FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

میرا جی

 نامعلوم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب  پڑھیں ……

میرا جی

نا معلوم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

میرا جی کے حالات زندگی

میرا جی منشی مہتاب دین سب انجینئر ( ریلوے) کے ہاں 25 مئی 1912ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام محمد ثناء اللہ شانی ڈار تھا۔ والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں کا رخ کرتے رہے، اس لیے میرا جی کی تعلیم ادھوری دی گئی اور آپ میٹرک بھی نہ کر سکے۔ میرا جی نے گجرات کاٹھیا واڑ، بلوچستان، بکھر اور ملتان کی سیاحت کی۔ اس سیاحت کے اثرات ان کی شاعری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ ایک ہندو بنگالن لڑکی میرا سین کے عشق میں گرفتار ہوئے اور ثناء اللہ ڈار سے میرا جی ہو گئے۔ آپ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ آپ نے دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کا مطالعہ کیا۔ ادبی دنیا، ساقی (دہلی) اور خیال (ممبئی) کی ادارت کی۔ آل انڈیا ریڈیو میں آپ نے ملازمت بھی کی۔ آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے زمانے میں آپ نے گیت لکھنے شروع کر دیے۔ 3 نومبر 1949ء کو بمبئی میں کنگ ایڈورڈ ہسپتال میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ آپ کے جنازے میں چار آدمی شریک ہوئے اور کمیٹی کے قبرستان میرن لائن میں آسودہ خاک ہوئے۔

میرا جی کا حلیہ

میرا جی کی ذات سے بہت سی کہانیاں منسوب کی جاتی ہے۔ ان کی ہیئت کذائی بڑی عجیب و غریب تھی۔ ان کے بال لمبے تھے، مونچھیں بڑی بڑی تھیں، ان کے گلے میں موٹے دانوں کی لمبی مالا پڑی ہوتی تھی۔ کٹی پتلونیں پہنتے تھے۔ اس کے اوپر کہنیوں سے پھٹی ہوئی شیروانی پہنتے۔ جیبوں میں ایک پائپ، تمباکو بھری کاغذ کی پوٹلی، پان کی ڈبیا اور ہومیو پیتھک ادویات ہوتیں۔

اعجاز احمد، میرا جی کے حلیے کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’زندگی کے آخری سالوں میں اس نے اپنے آپ پر کمال عیاری کے ساتھ ایسی ہیئت طاری کر لی تھی کہ دیکھنے والا اسے کچھ بھی کہہ سکتا تھا۔ سادھو، نیوراتی، مجرم، کسی فیکٹری کا ادنیٰ ملازم، چلتی پھرتی لاش، جب اس نے جوانی میں ہی انتقال کیا تو مرنے کی عمر اس کی ابھی نہ تھی۔ مگر جینا اس کے لیے دو بھر بھی ہو چکا تھا اور شاید بے معنی بھی۔ اس کی زندگی کی داستاں دکھوں کی ایک بغچی ہے، جس میں ہر رنگ کی کترن ملے گی اور شخصیت میں جھوٹ، چالاکی، ذہانت، علم، عیاری، درد سب کچھ ہے۔‘‘

میرا جی کی شاعری

میرا جی کی زندگی شاعری سے عبارت تھی۔ اس کی زندگی اور شاعری یکجا ہو چکے تھے۔ شاعری کے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین، جو ’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں، ان کے صاحب ذوق اور صاحب مطالعہ ہونے کی دلیل ہیں۔ میرا جی روس کے شاعر پشکن، فرانس کے فرانساں ویلاں، مغربی شاعر طامس مور، انگلستان کے جان فیلڈ، فرانس کے بادلیئر، بنگال کے چنڈی داس، جرمن کے ہائنے اور انگلینڈ کے ڈی ایچ لارنس سے متاثر تھے۔ ان کی شاعری میں ان تمام شعرا کے نظریات و خیالات دیکھے جا سکتے ہیں۔

میرا جی…جدید شاعری کے بانی

میرا جی کا شمار جدید شاعری کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے جدید شاعری کی ہئیت میں نئے نئے تجربات کیے۔ انہوں نے شاعری کو نئے امکانات اور نئے رجحانات سے مالا مال کیا۔ شمیم احمد اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’میرا جی نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ ہر اس بنیادی تصور یا اصول پر شدید ضرب لگائیں گے، جو شعر کو ماضی کی روایت سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے سب سے پہلے فارم اور ہئیت پر توجہ کی۔ آزاد نظم کی ہئیت ترکیبی ان تمام اصولوں سے روگردانی کرتی ہے، جس پر ہماری شاعری کی بحور کی بنیاد کھڑی تھی۔ آزاد نظم ہماری شاعری کی ظاہری شکل و شباہت اور خارجی تانے بانے سے اس قدر الگ کھڑی ہے کہ اردو شاعری کے نگار خانہ میں ایک عجوبے سے کم نظر نہیں آتی۔ اقبال کی شاعری ہندوستان کے طول و عرض میں گونج رہی تھی۔‘‘

سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات

سلسلہ روز و شب اصلِ حیات و ممات

میرا جی کی نظم ’اونچا مکان‘ میں نئے تجربات کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

اس کا ہے ایک ہی مقصد استادہ کرے

بجرا اعصاب کی تعمیر کا ایک نقشِ عجیب

جس کی صورت سے کراہت آئے اور وہ بن جائے ترا مد مقابل پل میں

ذہن انسانی کا طوفان کھڑا ہو جائے

اور وہ نازنیں بے ساختہ بے لاگ ارادہ کے بغیر

ایک گرتی ہوئی دیوار نظر آنے لگے

شب کے بے روح تماشائی کو بھول کر اپنی تھکن کا نغمہ

مختصر ارزش چشم در سے

ریگ کے قصر کے مانند سبک سار کرے

بحر اعصاب کی تعمیر کا اک نقش عجیب

ایک گرتی ہوئی دیوار کے مانند لچک جائے

ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں کہ میرا جی نے شاعری کا کینوس وسیع کیا ہے۔ وہ نئے امکانات اور نئے رجحانات کے شاعر ہیں لیکن نقادوں نے ان کی ہیئت کذائی، ان کے حلیے اور ان کی عجیب و غریب عادات پر زیادہ خامہ فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ دا ینارا ماریکے ، بودلئیر ، ژان زینے ، ایڈگر ایلن پو اور دوستوفسکی جیسے شاعر، ادیب کج روی اور بے راہ روی کا شکار تھے لیکن ان کے نقادوں نے اپنا زور قلم ان کی بری عادات کی بجائے ان کی تخلیقات کی تفہیم پر صرف کیا۔ مذکورہ بالا ادیب، شاعر میرا جی کے پسندیدہ فن کار  تھے۔ میرا جی نے ان جیسی عادات اپنائیں۔ بہر حال میرا جی نے نئی شاعری کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی میرا جی کی جدید شاعری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میرا جی کی شاعری نے اردو شاعری کی شعری ساخت پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ رموز اوقاف کو کامیابی کے ساتھ شعری اظہار کا وسیلہ بنایا ہے۔ آج کا شاعر زبان و بیان، طرز و اسلوب اور جدید میشوں کو جس اعتماد کے ساتھ پیش کر رہا ہے، اس میں میرا جی کا حصہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

نئے رنگ

جب میرا جی کی شاعری منظر عام پر آئی، ان دونوں ترقی پسند تحریک شاعری کو ایک بنے بنائے سانچے میں ڈھال چکی تھی۔ میرا جی نے ان سانچوں سے انحراف کیا اور اپنی شاعری میں نئے موسم اور نئے رنگ متعارف کروائے۔ انہیں بنے بنائے راستوں پر چلنا گوارا نہ ہوا۔ انہوں نے سیدھی سادی منظر کشی اور تصویر کشی سے گریز کیا اور مدھم نقطوں اور مٹی ہوئی لکیروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کی شاعری میں علامات اور استعارے ملتے ہیں۔ بات کو بڑھانا انہیں خوش نہ آیا بلکہ انہوں نے بات کو سمیٹنا اور پیٹنا پسند کیا۔ میرا جی ماضی میں جھانکتے ہیں یعنی ان کی شاعری میں ہندی تہذیب مجسم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ جنس ان کی شاعری میں برتی رو کی طرح دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میرا جی کی شاعری پڑھ کر انسان میٹھا میٹھا درد محسوس کرتا ہے۔ یہاں فیض کی طرح انقلابی لہریں موجود ہیں۔ ساقی فاروقی ، میرا جی کی نئی نظم کے بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:

’’میرا جی نئ نظم کو خام مواد اور امکانات کا ایک نیا ذخیرہ دے گئے ہیں۔ یہ کام بہت اہم سہی لیکن یہی تو سب کچھ نہیں۔ وہ ایک اچھے شاعر نہ سہی مگر ایک اہم شاعر ہیں۔ بڑے شاعر بھی نہیں، حالانکہ اس کے امکانات ان میں ضرور تھے۔ میرا جی روایت سے نا آشنا اتنے تو نہیں ہوں گے جتنے وہ اپنی نظموں میں لکھتے ہیں مگر وہ اردو شاعری کی معنوی زبان کو توڑنے کی دھن میں پل بنانا بھول گئے۔ اس لیے ایک خلا کا احساس ہوتا ہے۔ موضوعات اور نئے مواد کی فراہمی میں میرا جی، فیض سے بڑے شاعر ہیں لیکن فیض کی نغمگی اور شعریت جو اچھی شاعری اور بڑی شاعری دونوں کے لیے بے حد ضروری ہے، اس سے ان کا دامن تہی نہ سہی، اتنا وسیع ہر گز نہیں ہے کہ ان چیزوں کے لیے پوری گنجائش نکال لے۔ اگر یہ کمی ان کے یہاں نہ ہوتی تو وہ زیادہ قابل قدر نظم نگار ہوتے۔‘‘

میرا جی کی نظموں میں جنسی پہلو

اگر شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ سے منسلک شاعروں میں ایک فرق یہ نمایاں رہا کہ دبستان دہلی کے شاعروں کے ہاں حسن و عشق کے معاملات ایک نکھرے ہوئے ذوق اور لطیف جذبات کے آئینہ دار ہیں، جبکہ لکھنوی شاعر خارجی حسن کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ عورت کے ایک ایک عضو اور انگ انگ کی تصویر یں ملتی ہیں۔ اس سے لطافت اور نفاست کا خون ہوتا ہے۔ جب میرا جی نے شاعری شروع کی تو اس وقت فن شاعری میں جنس کا اظہار شجر ممنوعہ تھا۔ اردو غزل میں محبوب کا تذکرہ بھی ایک مذکر کردار کے ذریعے ہوتا تھا۔ میرا جی نے جنسی جذبے کو اپنے فن کا حصہ بنا دیا۔ میرا جی نے کچھ اس قسم کا اعلان کیا:

’’جنسی دخل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی قوت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں اور جس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے، وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے، اس لیے رد عمل کے طور پر دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصویر کے آئینے میں دیکھتا ہوں، جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو میرا آدرش ہے۔‘‘

عمیق حنفی، میرا جی کی جنسیت کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’میرا سین سے عشق میں ناکامی  نے میرا جی کو نام ، مذہب ، معاشرت اور عقائد بدلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ نہ تو تعجب کی بات ہے نہ خلاف معمول۔ نام بدل لینا، بال بڑھا لینا، ہندو دیو مالا کے بعض کردار اور چند علامتیں، اشارے اور استعارے اختیار کر لینا اور اپنے دیس کے ماضی میں پناہ گزین ہو جانا، میرا جی کی ابنارمل طبیعت کا نارمل عمل تھا۔ ایسے حادثوں سے متاثر ہو کر بعض نیوراتی (Neurotic) لوگ خود کشی کر کے دنیا ترک کر دیتے ہیں۔ کچھ جوگ لے لیتے ہیں۔ نام بدلنا ، بال بڑھا لینا، میرا جی کی خود لذتی میں بڑا معاون ہوا ہوگا۔ اس رد عمل کا سبب میرا جی کے لاشعور کے اندھے اور خشک کنوئیں میں تلاش کرنا فضول اور بے سود ہے۔ اپنی کایا پلٹ کے متعلق میرا جی نے اپنی نسلی یادوں ، موروثی آریائی ذہانت ، حافظے اور طبیعت کو ضروری طور پر ذمہ دار قرار دیا ہے۔‘‘

میرا جی کی عشق میں ناکامی

میرا جی کی زندگی میں ایک ہندو بنگالن عورت میرا سین داخل ہوئی۔ میرا جی اس کے عشق میں اتنے ڈوب گئے کہ انہیں اپنے ظاہر کی کوئی خبر نہ رہی۔ انہوں نے عشق کی ناکامی کا بدلہ اپنی ذات سے لیا۔ میرا جی غلیظ کپڑے پہنتے۔ انہوں نے بال دیوانوں کی طرح بڑھا لیے تھے۔ عام معاشرے کے لیے وہ قابل نفرت تھے۔ ویسے بھی وہ دوستوں کو اپنے سے بے زار اور ناراض کر دیتے تھے۔ شراب اتنی زیادہ پیتے کہ راستوں اور گزرگاہوں میں گرے ہوتے۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ اوپر سے غلیظ اور کثیف دکھائی دینے والا میرا جی اندر سے کتنا لطیف، مفکر اور ملائم ہے۔ قیوم نظر، میرا جی کے گہرے دوست تھے، ان کی رائے ملاحظہ کیجیے:

’’میرا جی کے ہاں جنس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ویسے تو اس کائنات کی ہر شے میں اس کا پایا جانا کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن میرا جی نے اپنے آپ کو اس سے ذرا زیادہ ہی وابستہ کر لیا تھا۔ اور پھر اس جذبے کی بالیدگی کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی سے ہم آہنگ ہونے والے نشیب و فراز نے انہیں مختلف ذہنی کیفیتوں سے آشنا کیا تھا، جو بڑھتے بڑھتے ان گنت ذہنی الجھنوں کا روپ دھار چکی تھیں۔‘‘

نفیس اقبال اس ضمن میں رقم طراز ہیں:

’’میرا جی نے اپنے گیتوں (اور نظموں) میں ہندوستان کی دھرتی کی سب سے بڑی جنسی علامت یعنی ایک ہندوستانی عورت کو پیش کیا ہے۔ میرا جی نے عورت کے جسمانی پہلوؤں کو بطور خاص اہمیت دی ہے۔ میرا جی نے محبت کے ان گنت موضوعات میں سے صرف جنسی محبت کا پہلو لیا ہے۔ اور اپنی ذات میں چھپے ہوئے درد، پیار اور جسم کی پکار اور روح کی کشاکش کو لفظوں کا روپ دیا ہے۔ ان کے گیتوں کی بکھری ہوئی کڑیاں اکٹھی کر دی جائیں تو ایک افسانہ مرتب ہو سکتا ہے۔ اس داستان میں اس شخص کی ناکامی کی داستان ہے، جس کی زندگی میں ایک موہنی مورت ستارے کی طرح چمکی اور دل دیوانہ اس کی جگمگاہٹ میں ایسا کھویا کہ ہمیشہ کے لیے انجانی دنیا کے سپنوں میں کھو گیا اور ساری زندگی کھو یا کھویا رہا۔‘‘

برقعے، ایک تھی عورت، تن آسانی، تفاوت راہ، رخصت اور دن کے روپ میں رات کہانی، میرا جی کی ایسی نظمیں ہیں، جس میں میرا جی کی نفسیاتی حالتیں سامنے آتی ہیں۔

ان کی نظم ’برقعے‘  کا اقتباس دیکھیے:

پہلے پھیلے ہوئے دھرتی پر کوئی چیز نہ تھی

صرف دو پیڑ کھڑے تھے چپ چاپ

ان کے شاخوں پہ کوئی پتے نہ تھے

ان کو معلوم نہ تھا کیا ہے خزاں کیا ہے بہار

پیڑ نے پیڑ کو جب دیکھا تو پتے نکلے

وہی پتے ، وہی بڑھتے ہوئے ہاتھوں کے نشاں

یہ نظم آگے چلتی ہے اور میرا جی کے جنس کے متعلق اچھوتے خیالات سامنے آتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ’’ کروٹیں‘‘ کا یہ اقتباس دیکھیے:

میٹھی باتوں کے نیچے جو پاتال ہے

اس کی گہرائی سے ایک زہریلی ناگن اُبھر آئے گی

رینگتے رینگتے اپنی پھنکار سے صاف کر دے گی

چا ہو تو مانو اسے

لیکن اس کی ہر بات میں جھوٹ ہے یوں سمویا ہوا

جیسے بادل کے گھونگھٹ میں کھویا ہوا

چاند کا روپ چبھتی ہوئی تان کے بھیس میں پھوٹ پڑتا ہے چشمہ کی مانند لیکن بجھاتا نہیں پیاس کو

اور بھڑکا کے بے چین کرتا چلا جاتا ہے

میرا جی کی جنسی علامات کو سمجھنا آسان نہیں۔ چاند میرا جی کے ہاں محبت اور الفت کی علامت ہے۔ دن فرد کی غیر جنسی زندگی کو ظاہر کرتا ہے اور رات کا سایہ جنس کی علامت ہے۔ جمیل جالبی میرا جی کی جنسیت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’میرا جی نے جنسی خواہشات کو قلبی رفاقت سے علیحدہ کر کے جنسی زندگی کی ساری سماجی اہمیت کو نظر انداز کر دیا اور اس حد تک انتہا پسند ہو گئے کہ جنسی بے راہ روی اور نراج کو بھی برا نہ سمجھا۔ لب جوئے بار، اونچا مکان، حرامی، طوائف اور اغوا جیسی نظمیں اس نظریہ کی شاہد ہیں۔‘‘

ایک نظم ’ایذا کے دن سپنے‘ سے یہ اقتباس دیکھیے:

سفید بازو

گداز اپنے

زبان تصور میں حفظ اٹھانے

اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں مگر انہیں برق ایسی لہریں

سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں

سفید باز و گداز اتنے کہ ان کے چھونے سے

ایک جھجک روکتی چلی جائے ، روک ہی دے

اس نظم میں مکمل عورت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ میرا جی عورت کا تذکر نہیں کر رہا بلکہ وہ تو دن میں سپنا دیکھ رہا ہے۔

ابہام

میرا جی نے جب نئے موضوعات، نئی علامات اور نئی ہیئت و تراکیب کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا تو ایک ابہام پیدا ہو گیا۔ جب نئے نئے راستے دریافت کیے جا رہے ہوں، اظہار و ابلاغ کے چبائے ہوئے نوالوں کو چبانے سے گریز کیا جا رہا ہو، جب شاعری کے ان دیکھے جزیروں کی سمت سفر جاری ہو تو ابہام کا در آنا بعید نہیں ہوتا۔ آغاز میں ابہام تک رسائی حاصل کرنا آسان کام نہیں تھا، رفتہ رفتہ ابہام خود بخود آسان ہوتا چلا گیا۔ جنس نگاری اور جنس پرستی کی بدولت ابہام پیدا ہوا تھا۔ میرا جی کی شاعری کا انسان بزدل، بے حوصلہ اور احساس کمتری کا شکار ہے۔ افسردگی، اداسی اور پریشانی ان کی شاعری کے نمایاں عناصر ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

جیون کی ندی رک نہ جائے

رک جائے تو رک جائے

رک جائے تو رک جائے

میرا جی اپنی شاعری میں ابہام کے بارے میں لکھتے ہیں:

جدید شاعری کی آمد اور مغربی تعلیم و تہذیب کے اثرات سے شاعری میں ابہام کے بعض نئے پہلو بھی نکل آئے ہیں اور ان پر غور و خوض کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ شاعر کی ذہنی اور نفسی حرکات کو بھی تخلیق فن میں پہلے سے اب بہت زیادہ دخل ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہ لیجیے کہ اب شاعری پہلے کی نسبت، بہت زیادہ ذاتی و انفرادی ہوتی جا رہی ہے۔ شاعر کے ذہن میں ایک خیال یا تصور پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کے اظہار کے لیے عام زبان سے ہٹ کر خاص اور مناسب الفاظ کی تلاش کرتا ہے، جو اس کے تصورات سے پورے طور پر ہم آہنگ ہوں اور اس اجنبیت کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی شاعر کے نقطہ نظر سے اپنے ذہن کی حرکت کو شروع کریں ورنہ ہمیں اس کی تخلیق میں ابہام اور اغلاق نظر آئے گا اور اگر چہ وہ ابہام ہمارے سمجھنے میں ہو گا یعنی ہماری ذات میں لیکن ہم اسے بے صبری میں شاعر کے سر منڈھ دیں گے۔‘‘

میرا جی کا نفسیاتی المیہ

میرا جی کی زندگی نفسیاتی الجھنوں کا شکار تھی۔ اس نے جنسی تسکین کے لیے خود لذتیت جیسی بیمار سوچ کو اپنایا۔ یہی اس کا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ وہ عورت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اور مریضانہ تخیل کی وادیوں میں پناہ لیتا ہے۔ یہ جذبہ اس کی نظموں میں ایک نفسیاتی المیہ بن کر ابھرتا ہے۔ میرا جی انسان کے لباس کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ اس لباس نے انسان کے اندر جذبہ تجسس کو ابھارا، جب انسان کو لباس کی ضرورت نہیں تھی ، اس وقت اس کی آنکھ کو کچھ دیکھنے کی خواہش نہیں تھی۔

میرا جی کی شاعری میں ہندوستانی عورت بطور علامت سامنے آتی ہے۔ میرا جی اس عورت کے جسمانی خدو خال کی تصویریں بناتا ہے۔ میرا جی کی محبت میں پیار، الفت، روح کی بے چینی اور جسم کی پکار جھلکتی ہے۔ اس کے گیت سن کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایک عورت نے کسی جوگی کے دل میں پیار کی جوت جگائی اور پھر پیار کی چنگاری بجھ گئی۔ وہ جوگی اس پیار کو عمر بھر فراموش نہ کر سکا اور اس نے اپنے لاشعور کی زندگی کو اپنالیا۔ میرا جی نا آسودہ خواہشات اور کچلی ہوئی جنسیت کی ناؤ میں سوار تھے۔ اس لیے ان کی نفسیاتی الجھنوں نے انہیں بھری محفل میں تنہا کر دیا۔ وہ جنس پر معاشرے کی عائد کردہ پابندیوں کے مخالف ہیں۔ وہ جنس کو فطرت کا ایک تحفہ گردانتے ہیں۔ میرا جی نسوانی پیکر تراشتے ہیں۔ وہ رنگ اور روشنی کا اظہار کرتے ہیں۔ میرا جی کی زندگی عجیب و غریب محرومیوں اور الجھنوں کا موقع ہے۔ نقاد ان کی نا آسودگیوں اور محرومیوں کی بڑی وجہ ان کے ناکام عشق کو گردانتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد کہتے ہیں کہ میرا جی خود اذیتی اور نا آسودگی کا شکار تھے ۔ کیا یہ خود اذیتی اور نا آسودگی ان کی اپنی پیدا کردہ تھی۔ ن۔ م۔ راشد یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ وہ دوسروں سے منفرد دکھائی دیں۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی کہ میرا جی نے ظاہری زندگی سے منہ موڑ کر اندر کی دنیا میں پناہ تلاش کی؟ انہوں نے جنسی تسکین کے لیے جو حربہ اختیار کیا، کیا یہ مہذب تھا؟ میرا جی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اس میں سیاسی و سماجی جبر اور دباؤ موجود تھا۔ اسی جبر اور دباؤ نے انہیں ایک نیا جزیرہ دریافت کرنے پر مجبور کیا۔

میرا جی ایک دکھی ، خوف زدہ اور تھکے ہوئے انسان ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:

’’میرا جی کی نظموں میں جو انسان ہمیں ملتا ہے ، وہ ایک دکھی اور تھکا ہوا انسان ہے، جسے اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہے۔ اس لیے وہ چیزوں کو چھوتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔ میرا جی اس بے اعتمادی ، دکھ اور خوف کو جدید تہذیب و تمدن کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ میرا جی کی شاعری کا انسان اس سماج سے اسی لیے متنفر ہے۔ یہ انسان افسردہ فضا میں سانس لیتا ہے۔ مدھر لے میں غمگین نغمے چھیڑتا ہے، جن سے جنوں انگیز گھاؤ جاگ اٹھتے ہیں اور جن سے کیف حیات ملتا ہے۔‘‘

میرا جی کو اپنے گردو پیش میں خلا ہی خلا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظم کی یہ سطور دیکھیے:

بہت دور انسان ٹھٹکا کھڑا ہے

ایسے ایک شعلہ نظر آ رہا ہے

مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے

تخیل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے

عدم اس تصور یہ جھنجھلا رہا ہے

نفس در نفس کا بہانہ بنا ہے

حقیقت کا آئینہ ٹوٹا پڑا ہے

تو پھر کوئی کہہ دے یہ کیا ہے وہ کیا ہے

خلا ہی خلا ہے خلا ہی خلا ہے

میرا جی کی علامت نگاری اور اشاریت

اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو شاعری کا اصل مقصد ابلاغ ہے۔ شاعری میں بات قارئین تک پہنچانے کے لیے تشبیہات ، استعارات، اشاروں اور کنایوں سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات حالات کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ شاعر اپنی بات کو مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اسے کھل کر بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ایسے میں علامتیں اور اشارے اس کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ معاشرے میں جبر، حکومتی دباؤ اور دیگر سماجی بندشیں شاعری کو علامتوں کے استعمال پر مجبور کر دیتی ہیں۔ پڑھنے والے اگر شاعر کی ان علامتوں کو سمجھ لیں تو شاعر کا تخیل واضح ہو جاتا ہے۔ میرا جی کا دور سیاسی سماجی لحاظ سے انتشار سے بھرا ہوا تھا۔ ہمارے اردو ادب میں جدید شاعری کی بنا میرا جی نے رکھی۔ میرا جی نے فرانسیسی شاعروں کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے فرانسیسی شاعروں کی علامتوں کو سمجھا اور پھر اپنی شاعری میں علامتوں کو استعمال کیا۔ میرا جی نے جن مسائل پر لکھا ہے، اگر انہیں صاف صاف لکھ دیا جائے تو وہ شاعری نہیں بن پائے گی۔ میرا جی علامتوں میں بڑی سہولت سے بڑی سے بڑی بات کہہ جاتے تھے۔ وہ الگ بحث ہے کہ ان کی علامتیں غیر واضح اور الجھی ہوئی ہیں۔ ’’چاند‘‘ میرا جی کی شاعری میں محبت اور ’’رات‘‘ جنسی جذبے کی علامت ہے۔ ’’ندی‘‘ اور ’’کنواں‘‘ عورت کی علامات ہیں۔ میرا جی علامتیں استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ سلیقے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے لاشعور کی داستان علامتوں کے پردے میں سنائی ہے۔ وہ جنس کے اجاڑ رستوں کو بادل ، سمندر اور ٹیلے جیسی علامات کے ذریعے سامنے لاتے ہیں۔ میرا جی اشاروں کنایوں کے حوالے سے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ہیئت اور آہنگ کے لحاظ سے آزاد نظم کو مکمل طور صرف میرا جی نے برتا ہے۔ میرا جی نے جس معاشرے میں جن موضوعات کا راگ چھیڑا، اس معاشرے کی سماعتیں ایسے راگ سے مانوس نہیں تھیں۔ یہ تو اُردو ادب میں ایک بہادری کا کام تھا۔

شعری روایات سے انحراف

میرا جی نے بات اپنے انداز میں کی۔ انہوں نے قدیم شعری روایات سے انحراف کیا اور اپنے لیے نئے نئے راستوں کا انتخاب کیا۔ غالب نے کہا تھا:

ہر چند سبک دست ہوئے بُت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

میرا جی بھی بت شکن ثابت ہوئے۔ انہوں نے اردو شاعری کو نئے نئے موضوعات سے روشناس کرایا۔ ہئیت اور عروض کے تجربات بھی کیے۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ آنے والوں کو اظہار و ابلاغ کے نئے راستے مل گئے۔ میرا جی کی تشبیہات ، استعارات اور علامات اردو شعری روایات سے ہٹ کر تھیں۔ انھوں نے جنس کو موضوع بنایا اور پھر اس کے لیے نئی نئی علامات تخلیق کیں۔ صراحی بھی نئی تھی اور شراب بھی نئی۔ میرا جی کا محبوب موضوع جنس ہے۔ انہوں نے ہندی شعری روایت اپنائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عورت کے جسم و روح کی تصویر کشی کرنا چاہتے تھے۔

میرا جی کی نظم نگاری

جدید اردو نظم کو بام عروج تک پہنچانے کا سہرا بلاشبہ میرا جی کے سر ہے۔ ان کی نظموں کو سمجھنے کے لیے ان کی ذات کی خارجی زشت روئی اور داخلی خوب روئی کو سمجھنا ضروری ہے۔ لیکن میرا جی پر داستان طرازی کی اتنی گہری چھاپ لگ چکی ہے کہ حقائق کی تلاش بہت مشکل ہے:

’’میرا جی نے خود کو افسانہ بنا لیا اور یار لوگوں نے ان قصہ کہانیوں کو زیب داستاں کے لیے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ یہ داستان اتنی بڑھی اور اس کا چرچا اتنا عام ہوا کہ جس نے میرا جی پر کچھ لکھا، خواہ وہ ان کا دوست تھا یا شاگرد مداح تھا یا کرم فرما، انہی باتوں پر زور دیا۔ پھر اس مسئلے اور ان باتوں پر زور دے کر جب ان کی آزاد نظموں کو دیکھا جن کے مصرعے میرا جی کی لٹوں کی طرح منتشر تھے تو وہاں بھی بھپکا، وہی تین گولے اور وہی بغیر جیب کی پتلون نظر آنے لگی۔‘‘ ( ڈاکٹر جمیل جالبی ۔میرا جی ایک مطالعہ۔ صفحہ (259)

اس صورت حال نے میرا جی کو کوئی نقصان پہنچایا یا نہیں، لیکن بقول ڈاکٹر جمیل جالبی اس سے اردو نظم کے اس ذہین شاعر کی روح کا تخلیقی سفر، ان کی ذات کا عرفان اور اس سلسلہ کی ہزاروں چھوٹی بڑی الجھنیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔

موضوعات کا انتخاب

میرا جی نے اپنی نظموں کے لیے اپنے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو بیک وقت ذہین قاری اور عام قاری کی گرفت میں آ سکتے ہیں۔ ان کا موضوعاتی استغراق جمالیاتی، تاثراتی اور نفسیاتی دروں بینی سے متعلق ہے۔ اس لیے جس قدر انسانی ذات گہری، پیچیدہ اور متنوع الصفات ہے، میرا جی کے موضوعات بھی اتنے ہی گہرے اور متنوع ہیں۔ اس کیفیت کا اظہار انہوں نے اپنی نظم ’’شام کو راستے پر‘‘ میں بڑی خوبصورتی سے کیا ہے:

رات کے عکس تخیل سے ملاقات ہو جس کا مقصود

کبھی دروازے سے آتا ہے کبھی کھڑکی سے

اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے

اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں،

وہ تصور میں مرے عکس ہے ہر شخص کا، ہر انسان کا

کبھی بھر لیتا ہے اک بھولی سی محبوبہ نادان کا بہروپ، کبھی

ایک چالاک، جہاں دیدہ و بے باک ستمگر بن کر

دھوکا دینے کے لیے آتا ہے، بہکاتا ہے

اور جب وقت گزر جائے تو چھپ جاتا ہے

مری آنکھوں میں مگر چھایا ہے بادل بن کر

ایک دیوار کا روزن، اسی روزن سے نکل کر کرنیں

مری آنکھوں سے لپٹی ہیں، مچل اٹھتی ہیں

آرزوئیں دل غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے سے،

اور میں سوچتا ہوں نور کے اس پردے میں

کون بے باک ہے اور بھولی سی محبوبہ کون؟

°°°

راستہ مجھ کو نظر آئے نہ آئے، پھر کیا

ان گنت پیڑوں کے میناروں کو

میں تو چھوتا ہی چلا جاؤں گا،

اور پھر ختم نہ ہوگی یہ تلاش،

جستجو روزن دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی،

میں ہوں آزاد…مجھے فکر نہیں کوئی،

ایک گھنگھور سکوں، ایک کڑی تنہائی

میرا اندوختہ ہے (شام کو راستے پر)

یہ نظم میرا جی کی شاعری کا مرکزی نکتہ ہے۔ اس میں ان کی فکر کے کئی رموز پوشیدہ ہیں۔ ایک خاص فضا اور ٹھٹھری ہوئی رات میں بدلتے منظروں کی بارش، کبھی یادوں کی خلوت محجوب سے مخمور صنم خانے میں روزن کا سراب حال کی کرخت سطح سے ٹکراتا ہے، پھر تنہائی اور موت کا سا سکوت اندوختہ بن جاتا ہے اور میرا جی کے سارے خواب اور خیال اسی خواب اور حقیقت کے درمیان گھومتے نظر آتے ہیں۔

میرا جی کو تصور سے پیار ہے۔ ان کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے۔ انہیں عورت سے زیادہ عورت کا تصور عزیز ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں بلکہ تصور بن کر شاعری میں آتا ہے:

ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا

اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا

(لب جوئبارے)

بند ہوتا ہوا کھلتا ہوا دروازہ ہے

ہاں یہی منظر لبریز بلاغت اب تو

آئینہ خانوں میں آنکھوں کے جھلکتا ہے مدام

(افتاد)

یہی عمل آگے بڑھ کر حقیقت کو خواب بنانے کے عمل میں بدل جاتا ہے اور یہ انہماک اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ حقیقت بے معنی ہو جاتی ہے اور خواب اس کی جگہ لے لیتا ہے:

میں کون ہوں، کیا ہوں، کیا جانے، من بس میں کیا اور بھول گئی

جب آنکھ کھلی اور ہوش آیا تب سوچ لگی الجھن سی ہوئی

پھر گونج سی کانوں میں آئی وہ سندر سپنوں کی پری

(اجنبی انجان عورت رات کی)

ایڈگر ایلن پو پر مضمون لکھتے ہوئے جہاں میرا جی نے سپنوں پر زور دیا تھا وہیں اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ:

’’وہ جو باتیں زندگی میں حاصل نہ کر سکتا ان کے تصورات قائم کر لیتا۔ زندگی میں اس کو اپنی محبوب عورتیں حاصل نہ ہو سکیں، اس لیے کہانیوں میں وہ موت پر حیات بعد الممات کے نظریے سے فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا یہ انہماک اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اسے حقیقت سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ اس کی کسی تحریر سے پتا نہیں چلتا کہ اس زمانے میں امریکہ میں غلامی کے انسداد کا مسئلہ بھی تھا یا میکسیکو کی جنگ بھی ہوئی تھی۔‘‘

یہی تخلیقی عمل میرا جی کی شاعری میں جلوہ گر ہوا۔ ان کی شاعری کی خواب آگیں فضا اور تصورات کی دنیا اسی عمل کا اظہار ہیں۔ میرا جی کی شاعری میں کہیں بھی حقیقت کا اظہار اس انداز سے نہیں ہوا کہ ہم ان کے عہد کا کوئی واقعہ اس میں دیکھ سکیں۔ احساس تنہائی کی شدت بھی اسی عمل کا نتیجہ ہے۔ تصورات کی سطح پر میرا جی بالکل اکیلے ہیں۔ وہ خواب کے رسیا ہیں، سپنوں کے گیانی ہیں اور ان کی شاعری کا تانا بانا خوابوں سے بنا ہے:

دن ختم ہوا، دن بیت چکا

رفتہ رفتہ ہر نجم فلک اس اونچے نیلے منڈل سے

چوری چوری یوں جھانکتا ہے

جیسے جنگل میں کٹیا کے اک سیدھے سادے دوراہے سے

کوئی تنہا چپ چاپ کھڑا چھپ کر گھر سے باہر دیکھے (آدرش)

اجنبی انجان عورت رات کی، جہالت، دن کے روپ میں رات کہانی، بعد کی اڑان، محبت، لب جوئبارے، آدرش، دھوکا اور دوسری نظمیں سب اسی تخلیقی عمل کا مظہر ہیں۔ میرا جی کو سمجھنے کے لیے یہ بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔

یاسیت اور حزن و ملال

میرا جی کے یہاں یاسیت، حزن و ملال اور میٹھے میٹھے درد کی کسک کبھی کبھی ایک تڑپ میں بھی بدلتی محسوس ہوتی ہے اور مسرت کی تلاش، مسرت کا خوف بن کر ان کے سامنے انجانے خدشات کی دنیا آباد کر دیتی ہے:

میں ڈرتا ہوں مسرت سے،

کہیں یہ میری ہستی کو

پریشاں، کائناتی نغمہ مہم میں الجھا دے،

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت،

میری ہستی ہے اک ذرہ

کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ

ستاروں کا علمبردار کر دے گی، مسرت میری ہستی کو

اگر پھر سے اس پہلی بلندی سے ملا دے گی

تو میں ڈرتا ہوں… ڈرتا ہوں

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت،

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

بھلا کر تلخیاں ساری

بنا دے دیوتاؤں سا

تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا

زمانہ اپنی ہستی کا (میں ڈرتا ہوں مسرت سے) زندگی اپنی پوری شدت آمیز تلخیوں، یاسیت، حزن و ملال اور درد کے ساتھ میرا جی کی میراث ہے اور وہ اسے رد نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک اگر انسانی زندگی سے درد کی میراث چھن جائے تو آدمی محض دیوتا بن جاتا ہے یا محض خواب۔ میرا جی کے نزدیک تلخیوں سے بھرا ہوا انسان مسرت کے ان لمحوں سے زیادہ قیمتی ہے جہاں آدمی دیوتا بن جاتا ہے یا خواب۔ دونوں کیفیتیں میرا جی کے یہاں ایک ہیں۔ دنیا کے دکھوں سے بھرے ہوئے لوگ ان کے نزدیک معراج انسانیت ہیں، اسی لیے انہیں وہ لوگ بھی عزیز ہیں جو دکھوں کی دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ وہ دکھوں کے حامی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک انسان کا مقدر دکھوں سے عبارت ہے اور خوشیاں اس کے مقابلہ میں نا پائیدار ہیں۔ یہ نا پائیدار خوشیاں دکھوں کو بڑھاتی رہتی ہیں، کم نہیں کر پاتیں:

آؤ آؤ سکھ لائے ہو؟ بولو مول بتاؤ تم

اپنے اپنے سکھ کے بدلے مجھ سے دکھ لے جاؤ تم

پل دو پل کا سکھ لائے ہو، پل دو پل کا دکھ بھی ہے

جیسا دکھ لینے آئے ہو، ایسا جیب میں سکھ بھی ہے

(بیوپاری)

دنیا میں جتنے بڑے بڑے دکھ ہیں، اتنے بڑے سکھ نہیں پھر ایسا سودا کیا معانی رکھتا ہے؟ اس لیے بہتر ہے کہ دکھ زندگی کا حصہ بن جائیں۔

میرا جی کی شاعری میں جنسی پہلو

میرا جی کی شاعری میں جنسی پہلو ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں وشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو دراصل مرد اور عورت کی ناجائز جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ ادھر میں جنسی ملاپ کی پوری عکاسی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا مدھر کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں:

’’میرا جی کی نظموں کے مطالعے کے سلسلے میں وشنو بھگتی تحریک کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں، کہ یہی دو پہلو میرا جی کو مرغوب تھے۔ ان میں سے ایک تو کرشن اور رادھا کی محبت سے متعلق ہے۔ کرشن ایک چرواہا تھا اور رادھا ایک بیاہتا شہزادی اور ان کی محبت میں ملن اور سنجوگ سے کہیں زیادہ فراق اور دوری اور مفارقت کی محبت تھی، پھر جہاں ملن کے سمے آتے تھے وہاں کہانی کا وہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا جسے مدھر کا نام دیا گیا ہے…دوسرا پہلو کالی اور شیو سے متعلق ہے۔‘‘

( بحوالہ نظم ’’جدید کی کروٹیں‘‘ صفحہ 64)

حرامی، دوسری عورت، دور کنارا، ایک نظم، عدم کا خلا، دور و نزدیک کے علاوہ کئی دوسری نظموں میں جنسی آزادہ روی اور جنسی تعلقات کا موضوع ملتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک میرا جی کے یہاں عورت طوائف یا دوسری عورت ہے۔ مگر اس سے انکار نہیں کہ جنسی آزادہ روی کے با وصف ان کے یہاں عورت کے دوسرے دو روپ یعنی ماں اور دلہن بھی موجود ہیں۔ جنسی موضوعات کی فراوانی کے باوجود عورت میرا جی کی واحد کمزوری بھی نہیں۔ وہ اپنی نظم ’’خود نفسی‘‘ میں محرومی سے بچنے کا ایک اور راستہ خود لذتی کی صورت میں تلاش کر لیتے ہیں:

جوانی میں ساتھی ہے جو اضطراب

نہیں کوئی اس کا علاج

مگر ایک عورت

کھلے جب نہ مجھ پر وسیلوں کا باب

ملے جب نہ چاہت کا تاج

تو پھر کیا کروں میں؟

مگر کیوں سہارا رہے خیر کا؟

کہ تسکیں کو جب ڈھونڈے

میرا دل خودی میں

خیالوں میں تسکین کو ڈھونڈا کیا

تصور کے ہر جا ملے

جنوں کی فضا سے

تخیل میں خلوت کی دلچسپیاں

نہ اس دل کے کام آ سکیں

نہ ان سے ہوا کچھ

وہ بے نام، بے رنگ سی گرمیاں

خیالوں میں آئیں، گئیں

نہ آیا سکوں ہی

میں اب کھیل کھیلوں گا ایسا کوئی

کہ دل میں سکوں آ بسے

(گناہوں میں کیا ہے)

میں دیکھوں گا اب اپنی قوت سے ہی

وہ منظر جو ہیں رات کے

وہ نشوں کے جمگھٹ!

میری جی کی شاعری میں تنہائی جیسی کیفیات

میرا جی کی شاعری تنہائی، نا آسودگی اور نارسائی کی جن کیفیات کی ترجمان ہے وہ میرا جی کے ذاتی المیہ سے پھوٹی ہیں۔ بیداری کے جن خوابوں کے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکنے سے یہ المیہ وجود میں آیا ہے وہ بے حد عام، عملی اور پیش پا افتادہ قسم کے خواب تھے۔ میرا جی کے گیتوں اور نظموں میں دلہن، بہن، ماں اور بچوں کے لہجوں اور مکالموں کا آہنگ شنیدنی ہے تو ایک اچھوتی، انجان، کنواری دلہن کی تصویر دیدنی ہے۔ یہ دلہن پری زاد نہیں، متوسط طبقہ کی عام سی عورت ہے۔ جو ہماری دیکھی بھالی ہے اور جس میں ہمیں شاعری اور رومان کی کوئی ادا نظر نہیں آتی مگر میرا جی کے ہاں وہ بے حد دل کش کردار ہے۔ خوشیوں کے جھولے میں جھولنے کی تمناؤں کو سینے میں چھپائے یہ دلہن میرا جی کی شاعری میں ہر جگہ موجود ہے۔ کہیں پس منظر میں تو کہیں پیش منظر کے طور پر۔ اس کے کانوں میں بندے ہیں، ماتھے پر بندی، ہاتھ میں گجرا، گلے میں ہار اور باریک دوپٹہ سر پہ لیے اور آنچل کو قابو میں کیے، روم روم سندر سنگھاروں سے سنوارے سجی بنی سیج پر بیٹھی دولہا کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی دولہا کی بہن خوشی سے سرشار ہے:

کیوں بہن ہم نے سنا ہے دلہن کی آنکھیں

آنکھ بھر کر نہیں دیکھی جاتیں

اور کہتی ہے بہن

میرے بھیا کو بڑا چاؤ ہے، کیوں پوچھتا ہے

اب تو دو چار ہی دن میں وہ ترے گھر ہو گی ( تفاوت راہ )

مگر المیہ یہ ہے کہ دولہا اس دلہن تک نہیں پہنچ سکتا۔ گھر بسانے کے لیے جن مادی وسائل کی ضرورت ہے وہ اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ اسی لیے میرا جی تخیل کی دنیا میں جب کسی عورت کے حسن کو برتتے ہیں تو پہلے اس کو دلہن بنا لیتے ہیں:

جس کے اس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے

منظر انجان اچھوتی دلہن کی صورت

ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا

اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا

(لب جوئبارے)

میرا جی نے اس الزام کی تردید کرتے وقت کہ زندگی کا محض جنسی پہلو ہی ان کی توجہ کا مرکز ہے، کہا تھا کہ وہ جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو قدرت کی سب سے بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتے ہیں۔ قدرت کی اس سب سے بڑی نعمت اور زندگی کی اس سب سے بڑی راحت اور برکت سے دائمی محرومی کا احساس، میرا جی کی شاعری میں دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے، چھت پر لٹکتے ہوئے پیراہن اور دور سے نظر آتی ہوئی مسہری کی آغوش کی لرزشوں کے مناظر کو بلاغت سے لبریز و بھرپور بنا دیتا ہے اور ان میں نئے تلازمات کی ایک دنیا آباد ہو جاتی ہے۔ تہذیب و تمدن نے جنس کے اردگرد جو آلودگی قائم کر رکھی ہے اور جس کی وجہ سے قدرت کی یہ سب سے بڑی نعت جنسی بازار بن کر رہ گئی ہے، اس پر میرا جی کے ہاں بعض اوقات بے اعتنائی اور کراہت سے لبریز تصویریں بھی نظر آ جاتی ہیں۔ مگر مجموعی طور پر وہ جنسی جذبات کو عبادت کی حد تک پاکیزہ سپردگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

ایک ہی بات جو پہلو میں چھپائے ہوئے سو باتوں کو

رات کو دن کی طرح نور سے بھر دیتی ہے

دل پہ اک سحر سا کر دیتی ہے

(اجنتا کے غار)

میرا جی کی شاعری میں انسان کا روپ

میرا جی کی شاعری میں ہماری ملاقات جس انسان سے ہوتی ہے وہ جھجکتا ہوا انسان ہے جو اس جہان رنگ و بو سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے مگر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے وہ افسردہ سی فضا میں سانس لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نغموں کی مدھر لے غم انگیز عشرت کی لے ہے۔ تنہائی میں بہتے ہوئے آنسو اس کے لیے سکھ کے شعلے بن جاتے ہیں اور دکھ سے نور بڑھنے لگتا ہے:

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

بھلا کر تلخیاں ساری

بنا دے دیوتاؤں سا

تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا

زمانہ اپنی ہستی کا

(میں ڈرتا ہوں مسرت سے )

اسے نرم و نازک، میٹھے درد میں کیف حیات ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک انسان ہے جس کا احساس، جس کا شعور زندہ ہے اور

اس کے لیے احساس کی ناؤ رک جانے کے معنی موت ہیں:

صرف مرے احساس کی ناؤ چلتی جائے، نرم اور تیز

کیسی ڈھلوان سے پھسلا ہے شعور

سوچ اک تیتری بن کر یوں اڑی جاتی ہے

اے جو انسان! ترے دل کو لبھاتا ہے یہ منظر لیکن

مرمریں قصر کا لذت سے یہ لبریز ستون

اپنی دوری، تیری مجبوری سے

کہیں احساس کو ہی ساکت و جامد نہ کرے

متذبذب انسان

اس لیے وہ لحظہ بہ لحظہ زندہ ہے، شعور کا لمحہ اس کے لیے ابدیت کا لمحہ ہے لیکن 1941ء اور اس کے بعد کی نظموں میں اس انسان سے مل کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنی شخصیت پر اب یقین نہیں رہا۔ وہ عجب متذبذب ہے۔ وہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے اور انتخاب کے کرب میں مبتلا ہے۔ اس کے احساس و شعور میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہو رہی ہے جس نے اس کی شخصیت کے سارے سروں کو الجھا دیا ہے۔ وہ خود کو دریافت کرنے کے لیے کسی اور سفر کی تلاش میں ہے۔ اس دور میں انجام اس لیے اور بڑھ جاتا ہے۔ وہ سفر جو میرا جی نے حال سے ماضی کی طرف کیا تھا، تاریخ کا وہ باب جو انہوں نے انسان کو فطری انسان بنانے اور کائنات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تلاش کیا تھا، ان کے لیے فنا کا سفر بن گیا۔ جب میرا جی طویل عرصہ تک سفر کر کے منزل کی تلاش میں نکلے تو انہوں نے دیکھا:

اور ساگر کہاں ہے جو تھا موجزن

کوئی ساگر نہیں، باغ…صحرا نہیں، کوئی پربت نہیں

آہ کچھ بھی نہیں

(فنا)

اب وہ ایک طرف اپنی حقیقی روایت سے کٹ چکے تھے اور دوسری طرف یہ عمل خود ان کے لیے ایک زبردست دلدل بن گیا۔ یہاں نہ کوئی راستہ تھا اور نہ اس سے کائنات، معاشرہ، فرد اور زندگی کی تشکیل نو ہو سکتی تھی۔ یہاں پہنچ کر میرا جی بالکل اکیلے رہ گئے اور یہ تخلیقی عمل اب خود ان کے لیے بھول بھلیاں بن گیا جہاں سے وہ مرتے دم تک نہ نکل سکے:

راستہ نہیں مجھ کو ستارے تو نظر آتے ہیں

زینے کی بھول بھلیاں اسی آواز میں کھو جاتی ہیں ہاتھ میں تھامی ہوئی شمعیں بھی بجھ جاتی ہیں (تفاوت)

مجموعی جائزہ

بحیثیت مجموعی اگر ہم میرا جی کے فن پر نظر ڈالیں تو یہ نکات دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے نظم کی ایک معنویت کو ہمہ جہت بنایا۔ میرا جی نے نظم کو خارجی حقیقت نگاری سے نکال کر انسان کے باطن میں اتار دیا۔ نظم کے فن، فکر، تکنیک، اسلوب اور ہئیت کی ایک بڑی تبدیلی میں سب سے اہم کردار میرا جی کا ہے۔ ان کی نظموں میں زبانی اور مکانی فاصلے مٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں اس طرح ضم ہوتے الگ ہوتے اور پھر دور ہوتے نظر آتے ہیں کہ ان کی قوت متخیلہ اور فنی ہنر کاری و چابکدستی کی داد دنیا پڑتی ہے۔ اپنی ایسی ہی انفرادی خصوصیات کی بنا پر میرا جی جدید نظم کی تاریخ میں ایک اہم مقام کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ان کی نظمیں اپنے عہد ہی کا نہیں بلکہ جدید نظم کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔

ماخذ:

https://asaanurdu.com/meera-ji-ka-urdu-adab-mein-muqam/

https://asaanurdu.com/meera-ji-ki-shaeree-ka-fani-o-fikri-jaaiza/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل