FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کاتبینِ پیغمبرِ اعظمﷺ — ایک تعارف

               مولانا اشتیاق احمد

مدرس دارالعلوم دیوبند

 

اسلام آخری مذہب ہے، قیامت تک دوسرا کوئی مذہب نازل ہونے والا نہیں ہے، اس دین کی حفاظت و صیانت کا سہرا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سر ہے، صحابہ کی برگزیدہ جماعت نے اسلام کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کو قربان کیا، انھیں کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے درخت کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں، انہوں نے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھنے کا جتن کیا، ان کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی صحت و سلامتی کی کسوٹی ہے، جو لوگ صحابۂ کرام سے جتنا قریب ہیں، وہ دین سے اتنا ہی قریب ہیں، اور جو لوگ جتنا اس جماعت سے دور ہوں گے، ان کی باتیں اُن کا نظریہ، اُن کا عقیدہ اور اُن کا عمل اتنا ہی دین سے منحرف ہو گا۔

قرآن و سنت کی حفاظت میں صحابۂ کرام نے جس طرح اپنے حیرت انگیز خداداد حافظے کو کام میں لایا، اسی طرح دوسرے وسائل اختیار کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہیں کیا، انہوں نے آیات و احادیث کی حفاظت لکھ کر بھی کی ہے، بہت سے صحابۂ کرامﷺ نے قرآن مجید لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا تھا، اسی میں تلاوت کیاکرتے تھے، بہت سے صحابۂ کرام نے چند سورتیں یا چند آیتیں لکھ رکھی تھیں، احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ بھی بہت سے صحابۂ کرام کے پاس محفوظ تھا، کثرت سے آیات و احادیث یادکرنے اور لکھنے کی روایات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر وحی اور دین کی حفاظت کا جذبہ کتنا زیادہ تھا، اُس دور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل آج کی طرح بہت وافر نہ تھے، پھر بھی انہوں نے بڑی دلچسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی، بعض صحابۂ کرام کو دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت سکھانے کا حکم تھا، وہ اپنے فن کا مظاہر کرتے تھے، بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبوی میں رہ کر ’’وحی الٰہی‘‘ کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اُن میں بھی درجہ بندی تھی، بعض کی غیر موجودگی میں بعض کی نیابت متعین تھی، بعض کو احادیث لکھنے کی خصوصی اجازت بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، احکامِ زکوٰۃ و صدقات، فرامین و معاہدات لکھنے کے لیے بھی صحابۂ کرام کی اچھی خاصی تعداد دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود رہتی تھی، حیدرآباد کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھے گئے دستاویزات جمع فرمائے ہیں، ہر دستاویز پر لکھنے والے صحابۂ کرام کے نام بہ حیثیت کاتب درج ہیں، اس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کے درمیان لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔

خلاصہ یہ کہ صحابۂ کرام نے جس طرح اپنے حافظہ کے ذریعہ دین کی حفاظت کی ہے، اسی طرح لکھ کر بھی پورے دین کو مکمل شکل میں انہوں نے محفوظ فرمایا ہے۔

راقم الحروف کوتاہ ہمت اب تک کی جد و جہد اور کاوش سے تاریخ و سیر کی کتابوں سے پچھتّر(۷۵) صحابۂ کرام کے نام دریافت کرسکا ہے، جنہوں نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کیا ہے، بعض نے وحی کی کتابت فرمائی، بعض نے احادیث لکھیں، بعض نے دستاویزات لکھے، بعض نے احکام زکوٰۃ اور فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کی، بعض نے قرآن مجید کی جمع و تدوین میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔

کتاب التراتیب ا لإداریہ (۱/۱۶ط مراکش) میں ایسے صحابۂ کرام کی تعداد بیالیس ہے، ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب ’’کاتبانِ وحی‘‘ میں اڑتالیس صحابۂ کرام کا ذکر ہے، اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب ’’کاتبانِ وحی‘‘ میں چھپن صحابۂ کرام کا ذکر ہے، اسی کتاب سے حضرت قاری ابوالحسن صاحب اعظمی دامت برکاتہم نے ’’کاتبینِ وحی‘‘ میں مواد فراہم فرمایا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد ’’کاتبین ‘‘ صحابۂ کرام کی تعداد پچہتر(۷۵) ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس (۴۹) صحابۂ کرام ایسے ہیں، جن کے بارے میں راقم الحروف کو کاتب ہونے کی صراحت کتابوں میں مل گئی، اور ایک نام عبداللہ بن خطل یا عبدالعزی بن خطل ہے، اس کے بارے میں ارتداد کی روایت ملتی ہے، کاتب ہونے کی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح ایک نامعلوم ’’نصرانی انصاری‘‘ کے کاتب ہونے کی روایت ملتی ہے، تا ہم یہ بھی لکھا ہے کہ ایمان سے پھر گیا تھا، جب دفن کیا گیا تو قبر نے اوپر پھینک دیا، اور ایک نام ’’السجل‘‘ ذکر کیا جاتا ہے، سورہ انبیاء (آیت ۱۰۴) میں مذکور ہے، راجح قول کے مطابق یہ کوئی کاتبِ وحی صحابی نہیں ہیں، اسی طرح مزید تئیس (۲۳) صحابۂ کرام کے بارے میں صریح روایت تلاشنے سے راقم الحروف قاصر رہا، اس لیے اخیر میں ان کے ناموں کی ’’الف بائی‘‘ فہرست لکھ دی گئی ہے، تاکہ ان کے بارے میں صریح روایتوں کی تحقیق کی جا سکے، متعدد اہلِ علم نے کاتبینِ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ان کے اسمائے گرامی درج فرمائے ہیں، جن صحابۂ کرام کے بارے میں تاریخی روایات موجود ہیں اُن کی ترتیب بھی ’’الف بائی‘‘ رکھی گئی ہے، تاکہ متعین نام تلاش کرنے میں سہولت ہو، ان کی ابتداء صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت ابان بن سعید سے ہے اور یزید بن معاویہ پر یہ ترتیب مکمل ہوتی ہے۔

               ۱—حضرت ابان بن سعید

حضرت ابان بن سعید اُن صحابۂ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت حضرت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودیؒ  وغیرہ نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: (المصباح المضئی ۱۸/أ، الہدایہ والنہایہ۵/ ۳۴۰، الاستیعاب۱/۵۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۳، عیون الاثر ۲/۳۱۵ العجالۃ السنیہ ۲۴۶، التنبیہ وا لإشراف ۳۴۶ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ص۱۳۵)

آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے:

ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی، اموی رضی اللہ عنہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع سے حضرت عثمان بن عفان کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، تو ان کو حضرت ابان نے ہی پناہ دی تھی اور اپنے گھوڑے پر سوار کر کے نہایت ہی جرأت و بے باکی سے ارشاد فرمایا تھا:

اَقْبِلْ و أدْبِرْ وَلاَ تَخَفْ أَحَداً۔ (ترجمہ:) آپ آگے پیچھے جہاں تشریف لے جانا چاہیں، لے جائیں، اور کسی سے خوف زدہ نہ ہوں! (الاستیعاب ۱/۷۵)، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے تین ماہ کی درمیانی مدت میں ایمان لائے، (تاریخ خلیفہ بن خیاط ۵۰) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علاء بن حضرمی کے بعد ان کو ’’بحرین‘‘ کا عامل مقرر فرما دیا تھا (الاستیعاب ۱/۷۵)، پورے عہدِ نبوی میں اس عہدہ پر فائز رہے اور صدیق اکبر کے زمانۂ خلافت میں شام کے محاذِ جنگ پر گئے اور جامِ شہادت نوش کیا، بعض روایات میں ’’جنادین‘‘ ۱۳ھ میں آپ کی شہادت کا ذکر ہے اور بعض مورخین نے جنگِ یرموک ۱۵ھ میں آپ کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ (نقوش، رسول نمبر ج ۷ ص۱۳۵)

               ۲—حضرت ابو ایوب انصاری

میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کون واقف نہیں؟ آپ سابقین اولین میں سے ہیں، بیعت عقبۂ ثانیہ میں موجود تھے، بدر و حنین اور خندق سمیت سارے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہے، عراقیؒ ، انصاری اور ابن سید الناسؒ  وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ ص۲۴۶ عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضیئی ۲۱/أ بحوالہ نقوش رسول نمبر ج۷ ص۱۳۶)

حضرت علی رضی اللہ عنہ جب عراق جانے لگے تھے تو اس موقع سے حضرت ابو ایوب انصاری کو حُدیبیہ میں اپنا قائم مقام بنایا تھا، خوارج کی جنگ میں بھی حضرت علی کی طرف سے حصہ لیا، بالآخر قسطنطنیہ کی جنگ میں شہید ہوئے، وفات سے پہلے سپہ سالار نے آپ سے آخری خواہش پوچھی، تو آپ نے فرمایا کہ: جب میں مر جاؤں، تو میری لاش کو دشمن کی زمین میں آگے لے جا کر دفن کر دینا، چناں چہ جب انتقال ہوا، تو یزید بن معاویہ نے ایک دستہ تیار کیا، جس کی نگرانی میں آپ کو قسطنطنیہ کے قریب لے جا کر دفن کیا گیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سیرت ابن ہشام ۱/۴۹۸الاستیعاب ۱/۴۰۴، الاصابہ ۱/۴۰۵، اُسد الغابہ ۲/۸۱ وغیرہ)

               ۳ —حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صحابۂ کرام میں سب سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’ثانیٴ اثنین اذ ہما في الغار‘‘ (توبہ ۴۰) فرمایا ہے، آپ کی صحابیت قرآنِ پاک سے ثابت ہے، اس لیے جو شخص بھی آپ کے صحابی ہونے کا انکار کرے گا وہ کافر ہو جائے گا، عام الفیل کے ڈھائی سال بعد، ہجرت سے پچاس سال پہلے پیدا ہوئے (الاصابہ ۲/۳۳۴، تذکرۃ الحفاظ ۱/۵) آپ کا نام عبداللہ ہے، یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا تھا، پہلے نام ’’عتیق‘‘ تھا، کنیت ابوبکر اور لقب ’’صدیق‘‘ ہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا ہے، اس کی صراحت، ابن حجر، ابن کثیر، عمرو بن شبہ، ابن سید الناس، مزی، عراقی اور انصاری نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: فتح الباری ۹/۲۷، البدایہ والنہایہ ۳۵۱، تہذیب الکمال ۴/ب، الروض الأنف ۲/۲۳۰، عیون الاثر ۲/۳۱۵، شرح ألفیہ عراقی ۳۲۵ وغیرہ)

 یہ بات تو صحیح ہے کہ آپ نے کم لکھا ہے، لیکن یہ کہنا کہ آپ لکھنا جانتے ہی نہ تھے، جیسا کہ بعض عیسائی مورخین نے محض بغض و عناد میں لکھ دیا ہے، یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔ امام بخاریؒ  کی روایت میں کئی مرتبہ حضرت انس کا یہ قول موجود ہے کہ: سیدنا صدیقِ اکبر نے آپ کو احکامِ زکوٰۃ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمائے، لکھ کر دیے، اس طرح کی روایات کو بلا دلیل کیوں کر حقیقت سے پھیرا جا سکتا ہے؟ خود سُراقہ بن مالک والی روایت بھی حضرت صدیق اکبر کے لکھنے کی تصدیق کرتی ہے، ابن کثیرؒ  نے اس پر بڑی اچھی بحث کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۱، الوثائق السیاسیۃ ص ۳۶، مسند احمد بن حنبلؒ  وغیرہ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۸ ۱۳)

               ۴—حضرت ابو خزیمہ بن أوس رضی اللہ عنہ

ان کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: ابو خزیمہ بن أوس بن زید بن اصرم بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار، یہ انصاری خزرجی ہیں، غزوۂ بدر اور دیگر معرکوں میں شریک ہوئے۔

ان کے بارے میں ابن شہاب نے عبید بن السباق سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ: میں نے ’’سورۂ توبہ کی آخری دو آیتیں‘‘ ابو خزیمہ انصاری کے پاس پائی (اسد الغابہ ۵/ ۱۸۰ بحوالہ کاتبین وحی ص۷۰)

               ۵—حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ

آپ کا پورا نام صخر بن حرب تھا، عمر میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال بڑے تھے، فتحِ مکہ کے بعد اسلام لائے، اس سے پہلے اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، فتحِ مکہ کے دن سرکارِ دو عالم ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے، حنین، طائف اور یرموک وغیرہ میں شریک ہوئے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ’’نجران‘‘ کا عامل مقرر فرمایا تھا، زمانۂ جاہلیت سے ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، مشہور موٴرخ واقدی نے آپ کو زمانۂ جاہلیت میں لکھنے والوں میں شمار کیا ہے۔

اسلام لانے کے بعد آپ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لکھنے کا شرف حاصل ہوا، عراقی، ابن سید الناس، ابن مِسکویہ اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح ألفیہ عراقی ۳۴۶، عیون الأثر ۲/۳۱۶، تجارب الأمم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۲۵، ۲۸/أ بحوالہ نقوش ۷/۱۳۹) حضرت ابو سفیان کی وفات تقریباً ۹۰ سال کی عمر میں ہوئی، یہ حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کا زمانہ تھا، بعض نے ۳۰ھ، بعض نے ۳۱ھ اور بعض مورخین نے ۳۴ھ میں آپ کی وفات لکھی ہے۔

               ۶—حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدا لأسد رضی اللہ عنہ

آپ کا اسم گرامی عبداللہ بن عبدالأسد بن ہلال بن مخزوم ہے، (الاصابہ ۲/ ۳۳۵) آپ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے (اسد الغابہ ۳/۱۹۵) حضرت ابوبکر صدیق کی طرح عموماً آپ بھی کنیت ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ سابقین اولین میں شمار کے جاتے ہیں، ایک روایت کے مطابق آپ گیارہویں مسلمان ہیں۔ آپ کی شادی ام سلمہ سے ہوئی آپ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ کو ام المومنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والوں میں آپ پہلے شخص ہوں گے۔ غزوۂ احد میں ایسا کاری زخم لگا کہ وہی موت کا سبب بن گیا۔ (سیرہ ابن ہشام ۱/۲۵۲، الاصابہ ۲/۳۳۵، )

دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن سید الناس، ابن مِسکویہ، ابو محمد دمیاطی، عراقی یعمری اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرمایئے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ تجارب الامم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۳۴/ب، العجالۃ السنیہ شرح الفیہ عراقی ص ۳۴۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۰)

               ۷— حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ

حضرت ابی ابن کعب کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: اُبی بن کعب بن قیس بن زید بن معاویہ بن عمر و انصاری نجاری، کنیت ابوالمنذر اور ابوالطفل تھی، سارے غزوات میں شریک ہوئے، آپ فقہائے صحابہ میں بھی شمار ہوتے ہیں، اور بلا اختلاف سید القراء ہیں، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ تم کو قرآن سناؤں، حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب فرطِ مسرت سے رونے لگے، (صحیح بخاری تفسیر سورہ لم یکن)

آپ مشہور و معروف کاتبینِ وحی میں سے ہیں، دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کی صراحت بہت سی کتابوں میں موجود ہے، (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری ۶/۱۷۹، المصباح المضئی ۸/ ب، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، الورزاء والکُتَّاب ۱۲، اسد الغابہ ۱/۵۰ شرح الفیہ عراقی ۲۴۵، تہذیب الکمال ۵/۲۴۰، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۱)

ایک روایت میں ہے کہ: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر (مدینہ منورہ) وحی لکھنے والوں میں آپ سب سے اول ہیں (البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰) عیون الاثر اور تاریخ ابن الاثیر میں بھی آپ کے سب سے پہلے کاتب ہونے کی صراحت موجود ہے (التارالکامل ۲/۱۳) تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان وحی کی کتابت فرماتے تھے، اور اگر وہ موجود نہ ہوتے، تو حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت وحی کی کتابت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ  نے ’’الوثائق السیاسیہ‘‘ میں کئی ایسے مکاتیب ذکر کیے ہیں، جن میں کاتب کا نام ابی بن کعب درج ہے، مثال کے طور پر دیکھیے: وثیقہ نمبر ۶۳، ۶۴، ۷۶، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۴، ۱۶۳، ۱۷۴، ۲۰۶، ۲۴۴وغیرہ (الوثائق السیاسیہ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۲) آپ کی وفات علی اختلاف الاقوال ۱۹ھ  یا ۲۰ھ  یا ۲۲ھ  یا ۳۰ھ  میں ہوئی۔ (نقوش ۷/ ۱۴۲)

               ۸— حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ

انھیں کے گھر میں حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تھا، اس کے بعد ہی کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جانے لگی، یہ گھر کوہِ صفا کے دامن میں تھا، اسے دعوتِ اسلام کا پہلا خفیہ مرکز کہا جا سکتا ہے، حضرت ارقم ساتویں مسلمان تھے اور حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے۔

آپ نے تمام غزوات میں حصہ لیا، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات جمع کرنے پر مامور فرمایا تھا، اور مدینہ طبیہ میں ایک حویلی بھی عنایت فرمائی تھی (الاصابہ ۱/ ۲۸۰، اسدالغابہ ۱/ ۶۰)

متعدد مورخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربارِ رسالت میں لکھا ہے، مثلاً ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۱/ ۶۰، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ ص ۲۴۷، المصباح المضئی ۱۸/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۲)

علامہ ابن کثیرؒ  نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ: حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کے حکم سے عظیم بن الحارث المحاربی کو ایک بہت بڑی جاگیر لکھ دی تھی (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۱)

ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ  کی مشہور و معروف کتاب الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۸۴، ۸۸، ۱۷۶، ۲۱ ۲ پر بحیثیت کاتب حضرت ارقم کے دستخط موجود ہیں۔

آپ کی عمر اسی سال سے زائد ہوئی، بعض نے حضرت صدیق اکبر کی وفات کے دن آپ کی وفات لکھی ہے اور بعض نے ۵۵ئھ بتائی ہے، وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی (اسد الغابہ ۱/ ۲۲۹ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

               ۹—حضرت بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ

حضرت بریدہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت ایمان قبول کیا، اور غزوۂ احد کے بعد مدینہ تشریف لائے، اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شریک ہوئے (اسد الغابہ ۱/ ۱۷۵، الاصابہ ۱/ ۱۴۶) متعدد مورخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربار رسالت میں شمار کیا ہے، مثلاً: ابن سیدا لناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: عیون الاثر ۲/ ۳۱۶ العجالۃ السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۷/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

حضرت بلال بن سراج بن مجاعہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو یمن میں ایک جاگیر عطا فرمائی تھی، جس کی تحریر حضرت بریدہ نے لکھی تھی، وہ درج ذیل ہیں:

’’محمد رسول کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے جو بنی سلم سے ہے کہ: میں تم کو ایک سرحدی زمین دیتا ہوں جو کوئی تم سے اس معاملہ میں جھگڑا کرے اُسے چاہیے کہ میرے پاس آئے‘‘۔ اس کو بریدہ نے لکھا۔ (المصباح المضئی ۱۸/ أبحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

               ۱۰— حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے جس طرح حضرتِ حسان بن ثابت کو آپ کے شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے (اسد الغابہ ۱/۲۲۹) جب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو حضرت ثابت نے تقریر کی اور فرمایا کہ ہم دشمنوں سے آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن اس کے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت! اس پر پورے مجمع نے خوشی کا اظہار کیا اور بیک زبان ہو کر سب بول پڑے کہ: ہم اس پر خوش ہیں (الاصابہ ۱/۱۹۵)

آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں ابن کثیر، ابن سعد، ابن سیدا لناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۴۱، طبقات بن سعد ۱/۸۲، عیون الاثر /۳۱۵، تہذیب الکمال ۴/ ب العجالۃ السنیہ شرح الفیہ ۲۴۵، المصباح المضئی ۱۹أ)

ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر حمیداللہ نے ’’الوثائق السیاسیہ‘‘ میں وثیقہ نمبر ۱۵۷ میں تحریر کنندہ کا نام قیس بن شماس الرویانی لکھا ہے، لیکن صحابۂ کرام میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا، شاید یہ ثابت بن قیس بن شماس ہو گا‘‘۔ (نقوش ۷/۱۴۴)

آپ کی شہادت جنگ یمامہ میں ۱۱ھ  کو ہوئی (اسد الغابہ۱/۲۲۹، ۲۳۰، الاصابہ ۱/۱۹۵، الاستیعاب ۱/ ۱۹۵ بحوالہ نقوش)

               ۱۱— حضرت جعفر رضی اللہ عنہ

ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی رقم طراز ہیں: ’’بیہقی کی ابن اسحاق والی روایت کے سوا میں نے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جعفر رضی اللہ عنہ کا نام کسی کو ذکر کرتے نہیں پایا (الاصابہ ۲/ ۲۳۹، ۲۹۹) مزید بر آں یہ کہ میرے نزدیک یہ شخصیت بھی غیر واضح ہے، کیوں کہ اس نام کے متعدد صحابۂ کرام تھے، شاید یہ جعفر بن ابی طالب ہیں یا جعفر بن ابی سفیان۔

بیہقی میں ہے ﷺ جب کبھی حضرت زید اور عبداللہ بن أرقم وقت پر موجود نہ ہوتے اور کسی کماندار کو، کسی بادشاہ کو یا کسی دوسرے انسان کو کوئی چیز لکھ کر دینا ہوتی، تو حضرت جعفر سے لکھوا لیتے تھے الخ‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/ ۱۲۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۵)

               ۱۲— حضرت جہم بن سعد رضی اللہ عنہ

ابن حجر کی روایت ہے کہ حضرت جہم کو القفاعی نے کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں شمار کیا ہے، اور لکھا ہے کہ حضرت زبیر اور جہم اموالِ صدقہ لکھا کرتے تھے، اسی طرح مفسر قرطبیؒ  نے بھی اپنی تالیف ’’مولد النبی ﷺ‘‘ میں کاتبین میں آپ کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ عراقی اور انصاری نے بھی آپ کا شمار کاتبین کے ضمن میں کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/ ۲۵۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶، المصباح المضئی ۱۹/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۵)

               ۱۳— حضرت جُہیم بن الصلت رضی اللہ عنہ

آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: جُہیم بن الصلت بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف قرشی رضی اللہ عنہ۔

ابن الاثیر اور بن عبدالبر نے لکھا ہے کہ آپ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے، اور ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئے (الاستیعاب ۱/۲۴۷، اسد الغابہ ۱/ ۲۵۵) بلاذری نے لکھا ہے کہ جُہیم بن الصلت زمانۂ جاہلیت سے لکھنا جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی آپ نے لکھا، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بھی لکھا ہے (الاصابہ ۱/۲۵۵)اموالِ صدقہ کی تفصیلات لکھنے کی روایت بھی ملتی ہے (التنبیہ والاِشراف ۲۴۵)

حضرت جُہیم کے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ہونے کی صراحت ابن شبہ، یعقوبی، ابن مسکویہ، ابن سید الناس، ابن حجر، عراقی، انصاری نے بھی کی ہے (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تاریح یعقوبی ۲/ ۸۰، تجارب الامم ۱/ ۳۹۱، عیون الاثر، أنساب الاشراف ۱/ ۵۳۲ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۶)

               ۱۴— حضرت حاطب بن عمر رضی اللہ عنہ:

سلسلۂ نسب اس طرح ہے:

حضرت حاطب بن عمرو بن عبدالشمس بن عبد وَدّ قرشی عامری رضی اللہ عنہ ابتدائی دور میں ہی مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا، حبشہ کی طرف ہجرت کی، جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔

دربارِ رسالت میں کتابت کا شرف حاصل کیا، ابن مسکویہ، ابن سیدالناس عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۴۶)

               ۱۵— حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ

 حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے معتمد تھے، یمن کے رہنے والے تھے، حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں جب کوئی وفات پا جاتا تو حضرت عمر فرماتے: اگر حذیفہ اس کے جنازہ میں شریک ہوں گے، تو ہی عمر شامل ہو گا، اگر وہ شامل نہ ہوں گے، تو میں بھی نہ ہوں گا (الاصابہ ۱/۳۳۱، ۳۳۲)

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کوئی تمنا کرو! انہوں نے تمنا کی کہ اے کاش! ان کے وہ گھر جن میں وہ رہتے ہیں جواہرات اور دینار و درہم سے بھرا ہو اور وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں! لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ: میری تمنا ہے کہ: میرے پاس ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان جیسے لوگ ہوں، جن کو میں اللہ کی اطاعت کے لیے عامل مقرر کروں۔ (اسد الغابہ ۱/۳۹، ۴۹۲)

آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں، اس کی صراحت قرطبی، ثعلبی، عراقی اور انصاری نے کی ہے، ان سب نے لکھا ہے کہ: ’’حضرت حذیفہ کھجور کی چھال پر لکھا کرتے تھے، اور مسعودی نے لکھا ہے کہ: حضرت حذیفہ حجاز کی متوقع آمدنی کے گوشوارے مرتب فرمایا کرتے تھے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۲۱/ أ، العجالۂ السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، التنبیہ والإشراف ۲۴۵، بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۸)

آپ کی وفات حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد۳۶ھ میں ہوئی۔ (الاستیعاب ۱/۲۴۸)

               ۱۶— حضرت حصین بن نمیر رضی اللہ عنہ

الوزراء والکُتّاب میں ہے کہ: حضرت حصین بن نمیر اور حضرت مغیرہ بن شعبہ لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے (الوزراء والکُتّاب ۱۲) اور انصاری نے لکھا ہے کہ آپ دونوں حضرات قرض اور معاملات تحریر فرماتے تھے، ابنِ مسکویہ نے بھی آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات عوام الناس کے معاملات بھی لکھا کرتے تھے اور حضرت خالد اور حضرت معاویہ کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت میں کتابت فرماتے تھے (تجارب الامم۱/۲۹۰) آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت عراقیؒ  اور یعقوبیؒ  نے بھی کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ عراقی۲۴۷، تاریخ یعقوبی۲/۸۰ بحوالہ نقوش۷/۱۴۸)

               ۱۷— حضرت حنظلہ بن الربیع رضی اللہ عنہ

حضرت حنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی رضی اللہ عنہ بڑے مشہور و معروف جلیل القدر صحابی ہیں، ایک موقع سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ ان کی اور ان جیسوں کی اقتداء کیا کرو! (اسد الغابہ۲/۵۸)

آپ مشہور کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے، الوزراء والکتاب نامی کتاب میں ہے کہ آپ تمام کاتبین کے نائب تھے، اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ’’الکاتب‘‘ سے جانے جاتے تھے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو کاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعبیر کیا ہے (التاریخ الکبیر۲/۳۶)۔ اور امام مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے (الطبقات لمسلم بن حجاج۲۸۰/ب) اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے (طبقات بن سعد۶/۳۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مہر حضرت حنظلہ کے پاس رکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ: ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایا ہوا یاد دلا دیا کرو! چنانچہ حضرت حنظلہ ہر تیسرے دن سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتا یاد دلا دیا کرتے تھے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ (الوزراء والکتاب۱۳/۱۳)

آپ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت ابن حجر، ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاصابہ۱/۳۵۹، ۳۶۰، البدایہ والنہایہ۵/۲۴۲، عیون الاثیر۲/۳۱۵، اسد الغابہ۲/۵۸، المصباح المضئی۸/ب، تاریخ یعقوبی۲/۸۰، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، المصباح المضئی۲۰/أ، التنبیہ والإشراف۲۸۲ بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)

آپ نے حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ (الاصابہ۱/۳۶۰)

               ۱۸— حضرت حویطب بن عبد العزّیٰ رضی اللہ عنہ

آپ نے فتحِ مکہ کے سال آٹھ سال کی عمر میں ایمان قبول فرمایا، آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی اور انصاریؒ  نے کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاستیعاب۱/۸۴، تجارب الامم۱/۲۹۱، عیون الاثر۲/۳۱۶، شرح الفیہ عراقی۲۴۶، المصباح المضئی۲۰/ب بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)

               ۱۹— حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ

سابقین اولین میں سے ہیں، حضرت صدیق اکبر کے بعد ہی اسلام قبول فرمایا تھا، بعض روایات کے مطابق تیسرے چوتھے یا پانچویں مسلمان ہیں۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذحج اور صفاء الیمین کے صدقات کا عامل مقرر فرمایا تھا، رحلتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آپ اس عہدہ پر فائز تھے۔ (الاستیعاب۱/۳۹۹، ۴۰۰)

حضرت خالد بن سعید سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تمام امور کی کتابت فرماتے تھے (التنبیہ والإشراف۲۴۵) اور ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ  نے ’’الوثائق السیاسیہ‘‘ میں درج ذیل وثائق میں کاتب کی حیثیت سے آپ کا اسم گرامی رقم فرمایا ہے: (وثیقہ:۱۹، ۲۰، ۱۱۴، ۲۰۲، ۲۱۳، ۲۱۴، اور۲۲۳)

سب سے پہلے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کی کتابت حضرت خالد بن سعید نے کی تھی (الاصابہ۱/۴۰۶) مکہ مکرمہ میں وحی کی کتابت سے بہرہ ور ہوئے، اور جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خطوط نویسی کا شرف حاصل ہوا، طبری کی صراحت کے مطابق حضرت خالد بن سعید کو خدمتِ نبوی میں بیٹھ کر ضروریات و معاملات لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے، بہت سے مورخین نے آپ کا ذکر کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا ہے، ان میں سرفہرست: ابن اسحاق، ابن سعد، ابن شبہ، طبری، جہشیاری، ابن الاثیر، ابن کثیر، مزی، عراقی، ابن سید الناس، ابن مسکویہ اور انصاری وغیرہ ہیں۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۵، طبقات ابن سعد۴/۶۹، المصباح المضئی۲۱/ب، تاریخ طبری۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب۱۲، التاریخ الکامل۲/۳۱۳، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، عیون الاثر۲/۳۱۵، تجارب الامم۱/۲۹۱ وغیرہ بحوالہ نقوش۷/۱۵۲)

ایک قول کے مطابق حضرت خالد بن سعید کی شہادت ۱۴ھ  میں ہوئی۔ (الاصابہ۱/۴۰۷)

               ۲۰— حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

ہر مسلمان حضرت خالد بن ولید سے واقف ہے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب دیا تھا، آپ کی کنیت ابو سلیمان تھی، ام المومنین حضرت میمونہ بنت الحارث کے بھانجے تھے، ہجرت سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے، زمانۂ جاہلیت میں بھی جنگی مہارت و سیادت کے امتیازات آپ کے پاس رہتے تھے، آپ اکثر جنگلوں میں قائد ہوا کرتے تھے۔

جب آپ نے اسلام قبول کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اسلامی لشکروں کی قیادت مرحمت فرمائی، فتحِ مکہ میں بھی شریک رہے، اور عُزّی کا بت آپ نے ہی گرایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۱/ ۲۶۴، الاستیعاب ۱/۴۰۷)

آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں سے تھے، عمر بن شبہ، ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۵۴)

علامہ ابن کثیرؒ  نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں حضرت خالد بن ولید کا رقم کردہ ایک خط نقل کیا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام مومنین کی طرف کہ: یہاں کوئی شکار نہ کرے، اور شکار کو نہ پکڑے، اور نہ ہی قتل کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا گیا، تو اسے کوڑے مارے جائیں گے، اور اس کے کپڑے اتار دیے جائیں گے، اور اگر کوئی ان حدود کو توڑے گا تو وہ ماخوذ ہو گا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو پیش کر دیا جائے گا‘‘ اور یہ تحریر محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے، اور اِسے خالد نے رسول اللہ کے حکم سے لکھا ہے‘‘۔ اور کوئی انھیں پامال نہ کرے ورنہ وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا ہو گا جیسا کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴)

               ۲۱ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ

آپ مشہور صحابی ہیں، آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے: خزیمہ بن ثابت بن الفاکہ بن ثعلبہ بن ساعدہ بن عامر بن عیان بن عامر بن خطمہ بن جشم بن مالک بن اوس انصاری اویسی۔

آپ سابقین اولین مسلمانوں میں سے ہیں، تاریخ و سیر کی کتابوں میں آپ کے فضائل ومناقب بڑی کثرت سے مرقوم ہیں۔

کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مصاحف کی کتابت کے وقت ہم کو ’’سورۂ احزاب‘‘ کی آیت (۳۳) مِنَ الموٴمنینَ رجالٌ صَدَقُوا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہ الخ۔ حضرت خزیمہ بن ثابت سے ملی، جن کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شہادتوں کے برابر قرار دیا تھا۔

اس سے آپ کے کاتبِ وحی ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/۴۲۵ بحوالہ کاتبینِ وحی ص۱۷۵، ۱۷۷)

               ۲۲ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ

آپ نے ہجرت سے ۱۸/ سال پہلے ایمان قبول فرمایا، اس وقت آٹھ سال کے تھے، اسلام لانے کی وجہ سے چچا نے طرح طرح کی اذیتیں دی، آپ ساری تکلیفیں برداشت کرتے اور زبان سے یہ الفاظ دہراتے تھے: لا أرجعُ إلیٰ الکفرِ أبداً (سیر أعلام النبلاء ۱/۳۹) ترجمہ: میں اَب کبھی کفر کی طرف لوٹ نہیں سکتا۔

آپ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں، آپ کے متعلق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا: لکل نبيٍ حواري وحواري الزبیرُ۔ (سیر أعلام النبلاء ۱/۳۹) ترجمہ: ہر نبی کا ایک حواری (خیرخواہ، مددگار) ہوتا ہے، اور میرا حواری زبیر ہے۔

آپ کاتبینِ پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، خدمتِ نبوی میں اموالِ صدقات کی کتابت کا شرف آپ کو اور حضرت جہیم بن الصلت کو حاصل ہے، متعدد مورخین نے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی کتابت کی صراحت فرمائی ہے، ان میں سر فہرست ابن شبہ، ابن کثیر، عراقی، ابن سید الناس، اور انصاری ہیں، آپ قبیلۂ طی کے بنو معاویہ کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط تحریر فرمایا تھا۔

(حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، البدایہ والنہایہ ۵/۳۴۴، العجالۃ السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵، وغیرہ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۱۵۶)

               ۲۳ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ

کاتبینِ وحی میں سے نمایاں اور سرفہرست آنے والا نام حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے، آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے:

حضرت زید بن ثابت بن ضحاک بن زید خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ، کتابتِ قرآن، بلکہ قرآن مجید کی جمع و تدوین میں سب سے نمایاں خدمت آپ نے ہی انجام دی ہے، آپ مدینہ منورہ کے مفتی اور امام تھے، علمِ میراث میں مشیخیت کا درجہ حاصل تھا، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا: أفْرَضُ أمَّتِي زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ۔ (سیر أعلام النبلاء ۲/۳۰۹) ترجمہ: میری امت میں سب سے زیادہ علمِ فرائض جاننے والے، زید بن ثابت ہیں۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے، اس وقت حضرت زید کی عمر گیارہ سال تھی، اور سترہ سورتیں یاد کر چکے تھے، جب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورتیں سنیں تو بہت خوش ہوئے اور یہودیوں پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے، ان کی زبان و تحریر سیکھنے کا حکم فرمایا، حضرت زید فرماتے ہیں کہ: نصف مہینہ میں ہی یہود کی زبان و تحریر پر میں قادر ہو گیا، اور اتنا ماہر ہو گیا کہ: یہود کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط لکھتا تھا، اور ان کی طرف سے جو خطوط آتے تھے ان کو آپ کے سامنے پڑھتا بھی تھا۔

حضرت زید ہی کی روایت ہے کہ: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ارشاد فرمایا: میں ایک ایسی قوم کے پاس مراسلت کرتا ہوں، جس پر مجھے اطمینان نہیں ہے کہ وہ کہیں کچھ زیادہ یا کمی نہ کر دے، لہذا اے زید! تم سُریانی زبان سیکھ لو! میں حکم پاتے ہی صرف پندرہ یا سترہ دنوں کی قلیل مدت میں سُریانی زبان سیکھ لیا، (الاصابہ ۱/۵۴۳، البدایہ والنہایہ ۵/۳۲۸) آپ خدمتِ نبوی میں رہ کر بادشاہوں کے خطوط بھی لکھا کرتے تھے (الورزاء ولکتاب ۱۲)

آپ کے کاتبِ وحی ہونے کی روایت متواتر ہے، جن مورخین نے کتابت کی صراحت کی ہے، ان میں سرفہرست ابن اسحاق، خلیفہ ابن خیاط، عمر بن شبہ، بخاری، طبری وغیرہ ہیں۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۰، تاریخ خلیفہ ۱/۷۷، فتح الباری ۹/۲۲، تاریخ طبری ۶/۷۹ وغیرہ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/ ۱۵۸ صحیح بخاری ۲/۷۴۶ فضائل القرآن)

حضرت زید فرماتے ہیں کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا، جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو سخت گرمی لگتی تھی، آپ کے جسم اطہر پر پسینوں کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے، جب آپ کی یہ کیفیت ختم ہو جاتی تھی تو میں سامانِ کتابت لے کر حاضر ہوتا، آپ لکھواتے رہتے اور میں لکھتا جاتا، لکھنے کے دوران قرآن پاک نقل کرنے کے بوجھ سے مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میری ٹانگ ٹوٹنے والی ہے، اور میں کبھی چل نہ سکوں گا، جب فارغ ہو جاتا تو آپ فرماتے ’’پڑھو‘‘! میں پڑھ کر سناتا، اگراس میں کوئی فروگذاشت ہوتی تو آپ اس کی اصلاح فرما دیتے، پھر اُسے لوگوں کے سامنے لاتے۔ (مجمع الزوائد ۱/۱۵۲ باب عرض الکتابت بعد املاہ) اسی امتیازی وصف کی وجہ سے حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کے مشورہ سے آپ کو ایک جگہ قرآن مجید جمع کرنے کی خدمت اصرار کے ساتھ سپرد فرمائی، اور انھیں اوصاف کی وجہ سے حضرت عثمان غنی نے مصاحف نقل کرنے والی جماعت کا انچارج بنایا (صحیح بخاری ۲/۷۴۶)

               ۲۴ السجل

قرآن مجید کی آیت: یَومَ نَطْوِي السَّماء کَطَي السِّجِلِّ لِلکُتُب الخ ترجمہ: وہ دن یاد کرنے کا قابل ہے جس دن ہم (نفخۂ اولی کے وقت) آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے، جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹا جاتا ہے (انبیاء ۱۰۴) اس کی تفسیر میں ’’السجل‘‘ سے متعلق تین اقوال ملتے ہیں:

(الف) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد کتاب ہے۔

(ب) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ایک فرشتہ ہے۔

(ج) بعض نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ایک صحابی ہیں، جو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کتابت کیا کرتے تھے: السجلُّ کاتبُ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن کثیر ۴/۶۰۲) اس کی صراحت ابوداؤد، نسائی اور طبری میں بھی ہے، (بن کثیر ۴/۶۰۲) کشاف، در منثور اور فتح القدیر میں بھی یہ قول ہے۔

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ: یہ روایت موضوع ہے، حفاظِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے موضوع قرار دیا ہے، صحابۂ کرام میں’’سجل‘‘ نامی کوئی شخص ہے ہی نہیں (اسد الغابہ ۲/۲۶۱ ابن کثیر ۴/۶۰۲)

ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے خطیبؒ  کا قول نقل کیا ہے: ہٰذا مُنْکَرٌ جِداً لاَ یَصِحُّ أصلاً مِنْ حدیثِ ابنِ عمر (الاصابہ ۲/۱۵ بحوالہ نقوش ۷/۱۵۹) ترجمہ: یہ بہت منکَر قول ہے، ابن عمر سے اس طرح کی کوئی حدیث منقول نہیں ہے۔

علامہ ابن کثیرؒ  نے اپنی تفسیر (۴/۶۰۲)، البدایہ والنہایہ (۵/۳۲۹) اور الفصول فی سیرۃ الرسول (۱۸۸) میں اس طرح کی روایت کے غیر واضح اور ناقابلِ اعتبار ہونے پر مکمل کلام کیا ہے، لکھتے ہیں:

 قُلتُ: وقد أَنْکَرَ غیرُ واحدٍ مِنَ الحُفّاظِ، وَقَدْ أَفْرَدتُ لہ جزء اً وَبَیَّنْتُ طرَقہ و عِلَلَہ، ومَنْ تَکَلَّم فیہ مِنَ الأئمۃِ، وَمَنْ ذَہَبَ منہم إلیٰ أنہ حدیثٌ موضوعٌ۔ (الفصول في سیرۃ الرسول ص۱۸۸)

ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ متعدد حفاظِ حدیث نے اس حدیث کو غیر صحیح قرار دیا ہے، میں نے اس پر ایک الگ تصنیف کی ہے، اس میں ساری سندوں کو ان کے اسباب و علل کے ساتھ بیان کیا ہے، اس میں ان تمام ائمہ کے اقوال کو بھی جمع کیا ہے، جنہوں نے اس حدیث کی سندوں پر کلام کیا ہے، اور ان لوگوں کے بھی اقوال جمع کیے ہیں، جنہوں نے حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم

نوٹ: چوں کہ بعض کتابوں میں یہ نام مذکور ہے، قارئین کو اس سے تشویش ہوتی ہے، اس لیے اس پر اتنی طویل گفتگو کی گئی۔ (اشتیاق احمد )

               ۲۵ حضرت سعد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ

یہ خالد بن سعید اور ابان بن سعید کے بھائی ہیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن آپ کو بازارِ مکہ کا عامل بنایا تھا، یوم طائف میں شہید ہوئے، ابن سید الناس، انصاری اور ابن مسکویہ نے آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۸، الاصابہ ۲/۴۷، عیون الاثر ۲/۳۱۵، المصباح المضئی ۲۲، تجارب الامم ۱/۲۹۱ بحوالہ ’’نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۶۰، ۱۶۱)

               ۲۶ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ

انہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کیا تھا، اور حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی، حضرت ابوبکر نے شام کی فتوحات کے لیے انھیں بھیجا تھا، اور حضرت عمر نے شام کے علاقے کا آپ کو والی بنایا، آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ  میں سے ہیں، عمر بن شبہ، مسعودی، یعقوبی، عراقی، ابن سیدالناس اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۱۴۱المصباح المضئی ۸/ب، التنبیہ والاشراف ۲۴۶، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، تہذیب الکمال ۴/ب، العجالۃ السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/۳۱۵ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۱۶۱)

’’الوثائق السیاسیہ‘‘ میں ایک وثیقہ ( جس کا نمبر۴۳) آپ کا لکھا ہوا ہے، شام کے طاعونِ عمواس میں ۱۸ھ کو وفات ہوئی۔

               ۲۷ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ

ان آٹھ لوگوں میں سے ہیں، جو پہلے پہل اسلام لائے، اور ان پانچ لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، (الاصابہ ۲/۲۲۹) غزوۂ احد میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی جان کے ذریعہ بچاؤ کیا، تیر اپنے ہاتھوں پر روکتے تھے، اس کی وجہ سے انگلیاں شل ہو گئی تھیں، اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ’’طلحۃ الخیر‘‘ کا لقب دیا، اور بیعتِ رضوان کے موقع سے ’’طلحۃ الجود‘‘ کا لقب دیا اور غزوۂ تبوک کے موقع سے ’’طلحۃ الفیاض‘‘ کے لقب سے نوازا۔

آپ نے ان چار عورتوں سے نکاح کیا، جن کی ایک ایک بہن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں۔

حضرت طلحہ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی، اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۲/۲۲۰ اسد الغابہ ۲/۹۲ تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/۳۱۶، العجالۃ السنیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۲۹/ ب بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/ ۶۲، ۶۳)

               ۲۸  حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ

یہ طفیل بن عبد اللہ کے غلام تھے، حضرت عمر سے پہلے ہی ایمان قبول فرمایا، ایمان قبول کرنے کی وجہ سے آپ کوبڑی اذیت دی جانے لگی، تو حضرت ابوبکر صدیق نے خرید کر آزاد کر دیا (الاصابہ ۲/ ۲۵۶) سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیقِ اکبر جن دنوں غارِ ثور میں چھپے تھے، ان دنوں عامر بن فہر اس کے ارد گرد بکریاں چراتے تھے، شام کے وقت بکریوں کو غار کے پاس لے جاتے، دونوں حضرات بکریوں کا دودھ پی لیتے تھے، جب صبح ہوتی تو صدیقِ اکبر کے فرزند عبد اللہ غار کے پاس سے بکریوں کے قدموں کے نشانات پر چل کر انہیں مٹا دیتے (اسد الغابہ ۲/ ۹۱) غزوۂ بدر و اُحد میں شریک ہوئے، اور بئرِ معونہ میں شہید ہوئے۔ (الاستیعاب ۳ / ۸)

بلاشبہ آپ کاتبانِ نبی اکرم ﷺ  میں سے ہیں، اس کی صراحت مزّی، ابن کثیر، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے کی ہے، (حوالے کے دیکھیے: تہذیب الکمال ۴/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۸، العجالۃ السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، وغیرہ بحوالہ ’’نقوس‘‘ رسول نمبر ۷/ ۱۶۴ )

مسند احمد میں ہے کہ: (ہجرت کے سفر میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ بن مالک المدلجی کو جو امان نامہ لکھ کر دیا تھا، وہ عامر بن فہیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لکھا تھا، سراقہ خود کہتے ہیں:

’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے امان نامہ لکھ دینے کی درخواست کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہر کو حکم فرمایا، انہوں نے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر وہ امان نامہ تحریر کر دیا۔ (مسند احمد ۴/ ۱۷۶) یہ تو مسند احمد کی روایت ہے۔

البدایہ والنہایہ میں ابن کثیرؒ  نے لکھا ہے کہ: ﷺ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر کو لکھنے کا حکم دیا، چنانچہ انہوں نے ایک امان نامہ لکھا اور اس کے حوالے کردیا۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۱) الوثائق السیاسیہ ص۳۶)

ابن کثیرؒ  نے ان دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ: امان نامہ کا کچھ حصہ حضرت ابوبکر نے لکھا اور کچھ حصہ آپ کے غلام عامر نے لکھا واللہ اعلم بالصواب (البدایہ النہایہ ۵ /۳۵۱ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۳۸)

               ۲۹ حضرت عباس رضی اللہ عنہ

کسی بھی مورخ نے حضرت عباس کا ذکر بہ حیثیت کاتبِ رسول اللہ کے نہیں کیا ہے، حالاں کہ بعض وثائق میں حضرت عباس کا نام مرقوم ہے، شاید وجہ یہ ہو کہ اکثر لوگ اپنے پیش رو کی بات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

ہاں یہ بات ضرور قابلِ تحقیق ہے کہ حضرت عباس سے کون سے عباس مراد ہیں؟ اس لیے کہ صحابۂ کرام میں بہت سے ایسے حضرات موجود ہیں جن کا نام عباس ہے، میں ذیل میں ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی مدظلہ العالی کی تحقیق درج کرتا ہوں، فرماتے ہیں کہ:

’’میں اس امر سے کوئی مانع نہیں پاتا کہ کاتبانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فہرست میں حضرت عباس کے نام کا اضافہ کر دوں، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ عباس کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میرے نزدیک مبہم ہے، کیوں کہ صحابۂ کرام میں بہت سارے ایسے حضرات موجود ہیں، جن کا نام نامی عباس ہے، جن کو ابن عبدالبر، ابن حجر اور ابن اثیر وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔

زیادہ تر عباس سے مراد عباس بن عبدالمطلب ہی ہوتے ہیں، اور یہی ہمارا مقصد ہے، وہ تحریر جس پر ہم اس نام کے اضافہ کرنے کا اعتماد کر رہے ہیں، غنائمِ خیبر اور ان کو امہات المومنین وغیرہ پر تقسیم کرنے کے متعلق ہے․․․․․․ اس تحریر کا ترجمہ پیش ہے:

’’اس گندم کا ذکر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات کو عطا فرمایا، ازواجِ مطہرات کے لیے ایک سو اسّی (۱۸۰)، فاطمہ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پچاسی (۸۵)، اسامہ بن زید کے لیے چالیس (۴۰) مقداد بن الاسود کے لیے پندرہ (۱۵) اور ام رُمیثہ کے لیے پانچ وسق ہوں گے۔ ‘‘

’’عثمان بن عفان اور عباس گواہ بنے اور ’’عباس‘‘ نے ہی لکھا۔ ‘‘ (سیرۃ ابن ہشام ۳/۳۵۲، ۳۵۳، الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر ۱۸ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر۷/۱۶۴، ۱۶۵)

               ۳۰ حضرت عبداللہ بن الارقم رضی اللہ عنہ

فتح مکہ کے دن ایمان لائے، آپ کے دادا نبی کریم ﷺ  کے ماموں تھے (الاصابہ ۲/۲۷۳) آپ کی کتابت پر سرکار دو عالم ﷺ  نے اعتماد فرمایا، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بھی آپ سے مختلف چیزیں لکھوائی ہیں۔ (السنن الکبری للبیہقی ۱۰/۱۲۶) حضرت عمر نے آپ کو بیت المال کا متولی بھی بنایا تھا، وفات سے پہلے بینائی ختم ہو گئی تھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وفات ہوئی (اسد الغابہ ۳/۱۱۶ وغیرہ)

بلاشبہ آپ کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس کی صراحت ابن اسحاق، ابن شبہ، بخار، مسلم، طبری، جہشیاری، مسعودی اور ابن مِسکویہ وغیرہ نے کی ہے (حوالے کے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، طبقات امام مسلم ۲۸۰/ب، تاریخ طبری ۶/۱۷۹ الوذراء والکتاب ۱۲، التنبیہ وا لإشراف ۲۴۵، تجارب الامم ۱/۲۹۱، ۲۹۲ تہذیب الکمال ۴/ب، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۹، الاصابہ ۲/۲۷۳، الاستیعاب ۲/۲۶۲۔ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۱۶۶)

امام بیہقی کی سننِ کبری میں ایک روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خط آیا، تو آپ نے فرمایا: میری طرف سے کون جواب دے گا؟ عبداللہ بن الارقم نے جواب دیا: ’’میں‘‘! اور انہوں نے اس کا جواب لکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، اور پسند فرمایا، اور دعاء فرمائی: ’’اللّٰہم وَفِّقْہ‘‘ : اے اللہ! اسے خیر کی توفیق عطا فرما! (الاستیعاب ۲/۲۶۱، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/۱۶)

ایک روایت میں ہے کہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن الارقم بن یغوث سے لکھوایا کرتے تھے، اور وہ آپ کی طرف سے بادشاہوں کو جواب دیا کرتے تھے، کتابت میں ان کی امانت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر اعتماد تھا کہ آپ انھیں کسی بادشاہ کی طرف خط لکھنے کا حکم فرماتے تو وہ لکھ کر اور مہر لگا کر بند کر دیتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہ فرماتے۔

سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن ثابت اور عبداللہ بن الارقم سے لکھوایا کرتے تھے، جب یہ دونوں موجود نہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی حاضر ہوتا، اس سے لکھواتے، عموماً حضرت عمر، حضرت علی، حضرت خالد بن سعید، حضرت مغیرہ اور حضرت معاویہ موجود ہوتے تھے۔ (الاصابہ ۲/۲۷۳)

حضرت عبداللہ بن الارقم زیادہ تر قبائل کے درمیان معاہدات، بادشاہوں کے خطوط، انصار کے مردوں اور عورتوں کے درمیان مکانات کے تصفیے، قرض کی تحریریں، خرید و فروخت کے دستاویزات، پانی کی تقسیم کے معاہدات وغیرہ تحریر فرماتے تھے۔

(تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری ۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب ۱۲، التنبیہ والاشراف ۲۴۵، الاستیعاب ۸۷۴، ۸۷۵ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر۷/۱۶۷)

               ۳۱ حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

آپ صدیق اکبر کے صاحب زادے ہیں، شروع میں ہی اسلام قبول کیا، حنین، طائف میں شریک ہوئے، وفات ۱۱ئھ میں ہو گئی، والد ماجد نے نماز جنازہ پڑھائی، عموماً مورخین نے ان کو کاتبین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں شمار فرمایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بلا شبہ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھنے کا شرف حاصل کیا ہے، ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ  نے الوثائق السیاسیۃ میں وثیقہ نمبر ۹۴ میں بہ حیثیت کاتب عبد اللہ بن ابو بکر صدیق کا اسم گرامی نقل فرمایا ہے۔ (دیکھیے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی تحریر، ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۱۶۷، ۱۶۸)

               ۳۲ عبداللہ بن خطل یا عبد العزّی بن خطل

(مرتد ہو کر مقتول ہوا)

متعدد مورخین نے اس کے کاتبِ نبی ﷺ  ہونے کی بات لکھی ہے، مثلاً: ابن سید الناس انصاری اور عراقی نے لکھا ہے کہ: یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کرتا تھا، پھر مرتد ہو گیا اور حضور کے حکم سے قتل ہوا، اس وقت خانۂ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا تھا (دیکھیے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ المصباح المضئی ۳۷/أ، العجالۃ السنیہ ۲۴۷وغیرہ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۶۸)

لیکن ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی لکھتے ہیں کہ: ’’اس کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر کوئی معتبر سند موجود نہیں ہے (نقوش ۷/۱۶۸) بعض کتابوں میں یہ بھی ہے کہ وہ وحی کی کتابت میں اپنی طرف سے الٹ پھیر کر دیتا تھا، لیکن یہ بات بھی بہت مضبوط نہیں ہے، اس کے قتل کیے جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عبد البر نے لکھا ہے کہ:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا، اس کے ساتھ ایک اور مسلمان کو کر دیا، اس نے اس مسلمان کو قتل کر دیا، اور قتل کی سزا کے ڈر سے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اور مشرکین سے جا ملا:۔ (الدرر في المغازی والسیر ۲۳۳) سیرت ابن ہشام میں یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان غلام تھا، جو اس کی خدمت کرتا تھا، اس نے غلام کو حکم دیا کہ پہاڑی بکرا ذبح کر کے اس کے لیے کھانا تیار کرے، اور خود سو گیا، جب اٹھا تو دیکھا کہ کھانا تیار نہیں ہے، بس کیا تھا کہ غلام کو جان سے ہی مار ڈالا اور ڈر کے مارے مرتد ہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا، اور شقاوت اتنی بڑھ گئی کہ اپنی دو لونڈیوں سے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ہجو کے اشعار کہلواتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے اس کے خون کو مباح قرار دیا، فتحِ مکہ کے دن وہ قتل کر دیا گیا، اس وقت وہ خانۂ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہوا تھا، اس کے ساتھ اس کی لونڈیوں کے قتل کا بھی حکم نافذ ہوا تھا۔ (سیرۃ ابن ہشام ۳/۴۱۰، المغازی للواقدی ۸۵۹، ۸۶۰وغیرہ بحوالہ نقوش ۷/۱۶۸، ۱۶۹)

               ۳۳ حضرت عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ

بلند پایہ شاعر تھے، ایامِ جاہلیت ہی سے لکھنا پڑھنا جانتے تھے، انصار میں سابقین اولین میں سے ہیں، انصار کے بارہ نقیبوں میں سے ہیں۔ غزوۂ احد، خندق، خیبر، وغیرہ میں شریک رہے، جنگ موتہ میں ۸ھ کو شہید ہوئے۔ (اصابہ ۲/۳۰۷، اسد الغابہ ۳/۱۵۸، ۱۵۹)

آپ کاتبینِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس کی صراحت ابن سعد، عمرو بن شبہ، ابن عبدالبر، ابن حجر، عینی، عراقی، ابن سیدالناس اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۲/ ۳۰۶، المصباح المضئی ۳۳/ب، الاستیعاب ۲/ ۳۰۱، عمدۃ القاری ۲۰/ ۱۹، العجالۃ السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/ ۱۷۱)

۳۴ حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربّہ رضی اللہ عنہ:

یہ وہی عبداللہ ہیں، جن کو خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو اسی طرح اذان دینے کا حکم فرمایا۔ (الاصابہ ۲/ ۳۱۵، الاستیعاب ۲/ ۳۱۱، ۳۱۲، اسد الغابہ ۳/ ۱۶۶) آپ کاتبِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہیں، اس کی صراحت واقدی، ابن سیدالناس، ابن کثیر، عراقی، اور انصاری وغیرہ نے کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، عیون الاثر۲/ ۳۱۵، العجالۃ السنیہ ۲۴۷ المصباح المضئی ۳۵/ أ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۷۲)

طبقاتِ بن سعد میں حضرت عبداللہ بن زید کا لکھا ہوا ایک خط بھی محفوظ ہے، ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ  حیدرآبادیؒ  نے الوثائق السیاسیہ میں اس کو نقل فرمایا ہے۔ اس کے اخیر میں ہے کہ’’ یہ تحریر عبداللہ بن زید نے لکھی ہے‘‘۔ (دیکھیے: طبقات بن سعد ۱/ ۲: ۲۱ الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر۴۱ بحوالہ ’’نقوش‘‘ ۷/ ۱۷۲)

۳۵ حضرت عبداللہ بن سعد ابی سرح رضی اللہ عنہ:

یہ حضرت عثمان غنی کے رضاعی بھائی ہیں، فتحِ مکہ سے پہلے ہی ایمان قبول کیا، اور ہجرت کی، پھر شیطان کے بہکاوے میں آ کر مرتد ہو گئے اور مشرکینِ مکہ سے جا ملے، فتحِ مکہ کے دن حضرت عثمان غنی کی سفارش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امان دیا، پھر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بہت پختہ مسلمان رہے، اسلام ہی پر ان کا خاتمہ ہوا (الاستیعاب ۲/ ۳۷۵، فتح الباری ۸/ ۱۱، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵ )

ارتداد سے پہلے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا بھی موقع نصیب ہوا، اہلِ تاریخ و سیر کا اس پر اتفاق ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام ۳/ ۴۰۵، تاریخ خلیفہ بن خیاط ۱/ ۷۷)

ان کے سلسلے میں بعض کتابوں میں یہ بات ملتی ہے کہ: ابن ابی سرح قرآن مجید کی کتابت میں تبدیلی کر دیا کرتے تھے، اس پر ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی نے بڑی مفصل گفتگو فرمائی ہے (دیکھیے: ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/ ۱۷۳ تا ۱۷۶) انہوں نے متعدد روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

’’حقیقت یہ ہے کہ سارا قصہ غلط ہے، اور ابن ابی سرحؒ  کی طرف غلط منسوب ہے․․․․ اس طرح کی بات کی نسبت متعدد لوگوں کی طرف کی گئی ہے، انھیں میں سے عبداللہ بن خطل انصاری بھی ہے، جو مرتد ہو کر مرا تھا اور دفنائے جانے کے بعد زمین نے اس کو باہر پھینک دیا تھا، (تاریخ القرآن ص ۵۵)

قرآن مجید کی ہر قسم کی تحریف سے سلامتی، اللہ تعالیٰ کا اس کی حفاظت کا ذمہ اٹھانا اور نبی اکرم ﷺ  کی قرآن مجید کے معاملہ میں نمایاں درجہ کی احتیاط جس کی شہادت دوستوں سے قبل دشمنوں نے دی، ان تمام چیزوں کی موجودگی میں، ہمارے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم قرآن مجید میں تغیر کے اس قسم کے قصوں کو تسلیم کر لیں، خصوصاً ایسی روایات کی بنا پر جو بے سند ہیں اور جن کو ابن ابی سرح کے دشمنوں نے تراشا اور پھر ان سے دوسروں نے نقل کی۔ آگے رقم طراز ہیں:

’’معتمد علیہ قدیم مصادر میں ابن ابی سرح کے متعلق اس قسم کا کوئی قصہ مذکور نہیں ہے، قدیم مصادر میں سے ہمارے پاس سیرۃ ابن ہشام، سیرۃ ابن اسحاق وغیرہ ہیں ان میں صرف کتابت اور ارتداد کی بات ہے اور بس‘‘۔

آگے لکھتے ہیں کہ:

’’ اصل میں یہ حکایت ابن کلبی سے منقول ہے جو شیعہ تھا، اور عثمانیوں کا دشمن تھا اور واقدی سے منقول ہے جو ضعیف بلکہ وضعِ حدیث کیساتھ متہم تھا۔ ‘‘اخیر میں خلاصہ کے طور پر لکھتے ہیں:

’’کاتبانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کوئی ایسی بات کہ فلاں اور فلاں قرآن میں تحریف کیا کرتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ اللہ علیہ وسلم اس سے غافل تھے، جھوٹی اور خلافِ واقع بات ہے، دین اس قسم کی ہفوات کو تسلیم کرتا ہے نہ علمی مباحث میں ایسی باتوں کو کوئی حیثیت حاصل ہے‘‘۔ (’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/ ۱۷۳ تا ۱۷۶)

               ۳۶ حضرت عبداللہ بن سعید رضی اللہ عنہ

آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:

عبداللہ بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف آپ قریشی ہیں، زمانۂ جاہلیت میں آپ کا نام ’’حکم‘‘ تھا، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر’’ عبداللہ ‘‘رکھا، آپ لکھنا بھی جانتے تھے، بلکہ اچھے کاتب تھے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ: اہلِ مدینہ کو لکھنا سکھائیں! آپ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے شہادت نصیب فرمائی، بعض روایتوں میں آپ کی شہادت ’’جنگ یمامہ‘‘ ۱۱ھ اور بعض میں ’’جنگ موتہ‘‘ ۸ھ میں نقل کی گئی ہے، واللہ اعلم (اسد الغابہ ۵/ ۲۳۹، الاصابہ ۱/۳۴۴ بحوالہ کاتبینِ وحی ص ۲۱۶)

               ۳۷ حضرت عبداللہ بن اُبي بن سلول رضی اللہ عنہ

موصوف کا نام ’’حباب‘‘ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کر کے ’’عبداللہ ‘‘رکھ دیا، بدر، احد اور تمام غزوات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، ان کا باپ رئیس المنافقین تھا۔ (الاستیعاب ۲/۳۳۵)

یہ کاتبینِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، یعقوبی، عمرو بن شبہ، ابن عبدالبر، سہیلی، عراقی، ابن حجر، ابن سید الناس، انصاری اور عامری وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، العجالۃ السنیہ ۲۴۷، الاصابہ ۲/ ۳۳۶، عیون الاثر ۲/۳۱۵، بہجۃ المحافل ۲/۱۶۱ بحوالہ ’’ نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/ ۱۷۷ )

صدیقِ اکبر کے عہد خلافت میں مرتدین کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے (الاصابہ ۲/۳۳۶)

               ۳۸   حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بن وائل رضی اللہ عنہ

آپ لکھنا، پڑھنا جانتے تھے، اپنے والد سے پہلے ہی اسلام قبول فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ  سے آپ نے حدیث شریف لکھنے کی اجازت طلب فرمائی تو آپ ﷺ  نے اجازت دے دی، اس لیے آپ کے پاس حدیث شریف کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: مجھ سے زیادہ احادیث کا جاننے والا سوائے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کے کوئی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ احادیث لکھ لیا کرتے تھے، آپ قرآن مجید کے حافظ تھے، دربار نبوی سے تین دن سے کم میں ختم کی اجازت مانگی تھی تو اجازت نہیں ملی، البتہ تین دن میں قرآن مجید ختم کرنے کی اجازت مل گئی۔

آپ کی وفات ۶۵ھ یا ۶۹ھ میں ہوئی۔ (الاصابہ ۲/۳۵۲، غایۃ النہایہ ۱/۴۳۹ بحوالہ کاتبینِ وحی ص ۹۳)

               ۳۹ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

تیسرے خلیفہ ہیں، آپ كا لقب ذو النورین ہے، پہلے حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا، ان کی وفات کے بعد ام کلثوم آپ کی زوجہ ہوئیں، آپ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔

دربار نبوی میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت درج ذیل مورخین نے کی ہے: یعقوبی، عمرو بن شبہ، واقدی، طبری، ابن مسکویہ، جہشیاری، ابن کثیر، ابن اثیر، مزّی، ابن سیدالناس، عراقی، انصاری وغیرہ۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، المصباح المضئی ۸/ب البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۳۹، تاریخ طبری ۶/ ۱۷۹، تہذیب الکمال ۴/ب عیون الاثر ۲/۳۱۵، العجالۃ السنیہ ۲۴۵۔ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۷۷)

۲۸/ ذی الحجہ ۲۳ھ کو آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا، اور ۱۸/ ذی الحجہ ۳۵ھ کو عصر کے بعد جمعہ کے دن شہید کر دیے گئے۔ (الاصابہ ۲/۴۶۳)

               ۴۰  حضرت عقبہ بن عامر بن عبس جہنی رضی اللہ عنہ

آپ علم فرائض اور فقہ میں بڑے ماہر تھے، زبان و بیان پر بھی اچھی خاصی قدرت تھی، شاعری کا ذوق نکھرا ہوا تھا، جمعِ قرآن میں بھی آپ نے خدمت انجام دی ہے، ابن سعد نے طبقات میں ایک وثیقہ نقل کیا ہے، جس میں کاتب کی حیثیت سے ’’عقبہ‘‘ کا نام ہے، اب یہ بات قابلِ تحقیق ہے کہ یہ عقبہ کون ہیں؟ راجح قول وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا، ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ نے کاتب کا نام ’’علاء بن عقبہ‘‘ لکھا ہے، حالاں کہ یہ ’’عقبہ ‘‘ہیں، ابن عقبہ نہیں ہیں، انصاری نے ان کو کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فہرست میں شمار کیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ علاء بن عقبہ اور ہیں اور عقبہ اور ہیں، تحقیق کے لیے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی مدظلہ العالی کا مقالہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (’’نقوش‘‘ رسول نمبر۷/ ۱۷۸) انہوں نے طبقات بن سعد ۱/۴، المصباح المضئی، ۳۷/ أ، الوثائق السیاسیہ وثیقہ نمبر ۱۵۴ اور الاصابہ ۲/ کے حوالے درج فرمائے ہیں۔

               ۴۱ حضرت علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ

آپ کا اسم گرامی علاء بن عبداللہ بن عباد تھا، حضر موت سے تعلق تھا، سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بحرین کا والی بنایا تھا۔

آپ کاتبینِ دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدرآبادیؒ  نے ’’الوثائق السیاسیہ‘‘ میں متعدد دستاویزات پر آپ کا نام بہ حیثیت کاتب نقل فرمایا ہے، دیکھیے وثیقہ نمبر (۱۶۵، ۱۶۶، ۱۹۶)۔

(مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تجارب الامم ۱/۲۹ التنبیہ والاشراف ۲۴۶، التاریخ الکامل ۲/ ۳۱۳، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۲ عیون الاثر / ۳۱۵ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/ ۱۷۹)

               ۴۲ علاء بن عقبہ رضی اللہ عنہ

یہ بھی کاتبینِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، یہ اور حضرت ارقم رضی اللہ عنہما لوگوں کے درمیان قرض، خرید و فروخت اور دیگر معاملات کے دستاویزات لکھا کرتے تھے، (الاصابہ ۲/۴۹۸) انہوں نے ہی عمرو بن حزم کا معاہدہ لکھا، جس کی اصلاح ابو موسیٰ  نے کی، الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۱۵۴، ۱۵۵، ۲۱۰ پر بحیثیت کاتب دستاویز حضرت علاء بن عقبہ کا نام درج ہے۔ (مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: التنبیہ والاشراف ۲۴۵، تاریخ طبری ۶/۱۷۹، اسد الغابہ ۴/۹، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۳، العجالۃ السنیہ ۲۴۷، عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضئی ۳۶/ ب بحوالہ نقوش ۷/۱۷۹، ۱۸۰)

               ۴۳ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

امیر المومنین خلیفہ رابع نے سرکار دو عالم ﷺ  کی گود میں پرورش پائی، حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ  سے نکاح ہوا، آپ کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أقضاہُم علی (الاستیعاب ۲/۱۱) ترجمہ: تمام صحابہ میں علی بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں، بارہ رمضان المبارک ۴۰ھ کو دھوکہ سے آپ کو شہید کر دیا گیا۔

آپ کاتبِ وحی ہیں، اس پر تمام اہلِ تاریخ و سیر کا اتفاق ہے، ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ  نے اپنی مایہ ناز کتاب الوثائق السیاسیہ میں درج ذیل دستاویزات پر آپ کا نام بطورِ کاتبِ تحریر نقل فرمایا ہے: (۱۱، ۳۳، ۴۴، ۴۵، ۸۵، ۱۱۱، ۱۴۱، ۱۶۲، ۱۶۷، ۱۷۲، ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۳)۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۸/۱۱، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، تاریخِ  طبری ۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب، تجارب الامم ۱/۲۹۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۲، تہذیب الکمال ۴/ب، العجالۃ السنیہ ۲۴۵، عیون الاثر ۲/۳۱۵، المصباح المضئی ۱۶/أ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۸۱)

               ۴۴ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

امیر المومنین خلیفۂ دوم کے اسلام لانے کی تمنا خود سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، آپ کے اسلام لانے کے بعد اسلام کو بڑی تقویت حاصل ہوئی، کئی مرتبہ آپ کی رائے کے مطابق وحی نازل ہوئی۔

بلاشبہ آپ کاتب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، (اس کی صراحت درج ذیل کتابوں میں ہے: البدایہ والنہایہ (۵/۳۵۰)، المصباخ المضئی (۸/ب)، تجارب الامم (۱/۲۹۱) اسد الغابہ (۵/۵۳)، تہذیب الکمال (۴/ب ) العجالہ السنیہ (۲۴۵) عیون الاثر (۲/۳۱۵)، بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر(۷/ ۱۸۱، ۱۸۲)۔

               ۴۵ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ

ایام جاہلیت ہی سے عرب کے نہایت ہی ہوشیار، بہادر اور شہسوار تھے، شاعری کا بھی اچھا ذوق تھا، ان کے مسلمان ہو کر مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی خوشی ہوئی تھی، آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ مکہ کی زمین نے اپنے چھپے ہوئے خزانے تمہارے سامنے پھینک دیے ہیں (الاستیعاب ۱۱۵۸)

آپ کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت درج ذیل کتابوں میں موجود ہے (المصباح المضئی ۸/ب، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، العجالۃ السنیہ ۲۴۶ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر۷/۱۸۲، ۱۸۳)

               ۴۶ حضرت محمد بن مسلمہ بن سلمہ انصاری رضی اللہ عنہ

بعثتِ نبوی سے بائیس سال پہلے پیدا ہوئے، زمانۂ جاہلیت ہی میں ان کا نام محمد رکھا گیا، بالکل ابتدائی دور میں ایمان قبول کیا، سرکار دو عالم ﷺ  نے حضرت ابو عبیدہ سے ان کی مواخات کرائی تھی، حق گوئی میں بڑے جری تھے۔ ’’اردن‘‘ کے ایک آدمی نے ۴۳ھ میں آپ کو مدینہ منورہ میں خود آپ کے گھر میں شہید کر دیا۔

دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، ابن سعد نے طبقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط بھی محفوظ کیا ہے، جس کو حضرت محمد بن مسلمہ نے رقم فرمایا تھا۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۳/ ۳۸۳، سیر أعلام النبلاء ۲/ ۲۶۷ المصباح المضئی ۳۷/ ب، طبقات ابن سعد ۱/۸۲، الاستیعاب ۱۴۰۳ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۱۸۴)

               ۴۷ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ

ہجرت نبوی سے تقریباً دس سال پہلے پیدا ہوئے، آپ کا قد لمبا، چہر ہ خوب صورت، بال حسین و جمیل، آنکھیں بڑی بڑی اور سامنے کے دانت بجلی کی مانند چمک دار تھے، آپ ان ستر صحابۂ کرام میں سے ہیں جو بیعتِ عقبہ میں حاضر ہوئے تھے، اور جن لوگوں نے بنی سلمہ کے بتوں کو توڑا تھا، تمام غزوات میں شریک ہوئے تھے، اور عہد نبوی میں ہی قرآن مجید جمع فرمایا تھا، آپ ان چار شخصیات میں سے ہیں جن سے قرآن سیکھنے کی تلقین سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی، آپ کے علاوہ تین شخصیات درج ذیل ہیں: حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی ابن کعب اور حضرت سالم۔

حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی وفات کے بعد آپ کو شام کا والی بنایا گیا، ۸ھ میں طاعون عمواس میں شہید ہوئے۔

یعقوبی اور انصاری کی تصریح کے مطابق آپ کاتبینِ پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار ہوتے ہیں، (حوالوں کے لیے دیکھیے: (الاستیعاب ۱۴۰۴، الاصابہ ۳/ ۴۲۷ تاریخ یعقوبی ۲/۸۰ وغیرہ بحوالہ ’’نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۴ تا ۱۸۶ تلخیص)

               ۴۸ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ

بعثتِ نبوی سے پانچ سال پہلے پیدا ہوئے، حضرت ابوسفیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول فرمائی۔

ابن اسحاق، ابن سعد، ابن حنبل، عمر بن شبہ، خلیفہ ابن خیاط، طبری، جہشیاری، مسعودی، ابن مسکویہ، یعقوبی وغیرہ نے آپ کے کاتبِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

ڈاکٹر محمد حمیداللہ حیدرآبادیؒ  نے ’’الوثائق السیاسیہ ‘‘میں درج ذیل دستاویزات پر بحیثیت کاتب، حضرت معاویہ کے نام کی تحقیق و تخریج فرمائی ہے: وثیقہ نمبر ۸۹، ۱۳۱، ۱۶۴، ۱۸۵، ۲۱۵ اور ۲۲۲۔

(حوالوں کے لیے ملاحظہ فرمائیے: البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۵۰، المصباح المضئی ۸/ب، تاریخ خلیفہ ۱/ ۷۷، تاریخ طبری ۶/ ۱۷۹، الوزراء والکتاب ۱۲ التنبیہ والاشراف ۲۴۶، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰ بحوالہ ’’نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۶، ۱۸۷)

               ۴۹ حضرت معیقیب بن ابی فاطمہ دوسی

آپ سعید بن العاص کے آزاد کردہ غلام تھے، بیعتِ رضوان اور بعد کے سارے غزوات میں شریک ہوئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر مبارک آپ کی نگرانی میں رہتا تھا۔ شیخین نے آپ کو بیت المال کا نگراں مقرر فرمایا تھا۔

آپ کو دربارِ رسالت مآب ﷺ  میں کتابت کا شرف حاصل ہوا، عمر بن شبہ اور جہشیاری نے اس کی صراحت کی ہے، اور آخر الذکر نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ ﷺ  کے لیے مالِ غنیمت کی فہرست لکھ دیا کرتے تھے، مسعودی، عراقی، ابن سید الناس اور انصاری وغیرہ نے بھی یہ بات لکھی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: العجالۃ السنیہ ۲۴۵ الاستیعاب ۱۷۴۸، الاصابہ ۳/ ۴۵۱، الاستیعاب ۱۷۴۹، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۵، اسد الغابہ ۴/۴۰۳، المصباح المضئی ۸/ب، الوزراء والکتاب ۱۲، التنبیہ والاشراف ۲۴۶، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵ بحوالہ ’’نقوش‘’ رسول نمبر۷/ ۱۸۷)

               ۵۰ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ

آپ کو ’’مغیرۃ الرأی‘‘ بھی کہا جاتا تھا، آپ عرب کے نہایت ہوشیار اور چالاک لوگوں میں شمار ہوتے تھے، خندق کے سال ایمان لائے، بیعتِ رضوان میں بھی شریک رہے، غزوۂ یرموک میں ایک آنکھ زخمی ہو گئی، حضرت معاویہ نے آپ کو کوفہ کا گورنر بنایا تھا، آپ کاتبینِ وحی میں سے ہیں، لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے، ’’الوثائق السیاسیہ ‘‘میں متعدد دستاویزات آپ کے لکھے ہوئے ہیں (دیکھیے: وثیقہ نمبر ۸۱، ۸۳، ۸۶، ۹۵، ۱۵۳، ۱۹۴، ۱۹۵ اور ۲۰۴)

(مزید حوالوں کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۲/ ۴۵۲، الاستیعاب ۱۴۴۶، البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۰، المصباح المضئی ۸/ب، الوزراء والکتاب ۱۲ تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، التنبیہ والاشراف ۲۴۵، تجارب الامم ۱/ ۲۹۱ العجالۃ السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵ بحوالہ ’’نقوش‘‘ رسول نمبر ۷/۱۸۷، ۱۸۸)

               ۵۱ ایک نصرانی انصاری

ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی ایک مجہول کاتب کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’بنی نجار کا ایک آدمی نصرانی تھا، پھراسلام لایا، سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب تھا، مگر دوبارہ مرتد ہو گیا․․․․ اللہ تعالیٰ نے اسے موت دی، لوگوں نے دفنایا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا، اور باہر پھینک دیا۔ (انظر:خ المناقب ۲۶، الحدیث ۳۶۱۷، م فضائل و منحۃالمعبود ۲/۵ بحوالہ ’’نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۱۸۸)

               ۵۲ حضرت یزید بن معاویہ

یہ حضرت معاویہ کے باپ کی طرف سے (علاتی) بھائی تھے، انھیں، ’’یزید الخیر‘‘ بھی کہا جاتا تھا، فتح مکہ کے دن اسلام لائے، حضرت معاذ بن جبل کے بعد شام کے والی بنائے گئے، ۱۸ھ کے طاعونِ عمواس میں فوت (شہید) ہوئے۔

آپ کو سرکار دو عالم ﷺ  کی خدمت میں کتابت کا شرف حاصل ہے، ابن سعد، ابن مسکویہ، ابن عبدالبر، ابن عبد ربّہ، عراقی، ابن سید الناس، اور انصاری نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔

(حوالے کے لیے دیکھیے: الاستیعاب ۱۵۷۵، ۱۵۷۶، سیرأعلام النبلاء ۱/ ۲۳۸، المصباح المضئی ۴۲/ أ، تجارب الامم ۱/۲۹۱، العجالۃ السنیہ ۲۴۶، عیون الاثر ۲/۳۱۶، بحوالہ’’ نقوش‘’ رسول نمبر ۷/۷۸۹)

               چند اور کاتبین

ذیل میں اکیس صحابۂ کرام اور دو ام المومنین صحابیہ کے اسمائے گرامی پیش کیے جا رہے ہیں، جن کے نام متعدد کتابوں میں ’’کاتبینِ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی فہرست میں ہے: لیکن راقم الحروف کو ان کے سلسلے میں اب تک کتابت کی صریح روایات نہ مل کسی ہیں :

۵۳ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ

۵۴ حضرت ابو زید رضی اللہ عنہ

۵۵ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ

۵۶ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

۵۷  حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ

۵۸  حضرت حفصہ (ام المومنین )رضی اللہ عنہا

۵۹  حضرت خالد بن العاص رضی اللہ عنہ

۶۰  حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ

۶۱  حضرت سعد بن العاص رضی اللہ عنہ

۶۲  حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ

۶۳  حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ

۶۴  حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ

۶۵ حضرت عائشہ (ام المومنین) رضی اللہ عنہا

۶۶  حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

۶۷  حضرت عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ

۶۸ حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ

۶۹  حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ

۷۰  حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ

۷۱  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

۷۲  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

۷۳  حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ

۷۴  حضرت منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ

۷۵  نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ

          تفصیلی حالات کے لیے دیکھیے: ’’کاتبینِ وحی‘‘ موٴلفہ حضرت قاری ابوالحسن اعظمی مدظلہ، شعبۂ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/07_Katibin-e-Wahi_MDU_8&9_Aug-Sep_11.htm

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Katibin-e-Wahi_MDU_10_Oct_11.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید