FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حصہ اول کے لئے یہاں کلک کریں

 

نیلام گھر

(ناول)

               مشرف عالم ذوقی

 

 

حصہ دوم

 

 

 

باب سوم

انجم

ہمارے قلعے میں لق و دق اور بنجر میدان ہیں

یہاں روٹی اور پانی کے بھی لالے ہیں

لیکن اگر ہمارا دشمن خوشیوں کی تلاش میں آیا

تو گھبراؤ مت — — —

ہم اُن کی دعوت کریں گے

گولہ بارود سے۔ گولیوں اور بموں سے

ہم ان کی دعوت کریں گے اور خوب کریں گے

 — — — کپتان کی بیٹی

الگزنڈر پشکن

(۱)

کمرے میں حبس پھیلا ہوا تھا …

یہ ہیڈ ماسٹر رگھوپتی سہائے جی کا گھر تھا … جس کے باہر والے دالان میں دونوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔ سرجھکائے … کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے … ان میں سے ایک انجم تھا اور دوسرا امت — رگھو پتی سہائے جی کا لڑکا …

انجم کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں … وہ غصہ میں نظر آ رہا تھا … یہ کیسی آزادی ہے … ابا جان نے ایمانداری کی قسم کھائی تو جیل کی سلاخیں دکھائی گئیں۔ سچ بولنے کے نام پر جیل بھیجا گیا … اگر ہم اب بھی نہیں جاگے تو پھر کب جاگیں گے … کسی کو تو جاگنا پڑے گا کہ یہ دستور بدل دو … اس دستور سے زور کی بد بو آتی ہے … اب ہمیں ہی دیکھو … گریجویٹ ہونے کے باوجود بھی بیکار بیٹھے ہیں … ہمارے غریب باپ نوکری میں ہمیں بحال کرنے کے لئے پیسے کہاں سے لائیں گے ؟ … اِن آنکھوں میں غیرت اُگتی ہے۔ امت ! دوسروں کی طرح ہم آنکھیں بند کئے سب کچھ کیسے دیکھ سکتے ہیں … بے وجہ گمتیاں توڑی جائیں گی تو ہم بولیں گے ہی … فٹ پاتھی دکانداروں کو نکالا جائے گا تو ہم احتجاج بلند کریں گے ہی … غریبوں پر ظلم ہو گا تو آواز اٹھائیں گے ہی … ابا جان اگر سچ کے نام پر جیل جائیں گے اور ان پر فسادی ہونے کا الزام لگایا جائے گا … تو چلائیں گے ہی … مارکس نے بھی تو یہی کہا ہے۔ آپ خاموش رہتے ہیں تو ظلم کو ہوا دیتے ہیں … ‘‘

امت جو دیر سے سن رہا تھا … آہستہ سے بولا … سمجھ میں نہیں آتا … آج ملک کے اس گرگٹ موسم میں بھی لوگ سچ جیسا بھترا چاقو کیونکر استعمال کرتے ہیں … ‘‘

امت شاعر بھی تھا … آہستہ سے بولا — یار ! گھر کے باہر وہ دیکھ ! کیسی غریبی ہے … یہ آس پاس سب ڈوم اور مہتوں کے گھر ہیں … تو جب بول رہا تھا۔ تو ایک نظم کا آئیڈیا آگیا … تو بھی سن لے …

پھر اس نے خود پر بلا کی سنجیدگی طاری کی اور یوں کہنا شروع کیا …

سچ ! موریوں میں رینگنے والا سب سے بد صورت کیڑا

چھبودا کی اکہری چوکی پر دم سادھے بیٹھا ہوا سچ …

انتہہ من پر چوٹ لگاتا ہوا سچ …

سچ کے نام پر جیل جاتا ہوا چھبو دا …

اور جیل کی کھپڑیل آفس میں …

خاکی وردی والوں کے بوٹ کے نیچے دبا ہوا سچ

بڑی بڑی فائلوں کے بوجھ تلے مرا ہوا سچ …

 اور آگے سنو گے … ؟

’’ نہیں یار بس کرو … مذاق نہیں … ‘‘

انجم ایک پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے بولا … ہمیں آج کے کارنر ڈرامہ (Corner Darma)کی فکر کرنی چاہئے … دوسروں کی طرح اگر ہم نے بھی موقع کھو دیا تو آنے والی نسل کو اپنی کمزوریوں کے لئے کوئی جواب نہ دے پائیں گے … بہت سے کام کرنے ہیں امت … ‘‘

امت سنجیدہ ہو گیا …

انجم نے پھر کہا … … ’’ امت اپنی تخلیق کو یوں بچوں کا کھیل نہ بناؤ جو ہم یوں ہی مذاق میں کہتے پھرتے ہیں … اٹھتے … بیٹھتے … چلتے … پھرتے — سڑکوں پر دوستوں کے ہمراہ … محفلوں میں … مجلسوں میں … مشاعروں میں … ہوٹلوں میں … الفاظ کو بغیر کسی اندرونی چبھن اور تکلیف کے ضائع کرنا … یہ تضیع اوقات ہے … آج ضرورت مقصد کی ہے … اور جب تک مقصد نہ ہو گا … ہم ان کراہتے، دم توڑتے لوگوں کی آنکھوں میں جھانک نہیں سکتے … خیر چھوڑو … آج کا رنر ڈرامہ کے لئے تم تیار ہو نا …

’’ ہاں بالکل تیار ہوں ‘‘ امت نے سنجیدگی سے کہا … یوں بھی کارنر ناٹک کے لئے کسی ریہر سل وغیرہ کی ضرورت تھوڑے ہی پڑتی ہے … ‘‘

انجم نے گھڑی دیکھی … پھر کہا … آؤ چلیں۔ گوپالی چوک پر سلیم اور مرتضیٰ انتظار کر رہے ہوں گے‘‘ …

امت نے پاؤں میں ہوائی چپل ڈالی … اور دونوں بر آمدے سے نکل کر باہر آ گئے … امت کھادی کے کرتے اور پائجامے میں تھا جبکہ انجم نے جینس کے پینٹ پر کھادی کا موٹا کرتا ڈٹا رکھا تھا … مہا دیوا روڈ کی اوبڑ کھابڑ سڑک پار کرتے ہوئے دونوں نے اپنے قدم چوک کی جانب تیز کر دیئے …

راستے میں امت نے انجم سے پوچھا۔ کیا اس طرح مین چوک پر ہمارا ناٹک کرنا اچھا ہو گا۔ جبکہ پولس ہماری عادتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے — کہیں شک ہو گیا تو … ‘‘

’’ کیا ہو جائے گا … ‘‘

انجم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا … جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو پھر جو ہو اب تو تماشہ دیکھنا باقی ر ہ گیا ہے۔

اب تک یہ لوگ گاؤ گاؤں گھوم کر اس طرح کے کتنے ہی ناٹک کر چکے تھے۔ اور اس طرح کے ناٹکوں کا واحد مقصد اپنی بات کو دوسروں تک پھیلانا تھا … ظلم و ستم کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو پکڑ لینا تھا۔ یہ ناٹک عام ناٹکوں سے بالکل مختلف تھا … ناٹک کے بارے میں کسی طرح کا کوئی اعلان نہیں کیا جاتا تھا۔ نہ کسی طرح کا اسٹیج بنایا جاتا تھا … نہ ہی کوئی خاص پوشاک تھی جو جس ڈریس میں ہوتا، اُسی میں پہنچ جاتا … پہلے سے ہی ناٹک کا ایک ڈھانچہ تیار کر لیا جاتا اور سڑکوں گلیوں میں اس طرح سے پیش کیا جاتا جیسے روز ہو رہے حادثوں میں سے یہ بھی ایک حادثہ ہو … مگر اس حادثے کے ذریعے ایک پیغام دیا جاتا کہ ظلم مت سہو … سہنا بھی ایک جرم ہے … لڑو … زندگی کی آخری سانسوں تک … اب تک یہ لوگ گاؤں گاؤں گھوم کر ایسے کتنے ہی پیغام لوگوں تک پہنچا چکے تھے اور وہاں آئی ہوئی تبدیلیوں کا دھواں ان کی کامیابی کا حاصل تھا …

جس وقت وہ لوگ گوپالی چوک پہنچے اس وقت تین بج چکا تھا۔ چوک پر کافی رونق تھی … دائیں طرف چائے والوں اور کچوریاں چھانتے ہوئے کا شیوں کی بھیڑ — چوک پر ایک بڑا سا ٹاور تھا جہاں سے راستے تین دشاؤں میں مڑ جاتے تھے … ٹاور کے نیچے ایک کھلا کمرہ تھا جو ہمیشہ سیاسی لوگوں کا مرکز بنا رہتا … اس وقت بھی وہاں کچھ لوگ ’’ ان شن ‘‘ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی لاؤڈسپیکر سے کوئی پیغام نشر ہو جاتا … کچھ لوگ دھنی رمائے، چپ سادھے بیٹھے تھے … کبھی کبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس مسکرا لیتے پھر گمبھیر ہو جاتے۔ بائیں طرف میڈیسن کی دکانیں ایک قطار سے تھیں اور ان سے ذرا ہٹ کر سبزی اور پھل فروشوں کی ٹوکریاں سجی تھیں۔ خوانچے ایک لائن میں بچھے تھے۔ کچھ چاٹ مسالحہ بیچنے والے چلا چلا کر آسمان سر پرا ٹھائے ہوئے تھے۔ عورتیں، مرد سب خرید و فروخت میں مصروف دکھائی دے رہے تھے … اور ان سے ذرا ہٹ کر ان شن والے چبوترے کے قریب سلیم اور مرتضیٰ دونوں کھڑے تھے۔

انجم اور امت نے دور سے ہی ہاتھ ہلایا …

سلیم اور مرتضیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی … پھر بغیر کسی اعلان اور تمہید کے ڈرامہ شروع ہو گیا … سب اپنے اپنے لباس میں تھے اورجیسا کہ اس ناٹک میں ہوتا ہے … کسی نے کوئی خاص لباس نہیں پہن رکھا تھا … …

ایک آدمی بھیڑ کے بیچ سے اچانک سڑک پر دوڑ گیا … یہ سلیم تھا اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں … چہرے مہرے سے دہشت جھانک رہی تھی …

پھر وہ آدمی زور زور سے چلانے لگا … بچاؤ … بچاؤ … ارے مار ڈالا … کمبخت نے مار ڈالا … مار ڈالا … مار ڈالا …

اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا گریبان تھام رکھا تھا … آنکھیں جل رہی تھیں …

اچانک بھیڑ سے دو پبلک کے آدمی آگے بڑھے … یہ انجم اور امت تھے … کیا ہوا بھائی … کیا ہوا … اس قدر کیوں چلا رہے ہو۔

’’ وہ … ‘‘

اس آدمی نے مرتضیٰ کی طرف اشارہ کیا … مرتضیٰ، سلیم سے دُگنی کاٹھی کا تھا … کافی موٹا تازہ جبکہ سلیم دُبلا پتلا تھا …

وہ …

سلیم کی آنکھیں بھر آئیں … پھر اس نے لوگوں کو متوجہ پا کر اپنی آنکھیں نچائیں …

’’ بابو جی ! کیا اس ملک میں اپنا حق مانگنا جرم ہے ؟ کوئی بتائے جرم ہے؟ … ‘‘

وہ مسلسل چیخے جا رہا تھا …

اس چیخ و پکار کو سن کر اچھا خاصہ مجمع اکٹھا ہو گیا … کئی آنکھیں سلیم پر مرکوز ہو گئیں … کچھ لوگ ’’ سالے روز کا چکرہے کہہ کر آگے بڑھ گئے اور کچھ اب بھی ہمدردی کی سخت چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے …

’’ہاں جی کوئی جرم نہیں ہے‘‘ … بھیڑ کے درمیان سے مریٹھا باندھے ہوا ایک پنجابی زور زور سے کہہ رہا تھا … کوئی جرم نہیں ہے … سب برابر ہے لوگو … کوئی جرم نہیں ہے …

’’ وہی تو میں کہتا ہوں، مائی باپ‘‘

سلیم نے مرتضیٰ کی طرف خونی نظروں سے اشارہ کیا … اور بیک وقت کئی لوگوں کی نگاہیں مرتضیٰ کی طرف اُٹھ گئیں … جو غصے میں مٹھیاں باندھے، مارنے کے انداز میں سلیم کی طرف بڑھ رہا تھا۔

دفعتا بھیڑ سے امت آگے گیا۔

’’ ٹھہر جاؤ بھائی … ٹھہر جاؤ … ایک کمزور پر ہاتھ اٹھاتے آپ کو شرم نہیں آتی … یہ ظلم نہیں سہا جائے گا۔

ہاں نہیں سہا جائے گا۔ ‘‘

انجم نے بھی آواز ملائی۔ … ‘‘ مگر بات کیا ہے۔

مائی باپ ’’ — سلیم نے روتے ہوئے کہا … یہ میرا مالک ہے … اور میں ایک مزدور — ان کے گھر میں کام لگا تھا۔ مکان بن رہا تھا جس میں کئی مزدورکام کر رہے تھے … مجھے کام کی ضرورت تھی مائی باپ — کئی دنوں کا بھوکا تھا … ان سے کام مانگا تو انہوں نے کام دے دیا … پر چھٹی میں جب پیسے مانگتا ہوں … تو یہ پانچ روپیہ دن بھر کی محنت کا دیتے ہیں — بتاؤ تو لوگو … ‘‘

سلیم پانچ کا پتہ لوگوں کو دکھاتے ہوئے کہہ رہا تھا … بتاؤ لوگو یہی ایک کام گر کی مجبوری ہے … بتاؤ … یہی انعام ہے …

اس پانچ کے پتے سے بھوکے مرتے بچے کی روٹی آ جائے گی … ؟

ٹی بی سے مرتی پتنی کی دوا دارو آ جائے گی … ؟

بتاؤ … ؟

اور جب ان سے حق مانگتا ہوں تو یہ مارنے کو دوڑتے ہیں … ‘‘

سلیم کی آنکھیں بھر آئی تھیں …

پھر بھیڑ کی آنکھوں میں خون اتر آیا … بہت سے لوگ افسوس کر رہے تھے۔ دو شخص آگے بڑھے — یہ امت اور انجم تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر مرتضیٰ کے بڑھے ہوئے ہاتھوں کو تھام لیا …

یہ ظلم نہیں سہا جائے گا …

اس غریب کو اس کا حق دینا ہو گا …

انجم بھی زوروں سے چلایا … ہم حق مانگتے ہیں اور اپنا حق مانگنا کسی بھی ملک کے قانون میں کوئی جرم نہیں ہے … ‘‘

پھر بیک وقت کئی آوازیں فضا میں تیر گئیں … ‘‘

ہر زور ظلم کی ٹکر میں انصاف ہمارا نعرہ ہے … ‘‘

ظلم کرنا پاپ ہے … ظلم سہنا پاپ ہے … ‘‘

ابھی یہ نعرے لگ ہی رہے کہ اچانک امت پھسپھسایا …

’’ انجم … پولیس … ‘‘

’’ بھاگو ‘‘ — انجم ہونٹ داب کر چلایا … جلدی بھاگو … یہ سالے سچ کی زبان کبھی نہیں سمجھ سکتے ‘‘ …

بھیڑ چھٹنے لگی … بعض اب بھی ہونقوں کی طرح ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے … بعض پھکر قسم کے لوگ ہنس رہے تھے … حالات پر تبصرہ نشر کر رہے تھے … اور جس کے جو منہ میں آ رہا تھا … اپنی رائے دے رہا تھا … بعض اب تک اس ہنگامے اور بھاگ دوڑ کی وجہ سمجھنے میں لگے ہوئے تھے …

انجم، امت، سلیم، مرتضیٰ وغیرہ دوڑتے ہوئے مختلف گلیوں میں گم ہو گئے …

پولیس والا ڈنڈا ہاتھ میں لئے چیخ رہا تھا …

’’ سالے … نو سکھئے سالے بھاگ گئے …

ڈنڈے کی زور پر تو بھوت بھی بھاگ جاتے ہیں …

’’ مگر یہ لوگ تھے کون ؟‘‘

ایک دیہاتی نے پولیس والے سے دریافت کیا …

پولیس والا بیڑی سلگاتا ہوا بولا … نوٹنکی والے ہیں سالے … ناٹک کرتے ہیں۔ گلی کوچے میں اچانک دوڑ پڑیں گے پھر۔ جولم، جولم چلائیں گے … بدمعاش سالے … لوگوں کو بہکاتے ہیں … مل جاتے تو ساری انجری پنجری جھاڑ دیتا۔ ‘‘

اچانک وہ چونک کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا … ناک سکوڑی … کچھ محسوس کیا … پھر ناگواری کے لہجے میں بدبدایا … بد بو … ہونہہ … کہاں سے آ رہی ہے بد بو …

وہ آگے بڑھا … جہاں کچھ لوگ ان شن پر بیٹھے ہوئے تھے …

پولیس والا اب اِن لوگوں سے دریافت کر رہا تھا … بھائی! آپ لوگوں نے کچھ کچرا وغیرہ پھیکا ہے کیا … نہیں … تو یہ بد بو کہاں سے آ رہی ہے … شاید کوئی جانور مر گیا ہے … مگر جانور کہیں نظر نہیں آ رہا ہے …

ان شن کرنے والوں میں سے ایک نیتا جیسے شخص نے ’ ’ مسکی ‘‘ چھوڑی — پھر ان شن پر بیٹھے ہوئے سارے ممبر ایک ساتھ قہقہہ مار کر ہنس پڑے … پولیس والا جھینپا ضرور مگر اس کے باوجود بد بو تلاش کرنے میں مصروف رہا۔

(۲)

 بد بو تیزی سے پھیل رہی تھی … اور سارا شہر اس کے اثر سے پاگل دکھائی دے رہا تھا … عجیب افرا تفری تھی … ہنگامہ تھا … کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا آخر یہ بد بو آ رہی کہاں سے آ رہی ہے۔ ایک تو ٹھٹھا دینے والا جاڑا … دوسری سانس روک لینے والی بد بو … دونوں نے مل کر عجب حال کر دیا تھا …

وہ رات غضب کی رات تھی۔ جن لوگوں نے وہ رات دیکھی ان سے پوچھئے تو بتائیں گے … اور بتائیں گے ہی نہیں بلکہ اس موقع پر ان کے چہرے کا جائزہ لیجئے۔ جاڑے کا موسم تو ہر سال آتا ہے مگر لوگوں کا یہی کہنا تھا ایسی سردی زندگی میں کبھی نہیں پڑی … سات پردوں کے اندر … انگیٹھیوں۔ آگ کی بڑی بڑی بھٹیوں … اور الاؤ کے باوجود دانت جیسے کڑ کڑ بول رہے تھے۔ سرد لہر جیسے جسم سے طاقت چھین لے رہی تھی … صبح سے سورج کانپ رہا تھا اور بار بار بادلوں کے کہرے میں چھپا جا رہا تھا … پھر سورج روپوش ہو گیا — گھٹا چھائی۔ کئی گھنٹوں تک موسلا دھار بارش ہوئی کہ خدا کی پناہ — دکانیں بند ہو گئیں۔ سردی کی تیز لہر نے یکساں طور پر سب کو مجروح کیا تھا۔ سڑک ویران … دکانوں پر بت لوٹتے ہوئے — گھر کے دروازے پر سناٹا پسرا ہوا … سارے شہر میں سانپ لوٹ رہا تھا … بارش کے ہونے سے سردی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں سہمے اور دُبکے بیٹھے تھے … آنکھیں پھیلی جا رہی تھیں … زندگی کی رفتار ٹھہر گئی تھی — —

اور اس کی وجہ وہ تیز بد بو تھی جس کا اب تک کچھ بھی پتہ نہ چلا تھا … جیسے سرد لہر میں بد بو بھی شامل ہو — اور بد بو تیزی میں پھیلتی چلی جا رہی تھی …

’’ قیامت ہے … یہ سب قیامت کے آثار ہیں … ‘‘

لوگ سوچ رہے تھے اور کانپ رہے تھے … کہ جن کے بارے میں الہامی کتابوں میں لکھا ہے … پروجوں نے بتایا … جس کی پیشین گوئیاں کی گئیں … اب وہ منظر سامنے تھا …

کہیں دور ایک در ویش کے ہاتھ دعا میں اٹھے تھے۔

’’میرے رب ! یہ سردی تو برداشت کر لی جائے گی۔ کہ برداشت کرتے کرتے یہ اعضا اس لائق ہو چکے ہیں … مگر خدا … یہ تیز بد بو … یہ تیرا عذاب برداشت سے باہر ہے … جیسے ابھی ناک پھٹ جائے گی … اور بد بو سارے جسم میں داخل ہو کر جسم کے چیتھڑے اڑا دے گی۔ ہم گنہگار بندے ہیں رب العزت … مگر باوجود اس کے … یہ زندگی تو تیری اطاعت اور بندگی میں ہی گزری … تیری عبادت کرتے کرتے وقت کا پتہ بھی نہ چلا … بال سفید ہو گئے … چہرے پر جھریاں پڑ گئیں … جسم سے چلنے کی طاقت ختم ہو گئی … مگر دیکھ … کیا تیری عبادت میں کچھ کمی رہ گئی ہے … ‘‘

جب بارش رک گئی تو سردی کا چوغہ موغہ پہنے کتنے ہی مرد عورتیں گھروں سے باہر نکل آئے … سب کے چہرے خوف سے لرزے ہوئے تھے … کیا یہی قیامت ہے ؟ پر لئے ہے ؟ ہونٹوں پر بس اسی طرح کا سوال لرز رہا تھا۔ اور بد بو بڑھتی جار ہی تھی … ذہن سوچنے سمجھنے جیسی تمام باتوں سے ناکارہ ہو گیا تھا۔ مندر کے گھنٹے ٹن ٹنا رہے تھے۔ گورو دوارے اور دیگر عبادت گاہوں میں بھی ماننے والوں کا زبردست ہجوم تھا …

 ریڈ یو سے بار بار یہ اعلان نشر ہو رہا تھا … بد بو مارنے کی دوائیاں دکانوں پر بھیجی جا رہی ہیں۔ آپ گھبرائیں نہیں اور نہ ہی اپنا کوئی کام بند کریں … بد بو مارنے کی دوائیاں گھر گھر تقسیم کی جائیں گی … آپ جتنا سوچیں گے … تکلیف کا احساس اتنا ہی زیادہ بڑھتا جائے گا …

اسکول، کالج اور دیگر اداروں کو بند کرنے کے لئے زوردار ہنگامے ہو رہے تھے … سائنس دانوں کی ٹولیاں ہر طرف پھیل گئی تھیں مگر کوئی بھی نیا انکشاف سامنے نہیں آ رہا تھا … لوگ پاگل ہو رہے تھے … اور ریڈیو ہر دو چار منٹ پر یہی اعلان نشر کر رہا تھا …

افسوس ہے …

صد افسوس ہے … ہمارے آدمی بد بو کی کھوج کرتے کرتے پریشان ہو چکے ہیں … مگر کچھ بھی پتہ نہیں چل پا رہا ہے۔ ہم تدابیر کرنے کے لئے کوشاں ہیں مگر جب تک کوئی سرا نظر نہ آئے تب تک کیا کیا جا سکتا ہے … ‘‘

ایسی خبریں لوگوں پر بجلی بن کر گر رہی تھیں … سب کو سامنے موت نظر آ رہی تھی … خوفناک موت جو نزدیک آتی جا رہی تھی — اخبار چلا رہے تھے … رسائل چیخ رہے تھے … بڑے دماغ کہاں سو گئے ہیں … اور سچ تو یہ تھا کہ ان بڑے دماغ والوں کا بھی دماغ خراب ہو گیا تھا۔ عقل پتھر ا گئی تھی …

سڑک پر نئے نئے تماشہ دیکھنے کو ملتے … کچھ لوگ بڑی عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہوئے نظر آتے … کچھ گلہ پھاڑ کر چیختے … وحشیوں کی طرح شور مچاتے … پاگلوں کی طرح کمر لچکاتے … گانا گاتے … چھوٹے بڑے کا فرق ہی ختم ہو گیا تھا۔

( ۱؎ پاگیٹ تباہی کے متعلق جیسا سننے میں آیا تھا … یہ تباہی اس سے کہیں زیادہ بھیانک معلوم ہو رہی تھی … سارا شہر پاگل خانہ معلوم ہو رہا تھا … لوگ عجیب عجیب حرکتیں کر رہے تھے۔ )

 ۱؎ ایک مشہور فرضی قصہ۔ تمام جانوروں کی ہئیت اور ساخت بدل گئی تھی … کیڑے، مکوڑے تک بڑے بڑے اور بھیانک ہو گئے تھے اور اشرف المخلوقات پر تباہی بن کر ٹوٹ پڑے تھے …

بالآخر جیت انسانوں کی ہی ہوئی )

ایک کافی بڑا گھر ہے … جہاں ایک شخص ریڈیو سن رہا ہے … وہ چہرے مہرے سے بھی فلاسفر دکھتا ہے … آنکھیں چمک رہی ہیں — ریڈیو سے کانپتی ہوئی آواز نشر ہوتی ہے …

’’ اب تک پچاس آدمی موت کی نیند سو چکے ہیں۔ ‘‘

وہ شخص آہستہ سے بڑ بڑایا … پچاس آدمی — محض پچاس آدمی — حکومت صرف دلاسہ دینا چاہتی ہے … تباہی دور کرنا نہیں جانتی — پچاس تو صرف اس محلے سے مرے ہوں گے … بس پچاس …

وہ زور سے قہقہہ مار کر ہنسا …

سب بڑے دماغ سو چکے ہیں …

اور عزیزو! اب تو کم از کم یہ جان اور سمجھ لینا چاہئے کہ ہم سب اُس کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں … وہ جو سب سے بڑا ڈکٹیٹر ہے — ہم اس کی قید میں ہیں … وہی آسمان اور زمین پر تصرف رکھتا ہے … اور ہم اب تک اس کو اپنے شک کے نشانے پر لئے ہوئے تھے …

پھر اچانک اُس کی سنجیدگی ختم ہو گئی … اُس نے ہنسنا چاہا مگر ہنس نہ سکا … اُس نے عجب سامنہ بنایا …

شاید … شاید ہمارے قہقہے بھی بد بوکی لہروں میں پھنس چکے ہیں۔ اُف … کمرے میں بد بو کا تیز ریلا داخل ہو گیا۔ کہیں عافیت نہیں ہے … کہاں جایا جائے … صرف ایک راستہ رہ کیا ہے …

موت …

واحد اور اٹل راستہ … موت

ایک بھیانک سچ …

اُس کی آنکھیں سکڑ گئیں … اندر ایک انقلاب نے انگڑائی لی … تف ہے ایسی حکومت پر جو اپنے عوام کو بد بو سے بچانے میں ناکام ہو … اور کوئی حفاظتی اقدام نہ اٹھائے … بد بو بڑھتی جار ہی ہے … اس لئے …

اب اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ رومال کو موڑ کر اس نے ایک گولہ سا بنا دیا … کھادی کا کرتا ڈٹا یا — پائجامہ پہنا … اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی شکل دیکھی …

ہاں … اب ٹھیک ہے … میں بد بو سے پورے طور پر بچ گیا ہوں … کسی نہ کسی کو تو ایسا ہونا ہی چاہئے جو بیچارے عوام کی ہمدردی کھینچ سکے … موقع بھی غنیمت ہے …

وہ پھر قہقہہ مار کر ہنسا … جیسے کہہ رہا ہو …

میرے دوستو! تم کتنے بیوقوف ہو … بد بو کا سامنا کرنے کے لئے پتھر کا کلیجہ چاہئے۔ موقع سے فائدہ اٹھانا ہی عقلمندوں کی سر شت رہی ہے … مگر شاید ابھی میں نا مکمل ہوں … آئینے میں کسی چیز کی کمی رہ گئی ہے۔

ایک شیشے کا بغیر پاور کا فریم … جو بہت سی چبھتی آنکھوں سے خود کو بچا لیتا ہے۔ ایک پتلی سی لاٹھی … جس سے آدمی خاصہ رعو بیلا ہو جاتا ہے اور جو حفاظتی اقدام میں بھی مدد دیتی ہے …

پھر چشمہ آنکھوں پر لگایا … لاٹھی تھامی … اور کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے دوستوں کے شامل تھا … چہرے پر سنجیدگی والی بارش کے چند قطرے تھے … آنکھیں گہرے اضطراب میں ڈوبی ہوئی تھیں …

حیرت ہے کہ تم سوئے پڑے ہو … اس پھیلتی ہوئی تیز بد بو کے باوجود …

کل ہم اسی واسطے ہار گئے تھے کہ تمہیں نیند پیاری تھی …

کیا … نہیں … سچ کہنا ؟

مگر آج جاگنا بہت ضروری ہے … خود جاگنا ہے … عوام کو جگانا ہے … کہ ایسی حکومت جو لولی ہے … لنگڑی ہے … جو بد بو سے بچانے کی ایک تدبیر بھی نہ کر پائے … ایسی ناکارہ حکومت نہیں چاہئے … میں نے کل بھی انصاف اور حقوق دلانے کا نعرہ بلند کیا تھا۔ ہم آج بھی اس وعدے پر قائم ہیں … آج پھر سے وقت آگیا ہے … یہ لڑائی زبردست ہے ہمیں مورچہ لینا ہے … جیت ہماری ہو گی … دیکھ لینا جیت ہماری ہو گی‘‘

اور شہر جب سرد کہروں سے لپٹا ہوا تھا … آسمان سے بد بو کی بارش تیز تھی۔ سڑکوں پر سرا سیمہ لوگوں کی بھیڑ ہر لمحہ ایک نئی قیامت کی منتظر تھی۔ بعض رو رہے تھے … چلا رہے تھے۔ بچے ناک بند کئے بلبلا رہے تھے۔ عورتیں سخت اضطراب میں تھیں … بد بو مارنے والی دوائیاں ہر گلی کوچے، سڑکوں پر چھینٹی جا رہی تھیں … مگر اس کے باوجود وہی ہنگامہ برپا تھا …

اور شہر جب بد بو کے ڈر سے شاہراہ پر گونگا کھڑا تھا … تو وہ عالم شخص اپنے چند دوستوں کے ہمراہ لوگوں کے ایک بڑے جتھے سے خطاب کر رہا تھا …

’’ میرے دوستو … میرے بھائیو … وقت آ چلا ہے … تم ایک لمبی نیند سوتے رہے … اُس سے انجان ہو کر کہ کوئی تمہارے ارد گرد بد بو کے تخم بوتا رہا ہے … تم سوتے رہے اور وہ اپنا کام ختم کر کے روپوش ہو گیا … تم ایک طویل نیند کے بعد جاگے … اور جب تباہی تمہارے گھروں پر دستک دے رہی تھی … تم نے صاف محسوس کیا کہ حکومت کتنی کمزور ہو گئی ہے …

میں … کوئی نیا وعدہ … کوئی نیا فرمان لے کر تمہارے پاس نہیں آیا — بلکہ یہ کہنے آیا ہوں کہ ہم سب مل کر محبت کی ایک موٹی رسی بن سکتے ہیں … ہم سب مل کر اس بد بو سے جنگ کر سکتے ہیں …

اور ہم نے یہ بھی دیکھ لیا کہ حکومت اس معاملے میں کتنی ناکارہ رہی — باوجود لاکھ کوششوں کے — کچھ کبھی نہ کر سکی — جس کا نتیجہ ہے کہ ہم اس بد بو دار فضا میں سانس لے رہے ہیں … ہر سانس کے ساتھ زہر پی رہے ہیں … ہزاروں بچے روز بد بو کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں … عورتیں، مرد، بچے سب اس نا گہانی آفت کی زد میں آ کر موت سے قریب ہوئے جا رہے ہیں …

ہم پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے ؟

اب تک بد بو سے بچنے کا کیا حل تلاش کیا گیا ؟

اب نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا جو وہ اب تک کرتی رہی …

صرف بہلاوا … جو شروع سے ہمارا مقدر رہا …

تو اب کہہ دو … کہ اس بد بو بھری فضا میں ہم اور سانس نہیں لے سکتے …

ہم اور چپ نہیں بیٹھ سکتے …

ایسی حکومت نہیں چاہئے … جو ہماری حفاظت نہ کر سکے۔

جو ہمارے حقوق کو بحال کرنے میں ناکارہ ثابت ہو … جو بالکل گونگی ہو …

اور اب بھی وقت ہے میرے دوستو … ورنہ کل تک تو بہت دیر ہو چکی ہو گی … ہمیں حکومت سے صاف صاف کہہ دینا ہے۔ اس کی کمزوریاں نہیں چاہئیں ہمیں … ہم اپنے بچوں، عزیزوں،دوستوں کو اور زیادہ مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے … ہمارے کار خانے ٹھپ ہیں … فیکٹریاں بند ہیں … اسکول کالجوں میں تالے لگے ہیں … ہاسپٹل مریضوں سے بھرے پڑے ہیں … حفاظتی کیمپ لگانے کے باوجود نئے مریضوں کے لئے مسئلہ پیدا ہو چکا ہے … کہ اب ان کو کہاں لے جایا جائے — روز ہزاروں لوگ ان کیمپوں میں بھرتی ہو رہے ہیں … ڈاکٹر فیل ہیں — بڑے دماغ سو گئے ہیں … کوئی کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔

ہم سب ایک موت جھیل رہے ہیں …

یہ قیامت … یہ پر لئے حکومت کی دین ہے۔

جس نے شروع سے ہی کوئی قدم نہ اٹھایا … اگر حکومت شروع سے ہی یہ بد بو محسوس کر لیتی تو آج یہ برا دن دیکھنا ہماری قسمت میں نہ لکھا ہوتا … اور … سب سے بڑی بات یہ ہے … ‘‘

اتنا کہہ کر عالم شخص ٹھہرا … لوگوں کا جائزہ لیا … پھر آنکھیں نچاتے ہوئے بولا … سر کاری ادارے آج بھی کھلے ہوئے ہیں — آفسوں میں آج بھی کام ہو رہا ہے … حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ لاکھوں کا نقصان ہو رہا ہے … اس لئے آفسوں میں پہنچنا ضروری ہے … اس آشوب وقت میں بھی حکومت کو اپنے نقصان کی پڑی ہے۔ اب آپ بتائیے ایسے وقت میں ایک باپ … ایک بھائی کیسے آفس جا سکتا ہے … حکومت کا یہ قدم صاف ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت ہمارے معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے …

ہمیں صاف لفظوں میں حکومت دشمنی کا با ضابطہ طور پر اعلان کر دینا چاہئے … ورنہ کل تک بہت دیر ہو چکی ہو گی … آئیے میرے ساتھ آپ بھی نعرہ لگائیے۔

حکومت … مردہ باد …

سرکاری ادارے بند کرو … ہم سے نہ کھلواڑ کرو۔

جان بچاؤ مدد کرو … ورنہ گدی چھوڑ دو …

انقلاب زندہ باد …

 اور پھر تیز نعرے آسمان میں گونج گئے …

اور جس وقت یہ نعرے آسمان چھو رہے تھے … اس وقت ایسے لوگوں کا بھی گروہ تھا جو آپس میں تبصرہ کر رہا تھا … یہ لیپروسی کیمپ کے لوگ تھے … جو زندگی سے تھک چکے تھے … عاجز آ چکے تھے … یہ قوم اس عذاب سے خوش تھی … کہ اب موت نزدیک ہے … اور موت ان کی بد تر زندگی کا خاتمہ کر دے گی …

’’ ہمیں موت چاہئے … ‘‘ ایک سفید بیمار چہرے والے نوجوان نے آہستہ سے کہا … اور سڑے ہوئے ہونٹ کے ’پھاپھڑ‘ سے ٹیڑھے بکلے دانتوں کی قطار سامنے آ گئی … موت چاہئے …

ایک کمسن لڑکی نے بھی اس کی آواز میں اپنی آواز شامل کی … ایسی زندگی سے موت بہتر …

ایک فقیر آہستہ آہستہ بڑبڑا رہا تھا … ’’ کیئسن بتوا ہے … پیٹ بھوکل ہے۔ کونو بھیک نہ دے وے۔ کے کے سامنے ہاتھ پساری جائی۔ سبھے بد بو سونگھے میں لگت ہیں … ‘‘

دوسرا آہستہ سے ہنسا … تم نے بد بو محسوس کی … ہمیں تو کچھ بھی نہیں محسوس ہوتا … بس تھوڑی سی ہے … اس سے کا نقصان ہے … ‘

اور پہلا بھی بے مقصد قہقہہ لگانے لگا … ’’ پتہ نہیں۔ کیسن بد بو ہے ہمار تو کوچھو سمجھ میں نئی کھے آوت … ؟

سبزی فروشوں اور پھل والوں کے خوانچے بھی اداس تھے … شاہراہ پر ویرانی سمٹ آئی تھی … لوگ سجدے میں پڑے تھے اور اپنی گمشدہ دعائیں تلاش کر رہے تھے … بڑی بڑی دکانوں کے شٹر گرے ہوئے تھے … اس آفت نا گہانی میں بیکار چیزیں کون خریدتا … سب موت سے خوف زدہ تھے کہ کون جانے کب بد بو کا ایک تیز ریلا آئے اور سب کو بہا کر لے جائے …

ریڈیو سے بار بار اعلانات نشر ہو رہے تھے …

بد بو کی تیز لہر نے ساری فصل جلا ڈالی ہے …

زبردست قحط سالی کا امکان …

چہروں کے رنگ اڑ گئے تھے … ہر پل ایک نئی آفت … ہر پل ایک نئی خبر … پہلے ٹھنڈی لہر … پھر بد بو … اور اب قحط … جانے خدا کو کیا منظور ہے …

چھوٹے موٹے اخبارات بند ہو چکے تھے … جو تھوڑے بہت اخبارات نکل رہے تھے … ان میں اس طرح کے مضمون کو کافی اہمیت دی جا رہی تھی جس میں خود اعتمادی کو بحال کرنے کی صلاح دی جا رہی تھی۔

کیا سارے دفاتر اسی طرح بند رہیں گے ؟

اسکول، کالجس اس طرح بند رہیں گے ؟

آدمی کب تک بھوکے رہ سکتا ہے ؟

لوگ کب تک بیکار بیٹھے رہ سکتے ہیں …

بد بو ضرور بڑھ رہی ہے … مگر ہمیں بد بو سہنے کی عادت ڈال لینی چاہئے …

ہم اشرف المخلوقات ہیں … ہماری ڈکشنری میں خوف اور نا ممکن جیسا مہمل لفظ نہیں ہے … ہمیں بھروسہ کرنا چاہئے … اور پھر سے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو جانا چاہئے …

یہ صحیح ہے کہ یہ بد بو پلیگ سے بھی خطرناک چیز ہے … جو پھیلتی جار ہی ہے … مگر سوچ کا موذی کیڑا بھی تو ہمیں ختم کر دے رہا ہے — اس لئے اس طرح کے خیالات دل سے نکال دینا چاہئے … حکومت حفاظتی تدبیر کر رہی ہے … ‘‘

اخباروں میں اس طرح کے مضمون بھرے پرے تھے … اور کسی حد تک اس طرح کے مضامین نے اپنا رنگ بھی دکھایا تھا … کچھ لوگوں کے چہروں پر اطمینان تو نہ تھا مگر خوف کا اثر کم ہو گیا تھا۔

عوام کے نام حکومت کی اپیل بھی اپنا رنگ لائی … جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ سر کاری غیر سرکاری ادارے جو کسی وجہ سے بند تھے اب کھول دئیے گئے ہیں … اسکول اور کالج کو بھی کھلنے کا حکم دیا جاتا ہے … آپ کا فرض ہوتا ہے کہ آپ حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ حکومت پر بوجھ نہ بنیں۔

ان اعلانات میں پر زور اپیل کی گئی تھی۔ کہ بچوں کو اسکول ضرور بھیجا جائے … دفتروں میں ضرور حاضر ہوا جائے … نوجوان ہمیشہ کی طرح کالج جائیں … لوگ بیکار گھر نہ پڑے رہیں بلکہ دوبارہ اپنے اپنے کام میں مشغول ہو جائیں … ورنہ دیگر صورت میں حکومت دشمنی کے نام پر ان کے خلاف سخت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔ ‘‘

یہ اپیل نہیں تھی۔ ایٹم بم تھا … جس کی چنگاری سلگی تو چہرے خوف سے لہو لہو ہو گئے — مگر کچھ لوگ اطمینان سے تھے کہ شاید اس سے، بد بو سے بچنے کا سامان نکل جائے۔

اور پھر وہی ہوا …

دوسرے دن سے اسکول کالج کھل گئے۔ شہر میں زندگی لوٹ آئی — بچے کالج اسکول جانے لگے … دکانیں آباد ہو گئیں۔ سڑکیں پھر سے پر رونق ہو گئیں۔ سبزیوں کے دام آسمان پر پہنچ گئے تھے … پھل بھی کافی مہنگے ہو گئے تھے … غلہ سونے کے بھاؤ ہو گیا تھا … سرکاری دفاتر میں رونق لوٹ آئی تھی … لوگ باگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے تھے۔

ہاں اتنا ضرور تھا کہ کام کے دوران ان کے ناک رومال یا کسی موٹے کپڑے سے بند ہوتے …

اب سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔

کبھی کبھی ریڈیو سے یہ اطلاع موصول ہو جاتی کہ فلاں جگہ سے بد بو کا ایک تیز ریلا آپ کی جانب بڑھ رہا ہے … حکومت حفاظتی تدبیر کے لئے کوشاں ہیں … آپ گھبرائیں نہیں … اپنے اپنے گھروں میں پابندی سے ہر ایک گھنٹے بعد بد بو مارنے کی دوائیاں ڈالتے رہئے …

ہاسپٹل اب بھی بھر رہے تھے مگر بہت سارے حفاظتی اقدام سے اب مرنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز کمی آئی تھی … چہرے پھر سے بحال ہو گئے تھے۔

مگر اب صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ لوگ بد بو کے عادی ہو چکے ہیں … اور بد بو — لوگوں کے اندر سرایت کر گئی ہے …

(۳)

’’ تمہاری باتوں میں بد بو بھری ہے کیا تم اپنی زبان بند نہیں رکھ سکتے۔ ‘‘

مسز بھٹنا گرنے گھر کا باریکی سے جائزہ لیا … کھڑکیوں کے پردے بدلے اور گھر سجانے میں لگ گئیں … بد بو بدستور قائم تھی۔ مسٹر بھٹناگر نے ناک سکوڑی … کم بخت یہ بد بو جانے کیسے دور ہو گی؟ سب چیز تو قرینے سے سج گئی … مسئلہ صرف بد بو کا رہ گیا ہے … پیکٹ سے دوائیاں نکال کر کونے کونے میں چھیٹنے کے بعد وہ تھکی ہاری بستر پر لیٹ گئی …

آ ج اتوار کا روز تھا اور آج صاحب نے آفس کے سارے لوگوں کو اس نئے فلیٹ میں دعوت پر بلایا تھا …

دعوت دیتے ہوئے صاحب کا چہرہ خوب چمک رہا تھا … ہم بد بو کا سامنا تو نہیں کر سکے مگر عادی ہو گئے ہیں … اور اب ایسا لگتا ہے جیسے موت … جو ہمارے بالکل قریب آ گئی تھی … اب ہماری سہنے کی قوت سے ایک بار پھر دور چلی گئی ہے۔ بد بو کی صورت میں ایک عذاب نازل ہوا تھا … اور ہم نے دکھا دیا … کہ ہمارے قدم اس عذابی موسم میں بھی نہیں ڈگمگائے … آفس کھلی رہی … بد بو کا سامنا کرنے کے باوجود بھی آپ آتے رہے … اپنا کام بخوبی انجام دیتے رہے۔ اور مسز بھٹنا گر میری دوستی کا فریضہ بخوبی انجام دیتی رہی …

صاحب مسکرائے تو دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی مسکرا پڑے — اور مسز بھٹنا گر نے شرم سے نظریں نیچی کر لیں۔ ایک ہلکی سی دھیمی آواز جو شاید رتھ اور سموئل میں سے کسی کی تھی … سنائی پڑی … ’’ شرما کر تو مسز بھٹنا گر پچیس سال سے بھی کم کی دکھائی دیتی ہیں۔

اور اس آواز سے اس کے اندر ایک عجیب سی خوشی بھر گئی … وہ اب بھی جوان ہیں … صرف صاحب کی نظروں میں بھی نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی اُسے ایسا ہی سمجھتے ہیں … اور غلط کیا سمجھتے ہیں … بڑھاپا تو اُسے چھوکر بھی نہیں آیا ہے۔

مسز بھٹنا گرنے مسکرا کر گھڑی کی جانب نظر ڈالی۔ اب وقت ہو گیا ہے … اب وہ لوگ آتے ہی ہوں گے …

اور کچھ ہی دیر بعد مہمانوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

پہلے صاحب آئے کہ میزبان وہی تھے۔ وہ صاحب کے قدموں میں بالکل نئی نویلی دلہن کی طرح بچھ گئی … صاحب نے گھر کی سجاوٹ کو پسند کیا۔ پھر اس کو دیکھ کر مسکرائے۔ تم نے تو کافی انتظام کر ڈالا … میں نے تو اس طرح کے انتظام کے متعلق سوچا تک نہ تھا۔ ‘‘

ٹھہر کر جیسے وہ الفاظ جوڑ رہے تھے … آج کا فرض تم نے ایک ہاؤس وائف سے بھی بڑھ کر پورا کیا ہے … میں نہیں جانتا تھا کہ تمہارے ہاتھوں میں اتنا ہنر ہے۔

اس نے کافی تیار کی اور بڑے پیار سے صاحب کو پیش کی … ’’ تم نے خود کے لئے نہیں بنائی ؟

صاحب نے اُس کی آنکھوں میں جھانکا …

’’ بس خواہش نہیں ہوئی۔ ‘‘

وہ آہستہ سے بولی … صاحب نے کافی کا کپ تھام لیا … انگلیاں نچاتے رہے … پھر ایک ہی نشست میں ختم کر کے ٹیبل پر رکھ دیا۔ اور اس کی نئی بنارسی جار جٹ کی ساڑی کو بغور دیکھنے لگے۔ پھر اٹھ کر اس کے قریب آ گئے … اتنے قریب کہ اس نے باریک نظروں سے صاحب کا مطالعہ کیا … ہاتھوں پر بال … سینے پر بال … اچانک اسے بڑا عجیب محسوس ہوا … یہ بال اچانک بڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے … پھر لگا جیسے صاحب کا جسم سمٹنے لگا ہو … اور پھر جسم سمٹ کر … اور بال بڑے ہو کر بھالو کی ہئیت میں تبدیل ہو گئے … اچانک وہ چونک گئی … چونک ہی نہیں گئی بلکہ خوف سے کانپ بھی گئی … ایک بھالو اس کے چاروں طرف رقص کر رہا ہو … اپنا نوکیلا پنجہ اس کے گوشت میں گاڑ رہا ہو … سارے جسم میں عجیب سی جلن کا احساس ہو رہا تھا … پتلیاں خوف سے سکڑ گئی تھیں … وہ چیخ مار کر الگ ہو جاتی … مگر … وہ تو اچھا ہوا کہ صاحب خود ہی ہٹ گئے … اور آہستہ سے بڑبڑائے … رتو … تم نے محسوس کیا … اُف کتنی تیز بد بو ہے … تم نے دوائیاں ڈالیں ؟‘‘

اور جب اُس کا جواب ہاں میں پایا تو خود ہی قہقہہ مار کر ہنس پڑے — دوائیاں ڈالو نہ ڈالو … بات برابر ہی ہے … بد بو تو بہر حال قائم رہے گی۔

اب اس کے چہرے پر سکون دوبارہ لوٹ آیا تھا …

صاحب کہہ رہے تھے … رتو ! دنیا میں اب صرف ایک ہی بیماری رہ گئی ہے … بد بو … شاید دنیا میں پھیلی ہوئی ساری بیماریاں مل کر ایک نام بن گئیں … اور جب ایک بیماری کا صحیح طور پر علاج نہ ہو سکے تو اس بیماری کا کیونکر ممکن ہے … یہ صحیح ہے کہ ہم نے سہنا سیکھ لیا … خود سے ایک سمجھوتہ کر لیا … مگر بد بو تو آخر بد بو ہی ہے اور ایسی تیز کہ سانس ڈوب جائے … ہر جگہ سائے کی طرح ہمارا پیچھا کرتی ہے … لیٹرین جاؤ … باتھ روم جاؤ … بیڈ روم میں … نہ آدمی کتاب پڑھ سکتا ہے … نہ آفس کی فائلوں کے متعلق سوچ سکتا ہے … اور نہ ہی …

صاحب ہنسے … ٹھیک سے پیار ہی کر سکتا ہے …

وہ شرما گئی … اور صاحب ہنستے چلے گئے …

شام ہوتے ہی اسٹاف کے سارے لوگ پہنچ چکے تھے … مسز بھٹناگر نے بغیر کسی کی مدد کے بڑا اچھا انتظام کر ڈالا تھا … صاحب کے بہت سے جاننے والے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آئے تھے … صاحب کے بہت سے دوست نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اس دعوت میں شامل تھے … غرض یہ ایک تفریحی پارٹی تھی …

ہلکی ہلکی شام بڑی خوشنما لگ رہی تھی … بد بو اب بھی پھیلی ہوئی تھی … فلیٹ میں قمقمے روشن ہو چکے تھے۔

صاحب نے ایک پیگ چڑھایا اور بولے … عورت ہماری زندگی کے لئے ضروری ہے … دعوت آپس میں میل جول اور دوستی پیدا کرنے کا ایک خاص ہتھیار ہے … آج اس مبارک موقع پر ہم سب ساتھ ہیں … اسی خوشی میں چیئرس …

پھر ایک بے معنی زور دار قہقہہ کمرے میں پھیل گیا … کئی نقرئی قہقہے بھی بد بو کی لہر میں ڈوب گئے …

رتھ نے شراب کا گلاس تھامتے ہوئے کہا … شراب پیتے ہوئے ہم بد بو کے احساس سے بہت دور چلے جاتے ہیں … کیونکہ یہ بد بو ہمارے جسم کی بد بو سے بہت کم ہے … اور جسم نے اتنی بد بو پی لی ہے کہ اب کوئی شراب نشہ پیدا نہیں کرتی۔ ‘‘

شراب سارے غم پاٹ دیتی ہے۔

ورما اتنے آہستہ سے بولا جیسے کوئی گناہ کر رہا ہو … اس کی آواز کی کمزوری ہر شخص نے محسوس کی مگر کوئی کچھ نہیں بولا … اور کون بولتا … کہ سب اپنی اپنی کمزوریوں سے واقف تھے … اور جیسے خود پر یہ یقین مسلط کرنا چاہتے تھے کہ بد بو اُن کے درمیان نہیں ہے … مگر بد بو لہر سے کوئی کیسے بچ سکتا تھا … ؟

محفل کا ہر فرد جھوم رہا تھا … عجیب عجیب حرکتیں کر رہا تھا … قہقہوں پر قہقہے لگ رہے تھے … اور ان سے الگ مسز بھٹنا گر جانے کیوں بہت عجیب سا محسو س کر رہی تھیں … ایک ایسا احساس جو ایک طویل مدت بعد ان کے تھل تھل گوشت میں سرایت کر گیا تھا …

تم نیلام گھر میں پڑا ہوا ایک گوشت ہو …

یہ تمہارے گاہک …

دیکھو … غور سے دیکھو … تمہاری بولی لگنی شروع ہو گئی ہے۔

یہ صاحب کے لوگ ہیں … ان کا بھی برابر کا حق ہے …

مگر پاگل لڑکی … نہیں پاگل عورت … نہیں پاگل بوڑھی — ذرا خیال تو کرو … کہ تمہارے اندر کوئی آگ نہیں رہ گئی ہے … پھر بھی تمہیں اس نیلام گھر میں نچایا جا رہا ہے … فروخت کیا جا رہا ہے۔

یہ گوشت اب سرد ہیں … کوئی مانگ نہیں رہ گئی ہے ان کی — خود کو نیلام گھر کی اس بولی سے بچاؤ …

یہ تم جیسی پاگل عورتوں کی زندگی کا ایک واہیات ڈرامہ ہے … اسے ختم کرو … ‘‘

اور جب اندر سے یہ آواز آئی تو مسز بھٹنا گر اندر ہی اندر سہم گئیں … چہرہ خشک ہو گیا۔

اچانک صاحب کی آواز آئی جو کہہ رہے تھے … یہ کریم بیگ کیوں نہیں آیا … ‘‘

’’ کریم بیگ مذہبی آدمی ہو گیا ہے ‘‘ — جواب میں کہا گیا …

’’ مذہبی آدمی؟‘‘ … صاحب نشے میں ہنسے … پھر چہرے پر غم سمٹ آیا … آؤ … ایک دوسرا جام پئیں … کریم بیگ کے لئے … اس کی خوشی کی موت کے لئے …

سب ایک دم سے خاموش ہو گئے … جیسے واقعی گہرا صدمہ ہوا ہو …

’’ کریم بیگ واقعی مر گیا ہے۔ ‘‘ رتھ کہہ رہا تھا … جو شخص اپنی خوشی چھوڑ دے … قہقہوں کی دنیا سے نکل کر تنہائی کی دنیا میں چلا جائے کیا ہم اس شخص کو زندہ کہیں گے … مذہب ڈرا ور خوف کی ایک بھدی شکل ہے … جو خود ہم نے بنائی ہے۔ الجھاوے کے راسے سے بچنے کے لئے … پہلے ایک خدا تھا پھر یہ خیال متعدد خداؤں میں کھو گیا … اور ایسا اس لئے کیا گیا کہ ان نا سمجھوں کا خیال تھا کہ ایسا کر کے ہم اپنی زندگی کو ایک صحیح سمت دے رہے ہیں … زندگی جینے کا ایک سیدھا سا راستہ نکل جائے گا … اور اس طرح سب پابندی کے غلام ہو گئے۔

مسز بھٹنا گر اس لمبی چوڑی گفتگو سے اوب گئی تھیں۔ اسی لئے بولیں … سموئل … یہ فلسفہ کسی اور دن کے لئے رہنے دو … ایسا نہ ہو کہ یہ دعوت بے مزہ ہو کر رہ جائے … ‘‘

رگھو بیر اب بھی چپ تھا … آنکھیں سوچ میں گم تھیں … صاحب کی نظریں جیسے ہی رگھو بیر پر گئیں، انہوں نے ورما کو ٹہو کا دیا … یہ رگھو بیر اتنا چپ کیوں ہے۔

ورما کی معصومیت پر کئی لوگ قہقہہ مار کر ہنس پڑے …

صاحب بھی بولے۔ ’’ بھئی رگھو بیر جب اتنے لوگوں کی خواہش ہے تو کچھ کہہ ہی ڈالو …

رگھو بیر نے اپنی خاموش پلکیں اٹھائیں … ماحول کا جائزہ لیا۔ پھر نظریں نیچی کر لیں … اور دھیمی آواز میں بولا … میں کوئی پیدائشی شاعر تو نہیں … آج پھیلی ہوئی اس تیز بد بو میں جو کچھ میں محسوس کر سکا،وہ تھوڑے بہت لفظوں کے جوڑ توڑ کے ساتھ حاضر ہے …

وہ ٹھہرا اور اپنی آواز بلند کی …

’’ بد بو کے کانٹے دار جنگل میں۔

بے رحمی سے پکڑے ہوئے موت لے گئی ہے …

شہر کو لوٹنے والے راستے پر۔

تاریکی کا دیو پڑا کراہ رہا ہے …

میرے محبوب …

تیرے ساتھ کی گئی بے وفائی کا نتیجہ ہے موت۔

تیرے ساتھ برتی گئی بے مروتی کا نتیجہ ہے مو ت

آہ ! تو کس قدر قریب رہا۔

اور میں تجھ سے کس قدر دور

میرے محبوب

نئے شہر میں بوئی گئی فصل اب تیار ہو چکی ہے۔

 اور ان میں پھلوں کی جگہ بد بو اگ آئی ہے۔

آج پھر تیری ضرورت ہے۔

مگر یہ شہر تیرے بغیر تاریکی میں گم ہو چکا ہے‘‘

رگھو بیر کی آواز خاموش ہوئی تو ایک سناٹا سا چھا گیا۔ کچھ تالیاں بجنے کی آوازیں سنائی پڑیں۔ ان میں صاحب بھی تھے۔ جو مسکراتی آنکھوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہہ رہے تے۔

’’ رگھوبیر ! تمہاری سوچ تو عمدہ قسم کی ہے۔ مگر ایک چیز سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ محبوب کون ہے۔ یہ محبوب مذہب بھی ہوسکتا ہے؟‘

اس سے پہلے کہ رگھو بیر کچھ جواب دیتا ایک نوجوان زوروں سے بڑبڑایا — ’’سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ تم لوگ کلاسیکل قسم کی چیزیں ہی ہمیشہ کیوں لکھتے ہو … رومانٹک قسم کی باتیں تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتیں … ‘‘

اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ بولوں۔ ’’ رتھ نے آہستہ سے کہا۔

صاحب پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ ہاں رتھ — صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔ ‘‘

رتھ نے گلہ کھکھارا۔ محفل کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہنے لگا — رگھو بیر کی اس نظم سے جو خیال پیدا ہوتا ہے میں سرے سے ہی اس خیال کی مخالفت کرتا ہوں۔ میں نہیں جانتا … یہ ادیب یہ شاعر۔ اپنی تخلیقات میں اچھے آدمی کی مثالیں ڈھونڈھا کرتے ہیں وہ اچھا آدمی انہیں کہاں ملے گا — مکمل آزادی یہ ہے بھی یا نہیں … میرے خیال میں ہم سب مکمل ہیں … گناہ آدمی کی سرشت میں ہے اس سے بغاوت یا انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں سے میں پوچھنا چاہتا ہوں وہ اپنے عقیدے ہم پر کیوں تھوپنا چاہتے ہیں۔ ہماری خوشیاں کیوں خریدنا چاہتے ہیں۔ ہم ہر حال میں خوش ہیں۔ میرا بس چلے تو ایسے لوگوں کو بد بو پھیلانے کے جرم میں قید خانے میں ڈال دوں … … اور چیخ چیخ کر زمانے کو یہ بتا دوں … کہ اے لوگو …

اے لوگو … ہم سچ کے پجاری ہیں …

تمہاری اُلجھی ہوئی باتیں ہمیں بے بنیاد اور بہکی بہکی لگتی ہیں۔

ہمیں صرف سچ چاہئے سچ جو کھلا ہے۔ ہمارا فطری لباس ہے۔ ہماری وہ خواہشیں سچ ہیں جن پر ہمارا اختیار نہیں ہے …

ماحول رنگین ہو گیا تھا۔

فلیٹ میں دو شخص چپ تھے … رگھو بیر اور مسز بھٹناگر — قہقہے جوان تھے … کہ اچانک سب چونک پڑے …

’’ اف کتنی تیز بد بو ہے۔

’’ تم نے محسوس کیا … ‘‘

’’ بد بو بڑھتی ہی جا رہی ہے ‘‘

کہیں سے بد بو کا کوئی تیز جھونکا آیا ہے‘‘۔

اچانک ہنستے ہوئے چہروں پر گھبراہٹ سمٹ آئی …

بد بو کمرے میں پھیلتی جا رہی تھی — کمرے کی ایک ایک شئے سے تیز بد بو اٹھ رہی تھی … رگھوبیر کی آنکھوں میں جیسے اندھیرا چھاتا جا رہا تھا …

یہ عذاب ہے …

ہاں یہ عذاب ہے …

 وہ مختلف صورتوں میں اپنے عذاب نازل کیا کرتا ہے …

یہ پر لئے نہیں ہے … بلکہ ہمارے گناہوں کاحاصل ہے …

’’ اب کیا ہو گا ‘‘ سب کے چہروں پر دہشت پھیل گئی تھی …

صاحب کانپتے ہونٹوں سے گویا ہوئے … سب اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ جاؤ … بد بو سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ ہم اپنے اعتماد کو جانے نہ دیں … حوصلہ نہ چھوڑیں … ‘‘

لوگ ڈر کے مارے کرسیوں پر بیٹھ گئے …

صاحب نے آگے بڑھ کر ریڈیو آن کر دیا …

ریڈیوسے اعلان ہو رہا تھا … ’’ عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے — ہم پھر مصیبتوں اور خطرے میں گھر گئے ہیں۔ نا معلوم جگہ سے بد بو کا ایک تیز ریلا ملک میں داخل ہو گیا ہے … ہم اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آپ بھی ضروری کاروائیاں اختیار کیجئے۔ سڑی گلی چیزیں ہٹا لیجئے۔ بد بو مارنے کی دوائیاں ہر جگہ ڈال دیجئے … اور ہمت سے کام لیجئے — بھگوان نے چاہا تو کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکل آئے گی۔ ‘

(۴)

رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں دُبکے پڑے تھے۔ گھڑیال نے ایک کا گھنٹہ مار کر آدھی رات کے گزر جانے کا اعلان کر دیا تھا۔ بد بو کی دھیمی لہر اب بھی گلیوں شاہراہوں سے ہو کر گزر رہی تھی۔ کبھی کبھی کسی موڑ سے اچانک کسی آوارہ کتے کی کی ایک تیز صدا بلند ہو جاتی اور کبھی تین چار کتوں کی جماعت مل کر زوروں میں الاپ کرنے لگ جاتی۔ اندھیرا اور بھی بھیانک لگنے لگتا۔

 سناٹے میں سانس روکے ہوئے دو سائے تیزی سے آگے بڑھے جا رہے تھے۔ ان کے قدم چوروں کی طرح اٹھ رہے تھے — پاؤں داب داب کر اور آس پاس دیکھتے ہوئے چل رہے تھے …

اچانک دونوں ہی سائے ٹھٹھک کر رک گئے۔

’’ تم نے کوئی آواز سنی‘‘

’’ ہاں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پیچھا کر رہا ہو‘‘

’’ اب کیا کیا جائے۔ ‘‘

’’ آگے گلی ہے۔ ہم وہاں چھپ جائیں گے … آؤ‘‘

پہلا سایہ دُبک کر بیٹھ گیا اور جانوروں کی طرح رینگتا ہوا گلی کی طرف بڑھنے لگا۔ دوسرے نے بھی اُس کی تقلید کی۔ دونوں دبے پاؤں گلی میں داخل ہو گئے۔ اور سانسیں روک کر دبک کر بیٹھ گئے۔

سڑک کے دائیں موڑ سے ایک کتا زوروں میں چلایا اور دوسرے کئی کتے سامنے سے دوڑتے ہوئے چلے گئے۔ اور اس کے فورا بعد ہی محلے کے چوکیدار نے پول پر ایک بے مقصد ڈنڈا گھمایا اور ہانک لگائی …

’’جاگ کے سوئیو … جاگ کے سوئیو … ‘‘

ایک نے خوف سے جھر جھری لیتے ہوئے دوسرے کی جانب دیکھا دوسرے نے دلاسا دیا …

’’ڈر کی کوئی بات نہیں … یہ چوکیدار اپنایا رہے۔ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہم چور نہیں ہیں۔ ‘‘

چوکیدار دائیں ہاتھ میں ٹارچ لئے اور بائیں ہاتھ میں ڈنڈا پکڑے تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا دونوں کے قریب آ کر ٹھہر گیا … ٹارچ کی روشنی جب دونوں کے چہروں پر پڑی تو دونوں بغل میں بنڈل دابے کھڑے ہو گئے …

’’ اوہ تم ہو … اتنی رات گئے ’’ چوکیدار آہستہ سے بولا۔

’’ کیا کروں رامو بھیا۔ آج بہت کام باقی ہے۔ دیکھ رہے ہو نا یہ بنڈل۔ ‘‘

آج کل پولیس کی گشت بہت بڑھ گئی ہے … بچ کے رہنا۔ چوکیدار پھسپھسایا۔

’’ اب کیا ڈرنا۔ ‘‘ ان میں ایک ہنسا ‘‘ ہم تو گھر سے ہی موت کو ساتھ لے کر چلے ہیں۔ ‘‘

چوکیدار چپ ہو گیا۔ بڑی دیر تک چپ رہا۔ شاید کچھ سوچ رہا تھا — جب اچھی طرح سے سوچ چکا تو اُن دونوں کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

’’ ایک بات پوچھوں بابو۔ تمہارے یہ اشتہار لگانے سے کیا بد بو کم ہو جائے گی؟‘‘

چوکیدار کی آنکھوں میں کوئی طنز نہیں تھا بلکہ ایک تجسس چھپا تھا۔ جووہ دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔

دونوں آہستہ سے مسکرائے۔ پھر چوکیدار کو دیکھ کر بولے۔

’’ رامو بھیا۔ ان اشتہاروں کے لگانے سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم بد بو ختم کرنے کی کوئی نئی تدبیر کر رہے ہیں۔ جنہیں تدبیر کرنا ہے وہ تو کر ہی رہے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بد بو بڑھتی جار ہی ہے۔ مریض بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب ذرا تم بھی میرے انداز سے سوچو رامو، ہمارے درمیان ایک ایسا بھی غریب طبقہ ہے۔ جو بھوکوں مرتا ہے اور اس کی کوئی نہیں سنتا — جو مریض بن کر ہاسپٹل جاتا ہے اور اس کی سنوائی نہیں ہوتی — اور ہاسپٹل سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ اب بتاؤ ہمارا یہ بھائی اب کہاں جائے گا … در اصل یہ ملک ایک مکان ہے۔ جہاں ہم سب رہتے ہیں۔ ہم میں سے ایک شخص کو گھر کا مالک بنا دیا گیا ہے۔ وہ گھر چلانا نہیں جانتا تو ہم اُسے سمجھائیں گے۔ بتائیں گے۔ اور اُس پر بھی گھر کی حالت بگڑ تی رہی تو ہم اُسے نکال سکتے ہیں۔ اُس کا فرض ہے کہ وہ گھر میں رہنے والے تمام لوگوں کے ساتھ یکساں طریقے سے پیش آئے۔ اور تم جانتے ہو۔ آج یہی نہیں ہو رہا ہے …

’’ … ہم ان بنڈلوں کے ذریعے اُس مکان مالک سے صرف یہ وعدہ لینا چاہتے ہیں کہ وہ اس طبقے کی طرف بھی دھیان دے جس کی طرف کوئی خیال نہیں کرتا۔ ان بے چارے لا وارث کنگالوں پر رحم کھائے۔

وہ چپ ہوا تو چوکیدار کے چہرے پر غم سمٹ آیا۔

’’ تم ٹھیک کہتے ہو بابو … بھگوان تمہیں کامیابی دے۔ اب دیکھو نا، شروع میں تو بد بو مارنے کی دوائیاں مفت ملتی رہیں۔ پھر راشن کارڈ سے ملنے لگیں اور اب اس قدر بلیک مارکیٹنگ چل رہی ہے کہ …

چوکیدار اچانک چپ ہو گیا اور ناک سکوڑ کر بڑ بڑایا …

’’ اُف کتنی تیز بد بو ہے۔ ‘‘

پھر دونوں کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا … ’’ اچھا تو دوستو میں چلا … تم اپنا کام کرو‘‘

پھر اُس نے ایک زور دار ہانک لگائی … ’’ جاگ کے سوئیو … ‘‘ اور تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔

دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ جیسے کہہ رہے ہوں، اب ہمیں واقعی کام میں لگ جانا چاہئے …

آؤ امت! بنڈل کھولو …

اُمت نے بنڈل کھول لیا۔ ایک اشتہار نکالا … انجم نے اُس پر گوندلگایا … اور دونوں اشتہار چسپا کرنے میں لگ گئے …

اشتہارات بڑے عجیب عجیب قسم کے تھے — دونوں مستعدی سے اپنے کام میں مشغول تھے۔

ایک اشتہار میں ایک غریب آدمی کی تصویر بنی ہوئی تھی — جو بالکل ہڈی ڈھانچہ ہو رہا تھا … وہ ندی کے کھولتے ہوئے پانی کے درمیان بالکل بے بس کھڑا تھا۔ اور اس سے ذرا سے فاصلے پر بد بو کے کئی پیکٹ بہتے ہوئے چلے جا رہے تھے … اور اشتہار کے ایک طرف موٹے حرفوں میں لکھا تھا۔

’’ ان کی مدد کرو … ان کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں کہ چل کر پیکٹ لا سکیں — انہیں مفت پیکٹ تقسیم کرو۔

دوسری تصویر ایک عورت کی تھی۔ جو بد بو کی لہروں کے درمیان کھڑی تھی … اس کا جسم زخموں سے چور چور تھا۔ وہ ایک ہاسپٹل کے دروازے پر کھڑی تھی اور دربان اُسے جگہ کی تنگی سمجھا کر باہر نکال رہا تھا۔

’’ اس کے نیچے لکھا تھا … غریبوں کو پہلی سہولت دو‘‘

تیسری تصویر ملک کی سیاسی حالت پر روشنی ڈال رہی تھی۔ ایک موٹا شخص مسند پر بیٹھا ہوا اپنے کانوں میں انگلی ڈالے تھا۔ اُس کے آس پاس سیکڑوں ہزاروں لوگوں کا مجمع تھا۔ جو چیخ رہے تھے اور اس موٹے شخص پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ تھا۔

اس کے نیچے لکھا تھا — تم اپنی بپدا کہو۔ چاہے جیسے کہہ سکتے ہو — بار بار کہو کہ اس شخص کے کانوں میں تمہاری آواز چلی جائے — اور اُس پر بھی یہ کان بند کئے رہے۔ تو تمہارا فرض ہے کہ اس کا کان کھلوا دو۔ ‘

غرض اس طرح کے بہت سارے اشتہارات تھے۔ جن میں بد بو کے خلاف طرح طرح کے نعرے سلگ رہے تھے۔ ہر تصویر بہت واضح تھی۔ اتنی واضح اور صاف کہ آرام سے ایک معمولی آدمی بھی سمجھ سکتا تھا۔

رات گزرتی جا رہی تھی اور وہ دونوں اشتہارات دیواروں پر چسپاں کرتے ہوئے آگے بڑھے جا رہے تھے۔ کہ اچانک انجم ٹھہر گیا۔

’’ تم نے محسوس کیا امت۔ کوئی دبے پاؤں تیزی سے ہماری جانب آ رہا ہے۔ اور کوئی واقعی ان کی جانب بڑھ رہا تھا۔ داب کر چلنے کی ہلکی ہلکی آواز رات کے سناٹے میں بڑی خوفناک معلوم ہو رہی تھی …

’’ ہاں کوئی ہے ‘‘ انجم خوف سے بولا۔

’’ کون ہو سکتا ہے ؟‘‘

کوئی پولیس والا۔ ‘‘

انجم کی آنکھیں چمک رہی تھیں … ابھی بہت سارے پوسٹرچپکانے باقی ہیں۔ آؤ چلیں چھپ جائیں۔ ان گلیوں میں وہ ڈھونڈھنا چاہیں بھی تو نہیں ڈھونڈھ سکتے۔ ‘‘

پھر دونوں گلی میں چوروں کی طرح بڑھ گئے۔ کوئی کتا پھر کسی مقام سے الاپا اور کئی کتوں کی الاپ کی آواز فضا میں گونج گئی۔

اور اس سے قبل کہ دونوں سنبھلتے ایک سرچ لائٹ دونوں کے چہروں پر پڑی ساتھ ہی ایک بے ہنگم سی آواز بھی سنائی پڑی۔

’’ وہ رہے دونوں ‘‘

’’ سالے بھاگ کے جائیں گے کہاں۔ ‘‘

’’ پکڑو‘‘

’’ سالے بد بو پھیلاتے ہیں ‘‘

پھر پولس والے ڈنڈا لے کر دوڑ پڑے۔

’’ امت بھاگو۔ ‘‘

’’ انجم زور سے چیخا … پوسٹرس لے کر بھاگو۔ ‘‘

گلیوں میں کتے اب بھی بھونک رہے تھے۔ اور رات کے اندھیرے میں دوڑتے ہوئے قدموں کی چاپ تاریکی کے صفحات پر خوف بو رہی تھی …

دونوں کی سانسیں دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ پوسٹرس تھامے ہوئے ہاتھ درد کر گئے تھے۔ پاؤں دوڑتے دوڑتے شل ہو گئے پولس والے پیچھے رہ گئے تھے۔

سالے بچ کر کہاں جائیں گے۔ ‘‘

انجم نے چلتے چلتے کہا …

’’ امت۔ گھبراؤ نہیں۔ دائیں والی گلی سے ہم مہاجن ٹولی نمبر ۱ میں داخل ہو جائیں گے۔ آگے چوراہے پر میرا گھر ہے۔ پھاٹک پھاند کر اندر داخل ہو جائیں گے۔ ‘‘

پھر دونوں گلی گلی بھاگتے ہوئے اندھیرے میں کھو گئے۔

پولس والے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ دونوں گیٹ پھاند کر اندر داخل ہو گئے۔ ذرا ٹھہر کر لمبی لمبی سانسیں چھوڑیں … جو اس بحال ہوا تو دروازے پر ہلکے سے دستک دی۔

کریم بیگ اٹھ گئے … دروازے پر کوئی ہے۔

آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو پسینے میں شرابور دونوں کھڑے تھے —

’’ کیا ہوا اس طرح ڈرے ہوئے کیوں ہو۔ ‘‘

’’ ہم یہ پوسٹر چپکانے گئے تھے۔ ‘‘

انجم نے آہستہ سے بتایا۔ پولیس ہمارے پیچھے لگ گئی ہے۔

 کریم بیگ ایک دم سے چپ ہو گئے۔ جیسے کاٹھ مار گیا ہو۔ آہستہ سے بولے۔

میرے بچو … !

پیارے بچو! میں جانتا ہوں تمہاری پیشانیوں پر جھوٹ نہیں لکھا مگر یہ سچ تم کس کس کو دکھا سکتے ہو ؟ اور کون انہیں سمجھ سکتا ہے — تم اپنے خیالات کو عوام کے سامنے لانا چاہتے ہو اور حکومت سے تحفظ و امان کا وعدہ لینا چاہتے ہو … حکومت ان وعدوں کو زہر تصور کرتی ہے —

کریم بیگ ہانپ رہے تھے۔

’’ میں یہ بھی جانتا ہوں بچو! یہ اشتہارات کورے اور بے معنی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اثر رکھتے ہیں اور اتنا اثر رکھتے ہیں کہ ایک زمانے کی آواز بن جاتے ہیں۔ ایک لڑائی ہم نے بھی لڑی تھی مگر وہ ملک کی محبت کی لڑائی تھی۔ ایک لڑائی تم لڑ رہے ہو — یہ ملک میں پھیلی ہوئی بد بو کے خاتمے کی لڑائی ہے۔ اللہ تمہیں کامیاب کرے۔ ‘

کریم بیگ نے ایک گہری سانس کھینچی۔ پھر دونوں کی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’آؤ میرے بچو! اندر چلو اپنے چھپنے کا انتظام کرو۔ ورنہ تمہیں وہ لوگ نظر بند کر دیں گے۔ ‘‘

دونوں بغیر کچھ بولے اندر آ گئے۔

کریم بیگ نے آہستہ سے کہا … کیسا برا وقت آگیا ہے بیٹو! تمہیں ایک صحیح کام کرنے کے لئے بھی اس طرح چوروں کی طرح چھپنا پڑ رہا ہے — ‘

’’ ہم ڈرتے نہیں ہیں ابا۔ بس خوف یہی ہے کہ ہمارا کام رک جائے گا۔ ‘‘ انجم کی آنکھیں پھیل گئی ہیں۔

اور امت غصے میں کہہ رہا تھا … وہ سچ پر مہر نہیں لگا سکتے … نہیں لگا سکتے …

اور کریم بیگ خاموشی کے گہرے اندھیرے میں، جو کبھی آزادی کے وقت پیدا ہوا تھا … ڈوبتا ہوا کہہ رہا تھا۔

’’ میرے بچو! یاد رکھو۔ جب بھی — اپنی عزیز جان پر ترس کھاؤ تو سچ مت بولنا … ہاں سچ مت بولنا … کہ یہ ایک جرم ہے … ایک نا قابل معافی جرم ہے — آج کے نئے بنائے گئے دستور میں … اور کسی کی زبان سے کوئی سچ نہ نکلے۔ اس واسطے ہر شاہراہ پر ایک قاصد مقرر ہے — فورا تمہاری زبانیں کاٹ ڈالی جائیں گی … یہاں تمہاری کم عمری پر ترس نہیں کھایا جائے گا … بلکہ یہ کہہ کر پہر ہ بیٹھا دیا جائے گا کہ تمہارے ہونٹوں سے نکلا ہوا سچ کل انقلاب بھی بن سکتا ہے۔ ‘‘

 جسم میں لرزہ طاری ہوا۔ اور اسی وقت چند دوڑتے ہوئے قدموں کی چاپ دروازے پر آ کر ٹھہر گئی اور دروازہ مسلسل دستکوں سے گونج اٹھا۔

کمرے میں سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ’’ اب کیا کیا جائے۔ ‘‘

ہم بری طرح سے پھنس چکے ہیں۔ ‘‘

اب کوئی راستہ نہیں ہے سوائے … ’’ کریم بیگ مردہ سانس لیتے ہوئے بولے۔

انجم نے اعتماد بھری نظروں سے امت کو دیکھا اور کہا … ’’ امت ! تمہیں پول پر چڑھنا آتا ہے نا؟ کھڑکی سے پول کی دوری کچھ زیادہ نہیں ہے۔ تم بھاگ جاؤ۔ ہم میں سے کوئی بھی بچا رہا … تو یہ لڑائی آخری وقتوں تک جاری رہے گی۔ ‘‘

امت نے مدافعت کی تو انجم دہاڑا …

’’ امت ! میں کہتا ہوں بھاگ جاؤ — تمہارا بھاگنا بے حد ضروری ہے۔ ‘‘

اور اس وقت جب دروازہ مسلسل دستکوں سے گونج رہا تھا، امت اُچک کر ٹیبل کے سہارے کھڑکی تک پہنچ چکا تھا۔ زمین سے کھڑکی کی اونچائی کوئی زیادہ نہ تھی۔ کھڑکی میں کسی طرح کی سلاخ وغیرہ بھی نہیں تھی۔ اور اتنی جگہ تھی کہ بہ آسانی ایک آدمی بیٹھ سکتا تھا۔ پرانے زمانے کا مکان ٹھہرا، اب ایسی عمارتیں بنتی کہاں ہیں۔ امت کھڑکی تک پہنچ چکا تھا۔ اور دوسرے ہی لمحہ وہ دونوں ہاتھوں کے سہارے پول تک پہنچ چکا تھا۔

کریم بیگ نے کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھول دیا۔ کچھ لوگ دھڑ دھڑاتے ہوئے اندر گھس آئے … اور سرخ سرخ آنکھوں نے انجم کی طرف دیکھا … جو بغیر کسی خوف کے آنکھیں مٹکا رہا تھا۔

’’ پکڑلو۔ ‘‘ ان میں سے ایک چیخا۔

’’ اس کے ساتھ ایک اور تھا۔ ‘‘ دوسرا دہاڑا —‘‘ پوسٹرس کہاں ہیں ‘‘

انجم نے کچھ نہ سمجھ پاتے ہوئے کہا۔ ‘‘ کیسے پوسٹر س ؟‘‘

’’ وہی جو رات کے وقت تم سالے چپکاتے پھرتے ہو۔ ‘‘

’’ میں تو ابھی سو رہا تھا ‘‘ انجم نے معصومیت سے کہا۔ ‘‘

’’ ابھی پتہ چل جاتا ہے۔ ‘‘

دوسرے نے گھر کی تلاشی کا اشارہ کیا۔ پہلا دس بارہ منٹ تک ادھر اُدھر کچھ تلاش کرتا رہا۔ پھر لوٹ آیا۔

’’ کچھ نہیں ملا۔ ‘‘

’’ کہاں دفنا دیا پوسٹرس‘‘

’’ میں نے کہا نا۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ ‘‘

’’ ابھی پتہ چل جاتا ہے۔ جیل میں اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔

چوکیدار نے دوکا گھنٹہ مارا۔

 اور ٹھیک اس وقت۔ جس وقت پولس انجم کو گرفتار کر کے لے جا رہی تھی۔ ڈرین پائپ سے ہوتا ہوا، لپٹا ہوا پوسٹرس موریوں میں بہتا چلا جا رہا تھا۔

باب چہارم

نمیتا

(۱)

رات کتنی پر اسرار ہوا کرتی ہے۔ کیسے کیسے عجیب و غریب واقعات سے بھری ہوتی ہے۔ وہ رات بھی دوسری عام راتوں کی طرح تھی — تاریک اور پر اسرار۔ شہر میں کتے چیختے چلاتے پھر رہے تھے۔ بد بو کے آوارہ جھونکے انگڑائیاں لے رہے تھے اور … بوجھل افسردہ، چاروں طرف چوروں کی طرح دیکھتا ہوا وہ آگے بڑھ رہا تھا۔

ہولناک سناٹا کسی گہرے اور آنے والے سنگین خطرے کا پیش خیمہ لگ رہا تھا۔ یہ نوجوان امت تھا۔

امت کا ذہن سائیں سائیں کر رہا تھا … آنکھوں میں خوف سلگ رہا تھا۔ وہ انجم کے بارے میں سوچ رہا تھا … انجم، جسے کھینچتے ہوئے اس کے سامنے سے پولس لے کر گئی تھی … جواب تک پولیس کے بے رحم ہاتھوں کی کتنی ہی اذیت جھیل چکا ہو گا … مگر ہونٹ ہمیشہ کی طرح اس کی مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کی چغلی کھا رہے ہوں گے …

بد بو کی لہر میں سارا شہر ڈوبا ہوا تھا۔

امت تیزی سے آگے بڑھا۔ اس کا گھر آگیا تھا۔ چہرہ پسینے میں ڈوبا ہوا — آنکھوں میں لہو کے ڈورے رقص کر رہے تھے۔ دروازے پر آہستہ سے دستک پڑی اور فوراً ہی دروازہ کھل گیا۔

سامنے ہی نمیتا کھڑی تھی۔ بال الجھے ہوئے بے ترتیب … چہرہ سپید — کمسنی میں طاری ہوئے خوف کی چغلی کھاتے ہوئے … اور آنکھیں انتظار کرتے کرتے پتھرائی ہوئی سی …

امت ہانپتا ہوا اندر داخل ہو گیا … نمیتا کے حیران چہرے پر اُگے ہوئے متعدد سوالوں میں ایک اور سوال کا اضافہ کرتا ہوا بولا۔

’’ دروازہ بند کر لو … ‘‘

سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔

’’ کیا ہوا بھیا ؟‘‘

’’ نمیتا کی آنکھوں میں دہشت پھیل گئی تھی۔

’’ وہی جس کا ڈر تھا۔ انجم پکڑا گیا۔

امت کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اور نمیتا کو اپنی سانس ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ اسی انداز میں اور اُسی کمزور لہجے میں آہستہ سے بڑ بڑائی … پکڑا گیا …

روشنی ہمیشہ کی طرح غائب تھی … آدھی رات کا چاند آسمان پر روشن تھا … اور اپنی دودھیا چاندنی پھیلا رہا تھا۔ تاریکی میں دونوں کے چہروں پر پیدا ہوئے کرب کو بہ آسانی دیکھا جا سکتا تھا۔

اور ان سے ذرا سے فاصلے پر پتھر کی مورتی کی طرح کھڑے تھے … ہیڈ ماسٹر رگھو پتی سہائے جی — چہرہ جیسے ہر تاثر سے عاری۔ آہستہ سے اٹھے۔ مدھم جلتے ہوئے لالٹین کو اٹھایا … اور مضمحل قدموں سے ان دونوں کی طرف بڑھ گئے۔ انہوں نے نمیتا اور امت دونوں کی گفتگو سن لی تھی۔ لالٹین کو ایک طرف رکھا۔ اور لالٹین کی مدھم روشنی میں دونوں کے چہروں پر طاری ہوئی سناٹگی کا جائزہ لیا۔ اور پاس پڑی ہوئی اکہری چوکی پر تھکے ہارے پسر گئے۔

کبھی کبھی انسان باتیں نہیں کرتا۔ چپ رہتا ہے اور چپ رہ کر بھی گھنٹوں گفتگو کر لیتا ہے۔ خاموشی میں خطرے کی بو سونگھ لیتا ہے اور اُداس ہو جاتا ہے۔ اور یہاں اس وقت یہی خاموش فلم دکھائی جا رہی تھی۔

امت نے چوکی کے پاس رکھے ہوئے گھڑے سے گلاس میں پانی ڈھالا اور غٹ غٹ کر کے پی گیا۔ کچھ دیر کے بعد رگھو پتی سہائے جی نے خود کو کسی لائق بنایا۔ لفظ جوڑے اور نظریں نیچی کئے ہوئے امت سے بولے۔

’’ تھک گئے ہو تو سستا لو … ذہن پر پڑا ہوا بوجھ اتر جائے گا۔ ‘‘

’’ بوجھ ہلکا ہو تو اُتر جائے۔ ملک کے نئے تازہ دماغ کو یہ لوگ قید خانے میں قید کریں گے تو نیند کہاں سے آئے گی۔ ‘‘

رگھو پتی سہائے جی نے ہار مان لی۔ سر جھکا لیا … اور کمزور لہجے میں بولے۔ ‘‘ پھر بھی بیٹے کوشش کرو گے تو نیند آ جائے گی۔ ‘‘

’’ نہیں بابو جی نیند نہیں ہے ‘‘

’’ اب کیا ارادہ ہے بھیا۔ ‘‘ نمیتا پوچھ رہی تھی۔

’’ اب باہر نکلنا ہو گا۔ کام کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اور چپ بیٹھنے کا مطلب ہے کہ بوجھ اتنا بڑھ جائے گا کہ پھر جینا مشکل ہو جائے گا۔ ہم لوگوں نے محلے کے اچھے لڑکوں کی ایک جماعت تیار کی ہے جو سارے شہر میں اپنے اپنے انداز میں ورک کرے گی۔ کام کی نوعیت مختلف ہے۔ سب کو الگ الگ کام بانٹ دیا گیا ہے … جیسے کچھ لوگوں کا کام ہے بد بو کے بیمار مریضوں کو ہاسپٹل میں بھرتی کروانا۔ ہاسپٹل میں ان کے لئے انتظام کرنا … حقوق کے لئے لڑنا ہو گا۔ پوسٹرس چپکانا — اسٹریٹ ڈرامے کرنا۔ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے مشن کی تبلیغ کرنا — ہمیں انجم کی غیر موجودگی میں کام کو روکنا نہیں ہے۔

نمیتا سنتی رہی … پھر کچھ سوچ کر بولی … ’’ بھیا میرے لئے بھی کچھ کام ہے۔ ‘‘

امت نے نمیتا کی طرف دیکھا۔ کچھ بولا نہیں۔

نمیتا نے دوبارہ کہا — سمجھ میں نہیں آتا بھیا۔ تم ہم لوگوں کو اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہو۔ تاریخ کی کتابیں پڑھنے کے باوجود تم لوگ ہمیں کمزور کیوں سمجھتے ہو۔ مجھے لگتا ہے، مجھے تمہارا ساتھ دینا چاہئے —

پھر اُس نے اپنا آخری فیصلہ سنا دیا۔ کل سے میں بھی چلوں گی۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اس بد بو میں اب سانس لینا دوبھر ہو گیا ہے ‘‘

ماحول میں سناٹا چھا گیا۔ اچانک کوئی جھینگر چیخا۔ امت اکہری چوکی پر ہی پسر گیا۔ بابا اٹھے اور لالٹین لے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ نمیتا بھی اپنے کمرے میں لوٹ گئی — اس وقت اس کے دماغ میں زبردست طوفان آیا ہوا تھا۔ اور وہ دیکھ رہی تھی … انجم جیل کی تنگ سلاخوں کے پیچھے پولیس کے بے رحم ہاتھوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

وہ رو رہی تھی … اُس کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے تھے۔

(۲)

کریم بیگ انسان تھے کوئی فرشتہ نہیں تھے۔ بیٹے کے جیل چلے جانے کا صدمہ اُن کے لئے نا قابل برداشت تھا۔ اندرونی زخموں کی تاب نہ لا کر بکھر گئے۔ مگر اس کے باوجود چہرے پر ایک شکن نہ تھی۔ رضیہ کو بھی بار بار سمجھا رہے تھے۔ کہ تم بلا وجہ فکر میں مری جاتی ہو۔ یہ کیوں نہیں سوچتی کہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں اور جن آندھیوں نے ہماری زندگی کو دوزخ بنا دیا ہے ان آندھیوں کو روکنے کے لئے کسی نہ کسی کو تو اٹھنا ہی ہو گا … ہمیں بھی آج تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ملک میں پھیلی ہوئی بد بو کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے کہ ایسا حکم دیا گیا ہے اور آج صرف ہمارا انجم نہیں اٹھا … بلکہ مختلف انجم اٹھ کھڑے ہوئے ہیں — ہمیں خوش آمدید کہنا چاہئے انہیں۔

اور دیکھنا … تب یہ ملک … ہمارے اپنے لہو سے سینچا گیا یہ ملک ایک مثالی ملک بن جائے گا … اور اس خوفناک آندھی کا دور دور تک پتہ نہ ہو گا۔

انجم واپس لوٹے گا۔

جیل اس کی منزل نہیں بن سکتی …

کریم بیگ سمجھانے تو تو سمجھا آئے مگر اپنے دل کو کیسے روکتے … اپنے بے قابو خیالات پر کیسے قابو پاتے … ابھی دو روز قبل وہ انجم سے ملنے بھی گئے تھے … اور آنکھوں نے ایک نئے انجم کو دیکھا تھا … اپنے سے بھی بزرگ انجم کو … اپنے سے زیادہ تجربہ کار انجم کو … جو ان سے کہیں زیادہ زخم رکھتا تھا … جوان سے کہیں زیادہ جھیلنے کی قوت رکھتا تھا … ہونٹوں پر سکون بھری مسکراہٹ طاری لیے۔ نظریں نیچی کر کے وہ بس اتنا ہی کہہ سکا تھا۔

’’ ابی حضور ! آپ دوبارہ ملنے نہیں آنا … وعدہ کرو دوبارہ نہیں آنا … کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کمزور پڑ جاؤں … ‘‘

’’ ہاں نہیں آؤں گا بیٹے — کریم بیگ نے جھک کر اپنے آنسو پوچھے — ہاں نہیں آؤں گا … اس دل کو سو طرح کے بہلا وے دے چکا۔ اب بھی دے دوں گا … مگر نہیں آؤں گا … مگر بول تو لوٹے گا نا … ویسا ہی خوش رنگ لباس پہن کر … جیسا کہ میری آنکھوں میں نظر آتا ہے … جیسا کہ محبت کا لباس ہوتا ہے … اور جیسا کہ محبت کرنے والی آنکھیں دیکھتی ہیں اور خوش ہو لیتی ہیں … بول تو لوٹے گانا … ؟‘‘

سارے راستے دھیمی دبی سرگوشیوں کا طوفان ان کے ذہن پر چھایا رہا۔

اس دن صبح کا کوئی دس بجا تھا۔

ادھر کئی روز سے کریم بیگ آفس بھی نہیں جا سکے تھے۔ آج جب ذہن نے نئے سرے سے سوچنا شروع کیا تو تسلی ہو گئی۔ اور وہ آفس جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس بیچ امت ان کے گھر کے کئی چکر کاٹ چکا تھا … چاچا،چاچا کہتے ہوئے اُس کے منہ ہی نہیں تھکتے تھے … ایک دوسرا انجم ان کے سامنے تھا۔ کبھی باتیں کرتا۔ ہنستا ہنساتا۔ سودا سلف لاتا … رضیہ کے پاس گھنٹوں بیٹھتا اور اُس پتھر کی مورتی میں جان پھونکنے کی کوشش کرتا … اور ایسے موقع پر کریم بیگ اتنا ضرور سوچتے۔

مذہب کی دیواریں کھڑی کرنے والے … مذہب کو آسان طریقے پر کیوں نہیں قبول کرتے … ؟ مذہب تو ایک سیدھا سادا راستہ ہے جہاں شرن لے کر آنسان تمام تر برائیوں سے نجات حاصل کر لیا ہے — تمام تر نفسانی خواہشات سے بری ہو جاتا ہے۔ اکثر ان کے دل میں خیال آیا کہ اگر مذہب نہ ہوتا تو ؟یہ سوچ انہیں اس کریم بیگ کے پاس لے جاتی جو ایک طویل مدت تک مذہب سے کافی دور رہا۔ اور بالآخر قریب آیا … کہ یہی وہ راستہ ہے جہاں تمام تر خود غرضیاں آ کر فوت کر جاتی ہیں۔ تمام الجھنیں یہیں آ کر ختم ہو جاتی ہیں … اور اکثر یہ بھی خیال آیا کہ صرف ایک مذہب ہوتا تو … مذہب کی یہ بھیڑ نہ ہوتی تو … ؟

یہ خیالات معمولی سہی۔ مگر عرصہ دراز کے بعد مذہب کی شرن میں آئے ہوئے کریم بیگ کو انہی خیالات نے حوصلہ دیا تھا۔ آدمی جب کمزور پڑ جاتا ہے تو وہ خود سے سوالات کیا کرتا ہے۔ سوال جب الجھن بن کر اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ خود ہی ان سوالوں کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بالآخر ایک جواب پالیتا ہے اور یہ جواب اس کی تسلی کے لئے کافی ہوتا ہے۔

جانے کب تک وہ اپنے خیالوں کی کشتی پر تیرتے رہے۔ قریب دس بجے وہ آفس چل دیئے …

ٹائپ رائیٹر مشینوں کی کھٹ کھٹا ہٹ کے بیچ جانے کیوں وہ ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے ایک عجیب طرح کی خاموشی آفس کے اطراف میں پسری ہوئی ہو۔ سلمہ کی یاد تازہ ہوئی تو کریم بیگ نڈھال سے ہو گئے۔ خود کو بحال کیا اور آفس کی سیڑھیاں طے کرنے لگے۔

دو ہی سیڑھی پار کی تھی کہ رگھو بیر نے آواز دے کر پکار لیا۔

کریم بیگ اچانک ٹھٹھک کر رک گئے۔ وہ بڑے غور سے رگھو بیر کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ ہنس مکھ رگھو بیر کے چہرے پر وحشت سمٹ آئی تھی۔ چہرے پر جاذبیت کا ایک قطرہ نہ رہ گیا تھا۔ گال دھنس گئے تھے۔ برسوں کا بیمار نظر آ رہا تھا۔

’ ’ کریم بیگ ہمیں بچا لو۔ ‘‘

رگھو بیر گھگھیائی آواز میں بولا … اُس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی … ’’ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے کل تمہاری بات نہیں مانی اور آج ہمیں اس کا پھل بھگتنا پڑ رہا ہے۔ صرف ہماری ہی نہیں بلکہ اب ہماری گھر والیوں کی عزت پر بھی خطرے کا آسمان ٹوٹ پڑا ہے … صاحب کے پنجوں میں لہو سمٹ آیا ہے … وہ درندہ ہے۔

رگھو بیر کی آواز میں کپکپی طاری ہو گئی تھی … ہاں ہم پہچان گئے ہیں کریم بیگ ! جوبات کل پارک ویو (Park-View)ہوٹل والی میٹنگ میں نہیں کہہ سکتے تھے، آج کہہ سکتے ہیں۔ بلند بانگ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب درندہ ہے۔ وہ پارٹیاں دیتا ہے۔ دعوت دیتا ہے۔ اور اس بہانے ہمارے گھر کی عزت پر ہاتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اپنی محبت لٹا کر ہماری انا خرید نا چاہتا ہے۔ ہمیں کمزور بنانا چاہتا ہے۔ تمہاری طرح ہم بھی اپنی کمزوریاں پھینک ڈالنا چاہتے ہیں کریم بیگ !‘‘

رگھو بیر سسک رہا تھا۔ ’’ کریم ! ہم سے خوشی چھین لی گئی۔ چین چھین لیا گیا۔ ہمیں نئی دنیا کا قیدی بنایا گیا اور رہا سہا سکون بھی لوٹ لیا گیا۔ اب گھر کے باریک رشتوں کی آنکھوں سے بھی اپنے لئے وحشت اور نفرت جھانکتی ہے۔ انھیں اس بد بود ار فضا میں لے جانے کے مجرم بھی تو ہم ہی ہیں نا ؟اور اب وہ گھر جہاں ہم اپنے رشتے کی مضبوطی کے ساتھ جیا کرتے تھے، اب جہنم بن چکا ہے، ہمارے لئے۔ ہم کہیں کے نہ رہے۔ ہمیں بچا لو … … بچالو …

کریم بیگ سن رہا تھا اور رگھو بیر اپنی ہزیانی کیفیت میں بکے چلا جار ہا تھا …

’’ وہ درندہ ہمارے پسینوں کی مہک پہچان چکا ہے رگھو بیر … ہمیں بچالو … وہ ہماری جان لے لے گا۔ ہم کس کے لئے کماتے تھے۔ کریم۔ کس کے لئے اتنی دوڑ دھوپ اور محنت کیا کرتے تھے۔ اُسی کے لئے نا جس سے ہمارے رشتوں کی کمزوری رہی تھی … ماں … بہن … بیٹی … اب وہ تعلق جب زہر بن کر ہم پر ٹوٹا ہے تو سہا نہیں جاتا۔ ‘‘

بولتے بولتے رگھو بیر کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔ اچانک وہ پر سکون ہو گیا … آنکھیں سکڑ گئیں اور ان میں خون اتر آیا۔ پھر بے ہنگم نظروں سے اُس نے کریم بیگ کو دیکھا۔

’’ کریم بیگ! اب ہم نے ارادہ کر لیا ہے … پکا ارادہ … اگر وہ اور قریب آتا رہا تو — یا تو میں اپنا خون کر ڈالوں گا یا پھر اُسے مار ڈالوں گا … ‘‘

وہ سکتے میں آگیا تھا۔

رگھو بیر … … رگھو بیر … …

کریم بیگ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا — ہوش میں آؤ رگھو بیر — یہ آفس ہے … ہوش میں آؤ … ہم آفس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہیں … اس لئے ہوش میں آؤ … اور اگر طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو چھٹی کی درخواست لکھو … گھر جاؤ … اور اپنے جذبات پر قابو پاؤ …

’’ چھٹی کی درخواست لکھوں … ؟ بیماری کا بہانہ بناؤں اور گھر لوٹ جاؤں ؟‘‘ … رگھو بیر پاگل سے لہجے میں کہہ رہا تھا … مگر کب تک کریم … کب تک؟ یہی ہوتا رہا تو یہ معمول بن جائے گا … اور سکون پھر بھی نہ لوٹے گا … اور اکیلے صرف میں کیسے قابو پالوں … آفس کے اتنے سارے اسٹاف … وحشت میں سمائے ہوئے یہ سارے چہرے … سب کیسے قابو پالیں … جو آندھی کل تمہارے چہرے پر تھی وہ آج سب کی آنکھوں میں سلگ اٹھی ہے۔ ‘‘

’’تو جنگ کرو گے ؟‘‘ کریم بیگ کو اس گفتگو نے تھکا دیا تھا۔

’’ ہاں ‘‘

اس سے لڑ پاؤ گے ؟‘‘

’’ ہاں ‘‘

اور اگر اُس نے تم سب کو مکھی کی طرح نکال باہر کیا تو ؟‘‘

’’ تو ؟‘‘

رگھو بیر اس بار واقعی کمزور پڑ گیا۔ احساس پر جیسے منوں پانی پڑ گیا ہو …

’’ بس یہی کمزور پہلو ہے کریم۔ بتاؤ نا ہم کیا کریں … اب اور سہا نہیں جاتا۔ وہ یوں بھی تو ہمیں ختم کئے دے رہا ہے ہے۔ اور نوکری بغیر بھی ہمارا وہی حشر ہو گا … پھر کیوں نا … ؟‘‘

’’ تو مقابلہ کرو گے ؟‘‘ کریم بیگ نے آدھے راستے میں ہی اُسے روک لیا۔

’’ ہاں ‘‘

رگھو بیر نے انتہائی سکون سے جواب دیا۔

’’ مقابلہ ہوش میں رہ کر کیا جاتا ہے رگھو بیر — اس طرح جذباتی بننے سے تم جیت نہیں سکتے۔ ہمیشہ کی طرح ہار جاؤ گے — اس لئے کہ جب تم جذباتی بنتے ہو تو درندے کی رگ شرارت کو مزید ہوا مل جاتی ہے۔ تم بے قابو ہو جاتے ہو۔ اور وہ تمہاری ناکوں میں نکیل ڈالتا ہے … جیسے چاہتا ہے نچاتا ہے … اور تم اُس کے اشارے پر ناچنے لگتے ہو … اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے اندر کی کمزوریوں پر قابو پاؤ … اپنے اخلاق کو اونچا اٹھاؤ۔ تاکہ اخلاق کی کمزوریوں کے مجرم نہ بن سکو … اور جس دن تم ایسا کر سکے … اور تخت پر بیٹھا ہوا صاحب یہ جان گیا — اُس دن وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا … کیونکہ تب وہ تمہاری طاقت سے باخبر ہو چکا ہو گا۔

کریم بیگ خاموش ہو گئے۔

رگھو بیر سر ہلا کر کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ جانے کب تک ڈوبا رہا۔ پھر آہستہ سے بولا۔

’’ تم ٹھیک کہتے ہو کریم ! ہم ہوش میں رہنے،خود پر قابو پانے اور جذبات کے اندر رہنے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘

پھر وہ کئی سیڑھیاں نیچے اُتر گیا۔

 کریم بیگ آہستہ آہستہ چلتا ہوا۔ کمرے میں داخل ہوا۔ کچھ نظریں اُٹھیں اور جھک بھی گئیں … ٹائپ رائٹر مشینوں کی کھٹ کھٹاہٹ گونج رہی تھی …  ان ہاتھوں کی کمزوریاں کریم بیگ سے چھپی نہ رہ سکیں … چہروں کا خوف کریم بیگ سے پوشیدہ نہ رہ سکا۔

ان میں رتھ بھی تھا۔ سموئل بھی … ورما بھی تھا … اسلم بھی … اور … مسز بھٹنا گر بھی …

نظریں مسز بھٹنا گر پر ٹک گئیں اور جیسے مس نیلی کا سہما سہما چہرہ ان کی نظروں میں سما گیا۔ چہرے پر خزاں کا رنگ تھا۔ منہ سو جا ہوا۔ آنکھیں دھنسی ہوئی … ایک پل کو ان کی نظریں اٹھیں … پھر جھک گئیں … کریم بیگ نے انتظار کیا مگر آنکھیں دو بارہ نہیں اٹھ سکیں … نہ شور و غل کا طوفان تھا … نہ نقرئی قہقہوں کی آوازیں …

کریم بیگ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسز بھٹنا گر کے قریب پہنچ گئے اور ٹھہر ی ہوئی آواز یں بولے …

’’ کیسی ہو ر تو … ‘‘

اچانک دو معصوم آنکھیں اٹھیں اور اُن پر لرزہ دینے والا بڑھاپا طاری ہوا۔ پلکیں تھرا گئیں … آنسو کے دو قطرے ڈھلکے اور رُخسار پہ بہہ گئے۔

’’ پاگل عورت ‘‘ — کریم بیگ دلاسہ دیتے ہوئے بولے — شکر کرو کہ دیر نہیں ہوئی۔ اور تم نے اُس انجانی آفت کو پہچان لیا۔ ابھی بھی وقت ہے رتو … خود کو مضبوط کرو — ٹوٹنا اور بکھرنا جانوروں کا شیوہ ہے۔ انسانوں کا نہیں۔ ‘‘

وہ بولتے رہے اور مسز بھٹنا گر سنتی رہی۔ پھر کریم بیگ بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے دوبارہ اپنی سیٹ پر لوٹ آئے۔ ہلکی ہلکی بد بو پورے کمرے میں اب تک پھیلی ہوئی تھی … رجسٹروں سے … فائلوں سے … کھڑکیوں سے … دروازوں سے ہلکے ہلکے بد بو دار جھونکے کمر ے میں رینگ رہے تھے۔

ذہن میں سیٹیاں بج رہی تھیں …

ابھی وہ ٹھیک طرح سے بیٹھ بھی نہیں پائے تھے کہ چپراسی نے آ کر اطلاع دی … صاحب بلا رہے ہیں … ابھی اسی وقت …

اچانک خطرے کا سائرن ان کے دماغ میں گونج اٹھا … اندر ایک سیلاب ضرور اٹھا مگر کریم بیگ نے اس احساس پر قابو پا لیا … اُٹھے اور تیز قدموں سے صاحب کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

صاحب ریوالونگ چیئر پر گھوم رہے تھے۔ کریم بیگ کے چہرے پر اس وقت بھی وہی ہلکی ہلکی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی … صاحب جھنجھلائے ہوئے دکھ رہے تھے … اچانک صاحب کی مٹھیاں غصے میں بھینچ گئیں اور وہ مشتعل نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے بولے۔

’’ تم لیڈر ہو گئے ہو کریم بیگ …

تم نیتا ہو گئے ہو کریم بیگ ؟

یا کوئی سدھ پرش، مہاتما ہو گئے ہو … ؟

یا تم مسیحا بن کر لوگوں کے دکھ درد کا علاج کرنے آئے ہو … ؟

تم انقلاب کے نعرے لگاتے ہو … ‘

میرے خلاف بغاوت پر آمادہ کرتے ہو …

صاحب کی آنکھیں شعلہ اگل رہی تھیں … تم میرے خلاف بھڑکاتے ہو کریم بیگ … حیرت ہے۔ تم مجھ پر الزامات کی بارش کرتے ہو … غلط سلط افواہیں پھیلاتے ہو … میرے خلاف نعرے لگواتے ہو … مجھ پر جس نے تمہاری تقدیر کا سودا منظر کیا تھا۔ اور اس کمرے کی ایک با وقار کرسی تمہارے حوالے کی تھی۔ یہ میں تھا کہ تم بھوکوں مر رہے تھے اور میں نے تمہاری مدد کی تھی — تمہارے منہ میں آب حیات کے چند قطرے ڈالے تھے۔ اور تم نے الٹا ان احسانوں کا بدلا یہ دیا کہ لوگوں کو میرے ہی خلاف بھڑکا نا شروع کر دیا … میں پوچھ سکتا ہوں کیوں … ؟‘‘

صاحب غصے میں دہاڑے اور اس نازک وقت میں بھی کریم بیگ نے ہونٹوں پر رینگتے ہوئے تبسم کو مرنے نہ دیا۔

’’ صاحب ! آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ میں نے تو یہ سیکھا ہی نہیں — اور نہ میری مقدس کتابوں نے بھی مجھے یہ تعلیم دی — کہ جس مالک کا کھاؤں اُسی کی تھالی میں چھید کروں … ہاں میں اس بات کا مجرم ضرور ہوں کہ میں نے ان کے گونگے ہونٹوں کو آزادی دی۔ جو سچ ان کے پاس نہیں تھا وہ سچ لا کر دکھا دیا … سچ کی عظمت سے آگاہ کیا … بس اتنا ہی قصوروار ہوں … ‘‘

صاحب کے چہرے کا رنگ بدلا۔ طوفان لوٹ گیا — اب اُس کی جگہ مسکراہٹ آ گئی تھی۔ وہ ریوالوننگ چیئر پر خود کو گھماتے ہوئے۔ کہہ رہے تھے۔

کریم بیگ ! تم نے ابھی وہ ہاتھ نہیں پہچانے جو تمہارے سماج سے اوپر ہے۔ جس کے دم پر تمہارا سماج چلتا ہے۔ کھڑا ہوتا ہے۔ دوڑتا ہے — تم نے ابھی تک وہ آواز نہیں پہچانی جو تم پر پہرہ بیٹھا سکتی ہے۔ تمہیں بھری محفل میں رسوا کر سکتی ہے۔ تمہیں توڑ سکتی ہے۔ خیر میں زیادہ کچھ نہیں کہوں گا۔ مگر‘‘

صاحب تھوڑا ٹھہرے۔ پھر اپنا فیصلہ سنا دیا — ’’ تم جس وقت بھوکے مر رہے تھے اور میں نے کمرے کی جوبا عزت کرسی تمہارے حوالے کی تھی … تم صرف اُس کرسی کو خالی کر دو … اور یہاں سے چلے جاؤ … اب تم آزاد ہو … ‘‘

’’ جیسی مرضی ‘‘

کریم بیگ دروازے سے باہر نکل آئے۔

دو رتک لمبی شاہراہوں کو دیکھتے رہے وہ اس فیصلے کو جانتے تھے۔ اور وہ نیا شخص … جو اخلاق کی مضبوطی کے بعد پیدا ہوا تھا، ان سے کہہ رہا تھا … اس راستے میں مشکلیں تو آئیں گی ہی کہ یہ حق و صداقت کا راستہ ہے — مگر اب تمہیں گھبرانا نہیں ہے کریم بیگ۔

 جو دنیا اور آخرت کی سلامتی چاہتا ہے۔ اُس پر لازم ہے کہ صبر کرے اور رضا بالقضا رہے … اور مخلوق کے سامنے شکایت نہ کرے اور اپنی تمام ضروریات کو پروردگار کے سامنے پیش کرے اور ہر حال میں اللہ تعالی سے مشکل کشائی اور کشادگی کی امید رکھے کیونکہ وہی تمام مخلوق سے بہتر ہے ‘‘

حساب دینے کا وقت تو اب آیا ہے۔

اور وہ بھی دکھا دیں گے کہ وہ کمزور نہیں ہیں … مشکل سے مشکل وقت میں بھی حوصلہ نہیں چھوڑ سکتے۔

راستے کی طوالت نے تھکا دیا تھا۔ دماغ پر اچانک ایک بہت بڑا بوجھ آگیا تھا۔ انجم جیل میں ہے اور وہ نوکری سے الگ۔

پھر جیسے ایک دھماکہ ہوا … وہ آوازوں کے نرغہ میں تھے۔ اور آوازیں انہیں لہولہان کر رہی تھیں …

بھول گیا کہ ایسا تمام زمانوں میں ہوا ہے۔

بھول گیا کہ ایسا فتنہ اور شر ہر زمانے میں آیا …

اور جو لڑ نہیں سکے وہ اسیر ہو گئے … اُس کے گناہوں کے مرتکب ہوئے اور زوال پا گئے — آنکھیں کھول اور تاریخ کے اوراق پر نظر ڈال۔

’’ حضرت نوحؑ کے زمانے میں بھی ایسا ہی فتنہ اور فساد برپا ہوا۔ بے ہنگم آواز کے جنگل کے باشندے ود، سواع، یغوث لینوق اور سرد یوتاؤں کی مصنوعیات میں کھو گئے۔ نوح ؑ نے سمجھایا مگر لوگ مخالفت پر اُتر آئے … زہریلے بیج بوتے رہے۔ فتنہ بپا کرتے رہے کہ یہ وہی تھے۔

وہی — جو عوام پر حکومت کرنے والے تھے — جو خود سر تھے جنہیں اپنی سیاست کے ختم ہو جانے کا خدشہ تھا … تو زوروں کی بد بو پھیلی — اور اُن کی چیخیں آسمانی پردوں میں سما گئیں۔

’’ کہ اے نوح ؑ! اگر تم واقعی سچے ہو تو ہم پر عذاب لاؤ … جس سے تم ڈرایا کرتے تھے … ‘‘

اور آن واحد میں وہ ہو گیا کہ وہ جس کے بارے میں سوچ بھی نہ پائے تھے … کہ ظلم عجب عجب صورتوں میں ہوتا ہے۔ سچ مختلف طریقے سے سامنے آتا ہے۔ حضرت نوح ؑ کشتی کی تعمیر کر رہے تھے اور لوگ ہنس رہے تھے — قہقہہ لگا رہے تھے۔ ادھر کشتی کی تعمیر ہوئی۔ دروازے کھل گئے۔ زمین کے دریاؤں اور چشموں سے پانی اُبل پڑا۔ حضرت نوح ؑ نے ہر قسم کے جانوں کے دو جوڑے لئے اور کشتی پر سوار ہو گئے — زور دار سیلاب آیا۔ اور وہ لوگ جو سچ سے منکر ہوئے تھے۔ اُس کے عذاب میں کھو گئے۔

اور جو سلامت رہ گئے ان کی نسل سے ایک عظیم الشان قوم اٹھی اور جب اُس قوم کو عروج حاصل ہوا تو وہی شر، فتنہ، فساد اور بد بو کا مادہ ان کے اندر بھی داخل ہو گیا — یہ عاد قوم تھی جو اپنے بے جا غرور، اور اقتدار کی قوت میں کمزور قوموں کو خاطر میں نہ لاتی تھی — ظلم کرتی تھی اور بد بو چاروں جانب پھیلی جا رہی تھی … کہ اچانک قوم عاد پر عذاب نازل ہوا۔ ایک زبردست طوفان اٹھا اور گاؤں کا گاؤں دفن ہو گیا … ہڈیوں کے قلعے تعمیر ہوئے اور اس طرح قوم فنا ہو گئی۔ اور وہ تھوڑے سے لوگ جو حضرت ہود ؑ پر ایمان لائے تھے ان سے قوم ثمود اٹھی اور اس قوم کا بھی وہی حشر ہوا۔ جو دوسری قوموں کا ہوا …

اور پھر حضرت ابراہیم ؑ، شعیب ؑ، موسی ؑ اور آں حضرت ؐ تک غرض کہ ایک لمبی کہانی ہے … نمرود کی سلطنت تباہ و برباد ہوئی — لوط کی قوم پر پتھر کی آندھی نازل ہوئی۔ مدین والے بد بو کی زد میں بہہ گئے … کہ ان پر سائے کے دن کا عذاب آیا … اور یہ سب ہوا … کہ اچانک ظلمت کا اندھیرا چھٹا اور فاران کی پہاڑیوں سے اذان کی ایک تیز صدا بلند ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم پر چھا گئی — اور رفتہ رفتہ دن گزرے — ایک عقیدہ مختلف عقیدوں میں بٹ گیا … باطل کا بول بالا ہو گیا … حق و صداقت کی آواز خاموش ہو گئی … تو یہ ان کا اپنا عقیدہ تھا … اور ایسے ہی دوسرے مذاہب کے بھی عقیدے ہوں گے … کہ شر فتنہ اور فساد کی جگہ ایک دن بد بو لے لے گی … تیز اور زبردست طریقے سے پھیلتی ہوئی بد بو …

کہ جان رکھو …

اُس کے عذاب کی صورت کچھ بھی ہو سکتی ہے …

وہ۔ جو سچ ہے اُس سے منکر نہ ہو … اور اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھو …

کیا تم بھی خود کو اُن خود سر قوموں کی طرح چھوڑ دو گے … کہ تم پر بھی ٹڈی دل کا غذاب نازل ہو … خون کی بارشیں ہوں … تم پر پتھر برسیں …

اور تمام رشتے ختم ہو جائیں … اور تمہارے چہروں پر روشن آگ سلگ اٹھے …

افسوس … افسوس … مذہب کو ایک ذریعہ بنایا گیا تھا۔ تیز بد بو سے بچنے کے لئے … اور تم جھگڑ گئے …

تم سب ایک سخت امتحان سے گزر رہے ہو …

اور صاحب وہی خود سر حاکم ہے … جو اپنی ظالمانہ سیاست کی بازیگری میں تمہاری تقدیریں خرید تا پھر تا ہے۔

تو اس ناٹک سے بری ہو جاؤ کریم بیگ …

بری ہو جاؤ۔ ؟‘‘

جب یہ آواز گونجی تو کریم بیگ کے اندر ایک لرزہ سا طاری ہوا۔ بدن کانپا … زلزلہ سا جھٹکا محسوس ہوا … پھر بھی ہمت نہ ہاری … آس پاس پھیلی ہوئی بد بو بھانپتے ہوئے تیز قدموں سے گھر میں داخل ہو گئے۔

گھر میں سناٹے کی حکمرانی تھی … باورچی خانے سے ہنڈیا اور کرچھل کے گیت گونج رہے تھے۔ آہٹ پا کر رضیہ نے سر اٹھایا اور کریم بیگ کی غیر معمولی سنجیدگی پر چونکتی ہوئی بولی۔

’’ کیا ہوا۔ ؟‘‘

’’ مجھے نوکری سے الگ کر دیا گیا ‘‘

کریم بیگ آہستہ سے بولے۔

رضیہ کی آنکھوں میں آتش فشاں سلگ اٹھا۔ پیشانی پر چند قطرۂ غم سمٹ آئے۔

’’ اب کیا ہو گا۔ ‘‘

’اس کے رزق پر بھروسہ رکھو۔ وہی کشتی پار لگائے گا ‘۔

اتنا کہہ کر کریم بیگ اپنے کمرے میں لوٹ آئے۔ لے دے کر وہی سانپوں کا پٹارہ اُن کے سامنے کھل جاتا۔ اور سانپ بین کی آواز پر ناچنے لگتے … اپنے بوڑھے وجود پر اب اور کتنی کیلیں ٹھوکو گے کریم بیگ ؟ اب روزی کے لئے کہاں کہاں بھٹکو گے اور وہ بھی اس شہر آشوب میں جہاں سچ کی تمام زبانیں کاٹی جا چکی ہیں — تمہارے جیسے لوگ سچ کے اس کھوکھلے ڈھانچے کو لے کر ندی پار نہیں جا سکتے …

ان کی آنکھوں کے خواب مردہ ہو گئے تھے۔ آزادی کے بعد پھیلی ہوئی اس بد بو اور اس کے نتائج سے ابھی تک وہ با خبر نہیں ہوئے تھے۔

محلے سے ایک عورت رضیہ کے پاس کچھ دیر تک بیٹھی۔ پھر چلی گئی پھر جنگل کے آگ کی طرح سارے محلے میں یہ خبر عالم ہو گئی کہ کریم بیگ کی نوکری چلی گئی … صاحب نے اُنہیں نوکری سے علیحدہ کر دیا ہے۔

شام ہوتے ہی محلے کے لوگ غم و غصہ ظاہر کرنے پہنچ گئے۔ وہ جب سے نمازی ہوئے تھے۔ ان لوگوں کے بہت قریب ہو گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اب ان کا غم محلے کا غم بن گیا تھا۔ اس خوبصورت ماحول میں وہ بیحد خوش تھے۔

شام کے سات بجے سید صاحب اور شیخ صاحب بھی ٹپک پڑے۔ کچھ دیر تک ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار موقع دیکھ کر شیخ صاحب نے اپنے دل کی بات زبان پر لاہی دی۔

’’ کریم صاحب! اپنے محلے کی مسجد کے مولانا صاحب اب مدرسے میں چلے گئے ہیں۔ جگہ خالی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں۔ تو ہم آج ہی آپ کے نام کا اعلان کر دیں۔ امامت اب آپ کریں گے۔ ‘

کریم بیگ کے چونک گئے۔ اتنی بڑی ذمہ داری — پہلے تو یقین ہی نہ آیا۔ پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولے۔

’’ اس میں انکار کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘

شیخ صاحب نے دوبارہ مسکراتے ہوئے کہا۔ ‘‘ ٹھیک ہے۔ مولانا کریم صاحب! جو ہم پہلے والے پیش امام صاحب کو دیا کرتے تھے۔ وہی آپ کو بھی دے دیا کریں گے۔ ‘‘

شیخ صاحب چلے گئے۔

رات آدھی سے زیادہ ہو گئی ہے۔

عشاء کی نماز پڑھ کر لوٹتے ہوئے کریم بیگ سوچ رہے تھے۔ اللہ اپنے بندوں کو بھوکے نہیں رہنے دینا۔ اللہ ہی مالک ہے۔ اللہ ہی انتظام کرنے والا ہے … مگر انہیں کیا معلوم تھا … بد بو سے پیدا ہوا ایک زہریلا جانور بہت دیر سے اُن کے تعاقب میں ہے — اور انہیں آتشی نظروں سے دیکھے جا رہا ہے۔

(۳)

انجم کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اور گرفتاری کے لئے ثبوت کی ضرورت ہی کیا تھی۔ رات کے اندھیرے میں۔ جب گلیوں کے کتے بھی سو گئے تھے … دو خاکی وردی والے انجم کو کھینچتے ہوئے لے گئے۔ آسمان کا چاند بادلوں میں کہیں کھو گیا تھا۔ انجم کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا جا رہا تھا۔

اور جب خاکی وردی والے نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اُس کی جانب دیکھ کر کہا … میں تمہیں بد بو پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرتا ہو ں۔

تو اچانک وہ ٹھٹھا کر ہنس پڑا۔ اور ہنستاچلا گیا۔

’’ چوپ … ‘‘

اس کی بلا وجہ ہنسی دیکھ کر دونوں غصے سے چیخ پڑے۔ اور دفعتاً وہ خاموش ہو گیا۔

 اُن میں سے ایک اُسے چند لمحوں تک دیکھتا رہا پھر بولا۔

’’ تم جیسے لوفر لڑکوں کے لئے سالی رات بھر ڈیوٹی دینی پڑتی ہے — اچکے سالے نکمے دو کوڑی کے لڑکے … قانون سے مقابلے کی سوجھی ہے — بول کون کون ہے تمہارے ساتھ۔ ‘‘

وہ چپ رہا اور بے خیالی میں کھویا رہا۔

اور کون کون ہے تمہارے ساتھ۔ ؟‘‘ سوال پھر داغا گیا۔

اُس کی خاموشی برقرار رہی۔

دوسرے والے نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے … ابھی تو میں تمہیں لاک اپ میں بند کر دے رہا ہوں مگر کل میں دوبارہ آؤں گا … تمہیں سبق دینے … تمہارے دوستوں کو سبق سکھانے … کہ قانون کے ہنٹر کافی طاقت ور ہوا کرتے ہیں۔ یہ بتانے کہ حکومت مذاق نہیں ہے۔ کھیل نہیں ہے۔ گڈے گڑیوں کا تماشہ نہیں ہے۔ جو تم جیسے نپٹ جاہل بچوں کی سمجھ میں آسکے … ‘

دوسرا پھر دہاڑا —’بے روز گاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت سے ٹکر لینے لگو … اس کے خلاف ہو جاؤ … یہ بد بو تمہارے ہی جیسے لوگوں کی وجہ سے ہے … تمہارے ہی جیسے لوگوں کی پھیلائی ہوئی گندگی کی وجہ سے ہے۔ گندی ذہنیت اور گندی سوچ کی وجہ سے ہے … اور جس کا شکار آج سب کو ہونا پڑ رہا ہے … ‘‘

وہ چپ ہوا تو ا نجم کو اپنی ہنسی پر قابو پانا ایک بار پھر مشکل ہو گیا — اُسے ان لوگوں کی کم علمی پر رحم آ رہا تھا … اُس کے دل میں آیا کہ کہے اے میرے بھائی! سوچنے سے پہلے غور بھی تو کیا کرو کہ تم کیا کہہ رہے ہو … کتنا بڑا جھوٹ اُگل رہے ہو … کس قدر شرمناک تہمت دھر رہے ہو … بس یہی خرابی ہے تم لوگوں میں … خود ہی سوال کرتے ہو اور خود ہی جواب بھی بن کر کھڑے ہو جاتے ہو … اگر ہمارے چہروں پر سچ کی چنگاری سلگتی ہے تو تم اُس پر بے روز گاری کی مہر لگاتے ہو … یہ کہاں کا انصاف ہے میرے دوست، میرے بزرگ ! اور اگر تمہاری اس بات کو قبول کر لیا جائے تو۔ کہو گے … کمپٹیشن میں بیٹھو اخبارات دیکھو۔ نوکری کے سوسو اشتہارات روزانہ نکلتے ہیں … لائبریریوں میں جاؤ … درخواستیں دو … کہیں نہ کہیں تو کوئی گوٹی ضرور فٹ ہو جاؤ گی۔ اور تمہاری بے روز گاری کا خاتمہ ہو جائے گا … مگر تم ہی کہو … ملک کے سارے دماغ آئی۔ اے۔ اس کے دماغ کہاں ہو تے ہیں۔ کمپٹیشن کا سامنا ایک مڈل کلاس طبقہ نہیں کر سکتا۔ جو اپنے باپ کی ایماندارانہ کمائی کے بل پر زندہ ہے۔ کمپٹیشن دیتے ہوئے عمر ختم ہو جاتی ہے۔ سالہا سال بیت جاتے ہیں اور تھک ہار کر مجرم بن کر کسی بھی اندھے کنویں میں چھلانگ لگانا پڑ جاتا ہے۔ اور ایسے ہزاروں رُخ ہیں میرے دوست ! کہ جب یہ زبان چلے گی تو کاٹ ڈالی جائے گی …

ہاں … یہ کہہ سکتے … کہ یہ بد بو ہمارے فالج زدہ احساس کی بدولت ہے … اسے پھیلنے میں صدیاں لگتی ہیں …

 ہم بہت دیر میں جاگے …

ہم مدتوں سوئے رہے …

مگر اب جاگ تو گئے ہیں … اور جب جاگ گئے ہیں اور تمہاری آواز میں تیز بد بومحسوس کر رہے ہیں تو چپ کیسے رہیں گے … ہم اشارہ کریں گے … بتائیں گے۔ بے حسی برقرار رہے گی تو چیخیں گے چلائیں گے … اور تم تہمت دھرنے کی کوشش کرو گے تو …

ہم آواز بلند کریں گے کہ جو ہماری صداؤں پر پہرہ بٹھاتا ہو۔ ہماری حفاظت نہیں کر سکتا۔ وہ شہنشاہیت کے اس تخت سے نیچے اُتر جائے …

اور ایسے کتنے ہی خیالات تھے … جو ان طوطوں کے سامنے بیان کر نا ٹھیک نہ تھا۔ انجم چپ رہا … سب کچھ محسوس کرتے ہوئے بھی چپ رہا … ان لوگوں کے سامنے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔

اندر کتنے زخم بہہ گئے تھے …

اور اُسے امت یاد آ رہا تھا …

امت … جو کہا کرتا تھا …

’’ دوست ! اپنے زخم کسی کو مت دکھانا۔

اپنے پاس سنبھال کر رکھنا …

کہ یہ زخم صرف تمہارے ہیں یا تمہارے جیسوں کے …

دوسرا ان زخموں کو۔

بندوق کی گولی سمجھ کر تمہارا دشمن بن جائے گا … ‘‘

وقت کب ٹھہرتا ہے جو ٹھہرتا …

دوسرے دن اچانک جیلر نے اطلاع دی … ایک لڑکی تم سے ملنے آئی ہے — اور اس سے پہلے کہ وہ جاگتا — دو بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں اُسے دیکھ رہی تھیں …

’’ نمیتا تم … ؟‘‘

وہ حیرت سے بولا۔

نمیتا نے نظریں نیچی کر لیں۔

’’ یہ بتانے آئی ہوں کہ تمہارا مشن بند نہیں ہے۔ امت بھیا کے ساتھ ساتھ اب میں بھی میدان میں آ گئی ہوں۔ ‘‘

سلاخوں کے باہر سے جیسے دو خوبصورت ہاتھوں نے اُسے سہارا دینے کی کوشش کی …

’’ مگر تم آئی کیسے … ‘‘

میں نے کہا … میرا بھائی پاگل ہو گیا ہے اُس سے ملنے آئی ہوں ‘‘

اس نے نظریں چرا لیں …

’یہاں کون پاگل نہیں ہے انجم … بد بو نے سب کو پاگل بنا دیا ہے … یہ جنگ میری بھی ہے … میرے اسکول کے تمام لڑکے لڑکیوں نے اس کے خلاف ہڑتال کر دی ہے۔ اسکول کالج بند ہو گئے ہیں … یہ جنگ ہم خراب تعلیم کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں — نصابوں میں جھوٹ بھر دیا گیا ہے — تاریخ مسخ کر دی گئی ہے … یہ اعلان جنگ اس کے لئے بھی ہے … ‘‘

 اس نے نمیتا کو دیکھا … بڑے غور سے دیکھا … بڑے عجیب انداز میں دیکھا … اورسوچا … اُسے پتہ بھی نہ چلا … چھوٹی سی فراک اور نیکر پہن کر اسکول جانے والی نمیتا … اپنے اسکول کے آخری سال میں کتنی بڑی ہو گئی ہے … کتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگی ہے … وہ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اور نمیتا کہہ رہی تھی۔

تم گھبرانا مت ا نجم …

ہم سب تمہارے ساتھ میں۔ ‘‘

پھر نمیتا نے نظریں چرا لیں … ‘‘کریم چاچا بھی اچھے ہیں — اب محلے کی مسجد کے پیش امام ہو گئے ہیں۔ ‘‘

’’ کیا ؟ ‘‘ وہ چونک گیا۔

’’ ہاں ‘‘ نمیتا نے نظریں نیچی کئے ہوئے ہی جواب دیا۔ انہیں آفس سے نکال دیا گیا ہے۔ ‘‘

امت نے مٹھیاں بھینچ لیں۔ چہرہ لال سرخ ہو گیا۔

’’ میں پھر آؤں گی … ‘‘

 نمیتا نے بہت آہستہ سے کہا … اور برابر آتی رہوں گی۔

’’ ہاں آتے رہنا۔ ‘‘

انجم اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

آج ان چھوٹے چھوٹے نازک قدموں نے کتنا بڑا کام اپنے سر لے لیا ہے — مجھے تم پر فخر ہے نمیتا … آج میں تم کو ایک بالکل نئے چہرے میں دیکھ رہا ہوں … اور ایک نئی نمیتا میرے اندر جنم لے رہی ہے۔

حیرت ہے … میں تم کو آج تک نہیں سمجھ سکا۔

تم میرے قریب بیٹھی بیٹھی … سلگتی ہوئی چنگاری کو لے کر دیکھتے دیکھتے کتنی بڑی ہو گئی …

٭٭٭

 

باب پنجم

عذاب

(۱)

بد بو کم ہو گئی تھی۔ لیکن سوچنے کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ بد بو کا سیلاب تھم ضرور گیا ہے لیکن وہ کسی وقت بھی اپنا باندھ توڑ سکتا ہے … مگر اس کے باوجود اطمینان تھا کہ دفاعی تدبیروں نے اور سہنے کی قوتوں نے بد بو کے اثرات کو ختم تو نہیں مگر کم ضرور کر دیا تھا … مگر یہ کون سوچ سکتا تھا کہ اچانک … بالکل اچانک … بد بو کا ایک سیلاب پھر سے آ جائے گا … ایک ایسا سیلاب جو اُن کے تصور میں بھی نہ ہو گا … ہاں جس کے بارے میں پرانی کتابوں میں تذکرہ ضرور ہوا ہو گا …

کہ ایک دن آئے گا …

جب تمہارے ہونٹوں سے نکلے ہوئے شور بد بو دار بھبھکے بن جائیں گے … پس یہ چاروں طرف سے، تم سے لپٹ جائیں گے۔

اور تمہاری چھوڑی ہوئی ایک ایک بد بو دار سانسیں جو عرصہ دراز سے خلاء میں جمع ہو رہی ہیں، تم پر اُلٹ دی جائیں گی … اور تب تم ان کا سامنا نہ کر سکو گے۔

لوگ آسمانی کتابوں کو یاد کر رہے تھے … کہ بد بو نے سب کو اپنی حراست میں لے لیا تھا۔ بد بو پھر لوٹ آئی تھی۔

اور سب کو لگ رہا تھا — اب موت یقینی ہے …

بد بو کی شکل میں ایک عذاب آیا ہے … اور جیسا کہ دوسری قوموں کو زوال آیا — اور وہ قومیں شر، فتنہ اور فساد کی رو میں بہہ گئیں — ویسے ہی ان کا بھی زوال قریب ہے …

شاہراہوں پر بھاگم بھاگ تھی … ہنگامہ تھا۔ ریڈیو مسلسل چیخے جا رہے تھے … اور ان ساری باتوں کا نتیجہ بس یہی تھا کہ اطمینان رکھیں … اپنے دفاتر، اپنے کام نہ چھوڑیں۔ تعلیم گاہوں میں اپنے بچوں کو بھیجیں۔ ہمیشہ کی طرح مشغول رہیں … ہم نے جیسے کل بد بو پر قابو پا لیا تھا۔ اور عادی ہو گئے تھے۔ ویسا ہی اس بار بھی ہو گا …

لوگوں کے چہرے سکڑ گئے تھے۔ بد بو کی لہر سارے جسم میں دوڑ رہی تھی۔ خطرے کا سائرن سارے شہر میں بج رہا تھا … حکومت نے دفاعی اقدام بہت جلد کر لئے … ہزاروں لاکھوں پیکٹ آن کی آن میں گھر گھر تقسیم ہو گئے … بڑے بڑے ٹینکر اور گاڑیوں سے شہر کے ان تمام مقامات پر جہاں گندگیاں جمع تھیں، ہٹا لی گئیں … اور سارے شہر میں یہ اعلان کر دیا گیا … کہ ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے …

 حکومت ایسے تمام لوگوں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنے گھروں سے باہر کوئی گلی سڑی گندی چیزیں نہ پھینکیں — جہاں تک ہو سکے، ہوشیاری سے کام لیں۔ ایسی گلی سڑی گندی چیزوں کو خود ہی ضائع کرنے کے انتظامات کریں۔ جیسے اُن میں آگ لگا دیں۔ زیادہ تعداد میں ان پر بد بو مار دوائیاں چھڑک دیں … وغیرہ وغیرہ …

جنگلی جانوروں اور پرندوں میں بھی ہیبت چھا گئی تھی … عجب افراتفری تھی … وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیسی مہک ہے … کہاں جائیں … پاگل اور وحشیوں کی طرح شور کرتے ادھر اُدھر جھنڈ کے ساتھ دوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ کتنے ہی دم گھٹ جانے کی وجہ سے زمین پر بچھ گئے تھے … غرض ایک حشر برپا تھا … اور عذاب میں گرفتار آنکھیں سوچ رہی تھیں۔

کیا انہیں ایک اور زندگی بھیک میں نہیں مل سکے گی۔ ؟

کیا انہیں سدھرنے کا ایک اور موقع نہیں مل سکے گا … ؟

ایسے موقعوں پر دعائیں جاگ گئی تھیں — … الفاظ کو بخوبی یہ پتہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے کھوکھلے ہیں۔ ایک موقع انہیں اور دے دیا گیا تو پھر وہ سب کچھ بھول کر سات روزہ گناہوں میں پھر ڈوب جائیں گے …

کہ کیا تمہیں پتہ نہیں اُن دوسری قوموں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا۔ جب ان پر عذاب الٹا گیا تو وہ حق حق پکارنے لگے اور اس سے رحموں کی فریاد کرنے لگے جس پر ٹھٹھا کیا کرتے تھے !؟‘‘

بڑا عجیب وقت تھا اور بہت تعجب خیز منظر … لوگ گندگیاں جمع کر رہے تھے … اور دوڑ دوڑ کر اُن میں آگ لگاتے ہوئے چل رہے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے گندگیوں کے بارے میں جانتے بھی نہ تھے۔ بے شکن لباس پہنے موٹروں میں گھوما کرتے تھے … ان کے احساس یخ ہو گئے تھے اور آنکھوں میں ٹمٹمائی ہوئی امید جل رہی تھی۔

دماغ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں سے بے بہرہ ہو چکا تھا۔ نیندیں غائب ہو چکی تھیں … مگر ان تمام تر تدابیر کے باوجود سیلاب بڑھتا جا رہا تھا۔ شہر کے دوسرے باقی بچے علاقوں کو بھی اپنی گرفت میں لئے جا رہا تھا۔ آسمان بھی جیسے بد بو کی بارش کر رہا تھا — زمین جیسے فصلوں کی جگہ بد بو اگا رہی تھی۔

اور جس وقت شہر اس تیز بد بو کا ماتم کر رہا تھا۔ اُسی وقت آفس میں ایک بالکل نیا تماشہ جنم لے رہا تھا۔

تین چار روز قبل کی بات ہے جب پہلی بار مسز بھٹنا گر آفس سے غائب رہی — نہیں آنے کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی تھیں … کوئی کام نکل آیا ہو گا۔ بیمار پڑ گئی ہوں گی … یا کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے ؟ مس نیلی کا زخم ابھی تازہ تازہ تھا۔ اس لئے بے قراری کا دھواں آفس کے تمام لوگوں میں بھر گیا تھا۔

سب سے زیادہ غصے میں رگھو بیر تھا۔ ورما، اسلم وغیرہ خون کے گھونٹ پی کر صبر کئے ہوئے تھے۔

رگھو بیر کو غم تھا کہ اس کا پارٹنر چلا گیا۔ وہ جیسا بھی تھا اُن کے دکھوں کا ساتھی تھا۔ کیسے کیسے نیک مشورے بر وقت دے کر اُس نے لوگوں کی جان بچائی تھی … اب وہ کریم بیگ کی غیر موجودگی میں خود کو بہت کمزور محسوس کر رہا تھا … پھر سوچتا، اب یہ کمزوری خود سے الگ کرنی ہی ہو گی … آخر آفس میں اتنے سارے دوسرے دوست جو ہیں۔ اور وہ دوست بھی درندے کی صورت پہچان چکے ہیں۔

ان میں رتھ بھی تھا۔ جو رشتے کی پاکیزگی اور اُس کی حرمت سے ہی انکار کرتا تھا۔ مگر واقعات نے کچھ اس طرح کے موڑ دیئے تھے کہ وہ اپنی دنیا کا تنہا آدم بن چکا تھا۔ بس ایک دن کی بات۔ جب پولیس کسی مجرم کو تلاش کرتے کرتے اُس کے گھر میں گھس آئی تھی — اور اُس کی اکیلی بہن پر تنہائی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ رتھ جیسے آسمان سے گر کر زخمی ہو گیا تھا۔ بلند خیالات جیسے شیش محل کی طرح ڈھا گئے … اپنا کھوکھلا چہرہ لے کر کوئی کب تک جی سکتا ہے … ہنس مکھ اور زندہ دل رتھ اپنی ساری ہنسی بھول گیا … اور سنجیدگی کا بالکل نیا چہرہ لئے ہر دم کھویا کھویا۔ رہتا … یہی حال سمویل کا تھا … رتھ کے حشر نے سموئل کو بھی اندر سے زخمی کر دیا تھا … دونوں کبھی گفتگو سے بد بو پھیلانے کا کام آفس کی عمارت میں انجام دیا کرتے تھے … مگر شاید انہیں بھی اب زندگی کے خطرے کا احساس ہو گیا تھا … تبھی تو دونوں جیسے ایک دم سے گونگے ہو گئے تھے۔

اور صاحب محسوس کر رہے تھے … کہ اس خاموشی کے پس پردہ ایک بغاوت پل رہی ہے … یہ خاموشی کسی وقت بھی پھٹ سکتی ہے … کسی وقت بھی آگ بن کر انہیں جلا سکتی ہے … وقتی طور پر اُن کے اندر بکھراؤ ضرور پیدا تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح اپنی مستقل مزاجی اور خود اعتمادی کے سہارے انہوں نے ماحول پر قابو پا لیا تھا۔ وہ کتنے مضبوط ہیں … وہ بخوبی جانتے تھے … اور یہ بھی جان رہے تھے کہ یہ آنکھیں جس کو دیکھیں گی، اسیر کر لیں گی … ان کو ان آنکھوں کے تیور پر ناز تھا … دولت پر ناز تھا … کہ جس کو چاہے خرید سکتے ہیں … اپنی قوت اور قانون پر بھروسہ تھا کہ جس کو چاہتے برسوں جیل کی چکی پسوا سکتے تھے … شہر کے تمام بڑے حاکم ان کے دوست یار تھے۔

پھر انہیں ڈر ہی کیا تھا۔ ڈائیل گھمایا اور مسئلے کا حل موجود۔

اس لئے و ہ اُمید سے تھے۔

مگر — رگھو بیر کی آنکھوں میں اب اُمید کی جوت بجھ چکی تھی۔ وہ جان رہا تھا۔ کہیں یہ درندہ مسز بھٹنا گر کو بھی نہ کھا گیا ہو … اگلا شکار مسز بھٹنا گر بھی ہو سکتی ہیں۔ … رگھو بیر کا خون کھول گیا تھا … یہ لوگ صرف زندگیوں سے کھیلنا جانتے ہیں۔ اور کھیلنے کے بعد ان کھلونوں کو توڑ دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں … ان کے قد اور ہاتھوں کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے … اور اس سے پہلے کہ یہ ہاتھ انہیں بھی کھلونوں کی طرح آگے بڑھ کر توڑ دیں، ان ہاتھوں کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے … ان ہاتھوں کو آگے بڑھ کر توڑ دینا چاہئے …

کچھ یہی خیالات تھے، جو صرف رگھو بیر ہی نہیں بلکہ بہتوں کے اندر داخل ہو گئے تھے … آنکھوں آنکھوں میں زبانی اشارے ہوئے۔ اور پھر اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا گیا … کہ اب وہ وقت نہیں ہے جب ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے زہر پی جائیں … اور بس دیکھتے رہیں … تماشہ کب سے دیکھتے آ رہے ہیں …

 اس لئے جب دوسرے روم بھی مسز بھٹنا گر نہیں آئیں … اور تیسرے روز بھی ان کی غیر حاضری برقرار رہی تو یہ خوف خطرناک صورت اختیار کر گیا … ان آنکھوں میں اچانک وہی درندہ اُتر آیا جو کبھی صاحب کی آنکھوں میں موجود ہوا کرتا تھا۔ اس بیچ یہ بھی خبر ملی کہ مسز بھٹنا گر اس درمیان گھر سے بھی غائب رہیں … فلیٹ خالی ہے … اور وہاں تالہ جھول رہا ہے۔

یہ خبر ایک آگ تھی۔ اور یہ آگ سب کے دلوں میں اچانک سلگ اٹھی تھی۔ کچھ لوگوں نے جب صاحب سے یہ امر دریافت کرنا چاہا تو صاحب مسکرا کر بہانا بنا گئے … کہ بھائی … وہ میری بیوی تو ہے نہیں … کہ میں اُس کے ایک ایک پل کا حساب رکھوں … وہ کیا کرتی ہے کہاں جاتی ہے ؟ کیا کھاتی ہے … وغیرہ … وہ تمہاری ہی طرح آفس کی ایک ممبر ہے … میں نے رحم کھا کر فلیٹ دے دیا۔ باقی باتیں میں کیا جانوں ؟‘‘

صاحب نے کتنی آسانی سے بات ٹال دیا … یہ احساس سب کو تھا — صاحب کی اس مسکراہٹ سے نفرت کا سیال ان کے اندر داخل ہو گیا تھا۔ اور چوتھے روز جب تمام شہر بد بو میں گھر گیا تھا۔ شہر میں افرا تفری مچ گئی تھی۔ ایک بالکل نیا ڈرامہ آفس کمپاؤنڈ میں شروع ہو گیا تھا۔

دس بجے سے ذرا قبل آفس سیلاب کی پاگل لہروں پر ڈول رہا تھا۔ آفس سے لے کر سڑک تک لوگ کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ ایک تو بد بو کا ریلا دوسرے غم و غصہ میں بپھرے ہوئے لوگ … آنکھیں غصہ میں کھولتی ہوئیں … مٹھیاں سخت — شور آسمان کے پردے پھاڑ رہے تھے …

یہ انقلاب کی نئی کروٹ تھی۔ دفتر کے لوگ پاگل ہو گئے تھے کبھی کبھار پاگل آوارہ لہروں پر کوئی آواز صاف صاف سنائی پڑ جاتی … جس کا مفہوم بس اتنا ہوتا …

مسز بھٹنا گر کا پتہ بتاؤ …

اب تم ہمیں بے وقوف نہیں بتا سکتے …

زیادہ ہشیار نہیں بنو …

اب اس معاملے کو ہم نہیں چھوڑیں گے۔ ‘‘

پھر ملی جلی آوازوں کا سیلاب آ جاتا … اچانک تیز ہارن گونجا — باس کی بڑی سی کار بھیڑ کے چھٹنے اور راستہ کے بننے کا انتظار کر رہی تھی۔

صاحب بھیڑ دیکھتے ہی سمجھ گئے … آج پھر ان گدھوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے … پھر کچھ دانے چھینٹنے پڑ جائیں گے … انہیں خود پر پورا اعتماد تھا … کہ جو بادل گرجتے ہیں وہ برس ہی نہیں سکتے — اور وہ۔ اور ان کی آنکھیں ان چیختے دہاڑتے لوگوں کو کمزور کرنے کی قوت رکھتی ہیں …

لوگوں نے راستہ دے دیا اور صاحب کی کار آفس میں داخل ہو گئی …

صاحب سائڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔

وہ بے حد پر سکون تھے … چہرے پر ایک بھی شکن نہ تھی۔ غصے میں بھرے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر دھیرے سے مسکرائے … اور نرمی سے بولے۔

’’ جو کچھ کہنا ہو — میرے کمرے میں آ کر کہو …

 صاحب دھڑ دھڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ انہیں مکمل یقین تھا۔ یہ کمزور گیدڑ اُن کے کمرے تک آنے کی ہمت نہیں کر سکتے … پھر وہ کمرے میں داخل ہو کر ذرا دیر سکون کی سانس لیں گے … پھر ٹیلی فون کا نمبر ڈائل کریں گے … سوکھی روٹیاں ڈالیں گے۔ پولیس آئے گی اور معاملہ ختم۔

وہ مسرور تھے۔ مس نیلی کی طرح اس بار بھی انہیں اپنی کامیابی کا پورا پورا یقین تھا۔

باہر شور اور چیخ کے بادل اب بھی اٹھ رہے تھے … جیسے سارے شہر کے لوگوں کی آواز ان میں شا مل ہو گئی ہو … اور سب نے اپنی اپنی کمزوریاں اُتار پھیکی ہوں … جھوٹے دلاسے کی حقیقت کا علم سب کو ہو گیا ہو … اور ادھر بد بو پھیل رہی تھی اور اُدھر انقلاب کی کروٹ شروع ہو گئی تھی۔

صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ بے حد سکون کے ساتھ دروازہ بند کیا … ریوالوننگ چیئر پر بیٹھ گئے … سکون کی سانس چھوڑی … پھر ٹیلی فون کی طرف نظر ڈالی۔ اور ہمیشہ کی طرح نمبر ڈائل کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ ہاتھ کانپ گئے … ایک برقی لہر سارے جسم میں پھیلتی چلی گئی … وہ چونک اٹھے … آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں۔

انہوں نے سوچا بھی نہ تھا — غور بھی نہیں کیا تھا۔ سب کچھ خلاف توقع تھا …

ان کا دروازہ اچانک ہزاروں دستکوں سے چیخ اٹھا۔ جنگ کے بگل کی طرح …

وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگے … ہزاروں تھا پوں کے بوجھ سے دروازہ اس طرح چڑمڑا رہا تھا جیسے ا ب ٹوٹا اور تب ٹوٹا — چنگھاڑتی ہوئی آوازوں نے ریوالوننگ چیئرپر بیٹھے اُن کے وجود کو سرد کر دیا تھا۔

وہ اس انقلاب کے بارے میں سوچ نہیں سکے تھے — تھکے ہوئے بوجھل قدموں کے ساتھ آگے بڑھے اور دروازہ کھول دیا۔

پھر ہزاروں لوگ کودتے پھاندتے، غصے میں چیختے چلاتے اندر داخل ہو گئے … سب کے چہرے آگ کی طرح سلگ رہے تھے۔ آنکھیں لہو اگل رہی تھیں۔

اور …

انقلاب کی اس نئی کروٹ سے وہ ابھی تک واقف نہیں ہوئے تھے …

(۲)

بد بو کا سیلاب بڑھتا جا رہا تھا۔

موت کو اتنے قریب سے دیکھ کر ایک لرزہ دینے والا خوف لوگوں کے دلوں میں سرایت کر گیا تھا۔ وہ اتنے خوفزدہ آج سے قبل کبھی نہ تھے۔ اُن کے حواس نے جیسے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ سڑکوں، شاہراہوں پر لوگوں کا زبردست مجمع لگا رہتا …  حکومت کی نا اہلی اور نا کارے پن کی کہانیاں سنائی جاتیں — مخالف پارٹی والوں کے شور الگ فتنہ فساد کھڑا کئے ہوئے تھے … کوئی وقت ایسا نہ ہوتا جب شاہراہوں سے غصے میں بھرا ہوا جلوس نہ نکلتا ہو، جلوس میں سارا شہر سمٹ آتا … آسمان جو شیلے نعروں سے گونج اٹھتا — بے چاری پبلک تو بیوقوف ہوا کرتی ہے۔ وہ کانوں اور آنکھوں پر دماغ سے زیادہ بھروسہ کرتی ہے۔ تباہی و بربادی کی خبریں آ رہی تھیں۔ اور سڑکوں پر حکومت کے پتلے پھونکے رہے تھے — ایک جگہ سے خبر آئی۔ ‘‘ پولیس کی انتقامی کارروائی نے سیکڑوں مجرموں سے ان کی آنکھیں چھین لیں۔ ‘‘ شہری حقوق میں رد و بدل کی زبردست ضرورت محسوس کی جا رہی ہے … پریس کی آزادی پر پابندی لگا دی گئی ہے … ‘‘ اپنے ملک میں لگی ہوئی آگ کا حکومت پر کوئی اثر نہیں — حکومت دوسرے ملک میں لگی آگ بجھانے میں نمایاں رول انجام دے رہی ہے … ‘‘

 لوگ باغی ہو رہے تھے۔ ملک کی زمین نئے انقلاب کو محسوس کر رہی تھی — ایک بار پھر بڑے پیمانے پر ستیہ گرہ کا اعلان ہو رہا تھا۔ ملک سے ایسے لوگوں کا گروہ کھڑا ہو گیا تھا جو صاف ستھری سیاست پر زور دے رہا تھا۔

اس طرح کا ایک ہلکا سا اشتہار آپ ملاحظہ کیجئے۔

بد بو کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دیجئے۔

ہمارے رہنما رشوت خوری اور برائی کے راستے پر چل رہے ہیں۔ سونے کی چڑیا کہلانے والا ملک قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے۔ بھروسہ مٹ چکا ہے۔ سماج اور معاشرہ ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ چاروں طرف آگ لگی ہے۔ رشتے بازار میں کھو گئے ہیں۔ تہذیب کے پرزے بکھر گئے ہیں۔ اور اسی لئے مہا ماری کی شکل میں بد بو ملک میں پھیلی جا رہی ہے۔

اس بد بو کو دور بھگانے میں ہماری مدد کیجئے۔ خدا کے بھیجے گئے اس عذاب سے باہر نکلنا ضروری ہو گیا ہے — حکومت نا کارہ ہے اور اس لئے — اب آپ کو سامنے آنا ہو گا —‘‘

تو یہ سب ہو رہا تھا کہ آنکھیں کھلنے کے بعد طلسم ہو شربا کا شہزادہ ہاتھ میں تنگی تلوار لئے سامنے کھڑے دیو کو بخوبی دیکھ رہا تھا۔ اور وہ اب اُس کے ساتھ جنگ کے لئے بالکل تیار ہو چکا تھا۔

اور اِدھر —

وہ مذہبی عبادت گاہیں جو ابھی تک سنسان اور ویران پڑی تھیں۔ اب اُن میں بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ مسجدوں سے اللہ ہو اکبر کی تیز صدائیں گونجا کرتیں۔ جو اپنے اپنے بڑے بڑے فلسفوں کے درمیان مذہب سے بالکل ہی کٹ چکے تھے اب پابندی وقت سے وضو کرتے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے نظر آتے۔ زندگی میں جب بھی بکھراؤ آیا ہے۔ یہ بکھر اؤ مذہب نے ہی کم کیا ہے۔ مندروں کے گھنٹے ہر وقت بجتے رہتے۔ رادھا کرشن کے بھجن ہر طرف ہو رہے تھے۔ کہیں جپ کیا جا رہا ہوتا۔ گور دوارے اور اس طرح کے دوسری مذہبی مقامات پر ماننے والوں کا زبردست مجمع دکھائی دیتا۔ مذہبی رہنما اپنی اپنی قوم کے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے نظر آئے۔

کہ اے لوگو … !

اُس سے ڈرو … پناہ مانگو … جو چاہے تو تم پر پتھروں کی بارش کر دے۔

تم اپنے گناہوں کے لئے رو رو کر معافی مانگو … ہاتھ پھیلاؤ کہ بد بو کا عذاب فقط اُس کی دین ہے۔

تمہاری آج تک اچھالی گئی چیخوں کا سبب ہے …

تمہاری سوئی ہوئی آنکھوں کا عذاب ہے …

لوٹو …

لوٹو اس کی طرف

کہ ایک دن تمہیں اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔

یہ دنیا محض آخرت کے لئے ایک زاد راہ ہے … تاکہ اچھا کرو … نیک اعمال ہو گا تو نیک پھل ملے گا اور آخرت میں ایک ابدی محل کی بنیاد پڑ سکے گی … اس لئے اس کی اطاعت کرو۔ پیروی کرو … کہ وہی سب سے بڑا بادشاہ ہے …

اور ایک طرف دعائیں، فرشتے ہتھیلیوں پر لئے عرش بریں کی طرف اڑتے جا رہے تھے اور دوسری طرف شاہراہوں پر نفرت اور غصے کا پتھراؤ چل رہا تھا …

اور حکومت ان معاملات میں چپ نہیں تھی۔ اُس نے ایسے اشخاص کی۔ جو حکومت کے معاملے میں دخل اندازی کر رہے تھے، اس کے کام کی رکاوٹ بن رہے تھے۔ گرفتاری کا حکم جاری کر دیا تھا — بے دھڑک گولی مارنے کی یہاں تک کی سزائے موت کا اعلان بھی کیا جا چکا تھا۔

یہ خبر نہیں ایک آگ تھی۔

بد بو کا عذاب ہی کیا کم تھا … اس خبر نے لوگوں کو بہت زیادہ بھڑکا دیا تھا۔ انقلاب کے لئے جس چھوٹی سی چنگاری کی ضرورت تھی وہ وہ شاید حکومت نے مہیا کر دی تھی۔ بے چینی لوگوں میں پیدا ہو رہی تھی۔ اور جب رہی سہی اُمید بھی ٹوٹنے لگی تو ان کا غصے میں وحشی ہونا واجب تھا۔

وہ اخبارات جو زہر اگلتے تھے … حکومت کے خلاف نکتہ چینیاں کرتے تھے، غلط افواہیں۔ پھیلانے کے جرم میں مالکوں کی بھی۔ گرفتاریاں عمل میں آ رہی تھیں … کئی جگہوں سے مشتعل عوام پر گولی چلانے کی خبریں بھی موصول ہوئی تھیں … اور ایسا لگ رہا تھا جیسے … جنگل میں ایک تیز آندھی آ گئی ہے۔

ایسی خوفناک آندھی جنگل میں اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھی۔

جنگل لرز رہا ہے …

اور جنگل کے حکمراں شیر کو زخمی کر دیا گیا ہے —

زخمی شیر پاگل ہو گیا ہے … خوفناک ہو گیا ہے۔

وہ سارے جنگل کو روندتا پھر تا ہے۔

مصیبت چاروں طرف سے آیا کرتی ہے … سیاست حاوی تھی — مگر ان سب کے باوجود لوگ خوفزدہ تھے … بد بو برقرار تھی …

اب ان سارے مسئلوں کا صرف ایک حل نظر آتا تھا …

موت —

صرف موت۔

جنگل کے زخمی شیر کے ڈر سے لوگ کب تک اپنے گھروں میں چھپے رہے سکتے تھے … ایسے عذابی موسم میں بھی وہ قصے‘ وہ کہانیاں، وہ افسانے ختم نہیں ہوئے … روز مرہ کے عام واقعات میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی … اتنے بکھراؤ کے باوجود سماج میں وہی پرانی کہانیاں بار بار دہرائی جا رہی تھیں … غلطیوں کے باوجود پرائشچت کی کوشش نہیں کی گئی … کمزوریوں کو ہوا دی گئی … شاید دنیا کا سفر اسی طرح جاری رہتا ہے —

اپنی خراب طبعیت کے باعث جب کریم بیگ کسی وقت مسجد نہیں پہنچ پاتے اور نماز کا کوئی وقت ان کے ہاتھ سے نکل جاتا تو نمازی پریشان ہو جاتے۔ پہلے تو ان کی غیر حاضری کو ان کی بیماری کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا — لیکن یہ سلسلہ برقرار رہا تو محلے کے لوگ ایک ایک کر کے اُن کی مخالفت پر اُتر آئے۔ بد بو کے عذاب سے نمازیوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا تھا۔ پھر کون چاہتا کہ کسی وقت کی بھی نماز قضا ہو جائے — جب کریم بیگ کی غیر حاضری کا یہ سلسلہ قائم رہا تو پہلے مسجد میں محلے کے لوگوں کی ایک بیٹھک ہوئی۔ کچھ مشورہ ہوا … اور پھر سید صاحب کریم بیگ سے ملنے اُن کے گھر پہنچ گئے۔

پھیلی ہوئی تیز بد بو نے کریم بیگ کے جسم کو کمزور کر دیا تھا۔ نقاہت اس قدر آ گئی تھی کہ چلنا دشوار ہو گیا تھا۔ آنکھیں دھنس گئی تھیں۔

اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر کریم بیگ نے حیرت ظاہر کی … اور کمزور آواز میں بولے …

’’ بھائی بزرگو! اللہ مجھے معاف کرے … اب چل نہیں ہوتا … بیٹا جیل میں چکی پیس رہا ہے … اور یہ آنکھیں اب کمزور ہو گئی ہیں —

’’ پھر ہم کوئی دوسرا انتظام کر لیں ؟‘‘

سید صاحب نے صاف صاف لہجے میں فیصلہ سنا دیا …

کریم بیگ چھن سے رہ گئے … وہ تو تسلی کی امید لئے بیٹھے تھے۔ جسم کے کمزور حصے پر چاقو سے وار کرنے کی بات تو سوچ بھی نہ پائے تھے … اچانک بہت کمزور پڑ گئے — پھنسی پھنسی آواز میں بولے۔

’’ جیسی مرضی آپ لوگوں کی … اب مجھ سے چل بھی نہیں ہوتا — آگے اللہ مالک۔ ‘‘

گردن جھک گئی … ہاتھ جھول گئے …

سید صاحب چلے گئے —

شیخ صاحب چلے گئے —

کریم بیگ سکتے کے عالم میں بستر پر پسر گئے —

(ایک جانور جب ہمارے درمیان سڑ گل جاتا ہے تو کیا ہم اُسے باہر پھینکنے کا انتظام نہیں کر لیتے؟)

غم تو یہ تھا کہ یہ پہاڑ جیسا بڑھاپا کیسے کٹے گا۔ ؟ کون سی صورت نکلے گی ؟ بوڑھے کمزور بدن کو کون سہارا دے گا۔ ؟

کریم بیگ نے ایک ڈوبتی ہوئی سانس لی۔

’’ اسی نے یہ بوجھ جیسا بڑھاپا دیا ہے۔ وہی انتظام بھی کرے گا ‘‘

آسمان سے کتنے ستارے ٹوٹے اور کریم بیگ کی آنکھوں میں داخل ہو گئے … آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی — رضیہ کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں …

٭٭٭

 

باب ششم

اسپتال

یہاں موت ہی موت ہے

اور زندگی گم ہو گئی ہے

’’ زندگی کی سچائیاں جاننا چاہتے ہو

تو اسپتال جاؤ ؍

یقین جانو۔ وہاں الگ الگ بستروں پر کراہتے سسکتے

اور گھناؤنے مریض کوئی اور نہیں ‘ تم ہو!

یقین جانو۔ نئی تہذیب نے

 تمہاری اصلیت چھپا دی ہے۔

ورنہ تم بھی کینسر وارڈ کے چھٹپٹاتے ہوئے مریضوں میں

سے ایک ہو۔ ‘‘

(۱)

امت ابھی ابھی گھر لوٹا تھا۔ ساری رات کا تھکا ہارا … رات بھر وہ اِدھر اُدھر اسپتالوں کے چکر لگاتا رہا۔ مریضوں کی بدتر حالت اور اُس سے بھی بدتر اسپتالوں کا انتظام اُس سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ دماغ کی نسیں پٹخ رہی تھیں … ملک میں کتنی خرابی آ گئی ہے — لوگ باگ اپنی اپنی ڈیوٹی بھول چکے ہیں … انسانی محبت ان کے درمیان سے عنقاء ہو چکی ہے … وہ اسپتالوں میں دیکھ آیا تھا۔ ڈاکٹر اور مریض کے بیچ اب کیا رشتہ رہ گیا ہے — نفرت اور حقارت کا رشتہ — امت سوچ رہا تھا — محض نعرے لگانے سے کچھ بھی نہیں ہونے والا … سوائے اس کے کہ ایک جنگلی جانور کو چھیڑ دیا جائے تو وہ غصے میں الٹا وار کرنے پر تل جاتا ہے … رات بھر وہ اور اس کے ساتھی مختلف اسپتالوں اور کیمپوں کے چکر لگاتے رہے … دوائیوں اور فوری ضرورتوں کی تکمیل کرتے رہے … رات کا ایک حصہ ختم ہوا ہو تو دوست رخصت ہو گئے مگر امت رہ گیا — صبح جب وہ لوٹا تو خاصہ تھک چکا تھا۔ سوچا تھا کہ آدھا ایک گھنٹہ لیٹ کر طبیعت ہلکی کرے گا کہ اچانک اسی وقت کچھ لڑکے ٹپک پڑے۔

امت چپل پہن کر فوراً باہر نکلا۔

 ’’ کیا خبر لائے ہو ؟‘‘

’’ حالت اچھی نہیں ہے دوست۔ مریض بڑھتے جار ہے ہیں۔ حفاظتی کیمپوں اور اسپتالوں میں اب کوئی جگہ نہیں رہ گئی ہے۔ ‘‘

’’ اب کیا کیا جائے۔ ‘‘

’’ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔

امت نے کچھ سوچتے ہوئے کہا … یوں بیٹھے بیٹھے تو کسی مسئلے کا حل نکل نہیں سکتا۔ ‘‘

’’ تم رات بھر کے جاگے ہوئے ہو دوست ‘‘ — ایک لڑکے نے یاد دلاتے ہوئے کہا۔ ‘‘ بس تم ہمیں مشورہ دے دو۔ ہم سنبھال لیں گے ‘‘

’’ نہیں ‘‘

امت دھیرے سے مسکرایا۔ ’’ میرے جاگنے کی بات چھوڑ دو۔ رات بھر میں کتنے مریض بھگوان کو پیارے ہو گئے، بتا سکتے ہو ؟۔ اس لئے ایسے وقت میں جاگنے اور سونے کی بات ہی ختم کر دو۔ سوال ہے اب کیا کیا جائے … یوں ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کچھ ہونے والا نہیں ے۔ اب عمل کی ضرور ہے۔

امت تھوڑا ٹھہرا … پھر دوستوں کے چہروں کا جائزہ لیتا ہوا بولا … ‘‘ تم جانتے ہو محبت میں بڑی قوت ہوتی ہے … ایک مریض بیمار ہے۔ ہم اُس کے سامنے اگر کڑوی باتیں کرتے ہیں تو اسے رنج پہنچتا ہے اور بیماری مزید بڑ ھتی ہے۔ مگر اس کے بر خلاف ہم اُس کے سامنے محبت کی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں تو محبت کی یہ فضا مریض کو اچھا کر دیتی ہے … مریض محبت کھوجتے ہیں — محبت آدھی بیماری غائب کر دیتی ہے۔ اور یہ محبت نہ اسپتالوں میں ملتی ہے۔ نہ ان کے کیمپوں میں بٹتی ہے … وہاں صرف سخت چہرے نظر آتے ہیں۔ اور ڈیوٹی پوری کرنے والا حاکم دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے …

ہم انہیں محبت دیں گے … محبت سکھائیں گے … انہیں حوصلہ دیں گے … مرض سے لڑنا بتائیں گے … زندگی کی خوبصورتی سے آگاہ کریں گے … کہ بیماری کے دوران ان کے درمیان سے زندگی کی خوبصورتی غائب ہو جاتی ہے … اور موت کا ہولناک سناٹا رہ جاتا ہے … ہم بتائیں گے کہ یہ دنیا کتنی خوبصورت ہے … جینے والے کتنے خوش قسمت ہیں … اور یہ زندگی کتنی خوبصورت شے ہے … آسمان کتنا چمکیلا ہے … زمین کیسی سبز ہے۔ کیسے نیارے نیارے لوگ ہیں۔ کیسے کیسے عجوبے ہیں … ہم انہیں زندگی کی رعنائیوں سے آگاہ کریں گے … ان کی تیمار داری کریں گے۔ اور یہ یقین ہے … کہ محبت کی اس خوشگوار فضا میں وہ ضرور اچھے ہو جائیں گے — ‘‘

امت کی آنکھیں خوشی سے اُبل رہی تھیں … وہ ذرا دیر کو ٹھہرا … پھر ان کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

’’ دوستو ! میرے دماغ میں ایک خیال آیا ہے … خیال تو نا ممکن سا ہے … مگر ہم لگ جائیں گے تو ممکن ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’ تم بتاؤ تو سہی۔ ‘‘ اصغر جوش میں بولا …

’’ ہم وہ ممکن کر دکھائیں گے — ‘‘ پرتپال سنگھ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

’’ محبت کی یہ تعلیم ٹالسٹائی نے بھی دی تھی۔ رانا بولا۔ ’’ اور گاندھی جی نے اسی تعلیم کی روشنی میں اہنسا کا مارگ اپنایا تھا۔ تم حکم کرو …

’’ ٹھیک ہے۔ ‘‘

امت دوستوں کا جوش و خروش دیکھ کر بولا … ’’ تم سب دوستوں کو لے کر بڑھیا پھاٹک پر جمع ہو۔ میں دس منٹ کے اندر اندر وہاں پہنچ رہا ہوں۔

آسمان سورج نمودار ہو چکا تھا۔ چاروں طرف پر روشنی ہی روشنی پھیل گئی تھی۔

پھر سب دوست ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے کاموں میں گم ہو گئے۔ اور آدھا گھنٹہ بعد ۲۵۔ ۲۰ لڑکوں کا جھنڈ بڑھیا پھاٹک والے میدان میں سنجیدگی کی مورتی بنا ہوا نئے مشن کے بارے میں غور کر رہا تھا۔

اور امت کہہ رہا تھا۔

دوستو! ذرا سوچو … غور کرو … یہاں کی فضا بگڑ گئی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود کو ان کے حال پر ‘ رحم و کرم پر چھوڑ دیں — کیا ہمیں صرف انہی پر منحصر رہنا ہو گا۔ ؟ کیا ہم خود ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتے جسے وہ بغیر محبت کے محض ڈیوٹی کے تحت انجام دے رہے ہیں — ہمارے اندر جوش ہے۔ محبت ہے۔ میل ملاپ ہے۔ اور ان تین چار دنوں کی دوڑ دھوپ کے بعد ان کے وہ ناقص انتظامات بھی ہماری نظروں سے سے اوجھل نہیں ہیں۔ اب کوئی تبصرہ کرنا بیکار ہے۔ اس لئے ہم نے سوچ لیا ہے۔ ہم صرف کام کریں گے … اور کام کریں گے۔

امت نے ٹھہر کر دوستوں سے دریافت کیا … تو تم سب تیار ہو ؟‘‘

’’ ہاں ‘‘

مضبوط ہاتھ ہوا میں اٹھ گئے —

’ٹھیک ہے۔ اب وقت برباد کرنا بے کار ہے … ہم سب کو اسی وقت سے کام میں جٹ جانا چاہئے۔ ہم اپنے اپنے کام اس طرح سے بانٹ لیتے ہیں … آپ میں سے کچھ لوگ میرے ساتھ چلیں گے۔ ہم نے جگہ کے بارے میں غور کر لیا ہے۔ رمنہ میدان میں ہم اپنا الگ ایک حفاظتی خیمہ نصب کریں گے۔ وہاں کی زمین صاف کریں گے اور وہاں اپنے خیمے لگائیں گے … جس سے جو ہو گا … اپنے اپنے گھروں سے چار پائیاں پلنگیں لے آئے گا … یہ مریضوں کے بستر کے کام آئیں گی۔ کچھ لوگ شہروں میں بٹ جائیں گے … اور رکشے، ٹیمپو والوں کو مناسب معاوضے پر ٹھیک کر لیں گے۔ ان کا کام ہو گا بد بو کے بیمار مریضوں کو یہاں تک لانا۔ ہمارے خیموں میں داخل کرنا۔ ان مریضوں کے لئے دوڑ دھوپ بھی ہمیں ہی کرنا ہو گا۔ ضرورت پڑنے پر ڈاکٹروں کو بلایا جائے گا — میرے کچھ دوست ڈاکٹر ہیں۔ میں انہیں مدد کے لئے مجبور کروں گا — ہم ان مریضوں کو محبت دیں گے۔ حسین زندگی کے فلسفے کی سیر کرائیں گے۔ اور اُن کے مردہ جسم میں جینے کی امنگیں پیدا کریں گے …

امت کی آواز کانپ رہی تھی … وہ جیسے ہی خاموش ہوا۔ کئی مضبوط ہاتھ ہوا میں اُٹھ گئے۔ ’’ ایسا ہی ہو گا میرے دوست — ایسا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’ ہم تیار ہیں اور اسی وقت سے اپنا کام شروع کرتے ہیں۔

’اب ہم دوسروں پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ ‘

امت کے چہرے پر مسرت سمٹ آئی … آنکھوں میں انجم کی تصویر تھی۔ وہ آہستہ بولا — دوست … ہم تمہارے ہی بتائے گئے راستے پر چل رہے ہیں۔ تمہاری بہت یاد آتی ہے … ‘

(۲)

یہ ایک بڑا سا کھلا میدان تھا اور یہاں ا س وقت کافی چہل پہل اور رونق دیکھی جا رہی تھی۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی جماعت دوڑ دوڑ کر کام میں مصروف تھی۔ گھاس پات کاٹے جا چکے تھے۔ کانٹوں کی جھاڑیاں صاف کی جا چکی تھیں۔ کئی خیمے ان میدانوں میں نظر آ رہے تھے … ان سے الگ بھی کئی چار پائیاں اور چوکیاں بھی مختلف جگہوں پر بچھی ہوئی تھیں — دوسری طرف رکشے والوں اور ٹیمپو والوں کی قطار نظر آ رہی تھی —

میدان کے باہر بلو ہی زمین دور تک چلی گئی تھی۔ کچے پکے مکان اور گمتیوں والی متعدد دکانیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور ان آنکھوں میں جہاں بے رونقی اور ویرانی اپنا ڈیرا وقت ڈالے رہتی تھی، اب وہاں سے اطمینان اور سکون جھلک رہا تھا —

چار پائیوں پر کچھ تھکے ہارے جسم ابھی ابھی سستانے بیٹھے تھے — خیموں میں مریضوں کی لمبی قطار دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دوسرے مریض خیموں سے الگ چوکیوں اور چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔

امت کے پور پور سے خوشی کی ترنگیں پھوٹ رہی تھیں۔ اس وقت اُس کے دوستوں کی فوج اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھی۔

’’ دیکھا سب کے سب کتنے خوش ہیں۔ ‘‘

امت لہراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’ بد بو محض ایک وہم ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ سب اس نئی بلا سے ڈر کر وہم کے شکار ہو گئے — در اصل یہ بد بو اپنے آپ کی کمزوری کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘‘

ایک مریض نے آہستہ سے کروٹ بدلی۔ پھر دھیرے سے کچھ گنگنایا — امت نے اُس کی جانب دیکھ کر ہاتھ جوڑ دیا۔ ’’ پر نام بوڑھے بابا … !‘‘

بوڑھے نے مسکرانے کی ہلکی سی کوشش کی۔

امت دوبارہ بولا … میرے بوڑھے بزرگ! دیکھا نا؟ کیسا وہم بھر دیا تھا ہم لوگوں میں ان اندھ وشواسی لوگوں نے … لعنت ہو ان بھیڑیوں پر کہ خواہ مخواہ سب کو خوفزدہ کر دیا — ذرا پلٹ کر دیکھئے تو … ان تمام آنکھوں میں … جو خیمے میں لگے بستروں پر۔ چوکیوں اور چارپائیوں پر لیٹے نیلے آسمان کی وسعتوں کو دیکھ رہے ہیں … کیا ان میں بیماری نظر آ رہی ہے؟ نہیں نا … بیماری کوئی چیز نہیں ہے۔ جسم تھک جاتا ہے تو ہم بیماری کہہ دیتے ہیں۔ معاشرے کا نظام در ہم برہم ہو جائے تو بد بو کہہ دیتے ہیں۔ ظاہری حقیقت ہمیشہ ایک دیگر شے رہی ہے …

اب وہ مسکراتا ہوا پلنگ پر لیٹے ہوئے اس مریض سے خیریت دریافت کر رہا تھا — اُسے بہلا رہا تھا … دلاسہ دے رہا تھا … ہاں تو کیا کہتے ہیں با با …

’فلسفہ … زندگی کا ایک فلسفہ ہے … ’’ بوڑھا ہڈی چمڑا آہستہ سے ہنسا …

’’ ہاں فلسفہ ہے … بڑی ٹیڑی کھیر … زندگی ہماری تمہاری سمجھ سے باہر … سنو گے … ؟‘‘

’’ ہاں … ’’ بوڑھے کی آنکھوں میں چمک لہرائی …

پھر امت نے چھوٹے چھوٹے جملے میں اُسے بتایا … یہ جو آسمان ہے۔ وہ آسمان نہیں ہے — جو زمین ہے وہ زمین نہیں ہے — جو بھوک ہے وہ بھوک نہیں ہے۔

’’ تو کیا ہے ؟‘‘ بوڑھامسکرا رہا تھا۔

’’ جینا صرف جینا —‘‘ امت قہقہہ لگا کر ہنسا … یہ سب جینے کی باتیں ہیں … اور جینا کتنا خوشگوار ہوتا ہے … ہم آسمان کا نیلاپن دیکھتے ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ پرندے، چرندے، سبزہ،وادیاں دیکھ کر ہمیں مسرت ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا۔ اور سائنس کہتا ہے آسمان دھوکہ ہے … اب بتاؤ ہے تو ہمیں کیا لینا … اچھا لگتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔ بھوک لگتی ہے تو کھاتے ہیں … تم بھی کھاؤ گے … ؟‘‘

’’ نہیں۔ ‘‘ بوڑھے کی مسکراہٹ اچانک غائب ہو گئی۔ کچھ تاریک پر چھائیاں اُس کے چہرے پر سمٹ آئیں۔ وہ کئی دنوں سے کچھ کھا پی نہیں رہا تھا۔ اپنے خاندان میں وہ اکیلا بچا تھا۔ بس کچھ ہی دنوں قبل بڑے چھوٹے کے جھگڑوں میں اس کے گاؤں میں آگ لگا دی گئی۔ اور اُس کا گھر بھی اس آگ کا شکار ہو گیا۔ جلے ہوئے لوگ اسپتال پہنچائے گئے۔ اور اسپتال والوں کی بے توجہی نے اُس کے خاندان کے تمام لوگوں کو اُس سے جدا کر دیا اپنی زندگی بھول گیا — اس غم میں وہ خود بھی موت کے منہ میں تھا۔ مگر امت اور اس کے دوست موت کے منہ سے نکال کر اُسے باہر لے آئے تھے۔

جب بڈھے نے کھانے سے انکار کر دیا تو امت اُس کے پاس بیٹھ گیا۔ اُس کے سوکھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے — اُس کے چہرے پر غم ہی غم سمٹ آیا تھا … آنکھوں میں قدرے آنسو بھرے وہ کہہ رہا تھا …

’’ بابا … ہم جینے کے لئے خاندان بناتے ہیں … اپنے آپ کو خوش رکھنے کے لئے — زندگی کافی لمبی ہے … طویل ہے … ایک ایک لمحہ جینے کے لئے پیار اور محبت کی ضرورت پڑتی ہے … جو اپنوں سے ‘ اپنی مٹی سے ملتی ہے … در اصل بابا … ہم سب اکیلے ہیں … اکیلے ہی آئے ہیں … اس لئے زندگی کے آنے جانے کے سلسلے کوبھول کر چپ ہو جاؤ … ایک خاندان نہیں رہا تو تمہیں گھبرانے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے … دیکھو بابا … چاروں طرف کا جائزہ لو … سب مل کر ایک خاندان بن گئے ہیں۔ ایک بڑا خاندان … کل تک ایسا نہیں تھا مگر ذرا غور سے دیکھو … محبت کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ان لوگوں پر رحم کھاؤ … سب بغیر تھکے تمہیں آرام دینے کے لئے، تمہاری محبت پانے کے لئے جئے جا رہے ہیں۔ اس امید پر کہ جب تم اچھے ہو گے تو انہیں پیار دو گے۔ اور یہ تمہاری شفقت کے سائے تلے آگے بڑھیں گے … بابا! سب ایک خاندان ہیں … فرق مٹا تو نہیں مگر مٹ رہا ہے۔ تمہاری ضرورت ہے … کھالو … میری نہیں تو محبت کی بات مان لو … اور کھالو …

امت کی آواز بھرا گئی — آنکھوں میں آنسو اُتر آئے — اچانک بابا چونک اٹھا … اندر جیسے گرم خون نے ابال مارا ہو … گونگے بہرے جذبات میں ہلچل مچ گئی … اس نے امت کو دیکھا … بے پناہ محبت بھری آنکھوں سے دیکھا … پھر ہڈیاں کڑ کڑائیں … امت نے آہستہ سے سہارا دیا … اور تازہ رس گلے بابا کے پوپلے منہ کے حوالے کر دیا …

’’ کون کہہ سکتا ہے محبت مر گئی۔ ‘‘

 بابا آہستہ سے بڑ بڑایا —اب وہم مر گے گا … ہمارے دماغ میں گھسا ہوا وہم مرے گا اور محبت پھر سے زندہ ہو گی۔ ‘‘

’’ اب تم لیٹ جاؤ … ‘‘

امت نے سہارا دیتے ہوئے بوڑھے کو پھر سے لٹا دیا۔ ’’ گھبرانا نہیں۔ میں پھر تمہارے پاس آؤں گا … خاندان بہت بڑا ہے نا۔ سب کی دیکھ ریکھ کرنی ہے … بس اچھی طرح سے لیٹے رہنا …

بابا مسکرایا۔ آہستہ سے ہاتھ اوپر کیا — جیسے آشیرواد  دے رہا ہو …

پھر امت اپنے دوستوں کے جھنڈ کے ساتھ آگے بڑھ گیا … بوڑھے سے ذرا دور جا کر وہ اپنے دوستوں سے مخاطب ہوا …

’’ دیکھا … انہیں دوا سے زیادہ محبت کی ضرور تھی۔ جس کا اسپتالوں میں اور حاکم کہلانے والے وردی پوشوں میں فقدان ہے — اس بابا کو دیکھا … اگر اسے پیار نہ ملتا تو وہ کل تک دم توڑ چکا ہوتا … اس کا سارا خاندان تباہ ہو گیا۔ پھر بھی پیار اور محبت کے،زندگی دینے والے جملوں نے اس کی جان بچا لی … اب بس یہی دعا کرنا ہے کہ وہ دن جلد آئے جب ہم سب مل کر ایک خاندان بن جائیں ‘‘

’’ آمین ‘‘ — اصغر نے آہستہ سے کہا۔

 امت اور اُس کے دوست اب دوسرے مریضوں کی طرف بڑھ گئے … اچانک امت ٹھہر گیا … یہ ایک نوجوان تھا … دبلا پتلا ہڈی کا ڈھانچہ۔ بدن سے جیسے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ چہرے پر جذبات کا کوئی رنگ نہیں۔ اس شخص نے آنکھیں بند کئے ہی ان کے قدموں کی آہٹ پہچانی — پھر ویسے ہی آنکھیں بند کئے ذرا زور دار آواز میں بولا۔

’’ گڈ مارننگ میرے پیار ے دوستو!‘‘

’’ گڈ مارننگ ‘‘

سب ایک ساتھ مسکراتے ہوئے بولے۔ ‘‘ آپ اچھے تو ہیں۔ ‘‘

’’ ہاں۔ بالکل۔ دیکھ رہے ہونا؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ ایک پھیکی سی ہنسی ہنسا — سب پاس والی خالی چوکی پر بیٹھ گئے۔

وہ شخص پھر بولا … ’’ میرے نوجوان ساتھیو ! میں تم لوگوں سے بہت متاثر ہوں۔ اور کل والی تمہاری بات سے بھی۔ یاد ہے کل تم لوگوں نے انسانی حقوق کی بات کی تھی۔ میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ تم نے کہا تھا۔ غلطی ہم سے ہوتی گئی اور ہم اپنے حقوق کو بھولتے چلے گئے۔ اور سب کچھ کٹھ پتلی نچانے والے کے حوالے کر دیا اور کٹھ پتلی بن گئے … کہا تھا نا … ؟

’’ ہاں ‘‘ امت کھلکھلایا۔ کہا تو تھا۔ مگر میرے فلاسفر دوست تمہیں کل والی بات اچانک یاد کیسے آ گئی۔

وہ ہنسا … ’’ ا نسانی حقوق کی بات تھی نا۔ اسی لئے یاد رہ گئی۔ ارسطو نے کہا تھا۔ Man is born free but Everywhere he is in chains

میں کل انہی زنجیروں کے بارے میں سوچ رہا تھا … پھر اچانک خیال آیا۔ ایک مرد ہ حقوق کے بارے میں سوچ ہی کیا سکتا ہے۔ اور مردے کا حقوق بھی کیا … ‘‘

اچانک وہ چپ ہو گیا۔

امت چونکا اور سب کے سب جیسے گونگے ہو گئے۔

پھر بڑے ڈرامائی انداز میں اس شخص نے اپنی ایک آنکھ کھولی۔ پھر اچانک دوسری۔ ہونٹوں سے ایک تیز سیٹی ماری … اور قہقہہ لگا کر ہنس پڑا …

’’مجھے دیکھو دوستو … مجھے … تم ایک مردے کو کل انسانی حقوق کے بارے میں بتا رہے تھے نا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں … ایک مردے کو جس کی بیماری کا علاج کرتے ہوئے ڈاکٹر اس کے پیٹ میں انجکشن بھول آیا تھا۔ اور پھر دوبارہ آپریشن میں اتنا خون ضائع ہو گیا کہ اس بچنے کی اُمید صفر برابر رہ گئی …

’صرف موت کا انتظار ہے دوست۔ ‘

بڑے بہادر بنتے ہو … بس اتنی سی بات سے ڈر گئے … بھولنا تو آج بڑی عام بات ہو گئی ہے … ہم سب اپنا اگلا پچھلا بھولتے جار ہے ہیں۔ تم تو فلاسفر ہو … سب کچھ جانتے ہو سمجھتے ہو … سامنے دیکھو میرے دوست — زندگی اتنی سستی نہیں کہ ہم اپنے حقوق کے لئے اپنے جسم کو کمزور چھوڑ دیں — ہمیں جینا ہے اور زندگی کو خوبصورت سمجھ کر جینا ہے … ایک خاندان بن کر جینا ہے۔ یہ سوچ کر کہ کھلے آسمان پر پابندی لگانے والا کوئی نہیں ہے … زمین پر چلنے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے … ہم جتنی چاہے سانس لے سکتے ہیں … اور جب اِن سب پر پہرہ نہیں ہے تو پھر وہ کون ہے۔ پہرہ بٹھانے والا … وہ کون ہے ہماری زندگی تلخ کرنے والا — میں نے تو حقوق کی صورت میں زنجیریں دیکھی ہی نہیں … حقوق تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر وہ اونچے محلات میں بد بو مار پیکٹ گرائے جائیں اور تمہارا گھر چھوٹ جائے تو تم اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنا گھر دکھاؤ — کہ راستے میں ہمارا گھر بھی پڑتا ہے عزیز … تم ایک بھائی کا گھر بھولے جاتے ہو اور میرا گھر بھی بد بو سے اتنا ہی پریشان ہے جتنا دوسروں کا … اس لئے اس پیکٹ پر میرا اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا ہے … اور اس آسمان پر جتنا میرا حق ہے اتنا ہی تمہارا … اور آسمان کے نیچے والے سارے ایک ہی قبیل کے لوگ ہیں۔ اس لئے حقوق برابر ہیں اور تم یہ کیسا فرق کر رہے ہو … ‘‘

امت ہانپ رہا تھا … مگر تم اتنے سے ہی ڈر گئے میرے دوست — کل کی بات بھول گئے کہ ہمیں ایک خاندان بن کر ر ہنا ہے۔

اُس شخص کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اس نے ایک تھکی ہوئی سانس لی … ’’تم شاید ٹھیک کہتے ہو … میں واقعی غلط سوچنے لگا تھا۔ زندگی سچ مچ بہت خوبصورت ہے — مگر سامنے کیا ہے ؟‘

’’ ایک اور نوجوان — تمہاری طرح — تمہاری طرح ہی تیز رفتار زندگی کے شکار ڈاکٹر کی بھول کا نتیجہ … ایک نادان ڈاکٹر کا شکار، جو اُس کے مرض کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ ‘‘

امت اُسے تسلیاں دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

سامنے والے خیمے میں بیمار لڑکیوں اور عورتوں کی پلنگیں بچھی ہوئی تھیں … نوجوان اور سمجھ دار لڑکیاں ان کی دیکھ بھال میں مشغول تھیں۔ اچانک اُن میں سے دوڑتی ہوئی ایک لڑکی باہر نکلی اور زور سے بولی … امت بھیا۔

مریضوں کی خیریت دریافت کرتا ہوا امت ٹھہر گیا۔ اُس کے دوست بھی چونک گئے۔ نمیتا بھاگتی ہوئی ان کی طرف آ رہی تھی۔

’’ کیا ہوا نمیتا ؟ …

نمیتا نے قریب آ کر لمبی چلتی ہوئی سانسوں پر قابو پایا۔ پھر گھبراہٹ اور پریشانی کے ملے جلے لہجے میں بتایا … ’’ وہ لڑکی مر گئی ‘‘ …

امت کے چہرے پر خون سمٹ آیا تھا۔

’’ اب ہم اُس ڈاکٹر کے بچے کو زندہ نہیں چھوڑیں گے … اصغر غصے میں بولا۔

’’ نہیں — ‘‘ امت نے کچھ سوچتے ہوئے کہا … ڈاکٹر سے ہم بعد میں بات کریں گے۔ پہلے یہ بتاؤ اُس کے ماں باپ کہاں ہیں۔

’’ وہیں بیٹھے رو رہے ہیں … ‘‘

’’ تم وہیں جاؤ۔ اور دلاسہ دینے کی کوشش کرو۔ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘

’’ نمیتا لوٹ گئی۔ ‘‘

پرتپال نے دریافت کیا۔ کون تھی وہ لڑکی؟‘‘ وہ ابھی ابھی اسپتالوں کے چکر لگا کر لوٹا تھا۔ اس لئے اس بارے میں اُس کو کچھ علم نہ تھا۔

’’ ایک بد نصیب لڑکی — ‘‘ امت نے آہستہ سے کہا … ڈاکٹر نے خراب آنکھ کے آپریشن کے سلسلے میں اس کی اچھی آنکھ چھین لی۔ اور وہ محبت کی دنیا سے بہت دور نکل گئی۔ ‘‘

پھر اس نے اصغر کی طرف دیکھا ’’ ہم نے جب محبت کو اپنا اصول بنایا ہے تو اس اصول پر قائم رہیں گے … ہم کوئی انتقام نہیں لیں گے — کوئی جلوس نہیں نکالیں گے۔ اب ہمیں اُس لڑکی کی آخری رسومات کی فکر کرنی چاہئے۔

امت بوجھل قدموں سے خیمے کی طرف بڑھا۔ مغموم گیت خیمے میں گونج رہا تھا — امت کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں … وہ کمزور آواز میں لڑکی کے بد قسمت ماں باپ سے مخاطب ہوا۔

’’ میں نے اس لڑکی کو اپنی بہن کہا تھا۔ اور بہن کو یقین دلایا تھا کہ دنیا بڑی خوبصورت ہے … زندگی بڑی پیاری شئے ہے مگر … ‘‘

امت رو رہا تھا … وہ یہاں اپنے آنسوروکنے میں نا کام رہا تھا —

٭٭٭

 

باب ہفتم

سفر

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

اقبال

(۱)

جب زندگی کی ساری امنگیں گم ہو جائیں، خواب مرجھا جائیں،بھروسہ اٹھ جائے تو انسان کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے۔ اور وہ راستہ مذہب کا راستہ ہے۔ کریم بیگ نے بھی ایسا ہی کیا اور مطمئن ہوئے کہ مذہب ساری پریشانیوں سے چھٹکارا دلانے میں ان کی مدد کرے گا … مگر جو صدمہ محلے والوں نے دیا تھا۔ وہ صدمہ اس قدر عظیم تھا کہ باوجود ضبط کرنے کے آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی تھیں۔ مذہب کی شرن لے کر انہوں نے خود کو اللہ کے حوالے کر لیا تھا۔ اور نوکری سے نکالے جانے کا بھی کوئی غم نہ تھا … پھر اپنے ہی محلے کی مسجد میں امامت کرنا زندگی کا اہم ترین اعلان تھا … اور اس اعلان پر وہ ابھی جی بھر کر مسکرائے بھی نہ تھے کہ اچانک خبر ملی کہ ان کی بیماری نے انہیں امامت کے منصب سے بے دخل کر دیا۔ اچانک گہرے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ انجم جیل میں تھا اور وہ زندگی کی نئی جنگ لڑ رہے تھے۔

دوسرے غموں کی طرح اس بار وہ سمجھوتا نہ کر سکے۔ ٹوٹ کر رہ گئے۔ بس لے دے کر ایک ا مت ہی سہارا بنا ہوا تھا۔ وقت بے وقت آ جاتا۔ تسلیاں دیتا۔ رضیہ کو سمجھاتا۔ محلے کی دکان سے سودا سلف لے آتا … کبھی اپنے گھر سے ہی پکا ہوا کھانا لے آتا … کریم بیگ امت کے احسانوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے۔ کچھ سمجھاتے یا کہنا چاہتے تو امت محبت کے ایسے ایسے فلسفے سامنے رکھ دیتا کہ بے اختیار ان کے آنسو نکل پڑتے پھر بھی جی کڑا کر کے کہتے … جیسے انجم میرا بیٹا ہے ویسے تم بھی ہو … مگر بیٹا! یہ پڑے پڑے ٹھوسنا اچھا نہیں لگتا ہے … اللہ پاک موت دے دے وہ بہتر مگر کسی کو جسمانی طور پر اتنا کمزور نہ بنائے کہ دوسرے کے سہارے زندگی کی گاڑی آگے بڑھے … وقت کیسے کیسے انوکھے کھیل دکھاتا ہے، سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی اس قدر کمزور بھی ہونا پڑے گا …

آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگتے … اور امت ناگواری کے لہجے میں کہتا … چاچا۔ اتنا غیر سمجھ رکھا ہے ہمیں — ہم نے تو کبھی آپ کو غیر نہیں سمجھا۔ اگر ایسی بات نہیں ہے تو پھر یہ دوسرا کہاں سے آگیا۔ ہم غیر کیسے ہو گئے۔ کل انجم جیل سے چھوٹ جائے گا۔ تب تک تو ہمیں خدمت کا موقع دیجئے۔ ‘

 امت کی اس بات پر انہیں چپ ہو جانا پڑتا۔

وہ برابر بڑھاپے سے لڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عبادت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ جب بھی خود کو کسی لائق پاتے۔ محلے کی مسجد کی طرف نکل جاتے۔ اب وہاں ایک دوسرے مولانا آ گئے تھے۔ وہاں شیخ صاحب اور سید صاحب بھی ہوتے۔ نماز کے خاتمے کے بعد یہ لوگ ہمیشہ کی طرف وہاں ٹھہرتے اور پھر بحث چھڑ جاتی۔ مگر اب کریم بیگ وہاں ایک پل نہیں ٹھہرتے۔ نماز پڑھتے اور سر جھکائے گھر روانہ ہو جاتے — سید صاحب اور شیخ صاحب بس یہی سمجھتے کہ بیماری نے کریم بیگ کو بہت کمزور کر دیا ہے۔

اس دن عصر کی نماز سے فارغ ہو کر کریم بیگ گھر لوٹ رہے تھے — طبیعت اس قدر خراب لگ رہی تھی کہ چکر پہ چکر آ رہے تھے۔ دو ہی رکعت کے بعد ایسا احساس ہونے لگا، جیسے اب گر جائیں گے — کچھ دیر تک مسجد کے صحن میں بیٹھ کے ہانپتے رہے۔ کسی طرح جی کڑا کر کے پوری نماز پڑھی۔ سانس درست کیا۔ پھر اٹھے۔ آنکھوں کے آگے کتنے ہی دھند لے خاکے منڈلا رہے تھے۔ ذہن تاریک ہوا جا رہا تھا۔ بڑھاپا شاید میری بینائی چھیننا چاہتا ہے۔ کچھ ایسے ہی احساس اندر اُٹھ رہے تھے۔ شاید امتحان کا وقت آ چلا ہے۔ وہ دکھا دیں گے۔ کچھ ایسا یقین ہے کہ وہ اُس کے کسی بھی امتحان میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ وہ جو چاہے کرے — وہ تو صبر ایوبی کے قائل ہیں۔ اور رہیں گے۔ اور ان کی عبادت میں کوئی فرق نہیں آنے پائے گا۔

مسجد سے اُترے اور گھر کی طرف چل دئیے۔ سر بری طرح سے گھوم رہا تھا۔ آنکھوں کے آگے کا اندھیرا بڑھا تاہی جا رہا تھا۔

آگے موڑ پر کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ معصوم بچے۔ آپس میں گھیرا بنائے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے گولائی میں گھوم رہے تھے۔ وہ بس اسی قدر دیکھ سکے۔ بچے گھیرا بنائے گھوم رہے تھے۔

’’ اگڑم بگڑم دہی چٹاکن

بڑپھولے بڑیلا پھولے۔ پھولوں کی پھلواری ہے۔

بابا جی کی باری ہے۔

پکے پکے آم کھاؤں۔

کچے کچے نیول کو دوں۔

نیول گئی چوری

اٹھا ٹپک کچوڑی … ڑی …

اچانک سب بچے ٹھہر گئے

کریم بیگ کی آنکھوں تلے ایک دم سے اندھیرا چھا گیا۔ جسم جیسے ہوا میں اڑتا جا رہا تھا۔ اچانک حلق سے گھڑ گھڑ کی تیز آواز نکلی اور دوسرے ہی لمحے وہ چکرا کر سڑک پر گر گئے۔

بچے زور سے چیخے — کریم چا چا

پھر سب اپنا کھیل بھول گئے۔ سڑک سے گزرتے لوگ ہمیشہ کی طرح ہونے والا ایک حادثہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے۔ مگر بچوں کی یہ چھوٹی سی جماعت کریم چاچا کو گھیرے میں لئے کھڑی تھی۔

ایک بچے نے دوسرے سے پوچھا۔ اب کیا کیا جائے۔ ؟‘‘

دوسرے نے معصوم انداز میں کہا۔ انجم بھیا ! تو جیل میں ہیں۔ ‘‘

تیسرا بولا۔ امت بھیا کو خبر کرنی چاہئے۔ امت بھیا اس وقت کیمپ میں ہوں گے۔

یہ تیسرا ان سب میں سب سے عقلمند لگ رہا تھا۔

اس نے پھر کہا … تم لوگ رکشہ کر کے کریم چاچا کو ان کے گھر پہنچا دو۔ میں امت بھیا کو خبر کر کے آتا ہوں۔ ‘‘

 اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ پاس میں گھر تھا۔ سائیکل اٹھائی۔ اور کیمپ کی جانب نکل گیا۔ اُس کے دوست لڑکوں نے پاس سے گزرتا ہوا۔ خالی رکشہ روکا اور کریم چاچا کے بے ہوش جسم کو سنبھالتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔

(۲)

راحت کیمپ میں اب چہل پہل کافی بڑھ گئی تھی۔ شہر کے لوگوں کو اپنی نوعیت کے اس واحد حفاظتی کیمپ کی خبر مل چکی تھی۔ جب انہوں نے محبت کے اس عظیم الشان مشن کے بارے میں سنا تو جیسے وہ وادیِ بد بو سے نکل کر اچانک محبت کی خوبصورت دنیا میں آ گئے۔ ہر کوئی امت اور اس کے دوستوں کی دل کھول کر تعریف کر رہا تھا۔ آس پاس کے غریب طبقے کے بہت سارے لوگ بھی امت اور اس کے دوستوں سے ملنے پہنچ گئے۔ کئی کئی لوگوں کا وفد ان سے ملنے آتا۔ اور محبت کے ماحول میں سانس لینے کا عہد کرتا — علاوہ ازیں بد بو کے بیمار مریضوں کی تیمار داری میں جٹ جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ اب وہاں چہل پہل کافی بڑھ گئی تھی۔ امت کے دوستوں کے علاوہ سینکڑوں لوگ جو انسانی جذبات کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے وہاں پہنچ گئے تھے اور جی جان سے مسکراتے ہوئے مریضوں کی دیکھ بھال میں لگ گئے تھے — کوئی رکشے پر مریض لاتا۔ کوئی بدحال مریضوں کو پھل کھلا رہا ہوتا۔ کوئی گھڑے میں پانی لے کر دوڑ دوڑ کر پانی پلا رہا ہوتا — کوئی چوکیاں اور چارپائیاں اپنے گھرسے لا کر میدان میں بچھاتا ہوا دکھائی دیتا۔ کوئی جلدی جلدی خیمے نصب کرتا۔ پلنگ درست کرتا۔ چادریں بچھاتا۔ مریض کو سہارا دیتا ہوا لٹاتا۔ قصے کہانیاں سناتا۔ ہنسانے کی کوشش کرتا۔ کئی دوسرے طریقوں سے بھی مریضوں کو خوش رکھنے اور ہنسانے کی کوشش کی جاتی۔ ان کا دل بہلایا جاتا۔ کچھ دوست احباب اپنے اپنے گھروں سے ریڈیو۔ ٹیپ رکارڈر وغیرہ لے آئے تھے۔ کوشش کی جا رہی تھی کہ مریض لفظ بیماری سے الگ ہو جائیں۔ اپنا مرض بھول جائیں۔ ان کی مردہ دلی ختم ہو جائے۔ اور ان کے اندر جینے کا تجسس پھر سے جاگ اٹھے۔ امنگیں جاگ جائیں … حوصلہ پیدا ہو اور وہ نئے سرے سے زندگی کی امنگوں میں ڈوب سکیں۔

ایسے موقع پر امت کے لئے اپنے آنسوؤں کو ضبط کرنا مشکل ہو جاتا —

کون کہتا ہے اچھائی مٹ گئی۔

کون کہتا ہے کہ اس ملک سے محبت مٹ گئی۔ حیرت تو یہ ہے کہ کبھی ان کے دلوں کی تلاشی نہ لی گئی۔ ان کے اندر دبے محبت کے جذبے کو محسوس ہی نہ کیا گیا۔ اور جذبہ اندر ہی اندر مرجھاتا رہا — ان لوگوں کا جوش خروش۔ غیروں کے لئے ایسی محبت دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں فرق کی دیواریں اب بھی بلند ہیں۔ مگر اس طرح کہ سب ایک دوسرے میں گھلے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک غریب بیمار ہے اور ایک امیر بڑے پیار سے مسکراتا ہوا باتیں کرتا ہوا — اُس کے سر پر بھیگی ہوئی پٹی رکھ رہا ہے اور معمولی کپڑوں میں ملبوس ایک جھری نما ہاتھ اُس پر جھکا ہوا ہے … غرض کتنے ہی ایسے منظر ہیں … خوبصورت … دل فریب … کون کہہ سکتا ہے کہ اس ملک سے اچھائی مٹ گئی — پہچاننے والی آنکھیں ہونی چاہیں۔ بھاشن نہیں عمل چاہئے۔

امت کی آنکھیں نم تھیں … میرے دوست انجم! کاش آج تم جیل کی چہار دیواری میں قید نہ ہوتے … دیکھتے کہ آج تمہارا اور ہم سب کا مشن کس قدر کامیاب رہا ہے۔ تم نے ٹالسٹائی اور گاندھی کے جن خیالوں کی پیروی کی تھی … آ کر دیکھتے کہ پھیلی ہوئی تیز بد بو ان کے درمیان اب کہاں ہے ؟ در اصل ہمارا سست کاہل سماج ہی اس بد بو کی پیداوار ہے … محبت کے اس خوبصورت ماحول میں جہاں ہر شخص زیادہ سے زیادہ ثواب بٹورنے کا خواہشمند نظر آتا ہے، مجھے اس طرح کی کوئی بد بو محسوس نہیں ہو رہی … ‘‘

لڑکے لڑکیوں کے جسم میں جیسے مشین فٹ تھی۔ تھکن کا نام و نشان تک نہ تھا۔ خیمے سے باہر نکلی ہوئی چارپائی پر اپنے فلاسفر دوست کو لیٹے ہوئے دیکھ کرامت رُک گیا … اس شخص کی آنکھیں اب بھی بند تھیں اور وہ ویسی ہی بند آنکھوں سے امت کے قدموں کی آہٹ پا کر مسکراتے ہوئے بولا۔

’’گڈایوننگ مائی فرینڈ … ‘‘

’’ گڈ ایوننگ ‘‘ امت کو حیرت ہوئی … کم بخت سلام کرنے میں ہر دم بازی لے جاتا ہے۔ جواب نہیں ہے اس کے مشاہدے کا — آہستہ سے پوچھا … ’’ کیسے ہیں آپ؟‘‘

بڑے ڈرامائی انداز میں اس شخص نے اپنی ایک آنکھ کھولی اور مسکرادیا۔

’’ اچھا ہوں۔ بہت اچھا ہوں۔ اب سچ مچ ایسا لگنے لگا ہے جیسے میری کھوئی ہوئی طاقت پھر سے لوٹ آئی ہو۔ اب تو سب کچھ بڑا ہی خوشنما لگنے لگا ہے … تم اچھے لگ رہے ہو … یہ آسمان اچھا لگ رہا ہے … اور سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔

وہ ذرا ٹھہرا … پھر بولا … ’’ مجھے افسوس ہے میرے دوست! کہ میرے جیسا آدمی، جو کبھی شکست پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا کتنا بزدل بن گیا تھا۔ زندگی واقعی اس قدر خوبصورت ہے کہ جیا جائے۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ کسی بھی حادثے سے گھبرا کر ہم بہت جلدی ٹوٹ جاتے ہیں اور نا امیدی کے فیصلے پر خود پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ایک آدمی بھی ہم میں سے مضبوط ہو جائے تو آج ایسی صورت حال پیدا نہ ہو۔ میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں میرے دوست کہ یہ زندگی اور جینے کی اُمنگ اب تمہارے ہی احسان کی بدولت ہے۔

اچانک ایک تیز آواز کے کانوں میں آئی۔

’’ امت بھیا۔ ‘‘

یہ ومل چٹر جی تھا جو سائیکل سے اُتر کر تیزی سے اس کی جانب سے بڑھ رہا تھا۔

’’ کیا بات ہے ‘‘ امت چونکا۔

’’کریم چاچا کی طبیعت بہت خراب ہے۔ وہ سڑک پر گر گئے تھے — بچوں نے انھیں گھر پہنچا دیا ہے … بس آپ کو خبر کرنے چلا آیا۔

ومل چٹر جی نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا۔ امت سن سے رہ گیا۔

پھر ڈوبتی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’ تم نے اچھا کیا کہ سائیکل ساتھ لے آئے — چلو پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔ میں چلاتا ہوں۔

جس وقت وہ ومل چٹر جی کے ساتھ وہاں پہنچا اُس وقت بہت سے بچے کریم چاچا کو گھیرے ہوئے کھڑے تھے۔ کریم چاچا کو اب تک ہوش آ چکا تھا۔ رضیہ چاچی مردہ سی ایک طرف سر جھکائے بیٹھی تھیں۔ کوئی بچہ پنکھا جھل رہا تھا۔ کوئی گلاس سے پانی پلا رہا تھا۔

ہوش میں آ گئے چاچا‘‘ امت نے ڈبڈبائی آنکھوں سے پوچھا اور پیشانی پر ہاتھ رکھا۔ سرد پیشانی تھی۔ پسینے کے قطرے چھلچھلاتے ہوئے تھے …

’’ہاں اب طبیعت ٹھیک ہے — ذرا چکر آگیا تھا۔ ‘‘ کریم بیگ انتہائی کمزور آواز میں بولے۔

’’ جب طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ہے تو آپ مسجد کیوں جاتے ہیں — گھر میں ہی نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟‘‘

’’ مسجد میں بہت سارے لوگوں کے ساتھ ایک ہی صف میں نماز پڑھتے ہوئے اچھا لگتا ہے … بس اسی لئے چلا جاتا ہوں۔ کیا معلوم تھا … ‘‘

کریم چاچا کی سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ بولتے بولتے اچانک کھانسی اُٹھ گئی۔ پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر کھانستے ہوئے بولے … ‘‘ اب ٹھیک ہوں بیٹا … اب ٹھیک ہوں … ‘‘

امت کا لہجہ اچانک بھرا گیا۔ کریم چاچا کی حالت ایسی کبھی نہ تھی۔ زمانے کی تیز بد بو پی کر انہوں نے یہ حالت کر لی تھی۔ آہستہ سے زیر لب بڑ بڑایا … آپ ٹھیک نہیں ہیں کریم چاچا۔ آپ ٹھیک نہیں ہیں۔ آج ان لوگوں سے حساب طلب کروں گا جو عذاب عذاب چلاتے ہیں مگر عذاب کی وجوہات پر غور نہیں کرتے … ‘‘

اور اس سے پہلے کہ کریم بیگ اس کے چہرے پر آئے عجیب و غریب رنگ کو پڑھ پاتے، وہ تیز قدموں سے کمرے سے باہر نکل چکا تھا۔

 امت جانتا تھا۔ اس وقت مغرب کی نماز کے لئے لوگوں کا پہنچنا شروع ہو جاتا ہے … وہ تیز تیز چلتا ہوا مسجد کے گیٹ کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ چھوٹی سی مسجد تھی۔ صحن میں ہی نماز ہوتی تھی — اب بھی وہاں چٹائیوں پر بیٹھے ہوئے بہت سے لوگوں کے ہمراہ شیخ صاحب اور سید صاحب بھی تھے۔

’’ میں آسکتا ہوں۔ ‘‘

امت نے گمبھیر آواز میں کہا۔ ‘‘ میں آپ کے مذہب کا نہیں۔ لیکن کیا آپ کا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک غیر مذہبی لڑکا اس طرح آپ کی عبادت گاہ میں داخل ہو جائے۔ ‘‘

’’ بات کیا ہے۔ ؟‘‘ سید صاحب اور شیخ صاحب دونوں نے امت کو دیکھ کر پوچھا۔ ایک ہی محلے میں رہنے کے باعث سب ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔

’’ پہلے اندر آنے کی اجازت دیجئے — تب کہوں گا۔ ‘‘

شیخ صاحب اور سید صاحب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر کہا۔ ’’ یہ تو خدا کا گھر ہے۔ سب کے لئے کھلا ہے۔ تم بھی آ جاؤ۔ ‘‘

امت نے چپل اُتاری اور تعظیم کے ساتھ اندر داخل ہو گیا — ٹکڑے ٹکڑے سانس بٹوری۔ پھر ان لوگوں سے مخاطب ہو کر بولا۔

کہتے ہیں عبادت اس لئے کی جاتی ہے کہ سب کو وہاں نیکیوں کا حساب دینا پڑتا ہے — مگر یہ کیسی تعلیم ہے کہ ایک شخص ہمارے درمیان مر رہا ہے اور ہم اُس کو بھول کر اپنی عبادت میں مشغول ہیں … میرے خیال میں ایسی عبادت نہیں چاہئے۔ یہی پیغمبرؐ صاحب تھے جنہوں نے فرمایا تھا۔ کھانے سے قبل اپنے آس پاس کے چالیس گھر کھوج لو … تب کھاؤ … اگر کوئی بھی بھوکا رہ گیا۔ تو تمہارا کھانا حلال قرار نہیں دیا جائے گا … مگر کیا آج اس تعلیم کا اثر ہے … ؟ … میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے جب بد بو کے اس بھیانک سیلاب کو ہم اور آپ سب نے مل کر عذاب اور پر لئے تصور کرہی لیا ہے۔ تو اس کی وجہ پر غور کرنے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی جاتی۔ ‘‘

’’ مطلب ؟‘‘ شیخ صاحب سب چونکتے ہوئے بولے۔

’’ مطلب ہے … ہمیں تو یہ سوچنا ہے کہ ہماری عبادت قبول بھی ہو رہی ہے یا نہیں۔ کیا ایسے لوگوں کی عبادت قبول ہو گی … جو قوم اپنے پیش امام کی قدر بھی نہ کر سکے۔ آپ نے کریم چاچا کو عزت دی … امامت کا عہدہ دیا۔ ان کے پیچھے کی صفوں میں نماز پڑھی۔ ان کے ساتھ ساتھ مل کر اپنے گناہوں سے توبہ کی … اور جب وہ بیمار رہنے لگے تو ان کو عہد سے سے ہی الگ نہیں کیا بلکہ انہیں بالکل بھلا ہی بیٹھے … آپ نے انہیں مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ جو قوم اپنے پیش امام کی قدر نہ کر سکے وہ قوم کہاں جائے گی، یہ سوچنا آپ کا کام ہے۔ میں آپ کو بتا نا چاہتا ہوں کہ آپ کا پیش امام عصر کی نماز سے لوٹتے ہوئے راستے میں گر پڑا۔ اور اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش سے دو چار ہے …

ماحول میں خاموشی چھا گئی —

اچانک ان میں سے ایک آہستہ سے بڑ بڑایا۔ ’ ’ مولوی کریم گر گئے ‘‘

شیخ صاحب اور سید صاحب کی نظریں بھی جھک گی تھیں …

شیخ صاحب نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔ ’’ ہم شرمندہ ہیں بیٹے۔ بہت بہت شرمندہ ہیں۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر ہم سب سیدھے مولوی کریم سے ملنے جائیں گے اور ان کا معاوضہ باندھ دیں گے۔ ‘‘

’’ ہم واقعی شرمسار ہیں۔ ‘‘

امت نے سکون کی سانس لی —

اور آہستہ آہستہ مسجد کی سیڑھیوں سے اُتر گیا —

امت لوٹ کر جب دوبارہ وہاں پہنچا تو کریم بیگ کی طبیعت بہت خراب ہو چکی تھی۔ دل کا دورہ پڑا تھا۔ آنکھیں باہر اُبل آئی تھیں۔ پیٹ دابے وہ دیر تک کراہتے رہے۔ پھر بیہوش ہو گئے۔

’’ انہیں کیمپ میں اسی وقت داخل کرنا ہو گا۔ زیادہ دیر کرنا ٹھیک نہیں۔ حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ ‘‘

امت اتنا کہہ کر رکشہ لانے نکل گیا۔ رضیہ آس پاس کی عورتوں کے درمیان بالکل بے جان اور گم سم بیٹھی تھی۔

ایک بوڑھا آہستہ سے بولا۔ کتنا خراب زمانہ ہے۔ اپنوں کا دکھ بابو کریم کب تک اٹھاتے، برداشت نہیں کر پائے۔ ‘‘

شام کے سائے آسمان پر گہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ کیمپ میں بوڑھے کریم کی شاید آج آخری رات ہے۔ ڈاکٹر نا امیدی کے عالم میں جھکا ہوا ہے — کیمپ روشنی سے جگمگا رہا ہے۔ جیسے پورا ہندستان سمٹ آیا ہو … اور وہاں کتنی ہی آنکھیں ہیں جو خاموش ہیں … جو آنسو بہا رہی ہیں۔ امت بھی چپ ہے … ہیڈ ماسٹر رگھو پتی سہائے جی بھی خاموش ہیں۔

اور نمیتا بھی … آنکھیں آنسوؤں سے تر … دل میں خوف کی بارش — انجم تم بہت دیر کر رہے ہو … آتے کیوں نہیں … ؟

مگر …

کوئی آ رہا ہے … یہ دھندلا دھندلا سا دبلا پتلا سا شخص کون ہے … بالکل مرجھایا سا … بہت کمزور ہو گیا ہے … شاید انجم ہے …

کیسا عجیب و غریب سفر ہے۔ روح انسانی بدن سے رشتہ توڑ کرآسمان میں پرواز کر جاتی ہے۔ اور ایک سرد جسم کو چار کندھوں کی سواری پر اُس کی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔

محلے والوں کے زور دینے پر آج انجم کو ضمانت مل گئی ہے۔

کریم بیگ کے اس آخری سفر میں ہزاروں لوگ شریک ہیں — سارا شہر سمٹ آیا ہے …

انجم پتھر کی مورت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ساری دنیا گھومتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ وہاں موجود ہر شخص رو رہا ہے …

سفر کی شروعات ہو گئی ہے … آخری سفر کی شروعات …

مولانا کریم جا رہے ہیں … وہ شخص جو دوسروں کے لئے لڑتا رہا … وہ شخص جو محبت ہر دل میں تقسیم کرتا رہا … مگر اسے کیا ملا … اتنے سارے لوگوں کی محبت کم تو نہیں ہے …

سب کی آنکھیں نم ہیں … ان میں شیخ صاحب بھی ہیں — سید صاحب بھی …

کیمپ میں اس فلاسفر شخص کی اچانک دونوں آنکھیں کھل جاتی ہیں … آنسو کے موٹے موٹے قطرے تکئے پر ڈھلک جاتے ہیں۔

 مولانا کریم جا رہے ہیں … انا للہ و انا الیہ راجعون۔

کمرے میں لو بان جل رہا ہے … گہرا سناٹا ہے۔

مولانا کریم بیگ کی آخری رسومات سے فارغ ہو کر لوگ لوٹ آئے ہیں۔ افسردہ بوجھل قدموں سے چلتا ہوا انجم، امی حضور کے پاس آ کر ٹھہر گیا ہے … وہاں کچھ بھی تو نہیں ہے … نہ کوئی احساس … نہ کوئی جذبہ … صرف پیچھے سے آنے کا دلاسہ دیتی ہوئی ساکت آنکھیں ہیں۔ نمیتا کے کانپتے ہوئے ہاتھوں نے انجم کو سہارا دیا ہے … دو بھیگی بھیگی آنکھیں بہت سارے لوگوں کی موجود گی کے باوجود سوالیہ نشان بن کر ا نجم کی آنکھوں میں اتر گئی ہیں … ‘‘ اتنے ٹوٹ جاؤ گے۔ تو پھر مجھے سہارا کون دے گا … بولو … ؟‘لفظ گونج رہے ہیں …

انجم نے پلٹ کر نمیتا کی طرف دیکھا —

نمیتا نے پلکیں جھکا لیں … جیسے کہہ رہی ہو … میں ہوں نا … گھبراتے کیوں ہو … زندگی کا یہ سفر یوں ہی جاری رہتا ہے …

فضا میں لوبان اور اگر بتی کی مہک پھیلی ہوئی ہے —دلاسہ اور تسلی دے کر لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں — اور یہاں —

محبت نے خاموشی سے اپنا دروازہ کھول لیا ہے …

میں ہوں نا …

نمیتا نے انجم کے ہاتھوں کو تھام لیا ہے …

آسمان پر ستارے روشن ہیں …

انجم نے پلٹ کر نمیتا کی طرف دیکھا ہے …

آسمان پر بادلوں کے آوارہ ٹکروں کے درمیان ستاروں کا رقص جاری ہے۔

محبت گم کہاں ہوتی ہے؍

محبت ہمیشہ موجود رہتی ہے

نفرت اور ماحول میں پھیلی ہوئی

تیز بد بو کے باوجود

 — — ۱۹۸۲

٭٭٭

مصنف کا شکریہ کہ اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل:  اعجاز عبید

حصہ اول کے لئے یہاں کلک کریں