FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نیلام گھر

(ناول)

               مشرف عالم ذوقی

 

 

 

حصہ اول

 

حصہ دوم کے لئے یہاں کلک کریں

 

انتساب

امّی مرحومہ

اور

ابا حضور

جناب مشکور عالم بصیری

کے نام

 — — مشرف عالم ذوقی

 

 

بابِ اوّل

کریم بیگ

(۱)

دھوپ کی شعاعیں کمرے میں داخل ہوئیں تو کریم بیگ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے — ٹیبل پر چائے کی پیالی رکھی تھی۔ اس وقت تک وہ بھلی خوبی جاگ چکے تھے،جب رضیہ چائے لے کر کمرے میں داخل ہوئی اور ٹیبل پر رکھ کر ایک نگاہ ڈالتی ہوئی رخصت ہو گئی … کریم بیگ نے ٹھنڈے ہاتھوں سے چائے کی پیالی تھامی اور غٹ غٹ کر کے پی گئے۔ اور دن ہوتا تو وہ رضیہ سے گھنٹوں اِدھر اُدھر کی گفتگو لے کر بیٹھ جاتے مگر کبھی کبھی ادھر اُدھر کی فکر حاوی ہو جاتی ہے۔ اور دل بھاری بھاری ہو جاتا ہے۔ کام سے توجہ ہٹ جاتی ہے … کچھ یہی حال اس وقت کریم بیگ کا تھا۔ چپ چاپ اٹھے۔ گھڑی دیکھی اور سنگھار میز کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ سفید ہوتے ہوئے بالوں پر نظر ڈالی۔ بوڑھے ہوتے ہوئے نقوش کا جائزہ لیا۔ مگر آج کچھ بھی دل نہ چاہا۔ یہ بھی نہ ہوا کہ آگے بڑھ کر خضاب کی شیشی ہی اٹھا لیتے۔ اور پھر سے اوجھل ہوتی جوانی کوواپس بلا لیتے۔

خاموشی سے باہر آئے۔ برآمدے میں انجم ٹیبل پر دونوں پاؤں رکھے اخبار پڑھنے میں مشغول تھا — — آہٹ ملتے ہی اس نے سر اٹھایا پھر جھکا لیا۔ کچن میں کام کرتی ہوئی رضیہ نے بھی نگاہیں اٹھا کر انجم کی طرف دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے باتھ روم میں آئے۔ منہ دھویا اور دوبارہ کمرے میں واپس آ گئے۔ زندگی شاید تبدیلی چاہتی ہے۔ ورنہ اپنے آپ سے گھبراہٹ کی یہ بات تو پہلے کبھی نہ تھی۔ وہ ہمیشہ سج دھج کر آفس پہنچتے اور قہقہوں کے نیم عریاں اور کبھی کبھی عریاں سیلاب میں گم ہو جاتے۔ اب زندگی تھک چکی ہے … دماغ پر وحشت سوار ہے … شب و روز کی مشغولیات میں بھی بکھراؤ آنے لگا ہے۔ زندگی تبدیلی چاہتی ہے۔ کمرے میں لوٹے تو وہی ویرانہ پن ہمیشہ کی طرح موجود تھا۔ کارنس سے جھولتی ہوئی تسبیحوں پر گرد پڑ چکی تھی۔ طاق پر رکھا ہوا قرآن شریف دھول سے اٹا ہوا تھا۔ خاموشی گھر کا حصہ بن چکی تھی … زمانے کی ہتھیلیوں پر کتنے ہی گلاب کھلے اور مرجھا گئے … وقت گزرتا رہا — قرآن شریف کو پڑھنے کا وقت نہیں تھا … تسبیحوں پر گرد جمی رہی …

نئی نسل کا انجم ترقی کے پنکھ پر سوار‘ نئے زمانے کے ساتھ ساتھ اُڑا جا رہا تھا … اور یہ قصور انجم کا نہیں تھا … نئے ماحول میں وہ انجم کی تربیت کرنا بھول گئے تھے۔

 قصور بوڑھی تجربہ کار آنکھوں کا تھا جو گیلی ہو گئیں … کہ آہ ! کچھ بھی نہ دے سکے انجم کو۔ نہ باپ کا پیار۔ نہ مذہب کی تعلیم اور وہ خود کتنے مذہبی رہے۔ یہ احساس بھی دل کے زخم تازہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک گزرے ہوئے شب و روز کے ایک ایک لمحے بچھو کی طرح ڈس رہے تھے۔

آج پھر آفس میں تقریب ہے — شاندار تقریب — صاحب نے وقت سے پہلے ہی سب کو بلایا ہے۔ پورے اسٹاف کی دعوت ہے۔ اور دعوت میں کیا کیا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس سے بخوبی واقف ہیں … کل تک وہ خوشی خوشی اور گرم جوشی کے ساتھ تقریبات کے جام آگے بڑھ کر اُٹھا لیا کرتے تھے — مگر جانے کیوں آج آفس میں ہونے والی تقریب کے نام پر دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا … شاید جسم تھک چکا ہے … وہی پرانا کھیل کھیلتے ہوئے‘ وہی بے ہنگم قہقہوں کی فضا میں جیتے ہوئے … اور اب … تبدیلی چاہئے — ان کے دماغ کا پرندہ اونچی لمبی پرواز کے بعد اب تھک چکا ہے — اور آرام چاہتا ہے۔ دماغ کی نسیں جھنجھنائیں تو کریم بیگ جیسے تاریکی میں اترتے چلے گئے۔ گہری سانسیں لیں۔ خود کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی۔ ہونٹوں کو گول کر کے سیٹی بجانی چاہی مگر ہونٹ پھس بول کر رہ گئے۔ تھکے قدموں سے وہ پھر سنگھار میز کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ سوٹ تبدیل کیا۔ نکٹائی درست کی اور پھر آئینے میں اپنی شناخت کی … سفید بالوں کا مسئلہ سامنے تھا — فیشن کے سارے سامان میز پر کھلے ہوئے تھے۔ مگر جانے کیوں ہاتھ کانپ گئے۔ خضاب کی شیشی نگاہوں میں چبھنے لگی۔ آگے بڑھ کر کنگھی اٹھائی اور بال سنوارنے میں لگ گئے۔ گھڑی دیکھی تو وقت ہو چلا تھا۔ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے۔ تقریب کے نام پر پھر وہی بے ہنگم رقص آفس کے لان میں شروع ہو جائے گا … رقص و سرور کی محفل جمے گی۔ قہقہوں کے بے ہنگم شور گونجیں گے —

مگر — کیا اب وہ ایسا کر سکیں گے۔ ؟

کریم بیگ مختلف موڑ والی شاہراہ پر آ کر اچانک ٹھٹھک گئے۔ زندگی تبدیلی چاہتی ہے۔ اور اُنہیں لگا — ایک آوارہ پرندہ لمبی اونچی اڑان کے بعد اب پوری طرح تھک چکا ہے …

وہ کمرے سے باہر آئے تو انجم تب تک اخبار پڑھ چکا تھا۔ اس نے نظریں اٹھائیں۔ حیرانی سے ان کی جانب دیکھا … پھر اخبار بڑھاتے ہوئے بڑبڑایا …

ابا … جہان پور میں پھر ہندو مسلم فساد ہو گیا۔

اُس کا انداز ایسا تھا کہ کریم بیگ نے محسوس کیا۔ جیسے انجم طنز یہ نظروں سے کہہ رہا ہو … ابا لیجئے ملک کا ایک اور تحفہ … ابا … ایک اور نئے فساد کے بارے میں پڑھئے … ابا کیا ان احمقوں کو مذہب کے نام پر فسادات سے روکنے والا کوئی نہیں ہے … ابا … کیا دنیا میں ایک اور صرف ایک مذہب کا قیام ممکن نہیں ہے،جس کو متفقہ طور پر سب لوگ تسلیم کر لیں —

ابا …

کریم بیگ کے جسم میں لرزہ طاری ہوا — آگے بڑھ کر اخبار اٹھایا … سرسری نظر اخبار پر ڈالی — چیل، کوؤں اور گدھوں جیسی خبروں سے دل دہل گیا — ذہن بھاری بھاری ہو گیا … آزادی کے بعد ملک میں اگر واقعی کسی چیز نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے … تو وہ ہے فساد … لڑائی جھگڑا … دنگے … قتل …

اخبار پڑھنے میں طبیعت نہیں لگی تو اسے ٹیبل پر ڈال دیا۔ تب تک رضیہ کچن سے نکل کر برآمدے میں آ چکی تھی … وہ بھی اُسے دیکھ کر کچھ کم حیرت میں نہ تھی۔

اُس نے آہستہ سے پوچھا … ’’ آج آفس میں تقریب ہے نا … ‘‘

’’ہاں ‘‘ اُنہوں نے آہستہ سے جواب دیا۔

’’ پھر — بال بھی ٹھیک طرح سے نہیں سنوارے … خضاب کی شیشی تو موجود تھی نا … ‘‘ رضیہ کی آنکھوں میں بے چینی تھی —

’’ اب بوڑھا ہو گیا ہوں … اب بہت بوڑھا محسوس کرتا ہوں خود کو … ‘‘

رضیہ چونک کر عجیب نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔ جیسے اس جواب کی توقع نہ ہو … کہ اچانک آج … اتنے برسوں کے بعد آج یہ بوڑھا ہونے کا احساس تمہیں کیسے ہوا … ؟ یہ تھکن تمہارے جیسے آدمی پر کیسے غالب آ گئی … ؟

مگر وہ کچھ بھی نہ پوچھ سکی … ٹھیک اُسی طرح جس طرح وہ اُس کے سوال کا اچھی طرح جواب نہ دے سکا … بس خاموشی سے چند کبوتر اُڑائے اور افسردہ قدموں سے باہر آ کر آٹو رکشہ پر بیٹھ گئے …

’’ چلو پرنس لین۔ ‘‘

اُس نے تھکی آواز میں کہا … آٹو تیزی کے ساتھ شاہراہوں سے گزرنے لگا۔ شہر میں کتنی رونق ہے … لوگ کس تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔ بھاگتے ہوئے لوگوں کے ہمراہ تو وہ بھی چلا تھا مگر آہ … کتنا پیچھے چھوٹ گیا — جہاں ابی حضور چھوڑ گئے تھے۔ بس وہیں کا وہیں۔

آگے ٹریفک جام تھا … آٹو والے نے تیزی سے بریک لگایا … پھر رکشے والے کی آنکھیں اُس کی آنکھوں میں اُترتی چلی گئیں۔

’’ صاحب … صاحب ایک بات کہوں، … مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے ‘‘

’’ ہاں یہ بھی ترقی کی ایک مثال ہے۔ ‘‘ وہ آہستہ سے بولا …

’’ ایک بات کہوں صاحب؟‘‘ آٹو والا پھر روانی سے بولا۔ یہ جو منسٹر لوگ آئے دن شہر میں آتے رہتے ہیں … وہ کس لئے آتے ہیں صاحب ؟ ہم کو تو سمجھ میں نہیں آتا … کوئی بات پلے نہیں پڑتی … اور صاحب ان کے آگے پیچھے اتنی ساری گاڑیاں کیوں دوڑتی پھرتی ہیں … اور یہ لاکھوں روپے کے اسٹیج کس لئے بنائے جاتے ہیں صاحب …

کتنے ہی سوال آٹو والے کے لب پر آ کر تھم گئے تھے۔

’’ یہ سب اُن کے تحفظ کے لئے کیا جاتا ہے ‘‘ وہ سوالوں کے سیلاب سے گھبرا کر بولے۔

’’ نہیں صاحب ! ‘‘ آٹو والے نے اپنی بھنویں سکوڑیں … مجھے تو ایسا لگتا ہے صاحب — جیسے یہ سب اپنی غریبی پر پردہ ڈالنے کے لئے ہو رہا ہو …

اس نے عجیب نظروں سے آٹو والے کی جانب دیکھا … جواب بھی اپنے اندر کے تجسس کے پرندے کو آواز دے کر پوچھ رہا تھا : صاحب یہ ایشیاڈ میں کتنا روپیہ خرچ ہوا ہو گا …

اس نا وابستہ تحریک سے ہمیں کیا ملا صاحب …

صاحب … صاحب …

کریم بیگ کے سامنے جیسے اندھیرا پھیلتا چلا گیا … لفظ گونگے ہوتے چلے گئے … آوازوں نے جب چہار جانب سے ان کے دماغ پر شب خون مارا تو اچانک جیسے خوف کے زہریلے سانپ نے اُنہیں نگل لیا … بس اتنا ہی کہہ سکے … میرے دوست ! میرے عزیز … سوالوں کے ان کوڑھ سے پرے ہو جاؤ۔

میرے بھائی … ہم سب ایک ہی آٹو میں سوار ہیں … جس طرح بہت سی باتیں تم نہیں جانتے ہو ویسے ہی میں نہیں جانتا ہوں … اور جو باتیں تم جانتے ہو وہ میں جانتا ہوں … ایسی باتیں بس اپنے سمجھنے کے لئے ہوتی ہیں  … جن کے حل تلاش کرنے یا کسی سے پوچھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہمیں صرف یہ دیکھتے رہنا ہے کہ ملک کتنی ترقی کر رہا ہے … ملک میں کیا کیا ہو رہا ہے۔

’’ ہاں صاحب … آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ‘‘

آٹو والا اچانک بالکل کاٹھ ہو گیا … اُس کی نظریں باہر کی جانب رینگ رہی تھیں — ٹریفک پولیس راستے کے صاف ہونے کا اشارہ کر رہا تھا۔ اُس نے آٹو کی چال میں تیزی لائی اور کریم بیگ کو ایسا معلوم ہوا جیسے اُس کا گلہ رندھ آیا ہو … اور ابی حضور کے وقت کا وہ فرمانبردار نا سمجھ کریم بیگ ایک بار پھر سے زندہ ہو گیا ہو … اور پھر وہی نئی سوچ گرد کی طرح ان کے احساس پر جمتی چلی گئی … شاید زندگی ایک تبدیلی چاہتی ہے … بڑی عجیب و غریب تبدیلی۔

آفس کے قریب رکشہ رُکا تو آٹو والے کو پیسہ تھمانے کے بعد وہ رکشہ سے اُتر پڑے۔ آفس میں لوگوں کی چہل پہل شروع ہو گئی تھی — رنگ برنگے جھالروں بیلونوں اور قمقموں سے آفس کو دلہن بنایا گیا تھا … اور دن ہوتا تو اُس کی نگاہیں خیرہ ہو گئی ہوتیں … اور وہ تیز قدموں سے اپنے لوگوں میں شامل ہو کر بے ہنگم قہقہوں اور نقرئی ٹھٹھول کے طوفان میں کھو گئے ہوتے … مگر شاید نہیں … تبدیلی کا وہی احساس اُن کے رگ و پے میں داخل ہو کر اس ہنگامے کی دنیا سے انہیں بہت دور لے گیا تھا …

وہ دھیمے قدموں سے آگے بڑھے — لوگوں کے جھنڈ قدم قدم پر شور کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے … وہ سب سے بخوبی واقف ہیں … سب اپنے یار ہیں … نئے مزاج کے ان شہریوں کو وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔

یہ ’’ رتھ‘‘ ہے … ان کا ہم خیال … رتھ بھی باغی ہے … وہ دنیاوی رشتوں کو فضول سمجھتا ہے … جب بھی موقع ملتا ہے اُسے اتنا ضرور سمجھاتا ہے … کہ — لبادے کے خول سے آزاد ہونے کے بعد ہی ہم ایک نئی دنیا کا تصور کر سکیں گے … جانے کیسی نئی اور انوکھی دنیا کی بات کرتا ہے … وہ اس تصور کو کبھی نہ سمجھ سکا —

یہ مائیکل ہے سیدھا سادا آدمی۔ مگر مذہب نہیں مانتا — ہاں اتنا ضرور ہے کہ کرسمس کے روز بڑی زور دار پارٹی دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ یہ دن عیش کا ہے۔ بس عیش کرو …

یہ سموئل ہے … اُس کا روم پارٹنر … اور رتھ کا ہم خیال … جس کے ساتھ قہقہوں اور ہنگاموں میں وہ بھی برابر کا شریک رہا ہے۔ سموئل رشتہ نہیں مانتا۔ اسی لئے وہ مذہب کو بھی بے بنیاد کہتا ہے۔ وہ بھی بس عیش کرو‘ کے نعرے ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتا ہے۔

یہ رگھوبیر ہے۔ تھوڑا جھینپو ضرور ہے۔ مگر عورتوں کے معاملے میں بڑا تیز ہے۔

یہ مسز بھٹنا گر ہیں … کبھی یہ صاحب کی منظور نظر تھیں مگر اب ان کی جگہ مس نیلی نے لے لی ہے۔ جب سے شوہر کا انتقال ہوا ہے تب سے دھرم کرم سے اعتقاد اُٹھ گیا ہے۔ سیدھی سادی عورت ہیں۔

یہ ورما ہے … تیز طرار … یاروں کا یار … جما تا زیادہ ہے … کرتا کم ہے۔ یہ بھی اپنے دوستوں کا ہی ہم خیال ہے۔

اور یہ مس نیلی …

کریم بیگ باری باری سب کو دیکھتے ہیں۔ مگر جانے کیوں آج سب کے بدن سے لپٹے ہوئے سانپ اُسے دکھائی دے رہے ہیں۔ سب قہقہے پر قہقہے لگا رہے ہیں … آج پہلی بار یہ سب اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ کریم بیگ کی طبیعت میں ایک بھونچال سا آگیا ہے۔ ۔ مگر وہ کیا کر سکتے ہیں۔ ۔ رضیہ اور انجم کی پرواہ نہ ہوتی تو وہ یہ سب چھوڑ چھاڑ کر تنہائی کے شہر میں گم ہو گئے ہوتے … مگر اس کے باوجود وہ آفس کے قانون سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ذہن پر کیسا بھی بوجھ ہو … اس بوجھ کو پرے ڈال کر انھیں بھی قہقہہ لگانا ہے … ہنسی ٹھٹھول میں شامل ہونا ہے۔

کیونکہ صاحب سب کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں …

اُس نے اپنے قدم تیز کئے … رگھو بیر نے پلٹ کر اُس کی جانب دیکھا … اور اُس کے ہونٹوں سے تقریباً نشے کی حالت میں چیختی ہوئی آواز نکلی …

’’ ارے کریم … تم !‘‘

سموئل نے پلٹ کر دیکھا … اور بھونچکا رہ گیا … نہیں … نہیں یہ اپنا کریم نہیں ہوسکتا … یقین نہیں آتا کہ یہ اپنا کریم ہے … یہ سفید بالوں والا اپنا کریم نہیں ہوسکتا …

’’ ہاں میں ہی ہوں دوست ! میں ہی ہوں … ‘‘

وہ زبردستی مسکرایا … اور ایک پھس پھسا قہقہہ اُن کی نذر کرتا ہوا بولا … یارو ! بوڑھے ہونے کا احساس جاگا تو ایسا لگا جیسے سب فضول ہے … یہ خضاب … یہ تیل وغیرہ اصلیت کو نہیں چھپا سکتے‘‘

’’ مگر پھر بھی یار‘‘ — — رتھ بولا … تو تو بالکل ہی بوڑھا نظر آنے لگا ہے۔ مسز بھٹنا گر اور مس نیلی تو تجھے پہچان ہی نہیں پائیں گی۔ ‘‘

وہ پھر ہنسا … ’’ مگر اب میں تو خود کو پہچاننے لگا ہوں … ‘‘

یہ کہہ کر وہ دوبارہ وہی زبردستی والا قہقہہ مار کر ہنسا … مگر اس بار سب اچانک خاموش ہو گئے۔ اور بڑی عجیب نظروں سے اسے گھورنے لگے۔ پھر سب ایک ساتھ بولے۔

’’نہیں … نہیں تو اب کریم نہیں رہا … تو کوئی فلا سفر ہو گیا ہے۔ ‘‘

اور پھر سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے … نشے کی حالت میں ایک نے کریم بیگ کا گریباں پکڑ لیا۔ اور رونی صورت بنا کر بولا …

بول کیوں ہو گیا ایسا … اتنا بوڑھا کیوں ہو گیا۔ لگتا ہے تو بھٹک رہا ہے۔ مگر ہم تجھے بھٹکنے نہیں دیں گے …

سب کی آنکھیں نشہ آلود ہو رہی تھیں … کریم بیگ کی عجیب حالت تھی۔ وہ کیا کہتا … کہ ہٹو ہٹو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو … یہ اعضا اب تھک چکے ہیں … ان بے ہنگم قہقہوں سے بور ہو چکے ہیں … اپنے ہاتھ ہٹا لو … پھر سے مجھے اُس دلدل میں مت دھکیلو — کراہیت کا احساس ہو رہا ہے مجھے — تم سب سے گھن آ رہی ہے۔

 مگر وہ کچھ نہ بول سکا۔ صرف چپ رہا …

دوستوں کی نشہ بھری آنکھیں اب تک اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھیں … ’’ بول کیوں ہو گیا تو ایسا … ؟‘‘

نہیں یار … میں تو وہی کریم بیگ ہوں … وہی پرانا کریم بیگ … ہر آدمی بوڑھا ہوتا ہے … ویسے ہی میں بھی بوڑھا ہو گیا۔ ‘

سب ہنس پڑے … قہقہے آسمان کی بلندیوں پر پرواز کر گئے  …

ذرا ٹھہر کر ورما بولا ’’ آؤ اندر چلیں … پارٹی بس شروع ہوا چاہتی ہے۔ باس انتظار کر رہے ہوں گے۔ ‘‘

ہنگامے،ٹھٹھول کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ وہ بے دلی سے صاحب کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ بڑے بڑے بینر پر آفس کی تقریب اور جشن کے عنوانات جگمگا رہے تھے — خوبصورت قالینیں بچھی تھیں … باس آگے والی کرسی پر مس نیلی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مس نیلی کا ہوش رُبا لباس دوستوں کی نگاہوں میں دھنک کی طرح چمک رہا تھا۔

کریم بیگ ہر لمحہ گہری اندھیری کھائی میں اُترتا چلا جا رہا تھا۔ تم بے حیائی کے مینار ے پر چڑھ گئے ہو کریم بیگ … کیا اُتر سکو گے … ؟

کریم بیگ کا پور پور لرز گیا … ہاں میں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ کہتے ہیں جب کسی قوم کا اخلاق کمزور پڑ جائے تو اُس قوم کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ میں ایک ہلکی سی مدافعت بھی نہیں کر سکتا۔ یہ سچ ہے کہ اب یہ سب مجھے اچھا نہیں لگتا۔ مگر میں بہت کمزور ہو گیا ہوں … اور میں اپنی کمزوری کے خلاف ایک آواز بلند نہیں کر سکتا۔

 ان کا گلہ بھر آیا کہ وہ بے حد مجبور تھے …

شاید ہمیشہ سے مجبور رہے تھے۔

پھر قہقہوں میں چیئرز کی ترنگ گونجی … کریم بیگ لڑکھڑا گئے اور جیسے اونچے مینارے سے لڑکھڑا کر آن کی آن میں زمین پر گر گئے … آنکھیں لہو کا گھونٹ پی کر رہ گئیں … احساس مردہ چھپکلی کی طرح بے جان ہو کر دیوار کے جھول میں قید ہو گیا … اور اندر رہ رہ کر بس یہی سوال گونج رہا تھا۔

’وہ کب احتجاج کرنے کے قابل ہوں گے؟‘

(۲)

کریم بیگ لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں داخل ہوئے۔ سر پھٹا جا رہا تھا۔ سوچ کے آوارہ طیور نے دل و دماغ پر بسیرا کر لیا تھا۔ دماغ کی نسیں بری طرح سے جھنجھنا رہی تھیں۔ اور یہ ساری باتیں اس بات کی غماز تھیں کہ وہ جس تبدیلی کے خواہاں ہیں اُس راستے میں اُن کی اپنی کمزوریوں کا آہنی پل کھڑا ہے …

کچن سے رضیہ کے گنگنانے کی آواز آ رہی تھی۔ کریم بیگ نے قدموں میں تیزی لائی۔ دھڑدھڑاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ لائٹ آن کی اور دروازہ بند کر لیا۔ پھر تھکے ہارے بستر پر گر گئے۔ آنکھیں اب تک نشے کی حالت میں جل رہی تھیں۔ کمرہ سلیقے سے سجا ہوا تھا۔ دیوار پر مذہبی کلینڈر آویزاں تھے جس پر کئی سال پیچھے کی تاریخ قہقہہ لگا رہی تھی۔ ان ٹنگے ہوئے مذہبی کلینڈروں نے جیسے ان کے ارد گرد اپنا کساؤ تنگ کر لیا تھا۔ ایک چھوٹا سا معصوم بچہ قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا۔ رحل کھلا تھا اور قرآن شریف پر اُس کی معصوم نظریں جھکی ہوئی تھیں … ریک پر رشتے داروں کے یہاں سے آئے ہوئے عید کارڈ سجے تھے …

وہ ایک ختم ہوتی ہوئی تہذیب کے گواہ تھے۔ اور اس سے بھی زیادہ بھیانک بات یہ تھی کہ وہ بھی آج سے پہلے اس تہذیب کا ایک حصہ تھے۔

 پھر یوں ہوا کہ کمرہ پشچاتاپ کے آنسوؤں سے بھر گیا۔ تکیے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر منہ ڈھک لیا اور زار و قطار رونے لگے۔ آزادی کے بعد یہ کیسا سکون پایا ہے … میں نے … کہ اپنی کمزوریوں کا غلام بن گیا۔ اور بدمست لوگوں کے قافلے میں شامل ہو گیا … کہ وہ تسبیحیں جو ابا حضور اور دادا حضور کے ہاتھوں میں اتنی بھلی لگتیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں عقیدت کے جگنو سما جایا کرتے، وہ تسبیحیں اچانک اُس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئیں … اور پھر بد قسمتی کا دور آیا … بد مست ابابیلوں نے آسمان کو ڈھک لیا۔ اور جو پایا تو خواب خواب منظر تھے۔ مصنوعیت کی حسین جنت نگاہوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ پھر تسبیحیں میلی ہوتی چلی گئیں۔ قرآن شریف طاق پر رکھ دئیے گئے۔ باقی بچے کلینڈر جو دیواروں پر اب بھی آویزاں تھے۔ بس یہی کچھ تھا۔ جو چیخ چیخ کر اُن کا رشتہ مذہب سے جوڑ رہا تھا …

کریم بیگ اچانک جیسے کسی ڈراؤنے خواب سے جاگے۔ جانے کہاں سے ظفر بیگ ان کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ بستر مرگ پر آخری سانسیں لیتے ہوئے۔ آنکھیں آنسوؤں سے تر اور کمرے میں دہشت کا گونگا پرندہ منحوسیت بھری آواز میں روئے جا رہا تھا — ۱۹۴۸ء کی وہ شب آشوب …

دروازے بند تھے۔ کھڑکیوں پر پردے گرے تھے … امی حضور کی آنکھیں رہ رہ کر مچل جاتیں۔

اس وقت ان کی عمر صرف چودہ سال کی تھی — شہر میں فساد پھوٹ پڑا۔ یہ خبر ایک آگ تھی۔ ایک ایسا زہر جس کے دوبارہ چکھنے کے احساس سے کوئی بھی واقف نہ تھا … بدمعاش سارے شہر میں آگ لگائے پھر رہے تھے۔ ہنستے کھیلتے لوگ موت کی نیند سلائے جا رہے تھے … مکانات شعلے اُگل رہے تھے اور بلوائیوں کے بے ہنگم قہقہے گونج رہے تھے … آزادی سے قبل جن آنکھوں نے خوف کا لفظ نہیں جانا وہ آنکھیں سہمی جا رہی تھیں کہ اب تو جان کا ڈر اپنے بھائیوں سے بھی پیدا ہو گیا ہے … اب کہیں خیر نہیں۔

اور ابی حضور بیگ نے ایک ڈوبتی سانس لی۔

’’ بیٹا ! کاش میں مر گیا ہوتا۔ کیا یہی دن دیکھنا تھا مجھے … یہی کچھ سننے کے لئے اُس نے یہ زندگی دی تھی … یہ آزادی اکیلے نہیں ملی … سب کا خون شامل ہے اس میں … اور کیا کیا ارمان پلے تھے دل میں کہ آزادی سارے فرق پاٹ دے گی … کوئی فساد نہیں ہو گا۔ دنگے نہیں ہوں گے۔ خون کی ہولیاں اب نہیں کھیلی جائیں گی۔ یہ سارا قصور تو فرنگیوں کا ہے — جس نے زبان پر بھی قفل لگا دیے ہیں — سی ڈالے گئے ہیں ہونٹ … رنگوں کے فرق کا بے بنیاد مسئلہ سامنے لا کھڑا کیا گیا ہے … یہ سب قصور تو ان فرنگیوں کا تھا۔ اور جب ایسا سو چا تو مذہب کی دیو قامت دیواریں ہم نے اُسی دن ڈھا دیں۔ اور یہ تہیہ کیا تھا … دو بھائی مل کر ایک گھر میں رہیں گے … ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کریں گے … محبت اور دوستی کے ماحول میں ایک ساتھ سانس لیں گے۔ مگر آزادی کو ابھی ایک سال بھی پورے نہیں گزرے کہ یہ کیا سننے میں آ رہا ہے … کہ دو بھائی لڑ گئے … یہ سننے سے تو موت بہتر ہے۔

ابی حضور ظفر بیگ بولے چلے جا رہے تھے۔ امی حضور بار بار آنکھیں مل رہی تھیں۔ کبھی آنسوؤں کو پوچھتیں،کبھی دلاسے دیتیں کہ نوج! آزادی نے ایک سال بھی سکون کی سانس لینے نہ دیا۔ پھر آنکھیں ملتی ہوئی اُس کے حواس باختہ چہرے کو دیکھتی ہوئی بولیں …

’’ بیٹا۔ کریم ! سب دروازے دیکھ لئے نا … ٹھیک سے بند ہیں نا … ؟

ہاں امی۔

وہ فرمانبردار بیٹے کی طرح سر جھکا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔

ابی حضور کی کانپتی آواز پھر سے دیواروں کو لرزہ کر گئی … کیوں بند کرواتی ہو دروازہ … کریم … یہ سارے دروازے کھول دو میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلہ کیسے گھونٹتا ہے …

پھر ابی حضور کی حالت ابتر ہو تی چلی گئی … اور وہ دیر تک عالم نزع میں بڑبڑاتے رہے …

’’ کانتا پرساد … سن رہے ہو … کانتا پرساد اچھا ہوا تم قبل از وقت چلے گئے۔ آزادی کے بعد کا یہ زہریلا دھواں دیکھنے کے واسطے زندہ نہ رہے۔ ہم نے جو دیواریں مل کر ڈھائی تھیں — آج کچھ نا سمجھوں نے وہاں ایک نئی دیو قامت دیوار پھر سے کھڑی کر دی ہے — اب تم ہی بتاؤ کانتا پرساد ! اس نئی مضبوط دیوار کو ڈھانے کے لئے پھر کون سی آزادی کو آوازیں دینی پڑ یں گی۔

ابی حضورکی آواز سسکیوں میں ڈوب گئی …

کریم کے دل کے پھپھولے جیسے پھوٹ گئے … کبھی مٹھیاں بھینچتیں،کبھی چہرے پر جوش آتا … کبھی اپنی بیچارگی پر ترس آتا … اس ماحول میں دل نہ لگا تو ٹہلتا ہوا کھڑکی کے پاس آگیا … سامنے ایک گز کے فاصلے پر رما کانت جی کی کھڑکی کھلی تھی اور پنڈت رماکانت کی مرجھائی آنکھیں ایک ٹک خلاء میں گھو ر رہی تھیں … جب دونوں کی نظریں ملیں تو پنڈت جی کی آنکھیں بھر آئیں۔ آنسوؤں کی ایک موٹی لکیر رخسار پر پھیلتی چلی گئی۔

’’بیٹا ! تمہارے ابا کیسے ہیں ‘‘

پنڈت جی کی ٹھہری ہوئی آواز اس کے سینے میں اُتر تی چلی گئی۔ اُس کا جی چاہا کہ کہے۔ اب آگ تو لگ ہی چکی ہے۔ اب اس آگ پر نمک چھڑکنے سے کیا حاصل … مگر پھر خیال آیا۔ تالی ایک ہاتھ سے تو نہیں بجتی — جس خوف سے ابی حضور بستر مرگ پر لیٹے لیٹے اپنی موت کو آواز دے رہے ہیں … وہی خوف پنڈت رما کانت کی آنکھوں میں بھی چھپا ہو گا — آزادی کے بعد کی یہ سرخ دھوپ ان کی آنکھوں میں بھی اتر آئی ہو گی …

رما کانت کے لہجے کی پریشانی محسوس کرتے ہوئے اس کا کلیجہ دُکھ گیا … بس آہستہ سے بولا۔

’’ ابی کی طبیعت بہت خراب ہے … وہ موت کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ ‘‘

’’ ظفر کچھ غلط نہیں مانگ رہا ہے ‘‘

پنڈت چچا کی آنکھیں بھر آئیں … جس نے آزادی سے قبل کا وہ مثالی ملاپ دیکھا ہو۔ وہ بھائی بھائی کے جھگڑے کیسے قبول کر سکتا ہے … زمانہ بہت خراب آگیا ہے … ‘‘

پنڈت جی خود کو روک نہیں پارہے تھے۔ آنکھیں گیلی تھیں … اپنی آواز کی تاب نہیں لاسکے۔ آنسوؤں میں بہہ کر بس اتنا کہہ سکے۔

’’ ظفر سے کہنا۔ میرے حق میں بھی وہی دعائیں مانگے جو اپنے لئے مانگ رہا ہے … ‘‘

اور اتنا کہہ کر جیسے اندر دبا آتش فشاں ایک دم سے پھوٹ گیا … آواز کی تاب نہ لا سکے، آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار بہہ چلی۔ اپنی جگہ سے پیچھے مڑے اور کھڑکی بند کر لی۔

وہ حواس باختہ ساکت نظروں سے بہت دیر تک بند کھڑکی کو گھورتا رہ گیا۔

کریم بیگ کے اندر ایک آندھی اُٹھ رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ چند لمحوں تک افسردہ نظروں سے بند کھڑکی کو گھورتا رہا۔

پھر ایسا لگا جیسے پنڈت جی اپنی ساری محبت آنکھوں میں سمیٹے اس سے کہہ رہے ہوں … بیٹا! ظفر سے کہنا میرے لئے وہی دعائیں مانگے جو اپنے لئے مانگ رہا ہے۔

اُس کے قدم بھاری ہو گئے۔ اس جگہ ایک پل ٹھہرنا محال ہو گیا۔ دل میں یہ خیال آیا … جیسے یہ کھڑکی بند نہیں ہوئی ہو بلکہ رما کانت اُس کی نسل کے لوگوں سے ایک چیلنج کر رہے ہوں۔ ایک وعدہ لینا چاہ رہے ہوں۔ ہم اور ظفر تمہارے ماں باپ جیسے بزرگ تو اب ہمیشہ کے لئے تم سے دور بہت دور چلے جائیں گے … اب یہ کام تمہارا ہے۔ تم جیسے نوجوانوں کا … یہ کھڑکی ہمیشہ کے لئے بند رہنے دو … یا ہمیشہ کے لئے کھول دو … کبھی نہ بند ہونے کے لئے …

وہ تھکا ہارا جس وقت ابی حضور کے کمرے میں لوٹا … اُس وقت رحیمو چا کے ہاتھ دُعا میں اٹھے تھے — — — سرہانے ان کی چھوٹی لڑکی سلمہ بیٹھی تھی۔ رحیمو چا گھر کے وفادار ہی نہیں تھے بلکہ اب تو خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے ان کی گنتی ہوتی تھی … پشت در پشت ان کا خاندان اس گھر کا وفادار رہا تھا۔ رحیمو چا کے ہاتھ دعا میں اُٹھے تھے۔ ابی حضور کی آنکھیں لگ چکی تھیں۔ امی حضور کی پلکوں پر اب بھی خوف کا ساون ٹھہر ٹھہر کر برسے جا رہا تھا۔

کریم بیگ کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں۔ کتنا عرصہ بیت گیا — ایک طویل مدت گزر گئی۔ زمانے کی خون آلودہ ہتھیلیوں پر سُرخ گلاب کی تمنا کرنے والوں کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوا … ان کے معصوم سراپے سے ہو کر آزادی کا ایک ہلکا سا خوشگوار جھونکا آیا اور تیزی سے گزر بھی گیا۔

توحال یہ تھا کہ شہر آگ میں جھلس رہا تھا … اور ریڈیو چیخ رہا تھا … سارے شہر میں کرفیو لگا دیا گیا ہے … باہر نکلنے والے کو گولی مار دی جائے گی۔

ابی حضور ظفر بیگ بستر مرگ پر لیٹے لیٹے اب بھی ہذیانی کیفیت میں چیخ رہے تھے — اسی حق کے لئے جنگ کی گئی تھی … سب لڑ کٹ کے مرجاؤمارو … مارو …

ابی حضور، وہ گھبرائے انداز میں بولا … پولیس نے بلوائیوں پر قابو پالیا ہے۔ یہ جرائم پسند لوگ ہیں ابی حضور … مذہب سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے۔ شہر میں اب امن ہے ابی حضور … لڑائی ختم ہو گئی۔

ظفر بیگ کی سانسیں جیسے اُکھڑ رہی تھیں۔ لڑائی ختم کہاں ہوئی۔ ابھی سے لڑائی کی شروعات ہو گئی۔ ہم تو وہ برا وقت دیکھنے کو نہیں رہیں گے۔ مگر تم رہو گے … اللہ بچائے … یہ بد بو کا بیج بو کر اچھا نہیں کیا ظالموں نے … یہ لڑائی جاری رہے گی۔ لڑائی مسلسل جاری رہے گی۔ خدا بچائے … خدا تمہیں محفوظ رکھے … آمین

وہ لوگ ایک عہد کا ترجمان ہوتے ہیں۔ جن کے آنکھیں موندتے ہی ایک دور ختم ہو جاتا ہے۔ ایک دوسرے دور کی شروعات ہو جاتی ہے۔

ابی حضور ایک ایسے ہی عہد کے ترجمان تھے۔ چھوٹی سی لڑائی سے گھبرا گئے۔ آنکھیں موند لیں۔ مرتے وقت قرآن شریف کو سینے سے لگایا … اشارے سے کہا۔ حفاظت کرنا اس کی … رئیسی تو چھن گئی۔ زمینداری انگریز لے گئے۔ باقی یہی بچا ہے۔ سو سیج سنوار کر احترام سے رکھنا … ہم تو چلے … اب تم باقی ہو … کہ عمر کا ایک لمبا حصہ دیکھنا ہے۔ تمہیں … جا تو رہا ہوں … مگر ایک کسک لے کر جا رہا ہوں … کہ آزادی کا جو خوب صورت خواب ہم نے مل کے دیکھا تھا،وہ خواب لہو لہان ہو گیا … اب واپسی ہے … کہ یہاں سے جی ٹوٹ گیا۔ پس اُس کی نگہبانی میں جا رہا ہوں …

پھر آنکھیں موند گئیں … ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔

امی حضور دہاڑ مار کررونے لگیں — وہ بھی خاموش تھا۔ یہ عقل و شعور میں نہ تھا کہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا۔ اتنی جلد ابی حضور کی آنکھیں موند جائیں گی … اور ذمہ داری کا بوجھ اُس کے ناتواں کندھے پر آ جائے گا۔

امی حضور دہاڑیں مارے رو رہی تھیں … بیٹا ! لہو لہان آزادی کا غم کھا گیا تیرے ابی کو چپ ہو جا …

آنسو خشک ہوئے … آنکھیں باہر اُبل آئیں … مٹھیاں کس گئیں۔ جیسے شکوہ کر رہی ہوں۔ اسی آزادی کا خواب دکھاتے تھے مجھے — نوج،یہی مار کاٹ دیکھنے کو رہ گئے ہم …

محلے کے لوگ پہنچے — پنڈت رما کانت بھی آئے … سب کی آنکھیں بوجھل۔ جھکی جھکی سی … پنڈت جی نے ایک لمبی سانس کھینچی اور جیسے ٹکڑے ٹکڑے الفاظ جوڑے … یہ ٹھیک نہیں کیا تم — چلے گئے نا اکیلے اکیلے … مجھے کون سا دن دیکھنے چھوڑ گئے تم … ساتھ لے کے چلتے … غم تو بہت بڑا ہے کہ اب ہولی میں کون گلا لگائے گا مجھے … محبت کے ابیر اب کون ڈالے گا … ؟ بچوں کو دیوالی کے پٹاخے کے پیسے تو میں دے دوں گا … مگر وہ تمہاری راہ تکیں گے ظفر … کہ اب تمہاری جگہ کوئی نہیں آئے گا … یہ جگہ اب کوئی نہیں لے گا … کہ یہ فرق کی دیوار تمہارے بعد اونچی اٹھتی چلے جائے گی …

رحیمو چا بھی سر جھکائے تھے … ٹپ ٹپ آنسو گرتے جا رہے تھے … سلمہ بھی چپ تھی … اور حیرت سے دیکھ رہی تھی۔

پھر آوازیں کھو گئیں … کھوتی چلی گئیں … اور ویرانی گھر کے ہر طاق پر قابض ہو گئی۔ ایک دن رحیمو چا اور سلمہ بھی چلے گئے۔ کہ اب یہاں کوئی نہ رہا … گھر کی دیواروں سے غم برستا ہے … سو یہاں دل نہیں لگتا …

وقت کی کٹروٹ مشہور ہے … کیسے کیسے لشکر تہہ و بالا کر دئیے … وقت قارون پر بھی ہنسا۔ نمرود پر بھی ہنسا … اور آج پھر وقت کے قہقہے چودھری ولا کی ویرانی میں گونج گئے …

یہی رحیمو چا … جنہیں گھر کی ویرانی کا غم نگل گیا تھا۔ ایک دن واپس لوٹ آئے۔ آئے تو خالی ہاتھ … آنکھیں سوجی ہوئیں … تھر تھراتے ہونٹ نے آہستہ سے لفظ کی ادائیگی کی … تم نے سلمہ کو دیکھا ہے … یہاں سلمہ تو نہیں آئی … نہیں آئی … ؟

دفعتاً جھنگر چیخے … آنکھوں میں ننھی سی جان کی شوخیاں کوند گئیں … اور سوکھے ہونٹ بس اسی قدر کہہ سکے … جاؤ … جا کے تلاش کرو … اس سے پہلے کہ وقت کا ہاتھ سلمہ کو آگے بڑھ کر اٹھالے … اُسے پالو — تلاش کر لو …

رحیمو چا نڈھال پریشان سیڑھیوں سے دوڑتے ہوئے چلے گئے اور پہلی بار کریم بیگ نے سوچا … اس سے پہلے کہ وقت اُس کی شکست پر قہقہہ لگائے، اُسے روزی روٹی کی تلاش کرنی چاہئے کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے …

اور یہ مسئلہ اس وقت صرف کریم بیگ کا ہی مسئلہ نہ تھا بلکہ کریم بیگ کی طرح بہت سے دوسرے نوجوانوں کے سامنے بھی یہی مسئلہ آ کھڑا ہوا تھا۔ اور پہلی بار کریم بیگ کو احساس ہوا کہ ابی حضور کا ماتم گھر میں دو روٹیاں نہیں لا سکتا۔ دن رات کی تھکن اور لمبی دوڑ دھوپ کے بعد ایک شام جب وہ تھکے ہارے گھر آئے، نوجوانی کے کندھے سے ٹپ ٹپ خون بہہ رہا تھا۔ اور کھردری ہتھیلیوں پر فتح کی لکیریں مسکرا رہی تھیں …

ابی حضور کی موت کے بعد یہ پہلا فخریہ احساس تھا جو اُس کے اندر پیدا ہوا۔ کہ اب وہ کمزور نہیں رہا۔ اُس نے اس برے وقت میں کام ڈھونڈ لیا ہے۔ اب دو روٹیوں کا بند و بست کوئی مشکل بات نہیں رہی۔ مگر اب بھی بچپن کی وہ رئیسانہ فطرت رہ رہ کر ایک خلش بن کر دل میں چبھ جاتی … وہ شان … وہ جلال … چودھری خاندان سے وابستہ کہانیاں … وہ اُٹھا ہوا سر اب بھی ٹھہر ٹھہر کر ایک بے چینی پیدا کر رہا تھا … مگر خود مختاری کی پھڑکتی مچھلیوں کا احساس ان تلخیوں پر غالب آ جاتا … پھر یہ تلخیاں بھی آہستہ آہستہ نقش بر آب کی طرح دل و دماغ سے نکلتی چلی گئیں …

وہ زندگی کے ایک نئے دور میں قدم رکھ رہا تھا۔ اِدھر اُدھر کی ملازمت سے آفس تک کا سفر خاروں بھرا سفر رہا۔ مگر اس سفر میں اب رضیہ اُس کی شریک حیات تھی۔ امی نے جیسے لفظوں سے ناطہ ہی ختم کر لیا تھا … اور پھر ایک دن اُن کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔ اور یہی فقرہ ان کے لب کو ابدی خموشی دے گیا … کہ نوج آزادی ملی بھی تو پہاڑ سا غم دے گئی۔

پھر یہ آواز ہمیشہ کے لئے معدوم ہو گئی … چودھری ولا اداس ہو گیا — خاموشی اور ویرانی کے جھینگروں نے گھر میں ڈیرا ڈال دیا۔ رشتے محبت کی بنیاد ڈالتے ہیں … اور محبت کے لمحے ایک تاریخ بن جاتے ہیں … آنسو تھمے تو رضیہ کی محبت بھری آغوش سہارا بنی … اور سب کچھ یاد آیا … گزرے ہوئے ایک ایک تاریخی لمحے … امی حضور کو اللہ پاک سے صحت دلانے کی کتنی دعائیں کیں … مگر سب بے سود … جیسے دعاؤں نے اپنا اثر کھو دیا تھا۔

تو پہلی بار … وہ جو قادر تھا … جو پیدا کرنے والا تھا۔ وہ اُس کے شک کی وجہ بن گیا … کہ امی حضور کی تربت کے قریب اُس کے آنسو تھمتے نہ تھے … تیری زندگی کے لئے تسبیحوں کے کتنے دانے گن ڈالے میں نے … مگر تو اثر سے عاری رہا …  طاق پر رکھے ہوئے قرآن شریف کی گرد جھاڑی … بند سانسوں کے کثیف جھونکوں کو باہر نکالا۔ پھر بھی تو خوشی سے محروم کر گیا … نوجوانی کے کندھے کو پہاڑ سا غم دے کر جھکاتا چلا گیا۔ اور جب کوئی گھاؤ بھرنے کے قریب ہوتا تو پھر ایک نیا زخم بھر دیتا ہے —

امی حضور! تم اس گھر سے نہیں گئی ہو۔ تم اس گھر میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہو گی … اپنی بلند آواز میں  … اپنی شفقت میں … اپنی خاموشی میں … تم زندہ رہو گی … ابی کی موت کے بعد تم نے ایک دن بھی اپنے جھری بھرے ہاتھوں میں تسبیح نہیں اٹھائی کہ اس کے دانوں کو چھونے کا احساس تمہارے اندر گزرے ہوئے وقت کی آندھی کو صدا دیتا تھا … تم اس شکستہ ولا کی ایک ایک اینٹ میں … ایک ایک شئے میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہو گی۔

اور ابھی یہ آنسو خشک بھی نہ ہوئے تھے کہ اچانک وہ ٹھٹھک کر رُک گیا۔ عقب سے ایک تیز قہقہہ گونجا تھا … وہ چونکا … قہقہہ تیز تر ہوتا گیا … اُس نے معلوم کیا۔ قہقہے کا یہ راستہ اس کے آفس میں آ کر ختم ہو جاتا تھا۔

اور اُس نے سوچا … یہ نقرئی قہقہے کتنے خوبصورت ہیں۔ جو گزر گیا اُسے بھول جانا چاہئے … نقرئی قہقہے اُسے اپنی جانب بلا رہے تھے …

اور وہ حسین جنت کی تلاش میں اُن قہقہوں کی جانب بڑھا جا رہا تھا …

(۳)

آفس میں قہقہے گونج رہے تھے —کرسیوں پر رنگین خواب انگڑائیاں لے رہے تھے … تال ٹھونکے جا رہے تھے … گفتگو کے حسین چشمے پھوٹ رہے تھے … صاحب کی آنکھوں سے روشنی کی دھاریں بہہ رہی تھیں … آفس کی کھڑکیوں اور دروازوں سے خوشبو کے آبشار گر رہے تھے …

کہ جو بھی دیکھتا وہ اپنی جگہ ٹھٹھک کر ضرور کھڑا ہو جاتا … کہ جو بھی دیکھتا اس کی آنکھیں ان مناظر کی قیدی بن جاتیں …

 طلسم ہو شربا کی حسین عورت کو پلٹ کر دیکھے جانے والا منظر بت بنا دیتا … کریم بیگ نے دیکھا اور جیسے ماحول کے سحر میں گرفتار ہو گیا … ان خواب منظروں کے حوالے کر دیا … کہ اب پیچھے لوٹنے سے فائدہ ہی کیا ہے۔ ہنسی قہقہوں میں یہ بوجھل زندگی راست پر آ جائے گی۔ جو دھواں ماضی نے انڈیلا ہے … وہ تلخیاں دور ہو جائیں گی … وہ تلخیاں خوب صورت خواب اور رنگینیوں سے پر فضا میں گم ہو جائیں گی … اب گزرے ہوئے کا شکوہ بھی کیا … اب تو آگے کی خوبصورت اور حسین ترین زندگی پر سرخم کرنا ہے …

سو سر جھکا یا … آنکھیں پھیلائیں …

اور یہ خواب خواب منظر کریم بیگ پر آہستہ آہستہ اپنی گرفت مضبوط کرتا گیا … اس طرح کہ اسے کچھ پتہ بھی نہ چلا … اور وہ ڈوبتا چلا گیا۔

قہقہوں کے بیچ کچھ واہیات شور بھی تھے … کچھ گندی باتیں بھی تھیں …

رتھ اور سموئل کی جما دینے والی ہنسی بھی تھی … یہ رشتے اور مذہب پر بے باکی سے خوفناک تبصرے کیا کرتے تھے —

 ایک ڈوبتا ہوا سورج اس کی نگاہوں میں کوندا … اور وہ آہستہ سے بڑ بڑایا … شیطان … ترقی کے ہر ایک زینے پر شیطان کھڑا ہنس رہا ہے … فنکشن میں — آفس کی تقریبات میں … مسز بھٹناگر کے گھر پر … فائیو اسٹار ہوٹل میں … رتھ اور سموئل میں … ہر جگہ شیطان چھپا تھا … جو قہقہہ لگا رہا تھا …

اور پہلی بار رنگینیوں سے کٹ کر اُس نے محسوس کیا۔

یہ … یہ شیطان کی اولاد میں سے ہیں … یہ … جو موقع پا کر ہر جگہ اپنی گفتگو تیز کر دیتے ہیں تاکہ دوسرا ان کی بے ہنگم آواز کی زد میں آ جائے اور نقرئی قہقہوں میں ڈوب جائے … اور ان جیسے لوگوں نے ’’ بھوک‘‘ کو اپنی گفتگو کا موضوع بنا رکھا ہے … کہ بھوک کی زد میں آ کر رشتے کے محل ڈھے جاتے ہیں … جسم کی شناخت کھو جاتی ہے … ہوس کے ناگوں کا زہر آہستہ آہستہ اثر دکھاتا ہے اور ایک نئی دُنیا کا تصور نوخیز پرندے کی طرح پھڑ پھڑاتا ہے …

ہاں … یہ اُسی دن کے منتظر ہیں …

اُسی دن کے منتظر ہیں … جب رشتے، روا جوں … اور مذہب کے میل کو جھاڑتا ہوا انسان سارے بندھنوں سے آزاد ہو کر پھر سے آدی مانو بن جائے گا …

پھر سے پاشان یگ میں لوٹ جائے گا …

تہذیب کی گرد گرد اُڑ جائے گی …

نشہ حواس چھین لے گا … گانے کے شور بے تعلق بنا دیں گے … تاکہ … وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں —

اِس زہریلے سیلاب میں تم بھی ہو … تم بھی ہو کر یم بیگ … !

جب یہ آوازیں ابھریں تو وہ زور سے چونکا … کہ خود بھی وہ اس سیلاب میں بہتا ہوا بہت دور تک نکل گیا تھا … سیلاب کی آوارہ لہریں اُس کے جسم پر برق بن کر گر رہی تھیں … رفتہ رفتہ وہ معمول میں لوٹا … نظریں کارنس سے جھولتی میلی تسبیحوں پر جم گئیں۔ طاق پر گرد و غبار کے درمیان رکھے قرآن شریف کو دیکھا … مگر اب وہی خوف و دہشت کا سانپ پھن اُٹھائے اس کے سامنے کھڑا تھا۔

وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا … اور ہٹتا ہی چلا گیا …

اور اس کی زندگی میں ایک بالکل نئے صفحے نے انگڑائی لی — کہ اچانک کسی کے ٹکرانے سے وہ چونکا … اور آنکھیں پھیلتی چلی گئیں …

ٹائپ رائٹر مشین پر رینگتے ہوئے اُس کے ہاتھ ٹھہر گئے … اُس کے اندر برسوں سے دبا ہوا ایک گمشدہ نام اُبھرا … سلمہ …

سفید ساڑی میں ملبوس … ہونٹوں پر جھولتے ہوئے خاموشی کے تالے۔ کسی بیوہ جیسی اداس … جسم کی وادی میں تجربوں کے ہزار آبلے گواہ تھے … اُس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا سفید کاغذ اُس کی جانب بڑھایا … جس پر مدد کی درخواست تھی … کچھ لوگوں کے نام بھی درج تھے … جن لوگوں نے اُس کی پاگل کر دینے والی جوانی پر رحم کھا کر کچھ پیسوں کی خیرات کی تھی۔ چند لمحوں تک وہ شد بد کھو کر دیکھتا رہ گیا۔ پھر ٹھنڈے، لرزتے ہاتھوں سے کاغذ تھام لیا … کانپتی نظریں کبھی کاغذ … کبھی اُس کے چہرے کا جائزہ لیتیں۔ ہونٹوں کے پرندے کو آواز دینا چاہا تو وہ گویائی سے محروم ہو کر فضا میں پرواز کر چکے تھے …

وہ جیسے اپنے چہرے کے، نہیں سمجھ میں آنے والے رنگوں کے ساتھ بوسیدہ کاغذ کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ وہ اب بھی پر سکون اس کے سامنے کھڑی تھی۔ آنکھیں جیسے زندگی کا زہر پی کر آزاد ہو چکی تھیں۔

کرسیوں پر بیٹھے ہوئے آفس کے لوگوں میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں۔ کچھ لوگ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے —

’’بیچاری — صاحب سے ملانا چاہئے — صاحب ہی اس کا پر ابلم سو لو کر سکتا ہے۔ ‘‘ ’’آؤ … آؤ ہمارے ساتھ … ‘‘

کچھ لوگ آگے آئے … اور وہ ایک لاش کی طرح اُن کے ساتھ ساتھ ہو لی — وہ چپ، بے جان سا دیکھتا رہا … پھر وہ اپنی سوچ کے بادلوں پر سوار بہت دور نکل گیا … جب لوٹا تو معلوم ہوا … کہ اب سلمہ مس نیلی بن چکی ہے … صاحب نے جوانی پر رحم کھا کر اس اسے بھی نوکری دے دی ہے … صاحب کو یقین ہے … مس نیلی سب کچھ بہت جلد سیکھ جائیں گی …

پھر وقت پر لگا کر اُڑ گیا —

وہ دیکھتا رہا … مس نیلی تبدیلیوں کے پر اسرار پل سے گزر رہی ہیں۔ پرانی پہچان کے زیور نکال کر نئے زیور ڈال رہی ہیں۔ کبھی سیلولس بلاؤ زمیں … رنگین ساڑیوں میں، کبھی اسکرٹ اور شرٹ میں،کبھی گھائل کر دینے والی شلوار اور جمپر میں۔ کبھی دعوت نظارہ دیتے ہوئے کپڑوں میں … وہ صاحب کی منظور نظر تھیں اور صاحب کو پورا پورا اختیار تھا کہ وہ جو سلوک چاہیں مس نیلی کے ساتھ کر سکتے ہیں —

مس نیلی سے اُس کا کوئی رشتہ نہ تھا۔ مگر سلمہ اُس کی بہن تھی … اور یہی احساس برسوں سے دبے آتش فشاں پہاڑ کو سلگنے کا موقع دے رہا تھا۔ وہ یہ سب کیسے گوارہ کرتا کہ کیکٹس نظریں اُس کے معصوم جسم پر چبھتی رہیں … مس نیلی آفس کی منظور نظر ہو گئی تھیں۔ اس کے قہقہے آفس کی شان بن گئے تھے … اُس کی مسکراتی آنکھیں ایک خوبصورت افسانہ بن گئی تھیں … اس کی زندہ دلی کا چرچا ہر خاص و عام کی زبان پر تھا … اور وہ … کھویا کھویا کبھی کبھی اُس میں مرحوم رحیمو چا کے عکس کو ضرور تلاش لیتا جو اس کے گھر کے وفا دار ہی نہیں بلکہ ایک اہم رکن بھی تھے …

وہی رحیمو چا …

آج مس نیلی کے نئے چہرے میں گم ہو گئے تھے —

صاحب نے مس نیلی کو ایک کوارٹر بھی دیا تھا … صاحب اور مس نیلی کے تعلق کی عجیب عجیب خبریں اُسے روز موصول ہوتیں … اور روز ایک نیا کیکٹس اس کی ہتھیلیوں پر اُگ آتا … ایک دن جب رحیمو چا اُسے بہت یاد آئے تو اُس دن مس نیلی اچانک اُس کے لئے مر گئی … آخر کار اُس نے سلمہ کو پکڑ ہی لیا، جو بس اسٹینڈ کے قریب کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی۔

سلمہ نے نگاہیں اٹھائیں اور آہستہ سے مسکرا دی …

وہ چند لمحوں تک کھوئی کھوئی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیتا رہا … پھر پوچھ ہی ڈالا …

تم سلمہ ہو نا …

اچانک جیسے زمین ہل گئی … زلزلہ آگیا … مس نیلی کے جسم میں لرزش ہوئی … آنکھوں میں خوف چھا گیا … تم … تم … ؟؟

اُس کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں …

’’ ہاں … میں ‘‘ اُس نے نظریں جھکا لیں … پھر کہا … ’’ کچھ پوچھوں تو جواب دو گی؟‘‘

 مس نیلی نے ایک لمبی سانس لی … خود پر قابو پایا … الفاظ جوڑے … پھر ڈھٹائی سے بولی … ہاں تمہیں پہچان گئی … تمہیں اُسی دن پہچان گئی تھی۔ مگر تم مجھے نہیں پہچاننے کا کیا لو گے … ؟

اس کی جلتی آنکھیں جیسے گرم سلاخوں کی طرح جسم میں اُتر گئی تھیں۔ اور جیسے ایک گونگے رشتے نے سوال کیا … ’’ یہ تم کیا کہہ رہی ہو سلمہ … ‘‘

’’ میرا نام مس نیلی ہے ‘‘

وہ پھر تلخی سے بولی … اور سنو … میرا کسی بھی مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے … یہ نام نہ ہندو کا ہے نہ مسلمان کا … یہ نام باس کی پسند کا نام ہے۔ اس لئے یہ نام مجھے پسند ہے …

کریم بیگ کے حواس پر جیسے بجلی گر پڑی … اب پوچھنے کے لئے باقی ہی کیا تھا۔ اب کیا پوچھتا … بچپن میں گم ہوئی ننھی منی سلمہ نے بازاروں، شاہراہوں، گلیوں میں در بدر خانہ بدوشوں کی طرح گھوم پھر کر اپنی شرم بیچ دی تھی … اور وقت شاہراہ پر سجنے والا ایک خوبصورت مجسمہ بن گئی تھی …

بس آ گئی — مس نیلی نے خوبصورت بیگ کو حرکت دیا۔ زہریلی نظروں سے اس کی جانب دیکھا … اور آخری بچی گولی بھی اس کے جسم میں داغ دی … ’’ اور ہاں سن لو کریم ! رحیمو چا کی لڑکی سلمہ تمہاری بہن تھی۔ مس نیلی تمہاری بہن نہیں ہے۔ ‘‘

بس سیٹی بجاتی ہوئی سامنے سے گزر گئی … وہ دیر تک اڑی ہوئی گرد میں اپنے شکستہ حواس کے ساتھ کھڑا رہا … سلمہ ملی بھی تو اس حال میں جبکہ سلمہ مر چکی تھی اور مس نیلی کا جنم ہو چکا تھا …

رشتے کے محل کیا اتنی جلد بکھر جاتے ہیں —

اندر ہزاروں چیونٹیاں سر سرارہی تھیں … ہاں … ہاں بکھر جاتے ہیں … جہاں تمہارے جیسے لوگ ہوں گے کریم بیگ … جو صابن کے جھاگ کی طرح بکھیر دیں گے رشتے کے احساس کو … نئی آزادی کے نئے احساس سے غسل کریں گے۔ ڈسکو کے سروں پر آزادانہ رقص کریں گے … تو آنکھیں پھیلتی جائیں گی … پھیلتی جائیں گی۔ اور رسم و رواج کی مضبوط قدیم دیواریں گرتی جائیں گی۔ گرتی جائیں گی۔

 اور ایسا کر کے ہم ہمالیہ کی کسی نئی چوٹی پر فتح کے پرچم نہیں لہرائیں گے … ہم بلند اور قد آور نہیں ہو جائیں گے … بلکہ عزت ا ور شرافت کی برسوں پرانی دیوار گرانے کے مجرم ہوں گے — اور زوال کے قریب تر ہوتے جائیں گے۔ سچ صرف ہماری تہذیب ہے … باقی سب ڈھونگ ہے …

بوجھل قدموں سے کریم بیگ گھر لوٹے … کانپتی آنکھوں سے گرد آلود تسبیحوں کو دیکھا … احساس میں ہلچل مچی … اور وہ زاروں قطار پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے …

(۴)

 صبح جاگے تو طبیعت ہلکی تھی … اندر کے سوئے ہوئے پرندے کو جگانے کے لئے خاصہ جوکھم اٹھانا پڑا۔ کریم بیگ رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتے رہے … اتنے برسوں میں ان کی زہریلی سوچ کی بدولت بستر پر آگ ہی آگ جمع ہو گئی تھی۔ اس آگ کو بھی سرد کرنا تھا اور یہ کام اتنا معمولی اور آسان نہ تھا … کریم بیگ کو اپنی کمزوریوں کا احساس بھی خوب تھا … ابی حضور ظفر بیگ اور امی حضور کے انتقال کے بعد وہ ٹوٹتے ہی چلے گئے تھے … نوجوانی کے کندھوں پر جب زخموں کے ان گنت نشانات دیکھے تو کمزوریوں کی دلدل میں اترتے چلے گئے اور منطق کے اونچے مینارے پر چڑھ گئے … کہ آزادی نے کیا دیا سوائے زخموں کے … مذہب نے کیا دیا سوائے بے بسی کے … کمسنی میں ہی ماں باپ کی شفقت کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ تو ایسی صورت میں تسبیحیں بھلا کیسے گرد آلود نہ ہوتیں …

مگر، مدت مدید کے بعد ایک سریلی آواز ان کے اندر گونج رہی تھی۔ تسبیحوں کی گرد ہٹائی جا سکتی ہے۔ قرآن شریف کی دھول جھاڑی جا سکتی ہے … اور کریم بیگ کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں … آفس کی سالانہ تقریب کا وہ جشن یاد آیا۔ جب وہ اپنی کمزوریوں کے غلام بن گئے تھے۔ تو وہی صدا غصے میں پھنکار رہی تھی۔

تم بے حیائی کے بلند ترین مینارے پر چڑھ گئے ہو کریم بیگ۔

 کیا اتر سکو گے … ؟

اور بدلے میں ان کی آواز کانپ گئی تھی … میں بہت کمزور ہو گیا ہوں … ہاں یہ سچ ہے کہ میں بہت کمزور ہو گیا ہوں اور یہ سب اب اچھا بھی نہیں لگتا … مگر میں ایک ہلکی سی مدافعت بھی نہیں کرسکتا۔

کریم بیگ جب سوکر اٹھے تو صبح ہو چکی تھی … جانے کیوں آج ایسا محسوس ہوا جیسے دل و دماغ سے ایک بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہو۔ نپے تلے قدموں سے چلتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں جھانکا۔ خیریت دریافت کی۔

انجم کے لئے بھی یہ سب کچھ نیا تھا … لیکن وہ بولا کچھ نہیں۔ مگر یہ ضرور محسوس کیا کہ ابا میں بڑی عجیب سی تبدیلی آ گئی ہے۔ ‘ برش کرتے ہوئے وہ ٹکرے ٹکرے خیالات میں کھو گیا … ابا تو ایسے کبھی نہ تھے۔ پھر … شاید ابا کو برسوں بعد آج اپنے بوڑھے ہونے کا احساس جاگا ہو۔ یا پھر وہ اب تک کئے گئے گناہ کا ازالہ کرنا چاہتے ہوں مگر گناہ کیسا … ؟

اُدھر کریم بیگ رضیہ سے مسکراتے ہوئے کہہ رہ تھے۔

’’ رضیہ ! ایک مدت گزر گئی … ایک طویل مدت … اب جا کے احساس جاگا ہے کہ ہم بوڑھے ہو چکے ہیں — اب اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے … رضیہ سچ کہوں تو یہ سب مجھے کبھی اچھا نہ لگا۔ تم اسے ایک طرح کا انتقامی جذبہ بھی کہہ سکتی ہو … یہ انتقامی جذبہ جیسا بھی رہا ہو … میرے اندر اندر داخل ہو گیا تھا … اور یہ سب کچھ … جو میں آج تک کرتا رہا … یہ سارے طور طریقے … جو میں نے خود پر تھوپے … تمہیں سکھانے کی کوشش کی … اور انجم نے سیکھے جس کا اس گھر میں چلن رہا … وہ بھی محض ایک انتقامی جذبے پر مبنی تھا … تم پوچھو گی کیا انتقامی جذبہ تو سنو …

آزادی کے بعد ہم نے کوئی خوشی نہیں دیکھی۔ کوئی دن ایسا نہ گزرا جب تنگی داماں کا مسئلہ نہ آ کھڑا ہوا ہو۔ غدر کے بعد سے ہم لٹتے ہی چلے گئے۔ پہلے تخت گیا … پھر تاج اُترا … رئیسی گئی … زمینداری ختم ہوئی … اور زوال مقدر میں لکھ دیا گیا … ہاں رضیہ … ہاں شاید یہی انتقامی کا روائی تھی کہ ہماری مقدس کتابیں ہم نے غصے میں طاق پر سیج کر رکھ دیں … اور اس پر بھی بس نہ چلا تو وہ سارے کارہائے نمایاں انجام دیے جن پر شجر ممنوعہ کا فتوی صادر تھا … اس طرح اپنی نا خوشی کا انتقام لیتا گیا … انجم نے اسی ماحول میں پرورش پائی۔ تم نے اسی ماحول میں اپنے ہونٹوں کو ایک طویل چپ دے دی اور مصنوعی جنت کا اسیر ہو کر رہ گیا …

مگر رضیہ … اب … اب اس غلطی کا احسا ہو چلا ہے۔ اب میں اس ماحول سے باہر نکلنا چاہتا ہوں … تمہیں بھی … انجم کو بھی اس ماحول سے نکالنا چاہتا ہوں …

کریم بیگ بغیر ٹھہرے بولتے ہی چلے گئے۔

جیسے برسوں کی دبی آواز نے باندھ توڑ دیا ہو … اور جذبے کا سیلاب اچانک اُمڈ آیا ہوا۔

رضیہ کھوئی کھوئی آنکھوں سے اُنھیں دیکھتی رہی … اُس کے ہونٹ آہستہ سے کانپے اور صدا تھر تھرائی …

’’ آج آزادی کا حق دیا ہے تم نے مجھے … ‘‘

آنکھیں جیسے جل رہی تھیں … ’’ میں نے تو ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا ہے … تم جس راستے پر لے چلے میں اُسی راستے پر گونگے جانور کی طرح تمہارے پیچھے پیچھے چلتی گئی … تم جہاں جہاں ٹھہرے۔ میں ٹھہرتی گئی … مگر انجم تو نئی نسل کا ہے نا … تم نے جس نئے راستے کی بے اصول پگڈنڈی پر اسے چھوڑ دیا ہے۔ کیا وہ پھر سے صحیح مقام پر واپس آسکتا ہے … بولو …

کریم بیگ کی آنکھیں جھکتی چلی گئیں … وہ کچھ بولے نہیں۔ رضیہ کی بات جیسے اُن کے دل کو چھو گئی تھی … کہنا چاہا … کہ ہاں رضیہ۔ تم ٹھیک کہتی ہو … اگر انجم کسی غلط راستے پر نکل گیا ہے … تواُس کا قصوروار میں ہوں … کیونکہ خود میں ہی بہت دیر میں جاگا … جب انجم نے میری ہی بے اصول پگڈنڈی پر اپنا محل تعمیر کر لیا تھا۔

کریم بیگ کی آنکھوں میں وقتی طور پر دھواں سا لہرایا۔ اگر انجم اپنے اصولوں کی بلند چٹان پر کھڑا ہے۔ تو اس کا قصور وار کون ہے۔

وہ … اُس کا غلام ملک … یا انجم کا آزاد ملک … ؟

اور پھر سب کچھ آنکھوں کے آگے دوڑ گیا کہ وہ سارے لمحے ایک تاریخ بن کر اس کے اندر جذب ہو چکے تھے … وہ ہیبت اور ڈر کا ماحول … گھر کے آنگن میں چھایا ہوا وہ ہولناک سناٹا … ابی حضور ظفر بیگ کی بلند بانگ … آزادی آزادی کی نہیں تھکنے والی زبان … ۴۸ء کی وہ شب آشوب … قربانیاں … اور ہمیشہ کے لئے خموش ہوئے لب … اور ایسے کتنے ہی خوفناک منظر اُس کی نگاہوں میں گھوم گئے … اور باقی بچے اُس کی نسل کے بے عقیدہ لوگ … وقت کے ستائے ہوئے لوگ … ان ستائے ہوئے لوگوں کی صف میں کشکول لے کر وہ بھی شامل تھا … اور زہر کی جلی بھنی روٹیاں ایک ایک کر کے انجم کے ہاتھ میں دیتا جا رہا تھا … اور انجم کی آنکھیں پھیلتی جا رہی تھیں۔ پھیلتی جا رہی تھیں …

اور ایک نظر نہیں آنے والا سانپ انگڑائیاں لے رہا تھا۔

اور بات تو بس کل ہی کی ہے کہ چھوٹا انجم دیواروں کے بیچ خوف سے دبکا ہوتا … آنکھیں دہشت سے زرد معلوم ہوتیں … تناؤ،اور تبدیلی کی جگہ اس کا اپنا شہر ہوتا۔ جہاں فساد کے دن ہوتے … تناؤ کی راتیں ہوتیں۔ بوالیوں کے چنگھاڑتے شور ہوتے … جلتے ہوئے مکانات سے اٹھتے ہوئے واویلے اور دھوئیں ہوتے … دل ہلا دینے والی معصوم چیخیں ہوتیں …

وہ بھی اپنے گھر کے سارے دروازے بند کر دیتا … کھڑکیوں پر کنڈلیاں لگا دیتا۔

خوف سے کونے میں دُبکا ہوا انجم ایک سوالیہ نشان بن کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا …

ابی … یہ کون لوگ ہیں ابی …

ابی … یہ ہماری طرح معصوم بچوں کو کیوں مارتے ہیں …

ابی … یہ لوگ گھر کیوں جلاتے ہیں۔ ابی …

ابی … کیا انہیں ایسا کرنے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

کوئی نہیں ہے … تم کیا ہم بھی ایسے ہی مارے جائیں گے ابی …

اس کی آنکھوں میں نفرت ہی نفرت ہوتی … نفرت کی تیز لپٹیں نکل رہی ہوتیں … وہ ان معصوم سوالوں کی تاب نہ لا کر سر جھکا دیتا اور رضیہ ٹھیک امی حضور کی طرح دوسری جانب منہ پھیر کر آنسوؤں کو روکنے کی نا کام کوشش کرنے لگتیں … اور ایسے میں ابی حضور ظفر بیگ سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے …

 … جنگ ختم نہیں ہوئی بیٹا! میں دیکھ رہا ہوں … جنگ جاری ہے … مسلسل جاری ہے …

کریم بیگ نے امڈ آئے آنسوؤں کو ضبط کیا … رضیہ کی جانب دیکھا … چہرے کی مٹتی مٹتی لکیروں کا جائزہ لیا۔ اور پھر جیسے خود کلامی میں مصروف ہو گیا۔

رضیہ … اب بہت تھک گیا ہوں رضیہ۔

اب یہ تھکن اوڑھ کو سو جانے کی خواہش ہوتی ہے …

تم دیکھنا رضیہ … قرب و جوار سے بد بو کا ایک بھیانک سیلاب اٹھے گا … اور آسمان پر آدم خور گدھ چھا جائیں گے …

برسوں بعد آج انجم کی منطق پر پیار جاگ رہا ہے … قصوروار در اصل یہ ماحول ہے رضیہ … جس نے ایک بھی کھلی آنکھ والا پیامبر نہیں دیا …

ایک بھی کھلی آنکھ والا پیامبر نہیں دیا …

کریم بیگ نے ایک گہری سانس لی۔

رضیہ نے جب یہ حالت دیکھی۔ تو اپنی تھکن اُتار کر جبراً ہونٹوں پر مسکراہٹ طاری کی … اور کریم بیگ کی طرف مصنوعی غصے سے دیکھتے ہوئے بولی …

’’ دیکھ رہے ہیں … کمرے میں کتنی گرد ہے … یہ گرد ہم سب کو مل کر صاف کرنی ہو گی …

کریم بیگ اچانک مسکرا دیئے اور رضیہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہو گئے … پھر ایسا لگا جیسے اندر ہوا وزنی پتھر آہستہ آہستہ ہٹتا جا رہا ہو۔

جب سے کریم بیگ نے اپنے اوپر کی گرد جھاڑی تھی۔ سلمہ کے طور طریقے ان کی نگاہوں میں چبھنے لگے تھے۔ مس نیلی سے اُنہیں کوئی شکایت نہیں تھی … مگر سلمہ سے شکایت ہی شکایت تھی … سب سے زیادہ غم تو اس بات کا تھا کہ وہ آزادی کے متوالے رحیمو چا کو فراموش کر بیٹھی تھی … جب چھوٹی سی سلمہ پھدکتی ہوئی سارے گھر میں دوڑا کرتی تھی تو اُس کے ایک ایک انداز میں شوخی … بپھرے ہوئے رحیمو چا کا عکس نظر آتا تھا … ایک مرد شیر کی چنگھاڑ سنائی دیتی تھی … مگر مس نیلی میں اُسے رحیمو چاچا کی بے گور و کفن سڑتی ہوئی لاش نظر آتی تھی … یہ شکایت سلمہ کے مس نیلی بن جانے پر نہیں ہوئی تھی … یہ تو سلمہ کا اپنا معاملہ تھا۔ اس سلمہ کا … جو بچپن میں ہی رحیمو چا کا دست شفقت چھڑا کر شاہراہوں کی بھیڑ میں گم ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے سلمہ زندگی کے کیسے کیسے نشیب و فراز سے گزری ہو گی … کتنی ہی بار ٹوٹ ٹوٹ کر بکھری ہو گی … کتنی ہی بار زندہ رہنے کی ہوس نے خود سے سمجھوتے پر مجبور کیا ہو گا۔ اور پھر اگر ان حالتوں میں سلمہ کسی بھی گھر میں پناہ لیتی ہے۔ تو اُس میں اُس کا کوئی بھی قصور نہیں ہے … قصور تو بس اُس مس نیلی کا ہے جو گھر کے اُس چھپر کھٹ سے بے نیاز ہے، جہاں نا گہانی بارش کے جھونکے اُسے بھگو بھی سکتے ہیں … طوفان اور آندھی کے جھکڑ اس کے گھر کی ایک ایک اینٹ کو ہلا سکتے ہیں … ملبے میں دفن کر سکتے ہیں۔

شکایت بس اُسی مس نیلی سے ہے،جو سلمہ کا چولا اُتار کر شاہراہوں پر بالکل ننگی کھڑی ہے … اور باس کے اندر کا وحشی جانور دیر سے اپنے ہونٹوں کا لعاب پوچھتا ہوا اس کا جائزہ لے رہا ہے … وہ اچھی طرح جان رہا ہے … ایک وقت آئے گا جب مس نیلی کی نیلی لاش چاٹتا ہو ا باس ایک دم سے،اُس سے بے تعلق ہو جائے گا …

رحیمو چا کی میت جب اٹھی تھی تو کیا ہندو کیا مسلمان سب کندھا دینے کے لئے بے چین نظر آ رہے تھے۔ آنکھوں میں ٹپ ٹپ آنسو بھرے تھے … اور ہر کوئی جیسے چیخ چیخ کر یہی کہہ رہا تھا … آج ایک مسلمان نہیں مرا ہے۔ آج ایک ہندو کی موت نہیں ہوئی ہے … بلکہ ایک عہد کی ترجمانی کرتا ہوا ایک نیک انسان ہم میں سے خاموش ہو گیا ہے۔

تو یہ وہ لوگ تھے … جو اپنی اچھائیوں اور نیکیوں کی وجہ سے تاریخ بن جاتے ہیں … کریم بیگ کا دل چاہتا کہ وہ مس نیلی سے پوچھے … مس نیلی ! کیا وجہ ہے تمہارے اندر ڈھونڈھنے سے بھی وہ انسان نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا وہ وقت کے تھپیڑوں میں کہیں کھو گیا ہے … اگر ایسا ہے تو اُسے توبہ کرو مس نیلی … کہ یہ انسانی فطرت بہت عجیب ہے … جو ایک ہی موسم سے گھبرا جاتی ہے … اور تبدیلیوں والے موسم کا تقاضہ کرتی ہے۔

اور کریم بیگ کو یاد آیا … جب پہلی بار اُنہوں نے کمرے کی گرد ہٹائی تھی … قرآن پاک کی دھول جھاڑی تھیں … رحل کو صاف کیا تھا۔ تسبیحیں دوبارہ مضبوطی سے تھام لی تھی۔ اور اپنے اخلاق کی کمزوریوں پر فتح پا کر بشاش قدموں سے آفس گئے تھے … تو رگھوبیر، رتھ اور مائیکل کی آنکھیں تعجب سے پھیلتی چلی گئیں … رتھ نے اُس کا راستہ روک دیا تھا … اور اس کی پیٹھ پر ایک زور دار دھپ لگا کر بے حیائی سے بولا تھا … کیوں بے ! تو بھٹک رہا ہے کیا … ؟

تو اس کی پاک تبدیلی کا یہ مفہوم لیا تھا رتھ نے … مگر جانے کہاں سے بلا کی خود اعتمادی اُس کے اندر آ گئی تھی … آفس کے سالانہ جشن کی طرح وہ اپنے اخلاق کی کمزوریوں کا مجرم نہیں بنا بلکہ پلٹ کر جواب دیا … نہیں دوست ! میں بھٹکا ہوا تو کل تھا آج تو اپنے اندر کے بھٹکے ہوئے آدمی کو راستہ دکھا رہا ہوں …

پھر ذرا ٹھہر کر اُس نے دوستوں کی آنکھوں میں جھانکا اور سر گوشیاں کرتے ہوئے کہا …

’’ میرے عزیز! کیا تمہیں یقین ہے … کہ بغیر اپنی منزل کا تعین کر کے تم سب جی سکو گے … شاید نہیں … کچھ تو زندگی کے اصول ہونے چائیں نا … کچھ تو قوانین ہونے چائیں … جن سے زندگی کو ایک خوبصورت دشا دکھائی جا سکے … میرے دوست … ایک دن ایسا بھی آتا ہے … جب قہقہوں سے دل اُچاٹ ہو جاتا ہے … ہنسی ٹھٹھول سے آدمی اکتا جاتا ہے … ان نیرنگیوں سے بھی گھبرا جاتا ہے … تھک جاتا ہے … جسم کے اعضاء بوڑھے ہونے لگتے ہیں … ایک مسلسل تھکن زندگی کا زیور بن جاتی ہے … تو میرے دوستو … اب ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ شروع ہونے والا ہے۔ اب وہ وقت قریب ہے کہ قہقہوں سے ہم تھک جائیں گے … دل اُچٹ جائے گا … تو تم ہی بتاؤ … کب تک اس طرح اپنے پاؤں سے بے منزل بھاگتے پھرو گے … ایک دن تو ٹھہرنا ہی ہو گا … جب وقت تمہارے پاؤں کو ایک گھنگھرو دے کر اپنے دائرے میں موڑ دے گا … اور تم گھبرا کر اس کے ساتھ ساتھ ہو لو گے … کہ یہی قوانین ہوں گے … بندھے ٹکے اصول ہوں گے جن سے زندگی واقعی بہت خوبصورت بن جاتی ہے۔

تو میرے دوست بتاؤ … میں بھٹکا کہاں ہوں۔

میں تو تھک گیا ہوں … اور اپنی تھکن مٹا رہا ہوں۔

کریم بیگ ہنسے … اور ہنستے ہی چلے گئے … جب ٹھہرے تو دوستوں کا وہ بے ہنگم قہقہہ ان کے کانوں سے ٹکرایا۔

’’ دماغ چل گیا ہے اس کا … اب یہ ہم میں سے نہیں رہا۔ ‘‘

کریم بیگ اچانک چپ ہو لئے۔ جیسے کسی زہریلے سانپ نے کاٹ کھایا ہو … اور کچھ ہی دیر بعد یہ خبر سارے آفس میں گرم ہو چکی تھی … کہ نئی تبدیلی کے انوکھے موسم نے کریم بیگ کو پاگل کر دیا ہے۔

اور اُس وقت بھی کریم بیگ اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے ٹیبل پر رکھے ہوئے ٹائپ رائٹر مشین پر ہلکے ہلکے اپنی انگلیوں سے ٹائپ کر رہے تھے … دائیں طرف والی کرسی پر سموئل بیٹھا تھا۔ اس کے بغل والی پر رتھ … سامنے والی کرسی پر مسز بھٹنا گر بیٹھی تھی اور فرینزر کا فکا کے مشہور ناول The Castleکا مطالعہ کر رہی تھی اور دروازے کے قریب والے ٹیبل کے پاس مس نیلی کی بڑی بڑی آنکھیں ٹائپ رائٹر مشین پر جھکی ہوئی تھیں … مگر کریم بیگ جانے کیوں ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے سب کی آنکھیں بس اسی کو دیکھ رہی ہوں … مگر وہ ان دیکھا کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول رہا …

 کچھ دیر بعد آفس کا پیون آیا اور خبر دی … ’’ صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔ ‘‘

کریم بیگ نے سر اٹھایا … ٹائپ رائٹر مشین پر چلتے ہوئے ہاتھ ٹھہر گئے … تھکے تھکے وجود کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے … اور صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گئے …

کال بیل پر انگلی رکھی … اور دو مسکراتی چمکیلی آنکھیں ان کے اندر اُترتی چلی گئیں۔

کریم بیگ مدھم آواز سے بولا … گڈ مارننگ سر … مجھے بلایا —

صاحب تھوڑا ہنسے … پھر قہقہہ لگاتے ہوئے بولے — یہ میں کیا سن رہا ہوں کریم بیگ — کیا یہ سب صحیح ہے۔

’’ جی ہاں … ‘‘ اس نے بہت مختصر جواب دیا۔

’’ مگر آخر کیوں ؟‘‘

صاحب کی آنکھوں میں شکن آ گئی تھی۔

اور پھر کریم بیگ نے انہی باتوں کو دہرا دیا … جو اُس نے اپنے دوستوں کو بتائی تھی … کہ زندگی کی طویل دوڑنے کیسے اُسے تھکا دیا۔ کیسے ان قہقہوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور زندگی کے بندھے ٹکے اصولوں سے دائمی محبت کا احساس ہوا۔

صاحب نے بڑی عجیب نظر اس پر ڈالی … آنکھوں میں تشویش کی ایک لہر آئی … اور صاحب نے پر اسرار سناٹے کا قتل کر دیا۔

’’ اچھا یہ بتاؤ کریم … اب تم آفس سے متعلق کسی بھی فنکشن میں حصہ لے سکتے ہو؟‘‘

وہ صاحب کی باتوں کی تہہ میں جا کر بولا …

’’ جی ہاں سر … مگر … ایک فاصلہ رکھ کر حصہ لوں گا … ‘‘

صاحب نے زوروں سے قہقہہ لگایا … ’’ تو فاصلہ رکھ ہی دو گے … ‘‘

پھر دیر تک ہنستے رہنے کے بعد بولے … کریم ! تم اب میرے پرانے دوست نہیں رہے۔ بس اسی کا غم ہے۔ اور اسی لئے تمہیں بلایا تھا۔ تم جہاں چلے گئے ہو … وہاں سے ہم تمہیں واپس آنے کے لئے تو نہیں کہہ سکتے ہیں۔ تاہم اتنا کہنا ہمارا فرض ہوتا ہے … کہ کبھی اُن آنکھوں کو بند کر کے ہماری طرف بھی دیکھنے کی کوشش ضرور کرنا …

اسی دن سے کریم بیگ نے اپنے اور دوستوں کے درمیان فاصلے کی ایک بلند دیوار اٹھا دی کہ وہ اس دیوار سے خوش تھا۔ اب وہ ذہنی سکون محسوس کر رہا تھا … انتشار کی چٹانیں ٹوٹ چکی تھیں۔ رضیہ کے خاموش ہونٹوں پر وہی پرانی شوخی پھر سے لوٹ آئی تھی … بڑھاپے کے نقش و نگار اُس کے کھلے ذہن کی دھوپ میں آرام کر رہے تھے۔ مگر انجم اب بھی نئے لباس میں فرسٹریشن کے پرندے کے ساتھ انجانے سفر میں گم تھا۔ وہ نئے مزاج کے اس شہر میں زمانے کی کڑواہٹ پی کر بھٹک رہا تھا۔

انجم کی آنکھوں میں وہی چھٹپٹاہٹ تھی،جو آزادی سے قبل غلامی کے احساس سے کبھی ابی حضور، رحیمو چا، اور امی حضور کی آنکھوں میں کوندتی پھرتی تھی … انجم کی آنکھوں میں وہی جلا دینے والی چمک تھی … اڑتے اڑتے یہ خبر اُسے بھی معلوم ہو گئی تھی کہ انجم نے اپنے ہاتھوں میں قلم سنبھال لیا ہے۔ اب وہ ایک مورچہ لے رہا ہے …

یہ کیسی جنگ ہے — نہ اس نے پوچھا۔ نہ انجم نے بتایا۔

اور انجم بھی کیونکر بتاتا۔ اس کی آنکھیں سرخ انگاروں کی مانند جل اٹھیں تو اس نے اپنی تخلیق میں روشن الفاظ کے بچھو بھر دئیے اور بچھو صفحۂ قرطاس پر پھیل گئے …

’’ … میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر طرف لوٹ ہے …

میں فسادات کے — اس نئے مزاج کے شہر سے مخاطب ہوں …

جہاں بریبری کے حقوق کے خوبصورت نعرے دے کر عہد قدیم کے پیامبر کتابوں کی بھیڑ میں کھوتے چلے گئے۔

میں دیکھ رہا ہوں … کہ آزادی پھر سے ایک مظلوم بکری کی طرح کسی شاطر سیاستداں کے گھر کی کھونٹ سے باندھ دی گئی ہے۔

کچھ لوگ بڑی عجیب شکلوں میں آتے ہیں۔ وعدوں اور خوابوں کی پٹاری کھول کر اس میں قید سانپ کو باہر نکال دیتے ہیں …

میں دیکھ رہا ہوں … مٹی کے بنے تمام گھروں کے قریب ایک ایسا ہی زہریلا سانپ کھڑا ہے …

شاطر سیاستداں تخت پر جلوہ افروز ہے … اور اس کے سامنے طرح طرح کے کھانے چنے ہوئے ہیں … مگر اس کی بھوک غائب ہے …

بہترین لباس پہنے پہنے اُس کے نوکر چاکر گھومتے پھر رہے ہیں۔

ٹیبل پر رکھا ہوا ٹھنڈا کھانا، وہ لوگ باہر کوڑے پر پھینک آتے ہیں … جہاں سڑک کے آوارہ کتے۔ ان پر بے رحمی سے ٹوٹ پڑ تے ہیں …

اور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں … کہ ایسے ہزاروں گھر ہیں جہاں آنسوؤں کی تمازت تو ہے … مگر چولہا سرد پڑا ہے …

اور شاطر سیاستداں قہقہہ لگاتا ہوا اپنی پالتو بلی کو دیکھ رہا ہے جو سونے کی تھالی میں پروسے ہوئے کھانے پر بازیگر کی طرح کھیل دکھا رہی ہے۔

اُف۔ بد بو بڑھتی جا رہی ہے … بڑھتی جا رہی ہے …

ہم سب کو پھر ایک جنگ لڑنی ہے … اس تیز بد بو کے خلاف‘‘

یہ وہی تخلیق کے بچھو تھے۔ جنہوں نے آگے بڑھ کر کریم بیگ کو بھی ڈنک مار دیا … کریم بیگ سناٹے میں آ گئے … انجم کے دل کے تہہ خانے میں جھانکنے کی ہلکی سی کوشش کی تو رونگٹے کھڑے ہو گئے … انجم کبھی سوچ کے اس مقام پر بھی جا سکتا ہے … وہ خیال تک نہ کر سکے تھے … وہ سر جھکائے صرف اتنا کہہ سکے …

انجم !

میں تم سے صرف چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوں …

جب گھبرا جانا … تو مجھے آواز دے کر پکار لینا …

(۵)

 اُس دن صبح سے ہی تیز بارش ہو رہی تھی … موسلا دھار بارش … بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے آسمان پر چھائے ہوئے تھے۔ کریم بیگ کچھ ہی دیر قبل مسجد سے لوٹے تھے … مسجد گھر سے بہت تھوڑے فاصلے پر تھی، فجر کی نماز کریم بیگ مسجد میں ہی پڑھنا زیادہ پسند کرتے تھے … چند مذہبی قسم کے لوگ مل جاتے … اور ایک پاکیزہ ماحول بن جاتا … صبح میں جب وہ فجر کی نماز کے لئے مسجد گئے تھے تو بارش کی ہلکی موسیقی شروع ہو چکی تھی۔ پھر مسجد پہنچتے پہنچتے بارش نے ویسٹرن میوزک کی طرح چیخنا دہاڑنا شروع کر دیا … اور یہ ایک طرح سے اُن کے حق میں اچھا ہی ہوا کہ ہم خیال لوگوں میں انہیں بیٹھنے، باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔

نماز ختم ہو گئی۔ آسمان اب بھی سیاہی میں لپٹا ہوا تھا  … یار دوستوں نے مل کر خوش گپیوں کو ہوا دے دی … باتیں چلیں … تو عقائد کا ہیبت ناک درندہ سامنے آگیا۔

کریم بیگ نے جس کا تصور تک نہ کیا تھا۔

محلے کے سید صاحب نے اپنی داڑھی سہلاتے ہوئے کریم بیگ سے پوچھا۔ ’’ بھائی کریم! تم سے ملتے ملاتے تو اتنی مدت ہو گئی … مگر آج تک تم سے تمہارے عقیدے کے متعلق نہ پوچھ سکا … آخر تم ہو کس عقیدے کے … کس مسلک کے ہو … ‘‘

کریم بیگ سٹپٹائے … ابی حضور تو ہندوستان کو آزاد کرانے میں لگ گئے۔ ہندوستان آزاد ہوا تو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے … اور وہ ذمہ داریوں کی چٹان پر چڑھ گئے … اور اس درمیان مسلک عقائد وغیرہ چیزوں سے اُن کا واسطہ سہی نہ پڑا …

اس لئے نفی میں گردن ہلائی … ’’ آہستہ سے بولے۔ بھئی سید صاحب ! بس مسلمان ہوں۔ عقائد نہیں جانتا۔ ‘‘

سید صاحب ہنسے … دیکھا دیکھی چند دوسرے بزرگ حضرات بھی قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ بھئی … یہ بھی خوب رہی … خوب رہی میاں کریم! ایک نادان جاہل شخص بھی جانتا ہے کہ عقیدے کے بغیر گزارا نہیں ہے … مختلف طرح کے عقیدے گفتگو کے لئے مختلف موضوعات پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح دماغ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے … میاں بغیر عقیدے اور مسلک کے آپ مسلمان کیسے ہو گئے … ‘‘

انہوں نے قہقہہ لگایا … اور ادھر کریم بیگ نے تشویش سے دریافت کیا۔

’’ بھائی سید صاحب ! میرے نماز پڑھنے میں غلطی ہو گئی تھی کیا ؟۔ ‘‘

’’ نہیں بھائی‘‘ سید صاحب نے منہ بنایا … اپنی نماز تم جانو … صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں … مگر اتنا ضرور کہیں گے … ہماری گفتگو میں حصہ لینے کے لئے کسی نہ کسی عقیدت کی حمایت تو ضروری ہے — ورنہ مکمل مسلمان نہیں کہے جاؤ گے۔ ‘‘

کریم بیگ نے سر جھکا لیا … ان بزرگوں کی گفتگو کے بعد اب کہنے کے لئے باقی ہی کیا بچا تھا … مسجد کی دالان میں بیٹھ کر بارش کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ ذہن بھاری ہو گیا تھا۔ وجہ صاف تھی … آج ان بزرگوں کی گفتگو سے انہیں خاصی چوٹ پہنچی تھی۔ ایسی چوٹ جس کے بارے میں کبھی وہ سوچ بھی نہیں پائے تھے … جائز اور نا جائز کے وہ فتوے جو انہوں نے سمجھائے … مذہب کا وہ ڈر اور خوف جو انہیں دکھایا … وہ سب اُن کے لئے بالکل نیا تھا۔ جس کے لئے وہ تیار نہ تھے … اور نہ کبھی اس بارے میں سوچا تھا … وہ تو مذہب کو ایک سیدھا سادا راستہ سمجھ رہے تھے مگر مذہب اتنا الجھا ہوا بھی ہو سکتا ہے … اس پیچیدگی کا انہیں خیال تک نہیں آیا تھا —

بارش تھوڑا تھمی تو وہ نڈھال قدموں سے گھر کی طرف بڑھ گئے۔ گھر لوٹے تو ذہن بری طرح سے تھک چکا تھا۔ لیکن اب وہ ایک خاص نتیجے پر پہنچ چکے تھے … ذرا دیر پہلے کی وہ گرداب آہستہ آہستہ چھٹنے لگی تھی … اور کریم بیگ سوچ رہے تھے یہ لوگ … یہ سید صاحب جیسے لوگ … مذہب کی موٹی موٹی باتوں کی تہہ میں جا کر ایک نئے آدمی کو مذہب کے راستے سے کافی دور کر دیتے ہیں۔ اُ س کے ذہن میں مذہب کا ایسا خوف طاری کر دیتے ہیں کہ وہ بھولے سے بھی مذہب کے قریب نہ بھٹکے … مگر اب بہر طور وہ ان کا منشا سمجھ چکے ہیں … اب وہ ان سے ہشیار رہیں گے۔

گھر پہنچ کر پہلا کام یہ کیا کہ برآمدے میں کرسی نکلوا دی … تاکہ بارش کے بعد والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا خاندان کے ساتھ مل کر لطف لے سکیں  … ایک پر رضیہ بیٹھ گئی ایک پر انجم، ایک پر وہ بیٹھ گئے۔ ٹیبل پر رضیہ نے چائے کا کپ بھی رکھ دیا۔ چائے ڈھالی گئی … اور سب نے ایک ایک کپ اٹھا لیا … چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اب تک وہ انہی لوگوں کے متعلق سوچ رہے تھے۔ گھوم پھر کر وہ اُسی موضوع پر آ کر رُک جاتے … یہ لوگ مذہب کو بالکل ختم کر دیں گے۔

یہ لوگ بلا وجہ کا خوف طاری کر کے نئی نسل کو گمراہ کر دیں گے … تاکہ مذہب مٹ جائے، ختم ہو جائے …

کریم بیگ نے چائے کا کپ خالی کیا … پھر رضیہ کی طرف دیکھا … جو پوچھ رہی تھی …

’’ اس بارش میں آفس کہاں جاؤ گے … ؟‘‘

’ ’ بارش میں کوئی کام بند ہوتا ہے کیا … ‘‘

وہ مسکرائے … پھر بولے … آفس میں بہت سارا کام پڑا ہے رضیہ۔ نہیں جانے سے سارا کام رہ جائے گا … ‘‘

رضیہ چپ ہوئی۔ پھر آنکھوں میں چمک پیدا کرتی ہوئی بولی آج پھر کچھ فکر مند سے نظر آ رہے ہو … بات کیا ہے۔

کریم بیگ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بولے … جب تک زندگی ہے رضیہ۔ تب تک یہ فکر کے بادل چھٹنے والے نہیں ہیں … ‘‘

انجم نے چونک کر اُس کی جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے پوچھا … اب فکر کیسی ابی ! لوگ کہتے ہیں کہ ایک بار آدمی مذہبی بن جائے تو ساری فکر جاتی رہتی ہے۔ ‘‘

’’ خوف تو بس اسی بات کا ہے بیٹے۔ ‘‘ کریم بیگ تیز آواز میں بولے …  ’’میں نے ایک لمبی تھکن اوڑھ کر سوچا تھا … مذہب کے سائبان میں اپنی تھکن پیوست کر کے ہلکا ہو جاؤں گا … مگر لگتا ہے … یہ راستہ بھی خاصہ مشکل ہے … قدم ابھی سے چھلنے لگے ہیں … ‘‘

انجم نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا — کریم بیگ نے ناشتہ کیا۔ اور آفس روانہ ہو گئے۔

دوستوں سے علیک سلیک کرنے کے بعد وہ اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئے۔ خلاف معمول آج انہوں نے خوش رہنے کی کافی کوشش کی تھی … اور کسی قدر اس میں کامیاب بھی ہوئے تھے … ٹائپ رائٹر مشین پر ان کے ہاتھ برق رفتاری سے دوڑ رہے تھے — ذرا ٹھہر کر انہوں نے پورے روم کا جائزہ لیا … اور پھر ان کی مسکراہٹ ایک دم سے غائب ہونے لگی … دوبارہ وہی غصے کا تیور ان کے وجود پر حاوی ہونے لگا … وہ جن قہقہوں … اور جن گندی باتوں کی بد بوسے بھاگتے پھرتے تھے … وہ بد بو تیزی سے کمرے میں پھیل رہی تھی/ اور کمرے میں ہوس کے کتنے ہی جگنو جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے … مس نیلی کی انگلیاں رجسٹرپلٹ رہی تھی … اور وحشیانہ نگاہیں اس کے جوان جسم پر باز کی طرح جھپٹا ما رہی تھیں … آس پاس سے قہقہوں کی نیم عریاں شعاعیں نکل رہی تھیں۔

کل شہر میں پھر فساد ہو گیا۔ جانتے ہو … ایک آواز ابھری۔

ہاں … جانتا ہوں۔ ایک دوسری آواز

’’ فساد میں کیا ہوتا ہے ‘‘۔ پہلی آواز

’’ گھر جلتا ہے ‘‘ دوسری گمبھیر آواز

’’ اور کیا ہوتا ہے … ؟‘‘ ایک ہلکے سے قہقہے کے بعد پوچھا جاتا ہے۔

’’ سامانوں کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ ‘‘

’’ اور کیا ہوتا ہے … ؟‘‘ قہقہہ تیزی اختیار کرتا ہے …

’’ اور کیا ہوتا ہے … ؟‘‘ ایک ہلکے سے قہقہے کے بعد پوچھا جاتا ہے۔

’’ اور … دوسری آواز سوچ میں ڈوب جاتی ہے … اور … ! دوسری آواز میں بلا کی چمک پیدا ہوتی ہے … اور ’’ وہ ‘‘ ہوتا ہے۔

وہ کیا … ؟ پہلی آواز کا قہقہہ تیز ہوتا ہے …

’’ پولیس سالی عیش کرتی ہے … ‘‘ دوسری آواز کا قہقہہ بھی تیز ہو جاتا ہے …

سب کچھ یہی ہے … ساری جنگیں بس اسی خاطر ہوتی ہیں … پھر اسے فساد کا نام کیوں دیا جائے … اسے عیش کرنے کی بیماری کیوں نہ کہا جائے۔

دونوں قہقہے تیز ہو جاتے ہیں … اور پھر ان قہقہوں میں کئی دوسری آواز یں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔

کریم بیگ کی کنپٹیاں سلگ رہی تھیں … دماغ میں بھونچال آگیا تھا … مٹھیاں شدت سے کس گئی تھیں … پورا جسم جھنجھنا گیا …

یہ لوگ پھر وہی حرکتیں کر رہے ہیں۔ تاکہ دوسرا ان کی آوا ز کی زد میں آ جائے …

یہ شیطان کی اولاد میں سے ہیں … اور ہر جگہ موقع دیکھ کر اپنی آواز تیز کر دیتے ہیں … تاکہ ایک گھناؤنے سماج کا قیام عمل میں آسکے۔

کریم بیگ کے ذہن میں آندھی اٹھ رہی تھی … یہ لوگ۔ بھولے بھالے معصوم لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں … شور، ہنگامے اور سیکس کی کھلی باتوں کو نجات کا واحد راستہ بتا کر انہیں گندگی کی کھائی میں گرانا چاہتے ہیں …

اور اس طرح کے کتنے ہی خیالات بیک وقت ان کے دماغ میں رینگ گئے … اب وہ سوچ رہے تھے … خطرے کی گھنٹی جو انہیں سنائی دے رہی ہے … مس نیلی کو اس عجیب و غریب خطرے اور غیر متوقع حملے سے کیسے دور رکھ سکیں … اس کا احساس انہیں کیسے دلا سکیں — ؟؟

دوپہر میں جب وہ آفس میں ایک جگہ کنارے بیٹھ کر لنچ لے رہے تھے … رگھو بیر ٹہلتا ہوا ان کے پاس آ کر ٹھہر گیا … اور آہستہ سے بولا۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں کریم بیگ۔ ‘‘

’’ بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

وہ فورا ہی لنچ سے فارغ ہو گئے۔ پھر رگھو بیر کی آنکھوں میں جھانکا … ’’ ہاں اب بتاؤ کیا بات ہے۔ ‘‘

’’ تم نے کچھ غور کیا۔ ‘‘ رگھو بیر نے بے چین لہجے میں پوچھا — ’’ مس نیلی میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی … اب وہ کھل کر قہقہے بھی نہیں لگاتی۔ ‘‘

’’ ہاں ‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس لی … اس کی وجہ تو ظاہر ہے … مس نیلی کے قہقہے اب مس نیلی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ‘‘

مگر ایسا کیوں ہوا۔ ایسا کیوں ہوا کریم بیگ — رگھو بیر کی آنکھوں میں خوف تھا … تم بتا سکتے ہو … ایسا کیوں ہوا ہو گا۔ میں عجیب سا خوف محسوس کر رہا ہوں … جانے کیوں ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے … یا کبھی بھی وہ ’’ کچھ ‘‘ ہو سکتا ہے جس کی ہم نے توقع نہیں کی … یہ کچھ کیا ہے کریم بیگ ! تم بتا سکتے ہو۔ ؟؟‘‘

رگھو بیر کا نپتے ہوئے لہجے میں کہہ رہا تھا۔

’’ میں جو خوف محسوس کر رہا ہوں کریم بیگ — اسی خوف کا عکس میں مس نیلی کے چہرے پر بھی محسوس کر رہا ہوں … جیسے اُسے کسی بات کا خطرہ ہو … جیسے وہ ڈری ڈری ہو … آخر کیوں ؟ وہ کون سی بات ہو سکتی ہے … ؟

ٹھہرو میرے دوست‘‘

کریم بیگ نے اس کی غیر حالت کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ اس طرح خو د کو اتنے سارے سوالوں میں قید نہ کرو … افسوس کہ ان سوالوں کو تم نے شروع سے ہی محسوس نہ کیا … اور سوال کا زہر پھیلتا چلا گیا۔ اب چاہو گے کہ ان سوالوں کو اچانک سمیٹ لو … تو یہ نا ممکن سی بات ہو گی۔ ‘‘

مگر آخر معلوم بھی تو ہونا چاہئے کہ کیا ہونے والا ہے … میں بہت خوف محسوس کر رہا ہوں ‘‘ رگھوبیر کا چہرہ پسینے میں ڈوب گیا تھا — مس نیلی ہماری دوست ہیں … مگر یہ خطرہ صرف ان کا نہیں ہے۔ لگتا ہے جیسے اس ناگہانی آفت کی زد میں ہم سب آئیں گے ‘‘

’’ تم نے مس نیلی سے کچھ دریافت نہیں کیا ‘‘۔ کریم بیگ نے بھی ایک عجیب طرح کا ڈر محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔

’’ ہاں پوچھا تھا۔ مگر وہ بات ہی ٹال گئی۔ مگر میں نے اس کی پیشانی پر لکھے ہوئے خوف کو پڑھ ہی لیا … وہ واقعی خوفزدہ ہے کریم بیگ … ہم سب کو اس کی مدد کرنا چاہئے۔

کریم بیگ نے ایک سرد سانس کھینچی۔

’’ اب کوئی فائدہ نہیں۔ میرے دوست رگھو بیر … سچ تو یہ ہے کہ اب ہم مس نیلی کی کوئی مدد نہیں کر سکتے … ہاں اب ہمیں ہوشیار ضرور ہونا چاہئے … تاکہ آنے والے خطرے کا اچھی طرح سامنا کر سکیں … ‘‘

رگھو بیر نے سر جھکا لیا اور افسردہ قدموں سے آہستہ آہستہ ڈگ بھرتا ہوا اپنے روم کی جانب بڑھ گیا۔

کریم بیگ بت بنا اپنی جگہ کھڑا رہا۔ پھر بھاری قدموں سے آفس میں لوٹ آیا۔ اُس کے اندر ا ندر ایک ان دیکھا سیلاب آیا ہوا تھا۔

آفس ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد جب وہ باہر آیا۔ ٹھیک اُسی وقت سلمہ سر نیچا  کئے بوجھل قدموں سے آفس کی سیڑھیاں طے کر رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے قریب گیا۔ اور نام لے کر پکارا … مس نیلی۔

مس نیلی نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور اپنی جگہ ٹھہر گئی —

’’مس نیلی، مجھے یقین ہے۔ رحیمو چا تمہارے اندر آج بھی۔ دل کے کسی گوشے میں ضرور زندہ ہوں گے۔ خود کو نہیں تو کم از کم اس سلمہ کو بچا لو۔ جس کی رگوں میں ایک مرد مجاہد کا لہو دوڑ رہا ہے … ‘‘

اچانک مس نیلی کی آنکھیں بھر آئیں … اس نے کچھ کہنا چاہا … مگر کچھ کہہ نہ سکی —

’’ مس نیلی !‘‘ کریم بیگ نے دوبارہ کہا … تم درندے کا سامنا تو کر سکتی ہو نا … ‘‘

’’ نہیں … ‘‘

مس نیلی کا سپاٹ سا جواب تھا۔ آواز بھرا گئی تھی۔ آنکھوں میں لہو کے ڈورے اُتر آئے تھے۔ پھر خود پر قدرے قابو پاتی ہوئی بولی :

’’ میں پوری طرح اس کی زد میں آ گئی ہوں … ‘‘

اور اس سے قبل کہ صبر کا باندھ ٹوٹ جائے … وہ تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی۔

کریم بیگ دور تک اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اور ایسا محسوس ہوا … جیسے ایک تیز بد بو فضا میں پھیلتی جا رہی ہو … اور سب کے سب اس بد بو کی زد میں آ گئے ہوں۔

٭٭٭

بابِ  دوئم

بد بو

(۱)

بد بو بڑی تیزی سے بڑھی جا رہی تھی۔

شروع شروع میں تو اسے محض واہمہ تصور کیا گیا۔ بھلا آفس کی شاندار عمارت میں بد بو آخر کیسے داخل ہو سکتی تھی۔ مگر جب بد بو نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو لوگوں کا چونکنا واجب تھا۔

دس بجے سے آفس میں چہل پہل شروع ہو جاتی۔ آفس شہر کے سب سے پر رونق علاقے میں تھا۔ ہر وقت ٹریفک اور لوگوں کی چیخ و پکار کا دھواں آفس میں چھایا رہتا۔ بد بو کا احسا س کبھی نہیں ہوا تھا۔ دس بجتا اور جب سارے لوگ آفس میں اپنی اپنی جگہوں پر جم جاتے تو سیاست کے گوشت کو چھری سے کاٹنے اور اُدھیڑنے کا کام شروع ہو جاتا۔ پھر آفس۔ آفس کے باس، باس کی عشقیہ داستان سے شہر میں ہونے والے ہنگامے، روز روز ہونے والے نئے نئے فساد،وزراء کی کمزوری۔ اور کمزور سیاست پر گفتگو بڑی روانی سے شروع ہو جاتی۔ بیچ بیچ میں ٹھہر ٹھہر کر ٹائپ رائٹر مشین کی کھٹ کھٹ بھی گونجتی۔ جو یہ یقین دلا رہی ہوتی کہ یہ آفس ہے۔ اور آفس میں کام ہو رہا ہے۔

آفس کی دنیا واقعی ایک الگ تھلگ دنیا ہوتی ہے۔ کوئی کسی کا عزیز نہیں ہوتا مگر عزیز سے بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے۔ خاص کر ایک چیمبر میں بیٹھنے والے لوگ ایک دوسرے کے بہت قریب ہو جاتے ہیں۔ بڑی بڑی فائلوں کے درمیان ہنسی قہقہوں کا شور دوستی کے رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔ تو یہ آفس کا معمول تھا کہ ٹائپ رائٹر مشین پر چلتے چلتے ہاتھ جب ٹھہر جاتے تو آفس میں گفتگو کو ہوا دی جاتی … کوئی ناول ہاتھ میں لے کر مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔ کوئی اپنے بال بچوں کی بیماری کی فرسودہ کتاب کھول کر بیٹھ جاتا — — اور آفس سب کے دکھ سکھ کو اپنی چھوٹی سی مختصر دنیا میں جذب کر لیتا۔

اس دن صبح کے کوئی گیارہ بجے ہوں گے۔ مسز بھٹنا گر، رگھو بیر ورما، اور آفس کے تقریباً سارے اسٹاف اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ چکے تھے۔ اور فائلوں کے انبوہ میں سر دئیے بار بار باہر کی جانب دیکھ رہے تھے۔ مس نیلی کی سیٹ اب تک خالی تھی اور یہ بار بار باہر کی طرف دیکھنا یہ ظاہر کر رہا تھا کہ مس نیلی کی غیر موجودگی پر سب کو حد درجہ حیرت ہے۔ ورنہ اب تک وہ باس کے روم میں بھی کئی بار چکر لگا آئی ہوتی۔ رگھو بیر اپنی بند آنکھوں میں خوف لئے شاید کسی نا گہانی خطرے کا منتظر تھا … اور مشین کی کھٹ کھٹ فضا میں گونج رہی تھی۔

اچانک سب ٹھہر گئے۔

مس نیلی نے کمرے میں قدم رکھا۔ چہرہ بجھا بجھا تھا۔ آنکھیں جیسے اندر دھنس گئی تھیں … جسم سے جیسے سارا خون نچوڑ لیا گیا تھا … مس نیلی آگے بڑھی اور پریشان سی اپنی کرسی پر بیٹھ گئی … ٹیبل پر پڑی ہوئی لا تعداد فائلوں میں اپنا سر دے دیا … بال بھی الجھے ہوئے تھے جیسے کسی درندے سے بچ کر بھاگی ہو … پھر یوں ہوا کہ سب کی آنکھیں تعجب سے پھیلتی چلی گئیں …

مس نیلی میز پر سر رکھے رو رہی تھی …

سب کی آنکھیں خوف سے پھیلتی چلی گئیں — اور ڈھیر سارے سوال چھٹپٹا اٹھے آہستہ۔ آہستہ کئی لوگ اپنی کرسیوں سے اٹھے … اور مس نیلی کو گھیر کر کھڑے ہو گئے …

’’ مس نیلی بات کیا ہے … کیا بات ہے … ‘‘

مس نیلی نے سر اٹھایا۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھا … پھر شدت جذبات سے آنسوؤں کے آبشار بہہ گئے اور لفظ گونگے ہو گئے۔

’’ نو … نو مس نیلی … تمہاری آنکھوں میں آنسو جچتے نہیں۔ آخر بات کیا ہے … ؟ ‘‘ رگھو بیر کی آواز کانپ رہی تھی۔

’’ بات ؟ ‘‘

مس نیلی نے رُک رُک کر جیسے یہ لفظ ادا کیا … پرس کھول کر رومال نکالا … آنسوؤں کے کتنے ہی قطرے رخسار پر آ کر خشک ہو گئے تھے … آنکھیں پھول گئی تھیں … پھر خود کو بحال کرنے کی سعی کی … اپنے سیلابی جذبے کو روکا … آنکھوں کو خشک کیا … جیسے تسلی کے بیج اندر بوئے ہوں … کہ یہ اپنے لوگ ہیں … یہ سب اپنے لوگ دلاسے کے میٹھے پھل دیں گے اُسے … اُس کی تسلی کا سامان کریں گے مگر تسلی بھی کیسی …

لفظ پھر اُس کا ساتھ چھوڑنے لگے … وہی سیلابی جذبہ اُس پر حاوی ہو گیا۔ خود کو روک پانے کی کوشش میں بس اتنا کہہ سکی … وہ … درندہ میری جان لے لے گا … میں بری طرح سے گھر گئی ہوں۔

پھر باندھ جیسے ٹوٹ گیا … اور سسکیاں کمرے میں گونج گئیں …

ایک آنکھ نے دوسری آنکھ کو پھر نا سمجھی کی حالت میں دیکھا۔ اور بے چارگی کے اشارے آنکھوں میں رینگ گئے …

رگھو بیر نے مسز بھٹنا گر کی آنکھوں میں جھانکا۔ اور ہذیانی پھٹی آواز میں بولا …

’’ مسز بھٹنا گر تم سنبھالو … آخر تم بھی تو ایک عورت ہو … ایک عورت کا پرابلم تم اچھی طرح سمجھ سکتی ہو …

مسز بھٹنا گر نے سمجھداری کے انداز میں سر ہلایا … مس نیلی کے قریب گئیں … اور اپنے خالص بھوجپوری لہجے میں ساتھیوں سے کہا … بھیا … جرا سانس تو لینے دو … دیکھت نئی کھے … بیچریا کیسن گراموا میں مرل جائے ہے۔ پنکھو بند ہے … ہٹو … ہٹو … مسزبھٹنا گر کا بھوجپوری لہجہ سن کر بہت سے لوگ اچانک مسکرا اٹھے۔ پھر بھیڑ ذرا چھٹی۔ دوسرے چیمبر کے لوگ بھی مس نیلی کا رونا سن کر جمع ہو گئے تھے۔

صرف باس نہیں آیا تھا۔ اور باس کے نہیں آنے پر کسی کو بھی حیرت نہیں تھی — باس کی بے رحم اور خود غرض طبعیت سے سب لوگ واقف تھے … وہ صرف اپنی مرضی کا غلام تھا۔ آفس کے اسٹاف کے دکھ سکھ میں کبھی شریک نہیں رہا۔ کسی کے مرنے اور جینے کی اُس نے کبھی پرواہ بھی نہیں کی۔

مس نیلی کے پاس مسز بھٹنا گر کو چھوڑ کر وہ لوگ نکل آئے،اور پھر ایک دوسرے کو گھیر کر کھڑے ہو گئے …

آنکھیں اب بھی خوف سے لرز رہی تھیں۔

’’ یہ کس درندے کی بات کر رہی تھی، مس نیلی ؟‘‘

’’ شہر میں ایسے درندوں کی کمی نہیں۔ ‘‘

’’ مگر یہ درندہ ہمارے آس پاس کا لگتا ہے … ‘‘

’’ کہیں باس تو … ‘‘ رگھو بیر نے ڈرتے ڈرتے کہا

’’ شٹ اپ ‘‘ ورما نے ڈانٹ دیا … بغیر سمجھے بوجھے مت بولا کرو رگھو بیر۔ جانتے ہو اگر اس طرح کی غلط بات منہ سے نکل گئی تو کیا ہو گا۔ سسپنڈ کر دیئے جاؤ گے … باس اپنے متعلق ایک بھی غلط بات سننا پسند نہیں کرتا …

رگھو بیر سہم گیا۔

’’ پھر آخر کیا بات ہو سکتی ہے؟‘‘ مائیکل نے ایک گہری سانس کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’ ہمیں بھی تو کچھ سوچنا چاہئے۔ اگر درندہ آج مس نیلی پر حملہ کر سکتا ہے تو کل مسز بھٹنا گر کو بھی خطرہ پیدا ہو سکتا ہے … پھر ہماری جان کی بھی خیر نہیں رہ جائے گی۔

سب عجب طرح کے خو ف سے لرز گئے۔ اور ایک آواز میں بولے …

’’ چلو مس نیلی سے دریافت کرتے ہیں۔ ‘‘

جس وقت وہ لوگ مس نیلی کے قریب پہنچے اُس وقت مس نیلی بالکل گم سم پتھر کی مورت کی طرح کرسی پر ڈھیر تھی۔ آنکھوں کے سارے خواب جیسے بجھ گئے تھے …

’’ یہ تو کچھ بتاتی ہی نہیں۔ ‘‘

مسز بھٹنا گر نے ہار مانتے ہوئے تشویش کے عالم میں کہا …

’’ پھر کوشش کر کے دیکھو تو سہی۔ ‘‘

’’ کافی کوشش کی۔ ’’ مسز بھٹنا گرنے منہ بنایا۔ ’’ مگر سب لا حاصل۔ درندہ کی آواز منہ سے نکال کر بالکل مردہ ہو جاتی ہے … جیسے یہ لفظ اُس کے حواس پر بجلی بن کر ٹوٹ پڑتا ہے۔ کوئی صورت نہیں۔ ‘‘

مسز بھٹنا گر نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ پھر کہا …

’’ ایک صورت ہو سکتی ہے۔ تم لوگ باس کو خبر کرو … شاید … ؟ ‘‘

اور خوف کے عالم میں وہ لوگ کمرے سے باہر نکل گئے …

باس کے کمرے کے قریب آ کر ان پانچ چھ لوگوں کی ٹولی ایک دم سے ٹھہر گئی۔ آنکھوں میں ڈر سرایت کر گیا … آنے کو تو آ گئے۔ اب پہل کون کرے گا ؟ اندر پہلے کون جائے گا … ؟؟

رگھوبیر ہمت کر کے بولا … ’’ ڈر کیسا۔ اسی ڈر نے تو ہماری یہ حالت کر دی ہے۔ آخر ڈر کیسا۔ باس ہم سے کتنی محبت سے ملتا ہے۔ بھول گئے۔ ‘‘

’’ مگر صرف فنکشن اور تقریب میں ‘‘ سموئل نے خوف سے کہا۔

عادل آہستہ سے بڑ بڑایا … آخر باس آدمی ہی تو ہے۔ پھاڑ تو نہیں کھائے گا۔ ‘‘

رگھو بیر نے دوبارہ کہا … آؤ سب چلیں گے … آخر مس نیلی ہم سب کی دوست ہیں … ہماری روم میٹ ہیں … ان کی عصمت کی حفاظت کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ‘‘

ایک نے پھر خوف کے عالم میں کہا … پہلے دیکھنا چاہئے … باس کیا کر رہا ہے۔ باس کا موڈ کیسا ہے … ؟‘‘

،، موڈ !‘‘ ورما نے براسا منہ بنایا … لو ادھر ہماری ساتھی مس نیلی کی جان نکلی جا رہی ہے … اور تم کہتے ہو کہ دیکھنا چاہئے باس کا موڈ کیسا ہے … ارے کیا کر لے گا وہ … ‘‘

پہلا سٹپٹا کر خاموش ہو گیا۔

ورما نے بھی سوچا … شاید وہ جذبات ہیں کچھ زیادہ ہی کہہ گیا ہے … اور پھر اس چیلنج کا سامنا کرنے میں نوکری سے واقعی ہاتھ دھو بیٹھا تو … ؟

دفعتاً اُس نے اپنی سانسوں میں گھٹن سی محسوس کی۔ اس کا لہجہ کمزور پڑ گیا۔ پھر آگے بڑھ کر دروازے کے خول سے اُس نے اپنی آنکھیں کمرے کے اندر پیوست کر دیں …

باس اپنے روم میں مزے کر رہا تھا … ریوالولنگ چیئر پر خود کو جھلاتا ہوا سوچ میں گم تھا — پھر دائیں طرف والی سفید چمکتی ہوئی دیوار پر آویزاں رنگین کلینڈر پر اپنی نگاہیں مر کوز کر دیتا … جس کے گول گول دائرے میں آج کے دن کو سرخ نشان سے گھیر دیا گیا تھا۔ دفعتاً اس کی مٹھیاں کھل گئیں۔ اب وہ سے مسکرا رہا تھا۔

’’ دیکھا باس خوش ہے۔ یعنی ہم مل سکتے ہیں ‘‘

ورما کے چہرے پر فتح کے آثار نمایاں ہو گئے۔ سب نے اطمینان کی سانس لی۔ آہستہ سے دروازے کو ناک کیا …

’’ یس کم ان ‘‘

باس کی آواز گونجی۔ ایک لمحہ کے اندر سب کمرے کے اندر تھے۔

’’ کیا بات ہے۔ ‘‘

باس ریوالونگ چیئر پر گھوم رہا تھا … اس کی نظروں میں حیرانی تیر رہی تھی۔

’’ کیا بات ہے۔ تم لوگ اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو … ؟‘‘

رگھو بیر نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا۔ سر ہم وہ مس نیلی کے بارے میں کہنے آئے تھے۔

باس کی مٹھیاں پھر شدت سے بند ہو گئیں۔ ’’ کیا ہوا مس نیلی کو … !

رگھو بیر ڈرتے ڈرتے بولا … وہ مسلسل اپنے کمرے میں روئے جا رہی ہے … اُس کے کپڑے بھی کئی جگہوں سے پھٹے ہیں۔ چہرے سے وحشت برس رہی ہے … اور جب مسز بھٹنا گر نے کچھ دریافت کرنا چاہا تو … تو بالکل پتھر بن گئی۔

’’ تو اس معاملے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ‘‘

باس نے سختی اور بے تعلقی سے کہا … پھر آگے بڑھ کر شیشے کے چمکدار ٹیبل سے قزحی رنگ بکھیرتا ہوا پیپر ویٹ اٹھا لیا اور پیپر ویٹ اس کے ہاتھوں کے کھیل میں چند لمحوں تک گم رہا۔ پھر ایک سنجیدہ مسکراہٹ اوڑھتے ہوئے بولا۔

’’ تم ہی بتاؤ۔ مس نیلی کے معاملے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یہ تمہارا پرابلم ہے … تم ہی سلجھاؤ۔ ‘‘

اور اتنا کہہ کر باس کسی معصوم بچے کی طرح کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

سب کی غیر ہو رہی تھی۔ نظریں جھکی تھیں۔ کہتے تو کیا کہتے کہ باس ! یہ پرابلم ہم سے زیادہ آپ کا ہے کیونکہ آپ نے ہی اُس کی جوانی پر رحم کھا کر اُسے نوکری دی تھی کہ آپ نے ہی اُسے رہنے کو فلیٹ دیا تھا۔ ہم سے زیادہ مس نیلی سے آپ کی دوستی تھی۔ ہم سے زیادہ اُس درندے کو آپ جانتے ہیں۔

مگر سب خاموش رہے … اور فرمانبردار غلام کی طرح جیسے آئے تھے ویسے ہی رخصت بھی ہو گئے۔

باہر آ کر سب نے پھر بد حواسی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھا۔

’’ کیا حل نکلا ؟‘‘

رگھو بیر نے ورما کی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے سیلاب کو دیکھ کر پوچھا۔

اور ورما باس کے لہجے میں طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے بولا۔

’’ درندہ لوگ سے مس نیلی کو اپنی حفاظت کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا۔ ‘‘

جب یہ لوگ دوبارہ اپنے چیمبر میں واپس آئے تو مس نیلی ویسی ہی بے جان اور مردہ حالت میں اپنی جگہ اب بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ جبکہ مسز بھٹنا گر کو قرار نہیں تھا۔ وہ آس پاس تمام ٹیبلوں،کھڑکیوں، دروازوں کے پاس جا کر کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ چہرے پر شکن ہی شکن تھی۔ اور آنکھوں کے گرد پڑے حلقے گہرے ہو گئے تھے۔

جب یہ لوگ قریب آئے تو مسز بھٹناگر آہٹ پا کر چونکیں۔ پھر ان کی جانب دیکھتی ہوئی بولیں … تم لوگوں نے کچھ محسوس کیا۔

’’ نہیں تو۔ کیا چیز ؟ ‘‘

’’ بد بو‘‘

مسز بھٹنا گر منہ سکوڑ کر بولیں۔ اور سب کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں جیسے کوئی جنگلی جانور مر گیا ہو … یا سڑے ہوئے گوشت کو جلایا جا رہا ہو … ایک تیز بد بو پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ مگر یہ بد بو کہاں سے پیدا ہو رہی تھی۔ مسز بھٹنا گر ہر جگہ گھوم آنے کے بعد تھکی ہاری اپنی کرسی پر گر گئیں۔

لو۔ ایک اور نئی بات۔ ایک اور نیا پرابلم، کمبخت نہ جانے کہاں سے اٹھ رہی ہے۔ کچھ معلوم ہی نہیں۔ چپہ چپہ تلاش کر لیا۔

مس نیلی نے سراٹھایا۔ آنسو خشک ہو گئے۔

اب رگھو بیر وغیرہ سب لوگ مل کر بد بو کا سبب دریافت کرتے چل رہے تھے۔

مسز بھٹنا گر تیز آواز میں بولیں … کوئی فائدہ نہیں۔ اگر جگہ معلوم ہو تو آدمی بد بو دو ر بھی کر دے … جب جگہ کا تعین ہی نہ ہو تو مشکل ہے۔ بد بو تو بڑھتی ہی جائے گی۔ ‘‘

تو اب کیا ہو گا۔ ؟‘‘

 خوف کا رنگ سب کی نگاہوں میں سمٹ آیا تھا

کریم بیگ کے لئے اب اُس جگہ ایک پل بیٹھنا بھی محال ہوا جا رہا تھا۔ وہ کئی گھنٹوں سے گھبراہٹ کا یہ عجیب و غریب کھیل دیکھ رہا تھا۔ مگر دیکھتے ہوئے بھی خاموش تھا۔ آخر کیا کہتا کہ یہ بد بو تو تمہاری اُپج ہے عزیزو … افسوس صد افسوس کہ تم نے پہلے دریافت نہیں کیا … اور بد بو اس حد تک بڑھ گئی …

اُس نے تھکی ہوئی سانسیں چھوڑیں اور بوجھل قدموں سے کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور اپنے لوگوں کے ہجوم میں شامل ہو گیا۔ سڑاند سب کے نتھنوں میں سمائی ہوئی تھی۔ اور سب اپنی ناک دبائے بد بو سے نجات پانے کی کوشش کر رہے تھے۔

سب سے پہلے مس نیلی اپنی جگہ سے اٹھی اور بغیر کچھ کہے آفس کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئیں۔

کریم بیگ پھر آہستہ سے بڑ بڑایا۔ یہ بد بو خود تمہاری سانسوں میں تھی۔ افسوس۔ افسوس تم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔

آسمان خاموش تھا۔ ابابیلیں چہچہاتی ہوئی اڑتی جار ہی تھیں۔ ایک حشر برپا تھا کہ سب لہو لہان چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے تھے۔

’’ کیا یہ بد بو ختم نہیں ہو سکتی ‘‘

رگھو بیر نے سہم کر کریم بیگ سے پوچھا۔

 اور کریم بیگ ڈرامائی انداز میں بولا۔ جب بھی کسی قوم کا زوال آتا ہے … خدا اپنا عذاب بھیجا کرتا ہے … یہ بد بو اس کے ذریعے بھیجے گئے عذاب کی ہی شکل ہے۔ ‘‘

رگھو بیر کا چہرہ فق ہو گیا۔

بد بو بڑھی جا رہی تھی۔ سب دھڑ دھڑاتے ہوئے آفس کے کمرے سے باہر نکل آئے۔

صرف اکیلا کریم بیگ بچ گیا تھا۔ وہ اچھی طرح جان رہا تھا آج مس نیلی کی وجہ سے لوگوں نے یہ بد بو بھانپ لی اور بد حواس ہو گئے۔ کل سے پھر یہ لوگ معمول پر لوٹ آئیں گے اور بد بو کو فراموش کر کے زمانہ کا مزہ لوٹنے میں لگ جائیں گے۔ اللہ اپنے عذاب سے محفوظ رکھے۔ ‘‘

سیڑھیاں طے کرتے ہوئے کریم بیگ بے خیالی میں کسی سے ٹکرا گیا۔ یہ اُس کے گھر کا نیا نوکر تھا۔ جو اُس کے بجھے ہوئے چہرے اور پریشان حال طبیعت پر نظریں پھیرتا ہوا کہہ رہا تھا۔

’’ صاحب ! بیگم صاحبہ نے بلایا ہے اسی وقت ‘‘

 پھر پھسپھسا کر بولا … سننے میں آیا ہے … شہر میں کہیں دنگا ہو گیا۔ بیگم صاحبہ کافی پریشان ہیں۔ ‘‘

کریم بیگ نے غضب ناک نظروں سے دیکھا، پھر تیز قدموں سے سیڑھیاں پھلانگنے لگے۔

(۲)

شاہراہِ  عام پر وہی دوڑ بھاگ تھی کہ سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف تھے۔ گاڑیوں کا ہارن مستقبل چیخ چیخ کر کان کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ شور و غل کی فضا نے شہر سے امن چھین لیا تھا۔ اپنی اپنی سمتوں کا تعین کرتی ہوئی گاڑیاں برق رفتاری سے بھاگی جا رہی تھیں۔

شاہراہ عام کے کنارے کنارے ایسے مختلف مکانات بنے ہوئے تھے جہاں کے لوگوں نے شاہراہوں سے اٹھتی ہوئی بد بو کو محسوس تو کر لیا تھا مگر کسی وجہ سے چپ تھے۔ … کہ کہیں ان کے اندر کے سکون میں خلل نہ پڑ جائے … وہ اپنے سکون میں مداخلت نہ کل برداشت کرتے تھے اور نہ اس کا احساس آج اپنے دل میں لانا چاہتے تھے بلکہ ان باتوں سے فرار حاصل کر کے جینے کو ہی زندگی سمجھتے تھے۔

اور بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اتنی بڑی … نہ ختم ہونے والی شاہراہ پر پیدل چلتے جاتے تھے … آنکھیں کہیں بھی بوجھل نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ پر رونق شاہراہوں … گاڑیوں کی قطار … خوبصورت، عالیشان دکانوں کے بڑے سائن بورڈ، شیشے کے چمکتے دروازے … اور خرید فروخت کرنے والے لوگوں کی نگاہیں ماحول میں پھیلی ہوئی بد بو کو محسوس کرنے کے بعد بھی خاموش تھیں — اور کبھی کبھی یہ آنکھیں شاہراہ کی دوسری جانب چلی جاتیں جہاں فٹ پاتھی دکاندار، پسینے میں تر بتر گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہوتے … بڑے سلیقے سے ان کی ٹوکریاں سجی ہوتیں —

کریم بیگ پیدل ہی گھر چلے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی جب اندر طوفان اٹھ رہا۔ ہو تو پیدل چلنے میں بھی مزہ آتا ہے۔ گھبراہٹ اور کمرے میں تیز بد بو کا پھیلنا … آزادی ملے تو ایک مدت ہو گئی۔ مگر سکون کا ایک دن بھی نصیب نہیں ہوا … آج بھی رات کے اندھیرے میں رضیہ کی سر گوشیاں کبھی کبھی طوفان اٹھا دیتی ہیں کہ بتاؤ … آزادی سے کیا ملا تمہیں … ؟ کتابوں میں الجھا ہوا انجم دن بھر کی تھکن کا دھواں نکالتا ہوا جب وقت شام گھر لوٹتا ہے … تو ہونٹوں کی تشنگی اور مرجھائی آنکھیں سوال بن جاتی ہیں — پلکیں بھیگ جاتی ہیں … اور گزرے ہوئے وقت کی یادیں ایک ایک کر کے ریٹینا کے پردے پر پھیل جاتی ہے۔

جب وہ صرف کریم بیگ نہیں تھا بلکہ چودھری کریم بیگ تھا۔ ایک معزز خاندان کا فرد۔ فرنگی حکومت کا خطاب یافتہ خاندان … اس نیم خواب آزادی نے صرف اس کے محل نہیں چھینے … شان و شوکت نہیں لی۔ خطاب بھی گم کر دیئے اور اُسے آفس کی رنگینیوں کے سپرد کر دیا۔

وہ چودھری ولا جو کبھی محل تھا … وقت کے زہریلے ناخنوں نے جنگل جھاڑ کر دیا۔ جو پائیں باغ تھا کہ بغل سے شفاف ندی گنگناتی ہوئی مست چال سے گزرا کرتی تھی … اپنی عظمت کا اعتراف کرایا کرتی تھی۔ جہاں اس کے آبا و ا جداد اپنی شامیں گزارا کرتے تھے … وہ نظارے گم ہو گئے — کہانیاں کھو گئیں — صرف تین چار کمروں کا فلیٹ رہ گیا۔ باقی سب بک گیا جس نے چاہا لوٹ لیا۔ جس نے چاہا بے بسی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ چمکتی شفاف دیواروں پراندھیرے کے جھینگر چھاگئے۔ دودھیا سپیدی گرد و غبار میں ڈوب گئی۔ خوفناک طوفان آیا اور سب کچھ اڑا کر لے گیا۔ جاگیریں چھن گئیں … شان چلی گئی۔ محل کے خوبصورت چاندنی جیسے جسم پربربادی کی داستان تحریر کر دی گئی … مہا دیوا روڈ کی ایک بوسیدہ کوٹھی رہ گئی۔ جس کی چمک کو وقت کا آفتاب نکل گیا۔ رئیسی چلی گئی … آ رہ کے معزز چودھری خاندان کے جاہ و جلال کا آفتاب دھیرے دھیرے ماند پڑ تا گیا۔ آنگن میں پڑی ہوئی کسی بوڑھے بزرگ کی لاش پر جیسے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں …

کریم بیگ نے ایک ٹھنڈی سانس لی … صدیوں نے ہر دور میں ایک نہ ختم ہونے والا خلا پیدا کیا ہے — کھنڈرات ماضی کی یاد دلاتے ہیں … کیا وہ آج بھی اس شہرا آشوب میں اپنے آبا کے کارناموں کو فراموش کر سکے گا؟ وہ … کہ جن کے نام سے سر جھک جایا کرتے تھے۔ جن کی شہرت کا ساتویں آسمان پر بھی چرچا تھا۔ فلک بوس دیواریں۔ خس و خاشاک میں لپٹ کر اپنی عظمت کھو چکی ہیں … باہر دالان میں اب بھی کتے ہی شیر، چیتے ہرن کی کھالیں موجود ہیں۔ جن میں اب کیڑے لگ چکے … مگر ایک تاریخ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے … سب کچھ تو لٹ گیا۔ ہرے بھرے درخت کی شاخوں کو دیمک کھا گیا … تاج اتر گیا۔ شہنشاہیت چھین لی گئی … محل میں بجتی ہوئی شہنائیوں کی آواز خاموش ہو گئی۔ اور دالان میں بچ گیا … ایک افسردہ دم توڑتا گیت کہ ایک وقت ایسا بھی تھا … !

گزرے ہوئے زریں وقت کا ماتم کرتے ہوئے سو گئے دادا مرحوم … کہ ہائے کیا زمانہ تھا … اب صرف یادیں ہیں … نہ صبح چین ہے نہ شام … کہ جس نے راجے مہاراجوں میں اپنی زندگی گزاری ہو۔ وہ اس دور غلامی میں کیونکر جی سکے گا۔ سوگئے دادا مرحوم … عالیشان عمارت کا ایک اور کنگرہ گر گیا …

پھر والد مرحوم کا دور آیا جب آزادی کی شمع ہر گھر میں روشن تھی۔ اور کریم بیگ نے وہ زمانہ بھی دیکھا جب وطن پر جاں نثار کرنے والوں نے غلامی اور نفر ت کی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ فرنگیوں پر حملہ بول دیا۔ تاریخ نے خون کی کہانیاں لکھیں … اور پیشانی پر ایک نام جگ مگ کر اٹھا … آزادی … آزادی

اور آزادی کے اتنے سالوں بعد اس سوال نے کریم بیگ کو بار ہا ڈسا ہے … آخر کیا ملا اُنہیں … رضیہ کے آنسو؟ انجم کی دشت نوردی … آفس میں جھکا ہوا ان کا سر … برابری کے خوبصورت نعرے کہاں پرواز کر گئے۔

شاہراہوں سے دوڑتی بھاگتی گاڑیوں سے بے نیاز وہ چپ چپ قدم بڑھائے گھر کے فاصلے کو کم کر رہے تھے۔ گزرے ہوئے کو مت سوچو کریم بیگ !وہ صرف کہانیاں ہیں — بھول جاؤ — ایسی باتیں تاریخ ضرور ہوا کرتی ہیں مگر ایسی تاریخ پر آج لوگ ہنسا کریں گے۔ تمہارا مذاق بنائیں گے۔

اس لئے بھول جاؤ کریم بیگ … بھول جاؤ  …

کریم بیگ نے سر کو ایک جھٹکا دیا … اور دھڑدھڑاتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئے … اور دفعتا ً چونک کر اپنی جگہ ٹھہر گئے۔

رضیہ نے آہٹ پا کر سر اٹھایا مگر اچانک اُس کے چہرے پر بھی پریشانی دوڑ گئی۔

انجم باہر برآمدے میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور ان حیران پریشان لوگوں میں شامل ہو گیا۔

’’ کچھ ہے ‘‘

رضیہ آہستہ سے بولی۔ تم نے کچھ محسوس کیا انجم۔

’’ ہاں … جیسے کوئی گندی چیز مہک رہی ہو … ‘‘

’’ وہ گندی چیز کیا ہو سکتی ہے۔ ‘‘

رضیہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

کریم بیگ نے سر پکڑ لیا … ‘‘ تو بد بو یہاں بھی چلی آئی … اب کارخانۂ حیات کا خدا حافظ ہے۔ ‘‘

پھر یوں ہوا کہ انجم اور رضیہ دوڑ دوڑ کربد بو تلاش کرنے میں لگ گئے … پلنگ، چارپائی، کونے، نالیوں وغیرہ میں جھانکا جانے لگا۔ مگر کچھ ہو تب تو پتہ لگے۔ رضیہ بڑ بڑا رہی تھی …

’صبح میں بھی پورے گھر کی صفائی کی ہے۔ کونا کونا صاف کیا ہے … کوئی سڑی گلی چیز نہیں پھیکی گئی۔ گھر میں جانور بھی نہیں ہیں کہ وہ ادھر ادھر سے گندی چیز لا کر ڈال دیں … پھر یہ بد بو آخر کہاں سے چلی آئی … ؟‘

کریم بیگ کرسی پر بیٹھ گئے —

رضیہ ادھر اُدھر دیکھتی ہوئی اچانک ٹھہر گئی اور کچھ سوچ کر عجیب نگاہوں سے کریم بیگ کی طرف دیکھنے لگی …

’’ سنو : کہیں تم آفس سے تو … ؟‘‘

’’ کیا بکواس کرتی ہو ‘‘

کریم بیگ چیخا … … مگر پھر نرم پڑ گیا۔ کہیں واقعی بد بو آفس سے تو اس کے ساتھ نہیں آ گئی … جہاں مس نیلی کا ٹھنڈا جسم کرسی پر اکڑا ہوا تھا۔ اور ٹھیک اُس کے جاتے ہی کمرے میں بد بو پھیل گئی تھی۔ کہیں بد بو اس کے جسم سے تو نہیں لپٹ گئی؟

اُس نے خوف سے جھر جھری لی … پھر سوچا … رضیہ کے شک کا ازالہ ضرور کرنا چاہئے … اس لئے سمجھاتے ہوئے بولا۔

نہیں رضیہ … ایسی بات نہیں … جس طرح تم نے یہاں بد بو دریافت کی ویسے ہی وہاں آفس میں مسز بھٹنا گر نے دریافت کی۔ در اصل آج آفس میں ایک بھیانک واقعہ ہو گیا۔ تم سلمہ کو تو جانتی ہو — ؟‘

رضیہ چونکی۔ خوف سے جھر جھری لیتی ہوئی بولی۔ ’’ کیا ہوا سلمہ کو ‘‘

’’ اسے کسی درندے نے کاٹ کھایا ہے۔ ‘‘

’’ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ‘‘

’’ہاں رضیہ … سلمہ کی زندگی خطرے میں ہے … ‘‘ کریم بیگ نے ٹھہر ٹھہر کر سارا واقعہ دہرایا۔ کچھ سوچتا ہوا بولا … میرے دماغ میں ایک خیال آیا ہے — جس طرح یہ بد بو تم نے محسوس کی،مسز بھٹنا گر اور دیگر نے محسوس کی۔ ویسے ہی اور لوگوں نے بھی تو محسوس کی ہو گی۔ رضیہ لگتا ہے یہ بد بو بیماری کی طرح ہر گھر میں پائی جا رہی ہے … آج دنیا میں ہزار طرح کے بم، ایٹم بم، نیوکلیر بم اور کیا کیا بنائے جا رہے ہیں … پھر یہ ہنگامے، فساد … تم سوچو رضیہ … بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پورا ملک چشم آشوب میں گرفتار ہو گیا تھا۔ ویسے ہی اس بد بو کو سمجھ لو … کچھ غلط ہو گیا ہے جو بد بو کی صورت میں آہستہ آہستہ پھیلتا رجا رہا ہے … ‘‘

رضیہ کو جیسے تسلی ہو گئی۔ چپ سی ایک طرف بیٹھ گئی … انجم پھر باہر چلا گیا … کمرے کی کھڑکی کھلی تھی۔ روشندان بھی کھلا تھا۔ بد بو کا بدمست جھونکا کمرے میں داخل ہوتا جا رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا … جیسے کمرے کی ہر چیز سے بد بو اٹھنی شروع ہو گئی ہو … ٹیبل سے … دراز سے … ٹیبل پر رکھے ایش ٹرے سے — سوفا سیٹ سے۔ گلدان سے … گلدان میں رکھے تازہ پھولوں سے — بستر سے، تکئے سے، ریڈیو سے، ہر طرف سے بد بو اٹھ رہی تھی۔

اور کریم بیگ سوچ رہے تھے …

یہ انکشاف تو بہت قبل ہو چکا تھا …

کہ ایک وقت آئے گا … جب بد بو کا تیز ریلا ہمیں اپنے شکنجے میں لے لے گا۔

ہماری میلی کچیلی باتیں ہمارے جسم سے لپٹ جائیں گی۔

ظلم کی زبان باہر نکل آئے گی۔

ہم چاروں طرف سے اپنی چھوڑی گئی چیخ کے نرغے میں ہوں گے۔ ‘‘

 ٹپ ٹپ آنسو۔ کریم بیگ کے رخسار پر پھیل رہے ہیں … زمانہ بدل گیا … اور بدلے ہوئے زمانے نے جو تیز بد بو چھوڑ ی ہے … وہ پوری تیز سے پھیلی جا رہی ہے۔

شہر شہر … ملک ملک …

(۳)

کریم بیگ جس وقت آفس میں داخل ہوئے۔ اس وقت آفس سے شور و غل کی تیز آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ سڑکوں پر بھی لوگوں کی بھیڑ جمع تھی — اچانک جیسے ہزاروں چیونٹیاں کریم بیگ کے جسم میں سرایت کر گئیں۔ وہ تیز قدموں سے بھیڑ ہٹاتے ہوئے آفس کی عمارت میں داخل ہو گئے … چاروں طرف سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔ ہاتھ کی مٹھیاں جذبات کی گرمی کے تحت بھینچ گئی تھیں۔ آنکھیں سرخ ہو کر آفس کی عمارت کو دیکھ رہی تھیں …

کیا ہو گیا ہے … کریم بیگ کو پہلے تو کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا …

شاہراہوں پر پہرے دیتے ہوئے بت اچانک خاموش ہو گئے تھے۔

صاحب کی گاڑی کا تیز ہارن گونجا … تھوڑی سی جگہ بنی اور فلک شگاف نعرے آسمان میں پرواز کر گئے …

ہر زور و ظلم کی ٹکر میں انصاف ہمارا نعرہ ہے۔

انصاف دو … انصاف دو … ‘‘

صاحب کی گاڑی تنگ راستوں سے گزر رہی تھی … اور چیخ کان پھاڑ رہے تھے …

ہم حساب مانگتے ہیں …

مس نیلی کے خون کا حساب —

پھر کئی آوازیں سنائی دیں … بڑا ہو گا اپنے گھر کا … غریب کی عزت بھی کوئی عزت ہوتی ہے … ‘‘

پھر نعروں کا ایک سیلاب آگیا … صاحب کی چھوٹی سی گاڑی اس سیلاب میں ڈوبنے ڈوبنے کو ہو گئی۔ چند لمحوں تک وہ کان میں انگلی دئیے،شور کے آوارہ بادل کو پرے کرتے رہے۔ پھر سائڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلے …

ان کے چہرے پر ایک شکن تک نہ تھی … دھیرے سے مسکرائے۔

جو کہنا ہو … میرے کمرے میں آ کر کہو۔ ‘‘

چہرے لٹک گئے۔ نعرے دھواں دھواں ہو کر بکھر گئے … صاحب نے پھر ایک فتح بھری نگاہ ان لوگوں کی جانب ڈالی … اور ان کی بے بسی و بے چارگی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے تیز قدموں سے آگے بڑھ گئے۔

نعروں کا سیلاب پھر آگیا تھا —

’’ ہم حساب مانگتے ہیں … مس نیلی کے خون کا حساب۔ ‘‘

’’ ہر زور ظلم کی ٹکر میں انصاف ہمارا نعرہ ہے۔ ‘‘

’’ تانا شاہی مردہ باد‘‘ … ایک آواز آئی

’’ افسر شاہی مردہ باد ‘‘ … دوسری آواز اٹھی۔

اور ادھر صاحب اپنے کمرے میں تیزی سے داخل ہوئے … اب ان کے چہرے پر شکن ہی شکن تھی … کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا — جب اطمینان ہو گیا تو ریوالونگ چیئر پر بچھ گئے۔ گہری سانس کھینچی۔ جیسے دماغ میں باہر کے شور داخل ہو گئے ہوں۔ سر کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا … کرسی پر بیٹھے اور ٹیلیفون نمبر ڈائل کرنے لگے۔

ہیلو … ہیلو … پولیس اسٹیشن … ہاں … ہاں … میں بول رہا ہوں … کچھ پاگل قسم کے لوگ آفس میں گھس آئے ہیں — بیکار قسم کی باتیں کر رہے ہیں … شور و غل اس قدر ہے کہ کان کا پردہ پھٹا جا رہا ہے … پلیز آئیے … ہاں … بس یہی ڈر ہے کہ کہیں توڑ پھوڑ کی کارروائی نہ شروع کر دیں … ہاں ابھی تک تو کچھ نہیں کیا ہے۔ مگر پاگلوں اور بیوقوفوں سے کیا امیدیں کی جا سکتی ہیں … پلیز جلدی کیجئے … انہیں سمجھائیے … اچھا آپ چل رہے ہیں … تھینکس گاڈ … … میں ٹھیک ہوں … دروازہ اندر سے بند ہے … ویسے اتنا یقین ہے یہ پاگل لوگ مجھ پر حملہ نہیں کریں گے … انہیں کچھ سوکھی روٹیاں … ( قہقہہ) … جو میں اُن تک ڈال دوں گا … ( دوبارہ قہقہہ) … ٹھیک ہے … ‘‘

صاحب ٹھنڈے ہو کر ریوالونگ چیئر پر گھوم گئے … پیشانی پر پسینے کی بوندیں جمع ہو گئی تھیں۔ رومال سے پسینہ پوچھا اور کمرے میں ٹہلنے لگے …

باہر سے اب بھی شور و غل کے بادل اٹھ رہے تھے …

 کریم بیگ کو اپنی سانسیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں — اچانک وہ خود کو بہت ہی زیادہ تھکا ہوا محسوس کرنے لگے … جیسے جسم میں ایک بھی قطرۂ خوں نہ رہ گیا ہو … اندر ہزاروں بم پھٹ گئے ہوں — سر چکرانے لگا تھا … ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہو گئے تھے … انہیں یقین ہی نہ تھا … معصوم، بھولی بھالی سلمہ اتنی جلد ان کے درمیان سے اتنی دور چلی جائے گی … یہ گمان بھی نہ تھا کہ درندہ اتنی جلد اپنا کام کر جائے گا … مگر ایسا ہو گیا تھا …

وہ آہستہ سے بند ہونٹوں میں بڑ بڑائے … انا للہ وانا الیہ راجعون۔

سچ بات تو یہ تھی کہ سلمہ بہت پہلے ہی مر چکی تھی۔ وہ زندہ کب تھی —

پھر سوچنے کا سلسلہ اچانک منقطع ہو گیا۔

آفس کمپاؤنڈ میں پولیس جیپ کا ہارن گونج اٹھا …

نعروں میں اُٹھے ہوئے ہاتھ گر گئے — سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا … اور سب ایسے خاموش ہو گئے گویا آنے والے نے موت کی سزا کا اعلان کر دیا ہے … بھیڑ چھترا گئی … جہاں موقع ملا، لوگ بھاگنے لگے — انسپکٹر اپنی جیپ سے شاہانہ وقار کے ساتھ اُترا … ایک زہر بھری مسکان اُس کے ہونٹوں پر مچل رہی تھی۔

اُس نے انصاف کے متوالوں کو کچھ شک اور کچھ طنز بھری نظروں سے دیکھا … اور پھر جیسے جی کھول کر ہنسا۔

ایک … …

دو … …

تین … …

چار … …

سب بھاگ گئے …

ہا … ہو … بے وقوفو … بے وقوفو …

وہ ذرا دور پر سہمے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر چیخا … یہ کیا ہنگامہ پھیلا رکھا ہے تم لوگوں نے … آفت مچا رکھی ہے … جینا مشکل کر دیا ہے …

پاگلو! مجھے سب معلوم ہو گیا ہے

مس نیلی نے خود کشی کی ہے … کسی نے مارا نہیں ہے اس کو

احمقو! اس طرح چیخنے چلانے سے کیا ملے گا تمہیں … وہ تو کہو ہم شریف ہیں کہ تمہیں گرفتار نہیں کر رہے … ورنہ تم لوگوں کو تو …

انسپکٹر کے چہرے پر خون دوڑ گیا … ’’ تمہیں تو شہر میں امن کو درہم برہم کرنے کے الزام میں بڑے آرام سے گرفتار کیا جا سکتا تھا …

چہرے خوف سے سکڑ گئے … بھیڑ چھٹنے لگی … انسپکٹر کے جملے نے بندوق کی گولی سا کام کیا تھا … لوگ ایک ایک کر کے واپس چلے گئے اور انسپکٹر فخر و غرور کی علامت بنا مسکرائے جا رہا تھا …

اور کریم بیگ کو ایسا لگ رہا تھا … جیسے انسپکٹر اپنے اُسی پرانے لہجے میں چیختا ہوا کہہ رہا ہو۔

بے وقوفو … احمقو … گدھو …

دیکھا وردی کا کمال

دیکھا … ہو نہ گئے ایک دو تین تم سب …

جیت گئے نا ہم … اور تم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے …

میری وردی کو ملے ہوئے حقوق سے تمہارے نعروں کی ہوا نکل گئی —

پاگلو … ہا … ہہ … ہہ … …

بھیڑ چھٹ چکی تھی …

آفس لان میں کچھ کام کرنے والے رہ گئے تھے … اپنی ڈھیلی ڈھالی مٹھیوں کے ساتھ … جوش کا پرندہ آواز کی توپ سے مر چکا تھا۔ ہونٹ پر قفل لگ گئے تھے …  آفس لان میں اب بھی پولیس کے سپاہی ادھر اُدھر ناچتے پھر رہے تھے …

انسپکٹر تیزی سے صاحب کے روم کی جانب بڑھا … یہ بہت سے لوگوں نے دیکھا … پھر وہ اُسی شاہانہ چال سے واپس بھی لوٹ آیا … جیپ میں بیٹھے ہوئے اُس نے ایک نگاہ دوبارہ ان لوگوں پر ڈالی … اور ایک گولی پھر داغ دی۔

آپ لوگوں کو وارننگ دی جاتی ہے … آخری وارننگ … آپ صاحب کو تنگ نہیں کریں گے … ورنہ …

پھر وہ گاڑی میں بیٹھ گیا — لوگوں نے اُس کی سرخ آنکھیں دیکھیں اور جیپ دھول اڑاتی ہوئی سڑکوں پرکھو گئی۔

’’ ورنہ … ؟‘‘

یہ آواز دیر تک گونجتی رہی —

رگھو بیر نے برا سا منہ بنایا … پھر سب اکٹھا ہو گئے … ورما، مائیکل مسز بھٹنا گر اور دیگر اسٹاف …

سب کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے۔

’’ دیکھا؟ کیسی دھمکی دے کر چلا گیا۔ ‘‘

’’ ہمیں اپنے ہونٹ بند رکھنا ہے۔ اسی میں بھلائی ہے۔ ‘‘

’’ ہونٹوں پر تالے لگا کر ہم نہیں جی سکتے۔

’’ اب یہ سب بولنے سے کیا فائدہ ‘‘

کریم بیگ آگے آیا — جب بولنے کا وقت تھا تو تم خاموش ہو گئے … اب احتجاج بلند کرنے سے کیا ہو گا۔ اپنے کٹے ہوئے ہاتھ دکھانے سے کیا ملے گا تمہیں ؟‘‘

اور سب نے محسوس کیا … واقعی سب کے ہاتھ تو کاٹ ڈالے جا چکے ہیں … آزادی کے باوجود یہ ہونٹ غلام ہیں … یہ ہاتھ غلام ہیں … سب کچھ باس کے ہاتھ میں ہے اور یہ باس کی ہی آفس ہے … وہ چاہے تو نکال باہر کر سکتا ہے … اور جیسے مس نیلی چلی گئی اُسی طرح سب چلے جائیں گے … مگر …

’’ ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔ ‘‘ رگھوبیر کے چہرے پر خوف سمٹ آیا تھا۔

’’ یوں چپ رہنے سے ہمیں بھی بندوق کے نشانے پر لے لیا جائے گا۔ ‘‘

 رگھو بیر عقل سے کام لو ‘‘

کریم بیگ نے کانپتے ہونٹوں سے کہا … ’’ رگھو بیر ! یہ کچھ ہم کب سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس ’’ کچھ ‘‘ سے ہمیں کیا ملا۔ جواب دو گے ؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ ’’ کچھ ‘‘ بہت کھوکھلا ہے رگھو بیر۔ اس میں کوئی دم نہیں ہے۔ ‘‘

کریم بیگ نے ایک ٹھنڈی سانس کھینچی۔ ہم یہاں بے مقصد باتوں میں اپنا سر پٹک رہے ہیں اور وہاں ہاسپٹل میں مس نیلی کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے۔

ذرا سوچو تو پوسٹ مارٹم ‘‘

کریم بیگ کی آنکھیں نم تھیں … معصوم سلمہ مرنے سے قبل خوش رہی نہ مرنے کے بعد … اس نے اسپتال میں ایسے کئی پوسٹ مارٹم ہوتے دیکھے ہیں … اور لا وارث لاشوں کا پوسٹ مارٹم … گویا نیلامی کی بولی شروع ہوتی ہے۔

ایک …

دو … تین …

کوئی ہے … کوئی ہے اس کا وارث …

اور کوئی جواب نہیں ملے گا … تو لاش کو لا وارث قرار دے دیا جائے گا …

اور لا وارث لاش کتوں کے حوالے کر دی جائے گی —

کون پوچھتا ہے لا وارث لاشوں کو … ؟

سلمہ کا کون وارث ہے … ؟

کریم بیگ کی آنکھوں تلے اندھیرا چھاتا جا رہا تھا … آواز ڈوبنے لگی۔

ریٹینا پر ایک مدھم تصویر اُبھری … اور ذہن جیسے ڈوبتا چلا گیا …

’’ رحیمو چا … میں نے زندگی میں بہت کم پڑھا۔ مجھے نہیں معلوم روحیں دیکھا بھی کرتی ہیں یا نہیں … اگر تم دیکھ رہے ہو تو میں سمجھ سکتا ہوں … تمہاری آنکھیں سو سو آنسو بہا رہی ہوں گی … تم نے جس سلمہ کو سڑک کی بھیڑ میں کھو دیا تھا۔ مجھے ڈر ہے۔ اس سلمہ پر مس نیلی کا لیبل لگا کر۔ اور لا وارث قرار دے کر آگ میں نہ جلا دیا جائے۔ میں ایک بار پھر اخلاق کی کمزوری کے درمیان گھر گیا ہوں … آواز اٹھاؤں یا چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہوں۔ اگر محض تماشہ دیکھوں تو ضمیر کے مسلسل عذاب سے کیسے چھٹکارا پاؤں … ؟ عقیدے کی بے حرمتی کیسے گوارہ کروں … ؟

میں فرق کے دوراہے پر نہیں کھڑا ہوں۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک بچے نے جس گھر میں آنکھیں کھولی ہیں۔ اس بچے کو اسی گھر کا نام ملے … ‘‘

کریم بیگ کانپ گئے۔ رگھو بیر وغیرہ حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکے …

’’ میرے عزیزو۔ کیا تم لوگ مجھے ایک رکشے پر سوار کر سکتے ہو … ؟‘‘

میں تیز بد بو محسوس کر رہا ہوں۔ میرا سر چکرا رہا ہے۔ میں اسپتال جانا چاہتا ہوں۔ مس نیلی کا آخری دیدار کرنے …

(۴)

اسپتال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا … جس وقت کریم بیگ اسپتال پہنچے اس وقت تک مس نیلی کے مرنے کی خبر سارے شہر میں عام ہو چکی تھی … درندے کے کاٹ کھانے کی بات بھی لوگوں کو معلوم ہو گئی تھی۔ کافی بھیڑ تھی۔ ان میں اخبار والے بھی تھے۔ فوٹو گرافر س بھی تھے۔ سیاستدان بھی تھے … معصوم لوگ بھی — جس وقت کریم بیگ کا رکشہ وہاں رُکا اس وقت تک ساری رپورٹ سامنے آ چکی تھی … مگر کریم بیگ جانتے تھے … مس نیلی کو ایک زہریلے سانپ نے ڈسا ہے … کون ایسے زہریلے سانپ سے خود کو ڈسوانا پسند کرے گا … ؟

دائیں طرف والے چبوترے پر مس نیلی کی ڈھکی ہوئی لاش پڑی تھی …

کریم بیگ اس منظر کی تاب نہ لا سکے۔ آنکھیں موند لیں … درندے نے کس بے رحمی سے کاٹ کھایا ہے۔

فوٹو گرافرس جلدی جلدی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ پریس نمائندے اِدھر اُدھر لوگوں سے پوچھ تاچھ کرتے ہوئے چل رہے تھے اور جیسا کریم بیگ نے سوچا تھا۔ ٹھیک ویسا ہی منظر سامنے تھا۔ انسپکٹر، ڈاکٹر سے گفتگو کرتا ہوا کہہ رہا تھا۔

’’ لاو ارث لاش ہم لوگوں کے لئے ایک پرابلم بن جاتی ہے … ‘‘

اور انسپکٹر نے نیلامی کی بولی شروع کی …

ایک …

دو …

تین …

چار …

پانچ … کوئی ہے … کوئی ہے …

اور اس درمیان ایک عجیب سا واقعہ ہوا … کریم بیگ میں جانے کہاں سے جوش آگیا۔ وہ آگے بڑھا اور اطمینان سے بولا …

’’ لاش میرے سپرد کر دی جائے … اس لاش کا اکیلا وارث میں ہوں ‘‘

’’تم … ؟

انسپکٹر نے خونی نظروں سے اس کا جائزہ لیا …

کریم بیگ کو پھر ویسا محسوس ہوا۔ جیسے وقتی طور پر وہ پھر قہقہوں کی زد میں آگیا ہو … انسپکٹر اُسی پرانے انداز میں ہنستا ہوا کہہ رہا ہو … پاگل … کتے … وحشی … تو تم ہو … تم ہو کمینے … احمق … تم ہو …

وہ واقعی احمق تھا، جبھی تو کہہ رہا تھا۔ اُس کے اندر اطمینان بھرا تھا۔ معصومیت سے بولا … ہاں میں ہوں انسپکٹر صاحب — اگر میں وقت پر نہ آتا تو ایک بہت بڑی غلطی ہو جاتی۔

انسپکٹر طنز سے ہنسا … اور اگر دیر سے آتے تو شاید ایک بہت بڑی غلطی ہونے سے بچ جاتے …

’’ کون ہے یہ ؟ کیا رشتہ ہے اس سے تمہارا؟

انسپکٹر کی آنکھیں اس کے جسم میں پیوست ہو گئی تھیں …

’’ میری بہن — ‘‘ اس نے آہستہ سے کہا …

’’ اب تک کہاں تھے۔ تم نے اپنی بہن کی گمشدگی کی رپورٹ کیوں نہیں درج کرائی تھی … ؟

اس نے سر جھکا لیا …

انسپکٹر دوبارہ غصے میں بولا … جس وقت مس نیلی کی لاش ہم نے برآمد کی۔ اس وقت تم کہاں تھے ؟ …

 وہ پھر چپ رہا …

’’ جب لاش کا پوسٹ مارٹم ہو رہا تھا، اس وقت تم کس گپھا میں چھپے ہوئے تھے؟‘‘

وہ تابڑ توڑ سوال کئے جا رہا تھا اور کریم بیگ ہرسوال کے جواب میں جھکا جا رہا تھا۔

انسپکٹر پھر چیخا … ’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘

’ ’ کریم بیگ !‘‘

اب کی بار انسپکٹر بڑے زور سے چونکا … اور عجیب نظروں سے اُس کی طرف دیکھا … مسلا ہو …

’ہاں ‘

’’ مسخری کرتے ہو … … مس نیلی تمہاری بہن کیسے ہو گئی … ؟‘‘

وہ سمجھ گیا … انسپکٹر نے اسے پوری طرح اپنے چنگل میں لے لیا ہے۔ موقع کی نزاکت سمجھتے ہوئے خوف سے بولا۔

’’ میں بتاتا ہوں … سب بتاتا ہوں … مگر ایک وعدہ کیجئے — آپ مس نیلی کو ہمیں سونپ دیجئے گا … تاکہ ہم اپنے طریقے سے آخری رسوم کرسکیں —

کریم بیگ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں …

انسپکٹر کی آنکھوں میں گدھ جیسی چمک تھی —

’’ نہیں … میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا … تم تو کوئی بہروپئے لگتے ہو بہروپئے۔

اس پر جیسے بجلی گر پڑی … خود کو بحال کیا … اعتماد کو ہاتھ سے جانے نہ دیا … ہمت کی اور جو کچھ صحیح تھا … وہ پٹاری کھول کر وردی والے صاحب کے سامنے رکھ دی۔

’’ اوہ! ‘‘ انسپکٹر نے ایک گہری سانس کھینچی — پھر معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

’’ تمہاری اس بات کا کیا ثبوت ہے۔ پھر ثبوت کے بغیر ہم تمہاری بات پر کیونکر یقین کریں۔ تم سچ مچ بہروپئے ہو۔ ڈھونگی ہو … جانتے بھی ہو۔ اگر تمہارے اس جھوٹ کو تھوڑی سی بھی ہوا مل گئی تو کیا ہو سکتا ہے۔ دنگے ہو سکتے ہیں۔ فساد ہو سکتے ہیں۔ منٹوں میں ہنستا کھیلتا یہ شہر شعلوں میں گھر بھی سکتا ہے … تم کوئی خطرناک آدمی لگتے ہو … کسی بھیانک سازش میں ملوث نظر آتے ہو۔

اس کی آنکھیں خونی ہو گئیں …

’’ بتاؤ کس تنظیم سے تعلق ہے تمہارا؟‘‘

کس کے لئے کام کرتے ہو؟۔

یہ کہانی کیوں گڑھی۔ ؟

کس نے ایسا کرنے کو کہا … ؟

تم اس لاش کے ساتھ کھلواڑ کرنا چاہتے ہو … ہم تمہاری سازش اور سوچی سمجھی اسکیم کو پنپنے نہیں دیں گے … اس کا انتم سنسکار اس کے نام کی مناسبت سے ہو گا۔ سمجھے … سمجھے … سمجھے … ؟‘‘

کوئی چاقو لے کر وحشت اور درندگی سے اُس کے سارے جسم پر وار کرتا چلا جا رہا تھا۔ سمجھے … سمجھے — کریم بیگ گونگا بن گیا تھا۔ آواز کا طائرانسپکٹر کے حملوں کی تاب نہ لا کر فضا میں پرواز کر چکا تھا۔ اس کی چبھتی آنکھیں کریم بیگ کے اندر اندر گھس گئی تھیں۔ وہ بھی کتنا پاگل ہے … اور کیا ثبوت ہے اُس کے پاس … خود مس نیلی نے بھی تو اپنے ساتھ ایک سمجھوتہ کر لیا تھا۔ مگر وہ رحیمو چا کی محبت کے آگے سمجھوتا نہ کر سکا۔ بس یہی غلطی تھی اس کی … اس نے گویائی سے محروم ہونٹوں کو آواز دینے کی جرأت کی تھی … یہی جرم تھا اُس کا … یہ بھول گیا تھا … کہ آزادی کے بعد نافذ ہوئے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے۔ ہونٹوں پر سل رکھ کر جئیو … آنکھوں کو بند کر کے جیو … ورنہ قید … حراست … خاکی وردی والوں کو ملے حقوق پھانسی اور عمر قید کی سزا سنانے کو منتظر ہیں۔ بڑی بڑی موٹی کتابوں سے گناہ کی لمبی چوڑی تفصیل بالآخر کھوج نکالی جائے گی … اور پھر اُس کی سانسوں پر پہرہ بٹھا دیا جائے گا۔

اچانک وہ اس وقت چونکا … جب انسپکٹر اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہا تھا …

’’ مجھے افسوس ہے … تمہیں گرفتار کرنا پڑ رہا ہے … ‘‘

کریم بیگ نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ اُس کی جانب بڑھایا … نقاہت سے ایک ڈوبتی سانس لی۔ پھر دھیرے سے مسکرایا …

’’ فاتح ہوئے تم انسپکٹر کہ تمہیں ثبوت مل گیا … میں واقعی بہت بڑا مجرم ہوں کہ مس نیلی کو سلمہ ثابت کرنے کا ایک چھوٹا سا ثبوت بھی فراہم نہ کر سکا۔ فطرت نے اگر وہیں سے بچے کے جسم پر اس کی قومیت کے نشان ثبت کر دئے ہوتے تو آج اس کی ضرورت نہ پڑ تی … میں خود تمہیں دکھاتا۔ مگر افسوس کہ بچہ اپنے ساتھ اپنی قومیت کا ثبوت نہیں لاتا۔ مس نیلی نے مجبوریوں کے تحت نام تو بدل دیا … مگر اپنے نام کی نشانی اپنے جسم پر محفوظ نہ رکھ سکی … افسوس میں سچ کا کوئی ثبوت نہیں لا سکا … اور تم میرے گناہ کے ثبوت لئے بیٹھے ہو … کہ تمہاری وردی سے … وردی کو ملے حقوق سے … حقوق سے جسم میں پلنے والے ایک ایک خون کے خطرہ سے غرور اور تانا شاہی کی بو آ رہی ہے … تم اپنی کمزوریوں پر اپنی وردی کا بوجھ رکھنا چاہتے ہو تو رکھ لو۔ مگر دیکھ لینا …

کریم بیگ ہانپ رہا تھا … دیکھ لینا … ایک نہ ایک دن میں اپنی کمزوری پھینک کر ا نجم بن جاؤں گا … اور تمہارے بدن سے تمہاری وردی کھینچ کر تمہارے جسم میں پلنے والے ایک ایک گھاؤ دکھاؤں گا … وردی کے بغیر جھکا ہوا تمہارا سر دکھاؤں گا۔ تمہارے اندر رینگتے ہوئے کیڑے دکھاؤں گا … دکھاؤں گا کہ وردی کے بغیر تمہاری کیا حیثیت ہوتی ہے … تمہاری آواز کس قدر کمزور پڑ جاتی ہے۔ کتنے کمزور ہو … تم … ؟

مگر کریم بیگ کچھ بھی نہ کہہ سکا …

آسمان مٹ میلا ہو گیا تھا … چاروں طرف دھواں ہی دھواں بکھر گیا تھا … بادلوں کے ٹکڑے اڑے جا رہے تھے۔ بارش کا امکا ن پیدا ہو گیا تھا …

مگر کریم بیگ تو کچھ اور ہی دیکھ رہا تھا۔

’’ میں ہار گیا ہوں رحیمو چا … میں ہار گیا … ان لوگوں نے لوہے کے موٹے سنگلاخ دستانے مجھے ضرور پہنا دیئے ہیں۔ تاہم مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے اخلاق کی کمزوریوں کا مجرم نہیں بنا … میں نے اس دائرے کو توڑ کر ایک مضبوط احتجاج بلند کیا ہے … یہ بات الگ ہے … کہ میرے سچ پر ثبوت کے زنگ آلود آئینے کو دکھانے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ تاہم میں نے اپنی آواز بلند کر دی ہے … اور میں دیکھ رہا ہوں … یہ اخبار رپورٹر … یہ نامہ نگار … یہ نمائندے … میری جانب جن نظروں سے دیکھ رہے ہیں … ان نظروں میں ایک آگ کودتی پھر رہی ہے … ان کے انصاف پسند ہاتھوں سے اس نا انصافی کی تلافی ہو سکتی ہے … اور میں جان رہا ہوں … یہ چپ نہیں بیٹھیں گے … یہ خاموش نہیں رہیں گے۔ میرا احتجاج اگر ان کی آواز کا ایک حصہ بھی بن گیا تو یہ دھوئیں کا بادل ایک نہ ایک دن پورا آسمان ضرور بن جائے گا … جو زورو ظلم کے خلاف جنگ کے بگل کو بجا دے گا …

کریم بیگ ہذیان میں بولے چلا جا رہے تھا …

میں خوش ہوں رحیمو چا … کہ میں جیت گیا ہوں۔

آزادی کے اتنے سالوں کے بعد۔ اس زہریلی فضا میں بھی۔ ایک مرد مجاہد نہیں ہارا۔ اس نے اپنی آواز بلند کر دی ہے۔

اور سلمہ …

 مس نیلی …

تم بھی … الوداع … الوداع … کہ تم نے دنیا کی گندگی یہاں اتار پھینکی … اب چاہے تم جس رسم سے بھی گزرو … تمہاری روح نئے سفر کے لئے بدن چھوڑ چکی ہے … مجھے یقین ہے — تمہاری پاک مقدس روح پر ایک شکن تک نہ آئے گی …

جاؤ سلمہ … الوداع!

یہ لوگ بھلا میری آواز کیونکر سمجھیں گے۔ یہ پاگل کتے جو مالک کے اشاروں پر ناچتے ہیں … شعبدہ گر کے ہاتھ کی حرکت سے ڈولتے ہیں — یہ بھلا میرے دل و دماغ سے اترے ہوئے بوجھ کو کیونکر دیکھ سکتے ہیں۔ میری روح سے ہٹی ہوئی میلی کچیلی عفریت کی بو کیونکر سونگھ سکتے ہیں۔

وہ ہانپ رہا تھا … سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھے جا رہے تھے اور سوچ رہے تھے … کیا یہ سچ مچ پاگل ہو گیا ہے … یا سچ مچ پہلی بار آج انسان بن گیا ہے …

مجمع کو سانپ سونگھ گیا تھا … اور کریم بیگ کہہ رہا تھا …

’’ لے چلو … کہاں لے چلو گے مجھے۔ ‘‘

اُس کے لہجے میں ایسا غرور بھرا تھا کہ وردی کانپ گئی اور وردی والا ہکا بکا اُسے دیکھنے لگا … آنکھیں چوندھیا گئیں —

کریم بیگ کے چہرے سے اطمینان جھلک رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا … آج واقعی میرے لئے بڑی خوشی کا دن ہے … آج میں نے مذہب کا وہی سچ پی لیا ہے … جو میں نے عرصہ سے فراموش کر رکھا تھا کہ زندگی کی اس طویل دوڑ میں موت کو اپنی مٹھی میں بند کر کے نکلو … مگر الٹا ہم موت کے خوف سے زندگی کی طویل دوڑ میں پیچھے۔ اور مسلسل پیچھے ہوتے چلے گئے۔ مگر اب اس کینچلی کو اتار دینے کا وقت آگیا ہے … اب مجھے کسی کا ڈر نہیں۔ میں جانتا ہوں میرے ہونٹ سے نکلا ہوا ہر کلمہ سچ کا کلمہ ہو گا۔

کریم بیگ مسکرایا، طنزیہ نظروں سے انسپکٹر کو دیکھا … پھر بولا۔ تم اس سچ کی زبان نہیں کاٹ سکتے۔ سمجھے تم نہیں کاٹ سکتے … ! …

خاکی وردی والے کا سر جھک گیا …

اور دیکھنے والے نے دیکھا … ایک جھکا ہوا سر … نقاہت میں ڈوبی آواز … اور کریم بیگ کا شان سے تنا ہوا جسم … اور دیکھنے والوں نے محسوس کیا۔ ایک قیدی بادشاہ … کہ سچ بولنے کے نام پر جسے سلاخوں میں جکڑ دیا گیا تھا … جب برسوں بعد رہائی ملی،سچ کا تبسم اس کے ہونٹوں سے جھلک رہا تھا …

کریم بیگ مسکرائے جا رہا تھا۔

اور سب حیرت سے دیکھے جا رہے تھے …

(۵)

شام کی سیاہی آسمان میں چھا گئی تھی۔ آسمان آج صبح سے ہی ابر آلود تھا۔ گھٹا چھائی ہوئی تھی اور پھر موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔

بارش اسی وقت سے شروع ہو چکی تھی جس وقت کریم بیگ کو فسادی ہونے کے الزام میں جیل لے جایا گیا تھا۔ جیل کی سلاخوں کے باہر کئی سر تھے۔ جو جھکے تھے۔ غم میں ڈوبے تھے … بعض میں ہمدردی کے آثار تھے … اور بعض اس کی داد دے رہے تھے … کریم بیگ اس وقت گھر کے خیال میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ کسی کو جیل میں ملنے کے لئے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوستوں کو بار بار سمجھایا تھا … کہ انجم نادان ہے۔ اُسے روکنا … ایسا نہ ہو کہ جوانی کے جوش میں وہ غلطی کر جائے۔ رضیہ کو بھی سمجھا دینا … کہ میں جیل کسی غلط مقصد سے نہیں گیا ہوں بلکہ سچ کے نام پر گیا ہوں … رگھو بیر کانپتی آواز میں بولا تھا … کریم تو تو ہم سب سے بازی لے گیا … مس نیلی سے ہم سبھی کو محبت تھی … مگر محبت کی یہ قربانی تیرے نام لکھی گئی … آج معلوم ہوا،سچ کے نام پر زہر پینے والے سقراط کی کمی نہیں …

وہ صرف ہنس کے رہ گیا تھا …

پھر اُسے دیکھنے والوں کا ایک تانتا لگ گیا … وہ اس ناٹک سے اب پوری طرح اوب چکا تھا …

جیل کی وہ پہلی رات … وہ اُس بد بو کو محسوس کر رہا تھا۔ جو تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی … وہ ان چہروں سے بھی خوب واقف ہو چکا تھا۔ جو تنہائی میں اُس سے لمبی چوڑی گفتگو کیا کرتے تھے۔ مگر جھوٹ کے اسیر تھے۔ جن کے چہرے سہمے تھے اور درندے کا خوف جنہیں کھائے جا رہا تھا۔

جیل میں تو ایسا کچھ بھی نہ تھا جس سے وہ خوف محسوس کرتا … اطمینان بھرا تھا ماحول میں —

بارش کی موسیقی وہ دیر تک سنتا رہا۔ پھر اُس کو نیند آ گئی۔ جب اٹھا تو صبح ہو چکی تھی … اس نے ایک انگڑائی لی … آنکھوں کی دھند ہٹائی … باہر کے شفاف منظر کا جائزہ لیا۔ قیدیوں کی طرف دیکھا … یہاں تک کہ دس بج گیا … اور اُسے معلوم ہوا … اسے آزاد کر دیا گیا ہے۔

صاحب نے ضمانت لی ہے اُس کی۔

اُس نے سر کو جھٹکا دیا … پھر جیل کی دیوار سے باہر نکل آیا۔ جہاں رگھوبیر اُس کا منتظر تھا۔ چہرہ اترا ہوا تھا …

’’ تم ٹھیک تو ہونا کریم بیگ … ؟‘‘

کریم بیگ مسکراتا ہوا بولا … تمہارے سامنے کھڑا ہوں — بالکل بھلا چنگا۔ ‘‘

رگھو بیر نے ٹھنڈی سانس لی … میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ لوگ کہتے ہیں ایک بار جیل چلے جانے سے عزت پر آنچ آ جاتی ہے …

’’ بیوقوف ہیں ایسے لوگ جو الزام اور اس کی روشنی پر غور نہیں کرتے۔ ‘‘

کریم بیگ کی آنکھیں چمک اٹھیں … ‘‘ اور پھر میں تو سچ کے نام پر جیل گیا تھا۔ ‘‘

’’ خیر! کل تمہیں صاحب نے بلایا ہے … آؤ گے نا … ؟‘‘

’’ضرور … ‘‘

رگھو بیر چلا گیا … اور وہ اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔

رضیہ کی آنکھیں روتے روتے سوج گئی تھیں … اُس کے دل میں آیا … کہ کہے … انجم ان مٹھیوں کواور کس کر بھینچ لو … اب اس کی ضرورت ہے۔

مگر انجم کا چہرہ دیکھ کر ڈر گیا … گلا تر ہوا تو آنکھیں پھر انجم کی طرف ا ٹھ گئیں —

’’ ابا … یہ جو کچھ ہوا اچھا نہیں ہوا … اچھا نہیں ہوا۔ ‘‘

اُس کی آنکھوں میں ایک خوفناک سانپ پھن مارے بیٹھا تھا۔ ابا … آخر اس کی ضرورت ہی کیا تھی … کیا یہ نام کا چکر ختم نہیں ہوسکتا ابا۔ وہ سلمہ ہو … چاہے مس نیلی … وہ مر گئی ہے … حقیقت تو بس یہی ہے نا ابا … پھر آخری رسوم کے لئے آپ نے آواز ہی کیوں اٹھائی … میں پوچھوں گا ابا۔ ضرور پوچھوں گا … کیونکہ مجھے ان وردی والوں سے سخت نفرت ہے جو خود کو ملے ہوئے حقوق کے بل پر سمجھتے ہیں کہ حکومت بن گئے ہیں … آپ سچ کے لئے لڑے ابا مگر کیا ملا … ؟‘‘

انجم کی آواز میں سانپ کی پھنکار شامل تھی۔

کریم بیگ کافی دیر بعد بولے … یہ خبر مجھے معلوم تو نہیں تھی مگر میں جانتا تھا … کہ یہ لوگ ایسا ہی کریں گے۔ سلمہ نے اپنے بدن کی کینچلی اتار پھینکی۔ اور اس کی مقدس روح نئے سفر کے لئے پرواز کر گئی …

کریم بیگ ٹھہرے … آہستہ سے بولے … میں صرف یہ چاہتا تھا کہ اس نے جس مذہب میں آنکھیں کھولیں، اُسی مذہب کے ساتھ اسے آخری سفر پر روانہ کیا جائے —

کریم بیگ کا گلہ بھر آیا … انجم نڈھال سا کمرے میں ٹہلنے لگا … رضیہ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔

کریم بیگ نے انجم کی جانب دیکھا …

’’ انجم میں جانتا ہوں تم نئے عقیدے کے نئے شہر میں پیدا ہوئے ہو … مذہب سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مگر انجم ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں … ایک بچے نے جس گھر میں جنم لیا ہے … اُسی گھر کی مٹی ملنی چاہئے نا اُسے … ؟ سلمہ نے نام بدلا تھا قومیت تو نہیں بدلی تھی۔

’شاید آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ‘ انجم آہستہ سے بولا …

مگر انہوں نے جو سلوک آپ کے ساتھ کیا ہے، میں اُسے زندگی بھر فراموش نہیں کرپاؤں گا —‘‘

اتنا کہہ کر وہ رکا نہیں، تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا —

(۶)

سڑکوں پر جس رفتار سے گاڑیاں دوڑا کرتی ہیں، کریم بیگ کا ذہن اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے دوڑ رہا تھا۔ آفس کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے ہی وہ سمجھ گئے تھے کہ آج کس قسم کے سوال و جواب سے ان کا پالا پڑے گا … اور اس لئے انہوں نے خود کو پوری طرح سے تیار بھی کر لیا تھا … جیل کی چہار دیواری کے اندر ہی وہ پرانا کریم بیگ مر چکا تھا … وہ ڈرپوک ڈرپوک سا … سہما سہما سا کریم بیگ … صاحب کے دروازے پر خوف و دہشت کا مجسمہ — اندر بلائے جانے کا منتظر — کریم بیگ … جسے پل پل یہ ڈر کھائے رہتا کہ کہیں صاحب کی ناراضگی اس کی چھٹی کا سبب نہ بن جائے۔

’’ مگر اب کریم بیگ مضبوط ہو چکا تھا — اُس نے اپنے جسم کا جائزہ لیا — اور مسکرایا …

اب یہ ہاتھ اُس کے ہیں …

پاؤں اس کے ہیں …

جسم اس کا ہے …

اور اس کی آواز پر بھی اب صاحب کا کوئی اختیار نہیں رہ گیا ہے …

اندر کا سارا میں صابن کے جھاگ کی طرح بہہ اٹھا۔

آفس چلتے وقت اس نے گھرے لوگوں کو بھی ایک لمبا چوڑا بھاشن دیا تھا۔ جس کا مفہوم بس اتنا تھا … کہ گھر کا کوئی بھی فرد کسی پر بوجھ نہیں ہے … کسی کی خاطر زندہ نہیں ہے … سب خود مختار ہیں … سب اپنی حیثیت اور انا کے ساتھ زندہ ہیں — وقت جیسا موڑ دے گا ویسے ہی عقل سے کام لے کر ڈھلنا ہو گا … کبھی کمزور نہیں بنیں گے …

وہ گھر سے یہی سوچ کر چلے تھے کہ صاحب نے اگر زیادہ ہنگامہ کھڑا کیا تو وہ نوکری سے استعفیٰ دے آئیں گے مگر اپنے اخلاق کی کمزوریوں کے ساتھ آفس کی چہار دیواری میں خود کو قید نہیں کریں گے …

اُنہوں نے اُس درندے کی شکل بھی دیکھ لی تھی جو اُن کے تعاقب میں تھا مگر انہیں یقین تھا کہ جب تک اُن کی مضبوطی قائم ہے۔ یہ درندہ اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا … صاحب کے دروازے کے پاس آ کر بھی وہ خوفزدہ نہیں تھے — بلکہ مضبوط انگلیوں کے ساتھ دستک دی — اور وہ دھڑا دھڑا تے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔

’’ بیٹھو … ‘‘

باس ریوالونگ چیئر پر خود کو گھمانے لگا … میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا کریم!

اتنا کہہ کر ٹیبل پر پڑا ہوا پیپر ویٹ اٹھا لیا۔ اور اُسے گھمانے لگا — پھر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے — ماتھے کی لکیریں گہری تھیں … آہستہ سے بڑ بڑایا۔

’’ میری سمجھ میں نہیں آیا کریم ! تم نے ایسا کیوں کیا … کیوں کیا …

کریم بیگ نے سر جھکا یا۔ آہستہ سے بولا ’’ سر ! سلمہ میری بہن تھی۔ ‘‘

’’ میں نے سنا … مگر تم نے کبھی بتایا نہیں — کبھی ذکر نہیں کیا۔ ‘‘

’’ اس کی وجہ تھی سر۔ ۔ ۔ سلمہ میری بہن ضرور تھی۔ مگر مس نیلی کی مجبوری نے یہ رشتہ توڑ ڈالا تھا۔ ‘‘

’’ پھر بھی کہتے ہو کہ وہ تمہاری بہن تھی۔ ‘‘ صاحب پریشان ہو گئے۔

اور کریم بیگ آہستہ سے مسکرا دیا۔

’’ سر ! اگر باپ بیٹوں میں وقتی طور پر کوئی جھگڑا ہو جائے تو کیا جھگڑے کی بنا پر رشتے ٹوٹ جائیں گے۔ تعلقات ختم ہو جائیں گے … ؟

’’ ہونہہ!‘‘

صاحب نے ایک لمبی سانس لی۔ ‘‘ مگر وہ تمہاری سگی بہن تو نہیں تھی۔ ‘‘

’’ وہ رحیمو چا کی بیٹی تھی … جو میرے خاندان کے وفادار رہے تھے اس لئے وہ مجھے سگی بہن سے زیادہ عزیز تھی۔ ‘‘

’’ اوہ ‘‘

صاحب دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئے اور پیپر ویٹ گھمانے لگے۔ ایک سوال رہ رہ کر اُن کے دل میں چبھ رہا تھا تھا۔ کہ وہ کریم بیگ سے یہ پوچھیں کہ تم اس درندے سے واقف ہو؟ جس نے مس نیلی کا لہو چوسا ہے۔ مگر وہ اچھی طرح سے سمجھ رہے تھے۔ کریم بیگ اس سوال کا جواب بھی اُسی دیدہ دلیری سے دے گا … یس سر ! میں جانتا ہوں … مگر ابھی کہنے کا وقت نہیں آیا۔

صاحب نے پیپر ویٹ گھما کر چھوڑ دیا … پیپر ویٹ ٹیبل پر تھوڑی دیر تک گھومتا رہا۔ پھر ٹھہر گیا۔ صاحب کو اپنی قوت کا اندازہ بہر طور تھا۔ ان کی پہنچ بہت دور تک تھی … پھر کون تھا جو ایک بال بھی بانکا کرتا اور کٹھ پتلیوں کو تو اپنے انداز میں گھمانے کی ان کی پرانی عادت تھی — آہستگی سے مسکرائے — پھر کریم بیگ کی آنکھوں میں جھانکا …

ٹھیک ہے کریم بیگ ! یہ تمہارا ذاتی معاملہ ٹھہرا … اس لئے اس معاملے میں دخل دینے والا میں کون ہوں … مگر ایک بات ضرور کہوں گا … اب جب کبھی قدم اٹھاؤ … تو بہت سوچ سمجھ کر اٹھاؤ … یہ جان لو کہ راستے میں چاروں طرف زہریلے سانپ پڑے ہیں۔ کوئی بھی سانپ تمہیں ڈس سکتا ہے۔ ہلاک کر سکتا ہے …

’’ ٹھیک ہے سر ! میں اس بات کا پورا پورا خیال رکھوں گا ‘‘ اتنا کہہ کر وہ صاحب کے کمرے سے باہر نکل گئے۔

جب وہ اپنے روم میں لوٹے تو لوگ اُس کی واپسی کے منتظر نظر آ رہے تھے … دیکھتے ہی سوال داغا گیا …

کیا ہوا کریم بیگ ؟‘‘

’’ کچھ نہیں۔ ‘‘

اس نے اطمینان سے جواب دیا … صاحب نے ایک مشورہ دیا … سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کا … بس اور کوئی بات نہیں ہوئی … ہاں اتنا ضرور کہا … کہ راستے میں چاروں طرف سانپ ہی سانپ پڑے ہیں، ہشیاری سے چلنا چاہئے … ورنہ … ‘‘

’’ کیا یہ دھمکی ہے … ؟‘‘

’’ دھمکی نہیں … صاحب نے احتیاط کا راستہ چننے کو کہا ہے ‘‘

’’ اور تم نے مان لیا۔ ‘‘

’’ کیا کرتا۔ صاحب ہی نے میری ضمانت لی تھی … کیا نوکری چھوڑ دیتا … بلاوجہ صاحب سے لڑ پڑتا … ؟ بتاؤ تم لوگ ؟‘‘

’’ نہیں ہمارا یہ مطلب نہیں۔ ‘‘

رگھو بیر پھسپھسایا … ’’ میرے دوست ! جانے کیوں ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے ہم سب نا معلوم خطرات میں گھر گئے ہوں۔ ہماری ذہنی حالت اس وقت ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری مدد کرو یار … ‘

 سب قریب سمٹ آئے۔

’’ آج شام میں رمنا میدان کے قریب والے ہوٹل پارک ویو میں ہم سب جمع ہو رہے ہیں — تم ضرور آنا … وہیں تبادلۂ خیال کریں گے کہ آنے والے نا معلوم خطرے سے کیسے بچا جا سکتا ہے …

’’ ٹھیک ہے … میں ضرور آؤں گا۔ ‘‘

دوستوں کے جھرمٹ سے نکل کر وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔ دوستوں کی گھبراہٹ پر ندامت کا حساس ہو رہا تھا … آج ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی … اللہ گواہ ہے … یہ تو ایک بہن کا مسئلہ تھا۔ بہن جو اس کی سگی نہ تھی مگر یہی کیا کم تھا کہ اس نے اُسی کے گھر میں پرورش پائی تھی … یہ رشتہ کچھ کم کیا ہے … مگر اس کے باوجود یہ تنگ نظری کی آگ۔

یہ آگ پھیل رہی ہے … یہ آگ پھیل جائے گی …

کریم بیگ کے دل و دماغ میں طوفان آیا ہوا تھا … اخبار ٹیبل پر دوبارہ ڈال دیا۔ سر پکڑے پکڑے کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ پھر چھٹی کی درخواست لکھی۔ طبیعت واقعی خراب ہو رہی تھی۔ اس لئے گھر چل دیئے۔

راستے بھر رگھوبیر، ورما، اور مائیکل کے سہمے چہرے اُن کی نگاہوں میں گھومتے رہے … کتنے معصوم ہیں یہ لوگ … گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے یہ چہرے — کبھی خوشی کا عکس … کبھی غم کی لمبی ہوتی پرچھائیں … آج پھر نا معلوم خطرات میں گھر گئے ہیں … مگر۔ کیا محفوظ رہ سکیں گے — ؟

وہ جو شعبدہ گر ہے۔

اپنے وقت کا سب سے بڑا جادو گر۔

کیا وہ ان معصوم لوگوں کو اپنے ہپنا ٹزم کا شکار نہیں بنائے گا ؟ان کی آنکھوں کو چکا چوند نہیں کرے گا۔ ؟

وہ جو برسوں سے شعبدہ گر کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں رہے ہیں … اچانک برسوں کی غلامی کا یہ طوق کیسے اتار پائیں گے …

طلسم ہوش ربا کی عورت اُن کا دھیان کھینچ ہی لے گی اور جب پلٹ کر دیکھیں گے تو پتھر بننا ہی ہو گا …

کہ سب کے سب معصوم شہزادوں کی طرح اُس طلسمی عورت کی قید میں ہیں …

وہ مٹھیوں میں بھر کر اشرفیاں چھترائے گی۔ یہ پاگل کتوں کی طرح پیچھے ہو لیں گے …

مگر وہ دن … وہ دن … جب اُس جابر طلسمی عورت کی لاش پڑی ہو گی۔ اور طلسم کی زد میں آئے شہزادے اپنی اصلی شکل میں لوٹ آئیں گے۔

اس دن کا انتظار رہے گا …

ہوٹل پارک ویو میں سب آ چکے تھے … صرف مسزبھٹنا گر کا بے چینی سے انتظار ہو رہا تھا … بیرا ٹیبل پر چائے رکھ کر جا چکا تھا۔ سب نے ہاتھوں میں کپ تھام لیا …

رگھو بیر نے خاموشی کو توڑا …

’’ آج یہ چھوٹی سی میٹنگ ہمارے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ہم سب نا معلوم خطرات میں گھرے ہوئے ہیں … ہم نے آفس کے اندر اور باہر صرف قہقہے اچھالے ہیں … خوف کا سامنا کبھی نہیں کیا … یہ بھی کبھی نہیں جانا کہ خوف ہوتا کیا ہے ؟ کس بلا کا نام ہے ؟ مگر اب جانے کیوں … شاید مس نیلی اور درندے کی جھڑپ … پھر مس نیلی کی بدترین موت سے یہ عقدہ ہم سب پر کھلا ہے … کہ ہم نا معلوم خطروں میں گھر گئے ہیں … اور اسی خطرے نے ہم سے ہمارے زندہ دل قہقہے چھین لئے ہیں۔ دلوں میں نا معلوم خوف برپا کر دیا ہے۔ ہمیں اس خوف کو ہٹانا ہے … اس نا معلوم خطرے سے بچنے کے لئے جو تدابیر ہو سکتی ہیں۔ اُسی کو سامنے لانے کے لئے یہ اہم میٹنگ بلائی گئی ہے … ‘‘

اتنا کہہ کر رگھو بیر چپ ہو گیا … اور ناٹے قد کا ورما اٹھ کھڑا ہوا —

’’ میرے دوست ۱ سب سے پہلے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ نا معلوم خطرہ ہے کیا؟‘‘

مائیکل نے خوف سے کہا — —’’ وہی درندہ جو ہمارے آس پاس ہر وقت موجود رہتا ہے … گھر پر … سڑکوں پر … آفس کے اندر — باہر … ہر وقت ہمارے تعاقب میں ہوتا ہے … بستر پر بھی ہمارے ساتھ سوتا ہے … وہی درندہ … خوف صرف اسی کا ہے —‘‘

’مگر وہ درندہ جب نظر نہیں آ رہا ہے تو ہم اسے کیسے ما ر سکتے ہیں ؟‘

اس فالتو بحث سے کریم بیگ اکتا چکے تھے۔ اس لئے بولے …

’’ وہ درندہ کون ہے … اس سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ الگ بات ہے … خوف اور دہشت کے ملے جلے جذبے نے ہمارے ہونٹ سی رکھے ہیں …

وہ ذرا دیر کو ٹھہرے پھر دوستوں کی آنکھوں میں جھانک کر بولے — ’’میرے دوستو! ہم یہاں آفس کی عمارت سے کافی فاصلے پر موجود ہوٹل پارک دیو میں ہیں۔ اور ضروری میٹنگ کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ جس کے مقصدسے ہم بخوبی آگاہ ہیں … ہم درندے کو بھی بخوبی جان رہے ہیں۔ اب میں آپ لوگوں سے صرف ایک سوال کرتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا شخص ہے جو اس درندے کا نام یہاں سے لے سکتا ہے … ؟‘

ماحول میں اچانک ایک دم سناٹا چھا گیا …

’’ نہیں … ‘‘

جواب حاضر تھا۔ ہونٹ خاموش تھے … آنکھیں خوف سے اُبل آئی تھیں۔

’’ نہیں نہیں … ‘‘

آوازیں کانپ کانپ گئیں۔

کریم نے مسکرا کرکہا …

’’ میرے دوستو … ظاہر ہوا،تم اپنے خوف کی شکلوں سے واقف ہو … اور خود ہی اسے دور کرنا نہیں چاہتے تو پھر میٹنگ بلا نے کی ضرورت ہی کیا تھی — ہمت ہے تو جس درندے کے نا معلوم خوف میں گھرے ہو … ایک جست لگا کر اس کی گردن دبوچ لو … توڑ دو … ‘

ان کی آنکھوں میں خون اُبل آیا تھا … اچانک سب چونکے … مسز بھٹنا گر کی آواز سن کر … جو کہہ رہی تھیں … ‘

’’ کس کی گردن توڑنے کی باتیں ہو رہی ہیں بھائی ؟‘‘

بیگ جھلاتی ہوئی مسز بھٹنا گر نے اپنی خالی کرسی پر جگہ بنا لی — بیٹھے ہوئے لوگوں کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولیں …

’’ میں بھی تو سنوں … تم کون سے ڈر اور خوف کی باتیں کر رہے ہو ؟

انہوں نے چہروں کا جائزہ لیا … پھر آہستہ سے بولیں … ’’ آہ میرے دوستو! تم سب غلط راستے پر جا رہے ہو … یہ صحیح نہیں ہے — تم بے جا خوف کی وکالت کر رہے ہو۔ یہ بات غلط ہے … تم سچے دل سے سوچو … جو تمہیں آج تک سہارا دیتا آیا ہو … وہ درندہ کیسے ہو سکتا ہے … ؟ اور اگر وہ درندہ نہیں ہے … تو پھر دل سے یہ خوف نکال دو … کیونکہ یہ سب بے معنی ہے … بے وجہ ہے … ‘‘

سب اچانک چونک پڑے … کریم بیگ پھٹی پھٹی نظروں سے مسز بھٹنا گر کو دیکھنے لگے … جو نظریں چراتی ہوئی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لاتی ہوئی کہہ رہی تھی …

’’ رگھو بیر … کیا میرے لئے چائے نہیں منگواؤ گے۔

’’ رگھوبیر نے ایک گہری سانس لی … پھر زبردستی کا قہقہہ بلند کرتا ہوا بولا … چائے ضرور آئے گی … کیوں نہیں آئے گی … ‘‘

کریم بیگ خاموش تھے۔

وہ جان گئے تھے … طلسم ہو شربا کی عورت کو پلٹ کر دیکھے جانے والے عمل نے انہیں پتھر بنا دیا تھا …

(۷)

مسز بھٹنا گر اپنے نئے فلیٹ میں آ کر بہت خوش تھی … یہ فلیٹ صاحب نے انہیں تحفے کے طور پر دیا تھا … کچھ دنوں قبل تک یہ تین کمروں کا فلیٹ مس نیلی کا تھا … اب مس نیلی کی موت کے بعد یہ فلیٹ مسز بھٹنا گر کا ہو گیا تھا …

صاحب نے انہیں یقین دلایا تھا … رتو! تمہارے یہ احساس بھلے بوڑھے ہو گئے ہوں … مگر تم تو ابھی پوری طرح جوان ہو …

 مسز بھٹنا گر نے اچانک اتنے سالوں بعد اپنے سراپے کا جائزہ لیا تو ایسا لگا جیسے سچ مچ سب کچھ سلامت ہو۔ شوہر کی اچانک موت نے وقتی طور پر جو خلا پیدا کر دیا تھا۔ وہ خلا اچانک چھٹنے لگا تھا … شوہر کے ساتھ وہ گزارے ہوئے یادگار لمحے … وہ نہیں بھولنے والی کھٹی میٹھی باتیں … جس کے احساس نے مسز بھٹناگر کو کئی سال تک زندگی سے دور رکھا … باس کا دست شفقت پا کر وہ ان سارے یاد گار لمحوں کی نشانیاں اپنے بدن سے کھرچ دینا چاہتی تھی … تاکہ از سر نو زندگی کی بھول بھلیوں میں گم ہو سکے۔ اس نے کہیں پڑھا تھا … جنگ کے موقع پر ایک سپاہی کے ہاتھ کٹ گئے تھے مگر اُس کا جوش باقی تھا —

تمہیں جینا ہے …

اور اس لئے جینا ہے کہ ابھی مادر وطن کے لئے بہت کچھ کرنا ہے … ؍

بغیر ہاتھوں کے بھی تم ایک جنگجو سپاہی ہو۔ ؍

اس لئے بھول جاؤ کہ تمہارے ہاتھ نہیں ہیں … ؍

تمہیں پہلے کی ہی طرح بم پھینکنے ہیں … لڑائی لڑنی ہے … ؍

اس لئے سوچو مت … کہ بہادر سو چا نہیں کرتے … ؍

لڑتے رہو … آخری سانس تک لڑتے رہو … ؍

مسز بھٹناگر کو بھی بھولنا پڑا کہ ایک اجنبی ان کی زندگی میں ایسا بھی آیا تھا جو کچھ خوشگوار یادیں لے کر آیا تھا۔ لیکن کب تک انسان ایسی یادیں سمیٹ کر جی سکتا ہے … خود غرضی کے اس زرد زرد موسم میں …

وہ تو بس یہی سوچ رہی تھی … نیا فلیٹ واقعی بہت خوبصورت ہے۔ چھوٹا سا صحن …

تین کھلتے ہوئے خوشنما کمرے … کھڑکیاں … شفاف دیواروں پر رنگین پینٹنگس … سوفا سیٹ گدے … سب کچھ تو ہے …

مگر جانے کیوں ان سب کے باوجود ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے اس گھر کی ایک ایک شئے میں مس نیلی زندہ ہو … وہ جب بھی کسی شئے کو ہاتھ لگانے جا رہی ہوتی، مس نیلی سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی … اور جیسے غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگتی … نہیں نہیں … رتو … ان چیزوں پر تو میرا حق ہے …

مسز بھٹناگر گھبرا جاتیں — ہاتھ فوراً ٹھہر جاتے …

اس خوبصورت فلیٹ میں تنہائی کا بھی بڑا جان لیوا احساس تھا … جہاں وہ پہلے تھیں وہاں اس طرح کا کوئی احساس نہ تھا — آس پاس بہت سے جان پہچان کے لوگ … اٹھتے بیٹھتے گفتگو … مگر یہاں تو سب اجنبی تھے … اور پھر وہ جان لیوا احساس … جیسے کوئی درندہ اُسے گھور رہا ہو … اپنی خونی لپلپاتی زبان نکالے۔

مسز بھٹنا گر کا وجود برف کی طرف سے سرد ہو جاتا — پھر رفتہ رفتہ خود کو بحال کرنے میں لگ جاتیں … اور یہ سوچ کر اطمینان کر لیتیں کہ اب ان کے اچھے دن شروع ہو گئے ہیں …

صاحب کے قد آور ہاتھوں کا سہارا ایک خوش آئند زندگی کی شروعات ہو سکتی ہے۔

مس نیلی کی اچانک موت نے اُسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اور ایسے وقت میں صاحب نے ہی اُسے سہارا دیا تھا …

’’ مسز بھٹنا گر — میں تمہیں ایک چھوٹا سا گھر دکھانا چاہتا ہوں … پسند آ جائے تو میری جانب سے تحفہ سمجھ کر قبول کر لینا …

اور اس فلیٹ میں آ کر باس کا گلا بھر آیا تھا … ’ میں نے زندگی میں جو چاہا … وہ سب کچھ ملا۔ ہم افسر ہوتے ہیں … اور افسر کی ہر بات کی نوٹس لی جاتی ہے … اس لئے ہر کام ہمیں خفیہ ڈھنگ سے کرنا ہوتا ہے … بتاؤ تو … کیسی مجبوری ہے یہ؟ … کیا افسروں کے پاس خواہش نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی … اب تم دیکھو … ایک مس نیلی تھی اور مس نیلی بھی چلی گئی …

صاحب کا گلا بھر آیا … اس کی عجیب حالت ہو گئی۔ صاحب کہیں اُس کا امتحان تو نہیں لے رہے … مگر یہ آنکھیں … یہ آنکھیں شک سے بلند ہیں … اور وہ سوچتی ہی چلی گئی … اچانک صاحب کی آواز نے اُسے چونکا دیا … جو کہہ رہے تھے۔

’’ مس نیلی اس کمرے کی ہر شئے میں زندہ ہے۔ میں چاہتا ہوں۔ تمہاری موجودگی سے اس کمرے میں نیا رنگ بکھر جائے … ‘‘

اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی …

اور وہ مس نیلی کی نشانیاں ایک ایک کر کے کمرے سے کھرچنے میں لگ گئی … مگر اندر کا ڈر ہر جگہ موجود تھا … مس نیلی تو ہر جگہ اپنی مسکراہٹ بکھیر رہی تھی … آئینے کے آدم قد فریم میں بھی موجود تھی اور مسکرائے جا رہی تھی …

کتنی کمزور ہو تم رتو …

زندگی ایک مذاق سے زیادہ نہیں ہے …

سچ کہنا … تم درندے کے نا معلوم بڑھتے ہوئے ہاتھ سے خوفزدہ تو نہیں … ؟

 مسز بھٹنا گر نے ڈائری نکالی اور لکھنا شروع کیا …

’ہم سب ڈوبے ہوئے ہیں …

یہ الگ بات ہے، ہم پانی کے اُس بہاؤ کو نہیں دیکھتے …

جس میں خوف تیر رہا ہے …

ایک چھوٹی سی ڈبیہ … جو پانی پر اپلا رہی ہے …

جس میں خوف بھی ہے اور بد بو بھی …

کیا ہم یہی ہیں … ؟؟‘

کشمکش کے عالم میں اُن کی نظریں اب کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھیں —

٭٭٭

مصنف کا شکریہ کہ اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل:  اعجاز عبید

حصہ دوم کے لئے یہاں کلک کریں