ کم از کم اس طرح تذکیر و تانیث کی اتنی بڑی غلطی تو نہ ہوتی۔ البتہ یہ درست ہے کہ ایسا کرنے سے شعر وزن سے گر جاتا۔ لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔

        بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایک انٹرویو میں ایک شاعرہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی شاعری کا مقصد کیا ہے تو موصوفہ نے نہایت بھولپن سے جواب دیا کہ میری شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بے مقصد شاعری کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ تاہم بار بار کے اصرار پر انہوں نے فرمایا غ "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے” آج ان کا پیغام جہاں تک پہنچ چکا ہے، اس کا یہاں اعادہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اخبارات میں پہلے بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ زیر گفتگو بزم میں غزل پر گفتگو کے دوران جب قومی مقاصد کے تحت کی جانے والی شاعری کے حوالے سے علامہ اقبال کا ذکر آیا تو موصوفہ کو اقبال کی جملہ کلیات میں سے صرف ایک ہی مصرعہ قابل ذکر نظر آیا، مسکراتے ہوئے فرمانے لگیں : اقبال نے ؂

        بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا

        تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

        جیسی شاعری بھی تو کی ہے۔

        غزل اور اینٹی غزل کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی کہ گھٹن کی فضا میں روایتی غزل کبھی حالات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس کے لہجہ میں لامحالہ جھنجھلاہٹ اور احتجاج کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زندگی کی بے معنویت اور لغویت ہماری غزل میں در آئی ہے جسے بعض نقادان ادب نے "اینٹی غزل” کا نام دے رکھا ہے۔ تو بزم کی جان۔۔۔ میرا مطلب ہے بزم کی میزبان نے فرمایا : سابقہ گیارہ سالہ عہد آمریت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اب یہ ہمارا منصب نہیں کہ ہم سابقہ "عہد آمریت” اور موصوفہ کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں کیونکہ سب ہی جانتے ہیں موصوفہ آج جس "پوزیشن” میں ہیں اس میں سابقہ عہد آمریت کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔

        نشست میں غزل کے حوالہ سے ترقی پسند تحریک کا بھی تذکرہ ہوا اور پھر اس تحریک کے حوالے سے نام نہاد انقلاب کی باتیں کی گئیں۔ ظاہر ہے مقصود بھی یہی تھا وگرنہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تحریک کا تعلق اگر کسی صنف شاعری سے تھا تو وہ نظم تھی نہ کہ غزل۔ گفتگو جاری تھی۔۔۔ اور میں اپنے دور درشن کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا، کیا عام گھریلو ادبی نشستوں کا معیار اس بزم سے بہتر نہیں ہوتا۔ پھر ہر پندھواڑے اس اہتمام کا فائدہ؟

         صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے

٭٭٭

 

شجر ممنوعہ کا شاعر

گزشتہ دنوں معروف شاعر اور کالم نویس سرشار صدیقی کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ معروف شاعر حمایت علی شاعر نے اپنا پانچ برس پرانا مضمون "شجر ممنوعہ کا شاعر” پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں سرشار صدیقی کو "وصل کا شاعر” قرار دیا۔ ایک ہی مضمون میں ایک ہی شاعر کو شجر ممنوعہ کا شاعر اور وصل کا شاعر قرار دینا یقیناً حمایت علی شاعر کا خاصہ ہے۔ اب یہ پڑھنے اور سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ "شجر ممنوعہ” اور "وصل” کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں۔

پروگرام کے میزبان شبنم رومانی نے اپنے ابتدائی کلمات کی طرح اختتامی جملوں میں بھی سرشار صدیقی کی خوب خوب مدح سرائی کی۔ عذر یہ پیش کیا کہ اس قسم کی محفلیں کوئی تنقیدی نشستیں نہیں ہوتیں کہ صاحب شام پر تنقیدی گفتگو کی جائے۔ مگر امراؤ طارق نے اس ہدایت کی پرواہ کئے بغیر اپنا مضمون "کامریڈ سرشار صدیقی” پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سرشار شاعری میں ہر طرح کے احتساب کے باوجود لکھتے رہے۔ نوجوانی میں شاعری تخلص کی آڑ میں کرتے رہے اور سگریٹ چھپ کر پیتے رہے۔ انہوں نے بتلایا کہ سرشار کلکتہ کی سڑکوں پر کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بیچتے رہے ہیں اور اس قدر اشتراکی ہونے کے باوجود پور پور مسلمان ہیں کیونکہ انہوں نے مذہب کی کبھی نفی نہیں کی۔ اس کے باوجود انہیں ساری عمر ترقی پسندوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں سے بیک وقت لڑائی لڑنی پڑی۔

پروفیسر انجم اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب میں نے گریجویشن کی ایک طالبہ سے "وصال” کے بارے میں گفتگو کی تو وہ ناراض ہو گئی۔ کہنے لگی کہ آپ بہت خراب ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ وصال پر تو میر و غالب جیسے بڑے شاعروں نے بھی لکھا ہے۔ سرشار نے بھی وصال پر نظمیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں لکھنا بھی عبادت ہے اور سرشار چالیس برس سے عبادت کر رہے ہیں۔ انجم اعظمی نے کہا کہ سرشار برا بھی ہے لیکن اس کے باوجود اچھا ہے اس لئے کہ وہ آدمی ہے فرشتہ نہیں۔ اس موقع پر قمر ہاشمی نے "سرشار صدیقی کے نام” ایک نظم سنائی جبکہ برگ یوسفی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا

خود اپنی زندگی کے چراغوں کی روشنی

خود اپنی شاعری کا سویرا کہیں اسے

جلسہ سے مہمان خصوصی ابو الخیر کشفی اور صدر نشین ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی خطاب کیا۔ سرشار صدیقی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا (جس کی تصدیق یا تردید کرنے سے فرمان فتح پوری نے انکار کر دیا) کہ آج سے برسوں قبل ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہی کی صدارت میں میرے مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی ہوئی تھی جو اپنی "نوعیت” کی پہلی تقریب تھی۔ پھر اس کے بعد کتابوں کی تقریب رونمائی کا سلسلہ چل پڑا۔ ویسے ہمارے خیال میں زیر تذکرہ تقریب میں بھی ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے اور وہ یہ کہ پروگرام کے اختتام پر تمام شرکاء سے درخواست کی گئی کہ وہ جانے سے قبل سرشار صدیقی کے مجموعہ کلام پر دستخط کرتے جائیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بعد میں کوئی شریک محفل اپنی اس "شرکت” کا انکار نہ کر سکے۔ ویسے ہم نے دیکھا کہ بہت سے شرکاء اس ہدایت پر عمل کئے بغیر ہی رخصت ہو گئے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ سوچ سمجھ کر کیا یا یوں ہی ان سے بھول ہو گئی۔

 ویسے دوران پروگرام شرکاء نے اپنے ادبی ذوق کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جہاں طویل اور "بور” مقالوں کو "ہوٹ” کیا وہیں مقررین کے اچھے فقروں کی خوب خوب داد بھی دی۔ ایک افسانہ نویس جب تقریر کرنے آئے تو ایک طرف سے آواز آئی۔ افسانہ نویس کبھی سچ نہیں بولتا۔ ایک طویل اور بور کر دینے والی تقریر کے بعد جب ایک دوسرے مہمان مقرر کو دعوت دی گئی تو ایک منچلے نے پیچھے سے آواز لگائی : ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔ آخر میں سرشار صدیقی نے ایک نظم اور ایک غزل کے چند اشعار سنائے۔ ایک شعر پیش خدمت ہے ۔

خدا پر آدمی پر یا صنم پر

کسی پر تو ترا ایمان ہوتا

اپنے مقالے میں حمایت علی شاعر نے سرشار صدیقی کو وصل کا شاعر قرار دیا ہے تو یقیناً انہوں نے سرشار کی شاعری کا مطالعہ کر کے ہی ایسا کہا ہو گا۔ لیکن چونکہ ادب کے قارئین کی کثیر تعداد آج بھی سرشار کی شاعری کے تفصیلی مطالعہ سے محروم ہے جس میں ادب کے قارئین کا کوئی قصور نہیں کیونکہ بقول انجم اعظمی صرف لالو کھیت میں مبلغ پچاس ہزار (کہ نصف جس کے پچیس ہزار ہوئے) شاعر پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ادب کے ایسے قارئین کی سہولت کے لئے ہم ذیل میں سرشار صدیقی کی ایک نظم درج کر رہے ہیں جو ہم نے مجلہ سیپ کے شمارہ نمبر اڑتالیس سے نقل کی ہے

حی علی الوصال

عبادت گاہ خلوت میں

تری نظروں کے پر معنی تکلم نے

مرے لب بستہ جذبوں کو زباں دی تھی

تو میں نے آخر شب کے

بہت نازک

بہت نازک

حساس لمحوں میں

تری موج تنفس سے وضو کر کے

ترے محراب سینے پر

تہجد کی اذاں دی تھی

٭٭٭

 

یوسف ثانی سے ایک انٹرویو

آج ہم جس شخصیت سے آپ کی ملاقات کروانے چلے ہیں یقیناً ہم سے زیادہ آپ انہیں جانتے، پہچانتے ہوں گے کہ ان کی کوئی ایک حیثیت تو ہے نہیں۔ یہ شاعر ہیں۔۔۔ نثر نگار ہیں۔۔۔ ایک مدیر اخبار ہیں۔۔۔ سنجیدگی بیزار ہیں اور نہ جانے کتنی ادبی مجلسوں اور سماجی تنظیموں کے اہل کار ہیں۔۔۔ جب ہم نے پہلے پہل ان کی تحریریں۔۔۔ شگفتہ شگفتہ تحریریں پڑھیں تو نہ جانے کیسے یہ یقین سا ہو گیا کہ یوسف ثانی ان کا قلمی نام ہو گا۔ اور یہ بھی ان کی مزاح نگاری سے محفوظ نہیں رہ سکا ہو گا۔ ہو نہ ہو موصوف۔۔۔ شکل کے مالک ہوں گے۔ تبھی تو نام "یوسف ثانی” رکھ لیا ہے کہ اصلی مزاح نگار وہی ہوتے ہیں جو اپنا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کی ایک خوبی کا البتہ اندازہ ہوا کہ ناموں کی کتر بیونت کرنے کے کافی شوقین ہیں اور ساتھ ہی خاصے ذہین بھی۔ اب دیکھئے نا معروف ادیبہ سلمیٰ یاسمین نجمی کو تو محض "سین” تک محدود کر دیا ہے۔ جبکہ خود محمد یوسف رضوی کی آڑ میں "میر” بن بیٹھے ہیں۔ گویا دیوان میر پر ہاتھ صاف کر جائیں تو کون انہیں روکنے والا ہے۔ ہم تو شکر کرتے ہیں کہ ہماری والدہ محترمہ نے ہمارا نام گوہر پروین نہیں رکھ دیا ورنہ ممکن ہے کہ موصوف آج انٹرویو دینے کی بجائے ہمیں "گپ” کہہ کر ٹرخا دیتے تو ہم کیا بگاڑ لیتے میر ثانی صاحب کا، ہمارا مطلب ہے یوسف ثانی صاحب کا۔ ہمارے مختلف سوالوں کے جوابات انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ سوالات کو جوابات کے بین السطور میں تلاش کرنا قارئین کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔

میں مرکز برائے مطالعہ جنوبی ایشیا، جامعہ پنجاب کی محترمہ فرزانہ چیمہ صاحبہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے معروف ادبی سلسلہ "ادب مینارے” کے لئے انٹرویو کی غرض سے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور سوالات کئے۔ ویسے تو کسی سے سوال کرنا کوئی مستحسن بات نہیں لیکن اگر یہ سوال انٹرویو وغیرہ کے ضمن میں ہو تو اتنی زیادہ بری بات بھی نہیں۔

 بنارس کی صبح اور اودھ کی شام کے بارے میں تو نثر نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر افسوس کہ ہمارے آبائی وطن کی ہوا کے بارے میں کسی نثر نگار نے تا حال طبع آزمائی نہیں کی۔ البتہ بعض شعراء نے اردو شاعری کو "بادِ بہاری” کی خوبصورت اصطلاح سے روشناس ضرور کرایا ہے۔ والدین کے عطا کردہ نام یوسف رضوی کو یوسف ثانی سے تبدیل کرنے کی وجہ محض اتنی سی ہے کہ ہماری دیکھا دیکھی ایک اور صاحب نے بھی اسی نام سے لکھنا شروع کر دیا اور جب یہ خطرہ پیدا ہو چلا کہ کہیں "فرشتوں” کے لکھے پر ہم نہ پکڑے جائیں، تو ہم نے یہ سوچ کر نام بدل لیا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا۔ کوئی تین برس قبل لندن سے ایک کتاب یوسف ثانی کے نام سے شائع ہوئی تو ہمیں جنگ لندن میں یہ وضاحت شائع کروانی پڑی کہ "گو اس نام کے جملہ حقوق ہمارے نام محفوظ تو نہیں۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ہم اسی نام سے پاکستانی اخبارات و جرائد میں کچھ نہ کچھ لکھ ضرور رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی۔۔۔ پاکستان پریس انٹرنیشنل کی شائع کردہ ایک صحافتی کتاب پر بطور مترجم اس خاکسار ہی کا نام یوسف ثانی درج ہے۔ علاوہ ازیں کوئی آٹھ برس قبل نوائے وقت کراچی کے ادبی صفحہ پر "یوسف ثانی کی انشائیہ نگاری” کے عنوان سے جو جائزہ شائع ہوا ہے، وہ اسی احقر کے بارے میں ہے۔ ایک ایسا ہی مضمون "یوسف ثانی۔۔۔ ایک ابھرتا ہوا انشائیہ نگار” کے عنوان سے روزنامہ جسارت کراچی کے ادبی صفحہ پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ اور اب گذشتہ دو عشروں کے دوران شائع ہونے والے میرے انشائیوں کا جو انتخاب زیر طبع ہے اس پر بھی میرا نام ظاہر ہے یوسف ثانی ہی درج ہو گا۔

اردو ادب میں شین قاف اہم ہوتے ہیں تو صحافت میں چھ کاف ضروری تصور کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس خبر میں چھ کاف یعنی کون، کیا، کب ، کہاں، کیوں اور کیسے میں سے جتنے زیادہ کے جوابات موجود ہوں گے، وہ خبر اتنی ہی مکمل ہو گی۔ ایسا لگتا ہے کہ فرزانہ بھی ان چھ کافوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، جبھی تو سارے کاف ایک ساتھ ہی پوچھ لئے کہ بھئی کون ہو؟ اصل نام کیا ہے؟ قلمی نام کیوں ہے؟ کب اور کہاں (شکر ہے "کیوں” نہیں پوچھا) پیدا ہوئے اور کہاں تک پڑھے ہوئے ہو؟ ہم سفر (اب تک) کتنی اور کیسی ہیں؟ گلشن (حیات) میں کتنے پھول اور کلیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔

 اطلاعاً عرض ہے کہ فی الحال "ہم پانچ” ہیں۔ ایک برقعہ پوش اور بیچلر شپ کی ڈگری ہولڈر بیچلر سے یہی دو چیزیں (میرا مطلب ہے برقعہ اور ڈگری) دیکھ بلکہ سن کر اسّی کی دہائی کے ایک "ناموافق موسم” میں شادی کی۔ عاشقی جب قید شریعت میں آ گئی تو ہم دو سے پانچ ہو گئے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ تینوں بچے فی الوقت پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں۔ پڑھتے تو وہ خود ہیں۔ البتہ (پٹی وغیرہ) پڑھانے کی ہمیں کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کمپیوٹر اور ڈش کی عہد کے یہ بچے کس قدر چالاک یا ہشیار نکلتے ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں تو ان کی ہشیاری محض دن کی روشنی میں جگنو کو دیکھنے کی ضد تک ہی محدود تھی۔ جہاں تک محترمہ یعنی نصف بدتر۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ،،، خیر بات تو ایک ہی ہے۔۔۔ ہے نا؟۔۔۔ کا تعلق ہے، تو اب پردہ نشینوں کے بارے میں کیا بات کریں۔ کہتے ہیں کہ مرد کی کامیابیوں کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ شکر ہے تا حال ہمارا شمار "کامیاب مردوں” میں نہیں ہوتا ورنہ یہ کریڈٹ بھی محترمہ ہی لے جاتیں۔ پیشہ ورانہ مہارت کی اسناد سے قطع نظر، بنیادی تعلیم محض ماسٹر کی ڈگری تک محدود ہے۔ ذریعہ معاش بنیادی طور پر صنعتی دنیا سے وابستہ ہے۔ تاہم گاہے گاہے صحافتی دنیا میں بھی "آمد و رفت” جاری رہتی ہے۔ مختلف جریدوں کے علاوہ ایک خبر رساں ادارہ اور لندن کے ایک اردو روزنامہ کے لئے بھی کام کرتا رہا ہوں۔

 لکھنا کب سے شروع کیا؟ بھئی لکھنے لکھانے کا آغاز تو اسی روز سے ہو گیا تھا جب والدہ محترمہ نے ہمارے ایک ہاتھ میں قلم دوات اور دوسرے ہاتھ میں تختی پکڑا کر کہا تھا : بیٹا لکھ! اور میں لکھتا چلا گیا۔۔۔ تاہم معاشرتی ناہمواریوں پر باقاعدہ قلم اٹھانے کا آغاز کالج کے زمانہ سے ہوا۔ ہمارے ایک شفیق استاد ماسٹر محمد ریاض صاحب نے تو ہم سے معاشرہ کے منہ پر اس وقت تھپڑ رسید کروانا شروع کر دیا تھا جب ہمیں یہی نہیں معلوم تھا کہ معاشرہ کا منہ کیسا اور کہاں ہوتا ہے۔

 بنیادی طور پر نثرنگار بلکہ انشائیہ نگار ہوں۔ تاہم دیگر اصناف سخن مثلاً "افسانے، ڈرامے، خاکے، مضامین، تنقید، کالم، فکاہیہ مضامین اور نظموں وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کرتا رہا ہوں۔ تاہم انشائیہ نگاری کو اپنی شناخت قرار دیتا ہوں۔ کتابوں پر تبصرہ تحریر کرتے وقت نہ صرف یہ کہ ایک خاص لطف ملتا ہے بلکہ اس محنت طلب کام سے ذاتی علم میں مزید وسعت بھی پیدا ہوتی ہے۔

دنیا میں صرف ایک ہی ایسی کتاب ہے جسے سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے اور جسے سب سے زیادہ اور بار بار پڑھا بھی جانا چاہیے اور وہ کتاب ہے ، قرآن مجید۔ ام الکتاب سے ہٹ کر اگر ہم گفتگو کریں تو اسکالرز اور درسی کتب کے استثنیٰ کے ساتھ ایک عام قاری ایک عام کتاب الا ماشا اللہ ایک مرتبہ ہی پڑھتا ہے۔ البتہ فکاہیہ ادب ایک ایسی صنف سخن ہے، جسے آپ بار بار پڑھ کر بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ فکاہیہ ادب میری پسندیدہ صنف سخن ہے۔ فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، پطرس بخاری، ابن انشاء، مشتاق یوسفی، شفیق الرحمن، خامہ بگوش (مشفق خواجہ)، ڈاکٹر محمد یونس بٹ وغیرہ کی تحریریں نہ صرف یہ کہ مجھے بے حد پسند ہیں بلکہ میں ان کی تحریروں سے متاثر بھی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر اصناف سخن کے ادیب مجھے پسند نہیں۔ جمیل الدین عالی کے دوہے اور گیت، سلمیٰ یاسمین نجمی کے سفر نامے اور ناول، ابن صفی کے جاسوسی اور رضیہ بٹ کے معاشرتی ناول، احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس کے افسانے، سلیم احمد کے فکر انگیز کالم، انور مقصود کے طنز و مزاح سے پر کالم اور ڈرامے اور نعیم صدیقی کی سنجیدہ تحریریں مجھے خاص طور پر بے حد پسند ہیں۔

ادب اور زندگی سے متعلق گو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں تاہم میں بنیادی طور پر ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کا قائل ہوں۔ جب کائنات کی ہر شئے کسی دوسری شئے کے لئے تخلیق کی گئی ہے تو ادب برائے ادب چہ معنی دارد؟ اسی طرح جہاں پوری کائنات انسانی محور کے گرد گھومتی ہے تو انسان کو منشائے ایزدی کے محور کے گرد گھومنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار اسی محور کے گرد گھومنے یا نہ گھومنے پر ہے۔

آخر میں ذاتی پسند و ناپسند کے حوالے سے چند رسمی سوالات کے مختصر جوابات۔ پسندیدہ رنگ۔۔۔ دھنک کے رنگ، پسندیدہ چہرہ۔۔۔ مسکراتا ہوا چہرہ، پسندیدہ پھول۔۔۔ جو مصنوعی نہ ہو، پسندیدہ لباس۔۔۔ شلوار قمیص، پسندیدہ لمحہ۔۔۔ ہجوم میں تنہا یا تنہائی میں خیالات کا ہجوم، پسندیدہ لوگ۔۔۔ جو مجھے پسند تو نہ کریں لیکن مجھ سے توقعات ضرور تھیں، پسندیدہ کتاب۔۔۔ چیک بُک، پسندیدہ مشروب۔۔۔ صبر کے گھونٹ، پسندیدہ ساتھی۔۔۔ تلاش جاری ہے، اپنی پسندیدہ تحریر۔۔۔ ٹک روتے روتے، پسندیدہ فقرہ۔۔۔ اللہ حافظ۔

(مطبوعہ ماہنامہ بتول لاہور 1994)

٭٭٭

تشکر: مصنف      ٹائپنگ: شمشاد خان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

یوسف کا بکا جانا

               یوسفِ ثانی

 

دیباچہ 1998

سچ کی صلیب

پہلی کتاب کی اشاعت کو کسی بھی ادیب کی زندگی کا ایک اہم واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہمارا شمار محض "اہل کتاب” میں ہوتا تھا۔ آج کے بعد سے ہمارا تعارف "صاحب کتاب” کہہ کر کرایا جائے گا۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران شائع ہونے والی بہت سی تحریروں میں سے چند منتخب تحریروں کا انتخاب "یوسف کا بکا جانا” کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔

کتاب کا نام دیکھ کر ایک خاتون فرمانے لگیں: مانا کہ آپ کی جملہ تحریریں آپ کی بکواس ہی کی مانند ہیں۔ مگر اس امر کا برملا اعتراف کرنے کیا ضرورت تھی۔ اگر میری عزت کا پاس نہیں تو کچھ بچوں ہی کا خیال کیا ہوتا۔ صحافتی دنیا سے تعلق رکھنے رکھنے والے ہمارے ایک دوست تو بہت دور کی کوڑی لائے۔ کتاب کا سرورق دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمانے لگے : کتاب کا نام آپ نے بہت اچھا اور معنی خیز رکھا ہے "یوسف کا بکا جانا”۔ مستقبل میں ایسے "واقعات” کی روک تھام کی غرض سے ہمیں سرورق پر کتاب کے نام کے ساتھ میر تقی میر کے اس شعر کا حوالہ بھی دینا پڑا، جس سے استفادہ کرتے ہوئے ہم نے اس کتاب کا نام رکھا ہے۔ کچھ ایسا ہی مسئلہ کتاب کی پروف ریڈنگ کے دوران ہمارے ایک شاعر دوست کو بھی پیش آیا۔ انہوں نے متن میں ایسے بے شمار "اغلاط” کی نشاندہی کی، جن کا تعلق "اعراب” وغیرہ سے ہے۔ سو ایسے تمام قارئین سے پیشگی معذرت جنہیں اب بھی ایسی "اغلاط” کتاب میں جا بجا نظر آئیں گی۔ کیوں کہ کہ کتاب جس کمپیوٹر پر کمپوز ہوئی ہے، اس میں اعراب اور ہمزہ وغیرہ کی مطلوبہ سہولت موجود نہیں۔

صحافیوں کے مقابلہ میں ادیبوں کو سچ لکھنے کی نسبتاً زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ ادب و صحافت کا بیک وقت طالب علم ہونے کے ناطے مجھے سچ لکھنے کی ہمیشہ سے سہولت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ "خبر نویسی” کے دوران نوک قلم سے سرزد ہونے والے "گناہوں” کا "کفارہ” دیگر اصناف سخن کے ذریعہ کرتا رہا ہوں۔ اس کتاب کے مندرجات یقیناً میرے اس دعویٰ کی صداقت کی گواہی دیں گے۔

میں اس کتاب کا آغاز اپنی ایک نظم "سچ کی صلیب” سے کرنا چاہوں گا، جو میں کوئی ایک عشرہ قبل کہی تھی۔

سچ کی صلیب

کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا

یا پھر تم ہی سچے ہوتے

ہم تم میں یہ فرق نہ ہوتا

جھوٹ کی ارضی جنت نہ ہوتی

سچ کی صلیب پہ دنیا نہ چڑھتی

کاش کہ میں بھی جھوتا ہوتا

================

اس جنت سے گو صلیب بھلی ہے

مجھ کو کب یہ تاب ملی ہے

پھر میں کیسے منہ کو کھولوں

میں جو بولوں، کیسے بولوں

ہمہ تن گوش کیاں کر رہوں میں

کانوں کو جو بند کروں میں

کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا

================

یارب! یا پھر ایسا ہوتا

گونگا ہوتا، بہرا ہوتا

نہ جھوٹ کی جنت میں جینا ہوتا

نہ سچ کی صلیب پہ مرنا ہوتا

کاش میں گونگا، بہرا ہوتا

==============

٭٭٭

 

نوائے وقت فیچر

یوسفِ ثانی کی انشائیہ نگاری

    اردو میں انشائیہ نگاری پہلے بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے مگر پہلے اور آج میں فرق یہ ہے کہ کل کا انشائیہ نگار، انشائیہ نگاری کا دعویٰ نہیں کرتا تھا جبکہ آج کا انشائیہ نگار نہ صرف یہ کہ اپنی تحریروں کو انشائیہ قرار دینے پر "بضد” ہے بلکہ اپنے جیسے دیگر تمام لکھنے والوں کی تحریروں کو انشائیہ سے خارج قرار دینے پر "مصر” بھی ہے۔ کل تک ہر انشائیہ نگار اپنی تحریروں کے ذریعہ اپنے قارئین کو کچھ نہ کچھ فیض پہنچاتا رہا ہے جبکہ آج کے قد آور انشائیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر انشائیہ میں کسی قسم کی "مقصدیت” داخل ہو جائے تو وہ تحریر انشائیہ سے خارج ہو جاتی ہے۔ انشائیہ کے بارے میں یہ رویہ دراصل ادب برائے ادب کے پٹے ہوئے نظریہ کی جزوی بازگشت ہے جو آج کے سائنسی عہد میں ادب برائے زندگی کے سائنٹیفک نظریہ سے عملاً مات کھا چکا ہے۔

    ادب برائے زندگی کے علمبردار قلم کاروں کی صف میں نوجوان انشائیہ نگار یوسف ثانی ایک خوشگوار اضافہ ہیں جو گزشتہ ایک عشرے سے خاموشی سے مشق انشائیہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کا شمار با صلاحیت نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی اس مختصر سی ادبی زندگی میں اب تک مختلف اصناف و موضوعات پر بعض اس قدر خوبصورت اور فکر انگیز تخلیقات پیش کی ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ آپ کے انشائیے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے کے علاوہ ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔ آپ کی تحریروں کی نمایاں خوبی وہ ہلکا پھلکا طنز و مزاح ہے جو قارئین کو نہ صرف محظوظ کرتا ہے بلکہ صاحب تحریر کی فکر سے بھی متاثر کرتا ہے۔ مثلاً "انشائیہ” ٹک روتے روتے” کا یہ حصہ ملاحظہ ہو

    گو رونے کی ابتداء بچوں نے کی مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے عطا کیا جبکہ اس کی موجودہ پروفیشنل حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پرفیشلزم کے اس دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش” کرانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔۔۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا آرٹ ہے جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور "عین دال شین ششٹرز” یعنی عزت دولت شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ہے۔ ایکا ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے سامنے جھکنا نہیں پڑتا صرف ہر ایک کے سامنے رونا پڑتا ہے۔

    یوسف ثانی کے ہاں روایتی لفظوں اور فقروں کو اپنی ضرورت کے مطابق برتنے کا فن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات تو وہ خود بھی نئے نئے فقرے اور منفرد تراکیب تراشتے نظر آتے ہیں۔ اب "لب چھڑی” ہی کی مثال لے لیں آپ کہیں گے کہ یہ لب چھڑی کیا بلا ہے؟ لیجئے یوسف ثانی ہی کی زبانی سنئے۔

    یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں۔ جی ہاں! انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں یہ اسم بامسمیٰ صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔۔۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ اساتذہ قدیم کے ان اشعار کا حوالہ دیتے ہیں جن میں خواتین کے لبوں کو گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار اب خواتین "ضرورت” کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شیڈ استعمال کر سکتی ہیں اور آج کے علامتی دور میں اس قدر بھولا کون ہے جو ان رنگوں کے مفہوم سے آگاہ نہ ہو۔

    یوں تو اب تک یوسف ثانی بہت سے انشائیے تحریر کر چکے ہیں جو وقتاً فوقتاً اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مگر ان کے تحریر کردہ تمام انشائیے اب تک کسی ایک جگہ یکجا دستیاب نہیں کہ ان سب کا ایک نظر جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم ہو انشائیے جو ہماری نگاہ سے گزر چکے ہیں ان میں ناموں سے نہ پہچان، قرض اور مرض، سچ گپ، پہلا کالم، گرلز سینٹر، پوچھنا منع ہے، یوسف کا بکا جانا، وعدہ فردا اور مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یوں تو یوسف ثانی کی تحریروں میں تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کا استعمال جا بجا نظر آتا ہے، مگر ان کا استعمال اس خوبی سے ہوتا ہے کہ تحریر کا بنیادی مقصد، جو یوسف ثانی کی جملہ تحریروں میں مشترک ہے نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ قاری تک پہنچ بھی جاتا ہے مثلاً ان کی ایک تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

’’    آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نہ کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ آج کی کسی بھی "نمائندہ شاعرہ” کے مجموعہ کلام کو اٹھا کر دیکھ لے۔ غزل کے اکثر اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک شاعرہ کی جنس "واضح” نہیں ہوتی، شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو” کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر” رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کو بکواس طرح پھیلی کہ اخباری کالموں تک جا پہنچے، حالانکہ کسی "نیک پروین” سے تو اس قسم کی توقع سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی "تصحیح” سے شعر وزن وغیرہ سے گر جائے گا لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کیئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرئے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔‘‘

    ادبی تقریبات میں ادیبوں کے فن اور شخصیت پر مقالات پڑھنا آج کل ایک وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس قسم کے مقالوں میں کیسی کیسی گل افشانی کی جاتی ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی یوں پیش کرتے ہیں

    ایسے موقع پر بعض عقل مند مقالہ نگار اپنے ممدوح کے نام ہی کو غنیمت جانتے ہیں مثلاً بین السطور والے صبیح محسن پر مضمون لکھتے وقت ایک مضمون نگار نے نام کی رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم اسٹار صبیحہ خانم پر ہی سیر حاصل گفتگو کر ڈالی۔ میری مشکل یہ ہے کہ فی الحال مجھے اس قسم کی کوئی فنکارہ دستیاب نہیں جس پر نظر عنایت کی جا سکے۔ رہ گئی ان کی شاعری تو اس سلسلہ میں آپ سے معذرت چاہوں گا کہ پروفیسر صاحب نے اس ضمن میں مجھے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں کا دستور ہے بلکہ بعض اوقات تو یار لوگ اپنے فن اور شخصیت پر پورا مقالہ لکھ کر فراہم کرتے ہیں اور بسا اوقات تو مقالہ پڑھنے کا معاوضہ بھی ملتا ہے اور مجھے تا حال اس قسم کی کوئی ایڈ یا ایڈز نہیں ملی ہیں۔

    یوسف ثانی کی گرفت اپنے عہد کے ادبی مسائل پر بھی کوب ہے۔ ڈاکٹر سلمان معظم کے تحقیقی مقالہ "سرقہ کی روایت” پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب کوئی زبان وسعت پذیر ہوتی ہے اور اس میں لکھنے لکھانے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی ہے تو زبان و بیان میں نئی نئی تراکیب "تخلیق” تو کوئی ایک فرد کرتا ہے مگر اسے استعمال بے شمار افراد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لکھاریوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے تو قلمی ناموں اور علمی و ادبی شہ پاروں کے عنوانات میں مشابہت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر ہمیں ایسی کوئی مشابہت نظر آئے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہیے اور سرقہ جیسے الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر بات سے بات بڑھی تو پھر خیالات کے سرقہ تک جا پہنچے گی اور یوں متعدد علمی و ادبی شہہ پارے محض ایک اچھے "ادبی سرقہ” بن کر رہ جائیں گے۔

    آج ہم جس نفسا نفسی اور مادہ پرستی کے عہد میں جی رہے ہیں اس میں روایتی محبت اور دوستی بھی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا عصری ادب بھی اس صورتحال کی خوبصورتی سے عکاسی میں مصروف ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی کا انشائیہ "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ” ہے

    وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ” کیونکہ اس عہد کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو بھی ان چاہتوں کا شکار ہوتا، چیخ اٹھتا کہ ع اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے۔ آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے، تو دوست کا مارا دوستوں سے سہم سہم کر ملتا ہے۔زیر لب یہ کہتے ہوئے کہ ع دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔

    اسی طرح آج کل ہر فرد ہر بات میں اپنا ہی مفاد دیکھنے کا عادی سا ہو گیا ہے۔ یہ فقرہ تو آج کل زبان زد خاص و عام ہے کہ تم ہمارے گھر آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم تمہارے ہاں آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔ کچھ اسی قسم کے رویہ کا اظہار ہمیں یوسف ثانی کے انشائیہ "پلیز اور سوری” میں نظر آتا ہے

    پلیز اور سوری ایک ایسی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن پر سوار ہو کر آپ ہر قسم کی گاڑیوں سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں بڑے کام کی چیزیں ہیں۔ ان کا اسٹاک ہر وقت اپنے پار رکھیں نہ جانے کس وقت ان کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔ اگر کسی کو زحمت دینے کا ارادہ ہو تو پلیز کا پیشگی استعمال سودمند رہتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ آپ کو پلیز کہنا یاد نہ رہا ہو تو فکر کی کوئی بات نہیں قبل اس کے کہ وہ جسے آپ زحمت ہی میں مبتلا کر چکے ہیں۔ آپ پر جوابی کاروائی کرنے کا سوچے۔ آپ فوراً ایک عدد "سوری” اس کے منہ پر دے ماریں۔

    ہم امید کرتے ہیں کہ یوسف ثانی آئندہ بھی اسی طرح کے خوبصورت انشائیے لکھتے رہیں گے تا کہ انشائیہ کی اس خوبصورت نثری صنف کو بے مقصدیت کی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے بچا کر اسے واپس تعمیری مقصدیت کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکے کہ ایسا ادب ہی معاشرے کی حقیقی ترقی میں معاونت کر سکتا ہے۔

٭٭٭

 

یوسف کا بکا جانا

غیب سے مضامین تو ہمارے خیال میں بھی آتے رہتے ہیں جسے ہم قرطاس پر منتقل کر کے قارئین کے استفادہ کے لئے رسائل و جرائد میں بھیج دیا کرتے ہیں اور پھر سے خالی الذہن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ مضامین کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ اسی خاطر ہم نے اپنے خیال میں خیال یار کو بھی کم کم ہی جگہ دی ہے چنانچہ ہمارا ذہن اکثر خالی خالی سا ہی رہتا ہے اور یار لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم کسی کے خیال میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے۔

لیکن جب کبھی ہم نے نالے کو پابند نے کرنے کی کوشش کی تو ذہن و قلم دونوں نے ایک ساتھ، ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ امتحانی سوالات کے لگے بندھے اور خطوط کے رسمی جوابات دینا، نالے کو پابند نے کرنے کے مترادف ہی تو ہے۔ جی ہاں! کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمیں اس وقت بھی درپیش ہے کہ خواتین میں مقبول، ماہنامہ "قبول” کی مدیرہ مسئول "مادام سین” کا خط ہمارے سامنے پڑا ہے اور ہمارے ذہن و قلم کا یہ حال ہے کہ ؂

گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل

    یادش بخیر! کبھی ہم نے "ان” سے متاثر ہو کر انہی کی فرمائش پر ان کے "شکوہ” کو (اپنے جواب شکوہ کی نتھی کے ساتھ) "مجازی خدا” کے عنوان سے ایک نظم کا لبادہ پہنایا تھا۔ اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو تھوڑی دیر کے لئے ہمیں اقبال ثانی تصور کرتے ہوئے "شکوہ جواب شکوہ” کا نیا روپ ملاحظہ فرمائیے :

شکوہ

    خدا نے مجھ کو

    میں نے جگ کو

    پیدا کیا، سنوارا‘ سجایا!

    خدا کی خدائی میں

    میں حصہ دار تھی۔

    لیکن

    جسے میں نے پیدا کیا

    منے سے کڑیل جوان کیا

    مجھے صنف نازک قرار دے کر

    میرا مجازی خدا بن بیٹھا۔

جواب شکوہ

    خدا نے مجھ کو

    مجھ سے تجھ کو

    تجھ سے جگ کو

    پیدا کیا، سنوارا، سجایا۔

    خدا کی خدائی میں

    خدا کی بڑائی میں

    نہ تو حصہ دار تھی

    نہ میں حصہ دار تھا

    لیکن!

    جس نے مجھ کو

    مجھ سے تجھ کو

    تجھ سے جگ کو پیدا کیا

    اسی نے مجھ کو

    ہاں، تجھی پر مجھ کو

    نگراں بنایا” برتر بتایا

    میں کب خدا تھا

    میں کب خدا ہوں

    کہنے کو کہہ لو

    مجازاً خدا ہوں

    جب ہماری یہ نظم مادام "سین” کی نظروں سے گزری تو انہوں نے جھٹ اسے اپنے پرچے کی زینت (امان کے لاحقہ کے بغیر) بنا لیا۔ چنانچہ ہم نے خوش ہو کر از راہ سرپرستی انہیں اپنی گراں قدر تحریریں شائع کرنے کے جملہ حقوق سونپ ڈالے۔ اور یوں ہمارے تحریریں جو اکثر و بیشتر انشائیہ کا روپ (یا بہروپ) دھارے ہوتی ہیں ماہنامہ مذکورہ میں چھپنے لگیں۔ ابھی ہمارے چند مضامین ہی شائع ہوئے تھے کہ "قبول” کی فضول سی قاریاؤں نے مراسلات کے کالم "محشر خیال” میں ایک حشر برپا کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم اسی طرح لکھتے رہے تو یقیناً ایک نہ ایک دن ہمیں لکھنا آ ہی جائے گا۔ چنانچہ ہماری اس مقبولیت سے متاثر ہو کر فاضل مدیرہ نے ہمارے مضامین کی اشاعت میں وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور یوں ہمیں عملاً یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ؂

    وقفہ بہت ضروری ہے

 ماہناموں میں لکھنا اور پھر لکھ کر چھپنے کا انتظار عموماً انتظار یار سے بھی طویل ہو جاتا ہے۔ مثلاً بچوں کا ایک ماہنامہ "ہاتھی” ہے جسے ہم اپنے تئیں بڑی عمر کا بچہ تصور کرتے ہوئے بڑی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں مگر اللہ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اسے اپنی کوئی تحریر بغرض اشاعت ارسال نہیں کی کیونکہ مدیر محترم بار بار اپنے قارئین کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ تحریر ارسال کرنے کے بعد کم از کم نو ماہ ضرور انتظار کیا کریں۔ اگر آپ بھی اس رسالہ کے قاری ہیں تو یقیناً یہ ہدایت آپ کی نظروں سے بھی گزری ہو گی۔ اب آپ ہی انصاف کریں کہ محض ایک ادبی تخلیق کے منظر عام پر آنے کے لئے نو ماہ کا انتظار ہماری طرح کے کسی بھی سمجھدار فرد کے لئے کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں آدمی دو گواہوں کی موجودگی میں قبول ہے” کہہ کر اس عرصہ میں ۔۔۔

کچھ یہی حال محترمہ سین کا بھی ہے کہ آخر کو موصوفہ بھی ایک ماہنامہ کی مدیرہ ہیں۔ اپنے اس خط میں جو انہوں نے ہمیں لکھا ہے اور جس کا غیر رسمی ’جواب‘ ہم مضمون ہذا کی صورت میں دے رہے ہیں، آپ لکھتی ہیں

۔۔۔ بہت ممکن ہے آپ ناخوشی کے دور سے گزر رہے ہیں ورنہ ماہنامہ میں لکھنے کا سلسلہ بند نہ ہوتا۔ صاحب! آپ کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔

تو صاحبو! ہم انہیں کیسے بتلائیں کہ جو "سلسلہ” ہم نے شروع کیا تھا، ہم از خود اسے کیسے بند کر سکتے ہیں۔ آخری مرتبہ ہم نے اپنی دو تحریریں ساتھ ساتھ ارسال کی تھیں۔ پہلی تو خیر فوراً ہی شرمندہ اشاعت ہو گئی۔ مگر دوسری کو شرمندہ” ہونے میں کوئی سات ماہ لگے۔ ہو سکتا ہے صنف نازک ہونے کے ناطے مدیرہ محترمہ کو ایک تخلیق (مجازی ہی سہی) کے منظر عام پر آنے کے لئے یہ عرصہ "معمول” کے مطابق لگا ہو گا۔ مگر ہم جیسے صنف قوی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تو "معمول” کا عرصہ بھی غیر معمولی لگتا ہے۔ ہمارا بس چلے تو ہر قسم کی تخلیق۔۔۔ مگر ہمارا بس تو سڑکوں پر دوڑنے والی بس پر بھی نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ گھر ہو یا باہر ہم ہر جگہ بالعموم بے بس ہی رہتے ہیں۔ سو یہاں اس معاملہ میں بھی بے بس ہیں۔

 ادیب لوگ مزاج نازک رکھتے ہیں۔ ان کی تعریف نہ کی جائے ان سے لکھنے کی درخواست نہ کی جائے تو وہ ناخوش بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔ ان جملوں کو پڑھ کر پہلے تو ہم کچھ نہ سمجھے کہ روئے سخن کس طرف ہے۔ شاید متعدد شاہکار ناولوں کی مصنفہ بین السطور یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر لوگ ان کی تعریف کریں اور ان سے مزید لکھنے کی درخواست کریں تو وہ ایسے اور بھی بہت سے ناول لکھ سکتی ہیں۔ لیکن لفظ "ادیب” یعنی صیغہ تذکیر پر ہم چونکے کہ آخری اطلاع آنے تک تو موصوفہ کا تعلق صیغہ تانیث ہی سے تھا۔ ہو نہ ہو، روئے سخن ہماری طرف ہی ہے اور آگے کی عبارت پڑھ کر اس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہر خاص و عام کو بذریعہ ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ آج سے ہمارا شمار بھی ادیبوں میں ہو گیا ہے لہذا آئندہ ہمارا نام ادیب کے سابقہ کے ساتھ لکھا اور پکارا جائے۔ اور اگر حفظ ماتقدم کے طور پر ادیب سے پہلے معروف تھی لگایا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ ہاں اگر کسی اور کو اعتراض ہو تو اندرون نو (۹) ماہ بذریعہ ماہنامہ "قبول” ہمیں مطلع کرے اس کے بعد کوئی دعویٰ قابل قبول نہ ہو گا اور بعد از مدت ہمارے گھر کے نیم پلیٹ پر ہمارے نام کے ساتھ لفظ ادیب لکھا ہوا ملا کرے گا۔ محکمہ ڈاک سے وابستہ کوئی فرد اگر ہمارے یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو متعلقہ ڈاکیہ تک یہ اطلاع پہنچا کر انہی سے شکریہ وصول کر سکتے ہیں۔

اسی خط میں مادام سین مزید لکھتی ہیں : ۔۔۔ امید ہے آپ ہر طرح خیریت سے ہوں گے (خیریت سے تو بفضل تعالیٰ ہیں مگر ہر طرح کی گواہی نہیں دے سکتے) چاہیں تو اپنے بارے میں کچھ لکھیں (وہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے) کہ آپ کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ اور کیوں مشہور ہیں (اگر ہیں تو)”۔ یہ آخر میں اگر والا جملہ انہوں نے یونہی لکھ دیا ہے آپ اس سے گمراہ نہ ہوں تمام سوالات غالباً لازمی ہیں کہ چوائس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ گو کہ ہم اپنے بارے میں دیگر کالم نویسوں کی طرح جملہ معلومات اپنے متعدد کالموں میں پیش کر چکے ہیں (حوالے لیے دیکھو ہمارا کالم "من آنم کہ من دانم”) پھر بھی مکتوب الیہ اور دیگر قارئین کے استفادہ کے لئے اپنی تعریف قند مکرر کے طور پر پیش کیے دیتے ہیں۔

ہم کون ہیں؟ ہم آدمی ہیں اور کون ہیں۔ البتہ انسان ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ بقول شخصے اکثر آدمیوں کو انسان ہونا میسر نہیں۔ نام ظاہر ہے قلمی ہے اصلی نہیں۔ اگر (خدانخواستہ) حقیقتاً یوسف ثانی ہوتے تو آج کے شاعر کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی کہ

ہر ایک زلیخا ہے مگن دھیان میں اپنے

کیا ایک بھی یوسف نہیں کنعان میں اپنے

رہا یہ سوال کہ ہم کیا کرتے ہیں تو ہمارے خیال میں پوچھنا یہ چاہیے تھا کہ ہم کیا نہیں کرتے۔ مختصراً عرض کئے دیتے ہیں ہماری ادبی حیثیت تو آپ پر آشکار ہو چکی ہے چنانچہ یہ تو طے ہے کہ ہم ادیب (بھی) ہیں چونکہ اخبارات و رسائل میں (بھی ) لکھتے ہیں اس لئے "سکہ رائج الوقت” کے مطابق صحافی بھی ہیں۔ کوچہ ادب و صحافت کی آوارہ گردی کی وجہ سے اگر آپ ہمیں بالکل ہی "آوارہ” سمجھنے لگے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے کہ مابدولت معروف (معنوں میں نہ سہی) سائنس دان بھی ہیں۔ بھئی آخر کو سائنس میں بیچلر کی ڈگری جو رکھتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم "بیچلر” (معنی کے لئے دیکھئے لغت) کی جھوٹی "سند” نہیں رکھتے۔ کم از کم تا دم تحریر (تا دم اشاعت کی ضمانت نہیں) ان سب باتوں کے علاوہ ایک "مقامی افسر” بھی ہیں حالانکہ ع

کچھ افسری ذریعہ عزت نہیں مجھے

کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دوسرا فرد یا تو شاعر ہے یا شاعر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ آپ کو شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں ہے لہذا دوسرا ہونے کے ناطے کبھی کبھی ہمیں یہ رسم نبھانی پڑتی ہے۔ شاعری کیا کرتے ہیں۔ بس بقول میر "درد و غم” جمع کرتے ہیں۔ ویسے بھی ہم اور میر دونوں "چاہ” کے مارے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں میر کا شکوہ تو آپ بارہا پڑھ چکے ہوں گے، ذرا ہمیں بھی سنتے جائیے ع

چاہ” کا مارا یوسف اپنا، "چاہ زخنداں” سے بھی ڈرے ہے

رہتے کہاں ہیں؟ کا کیا جواب دیں کہ۔ ؂

اپنا کیا کنعان میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

تاہم تا دم تحریر اپنے گھر بلکہ مکان میں رہتے ہیں دعا کریں (ہو سکے تو "دوا” بھی) کہ جس مکان میں ہم رہتے ہیں خدا اسے گھر کر دے یا جس "گھر” میں ہم اب تک نہیں رہ سکے خدا اسے ہمارا کر دے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا یہ شاہکار خط نما انشائیہ (یا انشائیہ نما خط) محض مدیرہ مسئول کے استفادہ کی خاطر آفس فائل میں جگہ پاتا ہے یا استفادہ عام کے لئے ماہنامہ کے صفحات پر۔ خیر یہ تو ان کی مرضی پر منحصر ہے جن کے نام یہ خط ہے۔ تاہم اگر یہ خط ابھی نہ بھی چھپے تو طالبان ادب مایوس نہ ہوں۔ ان شاء اللہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے خطوط پر کام کرنے والا کوئی نہ کوئی محقق اسے ضرور برآمد کر لے گا۔ ہم اس محقق کو پیشگی مبارکباد دیتے ہیں اور اس سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں یہ ضرور لکھے کہ ہمارے زندگی میں ہمارے "ادبی حیثیت” سے ناواقف ایک مدیرہ (انجانے میں ہی سہی) ہماری کس قدر بے قدری کی مرتکب (بمطابق ذیل) ہوئی تھیں۔

اسی خط کے آخر میں مادام سین لکھتی ہیں! "صاحب کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔ (کیونکہ) مجھے خود بھی آپ کی تحریریں (بے حد) پسند ہیں۔” اسی کے ساتھ ہمارے تحریر کی (قدر و) قیمت بھی لگا دی کہ : "پرچہ آپ کے نام اعزازی جاری کیا جا رہا ہے۔ جب تک آپ کا ماہنامہ کے ساتھ تعلق رہے گا (یعنی مضمون ملتا رہے گا) ماہنامہ بھی یہ تعلق نبھائے گا” – مطلب صاف ظاہر ہے کہ بصورت دیگر پرچہ ملنا بند ہو جائے گا۔ صاحبو! دیکھا آپ نے برسوں قبل میر نے ہمارے بارے میں غلط تھوڑا ہی کہا کہ

            کیا پانی کے مول آ کر، مالک نے گہر بیچا

            ہے سخت گراں، سستا یوسف کا بکا جانا

٭٭٭

 

ذکر اُس پری وش کا

اللہ کی ایک مشہور اور اشرف مخلوق کی دو اقسام ہیں۔ ایک کو انسان کہتے ہیں اور دوسری کو عورت۔ عورتیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن پر شاعر حضرات غزل کہتے ہیں اور جن کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ بھرا جاتا ہے۔ دوسری قسم بیوی کہلاتی ہے۔ جس طرح کسی بچے کی معصومیت اُس وقت ختم ہو جاتی ہے جب وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی ساری خوبیاں اُس وقت ہوا ہو جاتی ہیں جب وہ زَن سے رَن، میرا مطلب ہے بیوی بن جاتی ہے۔ بیوی کو بیگم بھی کہتے ہیں۔ شنید ہے کہ سنہرے دور میں یہ بے غم کہلاتی تھی کیونکہ ان کا کام شوہروں کو ہر غم سے بے غم کرنا ہوتا تھا۔ دور اور کام تبدیل ہوتے ہی نام بھی تبدیل ہو کر بیگم رہ گیا۔

 اعلیٰ ثانوی جماعت کے ایک استاد نے طلباء سے پوچھا کہ بیویاں زیادہ تر کس کے کام آتی ہیں؟ ایک شریر طالبعلم نے فوراً جواب دیا "سر لطیفوں کے۔” جی ہاں بیویاں زیادہ تر لطیفوں ہی کے کام آتی ہیں۔ دُنیا میں اب تک جتنے بھی لطیفے تخلیق کئے گئے ہیں، اُن میں سے بھاری اکثریت کا تعلق بیویوں ہی سے ہے۔ بیوی کو ہندی زبان میں استری بھی کہتے ہیں۔ ایک صاحب کی کپڑے پریس کرنے والی استری خراب ہو گئی تو وہ اپنے پڑوسی سکھ سے استری ادھار مانگنے پہنچ گیا جو مزاج کے ذرا تیز تھے۔ سردار جی جب دروازے پر آئے تو وہ ہچکچاتے ہوئے بولے، "سردار جی وُہ ذرا آپ کی استری ۔۔۔ ۔ سردار جی نے اُسے گھورتے ہوئے ذرا با آواز بلند کہا، "کیا ہوا میری استری کو؟” سردار جی کی بلند آواز سُن کر اُن کی دھرم پتنی بھی دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ سردار جی غصے سے اپنی بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے، یہ رہی میری استری۔۔۔ پڑوسی نے جلدی سے کہا نہیں سردار جی وُہ کپڑوں والی استری۔۔۔ سردار جی چلائے "تو کیا تمہیں اس کے کپڑے نظر نہیں آ رہے؟” پڑوسی مزید گھبراہٹ میں بولا، سردار جی۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ وہ وہ والی استری جو کرنٹ مارتی ہے۔ سردار جی ایک زور دار قہقہہ بلند کیا اور بولے، پُتر ذرا ہتھ لا کے تے ویکھ۔

    تعلیم بالغاں کی ایک کلاس میں ایک استاد نے ایک شادی شدہ شاگرد سے پوچھا، بیوی اور ٹی وی کیا فرق ہے؟

    شاگرد نے جواب دیا، "ہیں تو یہ دونوں بڑے مزے کی چیز لیکن ٹی وی میں ایک اضافی خوبی بھی ہے اور وہ یہ کہ آپ جب چاہیں، اُس کی بولتی (ہوئی آواز) بند بھی کر سکتے ہیں۔”

    دُنیا بھر کے مَردوں (مُردوں نہیں) کی معلومات بیویوں کے بارے میں کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بیوی کے بارے میں کم سے کم اور دوسروں کی بیویوں کے بارے میں بیش یعنی زیادہ سے زیادہ جانتے ہیں۔ بیویاں غیر شوہروں کو مرغوب اور شوہروں کو غیر مرغوب ہوتی ہیں۔ بیویوں کے بارے میں ایک محقق نے اپنی تحقیق کو شائع کرنے سے انکار کر دیا، وجہ پوچھی تو کہنے لگا، میں اپنی تحقیق اُس وقت شائع کرواؤں گا جب میرا ایک پاؤں قبر میں ہو گا اور کتاب شائع ہوتے ہی میں اپنا دوسرا پاؤں بھی قبر میں ڈال لوں گا۔ بیویوں کے بارے میں زیادہ تر تفصیلات کنواروں نے لکھی ہیں۔ کیونکہ شادی کے بعد وہ بیوی کو پیارے ہو چُکے ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں منہ کھولنے کے قابل نہیں رہتے۔ معروف مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے بیویوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا ہے (اور اس کے علاوہ انھوں نے لکھا ہی کیا ہے) وہ سب کے سب ان کے کنوار پنے (گنوار پنے نہیں) کی تحریریں ہیں۔

بیوی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل اور بیوی کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل تر ہے۔ بیویاں غریبوں کے لئے باعثِ رحمت اور خوشحال لوگوں کے لئے باعثِ زحمت ہوتی ہیں۔ جب ایک غریب جوان باورچی، دھوبی، چوکیدار، ملازم وغیرہ کی تنخواہوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تو شادی کر کے ان سب کی جگہ چند ہزار روپے تا حیات تنخواہ پر ایک بیوی کو گھر میں لے آتا ہے۔ اگر کسی شوہر یا بیوی کے جذبات تا حیات تنخواہ کی اصطلاح سے مجروح  ہوتے ہیں تو وہ اس کی جگہ حق مہر پڑھ لے۔

اُردو کا ایک محاورہ ہے اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ گمان غالب ہے کہ اس محاورے کا موجد کنوارہ ہی مرا ہو گا۔ اگر وہ شوہر بن چُکا ہوتا تو وہ اس محاورے کا اَپ ڈیٹ کئے بغیر نہیں مرتا۔ ایسا ہی انگریزی کا ایک مقولہ ہے

No Life Without Wife

یہاں

Without

سے پہلے

With Or

بھی ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ بچے ہمیشہ اپنے اور بیوی دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ جس نگاہ کو کوئی عورت اچھی لگ رہی ہوتی ہے، بدقسمتی یا خوش قسمتی سے وہ اُس کی بیوی نہیں ہوتی۔ جبکہ اُسی محفل میں وہ عورت اپنے شوہر کو ذرا بھی اچھی نہیں لگ رہی ہوتی کیونکہ اُس کے شوہر کو دیگر خواتین اچھی لگ رہی ہوتی ہیں۔ بیک وقت اچھی لگنے اور اچھی نہ لگنے کا اعجاز صرف ایک بیوی ہی کو حاصل ہے۔ دُنیا کی کوئی اور ہستی یا تو اچھی ہوتی ہے یا بُری (دونوں ہر گز نہیں) جیسے دُنیا کی سب سے اچھی ہستی ماں ہوتی ہے (بشرطیکہ وہ آپ کی ہو، آپ کے بچوں کی نہیں)۔ آپ کی ماں اگرچہ آپ کے باپ کی بیوی ہی ہوتی ہے لیکن جب تک آپ اپنی ماں کی عظمت کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں وہ بیچاری اُس وقت تک صرف اور صرف ماں بن چُکی ہوتی ہے۔ پھر ماں کی عظمت کی ایک وجہ اُس کی لازوال مامتا بھی ہے۔ بیوی کے پاس لازوال مامتا نہیں ہوتی اور جو کُچھ ہوتا ہے، وہ سب زوال پذیر ہوتا ہے۔

میرا ایک دوست "ج” اپنی اہلیہ کو نا اہلیہ کہہ کر پکارتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اہلیہ تو تُم اُس وقت کہلاتیں جب میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا۔ اور اگر میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا تو کم از کم تُم میری اہلیہ نہ ہوتیں۔ ایک دانشور کہتا ہے کہ اگر آپ کے فادر غریب ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، یہ سراسر آپ کی قسمت کا قصور ہے لیکن اگر آپ کے فادر ان لا بھی غریب ہیں تو یہ سراسر آپ کا قصور ہے۔ جس کی سزا آپ کی اہلیہ، میرا مطلب ہے کہ نا اہلیہ کو ضرور ملنی چاہیے۔ اگرچہ اُسے ایک سزا پہلے ہی ملی ہوئی ہے لیکن کم از کم آپ اُس سزا کا تصور نہیں کر سکتے۔ بھلا کوئی اپنا تصور خود کیسے کر سکتا ہے؟

دُنیا کا بیشتر مزاحیہ ادب بیوی کے گرد، اور رومانوی ادب غیر بیوی کے گرد گھومتا ہے۔ حتیٰ کہ مزاحیہ شاعری بھی بیوی ہی پر کہی جاتی ہے۔ جبکہ غیر بیوی پر شاعر جو کچھ کہتا ہے، اُسے غزل کہتے ہیں۔

    میری بیوی قبر میں لیتی ہے کس ہنگام سے

    میں بھی ہوں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے

    اپنی زندہ بیوی پر یہ شعر سید ضمیر جعفری مرحوم نے کہا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک فوجی میجر بھی تھے۔ میں بھی بیویات پر یہ تحریر اُس وقت لکھ رہا ہوں جبکہ میں اپنی ذاتی بیوی سے سینکڑوں میل دُور ہوں۔ اوور دُور دُور تک اُس کے قریب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ شاید یہ اُس سے دُوری کا فیض ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔ مردم شناس تو سارے ہی ہوتے ہیں، لیکن خانم شناس صرف اور صرف ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور شعر ۔۔۔ ۔

    ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے

    ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

    کی مندرجہ ذیل پیروڈی جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے، میں نے اُس وقت کی تھی جب میں اپنی بیوی سے ہی نہیں بلکہ اپنے مُلک سے بھی دور تھا۔ اور اس وقت تک نیک بخت کا پاسپورٹ بھی نہیں بنا تھا۔

    ایک شوہر جسے تُو گراں سمجھتی ہے

    ہزار شوہروں سے دیتا ہے عورت کو نجات

٭٭٭

 

ٹک روتے روتے

شہنائیوں کی گونج میں دلہن رخصت ہو رہی تھی۔ حسب روایت دلہن سمیت سب ہی کی آنکھیں اشکبار تھیں مگر دلہن کی چھوٹی مگر سیانی بہن نے تو رو رو کر گویا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ سب ہی اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک خاتون انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں بھئی اب اتنا بھی کیا رونا۔ کوئی تمہاری تو رخصتی نہیں ہو رہی۔ محفل میں سے آواز آئی : اسی لئے تو رو رہی ہیں۔

صاحبو! ہمیں موصوفہ کے رونے کا سبب تو نہیں معلوم۔ مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ فی زمانہ رونا سب سے آسان کام ہے۔ جبھی تو کہتے ہیں رونا اور گانا کسے نہیں آتا۔مگر یہ اس زمانے کی بات ہے جب مرد گایا اور عورتیں رویا کرتی تھی۔ تاریخ اس بات پہ خاموش ہے کہ پھر بچے کیا کرتے تھے؟ ویسے ہم آج تک یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہے کہ مردوں کے گانے پر عورتیں رویا کرتی تھیں یا عورتوں کے رونے کی آواز محلہ والوں سے چھپانے کے لئے مرد گانے لگتے تھے۔ خیر وجہ کچھ بھی ہو اب اس کی توجیہہ کی قطعاً ضرورت نہیں رہی، کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ مرد و زن کے مساوات کا دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین و حضرات نے اپنے بیشتر "فرائض‘ ایک دوسرے سے بدل لئے ہیں اور "بقیہ فرائض” بدلنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج کل خواتین نے گانے اور مرد حضرات نے رونے کا فریضہ سنبھال لیا ہے۔

رونے کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً بچوں کا رونا، عورتوں کا رونا اور مردوں کا (عورتوں کی طرح) رونا وغیرہ وغیرہ۔ بچے عموماً آواز سے اور بلا آنسو روتے ہیں۔ بچوں کو اس طریقہ سے رونے میں اسی طرح ملکہ حاصل ہے جس طرح ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کو۔ (رونے میں نہیں بلکہ گانے میں)۔ صفر سے سو سال تک "بچے” جب کسی کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس ہمدردی کی آڑ میں انہیں دامے در قدمے یا سخنے کچھ مطلوب ہو تو وہ مختلف آوازوں کے ساتھ (بلا آنسو) رونا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی حالات کا رونا روتے ہیں تو کبھی اپنی بے چسی کا۔ کبھی دوسروں کی زیادتی کا رونا روتے ہیں تو کبھی تقدیر کی ستم ظریفی کا۔ غرض کہ کسی نہ کسی سبب سے رو کر اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔

رونے کی دوسری قسم عورتوں کا رونا ہے۔ یہ ایک معروف قسم ہے۔ اس قسم کا رونا بچوں کے رونے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح کے رونے میں آنسوؤں کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ اگر دنیا بھر کی عورتیں رونا دھونا بند کر دیں تو دنیا میں سیلاب کبھی نہ آئے۔ مگر ہم اسی تجویز کے حق میں ہرگز نہیں ہیں۔ کیونکہ اس طرح ہم جہا ں سیلاب بلا کی آفات سے محفوظ ہو جائیں گے وہیں "چشم زن” کے متعدد فیوض سے بھی تو محروم ہو جائیں گے کیونکہ اس بات پر تو تمام طبی ماہرین متفق ہیں کہ خواتین کی آنکھوں کی خوبصورتی میں سامان آرائش چشم سے زیادہ ان کے آنسوؤں کا دخل ہے۔ پھر بن موسم کے برسات کا مزہ بھی تو انہی آنکھوں میں ہے کہ

مزے برسات کے چاہو، تو آ بیٹھو ان آنکھوں میں

سیاہی ہے، سفیدی ہے، شفق ہے، ابر باراں ہے

رونے کی اس قسم کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ اسے جہاں "دکھ” میں استعمال کیا جا سکتا ہے وہیں اس کا استعمال "سکھ” کے موقع پر بھی بلا تکلف و بے دریغ جائز ہے۔ بلکہ بیشتر خواتین تو رونے کے لئے دکھ سکھ کا بھی انتظار نہیں کرتیں اور اکثر اوقات بات بے بات بھی رونے لگ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی خاتون کو روتا دیکھ کر عقلمند سے عقلمند شخص بھی ان کے رونے کی وجہ نہیں بتلا سکتا۔ تاہم "متعلقہ فرد” کو عموماً یہ پیشگی علم ہوتا ہے۔کہ خاتون خانہ (یا غیر خاتون خانہ۔۔۔ جو بھی صورت ہو) کے آئندہ رونے کا سبب کیا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہماری پولیس کے متعلقہ افراد کو یہ پیشگی علم ہوتا ہے کہ شہر میں ہونے والا اگلا جرم کب اور کہاں وقوع پذیر ہو گا۔

رونے کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو سکہ رائج الوقت کی طرح آجکل مقبول عام ہے۔ جی ہاں! یہ رونا مردوں کا رونا ہے۔ گو رونے کی ابتدا بچوں نے کی ہے۔ مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے بخشا جبکہ اس کی موجودہ "پروفیشنل” حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پروفیشنلزم کے اس جدید دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش” کروانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔ آپ خود دیکھتے رہتے ہیں کہ اگر کسی حکومت کو رونے دھونے پر ملکہ حاصل ہوتا ہے تو وہ "بین الاقوامی خطرات” کا رونا رو کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیتی ہے اور اپنے اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر حزب اختلاف رونے دھونے میں حزب اقتدار سے بازی لے جائے تو وہ عوام کو حزب اقتدار کی غلامی سے آزاد کرا کر اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ اگر آجر رونے میں کمال حاصل کر لے تو اپنے ملازمین کے سامنے اپنے "بُرے حالات” اور دوسروں کی "زیادتی” کا رونا رو کر اسے کم سے کم تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی ملازم اپنے خود ساختہ مصائب کا رونا رو کر آجر کی ہمدردیاں حاصل کر لے تو تنخواہ کے علاوہ بونس بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تاجر رونے کے فن میں ماہر ہو جائے تو وہ اپنے مال کی قیمتوں میں اضافہ کروانے اور اپنے اوپر عائد ٹیکسوں کو کم کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا فن ہے کہ جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا، وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اور (نام نہاد) عزت (جائز و ناجائز) دولت اور (اچھی بری) شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے "پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ” ہے۔ ایک ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے آگے جھکنا نہیں پڑتا۔ صرف ہر ایک کے آگے رونا پڑتا ہے۔

قارئین کرام! ہم نے بھی اس فن میں مہارت حاصل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ابتدائی مشق کے طور پر ہم یہ انشائیہ تحریر کر رہے ہیں بعد ازاں "ریاض” کا باقاعدہ آغاز ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوران ریاض ہم روتے روتے (تھک ہار کر) سو جائیں ایسے میں اگر متذکرہ بالا عزت دولت شہرت یعنی "عین دال شین سسٹرز” ہمارے گھر پر دستک دینے لگیں تو بلا تکلف ہمیں اٹھا دیجئے گا۔ اور ہماری امی جان کی اس ممانعت پر ہرگز کان نہ دھریئے گا کہ

    سرہانے "میر” کے آہستہ بولو

    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    واضح رہے کہ "میر” ہمارے اصلی نام کا مخفف ہے اور ہماری امی جان پیار سے ہمیں اسی نام سے پکارتی ہیں۔ دیکھئے! ہمیں جگا ضرور دیجئے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں سوتا پا کر "عین دال شین سسٹرز” ہمارے پڑوسی کے گھر پہنچ جائیں۔ اور رونے میں مہارت حاصل کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا پڑے کہ ؂  منزل انہیں ملی جو (رونے دھونے میں) شریک سفر نہ تھے۔

٭٭٭

 

گُربہ کشتن روز اول

گربہ کشتن روز اول والی مثل تو تم لوگوں نے سنی ہی ہو گی؟

"سر سنی تو ہے مگر۔۔۔”

"ارے بھئی کمال ہے کالج میں پہنچ گئے اور۔۔۔ خیر اس میں تم لوگوں کا اتنا زیادہ قصور بھی نہیں۔ عربی فارسی تو تم لوگوں کو کبھی پڑھائی ہی نہیں گئی”۔

"سر اب عربی فارسی والا زمانہ کہا؟”

ارے نادانو! اب تم لوگوں کو فارسی عربی کی اہمیت بھی بتانی پڑے گی۔ دیکھو جب تک عربی فارسی تھوڑی بہت نہ آتی ہو تو صحیح طور سے اردو بھی نہیں آسکتی۔ کیا سمجھے؟

"مگر سر! وہ گربہ کشتن والی بات۔۔۔”

"ہاں! وہ گربہ کشتن روز اول کا مطلب ہے پہلے ہی روز گربہ یعنی بلی کو مارنا۔”

"بلی کو مارنا؟”

"بھئی یہ ایک روایتی کہانی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب کی شادی ہونے والی تھی۔ ان کے کسی دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ پہلی ہی شب جب تمہاری ملاقات اپنی زوجہ سے ہو تو اس پر اپنی بہادری و شجاعت کا رعب ضرور ڈالنا تاکہ ساری عمر اس پر تمہارا رعب قائم رہے۔”

"یعنی کہ سر! فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن پر عمل پیرا ہو۔ مگر سر! اس میں بلی کہاں ہے؟”

"بلی کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب اس سیدھے سادھے شخص نے پوچھا کہ میں اپنی زوجہ پر رعب ڈالوں تو آخر کیسے؟ اس پر اس کے دوست نے بتا کہ کمرے میں پہلے سے ایک بلی چھوڑ دینا اور جب تم کمرے میں داخل ہو گی تو لا محالہ بلی کی میاؤں میاؤں کی آواز تمہیں سنائی دے گی۔ بس تم غصہ سے بلی کی طرف جھپٹنا اور تلوار سے اس کی گردن اڑا دینا۔ یہ دیکھتے ہی تمہاری زوجہ سہم جائے گی اور ساری عمر تمہارے سامنے سر نہ اٹھا سکے گی۔”

"سر پھر کیا ہوا تھا؟”

"ہونا کیا تھا! جب سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی یعنی جب کہیں فرسٹ امپریشن ہی شجاعت و بہادری کا دینا مقصود ہو تو ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ گربہ کشتن روز اول۔”

"سر بلی مار کر؟”

"ارے نہیں بھئی! ضروری نہیں کہ بلی مار کر ہی یہ امپریشن قائم کیا جائے۔ اس کے طریقے وقت زمانہ اور موقع کی مناسبت سے بدلتے رہتے ہیں۔ تاہم اس قسم کے موقع پر فارسی میں۔ بلکہ اب تو اردو میں بھی یہی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ "گربہ کشتن روز اول۔”

"شاباش! مگر دیکھو تم میں سے جو کوئی بھی اس پر عمل پیرا ہونا چاہے، وہ اپنی ذمہ داری پر ایسا کرے۔”

"وہ کیوں سر!”

"وہ اس لیے کہ برعکس نتائج برآمد ہونے کی صورت میں ذمہ داری ہم پر عائد نہ ہو۔”

 (مشترکہ قہقہہ)

***

"کیوں بھئی حامد! تم میری بارات میں آ رہے ہو نا؟”

"یار دیکھو کوشش تو میں ضرور کروں گا لیکن اگر۔۔۔”

"کوشش؟ نہیں بھی میں نہیں جانتا۔ تمہیں ہر حال میں آنا ہے۔ ورنہ؟”

"ورنہ یہ شادی نہیں ہو سکتی؟”

"خیر اب ایسی خوش فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسی بات ہے تو تم بے شک مت آنا۔ تمہاری شرکت کے بغیر بھی مابدولت کی شادی ہو سکتی ہے۔ سمجھے؟”

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ تم تو سچ مچ ہی ناراض ہو گئے۔ میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔ تمہاری شادی ہو اور میں نہ آؤں۔۔۔؟”

"یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ ہے نا؟”

"ہاں! ہاں! ہاں بالکل۔ آخر ہم نے بھی تو شادی کرنی ہے۔”

"تو تم شادی کب کر رہے ہو؟”

"بس ذرا تمہاری شادی کے بوجھ سے فارغ ہو لیں۔ پھر اپنے بارے میں بھی سوچیں گے؟”

"بس۔۔۔ بس۔ اب زیادہ بڑی اماں قسم کی چیز بننے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی بات گول کرنے کی ضرورت ہے۔ تم بارات والے دن صبح سویرے میرے گھر آ جانا۔”

"تاکہ رات ہوتے ہی تم مجھے اپنے گھر سے نکال سکو۔”

"کیا مطلب؟”

"بھئی دیکھو نا۔ تم کس چاؤ سے مجھے صبح سویرے اپنے گھر بلا رہے ہو۔ برات میں اپنے ساتھ لے جا رہے ہو۔ لیکن جب تم اپنی دلہن لے کر رات گئے گھر پہنچو گے تو ہم سے فوراً گھر سے نکل جانے کا کہو گے تاکہ ۔۔۔”

"حامد کے بچے!”

"ارے بھئی آہستہ بولو۔ ابھی تو حامد میاں کی شادی بھی نہیں ہوئی۔ اگر حامد میاں کی ہونے والی زوجہ نے سن لیا تو۔ حامد میاں کی شامت ہی آ جائے گی۔ اچھا خیر بارات والی صبح ملاقات ہو گی لیکن بارات والی رات وہ سبق مت بھول جانا۔”

"کونسا سبق؟”

"بھئی وہی جو سر نے بتلایا تھا۔ یعنی گربہ کشتن روز اول”

"مگر وہ گربہ کہاں سے آئے گی؟”

"بھئی ایک "گربہ مسکین” تو کمرے میں ہو گی ہی۔۔۔ اسی سے کام چلا لینا۔”

"حامد کے بچے۔۔۔ میں کہتا ہوں۔۔۔ باز آ جاؤ۔۔۔ ورنہ۔۔۔”

"اوکے۔۔۔ بائی ۔۔۔ بائی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔”

"خدا حافظ۔”

***

"آداب عرض ہے۔”

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

"میں نے کہا حضور سلام عرض ہے۔”

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

"اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔ اگر سلام قبول نہیں تو ہم جاتے ہیں۔”

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ آپ۔۔۔؟”

"بھئی آپ کچھ بولی ہی نہیں تو ہم سمجھے۔۔۔؟”

"آپ کیا سمجھے۔۔۔”

"بھئی ہم سمجھے ، شاید آپ ناراض ہوں۔ یا شاید آپ گونگی ہوں۔”

"ہم نہ تو ناراض ہیں اور۔ اب تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ نہ ہی گونگی ہیں۔”

"واللہ کیا بات ہے آپ کے بولنے کی۔ آپ تو خوب بولتی ہیں۔”

"ویسے ایک بات پوچھوں۔”

"کون سی بات؟”

"آپ ناراض تو نہیں ہوں گی؟”

"بھئی پہلے پتہ تو چلے کہ آپ نے کون سی بات پوچھنی ہے؟ ناراض ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔”

"دراصل میں میں ایک کہاوت کی بابت جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ تم نے وہ مثل سنی ہے "گربہ کشتن روز اول”۔

"دیکھیں۔۔۔ دیکھیں۔ میں ایک بات صاف صاف کہے دیتی ہوں۔ آئندہ آپ میرے سامنے عربی وربی کا رعب مت جھاڑیئے گا۔”

"لیکن بیگم! یہ تو فارسی کی کہاوت ہے۔۔۔”

"عربی ہو یا فارسی! کان کھول کر سن لیجئے۔ آئندہ آپ مجھ سے سیدھی سادی زبان میں بات چیت کریں گے اور مجھے کم علمی کا طعنہ نہیں دیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں آپ جتنی پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن۔۔۔ سب کچھ سمجھتی ہوں۔ ہاں! "

"اوہو! تو اس میں لڑنے والی کون سی بات ہے۔ اگر تمہیں نہیں معلوم تو دفع کرو۔”

"بس بس! مجھے تو جیسے کچھ معلوم ہی نہیں اور آئندہ مجھے یہ طعنہ بھی مت دینا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہاں نہیں تو۔”

"بیگم! میں طعنہ تو نہیں دے رہا تھا۔ خیر چھوڑو اس کم بخت کو۔۔۔”

"کم بخت کس کو کہا؟”

"بھئی میں تو اس کہاوت کو کہہ رہا تھا جس نے تمہارا موڈ بگاڑ دیا۔ تمہیں نہیں کہہ رہا تھا۔۔۔ تمہیں تو وہی کچھ کہوں گا جو تم کہو گی۔۔۔ جو تم چاہو گی۔”

"یہ ہوئی نا بات! اگر میری مرضی کے خلاف اس گھر میں آپ نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔”

"بیگم! اب میں اتنا بے وقوف بھی نہیں کہ آئندہ ایسی کوئی کوشش بھی کروں۔”

"بس اسے باندھ لینا اپنی گرہ میں۔”

"ہاں اب تو یہی کرنا پڑے گا۔ کہ پچھلی گرہ کو کھول کر اس میں یہ نئی بات باندھ لوں۔۔۔ اچھا آؤ اب۔۔۔ کچھ "دوسری” باتیں۔۔۔ ہو جائیں۔۔۔ ہو جائیں؟”

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

***

"بیگم! پھر تم نے بیٹے کے بار ے میں کیا سوچا ہے؟”

"سوچنا کیا ہے؟ میں نے تو شروع ہی سے اپنی بہن کی لڑکی کو اپنے بیٹے کے لیے پسند کر چکی ہوں۔”

"کون؟۔۔۔ وہ صائمہ مگر وہ تو۔۔۔؟”

"دیکھو تم میری صائمہ کو کچھ نہ کہنا۔۔۔ ورنہ؟”

"میں اسے کچھ نہیں کہتا۔ لیکن یہ تو سوچو کہ میرا دوست حامد کیا سوچے گا۔ میں نے اس کے بیٹے کو اپنا داماد بنانے کا خیال ظاہر کیا تو وہ راضی ہو گیا مگر تم نے ایک نہ چلنے دی اور اپنے بھائی کے بیٹے کو داماد بنا لیا۔ اب میں نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اس کی اعلیٰ ظرفی دیکھو کہ ۔۔۔”

"میں نہیں جانتی کسی کی اعلیٰ ظرفی؟”

"مگر پہلے تو تم راضی تھیں بلکہ تم ہی نے تو مجھے حامد سے بات کرنے پر مجبور کیا تھا میں۔۔۔”

"اس وقت کی بات اور تھی۔۔۔ جب آپا کے میاں نہیں مان رہے تھے۔ اب تو وہ بھی مان گئے ہیں۔ اب اس گھر میں صرف میری بہن کی بیٹی بہو بن کر آئے گی سمجھے؟”

"سمجھ گیا۔ تم نے کب میری بات مانی ہے جو آج مان جاؤ گی۔ جو تمہاری مرضی۔”

"بس اگلے جمعہ کو آپ کے گھر چلنا ہے۔ انہوں نے پیغام بھجوایا تھا۔”

"ٹھیک ہے تو چلی جانا۔”

"آپ نہیں چلیں گے؟”

"میرے جانے کا کوئی مصرف تو نہیں۔ لیکن جب تم کہہ رہی ہو تو جانا ہی پڑے گا۔”

***

    "اچھا بیٹا! آج ہم نے تمہارا فرض بھی پورا کر دیا۔ تم خوش، تمہاری ماں خوش۔ ظاہر ہے اس سے بڑی اور کیا خوشی ہو گی میرے لئے۔۔۔ اب جاؤ تم اپنے کمرے میں دلہن تمہارا انتظار کر رہی ہو گی۔۔۔ لیکن دیکھو وہ تمہاری ماں آ رہی ہے۔ پہلے اس سے مل لو ورنہ ۔۔۔ "

    "جی اچھا! ابا جان۔”

    "جی امی جان! آپ کچھ کہہ رہی تھیں کیا؟”

”    ہاں وہ آخری بات تو کرنا بھول ہی گئی۔۔۔ دلہن کے پاس جا رہے ہو تو۔ گربہ کشتن روز اول والی مت بھولنا۔ اگر تم نے پہلی ملاقات میں اپنی بیوی کو رعب میں نہیں لیا تو یاد رکھنا بیٹا! ساری عمر بیوی کے رعب میں گزارنی پڑے گی۔ سمجھے کہ نہیں۔”

    "جج۔۔۔ جی سمجھ گیا۔۔۔ اب میں سب کچھ سمجھ گیا۔۔۔ امی جان!”

    "کیا سمجھ گئے؟”

    "یہی کہ گربہ کشتن روز اول ہے نا امی جان؟”

    "ہاں بیٹا!۔۔۔ یہ تو ہے۔۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں”

٭٭٭

 

پوچھنا منع ہے

دو سہیلیاں آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ ایک کہنے لگی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میں ۲۵ برس کی نہیں ہو جاتی شادی نہیں کروں گی۔ دوسری بولی میں نے بھی ایک فیصلہ کیا ہے۔ پہلی سہیلی کے پوچھنے پر بولی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میری شادی نہیں ہو جاتی میں ۲۵ کی نہیں ہوں گی۔ یہ پھلجڑی جس حد تک لطیفہ ہے اس سے زیادہ حقیقت بھی ہے۔ یہ تو سب ہی کہتے ہیں کہ لڑکیاں بڑی تیزی سے بڑھتی ہیں مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ لڑکیاں جلد ہی (عمر میں) بڑھنا "بند” بھی تو کر دیتی ہیں اور عمر کے ایک "پسندیدہ” مقام پر پہنچ کر تو اس طرح "رک ” جاتی ہیں جیسے ۔۔۔ ایک فلمی ہیروئن جو گزشتہ تیس برسوں سے ہیروئن چلی آ رہی تھی، فلم کے ایک سین میں اپنے حقیقی بیٹے سے بھی چھوٹی عمر کے ہیرو سے کہنے لگی۔ اچھا یہ تو بتائیں کہ آپ کے نزدیک میری عمر کیا ہو گی۔ ہیرو کہنے لگا بھئی تمہاری باتوں سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تم بائیس برس کی ہو مگر تمہاری فیگر بتلاتی ہے کہ تم بیس برس سے زائد کی نہیں ہو سکتیں اور اگر چہرے کی معصومیت دیکھو تو یوں لگتا ہے جیسے تم صرف اٹھارہ برس کی ہو۔ ہیروئن اٹھلاتی ہوئی بولی اللہ آپ کتنے ذہین ہیں آپ نہ صرف اسمارٹ بلکہ بلا کے "خانم شناس” بھی ہیں۔ ہیرو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ اور ان تمام عمروں کو جمع کر کے کوئی بھی تمہاری اصل عمر کا تخمینہ لگا سکتا ہے۔ "کٹ” ڈائریکٹر کی آواز گونجی اور فلم میں سے ہیرو کا یہ آخری جملہ کاٹ دیا گیا۔

ہمارے ہاں بہت سی باتوں کو پوچھنا ایٹی کیٹس کے خلاف سمجھا جاتا ہے جیسے آپ "عمر نازنین” ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کسی خوبصورت سی محفل میں کسی خوبصورت نازنین کی عمر دریافت کر لیں تو نہ صرف خوبصورت نازنین کی خوبصورتی ہوا ہو جاتی ہے بلکہ خوبصورت محفل کی خوبصورتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ اسی کے ساتھ ہی آپ کو بھی محفل سے جبراً رخصت کر دیا جائے۔ اب بھلا ایسی باتوں کو پوچھنے کا کیا فائدہ کہ لوگوں کو آپ کی خیریت پوچھنی پڑ جائے۔

جس طرح خواتین سے (اس کی ذاتی) عمر پوچھنا منع ہے اسی طرح مرد حضرات سے ان کی تنخواہ پوچھنا بھی بقول شخصے ۔”بے فضول” ہے۔ خواتین اپنی عمر نفی اور تقسیم کے عمل سے کشید کر کے بتلاتی ہیں تو حضرات اپنی تنخواہ کو جمع ۔ جمع الجمع اور ضرب جیسے الاؤنس سے گزار کر بتلاتے ہیں مگر یہاں یہ واضح ہو کہ مرد حضرات اس قسم کی حرکت گھر سے باہر ہی کیا کرتے ہیں۔ گھر میں تو۔۔۔ شوہر نے نئی نویلی بیوی کے ہاتھ میں پہلی تنخواہ لا کر رکھی۔ وہ روپے گنتے ہوئے بولی : باقی پیسے؟ کون سے باقی پیسے؟ تنخواہ تو یہی ملی ہے۔ بیوی شوہر کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔ مگر تمہاری امی نے تو میری امی سے کہا تھا کہ ۔۔۔ ہاں! ہاں! انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔ اور تمہارے بہن تو کہہ رہی تھی کہ میرے بھیا کو۔۔۔ بھئی وہ بھی ٹھیک کہہ رہی تھی۔ بیوی نے تنخواہ کی رقم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تو پھر یہ کیا ہے؟ ۔۔۔ بھئی یہ بھی ٹھیک ہے۔ شوہر سمجھانے کے انداز میں بولا۔ بھئی دیکھو! تنخواہ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتی ہے بنیادی تنخواہ، جو تمہارے ہاتھ میں ہے، یہ سب سے کم ہوتی ہے اور یہی اصل تنخواہ ہوتی ہے۔ جب اس تنخواہ میں مختلف الاؤنس کو جمع کر لیا جائے جو کٹوتی کی مد میں کٹ جاتی ہے تو تنخواہ کی رقم اتنی بڑھ جاتی ہے جتنی میری امی نے تمہاری امی کو تمہارا رشتہ مانگتے وقت بتلایا تھا۔ اور اگر سال بھر تک آجر کی طرف سے ملنے والی سہولتوں کو جمع کر کے اسے رقم میں تبدیل کر لیں اور حاصل ہونے والی فرضی رقم کو بارہ سے تقسیم کر کے تنخواہ اور الاؤنس میں جمع کر لیا جائے تو بننے والی تنخواہ وہ ہوتی ہے جو میری بہن نے تمہیں منگنی والے روز بتلائی تھی۔ یہ سب سے زیادہ تنخواہ ہوتی ہے۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی! میں پوچھتی ہوں آخر تمہارے گھر والوں نے میرے گھر والوں کو تمہاری صحیح تنخواہ کیوں نہیں بتلائی تھی۔ بھئی دیکھو! اول تو یہاں کچھ پوچھنا منع ہے۔ دوم یہ کہ تمہارے گھر والوں نے کب میرے گھر والوں کو تمہارے اصل عمر بتلائی تھی۔

سو پیارے قارئین! آپ میں سے اول الذکر کبھی موخر الذکر سے اس کی عمر اور موخر الذکر اول الذکر سے اس کی تنخواہ نہ پوچھے کہ اس سے امن و امان خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ اور جب امن و امان کو خطرہ لاحق ہو تو مارشل لا آتا ہے اور جب مارشل لا آتا ہے تو بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں اور جب بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں تو انقلاب آتا ہے اور جب انقلاب آتا ہے تو جمہوریت بحال ہوتی ہے اور جب جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امن و امان پھر سے خطرے میں پڑ جاتا ہے اور جب امن و امان خطرے میں ہو تو ۔۔۔ آگے پوچھنا منع ہے۔ ویسے نہ پوچھنے کو اور بھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں نہ پوچھ کر ہی امن و امان برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی سیاسی پارٹی سے تو یہ پوچھنا یکسر منع ہے کہ اس کے پاس جلسے جلوس کے لئے اتنا سرمایہ کہاں سے آتا ہے۔ قرضدار سے قرضہ کی رقم کی واپسی کا پوچھنا تو صحت کے لئے بھی مضرو ہے۔ اسی طرح اپنی نصف بہتر کے سامنے کسی خاتون کا حال پوچھنا، کلاس روم میں استاد سے سوال پوچھنا، ڈرائیور سے ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھنا، گرفتار شدگان کا اپنا جرم پوچھنا اور اخبار و جرائد سے اس کی تعداد اشاعت پوچھنا۔۔۔ مگر ٹھہریئے آخر میں ہم شاید کچھ زیادہ ہی غلط بات پوچھ بیٹھے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدیر محترم ہم سے ہمارے گھر کا پتہ پوچھ بیٹھیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچے کہ لوگ ہمیں اٹھائے ہمارے گھر کا رستہ پوچھتے نظر آئیں۔ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ۔۔۔ پوچھنا منع ہے۔ ہے نا؟

٭٭٭

 

بات مولوی مدن کی

مولوی اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :

بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

مولوی مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔

کبھی مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ از خود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے میں جتنی گالی مولویوں کو دی جاتی ہے اتنی تو شاید شیطان کو بھی نہی دیجاتی۔ مولوی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا سب کھانے سے منسلک ہوتا ہے۔ یعنی حلوہ اور گالی کھا کر جیتے ہیں تو گولی کھا کر مرتے ہیں۔ مولوی ہمارے معاشرے کے لئے بڑی رحمت ہیں۔ ناکارہ اولاد کو کھپانا ہو تو مولوی بنا دو۔ کھانا فالتو ہو تو مولوی کی دعوت کر دو۔ جب کوئی خوف تنگ کرنے لگے تو صدقہ و خیرات کے نام پر مولوی اور اس کے اداروں کو نواز دو۔ لیکن جب یہی مولوی ہم سے دین کے راستے پر چلنے کا تقاضہ کرنے لگے تو ہم انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور مولوی کا اسلام نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان بے چاروں کے پاس اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ اپنا دین وضع کر سکیں۔ یہ تو بس قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کے سہارے گذارا کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو کیا ہم نعوذ باللہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دیتے۔ مولوی لاکھ برا سہی لیکن وہ بلاتا تو ہمیں شریعت ہی کی طرف ہے۔

ہم مولوی کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مولوی ہمارا۔ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سنتے ہی ہم لڈو کے ساتھ ایک عدد مولوی کا بھی آرڈر دے دیتے ہیں تاکہ بچے کے کان میں اذان تو دی جا سکے، ہم تو اس کے بھی اہل نہیں۔ کسی مولوی کی مدد کے بغیر دلہا، سیج تک اور مردہ اپنی قبر تک نہیں پہنچ سکتا کہ نکاح اور جنازہ پڑھانا صرف ایک مولوی ہی کو آتا ہے۔ اور تو اور صدر مملکت کی تقریر ہو یا ناچ گانے کا ثقافتی پروگرام، افتتاحی تقریب میں تلاوت کلام پاک کے لئے کسی مولوی ہی کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ فرمان خداوندی کو ادا کرنے کا ذمہ دار بھی مولوی ہی قرار پائے اور ہم اس سے مطلقاً بری الذمہ ہوں۔ یا اللہ اگر ہمارے درمیان مولوی نہ ہوتا ہمارا کیا حشر ہوتا۔ ہم کیسے پیدا ہوتے اور کیسے مرتے۔ کیا ہمارا آغاز و انجام بھی، ہماری زندگی کے بقیہ عرصہ حیات کی طرح ملحدانہ ہی ہوتا۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں مولوی کی نعمت موجود ہے۔ شکریہ مولوی صاحب بہت بہت شکریہ۔

٭٭٭

 

مولانا فضول کی سیاست

ایک وقت تھا کہ لوگ رشوت کی حرام کمائی کو طنزاً فضل ربی یعنی رب کا فضل کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ ہمارے ممدوح مولانا فضول کو بھی یار لوگ رحمن کا فضل قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنے ارادے کے پکے مگر قول کے قدرے کچے ہیں۔ کرتے وہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جلسے جلوسوں اور سیاسی اجلاسوں میں ایسی باتیں بھی کرتے پائے جاتے ہیں جو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوتی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کہ ہم عوام کی ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں، گو زمینی حقائق نے ہمیں ان پر عمل درآمد کا موقع نہیں دیا۔

مولانا فضول ہل من مزید کی ایک عملی تصویر ہیں۔ نہ صرف خوش خوراک ہیں، بلکہ خوش گفتار بھی۔ ہر دو کام بے تکان کرتے ہیں اور موقع محل دیکھے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے بھی لیتے ہیں اور قائد حزب اختلاف بھی کہلوانے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ صنف نازک کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی نہیں کا مطلب بھی ہاں ہوتا ہے۔ موصوف کا تعلق چونکہ صنف مخالف سے ہے، اس لئے موصوف اگر ہاں بھی کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ناں ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسمبلیوں سے بروقت استعفیٰ دینا ہو یا مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا، برسر مجلس ان کی ہر دو ہاں کا مطلب ناں ہی تھا، جو انہوں نے عملاً ثابت بھی کر دکھایا۔ آپ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے کے سبب شاعروں کے خیالات کے حامی نہیں۔ اسی لئے آپ؂

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

کے قطعاً قائل نہیں۔ آپ ہمیشہ ایسے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے خدا بھی ملے اور وصال صنم میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ قاضی سے بھی رشتہ برقرار رہے اور بی بی بے مثال بھی اندرون خانہ خوش رہیں۔ طالبان سے بھی رابطہ برقرار رہے اور امریکہ بہادر کے لئے بھی قابل قبول نظر آئیں۔ اپوزیشن کے لیڈر بھی بنے رہیں اور مشرف حکومت کے نور نظر بھی۔

مولانا فضول پاکستان میں ایک نئی طرز سیاست کے بانی ہیں۔ ایسی سیاست جس میں چت بھی اپنی ہو اور پٹ بھی اپنی۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں شامل رہنے کا ہنر آپ ہی کی ایجاد کردہ ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنا ہو یا اپوزیشن لیڈر رہتے ہوئے حکومت وی وی آئی پی پروٹوکول بمع سہولیات سے استفادہ کرنا، یہ ہنر آپ سے قبل کسے آتا تھا؟ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ ایک طرف دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم ہے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیوں سے انڈر اسٹینڈنگ بھی جاری ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں بھی مولانا فضول کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کر لیں تو پاکستانی سیاست سے محاذ آرائی کا یکسر خاتمہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات جیتنے والی پارٹیاں اقتدار کے اندر اور ہارنے والی پارٹیاں اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہیں۔ نہ حکومت کو اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور ان کے جلسے جلوسوں پر لاٹھی چارج اور گولیاں چلانے کی زحمت ہو گی نہ اپوزیشن کو لاٹھی گولی کھانے اور جیل جانے کی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔ ہر دو گروپ، ہر دو صورتحال میں مل جل کر مزے میں رہیں گے۔

البتہ اس طرز سیاست میں عوام کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ عوام کا کام صرف انہیں ووٹ دے کر باری باری برسراقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن بنانا ہو گا۔ وہ جلسے جلوسوں کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی کمائی سیاست اور اہل سیاست کی نذر کر سکتے ہیں۔ عوام ہر دو انتخابات کے درمیان حسب سابق اپنی روٹی روزی کی فکر میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں، تاکہ ان کی نگاہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کے رہنماؤں کی طرف نہ اٹھنے پائے۔ مولانا فضول کی فضول سیاست زندہ بات۔

کی قاضی نے سیاست، اگرچہ اصول کی سی

مگر وہ بات کہاں مولانا فضول کی سی

٭٭٭

 

اداکارہ، اداکاری اور کاری ادا

یہ ایک اداکارہ ہے۔ اداکاری کے پردے میں کاری ادا دکھانے اور کاری حملہ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر وہیں بسیرا کر لیتی ہے۔ اور یوں دل اپنی من مانی کرنے پر اتر آتا ہے۔ ان کا حملہ ٹین ایجرز پر فوری اثر کرتا ہے اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو بڑھاپے تک اس کا سحر قائم رہتا ہے۔

اداکارہ کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بیشتر مشہور و معروف اداکاراؤں نے گھر سے بھاگ کر ہی اپنی اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ گھریلو رشتے ادا کارہ کی ادا کاری کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہوتی ہے، جسے یہ پہلے ہی ہلے میں گرا دیتی ہے۔ کوئی شریف لڑکی اس وقت تک اداکارہ نہیں بن سکتی جب تک وہ شرافت کا لبادہ اتار اور قدرتی رشتوں کو چھوڑ نہیں دیتی۔ ایک وقت تھا جب ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں کو اداکاراؤں کی سپلائی صرف اور صرف طوائفوں کے کوچہ سے ہوا کرتی تھی مگر شیطان کی کرپا سے اب یہ محتاجی نہیں رہی۔ ایک فلم ساز جب ایک خوبرو طوائف کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے تو اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ بھولی طوائف بولی۔ یہاں بڑے بڑے لوگ میرے پیچھے آتے ہیں۔ فلموں میں مجھے ٹکے ٹکے کے لوگوں کے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ جب اللہ نے مجھے یہاں عزت دولت سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر میں فلموں میں کیوں جاؤں؟

فلم یا ڈرامہ کی مرکزی اداکارہ کو ہیروئین بھی کہتے ہیں۔ ان کا نشہ بھی پوست والے ہیروئین سے کم نہیں ہوتا۔ البتہ ہر فلم بین کا برانڈ یعنی پسندیدہ ہیروئین جدا جدا ہوتی ہے۔ پرستار اپنی پسندیدہ ہیروئین کے نشہ میں دنیا و مافیہا سے بےگانہ ہو جاتے ہیں جبکہ اداکارہ کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ؂

کون مرتا ہے مری زلف کے سر ہونے تک

 زیادہ سے زیادہ ہیرو کے ساتھ کام کرنے والی ہیروئین کی زیادہ سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔ جبکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں یہ جتنے کم لوگوں سے وابستہ رہتی تھی، اس کی عزت و توقیر اتنی ہی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ سچ ہے، وقت اور اس کے اقدار بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بولڈ اینڈ بیوٹی کسی بھی اداکارہ کی دو بنیادی وصف شمار ہوتی ہے۔ اداکاراؤں کے حوالے سے بولڈنس نسبتاً ایک نئی اصطلاح ہے۔ قبل ازیں اسے بے شرمی کہا جاتا تھا۔ اداکاراؤں کے پیشے کی ابتدا ہی شرم و حیا کے لباس کو اتارنے سے ہوتی ہے۔ اور جوں جوں یہ آگے بڑھتی جاتی ہے، اس کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے۔ لیکن میرا ایک دوست بالکل الٹ بات کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس تیزی سے ایک اداکارہ کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے، وہ اسی تیزی سے ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ لباس کے بارے میں اداکارائیں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ لباس قدرتی لباس ہے۔ اس لباس میں ان کی اداکاری کی مانگ اور قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اداکارائیں شادی کو اپنے کیرئیر کی تباہی اور طلاق کو ترقی کا زینہ سمجھتی ہیں۔ اسی لئے اداکارائیں شادی سے کم اور طلاق سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔

کوئی اداکارہ اس وقت تک پرفیکٹ ایکٹریس نہیں کہلاتی جب تک وہ محبت کے مناظر کی عکاسی کروانے میں مہارت نہ حاصل کر لے۔ یعنی ایسے مکالمے و افعال جو ایک شریف زادی صرف اپنے بیڈ روم میں اور اپنے سر کے تاج کے سامنے، یا ایک طوائف زادی اپنے کوٹھے کی چہار دیواری کے اندر صرف اپنے گاہک کے سامنے انجام دیتے ہوئے بھی شرما جاتی ہے۔ اسے ایک اداکارہ چکا چوند روشنی میں بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس خوبصورتی اور بولڈنس یعنی بے شرمی کے ساتھ ریکارڈ کرواتی ہے کہ اس کی ہر ادا، جسمانی خد و خال اور نشیب و فراز تمام باریکیوں کے ساتھ محفوظ ہو جاتے ہیں، جنہیں دیکھ دیکھ کر ان کے پرستار محظوظ اور ہیروئین کے نشے میں چور ہو جاتے ہیں۔

ایک کامیاب اداکارہ صرف لوسین ہی نہیں بلکہ اینٹی لو سین میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ جہاں یہ بہ رضا و رغبت اپنے پورے جسم کو پیش کرنے میں رتی بھر بھی نہیں ہچکچاتی وہیں یہ ولن کے ہاتھوں اپنی عزت لٹوانے کے تمام مراحل کو بڑی تفصیل سے پیش کرنے میں بھی یکساں مہارت رکھتی ہے۔ حالانکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں کوئی ایسا کرنے کی جرات کرے تو وہ اسے اپنے پالتو غنڈوں سے یا سرکاری اہلکاروں سے پٹوا دیا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ جسم فروش خواتین نے خود کو بیچنے کا آغاز ناچ گانے سے کیا تھا۔ پہلے یہ امراء کے لئے مجرا کیا کرتی تھیں۔ بعد ازاں عوام کی خاطر گلوکاری اور اداکاری شروع کر دی۔ مجرا یا تو امراء کی کوٹھی پر ہوا کرتا تھا یا طوائف کے کوٹھے پر۔ عوام کے لئے گلوکاری کا آغاز ریڈیو سے ہوا۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے جب ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام کا آغاز کیا تو پہلے پروگرام کی بکنگ کے لئے وہ خود بہ نفس نفیس طوائفوں کے کوٹھے پر گئے تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان اس معاملہ میں نہ صرف خود کفیل ہو گیا بلکہ ریڈیو سے تربیت یافتہ گلو کاراؤں کو ٹی وی اور فلم کے لئے ایکسپورٹ بھی کرنے لگا۔ آج پاکستان دنیا بھر کو بالعموم اور مڈل ایسٹ کو بالخصوص بولڈ اینڈ بیوٹی وافر تعداد و مقدار میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور خاصہ زر مبادلہ کماتا ہے۔

اداکارہ چھوٹی ہو یا بڑی، سب کی منزل ایک ہوتی ہے۔ قد آور اداکارہ وہ کہلاتی ہے جو اپنے قد و قامت اپنے کپڑوں سے باہر نکال سکے۔ اداکاراؤں کا کوئی دین، کوئی نظریہ یا کوئی کیریکٹر نہیں ہوتا سوائے فلمی کیریکٹر کے۔ یہی وجہ ہے کہ اداکارہ ایک فلم میں جسے بھائی بناتی ہے، اگلے فلم میں اسے پریمی یا شوہر بناتے ہوئے کوئی عار نہیں ہوتا۔ ایک اداکارہ سین کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا اپنا دھرم اور ایمان سمجھتی ہے۔ خواہ وہ سین اس کے اپنے دین دھرم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اداکارہ پہلے مسلمان ہو ہندو ہو یا عیسائی، اداکاری کے شعبہ میں داخل ہونے کے بعد صرف اور صرف اداکارہ رہ جاتی ہے۔ لہذا کسی اداکارہ کے کسی بھی فعل کو کسی دین دھرم بالخصوص اسلام کے حوالے سے تو دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں جاوید شیخ نے کیا خوب کہا تھا کہ فلم انڈسٹری کی بات کرتے ہوئے آپ اسلام کی بات نہ کیا کریں۔ اسلام کا فلم سے یا فلم کا اسلام سے کیا تعلق۔

 کہتے ہیں کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو یقیناً وہاں اداکاری کرنے والی عورتوں ہی کی بہتات ہو گی۔ خواہ ایسی عورتیں ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کرتی رہی ہوں یا گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔ اچھے وقتوں میں جب کوئی غلط کام کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کرتا تھا تو لوگ خوش گمانی کے تحت کہا کرتے تھے کہ زیادہ اداکاری نہ کرو اور سدھر جاؤ ورنہ ۔۔۔ اب یہی اداکاری بولڈنس یعنی بے حیائی کے ساتھ ایک پیشہ بن چکی ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو اداکارہ کی اداکاری اور اس کی کاری ادا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

٭٭٭

 

پلیز اور سوری

    پلیز اور سوری ایک ایسی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن پر سوار ہو کر آپ ہر قسم کی گاڑیوں سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے پائیدان تک بھری ہوئی بس کو حسرت سے تکنے کی بجائے لپک کر قریب جائیے۔ بس سے باہر لٹکے ہوئے ایک جم غفیر کی گھورتی ہوئی نگاہوں سے خوف کھانے کے بجائے بلا تکلف ایک پاؤں پائیدان کی طرف اور ہاتھ ڈنڈے تک بڑھائیں اور لٹکے ہوئے حضرات کی طرف مسکراتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کچھ کھینچ کر جادو اثر لفظ پلیز ادا کیجئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کو پائیدان میں پاؤں رکھنے کیلئے اور ڈنڈے کو پکڑنے کیلئے جگہ مل جائے گی۔ اور بس فراٹے بھرتی ہوئی آپ کو آپ کی منزل مقصود تک پہنچا دے گی۔

    یہ پلیز بڑے کام کی چیز ہے۔ اس کا اسٹاک ہر وقت اپنے پاس رکھیے۔ آپ کا اس پر کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں آئے گا۔ پتہ نہیں کس وقت ضرورت پڑ جائے۔ مثلاً آپ کہیں چلے جا رہے ہیں کہ اچانک آپ کو سامنے چند منچلے نظر آتے ہیں جنہوں نے سامنے سے گزرنے کا راستہ روک رکھا ہے۔ آپ راستہ تبدیل کرنے کے بجائے بلا دھڑک آگے بڑھتے چلے جائیے۔ اور قریب پہنچ کر ایک لمبی سی پلیز ان کے منہ پر دے ماریئے۔ گویا آپ نے بدتمیزی کے سمندر میں عصائے موسیٰ مار دیا۔ آپ کو فوراً راستہ مل جائے گا۔ یہ نسخہ کیمیا خواتین بھی اپنی ذمہ داری پر استعمال کر سکتی ہیں۔

    اگر کسی کو پیشگی "زحمت” دینے کا ارادہ ہو تو پلیز کا قبل از زحمت استعمال سود مند رہتا ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ آپ کو پلیز کہنا یاد نہ رہا تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ قبل اس کے کہ وہ جسے آپ زحمت میں مبتلا کر چکے ہیں آپ پر جوابی کاروائی کا سوچے، آپ فوراً لفظ "سوری” کا سہارا لیں۔ وہ دل میں پیچ و تاب کھانے کے باوجود آپ سے صرف یہی کہنے پر اکتفا کرے گا کہ کوئی بات نہیں۔

    اس نسخہ کے طریقہ استعمال کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔ آپ بھرے بازار میں چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ دانستہ یا نا دانستہ (جو بھی آپ پسند کریں) کسی ننگے پیر یا چپل (یا پھر سینڈل۔۔۔) پہنے ہوئے پاؤں کو اپنے جوتے سے کچلتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صاحب ِ پاؤں یا اس کا کوئی "حمایتی” آپ کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور آپ فرار کے مواقع کو مسدود پائیں تو خطرہ محسوس کرتے ہی فوراً پیچھے مڑ کر مذکورہ فرد کے منہ پر ایک زور دار سی "سوری” دے ماریں۔ اور قبل اس کے کہ وہ کچھ سمجھنے یا بولنے کی کوشش کرے آپ تیزی سے کسی بھی سمت کھسک جائیں۔

    ۔۔۔ یا پھر آپ حسب معمول کسی بھری ہوئی بس میں سفر کر رہے ہوں اور آپ کا پان کھانے کو جی چاہے تو بٖغیر کسی جھجک کے اپنی خواہش پوری کریں۔ ہاں جب پیک تھوکنے کا مسئلہ ہو تو اپنا ایک ہاتھ (واضح رہے کہ دوسرے ہاتھ سے آپ ڈنڈا پکڑے ہوں گے) دائیں بائیں یا آگے پیچھے بڑھائیں۔ آپ کا ہاتھ کسی نہ کسی جیب میں ضرور چلا جائے گا۔ بس بے دھڑک رومال نکال لیں۔ رومال میں پیک جذب کر لیں اور پہلے کی طرح کسی کی بھی جیب میں ڈال دیں۔ اگر خدانخواستہ رومال نکالتے یا ڈالتے وقت صاحبِ جیب یا رومال کی نظر آپ پر پڑ جائے تو قطعی فکر مند نہ ہوں۔ بس آہستگی سے منہ اوپر اٹھا کر سوری کہہ دیں۔ اگر آپ نے مخاطب کی طرف منہ کر کے کچھ کہنے کی کوشش کی تو۔۔۔ تو ظاہر ہے مخاطب کے ساتھ ساتھ آس پاس والوں کے لباس بھی پیک کے خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہو جائیں گے۔ اور مجھے یقین ہے آپ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ کیونکہ آخر آپ ایک با شعور شہری بھی تو ہیں۔

٭٭٭

 

پہلا کالم

قارئین کے پُر زور اصرار پر ۔۔۔ زور کس پر ہوا "اصرار” پر۔ اور اصرار کس بات پر ہے یہ ہم بتلانے سے سختی سے انکار کرتے ہیں۔ ہاں تو قارئین کے پُر زور اصرار پر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھی اب باقاعدگی سے کالم لکھا کریں گے۔ اور ہماری تحریروں کے جملہ حقوق ہمارے ہی نام محفوظ ہونگے۔ اس میں ہمارے علاوہ کسی اور کو دخل اندازی کی اجازت صرف اسی حد تک ہو گی جس حد تک وہ ہمارے لئے سود مند ہو۔ مثلاً مدیر محترم کو ہمارے اس کالم سے استفادہ کرنے کی اجازت صرف اس لئے ہو گی کہ وہ اسے "او کے” کر سکیں۔ کاتب صاحب صرف اس بنیاد پر اسے ہاتھ لگا سکیں گے کہ ہاتھ لگائے بغیر وہ کتابت جو نہیں کر سکتے۔ پروف ریڈر صاحب اپنی عینک کی اوٹ سے محض اس بنا پر ہمارے کالم پر نظر عنایت فرمانے کے اہل ہوں گے کہ وہ اس کی نوک پلک درست یا غلط (حسب ضرورت و حسب منشاء) کر سکیں۔ اس کے علاوہ کسی اور کو ہمارے اس کالم میں دخل در معقولات و نا معقولات کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں بلا اجازت وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔

قارئین کرام! کالم لکھنے کی ذمہ داری تو ہمارے قلم ناتواں پر ہو گی، لیکن پڑھنا آپ کا کام ہو گا یعنی لکھے عیسیٰ پڑھے موسیٰ – ہاں! اس سلسلے میں نہ آپ کو مجھ سے پوچھنے کی اجازت ہو گی کہ میں یہ کالم کس سے لکھواتا ہوں، نہ ہی میں آپ سے یہ دریافت کرنے کی جرات کروں گا کہ آپ کالم کس سے پڑھوا کر سنتے ہیں۔ البتہ جب کبھی ہمارا دل لکھتے لکھتے اکتانے لگے (یا بالفاظ دیگر کالم لکھ کر دینے والا بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کبھی کالم لکھ کر دینے سے انکار کر دے) اور آپ کالم دیکھ کر ہی بوریت محسوس کرنے لگیں (مطلب یہ کہ کالم پڑھ کر سنانے والا پڑھنے کے بعد بوجوہ سنانے سے انکار کر دے) تو ہم اپنے فرائض آپس میں بدل بھی سکتے ہیں۔ ہم بلا تکلف اسے اپنے نام نامی اسم گرامی کے ساتھ اس کالم میں شائع کر کے پڑھ یا پڑھوا لیا کریں گے۔

قبل اس کے کہ ہمارا کالم منظر عام آ کر دنیائے علم و ادب پر چھا جائے، ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ چند باتیں کالم سے متعلق، متعلقین سے کرتے چلیں۔ سب سے پہلے ہم کاتب محترم سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہم کراماً کاتبین کے بعد انہیں سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہی کی برادری کی شوخیِ طبع کے باعث ہمارے ساتھ اکثر ؂

ہم دعا (غیر منقوط) لکھتے رہے وہ دغا (منقوط) پڑھتے رہے

کا سا معاملہ رہا ہے۔ کاتب محترم سے ہماری دو گزارشات ہیں اول تو یہ کہ وہ گھر سے دفتر جانے سے کچھ دیر پہلے ہمارا کالم تحریر کرنے سے گریز فرمایا کریں۔ کیونکہ قلم قبیلہ والے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایسا کرنے سے کالم پر درون خانہ کے سیاسی حالات کی چھاپ پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اور ہم سیاست سے ویسے ہی دور بھاگتے ہیں جیسے بی سیاست بی شرافت سے دور بھاگتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے تحریر کردہ لفظوں بلکہ نقطوں تک کے ہیر پھیر سے گریز کیجیے گا۔ کیونکہ؂

نقطوں کے ہیر پھیر سے خدا بھی ہوتا ہے جدا

ہم تو کسی شمار قطار میں بھی نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ذرا سی بھول سے یوسف ثانی یوسف آنجہانی ہو جائے۔ نتیجتاً آپ کے پاس تعزیتی پیغامات کی بھرمار ہو جائے جسے کتابت کرتے کرتے خود آپ کے اپنے تئیں تعزیت کرنے کی نوبت آن پہنچے۔ علاوہ ازیں کالم کے لفظوں اور سطور کے درمیان ہمیشہ مناسب جگہ چھوڑا کیجئے گا کہ ہم بین السطور بھی بہت کچھ کہنے کے عادی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم بین السطور کچھ کہنا چاہیں اور آپ سطور کے درمیان کچھ کہنے کے لئے جگہ ہی نہ چھوڑیں۔

پروف ریڈر صاحبان سے بس اتنا کہنا ہے کہ اس کالم کی کتابت کے لئے ہدایت نامہ کتابت کروا کر ہم کاتب محترم کے حوالے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آپ کتابت شدہ مواد کی اصلاح کی کوشش ہر گز نہ کیجئے گا۔ اگر کوئی جملہ یا لفظ مہمل نظر آئے یا آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ زیر نظر تحریر تجریدی ادب کا نمونہ ہے۔ عنقریب آپ پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہمارا ہر کالم تجریدی ادب کا شاہکار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے وسائل اجازت دیں تو آپ اپنے خرچ پر ہمارے تجریدی کالم پر مذاکرہ یا سیمینار وغیرہ منعقد کروا کر علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی خدمت بھی کر سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ یہ پیش کش لامحدود مدت کے لئے اور سب کے لئے ہے۔ آخر میں ایک بات ہم آپ کو چپکے سے بتاتے چلیں کہ یہ ساری باتیں ہم نے آپ سے نہیں بلکہ کسی اور سے کہی ہیں۔ بھئی دیکھیں نا! اگر ہم ان سے یہ باتیں براہ راست کہیں تو پھر ہمارا کالم کون چھاپے گا۔

اللہ نہ کرے کبھی سنسر بورڈ کی نظر ہمارے کالم پر پڑے تاہم حفظ ماتقدم کے طور پر ہم سنسر بورڈ کے معزز ارکان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کالم کی روز افزوں مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر اگر حکام بالا ہمارے کالم کو سنسر کرنے کا خیال ظاہر کریں تو بورڈ ہمیں اردو لغت کی ضخیم سی جلد (جس میں قابل اعتراض لفظوں کو سنسر کر دیا گیا ہو) پیشگی ارسال کرے۔ آئندہ ہم اپنا کالم اسی جلد کے سنسر شدہ الفاظ سے تحریر کیا کریں گے۔ اس طرح آپ پڑھنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے اور کالم سنسر (یعنی سیلف سنسر) بھی ہو جایا کرے گا۔ سیاست تو خیر ہمارا موضوع ہے ہی نہیں۔ البتہ ہم آپ سے یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ ہمارا کالم فحاشی سے بھی پاک ہو گا۔ ہم "دلبرداشتہ” جیسے الفاظ کو ہمیشہ واوین بلکہ خطوط وحدانی کے اندر لکھا کریں گے تاکہ آپ غلطی سے بھی ایسے الفاظ کے بیچ وقف کر کے اسے فحش نہ قرار دے بیٹھیں۔

چلتے چلتے ہم مشتہرین حضرات کو بھی مطلع کرتے چلیں کہ وہ ہمارے کالم کی مقبولیت سے جائز و ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے کالم کے بیچ یا آس پاس اپنے اشتہارات شائع کروانے سے گریز کریں۔ اور اگر اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے ایسا ناگزیر ہو تو شعبہ اشتہارات کے بعد ہم سے بھی رجوع کریں تاکہ حسب ضرورت ان کی جیب ہلکی اور اپنی جیب بھاری کر کے ملکی اقتصادی توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔

٭٭٭

 

لب چھڑی

یہ کیا ہے؟ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے لب چھڑی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں جی ہاں انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں۔ یہ اسم با مسمی صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر لب چھڑیوں کی مارکیٹ ویلیو اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ مکمل طور پر اسم با مسمی بن جائے گی۔ یہ ایک کارآمد شے ہے۔ بقول شاعر، خواتین اسے اپنے نازک ہونٹوں کو گلاب جیسا بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں جب کہ مرد حضرات اس سے بچوں کی کاپیاں چیک کرنے کا کام لیتے ہیں۔ آخر خواتین بھی تو شیونگ بلیڈ سے پنسلیں بنانے کا کام لیتے ہیں۔

آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ ابتدا میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ مقبرہ کتب (جسے کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے) میں مدفون کتابوں کے وہ بوسیدہ اوراق پیش کرتے ہیں جن کے بیشتر اشعار میں ہونٹوں کو (غلطی سے ہی سہی) گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار خواتین ضرورت کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شید استعمال کر سکتی ہیں۔ اور آج کے موٹر گاڑیوں کے اس دور میں کون ایسا بھولا ہے جو ان رنگوں کا "مفہوم” نہ سمجھتا ہو۔

بعض رجعت پسند حضرات (خواتین نہیں) لب چھڑی کا شمار سامان تعیش میں کرتے ہیں، مگر اس سے متفق نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ خواتین کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کی جرات کریں گے کہ لب چھڑی کے بغیر صنف نازک کی پہچان تک مشکل ہے۔ اب آپ ہی دیکھئے۔ دور حاضر میں تراش خراش (زلف و لباس دونوں) چال ڈھال اور شکل و صورت کے لحاظ سے تو دونوں اصناف میں کوئی فرق نہیں رہا۔ لب چھڑی ہی وہ واحد چھڑی ہے جس کا استعمال، تا دم تحریر صنف قوی نہیں کرتی۔ ہم لب چھڑی کے موجد کی روح کو دعا دیتے ہیں کہ اس نے لب چھڑی ایجاد کر کے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلا دی ہے۔ آج ہم بلیک اینڈ وہائٹ اور کلرڈ ہونٹ دیکھ کر ہی اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس ہستی سے ہم محو گفتگو ہیں اس کا تعلق کس صنف سے ہے۔

اگر مضمون ہذا کی اشاعت کے بعد خواتین لب چھڑی کا استعمال ترک بھی کر دیں تو اس سے اس کی افادیت اور مانگ میں کمی نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس صورت میں بھی سادہ اور رنگین لب دونوں اصناف کے درمیان وجہ امتیاز بنے رہیں گے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ رنگین لب کے تصور سے ہمارے ذہنوں میں صنف قوی کا خیال آیا کرے گا۔

ابھی ہم رنگ برنگ لپ اسٹکس کے تراکیب استعمال پر غور و فکر کرتے ہوئے مندرجہ بالا سطور لکھ ہی پائے تھے کہ لب چھڑی سے متعلق ایک اہم خبر درآمد ہوئی، جس نے متذکرہ بالا تراکیب کو بیک خبر کالعدم کر دیا۔ سات سمندر پار سے خبر موصول ہوئی ہے کہ سائنس دان ایک ایسی لب چھڑی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو انسانی (مطلب یہ کہ نسوانی) جذبات کی عکاسی کیا کرے گی۔

ہم جب مختلف قسم کے جذباتی قسم کیفیات سے گزرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہمارا دوران خون گھٹتا بڑھتا ہے بلکہ ہمارے جسم کی بیرونی جلد پر مخصوص کیمیاوی تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں۔ انہی کیمیاوی تبدیلیوں کے ظہور پذیر ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس دانوں نے جدید لپ اسٹکس میں ایسی کیمیاوی اشیاء شامل کر دی ہیں جو جلدی کیمیاوی تبدیلیوں کے زیر اثر اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہیں۔ اور رنگوں کی یہ تبدیلی مستقل نہیں بلکہ گرگٹ کی طرح تغیر پذیر ہوتی ہے۔ یعنی اب ہمیں خاتون خانہ کے موڈ کو سمجھنے کے لئے فقط ان کے ہونٹوں کا رنگ دیکھنا ہی کافی ہو گا۔ رنگ ڈھنگ دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ابھی تو یہ لپ اسٹکس تجرباتی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جب یہ تجارتی بنیادوں پر تیار ہو کر گھر گھر پہنچ جائے گی تو کیا صورت حال پیش آئے گی۔ ملاحظہ فرمائیں : صاحب خانہ گھر میں داخل ہوتے ہیں کہ گڈو "ابو آ گئے! ابو آ گئے!” کہتا ہوا لپٹ جاتا ہے۔ "بیٹے! آپ کی امی کہاں ہیں؟”۔۔۔ "ابو ابو آج گھر میں کچھ ہونے والا ہے۔ صبح سے امی کے ہونٹوں کا رنگ مستقل بدل رہا ہے۔” ممی کی آہٹ سن کر ابو کی گود میں چڑھتے ہوئے۔ "ابو مجھ تو ڈر لگ رہا ہے "۔۔۔ ” ارے آپ؟ کب آئے؟ اور یہ گڈو جوتوں سمیت آپکی گود میں۔۔۔؟ "۔۔۔ بھئی تمہارے ہونٹوں کا رنگ تو بڑا خوشگوار ہے، گڈو تو بڑا سہما ہوا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ صبح سے ممی کے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔” "۔۔۔ اس گڈو کے بچے کو تو ۔۔۔  بس ۔۔۔ بیگم ۔۔۔ بس۔۔۔ دیکھو!۔۔۔ دیکھو! پھر تمہارے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔

٭٭٭

 

قربانی کے بکرے

ان سے ملئے یہ ہیں قربانی کے بکرے۔ معاف کیجئے گا آپ غلط سمجھے۔

یہ محاورے والے بکرے نہیں ہیں، بلکہ سچ مچ کے قربانی کے بکرے ہیں۔ اسی لئے تو یہ ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں۔ یوں تو یہ سارا سال انسانی ضرورتوں کی قربان گاہ پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں مگر عید قربان پر ان کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دام یوں آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں جیسے یہ زمینی مخلوق نہ ہوں بلکہ آسمانی مخلوق ہوں بلکہ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے آسمانی مخلوق ہی ہیں۔ کیونکہ خدا کی راہ میں قربان ہونے کے فوراً بعد ان کی حیثیت آسمانی ٕمخلوق سے بھی بڑھ جاتی ہے۔

اب ان سے ملئیے۔ جی ہاں یہ بھی قربانی کے بکرے ہی ہیں۔ معاف کیجئے گا آپ پھر غلط سمجھے۔ یہاں میری مراد محاورے والے بکروں سے ہے۔ مگر یہ کسی طرح بھی اصلی بکروں سے کم نہیں ہوتے بلکہ دیکھا جائے تو کسی حد تک ان کی حیثیت اصلی بکروں سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات دنیا کے بازار میں ان کی قیمت ایک بکرے سے بھی کم لگائی جاتی ہے۔

آج کل تو بازار مصر شہر شہر قریہ قریہ لگا ہوا ہے۔ سماج کے ان نام نہاد بازاروں میں راقم جیسے نہ جانے کتنے یوسف قربانی کے بکروں کی مانند، بلکہ بکروں سے بھی سستے بک رہے ہیں، کوئی اف تک کرنے والا نہیں۔ قربانی کے ایک بکرے (اصلی والے) سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ بھئی کیوں قربان ہوتے ہو تو موصوف پہلے تو مسکرائے پھر گویا ہوئے ہم تو ہیں ہی قربانی کے بکرے۔ ہم اگر قربان نہ ہوں گے تو کیا حضرت انسان خود اپنے آپ کو قربان کرے گا؟ ہم تو حضرت انسان کو قربانی سے بچانے کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیتے ہی مگر یہ نا قدرے پھر بھی ہماری قربانی کو خاطر میں نہیں لاتے اور چند ٹکے خرچ کر کے یہی کہتے پھرتے ہیں کہ قربانی تو ہم نے دی ہے۔

قربانی کے بکرے کی یہ بات سن کر صاحب بکرا یعنی محاورے والے بکرے۔۔۔ حضرت انسان برہم ہو گئے۔ کہنے لگے صاحب! قربانی کے اصل بکرے تو ہم ہیں جو گود سے گور تک قسطوں میں خود کو قربان کرتے رہتے ہیں۔ یہ چار پاؤں والے بکرے تو زندگی میں صرف ایک مرتبہ قربان ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ مگر دیکھئے نا ہمیں ہر لمحہ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہر آن قربان ہوتے رہتے ہیں۔ سماج کی قربان گاہ پر ہمیں ہر لمحہ مار کر دوسرے لمحہ زندہ کر دیا جاتا ہے تاکہ تیسرے لمحہ پھر مارا جا سکے۔ مارنے اور جلانے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تاوقتیکہ فرشتہ اجل تقدیر کی قربان گاہ پر ہمیں قربان کرنے چلا آتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ قربانی کا اصل بکرا کون ہے؟ چار ٹانگوں والا بے زبان بکرا یا یہ دو ٹانگوں پر چلنے والا حیوان ناطق۔

دو افراد باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ ایک نے غصہ میں آ کر دوسرے سے کہا کہ تم تو بالکل گدھے ہو۔ دوسرے نے کہا گدھے تو تم ہو۔ بس پھر کیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گدھا ثابت کرنے کے لئے گدھے پن کا ثبوت دینا شروع کر دیا۔ پہلا فرد غصہ کو کم کرتا ہوا بولا چلو ایسا کرتے ہیں کہ ووٹنگ کرا لیتے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ ملے گا اصل میں وہی گدھا ہو گا۔ دوسرا بولا کرا لو ووٹنگ ابھی فیصلہ ہوا جاتا ہے کہ کون گدھا ہے۔ پہلا گویا ہوا تو مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں "گدھے ہونے” کے امیدوار ہیں۔ اور جسے زیادہ ووٹ ملے وہی گدھا ہو گا، تمہیں منظور ہے نا؟ دوسرے فرد کے اقرار پر پہلے شخص نے جلدی سے کہا تو پھر ٹھیک ہے میں اس مقابلے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اب تم بلا مقابلہ گدھے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ رفوچکر ہو گیا۔

دیکھا آپ نے ووٹنگ کا کمال یعنی اس میں بڑے بڑے گدھے بھی منتخب ہو جاتے ہیں بلکہ بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے ۔۔۔ ۔۔۔  ہر دم انتخابات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ وہ بھی منتخب ہو جائیں۔ گدھے کے تذکرے پر یاد آیا گزشتہ دنوں میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ صاحب بہادر نہ جانے کسی بات پر مسلسل انکار کئے جا رہے تھے اور میں انہیں منانے کی کوششیں کر رہا تھا۔ آخرکار میں نے ترپ کا پتہ پھینکتے ہوئے کہا۔ تم میری اتنی سی بات بھی نہیں مانتے حالانکہ میں تو تمہیں اپنے بھائیوں کے برابر عزیز رکھتا ہوں۔ موصوف تقریباً رضامند ہوتے ہوئے بولے : واہ صاحب! یہ اچھی رہی۔ جب تمہیں کوئی بات منوانی ہو تو فوراً بھائی بنا لیتے ہو۔ میں نے کہا میرے بھائی! لوگ تو وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بھی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو صرف بھائی بنایا ہے۔ بس موصوف دوبارہ ناراض ہو گئے اور اب تک ناراض ہیں۔ پتہ نہیں کیوں؟

ویسے ناراض ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی ہے۔ لوگ تو ذرا ذرا سے بات پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ اب پچھلی عید کی بات ہے ہم نے سوچا چلو کچھ نہیں تو جوتے ہی سہی۔ چنانچہ ایک جوتے کی دکان پر پہنچ گئے۔ سیلزمین نے کئی خوبصورت جوتے دکھائے جو قیمت معلوم ہوتے ہی ہمیں ناپسند آنے لگتے۔ جوتوں کا ڈھیر لگ گیا مگر ہمیں کوئی جوتا پسند ہی نہیں آ رہا تھا کہ پسندیدگی کے لئے جیب کی پیشگی اجازت ضروری تھی۔ چنانچہ ہم جب بکھرے ہوئے لاتعداد جوتوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اٹھنے لگے تو سیلزمین گویا جوتے مارتے ہوئے بولا، صاحب! اتنے جوتے پڑے ہیں لیکن آپ اب بھی مطمئن نہیں۔ ہم نے فوراً خود کو سنبھالا اور سیلزمین کی دیکھتے ہوئے خوبصورت سے بارہ سو روپے والے جوتے پہن لئے۔ سیلزمین اپنی اس کامیابی پر مسرور نظر آنے لگا۔ ہم نے جیب سے بٹوا اور بٹوے سے پانچ سو روپے کا اکلوتا نوٹ نکالتے ہوئے کہا۔ یہ پانچ سو روپے لیتے ہو یا اتاروں جوتا؟

آگے کا احوال کیا بیان کریں۔۔۔ جی ہاں مجبوراً مجھے جوتا۔۔۔ اب دیکھیں نا! جنگ محبت اور مجبوری میں تو سب جائز ہوتا ہے نا؟ آپ محبت سے مجبور ہوں یا مجبوراً محبت کر رہے ہوں ہر دو صورتوں میں نتیجہ عموماً ایک ہی نکلتا ہے۔ مثلاً اس محفل ہی کو لے لیجیے جس میں ایک شمع محفل ہیروں کے زیورات سے سجی دیگر تمام خواتین و حضرات کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک خاتون تو اپنے شوہر کے سر ہو گئیں کہ مجھے بھی ایسا ہی سیٹ لا کر دو۔ شوہر نے سمجھایا اری نیک بخت پاگل ہوئی ہے کیا؟ تمہیں کچھ اندازہ ہے یہ کتنا قیمتی ہے؟ بیوی بولی مجھے کیا پتہ؟ اچھا چلو اس سے پوچھ لو کہ کتنے میں خریدا ہے؟ شوہر نے لاکھ سمجھایا کہ یہ آداب محفل کے خلاف ہے، لوگ کیا کہیں گے۔ مگر خاتون نہ مانیں۔ مجبوراً صاحب بہادر مذکورہ خاتون کے قریب پہنچے۔ سب کی نظریں ادھر ہی جم گئیں کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ صاحب بہادر نے خاتون کے قریب جا کر کہا ایکسکیوز می پلیز! کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سیٹ آپ نے کتنے میں خریدا ہے؟ پہلے تو خاتون نے اسے سر تا پا گھور کر دیکھا مگر محفل کا رنگ انہماک دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا "نیویارک سے خریدا ہے ڈھائی ہزار ڈالر میں آیا تھا” قیمت سن کر صاحب بہادر کے ہوش اڑنے ہی والے تھے کہ انہوں نے خود کو سہارا دیا اور یہ کہتے ہوئے پلٹ پڑے کہ مگر اتنے میں تو نیا سیٹ مل جاتا ہے۔

٭٭٭

 

کرفیو اور اہل کراچی

اہل کراچی اب کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لا سے۔ اگر ہمارے پاکستانی بھائی تھوڑا عرصہ بھی مارشل لا کی چھتری سے باہر گزار لیں تو ان کی طبعیت ناساز ہو جاتی ہے۔ اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتے مارشل لا کا ورد شروع ہو جاتا ہے۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے اگر حالات یہی رہے تو نئے مارشل لا کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری طرف سے تسلی دی جاتی ہے کہ نہیں فی الحال مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں۔ اور تیسرے ہی دن یہ اطلاع آتی ہے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔

بات ہم کرفیو کی کر رہے تھے کہ یہ مارشل لا نہ جانے کہاں سے ٹپک پرا۔ ویسے بھی مارشل لا عموماً ٹپک ہی پڑتا ہے۔ یہ کبھی "تھرو پراپر چینل” نہیں آتا لہذا سطور بالا میں اس کے اس طرح ٹپک پڑنے کو اس کی عادت ثانیہ جانتے ہوئے ہم درگزر کرتے ہیں۔ اور اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہاں اب تو اہل کراچی کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے۔۔۔۔ ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اب اہل کراچی کرفیو سے ذرا بھی نہیں گھبراتے بلکہ اسے "معمولات” میں تصور کر کے اپنے معمولات زندگی میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ کرفیو تو پھر کرفیو ہے۔ کسی زمانے میں محض مارشل لا کی بھی بڑی "قدر” ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ہاں جب مارشل لا نیا نیا آیا تھا تو مائیں اپنے بچوں کو باہر گلی میں کھیلنے سے منع کرتے ہوئے کہتی تھیں بیٹے باہر مت جانا۔ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ پھر جب یہی مائیں اور بچے مارشل لا سے مانوس ہو گئے تو ایک مارشل لا سے دوسرے مارشل لا تک کے درمیاں وقفے میں مائیں بچوں بلکہ بڑوں تک سے کہنے لگیں ذرا دیکھ بھال کر باہر جانا اب مارشل لا نہیں ہے نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے۔

قارئین کرام! آپ نے دیکھا ہم تذکرہ مارشل لا سے اپنے کالم کے دام کو جتنا بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی اس تذکرے میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم اپنے ملک کو جتنا مارشل لا سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی مارشل لا سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ خدا ہمارے ملک کو مارشل لا سے اور ہمارے کالم کو تذکرہ مارشل لا کے اثرات بد سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ مگر اس سلسلہ میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ہم جس قدر کسی کو کسی چیز سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے وہ اسی قدر ہی اس چیز سے قریب ہونے کی سعی کرے گا۔ اس قسم کے ماہرین اپنے بیان کی وضاحت میں عموماً یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ جہاں "تھوکنا منع ہے” لکھا ہوتا ہے ماسوائے تھوک کے اور کچھ نظر نہیں آتا اسی طرح اگر آپ کسی فٹ پاتھ پر چلے جا رہے ہیں اور آپ کو یکایک ناگوار سی بو محسوس ہونے لگے تو سمجھ لیجیئے کہ یہیں کہیں آس پاس لکھا ہو گا ۔۔۔ ۔ کرنا منع ہے۔ نو پارکنگ کے بورڈ کے آس پاس گاڑیوں کا ہجوم نہیں تو چند گاڑیاں ضرور کھڑی ہوئی ملیں گی۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچ ہے کہ جہاں کسی گوشے میں چند گاڑیاں پارک نظر آئیں پولیس کے سپاہی وہاں نو پارکنگ کا پور ٹیبل بورڈ نصب کر کے گاڑیوں کے مالکان کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی سنتے جائے۔ ماضی کی ایک حکومت کے دور میں حزب اختلاف کے ایک رکن اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اسمبلی کی بلڈنگ پہنچے تو ان کی نسبتاً پرانی گاڑی کا سیکورٹی کے عملے نے شایان شان اور پر تپاک خیر مقدم نہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ایک بیان داغ دیا کہ ان جیسے غریب ارکان اسمبلی کا سرکاری کارندے مناسب طور پر استقبال نہیں کرتے۔ لہذا وہ کل احتجاجاً گدھا گاڑی پر سوار ہو کر اسمبلی ہال پہنچیں گے۔ چنانچہ موصوف اگلے روز بدست خود گدھا گاڑی "ڈرائیو” کرتے ہوئے اسمبلی پہنچے۔ سیکورٹی کے عملے نے احتیاطاً ان کے ساتھ کسی کا کوئی سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے قریب ہی ایک پول سے گدھا گاڑی کو باندھا اور اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اندر چلے گئے۔ واضح رہے کہ انہوں نے جس "پول” سے گدھا گاڑی کو باندھا تھا وہ دراصل "نو پارکنگ” کا بورڈ تھا اور اس منظر کو ہمارے تمام قومی اخبارات نے اپنے صفحے کی زینت بنایا تھا۔

ابھی ابھی آپ یہ پڑھ رہے تھے کہ جب مذکورہ رکن اسمبلی کو ان کی منشاء کے مطابق "ٹریٹ” نہیں کیا گیا تو انہوں نے جھٹ ایک بیان داغ دیا کہ "غریب ارکان اسمبلی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے”۔ اسی بیان پو ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ آپ اسے لطیفہ سمجھتے ہوئے سن لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمارے ایک سماجی کارکن کو بیان سینے کا بہت شوق تھا۔ انہیں روزانہ کے معمولات میں جو بھی پریشانی ہوتی وہ اسے عوام کی پریشانی سمجھتے ہوئے اس کے خلاف بیان داغ دیتے۔ علاوہ ازیں متعلقہ احکام کو بھی ٹیلی فون کر دیتے کہ صاحب آپ فوراً اس مسئلہ کو حل کروائیں’ عوام بہت پریشان ہیں۔ یہ آخری جمہ تو ان کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔ گزشتہ دنوں ان کی بیگم شاپنگ کرنے گئیں تو ان کئ واپسی سے قبل کرفیو لگ گا۔ چنانچہ وہ اپنے گھر نہ پہنچ سکیں۔ موصوف نے شام تک ہر ممکن جگہ انہیں تلاش کیا مگر ناکامی ہوئی چنانچہ انہوں نے اپنے علاقے کے تھانیدار کو ٹیلی فون کیا کہ صاحب! میری بیوی صبح شاپنگ کرنے گئی تھی۔ ابھی تک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ آپ فوراَ ان کی تلاش کے لیے سپاہی بھیجیں’ عوام بہت پریشان ہے۔

موصوف کی بیگم تو کرفیو میں گم ہو گئی تھیں مگر ان کے دوران کرفیو گم ہونے کے تذکرے پر ہمیں ہمارا گم شدہ موضوع "کرفیو” مل گیا ہے۔ اگر آپ کی یادداشت قابل اعتبار ہے تو یقیناً آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے کرفیو سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تھا مگر الفاظ و واقعات کی بھول بھلیوں میں اس طرح گم ہو گئے کہ اپنا موضوع تک گم کر بیٹھے جو ابھی ابھی ملا ہے۔ سو ہم تانے سے بانا ملاتے ہوئے اب تک کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اہل کراچی کرفیو سے اسی طرح مانوس ہو چکے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لا سے۔ مارشل لا کے ذکر پر ہم نے کہا تھا کہ ہم جتنا اس ذکر سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں یہ اتنا ہی ہم سے چمٹ جاتا ہے۔ کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔ ۔ اور ماہرین نفسیات کے بیان کے ثبوت میں جب ہم گدھا گاڑی کی ڈرائیونگ اور پارکنگ والے مقام تک پہنچے تو ہمیں ایک سماجی کارکن کا واقعہ یاد آ گیا جن کی بیوی دوران کرفیو گم ہو جاتی ہیں۔ اور اسی گمشدگی کے نتیجے میں ہمیں ہمارا گمشدہ موضوع "کرفیو” ابھی ابھی ملا ہے۔ چنانچہ ہمارا خیال ہے کہ اب ہمیں اصل موضوع پر لکھنا شروع کر دینا چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

٭٭٭

 

مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ

    بھئی آپ مجھے اس طرح کیا گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کیا میں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے؟ نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔ کیونکہ اس وقت کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو ان چاہتوں کا شکار ہوتا چیخ اٹھتا۔ ؂

    اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

    آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے تو دوست کا مارا دوستوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگتا ہے کہ حق دوستی ادا کرنے کے لئے اب کون پر تول رہا ہے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ آج کل حق دوستی ادا کرتے وقت دوست احباب حق و ناحق کی تمیز کے چکر میں نہیں پڑتے ویسے بھی حق تو صرف ایک ہی ذات ہے جس کی ضیا پاشیوں نے سارے عالم کو حق پرست بنا رکھا ہے خواہ کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار۔

    نفسا نفسی کے اس دور میں کسی دوست کا ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً محال بھی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی ماننے والی بات ہے جو شخص لوگوں کے درمیان رہتا ہو اس کے دوست احباب تو ہوں گے دس بیس نہیں تو دو چار تو کہیں نہیں گئے۔ پھر یہ دوست کی عدم دستیابی چہ معنی دارد؟ ہم ایسے تمام خوش فہم حضرات کی خوش فہمی دور کرنے کے لئے صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ؂

    دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

    مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے مطلب یہ کہ کوئی فرد اپنی عادت ثانیہ کو یکسر ترک نہیں کر سکتا اور اگر ایسا کر بھی لے تو کبھی نہ کبھی اپنی اس عادت کا اظہار ضرور کرے گا۔ اسی طرح دوست کے بارے میں آجکل یہ بات بلا کھٹکے کہی جا سکتی ہے کہ دوست دوستی سے جائے خود غرضی سے باز نہ آئے۔ اگر کسی دوست کو ہماری یہ بات بری لگے تو وہ فوراً سمجھ لے کہ ہماری یہ بات سچی ہے کیونکہ سچ کے بارے میں ماہر حسیات پہلے ہی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ سچ تلخ تو ہوتا ہے مگر دافع امراض خبیثہ ہوتا ہے۔ اور اس کا تا دم مرگ استعمال آدمی کو تمام برائیوں سے پاک رکھتا ہے۔ چچا غالب تو رہنے دیجئے کہ وہ اپنے قول میں صادق تھے (خدا گواہ ہے) مگر پطرس بخاری مرحوم جیسے "جھوٹے” بھی سچ کہنے پر مجبور تھے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا تھا بلکہ وہ خود کہہ گئے ہیں۔ ع

    کہتا ہوں سچ گرچہ عادت نہیں مجھے

    ذکر ہو رہا تھا، دوست کی دوستی کا اور بات پہنچی جا کر۔۔۔ خیر یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ آخر جب قیامت کا ذکر چھڑتا ہے تو اس وقت بھی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور اگر بات کے ساتھ ساتھ آپ خود بھی بنفس نفیس وہیں پہنچ جائیں تو آپ کا یہ اقدام قاب دست اندازی پولیس بھی ہے۔ ہاں تو ہم عدم دستیابی دوست کا تذکرہ کر رہے تھے اور تذکرہ کیا کر رہے تھے حقیقت بیان کر رہے تھے اگر آپ اپنے ارد گرد جمع تمام دوستوں کو دوستی کی کسوٹی پر ذرا سا بھی آزما کر دیکھیں تو حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے گی۔ ویسے ایک دانشور کا قول ہے کہ آپ اپنے دوست کو کبھی نہ آزمائیں ہو سکتا ہے کہ بوجوہ وہ آپ کی آزمائش پر پورا نہ اتر سکے اور آپ ایک اچھے دوست سے محروم ہو جائیں۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ دانشور صاحب نے دوست کو آزمانے سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ انہیں پتہ تھا کہ اس طرح دوست کا بھرم کھل جائے گا اور آپ اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے کہ آپ کا بھی کوئی دوست ہے۔ اب آپ بتلائیں ایسے میں ہم، "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ” کی صدا نہ لگائیں تو کیا کریں۔ ویسے ہم دوست کے وجود کے یکسر منکر بھی نہیں۔ بلکہ ہم نے تو یہ کالم لکھا ہی تلاش دوست کے لئے ہے کیونکہ اس کی پہنچ بہرکیف مجھ سے زیادہ وسیع ہے۔ سوائے مری پیاری تحریر! تو ؂

    اب "انہیں” ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

٭٭٭

 

سچ گپ

باتیں یا تو سچی ہوتی ہیں یا پھر جھوٹی یعنی گپ۔ لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نہ تو سچی ہوتی ہیں اور نہ جھوٹی۔ ایسی باتوں کو سچ گپ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کسی مخلوط محفل میں جب ایک صاحب نے از راہ مزاح یہ کہہ دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی گپ یہ ہے کہ ایک جگہ چند خواتین بیٹھی تھیں اور وہ سب خاموش تھیں۔ تو خواتین نے احتجاجاً شور مچانا شروع کر دیا۔ چنانچہ موصوف کو وضاحت کرنا پڑی کہ بھئی یہ گپ نہیں بلکہ سچ گپ ہے۔ خواتین نہ جانے کیا سمجھیں بہر حال خاموش ہو گئیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ملا دو پیازہ کی زوجہ محترمہ خاموش ہو گئی تھیں۔

راوی کی روایت ہے کہ ملا دو پیازہ کے گھر کے باہر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آئیں تو وہ بارہ  نکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو افراد آپ میں دست و گریباں ہیں۔ ماجرا دریافت کرنے پر ایک نے اپنا دعویٰ ملا دو پیازہ کے گوش گزار کیا تو ملا بولے بھئی بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ اس پر دوسرے نے احتجاج کیا کہ آپ نے میری بات تو سنی نہیں اور فیصلہ یکطرفہ سنا دیا۔ ملا کے استفسار پر دوسرے صاحب نے بھی اپنی رام کہانی سنائی تو ملا نے کہا : کہتے تو تم بھی ٹھیک ہی ہو۔ ملا کی بیوی جو دروازے سے لگی یہ ساری باتیں سن رہی تھی فوراً پکار اٹھیں : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دونوں کی باتیں درست بھی ہوں اور دونوں لڑ بھی رہے ہوں۔ ملا دو پیازہ تھوڑی دیر تک تو بیوی کی اس بات پر غور کرتے رہے۔ پھر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے بھاگوان! کہتی تو تم بھی ٹھیک ہو۔ اور یوں وہ اپنی بات کی تائید پر حسب سابق خاموش ہو گئیں۔ راوی بھی یہیں پر خاموش ہو جاتا ہے مگر گمان غالب ہے کہ ملا اور راوی کے رخصت ہونے کے بعد دونوں نے دوبارہ لڑنا شروع کر دیا ہو گا۔

بالکل اسی طرح جیسے امریکہ کے ایک انتخابی جلسہ میں حاضرین جلسہ اپنے صدارتی امیدوار سے لڑ پڑے تھے۔ صدارتی امیدوار نے جوش خطابت میں کہیں یہ کہہ دیا کہ ہماری آدھی قوم بے وقوف ہے۔ حاضرین کے احتجاج پر فاضل مقرر نے اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آدھی امریکی قوم بے وقوف نہیں ہے۔ اس امریکی رہنما کی نظر میں آدھی قوم بے وقوف ہو یا نہ ہو مگر ہمارے ہاں کا تو ایک پاگل بھی اپنے آپ کو بے وقوف کہلانے پر راضی نہیں ہوتا۔ ایک صاحب کی گاڑی ایک پاگل خانے کے قریب پنکچر ہو گئی۔ وہ پنکچر وھیل کھول کر اسپئیر وھیل لگانے لگا تو پتہ چلا کہ پنکچر وھیل سے کھولے ہوئے سارے نٹ غائب ہیں۔ بہت تلاش کیا مگر نہ ملے۔ موصوف پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ پاگل خانے کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ایک پاگل جو یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا کہنے لگا آپ کے سارے نٹ تو ایک بچہ لے اُڑا۔ صاحب نے پوچھا۔ ارے کب؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ اب میں کیا کروں گا؟ پاگل بولا اب وہ بچہ تو ملنے سے رہا۔ آپ ایسا کریں کہ بقیہ تینوں وھیل سے ایک ایک نٹ کھول کر کام چلا لیں۔ موصوف نے حیرت کی نگاہوں سے پاگل کو دیکھا اور بولے بات تو تمہاری معقول ہے مگر تم تو پاگل ہو تم نے یہ بات کیسے سوچی؟ پاگل کہنے لگا۔ حضرت میں پاگل ضرور ہوں مگر آپ کی طرح بیوقوف نہیں۔

بات سچ گپ سے شروع ہوئی تھی اور پاگل کی عقل مندی تک آ پہنچی۔ مگر دیکھئے ہم اپنے موضوع سے پھر بھی نہیں ہٹے کہ پاگل کا بے وقوف ہونے سے انکار کرنا سچ گپ کی بہترین مثال ہے۔ اب ایک اور تقریب کی بات سنئے۔ اس موقع پر کسی ستم ظریف نے یہ اعلان کر دیا کہ جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا اس کے لیے ایک ہزار روپے کا انعام رکھا جاتا ہے۔ تمام مرد حضرات خاموش ہو گئے اور خواتین میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ اس ستم ظریف نے پھر کہا کہ اپنی بیوی سے ڈرنے والے تمام مرد حضرات اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام مرد اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ گئی مگر ایک دبلا پتلا شخص سہما سہما سا اپنی بیوی کے ہمراہ کھڑا رہا۔ لوگوں نے اسے مبارکباد دی اور اس کی جرات کی تعریف کی کہ اتنے بڑے مجمع میں وہ واحد مرد ہے جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا۔ انعام کی رقم دینے سے قبل لوگوں نے اس کی بیوی سے تصدیق کی کہ کیا واقعی اس کا شوہر اس سے نہیں ڈرتا اور اسے کس بات سے اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھنے سے روکے رکھا۔ بیوی نے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور گویا ہوئی۔ میں نے اس کے کان میں کہہ دیا تھا کہ خبردار جو تم میرے قدموں میں بیٹھے، بس سیدھے کھڑے رہو۔ مجھے ایک ہزار روپے کی شدید ضرورت ہے۔

آپ ماشاء اللہ خود سمجھدار ہیں لہذا ہمیں امید ہے کہ اس واقعہ پر کسی قسم کا تبصرہ ہر گز نہیں فرمائیں گے۔ نہ جانے آپ کی نصف بہتر کو کونسی بات ناگوار محسوس ہو۔ اور وہ آپ کے "بقیہ نصف” ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ پر حملہ آور ہو جائے اور آپ ہوائی حملہ سے بچاؤ کے مسلمہ اصول کے مطابق گھر میں خندق کی عدم دستیابی کی صورت میں پلنگ ہی کے نیچے جا بیٹھیں۔ ایسے میں اگر گڈو آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپ تک پہنچ جائے تو پوچھ بیٹھے کہ ابو ابو کیا آپ بھی میری طرح امی سے ڈرتے ہیں اور آپ دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے کہیں کہ نہیں بیٹے! ایسی تو کوئی بات نہیں۔ لازماً گڈو آپ سے پوچھے گا پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اب آپ کے پاس اس کے سوا اور چارہ کیا ہو گا کہ بھئی یہ میرا گھر ہے۔ میری مرضی میں پلنگ کے اوپر بیٹھوں یا پلنگ کے نیچے۔ میں کوئی ملازم ہوں جو اپنی مرضی نہ چلا سکو۔ ملازم پر یاد آیا کہ کسی گھر کا ملازم روتا ہوا صاحب خانہ کے پاس آیا۔ صاحب نے پوچھا بھئی رو کیوں رہے ہیں۔ ملازم نے روتے ہوئے جواب دیا۔ بیگم صاحب نے مارا ہے۔ یہ سننا تھا کہ صاحب کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ملازم رونا بھول کر انہیں حیرت سے دیکھنے لگا۔ صاحب نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے فرمایا : اس مین رونے والی کون سی بات ہے۔ ارے او احمق! کبھی ہمیں بھی روتے ہوئے دیکھا ہے۔

دیکھئے دیکھئے! ہم آپ کو ہرگز ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس آخر الذکر واقعہ پر آپ کوئی تبصرہ کریں کیونکہ ہم اس واقعہ کو نہ تو سچ مانتے ہیں نہ بالکل ہی گپ۔ البتہ آپ کی آسانی اور مضمون ہذا کی رعایت سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ گپ کی بہترین مثال ہے اور اسی کو کہتے ہیں سچ گپ۔

٭٭٭

 

جھوٹ بولیے

مثل مشہور ہے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت اور سچوں پر خدا کی رحمت۔ مگر اس مشہوری سے جھوٹ کی اپنی صحت پر نہ اب تک کوئی اثر پڑا اور نہ آئندہ پڑنے کا امکان ہے لہذا ہم نے سوچا کہ کیوں نہ روز افزوں پھلتے پھولتے اس جھوٹ کی جھوٹی سچی کہانی پر طبع آزمائی کی جائے۔ سو ہم آج کے کالم مین جھوٹ کی گردان، دروغ بر گردن راوی کہتے ہوئے شروع کرتے ہیں کہ جھوٹ پھر جھوٹ ہے کھلے گا تو سہی۔ جھوٹ کی یوں تو کئی اقسام ہیں مگر چند ایک زبان زد خاص و عام ہیں۔ مثلاً ایک تو سفید جھوٹ ہوتا ہے جسے سب بالاتفاق جھوٹ کہتے ہیں۔ خواہ اس میں سچ کی کتنی ہی آمیزش کیوں نہ ہو اسے عموماً جھوٹے لوگ بولتے ہیں۔ کسی اور کی یہ مجال نہیں کہ وہ سفید جھوٹ بول سکے۔ اس جھوٹ کو بولنے والے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے کہ ایک جھوٹ کو نبھانے کے لئے انہیں مزید کتنا جھوٹ بولنا پڑے گا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس قسم کے افراد ہر دم ہر جگہ اور ہر ایک کے سامنے جھوٹ بولنے کو تیار رہتے ہیں۔ تجربہ کار جھوٹوں کا کہنا ہے کہ جھوٹ ایسا بولنا چاہیے جو اگر صبح بولا جائے تو کم از کم شام تک تو اس کا بھرم باقی رہے جبکہ غیر تجربہ کار جھوٹے عموماً جھوٹ بولتے ہی پکڑے جاتے ہیں۔

جھوٹ کی ایک بہترین قسم مصلحت آمیز جھوٹ ہے۔ ایسا جھوٹ عموماً سچے لوگ بولتے ہیں گو ہوتا تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے مگر اسے مصلحت کا خوبصورت لبادہ پہنا دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے بولنے والے نہ صرف یہ کہ کوئی کراہیت محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔

راویان جھوٹ اس کی تمثیل میں یہ روایت کرتے ہیں کہ کسی دربار میں کوئی درباری بادشاہ سلامت کو زیر لب برا بھلا کہہ رہا تھا کہ بادشاہ کی نظر اس درباری پر پڑ گئی۔ بادشاہ نے ساتھ والے سے دریافت کیا کہ یہ زیر لب کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے مصلحت آمیز جھوٹ کا سہار لیتے ہوئے کہا کہ حضور یہ آپ کی شان میں تعریفی کلمات ادا کر رہا ہے۔ بادشاہ نے خوش ہوتے ہوئے اسے زر و جواہر سے نوازنا چاہا تو قریب ہی بیٹھا ایک بد نیت درباری بول پڑا حضور یہ جھوٹ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ درباری آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اس پر بادشاہ بولا۔ تمہارے اس سچ سے تو اس کا یہ جھوٹ ہی بہتر تھا کہ کم از کم اس کی نیت تو نیک تھی۔

ان دنوں جھوٹ کی مثال رشک و حسد کی بھول بھلیوں سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جب حسد کرنے والے لوگوں کو معاشرے نے ذلت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا تو "پارسا” قسم کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ ہم کیا کریں حسد نہیں کر سکتے اور کئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے رشک جیسا خوبصورت لفظ تراش لیا۔ تاکہ اپنا گزارہ حسد بھی ہوتا رہے اور پارسائی کا بھرم بھی برقرار رہے۔ ایسے ہی پارساؤں کے بارے میں تو شاعر کہہ گیا ہے کہ :

ہم گناہ گار تو آسودہ ملامت ہیں

یہ پارسا ہیں، ذرا ان پر بھی نظر رکھنا

ماہرین کلریات کے مطابق "جھوٹ” خوابوں کی طرح رنگین بھی ہوتے ہیں۔ بھئی سفید جھوٹ سے کون واقف نہیں۔ اب ظاہر ہے سفید جھوٹ کے ہوتے ہوئے سیاہ جھوٹ بھی ہو گا کہ سفید کا تصور سیاہ کے بغیر ممکن نہیں اور جب سفید و سیاہ جھوٹ سے آپ واقف ہو گئے ہیں تو رفتہ رفتہ دیگر رنگوں کے جھوٹ سے بھی واقف ہو جائیں گے۔ ویسے اگر سائنسی نگاہ سے دیکھا جائے تو سفید رنگ بذات خود سات رنگوں کا مرکب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے تو سفید جھوٹ بھی سات رنگین جھوٹوں کا مجموعہ ہوا۔ اب یہ ماہرین جھوٹ کا کام ہے کہ اس مجموعہ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام الناس کو متعارف کرائیں۔ بالکل اس طرح جیسے سائنس دانوں نے سفید روشنی کو سات رنگوں میں علیحدہ کر کے دکھا دیا ہے۔ جھوٹ کے بارے میں آخر میں ایک "زنانہ جھوٹ” بھی سنتے جائیے کہ جھوٹ بولنے والوں کو کالا کوا کاٹا کرتا ہے یعنی (اگر سیاں) جھوٹ بولے (تو) کوا کاٹے، (لہذا اے سیاں!) کالے کوے سے ڈریو۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔

٭٭٭

 

عینک

ایک دیہاتی اپنے لیے چشمہ بنوانے شہر گیا۔ ڈاکٹر نے اس کی آنکھیں ٹیسٹ کر کے اس کے لئے ایک چشمہ منتخب کیا تو دیہاتی نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ ڈاکٹر صاحب! میں یہ عینک لگا کر آسانی سے پڑھ لکھ تو سکتا ہوں نا؟ ڈاکٹر نے جواب دیا ہاں! ہاں کیوں نہیں۔ دیہاتی نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے بغیر عینکوں کے تو مجھے ساری عمر پڑھنا آیا۔ اب میں بھی عینک لگا کر بابو صاحب بن جاؤں گا۔

دیکھا آپ نے عینک کا کارنامہ! پلک جھپکتے، بلکہ عینک لگاتے ہی ایک دیہاتی بابو صاحب بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے عینک اتارتے ہی۔۔۔ ایک سائنس دان ٹرین میں سفر کر رہے تھے کہ یکایک انہیں اپنے کسی اہم خط کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ پڑھنے والی عینک تو گھر ہی بھول آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے وہ خط اپنے ساتھ والے صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ ذرا دیکھنا تو اس میں کیا لکھا ہے؟ موصوف نے ان کی طرح دیکھا اور معذرت کے انداز میں بولے معاف کیجئے گا میں بھی آپ ہی کی طرح ان پڑھ ہوں۔

عینکوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک دھوپ کی عینک جسے عرف عام میں سن گلاس کہتے ہیں ۔ اور دوسری نظر کی عینک۔ جی ہاں اس دوسری قسم کو عرف عام میں پاور گلاس کہتے ہیں۔ اس پاور گلاس کی پھر مزید دو اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہوتی ہے جو دور کی چیزوں کو واضح کر کے دکھاتی ہے ۔ جبکہ دوسری قسم قریب کی چیزوں کو بڑا اور نمایاں کر کے دکھاتی ہے۔

جن خواتین و حضرات کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ وہ موخر الذکر قسم کی عینک سے استفادہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قریب و دور دونوں نظریں کمزور ہوتی ہیں۔ وہ دونوں اقسام کے گلاسز باری باری(حسب ضرورت) استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ترتیب استعمال الٹ ہو جائے تو بڑی دلچسپ صورتحال پیش آتی ہے۔ ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ شاپنگ کر کے واپس آ رہی تھیں کہ محترمہ کے ایک بچہ نے ریڑھی والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ امی مجھے یہ لے دیں پسینے میں شرابور خاتون نے رومال سے چہرہ صاف کیا اور عینک لگاتے ہوئے ریڑھی والے کے پاس آئیں اور ریڑھی والے سے کہا بھئی کیسے کلو دے رہے ہو۔ ریڑھی والے نے پہلے تو مشتبہ نگاہوں سے خاتون کی طرف دیکھا پھر بولا : بیگم صاحب آپ غبارے بھی تول کر خریدیں گے۔ خاتون کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے فوراً عینک تبدیل کی تو پتہ چلا کہ جسے وہ انگور سمجھ رہی تھیں وہ دراصل غبارے تھے۔

دھوپ کی عینک یوں تو آنکھوں کو دھوپ کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لئے ایجاد کی گئی تھی مگر اس اس کا استعمال آشوب چشم کے مریضوں کے علاوہ خواتین خاص خاص مواقع پر کثرت سے کرتی ہیں۔ سن گلاس کے شیشے عموماً رنگین ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو کئی کئی رنگوں پر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔ جبکہ پاور گلاس یعنی نظر کی عینک عموماً شفاف شیشوں کی ہوتی ہے۔ مگر خواتین کے پاور گلاس عموماً رنگین ہی ہوتے ہیں تاکہ سن گلاس کا شائبہ رہے اور ان کی بینائی کی کمزوری کا اسرار کھلنے نہ پائے۔

٭٭٭

 

مردوں والی بات

راشد بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ جب بھی گھڑی کی جانب دیکھتا، اس کی بیوہ ماں کی نگاہ بے اختیار گیٹ کی طرف اٹھ جاتی۔ آج راشدہ کو کالج میں خاصی دیر ہو گئی تھی اور جب تک وہ گھر نہ آ جاتی راشد کھانا کھانے سے انکار ہی کرتا رہتا۔ حالانکہ اسے اخبار کے دفتر جانے میں دیر ہو رہی تھی جہاں وہ بطور پروف ریڈر ملازم تھا۔ اس کی ماں بھی کئی بار دبے لفظوں میں اسے کھانا کھانے اور دفتر جانے کا کہہ چکی تھی مگر راشد کے شدت سے انکار کرنے پر وہ بھی خاموش ہو جاتی اور تشکر بھری نگاہوں سے بیٹے کا چہرہ تکنے لگتی۔ یہ تقریباً روز ہی کا معمول تھا۔

راشد گو راشدہ سے ایک برس چھوٹا تھا مگر ذہانت اور محنت میں راشدہ سے کسی طور کم نہ تھا اسی لئے والدین نے دونوں کو ایک ہی کلاس میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ پڑھنے پڑھانے میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میٹرک میں پہنچ گئے۔ اساتذہ کے مشورہ اور بچوں کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے ان کے ابو نے انہیں سائنس گروپ میں داخلہ دلا دیا۔ خیال تھا کہ بیٹے کو آگے جا کر انجینئرنگ اور بیٹی کو میڈیکل میں داخلہ دلائیں گے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس روز میٹرک کا نتیجہ متوقع تھا جب راشد اور راشدہ کے ابو دفتر کے لئے گھر سے نکلنے لگے تو ان دونوں نے ایک بار پھر انہیں یاد دلایا کہ اخبار کا سپلیمنٹ نکلتے ہی وہ دفتر سے چھٹی لے کر گھر آ جائیں گے۔ اور انہوں نے بھی وعدہ کر لیا تھا کہ وہ صرف اخبار لے کر نہیں بلکہ مٹھائیوں کے ڈبے بھی لے کر آئیں گے۔ اور جب وہ حسب وعدہ اخبار کا سپلیمنٹ اور مٹھائی کے ڈبے لے کر خوشی خوشی تیز رفتاری سے اسکوٹر چلاتے ہوئے گھر لوٹ رہے تھے کہ اچانک سامنے آ جانے والے ایک بچے کو بچاتے ہوئے مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹرک سے ٹکرا گئے اور جائے حادثہ پر ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

غمزدہ مختصر سا خاندان سرکاری کوارٹر چھوڑ کر ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گیا۔ راشد کے بے حد اصرار اور والد مرحوم کی خواہش کے مطابق راشدہ نے انٹر سائنس پری میڈیکل گروپ میں داخلہ لے لیا جبکہ راشد نے صبح ایک آرٹس کالج میں داخلہ لے کر شام کو ایک اخبار میں ملازمت کر لی۔ اب یہ روز کا معمول تھا کہ راشد کالج سے چھٹی ہوتے ہی گھر آ کر کھانے پر ماں کے ساتھ راشدہ کا انتظار کرتا کیونکہ پریکٹیکل کے باعث ہفتہ میں تین چار دن تاخیر سے گھر لوٹتی جب تک وہ گھر نہ لوٹ آتی راشد نہ تو کھانا کھاتا اور نہ دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلتا۔

آج بھی وہ راشدہ کے انتظار میں ماں کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا، تاکہ ماں کی توجہ بھی بٹی رہے اور انتظار کے لمحات بھی با آسانی کٹ جائیں۔ "اماں ایسا لگتا ہے جیسے اس گھر میں ہم ہمیشہ تین ہی افراد رہیں گے” راشد نے پیار بھری نظروں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ارے کیا منہ سے بد فال نکالتا ہے۔” ماں نے جھوٹ موٹ کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "جب میں تیرے لئے ایک چاند سی دلہن لے آؤں گی تو۔۔۔” راشد ماں کا فقرہ درمیان ہی سے اچکتے ہوئے بولا "اماں اس وقت تک باجی کی شادی بھی تو ہو جائے گی۔ اس گھر میں ہم تو پھر تین کے تین ہی رہیں گے ناں!” "ارے بیٹا تو کتنا بھولا ہے۔ دیکھ جب میرا پوتا اس گھر میں آئے گا تو ہم پھر۔۔۔”۔ "مگر اماں!” بیٹے نے شوخ نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا "اس وقت تک تم اللہ میاں کے پاس نہ ۔۔۔ "! ارے اب تو میرے۔۔۔۔ !” اتنے میں گیٹ کسی نے زور سے دھڑدھڑایا۔ یہ راشدہ کے گھر آنے کا مخصوص انداز تھا۔ راشد نے ماں کی توجہ بٹاتے ہوئے کہا "اماں۔۔۔ لو باجی بھی آ گئی۔ اب جلدی سے کھانا نکالئے۔ مجھے پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔” کھانا تو پہلے ہی سے تیار تھا۔ بس راشدہ ہی کے آنے کی دیر تھی وہ آئی تو سب کھانے پر بیٹھ گئے اور راشد جھٹ پٹ کھانا کھا کر راشدہ اور ماں کو دسترخوان پر ہی چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔

 دن اسی طرح کٹتے رہے۔ راشد نے انٹر کر کے بی اے میں اور راشدہ نے مطلوبہ مارکس نہ آنے پر بی ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ ابھی وہ فائنل ایئر ہی میں تھی ماں بیٹے نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر اسے پیا گھر بھیج دیا۔ بی اے پاس کرتے ہی راشد کو اپنے ہی اخبار میں سب ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔ گھر میں ذرا خوشحالی آئی تو ماں کو چاند سی بہو لانے کا ارمان دل میں جاگا۔ یوں راشد کی بھی شادی ہو گئی۔ گھر کے بے تکلفانہ ماحول کی جگہ رکھ رکھاؤ نے لے لی۔ راشدہ اب میکے آتی تو ماں اور بھائی کے ساتھ مل کر پہلے کی طرح گھنٹوں بے تکلفانہ گفتگو کرنے کی بجائے بھائی بھابھی سے علیک سلیک کرنے کے بعد ماں کے کمرے میں جا گھستی اور ماں بیٹی گھنٹوں نہ جانے کیا کھسر پھسر کرنے لگتیں۔ ایسے میں راشد اگر گھر میں ہوتا تو اسے بڑی کوفت ہوتی۔ اس کی بیوی کچن میں کھانا پکانے میں مصروف ہوتی تو وہ اپنے کمرے میں تنہا لیٹا بہن اور ماں سے ماضی کی طرح بے تکلفانہ ماحول میں گفتگو کرنے کی تمنا کیا کرتا۔ اس روز بھی وہ جب دفتر جانے کے لیے کھانا کھانے گھر میں داخل ہی ہوا تھا کہ ساتھ والے کمرے سے راشدہ اور ماں کے درمیان باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیں جو نسبتاً تیز ہونے کی وجہ سے صاف سنائی دے رہی تھیں۔ غالباً انہیں راشد کے گھر آنے کی اطلاع نہ تھی۔ راشدہ ماں سے اپنے سسرال کی شکایتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی، "امی وہ میری تو بالکل ہی نہیں سنتے۔ ہر کام ماں اور بہنوں سے پوچھ کر ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی مردوں والی بات تو نہ ہوئی نا!” قبل اس کے کہ بیٹی ماں سے مزید شکوہ شکایت کرتی راشد کی بیگم نے کمرے میں آ کر راشد کے آنے اور کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔ اور یوں بات آئی گئی ہو گئی۔ راشد نے حسب معمول سب کے ساتھ کھانا کھایا اور سب کو گپ شپ کرتا چھوڑ کر دفتر کو روانہ ہو گیا۔

دن اسی طرح ماہ و سال میں تبدیل ہونے لگے۔ اب راشدہ میکے آتی تو اس کی گود میں اس کا بیٹا بھی ہوتا۔ اور وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ دن ماں کے ہاں قیام کرتی۔ ادھر راشد کی بیگم ہنوز اپنی گود ہری ہونے کے انتظار میں تھی۔ راشد کو تو اس بات کی چنداں فکر نہ تھی۔ مگر ماں اور بہن دونوں مل کر راشد کے کان بھرتیں تو وہ بھی کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔ اور پھر اس کی اپنی بیگم سے ان بن ہو جاتی مگر وہ بالآخر بیوی ہی کی بات کو معقول پا کر ماں اور بہن کی باتوں کو نظر انداز کر دیتا۔ اور اپنے روز مرہ کے معمول میں گم ہو جاتا۔ یہ دیکھ کر ماں بیٹی دونوں راشد سے روٹھ جاتیں۔

راشد کے رویہ میں کسی تبدیلی کو نہ دیکھ کر بالآخر ماں بیٹی نے راشد سے دو ٹوک گفتگو کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ خوش قسمتی سے انہیں اس بات کا موقع بھی مل گیا۔ راشدہ اس مرتبہ جب میکے آئی تو پتہ چلا کہ بھابھی اپنے میکے گئی ہوئی ہے۔ ماں بیٹی نے موقع غنیمت جانتے ہوئے راشد کو گھیر لیا۔ راشدہ کہنے لگی : میں کہتی ہوں کیا ہر بات میں بیوی کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہو۔ مرد بنو مرد۔ اپنے اندر کچھ تو مردوں والی بات پیدا کرو۔ اور ہاں اب کان کھول کر سن لو۔۔۔۔

راشدہ بولے جا رہی تھی مگر راشد بظاہر متوجہ ہونے کے باوجود کچھ سننے سے قاصر تھا۔ کیونکہ اس کے کانوں میں راشدہ کے وہ جملے گونج رہے تھے جو اس نے ماں سے اپنے شوہر کے متعلق کچھ عرصہ پہلے کہے تھے : امی وہ میری تو بالکل ہی نہیں سنتے۔ ہر کام ماں اور بہنوں سے پوچھ کر ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی مردوں والی بات تو نہ ہوئی نا!

٭٭٭

 

شہید صحافت

یہ دسمبر94ء کے پہلے اتوار کی شام تھی۔ میں حسب معمول اپنے اخبار کے لئے لندن سے موصول ہونے والی خبروں کی تدوین و ترجمہ میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک روزنامہ کے مدیر تھے جو ممتاز صحافی محمد صلاح الدین سے متعلق ایک خبر کی تصدیق چاہ رہے تھے۔ متعلقہ رپورٹر سے فوری رابطہ کے بعد اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ کچھ ہی دیر قبل صلاح الدین صاحب کو ان کے دفتر سے نکلتے ہی نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کر دیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

جب ذرا اوسان بحال ہوئے تو صلاح الدین صاحب کے ایک دیرینہ رفیق کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ جمعیت الفلاح گئے ہوئے ہیں اور جب میں وہاں پہنچا تو اجلاس کا اختتامی سیشن چل رہا تھا۔ اور صدر مجلس بتلا رہے تھے کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی تو صلاح الدین صاحب نے فون پر اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی اطلاع دی تھی۔ اے کاش کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کے لئے دفتر سے جلد اٹھ جاتے تو یہ سب کچھ تو نہ ہوتا جو ہو گیا ہے۔۔۔ مگر اس طرح تو وہ شہادت کی سعادت سے محروم نہ ہو جاتے؟۔۔۔ پھر کیا ہوتا، کم از کم ہم تو ان سے محروم نہ ہوتے۔۔۔ ہم بھی کتنے خود غرض ہیں کہ ہر دم اپنی غرض۔۔۔ اپنی محرومی ہی کا خیال رہتا ہے۔ ایک وہ تھے جو اپنے شہر، اپنے ملک بلکہ پورے عالم اسلام کی محرومیاں دور کرنے کی سعی مسلسل کرتے ہوئے اپنی جان تک کی بازی لگا بیٹھے۔

گو صلاح الدین صاحب سے جمعیت الفلاح کے اجلاسوں اور شہر میں ہونے والی دیگر تقاریب کے علاوہ کبھی براہ راست فیض حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی کبھی ان کے ساتھ کسی اخبار یا رسالہ میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر اس کے باوجود مجھے ان کی تحریروں اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں کے مطالعہ سے براہ راست بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے صلاح الدین صاحب پر ایک بھرپور خاکہ لکھا جو غالباً ان کی زندگی میں ان پر لکھی گئی اپنی نوعیت کی پہلی تحریر ہے۔ یہ خاکہ تکبیر ہی میں شائع ہونے والے معروف سیاسی شخصیات پر لکھے گئے خاکوں کے مقبول عام سلسلہ "تاب سخن” کی طرز پر لکھا گیا تھا۔ یہ خاکہ اس اعتبار سے منفرد نوعیت کا حامل ہے کہ صلاح الدین صاحب کے پرستاروں نے اسے ان کے خلاف اور ان کے مخالفین نے حمایت میں لکھا ہوا خاکہ قرار دیا۔

مجلس ادب کی ایک تنقیدی نشست میں ممتاز شاعر جمیل علوی نے کہا کہ یہ کالم لکھ کر موصوف "گڈول” بنانے کے چکر میں ہیں۔ شمس الدین خالد نے کہا کہ یوسف ثانی نے خاکہ اڑانے والے کا خاکہ خوب اڑایا ہے۔ کمانڈر عبد الجلیل صاحب نے کہا کہ خاکہ نویس اپنا بھرپور روایتی انداز پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، غالباً ان پر زیر بحث شخصیت کا خوف طاری رہا ہے۔ جبکہ اس خاکسار نے یہ خاکہ صلاح الدین صاحب کو ارسال کرتے ہوئے ان کے نام اپنے پہلے اور آخری مکتوب میں صاف صاف واضح کر دیا تھا کہ : "کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خود مضمون نگار اپنے تحریر کردہ مضمون کے نفس سے متفق نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب لکھنے والا کالم نویس یا فکاہیہ نگار ہو۔ وہ اکثر و بیشتر خلق خدا کی آراء کو زبان عطا کرتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کالم نویس نے لکھا ہے وہ دراصل خود اس کے ذاتی نظریات و خیالات ہیں۔

    صلاح الدین صاحب کی زندگی میں لکھا گیا یہ خاکہ گو اپنی جگہ ایک مکمل اور مربوط تحریر ہے جس کے حصے بخرے کرنے سے اس کا حسن اور تسلسل متاثر ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے منتخب حصے پیش خدمت ہیں جو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہونگے۔

    صحافیوں کے نزدیک نِرے مولوی ہیں تو بعض مولویوں کے نزدیک نَر صحافی۔ نتیجتاً موصوف میں نہ صحافیوں والی مخصوص "بُو” پائی جاتی ہے نہ مولویوں والی روایتی "خُو”۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ موصوف کا اصل پیشہ سیاست ہے یا صحافت؟ یہی وجہ ہے کہ ہر دو کو اسپانسر کرنے والے ہمارے ممدوح کے سلسلے میں ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں خسارے کی سرمایہ کاری نہ کر بیٹھیں۔ موصوف کو چاہیے کہ وہ ان اسپانسرز کی پریشانی دور کر دیں۔ ان کی اپنی (مالی) پریشانیاں خود بخود دور ہو جائیں گی۔

    ہمارے ممدوح کی سیاسی وابستگی بھی عورت ذات کی طرح ایک ایسا معمہ ہے جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ سمجھایا جا سکتا ہے۔ گو کہ ہر دو کام پہلے بھی جارے تھے اور غالباً آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ عوام الناس انہیں "جماعتی” سمجھتے تھے، سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ جبکہ جماعتی انہیں جماعتی سمجھتے تو تھے مگر اب ایسا ہرگز نہیں سمجھتے اور آئندہ کے لئے تو انہوں نے توبہ ہی کر ڈالی ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو کبھی پیدائشی مسلم لیگی کہتے ہیں تو کبھی الجماعت (جس کا وجود ع ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے، کی طرح متنازعہ ہی ہے) کارکن گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جماعت سے متفق ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ جماعت میں متفقین ہی کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس جمہوری دور میں لوگ عموماً اکثریتی گروہ کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ پھر شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے قارئین کی اکثریت کا تعلق مبینہ طور پر متفقین جماعت ہی سے ہے۔

     صلاح الدین دھن کے بڑے پکے ہیں۔ جس راگ کو اپنا لیں اسے ہر موسم میں الاپتے رہتے ہیں۔ حکومت خواہ اپنوں کی ہو یا پرایوں کی۔ اپنوں کی حکومت میں گھر اور دفتر جلوا کر سرکاری امداد ببانگ دہل وصول کرتے ہیں۔ مگر راس نہ آنے پر اسی طرح لوٹا دیتے ہیں جیسے بیت المال کی رکنیت۔ یہ اتنے بڑے صحافی ہیں کہ اچھے اچھے صحافی پلاٹ پرمٹ حاصل کر کے بھی اچھے ہی رہے اور یہ نہ حاصل کر کے بھی بُرے کے بُرے۔ گو تکبیر کا آغاز "مجھے ہے حکم اذاں” سے کرتے ہیں مگر بد خواہوں کا کہنا ہے کہ یہ بین السطور "اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں” بھی کہنا چاہتے ہیں۔ غالباً اسی عقیدہ کی بنیاد پر جماعت میں "بت” ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی "شکنی” کرتے رہتے ہیں۔ گویا محمود غزنوی بننے کے خواہاں ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اوپر یہ الزام بھی لگنے نہیں دینا چاہتے۔ احتیاطاً موصوف اپنا دفتر بھی محمود غزنوی روڈ کے قریب سے اٹھا کر بہت دور لے گئے ہیں۔

    صوفیائے کرام کی تعلیمات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے (نفس کے) تن کو قید رکھنے کے قائل ہیں تو یہ خود کو "تن قید” پر مائل پاتے ہیں۔ اب تک جتنی تنقید سیاست اور سیاست دانوں پر کر چکے ہیں اگر اتنی تنقید ادب اور ادیبوں پر کی ہوتی تو اب تک پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریوں کی مالا گلے میں لٹکائے ادب کے سادھو بنے بیٹھے ہوتے اور اردگرد ادیبوں کا میلہ لگا ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس۔ عورتیں تو محض "پی” کو کوستی ہیں یہ پی۔۔۔ پی کو کوستے رہتے اور وہ بھی ایسے جیسے پی پی کے کوس رہے ہوں۔ چنانچہ کود بھی بند ہوئے اور اپنی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار کو بھی بند کرواتے رہے۔ غالب کو تو شکایت تھی کہ ع پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ مگر یہ ایسے بھولے نکلے کہ دوسرے کے لکھے اداریوں پر بارہا پکڑے گئے مگر کبھی شکایت نہیں کی۔ نہ لکھنے والے سے نہ پکڑنے والوں سے۔ چنانچہ بالا آخر اخبار سے یہ کہتے ہوئے نکلے یا نکالے گئے کہ ع بہت "با آبرو” ہو کر تیرے کوچے سے میں نکلا۔ جس کی حمایت کرتے ہیں اسے شہید کا درجہ دلوا کر رہتے ہیں۔ مثلاً ضیاء الحق شہید۔ جس کی مخالفت کرتے ہیں اسے پھانسی پر لٹکوا کر ہی چھوڑتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو۔ شنید ہے کہ آج کل موصوف نواز شریف کی حمایت اور قاضی حسین احمد کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر دو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔

    جماعت سے گو متفق ہیں مگر "جماعتوں” سے غیر متفق۔ مطلب یہ کہ گڑ تو پسند ہے مگر گلگلوں سے پرہیز فرماتے ہیں۔ گل بہار (بانو نہیں) سے خاصی انسیت ہے۔ مگر جب سے وہاں کے باسی بزور کلاشنکوف اسے دوبارہ گولی مار بنانے پر تل گئے ہیں، طبیعت کچھ اچاٹ سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جیل کی کوٹھڑی میں ہوتے تھے تو کوٹھڑی کے باہر پولیس والا کھڑا ہوتا تھا کہ مبادا کوٹھڑی سے نکل کر باہر نہ بھاگ جائیں۔ پھر خدا نے وہ دن دکھایا کہ یہ گل بہار میں ہوتے تھے تو گھر کے باہر پولیس کا پہرہ ہوتا تھا کہ مبادا اردگرد موجود ان گنت کلاشنکوف بردار قریب سے گزرنے والی بسوں، منی بسوں کے کنڈیکٹروں کی صدا۔ گولی مار!گولی مار! پر عمل ہی نہ کر بیٹھیں۔

    کوچہ صحافت میں جہاں کہیں بھی رہے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ اپنی صحافتی ٹیم کے کارکنوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو کسی مشاعرہ میں شاعر یا اکھاڑے میں پہلوان اپنے شاگردوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی قافیہ، ردیف اور داؤ پیچ خود بتلاتے ہیں، شاگرد انہی پر عمل کر کے کامیاب یا ناکام ہوتا ہے۔ کثیر الشاگرد صحافی ہیں۔ جو شاگردی سے انکار کر دے اسے اپنی ٹیم سے ہی نکال دیتے ہیں۔ ایک غیر خواہ کے بقول خود کو صحافت کا وڈیرہ اور قاری کو اپنا ہاری تصور کرتے ہیں۔ ایک عرصہ سے نیوز میگزین کے نام پر "ویوز میگزین” نکال رہے ہیں۔ اداریہ سے لے کر ادبی کالم تک کے تمام صفحات موصوف کے ذاتی ویوز کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ قارئین کے تعریفی خطوط انہیں اور تنقیدی خطوط ان کی ردی کی ٹوکری کو بہت مرغوب ہیں۔ سیاستدانوں کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہوئے اس کی تکا بوٹی کرنا جائز تصور کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی سطر ان کے پرچہ میں شائع ہوئی ہو جو ان کے خلاف جاتی ہو۔ جو دوست کا دوست ہے وہ ان کا بھی دوست ہے چنانچہ دوست کے دوست کا سات خون بھی معاف کر دیتے ہیں۔ اپنی رائے کو اس تواتر سے لکھتے ہیں کہ ہر پرچہ پر گذشتہ شمارے کا گمان ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو (جو اکثر ہوتا ہے) سابقہ تجزیوں اور جائزوں ہی کو نئی کمپوزنگ کے ساتھ شائع کر کے فروخت کے لئے مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ جس شخص یا جماعت کو ملک دشمن سمجھ لیں اس کی ہر اچھی بات (فعل) پر بھی شک کا اظہار کرتے ہیں اور جسے ایک مرتبہ ملک کا خیر خواہ قرار دے دیں، اس کی ہر ملک دشمنی سے صرف نظر کرتے ہیں۔

    ہم موصوف کے خیر خواہ ہونے کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ ان کا پرچہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ وہ اپنے پرچہ کی ترقی کی خاطر اپنے پرچے میں اپنا کالم شائع کرنا بند کر دیں بلکہ ہر وہ کالم بند کر دیں جو ان کے کالموں کے رنگ و روپ سے ملتا جلتا ہو تاکہ ان کا پرچہ کم از کم ان کے قارئین کے بچوں کی ضرورت تو پوری کر سکے جو ہر ہفتے نئی کاپیوں کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں۔ او ریہ کوئی انہونی بات نہ ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اب تک ایسی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن کے تمام صفحات سادہ ہیں۔ اگر موصوف نے ہمارے اس مشورے پر عمل کیا تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہر جماعت کے نصاب میں موصوف کے ہفتہ وار پرچے کو شامل نصاب کرنے میں محکمہ تعلیم کو کوئی عار نہ ہو گا اور یوں ان کا پرچہ اپنے ہم عصر کثیر الاشاعت پرچوں سے بہت آگے نکل جائے گا۔

    سیاسی تجزیہ نگاری میں اپنے ثانی خود آپ ہیں۔ مستقبل کا جائزہ اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی خوش قسمت رپورٹر کسی وقوعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔۔۔ خفیہ اجلاسوں کا آنکھوں دیکھا حال” اس طرح قلمبند کرتے یا کرواتے ہیں کہ خفیہ اجلاس منعقد کرنے والے اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنا سر اس لئے کہ اس "کار خیر” کے لئے موصوف کے سر تک رسائی نہیں ہو پاتی، درمیان میں "ایجنسیاں” جو حائل ہو جاتی ہیں۔۔۔”

    اور قارئین کرام! آپ نے دیکھ ہی لیا جونہی "ایجنسیاں” درمیان میں سے ہٹیں۔ اور شہر سے نکل کر واپس بیرکوں میں پہنچیں، صلاح الدین صاحب کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس کی "پیشن گوئی” ٹھیک ایک برس قبل یعنی دسمبر ۹۳ء میں لکھے گئے اس خاکہ میں کی گئی تھی۔ غالباً یہی وہ احساس تھا جس کے باعث صلاح الدین شہید کے جنازہ کو اشکبار آنکھوں سے کاندھا دیتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کاش میں نے یہ خاکہ نہ لکھا ہوتا۔۔۔ مگر میرے یا کسی کے لکھنے یا نہ لکھنے سے کیا ہوتا ہے، ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہے۔

    صلاح الدین صاحب کی شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاریخ ساز شخصیات کی زندگیوں میں ۵۹ برس کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ میدان صحافت میں ربع صدی سے زائد بھرپور سال گزار کر ریٹائرمنٹ کی رسمی عمر سے بھی قبل ریٹائر ہونے والے اس شہید صحافت بلکہ شہید وفا کے لئے میں اس کے سوا اور کیا کہوں کہ وہ ۔۔۔ اللہ کی عطا کردہ زندگی ۔۔۔ اللہ ہی کی راہ میں خرچ کر کے ع حق تو یہ کہ حق ادا کر گیا۔

٭٭٭

 

محمد نقوش

اگر بالفرض محال آج میں مر جاؤں تو کیا ہو گا۔ بعض لوگ خوش ہوں گے تو بعض کہیں گے کہ چلو اچھا ہی ہوا۔ شاید چند ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ ہاں مرحوم ایک اچھا آدمی تھا۔ اس نے چند اچھے اچھے نمبر نکالے اور بس۔ کیا میں صرف ان چند جملوں کے لیے دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ کیا صرف ان چند جملوں کے لیے؟

جی ہاں یہ ان الفاظ کا مفہوم ہے جو مدیر نقوش محمد طفیل مرحوم نے اپنی کتاب "جناب” میں اپنے ہی اوپر لکھے گئے ایک خاکے میں اپنے بارے میں کہے اور آج یہ بات صد فیصد درست ثابت ہوئی کہ مرحوم کی وفات پر پاکستان ٹیلی ویژن نے بیس منٹ کے مختصر سے وقت میں چند اصحاب کے تاثرات پیش کیے جو ان ہی چند جلموں پر مشتمل تھے جن کا تذکرہ مرحوم نے اپنے ذاتی خاکے میں کیا تھا۔

محمد طفیل کا شمار ان اصحاب میں ہوتا ہے جن کے بارے میں سیلف میڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ آپ نہ تو معروف سکہ بند ادیبوں میں سے تھے نہ مدیروں میں۔ مگر آپ نے اپنے آپ کو بحیثیت ادیب و مدیر اس طرح منوایا کہ بڑے بڑے سکہ بند ادباء بھی آپ کے سامنے بونے نظر آنے لگے۔ آپ نے علم و ادب کی دنیا میں بحیثیت ایک کاتب کے قدم اٹھایا۔ آپ کو کتابت کرنے کا شروع ہی سے شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مشہور ادباء سے فرمائش کر کے ان کی کتابیں کتابت کیا کرتے، بعد ازاں آپ نے ادیبوں ک کتابیں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ادب نوازی کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو آپ کو ایک ایسے رسالے کی ضرورت محسوس ہوئی جسے ادبی دنیا میں انسائیکلوپیڈیا کا مرتبہ حاصل ہو۔ چنانچہ آپ نے نقوش جاری کیا۔ ابتدا میں آپ نے اس کی ادارت احمد ندیم قاسمی کے سپرد کی مگر پھر آپ اور نقوش اس طرح یکجان ہو گئے کہ نقوش کے لیے آپ کی ادارت ناگزیر ہو گئی۔ نقوش سے آپ کا والہانہ لگاؤ اتنا بڑھا کہ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے آپ کو محمد طفیل کی بجائے محمد نقوش کہنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب کی دنیا آپ کو محمد نقوش کے نام سے پہچاننے لگی۔ علمی و ادبی دنیا میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ نقوش کے خصوصی نمبرز ہیں۔ بقول پطرس بخاری مرحوم’ طفیل صاحب کا ہر شمارہ خاص نمبر ہوتا ہے۔ آپ نقوش کے عام شمارے خاص خاص موقع پر شائع کرتے ہیں۔ انہوں نے نقوش کے جتنے بھی موضوعاتی نمبر نکالے ہیں’ وہ تمام کے تمام اپنے موضوع پر حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس عطاء اللہ سجاد کے بقول نقوش کے یہ نمبرز تحقیق کی نئی راہیں استوار کر سکتے ہیں۔ منفرد اسلوب کے مالک صدیق سالک کہتے ہیں کہ "محمد طفیل کے لاکھوں عقیدت مندوں میں سے ایک ہوں۔ میرا ان سے تعارف نقوش کے ذریعے ہوا۔ جب میں نے نقوش کے پیچھے طفیل صاحب کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اگر نقوش عظیم ہے تو طفیل صاحب عظیم تر”۔

محمد طفیل مرحوم نے نقوش 1948 میں احمد ندیم قاسمی کی زیر ادارت شروع کیا۔ اس زمانے میں منفرد ادیبہ ہاجرہ مسرور بھی نقوش سے منسلک تھیں۔ احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے میں نقوش کے عالمی امن نمبر اور جشن آزادی نمبر نکالے جو بےحد مقبول ہوئے۔ حامد علی خان اپنے تاثرات میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے انہیں سب سے پہلے مدیر اعلی کا خطاب دیا۔ کیونکہ انہوں نے نقوش کی ادارت کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے جدید اور قدیم دونوں ادب پر کام کیا ہے جو اردو ادب کی تاریخ میں بلند مقام رکھتا ہے۔ گو اس سے پہلے اس قسم کا کام امتیاز علی تاج نے بھی اسی طرز پر کیا تھا مگر محمد طفیل مرحوم جیسا کام وہ بھی نہیں کر پائے۔

معروف ڈرامہ نگار انتظار حسین کہتے ہیں کہ مدیر کی حیثیت سے طفیل مرحوم کا سب سے برا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔ محمد طفیل مرحوم نے یوں تو نقوش کے متعدد شاہکار نمبر نکالے مگر ان کا سب سے برا اور آخری کارنامہ تیرہ جلدوں پر مبنی رسول نمبر ہے جو پوری دنیا میں کسی بھی زبان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر لکھے گئے رسالوں سے کہیں زیادہ مستند ہے۔ رسول نمبر کی تدوین کے دوران ایک مرتبہ صدر مملکت نے ان کی خدمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ عقیدت کے پیش نظر انہیں یہ پیشکش کی کہ آپ سرکاری خرچ پر حج کر آئیں تو آپ نے فرمایا: میں خالی ہاتھ روضہ رسول پر حاضری نہیں دے سکتا جب تک کہ رسول نمبر مکمل نہ کر لوں۔ صدر نے جواباً فرمایا بھئی لطف تو اسی میں ہے کہ آپ خالی ہاتھ در مصطفے (صلی اللہ علیہ و سلم) پر جائیں اور جھولی بھر کر لائیں۔ چنانچہ اس طرح محمد طفیل صاحب حج پر گئے۔ کسی نے ان کی موت پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ انہوں نے نقوش کے بہت سے نمبر نکالے۔ ان نمبروں میں سے سب سے شاہکار نمبر رسول نمبر تھا۔ اس رسول رسول نمبر سے بڑھ کر آپ کوئی اور نمبر نہیں نکال سکتے تھے لہذا آہ کو مر ہی جانا چاہیے تھا۔ ہم اپنے کالم کا اختتام پروفیسر مرزا محمد منور کے اس قول پر کرتے ہیں کہ "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فرد واحد کے زیر انتظام کسی ادارے نے کی ہو” ؂

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

٭٭٭

 

زندہ ہیں مسٹر دہلوی

مسٹر دہلوی اظہار بیان میں الجھاؤ اور مصلحت کے قائل نہ تھے کیونکہ مصلحت پسندوں کا ضمیر تو کیا ما فی الضمیر بھی نہیں ہوتا۔ آج تو لوگ سچ بھی اس طرح اٹک اٹک کر بولتے ہیں گویا جھوٹ بول رہے ہوں۔

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی جمعیت الفلاح میں منعقدہ مسٹر دہلوی کی تیسری برسی کے موقع پر اپنے مخصوص انداز تحریر میں، بحیثیت مہمان خصوصی تقریر فرما رہے تھے اور میری نگاہوں کے سامنے ۳۱ جولائی ۱۹۸۸ء کی وہ شام تھی جب فلاح مجلس ادب کے تحت اسی جگہ مسٹر دہلوی کے ساتھ ایک شام منائی گئی تھی۔ موتمر عالم اسلامی کے جناب ایس ایس جعفری کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر عنایت علی خان اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے مسٹر دہلوی کے فن و شخصیت پر مقالے پڑھے۔ جبکہ مجلس کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس خاکسار نے بھی اظہار خیال کیا۔ مسٹر دہلوی کی زندگی میں ان کے ساتھ منائی جانے والی یہ آخری شام تھی۔ ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی یاد میں پہلے تعزیتی جلسہ کے اہتمام کا اعزاز بھی فلاح مجلس ادب نے ہی حاصل کیا۔

مسٹر دہلوی کے ساتھ منائی جانے والی اس آخری شام کے صرف ایک ہفتہ بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو اس خاکسار کے لئے ابھی تک پشیمانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ہوا یوں کہ ایک مقامی روزنامہ میں مسٹر دہلوی کا ایک تفصیلی مضمون "موسمی معاشیات دان” کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ مسٹر دہلوی ایک مزاح گو شاعر و ادیب کے علاوہ ایک معاشیات دان بھی تھے۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک ضخیم کتاب "مکالمات سقراط” بھی شائع ہو چکی ہے۔ مرحوم کی وفات پر اس خاکسار نے یہ چار مصرعے کہے تھے جن میں مسٹر دہلوی کی چاروں کتابوں کے نام موجود ہیں۔

گر "عطر فتنہ”، "سوئے ادب” کی بات تھی

تو "مکالمات سقراط” کیونکر "سپرد قلم” ہوئے

گلشن شعر و ادب میں، زندہ ہیں مسٹر دہلوی

ہاں! مشتاق احمد چاندنا رخصت ہوئے

مسٹر دہلوی کا چار ہزار الفاظ کا یہ تفصیلی مضمون جس صبح اخبار میں شائع ہوا اس روز میں دفتر جانے کی بجائے اس مضمون کا جواب لکھنے بیٹھ گیا اور ایک ہی نشست میں "موسمی ماہرین معاشیات اور مسٹر دہلوی” کے عنوان سے تقریباً ڈھائی ہزار الفاظ تحریر کئے۔ یہ مضمون اسی ہفتہ شائع ہوا۔ اس مضمون میں خاکسار نے مسٹر دہلوی کے متذکرہ بالا مضمون کے بقول شخصے، دھجیاں بکھیر دیں۔ مضمون میں پیش کردہ جملہ خیالات کی رد میں نہ صرف ذاتی دلائل دیئے بلکہ سند کے طور پر ممتاز علماء کی تحریروں سے اقتباسات بھی پیش کئے۔ میرا یہ مضمون پڑھ کر متعدد اصحاب علم نے خاکسار کے اس جرات اظہار کی تعریف کی۔ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ میری اس گستاخی پر مسٹر دہلوی اپنے شدید رد عمل کا اظہار کریں گے۔ مگر میرے دل کی یہ "خواہش” دل ہی دل میں رہ گئی۔ اس واقعہ کے بعد بھی دو ایک بار ان سے شرف ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا مگر انہوں نے اس بات کا تذکرہ تک نہ کیا۔

مگر جب میرے اس مضمون کی اشاعت کے ٹھیک دو سال بعد جب مسٹر دہلوی کے انتقال کی خبر ملی تو میری حالت عجیب ہو گئی۔ دل نے کہا مسٹر دہلوی جیسے زندہ دل شخص کا دل دکھا کر تم ہی نے ان کے دل کو مزید دھڑکنے سے رکنے پر مجبور کیا ہے۔ تمہارے اس مضمون کو پڑھ کر مسٹر دہلوی کا نہ جانے کیا حال ہوا ہو۔ اپنے ہم رتبہ اور بڑے بڑوں کے سامنے بے دھڑک بولنے والے کے سامنے جب تم جیسا ڈیڑھ بالشتیا آن کھڑا ہو تو انہوں نے خلاف معمول "جواب جاہلاں باشد خموشی” پر عمل کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ مگر ان کا نازک دل یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا اور انہوں نے دنیا کو خیر باد کہنے میں عافیت محسوس کی۔ آج وہ یقیناً جنت الفردوس میں عافیت سے ہیں۔۔۔ ایک تم ہو ۔۔۔ ایک وہ تھے۔

تلسی کھڑے بجار میں، مانگے سب کی کھیر

نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بیر

مشتاق احمد یوسفی بتا رہے تھے کہ کوئی بیس برس قبل بارہ، گیارہ بہتر (۱۲/۱۱/۱۹۷۲) کو مسٹر دہلوی کے "عطر فتنہ” کی تقریب رونمائی میری ہی صدارت میں منعقد ہوئی تھی اور آج ان کی تیسری برسی پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود مجھے تقریر کرنی پڑ رہی ہے۔

پروفیسر اقبال عظیم نے اپنی صدارتی تقریر میں یہ انکشاف کیا کہ مسٹر دہلوی کو سرور کائنات (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے دیدار سے نوازا تھا۔ مگر مسٹر دہلوی نے اس کا اظہار کبھی نہیں کیا بس ایک بار میرے سامنے ان کے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ اقبال عظیم کہہ رہے تھے مسٹر دہلوی نہ صف اول کے شاعر تھے نہ صف اول کے نثر نگار مگر انہیں ہر محفل میں وضاحت اور جرات کے ساتھ گفتگو کرنے کا فن آتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مصلحت اور مصالحت کے بغیر لکھا۔ ان کی تحریریں اور تقریریں ایک خاص مقصد کے لئے ہوتی تھیں۔ وہ ایک کھرے آدمی تھے جس میں صرف اس حد تک کھوٹ تھا کو بقول ان کے کھرے سونے کو زیور میں تبدیل کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اقبال عظیم گواہی دے رہے تھے :”جو شخص نمازی پرہیز گار ہو، رزق حلال کماتا ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو، اعلیٰ اسناد نہ ہونے کے باوجود ادبی خدمت کو ضروری سمجھتا ہو، وہ یقیناً ایک اچھا شخص ہی ہو سکتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر فردوس بریں میں "مسٹر” کے حضور اظہار پشیمانی کے لئے میرا یہ مضمون پیش کیا جائے تو وہ اس "ذود پشیماں” پر غالب کے کسی شعر کی پھبتی کسنے کے بجائے زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگاتے ہوئے اقبال عظیم کا یہ شعر پڑھنا پسند کریں گے۔

آشنا ہوتے ہوئے بھی، آشنا کوئی نہیں

جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کوئی نہیں

٭٭٭

 

غزل کہتے ہیں

    غزل کے معروف شاعر جگر مراد آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ مرحوم خواتین کی غزل گوئی کے سخت خلاف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ "مجسم غزل” کی غزل گوئی چہ معنی دارد؟ کاش آج مرحوم زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نے کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ کسی بھی شاعرہ کے مجموعہ کلام کو دیکھ لے۔ غزل کے اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک تخلیق کار کی جنس واضح نہیں ہوتی شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو” کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر” رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کو بکو اس طرح پھیلی کہ اخباری رپورٹروں تک جا پہنچی۔ کم از کم کسی "نیک پروین” سے ایسی "ایکٹی ویٹی” کی توقع تو سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔

    بزم کی ایک حالیہ نشست میں اردو کی ایک معروف صنف سخن "غزل” پر بحث کی جا رہی تھی۔ بحث کیا ہو رہی تھی بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایک مجسم "غزل” کے سامنے )جو خیر سے غزل گو شاعرہ بھی ہیں( عصر حاضر کے چند نامور اہل قلم "غزل سرائی” فرما رہے تھے۔ اگر یہاں "غزل سرائی” والی بات آپ کی سمجھ میں نہ آئی ہو تو سمجھے سمجھانے کی خاطر یہ واقعہ سن لیجئے جس کے جھوٹا یا سچا ہونے کی ذمہ داری حسب دستور راوی پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ہاں تو راوی کی روایت ہے کہ ایک طالبہ اپنے استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بیٹھی تھی اور استاد محترم تنگنائے غزل کی گتھیاں سلجھا رہے تھے کہ یکایک کچھ سوچ کر بولے : تمہیں معلوم ہے کہ غزل کے اصل معنی کیا ہیں؟ فرمانبردار شاگردہ کیا جواب دیتی سوالیہ نگاہوں سے استاد کی شکل تکنے لگی۔ استاد نے مسکراتے ہوئے کہا : بھئی! غزل کے لغوی معنی ہیں۔ "عورتوں سے باتیں کرنا” طالبہ جو ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ شوخ بھی تھی اپنی سیاہ چمکدار آنکھیں گھماتے ہوئے بولی : "استاد محترم” ایک بات تو بتائیں یہ آپ مجھے پڑھا رہے ہیں یا غزل سرائی فرما رہے ہیں۔

    ہاں تو تذکرہ ہو رہا تھا مجسم غزل کی غزل سرائی کا۔۔۔ معاف کیجیے گا تذکرہ ہو رہا تھا، اہل بزم، کی غزل سرائی کا۔ بھئی قلم آخر قلم ہے جب چلتا ہے تو کبھی کبھی بہک بھی جاتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب بہکنے کی معقول وجوہ بھی موجود ہوں۔ ایسے میں تو اچھے اچھے ادیبوں کی زبان تک بہک جاتی ہے ہمارا تو صرف قلم ہی بہکا ہے جو بہکنے کے بعد کم از کم بہکے ہوئے لفظوں کو قلم زد بھی کر سکتا ہے جبکہ زبان سے نکلی ہوئی بات تو اس تیر کی مانند ہوتی ہے جو کمان سے نکل جائے۔

    دیکھئے ہم پھر اپنے موضوع سے بھٹکتے جا رہے ہیں۔ بات غزل کے تذکرے سے چلی تھی اور تیر کمان تک آ پہنچی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تیر اسی قلم ناتواں پر چل جائے اور جب کمین گاہ کی طرف نظر پڑے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جائے۔ یہ تو طے ہے کہ یہ وہی دوست ہوں گے جن کی "دوستی” پر آسماں اپنی دشمنی تک بھول جاتا ہے اور بھول کیا جاتا ہے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔

        لہذا آئیے ہم آپ کو دوبارہ اسی بزم میں لئے چلتے ہیں جہاں "اُن” کے آتے ہی بقول طرفداران میر، علم و ادب کے جملہ چھوٹے بڑے حاضر "چراغوں” کی روشنی ماند سی پڑ گئی تھی۔ اگر آپ میر کے طرفداران میں شامل نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں خود انہی کا اعتراف نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ع

        سج گئی بزم رنگ و نور ایک نگاہ کے لئے

        بام پہ کوئی آ گیا، زینت ماہ کے لئے

        اب جب بزم میں "آنے والا” خود اپنی آمد کی وجہ "بزم کی سجاوٹ” قرار دے تو ہم آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم نے "آنے والا” کی اصطلاح شعر میں موجود لفظ "آ گیا” کی رعایت سے لکھی ہے ورنہ آپ بھی بخوبی واقف ہیں کہ یہاں ہم دونوں کو علی الترتیب "آ گئی” اور آنے والی لکھنا چاہیے تھا کہ کم از کم اس طرح تذکیر و تانیث کی اتنی بڑی غلطی تو نہ ہوتی۔ البتہ یہ درست ہے کہ ایسا کرنے سے شعر وزن سے گر جاتا۔ لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔

        بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایک انٹرویو میں ایک شاعرہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی شاعری کا مقصد کیا ہے تو موصوفہ نے نہایت بھولپن سے جواب دیا کہ میری شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بے مقصد شاعری کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ تاہم بار بار کے اصرار پر انہوں نے فرمایا غ "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے” آج ان کا پیغام جہاں تک پہنچ چکا ہے، اس کا یہاں اعادہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اخبارات میں پہلے بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ زیر گفتگو بزم میں غزل پر گفتگو کے دوران جب قومی مقاصد کے تحت کی جانے والی شاعری کے حوالے سے علامہ اقبال کا ذکر آیا تو موصوفہ کو اقبال کی جملہ کلیات میں سے صرف ایک ہی مصرعہ قابل ذکر نظر آیا، مسکراتے ہوئے فرمانے لگیں : اقبال نے ؂

        بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا

        تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی

        جیسی شاعری بھی تو کی ہے۔

        غزل اور اینٹی غزل کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی کہ گھٹن کی فضا میں روایتی غزل کبھی حالات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس کے لہجہ میں لامحالہ جھنجھلاہٹ اور احتجاج کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زندگی کی بے معنویت اور لغویت ہماری غزل میں در آئی ہے جسے بعض نقادان ادب نے "اینٹی غزل” کا نام دے رکھا ہے۔ تو بزم کی جان۔۔۔ میرا مطلب ہے بزم کی میزبان نے فرمایا : سابقہ گیارہ سالہ عہد آمریت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اب یہ ہمارا منصب نہیں کہ ہم سابقہ "عہد آمریت” اور موصوفہ کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں کیونکہ سب ہی جانتے ہیں موصوفہ آج جس "پوزیشن” میں ہیں اس میں سابقہ عہد آمریت کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔

        نشست میں غزل کے حوالہ سے ترقی پسند تحریک کا بھی تذکرہ ہوا اور پھر اس تحریک کے حوالے سے نام نہاد انقلاب کی باتیں کی گئیں۔ ظاہر ہے مقصود بھی یہی تھا وگرنہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تحریک کا تعلق اگر کسی صنف شاعری سے تھا تو وہ نظم تھی نہ کہ غزل۔ گفتگو جاری تھی۔۔۔ اور میں اپنے دور درشن کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا، کیا عام گھریلو ادبی نشستوں کا معیار اس بزم سے بہتر نہیں ہوتا۔ پھر ہر پندھواڑے اس اہتمام کا فائدہ؟

         صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے

٭٭٭

 

شجر ممنوعہ کا شاعر

گزشتہ دنوں معروف شاعر اور کالم نویس سرشار صدیقی کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ معروف شاعر حمایت علی شاعر نے اپنا پانچ برس پرانا مضمون "شجر ممنوعہ کا شاعر” پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں سرشار صدیقی کو "وصل کا شاعر” قرار دیا۔ ایک ہی مضمون میں ایک ہی شاعر کو شجر ممنوعہ کا شاعر اور وصل کا شاعر قرار دینا یقیناً حمایت علی شاعر کا خاصہ ہے۔ اب یہ پڑھنے اور سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ "شجر ممنوعہ” اور "وصل” کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں۔

پروگرام کے میزبان شبنم رومانی نے اپنے ابتدائی کلمات کی طرح اختتامی جملوں میں بھی سرشار صدیقی کی خوب خوب مدح سرائی کی۔ عذر یہ پیش کیا کہ اس قسم کی محفلیں کوئی تنقیدی نشستیں نہیں ہوتیں کہ صاحب شام پر تنقیدی گفتگو کی جائے۔ مگر امراؤ طارق نے اس ہدایت کی پرواہ کئے بغیر اپنا مضمون "کامریڈ سرشار صدیقی” پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سرشار شاعری میں ہر طرح کے احتساب کے باوجود لکھتے رہے۔ نوجوانی میں شاعری تخلص کی آڑ میں کرتے رہے اور سگریٹ چھپ کر پیتے رہے۔ انہوں نے بتلایا کہ سرشار کلکتہ کی سڑکوں پر کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بیچتے رہے ہیں اور اس قدر اشتراکی ہونے کے باوجود پور پور مسلمان ہیں کیونکہ انہوں نے مذہب کی کبھی نفی نہیں کی۔ اس کے باوجود انہیں ساری عمر ترقی پسندوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں سے بیک وقت لڑائی لڑنی پڑی۔

پروفیسر انجم اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب میں نے گریجویشن کی ایک طالبہ سے "وصال” کے بارے میں گفتگو کی تو وہ ناراض ہو گئی۔ کہنے لگی کہ آپ بہت خراب ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ وصال پر تو میر و غالب جیسے بڑے شاعروں نے بھی لکھا ہے۔ سرشار نے بھی وصال پر نظمیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں لکھنا بھی عبادت ہے اور سرشار چالیس برس سے عبادت کر رہے ہیں۔ انجم اعظمی نے کہا کہ سرشار برا بھی ہے لیکن اس کے باوجود اچھا ہے اس لئے کہ وہ آدمی ہے فرشتہ نہیں۔ اس موقع پر قمر ہاشمی نے "سرشار صدیقی کے نام” ایک نظم سنائی جبکہ برگ یوسفی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا

خود اپنی زندگی کے چراغوں کی روشنی

خود اپنی شاعری کا سویرا کہیں اسے

جلسہ سے مہمان خصوصی ابو الخیر کشفی اور صدر نشین ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی خطاب کیا۔ سرشار صدیقی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا (جس کی تصدیق یا تردید کرنے سے فرمان فتح پوری نے انکار کر دیا) کہ آج سے برسوں قبل ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہی کی صدارت میں میرے مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی ہوئی تھی جو اپنی "نوعیت” کی پہلی تقریب تھی۔ پھر اس کے بعد کتابوں کی تقریب رونمائی کا سلسلہ چل پڑا۔ ویسے ہمارے خیال میں زیر تذکرہ تقریب میں بھی ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے اور وہ یہ کہ پروگرام کے اختتام پر تمام شرکاء سے درخواست کی گئی کہ وہ جانے سے قبل سرشار صدیقی کے مجموعہ کلام پر دستخط کرتے جائیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بعد میں کوئی شریک محفل اپنی اس "شرکت” کا انکار نہ کر سکے۔ ویسے ہم نے دیکھا کہ بہت سے شرکاء اس ہدایت پر عمل کئے بغیر ہی رخصت ہو گئے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ سوچ سمجھ کر کیا یا یوں ہی ان سے بھول ہو گئی۔

 ویسے دوران پروگرام شرکاء نے اپنے ادبی ذوق کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جہاں طویل اور "بور” مقالوں کو "ہوٹ” کیا وہیں مقررین کے اچھے فقروں کی خوب خوب داد بھی دی۔ ایک افسانہ نویس جب تقریر کرنے آئے تو ایک طرف سے آواز آئی۔ افسانہ نویس کبھی سچ نہیں بولتا۔ ایک طویل اور بور کر دینے والی تقریر کے بعد جب ایک دوسرے مہمان مقرر کو دعوت دی گئی تو ایک منچلے نے پیچھے سے آواز لگائی : ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔ آخر میں سرشار صدیقی نے ایک نظم اور ایک غزل کے چند اشعار سنائے۔ ایک شعر پیش خدمت ہے ۔

خدا پر آدمی پر یا صنم پر

کسی پر تو ترا ایمان ہوتا

اپنے مقالے میں حمایت علی شاعر نے سرشار صدیقی کو وصل کا شاعر قرار دیا ہے تو یقیناً انہوں نے سرشار کی شاعری کا مطالعہ کر کے ہی ایسا کہا ہو گا۔ لیکن چونکہ ادب کے قارئین کی کثیر تعداد آج بھی سرشار کی شاعری کے تفصیلی مطالعہ سے محروم ہے جس میں ادب کے قارئین کا کوئی قصور نہیں کیونکہ بقول انجم اعظمی صرف لالو کھیت میں مبلغ پچاس ہزار (کہ نصف جس کے پچیس ہزار ہوئے) شاعر پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ادب کے ایسے قارئین کی سہولت کے لئے ہم ذیل میں سرشار صدیقی کی ایک نظم درج کر رہے ہیں جو ہم نے مجلہ سیپ کے شمارہ نمبر اڑتالیس سے نقل کی ہے

حی علی الوصال

عبادت گاہ خلوت میں

تری نظروں کے پر معنی تکلم نے

مرے لب بستہ جذبوں کو زباں دی تھی

تو میں نے آخر شب کے

بہت نازک

بہت نازک

حساس لمحوں میں

تری موج تنفس سے وضو کر کے

ترے محراب سینے پر

تہجد کی اذاں دی تھی

٭٭٭

 

یوسف ثانی سے ایک انٹرویو

آج ہم جس شخصیت سے آپ کی ملاقات کروانے چلے ہیں یقیناً ہم سے زیادہ آپ انہیں جانتے، پہچانتے ہوں گے کہ ان کی کوئی ایک حیثیت تو ہے نہیں۔ یہ شاعر ہیں۔۔۔ نثر نگار ہیں۔۔۔ ایک مدیر اخبار ہیں۔۔۔ سنجیدگی بیزار ہیں اور نہ جانے کتنی ادبی مجلسوں اور سماجی تنظیموں کے اہل کار ہیں۔۔۔ جب ہم نے پہلے پہل ان کی تحریریں۔۔۔ شگفتہ شگفتہ تحریریں پڑھیں تو نہ جانے کیسے یہ یقین سا ہو گیا کہ یوسف ثانی ان کا قلمی نام ہو گا۔ اور یہ بھی ان کی مزاح نگاری سے محفوظ نہیں رہ سکا ہو گا۔ ہو نہ ہو موصوف۔۔۔ شکل کے مالک ہوں گے۔ تبھی تو نام "یوسف ثانی” رکھ لیا ہے کہ اصلی مزاح نگار وہی ہوتے ہیں جو اپنا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کی ایک خوبی کا البتہ اندازہ ہوا کہ ناموں کی کتر بیونت کرنے کے کافی شوقین ہیں اور ساتھ ہی خاصے ذہین بھی۔ اب دیکھئے نا معروف ادیبہ سلمیٰ یاسمین نجمی کو تو محض "سین” تک محدود کر دیا ہے۔ جبکہ خود محمد یوسف رضوی کی آڑ میں "میر” بن بیٹھے ہیں۔ گویا دیوان میر پر ہاتھ صاف کر جائیں تو کون انہیں روکنے والا ہے۔ ہم تو شکر کرتے ہیں کہ ہماری والدہ محترمہ نے ہمارا نام گوہر پروین نہیں رکھ دیا ورنہ ممکن ہے کہ موصوف آج انٹرویو دینے کی بجائے ہمیں "گپ” کہہ کر ٹرخا دیتے تو ہم کیا بگاڑ لیتے میر ثانی صاحب کا، ہمارا مطلب ہے یوسف ثانی صاحب کا۔ ہمارے مختلف سوالوں کے جوابات انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ سوالات کو جوابات کے بین السطور میں تلاش کرنا قارئین کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔

میں مرکز برائے مطالعہ جنوبی ایشیا، جامعہ پنجاب کی محترمہ فرزانہ چیمہ صاحبہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے معروف ادبی سلسلہ "ادب مینارے” کے لئے انٹرویو کی غرض سے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور سوالات کئے۔ ویسے تو کسی سے سوال کرنا کوئی مستحسن بات نہیں لیکن اگر یہ سوال انٹرویو وغیرہ کے ضمن میں ہو تو اتنی زیادہ بری بات بھی نہیں۔

 بنارس کی صبح اور اودھ کی شام کے بارے میں تو نثر نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر افسوس کہ ہمارے آبائی وطن کی ہوا کے بارے میں کسی نثر نگار نے تا حال طبع آزمائی نہیں کی۔ البتہ بعض شعراء نے اردو شاعری کو "بادِ بہاری” کی خوبصورت اصطلاح سے روشناس ضرور کرایا ہے۔ والدین کے عطا کردہ نام یوسف رضوی کو یوسف ثانی سے تبدیل کرنے کی وجہ محض اتنی سی ہے کہ ہماری دیکھا دیکھی ایک اور صاحب نے بھی اسی نام سے لکھنا شروع کر دیا اور جب یہ خطرہ پیدا ہو چلا کہ کہیں "فرشتوں” کے لکھے پر ہم نہ پکڑے جائیں، تو ہم نے یہ سوچ کر نام بدل لیا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا۔ کوئی تین برس قبل لندن سے ایک کتاب یوسف ثانی کے نام سے شائع ہوئی تو ہمیں جنگ لندن میں یہ وضاحت شائع کروانی پڑی کہ "گو اس نام کے جملہ حقوق ہمارے نام محفوظ تو نہیں۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ہم اسی نام سے پاکستانی اخبارات و جرائد میں کچھ نہ کچھ لکھ ضرور رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی۔۔۔ پاکستان پریس انٹرنیشنل کی شائع کردہ ایک صحافتی کتاب پر بطور مترجم اس خاکسار ہی کا نام یوسف ثانی درج ہے۔ علاوہ ازیں کوئی آٹھ برس قبل نوائے وقت کراچی کے ادبی صفحہ پر "یوسف ثانی کی انشائیہ نگاری” کے عنوان سے جو جائزہ شائع ہوا ہے، وہ اسی احقر کے بارے میں ہے۔ ایک ایسا ہی مضمون "یوسف ثانی۔۔۔ ایک ابھرتا ہوا انشائیہ نگار” کے عنوان سے روزنامہ جسارت کراچی کے ادبی صفحہ پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ اور اب گذشتہ دو عشروں کے دوران شائع ہونے والے میرے انشائیوں کا جو انتخاب زیر طبع ہے اس پر بھی میرا نام ظاہر ہے یوسف ثانی ہی درج ہو گا۔

اردو ادب میں شین قاف اہم ہوتے ہیں تو صحافت میں چھ کاف ضروری تصور کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس خبر میں چھ کاف یعنی کون، کیا، کب ، کہاں، کیوں اور کیسے میں سے جتنے زیادہ کے جوابات موجود ہوں گے، وہ خبر اتنی ہی مکمل ہو گی۔ ایسا لگتا ہے کہ فرزانہ بھی ان چھ کافوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، جبھی تو سارے کاف ایک ساتھ ہی پوچھ لئے کہ بھئی کون ہو؟ اصل نام کیا ہے؟ قلمی نام کیوں ہے؟ کب اور کہاں (شکر ہے "کیوں” نہیں پوچھا) پیدا ہوئے اور کہاں تک پڑھے ہوئے ہو؟ ہم سفر (اب تک) کتنی اور کیسی ہیں؟ گلشن (حیات) میں کتنے پھول اور کلیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔

 اطلاعاً عرض ہے کہ فی الحال "ہم پانچ” ہیں۔ ایک برقعہ پوش اور بیچلر شپ کی ڈگری ہولڈر بیچلر سے یہی دو چیزیں (میرا مطلب ہے برقعہ اور ڈگری) دیکھ بلکہ سن کر اسّی کی دہائی کے ایک "ناموافق موسم” میں شادی کی۔ عاشقی جب قید شریعت میں آ گئی تو ہم دو سے پانچ ہو گئے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ تینوں بچے فی الوقت پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں۔ پڑھتے تو وہ خود ہیں۔ البتہ (پٹی وغیرہ) پڑھانے کی ہمیں کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کمپیوٹر اور ڈش کی عہد کے یہ بچے کس قدر چالاک یا ہشیار نکلتے ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں تو ان کی ہشیاری محض دن کی روشنی میں جگنو کو دیکھنے کی ضد تک ہی محدود تھی۔ جہاں تک محترمہ یعنی نصف بدتر۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ،،، خیر بات تو ایک ہی ہے۔۔۔ ہے نا؟۔۔۔ کا تعلق ہے، تو اب پردہ نشینوں کے بارے میں کیا بات کریں۔ کہتے ہیں کہ مرد کی کامیابیوں کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ شکر ہے تا حال ہمارا شمار "کامیاب مردوں” میں نہیں ہوتا ورنہ یہ کریڈٹ بھی محترمہ ہی لے جاتیں۔ پیشہ ورانہ مہارت کی اسناد سے قطع نظر، بنیادی تعلیم محض ماسٹر کی ڈگری تک محدود ہے۔ ذریعہ معاش بنیادی طور پر صنعتی دنیا سے وابستہ ہے۔ تاہم گاہے گاہے صحافتی دنیا میں بھی "آمد و رفت” جاری رہتی ہے۔ مختلف جریدوں کے علاوہ ایک خبر رساں ادارہ اور لندن کے ایک اردو روزنامہ کے لئے بھی کام کرتا رہا ہوں۔

 لکھنا کب سے شروع کیا؟ بھئی لکھنے لکھانے کا آغاز تو اسی روز سے ہو گیا تھا جب والدہ محترمہ نے ہمارے ایک ہاتھ میں قلم دوات اور دوسرے ہاتھ میں تختی پکڑا کر کہا تھا : بیٹا لکھ! اور میں لکھتا چلا گیا۔۔۔ تاہم معاشرتی ناہمواریوں پر باقاعدہ قلم اٹھانے کا آغاز کالج کے زمانہ سے ہوا۔ ہمارے ایک شفیق استاد ماسٹر محمد ریاض صاحب نے تو ہم سے معاشرہ کے منہ پر اس وقت تھپڑ رسید کروانا شروع کر دیا تھا جب ہمیں یہی نہیں معلوم تھا کہ معاشرہ کا منہ کیسا اور کہاں ہوتا ہے۔

 بنیادی طور پر نثرنگار بلکہ انشائیہ نگار ہوں۔ تاہم دیگر اصناف سخن مثلاً "افسانے، ڈرامے، خاکے، مضامین، تنقید، کالم، فکاہیہ مضامین اور نظموں وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کرتا رہا ہوں۔ تاہم انشائیہ نگاری کو اپنی شناخت قرار دیتا ہوں۔ کتابوں پر تبصرہ تحریر کرتے وقت نہ صرف یہ کہ ایک خاص لطف ملتا ہے بلکہ اس محنت طلب کام سے ذاتی علم میں مزید وسعت بھی پیدا ہوتی ہے۔

دنیا میں صرف ایک ہی ایسی کتاب ہے جسے سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے اور جسے سب سے زیادہ اور بار بار پڑھا بھی جانا چاہیے اور وہ کتاب ہے ، قرآن مجید۔ ام الکتاب سے ہٹ کر اگر ہم گفتگو کریں تو اسکالرز اور درسی کتب کے استثنیٰ کے ساتھ ایک عام قاری ایک عام کتاب الا ماشا اللہ ایک مرتبہ ہی پڑھتا ہے۔ البتہ فکاہیہ ادب ایک ایسی صنف سخن ہے، جسے آپ بار بار پڑھ کر بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ فکاہیہ ادب میری پسندیدہ صنف سخن ہے۔ فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، پطرس بخاری، ابن انشاء، مشتاق یوسفی، شفیق الرحمن، خامہ بگوش (مشفق خواجہ)، ڈاکٹر محمد یونس بٹ وغیرہ کی تحریریں نہ صرف یہ کہ مجھے بے حد پسند ہیں بلکہ میں ان کی تحریروں سے متاثر بھی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر اصناف سخن کے ادیب مجھے پسند نہیں۔ جمیل الدین عالی کے دوہے اور گیت، سلمیٰ یاسمین نجمی کے سفر نامے اور ناول، ابن صفی کے جاسوسی اور رضیہ بٹ کے معاشرتی ناول، احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس کے افسانے، سلیم احمد کے فکر انگیز کالم، انور مقصود کے طنز و مزاح سے پر کالم اور ڈرامے اور نعیم صدیقی کی سنجیدہ تحریریں مجھے خاص طور پر بے حد پسند ہیں۔

ادب اور زندگی سے متعلق گو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں تاہم میں بنیادی طور پر ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کا قائل ہوں۔ جب کائنات کی ہر شئے کسی دوسری شئے کے لئے تخلیق کی گئی ہے تو ادب برائے ادب چہ معنی دارد؟ اسی طرح جہاں پوری کائنات انسانی محور کے گرد گھومتی ہے تو انسان کو منشائے ایزدی کے محور کے گرد گھومنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار اسی محور کے گرد گھومنے یا نہ گھومنے پر ہے۔

آخر میں ذاتی پسند و ناپسند کے حوالے سے چند رسمی سوالات کے مختصر جوابات۔ پسندیدہ رنگ۔۔۔ دھنک کے رنگ، پسندیدہ چہرہ۔۔۔ مسکراتا ہوا چہرہ، پسندیدہ پھول۔۔۔ جو مصنوعی نہ ہو، پسندیدہ لباس۔۔۔ شلوار قمیص، پسندیدہ لمحہ۔۔۔ ہجوم میں تنہا یا تنہائی میں خیالات کا ہجوم، پسندیدہ لوگ۔۔۔ جو مجھے پسند تو نہ کریں لیکن مجھ سے توقعات ضرور تھیں، پسندیدہ کتاب۔۔۔ چیک بُک، پسندیدہ مشروب۔۔۔ صبر کے گھونٹ، پسندیدہ ساتھی۔۔۔ تلاش جاری ہے، اپنی پسندیدہ تحریر۔۔۔ ٹک روتے روتے، پسندیدہ فقرہ۔۔۔ اللہ حافظ۔

(مطبوعہ ماہنامہ بتول لاہور 1994)

٭٭٭

تشکر: مصنف      ٹائپنگ: شمشاد خان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید