FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

معجزاتِ مسیح

حصہ اول

               علامہ طالب الدین

مقدمہ

جس میں معجزات کی حقیقت اور امکان و مقاصد پر بحث کی گئی اور اعلیٰ ثبوت دئے گئے ہیں۔

               پہلا مقدمہ

معجزہ اور اُس کا امکان اور غرض

اکثر لوگ معجزہ کو نا ممکن سمجھتے ہیں

ایک ایسا زمانہ تھا۔کہ لوگوں کو معجزات گھڑنے پڑتے تھے۔ لیکن آج کل اکثر لوگ معجزہ کے نام سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ ہر طرف سے یہ صد آتی ہے۔ کہ معجزہ ناممکن ہے کیونکہ وہ قوانین قدرت کے خلاف ہے۔ اہل ہنود خصوصاً برہمو سماج اور آریا سماج ان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور مسلمانوں میں بھی ایسے فلاسفر برپا ہو گئے ہیں جو موجودہ سائینس اور فلسفہ کی بیعت اختیار کر کے معجزات سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔

معجزہ مسیحی مذہب کے ساتھ ایسا تعلق رکھتا ہے کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے

لیکن مسیحی مذہب ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔ کیونکہ اس کے رگ و ریشے میں اعجاز کا عنصر دوران خون کی مانند حرکت کر رہا ہے۔ اور جس طرح بند خون کے نکل جانے سے مردہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مسیحی مذہب بھی اعجازی عنصر کے بغیر مردہ سا رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی اور مذہب قائم رہے تو رہے لیکن مسیحی مذہب معجزات کے انکار سے قائم نہیں رہ سکتا۔ مسیحی مذہب قیاسی دعووں یا محض تعلیمی مسئلوں کا نام نہیں۔ مسیحی مذہب وہ سلک واقعات ہے جس کا ہر واقعہ کم و بیش قوت اعجاز پر مبنی ہے۔ مسیح جو اس کا مرکز ہے خود ہزار معجزوں کا معجزہ ہے۔ چنانچہ اس کی تمام زندگی اول سے آخر تک عجیب باتوں کا سلسلہ ہے۔مثلاً اس کا غیر معمولی طور پر بطنِ مریم میں آنا ایک معجزہ ہے اس کی معصوم زندگی ایک معجزہ ہے۔ اس کی بے نظیر قدرت جس سے اس نے اندھوں کو بینا کیا۔ بہروں کو قوت سمع عطا فرمائی۔ مردوں کو زندہ کیا ایک معجزہ ہے۔ وہ حکمت جواس کے کلام سے مترشح ہے۔ وہ صبر اور استقلال جو آزمائشوں اور تکلیفوں کے درمیان اس کی صابر اور مطمئن زندگی سے ظاہر ہوا۔ وہ دعا جو اس نے مخالفوں کے لئے صلیب پر مانگی یہ سب باتیں معجزہ ہیں۔ اور اس کا مردوں میں سے جی اٹھنا اور آسمان پر تشریف لے جانا معراج اعجاز کا اعلیٰ زینہ ہے۔

مسیحی مذہب کی تاثیرات بجائے خود ایک معجزہ ہے

قطع نظر ان حقیقتوں کے مسیحی مذہب ان فوق العادت تاثیرات کے اعتبار سے جن سے وہ مختلف قوموں اور مختلف شخصوں کو مغلوب کرتا اور دنیا کی حکومتوں پر فتح پاتا ہے ایک دائمی معجزہ ہے۔ پس اس کی ہستی ایک طرح معجزہ کے اقرار پر منحصر ہے۔ اور مخالفوں نے اس نکتہ کو خوب پہچانا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ دین عیسوی اور فوق العادت میں ایسا گہرا تعلق پایا جاتا ہے اور دونو اس طرح شیر و شکر کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ معجزہ ناممکن ہے تو اس بنیاد کے ہل جانے سے مسیحی مذہب بھی عمارت بوسیدہ کی طرح گر کر پاش ہو جائے گا۔

لیکن انکارِ معجزہ سے ہر طرح کے مذہب کا انکار کرنا پڑتا ہے

لیکن ہمیں کمرسلب صاحب اور مسٹر رامچند بوس کا نادر خیال اس موقعہ پر یاد آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انکار اعجاز سے نہ صرف مسیحی مذہب کو زک پہنچے گی بلکہ ہمیں ہر مذہب کی جان پر فاتحہ پڑھنا پڑے گا۔ مذہب کیا ہے ؟ کیا مذہب اِس امکان کا نام نہیں کہ آسمانی طاقتیں انسانی زندگی میں اس کی رفاہ اور فلاح کے لئے داخل کر اپنا اثر دکھا سکتی ہیں۔ اگر یہ ممکن نہیں۔ یعنی اگر خدا قوانین قدرت کی چاردیواری کے اندر قید ہے یا اُن سے ایسا خارج ہے کہ قصر فطرت میں داخل ہونے کے لئے اسے کوئی دروازہ نہیں ملتا اور وہ انسانی معاملات میں کس طرح کی دلچسپی دکھانے کو دست اندازی نہیں کرسکتا تو مذہب عبث بلکہ حماقت کا ڈھکوسلا ہے۔

مذہب کے دو پہلو

مذہب کے دو پہلو ہیں جن کے وسیلے وہ بنی آدم کو اپنے فیض سے مالا مال کرتا ہے انہیں اصطلاح فلسفہ میں (Objective) اور (Subjective) کہتے ہیں۔ مقدم الذکر سے وہ امدادِ الٰہی مراد ہے جو ہماری مشکلات اور مصائب کے وقت ہماری دست گیری کرتی ہے۔چنانچہ اسی فوق العادت مدد کے لئے دعا و مناجات کی جاتی ہے۔ بیوہ آنسو بہاتی ہے ، یتیم نالہ بلند کرتا ہے۔ غمزدہ آہیں بھرتا ہے اور یہی وہ مدد ہے جو مصیبت زدوں کو تسلی سے مالا مال فرماتی ہے اور اس کے دوسرے پہلو سے دل کی وہ فوق العادت تبدیلی مردا ہے۔ یعنی وہ الٰہی تاثیر جس کی وجہ سے نئی پیدائش یا نئی زندگی حاصل ہوتی ہے جس کی طفیل سے پُرانی خواہشوں، پرانے ارادوں اور پرانے جذبات میں ایسا انقلاب وارد ہوتا ہے۔ کہ انسان نیا مخلوق بن جاتا ہے۔

ایک پہلو کو ماننا اور دوسرے کا انکار کرنا درست نہیں

اس جگہ یہ خیال پیش کرنا خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ ان لوگوں کے اصول اور اعتقادات کیسے متناقص ہیں جو اس بات کے تو قائل ہیں کہ خدا انسان کی روح کے اندر بذات خود کام کرتا ہے۔ اسے تبدیل کرتا اور اسے نیا بناتا ہے۔ مگر خارجی فطرت میں اس کے در آنے اور کام کرنے کے منکر ہیں۔لیکن اظہر ہے کہ اگر وہ دعاؤں کے جواب میں دائرہ فطرت میں حاضر نہیں ہوسکتا۔ تواسی طرح روحانی دائرہ میں بھی داخل نہیں ہوسکتا۔

اعجاز کے انکار سے کسی طرح کی دعا کے لئے جگہ نہیں رہتی

پس دعا کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی۔ نہ جسمانی ضروریات کے لئے اور نہ روحانی حاجات کے متعلق درگاہ باری تعالیٰ میں جبہ سائی کرسکتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہہ سکتے ہیں کہ مکالمہ الٰہی کے معانی بھی دعا کے لئے جگہ نہیں رہتی۔ کیونکہ اگر ایمان خدا کو قوانین نیچر سے جدا اور مسہودات فطرت سے الگ اور تمام اشیاء دیدنی و نا دیدنی پر فائق اور برکت دینے پر قادر اور تمام صفات شخصیت کے ساتھ دعا کی کوٹھری میں موجودہ نہ دیکھے تو ایک فرضی شخص کی طرف مخاطب ہو کر کبھی عجز وانکسار کے ساتھ سرنیاز اس کے آستانہ پر جھکانا اور کبھی اسے محبوب حقیقی جان کر اس پر تصدق ہو جانا۔کبھی تکلف کے ساتھ اور کبھی فرزندانہ بے تکلفی سے اس کے ساتھ ہم کلام ہونا گویا ہوا کے ساتھ باتیں کرنا ہے۔ دعا الٰہی حضوری اور الٰہی قدرت پر دلالت کرتی ہے۔ اور نیز اسبات پر شہادت دیتی ہے کہ وہ حاضر اور قادر ہے ہماری مدد کے لئے رضا مند بھی ہے۔ اور یہی اصول معجزہ کی جڑ ہے۔

انکارِ معجزہ خدا کی شخصیت کا انکار ہے

ہماری رائے میں معجزہ کا انکار خدا کی شخصیت کا انکار ہے۔ پر اگر ہم خدا کی شخصیت سے منکر ہو جائیں تو ہماری شخصیت کہاں رہے گی؟ اور جب ہماری اور خدا کی شخصیت جاتی رہی تو ہماری اخلاقی ذمہ واری کہاں رہی ؟ یہ انکار ایسا انکار ہے۔ جو ہمیں دوسری دنیا سے علحٰدہ کر کے اسی دنیاوی زندگی کا قیدی بنا دے گا۔

اِس کے نتائج

اور پھر یہ الفاظ جو کسی خدا رسیدہ شخص نے تحریر کئے ہیں ہم پر صادق آئیں گے "۔ اگر تیرا یہ اعتقاد ہے کہ تو اپنی تاریخ میں خدا کے رہنما ہاتھ کا سراغ لگا سکتا ہے تو یہ تیرا وہم ہے۔۔۔۔ کیا تو اپنے لخت جگر کی شفا کے لئے جو قریب المرگ پڑا ہے دعا مانگ رہا ہے ؟ یہ بے فائدہ تکلیف ہے کیونکہ لازم ہے کہ تیرا کا نپتا ہوا دل نیچر کے بہرے اور اندھے عمل سے سوائے اپنے لازمی مقدر کے اور کسی بات کی تمنا نہ رکھے۔اے غمزدہ خاتون کیا تو اپنے باپ یا اپنے شوہر کے کفن کے پاس روتی ہوئی یہ کہہ رہی ہے کہ رشتہ محبت ہمیشہ کے لئے ٹوٹ نہیں سکتا ؟ یہ بھی ایک خام خیال ہے کیونکہ قیامت کوئی شے نہیں ہے۔ کیا تم اس لئے آہیں بھرتے ہو کہ اگر خدا مدد کرے تو بدی پر غالب آؤ؟ یہ بھی ایک موہوم اُمید ہے۔ کیونکہ اگر تم نئی زندگی پاؤ تو یہ گویا تمہاری ذاتی گناہ آلودہ طبیعت کی ترقی کو ایک غیر جبلی رخنہ اندازی سے روکنا ہو گا۔ کیا تو یہ کہتا ہے کہ تو نے اس معجزہ کا تجربہ کیا ہے ؟ دیکھو منکر جواب دیتے ہیں کہ یہ تیری فریب خوردگی ہے۔۔۔ پس آؤ ہم کھائیں پئیں اور خوشی کریں کیونکہ کل ہمیں مرنا ہے "۔ انکار معجزات کا یہی منطقی اور لازمی نتیجہ ہے۔

معجزات کا مقصد خلاف عقل نہیں

اب ہم تھوڑی دیر کے لئے اس بات پر غور کریں گے کہ آیا معجزات کے مقصد اور معانی میں درحقیقت کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جسے ہم خلاف عقل کہہ سکیں یا اُن کی مخالفت کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ مسیحی مذہب کے مطابق عقلی اُصول کے موافق ہیں۔ اس جگہ ہم اُن اعتراضات میں نہیں گھسنا چاہتے جو لوگوں نے معجزوں پر کئے ہیں۔ اُن کا بیان اور تردید آگے چل کر قید کتابت میں لائیں گے۔ یہاں مختصر طور پر ناظرین کو فقط یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مسیحی مذہب کے نزدیک معجزہ کیا مطلب رکھتا ہے اور کہ اس مطلب کے متعلق کوئی بات عقل سلیم کے برخلاف نہیں پائی جاتی۔

معجزہ کی تعریف

مسیحی مذہب کے نزدیک معجزہ ان فوق العادت اظہارات کا نام ہے جو اس غرض سے منصہ شہود پر جلوہ نما ہوتے ہیں کہ خدا کے فرستادہ کی رسالت ثابت کی جائے۔ معجزہ کے لغوی معنی عاجز کرنے کے ہیں اور جب کوئی کام فطرت کے معمول سے مختلف انسان کے مشاہدے سے گذرتا ہے تو وہ عاجز ہو کر اس غیر مرئی قدرت کا قائل ہو جاتا ہے جس کا تجربہ اس نے تا ہنوز نیچر(فطرت) کے معمولی سلسلہ میں نہیں کیا تھا۔ پس معجزہ خدا کے نبی یا رسول کی رسالت کا نشان یا ثبوت ہوتا ہے۔

ایک نظیر

اور یہ اصول مسلمہ ہے کہ بڑے بڑے پیغاموں کے ثابت کرنے کے لئے بڑی بڑی شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی شخص عہدہ سفارت پر مامور ہو کر کسی بادشاہ کے دربار میں جاتا ہے تو پہلے اسے اس بات کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کا مقرر کردہ ہے۔ اور جب یہ بات ثابت ہو جاتی ہے تو ایک ایک لفظ جو اس کی زبان سے نکلتا ہے بممزلہ بادشاہ کے کلام کے سمجھا جاتا ہے۔

مسیحی مذہب کا دعویٰ یہ ہے۔ کہ میں الہامی ہوں

اب مسیحی مذہب کا یہ دعویٰ ہے کہ مسیح اس دنیا میں خدا کا ایلچی بن کر آئے اور اپنے ساتھ کئی الٰہی پیغام اور اپنی رسالت کے ثبوت میں اس نے معجزے کر دکھائے جو انجیل شریف میں قلمبند ہیں۔

یہ انسان کا جبلی خاصہ ہے کہ وہ الہامی پیغام کے ثبوت میں معجزہ طلب کرتا ہے

ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بات انسان کی ذات میں مخلوط ہے کہ جب کوئی شخص اس کے پاس آکر منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ بے ساختہ یہ درخواست کرتا ہے تو اس دعویٰ کی تصدیق میں خدا کی طرف سے کونسا نشان اپنے ساتھ لایا ہے۔ یہی سبب تھا۔ کہ یہودیوں نے مسیح سے کہا ” تو کونسا نشان دکھاتا ہے۔ تاکہ ہم دیکھ کر تیرا یقین کریں تو کونسا کام کرتا ہے "۔ (انجیل شریف : راوی حضرت یوحنا ۶: ۳۰) اور اس نے ان کے اس سوال کو غیر واجب جان کر نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ وہ اپنے جواب سے ثابت کرتا ہے کہ ان کا سوال جائز ہے۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے ” جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں وہی میرے گواہ ہیں”۔(انجیل شریف: راوی حضرت یوحنا ۱۰: ۲۵) پھر ایک اور جگہ اپنے معجزات کو اپنے مشن کے ثبوت میں اس طرح پیش کرتے ہیں "۔ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے ہیں کوڑھی پاک صاف کئے جاتے ہیں اور بہرے سنتے ہیں اور مردے زندہ کئے جاتے ہیں "۔ (انجیل شریف : راوی حضرت متی ۱۱: ۵) یہودیو ں کا سردار نقودیمس بھی اس اصول کا قائل تھا۔ چنانچہ اس کے کلام سے ٹپکتا ہے کہ وہ مانتا تھا کہ غیر معمولی قدرت کے اظہار نبی کی رسالت کا پختہ ثبوت ہیں۔ اسی لئے اس نے کہا ” اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تو خدا کی طرف سے استاد ہو کر آیا ہے کیونکہ معجزے (یونانی نشان) تو دکھاتا ہے کوئی شخص نہیں دکھا سکتا ہے جب تک خدا اس کے ساتھ نہ ہو”(انجیل شریف : راوی حضرت یوحنا ۳: ۲) پھر رسولوں کی رسالت کی نسبت بھی جو کہ مسیح کے فرستادہ تھے یہی ثبوت پیش کیا گیا ہے لکھا ہے "۔ ساتھ ہی خدا بھی اپنی مرضی کے موافق نشانوں اور عجیب کاموں اور طرح طرح کے معجزوں اور روح القدس کی نعمتوں کے ذریعے سے اس کی گواہی دیتا رہا”۔

منکر بھی اس بات کے قائل ہیں کہ معجزہ من جانب اللہ ہونے کا عمدہ ثبوت ہے

(خطِ عبرانیوں ۲: ۴)اور ملحد بھی اس بارے میں معجزے کے زور کو خوب محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً ملوین صاحب اپسکوپل چرچ کے بشپ اپنی کتاب ایوی ڈن سیز آف کرسچینٹی میں یوں ایک کی رائے قلمبند کرتے ہیں۔” مجھے یقین ہے کہ سب لوگ اس بات کو قبول کریں گے۔ کہ جو شخص فی الحقیقت مرگیا ہواسے پھر زندہ کرنا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اگر اسی قسم کے دو تین معجزے جن کی سچائی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہو اور جن کو معتبر اشخاص نے بیان کیا ہو پیش کئے جائیں تو وہ اسبات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہوں  گے کہ جو ان کا دکھانے والا ہے وہ واقعی خدا کی طرف سے ہے اور اس کی قدرت سے معمور ہے "۔

پس اگر الہام ناممکن ہے تو معجزہ بھی ناممکن ہے پر اگر الہام ناممکن نہیں تو معجزہ بھی ناممکن نہیں

پس اگر یہ ممکن ہے کہ خدا اپنی مرضی کے اظہار سے انسان کو بہرہ ور فرمائے تو یہ ضروری ہے امر ہے کہ وہ اُسے جو اُس کا پیغام پہنچانے والا ہے ایسے اسباب ووسائل بھی عطا فرمائے جن کے ذریعہ وہ بندگان خدا کو قائل کرسکے۔ کہ میں خدا کا قاصد ہوں۔ یہاں اسبات کو ثابت کرنا کہ الہام ناممکن نہیں مضمون زیر بحث کے حدود سے تجاوز کرنا ہو گا لہذا ہم اس بحث کو یہاں نہیں چھیڑیں گے۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ کون کہہ سکتا ہے کہ خدا کے لئے جو رحم و فضل کا منبع ہے گم گشتہ انسان کو راہ راست پر لانا اور اسے نور ہدایت سے منور فرمانا ناممکن ہے ایسا وہی کہہ سکتا ہے جو کشف الٰہی اور الہام زبانی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور وہی معجزہ کا بھی انکار کرسکتا ہے پر وہ جو ہدایت ایزدی کے قائل اور جویان ہیں وہ اپنے اعتقاد کے مطابق معجزے پر حملہ نہیں کرسکتے جب تک اس اعتقاد سے دست بردار نہ ہوں۔ الہام یا مکاشفہ کے تصور ہی میں رنگ اعجاز جلوہ گری کر رہا ہے۔ کیونکہ کسی طرح کا مکاشفہ الٰہی قدرت کی مداخلت کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوسکتا۔ اور خدا کی قدرت کے ظہور کا نام معجزہ ہے۔ پس اگر خدا کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنی مرضی کا کشف انسان کو مرحمت فرمائے تو پھر یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ معجزہ دکھائے۔ پر اگر وہ نا ممکن نہیں تو یہ بھی ناممکن نہیں ہے۔

الہامی صداقتیں عقل کی رسائی سے بعید ہیں۔ لہذا ان کے ثبوت کے لئے معجزہ ضروری ہے

ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ کشف اور الہام کو معجزہ سے علیٰحدہ نہیں کرسکتے۔ جہاں الہام ہے وہاں معجزہ بھی ضرور ہوتا ہے الہام سے کیا مراد ہے ؟ الہام سے اُن صداقتوں کا اظہار مراد ہے جنہیں ہم اپنی عقل کے وسیلے دریافت نہیں کرسکتے۔ پر خدا اپنی رحمت اور فضل سے ان کو ہم پر ظاہر فرماتا ہے پرسوال یہ ہے کہ ہم کس طرح جانیں کہ جو بات ہمارے سامنے الٰہی صداقت کے طور پر پیش کی جاتی ہے وہ راست اور برحق ہے ؟ کیونکہ کئی تعلیمات اور کئی مسائل ایسے ہوتے ہیں اور ہیں جن کے منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ مگر وہ عقلی تحقیق کے دائرہ سے باہر ہیں۔ لہذا ایسے نشان کے محتاج ہیں جو ان کی تصدیق کرے اور وہ نشان معجزہ ہے۔ اس موقعہ پر معجزہ کے متعلق دو تین باتوں پر غور کرنا انسب معلوم ہوتا ہے۔

کوئی معمولی واقعہ معجزہ کا کام نہیں دے سکتا

معجزہ کے منشاء سے صاف ظاہر ہے کہ وہ فطرت کے اظہارات کی طرح بار بار واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اگر ہو تو اس مقصد کو پورا نہیں کرے گا جس کے پورا کرنے کے لئے وہ دکھایا گیا۔بلکہ عام واقعات کی طرح وہ بھی ایک عام واقعہ ہو جائے گا۔لیکن اگر کسی شخص کے اشارے سے معینہ وقت اور مقرری صورت میں ظاہر ہو تو اپنے مقصد کو پورا کرے گا۔ فطرت کے کسی عام واقعہ یا حادثہ کو پیغام الٰہی کے ثبوت میں پیش نہیں کرسکتے۔ کیونکہ وہ سلسلہ موجودات میں اپنے اسباب ماقبل اور نتائج مابعد کے ساتھ گندھا ہوا ہوتا ہے اور جس مقصد کو وہ اس سلسلہ میں انجام دیتا ہے وہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ پس دیکھنے والے کی نظر میں وہ الہامی پیغام کے ساتھ کوئی ربط نہیں نہیں رکھتا اس میں شک نہیں کہ ہم ان تمام واقعات میں خدا کی قدرت کو معائنہ کرتے ہیں۔ تاہم فطرت کی کوئی عجیب یا حیرت افزا بات اُ س شخص کے الہامی پیغام کے ثبوت میں پیش نہیں کی جا سکتی جو نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

الہامی صداقتیں اگر لوگوں کے دلوں میں خود بخود پیدا ہوں تو ہمیشہ ثبوت کی محتاج رہیں گی

پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کیا خدا معجزے کے بغیر انسان کے دل میں الہامی خیالات پیدا نہیں کرسکتا ؟ ہاں وہ قادر خدا ہے اور اس کے لئے ایسے خیالات پیدا کرنا ناممکن نہیں۔ پر سوال یہ ہے کہ اگر اور خیالات کی طرح وہ نئی اور اہم صداقتوں کے تصورات انسان کے دل میں پیدا کرے تو اس کا کیا ثبوت ہو گا کہ وہ سچے ہیں اور قبول کرنے کے قابل ؟ مثلاً اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ کفارہ ضروری ہے اور وہ ہو چکا ہے۔ کیونکہ یہ خیال میرے دل میں پیدا ہوا ہے تو ہم ضرور پوچھیں گے کہ اس کا ثبوت کیا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص مسیح کے سے دعوے ٰ یا وعدے پیش کرے اور کہے کہ انہیں باور کرو کیونکہ ان کا خیال میرے دل میں پیدا ہوا ہے توہم اس کی باتوں کی تصدیق میں نشان طلب کریں گے۔ اور اگر اپنے دعاوی کے اثبات میں وہ کوئی نشان پیش نہ کرے گا توہم اسے پاگل یا سٹر ی کہیں گے۔ اور جو نشان پیش کرے گا وہی معجزہ ہو گا۔

رسالت کے ثبوت میں تین باتیں پیش کی جا سکتی ہیں

اب اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے غور کریں تو قائل ہو جائیں گے۔ کہ رسالت کے ثبوت میں معجزات سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت فیصلہ کن نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جو رسالت کا مدعی ہے وہ اپنے دعویٰ کی تصدیق میں تین باتیں پیش کرسکتا ہے۔

(الف) اپنا چال و چلن

(ب)اپنے پیغام کی ذاتی خوبی اور مناسبت

(س) ایسے کام جو انسان کی معمولی طاقت سے بعید ہوں۔۔۔۔

مسیحی علماء کا یہ دعویٰ غلط نہیں کہ پہلی دو باتوں سے خاطر خواہ ثبوت بہم نہیں پہنچتا۔ اب ہم دیکھیں گے کہ یہ دعویٰ صحیح ہے یا نہیں۔

چال و چلن اس کو ثابت نہیں کرسکتا

(الف) چال و چلن۔ اس بارے میں ہم معصومیت سے بڑھ کر اور کوئی بڑی صفت کسی شخص کو منسوب نہیں کرسکتے۔ لیکن بیگناہی بھی شہادت کا پورا پورا کام نہیں دے سکتی۔ کیونکہ ظاہری سیرت یعنی بیرونی افعال اندرونی نیت کی صفائی اور کاملیت کا ثبوت نہیں ہوسکتے اور انسان دوسرے انسان کے دل کا حال نہیں جانتا۔ اس علم کے لئے ایک عرصہ کی ضرورت ہے اور پھر بھی ہم کامل طور پر علم حاصل نہیں کرسکتے کہ آیا فلاں شخص ظاہر و باطن میں یکساں ہے یا نہیں۔

پیغام کی ذاتی خوبی بھی اس کو ثابت نہیں کرسکتی

(ب)پھر پیغام کی ذاتی خوبی اور مناسبت بھی پختہ ثبوت نہیں سمجھی جا سکتی۔ گو اس کی خوبی عقل کو مرغوب ہو اور اس کی مناسبت قرین قیاس معلوم ہو۔ مثال کے طور پر خدا کے مجسم ہونے کا مسئلہ لیجیئے۔یہ مسئلہ کیسا عظیم الشان مسئلہ ہے۔ اس سے خدا کی شان میں سرموفرق نہیں آتا۔ اور انسانیت کی شان بڑھ جاتی ہے۔ ہماری ذات عجیب قسم کی سرفرازی حاصل کرتی ہے اور خدائے تعالیٰ سے ایک گہرا رشتہ پیدا کرتی ہے۔ اور ہمارے دل اس بات پر غور کرنے سے خدا کی محبت سے بھر جاتے ہیں غرضیکہ  یہ مسئلہ ہر گز عقل کے برخلاف نہیں بلکہ ہماری اعلیٰ خواہشوں اور ضرورتوں کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ خدا نے ازل سے یہ ٹھان رکھا تھا کہ میں اس ارادے کو پورا کروں گا۔ کیا ہم خدا کے کام کے متعلق انسان کے خیالات سے صحیح نتائج نکال سکتے ہیں؟ اگر ہم ایسا کرسکتے ہیں تو یہ بجائے خود ایک معجزہ ہے کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے۔ کہ گویا ہم خدا کی مرضی کا کامل علم رکھتے ہیں۔

مسیحی مذہب کے پھلوں سے جو دلیل لائی جاتی ہے وہ بھی معجزہ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ مذہب کے پھل اس کے ثبوت میں اعلیٰ جگہ رکھتے ہیں۔ تاہم وہ جگہ معجزوں کی جگہ نہیں۔ معجزات ڈائرکٹ ثبوت ہیں۔ پھل ڈائرکٹ ثبوت نہیں ہوتے۔ معجزات وہ دیدہ فوق العادت اظہارات ہیں جو نادیدہ فوق العادت صداقتوں کے ثبوت ہیں۔

چال و چلن اور پیغام کی ذاتی خوبی اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہے

ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ نبی کی نیک چلنی اور تعلیم کی باطنی خوبی اپنے اپنے موقعہ پر نہایت ضروری ہے اور نبی کے کلام اور دعوے ٰ کی تصدیق میں اس کی معاونت کرتی ہیں۔ تاہم تمام بار ثبوت انہیں پر پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ قبل اس کے کہ کوئی شخص صادق اور دیانتدار ثابت ہو ایک مدت چاہیے جس میں اس کی سچائی اور دیانت داری اس کی زندگی کے ہر پہلو کے ملاحظہ سے ثابت ہو۔ اسی طرح اس کے پیغام کی سچائی کو پرکھنے کے لئے ایسی دقیقہ سنج اور نکتہ رس لیاقت تحقیق اور قوتِ امتیاز کی ضرورت ہو گی جو اس شخص کی تعلیمات اور مروجہ اعتقادات کا مقابلہ کر کے اور بغیر دھوکا کھائے یہ فیصلہ کرسکے کہ پہلے اعتقاد اور عقیدے چھوڑیں گے اور اس کی تعلیم ترجیح کے قابل ہے۔

معجزہ تمام مشکلات کو حل کر دیتا ہے

لیکن معجزہ ان مشکلات کو فوراً حل کر دیتا ہے۔ جو نظیر ہم پہلے رقم کر چکے ہیں وہی اس نکتہ کی توضیح کے لئے کافی ہے فرض کرو کہ کوئی ایلچی یا سفیر کسی شاہی دربار میں جائے اور بادشاہ کی طرف مخاطب ہو کر یہ کہے کہ اے شہر یا نامدار میں اپنے شاہ عالیجاہ کی طرف سے ایک ایسا پیغام لایا ہوں جسے قبول کرنا اور جس کے مطابق عمل کرنا طرفین کی بہبودی کے لئے ضرور ی ہے اور جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ تیرے پاس اس بات کی کیا سند ہے کہ تو فلاں بادشاہ کا فرستادہ ہے تواس کے جواب میں وہ یہ کہے کہ اس کی سند میرا نیک چلن اور میرے پیغام کی باطنی خوبی ہے۔ تو کہئے کون اس کے پیغام کو سنے گا؟ کیونکہ اور بہت سے لوگ ہیں جو شاید اس سے کم دیانتدار نہیں اور بہتیرے ایسے پیغام ہیں جو اپنی ذات میں اچھے ہوتے ہیں۔پس مناسب ہے کہ وہ کوئی اور نشان پیش کرے۔ مثلاً اپنے بادشاہ کی مہر پیش کرے جسے دیکھتے ہی سب کے منہ بند ہو جائیں۔ اسی طرح خدا کے نبی یا رسول کے لئے لازم ہے کہ وہ بھی کوئی ایسا نشان دکھائے جسے دیکھتے ہی سب قائل ہو جائیں کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے۔ معجزہ سے بڑھ کر اور کوئی مہر ایسی نہیں ہے۔

اب ہم ذرا خصوصیت کے ساتھ اس بات پر غور کریں گے کہ معجزہ کے تصور میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔

معجزات الٰہی قدرت کی مہر ہیں

جیسا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں کہ معجزات خدا کی قدرت کی مہر ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ خدا کی خاص قدرت سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ چیدہ اشخاص کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے نام سے (جیسا موسیٰ نے کیا) یا سیدنا مسیح کا نام لے کر (جیسا رسولوں نے کیا اعمال ۳: ۶، ۴: ۱۰) اس خاص الٰہی قدرت کو کام میں لائیں اور پاک نتائج پیدا کرنے کے لئے معجزات کی شہادت پیش کریں۔ چونکہ پروردگار میں اور مسیح دوئی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ ذات اور قدرت کے اعتبار سے ایک ہیں لہذا مسیح خود اس قدرت کا سرچشمہ ہے۔

مسیح اس قدرت کا سرچشمہ ہیں

سو وہ اپنے معجزات کے وسیلے نہ صرف باپ کا جلال ظاہر کرتا ہے بلکہ اپنا جلال بھی ظاہر کرتا ہے یوحنا ۲: ۱۱ یعنی اس شخصی میل کے سبب سے جو پیدا کرنے والے ازلی کلمہ اور انسانی ذات میں پایا جاتا ہے۔ اور اس الٰہی بھرپوری کے باعث جو اس میں مجسم ہو رہی تھی (انجیل شریف خطِ کلسیوں ۲: ۹)اور نیز اس بیگناہی کی وجہ سے جو اس کی ذات کے ساتھ خاص تھی اس کا خالقانہ اور قادرانہ تعلق اس دنیا کے ساتھ اور لوگوں کی نسبت بالکل مختلف تھا۔

یہ الٰہی قدرت فو ق العادت قدرت ہے

یہ الٰہی قدرت جس کے وسیلے معجزات سرزد ہوتے ہیں فوق العادت قدرت ہوتی ہے۔ یعنی ان کو وجود میں لانے والے اسباب نیچر کے معمولی سلسلے میں نہیں ملتے بلکہ وہ معمولی وسائل کی وساطت کے بغیر اور فقط خدا کی فوق العادت قدرت کے ذریعے واقع ہوتے ہیں۔ ان میں ” خدا کا ہاتھ” (صحیفہ حضرت حزقیل ۸: ۱۹) صریح نظر آتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ معجزات ایک معنی میں خالقانہ قدرت کے نتائج ہوتے ہیں۔

یہ قدرت دنیا کی حفاظت اور انسان کی نجات کا موجب ہے

وہ نہ صرف خدا کی خالقانہ قدرت کے اظہار ہوتے ہیں بلکہ دنیا کی حفاظت پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ اس دنیا میں گناہ کی خرابی آگھسی ہے جو اسے برباد کر رہی ہے۔ اور معجزات خدا کی اس نجات بخش قدرت کے نشان ہیں جو دنیا کو اس خرابی اور بربادی سے رہا کرسکتی ہے۔ اور گنہگاروں کو پاکیزگی عطا کرسکتی ہے۔ اس معانی میں معجزات الٰہی بادشاہت کی ترقی کا باعث ہیں اور دنیا کے کمال اور نجات کی طرف راجع ہیں۔

اگر ان الفاظ پر غور کیا جائے جو کلام الٰہی میں معجزے کے لئے آئے ہیں تو ہم پر ظاہر ہو جائے گا کہ جو خیالات ہم اوپر ہدیہ ناظرین کر چکے ہیں وہ بالکل صحیح اور درست ہیں۔ ان کے ملاحظہ سے ہم دیکھیں گے کہ وہ قوت اعجاز جو نبیوں کو اور رسولوں کو مرحمت کی گئی اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ کشف کرامات سے معجزہ دکھانے والے کی تعریف ہو اور نہ یہ کہ وہ اس عجیب طاقت سے اپنے مخالفوں سے انتقام لے۔

مختلف الفاظ جو معجزے کے لئے نئے عہد نامے میں آئے ہیں اور جو اس کی مختلف خاصیتوں کو ظاہر کرتے ہیں

بائبل کے معجزے خدا کی قدرت اور رحمت اور نجات بخش محبت کا نشان ہیں۔ ٹرنچ صاحب نے اپنی مشہور کتاب نوٹس آف دی مرے کلس (Notes of The Miraculous)  میں تفصیل وار اس دلچسپ مضمون پر بحث کی ہے۔ مگر ہم خوف طوالت سے مختصر طور پر ان لفظوں کو پیش کرتے ہیں جو نئے عہد نامہ میں معجزے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔

(الف) بعض مقامات میں لفظ اچنبھا آیا ہے اور ہمارے نئے ترجمہ میں ” عجیب کام” استعمال ہوا ہے۔

ٹیرالس اچنبھا

یہ یونانی لفظ ٹیرالس (τερας) کا ترجمہ ہے۔ اور اس لفظ سے معجزہ کا وہ پہلو عیاں ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو حیرت کا پتلا بناتا ہے۔ جب لوگ اس عجیب قدرت کو معائنہ کرتے جو خدا کے رسول کے وسیلے جلوہ گر ہوتی ہے تو وہ حیرت سے بھر جاتے ہیں اور خواہ مخواہ معجزے دکھانے والے کے کلام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔مفصلہ ذیل مقامات کے مطالعہ سے معلوم ہو جائے گا کہ دیکھنے والوں پر یہی اثر پیدا ہوا (انجیل شریف : راوی حضرت مرقس ۲: ۱۲، ۴: ۴۱، ۶: ۵۱ و اعمال ۳: ۱۰، ۱۱)۔

پس معجزے کی حیرت خیز خاصیت کا فقط یہی مقصد تھا کہ وہ ان کو جو خواب غفلت میں مبتلا تھے اپنی تعجب انگیز تاثیر سے جگائے تاکہ وہ اس پیغام کو جو نبی سنانے پر تھا توجہ سے سنیں یا اگر پہلے سن چکے تھے تو معجزہ کے معائنہ کے بعد اس پر زیادہ غور کریں۔ یاد رہے کہ معجزہ کا صرف یہی مقصد نہیں ہوتا کہ وہ حیرت پیدا کرے اور بس۔ لوگ اکثر معجزات کی طرف یہی اکیلا مقصد منسوب کرتے ہیں۔ پر یہ سخت غلطی ہے۔ اور کلام الٰہی نے اس غلطی سے ہمیں بچانے کے لئے بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ چنانچہ یہ لفظ جو معجزات کی حیرت افزا خصوصیت پر دلالت کرتا ہے۔ کبھی اکیلا نہیں آتا۔ بلکہ اور الفاظ کے ساتھ یا یوں کہیں کہ معجزے کے دیگر فماء کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے تاکہ کوئی نہ سمجھے کہ معجزہ صرف تحیر یا تعجب پیدا کرنے کے لئے دکھایا جاتا ہے۔(دیکھو اعمال ۲: ۲۲، ۲کرنتھیوں ۱۲: ۱۲)۔

ڈونا مائس یا قدرتیں

ایک اور لفظ جو معجزے کے لئے استعمال ہوا ہے ڈونا مائس ہے جس کا لفظی ترجمہ” قدرتیں” ہے۔ لیکن اردو انجیل میں کہیں اس کا ترجمہ کرامات (متی ۷: ۲۲) اور کہیں معجزہ کیا گیا ہے ذیل کے مقامات میں یہ لفظ آیا ہے (متی ۱۱: ۲، مرقس ۱۶: ۱۴، لوقا ۱۰: ۱۳، اعمال ۲: ۲۲اور ۱۹: ۱۱۔ ۱کرنتھیوں ۱۲: ۱۰، ۲۸، گلتیوں ۳: ۵)۔ اصل میں یہ نام اس قدرت کا تھا جو موجد معجزانہ اظہارات کی تھی۔ یا یوں کہیں کہ معجزات نتائج اس قدرت کے عمل کے تھے۔ مگر جیسا اکثر ہوا کرتا ہے۔ موجد کا کا نام نتائج پر منتقل ہو گیا اور معجزات خود قدرتیں کہلانے لگے۔ جو خاص بات اس لفظ سے ٹپکتی ہے وہ یہی ہے کہ جس قدرت سے معجزہ سرزد ہوتا ہے وہ خدا کی خاص قدرت ہے جو بے وساطت کام کرتی ہے۔

سمائی آن یا نشان

تیسرا لفظ نشان یا” نشانیاں” ہے۔ یونانی ” میں سمائی آن”آیا ہے۔ اور یہ نام نہایت پُر مطلب ہے۔بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس سے معجزہ کا خاص مطلب ہویدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ معجزہ خدا کی حضوری اور قدرت کا نشان ہے۔ اور ثابت کرتا ہے کہ جو شخص معجزہ دکھاتا ہے وہ خدا کی حضوری اور قدرت سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہودیوں کے کلام اور سوالات سے معجزے کی یہ خاصیت بخوبی ٹپکتی ہے۔(دیکھو یوحنا ۲: ۱۸، متی ۱۲: ۳۸، متی ۶: ۱) یہ لفظ ذیل کے مقاموں میں استعمال ہوا ہے گو بعض ترجموں میں نشان کی جگہ معجزہ بھی مستعمل ہے (یوحنا ۳: ۲، ۷: ۳۱، ۱۰: ۴۱)۔

کام

پھر یوحنا کی انجیل میں ایک اور لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب نہایت عمیق ہے اور وہ لفظ "کام” ہے (دیکھو یوحنا ۵: ۳۶، ۷: ۲۱، ۱۰: ۲۵، ۲۳، ۳۸، نیز ۱۴: ۱۱، ۱۲: نیز ۱۵: ۳۴نیز متی ۱۱: ۲)۔ یوحنا کے نزدیک الٰہی قدرت کے وہ اظہارات جو سیدنا مسیح کے وسیلے سرزد ہوئے وہ مسیح کے لئے گویا معمولی کام تھے۔ کیونکہ اس میں خدا کی بھرپوری موجود تھی۔ ایسے کاموں کو انجام دینا گویا اس کے لئے عین نیچرل تھا۔ جیسی اس کی حیثیت عظیم اور بلند تھی ویسے ہی اس کے کام عظیم اور بلند پایہ تھے۔ تعجب اس میں نہیں کہ اس نے ایسے معجزات دکھائے تعجب اس وقت ہوتا جبکہ وہ یہ معجزات نہ دکھاتا۔

اس عظیم مقصد پر غور کرنے سے معجزہ ناممکن معلوم نہیں ہوتا

اب جب ہم اس عظیم مقصد پر غور کرتے ہیں جس کا پورا کرنا اور معجزات کے وسیلے پورا کرنا خدا کو مد نظر تھا تو معجزات کا واقع ہونا ناممکن نظر نہیں آتا۔ اور جو لوگ معجزوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ اس بات پر کماحقہ غور نہیں کرتے کہ تدبیر نجات میں ان کا کیا رتبہ ہے۔ ان خاصیتوں سے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کیا یہی ثابت نہیں ہوتاکہ خدا ہے اور ہر جگہ حاضر ہے۔ اور لامحدود قدرت سے ملبس ہے۔ اور کہ اس کے دل میں انسان کی بہبودی کا خیال جوش مارتا ہے اور وہ اس کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اور اسے گم گشتگی کی افسوسناک حالت سے صراط مستقیم پر لانے کے واسطے اپنی مرضی کا کشف اسے مرحمت فرماتا ہے۔ اور اس مکاشفہ کو اپنی قدرت کے عجیب نشانوں سے ثابت کرتا ہے۔

پس جیسا ہم اوپر بیان کر آئے معجزات پر اعتراض کرنا گویا امکان الہام پر اعتراض کرنا ہے۔ پر کیا سیدنا مسیح کے وسیلے نئے مکاشفے ، نئی برکتیں، نئے تصورات، نئے مسئلے دنیا میں نہیں آئے اور کیا ان چیزوں کی دنیا کو ضرورت نہ تھی؟ اس کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو اس زمانہ کی تاریخ سے ناواقف ہے۔ اس کا انکار کرنا گویا یہ کہنا ہے کہ جو روشنی اس کے وسیلے ہم کو نصیب ہوئی وہ فضول اور غیر ضروری تھی اور دنیا اس کے بغیر گزارہ کرسکتی تھی اور انجیل کی تعلیم سے پہلے خدا کا پورا علم اور اس کی مرضی کا کامل مکاشفہ اور آنے والی دنیا کی سزا و جزا کی کل خبر رکھتی تھی۔ مگر یہ ایسا لغو دعویٰ ہے کہ اہل تحقیق اس کی تسلیم نہیں کرسکتے۔

٭٭٭

 

               دوسرا باب

قوانین قدرت اور معجزات

ہمارے ملک میں معجزے کی مخالفت ایک نیا واقعہ ہے کیونکہ سب قومیں کسی نہ کسی طرح کے معجزے مانتی آئی ہیں

ہمارے ملک میں معجزات کی مخالفت ایک نیا شگوفہ ہے۔ کیونکہ کوئی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا۔کہ ابھی تھوڑا عرصہ گذرا کہ ہر طرح کی زود اعتقادی اور باطل پرستی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ اور اب بھی ملک بطالت سے پورے طور پر آزاد نہیں ہوا۔ بعض بعض فرقوں کا قوت اعجاز سے انکار کرنا واقعی ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں ایک نیا واقعہ ہے۔ ہندوؤں کی دینی کتابیں عجیب قصوں اور کہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔ اور اگر ہم ان کو بھی معجزات کے نام سے موسوم کریں تو وہ اس قدر ہیں کہ ان کا شمار کرنا آسان کام نہیں۔ اور ہزاروں بلکہ لاکھوں سناتن دھرم کے ماننے والے ہندو باوجود ویدانتی عقائد کے جو معجزانہ اظہارات کے سخت مخالف ہیں پرانوں کے قصوں اور کہانیوں کو اب بھی برابر مان رہے ہیں۔ یہی حال اسلا م کا ہے۔ وہاں بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف انبیاء کی معجزانہ قدرت پر اکتفا کی بلکہ اپنے ولیوں اور غوثوں اور قطبوں کی کرامات کے بھی قائل ہوئے اور ادنیٰ درجہ کی قوموں اور فرقوں میں تو اس زود اعتقادی کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ پیروں اور فقیروں کی عبادت۔ قبروں اور خانقاہوں کی زیارت اور پرستش کا رواج اب تک چلا جاتا ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ یہ مانتے ہیں کہ ان وسائل سے ہماری مرادیں بر آئیں گی۔

پر یہ سربیع الا اعتقادی علم کے سامنے قائم نہیں رہ سکتی تھی

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں۔ کہ وہ لاریب قوت اعجاز کے اظہاروں کے قائل ہیں۔ لیکن یہ بیڈھنگی زود اعتقادی علم کے سامنے قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ لہذا جب سائنس کی روشنی چمکی اور تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ جن واقعات کو ہمارے آبا و اجداد کرامات مانتے چلے آئے ہیں وہ ایسے بے بنیاد، ایسے بے ربط، ایسے عجیب الخلقت اور حقیقی تاریخ کی خاصیتوں سے اس قدر بے بہرہ ہیں کہ ارباب علم و فضل ان کو ہر گز قبول نہیں کرسکتے تو انہوں نے ولایتی نیچیریوں کی تقلید اختیار کی اور کہا کہ معجزہ بالکل نا ممکن ہے۔ کیونکہ وہ قوانین قدرت کے برخلاف ہے۔ ان لوگوں میں ہمارے بھائی برھموجن کی صدق دلی اور نیک ذاتی کے ہم تہ دل سے قائل ہیں اور آریہ سماج اور بعض ویدانتی۔ اور کئی نیچری شامل ہیں۔ مگر چونکہ ان لوگوں نے ہماری رائے میں اہل یورپ سے معجزوں کی مخالفت کرنا سیکھا ہے لہذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم اصل مخالفوں کی طرف متوجہ ہوں جن کی تصنیفات سے ہمارے مخالفانِ اعجاز نے خوشہ چینی کی ہے۔ جہاں تک ہم کو علم ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے اپنے ہم وطن بھائیوں سے معجزے کی تردید میں سنا ہے وہ نئی باتیں نہیں بلکہ وہی باتیں وہی اعتراض، وہی مخالفتیں ہیں جو یورپ کے رشینلسٹوں اور ڈی اسٹون اور تھی اسٹون اور منپتھی اسٹون کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔

معجزانہ مخالفت کا ماخذ

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ اس بات پر غور کریں کہ اس مخالفت کا اصل ماخذ کیا ہے۔ کیا سائنس معجزوں کی مخالفت میں علم اٹھائے ہے یا کوئی اور بات ہے جس کے سبب سے لوگ مخالفت کر رہے ہیں۔

سائنس نہیں بلکہ اپنے اپنے فلسفانہ عقیدے

ہمیں پروفیسر بروس صاحب کا خیال بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے جوانہوں نے اپنی کتاب” دی مرے کیولس ایلیمنٹ ان دی گاسپلز” ( The Miraculous element in the Gospels) میں ظاہر فرمایا ہے کہ فوق العادت کی نسبت جو بے اعتقادی پائی جاتی ہے اس کی ماسائنس نہیں بلکہ اس کا اصل سبب فلسفیانہ میلان ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جس خیال کی طرف طبعیت مائل ہوتی ہے وہی درست معلوم ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ ایسا فلسفانہ میلان اختیار کیا جائے جس کی مخالفت کو کسی طرح کا ثبوت بھی دور نہ کرسکے۔

دہریہ اور ہمہ اوستی اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق مخالفت کرتے ہیں

مثلاً دہریوں کے اعتقادات اور ہمہ اوستیوں (پنتھی اسٹوں) کے عقائد ہیں یہ سختی میلان کی صاف نظر آتی ہے ان دونو میں سے کوئی بھی انتظام نیچر کی متواتر بے تبدیلی میں معجزانہ رخنہ اندازی کا قائل نہیں ہوسکتا۔کیونکہ دہرئیے کے نزدیک جو صرف مادے کی ہستی کا قائل ہے فوق العادت کچھ چیز نہیں ہے مگر ایتھی ایسٹ کے نزدیک فوق العادت خالی از مطلب نہیں۔ وہ ایک صورت میں فوق العادت کا قائل ہے۔ پر جسے وہ فوق العادت کہتا ہے وہ نیچر سے جدا نہیں۔ بلکہ نیچری ہی میں ظاہر ہوتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ نیچر کا روحانی تصور اس کے نزدیک فوق العادت ہے۔ ایک کے نزدیک اگر کوئی حقیقت ہے تو وہ نیچر ہے۔ اور خدا ایک مہمل اور بے معنی شے ہے۔ دوسرے کے نزدیک نیچر بصورت خیال خدا ہے۔ اور خدا کی حقیقت نیچر ہے۔ اب دونو عقیدوں میں سے خواہ کوئی عقیدہ اختیار کیا جائے معجزہ ہر حالت میں نا ممکن ٹھیرے گا۔

اب اس سے یہ دعویٰ نہیں کیا جاتا کہ معجزہ کے انکاری فقط دہریہ اور نپھتی ایسٹ ہی ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہیں جو خدا کی ہستی کے قائل ہیں اور پھر بھی معجزہ کے انکاری ہیں۔

مقابلہ سائنس اور فلسفیانہ عقیدوں کا

اور نہ ہی اس بات سے انکار ہے کہ سائنس اس مخالفت کی معاون ہے مگر تاہم یہ درست ہے کہ سائنس اتنی مخالفت نہیں کرتی جتنی وہ طریقے کرتے ہیں جنہیں لوگ مان رہے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں کئی باتوں کے متعلق سائنس کا رخ کسی اور طرف ہے۔

سائنس تین باتوں پر گواہی دیتی ہے اور یہ عقیدے اس گواہی کی مخالفت کرتے ہیں

اور میٹریل اسٹک فلسفہ (The Materialistic Philosophy) کا رخ کسی اور طرف ہے یعنی دونوں میں اتحاد اور اتفاق نہیں پایا جاتا۔ مثلاً موجودہ سائنس نیچر کے اظہارات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ دنیا حادث تو ہے مگر اسے وجود میں آئے کئی لاکھ برس گذر گئے ہیں اور ایماندار لوگ اس نتیجہ کو بڑی خوشی سے قبول کرتے ہیں۔

دنیا کے آغاز کے بارے میں

مگر دہرئیے اور ویدانتی باوجود اس گواہی کے مادہ کی ازلیت کو مانتے چلے جاتے ہیں۔ اور سائنس کی بات کو نہیں سنتے۔ اور سبب اس کا یہ ہے کہ اگر مادہ کو حادث مان لیں تو یہ لازم آئے گا کہ خدا کو بھی مانیں جو اس کا موجد ہے۔

زندگی کی اصل کے بارے میں

اسی طرح زندگی کی اصلی کی نسبت کچھ اسی قسم کا تخالف نظر آتا ہے۔ مثلاً سائنس بڑی گہری تحقیقات کے بعد یہ فیصلہ کرتی ہے کہ زندگی خود بخود پیدا نہیں ہوتی۔ خوردبین پکار پکار شہادت دے رہی ہے کہ جہاں زندگی پہلے موجود نہیں وہاں کسی طرح کی زندگی برآمد نہیں ہوتی۔ اب اگر یہ بات مان لی جائے تو یہ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ یعنی اگر زندگی خود بخود پیدا نہیں ہوتی تو سب سے پہلی زندگی کہاں سے آئی۔ کیا وہ آپ ہی آپ پیدا ہو گئی یا خدا کی خالقانہ قدرت سے وجود میں آئی ؟ اب دہریہ باوجود یکہ کوئی شہادت اس کے برخلاف پیش نہیں کرسکتا۔ پھر بھی یہی کہے چلا جاتا ہے کہ زندگی آپ ہی آپ پیدا ہو گئی یا خدا کی خالقانہ قدرت سے وجود میں آئی ؟ اب دہریہ باوجود یکہ کوئی شہادت اس کے برخلاف پیش نہیں کرسکتا۔ پھر بھی یہی کہے چلا جاتا ہے کہ زندگی آپ ہی آپ پیدا ہوئی ہے۔ مثلاً ہکسلے صاحب جن کے کلام کو مفصل طور پر اقتباس کر کے بروس صاحب نے اپنی کتاب متذکرہ بالا میں بحث کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر مجھے یہ طاقت ملتی کہ میں اس دور دراز زمانہ کو دیکھتا جس میں دنیا طبعی اور کیمیائی حالتوں سے گذر رہی تھی تو مجھے یقین ہے کہ میں بے جان مادہ جس سے جاندار پروٹو پلازم(Protoplasm) کو نکلتے دیکھتا۔ اور بروس صاحب فرماتے ہیں کہ ہکسلے صاحب آپ ہی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ میری یہ رائے فلسفانہ خیال سے بڑھ کر نہیں۔

علم النفس کے بارے میں

یہی حال علم النفس کی بابت پایا جاتا ہے۔ یعنی دہرئیے اپنے انکاری دعوے ٰ سائینس کی گواہی کے برخلاف پیش کر رہے ہیں حالانکہ بڑے بڑے اہل سائنس یہ گواہی دیتے ہیں کہ خیال (Thought) کو حرکت (Motion) نہیں کہہ سکتے مگر سٹراس باوجود اس گواہی کے خیال یعنی قوت متخیلہ کو فقط حرکت کی ایک صورت مانتا ہے۔

وہ فرقے جو خدا کی ہستی کو مانتے مگر پھر بھی معجزات کے مخالف ہیں

اب ہم تھوڑی دیر کے لئے ان فرقوں کی طرف متوجہ ہوں  گے جو خدا کی ہستی کے تو قائل ہیں مگر معجزانہ اظہارات کے قائل نہیں ہیں ہم شروع میں اُن فرقوں کی طرف اشارہ کرآئے ہیں جو ہمارے ملک میں پائے جاتے ہیں۔ جو خدا کو مانتے ہیں۔لیکن معجزات کو قابل تسلیم نہیں سمجھتے۔ یہاں ہم ان یورپین فرقوں کا ذکر کریں گے جو باوجود خدا کی ہستی کے اقرار کے معجزات کے انکار پر جمے کھڑے ہیں۔ اور ان کا ذکر کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ زبان انگریزی کے وسیلے ان کے خیالات اور اعتراضات ہمارے ملک میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور ہماری تھیالوجی (علم الہیات) اور سوسائٹی وغیرہ پر اپنا اثر ڈال رہے ہیں۔

ان کے خیالات اس رشتہ کی نسبت جو خدا کی حضوری فطرت سے رکھتی ہے

یوروپ میں جو لوگ خدا کی ہستی کو مانتے اور معجزوں کو ناممکن گردانتے ہیں دو حصوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں اور یہ تقسیم ایک خاص مسئلہ پر مبنی ہے۔ اور وہ یہ کہ خدا اس دنیا سے یا عالم موجودات سے کیسا اور کیا علاقہ رکھتا ہے۔ یہ رشتہ دو لفظوں سے ظاہر کیا جاتا ہے ان میں سے ایک لفظ ایک فرقے کی اور دوسرا لفظ دوسرے فرقہ کی جان ہے۔

دولفظ (۱۔) ٹرن سنڈنس

ایک لفظ ” ٹرن سندنس” ہے اور دوسرا لفظ” افے نیننس” ہے۔ ٹرین سنڈنس کا یہ مطلب ہے کہ خدا جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے دنیا سے برتر اور بلند ہے۔ یعنی اس سے الگ ہے یا یوں کہیں کہ وہ اس دنیا کی کل کو بناکر اس سے جدا ہو گیا ہے اور اب اس سے کچھ سروکار نہیں رکھتا اور اس کی قدرت براہ راست یعنی معمولی قوانین سے جدا ہو کر دائرہ فطرت میں کچھ کام نہیں کرتی ہے۔ جو قوانین اور قواعد اس نے مقرر کر دئیے ہیں۔ جو طاقتیں اس مشین میں بھر دی ہیں وہی اس سلسلہ موجودات کو قائم رکھتی ہیں۔ لہذا خدا کواس سلسلہ میں آنے اور دخل دینے کی کچھ ضرورت نہیں۔

ایمے فیننس

امے فیننس سے اس کی وہ اندرونی موجودگی یا حضوری مراد ہے۔ جو قوانین قدرت میں ہو کر کام کرتی ہے۔ وہ فطرتی اظہارات میں اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ لیکن ان سے الگ ہو کر کسی طرح کی فوق العادت دست اندازی نہیں کرسکتی۔ اب ہم نے دیکھا کہ ایک خیال کے مطابق خدا نیچر میں بذات خود حاضر نہیں ہے بلکہ وہ طاقتیں جو اس نے ابتدا میں پیدا کر دیں خود بخود کام کر رہی ہیں اور دوسرے کے مطابق وہ حاضر تو ہے۔ مگراس کی قدرت فقط قوانین مقررہ کے ذریعہ کام کرتی ہے۔

ڈی اسٹ اور تھی اسٹ

پہلے خیال کے ماننے والے ڈی اسٹ اور دوسرے خیال کے ماننے والے تھی اسٹ کہلاتے ہیں۔ ڈی اسٹ اور تھی اسٹ میں معنی کے لحاظ سے تو کچھ فرق نہیں کیونکہ ڈی اسٹ لاطینی ڈی آس(خدا) سے مشتق ہے اور تھی اسٹ یونانی تھیاس(خدا) سے نکلا ہے۔ مگر تاہم جو تھی اسٹ ہیں وہ ڈی اسٹ کہلانا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ کلام الٰہی کی عزت کرتے اور سیدنا مسیح کی تعظیم کرتے ہیں۔لیکن دونو معجزے کے انکاری ہیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ ان رشتوں کے سبب سے جو وہ اپنی اپنی رائے کے مطابق خدا اور خلقت کے درمیان مانتے ہیں معجزہ کا انکار لازمی ہے۔ البتہ وہ معجزے کے امکان کے اکاری نہیں کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ خدا معجزہ دکھانے کی قدرت رکھتا ہے اور اس بات کے بھی معترف ہیں کہ اس کا دنیا کو ہست کرنا اور موجودہ ترتیب سے مرتب کرنا بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ جب یہ ترتیب اور انتظام سے مرتب کرنا بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب یہ ترتیب اور انتظام ایک مرتبہ قائم ہوچکا تو پھر معجزے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو کچھ خدا نے بنا دیا وہ انسان کی خوشی اور آرام کے لئے کافی ہے بلکہ یہی سلسلہ ضرورت ہے تو اس میں رخنہ پردازی کرنے سے کوئی اس سے بہتر صورت انسان کی خوشی اور آرام کی پیدا نہ ہو گی بلکہ قوانین قدرت درہم برہم ہو جائیں گے۔

اگناسٹسزم

ایک اور عقیدہ ہے جس کی روسے خدا کی ہستی کا کسی قدر اقرار کیا جاتا ہے۔ مگر وہ نہایت نامکمل اور ناقص ہونے کی وجہ سے مسیحی مذہب کے معجزوں کا سخت مخالف ہے وہ اگناسٹسزم کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں ایک قدرت کو معائنہ کرتے ہیں۔ جو تمام فطری اظہارات کی جڑ اور موجد ہے مگر ہم نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں وہ کیا ہے۔ جن جن باتوں میں اس نے اپنے تئیں فطرت کے اظہارات کے وسیلے ہمارے اوپر آشکارا نہیں کیا وہ نا معلوم ہے اور جہاں تک آشکارا کیا ہے وہاں تک معلوم ہے جہاں تک لامحدود اور بے بیان ہے وہ نا معلوم ہے۔ اور جہاں تک اپنے اظہاروں کی ترتیب سے ظاہر ہے وہاں تک معلوم ہے۔ یہ خیال اس مسئلہ کے ساتھ وابستہ ہیں جسے ایوولیوشن کہتے ہیں۔ جو یہ مانتا ہے کہ شروع میں متعدد اشیاء موجود تھیں۔ اور جو کچھ اب نظر آتا ہے وہ انہیں سے بڑھتے بڑھتے پھیلا ہے۔

ہم جو کچھ اوپر بیان کر چکے ہیں اس سے ناظرین پر بخوبی ظاہر ہو گیا ہو گا کہ کس کس جانب سے معجزے کی مخالفت برپا ہوتی ہے۔ پر ہم آسانی کے لئے ان خیالات کو جو مخالفت کی گویا جڑ ہیں بطور خلاصہ ذیل میں درج کرتے ہیں۔

خیالات مذکورہ بالا کا خلاصہ اور تردید

دہریوں کا خیال جو خدا کی ہستی کا مطلق قائل نہیں۔ اس جگہ ہم خدا کی ہستی کے ثبوت پیش نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ مضمون معجزے کے مضمون سے تعلق نہیں رکھتا تمام علماء متفق ہیں کہ معجزہ انہیں لوگوں کے نزدیک وقعت رکھتا ہے جو خدا کی ہستی کے قائل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ معجزہ خدا کی ہستی کو پہلے ہی سے مانتا ہے "۔ معجزہ دکھانے والا لوگوں پر یہ ثابت نہیں کرتا کہ خدا ہے۔ بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس جاتا ہے جو خدا کی ہستی کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے پا سجاکر کہتا ہے کہ جس خدا کو تم مانتے ہو اسی نے مجھے اس پیغام کے ساتھ تمہارے پاس بھیجا ہے۔ پس جو ملحد ہیں ان کے قائل کرنے کے لئے ان دلائل کی ضرورت ہے جو خدا کی ہستی کو ثابت کرتے ہیں۔

خدا کے رشتہ کی نسبت ہم ڈی اسٹوں اور تھی اسٹوں کے خیال کو نہیں مان سکتے کیونکہ وہ صحیح نہیں

وہ مسئلہ جو متعلق اس رشتہ کے ہے جو خدا اس عالم موجودات کے ساتھ رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا ہمہ اوستی کے خیال کے مطابق دنیا کی مانند ہے اور نہ اس سے کسی طرح کی مشابہت رکھتا ہے اور نہ وہ ڈی اسٹوں کے خیال کے مطابق نیچر سے ایسا جدا ہے کہ اس میں کسی طرح کا دخل نہیں رکھتا اور نہ ہی اسٹوں کی رائے کے بموجب وہ قوانین فطرت کے اندر بند ہے ہم کرسلب کے ساتھ متفق ہیں کہ جو رائے ان خیالات کے بیچ بیچ میں ہے وہ درست ہے یعنی یہ رائے کہ خدا ہر شے کے اندر موجود ہے تاہم اس سے جدا اور آزاد ہے۔ وہ ہر شے سے برتر اور بلند ہے تاہم اس میں موجود ہے۔ وہ نیچر سے الگ ہے تو بھی نیچر کے اندر حاضر ہے۔ اسی صحیح اور سچے رشتہ الٰہی میں جو وہ کائنات سے تعلق رکھتا ہے۔ معجزے کا امکان نہیں کرسکتا۔ اگر ہم خدا کو صاحب مرضی مانتے ہیں یعنی اس بات کے قائل ہیں کہ وہ قوت ارادی سے متحلے ٰ ہے اور قوت ارادی محدود محکوم نہیں ہے تو اس کا سلسلہ نیچر میں دخیل ہونا ناممکن نہیں۔ لیکن اس کی مداخلت ہی کا نام معجزہ ہے۔

دنیا بہ ہئیت موجودہ کامل نہیں کیونکہ اس میں گناہ نے رخنے ڈال رکھے ہیں

تیسرا یہ خیال ہے کہ دنیا بہ ہئیت موجودہ بالکل درست اور کامل ہے اور معجزات کی ضرورت نہیں رکھتی۔ بلکہ ایک شخص نے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے معجزات کو شگاف سے تشبیہ دی ہے۔ گویا اس کے نزدیک معجزات کا واقع ہونا قوانین فطرت کی بے تبدیلی میں شگاف پڑ جانا ہے۔ لیکن اگر ہم غور سے دیکھیں تو یہ دنیا شگافوں سے پُر نظر آئے گی۔ گناہ نے اس کو پُرزے پُرزے کر دیا ہے کیا کوئی صاحب نظر گناہ کی بربادی دکھ اور غم کی گر بازاری سے جو گناہ سے پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح کی اور بہت سی باتیں دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ دنیا اس موجودہ حالت میں کمائی کے درجہ کو پہنچی ہے ؟ معجزہ گناہ کے رخنوں کو دور کرنے کے لئے دکھایا جاتا ہے۔ اور اگر خداوند وہ ہدایتیں جو معجزے کی شہادت پر سچی مانی گئی ہیں عطا نہ فرماتا اور ہم ان کو اپنی تاریک مسافت میں اپنا بدرقہ نہ بناتے اور زندگی کے روز مرہ فرائض کی انجام دہی میں دستور العمل نہ ٹھیراتے تو ہمارا کیا حال ہوتا ؟ یہ خیال کہ دنیا موجودہ صورت میں ہماری خوشی اور آرام کے لئے کافی ہے بڑا سنہرا خیال ہے۔ پر جو ایسا مانتے ہیں وہ شائد ان آہوں سے واقف نہیں جو مصیبت زدوں کی کلبۂ احزان سے ہر روز اٹھتی ہیں۔

معجزات اور قوانین فطرت

چوتھا خیال جس پر بڑا زور دیا جاتا ہے یہ ہے کہ معجزات سے قوانین فطرت درہم برہم ہو جاتے ہیں۔ اس باب کا باقی حصہ اس اہم سوال کے حل کرنے میں صرف کیا جائے گا کہ کیا سچ مچ معجزات قوانین فطرت کو کوئی ایسا صدمہ پہنچاتے ہیں جس سے اس مشین کا ایک ایک پرزہ جدا ہو جاتا ہے یا یہ خیال صرف وہم کا فساد ہے ؟

قانون کی تعریف

قبل ازیں کہ ہم اس بحث کو شروع کریں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ قوانین فطرت یا نوایلیس قدرت کسے کہتے ہیں۔ جب ہم لفظ قانون نیچر کے متعلق استعمال کرتے ہیں تو ہماری مراد ان نتائج یا اظہارات سے ہوتی ہے جو ہمیشہ ان اسباب کی پیروی کرتے ہیں یا ان کے وسیلے برآمد ہوتے ہیں جو موجد اُن کے وجود کے ہوتے ہیں۔ یعنی جب ہم دیکھتے ہیں کہ فلاں اسباب کے وجود ہونے سے فلاں نتائج ہمیشہ پیدا ہوتے ہیں۔ توہم اس باہمی رشتہ کو خاص اسباب اور ان کے نتائج میں پایا جاتا ہے قانون کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اور چونکہ ہم اس عالم میں یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ مقرری اسباب سے مقرری نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہم کہتے ہیں عالم موجودات میں وہ قوانین پائے جاتے ہیں جو کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ اور اسی بنا پر معجزے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ چنانچہ مخالف کہتا ہے کہ ہمارا تجربہ ان قوانین کی نسبت بے تبدیل ہے۔ یعنی ہم کبھی ان قوانین کو بدلتے نہیں دیکھتے لیکن معجزہ ان میں رخنہ اندازی کرتا ہے لہذا وہ ماننے کے لائق نہیں۔

چند دلائل جو معجزے کے امکانات کو ثابت کرتے ہیں

اب ہم وہ دلائل پیش کرتے ہیں جو مسیحی علماء نے اس بارے میں دی ہے کہ معجزات کے وقوع سے نہ قوانین قدرت کو ضرب پہنچتی ہے اور نہ کسی عقلی اصول کو ضرر آتا ہے۔

معجزات برخلاف عقل نہیں ہیں

مارے صاحب نے اپنی کتاب ایٹ لیکچرز آن مرے کلز(Eight Lectures on Miraculous ) میں عالمانہ طرز پر یہ بات ثابت کی ہے کہ نیچر کے انتظام کی بے تبدیلی اور قوانین قدرت کی دائمی بے انقلابی کا اعتقاد جو ہمارے درمیان پایا جاتا ہے ہم اس کا عقلی ثبوت نہیں دے سکتے ہیں۔ لہذا معجزات کو عقل کے خلاف نہیں کہہ سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سب یہ مانتے ہیں کہ جو کچھ آئندہ ہو گا وہ اس کی مانند ہو گا جو ہو چکا ہے۔

ہم قوانین فطرت کی دائمی بے تبدیلی کا کوئی ثبوت یا دلیل نہیں دے سکتے

لیکن سوال برپا ہوتا ہے کہ کیوں ایسا ہو گا؟ اب اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ یہ امر بدیہی ہے وہ ثبوت کا محتاج نہیں۔تو یہ جواب تسلی بخش نہیں کیونکہ جو بات بدیہی ہوتی ہے اور ثبوت کے محتاج نہیں ہوتی۔ اس کا عکس یا نقیض درست نہیں ہوتا۔ مگر قوانین کی بے تبدیلی کا عکس ذہن میں آسکتا ہے یعنی جو کچھ اب ہو رہا ہے اگر اس کی نسبت یہ کہیں کہ وہ کل نہیں ہو گا تو عقل اس دعوے ٰ کو متناقص نہیں سمجھتی۔ مثلاً یہ کہنا کہ ” آج سورج نکلا، مگر کل نہیں نکلے گا”۔ نادرست نہیں پر یہ کہنا غلط ہے۔ کہ ” آج سورج نکلا اور آج سورج نہیں نکلا”۔

موجدات کی مدائمت بھی ثابت نہیں ہوسکتی

پھر قوانین قدرت کی بے اعتدالی کی نسبت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کوئی واقعہ بارہا سرزد ہوتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہاں کوئی دائمی سبب موجود ہے جو موجد اُس کے وقوع کا ہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ بات کہاں سے نکالی کہ وہ سبب دائمی سبب ہے اور جیسا کہ وہ کل اور پرسوں تھا ویسا ہی آئندہ رہے گا۔

تجربہ بھی مدائمت کی دلیل نہیں

پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم اس بات کے کہ قوانین قدرت جیسے پہلے بے تبدیل تھے ویسے ہی آئندہ بھی بے تبدیل رہیں گے اس لئے قائل ہیں کہ ہمارا تجربہ شہادت دیتا ہے کہ آئندہ ویسا ہی ہو گا جیسا گذشتہ تھا۔ لیکن اگر یہ سچ ہو۔ تو آئندہ ماضی بن جائے گا۔ کیونکہ تجربہ ہمیشہ ماضی کا ہوتا ہے نہ کہ آئندہ کا اور جو یہ کہا جائے کہ جواب ماضی ہے وہ کسی وقت آئندہ تھا اس جواب سے بھی سوال حل نہیں ہوتا کیونکہ گویہ سچ ہے کہ جواب ماضی ہے وہ کسی وقت آئندہ تھا۔ تاہم اس میں بھی شک نہیں کہ جواب آئندہ ہے وہ آئندہ ہی ہے وہ ماضی نہیں۔ لہذا اس کا تجربہ ہم کو نہیں ہے۔ پس ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جیسا پہلے ہو چکا ہے ویسا ہی آگے ہو گا؟

نہ یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ یہ یقین جبلی ہے۔ اس لئے ثبوت کا محتاج نہیں۔ کیونکہ جبلی اور غیر جبلی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ جو اعتقادات مخلوط بالطبع ہوتے ہیں ان کی ضد کا تصور قائم نہیں ہوسکتا۔ مثلاً کوئی اصول متعارفہ لو اور سوچو کہ آیا اس کی ضد قیاس میں آسکتی ہے یا نہیں۔

نہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ یقین جبلی ہے

ہم جانتے ہیں کہ اس کی ضد کبھی درست نہیں ہو گی۔ مگر ترتیب فطرت کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ جوکچھ ہوتا آیا ہے اگر ویسا کل نہ ہوا تو تضاد واقع ہو گا۔ فلاسفر اور اہل سائنس گواہی دے رہے ہیں کہ دنیا کا یہ موجودہ سلسلہ ایک دن ختم ہو جائے گا۔ ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس دن تجربہ کی دلیل پر زور نہ ہو گی؟ لازم تو یہ ہے کہ اس وقت آگے کی نسبت بہت ہی پُر زور ہو کیونکہ اس وقت تو تجربہ زیادہ زمانوں کے گذر جانے اور سلسلہ موجودات کے برابر قائم رہنے سے اور بھی بڑھ جائے گا۔ پر اگر فلاسفروں کا یہ خیال صحیح ہے کہ یہ سلسلہ ایک دن ٹو ٹ جائے گا۔ تو پھر تجربہ کا کیا حال ہو گا؟

اس بے تبدیلی کے ماننے میں انسان اور حیوان میں فرق نہیں۔ پس یہ یقین عقلی ثبوت پر مبنی نہیں

علاوہ بریں ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح ہم قوانین نیچر کے کی تبدیلی کے قائل ہیں اسی طرح حیوانات بھی ان قوانین کی بے تبدیلی کے قائل ہیں جو اُن سے علاقہ رکھتے ہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ اُن میں عقل نہیں ہے بلکہ وہ صرف وہ طاقت رکھتے ہیں جسے ان سٹنکٹ یعنی عقل حیوانی کہتے ہیں وہ نیچر کی تبدیلی کی کوئی دلیل نہیں دے سکتے اور ان کی مانند ہم بھی کوئی عقلی ثبوت یا برہان نہیں دے سکتے کہ کیوں مستقبل ماضی کی مانند ہو گا بجز اس کے کہ ہمیشہ ایسا ہوا آیا ہے مگر اسے دلیل نہیں کہتے۔اب اس بحث کا تعلق معجزات سے یہ ہے کہ چونکہ ہمارا یقین کہ سلسلہ موجودات ہمیشہ یکساں رہے گا کسی عقلی ثبوت کی بنیاد پر یعنی کسی دلیل پر مبنی نہیں لہذا وہ بات کٹ گئی جس کی بنا پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ معجزات سلسلہ موجودات سے برخلاف ہونے کی وجہ سے عقل کے برخلاف ہیں۔

جب یہ تبدیلی دلیل سے ثابت نہیں ہوسکتی تو معجزات خلاف عقل کیوں ہوئے

عقل کے برخلاف وہ اس وقت مانے جاتے جب عقل کسی طریق استدلال سے یہ ثابت کر دیتی کہ جو پیچھے ہوچکا ہے وہی آگے ہو گا۔اگر ان دو دعووں میں کہ ” جو کچھ پہلے واقع ہوا ویسا ہی آئندہ واقع ہو گا”۔ ہم کوئی عقلی ربط دیکھتے توہم کہہ سکتے کہ واقعہ ماضی کی مانند وقوع میں نہ آئے وہ ناممکن ہے۔ پر اگر ہم کوئی ثبوت یا دلیل نہیں دے سکتے کہ کیوں ایسا ہو گا توہم غیر معمولی واقعہ کو عقل کے خلاف نہیں کہہ سکتے۔

تنبیہ۔ یہ سمجھنا ضروری امر ہے کہ ترتیب نیچر کے کس پہلو پر بحث ہوتی رہی ہے

اس موقعہ پر ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں کہ ترتیب فطرت میں جو مطابقت اور مناسبت پائی جاتی ہے اس کا کوئی عقلی ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ جہاں جو مقدمات ہوں  گے وہاں وہی تاویلات پیدا ہوں  گے جو اُن مقدمات سے خاص ہیں اور اس بات کو ہم نے عقل ہی سے دریافت کیا ہے۔ پر ہماری بحث اُس اعتقاد سے جو اس بات کا قائل ہے کہ جیسا گذشتہ میں ہوا ویسا ہی آئندہ میں بھی ہو گا۔اس کا کوئی عقلی ثبوت نہیں دیا جا سکتا۔ پس یہ کہنا کہ معجزات خلاف عقل ہیں درست نہیں۔

معجزات کا اعلیٰ مطلب اُن کے امکان پر دلالت کرتا ہے

معجزات کے مقصدسے ظاہر ہے کہ وہ ان نیچرل نہیں ہیں وہ ایک اعلیٰ اور افضل نیچر سے علاقہ رکھتے ہیں۔ پس وہ اس نظم قدرت کے جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے برخلاف نہیں گو اس سے برتر اور بلند ہیں اور انہیں ان نیچرل یعنی فطرت کا مخالف کہنا درست نہیں۔ کیونکہ یہ کہنا اس وقت درست اور واجب ہوتا جب معجزات ترتیب عالم کو بگاڑتے۔ پر وہ تو اسی لئے اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں کہ جس کمال کو انتظام موجودات نے کھو دیا ہے اس کمال کی طرف اُسے پھر رجوع کریں۔ وہ ایک اعلیٰ فطرت سے علاقہ رکھتے ہیں اور اس دنیا سے آتے ہیں جس کی ترتیب اور انتظام میں کسی طرح کا فرق نہیں آیا تاکہ ہماری دنیا میں داخل ہو کر ان ناموافقتوں اور خرابیوں کو دور کریں جنہوں نے اس کے انتظام میں ابتری پیدا کر رکھی ہے اور اسے الٰہی منشا کے مطابق بنا کر اس میں اور اعلیٰ دنیا میں اتحاد اور تطبیق پیدا کریں۔ کسی بیمار کو چنگا کرنا نیچر کے خلاف نہیں۔ کیونکہ صحت اصل منشائے نیچر کے موافق ہے۔ چنگا کرنا نیچر کے برخلاف نہیں۔ بیماری برخلاف ہے لہذا بخشنا اصلی ترتیب کو پھر قائم کرنا ہے۔

قوانین قدرت ازل سے آزاد اور مختار کل نہیں ہیں

ہم اس بات کے دل و جان سے قائل ہیں کہ جہاں تک ہمارا علم کام کرتا ہے ہم نیچر کی کارروائی میں ایک قسم کی مناسبت اور پائداری دیکھتے ہیں۔ ہم اسباب و نتائج، مقدمات و تاویلات، علت اور معلول میں ایک قسم کا محکم رشتہ معائنہ کرتے ہیں۔ مگراس کے ساتھ ہی ہم اس بات کا بھی انکار نہیں کرسکتے۔ کہ یہ قوانین اور ان کا عمل ایک اعلیٰ قانون اور ایک اعلیٰ قدرت کے تابع ہیں ہم نہیں مان سکتے کہ وہ آزاد ہیں اور ایسی شاہانہ قدرتیں ہیں جو قائم بالذات اور بے تبدیل ازلی اور ابدی ہیں۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اگر خدا ہے تو اس نے ان قوانین کو تجویز کیا ہے اور اگر وہ ان کا مجوز ہے تو وہ ان پر مقدم بھی ہے۔ اور اپنی حکمت کے مطابق جیسا چاہتا ہے ویسا کرتا ہے سیدنا مسیح نے فرمایا” میرا باپ اب تک کام کرتا ہے "۔ اور جب ہم ان الفاظ کے عمیق مطلب کو سمجھ لیتے ہیں اور اس بات کو مان لیتے ہیں کہ دنیا اپنی ہستی اور موجودگی کے لئے خدا کی قادر مرضی پر منحصر ہے اور خدا اپنے کام سے علیحدہ نہیں ہو گیا بلکہ اسے جاری رکھتا ہے اور احاطہ نیچر میں داخل ہونے کے لئے ہر جگہ ایک مدخل اس کے لئے موجود ہے تو یہ اعتراض خاک میں مل جاتا ہے کہ خدا کے لئے معجزات دکھانا ناممکن ہے۔ سب معجزوں سے بڑا معجزہ خدا آپ ہے اور جب ہم نے اسے مان لیا اور اس کی تمام صفات کو قبول کر لیا تو پھر چھوٹے معجزوں کو ماننا کچھ مشکل نہیں۔

یہ اعتراض کہ معجزات رخنہ اندازی کرتے ہیں

پر اعتراض یہ ہے کہ اس مقرر ترتیب میں رخنہ ڈالتا ہے جس کی بے تبدیلی اس بات کی سند ہے کہ دنیا ہمیشہ قائم رہے گی۔اور کہ یہ ترتیب ایسی خاصیت رکھتی ہے کہ ذرا سی مداخلت بھی اس کو برباد کر دیتی ہے۔ سٹراس اس مداخلت کو شگاف کہتا ہے۔ اس کے جواب میں اول تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا میں ہمیشہ موجودہ اسباب و نتائج کا علاقہ ہمیشہ اسی طرح چلا آیا ہے۔ اور کہ اس میں کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ قوانین فطرت کی وہ بے تبدیلی جو اکثر معجزات کی مخالفت میں پیش کی جاتی ہے خود فطرت ہی کے حدود میں ٹوٹی ہوئ نظر آتی ہے۔اب اگر ہم مادہ کی ازلیت کو نہیں مانتے بلکہ تخلیق عالم کے قائل ہیں یعنی اس بات کے قائل ہیں کہ عالم نیست سے ہست ہوا تو یہ سلسلہ شروع ہی میں موجود نہ تھا۔ اب چونکہ مخلوق دنیا سے خلق کرنے کا قانون مستنبط نہیں ہوسکتا اس لئے جس قدر خدا کا وجود معجزہ ہے اسی قدر دنیا کا ہست ہونا ایک معجزہ ہے۔

دنیا کی پیدائش یا زندگی کا نمودار ہونا ایک رخنہ ہے

پر اگر مادہ کو بھی ازلی مان لیں توبھی اس بات کا انکار نہیں ہوسکتاکہ موجودہ سائنس کی رو سے ایک ایسا زمانہ تھا جب کسی طرح کی زندگی دنیا کے طبقہ پر نہیں پائی جاتی تھی۔ اور قائم نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ زمین کی حد اس درجہ تک تھی کہ کوئی جاندار مخلوق زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ حتے ٰ کہ ادنٰے قسم کی زندگی بھی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ ایک فاضل کا خیال بالکل صحیح ہے کہ اس وقت فقط معجزانہ مداخلت بے جان مادہ سے جاندار مخلوق پیدا کرسکتی تھی۔

(ملر) اگر یہ دعویٰ صحیح ہے (اور اس کی تردید کرنا سائنس کو جھٹلانا ہے )تو ایک آغاز، ایک ابتدا قائم ہوتی ہے جس کی شرح صرف خالقانہ معجزے سے ہوسکتی ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ سوال بھی برپا ہوتا ہے کہ روح کس طرح اس دنیا میں داخل ہوئی؟

روح کا نمودار ہونا بھی ایک رخنہ ہے

پہلے تو اس کا خلق ہونا ہی ایک معجزہ ہے۔ پر اگر ہم اس کو بھی ازلی تسلیم کر لیں تو بھی اس کا بے جان مادہ کے ساتھ وصل ہو جانا اور ضمیر کے قوانین سے مزین ہونا جو کہ تمام قوانین فطرت سے نرالے اور برتر ہیں ایک تیسرا معجزہ ہے۔

معجزات ایسی تجاویز نہیں جو خدا کو بعد میں سوجھیں

پھر عموماً یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ معجزہ گویا ایسی تجویز ہے جو خدا کو بعد میں سوجھی تاکہ اخلاقی ابتری کو اس کے وسیلے دور کرے۔ اور اس سے یہ اعتراض قائم کیا جاتا ہے کہ اس سے انتظام موجودات کا نقص لازم آتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ جو معجزات کے قائل ہیں ان کا ہر گز یہ دعویٰ نہیں کہ معجزات ایسی تجویزیں ہیں جو خدا کو پیچھے سوجھیں۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ معجزات خدا کے ازلی ارادہ میں شامل تھے اور جس ازلی مرضی نے اور مرضی کے ازلی قانون نے قوانین فطرت کو تجویز کیا۔ اسی نے معجزات کو بھی اس سلسلے میں داخل کیا۔ پس معجزات علیحدہ اور تنہا واقعات نہیں ہیں بلکہ عام انتظام موجودات کے حصے ہیں۔ اب اگر اس کے جواب میں کہ کہا جائے کہ جو تعریف شروع میں قوانین فطرت کی تم پیش کر چکے ہو اس کے مطابق معجزات قوانین فطرت میں داخل نہیں ہوسکتے تو ہمارا جواب الجواب یہ ہے۔ کہ وہ بار بار واقعہ نہیں ہوتے کیونکہ اگر ہوں تو اپنے اصل مطلب کو پورا نہ کریں گے۔ تاہم وہ بے قانون نہیں ہیں۔ بلکہ اس قانون کے مطابق سرزد ہوتے ہیں جو الٰہی مرضی اور ارادے سے وابستہ ہے۔ اور ہم ذرا آگے بڑھ کر دیکھیں گے کہ وہ قانون کس طرح بدون اور قوانین کو توڑنے کے اپنا عمل دکھا سکتا ہے۔

وہ نظائر جو معجزہ پر دلالت کرتی ہیں

خلقت کے مشاہدہ سے کئی نظیریں ایسی ملتی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ فوق العادت یعنی معجزہ ناممکن نہیں۔ مثلاً اس دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ ادنیٰ درجہ کے قانون اعلیٰ درجہ کے قوانین سے روکے جاتے ہیں۔ جمادات اور نباتات اور حیوانات کے طبقوں میں درجہ بدرجہ یہ تصرف ملاحظہ سے گذرتا ہے۔ کیمیائی قوانین پر زندگی کے اصول غالب آتے ہیں اور جسمانی قوانین پر روحانی اور اخلاقی مسلط ہیں۔ کیمیائی اصول یہ ہے کہ جب کوئی مرکب تحلیل ہو جائے تو اس میں سراہٹ پیدا ہو لیکن وہ قوانین بعض بعض حالتوں میں بیکار ہو جاتے ہیں مثلاً بعض حالتوں میں ان کو نمک کی ذاتی خاصیتیں بگڑنے نہیں دیتی ہیں۔اب اس عمل سے کیمیائی قانون فنا نہیں ہو جاتے بلکہ نمک کے ذاتی قوانین کے تابع ہو جاتے ہیں۔ انسان کی ساری طاقت اس بات میں صرف ہو جاتی ہے کہ وہ نیچر سے وہ پھل اور نتائج پیدا کرے جو وہ خود بخود پیدا نہیں کرسکتی۔ جب ہم اپنا بازو اوپر اٹھاتے ہیں توہم قانون ثقل کو معطل کرتے۔ جب کوئی پودا اپنی چوٹی اوپر کی طرف اٹھاتا ہے۔ تو وہ اس قانون کو توڑتا ہے۔ وہ طریقہ جس سے پمپوں کے وسیلے پانی اوپر چڑھایا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقابلہ کرتا ہے مگر پھر بھی کوئی نہیں کہتا کہ یہ کیا غضب ہوا قانون ثقل ٹوٹ گیا۔ اب تو دنیا فنا ہو جائیگی۔ پر اگر یہ کہا جائے تو ایک ڈوبی ہوئی کلہاڑی کو خدا کا ہاتھ اٹھا لایا اور وہ اس ہاتھ کے سہارے سے پانی کی سطح پر اس طرح پھرتی تھی کہ گویا تیر رہی ہے تواس شور سے قیامت بپا ہو جاتی ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ اس سے کشش ثقل کا قانون ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر آدمی ایک لوہے کے ٹکڑے کو اپنے ہاتھ میں لے کر پانی میں ڈوبنے سے بچا سکتا ہے تو کیا خدا نہیں ایسا کرسکتا ؟

انبیا زادوں کی کلہاڑی کا تیرنا

فرق صرف اتنا ہے کہ اگر میں ایسا کروں تو میرا ہاتھ نظر آئے گا۔لیکن خدا کا ہاتھ یعنی اس کی وہ قدرت جس نے انبیا زادوں کی کلہاڑی کو توہ سے نکال کر سطح آپ پر رکھ دیا نظر نہ آئی۔ اس موقعہ پر بشنل صاحب کا خیال یاد آتا ہے کہ جو ایک مرتبہ ہماری نظر سے گذرا اور وہ یہ ہے کہ آدمی کی مرضی بھی ایک صورت میں فوق العادت ہے اور نیچر پر حکمران۔ نیچر ہمارے لئے اشیاء پیدا کر دیتی ہے۔ سن اگا دیتی ہے اور سینکڑوں چیزیں ہمارے لئے پیدا کرتی اور جمع رکھتی ہے۔ لیکن ان سے نازک اور مہین کپڑے بنانا اور طرح طرح کے عجائبات کو پیدا کرنا انسان کا کام ہے۔ اب ہم خواہ یہ مانیں یا نہ مانیں کہ انسان کی مرضی فوق النیچر ہے تاہم اس سے اتنا سراغ ملتا ہے۔ کہ جو اس سے بڑی اور لامحدود مرضی ہے وہ بھی اس قابل ہے کہ اگر چاہے تو سلسلہ فطرت میں اپنا جلوہ دکھائے۔

نیچر ہم پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ جہاں خاص خاص اسباب موجود ہوں  گے۔ وہاں خاص نتائج پیدا ہوں  گے اور معجزہ اس قانون کے برخلاف نہیں اور نہ اس کو توڑتا ہے۔ مثلاً کلہاڑی کے تیرنے کے معجزے سے یہ بات بخوبی روشن ہے کہ لوہے کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے اتنی قدرت یا طاقت کی ضرورت ہے جواسے غرق ہونے سے روکے۔ خواہ وہ طاقت خدا کی ہو۔ خواہ انسان کی خواہ اس پتھر کی جو دریا میں پڑا ہے۔ اگر یہ روک موجود ہو۔ تو اس لوہے کا پانی میں ڈوبنا اتنا نیچر کے برخلاف نہیں جتنا ڈوب جانا اس کے برخلاف ہے۔

نتائج

جوریماکس ہم نے دلیل چہارم کے ضمن میں پیش کئے ہیں ان سے دو نتیجہ برآمد ہوتے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھنے چاہئیں۔

(الف) اول یہ کہ ادنیٰ درجہ کی طاقتوں کے عمل سے اعلیٰ درجہ کی طاقتوں کی مداخلت کی نفی ثابت نہیں ہوتی۔ اور اس مداخلت کے انکار کو معجزات کے خلاف بطور ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ یہ بات تو خود ثبوت طلب کرتی ہے کہ قوانین قدرت میں مداخلت نہیں ہوسکتی۔ یعنی اگر کوئی یہ کہے کہ ان قوانین کی بنا پر اعلیٰ قدرتوں کی مداخلت ناممکن ہے تو گویا وہ یہ مانتا ہے کہ یہ قانون ہر جگہ اور ہر حال میں غیر متبدل ہیں پر یہی وہ بات ہے جو ثبوت کی محتاج ہے۔

(ب) کہ اعلیٰ درجہ کی قدرتوں کی مداخلت سے قوانین قدرت زائل یا ساقط نہیں ہوتے بلکہ اپنے عمل کو جاری رکھتے ہیں اور کہ یہی بات خدا کی مداخلت پر صادق آتی ہے۔ اس کی مداخلت سے بھی قوانین نیچر معطل نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کی پائداری برابر قائم رہتی ہے۔ اور کیوں؟ اس لئے کہ نیچر کی طاقتوں کو معجزے کے پیدا کرنے میں کچھ دخل نہیں اور نہ معجزات اپنے وقوع کے بعد ایسے علیحدٰہ رہتے ہیں کہ گویا تنہا واقعات ہیں بلکہ وہ واقع ہونے کے بعد نیچر کے عام سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں اس جگہ ایک ضروری فرق پر غور کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ضروری فرق

اور وہ یہ ہے کہ ایک قسم کے وہ معجزے ہیں جو اپنے وقوع کے لئے محض خدا کی خالقانہ قدرت پر منحصر ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے وہ ہیں جن کے وقوع میں نیچر کی طاقتیں اپنے معمولی عمل میں بڑھ جاتی ہیں۔ یعنی خدا کے حکم سے اپنے معمولی زور سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ اور اس معنی میں دوسری قسم کے معجزات ایک طرح نیچر سے مربوط ہوتے ہیں۔ مسیح کا بطن مریم میں آنا اور روٹیوں اور مچھلیوں کا بڑھ جانا پہلی قسم سے علاقہ رکھتے ہیں۔ اور ان میں ہم کو خدا کی قدرت کا وہ عمل نظر آتا ہے جو دنیا کے خلق کرنے سے مشابہت رکھتا ہے۔ خدا بلاواسطہ دیگر وسائل کے اس قسم کے معجزات کو انجام دیتا اور ایک نئے واقعہ کو جو پہلے فطرت میں موجود نہ تھا اس کے سلسلہ میں داخل کر دیتا ہے۔ اب جو کچھ اس نے ابتدا میں تمام عالم محسوسات کے متعلق کیا۔ اگر وہی پھر اس کے کسی خاص حصہ کے متعلق کرے تو یہ اس کے لئے ممکن نہیں ہے۔

مسیح کی پیدائش کا معجزہ

کرسلب صاحب جن کی نادر کتاب سے ہم نے اس باب میں بہت مدد لی ہے بڑی خوبصورتی سے دکھاتے ہیں کہ یہی حال اس وقت سرزد ہوتا ہے جب کسی اچھے درخت کی قلم اور ادنیٰ قسم کے درخت میں پیوند کی جاتی ہے۔ وہ قلم بالکل  اجنبی ہوتی ہے پر تاہم آئندہ زمانہ میں نئی حالتوں کے مطابق زندگی بسر کرتی ہے۔ اسی طرح مسیح بھی ایک قلم ہے جو خدا کی خالقانہ قدرت کے مطابق انسانی نیچر کے درخت میں پیوند کیا گیا (انجیل شریف : راوی حضرت یوحنا ۱: ۱۳)۔ اس نے اس نیچر کی شرائط اور خصوصیات کو رد نہیں کیا بلکہ ہر حال میں ان کی حفاظت کی مثلاً اس کے آنے میں تاریخ کے لازمی قوانین زائل نہیں ہوئے۔ تاریخ بھی بچوں کی طرح بڑھتی ہے۔ پس مسیح اس وقت ظاہر ہوا۔ جو اس کے لئے موزون تھا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ وہ جو سانپ کے سرکو کچلنے والا تھا اس وقت تک ظاہر نہ ہوا جب تک کہ وہ تمام شرائط پوری نہ ہوئیں جواس کے ظہور سے پہلے لازمی تھیں۔ چنانچہ لکھا ہے۔ کہ ” جب وقت پورا ہوا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا۔ (خطِ اہلِ گلتیوں ۴: ۴) اسی طرح قوانین نیچر کی بھی رعایت کی گئی مثلاً وہ تیس برس کا جوان اور کل طاقتوں کی نشوونما کے ساتھ آسمان سے یک بیک نہیں اترا۔ بلکہ جب وہ خدا کی خالقانہ قدرت سے ماں کے شکم میں در آیا اسی وقت سے پیدائش اور نمو کے معمولی قوانین کے بھی تابع رہا۔ ا س کی نسبت لکھا ہے کہ اس نے ساری راستبازی پوری کی۔ وہ اپنے باپ کا فرمانبردار تھا۔ اور اس نے اپنی فرمانبرداری کو آزمائشوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہ کر ثابت کیا۔ اب کون شخص کہہ سکتا ہے کہ نیچر ایسے واقعہ سے تباہ ہو جاتی ہے۔ جس کے متعلق نہ اسے اچھا کرنا اور نہ کچھ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

وہ معجزات جن میں نیچر کی طاقتوں کا عمل معمول سے زیادہ تیز کیا جاتا ہے

لیکن جن معجزات میں خدا کی نیچر کی طاقتوں کو معمول سے زیادہ منجمد کر کے فوق العادت اظہار نمایاں فرماتا ہے (مثلاً طوفان اور مصر کی بعض آفتیں وغیرہ) ان کی خصوصیت یہ ہے کہ جو کام وہ طاقتیں بہت عرصہ کے بعد کرتیں اسے اپنے مزید عمل کے وسیلے فوراً وقوع میں لاتی ہیں اور یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں جو خدا کے لئے ناممکن ہو بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بھی ایسا کرتا ہے۔ وہ بھی نیچر کی طاقتوں کو اپنے قابو میں لا کر ایسے نتائج اور ایسے واقعات پیدا کر لیتا ہے جو نیچر خود بخود پیدا نہ کرتی۔ ولایت میں طرفتہ العین میں انڈوں سے چوزے نکالے جاتے ہیں۔اب ان انسانی واقعات اور الٰہی معجزوں میں یہ فرق ہے کہ معجزات خدا کی قدرت سے اور اس کے نبی کے کہنے کے بموجب سرزد ہوتے ہیں اور کسی طرح کی معمولی وسائل ان کے وقوع میں استعمال نہیں کئے جاتے تھے۔

منکران اعجاز پر کیا فرض ہے

اب وہ جو اعجاز کے منکر ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ ہمیں دکھائیں کہ جسے وہ نیچر کہتے ہیں اس میں کیا کچھ شامل ہے اور نیچر کی طاقتیں کہاں تک تیز کی جا سکتی ہیں۔ اور اگر وہ یہ کہیں کہ وہ تیز نہیں ہوسکتی ہیں تو یہ ثابت کریں کہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ نیچرل جو فو ق النیچر سے ہمیشہ برآمد ہوتا ہے اس کی مداخلت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کیا خدا ہی جو تمام قوانین کا سرچشمہ ہے اس لائق نہیں کہ اپنے گھر میں آنے جانے کا مختار ہو۔

(۵۔) پر س دلائل کی سرتاج دلیل یہ ہے کہ خدا ایک ایسی شخصی مرضی ہے جو لامحدود اور مختار کل ہے۔

خدا ایک مختار اور آزاد مرضی ہے۔ لہذا معجزہ نیچر کے عین مطابق ہے

چونکہ پہلی دلیل کے ضمن میں اس پر اشارہ ہوچکا ہے لہذا اس جگہ اس پر زیادہ نہیں کہا جائے گا۔اور ہم اس بات کو انہیں الفاظ کے ساتھ بند کریں گے جن الفاظ کے ساتھ مارے صاحب نے اپنی کتاب کا وہ باب بند کیا جس میں انہوں نے ” نامعلوم قانون” پر بحث کی ہے "۔ کیا فعل مختاری انسان پر ختم ہو جاتی ہے یا انسان کے اوپر بھی آزاد مرضی کا کوئی دائرہ ہے جس میں انسانی مرضی کی طرح طبعی قانون نہیں بلکہ روح مادہ کو حرکت میں لاتی ہے ؟ اور کیا وہ آزاد مرضی نامعلوم صورت میں تمام فطرت کے دائرہ میں داخل ہوتی ہے ؟ اگرایسا ہوتا ہے تو بائبل کا ہر معجزہ ایسا ہی نیچرل ہے جیسا کوئی کیمیائی تجربہ جسمانی دنیا میں ہوا کرتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس فرمانروا مرضی کا تخت خالی پڑا ہے۔ اور فطرت کوئی ایسا سردار نہیں رکھتی جو شخصیت کی صفات سے موصوف ہو۔ فقط انسان اس حالت میں نردبان نیچر کا اعلیٰ زینہ ہے پر وہ بھی خود اس عظمت کے پایہ سے گر جاتا ہے کیونکہ وہ خود ہونہار باتوں کے ہاتھ سے آزاد نہیں۔ یا تو تمام نیچر خدا کی طرف اوپر کو اٹھتی ہے۔یا قانون کی طرف نیچے گرتی ہے۔ پر اگر مادی اسباب کے اوپر خدا کی رزاتی اور پروردگاری کے لئے کوئی جگہ موجود ہے تو ظاہر ہے کہ نیچر کو حرکت میں لانے والی ایک عظیم ہستی موجود ہے جو آزاد مطلق ہے اور معجزات کا وقوع میں آنا عین نیچر کے مطابق ہے۔

٭٭٭

 

               تیسرا باب

معجزات اور گواہی

دوسرا سوال غور طلب یہ ہے کہ بائبل کے معجزات کی نسبت جو گواہی پیش کی جاتی ہے وہ قابل تسلیم ہے یا نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تین طرح حقائق اشیاء کو دریافت کرتا ہے یا یوں کہیں کہ تین طرح کی شہادتیں موجود ہیں اور ان میں سے کسی نہ کسی کے مطابق ہر شے کی حقیقت اور صداقت ثابت کی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہیں۔

(۱۔)حواس کی گواہی

(۲۔)وہ ثبوت جو علوم ریاضی کے اصول کے وسیلے بہم پہنچتا ہے۔

(۳۔) انسان کی گواہی

ہر قسم کی شہادت اپنے اپنے دائرے میں کام کرتی ہے

اب ان تینوں میں سے ہر شہادت یا ثبوت اپنے اپنے خاص دائرہ میں کام کرتا ہے اور اپنے خاص دائرہ میں کافی سمجھا جاتا ہے۔ کسی زاویہ کی مقدار کہ آیا وہ قائمہ ہے یا منفرجہ۔ یا یہ دعویٰ کہ ہر مثلث کے دو ضلع تیسرے ضلع سے بڑے ہوتے ہیں۔ علم ریاضی کے مقرری اصول سے ثابت ہوتے ہیں۔ پر اگر ہم یہ ثابت کرنا چاہیں کہ جس گھر میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہ موجود ہے یا نہیں تو اس ثبوت میں اقلیدس کے اصولوں کی ضرورت نہ پڑے گی۔ یہاں ہمارے حواس کی گواہی کام دے گی۔ اور اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سنکھیا مہلک ہے۔ یا یہ کہتے ہیں کہ لندن سب شہروں سے بڑا ہے تواس کے ثبوت میں بیان کرنے والے سے نہ ثبوت اقلیدس اور نہ شہادت حسی طلب کی جاتی ہے۔ بلکہ اس کی گواہی فوراً قبول کی جاتی ہے۔

یقینی اور امکانی شہادت

پہلی دوقسم کی شہادت کو یقینی (Certain) اور تیسری قسم کی شہادت کو اہل فلسفہ امکانی (Probable) کہتے ہیں ان لفظوں کے استعمال سے اکثر یہ مغالطہ پڑ جاتا ہے کہ امکانی یقینی گواہی کے مقابلے میں کمزور معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ فرق صرف اصطلاحی ہے۔ امکانی گواہی رد کرنے کے لائق نہیں۔ وہ اپنے حدود میں معتبر اور مستند ہوتی ہے۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ ہم اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ امکانی گواہی پر مبنی ہے تاہم کوئی شخص اس کی سچائی پر شک نہیں لاتا بلکہ سب اس کی صداقت کے معترف ہیں۔

معجزات پر انسانی گواہی کی قدر

اب وہ معجزات جو بائبل میں مرقوم ہیں۔ اگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ تو انسانی گواہی سے (جسے تواریخی گواہی بھی کہتے ہیں ) ثابت ہوسکتے ہیں۔ان کے ثبوت میں نہ ہمارے حواس کی گواہی کام آئے گی کیونکہ ہم ان واقعات سے کئی صدیاں دور نکل آئے ہیں۔ اور نہ ان کو ریاضی کے اصول سے ثابت کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ان واقعات کا اس علم سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اور مخالفوں نے بھی اس بات کو خوب پہچان لیا ہے۔ کہ معجزات کی صداقت پر لغویت تواریخی گواہی پر منحصر ہے۔ لہذا انہوں نے یہ دیکھا نیکی کوشش کی ہے کہ انسانی یا تواریخی گواہی اس بارے میں قبول کرنے کے لائق نہیں۔ اس قسم کے مخالفتوں کے پیر اور استاد ڈیوڈ ہیوم ہیں اور اگر ان کے اعتراض کا جواب دیدیا جائے تو ان کے شاگردوں کے اعتراضوں کو رد کرنا مشکل نہ ہو گا۔

ڈیوڈ ہیوم کا اعتراض

مازے صاحب نے اپنے مشہور لیکچر زآن مرے کلز Lectures on Miraculous میں ڈیوڈ ہیوم کے اعتراضوں کو اسی کے الفاظ میں نقل کر کے اس پر بحث کی ہے اس کا اعتراض یہ ہے کہ فطرت کی بے تبدیلی کی نسبت جو اعتقاد ہم رکھتے ہیں۔ اس کی جڑ ہمارا تجربہ ہے جو ہمیشہ یکساں رہتا ہے۔(یا یوں کہیں۔ کہ غیر متبدل ہے۔ مترجم) اور وہ اعتقاد جو ہم انسانی گواہی کی نسبت رکھتے ہیں۔ اس کی جڑ بھی ہمارا تجربہ ہی ہے۔ لیکن یہ تجربہ تبدل پذیر ہوتا ہے کیونکہ انسانی گواہی نے بعض اوقات ہم کو دھوکا دیا ہے۔ لہذا ہم اس غیر متبدل تجربہ کو جو معجزے کے برخلاف ہے۔تبدل پذیر تجربہ پر جو معجزے کے ثبوت میں (بصورت گواہی) پیش کیا جاتا ہے ترجیح دیتے ہیں”۔ ایک اور شخص اس کی دلیل کا خلاصہ مطلب (Encyclopedia Britannica) سے اس طرح نقل کرتا ہے۔کسی ” شے کی حقیقت کی نسبت جو ثبوت ہمیں چشم دید گواہوں کی گواہی سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کسی اور اصول پر مبنی نہیں۔ سوائے اس تجربہ کے جو ہم انسانی گواہی کی صداقت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ پر اگر وہ حقیقت جس پر گواہی دی جاتی ہے۔ معجزہ ہے۔ تو اس سے دو متفرق تجربوں میں فساد برپا ہوتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ ایک قسم کی شہادت دوسری قسم کی شہادت کے برخلاف برپا ہوتی ہے۔اب معجزہ قوانین فطرت کے توڑنے کا نام ہے۔ مگر چونکہ ایک مضبوط اور غیر متبدل تجربہ نے ان قوانین کو بے تبدیل ثابت کر دیا ہے۔ لہذا ان قوانین کا استحکام بجائے خود معجزوں کے برخلاف ایک ایسا کامل ثبوت ہے کہ کوئی اور دلیل اس سے بڑھ کر معجزہ کے برخلاف قیاس میں نہیں آسکتی۔ اور اگر یہ دعویٰ ٹھیک ہے۔ تو پھر یہ نتیجہ بھی ناگزیر ہے۔ کہ وہ ثبوت جو انسانی گواہی پر مبنی ہے۔ اس ثبوت کو رد نہیں کرسکتا "۔ مطلب یہ ہے۔ کہ ہمارا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ قوانین قدرت کبھی نہیں بدلتے۔ لیکن انسان کی گواہی ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی۔ بلکہ بدلتی رہتی ہے۔ لہذا ہم اپنے اس تجربہ کو سچا سمجھتے ہیں۔ جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔پس معجزے ناممکن ہیں۔ کیونکہ ان کے ثبوت میں صرف انسانی گواہی پیش کی جاتی ہے۔ مگر انسانی گواہی ہمیشہ معتبر نہیں ہوتی۔

تجربہ ہر حالت میں گواہی کا مصدر یہ معیار نہیں ہوسکتا

اب ان اقتباسوں سے ظاہر ہے۔ کہ ہیوم نے گواہی کا ماخذ اور مصدر تجربہ کو قرار دیا ہے۔ اور یہ ثابت کرنا چاہا ہے۔ کہ گواہی کا کذب ا س قدر تجربہ کے برخلاف نہیں۔ جس قدر معجزوں کی صداقت تجربہ کے برعکس ہے۔ وہ دلیل متذکرہ بالا تحریر کر کے اپنے زعم میں معجزوں کا فاتحہ پڑھ بیٹھا۔ کیونکہ اس نے اپنی دانست میں اصول اسقتراء کی بناء پر معجزوں کو دائرہ امکان سے خارج کر دیا۔ جبکہ یہ دکھا دیا۔ کہ وہ ہمارے غیر متبدل تجربہ کے برخلاف ہیں اور اسی طرح انہیں گواہی کے احاطہ سے بھی نکال دیا۔ جبکہ یہ ثابت کر دیا۔ کہ ہمارا تجربہ گواہی کی حیثیت کے بارے میں بدلتا رہتا ہے۔ یعنی گواہی کبھی سچی ہوتی ہے۔اور کبھی جھوٹی۔

لیکن یہ دعویٰ صرف اسی وقت قابل تسلیم سمجھا جا سکتا ہے۔ جب وہ قضئے جن سے یہ دعویٰ بطور نتیجہ کے مستنبط کیا گیا ہے۔ صحیح تسلیم کئے جائیں۔ اول تو یہ امر مسلمہ نہیں ہے کہ گواہی کی حیثیت ہمیشہ تجربہ پر مبنی ہوتی ہے۔ اور کہ گواہی کا اعتبار یا عدم اعتبار تجربہ پر منحصر ہے۔

بچے بغیر تجربہ ہماری گواہی قبول کرتے ہیں

کیونکہ اس حالت میں کوئی تازہ خبر اور نئی بات گواہی کی شہادت پر قبول نہ کی جائے گی۔ لیکن برعکس اس کے ہم دیکھتے ہیں۔ کہ وہ جو تجربہ کے سرمایہ سے بے بہرہ ہیں۔ وہ گواہی کی صداقت پر زیادہ تر انحصار کرتے ہیں۔مثلاً بچے گواہی کی صداقت کو بے چوں و چرا قبول کر لیتے ہیں۔ جب ہم اُن کو زہر کی خبر دیتے ہیں تو وہ ہماری گواہی کو رد نہیں کرتے۔ اگر وہ ہم کو یہ جواب دیں کہ ہم نے ابھی سنکھایا کو اپنے تجربہ سے نہیں آزمایا۔ اور چونکہ انسانی گواہی کا تجربہ تبدیل پذیر ہوتا ہے۔ اس لئے ہم آپ کی بات کو قبول نہیں کرسکتے۔ لہذا ہم پہلے سنکھیا کو آزمائیں گے۔ اور پھر آپ کی بات کو تسلیم کریں گے۔ ہاں اگر ہمارے بچے ہمارے ساتھ اس طرح حجت کریں۔ اور بات بات پر ہیوم کے اصول کو پیش کریں۔ تو اُن کا مال کار کیا ہو؟ یہ کہ نہ وہ جئیں۔ نہ وہ ترقی کریں۔ اور نہ دولت علم سے بہرہ اندوز ہوں۔

انسانی گواہی کو بلا تجربہ قبول کرنا انسانی ذات کا جبلی خاصہ ہے۔ گواہی کا اصل معیار گواہ کی صداقت اور لیاقت ہے

اب اس سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔کہ انسانی گواہی کی بلا تجربہ قبول کرنا ہماری ذات کا جبلی خاصہ ہے۔ اور ہم اس بات کو جو انسانی گواہی کے زور پر ہمارے سامنے رکھی جاتی ہے۔ بدوں ملاحظہ اور امتحان کے قبول کر لیتے ہیں۔ ہمارے رائے میں ہیوم کا اصول انسانی تجربہ کے برخلاف ہے۔

پس معتبر گواہی کی پہچان کے لئے تجربہ کوئی معیار نہیں ہے۔ اس کی سچائی اور کھوٹ کو پرکھنے کی کسوٹی کوئی اور ہی ہونی چاہیے۔ اب وہ کیا ہے ؟ گواہی کے جھوٹ اور سچ پہچاننے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں صدق اور لیات یعنی علم اگر وہ گواہ جو کسی بات کی خبر ہم کو دیتا ہے صادق اور دیانتدار ہے۔ اور نیز اس بات کے ہر پہلو کو سمجھنے کی لیاقت کافی رکھتا ہے۔ اور اس کا علم رکھتا ہے۔ تواس کی گواہی قبول کرنے کے لائق ہے۔

معجزانہ واقعات کی بیرونی صورت اور اُن کے اصل موجد میں امتیاز کرنا ضروری امر ہے

البتہ یہ ہم مانتے ہیں۔کہ معجزانہ واقعہ اور اس کے موجد یا سبب میں امتیاز کرنا لازم ہے۔ اور مازے صاحب نے بڑی خوبصورتی سے اس فرق کو ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ صاحب موصوف اس اعتراض کا کہ "انسانی گواہی فوق العادت کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی یا یوں کہیں کہ انسانی عقل فوق العادت باتوں کو سمجھ نہیں سکتی”۔ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ اگر اس سے یہ مراد ہے۔کہ انسانی گواہی اُس موجد کو ثابت نہیں کرتی۔ جو معجزہ کا سبب ہے۔ توہم اس کو مان لیتے ہیں۔ کیونکہ گواہی کا یہ کام نہیں کہ وہ فوق العادت کو ثابت کرے۔

پر معجزانہ واقعات کے وقوع کے متعلق جو گواہی ملتی ہے وہ رد نہیں کی جا سکتی

اس کا ثبوت دوسری قسم کی شہادت سے بہم پہنچتا ہے۔ مگر گواہی جو معجزانہ واقعہ کے وقوع کے متعلق پیش کی جاتی ہے اس کو غیر معتبر سمجھ کر رد نہیں کرسکتے۔ یعنی اگر اس دعویٰ سے یہ مراد ہے۔ کہ جن واقعات کی خبر گواہ دیتے ہیں وہ اس طرح جس طرح وہ بیان کرتے ہیں۔ سرزد نہیں ہوئے۔ لہذا ان کی گواہی ان کے وقوع کے متعلق تسلیم کرنے کے لائق نہیں۔ تو یہ دعویٰ فلسفہ اور مذہب اور ہر دو صورتوں سے ناقص ہے۔ کیونکہ اگر کوئی حادثہ قوانین قدرت سے مختلف ہے۔ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے۔ کہ وہ عقل کے بھی برخلاف ہے۔ اور جو شے برخلاف نہیں۔ وہ گواہی کے حدود سے خارج نہیں۔ مثلاً گواہی صرف اتنی بات بتاتی ہے۔ کہ ایک شخص چار دن کا مردہ تا وہ مسیح کے کہنے سے قبر میں سے نکل آیا۔ اور یہ عجیب واقعہ کئی گواہوں کی آنکھوں کے سامنے سرزد ہوا۔ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتی ہے۔ کہ خدا کی قدرت سے سرزد ہوا۔ اس بات کا ثبوت دوسری شہادت پر موقوف ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم اس واقعہ کا معجزہ ہونا اس ایمان کی بنیاد پر تسلیم کرتے ہیں۔ کہ خدا موجود ہے۔ اور وہ عجیب کام کرنے والا ہے۔ اور سوائے اس کے اور کوئی معجزوں کی مانند عجیب کام نہیں کرسکتا۔ مگر وہ اپنے سارے کام کسی نہ کسی علت غائی کو مد نظر رکھ کر کرتا ہے اور معجزہ دکھانے میں اسے یہ مقصد زیر نظر ہے۔ کہ اپنے بندوں کو راہ راست پر لائے۔ پر اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے۔ کہ ہم معجزانہ واقعات کو گواہی کی حدود سے خارج نہیں کرتے ہیں بلکہ اس شرح کو رد کرتے ہیں۔ جو ان واقعات پر چسپاں کی جاتی ہے اور جو انتظام موجودات کے برخلاف ہے۔ پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ کہ جو تشریح ان واقعات کی کی جاتی ہے وہ اور ہی قسم کی شہادت پر مبنی ہے۔

معترض کی نئی تاویل کہ واقعہ کچھ اور تھا مگر اس کی تاثیر رسولوں پر کچھ اور ہوئی

اصل غرض معترض کی یہ ہے کہ اعجازی خاصیت کو نئی تاویل پیش کر کے دور کر دے۔ معترض معجزانہ واقعہ کی جگہ جو انتظام موجودات سے بظاہر مختلف معلوم ہوتا ہے ایک عجیب تاثیر فرض کرتا ہے جو دیکھنے والوں کے دل اور دماغ پر طاری ہوئی۔ اب اس کودوسرے لفظوں میں یوں ادا کرسکتے ہیں۔ کہ معترض یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انہوں نے دیکھا کچھ اور سمجھا کچھ اور۔ اب اگر یہ صحیح ہے۔ تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا۔ کہ گواہی کے معاملہ میں انسانی فطرت کے اندر کوئی شے ہے جو نامعلوم اور نہایت تاریک اور غیر معمولی قسم کی ہے۔ یعنی اس میں دھوکے کی جڑ مخفی ہے۔

یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ ان کی عقلی طاقتوں میں فتور ہے

یا عقلی کی متانت میں کسی طرح کی بدنظمی یا نقص چھپا ہوا ہے۔ یا اس ربط میں جو عقل اور حواس میں موجود ہے۔ کسی قسم کا عیب نہاں ہے جس کی وجہ سے یہ عجیب بات وارد ہوئی۔ کہ جنہوں نے درحقیقت کوئی واقعات نہ دیکھے تھے۔ انہوں نے ایسا کہا۔ کہ ہم نے انہیں دیکھا ہے۔

ایک نظیر جس سے تاویل کا صنعت ظاہر ہوتا ہے

پر یہ تاویلیں کیسی لچر ہیں۔ کیونکہ ان کے وسیلہ ہمارے حواس جھٹلائے جاتے ہیں۔ فرض کیجئیے۔ کہ ہمارے سامنے ایک شخص کی بصارت انسانی حکمت اور وسائل کے استعمال سے بحال کی جائے۔ کیا ہم اسے معجزہ کہیں گے ؟ اگر ہم دوا کا استعمال اور حکیم کا علاج اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ توہم کبھی ایسا نہیں کہیں گے۔ پر اگر کوئی شخص ہمارے سامنے آئے۔ اور اپنی قدرت کے کلام سے بلاوساطت معمولی وسائل کے کسی اندھے کی کھوئی ہوئی بینائی کو فے الفور واپس کر دے تو کون اس کے معجزہ ہونے پر شک لائے گا۔ اور کون یہ کہے گا کہ میں نے دیکھا کچھ اور تھا۔ مگر میرے حواس پر تاثیر کچھ اور ہوئی۔

ایک اور سوال اور اس کا جواب

پھر ہمیں یہ بھی کہا جاتا ہے۔ کہ فرض کرو۔ کہ کوئی شخص تمہارے پاس آ کر ایک عجیب الخلقت جانور یا فرضی حادثہ کی خبر دے۔ جس کا وجود اس کی قوت واہمہ نے مختلف تصورات کی ترکیب سے گھڑ لیا ہے۔ کیا تم اسے مان لو گے ؟ اب اس سے انکار نہیں ہوسکتا۔ کہ انسان کی قوت اور واہمہ دور دور تک پرواز کرسکتی ہے اور اس میں یہ طاقت ہے۔ کہ وہ مختلف خیالات کو باہم ترکیب دے کر ایسا نیا مخلوق پیدا کرے جو اعتبار کے لائق نہ ہو۔ لیکن معجزہ میں اور اس وہمی مثال میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔اول تو یہ بالکل نا ممکن ہے۔ کہ معتبر گواہی ایسی لغو باتوں کے ثبوت میں پیش کی جائے کیونکہ جو لوگ صادق صاحب عقل ہیں۔وہ کب ایسی باتوں کو قبول کریں گے۔ یا اوروں کو ایسی باتوں کے قبول کرنے کی ترغیب دیں گے ؟ اور پھر ان لغو باتوں کا ماخذ انسان کی قوت متخیلہ ہے۔ مگر معجزہ کی طاقت کا سرچشمہ خدا ہے۔ اور جب ہم معجزوں پر غور کرتے ہیں۔ تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی صورت اور ایسی شرائط کے ساتھ وارد ہوئے کہ ان شرائط نے ان کی رفتار کو فطرت کی راہ کے قریب قریب رکھا۔ اور اسی قدر اسے علیحدہ ہونے دیا۔ جتنا کہ الٰہی غرض کو پور ا کرنے کے لئے کافی اور ضرورت تھا۔

گواہی کو گواہی ہی کا ٹ سکتی ہے

البتہ ایک صورت ہے۔ جس میں معجزوں کی نسبت رسولوں کی گواہی قبول نہیں ہوسکتی ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو آ کر ان کی گواہی کے برخلاف یہ کہے۔ کہ لعزر کبھی نہیں جلایا گیا کیونکہ میں وہاں موجود تھا۔ میں نے اس کے مردہ بدن کو دیکھا۔ میں نے اس کو دفن ہوتے دیکھا۔اور پھر کئی مدت تک قبر میں سڑتے اور گلتے دیکھا۔ معجزوں کے بارے میں جو انسانی گواہی پیش کی جاتی ہے اس کی صداقت میں اگر کوئی بات خلاف تجربہ پیش کی جا سکتی ہے تو صرف اسی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے۔

اگر ہم انسانی گواہی کو بے تبدیل تجربے کی بنا پر رد کریں تو پھر کوئی نئی بات قبول نہیں کرسکیں گے

پس معجزہ نہ شخصی تجربہ کے خلاف ہے۔ (اگر مخالف کا مطلب شخصی تجربہ سے ہے ) کیونکہ اس حالت میں یہ نتیجہ برآمد ہو گا کہ کوئی بات گواہی کی بنا پر قبول کرنے کے لائق نہیں۔جب تک کہ اس کا ذاتی تجربہ حاصل نہ ہو۔ ملوین صاحب فرماتے ہیں۔ کہ اس اصول کے مطابق کوئی شخص جو منطقہ حارہ میں رہتا ہے۔ کبھی اس بات کا یقین نہ کرے گا۔ کہ امریکہ میں بعض حصص میں سردی کے ایام میں پانی جم کر ایسا یخ ہو جاتا ہے کہ اس پر گاڑیاں چل سکتی ہیں۔ اور اگر تجربہ سے سب بنی آدم کا تجربہ مراد ہے تواس کے جواب میں ہماری عرض یہ ہے۔ کہ یہی معاملہ تو زیر بحث ہے۔ کیونکہ ہمارا یہی دعویٰ ہے کہ بہت لوگوں نے مختلف جگہوں اور مختلف زمانوں میں معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اور ان کا تجربہ کیا۔ بشپ ملوین صاحب نے اپنی کتاب میں جس کا حوالہ ہم اوپر دے چکے ہیں۔ بشپ وائسن صاحب کی تصنیفات سے ایک مقام اقتباس کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس اصول کو ماننا نہایت مشکل ہے۔

ایک مثال اس بات کی کہ گواہی کا بلا تجربہ قبول نہ کرنا ایک امر نا ممکن التعمیل ہے

وہ خیال مازے صاحب کے اس خیال کی گویا تشریح ہے کہ گواہی بلا تجربہ قبول نہ کرنا۔ ایک امر ناممکن التعمیل ہے۔ پشب وائسن صاحب فرماتے ہیں۔ کہ ایک ایسا وقت تھا۔ جبکہ کوئی شخص مقناطیس کی خاصیتوں سے واقف نہ تھا۔ مقناطیس کی خاصیتیں کئی صورتوں میں قوانین ثقل کو روکتی ہیں۔ اب اگر تجربہ کے ثبوت پر فیصلہ مبنی ہوتا تو ان کی بات کبھی نہ مانی جاتی جنہوں نے قوانین مقناطیس کی خصائص کو پہلے پہل دریافت کیا۔ مگر ان کو رد کرنا صداقت کو رد کرنا ہوتا۔ اب یہ تو ہم مانتے ہیں کہ لوہے کے ایک ٹکڑے کا زمین پر سے اٹھنا اور ہوا میں سے بسرعت تمام اڑتے ہوئے ایک آہن میں جا لگنا۔ اور وہاں بخلاف قانون ثقل معلق رہنا قوانین قدرت کے خلاف نہیں ہے مگر ایک ایسا وقت تھا۔جبکہ یہ واقعہ گو قوانین قدرت کے برعکس نہ تھا۔ مگر اس وقت تمام زمانوں اور ملکوں کو تجربہ عامہ کے مخالف تھا۔ اس وقت ہیوم کی دلیل کے مطابق اس آدمی یا آدمیوں کی گواہی کو روکر دینا چاہیے تھا۔ جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے اس حادثہ کو بچشم خود دیکھا ہے اور وہ کونسے قوانین نیچر ہیں۔ جو اس مصنف (ہیوم) کی رائے کے مطابق ٹوٹ جاتے ہیں ؟ کیا وہ مختلف لوگوں کے نزدیک ان کی سمجھ اور لیاقت کے مطابق مختلف نہیں ہوتے ؟ مثلاً اگر مقناطیس اور برقی قوانین فقط چند لوگوں کو معلوم ہوتے اور باقی ساری دنیا اُن سے بے خبر ہوتی تو اُن کے نتائج دنیا کی تاریخ میں نئے اور انسانی تجربہ کے خلاف ہوتے۔ اس لئے چاہیے تھا۔ کہ کوئی ان کو قبول نہ کرنا "۔ اب خواہ وہ واقعات جو نیچر سے بلند اور بالا ہیں اور جنہیں معجزات کہتے ہیں تجربہ کی مخالفت کریں خواہ وہ واقعات اس کی مخالفت کریں جو گو قوانین نیچر کے خلاف تو نہیں مگر نئے ہونے کے سبب سے اس وقت تک کے قوانین معلومہ کے برخلاف ہیں۔بہر کیف تجربہ مخالفت ضرور ثابت ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ہر دو حالت میں مخالفت تجربہ کی ہو گئی۔ لہذا کسی نئے واقعہ کو گواہی کے زور پر قبول نہیں کرنا  چاہیے۔

البتہ گواہی کبھی کبھی جھوٹی بھی ہوتی ہے۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا۔ کہ گواہی ہمیشہ نادرست ہو۔ جھوٹی گواہی میں ہمیشہ فریب و دغا کی آمیزش ہوتی ہے۔

جھوٹی اور سچی گواہی میں فرق

اُس میں عمداً اور قصداً دروغ کا عنصر ملایا جاتا ہے۔حواس کے سہواور امتیاز کی غلطی کو اس سے کسی طرح کا سروکار نہیں ہوتا۔ اور جب حواس کی غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ تو راستباز گواہ اپنے بیان کو بڑی ہچکچاہٹ سے پیش کرتا ہے اور کبھی پختہ دعویٰ کے ساتھ اپنے خیال کو بیان نہیں کرتا اور اگر یہ لازم آتا ہے۔ کہ ہم تمام انسانی گواہی کو اسلئے رد کر دیں۔ کہ ہم نے بعض اوقات گواہی سے فریب کھایا ہے تو مسٹر لوس کے خیال کے مطابق یہ بھی لازم ہے۔ کہ ہم اپنی آنکھوں کو نکال پھینکیں۔ کیونکہ وہ بھی کبھی کبھی جھوٹی گواہی دیتی ہیں وہ ستارے جو آسمان پر درخشاں لفظوں کی طرح بکھرے پڑے ہیں۔ ہماری آنکھوں کو کبھی اس قد و قامت کے ساتھ نظر نہیں آتے۔ جو وہ درحقیقت رکھتے ہیں۔

با ت یہ ہے۔ کہ ہیوم کی اور اس کے پیروؤں کی جو معجزے پر حملہ کرتے ہیں۔ اصل غرض کچھ اور ہی ہے۔

معجزات کے بعض مخالفوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ خدا کا وجود ثابت نہ ہو

وہ معجزے کے اتنے مخالف نہیں جتنے مذہب کے ہیں۔ وہ خدا کے منکر ہیں۔ اور اس لئے فوق العادت اظہاروں کے بھی منکر ہیں اور ان کے اعتقاد اور اغراض میں ایک قسم کی مطابقت پائی جاتی ہے۔ لیکن جو لوگ خدا کی ہستی کو مانتے ہیں نہ معلوم وہ کیوں معجزہ کے نام سے گھبراتے ہیں۔ شاید اسلئے کہ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر انہیں مانیں تو ہمیں اپنے پرانے مذہبوں کو چھوڑ کر مسیحی مذہب کو قبول کرنا پڑے گا۔ کیونکہ وہی ایک مذہب ایسا ہے جو اپنی تعلیم کی تصدیق میں معجزات کی گواہی پیش کرتا ہے اور اسی کے معجزے قرین قیاس اور عقل کے موافق ثابت ہوسکتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے۔ کہ خدا کی ہستی کی نسبت صرف ایک ہی خیال ایسا ہے۔ جو اپنے اعتقاد ومسائل کی مخالفت کئے بغیر فوق العادت کا انکار کرسکتا ہے اور وہ ویدانتی خیال ہے۔ جو خدا کو ہمہ اور ہمہ کو خدا مانتا ہے۔ کیا یہ خیال درست نہیں کہ جو لوگ شخصیت کے قائل ہیں وہ خدا کی معجزانہ قدرت کے امکان کا انکار نہیں کرسکتے تاوقتیکہ اس کی لامحدود محبت اور قدرت کا بھی انکار نہ کریں۔

اب دیکھئے کہ ہیوم کیا کہتا ہے۔ جو الفاظ ہم اس وقت نقل کرنے پر ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر مذہب کا یہ مطلب ہے کہ ایک قادر اور پُر محبت خدا موجود ہے جو واجب الوجود اور عبادت اور بندگی کے لائق ہے تو معجزہ کا انکار نہیں ہوسکتا۔ پر ہیوم نہیں چاہتا کہ ایسا خدا مانا جائے اور اسی لئے وہ معجزے کی مخالفت کرتا ہے۔

ہیوم کے اُن الفاظ سے یہی بات ثابت ہے

چنانچہ وہ کہتا ہے ” میری گذارش یہ ہے۔ کہ جب میں دعویٰ کرتا ہوں کہ معجزات کبھی ایسی صورت میں ثابت نہیں کئے جا سکتے کہ کسی طریق مذہب کی بنیاد ٹھیریں۔ تواس دعویٰ کے ساتھ جو قیود لازم ہیں انہیں بھی اس موقعہ پر سمجھادینا چاہتا ہوں میں مانتا ہوں کہ مذہب کو چھوڑ کر اور صورت میں معجزات یعنی فطرت کے معمولی سلسلہ کا ٹوٹ جانا ممکن ہے اور ایسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کا ثبوت انسانی گواہی سے دیا جائے۔ مثلاً فرض کرو کہ تمام زبانوں کے سب مصنف متفق ہو کر کہیں کہ یکم جنوری ۱۶۰۰ء سے لے کر آٹھ دن تک تمام دنیا پر اندھیرا چھایا گیا۔ اور فرض کرو کہ اس عجیب واقعہ کی روایت اب تک متداول اور زندہ ہو۔ ایسی کے تمام سیاح جو غیر ممالک سے لوٹ کر آئیں۔ ہمارے پاس اس روایت کی ایسی خبر لائیں۔ جس میں کسی کا فرق اور اختلافات نہ پایا جائے۔ اگرایسا ہو، تو اظہر ہے کہ ہمارے موجودہ فلاسفروں کو بجائے اس بات پر شک لانے کے اسے یقینی سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے "۔ اب اس عبارت کے ساتھ ان الفاظ کو بھی پڑھنا چاہیے۔جو وہ ایک اور قیاسی معجزہ کی نسبت بیان کرتا ہے کہ ” پر اگر یہ معجزہ کسی نئے طریق مذہب کے ساتھ منسوب کیا جائے۔ تو یہی واقعہ فریب کا پورا پورا ثبوت ٹھیرے گا۔ اور سب سمجھ دار لوگوں کے نزدیک آپ ہی اس بات کا کافی ثبوت ہو گا کہ وہ اس کو رد کر دیں اور بغیر امتحان کئے رد کریں۔کیونکہ اس قسم کی فضول باتوں نے ہر زمانہ میں لوگوں کو دھوکا دیا ہے "۔ غور کیجئے۔ کہ ان دعوؤں میں کیسا تناقص پایا جاتا ہے۔ ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معجزات اس وقت انسانی گواہی سے ثابت ہوسکتے ہیں۔ جبکہ کوئی خاص دینی مقصد ان سے منسوب نہ کیا جائے۔ پر جب وہ مذہب کے ثبوت میں دکھائے جائیں۔ تب گواہی سے ثابت نہیں ہوسکتے اور یہی حال معجزات کے تمام مخالفوں کا ہے کیونکہ وہ ان کی مخالفت چنداں اس لئے نہیں کرتے کہ وہ غیر متبدل فطرت سے مختلف ہوتے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ وہ الہامی تعلیم اور مسیحی مذہب کا ثبوت ہیں۔

ہم ہیوم کی رام کہانی کو چھوڑ نہیں سکتے۔ جب تک یہ نہ دکھائیں کہ جو لوگ اپنی عقل اور فکر پر بھروسہ کرتے ہیں اور خدا کی ہدایت کے متلاشی نہیں ہوتے۔ وہ خود اپنے خیالات اور تصورات سے خاطر خواہ اطمینان حاصل نہیں کرتے۔ ملوین صاحب اس کے الفاظ کو ایک جگہ اس طرح نقل کرتے ہیں ” انہوں نے (یعنی فلسفانہ خیالات نے ) اس قدر مجھ پر اثر کیا ہے اور میرے دماغ کو ایسا جلا رکھا ہے کہ اس ہر طرح اعتقاد اور برہان کو ترک کرنے کے لئے تیار ہوں۔میں کسی رائے کو زیادہ مضبوط اور ممکن سمجھ کر ترجیح دینے کو تیار نہیں۔ میں کہاں ہوں اور کیا ہوں؟ کونے اسباب پر میری زندگی مبنی ہے ؟ اور میں کونسی حالت کی طرف راجع ہوں ؟ کس کی خوشی اور رضا کا جویاں ہوں۔ اور کس کی خفگی اور ناراضگی سے خائف ہوں؟کونسی ہستیاں مجھے گھیرے ہیں۔ اور کن پر میں اپنا اثر ڈال رہا ہوں اور کون مجھ پر اثر ڈال رہے ہیں؟ میں ان سوالات سے حیران ہو رہا ہوں۔ اور اپنے تئیں سخت افسوسناک حالت میں مبتلا سمجھنے لگ گیا ہوں۔ میں اپنے تئیں ایک گہری تاریکی سے محیط اور اور ہر عضو اور لیاقت کے استعمال میں عاجز پاتا ہوں”۔ پھر آگے چل کر یوں کہتا ہے۔ کہ ” میری خوش نصیبی سے ایسا ہوتا ہے کہ جب عقلی خیالات ان بادلوں کو دور نہیں کرسکتے۔ تو نیچر خود ان کو دور کرنے میں کافی ثابت ہوتی ہے۔ اور مجھے اس فلسفانہ خبط اور سردردی سے چھڑاتی ہے "۔ اور پھر بتاتا ہے۔ کہ نیچر کیونکر اسے زندگی کے مشغلوں اور دوستوں کی صحبت کے وسیلہ اس مصیبت سے رہا کرتی ہے۔

دلی آرام کا منبع فلسفہ نہیں بلکہ الہامی مذہب ہے

اب اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ حقیقی دلی آرام کا منبع فلسفہ نہیں بلکہ مذہب ہے۔ دوئم یہ کہ جب یہ فلاسفر خود اپنے خیالات کو سردردی اور خبط سمجھتا ہے۔ توہم کس طرح اس کی دلائل اور براہین پر تکیہ کرسکتے ہیں ؟ بلکہ اگر ہم بھی اس کے فضول خیالات کو سردردی اور خبط تصور کریں۔ تو ہمیں گستاخی کے قصور کا مرتکب نہ سمجھنا چاہیے۔ یہاں معجزانہ مذہب کی خوبی اور فلسفانہ طریقوں کی کمزوری اور سقم صاف ظاہر ہو جاتا ہے۔ وہ تعلیم جو معجزانہ شہادت پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ ایسے زور اور اختیار کے ساتھ پہنچائی جاتی ہے۔ کہ اس کی سچائی پر کسی طرح کا ظن نہیں رہتا اور ہم اسے سر تسلیم خم کر کے قبول کر لیتے اور اپنی زندگی کا دستور العمل سمجھ کر اس کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ خاصیت ان طریقوں میں غیر حاضر ہوتی ہے۔ جو الہام ربانی کے منکر ہوتے ہیں۔یا اگراس کے قائل ہوتے ہیں۔ تو صرف اس صورت میں کہ وہ ہر فرد بشر کو براہ راست اس کی ضمیر کو وسیلے پہنچتا ہے۔ اور ضمیر سے جدا اور کوئی راہ الہام کے لئے ممکن نہیں ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کا ایک گہرادوست (Lord Claremont) کہتا ہے۔ کہ ہیوم کی طبعیت میں ہر قسم کی بات پر شک لانے کا افسوسناک عنصر عجیب طرح پر مخلوط تھا۔ اور مجھے پورا پورا یقین ہے کہ میں نے اس سے بڑھ کر سچا اور بے ریا منکر اور کوئی نہیں دیکھا۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ اپنی موجودہ ہستی کا بھی قائل نہ تھا۔ اور یقین  ہے کہ نہ اپنی آئندہ حالت کی نسبت کوئی پختہ رائے رکھتا ہو گا۔ ہو خواہانِ عقل پر واجب ہے۔ کہ ان باتوں سے عبرت پکڑیں اور ہدایت ایزدی کے جویاں ہوں۔

اب ہم آخر میں یہ دکھائیں گے کہ جو گواہی معجزات کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے زمانہ کے گذرنے سے اپنے زور میں کم نہیں ہوتی۔

وہ گواہی جو معجزات پر ملتی ہے اب تک کمزور نہیں ہوئی کیونکہ روایت کی صورت میں متداول نہیں رہی بلکہ تحریر کی صورت میں آ کر ہمیشہ محفوظ رہی ہے

عموماً یہ گمان کیا جاتا ہے۔ کہ گواہی وقت کی رفتار کے ساتھ ضعیف ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں۔ البتہ اگر گواہی زبانی روایت کی صورت میں مروج ہو۔ تو اس میں ضعف آ جائے یا اس کے تبدیل ہو جانے کا احتمال واجب ہے۔ پر اگر گواہی قلمبند ہو کر تغیر و تبدل کے آسیب سے محفوظ رکھی جائے۔ تو پھر شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔

اس کی حفاظت کی ایک نظیر

ملوین صاحب نے جس نظیر سے نکتہ کو ثابت کیا ہے وہ نہایت دلکش اور موثر اور فیصلہ کن ہے۔ اس کا خلاصہ مطلب یوں ادا کیا جا سکتا ہے۔ فرض کرو کہ یہ باب ینگ منس کرسچن ایسوسی ایشن میں پڑھ کر سنایا جائے اور اسی ایسوسی ایشن کی روئیداد(منٹوں) میں داخل کیا جائے۔ اور وہاں اس کی حفاظت کی جائے اگرسو سال کے بعدایسوسی ایشن کا کوئی ممبر روئیداد کی کتاب کو نکالے۔ اور س میں یہ تذکرہ پڑھے۔ کہ فلان سال فلاں تاریخ فلاں مضمون پر یہ درس اس سوسائٹی کے سامنے دیا گیا تھا۔تو وہ اس پر شک نہ لائے گا۔ اور نہ کوئی اور اس کی سچائی پر حجت کرے گا۔ اسی طرح مسیحی کلیسیا کی سوسائٹی بھی اس وقت موجود تھی۔ جب یہ معجزانہ واقعات قلمبند کئے گئے۔ نئے عہد نامہ کی کتابیں وہ منٹ وہ روئیداد ہے۔ جس میں اس سوسائٹی کا کانشٹیچیوشن (قانونی انتظام) اور اس کی ابتدا اور قدیم تاریخ کا تذکرہ درج ہے اور پشت بہ پشت محفوظ چلا آیا ہے۔ البتہ اس کے مختلف ممبر کو چ کر گئے ہیں مگر ان کے کوچ کر جانے سے سوسائٹی پر کوئی نقص عاید نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ تو برابر موجود رہی ہے۔ وہی ان کتابوں کی محافظ اور ان نوشتوں کی لائبریرین ہے۔ ہمارے جسم کا ہر ذرہ کچھ عرصہ بعد بدل جاتا ہے مگر اس کے ساتھ ہماری خودشناسی اور ہمارا وجود کالعدم نہیں ہوتا۔ ہمارا یہ یقین موجود رہتا ہے کہ ہم وہی ہیں جو پہلے تھے۔ اسی طرح کو اس سوسائٹی کو قائم ہوئے بہت عرصہ گذر گیا ہے۔ تاہم وہ ہی ہے جو شروع میں تھی اور اسے اپنے بچپن کے ایام کے وہ جلیل القدر واقعات جو اس کے موجود اور بانی کی ذات با برکات سے صادر ہوئے اب تک یاد ہیں۔ جوباتیں اس کے ممبروں نے بیان کی تھیں۔ ان کو اس نے بڑی خبرداری سے محفوظ رکھا ہے۔ اس کے شرکاء انہیں اپنے معبدوں میں ہر جگہ اور ہر زمانہ میںاس وقت سے لے کر جبکہ رسولوں نے انہیں قلمبند کیا۔ آج تک برابر پڑھتے رہے ہیں۔ پس ان کی گواہی آج بھی ویسی ہی یقینی ہے۔

جس طرح دیگر تاریخی کتابوں کو قبول کرتے ہیں چاہیے کہ اس طرح ہم انجیل شریف کی تاریخ کو بھی قبول کریں

جیسی اس وقت تھی جس وقت اسے پہلے پہل چشم دید گواہوں نے رقم کیا۔ کیا یہی اصول نہیں۔ جس کی بنا پر اب یہ بات مانی جاتی ہے کہ جولیس قیصر نے انگلستان پر حملہ کیا۔ اور ہین با نے ملک اٹلی پر۔ کلانیئو نے ہندوستان کو فتح کیا۔ اور بونا پارٹ نے تمام دنیا کو ہلا دیا۔ اور کیا اسی اصول کی بنیاد پر یہ پرانی باتیں تاقیامت سچی نہیں مانی جائیں گی؟ لوگ اس اصول کے منکر نہیں۔ اگرہیں تو بائبل کے واقعات کے متعلق ہیں مگر یہ ہٹ دھرمی ہے۔ اگر یہ اصول صحیح اور درست ہے۔ تو اس کا پابند ہر جگہ ہونا چاہیے۔جہاں سچی تاریخ کی شرائط موجود ہوں۔ خواہ واقعات دنیوی تاریخ سے تعلق رکھتے ہوں خواہ دینی تاریخ سے وابستہ ہوں۔ ہر دو حالت میں ہمارا فرض ہے۔ کہ ہم تواریخی گواہی کو قبول کریں۔

    گھر

    بات چیت

    بھائی

    معجزاتِ مسیح

    موضوعات

٭٭٭

 

               چوتھا باب

چند خیالات جو معجزات کی گواہی کی تواریخی صحت کی تائید کرتے ہیں

معجزات کی گواہی کے متعلق دو سوال۔ عقلی اور تواریخی

معجزات کی گواہی کے متعلق دو سوال برپا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک عقلی اور دوسرا تواریخی ہے۔ ہم پہلے سوال کا جواب گذشتہ باب میں دے چکے ہیں۔ ہم نے وہاں دکھا دیا ہے کہ معجزات کے بارے میں جو گواہی انجیل شریف میں درج ہے۔ وہ اس سبب سے کہ بعض اشخاص معجزات کو تجربہ کے برخلاف سمجھتے ہیں رد نہیں کی جا سکتی۔

انجیلی معجزات کی تواریخی گواہی رد نہیں کی جا سکتی

اس باب میں ہم دوسرے سوال پر غور کرنے کے لئے تیار ہیں اور یہاں ہم دکھائیں گے کہ مسیح کے معجزات کے متعلق جو گواہی انجیل شریف سے دستیاب ہوتی ہے اس میں ایسی خاصیتیں موجو دہیں جو اس کی تواریخی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔

اس تواریخی گواہی کے متعلق انجیل شریف میں اصلیت اور معتبری پر غور کرنا ضروری ہے

معجزات پر لکھنے والے اس موقعہ پر عموماً انجیل کی اصلیت اور قدامت اور معتبری ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا جن کتابوں میں مسیحی معجزات درج ہیں وہ انہیں اشخاص کی لکھی ہوئی ہیں جن سے ان کی تصنیف منسوب کی جاتی ہے یا نہیں ؟ ہم اس چھوٹے سے رسالے میں اس وسیع مضمون کا ذمہ نہیں لے سکتے تاہم اتنا کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قدیم زمانوں میں کبھی کسی نے انجیل کی قدامت اور معتبری پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ بلکہ مخالف اور معاون سب ان کتابوں کو رسولوں کی تصنیف سمجھتے تھے۔مگر متاخرین نے جب فوق العادت اظہارات اور معجزانہ واقعات کے امکان کا انکار کرنا شروع کیا تو یہ سوال برپا ہوا کہ انجیل کے ساتھ جن میں مسیح کے معجزات پر تواریخی گواہی موجود ہے کیا کیا جائے ؟ انہوں نے دیکھا کہ اگر ہم انجیل کو اصلی مانتے ہیں تو ہم کو یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ مسیح کے معجزات برحق ہیں۔ پریہ ہم نہیں کرسکتے۔ پس اس دقت کو رفع کرنے کے لئے انہوں نے انجیل کی اصلیت اور قدامت ہی کا انکار کر دیا اور کہا کہ وہ متی اور مرقس اور لوقا اور یوحنا کی تصنیف ہی نہیں ہیں۔ بلکہ دوسری صدی کے آخری حصے میں کسی وقت لکھی گئیں۔ اور ان کے مصنفوں نے مسیح کی شان اور نام بڑھانے کے لئے معجزانہ قصے اور کہانیاں بھی اُن میں شامل کر دیں۔ پروفیسر بروس صاحب کا یہ خیال بالکل صحیح ہے کہ اگر وہ معجزانہ عنصر جو انجیل میں پایا جاتا ہے نکال دیا جائے تو پھر وہ لوگ جو اب انجیل کی اصلیت پر حملہ کرتے ہیں کبھی نہ کریں۔ بیشک انجیل کی اصلیت میں تو کسی طرح کا نقص نہیں پایا جاتا۔ پر وہ لوگ جو معجزات کے منکر ہیں مجبور ہیں کہ ان کی اصلیت اور قدامت پر نقص چسپاں کریں۔

گو ہم اس جگہ انجیل کی قدامت اور اصلیت اور معتبری پر بہت کچھ لکھنے کو تیار نہیں۔ تاہم اتنا کہے بغیر خاموش بھی نہیں رہ سکتے۔ کہ مسیحی علماء نے مخالفوں کے اعتراضوں کے جو جواب دئیے ہیں وہ نہایت زبردست بلکہ فیصلہ کن ہیں۔

انجیل کی اصلیت کے ثبوت میں جو دلیلیں مختصر طور پر پیش کی جاتی ہیں

انجیل کی اصلیت کے دو طرح کے ثبوت پیش کئے جاتے ہیں جو بیرونی اور باطنی کہلاتے ہیں۔ بیرونی ثبوتوں سے وہ گواہیاں مراد ہیں جو قدیم مسیحی بزرگوں اور بدعتیوں اور معترضوں کی تصنیفات اور دیگر خارجی اسباب سے بہم پہنچتی ہیں۔ مثلاً اگر ہم قدیم مسیحی بزرگوں کی تصانیف کو لیں اور سلسلہ تحقیقات شروع کریں توہم دیکھیں گے کہ تیسری چوتھی صدی سے لے کر رسولی زمانہ تک ان بزرگوں کی گواہی برابر چلی جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ وہ اپنی تصانیف میں ہماری موجودہ انجیل کے بے شمار مقام اقتباس کرتے ہیں۔ اور نیز ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ اس انجیل کو انہیں مصنفوں سے منسوب کرتے ہیں۔ جن سے ہم منسبو کرتے ہیں۔ زمانہ حال کے معترض اس ثبوت کے زور کو محسوس کرتے ہیں۔ پر اُسے نظر انداز کرنا چاہتے ہیں مگر کون بآسانی کو رد کرسکتا ہے ؟ اگر ہمارے ناظرین اس مضمون کے متعلق کتاب ” زندہ مسیح اور انجیل اربعہ” کا مطالعہ فرمائیں تو اُن پر واضح ہو جائے گا کہ انجیل شریف کی اصلیت کے ثبوت میں یہ دلیل لاجواب ہے۔

مسیحی مذہب کے قدیم مخالف انجیل کی اصلیت کے قائل

ماسوائے اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان مسیحی بزرگوں کے مخالف تھے اور ان سے مذہبی بحث کیا کرتے تھے وہ بھی اس انجیل کی اصلیت اور معتبری پر شک نہیں لاتے۔ البتہ وہ مسیحی تعلیمات اور مسائل پر حملہ کیا کرتے تھے۔ مگر اس کا انکار نہیں کرتے تھے کہ متی کی انجیل کو متی نے اور مرقس کی انجیل کو مرقس نے اور لوقا کی انجیل کو لوقا نے اور یوحنا کی انجیل کو یوحنا نے تحریر کیا ہے۔

انجیل کی باطنی خاصیت بھی اُن کی اصلیت اور قدامت کو ثابت کرتی ہے

لیکن زمانہ حال کے مخالفوں نے بیرونی شہادتوں سے کسی قدر روگردانی اختیار کی ہے اور انجیل کی باطنی خاصیتوں کی نکتہ چینی پر زیادہ زور دیا ہے۔ چنانچہ طرز تحریر کے تفاوتوں۔ عبارت کی خاصیتوں اور لفظوں کی بحثوں اور اسی طرح کی کئی اور باتوں پر یہ دعویٰ قائم کیا ہے کہ یہ انجیل دوسری صدی میں تصنیف کی گئی تھیں۔ لیکن مسیحی علماء نے انجیل کی عبارتوں اور لفظوں اور لوکل واقعات اور خصوصیات سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ انجیل اصلی ہے۔ انگریزی زبان میں بے شمار کتابیں اسی دلچسپ بحث کے متعلق موجود ہیں وہ یا تو خاص اسی مضمون پر لکھی گئیں ہیں یا علم انٹرودکشن سے علاقہ رکھتی ہیں۔ شائقین ان کتابوں کو دیکھ کراس مضمون کی نسبت خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔

نتیجہ

اب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن کتابوں میں مسیح کے معجزات مندرج ہیں وہ انہیں لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جو ان معجزات کو بچشم خود دیکھنے والے تھے۔ اب ہم ان باتوں پر غور کریں گے جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مسیح کے معجزات جو انجیل میں قلمبند ہیں وہ چشم دید گواہوں کی بنا پر قبول کرنے کے لائق ہیں۔مگر ان کا شمار پیش کرنے سے پیشتر ایک اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیحی مذہب کے سوائے اور کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے اپنے دعووں اور تعلیموں کے ثبوت میں معجزات کی شہادت پیش کی ہو۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ شاذ ہی کوئی ایسا مذہب ہو گا جس کے پیروؤں نے اپنے رہبر یا بانی سے کسی نہ کسی طرح کے عجیب کام منسوب نہ کئے ہوں مگر فرق یہ ہے کہ وہ اپنے بانیوں کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں معجزات کو اسطرح پیش نہیں کرتے جس طرح مسیح مذہب کرتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ ان کے بانیوں نے کوئی ایسا معجزہ اپنے دعووں کے اشتہار کے ساتھ نہیں دکھایا جس کو لوگ اپنے حواس سے محسوس کرتے اور نقودیمس کی طرح بول اٹھتے "۔ اے ربی ہم جانتے ہیں کہ تو خدا کی طرف سے استاد ہو کر آیا ہے۔ کیونکہ کوئی یہ معجزے نہیں دکھا سکتا جب تک خدا اس کے ساتھ نہ ہو”۔ ہم پھر کہتے ہیں کہ ہمارا یہ دعویٰ نہیں کہ مختلف مذاہب نے کبھی معجزوں کا دعویٰ نہیں کیا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بت پرست قوموں کی تاریخ جھوٹے معجزوں کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔ پس جو ہمارا مطلب ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے مذاہب نے کبھی اپنے دعووں کی تصدیق کے لئے معجزات کو پیش نہیں کیا۔ بلکہ ان کے معجزات ان کے قائم ہو جانے کے بعد شہرت پذیر ہوئے۔ یا یوں کہیں کہ ان مذہبوں کا وجود اُن کے بانیوں کے معجزات پر مبنی نہیں۔ بلکہ ان کے معجزات کا وجود اُن مذہبوں کے وجود پر مبنی ہے۔ یعنی جب وہ مذہب قائم ہو گئے اور لوگوں نے ان کو قبول کر لیا تب معجزات نے بھی ان مذہبوں کے متعلق رواج پایا۔نہ کہ ان مذہبوں نے معجزات کے وسیلے ہستی کی صورت دیکھی۔ چند معجزانہ واقعات محمد صاحب سے بھی منسوب کئے جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی رسالت کے ثبوت میں کسی طرح کے معجزوں کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اُن لوگوں کو جو اُن سے نشانات طلب کرتے تھے۔ صاحب کہہ دیا کہ خدا کہتا ہے کہ ہم نے تجھے اس واسطے معجزانہ نشانات نہیں دئے کہ اگلی قوموں نے ایسے نشانات کو فریب سمجھا۔ ایک اور واقعہ پر لوگ ان سے یہ کہتے ہیں کہ جب تک توہم کو کوئی نشان نہیں دکھائے گا ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے جواب میں آنحضرت نے یہ کہا کہ اس قسم کے نشان دکھانا خدا کی قدرت میں ہے۔ اور وہ فرماتا ہے کہ کیا یہ تمہارے لئے کافی نہیں کہ میں نے تم کو قرآن دے دیا ہے۔ تاکہ تم اسے پڑھا کرو۔ ہم جانتے ہیں کہ محمد صاحب نے بعض فوق العادت باتوں کا دعویٰ کیا۔ مثلاً معراج کے وسیلے عرش معلیٰ کی سیر کرنا، جبرئیل کی مخفی اور پوشیدہ ملاقاتوں کا خط اٹھانا اور غیر مخلوق فرقان کا وقت بقوت نازل ہونا ان کے دعووں میں شامل ہے مگر ہم ان کو ایسے معجزات نہیں کہہ سکتے کہ جن کی درستی یا نادرستی حواس کے وسیلے دریافت کی جائے۔ کیا آنحضرت اس بات سے واقف نہ تھے کہ معجزات کے سبب سے گذرے زمانہ میں مسیحی مذہب کو بڑی اقبال مندی حاصل ہوئی ؟ ہاں وہ اس سے واقف تھے کہ معجزات کے سبب اس نے ترقی پائی۔ کیا لوگ ان سے معجزانہ نشانات طلب نہیں کیا کرتے تھے ؟ ہاں کیا کرتے تھے۔ کیا وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اگر معجزانہ نشانات دکھائے جائیں توایسا اثر ہو گا کہ بہت لوگ میرے دعووں کو قبول کریں گے۔ کیا انہوں نے فوق العادت سے بالکل کنارہ کشی کرنا مناسب سمجھا؟ نہیں انہوں نے کئی فوق العادت باتوں کا دعویٰ کیا۔ مثلاً جبرئیل کی ملاقاتیں، معراج اور غیر مخلوق قرآن کا نزول یہ سب باتیں خرق عادت پر دلالت کرتی ہیں اور وہ جانتے تھے کہ اگر یہ دعوے قبول ہو گئے تو عجیب قسم کی کامیابی نصیب ہو گی۔ یہ سب باتیں وہ جانتے تھے مگر پھر بھی انہوں نے کبھی ایسے معجزوں کا دعویٰ نہ کیا۔ اور نہ کوئی ایسا معجزہ دکھایا جس کے وقوع اور وجود کی تواریخی صحت چشم دید گواہوں کی گواہی پر مبنی ہوتی۔ گو محمد صاحب کے عجیب دعووں کو معجزانہ نشانات کی شہادت کی ضرورت تھی۔ گو انہوں نے بعض بعض فوق العادت واقعات کا جن کا گواہ سوائے اُن کے اور کوئی نہ تھا دعویٰ بھی کیا۔ اور گو ان کے معاصرین علم و تہذیب کے اعتبار سے ایسی لیاقت نہیں رکھتے تھے کہ حقیقی اور غیر حقیقی معجزات میں امتیاز نہ کرسکتے۔ کیونکہ ملک عرب اس وقت عجیب تاریکی میں مفلون تھا۔ تاہم باوجود ان اسباب کے آنحضرت نے کبھی کوئی ایسا معجزہ نہ دکھایا جسے غیر لوگ دیکھتے اور اپنے حواس سے محسوس کرتے اور پھر اس کی صحت پر گواہی دینے کے لئے جان پر کھیل جانے کو تیار ہو جاتے۔ ہم بڑی عجز اور انکسار سے عرض کرتے ہیں کہ کیا اس کا یہ سبب نہیں کہ آنحضرت جانتے تھے کہ جبرئیل کی ملاقات اور معراج کی سیر اور قرآن کے فوق العادت نزول کا دعویٰ کرنا آسنان ہے بہ نسبت ایسے معجزات دکھانے کے جن کی حقیقت سے عرب کے جاہل اور غیر مہذب باشندے بھی بوسیلے اپنے حواس کے بخوبی واقف ہوسکتے ہیں۔ پس بائبل ہی کا مذہب اکیلا وہ مذہب ہے جو اپنے دعووں کی تصدیق و تائید میں معجزات کی شہادت پیش کرتا ہے ہم ذرا آگے چل کر اس بات پر غور کریں گے۔ کہ جھوٹے معجزے کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ اور اُن میں اور مسیح کے معجزوں میں کیا فرق ہے۔ یہاں ہم اُن خاصیتوں کو ہدیہ ناظرین کرنا چاہتے ہیں جن کے ملاحظہ سے مسیح کی معجزانہ قدرت کی حقیقت ظاہر ہوتی اور اس کے معجزانہ کاموں پر روشنی گرتی ہے۔ مسیحی علما نے ذیل کی باتیں اس خصوص میں پیش کی ہیں۔

مسیح کے بہت سے معجزے ایسے ہیں جن کے وقوع کو فطرت کی طاقتوں سے منسوب نہیں کرسکتے

(۱۔) جو معجزانہ واقعات مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں ان میں سے کئ ایسے ہیں جن کو کسی طرح فطری اسباب سے منسوب نہیں کرسکتے۔ یعنی ان کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سوپرنیچرل (فوق العادت ) قدرت صرف نہیں ہوئی۔بلکہ انہیں نیچر کی طاقتوں نے پیدا کیا اور مسیحیوں نے سہو سے ان کو معجزہ مان لیا۔ مثلاً اگر یہ درست ہو کر پانچ ہزار اشخاص کو آسودہ کرنے سے پہلے واقعی سوائے پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں کے اور کچھ موجود نہ تھا۔ اگر یہ درست ہو کہ صوبہ دار کا خادم مسیح کے اس کلمہ جاں بخش سے اچھا ہو گیا جو اُس کی زبان مبارک سے اس وقت نکلا جبکہ وہ صوبہ دار کے گھر سے بہت دور کھڑا تھا۔ اگریہ سچ ہو کہ ایک جنم کا اندھا فقط مٹی لگانے اور شیلوخ کے حوض میں نہانے سے بینا ہو گیا۔ اگر یہ صحیح ہو کہ لعزر جو چار دن سے قبر میں مدفون تھا۔ مسیح کے کلام سے مردوں میں سے جی اٹھا تو یہ سب واقعات ایسے واقعات ہیں جو معجزانہ قدرت کے سوائے اور کسی طرح وجود میں نہیں آسکتے تھے۔ کیونکہ ان کی شرح اور کسی بنا پر نہیں ہوسکتی۔ پس ہم دو نتیجوں میں سے ایک نتیجہ کو قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں یا توہم رسولوں کی گواہی کو رد کر کے ان واقعات کی معجزانہ خاصیت کا انکار کریں۔ یا یہ مانیں کہ یہ واقعات حقیقت میں معجزے ہیں۔

مسیح کے معجزات حواس خمسہ سے پہچانے جاتے تھے

(۲۔) مسیح کے معجزات اس قسم کے تھے۔ کہ دیکھنے والے اپنے حواس کے وسیلے ان کی حقیقت اور درستی پر رائے زنی کرسکتے تھے۔ معجزات کے لئے یہ لازمی امر ہے کہ دیکھنے والوں کو ان کے وجود پر کسی طرح کا شک و شبہ نہ رہے۔ اور اس شناخت کے لئے علم اور تہذیب کی چنداں ضرورت نہیں۔ کیونکہ عالم اور جاہل سب اپنے حواس کے وسیلے اس بات کا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آیا وہ واقعہ جو ہم دیکھ رہے ہیں درحقیقت واقع ہو رہا ہے یا نہیں۔ مثلاً جب نائین کی بیوہ کے مردہ فرزند کا جنازہ قبرستان کی طرف جا رہا تھا اس وقت عالم اور جاہل مرد اور عورت، دوست اور مخالف سب دیکھ رہے تھے کہ وہ مرگیا اور لوگ اسے دفن کرنے کو لئے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے بیوہ اور اس کے ہمدرد دوستوں کو ماتم کرتے دیکھا۔انہوں نے مسیح کو جنازہ ٹھیراتے اور اس مردہ نوجوان کو اپنے کلام سے زندہ کرتے دیکھا۔ اور پھر اس کے بعد اس کو ایک مدت تک نائن شہر میں بود و باش کرتے دیکھا۔ انہوں نے اپنے حواس سے اس معجزے اور دیگر معجزات کی سچائی کو مسحوس کیا۔

ان معجزوں کو نہ صرف دوست بلکہ غیر بھی دیکھتے تھے

(۳۔)مسیح کے معجزات برملا طور پر دکھائے گئے۔ ان کے دیکھنے والے نہ صرف مسیح کے شاگرد ہی تھے۔ بلکہ اغیار بھی تھے۔ اس کے دشمن جواس کی اور اس کے دعووں کی بیخ کنی کرنا چاہتے تھے ان کو دیکھتے تھے۔ ارباب علم و فضل اور ناخواندہ اور اجہل صاحب مال و منال اور بے برگ و بے کنگال۔ فریسی اور کاہن صوبہ دار اور محصول لینے والے سب اس کے معجزوں کو دیکھتے تھے۔

ہر جگہ دکھائے جاتے تھے

وہ اپنے معجزے کونے میں گھس کر نہیں دکھایا کرتا تھا۔ اس کی قدرت کے کرشمے جا بجا جلوہ گر ہوتے تھے۔ وہ عبادت خانوں اور بازاروں، کھلے میدانوں اور لوگوں کے گھروں میں سرزد ہوتے تھے۔ بارہا یروشلیم میں عیدوں کی تقریب پر جبکہ ہزارہا یہودی وہاں موجود تھے مسیح کے معجزات وقوع میں آتے تھے۔تعداد میں بے شمار تھے جن کا مفصل ذکر انجیل میں درج ہے

پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس کے معجزات بے شمار تھے۔ کیونکہ اس نے صرف وہی معجزات نہیں دکھائے جن کا تذکرہ انجیل میں قلمبند ہے۔ وہ مشتے نمونہ از خروارے کا کام دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم انجیل کے کئی مقامات سے سیکھتے ہیں کہ ان نے ماسوائے ان معجزات کے جن کا مفصل ذکر انجیل میں درج ہے اور بہت سے معجزات دکھائے۔ وہ شخص جو فریب سے کام لیتا ہے وہ صرف دو یا تین ہتھکنڈوں پر اکتفا کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر ان کا شمار زیادہ ہو گا اسی قدر میر ی شرارت کے فاش ہو جانے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ہندوستان میں زود اعتقاد لوگوں کے درمیان بارہا ایسے لوگ نمودار ہوتے ہیں جو اپنی کرامات سے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں مگر ان کی کامیابی تھوڑے سے عرصے میں کافور ہو جاتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی غداری کو بہت دیر تک چھپا نہیں سکتے۔ اگر مسیح بھی فریبی ہوتا اور نادانی سے بہت سی کراماتیں دکھانے کے لئے چالا کی کو کام میں لاتا تو اس کا نام اس کے مرنے سے پہلے مٹ جاتا۔ اور اگر وہ بہت ہوشیاری سے کام لیتا تو صرف دو تین اچنبھوں پر اکتفا کرتا۔ ماسٹر رام چندر بوس کا یہ قول بالکل صحیح ہے کہ ” مسیح کا بے شمار معجزات دکھانا اس بات کو بخوبی ثابت کرتا ہے کہ وہ نہ کوتہ اندیش دھوکے باز اور نہ چالا ک فریبی تھا۔بلکہ خدا کا بھیجا ہوا تھا۔ وہ اپنی فوق العادت قدرت سے بخوبی واقف تھا۔ اور اس عظیم الشان کام جن سے اس نے اپنی رسالت کو ثابت کیا حقیقی معجزات تھے "۔

اور وہ موقعے بھی جن پر وہ اپنے معجزات دکھاتا تھا۔ مختلف اقسام کے ہوتے تھے۔ پس کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے لئے پہلے سے تیاری یا سازش کی جاتی تھی۔ مثلاً جو کوئی بیماری سے شفا پانے کو آتا تھا۔ لوگ اس کی حالت  سے پہلے ہی واقف ہوتے تھے۔ اور پھر اس کے شفا پانے کے بعد اس کے حالات سے بخوبی آگاہ ہوسکتے تھے۔ جو لوگ مردوں سے زندہ کئے جاتے تھے وہ زندہ ہوتے ہی مر نہیں جاتے تھے۔ اور نہ کسی ایسی جگہ چھپ جاتے تھے کہ ان سے ملنا ناممکن ہوتا۔ بلکہ وہ جینے کے بعد اپنے رشتے داروں اور جان پہچانوں کے ساتھ برابر اٹھتے بیٹھتے تھے۔ وہ مسیح کی قدرت کی ایک زندہ مثال تھے۔ مثلاً لعزر کی قبر کے ارد گرد کئی یہودی جو سیدنا مسیح کی مسیحائی کے قائل نہ تھے موجود تھے۔ وہ دریافت کرسکتے تھے کہ کیا وہ زندہ ہوا ہے یا جھوٹ موٹ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہو گیا ہے ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ زندہ ہونے کے بعد وہ ان کی نظروں سے غائب نہیں ہوا بلکہ تھوڑی دیر کے بعد بیت عینا میں ضیافت کے موقعہ پر ان کے ساتھ شامل ہوا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کئی اور یہودی اس جگہ آئے تاکہ اسے جو مردوں میں سے زندہ ہوا تھا دیکھیں۔علاوہ بریں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ کاہنوں نے مل کر یہ منصوبہ باندھا کہ اسے جان سے مار ڈالیں کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ بہت سے یہودی اسی کے سبب سے مسیح پر ایمان لائے ہیں۔

مسیح کے معجزے مختلف قسم کے تھے

(۴۔) لیکن ایک اور صفت مسیح کے معجزوں کی ہے کہ وہ طرح طرح کے تھے۔ اس نے فقط دو یا تین قسموں کی بیماریوں کو چنگا نہیں بلکہ مختلف قسم کے امراض کو دور کیا۔ اس کے کلام معجز نظام سے طرح طرح کے مریضوں نے شفا پائی۔ بلکہ مردے بھی اپنے قبروں سے جی اٹھے جنم کے اندھے بے اُمید کوڑھی، اور وہ جو ما کے شکم سے لنگڑے پیدا ہوئے تھے اور وہ جو سوکھ کر کا نٹا ہو گئے تھے۔ وہ جو فالج کے پنجہ میں گرفتار اور دیوانہ پن کے شکار ہو گئے تھے سب اس کے کلمہ اعجاز سے شفا یاب ہوئے دو مرتبہ اس نے ہزارہا اشخاص کو معجزانہ طور پر کھانا کھلا کر سیر وآسودہ کیا۔ تین مردوں کو زندہ کیا۔ سمندر اس کا مغلوب اور فطرت کی قوتیں اس کی محکوم تھیں۔

فی الفور وجود میں آتے تھے

اس موقعہ پر یہ بھی جتا دینا ضروری ہے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا مسیح کے معجزوں کی ایک یہ عجیب خصوصیت تھی کہ جوں ہی کلام اس کے منہ سے نکلتا تھا اسی وقت مریض فائز المرام ہو جاتا تھا۔ نہ کبھی دیر لگتی اور نہ شفا میں نقص رہتا تھا۔ بلکہ شفا اعلیٰ طور پر اور علے الفور نمودار ہوتی تھی۔

مسیح کبھی کسی معجزے کے قصد میں ناکام نہیں رہا

علاوہ بریں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک دفعہ بھی معجزہ دکھانے کے قصد میں ناکام نہیں رہا۔ جس معجزے کا ارادہ اس نے کیا وہی وجود میں آیا۔ کیا ان فقیروں اور رمالوں میں یہی بڑا نقص نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کبھی کبھی پورا ہوتا ہے۔ لوگ منتیں مانتے اور مرادیں مانگتے ہیں اور اگر اتفاق سے کوئی بات پوری ہو جاتی تو زود اعتقاد لوگو ں کا اعتقاد اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پر وہ اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ اگر ان لوگوں میں سچ مچ مرادیں عطا ہونے کی قدرت ہو تو ان کی بات رائگاں نہ جائے بلکہ ایک ایک وعدہ تیر بہدف کا کام دے۔ اب اگر مسیح معجزانہ اظہاروں کے متعلق کبھی کبھی کامیاب ہوتا تو لوگ فوراً اس بات کو جان لیتے اور اس کے فریب کا بھانڈا پھوڑ دیتے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ مسیح کے مخالف اس سے اکثر بحث کیا کرتے تھے۔اور اس کے بعداس کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں کے ساتھ بحث کرتے تھے۔ اس بحث اور مناظرے کی کتابیں اب تک موجود ہیں۔ مگر کبھی کسی نے یہ الزام نہ لگایا کہ تمہارے ہادی نے فلاں وقت فلاں معجزہ دکھانے کی کوشش کی پر وہ کامیاب نہ ہوا۔

اب اگر یہ بفرض محال مان لیا جائے کہ وہ تمام معجزات جو کہ انجیل میں درج ہیں سب کے سب فریب پر مبنی ہیں تو ہماری رائے میں یہ بات بجائے خود ایک عجیب معجزہ ہو گی کہ باوجودیکہ مسیح کے تمام معجزات فریب پر مبنی تھے مگر پھر بھی وہ اس فریب دہی میں ایسا کامیاب نکلا کہ کبھی کسی شخص نے ایک دفعہ بھی اس کی نا کامیابی اور فریب کو نہ پکڑا۔ تعجب ہے کہ جن فریب آمیز اسباب کو وہ کام لایا کرتا تھا ان کی کل پُرزے ایسے کا رکن اور کارگر تھے کہ کبھی ان میں نقص نہیں آتا تھا اور اس کے فریب کا سکہ ایسا جم گیا تھا کہ عالم اور عاقل، نادان اور جاہل، دیندار اور بے دین سب کے سب اس کے جل میں آ جایا کرتے تھے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ زود اعتقاد کون ہے ؟ کیا وہ شخص جو مسیح کے معجزوں کا قائل ہے یا وہ شخص جو اُن کا انکار کرتا ہے۔

انجیلی معجزات کی گواہی کا فیصلہ کرتے وقت یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کتنے عرصہ میں دکھائے گئے

اسی کے ضمن میں ایک اور بات غور طلب ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں مسیح اور اس کے شاگردوں کے معجزات کی سچائی کا موازنہ کرتے وقت یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے اور اس کے شاگردوں کے معجزے کتنے عرصے میں سرزد ہوئے۔ مسیح کے زمانہ سے لے کر اس کے آخری شاگردوں کی موت تک ستر سال کا عرصہ حائل ہے اور ہمیں انجیل کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام عرصہ میں معجزانہ صحت کا چشمہ فیض برابر جا رہا۔ اور ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ جس قدر جو فروشی اور گندم نمائی زیادہ دیر تک اختیار کی جاتی ہے اسی قدر شرارت کی پردہ دری کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔ اب کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ستر برس تک مسیح اور اس کے شاگرداس مکاری اور عیاری کے کام میں مصروف رہے۔ پر کسی نے ان کا منہ بند نہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ وہ سب کے سب ایک ہی جگہ اکٹھے نہیں رہے بلکہ مسیح کی وفات کے چند دن بعد اِ دھر اُدھر تتر بتر ہو گئے۔ نیز یہ یاد رکھیں کہ یہ معجزات چھوٹے چھوٹے گاؤں میں نہیں دکھائے گئے جہاں لوگ چالاکی اور شرارت کو دریافت کرنے کی لیاقت نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ رومی سلطنت کے اُن بڑے بڑے شہروں میں دکھائے گئے جہاں علم و ہنر کی روشنی خوب چمکتی تھی۔ کیا ایسے ایسے شہروں میں بھی مسیح اور شاگرد اپنی چالا کی یا مکاری سے باز نہ آئے واضح ہو کہ فریب دینے والے ایسا نہیں کرتے۔ کوئی بے وقوف ایسے کوتہ اندیش کام کرے تو کرے مگر بے وقوفوں کی بے وقوفی فوراً فاش ہو جاتی ہے۔

لوگ ان معجزوں کی حقیقت کو بخوبی جان سکتے تھے

(۵۔ ) ایک اور بات جو ہم ناظرین کے غور کے لئے پیش کرتے ہیں یہ ہے کہ لوگ مسیح کے معجزوں کی حقیقت سے اسی وقت جبکہ وہ وقوع میں آتے تھے۔ بلکہ وقوع سے بہت مدت بعد بھی ان کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوسکتے تھے۔ یاد رہے کہ جھوٹے معجزے اسی وقت بازار خریداری میں قیمت پاتے ہیں۔ جبکہ حاکم وقت اور اصحب اقتدار اشخاص کی رائے اور عام لوگوں کا خیال اُن کے حق میں نیک ہو پر اگر حکام کا سایہ سرپر نہ ہو اور لوگ مخالفانہ پہلو اختیار کریں اور فریبی اتنے معجزے دکھائے جتنے مسیح نے دکھائے تو تھوڑے ہی دنوں میں فریب کی قلعی کھل جائے۔ اب اگر آپ تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو گا۔ کہ مسیح کے زمانہ میں بعینہ یہی حال تھا۔ اس کی انجیل کو حاکم وقت کا سایہ عاطفت کبھی نصیب نہ ہوا۔ لوگوں نے کبھی ہمدردی نہ دکھائی تمام دنیا اس کی مخالف تھی تاہم اس نے اپنے معجزات اپنی مسیحائی کے ثبوت میں پیش کئے۔ اور ایسی جگہوں میں قوت اعجاز کے کرشمے ظاہر فرمائے جہاں خاص و عام جمع ہوتے تھے اور چونکہ انجیل کا مقصد یہ تھا کہ یہودی مذہب کی دینی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور مسیحی مذہب کا پھر یرا غیروں قوموں کے بوسیدہ مذاہب کے کھنڈرات پر لہرائے۔ لہذا اس کے ان دعووں کو دیکھ کر دنیا کی حکومت کی عداوت۔ یہودی اور بت پرست کاہنوں کی مخالفت۔ تمام لوگوں کے تعصبات کی روک سارے زور سے اس کی انجیل کی مخالفت پر ڈٹی ہوئی تھیں۔ خصوصاً یہودی کاہنوں اور فریسیوں اور فقہیوں کے عناد اور بغض اور کینے کی تو کوئی حد ہی نہ تھی جوں جوں اس کے معجزات کو دیکھ کر لوگ اس کی پیروی اختیار کرتے جاتے تھے اسی قدر ان کی آتش حسد زیادہ بڑھتی جاتی تھی۔ کیا آپ قیاس کرسکتے ہیں کہ ان لوگوں نے جو اس کے مخالف تھے ان معجزات کی سچائی اور جھوٹ کے دریافت کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا رکھا ہو گا۔

دشمنوں کے پاس ان معجزوں کو دیکھنے واسطے کافی موقعہ موجود تھا

واضح ہو کہ اس کے دشمنوں کے پاس معجزات کے سچ اور جھوٹ کو جاننے کے لئے عمدہ اور موزون موقعے موجود تھے اور لوگوں نے اکثر اپنے بزرگوں سے معجزات منسوب کئے ہیں مگر وہ دائرہ تحقیقات سے ہمیشہ باہر پائے گئے ہیں مثلاً فرانسیس زیویر سے بھی کئی معجزات منسوب کئے گئے ہیں پر اگر پوچھا جائے کہ کہاں اور کب سرزد ہوئے تو ان سوالوں کے جواب اس صورت میں دئے جاتے ہیں کہ ان کی نسبت تحقیق کرنا نہایت مشکل بلکہ محال معلوم ہوتا ہے کون اُن مشرقی ممالک میں گھومے جہاں جہاں زیویر گھوما۔ کون ان لوگوں کو جمع کرے جو اس وقت ان جگہوں میں رہتے تھے۔ کون اُن سے پوچھے کہ تم زیویر کے معجزوں کی نسبت کیا کہتے ہو۔کیا زیویر نے کبھی تمہارے سامنے معجزہ دکھانے کا دعویٰ کیا ؟ پر مسیح کے معجزوں کی نسبت ایسا نہیں کہا جا سکتا رسولوں نے اُن معجزوں کی اُنہیں جگہوں میں منادی کی جہاں وہ دکھائے گئے تھے۔ بلکہ برعکس اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کاہن اور فقیہہ اور فریسی اس کے معجزات کے متعلق مشورہ کرتے تھے اور جب دیکھتے تھے کہ ہم ان کا انکار نہیں کرسکتے تو آخر کار بعل زبول سے منسوب کرتے تھے۔ مگر ان کے وقوع کا انکار ہر گز نہیں کرسکتے تھے اس کے شاگرد بڑی دلیری اور بیباکی سے مسیح کے معجزات کی منادی سب لوگوں کے سامنے کیا کرتے تھے۔ چنانچہ دیکھئے کس طرح پطرس نے پنتیکوست کے موقعہ پر ہزارہا لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر جو جگہ جگہ سے یروشلیم میں آئے ہوئے تھے یہ کہا”۔ اے اسرائیلی مردو یہ باتیں سنو کہ یسوع ناصری ایک مرد تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم ثابت ہوا۔ان معجزوں اور اچنبھوں اور نشانیوں سے جو خدا نے اس کی معرفت تمہارے بیچ میں دکھائیں”۔ اعمال ۲: ۲۲ وہ لوگ اسی قسم کی بار بار منادی کیا کرتے تھے۔ کیا آپ خیال کرسکتے ہیں کہ کیا ایسے دعویٰ سن کر لوگ خاموش بیٹھتے رہتے تھے کسی طرح کی تحقیقات نہیں کیا کرتے تھے ؟

اس کے ساتھ ساتھ اس خیال کی طرف بھی توجہ فرمائیے کہ وہ شخص کون تھے جن کے معجزانہ کاموں کا امتحان اور ملاحظہ اس طرح کیا جا سکتا تھا۔ اگر وہ لوگ زیور علم سے آراستہ ہوتے۔ اگر دولت کے سازوسامان سے مالا مال ہوتے یا یوں کہیں کہ اگر ان کے پاس فریب وہی کے سب سامان اور اسباب مہیا ہوتے تو شاید اُن کی فتنہ پردازیوں کی پوست برکندہ کرنا مشکل ہوتا۔ پر مسیح اور اس کے شاگرد کیا تھے جو فریب کاری میں بے روکے ٹوکے کامیاب ہوتے چلے جاتے ان کو نہ اپنی سوسائٹی میں اور نہ علم و ہنر کی دنیا میں ایسا رتبہ حاصل تھا کہ اُن کے فریب کی پردہ دری نہ ہوتی۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی معجزہ ہوسکتا ہے کہ ایک نواز بڑھئی جس نے کبھی کسی مدرسے یا سکول میں تعلیم نہیں پائی تھی۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ جو گمنام اور اَن پڑھ سے مچھوے تھے اور سوائے ماہی گیری کے اور کچھ نہیں جانتے تھے مل کر ایک ایسا عجیب منصوبہ فریب کا باندھا کہ ہزار ہا دشمنوں میں سے جو بخوبی اس کی اور اس کے شاگردوں کی شرارت کو دریافت کرسکتے تھے ایک بھی ایسا نہ نکلا جو اُن کے بھید سے واقف ہو کر ان کی سازش کو طشت از بام کر دیتا۔

(۶۔) پھر ایک اور قابل یاد بات ہے۔ کہ تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم مسیحیوں کو لوگوں نے بہت پھسلایا اور دھمکایا کہ وہ اُ س عقیدے کوجسے انہوں نے معجزوں کی شہادت کے زور پر قبول کیا تھا چھوڑ دیں لیکن انہوں نے اپنی جان دیدی مگر یہ نہیں کہا کہ ہم نے معجزے نہیں دیکھے بلکہ بڑا دھوکا کھایا ہے۔ ہاں ان میں سے کبھی کسی نے یہ نہ کہا کہ جن فوق العادت اظہارات کو درست سمجھ کر ہم نے انجیل کی تعلیمات کو قبول کیا تھا۔ وہ جھوٹ نکلے۔ دعوے یہ نہیں کہ کبھی کسی شخص نے قدیم زمانہ میں مسیحی عقیدے کو ترک نہیں کیا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ کئی ضعیف ایمان لوگوں نے شکنجوں اور آگ کے شعلوں اور تلوار کی دھار کے ڈر سے مسیح کے نام کا انکار کیا۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ وہ معجزے جن کو ہم نے صحیح جانا تھا جھوٹے تھے وہ مسیح پر ایمان لاتے تھے ان کو رسولوں کے پوشیدہ حال سے بخوبی واقفیت ہو جاتی تھی کیونکہ وہ مسیحی ہونے کے بعد مسیحی مذہب کے ہمدرد سمجھتے جاتے تھے لہذا ان سے کسی طرح کا پردہ نہیں تھا۔ اگر مسیح اور اس کے شاگرد اپنے معجزات کے معاملے میں جھوٹے ہوتے اور اگر وہ کسی طرح چالاکی کو کام میں لاتے تو وہ لوگ جو اُن سے آملے تھے ضرور اُن کی چالاکی کو جان لیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان میں سے وہ جنہوں نے پھر مسیح کا انکار کیا ضرور اگر کوئی چالا کی یا فریب ہوتا۔ تو انشاء راز کر دیتے اول تو وہ خود ہی عیسایئوں کے دھوکے سے تنگ آ کر ایسا کرتے ، دوئم مسیح کے دشمنوں کے سامنے ایسا کرنے سے بہت سا انعام بھی پاتے۔ اب یہ بات یہودا اسکر یوطی کے حال سے بخوبی کھل جاتی ہے۔ وہ اُن بارہ شاگردوں میں سے تھا جو ہمیشہ مسیح کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ وہ روپیہ پیسے کا حساب رکھا کرتا تھا۔ اگر مسیح کے کاموں پر کسی طرح کا پردہ پڑا ہوا تھا تو یہود ا اس سے بخوبی واقف تھا۔ اگر سیدنا مسیح کسی فریب سے کام لیا کرتا تھا تو یہوداہ جانتا تھا۔ کہ وہ فریب کیا ہے۔ اور اس فریب کو طشت از بام کرنا بھی اس کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ کیونکہ جب اس نے خود معجزے دکھانے والے (یعنی یسوع) کو پکڑوا دیا تواس کے فریب کو (اگر فریب اس کے کاموں میں داخل ہوتا )فاش کرنا اس کے لئے ناممکن کام نہ تھا ماسوائے اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے لئے ہر طرح کی ترغیب موجود تھی کہ چھپے ہوئے رازوں کو فاش کر ڈالے۔ چنانچہ اگر کوئی فریب ہوتا۔ اگر کوئی چالا کی ہوتی اور وہ اسے ظاہر کر دیتا تو ایسا کرنے سے اُسے زیادہ روپے اپنی خدمت کے صلے میں دستیاب ہوتے۔ پر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا اس نے کوئی ایسی بات مسیح کے دشمنوں کو بتائی جس سے یہ ثابت ہوتا۔ کہ مسیح کے معجزے چالا کی یا فریب کے ہتھکنڈے تھے ؟ برعکس اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ مسیح کے بدن کو تو مصلوب ہونے کے لئے پکڑوا دیتا ہے۔ مگراس کی سیرت پر کسی طرح کا عیب نہیں لگا۔ وہ اس کے کاموں کو فریب سے منسوب نہیں کرتا۔ اور نہ اُن کی حقیقت کا منکر ہے۔ آپ ذرا کائفا کے دربار کا ملاحظہ فرمائیں۔مسیح وہاں بصورت مجرم موجو دہے۔ گواہ طلب کئے جاتے ہیں۔ کیا یہودا ان گواہوں کے درمیان موجود ہے ؟ جھوٹے گواہ تو حاضر ہیں۔ پر یہوداہ کہاں ہے ؟ کیا وہ شخص جس نے اُس کے بدن کو تیس روپیہ کو بیچ ڈالا۔ اب اُس کے برخلاف کچھ نہیں کہے گا؟ کیا کائفا اور دیگر مخالف اس نکتے کو نہیں سمجھتے کہ اس موقعہ پر یہواد کی گواہی اکسیر ہو گی؟ کیا یہودا نہیں جانتا کہ اگرایک لفظ بھی اس موقعہ پر اپنی زبان سے کہہ دوں تو حبیب دِرموں سے پُر ہو جائے گی ؟ ہاں یہودا کی گواہی جو وقعت اس وقت ہوسکتی تھی اسے یہودی اور یہودا بخوبی جانتے تھے۔ تاہم یہودا نے کوئی الزام مسیح پرنہ لگایا۔بلکہ اس نے بڑے عجیب طور پر مسیح کی راستبازی اور اس کے کاموں کی سچائی پر گواہی دی۔ یہودا بڑا لالچی اور طامع شخص تھا۔ اُس نے اپنی طمع کے سبب سے مسیح کو پکڑوایا مگر بعد میں جب ضمیر کی کاوش نے ستانا شروع کیا تو اس نے وہ روپے جو مسیح کے دشمنوں سے ملے تھے پھینک دئیے۔ اور کاہنوں اور بزرگوں کے روبرو اقرار کیا کہ ” میں نے گناہ کیا کہ بے قصور کو قتل کے لئے پکڑوایا "۔ یاد رہے۔ کہ یہودا جانتا تھا۔ کہ میری اس حرکت سے ان لوگوں کا نائیرہ غضب مشتعل ہو جائے گا۔ مگر پھر بھی اس نے مسیح کی بے گناہی کا اقرار کیا۔ پر اُس نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ضمیر کی ملامت سے تنگ آ کر اپنے تئیں قتل کر ڈالا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ وہ روپیوں کو مقدس میں پھینک کر چلا گیا اور جا کر اپنے آپ کوپھانسی دی”۔ اگر ہم کسی بات کی صداقت اور راستی کی گواہی چاہتے ہیں۔ تو ہمیں اس سے بڑھ کر اور کوئی مضبوط گواہی نہیں مل سکتی۔

اگر انجیلی معجزات فی الحقیقت وجود میں نہ آئے تو مسیح اور اس کے شاگردوں نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا

(۷۔) واضح ہو کہ ان معجزات کے متعلق دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ماننی پڑتی ہے۔ یعنی یا تو ہم یہ مانیں کہ وہ معجزات جن کا ذکر انجیل میں درج ہے فی الحقیقت وجود میں آئے اور یا ہم نہ یہ مانیں کہ کوئی معجزہ سرزد نہیں ہوا بلکہ لوگوں نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ معجزہ وقوع میں آیا ہے۔ اب اگر مسیح کے معجزات حقیقی معجزات نہ تھے۔ اگراس کے رسولوں کے معجزات حقیقی معجزات نہ تھے تو وہ لوگ جو معجزہ دکھانے کا دعویٰ کرتے تھے۔ یعنی مسیح اور اس کے رسول جانتے تھے کہ جب ہم ان کاموں کو معجزہ کہتے ہیں تو ہم جھوٹ بولتے ہیں۔ پس وہ جانتے تھے کہ ہمیں خدا نے مقرر نہیں کیا اور نہ اس نے ہم کو بھیجا ہے۔ مگر پھر بھی ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں خدا نے اپنا پیغام دیکر بھیجا ہے۔ اب اگر یہ بات صحیح ہے تو وہ دیانت دار یا خدا پرست یا دیندار لوگ نہ تھے۔ کیونکہ اگر وہ دیانت دار اور دیندار لوگ ہوتے۔ اگر وہ صادق اور راستی پسند آدمی ہوتے تو ایسی جلعسازی کو کام میں نہ لاتے۔ پھر سوال برپا ہوتا ہے کہ انہوں نے اس جعلسازی کو کس مقصد سے اختیار کیا؟ کیا فائدہ نظر تھا۔ کہ جو کام معجزے نہ تھے انہوں نے لوگوں کی نظروں میں انہیں معجزے بنا دیا ؟ کیونکہ دغا باز اور دروغ گو لوگوں سے بھلائی کی توقع نہیں ہوسکتی اور نہ ہم اسے بھلائی کہہ سکتے ہیں جس کی بنا دغا بازی اور جعلسازی پر قائم ہے۔ پس اُن کا مقصد سوائے اپنی حرص اور لالچ کو پورا کرنے کے اور کچھ نہ تھا۔ اگر اب یہ دعویٰ درست ہو تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے اپنے لالچ کو پورا کرنے کے لئے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جس سے سوائے حماقت اور نقصان کے اور کچھ نہیں ٹپکتا کیونکہ ایسے طریقوں کے اختیار کرنے سے دنیاوی غرض کبھی پوری نہیں ہوسکتی اب آپ تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کریں کہ وہ جھوٹے اور جعلسازآدمی تھے۔ کہ وہ اپنی مطلب براری کے لئے معجزوں کا دعویٰ کیا کرتے تھے اور اُن کے معجزات کو نظر تعمق سے دیکھتے ہوئے ان میں کسی دنیوی غرض کا سراغ لگائیں۔ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ اُن میں یہ سراغ لگا سکیں گے۔ کہ مسیح اور اس کے شاگرد حریص اور دنیا دار آدمی تھے ؟ اگر آپ ان معجزات کا اور مختلف موقعوں اور حالتوں میں دکھائے گئے تھے تاہم اُن سے کوئی دنیاوی غرض نہیں ٹپکتی ہے۔ اگر ہم اُنہیں جھوٹے معجزے تصور کریں تو اور بھی حیرت آتی ہے کہ اُن پر ایسی عجیب حکمت سے روغن کیا گیا ہے ک دیکھنے والوں میں سے ایک نے بھی ان کے اصل مطلب کو نہ پہچانا۔ اب کسی ملک یا کسی زمانہ کے جھوٹے معجزوں کو لیجئے اور تاریخی حالات دریافت کیجئے۔ آپ کو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ ان کے مدعیوں کا اصل مطلب کیا تھا۔پر اگر مسیح اور اس کے شاگردوں کے معجزے جھوٹے معجزے تھے تو یہ ماننا پڑے گا۔ کہ انہوں نے سب معجزوں سے انوکھا معجزہ یہ دکھایا کہ اپنی اصل غرض کو ایسی حکمت سے چھپایا کہ کوئی شخص اُسے نہ جان سکا۔ بات اصل یہ ہے کہ اُن سے کسی طرح کی دنیوی غرض، کوئی ادنے مقصد متشرح نہیں ہوتا بلکہ ان کی خاصیت سے خدائے تعالیٰ کی الہی شوکت اُس کی پاکیزگی۔ اُس کا انصاف، اس کا فضل، اُس کا رحم اور اس کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔ ہاں مسیح کے معجزات اُس کی جلیل سیرت اور عالیشان عہدے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ اس کے عہدے کو ثابت کرتے اور اس کی محبت بھری زندگی کو روشن کرتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ اُن پر الٰہی تجلی اور بے غرضی اور محبت کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اُن سے کوئی ایسی بات نہیں ٹپکتی جس سے یہ ظاہر ہو کہ مسیح اور اس کے شاگردوں نے یہ ساری کارستانی اپنی کسی مخفی غرض کو پورا کرنے کے واسطے اختیار کی دیکھئے کہ وہ جا بجا دشمنوں سے گھر جاتا ہے۔ وہ کبھی اسے پتھر اؤ کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی پہاڑ پر سے گرانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ کبھی اسے ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں اور آخر کار بصد تحقیر و تکفیر اُسے صلیب پر چڑھا دی تے ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ گو وہ عجیب طرح کی قدرت رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے تاہم اس سے کبھی کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوتی جس سے انتقام کی بو آئے۔لوگاسے حقارت کی نظر سے دیکھتے اور رد کرتے ہیں مگر اس کے معجزات سے نہ اشتیاق ناموری نہ حصولِ دولت اور نہ تمنائے عزت کی خواہش ظاہر ہوتی ہے۔ گو ہزاروں کوسیر کرتا ہے۔ مگر خود بے زر اور بے گھر ہے۔ وہ نیک گڈریے کی طرح دوسروں کی جانوں کی سلامتی ڈھونڈتا ہے۔ مگر اپنی جان کی پروا نہیں کرتا۔ اُنہیں دکھ اور محتاجی سے رہائی دینے کو تیار ہے۔ مگر اپنی فکر مطلق نہیں کرتا۔ ان باتوں کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسیح کے معجزات جھوٹے تھے تو اُن کے جھوٹ کے سامنے سچائی ماند ہے اور یہ بھی ایک معجزہ ہے۔

مسیحی مذہب کے قدیم مخالف ان معجزوں کے وقوع کے قائل ہیں

(۸۔) پھر آپ دیکھئے کہ مسیح کے مخالف اور دشمن صاف اقرار کرتے ہیں کہ اس کے معجزے فی الحقیقت وقوع میں آئے اور اس کا یہ اقرار پہلے اس صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس زمانہ کے تمام یہودی اور غیر قوم ایک لفظ بھی ان معجزات کے وقوع کے برخلاف نہیں کہتے اور نہ ان میں سے کوئی کبھی کسی شخص نہ یہ دعویٰ کیا کہ جو معجزات مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں وہ فریب کا ڈھکوسلا ہیں۔ ہم پھر منت کرتے ہیں کہ آپ اس بات کو نہ بھولیں کہ یہ معجزات حوا س خمسہ سے محسوس کئے جاتے تھے اور روز روشن میں واقع ہوتے تھے اور جا بجا اُن کی شہرت ہو جاتی تھی۔ اب اگر آپ روح پاک کے معجزانہ نزول کا معجزہ لیں جو پینتیکوست کے دن وقوع میں آیا تو آپ دیکھیں گے کہ اس روز مسیح کے شاگردوں کو جو بالکل ان پڑھ تھے اور جن کو سب لوگ جانتے تھے کہ ان پڑھ ہیں مختلف زبانیں بولنے کی طاقت بخشی گئی اور لوگوں نے جو کریت، عرب، مسوپتامیہ اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے تھے مسیح کے شاگردوں کو اپنی اپنی بولی میں خدا کے عجیب کاموں کی منادی کرتے سنا۔ اب آپ دیکھیں کہ یہ واقعہ نزدیک و دور مشہور ہو گیا تھا۔ اس کی منادی کی گئی تھی اور آخر کار اعمال کی کتاب کے وسیلے شائع بھی ہوا یوں اس کی سچائی اور جھوٹ کے پرکھنے کا موقعہ لوگوں کو ہر طرح سے حاصل تھا۔گویا اس معجزے کا اشتہار اس بات کا اشتہار تھا کہ اگر کوئی اس کی سچائی جو جھٹلا سکتا ہے تو جھٹلائے۔اگراس معجزے میں کوئی کھوٹ ہوتا اور وہ اسے چھپایا چاہتے تو اس کام کے لئے بھی معجزے کی ضرورت پڑتی۔ بیشک اگر انجیلی معجزات میں سے کسی میں بھی جھوٹ یا فریب کی آمیز ش ہوتی تو تمام یہودیہ اور یونان نکتہ چینی سے گونج اٹھتا اور یہودیوں اور غیر قوموں کی کتابوں میں جلی قلم سے وہ کھوٹ یا جھوٹ شائع کیا جاتا اور مابعد زمانہ کے مخالفان دین عیسوی اس کو بڑی قدر کے ساتھ اپنی کتابوں میں اقتباس کرتے۔ پر کیا ایسا کیا گیا ؟ یہودی اور یونانی اور رومی تاریخ کے ورق گردانی کیجئے اور دیکھئے کہ کہیں اس قسم کا اعتراض مسیح یا اس کے شاگردوں کے معجزات کی نسبت نظر آتا ہے۔

تاریخ کہتی ہے کہ نہیں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو مسیحی معجزوں کی صداقت کا یہ خاموش اقرار دشمنوں کی جانب سے اُن کے وقوع کا کافی اقرار ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر ہم اُن لوگوں سے اس بارہ میں اور کوئی گواہی طلب نہیں کرسکتے۔ واقعی یہودیوں اور غیر قوموں اور بت پرست رہبانوں اور موسوی کاہنوں اور یروشلیم کے فقہیوں اور فریسیوں کارنتھ اور روم اور افسس کے فلاسفروں کا اس معاملہ میں خاموش رہنا اور عیسوی معجزات کی صداقت کے برخلاف کچھ نہ کہنا اُن کی صداقت اور حقیقت کا ایک عمدہ ثبوت ہے۔ پر اگر یہ دیکھ کر بھی لوگ یہ کہیں کہ نہیں ہم کو مخالفوں کی گواہی انہیں کے الفاظ میں چاہیے۔ توہم اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں گو آپ کی یہ درخواست ایک ناجائز درخواست ہے۔ پر آپ کو خوش کرنے کے لئے ہم اس تقاضے کو بھی دور کرنے کو تیار ہیں۔ اب اگر آپ پہلے مسیح کے ہمعصر مخالفوں یعنی یہودیوں کی طرف متوجہ ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ اس کے معجزوں کی حقیقت کے مقر ہیں۔ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ انجیل کی تواریخی اصلیت اور معتبری کا انکار کوئی شخص نہیں کرسکتا لہذا جو تواریخی بیانات اُن میں درج ہیں وہ ہماری توجہ کے لائق ہیں۔ اب دیکھئے کہ وہ یہودی جو مسیح اور اس کے شاگردوں کے مخالف تھے۔ ان کے معجزوں کے حق میں کیا کہتے ہیں۔ مسیح کے معجزوں کی نسبت سردار کاہنوں اور فریسیوں کی گواہی اس طرح مرقوم ہے "۔ پس سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کر کے کہا ہم کیا کریں؟ یہ آدمی بہت معجزے دکھاتا ہے "۔ (یوحنا ۱۱: ۲۷)اسی طرح اس کے شاگردوں کے معجزے کی نسبت لکھا ہے کہ انہوں نے کہا”۔ کہ ہم ان آدمیوں کے ساتھ کیا کریں کیونکہ یروشلیم کے سب رہنے والوں پر روشن ہے کہ ان سے ایک صریح معجزہ ظاہر ہوا اور ہم اس کا انکار نہیں کرسکتے "۔(اعمال ۴: ۱۶) پھرپطرس نے پینتیکوست کے روز دعوے ٰکیا کہ تمام اسرائیلی جماعت جو اُس کے سامنے حاضر تھی اسی بات سے واقف تھی کہ سیدنا مسیح ایک ایسا شخص تھا۔ جس نے اپنا خدا کی طرف سے ہونا معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت کیا۔ (اعمال ۲: ۲۲) یہودیوں نے کبھی مسیح کے معجزوں کے وقوع کا انکار نہیں کیا۔ وہ اگر حجت کرتے تھے تویہ کہ اس کے معجزے بعل زبول کی مدد سے وقوع میں آتے ہیں۔ اس اعتراض کو ہم ذرا آگے چل کر رفع کریں گے۔ فی الحال  ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ یہودی ان کے وقوع کے قائل تھے اب اگر ہم نوشتوں کو چھوڑ کر یہودیوں کی غیر الہامی کتابوں کی طرف رخ کریں تو وہاں بھی ہم اس اقرار کو اُن کے منہ سے سنیں گے۔ مثلاً تالمود میں وہ ان معجزوں کے وقوع کو تسلیم کرتے ہیں گو وہاں بھی وہ یہی حجت قائم کرتے ہیں کہ یہ معجزات جادو کے وسیلے یا یہوداہ کے نام کو ایک خاص طور پر استعمال کرنے کے سبب سے وقوع میں آئے۔ ہم نے دیکھا کہ تمام یہودی انجیلی معجزات کے وجود اور وقوع کے مقرر تھے۔

غیر قوم قائل ہیں

پر علاوہ یہودیوں کے غیر قوموں کے فاضل، اور علماء بھی ان معجزات کے قائل تھے۔ مثلاً سیلس جو دوسری صدی کے آخری حصہ میں موجود تھا اور جس نے مسیحی مذہب کے برخلاف اپنے قلم سے بہت سا کام کیا نہ صرف انجیل کے بڑے بڑے تواریخی واقعات کو صحیح سمجھتا تھا بلکہ اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ مسیح نے بہت سے معجزات دکھائے جن کے وسیلے اُس نے بہت سے لوگوں کو اپنا پیرو بنایا وہ اپنی تحریر میں ان کے وجود یا وقوع کا انکار نہیں کرتا گو ان کو حقیقی واقعات تسلیم کر کے یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جادو سے (جو اس کے زعم میں سیدنا مسیح نے مصر میں سیکھا تھا) دکھائے گئے۔

ہائیر اقلیز

ہائیر اقلیز جو تنبھنیا میں حاکم تھا اور مسیحیوں کو سخت ایذائیں پہنچایا کرتا تھا ایک کتاب میں جو اُس نے مسیحی مذہب کے برخلاف لکھی تھی مسیح کے معجزوں کو مانا ہے البتہ وہ اس کتاب میں مسیح کے معجزوں کوایک شخص کے معجزوں کے ساتھ جس کا نام اپالونی اس تھا اور جو غیر قوموں میں سے تھا اور ٹیناکا رہنے والا تھا مقابلہ کرتا ہے۔ تاکہ یہ ثابت کرے کہ اور لوگوں نے بھی کرامتیں دکھائی ہیں اور یوں مسیحیوں کا منہ بند کرے اور انہیں مسیح کو خدا کہنے اور ماننے سے روکے لیکن اس شخص اپالونی اس کے تاریخی حالات پر ایسا پردہ پڑا ہواہے کہ ہم اس کے معجزوں کی صداقت کی نسبت کچھ نہیں جان سکتے اسی طرح شہنشاہ جولین جو مسیحیوں کا جانی دشمن اور جو چوتھی صدی میں موجود تھا مسیح کے معجزوں کو مانتا ہے چنانچہ وہ کہتا ہے "۔ مسیح نے کوئی کام شہرت کے لائق نہیں کیا اگرکیا ہے توان کے لئے کیا ہے جو ماننے کو تیار ہوں کہ لنگڑوں کو چنگا کرنا اور اندھوں کو آنکھیں دینا اور بیت صیدا کے گاؤں میں دیوں کو نکالنا بڑے بڑے کاموں میں داخل ہیں”۔ وہ مانتا ہے۔ کہ مسیح ناپاک روحوں پر بڑا اختیار رکھتا اور سمندر کی سطح پر چلتا تھا۔

تعجب ہے کہ ان لوگوں نے ان معجزوں میں کوئی انہونی بات نہ دیکھی مگر آج کل ایسے بال کی کھال اُتارنے والے نکتہ چین پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے دریافت کر لیا ہے کہ مسیح اور اس کے شاگردوں نے کبھی اپنے دعووں اور تعلیموں کو معجزوں کے وسیلے ثابت نہیں کیا حالانکہ اُن لوگوں نے جو اُن کے زمانہ میں اُسی زمانہ کے آس پاس موجود تھے۔ اور جو ان کے مذہب سے سخت مخالفت رکھتے تھے اور جو صاحب علم بھی تھے اور سچ اور جھوٹ کو پرکھنے کی کافی لیاقت رکھتے تھے کبھی ان معجزوں کا انکار نہ کیا۔ تعجب ہے کہ سیلس اور پارفری اور ہایلر اقلیز اور جولین اور فقیہ اور فریسی مسیحی معجزوں کے اصل بھید سے واقف نہ ہوئے حالانکہ وہ بڑے عالم اور پُر جوش مخالف تھے مگر ہمارے ہم عصر بھائیوں نے جو مسیح کے زمانہ سے بیس صدی دور نکل آئے ہیں اُس بھید کو پا لیا۔

قدیم مسیحیوں نے انہیں قبول کیا ہے اور ان کی گواہی زیادہ وقعت رکھتی ہے

(۹۔) لیکن ہم آخر  میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس مخالفوں کی گواہی کی نسبت بہتر گواہی موجود ہے اور وہ ایمانداروں کی گواہی ہے۔ فرض کیجئے کہ یہی سیلس جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں اگر نہ صرف ان معجزات کے وقوع کا اقرار ہی کرتا بلکہ ان کی گواہی کی صداقت کے زور کو محسوس کر کے بت پرستی چھوڑ دیتا ہے اور طرح طرح کی اذیتیں سہکر اور موت کے خطروں میں پڑ کر مسیح کی پیروی قبول کرتا اور اس کی خدمت میں مصروف ہوتا۔ تو کیا اس کی گواہی کا زور کم ہو جاتا یا اس کی گواہی اور بھی زیادہ اعتبار کے لائق ٹھیرتی ؟

جو دشمن مطیع ہو جاتا ہے اُس کی گواہی زیادہ معتبر ہوتی ہے

ہم پوچھتے ہیں کہ اگر وہ مسیحی معجزات کی گواہی کے زور کو محسوس کر کے مسیح کی پیروی قبول کر لیتا توکیا ہم اُس کی گواہی کو یہ سمجھ کر کہ وہ مسیح کے ایک دوست کی گواہی ہے ناقص سمجھتے یا یہ جان کر کہ وہ ایک ایسے شخص کی گواہی ہے جو پہلے دشمن تھا زیادہ معتبر گردانتے ؟

عقل اور انسانی دستور تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی گواہی کو بڑا زور آور سمجھتے۔ اب اگر ہم اس قسم کی ہزارہا لوگوں کی نظیریں پیش کریں تو کیا آپ اس بات کو تسلیم نہ کریں گے۔ کہ اُن کی گواہی اُن مخالفوں کی گواہی سے جن کا ذکر اوپر کیا گیا زیادہ اعتبار کے لائق ہے ؟ آپ اگر ذرا غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ مسیح کے رسول ایسے ہی آدمی تھے۔

مسیح کے رسول اور قدیم پیرواسی قسم کے لوگ تھے

مگر جو لوگ اُن کی گواہی کو بے ریا گواہی نہیں سمجھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں۔ کہ وہ تو مسیح کے دوست تھے۔ مگرہم پوچھتے ہیں کہ آپ بتائیے کہ وہ کیا بات تھی جس نے انہیں مسیح کا دوست بنایا؟ کیا وہ اور آدمیوں کی مانند آدمی نہ تھے ؟ کیا وہ اور یہودیوں کی طرح یہودی نہ تھے ؟ پولوس کی طرف دیکھئے کہ وہ کسی زمانہ میں عیسائیوں کے خون کا پیاسا تھا۔ اُسے کس بات نے مسیح کا دوست بنایا؟ ان تین ہزار لوگوں کی طرف متوجہ ہو جئے جو پینتیکوست کے دن عیسائی ہوئے جو ایذارساں یہودیوں میں سے تھے۔ اُنہیں کس بات نے مسیح کا دوست اور پیرو بنایا ؟ کیا اس بات نے کہ وہ مصلوب مسیح کی پیروی سے دنیاوی عزت یا فائدہ کی توقع رکھتے تھے ؟ یا کیا اس بات نے کہ وہ لوگوں کی ملامت کو پسند کرتے اور دکھ سے خط اٹھاتے اور موت کو عزیز جانتے تھے ؟

یہ لوگ مسیح کے دوست کس طرح بنے

یا اس بات نے انہیں اس کا دوست بنایا کہ جب اُنہوں نے مسیح کے معجزات پر اور خصوصاً اس کے جی اٹھنے پر غور کیا تو ان معجزوں کو ایسابرحق پایا کہ ایذاؤں کا خوف اور مال و دولت اور خویش و اقارب کی جدائی کا خیال اُن کو مسیح کی پیروی سے روک نہ سکا۔ پھر اُن ہزارہا لوگوں پر غور کیجئے جو یہودیوں اور غیر اقوام میں سے رسولوں کے ایام خدمت میں مسیح پر ایمان لائے کہ وہ بھی کام اور کلام سے سخت عذاب اور موت  کی حالت میں مسیح کے کاموں پر گواہی دیتے ہیں اب آپ بتائیے کہ ان لوگوں کی گواہی کیسی وقعت رکھتی ہے ؟ آپ کیا وجہ اس کی تبدیلی کی بتا سکتے ہیں جو اُن کی عادات و جذبات اور اوضاع و اطوار میں مسیحی ہونے کے بعد وارد ہوئی ؟

ان کی تبدیلی کی اصل وجہ

کیا اُس تبدیلی کی وجہ درحقیقت یہ نہیں تھی۔ کہ اُنہوں نے بڑی سنجیدگی سے مسیح کے کام اور کلام کو راست اور برحق قبول کیا؟ اور اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں وہ دل سے ان باتوں کے قائل نہ تھے تو اس کا یہ کہنا گویا یہ دعویٰ کرنا ہے کہ انہوں نے بڑی بڑی خود انکاریاں بغیر کسی غرض یا ضرورت کے سہیں حالانکہ اُن کو بے ضرورت سہنا انسانی طبعیت کے سراسر برخلاف تھا۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ مسیحی ہو کر ہمارا مال ہم سے چھن جائے گا۔ دکھ سہنا اور موت کا شکار ہونا پڑے گا؟ پھر وہ کیوں عیسائی ہوئے ؟ اور کیوں اُس وقت جبکہ عیسائی ہونے کے بعد لوگوں نے اُن کو ناچیز سمجھنا شروع کیا۔ جب وہ کوڑے کرکٹ سے بدتر سمجھے جانے لگے جب عیسائی نام سے بڑھ کر لوگوں کے نزدیک اور کوئی ذلیل نام نہ تھا۔ جب اس نام کے لوگوں کو عذاب دینا ہر جگہ ثواب کا باعث سمجھا جاتا تھا اور سپاہی ان کو عذاب دینے کے لئے نئے طریقوں اور تدبیروں کی سوچ میں لگے ہوئے تھے اور طرح طرح کی اذیتیں اُن کو پہنچاتے تھے۔ جب ہزارہا اشخاص مسیح کے نام پر گواہی دینے کے لئے قتل کئے جاتے تھے۔ ہم پوچھتے ہیں انہوں نے کیوں اس وقت ثابت قدمی دکھلائی اور موت کا پیالہ پیا حالانکہ وہ خدا سے انکار سے اپنے تئیں بچا سکتے تھے ؟ اس کا جواب اور کوئی نہیں سوائے اس کے کہ جس بات کی گواہی دیتے تھے۔ اُس کے دل و جان سے قائل تھے۔ پر کیا وہ مسیحی معجزات کے سچ یا جھوٹ سے ناواقف تھے ؟ وہ تو معجزے دکھانے والوں کے زمانہ میں موجود تھے اور انہیں جگہوں میں رہتے تھے جہاں معجزات دکھائے گئے۔ پس اگر کوئی ان معجزات کی سچائی کو دریافت کرسکتا تھا تو یہ لوگ کرسکتے تھے۔ لہذا ان لوگوں پر ہر طرح ثابت ہو گیا تھا کہ جو معجزات مسیح سے منسوب کئے جاتے ہیں وہ فی الحقیقت وقوع میں آئے اور بہت سے ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے ان کو واقع ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اب پہلی صدی میں ہزارہا اشخاص اس قسم کے موجود تھے۔ وہ پہلے مسیحیوں کو دکھ دیا کرتے تھے وہ عیسائی مذہب کی بیخ کنی کے درپے رہتے تھے مگر جب انہوں نے انجیلی معجزوں اور دیگر حقیقتوں کو دریافت کر کے مسیحی مذہب کو قبول کر لیا تو اپنی جانیں سچائی پر تصدق کر دیں۔ عزیزو اگرایسے لوگوں کی گواہی قابل اعتبار نہیں تواس سے بہتر اور مضبوط تر اور گواہی پیش نہیں کی جا سکتی۔ پر اگر یہ گواہی رد کی جائے تو پھر تمام تاریخ علم پر فاتحہ پڑھنا ایک لازمی امر ٹھیرے گا۔

جو دلائل اس بات میں پیش کی گئی ہیں اُن کی نظر ثانی

اس بات کے ثبوت میں کہ انجیلی معجزوں کی گواہی رد نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس میں سچائی کا ہر ایک عنصر کامل انداز کے ساتھ موجود تھے۔ ہم کئی خیالات پیش کر چکے ہیں۔ مگر اس بات کو ختم کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ جو دلائل پیش کی گئی ہیں اُن پر آپ ایک مرتبہ پھر نظر ڈالیں تاکہ آپ اُن کے سارے زور کو ایک دم محسوس کرسکیں اور ایسا کرنے کے لئے آپ تھوڑی دیر کے لئے ان معجزوں کو وہمی افسانے اور اُن کے مدعیوں کو فریبی اشخاص تصور کریں اور دیکھیں کہ اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

اگر یہ معجزے جھوٹے تھے تو مسیح اور اس کے شاگردوں نے ایسے کام کا بیڑا اٹھایا جو ناممکن تھا تاہم اس میں کامیاب نکلے

واضح ہو کہ اگر ہم یہ مانیں کہ یہ معجزے جھوٹے تھے تو ہم کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سیدنا مسیح اور اس کے شاگردوں نے ایسے کام کا بیڑا اٹھایا جو سراسر ناممکن تھا۔ ہاں ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان نادان اور دیوانوں نے جو بالکل اَن پڑھ اور ادنیٰ حیثیت کے یہودی اور بے اختیار اشخاص تھے ایک ایسا مذہب قائم کرنے کی کوشش کی جو دنیا کی عادات اور دستورات، قواعد اور تعصب اب کے بالکل برعکس تھا اور یہ اُمید رکھی کہ ان کا نوساختہ مذہب دنیا کے مذاہب کو مسمار کر کے اُن کی جگہ لے لے گا اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ اس ناممکن الوقوع تجویز کو جاری کرنے کے لئے انہوں نے یہ پیچ کھیلا کہ ان کاموں کے وسیلے جنہیں وہ معجزات کہتے تھے جن کو وہ اپنے دعووں کے ثبوت میں پیش کیا کرتے تھے اپنے دعووں کو ایسا آخر تک نبھایا کہ کوئی ان کی چالا کی سے واقف نہ ہوسکا۔ بلکہ انہوں نے جھوٹے معجزوں کے وسیلے اپنے رسولی عہدہ کی سچائی اور تبہ کو پایہ ثبوت تک پہنچادیا اور ساتھ ہی خدا کے جلال اور پاکیزگی پر بھی بٹہ نہ لگنے دیا۔

علاوہ بریں یہ ماننا پڑے گا کہ گو وہ فریبی تھے مگر بڑے بڑے دانا بھی اُن کے فریب کو دریافت نہ کرسکے

ماسوائے اس کے ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مسیح اور اُس کے شاگرد ایسے بد تھے کہ اُنہوں نے دیدہ دانستہ فریب کا سلسلہ قائم کیا جس کے سبب سے انہیں ہمیشہ بددیانتی کے دلدل میں مبتلا رہنا اور خدا کی متواتر تحقیر اور تکفیر کا مرتکب ہونا پڑا اور یہ اس مقصد سے کہ یا روپیہ ہاتھ آئے یا نام حاصل ہو۔ پر اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ستر سال کے عرصہ تک انہوں نے اپنے چال و چلن سے ایسی بیغرضی اور بے ریائی، ایسی نیکی اور پاکیزگی ظاہر کی ان کی خود غرضی اور بد نیتی کا کچھ پتہ نہ لگا بلکہ برعکس اس کے لوگ ان کی کمال درجہ کی خود انکاری اور دیندار انہ علم اور پستی اور پاکیزگی اور رحم اور فیاضی کے قائل ہو گئے اور یہ باتیں اس درجہ کمال تک ظاہر ہوئیں کہ ان کے دشمن بھی جو اُن کی کمزوریوں اور عیبوں کے کھوج میں برابر لگے رہتے تھے۔ ان کے فریب اور دغا بازی کو پہچان نہ سکے۔

پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ گواس سے کوئی دنیوی فائدہ ان کو میسرا نہ ہوا تاہم وہ اس فریب کو ایسا پیار کرتے تھے کہ اس کے سبب سے موت اور ذلت جھیلتے رہے

ماسوائے اس کے ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سیدنا مسیح کے رسول دولت یا عزت یا اختیار یاکسی اور چیز کے ایسے عاشق تھے کہ وہ اسے اول تو ایک ناممکن سی تدبیر کو اختیار کر کے ڈھونڈنے لگے۔ اور جب عزت حاصل کرنے کا موقعہ آیا تو انہوں نے عزت کو رد کر دیا۔ اور پھر جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے دشمنوں نے مسیح کو مصلوب کر کے ایک قسم کی فتح مندی حاصل کی اور اب ہمارے حصہ میں بجز نثر مساری اور افلاس اور ایذاؤں کے اور کچھ نہیں آئے گاتواس وقت بھی اپنے شکست خوردہ رہبر کی پیروی میں ثابت قدم رہے اور اس کی تعلیموں کو سچا بتاتے رہے۔ اور پھر جب ایذارسانیوں کے طوفان دن بدن زیادہ گہرے ہوتے جاتے تھے اور انہیں معلوم ہوتا جاتا تھا کہ ہماری ثابت قدمی ہمیں ضرور طعمہ زاغ و زغن بنائے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے تھے۔ کہ اگر ہم اس راہ سے پھر جائیں تو ہماری جانوں کو کچھ آسیب نہ پہنچے گا۔ مگر پھر بھی وہ اپنی کسی نامعلوم مجذوبانہ خواہش کی پیروی میں ایسے لگے رہے کہ دکھ پر دکھ سہتے رہے۔ شرمندگی پر شرمندگی اٹھاتے رہے۔ حتے ٰ کہ انجام کار نہنگ موت کا لقمہ بن گئے اور پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ وہ یہودی ہونے کے سبب سے اس عقیدے کے بھی معتقد تھے کہ ہمیں اس فریب اور سختی کے سبب سے ابد الاآباد دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہونا پڑے گا۔

اسی طرح ہمیں اور ناممکن باتیں بھی ماننی پڑیں گی

ہمیں علاوہ اس کے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مسیح اور اس کے رسول ایسے کم سمجھ تھے کہ انہوں نے اپنے دعووں کو رواج دینے کے لئے ایسے معجزانہ ثبوت پیش کئے جن کو جعلسازی سے پیدا کرنا سراسر ناممکن تھا۔ پھر اس سے بڑھ کر بیعقلی یہ کی کہ جس طرح اور فریبی اپنی فریب کاری کو چھپاتے ہیں اُنہوں نے کبھی اپنے جھوٹے معجزوں کو چھپانے کی کوشش نہ کی۔ بلکہ کھلے میدانوں اور بڑے بڑے شہروں اور ہرقسم کے لوگوں کے سامنے طرح طرح کے معجزے دکھاتے رہے اور پھر چند ایک میں کامیاب ہونے کی غنیمت نہ سمجھا بلکہ بڑی بے باکی سے سالہسال تک دکھاتے رہے۔ معزز ناظرین ہم منت کرتے ہیں۔ کہ آپ انصاف کیجئے اور بتائیے کہ کیا درحقیقت ہم کو یہ نہیں ماننا پڑے گا۔ کہ مسیح اور اس کے شاگردوں میں متضاد صفات کا اجتماع نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو ناممکن تدبیروں کو ہاتھ لگانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسے چالا ک ایسے غدار اور فریب دہی میں ایسے مشاق اور بے مثال تھے کہ دنیا کو ان کا لوہا ماننا پڑا؟ کیا ہم کو یہ نہیں ماننا پڑتا کہ یہ کوتہ اندیش مگر نہایت ہشیار فریبی انسانی فطرت کو ایسی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ دنیا کے حالات سے ایسے واقف کار تھے۔ یہودیہ اور یونان اور روم کے عالموں اور حاکموں کے مقابلے کے لئے ایسے عجیب طور پر مسلح تھے۔ اور اپنی تجویزوں کو پورا کرنے کے فن میں ایسے ماہر۔ اپنی حرکتوں کو عجیب لباس پہنانے کے ہنر میں ایسے استاد کار، اور اپنے بھیدوں کو مخفی رکھنے کے علم میں ایسے بے نظیر تھے کہ گو ان کے مخالفوں اور نکتہ چینوں کی آنکھ ہر دم اُن پر لگی رہتی تھی تاہم کوئی شخص اُن کی کارروائی میں سرمونقص نہ پا سکا۔ کوئی یہ نہ کہہ سکا لوگو تم کیا غضب کرتے ہو جو ان فریبیوں کی بات کو سچ مانتے چلے جاتے ہو۔ یہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ ان کے معجزوں سے نہ کوئی اندھا دیکھتا ہے۔ نہ کوئی لنگڑا چلتا ہے اور نہ کوئی مردہ جی اٹھتا ہے ؟ بلکہ برعکس اس کے بیت عنیا کے باشندوں نے ایسا دھوکا کھایا کہ وہ اس بات کے قائل ہو گئے کہ ہمارے گاؤں کا رہنے والا لعزر جو مرگیا تھا واقعی زندہ ہو گیا ہے۔ اور اسی طرح یروشلیم کے باشندے بھی مسیح کے جل میں ایسے آ گئے کہ یہ ماننے لگ گئے کہ جو شخص جنم سے اندھا تھا اور ہمارے پاس رہا کرتا تھا۔ وہ اب مسیح کے طفیل سے بینا ہو گیا ہے اور اسی طرح پانچ ہزار اشخاص بھی دھوکے سے اس بات کے معتقد ہو گئے کہ عیسیٰ مسیح نے ہم بھوگوں کو ایک اجاڑ پر بت میں اپنی معجزانہ قدرت اور فیاضی سے سیر کیا ہے۔ اور یونہی سریا کے باشندے بھی اس فریب میں آ گئے کہ وہ بھیڑ جیسے وہ عیسیٰ مسیح کے پاس لائے تھے۔ جس میں طرح طرح کے مریض اور بیمار شامل تھے اپنے دکھوں اور بیماریوں سے رہا ہو کر واپس گئی۔ قصہ کوتاہ یہ کہ تمام یہودی اور بُت پرست دنیا ان بے علم اور سادہ لوح اور حقیر اور ستائے ہوئے چند یہودیوں کے جُل میں اسی طرح آ گئی کہ اُسے اُن کے معجزوں کی سچائی کا اقرار کرنا پڑا۔ایسا کہ گویا فلاسفروں اور ربیوں نے مسیح کے مذہب پر حملہ کیا مگر معجزوں کا انکار نہ کیا۔ بلکہ اُن میں سے کئی ایک نے اپنی کتابوں میں انہیں تسلیم کیا اور ہزارہا ہزار اشخاص نے جو بڑے بڑے خاندانوں اور مہذب شہروں سے علاقہ رکھتے تھے رسولوں کے ایام میں ان غریب اور کمزور لوگوں کی تعلیم سے مسخر ہو کر سب کچھ چھوڑنا گوارا کیا۔ اپنے تن من دھن کو قربان کر دیا۔ اپنے جسموں کو آگ اور تلوار اور خونخواروں کے سپرد کیا۔ تاکہ معجزات دکھانے والے مسیح مصلوب کی پیروی اختیار کریں۔

پیارے ناظرین مسیح کے معجزات کے متعلق ہمارے پاس یہ گواہی ہے۔ جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ اب آپ اس گواہی کی خصائص کو پرکھ کر خود بتائیں کہ زور اعتقاد کون ہے۔ کیا وہ جو اس گواہی کو رد کرتا ہے یا وہ جو اسے قبول کرتا ہے۔

٭٭٭

 

               پانچواں باب

جھوٹے اور سچے معجزے۔ آج کل معجزے کیوں نہیں ہوتے

دو سوال غور طلب

اس باب میں ان دو سوالوں پر بحث کی جائے گی جو عنوان میں درج ہیں۔ ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ جھوٹے اور سچے معجزے میں کیونکر امتیاز ہوسکتا ہے ؟

پہلے سوال کے جواب دینے کی ضرورت

ہم اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت اس لئے محسوس کرتے ہیں کہ یہ سوال اکثر ہمارے اُن بھائیوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو معجزات کے قائل نہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ اگر معجزات مذہب کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہیں تو وہ تمام مذہب یا طریقے جو کسی نہ کسی طرح کے معجزات یا فوق العادت اظہارات کا دعویٰ کرتے ہیں خدا کی طرف سے ہیں۔ لہذا مسیحی مذہب اُن پر کسی طرح کی فوقیت نہیں رکھتا۔

واقعی اگر دوسرے مذہبوں میں سچے معجزات پائے جاتے ہیں تو وہ بھی ماننے کے لائق ہیں

یہ سوال واقعی غور طلب ہے کیونکہ فوق العادت قدرت کے اظہاروں کا دعویٰ دنیا کے لوگوں نے طرح بطرح کیا ہے۔ یونان اور روم اور مصر اور ہند کی متھالوجی (علم الاصنام) اگر دیکھیں توہم وہاں نبوت کا دعویٰ بیماروں کو شفا بخشنے کا دعوے اور بد روحوں سے آزاد کرنے کا دعویٰ بافراط پائیں گے۔ اسی طرح مسیح اور رسولوں کے زمانہ کے بعد مسیحی کلیسیا میں بھی بعض لوگوں نے معجزوں کا دعویٰ کیا اور زمانہ حال میں بعض لوگوں نے مذہب سے قطع تعلق کر کے ایک نئی راہ نکالی ہے۔ اور فلسفانہ بنیاد پر ایک عجیب قسم کی سوپر نیچرل از قائم کر کے اندیکھی دنیا کے ساتھ راہ اور رابطہ پیدا کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر یہ سب باتیں صحیح ہیں تو پھر مسیحی مذہب کے لئے خصوصیت نہیں رہتی۔

انجیلی معجزات کو چھوڑ کر باقی فوق العادت اظہارات کس طرح پیدا ہوئے

اب سوال یہ برپا ہوتا ہے کہ وہ کثیر معجزے اور کراماتیں جن کا دعویٰ اس دنیا میں کیا جاتا ہے کس طرح پیدا ہوئے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان طبعاً اس بات کا خواہشمند ہے کہ اسے فوق العادت قدرت کا نظارہ نصیب ہو اور اس کے ساتھ ہی وہ یہ امید رکھتا ہے کہ جو تکلیفیں اسے دنیا کی طاقتوں سے پہنچتی ہیں ان سے رہا کرنے کے لئے خدا قوانین قدرت کے عمل میں دست اندازی کرتا ہے۔ پس کچھ تو جلوہ الٰہی کی دید کا شوق اور کچھ دکھ اور بیماری سے چھوٹنے اور غیب کی باتوں کو جاننے کی خواہش وغیرہ باتیں قوت متخیلہ کی مدد سے قسم قسم کے معجزے اور طرح طرح کے فوق العادت اظہار پیدا کر لیتی ہیں۔ اور ان معجزوں یا فوق العادت اظہاروں کی موجودہ وقت کے اعتقادوں اور خیالوں اور علموں سے تقویت دیتی ہیں۔ یعنی کبھی مذہبی صداقتوں اور کبھی فطرت کے عجیب اظہاروں اور کبھی بعض بعض علوم کے مسئلوں کی آڑ میں فوق العادت کے لئے راہ کھول لیتی ہیں۔

معجزات اور پروردگاری کے عجیب کاموں میں فرق ہے

مسیحی مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ گو خدا اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے اور اُن کے دکھ اور سکھ میں اُن کے ساتھ رہتا اور اپنے عجیب پر اوی ڈینس(پروردگاری ) سے اُن کی مشکلات حل کرتا اور اُن کی حاجات رفع فرماتا ہے تاہم معجزہ اپنے اصطلاحی معنوں کے مطابق صرف اسی وقت وقوع میں آتا ہے جب خدا کو اپنے وہ ارادے ظاہر کرنے منظور ہوتے ہیں۔ جنہیں انسان محض نیچر کی روشنی سے دریافت نہیں کرسکتا۔لہذا معجزہ اُن فوق العادت اظہاروں سے جو اس غرض کے لئے واقع نہیں ہوتے فرق رکھتا ہے۔ اور وہ فرق مقابلہ سے فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور عقل سلیم کو ماننا پڑتا ہے کہ انجیلی معجزات پر سچائی کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ایک عالم نے خوب کہا ہے کہ حقیقی معجزات کو ایسا ہونا چاہیے کہ اگر انہیں بناوٹی معجزوں کے انباروں اور ڈھیروں میں پھینک دیں تو اُن میں مل جل کر غائب نہ ہو جائیں بلکہ ان کے درمیان بھی اپنی صداقت کو ظاہر کریں اور بتائیں کہ وہ کس چشمہ سے برآمد ہوئے ہیں۔ اگرمسیحی معجزات ایسا نہیں کرسکتے تو وہ اپنے مقصد میں قاصر نکلیں گے۔ پر جب ہم انجیلی معجزات کا مقابلہ ان معجزانہ اظہاروں کے ساتھ کرتے ہیں جن کا دعویٰ دنیا میں مختلف صورتوں میں کیا جاتا ہے تو دونو میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے۔

اس فرق کو دریافت کرنے کے لئے مقابلہ کی ضرورت ہے

آؤ ہم تھوڑی دیرکے لئے بائبل کے سوپر نیچرل اظہاروں کا باقی سوپر نیچرل اظہاروں کے ساتھ مقابلہ کریں اور دیکھیں کہ حق کس طرف ہے۔

اس مقابلے میں پہلے یہ بات نظر سے گذرتی ہے کہ حالانکہ لوگ طرح طرح کی معجزانہ قدرتوں کے خود قائل ہیں۔ تاہم انجیلی معجزوں میں اور اپنے یہاں کے معجزوں میں فرق کرتے ہیں۔

(۱۔)مقابلے میں جو بات پہلے نظر گذرتی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ فوق العادت اظہاروں اور طرح طرح کی کرامتوں کے وجود کے قائل ہیں وہ خود اس بات کا اقبال کرتے ہیں کہ مسیح کے معجزوں اور دنیا کے باقی فوق العادت اظہاروں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب قدیم زمانہ میں لوگوں نے مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا حال سنا تو اُنہوں نے فوراً کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ اُن کے یہاں خود کرامتوں اور معجزوں کا دعویٰ مسیحی معجزوں کے پہلو بہ پہلو جاری تھا۔ کیا وہ مسیح کے جی اٹھنے کا انکار کرتے اور اسے ناممکن ٹھیراتے اگر واقعی اُن کے درمیان فوق العادت طاقتوں کا عمل جاری ہوتا اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بت پرست یہ دعویٰ نہیں کرتے تھے کہ سوائے ہمارے اور کسی کو فوق العادت قدرتوں کا نظارہ نصیب نہیں ہوتا۔ پھر کیوں انہوں نے مسیح کے جی اٹھنے اور دیگر معجزات کو اپنی کراماتوں سے مختلف سمجھا؟ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ ایک قسم کے معجزات حقیقی اور دوسری قسم کے معجزات غیر حقیقی ہیں۔

یہودیوں کا یہی حال تھا

اسی طرح یہودیوں کے درمیان بھی فوق العادت اظہاروں کا اعتقاد پایا جاتا تھا۔ مگر وہ بھی اپنے معجزوں اور مسیح کے معجزوں میں ایک قسم کا فرق مانتے تھے۔ مثلاً جب مسیح نے ایک جنم کے اندھے کی آنکھوں کو روشن کیا تو انہوں نے ایسا ظاہر کیا کہ گویا وہ معجزہ اُن اچنبھوں سے جو وہ دکھایا کرتے تھے بالکل مختلف تھا۔ اور انہوں نے اُس معجزے کی مخالفت اُسی زور شور سے کی جیسی معجزے کے منکر ہونے کی حالت میں کرتے۔

مسیح کے جی اٹھنے پر انہوں نے حجت کی

پھر انہوں نے یہی مخالفت اُس وقت کی جبکہ سیدنا مسیح نے اپنے جی اٹھنے کی نسبت نبوت کی چنانچہ اس کے مصلوب ہونے کے بعد انہوں نے حاکم سے کہا۔” اے خداوند ہمیں یاد ہے۔ کہ اس دھوکے باز نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اٹھوں گا”۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اُنہوں نے مسیح کو دھوکے باز کیوں کہا؟ اگر وہ اس بات کو سچ جانتے تھے کہ سوائے انبیاء کے اور لوگ بھی معجزات دکھا سکتے ہیں۔ تو مسیح کے جی اٹھنے کی پیشیں گوئی کو دھوکا بازی کہنے سے اُن کو کچھ فائدہ نہ تھا۔ بلکہ ہماری رائے میں اُن کو زیادہ فائدہ اس وقت پہنچتا جبکہ وہ یہ دعویٰ کرتے کہ مردوں میں سے جی اٹھنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ۔یہ تو ایک معمولی سی بات ہے۔ لہذا مسیحی مذہب کو مسیح کے جی اٹھنے سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا۔پس چاہئیے تھا۔ کہ وہ مسیح کے جی اٹھنے کی پیشین گوئی یا دعویٰ کو قبول کرتے مگر اس نتیجے کو جو اس کے جی اٹھنے سے نکل سکتا تھا رد کرتے یعنی اس نتیجہ کو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اور ایسا نہ کرنے کے وسیلے اس بات کا اقرار کیا کہ اگر وہ فی الحقیقت جی اٹھا ہے۔ تو وہ خدا کا بیٹا ہے۔ اب کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کے قائل تھے۔ کہ جو فوق العادت عنصر خدا کے رسولوں اور نبیوں کے کاموں میں ہوتا ہے۔ وہ ان کراماتوں اور اچنبھوں میں نہیں پایا جاتا جن کا دعویٰ عام لوگ کرتے ہیں۔

قدیم کلیسیا کے بزرگ گو خدا کی پروردگاری کے عجیب کاموں کے قائل ہیں۔ مگر حقیقی معجزوں کے بارے میں اقرار کرتے ہیں کہ وہ رسولی زمانہ میں ختم ہو گئے

پھر جب ہم مسیحی کلیسیا کے قدیم زمانہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی بزرگ بھی اس فرق کو مانتے ہیں۔ اس بات پر غور کرتے وقت ہم دیکھتے ہیں۔ کہ قدیم مسیحی جو سچائی اور راستبازی کے عاشق تھے یہ مانتے تھے کہ ان کے زمانہ میں معجزانہ قدرت اپنا کام کرتی تھی۔ اور ہم اُن کی نیکی اور راستبازی اور سچائی کو دیکھ کر ان کی بات کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ مگر تاہم جو بات یاد رکھنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ جسے وہ معجزانہ قدرت کہتے ہیں وہ معجزانہ قدرت نہ تھی بلکہ وہ خدا کی وہ قدرت تھی جو اس کے عجیب پروردگاری کے کاموں کے وسیلے جلوہ نما ہوتی ہے۔ اور وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ گو خدا کی عجیب قدرت کے کام جو مساوی معجزات کے تھے ان کے زمانہ میں واقع ہوتے تھے مگر اصل معجزے رسولوں پر ختم ہو گئے تھے۔

ہمارے ہندوستانی بھائی بھی مختلف صورتوں میں فوق العادت کے قائل ہیں۔ مگر انجیلی معجزوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں

اور اگر آپ آج ہندوستان کے عام لوگوں کو دیکھیں اور ان کی حالت پر غور کریں تو آپ فوراً معلوم کر لیں گے۔ کہ وہ کیسے زود اعتقاد ہیں۔ جادو ٹونے گنڈے تعویذ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ پتھروں سے مرادیں مانگتے ہیں۔ قبروں سے حصول مدعا کی اُمید رکھتے ہیں۔ پرندوں اور چرندوں کے آگے گر کر سجدہ کرتے ہیں۔ تاکہ اُن کے وسیلے اُن کی مرادیں بر آئیں پر اگر اُن سے مسیح کے معجزوں یا جی اٹھنے کا ذکر کیا جائے تو اُس پر لاکھ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا یہی باعث ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ جس قسم کی فوق العادت قدرت کے ہم ماننے والے ہیں وہ ناقص ہے۔ اور جس فوق العادت قدرت کے معجزوں کا مسیحی ذکر کرتے ہیں اور جس کے ثبوت میں وہ معقول گواہی بھی پیش کرتے ہیں اگر صحیح مانے جائیں تولازمی نتیجہ پھر یہی ہو گا کہ ان کا مذہب برحق سمجھا جائے۔ اب ہم نے دیکھا کہ جب ہم مسیحی معجزوں کو مقابلہ اُن کراماتوں یا اچنبھوں کے ساتھ کرتے ہیں جو دنیا میں مانے جاتے ہیں تو پہلا فرق جو ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے یہ ہے کہ دوسرے اقسام کے اچنبھے یا کرامات خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے اور مسیحی معجزوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔

(۲۔) اب اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے خاص اُن واقعات پر جنہیں لوگ کراماتیں کہتے ہیں غور کریں۔ تو انہیں دیکھ کر بھی آپ کو ماننا پڑے گا کہ واقعی مسیحی معجزوں میں اور اُن میں ایک گہرا فرق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ان واقعات میں ایمان کی کمی نظر آتی ہے بلکہ اکثر الحاد اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ اور کہ وہ کبھی ادنیٰ درجہ کے طبقے سے اوپر نہیں اٹھتے۔ اور عموماً ذومعنی اور ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں۔ اب ان باتوں سے اُن کا نقص صاف ثابت ہو جاتا ہے۔ مثلاً وہ جو چھوٹی سی میز پر ہاتھ دھروا کر دوسری دنیا کے باشندوں سے باتیں کرواتے ہیں۔ وہ سوائے اس کے اور کوئی معجزانہ کام نہیں دکھا سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں لہذا اپنے حدود کے اندر اندر ہمیشہ کام کرتے ہیں۔ یا جو ہندوستان میں گنڈے تعویذوں سے بیماروں کو چنگا کرنے یا بد روحوں کو نکالنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ہمیشہ اسی قسم کے کام کیا کرتے ہیں اور اُن کو چھوڑ کر اور کسی طرح کا معجزہ دکھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اب ان حرکتوں کو معجزہ ثابت کرنا پڑا مشکل کام ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسے کام کبھی فی الفور واقع نہیں ہوتے اور نہ ایسے دعویٰ کرنے والے سب کے سب فائیر المرام ہوتے ہیں۔ اور اگر پوچا جائے کہ تم نے الحاد کی بو ان کاموں میں کہاں سے پائی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کام خدا کی عزت نہیں دیتے وہ سراسر الحاد پر مبنی ہیں۔ کیا وہ لوگ جو دوسری دنیا کی روحوں سے باتیں کرواتے ہیں۔ اپنے کاموں اور حرکتوں کو خدا کی قدرت سے منسوب کرتے ہیں یا کسی اپنے مقرر کردہ طریقے سے ؟ کیا وہ جو قبروں اور منتروں اور گنڈے تعویذوں سے اپنا کام لیتے ہیں فی الحقیقت خدا کی عزت کرتے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم کس طرح مانیں کہ یہ کام خدا کی طرف سے ہیں۔ بات اصل یہ ہے کہ اس قسم کی باتوں میں اول تو خود ہی مبالغہ کا عنصر موجود ہوتا ہے اور پھر بیان کرنے والے بھی اپنی مبالغہ آمیز تشریحوں سے اُن پر اعجاز کا روغن پھیر دیتے ہیں۔ مگر جب وہ ان باتوں کو مسیحی معجزات کے ساتھ امتحان کی کسوٹی پر کستے ہیں تو اُنہیں ماننا پڑتا ہے۔ کہ ان میں اور انجیلی معجزات میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ پُرانے زمانہ کے بت پرستوں نے اس بات کو خوب محسوس کیا کہ اگر عیسیٰ مسیح فی الحقیقت مردوں میں سے خدا کی قدرت کے وسیلے جی اٹھا ہے تو یہ واقعہ لاریب ایک سچا معجزہ ہے کیونکہ اس میں اور ان معجزوں میں اسقولیپس کے مندر میں واقع ہوتے ہیں بڑا فرق ہے۔ اسقیو لیپس کے مندر میں ہزاروں بیمار آتے تھے مگر شفا یاب فقط معدودے چند ہی ہوتے تھے۔ اب پُرانے بت پرست دیکھتے تھے کہ اس میں کچھ بھید ہے کیونکہ سب بیمار شفا نہیں پاتے۔ اب ہزاروں میں سے چند ایک کو چنگا کرنے کا معجزہ تو ہر شخص دکھا سکتا ہے بشرطیکہ اس کو یہ اختیار دیا جائے کہ جب اس کا جی چاہے تب اُن میں سے بعض کو چنگا کر دے۔ پر کبھی کوئی صاحب عقل اس قسم کی شفاؤں کو معجزہ نہیں کہے گا۔رومن کیتھولک کلیسیا کے لوگوں نے بھی معجزانہ اظہاروں کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر جو کام وہ بطور معجزات پیش کرتے ہیں اُن پر بھی یہی حجت قائم ہوتی ہے۔ اس موقعہ پر یہ کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات جھوٹ موٹ معجزانہ دعویٰ دو باتوں کے سبب سے کیا جاتا ہے۔

دو باتوں سے پیدا ہوئے

(الف)کسی تعلیم کو رواج دینے کے مقصد سے

(ب) کسی شخص کی بزرگی کو ثابت کرنے کی غرض سے

پہلی بات کی نسبت ہم یہ عرض کرتے ہیں۔ کہ اگر تعلیم عقل اور اخلاقی اصول کے برخلاف ہے توہم اسے خدا کی طرف سے نہیں مان سکتے۔ اور اگر وہ منجانب اللہ نہیں۔ تو خدا کی معجزانہ قدرت سے مدد نہیں پا سکتی۔ یاد رکھنا چاہیے۔ کہ ممکن ہے کہ کوئی مسئلہ یا تعلیم ہماری سمجھ سے بالا یا باہر ہو مثلاً ثالوث یا الوہیت مسیح یا کفارہ مسیح اور غیر مگر یہ ناممکن ہے کہ کوئی تعلیم جو خدا کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتی ہے نیکی یعنی (Morality) کے برخلاف ہو۔ اس کا ذکر ہم ذرا آگے بڑھ کر مفصل طور پر کریں گے۔ یہاں ہم اس کا اشارہ فقط اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ معلوم ہو جائے۔ کہ اکثر اوقات دھوکا بازوں نے خواہ وہ عیسائی ہوں یا کسی اور مذہب کے ہوں اپنی مطلب براری کے لئے جھوٹی تعلیموں کو رواج دینے کے واسطے معجزات کا دعویٰ کیا ہے۔مگر ان کی تعلیموں کا نقص ظاہر کرتا ہے کہ ان کی امداد میں الٰہی قدرت استعمال نہیں کی گئی۔ کیونکہ خدا ایسی گندی یا ناقص تعلیموں کا بانی نہیں ہوسکتا۔

کسی شخص کی اخلاقی خوبی یا بزرگی کے ثبوت کے لئے بھی معجزات کی ضرورت نہیں

اور پھر جیسا ہم نے اوپر کہا یہ بھی دیکھا جاتا ہے۔ کہ بعض اوقات کسی شخص کی عزت یا شاں بڑھانے کے لئے یا اس کی پاک زندگی کے ثبوت میں معجزانہ دعوے کئے گئے ہیں۔ پر جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سیرت کی خوبی یا پاکیزگی کے ثبوت کے لئے معجزانہ اظہاروں کی تائید کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ہزاروں اشخاص کو عزت دیتے ہیں اور اُن کی نیکی اور بزرگی کے قائل ہیں۔ حالانکہ انہوں نے کبھی کوئی معجزہ ہم کو نہیں دکھایا۔ سیرت کی خوبی معجزانہ کسوٹی سے نہیں پرکھی جاتی اس کے پرکھنے کا معیار اور ہی ہے۔ پس اکثر اوقات لوگوں نے دھوکا کھا کر یا دھوکا دینے کے لئے گذرے ہوئے لوگوں کے ساتھ معجزانہ قدرت کو مربوط کیا ہے۔ مگر وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے رومن کیتھولک بھائیوں پر شاید اور فرقوں کے لوگوں پر بھی یہ دونوں باتیں بہت درجہ تک صادق آتی ہیں۔

جن معجزوں کو ہم نے ذومعنی کہا ہے اسی قسم کے معجزے مسیح نے بھی دکھائے ہیں کیا اُن پر وہی اعتراض نہیں ہوسکتے جو دوسروں کے معجزوں پر کئے گئے ہیں

پر قبل از یں کہ ہم اس خاص پوائنٹ کو چھوڑ کر آگے بڑھیں ہم ایک اور اعتراض کا جواب دینا چاہتے ہیں جو اس موقع پر کیا جا سکتا ہے۔اور وہ یہ ہے کہ شاید کوئی ہم سے کہے کہ تم نے شفا دینے اور بدروحوں کے نکالنے اور آنے والی باتوں کو خبریں دینے کو ذومعنی اور ملحدانہ واقعات کہا ہے۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہی اعتراض مسیح کے معجزوں پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں۔ کہ اگر مسیح بھی شفا دیتے وقت یا بد روحیں نکالتے وقت یا نبوت کرتے وقت ذومعنی کلمات استعمال کرتا۔ اگر وہ بھی کبھی کامیاب ہوتا اور کبھی معجزہ دکھانے میں نا کامیاب رہتا۔ اگراس کی بات بجائے فی الفور وقوع میں آنے کے مدتوں تک انتظار کھچواتی اور پھر بھی واقع نہ ہوتی۔ اگراُس کی معجزانہ طاقتیں جو شفا اور نبوت اور بد روحوں کے نکالنے میں ظاہر ہوئیں انسان کی بھلائی اور باپ کے جلال کے لئے نہ ہوتیں توہم اس کے اس قسم کے معجزوں کو بھی اس ناقص زمرہ میں شمار کرتے۔ ماسوائے اس کے یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو معجزات دنیا ان باتوں کے متعلق ہمارے سامنے رکھی ہے وہ اس ادنیٰ طاقت کے پائے سے جو ان معجزات کے وقوع کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے اور جس میں طرح طرح کی نیچرل تاویلوں کی جگہ ہے۔ کبھی اوپر نہیں اٹھتے۔ سوجب ہمیں مسیح کے معجزوں کا فیصلہ کرنا منظور ہو تو لازم ہے کہ ہم اس کے اُن معجزات پر غور کریں جن کی تشریح کسی طرح نیچرل تاویلوں کی بنا پر نہیں ہوسکتی۔ مثلاً اس کا پانچ ہزار کو پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے آسودہ کرنا۔ اس کا چار دن کے مرے ہوئے اور دفن کئے ہوئے مردے کو زندہ کرنا۔ اس کا آپ تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھنا۔ اس کا آسمان پر تشریف لے جانا ایسے معجزات ہیں جن کے ظہور کے لئے اعلیٰ الٰہی قدرت کے فعل کی ضرورت تھی۔ اب اگر یہ معجزات صحیح اور راست ہوں تو اس کے ادنیٰ درجہ کے معجزات بھی ان اعتراضوں سے بری ہوں  گے جو اس قسم کے جھوٹے معجزات پر عاید ہوتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ بڑے بڑے معجزات کی روشنی میں اس کے چھوٹے چھوٹے معجزات بھی سچے ظاہر ہوتے ہیں۔

دنیا کے معجزانہ اظہاروں کی اخلاقی خاصیت بھی غور طلب ہے

(۳۔) پھر اس مقابلہ میں ہمارا یہ بھی فرض ہے۔کہ ہم ان واقعات کی اخلاقی خاصیت پر بھی بخوبی غور کریں اور دیکھیں کہ کیا ایسے کام خدا کی قدرت سے وقوع میں آسکتے ہیں۔ خصوصاً ہم ان سوالوں پر غور کریں۔ کیا وہ واقعات جو بطور معجزات پیش کئے جاتے ہیں۔ فی نفسہ پاک ہیں یا ناپاک ہیں؟ کیا وہ عظیم الشان اور جلیل ہیں۔یا ہلکے اور تمسخر انگیز ہیں؟ کیا اُن سے حکمت اور دانائی ٹپکتی ہیں۔ یا حماقت اور لڑکپن کی حرکتوں کی بو آتی ہے ؟ اور یہ توہم سب جانتے ہیں کہ خدا اپنی قدرت فضول طور پر صرف نہیں کرتا۔ اور نہ وہ ناپاکی اور گناہ کا بانی ہے۔اب اگر ہم ان معجزات پر جو یونانیوں اور رومیوں کے قصوں میں درج ہیں غور کریں توہم دیکھیں گے کہ اُن میں بے شمار ایسے ہیں جو بالکل پاکیزگی اور حکمت اور حقیقی عظمت کے برخلاف ہیں۔ ہندوؤں کے یہاں جو دیوتا مانے جاتے ہیں اور اوتار تسلیم کئے جاتے ہیں اُن سے بڑے بڑے کام منسوب کئے گئے ہیں۔پر جب ہم اُن پر غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ یا تو وہ سرار ناپاکی سے بھرے ہوئے ہیں۔ یا اُن سے حماقت ٹپکتی ہے یا اُن پر ہنسی آتی ہے۔اکثر ہندو اوتاروں کو مانتے ہیں۔ پر جب ہم یہ دریافت کرنے لگتے ہیں کہ ایشور نے کیوں، کچھ اور بارہ اور نرسنگ وغیرہ کا اوتار لیا تواس کے جواب میں ایسی وجوہات بتائی جاتی ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے۔ کرشن، ہنومان، برہما، وشنو اور مہیش سے ایسے اچنبھے منسوب کئے جاتے ہیں۔ جن کو عقل ہرگز ہرگز قبول نہیں کرسکتی۔ پس وہ تمام واقعات جو معجزات ہونے کا دم بھرتے ہیں مگر جن سے ناپاکی اور ہلکا پن اور انتقام اور شہوت کی بو آتی ہے وہ کبھی خدا کی فوق العادت قدرت سے واقع نہیں ہوسکتے۔

علاوہ معجزانہ واقعات کی گواہی پربھی غور کرنا لازمی امر ہے

(۴۔) پھر اس مقابلہ میں گواہی کو بھی بڑا دخل ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم انجیلی معجزات کو دیگر معجزانہ اظہارات کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت اس بات پر بھی غور کریں کہ موخرالذکر کیسی گواہی اپنے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ دریافت کریں کہ جو لوگ ان کے وقوع پر گواہی دیتے ہیں کیا وہ معجزہ دکھانے والے یا والوں کے ہمعصر تھے ؟ کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے ان معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا؟ اور کیا اُن کی گواہی اسی زمانہ میں قید کتابت میں آئی یا صدیوں بعد بصورتِ روائت مشہور ہوئی ؟ اور خاص کر ہم یہ دریافت کریں کہ گواہوں نے اپنی گواہی کی سچائی کے لئے کہاں تک تکلیفیں سہیں ضروری امر نہیں کہ گواہ ہمیشہ طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائے۔ تو بھی اس میں شک نہیں کہ فوق العادت کی گواہی کو ہماری نظر میں اُس وقت عجیب قسم کی وقعت حاصل ہوتی ہے جس وقت ہم کو یہ معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ گواہ نے اپنی گواہی کے لئے اپنا سرتک بھی دیدیا۔ مگر اُس نے انکار نہ کیا۔

پر سب سے زیادہ غور طلب یہ پوائنٹ ہے کہ جن معجزات کا دعویٰ دنیا کرتی ہے اُن سے کون سے عجیب نتائج پیدا ہوئے

(۵۔) پر سب سے بڑی بات جو اس مقابلہ میں غور طلب یہ ہے کہ ہم یہ دریافت کریں۔ کہ انجیلی اور غیر انجیلی معجزات سے کیا کیا نتائج پیدا ہوئے ؟ کونسا پھل اُن میں لگا؟ ہم پوچھیں کہ مسیح کے معجزات کو چھوڑ کر باقی جو فوق العادت واقعات دنیا میں مانے جاتے ہیں انہوں نے دنیا کے لئے کیا کیا؟ کیا انہوں نے اس دنیا میں کوئی ایسی تعلیمیں پھیلائیں جن سے دنیا کی حالت اور مزاج میں فرق پیدا ہوا؟ اور بنی آدم کو ایسی دائمی بھلائی دستیاب ہوئی ہے جسے کوئی طاقت زائل نہیں کرسکتی ؟ کیا اُن معجزوں کی بنا پر کوئی ایسی مذہبی سوسائٹی قائم ہوئی جو تا قیامت زندہ رہنے کے آثار پیش کرتی ہے ؟ اگر آپ ان اہم سوالوں پر غور کریں تو آپ پر فوراً روشن ہو جائے گا کہ سوائے مسیحی مذہب کے اور کوئی مذہب نہیں ہے جس کی نسبت یہ کہا جائے۔ کہ اس کی تعلیمات نے معجزات سے ثابت ہو کر تمام دنیا کی حالت کو تبدیل کر دیا ہے۔

مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیمیں جن کے ثبوت میں معجزات دکھائے گئے

مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیمیں یہ ہیں کہ خدا کا بیٹا مجسم ہوا۔گنہگاروں کے کفارے کے لئے مارا گیا مردوں میں سے جی اٹھا۔ آسمان پر تشریف لے گیا اور وہاں باپ کے دہنے ہاتھ بیٹھ کر گنہگاروں کی سفارش کرتا ہے۔ اور اپنی روح پاک کے وسیلے اپنے لوگوں کو پاکیزگی کی ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچاتا ہے۔ یہی ہیں وہ الٰہی تعلیمیں جن کی تصدیق اور ثبوت کے لئے معجزات دکھائے گئے۔کیا ان تعلیموں نے دنیا میں کچھ بھی نہیں کیا؟ اگر آپ انصاف کریں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ انہیں تعلیموں نے ہمیں یہ سیکھایا ہے کہ خدا ہمارا باپ ہے اور انسان ہمارا بھائی ہے۔ انہیں کی طفیل سے انسان نے انسانیت کے اصل جوہر کو پہچانا ہے۔ انہیں کے وسیلے خدا کی محبت اور پاکیزگی کا جمال اور جلال ظاہر ہوا۔ انہیں تعلیموں نے اصل تہذیب اور سوشل ترقی کی بنیاد ڈالی۔ اور جہالت اور بطالت اور ظلم اور ستم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم زیادہ تفصیل کے ساتھ دکھائیں کہ کیونکر مذہبی اور عقلی اور علمی اور سوشل دنیا میں ان تعلیموں نے اپنے نیک اثر سے عجیب عجیب قسم کی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ پر یہ تعلیمیں انہیں معجزوں کے وسیلے سچی ثابت کی گئیں جن پر آج لوگ طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں۔ کیا دنیا کے مشہور معجزات بھی اسی قسم کے دیرپا اور فیض رساں نتائج کے ساتھ وابستہ ہیں؟ اگر اُن سے بھی ایسے بڑے بڑے نتیجے پیدا ہوئے ہیں تو وہ بھی خدا کی طرف سے ہیں ورنہ نہیں۔ پر تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ مسیحی مذہب کے سوا اور کوئی مذہب ایسا نہیں جس کے مصنوعی معجزات نے ایسے نتیجے پیدا کئے ہوں۔ اب اگر ہم اس وقت جبکہ انجیل کے معجزات کا دنیا کے مصنوعی معجزات کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں مذکورہ بالا خیالات کو مد نظر رکھیں توہم فوراً اس بات کے قائل ہو جائیں گے۔کہ فقط بائبل ہی کے معجزات سچے ہیں اور باقی سب معجزے ناقص اور ناقابل یقین ہیں۔

دوسرا سوال کہ اب معجزات کیوں نہیں دکھائے جاتے

دوسرا غور طلب سوال یہ ہے کہ اب معجزے کیوں نہیں ہوتے ؟ اس سوال کا جواب چند لفظوں میں اس طرح دیا جا سکتا ہے۔ کہ اب ضرورت نہیں۔ اس بات کو مفصل طور پر بیان کرنے میں ہم کو پھر انہیں باتوں کو رقم کرنا پڑے گا جو ہم ابواب ماقبل میں عرض کر چکے ہیں۔ پر ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے روشن ضمیر ناظرین نے ان باتوں سے جو ہم معجزے کی غرض اور مقصد پر تحریر کر چکے ہیں خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا ہو گا کہ اب معجزات کی ضرورت نہیں رہی۔ مگر پھر بھی یہاں چند خیالات ہدیہ احباب کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ معجزات کی اب کوئی ضرورت نہیں رہی۔

اس لئے خدا بغیر اشد ضرورت کے معجزانہ طاقت کو استعمال نہیں کرتا

(۱۔)جو کچھ ہم اوپر لکھ چکے ہیں اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گو مسیحی مذہب معجزات کے وجود اور وقوع کا قائل ہے۔ تاہم وہ اسبات کا بھی معترف ہے کہ بغیر اشد ضرورت کے خدا اپنی سوپر نیچرل طاقت کو کام میں نہیں لاتا۔ وہ لوگوں کے اشتیاق عجائبات کو پورا کرنے کے لئے۔ یا اُن کی حاسدانہ اغراض کو پورا کرنے کے لئے۔ یا اُن کو آنے والی باتوں کی غیر ضروری خبریں دینے کے لئے یا شہوانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے۔ یا کسی انسان کی عزت اور جلال کے واسطے اپنی معجزانہ قدرت کو کام میں نہیں لاتا۔ اور عقل سلیم اور ائے صائب اس بات کو تسلیم کرتی ہیں۔ پس معجزوں کی ضرورت کسی خاص موقعہ پر ہوتی ہے۔

(۲۔) اب مسیحی مذہب بتاتا ہے اور عقل اسے قبول کرتی ہے۔ کہ جس خاص موقعہ پر خدا معجزات دکھانا روا رکھتا ہے وہ وہ موقعہ ہے جبکہ وہ اپنی مرضی کا ایسا مکاشفہ عطا فرماتا ہے۔ جسے انسان اپنی نیچرل طاقتوں سے معلوم نہیں کرسکتا۔ مثلاً سیدنا مسیح یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں زندگی اور قیامت ہوں۔ پر اس بات کے ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری امر تھا۔ کہ وہ ایک ایسا معجزہ دکھائے جو دیکھنے والوں کو مجبور کرے کہ اس کے دعوے کو قبول کریں۔ جب لعزر کی قبر پر آ کہ اس نے اُس مردے کو اپنے کلام کی طاقت سے زندہ کر دیا۔ تب یا بات روشن ہو گئی کہ وہ زندگی کا سرچشمہ ہے۔ اور جو کہ اُس پر ایمان لاتے ہیں وہ ہرگز ہرگز فنا نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ کی زندگی کے وارث بن جاتے ہیں۔ اُسے منظور تھا کہ لوگوں کو بتائے کہ مجھے گناہ معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ پر کون اُس کی بات کو مانتا اگر وہ یہ کہہ کر کہ اے بیٹا تیرے گناہ معاف ہوئے۔ اس مفلوج کو کھٹولا اٹھا کر چلنے کی طاقت نہ دیتا؟ اسی طرح خدا کے مجسم ہونے اور کفارے کے کام کو پورا کرنے اور انسان کی روح اور جسم کے بچ جانے کی تعلیمیں ایسی ہیں کہ اُن کے ثبوت کے لئے معجزات کی ضرورت تھی۔ پس معجزے کی غرض اور مقصد سے صاف ظاہر ہے کہ ہر زمانہ اور ہر فرقے میں معجزات کے واقع ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

جن مذاہب کی تعلیمات نیچرل ہیں وہ معجزات کی حاجت نہیں رکھتے۔ کیونکہ اُن کی تعلیمات انسان کی عقل سے بلند و بالا نہیں ہیں

شاید اس جگہ کوئی یہ کہے کہ بہت سی تعلیمیں دنیا میں مروج ہیں اور اُن کے ماننے والے بھی بکثرت ہیں۔ اور وہ تعلیمیں اپنی ذات میں نیک اور پسندیدہ ہیں۔ مگر اُن کے ثبوت میں کوئی معجزہ نہیں دکھایا گیا۔ مثلاً بودھ مذہب اور محمدی مذہب میں کئی ایسی تعلیمیں پائی جاتی ہیں اب ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک بات کے لئے معجزے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ہم تو یہی دکھا رہے ہیں کہ ہر بات کے لئے خواہ وہ بچی ہی کیوں نہ ہو معجزے کی ضرورت نہیں پڑتی بودھ مذہب کی تعلیمیں اور محمدی مذہب کی تعلیمیں بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام تعلیمیں جو انسان کی نجات کو اُسی کے اعمال پر چھوڑتی ہیں نیچرل ہیں۔ اُن میں کوئی بات سوپر نیچرل نہیں لہذا انہیں سوپر نیچرل واقعات کے ثبوت کی ضرورت نہیں گواُنکے معتقدوں نے سوپر نیچرل واقعات اُن سے منسوب کر دئیے۔

پس معجزے کے مقصد سے ظاہر ہے کہ اب معجزے کی ضرورت نہیں

پس جب ہم معجزے کے مقصد اور غرض پر غور کرتے ہیں۔ تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ سوائے خاص خاص موقعوں کے اور سوائے اشد ضرورتوں کے معجزات وقوع میں نہیں آتے۔

پھر انجیل کے کامل مکاشفہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ اب معجزات کی ضرورت نہیں

(۳۔) اب آخری بات جو ہم اس سوال کے ضمن میں ہدیہ ناظرین کرنا چاہتے ہیں یہ ہے کہ مسیحی مکاشفہ ہمارے ایمان اور عمل کے لئے کامل ہے اب چونکہ ہماری نجات کے لئے مکاشفہ کی ضرورت نہیں۔ اس لئے معجزوں کی بھی ضرورت نہیں رہی۔

مذہب کے دو پہلو۔ اُن میں سے ایک ایمان کا اور ایک عمل کا پہلو ہے۔

مسیحی مذہب کی وہ تعلیمیں جن پر ہم کو ایمان لانا چاہیے کامل ہیں

 اب مسیحی مذہب اُن دونو پہلوؤں کی شرائط کو کامل طور پر ادا کرتا ہے۔ مثلاً جو کچھ وہ ہم کو خدا اور انسان کی نجات۔ اور دوزخ، اور بہشت کی بابت بتاتا ہے۔ وہ ہمارے لئے کافی دوانی ہے۔ اور کوئی دوسرا مذہب ان معاملات میں اُس سے بڑھ کر صحیح اور کامل تعلیم نہیں دیتا۔

وہ ہم کو خدا کی ذات و صفات کی اور اس رشتہ کے متعلق جو خدا انسان اور یونیورس سے رکھتا ہے پوری پوری خبر دیتا ہے۔ پھر وہ ہم کو مکمل طور پر بتاتا ہے کہ گناہ کیا ہے اور اُس کا تعلق خدا اور انسان کے ساتھ کیا ہے۔ وہ ہم کو سکھاتا ہے کہ نجات دہندہ کون ہے اور اسے کیسا ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ اگر یہ سب باتیں ہم کو صحیح اور کامل طور پر معلوم نہ ہوتیں۔ تو ہمارا ایمان ناقص رہتا۔ پر مسیحی مذہب نے ان اہم امور پر ایسی لائح روشنی ڈالی اور ہماری موجودہ ضرورتوں کے بموجب ان کو ایسی کامل صورت میں پیش کیاہے۔کہ اب ایمان والی تعلیموں میں کسی طرح کے اضافے یا زیادتی کی ضرورت نہیں رہی۔

اسی طرح مسیحی مذہب کی وہ ہدایتیں اور نصیحتیں جو عمل زندگی سے متعلق ہیں کامل ہیں

اسی طرح جب ہم اس مذہب کے عملی پہلو پر غور کرتے ہیں تو وہاں بھی ہم کو یہی نظر آتا ہے کہ جو کچھ درستی عمل کے لئے ضروری ہے وہ سب کچھ انجیل میں ہمارے لئے موجود اور ایسی کاملیت کے ساتھ اور کسی جگہ سے وہ علم دستیاب نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ وہ ہمیں احسن طور پر بتاتا ہے کہ خدا کی اطاعت و بندگی۔خدا کی رضا جوئی اور فرمانبرداری کیا شئے ہے۔اور کیسی نیت کے ساتھ اسے بجا لانا چاہیے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کوانسان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہئیے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں سے۔ بچوں کو اپنے باپ سے۔ مالکوں کو اپنے خادموں سے ، خادموں کو اپنے آقاؤں سے پڑوسی کو اپنے پڑوسی سے کیونکر پیش آنا چاہئیے۔ اُس کے اخلاقی کمالات کا اعلیٰ زینہ وہ محبت ہے جو خدا اور انسان کی خدمت میں اپنے تئیں قربان کرنا جانتی ہے۔ غرضیکہ اُس کی تعلیمات اور اخلاقی ہدایات ایسی کافی ہیں۔ کہ ہم نئے مکاشفہ کے محتاج نہیں۔اب چونکہ وہ مکاشفہ الٰہی جو انجیل کے وسیلے ہم کو پہنچاجس کی تائید و تصدیق میں سیدنا مسیح نے معجزات کر دکھائے کافی دوافی ہے۔ اور چونکہ خدا نجات کے بارے میں جو کچھ ہمیں بتانا چاہتا تھا بتا چکا ہے۔ لہذا اب معجزوں کی ضرورت نہیں رہی۔ اور اسی لئے معجزے دکھائے نہیں جاتے۔

٭٭٭

 

               چھٹا باب

سیدنا مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا

ہم پچھلے ابواب میں اُن مختلف مضامین پر جو معجزے سے علاقہ رکھتے ہیں بحث ر چکے ہیں۔ چنانچہ ہم نے دکھا دیا ہے کہ معجزے کی کیا غرض ہے اور وہ قوانین قدرت سے کیا تعلق رکھتا ہے۔اور کہ جو گواہی انجیلی معجزات کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہے وہ رد کرنے کے لائق نہیں۔ علاوہ بریں ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ مسیح اور اُس کے شاگردوں کے معجزوں میں اور اُن اچنبھوں میں جن کا دنیا دعویٰ کرتی ہے کیا فرق ہے۔ اس باب میں ہم ایک خاص معجزے کو ناظرین کے ملاحظہ کے لئے پیش کرتے ہیں اور ہماری منت ہے۔ کہ وہ بے تعصبی اور انصاف سے ان چند سطور پر غور فرمائیں۔ اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ اگر ایسا کیا جائے گا تو ضرور یہ امر روشن ہو جائے گا کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا ایسی محکم دلائل پر مبنی ہے جن کوکسی طرح کی منطق غلط نہیں ٹھیرا سکتی۔

مسیحی نوشتوں کا دعویٰ ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور یہ عقیدہ مسیحی مذہب کی جان ہے جیسا کہ پولوس کے کلام سے ثابت ہوتا ہے

مسیحی نوشتوں کا یہ دعویٰ ہے کہ مسیح مصلوب ہونے کے بعد تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے۔ کہ اُس کا مصلوب ہونا اور پھر تین دن بعد مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی جان ہے۔ چنانچہ پولوس ُرسول کرنتھیوں کے پہلے خط میں مسیح کی جی اٹھنے کے بارے میں یوں لکھتا ہے "۔ اگرمسیح نہیں جی اٹھا تو ہماری منادی عبث ہے۔ اور تمہارا ایمان بھی عبث ہے۔ بلکہ ہم خدا کے جھوٹے گواہ بھی ٹھیرے کیونکہ ہم نے خدا کی بابت گواہی دی کہ اُس نے مسیح کو پھر جلایا ہے "۔ اور پھردوسری جگہ یوں کہتا ہے "۔ اگر ہم صرف اسی زندگی میں مسیح سے اُمید رکھتے ہیں توہم سارے آدمیوں سے کم بخت ہیں”۔(۱کرنتھیوں ۱۵: ۱۴، ۱۵، ۱۹)ان مقاموں سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔ پولوس کے نزدیک یہ واقعہ ایسا ضروری تھا کہ وہ کہتا ہے کہ اگر وہ سرزد نہیں ہوا تو سب رسول اور گواہ جھوٹے ہیں اور جو اُن کی گواہی سے مسیح پر ایمان لاتے ہیں وہ درجہ اول کے بدبخت اور بد نصیب ہیں۔

پولوس کو کیوں ایسے الفاظ لکھنے پڑے

پولوس کویہ الفاظ غالباً ایسے زور سے اس واسطے تحریر کرنے پڑے کہ شہر کارنتھ میں جہاں اُن دنوں فلسفہ کا دودوران تھا ایسے مسیحی پیدا ہو گئے تھے جو مردوں کے جی اٹھنے پر شک لانے لگ گئے تھے۔ یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مسیح کے جی اٹھنے کے بھی انکاری ہو گئے تھے۔ مگر رسول اس بات کوسن کر کہ وہ قیامت کا انکار کرنے پر آمادہ ہوئے جاتے ہیں اُن کو لکھتا ہے کہ اگر مُردے اپنے جسموں کے ساتھ نہیں اٹھیں گے تو مسیح بھی نہیں اٹھا پر ” اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو ہماری منادی عبث ہے اور تمہارا ایمان بھی عبث وغیرہ”۔ شاید ان کرنتھیوں میں سے بعض یہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ناممکن ہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ ہم مسیح کی پیروی نہیں چھوڑیں گے۔ اُس کی تعلیم اور اُس کا نمونہ ہمارے لئے غنیمت ہے۔ کیونکہ انسان اُس کی تعلیم اور اُس کا نمونہ کے وسیلے اپنے فرائسن کو ادا کرنے کی تحریک پاتا۔ نامناسب جذبات کو اپنے قابو میں رکھنا سیکھتا۔ اور اپنے خدا کی عبادت اور خدمت میں مصروف رہتا ہے۔ پولوس اُن کی غلط فہمی کو دور کرتا ہے اور ایسے الفاظ میں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو اُن کا ایمان لانا عبث ہے۔بلکہ یوں کہنا چاہیئے۔ کہ مسیحی مذہب بالکل جھوٹا ہے۔

مسیحی دین کے مخالف اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں

اور مخالفان دین عیسوی نے اس بات کو خوب پہچانا ہے۔ یعنی وہ جانتے ہیں کہ اگر مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مان لیا جائے توپھر اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ ماننا پڑے گا۔لہذا مخالفوں نے طرح طرح کے اعتراض کئے ہیں اور ہم چاہتے کہ قبل ازیں کہ ہم اس تواریخی واقعہ کی گواہی پیش کریں اور وہ دلائل جو منصف مزاجوں کے نزدیک کافی ووافی ہیں ہدیہ ناظرین کریں اُن اعتراضوں یا مختلف تاویلوں پر غور کریں جو معترضوں نے اپنے واہمہ سے تجویز کی ہیں اور وہ پانچ مختلف صورتوں میں پیش کی جاتی ہیں اُن تاویلوں کے وجود میں آنے کی اصل یہ ہے کہ نکتہ سنج لوگوں نے اس واقعہ کے حقیقی وزن کو خوب محسوس کیا ہے۔ چنانچہ وہ جانتے ہیں کہ مسیحی عقیدوں میں یہ عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو سب سے پُرانا ہے۔ اور کہ اس نے مسیحی مذہب کو زندہ رکھنے اور دور دور تک پھیلانے میں بڑی مدد دی ہے۔ لہذا باتوں باتوں میں اس کو اڑانا  مشکل کام ہے۔ مثلاً بار صاحب جنہوں نے انجیل کے بیانات کی تاویل عقلی طور پر پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جانتے تھے کہ مسیحی مذہب بغیر اس اعتقاد کے دنیا کو فتح کرنے کے لئے ایک قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔گور صاحب انجیلی بیانات اور معجزات کی وہمی تاویلیں پیش کرنے میں عجیب دعووں اور تھیوریوں کو اختیار کرتے ہیں مگر مسیح کے جی اٹھنے کے معاملے میں خاموش ہیں۔ اس خاموشی کو دیکھ کر سٹراس صاحب جن کا ذکر اوپر کئی بار ہو چکا ہے کہتے ہیں کہ بار صاحب اس سخت سوال کو ہاتھ نہیں لگاتے بلکہ اُسے ایک ایسا واقعہ تصور کر لیتے ہیں کہ اُس پر بحث نہیں ہوسکتی۔ اور یوں اُس سے درگذر کر کے صرف اُس کے تواریخی نتائج کا سراغ لگانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ممکن ہے کہ بار صاحب کی خاموشی کسی قدر تجاہل عارفان کی صورت رکھتی ہو۔ مگراس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس واسطے خاموش رہے کہ وہ جانتے تھے کہ مسیح کے جی اٹھنے پر جوجو حملے اور اعتراضوں ہو چکے ہیں وہ ناقابل اطمینان ہیں۔ مگر بار صاحب کی سی دوراندیشی کی توقع ہر معترض اور منکر سے نہیں کی جا سکتی۔ لہذا ان لوگوں نے مسیح کے جی اٹھنے کی مختلف تشریحیں اور تاویلیں پیش کی ہیں تاکہ یہ ثابت کریں کہ وہ کبھی مردوں میں سے زندہ نہیں ہوا۔ پر اس باہمی جنگ و جدل میں یہ تماشہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جو شرح ایک شخص پیش کرتا ہے۔ دوسرا اس کو کاٹ ڈالتا ہے۔ اب ہم اُن تاویلوں پر غور کریں گے۔ وہ یہ ہیں۔

تاویلیں

۱۔ کہ مسیح کا جی اٹھنا محض ایک بنائ ہوئی بات ہے جس کی بنا جھوٹ اور چوری پر قائم ہے۔

۲۔ کہ مسیح صلیب پر مرا نہیں تھا بلکہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ اور جب ہوش میں آیا تو اپنے شاگردوں کو کئی بارملا۔ اور پولوس سے ملاقات کرنے کے وقت تک زندہ رہا۔ زاں بعد کسی کنج تنہائی میں یا جس طرح بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیر میں جا کر مرگیا۔

۳۔ کہ مسیح کبھی جسم کے ساتھ دکھائی نہیں دیا۔ اُس کے نظارے محض ذہنی یا وہمی تھے۔ چونکہ شاگرد اپنے استاد کی مفارقت سے بیکل ہو رہے تھے اور اُن کا دھیان اُسی طرف لگا ہوا تھا اور یہ خواہش دامنگیر ہو رہی تھی کہ اس کے چہرہ کو دیکھیں۔ اُن کا یہ کہنا جھوٹ بولنا نہ تھا کیونکہ انہوں نے اپنے وہم کے تصویر خانہ میں اُس کی صورت کو ایک طرح ضرور دیکھا۔ گو وہ صورت حقیقی مادی صورت نہ تھی بلکہ ایک وہمی عکس تھا۔ پس یہ لوگ فریب خوردہ تھے۔

۴۔ کہ مسیح کی وفات کے بعداُس کے بدن کے جو نظارے شاگردوں کو نصیب ہوئے وہ کلیہ طور پر وہمی نہ تھے بلکہ اُن میں کچھ کچھ حقیقت بھی تھی۔ یا یوں کہیں کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ مسیح کا مادی بدن نہ تھا۔ بلکہ وہ اُس کی جلال روح تھی جس نے اپنے تئیں شاگردوں پر ظاہر کیا تاکہ اُن کے مجروح دل تسلی اور آرام پائیں۔ گویا یہ آسمانی نظارے تار کی خبریں تھیں جن کا یہ مقصد تھا کہ شاگردوں کو پتہ لگ جائے۔ کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔

۵۔کہ نہ مسیح کا بدن دکھائی دیا اور نہ اس کی روح دکھائی دی۔ بات اصل یہ تھی کہ۔ کہ مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد شاگرد یہ منادی کیا کرتے تھے کہ وہ اب بھی زندہ ہے پر وہ اس بات پر ایسا زور دیا کرتے تھے کہ اُن کے مبالغہ آمیز کلام سے آخر کار وہ قصہ پیدا ہو گیاجسے اُس کا مردوں میں سے جی اٹھنا کہتے ہیں۔ اب ہم نے دیکھا کہ یہ پانچ تاویلیں مسیح کے جی اٹھنے کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ کیا مناسب نہیں کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے ان پر ترتیب دار غور کریں اور دیکھیں کہ ان میں کہاں تک راستی پائی جاتی ہے۔

پہلی تاویل کہ مسیح زندہ نہیں ہوا بلکہ اس کی لاش چرائی گئی

ان میں سے پہلی تاویل یہ بتاتی ہے کہ مسیح تو کبھی مردوں میں سے نہیں اٹھا تھا۔بلکہ وہ مرنے کے بعد قبر میں پڑا رہا۔ پر اُس کے شاگردوں نے اُس کی لاش چُرا لی اور مشہور کر دیا۔ کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ واضح ہو کہ یوروپ کے تمام منکر نے اس تاویل کو ناقص بلکہ گندی سمجھ کر ترک کر دیا ہے۔

یوروپ کے منکروں نے اس تاویل کو ناقص سمجھ کر رد کر دیا ہے

اور شاید بہتر ہوتا کہ ہم بھی اس کے کمینہ پن کے سبب سے اس کو یہاں جگہ نہ دیتے۔ مگر اس خیال سے کہ شائد کوئی یہ کہے کہ تم نے اس کا جواب دینے کی کوشش اس واسطے نہیں کہ تم جانتے ہو کہ تمہارے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم چند سطور اس پر تحریر کریں۔ اس الزام کی مدافعت کے لئے ذیل کے دلائل غور طلب ہیں۔

اس تاویل کی تردید

۱۔ ہم پوچھتے ہیں کہ لاش کو چُرا لے جانے میں شاگردوں کو کونسا فائدہ مد نظر تھا؟کونسی ضرورت دامنگیر تھی؟ اگر وہ یہ مانتے تھے کہ وہ خود بخود اپنی طاقت سے جی اٹھے گا تو انہیں اس بات کی حاجت ہی نہ تھی کہ اس کی لاش کو چُرا لائیں۔پر اگر وہ یہ نہیں مانتے تھے تواس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس کے جی اٹھنے کی انتظاری بھی نہیں کرتے تھے۔اور اگر اس بات کی انتظاری نہیں کرتے تھے تو کیا ضرورت تھی کہ اُس کی لاش کو چُرا لائیں؟ جس طرح اور مُردے دفنائے جاتے ہیں۔ اُسی طرح وہ بھی دفن کیا گیا تھا۔ جس طرح اور لوگ اس دنیا سے کوچ کرتے ہیں وہ بھی کوچ کر گیا تھا۔ پھر اُس کی لاش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں کیا بہتری مد نظر تھی؟ اس کا جواب صرف ایک ہی ہوسکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کے شاگرد دنیا کو فریب دینے پر کمر بستہ تھے۔ لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے اُن کوکونسے نفع کی اُمید تھی؟یہودیوں کو غصہ دلانے اور گورنمنٹ کا قصور کرنے میں کیا فائدہ متصور تھا؟ کیا وہ روپے یا زر یا عزت کے بھوکے تھے ؟ سوائے ان باتوں کے اور کوئ معقول وجہ اُن کے فریب کے لئے نظر نہیں آتی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں میں سے کوئی چیز ان کو دستیاب نہ ہوئی۔ جیساہم اوپر ایک جگہ دکھا چکے ہیں حکام وقت اُن کے برخلاف تھے۔ یہودی سردار اُن کی جان کے درپے تھے۔ ارباب علم و فضل اُن کو بیخ کنی میں لگے ہوئے تھے اور عام لوگ اُن کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ تاج کے عوض صلیب، فارغ البالی کی جگہ تنگدستی، عزت کے لئے بے عزتی اُن کو نصیب ہوئی وہ کونسا لالچ تھا جس کی خاطر انہوں نے دین اور دنیا دونوں کھو دئے ؟

کیا اُن میں ایک بھی فریب سے آزاد نہ تھا

پھر یہ بھی ثابت کرنا چاہیے۔ کہ وہ سب کے سب فریبی اور مکار تھے۔ کہ اُن میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جوراستی کا طالب ہوتا۔ کیا اُن میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے مسیح کی باتوں کو اُس کے وعدوں کو اواس کی نبوتوں کو برحق سمجھ کر اُس کی پیروی اختیار کی تھی؟ اور اگر ہم یہ کہیں کہ اُن میں ایسے بھی تھے جو راست گو اور سچائی کے طالب تھے۔ توہم پوچھتے ہیں کہ وہ کب اس فریب میں شامل ہوتے ؟ ناظر ہم آپ سے منت کرتے ہیں کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے فرض کیجئے کہ آپ بھی اس کے شاگردوں میں شامل ہیں اور یہ مانتے ہیں۔ کہ وہ اپنے قول کے مطابق تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھے گا۔ فرض کیجئے کہ آپ بھی محبت یا تعظیم کی راہ سے دیگر شاگردوں کے ساتھ مل کر اس کی لاش کو قبر سے نکال لاتے ہیں اور اسے بڑے ادب اور عزت کے ساتھ کسی جگہ رکھ دیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ اُس کی باتوں کو سچ جاننے کے سبب سے اس بات کے منتظر ہیں کہ وہ مردہ لاش جو آپ کے سامنے پڑی ہے۔ تیسرے دن آپ اٹھ کھڑی ہو گی۔ فرض کیجئے کہ تیسرا دن آتا اور گذ جاتا ہے مگر لاش نہیں اٹھتی۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ اس مایوسی کی حالت میں آپ کیا کریں گے ؟ کیا آپ یہ اشتہار دیتے پھریں گے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے یا اس لاش کی طرف متوجہ ہو کر روتے اور نالہ کرتے ہوئے یہ کہیں گے۔ اے یسوع یا تو تو نے خود دھوکا کھایا تو نے ہمیں قصداً دھوکا دیا۔ دونو حالتوں میں تو نے ہم کو سخت نقصان پہنچایا۔

گئے دونوں جہاں کے کام سے ہم نہ ادھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے

تیری پیروی کے سبب سے ہم ملکی افسروں اور مذہبی لیڈروں اور اپنے خویش و اقارب کی نظروں سے گر گئے۔ اب سوائے ندامت کے اور کچھ ہمارے حصہ میں نہیں۔ تیرے وہ وعدے کہ میں آسمان کی بادشاہت قائم کروں گا کہ میں مردوں میں سے جی اٹھوں گا کہاں ہیں؟ اور اب یہ لاش جس میں ذرا حس و حرکت نہیں پائی جاتی سوائے طمعہ زاغ و زعن ہونے کے اور کسی لائق نہیں۔

ناموں کا خیال بھی فریب کا موجب نہیں ہوسکتا تھا

پھر کیا آپ اس لئے اس فریب میں شامل ہوتے کہ آپ کا نام تمام دنیا میں مشہور  ہو جائے بیشک دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں پطرس اور یوحنا اور پولوس کا نام مشہور نہیں۔ پر اُن کو اس عزت سے یا اس شہرت سے کیا فائدہ ؟ کیا اب مرنے کے بعد وہ اپنی تعریف کو سنتے۔ اور سن کر خوش ہوتے ہیں؟ اگر وہ فریبی تھے اور اگر مرنے کے بعد روح زندہ رہتی ہے اور اگر ان کی روحیں زندہ ہیں۔ تو اپنی شہرت اور ناموری سے خوش ہونے کی بجائے وہ اب عقوبت دوزخ میں گرفتار ہیں اور ہائے ہائے کہہ کر اپنے اپنے فریب پر ماتم کرتے ہیں پر کوئی شخص شہرت کو دنیا کی بے عزتی اور عاقبت کے عذاب سے نہیں خریدتا۔

وہ اُس لاش کو چرا ہی نہیں سکتے تھے

۲۔ پر ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی طرح اس کی لاش کو چرا ہی نہیں سکتے تھے۔ ہاں اگر وہ سب مل کر اس بات کی کوشش بھی کرتے تو تو بھی کامیاب نہ ہوتے۔ غور فرمائیے۔

کیونکہ اُن کا شمار تھوڑا اور وہ پہلے بزدل تھے

الف۔ شاگرد اس وقت شمار میں بہت تھوڑے تھے اور خود اُن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت وہ بڑے بزدل اور کم حوصلہ تھے۔ جب مسیح گرفتار کئے گئے اس وقت وہ سب اس کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پطر س نے تین بار اُس کا انکار کیا۔ صرف یوحنا صلیب تک ساتھ گیا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کے ڈر کے مارے یہ شاگرد کئی دن تک باہر نہ نکلے۔ جب سیدنا مسیح نے ایک مرتبہ بند کمرے میں اُن کے درمیان کھڑے ہوئے اُس وقت وہ اُسے بھوت سمجھ کر ڈر گئے وہ اس بند کمرے میں اس واسطے جمع ہو رہے تھے کہ یہودیوں کے حملے سے ڈرتے تھے۔ کیا ایسے لوگ سپاہیوں کے پہرہ کا مقابلہ کرنے کی جرات رکھتے تھے۔ شاید اُن میں ایک آدھ ایسی جرات کرتا تو کرتا مگر وہ سب کے سب اس سازش میں نہیں مل سکتے تھے۔ اور پھر کیا اُن کو اس بات کا خطرہ نہ تھا۔ کہ اگر ہم میں سے کسی نے راز فاش کر دیا۔ توہم سب کے سب گرفتار ہو جائیں گے۔

علاوہ بریں قبر کی نگہبانی کے لئے

ب۔ پر اگر بفرض محال ہم یہ بھی مان لیں کہ ان چند کم حوصلہ آدمیوں نے لاش چرانے کی سازش کر لی تھی تو ایک اور مشکل پیش آتی ہے۔ اور وہ یہ کہ قبر کی نگہبانی کے لئے سپاہیوں کی ایک گارد موجود تھی۔ اب سپاہی ان کو لاش چرانے کی کب مہلت دینے لگے تھے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ وہ سوگئے تھے تویہ ناممکن ہے۔ کیونکہ رومی قانون کے مطابق جوسپاہی نگہبانی کے کام میں غفلت کرتے تھے وہ سخت سزا پاتے تھے یاد رہے کہ اسوقت ساٹھ سپاہیوں کا پہرا موجود تھا۔ کیا وہ ساٹھوں کے ساٹھوں سوگئے ؟چند سال بعد پولوس اور سیلاس فلپی کے قید خانے میں ڈالے گئے۔ اور جب معجزانہ طور پر اُن کی زنجیریں کٹ گئیں اور جیل کے دروازے کھل گئے تو داروغہ جیل خود کشی کے لئے تیار ہو گیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا۔کہ قیدیوں کا اُس کی غفلت سے نکل جانا اُس پر سخت سزا لائے گا۔ مشہور ایچ۔پی۔ لڈن صاحب اپنے ایسٹر سرمنوں کی پہلی جلد میں پطرس کی زنجیروں کے معجزانہ طور پر کٹ جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہیرودیس سنتریوں سے ایسا ناراض ہوا کہ اُن کو جان سے مار ڈالا۔ تعجب ہے کہ جو سنتری یا سپاہی مسیح کی محافظت کے واسطے مقرر کئے گئے ایسے نڈر تھے کے سب کہ سب سوگئے۔اور سوئے بھی گھوڑے بیچ کر۔ قبر پر سے ایک بڑا بھاری پتھر جس پر مہریں لگی ہوئی تھیں سرکایا جارہا ہے۔ خاصہ شورہا ہے۔ خاصی دیر لگ رہی ہے۔ مگر وہ ایسی لمبی تانے پڑے ہیں۔ کہ کروٹ تک نہیں بدلتے۔ کون اس بات کو مانے گا؟ اب اگر یہ کہا جائے کہ اگر سپاہی واقعی اپنی غفلت کے سبب سے سزا پاتے تھے۔ اور اگر وہ سپاہی بھی جو مسیح کی قبر کے نگران تھے غافل ہونے کی وجہ سے معرض خطر میں آسکتے تھے تو انہوں نے یہودیوں سے رشوت کیوں لی کیونکہ متی کہتا ہے کہ سردار کاہنوں نے ” بزرگوں کے ساتھ جمع ہو کر اور صلاح کر کے سپاہیوں کو بہت روپے دئیے اور بولے تم یہ کہنا کہ رات کو ہم سوتے تھے اس وقت اس کے شاگرد آ کر اسے چرا لے گئے اور اگر یہ بات حاکم کے کان تک پہنچے گی تو ہم اسے سمجھ کر تمہیں اندیشے سے بچ لیں گے۔ پس انہوں نے روپے لے کر جیسے سکھاے گئے تھے ویسا ہی کیا۔اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے "۔(متی ۲۸: ۱۲تا ۱۵)۔ اب اگر انہوں نے اپنے خطرے کو جان بوجھ کر یہ عہد کر لیا کہ ہم کہہ دیں گے۔ کہ ہم سورہے تھے۔ اور اس کے شاگرد آ کر اس کی لاش کو چرا لے گئے۔ تو انہوں نے قصداً اپنے اوپر وہ جرم لیا جس کی سزات موت تھی۔یا یوں کہیں کہ وہ جان بوجھ کر اپنی مرضی سے وہاں اجل میں جاپڑے۔ پر اس کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ متی کی اس عبارت کے پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں نے یہ رشوت اس واسطے نہیں دی تھی کہ سپاہی حاک کے سامنے جا کر یہ کہیں۔بلکہ اس لئے کہ عام لوگوں کو جو انہیں سزا دینے کا کچھ اختیار نہیں رکھتے تھے یہ کہیں کہ اُس کی لاش کو اُس کے شاگرد چرا لے گئے ہیں۔ چنانچہ وہ رشوت دیتے ہوئے خود کہتے ہیں "۔ کہ اگر یہ بات حا کے کان تک پہنچے گی توہم اسے سمجھاکر تمہیں بچا لیں گے "۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب سپاہیوں نے روپیہ لیا تو اُس وقت اُن کو یقین تھا کہ یہ بات حاکم نہیں جائے گی۔ پس ہم روپے کیوں ہاتھ سے جانے دیں۔ اور کچھ تعجب نہیں کہ اُن کا یہ بھی خیال ہو کہ اگر اس معاملے کی حاکم کے سامنے باز پرس ہوئی توہم اسی طرح سارا حال صحیح صحیح طور پر اُس کے سامنے بھی بیان کر دیں گے "۔دیکھو متی ۲۸: ۱۱۔

پس صاف ظاہر ہے کہ ان سپاہیوں کے پہرہ میں سے مسیح کی لاش اُڑا لے جانے ناممکن بلکہ محال تھا۔

پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ عید کا موقعہ تھا کئی لاکھ آدمی موجود تھے

ج۔ پھر اس بات پر بھی غور کیجئے کہ یہ موقعہ ایک بڑی عید کا موقع تھا۔ کہتے ہیں کہ بیس تیس لاکھ یہودی اس موقعہ پر یروشلیم میں جمع ہوا کرتے تھے۔ اور وہ سب اپنے دینی رہنماؤں اور پیشواؤں سے پوری پوری ہمدردی رکھتے تھے۔ وہ مسیح کی پست حالی کے سبب سے اُسے مسیح موعود نہیں جانتے تھے ان لوگوں سے یروشلیم کے گلی کوچے بھرے پڑے تھے۔تعجب ہے کہ ان میں سے بھی کسی نے اُن کو لاش چراتے نہ دیکھا۔ اور نہ لے جاتے دیکھا۔ نہیں یہودی خود جانتے تھے کہ لاش چرائی نہیں گئے۔ چنانچہ جب پطرس اور یوحنا نے مسیح کے جی اٹھنے کی منادی کی تو اُنہوں نے اُن کو کوڑے لگائے پر یہ نہیں کہا ہم تم کو اس لئے مارتے ہیں کہ تم نے مسیح کی لاش چرائی اور جھوٹ سے یہ بات مشہور کر دی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ اُنہوں نے استفنس کو سنگسار کیا۔ اور اور مسیحیوں کو ستایا مگر اُن پر کبھی یہ الزام نہ لگایا کہ تم چور ہو۔ تم یسوع کی لاش چرا لے گئے۔ اور تم نے جھوٹ موٹ یہ بات مشہور کر دی کہ وہ جی اٹھا ہے۔ اب مذکورہ بالا باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ تاویل جو یہ کہتی ہے کہ مسیح کبھی زندہ نہیں ہوا بلکہ اُس کے شاگردوں نے اُس کی لاش چرا کر یہ مشہور کر دیا کہ وہ زندہ ہو گیا ہے بالکل بے بنیاد ہے۔ بلکہ ناپاک ہے کیونکہ وہ اُن لوگوں پر جنہوں نے سچائی کے لئے اپنی جانیں دیدیں جھوٹ اور فریب کا الزام لگاتی ہے۔

دوسری تاویل

دوسری تاویل جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں یہ ہے کہ مسیح مرا نہیں تھا بلکہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ پھر جب کچھ عرصہ کے بعد اُس کو ہوش آیا تو وہ اپنے شاگردوں کو ملا۔ اور چند دن زندہ رہ کر پھر مرگیا اس تھیوری کے ماننے والے اس طرح استد لال کرتے ہیں۔ صلیبی موت میں خواہ ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں بھی گاڑی جائیں تاہم خون بہت ضائع نہیں ہوتا۔ اور مصلوب کچھ بھوک کے مارے اور کچھ غش سے تڑپ تڑپ کر دیر بعد مرتا ہے اب اگر مسیح صرف چھ گھنٹے کے بعد صلیب سے اتارا گیا تو وہ مرا نہیں تھا۔بلکہ غش کے سبب سے بے ہوش ہو گیا تھا۔ پس قبر میں تھوڑے عرصہ تک رہنے کے بعد وہ پھر ہوش میں آ گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ کسی مرہم کے استعمال سے وہ چنگا ہو گیا۔ اس دلچسپ بحث پر ضربت عیسوی مصنفہ اکبر مسیح کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم یہاں صرف وہ خیالات پیش کرنا چاہتے ہیں جو ایسی کمزور تاویلوں کی تردید کرتے ہیں۔

انجیل شریف کا صاف بیان اس وہمی تاویل کا مخالف ہے

پہلی بات اس تاویل کی تردید میں یہ ہے کہ چاروں راوی انجیل شریف کی گواہی اس تاویل کے برخلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح واقعی مرگیا تھا۔ لڈن صاحب نے خوب کہا کہ یہ تو تعجب کی بات نہیں کہ وہ صلیب پر فقط چند گھنٹے رہ کر مرگیا۔ تعجب اس میں ہے کہ وہ اس سے جلدی کیوں نہ مرا کیونکہ اُس نے مصلوب ہونے سے پہلے سپاہیوں اور عوام کے ہاتھ سے بہت صدمے اٹھائے تھے۔ پھر ہم پڑھتے ہیں۔ کہ بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی گئی۔ کیا وہ سپاہی کی برچھی کھانے کے بعد بہت مدت تک زندہ رہ سکتا تھا ؟ ہم کو انجیل نویس صاف بتاتے ہیں کہ سپاہیوں نے اُس کی ٹانگوں کو بالکل نہ توڑا کیونکہ وہ پلے ہی سے مرگیا۔ اور کہ پلاطوس نے لاش کو نیچے اُترنے نہ دیا ب تک کہ صوبہ دار سے دریافت نہ کر لیا کہ وہ فی الواقع مرگیا ہے۔ پر اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ جب وہ صلیب پر سے اتارا گیا اُس وقت زندہ تھا۔ تو ایک اور بات سامنے آتی ہے جواُسے مدت تک زندہ رہنے نہ دیتی اور وہ یہ کہ جب یوسف ارمتیار اور نقودیمس نے اُس پر خوشبو بیان ملنی شروع کیں۔ اگر وہ اس وقت زندہ ہوتا تو دم گھٹ کر مر جاتا۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ کوئی پچاس سیر مُر اور عود اپنے ساتھ لائے تاکہ اُن چیزوں کو اس کے جسم پر ملیں اور پھر اُس کے بعد یہودی دستور کے مطابق اُس کو کفن پہنایا۔ یعنی اُس کا منہ سر سب کچھ لپیٹ دیا۔ یہ ساری باتیں دیکھ کر حیرت آتی ہے کہ لوگ کیوں اس سیدھے سادھے بیان کو قبول نہیں کرتے۔ مورخ صاف بتاتے ہیں کہ وہ مرگیا تھا۔ دشمنوں کا بھالا صاف کہے دیتا ہے کہ وہ مرگیا تھا۔ پچاس سیر مُر اور عود گواہی دیتے ہیں کہ وہ مرگیا تھا۔ کفن اور قبر پکار رہے ہیں کہ وہ مرگیا تھا۔ اُس کے زمانہ کے تمام یہودی کہتے ہیں کہ وہ مرگیا تھا(یہ بات قابل غور ہے۔کہ یہودیوں نے گو اور کئی طرح سے شاگردوں پر حملہ کیا۔ مگر کبھی یہ نہیں کہا کہ مسیح صلیب پر کبھی مرا نہیں تھا۔ مگر ہمارے بعض مہربان دوست اس بات کو نہیں مانتے حالانکہ خود اُس وقت موجود نہ تھے۔بروس صاحب نے اس موقعہ پر جو کلام سٹراس کی تحریر سے اقتباس کیا ہے غور کے لائق ہے۔

سٹراس اس لچر تاویل کا مخالف ہے

سٹراس کا نام اس کتاب میں بار بار آ چکا ہے۔ یہ شخص مسیحی نہ تھا۔ بلکہ مسیحی مذہب کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اور مسیح کے جی اٹھنے کا قائل نہ تھا۔مگر تاہم اس تاویل کا مخالف تھا۔ چنانچہ وہ کہتا ہے۔” یہ ناممکن ہے کہ وہ شخص جو کہ ادھ موا سا قبر میں سے نکلا تھا۔ جو بیمار اور کمزور آدمی کی طرح لڑ کھڑا کر چلتا پھرتا تھا۔ جسے حکیم کے علاج کی ضرورت تھی۔ جو مرہم پٹی اور طاقت وغیرہ کا محتاج تھا اور جو آخر کار اپنی تکلیفوں سے مغلوب ہو ہی گیا ہاں یہ ناممکن ہے کہ ایسا شخص شاگردوں پر یہ اثر پیدا کرتا کہ وہ اسے موت اور قبر کا فاتح اور زندگی کا شہزادہ سمجھنے لگ جاتے۔پر ہم دیکھتے ہیں کہ یہی عقیدہ اُن کی آئندہ خدمت کی تہ میں تھا۔ پس اگر وہ صرف غش سے ہوش میں آتا۔ تواس سے وہ اثر بھی جاتا رہتا جواُس نے پہلے اپنی زندگی اور موت کے وسیلے اُن پر ڈالا تھا۔ اس قسم کی زندگی شاید زیادہ سے زیادہ غم پیدا کرتی۔ لیکن کسی طرح سے اُن کے غم کو سرگرمی میں تبدیل نہیں کرسکتی تھی۔ اور نہ تعظیم کو عبادت میں”۔

ان دنوں اس خیال کو بیدار مغز اشخاص بہت کم مانتے ہیں۔ اور جو خیالات ہم اوپر عرض ر چکے ہیں اُن پر غور کرنے سے ہر منصف مزاج شخص کو ماننا پڑتا ہے۔ کہ کوئی بات اس بے بنیاد تاویل کی تائید نہیں کرتی۔ پس مسیح صلیب پر سے زندہ اترا تھا۔

تیسری تاویل

اب ہم تیسری تاویل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ تاویل ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا مولا کبھی مردوں میں سے زندہ نہیں ہوا تھا۔ پر شاگرد مدت تک اُس کی نسبت سوچتے رہے اور آخر کا ر اُن کے ذہن پر اُس کی صورت ایسی نقش ہو گئی کہ وہ خیال کرنے لگ گئے کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔یا یوں کہیں کہ اُس کی تصویر اُن کے سامنے کھنچ گئی۔

رینان کا خیال کہ مسیح کی دید کے نظارے وہم سے پیدا ہوئے تھے

اس دعوے کو رینان کے الفاظ میں یوں ادا کرسکتے ہیں”۔ سرگرمی اور محبت کے لئے کوئی قید نہیں۔یہ دونو صفتیں ناممکن باتوں کو بھی ہلکا جانتی ہیں اور امید منقطع کرنے کے عوض حقیقی باتوں میں بھی تصرف کر بیٹھتی ہیں۔ لہذا کئی باتیں جو استاد نے کہی تھیں اس معنی میں لی گئیں کہ وہ قبر میں سے نکل آئے گا۔ علاوہ بریں یہ اعتقاد ان لوگوں کی طبیعت سے ایک خاص مناسبت رکھتا تھا۔ پس شاگردوں کا ایمان اس قسم کا قصہ بآسانی ایجاد کرسکتا تھا۔ حنوک اور الیاس جیسے بڑے بڑے نبیوں نے کبھی موت کا مزہ نہیں چکھا تھا پس جو کچھ اُن کے تجربہ سے گذرا تھا ضروری امر تھا کہ مسیح کے تجربے سے بھی گذرے موت کا کسی با لیاقت یا کسی کشادہ دل شخص کو مارنا ایسا پُر حماقت کام معلوم ہوتا ہے کہ لوگ نیچر کی ایسی غلطی کو مان نہیں سکتے۔ بہادر اشخاص کبھی نہیں مرتے۔ اس بزرگ اُستاد نے اس دائرے کو جس کا مرکز وہ آپ ہی تھا خوشی اور اُمید سے معمور کر رکھا تھا "۔

” پس کیا اُس کے شاگرد یہ دیکھ سکتے تھے۔ کہ وہ قبر میں پڑا سڑا کرے "؟ مطب رینان کا یہ ہے کہ اول تو مسیح کے کلام ہی میں بعض ایسی باتیں پائی جاتی تھیں جن کی یہ تشریح ہوسکتی تھی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھے گا۔ اور پھر یہودیوں کے بعض نبی ایسے تھے جن کی نسبت مانا جاتا تھا کہ وہ کبھی موت کے چنگل میں گرفتار ہی نہیں ہوئے۔ اب شاگرد چاہتے تھے کہ اُن کا استادان نبیوں سے کسی طرح کم نہ رہے لہذا ان سب باتوں نے مل جل کر یہ اثر پیدا کیا کہ انہوں نے اُسے قبر میں سڑتے دیکھنا گوارا نہ کیا۔پس اپنے واہمہ میں اسے زندہ دیکھ کر مشہور کر دیا کہ وہ جی اٹھا ہے۔ گویا جب شاگردوں کی جماعت نے مسیح کو قبر میں پڑا دیکھا تو اُن میں سے کسی ایک نے کہا کہ ہم رائے پیش کرتے ہیں کہ مسیح مردوں میں نہ رہے۔ دوسروں نے اس رائے کی تائید کی اور آخر کا ریہ زیرولیوشن پاس ہوا کہ مسیح کسی نہ کسی طرح مردوں میں اٹھا دیا جائے۔یوں معتقدوں کی جماعت مردے کو زندہ دیکھنے اور ماننے کے لئے تیار ہو گئی اس پر طرہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے قبر کو خالی دیکھا تو وہ اور بھی دھوکا کھانے کے لئے تیار ہو گئے۔ (لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ قبر کس طرح خالی ہوئی )مریم مگدلینی پہلی عورت تھی جس نے یہ وہمی رویہ دیکھی۔ وہ قبر کے پاس کھڑی روتی تھی۔ سوجب اُس نے ذراسی آہٹ سنی اور لوٹ کو نظر ڈالی تو ایک آدمی کو دیکھا۔ اس سے پوچھا کہ نعش کہاں ہے۔ اس سوال کے جواب میں اپنا ہی نام ” مریم ” سنا۔ یہ آواز تھی کہ جس نے بارہا اُس کے بدن میں لرزہ پیدا کر دیا تھا۔ سواس نے سوچاکہ یہ مسیح کی آواز ہے۔ یوں محبت کا معجزہ کامل ہو گیا اب وہ کہتی ہے کہ میں نے اسے دیکھا اور اس کی آواز سنی ہے۔ اب جب ایک نے اس کو دیکھ لیا تودوسروں کے لئے اسے دیکھنا کچھ مشکل کام نہ تھا پس یہ روائتیں ایسی متعدی ہو گئیں کہ ایک ایک شاگرد کو مسیح نظر آنے لگا۔ واضح ہو کہ اس طرح رینان اور اس کے ہم مکتب احباب نے مسیح کے جی اٹھنے کی نسبت رائے دی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ جہاں جوش اور اُمید اور محبت جیسی صفتیں موجود ہوتی ہیں وہاں اگر بیرونی اسباب سے ذرا بھی مدد ملے تو فوراً جس شخص کو چاہیں اسی کو پوری پوری شکل پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ وہ آپ آ کر سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔

سٹراس کا خیال

سٹراس اس عجیب وقوعہ کو اور ہی طرح حل کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ پولوس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے مسیح کو مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد دیکھا اور میرا دیکھنا اسی قسم کا ہے۔ جس قسم کا پہلے رسولوں کا تھا۔ لیکن جو نظارہ پولوس کو نصیب ہوا اور وہ لاریب خیالی تھا اور پولوس اسی طبیعت اور مزاج کا آدمی تھا کہ ایسے خیالی نظاروں کو دیکھنا اُس کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ کیونکہ وہ خود ہم کو بتاتا ہے کہ ایک طرح کے وجد کی حالت اُس پر اکثر طاری ہو جاتی تھی( ۲کرنتھیوں ۱۲: ۱) اب اس کے اس قسم کے دعووں سے یہ خیال گذرتا ہے کہ وہ شاید مرگی کی سی کسی بیماری میں گرفتار تھا اور یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے عجیب قسم کے نظارے اُس کی آنکھوں کے سامنے آتے تھے۔ اور جب وہ وقت آیا جس وقت اسے مسیح کی پیروی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ جس وقت طرح طرح کے جذبات اُس کے دل میں جوش زن تھے۔ جس وقت نئے اور پُرانے خیالوں میں ایک قسم کی جدوجہد جاری ہو گئی تھی اُس وقت اُس کے خیالات کا انسانی صورت اختیار کر کے اُس کے سامنے آ کھڑا ہونا اُس کی طبیعت کے عین مطابق تھا۔ اور جو روشنی اُس کے تجربے سے ہم کو ملتی ہے اس کی امداد سے یہ عقیدہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ کہ پہلے رسولوں اور شاگردوں نے کس طرح مسیح کو زندہ دیکھا یعنی جس طرح پولوس نے دیکھا اسی طرح انہوں نے دیکھا مسیح کی موت نے ان شاگردوں کے ایمان کو ہلا دیا تھا۔اور اغلب ہے کہ اس وقت اُن کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہوئی ہو کہ کسی نہ کسی طرح اُس نقص پر جو مسیح کی موت سے برپا ہوا ہے غلبہ پانا ضروری امر ہے اور اس کے ساتھ جب انہوں نے نوشتوں کی چھان بین شروع کی تو وہاں اس قسم کے نوشتے پائے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ مسیح موت کا شکار تو ہو گا۔مگر موت اُس پر غالب نہ رہے گی۔ یوں اُنہوں نے موت اور جی اٹھنے کے ہر دو واقعات کو مسیح کے تجربہ میں شامل کر دیا۔ پس جب مسیح مرگیا تو اُنہوں نے یہ انتظاری شروع کی کہ وہ نوشتوں کے مطابق جی بھی اٹھے گا۔ اب جبکہ  وہ ایسے واقعہ کے ظہور کے دل و جان سے منتظر تھے اُس وقت اُن کے انتظار میں سے مسیح کے جی اٹھنے کے وہ نظارے پیدا ہوئے جو انجیل شریف میں مندرج ہیں۔

اس تاویل کی تردید

یہ حل یا شرح سٹراس کی طرف سے ہے۔ پر اس تاویل پر بھی بڑے حملے کئے گئے ہیں اور اس کی کمزوریاں فاش کی گئی ہیں۔ پہلی بات اس کے برخلاف یہ ہے کہ رینان اور سٹراس کی تھیوری کے مطابق بہت وقت کی ضرورت تھی کیونکہ قلیل سے عرصہ میں شاگردوں کے دل اس قسم کے وہمی نظاروں کے دیکھنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن انجیل نویسوں کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح اپنی وفات سے کل تین دن بعد اُن کو نظر آنے لگ گیا۔ اب اگر مسیح ایسا جلد نظر آنے لگ گیا جیساکہ انجیل شریف کے بیان سے عیاں ہے تو وہمی نظاروں والے خیال پر ایک یہ اعتراض قائم ہوتا ہے کہ یہ وقت ایسا نہ تھا کہ وہمی روائتیں یا نظارے نظر آتے۔ کیونکہ شاگرد اس وقت انجیل شریف کے بیان کے مطابق شکستہ خاطر اور غم کے بھنور میں مبتلا تھے۔ چنانچہ انجیل شریف اُن کی سی حالت پر گواہی دیتی ہیں۔ مثلاً متی کہتا ہے کہ جب مسیح شاگردوں کو گلیل میں ملا تو بعض نے شک کیا”(متی ۲۸: ۱۷)۔ مرقس کہتا ہے کہ جب شاگردوں نے مریم مگدلیہ سے سنا کہ مسیح زندہ ہے اور میں نے اسے دیکھا ہے تو انہوں نے یقین نہ کیا”۔ لوقا بتاتا ہے کہ عورتوں کی باتیں شاگردوں کو ” کہانی سی معلوم ہوئیں”(لوقا ۲۴: ۱۱) یوحنا ایک خاص شخص کا ذکر کر کے بتاتا ہے کہ اُنہوں نے یک بیک مسیح کے جی اٹھنے کو قبول نہیں کیا۔(مثلاً وہ توما کا ذکر کرتا ہے اور دکھاتا ہے کہ وہ کس طرح اس واقعہ کی خبر کو قبول کرنے میں محتاط تھا۔ اگر ہم یوحنا ۲۰: ۲۴تا ۲۹ کو پڑھیں تو ہم دیکھیں گے۔ کہ جب اس کو مسیح کے جی اٹھنے کی خبر دی گئی تو اُس نے جواب میں کہا ” کہ جب تک میں اُس کے ہاتھ میں میخوں کے سوراخ نہ دیکھ لیوں اور میخوں کے سوراخ میں اپنی انگلی نہ ڈال لوں اور اپنا ہاتھ اُس کی پسلی میں نہ ڈال لوں ہرگز یقین نہ کروں گا”۔ اسی طرح عورتیں بھی اُس کے جی اٹھنے کی مردوں کی نسبت کچھ زیادہ منتظر نہ تھیں۔ وہ اس کی قبر پر اس کو زندہ دیکھنے نہیں گئی تھیں بلکہ اس کی لاش پر عطریات و خوشبات ملنے گئی تھیں۔ اور انجیلی بیانات کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شاگرد مسیح کی صورت کو دیکھ کر کبھی اس فکر میں پڑ جاتے تھے کہ جو صورت ہم دیکھ رہے ہیں کیا وہ ایک ہوائی نقشہ ہے یا حقیقی صورت ہے۔ اور کبھی اس بات پر غور کرتے تھے۔ کہ جس مسیح کی شکل ہم دیکھ رہے ہیں کیا وہ مسیح ہے جو ہمارے ساتھ رہا کرتا ہے یا ہم کوکسی اور چیز کی شکل نظر آتی ہے ؟ انہوں نے اسے روح یا بھوت بھی سمجھا اور اُن کا یہ خیال وہی خیال ہے جو رینان اور سٹراس کا تھا۔اب ہم دیکھ یہ دیکھ کر کہ وہ خود رینان اور اسٹراس کی طرح ان نظاروں کو جو انہیں نصیب ہوئے مشاہدہ کرنت کے بعد یہ سوچتے تھے کہ وہ کہیں وہمی نہ ہوں اور انہوں نے اپنے وہم کو روکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اس بات کا فیصلہ کرنے میں کہ جو نظارے ہم مسیح کی شکل کے دیکھ رہے ہیں وہ کہیں جھوٹے نہ ہوں۔انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ہاں ان سب باتوں کو دیکھ کر ہم کس طرح رینان اور سٹراس اور ان کے ہم خیال لوگوں کے اس دعوے کو قبول کرسکتے ہیں۔ کہ مسیح حقیقت میں زندہ نہیں ہوا تھا۔ فقط اس کی صورت کے وہمی نظارے شاگردوں کی انتظاری کے باعث پیدا ہو گئے تھے ؟

دیگر اعتراضات

مگر ماسوائے اعتراضات مذکورہ بالا کے ذیل کی باتیں اس رکیک تاویل کے برخلاف ہیں۔

۱۔ کہ اگر یہ نظارے وہمی ہوتے تو ایسے نہ ہوتے جیسے بیان ہوئے ہیں۔ جو مسیح اُن کو نظر آتا ہے اُ س کی حالتیں اور طریقے اُس مسیح سے جو مرنے سے پہلے اُن کے ساتھ رہتا تھا۔ مختلف تھے۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نظارے باوجود عجیب و غریب ہونے کے صاف اور سادا بھی ہیں۔

۲۔ یہ نظارے بہت جلد بند ہو گئے۔ اگر یہ وہم سے پیدا ہوئے تھے تو چاہیے تھا۔ کہ مدت تک وہم اپنا کام کرتا رہتا اور مسیح اُن کو ہمیشہ نظر آتا رہتا۔ کیا سبب ہے کہ فقط چند دن تک مسیح کے نظارے اُن کو نصیب ہوئے اور پھر بند ہو گئے ؟ اس کا اور کوئی جواب نہیں سوائے اس کے کہ مسیح فی الحقیقت جی اٹھا تھا اور جب جب وہ اُن کو نظر آیا انہوں نے اس کو دیکھا۔ اور جب آسمان پر تشریف لے گیا۔ تب یہ نظارے بھی بند ہو گئے۔

۳۔ کہ جو تبدیلی شاگردوں کے مزاج میں مسیح کے نظاروں سے فی الفور پیدا ہوئی وہ اُس ذہنی حالت کے برخلاف ہے جس سے وہمی نظارے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مسیح اُن کو نظر آیا تو وہ فوراً اُن کی حالت تبدیل ہو گئی۔ اور انہوں نے مسیح کے مسیحائی درجہ کا صحیح عرفان حاصل کیا اور اسی وقت سے اس کے نام پر گواہی دینے کا مصمم ارادہ ٹھانا۔ اور یہ ہمت باندھی کہ ہم اپنے مولا کے نام کی جو مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ تمام دنیا میں منادی کریں گے۔ اب اگر اُن کا دماغ یا مزاج اپنی اصلی صحت سے بہ سبب طرح طرح کے غور و فکر کے گرا ہوا تھا۔ اور وہمی نظاروں کے لئے تیار ہو رہا تھا تو ضرور تھا کہ وہ کم از کم کچھ مدت تک اُسی حالت میں رہتا۔ پس اُن کے مزاج میں جو تبدیلی فی الفور پیدا ہوئی رینان اور سٹراس کی تاویل کے برخلاف ہے۔

چوتھی تاویل

اب بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اوپر کی تاویلوں کو تو ناقص سمجھتے اور اُن کی تردید میں بڑی زبردست دلائل پیش کرتے ہیں۔ مگر مسیح کے جسم کے حقیقی طور پر جی اٹھنے کے قائل نہیں۔ مثلاً مرقومہ بالا سطور میں جو تین باتیں رینان اور اسٹراس کی تھیوری کے برخلاف پیش کی گئی ہیں وہ اسی قماش کے لوگوں میں سے ایک شخص کے قلم سے نکلی ہیں۔

کہ یہ نظارے وہمی نہ تھے مسیح کی قدرت سے ظاہر ہوئے تاہم مسیح کے زندہ بدن کے حقیقی نظارے نہ تھے

اس کا نام کیم ہے۔ وہ اور اس کے ہم خیال اشخاص یہ مانتے ہیں کہ مسیح کے مرنے کے بعد جو نظارے اُس کے جسم کے جی اٹھنے کے اس کے شاگردوں نے دیکھے وہ وہم سے نہیں پیدا ہوئے تھے بلکہ وہ سچے تھے۔ مگر اس معنی میں نہیں کہ مسیح درحقیقت اپنے بدن کے ساتھ جی اٹھا تھا۔بلکہ اس معنی میں کہ اس کی روح زندہ تھی اور اسی روح نے وہ نظارے شاگردوں کو دکھائے جو اُنہوں نے دیکھے تاکہ اُن کے دلوں کو اطمینان حاصل ہوا اور وہ جانیں کہ ہمارا مولا زندہ ہے اور موت سے اس کا وجود معدوم نہیں ہوا۔

اس تاویل یا تشریح کا مطلب ظاہر کرنے کے لئے زیادہ خاصہ فرسائی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں اُمید ہے کہ ناظرین نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس تاویل کے ماننے والے ان نظاروں کی صداقت اور حقیقت کے قائل ہیں۔ کیونکہ وہ یہ نہیں مانتے کہ یہ نظارے جو انجیل میں درج ہیں محض وہم سے پیدا ہوئے مگر وہ یہ مانتے ہیں۔ اور ہم سے منوانا چاہتے ہیں۔ کہ جو بدن شاگرد دیکھتے تھے وہ حقیقی بدن نہ تھا۔ لیکن وہ شاگردوں کے وہم کا نتیجہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ مسیح کی زندہ روح نے وہ نظارے پیدا کئے تھے تاکہ شاگردوں کو معلوم ہو جائے کہ مسیح فنا نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے۔

ہم اس تاویل کو بھی نہیں مانتے

اب ہم اس تاویل کو بھی قبول نہیں کرسکتے گو یہ تاویل مسیح کے بدن کے جی اٹھنے کے اظہاروں کو ایک طرح اُس کی زندہ روح کے عمل سے منسوب کرتی ہے۔ دراصل یہ تاویل بھی اسی مشکل سے پیدا ہوتی ہے جو لوگوں کو سُپر نیچرل کا منکر بناتی ہے اس تاویل کی تردید میں ذیل کے خیالات پیش کئے جا سکتے ہیں۔

یہ تاویل بعض فوق العادت باتوں کو مانتی ہے

۱۔ اس تاویل کے ماننے سے اُن لوگوں کو جنہوں نے اس کو تجویز کیا ہے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا۔انہوں نے بدن کے جی اٹھنے کو قوانین قدرت کے برخلاف سمجھ کر یہ تشریح گھڑی ہے۔ پر جیسا بدن کا مردوں میں سے جی اٹھنا قوانین قدرت خلاف ہے۔ ویسا ہی مسیح کی زندہ روح کا فوق العادت نظارے پیدا کرنا قوانین قدرت کے خلاف ہے۔ پس جب اس تشریح میں بھی قوانین قدرت کو پنا ہ نہیں ملتی تو کیا ضرورت ہے کہ ہم انجیل کے سادا بیانات سے خلاف ورزی اختیار کریں اور کلیسیا کی قدیم تشریح اور عقیدے کو رد کریں۔

یہ تاویل روح کو جھوٹا ٹھیراتی ہے

۲۔ یہ شرح مسیح کی روح کو جس سے مسیح کے اظہارات منسوب کئے جاتے ہیں جھوٹا ٹھیراتی ہے کیونکہ تاویل ایک طرف تو یہ مانتی ہے۔ کہ جن اظہارات کا ذکر انجیل شریف میں پایا جاتا ہے وہ مسیح کی روح کی قدرت سے وجود میں آئے پر دوسری جانب مسیح کے بدن کے جی اٹھنے کا انکار بھی کرتی ہے۔ اب اعتراض یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسیح کا بدن نہیں جی اٹھا تھا۔ تو اس کی روح نے شاگردوں کی تسلی کے لئے اور اُن کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ مسیح نے فنا نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے معجزانہ آواز کے وسیلے یہ خبر کیوں نہ دی کہ اے شاگردو تم کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ گھبرانا چاہیے۔ تمہارا استاد جو مرگیا تھا اس کی روح اب تک زندہ ہے ؟ اگر یہ خبر آواز کے وسیلے دی جاتی تو اس کے شاگرد اس کے جسم کو زندہ سمجھنے کی غلطی میں گرفتار نہ ہوتے۔ مگر برعکس اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں۔ کہ آسمان سے جب اس کی روح کے زندہ ہونے کی خبر آتی ہے۔ تو وہ ایسے واقعات اور ایسے الفاظ میں آتی ہے جو جسم کے زندہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ اب اگر مسیح کا جسم مردوں میں سے نہیں جی اٹھا تھا تو واقعی یہ آسمانی تار برتی صداقت کے اظہار کے بالعوض زیادہ تر مغالطہ میں ڈالنے والی تھی۔

سب سے آسان بات

پس سب سے آسان بات یہ ہے کہ ہم اُس بیان کو سچا اور راست سمجھیں جو انجیل شریف میں مندرج ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہی جسم جو قبر میں رکھا گیا تھا۔ پھر جی اٹھا اور شاگردوں کو نظر آیا اب کیا ہم اس بات کو اسلئے رد کریں کہ وہ مردہ بدن کا جی اٹھنا ہماری سمجھ سے باہر ہے ؟ کیا اس بات کا سمجھنا زیادہ آسان ہے کہ مسیح کی زندہ روح خلا میں ایسی شکلیں پیدا کرسکتی تھی۔ جو مسیح کے مشابہ تھیں۔ مگر درحقیقت مسیح نہ تھیں ؟ ہماری رائے میں وہ آسمانی خبر جو زمین پر آکر ایک جسمانی صورت اختیار کرسکتی تھی ایسا ہی عجوبہ تھا۔ جیسا مردہ جسم کا مردوں میں سے جی اٹھنا۔

پانچویں تاویل اور وہ فرق جو اُس میں اور باقی تاویلوں میں پایا جاتا ہے

واضح ہو کہ مذکورہ بالا تشریحیں اس بات کی قائل ہیں کہ شاگردوں کے تجربہ سے کوئی نہ کوئی بات گذری جس سے یہ اعتقاد پیدا ہوا کہ مسیح کا مردہ بدن زندہ ہو گیا ہے۔لیکن آخری تشریح جس کا ذکر ہم اب کرنے لگے ہیں وہ کسی طرح کے تجربہ کی قائل نہیں یعنی وہ یہ مانتی ہے کہ مسیح صلیب پر سے بحالت غش اترا اور چند عرصہ کے بعد پھر ہوش میں آیا اور اس سے یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔ اور نہ یہ مانتی ہے کہ شاگردوں کے واہمہ نے خیالی مسیح کی شکل اُن کے سامنے پیدا کر دی اور نہ یہ ہی مانتی ہے کہ مسیح کی روح نے وہ نظارے پیدا کئے جو بعد میں اُس کا مردوں میں سے جی اٹھنا سمجھے گئے۔

اس آخری تاویل کا دعویٰ ہے کہ شاگردوں نے کسی طرح کا نظارہ نہیں دیکھا تھا

اس آخری تاویل کے مطابق کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی بلکہ مسیح مرگیا اور دفن ہوا اور برابر اپنی قبر میں پڑا رہا۔ پر جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا اعتقاد کس طرح پیدا ہوا؟ تواس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے۔ کہ شاگرد اس بات کو مانتے تھے کہ مسیح جو مصلوب ہوا ہے۔ اب بھی زندہ ہے۔ اور وہ عام لوگوں کی طرح زندہ نہیں بلکہ حنوک اور موسیٰ اور الیاس جیسے خاص خاص بزرگوں کے ساتھ زندہ ہے۔ اور فرشتوں کے ساتھ بود و باش کرتا ہے جس وقت کلوری کا صدمہ ذرا ہلکا ہوا تو یہ اعتقاد فوراً ان کے دل میں پیدا ہوا۔ اور یہ اعتقاد ایک ایسا اعتقاد ہے جو ہر ایک شخص رکھتا ہے یعنی جب حبیبوں کی جدائی کا رنج ذرا کم ہو جاتا ہے تواس کے بعد یہ خیال پیدا ہی ہو جاتا ہے۔ کہ ہمارا پیارا فنا نہیں ہوا بلکہ زندہ ہے۔ یہی حال شاگردوں کا بھی ہوا۔ بلکہ اُن کو مسیح کے زندہ ہونے کا یقین اور بھی زیادہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ تو ایک بزرگ آدمی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوسکتا۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے مسیح کو خود دیکھا ہے پر اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو کوئی اس بات کو ہر گز ہر گز نہ مانتا کہ مسیح آسمان پر زندہ موجود ہے۔ کیونکہ اور لوگ مسیح کے حالات سے ایسے طور پر واقف نہ تھے جس طرح یہ شاگرد تھے۔ پس اُن کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح کو دیکھا ہے۔ اُسی طرح کا تھا۔ جس طرح پولوس کا یہ دعویٰ تھا کہ میں نے بھی مسیح کو دیکھا  ہے۔ مگر پولوس کا مسیح کا دیکھنا روحانی قسم کا تھا۔ پر پولوس اُس نظارے کوجو اُسے نصیب ہوا اُن نظاروں کی مانند بتاتا ہے جو اُن شاگردوں کو نصیب ہوئے۔ پس وہ نظارے جو شاگردوں کو حاصل ہوئے پولوس والے نظارے کی مانند محض روحانی تھے۔

اگر یہ نظارے محض روحانی تھے تو مسیح کے جی اُٹھنے کی روایت کس طرح پیدا ہوئی

پر جب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ اگریہ نظارے روحانی تھے۔ تو پھر یہ عقیدہ کس طرح پیدا ہوا کہ مسیح مردوں میں سے بدن کے ساتھ جی اٹھا ؟ اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ عقیدہ اس سبب سے پیدا ہوا کہ یہودی اور غیر یہودی مسیح کے جی اٹھنے کے ثبوت میں روحانی یا وہمی نظاروں کی نسبت زیادہ بہتر اور مضبوط دلیل طلب کرتے تھے۔ پس جب اُن مسیحیوں نے جو رسولوں کے شاگرد تھے اس حالت کو دیکھا تو جو کچھ انہوں نے رسولوں سے سنا تھا اُس کو بدل ڈالا۔ چنانچہ روحانی نظاروں کو مادی نظارے بنادیا۔ اور رسول اس بات کو دیکھ کر چپ رہے اور اس غلطی کی اصطلاح کی طرف بہت توجہ نہ کی۔

اس تاویل کے متعلق دو سوال

اب اس تاویل پر بھی دو اعتراض یا دو سوال کئے جا سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔

۱۔ کیا یہ تاویل پہلے شاگردوں کی حالت کا صحیح صحیح بیان رقم کرتی ہے ؟

۲۔ کیا یہ تاویل واقعی زیادہ صحیح حل مسیح کے بدن کے جی اٹھنے کا پیش کرتی ہے ؟

یہ تاویل یہودی عقیدے کے خلاف ہے

۱۔ پہلے سوال کی نسبت یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ یہ تاویل یہودی عقیدے کے برخلاف ہے۔ اس تاویل کے مطابق جو نقشہ آئندہ زندگی کا ہمارے سامنے آتا ہے وہ اپنی خصوصیات میں پیگن(بت پرست) عقیدے کے مطابق ہے اور یہودی عقیدے کے مطابق نہیں۔ بت پرست لوگ یہ مانتے تھے۔کہ جو زندگی قبر کے بعد آتی ہے وہ خالص روحانی زندگی ہے۔ مگر یہودی یہ نہ مانتے تھے کہ جو زندگی قبر کے پرے ہے وہ گوجسم کی کمزوریوں سے بری ہے تاہم وہ انسانی زندگی ہے اور حسات سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

پولوس کے تجربہ کا صحیح حل

علاوہ بریں پولوس کے تجربہ کی نظیر جس طرح پیش کی جاتی ہے وہ طرز بالکل ناقص ہے۔ پولوس کی شہادت ہمارے لئے بڑی بیش قیمت ہے۔ اول اس لئے کہ وہ کسی کی سنی سنائی بات پیش نہیں کرتا۔ بلکہ جو کچھ خود اس پر گذرا تھا اسے پیش کرتا ہے اور پھر اس لئے بیش قیمت ہے کہ اس کی راست گوئی اور دیانتداری پر کسی طرح کا  دھبہ نہیں اور نہ اس کی حقیقت شناس قابلیت پر کوئی شک لا سکتا ہے۔ وہ صاف بتاتا ہے کہ میں نے مسیح کو دیکھا۔ پر مخالف کہتا ہے کہ ہاں اُس نے اُسے دیکھا مگر روحانی طور پر۔ ہم کہتے ہیں کہ کیا وہ بیانات جو اعمال کی کتاب میں درج ہیں جن میں وہ مسیح کو دیکھنے کا دعویٰ کرتا ہے روحانی نظاروں کی خبر دیتے ہیں ؟ اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے۔ کہ اعمال کے وہ بیانات قابل تسلیم نہیں ہیں۔اگر ہم اعمال کو بھی چھوڑ دیں تو بھی اُس کے خط اسبات پر گواہی دیں گے۔ مثلاً وہ اپنے خط کرنتھیوں میں دوبارہ مسیح کو دیکھنے کا ذکر کرتا ہے۔(۱کرنتھیوں ۹: ۱، ۱۵: ۸) اب ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ پولوس کے اس دیکھنے سے محض روحانی معنی نہیں لئے جا سکتے۔ ذرا غور کرنے سے ہمارا مطلب سمجھ میں آ جائے گا۔ پولوس کی حلت اسوقت نہایت نازک تھی۔ بہت لوگ اس کی رسالت پر حملہ کرتے تھے۔ اور کہے تھے۔ کہ اسے کچھ اختیار نہیں کہ وہ انجیل کی نئی نئی تفسیریں پیش کرے۔ کیونکہ اُسے گیارہ رسولوں کی طرح مسیح کی طرف سے رسولی اختیار عطا نہیں ہوا۔ اب پولوس اپنے دعویٰ کی تائید میں منجملہ دیگر باتوں کے ایک یہ بات پیش کرتا ہے کہ” میں نے سیدنا مسیح کو دیکھا ہے "۔

پولوس کی کیا غرض تھی جب اُس نے کہا کہ میں نے مسیح کو دیکھا ہے

اب اگر اُن الفاظ سے اُس کی مراد محض روحانی اظہار یا دیدار سے تھی تواس سے دعوے رسالت کی کچھ تقویت نہ پہنچتی کیونکہ میں حالت میں اُس کے مخالف ضرور کہتے کہ اس قسم کے روحانی یا ذہنی نظارے اپنے اپنے دماغی خیالات کے مطابق ہر شخص کو نصیب ہوسکتے ہیں۔ پر وہ اُن حقیقی نظاروں کو جو پہلے گیارہ رسولوں کو نصیب ہوئے کب پہنچتے ہیں۔ اب اسی قسم کے حملوں سے اپنے تئیں بچانے کی غرض سے پولوس نے یہ کہا کہ جس طرح دیگر رسولوں نے مسیح کو مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد دیکھا اُسی طرح میں نے اُس کو دیکھا ہے۔ اُنہوں نے اُسے جسم کے ساتھ دیکھا اُسی طرح میں نے اُس کو جسم کے ساتھ دیکھا ہے۔ زمانہ حال کے نکتہ چین اُس مشابہت سے جو اُن نظاروں میں پائی جاتی ہے جو پہلے گیارہ رسولوں اور شاگردوں کو اور پھر پولوس کے فرضی روحانی نظارے کی مانند گردانتے ہیں۔ مگر بیچارا پولوس اپنے دعویٰ کی مضبوطی اور تقویت کے لئے یہ دکھانا چاہتا تھا کہ زندہ مسیح کا جو دیدار مجھ کو حاصل ہوا ہے وہ بہر نج اُسی طرح کا مادی اور فزیکل تھا۔ جیسا وہ پطرس اور دیگر شاگردوں کو نصیب ہوا۔ وہ یہ مانتا تھا کہ ان شاگردوں نے زندہ مسیح کے جسم کو اپنی آنکھ سے دیکھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ اسی طرح میں نے مجسم مسیح کو دیکھا ہے۔ مگرمسیحی مذہب کے بیشمار مخالف اپنی مطلب براری کے لئے بات کو بالکل اُلٹ دیتے ہیں۔ قبل ازیں کہ ہم پولوس کے نظارے کو روحانی یا ذہنی یا وہمی نظارہ قرار دیں زیبا ہے کہ ہم اُس کے خطوط اور اعمال کی کتاب کا مطالعہ غور و فکر کے ساتھ کریں اور دیکھیں کہ وہ شخص جس نے اپنی گواہی کے لئے اپنی جان دیدی۔ جس کی دماغی قوتیں برقرار تھیں۔ جوعلم وفضل سے بہرہ ور تھا وہ اس نظارے کی نسبت کیا کہتا ہے۔

۲۔ اور پھر جب ہم دوسرے سوال کی طرف رُخ کرتے اور پوچھتے ہیں کہ اگر مسیح زندہ نہیں ہوا تھا۔ اگر وہ نظارے جو شاگردوں کو نصیب ہوئے محض ذہنی یا روحانی تھے تو یہ اعتقاد کس طرح پھیل گیا کہ وہ دوسروں میں سے اُسی بدن کے ساتھ جی اٹھا جس بدن کے ساتھ مصلوب ہوا ؟ تو اس کے جواب میں جو کچھ کہا جاتا ہے۔ وہ بھی تسلی بخش نہیں ہے۔

دوسرے سوال کا جواب جو مخالفوں کی طرف سے ملتا ہے ذرا بھی تسلی بخش نہیں

اب جو کچھ اس دوسرے سوال کے جواب میں کہا جاتا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی روایت اس اعتقاد پیدا کرتے ہیں اور یہ نہیں مانتے کہ اُس کے بدن کے جی اٹھنے کے سبب سے اس کی دائمی حیات کا عقیدہ پیدا ہوا۔ اسی طرح مخالف اس کے معجزوں کے ساتھ زبردستی کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مسیح سے معجزے اس واسطے منسوب کئے گئے کہ لوگ اسے یہودی نبوت کا مسیحا مانتے تھے۔ پر یہ نہیں دیکھتے کہ لوگوں نے اسے یہودی نبوت کا مسیحا اس لئے مانا کہ اس نے بڑے بڑے معجزات کر دکھائے۔ اور خود دعویٰ کیا کہ مجھے میرے کاموں (معجزوں ) کے سبب سے قبول کرو۔ یہ بات غور طلب ہے کہ مخالفوں کی باتوں میں آپ ہی اختلاف پایا جاتا ہے مثلاً اسٹراس مسیح کے معجزوں کی نسبت تویہ کہتا ہے کہ یہ معجزے اس سے واسطے منسوب کئے گئے کہ شاگرد اُسے مسیح موعود مانتے تھے۔ یعنی اس اعتقاد سے معجزات پیدا ہوئے نہ کہ معجزات سے اعتقاد پر جب مسیح کے جی اٹھنے کی طرف رخ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ عقیدہ کبھی پیدا نہ ہوتا۔ اگرکسی نہ کسی طرح کا نظارہ شاگردوں کو حاصل نہ ہوتا پراُس کے زعم میں جو نظارہ ان کو نصیب ہوا وہ وہ رویت تھی جوانہیں کے دماغ کی خاص حالت نے اُن کے لئے پیدا کر دی اب اس واقعہ کے بارے میں وہ صاف اقبال کرتا ہے کہ اُن کے کسی پہلے اعتقاد سے جی اٹھنے کی روایت پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ جی اٹھنے کے نظاروں نے (خواہ وہ وہمی ہی سہی ) اُس کے جی اٹھنے کی روایت پیدا کی اب ہم دیکھتے ہیں کہ سٹراس ایک جگہ اعتقاد کو مسیحی معجزات کے پیدا ہونے کی وجہ مانتا ہے۔ اور دوسری جگہ یعنی مسیح کے جی اٹھنے کے معاملے اس ترتیب کو الٹ دیتا ہے اور ماننے لگ جاتا ہے کہ یہ اعتقاد کسی خاص واقعہ سے پیدا ہوا نہ کہ کسی اعتقاد سے اس واقعہ کی روایت پیدا ہوئی۔ ہماری رائے میں اُس کا خیال صحیح ہے۔ اور ہم اُسے تاول زیر بحث کے جواب میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس اعتقادسے کہ مسیح کی روح زندہ ہے بدن کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی روایت پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ یہ لازمی امر تھا کہ مسیح کی جی اٹھنے کے نظارے پہلے نصیب ہوتے اور پھر یہ بات مشہور ہوتی ک مسیح مردوں میں سے جی اٹھاہے۔ پھر اس بات پربھی غور کرنا چاہیے کہ تاویل سب رسولوں اور شاگردوں کو فریبی بناتی اور جھوٹا ٹھیراتی ہے۔ کیونکہ اس کے ماننے والے کہتے ہیں کہ شاگردوں نے اس واسطے یہ کہا کہ ہم نے مسیح کو دیکھا ہے کہ اُن کے سننے والے یقین کریں کہ مسیح فنا نہیں ہوا۔ بلکہ زندہ ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کہتے تو کوئی اُن بات کو نہ مانتا۔ پر کیا رسول اور شاگرد نہیں جانتے تھے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مسیح مردوں میں سے اپنے اصل بدن کے ساتھ جی اٹھا ہے تو سننے والے وہی مطلب سمجھیں گے جوان لفظوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ وہ ہماری گواہی کی بنا پر یہ ماننے لگ جائیں گے کہ جو مسیح مصلوب ہوا تھا وہی مردوں میں سے جیٹھا اگر انہوں نے یہ سب باتیں جان کر بڑے زور شور سے یہ منادی کی کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے تو دیدہ ودانستہ لوگوں کو دھوکا دیا۔ اس میں اُن کی سچائی، اُن کی دینداری، اُن کی دیانتداری کہاں رہی ؟ پس ہم اس تاویل کو بھی نہیں مان سکتے۔ کیونکہ یہ بھی مشکلات سے پُر ہے۔

حقیقی شرح کیا ہے

اب ہم نے دیکھ لیا کہ تاویلیں جو مخالفوں کی طرف سے مسیح کے مردوں سے جی اٹھنے کی روایت کی تشریح کے لئے پیش کی جاتی ہیں کسی طرح صاف اور مشکلات سے بری نہیں۔ اب ایک ہی اور شرح باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ جیسا انجیل شریف میں لکھا ہوا ہے مسیح اُسی طرح حقیقت میں مردوں سے جی اٹھا اور اپنے شاگردوں کو دکھائی دیا۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لئے اس بات پر غور کریں گے کہ اس شرح کے ثبوت میں عموماً تین دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

وہ دلائل جو مسیح کے جی اٹھنے کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں

واضح ہو کہ اس واقع کے ثبوت میں عموماً  تین دلیلیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

۱۔ یہ کہ انجیل شریف میں صاف اس قسم کی گواہی موجود ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا۔

۲۔ کہ شاگردوں کے مزاج اور اطوار کی تبدیلی اور مسیحی مذہب کے عروج اور ترقی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا۔

۳۔ مخالفوں کے مخالفانہ اعتراضوں کی ناکامی سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا۔ تیسری دلیل کے متعلق اور کچھ نہیں لکھیں گے کیونکہ جو کچھ اس کے متعلق ہمیں رقم کرنا تھا سو ہم ر چکے ہیں۔

۱۔ پہلی دلیل کے متعلق ہم مختصر طور پر دکھائیں گے۔کہ اول تو اس بات کا صاف ثبوت اُن کتابوں میں پایا جاتا ہے جو مسیحی کتابیں کہلاتی ہیں اور دوم یہ ثبوت اس گواہی سے بہم پہنچتا ہے جو پہلی صدی کے مسیحیوں سے ان ڈائرکٹ طور پر ہم تک پہنچتی ہے۔

جن کتابوں کی اصلیت پر یورپین معت رضوں نے اعتراض نہیں کیا اُن میں مسیح کے جی اٹھنے کا بیان درج ہے

ہم اوپر ایک جگہ مسیحی نوشتوں کی اصلیت اور معتبری پر بحث ر چکے ہیں لہذا ضرورت نہیں کہ اس جگہ پھر اسی مضمون پر بہت کچھ تحریر کیا جائے۔ تاہم اس قدر پھر اس مضمون پر تحریر کرنا خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ پولوس رسول کا وہ بیان جو ۱کرنتھیوں کے ۵باب میں قلمبند ہے اُس پر کسی نے غیر اصلی ہونے کا الزام نہیں لگایا۔ یعنی کرٹک(نکتہ چیں) مانتے ہیں کہ یہ مقام پولوس کا لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح مرقس اور لوقا کو رینان جیسے نکتہ چینوں نے قبول کیا۔ چنانچہ رینان مانتا ہے کہ مرقس کی انجیل ایک ایسے شخص کی لکھی ہوئی ہے جو پطرس کا رقیق تھا اور لوقا کی انجیل کا مصنف پولوس کا ساتھی تھا۔ اور کہ اُسی شخص نے اعمال کی کتاب کو بھی تحریر کیا ہے۔ اسی طرح وہ بحث بھی جو آج کل یوحنا کی انجیل کی تصنیف پر ہو رہی ہے اُس کی اصلیت کی تائید کرتی ہے۔ البتہ متی کی انجیل کی نسبت اس بات پر بحث ہے کہ وہ کس طرح عبرانی اور یونانی دونوں زبانوں میں جدا جدا مروج ہوئی مگر اس بحث سے کلیسیا ئی روایت کو ضعف نہیں پہنچا۔ بلکہ فائدہ ہی ہوا ہے۔ چنانچہ اسٹراس جس جیسے مخالفوں نے اس انجیل کی نسبت یہ رائے دی ہے کہ اس سے مسیح کی زندگی کا کافی پتہ لگ سکتا ہے۔ اور مکاشفات کا حال یہ ہے کہ جو یوحنا کی دیگر کتابوں پر حملہ کرتے ہیں وہ اس کو اس کی تصنیف قبول کرتے اور مانتے ہیں کہ وہ یروشلیم کی تباہی سے پہلے تحریر کی گئی تھی۔

انجیل شریف میں جگہ جگہ اس کی خبر ملتی ہے

نئے عہد نامہ میں جا بجا مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی طرف اشارا پایا جاتا ہے اور اگر آپ اس بات کو تحقیق کرنا چاہیں تو آپ کنکارڈنس (کلید الکلام) لے کر ان مقامات کو نکالیں جہاں مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا ذکر پایا جاتا ہے۔ اگر آپ ایسا کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ رسول یا مصنف بہت سے مقاموں میں اس بات کا ذکر اس لئے نہیں کرتے کہ لوگوں کو یہ خبر دیں کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے بلکہ اور تعلیموں یا مسئلوں یا فرضوں کا ذکر کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذکر کر جاتے ہیں کیونکہ اس کا تعلق اُن تعلیمات وسائل سے ہوتا ہے جن پر وہ اس جگہ لکھ رہے ہیں۔ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی تعلیمات اور مسیحی زندگی سے ایسا گہرا تعلق رکھتا ہے کہ بات بات پر اس کی طرف اشارہ کرنا ضرور ی معلوم ہوتا ہے مگر ہم یہاں ایسے مقاموں میں گھسنا نہیں چاہتے۔ پس اس جگہ ہم فقط انہیں مقاموں پر اکتفا کریں گے۔ جن میں مسیح کے زندہ ہونے اور رسولوں کو نظر آنے کا ذکر پایا جاتا ہے۔

کتنی دفعہ مسیح نظر آئے

دس دفعہ انجیل شریف میں جی اٹھنے کے بعد مسیح کے ظاہر ہونے کا ذکر آتا ہے۔ پانچ دفعہ اس دن دکھائی دیا جس دن مردوں میں سے جی اٹھا اور پان دفعہ اُس دن کے بعد اور عروج سے پہلے نظر آیا۔ اور پھر صعود کے بعد ایک دفعہ پولوس کو نظر آیا اور ایک دفعہ بعض کے خیال کے مطابق یوحنا رسول کو جزیرہ پٹماس میں دکھائی دیا(دیکھو متی ۲۸: ۲۰، مرقس ۱۶: ۱تا ۸، یوحنا ۲۰: ۱۔۲۹، ۲۱: ۱۔ ۲۵، ۱کرنتھیوں ۱۵: ۵۔۹ مکاشفات ۱: ۹۔۱۸)۔اب ان تمام مقاموں کے مطالعہ سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا جی اٹھنا  ایک حقیقی واقعہ ہے۔ اس عرصہ میں وہ اپنے شاگردوں کو دکھائی دیا۔ ایک مرتبہ پولوس کے قول کے مطابق دیکھنے والوں کا شمار پانچ سو کے تھا۔ وہ اُن سے گفتگو رہا، اور اُن کے ساتھ کھایا پیا۔ اپنے زخموں کے نشان انہیں دکھائے۔اور اُن کو رسولی خدمت بجا لانے یعنی تمام دنیا میں انجیل سنانے کا حکم دیا اور اپنی دائمی حضوری کے وعدے سے اُن کی تسلی اور تشفی کی اور حوصلہ بڑھایا۔

کیا ان بیانوں کی ظاہری نا موافقت سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ کہ یہ واقعی درست نہیں ہے

ان مقاموں کی نسبت دو تین باتوں کا ذکر کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفوں نے اکثر اوقات اُن وہمی اختلافوں پربڑا حملہ کیا ہے جومسیح کے جی اٹھنے کے بیانات میں اُن کو نظر آئے ہیں ہم اس کی نسبت یہ عرض کرتے ہیں کہ جو بات ہمارے مخالفوں کو ہماری کمزوری کا باعث معلوم ہوتی ہے وہی ہمارے زور کا سبب ہے۔اگر انجیل نویس ایک ایک شوشے اور نقطہ میں موافقت ظاہر کرتے توہم کو سازش کا شک گذرتا اور ہم اُن کی گواہی کے قبول کرنے میں شش وپنج کرتے۔ مگر اُن کی تحریر اس قسم کی موافقت کے داغ سے مبرہ ہے اُن کے ایک ایک لفظ سے سچائی اور دیانتداری ٹپکتی ہیں۔اگر آپ یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی مختلف انجیل شریف کے مختلف بیانوں میں حقیقی اختلاف پایا جاتا ہے تو یہ کام مشکل نہیں تطبیق انجیل شریف کا ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ جو الزام لگایا جاتا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ آپ دیکھیں گے کہ اختلاف کی جگہ اُن کے بیانوں میں پورے درجہ کا اتحاد موجو دہے۔ پھر بعضوں نے یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ جتنا وقت ان نظاروں کو دیا جاتا ہے وہ ان کے ظاہر ہونے کے لئے کافی نہ تھا۔ پس یہ سچے نظارے نہیں۔ہم کہتے ہیں کیا چالیس دن ان نظاروں کے لئے کافی نہ تھے۔

ایک اور اعتراض یہ ہے کہ کیوں مسیح اپنے جی اٹھنے کے بعد یہ سب یہودیوں اور بت پرستوں کو نظر نہ آیا؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ سب کو دکھائی دے کر ثابت کرتا۔ کہ میں مردوں میں سے جی اٹھا ہوں؟

مسیح جی اٹھنے کے بعد یہودیوں اور غیر قوموں کو کیوں نظر نہ آئے ؟

ہم اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ نظارے صرف انہیں نصیب ہوسکتے تھے جو ان کے قبول کرنے کے لئے تیار گو شاگردوں نے پہلے پہل ایسا ظاہر کیا کہ گویا وہ شک میں ہیں۔مگر درحقیقت اُن کے دل ہر طرح کی مخالفت اور بغاوت سے آزاد تھے۔ لہذا وہ اسے قبول کرنے کو تیار تھے۔ پر اگر وہ یہودیوں کو نظر آتا تو کیا نتیجہ ہوتا؟ یہ کہ وہ اسے پھر صلیب دینے کے لئے تیار ہو جاتے یا کسی اور طرح کا بہتان اُس پر یا اُس کے شاگردوں پر باندھتے اور اگر یہ کہا جائے کہ لازم تھا کہ وہ جی اٹھنے کے بعد اپنی قدرت سے اُن کی مخالفت کو مغلوب کرتا تو اس کا جواب یہ ہے۔ کہ اگر اُسے یہ منظور ہوتاکہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرے تو وہ پہلے ہی مصلوب کیوں ہوتا؟یا آسمان ہی سے کیوں آتا؟ یاد رہے کہ وہ ایمان جو جبر سے پیدا ہوتا ہے وہ اخلاقی عالم میں کچھ وقعت نہیں تھا۔ پس سیدنا مسیح کو یہ منظور تھا۔ کہ پہلے اس کے شاگرد اُسے دیکھیں اور اُس کے جی اٹھنے کی منادی کریں۔ اور پھر اُن کی منادی کے وسیلے سے دنیا اُس پر ایمان لائے اور یہ سیکھے کہ وہ فی الحقیقت مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور کیا اس کا یہ ارادہ یا فیصلہ مایوسی میں مبدل ہوا لاکہا بنی آدم آج اُنہیں شاگردوں کی منادی کے سبب اس بات کو دل و جان سے مانتے ہیں کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا اور ہماری سفارش کے لئے ہمیشہ جیتا ہے۔

مسیح کا بدن جی اٹھنے کے بعد روحانی تھا

علاوہ ان باتوں کے ایک اور بات غور کے لائق ہے اور وہ یہ کہ مخالف یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ان بیانوں کے پڑھنے سے کہیں تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کا بدن بالکل مادی تھا اور کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مادے کے قیود سے بالکل آزاد تھا۔یعنی کہیں ” دروازے بند ہیں، اور وہ مکان کے بھیتر چلاآتا ہے۔ اور کہیں وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور پسلی اپنے شاگردوں کو دکھاتا ہے۔ کیا ان باتوں میں اختلاف نہیں پایا جاتا؟ ہم اس کے جواب میں پہلے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ظاہری اختلاف انجیلی بیانوں کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ اگر زندہ مسیح کے بدن کے نظارے حقیقت میں ایسے نہ ہوتے جیسے کہ رقم ہیں۔ تو لکھنے والے کبھی یہ اختلاف اپنے بیان میں آنے نہ دیتے۔ بلکہ وہ اس کے بدن کو ایسے جلال کے ساتھ پیش کرتے جیسا کہ اُنہوں نے اُس کی صورت کے تبدیل ہونے کے وقت دیکھا تھا اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے۔ کہ اس کا مبارک بدن اب روحانی ہو گیا تھا۔ جسم اور مادے کی تمام قیدیں دور ہو گئی تھیں۔ اور پھر یہ بھی یاد رہے۔ کہ اس کا مبارک بدن اس بات کی علامت بلکہ نبوت ہے کہ ہمارے بدن بھی اسی کی مانند ہو جائیں گے۔اگر جی اٹھنے کے بعد بھی وہی نقص ہمیں ستاتے ہیں۔ جواب وبال جان ہو رہے ہیں تو ہمیں کیا فائدہ؟ مسیح کا روحانی بدن ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے بدن جیسے ہوں  گے وہ بقا اور جلال اور قدرت اور پاکیزگی سے آراستہ ہوں  گے۔

اب ہم اس گواہی کا جو چشم دید گواہوں سے ملتی ہے ذکر ر چکے۔ اور جو مشکلات اُن کے بیانوں سے وابستہ ہیں ان کا حل بھی کسی قدر پیش کر دیا گیا ہے۔ اب یہ دکھائیں گے کہ اُس زمانہ کے تمام مسیحی اس واقعہ کو سچا واقعہ جانتے تھے۔ یہ خیال گو عینی شہادت کی جگہ نہیں رکھتا تاہم اس سے رسولوں کی گواہی کو بڑی تقویت پہنچتی ہے۔

کلیسیائے عامہ کی گواہی

جو لوگ اس زمانہ میں موجود تھے وہ اس واقعہ کی سچائی اور جھوٹ کو بخوبی دریافت کرسکتے تھے۔ اگر اُن کے پاس کافی وجوہات رسولوں کی بات کو راست ماننے کے لئے نہ ہوتیں تو وہ کبھی مسیح پر ایمان نہ لاتے۔ آپ جانتے ہیں کہ مسیح کا مصلوب ہونا اور پھر جی اٹھنا رسولوں کی منادی کا لب لباب تھا۔ سو اگر کوئی شخص اس واقعہ کو نادرست سمجھ کر رد کر دیتا تو وہ مسیح کے سچے پیروؤں میں شامل نہ ہوسکتا۔ وہ مسیحی نہیں گردانا جا سکتا تھا۔ پر اگر اُن لوگوں کو مسیح کے جی اٹھنے کے کافی ثبوت نہ ملتے تو وہ کب اپنے مذہبوں کو چھوڑ کر مصلوب مسیح کی پیروی کرتے ؟ کب یہودی اور پیں گ اپنے دینوں کو چھوڑ کر اُ س شخص کو اپنا نجات دہندہ قبول کر کتے جو بڑی ذلت اور خواری کے ساتھ صلیب پر لٹکایا گیا؟ لیکن تاریخ کیا بتاتی ہے۔ وہ یہ بتاتی ہے کہ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں لوگ ایسے تھے۔ جو مسیح کی نسبت یہ مانتے تھے کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔

کلام الٰہی ہزارہا لوگوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے جنہوں نے پنتیکوست کے وقت مسیح کو قبول کیا۔ اور اگر آپ پطرس کی تقریر کو جواس نے اس موقعہ پر کی پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اُس نے اسی بات کی منادی کی کہ مسیح مارا گیا اور پھر مردوں میں سے زندہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ کہ یہ عقیدہ اُن لوگوں کے درمیان رفتہ رفتہ برپا نہیں ہوا تھا۔ بلکہ شروع سے چلا آیا تھا۔ اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے۔ کہ جس دن مسیح مردوں میں سے زندہ ہوا۔ مسیحی کلیسیانے اُسی دن کو سبت کی جگہ مقدس ماننا شروع کر دیا۔ تاکہ اُس کے مردوں میں سے زندہ ہونے کا نادر واقعہ ہمیشہ یاد رہے۔ پلنی جو ایک غیر قوم مورخ ہے کہتا ہے کہ عیسائی اسی دن مسیح کی مدح میں جسے وہ خدا سمجھتے ہیں فراہم ہو کر گیت گایا کرتے ہیں۔ اسی طرح سیلس بھی جو مسیحی مذہب کا مخالف تھا۔ اس بات پر گواہی دیتا ہے۔ کہ تمام مسیحی اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا ہے۔اب ان باتوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے ؟ یہ کہ ان ہزارہا لوگوں کو جنہوں نے مسیح کو قبول کیا کافی ثبوت مل گئے تھے۔ کہ وہ حقیقت میں مردوں سے زندہ ہو گیا ہے۔ ورنہ وہ اس پر کبھی ایمان نہ لاتے۔

۲۔ دوسری دلیل جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ شاگردوں (اور رسولوں) کی تبدیلی سے اور مسیحی مذہب کے عروج پانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح مردوں میں سے جی اٹھا پہلے شاگردوں اور رسولوں کی تبدیلی دیکھے۔ ہم اوپر ایک جگہ دکھلا چکے ہیں مسیح کے مصلوب ہونے کے وقت شاگردوں کی کیا حالت تھی۔ ان کے حوصلے پست ہو گئے تھے۔ چنانچہ جس وقت مخالفوں نے مسیح کو پکڑا اس وقت وہ سب اُس کو چھوڑ کر چلے گئے پطرس نے تین بار اُس کا انکار کیا وغیرہ۔ یہ باتیں مشتے نمونہ از خروارے کا کام دیتی ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب مسیح مصلوب ہوا اس وقت یہ لوگ بھی اپنی اُمیدوں کا فاتحہ پڑھ بیٹھے اُن کو اُس وقت ہر گز ہرگز یہ آس نہ تھی۔ کہ ہماری امیدوں کا کملایا ہوا؟ پھول پھر بھی کبھی کھلے گا۔ گلیل کے مچھوے جو نہ زر رکھتے تھے اور نہ خاندانی فخر، جو نہ علم رکھتے تھے اور نہ کسی طرح کا رتبہ کب یہ جرات کرسکتے تھے۔ کہ یہودی سرداروں اور رومی حاکموں سے بے خوف ہو کر انجیل شریف کی منادی کریں؟ ہم اوپر ایک جگہ دیکھ آئے ہیں کہ وہ تو مخالفوں کے ڈر کے مارے اپنے مکانوں کے دروازے بند رکھتے تھے۔ لیکن تھوڑے ہی دن کے بعد اُن میں ایسی تبدیلی آ جاتی ہے کہ وہ اپنے استاد کے لئے جان دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ بڑی جماعتوں کے سامنے مسیح کے نام پر گواہی دینے سے نہیں ڈرتے۔ وہ کوڑوں اور قید خانوں اور زنجیروں سے خائف نہیں ہوتے اور کئی ان میں سے اپنے مولا کی طرح صلیبی موت تک وفادار رہتے ہیں۔ پطرس کو دیکھو کہ وہ کس دلیری اور شجاعت کے ساتھ پینتیکوست کے روز ہزارہا لوگوں کے مجمع کے سامنے اپنے مولا کے نام پر شہادت دیتا اور یہودیوں کو اُن کے گناہ سے ملزم ٹھیراتا رہا پر یہ وہی پطرس ہے جس نے چند دن ہوئے تین دفعہ مسیح کا انکار کیا تھا۔ اب یہی پطرس اور یوحنا کوڑے کھاتے دھمکائے جاتے۔ قید خانہ میں نظر بند رہتے۔ مگر ایک دم کے لئے اپنے مولا کا اور اس کی سچائی کا جواُس میں ظاہر ہوئی انکار نہیں کرتے۔ بلکہ جو تکلیفیں اس کے نام سے اُن پر حادث ہوتی ہیں انہیں اپنا فخر سمجھتے ہیں۔ یہی حال دیگر رسولوں کا تھا۔ اب یہ ماننا پڑتا ہے۔ کہ اس عجیب تبدیلی کی ضرور کوئی نہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ورنہ کب ایسے قلیل عرصہ میں ایسی نادر تبدیلی وقوع میں آسکتی تھی؟

پھر مسیحی بادشاہت کی روحانی حقیقت کے سمجھنے میں اُن کے خیالات کا تبدیل ہونا

علاوہ بریں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اسی قلیل عرصہ میں ان کے اعتقادات میں بھی عجیب تبدیلی پیدا ہوئی۔ وہ جب مسیح کے پاس آئے اُس وقت اپنے ہم قوم یہودیوں کی طرح یہ مانتے تھے کہ مسیح آ کر اس دنیا میں عجیب شان و شوکت کی بادشاہی قائم کرے گا اور یہ خیال اُن کے دلوں میں ایسا جاگیر تھا کہ اُس کے مصلوب ہونے بلکہ جی اٹھنے کے بعد تک بدستور قائم رہا۔ مگر جب اُس کے جی اٹھنے کے بعد اس کی روح پاک کے وسیلے اُن کو اس امر میں ہدایت ہوئی۔ تو انہوں نے سیدنا مسیح کی بادشاہت کی روحانی خاصیت کو پہچانا اور دنیوی شان و شوکت اور کروفر کا خیال بالکل کافور ہو گیا۔کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوا ہوتا۔ اگر روح القدس کو زندہ مسیح نے نہ بھیجا ہوتا تو یہ تبدیلی کبھی پیدا نہ ہوتی ؟

مسیحی مذہب کا پھیلنا مسیح کے جی اٹھنے کا ثبوت ہے

پھر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے۔ کہ مسیحی مذہب چند سال کے عرصہ میں جا بجا پھیل گیا۔ مسیحی علماء اس بات کو مسیح کے جی اٹھنے کے متعلق سب سے بڑی دلیل مانتے ہیں اور اُن کا دعویٰ صحیح بھی ہے کیونکہ ناصرت کے بے برگ دبے پر بڑھئی کی ذلیل موت کے بعد اور کونسی بات تھی جو اُس کے مردہ دعووں کو از سرنوزندہ کرتی اور اس کے مذہب کو جو اُس کی صلیب کے ساتھ ایک طرح ملک عدم میں جا پہنچا تھا۔ پھر ہستی کی صورت دکھاتی؟البتہ مسیح کی تعلیم اپنی پاکیزگی اور معانی کی گہرائی کے سبب لاثانی ہے۔ واقعی وہ ایک بے نظیر استاد تھا۔ مگر یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے۔ کہ وہ اپنی تعلیم کا آپ ہی مرکز تھا۔ اس کی تعلیم اور استادوں کی طرح اُس سے جدا نہ تھی۔ بلکہ اس کے کلام میں جہاں معانی زیادہ گہرے ہیں۔ جہاں خیال عقاب کی طرح آسمان پر بلندی پردازی کرتا ہے جہاں اس کے لفظوں سے زیادہ نور کی شعاعیں نکلتی ہیں وہاں وہ خود ایسے طور پر اُن باتوں میں ملا ہوا ہے کہ اگر ہم اُس کو نکال دیں تو پھر وہ صداقتیں بھی بے جان ہو جاتی ہیں۔ اب ہمارا مطلب اس سے یہ ہے کہ اگر ایسا شخص جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں دنیا کا نور ہوں میں قیامت اور زندگی ہوں۔ میں اس دنیا میں ایک بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔ میں اور باپ ایک ہیں مجھ سے جدا تم کچھ نہیں کرسکتے۔ میرے پاس آؤ۔ کہ میں تم کو آرام دوں گا۔ کوئی میرے بغیر باپ کے پاس آ نہیں سکتا۔ ہاں اگر ایسا شخص جو اپنی نسبت میں پرایسا زور دیتا ہے ذلت کے ساتھ مرے اور مرتے وقت کوئی ایسی ظاہری نتائج اپنے پیچھے نہ چھوڑے جواُس کے دعووں کی سچائی پر شہادت دیں تو اس کا مذہب اور اس کی تعلیم بھی اس کی موت کے ساتھ فنا ہو جائیں گے اور سوائے اس کے کہ وہ جھوٹا اور فریب خوردہ سمجھا جائے اور کچھ اس کے حق میں نہ کھا جائیگا اور مسیح کا حال بھی یہی ہوتا اگر وہ مردوں میں سے زندہ ہو کر یہ ظاہر نہ کرتا کہ جو دعویٰ میں نے کئے ہیں میں ان کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہوں کیونکہ میں زندہ ہوں۔ ہاں اگر وہ زندہ ظاہر ہو کر اپنی قدرت کو منکشف نہ فرماتا اور اپنی حضوری کی برکتوں کا وعدہ اپنے دل شکستہ اور غریب شاگردوں سے نہ کرتا تو اُن میں وہ جو ش پیدا نہ ہوتا جس نے تمام دنیا کو تہ و بالا کر دیا۔اسی طرح اگر وہ زندہ ہو کر اپنی روح پاک کو نہ بھیجتا اور اُن اَن پڑھ شاگردوں کو لمعات حقائق اور انوار معارف سے روشن نہ فرماتا تو ہمیں کب وہ معرفت کے خزانے نصیب ہوتے جو انجیل شریف اور اعمال الرسل اور خطوط اور مکاشفات کی کتابوں میں موجود ہیں اگر وہ زندہ ہو کر اُن کو یہ حکم نہ دیتا کہ تمام دنیا میں جا کر انجیل کی تبلیغ کرو اور میں دنیا کے آخر تک تمہارے ساتھ ہوں تو کیسے ان میں مشنری روح پیدا ہوتی جس کے طفیل سے اُنہوں نے تمام دنیا میں انجیل کی تبلیغ سنانے کا بیڑا اٹھایا۔ اور کب مسیحی مذہب میں وہ پھل لگتے جن کے سبب سے وہ اب ایک شجر پُر ثمر کی طرح لہلہاتا اور لدا ہوا دکھائی دیتا ہے ؟ ہم بخوف طوالت اس بات پر زیادہ تحریر نہیں کرسکتے۔ پس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو لوگ مسیحی مذہب کی ابتدائی مشنری ترقی پر غور کرتے ہیں اور پہلے شاگردوں اور رسولوں کی عجیب تبدیلی اور اُن کے روحانی علم کا انصاف سے موازنہ کرتے ہیں وہ اس بات کے قائل ہو جاتے ہیں کہ سوائے مسیح کے جی اٹھنے کے اور کوئی واقعہ مسیحی مذہب کو زندہ نہیں کرسکتا تھا۔ اور نہ اُس دنیا کے ہر کونہ اور گوشے میں پہنچا سکتا تھا۔

مسیحی مذہب کا وجود اور اس کی تعلیمیں مسیح کے جی اٹھنے کا ثبوت ہیں

اس کے ساتھ ہی ہم ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا مسیحی مذہب کی جان ہے پس اگر یہ واقعہ مسیحی مذہب سے نکالا جائے تو مسیحی مذہب وہ مذہب نہیں رہتا جو نئے عہد نامہ میں سکھایا گیا ہے اور جس کی منادی رسول کیا کرتے تھے۔مطلب اس سے یہ ہے۔کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا تو مسیحی مذہب پیدا ہی نہ ہوتا۔ اس بات کی طرف ہم آگے ایک آدھ جگہ اشارہ کر آئے ہیں مگر یہاں کسی قدر تشریح کے ساتھ دکھانا چاہتے ہیں کہ مسیحی مذہب کے بانی کا زندہ ہونا اس کے رگ وریشہ میں ملا ہواہے بہت لوگ ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ مسیح کے بدن کے قبر میں سے جی اٹھنے کی کوئی اخلاقی ضرورت نہ تھی۔ اس کا بے داغ نمونہ زندہ ہے جو لوگوں کو اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کا سبق دیتا ہے۔ اس کی تعلیم زندہ ہے۔ لہذا جو شعاعیں ان نورانی مرکزوں سے نکلتی ہیں وہ دنیا کے لئے کافی ووافی ہیں۔ پس اس کے جسم کے جی اٹھنے کی منحنی سے تعلیم کی کوئی ضرورت نہ تھی۔مگر یہ حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ مسیح دنیا کا نجات دہندہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور نجات کے معاملے میں اس کا مردوں میں سے جی اٹھنا ایک ضروری امر ہے۔چنانچہ پولوس رسول فرماتا ہے ” اگرمسیح نہیں جلایا گیا تو تمہارا ایمان بے فائدہ اور تم اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہو”۔(۱کرنتھیوں ۱۵: ۱۷)۔

مسیح کا معجزانہ طور پر پیدا ہونا۔ اُس کا بے گناہ زندگی بسر کرنا۔ اُس کا لوگوں کے گناہوں کے لئے مارا جانا۔ اُس کا جی اٹھنا اور آسمان پر تشریف لے جانا اور روح پاک کو پنتیکوست کے دن نازل فرمانا اور اپنے بندوں کی سفارش کے لئے ہمیشہ تک جینا وہ صداقتیں ہیں جو انسان کی نجات کے لئے اشد ضروری بتائی کئ ہیں۔ اگر ہم ان میں سے کسی بات کو بھی دور کر دیں۔ تو مسیحی نجات کی کل عمارت مسمار ہو جائے گی۔ اب دیکھئے کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا باقی صداقتو ں کے ساتھ کیسا گہرا تعلق رکھتا ہے۔

مسیح کا دعویٰ کہ میں خدا کا بیٹا ہوں مسیح کی بعثت سے ثابت ہوتا ہے

مسیح نے دعویٰ کیا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور انجیل شریف کے بیانوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسے معنی میں اپنے تئیں خدا کا بیٹا بتاتا ہے کہ اور کوئی مخلوق یا بشر یا فرشتہ اس معنی میں اس کا بیٹا نہیں سمجھا جا سکتا۔ وہ اکلوتا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور نہ صرف عام لوگوں کے سامنے اور تمام موقعوں پر۔ بلکہ جب سردار کاہن اور شرکائے سنہڈرین کے سامنے اس سے ایک طرح حلفاً پوچھا گیا۔ کہ کیا تو جیسا دعویٰ کرتا ہے واقعی حق تعالیٰ کا بیٹا ہے تواس نے ہر طرح کے خوف سے آزاد ہو کر اس سوال کا جواب اثبات میں دیا۔ اور اس کے ثبوت میں یہ بات پیش کی کہ جب میں مردوں میں سے جی اٹھوں گا تو میرا اور باپ کا باہمی رشتہ ثابت ہو جائے گا۔ اور پولوس رسول رومیوں کے خط کے پہلے ہی باب میں اس دعوے کے ثبوت میں اُس کی بعثت پیش کرتا ہے۔چنانچہ وہ کہتا ہے کہ ” مسیح پاکیزگی کے اعتبار سے مردوں میں جی اٹھنے کے سبب قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ثابت ہوا”۔(رومیوں ۱: ۴) اب اگر وہ مردوں میں سے زندہ نہ ہوتا تواس کی الوہیت کبھی ثابت نہ ہوتی بلکہ اس کی انسانیت پر بھی داغ آتا کیونکہ اس کی وہ نبوتیں جواُس نے اپنے جی اٹھنے کے بارے میں بیان فرمائی تھیں جھوٹی ثابت ہوتیں۔ اور اس کی نبوی نگاہ میں نقص پایا جاتا اور اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوسکتا۔ پر اصل بات یہ ہے کہ اگر وہ خدا کا بیٹا نہ تھا تو محض ایک معلم یا ناصح تھا۔ نجات دہندہ نہ تھا۔ کیونکہ کوئی انسان نجات نہیں دے سکتا۔ یہ کام خدا کا ہے۔پر ہم کس طرح جانیں کے فلاں شخص جو الوہیت کا دعویٰ کرتا ہے وہ جو کچھ کہتا ہے صحیح کہتا ہے۔ اس دعوے کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے لئے الٰہی قدرت کے ایسے اظہار کی ضرورت ہے جو انسان کی قدرت سے بعید ہو۔ اب وہ مطلوبہ اظہار ہم کو مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے میں ملتا ہے۔ اور نئے عہد نامہ کے مصنف اُسے اُس کی الوہیت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔

مسیح کے کفارے کی مقبولیت اس سے ثابت ہوتی ہے

پھر انجیل دعویٰ کرتی ہے کہ مسیح کا کفارہ انسان کی نجات کے لئے ضروری ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ مسیح اس دنیا میں اسلئے آیا کہ اپنی جان دے کر ہمیں گناہ کی سزا اور طاقت سے نجات دے۔ جب وہ صلیب پر تھا اس نے کہا ” پورا ہوا”۔ جس سے یہ مطلب تھا کہ انسان کی نجات کا کام جہاں تک اس کا تعلق میرے کفارے سے ہے پورا ہو گیا ہے۔ لیکن اگر وہ یہ دعوے کر کے قبر میں پڑا رہتا تو کون اُس کے کفارے کو  قبول کرتا اور کون یہ مانتا کہ اس کی قربانی خدا کے حضور مقبول ہے ؟ پر جب وہ مردوں میں سے جی اٹھا تو اس سرفرازی نے ثابت کر دیا کہ خدا نے اس کی قربانی کو قبول فرمایا اور وہ ہمارا سچا کفارہ اور درمیانی ہے پھر جس طرح اس کی موت میں ہم گناہوں کی نسبت مردہ سمجھے جاتے اسی طرح زندہ مسیح کی زندگی سے زندہ سمجھے جاتے ہیں۔ اسی زندہ مسیح نے اپنی روح پاک اپنے شاگردوں پر نازل فرمائی جو اُن کے تقدیس کے کام کو کمال تک پہنچاتی ہے پر نئے عہد نامے سے صاف ظاہر ہے کہ روح القدس کا نزول مسیح کے جی اٹھنے پر منحصر تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا تو روح القدس پنتیکوست کے دن نازل نہ ہوتی اور دنیا اُن برکتوں سے محروم رہتی جو روح پاک کی حضوری سے صادر ہوتی ہیں۔

مسیح کی شفاعت اُس کے جی اٹھنے سے وابستہ ہے

پھر مسیح کی نسبت بتایا گیا ہے کہ وہ ہماری سفارش کے لئے ہمیشہ جیتا ہے۔ مسیحی تھیالوجی میں مسیح کی شفاعت کا یہ مطلب نہیں وہ قیامت کے دن وقوع میں آئے گی۔ کہ اس دن مسیح خدا سے کہہ دے گا کہ فلا ں شخص کو بخش دے۔ مسیح کی شفاعت کا کام اس کے کفارہ پر مبنی ہے اور اسی دن سے شروع ہوا جبکہ وہ زندہ ہو کر آسمانی قدس الاقداس میں خدا تعالیٰ کے حضور جا پہنچا۔

مسیح کا جی اٹھنا اس کے بندوں کے آخری جلال کی خبر دیتا ہے

آخر میں یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ اس کا مردوں میں سے جی اٹھنا اس کی دنیوی پستی کا خاتمہ اور آسمانی سرفرازی اور جلال کا شروع تھا۔ وہ ازلی بیٹا ہونے کی حیثیت سے ازل سے الٰہی جلال سے ملبس تھا۔ مگر تجسم کے وقت اس نے اپنے تئیں اس جلال سے خالی کر دیا اور پستی اختیار کی۔ پر جب مردوں میں سے جی اٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا تو اس کا انسانی بدن بھی الٰہی جلال سے بہرور ہوا۔ اب یہی وہ جلال ہے جس میں ہماری روحوں اور بدنوں کے شامل ہونے کا وعدہ انجیل میں ہم سے کیا گیا ہے۔ اگرمسیح زندہ ہو کر خود اُس جلال میں داخل نہ ہوتا توہم کو اس میں داخل ہونے کی کیا اُمید تھی؟ یاد رہے کہ یہی زندہ مسیح بادلوں میں پھر آئے گا۔ راج کرے گا اور مردوں اور زندوں کا انصاف کرے گا۔

اب ہم نہ دیکھ لیا۔ کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا کس طرح ہر مسیحی تعلیم اور مسئلے کے رگ و ریشے میں گھسا ہوا ہے۔ اس کے بغیر مسیحی مذہب کچھ بھی نہیں رہتا۔اور اسی واسطے مخالفوں نے اس پتھر کو جو گویا کونے کا سرا ہے ہلانے کی کوشش کی ہے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ ان چند سطور کے پڑھنے سے ناظرین پر ثابت ہو گیا ہو گا۔ کہ جو گواہیاں اور دلیلیں اس واقعہ کی صداقت کے ثبوت میں پیش کی جاتی ہیں وہ ان گواہوں اور دلیلوں سے کسی طرح کم یا کمزور نہیں جو تواریخی واقعات کے ثبوت میں اکثر پیش کی جاتی ہیں۔ بلکہ اُن سے کہیں زور آور ہیں۔

آخری التماس

اب آخر میں ہماری منت ہے کہ کیا وہ جس نے معجزات دکھا کر اپنے تئیں قادر نجات دہندہ ثابت کیا۔ جس نے مردوں میں سے زندہ ہو کر دکھا دیا کہ میں زندگی اور جلال کا سرچشمہ ہوں۔ اس لائق نہیں کہ ہم اُس پر ایمان لائیں؟ ہاں اُس نے یہ سب کچھ اسی واسطے کیا کہ ہم اُس کا دامن پکڑیں اور ہمیشہ کی زندگی کے وارث ہوں۔ پیارو” یہ (باتیں) اسی لئے لکھی گئی ہیں۔کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع ہی خدا کا بیٹا مسیح ہے اور ایمان لا کر اس کے نام میں زندگی پاؤ”۔ آمین۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.noor-ul-huda.org/book/miracles

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید