ہجرت
صبا اکبر آبادی
کیا کیجئے بیاں عَالمِ غربت کا جو غم ہے
ہر نقش وطن کا ورقِ دل پہ رقم ہے
احباب و اعزا کی جدائی کا الم ہے
حاضر ہوں جو مجلس میں تو مولا کا کرم ہے
تحریر پہ قدرت ہے نہ قابو میں زباں ہے
خود وہ ہی مدد کرتے ہیں یہ جن کا بیاں ہے
عمر گزراں بڑھنے لگی، گھُٹنے لگا دم
بجھنے کو ہے جب آگ تو شعلے ہوئے برہم
اسبابِ طرب جمع ہوئے اور بڑھا غم
ہے اپنی ہنسی اپنے ہی حالات کا ماتم
کچھ تیز حرارت سی شب و روز ہے دل میں
بالوں میں جمی برف تو اب سوز ہے دل میں
ہم کون ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ کہاں کے ہیں؟ کہاں ہیں؟
سو، نام و نشاں رکھ کے بھی بے نام و نشاں ہیں
ہم برگِ خزاں دیدہ ہیں یا ریگِ رواں ہیں
اِک گُم شدہ تہذیب کے اب مرثیہ خواں ہیں
اِس بے خبری پر کوئی مغموم نہیں ہے
ہم کیا تھے، نئی نسل کو معلوم نہیں ہے
اِک اور وطن بھی تھا ذرا یاد نہیں ہے
بُت خانے کا عَالم بخدا یاد نہیں ہے
وہ شان سے جینے کی ادا یاد نہیں ہے
جو چھُٹ گئی وہ آب و ہوا یاد نہیں ہے
امروز کا ہے نشہ، غمِ دوش کسے ہے
اُس جنتِ گُم گشتہ کا اب ہوش کسے ہے
گم ہو گئی اِک نسل اسی جہدِ بقا میں
آنکھیں کھلیں بچوں کی نئی آب و ہوا میں
دیکھا ہی نہیں حسن کا وہ رنگ فضا میں
صُبحیں ہیں جدا، مختلف انداز کی شامیں
طعنے جو دیئے وقت نے تو سہہ نہ سکیں گے
پوچھے گی جو تاریخ تو کچھ کہہ نہ سکیں گے
کچھ لوگ ہیں آثارِ سلف دیکھنے والے
ہر بات پہ دیتے ہیں جو ماضی کے حوالے
خاطر میں جو لاتے تھے کلیسا نہ شوالے
گم ہیں سرِ محفل نہ جوابے نہ سوالے
بچے بھی تو اندازِ بیاں بھول رہے ہیں
سب بھول کے اب اپنی زباں بھول رہے ہیں
اس رنج میں ہے کتنی تپش کیسے بتاؤں
جو آبلے سینے میں ہیں وہ کس کو دکھاؤں
بھولے ہوئے خوابوں کو کسے یاد دلاؤں
خود جلتا ہوں احباب کے دل تو نہ جلاؤں
اظہارِ تپ و سوز کے کرتا ہوں ارادے
شاید کوئی آواز میں آواز ملا دے
اک آگ کی مانند ہے یہ یاد وطن بھی
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں تو سینے میں جلن بھی
شعلے کی طرح منہ سے نکلتا ہے سخن بھی
لفظوں میں وہ حدت ہے کہ جل جائے دہن بھی
اشعار میں بھی دُودِ فغاں آنے لگا ہے
ہر سانس کے ہمراہ دھواں آنے لگا ہے
وہ کوچہ و بازار، وہ گلیاں، وہ فضائیں
چھوٹوں کے سلام اور بزرگوں کی دعائیں
وہ دھوپ کی شدت کبھی وہ سرد ہوائیں
وہ آندھیاں تاریک ، وہ گھنگھور گھٹائیں
موسم کے وہ نغمات کہاں ساز کہاں ہے
غربت میں سبھی کچھ ہے وہ انداز کہاں ہے
کھولی تھی جہاں آنکھ وہ گھر ڈھونڈ رہا ہوں
جو اپنے تھے وہ بام وہ در ڈھونڈ رہا ہوں
جو چھُٹ گئی وہ راہ گزر ڈھونڈ رہا ہوں
امکاں نہیں ملنے کا مگر ڈھونڈ رہا ہوں
تبدیلی حالات پہ دل زیر و زبر ہے
جو اپنا تھا کل تک وہی اب غیر کا گھر ہے
جس شہر میں تھی اکبرِ اعظم کی جلالت
تھی شرق سے تا غرب کبھی کبھی جس کی حکومت
عرفی و نظیری نے جہاں پائی تھی عزت
ہے دفن جہاں شاہِ جہاں بندہ الفت
اک نقش حسیں کھینچ کے عالم کی جبیں پر
رکھا ہے محبت نے جہاں تاج زمیں پر
وہ میر تقی میر کا سینچا ہوا گلشن
جو غالب مغفور کا تھا مولد و مسکن
اشعار کا گہوارہ ، غزل گوئی کا مامن
حکمت کا جو سرمایہ تھا صناعی کا مخزن
جس شہر کے ذرّات ستاروں سے بڑے تھے
جو راہ میں کنکر تھے وہ موتی سے جڑے تھے
کس طرح بسر ہوتے تھے ایّام جوانی
لکھیے تو فسانہ ہے جو کہیے تو کہانی
رفتار حسینوں کی تھی جمنا کی روانی
خود بادہ صفت اپنی صراحی کا تھا پانی
وہ دور نظر آتا ہے اب خواب کی صورت
جب پانی بھی پیتے تھے مئے ناب کی صورت
اُس شہر میں تھے گورِ غریباں بھی منّور
مدفون تھے جس میں اَدب و علم کے جوہر
جانباز و دلیر اور شجاعانِ دلاور
آرام سے اُس خاک میں سوتے ہیں برابر
قبریں بھی عزیزوں کی مزارِ اب وجد بھی
محبوبوں کے مدفن بھی رفیقوں کی لحد بھی
کیا کہیے کہ کیوں دشت میں گھر چھوڑ کے نکلے
ہر عشرت و آرام سے منہ موڑ کے نکلے
اپنے در و دیوار سے سر پھوڑ کے نکلے
صدیوں کے جو رشتے تھے انہیں توڑ کے نکلے
یہ بات نہیں ہے کہ ہمیں جان کا ڈر تھا
قرآن کا پاس تو ایمان کا ڈر تھا
گھر بار کو چھوڑا، در و دیوار کو چھوڑا
صدیوں کے بنائے ہوئے آثار کو چھوڑا
جو پیار تھا اُس شہر سے اُس پیار کو چھوڑا
پتھر کیا دل، کوچہ دلدار کو چھوڑا
اصنامِ دل آرام کے محور سے نکل آئے
قرآن حمائل کیا اور گھر سے نکل آئے
آواز دی ذرّوں نے کہ رُک جاؤ نہ جاؤ
اِس ربطِ قدیمی کو نہ ٹھکراؤ نہ جاؤ
بھڑکے ہوئے جذبات کو ٹھہراؤ نہ جاؤ
اپنے دلِ نا فہم کو سمجھاؤ نہ جاؤ
پھر ایسے سخن گو نہ سخن سنج ملیں گے
نکلو گے وطن سے تو بڑے رنج ملیں گے
بُلبل نے پکارا، مرے نغمات تو سُن لو
پھولوں نے کہا، ہم سے ذرا بات تو سُن لو
بھولی ہوئی برسوں کی حکایات تو سُن لو
ہنگامہ امکان و محالات تو سُن لو
گھر چھوڑ کے نادیدہ بلاؤں میں گھرو گے
اس باغ سے نکلو گے تو آوارہ پھرو گے
اک سمت سے آباء کے مزاروں نے پکارا
اک سمت سے پریوں کی قطاروں نے پکارا
محبوبوں کے خاموش اشاروں نے پکارا
لَب کھول کے جمنا کے کناروں نے پکارا
سب کی یہ صدا تھی ہمیں کیوں چھوڑ رہے ہو
دیکھو تو ہمیں، کس لیے منہ موڑ رہے ہو
آوازوں کے طوفان میں ڈوبی تھی سماعت
کچھ بھی نہیں آتا تھا سمجھ میں بصراحت
کچھ لہجے تصنع کے تھے کچھ میں تھی محبت
کچھ دیر کو طاری رہا اک عالمِ حیرت
ایّامِ گزشتہ کے حَوالے بھی بہت تھے
دشمن بھی تھے اور چاہنے والے بھی بہت تھے
اس عالمِ حیرت سے عقیدت نے نکالا
ہر بات کو رد کر کے ہر آواز کو ٹالا
لغزش جو ارادوں میں ہوئی اُس کو سنبھالا
ہر گرد سے آئینہ خاطر کو اُجالا
یہ سوچ کے پرواہ نہ کی رنج و بلا کی
ہجرت بھی تو سنت ہے رسولِ دوسرا کی
وہ کون؟ جو دنیا میں تھا پیغمبرِ آخر
ہر شئے کو بنایا گیا جس ذات کی خاطر
جو خلقتِ کونین کا تھا شاہد و ناظر
وہ حامد و محمود و نذیر اور مبشر
لایا تھا زمانے میں جو پیغام خدا کا
بندوں کے لیے آخری انعام خدا کا
تھا غارِ حرا جس کی تجّلی سے منّور
وہ گلشنِ توحید کا شاداب گل تر
بچپن سے چلا تھا جو رہ صدق و صفا پر
جب حکمِ خدا اُس کو ملا، چھوڑ دیا گھر
انداز بدلنا تھا جو دنیائے دنی کا
امت کو دیا درس غریب الوطنی کا
وہ سرور و سالار رسولانِ زمانہ
ہر ایک نفس جس کا تھا وحدت کا ترانہ
مجموعہ انوارِ خدا جس کا گھرانہ
سینے میں تھا اسرارِ الٰہی کا خزانہ
کس کے لیے یہ منصبِ عالی نسبی تھا
واللہ وہی ہاشمی و مطلبی تھا
وہ صابر و صادق وہ امیں نورِ مجسم
قطرات عرق جس کے تھے انوار کی شبنم
والّیل قسم کھاتی تھی وہ گیسوئے پُرخم
والشمس فدا دیکھ کے رخسار کا عالم
خود رہگزرِ پا ہو یہ جنّت کی تمنّا
طوبیٰ کو رہی سایہ قامت کی تمنّا
سر تا بقدم وہ ہمہ وحدت ہمہ اسلام
جبریل نے بھی صلّ علی پڑھ کے لیا نام
وہ شانِ خلیلی تھی کہ بت لرزہ بر اندام
کعبے نے جسے دیکھ کے خود باندھا تھا احرام
اُس ذاتِ پاک میں اک نور کا عالم نظر آیا
دیکھا اُسے قرآن مجسم نظر آیا
ہر بات تھی آئینہ آیاتِ الٰہی
ہر سانس میں تھی کفر و ضلالت کی تباہی
قلبِ بشریت کی جو دھونا تھی سیاہی
مہر و مہ و انجم نے بھی دی اُس کی گواہی
تابع تھے کواکب بھی جو اُس پاک نظر کے
ٹکڑے کئے انگشتِ شہادت سے قمر کے
وہ شا ہِ اُمم، فخرِ بشر، نورِ مجسم
تھی جس کے تصرف میں شہنشاہی عالم
تبلیغ میں توحید کی مصروف تھا ہر دَم
کفار نے ہر گام پہ ایذائیں دیں پیہم
حد کوئی بھی باقی نہ رہی جور و ستم کی
جاں لینے کے خواہاں تھے شہنشاہِ اُمم کی
کیا کیا نہ سہی سرورِ کونین نے ایذا
مکّے میں جو کافر تھا وہی دشمنِ جاں تھا
معدود تھے احباب تو گنتی کے اعزّا
لے دے کے جو تھا آسرا کوئی تو خدا کا
توحید کے اعلان نے طوفان اٹھایا
تیرہ برس اعدا نے بہر رنگ ستایا
تھے صحن حرم میں ابھی اصنام بہت سے
ناگفتہ تھے اللہ کے پیغام بہت سے
تکمیل طلب دین کے تھے کام بہت سے
ملنے تھے رسالت کے بھی انعام بہت سے
جوہر نہ کھلے تھے ابھی کردار علی کے
پردے ابھی اٹھنے تھے جمال ازلی کے
مامور ملائک جو حفاظت کے لئے تھے
سب خدمت سرکار رسالت کے لئے تھے
جبریل نگہباں در دولت کے لئے تھے
پردے بہت ارباب ضلالت کے لئے تھے
ٹھانے ہوئے گو دشمن سرکار تھے کچھ اور
یاں خواب گہ خاص کے اسرار تھے کچھ اور
جبریل نے آ کر یہ کہا اے شہ والا
مکے سے چلے جائیے ہے حکم خدا کا
محفوظ وہی راستہ ہے صبر و رضا کا
ہو جائے گا خود خاتمہ ہر رنج و بلا کا
تفویض امانت کریں اب حق کے ولی کو
بستر پہ سُلا جائیے بس اپنے علی کو
مکے سے نکلنے کی عجب شام تھی وہ بھی
تاریک ہوئی جاتی تھی لَو شمع حرم کی
چھائی تھی ہر اک سمت فضاؤں پہ اُداسی
تعمیر خلیلی کو بھی تھا رنجِ جُدائی
نکلے جو نبی، غم سے نکلنے لگے آنسو
خود چشمہ زمزم سے اُبلنے لگے آنسو
یہ شام تھی مکے کی، اُدھر صبحِ مدینہ
گہوارہ مسرت کا تھا انصار کا سینہ
پھولوں پہ وہ شبنم تھی کہ چہروں کا پسینہ
ہر قلب تھا جذباتِ عقیدت کا خزینہ
گھر سے نکل آیا تھا ہر اک راہ گزر تک
بچھی ہوئی آنکھیں تھیں سبھی حدِ نظر تک
سرکارِ رسالت کی یہ ہجرت کا تھا منظر
تھا ساٹھ برس بعد مگر عالم دیگر
جب چھوڑ کے طیبہ کو چلے سبطِ پیمبر
اصحاب نے روکا کہ کہاں جاتے ہیں سرور
طیبہ کی سی آسائشِ جاں مل نہ سکے گی
کوفے کی فضاؤں میں اماں مل نہ سکے گی
شبیر نے فرمایا کہ ہے حکم خدا کا
طیبہ سے نکل جائیں تقاضا ہے فضا کا
طوفان سا ہے شام میں اب جَور و جفا کا
رُخ ہم کو بدلنا ہے زمانے کی ہوا کا
اسلام کی آواز ہے، فریاد ہے دیں کی
آیات صدا دیتی ہیں قُرآنِ مُبیں کی
اُٹھے رہے دیں میں جو قدم رک نہیں سکتے
دل میں لئے اسلام کا غم، رُک نہیں سکتے
باطل سے کبھی حق کی قسم ، رک نہیں سکتے
رُک جائے رَوش دہر کی، ہم رک نہیں سکتے
ہے جان کا غم ہم کو نہ ڈر تشنہ لبی کا
بھولے نہیں فرمان رسول عربی کا
باطل سے کبھی ہم نہ ڈرے تھے نہ ڈریں گے
قُرآن کا جو حکم ہے وہ کام کریں گے
فریاد نہ ہوگی، نہ کبھی آہ کریں گے
اس راہ میں مرنا ہے مقدر تو مریں گے
جاں دے کے زمانے سے مٹانا ہے بدی کو
آغوش میں لینا ہے حیاتِ ابدی کو
مکے سے مدینے کو چلے تھے جو پیمبر
موجود نیابت کے لیے تھے وہاں حیدر
شبیر مدینے سے چلے چھوڑ کے جب گھر
چھوڑی تھی نشانی کو وہاں چھوٹی سی دُختر
حیدر تو مدینے میں ملے جا کے نبی سے
صُغرا نہیں مل پائی حسین ابن علی سے
کہتے ہیں کہ صُغرا میں تھی زہرا کی شباہت
شبیر کی نظروں میں تھا انجام شہادت
معلوم تھا ہونی ہے کیا کُوفے میں قیامت
کس طرح سے بے پردہ پھرے گی وہاں عترت
غیرت نے گوارا نہ کیا ابن علی کی
بے پردہ شباہت ہو وہاں بنت نبی کی
اُس دُختر بیمار کو روتے ہوئے چھوڑا
اشکوں سے رُخ زرد کو دھوتے ہوئے چھوڑا
شبنم سے گُل رُخ کو بھگوتے ہوئے چھوڑا
سلکِ گُہر آنکھوں سے پروتے ہوئے چھوڑا
لبّیک بہ لب تھے جو تقاضے پہ اجل کے
مکّے کو چلے حدِّ مدینہ سے نکل کے
اُس امن کے گھر میں بھی نہ تھے امن کے آثار
احرام میں ملبوس وہاں بھی تھے کچھ اشرار
تقدیسِ حرم سے تھے جو واقف شہ ابرار
حج چھوڑ کے عمرے پہ قناعت کری ناچار
دیکھا نہ رُخِ زیست کو مکے سے نکل کے
درّانہ چلے خود ہی تعاقب میں اجل کے
کعبے سے سر دشتِ بلا آ گئے شبیر
عباس لئے حیدر کرّار کی شمشیر
اکبر سا جواں سرورِ کونین کی تصویر
قاسم سا حسین سطوتِ سادات کی توقیر
یاد آئے جسے دیکھ کے شبّر کی جوانی
آنکھوں میں پھرے حیدر صفدر کی جوانی
شبیر کے تھے ساتھ جو انصار وفا خو
دُنیا کے معائب سے بچائے ہوئے پہلو
ہمت میں کسی کی بھی نہ تھا فرق سرِ مُو
ہر پھُول جُدا، سب میں مگر ایک سی خوشبو
اس شان کے گُل دہر نے دیکھے نہ سُنے تھے
شبیر نے خود باغِ محبت سے چنے تھے
چار آئینہ و خود و زرہ کچھ بھی نہ تھا پاس
آلام کا غم تھا نہ ذرا موت کے وسواس
تکبیر کی مانند نکلتے ہوئے انفاس
چھایا ہوا بس اُلفتِ شبیر کا احساس
جاں نذر کو لائے تھے امامِ ازلی پر
نکلے تھے فدا ہونے حسین ابنِ علی پر
ہر چند کہ سب لوگ کئی دن سے تھے پیاسے
اظہار نہ کرتے تھے امامِ دوسَرا سے
خیموں میں حَرم دیتے تھے اک اک کو دلاسے
ہر ایک نے لَو اپنی لگائی تھی خُدا سے
بدلی ہوئی دنیا کی ہوا دیکھ رہے تھے
سب عزمِ امامت کی ادا دیکھ رہے تھے
چھائے تھے ہر اک سمت جو افواج کے بادل
صبحِ شبِ عاشور بھی تاریک تھا جنگل
تھے گشت پر مامور جو دشمن کے ہراول
اڑتی ہوئی مٹی سے ہوائیں بھی تھیں بوجھل
ساحل پہ سپیدی کا کہاں نام و نشاں تھا
پانی نہ تھا دریا میں سیہ ناگ رواں تھا
تھا چاروں طرف ظُلمت و باطل کا اندھیرا
تابندہ تھا سُورج نہ چراغوں میں اُجالا
تاریک جو دل تھے تو نظر آتا بھلا کیا
وہ ارضِ بلا عرصہ ظلمات تھی گویا
بس اتنی زمیں جس پہ خیام شہِ دیں تھے
انوار کے آثار اگر تھے تو وہیں تھے
خیموں میں تھے سب اہلِ حَرم محو تلاوت
بس دیکھ لیا کرتے تھے شبیر کی صورت
غم بے وطنی کا نہ کوئی شکوہ غربت
تھا شکرِ خدا لب پہ جو سہتے تھے اذیت
اِس صبر کو اربابِ فلک دیکھ رہے تھے
حیران اجنّہ تھے ملک دیکھ رہے تھے
اشرار کے لشکر میں کچھ اس طرح کٹی رات
جانچے گئے، پرکھے گئے سب جنگ کے آلات
تیغ و تبر و تیر و سناں دیکھ کے بد ذات
کہتے تھے کہ اس جنگ کی ہے فتح کوئی بات
دس بیس جواں لشکرِ شاہی سے نکل کے
رکھ دیں گے نبی زادوں کو دَم بھر میں کُچل کے
برچھی کی انی پر بنِ کامل نے رکھی دھار
پیکانِ ستم حُرملہ کرتا رہا تیار
خود شمر بدلتا رہا تلوار پہ تلوار
بنی کس پہ کرے کون کہاں وار
مشقِ ستم و جور میں دوڑائے گئے تھے
گھوڑوں کے نئے نعل بدلوائے گئے تھے
اس سمت یہ ہنگامہ یہ آشوب یہ ہلچل
بڑھتی ہوئی افواج کی تعداد مسلسل
خونریزی و غارت کے تھے سامان مکمل
اس سمت بنا قبلہ حق کی سر مقتل
ہر شخص ادھر کوشش دنیا طلبی میں
اس سمت سکوں قافلہ آل نبی میں
نادم جو بہت دل میں تھا اپنے حُرّ جانباز
خود خدمت شبیر میں آ کے ہوا ممتاز
قسمت سے شہادت کا ملا اس کو جو اعزاز
فردوس میں انجام تھا دوزخ میں تھا آغاز
یہ جرات ایماں بخدا یاد رہے گی
اس پاک ضمیری کی ادا یاد رہے گی
پھر لشکر اعدا سے جو برسائے گئے تیر
سینے ہوئے انصارِ وفا کیش کے نخچیر
دنیا کو گئے چھوڑ کے ، لی خلد کی جاگیر
مرتے ہوئے کہتے تھے سلامت رہیں شبیر
اسلام جو ہے ایک جسد جان یہی ہیں
ایماں کی قسم حاصل ایمان یہی ہیں
انصار و اعزا سے جو خیمے ہوئے خالی
برچھی جگر اکبر مہرز نے بھی کھا لی
عباس نے بھی نہر پہ زینب کی دعا لی
ششماہے نے کی جان فدائے شہ عالی
تاراجِ خزاں ہو گئے جب باغ بہتّر
اب سینہ شبیر تھا اور داغ بہتّر
آراستہ تھا صبح سے شبیر کا رہوار
حاضر در خیمہ پہ تھا وہ اسپ وفادار
عابد کو دُعا دے کے جو نکلے شہ ابرار
اب سخت پریشان ہوئے دل میں جفا کار
ہے وقت مصیبت کا ، قیامت کا، بلا کا
کیا سامنا ہو گا پسرِ شیر خدا کا
کس شان سے میدان میں آتی ہے سواری
جاروب کش راہ ہے خود بادِ بہاری
ہیبت سی ہر اک دل پہ ہوئی جاتی ہے طاری
مشکل ہے سلامت رہے اب جان ہماری
حملہ جو ڈپٹ کر یہ کسی سمت کریں گے
جو تیغ سے بچ جائیں گے بے موت مریں گے
ہے کون جو اس شیر کے ہو مدِّ مقابل
آسان نہیں سامنا یہ سخت ہے مشکل
دَم بھر میں سجی جاتی ہے اب موت کی محفل
گوشے سے نکل حُرملہ، چل اے بنِ کاہل
چلّے پہ ذرا پھر سے چڑھا تیرِ جفا کو
نیزے کے دکھا بند امامِ دوسَرا کو
لشکر کے قریب آ گئے جب شاہِ خوش انجام
فرمایا کہ درپے ہو مرے کیوں سپہِ شام
سب جانتے ہیں پھیلا ہے گھر سے مرے اسلام
ہے سنت و قرآں کے مطابق مرا ہر کام
فرزند علی کا ہوں جگر بندِ علی ہوں
جو دُودھ سے زہرا کے پلا ہے میں وہی ہوں
مجھ سے مرے نانا نے کہا لحمک لحمی
اس قول میں ہیں دمک دمی کے بھی معنی
کچھ پاس نہیں قولِ محمد کا ذَرا بھی
حرمت نہیں کیا قلب میں کچھ خونِ نبی کی
لینا ہے جو اب آج مجھے تم سے اسی کا
کیا خون بہانا ہے تمہیں اپنے نبی کا
انکارِ رسالت ہے؟ تو ہو جنگ پہ تیار
ہاں برق صفت چل تو سہی اے مرے رہوار
ہاں میسرہ و میمنہ و قلب سے ہو پار
ہاں نیام سے باہر تو نکل اے مری تلوار
اس دشتِ بلا کو کرہ نار بنا دے
جوہر جو نہاں تجھ میں ہیں وہ آج دکھا دے
نعرہ وہ تھا شبیر کا یا صورِ سرافیل
اَرواحِ سپہ جسموں میں ہونے لگیں تحلیل
دونوں نے جو کی شاہ کے احکام کی تعمیل
باطل کے دیئے بجھ کے جَلی صدق کی قندیل
میداں میں کوئی دشمنِ اسلام نہیں تھا
تا دُور سیاہی کا ذرا نام نہیں تھا
شبیر نے میدانِ وغا دیکھ کے خالی
واپس رکھی خود نیام میں شمشیر ہلالی
رخساروں سے غائب ہوئے آثارِ جلالی
گردن پئے تکمیل نماز اپنی جھُکا لی
سب تیر جو کھائے تھے بدن میں وہ گڑے تھے
اک خاک کے انبار میں سجدے میں پڑے تھے
تا دیر جو سجدے سے اٹھائی نہیں گردن
بڑھتے تھے گلا کاٹنے، ہٹ جاتے تھے دشمن
ہر ایک کو ہوتی تھی اسی خوف سے الجھن
رنگین نبی زادے کے خوں سے نہ ہو دامن
یہ راستہ بھی دشمنِ خونخوار نے کاٹا
شبیر کا سر شمرِ سیہ کار نے کاٹا
آوازِ فغاں آنے لگی شہ کے حرم سے
زینب ہوئیں بےتاب و تواں فرطِ الم سے
چلاتی تھیں سرپیٹ کے یوں شدتِ غم سے
اے بے وطنی لے لیا شبیر کو ہم سے
افسوس جُدا ہو گئے سرکارِ امامت
اب عابدِ بیمار ہیں اور بارِ امامت
اب طاقتِ تحریر نہیں تجھ کو صبا بس
بیماری میں جو لکھ سکا وہ تو نے لکھا بس
بے حال ہوئے جاتے ہیں سب اہلِ عزا بس
ہو گا غمِ شبیر کا حق کیسے ادا بس
مقصود یہی تھا ترے اندازِ سخن کا
اللہ کسی کو بھی نہ دے رنج وطن کا
ہو گا غمِ شبیر کا حق کیسے ادا
٭٭٭
ٹائپنگ: سیدہ شگفتہ
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید