FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

چیک ادیب میلان کنڈیرا سے دو مصاحبے

 

 

                ترتیب: اجمل کمال

ماخذ: ’آج‘ دوسری کتاب، مدیر: اجمل کمال

 

 

 

 

 

                ایان میک ایون

 

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

 

 

 

 

 

میلان کنڈیرا سے ایک گفتگو

 

میلان کنڈیرا 1929 میں برنو (Brno) میں ایک کنسرٹ پیانو نواز کے گھر پیدا ہوا۔ 1947 میں اس نے چیک کمیونسٹ پارٹی شمولیت اختیار کی اور 1950 میں نکال دیا گیا۔ 1956 میں بحال ہوا اور 1970 میں پھر نکال دیا گیا۔ وہ 1969 تک پراگ نیشنل فلم اسکول میں پروفیسر تھا، جب چیکوسلوواکیہ پر روسی حملے کے بعد ’نارملائزیشن‘ کے عمل کے دوران اسے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اگلے چند برسوں میں مقتدر لوگوں کے ہاتھوں اس کی زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار ہوتی گئی۔ 1975 میں اسے رین (Rennes) یونیورسٹی کی جانب سے پروفیسر کے عہدے کی پیشکش ہوئی اور وہ اپنی بیوی ویرا کے ساتھ فرانس منتقل ہو گیا۔ تب سے وہ وہیں مقیم ہے۔

1967 میں اس کا پہلا ناول The Joke چھپا تو یکایک بے حد کامیاب ہوا اور ’پراگ کے موسمِ بہار‘ (Prague Spring) کا ایک اہم واقعہ بن گیا۔ یہ ناول ایک نوجوان طالب علم کو پیش آنے والی قہرناک زندگی کی کہانی بیان کرتا ہے، جس سے اسے اپنی اسٹالنسٹ محبوبہ کو یہ پوسٹ کارڈ لکھنے کے بعد دوچار ہونا پڑا: ’’امیدپرستی عوام کی افیون ہے۔ صحت مند ماحول سے حماقت کا تعفن اٹھتا ہے۔ تراتسکی زندہ باد!‘‘ فرانسیسی نقاد آراگوں (Aragon) نے اسے موجودہ صدی کے عظیم ترین ناولوں میں شمار کیا۔ کنڈیرا کی کہانیوں کا خوبصورت مجموعہ Laughable Loves بھی اسی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے Knopf نے شائع کیا تھا اور بعد میں فلپ راتھ کی مرتب کردہ پینگوئن کی شاندار سیریز Writers from the Other Europe میں شامل کیا گیا۔

نارملائزیشن کے عمل میں سارے چیکوسلوواکیہ میں کنڈیرا کی تحریروں پر دکانوں اور کتب خانوں کے دروازے بند کر دیے گئے، اور تب سے وہ مترجم کے لیے لکھنے پر مجبور ہے۔ فرانس روانہ ہونے سے پہلے اس نے دو ناول اور لکھے : The Farewell Party اور Life is Elsewhere۔ موخرالذکر کو 1973 میں فرانس میں شائع ہونے والے بہترین غیرملکی ناول کے Prix Medicis کا مستحق قرار دیا گیا۔ یہ ناول اس کے وطن میں دستیاب نہیں ہے۔ ستر کی دہائی میں کنڈیرا کی بہت سی تحریروں کے ترجمے ہوئے۔ جلاوطنی میں لکھا ہوا اس کا پہلا ناول The Book of Laughter and Forgetting کنڈیرا کے فلسفیانہ اور سیاسی خیالات اور نجی زندگی کے ڈراما اور میلوڈراما — یعنی کنڈیرا کی بشریات (anthropology) —کو ایک جرأتمندانہ یا شوخ ساخت میں ایک نیا مرکب اور جامع اظہار میسر ہوا۔

اس کے نئے ناول The Unbearable Lightness of Being کا اس سال فرانس میں گرمجوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ پچھلے ناول کی طرح یہ بھی اس کے کرداروں کی نجی زندگی کے پُر مزاح یا حسرتناک بیانیوں اور ان کی تقدیروں کے (اور تمام تقدیروں کے ) ناراست، paradoxical اور کبھی کبھی کربناک تجزیوں کے درمیان گردش کرتا ہے۔ فرانسیسیوں نے کنڈیرا کو اپنا لیا ہے اور آج کل انٹرویو کرنے والے اور خاکہ نگار اسے گھیرے رہتے ہیں۔ ممکن ہے یہاں کی صحافت کے بارے میں اس کے نقطۂ نظر کی اور اپنے خیالات کی مسلسل گردان سے اکتاہٹ کی یہی وجہ ہو۔ بہرحال ابھی حالات اس کے لیے بدترین نہیں ہوئے ؛ ابھی تو یہاں اور خصوصاً امریکہ میں پبلشنگ کے ایک عظیم ’واقعے ‘ کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اور اگر وہ dissident writer کے لیبل سے (جو اسے سخت ناپسند ہے ) بچنا چاہتا ہے تو ابھی تو اسے بے شمار وضاحتیں پیش کرنی ہوں گی۔

انسانی تجربات کو ایقان (dogma)، خصوصاً سیاسی ایقان کے نظام میں ڈھالے جانے کے کرب کے بیان کے لحاظ سے یہ ناول بھی اس کی پچھلی تحریروں سے اپنا تعلق قائم رکھتا ہے۔ کنڈیرا کی کشش کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اس کرب کے گرد جنسی طربیے بن سکتا ہے۔ ’بڑے سوالات‘ سے اسے یقیناً  سروکار ہے، لیکن پڑھنے والے کو کبھی سرد تجریدوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ اس کے پُرسوز استفسارات کی جڑیں اس کے کرداروں کی زندگی میں ہیں، اور ان کرداروں کو وہ لگ بھگ باپ کی سی شفقت سے برتتا ہے۔ اقتدار کی سخت گیری، ماضی پر سیاسی کنٹرول، یوٹوپیا کی جاذبیت، تاریخ اور خود وجود کی ماہیت (یعنی کنڈیرا کی مابعد الطبیعیات)، ان سب کی صورت گری، پُر پیچ اور نا پائیدار محبتوں، زہر ناک رقابتوں، زورآور جنسی فتوحات، جنسی تہذیب کی شائستگی اور جنسی بیداری کے بے حدوحساب طربیے کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ جنس کا بیان اس کے ہاں مراق کی حدوں کو چھو لیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے نجی زندگی اور سیاسی زندگی دونوں کو ایک کُل میں لا کر یہ باور کرایا ہے کہ کس طرح دونوں ایک مشترکہ ماخذ، یعنی انسانی کوتاہی، سے تشکیل پاتی ہیں۔ ایک آمرانہ ریاست — یعنی بلا مقابلہ معانی کی سلطنت — خود اپنی بے شمار لغویتیں اور تاریک طربیے پیدا کرتی ہے، اور کنڈیرا خود ایک ایسی بیوروکریسی کا ہدف رہ چکا ہے جس میں شہریوں کو اپنے ہم وطن کافکا کے مطالعے کی اجازت دینے کا حوصلہ نہیں ہے۔

یہ گفتگو فرانسیسی زبان میں موں پارناس کے قریب ایک فلیٹ میں ہوئی جہاں کنڈیرا اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ ہم نے اس کی جلاوطنی کے موضوع سے بات شروع کی:

 

ایان میک ایون: پہلے جلاوطنی کی بات کرتے ہیں۔ چیکوسلوواکیہ میں آپ کی کتابوں پر پابندی ہے، اور اب آپ کے فوری پڑھنے والے فرانسیسی ہیں۔ کیا اپنی ہم وطن پبلک سے کٹ کر رہ جانا بہت بڑا نقصان ہے ؟

میلان کنڈیرا: عام نقطۂ نظر سے تو یقیناً ان لوگوں کو کھو بیٹھنا خاصا دشوار ہے جن کا میں چالیس برس کی عمر تک عادی ہو گیا تھا، لیکن ذاتی طور پر مجھے یہ سب کچھ اتنا ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتا۔ میری کتابوں پر پابندی روسی حملے کے وقت ہی لگ گئی تھی، لیکن میں اس کے بعد پراگ ہی میں مقیم رہا۔ خوش قسمتی سے اس سے پہلے ہی میرا معاہدہ فرانسیسی پبلشر گالیمار (Gallimard) سے ہو چکا تھا اور مجھے یہ اطمینان تھا کہ میری تحریریں شائع ہو جائیں گی۔ اس سے صورت حال کی شدت خاصی کم ہو گئی۔ مگر پابندی صرف مجھ پر نہیں لگی تھی بلکہ میری نسل کے تقریباً سب لوگوں پر، اور میرے کئی ساتھیوں کے پاس کوئی پبلشر نہیں رہا تھا۔ فرانسیسی پبلک، یا میرے اپنے ہم وطنوں کے سوا کسی بھی اور پبلک، کا تصور ایک مجرّد نامعلوم شے کی طرح کا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی تصور آزادی بخش ثابت ہوا۔ آپ کے پڑھنے والے اپنے مطالبے، اپنا ذوق رکھتے ہیں، اور آپ کو علم ہوئے بغیر آپ کی تحریروں پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ پبلک کبھی پریشان کن بھی ہوتی ہے، خصوصاً ایک چھوٹے سے ملک میں جہاں یکایک سب لوگ آپ کو جاننے لگتے ہیں۔ سو پابندی لگنے کے بعد میں نے جو دو ناول لکھے، ان میں خود کو بالکل آزاد محسوس کیا — چونکہ میری تحریریں میرے ملک میں شائع نہیں ہو رہی تھیں، اس لیے ایک تو میں سنسر شپ سے آزاد تھا، دوسری طرف مجھ پر لوگوں کا دباؤ بھی نہیں تھا۔

میک ایون: کیا ترکِ وطن پر آپ نے خود کو جڑ سے اکھڑا ہوا محسوس کیا؟

کنڈیرا: جڑ سے اکھڑا ہوا ہونے سے کیا مراد ہے ؟

میک ایون: یعنی یہ کہ کیا ترک وطن کا فیصلہ مشکل تھا یا سیدھا سادہ؟

کنڈیرا: یہ ایک سست رو عمل تھا۔ 1968 میں جو لوگ ترکِ وطن کرنا چاہتے تھے، فوری طور پر چلے گئے۔ اس وقت میں ان لوگوں میں سے تھا جو جانا نہیں چاہتے تھے، خاص اس وجہ سے کہ میرا خیال تھا کہ ایک ادیب کا اپنے وطن کے سوا کہیں اور رہنا ممکن نہیں۔ میں قبضے کے بعد سات سال تک چیکوسلوواکیہ میں رہا۔ پہلے پہل سب کچھ غمناک ہونے کے باوجود بے حد دلچسپ تھا — خصوصاً ایک ادیب کے لیے اس تجربے سے گزرنا بہت خیال انگیز تھا — لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ سب بہت زیادہ غمناک ہونے کے علاوہ بے ثمر بھی ہوتا گیا، اور رفتہ رفتہ میرا دل اس سے بھر گیا۔ پھر وہاں رہنا عملاً بھی ناممکن ہو گیا تھا۔ میری ملازمت ختم ہو چکی تھی، تنخواہ بند تھی، میں اپنی تحریریں شائع نہیں کر سکتا تھا، غرض میرے لیے روزی کمانے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا… میں نے کچھ رقم بچا رکھی تھی جو کچھ عرصے تک کام آئی۔ میری بیوی نے انگریزی پڑھانا شروع کیا، لیکن چونکہ اسے پڑھانے کی باقاعدہ اجازت حاصل نہ تھی اس لیے اسے یہ کام خفیہ طور پر کرنا پڑا۔ یہ خیال کہ میں ترک وطن کر سکتا ہوں، مجھے اچھی طرح یاد ہے، 1973 میں آیا۔ مجھے اپنے ناول Life is Elsewhere پر میدیچی پرائز ملا تھا، اور مجھے حیرت ہوئی جب حکام نے مجھے میرا ضبط شدہ پاسپورٹ لوٹا دیا اور انعام لینے کی غرض سے پیرس جانے کی اجازت دے دی۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ حکومت ادیبوں کے ترک وطن کی مخالف نہیں، بلکہ دراصل وہ خاموشی سے اس کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ تب میں نے ترک وطن کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے رین یونیورسٹی کی جانب سے دو سال وہاں پڑھانے کی دعوت ملی۔ ان دنوں چیکوسلوواکیہ میں حالات اور خراب ہو رہے تھے اور فرانس میں ہونا ایک لحاظ سے صحت یابی کی طرح تھا۔ اور مجھے تعجب ہوا کہ مجھے وطن کی یاد یا نوسٹیلجیا نے اس طرح نہیں گھیرا جیسے میں نے سوچ رکھا تھا۔ میں یہاں بہت خوش ہوں۔

میک ایون: یعنی جلاوطنی ’ناقابلِ برداشت لطافت‘ کی ایک شکل نہیں ہے ؟

کنڈیرا: لطافت تو شاید ہے، لیکن ناقابل برداشت سے زیادہ قابل برداشت۔

میک ایون: مغرب میں اپنے قیام کے دوران میں کیا آپ نے خود کو سرد جنگ کے محاذ پر برسرِ پیکار پایا؟ کیا لوگوں کو آپ کی ذات اور تحریروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی تحریک ہوئی؟

کنڈیرا: میں بڑی صاف گوئی سے کہوں گا کہ مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا۔ لیکن جو بات مجھے محسوس ہوئی، خصوصاً اپنی آمد کے فوراً بعد، وہ یہ تھی کہ میری تحریروں کو ایک سادہ سیاسی رنگ میں دیکھا جا رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ لوگ مجھے ایک سیاسی دستاویز کے طور پر پڑھتے ہیں — سب لوگ، خواہ وہ دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہوں یا بائیں بازو سے۔ مجھے اس پر ناگواری محسوس ہوئی اور غصہ آیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کی نیت مجھے استعمال کرنے یا سرد جنگ کا حصہ بنانے کی رہی ہو گی، لیکن میں یہ بہرحال سمجھتا ہوں کہ جدید معاشرہ صحافیانہ اندازِ فکر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ؛ یہاں اسی کا سکہ چلتا ہے۔ اب صحافیانہ سوچ تیز رفتار ہوتی ہے ؛ وہ حقیقی غور و فکر کو روا نہیں رکھتی اور اس کا دنیا کا تصور فطری طور پر بے حد سادہ ہے۔ اگر آپ پراگ یا وارسا سے نکل کر آئے ہیں تو صحافیانہ ’غیرِفکر‘ آپ کو خودبخود سیاسی ادیبوں کے زمرے میں شامل کر دیتا ہے۔ میری تحریروں کے مفسر ادبی نقاد نہیں بلکہ صحافی ہیں، اور اس لحاظ سے مجھے ان کی تفسیر سے نقصان پہنچا اور مجھے ان سے اپنا دفاع کرنا پڑا۔ میرا خیال ہے میں کامیاب رہا، اور اب وہ کم و بیش سمجھنے لگے ہیں۔

میک ایون: آپ کے ناول ’’وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘ کی کردار تیریزا روسی حملے کے وقت روسی فوجیوں اور ٹینکوں کی تصویریں کھینچتی ہے۔ اس کی تصویریں باہر کے ملکوں میں چھپیں گی۔ ایک دم وہ خود کو مضبوط اور مطمئن محسوس کرتی ہے۔ اسے ایک مقصد مل گیا ہے۔ کیا آپ نے بھی ان دنوں کسی لحاظ سے خود کو مضبوط محسوس کیا؟ جیسے آپ کا موضوع قبضے کے دنوں میں ٹھوس صورت میں سامنے آ گیا ہو؟

کنڈیرا: یہ معاملہ تیریزا کا ہے، میرا نہیں۔ میں نے کسی لحاظ سے خود کو مضبوط محسوس نہیں کیا تھا۔ یہ نجی اور پبلک زندگی کا مسئلہ ہے۔ جب عوامی زندگی تیریزا کے لیے بہت شدید ہو جاتی ہے تو اسے ذاتی فکروں سے نجات دلا دیتی ہے۔ یہ ایک پیراڈوکس کی سی صورت حال ہے : آپ اچانک خود کو ڈرامائی واقعات میں گھرا ہوا پاتے ہیں — موت سے نبرد آزما، المیے کے روبرو— اور آپ کو یہ بڑا خوشگوار لگتا ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ آپ اپنی ذاتی اداسی کو بھول جاتے ہیں۔

میک ایون: ’’خندہ اور فراموشی کی کتاب‘‘ میں آپ نے دو طرح کی ہنسی کو بیان کیا ہے۔ شیطان ہر چیز کی مہملیت پر قہقہہ لگاتا ہے، جبکہ فرشتوں کی ہنسی، جس میں ایک جھوٹی سی گونج ہے، دنیا میں ہر شے کے بالکل منظم اور درست ہونے کی خوشی مناتی ہے۔ میرا خیال ہے آپ چیکوسلوواکیہ کو شیطان کے ساتھیوں میں شمار کریں گے۔ چیک شیطانوں کی طرح ہنستے ہیں جبکہ روسی فرشتوں کی طرح۔

کنڈیرا: بالکل درست۔

میک ایون: تو پھر اگر آپ کا تعلق چھوٹے ملک سے ہے تو اس کا گہرا اثر دنیا کے بارے میں آپ کے زاویہ ٔ نظر پر پڑتا ہے ؟

کنڈیرا: ہاں، یہ بہت مختلف ہو جاتا ہے۔ قومی ترانے ہی کو لیجیے۔ چیک ترانہ اس سادہ سے سوال سے شروع ہوتا ہے : ’’میرا وطن کہاں ہے ؟‘‘ یعنی وطن ایک سوال کے طور پر خیال میں آتا ہے، ایک ابدی بے یقینی کے طور پر۔ یا پولینڈ کے قومی ترانے پر غور کیجیے جس کی ابتدا اس طرح ہے : ’’پولینڈ ابھی نہیں بنا‘‘۔ اب اس کا موازنہ روس کے ترانے سے کیجیے : ’’تین جمہوریتوں کا مستحکم اتحاد جنھیں عظیم روس نے ہمیشہ کے لیے آپس میں جوڑ دیا ہے۔ ‘‘ یا برطانیہ کے ترانے سے : ’’فتح مند، مسرور اور شاندار…‘‘ یہ ایک عظیم ملک کا ترانہ ہے۔ عظمت، عظیم، فتح مند، شان و شوکت، فکر، لافانیت — ہاں لافانیت، کیونکہ بڑی قومیں خود کو لافانی سمجھتی ہیں۔ آپ نے دیکھا، اگر آپ انگریز ہیں تو آپ اپنی قوم کے لافانی ہونے پر شبہ نہیں کریں گے کیونکہ آپ انگریز ہیں۔ آپ کی انگریزیت کبھی مشکوک قرار نہیں پائے گی۔ آپ انگلستان کی سیاست پر شبہ کر سکتے ہیں، اس کے وجود پر نہیں۔

میک ایون: ہمارا ملک کبھی بہت بڑا ہوا کرتا تھا، اب وہ خاصا چھوٹا ہے۔

کنڈیرا: اتنا چھوٹا بھی نہیں ہے۔

میک ایون: ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں اپنا وہ تصور ہے جو کسی اور زمانے میں قائم کیا گیا تھا۔

کنڈیرا: ہاں، لیکن آپ یہ سوال کبھی نہیں کرتے کہ جب انگلستان باقی نہیں رہے گا تب کیا ہو گا۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس میں بے پناہ تجرید ہو گی۔ چھوٹے ملکوں میں یہ سوال متواتر کیا جاتا ہے : جب پولینڈ کا وجود نہیں رہے گا تب کیا ہو گا؟ تیس ملین آدمی پولینڈ میں رہتے ہیں، سو یہ اتنا چھوٹا ملک بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ احساس بہرحال حقیقی ہے۔ مجھے Witold Gombrowicz کا چیسلا میلوش (Czeslaw Milosz) کے نام خط یاد آتا ہے جس کا پہلا فقرہ ہی یہ ہے : ’’سو سال بعد، اگر ہمارا ملک باقی رہا…‘‘ کوئی انگریز، امریکی، جرمن، یا فرانسیسی ایسا فقرہ ہرگز نہیں لکھے گا۔

وجود کے مخدوش ہونے کا یہ احساس — یہ فانی ہونے کا احساس — تاریخ کے ایک وژن سے وابستہ ہے۔ بڑی قومیں سمجھتی ہیں کہ وہ تاریخ بنا رہی ہیں۔ اور جب آپ تاریخ بنا رہے ہوں تو اپنے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں ؛ آپ اپنی پرستش تک کرنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر، لوگ کہتے ہیں : تاریخ ہمارے بارے میں فیصلہ کرے گی۔ لیکن وہ ہمارے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی؟ وہ ہمارے ساتھ بری طرح پیش آئے گی…

میک ایون: سختی سے ؟

کنڈیرا: نہیں، یہ تو میں نہیں کہوں گا کہ وہ سخت فیصلہ کرے گی، البتہ وہ ہمارے بارے میں فیصلہ کرے گی اگرچہ اسے اس کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ہم کیوں سوچیں کہ وہ ہمارے بارے میں منصفانہ فیصلہ کرے گی؟ تاریخ کا فیصلہ یقیناً  غیر منصفانہ ہو گا، بلکہ شاید احمقانہ بھی۔ یہ کہنا کہ تاریخ ہمارے بارے میں فیصلہ کرے گی (جو خاصی عام بات ہے، ہر شخص یہی کہتا ہے ) اصل میں تاریخ کو معقول مان لینے کے مترادف ہے، یعنی فیصلہ کرنے پر، سچائی پر تاریخ کا حق تسلیم کرنا ہے۔ بڑی قوموں میں آپ دیکھیں گے کہ یہی بات پائی جاتی ہے۔ چونکہ وہ تاریخ بنا رہی ہیں، اس لیے وہ تاریخ کو ہمیشہ معقول اور مثبت خیال کرتی ہیں۔

البتہ اگر آپ چھوٹی قوم ہیں تو آپ تاریخ نہیں بناتے بلکہ تاریخ کے لیے ایک شے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاریخ ایک بے رحم قوت ہے جس سے آپ کو اپنی مدافعت کرنی ہے۔ آپ خودبخود یہ محسوس کرتے ہیں کہ تاریخ غیر منصفانہ ہے، بلکہ احمقانہ بھی۔ آپ اسے سنجیدگی سے نہیں برتتے۔ ہمارے مخصوص مزاح کا یہی سبب ہے : ہماری حسِ مزاح تاریخ کو grotesque کی صورت میں دیکھنے پر قادر ہے۔

میک ایون: آپ نے اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے کہ جب لوگ یوٹوپیا پر یقین کرنے لگتے ہیں، یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انھوں نے زمین پر بہشت تعمیر کلی ہے، تب کیا ہوتا ہے۔ اس صورت میں آپ انھیں بند دائرے میں رقص کرتا ہوا دیکھتے ہیں، ان کے دل معصومیت کے شدید احساس سے لبریز ہیں۔ وہ یا بچوں کی طرح ہیں، یا ایک ’گرانڈ مارچ‘ میں مٹھیاں بلند کیے یک آواز ہو کر نعرہ زن ہیں۔ لیکن آپ کے جو کردار اس بند دائرے کو توڑ کر نکل آتے ہیں وہ بے حد کلبی (cynical) ہیں۔ بلاشبہ کبھی کبھی وہ اس عالم میں پرکشش بھی لگتے ہیں، اس کے باوجود ان کی زندگیاں بے ثمر معلوم ہوتی ہیں۔ اس کلبیت اور اس بے شعور رقص کے درمیان لگتا ہے آپ کے پاس پیش کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہے۔

کنڈیرا: میں کوئی پرچارک نہیں ہوں۔ میں لوگوں کو نہیں بتا سکتا کہ انھیں کس چیز پر یقین رکھنا چاہیے۔

میک ایون: آپ خود بھی تو بہشت میں رہ چکے ہیں۔ 1968 کے بعد جب کمیونسٹ پہلی بار اقتدار میں آئے تو آپ بھی دائرے کے رقص میں شامل تھے۔ آپ نے اس رقص سے علیحدگی کب اختیار کی؟ کیا یہ بھی ایک سست رو عمل تھا یا فیصلہ کن؟

کنڈیرا: میں جتنا اس زمانے سے دور ہوتا جاتا ہوں، میرا یہ احساس بڑھتا جاتا ہے کہ یہ ایک تیز رفتار عمل تھا۔ لیکن یقیناً  یہ ایک ایسے شخص کا فریبِ نظر (optical illusion) ہے جو اس زمانے سے بہت دور نکل آیا ہے — یہ عمل ہرگز اتنا تیز رفتار نہیں رہا ہو گا۔

میک ایون: آپ کے نئے ناول ’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘ کے آخری حصے میں بہشت کے بارے میں ایک مختلف رویہ پا کر میری دلچسپی بیدار ہو گئی۔ آپ کی ہیروئن تیریزا، اپنے شوہر طامس اور اپنے کتے کیرنن کے ساتھ، دیہات میں پسپائی اختیار کر لیتی ہے۔ آپ نے لکھا ہے : ’’آدم اور کیرنن کا موازنہ کرتے ہوئے مجھے خیال ہوتا ہے کہ جنت میں انسان ابھی انسان نہیں بنا تھا۔ یا یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ ابھی وہ جلاوطن ہو کر انسان کے راستے پر چلنے پر مجبور نہیں ہوا تھا۔ اب ہمیں جلاوطن ہوئے بہت زمانہ ہو چکا ہے اور ہم وقت کے خلا میں خط مستقیم میں اڑ رہے ہیں۔ ‘‘ اور اس کے کچھ ہی دیر بعد آپ حیوانوں کو بے روح مشینوں کے طور پر برتنے کے خطرات پر غور کرنے لگتے ہیں : ’’ایسا کرنے سے انسان خود کو جنت سے جوڑنے والا رشتہ کاٹ دیتا ہے، اور اس کے پاس وقت کے خلا میں اپنی اڑان میں سہارا یا راحت دینے والی کوئی شے باقی نہیں رہ جاتی۔ ‘‘ تو گویا یہ جنت اس لائق ہے کہ اس سے رشتہ قائم رکھا جائے۔ پھر اس جنت کا اس بے شعور جنت سے کیا تعلق ہے جس کا ذکر آپ نے دوسری جگہ بہت تلخی سے کیا ہے ؟

کنڈیرا: تیریزا جنت کی آرزو مند ہے۔ یہ خواہش، بالآخر، انسان نہ رہنے کی خواہش ہے۔

میک ایون: لیکن وہ شخص جو دائرے میں رقص کر رہا ہے، اپنے خالی الذہن جوش و خروش میں مگن ہے، کیا وہ اپنی انسان ہونے کی حیثیت نہیں کھو بیٹھا؟

کنڈیرا: جنونی لوگ اپنی انسان ہونے کی حیثیت سے محروم نہیں ہوتے۔ جنون انسانی ہے۔ فاشزم انسانی ہے۔ کمیونزم انسانی ہے۔ قتل انسانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیریزا ایک ایسے عالم کی تمنا کرتی ہے جس میں انسان انسان نہ رہے۔ سیاسی یوٹوپیا کی بہشت کی بنیاد انسان میں یقین پر ہے۔ اسی لیے اس کا انجام قتل و غارت پر ہوتا ہے۔ تیریزا کی جنت کی بنیاد انسان میں یقین پر نہیں ہے۔

میک ایون: اپنے اس ناول کے اختتام کے قریب آپ نے ’کچ‘ (kitsch) کے تصور پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ کچ سے آپ کی مراد یقیناً  بد مذاقی سے زیادہ رہی ہو گی۔

کنڈیرا: یقیناً ، کہیں زیادہ۔ میں اس لفظ کو، جسے پہلی بار انیسویں صدی میں میونخ میں استعمال کیا گیا تھا، اس کے اصل مفہوم میں استعمال کرتا ہوں۔ انیسویں صدی میں جرمنی اور وسطی یوروپ دونوں رومانوی (Romantic) تھے — حقیقت پسند سے زیادہ رومانوی — اور دراصل انھوں نے کثیر مقدار میں کچ ہی کی تخلیق کی۔ انیسویں صدی وہ پہلی صدی تھی جو کسی قسم کے اسلوب سے تہی تھی۔ اس صدی میں ہر چیز کی جی بھر کے نقل کی گئی۔ خصوصاً فن تعمیر میں نشأۃ الثانیہ، بیروک (baroque)، گوتھک، تمام اسالیب کا ایک ساتھ چربہ کیا گیا۔ ہرمن بروخ (Hermann Broch) نے Comments on Kitsch کے عنوان سے ایک نہایت عمدہ مضمون لکھا جس میں وہ سوال کرتا ہے کہ کیا انیسویں صدی رومانویت کے بجائے کچ کی صدی نہیں تھی؟ اس سے اس کی مراد تھی ایک انتہائی قسم کی فنکارانہ موقع پرستی جسے لوگوں کو جذباتی طور سے متاثر کرنے کی غرض سے کسی شے کے استعمال میں کوئی باک نہیں تھی۔ اس eclecticism کا واحد مقصد یہ تھا کہ یہ لوگوں کو خوش کرے۔ عظیم رومانوی ہستیاں، بروخ کے خیال میں، کچ کے سمندر میں جزیروں کی طرح تھیں۔ وہ تو مثلاً واگنر (Wagner) اور چائیکووسکی (Tchaikovsky) کو بھی کچ ہی قرار دیتا ہے۔

میک ایون: آپ نے لکھا ہے کہ کچ ہی تمام سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں کا جمالیاتی آدرش ہے۔ آپ کے خیال میں کچ کا کام موت پر پردہ ڈالنا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کا کوئی تصور کچ کے بغیر نہیں ہو سکتا؟

کنڈیرا: میری رائے میں سیاست (سیاسی پارٹیوں، انتخابات اور جدید سیاست کے معنوں میں ) کچ کے بغیر ناقابلِ تصور ہے۔ یہ ناگزیر ہے — کامیاب سیاست دان کا کام خوش کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ جتنے زیادہ لوگوں کو انسانی طور پر اس سے ممکن ہے خوش کرے، اور اتنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان کلیشے پر اکتفا کریں جو وہ سننا چاہتے ہیں۔

میک ایون: کیا روسیوں کا مقصد خوش کرنا ہے ؟

کنڈیرا: یہ درست ہے کہ انھیں اس کی ضرورت نہیں۔ ان کے پاس طاقت ہے جسے برقرار رکھنے کے لیے وہ لوگوں کو خوش کرنے کے بالکل پابند نہیں۔ بریژنیف کو کیا پڑی ہے کہ وہ کسی کو خوش کرے۔ لیکن پارٹی کے نعرے، پارٹی کی demagogy وغیرہ وغیرہ: اس کا مقصد خوش کرنا ہے۔ یہ ایک بڑے پیمانے کا کچ ہے۔

میک ایون: اورتیگا ای گاسیت Ortega y Gasset) (کہتا ہے کہ آنسو اور ہنسی جمالیاتی اعتبار سے جھوٹے ہوتے ہیں۔

کنڈیرا: درست۔ میں نے یہ بات پہلے نہیں سنی، لیکن یہ صحیح ہے۔ حال ہی میں مجھے اپنے ایک سویڈش قاری کا خط ملا جس میں وہ کہتا ہے : ’’… لیکن کیا آپ کو احساس ہے کہ دراصل ہم آپ کو اپنانے کے لیے ان باتوں کی پردہ پوشی کر دیتے ہیں جو ہمیں بے چین کرتی ہیں — اور یہ آپ کو کچ میں بدل ڈالنے کے مترادف ہے۔ جب آپ کا ناول خندہ اور فراموشی کی کتاب چھپا تو تبصرہ نگار صرف ایک کردار تمینہ کے بارے میں بات کرتے تھے۔ یہ اس کتاب کا ایک دلچسپ حصہ ہے اور دوسرے حصوں کے مقابلے میں کمتر بھی نہیں، لیکن اس میں ایک جذباتی اور kitschifiable عنصر بھی موجود ہے : ایک عورت کا اپنے مرحوم شوہر سے رشتہ جس سے وہ اب بھی محبت کرتی ہے۔ کسی نے کتاب کے آخری حصے کا ذکر نہیں کیا جس میں ایک سماج دشمن اور انسان دشمن خصوصیت موجود ہے۔ اور اس کا ذکر گول کر جانے کا مقصد آپ کو kitschify کرنا ہے۔ ‘‘

میک ایون: آئیے اب کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں تمام انسانی رشتوں کی کلید جنسی تعلق میں پوشیدہ ہے ؟ کیا مرد اور عورت کے بیچ جو کچھ ہوتا ہے وہ سارے انسانی تعلقات کا آئینہ ہے ؟

کنڈیرا: میں نہیں جانتا۔ بلاشبہ جنسی عمل ایک بے حد کاشف صورت حال ہے، لیکن میں یہ نہیں کہنا چاہوں گا کہ ہر چیز وہیں رک جاتی ہے۔

میک ایون: آپ کا نقطہ ٔ آغاز ہمیشہ کوئی شادی یا معاشقہ ہوتا ہے — لگتا ہے مسلسل جنسی عمل کے سلسلے میں آپ کے ہاں ایک جنون سا ہے۔

کنڈیرا: ہاں، لیکن یا تو یہ کسی صورت حال کے جوہر کو منکشف کر رہا ہوتا ہے یا پھر ناول میں جگہ نہیں پا سکتا۔ جب میرے کردار جنسی عمل میں مشغول ہوتے ہیں، تب یکایک وہ اپنی زندگی یا اپنے تعلق کی حقیقت سے آشنا ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر The Farwell Party میں جیکب اور اولگا ہمیشہ اپنے تعلق میں خود کو محفوظ پاتے رہے ہیں۔ اچانک وہ ایک روز ہم بستری کرتے ہیں اور ان کا تعلق ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ وہ اس لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے کہ جذبۂ رحم جنسی عمل کے دوران میں اچانک ٹھوس شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس تعلق کو انتہائی ہولناک بنا دیتا ہے : جذبۂ رحم محبت کے لیے ایک ناممکن بنیاد ہے۔ The Joke میں جب لڈوِک (Ludwik) ہیلینا سے مباشرت کرتا ہے تو ہم فوراً دیکھ لیتے ہیں کہ اس کی جنسیت کی بنیاد انتقام پر ہے۔ پوری کتاب کی عمارت اس ایک جنسی عمل پر استوار ہے۔ ’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘ میں سبینا، فرانز کے ساتھ جنسی تعلق بناتے ہوئے، ایک دم اس بات سے آشنا ہوتی ہے کہ وہ اس کی چھاتیوں سے دودھ پیتے ہوئے ایک پلّے کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ وہ اسے ایک حیوان نظر آتا ہے جو اس کا محتاج ہے — اور اس کی ذات کا یہ پہلو سبینا کو تکدر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک نظر میں وہ اپنے اور فرانز کے تعلق کی حقیقت تک پہنچ جاتی ہے۔

میک ایون: گویا آپ کے کرداروں کی شناخت ان کی جنسیت کے ذریعے منکشف ہوتی ہے …

کنڈیرا: اسی ناول کے ایک اور کردار تیریزا کو لیجیے۔ اس کا مسئلہ اس کی شناخت کا ہے، روح اور بدن کے رشتے کا ہے۔ اس کی روح اس کے جسم میں اطمینان سے نہیں ہے۔ اس کا اظہار بہت صراحت سے اس منظر میں ہوتا ہے جہاں وہ انجینئر کے ساتھ جنسی عمل میں مشغول ہے۔ اسے اچانک احساس ہوتا ہے کہ اس کی روح اس عمل کے دوران الگ کہیں دور کھڑی اس کے بدن کو اس عالم میں دیکھ رہی ہے۔ اس علیحدگی سے اس کے جذبات کو انگیخت ملتی ہے۔ آپ اس کے مسئلے کو، جس خیال (theme) پر اس کے کردار کی بنیاد ہے اسے، اس عمل میں اجاگر ہوتا دیکھتے ہیں۔ اس مفہوم میں جنسی مناظر کرداروں اور صورت حال کو منکشف کرنے کے کام آتے ہیں۔

میک ایون: آپ نے آفت رسیدہ (victim) ہونے کی خواہش کو بہت اچھی طرح بیان کیا ہے۔ آپ کے خیال میں آفت رسیدہ ہونا محض کسی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی آفت رسیدہ شخص آرزو کرتا ہے۔

کنڈیرا: مثلاً؟

میک ایون: آپ کے کئی کردار رقابت میں شدید طور پر مبتلا ہیں۔ رقابت ایک طرح سے ان کی پناہ گاہ ہے — لگتا ہے انھیں اس سے محبت ہے، اس کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ وہ آفت رسیدہ ہیں، لیکن وہ اپنے جہنم کو گویا خود پرورش کرتے ہیں۔

کنڈیرا: یہ ایک دلچسپ نظریہ ہے، لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی اس کے بارے میں اس طرح سوچا نہیں۔ میں آپ کی بات میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا۔ آپ درست کہتے ہیں۔

میک ایون: آپ نے جنسی فتوحات کے جنون کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں اور سیاسی فتوحات میں کوئی تعلق ہے ؛ یعنی جب ایک ملک دوسرے ملک کو فتح کر لیتا ہے ؟

کنڈیرا: مجھے نہیں معلوم۔

میک ایون: مثال کے طور پر بعض دفعہ آپ کے کرداروں کی تقدیر بہت کچھ ان کے ملک کی تقدیر سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ ’’وجود کی ناقابل برداشت لطافت‘‘ میں تمینہ اور اس کے ملک کی شناخت ایک ہو جاتی ہے۔ وہ جلاوطن ہے اور اپنے ماضی سے کٹ چکی ہے۔ کیا آپ ملکوں کے بارے میں آفت رسیدہ افراد کی طرح بات کر سکتے ہیں ؟ آپ کے بعض بے حد آفت رسیدہ کردار جابروں کے مماثل ہو جاتے ہیں مثلاً The Farewell Party میں روزینہ کئی لحاظ سے ایک قابل رحم کردار ہے، لیکن وہ اس پاگل بوڑھے کی طرفداری کرتی ہے جو لوگوں کے پالتو کتوں کو قتل کرتا پھرتا ہے ؟ اور ان موٹی بد ہیئت عورتوں کی طرفداری کرتی ہے جو سوئمنگ پول میں اپنی عریانی اور بدصورتی کی نمائش میں لذت اٹھاتی ہیں — یہ جابروں اور مظلوموں کے درمیان ایک طرح کی سازباز ہے، ایک تقریباً جنسی قسم کی قربت۔

کنڈیرا: یہ درست ہے۔ آپ بالکل صحیح کہتے ہیں۔ میں پوری طرح اس سے واقف نہیں تھا، لیکن یہ درست ہے۔

میک ایون: بہتر ہو گا اب میں کچھ ایسی باتیں کہوں جو درست نہ ہوں، جن کی تردید میں آپ کچھ گفتگو کر سکیں … ایسے ناول اور فلمیں جن میں نجی اور سیاسی عنصر کسی ایک صورت حال میں ضم ہو جائیں، ہمیشہ پرکشش ہوتی ہیں۔

کنڈیرا: جو کچھ بھی اونچی سیاست میں وقوع پذیر ہوتا ہے، وہی نجی زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ جارج آرول نے ایک ایسی دنیا کو بیان کیا ہے جہاں سیاسی اقتدار تاریخ کو نئے سرے سے لکھتا ہے، یعنی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کیا سچ ہے، کس چیز کو یاد رکھا جانا ہے، کسے بھلا دیا جانا ہے۔ ایک ناول نگار کی حیثیت سے البتہ میری دلچسپیاں مختلف ہیں۔ مجھے اس بات سے زیادہ دلچسپی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اپنی اپنی تاریخ کو بار بار تحریر کرتا ہے۔ ہم ہر لمحہ اپنی زندگیوں کی کہانیوں کو نئے سرے سے لکھتے رہتے ہیں، ہمیشہ واقعات کو اپنا مفہوم، اپنی پسند کا مفہوم پہناتے رہتے ہیں۔ ہم انتخاب اور کاٹ چھانٹ کرتے رہتے ہیں، ایسی چیزوں کو چنتے رہتے ہیں جو ہمارے لیے حوصلہ افزا اور خوشگوار ہیں جبکہ تکلیف دہ چیزوں کو مسترد کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح تاریخ کو ازسرِنو تحریر کرنا — آرول کے بیان کردہ مفہوم میں بھی — کوئی غیرانسانی سرگرمی نہیں ہے ؛ اس کے برعکس یہ ایک بے حد انسانی سرگرمی ہے۔ لوگ ہمیشہ سیاسی اور نجی دنیاؤں کو الگ الگ سمجھتے ہیں، جیسے ان کی منطق، ان کے قوانین الگ الگ ہیں ؛ لیکن سیاست کے عظیم اسٹیج پر پیش ہونے والی ہر ہولناکی — حیران کن لیکن قطعی طور پر— ہماری نجی زندگی کی کسی چھوٹی ہولناکی سے مشابہت رکھتی ہے۔

میک ایون: آپ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ناول کا کام یہ ہے کہ ’بشریاتی (anthropological) اسکینڈلوں ‘ کو بیان کرے۔ اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟

کنڈیرا: میں آمرانہ ریاستوں میں پائی جانے والی صورت حال کا ذکر کر رہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ جو کچھ بھی وہاں ہو رہا ہے، ایک ادیب کے لیے سیاسی نہیں بلکہ ایک بشری اسکینڈل ہے۔ یعنی یہ کہ میں اس طرح نہیں سوچتا کہ کوئی سیاسی حکومت کیا کر سکتی ہے، بلکہ اس طرح کہ انسان کیا کچھ کرنے پر قادر ہے۔

میک ایون: لیکن اسکینڈل کیوں ؟

کنڈیرا: اسکینڈل وہ چیز ہے جو ہمیں صدمے سے دوچار کر دے۔ ہر شخص اس بیوروکریسی اور اس کمیونسٹ نظام کے دہشت ناک افعال کے بارے میں بات کرتا ہے جنھوں نے گلاگوں (gulags)، سیاسی مقدموں اور اسٹالنی دہشت انگیزی کو جنم دیا ہے۔ لیکن لوگ اس عیاں حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کوئی سیاسی نظام اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا جتنے پر اس میں شامل لوگ قادر ہوتے ہیں۔ اگر انسان کے لیے قتل کرنا ممکن نہ ہوتا تو کوئی سیاسی نظام جنگ شروع نہیں کر سکتا تھا۔ سیاسی نظام انسانی اختیار کی حد پر وجود رکھتا ہے — مثلاً کوئی شخص چار میٹر کے فاصلے تک نہیں تھوک سکتا خواہ اس کا مطالبہ نظام ہی کیوں نہ کرے، شاید آپ آدھے میٹر سے آگے نہیں جا سکتے ؛ یا اتنے فاصلے تک پیشاب کرنا، خواہ اسٹالن ہی اس کا حکم دے، آپ نہیں کر سکتے۔ لیکن قتل کرنا آپ کے بس میں ہے۔ تو بشریات کا سوال، کہ انسان کیا کچھ کرنے پر قادر ہے، سیاست کے سوال کے پیچھے ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

میک ایون: میرا تاثر یہ ہے کہ آپ کے خیال میں ناول ہمیں دنیا کی ایک بہت خاص فہم اور ایسی بصیرت فراہم کر سکتا ہے جس کا مقابلہ تحقیق کی دوسری صورتیں نہیں کر سکتیں۔

کنڈیرا: ہاں، میں سمجھتا ہوں کہ ناول وہ کچھ کہہ سکتا ہے جسے کسی اور طرح سے کہنا ناممکن ہے۔ لیکن یہ ’وہ کچھ‘ ہے کیا، یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ آپ اسے منفی انداز میں بیان کر سکتے ہیں۔ مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ ناول کا مقصد معاشرے کو بیان کرنا نہیں کیونکہ اس کے اس سے بہتر طریقے موجود ہیں ؛ نہ یہ تاریخ کو بیان کرنے کے لیے ہے کیونکہ اس کے لیے تاریخ نگاری موجود ہے ؛ ناول نگار اسٹالن کی مذمت کے لیے نہیں بنے ہیں کیونکہ یہ کام تو سولژے نتسن اپنے اعلانات میں کر سکتا ہے — لیکن انسانی وجود کے تمام پہلوؤں کی پرتیں کھولنا، تجزیہ کرنا، اسے دکھانا اور بیان کرنا، یہ کام ناول کے سوا کسی اور طریقے سے ممکن نہیں ہے۔ میرے خیال میں کوئی انٹلکچوئل سرگرمی وہ کچھ نہیں کر سکتی جس پر ناول قادر ہے — فلسفۂ وجودیت بھی نہیں — کیونکہ ناول کے خمیر میں ہر نظامِ خیال کے تعلق سے ایک تشکیک موجود ہے۔ ناول فطری طور پر یہ مان لینے سے شروع ہوتا ہے کہ انسان زندگی کو کسی طرح کے نظام میں فٹ کرنا جوہری طور پر ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو سوال آپ نے کچھ دیر پہلے کیے، ان کا جواب دینا میرے لیے آسان نہیں تھا: جنت اور اقتدار، اور اقتدار کا وجود سے یا شہوانیت سے تعلق — میں ان سوالات کو صرف اسی طرح کھنگالتا ہوں جس طرح وہ مختلف انسانی کرداروں کے مابین ظاہر ہوتے ہیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ناول میں آپ کو ہر سوال کے کئی ممکن جوابات کا ہمیشہ احساس رہتا ہے۔ ناول سوالوں کے جواب نہیں دیتا، وہ صرف امکانات پیش کرتا ہے۔

میک ایون: آپ کے فکشن کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنف ایک کورس (chorus) کی طرح موجود رہتا ہے، اور اپنے کرداروں کے رویوں اور ان کے پسِ پردہ عوامل کا جائزہ لیتا اور ان پر تبصرہ کرتا رہتا ہے۔ یہ آواز The Joke میں ابھرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی اور پچھلے دو ناولوں میں یہ خاصی بلند ہے۔ کیا روایتی ناول کی تکنیک، جس میں مصنف نظروں سے اوجھل رہتا ہے، آپ کے مقصد کے لیے ناکافی تھی؟

کنڈیرا: میں یہاں تین باتیں کہنا چاہوں گا۔ ایک تو یہ کہ میں یہ تکنیک ایک اور کتاب میں پہلے بھی استعمال کر چکا ہوں : Life is Elsewhere میں آپ راوی کی آواز سنتے ہیں ؛ مگر یہ درست ہے کہ بعد کی تحریروں میں میں نے اس آواز سے زیادہ کام لیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے پوچھا ہے کہ کیا یہ تکنیک روایتی ناول کو باطل کر دیتی ہے، جس میں کسی قسم کے تبصرے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن راوی صرف انیسویں صدی میں مکمل طور پر غائب ہوا ہے ؛ اٹھارویں صدی کے ناول میں یہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ یہ رابلے (Rebelais)، سروانتس (Cervantes) اور اسٹرن (Sterne) کے ہاں موجود ہے۔ میرا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، میرے لیے ناول کی قدر یہ ہے کہ وہ کس طرح ایک صورت حال کے جوہر کھنگال سکتا ہے۔ یہ صرف حالات کو پیش نہیں کرتا — مثلاً رقابت، یا دردمندی، یا طاقت کی ہوس — یہ انھیں گرفتار کر لیتا ہے، ان پر ٹھہر جاتا ہے، انھیں قریب سے دیکھتا ہے، ان پر غور کرتا ہے، ان کی تفتیش کرتا ہے، ان سے سوالات کرتا ہے، انھیں ایک معمے کی طرح سمجھتا ہے۔ ایک بار جب آپ انھیں معموں کی طرح سمجھنے لگیں تو ان کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر رقابت کو لیجیے۔ یہ اتنی عام سی چیز ہے کہ بظاہر اس کی وضاحت غیر ضروری ہے۔ لیکن اگر آپ رک کر اس پر غور کریں تو بات مختلف ہو جاتی ہے۔ جس عورت سے آپ محبت کرتے ہوں، اسے کسی اور مرد کے ساتھ مباشرت کی حالت میں دیکھنا ناقابل برداشت ہے۔ ایک عام سی چیز اچانک دشوار، تکلیف دہ اور پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ناولسٹ کا مقصد ہی الجھی ہوئی چیزوں کا بیان ہے، کیونکہ زندگی میں اتنا کچھ اس قدر پیشِ پا افتادہ اور معمولی ہو کر رہ گیا ہے۔ میں ناول میں ایک سوچتی ہوئی آواز سننا چاہتا ہوں، لیکن فلسفی کی آواز نہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے مجھ سے میرے ناولوں کے بارے میں جو سوالات کیے، ان میں پہلے سے کافی فہم موجود تھی، اگرچہ انھیں سوالات کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ بہت کچھ ناول نگار کے طریق کار سے ملتاجلتا ہے جو بڑھتے بڑھتے مسئلے کی روح تک پہنچ جاتا ہے، گو کہ کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔

میک ایون: آپ اپنے کرداروں کو ’نفسیات‘ دینے سے باقاعدہ گریز کرتے ہیں — درحقیقت آپ کی تحریریں نفسیاتی ناول کی بالکل ضد معلوم ہوتی ہیں۔ اکثر آپ رک کر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ آپ کے کردار محض اختراع ہیں، اس کے باوجود، paradoxically، آپ انھیں بے حد حقیقی بنا دیتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا دخل انداز راوی آپ کے کردار کے بارے میں یوں بات کرتا ہے جیسے لوگ اپنے کسی قریبی دوست کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ کی دخل اندازیاں ایک بلند تر قسم کی gossip ہیں، اور اس سے ہم یہ سوچنے پر مائل ہو جاتے ہیں کہ یہ کردار حقیقی طور پر موجود ہیں۔

کنڈیرا: ہاں، یہ درست ہے۔ میں اپنے کسی کردار کے بارے میں سب کچھ جاننے کا دعویٰ نہیں کرتا — میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ دراصل میں مفروضوں کی سطح پر لکھ رہا ہوتا ہوں۔ دوستوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے — چاہے آپ اپنے بہترین دوست کا ذکر کر رہے ہوں، اور آپ وہ سب کچھ کہہ دیں جو کہا جا سکتا ہو، پھر بھی آپ کے تبصرے ایک مفروضہ ہی رہتے ہیں۔

میک ایون: کیا یہ کافکا کے لیے آپ کی تحسین تھی جس کی وجہ سے آپ نے لکھا کہ ناول اس جال میں، جس کی شکل دنیا نے اختیار کر لی ہے، زندگی کی تفتیش کرتا ہے ؟

کنڈیرا: اوہ ہاں۔ آج کا ناول اس جال میں زندگی کو پرکھتا ہے جو یہ دنیا بن گئی ہے۔ ناول کی تاریخ انسانی تاریخ کا آئینہ ہے، لیکن کافکا کے آنے پر کچھ عجیب سی بات ہوئی جسے اب تک پوری طرح سمجھا نہیں گیا۔ عام طور پر ناول میں جدیدیت کی نمائندگی کے لیے تین نام لیے جاتے ہیں : جوائس (Joyce)، پروست (Proust) اور کافکا، جبکہ مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا ہے کہ جوائس اور پروست ارتقا کے اس عمل کی تکمیل تھے جس کا آغاز فلوبیر سے ہوا۔ کافکا سے، اور شاید بروخ (Broch)اور میوزل (Musil) سے، ایک بالکل مختلف چیز شروع ہوتی ہے۔ کافکا سے پہلے تک آدمی جس عفریت سے لڑ رہا تھا وہ اس کے اندر تھا جس سے اس کی داخلی زندگی، اس کا ماضی، اس کا بچپن اور اس کی الجھنیں وضع ہوتی تھیں۔ کافکا کے ہاں انسان کا تعین اس کے باہر سے ہو رہا ہے — قلعہ (The Castle) کی طاقت سے، مقدمہ (The Trial) کے غیر مرئی ٹربیونل کی طاقت سے۔ میری کتابوں میں تاریخ ایک جال ہے جس میں یوروپ کا انسان پھنس گیا ہے۔ یہ دنیا جو ہمارا جال بن گئی ہے، اس کے ممکنات کیا ہیں ؟ ہمارے لیے کیا امکانات ہیں ؟ زندگی کی کون سی ہیئتیں ہیں ؟ اب بالآخر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ک (K) ایڈی پس کامپلکس میں مبتلا ہے یا father-fixation میں : اس سے اس کی تقدیر ذرہ بھر تبدیل نہیں ہو گی۔ لیکن یہی بات پروست کے کسی کردار کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتی۔ پروست اور فلوبیر (Flaubert) کی دنیا کھلی تھی؛ تاریخ نظروں سے اوجھل تھی، بلکہ یہ کوئی ایسی چیز تھی جو خیال کی گرفت میں نہیں آتی تھی۔ ہمارے لیے تاریخ ٹھوس شے ہے، اسے چھوا جا سکتا ہے۔ یہ جنگ ہے۔ یہ آمرانہ ریاست ہے۔ یہ یوروپ کا خاتمہ ہے۔ یہ گرفت میں آتی ہے — بلکہ گرفت میں لے لیتی ہے، اور ہم پکڑے جاتے ہیں۔ دنیا جال بن جاتی ہے۔

میک ایون: کافکا کے کرداروں کی تنہائی میں مداخلت کے بارے میں آپ نے کوئی بات کہی تھی۔

کنڈیرا: ہاں۔ آپ ایک برادری کے گھیرے میں ہیں — یہ کافکا کا کابوس تھا — جہاں آپ کی تنہائی میں خلل اندازی کی جاتی ہے، اسے قتل کر دیا جاتا ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے۔ ہر شخص آپ کو دیکھ رہا ہے۔ آپ کبھی تنہا نہیں ہیں۔ کافکا کو اب تک اس سے پچھلی نسل کی اصطلاح میں سمجھا جا رہا ہے، جیسے بیتھوون کی تعبیر ہیڈن (Haydn) کی اصطلاح میں کی جائے۔ کافکا کو ابھی تک تنہائی کے رومانوی کلیشے میں دیکھا جا رہا ہے : کہ انسانی تنہائی کے نرغے میں ہے، کہ تنہائی بے حد منفی چیز ہے، کہ انٹلکچوئل کا المیہ یہ ہے کہ اس کی جڑیں لوگوں میں نہیں رہیں، اور یہ کہ کافکا خود تنہائی کا شکار ہے اور برادری کی جستجو میں ہے، دنیا میں اپنی جگہ ڈھونڈ رہا ہے — حالانکہ یہی وہ کلیشے ہے جسے کافکا نے الٹ دیا تھا۔ کافکا کی دنیا درحقیقت مکمل طور پر مختلف ہے۔ قلعہ کا سرویئر اپنے ارد گرد کی دنیا سے تنگ آ چکا ہے۔ اسے برادری کی نہیں، ملازمت کی تلاش ہے۔ لیکن اس کے بجائے ہر شخص اسے پریشان کر رہا ہے۔ اس پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس کے بستر پر اس کے ماتحت موجود رہتے ہیں اور وہ ان کی موجودگی کی وجہ سے فریڈا کے ساتھ سو نہیں پاتا۔ کافکا کے ہاں جو لوگ دنیا میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں وہ ایسا اپنی تنہائی — اور بالآخر اپنی شخصیت — کو خیرباد کہہ کر کرتے ہیں۔

برادری سے آخر مراد کیا ہے ؟ کافکا اس تصور کو سرکے بل کھڑا کر دیتا ہے۔ یہ ایک نفرت انگیز، دہشت ناک اور پُر خطر شے بن جاتی ہے۔ کافکا معاشرے کے ایک بے حد تسلیم شدہ تصور کو چیلنج کرتا ہے — اور یہی سارے ناول نگاروں کا کام ہے کہ وہ متواتر ان بنیادی تصورات کو چیلنج کرتے رہیں جن پر ہمارا وجود قائم ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                فلپ راتھ

 

انگریزی سے ترجمہ:محمد عمر میمن

 

 

میلان کنڈیرا سے ایک گفتگو

 

 

The Book of Laughter and Forgetting کے ترجمے کے مطالعے کے بعد، جو ابھی مسودے ہی کی شکل میں تھا، امریکی ادیب فلپ راتھ نے کنڈیرا کے ساتھ دو موقعوں پر گفتگو کی۔ ایک اس وقت جب کنڈیرا پیرس سے لندن آیا ہوا تھا اور دوسری اس موقعے پر جب وہ پہلی بار امریکہ آیا تھا۔ ذیل میں جس انٹرویو کا ترجمہ پیشِ خدمتِ قارئینِ کرام ہے وہ ان دونوں گفتگوؤں کا نچوڑ ہے۔ یہ کنڈیرا کی مندرجہ بالا تصنیف (پینگوئن، طبع چہارم، 1984) میں صفحہ 229 تا صفحہ 237 بطور ’’لفظ آخر‘‘ شامل ہے۔

اس انٹرویو میں کنڈیرا نے بعض بہت اہم اور فکر انگیز باتیں کی ہیں۔ یہ ہمارے نئے اور پرانے سبھی ادیبوں کے لیے ایک سوغات سے کم نہیں۔ اہم ترین باتوں کا تعلق بطورِ خاص دو چیزوں سے ہے : (1) سیاسی استحصال اور غیرملکی جارحانہ قبضے کے دوران ایک ادیب کا رویہ کیا ہونا چاہیے ؛ اور (2) ناول کی ہیئت میں اتنی لچک ہے کہ اس میں تقریباً ہر شے سما سکتی ہے، شرط سلیقے کی ہے۔ سرِراہ، اس دوسری بات کی ذیل میں کنڈیرا نے تمثیل (allegory) اور اسی قسم کی دیگر نہایت esoteric اصناف کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کر دی ہے۔ مثلاً: ’’تمثیل سے زیادہ کوئی اور شے میرے لیے اجنبی نہیں — تمثیل یعنی محض کسی مفروضے کی تشریح کے لیے گھڑی گئی کہانی! واقعات کو، خواہ وہ حقیقی ہوں یا خیالی، اپنی ذات میں اہم ہونا چاہیے اور قاری کو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ صمٌ بکمٌ نہایت سادہ لوحی سے ان کی قوت اور شعریت کی ترغیب میں آ جائے۔ ‘‘

یہ ٹکڑا میں نے محض برائے تفنن نقل نہیں کیا ہے۔ سیاست کے حوالے سے ایک معقول رویہ رہا ایک طرف، اس کے استحصال — یا اگر یہ نہیں تو اس کے باقاعدہ اخفا — کے لیے ہمارے بعض ادیبوں نے ان دنوں تجریدیت، تمثیل، حکایت وغیرہ کی راہ پکڑی ہے ؛ جسے دیکھو اسی طرف بگٹٹ دوڑا جا رہا ہے۔ ان اول جلول قسم کے گورکھ دھندوں کو کھنگال جائیے، مجال ہے جو سیاست کے حوالے سے ادیب کا کوئی خاص الخاص رویہ ہاتھ آ جائے۔ رہی قوت اور شعریت یا غنائیت کی بات، تو وہ فی الحال در بطنِ شاعر پُرامان اور اپنے کولمبس کی منتظر ہے۔ (ڈاکٹر انور سجاد کا افسانہ اب گھٹ کر اپنے حجم میں کمرِ معشوق تک آ پہنچا ہے، اور اسلام آباد/ پنڈی کے بیشتر تیزگام اس دوڑ میں ڈاکٹر صاحب سے چند گز ہی پیچھے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب افسانے کی جگہ کورا صفحہ پیش کر دیا جائے گا اور سادہ کاپی سب سے بڑا فکشن مان لی جائے گی۔ ) اس میں کلام نہیں کہfable، parable، allegory اور اس قسم کی اخفائے راز کی ذیل میں آنے والی اصناف کی ریل پیل سیاسی بحران اور آمریت کے دور میں بڑھ جاتی ہے۔ کنڈیرا کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ تجرید کی پیچیدگیوں سے بچ نکلنے کی راہ ضرور موجود ہے۔ شخصی اور عوامی عناصر کس طرح ایک حسِ لطیف کے بھرپور استعمال کے ذریعے ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے باوصف کس طرح ایک دوسرے کا ایراز بھی کرتے ہیں، کنڈیرا سے سیکھا جا سکتا ہے۔ کہانی کی وحدت پلاٹ کے علاوہ موضوع یا کثرتِ موضوع سے بھی قائم ہو سکتی ہے۔ ہمارے بعض نئے لکھنے والے پلاٹ کو روایتی کہانی کے لوازمات میں شمار کر کے روایتی کہانی کی طرح اس سے بھی اپنی برأت کا اعلان کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی نگارشات میں تاثرات — اور وہ بھی جو قطعِ تسلسلِ نثر اور احذافِ عبارت سے مزین ہوں — کی بھرمار تو بہت نظر آتی ہے، وہ عامل شاذ ہی نظر آتا ہے جو ان آوارہ تاثرات کی معنوی شیرازہ بندی کر سکے۔ کنڈیرا کا یہ ناول اور تازہ ناول وجود کی ناقابل برداشت لطافت (The Unbearable Lightness of Being) اس لحاظ سے خاصّے کی چیز ہیں کہ اگر ان کا مطالعہ تکنیکی تجربے کی حیثیت سے کیا جائے تو سراسر فائدہ ہو گا۔ یا چلیے اگر کنڈیرا سے شغف کم ہے تو پھر Marguerite Duras کے نئے ناول The Lover کا مطالعہ ہی سہی۔

میں New-Novel، Anti-Novel، تجریدیت اور اسی قسم کے دیگر تجربوں کا مخالف نہیں جو چند سال پہلے تک فرانس میں ہوتے رہے ہیں، اور آج جدیدیت کے نام پر ہمارے یہاں ہو رہے ہیں۔ اگر یہ ہیئت کی ارتقائی تاریخ کے بے پناہ اندرونی تقاضے کے طور پر ابھریں اور انھیں سنجیدگی، پیشہ ورانہ سنجیدگی سے برتا جائے تو ان کی اہمیت مسلّم ہے ؛ لیکن مشکل تو یہ ہے کہ ہم عام طور پر خود تو کوئی تجربہ کرتے نہیں، دوسروں کے تجربوں کی پیروی کرتے ہوئے اصل تجربوں کی مٹی پلید کر دیتے ہیں، اس پر ہماری ہوش مندی اور باخبری کا عالم یہ ہے کہ ان تجربوں کی خبر بھی ہمیں اس وقت پہنچتی ہے جب یہ اپنے وطنِ عزیز میں دم بلب ہوتے ہیں یا متروک ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان دنوں فرانس میں Anti-Novel اور New Novel کے خلاف جو اکتاہٹ اور ردعمل کے طور پر روایتی اسلوب کی طرف رجعت کی جو تقریباً ناستلجیائی کیفیت پائی جاتی ہے اس کا اندازہ کرنا ہو تو Richard Bernstein کا مضمون Revisionist and Storytellers:Is It Passe to be Engage? مطبوعہ دی نیویارک ٹائمز بک ریویو (5 جنوری 1986، صفحہ3 اور 29) پڑھ جائیے۔ افسوس کا مقام ہے کہ تقریباً دو دہائیوں تک جدیدیت سے، بالخصوص اس کے اس مظہر سے جسے تجرید سے موسوم کیا جاتا ہے، صحبتِ مسلسل اور معانقۂ گرمجوش کے باوجود ہماری قوتِ شامہ اس محبوب جسم کی مخصوص بوباس ہی سے مانوس نہیں ہو سکی ہے۔ نتیجے کے طور پر شمس الرحمٰن فاروقی کو روایتی بیانیہ اور اس کی بدیعیات جیسے موضوعات پر روشنی ڈالنے کی جائز ضرورت محسوس ہو رہی ہے تاکہ جدیدیت اور روایت کے حوالے سے جو کنفیوژن ان دنوں پھیلا ہوا ہے اس کا کچھ تو ازالہ ہو سکے — اور یہ ٹھیک اس وقت جب خود مغرب میں deconstruction کا دور شروع ہو چکا ہے۔ (فاروقی صاحب کے مضمون کے لیے دیکھیے ’’افسانے میں بیانیہ کردار کی کشمکش‘‘، نئی نسلیں، شمارہ 19، اکتوبر 1985، صفحہ 32 تا صفحہ 41۔ )

اس انٹرویو میں کنڈیرا کا ایک اور بیان بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کہتا ہے : ’’انسان کا اہم ترین خاص الخاص ذاتی مسئلہ موت یعنی ذات کا تلف ہو جانا ہے۔ لیکن یہ ذات ہے کیا بلا؟ یہ ان تمام باتوں کا حاصل جمع ہے جو ہم یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ موت کے بارے میں جو چیز ہمیں دہشت زدہ کرتی ہے وہ مستقبل کا تلف ہو جانا نہیں، بلکہ ماضی کا کھو جانا ہے۔ ‘‘ بات گھوم پھر کر حافظے کی اہمیت اور اس کی بازیافت تک پہنچتی ہے، حالانکہ اس اصطلاح سے ہمارے نئے ادیب خاصے برافروختہ نظر آتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ خائف بھی۔ جدیدیت کی ایک پُر شور علامت ابطالِ ماضی اور سابقہ ثقافتی تاریخ سے انحراف تصور کی جانے لگی ہے۔ اس رویے کو کنڈیرا کے بیان کی روشنی میں دیکھیں تو نتیجہ بھیانک طور پر مضحکہ خیز نکلتا ہے۔ ہم اس ابطال و انحراف کے بعد فکشن آخر کس تجربے کو بیان کرنے کے لیے لکھ رہے ہیں ؟ جب تاریخ کی نفی کے ساتھ خود ذات کی نفی بھی ہو گئی تو افسانہ ناول کون ذات لکھ رہی ہے، اور کس ذات کے لیے ؟

اور بھی ہوں گے لیکن آمریت کے بخشے ہوئے مظالم اور حقوقِ انسانی کے سلب کیے جانے کے موضوعات پر دو نام جو دور جدید میں فکشن کی دنیا میں خاصے قد آور نظر آتے ہیں وہ سولژے نتسن اور کنڈیرا کے ہیں۔ یہ کہنا کہ ان مظالم کے خلاف ان میں غم و غصہ نہیں پایا جاتا، ابطالِ حقیقت ہو گا۔ اب یہ اور بات ہے کہ یہ غم و غصہ جب ادب میں اپنا اظہار کرتا ہے تو بے پناہ ادبی شائستگی کے ساتھ؛ چنانچہ اس کی اثر انگیزی بھی شدید اور دیرپا ہوتی ہے۔ یہ غم و غصہ ذات کے اندر اتار لینے اور پھر، جبکہ اس کی ترفیع ہو چکی ہو، نتھرا کر اوپر لانے کے بعد ہی ادب بنتا ہے۔ اس میں عاشق کی بے تابی اور سگانِ کوچہ کی پُر از غوغا چھین جھپٹ کی کیفیت نہیں ہوتی۔ پھر کنڈیرا نے تو حسِ مزاح کو فکشن کا جزوِ لاینفک کر کے دکھا دیا ہے ؛ ہم اس ادائے خاص سے بھی مستفیض ہو سکتے ہیں۔

انتظار حسین صاحب یہ پڑھ کر اطمینان کا سانس لیں گے کہ بقول کنڈیرا ناول کی ہیئت ہے ہی اتنی لچکدار کہ اس میں سب کچھ سما سکتا ہے۔ اس قسم کی باتیں وہ اپنے ’’ڈیڑھ بات اپنے افسانے پر‘‘، ’’میں اور میرا فن‘‘ اور دیگر مضامین میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ وہ ناول کی مروجہ ہیئت کو ضرور توڑیں لیکن اس قسم کے بیان سے جو توقع پیدا ہوتی ہے اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کریں۔ ان سے افسانے اور ناول کی ہیئت میں جس وسعتِ تجربہ کی امید تھی وہ، بہرحال، اب بھی قائم ہے — دیدہ باید!

آخراً: اس انٹرویو میں کنڈیرا نے جو باتیں کی ہیں، کسی قدر شرح و بسط کے ساتھ اپنے مضمون An Introduction to a Variation میں بھی کی ہیں۔ اس مضمون کا ترجمہ بھی پیشِ خدمت ہے۔

— محمد عمر میمن

 

 

 

 

فلپ راتھ: آپ کے خیال میں دنیا جلد ہی تباہ ہونے والی ہے ؟

میلان کنڈیرا: اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ ’جلد‘ سے کیا مراد لیتے ہیں۔

راتھ: یہی، کل…پرسوں۔

کنڈیرا: یہ احساس کہ دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے، بہت قدیم ہے۔

راتھ: تو ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ؟

کنڈیرا: نہیں، بات اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر کوئی خیال ذہنِ انسانی میں زمانوں سے جاگزیں ہو تو اس کی کچھ نہ کچھ حقیقت تو ہو گی۔

راتھ: خیر، مجھے تو کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی تازہ کتاب کے تمام قصوں کا پس منظر یہی اندیشہ ہے۔ ان میں وہ قصے کہانیاں بھی شامل ہیں جو قطعی طور پر مزاحیہ ہیں۔

کنڈیرا: جب میں بچہ تھا، اگر کسی نے مجھ سے کہا ہوتا کہ میاں، ایک دن تم اپنی قوم کو دنیا کے نقشے سے غائب ہوتا ہوا دیکھو گے، تو میں اسے بالکل خرافات سمجھتا۔ یہ بات میرے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ فرد جانتا ہے کہ وہ خود تو فانی ہے لیکن اس کی قوم ایک طرح کی ابدیت کی حامل ہے۔ لیکن 1968 میں روسیوں کے حملے کے بعد ہر چیک شہری کے بالمقابل یہ خیال آ کھڑا ہوا کہ اس کی قوم یورپ کے نقشے سے نہایت غیرمحسوس طریقے پر محو ہو سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح گزشتہ نصف صدی میں 40 ملین یوکرینین لوگ چپ چپاتے دنیا کے نقشے سے غائب ہوتے رہے ہیں اور دنیا کے سر پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔ یہی حال لی تھوے نین (Lithuanian) لوگوں کا بھی رہا ہے۔ آپ کو پتا ہے سترھویں صدی میں لیتھوینیا (Lithuania) نہایت قوی یورپی قوم ہوا کرتی تھی، اور آج حال یہ ہے کہ روسی انھیں کسی نیم معدوم (وحشی) قبیلے کی طرح اپنے reservations پر رکھے ہوئے ہیں۔ غیرملکی مہمان ملاقاتیوں کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں کہ مبادا باہروالوں کو ان کی موجودگی کا علم ہو جائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری قوم کے مستقبل میں کیا لکھا ہے، لیکن اس میں کلام نہیں کہ روسی اسے اپنی ثقافت میں بتدریج حل کرنے کی ہر ممکن کوشش ضرور کریں گے۔ اس میں انھیں کامیابی ہو گی؟ یہ خدا جانے، مگر اس بات کا امکان بہرحال ضرور ہے۔ محض یہ خیال کہ اس قسم کا امکان موجود ہے، آدمی کا احساسِ حیات درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ ان دنوں تو مجھے پورے کا پورا یورپ ہی نہایت نازک اور فانی نظر آتا ہے۔

راتھ: اس کے باوجود، کیا مشرقی یورپ اور مغربی یورپ کی قسمت آپ کو بنیادی طور پر مختلف نظر نہیں آتی؟

کنڈیرا: ثقافتی تاریخ کے نظریے کی حیثیت سے مشرقی یورپ روس ہے۔ ان معنوں میں کہ اس کی ایک مخصوص تاریخ ہے جو بازنطینی دنیا میں پیوست ہے۔ اس کے برعکس، آسٹریا کی طرح بوہیمیا، پولینڈ اور ہنگری کبھی مشرقی یورپ کا حصہ نہیں رہے ہیں، اور روزِ اول ہی سے مغربی تہذیب کی مہموں میں شریک رہے ہیں، مثلاً گوتھک تحریک، نشأۃ الثانیہ، اور پھر اصلاحِ دین (Reformation) کی تحریک— ان تمام ثقافتی مظاہر کا گہوارہ بعینہٖ یہی علاقہ رہا ہے۔ جدید ثقافت کی اہم ترین لہریں — مثلاً تحلیلِ نفسی، ساختیات (structuralism)، dodecaphony، بیلا برتوک (Bartok) کی موسیقی، کافکا اور میوزل کی پیش کردہ ناول کی نئی جمالیات— ٹھیک یہیں، یعنی وسطی یورپ سے اٹھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تہذیب سے وسطی یورپ، یا کم از کم اس کے معتدبہ حصے، کے الحاق کے نتیجے میں مغربی ثقافت اپنے اہم ترین مرکزِ ثقل سے محروم ہو گئی۔ ہماری صدی کی مغربی تہذیب میں یہ واقعہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ ہم اس امکان سے اغماض نہیں برت سکتے کہ وسطی یورپ کا خاتمہ پورے یورپ کے خاتمے کے آغاز کا اعلامیہ ہے۔

راتھ: اس دور میں جسے ’پراگ کا موسمِ بہار‘ (Prague Spring) کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، آپ کا ناول The Joke اور آپ کا افسانوی مجموعہ Laughable Loves ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں طبع ہو کر فروخت ہوئے۔ روسی حملے کے بعد آپ کو فلم اکیڈمی میں اپنے تدریسی عہدے سے برطرف کر دیا گیا، اور آپ کی جملہ تصانیف عوامی لائبریریوں کی الماریوں سے ہٹا دی گئیں۔ سات سال بعد آپ اور آپ کی اہلیہ نے چند کتابیں اور کپڑوں کے کچھ جوڑے کار کے ٹرنک میں ڈالے اور فرانس اٹھ آئے، جہاں آپ کا شمار سب سے زیادہ پڑھے جانے والے غیرملکی ادیب کی حیثیت میں ہوتا ہے۔ ایک مہاجر کی حیثیت سے آپ کے کیا احساسات ہیں ؟

کنڈیرا: مختلف ممالک میں رہائش کا تجربہ کسی بھی ادیب کے لیے نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ دنیا کو کماحقہ‘ سمجھنے کے لیے مختلف زاویوں سے اس کا مشاہدہ ازبس ضروری ہے۔ میری تازہ ترین تصنیف، جو قیامِ فرانس کی دین ہے، ایک مخصوص جغرافیائی رقبے (space) کو منکشف کرتی ہے۔ پراگ میں پیش آنے والے واقعات کو مغربی یورپ کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے ؛ اس کے برعکس، فرانس میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے پراگ کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے۔ یہ دو دنیاؤں کی مڈبھیڑ ہے۔ ایک طرف میرا وطن ہے : محض نصف صدی کے عرصے میں اس نے جمہوریت، فاشزم، انقلاب، اسٹالن کی پھیلائی ہوئی دہشت اور بعدازاں اسٹالنزم کے انتشار، جرمن اور پھر روسی فوجی قبضے، اخراجِ انبوہ اور جلاوطنی، غرض اپنے ہی آنگن میں مغرب کی موت کا تجربہ کیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ تاریخ کے ثقلِ گراں کے نیچے ڈوبا جا رہا ہے اور دنیا کو مشتبہ نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ دوسری طرف فرانس ہے : صدیوں تک یہ دنیا کا مرکز رہا ہے لیکن آج اہم تاریخی واقعات کی کمی کا مارا ہوا ایک طرف کھڑا محرومی سے ٹسوے بہا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے جو آج یہ انتہاپسندانہ غیرعملی تصورات اور اداؤں کا اتنا رسیا اور ان میں مگن نظر آتا ہے — نہایت غنائی لیکن اعصابی خلل سے لبریز کسی عظیم واقعے کا متمنی و منتظر جو بہرحال آ کے نہیں دے رہا، اور نہ کبھی آنے والا ہے۔

راتھ: فرانس میں آپ خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں یا ثقافتی اعتبار سے مطمئن؟

کنڈیرا: میں فرانسیسی کلچر کا بے حد گرویدہ ہوں، اور رہینِ منت بھی۔ بالخصوص قدیم فرانسیسی ادب کا۔ ادیبوں میں رابلے مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے، اور دیدرو (Diderot) — مجھے اس کی تصنیف Jacques le Fataliste سے عشق ہے، اتنا ہی جتنا لارنس اسٹرن سے ہے۔ ناول کی ہیئت میں یہ دونوں تاریخ کے عظیم ترین تجربے تھے — اور یہ، یوں کہیے، نہایت فرحت بخش اور مسرت آگیں تجربے تھے۔ بدقسمتی سے یہ اب فرانسیسی ادب سے جاتے رہے ہیں۔ ان کے بغیر فن اپنی قدروقیمت کھو دیتا ہے۔ اسٹرن اور دیدرو ناول کو ایک بھرپور کھیل کے طور پر تصور کرتے تھے۔ انھوں نے ناول کی ہیئت میں مزاح کے عنصر کو دریافت کیا تھا۔ جب میں اس قسم کے فاضلانہ مباحثے سنتا ہوں کہ ناول اپنے جملہ امکانات سے بہرہ اندوز ہو چکا ہے، تو معاملہ مجھے اس کے عین برعکس نظر آتا ہے ؛ اپنی تاریخ کے بہاؤ میں ناول نے بہت سے امکانات کو خطا بھی کیا ہے — مثلاً، ناول کی مزید نمو کی جو بہت سی چھوٹی چھوٹی لہریں اسٹرن اور دیدرو میں مخفی ہیں ان سے ان کے جانشین بہرہ مند نہیں ہوئے ہیں۔

راتھ: آپ کی تازہ کتاب ناول کی صنف میں شمار نہیں کی جاتی۔ بایں ہمہ، درونِ متن آپ نے اعلان کیا ہے : یہ ناول ہی ہے، variations کی فارم میں ایک ناول۔ تو پھر— یہ ناول ہے یا نہیں ؟

کنڈیرا: جہاں تک میرے بہت ذاتی سے جمالیاتی فیصلے کا تعلق ہے، یہ درحقیقت ناول ہی ہے۔ لیکن اپنی رائے کو دوسروں پر تھوپنے کی مجھے چنداں خواہش نہیں۔ ناولی ہیئت میں ایک بیکراں آزادی مخفی ہے، اور بالقوۃ موجود ہے۔ کسی مخصوص اور فرسودہ ڈھانچے یا وضع ہی کو ناول کا قابلِ حرمت جوہر تصور کر لینا نادانی ہے۔

راتھ: پھر بھی کوئی چیز تو ہے جو ناول کو ناول بناتی ہے اور جو اس ’بیکراں آزادی‘ کی حدبندی کرتی ہے۔

کنڈیرا: ناول نثرِ مرکب (synthetic prose) کا ایک طویل پارہ ہے جس کی بنیاد مخترع (invented) کرداروں سے تفریح بازی ہے — اگر کچھ ہیں تو بس یہی حد بندیاں ہیں۔ ’مرکب‘ سے میرا منشا ناول نگار کی اپنے موضوع کو ہر طرف سے گرفت میں لانے کی خواہش ہے ؛ ایسی گرفت کہ تکمیل کا پورا حق ادا ہو جائے۔ طنز سے پُر انشائیہ، ناولی بیانیہ، خودسوانح کا پارہ، کوئی تاریخی امرِ واقعہ، تخیل کی پرواز — polyphonic موسیقی کی طرح ناول کی بیکراں امتزاجی صلاحیت ہر شے کی وحدتِ کل میں شیرازہ بندی پر قادر ہے۔ ضروری نہیں کہ کسی کتاب کی وحدت پلاٹ کے توسط ہی سے ہو؛ یہ موضوع سے بھی آ سکتی ہے۔ میری موجودہ کتاب میں دو موضوع پائے جاتے ہیں : خندہ اور فراموشی (Laughter and Forgetting)۔

راتھ: خندہ سے آپ کو بڑی قربت رہی ہے۔ آپ کی کتابیں ہمیشہ خندہ پر مائل کرتی ہیں اور یہ خندہ یا مزاح کے استعمال سے آتا ہے اور یا طنز کے استعمال سے۔ اور جب بھی آپ کے کردار حزن و ملال سے دوچار ہوتے ہیں تو اس کی واحد وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا سے مزاحم ہیں جو اپنی حسِ مزاح کھو بیٹھی ہے۔

کنڈیرا: اسٹالنی دہشت کے دور میں میں صحیح معنوں میں مزاح کی اہمیت سے پورے طور پر آگاہ ہوا۔ اس وقت میری عمر بیس برس تھی۔ میں محض اندازِ تبسم سے ہر ایسے شخص کو پہچاننے کی قدرت رکھتا تھا جو اسٹالنی مکتبۂ فکر کا نہ تھا — اس شخص سے مجھے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ حسِ مزاح شناخت کی ایک قابلِ اعتماد علامت تھی۔ اُس وقت سے آج تک میں اس دنیا کے ہاتھوں مسلسل دہشت زدہ رہا ہوں جو بتدریج اپنی حسِ مزاح سے تہی ہوتی جا رہی ہے۔

راتھ: پھر بھی آپ کی تازہ کتاب میں معاملہ کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔ ایک مختصر سی استعاراتی حکایت (parable) کے ذریعے آپ ملائک کے خندہ کا قہقہۂ ابلیس سے موازنہ کرتے ہیں۔ شیطان اس لیے قہقہہ زن ہے کہ خدا کی تخلیق کردہ دنیا اسے بالکل مہمل نظر آتی ہے، اور فرشتہ اس بات پر خندہ بلب کہ عالمِ خدا بالکل بامعنی ہے۔

کنڈیرا: بالکل۔ دو مختلف مابعد الطبیعیاتی رویوں کا اظہار خود آدمی بھی ٹھیک اسی عضویاتی (physiologic) مظہر، یعنی قہقہے کے ذریعے کرتا ہے۔ تازہ کھدی ہوئی قبر میں ٹھیک میت پر کسی کا ہیٹ گر پڑتا ہے، اور کفن دفن اپنی ساری معنویت کھو بیٹھتا ہے اور خندہ وجود میں آتا ہے۔ دو محبت کرنے والے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، خندہ بہ لب مرغزار میں دوڑتے پھرتے ہیں ؛ ان کی ہنسی کا تعلق لطیفے یا مزاح سے ذرا بھی نہیں — یہ تو ملائک کا وہ بہت ’متین‘ قہقہہ ہے جو وہ وجود پر اپنے اظہارِ سرخوشی کے لیے بلند کر رہے ہیں۔ دونوں طرح کے خندہ کا مقام جائز طور پر زندگی کی عام مسرتوں میں ہے، لیکن جب یہی قہقہہ انتہاپسندی کا شکار ہو جائے تو یہ دوہرے عذاب کی علامت بن جاتا ہے — یعنی متعصب فرشتوں کا دیوانگی کی حد تک پر جوش قہقہہ؛ یہ اپنی دنیا کی معنویت پر ایسا کامل ایمان رکھتے ہیں کہ ہر اس شخص کو جو ان کی خوشی میں شریک نہ ہو، پھانسی چڑھانے کے درپے ہیں۔ اور وہ دوسرا قہقہہ، جو مخالف سمت سے بلند ہو رہا ہے، جو ہر شے کے قطعی مہمل ہونے کا اعلان کر رہا ہے، کہ تجہیز و تکفین تک ایک بالکل مضحکہ خیز عمل ہے اور جماعِ جمع (group-sex) کی حیثیت ایک بھونڈے سوانگ سے زیادہ نہیں — حیاتِ انسانی کے دونوں جانب کھائیاں ہیں، ایک طرف تعصب و تشدد کی ریل پیل ہے، دوسری طرف تشکیک و شبہ کی۔

راتھ: جسے آپ اب ’خندۂ ملائک‘ کہہ رہے ہیں، ایک نئی اصطلاح ہے، جو آپ کے گزشتہ ناولوں کے ’زندگی کا غنائی احساس‘ کے متبادل ہے۔ آپ نے اپنی کسی پچھلی تصنیف میں اسٹالنی دہشت انگیزی کے دور کو ’جلاد اور شاعر کے عہد‘ سے تعبیر کیا ہے۔

کنڈیرا: آمریت جہنم ہی نہیں ہے بلکہ جنت کا خواب بھی ہے — ایسی دنیا کے حصول کا وہ قدیم خواب جہاں ہر شخص مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکے گا، جہاں اتحاد کی بنیاد ایک مشترکہ ارادہ اور اعتقاد ہو گا، جہاں ایک دوسرے سے راز داری کی ضرورت نہ ہو گی۔ آندرے بریتوں (Andre Breton) کی یہ تمنا کہ شیشے کے گھر میں جا بسے، اسی قسم کی جنت کا خواب ہے۔ اگر آمریت نے اس قسم کے آرکی ٹائپس archetypes) ( کو بروئے کار نہ لایا ہوتا — وہ آرکی ٹائپس جو ہم سب کے باطن میں پائے جاتے ہیں اور جو تمام ادیان میں گڑے ہوئے ہیں — تو وہ کبھی بھی آدمیوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب نہ ہوتی، کم از کم اپنے وجود کے اولین ادوار میں تو ہرگز نہیں۔ جب حصولِ فردوس کا خواب حقیقت میں تبدیل ہونے لگتا ہے تو یہاں وہاں چند ایسے سرپھرے بھی آ دھمکتے ہیں جو اس کی راہ کا روڑا بن جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں حکامِ فردوس کے لیے چارہ نہیں رہتا کہ ان سرپھروں کی مزاج پرسی کے لیے اپنے باغِ ارم کے پچھواڑے ایک چھوٹا سا گولاگ (gulag) بھی تعمیر کر لیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس گولاگ کے حجم میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اس میں ترقی بھی۔ اسی تناسب سے اس کے بالمقابل جنت کا حجم گھٹتا چلا جاتا ہے اور غربت اس کو آ لیتی ہے۔

راتھ: آپ کی کتاب میں فرانس کا عظیم شاعرپال ایلوار ) (Paul Eluardجنت اور گولاگ کے ٹھیک اوپر نغمہ بہ لب مائلِ پرواز نظر آتا ہے — تو تاریخ کا یہ پارہ، جس کا آپ نے کتاب میں ذکر کیا ہے، واقعاتی اعتبار سے مستند ہے ؟

کنڈیرا: دوسری جنگِ عظیم کے بعد پال ایلوار سرریئلزم سے تائب ہو کر اس قسم کی شاعری کا اہم ترین ترجمان بن گیا جسے میں ’آمریت کی شاعری‘ کہتا ہوں۔ اس نے اخوت، امن و آشتی، عدل اور مستقبل کے نغمے گائے، کامریڈ شپ کے حق میں اور کلبیت کے خلاف۔ لیکن جب 1950 میں فردوسِ بریں کے حکمرانوں نے اس کے پراگی سرریئلسٹ ہم نفس Zavis Kalandra کے خلاف پھانسی کی سزا کا فیصلہ صادر کر دیا تو انھی ایلوار صاحب نے ہم مشربی کے ذاتی جذبات کو فوق الذات آدرشوں کی خاطر دبا کر علی الاعلان اپنے کامریڈ کی گردن مارنے کے حکم نامے پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا — جلاد نے پھانسی چڑھائی اور شاعر نغمہ سنج رہا۔

صرف شاعر ہی نہیں، اسٹالنی دہشت انگیزی کا پورا دور ہی ایک اجتماعی غنائی ہذیان کا دور تھا۔ یہ بات آج مکملاً فراموش کر دی گئی ہے، حالانکہ معاملے کی جڑ یہی ہے۔ لوگ مزے لے کر کہنا پسند کرتے ہیں : انقلاب ایک خوبصورت چیز ہے، اور دہشت جو اس کے نتیجے میں پیش آتی ہے صرف وہی برائی ہے۔ لیکن ایسا نہیں — برائی تو حسن میں پہلے ہی سے موجود ہوتی ہے ؛ جہنم تو جنت کے خواب میں شروع ہی سے شامل ہے۔ اگر ہم جہنم کی حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے جنت کی اصلیت کا معائنہ کرنا ہو گا، کیونکہ جہنم پیدا ہی جنت سے ہوئی ہے۔ گولاگوں کی مذمت بہت آسان ہے، لیکن عہدِ آمریت کا سخن جو جنت سے ہوتا ہوا گولاگ تک پہنچا دیتا ہے، اس کا رد آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا پہلے تھا۔ آج ساری دنیا میں لوگ نہایت قطعی طور پر گولاگوں کے تصور کو رد کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آمریت پسند شاعری سے مسحور ہونے کو آج بھی تیار ہیں، کہ اسی نغمے کے سحر میں ڈوبے ہوئے نئے نئے گولاگوں کی طرف شاداں و فرحاں بڑھیں جو ایلوار، چنگ و بربط کے عظیم فرشتے کی طرح، پراگ پر اپنی پرواز کے دوران گا رہا تھا، ٹھیک جبکہ دوسری طرف Kalandra کے سوختہ جسم کا دھواں انسان سوز بھٹی سے آسمان کی طرف اٹھ رہا تھا۔

راتھ: آپ کی نثر کی امتیازی خصوصیت وہ مسلسل مزاحمت ہے جو ذاتی عنصر اور عوامی عنصر کے درمیان پیش آتی ہے ؛ ان معنوں میں نہیں کہ ذاتی کہانیوں کا محلِ وقوع سیاسی پس منظر ہے، اور یہ بھی نہیں کہ سیاسی واقعات نجی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں، بلکہ یہ کہ آپ کی دانست میں — اور یہ آپ مسلسل دکھاتے آئے ہیں — سیاسی واقعات بھی انھی قوانین کے تابع ہیں جن کے ذاتی واقعات تابع ہیں۔ اس اعتبار سے آپ کی نثر سیاست کی تحلیلِ نفسی کے فرائض انجام دیتی ہے۔

کنڈیرا: انسان کی مابعد الطبیعیات ذاتی زندگی میں بھی وہی ہے جو اس کی عوامی زندگی میں ہے۔ مثلاً کتاب کے دوسرے موضوع کو لیجیے، یعنی فراموشی۔ انسان کا اہم ترین خاص الخاص ذاتی مسئلہ موت یعنی اتلافِ ذات ہے۔ لیکن یہ ذات ہے کیا بلا؟ یہ ان تمام باتوں کا حاصل جمع ہے جو ہم یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ موت کے بارے میں جو چیز دہشت زدہ کرتی ہے وہ مستقبل کا تلف ہو جانا نہیں، بلکہ ماضی کا کھو جانا ہے۔ فراموشی موت کی ایک شکل ہے جو زندگی میں ہمیشہ سے موجود ہے ؛ اور میری ہیروئن کا مسئلہ بھی یہی ہے : اپنے محبوب مرحوم شوہر کی فنا پذیر یادوں کو کسی نہ کسی طور محفوظ رکھنے کی کوشش۔ لیکن فراموشی سیاست کا بڑا مسئلہ بھی ہے۔ جب ایک بڑی طاقت ایک چھوٹے سے ملک کو اس کے قومی شعور سے محروم رکھنے کے درپے ہو جاتی ہے تو اس کے حصول کے لیے بڑی منظم فراموشی کا حربہ استعمال کرتی ہے۔ ٹھیک یہی آج بوہیمیا میں ہو رہا ہے۔ معاصر چیک ادب — جہاں تک اس کی کوئی قدر و قیمت ہے — آج بارہ سال ہو رہے ہیں کہ طبع نہیں ہوا۔ دو سو چیک ادیبوں کو، جن میں مرحوم فرانز کافکا بھی شامل ہے، ممنوعِ اشاعت و مطالعہ قرار دیا گیا ہے، 145 چیک مورخوں کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے، تاریخ ازسرنو لکھی جا رہی ہے اور تاریخی یادگاروں کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ ایک قوم جو اپنے ماضی کا شعور کھو دیتی ہے، بتدریج اپنی ذات کے عرفان سے بھی تہی ہو جاتی ہے۔ یوں دیکھیے تو سیاسی صورت حال نے فراموشی کے عام سے مابعد الطبیعیاتی مسئلے کو پوری سفاکی سے واضح کر دیا ہے۔ یہ مسئلہ ہمیں روز ہی پیش آتا رہتا ہے، اور ہم اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ سیاست ذاتی زندگی کی مابعد الطبیعیات کی نقاب کشائی کرتی ہے، اور ذاتی زندگی سیاست کی مابعد الطبیعیات کی۔

راتھ: variations والی کتاب کے چھٹے حصے میں مرکزی ہیروئن، تمینہ، ایک جزیرے میں جا پہنچتی ہے جہاں صرف بچے ہی بچے پائے جاتے ہیں۔ انتہائے کار یہ بچے اس کی جان ضیق میں کر دیتے ہیں اور مار ڈالتے ہیں۔ کیا یہ کوئی خواب ہے ؟ پریوں کی کہانی؟ یا کوئی تمثیل؟

کنڈیرا: تمثیل سے زیادہ کوئی اور شے میرے لیے اجنبی نہیں — تمثیل یعنی محض کسی مفروضے کی تشریح کے لیے گھڑی گئی کہانی! واقعات کو، خواہ وہ حقیقی ہوں یا خیالی، اپنی ذات میں اہم ہونا چاہیے اور قاری کو بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ صمٌ بکمٌ نہایت سادہ لوحی سے ان کی قوت اور شعریت کی ترغیب میں آ جائے۔ ایک پیکر (image) ہمیشہ سے میرا پیچھا کرتا رہا ہے اور زندگی کے ایک دور میں تو یہ بار بار میرے خوابوں میں آتا رہا ہے۔ وہ پیکر یہ ہے : ایک آدمی خود کو ایسی دنیا میں پاتا ہے جو بچوں سے آباد ہے ؛ اس دنیا سے کوئی جائے فرار نہیں۔ یوں عہدِ طفلی، جس کی غنائیت کے ہم ہمیشہ ہی مدح سرا رہے ہیں اور جو ہمیں دیوانگی کی حد تک محبوب ہے، اچانک دہشتِ محض بن جاتا ہے — ایک طرح کا جال۔ نہیں، یہ کہانی تمثیل بالکل نہیں۔ لیکن میری کتاب ایک polyphony ضرور ہے، جس میں متعدد کہانیاں ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں، ایک دوسرے کو روشن اور مکمل۔ کتاب کا بنیادی یا مرکزی واقعہ آمریت کا اعمال نامہ ہے، وہ آمریت جو خلق کو اس کے حافظے سے محروم کر دیتی ہے اور اس طرح ان کی بچوں کی ایک قوم میں تقلیب۔ ہر آمریت یہی کیا کرتی ہے، اور شاید ہمارا پورا تکنیکی عہد بھی یہی کرتا ہے، اور یہ صفت اس کی مستقبل پرستی، عہدِ جوانی اور طفولیت کی پرستش، ماضی سے اغماض، اور فکر و خیال پر عدم یقینی سے بیّن طور پر ظاہر ہے۔ ایک بے جگر طور پر طفلانہ معاشرے کے بیچوں بیچ، ایک ایسا بالغ شخص جو حافظے اور طنز سے مسلح ہو، خود کو جزیرۂ اطفال میں گھری تمینہ کی طرح محسوس کرتا ہے۔

راتھ: آپ کے تقریباً سبھی ناول، درحقیقت آپ کی تازہ کتاب کے فرداً فرداً سب اجزا، جنسی مباشرت کے منظروں میں منتہی ہوتے ہیں ؛ حد تو یہ کہ وہ حصہ بھی جو ’’ماں ‘‘ کے معصوم نام سے موسوم ہے، ایک سہ طرفی جنس بازی کے منظر نامے کے ماسوا کچھ نہیں، جس کا اپنا افتتاحیہ ہے اور اختتامیہ بھی۔ ایک ناول نگار کی حیثیت سے آپ کے نزدیک جنس کے کیا معنی ہیں ؟

کنڈیرا: ان دنوں جب جنسیت پر کوئی پابندی باقی نہیں رہی، محض بیان، محض جنسی اعتراف اپنی کشش کھو بیٹھا ہے اور طبیعت اکتا جاتی ہے۔ لارنس اب کس قدر پیش پا افتادہ محسوس ہوتا ہے، حتیٰ کہ ہنری ملر بھی، اپنی فحشیات کی تمام تر غنائیت کے با وصف۔ بایں ہمہ، جنس سے متعلق George Bataille کے چند قطعوں نے مجھ پر دیرپا اثر چھوڑا ہے ؛ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ غنائی نہیں بلکہ فلسفیانہ ہیں۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ میری ہر تحریر ہی بڑی متہیج جنسی منظروں پر منتہی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں جسمانی محبت کے منظر سے ایک بہت تیز روشنی پھوٹتی ہے جو بالکل اچانک طور پر کرداروں کا سارا ذاتی جوہر منکشف اور ان کی وجودی صورت حال کا لب لباب پیش کر دیتی ہے۔ ہیوگو جب تمینہ کے ساتھ ہم بستری کر رہا ہوتا ہے تو خود تمینہ ان تمام تعطیلات کو جو اس نے اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ گزاری تھیں اور جو اب محو ہوتی جا رہی تھیں، یاد کرنے کی ایک بڑی حسرت آمیز کوشش کر رہی ہے۔ اس لحاظ سے یہ عاشقانہ منظر وہ نقطہ ہے جس پر کہانی کے تمام موضوع مرتکز ہیں اور جہاں اس کے عمیق ترین اور سربستہ راز واقع ہیں۔

راتھ: ساتویں یعنی آخری حصے کا تعلق تو سراسر جنس ہی سے ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ کسی اور حصے کی بجائے اسی حصے کو کتاب کا اختتامیہ بنایا گیا ہے، مثلاً چھٹا حصہ کیوں نہیں، جس میں ڈرامائی عنصر کی فراوانی ہے اور جس میں ہیروئن کی موت واقع ہوئی ہے ؟

کنڈیرا: استعارے کے طور پر گفتگو کریں تو تمینہ کی موت خندۂ ملائک کے دوران ہوتی ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں ایک اور ہی طرح کے، اور اس سے بالکل مختلف قہقہے کی گونج ہے — اور یہ وہ قہقہہ ہے جو اشیا کے اپنی معنویت کھو دینے کے بعد ہی سنائی دیتا ہے ؛ ایک بالکل خیالی حدِ فاصل جس کے ماورا اشیا لغو اور مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں۔ ایک شخص اپنے سے سوال کرتا ہے : کیا روز روز میرے لیے صبح صبح اٹھنا، نوکری پر جانا، کسی چیز کے حصول کے لیے کوشاں رہنا، ایک قوم سے محض اس لیے وابستہ رہنا کہ میں اس میں پیدا ہوا تھا، مہمل نہیں ؟ آدمی اس حدِ فاصل کے آس پاس ہی رہتا ہے اور بہ آسانی اپنے کو دوسری طرف کھڑا ہوا پا سکتا ہے۔ یہ حدِ فاصل ہر جگہ موجود ہے، حیاتِ انسانی کے ہر شعبے میں، حتیٰ کہ حیاتیات کے عمیق ترین شعبے میں بھی، جو جنس کا شعبہ ہے۔ اور بعینہٖ چونکہ یہ زندگی کا عمیق ترین علاقہ ہے، ہر وہ سوال جو جنس کے حوالے سے کیا جائے گا، بے حد گہرا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ میری variations کی کتاب اس کے سوا کسی اور variation پر ختم نہیں ہو سکتی۔

راتھ: تو کیا یہ آپ کی قنوطیت کا نقطہ ٔ انتہا ہے ؟

کنڈیرا: میں ’قنوطیت‘ اور ’تفائل‘ قسم کے الفاظ سے چوکنا رہتا ہوں۔ ناول کسی چیز پر اصرار نہیں کرتا — اس کا کام تو صرف جستجو اور سوال اٹھانا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آیا میری قوم نیست و نابود ہو جائے گی اور میرے کرداروں میں سے کون سا کردار سچا ہے۔ میں تو صرف کہانیاں گھڑتا ہوں، پھر ایک کو دوسری سے بھڑا دیتا ہوں، اور اس طرح سوال اٹھاتا ہوں۔ لوگوں کی حماقت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہر چیز کا جواب تیار رکھتے ہیں۔ ناول کی دانائی اس میں مضمر ہے کہ اس میں ہر چیز کی بابت استفسار موجود ہوتا ہے۔ جب ڈان کیہوٹے عرصۂ جہاں میں چل پڑا تو یہ دنیا اس کی نظروں کے آگے ایک سربستہ اسرار میں تبدیل ہو گئی۔ اس اولین یورپی ناول نے اپنے بعد آنے والی ناول کی پوری تاریخ کے لیے یہی ورثہ چھوڑا ہے۔ ناول نگار قاری کو دنیا کو بطور سوال سمجھنے کا درس دیتا ہے۔ اس رویے میں دانائی بھی ہے اور رواداری بھی۔ ناول کا گزر اس دنیا میں ممکن نہیں جو اٹل اور متبرک ایقانات پر تخلیق ہوئی ہو۔ آمریت کی دنیا، خواہ یہ مارکس کے نظریات سے وضع ہوئی ہو، خواہ اسلام یا کسی اور چیز سے، محض جوابوں کی دنیا ہے، سوالوں کی نہیں۔ اس دنیا میں ناول کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ بہرحال مجھے تو یوں لگتا ہے کہ آج اس خطۂ ارض پر ہر جگہ لوگ سمجھنے کے مقابلے میں محاکمے کو، اور سوال اٹھانے کی جگہ جواب پیش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نتیجے میں ناول کی آواز انسانی ایقانات کی پُر شور حماقت کے اوپر بمشکل ہی سنائی دے سکتی ہے۔

٭٭٭

ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید