FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

پہلی صف اور دوسری کہانیاں

 

عمر احمد بنگش

 

انتساب

کھوئی ہوئی جنت کے نام!

پیش لفظ

لالے عمر کی آواز پہلے بار’ گوگل ہینگ آؤٹ‘ پر ہی سنی تھی۔ متانت سنجیدگی،ٹھہراؤ بہرحال ایک وصف ہے ۔ آواز سن کر محسوس ہوا کہ سگریٹ انگلیوں میں سلگ رہا ہے اور خیالات دماغ میں ابل رہے ہیں۔ بلاگنے کا چسکا لگا تو جن پندرہ بیس بلاگروں سے متاثر ہو کر "پانچوں سواروں "میں شامل ہوا ان میں ایک لالا بھی ہے ۔ اندر سے نرا پینڈو، لکھائی کا انداز ایسا کہ لسی کی گھڑوی میں مکھن کا پیڑا تیر رہا ہو، بندے کا جی چاہے ہاتھ بڑھا کر اپنی روٹی پر رکھ لے ۔ اس کے خیالات کا بہاؤاپنا اپنا سا ہے ، اس کی تحریر اجنبی نہیں ہوتی، اس کے الفاظ میں غیریت نہیں جھلکتی۔ شاید زہنی ہم آہنگی کہہ سکتے یا اس کے الفاظ میں موجود دھرتی کا اپنا پن۔ لیکن کئی بار اس کی تحریر کو پڑھ کر لگا کہ یہ میں نے کہا، میں نے لکھا، یہ میں نے سوچا اور اس سے بڑھ کر کسی تحریر کی خوبی کیا ہو سکتی کہ وہ قاری کے ساتھ تعلق استوار کر لے ۔ وہ سیدھے سادھے ، سچے کھرے انداز میں بات کہہ دیتا ہے ۔ کبھی کوزہ گر کے سامنے رکھی مٹی کی خوشبو کا احساس دلاتے ،کبھی کنہار کنارے دریا کی لہروں سے روشناس کراتے ، کبھی درختوں کی ڈالیوں میں جھولتے ، کبھی تھل کے اصیل گاؤں کا نقشہ کھینچتے ۔ اور کبھی” بوئے حرم ” کی تنگ گلیوں میں جھجکتے ڈرتے گزرتے ہوئے لالا سماج کے دو رخے مونہوں پر طمانچے رسید کرتا ہے ۔ وہ سوچوں کو نچوڑ کر افسانہ گری کرتا رہتا ہے ۔ عمر کسی بوڑھے سمدے کسان کی طرح تپتی دوپہر میں شیشمی چھاؤں تلے حقہ گُڑگڑاتے داستان سرائی کر تا ہے ، اور قاری، لڑکے بالوں کے جیسے محویت سے سنتا جاتا ہے ۔ وہ الفاظ کو کتابوں سے نہیں نکالتا بلکہ مٹی میں سے نتھارتا ہے ۔ دھرتی کی کوکھ میں سوچ کے بیج بوتا ہے تو تحریر کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ سجے کو دکھا کر کھبے چپیڑ مارنے کا ہنر اسے بخوبی آتا ہے ۔ کہاں،کس موڑ پر کب قاری کو چونکانا ہے ، کب ٹہوکا دینا ہے ، کب سوچوں کے بھنور میں دھکیلنا ہے اس کے انداز تحریر میں بہتیرے شامل ہے ۔ انسانی مجبوریوں کو "حلال رزق” میں بیان کرنا، معاشرتی منافقت کو "پہلی صف” میں کھڑا کرنا اس کا خاصہ ہے ۔ وہ انسانی نفسیات کا خلاصہ بخوبی کرتا ہے لیکن اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر۔ "کنواں کود لوں؟” کا سوال جہاں ہجر و فراق کی ٹیس محسوس کراتا ہے وہیں کچی عمر کی بے باکیوں اور نتیجتا ھولناکیوں کو ایسے میٹھے انداز میں بیان کرتا ہے کہ کہیں سے وعظ کا گمان تک نہیں گزرتا۔ "تئیس میل” پڑھتے ہوئے یقین ہو چلتا ہے کہ بس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بھی لالا بیٹھا ہوا "فرنٹ مرر” سے سواریوں کی حرکات و سکنات کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھ رہا اور کنڈیکٹری بھی لالا کر رہا، قاری کسی آخری نشست پر دبک کر بیٹھا سارے منظر کو حیرانی سے دیکھتا جاتا ہے ۔ "ریل تال” اور "ناٹکا” میں اس کے ڈائیلاگ نے جان ڈال دی ہے ۔ خود پڑھئے اور سر دھنئے ۔

لالے نے لکھنا کب شروع کیا معلوم نہیں۔ لیکن دیر سے لکھا یہ احساس ہے ، اس کی تحریر کو اب تک پہچانا جا چکا ہوتا۔ شاید اسے اپنا آپ پہچاننے میں تاخیر ہو ھئی اور اس تاخیر سے بے شک کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہوا ہے ۔ اس وقت گریزی کی بنا کبھی کبھار اس کا قلم کوئی فقرہ کہتے ہانپ جاتا، کانپ جاتا۔ شاید وہ کھل کر گالی نہیں دینا چاہتا یا لاشعوری طور پر کسی بھی قاری کو دکھیارا کرنا اس کے بس میں نہیں۔ اس کا ازالہ یہی کہ عمر لکھے ، اچھا لکھے اور بہت لکھے تا کہ اس حساس دل کی دھڑکنوں اور پُر خیال زہن کی سوچوں سے قارئینِ اردو ادب کو بہترین مل سکے ۔

عمران اسلم

حلال رزق

تارکول ڈلی پکی سرکاری سڑک صحرا کا سینہ چیرتی نیغ سیدھی تک سیاہ لکیر کھنچی ہوئی ہے ۔ گاڑی بھاگتی جائے تو بیسیوں میل گزر رہتے ہیں پر کہیں موڑ مڑنے میں نہیں آتا، یہاں تک کہ صحرا پار ہو جاتا ہے ۔ قدرے فاصلے پر سڑک کے دائیں بائیں بے ترتیب کچے راستے نکلتے ہیں جو صحرا کے اندرون پھیل جاتے ہیں۔حوالے کا آخری سنگ میل قصبہ پچپن میل ہو تو دائیں جانب سے نکلنے والے ایسے ہی اک کچے راستے پر کھوہ والا، تیرہ میل اندرون تھل ٹیلوں کے بیچوں آباد ہے ۔

پکی سڑک سے نکلنے والا یہ کچا رستہ کھوہ والا کے وسط میں جہاں پنچائیت کا چبوترہ واقع ہے ، پہنچ کر ختم ہو رہتا ہے ۔ اس کے برابر میں کچی اینٹیں گارے سے لیپ کر ایک مسجد کھڑی ہے جو دیکھنے میں بالکل مسجد نہیں ہے ۔ اول اس کے روایتی مسجدوں کی طرح کوئی مینارہ نہیں، پھر قبلہ رخ دیوار کے وسط میں محراب کا کُب بھی نہیں نکال رکھا۔مسجد کے نام پر یہ دس فٹ کا سادہ سا لمبوترہ مستطیل کمرہ ہے ۔ سب سے اگلی صف کے بیچ کھردری اون کا مصلیٰ بچھا، بغل میں بودی لکڑ کی ایک اونچے پایوں والی کرسی منبر بنا کر محراب کا دھوکہ دے رکھا ہے ۔ بقایا جگہ پر صرف تین صفوں کی گنجائش ہے جو پتلی صحرائی چلوتر تیلیوں کی بُن کر اہتمام سے بچھا رکھی ہیں۔ باہر برآمدہ پکی ریت سے لیپ کر ہموار ہے جہاں کبھی کبھار تبلیغی جماعت آ نکلتی تو اپنا چولہا سلگا لیتی تھی، یہیں مولوی امین کا حجرہ بھی ہے ۔ پنچایت کے چبوترے ، مسجد اور اس کے پچھواڑے میں کنویں کے گھیر چہار پھیرکھوہ والا گاؤں آباد ہے ۔ گھر، مٹی کے ڈھارے یہاں وہاں بکھرے ہیں۔ صحرا کے ٹیلوں کی مانند ان کی کوئی ترتیب نہیں، پھر بھی جیسے ٹیلے یک شان ہوتے ہیں، ویسے یہ بھی ایک رنگ اور ان میں بسنے والے سیدھے سادے صحرائی، ٹیلوں کی مانندخصلت میں اندر باہر یک رنگے لوگ۔

یہ کل وقتی کاشتکار مزدوروں کی بستی ہے جنھیں کدال چلانے ، گوڈی کرتے ، ڈنگر چار اور وزن ڈھونے کے سوا کچھ سمجھ نہیں۔بعض ایسے بھی ہیں جو جز وقتی نائیوں کا کام بھی جانتے ہیں، کپڑے سینے ہوں یا جوتوں کی مرمت، یہ کام عورتیں بخوبی کر لیتی ہیں تو درزی، موچی کی کوئی حاجت نہیں۔ کمہاروں کے البتہ دو گھرانے ہیں جو کل وقتی یہی قماش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ گاؤں بھر کے لیے مٹی کے برتن گھڑتے ، ساتھ بڑے چوک میں بھی بیچ آتے سو نسبتاً خوشحال بھی ہیں۔

بستی گو کاشتکاروں کی ہے مگر کاشت کرنے کو بس کچھ ہی ایکڑ ہیں جو کبھی ٹیلے ہوا کرتے تھے ۔ آج کے کھوہ والا کے پشتوں نے کبھی انھیں ہموار کر کے کھیت بنا لیے تھے ورنہ یہ اسی صحرائی ریت کے چٹیل کیے میدان ہی ہیں۔ معاملہ یوں ہے کہ ریت جہنم سی گرم رہتی ہے تو زرخیز مٹی کی پرت بے بس ہو جاتی ہے ۔ مزید زمین کا پانی سیسے کے بھاری پن سے کڑوا کسیلا ہے ہونے کے سبب مارچ سے نومبر تک سبزہ اگنے کا سوال ہی نہیں۔جاڑے میں بھی اس میں جان بھرنے کو سارے گاؤں کے کل نفس جت جائیں تو کہیں جا کر صرف ربیع فصل کاشت ہوتی ہے ۔

٭٭

اکتوبر چڑھ آیا ہے ، بسبب گاؤں بھر میں گہما گہمی ہے ۔ وہ مرد جو پچھلی فصل اٹھا کر مزدوری کرنے نکلے تھے بیج اور کھاد لے کر واپس لوٹ آئے ہیں۔ ناریاں جنھیں ساری گرمیاں تپتی ریت سے زیادہ اپنے محبوب کی یاد جلاتی رہی ہے ، دیدار نصیب ہوتے ہی ان سانولے چہروں پر لالی در آئی ہے ۔ پھر بیویاں ہیں جنھوں نے سال بھر اپنے مجازیوں کے گھر بار کی رکھوالی کی ہے ان کے لیے جہاں چڑھتا جاڑا زمین کی ہریالی کا پیغام لایا ہے وہیں ارمان بھی جاگ اٹھے ہیں۔ اگلی فصل اٹھے گی تو اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ان کی گودیں بھی بھر رہیں گی۔ صحرا کے ان مضبوط جوانوں کے کمزور، بوڑھے ماں باپ بھی ہیں مگر ان کا حال کوئی نہیں بتا سکتا۔ ان کے سینے میں جو ٹھنڈ بیٹوں کی واپسی نے تانی ہے اس کا نہ تو کوئی اندازہ کر پائے گا اور نہ حساب رکھ سکتا ہے ، صحرا کی حدت تک اس ٹھنڈک کے سامنے ہیچ ہے ۔ اکتوبر کی تاثیر، سب سے بڑھ کر کاشتی کھیتوں پر عیاں ہے ۔

یہاں، ہل کے آگے بیل کی جوڑیاں جوت کر ریت کے اوپر زرخیز مٹی اتھل پتھل کی گئی تو خدا خبر کہاں سے رنگ برنگے پرندے اڑ اڑ آئے ۔ یہ ہل کے کھرپوں کے پیچھے اڑتے جاتے ہیں، چُن چُن کر صحرائی کیڑے چونچوں میں دبائے چلے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے بیل آگے ہل چلاتے ہیں، ان کے پیچھے عورتیں لمبے بانس کے سرے پر ٹکائے دستی کھرپوں سے روڑے باریک کرتی جاتی ہیں۔ پھر بڑے بوڑھوں کو کھیتوں میں بلا لیا گیا ہے ۔ ان کی موجودگی میں سارے رقبے پر پہلے زہر لگا بیج اور پھر کھاد کی بجائی کر کے ریت کو دوسرے ہل سے دبایا گیا تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کھو ہ والا کا ہر باشندہ خدا کے حضور اپنے پورے برس کی محنت یوں ویرانے میں سپرد کرنے کی عرضی ڈالتا ہو۔

ٹھنڈے پڑتے صحرا میں اصل رنگ اس وقت جوبن پر آیا جب پیٹر انجنوں سے پہلا پانی چھوڑا گیا۔جی جاندار تو رہے ایک طرف، بے جان ریت تک میں جیسے زندگی دوڑ گئی ہو۔ بچے جانگیے پہنے جہاں پانی کا منبع گرتا تھا، ریت کے کھڈوں میں کود پڑے ۔ یہی پانی یہاں سے برآمد ہو کر ریت کے کھالوں سے ہوتا کھیت سیراب کرتا جاتا۔ جوان ریتلے کھالے سنبھالنے میں مگن ہیں تو بوڑھے پیڑوں کے پاس چارپائیاں ڈال کر کئی کئی گھنٹوں حقے گڑگڑاتے رہے ۔

٭٭

گندم بو چکے تو کھوہ والا کی راتیں جاگنا شروع ہوئیں۔ شام کو ریت ٹھنڈی پڑتی تو سارا گاؤں چبوترے پر نکل آتا۔ کنویں پر آگے پیچھے کئی عورتیں سر پر مٹی کی گڑویاں اٹھائے رش لگاتیں۔ جوان لڑکیاں رنگ برنگے کپڑے پہن، سج دھج کر نکلتیں۔ کنویں پر تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھنکھناتے قہقہے بلند رہتے ، یہاں جوان لڑکے چبوترے پر بازیاں لگاتے ۔ بچے جمعراتوں کروڑہ مروڑہ کھیلنے میں مگن ہیں تو بوڑھے حقے سلگا، ریت میں دھنسی چارپائیوں پر بیٹھ کر ماضی ٹٹولتے رہتے ۔ تب ہر بار بحث گھوم پھر کر فصل پر جا ٹکتی۔ جیسے بابے سمدا ایک روز چارپائی پر لیٹے ،حقے سے دھواں بھر بھر نتھنوں سے ہوا میں اڑاتے ہوئے ساتھ مونڈھے پر بیٹھے شفیے سے کہنے لگا،

"شکر ہے تیسرا پانی بھی لگ گیا۔ ابا تیسرے پانی پر خالص گھی میں حلوہ تلوا کر بانٹا کرتا تھا، اب تو خالص گھی بس سونگھنے کو ہی مل پاتا ہے ۔ کہاں رہا اب وہ سستائی کا زمانہ۔۔۔” شمسو کمہار بابے سمدھے کو ماضی سے کھینچ کر واپس مدعے پر لے آیا تو اس نے مزید کہا، "بس دو پانی اور لگ جائیں تو کام اچھا ہو جائے گا۔ بس خدا کرے کہ ایک دو چھاٹیں بدل کی بھی برس لیں تو فصل جی اٹھے گی، اب تو بارش بھی پہلے کی طرح نہیں برستی، جب بدل آتا ہے تو خاصی دیر ہو جاتی ہے ،دانہ پک جاتا ہے ۔ مولا کا نام لیوا جو کم ہو گیا ہے ناں۔۔۔” اس پر شفیے نے جو ہتھیلی پر تمباکو رگڑ رہا تھا، کچھ کہنا ہی چاہا کہ مولوی صادق تسبیح کو روک لگا کر بیچ میں بول پڑا،

"باوے سمد، خدا کی رحمت تو اس کا خیال رکھنے میں ہے ، اس کے گھر کی خدمت کرو گے تو وہ تمھارے رزق میں برکت ڈالے گا۔” شفیے نے مولوی صادق کی ہی ہاں میں ہاں ملائی،

"میں بھی یہی کہنا چاہتا تھا، اس بار فصل اٹھنے پر سب سے پہلے مسجد کی پچھلی دیوار اکھاڑ کر محراب بنوانی چاہیے ، فرش بھی دیکھو پھر سے اکھڑ رہا ہے ۔۔۔ اللہ بھلی وار کرے تو تین بوریاں سیمنٹ کی میرے ذمے سہی۔۔۔”۔ مولوی صادق نے دبے لفظوں وظیفے میں اضافے کی طرف بھی توجہ دلائی توبابے سمدے نے چارپائی سے اٹھتے جھوٹے منہ یقین سا دلاتے اپنے بیٹے نور محمد کو پکارا کہ ڈھور ڈنگر تو اس نے سارا ہانک کر باہر چبوترے کے سامنے کیکر اور شریں تلے باندھ دیا تھا پر کھرلیاں ابھی تک ویسی ہی سوکھی پڑی تھیں۔

ان، جان پڑتے کھیتوں میں تب نور محمد، ڈنگر باہر باندھ کر، چبوترے پر سے نظر بچا کر نکلتا اور گاؤں سے باہر شمی سے ملنے جایا کرتا۔ نور محمد سمد کاشتکار کا بیٹا، سالہا سال صرف گندم بجائی اور فصل کٹائی کے لیے ہی گاؤں آتا۔ اس کے علاوہ پورا سال ٹھیکیدار کے ہاں سڑک کی مزدوری کرتا، پتھر توڑتا، مسالہ گھولتا، یہاں تک جان مار کر تارکول تک چھڑکنے میں جت رہتا مگر جان کھوہ والا میں اٹکی رہتی، جہاں شمی نے اس سے پیمان کر رکھا تھا۔

شمی انیس سال کی سانولی رنگت والی، جیسے دمکتے سونے کی ڈلی ہو۔ شاویز کمہار کی بڑی لڑکی تھی جو گاؤں بھر کے لیے برتن بناتا ہی تھا، شہر کے دو ایک بیوپاری بھی اس سے لمبی گردن والی صراحیاں، گلدان اور پھولے ہوئے ڈولے بنوا کر لے جاتے تھے ۔ اللہ کی دین، اچھا خاصہ دھندہ تھا، سو شمی اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتے بٹاتے خود بھی خاصے ڈیل ڈول والے برتن بنانے لگی تھی۔ شمی کے ہاتھ چپٹے اور انگلیاں لانبی تھیں۔ شاویز کہا کرتا تھا کہ شمی سُچی کمہارن ہے ، سنہری مٹی کی مورت، مٹی میں جان ڈال دینے والی۔ شاہ ویز صحیح کہا کرتا تھا، اس کا جو رنگ، قد کاٹھ نکالا تھا اور پھر جب دو سال قبل نور محمد سے پیمان باندھا تو جیسے جی توڑ مزدوری کے مارے اس مٹی کے پتلے میں واقعی جان ڈل گئی تھی۔

تیرھویں کا چاند اور ریت کے ٹیلے ٹھنڈی سپید روشنی میں چمکتے ، نظر میں ایسی مٹھاس گھولتے تھے گویا مصری کی ڈلیاں کُوٹ کر یہاں وہاں ڈھیریاں بکھیر رکھی ہوں۔شام بھر پرندے چہچہاتے اور مکوڑے بولتے ۔ صحرائی سانپوں کی سنسناتی آوازیں تک دلکش معلوم ہوتیں۔ شام کے پھیلتے سائے میں جب سارا گاؤں چبوترے پر سرشار تھا، نور محمد نظر بچاتا اور یہاں تک دیکھ بھال کر پہنچا تھا، شمی کو دیکھتے ہی بے باک ہو گیا۔ اسے اپنے مضبوط بازؤں میں بھر لیا اور یہ سمٹی ہوئی بیخود اس سے آن چپکی۔ اس پر یکدم ہی نور محمد کو اپنا گُٹھا ہوا مضبوط جسم پگھل کر شمی کے وجود میں گھلتا محسوس ہوا، جس نے اپنی نرم روئی کے جیسی پتلی بانہیں اس کے گرد یوں لپیٹ رکھی تھیں جیسے ڈر ہو کہ اگر ان کو ڈھیلا چھوڑ دے گی تو خود کلال کے تازہ مٹی کے کاسے کی طرح لڑھک جائے گی۔ نور محمد نے اپنے سینے میں کھبتا ہوا شمی کا چہرہ انگلیوں کی پوروں سے دھیرے سے اوپر اٹھایا تو اس کی آنکھیں لال انگارہ ہو رہی تھیں۔ نور محمد ایک دم سے پیچھے ہٹ گیا اور شمی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ سہلاتے پچکارتے ، دیر بعد شمی معصوم بچے کے جیسے ہچکیاں لیتے ہوئے بتانے لگی،

"ابے نے میرے رشتے کی بات کی ہے ، تم میرا ہاتھ مانگ لو” نور محمد کو سانپ سونگھ گیا۔

"مگر میرے پاس تو ابھی بیاہنے واسطے رقم نہیں ہے ، تو ابے کو منا لے ، بس دو سال مزید دیکھ لے ۔” اس پر شمی پھٹ پڑی،

"وہ نہیں مانے گا۔ ماں نے میرا جہیز باندھ لیا ہے ، چاندی تک منگوا رکھی ہے اور پھر تو جانتا ہے کمہاروں کو۔ رشتہ مانگو نہیں تو بھی ایکدم ہو جاتا ہے ، تو بس مجھے اپنے ساتھ لے جا۔” نور محمد نے شمی کو بہتیرا سمجھایا کہ صحرائی لوگ یوں پیچھے نہیں ہٹا کرتے ، اپنی بنیاد چھوڑنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ اسے یہ بھی فکر تھی کہ شمی کہاں اس کے ساتھ پردیس میں خوار ہوتی پھرے گی۔ بالآخر یقین دلانے کو فصل کی تسلی ہی کام آئی۔ طے یہ ہوا کہ اس بار فصل اٹھے تو وہ ساری بچت اس کے باپ کے قدموں میں لٹا دے گا بس وہ بہار تک اسے منا لے ۔

٭٭

لق و دق صحرا کے ریت کے ٹیلوں میں کھوہ والا کے باہر چند ایکڑ سبزہ بہت بھلا معلوم ہورہا ہے ۔ دور سے دیکھیں تو جیسے کوئی سبز ہرا قالین بچھا ہو اور اگر فصل کے بیچ کھڑے ہو جائیں تو گویا کھیتوں کے باہر ٹیلوں کی بے جان ریت سورج کی حدت سے نہیں بلکہ اس رقبے میں پنپتی زندگی سے حسد میں جلتی ہو۔ سورج کی تپش بھی اس رقبے پر مہمیز کا کام دے رہی ہے ۔ ہر جاگتے دن کے ساتھ فصل میں جان پڑتی جاتی ہے تو ویسے ویسے کھو ہ والا کے باسیوں کے بھی جی کھلتے جا رہے ہیں۔ اس برس تو بادل بھی ابھی سے گھر گھر آئے ہیں، سویر کے تڑکے میں مینہ برسنا شروع ہوا ہے تو صحرا میں صبح نکھر گئی ہے اور کھیت ہیں کہ جیسے نئی آن بان سے تنے کھڑے ہیں۔ آسمان سے برسا پانی بے شک زمین سے کھینچے ہوئے سے بڑھ کر اثر دکھا رہا ہے ۔ پیٹ کی آگ تو بجھنی ہی ہے اب تو ایسا لگتا ہے کہ مسجد میں سفیدی کے ساتھ ساتھ مولوی امین کا وظیفہ بھی بڑھ ہی جائے گا، خدا بے شک بہت مہربان ہے ۔ شمی اس شام بہت خوش ہے کہ فصل پر سویرہوئی چھاٹ نے اس کی امید بھی بڑھا دی ہے ۔

صحرا میں بارش کے بعد سے فضا مرطوب ہو رہی ہے اور سبز فصل کے بیچوں بیچ کھڑے ہونا اب تقریباً ناممکن ہو گیا ہے ۔ حبس بڑھ گئی ہے تو اس کا نتیجہ کچھ ہی دنوں میں یہ رہے گا کہ فصل سنہری ڈانڈے بنی لہک رہی ہو گی۔ اسی سبب پورے کھوہ والا میں اب اور ہی سماں ہے ، فصل کٹائی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہاں اگر درانتیاں لوہاروں کے ہاں بھٹی میں دھاری پر تیز ہونے کو پک رہی ہیں تو وہاں عورتیں بوریاں سینے میں مصروف ہیں۔ اگر دن میں گرمی سے لوگ نیست ہو کر سو پڑتے ہیں تو نسبتاً بہتر رات بھر دیر تک احاطوں کی صفائیاں کی جا رہی ہیں۔ تقریباً لوگوں نے مزدوریوں سے چھٹی لے لی ہے ۔ گاؤں کی واحد ٹریکٹر ٹرالی والے مرشد علی کو کہلوا کر شہر سے واپس بلوا لیا گیا ہے اور گھروں میں کوٹھواروں کو صاف کر کے ابھی سے کڑوا دھواں مار کر کیڑے مار دوائی کا چھڑکاؤ بھی کر دیا گیا ہے ۔ فصل سنبھالنے میں مہینہ بھر تو لگ جائے گا، سو مصروفیت رہے گی۔ اسی لیے ضروری راشن وغیرہ بھی ڈھو دیا گیا ہے اور شہر کے تمام کام نبٹائے جا رہے ہیں، تا کہ یکسوئی سے سال بھر کے رزق کا انتظام ہو سکے ۔

٭٭

فصل کٹائی میں بس دو ہفتوں کی دیر ہو گی کہ ایک رات جب تیسرا پہر پار ہونے کو تھا، مولوی امین نے ابھی مسجد کے باہر برآمدے میں قبلہ رو کھڑے ، کان پر ہاتھ دھر کر فجر کا بلاوا دینا ہی کیا، اللہ اکبر۔۔۔ اللہ اکبر۔ گاؤں بھر کے بڑے بوڑھے جوانوں کو سوئے پڑے کوس اور عورتوں کو چاٹیاں رڑکتے چھوڑ مسجد کا رخ ناپا۔ اذان ابھی اشہد کے وسط میں تھی کہ ایک مکوڑہ مولوی امین کی گردن پر روڑے کی طرح آن لگا اور سپٹ نیچے پیروں میں گر گیا۔ کان چھوڑ اس نے گردن کھجائی۔ نیچے دھری لالٹین کی روشنی میں دیکھتا ہے کہ ایک ٹڈی اس کے منہ کے آگے سے ہوا میں تیر گئی۔ مولوی امین کے حلق میں اشہد اللہ لرز سی گئی۔

جلد ہی سارا گاؤں پیروں پر تھا جن کے نیچے سے زمین نکل چکی تھی۔ تیار فصل پر ٹڈی دل حملہ کر گئی اور سارا انتظام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ دعائیں، دوائیں اور محنت سب اکارت گئی۔ پھوٹتی روشنی میں دیکھتے ہی دیکھتے جہاں جہاں سبزہ دکھتا تھا ٹڈی دل ڈانڈوں تک کو چٹ کیے جا رہا تھا۔ کھلے میدان میں اگر ٹڈیاں جیسے سیاہ مرغولے اڑتی پھر رہی تھیں تو زمین پر گویا ان کی بکھائی تھی۔ کھیتوں میں تویہ حال کہ کوئی ہرا ڈانڈہ دانے تک انھوں نے کورا نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ جڑوں کو بھی اوپر سے نوچ گئیں۔ سبزے پر بھر کر یہ وہیں پڑتی گئیں اور یوں دوپہر تک کھیت ٹڈیوں سے اس قدر اٹ گئے کہ اگر کوئی زمین پر پیر دھرتا تو قدموں کے نیچے بیسیوں ٹڈیاں کچلے جانے سے چر چر ا جاتیں۔

سارا کھوہ والا دن بھر اپنی بربادی تاڑ چکا تو شام میں چبوترے پر اکٹھ ہوا۔ کسی کے حلق سے کچھ برآمد نہ ہوتا تھا، نک دلی عورتیں باقاعدہ بین کر رہی تھیں اور مردوں کی جیسے آواز حلق میں رندھ کر جکڑی گئی ہو۔ اب یہ کچھ روز کا ہی معاملہ تھا، جب پچھلے سال کی گندم ختم ہو رہتی تو کھوہ والا کے باسیوں کو فاقے دیکھنے تھے ۔ بیج کھاد اور دوائیاں قرض پر اٹھائی تھیں اس کا طوق علیحدہ سے ان کے گلے میں لٹکنے والا تھا۔ اب وہ پیٹ کو پالتے یا قرضے اتارتے ،کسی کو کچھ سجھائی نہ دیتا تھا اور چھٹکارا تھا نہیں۔ سو دیر تک بڑے بوڑھوں میں بحث چلتی رہی۔ نور محمد بجھ کر، بوجھل قدموں کھیتوں میں جا کر بیٹھ رہا۔ رات گئے اک فیصلہ کر لیا گیا۔

٭٭

سویر ہوئی تو کھوہ والا کے مرد، عورتیں اور بچے بیلچے ، جالی دار کپڑوں کی چادریں اور خوانچے لیے گندم واسطے سلی بیسیوں بوریوں میں کھیتوں سے ٹڈیاں جمع کرتے رہے ۔ جالی دار چادریں عرض کھول کر سبزے کے آس پاس دن بھر لٹکائے رکھیں، یوں اڑتی ٹڈیوں کا شکار بھی ہوتا رہا۔ الغرض شام گئے ہر گھر کے کوٹھوار میں ٹڈیوں سے بھری کئی بوریاں، گویا اس سال کی فصل ربیع محفوظ پہنچ رہیں۔ اس رات کھوہ والا کے باسیوں نے پہلی بار شریعت کی رو سے ٹڈیوں کا حلال رزق پکا ک رکھایا۔

چند روز بعد نور محمد کئی نوجوانوں بشمول نوعمر لڑکوں کو ساتھ لیے ٹھیکیدار کے ڈیرے کی طرف روانہ ہو گیا۔ جس بہار کا وعدہ اس نے شمی کے باپ سے لیا تھا وہ اب کئی سالوں تک لوٹ کر آنے والی نہیں تھی۔

٭٭٭

اگست، 2013ء

ناٹکا

"او بھڑوے ، ایک پتی والا پان لگائیو۔۔۔” محمد شوکت عرف شوکی اداس نے سڑک کے بیچ سے ہی منہ پھاڑ کر آواز لگائی مگر کھوکھے والا بدستور منہ پر کھڑے گاہکوں کو سگرٹ پان اور ٹھنڈی بوتلیں برتانے میں مصروف رہا۔

"تیرے کان میں بھی حرام اگ آیا ہے کیا؟ جلدی سے پان لگا۔۔۔” شوکی جو اب فٹ پاتھ پر تھا، یوں مخاطب کیا تو شنوائی ہوئی مگر منہ پھاڑ کر گالی واپس کی گئی۔ پھر مزید کچھ کہے کھوکھے والے نے کاغذ کی پُڑیا میں لپٹا پان اس کی جانب اچھال دیا۔ شوکی تیز پتی والا پان منہ میں اڑس، ہلکے دانتوں سے چباتا تھیٹر کی جانب بڑھ گیا۔

تھیٹر کے داخلی راستے میں سامنے کی دیوار پر اشتہار آویزاں ہے ۔ آٹھ فٹ چوڑی اور پانچ فٹ عرض کی پینا فلیکس پلاسٹک کے اشتہار پر تین مقامی اداکاراؤں کے میک اپ زدہ چہروں کی خاصی مضحکہ خیز تصویریں چھپی ہیں۔ ان تصویروں کے ارد گرد کی خالی جگہ پر لگ بھگ آدھے درجن اداکاروں کی تصویریں چھوٹے گول دائروں میں اشتہار کے سرمئی پس منظر میں یوں بکھری ہیں کہ مٹی میں رُلتی بلوروں کا گماں ہو۔ نیچے کے ایک کونے میں معاون اداکاروں کے نام درج ہیں جن میں ایک نام شوکی اداس کا بھی ہے ۔ سرراہ ٹنگے اتنے بڑے اشتہار پر اپنا نام دیکھ کر اس کا سینہ چوڑا سا ہو گیا۔

اشتہار میں اپنے نام کے سرور سے سرشار، منہ میں پان دبائے ، جبکہ ہاتھ میں پان کی کتھے سے رنگی ہوئی پڑیا کا کاغذ مسل کر روڑی بناتا ہوا داخلی راستے سے گزر رہا، توروڑی ایک جانب کو اچھال کر کتھے سے لال ہوتا ہاتھ دیوار پر رگڑ کر پونچھا اور پھر تیل پلائے لانبے بالوں پر پھیرتے ہوئے بائیں ہاتھ پر ٹکٹ کی کھڑکی کی جانب مڑ گیا۔ کھڑکی کے سامنے ٹکٹ خریدنے والوں کا اچھا خاصہ مجمع ہے کہ آج رات شہر کی مشہور رقاصہ جلوے دکھانے کو سٹیج پر اترنے والی تھی۔ یہاں رک کر اس نے داہنے ہاتھ سے کان میں ڈلی بالی کو ادب سے چھوا گویا کسی مزار کی جالی پر ٹنگی منت ہو۔ پھر ماتھے پر ہاتھ ٹکا کر با آواز بلند اجتماعی سلام گزار کیا۔ چند ایک نے مڑ کر دیکھا مگر جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ رش میں سے راستہ بناتا ٹکٹ کی کھڑکی کے ساتھ ملحق پروڈیوسر صاحب کے دفتر میں حاضری دینے کی غرض سے آگے بڑھ کے دروازہ کھول، اندر داخل ہو گیا۔

دفتردس ضرب بارہ فٹ کا معمولی کمرہ ہے جس کا فرش کھدڑا ہوا ہے ۔ میلی دیواروں پر فلمی پوسٹر چسپاں ہیں، جن میں سے اکثر کی روشنائی اب عرصہ گزر جانے پر مدھم پڑ گئی ہے ۔ اسی سبب دیواریں خاصی بھدی محسوس ہو رہی ہیں۔ کمرے کے وسط میں ایک چوکور میز پر الا بلا دھر رکھا ہے ، جس کے گرد ایک دفتری اور سامنے تین مہمانوں کی کرسیاں ترتیب سے بچھی ہوئی ہیں۔ دروازے سے داخل ہوں تو دائیں طرف کی دیوار کے ساتھ جوڑ کر ایک پرانے فیشن کا صوفہ بچھا ہوا ہے جو اس کمرے کے حساب سے خاصہ بے ڈھنگ محسوس ہوتا ہے ۔ دفتر میں اس وقت پروڈیوسر صاحب کے ساتھ سٹیج ڈراموں کی اداکارہ شبانہ اپنی ماں کے ہمراہ موجود سنبھل کر بیٹھی ہے ۔

شبانہ کو سٹیج کی دنیا میں اصل نام سے کم ہی لوگ جانتے تھے ، فلمی نام شب چوہدری ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہے ۔ یہ پانی چڑھے سونے سے لدی پھندی، خاصے چست ریشمی لباس میں اپنے تئیں کھلتی مسکراہٹ سجائے ، ایک ادا سے کبھی بالوں کی لٹ سنبھالتی اور پھر سنہری چوڑیوں سے کھیلتی ہوئی پروڈیوسر صاحب کی طرف متوجہ ہو کر یوں پینترے بدلتی بیٹھی ہے کہ اس کے طور کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ ایک لمحے کو اگر خاصی بے باک نظر آتی ہے تو دوجے لمحے یوں سنبھل جائے کہ جیسے گھٹڑی ہو۔ پروڈیوسر صاحب پچاس کے پیٹے میں درمیانے قد کے آدمی ہوں گے ، شبانہ کے پہلو میں اس پر یوں جھک کر کھڑے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کمر میں یہ خم ازلی ہے ۔ اس پر یوں جھک کر وہ خدا جانے شبانہ کو کیا سمجھا رہے تھے ۔ پروڈیوسر صاحب کی سرگوشیاں سی گو اس کو سنائی نہ دی پر شبانہ ایسے دکھتی ہے جیسے کوئی پُتلی ہو جس کی ڈور پروڈیوسر صاحب نے تھام رکھی ہے ۔ پروڈیوسر صاحب کی ہر بات اور اشارے پر اثبات میں اک ناز سے جی ہاں، جی ضرور کی رٹ الاپتے تھک نہیں رہی تھی اور سامنے کرسی پر بیٹھی اس کی ماں اس پر اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے کھینچ کر مٹھیاں بنا کر سر تک واپس کھینچ کر بلائیں لیتی جاتی۔ باوجود اس عورت کی خوشامد یوں تو خاصی بے تکی محسوس ہوتی ہے مگر پھر بھی یہ ایسی ہوشیار ہے گویا کسی تیار باغ کا مالی ہو۔ شوکی کو یوں اس طرح بے دھڑک دفتر میں گھستے دیکھ کر پروڈیوسر صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔ اسے وہیں کھڑے کھڑے جھڑک دیا،

"بے تو یہاں کاہے کو گھسا چلا آ رہا ہے ؟ سیٹھ کی اولاد کو دیکھو۔۔۔ شو شروع ہونے میں پندرہ منٹ باقی ہیں اور یہ لاٹ صاحب ابھی تشریف لا رہے ہیں۔۔۔ سین کی تیاری تیرا باپ کرے گا؟”

شوکی کھسیانا سا الٹے قدموں باہر نکل آیا۔ ہال کے ہنگامی راستے سے گزرتے ہوئے بڑبڑایا،

"حرامی کا بڑھاپا دیکھو اور کیسے سلیش کی طرح چپک رہا تھا۔”

یہاں سے سیدھا چلتے ہوئے یہ ہال کے بالکل پچھواڑے پہنچ گیا جہاں سے نیغ سیدھا ڈریسنگ روم کی پشت کا دروازہ کھلتا ہے ۔ ڈریسنگ روم میں خاصہ شور مچ رہا ہے ۔ اسے اپنے سین کے لیے تیاری برتنے میں بمشکل پانچ منٹ لگے اور یہ وہاں سے باہر گیلری میں نکل آیا۔

آج رات ڈرامے کے تین شو تھے ۔ دو گھنٹے کے ناٹک میں شوکی کا کردار ایک محافظ کا ہے جو ملیشیا لباس پہنے ، ہاتھ میں بندوق اٹھائے بس چند منٹ کے لیے مرکزی اداکارہ کے ساتھ سٹیج پر نمودار ہوتا ہے ۔ پھر دو ڈائیلاگ ہکلاتے ہوئے یوں ادا کرنے کہ معنی فحش ہو جائیں اور آخر میں دوسرے کرداروں کے ہاتھوں چند فقرے لپیٹ کر اور جھوٹ موٹ کی مار کھا کر ہٹ رہتا۔ اس مختصر سین کے بعد فوراً بعد رقص شروع ہو رہتا اور یوں اس کی گلو خلاصی ہو جاتی، اللہ اللہ خیر صلا۔ مگر پروڈیوسر صاحب نے اس کو یوں جھڑکا تھا گویا یہ ڈرامے کا مرکزی کردار ہے جس کو تقریباً وقت سٹیج پر گزارنا ہو۔ ڈرامے کو شروع ہوئے اب تھوڑی دیر ہو گئی تھی۔ اسے ابھی بھی خاصہ وقت میسر ہے ۔ یہ گیلری میں دیوار سے کرسی ٹکا کر بیٹھ گیا اور سگرٹ سلگا لی۔ ڈریسنگ روم اور سٹیج کے بیچ اس مختصر گیلری میں تھیٹر عملے اور فنکاروں نے اودھم مچا رکھا ہے ۔ ایک کونے پر ڈریسنگ روم جبکہ دوسرے پر سٹیج تھا، دونوں ہی سرے اس وقت بقعہ نور بنے ہیں۔ بیچ کی گیلری میں صرف ایک زرد بلب روشن ہے جس کی میلی روشنی نے لمبوترے راستے میں افسردگی بھر رکھی بھر دی ہے ۔

سگرٹ کا اثر تھا یا گیلری میں بے وجہ اداسی، ماضی کی یاد شوکی کو غڑاپ سے نگل گئی۔ اس گیلری سے اس کی بے شمار یادیں وابستہ ہیں۔ گو شوکی کو سٹیج پر ڈرامے کرتے چھ برس سے زائد ہو چلے تھے مگر اس مقام سے نسبت اس سے بھی پہلے کی ہے ۔ شوکی کا باپ بائیس سال تک اسی تھیٹر میں باہر جنگلے پر ٹکٹ چیک کرنے اور مفت بروں پر نظر رکھنے کا بیگار کرتا رہا جبکہ ماں کی ساری جوانی اسی سٹیج پر رقص کرتے گزر گئی۔ تب سٹیج کا رنگ کچھ جدا ہوا کرتا تھا۔ فنکار کی تب عزت تھی، جیسے ہی شو ختم ہوتا، یہی گیلری مداحوں سے یوں بھر جایا کرتی تھی کہ فرداً فرداً سب پر داد کے ڈونگرے برستے اگلے شو کا وقت ہو جاتا اور پھر سب پر بھاگم بھاگ طاری ہو جاتی۔ ہر رات دوسرا شو چڑھتا تو سب چھوٹے بڑے فنکار تعریفوں کی گرمائش سے جیسے میدے کا کلچہ پھول جائے ، کُپا ہوئے سٹیج پر نمودار ہوتے ۔

ہال میں پٹتی تالیوں، بڑھتے شور سے خیال ٹوٹ گیا۔ اس نے سگرٹ کی راکھ جھاڑ کر ایک معمولی کش لیا۔ ماجھو چاچے کی لڑکی نگینہ ایک واہیات گانے پر بے ہنگم رقص کر کے لوٹ رہی ہے ۔ تیز بینگنی رنگ کی پسینے میں نچڑتی کرتی پہنے یہ بلا کی چست نظر آتی ہے ۔ نیچے لاچہ ہے جو خاصہ گھیر دار ہے مگر پھر بھی جب قدم آگے رکھتی تو ٹانگیں مناسب حد تک عریاں ہو جاتیں۔ پھر اگلے ہی قدم پر گو گھیر سے عریانی ڈھک جاتی مگر اس چھپن چھپائی سے دیکھنے والے کی آنکھ میں تشنگی سی رہ جاتی۔ شوکی ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

نگینہ کے جاتے ہی اس نے بوجوہ سگرٹ دیوار سے رگڑ کر بجھایا اور ادھ پیا ٹوٹا جیب میں ٹھونس دیا۔ اب گیلری میں سیٹھ واجد آتا ہوا دکھائی دیا۔ سیٹھ صاحب کا شہر کی لوہا مارکیٹ میں اچھا خاصہ گودام تھا اور کچھ ہفتے قبل سیٹھ صاحب کا چھوٹا لڑکا بلدیاتی ووٹوں میں ناظمی کا الیکشن جیت کر آیا تھا۔ یہ ادب سے کھڑا ہوا اور جھک کر سیٹھ صاحب کو سلام کیا۔ سیٹھ صاحب سے ایک قدم پیچھے چلتے منشی نے شوکی سے شب چوہدری کے بارے استفسار کیا تو شوکی نے بے دلی سے پروڈیوسر صاحب کے کمرے کی طرف اشارہ کر دیا۔ یہ دونوں وہیں سے الٹے قدموں لوٹ گئے ۔

یہ پھر سے وہیں بیٹھ رہا۔ گیلری سے ابھی ابھی گزری نگینہ سے ہوتی سیٹھ واجد اور پروڈیوسر صاحب کا کمرہ، سوچیں پھر سے در آئیں۔ اب تھیٹر میں مداحوں کی بجائے گاہک آنے لگے ہیں، شوکی نے سوچا۔ فقرے بازی فحش ہو گئی۔ رقص بس واہیاتی رہ گیا۔ نگینہ کو ہی دیکھ لو، لاکھ دلوں پر راج کرتی ہو مگر بے حیا، کیسے مٹک مٹک کر چلتی ہے ۔ جسم کی نمائش یوں کرتی ہے جیسے سربازار ننگا گوشت بکنے کو ٹنگا ہو۔ پھر باہر سٹیج کے ٹکٹ کاؤنٹر کا منشی الگ دلال بنا سودے کرواتا ہے ۔ اللہ کی پناہ، اب تو آئے روز چھاپے پڑتے تھے ۔ تھیٹر میں جہاں کبھی سُچا تماشہ ہوا کرتا تھا، خود تماشہ بن کر رہ گیا ہے ۔ خود اسے انھی واہیاتیوں میں ناحق دو ایک بار حوالات کا مزہ چکھنا پڑا تھا۔

خیالات جھٹک، اس نے سگرٹ دوبارہ سلگایا ہی تھا کہ پروڈیوسر صاحب شبانہ کی ماں کو ساتھ لیے آتے دکھائی دیے ، بوجوہ سگرٹ پھر رگڑ دیا۔ سارے ایکسٹرا، عملہ آگے بڑھ کر پروڈیوسر صاحب کو سلام کرتے اور ان کے لیے ہٹ کر راستہ چھوڑ دیتے ۔ شبانہ ان کے ساتھ نہیں تھی، جس سے شوکی کو الجھن سی ہونے لگی۔ کچھ ہی دیر میں اس کا سین جاری ہونا تھا اور یہ نہ جانے کہاں رہ گئی ہے ۔ یہ دونوں ڈریسنگ روم کی جانب نکل گئے ۔ اس کی جانب دونوں میں سے کسی ایک نے بھی توجہ نہیں دی۔

شوکی کا سین شروع ہوا تو سٹیج پر داخلہ سکرپٹ کی عین ضرورت کے مطابق نہ ہو پایا۔ شبانہ خاصی دیر تک سیٹھ صاحب کے ساتھ باہر دفتر میں بیٹھی رہی تھی۔ جب ڈریسنگ روم کی جانب آئی تو بال الجھے اور میک اپ جیسے بہہ رہا تھا۔ اس کو سلجھاتے دیر ہو گئی اور یوں سٹیج پر جاری سین میں فقرے بازی کو خواہ مخواہ طول دینا پڑ گیا۔ سٹیج کے پیچھے اسی سبب کچھ بدمزگی پیدا ہو گئی۔ سب شوکی پر برس رہے تھے اور یہ سب پر بھنایا ہوا کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔

اسی کشمکش میں جب سٹیج پر اترا تو ڈائیلاگ ایسے الجھے اور پھیکے انداز میں ادا کیے کہ سکرپٹ کے کرداروں سے پہلے بھرے ہال نے اس کے کھڑے کھڑے لتے لے لیے ۔ سین کا تو ویسے بھی ستیاناس ہو چکا تھا، اداکاروں نے بھی اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اگلے دس منٹ تک فقرے بازی میں اس کی وہ خبر لی کہ پٹتی تالیوں، قہقہوں اور سیٹیوں سے کان بہرے ہو رہے ہیں۔ چونکہ یہ سٹیج پر آئے روز کا معاملہ تھا تو یہ اس کھینچ تان کے جواباً بس سٹیج پر یہاں وہاں چکر لگاتا یا بھرم رکھنے کو ہر فقرے پر خباثت سے ہنس رہتا مگر بٹتی داد کے جوش میں ڈرامے کے ہیرو نے شوکی کی ماں بارے ایک فقرہ کس دیا۔ بھلے یہ معمولی سی بات تھی مگر فقرہ گویا پتھر پر بھاری ہتھوڑے کی طرح گرا۔ اچھا خاصا شوکی اداس، بچوں کی طرح پھوٹ کر یوں رو دیا جیسے پہاڑ کی پتھریلی چٹان پر آخری ضرب پڑنے سے پانی کا فوارہ ابل پڑتا ہے ۔ مجمع کو تو جیسے لقوہ مار گیا ہو، مگر جلد ہی دھیان پس منظر سے موسیقی کی لے بلند ہونے پر بٹ گیا۔ شوکی دھیرے سے قمیص کی آستین آنکھوں پر ملتا، چھوٹے بوجھل قدموں سٹیج سے یوں اترا جیسے کوئی ناکام چلتا ہو۔

سٹیج پر اب شہر کی مشہور رقاصہ شب چوہدری جلوے دکھا رہی ہے ، اسے اپنے بھائی شوکی کے برعکس سویر تک آنسو بہانے کی فرصت ملنے والی نہیں تھی۔

٭٭٭

(جون، 2013)

پہلی صف

اکبر خان جتوئی جدی پشتی زمیندار تھا۔ اس کی حویلی ایک بیگھے رقبے پر اس کے دادے نے بڑی باڑھ کے بعد دوبارہ تعمیر کی تھی۔ ساتھ ہی اس کے کئی باڑے اور ایک ڈیرہ جس پر ہر وقت مزارعوں اور باڑے کے ماجھیوں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ تین بیویاں، دو جوان جہاں بیٹے جو زیادہ تر شہر میں رہتے ، کئی گھیر زمین کی جاگیر، جس میں کئی ایکڑ آموں کے باغوں کے علاوہ سال میں ایک اناج اور دوسری صاف منافعے کی فصل بوئی جاتی تھی۔ سب کچھ تھا مگر جیسے کمی ہوا کرتی ہے ، اکبر خان کی بھی دو کمزوریاں تھیں۔ اول، ضرورت سے زیادہ زمین ہونے کے باوجود وہ مزید سمیٹنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا تھا اور دوم حویلی کی زنان خانے میں تین بیویوں کے باوجود بھی وہ ڈیرے پر عورتیں لائے بغیر گزارہ نہیں کر سکتا تھا۔ ہر سال کچھ نہ کچھ زمین یا تو کسی مجبور سے خرید لیتا، نہیں تو ہتھیانے تک کے لیے اس کے کاردار موجود تھے جن میں اکثر چھٹے ہوئے مفرور تھے جو اس کے ڈیرے پر پناہ لیے ہوئے تھے ۔ پھر جبلی ہوس کے لیے اکثر تو ناچنے والی کنجریاں بلا لاتا ورنہ مزارعوں کی عورتیں تو کھونٹی پر بندھی گائیوں کی طرح ہر وقت ہی اس کی خدمت واسطے موجود تھیں، یہاں بھی جو مرضی سے آ جاتی تو ستے خیراں نہیں تو اس کے کاردار پگڑی لے کر جاتے اور رات کے نکاح میں باندھ کر لے آتے ۔

جو بھی تھا، ان دو قباحتوں کے علاوہ اکبر خان بھلا آدمی تھا۔ پانچ وقتی جماعت کا نمازی، مسجد کا خادم۔ سارا خرچہ خود تن تنہا اٹھاتا، مولوی کا ماہانہ وظیفہ یاد سے اس کی کوٹھڑی میں بھجوا دیتا، اسی طرح مسجد میں خدا کے مسافروں کے لیے دو وقت کھانا بھی اکبر خان کی حویلی سے ہی پک کر آیا کرتا تھا۔ عرس میلے ، زیارت پر کئی ہزار روپوں مالیت کا گھی مکھن اور نذرانہ علیحدہ سے پہنچاتا کہ اس کی فصل، حویلی اور ڈیرے میں مرشدوں کی برکت اور خدا کا سایہ قائم رہے ۔ ھاں، مسجد میں بس اسے ایک خبط تھا کہ ہمیشہ پہلی صف میں عین ملا کے پیچھے نماز پڑھتا، مجال ہے کہ اس کی جاء نماز پر کوئی دوسرا نمازی قدم ڈالنے کی بھی جرات کر سکتا ہو۔ لوگ اس کے منہ پر گاؤں میں تو کچھ نہ کہتے تھے مگر اکثر نائی موچی بازار میں اکٹھے ہوتے تو دبے دبے اکبر خان کی اس عادت کو برا جانتے ۔ جیسے ، نورا حجام ایک دن ریتی پر استرا تیز کرتے ہوئے سامنے بیٹھے شوکے موچی سے کہنے لگا کہ،

‘پہلے تو بس صف میں جگہ تھی، اب اکبر خان نے مصلیٰ تک اپنے لیے علیحدہ سے لگوا لیا ہے ۔ آگے مولوی کا مصلیٰ ہے تو ایک سجدہ چھوڑ کر اس کا مصلیٰ بچھا ہوا ہے ۔ کاردار نے بتایا کہ خان نے یہ مصلیٰ خصوصاً مدینے سے منگوایا ہے "۔

شوکا موچی جو بے دھیانی سے اس کی بات سنتے ہوئے گھسے جوتوں میں سوئے تار رہا تھا، مدینے کا زکر سن کر ایک دم مودب ہو گیا۔ دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگائے اور کہنے لگا، "مولا برکت ڈالے ۔ خدا جانتا ہے بستی میں اس کی وجہ سے مسجد میں سب کو سہولت ہوتی ہے ۔ پانی سارے پہر ٹونٹیوں تک میں آتا ہے ، پھر مسافروں کے لیے اس نے جو بندوبست کر رکھا ہے ، مولا کی اس کو دین ہے ۔”

اس پر نورے نے برا سا منہ بنا کر مسافروں کی آل اولاد میں حرام نطفہ گھسیڑا اور بولا،

” شوکے ، حرام پنا نہ کر۔ خان کی خود کی حالت یہ ہے کہ رات عورتوں کی گود اور فجر مولوی کے پیچھے گزرتی ہے ۔ اللہ مجھے معاف کرے ، میں نے تو فجر سے توبہ کر لی۔ سویر وہ نام تو خدا کا پڑھ رہا ہوتا ہے مگر منہ کپی کی باس مارتا رہتا ہے ۔ جماعت حرام ہو توایسی مکروہ نماز کا فائدہ؟” اس پر شوکے نے بھی استغفار پڑھی، پھر گویا ہوا کہ،

"باقی تو سب ٹھیک ہے ، بس اس کی یہ عورتوں والی بد عادت چلی جائے تو بندہ ہیرا ہے ، ہیرا۔” اب کے شفیے درزی نے شلوار کے نیفے کا عرض سلائی مشین میں فٹ کیا اور ہتھ دستی سے کھٹ کھٹ مشین چلاتے لقمہ دیا،

"بات یہ ہے بھائیو کہ اکبر خان مسجد میں نماز پڑھ کر خدا کو راضی رکھتا ہے ، مگر پہلی صف میں کھڑے ہونے کی عادت اس کے دادے والی ہے ۔ میرا ابا کہا کرتا تھا کہ جتوئیوں کو خدا کی زمین تو عطا ہوئی ہی ہے مگر وہ مسیت کے بھی ذمہ دار ہیں۔ کہو تووہ مسیت میں بھی خدا کے شریکے ہیں”۔ ان لوگوں کی یہ بحث ہمیشہ کی طرح تبھی بس ہوئی جب اکبر خان کا منشی طیفا وہاں آ کر بیٹھ گیا۔ محفل جما، حقہ سلگا کر تاشوں کی بازیاں چلنے لگیں۔ شوکے ، نورے اور شفیے نے اپنا دھندہ ویسا چھوڑ کر دن بھر کی کمائی تھڑے پر جوئے میں جھونک دی۔

شام میں اکبر خان باہر ہوا خوری کو نکلا کرتا تھا۔ اس روز بھی جب وہ بازار میں نکلا تو منشی بازی آدھی چھوڑ کر اس کے پیچھے دوڑا تو شوکے نے منہ نیچے کر کے پاس بیٹھے شفیے کی ران دبا کر کہا کہ، "لے بھئی شفیے ،طیفا دلال اپنے خان کے لیے رات کا انتظام پوچھنے گیا ہے ۔” شوکا جو ان دونوں کو سن رہا تھا طیفے کو واپس آتا دیکھ کر بولا، "رب جانے کس مزارعے کی فصل میں یہ حرامی کھوٹ نکالے گا۔” طیفے نے جیسے بات سن لی ہو، ھنستے ہوئے رقم سمیٹ کر بولا،

"آج کی بازی تو سجنو میں لے ہی گیا، اب دیکھو کس دن خان کا باز تم حرامزادوں کی چڑیوں پر نظر ڈالتا ہے ۔” یہ کہتے ہوئے طیفے کے انداز نے گویا ان کمی کمینوں کے گھروں کی عزت کے کونے کھدروں تک کو کھنگال لیا ہو۔

اس کی موجودگی میں تو کسی کو ہمت نہ ہوئی، اس کے جانے کے بعد سب نے خان اور اس کے دلال کی زبانی کلامی خبر لی۔

منشی طیفے کا کام دلال جیسا ہی تھا۔ وہ اکبر خان کے لیے مزارعوں کی عورتیں ڈھویا کرتا تھا۔ اس کے پاس سب کا حساب تھا۔ جس مزارعے کی کوئی عورت تارنے والی ہوتی تو اس کے حساب میں رد و بدل بھی ہو جاتا تھا۔ اکثر تو اس کی ضرورت بھی پیش نہ آتی تھی۔ اس روز بھی، جب وہ گجو کی بیٹی کو ساتھ لیے ڈیرے پر پہنچا تو شام پڑنے والی تھی۔ اکبر خان کچھ افسردہ سا باہر کھلے میں چارپائی پر لیٹا تھا۔ گجو کی بیٹی کو وہ اندر چھوڑ کر خان کے پاس آیا تو اکبر خان نے اسے منع کر دیا۔ طیفے کو سمجھ نہ آئے کہ ماجرا کیا ہے ۔ اکبر خان نے اٹھ کر حقے کا پائپ چارپائی کی پائنتی میں پھنسایا اور بولا،

"جگو سپیرا سنا، بستی میں واپس آ گیا ہے ؟” اس پر طیفے نے بتایا کہ وہ دو تین دن ہوئے اپنے کڈے کے ساتھ واپس آ گیا ہے ۔ اس بار کہتا ہے کہ اچھے خاصے رنگ برنگے چھوٹے بڑے کئی سانپ پکڑ لایا ہے ۔ اسی وجہ سے بستی میں اچھی خاصی رونق لگی ہوئی ہے ۔ اکبر خان نے ان سنی کر کے پوچھا،

"نوری بھی آئی ہے ؟”

گو طیفا معاملہ تو پہلے ہی سمجھ گیا تھا بس اکبر خان کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔

نوری جگو سپیرے کی سب سے بڑی لڑکی تھی۔ بس پچھلے دو برسوں میں اس کی جوانی دم خم سے نکلی تھی۔ سانولی اور بھرے گالوں والی۔ لانبی زلفیں گُت بنا کر یہاں وہاں گھماتے پھرتی۔ نکلتا قد اور ابھرا سینہ خم کھاتی کمر میں، کیسا بھلا نظر آتا۔ باپ کے ساتھ سانپوں کا تماشہ کرنے نکلتی تو لوگوں کی نظریں اس کو ٹٹولتیں، سنپولیوں جیسی ہر جسمانی خم دار ادا مسحور کن سی سب کو محو کر دیتی، یہاں تک کہ جگو سپیرے کو لاٹھی زمین پر مار مار لوگوں کو سانپوں کی طرف متوجہ کرنا پڑتا۔ الغرض، جس کو دیکھو سانپوں کے بہانے نوری کو دیکھنے نکلا کرتا اور جب تماشہ تمام ہوتا تو کئی سو روپے بے سود پھکیوں پر خرچ کر کے اٹھتا اور کہو تو سمجھتا،منافعے میں رہا۔ اکبر خان نے جب سے نوری کا یہ نظارہ کیا تھا،باؤلے کتے جیسے ہر وقت اس کی مشک مارتا رہتا تھا۔ اس رات بھی گجو کی بیٹی جب اس کے بستر میں گھسی تو خان کا دھیان دور بستی میں نوری کی طرف بٹا ہوا تھا، سویر واپس جاتے ہوئے گجو کی بیٹی شرمندہ سی روانہ ہوئی۔اگلے روز تو جیسے آپے سے باہر ہو گیا۔ تین نمازیں وہ مسجد نہ جا سکا، دبدبہ ایسا تھا کہ پہلی صف میں اس کی جگہ پر کسی دوسرے کو کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس کا مصلیٰ ویسا ہی خالی چھوڑ کر نمازیں ادا کرنی پڑیں۔ بات بازار میں یوں نکلی کہ اس روز نورے حجام کا گلہ یہ تھا کہ تین نمازیں صف میں خالی مصلے ٰ کی وجہ سے مکروہ ہو گئیں۔ خان بدبخت، مسیت جائے یا نہیں، نمازیں سب کی کھوٹی ہو جاتی ہیں۔

طیفے منشی کو آج تیسرا دن تھا کہ نوری کے پیچھے پیچھے کتے کی طرح سونگھ لے رہا تھا مگر یہ اور اس کا باپ تھے کہ کہ اس کے ہاتھ نہ آتے ۔ جگو جیسے بھانپ گیا ہو تو ایک پل کو جھگی سے نکلے تو دوسرے میں پھر گھس گئے ۔ پچھلی شام سانپوں کا تماشہ بھی نہیں ہوا تھا تو طیفے کی مشکل اور بھی بڑھ گئی۔ تبھی اس کو جب اکبر خان نے خوب لعن طعن کیا تو اس نے نوری کے باپ جگو سپیرے کو اس کی جھگی میں جا لیا۔ نوری کے لیے خان کا پیغام پہنچایا جس پر جگو کی جیسے باچھیں کھلی اور کندھے ڈھلک کر رہ گئے ۔ پہلے تو پس و پیش سے کام لیا مگر پھر جب طیفے نے ہلکے سے اسے خمیازے کی بابت اندازہ کروایا تو منت ترلے پر آ گیا۔ منمنا کر ہاتھ جوڑے ، مجبوری سے عرض کی اور آخر میں جیسے باور کرا رہا ہو،

"مائی باپ، ہم سپیرے آزاد ہوتے ہیں۔ عورت ذات تو ویسے بھی اپنے من کی غلام ہے ، اس کو کوئی قابو کر پایا ہو؟ نوری میرا مال ہے مگر اس کا فیصلہ تو وہی دیوے گی۔”

طیفے کو سمجھ آ گئی کہ یہ کم ذات اس کو ٹال رہا ہے ورنہ عورت ذات کی ایسی کہاں جرات جو فیصلہ کرے اور یوں انکار کر پاتی۔ وہ تو کلے سے لگی گائے ہے جسے سبزے کی لالچ دو اور اسے چاہیے کہ ساتھ ہنکائی چلی جائے ۔ مزارعوں کی طرح گو جگو سپیرا خان کا محتاج تو نہیں تھا مگر پھر بھی خان بہرحال خان تھا۔ اس چپے زمین کا مائی باپ جہاں سے جگو سپیرا نہ صرف سانپ پکڑا کر لاتا ہے اور یہاں گاوَں گاوَں ان سانپوں کے بل بوتے پر اپنے کڈے کا پیٹ بھرتا ہے ۔ بالواسطہ، جگو سپیرا اکبر خان کا دیا نمک ہی کھا رہا ہے ۔ یہ سب سوچ کر طیفے نے اس کو کچھ مہلت دی اور بازار میں تھڑے پر جا پہنچا۔ تینوں کمی اکبر خان کی نوری واسطے رسے تڑوانے کی بحث لیے ہی بیٹھے تھے ۔ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ نوری آج نہیں تو کل خان کی کھونٹی سے بندھ ہی جائے گی، دیکھنا یہ تھا کہ یہ ناگن کس منتر سے کیل جائے گی۔

چوتھے دن اکبر خان کا پیمانہ لبریز ہو گیا جب نوری نے اس بابت ٹکا انکار کر دیا۔ بیٹی کی زبان میں نوری کا باپ بھی منت ترلے کرتا اڑا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر خان کی بس ہو گئی۔ کاردار کو کہلوا کر نوری کو جھگی سے اٹھوا لایا۔ پہلے تو اسے سمجھایا، پھر نان نفقے کا یقین دلایا مگر یہ تھی کہ جیسے ناگن پھنکارتی اس کو قریب نہ لگنے دے رہی تھی۔ خان نے جب حتمی طور خود اس سے بات کی تو تھوک کر بولی،

"مر جاؤں گی مگر حرام سے خود کو پلید نہیں ہونے دوں گی۔۔۔ کاٹ ڈالوں گی”۔

اکبر خان نے مولوی کو بلا کر نکاح پڑھوانا چاہا تو اس پر نوری سوا بدک گئی۔ جب کسی طور نہ مان رہی تو اکبر خان مرد تھا، طیش کھا گیا۔ پہلے مولوی کو رخصت کیا اور پھر نوری کے پاس ڈیرے میں جا گھسا۔ دو جانپھڑ رسید کر کے زبردستی بھینچ لیا۔ نوری چلائی، ہنگامہ کرنے لگی۔ اسی کھینچ تانی میں نوری پر لپٹی کالی چادر کھینچی تو اس میں سے ایک میلی کچیلی پوٹلی تھپ سے زمین پر جا گری۔

یہ گودڑی کے رنگ برنگے کپڑے کے ٹوٹوں کو جوڑ کر سلی، پیوند لگی پوٹلی تھی جس کا منہ وا تھا۔ اکبر خان جو ہوس میں ایسا دھت تھا کہ پوٹلی کی طرف بالکل دھیان نہ دے پایا۔ گودڑ پوٹلی میں حرکت ہوئی اورسنہرے رنگ کا پھنکارتا ناجی، مشکی ناگ برآمد ہوا۔ پھرتیلا ایسا کہ گودڑی کی حبس سے باہر روشنی میں نکلتے ہی پھن پھیلا دیا اور اس کی صرف سنسناتی پھنکار سے ہی اکبر خان کی ساری مردانگی ہوا ہو گئی۔ بوکھلاہٹ میں وہ نوری کو دھکیلتے ، مشکی سے دور ہٹنے کو ایک جانب مڑا ہی تھا کہ یکایک ناگ کے دانت اکبر خان کی ٹانگ میں گڑ گئے ۔ اب کے ڈیرے میں اکبر خان کی وحشت ناک چیخ بلند ہوئی اور چند لمحوں میں یہ دھیرے دھیرے ناگ کے سامنے بے حال ہو کر گرتا چلا گیا۔ طیفا اور کاردار دوڑے ہوئے اندر آئے مگر تب تک زہر اکبر خان کے جسم میں سرایت کر چکا تھا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ دو نالی کے ایک فائر سے کاردار نے مشکی کا کام تمام کیا تو یہاں اکبر خان نے آخری ہچکی لی۔ یہ دونوں اکبر خان کے گرد ہی رہے اور نوری موقعہ کا فائدہ اٹھا، نیم عریاں ہی دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ سویر پھوٹنے سے پہلے پہلے سپیروں کا کڈا گاؤں چھوڑ گیا۔

صبح تک اکبر خان کے دونوں بیٹے بھی پہنچ گئے اور قبر کھود لی گئی۔ اکبر خان کا جنازہ اٹھایا گیا تو منہ کالا سیاہ ہو رہا تھا۔ جنازہ گاہ میں مولوی نے پہلے اکبر خان کی بڑائی بیان کی، پھر خدا کے گھر اور سینکڑوں مزارعوں کے گھروں واسطے اس کی خدمات پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ اس کے بعد لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے موت کی اٹل حقیقت کی جانب توجہ مبذول کروائی اور پہلی تکبیر بلند کرنے سے قبل، نماز جنازہ کے لیے اہم ہدایات کچھ یوں گوش گزار کیں،

"اے لوگو، صفیں درست رکھو، ٹخنے سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملا لو۔اگر زمین پاک ہے تو جوتے اتار لو ورنہ پہن رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔” یہاں مولوی نے توقف کیا اور ہاتھ میں تھامی ٹیک والی سوٹی سے پہلی صف کی جانب اشارہ کر کے کہا،

"صفوں کے بیچ خالی جگہیں نہ چھوڑو کہ شیطان ایسی جگہیں پر کر لیا کرتا ہے ۔”

اتنا سننا تھا کہ سب کی نگاہیں پہلی صف کی طرف گھوم گئیں جہاں مولوی کے پیچھے ایک شخص کی جگہ خالی تھی۔ یہاں کبھی خود اکبر خان کو کھڑے ہونے کا خبط رہا کرتا تھا۔

٭٭٭

(مئی 2013ء)

بوئے حرم

میں جو فرہاد کو ساتھ گھیر لایا تھا، اب حرم کی گلی کے منہ پر کھڑا مضطرب سا ہوں۔

کچھ روز قبل، راستے میں کرسیاں بچھا کر ہوٹل والے نے جہاں تجاوز کر رکھا ہے ، چائے کے دور پر معروف شعراء کے مصرعے اچھال کر داد وصول کر چکے تو بات منٹو کی آن شروع ہوئی۔ زیدی جو دبکا بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا،کہنے لگا،

"میں اور منٹو ایک قدر مشترک رکھتے ہیں” اتنا کہہ کر توقف کیا اور قبل اس کے استفسار کیا جاتا، خود ہی بولا،

"ہم دونوں نے رنڈیوں کے ساتھ تاش کھیل رکھے ہیں۔” اس پر قہقہہ بلند ہوا توساتھ دوسری میز پر براجمان بزرگوار گھورنے لگے ۔ یہ غالباً ہم لا ابالیوں کی جانب ہی کان لگائے بیٹھے تھے ۔ ان کی کسے پرواہ، سب بارے اس واردات جزئیات تک کی تفصیل جاننا چاہتے تھے ۔ فرمائش کی دیر تھی کہ زیدی چسکے لے کر قصہ بیان کرنے لگا۔ سننے والے بعض زیر لب مسکرائے ، دو ایک آزرد بھرے سے زیدی کو تکنے لگے اور جو باقی تھے وہ دم بخود بات سن رہے ۔ قصہ رنڈی کے ساتھ صرف تاش کھیلنے پر تمام ہوا تو ہر طرف قہقہہ گونج گیا۔ قصے میں اگر فحش بیانی تھی تو قہقہہ کہیں بڑھ کر فحش نگار ثابت ہوا۔ اب کے بزرگوار نے گھورنے کی بجائے رخصت ہونا مناسب خیال کیا۔ زیدی کو قصہ وا کرنے کے بعد جو داد ملی سو ملی، چند ایک نے زیدی کو واقعے کی رنڈیوں کے سمیت توبہ استغفار دھراتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ اور بات ہے کہ لتاڑنے والوں میں ایسے بھی تھے جن کے بارے سنتے ہیں کہ یہ ماضی میں رنڈیوں کے ساتھ سب کچھ ہی کرتے آئے ہیں، بس کبھی تاش نہیں کھیلی۔

زیدی کی بڑھک تو رہی ایک طرف، میں جو اس گلی کی دہلیز پر موجود ہوں، اس کی ایک وجہ خود فرہاد بھی تھا۔ ایک شام مجھ سے پوچھنے لگا، "تم نے دلمیر کی لسی پی ہے ؟” میں نے گردن کو انکار اور اس نے مایوسی میں جھٹکایا اور سرزنش سا کہا، "اوئے ، تو اتنا عرصہ ہوا اس شہر میں ٹکا ہوا ہے اور کبھی دلمیر کی لسی نہیں آزمائی؟ مکھن کا پھُولا پیڑا ڈال کر ایک بڑا گلاس پی لو تو شرطیہ پوری دو پہر کے لیے سیر ہو جاؤ گے ۔” یہ بتاتے ہوئے فرہاد نے ساتھ اپنا پورا بازو بھی ناپ لیا جو لسی کے گلاس کا اندازہ تھا۔ لسی سے شروع ہو کر اس نے شہر میں کھانے پینے کی تقریباً مشہور جگہیں ایک ایک کرکے گنوائیں۔ ان میں سے اکثر کا نام میں پہلی بار سن رہا تھا۔ اس پر فرہاد نے جوان عمری میں یوں میری عزلت پسندی پر خاصے تاسف کا اظہار کیا اور اب وہ اسی بات کو لے کراپنی آوارہ گرد طبیعت کا ذکر کچھ فخر سے کر کے چوڑا ہوا جا رہا تھا تو میں نے روک لگانے کو لہجہ اوپرا کر کے دریافت کیا،

"تو کبھی حرم گیا ہے ؟”

یہ سنتے ہی ساتھ بیٹھا سفیر سٹپٹا گیا اور بے یقینی سے مجھے تکنے لگا۔ فرہاد کھسیانا سا ہنس کر کہنے لگا، "تجھے شرم تو نہیں آئی ہو گی ناں؟”

میں جواباً مکر کی ہنسی ہنسا تو فرہاد نے بھی ساتھ دیا جس سے سفیر کا شک پختہ ہو گیا۔ سفیر نے پوری تفتیش شروع کر دی۔ کھل کر بتایا کہ منٹو نے رنڈیوں کے ساتھ تاش کھیل رکھے ہیں اور زیدی منٹو سے یہ قدر مشترک رکھتا ہے اور میں حرم گیٹ جانے کی خواہش رکھتا ہوں کہ آئندہ ٹاکرا ہو تو کچھ زیدی کی کاٹ کر سکوں۔ سفیر کو میری بات کا بالکل یقین نہیں آیا۔ جو پہلے کھانے پینے کے منصوبے پر ٹوٹ رہنے کو ساتھ شامل ہوا تھا، حرم کے ارادے پر ایک دم پیچھے ہٹ گیا، البتہ فرہاد فوراً راضی ہو گیا۔

ہم دونوں یہاں تک پیدل ہی پہنچے تھے اور چونکہ ہمیں یہاں کی طوائفوں سے کچھ مقصود تھا اور نہ ہی ہم ان کے ساتھ تاش کھیلنے آئے تھے لہذا ہم نے رستہ بھر صرف اس محلے کی تاریخ پر بحث کی۔ اس گلی کا بازار عام سا ہے ، جیسا کہ کسی بھی بازار کی چہل پہل ہو سکتی ہے ۔ گلی تنگ ہے اور جہاں تک نظر جا رہی ہے ، یہ ٹیڑھی ہوتے ساتھ تاریک ہو جاتی ہے ۔ گلی کے سرے پر سیاہ چادروں میں لپٹی عورتیں راستہ بھرے کھڑی ہیں۔ یہ عام سی گھریلو عورتیں ہی لگتی ہیں اور میں نہیں جانتا کہ یہ چادروں میں پاکدامن عورتیں ہیں یا ناچنے والی طوائفیں؟ چونکہ ہم حرم کی گلی میں موجود ہیں تو اپنے تئیں یہ طے کر لیا کہ یہ عورتیں یقیناً طوائفیں ہیں۔ شریف زادیوں کا بھلا یہاں کیا کام؟ تبھی اک خیال یہ بھی کوندا کہ یہ عورتیں جو بھی ہوں، چادر ان کا پردہ ہے ۔ چادر نے اپنے اندر ان میں سے ہر ایک کی اچھائیوں اور برائیوں کو یکساں طور چھپا رکھا ہے ۔ اگر آسمانوں میں رب ان کا پردہ دار ہے تو زمین پر یہ چادر ہے جس نے ان کو ڈھانپ رکھا ہے ۔ میں اور فرہاد جو یوں اس بازار میں کھلے ڈلے گھس آئے ہیں تو بھلا یہ عورتیں اور ارد گرد کی چہل پہل ہماری اس بے پردگی بارے کیا سوچتے ہوں گے ؟ اتنے تک پہنچ کر ایک جھرجھری سی آ گئی۔

شرافت دکھانے کو عورتوں کے بیچ میں سے پہلے فرہاد اور اس کے پیچھے پیچھے میں، جسم سمیٹ کر اور سر جھکائے گزرے ۔ گھٹیا خوشبو سونگھ آئی اور اگلی ہی ساعت نتھنوں کے اندر تک کھلی نالیوں کی بدبو رچ بھر گئی۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے کوئی بات چیت نہیں کر رہے تھے ۔ غالباً طوائفوں کے ماضی پر بات کرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں تھی کہ ہم ان کے حال سے گزر رہے ہیں۔ وہ عورتیں اب خاصی پیچھے رہ گئی ہیں۔ اندرون شہر کی اس گلی کسی بھی محلے کی طرح عمارتیں پرانی مگر پختہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھیں۔ ہر عمارت کے داخلے کی سیڑھیاں گلی کو علیحدہ سے تنگ کر رہی ہیں تو ہر دوسری عمارت کی دیوار گلی کی حد میں ناجائز تصرف کرتی جاتی ہے ۔ گلیاں بھی پختہ اینٹوں کی ہی ہیں جو جا بجا اکھڑی ہیں اور نالیاں بھی ویسی ہی کھلی اور بدبو دار ہیں۔ یہاں تک میں صرف گلی کا فرش ہی دیکھ پایا ہوں کہ میرا سر جو عورتوں کے بیچ گزرتے جھکا تھا، اب بھی ویسا ہی ہے ۔ گلی کا پہلا موڑ مڑتے ہی رونق نظر آئی۔ ایک کریانے کی دکان ہے جس کے باہر دکاندار دوسرے کئی لونڈوں کے ساتھ بیٹھا گلی کو مزید ناقابل کیے جا رہا ہے ۔ میں نے بے جانے بوجھے سر مزید نیچے جھکایا تو ٹھوڑی جیسے سینے میں گڑھ گئی۔ دکان کے ساتھ ایک دروازہ واہے جس کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہم دونوں نے ایک ساتھ شوقین نظروں سے اندر جھانکا کہ شاید کوئی جوان ناری، سجی ہوئی بالکل سامنے بیٹھی تماش بینوں کا انتظار کر تی ہو۔ ہماری مایوسی کے لیے اندر زرد بلب کی روشنی پھیلی تھی جس کے نیچے سنوکر کی میز دھری ہے ۔گلی کے بے مونچھوں جیسے ہی دو چار اندر بھی شغل لگائے ہوئے ہیں۔ میں نے کھسیانا ہو کر ایکدم بالکل سامنے یوں دیکھا جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔

سامنے جاتا راستہ دو اور گلیوں میں بٹ جاتا ہے ، ہم نہایت اطمینان سے بائیں جانب مڑ لیے ۔ اس طرف گلی نسبتاً کھلی اور مکان بھی نئی تعمیرات لگتے ہیں۔ پھر یہاں نالیوں کی بدبو بھی کم ہے ۔ تبھی اچانک فرہاد لمحہ بھر کو ٹھہرا اور گہرا سانس لے کر کہنے لگا،

"تم یہ بو سونگھ رہے ہو؟ یہ چیز ہے ، یہی!”

وہ ایسے بے صبرا ہو رہا تھا جیسے یہ بو اس کو ساتھ ہی اٹھا کر ہوا میں بکھرنے والی ہے ۔ میں نے اس کی پیروی میں گہرا سانس کھینچا تو موتیے ، اگر بتی اور نالی کی خلط ملط بو نتھنوں میں بھرتی چلی گئی۔ چاروں جانب مشتاق نظریں دوڑائیں مگر دیکھنے کو عام مکانوں کے علاوہ کچھ بھی تو نظر نہیں آیا۔ ہر مکان کے بالا خانے کو آنکھوں سے ٹٹول رہے کہ شاید اوپر کھڑکی میں کوئی اشارہ کر جائے یا پھر کوئی دلفریب واقعہ۔ ہمیں کوئی بلائے اور ہم جو بے مقصد گھومنے آئے تھے تو کسی مقصد سے کھنچتے چلے جائیں۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوا، بس کسی کسی مکان کے دروازے پر میلے موتیے کے گجرے ٹنگے نظر آئے ۔ یہ اکا دکا باہر دروازوں کی سلاخوں پر ٹنگے ہیں، جن میں سے اکثر گزشتہ روز کے معلوم ہوتے ہیں۔ گو ہم اب تک کچھ دیکھ نہیں پائے تھے پر پھولوں کے یہ گجرے دیکھ کر فرہاد نے میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ ہم نے سوکھے پھولوں اور بو کے بل بوتے پر طے کر لیا کہ یہ مکان، طوائفوں کے کوٹھے ہی ہیں۔ فرہاد اتنی دیر بعد پہلی بار بولا،

"محسوس کرو، یہ جو فضا ہے ۔ یہ ان کوٹھوں کا خاصہ ہوتی ہے ۔ خوشبو، یہ وقت اور جگہ۔۔۔”

اس کا لہجہ ایسا خمر والا تھا کہ میں نے خوب کھل کرپھر سے سانس کھینچی اور خیال کو جیسا سن رکھا تھا، ایک روایتی کوٹھے کے اندر تک دوڑا گیا۔ روایتی کوٹھے میں جہاں ایک کھلے دالان میں گاؤ تکیہ لگا کر ناچ گانے کی محفلیں منعقد ہوتی ہوں گی اور ہر جانب روشنی اور خوشبو پھیلی ہے ۔ پھر خیال اس دالان سے اڑاتا ہوا پچھلے کمروں تک بھی لے گیا جہاں دیواروں کے پیچھے مخملیں بستروں پر کبیرہ گناہوں کی غلیظ پوٹلیاں بھری جاتی تھیں۔

خیال ٹوٹا تو ذہن غلاظت سے بھر گیا تھا مگر شکر یہ ہے کہ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں، فضا ہلکی ہو رہی ہے اور خوشبو گہر رہی ہے ۔ یہاں اس کے علاوہ محسوس کرنے کچھ بھی تو نہیں۔

اگلا موڑ چوک سا تھا۔یہاں چہل پہل اور بھی سوا ہے ۔آمنے سامنے کے مکانوں کے بیچ میں چھوٹا سا مرکز یہ چوک محلے کی بیٹھک معلوم ہوتا ہے ۔ کئی ایک بچے یہاں وہاں دوڑتے پھر رہے ہیں اور راستے میں آگے پیچھے چلتے کئی لوگ آ جا رہے ہیں۔یہیں، کئی مردوں کے بیچ گھری ایک جواں عمر لڑکی چلی آ رہی ہے ۔ بانکی سی، بیس بائیس کی عمر میں یہ ناری سانولی سی ہے ۔ چہرہ تخمی آم جیسا اوپر کو ابھرا ہوا اور ٹھوڑی کے قریب ہلکا سا چپٹا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ نقوش سنگھار کی قلم سے واضح کیے ہوئے ہیں جس سے آنکھیں بڑی اور ہونٹ باریک ہو کر نمایاں نظر آتے ہیں۔ روشن آنکھیں معمولی سی جھکی ہوئی ایسے حرکت کرتی ہیں کہ حیا کے اندر اردگرد نظر رکھ رہی ہوں۔ ہونٹ گہرے لال سجے ہوئے ہیں جو مُسکنے کے سبب تھرتھراتے محسوس ہوتے ہیں۔ خفیف مگر بیچ میں کہیں کھلتی ہوئی مسکراہٹ کی وجہ سے بھرے ہوئے تازہ گالوں کے گرد گولائی میں مستقل، خط مسلسل سا گر رہا ہے جیسے شفاف چشمہ جاری ہو۔ ایک ادا سے سر کو ایک طرف یوں جھکا رکھا ہے کہ تنی ہوئی گردن، لمبی صراحی جیسی اور عریاں نظر آتی ہے ۔ اس کو اگر پشت سے دیکھیں تو یہ اور بھی واضح ہو جاتی ہے ۔ گھنی زلفوں کو چوٹی سے سمیٹ کر ایک پھندنا سا بنا رکھا ہے ۔ اس پھندنے کو دائیں کندھے سے نیچے لپٹا کر یوں گرا رکھا ہے کہ جیسے کوئی سیاہ زہریلی ناگن ڈال کے اوپر سے بل کھاتی لٹکتی ہے اور اک ذرا جنبش پر یہ چھاتی پر سیدھا ڈنک مارنے کو لپکے گی۔ اوڑھنی کے نام پر پتلی سی دوپٹی ہے جو بائیں کندھے پر اس طرح ٹکا رکھی ہے کہ سینے پر پھیل کر چھپانے کی بجائے ابھاروں کو مزید نمایاں کر دیتی ہے ۔ کھلے گلے کے تنگ جامے پہنے چست جسم والی یہ ناری شام کے دھندلکے میں ایک سانچی ہوئی جیتی مورت جیسی ہے جس کا بدن چلتے ہوئے ایسے لہک رہا ہے کہ کمر سے نیچے کولہے ، ہر اٹھتے قدم پر گھوم کر واضع ہو جاتے ہیں۔ سبب اس کے جس گھیرے میں یہ آگے بڑھ رہی ہے ، دیکھنے والوں کے اندر ہیجان کے چھینٹے اڑ رہے ہیں۔ مرد اس کو مسلسل تاڑتے ہوئے چل رہے ہیں اور واضع طور پر اگر اس کا جسم مرکز ہو تو گھیر چہار پھیر مردوں کی ہوس سے بھرپور نظروں کا گھیرا اس کے وجود کے ساتھ چپکا ہوا آگے بڑھ رہا ہے ۔ نظروں کا بس نہیں چلتا ورنہ اس نار کے بدن کی حرارت سے نظروں میں چنگاریاں شعلے بنی ہیں، ان سے اس جسم پر چپکے کپڑوں کا آخری چیتھڑا تک جلا ڈالیں اور گداز بدن کو کچر کچر کاٹ کھائیں۔ گلی کے منہ پر کھڑی عورتوں کی پہنی گھٹیا خوشبو کے برعکس اس نار کی صرف جسم کی باس ہے ۔ خیال یوں ہے کہ اسے خوشبو کی حاجت ہی نہیں ہے ، اس کا بدن خود خوشبو کا جھونکا سا ہے ۔ ہاں، خوشبو پہننے کی ضرورت شاید کل صبح رہے جب رات بھر بھرے گدگداتے جسم کی باس کھرچ کھرچ کر اس میں بدبو بھر دی جائے گی۔

فرہاد کی طرح میری توجہ بھی اس نار سے تب ہٹی جب مورت دوسری جانب مڑ گئی۔ مردوں کا آدھا جتھا اس کے ساتھ ہی مڑ گیا اور کچھ آگے بڑھ رہے ۔ ہم اس جانب گئے جدھر موتیے اور اگر بتی کی گڈمڈ خوشبو گہری ہوتی جا رہی ہے ۔ اب خیال یہ ہے کہ اس بو کے پیچھے اگر ہم چلتے رہیں تو سیدھا طوائفوں کے کوٹھوں میں جا ٹکیں گے ۔ شوق دو چند ہوا جا رہا ہے ۔جیسا سنتے آ رہے ہیں کہ کئی گلیاں ہوں گی جن میں چہل پہل کچھ ہٹ کر ہو گی۔ حرام زاد لونڈے پان چباتے گھوم پھر رہے ہوں گے اور ساز کی محفلیں بس جمنے ہی والی ہوں گی۔ اوپر بالاخانوں میں گھنگھرو اور طبلے بجتے اورجیسے منٹو کہتا ہے کہ سر پہ تیز بلب جلا کر جوان ناریاں متوجہ کرتی ہوں گی۔ امید یہ ہے کہ کچھ برپا ہو یا کوئی حسیں قصہ بن جائے تو میں کبھی زیدی کو چائے کی محفل میں چت کر سکوں۔ اس نے اگر رنڈیوں کے ساتھ تاش کھیل رکھی تھی تو میں بھی چسکے لے کر بتا سکوں کہ کیسے ایک ناری نے اشارہ کیا تھا، یا پھر ہم کیسے نگاہوں کے گھیر میں گھر کر کوٹھے پر پہنچے تھے اور پھر۔۔۔

اب ہم خوشبو کے تعاقب میں اس طویل گلی کی نکڑ پر آ گئے ہیں۔ یہاں اگر ساتھ والی گلی میں آدھے صفرے کے جیسے واپس مڑیں تو سامنے ایک مکان ہے ۔ اوپر چڑھتی سیڑھیوں پر تیز گلابی روشنی پھیلی ہوئی ہے ۔ میں نے فرہاد کو کہنی مار کر متوجہ کیا تو وہ پہلے ہی اس مکان کا جائزہ لے رہا تھا، فوراً ہی حتمی سا فیصلہ سنایا،

"ہمم، یہ وہی ہیں۔ دیکھو، یہ گھر نہیں ہے ۔ گلابی روشنی میں جو اوپر کو سیڑھیاں چڑھتی ہیں یقیناً بالا کسی طوائف کا کوٹھا ہے "

اوپر جھانک کر دیکھا تو کچھ دکھائی نہ دیا، سننے کی کوشش کی تو ایک دوسرے کے سوا آواز نہ آئی۔ تیز گلابی روشنی دعوت دے رہی ہے تو خاموشی گویا روک لگا رہی ہو۔

اس کوٹھے کو بمشکل نظرانداز کر کے ہم گلی میں مڑ گئے ۔ دوسرے اور بعد دو مکان چوتھے پر بھی پہلے کے جیسے کوٹھے کا یقیں ہوا۔ اس گلی میں بو گہری ہے تو چہل پہل بھی اسی تناسب سے بڑھ رہی ہے ۔ گلی کی دوسری نکڑ پر رش کا دور نظر آتا ہے تو میں اور فرہاد بصد شوق تیز قدم اٹھاتے چلتے گئے ۔ خوشبو اس قدر ہے کہ اب ہمیں اپنے جسم تک کی سونگھ اوپری لگنے لگی ہے ۔ نیچے نالیوں کی بدبو تو بالکل دب کر رہ گئی۔ فرہاد گہرے سانس لے کر پھیلی خوشبو اور فضا میں حرم کا احساس اپنے اندر بھرنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ جیسے پچھلی گلی میں اس بانکی ناری سے ٹاکرا ہوا تھا یہاں اس جیسیوں کی قطار ہو گی۔جیسے جیسے رش میں گھستے گئے ، شوق اور کچھ ہونے کا احساس بڑھتا گیا۔

گلی کی نکڑ میں جہاں رش عروج پر تھا، وہاں پہنچ کر اپنے حال سے بھی جاتے رہے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ روشنی، رونق اور دبیز ہوتی خوشبو کا منبع حرم کی طوائفوں کے کوٹھے نہیں بلکہ امام بارگاہ کے باہر، زیارت پر سینکڑوں اگر بتیاں جل رہی ہیں۔ کئی مرد، عورتیں اور بچے جمعرات کی شام میں جوق در جوق بڑے اہتمام سے پنجے پر موتیے کے ہار چڑھا رہے ہیں۔ طبیعت مکدر ہو گئی اور دل بجھ سا گیا۔

تبھی میری نظر گھوم کر زیارت کے چبوترے پر گئی جہاں کالے جوڑے پہن کر اور سختی سے سر ڈھانپے جوان لڑکیاں نہایت ادب سے سر ٹکائے منتیں مانگ رہی ہیں۔ میری نظر بے اختیار ان کی کالی شلواروں پر جا کر ٹک گئی ہے ۔ منٹو یاد آ رہا۔

اور فرہاد جسے میں ساتھ گھیر لایا تھا، بوئے حرم میں لپٹے کھڑا ہے پر پھر بھی مصر ہے کہ طائفے حرم چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

٭٭٭

(اپریل، 2013ء)

چادر اور چاردیواری

شفی کے باڑے میں چوری ہوئی تو تھانے سے چوتھے ہفتے ہی کورا جواب مل گیا۔ حصے پر پلی بھینس اور تین بکریاں تو گئی ہی تھیں، تھانے کچہری کے چکر اور گاؤں کے عذر یوں کی مدارت میں جمع پونجی، میلی چاندی کا تاری زیور اور ڈیڑھ ماہ کا اناج بھی خرچ ہو گیا۔ اس سارے قضیے میں اسے تازہ مزدوری کا موقع بھی نہ ملا تو نتیجہ گھر میں کھانے کے لالے پڑ گئے ۔ چور بیٹ کے علاقے سے دھمکے تھے اور واپس وہیں جا چھپے ۔ اب دریا کے ساتھ اور بیچ پاٹ کی خشکی میں پولیس انھیں تلاش کرنے سے قاصر تھی۔ قاصر تو تھانے والے رپٹ لکھنے سے بھی تھے ، بس علاقہ نمبردار کی سفارش کام آئی اور رپٹ درج ہو ہی گئی۔ جب شفی کی جیب میں ٹکا بھی نہ رہا تو تھانیدار نے اسے یہ کہہ کر کُوڑے منہ ٹرخا دیا کہ اطلاع ملی تو وہ خود اسے کہلوا بلائے گا۔ سرزنش علیحدہ سے کی کہ ڈیرے کی گھیر چار دیواری ہوتی تو نقصان سے بچت ہو سکتی تھی۔

شفی کا ڈیرہ بڑے بند سے خاصہ باہر دریا سے کوئی تین میل پر بسا ہوا تھا اور اس کے باپ دادا پشتوں سے یہاں بستا چلا آ رہا تھا۔ بڑا بند بارہ فٹ چوڑا اور اس کے دگنے اونچا، دبائی ہوئی مٹی کی دیو ہیکل دیوار معلوم ہوتا تھا۔ اس بند کے اندر ستر ہزار آبادی والا ایک شہر اور مال کے ریکارڈ میں داخل چالیس سے زائد دیہات آباد تھے ۔ نئی اور چھوٹی چھوٹی بستیاں اس کے علاوہ تھیں، جو کبھی کسی شمار میں نہیں رہیں۔ شہر کی سہولت کے لیے سرکار نے بند کے اوپر روڑی ڈال کر پکی سڑک بھی بنا دی تھی جو آبادی سے باہر چھکڑوں کے لیے متبادل راستے کے کام آتی تھی۔ اب کچھ سال ہوئے تھے ، دریا کی بدمعاشیاں پہلے سے بڑھ گئی تھیں۔ دریا ہر سال زمین کا کچھ رقبہ کاٹ کر خود میں بہا لیتا اور اپنے پیچھے چمکتی مگر بے جان ریت بھرتا جاتا۔ ذاتی زرعی وراثت یوں ہی غارت ہوتے دیکھی تو شفی کے باپ نے بھی دریا کے جواب میں اپنی بدمعاشی دکھائی اور دریا سے ہٹ کر سرکاری زمین ہتھیا لی۔ جیسا باپ، ویسے ہی بیٹے نے بھی اس حرام کی زمین پر کاشت جاری رکھی اور گھر بھر کے پیٹ کا جہنم حلال اناج اگا کر بھرنے لگا۔ جیسے تیسے ہو، شفی کی اپنے ہم عصروں سے اچھی ہی بسر ہو رہی تھی پر ذمے لگی کے حساب سے اس کی مشکلات ان سے پھر بھی کسی طور کم نہیں تھیں۔ اناج تو ہو جاتا تھا مگر ہر سال وہ اپنے ہاتھ سے سارا ڈیرہ تنکا تنکا کر کے اکھاڑتا اور مہینوں کڈے اور ڈھور ڈنگر سمیت سڑک پر گھٹیا چادر اور نام نہاد چار دیواری کے آسرے تمبوؤں میں گزارہ کرتا۔ جب دریا کے زور ٹوٹ رہنے کے دن آتے تو واپس آ کر گندم اگانے سے پہلے اپنا گھر الف سے دوبارہ کھڑا کرنے کا اچھا خاصہ جتن بھی کرتا۔ ایسے حالات میں تھانیدار کی ڈانٹ کا وہ کیا جواب دیتا کہ اس کے ڈیرے کے گرد چار دیواری کیوں نہیں تھی اور اس کے ڈھور ڈنگر کاہے کو ہنکائے گئے ؟

جب تک باپ زندہ رہا، یہ اس کا دایاں بازو تھا اور پھر دو بھائی بھی ساتھ تھے تو سالہا سال کی اس ہجر مشق میں کوئی کوفت نہ رہی۔ اب وہ اکیلی جان اور بھرے پرے گھر کی ذمہ داری اس کے کاندھے پر تھی۔ اس کے تئیں بیوی نرینہ اولاد نہ پیدا کر سکی کہ اس کو حوصلہ رہتا اور خود شفی کے بھائی بند بوجوہ گھر کی عورتوں کی ہی ناچاقی، علیحدہ ہو گئے تھے ۔ اس سارے کشٹ سے وہ خاصا نالاں تھا اور اب رہی سہی کسر چار ہفتے پہلے ہوئی چوری نے پوری کر دی۔ کہاں تک برداشت کرتا، اس کی کہو بس ہو گئی۔ وہ ایک عرصے سے بند کے اس پار بسنے کی خواہش تو رکھتا تھا پر اس واقعے کے بعد پختہ ارادہ باندھ لیا کہ کچھ بھی بن پڑے ، مر جائے پر اپنے ڈیرے کو بڑے بند کی حد میں لے جائے گا۔

بات صرف بیٹ کے کچے کی مشکلات کی نہیں تھی، خواہش اس لیے بھی زیادہ تھی کہ کچے کا متبادل، بڑے بند کے اندر اچھا خاصا بندوبست تھا۔ شہر اور بڑی سڑک نزدیک تھے ، آبادی بہتیری اور لوگ خاصے امن میں بس رہے تھے ۔ چوکی والوں کو بھی آبادی کی وجہ سے خاصہ خیال رکھنا پڑتا تھا اور موسمی بیماریوں کے ٹیکے لگانے والے بھی تنگی سے ہی سہی، بالآخر آ جاتے تھے ۔ یہ سب نہ بھی ہو تو یہ کیا کم تھا کہ بڑے بند کی دیوار نے دریا کی بدمعاشی اور بیٹ کی تنگی کو روک لگائی ہوئی تھی، سرکاری سہولتوں اور چوکی کے امن کو اپنے اندر کے علاقے میں ٹھہرایا ہوا تھا۔ شفی جب بھی شہر جاتا اور بڑے بند کے اس پار آنا ہوتا تو ادھر کے باسیوں سے اسے خدا لگی کی جلن ہوتی۔ جل مرنے کی بات بھی تھی کہ یہاں سال میں دو فصلیں کاشت کی جاتی تھیں۔ جن میں ایک سے پیٹ اور دوسری سے جیب بھر رہتا تھا۔ پھر بندوبست کا کاشتکار جو بھی کاشت کرے ، سرکار بخوشی قرضہ دے دیا کرتی۔ شہر کے بیوپاری اسی وجہ سے ادھار پر بیج، کھاد اور چھڑکنے کو دوائیں پیچھے لگ کر بیچا کرتے تھے ۔ شفی جیسے کچے کے خواروں کو تو یہ سب نقد میں بھی مشکل سے اور کاشت کے موسم کے بالکل آخر میں جا کر کہیں منت ترلہ کرنے کے بعد میسر آتا تھا۔ سبب اس کے ، پچھیتی کاشت کرنی پڑتی اور خرچہ بڑھ جاتا۔ پھر یہاں کھالے تھے ، جن میں سرکاری پانی تھا جس کے لیے بس کدال سے کھالے کا منہ کھرچو اور کھیت میں پانی جاری ہو جاتا۔ کچے میں تو ٹیوب ویل کا خرچہ ہی اتنا ہو رہتا تھا کہ شفی جیسے قسمت کے کھوٹوں کے لیے فصل کو تین سے زیادہ پانی پلانا ممکن ہی نہیں تھا۔ یوں فصل پیاسی اور بچے بھوکے رہ جاتے ۔ فصل کی سہولت تو تھی ہی، ویسے بھی دیکھو تو لوگ خوشحال اور مطمئن نظر آتے تھے ۔ عورتیں بھرے جسموں والی اور چاندی سے لدی پھندی۔ پھر یہاں کے بچے ، بیٹ کے بچوں کی طرح گندے مندے ہی تھے پر فرق یہ تھا کہ یہ گول گپے جیسے پھولے ہوئے اور ان کے پیٹ خالی نہیں تھے ۔ شفی کے لیے بند کے اندر کے بندوبست میں پناہ تھی، امن کا آسرا تھا اور دنیا مثال جنت تھی۔ اور یہ سب بڑے بند کی چہار دیوار کی بخشی نعمتیں تھی۔

بند کے اندر جا بسنے کا شوق اتنا پلا کہ شفی نے اپنی ساری فراغت ترک کی اور شہر میں مزدوری ڈھونڈ لی۔ فصل کے ایام کے علاوہ کوئی دن خالی نہ چھوڑا۔ سویرے منہ اندھیرے گھر سے روانہ ہوتا اور دن بھر کی کڑی مزدوریوں میں گھل کر رات گئے واپس لوٹنا ہوتا تو جسم چکی میں پسا چورا محسوس ہوتا۔ تھک ٹوٹ جاتا مگر شوق اس کو دوڑائے جاتا رہا۔ ڈیڑھ سال کی جان توڑ مزدوری کے علاوہ شفی نے اپنے پورے کڈے کا پیٹ کاٹا، تول مول میں حسب حال ڈنڈی بھی ماری اور دو فصلوں میں جتنی ممکن تھی بچت بھی کر ڈالی۔ مگر آخر میں جب حساب سامنے رکھا تو عیاں یہ ہوا کہ اس سب کے باوجود بڑے بند کے اندر کا آسرا ممکن نہ تھا۔ اس کے اندازوں کے برعکس بند کے اندر زمین خریدنی اتنا سہل نہیں تھا۔ آخر جب مجبور ہوا تو اپنے دادے کا طریقہ اپنانے کا فیصلہ کر لیا جو شفی کے باپ نے ترک کر دیا تھا۔ شیدے ماچھی سے سُن گھن لے کر ایک رات اسی کی کشتی میں سوار ہوا اور دریا کے پاٹ میں خشک کچے پر اتر گیا۔ رات دونوں دریا کے ساتھ ہی ریت میں دبکے رہے اور جوں ہی تیسرے پہر موقع ملا، چوہدری سلامے کی تین بھینسیں عارضی باڑے سے ہانک کر کشتی میں لاد لائے ۔ باپ اور دادے کی اپنائی عادت پھیرنے پر شرمندگی تو تھی پر کیا کرتا، بڑے بند کے اندر کا سکھ بھی تو آسان نہیں تھا۔ خود کو تسلی یوں بھی دی کہ وہ باپ کی آل اولاد کے آرام کے لیے ہی تو منکر ہوا تھا ورنہ اکیلے نفس کو بیٹ کے کچے میں بس رہنے میں کیا دشواری ہوتی؟

شفی نے بڑے بند میں ڈیڑھ بیگھے زمین کا انتقال اپنے نام چڑھایا تو ڈھور ڈنگر چوری ہوئے دو سال بیت چکے تھے ۔ شفی کے لیے بڑے بند کے گھیرے میں زمین کا ٹکڑا ملنا جنت میں یاقوت سے بنا فرش عطا ہونے جیسے تھا۔ ڈیڑھ سال کی سخت مزدوری، باپ کے منہ کی بات رد کرنے کے علاوہ بند کے اندر کے زمینداروں کو زمین بیچنے پر راضی کرنا اچھا خاصہ تردد تھا۔ اور پٹواریوں کی جھڑکیاں اور مال کے منشیوں کا تحکم اس تمام کے علاوہ۔ اس نے تو اچھی خاصی قیامت کا صراط بھگتا کر یہ زمین حاصل کی تھی۔ اپنی جنت پائی تھی۔ اب بڑے بند کی دیوار کے اندر امان مل گئی تھی۔ بس چھوٹی سی خلش تھی کہ جتنا پیسہ وہ خرچ کر پایا تھا اتنے میں یہ زمین کا ٹکڑا اسے آبادی کی آخری بستی سے بھی کوئی ڈیڑھ میل دور ملا تھا۔ شفی اس بابت خود کو یوں سنبھالا دے رہا کہ بڑے بند کے اندر کوئی بھی چیز کم مایہ نہیں ہوتی۔

یہاں وہ اپنے ارمانوں کا مستقل مکان کھڑا کر سکتا تھا اور ایسا کر بھی دکھایا۔ اپنے ہاتھ سے بنیادیں کھودیں اور اس پر جہنم جیسی تپتی دوپہروں میں بھی یک تنہا کچی اینٹیں دھوپ میں سُکھا کرخود ہی دیواریں چُنیں۔ اندر کی لیپا پوتی اور سدھار میں بیوی اور بیٹیوں نے ہاتھ بٹایا۔ چھت تاننے کو ایک گدھا گاڑی کا انتظام کر کے بیٹ سے چُن کر پرانے ڈیرے کا کاٹھ اٹھا لایا۔

اپنا گھر اگر جگرے کا حوصلہ بنا تھا تو بڑے بند کی دیوار کا شفی کے دل میں گھر تھا۔ یہ دیوہیکل دیوار، جیسے کہ ظاہر تھا امن اور حفاظت کی ضمانت تھی اور یہ بھی تاڑ رکھا تھا کہ بڑے بند کے اندر کی جتنی آبادیاں تھیں اس میں ہر مکان کی اپنی چار دیواری کھنچی ہوئی تھی۔ بیٹ کے کچے میں اس کے کڈے کا تو ایک بھی کواڑ تک کورا نہیں تھا۔ بیٹ میں چار دیوار کا کوئی فائدہ رہا ہو یا نہیں، یہ ممکنات میں بہرحال نہیں تھا کہ ہر سال فصل سے پہلے وہ بمشکل کوٹھے کی دیواریں چن پاتا تھا، چار دیواری کہاں سے اٹھاتا؟ بندوبستی لوگ بے شک خود کی ہوشیاریوں کے سبب سہولت سے بستے ہوں پر یہ بات طے تھی کہ ان کی زندگیوں میں یہ امن بڑے بند کی دیوار نے ہی کرامت کیا تھا۔ بڑا بند لوگوں کے دیوتا جیسے تھا۔ یہ دیوتا اگر ان بندوبستیوں کے لیے کچے کی مشکلات کے سامنے تنا کھڑا تھا تو وہیں ہر سہولت اٹھائے سامنے کورنش بجا رکھتا تھا۔ جس کے لیے یہاں کا ہر گھر دیوتا کی شکر گزار پرستش میں چاردیواری ضرور کھینچتا ہے ۔ یہ چار دیواری بند کو ہر بندوبستی گھر کی بلی تھی، جو ان گھروں کو پہلے سے بڑھ کر تحفظ بخشتی تھی۔ بند کے اندر اس رواج کے پاس میں شفی نے بھی نئے گھر کی چاردیواری کھینچنے کی سوچ لی۔

جیسے بندوبست میں زمین کا شوق اس کے لیے کٹھن تھا ویسے ہی گھر کی چار دیواری بھی لوہا نگلنے جیسا ثابت ہوا۔ دونوں ہی کام اس کی اپنی مرضی تھے ۔ اپنی مرضی ہمیشہ اپنے ساتھ تلخی لاتی ہے ۔ رغبت تو تھی مگر شکرگزار ہونا اور بے مصرف نظر آنے والی سہولت پر خرچنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جیسے شیطان بہکاتا ہے ، من بھی بھاؤلا ہو جاتا ہے ۔ شکر گزاری کی چاردیواری گو مزید امن دیتی، یہ عبادت جیسے مشکل ہی محسوس ہوئی۔ ایک بار پھر گھر کا پیٹ کاٹنا پڑا، چند ماہ کٹھن مزدوری اور اب کی بار فصل کی بجائے اپنی بوڑھی ماں کے علاج میں ڈنڈی مار گیا۔ اس کا اپنا گھر جیسے تیسے تعمیر ہو گیا تھا اور اس میں جو بھی ٹیڑھ تھی ہوتی رہے ، یہ ریت رسم اور عبد عباد کا معاملہ تھا تو اس کے لیے ایک پورا ہفتہ مستری بھی بلایا کہ کوڑ کونجھ رہنے کی گنجائش نہ رہے ۔ یوں گھر کے چار چہار آٹھ فُٹ اونچی دیوارکھڑی ہو گئی۔

پھر آرائش کی باری آئی تو وہ بھی نرالے ڈھنگ سی کی۔ بیوی اور بیٹیاں گارا گھول کر اسے تھماتیں اور وہ دیوار پر نرمی سے لیپ تھوپ کر گھنٹوں لکڑی کا گرمالا پھیر کر برابریاں کرتا رہا۔ چونا گھول کر جہاں باقی گھر میں ایک پرت پھیرا تو چار دیواری پرخصوصاً اندر سے دو اور باہر تین پرت گرائے ۔ اسی طرح مزید شوق میں باہر دھاریاں ڈال کر ڈیزائن بھی بنائے ۔ بڑے شہر کے مکانوں کی نقل میں بازار سے کانچ کی ڈیڑھ سینکڑا بوتلیں اٹھا لایا اور کرچی کرچی، ہاتھ پر موٹی ربڑ کے دستانے چڑھا، ساری کانچ چار دیوار ی کی موٹائی میں گاڑھ دیں۔ نا تجربہ کاری کے سبب ہاتھ جا بجا چر کر لہولہان ہو گئے اور پھر کئی ہفتے درد سے کراہتا معذور ہوا پھرتا رہا۔

چند ماہ میں گھر ہر لحاظ سے مکمل تھا۔ یہاں ماں کے لیے علیحدہ کمرہ تھا۔ اپنی بیوی کے ساتھ اپنے کمرے میں سوتا تھا اور بیٹیوں کے لیے تیسرا بڑا کمرہ الگ تھا جو دن میں بیٹھک بنا دیا جاتا۔ ہر کمرے کا اپنا کواڑ بھی تھا اور برآمدہ ہر وقت جھاڑو پھیر کر اور پانی چھڑکے تازہ رہتا تھا۔ شفی نے گھر کے اندر کچھ پھل دار درختوں کی قلمیں اور کونے میں مرلہ دو پر سبزیاں بھی بھی اُگا لی تھیں اور ادھار پر نلکا بھی کھدوا لیا۔ ڈھور ڈنگر کے لیے بھی باڑے کا چھپر علیحدہ بنا، جس کے اندر کھرلی اور پانی کا تالاب سیمنٹ سے بنوایا۔ اب شفی پوری توجہ سے فصل کو وقت دیتا اور شہر قریب تھا تو مرضی سے مزدوری کرتا۔

یہ سب کرامت تھی۔ عطا تھی۔ یہ سب تقدیرکا لکھا اور تدبیر کا کھرچا ہوا اسم تھا۔ بڑے بند کا سایہ اور چار دیواری کا تحفظ اس کی زندگی میں امن اور سکون تو لایا ہی، ساتھ دولت بھی آنے لگی۔ سال بھر بعد ہی گھر کے باڑے میں دو بھینسیں بندھی تھیں اور کئی بکریاں ممیا رہیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس نے اپنی بیٹیوں کے لیے کچھ جہیز کا سامان، گوٹے والے کپڑوں کے جوڑے اور اپنی حیثیت کے مطابق چاندی بھی جڑوا لی تھی۔ شفی کو خود کی قسمت پر ناز تھا اور جاننے والے اس کی عقلمندی کی مثالیں دیا کرتے ، یہ سب سوچ سن کر شفی کا اندر پھول کر کُپا ہو جاتا۔

جب تدبیر، تقدیر سے برتر لگنے لگے تو ایسا ہو ہی جاتا ہے ۔ روز و شب یوں ہی بسر ہوتے جاتے تھے مگر ایک رات جب دوسر پہر گزرتا ہو گا، شفی اپنے کمرے میں بیوی سے لپٹا سویا پڑا تھا کہ باہر کچھ آہٹ سنائی دی۔ بیٹ کا کچا ہوتا تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا مگر جب سے چاردیواری ضامن ہوئی تھی، یہ عادت بھی آئی گئی ہوئی۔ دوسرے کمرے سے ماں نے پکار کر ہوشیار بھی کیا پر شفی نے توجہ نہ دی۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ شفی کے کمرے کی سانگل ایک چھناکے سے چھپکے کے ساتھ اکھڑی اور کواڑ دھماکے سے چار وا ہو گیا۔ یہ دونوں بوکھلا کر جاگے توکیا دیکھتے ہیں کہ دو نقاب پوش کمرے میں گھسے چلے آرہے ہیں۔ دائیں طرف والے نے بندوق آگے کو جھکا کر گگھو کی طرح گھمائی۔ بندوق کا دستہ شفی کے کندھے میں ہتھوڑے کی طرح رسید ہوا اور یہ کراہتا ہوا فرش پر پیٹھ کے بل گر گیا۔ نقاب پوشوں نے پھر اسے اوپر ابھرنے کا موقع نہیں دیا اور پیٹ پیٹ کر ادھ مویا کر دیا۔ اسی دوران ایک نقاب پوش نے گھگھیاتی ہوئی بیوی کو چوٹی سے پکڑ کر کونے میں دبکا لیا اور اس پر بندوق تان، ہاتھ پاؤں باندھے اور منہ میں اسی کی چادر ٹھونس دی۔ ایک ایک کمرے کی تلاشی لی گئی اور جو کچھ ہاتھ آتا رہا، گتھیوں میں بھرتے گئے ۔

حملہ آور حلیے اور چال ڈھال سے بیٹ کے کچے والے دکھتے تھے پر جس اطمینان سے وہ لُوٹ مار کر رہے تھے اور یوں بے دھڑکے گھر کے اندر گھسے ، یہ کسی طور بھی ان کا طریق نہیں تھا۔ کچے فرش پر پٹے ہوئے جسم سے ٹیستے درد کو نگلتے ابھی شفی اسی نکتے پر وچار کر رہا تھا کہ برابر کے کمرے سے بڑی بیٹی کی دبائی چیخ سنائی دی۔ اسے سنتے ہی بیوی تڑپ کر اٹھی تو اس کے سر میں بندوق کی نال سے وار ہوا۔ یہ وہیں گر پڑی اور لگتا تھا کہ اب نہ اٹھ سکے گی۔ اس سے جھپک کر شفی نے پھر دیکھا کہ بوڑھی ماں کو ایک نقاب والے نے لڑھکا کر برآمدے میں آن ڈھایا ہے ۔ بیوی کا حال دیکھ کر اس نے اٹھنے کی ہمت ہی نہ کی مگر جب نقاب پوشوں نے باہر کھلے صحن میں اس جگہ پر جہاں باہر کے لیے ٹیلوں پر سے بھی چاردیواری کی پوری اوٹ تھی، اس کی دوسری بیٹی کے ساتھ باری باری زبردستی کرنے کو چادر کھینچی تو شفی اک ذرا اوپر کو ابھرا اور ویسے ہی واپس گرایا گیا۔ آنکھوں کے سامنے اب تارے ناچ گئے اور ہلنے سے بھی رہ گیا۔ جوں جوں بیٹی کی چیخیں اونچی ہوتی گئیں، ہولے ہولے اس کے دل کی دھڑکن جواب دیتی چلی گئی اور بالآخر سینے کو تھامے شفی کا جسم ایک طرف کو لڑھک کر ٹھنڈا ہو گیا۔

اگلی صبح لوگوں نے دیکھا کہ شفی کے گھر میں کچھ ڈھور ڈنگر توویسا ہی کھرلی سے لگا چر رہا ہے مگر زنانہ چادروں کے چیتھڑے چاردیواری کی کانچ میں الجھ کر تار تار ہو رہے ہیں۔ جو سکون اور تحفظ شفی نے چار دیواری سے اپنے آنگن میں تانا تھا، پچھلی رات اس سے کہیں زیادہ بے خوف ہو کر نقاب پوش گھر کی عزت سے چادریں کھینچ کر اسے نوچتے رہے ۔

٭٭٭

(اپریل، 2013ء)

چوکیدار کاکا

درمیانہ قد، کُوٹا جسم اور گہرا رنگ جو وقت کے ساتھ جھلس کر مزید پک گیا تھا۔ بکھری اور بے ہنگم داڑھی جیسے تاریں، دائیں آنکھ کانی، سامنے کا دانت ادھ ٹوٹا اور ٹانگ پر کتے کے کاٹے کا دھبہ۔ سر پر ہمیشہ میلی ٹوپی ٹکائے ، کئی جوڑے کپڑے پہنتا، جن میں اوپر میلا اور نیچے ستھرے جوڑے ۔ پھر گرمی یا سردی، میلی کچیلی ہی واسکٹ پہنے چوکیدار کاکا ہیئت سا نظر آتا تھا۔ پیدائش آزادی سے خاصی پہلے کی تھی، سو عمر کا اندازہ نہیں۔ ہمارے یہاں وہ چھتیس برس رہا، جس میں میری اٹھارہ برس عمر اس کو گواہ رہی۔

چوکیدار کاکا کے بارے واقعہ یوں ہے کہ ابا میڈیکل کالج سے فارغ ہو کر سرکاری بھرتی ہوئے تو سال دو میں ہی اکتا کر نوکری چھوڑ دی۔ اپنے ہسپتال کی تعمیر شروع کروائی تو رات کے چوکیدارے واسطے کسی کی ضرورت تھی۔ یہ جوان، جس کا تعلق کاغان کے مضافاتی علاقے جرید سے تھا اور مزدوری واسطے نشیب کے علاقے میں آن بسا تھا، بھرتی کر لیا۔ سادہ دور تھا، تھوڑے پر خوش رہنے کی لوگوں کی خصلت تھی۔ یہ تعمیر کے دوران دلجمعی سے اپنی ذمہ داری نبھاتا رہا اور جب ہسپتال کی تعمیر ہو گئی تو اس نے ابا سے رخصت چاہی۔ ابا نے اجازت نہ دی کہ ہسپتال کے بعد گھر کی تعمیر شروع ہونے کو تھی۔ یوں چوکیدارہ چند سال مزید جاری رہا۔

اب کا دور ایسا ہے کہ دہائیاں گزر جاتی ہیں اور معین سی آشنائی تک نہیں ہو پاتی۔ تب لوگ دو چار سالوں کے تعلق میں اتنے پختہ ہو جاتے تھے کہ جس در سے عزت اور کریمت ملتی بس اسی کے ہو رہتے ۔ چوکیدار کاکا بھی اسی گھر کا ہو رہا۔ پہچان کے لیے چوکیدار کا نام پختہ پڑ چکا تھا۔

چوکیدار کاکا کے رہنے کے لیے گھر کے ساتھ کچا مکان مخصوص تھا۔ اس مکان کا ایک ہی کمرہ تھا، جس کے باہر برآمدہ اور ڈیوڑھی جس پر ایک تندور دبا تھا۔ ڈیوڑھی بالن کی لکڑیوں سے بھری رہتی اور تندور کا کڑا علیحدہ سے جگہ گھیرے ہوئے تھا تو کاکا کے لیے ایک برآمدہ اور کمرہ بچ رہتے ۔ کمرے میں روشندان نہ تھا تو تاریک سیاہ اور اندر تعمیراتی لکڑی کے بڑے برگ سموئے تھے ۔ اس کمرہ میں چوکیدار کاکا کے سوا کسی کو جانے کی سعی نہ تھی۔ اس کمرے کے پچھلے کونے میں سکھوں کے ساتھ جنگ کے ایک شہید کی یادگار تھی، جس کا احاطہ ایک چبوترے پرطے تھا۔ لوگ کہتے کہ یہ شہید رات میں، اور بالخصوص جمعرات کی رات میں سفید نورانی کفن پہنے وہاں آتا ہے اور چبوترے پر بیٹھا رہتا ہے اور فجر سے پہلے جیسے آیا، ویسے پیدل چلا جاتا ہے ۔ دوسرا، سنتے تھے کہ اس کمرے کی چھت میں ایک سانپ کا بسیرا ہے ۔ سانپ تو کبھی نظر نہیں آیا بس سال بھر میں اس کی ایک کھوچلی سی مل جاتی تھی یا کبھی کبھار اندر برگوں میں شپ شپا سی آہٹ سنائی دیتی جیسے کوئی شے لپک کر رینگ گئی ہو۔ عرصے تک مشہور رہا کہ یہ سانپ چوکیدار کاکا نے پال رکھا ہے جو اسے کچھ زک نہیں پہنچاتا اور یہ بھی اس کا برا نہیں کرتا۔ برآمدے کے ایک کونے میں کچا چولہا تھا جو خیر خیرات میں دیگ کا پانی گرم کرنے کو استعمال ہوتا تھا یا پھر شدید سردی میں چوکیدار کاکا تاپنے کو آگ کا بندوبست کرتا۔ چولہے کے بالکل پاس چارپائی بچھی رہتی جس کے سر کی جانب کپڑے کی تھیلی لٹکائی رہتی، جس میں چلم کا تمباکو بھرا ہوتا۔ بستر ایسے تھا کہ رات میں تہہ در تہہ تلائیاں اور اوپر اوڑھنے کو رضائی پھیل جاتیں اور صبح ہوتے ہی سویرے تڑکے کو چوکیدار کاکا یہ سب لپیٹ کر گولائی میں کس کر باندھ دیتا اور اسے چارپائی کی پائنتی پر ٹکا دیتا۔ اس سے اتنا بڑا گولہ بن جاتا کہ پائنتی کے سوا بھی آدھی چارپائی بھر جاتی۔ اس کسے ہوئے بستر کے بیچ وہ اپنے تئیں استعمال کی قیمتی چیزیں جیسے آئینہ، کنگھی، تمباکو کی اضافی تھیلی، جمع کیے ہوئے بے مصرف میلے کاغذوں کے ڈھیر، چند روپے اور دو ایک اور تھیلیاں جن میں بھی الا بلا بھرا ہوتا، عین درمیان میں ٹھونس دیتا۔ یہ اس کی تجوری جیسی محفوظ جگہ تھی کہ کسا بستر اس کے علاوہ کوئی کھول ہی نہ سکتا تھا۔ ہر گرہ ایسے ڈالی ہوتی کہ ول پے ول گھما پھرا کر سوتر کی رسی جلد آزاد نہ ہوتی اور رسی کی ہر تان ایسے تنی ہوئی کہ ریشے صاف ایک دوسرے میں پیوست نظر آتے ۔ پھر لکڑی کی پرانی میز تھی، جس پر میل کی تہیں چڑھتی رہتیں۔ میلا کچیلا سلور کا جگ گلاس اور میز کے ساتھ نیچے کچے فرش پر بھی چلم کی باس والا پانی، تمباکو کی پھانک اور ماچس کی جلی تیلیاں بکھری رہتیں۔ چلم کی نلکی کو دھاتی تاریں لپیٹ کر جفت کر رکھا تھا اور تمباکو کی کُپی اور نیچے پانی کی ڈولی پر طرح طرح کی رنگین کپڑے کی دھاریاں بنا کر ایسی لٹکائی ہوتیں جیسے گلی میں گھومتا فقیر اپنا تُومبہ سجاتا ہے ۔ چلم کی تمباکو والی کُپی پر لمبے سخت دھاگے میں ماچس کی ڈبیا پروئی رہتی، جو زائد تیلیاں ٹھونسنے کی وجہ سے پھول جاتی جس کی وجہ سے ایک آدھ دن میں ہی نئی ماچس پرونی پڑ جاتی اور نئی ماچس کا پیٹ پہلی والی سے زیادہ ابھر آتا۔ گرمیوں میں یہ چارپائی، میز، جگ گلاس اور تمباکو کی پھانک اوپر گھر کے برآمدے میں پھیل جاتیں اور یہ وہیں پسار رہتا۔

اس کی ذمہ داریاں کبھی کسی نے طے نہیں کیں۔ گھر سے باہر اس نے سب کچھ خود ہی اپنی ذمہ داری بنایا ہوا تھا۔ بازار سے سودا سلف ڈھوتا، لکڑیاں چیرتا، گیس کے سلنڈر بھروا کر لاتا، چکی سے آٹا پسواتا اور اگر ہاری گدھا لانے میں دیر کرتا تو خود ہی پیٹھ پر لادے بڑبڑاتا ہو ا اپنی پیٹھ پر ڈھو دیتا۔ فصل کی خبر کو زمینوں میں بلا ناغہ چکر لگاتا اور روز کے روز ہاری کی شکایت کرنا اس کے دلپسند مشغلوں میں سے تھا۔ گھنٹوں کھیتوں میں کھپ کر ساگ چُنتا اور گھر میں گٹھڑیوں کی گٹھڑیاں پڑی سوکھتی رہتیں۔ بچے گھر میں روتے تو باہر اس کی گود میں کھلانے کو بجھوا دیے جاتے اور یہ انھیں کوٹھے کی منڈیر پر اٹھائے گھومتا رہتا۔ وہ بچے جو گود لائق نہ تھے ان پر بھی برابر نظر رکھتا۔ مٹی کھاتے ہوئے اس نے مجھے ایک دن پکڑا تو پہلے منع کیا، دوسرے دن چماٹ رسید کی اور تیسرے دن میں اس کو دیکھتے ہی بھاگنے لگا تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اگلے ہی روز میٹھی گولیاں لا کر مجھے کھلائیں کہ اس سے میری مٹی کھانے کی عادت چھوٹ جائے گی۔ علاوہ اس سب کے ، اس کی ایک ذمہ داری اور تھی جس سے مجھے سخت چڑ تھی۔ تپتی دوپہروں کو ہم چھپ کر ندی میں نہانے جاتے تو یہ ہمیں ڈھونڈ کر زبردستی واپس کھینچ لاتا۔ چونکہ واپسی پر پٹائی یقینی ہوتی تو ہم رستے میں اس سے جان چھڑانے کو بھلے اس کی داڑھی نوچ ڈالیں، کاٹ لیں یا سر پر مکے برسائیں یہ بے غم اپنے کندھے پر لادے یا بغل میں دابے مطمئن چلتا جاتا اور ہم بونوں کی طرح اس کے ساتھ لٹکے ، چیختے اور ہاتھ پیر چلاتے رہ جاتا۔

ہماری مدرسے سے واپسی عشاء کے بعد ہوتی۔ کھانا کھا کر ہٹتے تو چوکیدار کاکا کے لیے کھانا تھما دیاجاتا۔ یہ گرمیوں میں باہربرآمدے اور سردیوں میں نیچے کوٹھے میں پڑا رہتا۔ آہٹ سنتے ہی اٹھ بیٹھتا۔ یہ کھانا کھائے جاتا اورہم اس کے پاس بیٹھے اس کے منہ، زبانی گھڑے ہوئے قصے سنتے ۔ دن بھر کے بعد رات کا یہ ایسا وقت ہوتا تھا جب اس کی بابت ہمارے من میں کچھ بھی نہ رہتا۔ دن سکول کے باغیچے میں اس کا زبردستی کھانا کھلانے پر غصہ، دوپہر میں ندی سے واپس گھسیٹنے کا کرودھ اور نہ ہی شام میں گھر سے باہر قدم رکھتے ہی اس کی جاسوس نظر کا ڈر۔ رات کے اس پہر یہ بھی مزے مزے سے قصے سناتا۔ جیسے ایک کردار "بربانڑو” کا تھا۔ اس کے بقول یہ ایک بلا تھا جو کہیں سے بھی زمین کو پھاڑتا ہوا کسی کی بھی شکل دھارے ، دہاڑ لگاتے نکل سکتا تھا اور آن کی فان کسی کو بھی ہڑپ کر جائے ، اسے فرق نہیں۔ کالے سیاہ بربانڑو کسی سے نہیں ڈرتا تھا اور بعض اوقات وہ اشارہ کر کے سامنے کے پہاڑ کی جانب انگلی اٹھاتا کہ بربانڑو کا ٹھکانہ وہاں کالے جنگل میں ہے ۔ میں بربانڑو کے ذکر سے سہم جاتا اور اس کا طریق بیان ایسے ہوتا کہ میری آنکھیں نیچے فرش کے چپے چپے کا طواف کرتیں کہ بربانڑو یہاں سے برآمد ہو گا یا وہاں سے نکلے ۔ جیسے جیسے قصہ آگے بڑھتا، میں سمٹ کر اس کے ساتھ جڑتا جاتا۔ بعض راتوں کو جب اندھیرا کچھ گہرا سا ہوتا اور زرد روشنی میں چوکیدار کاکا آگے کو جھک کر نوالے چباتے بات کرتا تو اس کی شکل بگڑ جاتی۔ خود اس پر بربانڑو کا گماں ہوتا۔ میں برتن وہیں چھوڑ کر اندر دوڑ لگا دیتا اور گھر میں دبک جاتا۔ اس پر وہ زور سے قہقہہ لگاتا تو آواز اندر تک گونج جاتی۔ روشن راتوں میں ہم اس کو چھیڑتے کہ "یہ جو بربانڑو ہر جا سے ابھر سکتا ہے تو کیا مسجد کا فرش بھی پھاڑ سکتا ہے ؟ خدا سے تو وہ ڈرتا ہی ہو گا ناں!” اس پر وہ تھوڑا کھسیانا ہو جاتا اور اپنی ٹانگ پر کتے کے کاٹے کا نشان دکھا کر ہمیں چمکارتے ہوئے سمجھاتا کہ یہ بربانڑو نے مسجد کے دروازے میں تب وار کیا تھا جب وہ باہر فرش پر قدم ٹکانے ہی والا تھا۔

اس کے منہ، مسجد کا صرف یہی ذکر سنا۔ اس کے ہاں، خدا کے گھر کی بس یہی برکت تھی۔ پھر بھی ایک چھوٹی تسبیح جس کی لڑی میل سے کالی سیاہ اورلکڑی کے منکے گھس گئے تھے ، اس کی جیب میں دھری رہتی۔ جیسے چوکیدار کاکا کا وجود تھا، ویسے ہی اس تسبیح سے بھی تمباکو کی بو کے بھبھوکے اڑتے رہتے ۔ دو ایک بار کے سوا کبھی میں نے اسے مسجد جاتے نہیں دیکھا۔ گرمیوں میں ایک بار، صبح سویرے اس کے من میں خدا جانے کیا آئی کہ مسجد جا پہنچا۔ فجر ادا کی اور واپس آیا تو اس کا پڑوسی سائیں کاکا جو پنج وقتی نمازی مشہور تھا، اس روز اس کی آنکھ نہ کھل سکی اور وہ جماعت سے رہ کر چھت پر سویا پڑا تھا۔ چوکیدار کاکا جو غالباً پہلی بار اتنی رغبت سے با جماعت فجر پڑھ کر آیا تھا، چارپائی کو زور سے ہلایا اور سائیں کو ٹہوکا دیا۔ اونچی آواز میں برا بھلا کہا کہ، "او سائیاں!تجھے ایمان کی کوئی فکر بھی ہے یا نہیں؟ یوں ہی مردار پڑا رہے گا یا جاگ کر خدا کی عبادت بھی کرے گا؟” سائیں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور چوکیدار کاکا کے تازہ ایمان افروز انداز پر پاس گلی میں گزرتے نمازی ہنس کر دوہرے ہو گئے ۔

ایسے ہی جب اس سے پوچھا جاتا کہ، "کاکا، تو یہ اتنے جوڑے کپڑوں کے کیوں پہنے پھرتا ہے ؟ صرف ایک جوڑا پہن، باقی سنبھال کر رکھ”۔ اس پر وہ نہایت سنجیدگی سے آگاہ کرتا کہ "کھلے پڑے رہ رہ کر دھول پڑتی ہے ، کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔ کیڑا ٹُک لگا سکتا ہے اور پھر چوری کا ڈر علیحدہ کا غم ہوتا ہے "۔ اس پر لوگ ہنس پڑتے اور وہ بس گھوریاں دیے جاتا۔

چلم کا شوق اتنا کہ ہر بیس منٹ بعد سلگا کر بیٹھ جاتا۔ ہم اس کے قریب کھڑے اس کو دیکھتے کہ کیسے غرق ہو کر وہ تمباکو ہتھیلی پر رگڑتا اور کُپی میں بھر کر ماچس کی ڈبیا سے سطح برابر کرتا اور اوپر کی پھانک نیچے گراتا۔ ایک ھاتھ سے نلکی تھامے ، اسے منہ سے جوڑ کر ماچس کی بھڑکتی تیلی کُپی کی سطح پر پھیرتا اور ایکدم نلکی سے دھواں کھینچتا تو چلم بُڑ بُڑ کرتی سلگتی چلی جاتی۔ منہ نلکی پر ٹکائے ، جب تیز تیز سانس لیتا تو اس قدر دھواں پھیلتا کہ جسم کا اوپری حصہ مرغولوں میں لمحے بھر کو غائب ہو جاتا اور نتیجتاً آنکھیں سُرخ ہو جاتیں۔ ہم نتھنوں سے دھواں نکالنے کی فرمائش کرتے تو وہ سانس کھینچ کر دھواں سینے میں جھونکتا اور آہستہ آہستہ نتھنوں سے دیر تک پھُوں پھُوں دھواں اڑاتا۔ ہم اس کو دیکھ کر ہنستے تو دھواں اڑاتے ہمارے ساتھ ہنسنے کی کوشش کرتا تو اس کی سانس اکھڑ جاتی۔ پھر پختہ مگر بے ضرر کھانسی دیر تک ایک رو میں جاری رہتی۔

خونی رشتوں میں ایسا نہیں تھا کہ کاکا لا وارث ہو۔ مہینے دو بھر میں یہ اپنے گھر چکر لگاتا اور تین چار دن بسر کر کے واپس آ جاتا۔ ماں باپ عرصہ پہلے چل بسے تھے تو ایک بھائی اور بھتیجے کا خاندان اس کا خون تھے ۔ کچھ زمین والدین نے وراثت میں چھوڑی تھی جس پر اگر چاہتا تو کاشت کر کے خود سے اپنا گزارہ کر سکتا تھا مگر جانے اس شخص کے من میں کیا آئی کہ ابا کے ایک کہے پر اس نے اپنی جائیداد اور گھر بار سب متروک کر دیا۔ کبھی شادی بھی نہیں کی۔

ابا سے اس کو نا معلوم کیسی انسیت تھی۔ ابا ہفتہ کی شام کو آتے اور اتوار کا دن گزار کر شام کو پھر لوٹ جاتے ۔ یہ ولی ہفتہ والے روز دوپہر سے تیاری میں جٹ جاتا۔ باہر کچے کوٹھوں پر صفائی کر دیتا، بیٹھک میں بار بار جاتا اور ترتیب دیکھتا کہ موجود اور سہی رہے ۔ شام پڑتے ہی جا منڈیر پر بیٹھتا۔ ہمیں بھی ابا کا انتظار ہوتا تو کاکا کے پہلو میں جا گھستے ۔ گھر اوپر چوٹی پر تھا تو شہر نیچے قدموں میں نظر آتا۔ دیر تک بیٹھنے سے خمار سا آ جاتا اور ہم ادھر ادھر اندھیرا تکتے ۔ تبھی جانے اسے کیسی خبر تھی کہ انتہائی وثوق سے چلاتا، "ڈاکٹر صاحب. روشنی ان کی گاڑی کی ہی ہے ۔” ہم مذاق اڑاتے کہ تین چار میل دور سڑک پر بھاگتی ٹریفک جس کی صرف روشنیاں نظر آتی ہوں، ان میں ایک گاڑی کی کیسی پہچان ہو سکتی ہے ۔ مگر ہمیشہ اس کا اندازہ درست نکلتا اور تھوڑی دیر میں اوپر گھرکی سڑک پر ابا کی گاڑی ھارن بجاتے مڑتی نظر آتی۔ یہ لپک کر پہنچتا اور گاڑی سے سامان اتار کر ڈھوتا، اور ہم ابا کو چھوڑ گاڑی سے چمٹ جاتے ۔

دوسرے دن شام تک یہ ابا کے ساتھ سائے کی طرح چمٹا رہتا، ابا جاتے جاتے اس کو کچھ رقم دیتے ؛ کتنی رقم، کبھی علم نہ ہوا۔ چلم اور تمباکو اس کی عادت تھی توابا اس کو علاوہ بھی کچھ پیسے دے دیتے ۔ یہ اگلا پورا ہفتہ اس رقم سے بازار میں چائے اڑاتا، تمباکو کی تھیلیاں بھرتا، ہم بچوں کو میٹھی گولیاں اور مونگ پھلیاں کھلاتا اور باقی کی رقم گھر میں خرچ کر دیتا۔ بہتیرا منع کرتے مگر یہ باز نہ آتا۔

ابا کے ساتھ یہ حکم کا پابند جن ہوئے رہتا تھا۔ وہ فوت ہوئے تو لوگوں کو میں نے روتے دیکھا، بعض نے بین کی اور کچھ بے حال ہوئے ۔ جنازے کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے میں نے اسے دھندلی آنکھوں لڑکھڑاتے ہوئے جاتا، بس جھلک سی دیکھا اور پھر تین دن یہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ چوتھے دن شام کے وقت کیا دیکھتا ہوں کہ جب راستہ اور قبرستان دونوں ویران تھے ، وہ ابا کی قبر پر بیٹھا ہلکے ہلکے رو رہا تھا اور قبر کی تازہ مٹی کو درمیان میں دونوں ہاتھوں سے تھپکیاں دیے جاتا تھا۔ میں دور سے اسے ویسا ہی مصروف چھوڑ کر واپس ہو لیا۔ بعد اس روز کے ، میں نے اسے کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا۔

ابا کی وفات کے بعد اس کا معمول ہو گیا کہ وہ ہماری خبرگیری کو ہفتے میں ایک بار ضرور سفر کرتا۔ مگر ابا کے بعد اس کی ہمت جیسے جواب دیتی چلی گئی۔ ہر چڑھتے دن کے ساتھ بڑھاپے نے جیسے در کر اسے گھیرا، اس کی مثال نہیں۔ جب بھی آتا اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ ڈھو کر لاتا۔ میں سکول سے واپس پہنچتا تو وہ اوپر بالکونی میں باہر کو کھاٹ ڈالے نست پڑا ہوتا۔ مجھے دیکھتے ہی اچک کر بیٹھ جاتا اور اپنی میلی واسکٹ سے میٹھی گولیاں، پتاسے یا بسا اوقات بھنی مونگ پھلی نکال کر ہاتھ پر دھر دیتا۔ میں اسے منع کرتا کہ اب میری عمر میٹھی گولیاں کھانے کی نہیں ہے تو وہ میری پیٹھ تھپتپھا کر ہنس رہتا۔ اب بڑھاپے کے سبب روز بروز اس کی صحت جواب دے رہی تھی اور جب اس کے بال، سب سفید ہوئے تو وہ زیادہ بیمار اور لاغر رہنے لگا۔ ایک تو پہلے ایک آنکھ سے معذور تھا پھر دوسری میں بھی روشنی کم ہوتی جاتی تھی، ہاں سنائی اسے اب بھی خوب دیتا تھا۔ ھاں وزن ڈھونے اور گھومنے سے وہ تب بھی باز نہ آتا تھا اور منع کرنے کے باوجود بازار میں الا بلا کھاتا رہتا۔ ایک روز اسے بخار اور پیچشوں نے آ لیا۔ دوا کرتے تھے تو وہ کڑکڑاتی سردی میں جا کر یخ پانی سے نہا کر آ جاتا۔ گھر میں ٹکا کر محدود کرتے تو بھڑ جاتا۔ یوں چوتھے دن ہی کہو تو پچک کر آدھے سے بھی کم رہ گیا۔

چند دن میں طبیعت تو قدرے سنبھل گئی مگر دیکھو اس کو کیا سوجھی؟ اپنے گھر کے چکر زیادہ کاٹنا شروع ہو ھیا اور ہر دوسرے روز اپنے بھائی بھتیجے سے ملنے پہنچ جاتا۔ اپنے خون کی یاد کے علاوہ اس کو ڈر تھا کہ وہاں اس کی جائیداد پر قبضہ ہو جائے گا۔ میں نے ایک روز پوچھا کہ "کاکا تجھے کیا حاجت ہے جائیداد کی؟ بندہ خدا، ہم اور ہمارا سب کچھ، تیری جائیداد ہی تو ہیں۔” اس نے جذب میں آگاہ کیا کہ وہ اپنی زمین بیچ کر میرے بڑے بھائی کے لیے دکان کھولے گا، اسے یہاں وہاں تعلیم اور نوکری کے لیے خواری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم اس کی بات پر ہنس پڑے اور دوسروں نے یہ سنا تو یہ جو اس کا خلوص تھا، پچھلی عمر میں سٹھیا جانا سمجھا کہ اب وہ بعض اوقات ادھر ادھر کی زیادہ ہانکنے لگا تھا۔ مثلاً ایک روز ذکر اقبال کا ہو رہا تھا تو چوکیدار کاکا نے لقمہ دیا، "ڈاکٹر محمد علامہ اقبال، بہت بڑا ڈاکٹر تھا۔ ناف کا علاج کرتا تھا اور اس کے لیے وہ کاغان تک جایا کرتا تھا۔” ایسی باتوں پر آ س پاس لوگ ہنستے تو وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پاتا، چڑچڑا جاتا۔

2002ء کا واقعہ ہے ، ابا کی وفات کو سات سال ہونے کو آئے تھے ۔ ایک روز دوپہر کے کھانے میں قدرے دیر ہو گئی تو بغیر بتائے بڑبڑاتا ہوا اٹھ کر باہر نکل گیا۔ میں کھانا لے کر نکلا تو وہ کھاٹ پر موجود نہیں تھا۔ بعد اس روز، چوکیدار کاکا کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس کے گھر خبر لینے گیا، اس کے بھتیجے کے مدرسے سے معلومات لیں اور تھانے میں گمشدگی کی رپٹ بھی لکھوا لی اور اک عرصے تک شناختی کارڈ پر جیسے درج تھا، محمد فریدون کو ہسپتالوں میں تلاش کرتا رہا، مگر اس نے نہ ملنا تھا، نہیں ملا۔ اور تو کچھ نہیں، اس کے یوں چلے جانے سے ایک چوبھ سی تھی جو دل کو اندر ہی اندر سے گلائے جاتی تھی۔ ایک احساس جرم تھا جو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔

تب، انھی دنوں ایک رات چوکیدار کاکا میرے خواب میں آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جس راستے سنا تھا کہ گیا ہے ، اسی پر دھیرے دھیرے ٹیک لگاتا واپس آ رہا ہے ۔ میں دیوانے وار دوڑ کر اس سے لپٹ گیا اور روتے ہوئے اس سے یوں چلے جانے کا گلہ کرنے لگا۔ اس نے مجھے کس کر بھینچ لیا جیسے وہ کبھی ندی پر تلاشتے ہی جکڑ لیا کرتا تھا، پھر میری پیٹھ سہلاتے ہوئے نہایت محبت سے گویا چمکارتے ہوئے بولا، "ارے ، میں یہیں تو ہوں۔ بس، چپ کر جا۔۔۔ بھلا ایسے بچوں کی طرح بھی کوئی رویا کرتا ہے ؟”۔ اور میری ہچکیاں تھیں کہ تھمنے میں نہ آتی تھیں۔

جاگا تو رو رو کر ہلکان ہو رہا تھا۔ اس خواب سے من پتی کے موافق ہلکا ہو رہا اور کچھ چین بھی آ گیا پر اب غور کرتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اٹھارہ برس اس کے ساتھ بیتا کر بھی وہ اجنبی ہی تو رہا۔ ہم جو کاکا سے آشنا تھے ، محمد فریدون کو کہاں سمجھ پائے ؟ محمد فریدون کو لوگ ہمارے گھر کی نسبت سے جانتے تھے ، چوکیدار کاکا کو کہاں تلاش کرتے ؟

بات اتنی سی ہے کہ چوکیدار کاکا حُب اور خدمت کی ایسی پود تھا جسے علاوہ اس کے کچھ سروکار نہ رہا۔ یہ مثال وادی کے جنگل کی طرح رہا جو رقبہ گھیرے بے مصرف سا نظر آتا ہے ۔ اس جنگل کی جوانی دھرتی کو غیر محسوس انداز میں سکھ بانٹتے اور زمین کی شان بڑھاتے بیت جاتی ہے جبکہ بڑھاپا جل کر سردیوں میں ٹھٹھرتوں کو گرماتے ہوئے کٹ جاتا ہے ۔ آخر کو بس راکھ بچ رہتی ہے جو زمانے کی مٹی میں بکھر کر یوں گندھ جائے کہ وجود تو کہیں باقی نہیں رہتا البتہ موجود تا دیر کھیتیوں کو زرخیز رکھتا ہے ۔

٭٭٭

(مارچ، 2013ء)

تئیس میل

اگر گاڑی کا انجن غوں غوں کرتا نکلنے کو بے چین تھا تو گاڑی کے اندر الگ ہڑبونگ مچ رہی تھی۔ سفر تئیس(23) میل بھر کا ہی تھا پر ہنگامہ گویا ہمیشہ سے برپا ہو اور یوں ہی جاری رہے گا۔ ویگن کا ڈرائیور پکی عمر کا، دھکم پیل سے واقف معلوم ہوتا تھا، جبھی اطمینان سے اپنی نشست پر بیٹھا سکون سے سگریٹ پھونک رہا تھا۔ گاہے بگاہے اپنے اردگرد نصب گاڑی کے رہنمائی والے آئینے ہلا جلا کر اپنے حساب سے برابر کرتا اور پھر سگریٹ کا کش لگا، چٹکی بجاتا پھر سے آئینوں کے ساتھ مشغول ہو جاتا۔ تھوڑا سُر میں آتا تو ہلکے سے گاڑی کے ایکسلریٹر کو داب دیتا اور گاڑی کا انجن کھڑے کھڑے غُوں غُوں کی آواز دے کر پھر سے بُڑبُڑ کرنے میں جُت رہتا۔

ڈرائیور، لوگوں کے ہنگامہ سے بے نیاز تھا تو ایسے کو تیسے ، لوگ بھی اس کے مشغولات کو خاطر میں نہ لاتے تھے ۔ یہی نہیں اس ویگن کی پندرہ سواریاں اس بات سے بھی بے نیاز تھیں کہ جس گاڑی میں وہ سفر کرنے جا رہے ہیں، آیا وہ میکانکی لحاظ سے چست ہے اور اس مشین میں کوئی تکنیکی خرابی نہیں۔ یہ بھروسہ کیے ، اسے ایسے ہی نظرانداز کیے اپنے ہنگامے میں مشغول تھے ۔

کوئی سامان چھت پر بندھوا رہا ہے تو دوسرا اپنی نئی نویلی دلہن واسطے ٹھنڈی برف کی ڈلیاں پسواشربت ڈھو رہا تھا۔ ایک کشمیری اپنے بچوں کی مچائی بین رونے سے بیزار ہو کر گاڑی سے ہٹ کر کھڑا تھا اور اس کی بیوی ایک طرف بچوں کو چمکارتی اور دوسری جانب اپنے سیاہ برقعے کو سنبھالنے میں خوار تھی۔ دو شرمیلے سے نوجوان لڑکے ٹکٹ خریدے بغیر ہی آن بیٹھے تھے جنھیں اڈہ منشی کے چھوٹے نے ڈانٹ کر نیچے اتارا اور ٹکٹ والوں کو حکم دے کر گاڑی میں سوار کرایا۔ دو لونڈے غالباً سیر سپاٹے واسطے آئے تھے اور بے وجہ شور سا مچا رکھا تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان کی نشست پر قہقہہ بلند ہوتا تو بالکل ان کی اگلی نشست پر براجمان بزرگ منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے ۔ سوائے اس سفید ریش بزرگے کے ، ایک سے دوسرے ، اور تیسرے کو چوتھے کی فکر نہ تھی۔ ڈرائیور جب ہلکے سے گاڑی کا انجن غراتا تو اندر باہر تمام سواریوں پر بھیڑ سی مچ جاتی کہ گاڑی اب روانہ ہوئی کہ تب ہوئی۔

خدا خدا کر، گاڑی میں سب بیٹھ رہے اور اڈہ منشی نے گاڑی کا حساب بے باک کیا تو تئیس (23) میل سفر کا آغاز ہوا۔ ایک تبلیغی نے بلند آواز میں سب کو سفر کی دعا سنائی اور گاڑی میں بعد اس کے ایک دم خاموشی چھا گئی۔ ہنگامہ ایکدم سے تھم گیا۔ سامان لپٹ کر اپنی جگہ پر چلا گیا اور سواریاں ایک سے دوسرے میں ٹھنسی گویا دعا کے ادب میں خاموش ہو گئیں۔ ہارن چنگاڑا۔ ڈرائیور نے پیچھے ایک نگاہ دوڑائی اور گاڑی لاری اڈے کے باہر جانے والے رستے پر آگے بڑھا دی۔

پہلا میل ایسے ہی طے ہوا۔ سوار تمام افراد خاموشی میں ڈوبے ، غرق دکھائی دیتے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر ایک اس بابت سوچ رہا ہے کہ وہ بالآخر اس سفر پر روانہ تو ہو چکے ہیں تو اس کے لیے انھوں نے کیا کیا کشت نہیں اٹھائے ؟ پندرہ لوگ،جن کا پس منظر مختلف تھا، سفر کا مقصد بھی جدا تھا، مگر جس دھکم پیل سے ہو کر وہ یہاں تک پہنچے تھے وہ ایک سا نہیں تھا۔ منزل بہرطور ایک ہی مقصود تھی اور اسی وجہ سے اکٹھے اس آہنی چھت کے نیچے جمع تھے ۔ یہاں تک پہنچنے میں ان کی کوششیں تھیں جو بالآخر بار آور ثابت ہوئی تھیں، مگر ہرسواری کا ہم نشست اس کو قسمت سے ہی ملا تھا۔فیصلہ کر، تدبیر کے اوزار چلا،وہ گاڑی تک پہنچ ہی گئے ۔حرام یا حلال جیسا مال تھا خرچ کر ٹکٹ تک خرید لیا مگر ہمسفر، تقدیر نے چنے ۔ اس میں وہ چاہتے تو کچھ معاملہ کر رد و بدل کر سکتے تھے ، دعا یا پھر ڈرائیور کے ذریعے اڈہ منشی کی منت کر کے اپنی من پسند سواری کے ساتھ تشریف تو رکھ سکتے تھے ، مگر یہ ضروری نہیں کہ لازماً ایسا ہو، تقدیر آخری حرف تھا۔ پھر نصیب، کچھ اصولوں کا بھی عمل دخل یوں تھا کہ بے وجہ بین ڈالتے بچوں کی ماں، بچوں سے چھٹکارا نہیں پا سکتی تھی۔ وہ اپنے نصیب لے کر گاڑی میں سوار ہوئی تھی۔ سیر سپاٹے والے دل سے چاہتے تھے کہ ان کو ناری جوان لڑکی کے پہلو میں بیٹھنا نصیب ہو مگر ظاہر ہے ، معاشرہ ایسا ہے تو یہ ہر گز ممکن نہیں تھا۔ تو، لے دے کر ناری کے بالکل پچھلی نشست پر بیٹھنے کا سامان کر دیا، جہاں سے اور کچھ نہیں تو کالی چادر سے جھانکتی گوری گردن اور پیٹھ کی جلد کو گرچہ دیکھ نہ سکتے تھے پر محسوس کر سکتے تھے ۔ اس حسین جسم کی باس اپنے نتھنوں میں سمو سکتے تھے ۔ڈرائیور کے پہلو میں بیٹھے فرنٹ سیٹ پر دو بڑی عمر کے اصحاب یہاں بیٹھنے کو اپنی اہمیت سے تعبیر کرتے ، گردن میں سریا چڑھائے محسوس ہوئے ۔

دوسرے اور تیسرے میل، لوگوں کے ماحول سے آشنائی ہوتے ہی پھر سے حرکت شروع ہو گئی۔ گاڑی کے شیشے چھپ چھپاک کھلنے اور بند ہونے لگے ، بچوں کے شور میں کبھی کبھار لے مدھم اور لونڈوں کے قہقہے تھمتے تو دو سیٹ چھوڑ بیٹھے تبلیغیوں کی انسان کے اس دنیا میں وارد ہونے کی وجہ پر ہو رہی بحث صاف سنی جا سکتی تھی۔ یہ گفتگو، خالص تبرک میں لپٹی کافور کی مشک جیسی ہے ۔ اور تبھی اگر کوئی کان لگائے رکھے تو لونڈوں کے آخری قہقہے کی وجہ بھی بتا سکتا ہے ۔ یہ اس لطیفے کا ذکر کر رہے ہیں جب ایک فاحشہ عورت کا کسی مولوی کو ایڈز میں مبتلا کرنے کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک ہی چھت تلے دو انتہائیں ایک ہی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

چوتھے میل پر کچھ دیر سے خاموش بچوں میں ایک ایک نے پھر سے آہستہ آہستہ بین کرتے ہوئے لے پکڑی۔ ماں اس کو بہلاتے بے بسی سے اس کے باپ کی طرف دیکھنے لگی جو سامان کو سامنے کی سیٹ کے نیچے گھسیڑنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ پیچھے کی نشست پر ایک جوان لڑکے نے مشورہ دیا کہ وہ سامان اوپر چھت پر رکھوا دیتے تو بہتر رہتا۔ اس پر کشمیری نے جل کر جواب دیا،

"سر پر لادے گھوم تو رہا ہوں، اب کیا خود میں گھسیڑ دوں؟”

نوجوان اتنے تیکھے جواب پر کچھ سیخ پا سا ہو گیا۔ قریب تھا کہ ان دونوں کے بیچ تلخی ہوتی، باقی کے مسافروں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا۔ بچوں کی ماں، شوہر کے سامان کو سر پر لادے پھرنے کا پیغور، طنز سمجھی تو بجھ سی گئی اور بعد اس کے بین کی لے تیز ہو یا معدوم پڑ جائے اس نے بچے چمکارنا بند کر دیا۔

اگلے چند میل، گاڑی فراٹے بھرتے ہوئے بھاگتی رہی۔ راستہ ہموار، حالات موزوں اور ڈرائیور نہایت مہارت سے انجن کی رفتار کے پرت کھولے جا رہا تھا۔ شہر سے خاصے باہر نکل کر منظر دلفریب ہونا شروع ہوا تو لونڈے ابھی سے سیر سپاٹے میں مشغول ہو گئے ۔ بچے فراٹے بھرتی گاڑی سے محظوظ ہونے لگے اور باقی افراد چونکہ بے غم تھے تو ان موضوعات کو چھیڑ کر بیٹھ گئے جن سے ان کا قطعاً کوئی سروکار نہیں تھا۔ یہ چھ آٹھ میل، کچھ ایسے بیتے کہ وقت کا کچھ اندازہ نہ ہوا۔ ایک لمحے کو تو ایسے لگا کہ فٹ سے بقایا سفر بھی یوں ہی طے ہو گا، طمانیت ہمیشہ ایسے ہی برقرار رہے گی اور حال جوں کا توں رہے گا۔ ہر سواری خوش تھی۔ یہاں تک کہ کنبے سے بیزار کشمیری اب سنبھل گیا تھا اور بڑھ چڑھ کر گفتگو میں حصہ لینے لگا۔ نوجوان جس نے سامان بارے لقمہ دیا تھا، کرودھ تھوک رہا اور ماں پر بچوں پر جانے کیسے محبت واپس در آئی تھی۔ یہ اب اپنی پوٹلی سے کھانے کی چیزیں نکال نکال بچوں میں بانٹتے جا رہی تھی۔ بچے بھی مزے سے میٹھی گولیاں، ابلی چھلیاں اور بھنے چنے چباتے ، اٹھکیلیاں کرتے گاڑی کی غُوں غوُں جیسا ہلکارے لے رہے تھے ۔ ڈرائیور، جوں کا توں سنجیدگی سے گاڑی بھگائے جا رہا تھا اور اس کو پیچھے کی نشستوں پر پھیلی طمانیت سے چنداں غرض نہ تھی بعینہ ویسے ہی جیسے اس کو پہلے کے ہنگام اور پھر خاموشی سے کچھ واسطہ نہیں رہا تھا۔

یہ تیرہواں میل تھا جب سڑک میں بل آنا شروع ہوئے ۔ گاڑی میں دھرے لوگوں اور سامان کا توازن کبھی یوں اور پھر دوسری جانب لڑھکنے لگا۔ جیسے جیسے گاڑی آگے اونچائی کی جانب بڑھتی جاتی تھی گاڑی کی رفتار دھیمی پڑتی رہی اور پھر نوبت رینگنے تک آ گئی۔ انجن جی جان کا زور لگا کر گاڑی اور مافیہا کو کھینچنے کی جست میں گلا پھاڑے جا رہا تھا۔ اوپر ہی اوپر چڑھتے ، بل کھاتے موڑوں میں کبھی دائیں تو پھر بائیں جھکاؤ آتا۔ وقت تھا گویا تھم سا گیا ہو۔ گاڑی کی فضا بوجھل ہونا شروع ہو گئی۔ بحث اب گھمبیر ہو گئی اور بات لعن طعن تک پہنچ گئی۔ وہ جو تھوڑی دیر پہلے تک شیر و شکر بات کیے جاتے تھے ، ایکدم سے حالات کو کوسنے دینے لگے ، اور کچھ نے سُر میں تال ملکی قیادت کو غلیظ القابات نواز کر جوڑی۔ بچے ، اب بین تو نہیں کر رہے تھے ۔ بس، مسلسل جھول اور پے در پے موڑوں کا اثر یہ ہوا کہ ابھی ابھی کھائی سوغاتیں ایک ایک کر کے قے کی صورت واپس اگلتے جاتے اور ان کا باپ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ڈرائیور سے منمنا کر کاغذ کی گتھیاں طلب کرتا اور بچوں کو قہر بھری نظروں سے دیکھتا جاتا۔ بچوں کی ماں کھسیانی سی ہو کر پوٹلیاں سامان میں اور کاغذ کی بھری تھیلیاں باہر ہوا میں اچھالتی رہی۔ لونڈوں کی دلچسپی منظر میں اب بھی برقرار تھی مگر اب وہ زیادہ توجہ سنگ میلوں پر دے رہے تھے ۔ اس رینگ پن سے ان پر کچھ بیزاری سی چھائی تو وہ بے چین سے ہو گئے ۔ جیسے ہی سڑک پر کوئی سنگ میل نظر آتا تو بیک وقت چلاتے ، جیسے ۔۔۔

"آٹھ میل رہ گیا!”۔

اگلی نشست کے بزرگ بڑبڑاتے اور یہ پھر سے چیڑ کے درختوں میں کھو جاتے ۔

"سات میل، اور بس!”۔ اب بزرگ بڑبڑائے اور ڈرائیور کے ساتھ براجمان صاحب نے جملہ کسا،

"مشٹنڈوں کو دیکھو، یہ نہیں سہہ پا رہے اور ارادہ اسی میل مزید سفر کا ہے ۔”

دائیں والے نے بالکل برا نہیں منایا اور گلا پھاڑ کر قہقہہ بلند کیا اور بیچ اس کے کہا،

"بزرگو، ان کھائیوں سے کیا ڈرنا۔ بس عادت نہیں ہے ۔۔۔۔”

آگے کی بات کی کسی کو بھنک نہیں لگی ورنہ وہ منہ نیچے جھکا کر دبی آواز میں پہاڑوں اور ان میں بسنے والوں کی شان میں حرام کے نطفے کا کچھ عمل دخل بیان کر رہا تھا۔

ڈرائیور کی سنجیدگی اس دوران دیکھنے لائق تھی، وہ اپنی سر دھڑ کی بازی لگا کر ان بل کھاتے موڑوں سے گاڑی کو صاف نکال لانے کو اپنی بھرپور کوشش کر رہا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کا دھیان بٹا نہیں اور منزل کھوٹی ہوئی نہیں۔ پندرہ سوار، تئیس (23) میل کے اس سفر کا یہ حال دیکھ، اپنے اپنے انداز میں واویلا کیے جاتے تھے مگر چھوڑ دینا ان کے بس میں نہیں تھا۔ جیسے گاڑی چیونٹی کے جیسے رینگ رہی تھی، ہر سوار بھی خود کو جیسے کھینچ کھینچ کر اس کے ساتھ پار کرا رہا تھا۔

انجن چنگاڑتے چنگاڑتے تھکا سا لگ رہا تھا اور ویسے ہی ہر سوار جیسے ہمت کا پلو چھوڑنے والا تھا کہ تب اٹھارہویں میل پر سب ہوا ہو گیا۔ چوٹی پر پہنچتے ہی گویا سب شانت ہو گیا اور ایک میل کا سفر اوپر کے میدان میں یوں طے ہوا کہ مثال خلا میں ہوں۔ ایکدم سے سارا غبار چھٹ گیا۔ وہ انجن جو لمحے پہلے چنگاڑ کر جان چھڑاتا معلوم پڑتا تھا، اب وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ ہوا کے تھپیڑے منہ پر ایسے لگتے جیسے لوری سناتے ہوں، چوٹی کے دونوں طرف کھائیاں تھیں اور منظر ایسا کہ دل مچل جاتا۔ جی چاہتا کہ اچھل کر اس سب کو خود میں سمو لیں۔ لونڈے جو اس واردات پر انگلیاں منہ میں دبائے بیٹھے تھے ، ان میں سے ایک بے ساختہ بولا، "سالی، لائف یہاں ہے ۔ ٹو فور سیون ہنی مون ہے ، ہنی مون!” دوسرے نے دم بخود کھڑکی سے باہر نکل کر چیڑ کے جنگل میں صاف شفاف ہوا پھیپھڑوں میں بھری تو واپس اس دھڑام سے نشست پر گرا، جیسے شرابوں کے کنستر انڈیل بیٹھا ہو۔ سیاحوں کی اس حرکت پر گاڑی میں اب کے ان کی بجائے باقی سواریوں کے قہقہے بلند ہوئے ۔ خود اعتماد لونڈے جھینپ سے گئے ۔

انیسویں میل پر ڈرائیور نے سگریٹ سلگا لی اور خراماں خراماں اترائی میں گاڑی اسی رفتار سے اتارنے لگا جس تیزی سے وہ اس چوٹی پر پہنچا تھا۔دونوں جانب کا فرق یہ تھا کہ جب اونچائی کے لیے یہ گاڑی رواں تھی تو کسی کو اس خمار، خلا کا علم نہ تھا جو چوٹی پر ان کے لیے تیار تھا، مگر اب آہستہ آہستہ جب یہ گاڑی نیچے ڈھلک رہی تھی تو ہر کوئی اس خمار، نشہ میں تھا۔ کسی کو بھی پرواہ نہ تھی۔ سب شرابور تھے ، اور دو میل کی اترائی نسبتاً زیادہ رینگ کر طے ہوئی پر پرواہ کس کو تھی؟ بچے اب نیند سے بوجھل، ماں کی زانوں پر سر دھرے ہوئے تھے ۔ جوان لونڈے جھوم جھوم کر ایک دوسرے کو سُر ملا کر واہیات گانے سناتے تھے اور باقی کی سواریاں دلچسپی سے انھیں جھومتے دیکھی جاتی تھی۔ مقامی سواریوں کی گردنیں تن سی گئیں کہ وہ کس جنت کے باسی ہیں اور بڑبڑاتا بزرگ جیسے اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہو۔

آخری دو میل بچ رہے تو گاڑی میں اداسی چھا گئی۔ انجن تک کی آواز اب جیسے مغموم سی تھی۔ منزل نہایت قریب آ گئی تھی اور گاڑی ایک میدان میں دوڑے جاتے ہوئے فضا کو مزید اداس کر رہی تھی۔ پاس بہتا دریا، میدان کے کھیت کھلیان، سامنے وادی کے برف سے ڈھکے پہاڑ اور درمیان میں لکیر سی سڑک پر ایک اداس انجن، پندرہ سواریوں کو منزل پر لے کر پہنچنے کو بڑھتا جاتا تھا۔ سواریاں جو اپنا اپنا مقصد لیے ایک ہی منزل کے واسطے سوار ہوئی تھیں اور سفر شروع ہونے پر ایک دوجے سے نالاں، ہنگام برپا کیے روانہ ہوئی تھیں اب افسردہ دکھائی دیتیں۔ ایک لونڈا، کھڑکی کے شیشے سے سر ٹکائے ٹکٹکی باندھے باہر دوڑتے منظر میں کھبتا جاتا تھا اور دوجا اپنے آگے بیٹھی ناری حسینہ کی پشت پر نظریں ٹکائیں بیٹھا تھا۔ سفر کے سارے دور میں کسی کو خبر نہیں ہوئی کہ کس کمال خاموشی سے اس پردیسی بابو نے ناری پر خود کو وار دیا اور اب جبکہ سفر ختم ہونے کو تھا تو منزل پر پہنچتے ہی ان کی راہیں الگ الگ ہو جائیں گی۔ بچے سو چکے تھے اور ماں سامان سمیٹنے میں مصروف تھی۔ باپ دھیما سا ہو کر دروازے سے لگ کر بیٹھ گیا تھا۔ پیچھے کی سواریوں میں کچھ سر اگلی نشستوں پر ٹکائے سوچ میں غرق تھیں تو باقی حسرت سے جیسے چوٹی کے حال کو یاد کیے جاتی دکھائی دیتی تھیں۔ دور برف سے ڈھکے پہاڑ، سب کے لیے یکساں سے تھے ۔ کئی پہاڑ، جن میں سے ہر ایک پر وہی حال اب بھی برپا تھا جو وہ دیر قبل محسوس کر کے آئے تھے ۔ حسرت یہ تھی کہ وہ ان کی پہنچ سے دور اور ناقابل حاصل تھے ۔

تئیس (23) میل کا سفر تقریباً مکمل ہونے کو تھا۔ پندرہ ہمسفر جن کا پس منظر جدا، مقصد علیحدہ اور منزل ایک تھی۔ کوئی دوسرے کو کچھ عطا کرنے جوگا کبھی نہیں رہا؛کسی نے ان تئیس (23) میلوں میں وصل کا مزہ چکھا تھا تو دوسرے نے اس سارے دوراں میں خاموشی طاری کیے رکھی۔ ایک باہر کے مناظر کے عشق میں مبتلا ہوا تو دوسرا منزل تک پہنچتے پہنچتے گاڑی کے اندر بٹتی محدود دانش سمیٹ چکا تھا۔ دو ایک بالکل آگے کی پرسکون نشست پر براجمان ہونے کے نشے میں گردن اکڑائے محروم رہے اور پیچھے کونے میں ہچکولے کھاتا ایک عاجز اس سب سے لطف اندوز ہو گیا۔ بچے ماں کی گود میں سہولت اورسکون جبکہ باپ کی آنکھ میں وحشت اور مجبوری، سب دیکھ کر سو بھی لیے ۔ بزرگ جیسے بڑبڑاتے سوار ہوئے تھے ویسے ہی بڑبڑ کرتے اتر بھی گئے ۔ڈرائیور، جیسا بے تعلق اور سنجیدہ سوار ہوا تھا ویسے ہی بے نیاز اپنا کام کر کے نکل گیا۔ کسی نے دوسرے کو کچھ عطا نہیں کیا۔ چاہتے ، نہ چاہتے ۔۔۔ گاڑی رواں دواں رہی، منزل پر پندرہ کے پندرہ ہنکائے ہوئے پہنچائے گئے ۔

اہم، وقت تھا جو سب کا بٹا۔ حال جو سب پر یکساں طاری ہوا مگر رد عمل، جدا رہا۔

٭٭٭

(مارچ، 2013ء)

ریل تال

"میں نے ریل پر سفر نہیں کیا پر اسے ٹھک ٹھک کرتے جاتے دیکھا ہے ۔” صفوت مجھے بتا رہا تھا کہ، "پھاٹک یا پھر سڑک کے پاس سے پٹڑی پر گزرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ملتان سے مظفرگڑھ کی جانب نکلو تو شیرشاہ بائی پاس پر ریل کی پٹڑی اور سڑک کئی میل تک ساتھ چلتے ہیں۔ ریل گزر تے ہوئے کئی بار اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا دی کہ اس کے ساتھ دوڑ سکوں۔ لمحہ بھر کو ایسا ہوتا ہے کہ ریل اور گاڑی ایک ہی رفتار سے چلتے ہیں اور پھر ریل کی پٹڑی مڑتی جاتی ہے ۔ آپ ایک جانب اور ریل دوسری طرف بڑھ جاتی ہے ۔” میں اکتایا سا اس کو سن رہا تھا، "ریل بڑی عجیب چیز ہوتی ہے ، پھس پھس کرتا انجن بوگیوں کے لوہے کو نیچے بچھے لوہے پر رڑھتا جاتا ہے ۔ تمھیں پتہ لنڈی کوتل یا پھر وہاں بلوچستان میں کوئی جگہ،وہاں ریل کے آگے پیچھے دو انجن نصب ہوتے ہیں۔ اگلا انجن کھینچتا ہے اور پچھلا دھکیلتا جاتا ہے ، تو ہی ریل پہاڑوں پر اوپر ہی اوپر چل سکتی ہے ،ورنہ تو انجن آگے نکل جائے اور ریل کی بوگیاں پیچھے لڑھکتی رہیں۔ مقصد پورا ہی نہ ہو اور نقصان۔۔۔۔”

” اوئے ۔۔۔ بھوتنی کے !” میں بالکل اکتا گیا تو ہتھے سے اکھڑا،”تو ریل پر کبھی سوار نہیں ہوا اور تفصیل ایسے بتا رہا ہے جیسے پہلی ریل تیرے باوا نے ہی روانہ کی تھی۔ بند کر یہ چُر چُر، مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔”

اسے ٹوک کر چائے کی پیالی میں نے واپس منہ سے لگائی تو دور کہیں ریل کی چھک چھک سنائی دے رہی تھی۔ کمرے میں بیٹھ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریل اسے نظر نہیں آئے گی پر پھر بھی وہ اچک کر کھڑکی سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے منہ بھر کر گالی دی تو جھینپ کر واپس میرے پاس آن بیٹھا۔ دیر تک ہم اکٹھے رہے ، وہ مجذوب سا چُپ بیٹھا اور میرا وجود اس کے لیے غلیظ گالی بنا اس کا منہ چڑاتا رہا۔

صفوت میرا ہم عمر ہی ہو گا۔ بانکا سا، جوان آدمی۔ ہم ایک سے تھے ، ایک جیسے خیال رکھنے والے مگر اس میں بڑی خرابی تھی۔ کسی بھی شے پیچھے لگتا تو جیسے خود اور وقت کو برباد کر نے کی حد تک پیچھے ہو لیتا۔ اس کو پرواہ ہی نہ ہوتی کہ دنیا اور بھی معاملات، اشیاء سے بھری پڑی ہے ۔ اس کے دماغ میں کچھ سما جاتا تو جیسے اسی کا ہو کر رہ جاتا۔ جیسے آجکل اٹھتے بیٹھتے اس کے سر ریل گاڑیوں کا سودا سمایا ہوا تھا۔ صبح سے شام تک وہ بس ریل کی باتیں کرتا رہتا اور ہر بار گھنٹہ دو گھنٹہ بعد مجھ سے غلیظ گالیاں سنتا تو کہیں جا کر اس کو چُپ لگتی۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ جی دار بندہ تھا تبھی ہم اکٹھے تھے ۔ کام ایک ہی دفتر میں تو اس لحاظ سے تقریباً دن کے چوبیسوں گھنٹے ساتھ بیتتے اور جلد ہی ہمارا ایک دوسرے سے طرز تخاطب آپ سے تو، تڑاک تک پہنچ گیا۔ ہم کوئی عرصہ تین سال سے ساتھ رہ رہے تھے اور میں نے ہمیشہ ایسا ہی دیکھا۔ بیٹھے بٹھائے اس کے دماغ میں کچھ سماتا اور پھر دنوں،ہفتوں اور بسا اوقات مہینوں وہ اسی کا ہو رہتا۔

ایک دن جب وہ ریل کی پٹڑی کے بیچ لگی لکڑی پر خدا جانے کتنی دور کی کوڑی ڈھو ڈھو مجھ پر انڈیل رہا تھا تو میں نے اس کو ٹوکا دیا،”ابے او،شکر کر تو کسی ناری حسینہ کے پیچھے کبھی خوار نہیں ہوا۔۔۔ یہی دیکھ ابھی، تیری ریل کی ماں کی آنکھ بارے ہم ہفتوں سے سن رہے ہیں۔ تب تو یہ ساری زندگی کا رولا ہو جاتا۔ اللہ معاف کرے ، تجھے کون برداشت کرتا؟”

صفوت نے آنکھ میچ کر کہا،”بچے ، تو مجھے کیا جانے میں تو تہہ تک سے نکال لاتا جس کے پیچھے لگ جاتا۔ اور دیکھ لیجیو،تیری بھابھی بھی ایسے ہی ڈھونڈ ڈھانڈ کر لاؤں گا۔پھر پھرتے رہیو، اپنے اس چہرے پر اور بھی نحوست اٹھائے ، تیری۔۔۔”تڑکہ لگا نے کو اس نے ساتھ چُن کر گالی بھی دے ڈالی۔ میں کمینگی سے ھنسی ھنس رہا۔

اس کا کہنا تھا کہ اس کا کبھی ریل سے واسطہ نہیں پڑا مگر اسے ریلوں سے بولو تو عشق ہو گیا ہے ۔ اب بھلے ریل سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ؟ مجھے معلوم تھا کہ میں اس سے پوچھوں گا تو وہ گھنٹوں ریلوں بارے بے مصرف معلومات مجھ پر اچھالتا رہے گا اور مجال ہے کہ مجھے میرے سوال کا وہ سیدھا سادہ جواب ایک آدھ فقرے میں دے ڈالے ۔ گھماتا پھراتا، ایک سے دوسری معلومات کو ساتھ جوڑتا۔۔۔ کہانی سی بنا کر آگے پیچھے پروتا ہوا سب کی سب باتیں بتاتا رہتا۔ اس بات کی قطعاً کوئی پرواہ نہ ہوتی کہ سامنے بیٹھا شخص شاید اس بابت واقف ہو گا یا اسے اس معلومات سے چنداں دلچسپی نہ ہو۔ صرف یہی نہیں، مثال اب کے اگر ریل سے اس کو پتہ نہیں کیا رغبت ہوئی تھی تو وہ ریل کو ایسے دیکھتا، اس بارے ایسے توجہ سے بات کرتا کہ کچھ پہلو تشنہ نہ صرف اس سے رہ نہ جائے ، بلکہ اس کا سامع بھی محروم نہیں جانا چاہیے ۔

کڑوا گھونٹ تھا مگر ایک دن میں نے جی کڑا کر کے اس سے پوچھ ہی لیا، "تو ریلوں بارے اتنا کاہے کو جی جلاتا رہتا ہے ۔ ریل ہے ، مسافر ڈھوتی ہے ۔ انجن بوگیاں کھینچتا ہے ، لوہے کی لمبی سی بدشکل گاڑی ہے اور کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے اس میں؟”

صفوت شاید سُر میں تھا تو گلا کھنکار کر بولا، "ہونہہ، تو کیا جانے ریل گاڑی کیسی پیاری چیز ہے ۔ تجھے اپنی شکل جیسے ہر چیز میں نحوست ہی نظر آتی۔ یہ بھلے جیسی ہو۔۔۔ دیکھ تو سہی کیسے صبر سے چھکا چھک چھکا چھک ایک ہی رو،اپنی ہی دھن میں چلتی جاتی ہے ۔بانک پن دیکھ اس کی، تم سڑک پر گاڑی میں جاؤ یا پیدل چلو۔۔۔ تم اس سے چال ملا سکتے ہو وہ تم سے کبھی چال نہیں ملائے گی۔” چونکہ اب وہ رواں ہو چکا تھا اور اس بار ریل کی خصلت پر بیان کر رہا تھا تو میں نے دلچسپی سے سگریٹ سلگا لیا، "ریل کی سب سے بڑی خوبی اس کی بے نیازی ہے ، وہ محبوب ہوتی ہے ۔ تم اس کے قدموں میں قدم رکھو گے اور یہ طے ہے ۔ میں اپنی گاڑی بھگا کر اس کی رفتار پکڑوں گا، وہ میری نہیں۔ پھاٹک آیا تو مجھے رکنا پڑے گا اسے نہیں۔ تم ہمیشہ اس کی زبان بولتے ہو اور وہ تمھاری زبان کبھی نہیں بولے گی۔” ادھ جلا سگریٹ مجھ سے ہتھیا یا اور مزید بولا، "ریل بانکی ہوتی ہے تو اس کی پرواہ کرنی پڑتی ہے ، پرواہ نہ کرو گے تو دیکھو، اس کے ساتھ سے محروم ہو جاؤ گے ۔ ہر چیز ناپ تول کر بالکل اسی کے تعدد میں ہر وقت تمھیں رواں رکھنی پڑتی ہے ، جیسے وہ خود ناپ تول کر چلتی ہے ۔”

اس کی باتوں میں دلچسپی تو تھی پر اب میں اکتا رہا تھا تو اس نے بھانپ کر بات ختم کر دی، "ریل کے ساتھ کبھی اسی کی رفتار سے چلو، اس کے رنگ میں رنگ کر تو دیکھو۔ ایکدم سے جیسے تم اور وہ ایک جان ہو جاتے ہو۔ تم بالکل ریل سا محسوس کرتے ہو؛ بے نیاز، بانکا، من موج۔چھکاچھک چھکا چھک۔۔۔ پُوووووں!”

اس کے منہ سے اس آخری احمقانہ ریل کی آواز پر میں نے اسے غلیظ گالی دی اور سگریٹ کا ٹوٹا جو اس نے نیچے فرش پر گرایا تھا، کوڑے کے ڈبے میں پھینکا اور محفل برخاست کر دی۔

یہ صفوت کا پاگل پن تھا۔ ہر شے جس میں اس کی دلچسپی ہوتی اس کو تہہ تک کرید کرید کر جانتا، اس بارے باتیں کرتا رہتا اور اب جیسے ریل بارے ایک فلسفہ گھڑ رکھا تھا ویسی ہی عجب خصلت باتیں کرتا رہتا جو کم از کم میں کبھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ریل میرے لیے ایک سہولت تھی مگر اس نے اسے خود کے لیے کیا سے کیا بنا لیا تھا؟ میں اس کی اس عادت سے بہت زچ رہتا۔ بات صرف سننے کی نہیں تھی، اس میں اتنا ہیجان برپا ہوتا کہ باقیوں کا جینا حرام کر دیتا۔ بھلے آپ اسے لاکھ سمجھاتے پھریں۔ وہ بسا اوقات مروت میں چوک بھی جاتا مگر باز کبھی نہ آتا۔ کتے کی دُم۔

تب ریلوں بارے ہی اپنی پرانی تال پھر سنائی۔ کہنے لگا، "کیا تم جانتے ہو ریل جیسا تم چل ضرور سکتے ہو، مگر زیادہ دیر اس کی رفتار میں رفتار نہیں ملا سکتے ۔ تم اس کے جیسے ہو سکتے ہو مگر زیادہ دیر یہ کیفیت برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ ایسا کرو گے تو منہ کے بل گرو گے ۔ بس، وہ چند لمحے ہی ہوتے ہیں جو تم اس کے جیسے ، اس کے تعدد پر گزار سکتے ہو، نہ کم اور نہ ہی زیادہ۔ کم گزارو گے تو تشنگی اور زیادہ کی کوشش میں منہ کی کھاؤ گے ۔” اب اس کی یہ بپتا کون سمجھتا؟

اسی روز وہ ملتان سے راجن پور جانے کو شام میں اکیلا نکلا تو میری گالیاں سن کر ہی روانہ ہوا تھا، تب بھی سر میں ریل کی تال الاپ رہا تھا۔ کوئی گھنٹہ بھر ہی گزرا ہو گا کہ ہسپتال سے پیغام موصول ہوا۔ صفوت حادثے کا شکار ہو گیا۔ دوڑا دوڑا ھسپتال پہنچا تو وہ شدید زخمی حالت میں ڈاکٹروں اور مشینوں کے رحم و کرم پر تھا۔ کوئی چھ گھنٹے تک میں کبھی باہر اور پھر اندر چکر لگاتا رہا اور جب رات گئے اس کی حالت کچھ سنبھلی تو مجھے بھی سنبھالا ہوا۔ اس کا ایک بھائی کے علاوہ کوئی نہ تھا جو بیرون ملک رہائش پذیر تھا۔ اس کو اطلاع کر دی گئی۔ دو دن تک میں اس کی دیکھ بھال کرتا رہا اور جب اس کو ہوش آیا تو میں اس کے سرہانے تھا۔ ڈاکٹر اس کا معائنہ کر کے نکلے تو میں اس کے پہلو میں جا بیٹھا۔

تب، اس نے بڑی ہمت جمع کی۔ باوجود میرے منع کرنے کے وہ رک رک کر بولا،

"ریل بھی، زیبا جیسی ہی نکلی!”۔

"زیبا کون؟”

مجھے نظرانداز کر کے پھر گویا ہوا، "زیبا بھی ایسی تھی، بانکی بے نیاز۔” سانس پھر جمع کی، "میں اس سا ہونے کی چاہ کرتا رہا۔ اس کے رنگ میں رنگنے کی۔۔۔۔۔” صفوت کھانسنے لگا۔ میں نے اس کے سرکو سہارا دیا اور پیٹھ پر ہلکے سے تھپتھپایا تو کچھ تھما۔ بولنے سے باز پھر بھی نہ آیا، "میں اس جیسا کبھی نہ رہ سکا۔ اس کی چال میں چلا تو مگر حال برقرار نہ رکھ سکا۔ وہ مجھ سے اپنا آپ کیونکر ہم آہنگ کرتی؟ ریل بھی، زیبا جیسی نکلی۔ ریل کے ساتھ بھاگا مگر وہ من موج، زیبا کی طرح اپنے ہی راستے مڑ گئی۔ میں پھر منہ کے بل گر گیا۔ میں سا۔۔۔”

اس کی سانس اکھڑ گئی۔ ڈاکٹر کو پھر سے طلب کیا اور کوئی دو گھنٹے بعد اس کی حالت سنبھلی تو بمشکل سلایا۔

صفوت نے پہلی بار مجھے گالی دینے جوگا بھی نہ چھوڑا تھا، اور اب جبکہ میں اس سے گھنٹوں بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے پہلی بار کوئی حقیقت مجھ سے بانٹی تھی۔ سیدھا جواب دیا تھا۔ میں اس کو تسلی دینا چاہتا تھا، اس کی حالت بانٹنا چاہتا تھا مگر افسوس اس رات وہ جو بمشکل سلایا گیا تھا، دوسرے دن ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوشش پر بھی نہ جاگ سکا۔

صفوت، ریل تال کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو گیا۔

٭٭٭

کنہار کا کنارہ

اوپر کے پہاڑوں سے بہتا ہے اور انھی پہاڑوں میں اپنے سے بڑے دریا میں جا گرتا ہے ۔ بہت شور مچاتا ہے تو اس کے قریب ہوں یا دور، نظرانداز نہیں کر سکتے ۔ اسے سننا بہت مشکل کام ہے ، اور پھر اسی کی رفتار سے اس کے ساتھ چلتے جانا اور بھی دشوار۔ اس کی دوستی اچھی اور نہ ہی دشمنی۔ ایسا کہیے ، زیادہ قریب ہوئے تو بہے نہیں، دور گئے تو جیے نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کنہار کسی کام کا نہیں، شور مچاتے ہوئے بس بہتا چلا جاتا ہے ۔ اکھڑ سا ہے ۔ اپنے قریب کسی کو پھٹکنے تک نہیں دیتا، کھیت اس سے سیراب نہیں ہو سکتے اور ہنگام دیکھو تو گویا ساری دھرتی سر پر دھرے پھرتا ہو۔ بہتا اس ٹھاٹھ سے ہے جیسے اس سا دوسرا کوئی نہ ہو ھا۔ غارت ہو کہ دریا ہونے کا قرینہ اسے ہے ہی نہیں، بپھر جائے تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا مگر پھر بھی لوگ ہیں کہ اس کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں۔

اب میں صرف برائی کیوں کروں، نظارے میں کچھ بھلا سا ہے تو لوگ تبھی اس کی جانب متوجہ رہتے ہیں۔ سویر ہوئی نہیں اور کئی من چلے اس کے کنارے ساتھ چشم سیوا کرتے ہیں۔ تنہائی پسندوں کی یہ شام میں پسندیدہ جا ہے تو جلوت کے مارے ، شور کے دیوانے سارا دن اس کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔ جو یہاں کے مقامی نہیں تو وہ سال میں جیسے تیسے ہو سکے ایک بار پروانوں کی صورت اس کی زیارت کو پہنچتے بالضرور ہیں۔ ان دنوں میں دیکھو تو ٹولیوں کی ٹولیاں کنہار کنارے کو آباد رکھتی ہیں۔ رونق بھلی معلوم ہوتی ہے اور یہ بل کھاتا ہوا، شور مچاتا اپنی ہی دھن میں دھنا جیسے جیسے یہ بہتا جاتا ہے لوگ اس کی چال سے مبہوت ہوئے بس اس کے کنارے بیٹھے اس کو تاڑتے رہتے ہیں۔ ہمارا کنہار بانکا سا ہے تو کوئی بھی اس موئے کو نظرانداز نہیں کر پاتا۔

بچپن میں کبھی اس کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وجہ گنوائی جاتی تھی کہ یہ قاتل کسی کو نہیں بخشتا اور بچوں کو تو بالکل بھی نہیں جانے دے ہے ، ان کو گھیر لیتا ہے ۔ جیسے اور، ویسے میں باغی۔ اس کے قریب جانے سے چُوکا نہیں۔ تپتی دوپہروں میں گھر سے نظر بچا کر نکلتا اور اس کی طرف دوڑ لگا دیتا۔ شام تک اس کے آس پاس کبھی یہاں اور تبھی وہاں، اب کے یہ پتھر پھلانگتے اور پھر پھیلی ریت میں لوٹتا اس کو شور مچاتے سنتا رہتا اور جب تھک ہار کر گھر لوٹتا، تو اس نافرمانی پر سزا کا حقدار ٹھہرتا۔ کنہار کے لیے خوشی خوشی لاٹھیاں کھاتا اور اگلی دوپہر پھر کنہار واسطے مچل کر دیوانہ وار کنارے پہنچ جاتا۔ خود کے قابل ہوا تو لاٹھیاں برسنا تو ترک ہوئیں مگر کنہار کا جیسے متنبہ کیا تھا، اس نے بخشا نہیں۔ میرا من شفاف لہکتی ہوئی بانکی لہروں میں اٹک کر رہ گیا۔

اس کا قصور نہیں، کنہار کنارے بیٹھ کر میں نے اس کی سفید جھاگ سے اٹھکیلیاں کی ہیں، ریت پر دراز ہو کر سگریٹ کے کش پر کش اڑائے ہیں اور اس کے دھلے پتھروں کی اوٹ میں اس سے راز و نیاز کیا ہے ۔ کنہار یاروں کا یار، دل کا دلدار اور میرے رازوں میں رازداں ہے ۔ یہ بے کار، بھلے کسی کام کا نہ ہو۔۔۔ میرا شریک بن گیا۔

ارے صرف یہی نہیں، میں نے محبت بھی تو کنہار سے ہی سیکھی تھی۔ محبوب کون ہوتا ہے ، کنہار کو دیکھ کر یاد آیا تھا۔

قصہ کچھ یوں ہے اک روز میں نے کنہار کنارے ریتلے بیلے میں دراز کیکر کی چھاوں تلے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے مخمور، ذاتی سا سوال کیا،

"میاں، یہ جو تم بانکے بنے پھرتے ہو اور فائدہ کسی کو دو ٹکے کا نہیں پہنچاتے ۔ لوگوں کو دیکھو کہ پھر بھی تیرے واری چلے جاتے ہیں۔۔۔ تو تیری بے نیازی اور یہ رویہ کچھ غیر سا نہیں؟”

کنہار جیسے شانے اچکاتا ہو، ٹھنڈی ٹھار لہر، بیچ کے ڈھلکے پتھر کے اوپر سے مجھ پر اڑائی اور فقط اتنا کہا،

"میں لوگوں بارے کیا جانوں، میں تو اپنے من کا موجی ہوں”۔

"تو ان کا محبوب ہے ؟”، میں نے ریت پر سیدھے بیٹھ کر سنجیدگی سے پوچھا تو وہ جھینپ گیا۔

خدا جانے اس معمولی بات پر اس کے من میں کیا سمائی؟ پورے تین دن تک بچوں کی طرح بے وجہ شور مچاتا رہا۔ اللہ غارت کرے ، کانوں میں پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ اور پھر اسی حالت میں چوتھے روز وادی میں وہ طوفان برپا کیا کہ سبھی عاجز آ گئے ۔ کنہار بپھر گیا۔ آبادیوں کو لتاڑتا، زمین کی مٹی کاٹتا گیا، درخت بہاتے پورے دو دن اور تین راتیں اس نے سب کو ہراساں کیے رکھا۔ میں بے یقینی سے بس اس کے یہ رنگ دیکھتا رہا اور اس کی اجنبیت کا کچھ بھی نہ کر سکا۔

اور جب سب شانت ہوا تو میں بجھا بجھا جا کر اس کے پہلو میں جا بیٹھا۔ کنہار نے اپنے کنارے پراتھل پتھل کر کے رکھ دیا تھا۔ اللہ کی پناہ، ایسی بے ترتیبی تھی کہ مجھے کنارے کا سارا نقشہ تک بھول گیا۔ من غصے میں بھُن گیا۔ اندازہ کرو، ساری عمر جس کنارے کے ایک ایک پتھر، ریت کی تہوں اور بیلے کے بوٹے بوٹے تک واقف تھا، دو دن میں سب غارت ہو گیا۔

خوب لعن طعن کر چکا تو یہ نہایت متانت سے میرے پیر گدگدا کر بولا،

"تو نے ایسا کیوں کیا؟”

اب یہ اس کی ادا تھی، خود اس کی محبت میں چور یا لہجے میں عاجزی، میرا دل پسیج گیا۔ سارا کرودھ ہوا ہو گیا اور من میں غصے کی جگہ بس ٹھنڈک بھر گئی۔ میں نے بے اختیار اس کی گیلی ریت سے لپٹا مار لیا۔ کنہار کی ہر دلعزیز ٹھنڈک میری ریڑھ کی ہڈی میں سرایت ہوئی تو میری گرمائش اس کے وجود کو پگھلا گئی۔ کنہار، دھاڑیں مار کر رویا اور جب من پنکھ کے جیسے ہلکا ہو چکا تو آہستگی سے ریت کی تہہ کے نیچے سے ٹھنڈی لہروں سے میری پیٹھ تھپتھائی اور تفصیل سے پوچھنے لگا،

"تو نے ایسا کیوں کیا، محبت کو میرے منہ پر کیوں لا کھڑا کیا؟” میں اس کی بات نہیں سمجھا تو ٹھہر ٹھہر کر سمجھانے لگا، "میں خوفزدہ ہو گیا تھا، سارا بانک پن ہوا ہو گیا۔۔۔ اس روز پوری رات بہتا رہا اور مجھے خبر تک نہ ہوئی کہ کب میرے اندر تلاطم برپا ہوا۔ خدا جانتا ہے کہ کیا ہوا اور صبح تک محبوب ہونے کا احساس میرے اندر اس قدر خوف بھر گیا کہ میں بے اختیار اپنے کنارے سے پھوٹ پڑا۔ تو بھی تو دیکھ، کتنا شور مچایا، تجھے پکارتا رہا مگر تو بھی تو لوٹ کر نہیں آیا اور میں نے ناحق لوگوں کو پریشان کر دیا، تو نے ایسا کیوں کیا؟”

میں لاجواب سا ہو کر چُپ چاپ اس کے پہلو سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے جسم پر لگی بھیگی ریت تک نہیں جھاڑی۔ یوں ہی واپس لوٹ آیا۔ سارے رستے تیز ہوا کنہار کی ریت کے ذروں کو سکھا سکھا کر گراتی رہی۔ اور جیسے ہی کوئی ریت کا زرہ سُوکھ کر میرے وجود سے نیچے گرتا ساتھ ہی میرا اندر بھی زرہ زرہ ہو کر بکھرتا چلا گیا۔ میں پورے دو ہفتے سامنا نہیں کر پایا۔ دور کہیں اس کا بس دھیما سا شور سنائی دیتا تھا اور بعض اوقات میں خود ایسا ماؤف ہو جاتا کہ خود کو نہ سن پاتا تو کجا اس کی آواز؟

پھر ایک روز ہمت مجتمع کی۔ گم سم، جاتے ہی اس کے یخ پہلو میں دھڑام سے گر گیا اور میرا پورا وجود اس کے لمس کی ٹھنڈک سے جمتا چلا گیا۔ یہ اس کا لمس تھا جس نے میری کنہار سے محبت پر مہر ثبت کر دی۔ میں کنہار سے دور نہیں رہ سکتا تھا، اور کنہار تھا کہ اس بات سے بپھر جاتا تھا کہ وہ میرا محبوب ہے ۔ ہم دونوں میں ہی محبت کو قبول کرنے کی ہمت نہ تھی اور محبت کو دیکھو تو وہ سامنے کھڑی ہمارا منہ چڑاتی تھی۔

تھک ہار کر نڈھال ہوئے تو کنہار ہی کہنے لگا،

"محبت ظالم ہوتی ہے ، کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اس سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔ ایک دوجے سے فرار کی سعی ہمیں برباد کر دے گی۔ تو خود کے اندر ہی اندر غرق ہو جائے گا اور میں ایسے ہی اپنے کناروں سے بپھر کر پھوٹتا رہا ہوں گا۔ ہمیں محبت کو قبول کرنا ہو گا۔ اس کو خود میں جگہ دینی ہو گی اور اس کے ناز اٹھانے ہوں گے ، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں”۔

میں بلند قہقہہ ہنسا تو وہ تھوڑا پریشان ہو گیا۔

"ہنس کیوں رہا ہے بے ؟” نہایت بھنا کر بولا تو میں نے اپنا سر ریت سے اٹھا کر نیچے کہنی سمو کر اس کی اٹھتی لہروں سے آنکھیں ملا کر بتایا،

"میاں، میری تو خیر ہے ۔ تجھ سے محبت ہے اور میں بندہ بشر سا ہوں۔ میرا خمیر ہی ایسا ہے تو مجھے محبت قبول کرنے میں کوئی عار نہیں۔ گھٹنے ٹیکنے میں شاید کچھ پس و پیش کروں مگر بالآخر قبول کر لوں گا، پگھل ہی جاؤں گا۔ اس اڑی کرنے والی محبت کے دامن میں گرتا چلا جاؤں گا۔ مسئلہ تمھارا ہے ، ایک تو تم اکھڑ ہو اور پھر محبوب ہو گئے ۔ تمھاری شان نرالی اور تم خاطر میں کسی کو نہیں لاتے ۔ مجھے ، تم پر ہنسی آتی ہے ، تمھارا کیا بنے گا؟” اس پر کنہار کا رنگ فق ہو گیا۔ سٹپٹا گیا اور پھر تھوڑی دیر میں سنبھلا تو یوں بول کر ہارا کہ،

"دیکھو، مجھے قبول کرنے دو۔ مجھے گھٹنے ٹیکنے دو۔ کہاں کا محبوب۔۔۔ میں تو خود تیری محبت میں چُور چُور ہوں۔ تجھ میں اور مجھ میں کچھ بھی تو فرق نہیں رہا۔ میں اکھڑ جل ہوں تو کیا ہوا اور تم زرخیز خاک سہی تو پھر بھی کیا؟ ہم محبت کے خمیر میں گندھ کر ایک ہو جائیں تو ایک ہی ہیں۔ بانکپن، میری خصلت ہے اور بقایا رہے گی۔ میں تجھ پر واری جاؤں گا مگر دنیا واسطے وہی نکٹھو مگر سحر انگیز رہوں گا۔ اس محبت کے واسطے ، تیری بات جدا ہے ۔ تیرے لیے اپنی خصلت سے ہٹ جانا بھی مجھے درست لگے ہے ۔” اس پر میں چونک رہا تو یہ مجھے ٹوک کر پھر بولا،

"مجھے محبت قبول ہے ، مجھے تو قبول ہے ۔ اور مجھے اپنا آپ قبول ہے ۔ اب مجھے اس سے خوف نہیں آتا۔ میں بے بس ہو گیا ہوں، بھاگ جانا کوئی حل نہیں، اس سے مزید خرابی ہو جاوے ہے ۔ تو مجھے ، اپنے رنگ میں رنگ گیا۔۔۔ میں تو میری جان اب اپنے اندر ہر دم تیری محبت کا سوندھ پن سموئے بہتا ہوں۔ میں ایسا ہی ہوں ورنہ تیرا کیا خیال ہے کہ لوگ مجھ سے نکمے پر واری کیوں چلے جاتے ہیں؟” مجھے لاجواب ہوتا دیکھ کر بھی وہ چُپ نہ ہوا۔ مزید کہنے لگا،

"میرے عزیز، ہر بار قبول کرنا مشکل رہتا ہے مگر گھٹنے میں تب ہی ٹیک جاتا ہوں جب کوئی میرے سامنے محبت لا کھڑی کرتا ہے ۔ اب تک تو بس کہو تو، تیرے لیے خود کو۔۔۔ ہر شے ، درست یا غلط سے بالاتر ہو کر تیار کیے جاتا تھا۔ مجھے قبول ہے ، مجھے تجھ سے محبت ہے !۔”

اتنا کہا اور اس نے مجھے گیلی ریت سے اٹھا کر اپنی یخ لہروں کے حصار میں بھینچ لیا۔ میرے جسم سے پھوٹتی حرارت اور اس کی لہروں کی میں دبی ہوئی محبت کی تھپکیاں ہم دونوں کو ہی دھیرے دھیرے شانت کرتی چلی گئی۔ میرا خاکی وجود کنہار کی شفاف آبی لہروں میں جیسے گُندھتا چلا گیا۔

میرے واسطے اب بھی کنہار یکتا ہے اور وہ محبوب سا ہے ۔ اب بھی کبھی کبھار بپھر جائے تو میں جان جاتا ہوں کہ ضرور پھر کسی نے محبت کو اس کے منہ پر لا کھڑا کیا ہے ۔

٭٭٭

(فروری، 2013ء)

کنواں کود لوں؟

"بھادوں کی حبس بُری ہوتی ہے ” بولی تو ناک مزید چڑھا لیا، "خواہ مخواہ کی چِپ چِپ اور پھر بندہ کہیں آنے جانے کا بھی نہیں رہتا”۔

"آنے جانے کا کیا ہے کبھی بھی، کہیں بھی جایا جا سکتا ہے ” میں نے اسے رد کیا تو بھڑ گئی،

"بدھو نہ بن۔ بارشیں شروع ہوتی ہیں تو ہوتی ہی چلی جاتی ہیں۔ آنا جانا ختم۔ بس گھر میں گھس کر بیٹھ رہو اور وہاں حبس چین نہیں لینے دیتی۔ پھر دیکھو، میں تم سے ملنے کو کیسے کیسے جتن نہیں کرتی۔ پورے ایک ہفتے بعد موقع ملا ہے ۔ گھر سے نظر بچائی، ماں کو الگ رام کیا اور پھر یہ راستہ۔ توبہ، کتنا کیچڑ ہو جاتا ہے ۔ فصل، وہ بھی پک رہی ہے تو حبس علیحدہ۔ یہ بھادوں بہت برا ہوتا ہے ، آنا جانا مشکل کر دیتا ہے ۔” اپنی بات کا رد ہونا، اسے چڑا دیتا اور ایسے میں جب وہ بولے تو بولتی ہی چلی جاتی،

"تمھیں تو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے ۔ تم سے کون پوچھتا ہے ، وہاں موئے موٹرسائیکل پر سوار ہوئے اور فر سے یہاں آن بیٹھتے ہو۔ کوئی روک ٹوک نہیں، منہ اٹھا کر کہیں بھی گھس جاؤ، جیسے میرے جی میں گھس گئے ۔ میں یا دوسرے تمھیں زیادہ سے زیادہ کیا کہیں گے ، لوفر؟ تمھیں کیا پتہ، مجھ سے پوچھو یہ آنا جانا کتنا مشکل ہے ، مجھے کیا کیا مسئلے ہیں؟”

"اچھا میری ماں! معاف کر دے ۔ بات نکلتی نہیں منہ سے کہ تم اچک لیتی ہو۔ ہر وقت ہی خواہ مخواہ بھڑتی ہو”، میں جنجھلاہٹ میں بولا تو اس کو روک لگی۔ مگر پھر ایک دم سے سیدھی ہو کر بیٹھی، تو اب کے تیور کچھ اور تھے ،

"دیکھ گڈو، تو مجھے ایسے مت کہا کر،مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ مولویانی کہتی ہے کہ اپنی ماں سے بھڑوں تو مجھے گناہ پڑے گا، ابا کے سامنے سرتک نہیں اٹھا سکتی اور بھائی تو ہر وقت میری جان کو آتے ہیں، ہمت ہی نہیں پڑتی۔ اب تو بھی مجھے ایسا کہے گا تو بول میں کدھر جاؤں، تجھ سے بھی نہ بھڑوں تو بتا۔۔۔ کنواں کود لوں؟”

وہ ایسی ہی تھی۔ شوخ، ہنستی بلا کا اور ہر وقت۔ جلد گندمی مگر جیسے سرخی کا پرت چڑھا ہو، اور ڈیل ڈول سے کہو تو مومن کافر کر دے ۔ کچر کچر زبان چلتی اور بولتی تو بس نہ کرتی، مگر پھر جب چپ لگتی تھی تو مت پوچھو۔ سایہ آ جاتا اس پر، گندمی جلد کی سرخی دیکھتے ہی دیکھتے میلی زردی میں بدل جاتی اور آنکھیں اتنی گہری ہو جاتیں کہ ان میں جھانک کر دیکھنے کی تاب نہ ہوتی۔ ایسا وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہی کرتی تھی، الجھتے ہی اس کی ہر بار بات یہیں آن کر دم توڑتی کہ تجھ سے بھی نہ بھڑوں تو بتا۔۔۔کنواں کود لوں؟

نہ معلوم، یہ اس نے کہاں سے سیکھ لیا تھا، کنواں کودنا۔ تب نوک جھونک خوب ہوتی تھی، میں نے چھیڑا،

"کنواں ہی کیوں، کوئی زہر کھا مرو، کوئی پنکھا لٹک کر جیسے ؟” تو تنک کر بولی،

"ہے ہے ، میں کوئی کوہڑی تھوڑی ہوں کہ ایسی ذلیل موت مر جاؤں۔ کنواں کودوں گی یا دیکھ لیجیو، مری تو دریا میں تیرتی ملوں گی۔ دفع دور، زہر کھانا بھی کوئی موت ہوئی؟”

میں اسے کبھی جان نہیں پایا۔ جب وہ مرنے کی بات کرتی تو مجھے کجا فکر نہ ہوتی، مگر جب یہ کہتی کہ

"تجھ سے بھی نہ کہوں تو بتا۔۔۔کنواں کود لوں؟ ” تو جیسے میرے جھرجھری سی آ جاتی۔ میں ڈر جاتا۔ یہ انتہائی غیر معمولی سی بات تھی، بالخصوص جس یقین سے وہ مجھ پر یہ حق جتاتی تب یہ بالکل بھی معمولی بات نہ رہتی تھی۔

اس کی ماں گھریلو سی تھی، انٹر پڑھی ہوئی مگر اپنے بچوں کی خوب تربیت کی۔ ایک ہی بیٹی تھی، جس کو اس نے دل کھول کر، لڑ بھڑ کر پڑھایا۔ روز صبح خود اس کو حجاب میں چھپا کر، تاکید سے پڑھنے کو رخصت کرتی تھی اور سارا دن اپنی عزت کی حفاظت کو مصلٰی پر پڑی رہتی۔ ابا ٹیکس افسر تھے اور ٹھیٹھ مذہبی۔ خوددار اور حلال کما کر کھانے والا، جس کی علاقہ بھر میں ایمانداری پر لوگ منہ پر خوب عزت کرتے ، پر پیٹھ پڑتے ہی بیوقوف جانتے ۔دو بھائی تھے ، خوب بابو سے ، ماشاء اللہ پڑھے پڑھائے مگر بہن سے زیادہ، انھیں اس کے پردے کی فکر کھائے جاتی تھی۔ دے دلا کر یہ تھا کہ اس کی ماں اس کی ہمراز تھی جو بات توجہ سے سنتی، اس کو سمجھتی تھی۔ مگر پھر بھی جب وہ مجھ سے کہیں الجھ جاتی تو عجب انداز میں انتہائی جتا کر کہتی کہ،

"تجھ سے بھی نہ کہوں تو بتا۔۔۔ کنواں کود لوں؟”

یہی نہیں، وہ نہ جانے کیسے یکدم ہی میرے قریب تر آ گئی تھی۔ ہمیں ملے بمشکل ابھی چار ماہ بھی پورے نہیں ہوئے ہوں گے کہ وہ مجھ سے ایسے گھل مل گئی، جیسے برسوں سے جانتی ہو۔ پہلی بار میں نے اسے کمپنی باغ میں دیکھا اور جب دوسری بار وہاں گیا تو وہ میرا راستہ دیکھ رہی تھی۔ ویسی ہی، چادر میں لپٹی ہوئی وہ دیر تک چپ چاپ میرے پاس بیٹھی رہی اور پھر خود ہی اٹھ کر چل دی۔ جیسے ، خود کو حوالے کر گئ ہو۔ بغیر کہے سب کچھ طے کر کے اٹھ گئی اور میں وہیں مبہوت بیٹھا رہ گیا۔ جیسے بن کچھ مانگے ، بغیر کسی وجہ کے غیر مشروط وہ اپنا آپ میرے حوالے کر گئی ہو۔ میں رات دیر تک وہیں باغ کے بینچ پر بیٹھا تاریکی میں خود کو ٹٹولتا رہا۔ نجانے کیا تھا کہ تب میں ڈر کے مارے تھر تھر کانپتا رہا تھا۔ بعد اس واردات وہ دنوں تک غائب رہی، پر جب واپس آئی تو چنچل سی، لڑنے بھڑنے والی اور کچر کچر زبان، گندمی جلد پر سرخی کی پرت والی۔ گھنٹوں اپنی باتیں کرتی رہی اور مجال ہے کہ مجھ سے میری بابت ایک بھی سوال کرے ۔ جیسے وہ میرے بارے سب کچھ جانتی ہے ۔ مجھے تہہ تک جانتی ہو۔ اسے میری بابت کچھ بھی پوچھنے کی حاجت نہیں ہوئی مگر بڑی توجہ سے ایک ایک تفصیل اپنی بیان کرتی چلی جاتی یہاں تک کہ میری دلچسپی ختم ہو جاتی۔

تیسری دفعہ جب وہ مجھے ملی تو آتے ہی متنبہ کیا۔

"دیکھ، میں تجھ پر واری چلی جاؤں گی۔۔۔پر مجھے جان لیجیو، میں عام لڑکی نہیں ہوں”۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا،”کیسی عام لڑکی نہیں ہو؟” پہلی بار مجھے اس نے گڈو کہہ کر مخاطب کیا،

"دیکھ گڈو، میں اپنی ماں کی عزت ہوں اور ابا کی شہرت۔ بھائی میرے پردے پر واری جاتے ہیں اور میں تیرے واری چلی جاؤں گی، میرا کچھ بھی نہیں پر تو ان کا ضرور ہی خیال کریو”۔ میں انجان بن کر بیٹھ گیا۔ پچکار کر بولی،

"مجھے بڑا مان ہے تجھ پر، مگر تجھے بتانا ضروری ہے "۔

میں بھڑک اٹھا، اپنی تربیت کا پٹارہ جھٹ سے اس کے سامنے وا کیا اور جب لمبی بحث ختم ہوئی تو وہ یہی کہے جاتی تھی، "تجھ سے بھی نہ کہوں گی تو بتا۔۔۔ کنواں کود لوں؟” تب سے یہ اس کا معمول ہو گیا۔

میں سمجھا، اس نے یہ بحث اسی واسطے کی تھی کہ عین موقع پر وہ مجھ پر یہ حق بھی واضع کر دے ۔ اس تُرش بحث کے بعد، اہم ترین واقعہ یہ ہوا کہ اجنبیت بالکل ہوا ہو گئی۔ میں اس کے لیے گڈو ہو گیا اور اپنے تئیں سمجھا کہ اسے جاننے لگا ہوں، اور میری بابت اس کے لیے بھی یہی خیال تھا ورنہ اس کی بات کچھ اور تھی۔ وہ پہلے دن سے ہی جیسے میرے بارے پورا جان چکی تھی۔ بغیر بتائے اس کو میری ہر بات سے آگاہی تھی۔ واللہ علم، کیسے اس نے میری طبیعت تک سے آشنائی کر لی تھی۔

انھیں محبت ہو جائے تو ڈھل جاتی ہیں۔ خود کو ایسے وا کرتی ہیں کہ کُوچ کر اپنے اندر سے باقی سب کچھ نکال دیں۔ مجاور ہو جاتی ہیں، اپنا آپ تک بھلا دیتی ہیں۔ ایسے بھلا دیتی ہیں کہ آپ ان کی رُو رُو میں بس رہیں،پر آپ کو یہ دور سے کہیں، آپ پر اپنا آپ نچھاور کرتی صرف دکھائی دیتی ہیں۔ واحد رشتہ وہ رہتا ہے جو آپ سے استوار کر دیں، باقی سب سے اجنبیت تان کر آپ کی آشنا بن جاتی ہیں۔ آپ کو مرکز مان لیتی ہیں اور خود گھیر در گھیر چکر لگاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں اسے کبھی جان نہیں پایا، مجھے کبھی بھی وہ سمجھ نہیں آئی۔ ایک دن اسی بات کا شکوہ کیا تو بڑی متانت سے جیسے کچھ عرض کرے ، کہنے لگی،

"گڈو، تو صرف مجھے سنا کر۔ میرے الفاظ نہیں، میری آواز۔۔۔” اور میں دیر تک ہونق بنا اسے دیکھتا رہا۔

جب من مندر میں کوئی مجھے پوجتا ہو، تو اس نشے میں کہاں سمجھ رہتی ہے کہ مخاطب کو کیا کیا مسئلے درپیش ہیں؟ محبت کی دلپذیر ٹھنڈک جب چادر تان لے تو کون جانے کہ بھادوں کی حبس کیسی بری ہوتی ہے ؟ اپنا آپ تک وار دینے والا جب موجود ہو تو کس کو پرواہ ہے کہ فاصلے کیا معنی رکھتے ہیں؟ اس نے بہت بڑی غلطی کر دی، مجھے اپنی عادت بنا لیا اور میں لت کی طرح اس کی جان کو چمٹ گیا۔

جب اندازہ ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ پہلی نشانی گندمی جلد پر سرخی کے میلی زردی میں ڈھلنے کی صورت ظاہر ہوئی اور تب وہ گہری آنکھوں میں ڈرا دینے جیسا پاتال لے کر پہلے پہل یقین مگر اواخر دور میں انتہائی بے بسی سے کہتی جاتی،

"میں کہاں جاؤں، تجھ سے بھی نہ کہوں تو بتا۔۔۔ کنواں کود لوں؟”۔

٭٭٭

(ستمبر، 2012ء)

٭٭٭

تشکر : مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید