FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

چیک ادیب میلان کنڈیرا کی تحریروں کا انتخاب

 

 

                مدیر: اجمل کمال

ماخذ: ’آج‘ دوسری کتاب، مدیر: اجمل کمال

                (اس انتخاب میں شامل ایک طویل کہانی ’سوانگ‘ الگ  ای بک کے طور پر شامل کی جا چکی ہے)

 

 

 

وضاحت

 

اس وضاحت کی ضرورت پیش نہ آتی اگر اُس شے کا چلن ہمارے ہاں بھی عام نہ ہو چکا ہوتا جسے میلان کنڈیرا ’’صحافیانہ سادہ ذہنی‘‘ کہتا ہے۔ یہ وہی تن آسان طرزِ فکر ہے جس نے آہنی پردے کے اُس پار سے مغرب کی سمت آنے والے ہر ادیب کی طرح کنڈیرا کو بھی ایک باغی سیاسی ادیب قرار دے کر نمٹانے کی کوشش کی، اور اس کوشش پر اسے بجا طور پر غصہ ہے۔ یہ نہیں کہ اپنے ملک چیکوسلوواکیہ کو درپیش آنے والے حالات پر اس کے نقطۂ نظر میں کوئی ابہام ہے ؛ اسے اپنے سیاسی خیالات اور اپنی تحریروں میں ان کے استعمال پر اصرار ہے، لیکن اسے اس پر بھی اصرار ہے کہ ادب کی مکمل تفہیم اس سادہ لوح اندازِ فکر کے ساتھ ممکن نہیں جو چیزوں کو سفید اور سیاہ کے سوا کسی اور رنگ میں دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔

یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ہمارے معاشرے میں اس یک رخی کو سکۂ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ رواداری، کشادہ ذہنی اور حسِ مزاح کے اس المناک فقدان کا جائز نتیجہ ہے جو کسی نہ کسی نقطۂ نظر کے حوالے سے ہم سب پر، کم و بیش، مسلط ہے۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی نظریات کی ریل پیل میں، جس پر بظاہر تنوع کا گمان ہوتا ہے، کم از کم ایک شے مشترک ہے : اختلافِ رائے کو پنپنے نہ دینے پر ہولناک اصرار۔ ہماری نظریہ پرستی اور اندھے ایقان کی بارگاہ میں لب کشائی کی ادب کو تو کیا مجال ہو گی جس کے خمیر میں، بقول کنڈیرا، ہر نظامِ خیال کے تعلق سے تشکیک موجود ہے، تاریخ تک اس بارگاہ میں قطعِ اعضا کرائے بغیر داخل نہیں ہو سکتی۔

ان حالات میں کنڈیرا کی منتخب تحریروں کی اشاعت کا، ان کی ادبی معنویت کے علاوہ، یہ جواز بھی موجود ہے کہ یہ ہمارے لیے بھی اتنی ہی پریشان کن ہیں جتنی نام نہاد آہنی پردے کے دونوں طرف کے سادہ لوحوں کے لیے۔ اور کچھ نہ بھی ہو تو ان سے ہمارے بھنچے ہوئے جبڑوں اور کسی ہوئی مٹھیوں کی مضحکہ خیزی ضرور آشکار ہو جائے گی۔

دانشورانہ اور ادبی منظر کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ جمہوریت اور آزادیِ فکر و اظہار کا نعرہ کتنے ہی زور سے لگایا جا رہا ہو، حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو مشکل ہی سے تیار ہوتے ہیں۔ روایت پرستی، جدیدیت پرستی، ترقی پسندی، علامت نگاری (اور یہاں تک کہ انشائیہ نگاری) کی اس کڑی درجہ بندی میں مجرّد نظریات کی پرستش کے سوا کسی اور چیز کے لیے کم ہی گنجائش ہے۔ بلکہ ان تمام اسالیب کو عقائد کا درجہ حاصل ہے اور ان پر، یا ان سے وابستہ شخصیات پر، ذرا حرف زنی منھ سے جھاگ اور آستین سے خنجر نکل آنے کا سبب بن جاتی ہے۔ ان گھنے سیاسی، مذہبی اور ادبی برگدوں کے تاریک سائے میں تخلیقی اُپج کی تقدیر کمھلا کر رہ جانے کے سوا اور کیا ہے ؟ کنفیوژن کی اس گھٹی ہوئی فضا میں ایک تازہ کار، خوش دلانہ، واضح اور دردمندانہ ادبی اسلوب سے ملاقات، ممکن ہے ہمارے حق میں مفید ثابت ہو۔

اجمل کمال

 

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:آصف فرخی

 

خندہ اور فراموشی کی کتاب

 

                1

 

فروری 1948 میں کمیونسٹ رہنما کلیمنٹ گوٹ والڈ، پراگ کے باروک طرز تعمیر کے ایک محل کی بالکنی پر نمودار ہوا تاکہ ان ہزاروں لاکھوں شہریوں سے خطاب کرے جو پرانے شہر کے چوک میں بھیڑ لگائے کھڑے تھے۔ یہ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ تھا—ان تقدیر ساز لمحوں میں سے ایک جو ہزاروں برس میں ایک آدھ بار ہی آتے ہیں۔

گوٹ والڈ کے دونوں جانب اس کے رفیق تھے، اور کلیمنٹس اس کے پہلو میں کھڑا ہوا تھا۔ برفیلی ہوا چل رہی تھی۔ موسم خنک تھا اور گوٹ والڈ برہنہ سر تھا۔ مستعد کلیمنٹس نے اپنی سموردار ٹوپی اتاری اور گوٹ والڈ کے سر پر رکھ دی۔

پارٹی کے پروپیگنڈا والے شعبے نے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ایک تصویر شائع کی جس میں گوٹ والڈ، سر پر سموردار ٹوپی پہنے اور اپنے رفیقوں کو ساتھ لیے، ہجوم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس بالکنی پر کمیونسٹ چیکوسلوواکیہ کی تاریخ نے جنم لیا۔ ملک کا بچہ بچہ اس تصویر کو پوسٹروں، درسی کتابوں اور عجائب گھروں میں دیکھ چکا ہے۔

چار سال بعد کلیمنٹس پر غداری کا الزام عائد ہوا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ پروپیگنڈا کے شعبے نے فوراً اسے تاریخ سے یکسر صاف کر دیا، اور ظاہر ہے کہ ان تمام تصویروں سے بھی۔ اس کے بعد سے گوٹ والڈ بالکنی پر اکیلا کھڑا ہے۔ جہاں کبھی کلیمنٹس تھا، وہاں محل کی خالی دیوار ہے۔ کلیمنٹس کا اب کچھ باقی رہا ہے تو وہ ہے گوٹ والڈ کے سر پر اس کی ٹوپی۔

 

                2

 

یہ 1971 ہے اور مریک (Mirek) کہتا ہے کہ اقتدار کے خلاف ایک آدمی کی جدوجہد فراموشی کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے۔

اس کی یہ کوشش اس چیز کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے ہے جسے اس کے دوست بے احتیاطی کہتے ہیں : اپنے روز و شب کی تفصیل ڈائری میں لکھنا، تمام خط و کتابت محفوظ رکھنا، ان جلسوں کی گفتگو لکھ لینا جہاں حالاتِ حاضرہ پر اور اس سوال پر بحث ہوتی ہے کہ اب اس کے بعد کیا کرنا چاہیے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے، وہ انھیں بتاتا ہے۔ چھپانے کی کوشش کرنا، احساسِ جرم کو جگہ دینا — یہ انجام کی ابتدا بن جاتے ہیں۔

ایک ہفتہ پہلے، ایک نئی عمارت کی چھت پر اپنے عملے کے ساتھ کام کرتے ہوئے، اس نے نیچے جھانک کر دیکھا اور اچانک اسے چکر آنے لگے۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور اس نے ایک شہتیر کی طرف ہاتھ بڑھایا جو پوری طرح جکڑا ہوا نہیں تھا؛ وہ شہتیر اُکھڑ گیا اور بعد میں اسے شہتیر کے نیچے سے گھسیٹ کر نکالا گیا۔ پہلے پہل چوٹ خطرناک معلوم ہو رہی تھی لیکن بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ یہ وہی روزمرہ کا عام سا ٹوٹا ہوا بازو ہے، تو اس نے بہت اطمینان کے ساتھ اپنے آپ سے کہا کہ اب ہفتے ڈیڑھ کی چھٹی مل جائے گی جس میں وہ چند ایسے معاملات نبٹا سکتا ہے جن کو پورا کرنے کا ارادہ وہ بہت دنوں سے کر رہا تھا۔

آخرکار وہ اپنے محتاط دوستوں کی روش پر آ ہی گیا۔ یہ سچ ہے کہ آئین نے آزادیِ تقریر دے رکھی تھی، مگر قانون کے مطابق ہر وہ عمل قابلِ سزا تھا جسے ملک دشمن قرار دیا جا سکے۔ اب بھلا یہ کون بتا سکتا ہے کہ ملک کب یہ چیخنا، شور مچانا شروع کر دے کہ فلاں فلاں لفظ میرے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں ؟ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان موردِ الزام ٹھہرانے والے کاغذات کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دے تو بہتر ہے۔

لیکن سب سے پہلے وہ زدینا والا مسئلہ طے کر لینا چاہتا تھا۔ اس نے زدینا کو طویل مسافت سے ٹیلیفون کرنا چاہا، مگر بات نہ ہو سکی۔ چار دن اس سے بات کرنے کی کوشش میں ضائع ہو گئے۔ کل جا کر وہ اس سے بات کرنے میں کامیاب ہوا۔ زدینا نے وعدہ کیا کہ وہ آج کی دوپہر اس کا انتظار کرے گی۔

اس کے سترہ سالہ بیٹے نے احتجاج کیا کہ بازو پر پلاسٹر چڑھائے ہوئے وہ ہرگز گاڑی نہیں چلا سکتا۔ یہ واقعی مشکل کام تھا۔ اس کا زخمی بازو، پٹی میں بندھا ہوا، اس کے سینے پر بیکار جھول رہا تھا۔ جب بھی وہ گیئر بدلتا، چند سیکنڈ کے لیے اسے اسٹیئرنگ ویل چھوڑ دینا پڑتا۔

 

                3

 

پچیس سال بیت گئے جب زدینا کے ساتھ اس کا معاملہ چلا تھا، اور اب اس کی نشانی کے طور پر محض چند یادیں رہ گئی تھیں۔

ایک دفعہ وہ آئی تو رومال سے اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی اور ناک پونچھتی ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ کیا ہو گیا۔ ایک دن پہلے روس کا کوئی بڑا سیاست دان مر گیا، زدینا نے اسے بتایا — کوئی زدانوف آربوزوف یا مشت زنوف۔ اگر آنسوؤں کے قطروں کی تعداد سے حساب لگایا جائے تو وہ مشت زنوف کی موت پر زیادہ دل گرفتہ ہوئی تھی اور اپنے باپ کی موت پر کم۔

کیا یہ سب کچھ واقعی ہوا تھا؟ یا مشت زنوف کے لیے زدینا کی نوحہ گری محض اس کی موجودہ نفرت کا شاخسانہ تھی؟ نہیں، یہ سب واقعی پیش آیا تھا، گو کہ یہ ظاہر ہے کہ اس لمحے کے فوری حالات جو اس واقعے کو قابلِ اعتبار اور حقیقی بنا رہے تھے، اب غائب ہو چکے تھے اور اس کی یاد غیر معقول اور مضحکہ خیز بن گئی تھی۔

اس کی ساری یادیں ایسی ہی تھیں۔ وہ دونوں ٹرام میں بیٹھ کر اس فلیٹ سے واپس آ رہے تھے جہاں پہلی بار انھوں نے مباشرت کی تھی۔ (مریک کو اس امر سے خاصی تسکین ہوئی کہ وہ ان تمام مباشرتوں کو بالکل فراموش کر چکا تھا، ان میں سے کسی ایک مباشرت کا لمحہ بھر بھی یاد نہیں کر سکتا تھا۔ ) کنارے کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے اور دھچکوں کے ساتھ اچھلتے ہوئے وہ بہت افسردہ، پریشان اور حیرت انگیز حد تک عمررسیدہ نظر آرہی تھی۔ جب مریک نے پوچھا کہ تم اتنی چپ چاپ کیوں ہو، تو اس نے جواب دیا کہ وہ اس جسمانی تعلق سے مطمئن نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ تم دانشوروں کی طرح مباشرت کرتے ہو۔

اُس زمانے کے سیاسی محاورے میں ’دانشور‘ کا لفظ گالی سے کم نہیں تھا۔ اس کا مطلب تھا وہ شخص جو زندگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور عام لوگوں سے کٹا ہوا ہے۔ اس زمانے میں جن کمیونسٹوں کو ان کے ساتھی کمیونسٹوں نے تختۂ دار پر چڑھایا، وہ یہی گالی اپنے سر لے کر مرے۔ ان لوگوں کے برخلاف جن کے پاؤں مضبوطی کے ساتھ زمین پر جمے ہوئے تھے، یہ لوگ، قیاس کے مطابق، ہواؤں میں اڑتے رہے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل جائز تھی کہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین آخری اور قطعی بار کھینچ لی جائے اور انھیں زمین سے چند گز اوپر لٹکنے دیا جائے۔

لیکن زدینا کا کیا مطلب تھا جب اس نے یہ الزام لگایا کہ وہ دانشوروں کی طرح مباشرت کرتا ہے ؟

کسی نہ کسی وجہ سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی تھی، اور جس طرح وہ کسی تجریدی یا تخئیلی رشتے کو (جیسے مشت زنوف نام کے ایک اجنبی سے اپنے تعلق کو) جذبے اوراحساس کی ٹھوس جسمانی شکل (یعنی آنسوؤں ) سے ظاہر کر سکتی تھی، اسی طرح وہ سب سے زیادہ جسمانی عمل کو ایک تجریدی معنی اور اپنے عدم اطمینان کو ایک سیاسی نام دے سکتی تھی۔

 

 

                4

 

گاڑی کے پچھلے شیشے میں جھانکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ ایک اور گاڑی شروع سے اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اسے کبھی بھی اس بات پر شک نہیں تھا کہ اس کا پیچھا کیا جاتا رہا ہے، مگر اب تک انھوں نے استادانہ احتیاط کے ساتھ کام کیا تھا۔ تاہم آج ایک انقلابی تبدیلی آ گئی تھی — وہ چاہتے تھے کہ اسے ان کے بارے میں معلوم ہو جائے۔

پراگ سے کوئی پندرہ میل دور کھیتوں کے درمیان ایک اونچی سی باڑھ تھی، جس کے پیچھے گاڑیوں کی مرمت کی دکان تھی۔ وہاں اس کا ایک دوست ہوا کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ گاڑی اسٹارٹ ہونے میں جو گڑبڑ کرتی ہے، اس کا پرزہ بدلوا لے۔ اس نے دکان کے دروازے پر گاڑی روک دی۔ وہاں سرخ و سفید دھاریوں والا پھاٹک تھا۔ ایک بھاری بھرکم عورت وہاں کھڑی اسے گھورتی رہی۔ اس نے گاڑی کا ہارن بجایا، لیکن اُدھر سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا۔

’’ابھی تک سلاخوں کے پیچھے نہیں پہنچے ؟‘‘ عورت نے اس سے پوچھا۔

’’نہیں، ابھی تک نہیں، ‘‘ مریک نے جواب دیا۔ ’’پھاٹک کھولنے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟‘‘

وہ سپاٹ چہرہ لیے، چند ثانیوں تک اسے تکتی رہی، پھر جماہی لی اور پھاٹک کے قریب بنی ہوئی کوٹھری میں جا کر کرسی پر دھر کے بیٹھ گئی اور اس کی جانب پیٹھ کر لی۔

چنانچہ وہ گاڑی سے اترا، پھاٹک کے گرد چکر کاٹتا ہوا اپنے مستری دوست کی تلاش میں اندر چلا گیا۔ مستری کو ساتھ لے کر وہ باہر نکلا۔ اس نے خود پھاٹک کھولا (عورت ابھی تک کوٹھری میں بے حس و حرکت بیٹھی ہوئی تھی)، اور مریک گاڑی چلاتا ہوا اندر لے گیا۔

’’یہ انعام ملتا ہے تمھیں ٹیلی وژن پر آ کر ڈینگیں مارنے کا، ‘‘ مستری نے کہا۔ ’’اس ملک کا ہر احمق تمھاری شکل پہچانتا ہے۔ ‘‘

’’یہ عورت کون ہے ؟‘‘ مریک نے پوچھا۔

اسے پتا چلا کہ جب روسی فوجوں نے چیکوسلوواکیہ پر یلغار کی، جس کے نتائج ہر مقام پر واضح تھے، تو اس عورت کی زندگی بھی بدل کر رہ گئی۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جو لوگ اس سے اونچے عہدوں پر ہیں (اور ہر شخص اس سے زیادہ اونچے عہدے پر تھا) ان کے عہدے، اختیارات، مرتبہ، ملازمت اور یہاں تک کہ دو وقت کی روٹی بھی ذرا سے الزام سے چھن جاتی ہے، تو وہ جوش میں آ گئی اور لوگوں کی مخبری کرنے لگی۔

’’تو اب تک یہ پھاٹک پر کیوں کام کر رہی ہے ؟ انھوں نے اب تک اس کو ترقی بھی نہیں دی؟‘‘

مستری مسکرانے لگا۔ ’’دے بھی نہیں سکتے۔ اسے پانچ تک گنتی نہیں آتی۔ وہ یہی کر سکتے ہیں کہ اسے مخبری کا کام کرتے رہنے دیں۔ اس کا بس یہی انعام ہے۔ ‘‘ اس نے انجن کا ڈھکنا کھولا اور اس کے اندر جھانکنے لگا۔

مریک کو اچانک احساس ہوا کہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر کوئی شخص کھڑا ہوا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ ایک آدمی سرمئی جیکٹ، سفید قمیص اور ٹائی، اور بھوری پتلون پہنے ہوئے کھڑا ہے۔ اس کی موٹی گردن اور پھولے ہوئے چہرے کے اوپر مصنوعی طریقے سے سفید کیے ہوئے بالوں کا گچھا پڑا ہوا تھا۔ وہ وہاں کھڑا ہوا مستری کو گاڑی کے کھلے ہوئے انجن میں منھ ڈالے ہوئے دیکھتا رہا۔

ذرا دیر بعد مستری نے بھی اسے دیکھ لیا۔ ’’کسی کی تلاش میں ہو؟‘‘ اس نے سیدھے ہو کر اس آدمی سے پوچھا۔

’’نہیں، ‘‘ فربہ گردن اور گچھے دار بالوں والے آدمی نے جواب دیا۔ ’’میں کسی کی تلاش میں نہیں ہوں۔ ‘‘

مستری نے دوبارہ اپنا منھ انجن میں ڈال دیا اور بولا، ’’پراگ کے بیچوں بیچ وینسسلوس چوک میں ایک آدمی کھڑے کھڑے قے کر رہا تھا۔ ایک اور آدمی آیا، اس کی طرف دیکھا، سر ہلایا اور بولا: مجھے تمھارے جذبات کا پوری طرح احساس ہے۔ ‘‘

 

 

                5

 

بنگلہ دیش کے خونیں واقعات نے بہت تیزی کے ساتھ چیکوسلوواکیہ پر روسی حملے کی یاد کو دبا دیا، آیندے کے قتل نے بنگلہ دیش کی سسکیوں کا گلا دبا دیا، صحرائے سینائی کی جنگ نے لوگوں کے ذہن سے آیندے کو فراموش کروا دیا، کمبوڈیا کے قتل عام نے صحرائے سینائی کو لوگوں کے ذہن سے بھلا دیا، اسی طرح اور آگے … یہاں تک کہ آخرکار ہر شخص ہر چیز کو فراموش ہو جانے دیتا ہے۔

اس زمانے میں جب تاریخ دھیرے دھیرے حرکت کرتی تھی، واقعات بھی کم تھے اور ان کی درمیانی مدت بھی زیادہ تھی اور وہ آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہو جاتے تھے۔ یہ عام طور پر تسلیم کیا ہوا ایک پس منظر تھے جس کے سامنے ذاتی زندگیوں کے دلچسپ واقعے اور کارنامے پیش آتے تھے۔ اب تاریخ سرعت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے اسے جلد ہی بھلا دیا جانا ہو، اگلی ہی صبح جدت کی شبنم سے دھلا ہوا اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ پس منظر کے بجائے وہ خود اب واقعہ ہے، ایسا واقعہ جو زندگی کی مسلمہ پیش پا افتادگی کے سامنے کھیلا جاتا ہے۔

چونکہ ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی تاریخی واقعہ، چاہے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، معلومات عامہ کا حصہ ہو گا، لہٰذا مجھے ان واقعات کو جو چند سال پہلے پیش آئے تھے، اس طرح بیان کرنا پڑ رہا ہے جیسے وہ ہزاروں سال پرانے ہوں۔ 1939 میں جرمن فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور چیک ریاست کا وجود ختم ہو گیا۔ 1945 میں روسی فوجیں بوہیمیا میں داخل ہو گئیں اور ملک کو ایک بار پھر ایک آزاد جمہوریہ قرار دے دیا گیا۔ لوگوں نے روس کے لیے بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، کہ اس نے ان کے ملک سے جرمنوں کو نکال باہر کیا تھا، اور چونکہ وہ چیک کمیونسٹ پارٹی کو اس کا وفادار نمائندہ سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنی ہمدردیاں اس کی جانب منتقل کر دیں۔ سو یہ ہوا کہ فروری 1948 میں کمیونسٹوں نے اقتدار سنبھال لیا، خون خرابے اور تشدد سے نہیں بلکہ نصف سے زیادہ آبادی کے پُر جوش نعروں کے درمیان۔ اور مہربانی فرما کر یاد رکھیے کہ یہ نصف زیادہ متحرک، زیادہ ذہین تھا، بہتر نصف تھا۔

جی ہاں، جو جی چاہے کہیے، کمیونسٹ زیادہ ذہین تھے۔ ان کے پاس پُر شکوہ منصوبہ تھا — ایک نئی دنیا کا نقشہ جس میں ہر شخص کو اس کا مقام مل جائے گا۔ کمیونسٹوں کے مخالفین کے پاس ایسا کوئی خواب نہیں تھا۔ ان کے پاس چند ایک اخلاقی اصول تھے، باسی اور بے جان، کہ جن سے موجودہ نظام کی پھٹی پرانی پتلون میں پیوند لگا سکیں۔ سو ظاہر ہے کہ شان و شکوہ کے پر جوش حامی محتاط مفاہمت پسندوں سے جیت گئے اور وقت ضائع کیے بغیر اپنے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں جٹ گئے کہ سب لوگوں کے لیے انصاف کا خواب ناک گیت تخلیق کیا جائے۔

میں اپنی بات پھر دُہرا دوں — خواب ناک گیت، سب کے لیے۔ لوگوں نے ہمیشہ اس کی تمنا کی ہے، ایسا باغ جہاں بلبلیں گاتی رہیں، اتفاق و ہم آہنگی کا مسکن، جہاں دنیا اجنبی بن کر آدمی کو دہلاتی نہیں، نہ ایک آدمی دوسرے آدمیوں کے خلاف اٹھتا ہے، جہاں ہر شخص موسیقار باخ کے عالیشان کثیر الصوت نغمے کا سُر ہے ؛ اور جو کوئی اپنا سُر اس راگ میں شامل کرنے سے انکار کرتا ہے محض ایک سیاہ دھبا ہے، بے مصرف اور معنی سے عاری، جسے آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اور کچلا جا سکتا ہے، جیسے دو انگلیوں کے درمیان کیڑا۔

ابتدا ہی سے ایسے لوگ تھے جنھیں احساس تھا کہ وہ اس خواب ناک گیت کا مزاج نہیں رکھتے، اور وہ اس ملک کو چھوڑ جانا چاہتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ خواب ناک گیت، اپنی تعریف کے مطابق، تمام لوگوں کے لیے ایک نئی دنیا ہے، لہٰذا جو لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے تھے وہ اشارتاً اس کی مکمل با ضابطگی سے منکر ہو رہے تھے۔ اس لیے پردیس جانے کے بجائے وہ قید خانوں میں چلے گئے۔ جلد ہی ان کی تعداد میں سیکڑوں، ہزاروں لوگ اور شامل ہو گئے، جن میں کچھ کمیونسٹ بھی تھے، جیسے وزیر خارجہ کلیمنٹس، جس نے گوٹ والڈ کو اپنی ٹوپی پہنائی تھی۔ شرمائے ہوئے عشاق پردۂ سیمیں پر ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے رہے، ازدواجی بے وفائی پر شہریوں کی عدالت سے سخت سزائیں سنائی جاتی رہیں، بلبلیں گیت گاتی رہیں اور کلیمنٹس کا جسم آگے پیچھے ڈولتا رہا، جیسے بنی نوع انسان کے لیے ایک نئے سویرے کی آمد کی اطلاع دینے والی گھنٹی۔

اور اچانک ان نوجوان، ذہین بنیادپرستوں کو ایک عجیب سا احساس ہوا کہ انھوں نے دنیا میں ایک نئی چیز بھیج دی ہے، ایک عمل جس کے سرانجام دینے والے وہ ہیں اور جس نے اب اپنی ایک زندگی حاصل کر لی ہے، جو اپنے ابتدائی تصور سے تمام مشابہت گم کر چکا ہے اور اس خیال کے موعدین کو یکسر نظرانداز کر چکا ہے۔ لہٰذا ان نوجوان، ذہین بنیادپرستوں نے اس عمل کو پکارنا شروع کیا، اسے واپس بلانے لگے، اس کو ڈانٹا، اس کا پیچھا کیا۔ اگر میں ان باصلاحیت بنیادپرستوں کی اس نسل کے بارے میں کبھی کوئی ناول لکھوں گا تو اس کا نام رکھوں گا ’’گم شدہ عمل کے تعاقب میں ‘‘۔

 

                6

 

تاریخی واقعات عموماً ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں، اور وہ بھی بھونڈے پن کے ساتھ؛ مگر چیکوسلوواکیہ میں، جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں، تاریخ نے ایک ایسا تجربہ کیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس عام طریقۂ کار کے برخلاف کہ لوگوں کا ایک گروہ (ایک طبقہ، ایک قوم) دوسرے گروہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، تمام لوگ (ایک پوری نسل) اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کر بیٹھے۔

ان کا مقصد یہ تھا کہ اس عمل کو دوبارہ پکڑ لیں اور سدھا لیں جس کی تخلیق انھوں نے کی تھی، اور وہ بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ 1960 کی پوری دہائی میں ان کا اثرورسوخ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1968 میں یہ تقریباً ہر چیز پر حاوی تھا۔ یہ وہ دور ہے جسے عرف عام میں ’پراگ کا موسمِ بہار‘ کہا جاتا ہے : خواب ناک گیت کی نگرانی کرنے والے لوگ ذاتی مکانوں میں چھپے ہوئے مائیکروفون ہٹانے لگے، سرحدیں کھول دی گئیں اور مختلف سُر باخ کے عالیشان کثیر الصوت نغمے کا متعین نقشہ چھوڑ کر اپنے اپنے گیت گانے لگے۔ یہ جوش و جذبہ ناقابلِ یقین تھا! میلے کا سماں تھا!

روس، جو سارے عالم کے لیے اس کثیرالصوت نغمے کا موسیقار ہے، اس خیال کو برداشت نہ کر سکا کہ سُر اپنی اپنی راگنیاں الاپنے لگیں۔ 21 اگست 1968 کو اس نے پانچ لاکھ پر مشتمل فوج بوہیمیا کے علاقے میں اتار دی۔ اس کے فوراً ہی بعد، تقریباً بارہ لاکھ لوگ اپنے ملک کو چھوڑ گئے، اور جو باقی رہ گئے ان میں سے پچاس لاکھ کو اپنی نوکریاں چھوڑ کر مشقت کرنے کے لیے جانا پڑا، دیہاتوں میں، دور دراز کارخانوں کی کنویئربیلٹ پر، یا ٹرک کے اسٹیئرنگ ویل پر— دوسرے الفاظ میں ایسی جگہوں اور ایسی نوکریوں پر جہاں کوئی ان کی آواز نہ سن سکے۔

اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کسی تلخ یاد کا سایہ بھی اس تجدید شدہ نغمۂ خواب ناک پر نہ پڑے، ’پراگ کے موسم بہار‘ اور روسی ٹینکوں کی آمد کو مٹا دینا ضروری تھا۔ لہٰذا چیکوسلوواکیہ میں کوئی شخص بھی 21 اگست کی یاد نہیں مناتا، اور جو لوگ اپنے ہی شباب کے خلاف بغاوت کرنے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، ان کے نام قوم کی یادداشت سے اس طرح مٹا دیے گئے ہیں جیسے بچہ اسکول کے کام میں ہو جانے والی غلطی کو مٹا دیتا ہے۔

مریک ان ناموں میں سے ایک تھا جنھیں مٹا دیا گیا۔ وہ مریک جو اس وقت زدینا کے دروازے تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہا ہے، اس وقت محض ایک سفید دھبا ہے، بمشکل نظر آنے والے خلا کا ایک حصہ جو گول زینے پر چڑھتا ہوا آ رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

دیوار کے پیچھے

 

نظم شاعر کی ایجاد نہیں

نظم کہیں اوٹ میں چھپی ہوتی ہے

وہ وہاں بہت زمانوں سے موجود ہے

شاعر صرف اسے دریافت کرتا ہے

— جان اسکاچل

 

                1

 

میرے دوست جوزف اسکوارچکی ) (Josef Skvorecky نے ایک سچا قصہ بیان کیا ہے۔ کئی سال پہلے پراگ کے ایک انجینئر کو لندن کی ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی۔ سو وہ وہاں گیا، کانفرنس کی پیش رفت میں حصہ لیا اور پراگ لوٹ آیا۔ واپسی کے چند گھنٹے بعد اس نے اپنے دفتر میں بیٹھے بیٹھے چیک پارٹی کے سرکاری روزنامے Rude Pravo کا تازہ شمارہ اٹھایا اور پڑھا: ’’ایک چیک انجینئر نے جو لندن میں ایک کانفرنس میں شریک تھا، مغربی پریس کو ایک بیان دیا ہے جو اس کے سوشلسٹ وطن کے لیے بدنامی کا باعث ہے، اور اس نے مغرب میں منتقل قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ ‘‘

غیر قانونی ترکِ وطن، اور وہ بھی اس قسم کے بیان کے ساتھ، کوئی معمولی بات نہیں — اس کی قیمت بیس سال کی قید کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ہمارے انجینئر کو اپنے دیکھے پر یقین نہ آیا۔ لیکن اس میں شک کی کوئی گنجائش نہ تھی کہ یہ شذرہ اسی کے بارے میں ہے۔ اس کی سیکرٹری جب کمرے میں داخل ہوئی تو اسے دیکھ کر دہشت زدہ رہ گئی۔ ’’اوہ خدایا! آپ واپس آ گئے ! میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ نے دیکھا آپ کے بارے میں کیا چھپا ہے ؟‘‘

ہمارے انجینئر نے اپنی سیکرٹری کی آنکھوں میں دہشت دیکھ لی ہے۔ اب وہ کیا کرے ؟ وہ اخبار کے دفتر کی طرف بھاگا۔ اس نے متعلقہ صحافی کو تلاش کیا جس نے اس سے معذرت کی، یہ کہہ کر کہ واقعی یہ بہت سنگین معاملہ ہے، لیکن اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ متن اسے براہ راست وزارت داخلہ سے موصول ہوا تھا۔

تب انجینئر وزارت کے دفتر پہنچا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہاں بے شک، یہ ایک غلطی ہے، لیکن ان کی وزارت کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں : انھیں یہ رپورٹ لندن کے چیک سفارتخانے کی انٹیلی جنس سروس نے فراہم کی تھی۔ انجینئر ان سے تردید کی درخواست کرتا ہے۔ نہیں، اسے بتایا جاتا ہے، تردید کبھی نہیں کی جاتی، لیکن اسے فکر کی کوئی ضرورت نہیں، اس کے ساتھ کچھ نہیں ہو گا۔

لیکن ہمارا انجینئر فکرمند ہے۔ جلد ہی اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اس پر نظر رکھی جا رہی ہے، اس کا فون ٹَیپ ہو رہا ہے، اور گلی میں اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ اس کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اسے ڈراؤنے خواب آنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس دباؤ کو مزید سہنے کی سکت نہ پا کر، بہت سے حقیقی خطرے مول لے کر، وہ غیرقانونی طور پر ملک سے نکل جاتا ہے۔ اور اس طرح وہ واقعی ایک تارک وطن ہو جاتا ہے۔

 

                 2

 

جو قصہ میں نے ابھی سنایا (جو آج پراگ میں کسی بھی شخص کے لیے واقعہ ہے ) اس نوع کا ہے کہ اسے ہم فوری طور پر’کافکائسک‘ ) (Kafkaesque کہہ سکتے ہیں۔ یہ اصطلاح، جسے ایک فن پارے سے اخذ کیا گیا اور جس کی بنیاد ایک ناول نگار کے تصور پر ہے، ان (حقیقی یا خیالی) واقعات کو مشخّص کرتی ہے جن کی تشریح کوئی اور لفظ نہیں کر سکتا اور جن کی کلید سیاسی یا عمرانی یا نفسیاتی علوم کے پاس نہیں۔

لیکن ’کافکائسک‘ ہے کیا؟ آئیے اس عجیب مظہر کے چند پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے۔

اول: ہمارا انجینئر ایک ایسی مقتدر قوت کے مقابل ہے جس کی خصوصیت ایک ختم نہ ہونے والی چیستان ہے۔ وہ اس کی بے انت راہداریوں کے انجام تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، اور کبھی اس شخص کا سراغ نہیں پا سکتا جس نے وہ مہلک فیصلہ صادر کیا تھا۔ اس طرح وہ بالکل اسی صورت حال میں ہے جس میں جوزف ک (Joseph K) عدالت کے سامنے تھا یا سرویئر ک (Surveyor K) قلعے کے مقابل تھا۔ تینوں ایک ایسی دنیا میں ہیں جو ایک واحد دیو ہیکل اور چیستانی ادارے کے سوا کچھ نہیں، اور جس سے نہ وہ باہر نکل سکتے ہیں اور نہ اسے سمجھ سکتے ہیں۔

کافکا سے پہلے کے ناول نگاروں نے اداروں کو ایسے میدانِ کارزار کی صورت میں ظاہر کیا ہے جہاں مختلف شخصی اور عوامی مفادات کا رن پڑتا ہے۔ جبکہ کافکا کے ہاں ادارہ ایک ایسی کَل ہے جو اپنے ہی قوانین کی پابند ہے۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ یہ قوانین کس نے بنائے تھے، نہ یہ کہ انھیں کب بنایا گیا۔ ان قوانین کا انسانی مفادات سے کوئی تعلق نہیں اور اس لیے یہ ناقابلِ فہم ہیں۔

دوم: قلعہ (The Castle) کے پانچویں باب میں گاؤں کا میئر ک کو اس کی فائل کی پوری داستان تفصیل سے سناتا ہے، جو مختصراً یہ ہے : کوئی دس سال پہلے گاؤں کے ایک نمائندے نے تجویز کیا کہ قلعے میں ایک سرویئر کی ضرورت ہے۔ یہ تجویز جلد ہی بے جواز پائی گئی اور گاؤں سے ایک اور درخواست قلعے کو بھیجی گئی کہ اس تجویز کو منسوخ کر دیا جائے۔ دوسری فائل بدقسمتی سے دفتروں میں کہیں گم ہو گئی اور کئی سال بعد ملی، تقریباً اسی وقت جب ک کو وہاں آنے کا دعوت نامہ ملا۔ اس طرح وہ گاؤں میں غلطی کی بنیاد پر آیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ناول کی منطق میں چونکہ قلعہ اور گاؤں ہی ایک بامعنی کائنات کی تشکیل کرتے ہیں، اس لیے ک کا پورا وجود ہی ایک غلطی ہے۔

کافکائسک دنیا میں فائل کا کردار ایک فلاطونی مثال (ideal) کا ہے، یعنی وہ اصل حقیقت کی نمائندہ ہے، جبکہ انسان کا طبعی وجود فریبِ نظر کے پردے پر پڑتا ہوا ایک سایہ ہے۔ اور حقیقتاً سرویئر ک اور ہمارا انجینئر محض اپنے فائلنگ کارڈز کے سائے ہیں، بلکہ اس سے بھی کمتر: وہ فائلوں کی ایک غلطی کے سائے ہیں، یعنی ایسے سائے جنھیں سایوں کے طور پر باتی رہنے کا بھی حق نہیں۔

لیکن اگر انسان کا وجود محض ایک سایہ ہے اور اصل حقیقت کہیں اور واقع ہے، یعنی غیرانسان یا فوق الانسان کے نارسا منطقوں میں، تو ہم براہ راست الٰہیات کے علاقے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ کافکا کے اولین مفسّروں نے اس کے ناولوں کی مذہبی حکایات کے طور پر ہی شرح کی تھی۔

اس قسم کی شرح مجھے غلط معلوم ہوتی ہے (کیونکہ یہ وہاں تمثیل دیکھتی ہے جہاں کافکا نے انسانی زندگی کے حقیقی اور ٹھوس حالات بیان کیے ہیں ) لیکن اس کے باوجود یہ انکشاف سے خالی نہیں۔ جہاں کہیں مقتدر قوت خود کو خدا کی طرح نافذ کرتی ہے، وہاں خودبخود اس کی الٰہیات بھی پیدا ہو جاتی ہے ؛ جہاں کہیں وہ خدا کی طرح پیش آتی ہے، وہاں اس کے بارے میں مذہبی محسوسات بیدار ہونے لگتے ہیں۔ اس نوع کی دنیا کو مذہبی اصطلاحات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ کافکا نے مذہبی تمثیلیں نہیں لکھیں لیکن کافکائسک کو (حقیقت میں اور فکشن میں ) اس کی الٰہیاتی (theological) یا pseudo-theological سمت سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔

سوم: دستوئفسکی کا راسکولنیکوف اپنے احساس جرم کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتا اور سکون پانے کے لیے جان بوجھ کر اپنی سزا قبول کر لیتا ہے۔ یہ ایک جانی پہچانی صورت حال ہے جس میں جرم خود سزا تک پہنچ جاتا ہے۔

کافکا کے ہاں یہ منطق الٹی ہے۔ سزا پانے والا سزا کی وجہ سے ناواقف ہے۔ سزا کی یہ لایعنیت اتنی ناقابلِ برداشت ہے کہ سزایافتہ شخص کو خود اس کا جواز ڈھونڈ کر سکون پانے کی ضرورت پڑتی ہے — یعنی سزا جرم کو تلاش کر لیتی ہے۔

پراگ کے انجینئر کو پولیس کی سرگرم چوکسی سے سزا ملی ہے۔ یہ سزا ایک ایسے جرم کی ہے جسے انجام نہیں دیا گیا۔ اور انجینئر، جسے ترک وطن کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے، بالآخر واقعی ترک وطن پر مجبور ہو جاتا ہے — یعنی انجام کار سزا جرم تک پہنچ ہی جاتی ہے۔

مقدمہ (The Trial) کے ساتویں باب میں ک، اپنی فرد جرم سے بے خبر، اپنی پوری زندگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے، اپنے ماضی کی ایک ایک تفصیل کا۔ خود کو مجرم ٹھہرانے کا میکانزم، ایک بے گناہ شخص میں جرم کا احساس پیدا کرنے والا نفسیاتی عمل، حرکت میں آ جاتا ہے۔ میں اس عمل کو استلزام (culpabilisation) کا نام دوں گا — ملزم اپنا جرم تلاش کر لیتا ہے۔

قلعہ میں ایک روز امالیہ کو قلعے کے ایک عہدیدار کی طرف سے ایک فحش خط موصول ہوتا ہے۔ وہ طیش میں آ کر اسے پھاڑ ڈالتی ہے۔ قلعے کو امالیہ کے اس گستاخانہ طرز عمل پر تنقید کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خوف (وہی خوف جو ہمارے انجینئر کو اپنی سیکرٹری کی آنکھوں میں دکھائی دیا تھا) خودبخود عمل کرتا ہے۔ قلعے کی طرف سے کسی حکم نامے یا اشارے کے بغیر ہی ہر شخص امالیہ کے گھرانے سے یوں بچنے لگتا ہے جیسے اس گھر میں طاعون پھیل گیا ہو۔

امالیہ کا باپ اپنے خاندان کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہ ایک مسئلہ ہے : نہ صرف یہ کہ فیصلہ سنانے والا نامعلوم ہے، بلکہ فیصلے کا بھی کوئی وجود نہیں۔ اپیل یا معافی کی درخواست کرنے کے لیے پہلے خود پر فردِ جرم عائد کروانی ہو گی۔ باپ قلعے سے التجا کرتا ہے کہ جرم کا اعلان کیا جائے۔ یہ کہنا حقیقت سے کم ہے کہ سزا جرم کو ڈھونڈ رہی ہے۔ اس pseudo-theological دنیا میں سزا پانے والے اپنے جرم کے تسلیم کیے جانے کے لیے گڑگڑا رہے ہیں۔

پراگ میں آج کل یہ روزمرہ کی بات ہے کہ کسی معتوب شخص کو کوئی معمولی سا کام بھی نہیں ملتا۔ وہ بے سود اس بات کی تصدیق کے لیے درخواست کرتا ہے کہ وہ ایک جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس کو ملازمت دینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ کہیں سے حاصل نہیں ہوتا۔ اور چونکہ پراگ میں کام کرنا ایک قانونی فریضہ ہے، بالآخر اس پر جان بوجھ کر کام سے جی چرانے کا الزام لگ جاتا ہے — یعنی سزا جرم تک پہنچ جاتی ہے۔

چہارم: پراگ کے اس انجینئر کی کہانی ایک مزاحیہ کہانی یا لطیفے کی طرح ہے : یہ ہنسنے پر مجبور کرتی ہے۔

دو نہایت عام سفیدپوش آدمی (انسپکٹر نہیں جیسا کہ کچھ ترجموں میں ہمیں بتایا جاتا ہے ) ایک صبح جوزف ک کو بستر میں چونکا دیتے ہیں، اسے بتاتے ہیں کہ وہ زیر حراست ہے، اور اس کا ناشتہ خود کھانے لگتے ہیں۔ ک نظم و ضبط کا پابند ایک سرکاری ملازم ہے، وہ بجائے ان دونوں کو اپنے فلیٹ سے باہر نکالنے کے، نائٹ گاؤن میں ملبوس، کھڑے ہو کر اپنے دفاع میں ایک لمبی تقریر کرتا ہے۔ جب کافکا نے مقدمہ کا پہلا باب اپنے دوستوں کو سنایا تو ہر شخص، بشمول مصنف، ہنس رہا تھا۔

فلپ راتھ نے قلعہ کے ایک فلمی ورژن کا تصور کیا تو اس نے گراؤچو مارکس کو سرویئر ک کے کردار میں دیکھا اور چیکو اور ہارپو کو اس کے ماتحتوں کے روپ میں۔ اس کا تصور بالکل درست تھا: مزاح کو کافکائسک کے بنیادی جوہر سے علیحدہ کرنا ناممکن ہے۔

لیکن انجینئر کے لیے یہ جاننے میں کوئی راحت نہیں کہ اس کا قصہ مزاحیہ ہے۔ وہ اپنی زندگی کے لطیفے کا صید ہے، جیسے ایک مچھلی کو پیالے میں قید کر دیا گیا ہو، اور یہ لطیفہ اسے بالکل ہنسنے پر نہیں اکساتا۔ لطیفہ اسی وقت لطیفہ ہے جب آپ خود پیالے سے باہر ہوں۔ کافکا ہمیں پیالے کے اندر لے جاتا ہے — اس لطیفے کے اندرونی حصے کے اندر، مزاح کی دہشت ناکی کے اندر۔

کافکا کی دنیا میں طربیہ المیے کا مخالف نقطہ نہیں، جیسا کہ شیکسپیئر کے ہاں ہے۔ طربیہ اس لیے نہیں کہ ماحول کو ذرا سبک کر کے الم کو قابل برداشت بنا سکے ؛ وہ المیے کے ہمراہ نہیں ہے — ہرگز نہیں۔ وہ تو اسے جنین کے اندر تباہ کر کے شکار ہونے والوں کو ان کی امید کی واحد راحت سے محروم کر دیتا ہے، اور یوں وہ المیے کی (حقیقی یا فرضی) شان و شوکت کی راحت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ انجینئر سے اس کا وطن چھن گیا، اور سب ہنس رہے ہیں۔

 

                3

 

جدید تاریخ میں ایسے دور آتے ہیں جب زندگی کافکا کے ناولوں سے مشابہ ہو جاتی ہے۔

جوں ہی فلسفی کاریل کوسک (Karel Kosik) کو انقلاب دشمن سرگرمیوں کا مجرم ٹھہرایا گیا اور اسے چارلس یونیورسٹی سے نکال دیا گیا، فریفتہ نوجوان عورتوں نے کاسل اسکوائر میں اس کے چھوٹے سے فلیٹ پر ہجوم کرنا شروع کر دیا۔ کوسک (جسے اس کے دوست ’پروفیسر کے کے ‘ کہا کرتے تھے ) کبھی پلے بوائے یا عورت باز آدمی نہیں رہا؛ اور روسی حملے کے بعد اس کی جنسی زندگی میں آنے والی اس تبدیلی نے مجھے اس پر عاشق ایک ہیرڈریسر لڑکی سے اس کے بارے میں سوال کرنے پر اکسایا۔ اس نے نیم مزاحیہ، نیم سنجیدہ انداز میں مجھے بتایا: ’’اپنا دفاع کرنے والے لوگ خوبصورت ہوتے ہیں۔ ‘‘

یہ مقدمہ کے کردار لینی کی طرف ایک سیدھا اور شعوری اشارہ تھا جس نے انھی الفاظ کو وکیل ہُلڈ کے موکلوں سے اپنی جنسی دلچسپی کی وضاحت کے لیے استعمال کیا تھا۔ میکس بروڈ نے اسی اقتباس کو کافکا کی مذہبی تشریح کے حق میں استعمال کیا ہے — ک اس وجہ سے زیادہ پرکشش ہو گیا ہے کہ اس نے اپنے گناہ کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے ؛ انفعال نے اس میں وجاہت پیدا کر دی ہے۔ ہیرڈریسر لڑکی کے سامنے اگر یہ نظریہ رکھا جاتا تو وہ اس پر ہنس پڑتی — پروفیسر کے کے ذرہ بھر انفعال کے بغیر خوبصورت تھا۔

میں نے اپنے عزیز ترین دوست کا ذکر صرف یہ دکھانے کی غرض سے کیا ہے کہ کافکا کے ناولوں کے استعارے، واقعات، حتیٰ کہ مفرد جملے بھی کس حد تک پراگ کی زندگی کا حصہ ہیں۔

یہ کہہ دینے کے بعد کوئی شخص یہ سوچنے پر راغب ہو سکتا ہے کہ کافکا کے استعارے پراگ میں یوں زندہ ہیں کہ وہ ایک آمرانہ (totalitarian) سماج کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

بہرکیف، اس دعوے کو تصحیح کی ضرورت ہے : کافکائسک کے تصور کی نوعیت سماجی یا سیاسی نہیں ہے۔ ایسی کوششیں ہوئی ہیں کہ کافکا کی تحریروں کی صنعتی معاشرے، استحصال، بیگانگی، بورژوا اخلاقیات — یعنی سرمایہ داری — کی تنقید کے طور پر شرح کی جائے۔ لیکن کافکا کی دنیا میں قریب قریب ایسا کچھ نہیں ہے جو سرمایہ داری کی تشکیل کرتا ہو: زر مفقود ہے، اور اسی طرح اس کی طاقت بھی؛ اور تجارت، اجرتی روزگار، جائیداد، مالکان اور طبقاتی کشمکش بھی غائب ہیں۔

اسی طرح کافکائسک پر آمریت کی بھی کوئی تعریف پوری نہیں اترتی: پارٹی، نظریہ اور اس کی مخصوص اصطلاحات، سیاست، پولیس اور فوج بھی کافکا کی تحریروں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔

اس کے بجاے یہ کہنا چاہیے کہ کافکائسک انسان اور دنیا کے ایک بنیادی امکان کی نمائندگی کرتا ہے : ایک ایسا امکان جسے تاریخ نے متعین نہیں کیا اور جو کم و بیش ازل سے انسان کے ہمراہ رہا ہے۔

لیکن ان تصحیحات سے ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پراگ میں کافکا کے ناول حقیقی زندگی میں اس طرح گندھے ہوئے ہوں، اور ہیرڈریسر لڑکیاں اپنی خواہش کو معنی دینے کے لیے مقدمہ کے فقرے دہرائیں، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ انھی ناولوں کو پیرس میں ایک ادیب کے انتہائی داخلی نظریۂ زندگی کے راہبانہ اظہار کے طور پر پڑھا جا رہا ہو؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اور اس کی دنیا کا وہ امکان جسے کافکائسک کہا جاتا ہے، اپنی ٹھوس شکل میں پیرس کی بہ نسبت پراگ میں زیادہ آسانی سے ظاہر ہوتا ہے ؟

جدید تاریخ کے کچھ رجحانات ایسے ہیں جو کافکائسک کو ایک وسیع سماج کی جسامت میں متشکل کرتے ہیں : طاقت کا بڑھتا ہوا ارتکاز، اس کی خود کو خدا بنانے کی بڑھتی ہوئی خواہش، سماجی سرگرمی میں بیوروکریسی کا نفوذ (جو تمام اداروں کو ختم نہ ہونے والی بھول بھلیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ) اور اس کے نتیجے میں فرد کی بڑھتی ہوئی dehumanisation۔

آمرانہ ریاستوں میں، ان رجحانات کی انتہائی شدت کے سبب سے، کافکا کے ناولوں اور حقیقی زندگی میں یہ قریبی مماثلت ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ مماثلت مغرب میں آسانی سے دکھائی نہیں دیتی تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ جمہوری معاشرے آج کے پراگ کے مقابلے میں کم کافکائسک ہیں ؛ اس کا سبب، میرے خیال میں، یہ بھی ہے کہ یہاں ’حقیقی‘ کے معنی ناگزیر طور پر گم ہو چکے ہیں۔

درحقیقت مغربی معاشرے بھی ڈی ہیومنائزیشن اور بیوروکریٹائزیشن کے عمل سے مانوس ہیں، بلکہ ساری دنیا ہی ان کا نگارخانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ کافکا کے ناول انھیں ایک خیالی اور خواب کے سے مبالغے میں پیش کرتے ہیں جبکہ آمرانہ ریاست انھیں ایک غیر شاعرانہ اور ٹھوس غلو کی صورت میں سامنے لاتی ہے۔

لیکن کافکا ان رجحانات کو گرفت میں لانے والا پہلا ناول نگار کیوں تھا، جو اس کی موت کے کہیں بعد تاریخ کے عمل میں وضاحت اور بے رحمی سے رونما ہونے والے تھے ؟

 

                4

 

فرانز کافکا کے سیاسی میلانات کا کوئی واضح سراغ نہیں ملتا۔ اس معاملے میں وہ پراگ سے تعلق رکھنے والے اپنے تمام دوستوں سے، میکس بروڈ، فرانز ویرفل، اِگون اِرون سے اور ان تمام آواں گارد تحریکوں سے علیحدہ نظر آتا ہے جو تاریخ کا مفہوم جاننے کے دعوے کے ساتھ مستقبل کی ساحرانہ صورت گری میں مشغول تھیں۔

تو پھر یہ کس طرح ہوا کہ آج اُن کی تحریروں کو نہیں، بلکہ ان کے اس تنہا، خود نِگر، اپنی زندگی اور آرٹ میں محو ساتھی کی تحریروں کو ایک سماجی دسیاسی پیش گوئی کے طور پر پڑھا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے دنیا کے بڑے حصوں میں اس کی تحریروں پر پابندی ہے ؟

اس عقدے کا خیال مجھے ایک روز اپنی ایک دوست کے ہاں ایک گھریلو منظر دیکھنے کے بعد آیا۔ اس خاتون کو 1951 میں پراگ میں اسٹالنسٹ دور میں گرفتار کیا گیا اور ان جرائم کا ذمے دار ٹھہرایا گیا جو اس نے نہیں کیے تھے۔ ان دنوں سیکڑوں کمیونسٹ انھی حالات سے دوچار تھے۔ ساری زندگی انھوں نے خود کو پارٹی سے جوڑے رکھا تھا۔ جب اچانک وہ ان کو مجرم گرداننے لگی تو انھوں نے جوزف ک کی طرح اپنی پوری زندگی، پورے ماضی کی ذرا ذرا سی تفصیلات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے چھپے ہوئے جرم تک پہنچیں اور فرضی جرائم کا اعتراف کریں۔ میری وہ دوست اپنی زندگی بچانے میں اس طرح کامیاب رہی کہ اس نے غیر معمولی جرأت کے ساتھ اپنے جرم کی تلاش سے انکار کر دیا۔ مقدمہ چلانے والوں کے ساتھ تعاون سے انکار کرنے پر وہ ان کی آخری نمائشی پیشی کے لیے بے مصرف ہو گئی، اس لیے پھانسی کے بجائے اسے عمر قید دینے پر اکتفا کیا گیا، اور پندرہ سال بعد اسے مکمل طور پر بحال کر کے رہا کر دیا گیا۔

گرفتاری کے وقت اس کا بچہ ایک برس کا تھا۔ رہا ہونے پر اس کی ملاقات ایک سولہ سال کے بیٹے سے ہوئی جو اس کی تنہا بے رنگ زندگی میں شریک ہو کر اسے راحت پہنچائے گا۔ یہ بات پوری طرح قابل فہم ہے کہ وہ جذباتی طور پر اپنے بیٹے سے وابستہ ہو گئی۔ جب ایک روز میں ان سے ملنے گیا (اس کا بیٹا اب چھبیس سال کا ہو چکا تھا) تو وہ نہایت غم و غصے کے عالم میں تھی۔ وجہ کوئی بہت معمولی سی تھی: اس کا بیٹا دیر تک سوتا رہا تھا، یا ایسا ہی کچھ اور۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’اتنی فضول سی بات پر اتنا بگڑنے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ ایسی بات تو نہیں کہ اس پر رونا دھونا شروع کر دیا جائے۔ کیا یہ رد عمل ضرورت سے زیادہ نہیں ہے ؟‘‘

اس کے بجائے اس کے بیٹے نے جواب دیا، ’’نہیں، یہ ضرورت سے زیادہ نہیں ہے۔ میری ماں ایک عظیم بہادر عورت ہیں۔ وہ اس وقت اپنی جگہ اٹل رہیں جب باقی لوگ ٹوٹ گئے تھے۔ وہ مجھے بھی اپنا جیسا دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں دیر تک سویا رہا، لیکن جس بات پر وہ مجھ سے خفا ہو رہی ہیں وہ اس سے کہیں گہری بات ہے — میرا خود غرضانہ رویہ۔ میں وہی بنوں گا جو میری ماں مجھے بنانا چاہتی ہیں۔ یہ آپ کے سامنے میرا ان سے وعدہ ہے۔ ‘‘

جو کام پارٹی ماں کے ساتھ کرنے میں ناکام رہی تھی، ماں اپنے بیٹے کے ساتھ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے اسے ایک لغو الزام کو تسلیم کرنے پر، اپنا جرم تلاش کرنے پر، اور سرِعام اس کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں صدمے کے ساتھ اس چھوٹے سے اسٹالنی مقدمے کو دیکھتا رہا اور یکایک میری سمجھ میں آ گیا کہ وہ نفسیاتی عمل جو عظیم (بظاہر ناقابل یقین اور غیرانسانی) تاریخی واقعات میں رونما ہوتا ہے وہی روز مرہ کی گھریلو انسانی صورت حال کے پس پردہ بھی کام کر رہا ہوتا ہے۔

 

                5

 

اس مشہور خط سے جو کافکا نے اپنے باپ کو لکھا تھا اور جو کبھی بھیجا نہیں گیا، یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ احساس جرم میں مبتلا کرنے کے ان طریقوں کا علم (جو بعد میں اس کے ناولوں کا مرکزی خیال بنے ) اس نے اپنے خاندان سے، بچے اور والدین کی دیوتائی طاقت کے رشتے سے اخذ کیا تھا۔ اس کی کہانی ’’فیصلہ‘‘ (The Judgement) میں، جو اس کے گھریلو تجربوں میں گندھی ہوئی ہے، باپ اپنے بیٹے کو مجرم ٹھہراتا ہے اور اسے خود کو غرق کر لینے کا حکم سناتا ہے۔ بیٹا اپنے فرضی جرم کو تسلیم کر کے اسی اطاعت سے دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے جس اطاعت سے اس کا پیرو جوزف ک ایک پراسرار ادارے سے سزا پا کر اپنا گلا کٹوا لیتا ہے۔ دونوں الزامات، احساس جرم میں مبتلا کرنے اور سزا پر عمل درآمد کے واقعات اس رشتے کو ظاہر کرتے ہیں جو کافکا کی گھریلو آمریت کو اس کے عظیم سماجی وژن سے جوڑتا ہے۔

آمرانہ معاشرہ، خصوصاً اپنی انتہائی صورتوں میں، نجی اور غیر نجی (public) زندگی کا فرق مٹانے کے درپے ہوتا ہے۔ اقتدار جوں جوں زیادہ سخت ہوتا جاتا ہے شہریوں سے ان کی زندگی کے مکمل طور پر شفاف (transparent) ہونے کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔ رازوں سے خالی زندگی کا آدرش مثالی خاندان کے آدرش سے مطابقت رکھتا ہے : کسی شہری کو پارٹی سے یا ریاست سے کوئی بات چھپانے کا کوئی حق نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح بچے کو اپنے ماں باپ سے کوئی بات راز رکھنے کا کوئی حق نہیں۔ آمرانہ معاشرے اپنے پروپیگنڈے میں ایک گھریلو مسکراہٹ کو شہرت دیتے ہیں — وہ ایک بڑے سے گھرانے کی طرح نظر آنا چاہتے ہیں۔

یہ اکثر کہا گیا ہے کہ کافکا کے ناولوں سے برادری اور انسانی ربط کی ایک شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے ؛ لگتا ہے کہ ک، جو ایک بے تعلق فرد ہے، ایک ہی مقصد رکھتا ہے : تنہائی کی اس لعنت سے نجات۔ یہ تعبیر نہ صرف سہل پسندانہ اور گھٹا کر پیش کرنے والی ہے بلکہ یہ مفہوم کو سر کے بل کھڑا کر دیتی ہے۔

سرویئر ک کا مقصد لوگوں کو مائل کرنا ذرا بھی نہیں، نہ اسے تپاک کی جستجو ہے اور نہ وہ سارتر کے اوریستیس ) (Orestes کی طرح ’’انسانوں کے درمیان ایک انسان‘‘ بننے کا خواہشمند ہے۔ وہ کسی برادری سے نہیں بلکہ ایک ادارے سے قبولیت کا طالب ہے۔ اسے پانے کے لیے اسے ایک بڑی قیمت ادا کرنی ہو گی، یعنی اپنی تنہائی سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ سو یہ اس کا جہنم ہے : اسے تنہائی نصیب نہیں ہوتی۔ قلعے سے بھیجے گئے دو ماتحت ہمیشہ اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ جب وہ پہلی بار فریڈا سے ہم آغوش ہوتا ہے، وہ دونوں کیفے کے کاؤنٹر سے انھیں گھور رہے ہیں اور اس کے بعد وہ محبت کرنے والوں کے بستر سے کبھی غائب نہیں ہوتے۔

تنہائی کا عذاب نہیں بلکہ تنہائی کا ملیا ملیٹ کر دیا جانا کافکا کا آسیب ہے۔

کارل روسیمان (Karl Rossemann) کو ہمیشہ دوسروں کی مداخلت سے پریشان ہونا پڑتا ہے۔ اس کے کپڑے بک جاتے ہیں، اس کے والدین کی اکلوتی تصویر چوری ہو جاتی ہے، ڈارمیٹری میں لڑکے اس کے بستر کے قریب گتھم گتھا رہتے ہیں اور اکثر اس کے اوپر آ گرتے ہیں، دو بدمعاش لڑکے اسے اپنے ساتھ رہنے پر مجبور کرتے ہیں اور دیو ہیکل برونیلڈا کی سانسیں رات بھر اس کی نیند میں طوفان مچاتی رہتی ہیں۔

جوزف ک کی کہانی بھی خلوت پر حملے سے شروع ہوتی ہے : دو اجنبی صبح سویرے اسے بستر ہی سے گرفتار کرنے آ گئے ہیں۔ اس دن کے بعد سے وہ کبھی خود کو تنہا نہیں پاتا — عدالت ہمیشہ اس کے تعاقب میں ہے، اسے دیکھ رہی ہے، اس سے مخاطب ہے۔ اس کی نجی زندگی رفتہ رفتہ غائب ہو جاتی ہے، اس کا تعاقب کرنے والے ادارے کی خوراک بن جاتی ہے۔

رازوں کے خاتمے اور نجی زندگی کے شفاف پن کے گیت گانے والی غنائی روحیں اس عمل کی نوعیت سے بے خبر ہیں۔ آمریت کی شروعات مقدمہ کی ابتدا کی طرح ہے : آپ اپنے بستر میں بے خبری کے عالم میں پکڑے جاتے ہیں۔ وہ لوگ بالکل والدین کی طرح کمرے میں بے روک داخل ہو جاتے ہیں۔

لوگ اکثر سوچتے ہیں کہ آیا کافکا کے ناول اس کی انتہائی ذاتی اور نجی تگ و تاز کا اظہار ہیں یا ایک معروضی ’سماجی مشین‘ کا بیانیہ۔ کافکائسک جس شے کو کہا جاتا ہے وہ نجی یا غیر نجی علاقوں میں کسی ایک تک محدود نہیں، یہ دونوں پر محیط ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا آئینہ بن جاتے ہیں۔

 

                6

 

سماجی زندگی کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات بیان کرتے ہوئے، جو کافکائسک کو جنم دیتی ہیں، میرے ذہن میں صرف گھریلو زندگی نہیں بلکہ وہ ادارہ بھی ہے جس میں کافکا نے اپنی پوری بلوغت کی زندگی گزاری — یعنی دفتر۔

کافکا کے مرکزی کرداروں کو اکثر دانشوروں کی تمثیل خیال کیا جاتا ہے، لیکن گریگر سمسا (Gregor Samsa) میں دانشوروں والی کوئی بات نہیں ہے۔ جب ایک روز بیدار ہو کر وہ خود کو ایک کیڑے میں منقلب پاتا ہے تو اس حالت میں اسے ایک ہی فکر ہے — دفتر وقت پر کیسے پہنچا جائے۔ اس کے ذہن میں اس اطاعت اور نظم و ضبط کے سوا کچھ نہیں جس کا اس کے پیشے نے اسے عادی بنا دیا ہے۔ وہ ایک دفتری کارکن ہے، ایک کلرک، ایک ملازم، جیسا کہ کافکا کے دوسرے تمام کردار ہیں۔ وہ سب محض ایک سماجی ٹائپ کے اعتبار سے ملازمت پیشہ نہیں (جیسا کہ زولا جیسے کسی ادیب کی تحریروں میں ) بلکہ ایک انسانی امکان، رویے اور زندگی کو سمجھنے کے انداز کے اعتبار سے بھی دفتری ہیں۔

اس بیوروکریٹک دنیا میں کوئی اختراع، کوئی جدت، کوئی آزادیِ عمل وجود نہیں رکھتی۔ صرف احکامات اور قواعد و ضوابط کا وجود ہے : یہ اطاعت کی دنیا ہے۔

مزید یہ کہ کلرک ایک بہت بڑے انتظامی عمل کے ایک بہت چھوٹے سے حصے کو انجام دیتا ہے اور پورے عمل کی وسعت اور اس کے مقصد کو نہیں سمجھ سکتا: یہ وہ دنیا ہے جہاں حرکات وسکنات میکانکی ہیں اور جہاں لوگوں کو اپنی حرکات و سکنات کے مفہوم کا کچھ پتا نہیں۔

آخری بات یہ کہ بیوروکریسی کے کلرک کا واسطہ بے نام لوگوں اور فائلوں سے ہے : یہ تجرید کی دنیا ہے۔

ناول کو اطاعت، میکانکیت اور تجرید کی اس دنیا پر قائم کرنا (جہاں واحد انسانی ایڈونچر ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک کا سفر طے کرنا ہے ) بظاہر رزمیہ شاعری کے بنیادی جوہر سے بالکل مخالف سمت میں چلنا ہے۔ یوں یہ سوال پیدا ہوتا ہے : کافکا اس گدلے، بے رنگ اور غیر شاعرانہ مادے کو اتنے نادر فکشن میں تبدیل کرنے میں کس طرح کامیاب ہوا؟

اس کا جواب ناول نگار کے ایک خط میں تلاش کیا جا سکتا ہے جو اس نے ملینا (Milena) کو لکھا تھا: ’’دفتر کوئی احمقانہ ادارہ نہیں ہے۔ یہ حماقت سے زیادہ فینٹسی کی عملداری میں آتا ہے۔ ‘‘ اس فقرے میں کافکا کا ایک سب سے بڑا راز پنہاں ہے۔ اس نے وہ کچھ دیکھ لیا جو دوسرے نہیں دیکھ سکے۔ نہ صرف انسان اور اس کے حالات اور مستقبل کے لیے بیوروکریٹک عمل کی اہمیت بلکہ (زیادہ تعجب خیز بات یہ کہ) دفتری انتظام کے تخئیلی پہلو کے شاعرانہ امکانات۔

لیکن اس فقرے کا مطلب کیا ہے : بیوروکریسی کا تعلق فینٹسی کی دنیا سے ہے ؟

پراگ کا انجینئر اسے فوراً سمجھ جاتا۔ اس کی فائل میں ایک غلطی نے اسے لندن پہنچا دیا تھا، سو اب پراگ میں وہ ایک خیالی کردار (phantom) کی طرح ہے اور اپنے گمشدہ جسم کو ڈھونڈ رہا ہے، اور جن دفتروں میں وہ بھٹک رہا ہے وہ کسی نامعلوم دیومالا کی ایک لامتناہی چیستاں ہیں۔

صرف اس وجہ سے کہ اس نے بیوروکریسی کی دنیا میں فینٹسی کا عمل دخل دیکھ لیا، کافکا وہ کچھ کرنے میں کامیاب ہو گیا جو اس سے پہلے ناقابل تصور تھا — یعنی اس نے ایک انتہائی دفتری دنیا کے بے رنگ، غیر شاعرانہ مواد کو ناول کی عظیم شاعری بنا دیا۔ اس نے ایک شخص کی نہایت معمولی کہانی کو — کہ وہ ایک متوقع ملازمت حاصل نہیں کر سکا (قلعہ کی پوری کہانی درحقیقت اتنی ہی تو ہے ) — ایک دیومالا، ایک رزمیے، ایک غیرمانوس حسن میں تبدیل کر دیا۔

ایک دفتری ترتیب کو ایک کائنات کی حدوں تک وسعت دے کر کافکا (جسے اس کا شبہ بھی نہیں گزرا ہو گا) ایک ایسا استعارہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گیا جو ایک ایسے معاشرے سے اپنی مماثلت سے ہمیں مسحور کر دیتی ہے جسے ناول نگار نے کبھی نہیں دیکھا اور جو آج کا پراگ ہے۔

ایک آمرانہ ریاست دراصل ایک واحد، ہمہ گیر انتظام ہے، اور چونکہ اس میں روزگار کے تمام مواقع قومیا لیے گئے ہیں، اس لیے ہر شخص، خواہ وہ کسی پیشے سے وابستہ ہو، ایک ’ملازم‘ ہے — مزدور مزدور نہیں ہے، دکاندار دکاندار نہیں ہے، پادری پادری نہیں ہے : سب ریاست کے اہلکار ہیں۔ ’’میں عدالت کی ملکیت ہوں، ‘‘ پادری کلیسا میں جوزف ک سے کہتا ہے۔ کافکا کے وکیل بھی عدالت کے لیے کام کرتے ہیں۔ آج پراگ میں کسی کو اس پر تعجب نہیں ہو گا۔ وہاں کسی کو اس سے بہتر وکیل صفائی دستیاب نہیں ہو گا جیسا جوزف ک کو ملا تھا کیونکہ وہاں بھی وکیل موکلوں کے لیے نہیں بلکہ عدالت کے لیے کام کرتے ہیں۔

 

                7

 

عظیم چیک شاعر جان اسکاچل (Jan Skacel) نے اپنے ایک سو قطعات کے مجموعے میں بے حد گمبھیر اور انتہائی پیچیدہ موضوعات کو ایک بچے کی سی سادگی سے کھنگالا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتا ہے۔

نظم شاعر کی ایجاد نہیں

نظم کہیں اوٹ میں چھپی ہوتی ہے

وہ وہاں بہت زمانوں سے موجود ہے

شاعر صرف اسے دریافت کرتا ہے

شاعر کے لیے لکھنا اس دیوار کو گرانے کے مترادف ہے جس کے پیچھے ایک بے تغیر شے (نظم) تاریکی میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح اچانک بے نقاب ہونے سے نظم پہلے پہل ہماری آنکھیں چندھیا دیتی ہے۔

میں نے قلعہ پہلی بار پندرہ برس کی عمر میں پڑھا تھا، اور اس کتاب نے مجھے پھر کبھی اس قدر مکمل طور پر گرفتار نہیں کیا، گوکہ اس میں موجود ساری باریکیاں (جو کافکائسک کا اصل مفہوم ہیں ) اس وقت میرے لیے ناقابل فہم تھیں، لیکن روشنی سے میری آنکھیں خیرہ ہو گئی تھیں۔

بعد میں رفتہ رفتہ میری آنکھیں نظم کی روشنی سے مانوس ہوتی گئیں اور میں نے اپنی زندگی کے تجربوں کو اسی روشنی میں دیکھا جس نے پہلے پہل مجھے اندھا کر دیا تھا: لیکن یہ روشنی غائب نہیں ہوئی۔

’نظم‘، اسکاچل کہتا ہے، ’بہت زمانوں سے ‘ ہمارے انتظار میں تھی۔ لیکن مسلسل تغیر کی اس دنیا میں یہ ثبات کیا محض ایک التباس نہیں ؟

نہیں، یہ التباس نہیں ہے۔ انسان کی پیدا کردہ کسی بھی صورت حال میں وہی کچھ موجود ہوتا ہے جو انسان میں مضمر ہے۔ سو یہ خیال کرنا ممکن ہے کہ کوئی صورت حال (اپنے تمام مابعد الطبیعیاتی کنایوں سمیت) ایک انسانی امکان کے طور پر بہت زمانوں سے موجود رہی ہے۔

لیکن اس صورت میں شاعر کے لیے (تغیر پذیر) تاریخ کی کیا معنویت ہے ؟

شاعر کے نقطۂ نظر سے (خواہ وہ کتنا ہی عجیب کیوں نہ لگے ) تاریخ کا عمل بھی شاعری سے مماثل ہے : تاریخ بھی کچھ ایجاد نہیں کرتی، صرف دریافت کرتی ہے۔ بدلتی ہوئی صورت حال میں تاریخ صرف یہ انکشاف کرتی ہے کہ انسان کیا ہے، اس میں بہت زمانوں سے کیا مضمر رہا ہے اور اس کے امکانات کیا ہیں۔

اگر نظم پہلے سے موجود ہے تو شاعر کو پیش گوئی کی صلاحیت تفویض کرنا غیر منطقی بات ہے — وہ صرف ایک انسانی امکان کو دریافت کرتا ہے (یعنی اس نظم کو جو بہت زمانوں سے موجود ہے ) جسے تاریخ ایک دن اپنے عمل میں دریافت کرے گی۔

کافکا نے کوئی پیش گوئی نہیں کی۔ اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس کا یہ عمل پیش گوئی بھی ثابت ہو گا۔ اس کا ایک سماجی نظام کو بے نقاب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس نے تو صرف ان عوامل کو بیان کیا جن کا علم اسے اپنی گھریلو اور سماجی زندگی کی چھوٹی چھوٹی تفصیلوں سے حاصل ہوا تھا۔ اسے یہ شبہ بھی نہیں تھا کہ آنے والے واقعات ان عوامل کو تاریخ کے عظیم رنگ منچ میں پیش کریں گے۔

اقتدار کی ہپنوٹائز کر دینے والی نگاہ، کسی کی اپنے جرم کی بے تابانہ تلاش، استثنیٰ اور ترک کر دیے جانے کی تکلیف، خود کو خارجی سانچے میں ڈھالنے کی مجبوری، حقیقت کی بے وقعتی اور فائل کی ٹھوس حقیقت، نجی زندگی میں مسلسل مداخلت، وغیرہ وغیرہ — یہ سارے تجربات جو انسان کے ساتھ تاریخ نے اپنی عظیم لیبارٹری میں کیے ہیں، کافکا اپنے ناولوں میں کئی سال پہلے کر چکا تھا۔

کافکا کی ’نظموں ‘ اور آمرانہ ریاستوں کی حقیقی دنیا میں اس مماثلت کی بابت ایک پراسراریت ہمیشہ قائم رہے گی، اور یہ اس بات کی گواہ ہو گی کہ شاعر کا عمل جوہری طور پر ناقابلِ شمار اور paradoxical ہوتا ہے۔ کافکا کے ناولوں کی گہری سماجی، سیاسی اور ’پیش گویانہ‘ معنویت کی بنیاد ان کی uncommittedness یعنی، دوسرے لفظوں میں، ہر سیاسی منشور، نظریاتی تصور اور مستقبلیاتی تشخیص سے مکمل آزادی پر ہے۔

بلاشبہ، اگر دیوار کے پیچھے چھپی ہوئی نظم کو تلاش کرنے کے بجائے شاعر پہلے سے معلوم ایک سچ کی خدمت کا فیصلہ کرے (وہ سچ جو سچ کے روپ میں پیش ہو کر منھ پر جھوٹ بولتا ہے ) تو اس نے گویا وہ عمل ترک کر دیا جو شاعری کے شایاں ہے — اور اس سے بہت کم فرق پڑتا ہے کہ پہلے سے سوچے ہوئے سچ کو انقلاب کہا جائے یا رجعت، مسیحی ایمان کہا جائے یا الحاد، یہ زیادہ درست ہو یا کم درست — جو شاعر کسی سچ کو اس سچ پر ترجیح دیتا ہے جسے ابھی دریافت ہونا ہے (اور جو خیرہ کر دینے والی روشنی ہے ) وہ جھوٹا شاعر ہے۔

اگر میں کافکا کے ورثے پر اتنی مضبوطی سے قائم ہوں، اگر میں اس کا ذاتی ورثے کے طور پر دفاع کرتا ہوں، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں اس ناقابل تقلید شے کی تقلید کرنے کو (اور دوبارہ کافکائسک کو دریافت کر لینے کو) مفید شے خیال کرتا ہوں، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ ناول کی بنیادی آزادی (radical autonomy) کی، یا اس شاعری کی جسے ناول کہا جاتا ہے، ایک مہیب مثال ہے۔ اس آزادی ہی کی عنایت سے فرانز کافکا یا اس عظیم فراموش شدہ ہرمن بروخ (Hermann Broch) نے ہمیں (ہمارے زمانے میں ظاہر ہونے والی) انسانی صورت حال کے بارے میں وہ کچھ بتایا جو کوئی سماجی یا سیاسی تصور کبھی نہیں بتا سکے گا۔

٭٭٭

 

 

 

ویری ایشن : تعارف

 

                محمد عمر میمن

 

میلان کنڈیرا کا شمار صف اول کے معاصر چیک ادیبوں میں ہوتا ہے۔ 1968 میں روس نے جب چیکوسلوواکیہ پر فوجی قبضہ کیا تو نزلہ ملک کے بہترین دماغوں پر گرا۔ نتیجے کے طور پر ثقافتی سربرآوردہ شخصیتوں کو چن چن کر ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا، اور ان کے خیالات کی ترویج اور ان کی کتابوں کے مطالعے اور نشر و اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ کوئی سات سال تک تو کنڈیرا نے یہ عذاب اپنے وطن عزیز میں جھیل لیا، پھر ہمت جواب دے گئی۔ چنانچہ 1975 میں اپنی بیوی ویرا (Vera) کے ہمراہ نقل مکانی کر کے فرانس چلا آیا، اور ابھی تک وہیں اقامت گزیں ہے۔

اس خود عائد کردہ جلاوطنی سے پہلے اور بعد میں کنڈیرا نے کافی کچھ فکشن لکھا ہے، جس میں ناول بھی ہیں اور افسانے بھی۔ اس کا تازہ ناول ’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، بالخصوص ناول کی ہیئت میں ایک نہایت دلیر تجربے کی حیثیت سے۔

لیکن کنڈیرا کا میدان صرف ناول اور افسانہ ہی نہیں۔ پچھلے دنوں میں، جبکہ ابھی روسی حملہ دور تھا، کنڈیرا پراگ کی فلم اکیڈمی میں درس وتدریس کا کام کرتا تھا۔ اس نے ایک ڈراما بھی لکھا ہے : Jacques and His Master جس کا انگریزی ترجمہ ہارپر اینڈ رو نے 1985 میں امریکہ سے شائع کیا ہے۔ کنڈیرا اس ڈرامے کو اٹھارویں صدی کے فرانسیسی ادیب دیدرو (Denis Diderot) کی تصنیف Jacques le Fataliste پر اپنا ایک ویری ایشن (variation) قرار دیتا ہے۔ یہ ڈراما سب سے پہلے 1980 میں یوگوسلاویہ کے شہر زگرب ) (Zagreb میں اسٹیج ہوا، بعد ازاں یونان، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں بھی۔ اس کے انگریزی قالب کی ڈرامائی پیشکش 1985 میں کیمبرج (امریکہ) میں مشہور امریکی ادیبہ سوزن سونٹاگ کی زیر ہدایت ہوئی۔

ذیل میں جو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے وہ ڈرامے کے ’’پیش لفظ‘‘ سے ہے۔ ’’پیش لفظ‘‘ اور ڈرامے کا ترجمہ مائیکل ہینری حائم نے کیا ہے، اور میں نے اپنے اردو ترجمے کے لیے جو متن استعمال کیا ہے وہ پہلی بار The New York Times Book Review (بابت 6 جنوری 1985) میں شائع ہوا تھا۔

فلپ راتھ کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران کنڈیرا نے جن مطالب اور مباحث پر اظہار خیال کیا تھا ان میں سے بعض اس تحریر میں بھی ملتے ہیں اور مباحث کے مزید گوشوں پر زیادہ صراحت سے روشنی ڈالتے ہیں۔

 

ویری ایشن

غیرملکی زبانوں سے اردو میں ترجمہ کرتے وقت مجھے دو باتوں کا بارہا شدت سے احساس ہوا ہے : پہلی بات تو یہ کہ اس ہفت خواں کو بخوبی طے کر لینے کے لیے اردو کے محاورے پر جس غیر معمولی گرفت کی ضرورت ہے وہ میرے پاس اب نہیں رہی، پھر یہ بھی کہ اردو الفاظ کا سرمایہ دن بدن میری یادداشت سے محو ہوتا جا رہا ہے۔ خیر یہ تو ایک فرد کا المیہ ہے ؛ آپ اسے نظرانداز کر کے آگے بڑھیے اور اس المیے کی طرف آئیے جو دوسری بات کی ذیل میں آتا ہے۔ یہ دوسرا المیہ زیادہ ہولناک ہے، صرف اس لیے کہ یہ فرد واحد کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔ ہم ہندوستان میں اردو کُشی کا رونا روتے ہیں لیکن ان تمام مساعی سے گریزاں رہتے ہیں جن کے ذریعے اردو کو واقعتاً جدید بنایا جا سکتا ہے۔ یوں کہنے کو تو ہمارے ہاں انجمن ترقی اردو بھی ہے، ترقی اردو بورڈ بھی، اور اب یہ تازہ بتازہ لحیم شحیم ’’مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد‘‘ بھی (جس میں ’’مقتدرہ‘‘ صرف و نحو کے اعتبار سے درست ہوتے ہوئے بھی جمالیاتی اعتبار سے نہایت بھونڈا معلوم ہوتا ہے ؛ گویا کوئی چٹان لڑھکتی چلی آ رہی ہے اور اپنے مقتدرانہ اقتدار سے آپ کا کچومر نکال کر ہی دم لے گی)، لیکن تراجم کے کام کو فروغ دینے کے لیے جس زبان میں ایک لغت جان پلاٹس کی ہو (انگریز کی عرق ریزی کا ثمر اور عرق بھی وہ جو 1884 میں ’ریز‘ ہوا تھا) اور دوسری مولوی عبدالحق کی (جو اپنی کہنگی میں انجمن ترقی اردو کی عمارت کی حریف ہو) تو اس زبان کو بیسویں صدی میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں۔

جب اس تعارف کا ترجمہ کرنے بیٹھا تو variation اور adaptation کے لیے مناسب اردو الفاظ نہ مل سکے۔ یہ میری تخلیقی اپج کی کمزوری تو بہرحال ہے ہی، لیکن یہ اس جلیل القدر ’مقتدرہ‘ کی ناکامی کی دلیل بھی ہے۔ یادش بخیر، 1985 میں اسلام آباد میں میرے کرم فرما ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے اپنے ’مقتدرے ‘ کی چند مطبوعات کا چھوٹا موٹا انبار مجھے تحفتاً دیا۔ اس میں ایک کتبیا (آپ چاہیں تو کتابچہ کہہ لیں ) ڈرامے کی مصطلحات پر بھی نکل آئی (اصطلاحاتِ ڈرامہ، مرتبہ: ڈاکٹر محمد اسلم قریشی؛ نظر ثانی و اضافات: سید اظہار کاظمی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، 1984)۔ اسے کھنگال گیا۔ مجال ہے جو دونوں میں سے ایک کے لیے بھی کوئی مناسب اردو لفظ مل جائے ! وہاں تو سرے سے ان کا اندراج تک نہیں۔ چلیے variation کو اصلاً موسیقی کی اصطلاح سمجھ کر اس سے درگزر کیجیے، لیکن adaptation کے بغیر آپ ڈرامے کی مصطلحات پر مشتمل لغت کیسے تیار کر لیں گے ؟ جب تک انجمن، بورڈ، اور مقتدرہ variation کے لیے کوئی مناسب اردو لفظ نہیں دریافت کر لیتے، آپ اسے ویری ایشن ہی پڑھیے۔

— محمد عمر میمن

 

 

 

                میلان کنڈیرا

 

                انگریزی سے ترجمہ:محمد عمر میمن

 

ایک ویری ایشن کا تعارف

 

 

                1

 

جب 1968 میں روسیوں نے میرے چھوٹے سے ملک پر فوجی قبضہ کر لیا تو میری جملہ تصانیف پر پابندی لگا دی گئی اور کسبِ معاش کے تمام قانونی ذرائع چشم زدن میں مجھ پر بند ہو گئے۔ چند افراد نے میری مدد کی کوشش کی۔ ایک روز ایک ڈائریکٹر صاحب تشریف لائے اور تجویز پیش کی کہ میں دستوئفسکی کے ناول ’’دی ایڈیٹ‘‘ میں تصرف کر کے اسے ایک اسٹیج کے کھیل کے طور پر لکھوں اور اس پر بلا تکلف ان کا نام استعمال کروں۔

چنانچہ میں نے ’’دی ایڈیٹ‘‘ کا دوبارہ مطالعہ کیا۔ مجھ پر جلد ہی منکشف ہو گیا کہ فاقوں سے چاہے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے، مجوزہ کام سے عہدہ برآ ہونا میری استطاعت سے باہر ہے۔ دستوئفسکی نے مبالغے سے لبریز حرکات و سکنات، تیرہ و تاریک گہرائیوں اور جارحانہ جذباتیت سے مملو جو دنیا اس ناول میں پیش کی ہے وہ مجھے بڑی کراہت انگیز معلوم ہوئی۔ اچانک مجھے Jacques le Fataliste کی یاد آئی اور میرا دل ناگاہ اس کے لیے تڑپ گیا۔ اس تڑپ کی تشریح ناممکن تھی۔

’’کیا آپ دستو ئفسکی پر دیدرو کو ترجیح نہ دیں گے ؟‘‘

نہیں، یہ ڈائریکٹر صاحب کو قبول نہ تھا۔ دوسری طرف، اپنی اس عجیب و غریب خواہش سے دستبردار ہونا بھی میرے لیے ممکن نہ تھا کہ جتنا عرصہ بھی ہوسکے ژاک (Jacques) اور اس کے آقا کی معیت میں رہوں — میں تو ان دونوں حضرات کو اپنے ہی کسی ڈرامائی کھیل کے کردار تصور کرنے لگا تھا۔

 

                2

 

دستو ئفسکی سے اچانک بیزاری کی کیا وجہ تھی؟ کیا یہ ایک چیک شہری کا روسیوں کے خلاف فطری رد عمل تو نہیں تھا جنھوں نے اس کے ملک پر غاصبانہ قبضہ کر کے اسے گویا ایذا پہنچائی تھی؟ نہیں، ایسا نہیں تھا، اور وہ یوں کہ چیخوف سے میری پسندیدگی جوں کی توں قائم تھی اور اس میں شمہ برابر کمی نہیں آئی تھی۔ تو پھر کیا میں اس ناول کی جمالیاتی قدر و قیمت کے بارے میں متذبذب ہو گیا تھا؟ نہیں، یہ بات بھی نہیں تھی، کیونکہ یہ بیزاری مجھ پر ناگہاں وارد ہوئی تھی، اور معروضیت کی دعویدار نہیں تھی۔

میری برہمی کا باعث دراصل دستوئفسکی کے ناولوں کی فضا تھی۔ یہ وہ فضا تھی جہاں ہر شے صرف و محض جذبے یا احساس میں تبدیل ہو جاتی ہے ؛ بالفاظ دیگر جہاں جذبے (feelings) ترقی پا کر ’قدر‘ اور صداقت بن جاتے ہیں۔

روسی قبضے کا تیسرا دن تھا۔ میں پراگ سے بذریعۂ کار Budejovice جا رہا تھا (یہ وہی شہر ہے جسے کامیو نے اپنے ڈرامے The Misunderstanding کا محل وقوع بنایا تھا۔ ) سڑک کے کنارے کنارے روسی پیادہ فوج کا پڑاؤ چلا گیا تھا۔ ایک جگہ انھوں نے میری کار رکوائی اور تین سپاہی اس کی تلاشی لینے لگے۔ جب یہ ہو چکا تو اس افسر نے جس نے تلاشی لینے کا حکم صادر کیا تھا، مجھ سے روسی زبان میں سوال کیا، ’’مزاج شریف؟‘‘ اس کا مقصد طنز یا کینہ ہرگز نہ تھا؛ بلکہ وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ ’’یہ سب کچھ جو ہوا ہے، بڑی بھاری غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے۔ ‘‘ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’لیکن یہ سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ یاد رکھیے، ہمیں چیک لوگ نہایت عزیز ہیں۔ بلکہ یوں سمجھیے کہ ہم تو آپ لوگوں سے باقاعدہ محبت کرتے ہیں !‘‘

ایک طرف بیرونِ شہر دیہاتی آبادی ہزارہا ٹینکوں سے پامال ہو چکی ہے، ملک کا مستقبل صدیوں کے لیے رہن رکھا جا چکا ہے، چیک حکومت کے سربراہ گرفتار یا اغوا کیے جا چکے ہیں ؛ اور دوسری طرف قابض فوج کا افسر آپ سے اپنی محبت کا اعلان فرما رہا ہے : براہ کرم مجھے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ رہی جارحانہ حملے اور فوج کشی کی تعذیر و مذمت، تو اس کے لیے وہ ذرا تیار نہیں تھا۔ دوسروں نے بھی کم و بیش اسی انداز میں گفتگو کی۔ ان کے رویے کی بنیاد عصمت دری کرنے والے کے جذبہ ٔ ایذارسانی اور اس سے اخذ لذت پر نہ تھی، بلکہ ایک بالکل ہی مختلف نقش اول یا آرکی ٹائپ پر: احساسِ محرومیِ عشق! یعنی یہی کہ یہ چیک لوگ (جنھیں ہم اس قدر عزیز رکھتے ہیں !) آخر کیوں ہمارے ساتھ اس طرح بود و باش کے انکاری ہیں جو ہمارا چلن ہے ؟ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم انھیں محبت کے معنی سمجھانے کے لیے ٹینکوں کے استعمال پر مجبور ہو گئے ہیں۔

 

                3

 

اس میں کلام نہیں کہ آدمی کا احساسات (feelings) کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ؛ لیکن اگر انھیں عین اقدار کا درجہ دے دیا جائے، صداقت کا معیار سمجھ لیا جائے اور انھیں ہر قسم کے افعال یا طرز عمل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگے، تو یہ ضرور خطرے کی بات ہے۔ ارفع و اعلیٰ ترین قومی جذبے قبیح ترین دہشت انگیزی کی پشت پناہی کے لیے تیار کھڑے رہتے ہیں اور آدمی، اس حال میں کہ اس کا سینہ غنائی جوش سے پھول رہا ہو، محبت کے مقدس نام پر ظالمانہ افعال کا مرتکب ہوتا ہے۔

جب احساسات تعقل اور تفکر کی جگہ لے لیں تو پھر عدم تفہیم اور عدم رواداری کی بنیاد بن جاتے ہیں، یا بقول کارل یونگ ’’بہیمیت کا بالائی ڈھانچا‘‘ (the superstructure of brutality)۔

جذبے کی قدر کے رقبے میں ترفیع کا عمل تاریخ میں بہت پیچھے تک جاتا ہے، شاید اس لمحے تک جب عیسائیت یہودیت سے علیحدہ ہوئی۔ ’’خدا سے محبت کرو، اور پھر جو چاہو کرتے پھرو!‘‘ سینٹ آگسٹین نے فرمایا۔ اس مشہور مقولے سے بہت کچھ ظاہر ہے — یعنی صداقت کے معیار کو ظاہر سے باطن کی طرف کھسکا دیا گیا ہے، اس منطقے میں جہاں بلا روک ٹوک من مانی کی جا سکے۔ یہ موضوعیتِ محض کا دائرہ ہے۔ محبت کا ایک مبہم سا احساس (’’خدا سے محبت کرو!‘‘ — عیسائی امر) قانون کی اٹل، ناگزیر صفائی پسندی کی جگہ لے لیتا ہے (جو یہودیت کا امر ہے ) اور یوں اخلاقیات کا ایک غیر واضح، ڈانوا ڈول معیار بن جاتا ہے۔

عیسائی معاشرے کی تاریخ اسی قسم کے احساسات کی ایک کہنہ درس گاہ ہے : مصلوب عیسٰی نے ہمیں مصائب کو ہنسی خوشی، برضا و رغبت سہنے کا درس دیا؛ شجاعتی شعر نے محبت دریافت کی؛ بورژوائی طرزِ معاشرت نے ہمیں خانگی زندگی کی حسرت دی؛ اور سیاسی فتنہ انگیزی نے ہمارے ارادۂ قدرت کو اچھے خاصے لجلجے جذبے میں تبدیل کر دیا ہے — دراصل یہی طول طویل تاریخ ہے جس نے ہمارے احساسات کی ثروت اور حسن کو وضع کیا ہے۔

لیکن نشأۃ ثانیہ اور اس کے مابعد سے اس مغربی طرزِ احساس (sensibility) کو جس چیز نے متوازن رکھا ہے وہ اس کی قرین روحِ تعقل اور شک ہے — وہ روح جو کھیل تماشے سے تو خیر متّصف ہے ہی لیکن اس شعور سے بھی کہ جملہ امورِ انسانی، انتہائے کار، اضافی ہیں۔ اس کے بعد ہی صحیح معنوں میں مغرب بلوغت کو پہنچ سکا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے سالانہ تقسیم اسناد کے موقعے پر سولژے نتسن (Solzhenitsyn) نے جو خطبہ دیا تھا اس میں اس نے مغرب کے موجودہ بحران کے نقطہ ٔ آغاز کا تعین بے کم وکاست نشأۃ ثانیہ میں کیا ہے۔ اس سے روس کی بطور ایک مستقل اور علیحدہ تہذیب تشریح تو ہو جاتی ہے، پورے مغرب کی نہیں۔ یہ اس لیے کہ روسی تاریخ مغرب کی تاریخ سے مختلف ہے، اور ٹھیک اس لیے مختلف ہے کہ روس نشأۃ ثانیہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخصوص روح سے محروم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ روسی ذہنیت عقلیت (rationality) اور جذبے میں ایک بالکل مختلف النوع توازن قائم کرتی ہے۔ اور اس دوسری قسم کے توازن (یا عدم توازن) میں ہمیں روس کی روح کے شہرۂ آفاق اسرار کا سراغ ملتا ہے، یعنی اس کی بیک وقت گہرائی اور درندگی۔

تو جناب، جب اس معقول نامعقولیت (rational irrationality) کا ہدف میرا ملک بنا تو مجھے بالکل فطری طور پر یہ تحریک ہوئی کہ نشأۃ ثانیہ کے بعد والی مغربی فضا میں خوب گہرے گہرے سانس لوں۔ اور یہ فضا، بلکہ روح، اپنے تمام تر ارتکاز کے ساتھ سواے Jacques le Fataliste کے، جو ذہانت، مزاح اور فینسٹی کا مرقع ہے، اور کہیں نظر نہیں آتی۔

 

                4

 

اگر مجھے اپنے موقف کی وضاحت کرنی پڑ جائے تو کہوں گا کہ صاحب، میں وہ لذت پسند (hedonist) ہوں جو ایک انتہائی سیاست زدہ دنیا میں آ پھنسا ہے۔ کم و بیش اس قسم کی صورت حال کی عکاسی میں نے اپنی کتاب Laughable Loves میں کی ہے۔ یہ میری مرغوب ترین تصنیف ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق میری زندگی کے مسرورترین دور سے ہے۔ اسے ایک عجیب اتفاق کہہ لیجیے کہ اس افسانوی مجموعے کی (جس پر میں چھٹی دہائی میں بارہا کام کرتا رہا) آخری کہانی میں نے چیکوسلوواکیہ پر روسی قبضے سے ٹھیک تین دن پہلے مکمل کی تھی۔

1970 میں جب اس کتاب کا فرانسیسی ایڈیشن شائع ہوا تو نقاد حضرات نے اسے اٹھا کر Enlightenment کی روایت میں ڈال دیا۔ کمال یہ کہ اس تقابل سے متاثر ہو کر خود میں بھی کم و بیش بچکانہ جوش و خروش سے اس تائید میں لگ گیا کہ مجھے اٹھارویں صدی سے فی الواقع عشق تھا، بالکل اسی طرح جس طرح مجھے دیدرو سے عشق تھا۔ بے لاگ بات یہ ہے کہ مجھے دیدرو کے ناولوں سے تعلقِ خاطر ہے ؛ اور قطعی بات یہ ہے کہ مجھے Jacques le Fataliste سے والہانہ عشق ہے۔

دیدرو کی تصانیف سے متعلق میرا یہ جذبہ کچھ ضرورت سے زیادہ شخصی یا نجی تو ہو سکتا ہے لیکن شاید ناحق نہیں۔ یوں تو ہم ڈراما نگار  دیدرو کے بغیر بھی گاڑی چلا لیں گے اور اگر ضرورت آ پڑی تو اس عظیمencyclopedist کے مضامین کا مطالعہ کیے بغیر تاریخ اور فلسفہ بھی سمجھ لیں گے، لیکن — اور مجھے اس بات پر اصرار ہے — Jacques le Fataliste کو بغیر پڑھے ناول کی تاریخ نہ صرف یہ کہ نامکمل رہے گی، بلکہ ناقابلِ فہم بھی۔ اور میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ ہم نہ صرف بحیثیت دیدروئی شریعت کے ایک جزو بلکہ دنیا کے اہم ناولوں کے سیاق وسباق میں بھی اس کا معائنہ کریں تو سراسر فائدے میں رہیں گے، کیونکہ اس کی پوری عظمت اور سچا شکوہ صرف اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب اسے Don Quixote، Tom Jones، Ulysses یا Ferdedurke جیسے ناولوں کی صف میں رکھ کر دیکھا جائے۔ (آخرالذکر ناول پولش ادیب Witold Gombrowicz کی تصنیف ہے جو ہماری صدی کے عظیم ناول نویسوں میں سے ہے، اور جہاں تک میں معلوم کر سکا ہوں، بدقسمتی سے امریکہ میں کافی و یافی معروف نہیں۔ )

یہ سوال کیا جا سکتا ہے : دیدرو کی دیگر سرگرمیوں کے مقابلے میں کیا Jacques le Fataliste محض کھیل تماشے کی چیز نہیں ؟ کیا یہ درست نہیں کہ خود دیدرو اس تصنیف میں اپنے عظیم پیشرو نمونے یعنی لارنس اسٹرن کے ناول Tristram Shandy سے زبردست طور پر متاثر تھا؟

 

                5

 

اکثر میرے سننے میں یہ بات آتی ہے کہ ناول اپنے سارے امکانات ختم کر چکا ہے۔ میری رائے اس کے بالکل الٹ ہے۔ اپنی چار صد سالہ تاریخ میں ناول نے اپنے کئی ایک امکانات کو خطا بھی کیا ہے، بعض بڑے اہم اور عظیم امکانات کی سرے سے کوئی تفتیش ہی نہیں کی؛ بہت سی راہوں کو فراموش کر دیا، اور بہت سی غیبی آوازوں کو سنا ہی نہیں۔

’’ٹرسٹرام شینڈی‘‘ بھی انھی میں سے ایک ایسا امکان ہے جو ہاتھ سے جاتا رہا۔ ناول نے سامویل رچرڈسن کے تراشے ہوئے نمونے سے تو بہت کچھ کسب کیا جس نے ناول کے نفسیاتی امکانات مکتوباتی ہیئت میں ڈھونڈ نکالے تھے، لیکن اس مخصوص اندازِ نظر کی طرف شاذ ہی توجہ دی جو اسٹرن کے کارنامے میں پایا جاتا ہے۔

’’ٹرسٹرام شینڈی‘‘ کھیل کود اور تفریح کا ناول ہے۔ اسٹرن بڑی وضاحت اور طوالت سے ان ایام کا ذکر کرتا ہے جن میں ناول کے ہیرو صاحب اپنی ماں کے بطن میں آئے اور بعد ازاں تولد ہوئے۔ پھر ٹھیک پیدائش کے لمحے، اسٹرن نہایت بے حیائی سے اس کا ذکر چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اپنے قاری سے خوش گپی میں لگ جاتا ہے اور غیر مختتم انحرافات (digressions) میں راہ کھو بیٹھتا ہے — ایک نیا ہی قصہ در قصہ شروع کر دیتا ہے اور اسے بھی تشنۂ تکمیل رکھتا ہے ؛ اور تو اور، انتساب اور تمہید ٹھیک ناول کے بیچ میں ٹھونس دیتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

مختصراً یہ کہ اسٹرن اپنے قصے کا تار و پود وحدتِ عمل کے اصول کے ماتحت نہیں قائم کرتا۔ یہ اصول عام طور پر ناول کا جزو لاینفک خیال کر لیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، اسٹرن کی دانست میں ناول (یعنی مخترع کرداروں کے اس عظیم گورکھ دھندے ) کا مطلب ہی ہے : ہیئتی اختراع و ایجاد کی غیر محدود آزادی۔

اسٹرن کے دفاع میں ایک امریکی نقاد صاحب رقم طراز ہیں : ’’ ٹرسٹرام شینڈی گو بظاہر ایک طربیہ ہے، دراصل ایک نہایت سنجیدہ کارنامہ ہے۔ یہ سنجیدگی اس میں سرتاسر جاری ہے۔ ‘‘ خدارا کوئی ان سے پوچھے کہ سنجیدہ طربیہ کیا بلا ہوتی ہے ؟ اور وہ طربیہ ہی کیا جو سنجیدہ نہ ہو؟ گو کہ یہ منقولہ جملہ تہی از مطلب ہے، پھر بھی یہ اس گھبراہٹ کا بہترین نمونہ ہے جو ہر اس وقت ادبی تنقید کو آ لیتی ہے جب اس کا سامنا کسی ایسی چیز سے ہو جائے جو بظاہر غیرسنجیدہ معلوم ہوتی ہو۔

میں نہایت قطعی طور پر کہتا ہوں کہ ہر ناول — جس پر صحیح معنوں میں لفظ ناول کا اطلاق ہو سکے — دنیا کو سنجیدگی ہی سے برتتا ہے۔ پھر ’دنیا کو سنجیدگی سے برتنے ‘ کا مطلب کیا ہے ؟ صریحاً یہی کہ ہم اس پر یقین کر لیں جس پر دنیا ہم سے یقین کروانا چاہتی ہے۔ اس کے برخلاف، ’’ڈان کیہوٹے ‘‘ سے لے کر ’’یولیسس‘‘ تک ہر ناول نے ہر اس چیز کو للکارا ہے جس پر دنیا ہم سے یقین کروانے کو تلی بیٹھی ہے۔

یہاں کوئی جواباً یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ دنیا جس پر ہمارے یقین کی جویا ہے، ناول اس کا انکاری ہوتے ہوئے بھی خود اپنی اندرونی صداقت پر قائم رہ سکتا ہے ؛ اس کے سنجیدہ ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ دنیا کو سنجیدگی سے برتے۔

اس صورت میں میرے لیے یہ استفسار ناگزیر ہے : ’’سنجیدہ ہونے کا مطلب؟‘‘ آدمی اگر خود بھی اس پر یقین رکھتا ہے جس پر دوسروں سے رکھوانا چاہتا ہے، تو پھر وہ بالکل سنجیدہ ہے !

بس یہی ’’ٹرسٹرام شینڈی‘‘ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ’’ٹرسٹرام شینڈی‘‘ اول تا آخر غیرسنجیدہ چیز ہے۔ یہ ہم سے کسی چیز پر ایمان لے آنے کا مطالبہ نہیں کرتا— نہ کرداروں کی سچائی پر، نہ خود ناول نگار کی صداقت پر، اور نہ ہی اس بات پر کہ ایک ادبی ہیئت کے اعتبار سے ناول کی اپنی کوئی ناگزیر صداقت ہے۔ یہاں تو ہر چیز پر جرح ہو سکتی ہے، ہر چیز پر شک کیا جا سکتا ہے، اور ہر چیز تفریحِ محض ہے — ایسی تفریح جس پر شرمندہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔

تفریح بازی کے جو لامحدود امکانات باطنی طور پر ناول میں موجود ہیں، اسٹرن نے انھیں دریافت کر لیا تھا، اور اس طرح ناول کے ارتقا میں اس نے ایک نیا باب کھول دیا تھا۔ لیکن کسی نے اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا، کسی نے اس کی پیروی نہیں کی — سواے دیدرو کے۔ ’نئے پن‘ کی اس ادّعائی صدا پر تنہا دیدرو ہی لبیک کہنے والا ثابت ہوا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ دیدرو میں اپج اور اختراع کی کمی تھی، مہمل بات ہے۔ روسو، لاکلو ) (Laclos اور گوئٹے کی طبعِ ایجاد پر کوئی اس بنیاد پر نہیں بحثتا کہ ان کا بہت کچھ — نہ صرف یہ بلکہ بالعموم کا ارتقا — سادہ لوح رچرڈسن سے ماخوذ ہے۔ اگر اسٹرن اور دیدرو میں مماثلت بہت نمایاں نظر آتی ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کی مشترکہ کاوش ناول کی تاریخ میں بالکل الگ تھلگ رہی ہے اور شاذ ہی کسی نے ان کا تتبع کیا ہے۔

 

                6

 

’’ٹرسٹرام شینڈی‘‘ اورJacques le Fataliste کی باہمی مطابقت تو خیر اہم ہے لیکن ان میں پائے جانے والے اختلافات بھی کچھ کم اہم نہیں۔

اول تو ایک فرق مزاج کا ہی ہے۔ اسٹرن سست رفتار ہے۔ اس کے طریقۂ کار کی امتیازی صفت عدم اسراع ہے۔ اس کا تناظر خورد بینی مشاہدات کا ہے۔ (اس میں وقت کے تسلسل کو جہاں چاہا روک کر زندگی کے کسی ایک لمحے پر مرتکز ہونے کی وہی قدرت ہے جو بعد میں جوائس کے یہاں بھی ملتی ہے۔ )

اس کے برخلاف، دیدرو تیز خرام ہے۔ اس کے طریقۂ کار کی امتیازی صفت سرعت ہے، اور اس کا تناظر دوربینی مشاہدات کا ہے۔ (مجھے کسی ایسے ناول کا علم نہیں جس کا آغازJacques le Fataliste کے اولین صفحات کے مقابلے میں زیادہ دلکش ہو۔ ) 1

پھر ایک فرق ساخت کا بھی ہے۔ ’’ٹرسٹرام شینڈی‘‘ صرف ایک ہی راوی (یعنی ٹرسٹرام بذاتِ خود) کا خود کلامیہ ہے، اور اسٹرن نہایت باریک بینی سے اس کے خیالات کی بے تکی رو کے ادنیٰ سے ادنیٰ زیر و بم کا تعاقب کرتا ہے۔

دیدرو ایک نہیں پانچ راویوں کا استعمال کرتا ہے، جو ناول کے مختلف قصوں کے درمیان مسلسل ایک دوسرے کا قطع کلام کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً خود مصنف صاحب (اپنے قاری سے مکالمے کے دوران)، مدرّس صاحب (ژاک سے گفتگو کے دوران) اور Marquis des Arcis بھی۔ ان تمام قصوں کی بناوٹ میں جس ترکیب کا حصہ غالب ہے وہ ’مکالمہ‘ ہے، جس کی ندرت اپنا قرین نہیں رکھتی؛ لیکن چونکہ یہ مختلف راوی مکالموں کو مکالموں میں ادا کرتے ہیں (یعنی بعض مکالمے بعض دوسرے مکالموں میں پیوست ہو جاتے ہیں )، پورے کا پورا ناول ایک گرانڈیل اور پُر شور گفتگو میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

پھر ایک فرق روح کا بھی ہے۔ پارسن اسٹرن کی تصنیف آزاد خیالی کی روح اور جذباتیت کی روح کے درمیان مفاہمت ہے — یعنی بالفاظِ دیگر، وکٹورین شرم و حیا کی ڈیوڑھی میں 2 Rebelaisian بے محابا رنگ رلیوں کی ایک ناستلجیائی یاد۔

دیدرو کا ناول بے لگام آزادی — ایسی آزادی جو ذات کے عائد کردہ احتساب سے عاری ہو — اور بے دریغ جنسیت — ایسی جنسیت جو جذباتیت کی پشت پناہی کی رہین نہ ہو — کا دھماکا ہے۔

آخراً، ایک فرق التباسِ حقیقت کے درجے کا بھی ہے۔ اسٹرن واقعات کی زمانی ترتیب کو ضرور تہہ و بالا کر دیتا ہے لیکن یہ واقعات حقیقی زمان و مکاں میں نصب ہوتے ہیں ؛ بے ڈھب ہونے کے باوجود اس کے کردار ان تمام لوازمات سے مزین ہوتے ہیں جو ان پر یقین کرنے کے لیے ہمارے لیے ضروری ہیں۔

اس کے برعکس دیدرو ایک ایسی فضا خلق کرتا ہے جو اس سے پہلے ناول کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی، یعنی منظر سے تہی اسٹیج۔ اس کے کردار آخر آتے کہاں سے ہیں ؟ ہمیں نہیں معلوم۔ ان کے نام کیا ہیں ؟ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی عمریں کیا ہیں ؟ نہیں، دیدرو ہمیں یہ باور کرانے کی ذرا بھی کوشش نہیں کرتا کہ اس کے کردار واقعی کسی متعینہ وقت میں سانس لے رہے ہیں۔ ناول کی پوری تاریخ میں Jacques le Fataliste اس التباس کے، جس پر حقیقت کا گمان ہو، انتہاپسندانہ رد کا نمونہ ہے ؛ نیز نفسیاتی ناول کی جمالیات کے رد کا بھی۔

 

                7

 

خلاصہ جاتی طرز(digest approach) ہمارے عہد کی گھٹی میں پڑے ہوئے میلانات کا سچا عکس ہے۔ یہ مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ تمام گزشتہ ثقافت کو ایک دن ازسرِنو لکھا جائے گا یا اس نونوشتہ کے عقب میں اسے یکسر فراموش کر دیا جائے گا۔ عظیم ناولوں کی پردے اور اسٹیج کے لیے نوشتہ adaptations ایک نوع کی Reader’s Digest سے زیادہ کچھ نہیں۔

میرا مقصد آرٹ کے کارناموں کی واجبِ تعظیم عظمت کی مدافعت نہیں۔ اور تو اور، خود شیکسپیئر نے دوسروں کی تصانیف میں تصرف کر کے اپنے طور پر دوبارہ لکھا؛ لیکن اس نے یہ کہیں نہیں کیا کہ ان کا چربہ پیش کر دے۔ اس نے کسی تصنیف کو اپنے ویری ایشن کا موضوع ضرور بنایا لیکن اس ویری ایشن کا وہ خود، بلا شرکت غیرے، تنہا خالق تھا۔ دیدرو نے ژاک کے گھٹنے میں چوٹ لگنے، گاڑی میں ڈال کر لے جائے جانے، اور بعد ازاں ایک حسین عورت کے ہاتھوں تیمار داری کیے جانے کا قصہ من وعن اسٹرن سے مستعار لیا ہے۔ لیکن اس استعار کی خوبی دیکھیے کہ اس میں نہ تو اس نے اسٹرن کی نقالی کی ہے اور نہ اس کا تصرف —اس نے تو اسٹرن سے محض ایک موضوع لے لیا ہے اور پھر اس موضوع پر اپنا ویری ایشن خلق کیا ہے۔

اس کے برخلاف، آج کل اسٹیج اور پردے پر ’’اینا کرنینا‘‘ کی جو reworkings دکھائی جا رہی ہیں، یہ صرف اس کی adaptations ہیں، یعنی اصل سے کمتر شے، اصل کی تقلیل (reductions)۔ اور کمال یہ ہے کہ adapter جس قدر خود کو ناول کے عقب میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے، اسی قدر یہ کوشش ظاہر ہو جاتی ہے۔ اصل کی اس طور تخفیف یا گھٹائی کر کے وہ نہ صرف اصل کو اس کے حسن سے تہی کر دیتا ہے بلکہ معنویت سے معرّا بھی۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں — تالستائی نے عملِ انسانی کا سوال جس انداز سے اٹھایا تھا وہ ناول کی تاریخ میں مکملاً نیا تھا۔ فیصلہ کرتے وقت وہ اسباب جو عقل کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ان کی مہلک اہمیت کو اس نے دریافت کیا تھا۔ اینا کیوں خود کشی کرتی ہے ؟ اس سوال کا خاطرخواہ جواب بہم پہنچانے کی مہم میں وہ اتنی دور نکل جاتا ہے کہ ایک تقریباً جوائسی (Joycean) اندرونی مکالمے کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتا — اور اس کا مقصد اتنا ہوتا ہے کہ کسی طور پر ان غیرعقلی محرکات کے گورکھ دھندے کا تعین کر سکے جو اینا کو خودکشی پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف اس ناول کی ہر adaptation اختصاری یا خلاصہ جاتی انداز اپنانے کی وجہ سے فطری طور پر مجبور ہے کہ اینا کے رویے کے عقب میں جو اسباب کارفرما ہیں ان کو منطقی طور پر واضح اور معقول دکھانے کی کوشش کرے ؛ بالفاظ دیگر، ان اسباب کی منطقی تائید پیش کرے۔ اور یوں ہر adaptation ناول کی جدت اور اختراع کی بھرپور نفی بن جاتی ہے۔

اس کے برخلاف، اگر اس قسم کے جارحانہ عمل کے باوجود ناول کا مافیہ بچ نکلتا ہے، تو پھر یہ اس ناول کے اوسط درجے کی چیز ہونے کا استعارہ ہے۔ سارے ادب میں صرف دو ناول ایسے ہیں جن کی تخفیف و تقلیل علی الاطلاق ممکن نہیں، اور جو بالکل دوبارہ نہیں لکھے جا سکتے — یہ دو ناول ’’ٹرسٹرام شینڈی‘‘ اورJacques le Fataliste ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ اس قدر عالیشان ہڑبونگ اور انتشار کی تقلیل فرمائیں اور اس کے بعد بھی کچھ بچ رہے — رہنے کو بچے گا ہی کیا!

ہاں یہ درست ہے کہ Mme de la Pommeraye کے قصے کو الگ کر کے اس کا ڈراما یا فلم بنا لی جائے، اور حقیقت میں ایسا ہوا بھی ہے ؛ لیکن اس صورت میں جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے وہ ایک پیش پا افتادہ حکایت سے زیادہ نہیں جس میں نہ کوئی دلفریبی ہے نہ کوئی دلکشی۔ یہ اس لیے کہ قصے کی دلکشی دیدرو کے اندازِ بیان سے الگ نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً: (1) ایک عامیانہ طبقے کی عورت واقعات کے ایک ایسے سلسلے کو بیان کرتی ہے جو اس سماجی حلقے میں پیش آتے ہیں جس کے طور اطوار کا ادراک اس کی بساط سے باہر کی چیز ہے ؛ (2) کرداروں سے میلو ڈرامائی شناخت کا تمام تر امکان اس وجہ سے جاتا رہتا ہے کہ بے ڈھب، انمل بے جوڑ حکایتوں اور اقوال کا ایک غولِ بیابانی ہے جو بار بار قصے میں خلل اندازی کرتا رہتا ہے ؛ (3) قصے پر مسلسل تبصرہ اور نظر ثانی ہوتی رہتی ہے، یہی نہیں بلکہ اس کا تجزیہ اور تحلیل اور اس پر بحث بھی؛ لیکن (4) اس کے باوجود ہر شارح ایک بالکل ہی مختلف نتیجہ برآمد کرتا ہے کیونکہ Mme de la Pommeraye کا قصہ سراسر اخلاقیات کی نفی کرتا ہے۔

اس تمام بکھیڑے میں پڑنے کی حاجت؟ صرف اس لیے کہ میں ژاک کے استاد کے ساتھ بیک زبان یہ نعرہ بلند کرنا چاہتا ہوں : ’’مردہ باد وہ تمام لوگ جو لکھے ہوئے کو دوبارہ لکھنے کی جسارت کرتے ہیں ! — ان کو خصی کر دو اور ان کے کان قلم!‘‘

 

                8

 

اور ہاں، ظاہر ہے، یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ Jacques and His Master adaptation ہرگز نہیں۔ یہ میرا اپنا ڈراما ہے، دیدرو پر میرا ویری ایشن؛ یا چاہیں تو اسے دیدرو کے لیے میرا خراجِ تحسین و عقیدت کہہ لیجیے۔ یہ کوئی ایسی بے جا بات بھی نہیں ہو گی، کیونکہ اس کی تخلیق کا محرک میرا یہی جذبۂ عقیدت رہا ہے۔

تو جناب یہ variation-homage ایک گوناگوں مڈبھیڑ کا نمائندہ ہے — صرف دو ادیبوں کی مڈبھیڑ ہی نہیں بلکہ دو صدیوں کی بھی؛ اور ناول اور تھیٹر کی مڈبھیڑ بھی۔ اپنی ہیئت میں کوئی بھی ڈرامائی پارہ ناول کی ہیئت کے مقابلے میں ہمیشہ ہی کچھ زیادہ بے لوچ اور قابل تتبع ہوتا ہے۔ افسوس کہ تھیٹر کو کبھی اپنا لارنس اسٹرن نہیں مل سکا!

میں نے اپنے طربیے (comedy) میں ہیئتی اعتبار سے جس قلندرانہ آزادی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ناول نگار دیدرو کی دریافت تھی، لیکن دیدرو  ڈراما نگار کو جس کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ اس طریقۂ کار کو اپنا کر میں نے صرف دیدرو ہی سے اپنی عقیدت کا اظہار نہیں کیا بلکہ ناول سے بھی۔

میری تصنیف کے اجزائے ترکیبی، یا بلکہ یوں کہیے اس کا تعمیری نقشہ کچھ یوں ہے : ژاک اور اس کے استاد کے مشترکہ سفر کے سبک واقعے کو بنیاد بنا کر اس پر تین عشقیہ کہانیاں نصب کی گئی ہیں، یعنی استاد کی، ژاک کی، اورMme de la Pommeraye کی۔ ان میں سے پہلی دو کہانیوں کا تعلق نتیجۂ سفر سے ڈھیلا ڈھالا ہے (اور دوسری کا تو بہت ہی ڈھیلا ڈھالا)؛ تیسری، جو دوسرے ایکٹ کو مکملاً محیط ہے، تکنیکی اعتبار سے محض ایک واقعہ ہی ہے جس کو مرکزی عمل کے ساتھ پیوست نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ ڈرامائی ساخت کے تمام اصولوں کی عین خلاف ورزی کرتی ہے۔ ٹھیک اسی مقام پر میں جوا کھیل بیٹھا۔

وحدتِ عمل کے سخت گیر اصول کو باقاعدہ تج دے کر میں نے اس بات کی کوشش کی کہ کُل کے ربط و معنی کو لطیف تر ذرائع کے استعمال سے تخلیق کروں۔ ایک طرف میں نے ادغام (polyphony) کی تکنیک استعمال کی ہے، (تینوں کہانیاں باہم پیوست ہیں نہ کہ سلسلہ وار بیان کی گئی ہیں )، اور دوسری طرف معمولی انحراف (variation) کی تکنیک (ہر کہانی، اصلاً بقیہ دو کی قدرے منحرف شکل ہے )۔ چنانچہ، یہ ڈرامائی کھیل، جو دیدرو کا ویری ایشن ہے، بیک وقت ویری ایشن کی تکنیک کو خراج عقیدت بھی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح، سات سال بعد، میرا ناول بعنوان The Book of Laughter and Forgetting اسی تکنیک کو خراج عقیدت پیش کرنے والا تھا۔

 

                9

 

بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ایک چیک ادیب کے لیے یہ تصور کرنا خاصی عجیب بات تھی کہJacques le Fataliste (جس کی تصنیف بھی ساتویں دہائی میں ہوئی تھی) کی اشاعت اس کے خالق کی زندگی میں نہ ہو سکی اور یہ کہ یہ مسودے کی شکل میں شائقین کے ایک مخصوص، نجی اور چھوٹے سے حلقے میں گردش کرتا رہا۔ لیکن جو بات دیدرو کے زمانے میں مستثنیات کی ذیل میں آتی تھی، اب دو سو سال بعد، پراگ میں، تمام اہم چیک ادیبوں کا مقسوم بن گئی ہے۔ چھاپے خانوں کے دروازے ان پر بند ہیں اور یہ اپنی نگارشات ٹائپ شدہ مسودوں کی شکل ہی میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ صورت حال روس کے حملے کے ساتھ رونما ہوئی، ہنوز جاری ہے، اور آثار کہہ رہے ہیں کہ بدلنے والی نہیں۔

Jacques and His Master میں نے اپنی ذاتی تفریح کے لیے لکھی — اور شاید اس مبہم خیال کے زیر اثر بھی کہ کسی دن یہ کسی چیک تھیٹر میں کسی فرضی نام کے تحت ہی پیش کی جا سکے۔ اپنے ٹھپے کے طور پر میں نے اس کے متن میں اپنی گزشتہ نگارشات سے کچھ نشانیاں چن کر جہاں تہاں چھڑک دی ہیں (ایک اور کھیل، ایک اور ویری ایشن)۔ مثلاً ژاک اور اس کا استاد میرے افسانے The Golden Apple of Eternal Desire (جو Laughable Loves نامی میرے افسانوی انتخاب میں شامل ہے ) کے دو دوستوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اسی میں ایک اشارہ میری نگارش Life is Elsewhere اور دوسرا ایک اور تصنیف The Farewell Party کی طرف بھی موجود ہے۔ جی ہاں، یہ نشانیاں ہی تھیں۔ ایک لحاظ سے پورے کا پورا کھیل میری بہ حیثیت ادیب زندگی کو الوداع تھا — الوداع بطور تفریح! میرا ناول The Farewell Party، جو میں نے تقریباً اسی وقت مکمل کیا تھا، میرا آخری ناول ہونے والا تھا۔ لیکن یہ سارے کا سارا بے حد صبر آزما دور مَیں کسی ذاتی شکست کا کڑواکسیلا مزہ چکھے بغیر بھگت گیا، اور یوں میری بہت ذاتی سی الوداع ایک اور الوداع میں کاملاً مدغم ہو گئی۔ یہ دوسری الوداع عظیم تر تھی اور اس کا سرا میری ذات سے نکل کر بہت دور تک جاتا تھا۔

روسی شب کی ابدیت کے مقابل کھڑے ہوئے میں نے پراگ میں مغربی ثقافت کے نہایت بہیمانہ طور پر ختم کر دیے جانے کا تجربہ کیا تھا، یعنی مغربی ثقافت کا وہ تصور جو دورِ جدید کے آغاز کے وقت رائج تھا۔ یہ وہی تصور تھا جس میں فرد کی ذات اور اس کی عقل کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی، جو تنوع اور کثرتِ افکار کے ساتھ ساتھ رواداری اور تحمل سے بھی متصف تھا۔ تو یوں سمجھیے کہ ایک ننھے سے مغربی ملک میں میں پورے مغرب کے خاتمے کا تجربہ کر رہا تھا۔ یہ تھی وہ عظیم تر الوداع!

 

                10

 

ایک اُمّی دیہاتی کو بطور ملازم بغل میں دابے، ایک دن ڈان کیہوٹے اپنے دشمنوں سے مقابلہ کرنے نکل پڑا۔ ایک سو پچاس سال بعد، ٹوبی شینڈی نے اپنے باغیچے کو ایک نقلی، عظیم کارزارِ جنگ میں بدل ڈالا۔ یہاں بیٹھ کر اس نے اپنا تمام تر وقت فوج میں گزارے ہوئے اپنے عہدِ شباب کی باز خوانی میں گزار دیا جہاں اس کا وفادار ملازم کارپورل ٹرم اس کی خدمت کے لیے موجود تھا۔ ٹرم کی چال میں لنگڑے کی لڑکھڑاہٹ تھی — بالکل ژاک کی طرح، جو دس سال بعد، دورانِ سفر اپنے آقا کی تفریح کا سامان بہم پہنچانے کے لیے موجود تھا۔ وہ اتنا ہی جنگجو اور ضدی تھا جتنا کہ سپاہی شوائیک (Svejk) جس نے ایک سو پچاس سال بعد آسٹروہنگیرین فوج میں اپنے آقا لیفٹیننٹ لوکاچ (Lukac) کو خوب دل بھر کے ہنسایا، اور اتنا ہی خوفزدہ بھی کیا۔ اس کے تیس سال بعد گودو (Godot) کا انتظار کرتے ہوئے ولادیمیر اور استراگوں دنیا کے خالی اسٹیج پر آج خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ سفر ختم ہو چکا!

خادم اور آقا مغرب کی تاریخ کے دورِ جدید کو سرتاسر طے کر چکے ہیں۔ پراگ میں، جو ایک عظیم الشان الوداع کا شہر ہے، میں نے ان کا بتدریج ڈوبتا ہوا قہقہہ سنا ہے۔ دکھ اور محبت کے ساتھ میں اس قہقہے سے اس طرح بغل گیر ہوتا ہوں جس طرح کوئی ان نازک، فنا پذیر اشیا سے بغل گیر ہو رہا ہو جن کو گردن زدنی قرار دیا جا چکا ہو۔

 

حواشی:

 

1 یہاں ’’دلکش‘‘ کی تعریف کنڈیرا نے جس عبارت میں کی ہے وہ مغربی موسیقی کی مصطلحات سے پُر ہے۔ ان کا ترجمہ آسانی کے ساتھ میرے لیے ممکن نہیں، چنانچہ اصل عبارت حاضر ہے۔

"the virtuoso alternation of registers, the sense of rhythm, the prestissimo of the initial sentences.”

2 فرانسوا رابلے ) (Francois Rebelais پندرھویں اور سولھویں صدی کا ایک فرانسسکن پادری تھا جس کی شہرت کا دارومدار تمام تر Gargantua and Pantagruel نامی شاہکار پر بتایا جاتا ہے۔ یہ تصنیف کل چار ناولوں پر مشتمل ہے اور ایک بے محابا فکاہی روح، تمسخر، طنز اور ہنسی ٹھٹھول کا اس کی امتیازی صفات میں شمار ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

گم شدہ خطوط

 

                انگریزی سے ترجمہ:محمد عمر میمن

 

 

ذیل میں میلان کنڈیرا کے ناول ’’خندہ اور فراموشی کی کتاب‘‘ (The Book of Laughter and Forgetting) کے چوتھے حصے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں تمینہ نامی عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے ؛ تمینہ جو بیوہ ہے، بے وطنی میں اپنے دن گزار رہی ہے، جسے اپنے شوہر سے بے پناہ محبت ہے، اور جو کسی قیمت پر اس کی یاد کو زمانے کے ہاتھوں محو ہوتا ہوا دیکھنے کی روادار نہیں۔ انفرادی زندگی میں المیے کا احساس اور اس احساس کی المیہ شدت جن عوامل سے آتی ہے، وہ ہمیں تمینہ کی سرگزشت میں ملتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دو باتیں بہرحال واضح ہو جاتی ہیں : المیے کی اثر انگیزی نہ کرشن چندرانہ فصاحت کی رہینِ منت ہے اور نہ جدید ترین اردو افسانہ نگاروں کی بلند بانگ لفاظی کی۔ وہ تو اس قسم کے بے سنگار، تقریباً برہنہ جملے سے خود بخود پیدا ہو جاتی ہے : ’’میں دنیا کو تمینہ کے گرد ایک مدوّر چہار دیواری کی طرح اٹھتا ہوا تصور کرتا ہوں، اور خود تمینہ کو بہت نیچے سبزے کی ایک ننھے سے قطعے کی طرح۔ اس قطعے پر پھلنے پھولنے والا واحد گلاب اس کے شوہر کی یاد ہے۔ ‘‘ دوسرے یہ کہ زندگی کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کے لیے منطقی توازن سے مرصّع ذات کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ تناقضات سے مبرّا ذات کی۔ تمینہ کو خوب معلوم ہے کہ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اپنی مجبوریاں۔ ایک دن، چار و نا چار، اپنے جسم کی ضرورت سے مغلوب ہو کر، اسے کسی غیر مرد کے ساتھ ہم جسم ہونا ہی پڑے گا۔ اور اسے یہ بھی خوب معلوم ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ اس کے شوہر کے ساتھ بے وفائی نہ ہو گی۔ یہ سب تو خیر ہے ہی، لیکن غیر مرد کے ساتھ جب ہم بستری کا وقت آتا ہے تو — یہ آپ خود معلوم کیجیے۔ ترجمہ حاضر ہے۔ اور ہو سکے تو پوری کتاب ہی پڑھ جائیے، اور ہم سب عبقریوں کو بے نقط سنائیے، یا بلکہ کنڈیرا کے ہم زبان ہو کر، پورے خلوص اورپورے المیہ احساس کے ساتھ نعرہ لگائیے : ’’تمینہ اور گیئٹے (Goethe) میں وہی فرق ہے جو انسان اور ادیب میں ہوتا ہے۔ ‘‘

میلان کنڈیرا کا شمار صفِ اول کے ہمعصر مغربی ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ سن ۱۹۲۹ء میں برنو، چیکوسلوواکیہ، میں پیدا ہوا۔ ۱۹۶۸ء میں جب سوویت یونین نے چیکوسلوواکیہ پر قبضہ کیا تو اس کے نتیجے میں ملک کے دانشوروں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ خود کنڈیرا کو بھی: اسے پراگ کے فلمی مدرسے میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا، کام کاج کے دروازے اس پر بند کر دیے گئے، اور اس کی لکھی ہوئی کتابیں کتب خانوں سے اٹھا لی گئیں۔ سن ۱۹۷۵ ء میں کنڈیرا نے فرانس میں جلاوطنی اختیار کر لی۔ کنڈیرا کی تصانیف میں ایک افسانوں کا مجموعہ، ایک ڈراما، اور سات ناول شامل ہیں۔ پہلا ناول ’’مذاق‘‘ (The Joke) اور تازہ ترین ’’لافانیت‘‘ (Immortality) ہیں۔

— مترجم

 

 

                1

 

میرے حساب کتاب کے مطابق روئے زمین پر ہر سیکنڈ دو یا تین افسانوی کرداروں کا بپتسمہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ان بپتسمہ دینے والے یوحناؤں کے جم غفیر میں داخل ہونے کی نوبت آتی ہے، میرا سارا اعتماد لڑکھڑا جاتا ہے۔ لیکن میں کر بھی کیا سکتا ہوں ؟ مجھے اپنے کرداروں کو کوئی نہ کوئی نام تو بہرحال دینا ہی ہے — ٹھیک ہے نا؟ لیکن اس بار یہ واضح کر دینے کے لیے کہ میری ہیروئن کا واسطہ مجھ سے، اور صرف مجھ ہی سے، ہے (اور مجھے اس سے جو انس ہے وہ کبھی کسی اور سے نہیں رہا)، میں اسے جو نام دے رہا ہوں، اس نام کی عورت اس سے پہلے کوئی نہیں ہوئی: تمینہ۔ میں اسے دراز قامت، حسین، پینتیس سالہ، اور اصلاً پراگ کی باشندہ تصور کرتا ہوں۔

اس وقت میں اسے یورپ کے مغرب میں ایک صوبائی شہر کی ایک سڑک پر جاتا ہوا دیکھ سکتا ہوں۔ جی ہاں، آپ کا خیال بالکل درست ہے۔ میں پراگ کو تو، جو یہاں سے کوسوں دور ہے، اس کے نام سے پکار رہا ہوں، لیکن اِس شہر کو میں نے گمنام رہنے دیا ہے جو میری کہانی کا محلِ وقوع ہے۔ یہ بات تناظر کے تمام اصولوں کے خلاف جاتی ہے۔ لیکن صاحب، یہ تو اب آپ کو برداشت کرنا ہی ہو گا۔

تمینہ ایک چھوٹے سے کیفے میں ویٹرس کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ یہ کیفے ایک شادی شدہ جوڑے کی ملکیت ہے۔ کیفے سے اتنی کم آمدنی ہوتی تھی کہ شوہر صاحب نے کہیں اور ملازمت کر لی اور ان کی جگہ تمینہ کو رکھ لیا گیا۔ اپنی نئی جگہ پر جو حقیر تنخواہ شوہر کو ملتی تھی، اور اس سے زیادہ حقیر تنخواہ جو وہ تمینہ کو دیتے تھے، تو ان کا فرق ہی بس ان کی واحد نفع بخش آمدنی تھی۔ تمینہ گاہکوں کو کافی اور کیل واڈوس1 لا لا کر پیش کرتی ہے (گاہکوں کی تعداد کبھی بھی زیادہ نہیں ہوتی، کیفے ہمیشہ ہی آدھا خالی ہوتا ہے )، اور پھر بار کے کاؤنٹر کے پیچھے واپس چلی جاتی ہے۔ کاؤنٹر کے دوسری طرف اسٹول پر ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی شخص اس سے گفتگو کا منتظر بیٹھا ہوتا ہے۔ سارے گاہک اسے پسند کرتے ہیں : وہ بڑی اچھی سامع جو ہے !

لیکن کیا وہ سچ مچ ان کی لن ترانی سنتی بھی ہے ؟ یا صرف خاموشی سے، اپنے خیالات میں محو، ان کی طرف دیکھے جاتی ہے ؟ یہ میں وثوق سے نہیں بتا سکتا۔ پھر اس کے جان لینے سے کوئی لمبا چوڑا فرق بھی نہیں پڑتا۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کی بات نہیں کاٹتی۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جب دو آدمیوں میں سلسلۂ کلام چل نکلتا ہے تو کس طرح پہلے ایک آدمی مسلسل بات کیے جاتا ہے اور کس طرح دوسرا یہ کہہ کر قطع کلام کرتا ہے، ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ اور پھر اپنے بارے میں رواں ہو جاتا ہے، تا آنکہ اس کے رفیق کو بھی بیچ میں کہیں ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔

یہ دونوں ’’یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘ بظاہر ایک قسم کا اتفاق ہی معلوم ہوتے ہیں، یعنی طرفین میں سے دوسرے کی بات کو ایک قدم آگے بڑھانے کا ذریعہ، لیکن ایسا سوچنا محض خام خیالی ہے۔ اصل میں یہ ایک سفاک قوت کے خلاف اتنی ہی سفاک بیزاری کا اظہار ہوتے ہیں۔ اپنے کان کو غلامی کی بندش سے چھڑانے کی کوشش؛ ایک طرح کا سامنے کا وار جس کا واحد مقصد دوسرے کی قوتِ سامعہ پر حاوی ہو جانا ہوتا ہے۔ خلق و بشر کے درمیان آدمی کی تمام تر زندگی کا مقصد ان کی سماعت پر قابض ہو جانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ تمینہ کی ہر دلعزیزی کا راز صرف اتنا ہے کہ اسے اپنے بارے میں بات چیت کرنے کی ذرا خواہش نہیں۔ اپنی سماعت پر قابض ہونے والی قوتوں کی وہ ادنیٰ سی مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتی: ’’ یہ تو بالکل میری طرح ہوا۔ میں …‘‘

 

                2

 

بی بی عمر میں تمینہ سے دس سال چھوٹی ہے۔ اِدھر کوئی سال بھر سے وہ تمینہ کو اپنے حالات روز کے روز آ کر بتاتی رہی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا (اور سارا کھٹ راگ اس وقت شروع ہوا) جب ایک روز بی بی نے تمینہ کو بتایا کہ وہ اور اس کا شوہر آتی گرمیوں میں پراگ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اچانک ایسا لگا گویا تمینہ برسوں کی نیند سے چونک پڑی ہو۔ بی بی نے اپنی بات جاری رکھی لیکن (خلافِ عادت) تمینہ نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا، ’’ بی بی، اگر واقعی ـپراگ جانا ہو تو کیا تم میرے والد کے گھر جا کر میرے لیے ایک چیز لا سکتی ہو؟ کوئی بہت بڑی چیز نہیں، بس ایک چھوٹاسا پیکٹ ہے۔ اتنا چھوٹا کہ بہ آسانی تمھارے سوٹ کیس کے ایک گوشے میں آ جائے گا۔ ‘‘

’’ہاں ہاں، ضرور، کوئی بھی چیز، ‘‘ بی بی نے کہا — بالکل راضی اور تیار۔

’’ تم اندازہ نہیں کر سکتیں کہ میں کتنی ممنون ہوں گی، ‘‘ تمینہ نے کہا۔

’’مجھ پر بھروسا رکھو، میں یہ کام ضرور کر دوں گی، ‘‘ بی بی نے کہا۔ دونوں کچھ دیر تک پراگ کے بارے میں گفتگو کرتی رہیں۔ تمینہ کے رخسار جلنے گے۔

پھر بی بی نے موضوع بدل دیا: ’’ میں — ایک کتاب لکھنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

تمینہ نے چیکوسلوواکیہ میں پڑے ہوئے اپنے پیکٹ کے بارے میں سوچا، اور اس خیال سے کہ اس موقعے پر بی بی سے اس کی دوستی کتنی ناگزیر تھی، اس نے اپنی سماعت ایک بار پھر بی بی کے لیے وقف کر دی۔ ’’کتاب؟ کاہے کے بارے میں ؟‘‘

بی بی کی یک سالہ بچی ماں کے بار اسٹول کی ٹانگوں کے آس پاس شور مچاتی ہوئی لڑکھڑا رہی تھی۔

’’شش!‘‘ بی بی نے گویا فرش کی تہدید کی اور کسی گہرے خیال میں غرق، سگریٹ کا کش لگایا۔ ’’دنیا کے بارے میں … جس طرح کہ یہ مجھے نظر آتی ہے۔ ‘‘

بچی اب باقاعدہ چیخنے لگی تھی۔

’’سچ مچ کتاب لکھو گی — ہمت ہے ؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔

’’کیوں نہیں ؟‘‘ بی بی نے جواب دیا۔ ایک بار پھر وہ محوِ خیال ہو گئی، پھر بولی، ’’ظاہر ہے یہ جاننے کے لیے کہ کتاب کیسے لکھی جاتی ہے، مجھے دوچار اشاروں کی ضرورت تو پڑے گی ہی۔ تم بناکا (Banaka) کو تو نہیں جانتیں ؟ یا جانتی ہو؟‘‘

’’ نہیں۔ مگر یہ ذاتِ شریف ہیں کون؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔

’’ ایک ادیب ہے، ‘‘ بی بی نے جواب دیا۔ ’’ یہیں آس پاس کہیں رہتا ہے۔ میرے لیے اس سے ملنا اشد ضروری ہے۔ ‘‘

’’ کیا لکھا ہے اس نے ؟‘‘

’’ مجھے نہیں معلوم، ‘‘ بی بی نے کہا، پھر کچھ سوچتے ہوئے یہ اضافہ کر دیا، ’’اچھا ہو گا کہ میں پہلے اس کی لکھی ہوئی کوئی چیز پڑھ ڈالوں۔ ‘‘

 

                3

 

ٹیلیفون کے رسیور سے جو کچھ برآمد ہوا، وہ احساسِ مسرت سے لبریز کوئی فجائی فقرہ یا تحیّر کہ جس کی وہ توقع کر سکتی ہو، نہ تھا، بلکہ ایک سردمہر’’اوہ تم، اچھا۔ اتنے سالوں بعد یاد کیا۔ ‘‘

’’تمھیں پتا ہے کہ میری مالی حالت اچھی نہیں، ‘‘ تمینہ نے اعتذاراً کہا، ’’فون کرنے میں بہت پیسے لگ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’ تو خط لکھ دیا ہوتا۔ ٹکٹ پر تو اتنے پیسے خرچ نہیں ہوتے — یا ہوتے ہیں ؟ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ تمھارا آخری خط کب آیا تھا۔ ‘‘

اس خیال سے کہ شروعات ہی غلط طرح سے ہو گئی ہے، تمینہ کچھ دب سی گئی اور اپنی ساس کی مزاج پرسی کرنے لگی۔ جب یہ تمام تکلّفات پورے ہو گئے، تب کہیں جا کر حرفِ مدعا زبان پر لائی: ’’ایک کام آن پڑا ہے۔ کر دو تو بے حد شکر گذار ہوں گی۔ جب ہم وہاں سے نکل رہے تھے تو پیچھے ایک چھوٹا سا پیکٹ چھوڑ آئے تھے۔ ‘‘

’’پیکٹ؟‘‘

’’ہاں۔ تم نے اور مریک (Mirek)نے مل کر اسے والد صاحب کے ڈیسک میں مقفل کر دیا تھا۔ اس کی ایک دراز مریک کے لیے وقف تھی — یاد ہے ؟ اور مریک نے چابی تمھارے حوالے کر دی تھی۔ ‘‘

’’چابی؟ مجھے کوئی چابی وابی یاد نہیں۔ ‘‘

’’مگر اماں، چابی تمھارے پاس ضرور ہونی چاہیے ! مریک نے تمھیں دی تھی، میرے سامنے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ‘‘

’’تم لوگوں نے مجھے کچھ نہیں دیا تھا۔ ‘‘

’’بہت زمانہ ہو گیا ہے۔ ممکن ہے تم بھول بھال گئی ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ ذرا ڈھونڈ ڈھانڈ کر چابی دیکھ لو۔ مجھے یقین ہے کہ ڈھونڈو گی تو ضرور مل جائے گی۔ ‘‘

’’اور مل گئی تو پھر کیا؟‘‘

’’ذرا دراز کھول کر اطمینان کر لینا کہ وہ پیکٹ وہاں اب بھی موجود ہے۔ ‘‘

تو کیا تمھارے خیال میں اس کے پر لگ گئے ہوں گے ؟ تم نے خود اسے وہاں رکھا تھا — نہیں ؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’تو پھر مجھے دراز کھولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تمھارا کیا خیال ہے، میں تمھاری نوٹ بکس الٹ پلٹ کرتی رہی ہوں ؟‘‘

تمینہ دنگ رہ گئی۔ اس کی ساس کو کیسے پتا چلا کہ دراز میں نوٹ بکس تھیں ؟ اس نے انھیں حفاظت سے کاغذ میں لپیٹ کر اوپر سے گوند والی ٹیپ لگا دی تھی۔ الغرض اس نے ساس پر اپنی حیرت ذرا ظاہر نہ ہونے دی۔ ’’نہیں نہیں، میرا یہ مطلب نہیں۔ میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ تم ذرا دیکھ کر اطمینان کر لو کہ یہ وہاں موجود ہیں۔ اگلی دفعہ جب فون کر لوں گی تو پھر کچھ اور بتاؤں گی۔ ‘‘

’’اس وقت بتانے میں کیا بگڑ جائے گا؟‘‘

’’میں زیادہ دیر فون پر بات نہیں کر سکتی امّاں، بہت پیسے لگ جائیں گے۔ ‘‘

’’تو پھر فون کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ بڑی بی نے دھڑ دھڑ ٹسوے بہانے شروع کر دیے۔

’’اماں، روؤ مت، ‘‘ تمینہ نے التجا کی۔ اپنی ساس کا رونا اسے خوب یاد تھا۔ جب کبھی بڑی بی ان دونوں سے کچھ اینٹھنا چاہتیں، ساون بھادوں کی جھڑی لگا دیتیں۔ یہ ان دونوں پر الزام تراشی کا بے حد جارحانہ حربہ تھا۔

رسیور اس کی ہچکیوں سے تھرتھرانے لگا۔ ’’خدا حافظ، امّاں، ‘‘ تمینہ نے کہا، ’’جلد ہی دوبارہ فون کروں گی۔ ‘‘

تاہم تمینہ کی ہمت نہ ہوئی کہ بڑی بی کے رونا بند کرنے اور خدا حافظ کہنے سے پہلے فون منقطع کر دے۔ لیکن آنسو مسلسل بہہ رہے تھے، اور ہر آنسو فون کی قیمت میں بھاری اضافہ کیے جا رہا تھا۔

چنانچہ تمینہ نے کھٹ سے سلسلہ منقطع کر دیا۔

’’یہ تو شیطان کی آنت جتنی لمبی کال کر ڈالی تم نے، ‘‘ تمینہ کے آقا کی بیوی نے وقت کا میزان رکھنے والے آلے کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی سوگوار آواز میں کہا، پھر چیکوسلووا کیہ کے ریٹ سے اس نے کال کی مدتِ وقت کو ضرب دیا، اور تمینہ کال کی قیمت دیکھ کر خاصی وحشت زدہ ہو گئی، تاہم اس نے بغیر آناکانی کیے پوری رقم چٹ پٹ ادا کر دی۔

 

                4

 

تمینہ اور اس کا شوہر چیکوسلوواکیہ سے غیر قانونی طور پر نکلے تھے۔ ترکیب یہ کی کہ حکومتی ٹریول ایجنسی میں اپنا نام اس گروہ میں لکھوایا جو یوگوسلاویہ کے ساحلی علاقے کی سیروسیاحت کو جانا چاہتا تھا۔ اور جب وہاں پہنچ گئے تو گروہ سے کٹ کر آسٹریا ہوتے ہوئے مغرب چلے آئے۔

لوگوں کو مشتبہ نظر آنے سے بچنے کے لیے دونوں نے صرف ایک بڑا سوٹ کیس ہی ساتھ لیا تھا۔ لیکن ٹھیک آخری لمحے میں ان کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے وہ پیکٹ وہیں چھوڑ دیا جس میں ان کے ایک دوسرے کے نام خطوط اور تمینہ کی نوٹ بکس تھیں۔ کسٹم کے معائنے کے دوران ان کے مقبوضہ ملک کے کسی افسر نے اگر ان کا سوٹ کیس کھول کر تلاشی لینی شروع کر دی ہوتی تو اس بنڈل کو دیکھ کراس کا ماتھا ضرور ٹھنکتا: ساحلِ سمندر پر صرف دو ہفتے کی چھٹی منانے کے لیے کون ہوش مند اپنی نجی زندگی کا سارا دفتر ساتھ اٹھائے پھرتا ہے ؟ چونکہ وہ اس بنڈل کو اپنے اپارٹمنٹ میں نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، کہ انھیں خوب معلوم تھا کہ فرار ہوتے ہی حکومت ان کا اپارٹمنٹ اپنی تحویل میں لے لے گی، انھوں نے پراگ سے باہر تمینہ کی ساس کے اپارٹمنٹ میں، تمینہ کے مرحوم خسر کی قدیم اور غیرمستعمل ڈیسک میں اسے سینت کر رکھ دیا۔

بیرون ملک تمینہ کا شوہر سخت بیمار پڑ گیا۔ تمینہ صرف اتنا ہی کر سکی کہ بیٹھی موت کے ہاتھوں اسے آہستہ آہستہ فنا ہوتا دیکھتی رہے۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ لاش کو دفنایا جائے یا جلایا؟ اس نے جلانے کو کہہ دیا۔ پھر پوچھا گیا کہ وہ اس کی خاک کو خاکدان میں محفوظ رکھنے کے حق میں ہے یا منتشر کر دینے کے ؟ اس خیال سے کہ اس کا ذاتی گھر تو ہے نہیں، اور وہ دستی سامان کی طرح اپنے شوہر کو ہر جگہ اٹھائے پھرنے پر مجبور ہو جائے گی، تمینہ نے اس کی خاک منتشر کرا دی۔

میں دنیا کو تمینہ کے گرد ایک مدوّر چہار دیواری کی طرح اٹھتا ہوا تصور کرتا ہوں، اور خود تمینہ کو بہت نیچے سبزے کے ایک ننھے سے قطعے کی طرح۔ اس قطعے پر پھلنے پھولنے والا واحد گلاب اس کے شوہر کی یاد ہے۔

یا پھر میں تمینہ کے حال کا (جو لوگوں کو قہوے کے پیالے پیش کرنے اور ان کی لن ترانیوں کو بہ کمال خاموشی سننے سے عبارت ہے ) اس طرح تصور کرتا ہوں جیسے لٹّھوں کا کوئی ٹھاٹھہ سطح آب پر بہا جا رہا ہو، جس پر بیٹھی وہ پیچھے کی طرف دیکھے جا رہی ہو، صرف پیچھے کی طرف۔

ان دنوں وہ بڑی حسرت سے یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ ماضی آہستہ آہستہ دھندلا کر اس کی پہنچ سے نکلا جا رہا ہے۔ اپنے شوہر کی باقیات میں اس کے پاس صرف ایک پاسپورٹ سائز کی تصویر رہ گئی ہے۔ بقیہ تمام تصاویر وہیں پراگ والے اپارٹمنٹ میں رہ گئی ہیں، جس پر اب حکومت نے قبضہ کر لیا ہو گا۔ ہر روز وہ اس میلی کچیلی تصویر کو دیکھتی ہے جس کے کونے دستبردِ زمانہ سے تڑ مڑ گئے ہیں۔ اس میں اس کے شوہر کا پورا چہرہ دکھایا گیا ہے (جس طرح کسی مجرم کی تصویر میں ہوتا ہے )۔ شباہت بھی کچھ اتنی واضح نہیں۔ وہ ہر روز تھوڑا سا وقت ایک قسم کی روحانی ریاضت میں گزارتی ہے۔ یہ یاد کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ یک رخی خاکے (profile) میں کیسا لگتا، پھر نصف، اور پھر ایک چوتھائی یک رخی خاکے میں۔ اس کی ناک اور ٹھوڑی کے خط کا معائنہ کرتی ہے۔ روز ہی نئے نئے مبہم اور غیر واضح دھبوں کو دیکھ کر، جن تک پہنچ کر اس کا حافظہ ٹھٹک کر کھڑا ہو جاتا ہے اور طے نہیں کر پاتا کہ آگے کس سمت میں جائے، مارے دہشت کے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اس قسم کی مشقوں کے درمیان وہ اس کی جلد کو مع اس کی رنگت، اس کے معمولی نقائص، مثلاً مہین مہین مسّے، گومڑیاں، رگیں، جھائیاں، تصور میں ابھارنے کی کوشش کرتی، لیکن یہ مشکل، بلکہ تقریباً ناممکن ثابت ہوتا۔ اس کا حافظہ جن رنگوں کا استعمال کرتا، تمام غیر حقیقی ہوتے اور انسانی جلد کے صحیح رنگ کے ساتھ انصاف نہ کر پاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنے شوہر کی تخئیلی بازیافت کا ایک بہت ذاتی اور منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جب بھی وہ کسی مرد کے آمنے سامنے بیٹھتی تو اس کے سر کو سنگتراش کے armature کے طور پر استعمال کرتی۔ اپنی تمام تر قوتِ ارتکاز کو کام میں لا کے اس آدمی کے چہرے کو اپنے ذہن میں نئے سرے سے ڈھالتی، جلد کے رنگ کو قدرے گہرا کر دیتی، اس پر مسوں اور جھائیوں کا اضافہ کر دیتی، کانوں کی آہستہ آہستہ تراش خراش کرتی اور آنکھوں کو نیلا رنگ دیتی۔

لیکن ان تمام کوششوں سے اگر کچھ ثابت ہوتا تھا تو بس یہ کہ اس کے خاوند کا عکس ہمیشہ کے لیے محو ہو چکا ہے۔ جن دنوں انھوں نے ابھی ابھی ڈیٹنگ شروع کی تھی، اس نے تمینہ سے کہا تھا کہ وہ باقاعدہ ڈائری لکھا کرے اور اس میں دونوں کی زندگی کا حساب کتاب رکھا کرے۔ (وہ عمر میں تمینہ سے دس سال بڑا تھا اورانسانی حافظے کی کمزوری کا اسے بہرحال کچھ اندازہ ضرور تھا۔ ) اول اول تمینہ نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا، یہ تو ان کی محبت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوا۔ اسے اپنے شوہر سے اتنی شدید محبت تھی کہ وہ یہ اعتراف نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ چیز جسے وہ ناقابلِ فراموش سمجھتی ہے، کبھی فراموش بھی ہو سکتی ہے۔ آخر میں، بہرحال، اس نے وہی کیا جو اس کا شوہر چاہتا تھا۔ یوں اس نے ڈائری لکھنا شروع تو کر دی، لیکن تحریر میں جوش اور ولولہ پیدا نہ کر سکی — اور یہ بات ان نوٹ بکس سے صاف ظاہر ہو جاتی تھی۔ ان میں جگہ جگہ کئی کئی صفحے خالی تھے، پھر اندراجات بھی خاصے شکستہ اور نامکمل۔

 

                5

 

اس نے بوہیمیا (Bohemia) میں پورے گیارہ سال اپنے شوہر کے ساتھ گزارے تھے، اور پیچھے پوری گیارہ نوٹ بکس اس کی ساس کے قبضے میں پڑی تھیں۔ شوہر کے انتقال کے فوراً بعد اس نے ایک نوٹ بک خریدی اور اسے گیارہ حصوں میں تقسیم کیا۔ گو وہ کئی نیم فراموش کردہ واقعات اور صورت حالات کو ازسرنو شکل دینے میں کامیاب ہو گئی تھی، لیکن یہ بالکل معلوم نہ ہو سکا کہ انھیں درج کرے تو کس حصے میں۔ واقعات کی زمانی ترتیب کا سارا احساس زائل ہو چکا تھا۔

چنانچہ اس نے سب سے پہلے جس کام کا بیڑا اٹھایا وہ یادوں کی بازیافت کا تھا، تاکہ وقت کے بہاؤ میں ان سے ایک ریفرنس پوائنٹ کا کام لیا جا سکے اور یوں وہ ماضی کو دوبارہ تخلیق کرنے میں ایک بنیادی ڈھانچے کی طرح ثابت ہوں۔ مثال کے طور پر، وہ چھٹیاں جو انھوں نے منائی تھیں، انھیں تعداد میں گیارہ ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ان میں سے صرف نو ہی یاد کر سکی۔ بقیہ دو حافظے سے اس طرح گم ہو چکی تھیں کہ بازیافت ناممکن تھی۔

ان نو، ازسرنو تخلیق کردہ، تعطیلات میں سے ہر ایک کو اس نے اپنی نوٹ بک کے گیارہ حصوں میں جدا جدا درج کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اسے اس پر مکمل اعتماد اسی وقت حاصل ہو سکتا تھا جب اس سال کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہو۔ 1964 میں تمینہ کی ماں کا انتقال ہوا تھا اور معمول سے ایک ماہ بعد ان دونوں نے چند سوگوار تعطیلی ہفتے تترس (Tatras) میں گزارے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس سے اگلے سال وہ ساحلِ آب کی تفریح کے لیے بلغاریہ گئے تھے۔ اسے 1968 اور 1969 والی تعطیلات بھی یاد تھیں کیونکہ یہ چیکوسلوواکیہ میں ان کی آخری چھٹیاں تھیں۔

(زمانی ترتیب برطرف) اگر بیشتر چھٹیوں کو ازسرنو تخلیق کرنے میں اسے بہتر کامیابی ہو بھی گئی تو کرسمس اور نئے سال کے موقعے بالکل قابو میں نہ آ سکے۔ گیارہ میں سے صرف دو کرسمس اور بارہ نئے سالوں میں سے صرف پانچ ہی اسے یاد آ سکے۔

اس نے ان پیار کے ناموں کو یاد کرنے کی کوشش بھی کی جن سے اُس نے اِسے مختلف اوقات میں پکارا تھا۔ تمینہ کے اصلی نام کواس نے صرف شادی کے بعد کے دو ایک ہفتوں ہی تک استعمال کیا تھا۔ اس کی شفقت اور نرمی اس مشین کی طرح تھی جس سے پیار کے نت نئے نام ڈھلے ڈھلائے نکلے چلے آتے تھے اور اس سے پہلے کہ ان میں کا کوئی نام پیش پا افتادہ ہو جائے، وہ بڑی پھرتی سے ایک اور نیا نام وضع کر لیا کرتا تھا۔ ان بارہ برسوں میں جو دونوں نے ساتھ گزارے تھے، اس نے بیس تیس نام تو کم از کم اسے ضرور دے ڈالے ہوں گے۔ ان سے ہر ایک کا تعلق ان کی زندگی کے ایک خاص اور معینہ دور سے تھا۔

لیکن وہ اس گمشدہ کڑی کو کیسے بحال کر سکتی تھی جو پیار کے کسی مخصوص نام اور وقت کے بہاؤ کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہو؟ یہ کامیابی تو بہت نایاب موقعوں ہی پر ہو سکی۔ مثلاً وہ اپنی ماں کی وفات کے بعد والے دن یاد کر سکتی تھی جب اس کے شوہر نے بالکل قریب آ کر، جیسے اسے کسی خواب سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہو، بڑے تعمیل طلب انداز میں اس کا نام سرگوشیوں میں لیا تھا (اس کا وہ نام جو اس نے اسے اُن دنوں دے رکھا تھا)؛ ہاں، تو یہ نام اسے خوب یاد تھا۔ وہ اسے نہایت اعتماد کے ساتھ 1964 کے تحت درج بھی کر سکتی تھی۔ لیکن بقیہ دوسرے نام چڑیا گھر سے مفرور پرندوں کی طرح، بہ کمال آزادی و جنوں، وقت کے باہر اڑتے پھر رہے تھے۔

یہی وجہ ہے جو وہ اس شدید وارفتگی سے نوٹ بکس اور خطوں کے اس بنڈل کی بازیافت کی خواہاں ہے۔

ظاہر ہے وہ خوب جانتی ہے کہ ان نوٹ بکس میں بہت سی ناخوشگوار باتیں بھی درج ہیں — ناآسودگی کے دن، ازدواجی چپقلشیں، حتیٰ کہ اکتاہٹ اور بیزاری بھی — تاہم یہ چیزیں بے حیثیت ہیں۔ اس نے کب یہ چاہا ہے کہ ماضی شعر میں بدل جائے ؛ وہ تو اس بات کی کوشاں ہے کہ ماضی کواس کا گمشدہ جسم لوٹا دے۔ اس جذبے کا محرک خواہشِ حسن نہیں، بلکہ آرزوئے حیات ہے۔

سو دیکھیے، وہ وہاں لٹھوں کے ٹھاٹھے پر بیٹھی ہوئی پیچھے کی طرف دیکھے جا رہی ہے، صرف پیچھے کی طرف۔ اس کی زندگی کی ساری پونجی اس سے زیادہ نہیں جو اسے فاصلے میں نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں اس کا ماضی سمٹتا، غائب ہوتا اور پارہ پارہ ہوتا جاتا ہے، خود تمینہ بھی اسی تناسب سے سمٹنا اور دھندلانا شروع کر دیتی ہے۔

وہ ان نوٹ بکس کو دیکھنے کو اس لیے تڑپ رہی ہے کہ ان کی مدد سے اس نئی نوٹ بک میں واقعات کے خستہ حال ڈھانچے کو مکمل کر سکے، اس کو در و دیوار سے آراستہ کر سکے، اور یوں اس کا ایک گھر بنا دے جس میں رہ سکے۔ کیونکہ ایک بری طرح نصب کیے ہوئے خیمے کی طرح اگر اس کی یادوں کا مرتعش ڈھانچا نیچے آ رہا تو پھر تمینہ کے پاس حال کے سوا کچھ باقی نہ بچے گا— وہ حال جو ایک غیر مرئی نقطے کی طرح ہے، اور موت کی طرف آہستہ خرام کوئی لاشے۔

 

                6

 

تو پھر کیوں اس نے اپنی ساس سے پیکٹ بھیج دینے کی درخواست کرنے میں اتنی دیر لگا دی؟

چیکوسلووا کیہ سے باہر جانے والی ساری ڈاک خفیہ پولیس کے ہاتھوں سے ہو کر ہی جاتی تھی۔ تمینہ اس بات پر کبھی راضی نہ ہو سکی کہ پولیس والے اس کے بے حد نجی معاملات میں دخیل ہوں۔ پھر یہ بھی کہ اس کے شوہر کا نام (جو ہنوز اس کا اپنا نام بھی تھا) اب بھی بلیک لسٹ پر چڑھا ہوا ہو گا، اور پولیس والے ہمیشہ ایسے شواہد اور دستاویزات کے متلاشی رہتے ہیں جن کا تعلق ان کے مخالفین کی زندگیوں سے ہو، حتیٰ کہ ایسے مخالفین سے بھی جو کب کے مر کھپ چکے ہوں۔ (تمینہ اس معاملے میں غلطی پر نہ تھی: پولیس کی مِسلوں پر ہی ہم اپنے جاوداں ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ )

بہ الفاظِ دیگر، اس کی رہی سہی امید بس اب بی بی ہی سے وابستہ ہے۔ اور بی بی سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ بی بی بناکا سے ملنا چاہتی ہے۔ چنانچہ اسے بناکا کی کتابوں میں سے کم از کم ایک کتاب کے پلاٹ سے تو ضرور واقف ہونا چاہیے، یہ تمینہ کا خیال ہے۔ کبھی دورانِ گفتگو اسے اس قسم کے خیال کا اظہار کرنا چاہیے : ’’بالکل ٹھیک۔ اس سے ملتی جلتی بات تم نے فلاں کتاب میں کہی ہے !‘‘ یا: ’’جانتے ہو، تم عین مین اپنے کرداروں کی طرح ہو!‘‘ تمینہ کو خوب معلوم ہے کہ بی بی کے اپارٹمنٹ میں کہیں ایک کتاب کا وجود نہیں۔ یہی نہیں، پڑھنا پڑ جائے تو مارے بوریت کے بی بی کے آنسو نکل آتے ہیں۔ چنانچہ تمینہ کو لازم آتا ہے کہ خود معلوم کرے کہ بناکا کن موضوعات پر لکھتا ہے، اور بی بی کو اس سے گفتگو کے واسطے باقاعدہ تیار کرے۔

ممکن ہے ہیوگو کو، جو کیفے کے باقاعدہ گاہکوں میں سے ہے، کچھ سن گن ہو۔ ’’تم بناکا کو جانتے ہو؟‘‘ تمینہ نے کافی کاپیالہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے دریافت کیا۔

ہیوگو کے منھ سے ہمیشہ بدبو آیا کرتی تھی۔ ورنہ بقیہ اعتبارات سے تمینہ اسے کافی گوارا عادت پاتی تھی: خاموش طبع، شرمیلا، عمر میں تمینہ سے پانچ سات سال چھوٹا۔ وہ ہفتے میں ایک بار کیفے آتا۔ یہاں اس کا مشغلہ باری باری ندیدی نظروں سے ان کتابوں کو جو وہ اپنے ساتھ لاتا تھا اور اتنی ہی ندیدی نظروں سے کاؤنٹر کے پیچھے ایستادہ تمینہ کو دیکھنا ہوتا تھا۔

’’ہاں، میں اسے جانتا ہوں، ‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’اس کی کسی کتاب کا موضوع بتا سکتے ہو؟‘‘

’’دیکھو تمینہ، ‘‘ ہیوگو نے کہا، ’’آج تک کسی نے — اور میں تاکیداً کہتا ہوں، کسی نے — اس کی لکھی ہوئی کوئی چیز نہیں پڑھی ہے، یا کم از کم یہ اعتراف نہیں کیا کہ پڑھی ہے۔ وہ دوسرے، تیسرے، بلکہ یوں کہو کہ دسویں درجے کا ادیب ہے۔ سب جانتے ہیں۔ اس کی شہرت صفر کے برابر ہے۔ چنانچہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے اس کے پاس سواے حقارت کے اور کوئی چیز نہیں۔ ‘‘

تمینہ نے بناکا کی لکھی ہوئی کتابوں کو حاصل کرنے کی جستجو چھوڑ دی، تاہم بی بی کو اس سے ملوانے کو وہ اب بھی اپنی ذمے داری سمجھتی تھی۔ وہ گاہے بگاہے اپنے اپارٹمنٹ کو، جو سارا دن خالی پڑا رہتا تھا، یویو (Joujou) نامی ایک نوجوان، شادی شدہ، جاپانی لڑکی کو فلسفے کے ایک پروفیسر کے ساتھ، جو خیر سے خود بھی شادی شدہ تھا، اپنی خفیہ عاشقانہ ملاقات کے لیے استعمال کرنے دیتی تھی۔ یہ پروفیسر بناکا سے واقف تھا، اور تمینہ نے عاشقوں کی اس جوڑی سے وعدہ کرا کے چھوڑا کہ ایک ایسے دن جب بی بی یہاں موجود ہو، وہ بناکا کو گھیر گھار کے یہاں لے آئیں گے۔

جب بی بی کو اس بات کا پتا چلا تو اس کا ردِ عمل یہ تھا: ’’ہو سکتا ہے کہ یہ بناکا خاصا حسین آدمی نکلے، اور تمھاری جنسی خشک سالی کے دن پورے ہوں۔ ‘‘

 

                7

 

بالکل درست۔ شوہر کی وفات کے بعد سے آج تک تمینہ کسی مرد کے ساتھ نہیں سوئی تھی۔ یہ کسی اصول کی پابندی کی بنا پر نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے اپنی یہ جنسی وفاداری، جو قبر کے ماورا بھی قائم تھی، خاصی مہمل نظر آتی، اور واقعہ یہ ہے کہ اس نے اس بارے میں کبھی ڈینگ بھی نہیں ماری تھی۔ تاہم وہ جب بھی کسی مرد کے سامنے اپنے برہنہ ہونے کا تصور کرتی (اور یہ تصور وہ اکثر کیا کرتی) تو اس کے شوہر کا پیکر یکلخت اس کی نظروں کے سامنے تیر جاتا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ ہم جسمی کے دوران وہ اسے مستقل دکھائی دیتا رہے گا۔ اسے پتا تھا کہ اسے اُس کا چہرہ نظر آتا رہے گا، اور اُس کی اپنے پر ثبت آنکھیں بھی۔

ظاہر ہے یہ بڑی بے ڈھب بات تھی، بالکل احمقانہ، اور اس سے مخفی بھی نہیں۔ اس کے شوہر کی روح مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گی، اس بات پر اس کا عقیدہ نہ تھا۔ پھر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر اس نے ایک آدھ عاشق ڈھونڈ نکالا تو اس بات سے اس کے شوہر کی یاد کو کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ اس کے باوجود وہ اس معاملے میں بالکل بے بس تھی۔

یہ ذرا عجیب تو بے شک لگے گا، تاہم اسے یہ خیال بھی آتا کہ اگر وہ اپنے شوہر کی زندگی ہی میں کسی اور مرد کے ساتھ سو لی ہوتی تو آج کسی کے ساتھ ہم بستری کہیں آسان ثابت ہوتی۔ ا س کا شوہر ایک مطمئن، کامیاب، اور گرم جوش آدمی تھا، اور تمینہ نے مقابلتاً خود کو ہمیشہ ہی کمزور محسوس کیا تھا۔ اسے ہمیشہ یہی لگتا کہ اگر وہ چاہے تو بھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی جس سے اس کے شوہر کی دل آزاری ہو۔

لیکن اب صورتِ حال مختلف تھی۔ اب اگر کوئی ایسا قدم اٹھائے تو وہ اس سے ایک ایسے شخص کو ایذا پہنچائے گی جو پلٹ کر اس کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے، جو اَب اس کا اتنا ہی دست نگر ہے جتنا ایک بچہ ہوتا ہے۔ پوری کائنات میں اب صرف وہی اپنے مرحوم شوہر کی رہ گئی تھی — صرف وہی!

یہی وجہ تھی کہ جس لمحے کسی غیر مرد کے ساتھ جسمانی محبت کے امکان کا خیال اسے بھولے سے بھی آتا، اس کے شوہر کا پیکر اس کے سامنے آدھمکتا، اور ساتھ ہی اس کے لیے بے پناہ خواہش، اور خواہش کے ساتھ رو دینے کی پُر زور تڑپ۔

 

                8

 

بناکا بد شکل آدمی تھا — اس قسم کا آدمی نہیں جو عورت کی خوابیدہ شہوانیت کو جگا سکے۔ تمینہ نے اسے چائے پیش کی اور اس نے بڑے احترام سے شکریہ ادا کیا۔ گفتگو کا کوئی خاص مرکز نہ تھا، اور سبھی اس سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اچانک بناکا مڑا اور مسکرا کر بی بی سے بولا، ’’سننے میں آ رہا ہے کہ تم کوئی کتاب وِتاب لکھنے والی ہو۔ کاہے کے بارے میں ہو گی؟‘‘

’’بس، ‘‘ بی بی نے کہا، ’’ایک ناول لکھنا چاہتی ہوں۔ جس طرح مجھے دنیا نظر آتی ہے، اُس کے بارے میں۔ ‘‘

’’ناول؟‘‘ بناکا کے استفسار میں ناپسندیدگی کا شائبہ تھا۔

’’کوئی ضروری نہیں ناول ہی ہو، ‘‘ بی بی نے جواباً کہا، یوں جیسے اچانک اپنے بارے میں شک میں پڑگئی ہو۔

’’کبھی سوچا بھی ہے کہ ناول میں کیا کچھ کاٹھ کباڑ ڈالنا پڑتا ہے ؟‘‘ اس نے کہا، ’’مثلاً اب وہ بھانت بھانت کے کردار ہی لے لو۔ تو کیا ان کرداروں کے بارے میں تم سب کچھ جانتی ہو؟ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں ؟ کیسے سوچتے ہیں ؟ کس قسم کے کپڑے پہنتے ہیں ؟ کس ماحول سے آئے ہیں ؟ تمھیں ان باتوں سے بھلا کیا لینادینا، کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘

’’بالکل، ‘‘ بی بی نے فوراً مان لیا۔ ’’مجھے ان باتوں کی مطلق پروا نہیں۔ ‘‘

جانتی ہو، ‘‘ وہ اپنی ہانکے گیا، ’’ناول اس انسانی فریبِ نظر کا ثمر ہوتے ہیں جس کی رو سے ہم اپنے بھائی بندوں کو سمجھنے کے مدعی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہی کیا ہیں !‘‘

’’کچھ بھی نہیں، ‘‘ بی بی نے کہا۔

’’بالکل سچ ہے، ‘‘ یویو نے ٹکڑا لگایا۔

فلسفے کے پروفیسر صاحب نے سر ہلا کر تائید کی۔

’’ہم صرف یہ کر سکتے ہیں، ‘‘ بناکا نے کہا، ’’کہ خود اپنی ذات کا کچا چٹھا پیش کر دیں۔ اس کے علاوہ ہر شے طاقت کا غلط استعمال ہی ٹھہرے گی۔ اس کے علاوہ ہر چیز جھوٹ ہے۔ ‘‘

’’سچ، بالکل سچ!‘‘ بی بی نے پر جوش اعتراف کیا، ’’میں ناول نہیں لکھنا چاہتی۔ لکھنے سے میرا مطلب یہ تھا بھی نہیں۔ میرا مطلب تو من و عن وہی تھا جو آپ نے ابھی ابھی بیا ن کیا ہے۔ یعنی انکشافِ ذات — اپنی زندگی کا حساب دینا۔ اور میں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کروں گی کہ میری زندگی بڑی معمولی ہے، مجھے کبھی کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ ‘‘

بناکا مسکرایا۔ ’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے دیکھو۔ باہر سے دیکھو تو خود مجھ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’بالکل ٹھیک کہا!‘‘ بی بی نے نعرہ لگایا، ’’بالکل ٹھیک! مجھے باہر سے دیکھو، مجھ میں سرخاب کے کوئی پر نہیں لگے ہیں۔ باہر سے ! کیونکہ میرے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، اندرونی طور پر، لکھنے لکھانے کے قابل تو اصل میں وہی ہے۔ اور لوگ بھی اسی کو پڑھنا چاہیں گے۔ ‘‘

دریں اثنا، تمینہ ان کی خالی ہوتی ہوئی پیالیوں میں مسلسل چائے ڈالتی رہی۔ وہ خوش تھی کہ یہ دونوں مرد، جو ذہن کے کوہِ اولمپس سے اس کے اپارٹمنٹ میں قدم رنجہ ہوئے تھے، اس کی سہیلی کے ساتھ اچھا سلوک کر رہے تھے۔

فلسفے کے پروفیسر نے اپنے پائپ کا لمبا سا کش لیا اور دھوئیں کے پیچھے چھپ گیا، یوں جیسے اپنے پر نادم ہو۔

’’جوائس کے آنے کے بعد سے ہم آگاہ ہوئے ہیں، ‘‘ اس نے کہا، ’’کہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا ایڈونچر، ہماری زندگی کا ایڈونچر سے تہی ہونا ہے۔ اوڈیسس ٹرائے میں لڑائی لڑا۔ خو د کشتی کھینچتا ہوا گھر واپس لوٹا، اور ہر جزیرے میں پیچھے ایک داشتہ چھوڑتا آیا— نہیں صاحب، یہ ہماری زندگی کا نقشہ ہرگز نہیں۔ ہومر کا ہفت خواں (Odyssey) اب انسان کے باطن میں واقع ہوتا ہے۔ آدمی نے اسے اپنے اندر اتار لیا ہے۔ جزیرے، سمندر، سائرن2 جو ہمیں پھانسنے کو تلی بیٹھی رہتی ہیں اور اِتھاکا (Ithaca) جو ہمیں اپنی طرف آنے کی ترغیب دیتا ہے —یہ سب گھٹ گھٹا کر بس اب ہمارے اندر اٹھنے والی آوازیں ہی رہ گئے ہیں۔ ‘‘

’’بالکل ٹھیک! میں بھی بالکل یہی محسوس کرتی ہوں !‘‘ بی بی نے ہانک لگائی۔ ’’اسی لیے، مسٹر بناکا، میں آپ سے مل کر معلوم کرنا چاہتی تھی کہ آدمی ان باتوں کو کس طرح لکھے۔ اکثر مجھے لگتا ہے جیسے میرا پورا جسم اظہار کی شدید خواہش سے پھٹا جا رہا ہے۔ یہ بات کرنا چاہتا ہے، کچھ کہنا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ میرا دماغی توازن جاتا رہے گا۔ میں اپنی اندرونی گھٹن سے پھٹ پڑوں گی۔ مسٹر بناکا، آپ تو اِس کیفیت سے خوب واقف ہوں گے۔ میں اپنی رام کہانی سنانا چاہتی ہوں۔ اپنے جذبات کی کہانی۔ سچ مچ یہ بالکل منفرد ہیں — یقین جانیے — لیکن میرے ہاتھ میں کاغذ پکڑا دیجیے اور مجال ہے جو یہ خیالات باقی رہیں۔ فوراً رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ میرے خیال میں سارا مسئلہ تکنیک کا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے جو آپ جانتے ہیں اور جو میں نہیں جانتی۔ آپ کی کتابیں — یہ کس قیامت کی ہوتی ہیں …‘‘

 

                9

 

یہاں ان دونوں سقراطوں نے لکھنے لکھانے کے فن پر جو لیکچر اس عورت کو دیے، میں ان کو سنا کر آپ کی سمع خراشی نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی بجائے میں ایک بالکل مختلف چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ حال ہی میں پیرس میں میں نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی۔ میں شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے کو جا رہا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور خاصا باتونی آدمی نکلا۔ وہ رات کو نیند نہ آنے کی شکایت کرنے لگا۔ غالباً بے خوابی کے مرض میں بری طرح مبتلا تھا۔ یہ سب اس کے ساتھ جنگ کے دوران شروع ہوا تھا۔ وہ ایک ملاح تھا۔ اس کی کشتی ڈوب گئی تھی۔ وہ تین دن اور تین راتیں مسلسل تیرتا رہا، تاآنکہ اس کی جان بچا لی گئی۔ اگلے چند ماہ وہ مستقل زندگی اور موت کے درمیان معلق رہا، اور گو آخر میں اس کی صحت بحال ہو گئی، تاہم سونے کی صلاحیت جاتی رہی۔

’’میں آپ کے مقابلے میں ایک تہائی زیادہ زندگی گزارتا ہوں، ‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔

’’اس زائد تہائی کا بھلا کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’لکھتا لکھاتا ہوں، اور کیا، ‘‘ اُس نے جواب دیا۔

میں نے پوچھا، ’’کیا لکھتے لکھاتے ہو؟‘‘

’’اپنی زندگی کی کہانی — اس آدمی کی کہانی جو مسلسل تین دن تک سمندر میں تیرتا رہا، موت کے سامنے ڈٹا رہا، سونے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھا، لیکن زندہ رہنے کی قوت کا برابر تحفظ کیے گیا۔ ‘‘

’’تو کیا یہ سب تم اپنے بچوں وچوں کے واسطے لکھ رہے ہو؟ خاندانی کوائف قسم کی چیز؟‘‘

’’میرے بچوں کو اس کی ذرا پروا نہیں۔ ‘‘ وہ تلخی سے ہنسا۔ ’’نہیں، میں ان واقعات کو جوڑ توڑ کر کتاب بنا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے اس کو پڑھ کر بہت سوں کا بہت بھلا ہو گا۔ ‘‘

ایک ادیب کے سروکار کی نوعیت کیا ہوتی ہے، اس کے بارے میں مجھے ایک اتفاقیہ بصیرت ٹیکسی والے سے گفتگو کرتے ہوئے ہاتھ آئی — ہم کتابیں اس لیے لکھتے ہیں کہ ہماری اولاد کو ذرا پروا نہیں ہوتی۔ ہم اس لیے ایک انجانی کائنات کی طرف رخ کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی بیوی سے بات کرتے ہیں تو وہ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتی ہے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ڈرائیور کو کہیں لکھنے لکھانے کا جنون (graphomania) تو نہیں تھا۔ چلیے پہلے اس اصطلاح کی تعریف کر لیں۔ ایک عورت جو اپنے عاشق کو یومیہ چار خط لکھتی ہے، ہرگز اِس مرض میں مبتلا نہیں ؛ وہ تو صرف ایک محبت میں غرق عورت ہوتی ہے۔ لیکن یہ میرا دوست جو اپنے عشقیہ خطوط کے فوٹواسٹاٹ نکالتا ہے، صرف اس لیے کہ کسی دن ان کو شائع کر سکے، تو یقیناً  میرا دوست اس مرض کا شکار ہے۔ گرافومینیا خط، ڈائری یا خاندانی روزنامچہ (جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے لکھا جائے ) لکھنے کی خواہش کا نام نہیں، بلکہ کتاب لکھنے کی خواہش کا نام ہے (تاکہ گمنام پڑھنے والوں کا ایک پورے کا پورا غول آدمی کے ہاتھ آ لگے )۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو ٹیکسی ڈرائیور اور گوئٹے (Goethe) دونوں میں لکھنے کا جنون مشترک نظر آئے گا۔ تاہم جو بات گوئٹے کو ٹیکسی ڈرائیور سے ممتاز کرتی ہے وہ اس جنون سے پیدا ہونے والا نتیجہ ہے، بذاتِ خود جنون نہیں۔

گرافومینیا (یعنی کتابیں لکھنے کا سودا) معاشرے میں اس وقت عام وبا کی شکل اختیار کر لیتا ہے جب معاشرہ اتنی ترقی کر چکا ہو کہ یہ تین بنیادی صورتیں بہم پہنچا سکے :

(1)   عام فلاح و بہبود کا وہ درجہ جہاں لوگ اپنی قوتوں کو فضولیات کے لیے وقف کرنے کے قابل ہو جائیں۔

(2)   معاشرتی ترذید (atomisation) کا خاصا بڑھا ہوا درجہ اور نتیجے میں پیدا ہونے والا فرد کا احساسِ تنہائی۔

(3)   قوم کے ارتقائے باطنی میں کسی اہم سماجی تبدیلی کا بھیانک فقدان۔ (اس ضمن میں مجھے یہ بات کسی مرض کی علامت معلوم ہوتی ہے کہ فرانس، یعنی اس ملک میں جہاں ہوتا ہوا تا کچھ نہیں، ادبا کی تعداد اسرائیل میں پائے جانے والے ادیبوں سے اکیس فیصد زیادہ ہے۔ بی بی نے بالکل ٹھیک دعویٰ کیا تھا کہ اُس نے باہر سے کسی چیز کا سرے سے کوئی تجربہ ہی نہیں کیا ہے۔ نفسِ مضمون (content) کا یہی نہ ہونا، یہی خالی پن ہے جو موٹر چلانے کے لیے توانائی بہم پہنچاتا ہے، اور اسے لکھنے پر اکساتا ہے۔ )

لیکن معلول کو دیکھ کر علل کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو بہرحال ہو ہی جاتا ہے۔ اگر تنہائی کا عام احساس گرافومینیا کو راہ دیتا ہے، تو خود جم غفیر کا اجتماعی گرافومینیا عام احساس تنہائی کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے سنگین کر دیتا ہے۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے اصلاً تو باہمی تفہیم کو فروغ دیا تھا۔ لیکن گرافومینیا کے حوالے سے لکھنے لکھانے کا اثر بالکل الٹ ہوتا ہے : یعنی ہرکس وناکس اپنے نوشتے کے انبار میں چاروں طرف سے گھرا بیٹھا رہتا ہے، گویا یہ آئینوں سے مرصع دیوار ہو جو باہر سے آنے والی ہر آواز کا قلع قمع کر رہی ہو۔

 

                10

 

ایک روز جب کیفے میں کوئی گاہک موجود نہ تھا اور وہ بیٹھی اس سے گپ لگا رہی تھی، ہیوگو نے کہا، ’’تمینہ، مجھے خوب معلوم ہے کہ اس معاملے میں کامیابی کا ذرہ برابر امکان نہیں، چنانچہ میں بات گھما پھرا کر نہیں کہوں گا۔ یہ بتاؤ، کیا تم اتوار کو رات کے کھانے پر میرے ساتھ چل سکتی ہو؟‘‘

پیکٹ اس کی ساس کے پاس صوبائی گھر میں ہے۔ تمینہ چاہتی ہے کہ پیکٹ کسی طرح اس کے باپ کے پاس پہنچ جائے جو پراگ میں رہتا ہے، تاکہ بی بی جا کر وہاں سے لے آئے۔ یوں دیکھیے تو اب یہ کوئی ایسا بھاری کام نہیں — اِس سے زیادہ آسان بھلا اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ تاہم تمینہ کو اپنا مدعا ان دونوں بلا کے ضدی بڈھے بڑھیا کو سمجھانے کے لیے کافی وقت اور پیسہ درکار ہو گا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک فون کرنا کافی مہنگا پڑتا ہے، اور تمینہ کو جو تنخواہ ملتی ہے اس سے کرائے اور کھانے پینے کا بندوبست بھی بمشکل ہو پاتا ہے۔

’’ٹھیک ہے، ‘‘ تمینہ، یہ یاد کر کے کہ ہیوگو کے گھر ٹیلی فون لگا ہے، راضی ہو گئی۔ وہ اسے کار میں لینے آیا، پھر ایک مضافاتی ریستوراں میں لے گیا۔

وہ چاہتا تو تمینہ کے ساتھ فاتح کی سی زبردستی کر سکتا تھا، وہ اس کا کیا بگاڑ لیتی۔ اس ملک میں اس کی حیثیت ہی کیا تھی۔ لیکن اب کیا کیا جائے کہ ایک کم تنخواہ ویٹرس کے عقب میں وہ اُسے ایک پراسرارغیرملکی عورت اور ایک بیوہ ہی نظر آتی تھی۔ اُس کے قدم لڑکھڑانے لگتے اور شک آ گھیرتا۔ تمینہ کا لطف و کرم، زرہ بکتر کی طرح، اس کا سب سے بڑا محافظ تھا، ایک بلٹ پروف ویسٹ (bullet- proof vest)۔ وہ تو یہ چاہتا تھا کہ تمینہ کی توجہ اپنی طرف کرائے، اس کا دل موہ لے، اس کے خیالات میں جاگزیں ہو جائے۔

بہت سر مارا کہ تمینہ کی دلچسپی کی کوئی شے ہتھے چڑھ جائے اور اس طرح وہ اس کے دل تک راہ پائے۔ چنانچہ منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے وہ اسے ایک چڑیا گھر لے گیا جو ایک بے حد دلکش کنٹری شاتو (country chateau) کی اراضی پر پھیلا ہوا تھا۔ گوتھک طرز کے لحیم شحیم بُرجوں کے پس منظر میں وہ بندروں اور طوطوں کے درمیان سیر کرتے رہے۔ سواے ایک دہقان صورت، اَن گھڑ مالی کے، جو کشادہ روشوں پر منتشر پتوں کو جھاڑو دے کر صاف کر رہا تھا، وہ بالکل تنہا تھے۔ ایک بندر، ایک شیر، اور ایک بھیڑیے کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ ایک ایسے قطعے پر نکل آئے جس کے گرد احاطہ تھا اور اس میں شترمرغ گھومتے پھر رہے تھے۔

کل چھ شترمرغ تھے۔ جب انھوں نے تمینہ اور ہیوگو کو دیکھا تو دوڑ لگا کر فوراً ان کے پاس چلے آئے اور تار کے احاطے کے اس طرف پاس پاس ایک گروہ کی شکل میں کھڑ ے ہو گئے۔ اپنی لمبی لمبی گردنیں دراز کیں اور دونوں کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی چوڑی اور چپٹی چونچوں کو پھٹ پھٹ کھولنے اور بند کرنے لگے، ایک بے قراری، ایک ناقابلِ یقین تیز رفتاری کے ساتھ، جیسے کسی مباحثے میں شریک ہوں اور تیز تیز باتیں کر کے حریف پر سبقت لے جانے کے درپے ہوں۔ لیکن ان کی چونچیں بالکل گونگی تھیں۔ ان سے ذرہ برابر آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔

شترمرغ وہ پیغامبر تھے جنھوں نے اپنے نہایت اہم پیغام کو دل پر نقش کر لیا تھا، لیکن جن کی صوتی نالیوں کو دشمن نے چاک کر کے انھیں قوتِ گویائی سے محروم کر دیا تھا؛ چنانچہ اب، منزلِ مقصود کو پہنچ کر وہ اتنا ہی کر سکتے تھے کہ محض اپنے منھ ہلائے جائیں۔

تمینہ، سحرزدہ سی، انھیں تیز سے تیز تر، نہایت تعمیل طلب انداز میں اپنا منھ ہلاتے دیکھتی رہی۔ جب وہ اور ہیوگو وہاں سے ٹلے تو شترمرغ بھی ان کے پیچھے پیچھے احاطے کی دیوار سے لگے لگے چلنے لگے۔ وہ اب بھی اپنی چونچیں چلائے جا رہے تھے، گویا تمینہ کو کسی چیز سے خبردار کر رہے ہوں — لیکن کس چیز سے، وہ یہ نہ جان سکی۔

 

                11

 

’’ایسا لگتا ہے گویا یہ کسی خوفزدہ کر دینے والی پریوں کی کہانی کا واقعہ ہو، ‘‘ تمینہ نے چھری سے اپنے پاتے 3 کو کاٹتے ہوئے کہا، ’’لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی بہت اہم بات مجھے بتانا چاہتے ہوں لیکن کیا بات؟ وہ کیا کہنا چاہتے تھے ؟‘‘

ہیوگو نے سمجھایا کہ وہ بہت نوجوان قسم کے شترمرغ تھے اور ان کا طور طریق بالکل ایسا ہی تھا جیسا تمام نوجوان شترمرغوں کا ہوتا ہے۔ جب وہ پچھلی مرتبہ چڑیا گھر آیا تھا، تو اس بار بھی یہی چھ شترمرغ دوڑ کر احاطے کی دیوار کے پاس آئے تھے اور چونچیں ہلانے لگے تھے۔

پھر بھی تمینہ کی تسلی نہ ہوئی۔ وہ اسی طرح مضطرب رہی۔ ’’تمھیں پتا ہے، میں پیچھے چیکوسلوواکیہ میں ایک پیکٹ چھوڑ آئی تھی۔ اس میں کچھ ضروری کاغذات تھے۔ اگر میں اسے منگوانے کے لیے لکھتی تو پولیس والے ضرور ضبط کر لیتے۔ بی بی آتی گرمیوں میں پراگ جانے والی ہے۔ اس نے وعدہ کیا ہے کہ میرے لیے وہ پیکٹ وہاں سے لیتی آئے گی۔ اور اب مجھے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ وہ شترمرغ مجھے کسی بات سے خبردار کر رہے تھے، جیسے بتا رہے ہوں کہ اس پیکٹ کے ساتھ کوئی واقعہ ہو گیا ہے۔ ‘‘

ہیوگو کو معلوم تھا کہ تمینہ بیوہ ہے، اور یہ بھی کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر اِس کا شوہر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس نے پوچھا، ’’کاغذات سیاسی نوعیت کے تو نہیں تھے ؟‘‘

اب یہ بات تمینہ کو بہت پہلے ہی معلوم ہو گئی تھی کہ اگر وہ اس ملک والوں کو اپنی زندگی سے آگاہ کرنا چاہتی ہے تو اسے اس زندگی کو بہت سہل اور سادہ بنا کر پیش کرنا ہو گا۔ ذاتی خطوط اور ڈائریاں کیوں ضبط کر لی جاتی ہیں اور وہ ان کے پیچھے کیوں اس قدر دیوانی ہوئی جا رہی تھی — یہ ایسی باتیں تھیں جن کی وضاحت غیر معمولی طور پر پیچیدہ تھی۔ چنانچہ اس نے صرف اتنا ہی کہا، ’’بالکل، سیاسی نوعیت کے ہی۔ ‘‘

کہنے کو تو یہ کہہ دیا، مگر اب یہ خوف دامن گیر ہوا کہ ہیوگو کہیں ان کاغذات کے بارے میں مزید کچھ اور نہ پوچھ بیٹھے۔ خیر ہوئی کہ اس نے کچھ اور نہیں پوچھا۔ کب، کس نے، کس چیز کے بارے میں اس سے استفسار کیا تھا؟ بہت ہوا تو کبھی کبھار لوگ اس کے ملک کے بارے میں اپنے محسوسات کا اظہار کر دیتے۔ رہے خود اس کے ذاتی تجربات، تو کسی شخصِ واحد کو بھی ان سے دلچسپی نہیں تھی۔

’’بی بی کو نہیں معلوم کہ یہ کاغذات سیاسی نوعیت کے ہیں ؟‘‘ ہیوگو نے پوچھا۔

’’نہیں، ‘‘ تمینہ نے جواب دیا۔

’’یہ بہت اچھا ہوا، ‘‘ ہیوگو نے کہا، ’’اس سے بھول کر بھی ذکر نہ کرنا کہ ان کا سیاست سے دور کا بھی تعلق ہے۔ عین وقت پر اس کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے اور وہ انھیں وہیں چھوڑچھاڑ آئے گی۔ تمینہ، لوگوں کا کیا ہے، وہ کسی چیز سے بھی خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔ خوب اطمینان کر لینا کہ بی بی انھیں بالکل غیراہم، معمولی سے روکھے پھیکے کاغذات ہی سمجھتی رہے، جیسے مثلاً تمھارے عشقیہ خطوط! بالکل! یہ بات اس کی پہنچ کی ہے۔ ایسی بات ہے جو اس کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ ‘‘

تو گویا ہیوگو کے خیال میں عشقیہ خطوط بالکل بے حیثیت اور بے کیف چیز کا نام ہیں، تمینہ نے سوچا۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے کبھی کسی سے محبت کی تھی، کہ وہ محبت اس کے لیے بڑی پُر معنی تھی۔

’’خدا نخواستہ اگر بی بی وہاں نہ جا سکے، ‘‘ ہیوگو نے اپنی بات پر اضافہ کیا، ’’تو اس معاملے میں تم مجھ پر پورا اعتماد کر سکتی ہو — میں خود جا کر لے آؤں گا۔ ‘‘

’’شکریہ، ‘‘ تمینہ نے گہرے اخلاص سے جواباً کہا۔

’’وہ مجھے جیل ہی میں کیوں نہ ڈال دیں، پھر بھی میں جا کر وہ پیکٹ تمھارے لیے لے آؤں گا۔ ‘‘

’’بے وقوفی کی بات نہ کرو، ‘‘ تمینہ نے احتجاج کیا۔ ’’تمھارے جیل جانے کا کوئی امکان نہیں۔ ‘‘ پھر اس نے ہیوگو کو سمجھایا کہ غیرملکی سیاحوں کو چیکوسلوواکیہ میں کوئی خطرہ نہیں، خطرہ تو صرف چیک باشندوں کو ہے۔ اور اب تو وہ لوگ اُسے بھول بھال بھی چکے ہوں گے۔ اچانک وہ بڑی طول طویل اور نہایت جوشیلی تقریر کرنے لگ گئی تھی۔ اسے اپنے وطن کے چپے چپے کا کماحقہ‘ علم تھا، اور میں آپ سے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی ہر بات بالکل سچ تھی۔

گھنٹے بھر بعد وہ ہیوگو کے فون کا رسیور اپنے کان سے لگائے بیٹھی تھی لیکن اس بار بھی اسے اپنی ساس کو رام کرنے میں اتنی ہی کامیابی ہوئی جتنی پہلی بار، یعنی صفر۔ ’’تم نے مجھے کوئی چابی وابی نہیں دی تھی! تم ہمیشہ ہر چیز مجھ سے چھپا کر رکھا کرتی تھیں ! اتنی تکلیف دہ یادوں کی باز خوانی کا فائدہ ؟‘‘

 

                12

 

اگر تمینہ کو اپنی یادیں اتنی ہی عزیز ہیں تو خود کیوں چیکوسلوواکیہ نہیں چلی جاتی؟ ان چیک شہریوں کو جنھوں نے 1968 کے بعد غیر قانونی طور پر ملک چھوڑا تھا، عام معافی دی جا چکی ہے، اور ان سے واپس ملک لوٹنے کی درخواست بھی کی جا چکی ہے۔ تمینہ کو اب کس بات کا خوف ہے ؟ ظاہر ہے وہ اتنی بے حیثیت ہے کہ اسے کسی بات کا خطرہ نہیں ہو سکتا!

صحیح، بالکل صحیح۔ وہ بلا خوف و خطر واپس جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہیں جا سکتی۔

وہاں، گھر میں، ہر فردوبشر نے اس کے شوہر کے ساتھ دغا4 کی تھی۔ اب اگر وہ واپس جاتی ہے تو اسے بھی اپنے شوہر کے ساتھ دغا کرنے کا خطرہ لاحق رہے گا۔

جب انھوں نے رفتہ رفتہ اس کا عہدہ گھٹا کر بالآخر اسے ملازمت ہی سے برطرف کر دیا تو کوئی مائی کا لال اس کی حمایت کے لیے نہیں کھڑا ہوا تھا، حتیٰ کہ اس کے عزیز ترین دوست تک نہیں۔ اب یہ بھی نہیں کہ تمینہ حقیقت سے بالکل ہی نابلد تھی۔ اسے خوب معلوم تھا کہ اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ سارے احباب اس کے حامی تھے، اور محض خوف کے مارے اس کے اظہار سے کترا رہے تھے۔ اور بعینہٖ یہ بات کہ وہ اس کے حامی تھے، انھیں اپنے یوں خوفزدہ ہونے پر خجل کر رہی تھی۔ سڑک پر کہیں نظر آتے تو یوں انجان بن جاتے جیسے دیکھا ہی نہ ہو۔ محل شناسی کے سبب دونوں میاں بیوی خود ہی ان سے کنّی کاٹنے لگے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے دوست اپنے سے اور زیادہ نادم ہوں۔ دیکھتے دیکھتے دونوں کی یہ حالت ہو گئی گویا کوڑھیوں کی جوڑی ہوں۔ جب وہ چیکوسلوواکیہ سے نکل آئے تو پیچھے اس کے شوہر کے سابقہ ہم منصبوں نے ایک ایسے عوامی اعلان نامے پر جس میں اس کے شوہر پر کیچڑ اچھالا گیا تھا، دستخط کر دیے۔ ظاہر ہے یہ قدم انھوں نے ملازمت سے برطرف کر دیے جانے کے خوف سے اٹھایا تھا۔ کچھ بھی سہی، اٹھایا تو تھا، اور یوں انھوں نے اپنے اور ان دو بے یار و مدد گار مہاجرین کے درمیان ایک اچھا خاصا گڑھا کھود دیا تھا۔ یہ وہ گڑھا تھا جسے تمینہ کبھی عبور نہ کرنے کی آرزومند تھی۔

فرار ہونے کے بعد پہلی صبح جب وہ آلپس (Alps) پہاڑوں میں بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں بیدار ہوئے اور خیال آیا کہ اب وہ بالکل تنہا ہیں، اس پوری کائنات سے منقطع جو کل تک ان کی تمام تر زندگی رہی تھی، تو تمینہ نے خود کو بے حد آزاد محسوس کیا، اور بے حد مطمئن بھی۔ وہ پہاڑوں میں تھے، اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ تنہا بھی۔ ایک ناقابلِ یقین، بے پناہ خاموشی نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ تمینہ کو یہ ایک قطعی غیر متوقع تحفہ معلوم ہوئی۔ اچانک اس پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اگر اس کے شوہر کو جوروستم سے بچنے کے لیے چیکوسلوواکیہ کو الوداع کہنا پڑا تھا تو خود تمینہ کو اس بے کراں سکوت کے حصول کے لیے ؛ وہ سکوت جو محض اس کے اور اس کے شوہر کے لیے تھا، محبت کے لیے۔

جب اس کے شوہر کا انتقال ہوا تو تمینہ پر اچانک گھر کی یاد کا دورہ پڑا۔ اسے ایک ایسے ملک کے لیے بے پناہ ناستلجیا محسوس ہوا جہاں ان کی ازدواجی زندگی کی اولین دہائی نے جہاں تہاں اپنے بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہوئے تھے۔ جذباتیت کی ایک ناقابلِ برداشت لہر اٹھی جس کے زیر اثر اس نے اپنے شوہر کے کوئی دس رفقا کو اس کی موت کا اطلاع نامہ بھیج دیا۔ پلٹ کر ایک نے بھی رسید نہ بھیجی۔

ایک ماہ بعد اس نے کوڑی کوڑی جوڑی ہوئی ساری رقم نکالی اورساحل سمندر کی سیر کو چل پڑی۔ اس نے اپنا پیراکی کا لباس پہنا، اعصابی ہیجان کو سکون پہنچانے والی گولیوں کی پوری شیشی نگلی، اور تیرتی ہوئی دور، بہت دور، سمندری پانیوں میں چلی گئی۔ اس کا خیال تھا کہ گولیوں کی طاقت سے نڈھال ہو جائے گی اور بکمال خاموشی غرقاب، لیکن پانی کی غیر معمولی ٹھنڈک اور اس کے پیراکی کے استادانہ، طاقتور ہاتھوں نے اسے اونگھ جانے سے باز رکھا۔ (وہ درجۂ اول کی پیراک رہی تھی — ہمیشہ ہی۔ ) گولیوں کی تاثیر غیر متوقع طور پر کمزور ثابت ہوئی۔

وہ مڑی اور تیرتی ہوئی واپس ساحل پر لوٹ آئی۔ اپنے کمرے میں گئی اور پورے بیس گھنٹے تک دنیا و مافیہا سے بے خبر مسلسل سوتی رہی۔ جب وہ بیدار ہوئی تو خود کو بے حد پرسکون اور خاموش محسوس کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ خاموشی میں اور خاموشی ہی کے لیے زندہ رہے گی۔

 

                13

 

بی بی کے ٹیلی وژن کی نیلگوں، چاندی ایسی روشنی تمینہ، یویو، بی بی، اور اس کے شوہر ڈے ڈے (Dede) پر (جو ایک ٹریولنگ سیلزمین تھا اور ابھی کل ہی چار روز باہر رہنے کے بعد لوٹا تھا) پڑ رہی تھی۔ کمرے میں پیشاب کی خفیف سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ ٹیلی وژن کے پردے پر ایک غیر مرئی ماسٹر آف سیرے منیز (Master of Ceremonies) ایک بڑے گول مٹول گنجے سر والے سے ایک بڑا ہی اشتعال انگیز سوال کر رہا تھا: ’’آپ کی سرگزشت (memoirs) میں بعض بڑے حیرت انگیز جنسی اعترافات ملتے ہیں۔ ‘‘

یہ ایک باقاعدہ ہفتہ وار پروگرام تھا جس میں ایک مشہور و معروف ماسٹر آف سیرے منیز ان ادیبوں سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا تھا جن کی کتابیں ہفتۂ گزشتہ چھپ کر منظرِ عام پر آئی ہوں۔

بڑے سے گنجے سر والا خوش دلی سے مسکرایا۔ ’’حیرت انگیز؟ اجی جانے دیجیے، ایسی بات کہاں ہے۔ اسے باقاعدہ علمِ شماریات کہیے، بس۔ خود دیکھ لیجیے : پہلی بار جب میں نے ہم بستری کی تو اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی…‘‘ گول مٹول سر والے بڑے میاں نے بڑے فخر سے پینل کے ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف باری باری دیکھا۔ ’’جی ہاں، پندرہ سال۔ اب میں پینسٹھ برس کا ہوں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کوئی پچاس سالہ فعال جنسی زندگی کی بات کر رہے ہیں۔ فرض کیجیے کہ میں نے ہفتے میں اوسطاً دو بار مجامعت کی — بہت واجبی سا تخمینہ ہے — تو سالانہ کوئی سو بار، یعنی کلیتاً کوئی پانچ ہزار بار۔ آگے چلیے۔ اگر جماع کی مستی (orgasm) پانچ سیکنڈ قائم رہتی ہے، تو پچّیس ہزار سیکنڈوں کی جماعی مستی میرے کھاتے میں آتی ہے۔ ان کو جمع کیجیے تو چھ گھنٹے اور چھپن منٹ بنتے ہیں۔ ایسا کوئی بڑا ریکارڈ نہیں، کیوں کیا خیال ہے ؟‘‘

کمرے میں موجود سبھی نے بے حد سنجیدگی سے اپنا اپنا سر ہلا دیا، سواے تمینہ کے، جو تصور میں اس گنجے کھوسٹ کو مسلسل آرگازم کی حالت میں دیکھ رہی تھی۔ پیچ کھاتا ہوا، شدید تشنج کے عالم میں، کبھی اپنا دل پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ پندرہ منٹ میں ہی نقلی دانتوں کا چوکھٹا پٹ سے نیچے گر پڑتا ہے، اور پانچ منٹ میں ہی موصوف خود گر کر داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ تمینہ کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔

’’یہ ہنسنے کی ایسی کون سی بات ہے ؟‘‘ بی بی جھلا کر پوچھتی ہے۔ ’’یہ اعداد و شمار خاصے مرعوب کن ہیں — آر گازم کے چھ گھنٹے اور چھپن منٹ!‘‘

’’اب مجھ ہی کو لے لو۔ سالوں مجھے یہی پتا نہ چلا کہ آر گازم نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ‘‘ یویو نے کہا، ’’لیکن پچھلے سال سے یہ مجھے بھی باقاعدہ ہونے لگے ہیں۔ ‘‘

اب ہر کوئی یویو کے آر گازم کے بارے میں بات کرنے لگا۔ جلد ہی ایک اور چہرہ، برہمی اور خفگی سے لبالب بھرا، پردے پر آ دھمکا۔

’’یہ حضرت کس چیز پر اس قدر خفا نظر آ رہے ہیں ؟‘‘ ڈے ڈے سوچ میں پڑ گیا۔

’’اور یہ بات بے حد اہم ہے، ‘‘ پردے پر ادیب صاحب فرما رہے تھے، ’’بے حد اہم — اور یہ سب بلا کم و کاست میری کتاب میں موجود ہے۔ ‘‘

’’کیا بے حد اہم ہے ؟‘‘ بی بی نے پوچھا۔

’’کہ انھوں نے اپنا پورا بچپن رورو(Rourou) نامی گاؤں میں گزارا۔ ‘‘

وہ آدمی جس نے اپنا سارا بچپن رورو کے گاؤں میں گزارا تھا، اس کی ناک ضرورت سے کچھ زیادہ ہی لمبی تھی اور اتنی وزنی کہ اس کے باعث اس کا پورا جسم لنگر کی طرح بیٹھا جا رہا تھا۔ اس کا سر بتدریج دھنسا جا رہا تھا اور دو ایک بار ایسا لگا کہ وہ اسکرین سے لڑکھڑا کر ابھی دھڑام سے نیچے کمرے کے فرش پر آ رہے گا۔ اس کی حالت سخت تشنجی تھی۔ ’’یہ سب بلا کم و کاست میری کتاب میں موجود ہے۔ میری پوری تخلیقی ذات اس سیدھے سادے سے گاؤں میں لپٹی پڑی ہے۔ جب تک آپ یہ بات نہیں سمجھ لیتے، میرے لکھے سے غلط مطلب ہی نکالیں گے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں، بہرحال، میں نے اپنی چند اولین نظمیں کہی تھیں۔ جی ہاں، بالکل، میں اسے شدید اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔ ‘‘

’’بعض مردوں سے مجھے آرگازم بالکل نہیں ہوتا، ‘‘ بی بی نے انکشاف کیا۔

’’اور یہ مت بھولیے، ‘‘ ادیب صاحب کچھ اور زیادہ ہیجان میں آ کر بولے، ’’کہ یہیں میں پہلی بار سائیکل پر سوار ہوا تھا۔ جی جی، بالکل۔ اور یہ سارے کا سارا میری کتاب میں موجود ہے۔ بس اسے ایک علامت سمجھیے۔ میرے خیال میں سائیکل اس قدم کی علامت ہے جو آدمی قبیلے کی دنیا سے اٹھا کر تہذیب کی دنیا میں رکھتا ہے۔ تہذیب سے پہلی پہلی تفریح بازی (فلرٹ)۔ ایک کنواری جو پہلے بوسے سے قبل فلرٹ کر رہی ہو۔ ہنوز کنواری، تاہم شریکِ گناہ۔ ‘‘

’’یہ اس نے بالکل ٹھیک کہا، ‘‘ یویو نے پھٹ سے رائے دے ڈالی۔ ’’تناکا (Tanaka)، ایک لڑکی جس کے ساتھ میں کام کرتی ہوں، تو اس کو اپنا پہلا آر گازم اس وقت ہوا جب وہ بائیسکل کی سواری کر رہی تھی؛ وہ اس وقت تک بالکل کنواری تھی۔ ‘‘

سو اب وہ تناکا کے آرگازم کی بات کرنے لگے، اور تمینہ نے بی بی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا ٹیلی فون استعمال کر سکتی ہے۔

 

                14

 

برابر والے کمرے میں پیشاب کی بو مقابلتاً زیادہ تھی۔ بی بی کی بچی وہاں سو رہی تھی۔

’’مجھے پتا ہے کہ آپ کی اس سے بات چیت بند ہے، ‘‘ تمینہ نے سرگوشی میں کہا۔ ’’لیکن میرے پاس اسے حاصل کرنے کا کوئی اور ذریعہ بھی تو نہیں۔ آپ کو وہاں جا کر اُس سے ملنا ہی پڑے گا۔ چابی نہ ملے تو اس سے کہیں کہ تالا توڑ کر دراز کھول لے۔ اس کے پاس میری کچھ چیزیں ہیں۔ خطوط — مجھے انھیں حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ ‘‘

’’تمینہ، خدا کے واسطے مجھے اس عورت سے بات کرنے پر مجبور نہ کرو۔ ‘‘

’’ہمت کر کے یہ کام کر ہی دیجیے، میری خاطر۔ ڈیڈی، کر دیں گے نا؟ وہ آپ سے بہت ڈرتی ہے۔ آپ جائیں گے تواسے منع کرتے نہ بنے گی۔ ‘‘

’’ایک بات سنو۔ میرے پاس ایک بہت اعلیٰ فر کوٹ ہے۔ جب تمھارے دوست مجھ سے پراگ آ کر ملیں گے تو میں یہ تمھارے لیے دے دوں گا۔ واپسی پر تمھیں پہنچا دیں گے۔ یہ پرانے خطوط کے بنڈل سے بہرحال بہتر چیز ہے۔ ‘‘

’’لیکن مجھے فر کوٹ نہیں چاہیے۔ مجھے تو صرف وہی پیکٹ چاہیے !‘‘

’’ذرا اونچا بولو، تمھاری آواز سنائی نہیں دے رہی، ‘‘تمینہ کے باپ نے کہا۔ لیکن تمینہ دانستہ سرگوشیوں میں بات کر رہی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ بی بی اسے چیک زبان میں بات کرتا ہوا سن لے۔ ورنہ تاڑ جائے گی کہ لانگ ڈسٹینس کال ہو رہی ہے، اور یوں بیٹھے بٹھائے اس کی قیمت اُسے بی بی کو دینی پڑ جائے گی۔

’’مجھے صرف وہ پیکٹ ہی چاہیے۔ آپ کا فر کوٹ نہیں۔ ‘‘

’’تم آج تک نہیں سیکھ سکیں کہ تمھاری زندگی میں اصلاً کن چیزوں کو سبقت حاصل ہونی چاہیے۔ ‘‘

’’دیکھیے ڈیڈی، یہ کال مجھے بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ خدارا اس سے جا کر ملیے۔ ‘‘

مکالمہ جاری رکھنا محال تھا۔ تمینہ کا باپ بار بار مختلف باتوں کو اونچی آواز میں دہرانے کے لیے کہتا رہا اور نہایت ہٹ دھرمی سے بڑی بی سے جا کر ملنے سے انکار کر دیا۔

’’تم اپنے بھائی کو فون کیوں نہیں کرتیں ؟‘‘ اس نے آخرکار تجویز پیش کی۔ ’’اس سے کہو کہ تمھاری ساس سے جا کر ملے، وہاں سے پیکٹ لے آئے اور میرے حوالے کر دے۔ ‘‘

’’مگر وہ میری ساس کو جانتا تک نہیں۔ ‘‘

’’ساری بات تو یہی ہے، ‘‘ تمینہ کا باپ ہنس پڑا۔ ’’اگر جانتا ہوتا تو بھول کر بھی اس سے ملنے کا خیال نہ آتا۔ ‘‘

تمینہ نے جلدی جلدی غور کیا۔ اب یہ کوئی ایسی بری تجویز بھی نہیں تھی۔ اس کا بھائی بڑا مستعد اور جیالا آدمی تھا۔ اسے لوگوں سے اپنی بات منوانے کا گر بھی خوب آتا تھا۔ لیکن تمینہ خود اسے فون نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جب سے وہ ملک سے نکلی تھی، آج تک دونوں نے ایک دوسرے کو ایک بھی خط نہیں لکھا تھا۔ وہ بڑی اچھی تنخواہ پر ملازم تھا، اور اس پر ابھی تک محض اس لیے قائم تھا کہ اس نے اپنی مہاجر بہن کے سارے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

’’میں اسے فون نہیں کر سکتی، ڈیڈی۔ آپ خود بات کر کے اسے سمجھا دیں۔ سمجھا دیں گے نا؟ پلیز ڈیڈی!‘‘

 

                15

 

ڈیڈی چھوٹا سا مدقوق آدمی تھا۔ جب وہ تمینہ کو لیے سڑک کے کنارے کنارے چلتا تو اتنا فخر مند نظر آتا گویا دنیا کو اُس رزمیہ رات کی یادگار پیش کر رہا ہو جس میں اس نے تمینہ کا بیج بویا تھا۔ اسے اپنا داماد کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے خلاف برسرپیکار رہتا۔ جب اس نے تمینہ کو فر کوٹ بھیجنے کی پیشکش کی (جو اسے اپنی کسی رشتے دار سے ترکے میں ملا ہو گا)، تو اس کا محرک داماد خسر کی کہنہ رقابت تھی، نہ کہ اپنی بیٹی کی تندرستی کے بارے میں تشویش۔ وہ چاہتا تھا کہ تمینہ اپنے شوہر (خطوط کے بنڈل) پر اپنے باپ (فر کوٹ) کو ترجیح دے۔

اس خیال ہی سے تمینہ پر باقاعدہ ہیبت طاری ہو گئی کہ اس کے پیکٹ کی قسمت اس کی ساس اور اس کے باپ کے معاندانہ ہاتھوں میں تھی۔ وہ اس بارے میں جتنا سوچتی، اتنا ہی اسے محسوس ہوتا کہ اس کی نجی نوٹ بکس اغیار پڑھ رہے ہیں، اور اغیار کی آنکھیں اس برسات کی مانند ہیں جو پتھر کی دیوار پر کندہ تحریر کو مٹائے دے رہی ہو۔ یا پھر وہ روشنی ہو جو ڈویلپر (developer) میں جانے سے پہلے تصویرسازی کے کاغذ پر پڑے اور اس میں پنہاں عکس کو برباد کر دے۔

اسے خیال آیا کہ جو بات اس کی نوشتہ یادداشتوں کو قدر و قیمت اور معنی بخشتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ یادداشتیں صرف اسی کے لیے تھیں۔ جس لمحے ان کا یہ وصف جاتا رہے گا، تعلق کا وہ گہرا رشتہ بھی بکھر جائے گا جو ان یادوں سے اس کو وابستہ کرتا ہے۔ ایسا ہوا تو وہ ان نوشتوں کو اپنی آنکھوں کی بجائے ناظرین کے اس مخصوص نقطۂ نظر سے پڑھنے پر مجبور ہو جائے گی جو لاتعلقی سے کسی غیر شخصی دستاویز کی چھان پھٹک کر رہے ہوں۔ ایسا ہوا تو وہ عورت جس نے انھیں لکھا ہے، اپنی شناخت کھو بیٹھے گی۔ اور وہ نمایاں مماثلت جو اس کے باوجود اس کے اور ان یادداشتوں کو رقم کرنے والی کے درمیان رہ جائے گی، اُس کی حیثیت محض ایک مضحکہ خیز، بھونڈی نقل سے زیادہ نہ ہو گی۔ نہیں، یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ ان یادداشتوں کو کسی غیر کی نظر سے گزر چکنے کے بعد خود بھی کبھی پڑھنے کے قابل رہ سکے۔

یہی بات تھی جو وہ اتنی بے صبری ہو رہی تھی اور اس آرزو میں فنا ہوئی جا رہی تھی کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے ان نوٹ بکس، ان خطوط کو اپنی تحویل میں لے آئے، قبل اس کے کہ ان میں پنہاں ماضی کی شبیہ زائل ہو جائے۔

 

                16

 

ایک روز بی بی کیفے میں آ کر بار والے حصے میں بیٹھ گئی۔ ’’ہیلو، تمینہ، ‘‘ اس نے کہا، ’’ذرا ایک وِسکی تو دو۔ ‘‘

عام طور پر بی بی کافی کا آرڈر دیا کرتی تھی۔ یا بہت ہوا تو کبھی کبھار پورٹ 5 کا۔ وِسکی کا آرڈر دے کر گویا وہ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ کوئی بات ضرور ہے۔

’’تمھارے لکھنے لکھانے کا کیا حال ہے ؟ کہاں تک پہنچیں ؟‘‘ تمینہ نے مشروب گلاس میں انڈیلتے ہوئے پوچھا۔

’’اگر میرا موڈ ٹھیک ہوتا تو کام بھی ٹھیک ٹھاک چلتا رہتا، ‘‘ بی بی نے جواب دیا، مشروب ایک ہی سانس میں حلق میں انڈیل لیا، اور دوسرے کا آرڈر دے ڈالا۔

کچھ اور گاہک کیفے میں داخل ہوئے۔ تمینہ نے ان سے پوچھا کہ کیا کھائیں پییں گے۔ پھر وہ بار میں واپس آئی، اپنی دوست کو وِسکی کا دوسرا گلاس دیا، اور نو واردوں کی خبرگیری میں لگ گئی۔ جب دوبارہ واپس آئی تو بی بی نے بتایا: ’’میں ڈے ڈے سے عاجز آ گئی ہوں۔ جب بھی دورے سے لوٹتا ہے، مسلسل دو دن بستر میں اینڈا پڑا رہتا ہے، اور شب خوابی کا لباس تک نہیں تبدیل کرتا۔ پاگل کر دینے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، ہے نا؟ اس کے باوجود، ستم دیکھو، ساتھ سونے کے لیے بالکل چاق و چوبند۔ یہ بات سمجھ کر نہیں دیتا کہ میرے لیے ہم بستری کی کچھ اہمیت نہیں، کچھ بھی نہیں۔ اب مجھے اُس سے علیحدہ ہونا ہی پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہمہ وقت اپنی احمقانہ تعطیلات کے خیال میں مگن رہتا ہے۔ بستر میں پڑے پڑے سامنے ایٹلس (atlas) پھیلائے مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ پہلے پراگ جانا چاہتا تھا۔ اب یہ خیال خواب ہو گیا ہے۔ آئرلینڈ پر کوئی کتاب ہتھے چڑھ گئی ہے۔ سو وہاں جانے کے شوق میں مرا جا رہا ہے۔ ‘‘

’’تو کیا اب چھٹیاں گزارنے تم لوگ آئرلینڈ جا رہے ہو؟‘‘ تمینہ نے پوچھا۔ اسے اپنے حلق میں کوئی چیز پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔

’’ہم آئرلینڈ جا رہے ہیں ؟ ہم کہیں نہیں جا رہے۔ میں یہاں سے ہلنے والی نہیں۔ بس یہیں رہوں گی اور کتاب لکھوں گی۔ مجھے اُس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسے کب میری پروا ہے۔ یہاں میں لکھنے لکھانے میں مشغول ہوں، اور تمھارا کیا خیال ہے کہ یہ مجھ سے اتنا بھی پوچھتا ہے کہ لکھ کس چیز کے بارے میں رہی ہو؟ جھک مار کر اب معلوم ہو رہا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ ہمارے پاس ایک دوسرے سے کہنے کے واسطے اب کچھ نہیں رہ گیا۔ ‘‘

تمینہ پوچھنا چاہتی تھی، ’’تو اب پراگ جانے کا ارادہ نہیں رہا؟‘‘ لیکن حلق میں پھنسی چیز کا حجم یکبارگی بڑھ گیا اور وہ کچھ نہ کہہ سکی۔ ٹھیک اسی لمحے یویو کیفے میں داخل ہوئی، بار اسٹول پر اچک کر جا سوار ہوئی، اور سوال داغا، ’’کیا تم سب کے سامنے کر سکتی ہو؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مثلاً یہاں کیفے میں، ٹھیک فرش پر، سب کے سامنے، یا پھر سنیما میں فلم کے دوران؟‘‘

’’چپ!‘‘ بی بی نے سر نیچا کر کے اسٹول کے پائے کے پاس کھڑی شور و غل مچاتی ہوئی اپنی بچی سے کہا، پھر سر اٹھایا اور کہا، ’’ہاں ہاں، کیوں نہیں ؟ کوئی غیر فطری بات تو ہے نہیں — یا ہو تو بتاؤ؟ جو چیز فطری ہے اسے کرنے میں مجھے کیا شرم!‘‘

تمینہ پھر تذبذب میں پڑ گئی کہ بی بی سے اس کے پراگ کے دورے کے بارے میں پھر سے پوچھے یا نہ پوچھے۔ لیکن اب یہ سوال ہی سرے سے غیر ضروری ہو گیا تھا۔ اسے خوب پتا تھا، بالکل واضح تھا کہ بی بی پراگ جانے والی نہیں تھی۔

اتنے میں باورچی خانے سے کیفے کے مالک کی بیوی نکل کر اس طرف چلی آئی اور بی بی کو دیکھ کر مسکرائی۔ ’’کیا حال ہے ؟‘‘ اس نے بی بی سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا۔

’’ہمیں اگر ضرورت ہے تو بس انقلاب کی، ‘‘ بی بی نے اعلان کیا۔ ’’کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہیے۔ کچھ نہ کچھ یہاں ضرور ہونا چاہیے۔ ‘‘

اس شب تمینہ نے شترمرغوں کو خواب میں دیکھا۔ وہ اب بھی احاطے کے اندر دیوار سے لگ کر کھڑے ہوئے تھے اور مسلسل بک بک کیے جا رہے تھے۔ وہ خوفزدہ ہو گئی اور ہل جل تک نہ سکی۔ محض سحرزدہ سی انھیں اپنی چونچیں چلاتے تکتی رہی۔ پھر اس نے اپنے لب مضبوطی سے بھینچ لیے۔ اس کے منھ میں ایک طلائی انگشتری تھی اور وہ اس کی حفاظت کے بارے میں سخت خائف تھی۔

 

                17

 

میں اسے منھ میں طلائی انگشتری چھپائے کیوں تصور کرتا ہوں ؟

اس معاملے میں آپ مجھے قطعی معذور سمجھیے۔ کیا کروں، وہ مجھے اسی طرح نظر آتی ہے۔ ایک تحریر جسے پڑھے ہوئے زمانہ ہو گیا، اچانک ذہن میں در آتی ہے : ’’ایک ملائم، شفاف، دھاتی آواز، جیسے کوئی طلائی انگشتری نقرئی تسلے میں گر رہی ہو۔ ‘‘6

طامس مان (Thomas Mann) نے اپنی جوانی میں موت کے بارے میں ایک سادہ لوح اور بڑی ساحرانہ کہانی لکھی تھی۔ اس میں موت کو بے حد حسین دکھایا گیا ہے، کیونکہ ایسے تمام لوگوں کو جو کم عمری میں اس کا خواب دیکھتے ہیں، موت ہمیشہ ہی بڑی دل آویز نظر آتی ہے، کیونکہ اس زمانے میں، دورافتادہ جگہوں میں گونجنے والی نیلگوں آوازوں کی طرح، یہ ہنوز بڑی غیر حقیقی اور طلسماتی ہوتی ہے۔

ایک نوجوان جسے مرضِ موت لاحق ہے، ایک نامعلوم اسٹیشن پر ریل گاڑی سے اترتا ہے۔ شہر میں داخل ہوتا ہے — شہر کا نام اسے معلوم نہیں — اور ایک بوڑھی عورت کے گھر میں، جس کی پیشانی خارش کے دھبوں سے بھری ہے، چند کمرے کرائے پر لیتا ہے۔ جی نہیں، مجھے اس واقعے کو بیان کرنے کی کوئی خواہش نہیں جو ان کرائے پر لیے گئے کمروں میں پیش آیا۔ میں تو صرف ایک بے حد معمولی سے واقعے کی باز خوانی کرنا چاہتا ہوں : سامنے کے کمرے کے گرد چلتے ہوئے اس بیمار نوجوان کو معاً یہ احساس ہوا کہ ’’اپنے قدموں کی آواز کے درمیان اُس نے ایک اور آواز بھی سنی جو اس کے دو رویہ کمروں سے آ رہی تھی— ایک ملائم، شفاف دھاتی آواز — لیکن ممکن ہے یہ محض فریب ہی ہو۔ جیسے کوئی طلائی انگشتری نقرئی تسلے میں گر رہی ہو، اس نے سوچا…‘‘

اس ادنیٰ سے صوتی واقعے کو کہانی میں کہیں بھی سلیقے سے ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی واضح۔ محض عمل کے اعتبار ہی سے دیکھیں تو اسے بغیر کسی بڑے خسارے کے حذف کیا جا سکتا تھا۔ وہ آواز تو بس خودبخود وجود میں آ گئی۔

لیکن میرا خیال ہے کہ طامس مان نے صرف اس لیے یہ ’’ملائم، شفاف، دھاتی آواز‘‘ سنوائی ہے کہ مکمل خاموشی کا تاثر قائم ہو سکے، وہ خاموشی جس کے حسن کو سماعی بنانے کی اسے ضرورت تھی، اور وہ اِس لیے کہ جس موت کا وہ ذکر کر رہا تھا وہ موتِ حسن (beauty-death) تھی، اور حسن کو لائقِ ادراک بننے کے لیے خاموشی کی ایک مخصوص کم سے کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے (جس کا مناسب ترین پیمانہ، اتفاق سے، طلائی انگشتری کی نقرئی تسلے میں گرنے کی آواز ہے )۔

(جی ہاں، میں جانتا ہوں۔ آپ کو ذرا پتا نہیں کہ میرا مدعا کیا ہے۔ حسن کو سدھارے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ خوبصورتی کھسک کر سطح کے شور و شغب کے نیچے چلی گئی ہے — شور: لفظوں کا شور، کاروں کا شور، موسیقی کا شور، علامتوں کا شور جس میں ہم مسلسل زندگی کرتے ہیں۔ یہ اتنی ہی غرقِ آب ہو چکی ہے جتنا جزیرۂ اطلانتس (Atlantis)، اور اس کی باقیات میں صرف لفظ ہی بچ رہا ہے، جس کے معنی سال بہ سال اپنی صراحت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ )

پہلی بار جب تمینہ نے اس خاموشی کو سنا (جو اتنی ہی بیش قیمت تھی جتنا غرق شدہ اطلانتس پر پائے جانے والے مرمریں مجسّموں میں سے کسی مجسّمے کا ٹکڑا) تو یہ اس وقت تھا جب وہ چیکوسلوواکیہ سے فرار ہونے کے بعد، جنگل کے بیچوں بیچ، اس الپائن ہوٹل میں سو کر اٹھی تھی: اور دوسری بار اس وقت جب وہ سمندر میں تیرتی چلی جا رہی تھی، اس حال میں کہ پیٹ اعصابی تشنج کو کم کرنے والی گولیوں سے بھرا ہوا تھا، وہ گولیاں جو اس کے لیے موت کی بجائے غیر متوقع سکون لائیں۔ اس نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اس خاموشی کو کبھی اپنے سے علیحدہ نہیں ہونے دے گی، کہ اسے اپنے اندر اتار کر وہیں تھامے رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے اپنے خواب کی ایک دیوار کے مقابل کھڑی ہوئی نظر آتی ہے، اس حال میں کہ ایک طلائی انگشتری اس کے مضبوطی سے بند منھ میں ہے۔

وہ چھ طویل گردنوں کے سامنے کھڑی ہے، جن کے سر چھوٹے چھوٹے ہیں اور جن کی چپٹی چپٹی چونچیں بنا خفیف سی آواز پیدا کیے، دیوانہ وار کھل بند ہو رہی ہیں۔ وہ ان کی بات سمجھنے سے معذور ہے۔ وہ اسے ڈرا دھمکا  رہی ہیں یا خبردار کر رہی ہیں، استدعا کر رہی ہیں یا التجا — اسے کچھ پتا نہیں، اور چونکہ وہ ان کا مدعا سمجھنے سے قاصر ہے، اس لیے بے حد فکرمند اور مضطرب ہے۔ اسے ڈر ہے کہ اس طلائی انگوٹھی (خاموشی کے سُر ٹھیک کرنے کا کانٹا) کے ساتھ کوئی دردناک واقعہ پیش آنے والا ہے، اور وہ اسے محفوظ رکھنے کے لیے مضبوطی سے بند منھ میں دھرے ہوئے ہے۔

یہ تمینہ کبھی نہ جان سکے گی کہ وہ اس سے کیا کہنے آئے تھے۔ لیکن مجھے پتا ہے۔ وہ اسے متنبہ کرنے، ڈرانے دھمکانے، یا اس کی تہدید کرنے ہرگز نہیں آئے تھے۔ انھیں تمینہ سے بھلا کیا لینا دینا۔ وہ، ان میں سے ایکو ایک، صرف اسے اپنے بارے میں ہی بتانے آیا تھا۔ یہ بتانے کہ وہ کس طرح دانہ چگتے تھے، کس طرح سوتے تھے، کس طرح دوڑ کر چاردیواری تک آتے تھے، اور دیوار پار انھیں کیا کچھ نظر آتا تھا؛ کہ کس طرح انھوں نے اپنا بے حد اہم بچپن، اتنے ہی اہم رورو کے گاؤں میں گزارا تھا، اور کس طرح ان کا نہایت اہم آرگازم پورے چھ گھنٹے تک جاری ر ہا تھا؛ کہ وہ عورت جس نے اپنا سر ایک بُنی ہوئی شال سے ڈھکا ہوا تھا، انھیں کس طرح نظر آ رہی تھی؛ کہ وہ کس طرح تیرے، بیمار پڑے، پھر رو بصحت ہوئے ؛ کہ کس طرح وہ کبھی جوان رہے تھے، بائیسکلوں کی سواری کی تھی، اور اس دن گھاس کے ایک پورے تھیلے کی جگالی کی تھی۔ لو، وہ دیکھو، وہاں کھڑے ہوئے ہیں، تمینہ کے عین مقابل، اسے اپنی کہانی سنا رہے ہیں ؛ سب کے سب ایک ساتھ، بڑے تاکیدی، محاربانہ، جارحانہ انداز میں۔ کیونکہ جو بات وہ اس سے کہنا چاہتے ہیں، اس سے زیادہ اہم کوئی اور چیز نہیں۔

 

                18

 

چند دن بعد بناکا نشے میں دھت کیفے میں داخل ہوا اور ایک بار اسٹول پر براجمان ہونے کی تگ و دو میں دو بار گرپڑا، لیکن دونوں بار لڑکھڑا کر اٹھا اور کود کر اس پر چڑ ھ گیا۔ ایک عدد کیلواڈوس کا آرڈر دیا اور کاؤنٹر پر سر ڈال دیا۔ تمینہ نے دیکھا کہ وہ رو رہا ہے۔

’’کیا بات ہے مسٹر بناکا؟‘‘ اس نے پوچھا۔

بناکا نے آنسوؤں سے تر آنکھیں اوپر اٹھا کر اپنے سینے کی طرح اشارہ کیا، ’’میں کچھ بھی نہیں، سمجھیں ؟ کچھ بھی نہیں۔ میرا سرے سے وجود ہی نہیں !‘‘

وہ اٹھا اور غسل خانے چل دیا، اور وہاں سے نکلا تو بغیر پیسے ادا کیے سیدھا باہر چلا گیا۔

جب تمینہ نے اس واقعے کا ذکر ہیوگو سے کیا تو اس نے کسی اخبار کا ایک صفحہ نکال کر دکھایا جس میں کتابوں پر تبصرے چھپے تھے۔ ان میں ایک بقدرِ اشکِ بلبل سا نوٹ بناکا کی نگارشات پر بھی تھا — کُل چار استہزائی سطریں، اور بس۔

بناکا کا اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے روتے ہوئے اپنے وجودی کرب کا اظہار کرنا مجھے بے اختیارانہ گوئٹے کے West-East Divan کے ایک مصرعے کی یاد دلاتا ہے : ’’جب ساری خلقت زندہ ہو، کیا اس وقت فردِ واحد بھی زندہ ہوتا ہے ؟‘‘7 گوئٹے کے استفسار کے پیچھے ادیب کے پورے کے پورے عقیدے کا راز ملتا ہے۔ کتابیں لکھ کر فرد ایک پوری کائنات بن جاتا ہے (ہم بالزاک کی کائنات کی بات کرتے ہیں، چیخوف کی کائنات کی بات کرتے ہیں، کافکا کی کائنات کی بات کرتے ہیں — کرتے ہیں نا؟)، اور چونکہ کسی بھی کائنات کا امتیازی وصف اس کی انفرادیت ہوتی ہے، کسی دوسری کائنات کا آس پاس وجود اس کے جوہرِ ذاتی کے لیے باقاعدہ خطرہ بن جاتا ہے۔

دو موچی آپس میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں (بشرطیکہ ان کی دکانیں ایک ہی محلے میں نہ ہوں )۔ لیکن ٹھیک جس لمحے وہ موچیوں کی قسمت پر کتابیں لکھنا شروع کر دیں، ایک دوسرے کے آڑے آنے لگیں گے، انھیں فوراً یہ فکر لاحق ہو جائے گی: کیا ایک موچی کا وجود اس وقت بھی قائم رہ سکتا ہے جب بقیہ تمام موچیوں کا وجود قائم ہو؟

تمینہ محسوس کرتی ہے کہ محض ایک اجنبی آنکھ اس کی ذاتی ڈائریوں کا سارا وقار غارت کر دینے کے لیے کافی ہے، جبکہ گوئٹے کے خیال میں اگر اس کے شعر کسی شخص کی نظر میں آنے سے رہ جائیں تو اس کا — گوئٹے کا — پورا وجود کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ تمینہ اور گوئٹے کا فرق، انسان اور ادیب کا فرق ہے۔

کتاب لکھنے والا یا تو سب کچھ ہے (اپنے اوردوسروں کے لیے ایک پوری کائنات) یا کچھ بھی نہیں۔ اور چونکہ سب کچھ تو ایک آدمی کو ملنے سے رہا، ہم میں سے ہر کتاب لکھنے والا نتیجتاً کچھ بھی نہیں۔ نظرانداز کردہ، رقابت کی آگ میں سوزاں، شدید طور پر مجروح — ہم ابنِ آدم اپنے ہی بھائی کی موت کی آرزو کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں، اب خواہ یہ بناکا ہو، بی بی، گوئٹے یا میں۔

سیاست دانوں، ٹیکسی ڈرائیوروں، اسپتال میں پڑی بچے جنتی عورتوں، داشتاؤں، خونیوں، مجرموں، طوائفوں، کوتوالوں، ڈاکٹروں اور مریضوں میں گرافومینیا کی ریل پیل میرے لیے اس بات کا بڑے سے بڑا ثبوت ہے کہ بلااستثنیٰ ہر شخص اپنے میں ایک ادیب ہونے کا امکان مخفی رکھتا ہے۔ اور ہر کس و ناکس کو اس کا پورا حق حاصل ہے کہ بھاگتا ہوا سڑک پر نکل آئے اور ببانگِ دہل اعلان کرے : ’’ہم سب ادیب ہیں !‘‘

اس کا سبب یہ ہے کہ ہر کسی کو اس حقیقت سے نظریں چار کرنے میں خاصی دقت ہوتی ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ اس سردمہر کائنات میں، بنا دوسروں کی توجہ میں آئے، بنا کچھ کہے سنے، معدوم ہو جائے گا۔ چنانچہ ہر شخص کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وقت نکل جانے سے پہلے ہی الفاظ کی ایک پوری کائنات میں اپنی تقلیب کر لے۔

جب ہر آدمی میں مستور ادیب انگڑائی لے کر معرض وجود میں آ جائے گا (اور وہ وقت دور نہیں ) تو ہم کائناتی بہرے پن اور قلتِ تفہیم کے عہد میں پہنچ چکے ہوں گے۔

 

                19

 

اب لے دے کر ہیوگو ہی اس کی واحد امید رہ گیا تھا۔ چنانچہ اس نے جب دوسری بار تمینہ کو شام کے کھانے پر چلنے کی دعوت دی تو وہ اس نے خوشی خوشی قبول کر لی۔

میز کے پار، اس کے عین مقابل بیٹھے ہوئے، ہیوگو صرف ایک ہی چیز کی بابت سوچ سکتا ہے : تمینہ کسی طرح گرفت میں آ کر نہیں دیتی۔ سامنے ہوتی ہے تو وہ شک میں پڑ جاتا ہے اور سامنے کا وار کرنے سے ہچکچانے لگتا ہے۔ وہ جتنا کسی واجب اور معیّن چیز کے حصول کی کوشش کے خوف سے اذیت اٹھاتا ہے، اتنا ہی دنیا کو — غیرمعیّن اور غیر محدود کی بے کرانی کو، اور بے کرانی کے غیر معیّن کو — فتح کرنے کی خواہش اس میں کچھ اور منھ زور ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی جیب سے ایک رسالہ نکالتا ہے، اسے کھولتا ہے اور تمینہ کو دیتا ہے۔ جو صفحہ اس نے کھولا ہے اس پر اس کا لکھا ہوا ایک طویل مضمون ہے۔

وہ رسالے کے بارے میں پر جوش لن ترانی شروع کر دیتا ہے اور مسلسل بولے جاتا ہے : ٹھیک ہے کہ یہ رسالہ ان کے محلے کے باہر کم ہی پڑھا جاتا ہے، لیکن نظریاتی اعتبار سے اس کا شمار با حیثیت رسالوں میں ہوتا ہے۔ اس کو شائع کرنے والوں میں اپنے اعتقادات کی مدافعت کرنے کی دلیری بھی پائی جاتی ہے، اور اس لحاظ سے یہ لوگ ضرور بہت کچھ حاصل کر کے رہیں گے۔ ہیوگو مسلسل تقریر کیے جاتا ہے، اس کے الفاظ شہوانی جارحیت کا استعارہ بننے، طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جان لیوا کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں مجرد کا وہ رجھا لینے والا جوش وخروش پایا جاتا ہے جب وہ جست بھر کے مادیت کی لاطائلی میں خود کو بدل دینے کے درپے ہو۔

تمینہ جوں جوں ہیوگو کے چہرے کو دیکھے جاتی ہے، اس کے خط و خال کو ازسرنو ترتیب دینے لگتی ہے۔ پہلے جو صرف ایک روحانی ریاضت ہوا کرتی تھی، اب عادت سے زیادہ کوئی چیز بن گئی ہے۔ وہ کسی مرد کو کسی اور طرح دیکھنے سے عاجز ہے۔ اس کے لیے بڑی کاوش کی، اپنی جملہ تخلیقی صلاحیتوں کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ پھر بھی، بڑے اچانک طور پر، ہیوگو کی بھوری آنکھیں واقعی نیلی ہو جاتی ہیں۔ تمینہ اپنی نظریں اس کے چہرے پر جمائے رکھتی ہے۔ نیلاہٹ کو زائل ہونے سے روکنے کے لیے اسے اپنی آنکھوں کی تمام تر شدت کے ساتھ اس کے چہرے پر ارتکاز کرنا ہوتا ہے۔

تمینہ کی ٹکٹکی کو محسوس کر کے ہیوگو کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی تقریر بازی کی رفتار اور زیادہ تیز کر دیتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی نیلاہٹ بڑی دل پذیر ہے۔ اس کے بالوں کا خط کنپٹیوں کے پاس سے آہستہ آہستہ پیچھے کی سمت سمٹنے لگتا ہے تاآنکہ سامنے کے بال گھٹ کر صرف ایک تنگ سی تکون کی شکل رہ جاتے ہیں جو اس کے سر کے پیچھے، نیچے کی طرف جھکی چلی آ رہی ہو۔

’’میں نے، ہماری مغربی دنیا کو ہمیشہ اپنی تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ لیکن یہاں ہمارے درمیان جو ناانصافی ہو رہی ہے، اس سے مجبور ہو کر ہم دوسرے ممالک سے غلط طور پر مروت برتنے پر مائل ہو جاتے ہیں۔ تمھارا شکر، ہاں تمھارا شکر، تمینہ، کہ تمھاری وجہ سے میں بالآخر یہ سمجھنے کے قابل ہو گیا ہوں کہ طاقت کا مسئلہ ہر جگہ یکساں ہے۔ تمھارے ملک اور ہمارے ملک میں، مشرق میں اور مغرب میں۔ ہماری یہی کوشش ہونی چاہیے کہ کبھی ایک طاقت کو دوسری طاقت سے نہ بدلیں ؛ ہمیں چاہیے کہ طاقت کے اصول کو بنفسہٖ مسترد کر دیں اور اس کی ہر جگہ او رہر شکل میں پرزور نفی کریں۔ ‘‘

’’مطلب؟‘‘ تمینہ نے بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے اور میں نے اس بارے میں سرے سے کبھی کوئی گفتگو ہی نہیں کی۔ ‘‘

اس وقت گھٹ کر ہیوگو کی صرف ایک نیلی آنکھ رہ گئی تھی، اور وہ بھی بتدریج بھوری ہوتی جا رہی تھی۔

’’تمھیں اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے لیے تمھارا تصور کرنا ہی کافی تھا۔ ‘‘

ویٹر نے جھک کر ان کے آگے ڈنر کا پہلا کورس لگا دیا۔

’’میں گھر پر اسے پڑھوں گی، ‘‘ تمینہ نے رسالے کو تھیلے میں ٹھونستے ہوئے کہا، پھر یہ اضافہ کیا، ’’بی بی پراگ نہیں جا رہی۔ ‘‘

’’مجھے پہلے سے معلوم تھا، ‘‘ ہیوگو نے کہا۔ ’’لیکن پریشان نہ ہو، تمینہ۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ تمھیں یاد ہے نا؟ میں تمھاری خاطر وہاں جاؤں گا۔ ‘‘

 

                20

 

’’ایک خوش خبری سنو: میں نے تمھارے بھائی سے بات کر لی ہے اور وہ اس سنیچر تمھاری ساس سے ملنے جا رہا ہے۔ ‘‘

’’سچ؟ آپ نے اسے ٹھیک سے سمجھا دیا ہے نا؟ بتا دیا ہے نا کہ چابی نہ ملے تو تالا توڑ دے ؟‘‘

رسیور رکھتے رکھتے تمینہ مارے خوشی کے مست ہو گئی۔

’’اچھی خبر تھی؟‘‘ ہیوگو نے پوچھا۔

’’ہاں، ‘‘ اس نے سر ہلا کر جواب دیا۔

وہ اس وقت بھی اپنے باپ کی بشاش اور پر جوش آواز کانوں میں سن سکتی تھی۔ وہ ناحق ہی اس سے بدگمان تھی، اس نے اپنے آپ سے کہا۔

ہیوگو اٹھ کر بار تک آیا۔ دو گلاس اٹھائے اور ان میں وِسکی ڈالی۔ ’’تمینہ، تم جب چاہو میرے گھر سے بے تکلف پراگ فون کر سکتی ہو۔ میں ایک بار پھر وہی کہتا ہوں جو پہلے کہتا آیا ہوں : تمھارے ساتھ ہوتا ہوں تو جی کو بہت بھلا لگتا ہے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ تم کبھی میرے ساتھ نہیں سوؤ گی۔ ‘‘

’’مجھے خوب معلوم ہے کہ تم کبھی میرے ساتھ نہیں سوؤ گی‘‘ کہنے کے لیے اسے خود کو باقاعدہ مجبور کرنا پڑا تھا۔ صرف اس لیے کہ اپنے کو باور کرا سکے کہ وہ اس پراسرار اور ناقابل حصول عورت کے مدمقابل کھڑا ہو سکتا ہے، اور اس سے بعض باتیں کہہ سکتا ہے (ہرچند کہ اسے ان باتوں کو بکمال ہوشیاری پیرایۂ نفی میں کہنا پڑا تھا)، اور خود کو تقریباً بے دھڑک محسوس کرتا ہے۔

تمینہ کھڑی ہوئی، چل کر ہیوگو کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ سے وِسکی کا گلاس لے لیا۔ وہ اپنے بھائی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ آپس میں بات چیت بند ہونے کے باوجود وہ اب بھی ایک دوسرے کے دوست تھے، اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار۔

ہیوگو نے جام ٹوسٹ کیا: ’’سب بخوبی انجام کو پہنچے !‘‘ اور گلاس ایک گھونٹ میں چڑھا گیا۔

تمینہ نے بھی اپنی وسکی غٹ اغٹ پی ڈالی اور خالی گلاس میز پر رکھ دیا۔ وہ بس لوٹ کر اپنی کرسی کی طرف جانے والی تھی کہ ہیوگو نے تیزی سے اپنا بازو اس کے گرد حمائل کر دیا۔

اس نے ہیوگو کی پیش قدمی کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ صرف اپنا رخ پھیر لیا۔ اس کا منھ بگڑ گیا تھا اور اس کی پیشانی شکن آلود ہو گئی تھی۔

اس نے تمینہ کو اپنی آغوش میں بھر تو لیا تھا لیکن ہنوز حیران کھڑا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ اولین چند ثانیوں تک وہ اپنی دیدہ دلیری پر سخت خائف رہا۔ اگر تمینہ نے دھکا دے کر اسے اپنے سے جدا کر دیا ہوتا تو وہ نہایت بزدلی سے پیچھے ہٹ کر اس سے باقاعدہ معافی مانگنے لگ جاتا۔ لیکن تمینہ نے اُسے دھکا وکّا نہیں دیا۔ تمینہ کے مڑے تڑے چہرے اور اپنے سے گریزاں سر کو دیکھ کر ہیوگو کی شہوت اور بھڑک اٹھی۔ اب تک جن دوچار عورتوں سے اُس کے جنسی تعلقات رہے تھے ان میں سے کسی نے بھی آج تک اس کی ملاعبت کے خلاف کسی شدید رد عمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اگر وہ پہلے سے ہی طے کر آئی ہوتی تھیں کہ اس کے ساتھ ہم بستری کریں گی، تو خود ہی کپڑے اُتار کر اطمینان سے اس کا انتظار کرنے لگتیں، تقریباً لاتعلقی کے ساتھ، کہ دیکھیں اب وہ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ چہرے کو بل دے کر تمینہ نے اس ہم آغوشی کو وہ معنی پہنا دیے تھے جن کا وہ آج سے قبل خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ وہ دیوانہ وار اسے بھینچنے لگا اور بڑی بے تاب عجلت سے اسے برہنہ کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔

لیکن تمینہ نے اپنی مدافعت سے کیوں انکار کر دیا؟

مسلسل تین سال سے اسے خدشہ تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ ہونے ہی والا ہے۔ مسلسل تین سال سے وہ اس واقعے کی ساحر، نگراں آنکھ کے نیچے رہتی آئی تھی۔ اور اب یہ آ پہنچا تھا، بعینہٖ اسی طرح جس طرح اس نے اس کا تصور کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی مدافعت سے انکار کر دیا اور اسے یوں قبول کر لیا جیسے کوئی ناگزیر کو قبول کرتا ہے۔

اگر وہ کچھ کر سکتی تھی تو اتنا ہی کہ اپنا سر ہیوگو کی طرف سے موڑ لے۔ لیکن اس روگردانی سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ رخ پھیرتے ہی اس کے شوہر کا پیکر تمام کمرے میں اس کا پیچھا کرتا رہا۔ یہ ایک بڑے ڈیل ڈول والے شوہر کا اتنا ہی گرانڈیل اور بے ڈھنگا پیکر تھا — وہ شوہر جو زندگی سے کہیں زیادہ بڑا تھا، لیکن عین مین اسی طرح جس طرح وہ تین سال سے تصور کرتی چلی آئی تھی۔

بالآخر جب اس کا تن کپڑوں سے جدا ہوا تو ہیوگو، جو اسے جنسی طور پر مشتعل سمجھ کر شہوت کے مارے پاگل ہوا جا رہا تھا، یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ تمینہ کے مخصوص نسوانی اعضا رطوبت سے عاری تھے۔

 

                21

 

ایک بار اسے معمولی سے آپریشن سے گزرنا پڑا تھا جس میں اعضا کو سن کرنے والی دوا استعمال نہیں کی گئی تھی۔ چنانچہ درد کی شدت اور کاٹ سے توجہ بٹانے کے لیے وہ آپریشن کی پوری مدت مجبوراً انگریزی کے بے قاعدہ افعال (irregular verbs) کی گردان کرتی رہی تھی۔ اس بار بھی اس نے یہی نسخہ آزمانے کی کوشش کی۔ اس نے اپنی ساری توجہ ان نوٹ بکس پر مرکوز کر دی، اس بات پر کہ عنقریب وہ بحفاظت اس کے باپ کی تحویل میں چلی آئیں گی، اور یہ کریم آدمی ہیوگو وہاں جا کر انھیں اس کے لیے لے آئے گا۔

کریم آدمی ہیوگو نہایت تیزی اور دیوانگی سے کچھ دیر تک اپنے کام میں لگا رہا، تاآنکہ تمینہ کو محسوس ہوا کہ اب وہ اپنے بازوؤں کے بل اٹھ کر ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر اپنے کولھے ہر سمت میں جھاڑ پٹک رہا ہے۔ تمینہ نے اندازہ کر لیا کہ وہ اس کے جنسی ردِ عمل سے غیر مطمئن ہے، اور اس کی شہوت کو اپنے حسبِ ضرورت برانگیختہ نہ پا کر ہر ممکن زاویے سے اس میں دخول کی کوشش کر رہا ہے، کہ کسی طرح اثر پذیری کے اس مقام کو جا لے جو وہ کہیں دور اپنے جسم کی گہرائیوں میں اس سے روکے ہوئے ہے۔

تمینہ کو اس کی قیامت کی دشوار گذار کوششوں کو دیکھنے کی چنداں خواہش نہ تھی۔ چنانچہ اس نے ایک بار پھر اپنا سر ہیوگو کی طرف سے پھیر لیا۔ اپنے خیالات کو مجتمع کر کے ایک بار پھر نوٹ بکس پر مرتکز ہونے کی کوشش کی۔ خود کو مجبور کیا کہ شوہر کے ساتھ گزاری ہوئی چھٹیوں کی اس ترتیب کا جائزہ لے جو اس کی یادداشت نے، ہرچند نامکمل سہی، ازسرنو منظم کی تھی: پہلی جو بوہیمیا میں ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے گزاری گئی تھیں، پھر یوگوسلاویہ والی، پھر بوہیمیا کی ایک اور جھیل والی، اس کے بعد وہ جو کسی معدنی چشمے پر گزاری گئی تھیں — لیکن ترتیب ہنوز غیر واضح تھی۔ 1964 میں دونوں تترس گئے تھے، اوراس سے اگلے سال بلغاریہ، لیکن اس کے بعد ہر چیز خلط ملط ہو جاتی تھی۔ 1968 میں انھوں نے اپنی ساری چھٹیاں پراگ ہی میں بتائی تھیں، اس سے اگلے سال وہ معدنی چشمے پر گئے تھے، اور اس کے بعد ہجرت کر کے یہاں چلے آئے تھے اور اپنی آخری تعطیلات اٹلی میں منائی تھیں۔

ہیوگو نے اپنا جسم اس سے علیحدہ کر لیا اور اس کے جسم کو پلٹانے کی کوشش کی۔ تمینہ نے اندازہ کر لیا کہ وہ چاہتا ہے تمینہ جانوروں کی طرح گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ہو جائے۔ اچانک اسے خیال آیا کہ ہیوگو عمر میں اس سے چھوٹا ہے، اور وہ شرمندہ ہو گئی۔ اس کے باوجود اس نے اپنے جذبات مار کر پوری لاتعلقی سے خود کو ہیوگو کے سپرد کر دیا۔ اُس نے ہیوگو کے جسم کے ناہموار دھکوں اور رگڑوں کو اپنی پشت پر محسوس کیا۔ اسے لگا جیسے وہ اسے اپنی بے پناہ قوتِ باہ اور قوتِ برداشت سے خیرہ کرنے کے درپے ہو، گویا ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہو، اپنا امتحان لے رہا ہو، یہ ثابت کرنا چاہتا ہو کہ وہ انجام کار اسے مغلوب کرنے پر قادر ہے اور اس کے لائق ہے۔

اسے پتا نہیں تھا کہ ہیوگو اسے دیکھنے سے قاصر ہے۔ تمینہ کی پشت پر نظر ڈالتے ہی (اس کے حسین، بالغ کولھوں کی اس کھلی ہوئی آنکھ پر جو اسے ترحم سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی) اس کی شہوت اتنی بھڑک اٹھی کہ اس نے آنکھیں بند کر لیں، اپنے دھکوں کی مجنونانہ رفتار کو لگام دی، اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ اب وہ بھی اپنے ذہن کو کسی اور چیز (وہی ایک چیز جو دونوں میں مشترک تھی) پر مرتکز کرنے اورجنسی فعل کو کچھ دیر اور جاری رکھنے کی جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔

اسی اثنا میں تمینہ کو ہیوگو کے کمرے کی سفید دیوار پر اپنے شوہر کا بڑا سا چہرہ نظر آیا، اور اس نے مضبوطی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک بار پھر وہ بے قاعدہ افعال کی گردان کی طرح ان چھٹیوں کو دہرانے لگی: جھیل کے کنارے گزاری گئیں پہلی چھٹیاں، پھر یوگوسلاویہ، اور جھیل؟ — پھر تترس والی، پھر بلغاریہ والی، اس کے بعد ہر چیز مبہم ہو گئی تھی، پھر پراگ، معدنی چشمہ اور آخراً اٹلی۔

ہیوگو کی گہری گہری سانسوں کی آواز اسے اپنی یادوں سے کھینچ لائی۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور دیوار پر اپنے شوہر کا چہرہ دیکھا۔

ٹھیک اسی لمحے ہیوگو نے بھی اپنی آنکھیں کھول دیں، اور تمینہ کی پشت میں جڑی ہوئی اس بے پناہ آنکھ کو دیکھتے ہی جنسی وجد کی ایک زبردست لہر ایک کوندے کی طرح اس کے سارے جسم میں لپک گئی۔

 

                22

 

جب تمینہ کا بھائی اس کی ساس سے ملنے گیا تو اسے دراز کا تالا توڑنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔ دراز پہلے سے کھلی ہوئی تھی، اور اس میں گیارہ کی گیارہ نوٹ بکس موجود تھیں۔ لیکن وہ بنڈل میں بندھی ہوئی نہ تھیں بلکہ منتشر تھیں۔ خطوط بھی اسی طرح بے ترتیب اور بکھرے ہوئے تھے — کاغذات کا ایک بے شکل انبار۔ تمینہ کے بھائی نے اس ملبے کو سوٹ کیس میں بھرا اور باپ کو دے آیا۔

تمینہ نے فون پر اپنے باپ سے کہا کہ ساری چیزوں کو قرینے سے کاغذ میں لپیٹ کر اسے احتیاط سے چاروں طرف سے باندھ دے، اور — اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ — اس نے نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ نہ وہ اور نہ اس کا بھائی ان کا ایک لفظ پڑھیں۔

اس نے تمینہ کو اطمینان دلایا، حالانکہ اس بات کا وہ تقریباً برا مان گیا کہ وہ کبھی اپنے خواب میں بھی تمینہ کی ساس کے نقش قدم پر چل کر ان چیزوں کو پڑھے گا جن سے اس کا کوئی سروکار نہ ہو۔ لیکن مجھے معلوم ہے (اور تمینہ کو بھی معلوم ہے ) کہ بعض چیزیں ہوتی ہی ایسی ہیں کہ آدمی انھیں دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا — مثلاً جیسے کار کا حادثہ یا دوسروں کے عشقیہ خطوط۔

چنانچہ، انتہائے کار، تمینہ کی بہت ہی بے تکلفانہ اور نجی تحریریں اب اس کے باپ کی حفاظت میں تھیں۔ لیکن کیا اس کے لیے ان کی اب بھی وہی قدر و قیمت تھی؟ کیا وہ پہلے ہی سینکڑوں بار یہ نہ کہہ چکی تھی کہ اغیار کی نگاہ اس بارش کی طرح ہوتی ہے جو لکھے کو دھو ڈالتی ہے ؟

بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ غلطی پر تھی۔ وہ تو انھیں دیکھنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ تڑپ رہی تھی۔ ان کی اہمیت اس کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی تھی۔ وہ پامال اور بے حرمت کی جا چکی تھیں۔ وہ اور اس کی یادیں ایک مشترکہ قسمت میں ایک دوسرے کی بہنیں تھیں۔ ان سے اس کی محبت اور بھی بڑھ گئی۔

لیکن اس کے باوجود وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی کہ اسے باقاعدہ ذلیل، باقاعدہ سبک سر کیا گیا ہے۔

ایک بار بہت پہلے — جب اس کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی — اس کا چچا اس کے کمرے میں ٹھیک اس وقت در آیا تھا جب وہ برہنہ تھی۔ اسے بے حد شرم آئی۔ پھر یہی ندامت سرکشی میں تبدیل ہو گئی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے خود سے طفلانہ لیکن باضابطہ عہد کر ڈالا کہ اپنی مدت العمر کبھی اس چچا کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گی۔ وہ جب بھی ان کے یہاں آتا، وہ اسے دیکھنے سے انکار کر دیتی، اور اس کے لیے اسے ہر جوروستم منظور تھا: گھر والوں کی تہدید، ڈانٹ پھٹکار، چیخنا چلانا، طنز، استہزائی ہنسی — سب کچھ۔

اور اب یہاں ایک ملتی جلتی صورت حال سے سامنا تھا۔ وہ اپنے والد اور بھائی کی شکر گذار تھی لیکن وہ اب دوبارہ کبھی ان کا منھ تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ آج یہ بات اس پر پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو چکی تھی: وہ کبھی لوٹ کر ان کے پاس نہیں جائے گی۔

 

                23

 

ہیوگو کی غیر متوقع کامیابی اپنے ساتھ اتنی ہی پسپائی بھی لیتی آئی تھی۔ ہرچند وہ اب جب چاہتا اس کے ساتھ ہم بستری کر سکتا تھا (پہلی دفعہ سپرد کر دینے کے بعد اب وہ شاید ہی انکار کر سکتی تھی)، لیکن اسے خوب احساس تھا کہ وہ اسے اپنا بنانے، اسے خیرہ کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ ایک برہنہ جسم اس کے جسم کے نیچے اس قدر لاتعلق، اتنا سردمہر، اتنا نارسا، اتنا اجنبی کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور وہ بھی اس وقت جب وہ اسے اپنی اندرونی زندگی کا حصہ بنانے کا شیدائی تھا! اس پر شکوہ کائنات کا حصہ جس کی تجسیم اس کے گرم لہو اور خیالات سے ہوئی تھی!

’’تمینہ، میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں، ‘‘ ریستوراں میں اس کے مقابل بیٹھے ہوئے اس نے کہا۔ ’’محبت کے بارے میں کتاب۔ ہاں، ہاں، تمھارے بارے میں، اپنے بارے میں، ہمارے بارے میں، ہمارے نجی ترین جذبوں کے بارے میں۔ ڈائری کی صورت، ہمارے دو جسموں کی ڈائری۔ ہاں، ہاں، میں تمام پابندیوں کو جھاڑ کر بالکل بے لاگ طور پر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں کیا ہوں اور کیا چاہتا ہوں۔ یہ کتاب سیاسی بھی ہو گی۔ محبت کے بارے میں ایک سیاسی کہانی اور سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی…‘‘

تمینہ وہیں بیٹھی اسے دیکھے جاتی ہے۔ اچانک اس کے چہرے کی کیفیت ہیوگو سے اور برداشت نہیں کی جاتی اور وہ اپنی گفتگو کا سلسلہ کھو بیٹھتا ہے۔ وہ تو اسے اپنے لہو اور خیالات کی کائنات میں اٹھا کر لے جانا چاہتا تھا، اور وہ یہاں اپنی ہی دنیا میں سراسر اور یوں مکملاً محو بیٹھی تھی۔ اس کے الفاظ بہرے کانوں میں پڑنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی روانی کھو کر بوجھل ہوتے جا رہے تھے : ’’…سیاست کے بارے میں ایک محبت کی کہانی۔ بالکل — کیونکہ ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انسانی پیمانے پر ایک دنیا تخلیق کر سکیں، اپنے پیمانے پر، اپنے جسموں کے پیمانے پر۔ تمھارا جسم، تمینہ، اور میرا جسم، بالکل۔ تاکہ آدمی بوس و کنار کا ایک نیا طریقہ دریافت کر سکے، محبت کرنے کا ایک نیا ڈھنگ…‘‘

الفاظ اور زیادہ بوجھل اور بے ڈھب ہوتے جا رہے ہیں، وہ کٹّر گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہیں۔ ہیوگو کوشش چھوڑ دیتا ہے۔ تمینہ حسین ہے، اور وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اپنے بے وطن بیوہ کے ماضی کو استعمال کر رہی ہے، اور اپنی جھوٹی انا کی فلک بوس عمارت کی بلندی سے نیچے ہر ایک کو حقارت سے دیکھ رہی ہے۔ ہیوگو رشک کے ساتھ خود اپنی لاٹ کے بارے میں سوچتا ہے، وہ لاٹ جو وہ تمینہ کی فلک بوس عمارت کے درمیانی فاصلے کو پاٹنے کے لیے کھڑی کرنا چاہتا ہے، وہ لاٹ جس پر تمینہ ذراسی توجہ دینے کے لیے بھی آمادہ نہیں — وہ لاٹ جو محض ایک مطبوعہ مضمون اور اپنی اور اس کی محبت کے بارے میں ایک مجوزہ کتاب سے مل کر بنی ہے۔

’’تم پراگ کب جا رہے ہو؟‘‘ تمینہ پوچھتی ہے۔

ہیوگو پر منکشف ہوتا ہے کہ تمینہ نے کبھی اس سے محبت نہیں کی اور وہ ہیوگو کے ساتھ محض اس لیے چلی آئی ہے کہ اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اس کے لیے پراگ جا سکے۔ ہیوگو بدلہ لینے کی ناقابلِ مزاحمت خواہش سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ ’’میرا خیال تھا کہ اب تک تم خود ہی سب کچھ سمجھ چکی ہو گی۔ تم نے میرا مضمون پڑھا ہے — پڑھا ہے نا؟‘‘

’’ہاں پڑھا ہے، ‘‘ وہ جواب دیتی ہے۔

اسے تمینہ پر بالکل یقین نہیں آتا۔ اور اگر بفرض محال پڑھ بھی لیا ہے تو یہ طے ہے کہ وہ اس سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئی ہے۔ ہیوگو کو محسوس ہوتا ہے کہ اس موقعے پر وہ واحد عظیم جذبہ جو وہ مہیا کر سکتا ہے وہ اپنی لاٹ سے وفاداری کا جذبہ ہی ہے، وہ لاٹ جس کی قدرشناسی نہیں ہوئی ہے، جس سے روگرداں ہوا گیا ہے (یعنی صرف ایک مطبوعہ مضمون اور تمینہ اور اپنی محبت کے بارے میں ایک مجوزہ کتاب پر اٹھی ہوئی لاٹ)، اور وہ اس لاٹ کی بے حرمتی کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑنے، تمینہ سے اس کے وجود کا اقرار کروا لینے، اور اس کی بلندی سے اسے متحیر کرنے کے لیے آمادہ ہے۔

’’اگر پڑھ لیا ہے تو جان گئی ہو گی کہ اس کا موضوع بحث ’طاقت‘ ہے۔ میں نے طاقت کی مشینری کا تجزیہ کیا ہے۔ آج جوکچھ تمھارے ملک ہو رہا ہے، میں نے اس کا حوالہ دیا ہے اور میں نے بات چبا چبا کر نہیں کی۔ ‘‘

’’تو تم سچ مچ یہ سمجھتے ہو کہ پراگ والوں کو تمھارے مضمون کی خبر ہے ؟‘‘

اس طنز سے ہیوگو مجروح ہو جاتا ہے۔ ’’تم ایک مدت سے ملک کے باہر رہ رہی ہو۔ تمھیں اب یہ یاد نہیں رہا کہ تمھاری پولیس ان معاملات میں کہاں تک جا سکتی ہے، کیا کچھ کر سکتی ہے۔ وہاں اس مضمون کی خاصی پذیرائی ہوئی ہے۔ مجھے اس کے بارے میں وہاں سے بہت سے خطوط بھی آئے ہیں۔ تمھاری پولیس میرے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے۔ ‘‘

تمینہ کوئی جواب نہیں دیتی۔ بس وہاں بیٹھی کچھ اور زیادہ حسین نظر آنے لگتی ہے۔ خدایا! اگر وہ اس کی کائنات کو ذرا بھی پہچان لے — وہ کائنات جس میں وہ اسے اٹھا لے جانے کا آرزومند ہے، جو اس کے گرم لہو اور خیالوں سے مرتب ہوئی ہے — تو وہ ایک کیا، سو بار بھی پراگ آنے جانے کے لیے تیار ہو جائے گا! اور اچانک اس کا لہجہ بد ل جاتا ہے۔ ’’تمینہ، ‘‘ وہ اداسی سے اسے مخاطب کرتا ہے، ’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے پراگ نہ جانے سے ناخوش ہو۔ پہلے میرا خیال تھا کہ اس مضمون کی اشاعت کو کچھ اور مدت کے لیے ملتوی کر دوں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ ان محسوسات کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھنے کا مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا — سمجھیں ؟‘‘

’’نہیں، ‘‘ تمینہ جواب دیتی ہے۔

ہیوگو کو خوب معلوم ہے کہ اس کی ہر بات نہایت مضحکہ خیز ہے اور اسے وہاں لے جا سکتی ہے جہاں جانے کی اسے ذرا خواہش نہیں۔ لیکن اب وہ مورچہ چھوڑ کر پیچھے بھی تو نہیں ہٹ سکتا۔ اس خیال سے وہ پاگل پن کی حد تک مایوس ہوا جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر بڑے بڑے سرخ دھبے پت کی طرح نکل آتے ہیں، اور اس کی آواز بانس کی طرح پھٹنے لگتی ہے۔ ’’تو تم نہیں سمجھیں ؟ اچھا لو، میں سمجھائے دیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ یہاں بھی چیزوں کا وہی حشر ہو جو وہاں ہوا ہے ! اگر ہر فرد و بشر ان معاملات کو یوں ہی تھوڑی دیر کے لیے التوا میں ڈالتا گیا تو ہم پلک جھپکتے میں یہاں بھی غلام بن چکے ہوں گے۔ ‘‘

کراہت کی ایک شدید لہر اٹھی اور تمینہ کو مغلوب کر گئی۔ وہ اپنی کرسی سے کود کر اتری اور عورتوں کے غسل خانے کی طرف بھاگی۔ اس کی آنتیں ابل کر اس کے حلق میں چلی آ رہی تھیں۔ وہ ٹائلٹ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی اور قے کر دی۔ اس کا پورا جسم یوں تڑپ اور لرز رہا تھا گویا سسکیاں بھر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں کے آگے اس لونڈے کے خصیوں، عضوِ تناسل اور زیرِ ناف کے بالوں کی تصویر تھی۔ وہ اس کے منھ سے نکلتی ہوئی سانسوں کی کھٹی بساند سونگھ سکتی تھی، اور اپنے کولھوں پر اس کی رانوں کے دباؤ کو محسوس کر سکتی تھی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اب اسے مطلق یاد نہیں رہا کہ اس کے شوہر کے اعضائے تولید کی کیا شکل و صورت تھی — دوسرے لفظوں میں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ثابت ہو رہی تھی (خدایا، ہاں، کراہت کی یاد شفقت اور ملائمت کی یاد سے کہیں زیادہ طاقتور ہے ) — اور وہ دن دور نہیں جب اس کے حافظے میں صرف یہ لڑکا اور اس کے منھ سے اٹھنے والے بدبو کے بھبھاکے ہی رہ جائیں گے۔ اور اس نے پھر قے کر دی۔ شاخِ بید کی طرح لرزی، تڑپی، اور ایک اور قے کر دی۔

جب وہ غسل خانے سے برآمد ہوئی تو اس کے منھ پر (جو ہنوز اس کھٹی بو سے لبریز تھا) ہمیشہ کے لیے خاموشی کی مہر ثبت ہو چکی تھی۔ ہیوگو مضطرب و خجل تھا۔ چاہتا تھا کہ ساتھ چل کر اسے گھر تک چھوڑ آئے، لیکن وہ ایک لفظ بولنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کے ہونٹ سل چکے تھے (جس طرح خواب میں ہوا تھا، جب اس کے منھ میں طلائی انگشتری تھی)۔

جب وہ اس سے بولا تو اس کا تنہا ردِ عمل یہ تھا کہ وہ اور زیادہ تیز چلنے لگی۔ جلد ہی اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ رہ گیا، اور کچھ دیر تک وہ اس کے ساتھ ساتھ خاموش چلتا گیا۔ بالآخر وہ ایک جگہ رک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ سیدھی آگے چلتی گئی، بغیر اِدھر یا اُدھر دیکھے ہوئے۔

وہ اپنی مدتِ عمر گاہکوں کو کافی پیش کرتی رہی اور بھول کر بھی دوبارہ چیکوسلوواکیہ فون نہ کیا۔

 

 

حواشی:

 

1 Calvados: بھوری رنگت کی خشک برانڈی جو سیب کے عرق سے کشید کی جاتی ہے۔

2 siren: یونانی دیومالا کی وہ مخلوق جو آدھی عورت اور آدھی پرند ہوتی ہے، سمندر کے بیچ کسی چٹان پر رہتی ہے، اور ساحرانہ موسیقی سے غفلت میں آئے مسافروں کو پھانس لیتی ہے۔

3 pate: یہ وہی شے ہے جسے پاکستان کے بہائی ریستورانوں میں خلقت ’’پے ٹِس‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔

4 اصل لفظ جو انگریزی میں استعمال ہوا ہے وہ betray ہے۔ کوئی مناسب اور مترادف لفظ نہیں مل رہا، اور ’’دغا‘‘ سے بھی کام نہیں چل رہا۔ سو دونوں حاضر ہیں۔

5 port: گہرے سرخ رنگ کی ایک تیز، میٹھی شراب۔

6 A soft clear metallic tone, like a golden ring falling into a silver basin.

7 "Is one man alive when others are alive?”

٭٭٭

 

 

 

گرانڈ مارچ

 

                انگریزی سے ترجمہ:محمد عمر میمن

 

 

ذیل میں کنڈیرا کے ناول ’’وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ (The Unbearable Lightness of Being) کے چھٹے حصے کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ پورا ناول ہی اردو میں منتقل کیے جانے کے قابل ہے۔ شاید کوئی ادبی دلیر اس کارِ ثواب کی طرف متوجہ ہو جائے۔

کنڈیرا نے اپنی بعض تحریروں میں سیاست، ادب، ادبی تنقید، خصوصاً ناول کی ہیئت، کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ صاحبِ نظر قاری اس موقف کی آنچ ’’گرانڈمارچ‘‘ (Grand March) والے حصے میں بخوبی محسوس کر سکتا ہے۔ سیاسی واقعات سے مجروح زندگی کے شائستہ ادبی اظہار کے لیے لکھنے والے کو جن آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، ان کا شاہکار یہ ناول ہے۔ لوگ جذبے کے ہیجان اور اپنے اخلاص کی فراوانی ہی کو ادبی نگارش کی کامیابی کا پیمانہ سمجھ لیتے ہیں۔ اب وہ کنڈیرا کے ’اخلاص‘ کا لطف بھی لیں۔ مجال ہے کہ اس نے ادبی اصولوں کو ’اخلاص‘ کے نام پر قربان کیا ہو؛ مجال ہے جو ادبی اصول کسی مرحلے پر ’اخلاص‘ سے رسہ تڑا کر فرار ہوئے ہوں۔ ’اخلاص‘ زندگی کے بارے میں بنا کسی تعصب کے غور کرنے سے آتا ہے۔

خیر یہ سب تو ہے ہی۔ مجھے یہ ناول ایک اور وجہ سے بھی پسند ہے۔ یہ کنڈیرا کے تصورِ ناول کا مکمل ترین اور خوشنماترین عملی پیراہن ہے۔ ملاحظہ ہو کہ کس سفاکی سے قصے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے، اور پھر کس شفقت سے اس انتشار کی شیرازہ بندی کی ہے۔ بظاہر ایک دوسرے سے متصادم ہونے کے باوجود، اپنی اپنی جگہ قائم بالذات ہونے کے باوجود، یہ ٹکڑے ایک دوسرے کی تکمیل بھی کرتے ہیں۔ یہاں تکرار مجذوب کی بڑ نہیں، بلکہ شے کے قعرِ احساس میں مخفی ابعاد کی بازیافت کی جستجو ہے۔ دیکھیے زمانی تسلسل کے انقطاع کے با وصف، موضوع کی وحدت اور ارتکاز کہیں پراگندہ نہیں ہونے پایا۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ اس میں پھسپھسی، چیستانی گراں باری کا شائبہ تک نہیں جس کی بدہضمی سے ان دنوں ہمارا ’بے حد جدید‘ اردو فکشن قے کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس سے بھی بڑی بات: گو کنڈیرا کی زبان ’شاعری‘ کو نہ پہنچ سکی ہو، بڑے بے محابا اور براہ راست ارتکاز سے ہمارے احساس اور شعور میں ضرور جاگزیں ہو جاتی ہے۔ یہ ایک discourse ہے، جملہ انسانی صورتِ حال پر، لیکن ان میں رسمی فلسفے کی گراں باری اور افلاطونی پیچیدگی نہیں آنے پائی۔ یہاں تو وہ عمل ملتا ہے جس کے ذریعے مجرد خیال کی حقیقت میں تجسیم ہوتی ہے۔ ہم لوگ حقیقت کو خواب بنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ شاید اس لیے کہ خواب کا انتشار ہمارے وجدان اور فکر کی شکستگی کو اپنی مبہم فضا کی رحم مادر میں بہ کمال شفقت حمائل کرنے کا مجاز تصور کیا جانے لگا ہے، اور شاید اس لیے بھی کہ یہ حربہ ہمیں ادیب بنائے یا نہ بنائے، کم از کم جسم پر کھال ضرور سلامت رہنے دیتا ہے۔

یہاں یہ ذکر شاید بے محل نہ ہو کہ کنڈیراallegory، parable، fableاور اس قسم کی دوسری اصناف کو، جو ’’ سرّیات‘‘ (esoterica) میں شمار کی جاتی ہیں، فکشنی ادب کے حق میں مہلک سمجھتا ہے۔ مثلاً ’تمثیل‘ (یا ایلی گری) کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ’’محض کسی مفروضے کی تشریح کے واسطے گھڑی گئی کہانی‘‘ ہوتی ہے ؛ جب کہ واقعات کو، خواہ وہ حقیقی ہوں یا خیالی، فی نفسہٖ اہم ہونا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیاسی بحران اور آمریت کے دور میں ادبی رجحان کچھ زیادہ ہی ’تجرید‘ پسند ہو جاتا ہے، لیکن میلان کنڈیرا کے ناولوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس قسم کی ناپسندیدہ تجریدیت سے دامن بچا کر چلنے کا امکان، بہرحال، موجود ہے۔

اوپر انتشار اور پھر ماہرانہ شیرازہ بندی کا ذکر آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کے سات حصوں میں سے ہر حصہ (جو خود چھوٹے چھوٹے بیس تیس ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے ) اپنی جگہ مکمل ہے اور اپنی اس آزاد حیثیت کے باوجود ناول کا جزوِ لاینفک بھی۔ بہرحال، آپ اس حصے کو ایک مکمل کہانی پائیں گے۔

— محمد عمر میمن

 

 

                1

یہ تو ہمیں 1980 میں کہیں جا کر سنڈے ٹائمز کے مطالعے سے پتا چلا کہ اسٹالن کے بیٹے یاکوف (Yakov) کی موت اصلاً کن حالات میں واقع ہوئی۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمنوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد اسے ایک کیمپ میں برطانوی آفیسروں کے ایک گروہ کے ساتھ ڈال دیا گیا تھا۔ ا ن سب کے استعمال کے لیے بس ایک ہی پاخانہ تھا۔ اسٹالن کے بیٹے کی عادت تھی کہ رفع حاجت کے بعد پیچھے نہایت متعفن غلاظت چھوڑ جاتا تھا۔ برطانوی آفیسروں کو یہ بات سخت ناگوار گزرتی تھی کہ ان کے پاخانے میں جابجا فضلہ لتھڑا ہوا ہوتا ہے — اس سے غرض نہیں کہ یہ فضلہ دنیا کے قوی ترین آدمی کے سپوت کا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اس سلسلے میں یا کوف سے بات کی۔ وہ برا مان گیا۔ انھوں نے بار بار اس طرف اس کی توجہ دلائی، اور اس سے پاخانہ صاف کرانے کی کوشش کی۔ وہ مارے غصے کے ابل پڑا، بحثا بحثی کرنے لگا، اور باقاعدہ لڑ پڑا۔ آخرکار، اس نے کیمپ کے کمانڈر سے شنوائی کا مطالبہ کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ معاملے میں کمانڈر ثالث بنے، لیکن اس مغرور کمانڈر نے فضلے کی بابت گفتگو کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اسٹالن کا بیٹا اس ہزیمت کو برداشت نہ کر سکا۔ آسمان کو حاضر ناظر بنا کر اس نے قبیح ترین روسی مغلظات زبان سے نکالے، اور جست بھر کر کیمپ کے احاطے کی برقی خاردار چہار دیواری کی طرف دوڑ لگا دی۔ تیربہ ہدف لگا — اس کا جسمِ عزیز، جو برطانویوں کے پاخانے کو اب کبھی گندا نہ کر سکے گا، تار سے چپک کر رہ گیا۔

 

                2

اسٹالن کے بیٹے کی زندگی عذاب اور آزمائش ہی میں گزری۔ تمام شواہد اسی طرف دلالت کرتے ہیں کہ اس کے باپ نے اس عورت کو مار ڈالا تھا جس کے بطن سے یاکوف پیدا ہوا تھا۔ چنانچہ یہ ننھے اسٹالن میاں دونوں ہی تھے : پسرِ خدا بھی (کیونکہ ان کے باپ کی اتنی ہی تعظیم کی جاتی تھی جتنی خدا کی) اور راندۂ خدا بھی۔ لوگ اس سے دوہرے طور پر خوفزدہ رہتے۔ وہ انھیں اپنے غیظ و غضب سے (کہ بہرحال تھا تو وہ اسٹالن کا سپوت ہی) ایذا پہنچا سکتا تھا، بعینہٖ جس طرح اپنے لطف و کرم سے (کہ اُس کا باپ اس کی گوشمالی کرنے کے چکر میں اس کے یار دوستوں کی مرمت ہی نہ کر دے )۔

رد اور رعایت، خوشی اور غم — یاکوف سے زیادہ کوئی اور شخص اتنے حقیقی طور پر نہیں محسوس کر سکتا تھا کہ متضاد چیزیں کس آسانی سے ایک دوسرے میں تبادل پذیر ہو سکتی ہیں، کہ انسانی وجود کے ایک عمود سے دوسرے عمود کا فاصلہ کس قدر مختصر ہو سکتا ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ جنگ کے عین آغاز میں وہ جرمنوں کی قید میں جا پھنسا جہاں دوسرے قیدیوں نے، جو ایک ناقابلِ فہم طور پر نک چڑھی قوم سے تھے جس سے وہ اندرونی طور پر متنفر تھا، اس پر غلیظ اور ملیچھ ہونے کا بہتان لگایا۔ تو کیا اب اسے، جس کے شانوں پر اعلیٰ ترین ڈرامے کا بوجھ تھا (بحیثیت پسرِخدا، باعتبار فرشتۂ مہبوط)، مقدمے کی ذلت بھی اٹھانی پڑے گی، اور وہ بھی کسی برتر اور منزّہ چیز کے حوالے سے نہیں (مثلاً جو خدا اور ملائک کے دائرے میں آتی ہو)، بلکہ فضلے کے حوالے سے ؟ تو کیا اعلیٰ ترین ڈراما اور اسفل ترین ڈراما ایک دوسرے سے اس درجہ قریب تھے کہ سرچکرا جائے ؟

سر چکرانے کی حد تک قریب؟ کیا قربت سر چکرا دیتی ہے ؟

بالکل۔ جب قطبِ شمالی قطبِ جنوبی کے اس قدر قریب آ جائے کہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکے، تو دنیا غائب ہو جاتی ہے اور آدمی خود کو ایسے خلا میں پاتا ہے جو اس کا سر چکرا دیتا ہے اور چھلانگ لگا دینے کا اشارہ کرتا ہے۔

اگر رد اور رعایت ایک ہی چیز ہیں، ارفع اور ادنیٰ میں کوئی فرق نہیں، اور پسرِ خدا پر فضلے کے حوالے سے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، تو اس صورت میں وجودِ انسانی اپنے ابعاد سے تہی ہو کر ناقابلِ برداشت طور پر لطیف ہو جاتا ہے۔ جس وقت اسٹالن کے بیٹے نے دوڑ لگا کر خود کو برقی تار پر دے پھینکا تھا، تو وہ خاردار جنگلا ترازو کے پلڑوں کی طرح تھا جو درد انگیز طور پر ہوا میں اٹھے ہوئے ہوں، ایسی دنیا کی لامتناہی لطافت کے دوش پر جو اپنے ابعاد سے تہی ہو چکی ہو۔

اسٹالن کے بیٹے نے فضلے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ لیکن فضلے کی خاطر جان دے دینا قطعی بے معنی موت نہیں ہے۔ ہاں، اب اگر جرمنوں نے اپنے ملک کی حدود کو مشرق کی طرف بڑھانے میں جان دے دی، اور روسیوں نے اپنے دائرۂ اقتدار کو مغرب کی طرف توسیع دینے میں، تو یہ البتہ ضرور ایک احمقانہ چیز کے حصول کی راہ میں جان دینے کے مترادف تھا۔ ان کی موت کے کوئی معنی نہیں نکلتے، اور نہ اس موت کی عام افادیت کا کوئی جواز ہی نظر آتا ہے۔ جنگ کی عام حماقت میں صرف اسٹالن کے فرزند کی موت ہی کو ما بعد الطبیعیاتی موت ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔

 

                3

لڑکپن میں جب میں اس عہد نامۂ عتیق کی ورق گردانی کرتا جو خاص طور پر بچوں کے لیے مرتب کیا گیا تھا، اور جس کی تصویریں گستاف دورے (Gustave Dore) کی کندہ کاریوں (engravings) سے لی گئی تھیں — تو اللہ میاں مجھے بادل پر کھڑے نظر آتے تھے۔ یہ ایک بوڑھے آدمی تھے جن کی آنکھیں تھیں، ناک تھی، اور ایک لمبی داڑھی تھی۔ میں اپنے سے کہتا کہ اگر ان کا منھ ہے تو یہ کھانا بھی ضرور کھاتے ہوں گے۔ اور اگر یہ کھانا کھاتے ہیں تو ان کی آنتیں بھی ہوں گی۔ لیکن اس خیال سے مجھے ہمیشہ ہی ہول چڑھنے لگتا۔ اس کے باوجود کہ جس خاندان سے میرا تعلق تھا وہ کوئی ایسا خاص مذہبی نہ تھا، خدا کے ساتھ آنتوں کا تصور مجھے بڑی بے حرمتی کی بات محسوس ہوتی۔

کمال برجستگی سے، بنا دینیات کی رسمی تعلیم کے، میں نے، جو ابھی بچہ ہی تھا، یہ دریافت کر لیا تھا کہ خدا کے ساتھ فضلے کا کوئی جوڑ نہیں۔ اس طرح عیسائی علمِ بشریت کا بنیادی مفروضہ ہی میری نظر میں قابلِ استفسار ٹھہرا: یہی کہ آدمی کی تخلیق نقشِ خدا پر ہوئی ہے۔ مسئلہ ’’یا یہ، یا وہ‘‘ کا تھا۔ یا تو یہ تھا کہ آدمی خدا کی شبیہ میں بنایا گیا تھا — اور خدا کی آنتیں ہیں ! یا خدا کی آنتیں نہیں، اور آدمی خدا کی طرح نہیں۔

قدیم گیانیوں 1 کے محسوسات بالکل وہی تھے جو پانچ سال کی عمر میں میرے تھے۔ دوسری صدی کے جیّد غناسطی عارف ولن تی نس (Valentinus) نے اس قابلِ نفریں مخمصے سے نکلنے کا حل کچھ اس دعوے کی صورت میں پیش کیا تھا کہ یسوع مسیح ’’کھاتے بھی تھے اور پیتے بھی تھے، لیکن رفع حاجت نہیں کرتے تھے۔ ‘‘

شر کے مقابلے میں فضلہ دینیات کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ چونکہ خدا نے آدمی کو اختیار دیا ہے چنانچہ عند الحاجت ہم یہ بات بھی قبول کر سکتے ہیں کہ وہ آدمی کے مرتکبہ جرائم کا ذمے دار نہیں۔ اس کے برخلاف، فضلے کی تمام تر ذمے داری اس کے سر ہے، یعنی اُسی کے سر جو آدمی کا خالق ہے۔

 

                4

چوتھی صدی میں سینٹ جروم (Saint Jerome) نے باغِ فردوس میں آدم اور حوا کی جنسی مباشرت کا قطعی طور پر انکار کر دیا تھا۔ اس کے برخلاف، نویں صدی کے عظیم عالمِ دینیات یوہانس اسکوٹس اری جینا (Johannes Scotus Erigena) نے اس نظریے کو قبول کیا۔ یہی نہیں، اس کا عقیدہ تھا کہ آدم کا عضوِ تناسل اپنے مالک کے ادنیٰ سے اشارے پر، جب اور جس طرح چاہے، بازو اور ٹانگ کی طرح اٹھ بھی سکتا ہے۔ اب صاحب، ہم اس تصور کو کسی ایسے آدمی کے مکرر الوقوع خواب سے تعبیر کر کے نہیں ٹال سکتے جسے نامردی کے خوف نے ایک آسیب کی طرح آ لیا ہو۔ اری جینا کا مدعا کچھ اور ہی ہے۔ سوچیے تو سہی، اگر عضوِ تناسل کو محض ایک حکم کے ذریعے ایستادہ کیا جا سکے تو پھر شہوت اور جنسی اشتعال کا قصہ ہی پاک ہو جاتا ہے۔ اس عضو کی ایستادگی ہمارے جنسی اشتعال کی رہینِ منت نہیں رہے گی بلکہ ہمارے حکم کی۔ تو اس ثقہ عالمِ دینیات کے حساب سے جو چیز جنت سے لگّا نہیں کھاتی، وہ جنسی مباشرت اور اس سے آنے والا مزہ نہیں، بلکہ شہوت اور جنسی برانگیختگی ہے۔ خوب ذہن نشین کر لیجیے : جنت میں عیش و عشرت تو تھا، شہوت نہیں۔

اری جینا کی دلیل فضلے کی دینیاتی تائید (بالفاظ دیگر تھیوڈسی) 2 کے مسئلے میں کلید کا درجہ رکھتی ہے۔ آدمی کو جب تک جنت میں رہنے کی اجازت تھی تو یا وہ (ولن تی نس کے مسیح کی طرح) بالکل ہی رفع حاجت نہیں کرتا تھا، یا (اور یہ اغلب ہے ) اپنے فضلے کو کوئی مکروہ یا ناگوارِ خاطر چیز نہیں گردانتا تھا۔ جنت سے نکال باہر کرنے کے بعد ہی کہیں جا کر خدا نے آدمی میں احساسِ کراہت کو جنم دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آدمی ہر اس چیز کی پردہ پوشی کرنے لگا جو اس کے احساسِ ندامت کو ابھارتی تھی۔ تاآنکہ جب وہ بالکل ہی بے حجاب ہوا، ایک خیرہ کن روشنی اس کی قوتِ بینائی سلب کر چکی تھی۔ انجام کار، تنفر اور کراہت سے متعارف ہونے کے فوراً بعد وہ شہوت سے بھی متعارف ہو گیا۔ فضلے کا وجود نہ ہو (حقیقی اور مجازی دونوں معنی میں ) تو جنسی محبت کا، جس طرح ہم جنسی محبت کو سمجھتے اور جانتے ہیں، یعنی وہ محبت جو شدید خفقانِ قلب اور اضمحلالِ حواس کے ساتھ وارد ہوتی ہے، کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔

موجودہ ناول کے تیسرے حصے میں میں نے سبینا کا قصہ سنایا ہے جہاں وہ اپنے سر پر ایک بولرہیٹ (bowler hat) منڈھے نیم برہنہ کھڑی ہے اور اس کے برابر طوماش مکمل طور پر ملبوس کھڑا ہے، تو وہاں میں ایک چیز کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔ جب وہ آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لے رہی تھی، در آنحالیکہ تحقیرِ ذات کے احساس نے اس کے شہوانی جذبات میں ہیجان برپا کیا ہوا تھا، تو ٹھیک وہ اس تصور میں محو تھی کہ طوماش نے اسے اس کے بولرہیٹ سمیت ٹائلٹ پر بٹھا دیا ہے اور اسے رفع حاجت کرتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ اچانک اس کا دل بری طرح پھڑپھڑانے لگتا ہے اور قبل اس کے کہ وہ بے ہوش ہو جائے، وہ طوماش کو قالین پر کھینچ لاتی ہے اور جماع کی سرمستی سے لبریز چیخ بلند کرتی ہے۔

 

                5

وہ جو اس بات کے معتقد ہیں کہ دنیا کو خدا ہی نے تخلیق کیا ہے، اور وہ جن کے عقیدے کے مطابق یہ ازخود عالم وجود میں آئی ہے، تو ان دونوں کے درمیان جو بحث چلی آ رہی ہے اس کا تعلق ایسے مظاہر سے ہے جو ہماری عقل اور تجربے سے باہر ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ حقیقی تو وہ حدِ فاصل ہے جو ان لوگوں کو جو وجود کو باعتبارِ تحفہ (اس سے غرض نہیں کہ یہ کس نے دیا اور کس طرح دیا) شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان لوگوں سے بیّن طور پر الگ کرتی ہے جو وجود کو بلا چون و چرا، بلا کیف قبول کرتے ہیں۔

جملہ یورپی اعتقادات کے پیچھے، خواہ یہ مذہبی ہوں یا سیاسی، ہمیں ’’آفرینش‘‘ کے باب اول کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ اس باب میں ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ دنیا بالکل ٹھیک ٹھاک تخلیق کی گئی تھی، کہ وجودِ انسانی خیر ہے، اور چنانچہ ہمیں افزائشِ نسل کا حق حاصل ہے۔ چلیے اس بنیادی عقیدے کو ’’وجود سے قطعی اتفاق‘‘ کا نام دیں۔

یہ بات کہ ابھی چند دن پہلے تک لفظ ’’فضلہ‘‘، ’’ف…‘‘ کی صورت چھپتا رہا ہے، تو یہ اخلاقی تامّلات کے باعث نہیں تھا۔ ظاہر ہے، آپ یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ فضلہ غیر اخلاقی چیز ہے ؛ اس پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے وہ سراسر ما بعد الطبیعیاتی نوعیت کا ہے۔ یومیہ رفع حاجت نظریۂ تخلیق کے ناقابلِ قبول ہونے کی یومیہ دلیل ہے۔ وہی ’’یا یہ، یا وہ‘‘ والا مسئلہ: فضلہ قابلِ قبول ہے (تو پھر اس صورت میں پاخانے کا دروازہ بھیڑنے کی چنداں ضرورت نہیں !) یا ہماری تخلیق کا جو طور ہے، وہ ناقابلِ قبول ہے۔

اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ’’وجود سے قطعی اتفاق‘‘ کا جو یہ جمالیاتی آدرش ہے، اس کا تعلق ایک ایسی دنیا سے ہے جہاں فضلے کا ردّ و انکار کیا جاتا ہے اور جہاں ہرکس و ناکس اپنے طور طریق سے یہ ظاہر کرنے پر تلا بیٹھا ہے کہ فضلے کا دور دور کہیں وجود نہیں۔ اس جمالیاتی آدرش کا نام ’’کِچ‘‘ (kitsch) ہے۔

’’کچ‘‘ جرمن زبان کا لفظ ہے جو جذباتیت زدہ انیسویں صد ی کے نصف میں وجود میں آیا، اور جرمن سے دیگر مغربی زبانوں میں بھی در آیا۔ کثرتِ استعمال سے اس کے حقیقی، مابعد الطبیعیاتی معنی جاتے رہے ہیں، اور اب وہ جن معنی میں مستعمل ہے، وہ یہ ہیں : کچ فضلے کا مطلق انکار ہے، حقیقی اور مجازی دونوں معنی میں۔ کچ اپنی نظر کی حدود سے ہر وہ چیز خارج کر دیتا ہے جو وجودِ انسانی میں بنیادی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔

 

                6

کمیونزم کے خلاف سبینا کی اولین، اندرونی بغاوت اخلاقی سے زیادہ جمالیاتی نوعیت کی تھی۔ اس کے تنفر کا باعث اشتراکیت کی کریہہ المنظری (دستبردِ زمانہ سے نڈھال، اجڑے، کہنہ قلعے جنھیں مویشی خانوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا) اتنی نہیں تھی جتنی یہ بات کہ وہ خوبصورتی کا خول پہننے پر مصر تھی — بالفاظ دیگر اشتراکی کچ۔ اور اشتراکی کچ کا زرّیں ترین نمونہ وہ رسم ہے جسے یومِ مئی (May Day) کہا جاتا ہے۔

اس نے یومِ مئی کی پریڈ اس دور میں دیکھی تھی جب لوگ اس معاملے میں خاصے پُر جوش ہوا کرتے تھے، یا کم از کم اپنے پُر جوش ہونے کا سوانگ بھرنے کی حتی المقدور کوشش ضرور کیا کرتے تھے۔ سب ہی عورتیں زرق برق، سرخ، سفید، نیلے بلاؤز زیب تن کرتیں، اور اپنی بالکنیوں اور کھڑکیوں سے تماشا دیکھتے ہوئے عوام، پریڈ کرنے والوں کی مخصوص ترتیب اور آراستگی میں پنج زاویہ ستارے، قلب اور حروف تہجی کو بہ آسانی پہچان لیتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے براس بینڈ انفرادی ٹولیوں کے ساتھ ساتھ چلتے اور اپنی لے تال پر انھیں قدم ملا کر چلنے پر مجبور کرتے، اور جوں ہی ایک گروہ معائنے کی مچان (reviewing stand) پر پہنچتا، پژمردہ ترین چہرے بھی دمدماتی مسکراہٹ سے منور ہو جاتے، گویا اپنے مناسب طور پر شاداں و فرحاں ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہوں — یا یوں کہیے، مناسب طور پر ’’متفق‘‘ ہونے کا ثبوت۔ یہ محض اشتراکیت سے سیاسی موافقت کا اظہار نہیں، بلکہ بنفسہٖ وجود سے متفق ہونے کا اظہار تھا۔ تو یوں سمجھیے کہ یومِ مئی کی رسومات میں شامل ہونے کی تحریک وجود سے قطعی اتفاق کے گہرے سرچشمے سے نکلتی تھی۔ پریڈ کا بے لکھا اور بے لگایا نعرہ ’’کمیونزم زندہ باد!‘‘ نہیں تھا، بلکہ ’’حیات زندہ باد!‘‘ اشتراکی سیاست کی تمام تر قوت اور ساری استادی تو اس بات میں مضمر تھی کہ اس نے یہ نعرہ ہتھیا لیا تھا، کیونکہ ’’حیات زندہ باد!‘‘ کے نعرے کی یہ تکرار ہی تھی جس کے جذب و کشش سے متاثر ہو کر وہ لوگ بھی جو اشتراکیت کے مفروضوں سے دلچسپی نہیں رکھتے تھے، اشتراکی پریڈ کی طرف کشاں کشاں چلے آتے تھے۔

 

                7

دس سال بعد (جب وہ امریکہ میں سکونت پذیر تھی)، اس کے دوستوں کا ایک دوست جو ایک امریکی سینیٹر تھا، اپنی دیوپیکر کار میں سبینا کو لے کر سیر کے لیے نکلا۔ سینیٹر کے چار بچے کار کی پچھلی نشست پر مستقل دھما چوکڑی مچا رہے تھے۔ ایک اسٹیڈیم کے عین مقابل سینیٹر نے کار روک دی۔ اس اسٹیڈیم میں مصنوعی برف پر اسکیٹنگ کرنے کا ایک رِنک (rink) بھی تھا۔ بچے جست لگا کر کار سے باہر کودے اور رِنک کے اطراف میں گھاس کے کشادہ قطعوں پر کنارے کنارے دوڑنے بھاگنے لگے۔ اسٹیرنگ وِیل کے پیچھے بیٹھے ہوئے اور خواب آلود نظروں سے ان چار کودتے پھاندتے پیکروں کو دیکھتے ہوئے، سینیٹر نے سبینا سے کہا، ’’ ذرا انھیں دیکھو!‘‘ پھر ہاتھ اٹھا کر اس نے ایک خیالی ہالہ کھینچا، جس کی وسعت میں اسٹیڈیم، گھاس کے قطعے، بچے، سب ہی سما گئے، اور اضافہ کیا، ’’صاحب، اب میں اس چیز کو مسرت کہتا ہوں۔ ‘‘

اس کے الفاظ کے پیچھے بچوں کو قلانچیں بھرنے اور گھاس کو اگتے دیکھنے پر احساسِ مسرت کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ مثلاً ایک اشتراکی ملک سے آئے ہوئے مہاجر کی حالتِ زار کا مکمل احساس بھی؛ ایک ایسے اشتراکی ملک سے جہاں، سینیٹر صاحب کو پورا یقین تھا، نہ گھاس اگتی ہے، اور نہ بچے بلا روک ٹوک کلیلیں کرتے پھرتے ہیں۔

اس لمحے ایک پیکر سبینا کی نظروں کے آگے شرارے کی طرح کوند گیا۔ یہ پیکر سینیٹر کا تھا۔ وہ پراگ کے کسی چوک میں ٹھکی معائنے کی مچان پر کھڑا ہوا تھا، اور اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جو اشتراکی سربراہ اپنے معائنے کی مچان کی بلندی سے نیچے انھیں کی طرح متبسّم پریڈ میں شامل عوام الناس کی طرف پھینکتے ہیں۔

 

                8

سینیٹر کو کیسے معلوم ہوا کہ بچوں کا ہونا مسرت کی دلیل ہے ؟ کیا وہ ان کی روحوں میں نفوذ کر کے انھیں دیکھنے پر قادر تھا؟ ٹھیک بڑوں کی نظر سے اوجھل ہوتے ہی تین بچے مل کر چوتھے پر دھاوا بول دیتے اوراس کی ٹھکائی کر دیتے تو؟

سینیٹر کے پاس اپنے حق میں صرف ایک ہی دلیل تھی: اس کا اپنا احساس۔ جب دل کی زبان چل پڑے تو دماغ اس پر اعتراض کو نہایت ناشائستہ فعل گردانتا ہے۔ کچ کی اقلیم میں دل کی آمریت بے محابا حکمرانی کرتی ہے۔

کچ جس قسم کے احساس کو جنم دیتا ہے وہ ایسا ہونا چاہیے جس میں عوام شریک ہو سکیں۔ چنانچہ کچ کا دارومدار کسی غیر معمولی صورت حال پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کو تو ان بنیادی پیکروں اور علائم سے ابھرنا چاہیے جو عوام کی یادوں میں مرتسم ہوں : مثلاً ایک نا شکر گذار بیٹی، ایسا باپ جس سے غفلت برتی جا رہی ہو، گھاس کے قطعوں پر دوڑتے بھاگتے بچے، مادرِ وطن جس کے ساتھ دغا کی گئی ہو، پہلی محبت…

کچ دو آنسوؤں کو آنکھوں سے یکے بعد دیگرے رواں کرتا ہے۔ پہلا آنسو کہتا ہے : بچوں کو گھاس پر کودتا پھاندتا دیکھنا کس قدر بھلا ہے !

دوسرا آنسو کہتا ہے : بچوں کو گھاس پر کودتا پھاندتا دیکھ کر، جملہ انسانیت کے ساتھ، متاثر ہونا کتنا بھلا ہے !

یہ دوسرا آنسو ہی ہے جو کچ کو صحیح معنوں میں کچ بناتا ہے۔

کرۂ ارض پر اخوتِ آدم صرف کچ ہی کی بنیاد پر ممکن ہے۔

 

                9

اور اس بات کو سیاست دانوں سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا۔ دور سے کیمرے کی جھلک نظر آئی نہیں کہ فوراً قلانچ بھر کر قریب ترین بچے کو لپک کر گود میں اٹھا لیا اور گال پر بوسہ جڑ دیا۔ تمام سیاست دانوں، سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں کا جمالیاتی آدرش کچ ہی ہے۔

ہم میں سے وہ جو ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جس میں مختلف النوع سیاسی رجحانات کے لیے شانہ بہ شانہ رہنے کی گنجائش موجود ہے، اور جہاں ہم سر اثرات ایک دوسرے کو قلم زد کرتے ہیں یا کم از کم ان کے دباؤ کو محدود — کچ کے احتساب سے کم و بیش بچ سکتے ہیں : فرد اپنی انفرادیت کا تحفظ کر سکتا ہے، فنکار غیرمعمولی چیز تخلیق کر سکتا ہے۔ تاہم جب بھی کوئی مخصوص سیاسی تحریک طاقت پر قابض ہو جاتی ہے تو پھر ہم اپنے کو آمرانہ کچ کی مملکت میں پاتے ہیں۔

’’آمرانہ‘‘ سے میری مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو کچ سے مزاحم ہو، اسے مدتِ عمر بے وطن کر دیا جائے۔ نہ صرف یہی بلکہ انفرادیت کے ہر مظاہرے کو بھی (کیونکہ جماعت سے انحراف، بشاش اور متبسم اخوت کی نظر میں، نفاق کے مترادف ہے )، اور ہر شک شبہے کو (کیونکہ وہ شخص جو اجزا پر شبہ کرنے لگتا ہے، انجام کار خود زندگی پر بھی شبہ کرنے لگتا ہے )، اور ہر طنز کو (کیونکہ کچ کی سلطنت میں ہر شے کو بکمال سنجیدگی برتنا ازبس ضروری ہے )، اور اس ماں کو جو گھر چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہو، اور اس آدمی کو جو عورتوں کے مقابلے میں اپنی جنس کو ترجیح دیتا ہو اور یوں اپنے فعل سے اس امرِ مقدس کو للکارتا ہو: ’’بار آور ہو اور افزائش نسل کرو!‘‘

اس روشنی میں ہم گولاگوں (gulags) کو تعفن کے گڑھوں سے تعبیر کر سکتے ہیں، جنھیں آمرانہ کچ اپنی غلاظت سے پیچھا چھڑانے کی خاطر استعمال کرتا ہے۔

 

                10

دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد آنے والی دہائی اسٹالنی دہشت کا مکروہ ترین دور تھی۔ یہ وہی دور تھا جس میں تیریزا (Tereza) کے باپ کو بہت معمولی الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور دس سالہ تیریزا کو فلیٹ سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ اور یہ وہ دور بھی تھا جس میں بیس سالہ سبینا فنونِ لطیفہ کی اکیڈمی میں زیرِ تعلیم تھی۔ یہاں اس کے مارکسزم کے استاد نے سوشلسٹ آرٹ کے مندرجہ ذیل نظریے کی تشریح کی: سوویت معاشرے نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ بنیادی تصادم اب خیروشر کے درمیان نہیں رہا بلکہ خیر و بہتر کے درمیان۔ چنانچہ فضلے کا وجود (یعنی ہر اُس چیز کا وجود جو اصلاً ناقابلِ قبول ہو) صرف دوسری طرف (مثلاً امریکہ میں ) ہی ممکن ہے، اور وہیں، یعنی باہر ہی، سے ایک مکمل اجنبی شے (مثلاً ایک جاسوس) ہی کی طرح ’’خیر و بہتر‘‘ کی دنیا میں جاگزیں ہو سکتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس اذیت ناک دور میں سوویت فلموں کی تمام اشتراکی ملکوں میں سخت ریل پیل تھی، اور یہ فلمیں بڑی ناقابلِ یقین معصومیت اور عفت سے لبریز ہوا کرتی تھی۔ دو روسیوں کے درمیان بڑے سے بڑا تصادم جو ہو سکتا تھا اس کی نوعیت اس غلط فہمی سے زیادہ نہیں تھی جو دو محبت کرنے والوں کے درمیان پیدا ہو جائے۔ مثلاً عاشق کے خیال میں محبوبہ کو اس سے محبت نہیں رہی تھی، محبوبہ کے خیال میں عاشق کو اس سے عشق نہیں رہا تھا۔ آخری منظر میں دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں آ گرتے اور فرط مسرت سے ان کے آنسو جاری ہو جاتے۔

ان فلموں کی موجودہ رواجی تفسیر یہ ہے : یہ اشتراکی آئیڈیل پیش کرتی تھیں، جبکہ اشتراکی حقیقت کہیں بدتر تھی۔

سبینا ہمیشہ ہی اس تفسیر کے خلاف رد عمل ظاہر کرتی۔ جوں ہی اس کے تصور میں آتا کہ سوویت کچ کی کائنات بس اب حقیقت میں تبدیل ہوا چاہتی ہے، اس کی پشت پر ایک برفانی لہر دوڑ جاتی اور اس پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ ایک حقیقی اشتراکی حکومت میں زندگی گزارنے میں اسے کوئی تامل نہیں تھا، بلکہ وہ تو اس کو زیادہ قابلِ ترجیح سمجھتی تھی۔ اس کے لیے اسے سب کچھ قبول تھا، حتیٰ کہ گوشت خریدنے کے لیے گھنٹوں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنا، یا کوئی اور اذیت جو اسے پہنچے۔ ایک حقیقی اشتراکی ملک میں زندگی پھر بھی بسر کیے جانے کے قابل تھی، لیکن ایسی اشتراکی کائنات میں جہاں اشتراکیت کا آدرش حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہو، یعنی دانت نکال کر ہنستے ہوئے احمقوں کی کائنات، تو یہاں اس کے لیے کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا تھا۔ یہاں تو ہفتے کے اندر اندر ہی اس کی موت واقع ہو جاتی۔

سوویت کچ کے تصور سے جو احساس سبینا میں اٹھتا، وہ مجھے تیریزا کی اس دہشت سے کافی ملتاجلتا نظر آتا ہے جواسے یہ خواب دیکھ کر محسوس ہوئی: اسے برہنہ عورتوں کی ایک ٹولی کے ساتھ سوئمنگ پول کے چاروں طرف مارچ کرایا جا رہا ہے ؛ اسے مجبور کیا جا رہا ہے کہ ان عورتوں کے ساتھ مل کر ہنسی خوشی کے گیت گائے، جبکہ پول میں سطحِ آب سے ذرا نیچے لاشیں ہی لاشیں تیرتی پھر رہی ہیں۔ تیریزا ان عورتوں سے کچھ بھی نہیں پوچھ سکتی، اور اگر پوچھ بھی لے تو جواب میں گائے جانے والے گیت کا صرف دوسرا بند ہی اسے سنائی دے گا۔ اور تو اور، وہ تو ان عورتوں کی طرف دیکھ کر خفیف سی پلک بھی نہیں مار سکتی، کیونکہ اس صورت میں وہ عورتیں فوراً اس آدمی سے اس کی نشاندہی کر دیں گی جو پول کے اوپر ایک چنگیری میں کھڑا ہوا ہے۔ وہ فوراً تیریزا کو گولی مار دے گا۔

تیریزا کا خواب کچ کے طریقِ عمل کو بے کم و کاست ظاہر کرتا ہے : کچ ایسا فولڈنگ پردہ ہے جسے موت کی پردہ پوشی کے لیے کھڑا کیا گیا ہے۔

 

                11

کچ کی آمرانہ کائنات میں سارے جواب پیشگی دے دیے جاتے ہیں اور سوالوں کو خارج کر دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، آمرانہ کچ کا سچا حریف وہ شخص ہے جو سوال کرتا ہے۔ سوال چاقو کی طرح ہے جو اسٹیج کے پردے کو چاک کر کے پیچھے جو کچھ ہے اس کا منظر دکھائے۔ ٹھیک ٹھیک انھیں لفظوں میں سبینا نے تیریزا سے اپنی پینٹنگز کے معنی کی تشریح کی تھی: سطح پر ایک قابلِ فہم دروغ اور زیرِ سطح جھانکتا ہوا ناقابلِ فہم سچ۔

لیکن وہ لوگ جو آمرانہ نظام حکومت کے خلاف جہاد کرتے ہیں، شک و شبہے یا علائم سے کام نہیں لے سکتے۔ عوام الناس کو اپنا موقف سمجھانے اور اجتماع کو آبدیدہ کرنے کے لیے انھیں بھی مسلّمات، تیقّنات، اور عام سچائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک بار سبینا کی تصویروں کی نمائش ہوئی تھی۔ ا س کا اہتمام جرمنی کی ایک سیاسی تنظیم نے کیا تھا۔ جب اس نے اپنی تصویروں کا کیٹلاگ اٹھا کر دیکھا تو اس میں نظر آنے والی سب سے پہلی تصویر خود اس کی اپنی ہی تھی۔ اس کے عکس کے اوپر خاردار تاروں کی ایک ڈرائنگ ثبت تھی۔ کیٹلاگ کے اندر اسے اپنے کوائف نظر آئے جنھیں پڑھو تو معلوم ہو کہ وہ تو اچھی خاصی بھگت ہے، یا بھگت نہیں تو کم از کم شہید تو یقیناً ۔ اس نے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائی ہیں، ناانصافی کے خلاف برسرپیکار رہی ہے، اپنے خون رِستے وطنِ عزیز سے نکل جانے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ مگر ان تمام آزمائشوں کے باوجود اس کا جہاد جاری ہے۔ آخری جملہ تھا، ’’اس کی پینٹنگز حصولِ مسرت کی جدوجہد ہیں !‘‘

سبینا نے احتجاج کیا، لیکن وہ اسے نہیں سمجھے۔

’’تو کیا تمھارے خیال میں اشتراکیت کی عملداری میں جدید آرٹ پر ظلم و ستم نہیں ہو رہا؟‘‘

’’میرا اصلی دشمن کچ ہے، اشتراکیت نہیں، ‘‘ اس نے چراغ پا ہو کر جواب دیا۔

اس کے بعد سے سبینا نے اپنے کوائف میں جان بوجھ کر نہایت گمراہ کن جزئیات ڈالنی شروع کر دیں، تاآنکہ جب وہ امریکہ پہنچی تو اصلاً اپنے چیک شہری ہونے کی حقیقت پر بھی بخوبی پردہ ڈال چکی تھی۔ یہ محض اس کچ سے، جس میں لوگ اس کی زندگی کو تبدیل کرنے پر تلے بیٹھے تھے، مفر کی ایک بے جگرانہ کوشش تھی۔

 

                12

وہ اپنے ایزل کے سامنے کھڑی تھی جس پر ایک نیم مکمل کینوس تھا۔ اور وہ پیرِکہن سالہ، جو عین اس کے پیچھے آرام کرسی میں دھنسے بیٹھے تھے، اس کے موقلم کی ہر جنبش کا بڑی گہری نظروں سے مطالعہ کر رہے تھے۔

’’اب گھر چلنا چاہیے، ‘‘ بڑے میاں نے گھڑ ی پر نظر ڈالتے ہوئے بالآخر کہا۔

سبینا نے رنگوں کی پلیٹ نیچے رکھ دی اور ہاتھ صاف کرنے غسل خانے گئی۔ بڑے میاں نے کسی نہ کسی طرح خود کو آرام کرسی کے غار سے نکالا اور اپنی چھڑی کو اٹھانے کے لیے، جو میز سے ٹکی کھڑی تھی، ہاتھ بڑھایا۔ اسٹوڈیو کا دروازہ اس چھوٹی روش پر کھلتا تھا جس سے آپ براہ راست لان تک جا سکتے ہیں۔ جھٹ پٹا ہو چلا تھا۔ تاریکی دم بدم بڑھ رہی تھی۔ پچاس قدم کی دوری پر clapboard کا سفید گھر تھا۔ زیریں منزل کی کھڑکیاں روشن تھیں۔ جاں بلب دن کی تاریکی میں ضو فشاں کھڑکیوں کے منظر نے سبینا کو بہت متاثر کیا۔

اپنی ساری زندگی میں سبینا کچ کو اعلانیہ اپنا دشمن قرار دیتی رہی تھی۔ بایں ہمہ، کیا وہ اسے ہر جگہ اپنے ہمراہ لیے لیے نہیں پھرتی رہی تھی؟ اس کا اپنا مخصوص کچ گھر کے تصور سے عبارت تھا۔ ایسا گھر جہاں مکمل امن و امان ہو، خاموشی ہو اور ہم آہنگی ہو، جس میں ایک شفیق ماں اور ایک عاقل باپ راج کرتے ہوں۔ یہ وہ پیکر تھا جو اس کے والدین کے انتقال کے بعد ہی آہستہ آہستہ اس کے تصور میں متشکل ہوا تھا۔ اس کی حقیقی زندگی اس شیریں خواب سے جس قدر کم مماثل رہی، اتنا ہی زیادہ اس نے خود کو اس کے سحر کے زیرِ اثر پایا، اور جب کسی جذباتی فلم میں ناشکری بیٹی اپنے غفلت برتے ہوئے باپ سے ٹھیک اسی گرمجوشی سے بغل گیر ہوئی جس سے اِس وقت اس پُر مسرت گھر کی دونوں منور کھڑکیاں جاں بلب دن کی تاریکی سے ہو رہی تھیں، تو ایک سے زائد بار سبینا کے بے اختیارانہ آنسو نکل آئے۔

ان بڑے میاں سے اس کی ملاقات نیویارک میں ہوئی تھی۔ وہ متمول آدمی تھا اور پینٹنگز کا دلدادہ۔ شہر سے باہر اس کا ایک کنٹری ہاؤس تھا جس میں تنہا وہ اور اس کی بیوی، جو خود بھی کھوسٹ ہوتی جا رہی تھی، رہتے تھے۔ اس گھر کے عین مقابل اس کی اراضی پر ہی ایک اصطبل تھا۔ بڑے میاں نے اس کی مناسب مرمت اور تبدیلی کروا کر سبینا کے لیے ایک اسٹوڈیو بنوا دیا تھا۔ یہاں وہ دنوں بیٹھا بیٹھا سبینا کے موقلم کی جنبش کا مشاہدہ کیا کرتا تھا۔

اس وقت وہ تینوں شام کے کھانے میں مصروف تھے۔ بڑی بی سبینا کو ’’میری بیٹی‘‘ کہہ کر پکارتی، لیکن سارے قرائن اس کے بالکل الٹ حقیقت کے غماز تھے : ماں تو دراصل سبینا تھی اور یہ دونوں اس کے بچے تھے، جو طرح طرح سے اس سے اپنی ناز برداری کرواتے، اس کی پرستش کرتے، اور اس کی ادنیٰ سے ادنیٰ خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔

تو کیا اب کہیں جا کر سبینا نے، جو خود بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی تھی، آخر الامر اپنے ماں باپ کو پا لیا تھا جو بچپن میں اس سے چھین لیے گئے تھے ؟ تو کیا اب اسے، انجام کار، وہ بچے مل گئے تھے جنھیں اس کی کوکھ نے جنم نہیں دیا تھا؟

اسے خوب معلوم تھا کہ یہ سب ایک فریبِ نظر ہے۔ اس معمر جوڑے کے ساتھ اس کی زندگی کی حیثیت ایک مختصر وقفے سے زیادہ نہیں۔ بوڑھا سخت بیمار تھا، اس کے مرتے ہی بڑی بی اپنے بیٹے کے پاس کینیڈا جا رہے گی۔ دغا اور بے وفائی کی جس راہ پر سبینا گامزن ہے وہ کہیں اور پھر سے جاری ہو جائے گی، اور اس کے وجود کی گہرائیوں سے دو منور کھڑکیوں اور ان کے عقب میں رہنے والے مسرور کنبے کی حسرت پر ایک احمقانہ، رقت آمیز نغمہ جب تب اٹھ کر وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت کو اپنی راہ پا لے گا۔

سبینا نغمے سے متاثر ضرور ہوئی، لیکن اس نے اپنے جذبات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ نغمہ ایک من موہنا کذب ہے۔ ٹھیک جس لمحے ہم کچ کو دروغ کی حیثیت سے پہچان لیتے ہیں، اس کے سیاق و سباق بدل جاتے ہیں۔ اب وہ غیر کچ (non-kitsch) بن جاتا ہے۔ اس طرح اس کی ساری آمرانہ طاقت جاتی رہتی ہے، اور یہ اتنا ہی اثر انگیز اور دل موہ لینے والا بن جاتا ہے جتنی کوئی اور انسانی کمزوری۔ ہم میں کوئی بھی اتنا مردِ کامل اور فوق البشر نہیں جو خود کو کچ سے بالکل ہی بچا لے جائے۔ ہم اس سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ کریں، آخر الامر، کچ انسانی صورتِ حال کا جزو لاینفک ہے۔

 

                13

کچ کا سرچشمہ ’’وجود سے قطعی اتفاق‘‘ میں پایا جاتا ہے۔

لیکن اس وجود کی بنیاد کیا ہے ؟ خدا؟ عالمِ انسانیت؟ جدوجہد؟ محبت؟آدمی؟ عورت؟

چونکہ آرا مختلف ہوتی ہیں، اس لیے کچ کی اقسام بھی مختلف ہیں۔ مثلاً کیتھولک کچ، پروٹسٹنٹ کچ، یہودی، کمیونسٹ، فاشسٹ کچ، جمہوریت پسند کچ، فیمینسٹ (feminist) کچ، یورپی، امریکی، قومی اور بین الاقوامی کچ۔

انقلابِ فرانس سے نصف یورپ کو ’’دایاں ‘‘ اور بقیہ نصف کو ’’بایاں ‘‘ کہہ کر پکارا جاتا رہا ہے۔ لیکن دونوں میں سے ایک کی تعریف ان نظریاتی اصولوں کی روشنی میں تقریباً ناممکن ہے جن کا وہ پرچاری رہا ہے۔ تعجب کیسا! سیاسی تحریکوں کی بنیاد عقلی رویوں پر کب رہی ہے ؟ بلکہ یہ تو توہمات، علائم، الفاظ، اور آرکی ٹائپس کے امتزاج ہی سے یہ یا وہ سیاسی کچ تخلیق کرتی ہیں۔

’’ گرانڈ مارچ‘‘ کی فینٹسی، جس سے فرانز (Franz) اس درجہ مسحور ہوا تھا، دراصل وہ سیاسی کچ ہے جو جملہ وقتوں کے بائیں بازو والوں اور رجحانات کو ایک دوسرے سے ملا دیتا ہے۔ گرانڈ مارچ اخوت، برابری، انصاف اور مسرت کی راہ پر جاری شاندار مارچ ہے — مسلسل رواں، رکاوٹوں کے باوجود، کہ رکاوٹیں نہ ہوں تو گرانڈ مارچ گرانڈ مارچ کیسے رہے گی!

پرولتاریوں کی ڈکٹیٹرشپ ہو یا جمہوریت؟ کنزیومر (consumer) معاشرے کا رد ہو یا پیداوار بڑھانے کا مطالبہ؟ گلوٹین یا سزاے موت کا سرے سے خاتمہ؟ ان سب کا اصل نکتے سے کوئی تعلق نہیں۔ بائیں بازو والے کو جو چیز بائیں بازو والا بناتی ہے وہ کوئی نظریہ نہیں، بلکہ اس کی وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے وہ ہر نظریے کو اس کچ کے ساتھ نامیاتی طور پر نتھی کر دیتا ہے جسے ’’گرانڈ مارچ‘‘ کہا جاتا ہے۔

 

                14

ظاہر ہے کہ اب فرانز کو کچ کا پجاری تو نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی زندگی میں گرانڈ مارچ کی فینٹسی کی کم و بیش وہی اہمیت تھی جو دو منور کھڑکیوں سے متعلق رقت آمیز نغمے کی سبینا کی زندگی میں تھی۔ فرانز نے کس سیاسی جماعت کے حق میں اپنا ووٹ ڈالا تھا؟ آپ کوافسوس ہو گا، لیکن اس نے سرے سے ووٹ ڈالا ہی نہیں تھا — انتخاب والے دن تو اس نے پہاڑوں میں سیروتفریح کو ترجیح دی تھی۔ اب اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ گرانڈ مارچ سے مزید متاثر ہونے کی صلاحیت اس میں مفقود ہوتی جا رہی تھی۔ یہ خواب کہ ہم ایک ایسے انبوہ کا حصہ ہیں جو جشن مناتا ہوا ٹھیک کئی صدیوں سے ہو کر گزر رہا ہے، ہمیشہ ہی بڑا دل پذیر ہوتا ہے ؛ پھر فرانز تو کبھی اس خواب کو نہیں بھولا تھا۔

ایک دن چند دوستوں نے اسے پیرس سے فون کیا۔ وہ کمبوڈیا کے حق میں وہاں جا کر باقاعدہ احتجاجی مارچ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ انھوں نے فرانز کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی۔

کمبوڈیا حال ہی میں امریکی بمباری، خانہ جنگی، مقامی اشتراکیوں کی مجنونانہ خونریزی — جس نے اس چھوٹی سی قوم کی ایک بٹا پانچ چھٹائی کر کے رکھ دی تھی — اور، آخرکار ہمسایہ ویت نام کے جنگی قبضے سے، جو اس وقت محض روس کے حلقہ بگوشوں میں سے تھا، گزر چکا تھا۔ دوسری طرف قحط نے اس کی کمر توڑ رکھی تھی۔ لوگ ادویہ اور طبی امداد کی قلت کے باعث دھڑادھڑ مر رہے تھے۔ ایک بین الاقوامی طبی کمیٹی ملک میں داخل ہونے کی اجازت مانگ رہی تھی، لیکن ویت نامی مسلسل انکار کیے جا رہے تھے۔ تو منصوبہ یہ بنا کہ مغرب کے چیدہ چیدہ دانشوروں کا ایک گروہ مارچ کرتا ہوا کمبوڈیا کی سرحد پر پہنچے اور دنیا کی نظروں کے سامنے اپنے عظیم الشان تماشے کے مظاہرے سے قابض ملک کو ڈاکٹروں کے داخلے پر مجبور کر دے۔

جس دوست نے فرانز سے بات کی، وہی تھا جس کے ساتھ فرانز ایک بار پہلے پیرس کی شاہراہوں پر ایسی ہی مظاہراتی مارچ کر چکا تھا۔ اول اول تو اس دعوت پر فرانز خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ لیکن پھر اس کی نظریں اپنی شاگرد داشتہ پر جا پڑیں جو کمرے میں آرام کرسی میں دھنسی بیٹھی تھی۔ وہ سر اوپر کیے فرانز کی طرف دیکھ رہی تھی۔ چشمے کے محدب عدسوں کے عقب میں اس کی آنکھیں بڑی بڑی لگ رہی تھیں۔ فرانز کو محسوس ہوا کہ وہ آنکھیں اس سے نہ جانے کی التجا کر رہی ہیں۔ چنانچہ اس نے، متاسفانہ، مارچ میں شرکت سے معذرت کر لی۔

لیکن فون رکھتے ہی وہ اپنے فیصلے پر پچھتانے لگا۔ یہ درست تھا کہ اس طرح وہ اپنی دنیوی داشتہ کی خبرگیری کر رہا تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے غیرارضی عشق سے چشم پوشی بھی۔ کیا نہیں ؟ کیا کمبوڈیا ٹھیک سبینا کے ملک کی طرح نہ تھا؟ ایسا ملک جس پر اس کے ہمسایہ ملک کی اشتراکی فوج نے قبضہ کر لیا تھا! ایسا ملک جس نے روس کے مکّے کی ضرب سہی تھی! اچانک فرانز کو محسوس ہوا جیسے اُس کے نیم فراموش کردہ دوست نے سبینا ہی کے خفیہ اشارے پر اس سے رابطہ قائم کیا ہو۔

سماوی اجسام سب کچھ دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ اگر وہ مارچ پر چلا جاتا تو سبینا سحرزدہ نیچے اس کی طرف دیکھتی؛ اسے معلوم ہوتا کہ وہ اس کا وفادار رہا ہے۔

’’اگر میں مارچ پر جاؤں تو تم بہت زیادہ برا تو نہیں مانو گی؟‘‘ اس نے چشمے والی لڑکی سے پوچھا؛ اس لڑکی سے جو ہر ایسے دن کو جو فرانز سے دور گزرا ہو سراسر زیاں تصور کرتی تھی، تاہم اس کی کسی بھی خواہش کو پورا نہ کرنے پر قادر بھی نہ تھی۔

چند دنوں بعد وہ ایک گرانڈیل جیٹ طیارے میں بیٹھا ہوا تھا، جو کوئی بیس ڈاکٹروں، لگ بھگ پچاس دانشوروں (جن میں پروفیسر، ادبا، سفارتی ارکان، گلوکار، اداکار، اور صدرہائے بلدیہ شامل تھے )، علاوہ ازیں کوئی چارسو رپورٹروں اور فوٹوگرافروں کو لیے پیرس سے پرواز کر رہا تھا۔

 

                15

طیارہ بینگکاک اترا۔ چارسو ستر ڈاکٹر، دانشور اور رپورٹر ایک بین الاقوامی ہوٹل کے بال روم میں پہنچے جہاں پہلے ہی سے مزید ڈاکٹروں، اداکاروں، گلوکاروں، اور لسانیات کے پروفیسروں کی ایک بھاری تعداد مع چند سو صحافیوں کے، جو نوٹ بکوں، ٹیپ ریکارڈروں اور وڈیو و اسٹل کیمروں سے لیس تھے، موجود تھی۔ پوڈیم پر کوئی بیس بائیس امریکیوں کا ایک گروہ ایک لمبی سی میز کے گرد بیٹھا کارروائی کی صدارت کر رہا تھا۔

فرانسیسی دانشوروں نے، جن کی معیت میں فرانز ہال روم میں داخل ہوا تھا، اسے اپنی ہتک تصور کیا۔ کمبوڈیا کے لیے مارچ اصلاً انھی کے ذہن کی اختراع تھی۔ اور ستم یہ کہ یہاں ان امریکیوں نے حسبِ معمول نہایت دیدہ دلیری سے نہ صرف یہ کہ ساری کارروائی پر قبضہ کر لیا تھا، بلکہ انگریزی میں قبضہ کر لیا تھا، بغیر اتنا خیال کیے کہ اب کوئی فرانسیسی یا ڈنمارک کا باشندہ ان کی بولی سمجھنے سے رہا۔ چونکہ ڈنمارک کے باشندے زمانہ ہوا بھول چکے تھے کہ کبھی وہ بھی باقاعدہ ایک قوم ہوا کرتے تھے، اس حق تلفی کے خلاف احتجاج کے لیے بس اب فرانسیسی ہی باقی رہ گئے تھے۔ ان کے اصولوں کی بلندی اور عظمت کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے احتجاج کے لیے بھی انگریزی بولنے سے انکار کر دیا۔ قلانچ بھر کے پوڈیم پر در آئے اور امریکیوں کو اپنا ما فی الضمیر اپنی مادری زبان میں بیان کرنے لگے۔ امریکیوں نے، جن کی سمجھ میں ایک لفظ بھی نہ آیا، دوستانہ، اعترافی تبسم سے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ ناچار فرانسیسیوں کو اپنے اعتراضات انگریزی میں بیان کرنے پڑے۔ ’’اس میٹنگ کی کارروائی انگریزی میں کیوں ہو رہی ہے جبکہ اس میں فرانسیسی موجود ہیں ؟‘‘

اس عجیب اعتراض پر متحیر ہونے کے باوجود، امریکی، جو ہنوز متبسم تھے، میٹنگ کو دونوں زبانوں میں چلانے پر رضامند ہو گئے۔ لیکن میٹنگ کو دوبارہ جاری کرنے سے پہلے ایک موزوں ترجمان (interpreter) کی ضرورت آ پڑی۔ اس کے بعد، ہر جملہ پہلے انگریزی میں اور پھر فرانسیسی میں گونجا، جس کے باعث بحث کے لیے دگنا وقت درکار ہوا، بلکہ دگنے سے بھی زیادہ، وہ یوں کہ فرانسیسی تھوڑی بہت انگریزی بہرحال جانتے تھے چنانچہ ترجمان کا مسلسل قطع کلام کر کے اس کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے، اور ہر لفظ کی صحت اور موزونیت پر بحث الگ۔

اس جلسے کا نقطۂ عروج اس وقت آیا جب ایک امریکی اداکارہ تقریر کرنے کھڑی ہوئی۔ خاص محترمہ کی خاطر مزید فوٹوگرافروں اور کیمرا مینوں کا ایک جمِ غفیر آڈیٹوریم میں در آیا۔ اس کے ہر لفظ کے ہر رکن کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کیمرے کی کلِک سنائی دی۔ اداکارہ نے اذیت میں مبتلا بچوں کی بات کی، اشتراکی ڈکٹیٹر شپ کے وحشیانہ سلوک کا ذکر اٹھایا، تحفظ کے انسانی حق کا رونا رویا، مہذب معاشرے کی روایتی اقدار کو جس موجودہ خطرے کا سامنا تھا اس سے خبردار کیا، فرد کے غیرمنفک حقِ آزادی کا پرچار کیا، اور صدر کارٹر کا ذکرِ خیر بھی جو کمبوڈیا میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے بے حد مغموم تھے۔ تقریر کے اختتام تک آتے آتے اس کی آنکھوں سے باقاعدہ گنگا جمنا رواں تھی۔

اس تقریر کے ختم ہوتے ہی سرخ مونچھوں والے ایک نوجوان فرانسیسی ڈاکٹر نے یکایک جست بھری اور نعرہ لگایا: ’’ہم یہاں مرتے ہوؤں کے علاج معالجے کے لیے آئے ہیں، صدر کارٹر پر تحسین کے ڈونگرے برسانے کے لیے نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس تقریب کو امریکی پروپیگنڈے کے سرکس میں بدل جانے سے روکیں۔ ہم یہاں اشتراکیت کے خلاف احتجاج کرنے نہیں آئے ہیں ! ہم زندگیاں بچانے آئے ہیں !‘‘

اس بات پر فوراً کئی فرانسیسیوں نے پر زور صاد کیا۔ ترجمان بے چاری مارے خوف کے سہم گئی۔ اس کی ہمت نہ ہوئی کہ ان کے جذبات کا ترجمہ کرے۔ چنانچہ ان بیس کے لگ بھگ امریکیوں نے، جو ہنوز پوڈیم پر براجمان تھے، ایک بار پھر اپنی مہربان، خیرخواہ، متبسم نظریں اِدھر اُدھر دوڑائیں، اور ان میں سے چند ایک نے تو تائید میں سر بھی ہلا دیا۔ ایک نے تو باقاعدہ ہوا میں اپنا مکا بھی لہرایا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اجتماعی سرخوشی (euphoria) کے عالم میں یورپی لوگ بالعموم اپنی مٹھیاں ہوا میں لہرانے کے عادی ہوتے ہیں۔

 

                16

اب صاحب، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بائیں بازو کے دانشور (وہ لال مونچھوں والا ڈاکٹر یقیناً  بائیں بازو کا ہی تھا) ایک اشتراکی ملک کے مفاد کے خلاف احتجاجی مارچ کرنے پر رضامند ہو جائیں گے جب کہ خود اشتراکیت ہمیشہ ہی بائیں بازو والوں کا حلقہ ٔ اثر و رسوخ سمجھی جاتی رہی ہے ؟

جب ایک ملک، جسے سوویت یونین کہا جاتا ہے، کے جرائم رسوائی کی حد کو جا پہنچیں تو ایک بائیں بازو والے کے لیے صرف دو راستے رہ جاتے ہیں : یا تو اپنی سابقہ زندگی پر نفریں بھیج کر، مارچ ختم کر کے گھر بیٹھ جائے، یا (کم و بیش بزدلانہ طور پر) سوویت یونین کو گرانڈ مارچ کی راہ کی رکاوٹ سے تعبیر کر کے، مارچ جاری رکھے۔

کیا میں پہلے ہی یہ نہیں کہہ چکا ہوں کہ جو چیز بائیں بازو والے کو بایاں بازو والا بناتی ہے وہ گرانڈ مارچ کا کچ ہی ہے ؟ کچ کا تعین اور تشخص کسی سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں بلکہ علامتی پیکروں، استعاروں اور الفاظ سے ہوتا ہے۔ چنانچہ عادت کو توڑنا اور ایک اشتراکی ملک کے مفاد کے خلاف مارچ کرنا عین ممکن ہے، لیکن ایک لفظ کو دوسرے سے بدل لینا، یہ بہرحال ممکن نہیں۔ ویت نامی فوج کو اپنا مکا دکھا کر ڈرانا دھمکانا ممکن ہے، ’’اشتراکیت مردہ باد!‘‘ کا نعرہ لگانا ممکن نہیں۔ ’’اشتراکیت مردہ باد!‘‘ وہ نعرہ ہے جو صرف و محض گرانڈ مارچ کے مخالفین کی جاگیر ہے۔ اور ہر وہ شخص جسے خفت کا خوف دامن گیر ہو، اس کے لیے ازبس ضروری ہے کہ اپنے ذاتی کچ کی صحت و صلابت کا وفادار رہے۔

میں نے جو یہاں ان باتوں کا ذکر کیا ہے تو اس کی ساری وجہ اس غلط فہمی کی تشریح ہے جو فرانسیسی ڈاکٹر اور امریکی اداکارہ کے درمیان پیدا ہوئی؛ وہ امریکی اداکارہ جو حد درجہ خود بیں ہونے کے باوجود اپنے کو رشک اور زن بیزاری کا ہدف سمجھتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فرانسیسی ڈاکٹر نے ایک نہایت لطیف جمالیاتی حس کا مظاہرہ کیا تھا، کیونکہ ’’صدر کارٹر‘‘، ’’ہماری روایتی اقدار‘‘، ’’اشتراکیت کی سفاکی‘‘ اور اس قسم کے سارے جملوں کا تعلق براہ راست امریکی کچ سے ہے، اور گرانڈ مارچ کی کچ سے دور کا بھی نہیں۔

 

 

                17

اگلی صبح وہ سب بس پر سوار ہوئے اور تھائی لینڈ سے ہوتے ہوئے کمبوڈیا کی سرحد کو چل دیے۔ شام پڑنے پر انھوں نے بس ایک چھوٹے سے گاؤں میں رکوائی۔ یہاں پر انھوں نے پابانسوں پر کھڑے ہوئے کئی گھر کرائے پر لے رکھے تھے۔ دریا کی باقاعدہ طغیانی نے دیہاتیوں کو اپنے گھر سطح زمین سے اوپر بنانے پر مجبور کر دیا تھا، جبکہ نیچے ان کے سؤر ٹھنسے ٹھنسائے، سمٹے سمٹائے پڑے رہتے۔ فرانز جس کمرے میں سویا وہاں اس کے علاوہ چار پروفیسر لوگ بھی تھے۔ دور سے سؤروں کے چلّانے کی آوازیں آ رہی تھیں، اور بالکل قریب سے ایک معروف ریاضی داں کے خراٹوں کی۔

صبح ہوتے ہی وہ پھر بسوں میں سوار ہو گئے۔ سرحد سے کوئی میل بھر اِدھر ایک مقام پر ہر قسم کی سواریوں کے استعمال پر پابندی تھی۔ جس مقام پر سرحد کو عبور کیا جا سکتا تھا، وہاں تک محض ایک تنگ سے راستے کے ذریعے ہی جایا جا سکتا تھا، جس پر سخت پہرہ تھا۔ بسیں رک گئیں۔ جب فرانسیسی دستہ نیچے اترا تو پتا چلا کہ امریکی یہاں بھی ان سے بازی لے گئے ہیں اور پریڈ کا طلیعہ بنے کھڑے ہیں۔ فیصلہ کن لمحہ آ پہنچا تھا۔ ترجمان کو دوبارہ بلوایا گیا اور باقاعدہ بحثا بحثی ہونے لگی۔ بڑی رد و قدح کے بعد کہیں جا کر حاضرین اس بات پر متفق ہو گئے کہ پریڈ کی قیادت ایک امریکی، ایک فرانسیسی، اور ترجمان کریں گے، اس کے بعد ڈاکٹروں کا نمبر آئے گا، اور اس کے بعد ہی بقیہ جمگھٹے کا۔ امریکی اداکارہ کے حصے میں دُنبالے کی قیادت آئی۔

سڑک تنگ تھی اور اس کے دو رویہ بارود کی سرنگیں بچھی تھیں۔ کسی روک، مثلاً خاردار تاروں سے لپٹے ہوئے سیمنٹ کے دو ایک بلاک، کے آ جانے سے یہ اور بھی تنگ ہو جاتی اور اس پر صرف ایک قطار بنا کر ہی چلا جا سکتا تھا۔

فرانز سے کوئی پندرہ فٹ آگے ایک مشہور جرمن شاعر اور پاپ سنگر تھا جو اب تک نو سو تیس گانے امن و آشتی کے حق میں اور جنگ کے خلاف لکھ چکا تھا۔ وہ ہاتھ میں جھنڈا اٹھائے چلا جا رہا تھا۔ جھنڈے کی براق سفیدی نے شاعر کی سیاہ داڑھی کو ایک انفرادیت بخش دی تھی اور وہ باقیوں سے ممتاز نظر آ رہا تھا۔

پریڈ کے دوران فوٹوگرافروں اور کیمرا مینوں کے آلات کی گھوں گھوں مسلسل جاری تھی۔ وہ قلانچیں بھر کر پریڈ کے عین سامنے جاتے، قدرے توقف کرتے، رینگ کر پیچھے جاتے، ذرا کی ذرا گھٹنوں کے بل بیٹھتے، اور پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور اَور آگے کو بھاگتے۔ کبھی کبھار وہ کسی نامور شخص کو پکارتے، اور وہ شخص نادانستہ طور پر مڑ کر محض اتنی دیر کے لیے کھڑا ہو جاتا کہ یہ کھٹ سے اس کی تصویر کھینچ لیں۔

 

                18

کچھ نہ کچھ ہونے والا تھا۔ فضا میں اس کے آثار تھے۔ لوگوں کی رفتار میں سستی آ گئی تھی اور وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہے تھے۔

امریکی اداکارہ جو اپنے علی الرغم پریڈ کے دنبالے میں جا پڑی تھی، مزید اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر سکی اور اس نے جارحانہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ اب وہ بگ ٹٹ پریڈ کے طلیعے کی طرف بھاگی چلی جا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ پانچ کلومیٹر کی دوڑ میں کوئی جوان، جو اپنی طاقت کو بچانے کے لیے پھسڈیوں کے ساتھ چلا آ رہا ہو، معاً قلانچیں بھر کے آگے کو بڑھا ہو، اور ایک ایک کر کے اپنے حریفوں سے آگے نکلتا چلا جا رہا ہو۔

پشیمان اور متحیر تبسم کے ساتھ مرد پیچھے ہٹ گئے کہ اس نامور دوڑنے والی کی فتح و کامرانی کی اس جان توڑ کوشش میں کہیں کھنڈت نہ پڑ جائے۔ لیکن عورتوں نے نعرہ لگایا: ’’واپس قطار میں آؤ! یہ کوئی فلمی ستاروں کی پریڈ نہیں !‘‘

دھکم دھکا وہ بے محابا آگے بڑھے گئی۔ پیچھے پیچھے پانچ فوٹوگرافروں اور دو کیمرا مینوں کی ٹولی گھسٹی چلی آ رہی تھی۔

اچانک ایک فرانسیسی عورت نے، جو لسانیات کی پروفیسر تھی، جھپٹ کر اداکارہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور (نہایت بھیانک قسم کی انگریزی میں ) کہا، ’’یہ پریڈ ڈاکٹروں کے لیے ہے جو جاں بلب کمبوڈین عوام کی خبرگیری کے لیے آئے ہیں۔ یہ فلمی ستاروں کی شہرت کا اسٹنٹ نہیں !‘‘

اداکارہ کی کلائی لسانیات کی پروفیسر کی گرفت میں جکڑی ہوئی تھی، اور وہ ٹس سے مس نہ کر سکی۔ چنانچہ بھنا کر (نہایت رواں انگریزی میں ) بولی، ’’دماغ خراب ہو گیا ہے، کیا کر رہی ہو؟ میں اس قسم کی ہزاروں پریڈوں میں شریک ہو چکی ہوں۔ تم لوگ فلمی ستاروں کی مدد کے بغیر ایک قدم نہیں چل سکتے۔ یہ تو ہمارا عین مقصدِ حیات ہے ! ہمارا اخلاقی فریضہ!‘‘

’’غلاظت!‘‘3 لسانیات کی پروفیسر نے (نہایت رواں فرانسیسی میں ) کہا۔

امریکی اداکارہ مطلب سمجھ گئی اور گھی گھی رونے لگی۔

’’ذرا ایک منٹ یہیں رک جائیے — پلیز!‘‘ ایک کیمرا مین نے آوازہ لگایا اور گھنٹوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ اداکارہ نے ایک طویل لمحے کے لیے کیمرے کے لینس میں آنکھیں گڑو کے دیکھا؛ آنسو اس کے رخساروں پر رواں تھے۔

 

                19

آخرکار جب لسانیات کی پروفیسر نے اداکارہ کی کلائی چھوڑی، تو سیاہ داڑھی اور سفید جھنڈے والے جرمن پاپ سنگر نے اس کا نام پکارا۔

امریکی اداکارہ موصوف سے چنداں واقف نہ تھیں، لیکن اپنی ہیٹی ہونے کے بعد غیر معمولی طور پر ہمدردی کی جویا تھیں، چنانچہ بھاگ کر پاپ سنگر کے پاس پہنچ گئیں۔ پاپ سنگرنے جھنڈے کا عصا اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیا اور دایاں ہاتھ اداکارہ کے کندھوں کے گرد ڈال دیا۔

دم کی دم میں فوٹوگرافروں اور کیمرا مینوں کا ایک اور غولِ بیابانی وہاں در آیا اور دونوں کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک مشہور و معروف امریکی فوٹوگرافر جسے ان دونوں کے چہروں کو اپنے ویوفائنڈر کے چوکھٹے میں فٹ کرنے میں دقت ہو رہی تھی، وہ اس لیے کہ جھنڈے کا ڈنڈا ضرورت سے زیادہ لمبا تھا، چند قدم پیچھے دھان کے کھیت میں ہٹا۔ اس کا قدم، دراصل، ایک بارودی سرنگ پر جا پڑا تھا۔ ایک دھماکا ہوا اور اس کا جسم ٹکڑے ہو کر فضا میں بکھر گیا، اور پاس کھڑے دانشوروں کو اپنے خون کی بارش سے تر کر گیا۔

پاپ سنگر اور اداکارہ کا خون خشک ہو گیا۔ انھوں نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی۔ بس نظر اٹھا کر جھنڈے کو دیکھا جس پر جابجا خون کے چھینٹے تھے۔ ایک بار پھر انھیں سانپ سونگھ گیا۔ پھر انھوں نے نظریں اوپر کیں اور دوچار بار ڈرتے ڈرتے دیکھا اور خفیف سا مسکرائے۔ ان کا سینہ ایک عجیب سے فخر سے بھر گیا تھا، ایسا فخر جس کا انھیں پہلے کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ یہ جھنڈا جو وہ اٹھائے ہوئے تھے، اسے خون کی بھینٹ نے مقدس کر دیا تھا۔ وہ پھر سے پریڈ میں جا شامل ہوئے۔

 

                20

سرحد ایک چھوٹی سی ندی سے بنی تھی، لیکن چونکہ ایک لمبی سی دیوار، جو کوئی چھ فٹ اونچی تھی اور جس کے سہارے فاصلے فاصلے پر تھائی شارپ شوٹروں کی مدافعت کے لیے ریت سے بھرے تھیلے پڑے تھے، اس سے لگ کر جاتی تھی، یہ نظر نہ آتی تھی۔ دیوار میں صرف ایک ہی جگہ پر رخنہ تھا، اور یہ وہ جگہ تھی جہاں سے ایک پل دریا کے پار کو پھیلا ہوا تھا۔ دوسری طرف ویت نامی افواج تھیں جو غنیم پر دھاوا بولنے کی گھات میں چھپی بیٹھی تھیں۔ ان کی نقل و حرکت پورے کیموفلاژ میں تھی اور یہ بالکل نظر نہیں آتی تھی۔ تاہم یہ صاف ظاہر تھا کہ جوں ہی کسی نے پل پر قدم رکھا، مخفی ویت نامی فوراً فائرنگ شروع کر دیں گے۔

پریڈ کے شرکا دیوار تک آئے اور پنجوں کے بل اٹھ اٹھ کر اس کے پار جھانکنے لگے۔ فرانز نے ریت کے دو تھیلوں کے درمیانی رخنے میں آنکھیں بھڑا کر دیکھا کہ پتا تو چلے آخر دوسری طرف ہو کیا رہا ہے، لیکن اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ معاً ایک فوٹوگرافر صاحب نے، جن کے خیال میں وہ اس جگہ کے زیادہ مستحق تھے، دھکا دے کر فرانز کو وہاں سے ہٹا دیا۔

فرانز نے پیچھے نظر ڈالی۔ ایک اکیلے درخت کی گرانڈیل چوٹی میں سات فوٹوگرافر کوّوں کے جھنڈ کی شکل دبکے بیٹھے تھے۔ ان کی نظریں دوسرے کنارے پر جمی ہوئی تھیں۔

ٹھیک اسی لمحے ترجمان نے، جو پریڈ کے طلیعے میں تھی، ایک بڑاسا میگافون اٹھا کر اپنے لبوں سے لگایا اور پار والوں سے کھمیر (Khmer) زبان میں یوں مخاطب ہوئی: ’’یہ لوگ ڈاکٹر ہیں اور کمبوڈیا کے علاقے میں داخل ہو کے طبی امداد پہنچانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ اس کے مقاصد سیاسی نوعیت کے بالکل نہیں ہیں اور انھوں نے یہ قدم انسانی زندگی سے اپنے لگاؤ کی خاطر اٹھایا ہے۔ ‘‘

جواب میں، دوسری طرف، قیامت کی خاموشی چھائی رہی۔ ایک ایسی مطلق خاموشی کہ سب کی ہمت جواب دے گئی۔ صرف کیمرے کھٹکتے رہے، اور ان کی آواز اس عالمِ سکوت میں کسی عجیب و غریب کیڑے کے نغمے کی طرح سنائی دیتی رہی۔

فرانز کو معاً محسوس ہوا کہ گرانڈ مارچ کا اختتام آ پہنچا ہے۔ یورپ خاموشی کی سرحدوں سے گھرا ہوا تھا، اور گرانڈ مارچ کا محل وقوع سمٹ سمٹا کر اب سیارے کے ٹھیک بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا چبوترا رہ گیا تھا۔ ازدحام، جو ابھی کچھ دیر پہلے تک طوفانِ بدتمیزی کی طرح اس چبوترے کے چاروں طرف امڈا آتا تھا، کب کا بکھر چکا تھا۔ گرانڈ مارچ مکمل عالم سکوت میں جاری تھی۔ اس کے دیکھنے کے لیے کوئی تماش بین نہ رہا تھا۔ ٹھیک ہی تو ہے، فرانز نے خود سے کہا، گرانڈ مارچ، دنیا کی سرد مہری کے باوجود، جاری ہے، گو اس میں اعصابی ہیجان کی کیفیت اور بلا کا جوش آ گیا ہے : کل ویت نام پر امریکی قبضے کے خلاف، آج کمبوڈیا پر ویت نامی قبضے کے خلاف؛ کل اسرائیلیوں کی حمایت میں، آج فلسطینیوں کی موافقت میں ؛ کل کیوبا کے حق میں، اور کلِ آئندہ کیوبا کے خلاف — اور ہمیشہ ہی امریکہ کے خلاف: کبھی کبھار قتل عام کے خلاف، اور اوقاتِ دیگر قتلِ عام کے حق میں — یورپ مارچ کیے جا رہا ہے، آگے، اور آگے، مسلسل؛ اور اس کوشش میں کہ حالات اور واقعات سے متنبّہ رہے اور اس خیال سے کہ ان میں سے کسی واقعے کو جاننے سے پیچھے نہ رہ جائے، اس کی چال لمحہ لمحہ غیر معمولی طور پر تیز ہوتی جا رہی ہے، تاآنکہ، انجام کار، گرانڈ مارچ ازدحام کے بھاگتے، جھپٹتے، قلانچیں بھرتے جلوس میں تبدیل ہو جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف وہ چبوترا مستقل چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ اور وہ دن دور نہیں جب یہ سمٹ کر ابعاد سے عاری محض ایک نقطہ بن کر رہ جائے۔

 

                21

انٹرپریٹر ایک بار پھر میگافون میں منھ دے کر چلّائی۔ ایک بار پھر جواب میں بے حدو کنار، سردمہر خاموشی نے خیرمقدم کیا۔

فرانز نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ دریا کے پار کی بسیط خاموشی ان کے چہروں پر طمانچے کی طرح آ کر پڑی تھی۔ گمبھیر مایوسی نے نہ صرف سنگر کو بلکہ امریکی اداکارہ کو بھی آ لیا تھا۔ مزید کچھ کرنے سے وہ اب باقاعدہ جھجک رہے تھے۔

بصیرت کے ایک کوندے میں فرانز کو ان سب کی حالت سخت مضحکہ خیز معلوم ہوئی۔ لیکن اس خیال نے بجائے فرانز کو اس بے چاری خلقت سے علیحدہ کرنے یا خود اس کو طنز سے بھر دینے کے، ایسی بیکراں شفقت سے مالامال کر دیا جو ہم سب ایسے لوگوں کے لیے محسوس کرتے ہیں جنھیں گردن زدنی قرار دیا جا چکا ہو۔ ٹھیک ہے، گرانڈ مارچ اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، لیکن اب اس کا مطلب یہ تو نہیں نکلتا تھا کہ فرانز اس کے ساتھ دغا کرے۔ خود اس کی زندگی بھی تو انجام کو پہنچ رہی تھی۔ بہادر ڈاکٹروں کی معیت میں سرحد کی طرف رواں دواں انبوہ کے جذبۂ نمائش پر طعنہ زن ہونے والا وہ کون ہوتا ہے ؟ سواے دکھاوے کے ان کے پاس اور چارہ ہی کیا رہ گیا تھا؟ اس معاملے میں ان کے لیے انتخاب کی کون سی راہیں کھلی تھیں ؟

فرانز کے محسوسات بالکل درست تھے۔ اس موقعے پر میں پراگ کے اس مدیر کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے سیاسی قیدیوں کی معافی کے لیے ایک عرضی دعوے کا اہتمام کیا تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ اس درخواست سے قیدیوں کا بالکل بھلا ہونے والا نہیں۔ اس کا اصلی مقصد قیدیوں کی رہائی تھا بھی نہیں۔ وہ تو یہ ثابت کرنے کی دھن میں تھا کہ دنیا میں نڈر لوگ اب بھی موجود ہیں۔ اب دیکھیے تو یہ بھی ایک طرح کی اداکاری ہی تھی۔ کوئی اور امکان اس کے پاس نہیں تھا۔ اس کے لیے یہ اداکاری اور عمل کے درمیان انتخاب کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ اداکاری اور کسی بھی عمل سے انحراف کے درمیان انتخاب کا معاملہ۔ زندگی میں ایسی صورتِ حال بھی آتی ہے جب آدمی اداکاری پر مجبور ہو جاتا ہے۔ گونگی طاقتوں سے اس کی جدوجہد (مثلاً دریا کے پار کی گونگی طاقت، یا وہ پولیس جو دیواروں میں خفتہ گونگے مائیکروفونوں میں بدل گئی ہو) کی مثال اس تھیٹر کمپنی کی جدوجہد ہے جس نے ایک مسلح فوج پر ہلہ بول دیا ہو۔

فرانز اپنے ساربون (Sorbonne) والے دوست کو مکا اٹھا کر دوسری طرف پھیلی ہوئی خاموشی کو ڈراتے دھمکاتے دیکھا کیا۔

 

                22

پھر تیسری بار ترجمان نے میگافون کے ذریعے للکارا۔

اس بار بھی اتھاہ خاموشی نے جواب دیا۔ لیکن اس بار فرانز کی ساری یاسیت اچانک ایک حیرت انگیز قہر میں بدل گئی۔ وہ یہاں کھڑا تھا، اس پُل سے بس تھوڑی ہی دور جو تھائی لینڈ کو کمبوڈیا سے ملاتا تھا۔ اچانک اس ٰپل پر بے محابا دوڑ جانے، آسمان کو بے نقط سنانے، اور گولیوں کی پر شور گونج میں جان دے دینے کی منھ زور خواہش اس میں ابھری۔

فرانز کی یہ اچانک خواہش ہمیں کس چیز کی یاد دلاتی ہے ؟ جی بالکل، اسٹالن کے سپوت کی، جو خود کو بجلی کے کوندے سے مارنے کی خواہش میں خاردار تار کی طرف دوڑ پڑا تھا۔ اور یہ اس وقت جبکہ یہ تاب اس میں نہ رہی کہ انسانی وجود کے دونوں قطبوں کو اتنے قریب آتا دیکھے کہ وہ ایک دوسرے کو چھو لیں۔ جب رفیع اور رذیل، مکھی اور فرشتے، خدا اور فضلے کے درمیان کوئی فرق نہ باقی بچے۔

فرانز نے یہ ماننے سے صاف انکار کر دیا کہ گرانڈ مارچ کی عظمت مارچ کرنے والوں کی مضحکہ خیز خود بینی کے مترادف تھی، کہ یورپی تاریخ کا بانکا شور و شغب ایک لامتناہی سکوت میں ڈوب چکا تھا، کہ اب تاریخ اور سکوت میں کوئی حدِ فاصل نہیں رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ ترازو میں خود اپنی زندگی رکھ دے اور ثابت کر دکھائے کہ گرانڈ مارچ فضلے کے مقابلے میں بہرحال کہیں زیادہ وزنی شے ہے۔

لیکن آدمی اس قسم کی کوئی چیز ثابت نہیں کر سکتا۔ ترازو کے ایک پلڑے میں فضلہ پڑا تھا اور دوسرے میں اسٹالن کے بیٹے کا پورا جسم۔ اس کے باوجود پلڑوں میں خفیف سی جنبش بھی نہیں ہوئی۔

اپنے کو گولی لگوانے کی بجائے فرانز نے محض سوگواری سے اپنا سر جھکا لیا اور دوسروں کے ساتھ ساتھ، واحد قطار، بسوں کی طرف لوٹ گیا۔

 

                23

ہم سب یہی چاہتے ہیں کہ دوسرے کی نگاہوں میں رہیں۔ جس قسم کی نگاہ کی نگرانی میں ہم زندگی کی خواہش کرتے ہیں اس کے اعتبار سے ہماری چار اصناف میں درجہ بندی ہو سکتی ہے۔

پہلی صنف میں وہ لوگ آتے ہیں جن کی تمنا ہوتی ہے کہ گمنام آنکھوں کی ایک لامحدود تعداد ہمہ وقت ان پر مرتکز رہے۔ بالفاظِ دیگر، وہ لوگ جو عوام کی توجہ کے متمنی ہوتے ہیں۔ یہ بات جرمن پاپ سنگر، امریکی اداکارہ، حتیٰ کہ اس طویل قامت، خمیدہ کمر اور نکلی ہوئی ٹھوڑی والے مدیر پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ مدیر اپنے قارئین کی توجہ کا عادی تھا۔ ایک دن جب روسیوں نے اس کے اخبار کو ممنوعہ قرار دے دیا تو اچانک اسے محسوس ہوا کہ فضا سودرجہ لطیف ہو گئی ہے۔ کون چیز گمنام آنکھوں کی حریف ہو سکتی ہے ! چنانچہ اسے بڑی گھٹن محسوس ہوئی، لگا کہ دم ہی نکل جائے گا۔ پھر ایک دن اسے محسوس ہوا کہ اس کا متواتر تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس کی رہائش گا ہ میں اس کی نقل و حرکت اور گفتگو پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ آلات لگا دیے گئے ہیں، اور چھپ چھپاتے گلی کوچوں میں اس کی تصویریں اتاری جا رہی ہیں۔ بس جناب، اب کیا تھا۔ جوں ہی یہ گمنام آنکھیں اس کے سراپے پر مرتکز ہوئیں، اسے لگا کہ وہ دوبارہ سانس لینے کے قابل ہو گیا ہے۔ گھر کی دیواروں میں چھپے مائیکروفونوں کے سامنے جا کر وہ باقاعدہ نمائشی تقریریں کرنے لگا۔ وہ عوام جنھیں وہ اخبار بند کر دیے جانے کے باعث کھو چکا تھا، انھیں اس نے پولیس کے روپ میں پا لیا تھا۔

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف بعض جانی پہچانی آنکھوں ہی سے دیکھے جانے کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کاک ٹیل اور ڈنر پارٹیوں میں میزبانی کے فرائض انجام دیتے نہیں تھکتے۔ پہلی قسم کے مقابلے میں، جو اپنی پبلک کے ہاتھ سے نکل جاتے ہی سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی کے در و دیوار تیرہ و تاریک ہو گئے ہیں، یہ لوگ زیادہ پرمسرت ہوتے ہیں۔ جہاں پہلی قسم والے جلد یا بدیر، اور کم و بیش سب ہی عوام کی توجہ کے ہٹتے ہی، زندگی کی تاریکی کا تجربہ کرتے ہیں، وہاں دوسری قسم والے ہمیشہ ایسی آنکھوں کو فراہم کرنے پر قادر ہوتے ہیں جن کی ان کو ضرورت ہوتی ہے۔ ماری کلود (Marie-Claude) اور اس کی بیٹی کا شمار اسی صف میں ہوتا ہے۔

تیسری قسم والے خود کو ہمہ وقت اپنے محبوب کے سامنے دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ان کی حالت بھی اتنی ہی خطرناک ہوتی ہے جتنی قسم اول والوں کی۔ ایک دن ان کے محبوب کی آنکھیں بند ہو جائیں گی، اور ان کا کمرہ تاریکی میں ڈوب جائے گا۔ تیریزا اور طوماش کا شماراسی قسم میں ہوتا ہے۔

آخراً، چوتھی قسم ہے۔ یہ نادرِ روزگار قسم ہے اور اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو غائب اور مفقود کی خیالی آنکھوں میں زندگی کرتے ہیں۔ یہ خواب دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ مثلاً فرانز۔ صرف سبینا کی خاطر اس نے کمبوڈیا کی سرحد تک کا سفر کیا۔ جب بس تھائی لینڈ کی ایک سڑک پر دھکے کھاتی جا رہی تھی، اس وقت وہ سبینا کی نظروں کو اپنے اوپر ثبت محسوس کر سکتا تھا۔

طوماش کے لڑکے کا شمار بھی اسی قسم میں ہوتا ہے۔ میں اسے سائمن کا نام دیتا ہوں۔ (وہ یہ جان کر یقیناً  خوش ہو گا کہ اس کے باپ کے نام کی طرح خود اس کا نام بھی بائبل سے لیا گیا ہے۔ ) جن آنکھوں کا وہ آرزومند تھا، وہ طوماش کی آنکھیں تھیں۔ پٹیشن والی مہم میں ملوث ہونے کے نتیجے میں اسے یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا تھا۔ جس لڑکی سے اس کا معاشقہ چل رہا تھا، وہ گاؤں کے پادری کی بھتیجی تھی۔ اس نے اس سے شادی کی، ایک کلیکٹیو فارم (collective farm) پر ٹریکٹر ڈرائیور بنا، عملی کیتھولک بھی، اور وقت آنے پر باپ بھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ طوماش بھی اسی گاؤں میں اقامت گزیں ہے، تو اس کے دل میں اہتزاز کی لہر دوڑ گئی۔ قسمت دونوں کی زندگیوں کو کس درجے قریب لے آئی تھی۔ اس بات سے اسے طوماش کو خط لکھنے کا حوصلہ ہوا۔ لیکن اپنے خط میں اس نے طوماش سے جواب دینے کی درخواست نہ کی۔ وہ صرف اتنا ہی چاہتا تھا کہ طوماش اس کی زندگی کی طرف اپنی نظریں منعطف کر دے۔

 

                24

فرانز اور سائمن اس ناول کے خواب دیکھنے والے کردار ہیں۔ فرانز کے برعکس سائمن کو اپنی ماں کبھی پسند نہ آ سکی۔ بچپن ہی سے اسے اپنے باپ کی جستجو رہی تھی۔ وہ اس بات پر قطعی آمادہ تھا کہ اپنے باپ کو کسی ناانصافی کا ہدف مانے، ایسی ناانصافی جو ان تمام ناانصافیوں سے جو اس کے باپ نے اس کے ساتھ کی تھیں، نہ صرف یہ کہ زمانی اعتبار سے پہلے تھی، بلکہ ان کی وجہِ جواز بھی تھی۔ اس نے اپنے باپ کے لیے کبھی غصہ محسوس نہ کیا، کیونکہ وہ اپنی ماں کا، جو مسلسل اس کے باپ کو بدنام کرتی رہتی تھی، حلیف بننے کا بالکل متمنی نہ تھا۔

وہ اپنی ماں کے ساتھ اٹھارہ سال کی عمر تک، یعنی سیکنڈری اسکول پاس کرنے تک رہا، پھر پراگ آ کر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اس وقت طوماش کھڑکیاں دھونے کے کام پر مامور تھا۔ طوماش سے بظاہر اتفاقیہ ملاقات کی خاطر سائمن اکثر گھنٹوں انتظار کیا کرتا۔ لیکن طوماش اس سے بات کرنے کے لیے کبھی لمحہ بھر بھی نہ رکا۔

اس بڑی سی ٹھوڑی والے سابق مدیر سے اس کے تعلق کی تنہا وجہ یہ تھی کہ مدیر اور اس کا باپ دونوں ہی قسمت کے مارے ہوئے تھے، اور مدیر کی شومیِ قسمت دیکھ کر اسے اپنے باپ کی بدبختی یاد آ جاتی تھی۔ مدیر نے تو کبھی طوماش کا نام تک نہ سنا تھا۔ خود سائمن ہی نے مدیر سے اس مضمون کا ذکر کیا تھا اور پھر یہ درخواست کہ وہ کسی نہ کسی طرح طوماش کو پٹیشن پر دستخط کرنے کے لیے آمادہ کر لے۔ مدیر نے صرف اس لیے ہامی بھر لی تھی کہ یہ نوجوان اسے عزیز تھا اور وہ اس کے لیے کوئی نیک کام کرنا چاہتا تھا۔

جب بھی سائمن کو باپ بیٹے کی ملاقات والا دن یاد آتا تو اپنی جھجک اور لرزہ بر اندام کیفیت پر بڑی ندامت محسوس ہوتی۔ ظاہر ہے، اس کا باپ اسے پسند کرتا بھی تو آخر کیسے ؟ اس کے برعکس، اسے اپنا باپ بہت پسند تھا۔ اسے اپنے باپ کا کہا ہوا ہر ہر لفظ ازبر تھا۔ اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی معلوم ہوتا گیا کہ ان الفاظ میں کس قدر صداقت تھی۔ جن الفاظ نے اسے بے حد متاثر کیا تھا وہ یہ تھے : ’’لوگوں کو سزا دینا، جنھیں نہیں معلوم کہ وہ کس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، نہایت بہیمانہ فعل ہے۔ ‘‘ جب اس کی محبوبہ کے چچا نے اس کے ہاتھ میں بائبل تھمائی، تو وہ عیسیٰ کے ان الفاظ سے بھی خاص طور پر متاثر ہوا تھا: ’’انھیں بخش دو، کہ انھیں نہیں معلوم کہ یہ کیا کر رہے ہیں !‘‘ اپنے باپ کی مذہب سے عدم اعتقادی اس پر خوب عیاں تھی۔ لیکن ان دونوں اقوال کی حیرت انگیز مماثلت میں اسے غیب سے دی جانے والی نشانی کا احساس ہوا۔ یہی کہ جس راہ کا اس نے اپنے لیے انتخاب کیا تھا، اس کا باپ اس راہ سے بالکل متفق تھا۔

گاؤں کے ماحول میں رہتے ہوئے تقریباً تین سال کے عرصے میں اسے طوماش کی جانب سے صرف ایک خط موصول ہوا جس میں آ کر طوماش سے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔ ملاقات خاصی دوستانہ رہی۔ سائمن نے خود کو بالکل پرسکون محسوس کیا اور ذرا بھی نہ ہکلایا۔ لیکن شاید وہ یہ اندازہ نہ کر سکا کہ دونوں ہی ایک دوسرے کی بات پوری طرح سمجھنے سے قاصر تھے۔ تقریباً چار ماہ بعد اسے ایک تار ملا جس میں اطلاع دی گئی تھی کہ طوماش اور اس کی بیوی ٹرک کے نیچے آنے سے کچل کر مر گئے تھے۔

ٹھیک اسی زمانے میں اسے ایک عورت کے بارے میں پتا چلا جو کبھی اس کے باپ کی داشتہ رہ چکی تھی اور فی الوقت فرانس میں اقامت گزیں تھی۔ جانے کیسے کیسے جتن کر کے اس نے بالآخر اس عورت کا پتا حاصل کر لیا۔ اور چونکہ اسے ایک ایسی تخئیلی آنکھ کی اشد ضرورت تھی جو اس کی حیات کے گزران پر مرکوز ہو، وہ وقتاً فوقتاً اس عورت کو بڑے طویل طویل خط لکھتا۔

 

                25

اپنی زندگی کے آخری ایاّم تک سبینا کو اپنے سوگوار دیہاتی نامہ نگار کی جانب سے برابر خط ملتے رہے۔ ان میں سے بیشتر تو کھول کر کبھی پڑھے تک نہ گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سبینا کی اپنے وطن سے دلچسپی دن بدن کم سے کم تر ہوتی جا رہی تھی۔

وہ بوڑھا بالآخر مر کھپ گیا، اور سبینا کیلی فورنیا چلی آئی — یعنی کچھ اور دور مغرب، اپنے پیدائشی ملک سے کچھ اور دور۔

اسے اپنی پینٹنگز کو فروخت کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ امریکہ اسے پسند ضرور تھا، لیکن سطحی طور پر۔ زیرِ سطح ہر چیز اس کے لیے مکمل اجنبی تھی۔ نیچے، بہت نیچے، نہ کوئی دادا نانا تھا، نہ کوئی چچا۔ اسے خود کو قبر میں اتار کر امریکی زمین میں روپوش ہو جانے کے خیال سے خوف آتا تھا۔

چنانچہ ایک دن اس نے اپنا وصیت نامہ مرتب کیا جس میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ بعد از مرگ اس کی لاش کو نذرِ آتش کر دیا جائے اور اس کی راکھ ہوا میں منتشر۔ تیریزا اور طوماش ثقل کی علامت کے نیچے اپنے انجام کو پہنچے تھے، اور وہ لطافت کے نشان کے نیچے مرنا چاہتی تھی۔ اس صورت میں وہ ہوا سے زیادہ لطیف ہو گی اور، جیسا کہ پارمے نی ڈیز (Parmenides) نے کہا ہے، منفی مثبت میں بدل جائے گا۔

 

                26

بس بینگکاک ہوٹل کے سامنے آ کر ٹھہر گئی۔ اب کسی کو جلسے جلوس کا اشتیاق نہیں رہا تھا۔ لوگ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر قابلِ دید مقامات کی سیر کو نکل پڑے۔ چند ایک مندروں کی زیارت کو چل دیے، چند ایک قحبہ خانوں کی طرف۔ فرانز کے ساربون والے دوست نے شام اکھٹے گزارنے کی تجویز پیش کی۔ لیکن فرانز اس وقت محض تنہا وقت گزارنا چاہتا تھا۔

جب وہ سڑک پر نکلا تو اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ وہ سبینا کے خیال میں گم تھا۔ اسے سبینا کی آنکھیں اپنے اوپر جمی ہوئی محسوس ہوئیں۔ جب بھی اسے لگا کہ وہ اُسے ٹکٹکی باندھے تک رہی ہے، اسے اپنے بارے میں شک نے آ گھیرا: اسے سبینا کی اصل سوچ کا وثوق سے کبھی پتا نہ چل سکا تھا، اور آج بھی اس خیال کے آتے ہی وہ خاصا بے راحت ہو گیا۔ وہ اس کا مضحکہ تو نہیں اڑا رہی؟ جس طرح اس نے بڑھا چڑھا کر اسے باقاعدہ ایک کلٹ (cult) کی شکل دے دی تھی، تو کیا یہ بات سبینا کو نہایت احمقانہ تو نہیں معلوم ہوتی تھی؟ کیا وہ اسے یہ بتانے کی کوشش تو نہیں کر رہی تھی کہ میاں، وقت آ گیا ہے کہ بچپنا چھوڑ کر باقاعدہ بالغ آدمی کی جون میں آ جاؤ اور خود کو اپنی داشتہ کے لیے وقف کر دو، وہ داشتہ جسے خود سبینا نے اس کو بھیجا تھا؟

جیسے ہی وہ بڑے بڑے گول عدسوں میں دھنسا چہرہ اس کے تصور میں لہرایا، فرانز کو معاً خیال آیا کہ وہ اپنی طالب علم داشتہ کے ساتھ کتنا مسرور رہا تھا۔ اچانک کمبوڈیا والی مہم اسے بڑی بے معنی اور اتنی ہی مضحکہ خیز معلوم ہوئی۔ وہ یہاں کس لیے آیا تھا؟ اب کہیں جا کر اسے اس کا صحیح اندازہ ہو رہا تھا۔ وہ یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ معلوم کرنے آیا تھا کہ نہ پریڈیں اور نہ سبینا، بلکہ ایک چشمے والی لڑکی ہی اس کی اصلی کائنات ہے، اس کی تنہا حقیقی کائنات۔ وہ یہ جاننے کے لیے آیا تھا کہ حقیقت خواب سے زیادہ کوئی شے ہے، خواب سے کہیں زیادہ!

اچانک نیم اندھیرے سے ایک شبیہ ابھر کر اس کے سامنے آئی اور ایک نامانوس زبان میں اس سے کچھ کہا۔ اس نے اس ناخواندہ مہمان پر ایک نظر ڈالی جس میں بدحواسی تو خیر تھی ہی، ساتھ ساتھ ہمدردی کا شائبہ بھی تھا۔ آدمی احتراماً جھکا، خوش خلقی سے مسکرایا، اور پھر بڑے تعمیل طلب انداز میں کچھ بڑبڑایا۔ وہ کیا کہنے کی کوشش کر رہا تھا؟ وہ اسے اپنے ساتھ کہیں لے جانے کی دعوت دے رہا تھا۔ آدمی نے فرانز کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی قیادت کرنے لگا۔ فرانز نے یہ نتیجہ نکالا کہ کہیں کوئی شخص اس کی مدد چاہتا ہے۔ تو پھر اس کے یہاں، اتنی دور، آنے کے کچھ نہ کچھ معنی تو ضرور نکلتے ہیں ! کیا پردۂ غیب سے اسے کسی کی اعانت کے لیے نہیں بلایا جا رہا تھا؟

اچانک مزید دو شخص کہیں سے آ ٹپکے اور پہلے آدمی کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان میں ایک نے انگریزی میں فرانز سے کہا کہ اپنی ساری نقدی اس کے حوالے کر دے۔

چشمے والی لڑکی فوراً اس کے خیالوں سے غائب ہو گئی، اور سبینا کی آنکھیں اس کے سراپے پر آ جمیں — وہ سبینا جو بڑی غیر حقیقی تھی، جو بڑی عالی شان قسمت کی مالک تھی، جس نے اسے خود کو بے حد خفیف محسوس کرنے پر مجبور کر دیا تھا، جس کی قہر آلود نگاہیں اس میں ٹھیک برمے کی اَنی کی طرح پیوست ہوئی جا رہی تھیں۔ ان آنکھوں میں بلا کا خشم تھا اور بلا کی بے اطمینانی: تو کیا ایک بار پھر اس کے ساتھ جعل ہوا ہے ؟ کسی اور شخص نے بھی اس کی احمقانہ خوش خُلقی سے فائدہ اٹھایا ہے ؟

اس نے جھٹک کر اپنا بازو آدمی کی گرفت سے آزاد کر لیا۔ مگر اب وہ آدمی فرانز کی آستین پکڑے ہوئے تھا۔ فرانز کو یاد آیا کہ سبینا نے ہمیشہ اس کی طاقت کو تحسین کی نظر سے دیکھا تھا۔ اتنے میں ایک اور آدمی کا ہاتھ تیزی سے اس کے خلاف اٹھا۔ فرانز نے اسے ہوا ہی میں اچک لیا اور جوڈو کا کوئی مجرب پینترا استعمال کر کے اسے اپنے کندھوں پر سے اچھال کر پھینک دیا۔

اب وہ اپنے سے بالکل مطمئن تھا۔ سبینا کی نظریں ہنوز اس پر ثبت تھیں۔ وہ اب کبھی اسے خود کو ذلیل کرتا ہوا نہ دیکھے گی۔ کبھی پسپا اور میدان چھوڑ کر بھاگتا ہوا نہیں دیکھے گی۔ لجلجی جذباتیت اور رقیق القلبی سے فرانز کا پیٹ بھر چکا تھا۔

ان آدمیوں کے لیے اس نے ایک عجیب سی بشاش حقارت محسوس کی۔ ہنھ! یہ سوچ کر آئے تھے کہ فرانز اور اس کی سادہ لوحی پر بھرپور قہقہہ لگانے کا موقع ملے گا! وہ بقیہ دو آدمیوں کے درمیان شانے جھکائے کھڑا باری باری انھیں دیکھے جا رہا تھا۔ اچانک اسے اپنے سر پر ایک شدید ضرب محسوس ہوئی اور وہ چکرا کر زمین پر آ رہا۔ اسے مبہم سا احساس تھا کہ اسے اٹھا کر کہیں لے جایا جا رہا ہے۔ پھر محسوس ہوا کہ اسے خلا میں پھینک دیا گیا ہے اور وہ گرا چلا جا رہا ہے۔ ایک اور بے پناہ شدید ضرب، اور وہ بے ہوش ہو گیا۔

جب اسے ہوش آیا تو وہ جنیوا کے ایک اسپتال میں پڑا ہوا تھا، اور ماری کلود اس کے بستر پر جھکی ہوئی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ ماری کلود سے کہہ دے کہ اسے یہاں آنے کا کوئی حق نہیں۔ وہ تو یہ چاہتا تھا کہ عملے سے کہہ کر چشمے والی لڑکی کو فوراً اپنے پاس بلوا لے۔ اس کے تمام تر خیالات صرف اسی پر مرکوز تھے۔ وہ ببانگِ دہل اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ اپنے پہلو میں اس کے سوا کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن ایک خوف کے ساتھ اس پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ اس کی قوتِ گویائی سلب ہو چکی ہے۔ اس نے نظر اٹھا کر حقارت سے لبریز آنکھوں سے ماری کلود کو دیکھا اور چاہا کہ منھ پھیر کر دوسری طرف کروٹ لے لے، لیکن معلوم ہوا کہ اس میں اپنا جسم ہلانے تک کی سکت نہیں رہی۔ ممکن ہے اس کا سر ہل سکے ؟ وہ اپنا سر بھی نہ ہلا سکا۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ کر بند کر لیں تاکہ ماری کلود اسے نظر نہ آ سکے۔

 

                27

اپنی موت میں، انجام کار، فرانز اپنی بیوی کا ہو رہا — اور ایسا کہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ ماری کلود نے تجہیز و تکفین کا جملہ انتظام خود کیا: کفن دفن کا سارا کھٹ راگ، اس کی موت کے اطلاعی کارڈ بھی خود ہی بھیجے، خود ہی جا کر پھولوں کے ہار خریدے، اور اپنے لیے ایک کالا ماتمی — بلکہ حقیقتاً شادی کا —ڈریس بھی خود ہی بنوایا۔ ٹھیک ہی تو ہے، شوہر کی تجہیز و تکفین کا موقع بیوی کی حقیقی شادی ہی کا موقع تو ہوتا ہے ! اس کی ساری زندگی کی تمام تر جستجو اور عمل کا نقطۂ عروج! اس کے سارے دکھ کا اجر!

پادری (pastor) کو ان سب باتوں کا بخوبی علم تھا۔ چنانچہ میت کو قبر میں اتارنے سے قبل جو خطبہ دیا جاتا ہے اس میں اس نے ایک ایسی ازدواجی محبت کا ذکر کیا جو زمانے کی کڑی آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود مرنے والے کے لیے گوشۂ عافیت رہی تھی، ایسا گوشۂ عافیت جہاں وہ اپنی زندگی کے دن پورے کر کے واپس جا رہا تھا۔ فرانز کے ہم منصب رفقا نے بھی، جن کو ماری کلود نے قبر پر تقریر کرنے کی دعوت دی تھی، اصلاً مرنے والے کی بہادر بیوی کو ہی خراج عقیدت پیش کیا۔

جنازے میں کہیں بہت پیچھے، ایک دوست کے کندھوں کا سہارا لیے، بڑے بڑے چشموں والی لڑکی کھڑی تھی۔ مختلف النوع ادویہ کی گولیوں کے استعمال اور سسکیوں کے طوفان کو دبائے رکھنے کی جان لیوا کوشش کی وجہ سے رسمِ تکفین کے اختتام سے پہلے ہی، اس پر مروڑ کا شدید دورہ پڑا۔ وہ پیٹ پکڑ کر آگے کو لڑکھڑائی، اور اس کا دوست سہارا دے کر اسے وہاں سے باہر لے آیا۔

 

                28

کلیکٹو فارم کے صدر کا خط ملتے ہی وہ اچک کر اپنی موٹرسائیکل پر جا سوار ہوا، اور کفن دفن کا انتظام کرنے عین وقت پر جا پہنچا۔ باپ کی لوحِ مزار پر نام کے نیچے وہ یہ کتبہ دیکھنا چاہتا تھا: ’’یہ خدا کی بادشاہت زمین پر دیکھنے کا خواہاں تھا!‘‘

اسے خوب معلوم تھا کہ اس خیال کے اظہار کے لیے اس کے باپ نے بالکل مختلف الفاظ چنے ہوتے، لیکن جہاں تک جذبات کا تعلق ہے، تو یہ جذبات عین اس کے باپ کے ہی تھے۔ خدا کی بادشاہت کا مطلب انصاف ہے، اور طوماش نے ایسی دنیا کی آرزو کی تھی جہاں انصاف کا بول بالا ہو۔ کیا سائمن کو اپنے باپ کے جذبات کو اپنے الفاظ میں ادا کرنے کا حق حاصل نہ تھا؟ ظاہر ہے کہ تھا۔ کیا تمام وارثین کو زمانۂ قدیم سے یہ استحقاق نہیں رہا؟

لیکن فرانز کی لوح مزار پر یہ عبارت کندہ تھی: ’’جہاں گرد کی واپسی — طول طویل سیاحت کے بعد!‘‘ اب ایسا نہیں تھا کہ اس کی مذہبی رنگ میں ترجمانی نہ کی جا سکتی ہو۔ یعنی کہ سیاحت مترادف ہے ہماری حیاتِ ارضی کے، اور ہماری رجعت دراصل خدا کی طرف رجعت ہے۔ تاہم اقربا کو خوب معلوم تھا کہ اس عبارت کا ایک دنیاوی مفہوم بھی نکلتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ماری کلود اس مفہوم کا روز ہی اظہار کرتی تھی:

فرانز، پیارا، شیریں فرانز! ادھیڑ عمر کے جس بحران سے مرد دوچار ہوتے ہیں، وہ واقعی اس کے لیے وبالِ جان بن گیا تھا۔ اور وہ قابلِ رحم لونڈیا جس نے اسے اپنے جال میں پھانس لیا! اف، حد تو یہ ہے کہ وہ خوبصورت تک نہ تھی! (تم نے اس کا وہ بڑے بڑے عدسوں والا چشمہ نہیں دیکھا جس کے پیچھے وہ اپنی بدصورتی چھپاتی تھی؟) لیکن جب یہ مردوے پچاس کے پیٹے میں آتے ہیں تو (خوب معلوم ہے ) تازہ گوشت کے ایک لوتھڑے کے لیے اپنی روح تک بیچ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ صرف ایک بیوی ہی جانتی ہے کہ اس بحران سے اس کا شوہر کس اذیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ فرانز کے لیے ایک باقاعدہ تعذیب، اخلاقی تعذیب کے مساوی تھا، کیونکہ اپنے باطن میں فرانز ایک رحم دل اور شریف النفس آدمی تھا۔ ورنہ پھر آپ ہی بتائیے کہ اسے اس احمقانہ ٹرپ پر ایشیا، یا جہاں بھی وہ جگہ رہی ہو، جانے کی کیا ضرورت پڑی تھی؟ وہ وہاں موت کی تلاش میں گیا تھا۔ جی ہاں، ماری کلود اس بات کو صداقتِ مطلق کے طور پر جانتی تھی: فرانز، بقائمی ہوش و حواس، موت کا خواہاں تھا۔ اپنے آخری ایام میں، جب وہ عازمِ ملکِ عدم تھا، اور جھوٹ بولنے کی اسے چنداں ضرورت نہ تھی، اس نے صرف ماری کلود کو دیکھنے کی خواہش کا ہی اظہار کیا تھا، کسی اور کو دیکھنے کا نہیں۔ قوتِ گویائی سے محروم ہو جانے کے باوجود اس نے کس کس طرح نہ آنکھوں سے ماری کلود کا شکریہ ادا کیا تھا! اس نے ماری کلود پر اپنی آنکھیں ثبت کر کے اسے معاف کر دینے کی التجا کی تھی، اور ماری کلود نے اسے معاف بھی کر دیا تھا۔

 

                29

کمبوڈیا کے مرتے عوام کا مآل؟

ایک بڑی سی تصویر جس میں ایک امریکی اداکارہ ایک ایشیائی بچے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے۔

طوماش کا کیا بنا؟

لوحِ مزار پر ایک کتبہ: یہ خدا کی بادشاہت زمین پر دیکھنے کا خواہاں تھا!

بیتھوون (Beethoven)کا کیا بچا ہے ؟

پیشانی پر ناپسندیدگی کی ایک شکن، گردن کے ناگفتنی بال، اور ایک گمبھیر آواز جو گنگنا رہی ہے : ’’یہ تو ہوناہی تھا!‘‘4

فرانز کا انجام؟

ایک کتبہ جس پر یہ عبارت کندہ ہے : جہاں گرد کی واپسی— طول طویل سیاحت کے بعد!

وغیرہ وغیرہ!

ہم اپنے بھلا دیے جانے سے پہلے ہی کچ میں تبدیل کر دیے جائیں گے۔ وجود اور نسیاں کی درمیانی منزل کچ ہے۔

 

 

حواشی:

 

 

1 Gnostics : غناسطی، عارفین، علمِ باطنی رکھنے والے۔

2 theodicy : یعنی اثباتِ عدلِ الٰہی۔

3 Merde: فرانسیسی لفظ۔ ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں آج کل انگریزی کا لفظ shit۔ یعنی فضلہ۔

4 یہاں جرمن کا فقرہ استعمال ہوا ہے : Es muss sein.۔ انگریزی: It must be.۔ اردو: یہ تو ہونا ہی تھا۔

٭٭٭

ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید