FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

چاک ایجادی میری

 

 

                احمد جاوید

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

نوٹ: یہ ای بک اس برقی کتاب سے ترمیم شدہ ہے، جو یہاں دستیاب ہے۔

 

 

 

 

 

چاک کرتے ہیں گریباں اس فراوانی سے ہم

روز خلعت پاتے ہیں دربار ِ عریانی سے ہم

منتخب کرتے ہیں میدانِ شکست اپنے لیے

خاک پر گرتے ہیں لیکن اوجِ سلطانی پہ ہم

ہم زمینِ قتل گہ پر چلتے ہیں سینے کے بل

جادۂ شمشیر سر کرتے ہیں پیشانی سے ہم

ضعف ہے حد سے زیادہ لیکن اس کے باوجود

زندگی سے ہاتھ اٹھا سکتے ہیں آسانی سے ہم

ہاں میاں، دنیا کی چم خم خوب ہے اپنی جگہ

بس ذرا گھبرا گئے ہیں دل کی ویرانی سے ہم

کاروبار ِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی

جیسے درویشی سے تم مثلاً جہاں بانی سے ہم

٭٭٭

 

 

 

اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے

لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے

دنیا مرے پڑوس میں آباد ہے مگر

میری دعا سلام نہیں اُس ذلیل سے

اک شخص بادشاہ تو اک شخص ہے وزیر

گویا نہیں ہیں دونوں ہماری قبیل سے

دل کی طرف سے ہم کبھی غافل نہیں رہے

کرتے ہیں پاسبانیِ شہر اِس فصیل سے

گہوارۂ سفر میں کھلی ہے ہماری آنکھ

تعمیر اپنے گھر کی ہوئی سنگِ میل سے

٭٭٭

 

 

 

ہمیشہ دل ہوسِ انتقام پر رکھا

خود اپنا نام بھی دشمن کے نام پر رکھا

وہ بادشاہِ فراق و وصال ہے اُس نے

جو بار سب پہ گراں تھا غلام پر رکھا

کیے ہیں سب کو عطا اُس نے عہدہ و منصب

مجھے بھی سینہ خراشی کے کام پر رکھا

کسی نے بے سر و پائی کے باوجود مجھے

زمینِ سجدہ و ارضِ قیام پر رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

دنیا سے تن کو ڈھانپ، قیامت سے جان کو

دو چادریں بہت ہیں تری آن بان کو

ماٹی میں مل گیا ہے بدن روح کے لیے

تنگی کسی طرح کی نہ ہو میہمان کو

اک میں ہی رہ گیا ہوں لیے سر کو بار ِ دوش

کیا پوچھتے ہو بھائی مرے خاندان کو

جس دن سے اپنے چاکِ گریباں کا شور ہے

تالے لگا گئے ہیں رفوگر دکان کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

چشمِ تمنّا سوئی ہوئی ہے

سونے سے پہلے روئی ہوئی ہے

دنیا بھی میرے کاندھے پر رکھ دو

یہ ٹوکری بھی ڈھوئی ہوئی ہے

جاوید پوچھو اِن شاعروں سے

ایسی غزل بھی کوئی ہوئی ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ان انکھڑیوں نے ڈالا ہے ہُلّڑ

چلتے ہیں دل میں مستی کے جھکّڑ

اک شور دل میں رہتا ہے جیسے

دروازہ پیٹے کوئی دھڑادھڑ

دنیا کو میں نے دل سے نکالا

اب آ کے دیکھو، کھٹ کھٹ نہ کھڑ کھڑ

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ کیا ہے اِس کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا

مگر چاہوں کہ اپنے ساتھ رہ لوں، رہ نہیں سکتا

جلا سکتی نہیں سارے جہاں کی آگ سورج کو

سمندر لاکھ طوفاں آئیں اُن میں بہہ نہیں سکتا

بڑی لمبی مسافت کاٹ کر پہنچا ہے دل تجھ تک

ذرا سی ٹھیس بھی یہ آبلہ اب سہہ نہیں سکتا

مگر سچ ہی کہا تھا مصحفی استاد نے جاوید

غزل اِن قافیوں میں تجھ سِوا کو کہہ نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

آمادہ رکھیں چشم و دل سامان حیرانی کریں

کیا جانیے کس وقت وہ نظارہ فرمانی کریں

ہاں ہاں دکھائیں گے ضرور ہم وحشت دل کا وفور

پہلے یہ شہر و دشت و در تکمیلِ ویرانی کریں

اے عاشقاں، اے عاشقاں ، آیا ہے امرِ ناگہاں

جو لوگ ہیں نظارہ جو وہ مشق حیرانی کریں

وہ شمع ہے در طاقِ دل روشن ہیں سب آفاقِ دل

افتادگانِ خاک اٹھو افلاک گردانی کریں

اک ناصحانہ عرض ہے دریاؤں پر یہ فرض ہے

دل کی طرح ہر لہر میں تجدیدِ طغیانی کریں

ایسے گھروں میں اہل دل رہتے نہیں ہیں مستقل

تبدیل یہ دیوار و در اسلوبِ ویرانی کریں

٭٭٭

 

 

ایک نظم

آخر کار میرے دوست

تم نے آنکھوں کی تجدید کا فیصلہ کر ہی ڈالا

ان دیکھے کی دید ایجاد کرنے کے لیے

تم نے کیسے دریافت کیا کہ چیزیں

ایک اصیل نگاہ کے قابل نہیں رہیں

یہ ساری کائنات ایک سپاٹ تصویر ہے

جس سے اتنی جگہ بھی نہیں بھری جاسکتی

جو تمھارے کینوس میں حلقہ موجود ہے

تم نے بہتر جانا کہ آنکھوں پر سے

کچھ پرتیں اتار دو

تاکہ وہ دیکھ لیں کیسے ایجاد کیا جاتا ہے

وہ منظر جہاں ہر شے نئے سرے سے

مشہور اور مصنوع اور موجود ہے

٭٭٭

 

 

صبا دیکھ اک دن ادھر آن کر کے

یہ دل بھی پڑا ہے گلستان کر کے

 

یہی دل جو اک بوند ہے بحر غم کی

ڈبو دے گا سب شہر طوفان کر کے

 

اسے اب رقیبوں میں پاتے ہیں اکثر

رکھا جس کو خود سے بھی انجان کر کے

 

دکھا دیں گے اچھا اسی فصل گل میں

گریبان کو ہم گریبان کر کے

 

ہمارے تو اک گھر بھی ہے بھائی مجنوں

پڑے ہیں اسی کو بیابان کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جذبِ افلاک سے مٹی نے ستارے اگائے

جیسے اک صاحبِ اسرار کو حال آیا ہو

 

کشتۂ عشق کو عیسیٰ نفسوں کے آگے

موت آ جائے جو جینے کا خیال آیا ہو

 

آج نکلا ہے کوئی دشت سے خورشید بکف

جیسے ہر ذرّے کو اندر سے اُجال آیا ہو

٭٭٭

 

 

 

اُس سروِ خراماں کا ، دراصل ہے گھر دل میں

پھرتا ہے وہ آنکھوں میں ، رہتا ہے مگر دل میں

 

ہر گام پہ ہوتی ہے سیاحیِ صد عالم

ہم گوشہ نشینوں کا ، ہے سیرو سفر دل میں

 

تن تن تننا ھاھو ، دم دم ہمہ دم یاھو

مہمان ہے تو ہی تو، ہر سینہ و ہر دل میں

 

اُس خرمنِ خوبی سے ، ہنگامِ چمن گردی

جو دانہ بھی گرتا ہے ، بنتا ہے شجر دل میں

 

ہر لمحہ ازل قامت ، ہر آن ابد پیکر

ہم نے بھی گزارے ہیں ، دو چار پہر دل میں

 

گلشن سے گلستاں تر، صحرا سے بیاباں تر

اور وقت سے دوراں تر، اک شے ہے ادھر دل میں

 

جس دشتِ بلا میں ہے ، عمرِ خضر اک ذرّہ

اُس دشت کو سو سو بار ، ہم کرتے ہیں سر دل میں

 

بیٹے نے جو کل پوچھا ، رہتا ہے کہاں سیمرغ

بابا نے یہ فرمایا ، اے جانِ پدر دل میں

 

گریے نے مری دولت ، پانی میں بہائی ہے

جو بوند ہے آنکھوں میں ، تھی لعل و گہر دل میں

٭٭٭

 

 

 

موجود ہیں کتنے ہیں ، تجھ سے بھی حسیں کر کے

جھٹلا دیا آنکھوں کو ، میں دل پہ یقیں کر کے

 

جس چشم سے رندوں میں ہُو حق ہے، اُسی نے تو

زاہد کو بھی رکھا ہے ، محراب نشیں کر کے

 

کیا اُس کی لطافت کا ، احوال بیاں کیجیے

جو دل پہ ہوا ظاہر ، آنکھوں کو نہیں کر کے

 

کچھ کم تھا بلائے جاں یہ چہرہ کہ اوپر سے

آنکھیں بھی بنا لائے ، غارت گرِ دیں کر کے

 

سو داغ ہیں سینے میں ، وہ داغِ جدائی بھی

دیکھوں تو ذرا ، ہوگا ان میں ہی کہیں کر کے

 

اس دل کا تو نقشہ ہی ، دنیا نے بدل ڈالا

کچھ یاد ہے؟ رہتا تھا وہ بھی تو یہیں کر کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

محفل ہے اور طرح کی ، تنہائی اور ہے

اس شہر کی فضا ہی مرے بھائی اور ہے

 

نکلا نہ کوئی چاک مرے پیرہن کے بیچ

اُس ہاتھ کی گرفتِ زلیخائی اور ہے

 

کیا بانس لے کے ناپنے نکلے ہیں دل کو آپ

اس بوند بھر محیط کی گہرائی اور ہے

 

کیوں عاشقوں کی آنکھ کے دشمن بنے ہو تم

یہ جس سے دیکھتے ہیں وہ بینائی اور ہے

 

ہر پردہ اُٹھ کیا دل و دلبر کے درمیاں

بس ایک یہ حجابِ شناسائی اور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نیا مضموں کتابِ زیست کا ہوں

نہایت غور سے سوچا گیا ہوں

 

مری سیرابیوں میں تشنگی ہے

کہ میں دریا ہوں لیکن ریت کا ہوں

 

وہ رن مجھ میں پڑا ہے خیرو شر کا

کہ اپنی ذات میں اک کربلا ہوں

 

خود اپنی دید سے اندھی ہیں آنکھیں

خود اپنی گونج سے بہرا ہوا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجذوب کا رجز

 

 

تنہ نا ھا یا ھو

تنہ نا ھا یا ھو

گم ستاروں کی لڑی ہے

رات ویران پڑی ہے

آگ جب دن کو دکھائی

راکھ سورج سے جھڑی ہے

غیب ہے دل سے زیادہ

دید آنکھوں سے بڑی ہے

گر نہ جائے کہیں آواز

خامشی ساتھ کھڑی ہے

لفظ گونگوں نے بنایا

آنکھ اندھوں نے گھڑی ہے

رائی کا دانہ یہ دنیا

کوہ ساری یہ اڑی ہے

وقت کے پاؤں میں کب سے

پھانس کی طرح گڑی ہے

کتنی بدرو ہے یہ ، تھو تھو

تنہ نا ھا یا ھو

 

طرفہ دام و رسن ایجاد!

میں ہوں سیّاروں کا صیّاد

از فلک تا بہ زمیں ہے

گرم ہنگامۂ بے داد

آتشیں آہ یہ خورشید

اور افق ہے لبِ فریاد

چرخ کے شور میں رکھ دی

میں نے سناٹے کی بنیاد

کرۂ بود و عدم ہے

میرے چوگان کا ہم زاد

وحشت انباریِ دل ہے

دانہ دانہ شجر افتاد

آسماں میرا مصاحب

وقت ہے بندۂ ارشاد

پانی ہے پانی میں غرقاب

جال ہے جال سے آزاد

آگ ہے آگ میں ساکن

خاک ہے خاک سے آباد

دشت ہے آبلہ مقدار

عکس ہے آئینہ میعاد

آنکھ کی اصل ہے آنسو

تنہ نا ھا یا ھو

 

نہیں جو شعلہ بھی حرّاق

آگ کرتی ہے اسے عاق

رات رہنے نہیں دیتی

شمعِ کشتہ کو سرِ طاق

جیشِ قہارِ جنوں کا

ہے ہواؤں سے یہ میثاق

کسی آندھی سے نہ ہو گا

سرنگوں رایتِ عشاق

دشمناں تم کو بشارت

میں وہ سیّاف ہوں مشّاق

دستِ خوں ریز میں جس کے

زہرِ ہستی کا ہے تریاق

جس کا نیزہ ہے سپر دوز

جس کی شمشیر ہے برّاق

جس کا شب دیزِ بلا خیز

چابک و پر دم و سبّاق

جو ہے غارت گرِ آواز

خامشی کے لیے قزّاق

برگ جس کا چمن آہنگ

ذرہ ہے باد یہ مصداق

زور جس کا ہمہ امکاں

شور جس کا ہمہ اطلاق

ایک شعلے میں ہوا صرف

گلخنِ انفس و آفاق

دل ہوا درد پہ یک سو

تنہ نا ھا یا ھو

 

حاملِ لشکر و رایہ

میں ہوں طوفان کی دایہ

بادیہ گردوں کی میراث

جلتی دیوار کا سایہ

ہے میری چاہ پہ موقوف

دورِ دولابِ عنایہ

ہے میری پیاس کا مرہون

گردشِ چرخِ سقایہ

حضرتِ عشق سے مروی

ہے یہ دل اصلِ روایہ

روحِ طیار کی پرواز

ہے الیٰ غیر نہایہ

میرے دریا میں نہ ڈالو

کوزۂ کنز و ہدایہ

جذبِ سرشارِ فنا کا

مرگ ہے ایک کنایہ

میں ہوں قتال من و تو

تنہ نا ھا یا ھو

 

میری تنہائی سے ہشیار

اس کی گہرائی سے ہشیار

سب زمانوں کو منادی

لحظہ پہنائی سے ہشیار

غیب در غیب ہے اک شور

چشمِ سودائی سے ہشیار

چھپنے والے کو سنا دو

میری بینائی سے ہشیار

دشت کتنا ہی بڑا ہو

آبلہ پائی سے ہشیار

ماہیاں! چشمۂ دل کی

ہفت دریائی سے ہشیار

اے خدایانِ یم و رود

سیلِ صحرائی سے ہشیار

ہاں مبارز طلباں ! ہاں

میری پسپائی سے ہشیار

باز اشہب ہے میرا تیر

اس کی اونچائی سے ہشیار

بھاگو بھاگو میری چب سے

نیز گویائی سے ہشیار

میں بلا خیز بلا خو

تنہ نا ھا یا ھو

 

رختِ بینائی ہوئی آگ

آنکھ تک آئی ہوئی آگ

بانیِ نارِ جہنم

میری ٹھکرائی ہوئی آگ

دو جہاں پھونک چکی ہے

یہ میری لائی ہوئی آگ

میرے سینے سے نکلتے

دیکھو گھبرائی ہوئی آگ

شعلۂ نحس کا معدن

ایک پتھرائی ہوئی آگ

اے دُخاں زاد غنیمو!

تم ہو کجلائی ہوئی آگ

کرے حمام و غا گرم

وہ بھی مرجھائی ہوئی آگ

میرے آگے سے اٹھا لو

اپنی دنیائی ہوئی آگ

کم نہ ہو شعلہ برابر

میری رکھوائی ہوئی آگ

عرش تک دل کی پہنچ ہے

یہ ہے نپوائی ہوئی آگ

لوحِ تقدیر پہ ہے ثبت

میری لکھوائی ہوئی آگ

ہے مرا حرفِ مکرر

جیسے دہرائی ہوئی آگ

رکھتی ہے کشتِ فنا سبز

میری برسائی ہوئی آگ

اب ہے آنکھوں سے مخاطب

دل کو سنوائی ہوئی آگ

گنجِ ویرانۂ جاں ہے!

ایک دفنائی ہوئی آگ

اشکِ گرم آنکھ سے نکلا

یا کہ دھلوائی ہوئی آگ

آب شمشیر پہ دم کی

میں نے پڑھوائی ہوئی آگ

آگ ہے زخم کا دارو

تنہ نا ھا یا ھو

٭٭٭

 

 

 

 

 

مناجات

 

 

 

اونچی لہر

بڑھا دیتی ہے

دریا کی گہرائی

تیرے غیب نے

دل کو بخشی

روز افزوں بینائی

سات سمندر

بانٹ نہ پائے

موتی کی تنہائی

ناپ چکا ہے

سارا صحرا

میری آبلہ پائی

مالک

میں ہوں تیرا چاکر

مولا! میں مولائی

دل ہے میرا گیلا پتھر

جمی ہے جس پر کائی

٭٭٭

 

 

 

 

سیٹھ آدم بھائی مٹی والے کا رجز

 

 

برباد ہو گیا وہ شخص

جس نے میری للکار پر خندہ کیا

یا میرے نیزے سے خلال کیا

میں اُس قبیلے کا سردار ہوں

جس کے دشمن قتل نہیں ہوتے

خود کشی کر لیتے ہیں ۔ ۔ ۔

اپنے دھڑوں پر سر مت اگاؤ

جو خاک پر لڑھکنے کے لیے بنے ہیں

ایسی آنکھوں سے دست بردار ہو جاؤ

جس کے واسطے بینائی آگ ہے

تم میرے دشمن تو بن سکتے ہو

مگر مجھے اپنا دشمن بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے

اس نا اہلی پر خدا کا شکر بجا لاؤ

میرے چیتوں کو آسان شکار بن کر بے کیف نہ کرو

میں کوئی وحشی سورما نہیں ہوں

جس کا کھانڈا ہمیشہ سر سے اوپر رہتا ہو

پسپائی میں عجلت نہ کرو

دلیرانہ جذبات کو کچھ دیر تو خود پر غالب رکھو

تمہیں خود کشی کی مہلت بہرحال ملے گی

تم میرے لیے بڑی کارآمد شے ہو

تمہارا خون

سرخی کی شدت سے جمتا نہیں ہے

اس کے اچھے دام لگیں گے

تمہاری کھال نرم ، اجلی اور بے داغ ہے

ترقی یافتہ دنیا میں

لوگ اپنی جذامی جِلد سے اکتا چکے ہیں

میں وہاں بڑے پیمانے پر

کھال بدلنے کا کاروبار شروع کروں گا

تمہارا ڈھانچا اتنا بے عیب ہے

کہ اسے قطب شمالی کی ابدی برف میں دبا کر حنوط کر لیا جائے

تو دو لاکھ ، ورنہ زیادہ سے زیادہ تین لاکھ سال بعد

یہ انسانوں کی معدوم نوع کی اکیلی نشانی ہو گا

تم خود تصوّر کرو

اس زمانے کا محکمہ آثارِ قدیمہ

اس کی کتنی بولی لگائے گا

لیکن میں نے طے کر رکھا ہے

تمہارا پنجر اس طرح نہیں بیچوں گا

میں اُس پر خدا کی پرچی بنا کر چپکاؤں گا

ممکن ہے وہ مخلوق خدا کی منکر ہو

یا اُس پر ایمان لانا بھول چکی ہو !

اس کے باوجود میں ایسا ہی کروں گا

خدا کو نہ مانا جائے تو بھی

اُس کی قیمت ، بہرحال آدمی سے زیادہ پڑتی ہے ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

ایک خیال

 

تاریخ کے بُنے ہوئے تھیلوں میں

کوئی بے حد اہم چیز رہ جاتی ہے

بے شک ہوائیں عظیم ترین صنّاع ہیں

اُن خرابوں کی جو نقش ہیں بے رنگی کے ساتھ

ایک پُر اسرار ، غیر معروف اندھیرے کی دبیز دیواروں پر

لیکن آنکھیں

ایسے پیچیدہ منظر کو

صحت اور ثقاہت کے ساتھ

نقل نہیں کر سکتیں

خواہ بینائی کی کسی بھی قبیل سے

علاقہ رکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب بالکل نیا تناظر ضروری ہے

اس نا دیدنی سے عہدہ برا ہونے کے لیے

ورنہ ، دیکھنا ایک احمقانہ تصور ہے جسے

بس آنکھیں ہی مانتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

حضرت عثمانؓ کی منقبت

 

تیری آواز قرآن کی ہم لحن ہے

مولا !

تیرا ہاتھ رسول اللہ کا ہاتھ ہے

ید اللہ کے سرمدی لمس کا وارث !

غیب و شہود کی منتہا در منتہا یکجائی کے نورانی سمٹاؤ میں

تو قائم کیا گیا الوہی تھام کے ساتھ

احمد مختار کی دست گیر سہار کے ساتھ

مالک الاشتر کی خبیث تلوار

قرآن کے حلقوم پر گری تھی

اُس شیطان کی ضرب نے

ابو القاسم کے دستِ مبارک کو گزند پہنچائی

تیرے دشمنوں نے اسلام کے شاداب شجر پر زہراب چھڑکا

اور مدینے کی پاک مٹی میں خباثت کاشت کرنے کی ٹھانی

دوزخ کے کتوں کی مکروہ غراہٹوں نے

حیا اور سخاوت کے ملکوتی آفاق سے طلوع ہونے والے

سورج کی مقدس پیشانی کو پُر خراش کر دیا

نجس نیتوں کے تعفن نے ابلیس کی ریاح کی طرح طغیان کیا

اور کچھ ایسی آنکھوں کو بھی گدلا کر دیا

جنہیں نبی کی مزکّی رویت نے پاکی تلقین کی تھی

شیطان کا بدبو دار جھنڈ

اُس گلِ تر کو برگ برگ کرنے نکلا تھا

جس کی تزئین میں بہار کا سارا اندوختہ صرف ہوا تھا

احسان فراموش خنزیروں کا ریوڑ حقارت سے ہنکا دیا جاتا

قبطی بندروں کا منحوس جتھا ایک ہُش سے کھدیڑا گیا ہوتا

کفر کے راتب پر پلنے والا گیدڑوں کا قبیلہ

کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح پامال ہو چکا ہوتا

مگر اے مظلومی کے جاوداں آسمان

تو نے صبر کی چادر لپیٹے رکھی

اور اسمٰعیل کی وراثت کو اپنی عفیف گرفت سے نہ نکلنے دیا

تو نے گرنے نہ دیا رحمۃ اللعالمینی کا سائباں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور قاتل بچھوؤں کی تیزابی باڑھ

شیطان کی قے کی طرح اُس خاک پر پھیل گئی

جس سے افلاک اُگا کرتے تھے

اور جبریل نمو پاتے تھے

اے عثمان ! اے امامِ مظلوم ! اے وارثِ اسمٰعیل !

تو صبر کے قلعے کا سب سے اونچا بُرج ہے

حیا کے بہشتی خیام کی سب سے پکی سہار ،

سخا کے آسمان کا سب سے روشن ستارہ ۔ ۔ ۔ ۔

تو بندگی کی محمدی اٹھان پر استوار رکھا گیا

مولا ! تیرا پیڑ ربّانی بلندیوں سے سینچا گیا

شور زدہ زمینوں کی سُنڈیاں تیرا پھل نہ کھائیں گی

نجاست نژاد چھچھوندریں تیری مطہر چھاؤں نہ کتریں گی

وہ سعید ساعت ابھی زمانے کے ضمیر میں نمو پا رہی ہے

جب خدائی جلال تیرے سب دشمنوں کو

ذلت اور نابودی کے میدان میں گھیرے گا

اور آگ کو نئی ڈیگ ملے گی

کہ ناگ پھنی کا جنگل جلا کر پاک رہے ۔ ۔ ۔ ۔

جہنم کے شعلے کا مشاق بگولا

سمیٹ لے گا زمین کا سارا خس و خاشاک

٭٭٭

 

 

 

تھا جانبِ دل صبح دم وہ خوش خرام آیا ہوا

آدھا قدم سوئے گریز اور نیم گام آیا ہوا

رقص اور پا کوبی کروں لازم ہے مجذوبی کروں

دیکھو تو ہے میرا صنم میرا امام آیا ہوا

ہے ذرہ ذرہ پر صدا اہلاً و سہلاً مرحبا

کیا سرزمین دل پہ ہے وہ آج شام آیا ہوا

تجھ پر پڑی یہ کس کی چھوٹ اے چشم حیراں کچھ تو پھوٹ

کیا حد بینائی میں ہے وہ غیب فام آیا ہوا

ہے موسمِ دیوانگی پھر چاک ایجادی مری

لوٹا رہے ہیں پہلے کا خیاط کام آیا ہوا

خورشید سامانی تری اور ذرہ دامانی مری

ہے یہ عجوبہ دیکھنے ہر خاص و عام آیا ہوا

صد چشم بیداری کے ساتھ، صد سینہ سرشاری کے ساتھ

سو سو طرح شہباز دل ہے زیر دام آیا ہوا

٭٭٭

 

 

 

اشعار

 

چشم کو دل کے بغیر اُس کا تماشائی نہ کر

ورنہ فی الحال اِسے آمادۂ بینائی نہ کر

اے صبا لانی ہے اُس گل کی خبر تو لے آ

ہم سے اب تُو یہ ابھی لائی ابھی لائی نہ کر

٭٭

روز کا رونا لگا ہے اپنے ساتھ

ہم نے آنکھیں باندھ لیں رومال میں

٭

 

دنیا سے قدم بچا کے رکھنا

چبھ جائے گا پاؤں میں یہ کنکر

٭

دکھا دیں گے اچھا، اِسی فصلِ گل میں

گریبان کو ہم گریبان کر کے

٭

 

فی الحال دل پہ دل تو لیے جا رہے ہو تم

اور جو حساب بھول گیا کل کلان کو؟

٭

 

جس کا دراز قد ہے، جس کی بڑی ہیں آنکھیں

دل اُس پہ مرتکز ہے، دل پر گڑی ہیں آنکھیں

٭

 

دل آئینہ ہے فقط اک نگاہ کرنے کو

یہ گھر بنایا ہے اُس نے تباہ کرنے کو

گلیم و تخت اتارے ہیں غیب سے اُس نے

مجھے فقیر تجھے بادشاہ کرنے کو

٭٭٭

 

بِنا کیا ہے جنوں نے وہ دشتِ رستہ خیز

کہ ذرّہ ذرّہ جہاں کا ہے آفتاب انگیز

لکھا ہُوا ہے یہ الواحِ موسوی پہ کہیں

کہ طُولِ جادۂ دنیا ہے نیم گام ِ گریز

٭٭٭

انٹر نیٹ کے مختلف مآخذ سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید