فہرست مضامین
نسیم ِ بندگی
رمضان مبارک کے موقع پر تقاریر کا مجموعہ
مرتبہ: نسیم عباس نسیمی
1
دعائے مکارم الاخلاق کا ایک اقتباس: حسب معمول فرزند رسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق کا ایک اقتباس۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
بار الہا: اپنی محبت اور دوستی تک پہنچنے کے لیے میرے لیے آسان راستہ کھول دے اور اس کے ذریعے میرے لیے دنیا و آخرت کی نیکیوں کو کامل کر دے۔
انسانوں اور حیوانوں کے وجود کے اندر محبت، کہکشاؤں اور اجرام فلکی میں قوت جاذبہ کی مانند ہے۔ جس طرح قوت جاذبہ، خلقت کے عظیم مجموعہ اور کائنات کے چھوٹے اور بڑے اجرام کے درمیان نظم و انضباط کا باعث ہے اسی طرح دوستی اور محبت بھی مخلوق اور موجودات ہستی کی بقا کا ایک مؤثر سبب ہے۔
مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دل میں دین اور مومنین سے محبت کا بیج بوئیں اور انہیں تمام مومن اور پاک طینت انسانوں کا دوستدار بنائیں۔ تمام محبتوں میں سرفہرست خدا، اس کے رسول اور اہلبیت رسول علیہم السلام کی محبت ہے۔ ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کس طرح دوسروں کو خدا کا دوست بنایا جا سکتا ہے اور محبت الہی ان کے وجود کی گہرائیوں میں پیدا کی جا سکتی ہے ؟
اس سوال کا جواب فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث میں دیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: خداوند متعال نے حضرت موسی علیہ السلام پر وحی کی:
مجھے دوست رکھو اور لوگوں کو بھی میرا دوستدار بناؤ۔ حضرت موسی نے عرض کیا: بار الہا! تو جانتا ہے کہ کوئی بھی میرے نزدیک تجھ سے زیادہ محبوب نہیں ہے لیکن میں لوگوں کے دلوں پر کس طرح اثر ڈال سکتا ہوں اور انہیں تیرا دوستدار بنا سکتا ہوں ؟ خدا نے اس کے جواب میں وحی کی: لوگوں کو میری نعمتوں کی یاد دہانی کراؤ، میری عطا کردہ نعمتوں پر جب وہ توجہ دیں گے تو مجھے خیر اور بھلائی کے سوا اور کسی طرح یاد نہیں کریں گے۔
انسان اس کو دوست رکھتا ہے جو اس پر احسان کرتا ہے۔ اگر لوگ متوجہ ہو جائیں کہ ان کی زندگی صحت و سلامتی، جسمانی طاقت، روزی غرضیکہ ان کو حاصل تمام نعمتیں ذات پروردگار کی جانب سے ہیں تو وہ اس کے دوستدار بن جائیں گے اور اسے صرف نیکی و اچھائی سے یاد کریں گے۔
لیکن ہم کس طرح جان سکتے ہیں کہ ہم خدا کے دوستدار ہیں یا نہیں ؟ قرآن کریم نے سورۂ آل عمران کی آیۃ اکتیس میں اس سوال کا جواب دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دیجیے اگر تم خدا کے دوستدار ہو تو میری پیروی کرو خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشے والا اور مہربان ہے۔
اس آیۃ سے استفادہ ہوتا ہے کہ رسول خدا کی پیروی، خدا سے محبت کی نشانی ہے۔ یہ پیروی انسان کو خدا کا محبوب بناتی ہے اور اس کے گناہ مہربان پروردگار کے دامن عفو و بخشش میں جگہ پا کر دھل جاتے ہیں۔
حضرت امام زین العابدین دعائے مکارم الاخلاق کے دوسرے جملے میں خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں : بار الہا! محبت کے گرانبہا سرمائے سے دنیا و آخرت کی نیکی و بھلائی کو میرے لیے کامل کر دے۔
محبت الہی کا نمایاں ترین اثر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اتباع اور دین اسلام کی پیروی ہے۔ اسلام ایک جامع اور کامل دین ہے کہ جس میں دنیا و آخرت کی تمام اچھائیاں اور نیکیاں موجود ہیں۔ اگر کوئی خدا کی محبت میں رسول اسلام (ص) کا اتباع کرے اور قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرے کہ جس میں اسلام کے احکام موجود ہیں تو وہ دنیا و آخرت کی نیکیوں کو پا لے گا۔
٭٭
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حسب معمول اپنی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے اصحاب آپ کے ارد گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ سنت اسلامی کے مطابق جو شخص بھی چاہے وہ جس مقام منصب پر بھی ہو جب مجلس میں داخل ہو تو جہاں بھی جگہ خالی ہو اسے وہیں بیٹھ جانا چاہیے اور اپنے مقام و مرتبے کی بنیاد پر بہتر جگہ پر نظر نہیں رکھنی چاہیے۔ اس دوران ایک غریب مسلمان پیغمبر اسلام کی مجلس میں داخل ہوا اس نے ایک نظر ارد گرد دیکھا تو اسے ایک جگہ خالی نظر آئی۔ وہ اپنے بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ جا کر وہاں بیٹھ گیا۔ اتفاق سے ایک دولت مند شخص بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اس غریب آدمی کو اپنے قریب دیکھ کر اپنے کپڑے سمیٹے اور خود کو اس غریب آدمی سے تھوڑا دور کر لیا۔ رسول اکرم (ص) یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت نے اپنا رخ اس امیر آدمی کی طرف کیا اور اس سے فرمایا:
کیا تم ڈر گئے تھے کہ اس کی غربت تم تک نہ پہنچ جائے ؟
اس نے جواب دیا : نہیں یا رسول اللہ
پیغمبر اسلام نے پھر پوچھا: کیا تم ڈر گئے تھے کہ تمہاری دولت میں سے کچھ حصہ اس تک نہ چلا جائے ؟
اس شخص نے کہا : نہیں یا رسول اللہ
پیغمبر اکرم نے فرمایا: تو پھر تم ڈر گئے تھے کہ کہیں تمہارا لباس گندا نہ ہو جائے ؟
اس امیر شخص نے جواب دیا: نہیں یا رسول اللہ
پیغمبر اسلام نے پھر اس سے پوچھا کہ پھر تم نے اپنا لباس کیوں سمیٹا اور اس سے دور کیوں ہو گئے ؟
اس دولت مند شخص نے شرمندگی سے جواب دیا: میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھ سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور میں نے خطا کی ہے میں اپنی اس غلطی کے ازالہ اور گناہ کے کفارہ کے طور پر اپنی نصف دولت اور جائیداد اپنے اس مسلمان بھائی کو دینے پر تیار ہوں۔
یہ سن کر اس غریب آدمی نے کہا : لیکن میں اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہوں۔
لوگوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم کیوں اسے قبول نہیں کر رہے ہو۔
اس شخص نے جواب دیا: کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کسی دن میں بھی غرور کا شکار نہ ہو جاؤں اور اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں جیسا آج اس شخص نے میرے ساتھ کیا ہے۔
٭٭٭
2
پروگرام کے اس حصے میں ہم امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی اپنے فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام کو وصیت کا اقتباس پیش کر رہے ہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
جو شخص اپنے حق سے تجاوز کرتا ہے وہ مشکل میں گرفتار ہوتا ہے اور جو اپنے حق پر اکتفا کرتا ہے تو اس کی حیثیت زیادہ پائیدار ہو گی۔ مطمئن ترین وسیلہ جسے تم حاصل کر سکتے ہو یہ ہے کہ اپنے اور اپنے خدا کے درمیان رابطہ برقرار کرو۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے کو کی گئی اس وصیت میں اس بات کی یاد دہانی کرا رہے ہیں کہ جو شخص اپنے حق سے تجاوز کرتا ہے وہ مشکل میں گرفتار ہوتا ہے، کیونکہ حق کا راستہ وسیع صاف اور نورانی ہے۔ لیکن باطل کا راستہ سنگلاخ، پر پیچ و خم اور تنگ و تاریک ہے۔ جو لوگ راہ حق پر چلتے ہیں وہ تیزی سے منزل کی طرف سفر کرتے ہیں کیونکہ عالم ہستی حق کے راستے پر گامزن ہے اور جو بھی اس سے ہم آہنگ ہو تو وہ اسی راستے پر حرکت کرے گا۔ لیکن باطل کے راستے کا طے کرنا پانی کے تیز بہاؤ کی مخالف سمت میں تیرنے کی مانند ہے۔
اس کے علاوہ راہ حق ایک ایسی سڑک ہے کہ جہاں پر جگہ جگہ رہنمائی کے لیے سائن بورڈ نظر آتے ہیں جو اس راستے پر چلنے والوں کو راستے کی صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں لیکن باطل کے راستے میں یہ تمام چیزیں نہیں ہیں اور اسی بنا پر اس راستے پر چلنے والا گمراہی سے دوچار کر بھٹک جاتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ اپنے حق پر اکتفا کرو کہ اسے تمہاری حیثیت زیادہ پائیدار ہو گی۔ اسی سے ملتا جلتا آپ کا ایک جملہ کتاب غرر الحکم میں بھی موجود ہے جس میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا اس پر رحمت کرے جو اپنے حق کو پہچانے اور اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔
تجربے نے یہ بتایا ہے کہ جو لوگ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلاتے وہ لوگوں کو اپنے خلاف شورش پر ابھارتے ہیں اور لوگ نہ صرف ان کے ناحق اور جاہ طلبانہ مقام و منصب کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے شایان شان مقام کو بھی ان سے چھین لیتے ہیں۔ لیکن وہ سچے، صادق اور قناعت پسند انسان کو اچھا اور نیک سمجھتے ہیں اور ہمیشہ اس کا احترام کرتے ہیں۔
٭٭٭
3
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا مکارم الاخلاق: امام سجاد علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں دست دعا بلند کر کے عرض کرتے ہیں :
بار الہا! میری عزت کے اسباب فراہم کر اور مجھے تکبر میں مبتلا نہ کر۔
عزت بلندیِ روح کی حالت کا نام ہے کہ جو انسان کو خدا کے سوا کسی بھی طاقت کے سامنے مغلوب نہیں ہونے دیتی اور نہ ہی اسے ذلت سے دوچار ہونے دیتی ہے۔ جو لوگ مال جمع کرنے، یا مقام و مرتبہ حاصل کرنے، یا دوسروں کے مال پر نظر رکھنے یا نفسانی خواہشات کی وجہ سے مغلوب اور ذلیل ہیں اور اپنی شخصیت کھو دیتے ہیں تو وہ ذلیل ہیں۔ کیونکہ وہ ان شیطانی کے سامنے شکست کھا کر ذلیل و رسوا ہو گئے ہیں۔ عزت اس آزاد انسان کے لیے ہے کہ جو کسی بھی نفسانی خواہش کااسیر نہ ہو اور شرافت و سربلندی سے زندگی بسر کرے۔ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ حجاز کے جنوب مغرب میں واقع نجران کے مسیحی دولت مند اور متمول تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں خط لکھا اور دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ مذاکرات اور بحث و گفتگو کے لیے ایک وفد مدینہ بھیجیں گے۔ وفد جب مدینہ کے قریب پہنچا تو انہوں نے آپس میں تبادلۂ خیال کیا اور کہا کہ مسلمان بے چارے اور غریب لوگ ہیں اگر ہم اچھے اور مہنگے لباس اور قیمتی زیورات کے ساتھ مسلمانوں سے ملیں گے تو وہ ہماری امیرانہ شان دیکھ کر مرعوب ہو جائیں گے اور ہمیں عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور یہی چیز ہماری کامیابی کا باعث بن جائے گی۔ انہوں نے بہترین اور مہنگے لباس زیب تن کیے اور سونے و جواہرات سے اپنے آپ کو مزین کیا۔ جب یہ لوگ شہر میں داخل ہوئے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور غریب نہ صرف انہیں دیکھ کر مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان سے بے اعتنائی برتی جو خود مسیحیوں کے لیے حقارت اور بے عزتی کا باعث بنی۔ یہ بے اعتنائی اور بے توجہی اسلام کی تعلیمات اور اعلی تربیت کا نتیجہ تھی۔ مسلمانوں کے اس رویے سے نجران کے مسیحیوں نے جان لیا کہ غریب لیکن عزت دار مسلمان ظاہری دولت اور چمک دمک سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں اور اسلام انہیں حقیقی عزت و سربلندی کا درس دیتا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام خداوند متعال سے عزت کی درخواست کرنے کے بعد عرض کرتے ہیں کہ پروردگارا ! مجھے تکبر میں کہ جو خطرناک اخلاقی برائیوں میں سے ہے، مبتلا نہ کر۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عزت نفس اور تکبر کے درمیان کوئی رابطہ اور تعلق موجود ہے کہ امام علیہ السلام عزت نفس کی درخواست کے بعد تکبر میں مبتلا نہ ہونے کی دعا کر رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے عزت نفس بعض افراد کے اندر اپنی حدود سے تجاوز کر جائے اور انسان کو تکبر سے دوچار کر دے اور وہ انسان دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور انہیں بہت ہی حقیر جانے۔
بلاشبہ عزت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ اس کے ساتھ تکبر ہوتا ہے۔ عزت نفس تواضع اور انکساری کے ساتھ جچتی اور خوبصورت لگتی ہے۔ ایک تواضع اور انکساری کا حامل شخص لوگوں میں صاحب عزت اور ہر دلعزیز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ تواضع اور انکساری معاشرے میں اس انسان کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کرتی ہے، تواضع اور انکساری سے کام لیجیے تاکہ خداوند متعال کی رحمت آپ کے شامل حال ہو۔
لیکن پسندیدہ تواضع اور انکساری یہ ہے کہ متواضع انسان کی عزت کو نقصان نہ پہنچائے اور اس کی ذلت و رسوائی کا باعث نہ بنے۔ مثلاً اگر ہم سلام کرنے میں پہل کریں، محفلوں میں کسی توقع کے بغیر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں جو ہمارے شایان شان نہ ہو یا بحث کرنے میں لڑائی جھگڑے سے گریز کریں اگرچہ حق ہمارے ساتھ ہو، تو یہ تواضع ہے۔ لیکن اگر کوئی تواضع کے نام پر خود کو حقیر کرے یا دوسروں کی خوشامد و چاپلوسی میں زبان کھولے تو یہ اچھی بات نہیں سمجھی جاتی ہے۔ البتہ متواضع شخص کو خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی تواضع اور انکساری ذلیل و رسوائی میں نہ بدل جائے اور وہ پستی کا شکار نہ ہو جائے ۔
٭٭
ایک اخلاقی فضیلت کہ جس کا انسان کی تعمیر میں انتہائی اہم کردار ہے، رفتار و گفتار میں صداقت و سچائی ہے۔ چونکہ انسان اپنی ضروریات کی وجہ سے سماجی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس لیے جو چیز ایسی زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے، معاشرے کے افراد کے درمیان صداقت و سچائی ہے۔ اس بنا پر اگر انسان کے تمام کاموں کی بنیاد صداقت و سچائی پر استوار ہو اور وہ ہر قسم کے جھوٹ اور غلط کاموں سے مبرا ہو تو انسان اور معاشرے کی خوش بختی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ :
ایک لڑکا بغداد شہر کے سفر کے لیے تیاری کر رہا تھا تاکہ وہاں درس پڑھے اور علم حاصل کرے۔ اس کی ماں نے اسے خرچ کرنے کے لیے چالیس دینار دیے۔ اس کے بعد اس سے کہا کہ میرے بیٹے مجھ سے وعدہ کرو کہ کبھی بھی تم جھوٹ نہیں بولو گے۔ بیٹے نے ماں سے وعدہ کر لیا کہ وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ پھر وہ لڑکا قافلے کے ساتھ سفر پر نکل پڑا۔ راستے میں ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور سب لوگوں سے مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے بعد ایک ڈاکو اس لڑکے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس بھی کوئی پیسے ویسے ہیں۔ لڑکے نے جواب دیا میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ ڈاکو ہنسا اور اس نے خیال کیا کہ لڑکا مذاق کر رہا ہے یا پاگل ہے۔ وہ اسے لے کر اپنے سردار کے پاس گیا اور اس سے ماجرا بیان کیا۔ تلاشی لینے پر لڑکے سے چالیس دینار برآمد ہوئے ۔ ڈاکوؤں کے سردار نے کہا کہ اے لڑکے تجھے کس چیز نے سچ بولنے پر مجبور کیا۔ لڑکے نے کہا میں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا ہے کہ میں ہمیشہ سچ بولوں گا اب میں اپنا وعدہ نہیں توڑ سکتا۔ لڑکے کی اس بات کا ڈاکوؤں کے سردار پر بہت اثر ہوا اور اس نے کہا کہ تم نے اپنے پیسوں کے بارے میں بتا دیا تاکہ تم نے اپنی ماں سے جو وعدہ کیا تھا وہ نہ ٹوٹنے پائے اور میں اپنے خدا سے کیے گئے وعدے بھی توڑ رہا ہوں اور اس سے ڈرتا بھی نہیں ہوں۔ اس کے بعد ڈاکوؤں کے سردار نے قافلے سے لوٹا ہوا تمام مال واپس کرنے کا حکم دیا۔ پھر اس نے لڑکے کی طرف رخ کر کے کہا کہ میں تیرے ان چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی وجہ سے خداوند بزرگ و برتر کی آغوش میں واپس جا رہا ہوں اور میں توبہ کرتا ہوں۔ دیگر ڈاکوؤں نے بھی اپنے سردار سے کہا کہ تو رہزنی اور ڈکیتی میں ہمارے سردار تھے اور آج پروردگار عالم کی جانب واپسی میں بھی ہمارے سردار ہو۔ اس کے بعد سب نے توبہ کر لی۔
٭٭
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی نصیحت کے کچھ اقتباسات: امام علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
گزشتہ کے احوال اور خبروں کو ذہن میں لاؤ کہ ان کے ساتھ کیا پیش آیا۔ اور ان کے شہروں کو دیکھو اور ان کے آثار کو غور سے دیکھو کہ انہوں نے کیا کیا؟ کہاں سے کوچ کیا اور کس منزل پر پڑاؤ کیا؟
دنیا میں انسان کی تمام غفلتیں صرف اس بات سے پیدا ہوتی ہیں کہ وہ دنیا کی عارضی زندگی کو ہی اصل سمجھنے لگتا ہے اور وہ خود کو اس دنیا میں جاوداں سمجھتا ہے جبکہ اگر وہ ہمیشہ موت اور بزرگوں کی عدم موجودگی کے بارے میں سوچے تو وہ جان لے گا کہ اس دنیا میں انسان کی زندگی کتنی مختصر اور کم ہے اور یقیناً وہ اس عارضی زندگی سے دل نہیں لگائے گا اور وہ اپنی تمام کوششیں جاوداں دنیا کے لیے وقف کر دے گا۔ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرامین میں بہت زیادہ بات کی ہے۔ امام علیہ السلام اپنی اس نصیحت کو اپنے نوجوان بیٹے کی عمر کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ معاشرے کے تمام طبقوں کو دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن خاص طور پر نوجوانوں کی اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ نوجوانوں میں کم عمری کے باعث تجربے کا فقدان ہوتا ہے۔ معاشرے کے گرم و سرد سے ان کا پالا یا تو پڑا ہی نہیں یا بہت کم پڑا ہے۔ دوسروں کے تجربات سے وہ کم وقت میں زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تجربہ کار لوگوں کے ساتھ بیٹھو کیونکہ انہوں نے اپنے تجربات کی قیمتی متاع اپنی عمر کا ایک اہم حصہ خرچ کر کے حاصل کی ہے اور تم ان کی گرانبہا متاع کم ترین قیمت یعنی صرف چند منٹ خرچ کر کے حاصل کر لو گے۔
٭٭٭
4
روزہ، نفسانی خواہشات کے مقابلے میں ایک مضبوط اور مستحکم سپرہے۔ انسان روزہ رکھنے کے ساتھ ہی اپنے نفس کو غیر شائستہ رجحانات اور خواہشات سے باز رکھتا ہے اور اپنے باطن کو ہر اس چیز سے، جو تاریکی اور غفلت کا سبب بنتی ہے محفوظ کرتا ہے امید ہے کہ ابھی ماہ رمضان کے جو ایام باقی رہ گئے ہیں ان میں ہم اپنے اعمال و کردار کو خوبیوں اور نیکیوں سے آراستہ کر کے برائیوں کا خاتمہ کریں گے۔ دعائے مکارم الاخلاق کی دعا کے ایک اور اقتباس سے پروگرام کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں اللھم و علما فی استعمال۔ بار الھا مجھے وہ علم عطا کر جسے پر میں عمل کر سکوں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام، علم و دانش اور غور و فکر کا دین ہے۔ اسلام لوگوں کو کمال کی سمت ہدایت کرنے والا دین ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) کو عصر جاہلیت میں جاہلوں کے درمیان مبعوث کیا گیا ایسے افراد کے درمیان جو کتاب اور درس پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے تھے اور وہ احمقانہ افتخارات اور جاہلانہ تعصبات کے سوا زبان پر کچھ نہیں لاتے تھے۔ ایسے پست اور پسماندہ ماحول میں خداوند عالم کی جانب سے نبی اکرم (ص) پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ قلم اور پڑھنے کے بارے میں تھی۔ رسول اکرم (ص) نے بچوں کو عہد طفولیت سے ہی علم کا شوق دلانے اوراس کی جانب ترغیب دلانے کے لئے والدین کو یہ نصیحت تعلیم فرمائی کہ جو حقوق تم پر تمہارے بچوں کے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ان کو پڑھنا لکھنا سکھاؤ۔
تاریخ کی کتابوں میں تحریر ہے کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو مشرکین پر کامیابی حاصل ہوئی اور بعض مشرکین کو گرفتار کر کے مدینے لایا گیا تو وہاں پر یہ طے پایا کہ ہر قیدی، کچھ رقم دے دے اور رہا ہو جائے ۔ ایسے حالات میں پیغمبر نے اصحاب سے فرمایا : قیدیوں کو نیک جانو اور ان کے ساتھ نیکی کرو اور جو نادار و مسکین ہیں ان سے کوئی رقم نہ مانگو۔ جو بھی عالم ہو اور اپنے علم سے دس بچوں کو تعلیم دے وہ رہا ہو جائے گا۔ کیا دنیا میں کبھی ایسا بھی دیکھا کہ غالب لشکر، مغلوب لشکر سے جنگی تاوان کے طور پر تعلیم کو قبول کرے اور قیدی دشمنوں کو رہا کر دے ؟ اسلام نے چودہ صدی قبل، علم کی قدر و منزلت کو اس طرح سے مسلمانوں پر آشکارا کیا۔
تبلیغ رسالت الہی میں رسول اکرم (ص) کی پیشرفت کے علل و اسباب میں سے ایک اور سبب یہ تھا کہ آپ جو کچھ کہتے اور لوگوں کو حکم کرتے اس پر خود بھی عمل کرتے اور یہی امر لوگوں کے دلوں میں آنحضرت کے کلام کی تاثیر میں اضافہ کا سبب تھا۔ ائمہ معصومین علیھم السلام بھی اپنے جد بزرگوار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہی مانند تھے اور وہی کہتے تھے جس پر خود بھی عمل کرتے تھے اسی بناء پر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام پروردگار سے ایسے علم کی دعا کے خواہاں ہوتے ہیں جس پر وہ عمل کریں۔ کیوں کہ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو عالم اپنے علم پر عمل نہیں کرتا اس کی مثال اس درخت کی مانند ہوتی ہے جو پھل نہیں دیتا۔
٭٭
اور پروگرام کے اس مرحلے میں آج کی ایک حکایت جو پیغمبر اسلام کے زمانے سے مربوط ہے سماعت فرمائیے۔
ایک دن ایک شخص روتا پیٹتا ہوا پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا خدایا، خدایا میں اپنے پڑوسی کے ساتھ کیا کروں ؟ پیغمبر خدا نے اس شخص سے کہا کہ ذرا آرام سے بتاؤ کہ کیا ہوا ہے ؟ مرد مسجد کی زمین پر بیٹھ گیا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کہنے لگا میں کثیر العیال ہوں، میرے بچے زیادہ ہیں اور میرا گھر بھی چھوٹا ہے لیکن میرے پڑوسی کے پاس کھجور کا ایک باغ ہے۔ اس کے ایک درخت کی شاخ میرے گھر میں ہے۔ اور جب بھی پڑوسی خرما توڑنے درخت پر چڑھتا ہے تو کچھ خرمے کے دانے میرے گھر میں بھی گر جاتے ہیں اور جب میرے بچے انہیں کھانے کے لئے اٹھا لیتے ہیں تو پڑوسی درخت سے نیچے اتر کر انہیں میرے بچوں سے چھین لیتا ہے یہاں تک کہ اگر بچے ان خرموں کو اپنے منھ میں بھی رکھ لیں تو وہ انہیں زبردستی منھ سے نکال لیتا ہے۔ پیغمبر خدا اس ک بات سننے کے بعد کچھ لمحہ خاموش رہے پھر فرمایا انشاء اللہ خدا مدد کرے گا تم صبر سے کام لو۔ پیغمبر نے اس پڑوسی کے گھر کا پتہ لیا اور اسی دن اس کے پاس گئے اس پڑوسی نے پیغمبر کو دیکھا تو تعجب میں پڑ گیا ۔ اس وقت پیغمبر نے فرمایا تیرے درخت خرما کی جو شاخ تیرے پڑوسی کے گھر میں جھکی ہے اسے تو مجھے بخشے گا ؟ اس کے بدلے میں خدا بہشت میں تجھے خرمے کا ایک درخت عطا کرے گا۔ باغ کا مالک کہ جسے خدا و رسول پر یقین نہیں تھا مضحکہ خیز انداز میں کہنے لگا اس درخت کے پھل میرے تمام خرموں کے درخت سے بہتر ہیں، نہیں، میں تو اسے نہیں بخشوں گا یہ کہہ کہ وہ پیغمبر کی نظروں کے سامنے سے ہٹ گیا۔
اسی وقت ایک راہی جو اس طرف سے گذر رہا تھا اور اس نے پیغمبر اور اس پڑوسی کی بات سن لی تھی سامنے آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس درخت کو اس کے مالک سے خرید لوں پیغمبر مسکرائے اور فرمایا ہاں یہ تو بہت بہتر ہے۔ وہ شخص، باغ کے مالک کے پاس گیا اور اس درخت کو خریدنے کے بارے میں بات کی۔ درخت کے مالک نے کہا کیا تمہیں یہ بھی خبر ہے کہ اس درخت کے بدلے میں محمد (ص) مجھے بہشت میں ایک درخت خرما دینے کا وعدہ کر رہے تھے لیکن میں نے کہا کہ اس درخت کے پھل مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اس خریدار شخص نے پھر پوچھا کہ تم مجھے وہ بیچو گے یا نہیں ؟ درخت کے مالک نے کہا کہ نہیں مگر یہ کہ تم اس کی قیمت بہت زیادہ دو۔ خریدار نے پوچھا تم بتاؤ کہ کیا لو گے تو صاحب درخت نے کہا کہ اس ایک درخت کے بدلے میں چالیس درخت۔ خریدار نے ایک آہ کھینچی اور ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ یہ تو اس کی پوری ثروت کا نصف تھا اس لئے اس نے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہے، ارے نا انصاف بھلا ایک درخت کے بدلے میں چالیس درخت۔ یہ کون سا انصاف ہے۔ درخت کے مالک نے اپنا شانہ اونچا کرتے ہوئے اپنی راہ لی۔ لیکن خریدار کا دل پیغمبر کے ساتھ تھا اس لئے اس نے صاحب درخت کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا چلو مجھے یہ بھی قبول ہے میں تمہاری شرط قبول کرتا ہوں اور اس ایک درخت کے بدلے میں تجھے چالیس درخت دیتا ہوں۔ خریدار شاد و خوشحال پیغمبر کے پاس گیا اور کہنے لگا اے پیغمبر خدا، اب وہ درخت میرا مال ہو گیا اور میں اسے آپ کو ہدیہ کرتا ہوں۔ پیغمبر خدا نے کہا خدا تم سے راضی رہے اور بہشت میں تجھے ایک گھر عطا کرے۔ اس وقت پیغمبر اس فقیر شخص کے گھر گئے اور کہا آج کے بعد سے یہ درخت تیرا اور تیرے بچوں کا ہو گیا۔
اس فقیر و نادار شخص نے کہا خدایا تیرا شکر کہ تو نے میری آواز سن لی۔ فقیر کے بچے بھی خوش ہوگئے اور ان کے لبوں پر ہنسی آ گئی اس وقت پیغمبر پر یہ آیات نازل ہوئیں ” رات کی قسم جب وہ دن کو ڈھانپ لے اور دن کی قسم جب وہ چمک جائے ۔ اور اس کی قسم جس نے مرد و عورت کو پیدا کیا ہے۔ بیشک تمہاری کوششیں مختلف قسم کی ہیں پھر جس نے مال عطا کیا اور تقوا اختیار کیا اور نیکی کی تصدیق کی تو اس کے لئے ہم آسانی کا انتظام کر دیں گے اور جس نے بخل کیا اور لاپروائی برتی اور نیکی کو جھٹلایا ہے اس کے لئے سختی کی راہ ہموار کر دیں گے اور اس کا مال کچھ نہ کام آئے گا جب وہ ہلاک ہو جائے گا۔ (سورۂ لیل آیات 1 تا 10 )
پروگرام کے اس حصے میں حضرت علی علیہ السلام کی اپنے فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام کو وصیت کے چند اقتباس نہج البلاغہ کے اکتیسوین خط سے پیش کرنے جا رہے ہیں۔ حضرت امام علی فرماتے ہیں غم وا ندوہ کے ہجوم کو صبر و حسن یقین کے ساتھ خود سے دور کرو۔ جو کوئی میانہ روی کو ترک کرے تو وہ راہ حق سے منحرف ہو جائے گا اور جان لو کہ اچھا اور بہترین یار و ہم نشیں انسان کے اعزہ و اقارب کی مانند ہے۔ دوست وہی ہے جو انسان کے پیٹ پیچھے اس کے حق دوستی کو ادا کرے۔
حضرت امام علی علیہ السلام اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ زندگی، تلخ و شیریں حقائق کے مجموعے کا نام ہے اور جب بھی انسان غم و اندوہ میں گھر جائے اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے تو وہ بہت جلدی تباہ حال ہو جائے گا۔ لیکن دو قوت کے ذریعے غموں پر غلبہ پایا جا سکتا ہے ایک تو صبر و تحمل کی قوت ہے کہ اگر انسان صبر و استقامت کرے تو خدا اسے اجر دے گا اور اگر صبر کا دامن چھوڑ دے تو حوادث اپنے منزلیں طے کریں گے اور اس شخص کو اس کا کوئی اجر بھی نہیں ملے گا۔ اور یہ بھی کہ انسان کو چاہیئے کہ برے حالات میں یقین کی طاقت سے مسلح ہو۔ یعنی جان لے کہ تقدیرات الہی بر بناء حکمت ہیں خواہ ہم ان کی حقیقت سے واقف ہوں یا نہ ہوں۔ لقمان حکیم نے بھی اپنی مفید نصیحتوں میں اپنے فرزند سے کہا ” اور یقیناً جو صبر کرے اور معاف کر دے تو اس کا یہ عمل بڑے حوصلے کا کام ہے ( شوری 43)
حضرت علی (ع) مزید فرماتے ہیں جو شخص اعتدال اور میانہ روی کو ترک کر دے وہ راہ حق سے منحرف ہو جاتا ہے۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ دین و دنیا کی سلامتی، اعتدال اور میانہ روی میں ہے اور کاموں میں ہر طرح کی افراط و تفریط، گمراہی و بدبختی اور شکست کا باعث ہے۔ اور وہ سیدھا راستہ کہ جسے ہر روز ہم اپنی نمازوں میں خدا سے طلب کرتے ہیں وہی صراط مستقیم اور اعتدال کا راستہ ہے۔
حضرت امام علی (ع) اچھے دوست اور ہم نشیں کو انسان کے رشتہ داروں سے تعبیر کرتے ہیں کیوں کہ کبھی کبھی دوستی کے بندھن اتنے مضبوط ہو جاتے ہیں کہ نسبی رشتوں کی جگہ لے لیتے ہیں بلکہ کبھی تو اس سے بھی زیادہ قوی ہو جاتے ہیں چنانچہ ایک مشہور ضرب المثل ہے، کہتے ہیں کہ کسی سے یہ پوچھا گیا کہ دوست بہتر ہے یا بھائی ؟ تو کہا کہ وہ بھائی جو دوست بھی ہو بہتر ہے ”
اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جس حق کو، رشتہ داروں کے لئے مد نظر قرار دیا جائے اسے اچھے دوستوں کے لئے بھی پیش نظر رکھا جائے ۔ امام علی (ع) اس طرح فرماتے ہیں دوست وہ ہے جو اپنے دوست کی عدم موجودگی میں دوستی کا حق ادا کرے۔ امام کا بیان اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ جو افراد، کسی کے سامنے عشق و محبت کا اظہار کریں تو ممکن ہے یہ اظہار محبت حقیقی دوستی کی علامت نہ ہو۔ حقیقی دوستی اس وقت ظاہر ہوتی ہے کہ جب انسان ان تمام باتوں کو جسے وہ اپنے دوست کی موجودگی میں کہتا ہے اور اس کی رعایت بھی کرتا ہے اس کی عدم موجودگی میں بھی کہے اور اس کی رعایت کرے۔
٭٭٭
5
دعائے مکارم الاخلاق کا ایک اقتباس: سامعین ہم آج کے پروگرام کا آغاز بھی حضرت امام سجاد ؑ کی دعائے مکارم الاخلاق کے ایک اقتباس سے کر رہے ہیں۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے مکارم الاخلاق میں ایک مقام پر خدا تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :
” اللھمّ صلّ علی محمد و آلہ اور متّعنی بالاقتصاد”
بار الہا محمد و آل محمد پر درود بھیج۔ اور مجھے زندگی کے تمام امور میں اعتدال سے کام لینے کی توفیق عطا فرما۔ ”
اقتصاد عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اعتدال کے ہیں۔ اور اقتصاد یا اعتدال افراط و تفریط سے اجتناب کا نام ہے۔ اور یہی وہ صراط مستقیم ہے جو لوگوں کو دکھانے کے لئے انبیائے کرام اللہ تعالی کی جانب سے مبعوث کئے گئے ۔ جو لوگ زندگی کے مختلف مراحل میں اعتدال سے کام لیتے ہیں وہبالاخرسعادت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ اورجواس کو ترک کر دیتے ہیں اور افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں تباہی اور زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
حضرت علیؑ نے اس سلسلے میں فرمایا ہے :
” جب اللہ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اعتدال اور معیشت کے بارے میں حسن تدبر کا الہام کرتا ہے۔ اور اسے اسراف اور افراط سے دور رکھتا ہے۔ ”
نہج البلاغہ میں حضرت علیؑ کا ایک معروف خطبہ ہے جو ہمّام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ نے اس خطبے میں صاحبان تقوی کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ اس خطبے میں آپ متقین کے لباس کے بارے میں فرماتے ہیں :
” صاحبان تقوی جو لباس پہنتے ہیں وہ اعتدال کے دائرے میں ہوتا ہے وہ نہ تو ایسا لباس پہنتے ہیں جو ان کو گناہ گار مالداروں کے گروہ کے ساتھ ملحق کر دیتا ہے اور مفلس لوگوں کے غم و غصے کا سبب بنتا ہے اور نہ ہی ایسا لباس پہنتے ہیں جو لوگوں میں ان کی بے عزتی کا موجب ہوتا ہے ”
مال خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لینا امیر و غریب سب کے لئے مفید ہے۔ جن لوگوں کی آمدنی کم ہوتی ہے اور وہ معاشرے میں اپنا احترام برقرار رکھنا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ قناعت کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اور آمدنی اور خرچ کے درمیان توازن برقرار رکھیں۔ یہ لوگ اگرچہ تنگ دستی میں زندگی گزارتے ہیں اور ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن معاشرے میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو لوگ مالدار ہوتے ہیں اور ان کی آمدنی ان کے اخراجات سے زیادہ ہوتی ہے اگر وہ بھی اعتدال سے کام لیں اور متوسط درجے کی زندگی گزاریں تو وہ اپنی ضروریات سے زیادہ کی دولت کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ خود عزت پا کر اللہ تعالی کی جانب سے جزا کے مستحق بھی ہوسکتے ہیں۔
بنا بریں زندگی میں اعتدال انسان کو اسراف اور کنجوسی دونوں سے بچاتا ہے۔ معاشی ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں اعتدال کم آمدنی والوں کی عزت کا سبب ہوتا ہے اور مالداروں کو اسراف سے بچاتا ہے۔ اور نتیجتا اسلامی سماج میں غربت میں کمی، باہمی تعاون اور توازن کا سبب بنتا ہے۔
٭٭
اللہ تعالی نے ہماری جو تقدیر لکھی ہوتی ہے وہ عام طور پر ہمارے اختیار سے خارج ہوتی ہے لیکن وہ ہمیشہ ہمارے لئے فائدہ مند ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک بادشاہ تھا۔ اس کا وزیر ہمیشہ کہتا کہ "جو واقعہ بھی پیش آتا ہے وہ ہمارے فائدے میں ہوتا ہے ”
ایک دن بادشاہ نے پھل کاٹنے کے لئے چھری منگوائی اور پھل کاٹتے وقت اس کی انگلی بھی کٹ گئی۔ وزیر بادشاہ کے پاس موجود تھااس نے کہا بادشاہ سلامت آپ پریشان نہ ہوں جو واقعات بھی پیش آتے ہیں ان میں ہی آپ کی خیر و بھلائی ہے۔ ”
بادشاہ کو وزیر کی بات سن کر غصہ آگیا اس نے وزیر کو جیل میں ڈال دینے کا حکم دے دیا۔ چند دنوں کے بعد بادشاہ اپنے درباریوں کے ساتھ شکار کرنے ایک جنگل میں گیا۔ بادشاہ اپنے گھوڑے پر سوار تھا لیکن وہ راستہ بھٹک گیا اور اپنے درباریوں سے جدا ہو گیا۔ اور گھنے جنگل میں داخل ہو گیا۔ وہ واپسی کا راستہ تلاش کرتے ہوئے دور نکل گیا۔ اور ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں ایک قبیلہ رہتا تھا یہ قبیلہ اپنے خداؤں کے لئے قربانی دینے کی رسم کی تیاری کر رہا تھا۔ جب اس قبیلے کے لوگوں نے ایک خوبصورت بادشاہ کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور بادشاہ کو اپنے خدا کے لئے بہترین قربانی قرار دیا۔ انھوں نے بادشاہ کی قربانی دینے کے لئے اسے خدا کی مورتی کے سامنے باندھ دیا۔ اچانک قبیلے کے ایک فرد نے بلندآوازسے کہا کہ تم اس کی قربانی کیسے دے سکتے ہواس کا بدن تو ناقص ہے ذرااس کی انگلی تو دیکھو۔ ”
انھوں نے بادشاہ کی کٹی ہوئی انگلی دیکھی تو اسے آزاد کر دیا۔ بادشاہ جب اپنے محل میں پہنچا تو اس نے وزیر کو بلایا اور کہنے لگا کہ مجھے تمہاری اس بات کا مطلب تو سمجھ میں آگیا ہے کہ جو واقعہ بھی پیش آتا ہے وہ میرے فائدے میں ہے۔ کیونکہ اپنی انگلی کٹنے کی وجہ سے میں موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا ہوں۔ لیکن اس میں تمہارا کیا فائدہ تھا۔ وزیر نے جواب دیا: بادشاہ سلامت! کیا آپ نے توجہ نہیں فرمائی کہ اگر میں جیل میں نہ جاتا تو ہمیشہ کی طرح جنگل میں آپ کے ساتھ ہوتا اور لوگوں نے وہاں آپ کو قربان نہیں کیا اور وہ قربانی کے لئے مجھے منتخب کر لیتے۔ بنا بریں میرا جیل میں بند ہونا میرے فائدے میں تھا۔ ”
٭٭
حضرت علیؑ کی وصیت کا ایک اقتباس، آپ نے اپنے فرزند کو نصیحت میں اپنے دینی بھائی سے متعلق فرائض کی بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
” اے میرے فرزند ! اپنے دینی بھائی کے سلسلے میں ان امور کا خیال رکھو۔ اگر تم نے اس سے تعلق توڑا ہو تو تم خود اس تعلق کو برقرار کرو، ناراضگی کے زمانے میں اس کی قربت حاصل کرو، اس کی کنجوسی کے بدلے میں تم سخاوت سے کام لو، اگر وہ تم سے دوری اختیار کرے تو تم اس سے نزدیکی اختیار کرو۔ اگر وہ سختی کرے تو تم نرمی سے کام لو۔ اگر وہ خطا اور غلطی کرے تو اس کا عذر قبول کرو۔ ۔ مگر خبردار یہ برتاؤ بے محل نہ ہو۔ اور نا اہل سے یہ رویہ اختیار نہ کرو۔ اپنے دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ، ورنہ اس دوست کے دشمن قرار پاؤ گے۔ دوست کو کھری کھری نصیحت کی باتیں سناؤ خواہ اسے اچھی لگیں یا بری ”
حضرت علیؑ نے اپنی وصیت کے اس حصے میں مسلمانوں کے باہمی فرائض بیان فرمائے ہیں۔ آپ نے اپنے فرزند کو اس وصیت میں دوستوں کی بے مہری اور سختی کے مقابلے میں بے مہری اور سختی سے کام لینے سے منع کیا ہے کیونکہ اس سے دوستی کی بنیاد خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اور انسان اپنے دوستوں کی دوستی سے محروم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ دوسروں کی بے مہری کے باوجود ان سے اچھا برتاؤ اختیار کرے، ان کی جانب سے بدی کئے جانے کے باوجود ان کے ساتھ بھلائی کرے تواس کے دوست جلد ہی اپنی غلطی کا اعتراف کر لیں گے اور شرمندہ ہو کر اپنی بدی کا ازالہ کریں گے۔ جس کے نتیجے میں دوستی کی بنیاد مستحکم ہو گی۔
امیرالمومنین حضرت علیؑ نے یہاں جو کچھ فرمایا ہے در حقیقت وہ قرآن کریم کے سورۂ فصلت کی آیت نمبر چونتیس کی تفسیر ہے۔ جس میں ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ
” تم برائی کا جواب بہترین طریقے سے دو۔ کہ اس طرح جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہو جائے گا جیسے گہرا دوست ہوتا ہے۔ اور یہ صلاحیت انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور یہ بات انہی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں ”
اگرچہ یہ آیت دشمنوں کے بارے میں ہے لیکن یقینی طور پر دوستوں پر بھی صادق آتی ہے۔ پیغمبر اکرم ص، ائمہ طاہرینؑ اور عظیم علماء کی سیرت سے بھی اسی کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ سوائے چند مواقع کے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی بدی کا جواب بدی کے ساتھ نہیں دیتے تھے۔ چونکہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ بعض پست اور کوتاہ فکر انسان اس طرح کے محبت آمیز رویئے سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اس لئے حضرت علیؑ نے ایسے لوگوں کومستثنی قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مگر خبردار یہ برتاؤ بے محل نہ ہو۔ اور نااہل سے یہ رویہ اختیار نہ کرو۔
اس کے بعد آپ نے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے دوست کو بھی دوست رکھتا ہے اور اس کے دشمن کو بھی دوست رکھتا ہے تو ایسے شخص کی دوستی صداقت پر مبنی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہر ایک سے اپنے مقاصد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ امام علیؑ کی نصیحت صرف افراد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اقوام، گروہوں اور حکومتوں کے ساتھ بھی ہے۔ آج کی دنیا میں ایسی حکومتیں بہت سی ہیں جو آپس میں لڑنے والی دونوں حکومتوں کی دوست ہوتی ہیں اور ان مقصد ان متحارب ملکوں کے درمیان آشتی قائم کرنا بھی نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ان کا مقصد دونوں سے اپنے مفادات کا حصول ہوتا ہے۔
امیرالمومنین حضرت علیؑ اپنی نصیحت کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا ہے کہ دوست کو کھری کھری نصیحت کی باتیں سناؤ خواہ اسے اچھی لگیں یا بری۔
ایسا بہت دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان کو دوست اس کو ایسی باتوں کی نصیحت کرنے اور حقائق بتانے سے اجتناب کرتے ہیں جو اس کی ناراضگی کا سبب ہوتے ہیں۔ ایسے افراد حقیقت میں مخلص نصیحت کرنے والے اور ہمدرد نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر کسی کو اس میں پائی جانے والی برائی سے آگاہ کیا جائے تو وہ عارضی طور پر ناراض ہوتا ہے لیکن وہ گناہ، نقصان یا خطرے سے بچ جاتا ہے اور یہ بات اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان اپنی زبان بند کر لے اور وہ شخص مشکلات اور خطرات میں گھر جائے ۔ افسوس کہ ایسے بہت سے افراد ہیں جو ایسی ہی باتوں کے پیش نظر بروقت نصحیت کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ایسے افراد ایک جانب خدا کو ناراض کرتے ہیں اور دوسری جانب اس کی مخلوق کے ساتھ خیانت کرتے ہیں۔
٭٭٭
6
فرزند رسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق سے اقتباس
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں :
بار الہا ! وسعت رزق سے میرا امتحان نہ لے۔
خداوند متعال کا حکیمانہ ارادہ اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے دعوے پر اکتفاء نہ کرے کہ جو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں بلکہ ان کا امتحان لے تاکہ جھوٹوں اور سچوں میں تمیز ہو جائے ۔ خداوند متعال سورہ عنکبوت کی آیت دو اور تین میں اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ :
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہو گا۔ بے شک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں سے کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔
خدا کے امتحانات میں سے ایک امتحان، مالی امتحان ہے۔ امام سجاد علیہ السلام سنگین امتحانات کا شکار ہونے سے بچنے کے لیے خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں مالی خوشحالی اور زیادہ دولت و ثروت نہ دے کہ انہیں سخت امتحان کا سامنا کرنا پڑے۔ امام سجاد علیہ السلام کی دعا کا یہ جملہ عام لوگوں کے لیے بہت ہی سبق آموز ہے۔ امام علیہ السلام اس کے باوجود کہ معصوم اور خطا سے پاک ہیں، اس واسطے کہ امتحان کی سختی میں مبتلا نہ ہوں، خداوند متعال سے اس قسم کی دعا کرتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ تنگ دستی کی حالت میں کہتے ہیں کہ اگر خدا ہمیں دولت و ٹروت عنایت کرے تو ہم اسے راہ خدا میں خرچ کریں گے اور اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دیں گے۔ ممکن ہے اس وقت وہ خلوص اور نیک نیتی سے یہ بات کہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ممکن ہے دولت ان کے خیالات و نظریات کو تبدیل کر دے، انہیں بدل دے اور وہ مالی امتحان کی وجہ سے ناکام ہو جائیں اور بدبختی ہمیشہ کے لیے ان کا مقدر بن جائے ۔
انصار سے تعلق رکھنے والے ثعلبہ بن حاطب اس سخت امتحان سے دوچار ہوئے اور امتحان کا مرحلہ کامیابی سے پار نہ کر سکے۔ وہ تنگ دستی کے ایام میں رسول اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: آپ خدا سے کہیے کہ مجھے دولت سے نوازے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے فرمایا: اے ثعلبہ ! جس قلیل مال کا تم شکر ادا کر سکو اس زیادہ مال سے بہتر ہے کہ جس کی طاقت اور تحمل تم میں نہ ہو۔
ثعلبہ دوبارہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اپنی درخواست ایک بار پھر دہرائی اور عرض کیا: اس خدا کی کہ جس نے آپ کو بر حق مبعوث کیا ہے، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر خدا مجھے مال عطا کرے تو میں ہر صاحب حق کا حق اسے ضرور دوں گا۔ اس موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدا کی بارگاہ میں اس کے لیے مال کی دعا کی۔ خداوند عالم نے آنحضرت کی دعا مستجاب کی۔ ثعلبہ کی بھیڑ بکریوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا یہاں تک وہ مدینہ شہر میں نہیں رہ سکتا تھا وہ مدینہ سے دور ہو گیا اور مدینہ کے اطراف میں واقع ایک وادی میں سکونت اختیار کی اور بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال کرنے لگا۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہاں بھی وہ جگہ اس کے لیے تنگ ہو گئی اور وہ وہاں سے بھی دور دراز علاقے میں چلا گیا تاکہ وہاں بھیڑ بکریوں کو رکھ سکے۔ کچھ عرصے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک اہلکار کو ثعلبہ کے پاس بھیجا اور اس سے زکوۃ ادا کرنے کے لیے کہا لیکن ثعلبہ نے بخل اور کنجوسی سے کام لیا اور کہا کہ زکوۃ جزیہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور جزیہ غیرمسلمانوں کو دینا چاہیے۔ لہذا میں زکوۃ نہیں دوں گا۔ جب یہ باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچیں تو آپ نے فرمایا: وائے ہو ثعلبہ پر۔ اس کے بعد وحی الہی نازل ہوئی: مسلمانوں میں سے جو لوگ خدا سے عہد و پیمان باندھتے ہیں کہ اگر خدا تعالی اپنا فضل ہمیں عطا کرے گا تو ہم صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں سے ہوں گے، اور جب خدا کا فضل ان تک پہنچا تو انہوں نے بخل سے کام لیا اور اپنا فریضہ ادا کرنے سے روگردانی کی۔
یہی وجہ ہے کہ امام سجاد علیہ السلام خداوند قدوس سے درخواست کرتے ہیں کہ بار الہا ! وسعت رزق سے میرا امتحان نہ لے۔
٭٭
جنید بغدادی بہت ہی مشہور زاہد و عابد اور عارف تھے۔ ایک دن جنید اپنے کچھ مریدوں کے ساتھ تفریح کے لیے بغداد شہر سے باہر گئے ۔ ان کے مریدوں نے جنید بغدادی سے ایک شخص بہلول کے بارے میں بات کی کہ وہ دیوانہ ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک دانا اور عقل مند شخص ہے کہ جس نے عباسی خلیفہ ہارون کے خطرے کی وجہ سے امام موسی کاظم علیہ السلام کے حکم پر خود پر دیوانگی طاری کر رکھی ہے تاکہ اس کی جان محفوظ رہے۔
جنید بغدادی کو بہلول کے بارے میں تجسس پیدا ہوا اور اس نے کہا کہ بہلول کو تلاش کرو مجھے اس سے کام ہے۔ ان کے مرید گئے اور بہلول کو تلاش کر لیا۔ جنید ان کے پاس گئے اور سلام کیا۔
بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟
انہوں نے کہا کہ میں شیخ جنید بغدادی ہوں۔
بہلول نے کہا تم شیخ بغداد ہو جو لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہو؟
جنید نے کہا : ہاں۔ بہلول نے فرمایا ؛ کھانا کس طرح کھاتے ہو؟
انہوں نے جواب دیا: پہلے بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے سے کھاتا ہوں اور چھوٹا لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں۔ منہ کے دائیں طرف رکھتا ہوں اور آہستہ آہستہ چباتا ہوں اور دوسروں کی طرف نہیں دیکھتا۔ کھاتے وقت یاد حق سے غافل نہیں رہتا اور جو لقمہ بھی کھاتا ہوں بسم اللہ پڑھتا ہوں۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتا ہوں۔
بہلول اٹھے اور کہا کہ تم لوگوں کے مرشد اور پیشوا بننا چاہتے ہو جبکہ ابھی تک کھانا کھانا نہیں جانتے۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے ۔
شیخ کے مریدوں نے کہا کہ یہ شخص دیوانہ اور پاگل ہے۔
جنید کہ جنہوں نے جان لیا تھا بہلول ایک حکیم و دانا شخص ہے جس نے دیوانگی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، ہنسے اور کہا کہ سچی بات دیوانے سے سننی چاہیے۔ پھر وہ اس کے پیچھے چلے گئے ۔
بہلول نے پوچھا، تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا شیخ بغدادی جو کھانا کھانا بھی نہیں جانتا ہے۔
بہلول نے فرمایا: کیا اپنی بات کرنا جانتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ بہلول نے پوچھا: کس طرح بات کرتے ہو؟ عرض کیا: سوچ سمجھ کر بات کرتا ہوں، بغیر سوچے سمجھے بات نہیں کرتا اور سننے والے کے فہم کے مطابق بات کرتا ہوں۔ لوگوں کو خدا اور رسول کی طرف بلاتا ہوں اور ایسی بات نہیں کرتا کہ لوگ مجھ سے ملول ہو جائیں۔
بہلول نے کہا ؛ کھانا کھانا تو ایک طرف تم تو بات کرنا بھی نہیں جانتے ہو اس کے بعد وہ چلے گئے ۔
جنید پھر ان کے پیچھے گئے اور ان تک پہنچ گئے ۔
بہلول نے کہا مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ تم تو نہ کھانا جانتے ہو اور نہ ہی بات کرنا جانتے ہو، کیا اپنے سونے کے آداب جانتے ہو؟
جنید بغدادی نے کہا : ہاں۔ بہلول نے کہا : کس طرح سوتے ہو؟
انہوں نے جواب دیا جب میں نماز عشاء سے فارغ ہوتا ہوں تو بستر میں گھس جاتا ہوں اور پھر سونے کے جو آداب رسول اکرم (ص) سے نقل ہوئے تھے، بیان کر دیے۔
بہلول نے کہا میں سمجھ تمہیں تو سونے کے آداب بھی معلوم نہیں ہیں۔ یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ جنید نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا کہ اے بہلول میں کچھ بھی نہیں جانتا تم خدا کے لیے مجھے سکھاؤ۔
بہلول نے کہا چونکہ تم نے اپنے نہ جاننے کا اعتراف کر لیا ہے تو میں تمہیں سکھاتا ہوں۔ جان لو کہ یہ سب جو تم نے مجھ سے کہی ہیں، فروع ہیں، کھانے میں اصل یہ ہے کہ لقمہ کو حلال ہونا چاہیے اور اگر حرام ہو تو اس قسم کے آداب سے کھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور دل کی تاریکی کا سبب بنتا ہے۔ بات کرتے وقت دل پاک اور نیت صاف ہونی چاہیے اور بات خدا کی رضا کے لیے ہونی چاہیے اور اگر کسی غرض یا دنیاوی مطلب کے لیے ہو یا فضول اور ہرزہ سرائی ہو تو اس سے سکوت اور خاموشی بہتر ہے۔ اور سوتے وقت یہ سب جو تم نے بیان کی ہیں سب فروع ہیں اصل یہ ہے کہ سوتے وقت تمہارے دل میں لوگوں کے بارے کینہ و حسد نہ ہو اور پاکیزہ دل کے ساتھ اور کینے کے بغیر سویا کرو۔
٭٭
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی اپنے فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام کو کی گئی وصیت کا اقتباس:
دنیا سے صرف اتنا ہی مال تمہارا حصہ ہو گا کہ جس کے ذریعے تم اپنی آخرت کی زندگی اصلاح کر سکو اور اگر طے یہ ہے کہ کھونے والی چیز کے لیے ناراض اور رنجیدہ ہو اور بے تابی کا مظاہرہ کرو تو پھر جو بھی چیز تم تک نہیں پہنچی ہے اس کے لیے ناراض اور رنجیدہ ہو۔
امام علیہ السلام کا کلام اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کی دولت آتی ہے اور چلی جاتی ہے اور کبھی دوسروں کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ قیامت کے دن اس کا حساب کتاب انسان کو دینا ہو گا اور دنیا میں اس کی لذت وارثوں کے لیے ہے۔ ان میں سے کوئی بھی انسان کا حقیقی مال نہیں ہے۔ صرف وہی مال اس کا حقیقی مال ہے جو اس نے آخرت کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے۔
٭٭٭
7
حضرت امام سجاد علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق سے ایک اقتباس: آپ خدا تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ
” [ الہی] و لا تبتلینی بالکسل عن عبادتک و لا العمی عن سبیلک”
خدا مجھے اپنی عبادت کے سلسلے میں کسل میں مبتلاء نہ کر۔ اور صراط مستقیم طے کرنے کے سلسلے میں اندھے پن سے دوچار نہ کر”
پہلے جملے میں حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی ہے کہ مجھے کسل میں مبتلاء نہ کر۔ کسل کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی کام کو سستی اور کاہلی کے ساتھ انجام دے حالانکہ وہ کام ایسا ہے جسے نشاط اور جوش و جذبے کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسل یاسستی کو مذموم صفات میں قرار دیا گیا ہے۔
دنیوی زندگی یا اخروی سعادت کے لئے انجام پانے والے ہر کام کو اگر بطریق احسن کرنے کا ارادہ ہو تو اسے نشاط اور لگاؤ کے ساتھانجام دینا چاہئے اور سستی سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ دنیا کے عظیم دانشوروں نے اگر حیرت انگیز ایجادات میں کامیابی حاصل کی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنے علمی اور تحقیقی کاموں سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اور وہ اپنے کام پورے انہماک کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مومنین اپنے عقائد اور اللہ تعالی پر ایمان کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان کی عبادات اور آخرت سے متعلق ان کے اعمال بھی ایک دوسرے کی عبادات اور اعمال سے مختلف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کے محبوب بندے اس کی عبادت کے عاشق ہوتے ہیں اور شوق و اشتیاق کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام بارگاہ ربانی میں عرض کرتے ہیں کہ شوق سے عبادت کرنے کی روحانی حالت بڑھاپے میں بھی برقرار رہے۔ بعض مومنین ایسے بھی ہیں جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ دنیاوی امور میں اس قدر غرق ہوتے ہیں کہ شوق کے ساتھ عبادت نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ باطنی لذت سے بھی ہمکنار نہیں ہو پاتے ہیں۔ یہ افراد روحانی طور پر بیمار ہوتے ہیں اور جب تک یہ اپنا روحانی علاج معالجہ نہ کر لیں اس وقت تک خدا تعالی کی عبادت سے لذت حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام نے ایسے افراد کے بارے میں فرمایا ہے کہ
” میں تم سے حق بات کہتا ہوں۔ جیسا کہ بیمار ایک اچھی اور مرغوب کھانے کو دیکھتا ہے اور درد کی شدت کی وجہ سے اس سے لذت حاصل نہیں کر سکتا اسی طرح دنیا پرست اور دنیوی امور میں دلچسپی رکھنے والے بھی مال کی محبت کی وجہ سے عبادت کی لذت اور مٹھاس کو محسوس نہیں کر پاتے ہیں ”
حضرت امام سجادؑ اپنے دوسرے جملے میں خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں۔
” بار الہا صراط مستقیم پر چلنے کے سلسلے میں مجھے اندھے پن سے دوچار نہ کرنا۔ ”
ہم سب جانتے ہیں کہ حق کے راستے کو طے کرنے کے لئے دل کی آنکھ اور عقل کے نور کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصیرت اور عقلی ادراک کا حامل شخص حق کے راستے کو بہتر طور پر طے کر سکتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے راہ حق کی شناخت اور اسے طے کرنے کے سلسلے میں اہل بصیرت کا لائحہ عمل ایک مختصر سی روایت میں بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ بصیر وہ شخص ہے جو بات سننے کے بعد اس میں غور و فکر کرے، اس سے فائدہ اٹھائے ، روشن راستے طے کرے اور اس بات کا خیال رکھے کہ کسی دہانے سے سر کے بل نیچے نہ گرے ”
٭٭
کہا جاتا ہے کہ ایک شخص تھا جو ہمیشہ اللہ تعالی کی عبادت کرتا رہتا تھا اور ہر وقت اس کی زبان پر اللہ اللہ کا ورد جاری رہتا تھا۔ ایک دفعہ شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوا اور اس کے دل میں وسوسہ ڈالا اور اس شخص کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا۔ شیطان نے اس سے کہا کہ اے شخص تم جو اس قدر اللہ اللہ کرتے رہتے ہو اور صبح دم خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہو تو کیا تم ایک دفعہ بھی لبیک کی آواز سنی ہے ؟ اگر تم کسی بھی دروازے پر جاتے اور اس قدر فریاد کرتے تو کم از کم ایک مرتبہ تو تمہارا جواب دیا ہی جاتا۔ اس شخص کو یہ بات منطقی لگی۔ اس کی زبان بند ہو گئی اور اس کے بعد اس نے اللہ تعالی کے نام کا ورد کرنا چھوڑ دیا۔ پھر ایک دن خواب میں اسے ایک منادی نے ندا دی کہ تم نے خدا کو پکارنا کیوں چھوڑ دیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں خدا کی جانب سے تمہیں جواب دینے پر مامور کیا گیا ہوں وہ تمہارا اللہ اللہ کہنا ہی ہماری طرف سے لبیک ہے۔
نی کہ آن اللہ تو لبیک ماست
آن نیاز و سوز و دردت پیک ماست
تم نہیں جانتے ہو کہ تمہارا یہ سوز و گداز اور عبادت کا یہ شوق و اشتیاق جو ہم نے تمہارے دل میں قرار دیا ہے یہ بجائے خود خدا تعالی کی جانب سے توفیق اور اس کا جواب ہے۔
اس داستان سے ہمیں دعائے کمیل کا ایک اقتباس یاد آ جاتا ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام پروردگار عالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں۔ اللھمّ اغفر لی الذنوب التی تحبس الدعا خدایا میرے ایسے گناہ معاف فرما دے جو میری دعاؤں کے بند کر دیئے جانے کاسبببنتے ہیں۔ امیرالمومنین علیؑ کا مقصود یہ ہے کہ انسان جب گناہ کرتا ہے تو اس سے دعا اور مناجات کرنے کی امید اور شوق سلب ہو جاتا ہے۔ اور انسان پھر دعا کو ترک کر دیتا ہے۔ حالانکہ دعا اور عبادات کے یہی لمحے انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ دعا انسان کے لئے مقصد اور ہدف بھی اور اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بھی۔ یعنی اگر دعا قبول نہ بھی ہو تب بھی بجائے خود پسندیدہ ہے۔
٭٭
حضرت امام علی علیہ السلام کی نصیحت اپنے فرزند امام حسنؑ کے نام
آپ نے فرمایا ہے کہ تم کو اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ تمہیں ساری آرزوئیں ہر گز پوری نہیں ہوں گی۔ اور یہ بھی جان لو کہ تمہاری عمر جس قدر مقرر کر دی گئی ہے اس سے زیادہ نہیں ہو گی۔ اور تم اسی راستے پر گامزن ہو جس پر تم سے پہلے والے گامزن تھے۔ اب جب کہ ایسا ہے تو دنیا کے حصول کے لئے افراط سے کام مت لو۔ اور حصول رزق میں اعتدال کا دامن تھامے رہو۔ کیونکہ یہ بہت دیکھا گیا ہے کہ [ دنیا کے راستے میں ] زیادہ کوشش نابودی کاسبب بنتی ہے۔ نہ تو ہر کوشش کرنے والا اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے اور نہ ہی اعتدال سے کام لینے والا ہر شخص محروم رہتا ہے۔ ”
حضرت علیؑ نے اس وصیت نامے میں چند اہم نکات بیان فرمائے ہیں۔ لیکن اس سے قبل آپ نے بطور تمہید فرمایا ہے کہ جان لو کہ یقیناً تمہاری ساری آرزوئیں پوری نہیں ہوں گی۔ اور مقررہ شدہ عمر سے زیادہ تم زندگی نہیں گزارو گے۔ اس کے بعد آپ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اب جبکہ ایسا ہے تو دنیا کے حصول میں افراط سے کام مت لو اور حصول رزق کے سلسلے میں اعتدال کا دامن تھامے رہو۔ ”
واضح سی بات ہے کہ اس دنیا میں کسی بھی انسان کی ساری آرزوئیں پوری نہیں ہوتی ہیں۔ تو پھر اسے رزق کے حصول میں لالچ سے بھی کام نہیں لینا چاہئے ۔
دنیوی امور میں افراط سے کام نہ لینے اور اعتدال کا دامن تھامنے کے الفاظ سے اس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ انسان کو زیادہ رزق کے حصول کے لئے لالچکاسہارانہیں لینا چاہئے ۔ البتہ اس سے رزق کے حصول کے لئے کوشش کرنے کی نفی نہیں ہوتی ہے۔ حضرت امام علیؑ نے اس کے بعد بہت عمدہ استدلال کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایسا بہت ہوا ہے کہ [ دنیا کے راستے میں ] زیادہ کوشش [مال و دولت کی نابودی پر منتج ہوئی ہے۔ مطلب یہ کہ کوشش کرنے والا ہر انسان ضروری نہیں کہ اپنا مقصود بھی حاصل کر لے۔ امامؑ نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ زیادہ کوشش زیادہ مال و دولت اور کم کوشش ہمیشہ تھوڑا مال ملنے کا سبب بنتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالی کا فضل و کرم اس امر پر موقوف ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ، لالچ اور طمع کا دامن چھوڑ دیا جائے اور اعتدال کے ساتھ حصول رزق کی کوشش کی جائے ۔ اور دوسروں کو بھی اپنی کوشش کے ذریعے رزق حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ حریص اور لالچی دوسروں کے لئے مشکلات پیدا نہ کریں۔
ایک اور توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ دنیا کی تجارت میں سرمایہ انسان کی عمر ہوتی ہے۔ اس نکتے میں غور کیا جانا چاہئے کہ جو شخص دنیا کی طلب میں اپنی عمر کو داؤ پر لگاتا ہے اگر وہ متاع دنیا حاصل کر لے تواس نے کیا پایا ہے؟ اور اگر اسے متاع دنیا نہ ملے تواس کا کیا نقصان ہوا ہے ؟ حضرت علیؑ نے اپنے کلام میں یہ لطافت بھی پائی جاتی ہے کہ آپ نے رزق اور کوشش کے باہمی رابطے کی سرے سے نفی نہیں کی ہے۔ اور آپ نے رزق و روزی کی مقدار کو صرف کوشش کا نتیجہ بھی قرار نہیں دیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ یا کم کوشش انسان کے رزق اور روزی کے زیادہ یا کم ہونے کا ایک سبب ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ رزق و روزی کا کم یا زیادہ ہونا خدا تعالی کی جانب سے ایک آزمائش ہے۔ رزق بعض اوقات کسی دعا یا نیک عمل کی وجہ سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور کسی گناہ اور ناپسندیدہ عمل کے نتیجے میں کم بھی ہوسکتا ہے۔ زیادہ مال و دولت ہمیشہ انسان کے فائدے میں بھی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ بعض لوگوں کے لئے حصول سعادت کے سد راہ ہوتی ہے۔ جبکہ بعض لوگوں کے لئے کمال حاصل کرنے کاوسیلہ قرار پاتی ہے۔ ہم رمضان المبارک کی ان بابرکت گھڑیوں میں خدا تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حصول رزق کے لئے اعتدال کے ساتھ کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
٭٭٭
8
رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیاں ایک ایک کر کے گزرتی جا رہی ہیں۔ خدا ہم سب کو ان مبارک گھڑیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔
امام سجاد زین العابدین علیہ السلام دائے مکارم الاخلاق میں ارشاد فرماتے ہیں :
بار الہا ! جب تک میری عمر تیری طاعت کے لباس میں ہے، تب مجھے طویل عمر کی نعمت سے بہرہ مند فرما اور جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے تو اسے ختم کر دے، اس سے پہلے کہ تیری رحمت مجھ سے دور ہو جائے یا تیرا غضب مجھ پر نازل ہو۔
امام سجاد علیہ السلام خدا سے ایک ایسی عمر کا تقاضا کرتے ہیں کہ جس میں ان کا تمام وجود طاعت خدا میں ڈوبا ہو اور ان کے تمام اعضاء ذات اقدس الہی کی فرمانبرداری میں مصروف ہوں۔ امام سجاد علیہ السلام کے کلام میں جس بات پر زیادہ غور و فکر کیا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ عام طور پر مزدور اور کاریگر اپنی وردی کام اور فرائض کی انجام دہی کے وقت پہنتے ہیں اور جب کام ختم ہو جاتا ہے تو اسے اتاد دیتے ہیں۔ لیکن انسان کی عمر ایک ایسا لباس ہے کہ جسے انسان دن رات پہنتا ہے اور جب تک زندہ ہے اس سے الگ نہیں ہوتا۔ امام سجاد علیہ السلام خداوند متعال سے ایک ایسی عمر کی درخواست کرتے ہیں کہ جو شب و روز اس کی اطاعت و بندگی کے راستے میں خدمت اور کام کا لباس ہو حتی کہ جب وہ نیند کی حالت میں ہو تو اس کا مقصد خدا کی بہتر عبادت کرنے کے لیے خود کو تندرست رکھنا ہو۔ دوسرے لفظوں میں اگر عمر کا لباس تمام شب و روز میں فرمان خدا کی اطاعت کا جامہ ہو تو امام علیہ السلام کے لیے قیمتی اور اہم ہے لیکن اگر عمر کبھی خدا کی اطاعت و بندگی اور کبھی عصیان و نا فرمانی میں بسر ہو تو وہ عمر امام سجاد علیہ السلام کی نظر میں اطاعت کا لباس نہیں ہے اور اس کی کوئی قدر و قیمت اور اہمیت نہیں ہے۔
امام سجاد علیہ السلام اس کے بعد بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں :
بار الہا ! اگر میری عمر شیطان کی چراگاہ ہو تو اسے ختم کر دے۔ عمر کو ایک چراگاہ سے تشبیہ دینا بہت ہی لطیف تشبیہ ہے اور اس میں بہت ہی نفیس اور اہم نکات موجود ہیں۔ چراگاہ میں جانور جس طرف چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں اور ان کے راستے میں جو بھی پودے وغیرہ آتے ہیں اسے کھا جاتے ہیں۔ کبھی تو ہو درختوں کے چھوٹے چھوٹے پتے کھاتے ہیں اور کبھی وہ پودوں کو منہ میں لے کر زور لگاتے ہیں اور انہیں جڑوں سے اکھیڑ دیتے ہیں۔ ان کی ٹہنیاں اور جڑیں اکھٹی کھا جاتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ چراگاہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جانور اپنی مرضی سے چرتے ہیں اور ہر پودے پر منہ مارتے ہیں۔ شیطان بھی انسان کی عمر کی چراگاہ میں بہت زیادہ سرگرمی دکھاتا ہے کبھی جسم کے ظاہری اعضاء سے استفادہ کرتا ہے جیسے آنکھ کان زبان اور ہاتھ پاؤں، اور ان میں سے ہر ایک کو گناہ کے راستے پر دھکیلتا ہے اور آدمی کو ناجائز کام انجام دینے پر مجبور کرتا ہے۔ کبھی انسان کی باطنی چراگاہ میں داخل ہوتا ہے اور اس کی فکر، سوچ، تخیل اور وہم کو اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتا ہے اور انسان کو گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس بنا پر شیطان نہ صرف انسان کے ظاہر کو بلکہ اس کے باطن کو بھی اپنے شیطانی کاموں کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
قرآن کریم میں ابلیس اور شیطان لفظ بار بار استعمال ہوا ہے۔ ابلیس جن کی قسم سے ایک مخلوق ہے کہ جو برسوں تک فرشتوں کی صف میں رہا اور وہ ان کے ساتھ خدا کی عبادت و بندگی کرتا تھا۔ جب خدا نے آدم کو خلق کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کریں۔ سب نے حکم کی تعمیل کی سوائے ابلیس کے۔ اس نے تکبر کیا اور خداوند متعال کا حکم بجا لانے سے پہلو تہی کی۔ وہ اپنی اس نافرمانی کی وجہ سے راندۂ درگاہ الہی قرار پایا۔ اس نے انتقامی جذبے کے تحت خدا سے کہا کہ وہ انسان کو گمراہ کرے گا۔
لیکن شیطان تمام گمراہ کن مخلوقات کا نام ہے اور یہ نام ابلیس کو بھی شامل ہے۔ وہ ابلیس کہ جس نے خدا کا حکم ماننے سے انکار کیا اور آدم کو سجدہ نہیں کیا اور اسی طرح جن و انس کے تمام گمراہ کرنے والوں اور وسوسہ ڈالنے والوں کو شامل ہے۔ اس کے علاوہ بعض روایات میں ہر انسان کی نفسانی خواہشات کو اس کے دل کا شیطان کہا گیا ہے کہ جو اس میں وسوسہ ڈالتا ہے اور اسے ناپاکی اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ وہ رمضان کے مبارک مہینے میں ہم سب کو شیطانی وسوسوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ زبان اس وجہ سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کے لیے ایک اہم ترین اور اصلی ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ زبان جتنی انسان کی سعادت و کمال کے لیے مفید واقع ہوتی ہے اتنی ہی کنٹرول نہ ہونے کی صورت میں اس کے دین اور دنیا کو تباہ کر سکتی ہے۔ زبان کے حقوق کو ادا کرنے کے لیے اس عظیم نعمت کو اس راستے میں استعمال کرنا چاہیے جو خدا کا پسندیدہ راستہ ہے۔ اگر زبان کو کنٹرول کیا جائے تو بہت سے گناہوں سے بچا جا سکتا ہے۔
نقل کیا گیا ہے کہ لقمان حکیم جس شخص کے پاس کام کرتے تھے اس کی فضول باتوں سے سخت ناراض تھے اور موقع کی تلاش میں تھے کہ اسے اس کی اس بری عادت سے آگاہ کریں اور جھنجھوڑ کر بیدار کریں۔ ایک دن ان کے اس مالک کے گھر ایک مہمان آیا۔ مالک نے لقمان سے کہا کہ ایک گوسفند ذبح کرو اور اس کے بہترین اعضاء سے کھانا تیار کرو۔ لقمان نے اس کے دل اور زبان سے کھانا تیار کیا اور دسترخوان پر مہمان کے سامنے رکھا۔
ایک اور دن ان کے مالک نے ان سے کہا کہ گوسفند کو ذبح کرو اور اس کے بدترین اعضاء سے کھانا تیار کرو۔ اس بار بھی لقمان نے دل اور زبان سے کھانا تیار کیا۔ ان کا مالک ان کے کام سے حیران رہ گیا اور پوچھا کہ دونوں اعضاہ کس طرح بہترین بھی ہیں اور بدترین بھی؟ لقمان نے کہا کہ دل اور زبان سعادت اور بدبختی میں مؤثر ترین اعضاء ہیں۔ اگر دل کو فیض اور نور کا سرچشمہ بنا لو اور زبان کو معرفت کی ترویج اور لوگوں کی اصلاح کے لیے استعمال کرو تو یہ بہترین اعضاء ہیں اور جب دل ظلمت و تاریکی میں ڈوب جائے اور کینہ و عناد کا مرکز بن جائے اور زبان غیبت اور فتنہ انگیزی سے آلودہ جائے تو یہ بدترین اعضاء ہوں گے۔ مالک نے اس بات سے نصیحت حاصل کی اور اپنی اصلاح کر لی۔
پروگرام کے اس حصے میں ہم امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت سے چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ آپ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اے میرے بیٹے ! کوئی بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مانند خدا کے احکام لے کر نہیں آیا ہے اور نہ ہی ان کی طرح بیان کیے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنا رہبر و رہنما تسلیم کرو اور فلاح و نجات کے راستے میں انہیں اپنا قائد منتخب کرو۔ میں نے تمہیں پند و نصیحت کرنے میں کوتاہی سے کام نہیں لیا ہے اور اپنی مصلحت سے آگاہی کے لیے جتنی بھی کوشش کرو گے تو اس حد تک نہیں پہنچ سکو گے جو میں نے تمہارے بارے میں تشخیص دی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام وصیت کے اس حصے میں اپنے عزیز بیٹے امام حسن علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے دو اہم نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں پہلا یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بہترین پیشوا اور رہنما ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے والد امیرالمومنین نے ان کی ہدایت کے لیے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کیا ہے۔ اس بنا پر ان دو پیشواؤں کی پیروی پر زور دینا چاہیے۔
اس تعبیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جو وحی الہی نازل ہوئی وہ ان تمام وحیوں سے اعلی و ارفع ہے جو گزشتہ پیغمبروں پر نازل ہوئی تھیں۔ ہر زمانے میں اس دور کے انسانوں کی استعداد کے مطابق آسمانی وحی نازل ہوتی تھی اور خاتم المرسلین کے زمانے میں خدا کے آخری پیغامات آپ کے قلب مبارک پر وحی کی صورت میں نازل ہوئے ۔ قرآن مجید کا موجودہ تورات اور انجیل سے موازنہ کرنے سے یہ فرق کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ خدا کی شناخت اور توحید اور پروردگار کی دیگر صفات کے بارے میں جو مطالب اور باتیں قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں وہ کسی اور آسمانی کتاب میں نظر نہیں آتی ہیں۔ بعض محققین کے مطابق قرآن مجید میں دو ہزار سے زائد آیات معاد یعنی قیامت اور اس سے متعلق مسائل کے بارے میں موجود ہیں۔ جبکہ اخلاقی سماجی اور سیاسی موضوعات اور ماضی کے واقعات کے حوالے سے بھی قرآن کریم میں بہت زیادہ آیات موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی وصیت میں فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی مانند کسی نے بھی وحی الہی کو اتنے وسیع انداز میں بیان نہیں کیا ہے اور بہترین رہنما اور پیشوا کی حیثیت سے ان کے انتخاب کی یہی دلیل ہے۔
٭٭٭
9
پروگرام نسیم بندگی کا آغاز حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا سے کرتے ہیں :
حضرت امام زین العابدین (ع) دعائے مکارم اخلاق کے ایک حصے میں بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ہیں۔ اللھم صل علی محمد و آلہ، ولا ترفعنی فی الناس درجۃ الا حططتنی عند نفسی مثلھا ‘ خدایا محمد وآل محمد علیھم السلام پر درود نازل فرما اور مجھے عوام کے درمیان کوئی ایسا مقام عطا نہ کر کہ اس مقام و منزلت کے سبب، میں خود اپنی نگاہوں میں گر جاؤں۔
انسانی اخلاق و عادات کے جملہ مسائل میں سے یہ ہے کہ انسان کی روح وجسم اور ظاہر و باطن کی حرکات و سکنات میں ہمیشہ توازن پایا جائے تاکہ اس کے پرتو میں انسان اچھے اور برے حالات و واقعات کے مقابلے میں خود کو محفوظ رکھ سکے۔ امیرالمومنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ حالات کی دگرگونی میں انسانوں کی باطنی لیاقت اور شائستگی کو پہچانا جاتا ہے۔ ایک دفتری ملازم یا عام لیبر جو متوسط طبقے کا ہے لوگوں کے ساتھ منکسر اور متواضع ہوتا ہے اگر کسی وجہ یا وجوہات سے اچانک اس کو ترقی مل جائے مثلاً ملازم سے سربراہ بن جائے یا عام کاروباری انسان سرمایہ دار ہو جائے تو یہ رتبہ و مقام اس کے جذبات پر اثر انداز ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ شخص تکبر اور بڑائی کا شکار ہو جائے ۔ ایسی صورت میں یہ شخص لوگوں کے ساتھ جس طرح سے تواضع سے پیش آتا تھا وہ اسے بھلا دیتا ہے اور پھر ان ہی لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔
انسان اگر چاہتا ہے کہ اس اخلاقی بیماری میں مبتلا نہ ہو تو اس کی روک تھام کرے اور اپنے تواضع میں اضافہ کرے۔ لوگوں کا ماضی سے زیادہ احترام کرے اور اپنی گناہوں اور کوتاہیوں کو یاد کرے تاکہ غرور و نخوت جو انسان کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اس سے محفوظ رہے۔ یعنی انسان کی مادی و معنوی شان جتنی بلند ہوتی جاتی ہے اس میں اتنا ہی زیادہ انکساری پیدا ہوتی ہے۔ اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو اس کا مقام اور ثروت اسے فضیلت کے راستے سے منحرف نہیں کرتااوراسے انسانی فرائض کی ادائیگی سے باز نہیں رکھتا اگر انسان حقیقت پسند ہو اور اپنی عقل سے بخوبی استفادہ کرے تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ نعمت جو اسے مقام یا ثروت کے طور پر دنیا میں دی گئی ہے اس سے اس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اس لئے وہ عوام کی خدمت کو اپنے فرائض میں قرار دیتا ہے اور کسی منت و سماجت کے بغیر ہی بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ یہ وہ درس ہے جسے حضرت علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں لوگوں کے لئے جو کام انجام دیتے ہو اس کے ذریعے بلا شبہ تم نے اپنے عزت و وقار کو بلند کیا ہے اور اس پسندیدہ کام کے ذریعے تم نے اپنے شرافت نفس کو عزت بخشی ہے لہذا اپنے عمل خیر کا شکریہ اپنے غیر سے طلب نہ کرو۔
ماہ مبارک رمضان کی دسویں تاریخ رسول خدا کی یاور و مددگار حضرت خدیجہ کی وفات کا دن ہے۔ ہم اس با عظمت خاتون کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حضرت خدیجہ (س) ایک مسلمان خاتون کی خوبیوں اور کمالات کی تجلی ہیں۔ وہ پہلی فرد ہیں جو رسول خدا(ص) پر ایمان لائیں اور پیغمبر جو اسلام لائے تھے اس کی تصدیق کی۔ انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ حتی جاہل اورپست ماحول میں بھی پاکیزہ اور سالم زندگی گذاری جا سکتی ہے اور جہل و خرافات کے پردے کو کنارے ہٹایا جا سکتا ہے۔ جناب خدیجہ کا پیغام یہ تھا کہ سعادت و رستگاری کے حصول کے لئے اہم اور اعلی اہداف کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہیئے اورراستے کی مشکلات کو برداشت کرنا چاہیئے ۔ انہوں نے رسول خدا (ص) کی زندگی میں گرمجوشی پیدا کی اور تمام مصائب و آلام میں ان کے ہمراہ رہیں۔ خدیجہ کا ایمان اور اسلام کی ترقی میں ان کا کردار اتنی عظمت کا حامل تھا کہ پیغمبر نے ان کو دنیا کی چار برگزیدہ خواتین میں سے قرار دیا اور خداوند عالم نے بار ہا جبرئیل امین کے ذریعے اپنا سلام مخصوص ان تک پہنچایا جیساکہ رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ جب میں شب معراج میں تھا تو وہاں سے واپسی کے وقت جبرئیل میرے نزدیک آئے ۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا کیا کچھ کہنا چاہتے ہو جبرئیل نے جواب دیا میری حاجت یہ ہے کہ خدا اور میری جانب سے خدیجہ کو سلام کہئے گا۔ جب پیغمبر نے جبرئیل کا پیغام خدیجہ کو پہنچایا تو خدیجہ نے جواب میں کہا وہی خدا سلام ہے اورسلام و سلامتی اس کی جانب سے ہے اور جبرئیل پر بھی سلام ہو۔
خدیجہ ہجرت سے تین سال قبل بیمار ہو گئیں۔ پیغمبر نے خدیجہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے خدیجہ کیا تم جانتی ہو کہ خدا نے بہشت میں بھی تمہیں میرا ہمسرقرار دیا ہے ؟ اس وقت جناب خدیجہ کی دلجوئی کی، ان کو جنت کا وعدہ دیا اور بہشت کے اعلی درجات کو ان کی خدمات کا شکرانہ قرار دیا۔ جناب خدیجہ کا مرض شدید ہو گیا اسی وجہ سے آپ نے اپنی وصیت کے طور پر پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے اس طرح فرمایا یا رسول اللہ میری کچھ وصیتیں ہیں میں نے آپ کے حق میں کوتاہی کی ہے مجھے معاف کیجئے گا۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا میں نے تم سے کوئی غلطی سرزد ہوتے نہیں دیکھا اور تم اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں میرے گھرکے امور میں تم بہت تھک گئیں اور تم نے اپنا سارا مال راہ خدا میں خرچ کیا۔ خدیجہ نے عرض کی یا رسول اللہ میری دوسری وصیت یہ ہے کہ میری اس بیٹی فاطمہ کا خیال رکھیئے گا کیوں کہ وہ میرے بعد بن ماں کی ہو جائے گی کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی قریش کی عورت اسے اذیت پہنچائے ۔ کہیں کوئی اسے طمانچے نہ مارے اور کوئی اس پر غصہ نہ کرے، یا اس کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ روا رکھے۔
آخر کار اسلام کی یہ عظیم خاتون پینسٹھ سال کی عمر میں ماہ رمضان المبارک میں دس بعثت کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ پیغمبر خدا نے آپ کو غسل دیا اور آپ کو اسی لباس میں جو جبرئیل خدا کی طرف سے خدیجہ کے لئے لائے تھے کفن کیا۔ رسول اکرم (ص) بنفس نفیس قبر میں اترے پھر خدیجہ کو سپرد خاک کیا اور بیٹھ کر آنسو بہایا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے سب سے زیادہ غم انگیز دور وہی تھا جب آپ نے اپنی وفا دار بیوی کو، وہ بھی اپنے چچا حضرت ابوطالب کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد، کھو دیا تھا یہاں تک کہ اس سال کو حزن و اندوہ کا سال قرار دیا۔ اس کے بعد سے جب کبھی بھی حضرت خدیجہ کا نام اور ذکر آتا تو پیغمبر کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں اور ان پر صلوات بھیجتے۔ پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں جب لوگ ہمیں خود سے دور کر رہے تھے خدیجہ نے میری مدد و نصرت کی۔
٭٭
اس حصے میں حضرت امام علی (ع) کی وصیت کا ایک اقتباس پیش کرنے جا رہے ہیں آپ فرماتے ہیں بیٹا ! میری وصیت سمجھنے میں غور کرو۔ جان لو کہ جو موت کا مالک ہے وہی حیات کا بھی مالک ہے اور خالق حقیقی بھی وہی ہے جو ہمیں موت دیتا ہے اور جو بیمار ڈالتا ہے وہی شفا بھی دیتا ہے اور دنیا باقی نہیں رہتی مگر اس نے جس طرح باقی رکھا ہے قائم ہے۔ کبھی نعمت تو کبھی پریشانی اور آخر کار قیامت کے دن جزا اورسزا۔ یا وہ بات جو خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اگر ان تمام باتوں کوسمجھنے سے قاصر ہو تو اسے اپنی لا علمی اور نادانی پر حمل کرو اور خدا پر اعتراض نہ کرو کیوں کہ تم خلقت کے آغاز سے جاہل اور نادان تھے اور پھر عالم اور آگاہ ہوئے ۔
امام (ع) اپنی وصیت کے اس حصے میں پہلے اپنے فرزند امام حسن (ع) کو وصیت کرتے ہیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس میں غور کرو اور اپنے فہم و ادراک کو بروئے کار لاؤ۔ یہ جملہ در حقیقت بحث کی اہمیت کو بتاتا ہے کہ جسے آپ نے بعد میں بیان فرمایا ہے اس وقت حضرت علی (ع) اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے خدا کی جانب سے ہے حیات و موت، صحت و بیماری، تلخ و شیریں، نعمت و آزمائش یہ سب کچھ حکیمانہ ہے اور اگر تم ان کی حکمت کو نہ جان سکوتو اسے اپنی لاعلمی اور نادانی پر حمل کرنا اور خدا کے حکیمانہ ارادے کے سامنے تسلیم ہو جاؤ۔ پھر امام (ع) دنیا کی نا پائیداری اور اس میں تلخ و شیریں حالات کی آمیزش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کی فطرت ہے اور حکمت خدا کے مطابق ہے کیوں کہ اگر انسان ہمیشہ نعمت میں غرق رہے تو غفلت کی موجوں میں غرق ہو جائے گا اور اگر ہمیشہ مبتلا اور پریشان حال ہی رہے تو اس کا پورا وجود نا امیدی کا شکار ہو جائے گا اور پھر وہ خدا سے دور ہو جائے گا۔ خداوند عالم نے ان دونوں کو ایک ساتھ رکھا ہے تاکہ انسان پیہم بیدار رہے اوراس کی جانب قدم بڑھائے ۔ اور پھر بعض افراد جو نادانی کے سبب، دنیا کے حوادث و واقعات کی حکمت سے بے خبر ہونے کے سبب اعتراض کرتے ہیں، حضرت علی (ع) اس سلسلے میں اپنے فرزند کو خبر دار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اور اگر تم دنیا کے حوادث کو سمجھنے سے قاصر رہو تو اسے اپنی نادانی پر حمل کرو۔ کتنے ایسے امور ہیں کہ جن کے بارے میں تم ابھی نہیں جانتے ہو اور تمہاری فکر اس میں متحیر اور تمہاری آنکھیں خطا کر جاتی ہیں لیکن ایک مدت کے بعد تم اس کی حکمت سے آگاہ ہوتے ہو ” امام (ع) کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی معلومات اس کے مجہولات کے مقابلے میں سمندر کے مقابل قطرے کی مانند ہے انسان عمر کے آغاز میں بہت سی باتیں نہیں جانتا اور پھر تدریجاً بعض امور کے بارے میں آگاہ ہوتا ہے اور کتنے ایسے امور ہیں کہ جن کے آغاز سے حوالے سے انسان بے خبر ہوتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس کی حکمت اس پر واضح ہو جاتی ہے اب ایسے میں کیا انسان اپنے محدود علم کے ساتھ جس چیز کے بارے میں نہیں جانتا پھر بھی اعتراض کر سکتا ہے ؟
٭٭٭
10
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا مکارم الاخلاق : امام سجاد علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں دست دعا بلند کر کے عرض کرتے ہیں :
بار الہا! میری عزت کے اسباب فراہم کر اور مجھے تکبر میں مبتلا نہ کر۔
عزت بلندیِ روح کی حالت کا نام ہے کہ جو انسان کو خدا کے سوا کسی بھی طاقت کے سامنے مغلوب نہیں ہونے دیتی اور نہ ہی اسے ذلت سے دوچار ہونے دیتی ہے۔ جو لوگ مال جمع کرنے، یا مقام و مرتبہ حاصل کرنے، یا دوسروں کے مال پر نظر رکھنے یا نفسانی خواہشات کی وجہ سے مغلوب اور ذلیل ہیں اور اپنی شخصیت کھو دیتے ہیں تو وہ ذلیل ہیں۔ کیونکہ وہ ان شیطانی کے سامنے شکست کھا کر ذلیل و رسوا ہو گئے ہیں۔ عزت اس آزاد انسان کے لیے ہے کہ جو کسی بھی نفسانی خواہش کااسیر نہ ہو اور شرافت و سربلندی سے زندگی بسر کرے۔ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ حجاز کے جنوب مغرب میں واقع نجران کے مسیحی دولت مند اور متمول تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں خط لکھا اور دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ مذاکرات اور بحث و گفتگو کے لیے ایک وفد مدینہ بھیجیں گے۔ وفد جب مدینہ کے قریب پہنچا تو انہوں نے آپس میں تبادلۂ خیال کیا اور کہا کہ مسلمان بے چارے اور غریب لوگ ہیں اگر ہم اچھے اور مہنگے لباس اور قیمتی زیورات کے ساتھ مسلمانوں سے ملیں گے تو وہ ہماری امیرانہ شان دیکھ کر مرعوب ہو جائیں گے اور ہمیں عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور یہی چیز ہماری کامیابی کا باعث بن جائے گی۔ انہوں نے بہترین اور مہنگے لباس زیب تن کیے اور سونے و جواہرات سے اپنے آپ کو مزین کیا۔ جب یہ لوگ شہر میں داخل ہوئے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور غریب نہ صرف انہیں دیکھ کر مرعوب نہیں ہوئے بلکہ ان سے بے اعتنائی برتی جو خود مسیحیوں کے لیے حقارت اور بے عزتی کا باعث بنی۔ یہ بے اعتنائی اور بے توجہی اسلام کی تعلیمات اور اعلی تربیت کا نتیجہ تھی۔ مسلمانوں کے اس رویے سے نجران کے مسیحیوں نے جان لیا کہ غریب لیکن عزت دار مسلمان ظاہری دولت اور چمک دمک سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں اور اسلام انہیں حقیقی عزت و سربلندی کا درس دیتا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام خداوند متعال سے عزت کی درخواست کرنے کے بعد عرض کرتے ہیں کہ پروردگارا ! مجھے تکبر میں کہ جو خطرناک اخلاقی برائیوں میں سے ہے، مبتلا نہ کر۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عزت نفس اور تکبر کے درمیان کوئی رابطہ اور تعلق موجود ہے کہ امام علیہ السلام عزت نفس کی درخواست کے بعد تکبر میں مبتلا نہ ہونے کی دعا کر رہے ہیں ؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے عزت نفس بعض افراد کے اندر اپنی حدود سے تجاوز کر جائے اور انسان کو تکبر سے دوچار کر دے اور وہ انسان دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور انہیں بہت ہی حقیر جانے۔
بلاشبہ عزت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ اس کے ساتھ تکبر ہوتا ہے۔ عزت نفس تواضع اور انکساری کے ساتھ جچتی اور خوبصورت لگتی ہے۔ ایک تواضع اور انکساری کا حامل شخص لوگوں میں صاحب عزت اور ہر دلعزیز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ تواضع اور انکساری معاشرے میں اس انسان کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کرتی ہے، تواضع اور انکساری سے کام لیجیے تاکہ خداوند متعال کی رحمت آپ کے شامل حال ہو۔
لیکن پسندیدہ تواضع اور انکساری یہ ہے کہ متواضع انسان کی عزت کو نقصان نہ پہنچائے اور اس کی ذلت و رسوائی کا باعث نہ بنے۔ مثلاً اگر ہم سلام کرنے میں پہل کریں، محفلوں میں کسی توقع کے بغیر کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں جو ہمارے شایان شان نہ ہو یا بحث کرنے میں لڑائی جھگڑے سے گریز کریں اگرچہ حق ہمارے ساتھ ہو، تو یہ تواضع ہے۔ لیکن اگر کوئی تواضع کے نام پر خود کو حقیر کرے یا دوسروں کی خوشامد و چاپلوسی میں زبان کھولے تو یہ اچھی بات نہیں سمجھی جاتی ہے۔ البتہ متواضع شخص کو خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی تواضع اور انکساری ذلیل و رسوائی میں نہ بدل جائے اور وہ پستی کا شکار نہ ہو جائے ۔
٭٭
ایک اخلاقی فضیلت کہ جس کا انسان کی تعمیر میں انتہائی اہم کردار ہے، رفتار و گفتار میں صداقت و سچائی ہے۔ چونکہ انسان اپنی ضروریات کی وجہ سے سماجی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اس لیے جو چیز ایسی زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے، معاشرے کے افراد کے درمیان صداقت و سچائی ہے۔ اس بنا پر اگر انسان کے تمام کاموں کی بنیاد صداقت و سچائی پر استوار ہو اور وہ ہر قسم کے جھوٹ اور غلط کاموں سے مبرا ہو تو انسان اور معاشرے کی خوش بختی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ نقل کیا گیا ہے کہ :
ایک لڑکا بغداد شہر کے سفر کے لیے تیاری کر رہا تھا تاکہ وہاں درس پڑھے اور علم حاصل کرے۔ اس کی ماں نے اسے خرچ کرنے کے لیے چالیس دینار دیے۔ اس کے بعد اس سے کہا کہ میرے بیٹے مجھ سے وعدہ کرو کہ کبھی بھی تم جھوٹ نہیں بولو گے۔ بیٹے نے ماں سے وعدہ کر لیا کہ وہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ پھر وہ لڑکا قافلے کے ساتھ سفر پر نکل پڑا۔ راستے میں ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور سب لوگوں سے مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے بعد ایک ڈاکو اس لڑکے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس بھی کوئی پیسے ویسے ہیں۔ لڑکے نے جواب دیا میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ ڈاکو ہنسا اور اس نے خیال کیا کہ لڑکا مذاق کر رہا ہے یا پاگل ہے۔ وہ اسے لے کر اپنے سردار کے پاس گیا اور اس سے ماجرا بیان کیا۔ تلاشی لینے پر لڑکے سے چالیس دینار برآمد ہوئے ۔ ڈاکوؤں کے سردار نے کہا کہ اے لڑکے تجھے کس چیز نے سچ بولنے پر مجبور کیا۔ لڑکے نے کہا میں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا ہے کہ میں ہمیشہ سچ بولوں گا اب میں اپنا وعدہ نہیں توڑ سکتا۔ لڑکے کی اس بات کا ڈاکوؤں کے سردار پر بہت اثر ہوا اور اس نے کہا کہ تم نے اپنے پیسوں کے بارے میں بتا دیا تاکہ تم نے اپنی ماں سے جو وعدہ کیا تھا وہ نہ ٹوٹنے پائے اور میں اپنے خدا سے کیے گئے وعدے بھی توڑ رہا ہوں اور اس سے ڈرتا بھی نہیں ہوں۔ اس کے بعد ڈاکوؤں کے سردار نے قافلے سے لوٹا ہوا تمام مال واپس کرنے کا حکم دیا۔ پھر اس نے لڑکے کی طرف رخ کر کے کہا کہ میں تیرے ان چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی وجہ سے خداوند بزرگ و برتر کی آغوش میں واپس جا رہا ہوں اور میں توبہ کرتا ہوں۔ دیگر ڈاکوؤں نے بھی اپنے سردار سے کہا کہ تو رہزنی اور ڈکیتی میں ہمارے سردار تھے اور آج پروردگار عالم کی جانب واپسی میں بھی ہمارے سردار ہو۔ اس کے بعد سب نے توبہ کر لی۔
٭٭
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی نصیحت کے کچھ اقتباسات
امام علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت امام حسن علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
گزشتہ کے احوال اور خبروں کو ذہن میں لاؤ کہ ان کے ساتھ کیا پیش آیا۔ اور ان کے شہروں کو دیکھو اور ان کے آثار کو غور سے دیکھو کہ انہوں نے کیا کیا؟ کہاں سے کوچ کیا اور کس منزل پر پڑاؤ کیا؟
دنیا میں انسان کی تمام غفلتیں صرف اس بات سے پیدا ہوتی ہیں کہ وہ دنیا کی عارضی زندگی کو ہی اصل سمجھنے لگتا ہے اور وہ خود کو اس دنیا میں جاوداں سمجھتا ہے جبکہ اگر وہ ہمیشہ موت اور بزرگوں کی عدم موجودگی کے بارے میں سوچے تو وہ جان لے گا کہ اس دنیا میں انسان کی زندگی کتنی مختصر اور کم ہے اور یقیناً وہ اس عارضی زندگی سے دل نہیں لگائے گا اور وہ اپنی تمام کوششیں جاوداں دنیا کے لیے وقف کر دے گا۔ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرامین میں بہت زیادہ بات کی ہے۔ امام علیہ السلام اپنی اس نصیحت کو اپنے نوجوان بیٹے کی عمر کے مطابق بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ معاشرے کے تمام طبقوں کو دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن خاص طور پر نوجوانوں کی اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ نوجوانوں میں کم عمری کے باعث تجربے کا فقدان ہوتا ہے۔ معاشرے کے گرم و سرد سے ان کا پالا یا تو پڑا ہی نہیں یا بہت کم پڑا ہے۔ دوسروں کے تجربات سے وہ کم وقت میں زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تجربہ کار لوگوں کے ساتھ بیٹھو کیونکہ انہوں نے اپنے تجربات کی قیمتی متاع اپنی عمر کا ایک اہم حصہ خرچ کر کے حاصل کی ہے اور تم ان کی گرانبہا متاع کم ترین قیمت یعنی صرف چند منٹ خرچ کر کے حاصل کر لو گے۔
٭٭٭
11
فرزند رسول حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے مکارم الاخلاق میں فرماتے ہیں :
پروردگارا محمد و آل محمد پر درود بھیج اور میری کفایت کر اس چیز میں اگر میں خود اس کو انجام دینے کی کوشش کروں تو میرا وقت لے لیتی ہے اور مجھے بنیادی اور اصلی کاموں سے روک دیتی ہے اور مجھے وہ کام کرنے والا قرار دے کہ کل قیامت کے دن جن کے بارے میں تو مجھ سے سوال کرے گا۔
امام سجاد علیہ السلام نے دعائے مکارم الاخلاق کو محمد و آل محمد پر درود بھیجنے سے شروع کیا اس کے بعد ایمان یقین نیت اور عمل کے بارے میں اپنی درخواستیں بارگاہ الہی میں پیش کیں۔ امام علیہ السلام نے ایک بار پھر دعا کے اس حصے میں صلوات کے ذکر کی تجدید فرمائی ہے اور اس کے بعد دعاؤں کو پیش کیا ہے۔ پہلے جملے میں ہم پڑھتے ہیں :
خدایا! میری کفایت کر اس چیز میں اگر میں خود اس کو انجام دینے کی کوشش کروں تو میرا وقت لے لیتی ہے اور مجھے بنیادی اور اصلی کاموں سے روک دیتی ہے۔
بہت سے افراد ایسے ہیں کہ بڑے اور عظیم کاموں کو انجام دینے کے لائق و سزاوار ہیں لیکن ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ایسے کاموں میں گزرتا ہے کہ جو زیادہ ضروری نہیں ہیں یا کوئی اور بھی ان کی نیابت میں وہ کام انجام دے سکتا ہے۔ اگر ان لائق و شائستہ افراد کا خدا پر حقیقی ایمان ہو تو وہ امام سجاد علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے دعا کر سکتے ہیں اور سچے دل سے خدا سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ چھوٹے کاموں کو انجام دینے کا وسیلہ فراہم کرے تاکہ ان کی عمر ان چھوٹے کاموں میں صرف نہ ہو اور وہ بڑے کام انجام دے سکیں۔
نمونے کے طور پر عصر حاضر کے عالم اور عارف سید رضا بہاءالدینی کے حالات زندگی میں ملتا ہے کہ وہ طالب علمی کے زمانے میں علم حاصل کرنے کی خاطر اپنے وقت سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لیے پورا ایک سال اپنے مدرسے سے باہر نہیں گئے اگرچہ مدرسے سے ان کے گھر کا فاصلہ ایک کلومیٹر سے زیادہ نہیں تھا۔ اس طرح وہ ہر وہ کام انجام دینے سے گریز کرتے تھے جس سے ان کا وقت ضائع ہوتا تھا اور اپنے اصلی فریضے کو کہ جو اس زمانے میں درس پڑھنا تھا، انجام دیتے تھے۔ یہ کام عظیم انسانوں کی بلند ہمت، بالغ نظری اور مستقبل پر ان کی نظر کو ظاہر کرتا ہے کہ جو بڑے اور عظیم کے حصول کے لیے چھوٹے امور اور کاموں کو کم از کم ایک عرصے کے لیے نظر انداز کر دیتے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام دعا کے دوسرے جملے میں کہ جو پہلے حصے کی تکمیل ہے، ان اعمال اور کاموں کے لیے معیار کو بیان کیا ہے کہ جن کا ذمہ دار انسان ہے اور اسے خود انجام دینے چاہییں اور وہ اسے ایک دعا کی صورت میں بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں کہ خدایا! مجھے وہ کام کرنے والا قرار دے کہ کل قیامت کے دن جن کے بارے میں تو مجھ سے سوال کرے گا۔
دوسرے لفظوں میں حضرت امام سجاد علیہ السلام خداوند متعال سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ فضول کاموں میں نہ پڑیں اور اپنی توجہ صرف اہم امور پر مرکوز کریں کہ جن کے بارے میں خداوند عالم قیامت کے دن انسان سے سوال کرے گا۔
٭٭
لقمان حکیم کا ایک بیٹا تھا کہ جسے وہ ہمیشہ نصیحت کرتے رہتے تھے اور وہ اسے سچ بولنے اور صحیح زندگی گزارنے اور حق کی پیروی کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحت میں آیا ہے کہ اپنے کردار و رفتار میں صرف خدا کی رضا و خوشنودی اور اپنا ضمیر پیش نظر رہے اور لوگوں کی تعریف و تمجید سے مغرور نہ ہو جانا اور عیب جوئی کرنے والوں کے اعتراض کی پرواہ نہ کرنا۔ بیٹے نے باپ سے کہا کہ وہ کوئی ایسا نمونہ دکھائیں کہ اس نصیحت کا نتیجہ وہ آنکھوں سے دیکھ لے۔ لقمان حکیم نے بیٹے سے کہا کہ ابھی سفر کی تیاری کرو اور سواری تیار کرو تاکہ سفر کے دوران میں اس راز سے پردہ اٹھا دوں۔ بیٹے نے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور جب سواری تیار ہو گئی تو لقمان اس پر سوار ہو گئے اور بیٹے سے کہا کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے چلے۔ وہ چلتے چلتے ایسے لوگوں کے سامنے سے گزرے کہ جو کھیتی باڑی میں مصروف تھے۔ انہوں نے جب باپ اور بیٹے کو دیکھا تو اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کتنا بے رحم اور سنگ دل آدمی کہ خود تو سواری سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور بے چارے بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے۔
یہ بات سن کر لقمان حکیم نے بیٹے کو سواری پر بٹھا دیا اور خود اس کے پیچھے چل پڑے۔ چلتے چلتے کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزرے اس بار جب لوگوں نے دیکھا تو پھر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس نادان باپ کو دیکھو کہ اپنے بیٹے کی تربیت میں کتنی کوتاہی کی ہے کہ یہ باپ کا احترام نہیں کرتا۔ بیٹا نوجوان اور تنومند ہے سواری پر بیٹھا ہوا ہے لیکن بے چارے بوڑھے باپ کو اپنے ساتھ پیدل چلا رہا ہے۔
یہ سن کر لقمان حکیم بھی بیٹے ساتھ سواری پر بیٹھ گئے چلتے چلتے دونوں باپ بیٹا پھر کچھ لوگوں تک پہنچے جنہوں نے باپ بیٹا دونوں کو سواری سوار دیکھا تو کہا کہ کتنے بے رحم لوگ ہیں دونوں مل کر بے چارے کمزور جانور پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا سارا وزن اس بے چارے جانور پر ڈال دیا ہے۔
یہ سن کر دونوں باپ بیٹا سواری سے نیچے اتر آئے اور پیدل اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگے اور راستے کی سختی کو برداشت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں تک پہنچ گئے ۔ جب گاؤں کے لوگوں نے دونوں کو اس حال میں دیکھا تو ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اس بوڑھے اور نوجوان کو دیکھو کہ سواری ان کے ساتھ ساتھ خالی چلی جا رہی ہے لیکن یہ اس پر سوار نہیں ہوتے لگتا ہے کہ یہ اس حیوان کو اپنی جان سے زیادہ دوست رکھتے ہیں۔
جب معاملہ یہاں تک پہنچا تو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ اس نصیحت کی عملی تصویر ہے کہ جو میں نے تجھے کی تھی۔ اس وقت تم نے خود اپنے تجربے سے یہ بات جان لی کہ لوگوں کو خوش کرنا اور عیب جو افراد کی زبانیں بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس بنا پر عقل مند آدمی کو لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے اور تعریف و تمجید کے بجائے اپنے ضمیر کی خوشنودی اور اپنے پروردگار کی رضا کے لیے کام کرنا چاہیے اور صراط مستقیم پر چلتے ہوئے اسے لوگوں کی بے جا باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔
٭٭
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی اپنے فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام کی جانے والی وصیت کے بعض اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔ اگر تم کسی لاچار کو دیکھو کہ جو تمہارا زاد راہ قیامت تک لے کر جا رہا ہے اور کل جب تمہیں اس کی ضرورت پڑی تو وہ تمہیں واپس کر دے گا، اس کی مدد کو غنیمت جانو اور زاد راہ اس کے کاندھے پر رکھ دو اور مالی استطاعت رکھتے ہو تو زیادہ خرچ کرو اور اس کے ہمراہ بھیجو۔ کیونکہ ممکن ہے قیامت کے دن تم ایسے شخص کو تلاش کرو اور وہ تمہیں نہ ملے۔ ضرورت کے وقت اگر کسی نے تجھ سے قرض مانگا تو غنیمت جانو تاکہ سختی اور تنگ دستی کے دن وہ تجھے واپس کر دے۔
حضرت علی علیہ السلام کی نصیحت میں موجود دلنشین اور خوبصورت باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ دونوں جہانوں کو پیش نظر رکھتے ہیں اور اسے سادہ اور خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔ جب دونوں جہانوں پر حقیقت پسندانہ نگاہ اس درجے پر پہنچ جاتی ہے تو وہی نتائج حاصل ہوتے ہیں جو حضرت علی علیہ السلام نے بیان کیے ہیں۔ علوی نظر اور نگاہ کے مطابق خداوند عالم نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے تاکہ انسان آخرت میں اپنی اصلی اور جاودانہ زندگی کے لیے زاہ راہ حاصل کر لے۔ جس نے زیادہ زاد راہ حاصل کیا اس نے دنیا سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ خداوند متعال نے سورہ نحل کی آیت چھیانوے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے لیکن جو کچھ خدا کے پاس وہ باقی اور لازوال ہے۔
پس عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان اس محدود وقت اور دنیا سے اپنی لا محدود زندگی کے لیے زیادہ سے زیادہ زاد راہ حاصل کرے۔ مال کو جاوداں بنانے اور آخرت کے لیے اسے ذخیرہ کرنے کا بہترین راستہ اسے راہ خدا میں دوسروں کو بخش دینا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں تم اپنے مال دنیا کا جتنا حصہ بھی دوسروں کو بخشا تو تم نے اپنا وزن ہلکا کیا اور ساتھ ہی اپنی جمع کردہ پونجی کو زیادہ کیا۔ اگر تم نے اپنے مال دنیا کو دوسروں پر خرچ کیا تو درحقیقت یہ تم ہو کہ جو ان کے مرہون منت بنوں گے کیونکہ انہوں نے تمہارے زاد راہ کا کچھ حصہ آخرت تک پہنچایا ہے اور وہاں وہ تجھے اس سے زیادہ دیں گے۔ تو کتنا بہتر ہے کہ تم اس زوال پذیر دنیا سے اپنا زیادہ سے زیادہ مال ضرورت مندوں کے کاندھوں پر رکھ دو اور اس جہان آخرت اور دیار باقی میں کہ جہاں تجھے اس کی سخت ضرورت ہے اسے وصول کر لو۔
عظیم انسان اپنا مال دوسروں پر خرچ کرنے اور انہیں بخشنے سے لذت حاصل کرتے ہیں اور درحقیقت کہا جا سکتا ہے کہ یہ شیطان ہے جو انسان کو فقر و غربت سے ڈراتا ہے اور بخشش و انفاق کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
٭٭٭
12
رمضان المبارک کا مہینہ خدا تعالی کی عبادت اور اس کا قرب حاصل کرنے کا سنہری موقع ہے۔ بہت سے لوگ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ رمضان المبارک کے بغیر زندگی ایک بے معنی سی چیز ہے۔ اگر رمضان المبارک جیسے معنوی مواقع نہ ہوں تو ہمارے دل گناہوں کی وجہ سے تاریک ہو جائیں گے لیکن رمضان المبارک کے آنے سے گویا ہمارے دلوں پر پاک و پاکیزہ بارش ہو جاتی ہے۔ رمضان ہم سے کہتا ہے کہ ایک مہربان اور دانا دوست تمہارے ایک ایک لمحے کو دیکھ رہا ہے۔ آیئے رمضان المبارک کی ان بابرکت گھڑیوں میں حضرت امام زین العابدین ع کی دعا کے ایک جملے سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ آپ دعائے مکارم الاخلاق میں پروردگار عالم سے التجا کرتے ہیں۔
[الّلھم و انتہ] بعملی الی احسن الاعمال
خدایا میرے عمل کو بہترین عمل قرار دے۔
حضرت امام سجادؑ پروردگار سے دعا کرتے ہیں کہ میرے عمل کو احسن الاعمال قرار دے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کے اعمال بھی ان کی نیتوں کی طرح معنوی اعتبار سے مختلف درجات کے حامل ہیں۔ نیک عمل کے بارے میں سب سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اس عمل کو اسلام اور شریعت مقدس سے ہم آہنگ ہونا چاہئے ۔ اگرکوئی عمل نیت، گفتار یا بدن کی حرکات و سکنات کے اعتبار سے اسلام سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسے ہر گز نیک عمل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ رسول خدا ص سے ایک حدیث منقول ہے جس سے ہمارا مدعی بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ کوئی بات بھی عمل کے بغیر قبول نہیں ہوتی ہے۔ اور کوئی عمل اور بات اس وقت تک قبول نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ اسلام کے مطابق ہو۔ ”
بنابریں نیک عمل کی انجام دہی کا انحصار تین چیزوں زبان، عمل اور نیت پر ہے۔ اللہ تعالی نے سورۂ ملک کی آیت نمبر دو میں ارشاد فرمایا ہے :
خدا نے موت اور حیات کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ آزما سکے کہ تم میں سے کس کا عمل سب سے زیادہ اچھا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ احسن عمل سے مراد عمل کی مقدار اور حجم نہیں ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ تم میں سے حقیقت کے قریب تر کون ہے۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جن کا عمل زیادہ اور معرفت کم ہوتی ہے ایسے افراد کو اجر و ثواب کم ملتا ہے۔ بعض افراد کا کام کم ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ حقیقی ایمان اور خالص نیت کے حامل اور شریعت مقدسہ سے آگاہ ہوتے ہیں اس لئے ان کا عمل بہت گرانقدر ہوتا ہے۔ ”
ہم یہاں پیغمبر اکرم ص کی ایک حدیث بیان کر رہے ہیں تاکہ سامعین پر عمل کی اہمیت و قدر زیادہ واضح ہو جائے ۔
پیغمبر اکرم ص نے فرمایا ہے :
” تم میں سے ہر ایک کے تین دوست ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو تمہاری خواہشات پوری کرتا ہے۔ یہ دوست تمہاری دولت و جائیداد ہے۔ تمہارا دوسرا دوست ہو ہے جو قبر میں تم کو اتارنے تک تمہارا ساتھ دیتا ہے اور تم کو دفن کرنے کے بعد تم سے جدا ہو جاتا ہے۔ نہ تو کوئی چیز تم کو دیتا ہے اور نہ ہی اس سے آگے تمہارا ساتھ دیتا ہے یہ تمہارے گھر والے ہیں۔ اور تیسرا دوست جو انسان کے ساتھ رہتا ہے وہ انسان کا عمل ہے۔ ”
اس کے بعد آنحضرت ص نے فرمایا کہ عمل چاہے اچھا ہو یا برا وہ کہتا ہے کہ خدا کی قسم کہ تم جہاں بھی جاؤ گے میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گا اور تم سے الگ نہیں ہوں گا۔ ”
بنابریں، ہمارے اعمال ہم سے جدا نہیں ہوتے ہیں اگر وہ اچھے ہوں تو ہم کو جنّت تک لے جاتے ہیں اور اگر برے ہوں تو ہمیں دوزخ میں لے جاتے ہیں۔
بردباری انسان کی بہت کی کامیابیوں کی کنجی ہے۔ انسان چونکہ ایک سماجی مخلوق ہے اور اس کا واسطہ ماحول اور دوسرے انسانوں کے ساتھ پڑتا ہے اس لئے لامحالہ اس کو زندگی میں بعض مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ان مواقع پر انسان کو صبر تحمل سے کام لینا چاہئے تاکہ وہ آرام وسکون، تدبر اور دور اندیشی کے ساتھ صحیح راستے کا انتخاب کر سکے۔
حلم و بردباری کا شمار ایسے صفات میں ہوتا ہے جو عظیم افراد خصوصاً خدائی نمائندوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور اسی اچھی صفت کی وجہ سے بہت سے افراد ان کے گرویدہ ہو گئے ۔
عروۃ بن محمد ایک نیک انسان تھے۔ ایک دن وہ لوگوں کے اجتماع میں تقریر کر رہے تھے۔ اچانک ایک شخص نے ان کے سامنے کھڑے ہو کر ان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ عروہ کو اس حد تک غصہ آیا ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس شخص کو سخت لہجے میں جواب نہیں دیا بلکہ صبر و تحمل سے کام لیا اور وہاں سے چلے گئے ۔ انھوں نے وضو کیا اور دو بارہ لوگوں کے اجتماع میں واپس آ گئے ۔ اب ان کا غصہ ختم ہو چکا تھا۔ انھوں نے دوبارہ لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میرے آباء و اجداد میں سے ایک نے رسول خدا ص سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا۔ غضب اور غصہ شیطان سے ہے، شیطان کو آگ سے خلق کیا گیا ہے اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے اس لئے جب بھی تم کو غصہ آئے تو وضو کیا کرو۔ ”
حضرت علی علیہ السلام کی ایک اور وصیت کے اقتباسات
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ ” اے بیٹے تم اپنے اور دوسروں کے امور کے سلسلے میں خود کو کسوٹی قرار دو۔ دوسروں کے لئے وہپسندکروجواپنے لئے پسندکرتے ہواوردوسروں کے لئے وہ چیز پسند نہ کرو جو اپنے لئے پسندنہیں کرتے ہو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر ظلم نہ کیا جائے تم بھی دوسروں پر ظلم نہ کرو۔ دوسروں کے ساتھ نیکی کرو جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ نیکی کی جائے ۔ جس چیز کو تم دوسروں کی جانب سے ناپسند جانتے ہو اسے اپنی جانب سے بھی ناپسند جانو۔ ایسی بات نہ کرو جو تم جانتے نہیں ہو۔ چاہے تمہاری معلومات کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اور ایسی بات بھی نہ کرو جس کا اپنے بارے میں کہا جانا تم کو ناگوار گزرتا ہو۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ تم دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے سلسلے میں اپنے آپ کو مد نظر رکھو۔ دوسروں کے لئے جوپسندکرتے ہواسی کو اپنے لئے پسندکرو۔ اور جو کچھ دوسروں کے لئے پسند نہیں کرتے ہو وہ ایسی چیز ہونی چاہئے جسے تم اپنے لئے بھی پسند نہیں کرتے ہو۔ اس طرح تمہارے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ایک طرح کا اتحاد اور بھائی چارہ قائم ہو گا۔ حضرت علیؑ علیہ السلام کی اس نصیحت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ دوستانہ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونے کے سوا اور کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکتا ہے۔ اور آپ کی اس نصیحت پر عمل کے نتیجے میں پائیدار دوستی اور صحت مند سماجی تعلقات جنم لیتے ہیں۔
اگر معاشرے کے تمام افراد اپنے ضمیر کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھیں اور دوسروں کے حقوق کا احترام کریں اور سماجی تعلقات مضبوط ہوں اور معاشرے امن و سلامتی سے ہمکنار ہو گا۔
حضرت علی علیہ السلام نے جان کو ذہنی دباؤ سے نجات دلانے کے لئے نصیحت فرمائی ہے کہ تم دوسروں پر ظلم نہ کرو جس طرح تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ تم پر کوئی ظلم کرے۔ جس طرح تم اس بات کو پسندکرتے ہو کہ دوسرے افراد تمہارے ساتھ نیک سلوک کریں ویسے ہی تم خود بھی ایسا ہی سلوک کرو تاکہ ان کو پتہ چل جائے کہ تمہارے دل میں ان کی دشمنی کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا ہے۔ اب جب کہ تم دوسروں کے دلوں میں گھر کرنا چاہتے ہو تو جس چیز کو تم اپنے لئے پسندنہیں کرتے ہواوراس کا شکار نہیں ہونا چاہتے ہو اس چیز کو دوسروں کے لئے بھی پسند نہ کرو کیونکہ انسان محبت کی تلاش میں رہتے ہیں اس کو دوسروں کا برا چاہنے کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حتی مومنین کے درمیان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بنیاد بھی دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت ہی ہے اور یہ اس لئے ہے تاکہ یگانگت کے اسباب پائیدار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خوشنودی اور مسرت کے اسباب کو جانو اس کے بعد ان کے ذریعے دوسروں کو خوش کرو۔ یہ ایک ایسی نصیحت ہے جو انسانوں کو خود غرضی، تکبر اور خود پسندی سے نجات دلاتی ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید