FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جناب بلال صاحب {ہیرا لعل }سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ   : السلام وعلیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

بلال احمد  : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

سوال  : بلال بھائی آپ سے  ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب  : احمد بھائی ضرور کیجئے  میرے  لئے  خوشی کی بات ہے۔

سوال  : آپ اپنا تعارف کرایئے۔

جواب  : میری پیدائش ضلع اعظم گڑھ کے  بومے  گاؤں میں ہوئی، میرا پرانا نام ہیرا لعل تھا میرے  والد بابو نندن بھار دواج جی ایک بہت مذہبی ہندو ہیں میرے  سات بھائی ہیں میرے  خاندان اور گاؤں کے  بہت سے  لوگ دہلی میں بلڈنگ پینٹنگ کا کام کرتے  ہیں میرے  والد صاحب دہلی میں پان بیڑی سگریٹ کی دکان کرتے  ہیں،

سوال  : اپنے  اسلام قبول کرنے  کا واقعہ بتائیے ؟

جواب  : اب سے  تقریباً سات سال قبل جب میری عمر بارہ سال کی تھی میں اپنے  والد صاحب کے  ساتھ پان کی دکان پر تیمور نگر دہلی میں بیٹھتا تھا ہماری دکان کے  اوپر ایک بلڈنگ میں ابا جی ابو فیاض صاحب کڑھائی وغیرہ کا کارخانہ چلاتے  تھے، ہمارے  والد صاحب نے  رات کو قیام کے  لئے  کارخانہ میں ہی ان سے  کہا انھوں نے  منظور کر لیا میں رات کو کار خانہ کے  کاریگروں کے  ساتھ سویا کرتا تھا رات کو روزانہ ابا جی سارے  کاریگروں کو بٹھا کر فضائل اعمال کی تعلیم کرتے  تھے  میں بھی سنتا تھا مجھے  یہ باتیں بہت اچھی لگتی تھیں، میں جلدی رات کو جا کر تعلیم کا انتظار کرتا تھا اور اگر ابا جی ناغہ کرنا چاہتے  تو میں ان سے  تھوڑی دیر تعلیم کرنے  کے  لئے  کہتا، یہ لوگ نماز پڑھنے  جاتے  تو میں بھی ان کے  ساتھ جا کر کبھی کبھی مسجد کے  باہر کھڑا دیکھا کرتا، مجھے  نماز پڑھتے  ہوئے  لوگ بہت اچھے  لگتے، ایک رات کو میں نے  ابا جی ابو فیاض سے  پوچھا؟ ابا جی کیا میں مسلمان ہو سکتا ہوں ؟انھوں نے  بڑے  پیار سے  کہا بیٹا ضرور اور اگر تم مسلمان نہیں بنو گے  تو پھر دوزخ کی آگ میں ہمیشہ جلو گے، میں نے  کہا تو پھر آپ مجھے  مسلمان کر لو، انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا میرا نام میرے  کالے  رنگ کی وجہ سے  بلال احمد رکھا اور بتایا کہ بلال ہمارے  نبی کے  اذان دینے  والے  موذن تھے، انھوں نے  ایمان کے  لئے  بڑی قربانیاں دیں، میں بٹلہ ہاؤس میں مسجد میں نماز پڑھنے  جاتا، ابا جی نے  مجھے  نماز پڑھنے  جانے  سے  منع کیا کہ مجھے  نماز پڑھتا دیکھ میرے  گھر والے  مجھے  ماریں گے  میں نے  ابا جی سے  کہا کہ ایک بار آپ نماز کو جا رہے  تھے  تو میں نے  آپ سے  سوال کیا تھا کہ ابا جی آپ ایک ٹائم کی نماز بھی نہیں چھوڑتے  آپ نے  یہ کہا تھا کہ جو ایک وقت کی نماز چھوڑے  وہ اسلام سے  نکل جاتا ہے، تو کیا میں دو نمبر کا مسلمان ہوا ہوں اگر میں دو نمبر کا مسلمان ہوا ہوں تو ایسا مسلمان بننے  سے  کیا فائدہ ؟ آپ مجھے  ایک نمبر کا مسلمان کریں اور اگر ایک نمبر کا مسلمان میں بھی ہوں تو بے  نماز کے  تو مسلمان اسلام سے  نکل جاتا ہے، اباجی نے  جواب دیا کہ بات تو سچی یہی ہے  کہ نماز کے  بغیر کچھ مسلمانی نہیں مگر تم ابھی چھوٹے  ہو اور گھر والوں کا ڈر ہے  اس لئے  میں تم سے  کہتا تھا، میں نے  کہا ابا جی اللہ کا ڈر زیادہ ہونا چاہئے  یا ماں باپ کا؟ میری بات سن کر انھوں نے  کہ اچھا بیٹا تم چھپ کر نماز کیلئے  چلے  جایا کرو، رمضان کا مہینہ آیا، میں مسجد میں نماز پڑھنے  جایا کرتا، شاید میرے  گھر والوں نے  مجھے  کبھی مسجد جاتے  دیکھ بھی لیا، میں روزہ بھی رکھ رہا تھا، گھر والے  دن میں کھانے  کو کہتے  میں بہانہ کر دیتا، اس سے  بھی ان کو شک ہو گیا، ایک روز جمعہ کی نماز پڑھ کر ٹوپی اوڑھے  ذاکر باغ کی مسجد سے  آ رہا تھا میرے  والد نے  دیکھ لیا مجھے  پکڑ لیا مجھ سے  پوچھا تو مسجد میں کیا کرنے  گیا تھا، مجھے  سے  نہ رہا گیا میں نے  کہہ دیا کہ اب میں مسلمان ہو گیا ہوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے  کے  لئے  گیا تھا، وہ مجھے  بہت برا بھلا کہنے  لگے  پکڑ کر کمرے  میں لے  گئے  اور وہاں میرے  بھائی اور خاندان کے  لوگ جمع تھے، وہ دوپہر کا کھانا کھانے  کے  لئے  آئے  تھے، مجھے  الگ الگ سمجھاتے  رہے  مگر میں کہتا رہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اب مجھے  واپس کوئی ہندو نہیں کر سکتا، میرے  بڑے  بھائی نے  میری پٹائی شروع کی چاٹے  گھونسے  بے  تحاشہ مارے  میں نے  صاف کہہ دیا کہ یہ بات دماغ سے  نکال دو کہ اب آپ مجھے  ہندو بنا سکتے  ہو، اگر تمہیں کامیابی چاہئے  اور مرنے  کے  بعد کی آگ سے  بچنا چاہتے  ہو تو مسلمان ہو جاؤ اور کلمہ پڑھو وہ مجھے  مارتے  اور میں ان کو کلمہ پڑھنے  کو کہتا اس سے  دوسرے  لوگوں کو بھی غصہ آیا، پٹھّیوں اور ڈنڈوں سے  مارنا شروع کیا میرے  سر سے  اور جسم سے  خون بہنے  لگا، میں نے  جوش میں آ کر کہا کہ میری آخری بات سن لو اس کے  بعد چاہے  جو کرنا، میں نے  اپنے  پاؤں کی انگلی کی طرف اشارہ کرنا شروع کیا تم مجھے  یہاں سے  کاٹنا شروع کر دو اور اوپر تک میرے  ٹکڑے  کرنے  شروع کر دو جب تک میرے  گلے  اور زبان میں جان رہے  گی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہتا رہوں گا، اب تمہاری مرضی ہے  جو چاہے  کرو، ا ن لو گوں نے  اس درجہ میرا ارادہ مضبوط دیکھ کر مجھے  چھوڑ دیا، میں رات کو موقع پا کر وہاں سے  بھاگ آیا، دو روز تک وہ مجھے  تلاش کرتے  رہے، تیسرے  روز ابا جی ابو فیاض پر دباؤ دینے  لگے  کہ تم نے  ہمارے  لڑکے  پر جادو کرا دیا وہ لڑکا تمہارے  پاس ہے، اگر لڑکا کل تک ہمارے  پاس نہیں آیا تو پولیس میں تمہاری رپورٹ کر دیں گے، ابا جی نے  ان کو بہت سمجھایا کہ بھلائی کا بدلہ تمہارے  یہاں یہی ہے، تمہارے  بچوں کو بغیر کرایہ اتنے  روز رکھا اس کا بدلہ یہ ہے  ؟ مگر وہ نہ مانے، اباجی کو فکر ہوئی میں دہلی ہی میں تھا مجھے  پتہ لگ گیا کہ گھر والے  ابا جی کو پریشان کر رہے  ہیں میں خود کارخانے  گیا اور ان سے  کہا آپ میرے  ہاتھ پکڑ کر میرے  پتاجی کو سونپ آیئے  اور ان سے  کہہ دیجئے  کہ آپ کا بچہ یہ ہے، اب آئندہ میں ذمہ دار نہیں، ابا جی نے  کہا تمہیں جان سے  مار دیں گے  میں نے  کہا کہ وہ مجھے  کچھ نہیں کہیں گے  وہ میرا ہاتھ پکڑ کر میرے  پتاجی کے  پاس لے  گئے  اور ان سے  کہا کہ یہ لڑکا اللہ کا شکر ہے  خود آ گیا مجھے  تو اس کی کچھ خبر نہیں تھی مگر اب اس کو پکڑ و اور اب آئندہ ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

سوال  : اس بعد کیا ہوا؟

جواب  : اس کے  بعد میرے  گھر والے  مجھے  میرے  گاؤں اعظم گڑھ لے  گئے، بہت سے  سیانوں اور جھاڑ پھونک کرنے  والوں کو دکھایا وہ سمجھ رہے  تھے  کہ مجھ پر جادو کرایا گیا ہے  بہت اتار کروایا، میں گھر میں چھپ کر نماز پڑھتا رہا کچھ روز تو مجھے  بند رکھا مگر میرے  گاؤں کے  ایک مسلمان بھائی نے  مجھے  سمجھایا کہ تمہیں یہاں سے  نکلنے  کے  لئے  اپنا رویہ ڈھیلا رکھنا چاہئے  میں نے  اپنے  رویہ میں ذرا نرمی برتی گھر والوں نے  سوچا کہ جادو اتروانے  سے  اب اثر کم ہو رہا ہے، میری ماں اپنے  مائیکہ جا رہی تھیں، وہ مجھے  اپنے  ساتھ لے  گئیں کہ ماحول بدل جائے  گا وہاں ہمارے  نانیہال کے  پڑوس میں ایک بڑے  سمجھدار مسلمان رہتے  تھے  میری والدہ مجھے  ان کے  پاس لے  گئیں، کہ اس کو سمجھاؤ ہمارا جینا دوبھر کر رکھا ہے، انھوں  نے  میرے  ماں کو بہت تسلی دی اور سمجھایا کہ تم اس کو اپنی اجازت سے  جانے  دو، یہ لڑکا ہر گز آپ کے  یہاں رہنے  والا نہیں اور اس نے  بہت اچھا فیصلہ کیا مالک کی خاص مہر بانی اس پر ہے، اس پر وہ تیار ہو گئیں اور میں نانیہال سے  ہی ابا جی کے  پاس آ گیا انھوں نے  مجھے  مظفر نگر اپنے  گاؤں بھیج دیا، پھر ایک مدرسہ میں داخلہ کرا دیا، میں نے  قرآن شریف نا ظرہ پڑھا، اردو پڑھی کچھ پارے  حفظ کئے، پھر حضرت مولانا کلیم صاحب کے  مشورہ سے  ندوہ کی ایک شاخ میں خصوصی اول میں داخلہ لے  لیا، الحمدللہ میرے  پڑھائی بہت اچھی چل رہی ہے۔

سوال  : نئے  ماحول میں آ کر آپ کو کیسا لگا؟

جواب  : میرے  ابا جی میرے  پہلے  پتاجی سے  ہزار گنا زیادہ مجھے  چاہتے  ہیں، لوگ مجھے  ان کا اصلی بیٹا سمجھتے  ہیں، میری امی بھی میرے  دوسرے  بھائی بہنوں سے  زیادہ میری بات مانتی ہیں، ایک روز مجھے  دیکھ کر ایک رشتہ دار نے  میرے  بھائیوں سے  کہا کہ اب تو زمین میں اس کا بھی حصہ ہو گا تو میرے  سارے  بھائی فوراً کہنے  لگے  ہم سب سے  پہلے  یہ زمین میں حصہ دار ہے، اللہ نے  یہ بھائی تو ہمیں بڑے  احسان کے  طور پر دیا ہے، ورنہ کہاں ہم گنوار اور کہاں مدینے  کی یہ بھائی چارگی، اس بھائی پر ہم اپنی جان بھی دے دیں تو ہم اپنی خوش قسمتی سمجھیں گے۔

سوال  : اپنے  بھائی اور والد ین سے  آپ کا پھر کوئی رابطہ نہیں ہوا؟

جواب  : ایک بار میں دہلی میں بس سے  جا رہا تھا نظام الدین کے  قریب سے  گزرا تو میں نے  دیکھا کہ میرا بھائی سائیکل پر جا رہا ہے، میں نے  اس کو آواز لگائی اس نے  مجھے  دیکھا سائیکل دوڑائی مگر وہ بس کے  ساتھ کہاں تک دوڑتا میں آگے  ایک اسٹاپ پر اتر گیا وہ ہانپتا ہوا آیا مجھ سے  لپٹ گیا اور ہاتھ جوڑنے  لگا اس نے  کہا پتا جی مرنے  والے  ہیں تجھے  بہت یاد کر رہے  ہیں، میں نے  کہا اچھا میں کل آؤں گا، میں نے  ابا جی سے  اجازت چاہی انھوں نے  دعوت کی نیت سے  جانے  کی اجازت دے دی، میں گیا تو وہ بالکل ٹھیک تھے، مجھے  بہت دیر تک سمجھاتے  رہے، کہا ! تو میرا سب سے  اچھا بیٹا ہے  تو ہی دھوکہ دے  جائے  گا تو میں کیا کروں گا؟ انھوں نے  بتایا کہ میں نے  ایک پنڈت جی سے  مشورہ کیا تھا انھوں نے  تجھے  مار دینے  کو کہا تھا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم نے  اس کو نہ مارا تو وہ سارے  خاندان کا دھرم بھرشٹ کر دے  گا، میں نے  ا پنے  دل میں سوچا میں نے  کتنے  لاڈ سے  اس کو پالا، کس دل سے  اسے  ماروں ؟

میں نے  ان سے  کہا پتا جی! جب آپ لوگ مجھے  پکڑ کر لائے  تھے  اس وقت بھی میں نے  آپ سے  کہا تھا وہی اب بھی کہتا ہوں اگر آپ میرے  بدن کے  ٹکڑے  ٹکڑے  بھی کر دیں گے  تو جب تک زبان میں دم ہے، لا الہٰ الا اللہ کہتا رہوں گا، میں تو اس لئے  آیا ہوں کہ آپ میرے  پتاجی ہیں آپ نے  مجھے  پالا ہے  ماں نے  دودھ پلایا، اگر آپ ہندو مر گئے  تو ہمیشہ نرک کی آگ میں جلیں گے، آپ سبھی لوگ مسلمان ہو جائیں اور میرے  ساتھ چلیں، وہ کچھ نہیں بولے  اور بڑے  مایوس ہوئے۔

سوال  : اس کے  بعد بھی آپ نے  ان سے  رابطہ کیا؟

جواب  : میرے  ایک چچا سعودی عرب میں رہتے  ہیں، وہ بھی اسلام کے  بہت قریب ہیں مجھے  معلوم ہوا کہ وہ آئے  ہیں تو میں نے  موقع سمجھ کر دہلی سفر کیا، پتا جی نے  بتایا کہ تیرے  چچا کہہ رہے  تھے  کہ سچا دھرم اور عقل میں آنے  والا مذہب صرف اسلام ہے، ہم لوگ ہندو اس لئے  ہیں کہ ہندو سماج میں پیدا ہوئے  مگر ہندو دھرم کی کوئی بات عقل میں آنے  والی کہاں ہے  ؟ وہ کہہ رہے  تھے  یا تو تم سب گھر والے  مسلمان ہو جاؤ یا پھر اپنے  لڑکے  کو چھوڑ دو! اس کو پھر ہندو بنانے  کی کوشش کرنا انیائے  ( نا انصافی ) ہے۔

میں نے  پتا جی سے  کہا: آپ نے  کیا سوچا؟ انھوں نے  جواب دیا کہ سچی بات تو یہی ہے  کہ اسلام ہی سچ ہے، مگر اپنے  سماج کو چھوڑ کر ہم کیسے  مسلمان ہو سکتے  ہیں لوگ کیا کہیں گے  ؟ میں بہت دیر تک ان کو سمجھاتا رہا مگر ان کو برادری اور سماج کے  ڈر کے  سامنے  مرنے  کے  بعد کی آگ کا ڈر کچھ نہ لگا، میرا دل بہت دکھا اور گھر آ کر بہت رویا مجھے  حضرت مولانا کلیم صاحب کی وہ تقریر جو انھوں نے  ایک بار مدرسے  میں کی تھی یاد آ گئی، کہ آپ اسلام کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جو لوگ غلط فہمی یا اسلام کو غلط دھرم سمجھنے  کی وجہ سے  اسلام کے  دشمن تھے  ان پر جب دعوت کا حق ادا کیا گیا تو وہ سب لوگ مسلمان ہو گئے، چاہے  وہ حضرت عمرؓ ہوں چاہے  وہ خالد بن ولید ہوں، عکرمہ بن ابی جہل ہوں یا حضرت وحشی، حضرت ہندہ جیسے  ظالم کہلانے  والے  لوگ ہوں مگر وہ لوگ جو اسلام کو مذہب حق سمجھ کر حسد کی وجہ سے  یا برادری اور سماج کے  خوف کی وجہ سے  اسلام سے  دور ہوئے  وہ ہدایت سے  محروم رہے، خواہ وہ حضور ﷺ سے  حد درجہ محبت کرنے  والے  چچا ابو طالب ہی کیوں نہ ہوں ؟ مجھے  یہ خیال آتا ہے  کہ میرے  پتا جی اسلام کو حق بھی کہہ رہے  تھے  اور برادری کے  خوف سے  اسلام قبول نہیں کرتے، خدا نہ کرے  وہ اسلام سے  محروم ہی نہ رہ جائیں، بھیا احمد تم ضرور ضرور ان کے  لئے  دعا کرنا تم لکھنو جا رہے  ہو وہاں بھی دعا کرنا اور حضرت سے  بھی دعا کو کہنا اور رمضان کی دعا میں بھی میرے  گھر والوں کو یاد رکھنا (ہاتھ پکڑ کر روتے  ہوئے  )بھیا احمد وہ اگر اسی طرح کفر پر مر گئے  تو ہمیشہ کی آگ میں جلیں گے، میرے  ماں باپ مجھے  بہت پیار کرتے  ہیں، میرے  اللہ ان کو ہدایت سے  نواز دے۔

سوال  : نہیں نہیں !بلال بھیا آپ اس قدر افسردہ نہ ہو، اللہ تعالیٰ آپ کو خوش کریں گے، وہ انشاء اللہ ضرور ان کو ہدایت سے  نوازیں گے، آپ ان سے  رابطہ رکھئے۔

جواب  : اللہ تعالیٰ تمہاری زبان مبارک کرے۔

سوال  : ارمغان کے  قارئین کے  لئے  آپ کچھ کہنا چاہیں گے  ؟

جواب  : بس مجھے  دعا کی درخواست کرنی ہے  اللہ تعالیٰ مجھے  علم عطا فرمائے  اور قرآنی مسلمان بنا دے، میرے  گھر والوں کو ہدایت عطا فرمائے  دوسری بات یہ عرض کرنی ہے  کہ ساری دنیا کے  انسان ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی ہیں، ان کے  ایمان کی فکر کریں اور جو لوگ ہدایت یاب ہو جاتے  ہیں وہ میرے  اباجی کی طرح ان کی بھائی بندی کا حق ادا کریں۔

سوال  : بلال بھائی بہت بہت شکریہ، آپ بڑے  خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے  آپ کو بلالِ وقت بنایا، آپ نے  تو خیرالقرون کی یاد تازہ کر دی

جواب  : آپ مجھے  شرمندہ کرتے  ہیں۔

چہ نسبت خاک را  با عالم پاک

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان نومبر، دسمبر۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

چودھری آر  کے  عادل صاحب{ رام کرشن لاکڑا} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ       : السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

آر کے  عادل  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : چودھری صاحب بڑی خوشی ہوئی آپ آ گئے، ابی آپ کا ذکر کر رہے  تھے  کہ میں دہلی جا کر آپ سے  ملاقات کروں اور پھلت سے  نکلنے  والے  میگزین ارمغان کے  لئے  ایک انٹرویو آپ سے  حاصل کروں، اللہ کا شکر ہے  کہ آپ خود آ گئے۔

جواب  : اصل میں مجھے  مولانا صاحب سے  کچھ ضروری مشورہ کرنا تھا کئی روز سے  فون کر رہا تھا، آج معلوم ہوا وہ پھلت میں ہیں تو سب کام چھوڑ کر آ گیا، مالک کا شکر ہے  کہ ملاقات بھی ہو گئی اور تسلی بھی۔

سوال  : آپ اپنا پریچے  (تعارف ) کرائیں ؟

جواب  : میرا پرا نام رام کرشن لاکڑا ہے، میں دہلی نجف گڑھ کے  علاقے  کی ہندو جاٹ فیملی سے  تعلق رکھتا ہوں، میرے  بابا جی ہمارے  گاؤں کے  پردھان اور زمینداروں میں سے  ہیں، ہمارا گاؤں ایک زمانہ پہلے  روہتک ضلع ہریانہ میں تھا اب دہلی کا ایک محلہ ہے، میرے  پتاجی کا انتقال میرے  بچپن میں ہو گیا تھا، میں آج کل دہلی میں پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتا ہوں، یوں تو میں اس سنسار میں ۲۷/ستمبر  ۱۹۵۹ء کو آ گیا تھا، مگر میرا دوسرا جنم ٹھیک ۴۵ سال بعد اس سال ۲۷ /ستمبر کو آ ج سے  ۱۵ دن پہلے  ہوا ہے۔

سوال    : کیا مطلب؟

جواب  : میں اپنے  پڑوس کی مسجد کے  مولانا صاحب سے  بھی کہہ رہا تھا کہ عجیب بات ہے  کہ پہلے  جنم کے  ٹھیک ۴۵ سال بعد میں نیا جم لیا اور دوبارہ جنم کے  عقیدے  سے  توبہ کی، میں نے  ۲۷/ستمبر پیر کے  دن ساڑھے  سات بجے  دن چھپنے  کے  بعد مولانا صاحب کے  ہاتھ پر پھلت میں ان کے  گھر کے  اوپر والے  کمرہ میں کلمہ پڑھ کر اپنی نئی اسلامی زندگی شروع کی، اس طرح میری سچی عمر آج ۱۵ دن ہوئی ہے۔

سوال  : ماشاء اللہ بہت خوب، اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں بتایئے، آپ کو اسلام قبول کرنے  کا خیال کس طرح آیا ؟

جواب  : آپ کو اس کے  لئے  ذرا لمبی بات سننی پڑے  گی، میں نے  ۱۹۷۶ء میں ہائی اسکول پاس کیا اور آگے  پڑھنے  سے  منع کر دیا، دو سال تک بھٹی کرتا رہا میرے  تاؤ اور ایک موسا(پھوپھا)فوج میں بڑے  کرنل ہیں، وہ گھر آئے  انھوں نے  مجھے  دھمکایا کہ اگر تو پڑھنے  نہیں جاتا تو تجھے  فوج میں بھرتی کر دیں گے  اور تجھے  لام پر جانا پڑے  گا،  ۱۹۷۱ء کی جنگ قریب تھی میں نے  داخلہ لے  لیا اور انٹر کر لیا مگر پھر پڑھنے  کا دل نہ چاہا، میری ماں نے  با با سے  کہہ کر میری شادی کرا دی اور ماں کی خوشی کے  لئے  میں نے  پرائیویٹ بی اے  بھی کر لیا، شادی کے  دوسال بعد میرے  پھوپھا نے  ایک ضروری کام کے  بہانے  دھوکہ سے  بریلی بلایا اور مجھے  فوجی بیرک میں لے  جا کر میرے  بال کٹوائے، وہ فوج میں کرنل تھے، سارے  کاغذات اور میڈیکل کرا کے  مجھے  بھرتی کر لیا اور مجھ سے  کہا کہ تیری بھرتی ہو گئی ہے  اب اگر تو بھا گے  گا تو فوجی تجھے  پکڑ کر لائیں گے  اور بھگوڑا قرار دے کر گولی مار دیں گے  یا فوجی جیل میں ڈال دیں گے، مجھے  ڈر سے  ٹریننگ میں جانا پڑا، میرا دل نہیں لگتا تھا اور گھر یاد آتا تھا اور گھر سے  زیادہ گھر والی، بیچاری بڑی محبت کرنے  والی شریف عورت ہے، میں نے  ٹریننگ میں ساتھیوں سے  مشورہ کیا کہ اس فوج سے  جان چھوٹنے  کی کیا صورت ہو سکتی ہے  ؟ میرے  ایک ساتھی نے  بتایا کہ اگر افسراَن فٹ (Unfit) کر دے  تو کام آسان ہے، میں نے  سوچا یہ بہت آسان ہے، میں نے  پاگل پن کا بہانہ کیا، بہکی بہکی باتیں کرتا، کبھی ہنستا تو ہنستا رہتا کبھی چیختا تو چیختا رہتا، مجھ اسپتال میں بھرتی کیا گیا اور میڈیکل چیک اپ ہوا، ڈاکٹر نے  کہہ دیا کہ یہ بہانا ہے، مجھے  افسر نے  بہت گا لیاں دیں اور سخت سزا کی دھمکی دی، ناچار پھر ٹریننگ شروع ہو گئی، ایک روز پریڈ میں صبح کے  وقت جیسے  ہی افسر آئے  میں نے  رائفل کھڑی کی اور تمباکو کی پُڑیا ہتھیلی پر ڈال کر اس میں چونا ملانا شروع کیا جیسے  ہی افسر سامنے  آیا، میں دوسرے  ہاتھ سے  سلوٹ ماری اور جے  ہند بولا: میرے  ہاتھ میں تمباکو دیکھ کر پوچھا یہ کیا ہے  میں نے  ہاتھ آگے  کر کے  کہا : سر!یہ تمباکو ہے، لو آپ بھی کھالو وہ دھمکا کر بولے  نالائق تیرا بیلٹ نمبر کیا ہے، میں نمبر بتا دیا دوپہر کے  بعد انھوں نے  مجھے  دفتر میں بلایا اور مجھ سے  کہا جب جنگ میں دشمن سامنے  ہو تو تو تمباکو کھائے  گایا گولی چلائے  گا، بہت غصہ ہوئے  میری فائل نکالی اور اس پر لال قلم سے  ان فٹ (Unfit  )لکھ دیا، میں نے  جے  ہند کہہ کر خوشی سے  سلام کیا اور رات کو ہی گاڑی میں بیٹھ کر دلی آ گیا، مرے  پھوپھا کو معلوم ہوا تو انھوں نے  گھر فون کر دیا کہ بھگوڑا، غدّار فوج سے  جان بچا کر بھاگ آیا ہے  میری بیوی مجھ سے  بات نہیں کرتی تھی کہ تو تو غدّار بھگوڑا ہے  میں نے  سمجھایا کہ بھاگیہ وان اگر وہ جنگ میں بھیج دیتے  تو تو ودھوا ہو جاتی، اب موج سے  ساتھ رہیں گے، بڑی مشکل سے  اس کی سمجھ میں آیا اور وہ راضی ہو گئی، میں نے  ماں کو بھی بہت سمجھایا کچھ روز یا ردوستوں میں آوارہ پھر کر اپنے  با با کے  ڈر سے  پراپر ٹی ڈیلنگ کا کاروبار شروع کر دیا، با با نے  مجھے  لگانے  کے  لئے  ایک کھیت کا پلاٹ کاٹنے  کے  لئے  دیا، رفتہ رفتہ مجھے  چسکا لگ گیا، دوستی کچھ غلط لوگوں سے  ہو گئی، جھگڑے  کی زمین خریدی مار پیٹ کر دھمکا کر قبضہ کیا اور بیچ دی، نہ جانے  کتنے  لوگوں کو ستایا کتنوں کا مال مارا، مار دھاڑ اور پراپر ٹی کے  ۱۹ مقدمے  میرے  ذمہ لگ گئے  میں جیل چلا گیا کسی طرح ضمانت ہوئی میں پہلے  جیل سے  بہت ڈرتا تھا، ڈھائی مہینہ کی جیل سے  اور بھی دہشت بیٹھ گئی۔

دو باتیں مجھ میں پہلے  سے  ہی مسلمانوں جیسی تھیں، جب سے  ہوش سنبھالا کسی مورتی کسی دیوی کی پوجا نہیں کی اور دوسری یہ کہ نجف گڑھ سے  آگے  ایک جگہ سور کے  گوشت کی دوکانیں تھیں، مگر جوانی کے  دنوں میں مرغا وغیرہ کھانے  کے  باوجود اول تو اس راستے  سے  گزرنا مشکل تھا، اگر جلدی میں گزر جاتا تو سانس روک کر نیچی نگاہ کر کے  گزرتا، سور کے  گوشت کو دیکھ کر مجھ الٹی سے  آتی تھی، جیل سے  ضمانت پرواپس آیا تو مری ماں نے  جو بہت دھارمک ہیں ہر شکروار کو برت رکھتی ہیں مجھ سے  کہا تو ناستک ہے، دیوتاؤں کو مانتا نہیں بلکہ ان کا اَنادر( بے  ادبی )کرتا ہے  اس لئے  تیرے  ذمہ اتنی آفت ہے، مجھ ایک ہنومان کی مورتی اور ہنومان چالیسا دیا کہ اس کا جاپ کر، میں اندر کمرہ میں ماں کی ضد اور کچھ ڈر کی وجہ سے  کئی روز ہنومان چالیسا کا جاپ کرتا رہا، مقدمہ کی تاریخ آئی، ایک عورت کی گواہی تھی، میں نے  صبح تڑکے  اٹھ کر ہنومان چالیسا کا جاپ کیا اور ہنومان کی مورتی کے  سامنے  بہت پرارتھنا کی حالانکہ دل میں وشواس یہی تھا کہ بے  جان کی مورتی کے  بس میں کیا رکھا ہے  ڈھل مل یقین کے  ساتھ بری ہونے  کی لالچ میں دیر تک میں نے  جاپ کیا اور پرارتھنا کی کہ گواہی ٹوٹ جائے، عدالت میں گیا تو اس عورت نے  ایسی ڈٹ کر گواہی دی کہ جج سمجھ گیا کہ بات سچ ہے، مجھے  غصہ آ گیا یہ خیال بھی نہ رہا کہ عدالت ہے، میں غصہ میں اس عورت سے  کہا کہ تجھے  باہر نہیں نکلنا ہے  کیا؟ جج نے  سن لیا اور بہت برہم ہوا اور ضمانت کینسل کر کے  جیل بھیجنے  کا حکم کر دیا، دو مہینہ پھر جیل میں رہا، بابا جی نے  پھر ہائی کورٹ سے  ضمانت کرائی، جیل سے  گھر آیا تو پہلے  کمرہ بند کر کے  ہنومان کی مورتی پر جوتا گیلا کر کے  بجایا، ہنومان چالیسا کو جلایا اور خوب گا لیاں دیں، ماں نے  جوتے  کی آواز سنی تو باہر سے  بہت چیخیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ میں اپنی بیوی کو مار رہا ہوں مگر جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ باہر ہے  تو اس کو جان میں جان آئی، میں بیان نہیں کر سکتا کہ روز روز کے  مقدموں کی تاریخ سے  میں کتنا پریشان تھا، ہمارے  علاقہ میں ایک ملا جی پھولوں کی ٹھیلی لگاتے  تھے، میں نے  ان سے  بات کی کہ کوئی تعویذ والا بتاؤ میں بہت پریشان ہوں، انھوں نے  کہا کہ کسی تعویذ والے  کو میں نہ جانتا ہوں نہ مجھے  اعتقاد ہے، ہاں تمہیں ایک چیز بتاتا ہوں تم روزانہ سو بار صلی اللہ علیہ و سلم پڑھ لیا کرو، میں نے  کہا بہت اچھا، میں پریشان تھا ہی اس لئے  میں نے  صبح و شام پانچ پانچ سو بار پڑھا اصل میں مالک کو مجھ پر دیا آ رہی تھی، پہلی ہی تاریخ میں میں بری ہو گیا، ایک سال میں گیارہ مقدمے  میرے  حق میں فیصل ہوئے  میں ملا جی کے  پاس آنے  جانے  لگا اور ان سے  کہا کہ اور کچھ بتاؤ تاکہ سارے  مقدموں سے  میری جان بچے، انھوں نے  خود کچھ بتانے  کے  بجائے  مجھے  ہندی زبان میں ایک کتاب ’’ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘‘دی میں نے  اس کو غور سے  پڑھا دوزخ کی سزاؤں کو پڑھ کر میرے  دل میں ڈر بیٹھ گیا رات کو ڈراؤ نے  خواب بھی دکھائی دیتے  مجھے  بار بار خیال آتا کہ میں نے  کتنے  لوگوں کی زمینیں دبائیں، کتنے  لوگوں کو مارا، میرا اب کیا ہو گا؟ مجھے  اس کتاب نے  بے  چین کر دیا، مقدموں سے  زیادہ رات دن موت کا اور دوزخ کا خوف سوار رہتا، میں سوچتا اس سنسار کی عدالت کے  انیس مقدموں سے  زندگی خراب ہے  تو اس مالک کے  سامنے  ان گنت مقدموں سے  کیسے  چھٹکارا ملے  گا؟ میں نے  ملا جی سے  مشورہ کیا انھوں نے  مسلمان ہو جانے  کو کہا: میں نے  اسلام کے  بارے  میں کسی کتاب کے  لئے  کہا تو انھوں نے  ’’اسلام کیا ہے ؟‘‘لا کر دی میری سمجھ میں اسلام آ گیا، اب میری سمجھ میں آیا کہ میرا فوج میں دل کیوں نہیں لگا، اگر میں فوج میں رہتا تو یہ ظلم، مار پیٹ نہ کرتا اور مرنے  کا خیال بھی نہ آتا میرے  مالک نے  میری ہدایت کے  لئے  مجھے  فوج سے  بھگایا اور الٹ پلٹ کام کرائے۔

میں امام بخاری کے  پاس جامع مسجد گیا، پہلے  تو ان تک پہنچنا ہی مشکل ہے  میں کسی طرح ترکیب سے  پہنچ گیا امام صاحب نے  کہا : اپنے  یہاں کے  ذمہ دار لوگوں کو لے  کر آنا جو تمہیں جانتے  ہوں میں دو چار روز کی کوشش سے  دو مسلمانوں کو لے  کر گیا تو وہ کہنے  لگے  شناختی کارڈ لاؤ، میں نے  کہا آپ نے  اسی وقت کیوں نہیں بتایا، بار بار کیوں پریشان کرتے  ہیں، وہ ناراض ہو گئے  اور بولے  بات کرنے  کی تمیز نہیں، میں کہا تمہیں تمیز نہیں مجھے  تو ہے  اور میں چلا آیا۔

سوال  : پھر اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : اس کے  بعد ایک صاحب نے  فتحپوری مسجد جانے  کو کہا میں وہاں پہنچا تو انھوں نے  کہا کہ مسلمان ہونے  کے  بعد تمہارا نکاح ختم ہو جائے  گا، تمہیں اپنی بیوی کو چھوڑنا پڑے  گا میں نے  کہا وہ ۲۵ سال سے  میرے  ساتھ رہ رہی ہے  ایسی بھلی عورت ہے  کہ آج تک مجھے  اس سے  شکایت نہیں ہوئی میں اس کو کیسے  چھوڑ سکتا ہوں ؟ انھوں نے  کہا پھر تمہیں کلمہ نہیں پڑھوایا جاسکتا اور نہ تم مسلمان ہو سکتے  ہو، وہاں سے  مایوس ہو کر میں نے  تلاش جاری رکھی، ایک صاحب نے  مجھے  ایک مزار پر بھیج دیا، وہاں ایک میاں جی لمبے  لمبے  بال ڈھیر ساری مالائیں گلے  میں ڈالے، ہرے  رنگ کا لمبا کرتا اور بہت اونچی ٹوپی پہنے  ہوئے  تھے، میں ایک جاننے  والے  کو وہاں لے  کر گیا تھا، انھوں نے  کہا میں تمہیں کلمہ پڑھواتا ہوں، میرے  قریب بیٹھو گھٹنوں سے  گھٹنے  ملا کر ادب سے  بٹھایا اپنے  داہنے  ہاتھ میں میرا بایاں انگوٹھا اور بائیں ہاتھ میں دایاں انگوٹھا لے  لیا اور بولے  مرید ہونے  کی نیت کرو اور میرے  پیروں پر ادب سے  نگاہ رکھو، مجھے  بچپن کا کھیل نظر آ گیا ہم ایک دوسرے  کواسی طرح گھمایا کرتے  تھے، مجھے  ہنسی آ گئی وہ غرائے  کہ ہنس رہا ہے  میں نے  کہا مجھے  بچپن کا ایک کھیل یاد آ گیا ہے، اگر میں بچوں کی طرح آپ کو سر کے  اوپر گھما کر پھینک دوں تو؟ انھوں نے  پھر دھمکایا، نہ جانے  کیا کیا کہلوایا، قادریہ، غوثیہ، وغیرہ وغیرہ پھر بولے  میرے  پاؤں کے  بیچ سر رکھو، میں نے  منع کیا تو دھمکا کر بولے  مرید ہو کر بات نہیں مانتا، میں نے  سر ٹیکا اور جلدی سے  اٹھا لیا، وہ دوبارہ بولے  ادب سے  قدموں میں سر رکھو اور یہ سوچو کہ مجھ میں خدا کا نور ہے  جس طرح خدا کو سجدہ کرتے  ہیں اس طرح کرو، مجھے  غصہ آ گیا میں نے  اسلام کے  بارے  میں بہت کچھ پڑھ لیا تھا میں نے  اس نالائق سے  کہا کہ اگر میں تجھے  اٹھا کر دے  ماروں تو خدا میں ہوں گا، اس لئے  کہ جو طاقتور ہوتا وہ خدا ہوتا ہے، میں نے  دو چار گا لیاں دیں اور چلا آیا۔

مجھے  مسلمان ہونے  کی بے  چینی تھی اور موت کا کھٹکا تھا، میں نے  ایک ملا جی سے  ذکر کیا وہ مجھے  ایک قاضی جی کے  یہاں لے  گئے  قاضی جی نے  کہا مسلمان تو ہم تمہیں کر لیں گے  مگر دو ہزار روپئے  فیس ہو گی، میں نے  کہا کہ میں مسلمانوں کا اسلام لینا نہیں چاہتا میں تو حضرت محمدﷺ صاحب والا اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں اگر حضرت محمدﷺ صاحب نے  کسی کو مسلمان کرنے  کے  لئے  پیسے  لئے  ہوں تو آپ بھی لے  لیں، جب انھوں نے  کبھی ایک پیسہ نہیں لیا تو آپ کیسے  پیسے  مانگتے  ہیں ؟ دو ہزار کی بات کوئی بڑی نہیں تھی، مگر مجھے  وشواس نہیں ہوا میں وہاں سے  بھی واپس آ گیا۔

اگلے  روز ایک مسجد کے  سامنے  سے  جا رہا تھا تو ذرا صاف ستھرے  کپڑوں میں ایک مولانا صاحب مسجد کی طرف جاتے  دکھائی دیئے  بعد میں ان کا تعارف ہو ان کا نام مولانا عبدالسمیع قاسمی تھا، میں نے  ان سے  کہا مجھے  اسلام کے  بارے  میں کچھ بات معلوم کرنی ہے  پہلے  وہ ٹھٹکے   بعد میں وہ تیار ہو گئے  میں نے  ان سے  کہا کہ اسلام کے  بارے  میں نے  ۵۰ سے  زیادہ کتابیں پڑھی ہیں، جب آپ ﷺ آخری حج کو گئے  تو ان کے  ساتھ سوالاکھ ساتھی تھے، انھوں نے  سب کو اکٹھا کر کے  ان سے  سوال کیا کہ میں نے  اسلام تم سب تک پہنچا دیا ؟سب نے  کہا کہ بالکل پہنچا چکے، حضرت محمدﷺ نے  کہا کہ اب جو یہاں سے  غائب ہیں یہ اسلام تمہیں ان تک پہنچانا ہے، اس سے  یہ بات معلوم ہوئی کہ جن مسلمانوں تک اسلام پہنچ چکا ہے  وہ دوسرے  مسلمانوں تک پہنچائیں ؟ مولانا قاسمی نے  کہا کہ ہاں ضرور پہنچانا چاہئیے  میں نے  کہا کہ مولانا صاحب آپ مجھے  ایسے  دوچار لوگوں سے  ملوائیں جو دین کو دوسروں تک پہنچانے  کا کام کر رہے  ہیں، مولانا بولے  ایسے  لوگ بھی ہیں، میں نے  کہا کہ یہ کام تو سارے  مسلمانوں کو کرنا چاہئے  مگر مجھے  ایک مسلمان بھی نہیں ملا میں خود اسلام لانا چاہتا ہوں، چار بڑے  مولویوں نے  مجھے  دھکے  دے  دئے، مولانا قاسمی نے  کہا کہ آپ کو ایک آدمی کا پتہ بتا تا ہوں، آپ پھلت چلے  جاؤ، میں نے  ان کا پتہ اور فون نمبر مانگا، انھوں نے  کہا فون نمبر میں ابھی معلوم کرتا ہوں، نانگلوئی کے  کسی مولانا صاحب کو انھوں نے  فون کیا اور مولانا کلیم صاحب کا موبائیل نمبر مل گیا، انھوں نے  فون ملایا مولانا دلی ّ سے  پھلت جا رہے  تھے، مولانا قاسمی نے  کہا کہ ہمارے  ایک چودھری صاحب اسلام قبول کرنا چاہتے  ہیں، مولانا نے  کہا ان کو آج شام تک پھلت بھیج دیں، میں نے  کہا فون پر مجھ سے  بات کروا دو، انھوں نے  فون مجھے  دے  دیا، میں بات کی مولانا نے  کہا : آپ جب بھی آئیں ہمارے  اتتھی بلکہ آدرنیہ اتتھی (معزز مہمان) ہوں گے، میں سیوا(خدمت)کے  لئے  ہر سمے  حاضر ہوں میں نے  کہا بہت بہت دھن واد(شکریہ)مجھے  بڑا عجیب لگا پہلی بار ایک آدمی سو ڈیڑھ سو کلو میڑ دور میرا ایسا سواگت کر رہا ہے۔

مجھے  تو ایک ایک منٹ مشکل ہو رہا تھا، میں اسی روز ۲۷ستمبر کو دن چھپنے  تک پھلت پہنچا مولانا صاحب نماز پڑھنے  گئے  تھے  میں بیٹھک میں کرسی پر بیٹھ گیا، مولانا صاحب آئے  تو میں نے  ملاقات کی مولانا بہت خوشی سے  ملے، ان کے  یہاں باہر کے  کچھ مہمان آئے  ہوئے  تھے  جو اندر مکان کے  اوپر والے  کمرہ میں ٹھہرے  ہوئے  تھے، تھوڑی دیر میں مولانا نے  مجھے  بھی وہیں بلوا لیا، مجھ سے  پیارسے  سوال کیا میرے  لئے  سیوا بتائیے  میں نے  کہا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، مولانا صاحب نے  کہا بہت مبارک ہو، جو سانس اندر چلا گیا اس کے  باہر آنے  کا اطمینان نہیں اور جو باہر نکل گیا اس کے  اندر جانے  کا بھروسہ نہیں، اصل میں تو ایمان دل کے  وشواس (یقین ) کا نام ہے، آپ نے  ارادہ کر لیا، دل سے  طے  کر لیا کہ مجھے  مسلمان بننا ہے  تو یہ کافی ہے  مگر اس سنسار میں ہم لوگ دل کے  حال کو جان نہیں سکتے  اس لئے  زبان سے  بھی کلمہ پڑھنا پڑتا ہے  آپ جلدی سے  دو لائن جس کو کلمہ کہتے  ہیں پڑھ لیجئے، میں نے  کہا مجھے  ایک بات پہلے  بتایئے  کہ مسلمان ہو کر کیا مجھے  بیوی کو چھوڑنا پڑے  گا، مولانا صاحب !آپ کیسے  مسلمان ہوں گے  جو آپ اپنے  جیون ساتھی کو چھوڑیں گے، آپ چھوڑنے  کی بات کرتے  ہیں، اگر آپ سچے  دل سے  مسلمان ہیں تو آپ کو اپنی بیوی کو سورگ (جنت)تک ساتھ لے  جانا پڑے  گا بلکہ اس سارے  سنسار کو نرک سے  بچا کر سورگ لے  جانے  کی کوشش کرنی ہو گی، مجھے  خوشی ہوئی چلو یہ اچھے  آدمی ملے  ہیں، مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھایا، ہندی میں ارتھ بھی کہلوایا اور بتایا کہ تین باتوں کا آپ کو خیال کرنا ہے، ایک یہ کہ ایمان اس مالک کے  لئے  قبول کیا ہے، جو دلوں کا بھید جانتا ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ میں مسلمان ہوں لوگ مجھے  نہ جانے  کیا کیا کہتے  ہیں، مگر میرا مالک جانتا ہے  کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں اور اسلام وہ ہے  جو دلوں کے  بھید جاننے  والے  کو قبول ہو جائے۔

دوسری بات یہ ہے  کہ اس دنیا میں بھی ایمان کی ضرورت ہے  اور وہ آدمی جو ایک مالک کو چھوڑ کر دوسرے  کے  آگے  جھکے  کتیّ سے  بھی زیادہ گیا گزرا، کہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے  مالک کے  ایک در پر پڑا رہتا ہے، وہ آدمی کتیّ سے  بھی بدتر ہے  جو در در جھکے، مگر اصل ایمان کی ضرورت موت کے  بعد پڑے  گی جہاں ہمیشہ رہنا ہے  تو موت تک اس ایمان کو بچا کر لے  جانا ہے۔

تیسری سب سے  ضروری بات یہ ہے  کہ یہ ایمان ہماری آپ کی ملکیت نہیں ہے  بلکہ یہ ہمارے  پاس ہر اس انسان کی امانت ہے  جس تک ہم پہنچاسکتے  ہیں اب اگر مالک نے  ہمیں راستہ دکھا دیا ہے  تو ہمیں سارے  خاندان، دوستوں اور جاننے  والوں تک اس سچائی کو پہنچانے  کی ذمہ داری ادا کرنی ہے  میں نے  کہا مولانا صاحب آپ سچ کہتے  ہیں میں اصل میں خوف اور لالچ سے  مسلمان ہو رہا ہوں، مرنے  کے  بعد کیا ہو گا، دوزخ کا کھٹکا اور جنت کی کنجی کتابوں میں میں نے  جو کچھ پڑھا فلم کی طرح میرے  دل و دماغ میں گھومتا رہتا ہے  مجھے  خیال ہوتا ہے  کہ تو نے  اتنے  ظلم کئے  ہیں موت کے  بعد کیا ہو گا؟ اب میں آپ کے  سامنے  عہد کرتا ہوں کہ اسلام میں مالک نے  جن کاموں سے  روکا ہے  پوری جان لگا کر ان کاموں سے  بچنے  کی کوشش کروں گا، شاید میرے  مالک کے  سامنے  جانے  کا میرا منہ ہو جائے  میں نے  مولانا صاحب کو بتایا کہ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے  اسلام کو پڑھ کر مسلمان ہونے  کا فیصلہ کیا، مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں، آج کے  مسلمانوں کو دیکھ کر کون مسلمان ہو سکتا ہے  ؟ میرے  چاروں طرف بہت سے  مسلمان رہتے  ہیں، ہمارا ایک کرایہ دار غلام حیدر نام ہے، نماز بھی نہیں پڑھتا میں نے  ان سے  ایک بار کہا تم ہر مہینہ میرے  ماں باپ کو کرایہ دیتے  ہو اگر تم ان سے  مسلمان ہونے  کو کہو تو کیا خبر وہ مسلمان ہو جائیں اور اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو ہمارا پورا خاندان مسلمان ہو جائے  گا، وہ بولے  تمہارے  با با علاقہ کے  پردھان ہیں اگر میں نے  ان سے  کہہ دیا تو ہمیں جینا مشکل کر دیں گے، میں نے  کہا تم خداسے  نہیں ڈرتے  میرے  با با سے  ڈرتے  ہو، اس لئے  یہ کعبہ کا فوٹو ہٹا کر میرے  با با کا فوٹو لگاؤ اور روزانہ اس کا نام جاپ کر کے  میرے  با با کو ڈنڈوت کرنا، میرے  با با نے  کسی دن دیکھ لیا تو وہ تمہارا کرایہ معاف کر دیں گے، تمہارے  مزے  آ جائیں گے، میں نے  ان سے  کہا کہ تم اپنے  کو سید بتاتے  ہو خدا کے  سامنے  تمہیں بھی جانا ہو گا، میں مالک کے  سامنے  ہی لٹھ ماروں گا کہ انھوں نے  سید ہو کر ایک دن بھی ہمیں ایمان لانے  کو نہیں کہا۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : میں نے  مولانا صاحب سے  اپنی روداد سنائی اور چار بڑے  مولاناؤں کے  پاس سے  واپس آنے  کی بات سنائی، مولانا نے  مجھے  بہت پیار سے  سمجھایا کہ ان کا ایسا کرنا ٹھیک تھا اور مجھے  تسلی دی۔

سوال  : آپ کے  کتنے  بچے  ہیں ؟

جواب  : دو لڑکے  اور دو لڑکیاں ہیں، بڑی لڑکی کی شادی میں نے  کر دی ہے، ہمارا سماج اصل میں پٹھانوں سے  بہت ملتا جلتا ہے، بہت شرم و حیا ہے، مردوں کا رہنا باہر اور عورتوں کا اندر، میں اپنی ماں کے  سامنے  اپنی بیوی سے  آج تک بات نہیں کر سکتا ماں بیٹھی ہو گی تو میں اس کو ہی کام بتاؤں گا، وہ کبھی کہتی بھی ہے  کہ یہ تیری پانچ ہاتھ کی بہو ہے  تو اس سے  کیوں نہیں کہتا، میں کہتا ہوں ماں جب تو مر جائے  گی تب اس سے  کہوں گا، ہمارے  یہاں ابھی تک لڑکی کو پڑھانے  کا رواج نہیں ہے، پورے  خاندان میں میں نے  بغاوت کر کے  بڑی لڑکی کو پڑھایا، ہائی اسکول پاس کیا تو اس نے  کہا : پتا جی مجھے  دو ہزار روپئے  چاہئے، میں نے  کہا بیٹی !دو ہزار کا کیا کرو گی ؟ اس نے  کہا ایک ہزار کا موبائل مل رہا ہے، میں نے  کہا موبائل کا کیا کرو گی ؟اس نے  کہا بات کیا کروں گی میں نے  پوچھا اور ایک ہزار کا کیا کرو گی اس نے  کہا جنس لاؤں گی، میں نے  اس سے  کہا کہ دو ہزار کی جگہ پانچ ہزار دوں گا، مگر ۱۵ دن کے  بعد، میں نے  لڑکے  والوں کو بلوایا جہاں رشتہ طے  کر رکھا تھا اور کہا آ ٹھ دن میں پھیرے  پھروا لو تو لڑکی تمہاری، ورنہ میں کسی دوسری جگہ شادی کر دوں گا، وہ تیار ہو گئے، با با سے  کہہ کر پنڈت بلوایا اور پھیرے  پھروا دئے، میں نے  لڑکی کو ڈھائی ہزار روپئے  دیئے  اور کہا آدھے  تو یہ لو اور آدھے  اس دن دوں گا جس روز گود میں بٹھا کر رخصت کرنے  کے  لئے  تجھے  گاڑی میں ٹیکوں (بٹھاؤں ) گا، آج ہائی اسکول کر کے  موبائل اور جنس مانگ رہی ہے  اگر انٹر کر لیا تو کسی بھنگی کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے  آئے  گی کہ پتا جی یہ تمہارا داماد ہے، میں نے  عہد کر لیا کہ لڑکی کو پانچویں سے  آگے  ہر گز نہیں پڑھانا ہے، یہ بات میں نے  مولانا صاحب سے  بھی کہی تھی، انھوں نے  کہا یہ سوچ ٹھیک نہیں ہے، اب تم مسلمان ہو گئے  ہو، آپ کو اسلام کی ہر بات ماننا ہو گی، اسلام نے  علم حاصل کرنے  کو فرض کہا ہے  اور لڑکا لڑکی دونوں کو پڑھانا ضروری ہے  مگر شرط یہ ہے  کہ اسلامی ماحول اور تربیت میں، میں نے  وعدہ کر لیا اب میرا پکا ارادہ ہے  کہ اپنے  ان تینوں بچوں کو اسلامی تعلیم کی جو سب سے  بڑی ڈگری ہو گی اس تک پڑھاؤں گا، آگے  مالک کے  ہاتھ میں ہے، اب میں نے  بالکل اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے  کا فیصلہ کیا ہے  میں شراب کا بہت عادی تھا، حالانکہ جب میں ہندو تھا ہمت کر کے  دو مہینے  تین مہینے  تک کئی بار شراب چھوڑی اور دوستوں کو اپنے  ہاتھوں سے  پلائی مگر خود نہیں پی، مگر جب سے  میں نے  کلمہ پڑھا ہے  اب زندگی بھر نہ پینی ہے  اور نہ پلانی ہے  اور نہ پینے  والوں کے  پاس بیٹھنا ہے، ۱۵ دن ہو گئے  مجھے  خیال بھی نہیں آیا اور مالک کا کرم ہے  کہ کسی دوست نے  بھی میرے  سامنے  نہیں پی، حالانکہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہے  کہ میں نے  چھوڑ دی ہے، یا اسلام قبول کر لیا ہے۔

سوال  : آپ نے  یہ باتیں اپنی بیوی سے  بتا دیں ؟

جواب  : میری بیوی میری ماں کی طرح بہت دھارمک اور بہت کٹر ہے  جب مولانا صاحب مجھ سے  کہہ رہے  تھے  کہ اس کو اپنے  ساتھ جنت میں لے  جانا ہے  تو میں نے  بتایا کہ وہ تو بہت کٹر ہندو ہے، جس روز گوشت کھا کر آتا ہوں گھر میں گھسنا مشکل کر دیتی ہے، نہ جانے  اس کو کیسے  خوشبو آ جاتی ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ کٹر ہندو ہی سچی مسلمان ہوتی ہے، دھرم پر انسان اپنے  مالک کو خوش کرنے  کے  لئے  ہی پابندی کرتا ہے، اگر آپ اس کو سمجھا دیں کہ یہ راستہ غلط ہے  اور سچا راستہ اسلام ہے  تو اسلام پر بھی وہ بہت سختی سے  عمل کرے  گی، میں نے  پھلت میں مولانا صاحب کے  بھانجے  کے  موبائل سے  اس کو بتا دیا تھا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، تو وہ بہت ناراض ہوئی، میں نے  یہ کہہ کر بات بند کر دی کہ میں دوسرے  کے  موبائل سے  فون کر رہا ہوں۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : اگلے  روز صبح کو میرے  مقدمے  کی تاریخ تھی، مجھے  صبح وکیل سے  بھی ملنا تھا، اس لئے  رات کو مولانا صاحب نے  اپنی گاڑی سے  کھتولی پہنچا دیا، رات کو بارہ بج کر ۴۵ منٹ پر گھر پہنچا مہارانی جی غصے  میں بھری تھیں، دھکے  دینے  لگی بار بار گالیاں دیں ۲۵ سال کا سارا ادب بھول گئی، کہنے  لگی کہ تو دھرم بھرشٹ کر کے  آیا ہے، تو میر ا کیا لگتا ہے، بھاگ جا، نہ جانے  کیا کیا کہا صبح تک لڑائی ہوتی رہی، مولانا نے  بیوی کو دعوت دینے  کے  لئے  آخری ہتھیا رکے  طور پر ایک پوائنٹ بتا دیا تھا، صبح ہونے  کو ہوئی میں اس ڈر سے  کہ دن نکل گیا تو یہ سب کو بتا دے  گی اسلئے  میں نے  آخری تیر کے  طور پر اس کا استعمال کیا، میں نے  اس سے  کہا کہ تو اصلی ہندو ہے  یا نقلی، اس نے  کہا اصلی ہوں بالکل اصلی، میں نے  کہا کہ اگر اصلی ہندو ہے  اور میں اسلام کی چتا میں جل گیا ہوں تو تجھے  بھی میرے  ساتھ ستی ہو جانا چاہئے، اب تو مجھے  چھوڑ کر یا دھکے  دے  کر بازاری بنے  گی یا دوسرے  کے  پاس بیٹھے  گی، بھگوان نے  تجھے  میرے  ساتھ باندھا ہے، تو اگر اصلی ہے  تو میرے  ساتھ ستی ہو جانا چاہئے، تیر نشانے  پر لگ گیا وہ چپ ہو گئی دیر تک ہچکیوں سے  روتی رہی میں اس کے  قریب گیا پیار کیا اور دکھ سکھ اور جیون مرن میں ساتھ دینے  کے  وعدوں کی دہائی دے  کر مسلمان ہونے  کے  لئے  کہا وہ تیار ہو گئی، ٹو ٹا پھوٹا کلمہ پڑھوایا اور صبح فجر کی نماز ہم دونوں نے  ایک ساتھ پڑھی، بیوی کے  مسلمان ہونے  کی اپنے  مسلمان ہونے  سے  زیادہ مجھے  خوشی ہوئی، مجھے  مولانا صاحب کی ہر بات سچی لگنے  لگی، انھوں نے  ہی کہا تھا کہ بیوی کو چھوڑنے  کی بات کیا مطلب ؟ اس کو جنت تک ساتھ لے  جانا ہے۔

سوال  : اب آپ کا کیا ارادہ ہے  ؟ اسلام کی تعلیم کے  لئے  آپ نے  کیا سوچا؟

جواب  : ہمارے  علاقہ میں ایک مولانا صاحب مسجد میں امام ہیں میں روزانہ رات کو ان کے  پاس جا رہا ہوں، مجھے  جماعت میں جانا ہے  مگر مقدموں کی تاریخوں کی وجہ سے  ابھی مجبور ہوں، میں نے  اپنی بڑی لڑکی اور داماد کو بھی ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا‘‘ اور ’’ آپ کی امانت پڑھنے  کے  لئے  دی ہے۔

سوال  : ارمغان کے  واسطے  سے  آپ مسلمانوں سے  کچھ کہنا چاہیں گے  ؟

جواب  : مجھے  صرف یہ کہنا ہے  کہ یہ دین جب امانت ہے  جیسا کہ مولانا صاحب نے  ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘ میں لکھا ہے  تو پھر اسے  سارے  سنسار تک پہنچانا چاہئے، آج کے  دور میں اسلام پہنچانا بہت آسان ہے، میں لاکڑا جاٹ ہوں، جاٹ قوم کی سائیکالوجی اچھی طرح جانتا ہوں، جاٹ بہت لالچی ہوتا ہے  اور لالچی سے  زیادہ ڈرپوک ہوتا ہے، خصوصاً جیل اور سزا سے  جتنا جاٹ ڈرتا ہے  شاید دوسرا نہیں ڈرتا، احمد بھائی میں آپ سے  سچ کہتا ہوں کہ اگر ’’مرنے  بعد کیا ہو گا‘‘ اور ’’دوزخ کا کھٹکا‘‘ ہند ی انواد(ترجمہ) کر کے  جاٹوں تک پہنچایا جائے  اور قرآن مجید میں جنت و دوزخ کا جو ذکر ہے  ان کو سنایا جائے  تو جاٹ سارے  کے  سارے  ضرور مسلمان ہو جائیں گے، اس سے  زیادہ ضروری بات یہ ہے  کہ جب دین امانت ہے  اور مالک کے  سامنے  حساب دینا ہے  تو اس کا بھی حساب ہو گا کہ اس کو پہنچایا یا نہیں، اس لئے  دین کو دوسروں تک پہنچانا نہ صرف یہ کہ دوسروں کے  لئے  ضروری ہے  مرنے  کے  بعد کے  جواب سے  بچنے  کے  لئے  خود مسلمانوں کے  لئے  بھی ضروری ہے۔

سوال  : آپ کی باتیں اتنی دلچسپ اور مزے  کی ہیں کہ جی چاہتا ہے  دیر تک کئے  جاؤں، مگر بات لمبی ہو گئی ہے  اس لئے  باقی آئندہ انشاء اللہ، بہت بہت شکریہ، السلام علیکم، فی امان اللہ۔

جواب  : آپ کا بھی شکریہ، وعلیکم السلام۔

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان نومبر ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب ماسٹر محمد اسلم صاحب {پرمود کمار} سے  ایک ملاقات

سوال   :  السلام علیکم

جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

سوال  :  آپ کی تعریف ؟

جواب  :  میرا نام محمد اسلام ہے، دیوبند کے  قریب ایک گاؤں کا رہنے  والا ہوں، میرا پرانا نام پرمود کمار ہے  ایک بہت مذہبی جاٹ گھرانے  کا فرد ہوں، اب سے  ساڑھے  سات سال قبل میں نے  اسلام قبول کیا، الحمد للہ میں نے  بارہویں کلاس تک تعلیم حاصل کی ہے۔

سوال  : اپنے  خاندان کے  بارے  میں بتائیں ؟

جواب  : میرے  تین بھائی ایک بہن ہے، والد ین حیات ہیں جب میری چھ سال کی عمر تھی میرے  والد نے  سنیاس لے  لیا تھا وہ گنگا کے  کنارے  ایک بڑا مشہور آشرم چلاتے  ہیں، ہندو مذہب کے  بڑے  گیا نی اور عالم ہیں، اس کے  علاوہ خاندان میں چچا تائے  اور پھر بھیاّ وغیرہ ہیں، ہمارا خاندان بڑا خاندان ہے۔

سوال  : آپ نے  کہا کہ آپ کے  والد ہندو مذہب کے  بڑے  گیانی رہے  ہیں کیا اب نہیں ہیں ؟

جواب  :  الحمد للہ اب تو انھوں نے  بھی اسلام قبول کر لیا ہے۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کا حال سنائیں ؟

جواب  : حقیقت یہ ہے  کہ اسلام دین فطرت ہے  جیسا کہ ہمارے  حضرت فرماتے  ہیں کہ جس طرح انسان کے  پیٹ کو بھوک و پیاس لگتی ہے  اور پانی اور کھانے  کے  بغیر آدمی بے  چین رہتا ہے  اسی طرح انسان کی روح اس کی آتما کو دین اسلام خصوصاً توحید خالص کی تلاش اور بے  چینی رہتی ہے، مجھے  بچپن ہی سے  خیال آتا تھا کہ جس طرح مالک نے  اس دنیا کو بنایا ہے  اس تک کس طرح پہنچا جائے  بہت سے  دھرم گروؤں سے  میں بات کرتا تھا مگر اطمینان نہ ہوتا تھا، ایک حافظ صاحب سے  میرا رابطہ ہوا میں نے  ان سے  بھی اس طرح کے  سوالات کئے  انھوں نے  اسلام کے  بارے  میں مجھے  بتایا جو مجھے  اچھا لگا، سب سے  زیادہ اسلام کی پاکی کا نظم مجھے  بے  حد پسند آیا، مجھے  خیال آتا تھا کہ پیشاب، پاخانہ ایسی گندی چیزیں ہیں کہ آدمی جہاں پر یہ ہوں وہاں کھڑا ہونا پسند نہیں کرتا، جب یہ پیشاب انسان کے  کپڑوں اور جسم کو لگے  گا تو انسان کیسے  (پوِتر)پاک ہو سکتا ہے  اور مالک تو بڑا (پوِتر) پاک ہے  وہ ناپاک انسان کو کیسے  مل سکتا ہے، پاکی کی اس چاہت اور پسند کے  ذریعے  میرے  اللہ نے  میرے  دل کو کفر وشرک سے  پاک کر دیا اور میں نے  اسلام قبول کر لیا، حافظ صاحب مجھے  پھلت حضرت کے  پاس لائے، پھر میں نے  چار مہینے، جماعت میں لگائے  اور خوب محنت سے  دین سیکھا پھر حضرت مولانا نے  مجھے  چانچک ضلع جمنا نگر بھیج دیا، وہاں مدرسے  میں میں نے  قرآن شریف، تجوید اور دینیات پڑھی اور بچوں کو پڑھایا، اس کے  بعد دوسال سے  پھلت میں ہوں۔

سوال  : قبول اسلام کے  بعد آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟

جواب  : ایک آدمی جب اپنا سب کچھ چھوڑ کے  نئے  ماحول میں آتا ہے  تو اس کو پریشانی تو ہوتی ہی ہے  مجھے  بھی اس سے  واسطہ پڑا، کئی بار کئی کئی روز تک فاقہ کرنا پڑا میرے  لئے  سب سے  تکلیف کی بات مسلمان بھائیوں کے  سوالات اور ہر آدمی کا انٹرویو لینا تھا، مگر ان سب کے  باوجود میں نے  جس قیمتی ایمان کو قبول کیا تھا اس کے  لئے  یہ پریشانیاں کوئی زیادہ نہیں لگیں۔

سوال  : سنا ہے  آپ ایک بار غصے  میں آ کر کہیں چلے  گئے  تھے  پھر آپ کے  دوبارہ آنے  کا کیا ذریعہ بنا

جواب  : اپنی نا سمجھی اور کچھ لوگوں کے  مسلسل سوالات سے  تنگ آ کر میں گڑگاؤں ایک عیسائی مشن میں چلا گیا تھا اصل میں میری غلطی یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ میں نے  اسلام قبول کیا ہے  تو میرے  مسائل کا حل کرنا مسلمانوں کے  ذمہ ہے  اور قبول اسلام کو میں شیطان کے  بہکاوے  میں مسلمانوں پر احسان سمجھنے  لگا تھا، مگر میرے  اللہ کا کرم تھا کہ میرا عقیدہ ٹھیک رہا گو میں ظاہر میں عیسائی مشن سے  جڑ گیا تھا وہاں کے  حال کو دیکھ کر بھی مجھے  اسلام کی قدر بڑھی اور سب سے  زیادہ میرے  حضرت کی ماں سے  زیادہ ممتا اور شفقت بلکہ ان کی روحانی توجہ مجھے  مقناطیس کی طرح کھینچتی رہی، میں وہاں بے  چین رہتا تھا اور پھر بلا اختیار مجھے  پھلت آنا پڑا کھتولی آ کر میں نے  حضرت کو فون کیا، حضرت نے  پھلت بلایا، میں نے  اپنا حلیہ بدل لیا تھا مجھے  شرم آ رہی تھی مگر حضرت نے  مسجد میں بلایا اور جامع مسجد میں گلے  لگا کر خوب روئے  اور مجھے  سمجھایا، دوزخ کی آگ کا خوف دل میں بٹھایا اور مجھے  کہا کہ تمہاری سب سے  بڑی غلطی یہ ہے  کہ ایمان کو تم مسلمانوں پر احسان سمجھ رہے  ہو حضرت نے  کہا کہ اگر ایک انسان کسی ڈوبتے  آدمی کو یا آگ میں جلتے  آدمی کو اس پر ترس کھا کر ڈوبنے  یا آگ سے  میں جلنے  سے  بچا لے  اور اس کو وہاں سے  نکال لے  اور ڈوبنے  اور جلنے  سے  بچنے  والا آدمی اس سے  یہ کہے  کہ تم نے  میری جان بچائی اسلئے  اب میرے  سارے  مسائل آپ کو حل کرنے  ہیں میری روٹی کپڑے  اور ساری ضروریات کا انتظام آپ کو کرنا ہے، تو اس آدمی کی کیسی غلط بات ہے، الحمدللہ مجھے  اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے  صلوٰۃالتوبہ پڑھی۔

سوال  : اسلام میں آ کر آپ کیا محسوس کرتے  ہیں ؟

جواب  : اسلام میں آ کر میں اللہ کابڑا شکر ادا کرتا ہوں اور مجھے  جب بھی اپنے  ایمان کا خیال آتا ہے  تو مجھے  اپنے  اللہ کے  سامنے  سجدے  میں گرنے  کو جی چاہتا ہے  اور اس خیال سے  کہ کہیں مجھے  میرے  اللہ نے  ہدایت نہ دی ہوتی اور حضرت کے  پیار و محبت کی وجہ سے  میں عیسائی مشن سے  نہ نکلتا اور اس میں میری موت آ جاتی تو کیا ہوتا ؟ اور میرا رواں کھڑا ہو جاتا ہے، جیسا دیکھئے  اس وقت ہو رہا ہے۔

        اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَاوَمَاکُنَّالِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدَانَا اللّٰہ

سوال  : آپ نے  فرمایا کہ آپ کے  والد نے  بھی اسلام قبول کر لیا ہے  ان کے  قبول اسلام کا کچھ حال بھی سنایئے  ؟

جواب  : ہمارے  حضرت نے  میرے  خاندان کے  بارے  میں معلوم کیا جب میں نے  ان سنیاس لینے  اور آشرم کا حال بتایا تو انھوں نے  مجھ سے  ان کی ہدایت کے  لئے  دعا کو کہا، ہمارے  حضرت کا یہ بھی خیال ہے  کہ اگر نو مسلموں کو کار دعوت پر نہ لگایا جائے  تو ان کا پریشانیوں سے  گھبرا کر مرتد ہونے  کا خطرہ رہتا ہے  انھوں نے  مجھے  والد صاحب کے  پاس جانے  کے  لئے  کہا اور مولانا عمران مظاہری کو میرے  ساتھ بھیجا ہم آشرم پہنچے، تو میرے  والد نے  پہچان لیا مگر وہاں کے  ماحول کی وجہ سے  اظہار نہیں کیا ہم نے  ان کے  گرو کا حوالہ دیا جس کو بہانہ بنا کر شفقتِ پدری میں انھوں نے  ہماری بہت خاطر کی چلتے  وقت دونوں کو سو سو روپئے  بھی دئے  اور پھر آنے  کو کہا، ہم لوگ پھلت آئے  تو حضرت نے  کا گذاری سنی اور اس پر افسوس کیا کہ آپ نے  دعوت کیوں نہیں دی اور دوبارہ جانے  کو کہا اور پھلت کی دعوت دینے  کو کہا، ہم دوبارہ گئے  اور دعوت تو دینے  کی ہمت نہ ہوئی پھلت کے  لئے  وعدہ لیا اور حضرت کی کتا ب ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دے  کر آ گئے، انھوں نے  ایک ہفتے  بعد آنے  کا وعدہ کر لیا۔

ایک ہفتے  بعد میں ان کو لینے  گیا، شروع میں ماحول سے  مانوس کرنے  کے  لئے  ان کو چانچک مدرسے  میں رکھا دو روز بعد پھلت پہنچے، وہ آپ کی امانت کتاب سے  بے  حد متاثر تھے  اور حضرت سے  ملنے  کو بے  چین تھے، رات کو ایک بجے  حضرت سفر سے  آئے، صبح آٹھ بجے  حضرت سے  ملاقات کی، میرے  والد کو حضرت نے  دیر تک گلے  لگایا، پھر تنہائی میں باتیں کیں اور تھوڑی دیر کے  بعد خوشخبری ملی کہ میرے  والد نے  کلمہ پڑھ لیا ہے، ہم لوگوں نے  تفصیلات معلوم کیں، تو حضرت نے  بتایا کہ میں نے  دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے  دعا کی اور پھر ان سے  کہا کہ آپ ماسٹر اسلام کے  والد ہونے  کی وجہ سے  میرے  بھی والد کی طرح ہیں، اگر مجھے  معلوم ہو کہ آپ انجانے  میں ایک ایسے  راستہ پر جا رہے  ہیں جہاں آگ کا الاؤ جل رہا ہے  اور آپ اس میں کسی وقت بھی گر کر جل جائیں گے  تو میرا کیا حال ہو گا، انھوں نے  کہا کہ آپ بڑے  دکھ میں رہیں گے  تو میں نے  عرض کیا کہ جب مجھے  یقین ہے  کہ ایمان کے  بغیر (مکُتی )نجات نہیں اور موت کا کچھ پتا نہیں کون سا سانس آخری ہو تو مجھے  کس قدر تکلیف ہو گی، انھوں نے  کہا بے  شک بہت تکلیف ہو گی، میں عرض کیا کہ بس آپ کے  اختیار میں ہے  یا تو ایمان قبول کر کے  ہمیں چین دلا دیں یا اس طرح تڑپتا چھوڑ دیں، انھوں نے  کہا ایسا نہیں ہو سکتا، میں نے  تو آپ کی امانت پڑھ کر طے  کر لیا تھا کہ مجھے  ایمان لانا ہے، مجھے  بار بار یہ خیال آتا تھا کہ جب ان کی کتاب پڑھنے  میں ایسا آنند (مزہ ) اور پریم ملا ہے  توان سے  ملنے  میں کیا آنند ( مزہ ) ہو گا۔

میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کوئی مہان آتما ہے  جو ایشور نے  دھرتی والوں کے  اودّھار کے  لئے  بھیجی ہے، اب اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے  کہ مجھے  مسلمان کر لیں اور میں بھی مسجد میں اللہ اللہ کروں، دوسری صورت یہ ہے  کہ میرے  ساتھ بہت سے  لوگ میرے  شاگرد ہیں جو مجھ سے  اس لئے  جڑے  ہیں کہ ان کو شانتی کا سچا راستہ بتاؤں گا ان کا بھی حق ہے  میں مسلمان ہو جاؤں مگر ابھی ظاہر نہ کروں اور وہاں جا کر اپنے  لوگوں سے  کہوں کہ گنگا کی ترائی میں ہماری صحت اچھی نہیں ہے  اب ہم پہاڑوں کے  پاس اچھی آب و ہوا میں آشرم بنائیں گے، پھر ان کو بھی ساتھ لائیں اور ان کو سچائی بتائیں۔

آپ جیسا کہیں ویسا ہو گا، میں نے  ان سے  کہا یہ صورت بہت اچھی ہے، پہلے  آپ کلمہ پڑھ لیں انھوں نے  کلمہ پڑھا اور عبداللہ نام تجویز ہوا۔ الحمدللہ۔

سوال  : پھر اس کے  بعد ان کا کیا ہوا؟

جواب  : حضرت کے  درد نے  ان کو شکار کر لیا، بار بار وہ حضرت کے  گلے  لگتے  تھے، انھوں نے  حضرت سے  کہا کہ میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں، ہندی کا قرآن دلوا دیں، میں نے  قرآن پڑھا ہے  مگر اس وقت میں نے  مسلمانوں کا دھرم گرنتھ سمجھ کر پڑھا تھا، اب میں اس لئے  پڑھنا چاہتا ہوں کہ میرے  مالک مجھ سے  کیا کہتے  ہیں، اس کے  بعد وہ آشرم چلے  گئے   اپنے  دو چیلوں کے  ساتھ وہاں پر کچھ دن جمنا نگر کے  مدرسہ میں رہے۔

ان کے  دونوں چیلوں نے  اسلام قبول کر لیا تھا، ایک چیلے  کی بات آپ کو کیا بتاؤں کہ وہ ساڈھورہ میں ایک ہندو نائی کے  یہاں اپنی جٹائیں (بال)کٹوانے  کیلئے  پہنچا، تو نائی نے  کہا کہ کیا تمہارے  سر میں جوں ہو گئی ہیں، اس نے  کہا نہیں، نائی نے  معلوم کیا تو پھر بال کیوں کٹوا رہے  ہو اس نے  بغیر جھجک کے  کہا کہ اصل میں میں مسلمان ہو گیا ہوں اور شرک اور کفر کی ہر چیز کو میں ختم کرنا چاہتا ہوں اس لئے  جٹائیں (بال) کٹوا رہا ہوں۔

افسوس ہے  کہ ابھی میرے  والد کے  لئے  کسی جگہ کا نظم نہیں ہو سکا، مگر الحمد للہ وہ بہت مضبوط ہیں اور بے  چین ہیں، قرآن شریف پڑھتے  ہیں اور ذکر کرتے  ہیں۔

سوال  : جزاکم اللہ آپ نے  اپنے  خاندان کے  لوگوں پر کام کیا اور اس کے  کیسے  اچھے  اثرات ہوئے  َ

جواب  : میرے  حضرت نے  مجھے  متوجہ کیا، شروع میں میرے  گھر والے  مجھ سے  نفرت کرتے  تھے، مگر جب میں نے  ان کے  لئے  دل سے  ہدایت کی دعا کی اور ہمدردی میں دعوت کی نیت کی تو حالات بدل گئے، اللہ تعالیٰ نے  مدد فرمائی داعی کے  ساتھ غیبی مدد آتی ہے  اور اللہ راستے  کھولتے  ہیں ہم فضول میں ڈرتے  ہیں اب سب رشتے  داروں کے  یہاں میرا آنا جانا ہے، وہ میرا بہت احترام کرتے  ہیں، غور سے  بات سنتے  ہیں بلکہ ایک طرح کی عقیدت سے  ملتے  ہیں، اپنے  دنیوی مسائل میں دعا کو کہتے  ہیں میں نے  حضرت کی کتاب آپ کی امانت ان کو دی کچھ لوگ بہت قریب ہو گئے  ہیں مجھے  امید ہے  کہ انشاء اللہ ان میں سے  بہت لوگ اسلام قبول کر لیں گے، ان میں بعض لوگ بہت پڑھے  لکھے  اور بڑے  عہدوں پر ہیں۔

سوال  : آپ پھلت میں دن رات مسجد اور دعوت سے  جڑے  رہتے  ہیں یہ جذبہ آپ میں کس طرح پیدا ہوا؟

جواب  : میرے  حضرت کا صدقہ ہے، انھوں نے  ہمارے  دل میں یہ بات بٹھائی کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد دعوت اور دین کی خدمت ہے، روز گار اور دوسری چیزیں زندگی کی ضروریات ہیں، میرا دل چاہتا ہے  کہ بزرگوں کی بستی پھلت ایک اسلامی بستی بن جائے، تاکہ لوگ یہاں آ کر ہی اسلام کو جان لیں اور قبول کریں۔

سوال  : آپ مسلمانوں کے  لئے  کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

جواب  : میں حقیر آدمی پیغام تو کیا دے  سکتا ہوں، بس میں اپنے  بھائیوں سے  درخواست کر سکتا ہوں، ایک درخواست یہ ہے  کہ پیارے  نبی ﷺ آخری حج کے  موقع پر سب سے  وصیت کر کے  گئے  کہ فَلْیُبَلِّغْ اَلشَّا ھِدُ الْغَائِبْ یہ دین ہر غائب شخص تک پہنچا دیا جائے۔

ختم نبوت کے  بعد یہ کارِ دعوت اسلام کی سب سے  بڑی شان کے  طور پر ہمیں ملا ہے  اور اس کام میں غفلت اور ایمان کو لوگوں تک نہ پہنچانے  کی وجہ سے  ہمارے  حضرت کے  بقول ہر منٹ میں تین سو تیرہ ہمارے  بھائی کفر اور شرک پر مر کر ہمیشہ کی آگ کا ایندھن بن رہے  ہیں، یہ سب ہمارے  بھائی ہیں اگر نہ جاننے  اور نہ سمجھنے  کی وجہ سے  وہ ہم سے  دشمنی کرتے  ہیں تو اس سے  ان کا حق ختم نہیں ہوتا، ہماری ترقی اور نجات کا واحد راستہ دعوت ہے، ہمارے  نبی ﷺ سے  عشق کا دعویٰ اور آپ کی ایک پیار بھری وصیت اور آخری نصیحت اور خواہش کا ہم نے  خیال نہ رکھا یہ بہت دکھ کی بات ہے۔

دوسری درخواست یہ ہے  انسان ایک سماجی جاندار ہے  اسے  جینے  کے  لئے  ایک سماج کی ضرورت ہے، ایک نو مسلم کو اسلام قبول کرنے  کے  بعد ہجرت کر کے  اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے، اس کو بڑے  سہارے  اور گلے  لگانے  کی ضرورت ہوتی ہے  جنگل بیابان میں وہ لوگوں اور مسلمان بھائیوں کا سہارا تکتا ہے  ہر نئے  آنے  والے  کو اپنے  پیروں پر کھڑا کرنے  کی ضرورت ہے  وقتی طور پر کچھ مدد کر کے  کچھ صدقہ خیرات دے کر اس کو بھکاری بنانا یا اس کی عادت بگاڑنا ٹھیک نہیں، اگر ایک مسلمان بھائی مدینے  کی مواخاۃ کا نمونا بن کر ایک مہاجر بھائی کی فکر کو اوڑھ لے  اس کو قرض دے  کر یا شرکت کر کے  اس کو پیروں پر کھڑا کرانے  کی کوشش کر ے  تو اس کے  خاندان کو دعوت دینا آسان ہو جائے  تو اس کو تسلّی بھی ہو گی اس کے  لئے  کچھ روز ہمارے  حضرت کے  ساتھ آ کر محبت اور مامتا سیکھنی چاہئے

سوال  : بہت بہت شکریہ جزاکم اللہ۔ السلام علیکم و  رحمۃاللہ

جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان فروری ۲۰۰۳ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب عبدالرحمن صاحب {رگھوبیر سنگھ} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ         : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہ؟

ؑعبدا لر حمٰن  : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

سوال  : عبد الرحمن بھائی خیریت سے  ہیں ؟ ارمغان کے  لئے  کچھ بات آپ سے  کرنا چاہتا ہوں۔

جواب  : الحمد للہ میں خیریت سے  ہوں، احمد بھائی ضرور کیجیے  میری خوش قسمتی ہو گی۔

سوال  : اپنا مختصر تعارف کرائیں ؟

جواب  : میرا پرانا نام رگھو بیر سنگھ تھا میں قصبہ کھتولی کے  ایک کمہار مزدور گھرانے  سے  تعلق رکھتا ہوں گھر کے  لوگ سادگی میں مجھے  رگھو کہا کرتے  تھے   ۱۹۷۱ء میں اللہ نے  مجھے  ہدایت عطا فرمائی اس وقت میری عمر اکیس سال رہی ہو گی میرے  والد دیپ چند جی کا انتقال ہو گیا ہے، اب میرے  تین بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں والدہ کا میری شادی کے  سال انتقال ہو گیا تھا، اس وقت میں کھتولی میں جنرل مرچنٹ کی دکان کرتا ہوں درمیان میں میں نے  نائی کی دکان بھی کی تھی شرعی قباحتوں کی وجہ سے  اب میں نے  وہ چھوڑ دی ہے۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کا واقعہ سنایئے ؟

جواب  : میرے  قبول اسلام کا واقعہ ایک لطیفہ ہے  ہوا یہ کہ ۱۹ سال کی عمر میں میری شادی ہو گئی میری بیوی بہت خوبصورت تھیں، ان کا میکہ بھی ہمارے  خاندان سے  ذرا اونچا تھا، ان کے  والد ایک اچھے  کسان تھے  اور کچھ کاروبار بھی کرتے  تھے  ہمارے  گھر غربت کی حالت میں اس کا دل نہ لگا، میں دسویں کلاس فیل تھا وہ مجھ سے  پڑھی ہوئی بھی زیادہ تھی، اس نے  انٹر میڈ یٹ پاس کر رکھا تھا، وہ مجھے  بہت پسند آئی اور مجھے  اس سے  محبت ہو گئی، ایک مرتبہ اس کے  میکہ والے  اس کو لینے  کے  لئے  آئے  وہ گھر چلی گئی، کچھ زمانے  کے  بعد میں اس کو لینے  کے  لئے  گیا اس نے  آنے  سے  انکار کر دیا مجھے  بہت صدمہ ہوا، پھر میرے  والداس کو لینے  کے  لئے  گئے  مگر ان لوگوں نے  اس کو نہیں بھیجا، رشتہ داروں اور ذمہ داروں سے  سفارشیں کرائیں مگر انہوں نے  صاف انکار کر دیا۔

ساری ظاہری کوششیں بے  کار ہو جانے  کے  بعد سیانوں اور ملاؤں سے  ٹوٹکے، گنڈے  اور تعویذ کرانے  شروع کئے  مگر کام بننے  کی کوئی صورت نہ نکلی، میں اس کو بہت یاد کرتا میرا دل ہر کام سے  اچاٹ ہو گیا اور نیم پاگل سی حالت میں بے  چین رہتا، میرے  والد کو کسی نے  بتایا کہ جمعہ کی رات ہفتہ کی صبح تک اکبر خاں والی مسجد میں مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہوتا ہے  وہاں بہت سے  مولانا لوگ آتے  ہیں آپ وہاں جاؤ، میرے  والد صاحب سنیچر کی صبح کو وہاں پہنچے، لوگوں نے  بتایا کہ مسجد کے  باہر بیٹھ جاؤ جب پروگرام ختم ہو گا کسی مولانا سے  ملوا دیں گے، ایک ملا جی مسجد سے  باہر تہری کی ٹھیلی لگاتے  تھے  میرے  والد صاحب ان کے  پاس گئے  اور اپنا دکھ بتایا، انہوں نے  کہا کہ ہم کھتولی والے  سارے  کاموں میں پھلت والوں کے  پاس جاتے  ہیں وہ نوجوان کھڑے  ہوئے  تقریر کر رہے  ہیں، وہ پھلت کے  رہنے  والے  ہیں وہ اگرچہ دیکھنے  میں مولوی نہیں لگ رہے  ہیں مگر پھلت کے   ہیں اور پھلت کے  لوگ بہت پہنچے  ہوئے  ہیں جب وہ نکلیں تو بس ان سے  چمٹ جانا، وہ منع کریں گے  اگر انہوں نے  تیرا کام کر دیا تو بس تیرا کام بن جائے  گا۔

سوال  : وہ نوجوان کون صاحب تھے ؟

جواب  : بتا رہا ہوں، اصل میں وہ آپ کے  والد صاحب تھے، اس وقت مشن اسکول میں گیارہویں کلاس میں پڑھتے  تھے  اسکول کی ڈریس میں اجتماع میں شریک ہوتے  تھے  گو وہ جماعت سے  لگے  ہوئے  تھے  اور بہت اچھی تقریر کرتے  تھے  مگر لوگ اس وقت ان کو مولوی صاحب کہنے  کا تصور بھی نہیں کر سکتے  تھے، ہفتہ واری اجتماع میں جوڑنے  والی یا صبح چھ نمبر والی بات اکثر وہی کرتے  تھے  اشراق سے  فارغ ہو کر وہ باہر نکلے، بستہ ساتھ تھا اسکول کی طرف رخ تھا، میرے  والد ان کے  پیچھے  آواز لگاتے  دوڑے، مولی صاحب ! مولی صاحب ! وہ مولوی صاحب ہوتے  یا اپنے  کو مولوی سمجھتے، تو سنتے، میرے  والد نے  دوڑ کر ان کے  کاندھے  پر ہاتھ رکھا اور بولے  اجی ایسی بھی کیا بات ہے  اتنا آواز دے  رہا ہوں سنتے  بھی نہیں۔

آپ کے  والد بولے  :  آپ تو مولوی صاحب مولوی صاحب آواز دے  رہے  تھے، میں مولوی صاحب کہاں ہوں؟ میرے  والد بولے  یہ تو مجھے  ملا جی تہری والوں نے  خوب بتا دیا ہے  کہ پھلت والے  اپنے  کو بہت چھپاتے  ہیں، آپ کو میرا کام کرنا پڑے  گا، انہوں نے  معلوم کیا کہ آپ کا کیا کام ہے ؟ میرے  والد صاحب نے  کہا: لڑکے  کی بیوی نہیں آتی لڑکا غم میں مرا جا رہا ہے  کچھ کام بھی نہیں کرتا ؟ ایسا تعویذ دے  دو کہ بہو آ جائے، وہ بولے  بھائی ملا جی نے  آپ سے  مذاق کیا ہے، میرے  تو پر دادا نے  بھی کبھی تعویذ نہیں بنایا، میرے  والد صاحب کو ملا جی نے  بتایا تھا کہ وہ انکار کریں گے  تم ہر گز نہ ماننا آپ کے  والد کے  انکار سے  ان کو اور بھی یقین ہو گیا کہ چھپے  ہوئے  آدمی ہیں، ہر ایک کا کام نہیں کرتے  ہیں اس لئے  انہوں نے  اصرار کیا، بولے : آپ مجھے  تو نہیں بہکا سکتے  ہیں، مجھے  اصلیت سب پتہ ہے، میں آپ کے  ساتھ رہوں گا اور جب تک میرا کام نہیں ہو گا میں ہرگز ٹلوں گا نہیں۔

مولوی صاحب بتایا کرتے  ہیں کہ بہت سمجھانے  اور معذرت کرنے  کے  باوجود جب وہ نہیں مانے  تو انہوں نے  جان چھڑانے  کے  لئے  اگلے  سنیچر کا وعدہ کر کے  اپنی جان بچائی، ان کا خیال یہ تھا کہ کسی جاننے  والے  سے  تعویذ لا کر دے  دوں گا اس زمانہ میں پھلت میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے  ایک مرید حافظ عبداللطیف صاحب مدرسہ میں پڑھاتے  تھے  وہ یہ کام جانتے  تھے، خیال تھا کہ ان سے  تعویذ بنوا کر لادوں گا میرے  والد نے  اگلے  سنیچر کے  وعدہ پر ان کو چھوڑ دیا اگلے  ہفتہ ان کو یاد نہیں رہا ہفتہ واری پروگرام میں صبح کے  چھ نمبروں پر بات ان کو کرنی تھی۔

مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ ذرا دن کی روشنی ہوئی، بات کرتے  کرتے  تقریر کے  دوران جوتوں والے  بر آمدہ کی طرف گردن گھمائی تو میرے  والد پر نگاہ پڑی وہ مجھے  لے کر صبح صبح یہاں پہنچ گئے  تھے  کمہاروں کی صبح بھی جلدی ہوتی ہے، پچھلے  ہفتہ کا اصرار یاد آیا تعویذ لانا یاد نہیں رہا تھا، بات کا توازن بگڑ گیا کسی طرح اپنے  کو سنبھال کر بات پوری کی، اشراق کے  لئے  نیت باندھی حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ کا کسی کنجر ی کو اس کی فیس دے  کر مصلیٰ پر نماز کے  لئے  کھڑا کر کے  اس کے  لئے  دعاء کرنے  والا واقعہ یاد آیا، کہ الہی! مصلیٰ تک تو میں نے  پہنچا دیا، دل کو پھیرنا آپ کا کام ہے۔

اپنی بات میں یہی واقعہ سنایا تھا اسی کی برکت سے  نماز میں جان بچا نے  کی ترکیب سوجھی دو رکعت پڑھ کر انہوں نے  میرے  والد کو بلایا اور کہا اپنے  بیٹے  کو مسجد کے  غسل خانہ میں بھیج کر اشنان ( غسل ) کرنے  کو کہو، انہوں نے  مجھے  نہانے  کو کہا نماز پڑھ کر وہ مجھے  مسجد کے  باہر والے  حجرہ میں لے  گئے  اور تین بار کلمہ طیبہ پڑھوایا اس کے  معنی بتائے  اور مجھے  کہا بس ایک مالک سب کچھ کرنے  والا ہے  اگر تم یہ کلمہ دل میں بٹھا لیا تو وہ مالک تمہاری بہو کو بغیر بلائے  بھیج دے گا اور مجھے  ایک کاغذ پر ہندی میں کلمہ طیبہ لکھ کر دیا کہ ہر وقت سچے  دل سے  اس کا جاپ کرتے  رہو باہر آ کر میرے  والد سے  کہا کہ میں نے  ان کو ایک منتر بتا دیا ہے  یہ اس کا جاپ کریں گے  مالک ضرور آپ لوگوں کی سن لے  گا۔

مولانا صاحب بتاتے  تھے  کہ اس کے  بعد مسجد میں جا کر انہوں نے  دو رکعت اور نفل پڑھی اور خوب دل سے  دعا کی کہ الٰہی! زبان سے  تو میں نے  کہلوا دیا دل میں آپ اتار سکتے  ہیں، ہم دونوں مطمئن ہو کر گھر لوٹے، چوتھے  دن میرے  سسر میری بیوی کو لے کر میرے  گھر آئے ؟ خوشی خوشی ان کو چھوڑ کر چلے  گئے، مجھے  اس منتر پر بہت اعتقاد ہو گیا اور میں خوب اس کا جاپ کرتا اور کبھی زور زور سے  مزے  لے کر پڑھنے  لگتا تھا، کبھی کبھی مزے  میں مجھے  وجد آ جاتا، اگلے  سنیچر کو میرے  والد دو کلو لڈو لے کر پھر پہنچے  اس سنیچر کو آپ کے  والد صاحب نہیں آئے، وہ مایوس ہو کر لوٹے  اور تیسرے  سنیچر کو پھر گئے، اجتماع سے  فارغ ہو کر آپ کے  والد صاحب مسجد سے  نکلے  تو میرے  والد نے  ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور وہ لڈو پیش کئے  انہوں نے  لڈو واپس کر دئے  کہ اس میں میرا کچھ کام نہیں مالک نے  آپ کی سن لی میرے  والد نے  کہا ایک بات یہ پوچھنی ہے  کہ میرا بیٹا ہر وقت آ پ کے  جس منتر کا جاپ کرتا رہتا ہے  اس سے  کچھ نقصان تو نہیں ہو گا؟ انہوں نے  کہا کہ بہت اچھا ہے  اس کو بہت فائدہ ہو گا۔

میں ہر وقت کلمہ پڑھتا رہا ایک دن مزہ مزہ میں زور زور سے  میں اس کلمہ کو پڑھتا جا رہا تھا پھلت کے  ایک ملا جی جو بڑھئی کا کام کرتے  تھے  غلام حسین ان کا نام ہے  وہ ہمارے  محلہ میں کواڑ کھڑکیاں بنانے  آتے  تھے  انہوں نے  سن لیا وہ ہمیں اچھی طرح جانتے  تھے، انہوں نے  سنا تو بولے  ارے  رگھو ! یہ تو کیا پڑھ رہا ہے ؟ میں نے  کہا کہ یہ منتر ہے، پھلت والے  مولوی صاحب نے  بتایا تھا، اسی سے  تو میری بیوی آئی ہے، انہوں نے  کہا کہ یہ تو اسلام کا کلمہ ہے  یہ کلمہ پڑھ کر ہی تو آدمی مسلمان ہوتا ہے، میں نے  کہا کیا میں مسلمان ہو گیا انہوں نے  کہا کہ اگر سچے  دل سے  تو نے  پڑھا ہے  تو مسلمان ہو ہی جائے  گا، میں نے  کہا کہ میں تو سچے  دل اور وشواس سے  ہی پڑھتا ہوں ایسا تو آپ بھی نہ پڑھتے  ہوں گے، پھر تو تو مسلمان ہو گیا، میں نے  کہا کہ اب مجھے  کیا کرنا چاہیے ؟ انہوں نے  کہا اب تمہیں اپنا مسلمان نام رکھنا چاہئے  اور نماز یاد کر کے  پانچ وقت کی نماز پڑھنی چاہئے، میں نے  پوچھا کہ کیا نام رکھوں ؟ انہوں نے  کہا کہ عبدالرحمن رکھ لو میں نے  کہا نماز مجھے  کون سکھائے  گا؟ انہوں نے  کہا کہ میں سکھا دوں گا، میں نے  کہا بہت اچھا، وہ روز رات کو مجھے  وقت دیتے، دن چھپنے  کے  بعد وہ مجھے  نماز سکھاتے، پندرہ بیس روز میں مجھے  خاصی نماز آ گئی، انہوں نے  مجھے  ہندی میں ایک دو کتابیں لا کر دیں، جنت کی کنجی اور دوزخ کا کھٹکا تو مجھے  آج تک یاد ہے۔

میں چھپ چھپ کر نماز پڑھنے  لگا میں نے  وہ کتابیں اپنی بیوی کو پڑھائیں اور ان کو اپنے  مسلمان ہونے  کا حال بتایا اور ان کو قسم دے  کر کہا کہ سچی ہندو بیوی شوہر کے  ساتھ اس کی چتا میں جل جاتی ہے  تجھے  بھی میرے  مذہب میں آ جا نا چاہئے  وہ تیار ہو گئی ملا جی غلام حسین نے  اس کو بھی کلمہ پڑھوا دیا اس کا نام فاطمہ رکھ دیا اب ہم ایک دوسرے  کی پہرہ داری کر کے  کبھی کبھی نمبر وار گھر میں بھی نماز پڑھ لیتے  تھے، ایک روز میرے  والد نے  مجھے  نماز پڑھتے  دیکھ لیا مجھے  ڈانٹنے  لگے  مجھے  بھی غصہ آ گیا اور میں نے  صاف صاف کہہ دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپ سے  جو ہو، وہ کر لو، انہوں نے  بھائیوں کے  ساتھ مل کر مجھے  بہت مارا اور میں گھر سے  بھاگ گیا۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : اس کے  بعد میں تیس روز گھر سے  باہر رہا میں دہلی چلا گیا اور خیال تھا کہ بس یہاں کوئی روز گار دیکھ لوں گا میرے  والد صاحب پانچ چھ لوگوں کو لے  کر پھلت پہنچے  اور آپ کے  والد صاحب سے  میرا پتہ مانگا انہوں نے  لاعلمی کا اظہار کیا مگر ان کو یقین نہ آیا، وہ کہتے  رہے  آپ نے  اس پر جادو کر کے  اس کو مسلمان کیا اور ہمارا لڑکا آپ کے  پیٹ میں (علم میں ) ہے  اگر پرسوں تک وہ نہ آیا تو ہم تھانے  میں رپورٹ کر دیں گے  آپ کے  والد بہت پریشان ہوئے  ان کو سمجھایا کہ میری تو آج تک ملاقات بھی نہیں ہوئی میں نے  آپ کے  ساتھ بھلائی کی آپ اس کا یہ بدلہ دے  رہے  ہیں ؟مجھے  تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے  مگر انہوں نے  ایک نہ سنی اور بد تمیزی سے  دھمکی دے  کر واپس آ گئے۔

سوال  : پھر کیا ہوا؟

جواب  : نہ جانے  کیوں میرا دل دلی میں بہت گھبرایا، میرے  دل میں شدید تقاضہ ہوا کہ پھلت جاؤں اور آپ کے  والد صاحب سے  ملوں رات گذارنا مشکل ہو گیا مجبوراً اسٹیشن پہنچا رات کو ایک گاڑی کھتولی جاتی تھی اس سے  کھتولی پہنچا اور صبح صبح پیدل پھلت پہنچا مولانا صاحب مجھے  دیکھ کر بہت خوش ہوئے  میں نے  سارا ماجرہ سنایا انہوں نے  بتایا کہ میں تو بہت پریشان تھا ہمارے  گھر والے  بھی تھانہ پولیس سے  بہت بچتے  ہیں بہت دعا کر رہا تھا اللہ کا شکر ہے  آپ آ گئے  میں نے  ان سے  کہا آپ مجھے  کھتولی لے  چلیں میرا ہاتھ پکڑ کر میرے  والد کے  ہاتھ میں دے  دیں کہ آپ کا بیٹا یہ ہے، اب آپ چھوڑیں یا بند کر کے  رکھیں میں ذمہ دار نہیں رہوں گا اور اس سے  بھی معلوم کر لو کہ میں اس سے  کبھی ملا تھا ؟ انہوں نے  کہا کہ وہ تمہیں بہت ماریں گے، میں نے  کہا میں خود سنبھال لوں گا، وہ مجھے  لے  کر گئے  اور میرے  پتاجی کے  ہاتھ میں میرا ہاتھ دے  کر کہہ آئے  کہ آئندہ میں ذمہ دار نہیں اور اس سے  پوچھ لو یہ کبھی مجھ سے  ملا تھا ؟ میں نے  کچھ روز معاملہ کو ٹھنڈا کرنے  کے  لئے  گھر میں رہنا شروع کیا۔

ہمارے  محلہ کے  قریب میں کچھ مسلمان بیکری کا کام کرتے  تھے، جو پونہ میں رہتے  تھے، میں نے  حکمت کے  ساتھ والد صاحب کو اس پر راضی کیا کہ میں بھی ان کے  ساتھ وہاں جاؤنگا اور کچھ کاروبار کروں گا میں پونہ چلا گیا اور پھر اپنی بیوی کو بھی لے  گیا وہاں جا کر مجھے  وطن بہت یاد آیا میں نے  کچھ پیسے  کمائے  اور کھتولی کے  ایک مسلم محلہ میں ایک مکان بنا لیا، جماعت میں وقت لگاتا رہا الحمدللہ دین سے  بہت اچھا تعلق ہو گیا مہاراشٹر کے  ایک جماعت کے  ساتھ میرا مظفر نگر کا رخ بنا مجھے  اصرار کر کے  جماعت کا امیر بنا دیا گیا ہم پھلت پہنچے  میں نے  اذان بھی عربی لہجہ میں سیکھ لی تھی، ظہر کی اذان کہی، مولانا صاحب سے  ملنے  کے  لئے  گھر پہنچا اس وقت تک آپ کے  والد بھی مولانا صاحب بن گئے  تھے، میں ان سے  چمٹ گیا وہ مجھے  نہیں پہچان سکے  جب میں نے  بتایا کہ میں کھتولی والا آپ کا رگھو ہوں تو وہ مجھے  نئے  حلیے  میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے  جب معلوم ہوا کہ ظہر کی اذان میں نے  کہی ہے  تو انہوں نے  مجھے  گلے  لگا یا اور بہت خوش ہوئے، جماعت کا یہ وقت جو میرے  اپنے  علاقے  میں لگا، مجھے  بہت اچھا لگا۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : اس کے  بعد مولانا صاحب کے  مشورہ سے  میں کھتولی آ کر رہنے  لگا اور اپنے  گھر والوں کو کھتولی سے  خرچ بھیجتا تھا، تقریباً دس سال سے  میں کھتولی میں رہ رہا ہوں، مگر میرے  گھر والوں کو یہ علم ہے  کہ میں پونا میں رہتا ہوں، پہلے  میں نے  نائی کی دکان کھول لی تھی مگر مسلمانوں کی ڈاڑھی مونڈنا مجھے  عجیب لگتا تھا، اس لئے  کہ نبی کی سنت پر استرہ چلانا مجھے  ناگوار تھا، پھر میں نے  جنرل مرچنٹ کی دوکان کھول لی الحمد للہ اچھی چل رہی ہے۔

سوال  : سنا ہے  آپ نے  ایک مکتب بھی تو قائم کیا ہے  ؟

جواب  : ہماری سسرال میں خاصے  مسلمان رہتے  ہیں میرے  دو سالوں کو اللہ نے  میری کوشش سے  ہدایت دے دی ہے، وہاں پر کوئی تعلیم کا نظم نہیں تھا، میں نے  مولانا صاحب سے  مشورہ کیا انہوں نے  کہا کہ مرنے  کے  بعد کے  لئے  کوئی صدقہ جاریہ ضرور بنانا چاہئے، الحمد للہ وہاں ایک مکتب قائم کیا گیا جو پہلے  مسجد میں چلتا تھا اب گاؤں والوں نے  زمین دے دی ہے، چار کمرے  بھی تعمیر ہو گئے  ہیں پانچ مدرس کام کر رہے  ہیں، اللہ کا شکر ہے، بہت اچھا کام چل رہا ہے۔

سوال  : آپ کے  کتنے  بچے  ہیں اور کیا کر رہے  ہیں ؟

جواب  : میرے  پانچ بچے  ہیں، تین لڑکے  محمد عثمان، محمد علی اور محمد حسن، دو بیٹیاں ہیں عائشہ اور زینب، الحمد للہ سب دینی تعلیم حاصل کر رہے  ہیں، بڑا لڑکا بہت اچھا حافظ ہو گیا ہے، گجرات کے  ایک مدرسہ میں پڑھ رہا ہے، محمد علی کے  ۱۶ پارے  ہو گئے  ہیں، الحمد للہ محمد حسن کے  تین پارے  حفظ ہو گئے  ہیں، وہ سب سے  زیادہ ذہین ہے، عائشہ اور زینب دونوں نے  قرآن شریف پڑھ لیا ہے  ان کا بھی حفظ شروع ہو گیا ہے، میں نے  شب قدر اور جماعت میں دعا کی تھی کہ اے  اللہ میرے  سارے  بچوں کو حافظ عالم اور دین کا داعی بنا دیجئے  اور صحابہ کے  انداز کا مسلمان بنا دیجئے، مجھے  امید ہے  کہ میرے  اللہ جو مجھے  اندھیرے  سے  نکال کر ہدایت کی طرف لائے  ہیں وہ میری فریادضرور سنیں گے۔

سوال  : اسلام سے  پہلے  کی زندگی کے  بارے  میں آپ کو کیسا لگتا ہے ؟

جواب  : میں اس تصور سے  بھی کانپ جاتا ہوں، اگر میرے  اللہ مجھے  ہدایت نہ دیتے  تو کفر پر میری موت ہوتی، اچانک پھر مجھے  غم سا ہو جاتا ہے  کہ کہیں میری شامت  اعمال کی وجہ سے  مجھ سے  اسلام کی نعمت چھین نہ لی جائے، اس لئے  کہ اصل ایمان تو خاتمہ کاہے، میں اس تصور سے  کانپ کر اکثر سجدے  میں گر جاتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے  اللہ آپ تو سخیوں کے  سخی ہیں، آپ کے  نبی نے  ہمیں بتایا کہ کسی کو چیز دے  کر یا ہدیہ دے  کر واپس لینے  والا ایسا ہے  جیسا الٹی کر کے  چاٹنے  والا، آپ تو کریموں کے  کریم ہیں، آپ نے  میری خواہش کے  بغیر مجھ کو ہدایت دی ہے، میرا خاتمہ بھی ایمان پر کیجئے، مجھے  امید ہے  کہ میرے  اللہ میرا خاتمہ ایمان پر فرمائیں گے  انشاء اللہ، آپ بھی دعا کیجئے۔

سوال  : ضرور انشاء اللہ۔  بہت بہت شکریہ۔ السلام علیکم

جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

مستفاد از ماہنامہ ارمغان اگست ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب محمد صادق ایڈوکیٹ{ستیندر ملک} سے  ایک ملاقات

احمد اوّاہ         : اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد صادق  : وعلیکم اسلام و  رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : وکیل صاحب  بہت  اچھا ہوا آپ تشریف لے  آئے، ابی اس بار رمضان میں بار بار آپ کا ذکر خیر کرتے  رہے، کئی بار تقریر میں آپ کا ذکر کیا، مجھے  خیال ہوا کہ ارمغان میں اس بار آپ کا انٹرویو چھپے ؟

جواب  : آپ ہی حضرت کے  بیٹے  مولوی  احمد صاحب  ابّاہ ہیں

سوال  : جی ہاں ! میرا نام ہی احمد اواہ ہے، یہ لفظ اواہ ہے، ابّاہ نہیں ہے ؟

جواب  : اوّاہ کا ارتھ (معنی) کیا ہے ؟

سوال  : اوّاہ کے  معنی ہیں مخلوق پر حد درجہ شفقت و رحمت رکھنے  والا، قران مجید میں ایک بہت بڑے  رسول حضرت ابراہیمؑ کے  لئے  استعمال ہوا ہے  : اِنَّ اِبْرَاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ  مُنِیْبٌ(سورہ ہود:۷۵) ’’بلا شبہ ابراہیم تو بہت برداشت کرنے  والے، مخلوق اور انسانوں کے  حد درجہ ہمدرد اور اللہ کی طرف جھکنے  والے  تھے ۔‘‘ انہی کے  نام پر ہمارے  ابی کے  پیر صاحب، حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ نے  میرا نام رکھا تھا، وکیل صاحب! اصل میں ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ماہا نہ نکلتی ہے، اس کا نام ہے  ’ارمغان‘ اس میں اسلام لانے  والے  خوش قسمت نو مسلموں کے  انٹرویو چھاپے  جاتے  ہیں، اس کے  لئے  ابی نے  آپ سے  انٹرویو لینے  کے  لئے  آپ کو زحمت دی۔

جواب  : ارمگھان کا ارتھ (معنی )کیا ہے ؟

سوال  : یہ لفظ ارمغان ہے، ارمگھان نہیں ہے  (حلق سے )

جواب  : میں اردو نہیں جانتا، اور گاؤدی زبان ہے  ہماری۔

سوال : نہیں وکیل صاحب، آپ تو اردو نہیں جانتے  بعض پڑھے  لکھے  بلکہ مولوی صاحبان کو دیکھا ارمغان کے  معنی گفٹgift بھینٹ، تحفہ،  ہدیہ، اصل میں اللہ کا شکر ہے  کہ یہ میگزین انسانیت کے  لئے  ایک تحفہ ہی ثابت ہو رہا ہے، آپ سے  ابی نے  بتا دیا ہو گا۔

جواب  : ہاں مولانا صاحب کا فون آیا تھا کہ تھوڑی دیر کے  لئے  آ جائیں آپ سے  احمد اواہ ایک انٹر ویو لینا چاہتے  ہیں، میرا دل بھی بہت ملنے  کو چاہ رہا تھا، مجھے  ملے  ہوئے  ایک ہفتہ ہو گیا تھا، ایک دو روز مولانا صاحب سے  ملے  ہوئے  ہو جاتے  ہیں، بے  چینی ہو جاتی ہے  یہاں آ کر معلوم ہوا کہ مولانا صاحب سفر پر گئے  ہوئے  ہیں، کیا آج آ جائیں گے  ؟

سوال  :  شام تک آ جائیں گے، ہو سکتا ہے  رات کو دیر بھی ہو جائے۔

جواب  : شام تک رکوں گا، دل بہت ملنے  کو چاہ رہا ہے، اگر شام تک نہ آئے  تو رات میں آ جائیں گے، پھر کل صبح آ کر ملوں گا۔

سوال  :  آپ اپنا خاندانی تعارف(پریچے )کرائیے ؟

جواب  : میں ۱۵/ اگست ۱۹۵۲ ء کو دورالہ کے  قریب نگلہ گاؤں میں ایک جاٹ فیملی میں پیدا ہوا میرے  پتاجی (والد صاحب)سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر، مشہور سوتنترتا سینانی (مجاہد آزادی) تھے، ماسٹرہزاری لال ان کا نام تھا، بہت اچھی اردو جانتے  تھے، انھوں نے  پرانے  زمانے  میں اردو سے  بی ا ے  کیا تھا، قرآن شریف انھوں نے  ایک مولانا صاحب سے  پڑھا تھا وہ بتایا کرتے  تھے  کہ ان کے  والد نے  ان کو دیوبند بھی  پڑھنے  کے  لئے  بھیجا تھا، ہمارے   پردادا ماسٹر پریم چند تو آدھے  مسلمان تھے، اور وہ ۱۸۵۷ء میں دیوبند والوں کے  ساتھ انگریزوں سے  لڑتے  ہوئے  شہید ہو گئے  تھے، انگریزوں نے  ان کے  گولی ماری تھی، ان کو مولاناقاسم جو دیوبند مدرسہ کی نیو رکھنے  والے  تھے  مولوی پریم چند کہتے  تھے، ان کے  بیٹے  بابو شیام لال بھی انگریزوں سے  جنگ کرتے  رہے  اور وہ بھی جنگ آزادی میں شہید ہوئے، میرے  پتاجی ان کے  اکیلے  بیٹے  تھے، گاندھی جی نے  ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا، اور انھوں نے  گاندھی جی کے  ساتھ ودیشوں کے  سفر بھی کئے، انگلینڈ اور افریقہ بھی گئے  تھے، ان کے  بہت دنوں تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، بعد میں ایک پہنچے  ہوئے  فقیر نے  دعا دی، میری ماتا جی کے  یہاں ۵۰/ سال کی عمر میں، میں پیدا ہوا، میرے  والد صاحب پر گاندھی جی کا بہت اثر تھا، وہ گاندھی جی کو آدھے  سے  زیادہ مسلمان سمجھتے  تھے، بلکہ کبھی کبھی تو کہتے  تھے  گاندھی جی اندر سے  مسلمان تھے  وہ بتاتے  تھے  کے  صبح اُٹھ کر گاندھی جی غسل کرتے  تھے، سب سے  پہلے  قرآن مجید پڑھتے  تھے  وہ قرآن مجید انھوں نے  میرٹھ کے  ایک حکیم صاحب سے  رائے  پور والے  حضرت جی کے  پاس بھجوایا تھا، اس پر انھوں نے  جگہ جگہ کچھ لکھ رکھا تھا، میرے  پتاجی کہتے  تھے، گاندھی جی کو گاندھی بنانے  والے  دیوبند کے  مولوی محمود تھے، جنھوں نے  ریشمی رومال اندولن کیا تھا، میرے  بچپن میں میرے  والد کا انتقال ہو گیا، میرے  رشتہ کے  چچا نے  میری پرورش کی، اس کی وجہ سے  میں اردو نہ پڑھ سکا، میری ماں بتاتی تھی کہ میرے  والد صاحب نے  نصیحت کی تھی کہ مجھے  دیوبند بڑے  مدرسہ میں پڑھایا جائے، مگر خاندان والے  میرے  والد کے  انتقال کے  بعد اس پر راضی نہ ہوئے، دورالہ سے  ہائی اسکول اور انٹر کرنے  کے  بعد میں نے  میرٹھ کا لج سے  بی ا ے  اور بعد میں ایل ایل بی کیا اور میرٹھ کچہری میں وکالت کرنے  لگا، تقریباً دس سال تک میں نے  پریکٹس کی، مگر مجھے  و کا لت سے  اندر سے  منا سب نہ تھی، جھو ٹی جھو ٹی گو اہی، دھوکہ، غلط دعوے، سچے  مقدمہ کے  لئے  بھی جھوٹ کاسہارالینا پڑتا تھامیں بہت دنوں تک اپنی انتر آتما (ضمیر) سے  لڑتا رہا، اور روزگار کی وجہ سے  وکالت کرتا رہا، مگر دل میں ہمیشہ یہ بات آتی تھی کہ روزی تو آدمی کو پاک رکھنی چاہئے، گندی اور جھوٹ کی روزی سے  جیون بھی کالا ہو گا اور آتما(روح) بھی کالی ہو گی، اس لئے  ۱۹۹۵ء میں میں نے  وکالت چھوڑ دی، بس کھیتی کرتا ہوں، چھو ٹی موٹی ایک دو تجارت بھی شروع کی ہے  مالک کا کرم ہے  کہ دو روٹی آرام سے  مل رہی ہیں۔

سوال  :  اپنے  اسلام قبول کرنے  کا حال بیان کریں ؟

جواب  : مولوی احمد صاحب سچّی بات یہ ہے، کہ میں بائی نیچر فطر تاً مسلمان ہی پیدا ہوا تھا۔

سوال  : یہ تو بالکل سچی بات ہے، آپ ہی نہیں بلکہ ہر پیدا ہونے  والا بچہ فطرتاً مسلمان ہی پیدا ہوتا ہے، سچے  نبی کا ارشاد ہے  :کُلُّ مَوْلُو دٍیُّوْ لَدُعَلَی الْفِطْرَ ۃِ، فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَ انِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ۔ ترجمہ: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھراس کے  والدین  اسے  یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے  ہیں۔

جواب  : میرا حال یہ تھا کہ اگر میرے  والد کچھ دن زندہ رہتے  تو شاید میں دیوبند مدرسہ میں استاذ ہوتا، شاید میں آپ کا استاذ بنتا آپ نے  دیوبند سے  ہی مولویت کی ہے۔

سوال  : نہیں !میں نے  دیو بند والوں کا ایک اور بڑا مدرسہ ہے  لکھنو میں، ندوہ وہاں سے  پڑھا ہے۔

جواب  : ندوہ، مولانا علی میاں جی کا مدرسہ، جو لکھنو میں ہے  وہاں گیا ہوں، مولانا علی میاں جی بھی جو ندوہ مسجدکے  برابر میں رہتے  تھے، وہ تو ہمارے  دیش کے  بڑے  گورَو(قابل فخر) تھے، عرب دیش کے  سب عالم ان کو اپنا بڑا مانتے  تھے، ہمارے  مولانا کلیم جی ان کے  خاص مرید ہیں۔

سوال  : جی جی وہی ندوہ ہے۔

جواب  : آپ نے  سچ کہا کہ ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، تبھی تو ہمارے  یہاں ہندوؤں میں بچپن میں کوئی مر جائے  تو اس کو دبا یا جاتا ہے، مالک کی شان آگ سے  کیسے  بچاتے  ہیں، مگر مولانا احمد میں تو اسلامی نیچر پر بڑا بھی ہوا تھا، مجھے  ہندو دھرم سے  مناسبت نہیں تھی، میرا پر یورا حالانکہ آریہ سماجی ہے  اور آریہ سماج میں مورتی پوجا کی مخالفت تو اسلام سے  بھی زیادہ ہوتی ہے، مگر مجھے  آریہ سماج بھی بھول بھلیاں میں بھٹکنے  کے  علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا، وکالت کے  زمانہ میں مجھے  دھرم پڑھنے  کا بہت شوق تھا مگر وکالت چھوڑنے  کے  بعد تو مجھے  کچھ کام نہیں تھا بس پڑھنے  کے  علاوہ، آریہ سماج اور دوسرے  دھرموں کو میں نے  بہت پڑھا، میں یہ سمجھا کے  سوامی دیا نند سرسوتی بلکہ ان کے   گروسوامی وویکا نند نے  جو کچھ سدھار کیا ہے  وہ اسلام کے  اثر سے  ہے، مگر وہ اسلام سے  چڑتے  ہیں، حالانکہ و ویکا نندجی تو کچھ دن مسلمان رہ بھی چکے  ہیں، مجھے  بہت ہی بلبلا ہٹ سی ہوتی ہے، اگر مولانا کلیم جی سوامی وویکانندجی سے  مل لیتے  تو ان کو آریہ سماج بنانے  کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ اسلام ان کے  مسئلہ کا حل تھا، میری بدقسمتی یہ ہے  کہ میں آس پاس کے  ماحول میں رہنے  کی وجہ سے  اسلام کو سب سے  کم پڑھ سکا، اس کے  باوجود کہیں مسجد میں نماز ہوتی، میں وہاں سے  گزرتا تو میں کھڑا ہو جاتا، بڑی حسرت سے  دیکھتا رہتا، مالک سے  شکایت کرتا، مالک! آپ سب کو پیدا کرنے  والے  ہیں، آپ نے  مجھے  اندر سے  تو مسلمان بنا یا اور پیدا ایک ہندو جاٹ پر یوار میں کر دیا، ایسا بیسیوں بار ہوا ہو گا، میں دو بار عید کی نماز دیکھنے  جامع مسجد دہلی تک گیا، ایک با رتو رات کو پہنچا اور صبح تک جامع مسجد پر انتظار کر تا رہا، مسجد میں پڑے  ہوئے  انسانوں کے  سمندر کو دیکھ کر مجھ سے  رہا نہ گیا اور ساتھ میں، میں بھی سجدہ میں پڑ گیا، مجھے  بہت رونا بھی آیا، اس دن مالک سے  میں نے  بہت شکایت کی۔

سوال  : ماشاء اﷲ، اﷲ نے  آپ کی شکایت سن لی اور آپ کی مراد الحمد ﷲ پوری ہوئی، پھر مسلمان آپ کیسے  ہوئے، بتایئے ؟

جواب  : جی بتا رہا ہوں، فروری میں اسی سال موبائیل پر ایک فون آیا، میں نے  رسیو کیا، تو آپ کے  ابی کا فون تھا، انھوں نے  کہا : السلام علیکم، میں نے  کہا وعلیکم، انھوں نے  کہا: مولانا راشد صاحب میں نے  کہا: یہ فون نمبر غلط ہے، یہ راشد کا فون نا ہے، انھوں نے  کہا : معاف کیجئے، فون بند ہو گیا، اصل میں مولانا صاحب کے  ایک ساتھی مولانا راشد ہیں جو رٹھوڑ امیں ایک مدرسہ چلاتے  ہیں، ان کا فون نمبر مولانا صاحب نے  ایک غلط نمبر کے  ساتھ فون میں فیڈ کر لیا تھا، اس کے  بعد ان کا صحیح نمبر بھی فیڈ کر لیا، مگر میرا نمبر ڈیلیٹ نہیں کیا اور پہلے  نمبر پر میرا فیڈ رہا، ڈیڑھ مہینے  کے  بعد پھر اچانک فون آیا: السلام علیکم میں نے  جواب دینے  کے  بجائے  کہا: بھائی تو نمبر ٹھیک کر لے  نا، بار بار کیوں پریشان کر ے  ہے، مولانا صاحب نے  پھر معافی مانگی، اگست میں پھر فون آیا، پھر السلام علیکم، میں نے  اس بار ذرا سخت لہجہ میں کہا : تو نمبر ٹھیک کیوں نہیں کر لیتا بار بار تھاکاڑ (پریشان) کر ے  ہے، مولانا صاحب نے  بھر معذرت کی اور فون بند کر دیا، میری قسمت اور اﷲ کا کرم تھا کہ مولانا صاحب نے  اس بار فون نمبر ڈیلیٹ کیا، مگر میرے  مالک کو مجھ پر پیار آ رہا، مولانا راشد کا اصل نمبر ڈیلیٹ ہو گیا، اور میرا نمبر اب بھی رہ گیا، اس سال رمضان میں ۱۴/ ستمبر کو مولانا صاحب کا پھر فون آیا: السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و بر کا تہ، میں نے  سخت لہجہ میں کہا : بھیا یہ نمبر غلط ہے، تجھے  کب تک بتاؤں، کیا تو میری جان ہی لے  گا، مولانا صاحب نے  ہنس کر کہا، بھائی صاحب، آپ کیسے  کہہ رہے  ہیں کہ یہ نمبر غلط ہے، میرے  بھائی کاہے، میں نے  کہا یہ نمبر بھائی میرا ہے، تیرے  بھائی کا نہیں ہے، مولانا صاحب نے  کہا یہ آپ کا نمبر ہے  نا ؟ میں نے  کہا : ہاں میرا نمبر ہے، مولانا صاحب نے  کہا: آپ کا نام کیا ہے ؟ میں نے  کہا: ستیندر ملک، مولانا صاحب کے  کہا : ہاں بھائی ستیندر ملک آپ سے  ہی تو بات کرنی ہے، آپ ہی تو میرے  بھائی ہیں، آپ مجھے  نہیں جانتے  ؟ میں نے  کہا نہیں میں تو آپ کو نہیں جانتا، مولانا صاحب نے  کہا کہ آپ اور ہم سب ایک ماتا پتا کی سنتان ایک ماں باپ کی اولاد نہیں ہیں کیا، میں نے  کہا:ہاں، مولانا صاحب نے  کہا : تو ایک ماں باپ کی سنتان کو ہی تو بھائی کہتے  ہیں، آپ اپنے  خونی رشتے  کے  بھائی کو نہیں پہچانتے ؟ آپ کی عمر کیا ہے ؟ میں نے  کہا ۵۶/سال ہے، مولانا صاحب نے  کہا : آپ تو میرے  بڑے  بھائی ہیں اور خونی رشتے  کے  سگے  بھائی؟ چھوٹے  بھائی کی خیر خبر تو آپ لیتے  نہیں، چھوٹا بھائی سلام بھی کر تا ہے  تو آپ ہر دفعہ ڈانٹ دیتے  ہیں، ورنہ بڑے  بھائی پر میرا حق تھا کہ آپ ہر روز خیر خبر لیتے، گھر آ کر حال چال پوچھتے، چال چلن پر نظر رکھتے، پر یورا گھر بار دیکھتے، مولانا صاحب نے  معلوم کیا کہ آپ کہاں رہتے  ہیں، میں نے  کہا دو رالہ کے  پاس نگلہ میں، مولانا صاحب بو لے : اتنے  پاس آپ رہتے  ہیں سچے  بھائی تو دور دیشوں سے  آتے  ہیں، بہت سے  بھائی پاکستان میں رہتے  ہیں، پاکستان میں ویزہ وغیرہ ملنا کتنا مشکل ہے، مگر لو گ دور کے  رشتہ داروں کی خیریت لینے  آتے  ہیں، آپ میرے  اتنے  قریب کی پڑوسی اور خونی رشتہ کے  بھائی ہیں، آج تک ایک بار بھی خیر خبر لینے  نہیں آئے  اور اگر میں سلام کر تا ہوں تو ہر بار الٹا ڈانٹ دیتے  ہیں، مولانا صاحب نے  کچھ ایسے  پیار سے  بات کی مجھے  واقعی بہت شرمندگی ہوئی، میں نے  کہا: بھائی آپ کہاں رہتے  ہوں ؟ مولانا نے  بتایا، پھلت کھتولی کے  پاس، میں نے  کہا: وہاں تو ہم ایک بار بھینس خرید نے  گئے  تھے، میں نے  کہا بھائی صاحب میں آپ سے  آج ہی ملنے  آ جاؤں ؟ واقعی میری غلطی ہے، مجھے  اپنے  بھائی کے  پاس آنا چاہئے، مولانا نے  کہا : آج تو میں سفر پر جا رہا ہوں، میں نے  کہا : تو کل آ جاؤں ؟ مولانا صاحب نے  کہا کل بھی رات تک واپسی ہو گی، آپ پر سوں آ جائیں، ۱۶/ ستمبر کو دس بجے  بات طے  ہو گئی، میں نے  مولانا کا نام معلوم کیا، بولے  کہ گاؤں میں داخل ہو تے  ہی مدرسہ ہے، وہاں کلیم نام پوچھ لیجئے، ۱۶ / ستمبر کو میں کھتولی بس سے  آیا، کھتولی سے  جگاڑ میں پھلت کے  لئے  بیٹھ گیا، جگاڑ والے  سے  معلوم کیا کہ بھائی یہاں مدرسہ ہے  کلیم صاحب سے  ملنا ہے، جگاڑ والے  نے  کہا اچھا آپ کو حضرت سے  ملنا ہے، میں نے  کہا: کلیم نام بتایا ہے، اس نے  کہا: وہی حضرت ہیں، اس نے  معلوم کیا کہ آپ مسلمان ہونے  آئے  ہیں کیا؟ میں نے  ہنس کر کہا کہ اگر وہ کریں گے  تو ہو بھی جائیں گے، جگاڑ سے  اتر کر پھلت مولانا صاحب کے  گھر پہنچے، مولانا صاحب یہاں سامنے  کرسی پر کچھ لوگوں کے  ساتھ بیٹھے  تھے، کھڑے  ہو کر ملے، جب میں نے  اپنا نام بتایا ستیندرملک ایڈوکیٹ، تو پھر گلے  لگایا، بہت ہی محبت سے  سواگت(استقبال)کیا، بار بار بولے  میرے  بڑے  بھائی صاحب، بہت بہت شکریہ، بھائی صاحب آپ چھوٹے  بھائی کی خیر خبر لینے  آہی گئے، رمضان کے  باوجود چائے  ناشتہ کا انتظام کر وایا، چائے  پر بیٹھ کر بات شروع ہوئی اور چائے  کے  ساتھ ساتھ اسلام بھی بتلاتے  رہے  اور چائے  ختم نہیں ہوئی کہ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان تھا، میرا نام محمد صادق رکھا، کھتولی تک اپنی گاڑی سے  رخصت کر ایا ’’ آپ کی امانت  اور ‘‘ اور ’’ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟‘‘ کتاب بھی دی، میں نے  کئی بار ان کتابوں کو پڑھا، اپنی بیوی سے  اپنے  مسلمان ہونے  کی بات بتائی، پہلے  تو وہ بہت روئی، میں نے  اس سے  کہا میرے  پاس دو کتابیں ہیں پہلے  ان کتابوں کو تم تین بار پڑھ لو، اگر تم کہو گی تو میں واپس ہندو ہو جاؤں تو میں تیار ہوں، میری بیوی نے  آپ کی ا مانت ایک بار پڑھی اور پھر مرنے  کے  بعد کیا ہو گا پڑھ رہی تھی، میرے  پاس آئی اور کہنے  لگی مجھے  بھی مسلمان بنوا دو، میں نے  اﷲ کا شکر ادا کیا، ہمارے  دونوں بچے  مسلمان ہو گئے  ہیں تینوں کو میں نے  پھلت آ کر کلمہ پڑھوایا، میری بیوی کا نام فاطمہ بیٹی کا نام آمنہ اور بیٹے  کا محمد احمد رکھا گیا، الحمد  ﷲ ہمارا پورا پریوار مسلمان ہے۔

سوال  : خاندان والوں کو بھی آپ کے  اسلام کا علم ہو گیا؟

جواب  : خاندان والے  ہمارے  سخت دشمن ہو گئے  وہ پہلے  سے  بھی بڑے  سخت رہے  ہیں، انھوں نے  گاؤں والوں کی پنچایت کی، مگر میں وکیل بھی ہوں، اس لئے  میں نے  آئی جی، ایس ایس پی کے  یہاں در خواست دے دی، شروع میں تو بہت شور ہوا، مگر اب بات دب گئی ہے، میں نے  ایک گھر دہلی میں بنا بھی لیا تھا، دونوں بچے  دہلی میں پڑھ رہے، میں نے  مولانا صاحب کے  مشورہ سے  ہی گھر خاندان والوں سے  ذرا دور رہنے  کا اپنا پلان بنایا ہے۔

سوال  : اسلام میں آ کر آپ کوکیسا لگ رہا ہے ؟

جواب  : اسلام میں آ کر مجھے  ایسا لگ رہا ہے  جیسے  کوئی گھر سے  بھٹکا اپنے  گھر واپس آ جائے، میں نے  جیسے  جیسے  اسلام کو پڑھ رہا ہوں مجھے  ماتا پِتا(ماں باپ) دادا، پر دادا کی یاد تڑپاتی ہے  میرے  اندر ایک عجیب سی جنونی کیفیت ہو جاتی ہے، نہ جانے  اتنے  مسلمانوں کے  بیچ بلکہ مولویوں کے  بیچ وہ رہے، حتی کہ مولویوں کے  ساتھ شاملی میں شہید بھی ہوئے، وہ ان کو انگریزوں سے  تو لڑاتے  رہے، دیش کو آزاد کرانے  کے  لئے  ابھارتے  رہے  مگر خود ان کو شرک سے  آزاد کرانے  کے  لئے  فکر نہیں ہوئی، بڑوں کو مرنے  کے  بعد برا کہنا اچھا نہیں، مگر احمد بھائی، آپ میرے  حال کو سمجھ نہیں سکتے، مجھے  تو وہ سب ظالم لگتے  ہیں جنھوں نے  اپنے  ایسے  وفاداروں کو ایمان کے  لئے  نہیں کہا، وہ مجھ سے  سوگنا زیادہ اسلام کے  قریب تھے، ان کو معلوم ہی نہیں تھا اسلام قبول کرے  بغیر (دھڑ دھڑی لیتے  ہوئے، انتہائی کرب میں )نہ جانے  وہ انسان بھی تھے  کہ نہیں، مسلمان تو بہت دور کی بات ہوتی ہے۔

سوال  : آپ یہ ہی کیوں سمجھتے  ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے، کیا خبر کسی نے  ان کو کلمہ پڑھوا دیا ہو، یا  پھر موت کے  وقت فر شتوں نے  انھیں کلمہ پڑھوا دیا ہو؟

جواب  : مولوی احمد صاحب، میں بچہ نہیں ہوں، میں نے  اپنے  بچپن میں اپنے  پتا جی کو چتا میں جلایا ہے  اور بے  دردی سے  جلتے  دیکھا ہے، جو باپ اپنے  بیٹے  کو دیو بند مدرسے  میں پڑھانے  کی وصیت کرے، اس کا اس طرح خود ہندو رہ کر چتا میں جلنا مولانا لوگوں کا اور مسلمانوں کا ظلم نہیں تو اور کیا ہے ؟

سوال  : آپ جس طرح کا حال ان کا کہہ رہے  ہیں، مجھے  امید ہے  کہ اﷲ نے  ان کو ضرور ایمان دیا ہو گا، یہاں کی آگ سے  وہاں کی آگ کا کوئی رشتہ نہیں۔

جواب  : عید کی رات مجھے  اس خیال میں نیند نہیں آئی اور میں بہت تڑپتا رہا اور دل میں آتا تھا کہ سارے  مسلمانوں کو کوسوں، رات کو پھر وضو کیا، نماز کے  لئے  ٹوٹی پھوٹی نیت باندھی اور دیر تک روتا رہا صبح کو آنکھ لگی میں نے  اپنے  دادا اور پتاجی کو دیکھا وہ کہہ رہے  تھے  بیٹا صادق اﷲ سارے  انسانوں کے  رب ہیں، مسلمانوں کے  نہیں، اﷲ ہم سے  خوش ہیں اور ہم بھی مسلمان ہیں، کچھ تسلی ہوئی، مگر خواب تو خواب ہے۔

سوال  : ماشاء اﷲ آپ پھلت آتے  رہتے  ہیں، کچھد ین کو سیکھنے  کا پروگرام نہیں بنایا ؟

جواب  : نومبر میں جماعت میں جا رہا ہوں، دو تین روز مجھے  فون پر بات نہ ہو تو میں بے  چین ہو جاتا ہوں، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا اﷲ کریم ہے  کہ اس نے  آپ کے  ڈیلیٹ کر نے  کے  باوجود اپنی فہرست سے  میر ا نمبر ڈیلیٹ نہیں کیا، میرا دل چاہتا ہے  کہ اپنے  سارے  جاننے  والوں کے  نمبر آپ کے  فون میں فیڈکر دوں تاکہ سب کو ہدایت ہو جائے، مولانا صاحب نے  کہا : آپ نے  اچھا کیا توجہ دلائی، میرے  فون میں بہت سے  ڈاکٹروں اور غیر مسلم بھائیوں کے  فون نمبر فیڈ ہیں، مجھے  فکر ہوئی کہ یہ سب میدان محشر میں میں میرا گلا پکڑیں گے  کہ ہمارے  فون نمبر بھی ان کے  فون میں تھے، پھر بھی ہماری فکر نہیں کی، جن لوگوں کے  فون نمبر ہم اپنے  موبائیل میں فیڈ کرتے  ہیں ان سے  ہمارے  معاملات یادوستی کا تعلق ہونا تو طے  ہے  اور اﷲ کے  نبی کا فرمان ہے  کہ اﷲ کی جنت ان لوگوں پر حرام کر دی گئی، جو لوگوں سے  معاملات اور لین دین تو کر تے  ہیں اور ان کو دین نہیں  پہنچاتے، ظاہر ہے  یہ ہمارا موبائیل فون اﷲ کے  یہاں ہمارے  ان لوگوں سے  تعلق کی گواہی دیں گے، مجھے  بہت فکر ہوئی کہ کم از کم فون والوں تک بات تو پہنچا دی جائے، مولانا صاحب نے  بتایا کہ اس کے  بعد سے  میں نے  سب سے  بات شروع کر دی، الحمد ﷲ دو لوگوں نے، ایک ڈاکٹر اور دہلی کے  وکیل صاحب نے  کلمہ پڑھ لیا ہے، ان دونوں اور باقی لوگوں کو اگر اﷲ نے  ہدایت دی تو ان کی ہدایت کا ثواب آپ کو ملے  گا۔

سوال  : ارمغان کے  قارئین کیلئے  آپ کوئی پیغام دیں گے ؟

جواب  : میرے  جیسے  نہ جانے  کتنے  لوگ ایسے  ہوں گے  جو اندر سے  مسلمان ہیں، اور جب سچے  نبی نے  بتایا کہ ہر بچہ اسلام پر پیدا ہوتا ہے  تو ایک مسلمان کو اس پر یقین کر نا چاہیئے  جس طرح کسی مذہب پر کوئی آدمی ہے  وہ اپنے  گھر، سے  بھولا بسرا یا بھٹک گیا ہے  اس کو اپنے  گھر لانا اس کے  ساتھ کیسی بھلائی ہے، جو مسلمان ہو گیا تو گویا آپ نے  اس کے  گھر پہنچا دیا، مولانا صاحب کہتے  ہیں کہ مجھے  دعوت کی الف با بھی نہیں آتی اس روز آپ آئے  تو کوئی جاننے  والا تھا نہیں، مجھے  بہت فکر ہوئی کہ مجھے  کچھ آتا نہیں مگر آپ آ گئے  تھے  تو بات کرنی ہی تھی آپ معمولی سی دعوت پر مسلمان ہو گئے  اصل میں آپ مسلمان ہوئے  نہیں بلکہ مسلمان تو تھے  ہی بس آپ نے  باہر سے  اظہار کر دیا، مسلمان صرف اندر کے  مسلمانوں کو تلاش کر کے  جن کی دوسرے  مذہب میں رہنے  کے  باوجود فطرت اسلام ہی ہے، ان سے  ظاہری طور پر اسلام کا ا قرار کرا لیں تو ہندوستان میں بہت جلد مسلمانوں کی کثرت ہو جائے  گی، میں بہت ذمہ داری سے  یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہندوؤں میں اندر سے  خود فطری مسلمانوں کی تعداد خاندانی مسلمانوں سے  زیادہ ہے، بس مسلمان ان کو پہچان کر ان کو ظاہر کر لیں تو ملک کا نقشہ دوسراہو گا۔

سوال  : بہت خوب، واقعی آپ نے  بڑے  پتہ کی بات کی ہے۔بہت بہت شکریہ!

جواب  : آپ کا بہت بہت شکریہ! آپ نے  موقع دیا، اچھا السلام علیکم

سوال  : وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲوبر کاتہٗ

جواب  : مولوی احمد !میرا دل چاہتا ہے  کہ مسلمان اگر سیاسی الوسید ھا کر نے  والے  اور ان کے  جھانسے  میں آ کر جذباتی ناسمجھ غیر مسلموں سے  متاثر ہو کر ایکشن(انفعال) کا راستہ چھوڑ کر اگر صرف غیر مسلموں میں اندر کے  مسلمانوں کو تلاش کر کے  ان کو ابھاریں تو شیطان اور باطل کے  سارے  حربے  مکڑی کا جالا بن جائیں، کتنے  اندر کے  مسلمان اپنے  ایمان کو اندر لے  کر مر جاتے  ہیں، میرا دل جانتا ہے  کہ گاندھی جی اندر سے  مسلمان تھے، جواہر لال نہرو اندر سے  مسلمان تھے، سبھاش چند ربوس اندر سے  مسلمان تھے  کھتولی کے  پنڈت سندر لال اندر سے  مسلمان تھے، بس مسلمانوں نے  ان کا حق ادا نہیں کیا، آج بھی بعض لوگوں کی تقریریں سنیں، بل کلنٹن اندر سے  مسلمان ہیں، نیلسن منڈیلا اندر سے  مسلمان ہیں، ، پرنس چارلس اندر سے  مسلمان ہیں، خود ہمارے  ملک میں کتنے  ہندو بھائی ہیں جو ظاہر داری کو نبھا رہے  ہیں، کاش بس ایک طرف ہو کر اس کوشش میں سارے  مسلمان جٹ جائیں کہ غیر مسلموں میں اندر سے  مسلمان، باہر سے  ا قرار کر لیں تو نہ صرف ہمارے  ملک بلکہ ساری دنیا کا نقشہ دوسرا ہو گا۔

 

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، نومبر ۲۰۰۸ ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جناب قاضی محمد شریح صاحب {سمیر} سے  ایک ملاقات

 

احمد اوّاہ                      : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

قاضی محمد شریح  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ مولانا احمد صاحب

سوال  :  قاضی محمد شریح صاحب ! ماشاء اللہ ابی نے  ابھی بتایا کہ ابی نے  آپ کا نام قاضی محمد شریح رکھا ہے ؟

جواب  : ہاں مولانا احمد صاحب! ابھی میں نے  بہت اچھی طرح اعلان تو نہیں کیا مگر حضرت جی نے  میرا نام قاضی محمد شریح رکھا ہے، نام ذرا مشکل ہے  مگر جب حضرت نے  تاریخ بتائی تو مجھے  اچھا لگا اور دل میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نام کی برکت سے  اگر قاضی شریح کا کروڑواں حصہ بھی مجھے  ان کی خوبی دیدے  تو میرا بیڑہ پار ہو جائے  گا۔

سوال  :  اصل میں ابی کا کہنا ہے  کہ مسلمانوں بلکہ اس پوری دنیا کے  انسانوں کی خیر و ترقی اس میں ہے  کہ یہ پیچھے  ہٹ کر چودہ سو سال پہلے  کے  زمانے  سے  وابستہ ہو جائیں، اس زمانہ اور اس کے  مزاج سے  دنیا کے  دور ہو جانے  کی وجہ سے  ساری تباہی آ رہی ہے، اس لئے  ابی لوگوں کے  مدرسوں کے  نام، دفتروں کے  نام خیرالقرون سے  ملا کر رکھنے  پر زور دیتے  ہیں، مدرسہ صفۃ الاسلام، دار ارقم، دار ابی ایوب وغیرہ قاضی شریح ہمارے  نبی ﷺ کے  چوتھے  خلیفہ کے  زمانے  میں بڑے  مشہور قاضی تھے۔

جواب  : ہاں انھوں نے  وہ قصہ سنایا تھا کہ حضرت علیؓ کے  مقابلہ میں ایک یہودی کے  حق میں انھوں نے  زرہ کے  مقدمہ میں شرعی گواہ نہ ہونے  کی وجہ سے  فیصلہ سنایا تھا اور اس انصاف پروہ یہودی مسلمان ہو گیا تھا۔

سوال  :  جی بالکل وہی واقعہ ان کا مشہور ہے  اور بھی ان کے  انصاف اور عدل کے  بہت سے  واقعات ہیں، قاضی صاحب آپ کو ابی نے  بتایا ہو گا کہ مجھے  آپ سے  ارمغان کے  لئے  انٹرویو لینا ہے ؟

جواب  : جی ابھی بتایا ہے، میں نے  عرض بھی کیا کہ بار بار اجازت کے  باوجود آپ نے  مجھے  اپنے  قبول اسلام کا اعلان کرنے  سے  منع کیا ہے  اور ایسے  میں میرا انٹرویو چھپنا کیا مناسب ہو گا، حضرت جی نے  فرمایا کہ مقصد تو نصیحت اور دعوتی جذبہ پیدا کرنا ہے، آپ اپنا اجمالی تعارف کرا دیں، اصل میں رمضان کا مہینہ ہے  اور آپ آ گئے  ہیں، اس برکت والے  مہینہ میں آپ کا ہی حال چھپ جائے  تو یہ بہتر ہے۔

سوال  :  آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

جواب  : میں ہریانہ کے  ایک جاٹ خاندان میں ۲۳/مئی  ۱۹۶۲ء کو پیدا ہوا، روہتک سے  میں نے  بارہویں کلاس اور پھر بی ایس سی کیا اور بعد میں میرے  والد نے  جو چندی گڑھ میں جج تھے  میری لائن بدلنے  کا فیصلہ کیا اور ایل ایل بی کرنے  کو کہا، میں نے  ایل ایل بی کیا اور چندی گڑھ سے  وکالت شروع کر دی اور پھر اللہ نے  یہ کیا PCS پہلی بار میں کوالی فائی کیا، آج کل ایک ضلعی عدالت میں CIA ڈی جے  ہوں، انشاء اللہ بہت جلد ڈسٹرکٹ جج بننے  کی امید ہے، میری ایک بہن DSP ہیں، ان کے  شوہر ADMہیں، ہمارا خاندان اللہ کا شکر ہے  کہ پڑھا لکھا خاندان ہے، ہمارے  خاندان میں اردو کا رواج رہا ہے، میرے  دادا اُردو کے  بہت اچھے  شاعر تھے، مخدوم اپنا تخلص لکھتے  ہیں وہ مخدوم پانی پتی کے  عقیدت مندوں میں تھے۔

سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب  : میں ہریانہ میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ میں جج کے  عہدہ پر فائز تھا ہمارے  خاندان میں انسانی قدروں کی بڑی اہمیت تھی، گھر میں بوڑھی عورتیں اور بڑے، مہاپرشوں، صوفیوں اور اچھے  لوگوں کے  قصے  سناتے  تھے، میرے  والد خود بہت ایمان دار افسر تھے، میں نے  پریم چند کی کہانیاں پڑھی تھیں، میں نے  پنچ پرمیشور کہانی بھی پڑھی تھی، اس کہانی سے  میرے  ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ فیصلہ کی گدی پر آدمی خدا کا نائب بن کر بیٹھتا ہے  اس کو سارے  انسانوں کو ایک آنکھ سے  دیکھنا چاہئے  اور انصاف کرنا چاہئے، اللہ کا شکر ہے  کہ میں اس کا خیال کرتا ہوں اور عدالت میں اپنی طرف سے  انصاف کرنے  کی کوشش کرتا ہوں، جب آدمی نیکی کرتا ہے  تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی لوگوں کے  دلوں میں عزت اور محبت پیدا کر دیتے  ہیں، میں جہاں بھی رہا لوگ میری ایمان داری کی وجہ سے  میری بہت قدر کرتے  تھے  بلکہ میں نے  دیکھا ہے  کہ بے  ایمان اور رشوت لینے  والے  بھی میری عزت کرتے  بلکہ میں نے  تو دیکھا کہ میرے  افسر بھی میری ہمیشہ کی ایمان داری کی وجہ سے  بہت عزت کرتے  ہیں، پانچ سال پہلے  کی بات ہے  ایک روز صبح مارننگ واک (چہل قدمی) کر رہا تھا، مولانا صاحب کا ایک شاگرد جو بہت شریف اور محبت بھرا نوجوان ہے  میرے  پاس آیا اور مجھ سے  کہا کہ آپ ہمارے  شہر میں آئے  ہیں یہ بڑی خوشی کی بات ہے، سب لوگ آپ کی تعریف کرتے  ہیں اور آپ سے  محبت کرتے  ہیں، میں آپ سے  کافی روز سے  بات کرنا چاہ رہا ہوں آپ مجھے  دس منٹ کا وقت دے دیجئے، میں نے  کہا ابھی میرے  ساتھ چلئے  ایک کپ چائے  پی لیجئے، اس نے  کہا کہ ہمارے  حضرت یہ کہتے  ہیں قرآن نے  کہا ہے  کہ جب کسی سے  ملنے  جانا ہو تو اپارٹمنٹ لے  کر جاؤ ، میں نے  کہا میں ٹائم دے  رہا ہوں، میرے  پاس ابھی وقت ہے، وہ خوش ہوا میرے  ساتھ میرے  گھر آیا اور بولا : مجھے  یہ فکر ہے  جج صاحب آپ اتنے  ایمان دار اور بھلے  افسر ہیں آپ کو ایک دن مرنے  کے  بعد بڑی عدالت میں مجرموں کے  کٹہرے  میں کھڑا ہونا پڑے  گا اور آپ پر غداری کا مقدمہ چلے  گا، میں نے  حیرت سے  پوچھا مجھ پر غداری کا مقدمہ چلے  گا؟ بولے  جی، جس دیش میں آدمی رہتا ہو وہاں کے  حاکم اور مالک کو نہ مانے  اور وہاں کے  سن و دھان (Constitution) کو نہ مانے  وہ باغی اور غدار ہے، اس پوری سرشٹی (کائنات) کا حاکم و مالک ایک اللہ ہے  اور اس کا فائنل دستور سنو دھان قرآن مجید ہے، جو اللہ کو اور قرآن کو نہ مانے  وہ تو باغی اور غدار ہے، میں نے  کہا آپ کے  پاس کیا ثبوت ہے  کہ مجھ پر یہ مقدمہ چلے  گا؟ اس نے  بڑے  درد اور حیرت سے  کہا کہ میں اتنا پڑھا لکھا تو ہوں نہیں کہ آپ کو ترک (دلائل)سے  سمجھا دوں مگر جب آنکھ کھلے  گی جس کو آپ مرنا اور آنکھ بند ہونا کہتے  ہیں ہم اسے  آنکھ کھلنا کہتے  ہیں تو بات ہماری ہی سچی ہو گی، مگر جج صاحب اس وقت آپ کو فیصلہ کا اختیار نہیں رہے  گا تو مجبوراً آپ کو ہمیشہ کی نرک کی جیل میں جلنا پڑے  گا، یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے  محبت اور ترس سے  دو آنسوں نکلے، جن میں سے  ایک تو زمین میں ٹپک گیا اور دوسرا پلکوں میں اٹک گیا، مولانا احمد صاحب بے  لوث محبت اور ہمدردی میں اس کے  وہ دو آنسو میرے  گلے  کا پھندہ بن گئے، میرے  دل میں آیا کہ سمیر ایسے  ہمدرد کی بات میں ضرور سچائی ہے  اور اس کی ماننے  میں میرے  لئے  بھلائی ہے، میں نے  کہا مجھے  کیا کرنا چاہئے، اس نے  کہا آج پہلی تاریخ ہے  ہمارے  حضرت سونی پت آتے  ہیں، آپ کو کلمہ پڑھوا کر مسلمان بنا دیں گے، میں نے  کہا کس وقت چلنا ہے ؟ اس نے  کہا دس بجے  یہاں سے  چلیں گے  گیارہ بجے  تک پہنچ جائیں گے، حضرت گیارہ ساڑھے  گیارہ بجے  تک آ جائیں گے، دس بجے  ہم دونوں چلے، گیارہ بجے  سونی پت پہنچے، اتفاق سے  مولانا کو اس روز کوئی کام تھا جس کی وجہ سے  ڈیڑھ بجے  سونی پت پہنچے، گاڑی کی آواز آئی، میں کمرے  سے  نکلا، مولانا صاحب سے  ملاقات ہوئی، میں نے  کہا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، حضرت صاحب نے  کہا: ایمان اندر کے  یقین کا نام ہے، آپ نے  ارادہ کر لیا بس ہو گیا، ہم بھی اس ثواب میں شریک ہو جائیں اس کے  لئے  کلمہ پڑھ لیجئے، یہ کلمہ آخری اور مکمل دستور قرآن کو، نبی کے  طریقہ پر عمل کرنے  اور اس کو ماننے  کا حلف ہے، جو ہر آدمی کو عہدہ سنبھالتے  وقت لینا ہوتا ہے، حضرت نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور اردو میں ترجمہ بھی کہلوایا پھر مجھ سے  معلوم کیا کہ آپ نے  اتنا بڑا فیصلہ لیا ہے، آپ نے  اسلام کو پڑھا اور سمجھا بھی ہے ؟ میں نے  کہا میں نے  ایل ایل بھی میں مسلم پرسنل لا جو کچھ پڑھا ہے  بس اس کے  علاوہ ایک لفظ نہیں پڑھا، مسلمانوں سے  زیادہ رابطہ بھی نہیں رہا بلکہ نام کیلئے  بھی مسلمانوں سے  رابطہ نہیں رہا، ہریانہ میں مسلمان ہیں بھی ناکے  برابر، حضرت  نے  پوچھا پھر اتنا بڑا فیصلہ آپ نے  کس بات پر لیا؟ میں نے  کہا آپ کا یہ مرید میرے  پاس آیا اور محبت سے  مجھ سے  کہا: آپ اتنے  ایمان دار افسر ہیں، مگر آپ پر ایک بڑی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلے  گا اور جب میں نے  اس سے  ثبوت مانگا تو جواب میں محبت سے  اس کی آنکھوں سے  دو آنسو نکل گئے، ایک زمین میں گر گیا اور ایک پلکوں میں اٹک گیا، حضرت صاحب مجھے  آج معلوم ہوا کہ ہتھکڑی پڑ کر مجرم کیسے  بے  بس ہو جاتا ہے، یہ محبت بھرے  دو آنسو میرے  گلے  کا پھندہ بن گئے، میرے  دل نے  کہا ایسے  محبت بھرے  آدمی کی بات ماننے  میں بھلائی ہے، ایسا خیر خواہ جھوٹا نہیں ہو سکتا، حضرت نے  میرا نام قاضی محمد شریح رکھا اور پورا قصہ قاضی شریح کا سنایا، مجھے  بار بار مبارک باد دی اور اسلام پڑھنے  کے  لئے  کہا، کتابوں کی ایک فہرست بنائی اور ایک مولانا کے  ذمہ لگایا کہ وہ دہلی سے  یہ کتابیں مجھے  منگا کر دیں۔

سوال  :  اس کے  بعد آپ نے  وہ کتابیں پڑھیں ؟

جواب  : سب سے  پہلے  میں نے  ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ پڑھی، اس کتاب نے  مجھے  اپنے  فیصلہ پر بڑا اعتماد پیدا کیا کہ بے  سوچے  سمجھے  میں نے  کتنا سوچا سمجھا فیصلہ لیا بلکہ سچی بات یہ ہے  کہ میرے  اللہ نے  مجھے  کتنا سوچ سمجھ کر لینے  والا فیصلہ، بے  سوچے  سمجھے  لینے  پر مجبور کیا، اس کے  بعد میں نے  ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘‘ پڑھی اس کتاب نے  یوم آخرت خصوصاً حشر کی عدالت کو دل و دماغ پر ایسا طاری کیا کہ اب عدالت میں جج کی کرسی پر ہوتا ہوں اور  میرا ذہن اللہ کی عدالت میں حساب دیتے  وقت مجرموں کے  کٹہرے  میں اپنے  کو کھڑا پاتا ہے، بعض مرتبہ اس خوف میں بہت زیادہ بدحال ہو جاتا ہوں اس کے  بعد الحمدللہ ایک کے  بعد ایک کئی سوکتابیں پڑھ چکا ہوں۔

سوال  :  آپ نے  گھر والوں کو ابھی تک نہیں بتایا؟

جواب  : پانچ سال ہونے  والے  ہیں میں خود بہت پریشان ہوں مگر جب بھی حضرت سے  بات ہوتی ہے  تو حضرت کہتے  ہیں کہ ابھی کچھ روز بعد اعلان کیجئے، الحمدللہ میری اہلیہ تو مسلمان ہو گئی ہیں اور میرے  دونوں بچے  بھی، ہم چاروں تو نماز روزہ گھر میں پابندی سے  ادا کرتے  ہیں، آج حضرت نے  فرمایا کہ اب انشاء اللہ رمضان کے  بعد اعلان کروائیں گے، میرے  دل میں بار بار غیرت کی وجہ سے  بہت جذبہ ہوتا ہے  کہ حضرت ابوذرؓ نے  بھی تو حضور  ﷺ کے  منع کرنے  کے  باوجود اعلان کر دیا تھا، مگر پھر اندر سے  کوئی سمجھاتا ہے  کہ ایک آدمی کو اپنا رہبر بنا لیا ہے  تو پھر اپنی چلانے  کے  بجائے  اس کی ماننے  میں عافیت ہے، بعض دوسرے  معاملات میں میں نے  تجربہ بھی کیا کہ حضرت کی مرضی ماننے  میں بڑی بھلائی ملی۔

سوال  :  نماز وغیرہ آپ کہاں پڑھتے  ہیں اور جمعہ کی نماز کا کیا کرتے  ہیں ؟

جواب  : عام اعلان میں نے  نہیں کیا ہے  ورنہ بہت سے  مسلمانوں کو الحمدللہ ہمارے  اسلام کا علم ہے، میں جمعہ کی نماز جہاں رہتا ہوں اس سے  دور کسی شہر گاؤں یا قصبہ میں جہاں جمعہ ہوتا ہو تلاش کر لیتا ہوں الحمدللہ جمعہ پابندی سے  پڑھتا ہوں، یوں بھی جماعت میں میں نے  تین روز الحمدللہ اب تک سات مرتبہ لگائے  ہیں مگر دور جا کر۔

سوال  :  آپ کو اسلام میں آ کر کیسا لگا؟

جواب  : ہریانہ میں ۱۹۴۷ء کے  بعد اسلام اور مسلمان تو ایسے  ہی ہیں، اس لئے  رسم و رواج کے  لحاظ سے  اسلام سے  ہمیں مناسبت کم ہی تھی، اگر چہ اردو تہذیب اور گھر میں نان ویج کا رواج تھا، مگر چونکہ عقیدہ اور پورے  ضابطہ کے  لحاظ سے  اسلام بالکل نیچرل مذہب ہے  مجھے  بالکل بھی اجنبی نہیں لگا، بلکہ ایسا لگا کہ میری چیز تھی حضرت صاحب کتنی سچی بات کہتے  ہیں، سونی پت میں ان کی تقریر میں نے  سنی، اسلام دین فطرت ہے، پیاسے  انسان کو جس طرح بھی آپ اس کے  ہونٹوں کے  پاس پانی لائیں گے  تو جس طرح وہ اس کو قبول کرے  گا اسی طرح انسانی فطرت، دین فطرت کی پیاسی ہے، اس کو دین فطرت اجنبی نہیں لگتا، شرط یہ ہے  کہ اس کے  ہونٹوں تک لگا دیا جائے۔

سوال  :  ابی نے  آپ کو دعوت پر نہیں لگایا، گھر والوں اور خاندان والوں پر کام کے  لئے  نہیں کہا؟

جواب  : ہاں الحمدللہ کہا ہے، میں کام بھی کر رہا ہوں، الحمدللہ میری ایک بوا (پھوپی) اور ان کے  شوہر مسلمان ہو گئے  ہیں، میرے  چچا کے  ایک بیٹے  مسلمان ہو گئے  ہیں، میرے  چھ نوکر مسلمان ہو کر اعلان کر چکے  ہیں، دو نے  تو مسلمان لڑکیوں سے  شادی بھی کر لی ہے۔

سوال   :   ماشاء اللہ ! اچھا ارمغان کے  لئے  آپ کوئی پیغام دیں گے ؟

جواب  : حضرت فرماتے  ہیں اور کتنی سچی بات فرماتے  ہیں کہ یہ ملک اہل محبت کا ملک ہے، محبت یہاں کے  لوگوں کی کم زوری ہے  سچی ہمدردی اور محبت کے  سامنے  یہ قوم پاؤں نہیں جما پاتی، فوراً مائل ہو جاتی ہے، اس قوم کی اس خوبی کا فائدہ اٹھا کر ہم لوگ کچھ ناسمجھ لوگوں کی گندی سیاسی فرقہ پرستی سے  متاثر ہونے  کے  بجائے  ان کو اپنا خونی رشتہ کا بھائی سمجھ کر اگر محبت سے  دعوت دیں تو ایسا ہونہیں سکتا کہ یہ قوم ٹھکرائے، یہاں دعوت کا کام کرنے  کے  لئے  زیادہ بحث و مباحثہ اور عقلی دلائل اور اس کی صلاحیت کی ضرورت نہیں بلکہ صرف محبت اور جرات کی ضرورت ہے  اور جرات سے  زیادہ محبت کی، شرط یہ ہے  کہ محبت وہ جو اندر سے  ابلے  اور دل تک پہنچ جائے، جب ایک کم پڑھے  لکھے، سیدھے  دیہاتی نوجوان کے  دو بلکہ ڈیڑھ آنسو مجھے  ہمیشہ کے  کفر شرک سے  نجات کا ذریعہ بن سکتے  ہیں اگر رحمۃ للعالمین نبی  ﷺ کی طرح راتوں کو اللہ کے  حضور رونا اور سینہ کا ہانڈی کی طرح کھولنا ہمیں نصیب ہو جائے  تو یہ ملک صد فیصد اسلام کا زبردست مرکز بن سکتا ہے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ قاضی صاحب

جواب  : بہت بہت شکریہ تو آپ کا کہ آپ نے  مجھے  اس مبارک کام میں شریک کر لیا، انشاء اللہ رمضان میں پھلت میں ملاقات ہو گی۔

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، ستمبر  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب محمد عمر صاحب { آدیش} سے  ایک ملاقات

 

احمد اوّاہ      : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد عمر  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال   : عمر بھائی گزشتہ سال میں نے  آپ سے  جو انٹرویو لیا تھا وہ آپ کے  منع کرنے  کی وجہ سے  شائع نہیں کیا جاسکا اور اب وہ انٹر ویو میرے  پاس صحیح حالت میں نہیں ہے، میری خواہش ہے  کہ آپ کا انٹرویو ضرور شائع کیا جائے  اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو دوبارہ آپ سے  کچھ باتیں کر لی جائیں۔

جواب  : ہاں احمد بھائی کیوں نہیں، میں تو انٹرویو شائع ہونے  کا انتظار کر رہا تھا، اس وقت انٹرویو شائع کرنا مناسب نہیں تھا، الحمدللہ اب حالات سازگار ہیں اس لئے  اسے  شائع کرنے  میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

سوال   : پہلے  آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب  : میرا پہلا نام آدیش تھا، میں ضلع سہارنپور کے  ایک گاؤں سہجی کا رہنے  والا ہوں، میں نے  سہجی ہی میں جنتا انٹر کالج سے  ہائی اسکول کیا ہے  اور اب مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ میں عا  لمیت کر رہا ہوں۔

سوال  : آپ کو اسلام کی طرف کیسے  رغبت ہوئی اور کیا چیز آپ کے  اسلام قبول کرنے  کا ذریعہ بنی؟

جواب  : بچپن سے  ہی مجھے  اسلام کی بہت سی چیزیں اچھی لگتی تھیں، خاص طور پر پردہ کا نظام مجھے  بہت پسند آیا، یہ چیز مجھے  دوسرے  مذاہب میں نظر نہیں آئی اور دوسری چیز جس کی وجہ سے  میں نے  اسلام قبول کیا، میرا ایک خواب تھا میں بچپن سے  ہی اپنا نام آدیش لکھتا تھا، یہ مجھے  بہت پسند تھا شاید اس لئے  ہی آپ  ﷺ مجھے  خواب میں نظر آئے، آپ نے  مجھ سے  فرما رہے  ہیں کہ کلمہ پڑھ لو اور یہاں سے  چلو، پھر مجھے  ایک بہت اچھا کنواں دکھائی دیا جو میرے  گاؤں میں ہی تھا، یہ آواز اس کنویں میں سے  بھی سنائی دی، میں نے  یہ بات اپنے  مسلمان دوست کو بتائی تو وہ کہنے  لگا کہ تو چاہے  جو بھی کر لے  مسلمان ضرور ہو کر رہے  گا، اس کے  کچھ ہی دن بعد اللہ تعالیٰ نے  مجھے  اسلام سے  سرفراز فرمایا۔

سوال  : آپ اپنے  قبول اسلام کا پورا واقعہ سنائیں ؟

جواب  : احمد بھائی مجھے  بچپن سے  ہی مورتی پوجا سے  نفرت تھی میں اپنی والدہ کو بھی اس سے  روکتا تھا، گھر میں کوئی بھی میرے  سامنے  پوجا نہیں کر سکتا تھا، سب لوگ مجھ سے  چھپ کر ہی پوجا کرتے  تھے، ایک مرتبہ میں نے  گھر کے  تمام بھگوانوں کے  پوسٹر پھاڑ کر جیب میں رکھ لئے  اور ان کے  فریم کو اپنے  بھائی سے  کنویں میں پھینکنے  کو کہا، اس وقت میری والدہ سوئی ہوئی تھیں، میں نے  ان تصویروں کو آگ لگا دی، آگ لگنے  کے  بعد جب ان کی طرف سے  کوئی رد عمل نہیں ہوا تو مجھے  پورا یقین ہو گیا کہ یہ سب بیکار ہیں اس کے  بعد جب میری ماں کو یہ سب بات معلوم ہوئی کہ میں نے  تمام بھگوانوں کو جلا دیا ہے  تو اس نے  مجھ سے  بلا کر پوچھ تاچھ کی کہ میں نے  ایسا کیوں کیا ہے ؟ میں نے  اپنی ماں کو سمجھایا کہ جب یہ اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتے  تو میری اور آپ کی کیسے  کر سکتے  ہیں، اس پر میری ماں نے  مجھے  بہت مارا اور کہنے  لگیں کہ تو مسلمان ہو گیا ہے، میں نے  کہا کہ میں کوئی مسلمان نہیں ہوا ہوں، مجھے  معلوم نہیں کہ کون صحیح ہے، ہندو کہتے  ہیں کہ مسلمان غلط ہیں اور مسلمان کہتے  ہیں کہ ہندو غلط ہیں، میں جب تک اچھی طرح تحقیق نہیں کر لیتا کہ کون صحیح ہے  تب تک نہ میں مسلمان اور نہ ہندو، پھر کچھ دن بعد مجھے  یہ خواب نظر آیا جس پر میرے  دوست نے  کہا تھا کہ تو چاہے  جو بھی کر لے  مسلمان ضرور ہو کر رہے  گا، میرا رجحان اسلام کی طرف پہلے  سے  ہی تھا، مزید اس خواب نے  میری دلچسپی اسلام کی طرف اور بڑھا دی اس کے  بعد ہی میں نے  پڑھائی چھوڑ دی اور سہارنپور کام سیکھنے  کے  لئے  گیا، وہاں ایک سید صاحب کی دکان میں کام سیکھا کرتا تھا اور ان سے  اسلام کے  بارے  میں کچھ باتیں بھی ہوا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے  ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ میں اسلام کو پسند کرتا ہوں اور قبول بھی کرنا چاہتا ہوں، ایک دن سید صاحب کے  سالے  دکان پر تشریف لائے، ان کو معلوم تھا کہ میں ہندو ہوں لیکن سید صاحب نے  ان کو بتایا کہ میرا رجحان اسلام کی طرف ہے، پھر انھوں نے  مجھ سے  بات کی، میں نے  صاف صاف بتا دیا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں، اگلے  ہی دن وہ صاحب مجھے  لے  کر دیوبند مولانا اسلم صاحب کے  پاس آئے، مولانا نے  مجھے  کلمہ پڑھایا اور میرا نام محمد عمر رکھا۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : کلمہ پڑھنے  کے  بعد مجھے  مولانا اسلم صاحب نے  نماز وغیرہ سیکھنے  کے  لئے  پھلت بھیج دیا، یہاں میں نے  بہت جلد نماز اور بہت سی دعائیں سیکھ لیں، اس کے  تقریباً سوا مہینے  کے  بعد میرا گھر جانا ہوا، گھر والوں نے  معلوم کیا کہ کہاں کام کر رہے  ہو، میں نے  بتایا کہ میں دہلی میں کام سیکھ رہا ہوں، دو چار دن گھر رہنے  کے  بعد میں واپس آنے  لگا تو گھر والوں نے  دہلی کا کوئی فون نمبر اور ایڈریس مانگا میں نے  کہا کہ میرا بیگ دہلی میں ہی رہ گیا ہے، اسی میں فون نمبر اور ایڈریس وغیرہ ہے، میں وہاں پہنچ کر فون سے  نمبر اور ایڈریس دے  دوں گا، گھر سے  نکلتے  وقت مجھے  خرچ کے  لئے  گھر والوں نے   -/۵۰۰ روپے  بھی دیئے، کئی روز تک میری خیر خبر نہ ملنے  پر گھر والوں نے  میری تلاش جاری کر دی، جب میرا ان کو کوئی سراغ نہیں ملا تو انھوں نے  اسلام کی طرف میرا رجحان ہونے  کی وجہ سے  ہمارے  گاؤں کے  رہنے  والے  ظہور صاحب جن کے  پاس میرا آنا جانا تھا پر میرے  اغوا(اپہرن) کا الزام لگا دیا اور ان پر تمام گاؤں والوں نے  دباؤ ڈالا، بیچاروں نے  مجبور ہو کر یہ کہہ دیا کہ آٹھ دن میں تمہارا لڑکا مل جائے  گا، یہ بات سننی تھی کہ ان کو یقین ہو گیا کہ میں ان ہی کے  پاس ہوں، وہ پریشان ہو کر میرے  پاس آئے  اور مجھے  لے  کر قاضی رشید مسعود ایم پی کے  یہاں لے  گئے، ایم پی صاحب نے  ہمیں تسلی دی کہ گھبرانے  کی کوئی بات نہیں ہے  سب ٹھیک ہو جائے  گا، میں قاضی جی کے  یہاں تین چار دن تک رہا، ظہور صاحب کو میرے  اپہرن کے  الزام میں جیل بھی جانا پڑا، ان کی ضمانت تو ہو گئی تھی لیکن مقدمہ شروع ہو گیا تھا مجھے  ان کو بچانے  کے  لئے  بیان دینا تھا، بیان دینے  کے  لئے  ایم پی صاحب نے  مجھے  پولیس والوں کے  ساتھ بھیجا اور ان کو یہ نصیحت کی میرے  ساتھ کوئی زیادتی نہ کی جائے، جو میں چاہتا ہوں وہی ہونا چاہئے  اور کسی قسم کی کوئی سختی میرے  ساتھ نہ کی جائے، پولیس والے  مجھے  لے  کر دیوبند جا رہے  تھے  کہ نانوتہ میں میرے  گھر والے  مل گئے، انھوں نے  مجھے  روک کر بہت سمجھایا میں ان کو بے  دھڑک اور سخت لہجے  میں جواب دے  رہا تھا، ایس او (S.O) نے  یہ دیکھ کر کہ میں جواب دے  رہا ہوں اور ان کی بات ماننے  کو تیار نہیں ہوں، سمجھایا کہ بھائی یہ تیرے  ماں باپ ہیں، تجھے  کرنی تو اپنے  من کی ہے، ان کا دل رکھنے  کو ان کی بات بھی مان لے، میں نے  ایس او کے  کہنے  سے  کپڑے  یعنی پینٹ شرٹ جو وہ اس وقت خرید کر لائے  تھے، لے  لئے  اور کولڈ ڈرنک بھی پی لی، لیکن کھانا نہیں کھایا، گھر والے  مجھ سے  کہنے  لگے  کپڑے  بھی بدل لے، میں نے  کہا کہ اس وقت نہیں، صبح میں بدل لوں گا، میرا یہ کہنا تھا کہ گھر والوں نے  گاؤں میں یہ بات اڑا دی کہ میں نعوذ باللہ مرتد ہو گیا ہوں اور میں نے  داڑھی وغیرہ کٹوا دی ہے، اس بات سے  مسلمانوں کے  حوصلے  پست ہو گئے  اور وہ گھبرا گئے  کہ کہیں میں ظہور صاحب کے  خلاف بیان نہ دے  دوں۔

احمد بھائی جب ہم دیوبند پہنچے  تو وہاں مجھے  پانچ گھنٹے  تک آفیسر نے  پریشان کیا، کبھی ایک تو کبھی دوسرا، مجھ سے  پوچھ تاچھ کرتا، یہ سلسلہ پانچ گھنٹے  تک چلتا رہا، اخیر میں مجھ سے  تمام آفیسر نے  جو چار پانچ تھے  کہا کہ تو کیا چاہتا ہے ؟ میں نے  ان کو جواب دیا کہ میں اپنی مرضی سے  مسلمان ہو گیا ہوں کسی کا مجھ پر کوئی دباؤ یا لالچ نہیں ہے  اور اب میں اسلام کے  بارے  میں پڑھنا چاہتا ہوں، مجھے  آپ کسی مدرسہ میں بھجوا دیجئے، انھوں نے  میری یہ بات مان لی اور مجھے  مدرسہ چھوڑنے  کے  لئے  جا رہے  تھے  کہ راستہ میں پولیس والوں نے  گاڑی روک دی، سامنے  سے  ایک بجرنگ دل کا آدمی آیا اس کے  ہاتھ میں ترشول تھا، دیکھتے  ہی دیکھتے  وہاں تقریباً تین سو آدمی جمع ہو گئے  وہ مجھے  گاڑی سے  اتارنے  لگے  میں نے  گاڑی کے  پائپ کو مضبوطی سے  پکڑ لیا وہ مجھے  گاڑی سے  کھینچ ہی رہے  تھے  کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے  مدد آ گئی، ایک دوسری پولیس والوں کی گاڑی آ کر رکی، گاڑی کے  رکتے  ہی وہ سب بھاگ گئے، پھر یہ پولیس والے  مجھے  مدرسہ قاسم العلوم تیوڑہ لے  کر آئے، اگلے  دن بجرنگ دل والوں نے  قریب کے  تمام گاؤں والوں کو اکٹھا کر کے  ظہور صاحب اور گاؤں کے  تمام مسلمانوں پر چڑھائی کر دی اور ظہور صاحب کے  کھیتوں کو نقصان پہنچایا، تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ پورے  سہجی گاؤں کو فورس نے  گھیر لیا اور فوج نے  بہت سختی کی اور لاٹھی چارج بھی کر دیا، پبلک منتشر ہو گئی اس کے  بعد سہجی میں کئی دن تک کرفیو لگا رہا، احمد بھائی اس وقت جب آپ نے  میرا انٹرویو لیا تھا اس وقت حالات ٹھیک نہیں تھے، بڑی مشکل سے  کچھ معاملہ ٹھنڈا ہوا تھا میں نے  مصلحتاً کہ نئی نئی بات ہے  کبھی ماحول دوبارہ گرم ہو جائے، انٹرویو شائع کرنے  کو منع کر دیا تھا، الحمدللہ آج کل حالات ٹھیک چل رہے  ہیں۔

سوال  : اسلام لانے  کے  بعد اور کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

جواب  : احمد بھائی گھر میں جو سہولتیں ہوتی ہیں وہ گھر سے  دور جانے  کے  بعد ختم ہو جاتی ہیں، بس اس طرح کی کچھ چھوٹی موٹی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

سوال  : ہاں واقعی عمر بھائی یہ بات تو ہے  کہ گھر سے  دور رہ کر کچھ سہولتیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن آپ نے  ان سہولتوں کے  بدلے  اتنی بڑی نعمت پائی ہے  کہ دنیا کی تمام سہولتیں دے  کر بھی مل جائے  تو بھی سستی ہے  اور سچے  مسلمان تو آپ ہی ہیں کہ آپ نے  حق سامنے  آ جانے  کے  بعد اسے  قبول کر لیا، ہمارا کیا ہے  ہمیں تو اسلام ورثے  میں ملا ہے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ اس نے  ہمیں مسلمان گھرانے  میں پیدا فرما کر اسلام پر باقی رکھا، اچھا گھر والوں اور ظہور صاحب سے  ملاقات ہوتی رہتی ہے  کیا؟

جواب  : نہیں احمد بھائی، گھر والوں سے  تو اس کے  بعد ایک بھی بار ملاقات نہیں ہوئی، البتہ ظہور صاحب سے  ملاقات ہوتی رہتی ہے، انھوں نے  مجھے  بیٹا بنا لیا ہے  وہ مجھ سے  ملنے  مدرسے  آتے  رہتے  ہیں اور مجھ سے  اپنے  بچوں کی ہی طرح محبت کرتے  ہیں اور ان کے  بچے  بہن بھائی کی طرح رہتے  ہیں اور دو بہنوں کی شادی بھی ہو گئی ہے، چھٹی گزارنے  میں ان کے  یہاں ہی جاتا ہوں۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسا محسوس کیا؟

جواب  : بہت زیادہ سکون محسوس کیا، قبول اسلام کے  بعد مجھے  سکون قلب مل گیا۔

سوال  : عا  لمیت کے  بعد کیا ارادہ ہے ؟

جواب  : عا  لمیت کے  بعد دعوت کا کام کرنا ہے، میں عا  لمیت کر ہی اسی لئے  رہا ہوں کہ اسلام کو ٹھیک سے  جاننے  کے  بعد اپنے  غیر مسلم بھائیوں کو اس کی طرف دعوت دوں اور اللہ تعالیٰ کا پیغام ان تک پہنچاؤں، آپ سے  اور تمام قارئین ارمغان سے  بھی دعا کی درخواست ہے  کہ اللہ تعالیٰ مجھے  اس کام کے  لئے  قبول فرما لے۔

سوال  : آمین۔ قارئین ارمغان کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  : میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے  جن لوگوں کو اسلام سے  نوازا ہے  وہ اس کی قدر کریں اور چونکہ نبی اکرم  ﷺ کے  فرمان کے  مطابق ہر کچے  پکے  گھر میں اسلام داخل ہو گا ہی تو اس کے  لئے  دعا اور کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر ہر گھر میں اسلام پہنچانے  میں آپ کا ہم دونوں کا بھی کچھ حصہ شامل فرمائے  اور میرے  اور آپ کے  لئے  بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو بھی اس کار خیر کے  لئے  مکمل طور پر قبول فرمائے۔

دوسری ضروری بات نومسلم بھائیوں سے  بھی ارمغان کے  واسطہ سے  یہ کہنی ہے  کہ اگر آدمی اپنے  ایمان پر پکّا ہے  تو کتنی ہی مشکلیں آئیں مشکلیں خود کافور ہو جاتی ہیں اور اللہ پر بھروسہ کرنے  والے  کے  ساتھ اللہ کی مدد آتی ہے، دوسرے  دعوت کے  لئے  کوشش کرنے  والوں کے  لئے  بھی اللہ کی مدد کا وعدہ ہے، ظہور صاحب کی اتنی مخالفت ہوئی مگر کوئی ان کا بال بیکا نہ کر سکا، ان کے  کھیتوں کو لوگوں نے  نقصان پہنچایا، ان کا کہنا ہے  کہ اگلے  سال ان کی فصل دوگنی ہو گئی، وہ مجھ سے  کہتے  ہیں کہ عمر میاں سچی بات یہ کہ تم نے  ہمیں سچا مسلمان بنا دیا، ہم لوگ رسمی مسلمان تھے، تمہیں بیٹا بنانے  کی وجہ سے  اللہ پر اور اللہ کی مدد پر ہمیں پکّا ایمان حاصل ہوا، اب ہم ہر مشکل میں صرف اللہ کو کارساز مانتے  ہیں، پہلے  یہ بات نہ تھی۔

سوال  : سنا ہے  آپ نے  ختنہ بھی کرائی ہے ؟

جواب  : ہاں احمد بھائی، ایک تو مجھے  یہ خیال تھا کہ ایک سنت چھوٹی ہوئی ہے  دوسرے  مجھے  ڈر بھی رہتا تھا کہ کہیں سفر حضر میں میری موت آ جائے  تو ہندو سمجھ کر مجھے  جلا دیں اور ان دونوں باتوں سے  زیادہ بات یہ تھی کہ پیشاب کے  بعد قطرہ رکا رہنے  کا ہر وقت خیال رہتا تھا اور یہ خیال ہوتا تھا کہ شاید میں پاک نہیں ہوا اور جب پاکی نہیں تو نماز روزہ سب بے  کار ہے، اس لئے  میں مولانا صاحب سے  اس کے  لئے  بہت اصرار کرتا تھا، مدرسہ کی ششماہی چھٹیاں ہوئیں تو میں پھلت آ گیا، مولانا صاحب نے  مجھے  سردھنہ بھیج کر میری ختنہ کرا دی، الحمدللہ کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور اب بہت اطمینان ہو گیا ہے۔

سوال  : شکریہ جزاکم اللہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، مئی  ۲۰۰۷ء

 

 

 

ڈاکٹر محمد اسعدصاحب {راجکمار} سے  ایک ملاقات

 

ڈاکٹر محمد اسعد : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

احمد اوّاہ                   : وعلیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

سوال  : ڈاکٹر صاحب آپ بہت اچھے  موقع پر تشریف لائے، مجھے  آپ جیسے  کسی خوش قسمت کی تلاش تھی بلکہ گویا آپ کی ہی تلاش تھی۔

جواب  : کیوں بھیا احمد ایسی کیا ضرورت تھی ؟ آپ تو اب ماشا ء اللہ بڑے  ہو گئے  ہیں

سوال  : اصل میں کچھ زمانے  سے  ہمارے  یہاں ارمغان میگزین میں نو مسلموں کے  انٹر ویو کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے  اس ماہ ابی کی خواہش تھی کہ فوجی کے  کسی ساتھی کا انٹر ویو چھپ جائے، اچھا ہوا آپ آ گئے۔

جواب  : مگر ابی تو نو مسلم کی اصطلاح کو اچھا نہیں سمجھتے  اور میرا بھی یہ خیال ہے  کہ اس لفظ سے  نقصان ہوتا ہے، عام طور پر مسلمانوں میں اس کی الگ ہی حیثیت رہتی ہے  اور اسلام قبول کرنے  والا بھی عرصہ تک بہت سی غلط فہمیوں میں رہتا ہے، ان میں سب سے  بڑی بات یہ ہے  کہ وہ اپنی ساری ذمہ داری مسلمانوں کے  ذمہ سمجھتا ہے  جو اس کے  لئے  بہت خطرناک ہے  اس لئے  میں اپنے  کو نو مسلم نہیں کہتا بلکہ نو مسلم سمجھتا بھی نہیں ہوں اور جب سے  پیارے  آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان سنا ہے  کہ ہر بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے  اس کے  ماں باپ اسے  یہودی، مجوسی اور نصرانی بنا دیتے  ہیں، میں اپنے  کو پیدائشی مسلمان سمجھتا ہوں الحمدللہ، بہر حال آپ پھر بھی بتایئے  میرے  لائق کیا خدمت ہے  ؟

سوال  : واقعی آپ کی بات ٹھیک ہے  ہندو گھر میں پیدا ہونے  کی وجہ سے  کچھ روز اسلام سے  ظاہری طور پر آپ بھٹکے  رہے، ورنہ آپ کے  پیدائشی مسلمان ہونے  میں کیا شک ہو سکتا ہے  جب نبی صادقﷺ کا ارشاد بھی صاف ہے  صَدَقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قارئین ارمغان کے  لئے  کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں دعوت کا کام کرنے  والوں کو فائدہ ہو۔

جواب  : ضرور کیجئے  میرے  لئے  خوشی کی بات ہو گی۔

سوال  : اپنا مختصر تعارف کرائیے ؟

جواب  : اب الحمد للہ میرا نام اسعد ہے  میری پیدائش موضع سرور پور جو اب ضلع باغپت میں ہے  کے  ہندو جاٹ زمیندار گھرانے  میں ہوئی میرا نام میرے  والد محترم نے  راجکمار رکھا تھا، میری پرائمری تعلیم گاؤں میں ہوئی، بعد میں بڑوت سے  انٹر، سائنس میں اور بائیو لوجی سے  کیا اور الہ آباد سے  آیور ویدک کا ڈگری ک ورس بی، اے  ایم، ایس کیا۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں کچھ بتایئے ؟

جواب  : میرے  قبول اسلام کا واقعہ اللہ کی صفت ہادی کا کرشمہ ہے، بی اے، ایم ایس کے  ہاؤس جاب کے  بعد میں نے  تین اپریل  ۱۹۹۳ء کو پھلت آ کر مولانا کلیم صاحب کے  ہاتھ پر اسلام قبول کیا پھر جماعت میں وقت لگایا اور اب میں مظفر نگر میں پریکٹس کر رہا ہوں، گاؤں میں میڈیکل پریکٹس شروع کی لیکن اللہ کو اور کچھ منظور تھا میری کلینک چل نہیں سکی حالانکہ تین سال تک پابندی کے  ساتھ میں نے  کلینک کی، میرے  ایک رشتہ دار نے  مجھے  مشورہ دیا کہ کاندھلہ کے  پاس ایلم گاؤں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے  تم وہاں کلینک کر لو، اپنی دوکان دینے  کی بھی پیش کش کی، میں نے  اپنے  والد صاحب سے  مشورہ کیا، ان کی رائے  ہو گئی اور میں نے  وہاں کلینک کر لی، ایک سال تک وہاں بھی پابندی سے  بیٹھنے  کے  بعد میری کلینک نہیں چلی ایلم گاؤں میں ان دنوں سنسر پال عرف فوجی کا آتنک (دہشت ) پھیلا ہوا تھا چاروں طرف فوجی کے  گینگ کی دہشت تھی خود ایلم گاؤں چھاؤنی بنا ہوا تھا پی، اے، سی لگی ہوئی تھی، مگر روز معلوم ہوتا تھا کہ فوجی آیا اس کو مار دیا اور کسی کو گولیوں سے  بھون دیا، ملک کے  اکثر اخباروں میں فوجی کی خبریں آتی تھیں پولیس نے  اس کو زندہ یا مردہ لانے  پر دو لاکھ روپیے  انعام طے  کیا تھا میری بھی اس سے  دور کی رشتہ داری تھی کلینک سے  مایوس ہو کر مجھے  بھی اس کے  ساتھ رہنے  کی سوجھی، کسی طرح میری ان سے  ملاقات ہو گئی فوجی قاتل اور ڈاکو کی صورت میں میں نے  ان کے  اندر ایک بڑے  انسان کو دیکھا پہلی ملاقات نے  مجھے  ان کا گرویدہ بنا دیا اور میں نے  ان کے  ساتھ رہنے  کا فیصلہ کر لیا۔

سوال  : آپ ایک شریف گھرانے  کے  فرد تھے  آپ نے  ایک دم ایسا فیصلہ کیسے  کر لیا ان کے  اندر کیا خوبی دیکھی کہ اس قدر گرویدہ ہو گئے ؟

جواب  : ان کی شخصیت کو سمجھنے  کے  لئے  آپ کو ان کی داستان سننی پڑے  گی، اصل میں وہ بہت شریف گھرانے  کے  ایک سجیلے  نوجوان تھے  ایسی وجاہت کے  نوجوان کہ جہاں سے  وہ گزرتے  آدمی ان کو دیکھنے  کے  لئے  مجبور ہو جاتا، ان کو فوج میں ملازمت مل گئی وہ بہت جذباتی اور مضبوط عزم کے  آدمی تھے، وہ جس افسر کے  ماتحت تھے  اس کے  بارے  میں انہوں نے  سنا کہ اس نے  رشوت لے  کر دشمن جاسوسوں کو راز دیئے  ہیں وہ تحقیق میں لگ گئے  اور بات سچ ہونے  کے  بعد انہوں نے  فیصلہ کیا کہ ایسے  غدار کو جینے  کا حق نہیں، مجھے  اس کو مارنا ہے، انہوں نے  اپنے  ارادہ کو پورا کیا اور اپنے  افسر کو گولی مار کر فوج سے  بھاگ آئے  اپنے  گھر وہ نہیں جاسکتے  تھے  اس لئے  جنگلوں میں در بدر پھرتے  تھے  پولیس ان کی تلاش میں تھی اس دوران وہ بڈھانہ میں ایک قاری صاحب کے  یہاں کبھی کبھی رات گزارا کرتے  تھے  قاری صاحب کو وہ اپنا ساؤ ( محسن ) سمجھتے  تھے  قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ مقدمہ فوجی عدالت میں گیا اور عدالت نے  ان کو بری کر دیا اسی دوران بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ ملک میں گرم ہوا، ایلم گاؤں میں کچھ مسلمان رہتے  تھے  ایک روز فوجی کے  پاس آئے  اور کہنے  لگے  بھائی فوجی ہمیں معاف کر دو ہم گاؤں چھوڑ کر جا رہے  ہیں، فوجی نے  وجہ پوچھی تو انہوں نے  بتایا کہ پر دھان جی کے  گھر والے  مسجد ڈھانے  کو کہہ رہے  ہیں اور جب ہماری مسجد ہی نہ رہے  گی تو ہمارا اس گاؤں میں رہنا بے  کار ہے، فوجی نے  جواب دیا جب تک میں زندہ ہوں تمہاری مسجد کو کوئی نہیں گرا سکتا تم آرام سے  گاؤں میں رہو ان لوگوں نے  پردھان سے  کہہ دیا کہ فوجی نے  کہا ہے  میرے  رہتے  ہوئے  کوئی مسجد نہیں گراسکتا، موجودہ پردھان سے  فوجی کے  خاندان کی چلتی تھی پردھان نے  کہا ایسے  فوجی سیکڑوں بھی ہوں گے  پھر بھی ہمیں ۶/ دسمبر کو مسجد ڈھانے  سے  کوئی روک نہیں سکتا، یہ لوگ بھی بے  وقوف تھے  انہوں نے  آ کر فوجی سے  یہ بات بھی کہہ دی، اس نے  رائفل اٹھائی پردھان اس کے  ایک بیٹے  اور ایک بھتیجے  کو گولی ماری اور مسجد کے  سامنے  گھسیٹ کر لا کر ڈال دیا اور مسلمانوں سے  بولا یہی تھے  تمہاری مسجد کو ڈھانے  والے  اب تو تمہیں کوئی ڈر نہیں ؟ اب تم آرام سے  رہو اس خاندان کے  بچے  ہوئے  لوگوں نے  کسی گینگ سے  تعلق قائم کیا اور فوجی کے  گھرانے  پر رات کو ڈاکہ ڈلوا دیا سامان لوٹنے  کے  علاوہ عورتوں کی بے  عزتی کی فوجی کے  بھابی اور چچی کی عزت لوٹ کر ان کو مارا اور ان کی چھاتیاں کاٹ ڈالیں فوجی گھر نہیں تھے  ان کو معلوم ہوا بھابی اور چچی کی لاش دیکھ کر ان کا حال خراب ہو گیا انہوں نے  ان لاشوں کی سوگندھ (قسم ) کھائی کہ جب تک زندہ رہوں گا ان کے  گھر والوں کا روزانہ ایک آدمی ماروں گا پھر گینگ بنایا اور روزانہ ایک آدمی قتل کیا شاید ۱۶۵/ لوگوں کو قتل کیا پورے  صوبہ کی پولیس پریشان تھی مگر فوجی پر قبضہ کرنا مشکل تھا، مگر وہ عجیب ڈاکو تھے  ڈاکہ ڈالتے  تھے  لوگوں سے  مہینے  وصول کرتے  تھے  مگر اس میں سے  نہ خود پیسہ استعمال کرتے  تھے  نہ ساتھیوں کو کھانے  دیتے  تھے  غریبوں کی مدد کرتے  تھے  اور بیواؤں اور یتیموں کی شادیاں کراتے، عجیب بات یہ ہے  کہ غریب لوگ اکثر مسلمان تھے  اس لئے  زیادہ تر وہ مسلمانوں کی مدد کرتے  تھے، اسی دوران اللہ کی رحمت کو جوش آیا بڈھانہ میں قاری صاحب کے  حجرہ میں وہ رکے  ہوئے  تھے  مولانا کلیم صاحب ہریانہ کے  ایک سفر سے  صبح صبح واپس ہو رہے  تھے  ان کو قاری صاحب سے  کچھ کام تھا وہ مسجد میں آ گئے  قاری صاحب بہت خوش ہوئے  ان کو دیکھ کر فوجی کو ذرا تکلف  ہوا مگر قاری صاحب نے  کہا کہ میں آپ کا کون ہوں ؟ انہوں نے  کہا آپ میرے  ساؤ (محسن ) ہیں، قاری صاحب نے  کہا یہ میرے  ساؤ ہیں مجھے  آپ کو ان سے  ملانا تھا مولانا صاحب سے  وہ ان کا تعارف بڑوت سے  بڈھانہ تک کے  ایک سفر کے  دوران کرا چکے  تھے، مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ مسجد کی حفاظت کے  سلسلہ میں ڈاکو بننے  کی حالت نے  ان کو بہت متاثر کیا اور وہ بڈھانہ تک فوجی کے  ہدایت کے  لئے  دعائیں مانگتے  رہے  کہ یا اللہ آپ کے  گھر کی حفاظت نے  اس کو یہاں تک پہنچا دیا اس لئے  اس کو ہدایت ضرور دے  دیجئے، مولانا صاحب بھی ان سے  ملنے  کے  مشتاق تھے  مل کر خوش ہوئے، مولانا نے  فوجی سے  کہا : پورے  علاقہ میں یہ قتل عام تم نے  کیوں پھیلا رکھا ہے، فوجی نے  کہا میں نے  سوچاہے  موت تو میری قریب ہے  تھوڑا سا نام ہی کر جاؤں، مولانا صاحب نے  کہا موت کو قریب سمجھتے  ہو تو وہاں کی کچھ تیاری بھی کر رکھی ہے  ؟ یہاں کی پولیس اور عدالت سے  تو بچ سکتے  ہو وہاں کی عدالت سے  بچنا ممکن نہیں، فوجی نے  کہا موت کے  بعد کس نے  دیکھا ؟ مولانا صاحب نے  کہا جس نے  دیکھا ہے  اس نے  بتایا ہے، وہاں کا مسئلہ بڑا نازک ہے  وہاں کی تیاری کی فکر کرو، فوجی نے  کہا کہ لارے  کی بات تو میں سمجھتا نہیں جب میرے  ساؤ کے  ساؤہو تو بتاؤ آپ کیا چاہتے  ہو ؟مولانا صاحب نے  فرمایا کہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ، فوجی نے  فوراً کہا پڑھاؤ، آپ کے  ابی بتایا کرتے  ہیں، میں نے  سوچا کہ مذاق میں کہہ رہا ہے  وہ اس وقت تک اس کے  عزم سے  واقف نہیں تھے  مگر انہوں نے  اس کو کلمہ پڑھایا اس نے  کلمہ پڑھا اور بولا جی میں مسلمان بن گیا اب موت کے  بعد میرے  لئے  سزا ختم ہو گئی؟ مولانا صاحب نے  کہا ہاں انشاء اللہ دن نکل رہا تھا اس نے  اپنے  ہتھیار اٹھائے  اور چلنے  لگا، مولانا صاحب نے  پوچھا کہاں جانا ہے  ؟ فوجی نے  بتایا ہمارے  مخالف ایک مخبر نے  ہمارے  ایک ساتھی کی غلط مخبری کر کے  پولیس سے  ہاتھ پاؤں توڑ وا دیئے  ہیں، آج حسین پور کے  ایک باغ میں اس کا کام کرنا ہے، مولانا صاحب نے  کہا اب اس کا کوئی مطلب نہیں، اب تم کسی کا قتل نہیں کر سکتے، فوجی نے  کہا آپ نے  یہ تو نہیں کہا تھا مولانا صاحب نے  کہا کلمہ میں پہلا لفظ لا پڑھایا تھا جس کے  معنی ہیں نا، یعنی اللہ کی ہر نافرمانی قتل، ظلم، کفر اور ہر برائی یہ نا ہے، فوجی نے  کہا یہ ہتھیار تو بھینٹ مانگتے  ہیں مولانا صاحب نے  کہا اگر بھینٹ مانگتے  ہیں تو آج مجھے  قتل کر دو کل قاری صاحب کو قتل کر دینا، فوجی صاحب نے  کہا کہ میں کوئی باؤلا ہوں ؟ مولانا صاحب نے  کہا اس طرح تم روز قتل کرتے  ہو تو کیا تم راؤ لے  ( عقلمند ) ہو؟ فوجی نے  کہا اچھا تونا ہے ؟ مولانا صاحب نے  کہا بالکل نا ہے، فوجی نے  کہا اگر نا ہے  تو پھر آج کے  بعد فوجی قتل اور ڈاکا کچھ بھی نہیں کرے  گا۔

فوجی وہاں سے  چلا گیا اس نے  اپنے  ساتھیوں کو اکٹھا کیا اس میں ۹/ غیر مسلم تھے  اور ۳۱/ مسلمان تھے  اس کو نہ جانے  کیوں ۴۰/ کی گنتی کا کچھ اعتقاد تھا اپنے  مسلمان ہونے  کی خبر دی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ مجھ پر جان سے  کھیلنے  والے  سارے  ساتھی مسلمان ہو جائیں دوسرے  روز فوجی کو گرفتار کر لیا گیا دیش کے  سارے  بڑے  اخباروں نے  فوجی کی گرفتاری کو سرخیوں میں چھاپا تہاڑ جیل میں انہوں نے  تین مہینے  گزارے  یوپی پولیس نے  معذرت کر دی تھی کہ فوجی چار بار جیل سے  فرار ہو چکاہے  اگر اب فرار ہواتو ہم اس کے  ذمہ دار نہیں ہوں گے۔

سوال  : اپنے  اسلام قبول کرنے  کی بات تو آپ نے  بتائی نہیں ؟

جواب  : جیل میں ان کے  ایک بھائی ملائی کرنے  گئے  انہوں نے  سگریٹ کے  کاغذ پر ایک خط مولانا صاحب کے  نام لکھ کر میرے  پاس بھیجا اور پیغام بھیجا کہ ڈاکٹر راجکمار سے  کہنا اگر فوجی سے  محبت ہے  تو پھلت جا کر مولانا صاحب کے  پاس کلمہ پڑھ لے  اور جماعت میں چلا جائے  اور میرا یہ خط مولانا صاحب کو دے  دے  اور میرا سلام سوبار کہے، وہ مجھ سے  بہت محبت کرتے  تھے  میں وہ خط لے  کر پھلت آیا ۳/ اپریل ۹۳ء کو ۱۲ / بجے  کے  قریب میں پھلت پہنچا مولانا کو وہ خط دیا وہ خط ارمغان میں چھپا ہے  آج تک اس کا فو ٹو میرے  پرس میں رکھا رہتا ہے، یہ ہے  ( خط نکالتے  ہوئے  ) خط کا مضمون یہ ہے۔

پریہ مولانا صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

آپ کو تو سو یم آتما سے  پتا لگ گیا ہو گا تہاڑ جیل میں ہوں موت کے  منھ میں ہوں، جیل کی اس تنگ زندگی میں ایمان کے  بعد بادشاہت کا مزہ آ رہا ہے  دو انتم (آخری ) اچھائیں ہیں ایک یہ کہ میرے  سب ساتھی جو میرے  ساتھ سدا جان سے  کھیلتے  رہے  کلمہ پڑھ لیں اور مسلمان ہو جائے  اور دوسری یہ کہ آپ ایک بار مل لیں ایمان سلامت ہے، آپ کے  احسان کا بدلہ اپنی کھال کی جوتیاں بنا کر بھی ادا نہیں کر سکتا۔

والسلام

آپ کا سیوک سنسر پال فوجی

 

مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھایا، کھانا کھلایا، میرا نام محمد اسعد رکھا تھوڑی دیر باتیں کیں مجھے  وضو کرا کے  مدرسے  لے  گئے  ظہر کی نماز میں نے  ساتھ پڑھی، مدرسہ کے  بچے  مجھے  گھور گھور کر دیکھ رہے  تھے، کیوں کہ میں نماز میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا مجھے  نماز آتی نہیں تھی، میں نے  دس ہزار روپیے  مولانا صاحب کو دیئے  کہ مجھے  جماعت میں جانے  کے  لئے  کہا ہے  میں اپنے  ان پیسوں سے  یہ کام نہیں کرنا چاہتا آپ یہ پیسے  لے  کر مجھے  اپنے  پاس سے  خرچ دے  دیجئے  مولانا صاحب نے  کہا یہ پیسے  تو ہم بھی نہیں لے  سکتے  مگر آپ کے  خرچ کا انتظام کر دیتے  ہیں انہوں نے  مجھے  خرچ دیا چار مہینے  کے  لئے  جماعت میں جانا تھا جماعت میں مجھے  بڑے  اچھے  امیر ملے  وہ بارہ بنکی کے  ایک ٹیچر تھے  انہوں نے  کہا جماعت میں اپنی جان اور اپنا مال لگانا چاہیے، اس لئے  صرف ایک چلہ لگا کر میں نے  اپنا کام کرنے  کا پروگرام بنایا اور کما کر اپنے  مال سے  باقی دو چلے  لگانے  کا ارادہ کیا لوٹ کر پھلت آیا مولانا صاحب پہلے  تو وقت سے  پہلے  واپس آیا ہوا دیکھ کر پریشان ہوئے  مگر جب وہ وجہ معلوم ہوئی تو بہت خوش ہوئے  مظفر نگر میں میں نے  کلینک شروع کی جو شروع میں نہ چل سکی ایک سال میں تین جگہیں بدلیں، مگر ایک سال کے  بعد مولانا صاحب نے  استغفار کی تسبیح بتائی اور روزانہ صدقہ کرنے  کو کہا اللہ کا شکر ہے  کام اچھا چل گیا اس کلینک سے  میں نے  اپنا گھر بنایا اور اب حال بہت اچھا ہے۔

سوال   : فوجی صاحب کا کیا ہوا؟

جواب  : مولانا صاحب بتایا کرتے  تھے  اس خط کو پڑھنے  کے  بعد ان کو تہاڑ جیل میں جا کر فوجی سے  ملنے  کی بڑی تڑپ ہوئی اور کچھ روز میں وہاں جانے  کا ایک بہانہ مل گیا مگر جس روز وہاں جانا تھا ہندوستان ٹائمز میں یہ خبر چھپی کہ سنسر پال نے  خود کشی کر لی مولانا صاحب کہتے  تھے  کہ مجھے  اس خبر سے  حد درجہ صدمہ ہوا، پورے  اعصاب پر اس کا اثر ہوا انہوں نے   اپنے  شیخ کو اس المناک واقعہ کی اطلاع دی، مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ حضرت مولانا علی میاں صاحب کو سناتے  ہوئے  میری ہچکیاں بندھ گئیں حضرت مرحوم نے  مولانا صاحب کو بہت تسلی دی اور اطمینان دلایا کہ ہمیں امید ہے  کہ اس شخص نے  خود کشی نہیں کی ہو گی اور اگر ایک فی صد اس نے  خود کشی کی ہو گی تو ابھی اس کا مکلّف نہیں تھا انشاء اللہ اس کا خاتمہ بخیر ہو گا بعد میں وہاں کے  ایک مسلمان افسر جو اس وقت جیل کے  ذمہ دار تھے  انہوں نے  مولانا کو بتایا کہ اس سے  قبل فوجی صاحب جیل سے  چار بار فرار ہو چکے  تھے  اس لئے  یوپی پولیس نے  آئندہ کے  لئے  معذرت کر دی تھی اس لئے  تہاڑ جیل سے  لے  گئے  تھے  اور شاید الیکٹرک شاک سے  ان کو مار دیا گیا اور بعد میں خود کشی کی خبر پھیلا دی گئی، اس افسر نے  بہت افسوس کا اظہار کیا کہ اگر مجھے  پہلے  سے  معلوم ہو جاتا تو میں ضرور کچھ کرتا، اللہ کا شکر ہے  کہ فوجی صاحب کی خواہش کافی حد تک پوری ہوئی ۳۱/ غیر مسلم ساتھیوں میں سے  ۲۳/ الحمدللہ مسلمان ہیں ان میں سے  ۵، ۶/ تو ایسے  ہیں کہ عام لوگ اور خود ہم ان سے  دعا کو کہتے  ہیں ان میں سے  ہر ایک کی زندگی کا حال ایسا ہے  کہ ان پر کتابیں چھپیں عجیب اللہ کی شان ہے  کہ کس راستے  سے  رحمت کی ہوا چلائی۔

سوال  : آپ کی شادی ہو گئی تھی آپ کے  خاندان کا کیا حال ہے ؟

جواب  : ہاں میری شادی ہو گئی تھی میری بیوی میرے  ساتھ ہر حال میں جس طرح رہی وہ مثالی بات ہے  اس نے  میرے  اسلام قبول کرنے  کے  بعد ایک لمحہ میری مخالفت نہیں کی میرے  پوچھنے  پر اس نے  بتایا کہ مالک نے  مجھے  آپ کے  ساتھ باندھا ہے  میں بھارت کی ایک پتنی ہوں آپ کے  ساتھ خوشی سے  ستی ہونے  کو تیار ہوں جماعت سے  آنے  کے  بعد جب میں نے  اس کو اسلام کے  بارے  میں سمجھانا شروع کیا تو وہ بہت خوش ہوئی۔

الحمد للہ میرے  تین بچے  ہیں بڑے  بیٹے  کا نام ابو بکر ہے  چھوٹے  کا محمد عمر ہے  لڑکی کا نام میں نے  فاطمہ رکھا ہے، بڑا بیٹا حفظ کر رہا ہے  چھوٹا بچہ تیسری کلاس میں پڑھ رہا ہے  فاطمہ بھی اب مدرسہ جانے  لگی ہے  میرا ارادہ ہے  کہ ان سب کو اور اللہ جتنی اولاد دے  گا سب کو عالم، حافظ اور دین کا داعی بنانے  کی کوشش کروں گا گھر والوں نے  شروع میں مخالفت کی اور کچھ روز ناراضگی رہی مگر میں نے  تعلق رکھا اور والدین کی خدمت کرتا رہا، ہر ماہ ان کے  پاس کچھ نہ کچھ لے  کر جاتا ہوں اب وہ خوش ہیں اور اسلام کے  بھی قریب ہو رہے  ہیں، میرا خیال ہے  کہ اللہ نے  خدمت کی بڑی تاثیر رکھی ہے  خدمت سے  پتھر دل موم ہو جاتے  ہیں، اسلام سے  پہلے  ہم نے  والدین کی خدمت نہیں کی مگر اب میں اور میری بیوی جب بھی گھر جاتے  ہیں بہت خدمت کرتے  ہیں اب وہ سارے  بہن بھائیوں میں ہم سے  ہی زیادہ محبت کرتے  ہیں۔

سوال  : مسلمانوں کے  لئے  کچھ خاص پیغام آپ دینا چاہیں گے  ؟

جواب  : اس کے  لئے  بڑا لمبا وقت چاہئے  میرا خیال ہے  کہ ہم مسلمانوں کا باہر کا کوئی دشمن نہیں ہے  اسلام سے  دوری ہماری سب سے  بڑی دشمن ہے  بلکہ اسلام سے  دور رہ کر ہم ساری انسانیت سے  دشمنی کر رہے  ہیں، اس لئے  کہ ایمان واسلام ان کی سب سے  بڑی ضرورت ہے  وہ خود مسلمانوں کو اسلام سمجھتے  ہیں اور مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کے  نام سے  گھبراتے  ہیں، اپنی سب سے  بڑی ضرورت اور اپنی نجات کے  راستے  سے  وہ ہماری وجہ سے  دور ہیں میرا خیال ہے  کہ ہمیں اپنے  لئے  نہیں تو ساری انسانیت پر رحم کھا کر ان کو اسلام کا تعارف کرانے  کے  لئے  کم از کم ظاہری طور پر مسلمان بن جانا چاہیے، خدا کے  لئے  اس درد ناک پہلو کی طرف توجہ کریں۔

سوال  : واقعی اس سلسلے  میں ایک مستقل نشست چاہئے، انشاء اللہ اگلی بار اس سلسلے  میں باتیں کریں گے، شکریہ جزاک اللہ

جواب  : انشاء اللہ ضرور، میرے  لئے  یہ بڑا دردناک موزوں ہے  جس کا ہم سے  زیادہ دعوت کاکام کرنے  والے  مسلمانوں کو تجربہ ہے، میرے  اللہ کا شکر ہے  کہ مجھے  اس نے  اسلام کی طرف ہدایت عطا فرمائی، احمد بھائی آپ بھی ذرا ہادی اور کریم مالک کی کرم فرمائی اور قدرت دیکھئے  کہ ڈاکا کے  اندھیرے  راستے  سے  اسلام کی روشنی کی طرف مجھ گندے  کونکال لائے، روتے  ہوئے، میں اپنے  اللہ کے  قربان جاؤں، صدقہ جاؤں اس کی رحمت کے۔

 

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، اکتوبر  ۲۰۰۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب محمد حسن صاحب {رویندر ملک} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد حسن :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : بھائی رویندر ملک صاحب آپ پچھلے  اتوار کو پھلت تشریف لائے  تھے، تو ابی نے  آپ کا واقعہ بتایا تھا اب آپ پھر اتوار میں آ گئے  تو ابی نے  حکم کیا کہ میں آپ سے  انٹرویو لوں، اصل میں ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ’’ارمغان ‘‘نکلتی ہے  اس میں جن لوگوں کو مالک اپنے  کرم سے  ہدایت فرما کر کلمہ پڑھنے  اور اسلام لانے  کی توفیق دیتے  ہیں ان کی آپ بیتی چھاپی جاتی ہے ؟

جواب  :جی ہاں مولانا احمد صاحب !حضرت صاحب ابھی مجھے  بتا کر گئے  ہیں میں آج ہی مرادآباد سے  آیا ہوں اور پھر جانا بھی آج ہی ہے، اصل میں پچھلے  مہینے  میرا وہاں ٹرانسفر ہوا تھا اب پھر لکھنو ہو گیا ہے، سرکاری نوکری وہ بھی پولیس کی، بس بستر بندھا رہتا ہے۔

سوال  :آپ کے  لئے  تو بڑا اچھا ہے، ہمارے  نبی  ﷺ نے  فرمایا ہے :کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلُ (دنیا میں اس طرح رہو گو یا تم مسافر ہو یا راستہ پار کرنے  والے )آپ کو تو اللہ نے  ایسے  حالات میں رکھا ہے  کہ آپ سفر میں رہتے  ہیں۔

جواب  :یہ تو جب ہو جب اپنی مرضی سے  اپنے  کو مسافر سمجھے۔ہر وقت بستر بندھا رہتا ہے  مگر سوچتے  یہ ہیں کہ ہزارسال جئیں تو کم ہے  ایسے  مسافر ہونے  سے  کیا فائدہ ایسا مسافر تو مولانا صاحب آدمی جب ہی بن سکتا ہے  کہ اس کو آخرت ہر وقت اپنے  سامنے  دکھائی دے  جیسا ہمارے  نبیؐ  کے  صحابیوں کا حال تھا کہ جنت دوزخ پر ایسا یقین تھا کہ آنکھوں سے  دیکھنے  سے  کچھ تعجب نہ ہو۔

سوال  :بلا شبہ یہ بات تو ہے، ماشاء اللہ ایک ہفتہ میں آپ نے  خوب سمجھا؟

جواب  :سمجھنے  کے  لئے  ایک منٹ انسان کو کافی ہے  مولوی صاحب، اور نہ سمجھنے  والے  کے  لئے  سیکڑوں سال بھی بے  کار ہیں، گائے  بھینسوں کی طرح آدمی جی کر چلا جاتا ہے، اپنے  حقیقی گھر کی فکر پیدا نہیں ہو تی۔

سوال  :بلا شبہ آپ سچ فرماتے  ہیں اچھا آپ برائے  کرم پہلے  اپنا پریچے  (تعارف) کرایئے ؟

جواب  :سب سے  سچا تعارف تو وہ ہے  جو قرآن نے  کرایا ہے  سڑی ہوئی مٹی سے  بنایا گیا یا ناپاک بوندسے  بنا ہوا انسان ہوں میں ستائیسویں پارہ میں پڑھ رہا تھا اللہ نے  کیسی بات کہی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں تمہاری ماں کے  پیٹوں میں سے  جانتے  ہیں کیوں اپنی پاکی بگھارتے  ہو، ماں کے  پیٹ میں ہم ماہواری کا خون پی کر پلے  ہیں کل مر کر سڑ کر مٹی میں جائیں گے  اور دو کلو پاخانہ پیٹ میں ہے  پسینہ میں بدبو، پاخانہ میں بدبو، پیشاب میں سڑانداور دو روز منھ صاف نہ کریں تو منہ میں پاخانہ کی سی بدبو بس یہ ہے  ایک گندے  انسان کا پریچے، اس پر ہر ایک یہ سمجھتا ہے  کہ میں یہ ہوں وہ ہوں۔

سوال  :یہ تو بہت حکیما نہ تعارف ہے  میں اصل میں خاندانی تعارف کی بات کر رہا ہوں ؟

جواب  :میں ضلع میرٹھ کے  ایک گاؤں کے  جاٹ خاندان میں ۲/اکتوبر  ۱۹۵۴ء کو پیدا ہوا، میرے  پتاجی (والد صاحب )ایک کسان ہونے  کے  ساتھ ایک سرکاری ملازم بھی تھے  میرے  تاؤڈی ایس پی سے  ریٹائر ہوئے  ہیں میرے  پھوپھا بھی پولیس میں تھے  میں نے  انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن بڑوت سے  کیا، پولیس میں انسپکٹر کی ملازمت مل گئی، پانچ سال پہلے  میرا پرموشن ہوا اور پولیس انسپکٹر ہو گیا کچھ روز سہارن پور میں رہا دو سال سے  مظفر نگر اور میرٹھ میں رہا اس دوران کئی بار مظفر نگر آتا جاتا رہا، جولائی کے  شروع تک مظفر نگر سی آئی ڈی میں تھا ایک مہینہ پہلے  مرادآباد ٹرانسفر ہوا اور اب پرموشن ہو کر لکھنو جانا ہو رہا ہے  دو روٹیوں کے  لئے  جو اللہ نے  مقدر میں پہلے  سے  لکھ رکھی ہیں کس قدر دھکے  کھا نے  پڑ رہے  ہیں، کبھی کبھی تو دل بہت دکھی ہو جاتا ہے۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب :آپ کے  علم میں ہے  کہ مئی کے  مہینہ میں کاندھلہ میں دعوتی ٹریننگ  کیمپ حضرت نے  لگوایا تھا جو ایک ہفتہ چلا تھا۔

سوال  :ہاں اصل میں وہ تین مہینے  کا کیمپ دہلی میں لگا تھا اس کا ایک ہفتہ کا کیمپ کاندھلہ میں پریکٹیکل کے  طور پر لگا یا گیا تھا ؟

جواب  :جی ہاں اسی  کیمپ کی بات ہے  اصل میں  کیمپ سے  پہلے  کاندھلہ کے  حالات اچھے  نہیں تھے  دو روز پہلے  ایک مسلمان نے  ایک ہندو کو قتل کر دیا تھا، اس کے  علاوہ ایک لڑکی کے  معاملہ میں ہندو مسلم تناؤ چل رہا تھا دو لڑکوں نے  ایک ایک کر کے  اسلام قبول کیا تھا اور وہ گاؤں سے  چلے  گئے  تھے  ان کے  گھر والوں نے  ہندو تنظیموں کو ساتھ لے  کر مسلمانوں کے  خلاف مظاہرہ کیا تھا، ایسے  میں دعوتی ٹریننگ  کیمپ لگا، اصل میں وہ ماحول بظاہر کیمپ کے  لئے  مناسب نہیں تھا، مگر کیمپ پروگرام کے  تحت پہلے  سے  طئے  تھا بعض ذمہ داروں نے  منع بھی کیا مگر حضرت نے  کہا کہ مخالف حالات میں  کیمپ کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے  تا کہ معلوم ہو جائے  کہ حق دینے  والوں اور محبت کا پیغام دینے  والے  خیر خواہوں کے  لئے  کوئی مشکل نہیں ہوتی پہلے  روز جب کام کرنے  والے  فیلڈ ورک کے  لئے  (غیر مسلم بھائیوں کو دعوت دینے  کے  لئے  )گئے  تو شرپسندوں میں اشتعال ہوا، اگلے  روز ’دینک جاگرن ‘میں خبر چھپی کہ سعودی عرب سے  لوگ آئے  ہیں اور وہ دھرم کا پرچار کر کے  ماحول خراب کر رہے  ہیں اور آپتّی جنک (قابل اعتراض )کتابیں بانٹ رہے  ہیں، اس سے  لوگوں میں شور مچا مسلمان بھی ڈرے  کاندھلہ کے  ایک ذمہ دار سرپرست نے  حضرت صاحب اور ان کے  لوگوں سے  کہا کہ فی الحال یہ  کیمپ بند کر دیں کاندھلہ تھانہ کے  انچارج نے  بھی مولوی اسامہ کاندھلوی جو مقامی  کیمپ کے  میزبان اور ذمہ دار تھے، سے  زور دے  کر اس وقت اس  کیمپ کو بند کرنے  کو کہا حضرت مولانا سے  فون پر مشورہ ہوا اور خیال تھا کہ کیمپ کیرانہ یا شاملی لگا لیا جائے  مگر حضرت نے  کہا کہ آپ داروغہ سے  کہئے  کہ یہ ہمارا قانونی حق ہے  اور کوئی واقعہ ناخوشگوار ہو گا تب آپ کہنا مولانا اُویس نانوتوی جو  کیمپ کے  ذمہ دار تھے  وہ تھانہ انچارج سے  ملے  اور ان کو مطمئن کر دیا مگر مقامی لوگوں میں خوف تھا ایک ذمہ دار تو کاندھلہ چھوڑ کر چلے  گئے  کہ فسادوغیرہ نہ ہو جائے، اخبار کی خبر پر مجھے  اور میرے  ایک ساتھی کو انکوائری کے  لئے  کاندھلہ بھیجا گیا ہم لوگ پہلے  کاندھلہ تھانہ پہنچے، اس کے  بعد ہم لوگ ایک پولیس والے  کے  ساتھ جامع مسجد پہنچے  وہاں پر لوگوں نے  بتایا کہ ذمہ دار کہیں گئے  ہوئے  ہیں ہم لوگوں نے  کہا آ جائیں تو ان کو بھیج دیں ہم لوگ مسجد سے  جا رہے  تھے  کہ راستہ میں دو مولانا ملے  ایک مولانا اسامہ جو مقامی طور پر میزبان تھے  اور ایک مولوی اویس جو  کیمپ کے  امیر تھے، دونوں نے  ہمیں روکا ہم لوگ تھانہ میں آپ سے  ملنے  گئے  تھے  آپ سے  ضروری بات کرنی ہے، مولوی اسامہ کے  گھر پر سب لوگ بیٹھ گئے  اور مولوی اویس نے  ہم سے  کہا کہ ہم آپ ایک ماں باپ کی اولاد خونی رشتہ کے  بھائی ہیں مرنے  کے  بعد ہمیشہ کی زندگی ہے  جس مالک نے  ہمیں پیدا کیا وہ ہمارا آپ کا اکیلا مالک ہے  اس نے  اس زندگی میں کچھ ذمہ دار یاں ہمیں سونپی ہیں اس کے  لئے  ہمیں معلوم ہوا تھا کہ آپ مظفر نگر سے  آئے  ہوئے  ہیں اس لئے  ہم آپ سے  مرنے  کے  بعد کی زندگی کیلئے  کچھ باتیں کرنا چاہتے  ہیں اس لئے  ہم تھانہ گئے  تھے  اس کے  بعد قرآن پڑھ کر اللہ کے  ایک ہونے  اور مرنے  کے  بعد کے  حساب کتاب کے  بارے  میں بتاتے  رہے  مولانا صاحب عربی میں قرآن پڑھتے  تھے  تو دل پر عجیب اثر ہوتا تھا، انھوں نے  ہمیں مرنے  کے  بعد کی آگ سے  بچنے  کے  لئے  کلمہ پڑھنے  اور مسلمان ہونے  کو کہا اور ہمیں حضرت صاحب کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘دی میں نے  یہ کتاب لی، دیکھی میں نے  کہا یہ تو وہ کتاب ہے  جو پھلت والوں کی لکھی ہوئی ہے  سب نے  کہا کہ ہاں یہ پھلت والے  حضرت کی لکھی ہوئی کتاب ہے، میں نے  کہا یہ وہ کتاب ہے  جس کی پشٹی(تصدیق) مہاراشٹر میں ہو چکی ہے، انھوں نے  کہا ہاں یہ وہی کتاب ہے  ہم لوگ پھلت والے  صاحب کی طرف سے  ہی آئے  ہیں، میں نے  کہا جو سعودی عرب سے  لوگ آئے  ہوئے  ہیں اور آپتی جنک (قابل اعتراض )کتابیں بانٹ رہے  ہیں وہ کون ہیں ؟ مولانا اویس نے  کہا کوئی سعودی عرب سے  نہیں آیا وہ ہم لوگ ہی ہیں اور ہم بس یہ کام کر رہے  ہیں جس کے  لئے  آپ سے  ملنا چاہتے  تھے  اور یہی وہ کتاب ہے  جو لوگوں کو پیش کر رہے  ہیں، ان کی محبت بھری اور خیر خواہی کی باتوں سے  ہم دونوں بہت متاثر ہوئے، ہم نے  کہا اب ہم دینک جاگرن اخبار کے  نمائندہ کے  پاس جائیں گے  اس کا آبھار ویکت (شکریہ ادا ) کریں گے  ایک مٹھائی کا ڈبہ اس کے  لئے  لے  جائیں گے  کہ نہ وہ خبر چھاپتے  نہ ایسے  اچھے  لوگوں سے  ملاقات ہوتی اور ایسی اچھی باتیں سننے  کو ملتیں اور نہ یہ کتاب ملتی۔

سوال  :اویس بھائی نے  آپ کو کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا ہو گا، آپ نے  کلمہ نہیں پڑھا ؟

جواب  :نہیں !میں نے  ان سے  کچھ مہلت دینے  کے  لئے  کہا اور کہا میں اس کتاب کو پڑھوں گا اور دو بار پڑھوں گا پھر آپ سے  ملوں گا۔

سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا، آگے  بتایئے ؟

جواب   :ایک انکوائری بڈھانہ کی اور تھی، ہم لوگ بڈھانہ ہو کر مظفرنگر آ گئے، رات میں میں نے  ’آپ کی امانت ‘پڑھی، اس کتاب نے  دل اور دماغ کے  جالے  جھاڑ دیئے، اسلام کے  لئے  دل میں جگہ ہو گئی میرے  ایک دوست ڈاکٹر قمر جن سے  ایک سال پہلے  ایک کیس کے  سلسلہ میں تعلقات تھے، میں نے  ان سے  اسلام پر کچھ اور کتابیں دینے  کے  لئے  کہا، انھوں نے  کہا اچھا ہے  ہم لوگ پھلت چلیں، وہاں پر ہمیں صحیح گائڈینس ملے  گی، ایک اتوار کو ہم لوگ پھلت گئے  مگر مولانا صاحب نہیں ملے  مگر وہاں سے  ہمیں کتابیں مل گئیں ’’اسلام ایک پریچے  ‘‘مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’قرآن مجید ‘‘ہندی انواد (ترجمہ)ہم لے کر آئے  ان کتابوں کو خاص طور پر جیسے  جیسے  میں نے  قرآن مجید پڑھا اسلام میری پسند بن گیا، مگر پورے  سماج سے  ٹکر لینا میرے  لئے  یہ بڑی مشکل تھی، اس لئے  میں ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا اس دور ان میرا ٹرانسفر مرادآباد ہو گیا، مگر بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے  ابھی گھر شفٹ نہیں کیا تھا، اسکول میں ایک فنکشن تھا اس کی وجہ سے  دو دن کی چھٹی لے  کر مظفر نگر آیا ہوا تھا ابھی رمضان سے  چا ر دن پہلے  کی بات ہے  میں قرآن پڑھ کر سویا تو میں نے  خواب دیکھا ایک حضرت صاحب ایک مسجد میں ہیں، بہت خوب صورت پرکاش (نور) کا چاند ی کی طرح ان کا گھیرا بنا ہوا ہے  سفید پگڑی میرے  سر پر ہاتھ رکھا اور بولے  بیٹا تم نے  اسلام کو سمجھ لیا ہے ؟میں نے  کہا :اجی !اسلام تو بالکل میری سمجھ میں آ گیا ہے  انھوں نے  کہا تم نے  آپ کی امانت نہیں پڑھی ؟میں نے  کہا جی پڑھی ہے  انھوں نے  کہا سمجھ میں آ گئی؟ میں نے  کہا جی بالکل سمجھ میں آ گئی انہوں نے  کہا جب سمجھ میں آ گئی تو اسلام کیوں نہیں قبول کرتا؟دیر کرنے  میں نقصان اٹھا و گے  جلدی کرو، آپ کی امانت ایک بار اور پڑھو، میں وہاں سے  واپس ہوا تو ہمارے  ڈاکٹر قمر صاحب ملے، بولے  ملاقات ہو گئی میں نے  پوچھا کس سے ؟انھوں نے  کہا ہمارے  نبی حضرت محمد ﷺ سے، میں نے  جو باتیں ہوئی تھیں ڈاکٹر صاحب سے  بتائیں، ڈاکٹر صاحب نے  کہا واقعی بات جو انھوں نے  کہی ہے  اس سے  زیادہ اور کس کی بات سچی ہو سکتی ہے  وہ سارے  سچوں کے  سچے  ہیں وہ ایسے  سچے  ہیں کہ جان کے  اور ایمان کے  دشمن ان کو سچا، ایمان دار کہہ کر پکار تے  تھے، آنکھ کھل گئی صبح کے  تین بجے  تھے، میں نے  چاہا کہ کروٹ بدل کر سوجاؤں مگر نیند نہ آئی گھر میں بچے  سو رہے  تھے، میں باتھ روم گیا، نہایا اور ڈرائنگ روم میں جا کر ’آپ کی امانت ‘ایک بار پڑھی، صبح ارادہ کیا مجھے  پھلت جانا چاہئے، موٹر سائیکل اٹھائی ڈاکٹر قمر صاحب کے  یہاں گیا اتفاق سے  وہ منگلور گئے  ہوئے  تھے، صبح مجھے  بچوں کے  اسکول میں فنکشن میں شریک ہونے  جانا تھا ڈاکٹرسریندر صاحب ایک انگلش میڈیم اسکول چلا تے  ہیں، CBSEبورڈ کا معیاری اسکول ہے  کئی سائنس اکزی بیشن بھی انھوں نے  لگائی ہیں، ان کو حکومت یوپی نے  ایوارڈ بھی دیئے  ہیں، میں اسکول پہنچا میرے  سی آئی ڈی میں ہونے  کی وجہ سے  ڈاکٹر صاحب میرا خیال رکھتے  ہیں، پروگرام کے  بعد ان سے  ملاقات ہوئی میرے  ہاتھ میں ’آپ کی امانت ‘تھی دیکھ کر بولے  یہ کتاب آپ کو کہاں سے  ملی ؟یہ تو ہمارے  حضرت صاحب پھلت والوں کی کتاب ہے  میں نے  ڈاکٹر صاحب سے  پوچھا آپ ان کو جانتے  ہیں ؟ ڈاکٹر صاحب نے  کہا میرے  اسکول کا انوگریشن (افتتاح )انھوں نے  کیا تھا ایک ملا جی ہمارے  دوست ہیں وہ مجھے  پھلت لے  کر گئے  تھے  وہ بڑی محبت کے  آدمی ہیں مجھے  بھی یہ کتاب دی تھی، ان کے  آشیرواد کی وجہ سے  میرا اسکول اتنی ترقی کر رہا ہے، میرے  یہاں اسکول میں وہ تین بار آ چکے  ہیں، وہ سائنس کے  بہت اچھے  اسٹوڈنٹ رہ چکے  ہیں، میں نے  کہا ڈاکٹر صاحب آپ نے  یہ کتاب پڑھی ہے  انھوں نے  کہا پڑھی ہے، میں نے  کہا پھر سمجھ میں کچھ بات آئی، انھوں نے  کہا یہ کتاب ایسی ہے  کہ پڑھنے  والا یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ یہ کتاب سمجھ میں نہیں آئی، میں نے  کہا پھر آپ نے  کیا فیصلہ کیا ؟ ڈاکٹر صاحب نے  کہا فیصلہ تو لینا ہی پڑے  گا مگر سماج سے  لڑنے  ہمت نہیں ہوتی، کبھی کبھی رات کو بے  چینی ہوتی ہے  کہ اگر آج موت ہو گئی تو ایمان کے  بغیر نرک (دوزخ)میں نہ چلا جاؤں، سوچتا ہوں کہ صبح کو پھلت جا کر دین لوں گا مگر صبح کو ہمت نہیں ہو پاتی ایک ہفتہ سے  تو تین بار حضرت خواب میں آئے  ہیں اور کہتے  ہیں ڈاکٹر صاحب ہماری محبت کو ٹھکرا کر مکتی (نجات )نہیں ملے  گی، پرسوں کہہ رہے  تھے  کہ ڈاکٹر صاحب مسلمان تو ہونا ہی پڑے  گا، میں نے  اپنا حال ڈاکٹر صاحب سے  بتایا اور کہا چلو دونوں چلتے  ہیں، ڈاکٹر صاحب نے  کہا حضرت کا ملنا تو مشکل ہے  میں نے  کہا ڈاکٹر قمر صاحب سے  کہہ کر وقت طئے  کر لیتے  ہیں، مجھے  بڑا اطمینان ہوا کہ ایک ساتھی اس مشکل اور ضروری سفر کے  لئے  ساتھ میں ملا، ڈاکٹر قمر صاحب کو فون کیا انھوں نے  اگلے  اتوار کا وقت طئے  کیا میں مرادآباد چلا گیا، اتوار تک کا وقت میرے  لئے  مشکل سے  گزرا، بار بار یہ ڈر ہوتا تھا کہ ہمارے  نبی ﷺ نے  فرمایا تھا کہ دیر کرو گے  تو نقصان اٹھاؤ گے  کہیں کچھ ہو نہ جائے  خدا خدا کر کے  ہفتہ آیا، میں ہفتہ کی شام کو مرادآباد سے  مظفر نگر آیا، پھر پچھلے  اتوار کو میں ڈاکٹر سریندر اور ڈاکٹر قمر صبح نو بجے  پھلت پہنچے  وہاں لوگوں نے  بتایا کہ صبح دس بجے  حضرت مسجد جائیں گے  تب ملاقات ہو گی مجھے  چونکہ اپنے  لکھنو ٹرانسفر کی خبر مل گئی تھی، اس لئے  اسی دن مرادآباد لوٹنا چاہتا تھا اس لئے  جلدی تھی میں نے  ایک بچے  سے  گھر میں کہلوایا کہ مظفر نگر سے  سی آئی ڈی والے  آئے  ہیں آپ سے  ضروری کام کے  لئے  ملنا چاہتے  ہیں حضرت صاحب نے  کہلوایا کہ بیٹھیں پانی بھجوایا اور کہلوایا کہ نماز پڑھ کر آتے  ہیں، حضرت صاحب آئے  تو میں نے  کہا معاف کیجئے  ہمیں جلدی تھی اس لئے  کہلوا دیا کہ سی آئی ڈی والے  آئے  ہیں ہوں تو میں سی آئی ڈی انسپکٹر مگر میں آیا ہوں اپنے  مطلب کو حضرت صاحب نے  کہا میں تو اس لئے  جلدی آیا ہوں کہ آپ ہمارے  مہمان ہیں کسی مجبوری میں جلدی ہو گی، آپ اگر کسی سرکار کے  سی آئی ڈی ہیں تو مالک کا کرم ہے  کہ ہم بھی ایک مضبوط اور بڑی سرکار کے  سفیر اور افسر ہیں، ڈاکٹر قمر صاحب کو حضرت خوب جانتے  تھے  ڈاکٹر سریندر کو بھی پہچانتے  تھے، اسکول اور گھر کی خیر خیریت لی ڈاکٹر قمر صاحب نے  بتایا کہ یہ رویندر ملک سی آئی ڈی کے  انسپکٹر ہیں اور یہ آپ کے  ڈاکٹر سریندر پرانے  مرید ہیں، یہ کلمہ پڑھنے  آئے  ہیں حضرت صاحب نے  کہا آپ کو کلمہ پڑھوا دینا چاہئے  تھا آپ نے  اتنی دیر کیوں کی ؟اگر ان میں سے  کسی کی موت ہو جاتی تو پھر سب کے  لئے  خطرہ تھا، حضرت صاحب نے  کلمہ پڑھوایا اور کہا کہ نام بدلنا ضروری نہیں لیکن اچھا ہے  نام بدل لیں، اس کا انسان پر نفسیاتی اثر پڑھتا ہے، کہ کفر و شرک کو چھوڑا ہے  کفر و شرک سے  جڑا نام بھی آدمی نے  چھوڑ دیا، آپ اپنا نام محمد حسن اور ڈاکٹر سریندر اپنا نام محمد حسین رکھ لیں، یہ ہمارے  نبی ﷺ کے  بہت لاڈلے  نواسے  تھے، حضرت صاحب نے  ہمیں مرتے  دم تک ایمان کی حفاظت پر زور دیا اور بتایا کہ اس کا طریقہ یہ ہے  کہ آپ ایمان کی اس سچائی کی سب لوگوں خصوصاً گھر والوں کو نرمی اور محبت سے  دعوت دیں اور یہ بھی کہا کہ آپ گھر والوں کے  ساتھ محبت، نرمی اور اچھا سلوک کریں تا کہ ان کو یہ لگے  کہ کسی چیز نے  ان میں بہت تبدیلی کی ہے  اور وہ اسلام کو اس تبدیلی کا ذریعہ سمجھ کر اسلام کی طرف آئیں۔

سوال  :ماشاء اللہ !آپ نے  اس کے  بعد کام شروع کیا؟

جواب  :میں مرادآباد گیا اور اس کے  بعد لکھنو چلا آیا، راستہ میں ٹرین میں لکھنوجانے  اور آنے  میں دو لوگوں کو دعوت دی الحمد للہ دونوں مسلمان ہونے  کے  لئے  تیار ہو گئے  اور میں نے  حضرت صاحب سے  فون پر کلمہ پڑھوایا، مجھے  محسوس ہوا کہ جیسے  جیسے  میں دوسروں کو ایمان کی دعوت دیتا ہوں اسلام پر میرا یقین اور میرا ایمان بڑھتا ہے۔

سوال  :آپ نے  نماز وغیرہ سیکھنی شروع کی ؟

جواب  :اللہ کا شکر ہے  میں نے  نماز یاد کر لی ہے  اور نماز پڑھ رہا ہوں، سارے  روز ے  بھی رکھ رہاہوں۔

سوال  :آپ نے  گھر والوں سے  بتا دیا کہ میں ……

جواب  :میں نے  کل رات اپنی مسیز (بیوی)سے  بات کی، اور ان کو صاف صاف بتا دیا اصل میں میں اسلام کو تو کئی مہینے  سے  پڑھ رہا تھا وہ مجھ سے  کہتی تھی کہ مجھے  تو ایسا لگتا ہے  کہ آپ ملاؤں کے  چکر میں پڑ گئے  ہیں، اور آپ مسلمان ہو جاؤ  گے، میں نے  رات کو ’آپ کی امانت ‘پڑھ کر سنائی اس کو بہت پسند آئی اور بولی میں سوچتی تھی کہ اچانک چودھری صاحب کو کیا ہو گیا ہے  اس کتاب کی مٹھاس اور محبت نے  آپ پر جادو کر دیا ہے، اللہ کا شکر ہے  انھوں نے  کلمہ تو پڑھ لیا ہے  اور ساتھ رہنے  کا وعدہ کیا ہے، ہم نے  دونوں بچوں کو بھی کلمہ پڑھوا دیا، انشاء اللہ جیسے  جیسے  اسلام کو پڑھیں گے  تو اسلام خود ان کے  دل و دماغ کے  جالوں کو دور کر دے  گا۔

سوال  :اب آپ کو لکھنو شفٹ ہونا پڑے  گا یعنی فیملی کے  ساتھ؟

جواب  :ظاہر ہے  زیادہ دن الگ تو نہیں رہ سکتے، حضرت صاحب نے  بتایا کہ لکھنو میں میرے  لئے  زیادہ آسانی رہے  گی، رشتہ دار، پریوار کے  لوگ ادھر نہیں ہیں دین کو پڑھنے  اور ماننے  کیلئے  ماحول بھی مل جائے  گا۔

سوال  :بہت بہت شکریہ حسن صاحب، اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے۔آپ کو بھی مبارک ہو اور ہمیں بھی مبارک ہو۔

جواب  :دعا کیجئے  بس اللہ تعالیٰ ایمان پر جمائے  رکھے  حضرت صاحب نے  بتایا کہ ایمان کا حق یہ ہے  کہ آدمی (دھڑ دھڑی لیتے  ہوئے  )آگ کے  الاؤ میں گرنا اسلام سے  پھر نے  کے  مقابلہ میں آسان سمجھے، بلا شبہ دوزخ کی آگ۔جب میں قرآن میں دوزخ اور دوزخیوں کا حال پڑھتا ہوں تو میرے  تو ہوش خراب ہو جاتے  ہیں، کبھی کبھی تو بالکل دل پھٹنے  کو ہوتا ہے  بس دعا کیجئے  کہ اللہ دوزخ کی آگ سے  بچائے۔

سوال  :ارمغان کے  پڑھنے  والوں کے  لئے  کوئی اپنا پیغام آپ دیجئے ؟

جواب  :میں آٹھ روز کا مسلمان کیا پیغام دے  سکتا ہوں، مگر اس ایک مہینہ کے  اسلام میں میں نے  تجربہ کیا ہے  کہ ایمان کو بچانے  اور بڑھانے  کے  لئے  اس ایمان کو دوسروں تک پہنچا نا سب سے  آسان راستہ ہے۔

سوال  : بہت بہت شکریہ ! واقعی کیسی پتہ کی بات آپ نے  کہی ہے۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

جواب  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ

مستفاد از ماہنامہ ’ارمغان‘ اکتوبر  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

جناب اقبال احمد سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

اقبال احمد             :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : ابی نے  مجھے  بھیجا ہے، کہ بٹلہ ہاوس مسجد میں اقبال صاحب بیٹھے  ہیں ان سے  ارمغان کے  لئے  انٹرویو لے  لو، آپ کے  علم میں ہو گا کہ ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک ماہنامہ ارمغان اردو میگزین نکلتا ے، اس میں اللہ کے  فضل خاص سے  ہدایت یاب لوگوں کے  حالات زندگی اور آپ بیتیاں شائع ہوتی ہیں، اس کا مقصد دعوت کا کام کرنے  والوں کے  لئے  حوصلہ افزائی اور تجربات حاصل کرنا ہے، اس کے  لئے  آپ کو بھی زحمت دینی ہے ؟

جواب  : جی !حضرت صاحب ابھی مجھے  فرما گئے  تھے  کہ احمد آ رہے  ہیں وہ آپ سے  ارمغان کے  لئے  کچھ باتیں کریں گے، میں بھی ارمغان پڑھوا کر سنتا ہوں، دو مہینے  سے  صرف ارمغان پڑھنے  کے  لئے  میں نے  اردو پڑھنی شروع کی ہے  کہ دوسرے  کا محتاج کب تک رہوں گا، ایک سال تو انتظار کر تے  گذر گیا شاید اللہ تعالیٰ کو مجھے  اردو پڑھوانی تھی اس لئے  ارمغان ہندی کے  چھپنے  میں دیر ہو رہی ہے۔

سوال  :واقعی اللہ کی رحمت سے  ہر فیصلہ ہوتا ہے  ورنہ ارمغان ہندی کب سے  شروع ہو جانا چاہئے  تھا، خدا کرے  جلد اس کی سبیل بنے، بہت تقاضا اس کا ہو رہا ہے، اب مسلمانوں میں بھی اردو کا رواج بہت کم ہو گیا ہے  ؟

جواب  :احمد بھائی !میرا خیال یہ ہے  کہ اب ہندوؤں میں اردو پڑھنے  کا شوق بڑھ رہا ہے  ہمارے  علاقہ میں دسیوں ہندو بڑے  شوق سے  شاعری کر رہے  ہیں، حضرت فرماتے یں اللہ تعالیٰ اسلام کے  لئے  راستے  ہموار کر رہے  ہیں۔

سوال  :بلا شبہ ایسا ہی ہے۔آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے  ؟

جواب : میں ہر یانہ کے  ایک یادو خاندان میں ۲۵/مارچ ۱۹۷۵ء میں پیدا ہوا، ہائی اسکول کرنے  کے  بعد کرکٹ کا ذوق بڑھا، ضلع کی ٹیم میں پھر اسٹیٹ کی ٹیم میں سلیکشن ہوا، نیشنل ٹورنامنٹ کھیلے  رنجی ٹرافی میں ہریانہ کی طرف سے  ریکارڈ رن بنائے۔بارہویں کلاس کرتے  ہی کام لگ گیا، کھیل کی وجہ سے  مجھے  ریلوے  میں ملازمت مل گئی، ابھی بھی ریلوے  میں ملازمت کرتا ہوں اور ریلوے  ٹیم کی طرف سے  کھیلتا ہوں، کئی مرتبہ نیشنل ٹیم میں سلیکشن ہونا طے  ہوا، مگر سیاسی اٹھا پٹخ کا شکار ہو گیا، میرے  والد سرکاری اسکول میں پرنسپل ہیں، میرا ایک چھوٹا بھائی ہے  جو ڈاکٹر ہے  خاندان کے  لوگ پہلے  سے  زمیندار ہیں۔

سوال  :آپ کرکٹ میں بالر ہیں یا بیٹسمین ؟

جواب  :میں یوں تو آل راونڈر ہوں، میں نے  رنوں کے  رکارڈس بنائے  ہیں، رنجی ٹرافی کے  ایک ٹورنامنٹ میں سب سے  زیادہ کیچ لینے  کا رکارڈ میرے  نام ابھی تک ہے، میں اچھی بالنگ بھی کر لیتا ہوں، مگر اصلاً میرا شوق بیٹنگ ہے۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کی کہانی سنائیں ؟

جواب  :اردو کا ایک شعر ہے      ؎

خدا کی  دین کا  موسیٰ سے  پوچھئے   احوال

کہ آگ لینے  کو جائیں اور پیمبری مل جائے

میرے  ساتھ اللہ کی طرف سے  ہدایت کا بس یہی معاملہ ہے، ہوا یہ کہ  ۲۰۰۴ ء میں ہم چندی گڑھ میں ایک ٹورنامنٹ کھیلنے  کے  لئے  گئے  تھے، میرے  ساتھ ریلوے  ٹیم میں ایک گرمیت سنگ بھی کھیلتے  تھے، ان کے  والد پرم جیت سنگ جی ریلوے  میں افسر تھے  گرمیت سنگ سے  میری دوستی تھی، اس کی خواہش پر میرا قیام اس کے  گھر رہا، دو ہفتے  ان کے  یہاں گھر کی طرح رہا، پرم جیت کی ایک چھوٹی بہن ہے، بے  پردہ ساتھ رہنے  کی خرابی رنگ لائی، پندرہ دن میں ہم دونوں ایک دوسرے  کے  اس قدر قریب آئے  کہ ایک دوسرے  کے  لئے  بالکل پاگل سے  ہو گئے، اس ٹورنامنٹ میں میری کار کردگی بھی بالکل صفر رہی، میرا دل کہیں لگتا ہی نہیں تھا، ہم دونوں نے  شادی کا پروگرام بنایا اور دونوں نے  ایک دوسرے  سے  عہد کیا کہ اگر ہمارے  گھر والے  ہماری شادی نہیں کریں گے  تو ہم خود کشی کر لیں گے، نہ آشا کور کے  گھر والے  اور نہ میرے  گھر والے  اس کے  لئے  تیار ہونے  والے  تھے، دونوں کا گھر پرانی روایات کا حامل تھا، آشا سے  زیادہ میرے  گھر والے  تو بہت ہی روایات کے  ماننے  والے  تھے، چندی گڑھ سے  واپسی کے  بعد بھی مجھے  آشا کے  علاوہ کچھ سوجھتا نہ تھا، بالکل مجنوں سا ہو گیا تھا، میرے  گھر والے  اور آشا کے  گھر والے  ہم دونوں سے  پریشان تھے، بہت سے  سیانوں کے  پاس توڑ کرانے  دونوں گھر والے  گئے  کچھ تعویذ کرنے  والے  مولویوں کے  پاس بھی گئے، میرے  چچا کاندھلہ حضرت جی سے  بھی تعویذ لائے  مجھے  اور آشا کو معلوم ہوا تو ہم بہت فکر مند ہوئے، کہیں تعویذوں سے  ہمارا دل ہٹا نہ دیا جائے، اس کے  لئے  آشا کے  مشورہ سے  میں نے  بھی سیانوں اور جیوتشوں سے  رابطہ کیا، کئی لوگوں نے  مشورہ دیا کہ مولویوں سے  ملنا چاہئے، سائیں عبداللہ ایک پہاڑوں میں رہتے  ہیں ان کے  پاس بھی گئے، بوڑیہ کے  پیر جی کے  پاس بھی گیا، سہارن پور بھی پیر صاحب کے  پاس گیا، کسی نے  مجھے  پھلت کا پتہ بتایا، پھلت میں ایک حضرت جی اس کے  لئے  مشہور ہیں وہاں گیا انھوں نے  مجھے  تعویذ دے  دیئے  ایک صاحب جو مجھے  پھلت لے  کر گئے  تھے، انھوں نے  مجھے  بتایا کہ یہاں پر ایک اور حضرت ہیں، وہ تعویذ وغیرہ نہیں کرتے  مگر دعا کرتے  ہیں چلو ان سے  بھی مل لو، وہاں گئے  معلوم ہوا، حضرت صاحب سفر پر گئے  ہیں، وہاں ایک جو ان مولوی صاحب ملے، دبلے  پتلے، مولوی عمر ان کا نام ہے، حضرت صاحب ان کے  نانا لگتے  ہیں، انھوں نے  مجھے  بتایا کہ حضرت صاحب تو ابھی ایک ہفتہ کے  بعد آئیں گے، ہمارے  حضرت ہر آنے  والے  کو خود مالک سے  مانگنے  کا طریقہ بتاتے  ہیں اس کے  لئے  ایک جاپ بھی بتاتے  ہیں، صبح سویرے  نہانے  کے  بعد یہ سوچ کر کہ اپنے  مالک کو یاد کر رہا ہوں سو بار یا ہادی اور سو بار یا رحیم پڑھ لیا کریں، رحیم اور ہادی کا ترجمہ بھی مجھے  ہندی میں بتایا، انھوں نے  کہا اس کے  بعد سیدھے  اپنے  مالک سے  اپنی پریشانی کہئے، ساتھ میں حضرت صاحب کی ایک کتاب بھی دی جس کا نام ’’آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں ‘‘ہے  میں نے  کتاب گاڑی میں رکھ دی، صبح سویرے  اٹھ کر اشنان کیا اور سو بار یا ہادی اور سو بار یا رحیم پڑھا، مجھے  بہت ہی شانتی (سکون )ملی، میں نے  شام کو بھی پڑھا، جو بے  چینی اور جنون بلکہ بالکل پاگل سا ہو رہا تھا اس کا اثر کم ہوا، ایک ہفتہ کے  بعد مجھے  مالک سے  عجیب سا تعلق ہونے  لگا، مجھے  خیال ہوا کہ جب ان کے  بتائے  ہوئے  جاپ سے  ایسی شانتی مل رہی ہے  تو حضرت صاحب کی کتاب پڑھنی چاہئے، شاید اس میں اور بھی جاپ لکھا ہو، میں نے  آپ کی امانت پڑھی، ایک دفعہ پڑھ کر دوبارہ پڑھی، چھوٹی سی اس کتاب نے  میری سوچ اسلام کے  بارے  میں بدل دی، اب مجھے  مکتی اور شانتی کے  لئے  اسلام میں ایک راہ دکھائی دیتی تھی، مولانا عمر صاحب کو فون کیا، مجھے  اسلام پر اور کتابیں بتایئے، انھوں نے  ’’اسلام کیا ہے ؟‘‘اور ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا ؟‘‘بتائی، میں نے  دہلی سے  وہ کتاب منگوائی اس کے  بعد میں نے  قرآن مجید پڑھنا ضروری سمجھا اور قرآن مجید پڑھنے  لگا، اس دوران ایک ٹورنامنٹ کھیلنے  جے  پور گیا، ایک روز ہم لوگ جے  پور دیکھنے  نکلے، بازار سے  شاپنگ کرنی تھی ایک تبلیغی جماعت ایک مسجد سے  دوسری مسجد کی طرف جا رہی تھی، میرا دل چاہا ان سے  ملوں، میں نے  گاڑی روکی، اور جیسے  ہی مسجد کے  اندر وہ داخل ہوئے  میں بھی ساتھیوں سے  ذرا دیر ٹہر نے  کو کہہ کر مسجد میں داخل ہو گیا، میں نے  ان لوگوں سے  کہا میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں، انھوں نے  مجھے  امیر صاحب سے  ملوایا، امیر صاحب نے  مجھ سے  معلوم کیا کہ آپ نماز کیوں پڑھنا چاہتے  ہیں، میں نے  کہا میں نے  اسلام کو پڑھا ہے، اور میں اسلام کو مکتی اور شانتی کا واحد راستہ سمجھتا ہوں، اس لئے  چاہتا ہوں کہ آہستہ آہستہ اسلام کو فالو کروں، انھوں نے  اپنے  بیگ سے  ’’آپ کی امانت ‘‘نکالی اور مجھے  دینی چاہی میں نے  کہا، میں نے  یہ کتاب تین بار پڑھی ہے  اور اس کے  لکھنے  والے  حضرت صاحب کے  گاؤں میں بھی گیا ہوں ضلع مظفر نگر میں پھلت ایک جگہ ہے، امیر صاحب نے  مجھ سے  کہا آپ مولانا صاحب سے  نہیں ملے، میں نے  کہا وہ وہاں نہیں تھے، انھوں نے  پوچھا آپ نے  کلمہ پڑھ لیا ہے ؟ میں نے  کہا کہ نہیں ابھی میں نے  کلمہ نہیں پڑھا ہے، پھلت میں مولانا عمر صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھنے  کو کہا تھا مگر میں نے  کتاب پڑھ کر بعد میں پڑھنے  کو کہہ دیا تھا، میں نے  امیر صاحب سے  کہا، آپ مولانا کلیم کو جانتے  ہیں انھوں نے  کہا میں مولانا کا مرید ہوں، میوات کا رہنے  والا ہوں اور ہماری جماعت میں چار ابھی چند روز پہلے  مسلمان ہونے  والے  لوگ ہیں جن میں ایک مندر کے  بڑے  پجاری بھی ہیں، جنھوں نے  چند روز پہلے  اپنے  بال وغیرہ کٹائے  ہیں، ان چاروں سے  امیر صاحب نے  مجھے  ملوایا، پھر مجھ سے  کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا تھوڑی دیر سوچنے  کے  بعد میں تیار ہو گیا، انھوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا اور فون پر حضرت صاحب سے  میری بات کروائی، اللہ کا شکر ہے  فون پر بات ہو گئی، امیر صاحب نے  حضرت سے  کہہ کر مجھے  کلمہ دوبارہ پڑھوا یا اور مجھے  جماعت میں وقت لگانے  کا مشورہ دیا، ٹورنامنٹ ختم ہو گیا تھا، میں نے  وہیں سے  ڈاک سے  چھٹی کی درخواست لگائی اور اسی جماعت کے  ساتھ ۳۵/روز لگائے، پانچ دن ان کے  ہو گئے  تھے، امیر صاحب نے  اپنے  ساتھیوں کی تشکیل کی کہ بھائی اقبال کے  پانچ دن کم رہ گئے  ہیں ہم لوگ ان کا چلہ پورا کروا دیں اور پانچ پانچ دن اور بڑھا دیں، تین لوگوں کو ضروری کام تھا، وہ چلے  گئے  باقی لوگوں نے  میرا چلہ پورا ہونے  تک میرے  ساتھ وقت لگایا۔

سوال  :جماعت سے  آ کر آپ نے  گھر والوں سے  یہ سب بتا دیا؟

جواب  :گھر آ کر میں نے  گھر والوں سے  بتا دیا، گھر میں وبال آنا طے  تھا، گھر والے  بہت بر ہم ہوئے  اور سب کو خیال ہوا کہ یہ سب آشا سے  شادی کرنے  کا ڈھونگ ہے، گھر والے  میرے  ساتھ بہت برا سلوک کرنے  لگے، مجھے  گھر چھوڑنا پڑا، گھر چھوڑ کر میں پھلت پہنچا، حضرت صاحب سے  پھلت میں پہنچنے  کے  چوتھے  روز ملاقات ہوئی، حضرت صاحب نے  مجھے  گھر جا کر رہنے  کا مشورہ دیا اور خاموشی سے  گھر والوں پر کام کرنے  کو کہا، میرے  چھوٹے  بھائی جو ڈاکٹر ہیں، کافی کوشش کے  بعد پھلت حضرت سے  ملنے  کے  لئے  تیار ہو گئے، میں ان کو لے  کر پھلت گیا، حضرت نے  مولوی عمر صاحب کو بلا کر ہم سے  ملنے  اور بات کرنے  کے  لئے  کہا، الحمد للہ انھوں نے  اسی وقت کلمہ پڑھ لیا، میرے  کہنے  پر حضرت نے  دو بارہ کلمہ پڑھوایا اور ان کا نام محمد افضل رکھا۔

بھائی کے  مسلمان ہو جانے  کے  بعد میرے  لئے  گھر کا ماحول کافی سازگار ہو گیا، جب حضرت نے  مجھے  گھر جانے  کے  لئے  کہا تھا تو مجھے  عجیب سا لگ رہا تھا، بلکہ مجھے  یہ لگ رہا تھا کہ یہ لوگ مجھے  قبول نہ کر کے  بوجھ سمجھ کر واپس کر رہے  ہیں، اندر دل میں عجیب غلط سا گمان ہو رہا تھا، مگر بھائی کے  مسلمان ہو نے  کے  بعد مجھے  لگا کہ انھوں نے  بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے، یہ اللہ کا کرم تھا کہ میں نے  ناگوار ہوتے  ہوئے  بھی فیصلہ مان کر گھر جانا گوارہ کیا، حالانکہ میں گھر سے  کہہ کر آیا تھا کہ میں گھر والوں کو صورت نہ دکھاؤں گا، میرے  بھائی ڈاکٹر نے  مجھے  بہت طعنہ بھی دیا تھا کہ آشا نے  اور مسلمانوں نے  ٹھکانے  لگا دیا، سمجھ میں آ گیا کہ گھر والے  گھر والے  ہی ہوتے  ہیں، میں نے  جھینپ مٹانے  کے  لئے  کہا کہ گھر والوں کی یاد نے  رہنے  نہیں دیا خاص طور پر بھیّا تیرے  بغیر تو میرے  لئے  رہنا بہت کٹھن (مشکل )ہے۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟باقی گھر والوں کا کیا حال ہے ؟

جواب  :میرے  بھائی ڈاکٹر افضل نے  بھی چلہ لگا لیا ہے، الحمد للہ ہماری کوشش سے  ماں بھی مسلمان ہو گئی ہیں، ابھی میں نے  سرکاری طور پر ملازمت میں نام وغیرہ نہیں بدلا ہے، ہاں اکثر لوگوں کو معلوم ہے  کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں، ڈیوٹی پر ہوتا ہوں تو بھی نماز پڑھتا ہوں۔

سوال  :آشا کور کا کیا ہوا؟

جواب  : میں جیسے  جیسے  اسلام کو پڑھتا گیا میرا عشق ٹھنڈا ہوتا گیا، اس نے  بھی چند دنوں تک تو فون کیا مگر بعد میں اس نے  بھی رابطہ ختم کر دیا، دو مہینے  پہلے  معلوم ہو ا ہے  کہ اس کی شادی ہو گئی ہے۔

سوال  :آپ کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ جس کی وجہ سے  آپ مسلمان ہوئے  اس کے  ایمان کی آپ کو فکر کرنی چاہئے  ؟

جواب  :شروع شروع میں مجھے  خیال آتا تھا، مگر حضرت نے  اس کا پتہ لے  کر کہا، آپ اس کی فکر چھوڑ دیجئے، ہمارے  ساتھی چندی گڑھ میں ہیں جو خود اس کو دعوت دینے  کی فکر کریں گے، میں نے  حضرت کے  حکم کے  بعد اس کی فکر چھوڑ دی۔

سوال  :ارمغان کے  قارئین کے  لئے  آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  :دنیا کے  سارے  نقشے  دھو کے  کے  ہیں، دل لگانے  کے  لائق بس ایک ذات وہ ہے  جو سارے  حسینوں کے  حسن کی خالق ہے  اور جس سے  دل لگانے  کے  بعد ہر بے  چینی چین میں بدل جاتی ہے، یہ میرا خود اپنے  لئے، سارے  انسانوں کے  لئے  پیغام ہے۔

سوال  :بہت بہت شکریہ، السلام علیکم رحمۃ اللہ

جواب  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، آپ کا بہت بہت شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

ایک نو مسلم بھائی عبید اللہ {ونود کمار گوئل} سے ایک ملاقات

 

احمد اواہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبید اللہ  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :عبید اللہ بھائی بڑی خوشی ہوئی آپ تشریف لے  آئے  آج ابی مجھ سے  فرما رہے  تھے  کہ کل تمہیں نوئیڈا جا کر عبید اللہ صاحب سے  ارمغان کے  لئے  انٹرویو لینا ہے، اچانک پتہ لگا کہ آپ خود یہاں آ گئے  ہیں۔

جواب  :مجھے  حضرت سے  کچھ ضروری مشورہ کرنا تھا کہ ان کا فون آیا کہ احمد ارمغان کے  لئے  باتیں کرنے  آئیں گے، میں نے  حضرت سے  درخواست کی کہ اگر آپ کے  پاس کوئی وقت ہو تو میں خود اوکھلا حاضر ہو جاؤں حضرت نے  اجازت دے  دی، الحمد للہ ملاقات ہو گئی ملاقات و مشورہ کے  بعد الحمد للہ بڑی تسلی ہو گئی، آپ فرمائیں ہمارے  لئے  کیا حکم ہے  ؟

سوال  :جیسا کہ ابی نے  آپ کو بتا دیا ہو گا کہ پھلت سے  نکلنے  والے  دعوتی میگزین کے  لئے  آپ سے  باتیں کرنی ہیں ؟

جواب  :جی، جی اسی کے  لئے  معلوم کر رہا ہوں۔

سوال  :آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

جواب  :میری پیدائش ۶/دسمبر  ۱۹۷۰ء میں جلال پور گاؤں جو اب نوئیڈا (گوتم بدھ نگر ) میں ایک گوئل خاندان میں ہوئی، پتاجی بجلی بورڈ میں ملازم تھے، میرا نام انہوں نے  نام ونود کمار گوئل رکھا تھا، پرائمری تک گاؤں کے  اسکول میں پڑھا اس کے  بعد دلی پبلک اسکول سے  بارہویں کلاس کی، اور کمپیوٹر سائنس سے  سافٹ ویر انجینیرنگ کی، بعد میں ایک امریکی کمپنی میں نوئیڈا ہی میں ملازمت لگ گئی، ابھی بھی وہیں پر کام کر رہا ہوں میرے  ایک چھوٹا بھائی ہے  پرمود کمار اس کا نام ہے، اور ایک بہن ہے، میرے  پتاجی اب ریٹائرڈ ہو گئے  ہیں وہ پروپرٹی ڈیلنگ کا کام کرتے  ہیں اس کاروبار میں اللہ نے  ان کو بہت ترقی دی ہے۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کا حال سنایئے ؟

جواب  :مولانا احمد صاحب اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو ان کے  چاہے  بغیر گردن پکڑ کر جنت میں لے  جاتے  ہیں اور وہ خود بار بار دوزخ کی طرف بھاگتے  ہیں میں شاید ان میں سے  ایک نالائق خوش قسمت ہوں۔

سوال  :آپ نے  خوب بات کہی، نالائق خوش قسمت ہیں، وہ نالائقی اور خوش قسمتی ذرا بتایئے۔

جواب  :چار سال پہلے  میں نے  اس کمپنی میں ملازمت شروع کی میرے  ساتھیوں میں ایک لڑکا کان پور کا برہمن فیملی سے  تعلق رکھتا تھا، اس نے  اسلام قبول کر کے  محمد یوسف اپنا نام رکھ لیا تھا، اور بہت مذہبی مسلمان ہو گیا تھا، اس نے  داڑھی رکھ لی تھی اور پینٹ شرٹ چھوڑ کر کرتا پائجامہ اور شیر وانی پہننے  لگا تھا، مجھے  اس کے  مذہب بدلنے  پر حیرت تھی، میں اس سے  اس کے  فیصلے  پر بہت بحث کرتا تھا اور اس کو واپس ہندو بننے  کے  لئے  کہتا تھا، گھنٹوں اس سے  بات ہوتی رہتی تھی، وہ بحث میں اکثر مجھ سے  کہتا تھا ونود بھائی میں اپنے  اللہ سے  دعا کر رہا ہوں آپ مجھے  ہندو بننے  کو کہہ رہے  ہیں آپ کو خود مسلمان ہونا پڑے  گا، بحث کرتے  جتنی مرتبہ بھی وہ یہ بات کہتا میرا دل اندر سے  ڈر جاتا تھا کہ کہیں میرے  بھاگیہ میں مسلمان ہونا نہ ہو میں ڈر کر بحث بند کر دیتا تھا، تقریباً چار مہینے  تک دیر دیر تک مذہب پر ہماری باتیں ہوتی رہیں ایک روز صبح صبح یوسف آفس آئے  اور مجھ سے  کہا کہ آج ہم دونوں کمپنی سے  چھٹی لے  کر کسی پارک میں چلتے  ہیں اور بیٹھ کر کچھ باتیں کریں گے، میں نے  پہلے  تو منع کیا کہ باتیں کرنے  کے  لئے  چھٹی لینے  کی کیا ضرورت ہے، مگر یوسف نے  بہت ضد کی اور میں نے  بھی چھٹی لے  لی اور ہم پارک میں گئے، بہت محبت سے  وہ مجھے  اسلام قبول کرنے  اور کلمہ پڑھنے  کو کہتا رہا، اور مجھے  اس درد سے  سمجھایا کہ مجھے  ماننا پڑا، اور میں نے  کلمہ پڑھ لیا، اس نے  کہا کہ رات خواب میں مجھے  تمہارا نام عبید اللہ بتایا گیا ہے، میں تمہارا نام عبید اللہ رکھنا چاہتا ہوں ہم لوگ چائے  وغیرہ  پی کر گھر چلے  گئے، اگلے  روز وہ کچھ کتابیں لے  کر آیا اور مجھے  دیں کہ ان کو پڑھنا ہمارے  آفس میں ایک جاؤ ید نام کا لڑکا بستی کا اور کام کرتا تھا، میری یوسف نے  اس سے  ملاقات کرائی اور قبول اسلام اور نئے  نام سے  تعارف کرایا، ایک ہفتہ کے  بعد ایک روز آفس آیا اور مجھے  بتایا کہ کچھ گھر یلو حالات کی وجہ سے  اب نو کری چھوڑ کر جانا ہو گا، میں نے  دو بئی میں نوکری تلاش کر لی ہے  اور پرسوں میری فلائٹ ہے، مجھ سے  کہا کہ آپ کو ایمان پر جمنا ہے، ایمان اس کائنات کی سب سے  قیمتی چیز ہے  آدمی تانبہ خریدتا ہے  تو کچھ قیمت دینی پڑتی ہے، چاندی خریدے  تو اور قیمت دینی پڑتی ہے، سونے  کے  لئے  اور بھی زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے، ایمان تو بہت قیمتی چیز ہے  اس کے  لئے  بڑی قیمت دینی پڑے  گی تو دیکھو ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرنا، اس کے  بعد وہ دوبئی چلے  گئے، جاؤ ید بہت مذہبی مسلمان نہیں تھا، وہ مجھے  میرے  چاہنے  کے  باوجود وقت نہیں دے  سکا، میں نے  ایک مولانا صاحب سے  جا کر نماز وغیرہ سیکھنا شروع کی، ہمارے  گھر میں گھر کا ایک چھوٹا سامندر تھا جس میں بہت سی مورتیاں رکھی ہوئی تھیں، میں نے  ایک روز ایک مورتی گنیش جی کی اس میں سے  اٹھائی اور نہر میں ڈال دی مورتی کو نہر میں ڈالنا تھا کہ شیطانوں کو طیش آ گیا، ہمارے  گھر پر مصیبت آنا شروع ہو گئی، میری موٹرسائیکل اچانک پیڑ سے  ٹکرا گئی، میرا پیر ٹوٹ گیا، پلاسٹر چڑھایا ہڈی نہیں جڑ سکی آپریشن کرانا پڑا، میں ابھی ٹھیک نہیں ہو ا تھا کہ چھوٹے  بھائی پرمود زینے  پر سے  پھسل گیا، اس کے  بہت چوٹ آئی، پتاجی (والد صاحب )بیمار ہوئے، بہنوئی اسپتال میں، کبھی کوئی حادثہ ہوتا تھا، میرے  پتاجی نے  بہت سے  جیوتشیوں سے  رائے  لی، سیانوں کو دکھایا سب لوگ یہی کہتے  تھے  کہ کسی بات کی وجہ سے  کوئی دیوتا ناراض ہیں، گر علاج کسی سے  نہ ہو پایا، دادری میں ایک پیر جی صاحب رہتے  تھے، لوگ ان کو بہت صاحبِ کمال سمجھتے  تھے، بڑی دیر میں ان کے  یہاں نمبر آتا تھا، پریشان ہو کر ہمارے  پتاجی ان کے  یہاں گئے، میں بھی ان کے  ساتھ تھا، انہوں نے  بتا یا کہ آپ کے  بچوں میں سے  کسی نے  اپنا دھرم چھوڑ کر دوسرے  دھرم کو اپنا یا ہے  اسی وجہ سے  پریشانی ہے، اچانک یہ بات سن کر میں ان کا بہت معتقد ہو گیا، میں نے  ان کو صاف صاف بتا دیا، انہوں نے  مجھ کو بتایا کہ جب تک تم اسلام سے  توبہ کر کے  اپنے  آبائی ہندو دھرم میں نہ آؤ گے  اسی طرح گھر میں پریشانی ہوتی رہے  گی۔

سوال  :پیر جی نے  یہ بات کہی؟

جواب  :جی ہاں، بڑی لمبی داڑھی اور بہت سارے  ان کے  چیلے  انہوں نے  یہ بات کہی، میں نے  بھی انکے  سامنے  ا قرار کیا کہ میں نے  تین مہینے  پہلے  اسلام قبول کر لیا ہے، میرے  پتاجی نے  مجھے  سمجھایا اور میں بھی اچانک پیر جی کے  بتانے  سے  ان کا بہت معتقد ہو گیا تھا، روز روز کی پریشانی سے  میں بھی عاجز آ گیا تھا، اس لئے  گھر والوں اور پیر جی کے  زور دینے  پر میں مرتد ہونے  پر تیار ہو گیا، میرے  پتاجی مجھے  لے  کر ایک پنڈت جی کے  یہاں گئے، اور پنڈت جی نے  ہنومان مندر میں مجھے  نہلا کر شدھی کی، میرے  مرتد ہو کر ہندو بن جانے  سے  گھر کی پریشانیوں پر جیسے  آگ پر پانی ڈال دیا جاتا ہے  والا معاملہ ہو گیا، گھر میں سکون و چین ہو گیا، مگر اندر سے  مجھے  بڑی بے  چینی ہوتی تھی، کئی بار سوتے  سوتے  جیسے  یوسف کی آواز میرے  کانوں میں آتی تھی اس ایمان کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا، تانبہ خریدنے  کے  لئے  قیمت دینی پڑتی ہے، چاندی خریدنے  کے  لئے  اور بھی زیادہ اور سونے  کے  لئے  اور بہت زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے، ایمان کا ئنات کی سب سے  قیمتی چیز ہے  اس کی ہر قیمت پر حفاظت کرنا اور میری آنکھ کھل جاتی، اور مجھے  کئی کئی روز بے  تابی سی رہتی، کسی مسلمان کو دیکھتا میں بے  چین سا ہو جاتا، کسی مسجد کے  مینار دیکھتا تو عجیب سی بے  چینی کی کیفیت مجھ پر طاری ہو جاتی۔

سوال  :اس دوران آپ پوجا وغیرہ کرنے  لگے  ؟

جواب  :ہاں میں پریشانیوں سے  بچنے  کے  لئے  پوجا وغیرہ کرتا تھا، مگر میری پوجا عقیدت سے  نہیں بلکہ شر سے  بچنے  کے  لئے  ڈر کی وجہ سے  تھی، جیسے  کوئی بد معاشوں یا پولیس سے  ڈر کر کوئی کام کر ے  یا بیان دے۔

سوال  :اس کے  بعد پھر اسلام کی طرف دو بارہ کس طرح آنا نصیب ہوا؟

جواب  :میں نے  کیا؟ میرے  اللہ نے  میرے  چاہے  بغیر مجھے  ایمان و اسلام کا سایہ عطا کیا، ہوا یہ کہ ایک روز میں آفس سے  آیا تو ہمارے  گاؤں میں ایک جماعت آئی ہوئی تھی، جماعت والے  گشت کر رہے  تھے، میں گھر جا رہا تھاراستے  میں میں نے  جماعت کو دیکھا، میرے  دل میں بے  چینی ہو ئی کہ مجھے  ان کے  ساتھ مسجد میں جانا چاہئے  اور نماز پڑھنا چاہئے، مگر مجھے  بہت ڈر لگا کہ اگر میں نے  نماز پڑھی تو گھر میں کوئی حادثہ نہ ہو جائے  رات تک عجیب بے  چینی کی کیفیت رہی، رات میں سویا تو میں نے  خواب دیکھا کہ کچھ جماعت والے  مجھے  بلانے  آئے  کہ مسجد میں ہمارے  حضور ﷺ تشریف رکھتے  ہیں، آپ کو بلاتے  ہیں، میں خوشی سے  بولا، مجھے  ؟مجھ گندے  کو ہمارے  نبی نے  بلایا ہے، انہوں نے  کہا ہاں، آپ کو ہی بلایا ہے، میں نے  کہا کہہ کر بلایا ہے ؟انہوں نے  کہا کہ آپ نے  فرمایا ہے  کہ عبید اللہ کو بلا کر لاؤ، میں بہت خوش ہوا، اور مسجد میں گیا تو بہت ہی خوبصورت نورانی شکل میں ہمارے  نبی ﷺ ممبر پر تشریف رکھتے  ہیں، میں نے  سلام کیا آپ نے  کھڑے  ہو کر مجھے  گلے  لگا یا اور فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے  کہ میں نے  ہی تمہارا نام عبید اللہ رکھا ہے، تمہیں معلوم ہے  عبید اللہ کا مطلب ہے  صرف اللہ کا بندہ اور تم شیطانوں سے  ڈر گئے  یہ دنیا تو مومن کا قید خانہ ہے  اور کافر کی جنت ہے  جب تم یہاں کی مشکل سے  ڈر گئے  اور برداشت نہ کر سکے  تو آخرت میں جہنم کی سزا کس طرح برداشت کر سکتے  ہو، میری آنکھ کھل گئی، صبح کے  ساڑھے  چار بجے  تھے، سردی کا زمانہ تھا، میں بے  چین ہو گیا، میں نے  غسل کیا اور مسجد پہونچ گیا، جماعت کے  کچھ لوگ اٹھ گئے  تھے  میں نے  ان سے  معلوم کیا کہ امیر صاحب جاگ گئے  ہیں ؟انہوں نے  کہا کہ ہاں، وہ نماز پڑھ رہے  ہیں، میں ان کے  پاس گیا اور ان سے  خوشامد کر کے  وقت لیا اور پھر اپنا خواب اور اپنا حال بتایا، وہ میوات کے  رہنے  والے  عالم تھے، ایک مدرسہ میں پڑھاتے  تھے، انہوں نے  مجھے  دوبارہ کلمہ پڑھا کر ایمان کی تجدید کے  لئے  کہا، میں نے  کلمہ پڑھا اور پھر تہجد اور فجر کی نماز پڑھی، امیر صاحب نے  مجھے  اوکھلا جا کر آپ کے  والد صاحب مولانا محمد کلیم صاحب سے  ملنے  کا مشورہ دیا، اور بار بار زور دے  کر آج ہی جا کر ملنے  کے  لئے  مجھ سے  وعدہ لیا، اور پتہ اور فون نمبر ان کے  پاس تھا دیا، میں گھر گیا، صبح آفس گیا، فون پر رابطہ تو نہیں ہو سکا، دن میں دو پہر پہلی بار یوسف کا دوبئی سے  فون آیا، میرا حال معلوم کیا میں نے  ان سے  کہا کہ مجھے  لمبی بات کرنی ہے، فون کاٹ دیا، آفس سے  نکل کر باہر میں نے  یوسف کو فون ملایا اور پوری داستان، رات کا خواب اور ایمان کی تجدید کی بات بتائی، یوسف نے  بتایا کہ آپ کا نام میں نے  خواب میں اللہ کے  رسول ﷺ کے  بتانے  پر رکھا تھا، مجھے  خواب دکھائی دیا تھا کہ تم چلے  جاؤ  گے  تو اسے  کون دعوت دے  گا، جاؤ  اس کو کلمہ پڑھواؤ اور اس کا نام عبید اللہ رکھو۔

یوسف نے  بھی مجھے  حضرت صاحب سے  ملنے  پر زور دیا اور بتایا کہ میں نے  ان ہی کے  ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا، میں اپنے  اسلام کے  لئے  کئی مہینے  بھٹکتا رہا، پھر کسی نے  مولانا صاحب کا پتہ بتایا تھا، انہوں نے  مجھے  فوراً کلمہ پڑھوایا اور میرا نام محمد یوسف رکھا اور قانونی کاروائی پوری کرائی، میں شام کو آفس سے  ذرا جلدی اجازت لے  کر اوکھلا گیا، بٹلہ ہاوس جامع مسجد پہونچا، امام صاحب نے  بتایا کہ ابھی مغرب کی نماز حضرت نے  یہاں ہی پڑھی ہے، شاید ابھی ابھی نکلے  ہیں، انہوں نے  کسی کو دوڑا یا اور حضرت کو اطلاع دی، حضرت مولانا باہر نکلے  ہی تھے  واپس آئے  مسجد میں بیٹھ کر ملاقات ہوئی، میری پوری داستان بہت غور سے  سنی، اٹھ کر مجھے  گلے  لگایا، بہت مبارک باد دی، کئی بار میری پیشانی کو بوسہ دیا، آپ کیسے  خوش قسمت ہیں شان ہدایت نے  خود آپ کو قبول کیا ہے  اور کس شان سے  قبول کیا ہے، مگر اب دو بارہ چانس نہیں ملے  گا، اب ہر قیمت پر ایمان کی حفاظت کرنا ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ یوسف میاں کو مجھ سے  رابطہ کرا کے  جانا چاہئے  تھا، شاید ایک بار وہ آفس کے  کسی انجینئر کے  اسلام پر بحث کا ذکر کر رہے  تھے، وہ شاید آپ کا ہی ذکر کر رہے  تھے، میں نے  کہا ہاں، مہینوں سے  میری ہی بحث ان سے  ہوتی رہی، حضرت صاحب نے  مجھ سے  بتایا کہ شیطان، جنات اصل میں انسان کو ہدایت سے  ہٹا نے  کی کوشش کرتے  تھے  اگر آپ جمے  رہتے  تو اللہ تعالیٰ بادل چھانٹ دیتے  آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہئے  تھا۔

سوال  :اس کے  بعد آپ نے  گھر والوں کو بتایا دیا ؟

جواب  :مولانا احمد صاحب، اب میرا اسلام پہلے  اسلام سے  بالکل مختلف تھا، میرے  اللہ نے  میری مدد فرمائی اور مجھے  ہمت دی اور پوری دنیا بلکہ اگر کہوں کہ پوری کائنات سے  مخالفت مول لے  کر میں نے  اللہ کا صرف اللہ کا ہونے  کا عزم کیا تھا، میں نے  رات کو جا کر گھر والوں کو جمع کیا تھا اور کہا جس چیز کو میرا دل، میرا دماغ، میرا ضمیر حق جان اور مان چکا ہے  میں ان جھوٹے  دیوتاؤں کے  ڈر سے  اسے  نہیں چھوڑ سکتا، اب آپ پر آفت آئے  یا کچھ ہو، میں نے  اسلام قبول کیا ہے  اسے  چھوڑ نہیں سکتا، میرے  گھر والوں نے  مجھے  پچھلی مصیبتیں یاد دلائیں، میں نے  کہا اس سے  ہزار گنا آفتیں آئیں تو آئیں، میں حق سے  نہیں ہٹ سکتا، اب اگر میرا اسلام تمہیں پسند نہیں ہے  تو میں آپ اور آپ کے  گھر کو چھوڑسکتا ہوں، میرے  گھر والوں نے  مجھے  پیار سے  سمجھایا، اور جب میں نے  سخت رخ اختیار کیا تو میرا چھوٹا بھائی پرمود غصہ میں آ گیا، میرے  والد نے  بھی اس کا ساتھ دیا، میں رات کو گھر چھوڑ کر جانے  لگا، میری ماں مجھے  ایک کمرے  میں لے  گئی، دیر تک روتی رہی، میری پیدائش اور پھر پرورش کی مصیبتیں رو رو کر یاد دلاتی رہی، میں بھی روتا رہا اور بار بار ماں کو سمجھاتا رہا، میری ماں آپ نے  پال کر مجھ پر احسان کیا ہے، اس کے  بدلے  میں آپ سے  کہتا ہوں یہ دنیا دھوکے  کا گھر ہے، کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جایئے  اور مرنے  کے  بعد کے  جیون کو بنا لیجئے، بعد میں وہ بھی غصہ ہو گئی، اور رات کے  ایک بجے  میں گھر سے  نکل آیا، سردی کی رات تھی، کچھ دور پارک میں جا کر ایک شیڈ کے  نیچے  بیٹھ گیا، میں نے  سامنے  ایک ٹنکی سے  وضو کیا اور گھانس میں اللہ کے  حضور نماز کی نیت باندھی، نماز پڑھ کر اللہ کے  حضور گریہ و زاری شروع کی، اللہ کے  حضور میں گھنٹوں فریاد کی، میرے  اللہ میرا نام آپ نے  اپنے  نبی سے  عبید اللہ رکھوایا، میرے  اللہ میں صرف آپ کا بندہ ہوں نا، میرے  اللہ جب آپ نے  مجھے  صرف اپنا صرف اپنا بندہ بنا یا ہے  تو پھر آپ کے  کرم سے  میں نے  اپنے  محبت کرنے  والے  بھائی، بہنوں، اپنے  گھر بار کو شفقت سے  پالنے  والے  باپ کو اور بلکتی اور سسکتی ماں کو صرف آپ کے  لئے  چھوڑ آیا ہوں، میرے  اللہ بس آپ اپنا ہی بندہ بنا لیجئے، میرے  اللہ اب پھر مجھے  دوبارہ گمراہ ہونے  سے  بچا لیجئے، مجھے  یاد آیا حضرت مولانا نے  ایک دعا مجھے  لکھ کر دی تھی، اور اس کو روزانہ ذکر کرنے  کے  لئے  کہا تھا،

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْ بَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابَ (آل عمران:۷)

ترجمہ :اے  ہمارے  پروردگار تو ہمارے  دلوں کو کج نہ کیجئے  بعد اس کے  کہ آپ ہم کو ہدایت کر چکے  ہیں اور ہم کو اپنے  پاس سے  رحمت (خاص )عطا فرما یئے، بلا شبہ آپ بڑے  عطا فرمانے  والے  ہیں۔

بار بار اس کا ہندی ترجمہ پڑھتا رہا۔مولوی احمد اس رات کی دعا اور اللہ کے  حضور فریاد کی لذت اور مزہ میں بتا نہیں سکتا، ایسا لگتا تھا اللہ کی رحمت میری بلائیں لے  رہی ہے، اور مجھے  سب کچھ چھوڑ کر اندھیری سردی کی رات میں اس میدان میں آسمان کی چھت کے  نیچے  اللہ کا بندہ بن جانے  میں ایسا مزہ آیا اور پھر اچانک مجھے  خیال آیا کہ جب یہاں اس کے  بننے  کی آرزو میں ایسا مزہ ہے، جنت میں جمعہ کے  دن اللہ کا دیدار کرنے  میں کتنا مزہ ہو گا، ایک عجیب سا نشہ اور مزہ نہ جانے  سردی کی لمبی رات جیسے  پلوں میں ختم ہو گئی ہو۔

سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  :میں صبح کو اوکھلا آیا مولانا صاحب کو تلاش کیا کہ مشورہ کروں مگر مولانا صاحب فجر کے  بعد سفر پر جا چکے  تھے، مجھے  کسی نے  مرکز نظام الدین جانے  کا مشورہ دیا، وہاں پر لوگوں نے  پھر مولانا صاحب سے  ملنے  کا مشورہ دیا، اگلے  روز مولانا صاحب سے  ملاقات ہوئی، مولانا صاحب نے  مجھے  اپنے  ایک دوست کے  یہاں چند روز کے  لئے  بھیج دیا، دور روز تک مشورہ ہوتا رہا میں بار بار اسلام پڑھ کر ایک عالم اور داعی بننے  کی خواہش کرتا رہا۔مولانا نے  میرے  کاغذات بنوائے  اور پہلے  جماعت میں وقت لگانے  کا مشورہ دیا چالیس روز کے  لئے  میں جماعت میں چلا گیا، واپس آیا تو مولانا کے  مشورہ سے  کرناٹک کے  ایک مدرسہ میں اپنی جماعت کے  امیر صاحب کے  ساتھ جا کر داخلہ لے  لیا، دو سال پہلے  مولانا صاحب سے  ملنے  آیا تو انہوں نے  گھر والوں سے  دعوتی سلسلہ میں رابطہ کے  لئے  کہا، میں نے  کہا کہ میں نے  اللہ کے  لئے  چھوڑ دیا تو چھوڑ دیا، پھر کہیں ان کی وجہ سے  نہ بھٹک جاؤں مولانا نے  کہا جس طرح اللہ کے  لئے  چھوڑ نے  میں مزہ ہے  اسی طرح اللہ کے  لئے  ملنے  اور اللہ سے  ان کو ملانے  میں اس سے  زیادہ اللہ کا قرب ملے  گا، میں نے  گھر فون کیا ممی نے  فون اٹھایا اور بلک بلک کر رونے  لگیں، میرا پتہ معلوم کیا، میں نے  ہمایوں کا مقبرہ کا پتہ بتایا، وہ ملنے  آئیں اور گھر میں جو حالات آئے  بڑے  درد کے  ساتھ بتاتی رہیں، میں نے  کہا یہ ہمایوں کا مقبرہ ہے، کیسے  کیسے  بڑے  چھوٹے  سب مر گئے، ممی ہمیں بھی مرنا ہے، میری ماں میں آپ کا بیٹا ہوں آپ سے  سچی محبت کرتا ہوں، آپ کلمہ پڑھ لیجئے، میری ماں میری محبت میں بالکل سوکھ گئی تھیں، میرے  اللہ کا کرم گھنٹوں کی خوشامد کے  بعد وہ تیار ہو گئیں اور میں نے  ان کو حضرت مولانا سے  ملوایا حضرت نے  ان کو دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ان کا نام سلمہ رکھا، میری چھوٹی بہن بھی ساتھ تھیں مولانا نے  ان کو سمجھایا وہ بھی تیار ہو گئیں حضرت نے  ان کا نام اسماء رکھا۔

سوال  :اس کے  بعد آپ کی تعلیم کا کیا ہوا؟

جواب  :والد ہ نے  گھر جانے  کا اصرار کیا، حضرت صاحب کی خوشامد کرتی رہی، حضرت نے  مجھے  حکم دیا کہ ماں کی بات مان لو، اور والد سے  ایمان پر جمنے  کی نصیحت کی اور وعدہ کیا کہ میں نوئیڈا میں ایک استاذ کا نظم کر دوں گا جو آپ کو عا  لمیت کرا دے  گا، میں گھر چلا گیا شروع میں والد صاحب نے  بہت مخالفت کی مگر اللہ نے  میرا ساتھ دیا، میرے  رب کا کرم ہے، میرے  والد اور میرے  بھائی الحمد للہ مسلمان ہیں۔

سوال  :خاندان والوں اور سماج کی طرف سے  کچھ مخالفت نہیں ہوئی۔

جواب  :بہت ہوئی، اسکی لمبی داستان ہے، یہ دو سال ان کی مخالفتوں کے  ساتھ ایک لمبی زندگی ہے  حضرت کے  مشورہ سے  ہم نے  وہاں سے  ہجرت کر لی، اور دہلی میں رہنے  لگے  ہیں، ان مخالفتوں میں کیونکہ اللہ نے  ایمان عطا فرما دیا تھا عجیب مزہ تھا۔

سوال  :کچھ بتایئے ؟

جواب  :وہ ایک لمبی کہانی ہے، کسی وقت پھر فرصت سے  سن لیجئے  گا۔

سوال  :اچھا ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ پیغام آپ دیجئے۔

جواب  :ہر چیز پر جمنے  کے  لئے  استقامت کی ضرورت ہے، ساری کائنات اور کل مخلوق کی نفی کر کے  اس اکیلے  کا بن جانے  کا مزہ اس دنیا کی بلکہ اگر میں کہوں کائنات کی سب سے  بڑی نعمت اور مزہ کی چیز ہے، تو بالکل بجا ہے، انسان کمزور ہے، بس اللہ تعالیٰ ذرا ارادہ اور نیت دیکھتے  ہیں اور اپنے  کو یکسو (حنیف )بنا لے  پھر وہ ہمت بھی دیتے  ہیں، اور توفیق بھی، قربان اس کی رحمت کہ مزہ بھی اور لذت بھی دیتے  ہیں، اور اس پر نور علی نور آخرت میں اجر عظیم بھی، ایسے  دینے  والے  کریم و رحیم رب کے  علاوہ کون ہے  دل لگانے  کے  لائق ؟اور قربان ہونے  کے  لائق اور روتے  ہوئے۔۔۔۔۔۔مگر اس کا ہو جانے  کے  لئے  سب کی نفی ضروری ہے، لا الہ الا اللہ میں پہلے  نفی بعد میں اثبات ہے  سب کو ٹھکرائے  اور سب سے  ٹکرانے  کے  عزم کے  بنا اس کا بننا چاہے  تو بس دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔

سوال  :بہت شکریہ عبید اللہ بھائی اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس نفی و اثبات کا مزہ چکھا دے۔

جواب  :آپ شرمندہ کر رہے  ہیں۔

سوال  :نہیں نہیں بلکہ سچ ہے  کہ آپ کو اس کا حق الیقین اللہ نے  عطا کیا ہے، آپ کے  کہنے  سے  میرے  رونگٹے  کھڑے  ہو رہے  ہیں۔

جواب  :مولوی احمد، اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔

 

مستفاز از ماہ نامہ ’’ارمغان ‘‘جنوری  ۲۰۱۰ئ

٭٭٭

 

 

 

 

محمد اقبال ایڈوکیٹ {راجندر ملک }سے  ایک ملاقات

احمد اواہ                :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اقبال ایڈوکیٹ :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :وکیل صاحب پھلت سے  نکلنے  والے  اردو میگزین ارمغان کے  دستر خوان پر ہم آپ کا قارئین ارمغان اور کارکنان ارمغان کی طرف سے  پر خلوص استقبال کرتے  ہیں اور درخواست کرتے  ہیں کہ آپ پہلے  قارئین ارمغان سے  اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

جواب  :میں ہریانہ کے  کرنل ضلع کے  ایک جاٹ پریوار (خاندان )کا ایک معمولی آدمی ہوں، میرے  پتاجی (والد صاحب) نے  میرا نام راجندر ملک رکھا تھا، میرا جنم ۲۲/فروری ۱۹۷۴ء کو ہوا گاؤں کے  اسکول میں پڑھائی ہوئی پھر ہریانہ بورڈ سے  بارویں کلاس پاس کیا اور روہتک یونیورسٹی سے  میں نے  L.L.Bکیا پانی پت کورٹ میں وکالت شروع کی اور بعد میں یونیورسٹی سے  ہی L.L.Mبھی کیا۔میری شادی کیتھل ضلع کے  زمین دار خاندان میں اب سے  دس سال پہلے  ہوئی، میری بیوی بھی B.Aاور L.L.Bہے  دو بچے  مجھے  میرے  مالک نے  دئے  ہیں۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  :ہمارے  گاؤں میں میرا ایک بچپن کا دوست نریش آریہ تھا، گریجویشن تک وہ اور ہم ایک کلاس میں پڑھتے  رہے، بعد میں وہ MBAکرنے  لگا میں نے  L.L.Bمیں داخلہ لے  لیا، مگر دوستی بہت پکی تھی، اس کے  پانی پت کے  ایک پنڈت خاندان کی لڑکی سے  تعلقات ہو گئے، دونوں ایک دوسرے  کے  دیوانے  ہو گئے  گھر والے  شادی کے  لئے  تیار نہیں ہوئے  کسی مسلم وکیل سے  ان کی دہلی میں ملاقات ہوئی اس نے  ان کو دھرم بدل کر شادی کر لینے  کا مشورہ دیا، کچھ روز پہلے  چاند اور فضا کے  معاملہ کا خوب چرچہ تھا، ان دونوں نے  مسلمان ہو کر شادی کرنے  کا ارادہ کر لیا مگر کوئی ان کو اس طرح مسلمان کر کے  شادی کرانے  کے  لئے  تیار نہ ہوتا تھا، نریش کا حال خراب ہوا جا رہا تھا مجھے  ڈر ہوا کہیں پاگل نہ ہو جائے  اس لئے  میں اور میرے  ساتھ دو وکیل اور تھے  ان کو لے  کر جامع مسجد دہلی گئے، امام صاحب سے  ملاقات ہوئی انھوں نے  کہا مسلمان تو ہم ان کو بنا لیں گے  مگر شرط یہ ہے  کہ علاقہ کے  دو ذمہ دار مسلمان کو جو ان دونوں کو جانتے  ہوں لے  کر آئیں ہم نے  کہا ہم دو کے  بدلے  میں تین وکیل گواہی دیتے  ہیں انھوں نے  کہا مسلمان کو لے  کر آؤ ہم لوگ واپس پانی پت گئے  کئی روز کی کوشش کے  بعد دو لوگوں کو لے کر دہلی گئے، امام صاحب نے  ان کو کلمہ پڑھوایا اور لڑکے  کا نام نریش عبداللہ اور لڑکی کا نام مریم فاطمہ رکھا، ہم نے  نکاح کے  لئے  کہا تو انھوں نے  منع کیا کہ نکاح قاضی سے  پڑھوائیے، ہمارا مقصد صرف شادی ہی تھا ہم اس سے  مایوس واپس آ گئے  دہلی میں شام تک قاضی تلاش کیا مگر کوئی قاضی نہیں ملا، پانی پت آ کر بھی کئی مسجدوں میں گئے  کہ کوئی ان کا نکاح پڑھا دے  مگر کوئی تیار نہیں ہوا، کیرانہ کے  ایک صاحب ملے، ان سے  میں نے  نریش کی بات رکھی، انھوں نے  کہا، آپ ان کو لے  کر کیرانہ آ جائیں، ہمارے  یہاں کے  امام صاحب ان کا نکاح پڑھا دیں گے، ۱۵/جنوری کو ہم تینوں وکیل ساتھی کیرانہ پہنچے، امام صاحب سے  ملے  انھوں نے  کہا کہ آپ کا یہ کام پھلت میں ہو جائے  گا، آپ پھلت چلیں، ہم نے  ان سے  کہا ہم بہت دھکے  کھا چکے  ہیں آپ ساتھ چلیں تو ہم پھلت کیا کلکتہ بھی جا سکتے  ہیں، وہ ساتھ جانے  کے  لئے  تیار ہو گئے، پھلت پہنچے  سخت سردی ہو رہی تھی، پھلت پہنچ کر مولانا کلیم صاحب (آپ کے  والد صاحب )کے  گھر پہنچے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مولانا صاحب پھلت میں ہیں، امام صاحب نے  بتایا کہ آپ کی قسمت ہے  کہ حضرت مل گئے  ورنہ سفر میں رہتے  ہیں، بہت لوگ ملنے  والے  آئے  ہوئے  تھے، بڑی بھیڑ لگی تھی، بڑی مشکل سے  وقت ملا الگ کمرے  میں بات ہوئی، امام صاحب نے  بتایا کہ یہ دونوں مسلمان ہونا چاہتے  ہیں اور مسلمان ہو کر پھر شادی بھی کرنا چاہتے  ہیں، حضرت صاحب نے  کہا :جہاں تک مسلمان ہونے  اور ایمان لانے  کا سوال ہے  تو ہر ایک کو جلد از جلد مسلمان ہونے  کی، اور ہر مسلمان کو اپنے  ہر بھائی بہن تک، جن سے  ہمارا خون کا رشتہ ہے  ہمیشہ کی نرک اور دوزخ سے  بچانے  کے  لئے  مسلمان بنانے  اور کفر و شرک سے  توبہ کرانے  کی کوشش کرنی چاہئے، اس لئے  آپ کو کیرانہ میں ہی کلمہ پڑھوا دینا چاہئے  تھا، جہاں تک شادی کا تعلق ہے  تو یہ کام تو وکیلوں کے  ذریعہ ہو سکتا ہے، اچھا تو یہ ہے  کہ اپنے  گھر جا کر ماں باپ کو تیار کرنا چاہئے  ماں باپ اولاد سے  بہت محبت کرتے  ہیں، اگر ان سے  بغاوت کا راستہ اختیار کرنے  کے  بجائے  ان کی خوشامد کی جائے  تو وہ سماج کے  خلاف بھی اپنی اولاد کی خوشی کے  لئے  تیار ہو جاتے  ہیں، میرا مشورہ ہے  کہ آپ لوگ گھر جائیں بلکہ زور دے  کر آپ سے  درخواست ہے  کہ ان کو ان کے  گھر لے  جا کر ان کے  ماتا پتا کو راضی کر کے  شادی کریں، جب ہی وہ شادی ہو گی، میں نے  کہا گھر والے  تیار نہیں ہوئے  بہت کوشش کر لی، وہ کسی طرح تیار ہونے  والے  نہیں، حضرت نے  کہا تو شادی تو عدالت میں ہی ہونا ضروری ہے، ہم لوگ اس طرح کے  چکر میں نہیں پڑتے  اور نا جائز ساتھ رہنے  والوں کو اللہ کے  قانون میں ساتھ رہنے  کا قانونی حق دلانے  اور گناہ سے  بچانے  کے  لئے  اگر ہم لوگ نکاح پڑھوا بھی دیتے  ہیں تو ہمارے  پاس نکاح نامہ کاغذات وغیرہ نہیں ہوتے، یہ چیزیں جو لوگ نکاح پڑھاتے  ہیں وہ دیتے  ہیں ہم نے  کہا آپ ان کو مسلمان تو کر لیں اور نکاح کر دیں جب یہ مسلمان ہو جائیں گے  تو آپ کو ہی یہ کام کرنا ہو گا، اگر یہ ہندو رہتے  تو مندر میں پھرے  ہوتے، حضرت صاحب نے  کہا بہت یہ ہے  کہ کلمہ تو میں پڑھوا دیتا ہوں، اور آپ میرٹھ چلے  جائیں وہاں پر وکیل ہیں وہ کسی سے  نکاح بھی پڑھوا دیں گے  اور قانونی کاروائی بھی کروا دیں گے۔

ہم نے  کہا آپ مسلمان کر کے  نکاح پڑھا دیں قانونی کاروائی ہم خود کروا لیں گے  ہم تینوں وکیل ہیں مولانا صاحب نے  کہا اصل میں نکاح نامہ تو آپ کو بھی چاہیئے  ہو گا، ایسا کرتے  ہیں کہ کلمہ میں پڑھواتا ہوں اور ہمارے  یہاں حافظ عبداللہ صاحب ہیں وہ گاؤں میں نکاح پڑھواتے  ہیں، آپ جا کر وہاں نکاح پڑھوا لیں وہ نکاح نامہ بھی بنوا دیں گے، آپ اس کو عدالت میں رجسٹرد کروا لیجئے، میں نے  کہا ٹھیک ہے  آپ مسلمان تو بنا لیں۔

سوال  :مسلمان تو وہ جامع مسجد دہلی میں بن گئے  تھے  آپ نے  بتایا نہیں ؟

جواب  :مولوی احمد صاحب مجھے  ڈر ہوا کہ یہ سمجھیں گے  کہ امام صاحب نے  نکاح نہیں پڑھایا تو کوئی دال میں بڑا کالا ہے، اس لئے  میں نے  نہیں بتایا۔

سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا، بتایئے ؟

جواب  :مولانا صاحب کو جلدی تھی، جلدی میں مولانا صاحب نے  ان دونوں کو سامنے  بٹھا کر بتایا اور ہم تینوں سے  بھی کہا کہ آپ بھی سنیں جس دیش میں آدمی رہتا ہو وہ اس کے  حاکم مالک کو نہ مانے  تو باغی اور غدار ہے، کسی باغی اور غدار کو دیش کی شہریت (نیشنلٹی )نہیں ہوتی، اس کو دیش کی چیزوں سے  فائدہ اٹھانے  کا حق حاصل نہیں ہوتا وہ جب پکڑا جائے  گا تو ہمیشہ کی جیل یا پھانسی کی سزا پائے  گا، یہ پوری سرشٹی (کائنات)کا مالک اور حاکم اکیلا اللہ ہے، اس کا فائنل اور اپ ٹو ڈیٹ موجودہ دستور کانسٹی ٹیوشن قرآن مجید ہے  وید بھی ہیں مالک کی طرف سے  بھیجا گیا قانون تھا وہ دستور کا قدیم ایڈیشن (آدی گرنتھ )تھے، فائنل اور مکمل شکل کا ایڈیشن قرآن ہے، اب جو آدمی اللہ کو نہ مانے  اور اس کو اکیلا نہ مانے  اور اس کے  فائنل قانون قرآن کو نہ مانے  وہ غدار اور باغی ہے   اسے  اللہ کی زمین میں رہنے، یہاں کا پانی پینے  اور ہوا تک استعمال کرنے  کا حق نہیں ہے، اس لئے  کسی ملک کا حق شہریت حاصل کرنے  یا کوئی عہدہ قبول کرنے  کے  لئے  سنودھان (دستور)کی شپتھ(قسم)اس کو دلائی جاتی ہے، اللہ کی کائنات میں رہنے  کا حق حاصل کرنے  کے  لئے  بغاوت اور غداری سے  توبہ کر کے  اس کا سچا وفادار رہنے  کا عہد اور اس کے  فائنل دستور قرآن کے  پرتی وچن بدھتا(اس کے  مطابق زندگی گزارنے )کی شپتھ(قسم)لینا ضروری ہے، اسی کو کلمہ پڑھنا کہتے  ہیں اور اسی کو ایمان لانا کہتے  ہیں، ورنہ موت کے  چیک پوسٹ پر امیگریشن اسٹاف اللہ کے  فرشتے  چیکنگ کریں گے  اور ایمان نہ ہونے  پر ہمیشہ کی جیل، نرک میں ڈال دیں گے، اس لئے  سچے  دل سے  مالک کو حاضر ناظر جان کر دو لائن پہلے  عربی میں کہہ لیں کہ مسلمان ہونے  کے  لئے  میں حلف لے  رہا ہوں اور عہد کر رہا ہوں کہ جیون قرآن کے  مطابق گزاروں گا، حضرت نے  کہا کہ ہم سبھی پڑھ لیں ہم تینوں سے  کہا کہ وکیل صاحب آپ تو قانون کے  آدمی ہیں، آپ کے  لئے  ان سے  زیادہ ضروری ہے  کہ آپ ضرور شپتھ(قسم) لیں۔

مولانا صاحب نے  ہم سب کو عربی میں کلمہ پڑھوایا اور پھر ہندی میں ذرا کھول کر مطلب کہلوایا، مولانا صاحب نے  کہا اب آپ حافظ عبداللہ کے  یہاں جائیں اور ان سے  نکاح پڑھوا لیں البتہ یہ یاد رہے  کہ یوں تو جو آدمی ایمان نہ لائے  وہ کتے  سے  بھی گیا گزرا ہے  کہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے  مالک کے  در پر پڑا رہتا ہے  در نہیں چھوڑتا، پھر جو دردر بھٹکتا پھرے  وہ کتے  سے  بھی گیا گذرا ہے، مگر اصل میں ایمان کی ضرورت موت کے  وقت پڑے  گی، اس لئے  اس حلف پر موت تک جمنا ہے  اور ایمان وہ معتبر ہے  جو اس دلوں کے  بھید جاننے  والے  کو قبول ہو جائے  اس لئے  بھی آتما سچے  دل سے  حلف لینے  والا اس مالک کے  یہاں ایمان لانا ہے، حضرت صاحب نے  ہم پانچوں کو اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘منگا کر دی، ماسٹر اکرم صاحب کو بلایا اور ہم سبھی لوگوں کو گرم اور اچھی چائے  اور ناشتہ کرانے  کو کہا اور ہمیں حافظ عبداللہ صاحب کے  پاس ایک صاحب کے  ذریعہ بھیج دیا بعد میں اپنے  نواسے  مولانا محمد عمر صاحب کو ہمارے  پاس بھیجا   انھوں نے  ہمیں اسلام اور ایمان کے  بارے  میں بتایا، ناشتے  اور چائے  سے  فارغ ہو کر ہم لوگ حافظ عبداللہ صاحب کے  پاس گئے، انھوں نے  نکاح پڑھانے  سے  منع کر دیا کہ پہلے  آپ قبول اسلام کا ایفی ڈیوٹ (حلف نامہ )بنوائیں اس کی ایک کاپی ہمارے  پاس ہونا چاہئے، میں نے  کہا کہ ہمارے  پاس امام بخاری کا سرٹیفکٹ ہے، حافظ صاحب نے  حضرت کو فون کیا حضرت صاحب نے  کہا اس سرٹیفکٹ کی ایک کاپی لے  کر نکاح پڑھواؤ۔نکاح پڑھوا کر ہم لوگ رات کو لوٹ گئے  اور گھر پہنچ گئے۔

سوال  :کیا آپ نے  سچی آتما سے  ان سب کے  ساتھ کلمہ پڑھا تھا ؟

جواب  :نہیں بلکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کہہ رہے  ہیں تو پڑھ لوں کہیں یہ نکاح کو منع نہ کر دیں، البتہ جو بات مولانا صاحب نے  بتائی وہ دماغ میں جم گئی دل بھی کہتا تھا کہ بات تو بالکل سولہ آنہ ٹھیک ہے، حضرت نے  یہ بھی کہا تھا کہ قرآن کے  بارے  میں یہ جانا اور سمجھا جاتا ہے  کہ قرآن مسلمانوں کا دھارمک گرنتھ ہے  حالانکہ قرآن مجید مالک کی طرف سے  بھیجا ہوا پورے  سنسار کے  لئے  مکمل اور آخری سنودھان ہے  اس کا جاننا اور ماننا جس طرح عبداللہ اور محمد عمر کے  لئے  ضروری ہے  سی طرح نریش اور راجیندر کے  لئے  بھی ضروری ہے۔

سوال  :ابی کو آپ نے  اپنے  نام بتا دیئے  تھے  ؟

جواب  :نہیں بس وہ تو ایسی ہی مثال کے  طور پر نام لے  رہے  تھے  اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ صرف ہمیں کہہ رہے  ہیں، حضرت صاحب نے  یہ بھی بتایا کہ یہ تو ٹھیک ہے، مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کو اپنے  خونی رشتہ کے  غیر مسلم بھائیوں تک پہنچائیں اور اس کے  نہ پہنچانے  کے  جرم میں وہ میدان محشر (نیائے  دوس)میں پھنسیں گے، مگر آپ بھی اس پر بچ نہیں سکتے  کہ ہمیں پہنچایا نہیں گیا تھا، اس لئے  کہ ساری دنیا کے  قانون کے  مطابق قانون کا نہ جاننا سب سے  بڑا قانونی جرم ہے  مجھے  لگا کہ بات بالکل ٹھیک ہے  اور میں نے  قرآن پڑھنے  کا ارادہ وہیں کر لیا رات کو آ کر سو گیا اگلے  روز اپنے  ایک مسلمان ساتھی وکیل سے  میں نے  قرآن مجید مانگا اس نے  کہا منگوا دوں گا، اس نے  کئی روز کے  تقاضے  کے  بعد چھوٹے  قرآن مجید کا ہندی ترجمہ لا کر دیا، میں نے  پڑھنا شروع کیا، مولوی احمد جیسے  میں نے  پڑھنا شروع کیا، میرے  پاس شبد (الفاظ)نہیں کہ میں اپنی حالت بیان کر سکوں، جیسے  جیسے  قرآن مجید پڑھتا گیا مجھے  لگا کہ تو نے  کچھ بھی نہیں پڑھا اور سارا جیون برباد کر لیا لگتا تھا پڑھتا رہا دو روز تک کچہری بھی نہیں گیا منشی سے  کہہ دیا تاریخیں لگا دے، حالانکہ بڑے  مقدموں کی بحث کی تاریخ بھی تھی، قرآن مجید ختم کر کے  دوبارہ پڑھنا شروع کیا، ’’آپ کی امانت ‘‘بھی تلاش کی مالک کا کرم مل گئی اس کو پڑھا تو اندازہ ہوا کہ بالکل موٹے  ذہن کو سامنے  رکھ کر حضرت صاحب نے  محبت کے  شہد میں قرآن مجید کے  نسخہ کا خلاصہ پڑھنے  والے  کو پلایا ہے، حضرت صاحب سے  پھر ملنے  اور اب سچے  دل سے  ایمان قبول کرنے  کی خواہش ہوئی، کیرانہ امام صاحب کے  پاس گیا، امام صاحب نے  حضرت کا فون لگایا کئی بار فون کی گھنٹی بجی فون کٹتا رہا، امام صاحب نے  کہا حضرت سفر میں ہوں گئے، پھلت کسی صاحب کو فون کیا تو معلوم ہوا حضرت راجستھان کے  سفر پر ہیں بہت مایوسی اور بے  چینی میں اچانک امام صاحب کے  فون کی گھنٹی بجی، حضرت صاحب نے  فون کیا تھا، امام صاحب نے  یہ کہہ کر کہ وہ وکیل صاحب جو پانی پت سے  ہمارے  ساتھ آئے  تھے  آپ سے  بات کرنا چاہتے  ہیں مجھے  فون دے  دیا، حضرت صاحب نے  کہا کہ میں مصروف تھا بار بار فون کاٹنے  کے  باوجود کئے  جا رہے  میں تو بہت ناگوار ہو رہا تھا، پھر اچانک خیال آیا کوئی پریشان حال دکھیارا نہ ہو کہ اس کو تسلی کی ضرورت ہو اس کو میرے  کہنے  سے  تسلی ہو جائے  اور میرا مالک مجھے  معاف کر دے  اس وجہ سے  میں نے  دل نہ چاہتے  ہوئے  بھی فون کیا میں نے  کہا حضرت صاحب میں واقعی بہت دکھیارا اور تسلی کا محتاج ہوں L.L.Mمیں نے  کیا L.Dکرنا چاہتا تھا، مگر آپ نے  جو سنودھان پڑھوایا اس نے  میری نیند اڑا دی، کتنے  بڑے  مقدمہ میں کتنی بڑی عدالت میں ہمیں جانا ہے  حضرت صاحب آپ نے  مجھے  بیمار تو کر دیا اب علاج کون کرے  گا، حضرت نے  کہا کہ وکیل صاحب آپ نے  صرف وکیل کی حیثیت سے  قرآن پڑھا ہے  میں نے  کہا نہیں حضرت میں نے  ملزم کی حیثیت سے  پڑھا ہے  اور پڑھ کر خود طے  کر لیا کہ میں ملزم نہیں مجرم ہوں اور میرے  لئے  نرک کی سزا طے  ہے  اور اگر یہ ہو گا تو ججمنٹ بالکل صحیح ہو گا بس بچنے  کی شکل مجھے  بتایئے  حضرت صاحب نے  کہا اصل میں آپ نے  وکیل ہو کر وکیل یا ملزم کی حیثیت سے  قرآن مجید پڑھا ہے، ایک بار آپ قرآن مجید اس طرح پڑھئے  کہ ایک ماں سے  ستر گنا ممتا رکھنے  والے  سارے  حسینوں کو اپنے  جمال سے  حسن و جمال دینے  والے  محبوب مالک کا محبت نامہ پڑھ رہے، ہیں میں نے  کہا میں ضرور پڑھوں گا، ہزاروں بار قرآن مجید پڑھوں گا بلکہ جنم کے  آخری سانس تک پڑھتا ہی رہوں گا مگر بغاوت کے  جرم سے  تو مجھے  نکالئے  حضرت نے  کہا آپ نے  سچی آتما سے  کلمہ نہیں پڑھا تھا، میں نے  کہا میں نے  نریش کا نکاح پڑھوانے  کے  لئے  کلمہ پڑھا تھا، اب سچے  دل سے  ایمان لانا چاہتا ہوں، حضرت صاحب نے  فون پر کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا حضرت صاحب نے  مجھے  فون پر دوبارہ کلمہ پڑھوایا، اور میرا نام محمد اقبال رکھا پھر مجھ سے  معلوم کیا ان دونوں کا کیا ہوا، میں نے  کہا چندی گڑھ ہائی کورٹ میں کاروائی کروانے  کے  لئے  گئے  ہیں، حضرت نے  کہا ان کو بھی سچا مسلمان بنانے  کی فکر کریں، اور ان کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ گھر والوں پر کام کریں اور اپنے  اپنے  گھر والوں کو اسلام کی دعوت دیں اور مجھے  یہ بھی بتایا کہ اپنے  دونوں ساتھی وکیلوں کو بھی قرآن مجید پڑھوائیں میں نے  کہا، میں نے  ان کو اپنے  ساتھ ہی قرآن مجید کے  دوران رکھا ہے۔

سوال  :یہ کب کی بات ہے ؟

جواب  :یہ کل کی بات ہے، مجھے  بہت بے  چینی ہوئی کہ حضرت صاحب سے  ملاقات ہو دہلی کا پتہ معلوم نہیں تھا، پھلت فون کیا اطمینان نہ ہوا، یہ تو معلوم ہو گیا کہ راجستھان سے  پھلت آ رہے  ہیں، میں رک نہیں سکا آج پھلت آیا وہاں اکرام بھائی نے  بتایا کہ اگر دہلی میں آج ہوں گے  تو خلیل اللہ مسجد میں نماز پڑھیں گے، آپ کوشش کر لیجئے  الحمد للہ ظہر کی نماز کے  وقت تھوڑی دیر پہلے  پہنچا اور فوراً میرے  اللہ نے  ملاقات کرا دی، حضرت صاحب نے  ہمارے  دونوں ساتھیوں کو بھی دو بارہ کلمہ پڑھوایا ہم تینوں جنم مرن کے  دوست ہیں مالک کا شکر ہے  کہ یہ دوستی ہمارے  بڑے  کام آئی حضرت صاحب نے  کہا یہ دوستی ایمان کے  بعد اب مرنے  کے  بعد کے  لئے  پکی اور رجسٹرڈ ہو گئی ہے، حضرت صاحب نے  کہا کہ آپ ارمغان کے  لئے  ایک انٹرویو دیں دے، میں نے  کہا بھی کہ میں ایک دن کا بھی ابھی مسلمان نہیں ہوں، میں کیا بتاؤں گا، مگر حضرت صاحب کو اپنا پیر مانا تو بات ماننا ہے  اس لئے  میں نے  اپنی داستان آپ کو بتایا۔

سوال  :اب آئندہ آپ کا کیا ارادہ ہے ؟

جواب  :میں نے  ارادہ کیا ہے  کہ قرآن مجید اور قرآن کے  پیغام کو ساری دنیا میں پھیلاؤں گا میں دیکھتا ہوں کہ لوگ کس طرح اندھیرے  کو پھیلا رہے  ہیں چوراہوں پر بڑے  بورڈ لگا کر ایکسپائر  دواؤں کو بیچ رہے  ہیں اور جو سچائی ہے  سچا پیغام ہے  اس کی لوگوں کو خبر بھی نہیں، سچی بات یہ ہے  کہ میں خود قرآن مجید کے  بارے  میں یہ جانتا تھا کہ قرآن ایسی کتاب ہے  جس میں کافروں کو قتل کرنے  کی باتیں ہیں اور فتوے  ہیں۔

سوال  :آپ اسلام قبول کر کے  کیا محسوس کرتے  ہیں ؟

جواب  :مولانا صاحب بالکل ایسا جیسے  ایک مجرم کو کال کوٹھری میں بند کر دیا جائے  اور اس کے  گلے  میں پھانسی کا پھندہ لگا دیا گیا ہو، اور اچانک پھندا اس کے  گلے  سے  نکال کر بری کر کے  آزاد کر دیا جائے، ایمان سچے  دل سے  قبول کرنے  کے  بعد کل سے  میں ایسا محسوس کر رہا ہوں۔

سوال  :ماشاء اللہ، اردو کا ایک شعر ہی    ؎

خدا کی دین کا  موسیٰ سے  پوچھئے  احوال

کہ آگ لینے  کو جائیں اور پیمبری مل جائے

اللہ کے  ایک نبی حضرت موسیٰ ؑ کو طور ایک پہاڑ پر آگ کی تلاش کرنے  گئے  تھے  اور اللہ نے  ان کو اپنا نبی بنا لیا تھا، آپ کے  ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

جواب  :آپ نے  بالکل ٹھیک کہا، اصل میں کسی انسان کے  ساتھ بھلائی مالک کے  یہاں ضرور قبول ہوتی ہے، اصل میں مجھے  نریش کے  حال پر ترس آیا، مجھے  خیال آیا اگر ایسے  ہی یہ پاگل ہو گیا یا سوسائڈ (خود کشی )کر کے  مر جائے  تو اس سے  تو اچھا ہے  کہ اس کی شادی ہو جائے۔ادھرم ہو جائے  جان تو بچ جائے، میں نے  ترس اور ہمدردی میں اس کا ساتھ دیا، مارا مارا پھرا، میرے  مالک کو رحم آ گیا، کہ ہمارے  بندہ پر ترس کھا رہا ہے، بندہ گناہ گار سہی، بس اللہ نے  مجھ کمینے  کو ایمان کے  لئے  قبول کر لیا۔

سوال  :ارمغان پڑھنے  والوں کو کچھ پیغام آپ دیں گے  ؟

جواب  :بس دعا کریں کہ مالک موت تک ایمان پر جمائے  رکھے، اور قرآن کو دنیا کے  کونے  کونے  میں رہنے  والوں تک پہنچانے  کے  لئے  میری مراد کو پورا کرا دیں۔

سوال  :ماشاء اللہ بہت مبارک، بہت مبارک، بہت شکریہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  : و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

 

مستفاز از ماہ نامہ ’’ارمغان ‘‘فروری  ۲۰۱۰ء

٭٭٭

 

 

 

 

بھائی محمد رئیس {رمیش کمار} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ                :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اقبال ایڈوکیٹ :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  رئیس صاحب آپ خیریت سے  ہیں، دہلی آپ کا کب آنا ہوا تھا ؟

جواب  :  الحمد للہ خوب خیریت ہے  اور آج تو بہت ہی خیریت ہے، میں دس روز سے  دہلی میں ہوں، پکا ارادہ کر کے  چلا تھا کہ حضرت صاحب سے  ملاقات کرنی ہے، ۱۰/فروری کو دہلی آیا تھا معلوم ہوا کہ حضرت صاحب ممبئی کے  سفر پر گئے  ہیں، چار پانچ روز میں آئیں گے  میں نے  سوچا کہ گھر جا کر کارخانہ وغیرہ میں پھنس جاؤں گا، مل کر ہی جاؤں گا نظام الدین چلا گیا تھا ۱۷/کی صبح کو آیا تو معلوم ہوا کہ ابھی حضرت نہیں آئے  ہیں، آج کسی وقت آ جائیں گے، پھر چلا گیا ۱۸/کی صبح کو آیا تو معلوم ہو ا کہ حضرت فجر کی نماز پڑھ کر نکل گئے، کل آئیں گے  اب کل سے  ادھر ہی رک گیا ہوں کہ بس جب بھی آئیں گے  ملاقات ہو جائے  گی، سچی بات یہ ہے  کہ جب آدمی تلاش کرتا ہے  پاتا ہے، سچی نیت سے  کوشش کرنے  والے  کو مالک مایوس نہیں کرتے، چاہے  تھوڑا انتظار کبھی کبھی کرنا پڑتا ہے  حضرت سے  الحمد للہ اچھی ملاقات ہو گئی تسلی ہو گئی۔

سوال  :ابی نے  آپ کو بتا دیا ہو گا کہ پھلت سے  نکلنے  والے  میگزین ارمغان کے  لئے  مجھے  آپ سے  کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

جواب  :جی ہاں حضرت مجھے  مسجد میں روک کر گئے  ہیں کہ احمد میاں آئیں گے  آپ اپنی کارگذاری ان کو بتائیں تا کہ وہ رسالہ میں چھپ کر لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے۔

سوال  :برائے  کرم آپ اپنا خاندانی تعارف (پریچے ) کرائیں ؟

جواب  :میں مشہور شہر فتح پور سیکری کے  ایک راجپوت خاندان میں ۳/جنوری ۱۹۶۲ء میں پیدا ہوا میرا نام میرے  پتاجی نے  رمیش کمار رکھا تھا، بارھویں کلاس میں دو مرتبہ فیل ہو جانے  کی وجہ سے  پڑھائی چھوڑنی پڑی، میرے  چچا کا کار مرمت کا کارخانہ تھا، پتاجی نے  ان کے  پاس کار کا کام سیکھنے  کے  لئے  چھوڑ دیا اور میں کار مکینک بن گیا۔۱۹۸۷ء میری شادی ہوئی اور دہلی جے  پور ہائی وے  پر میں نے  ایک ورکشاپ کھول لیا میرے  والد نائب تحصیلدار سے  ریٹائرڈ ہوئے  ہیں، میرے  ایک بڑے  بھائی قانون گو ہیں اور چھوٹے  بھائی پولیس میں آگرہ میں محکمہ آئی جی میں انسپکٹر ہیں، میری بیوی بھی ایک اچھے  پریوار کی ہے  وہ گریجویٹ ہے  میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

سوال  :اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  :اصل میں مولانا احمد صاحب مجھے  ایسا لگتا ہے  کہ سب کچھ کرنے  والا اس دنیا میں اپنی حکمت سے  جو کرتا ہے  کرتا ہے  اور یہ پورا سنسار (دنیا) بلکہ سرشٹی (کائنات)کٹھ پتلی کی طرح اس کی انگلی کے  اشارے  پر ناچتی ہے  بس وہ جس پر دیا رحم کر دے  اس کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے، نہ جانے  میرے  مالک کو مجھ پر کیسے  ترس آیا اور میرے  لئے  ہدایت کا انتظام کر دیا یا ہو سکتا ہے  کہ حضرت مولانا جی کو میری تلاش تھی وہ دعا کرتے  تھے  اللہ نے  ان کی سن لی اور مجھے  ہدایت بھی دے  دی اور گردن پکڑ کر مولانا صاحب کے  پاس بھیج دیا۔

سوال  :  وہ تفصیل ہی تو ہمیں آپ سے  سننی ہے ؟

جواب  : جی سنا رہا ہوں، میرے  چھوٹے  بھائی آئی جی میں انسپکٹر ہیں وہ آگرہ میں پوسٹڈ تھے  دو سال پہلے  آگرہ میں ایک سیمی کانو جوان پکڑا گیا تھا اس کے  گھر سے  جو سامان برآمد ہوا، اس میں ایک بریف کیس تھا جس میں ایک کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘بھی تھی جو بیاور ضلع اجمیر راجستھان سے  چھپی ہوئی تھی میرے  بھائی سریش کمار نے  اس کتاب کو پڑھا، یہ کتاب ایسے  پریم بھاؤ(محبت کے  جذبہ) سے  لکھی گئی ہے  کہ سریش کے  دل میں چبھ گئی، مگر چونکہ افسروں کے  سامنے  برآمد سامان کی سوچی (فہرست) بنائی گئی تھی، اس لئے  وہ کتاب محافظ خانہ میں جمع کرنی پڑی، میرے  بھائی نے  کتاب کا نام اور چھپانے  والے  کا پتہ لکھ لیا آج ہی حضرت صاحب نے  بتایا کہ اس کتاب کی وجہ سے  ڈی آئی جی سہارنپور نے  حضرت صاحب کی انکوائری کرائی تھی، اور یہ کتابیں حضرت صاحب نے  مظفر نگر سی آئی ڈی ڈپارٹمنٹ میں بھی بھیجی تھیں، اللہ کا شکر ہے  کہ ایک انسپکٹر مظفر نگر میں بھی مسلمان ہوا تھا، میرے  بھائی سریش نے  اس پتہ پر جہاں بیاور سے  وہ کتاب چھپی تھی خط بھی لکھے  کہ مجھے  ہر قیمت پر وہ کتاب وی پی بھیج دیں مگر خطوں کا جواب نہیں آیا، میں جب بھی فتح پور سیکری جاتا اور بھائی سے  ملاقات ہوتی تو وہ مجھ سے  تقاضا کرتے  کہ آپ تو راجستھان میں ورکشاپ چلاتے  ہیں، آپ وہ کتاب کسی طرح منگا لیں میں ان سے  کہتا کہ ایسی کیا کتاب ہے  کہ جب ملتا ہوں ’’آپ کی امانت‘‘ کی رٹ لگاتے  ہیں، سریش کہتا کہ بھیا جب آپ اس کتاب کو پڑھیں گے  تو آپ کو معلوم ہو گا کہ لکھنے  والے  نے  کتنی مقدار میں پیار کا شہداس میں گھولا ہے  مین ہائیوے  پر ورکشاپ ہونے  کی وجہ سے  راجستھان کے  لوگ گاڑیاں لے کر نکلتے  رہتے  ہیں گاڑی خراب ہو جائے  تو ہمارے  پاس آتے  رہتے  ہیں ہمارے  پتاجی نے  ہمیں بچپن سے  راہ گیروں ضرورت مندوں کی سیوا کو سب سے  بڑا دھرم بتایا ہے  میں نے  ورکشاپ کیا تو میرے  پتاجی (والد صاحب ) نے  مجھے  بلا کر نصیحت کی کہ مین روڈ پر ورکشاپ کھول رہے  ہو تو یہ یاد رکھنا کہ وہاں جو آئے  گا زیادہ تر راہ گیر ہوں گے، کم سے  کم ان کی مجبوری سے  فائدہ نہ اٹھانا رات کو کوئی آ کر اٹھائے  تو اٹھنے  میں سستی نہ کرنا اور رات کو جس کی گاڑی ٹھیک کرو مزدوری مت لینا اسے  پوجا سمجھ کر کرنا اس کی مزدوری اوپر والا دے  گا، ابھی دسمبر میں ایک گاڑی بیاور کی آئی وہاں کے  لالہ لوگ تھے  ان کی گاڑی خراب ہو گئی گاڑی ٹھیک کی تو معلوم ہوا وہ بیاور کے  رہنے  والے  ہیں میں چار روز پہلے  فتح پور سیکری گیا تھا پتاجی (والد صاحب )کی طبیعت خراب تھی سریش بھی آیا ہوا تھا، اس نے  تقاضا کیا تھا، میں نے  لالہ جی سے  کہا کہ میں آپ سے  مزدوری نہیں لوں گا بس آپ ایک کام کر دیں مجھے  ایک کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘لا دیں  انھوں نے  کہا آپ مزدوری تو لے  لیں ہم وعدہ کرتے  ہیں کہ ہم آپ کو ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘لا کر دیں گے، میں نے  پیسے  لینے  سے  انکار کر دیا میں نے  کہا بس میری مزدوری یہی ہے، اگر میں مزدوری لے  لوں گا تو آپ پر دباؤ نہیں رہے  گا۔ورنہ آپ یہ تو سوچیں گے  کہ اس کی مزدوری ہمارے  ذمہ ہے  وہ ضد کرتے  رہے  کہ میں مزدوری لے  لوں آخر میں نے  کہا کہ اگر آپ کی امانت لا کر دیں گے  تو میں مزدوری بھی لے  لوں گا، انھوں نے  بتایا کہ اس کے  لیکھک لکھنے  والے  ہمارے  یہاں بیاور میں آتے  تھے، یہ کتاب ہمیں بھی وہاں پروگرام میں بانٹی گئی تھی، ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ٹاپک پر ہی پروگرام ہوا تھا، بہت لوگ بلکہ شہر کے  سب ذمہ دار خاص طور پر ہندو سنستھاؤں، تنظیموں کے  ذمہ دار، آریہ سماج، آرایس ایس وشو ہندو پریشد کے  سب ذمہ ار اس پروگرام میں تھے  اصل میں بیاور ہندوؤں خصوصاً  آریہ سماج کی وجہ سے  بہت اتہاسک (تاریخی) شہر سمجھا جاتا ہے  سب لوگ اس پروگرام میں آ گئے  تو ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ اگر یہی اسلام ہے  تو یہ اسلام تو مسلمانوں کو بھی معلوم نہیں ہے، پھر ہندوؤں کو اگر غلط فہمی ہے  تو ان کی کیا خطا ہے  اور لوگ کہہ رہے  تھے  کہ شہر میں اس پریم وانی (محبت کی آواز )کا کیسا سماں بندھ گیا ہے  میں نے  ان کا ہاتھ پکڑ کر خوشامد کر کے  کہا کہ آپ بھول مت جائیے  وہ چلے  گئے  ان کے  اس پریچے  سے  میرے  دل میں بھی اس کتاب کے  پڑھنے  کی اچھا (خواہش )پیدا ہوئی اگلے  اتوار کو دہلی جاتے  ہوئے  وہ میرے  پاس آئے  اور بولے  کہ ایک اخبار کے  نمائندے  جو اس پروگرام کو کر رہے  تھے  انھوں نے  اپنے  ساتھیوں لالہ بھائی اور شرماجی کے  ساتھ مل کر اس پروگرام کی روپ ریکھا بنائی تھی ان سے  میں نے  کتاب کے  لئے  کہا، انھوں نے  بتایا کہ وہ کتاب ہمارے  پاس ختم ہو گئی ہے، اجمیر سے  وہ منگا کر دیں گے، اور دہلی میں اوکھلا کے  علاقہ میں ایک دفتر ہے  وہاں سے  وہ کتاب مل سکتی ہے، ہم دہلی جا رہے  ہیں وہاں سے  واپسی پر آپ کو کتاب لا کر دیں گے  وہ بے  چارے  دہلی گئے  تو اردو بازار میں گئے  وہاں کسی نے  ان کو مدھر سندیش سنگم کا پتہ بتایا انھوں نے  اپنے  نوکر کو بھیجا نوکر دس کتابیں اوکھلا سے  جا کر لے  آیا واپسی میں منگل کے  روز انھوں نے  مجھے  کتاب دی میرا منگل کا برت تھا، میں نے  سمجھا کہ آج برت کا دن ہے، اچھا ہے  کہ اچھی پستک(کتاب )مل گئی ہے  گاڑی پر دو بڑے  مستری کو لگا کر میں نے  ہاتھ دھوئے  اور کتاب پڑھی اور بس کتاب ختم ہونے  تک میں ہندو دھرم جو اصل میں اب کچھ دھرم نہیں ہے، دین قیم اسلام کی بگڑی ہوئی شکل ہے  چھوڑ چکا تھا، میں نے  اشنان(غسل) کیا برت توڑ دیا اور کتاب کھول کے  کلمہ شہادت سچے  دل سے  پڑھا اور رات کو ایک مولانا صاحب جو بہروڑ میں رہتے  ہیں ان کے  پاس گیا اور ان سے  کہا مجھے  پاک رہنے  کا طریقہ اور نماز سکھائیں وہ میوات کے  رہنے  والے  ہیں انھوں نے  مجھے  اس کتاب کے  لکھنے  والے  مولانا کلیم صدیقی صاحب سے  ملنے  اور جماعت میں جانے  کا مشورہ دیا ایک کتاب رکھ کر میں نے  باقی کتابیں اپنے  کارخانہ کے  ایک ملازم لڑکے  کے  ہاتھ سریش کے  پاس آگرہ بھیج دیں اور موقع لگا کر چالس دن جماعت میں لگانے  کا پروگرام بنایا، میں دہلی گیا اوکھلا میں مولانا صاحب کا دفتر معلوم کیا مولانا صاحب تو سفر میں تھے، وہاں پر جنید نام کے  ایک حافظ تھے  انھوں نے  میرا ایفی ڈیوٹ بنوایا اور مرکز جا کر جماعت میں جڑنے  کا مشورہ دیا مرکز کی بھیڑ میں مجھے  کچھ رستہ نہیں لگا میں ذرا مایوس ہو کر نکل رہا تھا تو مرکز کے  بڑے  مولانا سعد صاحب کا ڈرائیور مجھے  مل گیا اس نے  مجھے  دارارقم جانے  کا مشورہ دیا، میں نے  بتایا کہ میں وہاں سے  ہی آیا ہوں میرے  کاغذات بن گئے  ہیں انھوں نے  مجھے  بھوپال کی جماعت میں جوڑ دیا جماعت کا وقت تو لکھنو میں لگا جماعت کے  لوگ پڑھے  لکھے  بہت اچھے  سوبھاؤکے  تھے  جماعت سے  جنوری میں واپس آیا اوکھلا جا کر ملاقات کی کوشش کی مگر مولانا صاحب پھر سفر میں تھے، ایک رات کے  بعد بہروڑ آ گیا معلوم ہوا کہ پتاجی بہت بیمار ہیں، میں فتح پور پہنچا تو دیکھا کہ سب رو رہے  تھے، معلوم ہوا کہ ابھی ایک گھنٹے  پہلے  میرے  پتاجی (والد صاحب )کا دیہانت (انتقال )ہو گیا ہے (بہت دیر تک روتے  رہے )

سوال  :رئیس بھائی آپ کا نام رئیس کس نے  رکھا؟

جواب:ذرا چپ ہوتے  ہوئے، وکیل سرفراز صاحب جنہوں نے  میرے  کاغذات بنوائے  تھے  انھوں نے  میرے  لئے  رمیش سے  ملتا جلتا نام رئیس رکھا(پھر رونے  لگتے  ہیں )

سوال  :آپ کے  والد ایسے  نیک آدمی تھے  کیسی اچھی تعلیم انھوں نے  آپ کو دی، انسانیت سے  محبت کرنے  والے  تھے، ابی تو کہتے  ہیں ایسے  لوگوں کو مالک اپنے  فرشتے  بھیج کر کلمہ پڑھوا دیتے  ہیں ؟

جواب :نہیں احمد بھائی وہ اپنی (پراکرتی)فطرت میں مسلمان تھے، کسی نے  ان کو اسلام بتایا نہیں میرے  پیارے  بھائی مولانا احمد آپ ذرا سوچ کر دیکھئے  میرے  سامنے  مجھے  پالنے  والے  مجھ سے  عاشقوں کی طرح پیار کرنے  والے  میرے  بخار سے  تڑپ جانے  والے  باپ کو کاش میرے  اللہ میرے  بجائے  ایمان دے  دیتے۔مولانا احمد میرے  بخار سے  تڑپ جانے  والے  باپ کو میرے  سامنے  دشمنوں نے  نہیں ان کا آدر کرنے  والوں نے  اور سب سے  پہلے  بڑے  بھائی اور قانون گو پڑھے  لکھے  بیٹے  نے  آشیش چودھری نے  لکڑیوں میں گھی چھڑک کر آگ لگا دی، میرے  چھوٹے  بھائی جو اب ’آپ کی امانت ‘پڑھ کر مسلمان ہو گئے  ہیں محمد عمر انھوں نے  اپنا نام رکھا ہے  ہم دونوں بھیک مانگتے  رہے  کہ ہندو روایت کے  ساتھ ہی ان کی سمادھی بنا دی جائے  ان کو جلایا نہ جائے  مولانا صاحب آگ کا انگارہ ہاتھ میں رکھ کر دیکھئے  تو کیا ہوتا ہے  میرے  پیارے  پتاجی صرف اور صرف مسلمانوں کے  باخبر نہ کرنے  کی وجہ سے  چتا میں جل گئے  اور اگر۔۔۔۔۔۔روتے  ہوئے۔۔۔۔۔۔اگر وہاں جہنم کی آگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں احمد بھائی مجھ سے  یہ مت کہلوایئے  ورنہ ان تمام ظالم مسلمانوں کو اللہ رحیم اور عادل خدا ہر گز معاف نہیں کریں گے  جن کے  نہ بتانے  کی وجہ سے  میرے  ایسے  پیارے  باپ نرک میں چلے  گئے  وہ ایمان والے  نہیں بلکہ سب سے  بڑے  بے  ایمان ہیں۔

سوال  :نہیں رئیس بھائی ایسا مت کہئے ؟

جواب   :مولانا صاحب آپ میری جگہ ہوتے  تو ذرا محسوس کرتے  میرے  پتاجی کے  دوست بہت سے  مسلمان تھے، ایک مولانا صاحب ان کے  ساتھ کتنا وقت گذارتے  تھے  اس بد بخت بیٹے  کی بد نصیبی کہ اس کو اللہ نے  بنا چاہے  ہدایت دی مگر اس کا محسن باپ اس کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھانے  والا باپ اپنی گود میں لے  کر اس کو اسکول میں داخل کرانے  والا اس کا باپ روز رات کو ہمارے  جیون بنانے  کی فکر میں ایک ایک لفظ یاد کرانے  والا، ہماری ہر خواہش پوری کرنے  والا اور سب سے  زیادہ ہماری بھلائی اور انسانیت کا پاٹھ (سبق)دینے  والا ماؤں کی طرح مامتا رکھنے  والا پیارا باپ میرے  سامنے  جلا یا جا تا رہا اور جلتے  جلتے  میرے  سامنے  اس کا سر پھوڑا گیا جلتے  جلتے  لاٹھیاں مار کر جیسے  کوئی دشمن اپنے  دشمن کے  ساتھ سلوک کرتا ہے  اور ہم مولانا صاحب ہم دونوں میرا بھائی رمیش (محمد عمر)سب کچھ جان کر دیکھتے  رہے  مولانا صاحب آپ شاید ہمارے  درد کو سمجھ نہیں سکتے  آپ سوچ کر دیکھئے  یہ کوئی ناول کی بات نہیں، کوئی ڈرامہ نہیں بلکہ سوچئے  بالکل سچ ہو رہا تھا اور ہماری آنکھوں کے  سامنے  ہو رہا تھا مجھے  لگتا ہے  کہ ہندوؤں کو تو معلوم نہیں وہ تو ناسمجھ ہیں، مسلمانوں    کا بھی بس نام کے  لئے  یہ عقیدہ ہے  کہ بغیر ایمان کے  چتا ہے  اور اس کا راستہ نرک (دوزخ  ) ہیں ورنہ مولانا صاحب ذرا سوچئے  آ پ کے  سامنے  کوئی آگ کی بھٹی میں کودنے  لگے  تندور میں چھلانگ لگائے  اور آپ دیکھتے  رہیں آپ اپنی دکان اپنے  کاروبار میں لگے  رہیں، لوگ نہر اور کنویں میں کسی کودتے  دیکھ کر سب کچھ چھوڑ کر اسے  بچانے  کی کوشش کرتے  ہیں اور کتنے  ڈوبتے  کو بچانے  کے  لئے  خود ڈوب کر جان دے  دیتے  ہیں، آگ میں ہمارے  سامنے  پتھر نہیں ایک لکڑی نہیں، ہمارے  ساتھ رہنے  والا، ہم پراحسان کرنے  والا، ہمارے  ساتھ معاملہ کرنے  والا چتا میں جلایا جائے  اور پھر ہر ایمان والے  کا یہ ایمان ہو کہ پھر ہمیشہ کی دوزخ کی آگ ہے  اور پھر بھی وہ اپنے  کاروبار اپنے  گھر بار میں لگا رہے  اور ذرا کوشش بھی نہ کرے  یہ کس طرح ممکن ہے  وہ مسلمان مسلمان کیا انسان بھی نہیں بلکہ درندے  ہی ہو سکتے  ہیں، جو اپنے  ساتھ رہنے  والوں کو آگ کے  راستہ پر دوڑنا گوارہ کریں۔

سوال  :اصل میں آپ کے  لئے  یہ جذباتی معاملہ ہے، واقعی آپ کو ایسا ہی سوچنا چاہئے ؟

جواب  :مولانا احمد صاحب صرف مجھے  نہیں آپ کو بھی ایسا ہی سوچنا اور کم از کم ہر مسلمان کو جس کا جنت دوزخ کے  برحق ہونے  پر یقین ہے  ایسا ہی سوچنا چاہئے، کیا ایسا نہیں سوچنا چاہئے۔

سوال  :بلا شبہ ضرور ایسا سوچنا ہی چاہئے  اور ابی یہی کہتے  ہیں واقعی آپ سچ کہتے  ہیں ہم لوگوں کے  ایمان کی کمی ہے  کہ ہم اس الم ناک حادثہ کو سرسری لے  لیتے  ہیں اور اس میں گھلتے  نہیں ہیں۔آپ نے  بتایا کہ سریش بھائی بھی محمد عمر ہو گئے  ہیں وہ کیسے  ہوا؟

جواب :ان کے  یہاں کتاب پہنچی تو انھوں نے  بار بار پڑھی اور پھر قرآن مجید پڑھنا شروع کیا آگرہ میں ایک جماعت کے  امیر صاحب ہیں ڈاکٹری کرتے  ہیں ان کے  پاس جا کر وہ مسلمان ہو گئے  ہیں ان کا نام انھوں نے  محمد عمر رکھا، وہ فتح پور سیکری گھر گئے، والد صاحب بہت بیمار تھے  وہ بالکل بے  ہوشی سی میں ایک وقت تک رہے، بھائی محمد عمر گھر والوں کو کہہ کر گئے  تھے  اگر پتاجی کو ہوش آ جائے  تو آپ کی امانت ان کو ضرور پڑھوائی جائے  ایک روز ان کو ہوش آیا انھوں نے  لیٹے  لیٹے  کتاب پڑھنا شروع کی کچھ پڑھی تھی بولے  کیسی سچی اور اچھی پستک (کتاب )لکھی ہے  اور پھر دورہ ہوا اور بے  ہوش ہو گئے، اس کے  بعد انتقال تک ہوش نہیں آیا۔

سوال  :تو پھر فکر کی بات نہیں شروع کے  چند صفحے  بھی پڑھ لئے  تو توحید تو مان ہی لی، انشاء اللہ اتنا بھی کافی ہو گا۔

جواب  :دل کو بہلانے  کو یہ کہا جا سکتا مگر سچی بات تو یہی ہے  کہ اسلام و ایمان سمجھ کر ا قرار و قبول کئے  بغیر نہیں ہوتا ہے  ہائے  میرا غم۔۔۔۔۔۔جس کا علاج ممکن نہیں کتنی سچی بات کہتے  تھے  اللہ کے  رسول ﷺ کے  سچے  دوست حضرت ابو بکر صدیق ؓ کاش میں پرندہ ہوتا کاش میں گھاس کا تنکا ہوتا، کاش میری ماں نے  مجھے  جنا بھی نہ ہوتا۔ یہ غم میرے  باپ کے  چتا میں جلائے  جانے  کا غم اور اس کے  بعد دوزخ میں جلائے  جانے  کا غم جو موت کے  بعد بھی ختم نہیں ہو گا بلکہ شاید وہاں اور بھی زیادہ ستائے  گا، ہمیشہ ہمیشہ جلائے  جانے  کا یقین دوزخ پر یقین کسی کو کیا احساس ہو سکتا ہے  رئیس کے  تڑپتے  کلیجہ کا، اس کے  چہیتے  باپ کے  ہمیشہ ایمان سے  محروم رہ کر جہنم رسید ہونے  کا۔۔۔۔۔۔۔۔(بہت دیر تک روتے  ہوئے، پانی پلایا گیا )

سوال  :(ذرا رخ بدلتے  ہوئے )جے  پور ہائی وے  پر ایک مستری کا ابی بہت ذکر کرتے  تھے  کہ رات کو گاڑی خراب ہو گئی تھی انھوں نے  بہت تعاون کیا تھا، راتوں کو لے  کر پھرے  تھے  ابی اس تعلق سے  راجستھانی لوگوں کی شرافت اور انسانیت نوازی کا بہت ذکر کرتے  ہیں ؟

جواب  :احمد بھائی وہ مستری خوش قسمت اور بد قسمت میں ہی ہوں، آج ہی مولانا نے  بتایا کہ آخر جنوری میں فتح پور شیخاوٹی گئے  تھے  بہروڑ سے  گذرے  تو مجھے  یاد آیا کہ ایک بار ہم سردی کی رات میں یہاں سے  گذر رہے  تھے  ہماری ایمبیسڈر گاڑی کی پین بیلٹ خراب ہو گئی تھی، ایک مستری صاحب کو گھر سے  اٹھایا وہ کئی جگہ لے  کر گئے  مگر بیلٹ اس نمبر کی نہ ملی تو انھوں نے  ورک شاپ میں کھڑی گاڑی کی اتار کر دی تھی اور پیسے  لینے  سے  منع کر دیا کہ میں چند پیسوں کے  لئے  راتوں کو دھکے  کھانے  والا نہیں ہوں، میں اس لئے  پھر رہا تھا کہ آپ ہمارے  مہمان ہیں اور انسانیت کے  رشتہ کی وجہ سے  میں نے  آپ کی سیوا کی مولانا کہہ رہے  تھے  کہ ہمارے  ساتھ ہمارے  ایک ساتھی داعی عبدالرشید صاحب تھے  جو ہریدوار کے  رہنے  والے  ہیں ہم نے  پروگرام بنایا تھا کہ عبدالرشید کو وہاں چھوڑیں گے  جتنے  بھی کارخانے  والے  گاڑی کے  ہیں سب کو دعوت دیں گے  تا کہ اس احسان کرنے  والے  تک بات پہنچ جائے  میں نے  کہا اس سردی کی رات میں جب آپ جوس والے  کے  ساتھ آئے  تھے  ہمارے  گھر میں اسپئر پارٹس والے  کے  گھر اس کو لے  کر جو اسٹور پر گیا تھا حضرت صاحب وہ آپ کا چور میں ہی تھا، میرے  مالک نے  آپ سے  کیسے  ملوایا مولانا صاحب کہتے  تھے  کہ اس رات کو دہلی آ کر تہجد میں میں نے  بہت دعا مانگی کہ میرے  اللہ مجھ پر اس محسن کا احسان ہے  کسی طرح اس سے  ملوا دیجئے  اور اس کو ہدایت بھی دیجئے۔میں نے  مولانا صاحب سے  کہا آپ کی اس دعا کی وجہ سے  ہی میں آپ کے  پریم (محبت) کا بندی (قیدی)دس روز سے  گھر پریوار اور ورک شاپ چھوڑ کر دہلی میں پڑا ہوں اور دہلی میں میری پہچان والا بھی کوئی نہیں ہے  بس ارادہ یہ کیا تھا کہ ایک سال بھی رکنا پڑے  گا تو یہاں کسی ورک شاپ میں نوکری کر لوں گا اور مولانا صاحب سے  مل کر جاؤں گا حضرت صاحب محبت سے  سجدہ میں گر گئے  اور فوراً دو رکعت نماز پڑھی بہت دیر تک دعا مانگتے  رہے۔

سوال  :ماشاء اللہ تو وہ مستری صاحب جن کا ابی ذکر کرتے  تھے، آپ ہی ہیں، واقعی کیا اللہ کی شان ہے  اللہ نے  کس طرح ملوایا عبدالرشید بھائی کو گھر بھیجنا بھی نہیں پڑا اب آپ کا کیا ارادہ ہے  ؟

جواب  :پہلے  تو عمر بھائی جو میرے  چھوٹے  بھائی آئی جی ہیں میں ان کو حضرت سے  ملواتا ہوں حضرت نے  اس جوس والے  کو دعوت دینے  کی ذمہ داری مجھے  دی ہے  جو حضرت کو لے  کر میرے  پاس آیا تھا اور گھر والوں پر کام کرنا ہے، میری بیوی اور بچے  تو الحمد للہ مسلمان ہو گئے  ہیں محمد عمر کی بیوی ذرا سخت ہیں آج کل ان کے  گھر میں اسلام پر جھگڑا چل رہا ہے  حضرت صاحب سے  دعا کے  لئے  کہا ہے  انشاء اللہ اب زندگی حضرت صاحب کی مرضی سے  دعوت کے  لئے  گذارنی ہے  اور کوشش کرنی ہے  کہ میرے  والد کی طرح لوگ خود اپنے  گھر والوں کو جلانے  کے  سلسلہ میں ہوش میں آئیں۔

سوال  :ارمغان کے  لئے  کوئی پیغام دیں گے  ؟

جواب  :بس میرے  لئے  دعا کریں اللہ مجھے  خاندانی مسلمانوں کی طرح دوزخ کے  سلسلہ میں بے  حس نہ بنائے  اور میں اپنے  والد کے  زخم کو گلے  لگائے  رکھ کر انسانیت کو آگ میں جلنے  سے  بچانے  کی فکر کروں اور مسلمان بھی اس واقعہ کو ناول یا ڈرامہ نہ سمجھ کر اسے  ایمان و یقین کے  ساتھ سچ جان کر دوزخ میں جانے  والوں کی فکر کریں۔

سوال  :ماشاء اللہ بہت ہی اہم بات آپ نے  کہی بہت بہت شکریہ۔جزاکم اللہ خیر الجزاء  والسلام علیکم

جواب  :و علیکم السلام و رحمۃ اللہ۔

مستفاز از ماہ نامہ ’’ارمغان ‘‘مارچ  ۲۰۱۰ئ

٭٭٭

 

 

 

 

سلمان صدیقی  {ارون کمار} سے  ایک ملاقات

 

احمد اوّاہ  :   السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سلمان صدیقی:  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ

سوال  :جناب سلمان صاحب خوشی ہوئی، آپ تشریف لے  آئے، ابی فرما رہے  تھے  کہ اس بار کسی بالکل نووارد کا انٹر ویو ارمغان میں آنا چاہئے، بلکہ کئی بار یہ بھی فرمایا کہ ہریدوار جا کر ہی میں آپ سے  باتیں کروں، اصل میں مجھے  ہریدوار جانا بھی تھا اور کچھ عرصہ سے  گایتری سماج کے  مرکز شانتی کنج سے  لوگ رابطہ کر رہے  ہیں وہ ابی کو وہاں بلانا چاہتے  ہیں۔ پچھلے  دنوں رامپور میں ایک پروگرام میں ابی کو بلا یا گیا تھا تب سے  تو بار بار ان کے  فون آتے  ہیں، ابی یہ فرما رہے  تھے  کہ ایک دو بار تم ہو آو، اللہ نے  آپ کو بھیج دیا ؟

جواب  :مجھے  حضرت صاحب سے  ملنے  کی بہت بے  چینی تھی، پچھلے  ہفتے  ہم لوگ آئے  تھے  مگر ہماری گاڑی خراب ہو گئی تھی، مستری کے  یہاں دیر ہو گئی اور ہمارے  آنے  سے  آدھا گھنٹہ پہلے  حضرت صاحب نکل گئے  تھے، شاید ہمارے  اندر کوئی کھوٹ ہو گا کہ ملاقات نہیں ہو سکی، آج تو میں نیت کر کے  آیا تھا کہ بس مل کر جاؤں گا، چاہے  چند دن کے  بجائے  چند سال پھلت میں پڑا رہنا پڑے، اللہ کا شکر ہے  کہ آتے  ہی ملاقات ہو گئی۔

سوال  :ابی نے  آپ کو شاید بتا ہی دیا ہو گا کہ ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین ’’ ارمغان‘‘ نکلتا ہے  اس میں اسلام میں آئے  نئے  لوگوں کے  حالات شائع کئے  جا رہے  ہیں، اس کے  لئے  آپ سے  بھی کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

جواب  : جی ہاں ابھی ابھی حضرت صاحب بتا کر گئے  ہیں، مگر میں سوچتا ہوں کہ میں ایک مہینہ سے  بھی کم دنوں کا مسلمان ہوں،  میں کیا میری کہانی ہی کیا ؟حضرت صاحب نے  کہا کہ نہیں آپ ضرور حالات سنائیں، دوسرے  لوگوں کے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بنے  گا تو آپ کو بھی ثواب ملے  گا۔

سوال  : جی بالکل یہی بات ہے۔آپ اپنا خاندانی(پریچے ) تعارف کرائیے ؟

جواب  :  میں بریلی ضلع کے  ایک چھوٹے  سے  گاؤں کے  برہمن پریوار میں ۲/جنوری ۱۹۵۳ء میں پیدا ہوا، میرا نام میرے  پتا جی(والد صاحب)نے  ارون کمار مشرا رکھا۔ میرے  والد ایک جونئیر ہائی اسکول کے  ہیڈ ماسٹر سے  ریٹائر ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی اسکول ہی میں ہوئی، کچھ روز میں اپنے  چاچا کے  یہاں جن کے  کوئی اولاد نہیں تھی، احمد نگر مہاراشٹر میں رہا، وہاں سے  میں نے  گریجویشن کیا، سائکالوجی میں ایم اے  اور پی ایچ ڈی کیا، اور روہیلکھنڈ یونیورسٹی میں لیکچرر ہوا، بعد میں ریڈر اور پروفیسر بن گیا، شادی ایک سیاست سے  جڑے  خاندان میں ہوئی، میرے  سسر یوپی کے  بہت سرگرم سیاسی لیڈر ہیں، بلکہ لیڈروں کے  لیڈر ہیں، وہ مجھے  راج نیتی (سیاست) میں لانا چاہتے  تھے  اس کی وجہ سے  مزاج نہ مل سکے  اور پریوارِک(خاندانی) زندگی ناخوشگوار رہی اور یہی بات میرے  لئے

سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سنیاس لینے  کا ذریعہ بن گئی۔

سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے۔

جواب  :  ۲۰۰۲ء میں میں نے  نوکری سے  استعفا دے  کر سنیاس اختیار کر لیا اور ہریدوار چلا گیا، ایک کے  بعد ایک آشرم میں شانتی کو تلاش کرتا رہا، بڑی تپسیا کی، بڑے  بڑے  جاپ کئے، مگر شانتی اور سکون کہیں نہیں ملا، جہاں جاتا قریب لگنے  کے  بعد ایسا لگتا کہ دھرم (مذہب) ایک پروفیشن ہے، ایک کاروبار ہے، ایک دھندہ ہے، میرا حال بھی کبھی لگتا تھا کہ نمک کی کان میں جو گیا نمک ہو گیا، میں نے  بھی ایک آشرم بنا لیا’’ شانتی ون آشرم‘‘ کے  نام سے، مگر روڈ ہی الٹی ہو تو منزل کہاں مل سکتی ہے، منزل پر پہونچنے  کے  لئے  راستہ کا صحیح ہونا ضروری ہے، بے  چینی اور بے  یقینی بڑھ جاتی، کبھی کبھی دل میں آتا کہ واپس پریوارک جیون میں چلا جاؤں، مگر آشرم کے  بندھنوں سے  بندھ گیا تھا چھوڑ نہ سکا، کئی بار آشرم کو بیچنے  کی بات بھی ہوئی، چند مہینے  پہلے  بالکل سودا ہو گیا تھا، مگر ساتھیوں نے  مشورہ دیا کہ مہا کنبھ آ رہا ہے  اس کے  بعد بیچ دینا، مہا کنبھ سے  پہلے  میں نے  پورے  ہریدوار اور رشی کیش کا حال دیکھا   جیسے  کسی کاروباری سیزن سے  پہلے  دوکاندار اپنے  گاہکوں کو رجھانے  اور للچانے  کی تیاری کرتے  ہیں، اس طرح میں نے  ہر جگہ دیکھا، مہا کنبھ کے  لئے  سب آشرموں میں تیاری میں بہت خرچ کیا گیا تھا، مگر پولیس نے  بھیڑ سے  بچنے  کے  لئے  آتنک واد (دہشت گرد ی ) کا ہوّا بٹھا دیا، لوگ ڈر کی وجہ سے  نہیں آئے، بار بار پولیس نے  کہیں کوئی بیگ پھینک کر، کبھی کوئی چیز رکھ کر افواہ بھی پھیلا دی، آشرم والوں اور دھارمک گرووں نے  بہت صفائی بھی کی کہ پولس کا پروپیگنڈہ ہے، مگر لوگ امید سے  دسواں حصہ بھی نہ آئے، فورس اس قدر لگائی گئی تھی کہ شردھالو(زائرین ) دیکھ کر خود بھی سہم جاتے  کہ ضرور کوئی خطرے  کی بات ہے، سارے  آشرموں میں بہت مایوسی کا ماحول تھا، اتنا خرچ کیا گیا تھا اور چڑھا وا کچھ بھی نہیں، میں چونکہ سائکالوجی میرا سبجیکٹ(مضمون) رہا ہے  اپنے  فن سے  پورے  سسٹم(نظام)کو دیکھتا تو اس قدر جھلا جاتا کہ مذہب کے  نام پر یہ دھندا، کبھی میں اپنی انتر آتما (ضمیر) سے  لڑتا اور سوچتا کہ چھوڑ کر چلا جاؤں۔

مہا شیو راتری سے  ایک روز پہلے  میں ایک بڑے  آشرم میں ایک بڑے  دھرم مہا گرو کے  یہاں گیا، میں نے  وہاں پر جو کاروباری حال دیکھا تو میرا دل اس دھندے  سے  بالکل بد دل ہو گیا، جب دھوکا دینا ہی ہے  تو لیڈر بن کر ہی کرنا چاہئے، دھرم کے  نام پر یہ دھندہ تو بہت ہی شرم کی بات ہے، مجھے  خود اپنے  حال پر شرمندگی ہوئی، اس سے  اچھا تھا کہ گھر والوں کے  ساتھ رہتے، اپنے  بچوں اور گھر والوں کی سیوا کرتے  تو شاید مالک مل جاتا، رات کو دیر تک مالک سے  شکایت کرتا رہا، بار بار آنسو آتے  رہے، میرے  مالک آپ کو تلاش کرنے  میں سب کچھ چھوڑ کر آیا مگر تو اور بھی زیادہ پردہ میں ہے، شاید اس علاقہ میں آپ کو ڈھونڈنا تو اونٹ کو چھت پر ڈھونڈنا ہے، دیر تک نیند نہیں آئی، دو بجے  آنکھ لگی تو سپنا دیکھا حضرت محمد ﷺ تشریف لائے، سفید، بالکل سفید کپڑے، بہت ہی خوبصورت چہرہ، نور ہی نور، چہرے  کے  چاروں طرف جیسے  چاند کا گھیرا، میں نے  آشیرواد کے  لئے  سر جھکایا تو میری کمر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا پنڈت جی اگر ستیہ (سچ )کی تلاش ہے  تو جوالا پور جا کر مفتی یوسف سے  ملئے، آنکھ کھلی تو پانچ بج رہے  تھے، اٹھا اشنان وغیرہ کیا، ناشتہ کیا، دھلے  کپڑے  پہنے  اور آشرم میں اپنے  سادھووں سے  جوالا پور کا راستہ معلوم کیا، تو معلوم ہوا کہ بالکل پاس ہے، نو بجے  صبح بس اسٹینڈ پر پہونچا تو دیکھا چار پانچ مولانا صاحب بس سے  اترے، میں نے  ان میں سے  جوان میں بڑے  لگ رہے  تھے  معلوم کیا کہ آپ لوگ کہاں سے  آئے  ہیں ؟ بولے  جوالا پور سے، میں نے  کہا :وہاں پر کوئی مفتی یوسف صاحب ہیں ؟وہ چونک کر بولے  آپ ان کو کیسے  جانتے  ہیں ؟میں نے  اپنا پورا تعارف کرایا اور اپنا رات کا حال اور خواب بتایا، وہ بولے  کہ میرا نام محمد یوسف ہے  اور میں مفتی ہوں، مگر میں جوالا پور کے  پاس ایک گاؤں کا رہنے  والا ہوں، میرے  علاوہ اس علاقہ میں مفتی یوسف کہلایا جانے  والا کوئی آدمی نہیں ہے، رات میں نے  ساتھیوں سے  مشورہ کر کے  پروگرام بنا یا تھا کہ ہمارے  حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب کہتے  ہیں کہ سچائی کی تلاش میں آئے  کتنے  مخلص لوگ ہیں جو اللہ کو اور سچے  راستے  کو تلاش کرتے  ہیں ان کا حق ہے  کہ ہم حق ان تک پہنچائیں، تو مہا کنبھ میں ہم کو جانا چاہئے، رات کو میرے  ساتھ یہ چار ساتھی تیار ہو گئے  اور صبح کتابیں لے  کر یہاں آئے  ہیں، آپ سچ کو واقعی تلاش رہے  ہیں تو ہمارے  حضرت کی کتاب پڑھئے  اور انہوں نے  ہمیں ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ کتاب دی کہ آپ اس کو پڑھئے  آپ ہم سے  ملنے  جا رہے  تھے، مالک نے  آپ کے  پاس خود ہمیں سچ لے  کر بھیج دیا، میں نے  وہ کتاب لی اور بس اسٹینڈ پر ایک بینچ پر بیٹھ کر وہ کتاب پڑھنا شروع کی، سیدھے  سادے  انداز میں اندر کی سچائی کے  ساتھ لکھی گئی یہ کتاب پڑھ کر مجھے  ایسا لگا کہ میرے  مالک نے  میری فریاد سن لی اور جس سچ کی مجھے  تلاش تھی وہ مجھے  مل گیا، میں نے  مفتی صاحب سے  کہا کہ مجھے  مولانا صاحب کے  پاس لے  چلو مفتی صاحب نے  فون ملانے  کی کوشش کی، مگر فون نہ مل سکا، میں نے  ان لوگوں کو اپنے  آشرم چلنے  کے  لئے  کہا، انہوں نے  کہا کہ آدھے  گھنٹے  کے  بعد ہم خود آ جائیں گے، میں نے  ان کو پتہ بتایا اور اپنے  ایک ساتھی کو ان کے  ساتھ چھوڑ کر آشرم میں ناشتے  کی تیاری کے  لئے  آ گیا، آدھے  گھنٹے  بعد وہ آ گئے  اور بولے  حضرت صاحب ممبئی سفر پر ہیں، آپ ان سے  بات کر لیجئے، فون ملایا، مولانا صاحب سے  میری بات ہوئی، میں نے  کہا، مجھے  آپ کی کتاب پڑھنے  میں اتنا آنند آیا تو آپ سے  بھینٹ کرنے  (ملنے  میں ) کتنا آنند (مزہ)آئے  گا، حضرت صاحب نے  کہا نہ میری کتاب میں وہ مزہ ہے  نہ مجھ سے  بھینٹ میں، بس مزہ تو اپنے  مالک کا سورگ (جنت میں ) درشن کرنے  (دیدار) میں آئے  گا، اور وہ، پنڈت جی بغاوت سے  توبہ کر کے  مالک کے  آخری اور مکمل قانون کا حلف لئے  بغیر نہیں ہو سکتا، پھر مولانا صاحب نے  ایمان لائے  اور کلمہ پڑھے  بغیر انسان کتنے  خطرے  میں ہے، اس کے  بارے  میں بتایا اور مجھے  فوراً کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا، میں نے  کہا کہ ہم پھلت آنا چاہتے  ہیں آپ ہمیں وقت دے  دیں، مولانا صاحب نے  اپنے  سفر کے  بارے  میں بتایا اور مجھے  بہت زور دے  کر فوراً مفتی یوسف صاحب سے  کلمہ پڑھنے  کو کہا، پہلے  تو میں پھلت آ کر ہی کلمہ پڑھنے  کو کہتا رہا مگر بعد میں میں تیار ہو گیا، مفتی صاحب مجھے  کلمہ پڑھوانے  لگے  تو مجھے  یہ خیال ہوا کہ ان کے  پیر صاحب سے  ہی کلمہ پڑھنا چاہئے، میں نے  مفتی صاحب سے  یہ بات کہی، مفتی صاحب نے  پھر فون ملایا اور بتایا کہ یہ آپ سے  ہی کلمہ پڑھنا چاہ رہے  ہیں، حضرت صاحب نے  کہا کہ بات کرائیے، میں نے  بات کی تو حضرت صاحب نے  فون پر کلمہ پڑھنے  کے  لئے  کہا اور زور دے  کر مجھے  راضی کیا، فون پر کلمہ پڑھوایا اور پھر ہندی میں ترجمہ بلکہ ذرا تفصیل سے  عہد کرایا، مجھ سے  فرمایا کہ نام بدلنا کوئی ضروری نہیں لیکن اچھا ہے  کہ آپ کوئی اسلامی نام پسند کر لیں، میں نے  مفتی صاحب سے  کہا کہ حضرت صاحب ہی میرا نام رکھیں تو اچھا ہے، حضرت نے  فون پر بتایا کہ پرانی مذہبی کتابوں کے  عالم حضرت سلمان فارسی تھے  اس نام کی برکت حاصل کرنے  کے  لئے  اگر ان کا نام سلمان مشرا رکھ دیا جائے  تو اچھا ہے، میں نے  کہا مشرا و ِشرا چھوڑئیے  بس پورا سلمان فارسی رکھ دیجیے، حضرت صاحب نے  کہا کہ فارسی تو ایران کا رہنے  والا ہونے  کی وجہ سے  ان کے  نام میں لگتا ہے، آپ سلمان بریلوی رکھ لیں میں نے  کہا کلیم صدیقی کی طرح اگر سلمان صدیقی رکھیں تو کیسا ہے  ؟حضرت صاحب نے  کہا آپ نے  سچے  دل سے  تصدیق کی ہے، آپ صدیق نام رکھ سکتے  ہیں، میں نے  کہا بس سلمان صدیقی بہت پیارا نام ہے۔

سوال  :بہت خوب، اس کے  بعد کیا ہوا  ؟

جواب  :حضرت صاحب سے  فون پر بات ہوتی رہی، مفتی صاحب ہمارے  آشرم میں ہی رہ رہے  ہیں اور اللہ کے  شکر سے  جماعت سے  نماز ہو رہی ہے، ساری مورتیاں ایک ایک کر کے  نکال دی گئی ہیں، میں حضرت صاحب سے  ملنے  کے  لئے  بے  چین تھا، ایک ہفتے  پہلے  بھی آیا تھا، آج ملاقات ہو گئی، حضرت صاحب نے  گھر والوں کو ہریدوار بلانے  یا خود بریلی جانے  کے  لئے  کہا ہے   کچھ روز پھلت آ کر ذکر وغیرہ کرنے  کا بھی مشورہ دیا ہے ، حضرت صاحب کے  مشورے  سے  پھلت میں،  یا حضرت صاحب کہہ رہے  تھے  کہ ان کے  پیر صاحب کی جگہ تو رائے  پور ہے، سہارنپور ضلع میں، وہاں جا کر چند ماہ رہوں گا، ابھی تو ہم لوگ مہا کنبھ میں رہیں گے  تاکہ سچ کی تلاش میں بری طرح بھٹکنے  والے  لوگوں کو تلاش کر کے  ان پر ہو رہے  ظلم سے  ان کو نکالیں۔

سوال  :ابھی تک کچھ اور لوگوں پر آپ لوگوں نے  کام کیا ہے  ؟

جواب   :اللہ کا شکر ہے۔ ابھی ہم لوگ آشرم ہی میں رہ رہے  اور کام کر رہے  ہیں۔

سوال  :ابی بتارہے  تھے  کہ آپ نے  بڑے  اچھے  اچھے  خواب دیکھے  ہیں ؟

جواب   :الحمدللہ میں نے  سات بار اپنے  پیارے  نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، ایک بار میں نے  سو لوگوں کو اللہ کے  رسول ﷺ کے  سامنے  لے  جا کر خواب میں کلمہ پڑھوایا، جن میں گایتری سماج کے  تین بڑے  لوگ بھی تھے، اللہ کرے  اس کی سچی تعبیر جلد سامنے  آئے۔

سوال  : آپ نے  اپنے  گھر پر کچھ بات کی، یعنی بریلی میں ؟

جواب   : ہاں میں نے  حضرت صاحب سے  ملنے  کے  بعد پھلت سے  اپنی بیوی کو فون ملایا، وہ بہت رو رہی تھی، جب میں نے  بتایا کہ ایک بڑے  دھرم گرو اور صوفی یہاں، یہاں صوفی سنتوں کی  مہان بستی پھلت میں رہتے  ہیں، انہوں نے  مجھے  آشرم چھوڑ کر گھر میں بال بچوں کے  ساتھ رہنے  کا حکم دیا ہے  اور جلد ہی میں آنے  والا ہوں، آٹھ سال کے  بعد وہ یہ سن کر بس پاگل سی ہو گئی، بولی مجھے  ان دھرم گرو اور صوفی جی کا پتہ ضرور بتائیں تاکہ میں بھی ان کی شرن میں آ جاؤں اور ان سے  آشیرواد لوں، میں ضرور اپنے  تینوں بچوں کے  ساتھ ان کے  یہاں آؤں گی۔

سوال  : ماشاء اللہ آپ کا مسئلہ تو حل ہو اسا لگتا ہے۔

جواب   : جی مجھے  بھی ایسا ہی لگ رہا ہے  وہ تو حضرت سے  اتنا متاثر ہو گئی ہے  کہ لگتا ہے  پہلی مرتبہ کہنے  سے  کلمہ پڑھ لے  گی۔

سوال  :آپ مسلمانوں کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے  ؟

جواب  :  مسلمانوں کوہی نہیں بلکہ ہر انسان کو میرا یہ پیغام ہے  کہ جو بھی سچی آتما کے  ساتھ حق کو تلاشتا ہے  اس کو حق ملتا ہے  اور حق کو تلاش کرنے  والے  ہر غلط راہ پر بھٹکتے  رہتے  ہیں، مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے  کہ انسانوں کو غلط راستے  پر چلتے  دیکھ کر ان سے

نفرت کرنے  کے  بجائے  نر می کے  ساتھ ان کی رہنمائی کریں۔

سوال  :بہت بہت شکریہ سلمان صدیقی صاحب، اللہ تعالی آپ کی حقیقی صدیقیت کا کوئی حصہ ہم رسمی اور بدنام کرنے  والے  لئے  نسبی صدیقیوں کو بھی نصیب فرمائے۔

جواب   :آپ شرمندہ کر رہے  ہیں۔

ماخوذ از ماہنامہ ارمغان اپریل  ۲۰۱۰ء

٭٭٭

تشکر ادارہ ماہنامہ ’ارغوان‘ اسور جناب عمر کیرانوی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید