FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ویلنٹائن ڈے ایک غیر اسلامی رسم

 

(وہ کریں ہم پر یلغار ہم منائیں ان کے تہوار)

 

 

محمد برہان الحق جلالی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

ویلنٹائن ڈے

 

ویلنٹائن ڈے ایک غیر اسلامی رسم ہے جو ملک پاکستان میں رائج ہو چکی ہے جس کو فروغ دینے میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پہلے ہماری یہ بھولی بھالی قوم اس سے بے خبر تھی۔ مگر انٹرنیٹ نے اس بھولی بھالی قوم کو اس بے ہودہ رسم سے آگاہ کیا۔

پہلے ہم اس کی تاریخ پھر احادیث کی روشنی میں اس کا مقام پھر اس کے بارے میں فتاویٰ جات پھر اس کے بارے میں نظم ملاحظہ کریں گے۔

آئیے ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بے ہودہ رسم جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج ہو چکی ہے اس کے تاریخی حقائق کیا ہیں۔ یہ رسم کیسے شروع ہوئی؟ کب شروع ہو ئی؟ اور کس نے اس کی ابتداء کی؟

 

تاریخی حقائق

 

ویلنٹائن ڈے جو ملک پاکستان سمیت ساری دنیا میں منایا جاتا ہے اسے یوں کہنا چاہیے کہ ”دیوانوں کا دن” اس کی ابتداء کس طرح ہوئی اس ضمن میں کافی روایات ہیں مگر معتبر روایت ملاحظہ کریں اس کے بعد بقیہ روایات ملاحظہ کیجئے گا۔

(1) Encylopedia Britannica میں یہ رقم ہے کہ اس شیطانی دن کا تعلق ہر گز ہر گز ”Saint Valentine”سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ مشرکانہ تہوار ہے جو قدیم رومیوں کے دیوتا Lupercalia کا تہوار ہے۔ جو ”Juno Februata” کے اعزاز میں منعقد ہوتا تھا۔ اس دن تمام لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈالے جاتے تھے اور تمام مرد اس برتن سے ایک پرچی نکالتے جاتے۔ جس لڑکی کا قرعہ جس مرد کے ہاتھ آتا وہ لڑکی تہوار کے اختتام تک اس مرد کی غیر شرعی اور غیر اخلاقی ساتھی بن جاتی۔ المیہ یہ کہ یہ دونوں اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے تھے اور سارا سال اس شیطانی فعل پر فخر کیا کرتے تھے۔ روم میں جب عیسائیت کو فروغ ملا تو یہ شیطانی فعل ختم کرنے کے بجائے اس کو مزید فروغ دیا۔ تف ہے کہ ہماری بھولی بھالی قوم ان کی تقلید کر رہی ہے۔ اور اپنی دینی معاشرتی و اخلاقی اقدار اور شرم و حیاء اور غیرت کو پس پشت ڈال کر اس غیر شرعی۔ غیر اخلاقی، اور فحش شیطانی فعل و رسم کو بڑی با قاعدگی سے منا رہے ہیں۔

 

ہندوؤں کا احتجاج

 

میرے سامنے 14 فروری 2008ء کی خبریں اخبار کا ایک صفحہ ہے کہ جس میں نئی دہلی میں ہندو ویلنٹائن ڈے کے چھپے بینرز کو نذر آتش کر رہے ہیں۔ وہ غیر مسلم ہو کر اس کی خلاف ہیں مگر ہم مسلمان ہو کر بھی اپنی دینی معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ (روزنامہ خبریں۔ 14 فروری 2008 ء)

 

مختلف ممالک میں ویلنٹائن ڈے

 

ویلنٹائن ڈے روم میں بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ 1400 عیسوی میں پیرس میں یہ شیطانی رسم ویلنٹائن ڈے ”ہائیکورٹ آف لَو” منائی گئی۔

یہ ڈے مذہب و اخلاق سے آزادی کا تہوار ہے۔ وہ خوشی کس کام کی جو ہمیں دین اور اخلاق سے دور کر دے۔ اسلام میں ایمان، حیا اور وقار بنیادی اقدار ہیں۔ مجھے 14 فروری کے روزنامہ پاکستان میں یہ پڑھ کر انتہائی کوفت ہوئی ایک بوڑھی عورت اس دن کو منانے کی خاطر سرخ گلاب خرید رہی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ حال ہے تو ہماری نوجوان نسل کا کیا بنے گا۔ انتہائی افسوس ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ جب کوئی قوم دشمن کے کپڑے پہنے اور دشمن کے گیت گانے لگ جائے اور اسے تہواروں میں مشغول ہو جائے تو وہ قوم جنگ سے پہلے ہی شکست تسلیم کر چکی ہوتی ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ تیسری عیسوی میں جب روم پر شہنشاہ کلاڈیئس ( دوم) کی حکومت تھی۔ تو ملک کو کئی خون ریز جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اہل روم جنگوں سے تنگ تھے۔ شادی بیاہ پر پابندی تھی۔ ایسے میں ایک عیسائی راہب ویلنٹائن نے لوگوں کی چوری چھپے شادی کروانی شروع کر دی۔ اس جرم کی پاداش میں اسے قید کیا گیا۔ اور ایسے میں اس کی جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور خطوط کا سلسلہ شروع ہوا لڑکی خط کے آخر پر لکھتی۔ You are my Valentine اور وہ آخر میں لکھتا From your Valentine۔ پھر اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے اس کے جرم کی پاداش میں 14 فروری کو قتل کیا گیا۔ پھر پوری قوم نے اس کی یاد میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانا شروع کر دیا۔

اس کے بارے میں ایک اور روایت بھی ملتی ہے۔ کہ اس کا آغاز اوپر کا لیا کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی آستینوں پر لکھتے تھے اور تحفے تحائف کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ 14 فروری (Meeting Season) ایامِ اختلاط میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ در اصل ویلنٹائن ڈے ”یومِ عیاشی و اوباشی” ہے۔

 

باقاعدہ چھٹی

 

1840 میں امریکہ میں اس دن کے موقع پر باقاعدہ چھٹی کی گئی۔

 

ہندو دھرم کیلئے خطرہ

 

بھارتی انتہا پسند جماعتیں ”وشوا ہندو پریشد” اور ”بجرنگ دل” نے بھی اس تہوار کو ہندو دھرم کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر گل فروشوں کے سرخ گلاب فروخت کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ (بحوالہ روزنامہ ”دن”)

ایک عیسائی اپنی کتاب ”اے ہسٹری آف ویلنٹائن” میں رقم طراز ہے کہ اس یوم کی تاریخ تہوار، رسم و رواج تحریف در تحریف کے عمل سے گزر کر تاریخ میں شرمناک رسم کا حصہ بن گئے ہیں۔ جن کی عملی، عقلی اور فکری بنیادیں ابھی تک مغرب تلاش کر رہا ہے۔

چوتھی صدی عیسوی تک یہ دن تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہو گیا۔ برطانیہ میں اس دن اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو محبت کے جذبات سے بھرے خط اور پیغامات اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پا گیا۔ جنگ عظیم دوم تک اس کو جرمنی میں نہیں منایا گیا مگر یہ بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا۔

امریکہ میں یہ روایات مشہور ہیں۔ 14 فروری کو وہ لڑکے یا لڑکیاں جو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سٹیم ہاؤس جا کر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے ناموں کو دہرائیں جاپان میں خواتین 14 فروری کو تمام مردوں کو تحفے تحائف پیش کرتی ہیں۔ اسی طرح اٹلی میں یہ مشہور ہے کہ خواتیں 14 فروری صبح کو کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو جائیں جو پہلے ان کی نظروں سے گزرے گا وہی اس کا مستقبل کا ساتھی ہو گا۔ اسی طرح مغربی ممالک میں یہ مشہور ہے کہ اگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی کتنی اولاد ہو گی تو اسے چاہئے کہ وہ 14 فروری کو سیب کو کاٹیں اور آدھے سیب میں جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی ان کے بچے ہوں گے۔

اس کے آغاز کے بارے میں کچھ افراد کہتے ہیں کہ یہ دن وہ ہے جب سنیٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا۔ اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اس کے نام سے منسوب کر دیا۔ فن لینڈ کے لوگ اس دن کو ”فرینڈز ڈے ” کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ سویڈن میں اسے ”آل ہرٹز ڈے” کہا جاتا ہے۔ رومانیہ میں 14 فروری کو پیار کرنے والوں کا دن کہا جاتا ہے۔ بعض اسلامی ممالک جن کو کچھ اسلام کی حدود کا خیال ہے اس کو نا پسند کرتے ہیں مگر ترقی والے اس دن کو ”سویٹ ہارٹ ڈے ” کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ دن اسرائیل، برازیل اور بہت سے افریقی ممالک میں منایا جاتا ہے۔ ڈنمارک اور ناروے میں اس دن کو ”محبت کرنے والوں کا دن” سے منسوب کیا جاتا ہے۔

بہر حال یہاں تک مختصر سی بحث کے بعد یہ سامنے آتا ہے کہ یہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی رسم ہے۔ اسلامی ملک میں مغربی تہوار کو منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہاں پر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں مغرب کی تقلید کرنی چاہئے یا کہ آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالنا چاہئے۔ ہمیں رحمان کو راضی کرنا چاہئے یا کہ شیطان کو۔

ویلنٹائن ڈے کے بارے میں ایک کالم نگار دی نیشن اخبار میں لکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کا آغاز کیسے ہوا۔ ”ایک بادشاہ کے زمانے میں جنگوں کا بے انتہا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بادشاہ نے جنگوں کے پیش نظر سپاہیوں کی شادیوں پر پابندی عائد کر دی۔ تو ایک پادری نے راتوں رات شادیاں کرانی شروع کر دیں۔ اسی اثناء میں اس کو گرفتار کیا گیا۔ تو دوران جیل اس کی جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور 14 فروری 270 AD کو اس نے اپنی محبوبہ کو کارڈ دیے اور خط دیا۔ اور اس نے آخر پر لکھا کہ From my Valentine۔ تمہارے ویلنٹائن کی طرف سے۔ پھر اس کو پھانسی دے دی گئی تو پھر اس کی یاد میں ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا”۔

(The Nation, Sunday Plus, March 9,2008, Page No: 13)

اگر اس کو بھی سامنے رکھا جائے تو اس سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو تی ہے کہ یہ غیر مسلموں کی رسم ہے۔ آخر ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم اپنے اسلامی تہوار اسلامی ثقافت بھول رہے ہیں اور ہنود و یہود کے رسم و رواج کو اپنائے جار ہے ہیں اسی لئے تو عاشق رسول علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ ؎

وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں تم ہنود

یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

کہ وہ تو ہمارے تہوار مناتے ہی نہیں اور ہم ہے کہ ان کے تہوار منانے میں ان سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ مال ضائع کرتے ہیں۔ انرجی ضائع کرتے ہیں۔ وقت ضائع کرتے ہیں تو پھر ہم اپنا نقصان خود ہی کر رہے ہیں اور خوش بھی ہو رہے ہیں۔ کیا ہماری عقلیں ماؤف ہو گئی ہیں؟ کیا ہمارے ذہنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے دل خدا کا ٹھکانہ بننے کی بجائے اغیار کا ٹھکانہ بن گئے ہیں؟ ہمارا انجام کیا ہو گا؟ قیامت کو ہمارا حساب کن کے ہمراہ ہو گا؟ کن میں ہمارا شمار ہو گا؟ ذرا اپنے قیمتی وقت سے تھوڑا سا ٹائم نکال کر اس کے بارے میں غور و فکر کیجئے گا۔

ع شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

 

ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں عشق حقیقی کو فروغ دینا ہے یا کہ عشق مجازی کو۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے مغرب کی تقلید کر کے بے پردگی، بے شرمی کو فروغ دینا ہے یا حیا و شرم اور غیرت کو فروغ دینا ہے۔

 

اے نوجوان مسلم ! تو کس نام نہاد رسم میں گھو گیا؟ تو کن کی تقلید کر رہا ہے؟ تو کس رسم کیلئے اپنے مال کو ضائع کر رہا ہے؟ کس کیلئے اپنی جوانی کو داؤ پر لگا رہا ہے؟ تیری نسبت مغرب سے ہے یا کملی والے سے؟۔

 

تو غلام مغرب ہے یا غلام مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلم؟ تیرا دل و دماغ مصطفی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلم کے تصور و خیال کیلئے ہے یا کہ مغرب و بے شرم وے بے حیا و بے پردہ نام نہاد لڑکیوں کے تصور و خیال کیلئے ہے؟ اے نوجوان تجھے آج دیکھنا ہو گا کہ صراطِ مستقیم کو نسا ہے؟ اور غلط راستہ کونسا ہے صراطِ رحمان کونسا ہے؟ صراطِ شیطان کو نسا ہے؟

 

اے نوجوان تیری زبان قرآن و حدیث پڑھنے کیلئے ہے نہ کہ عشق و محبت مجازی کے گیت گانے کیلئے۔ تیرا ہاتھ اسلام کا علم بلند کرنے کیلئے ہے۔ قرآن کو ہاتھ میں لینے کیلئے۔ بزرگوں اور بے سہاروں کی مدد کرنے کیلئے ہیں نہ کہ بے پردہ بے حیاء لڑکیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے کیلئے۔ تیرے قدم بھلائی کی جانب پڑھنے کیلئے ہیں نہ کہ برائی کو فروغ دینے کیلئے۔ تجھے آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تو آج اغیار کی رسومات کو منا کر شہیدان جنگ آزادی کی روح کو تڑپائے گا یا پھر ان کے خلاف آواز اٹھائے گا؟۔ کیا تو شہیدان جنگ آزادی کے خون سے کھیلے گا یا پھر ان کے نقش قدم پر چل کر اغیار کے خلاف باطل کے خلاف آواز اٹھائے گا؟۔

اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے

وہ کیا گردوں تھے جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

 

خدائے وحدہٗ لا شریک نے جن و انس کو پیدا فرمایا تو اس خاطر کہ اس کی بندگی کی جائے۔ اور اس کے پیارے محبوب کی غلامی کی جائے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فروغ دیا جائے۔ فرمایا: وَمَا خلقت الجن والانس لیعبدون o ہم نے تمہیں یعنی جن و انس کو عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ رسول اللہؐ نے ہمیں عشق حقیقی کا درس دیا ہے نہ کہ عشق مجازی کا۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ عشق و محبت کے لائق کون ہے؟

لہٰذا اب اے نوجوان تیری جوانی کے متعلق آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا ارشاد فرمایا ان احادیث کو ملاحظہ فرما۔

احادیث: (۱) حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔ کہ ہر روز ایک فرشتہ اعلان کر کے کہتا ہے کہ اے جوانو! اپنی جوانی مت ضائع کرو ورنہ پچھتاؤ گے۔

(نفیس الواعظین صفحہ نمبر 280 شبیر برادرز)

 

مفہوم: آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے۔ اے نوجوان تو کچھ ہوش کے ناخن لے تیری جوانی بڑی قیمتی ہے اگر تو نے اسے لعب و لہو، عشق و محبت، موج و مستی گنوا دیا تو پھر مستقبل میں بڑا پچھتائے گا تو اپنی جوانی کو دنیا کی رنگینیوں میں ضائع نہ کر قیمتی وقت کو برباد نہ کر ورنہ بعد میں سوائے پچھتائے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

 

(2) حدیث مبارکہ: سرکار اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد عالیشان ہے کہ جوان کی ایک رکعت بوڑھے کی دس رکعتوں سے افضل ہے اور اللہ کو جوان کی توبہ بہت پسند ہے۔

(نفیس الواعظین صفحہ 279 مطبوعہ شبیر برادرز)

 

مفہوم حدیث: سرکار کون و مکان نے فرمایا کہ آدمی جوانی میں ایک رکعت ادا کرے تو وہ بوڑھے کی دس رکعتوں سے بہتر ہے۔ کیونکہ بڑھاپے میں وہ پابندی و چستی وغیرہ نہیں رہتی لہٰذا اے نوجوان تو اپنی جوانی کی قدر کر اور اس کو عشق و مستی میں ضائع نہ کر۔

 

(3) حدیث مبارکہ انیس الواعظین میں ایک حدیث قدسی یوں رقم ہے کہ رب فرماتا ہے کہ اے جوان میں نے تجھے جوانی دی تا کہ تو توبہ کرے کام کرے افسوس ہے کہ تو بیکار رہتا ہے کفرانِ نعمت کرتا ہے کہ میں تجھے دوزخ میں الٹا لٹکاؤں گا۔

 

مفہوم: اے نوجوان تیرے لئے اس حدیث قدسی میں وعید ہے اگر تو نے اسے عشق و محبت اور کھیل و کود میں گزار دیا تو پھر تو میری نعمتوں کو جھٹلانے والا ہے لہٰذا پھر میں تجھے جہنم کے حوالے کر دوں گا۔ تیری جوانی گزر جانی ہے۔ ڈھل جانی ہے۔ یہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔ اے نوجوان تو اپنی جوانی رب کی رضا کیلئے گزار۔ اس کو منانے کیلئے گزار۔ مگر تو اس دنیا کے پیچھے ہے۔ موج و مستی میں غرق ہے۔ موسیقی میں گم ہے یاد رکھ۔ ؎

اے نوجوان

ڈھل جائے گی یہ جوانی جس پر تجھ کو ناز ہے

تو بجا لے چاہے جتنا چار دن کا ساز ہے

 

(4) حدیث مبارک ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰہ یَبْغَضُ الشَّابَ الفَارِعَ۔

بے شک اللہ تعالیٰ جو ان بیکار سے عداوت رکھتا ہے۔

مفہوم: وہ نوجوان جو اپنی جوانی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق نافرمانی میں گزارتا ہے۔ اور وہ اطاعت نہیں کرتا تو خداوند قدوس اس سے عداوت رکھتا ہے۔

 

(5) حدیث شریف ہے:

اَحَبُّ التَوبَۃِ اِلیٰ اللّٰہ تَوجَۃُ الشَّاب۔

جو ان کی توبہ اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے

(نفیس الواعظین ترجمہ انیس الواعظین صفحہ 279 شبیر برادرز)

مفہوم: اللہ کو ہر شخص کی توبہ قبول ہے عمر کے ہر حصہ میں۔ مگر جتنی محبوب توبہ اللہ کو ایک جوان آدمی کی ہوتی ہے اتنی محبوب کسی اور کی نہیں۔ لہٰذا اے نوجوان تو اپنی جوانی کو برباد مت کر۔ اس کو کھیل و کود اور عشق و مستی میں مت گزار۔ رب کو راضی کر۔ توبہ استغفار کر کیونکہ یہاں جو بھی آیا ہے اس نے موت کو چکھا ہے۔ لہٰذا ایک دن تو نے بھی اس دنیا کو الوداع کہنا ہے لہٰذا ابھی بھی وقت ہے کچھ ہوش کر۔

کسی نے کچھ یوں کہا ہے:

گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے سے

اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا

؎ کسی نے یوں کہا:

چھوڑ دے سب غلط رسم و رواج

تو اچانک موت کا ہو گا شکار

موت آئی پہلواں بھی چل دئیے

خوبصورت نوجوان بھی چل دئیے

دبدبہ دنیا میں ہی رہ جائے گا

حسن تیرا خاک میں مل جائے گا

کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی

 

اے غافل نوجوان:

تو چاہے کتنا ہی پہلوان ہو۔ کڑیل جوان ہو۔ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو۔ تیری بہادری، جرأت اور حسن و خوبصورتی کافی مشہور کیوں نہ ہو یاد رکھ تو نے ایک دن اس دنیا کو خیر آباد کہنا ہے۔ تو نے اپنے حسن سے کتنوں کو ہی دیوانہ بنایا ہو۔ کتنے ہی اپنی جانیں تجھ پر نچھاور کرنے والے ہوں۔ مگر میرے بھائی اس عشق مجازی کو چھوڑ۔ عشق حقیقی کو اپنا تا کہ تو دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکے۔ ع

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

 

(6) حدیث:

باعث تخلیق کون و مکان۔ سرکائنات، فخر موجودات زینت بزم کائنات امام النبیین خاتم النبیین حضور سرور دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ:

خیر و شابکم مَن تشبہ یکہو لکم و شر کہو لکم من تشبہ بشابکم o

تم میں سے وہ جوان بہتر ہے جو بوڑھوں کی مثل ہے اور بد تر بوڑھا وہ ہے جو جوانوں کی مانند ہے۔

مفہوم: ایک نوجوان جو اپنے اندر یہ صفت پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر وقت موت کے قریب تصور کرے کہ کسی وقت موت آ جائے گی۔ ا پنی جوانی کو غنیمت جان لے۔ وہ سب سے بہتر ہے اور وہ بوڑھا جو غافل ہو جو موت سے بے خبر ہو۔ غافل نو جوانوں کی طرح وہ بدتر ہے کیونکر اس کے سامنے کتنے ہی بوڑھے اور جوان اس دنیا سے  جا چکے ہو تے ہیں۔ لہٰذا اے نوجوان تو اپنی جوانی کو غنیمت جان۔ جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے کہ

-: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو: –

 

(7) حدیث رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام !

”توبہ شاب واحد احب الی اللّٰہ تعالیٰ من توبۃ الف شیخ ”

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک نوجوان کی توبہ ہزار بوڑھوں کی توبہ سے زیادہ عزیز ہے۔

مفہوم: جوان اگر جوانی میں توبہ کرتا ہے۔ برے کاموں کو چھوڑتا ہے تو بقول سرور کائنات فخر کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلم وہ ہزار بوڑھوں سے بہتر ہے۔

 

میرے بھائی تو آج عشق و معشوقی، کھیل کود میں غرق ہے ذرا ہوش کے ناخن لے دیکھ کہ دشمن تیرے خلاف کیسے کیسے جال بن رہا ہے۔ میرے سامنے 14 فروری کے چند اخبارات ہیں جن میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ کہ ڈنمارک کے اخبارات میں آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں۔

اے نوجوان مسلم:

تجھ کو کیا ہو گیا ہے کہ تو ان کی تقلید کر رہا ہے کہ جنہوں نے تیرے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلم کے بارے میں توہین کی ہے۔ وہ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ نوجوان مسلم عشق معشوقی میں مبتلا ہو۔ کھیل کود میں مست ہو۔ لڑکیوں کا دیوانہ ہو۔ خدا سے بے خبر ہو۔ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات سے بے خبر ہو۔ قرآنی تعلیمات سے بے خبر ہو۔ نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا ساتھ دے۔ نبی کی محبت اس کے دل سے ختم ہو جائے۔ اس کا دل نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیوانہ و عاشق نہ ہو بلکہ دنیا کا اور عورت کا دیوانہ و عاشق ہو اور وہ نامراد گستاخ اپنے اس حربہ میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اے مسلم نوجوان ابھی بھی وقت ہے تو اپنے گناہوں سے تو بہ کر اور نفاذ نظام مصطفی اور شانِ نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلم کیلئے اٹھ کھڑا ہو۔ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناموس کی حفاظت کر۔ تا کہ تمہیں دوبارہ اس دنیا میں عروج نصیب ہو۔ ورنہ تیرے کر توت تو تجھے زوال کی طرف دھکیل دیں گے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ ؎

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

 

مال کا ضیاع

 

ایک خبر ملاحظہ فرمائیں 15 فروری 2007ء کو ایک اخبار نے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے یوں خبر شائع کی۔

 

”صبح سے رات گئے پھولوں کا سفر جاری رہا۔ گل فروشوں کی چاندی رہی۔ پھولوں کی دکانوں پر رش (بھیڑ) رہا۔ سرخ گلاب نہ ملنے پر دوسرے رنگوں کے گلاب لے کر بھجوائے جاتے رہے۔ گلدستے 200 سے 1000 تک بکتے رہے۔”

غرضیکہ ویلنٹائن ڈے ایک طوفان بد تمیزی ہے۔ بازاروں مارکیٹوں، کالجوں یونیورسٹیوں میں اوباش اور اوارہ گرد نوجوان راہ چلتی لڑکیوں کو پھول پیش کر کے ان کی عزتوں کے جنازے نکالتے ہیں۔

اے نوجوان آخر تیری بھی بہن ہو گی اور اگر تیری بہن کو کوئی راہ چلتے ہوئے پیغام محبت پھول۔ ویلنٹائن کارڈ پیش کر دے تو تیرا طرز عمل کیا ہو گا؟ کبھی سوچا تو نے؟۔ اگر تجھے اس بات سے غصہ آتا ہے تو تو دوسروں کی بہنوں کی عزتوں کے جنازے کیوں نکالتا ہے؟ تو جانتا ہے کہ بہن کا رشتہ کتنا پاکیزہ اور مبارک اور نازک ہوتا ہے۔ ایک غیرت منہ نوجوان کبھی برداشت نہیں کرتا کہ اس کی پھول جیسی بہن کو کوئی کانٹا بھی چبھے۔

آہ! کہ وہ نوجوان کہ جس کو تحفظ ناموسِ رسالت کے لئے اٹھنا چائے جس کے ہاتھ آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناموس کیلئے اٹھنے چاہیں۔ لیکن افسوس کے اس کے ہاتھ میں پتنگ ڈور، ویلنٹائن کارڈ اور پھول ہے۔ ایک طرف سارا عالم کفر جمع ہو کر اسلحہ جمع کر کے مسلمانوں کو ختم کرنے کے در پے ہے اور دوسری طرف ہما ارا غافل نوجوان بھائی اپنی بہنوں کی عزتوں کے جنازے نکالنے میں مصروف ہے۔

ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کے ہاتھ سے شراب چرس، شباب، بے فکری، ناجائز عاشقی معشوقی سے روکیں۔

اشعار:

میں نے دیکھا ہے بے پردگی میں الجھ کر ہم نے

اکثر اپنے اسلام کی عزت کے کفن بیچ دئیے

نئی تہذیب کی بے رخ بہاروں کے عوض

اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دئے

 

جب کسی قوم سے جہاد کا جذبہ مقصود ہو جاتا ہے۔ اس کی شامیں رنگین ہونے لگتی ہیں۔ ان کے دن مئے خانوں میں گزرتے ہیں۔ تو پھر ایسی قوم تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتی ہے۔ اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے چاہیں تو اس تباہی کے طوفان میں چھلانگ لگا دیں چاہیں تو بچنے کی تدبیر کریں۔ ؎

یہ کچھ دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند

غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی

اقبال نے فرمایا تھا:

ہر کوئی مست ذوق تن آسانی

تم مسلمان ہو یہی انداز مسلمانی ہے

مغرب ملک پاکستان اور عالم اسلام کو دینی اور اخلاقی لحاظ سے تباہ کرنے کی سازش کر رہا ہے اور ہم فضول قسم کے رسم و رواج، مغرب کے تہوار منانے میں مشغول ہیں۔

سچ ہے۔

وہ کریں ہم پر یلغار

ہم منائیں ان کے تہوار

 

آہ ! ہم شراب و جوئے، عشق و معشوقی، کھیل کود میں مبتلا ہیں ہمیں ان کے پروپیگنڈے کی کیا پرواہ۔ ہمیں مغرب سے آزادی حاصل کئے ہوئے 64 سال گزر گئے مگر ہم ہمارے ذہن۔ ہماری سوچ تا حال ان کے قبضے میں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صحیح اسلامی عقائد۔ رسم و رواج کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ ہم کیوں ان کی تقلید کریں؟ کیا وہ ہماری تقلید کرتے ہیں۔ ہم ان کے تہوار مناتے ہیں۔ کیا وہ ہمارے اہم مذہبی دن مناتے ہیں؟ ہم بسنت، ویلنٹائن ڈے اور اپریل فول وغیرہ مناتے ہیں۔ کیا وہ ایام عاشورہ، عید میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلم عید الفطر، عید الضحیٰ وغیرہ مناتے ہیں؟

 

ہم اپنی، دینی، اخلاقی، معاشرتی اقدار اور شرم و حیا کو پیش پشت ڈال کر غیر شرعی، غیر اخلاقی، غیر اسلامی غیر پاکستانی فحش و بیہودہ تہوار بڑی با قاعدگی سے منا رہے ہیں۔ ہمارا میڈیا بجائے ان کو روکنے کے مزید کوریج دے رہا ہے۔ ہمیں رحمان کو راضی کرنا چاہئے، نہ کہ شیطان کو۔

 

کچھ مشہور دانشوروں کے تاثرات

 

(1) اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے چیئر میں ڈاکٹر شبیر احمد منصوری 14فروری 2008ء کے روزنامہ پاکستان میں اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں کہ

اسلام میں حیاء ایمان وقار بنیادی اقدار ہیں۔ میڈیا پر نئی نسل کو صحیح راہ پر چلانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ معاشرے میں نوجوان کو مشیت اقدار میں رہنمائی فراہم کریں۔ خوشی ہو یا غم جو چیز ہمیں دین سے دور لے جائے وہ کسی کام کا نہیں۔

(ڈاکٹر شبیر احمد۔ 14 فروری 2008۔ روزنامہ پاکستان)

 

(2) جامع المعقول و المنقول، رئیس التحریر، استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا عبد الستار سعیدی صاحب۔ شیخ الحدیث و ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور نے ویلنٹائن کے بارے میں اپنے تاثرات میں فرمایا کہ: ”اسلام حیاء اور پردہ کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے عورت کو پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا ویلنٹائن ڈے ماننے کا اسلام میں کوئی جواز نہیں۔ یہ شرعاً بالکل ممنوع ہے۔ اسلام نے ہمیں بے حیائی سے روکا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر عورتوں مردوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ بے پردگی بے حیائی اور بے شرمی عام ہو تی ہے۔ لہٰذا اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا کہ جب تک عورت کے بال ننگے ہوتے ہیں فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ”۔

اسلام میں اس کا قطعاً کوئی جواز نہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس قبیح رسم سے روکنا چاہئے۔ جو مغرب کی پیدا کردہ ہے۔ مغرب کی تقلید سے روکنا چاہئے۔ تاکہ اسلام کی اقدار پامال نہ ہوں اور ہماری عزت و غیرت محفوظ رہے”۔

 

ویلنٹائن ڈے یہ سراسر وقت کا ضیاع، پیسے کا ضیاع ہے یہ سراسر غیر اسلامی رسم ہے۔  اسی لیے ایک خاتون کالم نگار اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ

’’اس کو منا کر لوگ لازمی طور پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں اپنی انرجی ضائع کر رہے ہیں اور بڑے مہنگے مہنگے کارڈ خریدتے ہیں مہنگے ہوٹل بک کرائے جاتے ہیں۔

(the nation, sunday plus, march 9 2008 page no 13)

یعنی وہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اس دن کو منانے کیلئے وقت، مال اور انرجی کو ضائع کیا جاتا ہے یعنی فضول خرچی کرتے ہیں اور فضول خرچی کے اعتبار سے یہ شیطان کے بھائی ہیں۔ اور غیرمسلموں کی رسم منا نے کی وجہ سے سرور کون و مکاں، باعث تخلیق کائنات حضور نبی کریمؐ کی حدیث مبارک من تشبہ بقوم فھو منہم کی زد میں آتے ہیں۔

 

(3) اسی طرح استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی اللہ بخش سیفیؔ سیالوی صاحب مفتی و مدرس جامعہ محمدیہ سیفیہ راوی ریان لاہور نے ویلنٹائن ڈے کے بارے میں اپنا فتویٰ صادر فرمایا کہ

” ویلنٹائن ڈے کے موقع پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ بے پردگی عام ہوتی ہے۔ عورت کا غیر محرم افراد سے ملنا قطعاً ناجائز ہے۔ لہٰذا اس میں یہ اختلاط پایا جاتا ہے۔ لہٰذا شریعت نے ہمیں اس طرح کے کاموں سے منع کیا ہے۔ یہ قطعاً بالکل نا جائز ہے۔

 

(4) صدر الافاضل حضرت علامہ امجد علی اعظمی صاحب فرماتے ہیں کہ۔

مسلمان کفار و مشرکین کی رسومات تہوار میں شرکت نہ کریں۔ اپنے (مسلمان) مذہب کا تحفظ کریں۔ کفری رسومات وغیرہ سے اجتناب کریں۔

(بہارِ شریعت جلد 1 حصہ 9، 796 مکتبہ اعلیٰ حضرت)

 

(5) جب ان ہی رسومات کے بارے میں ”یادگار اسلاف استاذ العلامہ حضرت علامہ مولانا مفتی علی احمد سندھیلوی صاحب،، دامت برکاتہم القدسیہ شیخ الحدیث جامعہ ہجویر یہ درگاہ داتا علی ہجویری لاہور”سے ان کا مؤقف جاننے کیلئے رابطہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ

ہمارا یہ ہی فتویٰ ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث مبارکہ ہے کہ

”مَن تشبہ بقومِ فھو فہم ” جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔ ہمارا یہ ہی مؤقف ہے۔

(18-05-2008)

(مرکز تدریب الافتاء والبحوث راوی روڈ نزد پیر کلی سخی سلطان لاہور)

 

کیا بسنت اپریل فول ویلنٹائن ڈے منانا جائز ہے؟

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب:

اپریل فول، ویلنٹائن ڈے، بسنت کی شریعت میں نہ کوئی اصل موجود ہیں۔ بلکہ ظاہر و باہر کہ یہ غیر مسلموں کے ایجاد کردہ تہوار ہیں جو سرا سر اسراف، فحاشی، بے حیائی اور گناہ پر مشتمل ہیں۔

اپریل فول: یہ جھوٹی خبر دے کر کسی متحیر کرنا، کبھی کسی کے قتل، ایکسیڈنٹ، شادی اغوا، ایسی جھوٹی خبریں اچانک دے کر متحیر پریشان کر کے اذیت دی جاتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، لعنۃ اللہ علیٰ الکذبین، یعنی چھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے

حدیث شریف میں ہے،

من اذی مسلما فقد اذانی و من اذانی فقداذی اللہ،

یعنی نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کو اذیت دی بے شک اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی بے شک اُس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی (۔۔ ۔۔ )

(۲) ویلنٹائن ڈے، پر غیر محرم لڑکیوں کو ویرانوں میں بلا کر اور اگر لڑکے کے افراد دیوس ہوں تو گھروں میں علیحدگی مہیا کی جاتی ہے جہاں غیر محرم عشق لڑانے اور ایک دوسرے کو پھول پیش کرتے ہیں اور یہ عمل کفار کا شعار تھا جس کو مسلمانوں نے لے لیا ار بے حیائی فحاشی کو رواج دیا حالانکہ مسلمانوں کو اسلام نے پردے کا پابند بنایا اور فرمایا

یغضوا من ابصارہم یغضضن من ابصارھن،

یعنی مرد، عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور مذکورہ بالا عمل اس حکم کے خلاف ہے جو کہ ناجائز و حرام، اور حدیث شریف کہ من تشبہ بقوم فھو منھم، کے تحت وہ نوجوان اپنے کو کفار کی صف میں شمار کروانے والے ہوئے۔

 

(۳) بسنت بھی معروف اقوال کے مطابق ہندوؤں کا تہوار ہے اور یہ بھی مذکورہ بالا حکم میں داخل ہے۔

الحیاء من الایمان والایمان فی الجنۃ، یعنی حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں ہے۔ لہٰذا ان تمام امور میں بے حیائی فحاشی اسراف ظاہر و باہر ہے، اور مسلمانوں کو ان سے بچنا لازم اور اپنی اولاد کو بچانا لازم، تو ان مجید میں ہے، یا ایھا لذین امنواقوا انفسکم واھلیکم نارا، یعنی اپنے کر اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، واللہ تعالیٰ اعلم

03-03-2008

مفتی تنویر القادریؔ (نائب مفتی) جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور

ابو داؤد شریف میں حیاء کے بارے میں حدیث مبارکہ نقل ہے کہ

فان الحیاء من الایمان

بے شک حیا ایمان سے ہے

( حدیث نمبر 4795 ابو داؤد شریف۔ جلد 2۔ 3180 مکتبہ رحمانیہ )

 

رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا

العی والحیاء من الایمان والایمان من الجنۃ والبذاء والبیان من الجفاء والجفاء من النار

آج کی فیشن ایبل نوجوان نسل یہ کہتی ہے کہ پردہ ملا کی ایجاد ہے۔ علمائے کرام کو غیر مہذب صلواتیں سناتے ہیں۔ اے نوجوان۔ یہ قرآن و حدیث کا حکم ہے کہ عورت پر دہ کرے۔ مغربی ممالک میں عورتیں پر دہ کرنے۔ حجاب کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو انہیں روکا جاتا ہے اور یہ ہماری فیشن ایبل نوجوان نسل تقلید مغرب کر رہی ہے۔ شیطان نے نئی چال چلی ہے لوگوں کو راہِ حق سے ہٹانے کیلئے کہ جو قرآن و حدیث کا حکم ماننے سے نفس گر یز کرے تو وہ مولوی کا تراشیدہ بتا دیتا ہے۔ افسوس ہے ایسے خیالات پر۔

در مختار برہامش شامی جلد  1ص 284 میں ہے کہ

جوان عورت کو ( نامحرم ) مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے روکا جائے گا۔ اس وجہ سے نہیں کہ چہرہ ( نماز کے ) ستر میں داخل ہے بلکہ اس لئے کہ (نا محرم) کے سامنے چہرہ کھولنے میں فتنہ کا خوف ہے۔

اور اسی کتاب کی جلد نمبر 3 ص 190 میں ہے کہ۔

(شوہر اپنی بیوی کو سزا دے گا اگر) وہ اپنا چہرہ غیر محرم کے سامنے کھولے یا غیر محرم سے بات کرے۔

اسلام نے عورت کو پوشیدہ رہنے کا حکم دیا ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اندر مغربی تہذیب کے دیوانے حیاء و شرم سے عاری رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرتے ہیں۔ بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں۔ شرعی ستر سے کم کپڑا اپنے جسم پر ڈالتے ہیں۔ آجکل کی عوتیں سر کھولے ہوئے بازاروں تھپڑوں، سینماؤں میں بے محابا گھومتی ہیں۔ جدید تہذیب نے انہیں ایسا اپنا ایسا دیوانہ بنایا ہے کہ نوجوان لڑکیاں ہاف پیٹ یا نیکر یا ذرا جانگیہ پہن کر باہر نکل آتی ہیں۔ رانیں۔ پنڈلیاں، سر، کم الغرض اکثر جسم برہنہ ہوتا ہے اور آجکل کی یہ نوجوان نسل اسے ثقافت، آرٹ، روشن خیالی کا نام دیتی ہے۔ ع

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا کہ:

بے پردہ کل جو نظر آئیں چند

اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جوان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

 

اسلام نے عورت کی عفت و عصمت و عزت کا پورا پورا اہتمام کیا۔ بد نظروں سے بچنے کے لئے تفصیلی احکام بتائے۔ مگر مغرب پر ستوں نے خواتین کو نام نہاد بہی خواہاں نسواینت نے بر سر بازار رسوا کر کے چھوڑا۔

 

آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جب کسی عورت کے سرکا ایک بال بھی ننگا ہوتا ہے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ کسی نے تہذیب کے بارے میں کہا تھا۔ ؎

جس کی فطرت تھی حیا و آبرو

عصمت و عفت کی پتلی نیک خو

ہو گئی تہذیب یورپ سے خراب

کر دیا بد نام و رسوا کو بہ کو

اے نوجوان: جب حضرات ابراہیم کو نار نمرود میں ڈالنے کیلئے مجنبیق میں ڈالا گیا تو وہ اٹھائی نہیں جاتی تھی۔ نمرود پریشان ہوا تو شیطان ایک آدمی کی شکل میں آیا اور کہا کہ اس کو فرشتوں نے پکڑا ہوا ہے اگر اسے فرشتوں سے چھڑانا چاہتا ہے تو سرننگی عورتیں لا کر کھڑی کر دے۔ ایسا کیا گیا تو فرشتے اس جگہ سے ہٹ گئے۔ تب اس کو اٹھا کر آگ میں پھینکا گیا۔

اے نوجوان ذرا غور کر۔ اگر عورتوں کے سر ننگے ہوں تو فرشتے وہاں سے چلے جاتے ہیں تو جہاں سر کے علاوہ باقی جسم کے کئی حصے ننگے ہوں تو کیا حال ہو گا؟ ذرا سوچ۔ جہاں مرد و عورت ایک دوسرے کو پھول، ویلنٹائن ڈے کارڈ، پیغام محبت وہاں کیا حال ہو گا؟ مضمون طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اب کچھ اشعار لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

شاعرِ مشرق نے آجکل کی فیشن ایبل قوم کیلئے فرمایا تھا۔

وضع میں تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

اقبال نے فرمایا کہ تمہاری شکل و صورت تمہارے طور، طریقے رسم و رواج یہود و نصاریٰ کی مانند ہیں ہم نے ان کے طور طریقے کو اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے آپ فرماتے ہیں کہ تمہاری وضع قطع، تمہارے رسم و رواج ایسے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر یہود بھی شرما نے لگتے ہیں۔

ابو داؤد شریف کی حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں

فانَّ الحیاء مِنَ الایمان۔

(سنن ابو داؤد شریف، حدیث نمبر 4795، جلد 2 صفحہ نمبر 6318 مطبوعہ رحمانیہ)

ترجمہ: بے شک حیاء ایمان سے ہے۔

بالفاظ دیگر کہ حیاء ایمان کا لازمی جز و ہے۔ خدا ہمیں عمل کی توفیق عطا رکے۔ ضمناً ایک حدیث مبارکہ پڑھ لیجئے۔

 

حضرت سیدنا ابو السبائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک نوجوان صحابی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ایک بار جب وہ باہر سے اپنے گھر تشریف لائے۔ تو یہ دیکھ کر انہیں بڑی غیرت آئی کہ ان کی دلہن گھر کے دروازے پر کھڑی ہے۔ جلال میں آ کر نیزہ تان کر اپنی دلہن کی طرف لپکے وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی اور روکر پکاری۔ اے میرے سرتاج مجھے مت مارئیے۔ میں بے قصور ہوں۔ ذرا گھر کے اندر چل کر دیکھئے تو سہی۔ کس چیز نے مجھے باہر نکالا ہے۔ چنانچہ وہ صحابی اندر گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک زہریلا سانپ کنڈلی مارے بچھونا پر بیٹھا ہے۔ بے قرار ہو کر سانپ پر زور دار وار کیا اور اس کو نیزے میں پرو دیا۔ زخمی سانپ نے آپ کو ڈس لیا۔ تو وہ غیرت مند صحابی بھی اس زہریلے سانپ کے زہر سے جام شہادت نوش کر گئے۔

حوالہ( سنن ابو داؤد شریف، جلد نمبر 3 صفحہ 465 حدیث نمبر 5257 مطبوعہ دارالحیاء التراث العربی بیروت)

 

یہ با مروّت صحابی کہ ان کو یہ بھی منظور نہ تھا کہ ان کی زوجہ دروازے پر کھڑی ہو ایک طرف یہ عالم ہے جبکہ دوسری طرف ہماری مغرب زدہ ننگ ڈھرنگ تہذیب ہے۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے ان صحابہ کی تقلید کرتی ہے یا کہ مغرب کی تقلید کرنی ہے۔

بہر حال کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں کسی نے کہا ہے:

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جاء ہے تماشا نہیں ہے

ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے

مکین ہو گئے لا مکاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے

مسلمان بہنوں کیلئے:

تو خوشی کے پھول لے گی کب تلک؟

تو یہاں زندہ رہے گی کب تلک

کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی

جنوں کب تلک ہوش میں اپنے ابھی

تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا

جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا

بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا

اجل تیرا کر دی گی بالکل صفایا

یہی تجھ کو دھن ہے رہوں سب سے بالا

ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا

جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا

تجھے حسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا

کسی نے کہا:

چھوڑ دے سب غلط رسم و رواج

تو اچانک موت کا ہو گا شکار

موت آئی پہلوان بھی چل دئیے

خوبصورت نوجواں بھی چل دئیے

دبدبہ دنیا میں ہی رہ جائے گا

حسن تیرا خاک میں مل جائے گا

کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی

کسی نے اس جوانی کے متعلق یوں کہا:

ڈھل جائے گی یہ جوانی جس پر تجھے ناز ہے

تو بجا لے چاہے جتنا چار دن کا ساز ہے

 

حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ تم جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانو۔

لہٰذا اے نوجوان! ابھی وقت ہے تو کچھ خیال کر اور اپنی جوانی کی قدر کر اس کو فضول بے مقصد اور معصیت کے راستے پر ضائع نہ کر۔ کچھ خدا کو یاد کر لے بعد تیرے ہی کام آئے گا نہ کہ تیرے یہ سرخ گلاب نا محرموں کو پیش کرنا۔ یہ تو تیرے لئے وبال جان ہے۔ اپنے آباء و اجداد کو دیکھ کچھ ہوش کے ناخن لے۔

اے نوجوان مسلم تیرے لئے اقبال نے فرمایا تھا: ؎

اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تم نے

وہ کیا گردوں تھے جن کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

اے نوجوان اگر تو باز نہ آئے گا تو قبر اور آخرت میں بھی عذاب ہو گا اس کے ساتھ تیری گناہوں بھری جوانی کے دنیاوی کئی نقصانات ہیں۔

تیرے ان برے کاموں کے کئی دنیاوی نقصانات ہیں کچھ کچھ چیدہ چیدہ یہ ہیں۔

 

دنیاوی نقصانات

 

(۱) تیرے دل پر مہر لگ جائے گی۔ سیدھے اور برے راستے کا امتیاز ختم ہو جائے گا۔

(۲) تیرے دل و نگاہ سے شرم و حیاء جاتی رہے گی۔

(۳) تیرے برے کاموں کی وجہ سے تیرے اندر بد نگاہی کی مزید بیماریاں پیدا ہوں گی۔

(۴) ماں باپ کا ادب و احترام جاتا رہے گا۔

(۵) ماں بیٹی بیوی کا امتیاز ختم ہو جائے گا۔

(۶) دنیوی کاموں میں دل نہیں لگے گا۔

(۷) تیری دعا قبول نہ ہو گی۔

(۸) گناہوں پر اصرار کی وجہ سے تیرا دل سیاہ ہو جائے گا۔

(۹) روزی میں برکت ختم ہو جائے گی۔

(۱۰) عوام کے دل و نگاہ میں گر جانا۔

(۱۱) سنگ دل ہو جائے گا۔

(۱۲) چہرے سے نور ختم ہو جائے گا۔

(۱۳) عمر میں برکت نہ ہو گی۔

(۱۴) حافظہ کمزور تر کمزور ہوتا چلا جائے گا۔

(۱۵) مال سے شدید محبت ہو گی۔ چاہے وہ حرام ہی کیوں نہ ہو۔

(۱۶) غربا و مساکین کا خیال ختم ہو جائے گا۔

 

بہر حال یہ چند چیدہ چیدہ دنیاوی نقصانات تحریر کر دئیے ہیں شاید کہ تو عبرت حاصل کرے۔ ع

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

ہماری عقل ماری ہوئی ہے۔ وہ مغرب جو مسلمانوں پر ظلم و ستم کر رہا ہے ظلم و ستم کی چکی میں پیس رہا ہے۔ ہم مسلمان ہو کر ان کی پیروی کر کے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کے خون کی کچھ پرواہ نہیں۔ ہم تو ان کی پیروی کریں گے۔

وہ جو ہمارے مولیٰ کریم باعث تخلیق کون و مکان حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناموس کے خلاف اٹھنے والوں کی تہذیب ان کے رسم و رواج کی پیروی کرے گا۔

اے نوجوان مسلمان بہنو بھائیو۔ کیا تمہاری غیرت کبھی یہ گوارا کرتی ہے کہ تم اپنے نبی کے خلاف خاکے و فلم شائع کرنے والوں کی پیروی کرو؟

حدیث فرمان عالیشان ہے۔ مَن تشبہ بقوم فھو فہم (ابوداؤد)

ترجمہ: جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں ہے یہ جو قوم کسی قوم کی بود و باش رسم و رواج تہذیب و ثقافت کو اپناتی ہے تو وہ انہی میں سے ہے۔

اس ویلنٹائن ڈے کے موقع پر کئی نوجوان بہتوں کی عزت لوٹ لی جاتی ہے ان کی عزت پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔

میرے بھائی کیا تو یہ گوارا کرے گا کہ کسی شخص تیری بہنوں یا بیویوں یا بیٹیوں کی عزت و ناموس پر ہاتھ اٹھائے؟ اگر نہیں تو پھر تو دوسروں کی بہنوں کو کیوں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔

اور مسلمان بہنوں سے بھی گذارش ہے کہ

قرآن و حدیث کے مطابق اپنے ڈوپٹہ کو (ستر عورت) کو لازم بنائیں۔ آقا علیہ الاصلوٰۃ والسلام کے فرمان کے مطابق عورت کا سارا جسم ستر ہے۔

فرمان خداوندی ہے کہ

وَقَرَنَ فِی بیوتِکُنَّ وَلَا تَبَّجْنَ تَبَرُّجَ الجَاھلیۃ الْاُوْلیٰ

(پارہ نمبر 22 سورہ احزاب آیت نمبر 33)

ترجمہ: اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلے جاہلیت کی بے پردگی۔

اسی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان عالیشان ہے:

”کہ بے شک وہ عورت جو خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے”

(باختصار سنن ترمذی جلد نمبر 4 صفحہ 361 حدیث 2795 مطبوعہ دارالفکر بیروت)

اس آیت اور حدیث کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں کہ شریعت اسلامی پر پابندی کرتی ہیں یا ہم اس کی دھجیاں اڑاتی ہیں۔

گھروں کی زینت گھروں کی شمع چراغ بازاروں کی زینت بن چکی ہے۔

بازو ننگے کندھے ننگے سر ننگا چہرے چست لباس (کہ جس سے جسم کے نشیب و فراز کا پتا چلتا ہو) یہ شیوہ بن چکا ہے بتائے قرآن و حدیث کہاں پر کہا گیا کہ تم اس تنگ دھرنگ بازاروں میں پرو ٹیروں کی زینت بن۔

ارے کچھ خدا کا خوف کیجیے

ہمیں 2006  والے زلزلے کو سامنے رکھنا چاہیے کیا ہمارے کرتوت پھر اس قسم کی آفت و مصیبت کا باعث نہیں بنیں گے ہم سر عام عذابِ الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں

میری بہنو۔

ابو داود کی ذرا یہ حدیث ملاحظہ کرو۔

سیدنا ام خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا پردہ کئے منہ پرنقاب ڈالے اپنے شہید فرزند کی معلومات حاصل کرنے کے لئے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر ہوئیں۔ کسی نے کہا آپ اس حالت میں بیٹے کی معلومات حاصل کرنے آئی ہیں۔ کہ آپ کے چہرہ پر نقاب ہے کہنے لگیں۔ ”اگر میرا بیٹا جاتا رہا تو کیا ہوا میری حیا تو نہیں گئی۔

(سنن ابی داؤد جلد 3 صفحہ 9 حدیث 2488 دارالحیاء التراث بیروت )

با حیا عورتیں کبھی بے پردہ نہیں ہوتیں۔ ہر حال میں پردے کو لازم پکڑتی ہیں۔ کیا اسیران کر بلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر ظلم و ستم و آفتوں کے پہاڑ نہیں ٹوٹے تھے؟ کیا انہوں کو پر دے کو ترک کر دیا تھا؟

عورت کا چہرہ اگرچہ عورت نہیں مگر فتنے کے خوف سے غیر محرم کے سامنے منہ کھولنا منع ہے۔ اسی طرح اس کی طرف نظر کرنا غیر محرم کیلئے جائز نہیں اور چھونا تو اور زیادہ سخت منع ہے۔

(بہارِ شریعت حصہ سوم صفحہ 45 بحوالہ در مختار تنویر الابصار جلد 2 صفحہ 97)

آج تو تو بہ تو جوان لڑکے لڑکیاں اکٹھے چلتے ہیں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جاتے ہیں۔ بوسے لئے جاتے ہیں۔ نہ جانے اس کے علاوہ اور کیا کیا ہوتا ہے۔

فقہائے کرام اور علمائے کرام کے نزدیک یہ بالکل ناجائز ہے۔ ہمیں اپنی اسلامی تقریبات رسم و رواج کو اپنا نا چاہئے۔ چہ جائیکہ ہم مغرب کی تقریبات اور رسم و رواج کو اپنائیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقے ہمیں دین کی سمجھ عطا کرے۔ درست و غلط کی تمیز عطا کرے اور ہمیں مغربی تقریبات کو چھوڑ نے اور اسلامی تقریبات کو فروغ دینے کی توفیق دے آمین ثم آمین۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل