FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کہانیوں کا حملہ

محمد فیصل علی

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں ……

ادیب کا قتل

وہ ایک کچا گھر تھا۔  اس کے در و دیوار غربت کی داستان سنا رہے تھے۔ گھر کے ساتھ ہی ایک شکستہ چھپر بنا ہوا تھا جس کے نیچے مویشی بیٹھے جگالی کر رہے تھے۔ ارد گرد سرسبز کھیت لہلہا رہے تھے۔  یہ ظہیر کا گھر تھا۔ شہر سے بہت دور ایک پسماندہ گاؤں میں واقع ایک چھوٹا سا گھر۔  وہ خود اس وقت اپنے گھر سے چند میل دور ایک اسکول میں بیٹھا تعلیمی سفر طے کر رہا تھا۔ یہ اسکول اس چھوٹے سے گاؤں کا اکلوتا اسکول تھا۔ اسکول سے کچھ دور ایک چھوٹا سا قصبہ بھی تھا جہاں ضروریات زندگی کا سامان ملتا تھا۔  ظہیر اس اسکول میں جماعت دہم کا طالب علم تھا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی جب اسکول میں بریک ہوئی تو وہ بجائے باہر جانے کے اپنی نشست پر ہی بیٹھا رہا۔  جب سب لڑکے باہر چلے گئے تو اس نے اپنے بیگ سے کچھ صفحات نکالے۔ قلم اس کی جیب میں ہی موجود تھا۔  اس نے جلدی جلدی لکھنا شروع کر دیا تھا۔

وہ ایک کہانی نگار تھا اور انتہائی مخدوش مالی حالات ہونے کے باوجود بھی لکھنے کا یہ شوق جاری رکھے ہوئے تھا۔  اس کے گھر والے تو اتنی حیثیت بھی نہ رکھتے تھے کہ اس کی تعلیم کا خرچ برداشت کر سکیں۔  اسکول کی بنیادی اشیاء کی خریداری کے لیے بھی اسے کافی تگ و دو کرنا پڑتی تھی۔ کہانی کو ڈاک خانے کے ذریعے بھیجنے کے لیے بھی اسے کافی پاپڑ بیلنا پڑتے، لیکن وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔  ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر اتوار کو کئی میل پیدل سفر کر کے ایک نرسری فارم میں جاتا اور وہاں دن بھر پلاسٹک کی خالی تھیلیوں میں مٹی بھرنے کی مزدوری کرتا۔  وہی پلاسٹک کی تھیلیاں جن میں نرسری والے پودے اگاتے ہیں۔  اس کام سے ملنے والی اجرت سے وہ کاغذ، ڈاک ٹکٹ اور لفافے لے آتا تاکہ کاغذ قلم کے ساتھ اس کا رشتہ جڑا رہے۔ اس وقت وہ ہر چیز سے بے خبر روانی و تسلسل سے لکھتا چلا جا رہا تھا، اور پھر اس نے بریک کے آدھے گھنٹے میں ہی ایک کہانی لکھ ڈالی۔  کہانی کو دوبارہ پڑھتے ہوئے وہ زیر لب مسکراتا بھی جا رہا تھا۔  پھر اس نے بیگ سے ڈاک لفافہ نکالا اور کہانی کو لفافے میں رکھ کر اس پر پتہ لکھنے لگا۔ اب اس کی کہانی سفر کے لیے تیار تھی۔ چھٹی کے بعد وہ تیز رفتاری سے چلتا ہوا ڈاک خانے کی طرف بڑھا اور لفافہ لیٹر باکس کے حوالے کر دیا۔  اب اس کا صرف ایک کام باقی تھا اور وہ تھا پرانے رسائل خریدنا۔  نئے رسائل خریدنے کے لیے اس کے پاس رقم نہیں ہوتی تھی، اور رسائل کے نا خدا مدیران اور مالکان حضرات کہانی نگاروں کو ایک اعزازی کاپی بھیجنا بھی حرام سمجھتے تھے، اس لیے وہ پرانے رسائل خریدتا تھا۔  مگر اس کے لیے یہاں ایک مسئلہ اور تھا کہ اسے رسالہ دو ماہ بعد ملتا تھا، مگر وہ اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا تھا، رسائل کی دکان پر پہنچ کر اس نے پرانے رسائل طلب کیے اور قیمت ادا کر کے گھر کو روانہ ہو گیا، کیوں کہ وہاں پر بہت سارے کام اس کے منتظر تھے۔

٭…٭…٭

جنید جیسے ہی کمرے میں پہنچا، اس نے اپنا اسکول بیگ اتار کر بیڈ پر پٹخا، اور تیزی سے بیگ کھولنے لگا۔  اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت بے تاب ہے اور بیگ میں کوئی خاص چیز ہے جس کی اسے تلاش ہے۔  دوسرے ہی لمحے بچوں کا ایک نیا نویلا چم چم کرتا میگزین اس کے ہاتھوں میں تھا۔  ’’ماہ نامہ چراغ‘‘

وہ زیر لب بڑبڑایا۔  سرورق کا جائزہ لینے کے بعد اس نے فہرست پہ نظر دوڑائی اور اسے دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔  کیوں کہ اس کے پسندیدہ لکھاری کی کہانی رسالہ کی زینت بنی ہوئی تھی۔ یہ لکھاری ظہیر احمد تھا۔ اس نے فہرست سے صفحہ نمبر دیکھا اور سب سے پہلے وہی کہانی پڑھنے لگا۔ چند ہی منٹوں میں اس نے وہ کہانی پڑھ ڈالی۔

’’واہ، کیا زبردست کہانی لکھی ہے، یہ کہانی ہمارے کام آ سکتی ہے، یہ بالکل منفرد ہے، کمال کا تخیل ہے۔‘‘

اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا اور پھر اپنا موبائل نکال کر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا، جلد ہی رابطہ قائم ہو گیا۔

’’السلام علیکم، انس!! میں نے کہانی تلاش کر لی۔‘‘ جنید نے رابطہ ہوتے ہی پر جوش انداز میں کہا۔  اور پھر دوسری طرف سے بات سننے لگا۔

’’ہاں بھئی اس کہانی کے مطابق ہمارا ڈرامہ سب سے شاندار ہو گا۔‘‘

’’بالکل، تم پڑھو گے تو تمہیں اندازہ ہو ہی جائے گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے دوست! میں تمہیں کہانی واٹس ایپ کرتا ہوں، دیکھنا اس خاکے کو پیش کر کے ہم مقابلہ جیت جائیں گے۔‘‘

’’اوکے ان شاء اللہ، پھر مجھے بتانا ضرور۔‘‘ اس کے ساتھ ہی رابطہ ختم ہو گیا۔ انس اور جنید دونوں دوست تھے، ان کے اسکول میں اسٹیج ڈرامہ پیش کرنے کا مقابلہ ہو رہا تھا اور انہیں کسی منفرد کہانی کی تلاش تھی جس سے وہ اپنا ڈرامہ ترتیب دے سکیں، اور جنید نے اپنے ڈرامے کے لیے ظہیر کی کہانی کو منتخب کیا تھا، اس نے کہانی اپنے دوست انس کو واٹس ایپ کی اور ایک بار پھر مطالعہ کرنے لگا۔ اسی اثناء میں اسے امی کی آواز سنائی دی جو اسے کھانے کے لیے بلا رہی تھیں۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کھانے کی میز کی طرف چل دیا۔

٭…٭…٭

’’سر میں اندر آ سکتا ہوں۔‘‘

مغیث صاحب نے نظریں اٹھا کر دیکھا، ان کے آفس کے دروازے پر سرکولیشن منیجر ٹھہرا مسکرا رہا تھا۔ یہ ماہ نامہ چراغ کا دفتر تھا اور مغیث صاحب رسالہ کے مدیر تھے۔  اس وقت کمرے میں مدیر صاحب کے ساتھ اس میگزین کے مالک نثار ہمدانی بھی موجود تھے۔

’’آئیں ندیم صاحب۔‘‘ مغیث صاحب نے مسرت کا اظہار کیا۔

’’السلام علیکم!‘‘ ندیم صاحب نے سلام کیا۔

’’وعلیکم السلام۔‘‘ دونوں نے جواب دیا اور پھر مغیث صاحب نے انہیں کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

’’شکریہ سر!!‘‘ ندیم صاحب نے کہا اور پھر وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔

’’کہیے، کیسے آنا ہوا؟‘‘

سلام دعا کے بعد مغیث صاحب نے دریافت کیا۔

’’سر! بات یہ ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ سے ایک لکھاری تواتر کے ساتھ ہمارے رسالہ میں لکھ رہے ہیں۔  ان کی ہر تحریر بہت منفرد ہوتی ہے اور یہ بات آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ قارئین کے خطوط میں اس کہانی نویس کی کتنی تعریف ہوتی ہے۔  میں ظہیر احمد کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ ندیم صاحب نے جلدی جلدی کہا۔

’’اچھا، ٹھیک ہے، میں سمجھ رہا ہوں، آپ بات مکمل کیجیے۔‘‘

مغیث صاحب نے سر ہلایا۔

’’سر، اس بار مجھے ایک حیرت انگیز بات معلوم ہوئی ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتا تھا، وہ یہ کہ ہمارے رسالہ کی سرکولیشن پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے، اور میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ ظہیر احمد ہے۔  اس بات کا ثبوت قارئین کے بہت سارے خطوط ہیں، اور کچھ لوگوں نے تو کال کر کے تعریف کی ہے اور سالانہ ممبر شپ بھی لی ہے، جبکہ کچھ باتیں ہمارے پبلک ایجنٹس نے بتائی ہیں اور میں نے جب سارے اعداد و شمار جمع کیے تو بہت حیران ہوا، رسالہ کی سرکولیشن میں پندرہ سو سے دو ہزار تک کا اضافہ ہوا ہے، اس اضافے کی دیگر وجوہات بھی ہوں گی لیکن اس میں زیادہ کردار ظہیر کی کہانیوں کا ہے۔‘‘

ندیم صاحب نے پر جوش لہجے میں کہا۔

’’ٹھیک ہے، یہ ہمارے لیے اچھی خبر ہے۔  ظہیر احمد کی کہانیاں واقعی بہت خوبصورت ہوتی ہیں، ابھی کل کی ڈاک سے اس کی ایک اور نئی کہانی موصول ہو چکی ہے۔‘‘ مغیث صاحب نے بتایا۔

’’سر! میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم ظہیر احمد سے ملیں اور اس سے سلسلہ وار کہانیاں لکھوائیں یا کوئی ناول لکھنے پہ آمادہ کریں، یہ رسالہ کے لیے زیادہ مفید ہو گا۔‘‘ ندیم صاحب نے رائے پیش کی۔

’’آپ کا کیا خیال ہے جناب؟‘‘ مدیر صاحب نے ہمدانی صاحب کی طرف دیکھا۔

’’ہمم۔۔  ہوں۔۔! سوچتے ہیں اس پہلو پر، لیکن آپ جانتے ہیں کہ پھر اسے معاوضہ بھی دینا پڑے گا، ابھی تک تو سارا کام مفت ہی چل رہا ہے۔‘‘ ہمدانی صاحب ہنسے۔

’’جی، یہ تو ہے۔‘‘ مغیث صاحب نے کہا۔

’’ہاں اور یہ ضروری نہیں کہ سرکولیشن بڑھنے کی وجہ ظہیر ہو، باقی لکھاری بھی تو ہیں۔‘‘ ہمدانی صاحب نے نکتہ اٹھایا۔

’’جی بالکل جناب، باقی لکھاری بھی ہیں اور وہ بھی اچھا لکھتے ہیں لیکن قارئین ظہیر کی ڈیمانڈ بہت زیادہ کرتے ہیں۔‘‘ ندیم صاحب اپنی بات پر مصر تھے۔

’’چلیے، کچھ عرصہ تک ایسے ہی چلنے دیتے ہیں۔  بعد میں دیکھ لیں گے اور اگر ظہیر احمد اتنا ہی ضروری ہوا تو ہم اس کے نام سے خود کوئی ناول لکھ کر چھاپ دیں گے۔‘‘ ہمدانی صاحب نے تیز تیز بولتے ہوئے کہا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ مغیث صاحب اور ندیم صاحب اپنے مالک کی یہ سوچ سن کر دنگ رہ گئے تھے، مگر وہ کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، لہٰذا وہ خاموش ہو گئے۔

٭…٭…٭

ظہیر ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر پڑا بخار سے جل رہا تھا۔  کھانسی کی شدت اسے نڈھال کر چکی تھی اور کھانس کھانس کر اس کا سینہ پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔  اس کی ماں اس کے سرہانے بیٹھی گیلے کپڑے کی پٹیاں رکھ کر بخار کی حدت کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔  بخار سے زیادہ انہیں کھانسی کی فکر کھائے جا رہی تھی، عجیب ٹھسکے دار کھانسی تھی اور سانس لیتے وقت سیٹی جیسی آواز برآمد ہو رہی تھی، انہیں ڈر تھا کہ یہ کھانسی دمہ یا ٹی بی کا مرض نہ ہو، یہی سوچ سوچ کر وہ کانپ رہی تھیں۔ اسی وقت قدموں کی چاپ سنائی دی اور کوئی آدمی کمرے میں داخل ہوا۔  ظہیر نے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے ہی اس کے والد صاحب کھڑے تھے۔

’’کیا حال ہے اس کا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

’’بخار سے جل رہا ہے اور کھانسی کا تو مت پوچھیں، آپ دوا لے آئے ہیں۔؟‘‘ ظہیر کی ماں نے دریافت کیا۔

’’ہاں، حکیم صاحب نے کہا ہے کہ یہ پڑیا دن میں تین بار اس شربت کے ساتھ کھلائیں، اور جلد ہی سرکاری ہسپتال سے ٹیسٹ کرائیں، کہیں بیماری بڑھ نہ جائے۔‘‘ اس کے والد ایک شاپر لہراتے ہوئے بولے۔

’’ٹھیک ہے، مجھے دے دیں۔‘‘ اس کی ماں نے دوا لے لی۔

’’اٹھو بیٹا، دوا کھا لو۔‘‘ وہ شفقت سے بولیں۔ وہ بھاری سر اور بخار سے جلتے وجود کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کرنے لگا۔

٭…٭…٭

تالیوں کی گونج ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی تھی۔  ڈرامہ ختم ہو چکا تھا اور اسٹیج پر پردہ گر چکا تھا مگر ناظرین ابھی تک پر جوش تھے، یقیناً انہیں یہ ڈرامہ بہت اچھا لگا تھا۔ منصفین حضرات بھی آپس میں سر جوڑے محو گفتگو تھے۔ جنید اور اس کی ٹیم کے دوست پردے کے پیچھے موجود تھے، مارے خوشی کے ان کے چہرے سرخ ہوئے جا رہے تھے۔  ناظرین کی داد سے ان کے حوصلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ ظہیر کی لکھی ہوئی کہانی پہ بنایا گیا ڈرامہ اس وقت سب سے ٹاپ پر تھا اور پھر نتائج کے اعلان کا مرحلہ آن پہنچا۔  جنید اور اس کی ٹیم اس مقابلے میں فرسٹ پوزیشن حاصل کر چکی تھی، جس وقت انہیں انعامات سے نوازا جا رہا تھا، عین اسی وقت اس کہانی کا لیکھک اپنے گھر میں پڑا بخار کی شدت سے جل رہا تھا۔

٭…٭…٭

ندیم صاحب نے کرسی سنبھالی اور میز پر پڑے ہوئے ڈاک لفافوں کی چھانٹی کرنے لگے۔ انہیں ایک خاص لفافے کی تلاش تھی۔  اور پھر تھوڑی سی تگ و دو کے بعد انہیں وہ لفافہ مل ہی گیا۔ یہ ظہیر کا لفافہ تھا۔ انہوں نے لفافہ الٹ کر دیکھا تاکہ بھیجنے والے کا پتہ ڈھونڈ سکیں۔  جلد ہی پتہ ان کے سامنے تھا۔ وہاں پہ لکھا تھا:  ’’ڈاک خانہ جہانگیر آباد، گاؤں عیسن والا، ضلع کوٹ ادو۔‘‘ اس کے آگے کچھ نہیں لکھا تھا۔  مگر ندیم صاحب کے لیے اتنا سراغ ہی کافی تھا۔  وہ ارادہ کر چکے تھے کہ وہ ظہیر کو ضرور تلاش کریں گے اور اسے اس کی صلاحیتوں کے بارے میں ضرور بتائیں گے۔ انہوں نے یہ ایڈریس اپنے ایک دوست کو بھیج دیا تاکہ وہ انہیں اس جگہ کی درست لوکیشن بتا سکیں۔ یہ کام مکمل کر کے وہ کرسی سے اٹھنے ہی والے تھے کہ انہیں موبائل پر میسج ملنے کا اشارہ موصول ہوا۔  انہوں نے دیکھا وہ پیغام ہمدانی صاحب کی طرف سے تھا۔  ہمدانی صاحب کی طرف سے آج دوپہر کو تمام سٹاف کے لیے کھانے کا دعوت نامہ تھا۔  اور یہ دعوت اس خوشی میں دی جا رہی تھی کہ رسالہ کی سرکولیشن بڑھ گئی تھی۔ ندیم صاحب ایک بار پھر سرد آہ بھر کر رہ گئے – وہ سوچ رہے تھے:  ’’جس ادیب کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہوا، افسوس! اسے کسی نے کوئی انعام نہیں دیا، کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔‘‘ دوپہر کو تمام سٹاف خوش گپیوں کے ساتھ ساتھ کھانے میں مگن تھا۔ وہ سب خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔  عین اسی وقت ظہیر اپنے گھر میں پڑا بخار کی شدت سے کراہ رہا تھا۔

٭٭٭

کہانیوں کا حملہ

وہ اپنے کمرے میں بستر پہ دراز محوِ خواب تھا۔ کمرہ اس کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ ادھر وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا، ادھر اس کے کمرے میں عجیب و غریب کھیل شروع ہو چکا تھا۔ اس کے کمرے میں موجود کتابوں کی الماری سے عجیب و غریب اور بھیانک شکل و صورت کی مخلوق برآمد ہو کر کمرے میں پھیل چکی تھی۔ ان کی شکلیں بہت ڈراؤنی تھیں جنھیں دیکھ کر اچھے اچھے بہادروں کا پتا بھی پانی ہو جائے۔ وہ مخلوق اس کی چارپائی کے چاروں طرف جمع ہو گئی، انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کیے اور پھر ایک مخلوق حرکت میں آئی اور اس کے رخسار پہ ایک زناٹے دار تھپڑ پڑا، دوسرے ہی لمحے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اپنے چاروں طرف اس مخلوق کو پا کربری طرح گھبرا گیا: ۔

’’کک۔۔ کک۔۔ کون ہو تت۔۔ تم؟؟‘‘

وہ بری طرح ہکلا کر بولا۔

’’ہمیں نہیں پہچانتے کیا؟‘‘

طنزیہ لہجے میں کہا گیا۔

اس نے حیرت و پریشانی کے عالم میں اپنی چارپائی کے چاروں طرف دیکھا۔ وہ بہت عجیب سی مخلوق تھی جس نے چارپائی کو گھیر رکھا تھا۔ عجیب اس طرح کہ ان کے چہرے بہت بھیانک اور ڈراؤنے تھے۔ کچھ کے چہروں پر آنکھیں نہیں تھیں۔ کچھ کے چہرے ناک سے محروم تھے۔ کسی مخلوق کی ٹانگ ایک تھی تو کسی کا بازو ایک، ایک دو تو کٹے سر کے ساتھ چل پھر رہی تھیں۔ وہ آدمی چارپائی پر سمٹ کر بیٹھ گیا۔ اسے ان سب سے ڈر لگ رہا تھا۔

’’بولو!! پہچانا ہمیں؟‘‘

ان میں سے ایک کان کٹی مخلوق نے چلا کر پوچھا۔

’’نن نہیں تو۔۔  تت تم بتا دو؟‘‘

وہ ہکلایا۔

اس کا خوف دیکھ کر وہ مخلوق مزید شیر ہو گئی۔ اب وہ چارپائی پر چڑھنے لگی تھی۔

’’رکو!!!! رکو!!!! کیا چاہیے تمھیں؟‘‘

وہ ہذیانی انداز میں چلایا۔

’’ہاہاہاہا ہاہاہاہا ابھی سے ڈر گئے۔۔ تم ہی نے تو ہمیں بنایا ہے۔۔ پھر ہم سے ڈر کیسا؟‘‘

ایک مخلوق زور سے ہنسی۔

’’مم۔۔  میں نے؟ کیا مطلب؟؟‘‘

وہ آدمی الجھ گیا تھا۔

’’ہاں یہی بات ہے۔ تم نے ہمیں بنایا ہے۔۔ ہم تمہاری کہانیاں ہیں۔‘‘

’’کیا!!!!‘‘

وہ پوری قوت سے چلایا تھا۔

’’جی ہاں۔۔ ۔ اب چلانا بند کرو۔‘‘

ایک مخلوق نے اس کے کندھے پہ دباؤ ڈال کر سرد لہجے میں کہا۔

’’ٹھیک ہے۔۔  ٹھیک ہے۔۔ تمہیں کیا چاہیے؟‘‘

وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔

’’انتقام!!‘‘

ایک مخلوق نے کرخت لہجے میں کہا۔

’’کیا کہا۔۔ ۔  انت۔۔ ۔ انتقام۔۔ ۔ کس بات کا؟ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟؟‘‘

آدمی نے خوف زدہ ہو کر کہا۔

’’دیکھ نہیں رہے تم، تم نے ہمارا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔۔ ۔ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔‘‘

ایک مخلوق نے غرا کر کہا۔

’’مگر کیسے؟؟؟ تم تو اچھی بھلی تھی۔‘‘

اس نے حیرت سے پوچھا۔

’’اچھی بھلی؟ خاک اچھی بھلی تھی میں؟۔۔ ۔ تم نے میرے اندر جہاز کے سفر کے بارے میں لکھا لیکن بیان کی گئی تمام معلومات غلط تھیں۔۔ ۔ اس لیے انھوں نے میری ناک کاٹ دی۔۔ تمہیں چاہیے تھا پہلے جہاز کے بارے میں مکمل اور درست معلومات لیتے اور پھر لکھتے۔‘‘

ایک ناک کٹی کہانی نے برا سا منھ بنایا۔

’’اوہ‘‘

یہ سن کراس آدمی نے شرمندگی سے سر نیچے جھکا لیا۔

ایسے میں دوسری کہانی آگے بڑھی اور کہا: ۔

’’اور مجھے بھی دیکھ لو۔۔ ۔ میرا آدھا سر غائب ہے۔۔ پتہ ہے کیوں؟‘‘

’’نہیں تو‘‘

وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔

’’وہ اس لیے کہ تم نے میرے اندر منفی موضوع پیش کیا اور مایوسی کا درس دیا۔۔ جیسے ہی میں بچوں کے پاس گئی انھوں نے میری وہ درگت بنائی کہ کیا بتاؤں اور اب میں تمہاری درگت بناؤں گی۔‘‘

مخلوق آگے بڑھتے ہوئے بولی۔

’’نن نہیں۔۔ ۔  رکو، رکو!!‘‘

وہ چیخا۔

’’رکو بہن، پہلے مجھے بھی اپنا مسئلہ بتانے دو۔‘‘

ایک کہانی نے لنگڑاتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے بہن۔‘‘

اس مخلوق نے پیچھے ہوتے ہوئے کہا۔

’’ہاں تو تمہیں پتہ ہے کہ میں لنگڑی کیوں ہوں؟۔ میں خود ہی بتا دیتی ہوں۔۔ تم نے مجھے لکھتے وقت کوئی منظر نگاری نہیں کی۔۔ مکالمے تو بالکل لکھے ہی نہیں۔۔ بیانیہ انداز بھی شگفتگی سے خالی تھا جس سے میں بالکل پھیکی رہ گئی لہذا پڑھنے والوں نے مجھے خوب پیٹا اور یہ حالت کر دی۔‘‘

’’اوہ‘‘

آدمی یہ سن کر ششدر تھا۔

’’میری بھی سن لو لکھاری میاں!!‘‘

اچانک ایک تھکی تھکی آواز سنائی دی۔

اس نے نظریں اٹھائیں تو ایک کمزور مخلوق سامنے تھی جو دائیں بائیں لہرا رہی تھی۔

’’میری حالت دیکھو لڑکے‘‘

وہ مخلوق لڑکھڑاتے ہوئے بولی۔

’’کیا ہوا آپ کو؟؟‘‘

’’یہ پوچھو کیا نہیں ہوا میرے ساتھ۔‘‘

’’اوہ‘‘

’’جی ہاں تم نے مجھے لکھ تو لیا لیکن میرے اندر کوئی مرکزی خیال ہی نہیں ہے۔۔ مجھے آندھی کے لاوارث پتے کی مانند لفظوں میں اڑا دیا جب کہ میری روح۔۔ ۔ میں اپنی روح کو تلاش تلاش کرتے کرتے تھک گئی ہوں اور اب لگتا ہے کہ میں مر جاؤں گی۔

اس سے پہلے کہ میں مر جاؤں تم مجھے پڑھ کر دوبارہ لکھو اور مجھے ٹھیک کرو۔۔ میرے اندر تفریح، تعلیم، تربیت، معلومات، تاریخ کوئی مقصد تو پیش کرو۔ جس طرح اینٹوں کا انبار لگا دینے سے مکان نہیں بنتا اسی طرح لفظوں کے انبار سے کہانی نہیں بنتی۔  مکان کی طرح کہانی کے لیے بھی کوئی نقشہ، کوئی خاکہ، کوئی بنیاد، کوئی ترتیب ہونی چاہیے میاں!!!‘‘

وہ مخلوق درد بھرے لہجے میں کہتی چلی گئی۔

’’اوہ اوہ!! یہ مجھ سے کیا ہو گیا میری عزیز کہانیو!!!‘‘

اس آدمی نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ اب اس کا ڈر ختم ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی بانہیں پھیلائیں اور اردگرد موجود کہانیوں کو گلے لگا لیا۔ یہ دیکھ کر کہانیوں کا غصہ کم ہونے لگا کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ اس آدمی کو احساس ہو چکا ہے۔

’’کاش تم ہمیں درست کر سکو!!!‘‘

ایک مخلوق نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’ضرور ضرور۔۔ تم مجھے موقع دو، میں سب ٹھیک کر دوں گا۔

اس نے پر عزم لہجے میں کہا۔

’’چلو ٹھیک ہے، لیکن یہ تمہارے لیے آخری موقع ہے ورنہ ہم تم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روٹھ جائیں گی۔‘‘

کہانیوں نے منھ بنا کر کہا۔

’’میں ایسا نہیں ہونے دوں گا، میں اپنی پیاری کہانیوں کو خوب سجاؤں اور سنواروں گا اور آئندہ تمھیں شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘

وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ اس کی بات سن کر کہانیاں بھی مسکرا دیں۔

٭٭٭

توتائی عید

یہ کہانی ہے انصر، نعمان اور کاشف کی۔ وہ تینوں ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ گاؤں شہر سے کافی دور تھا۔ تینوں ایک مدرسے میں قرآن مجید کے طالب علم تھے۔ وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ اس سال رمضان المبارک گرمیوں میں آیا تھا۔ سخت گرمیاں پڑ رہی تھیں۔ روزے دار صبر کی تصویر بنے روزے رکھ رہے تھے اور خوب اجر کما رہے تھے۔ ان دنوں نعمان اور کاشف پہ ایک جنون سوار تھا کہ ان کے پاس ایک توتا ہونا چاہیے۔ ایک خوب صورت اور بولنے والا توتا۔ ان کے ہم مکتب دوست انصر نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ انہیں ایک توتا ضرور ڈھونڈ دے گا۔ انصر اس قسم کے کاموں میں بڑا ماہر تھا اور اسی نے کہا تھا کہ اسے توتوں کے ایک گھونسلے کا پتہ ہے اور وہ وہاں سے ایک توتا لا سکتا ہے۔

ایک روز کی بات ہے کہ دوپہر کا وقت تھا۔ سورج زمین پر اپنی انگارہ نما شعاعیں ڈال رہا تھا۔ یہ جون کے مہینے کی گرمی تھی۔ چہار سو آگ کی سی تپش پھیلی ہوئی تھی۔ مسجد سے چھٹی ہو چکی تھی۔ کچھ بچے تو وہیں مدرسہ کے برآمدے میں ہی سو گئے تھے جب کہ کچھ اپنے گھروں کی راہ لے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے رو مال پانی میں بھگو کر سر پہ ڈال رکھے تھے تاکہ گرمی کی حدت سے بچ سکیں۔ انصر، نعمان اور کاشف بھی گھروں کو روانہ تھے۔ اس وقت ان کے درمیان اسی اہم ’’توتائی‘‘ معاملہ پہ گفتگو چل رہی تھی، گفتگو صرف چل نہیں رہی تھی بلکہ زور و شور سے بھاگ رہی تھی، مطلب وہ تینوں دنیا جہان سے بے خبر باتوں کے گھوڑے ہانکتے جا رہے تھے۔

’’میں نے کہا توہے کہ میں تمہیں توتا ضرور لا دوں گا۔‘‘ انصر نے کہا۔

’’وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن کیا وہ باتیں بھی کرے گا؟‘‘ کاشف نے پوچھا۔

’’یہ تو مجھے پتہ نہیں ہے، غالباً یہ تو سکھانے سے ہو سکے گا۔‘‘ انصر نے نفی میں سر ہلایا۔

’’چلو ٹھیک ہے، ہم تمہیں پچاس روپے دے دیں گے۔‘‘ نعمان نے کہا۔

’’ٹھیک ہے، کیا تم دیکھنا پسند کرو گے؟ ویسے ابھی وہ توتا بالکل چھوٹا سا ہے‘‘ انصر نے انہیں دعوت دی۔

’’کیوں نہیں لیکن۔۔ ۔‘‘ کاشف نے رک کر اپنے کزن نعمان کو دیکھا۔

’’لیکن کیا؟‘‘ انصر نے حیرانی سے پوچھا۔

’’اس وقت وہاں جانا۔۔ ۔۔ مطلب میرا خیال ہے کہ ہمیں اس وقت وہاں نہیں جانا چاہیے۔ یہ دوپہر کا وقت ہے اور ہم جانا چاہ رہے ہیں قبرستان۔۔ نہ بابا نہ، میں تو نہیں جاؤں گا، مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ کاشف نے کہا۔ انصر انہیں پہلے بتا چکا تھا کہ توتا قبرستان میں موجود ایک درخت کی کھوہ میں ہے۔ کاشف کے انکار کے بعد نعمان نے بھی اثبات میں سر ہلا کر اس کی تائید کی اور بولا:

’’بھائی! عصر کی چھٹی کے بعد چلیں گے۔‘‘

’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ انصر نے کہا اور وہ تینوں خاموش ہو گئے۔

عصر کی نماز کے بعد وہ تینوں قبرستان جا پہنچے، جہاں ایک درخت کی کھوہ میں توتے کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔ گھونسلہ کچھ اونچائی پر تھا۔ انصر تھوڑی سی تگ ودو کے بعد گھونسلے تک پہنچ گیا، ساتھ ہی اس نے دانت نکال کر اپنی فتح کا اعلان کیا۔

’’یہ دیکھو توتے کا بچہ!! کتنا پیارا ہے!!‘‘ انصر نے گھونسلے میں ہاتھ ڈال کر ایک توتا اٹھا کر دکھایا تھا۔ ظاہری نظر میں یہ ایک گوشت کا لوتھڑا سا تھا۔ انہوں نے غور سے دیکھا تو پھر کہیں جا کر اس کے نقش واضح ہوئے۔ یہ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔ اس کے جسم پہ بال و پر نہیں تھے۔ اس ننھے پرندے نے اپنی آنکھیں بھی بند کی ہوئی تھیں۔ اور وہ بار بار اپنا منھ کھول رہا تھا۔ اس کے انداز سے بے چینی نمایاں تھی۔ شاید اسے بھوک لگی ہو گی لیکن اس وقت اس کے ماں باپ وہاں نہیں تھے۔

’’یہ توتا ہے کیا؟‘‘ نعمان نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔

’’ہاں ہاں، کچھ دنوں بعد اس کے پر نکل آئیں گے اور یہ سبز سبز نظر آنے لگے گا بالکل اصلی توتوں کی طرح۔‘‘ انصر نے پر زور لہجے میں کہا۔

’’اچھا!!‘‘ نعمان نے کہا۔ اس کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ اسے اب بھی یقین نہیں ہے۔

’’ہم کب تک اسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘ کاشف نے پوچھا۔

’’آج سے ایک ہفتے بعد۔‘‘ انصر نے فوراً جواب دیا۔

’’ٹھیک ہے، یہ لو بیس روپے، باقی تیس روپے تب، جب ہم توتا اٹھائیں گے۔‘‘ نعمان نے کہا۔

’’ٹھیک ہے، اور ہاں میرے بغیر اکیلے یہاں نہ آنا ورنہ تمہیں کالے جن نے چمٹ جانا ہے۔‘‘

انصر نے بیس روپے جیب میں ٹھونستے ہوئے انہیں ڈرایا اور وہ دونوں ہاں میں سر ہلانے لگے۔

٭…٭…٭

عید سر پر آ چکی تھی۔ بس چند روز ہی رہ گئے تھے۔ ایک روز نعمان نے کاشف سے کہا:

’’میں تو کل ابو کے ساتھ شہر جا رہا ہوں۔‘‘

’’ارے واہ!! کیا کرنے بھلا؟‘‘ کاشف نے پوچھا۔

’’عید کے لیے کپڑے اور جوتے لینے۔‘‘ نعمان نے چہک کر بتایا۔

‘‘ میں بھی جاؤں گا تمہارے ساتھ، میں آج ہی ابو سے بات کرتا ہوں۔‘‘ کاشف نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’کیوں نہیں، کر لو بات، ہم نے کل جانا ہے، یعنی پچیسویں روزے کو۔‘‘ نعمان نے کہا اور کاشف سر ہلانے لگا۔

٭…٭…٭

اگلے روز نعمان اور کاشف شہر جا پہنچے۔ بازار میں بڑا رش تھا۔ پاؤں رکھنے کی جگہ تک نہ تھی۔ نعمان اور کاشف ایک لمبا سفر کر کے یہاں پہنچے تھے۔ کاشف نے اپنے ابو سے کچھ پیسے لے لیے تھے تاکہ وہ بھی اپنے لیے نئے کپڑے اور جوتے خرید سکے۔ چونکہ وہ بازار پہلی بار آیا تھا اس لیے اس کے چہرے پہ حیرت ہی حیرت تھی۔ وہ اردگرد کی چیزوں کو دیکھتا تو دیکھتا ہی رہ جاتا۔ کئی بار تو وہ چلتے چلتے گر پڑتا تھا۔ نعمان کے ابو نے دو تین بار اسے کہا کہ ’’بیٹا رش بہت ہے، ہمارے ساتھ رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ہم سے بچھڑ جاؤ۔‘‘ کاشف نے ’’جی چچا‘‘ تو کہہ دیا تھا مگر وہ بازار کے طلسمی ماحول کو دیکھ کر پھر اسی میں کھو جاتا تھا۔ اسی دوران ایک دکان پہ کاشف کو ایک شان دار جوتا نظر آیا، جوتے کو دیکھ کر وہ اس طرف متوجہ ہو گیا۔ یہ ایک ایسا جوتا تھا جس کے تلوے میں رنگا رنگ لائٹیں جل بجھ رہی تھیں۔ وہ اس طرف لپکا اور دکان دار سے جوتا دکھانے کا مطالبہ کرنے لگا۔ دکان دار نے اسے جوتا دکھا دیا۔ اس نے جوتا دیکھا اور اس کی قیمت بھی پوچھ لی۔ اسے وہ جوتا بے حد پسند آیا۔ وہ اسے ہر صورت میں خریدنا چاہتا تھا۔  اسی لمحے اچانک ہی اسے چچا جی کا خیال آیا، وہ بری طرح سے چونکا، یوں لگا جیسے اس کا خواب ٹوٹ گیا ہو۔ وہ تو وہاں اکیلا کھڑا تھا۔ اس کے چاروں طرف اجنبی چہرے تھے۔ وہاں نہ تو نعمان تھا نہ ہی اس کے ابو۔ وہ تو بہت آگے نکل چکے تھے۔ اب تو وہ بہت پریشان ہو گیا۔ وہ حواس باختہ ہو کر ہجوم کے درمیان سے نکلتا ہوا آگے بڑھنے لگا، مگر وہاں تو بھول بھلیوں کی طرح کئی گلیاں تھیں جو دائیں بائیں نکل رہی تھیں۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ پھر وہ ایک جگہ رک کر زور زور سے رونے لگا۔ اس دوران اس کے ذہن میں طرح طرح کی باتیں گھومنے لگیں۔ اچانک اسے طوطے کا وہ ننھا منا سا بچہ یاد آ گیا۔ یہ سب یاد کرتے ہی اس کی آنکھوں سے گرم گرم آنسو بہے جو اس کے رخساروں پہ پھسلنے لگے۔ اسی وقت کسی نے اس کا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ کاشف نے دیکھا وہ ایک اجنبی شخص تھا۔ کاشف کا دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔

٭…٭…٭

ادھر نعمان اور اس کے ابو اپنے خیالوں میں آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ انہیں کیا خبر کہ کاشف پیچھے رہ گیا ہے۔ تین چار منٹ بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کاشف غائب تھا۔ نعمان کاشف کو اپنے سگے بھائیوں جیسا سمجھتا تھا۔ وہ پہلے تو کاشف کو ڈھونڈتا رہا مگر جب وہ اسے نہ ملا تو وہ بری طرح سے رونے لگا۔ اس کے ابو نے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی کہ وہ کاشف کو جلد ہی تلاش کر لیں گے، مگر نعمان کو صبر ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ رو رہا تھا کہ اس دوران اسے ایک خیال آیا۔ جی ہاں طوطے کا خیال، اس ننھے منے بچے کا خیال جسے وہ اس کی ماں سے جدا کرنے کا سودا کر چکے تھے۔ وہ دل ہی دل میں توبہ استغفار کرنے لگا اور اللہ تعالیٰ سے کاشف کے لیے دعائیں کرنے لگا۔

نعمان کے ابو نے فوراً ایک نزدیکی مسجد کاخ کیا۔ مسجد بازار کے درمیان ہی تھی۔ انہوں نے مسجد کے مؤذن کو کاشف کا حلیہ بتایا تاکہ وہ اس کی گم شدگی کا اعلان کرا سکیں۔ عین اسی لمحے ایک آدمی کاشف کا بازو سے پکڑے مسجد کے احاطے میں داخل ہوا۔ غالباً یہ ایک دکان دار تھا۔ اس نے جب کاشف کو روتے دیکھا تھا تو اسے پکڑ کر مسجد لے آیا تاکہ اعلان کرا کر اس کے سرپرستوں کو آگاہ کیا جا سکے مگر اعلان کی نوبت ہی نہ آئی اور اللہ تعالیٰ نے کاشف کو اس کے بھائی نعمان سے ملا دیا۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر دوبارہ سے خرید وفروخت کرنے لگے۔ جلد ہی وہ کپڑے جوتے لیے اپنے گاؤں کی طرف جا رہے تھے۔ اس گم شدگی سے دونوں نے ایک سبق سیکھا تھا جس کے اثرات جلد ظاہر ہونے والے تھے۔

٭…٭…٭

’’کل عید ہے بھائیو! کل صبح ہی میں توتا تمہارے حوالے کر دوں گا۔‘‘

انصر ان دونوں کے سر پہ کھڑا اعلان کر رہا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو معنیٰ خیز نگاہوں سے دیکھا اور مسکرا دئیے۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ نعمان نے کہا۔

’’پیسے تیار ہیں نہ؟‘‘ انصر نے اپنے مطلب کی بات پوچھی اور گویا تسلی چاہی۔

’’ہاں ہاں، بے فکر رہو۔‘‘ کاشف ہنسا۔

اگلے روز عید تھی۔ ایک خوش گوار صبح۔ آج موسم بھی ٹھنڈا ٹھنڈا تھا۔ بادلوں نے گرمی کی حدت چھپا دی تھی۔ ٹھنڈی ہوائیں یہ خبر دے رہی تھیں کہ قرب وجوار میں کہیں بارش برس رہی ہے۔ عید نماز کے بعد انصر ان دونوں کو لیے قبرستان جا پہنچا۔ جلد ہی وہ توتے کے گھونسلے کے سامنے کھڑے تھے۔  آج تو وہاں توتا اور توتی بھی موجود تھے۔ یہ دیکھ کر انصر نے ایک ڈنڈا اٹھا لیا تاکہ انہیں اڑا سکے۔ اس سے پہلے کہ وہ درخت پہ چڑھتا، نعمان نے کہا:

’’انصر دوست! میں نے تمہیں کاشف کے گم ہونے کا بتایا تھا نہ؟‘‘

’’ہاں ہاں، مگر۔۔ ۔۔‘‘ انصر نے اسے تحیر بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس بے محل بات کی سمجھ نہ آئی ہو۔

’’تو میں بتانا یہ چاہتا تھا کہ ہم دونوں نے توتا نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ نعمان نے کہا تو انصر اچھل پڑا۔

’’یہ کیا بات ہوئی، تم دونوں کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ انصر نے اکھڑتے ہوئے انداز میں کہا۔

’’ہاں انصر! ہم نے سوچا کہ اگر ہم ایک چھوٹے سے بچے کو اس کی ماں سے جدا کریں گے، یہ کتنی بری بات ہو گی، لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔‘‘ کاشف نے احساس ہمدردی سے لبریز لہجے میں کہا۔

’’ٹھیک ہے، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے، نہ لو توتا، مگر یاد رہے، یہ پہاڑی توتا ہے‘‘ انصر نے برا سا منھ بنایا۔ ساتھ ہی اس نے ایک نیا لالچ بھی دے دیا کہ شاید ان دونوں کا ذہن بدل جائے۔

’’شکریہ، اب ہم چلیں؟؟۔‘‘ نعمان نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔

’’بھلے آدمی جب تم نے توتا لینا نہیں تھا تو مجھے یہاں تک لائے کیوں ہو؟‘‘ انصر نے ایک بار پھر اپنا غصہ نکالنے کی راہ تلاش کی۔

’’عید مبارک کہنے۔‘‘ کاشف ہنسا۔

’’کیا؟ کسے؟ کون سی عید‘‘ انصر نے غصے سے کہا۔

’’توتوں کو میرے پیارے توتے!‘‘ نعمان نے اس کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔

’’ہاں انصر! ہم نے سوچا کہ ہمیں بولنے والے توتے کی کیا ضرورت؟ تم ہو نہ!‘‘ کاشف ہنس کر بولا۔ ان دونوں کا یہ انداز دیکھ کر انصر کا غصہ غائب ہو گیا۔ وہ بھی قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔

’’چل میرے توتے! ان بیس روپوں کی چُوری کھلاتے ہیں تمہیں۔‘‘ کاشف نے انصر کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور وہ تینوں ہنستے ہوئے واپس چل دئیے۔ اسی لمحے نے بھی گھونسلے والے توتوں نے کچھ چہچہاہٹ کی۔ ان کی آواز سن کر وہ تینوں پیچھے مڑے، انہیں یوں لگا جیسے توتے کچھ کہہ رہے ہوں۔

’’یہ کیا کہہ رہے ہیں انصر؟‘‘ نعمان نے حیرت سے پوچھا۔

’’یہ کہہ رہے ہیں:  ’’توتائی عید مبارک!!‘‘ انصر کے منہ سے فی البدیہہ نکلا اور اس کی یہ بات سن کر نعمان اور کاشف ہنس پڑے۔ آج بھی جب انہیں یہ واقعہ یاد آتا ہے تو وہ بے ساختہ ہنس پڑتے ہیں اور کافی دیر ہنستے چلے جاتے ہیں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل