FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مظفر حنفی۔۔ حیات و جہات

 

حصہ دوم (نثر۔ ۱)

 

                ترتیب: فیروز مظفر

 

 

 

 

 

افسانہ

 

 

 

 

 

’’مظفر حنفی کو بات کہنے کا ڈھب آتا ہے اور افسانے کی تخلیق کے سارے لوازم معلوم ہیں۔ کون سی بات قاری سے کس وقت کہنا ہو گی، کون سی چھپا کر رکھنا ہو گی اور صرف آخری سطر میں مٹھی کھول دینا ہو گی۔ حالانکہ آج کل کا قاری بہت ہوشیار ہو چلا ہے۔ اکثر اوقات افسانہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کا انجام معلوم کر لیتا ہے مگر مظفر حنفی، مصنف اور قاری کی اس شطرنجی لڑائی میں اکثر و بیشتر اپنے قاری کو مات دے جاتے ہیں۔ بالخصوص ’’ الماس کا محبوب‘‘ کا انجام مصنف کی فن شناسی اور تخلیق کاری کا عمد ہ نمونہ ہے۔ ان افسانوں میں ظلم کوئی حادثہ نہیں ہے۔ روز مرہ کی حقیقت ہے۔ مصنف اس ظلم پر خود چونکتا ہے نہ پڑھنے والے کو چونکاتا ہے۔ ظلم، افلاس، بیکاری، نا امیدی، قحط سالی، دھوکا، فریب، جعلسازی جیسے موجودہ زندگی کے شب و روز ہوں۔ ان کا وجود اتنا ہی نا گریز ہے جتنا ماہ و سال کا چکر۔ مصنف کہیں پر احتجاج کرتا ہوا معلوم نہیں ہوتا۔ یہی اس کی فنکاری کی دلیل ہے کہ احتجاج نہ کرتے ہوئے بھی پورا افسانہ بولتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اسی احتجاج کی داستان جس کا سارے فسانے میں ذکر نہیں۔ بات کہنے کا یہ بھی ایک انداز ہے اور بہت مشکل ہے یعنی یوں کہ ہونٹ سی لیے جائیں اور آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکے لیکن افسانے کے آخر میں قاری دل مسوس کر رہ جائے۔ ایک اُداس کیفیت محسوس کرنے کے بعد تشنگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ کچھ اور کہا ہوتا۔ زیادہ کھل کر کہا ہوتا، مگر اسی تشنگی پر ہے افسانے کا مدار، سیری نہ ہو تو دوسرے مجموعے کا انتظار بھی ہو گا۔ لگتا ہے کہ مصنف نے اس زندگی کو خود جھیلا ہے۔ اس زندگی کے بیچ میں بیٹھ کر یہ افسانے لکھے ہیں، کسی اوپر کے ٹیلے پر بیٹھ کر نیچے بہنے والی زندگی کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ صرف اس کا خامہ خوں چکاں نہیں ہوا ہے۔ اس کی انگلیوں کی پوروں سے یہ لہو بہا ہے۔ خود اس کا دل جھلسا ہے۔ ممکن ہے کہ حقیقت اس کے بر عکس ہو مگر زندگی پر حنفی کی بے تکان گرفت کچھ یہی کہتی ہے۔ مظفر حنفی نے اندھیرے کنویں میں ڈول نہیں ڈالے ہیں۔ لا شعور کی بھول بھلیوں میں گم نہیں ہوا ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی دروں بینی کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تجزیاتی ٹامک ٹوئیوں میں الجھ کر نہیں رہ گیا ہے۔ وہ زبان و بیان کے الجھاوے دے دے کر زندگی سے آنکھیں چرانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ آنکھیں چار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک عجیب لا پروا تیقن کے ساتھ۔ بظاہر ایک سنگدل قریب قریب قنوطی پیرایہ بیان کے ساتھ۔ جی ہاں یونہی ہوتا ہے زندگی میں۔ ‘‘

کرشن چندر

 

 

 

 

                پروفیسر صغیر افراہیم

     علی گڑھ

 

مظفر حنفی کی افسانہ نگاری

 

اکثر یہ ہوتا ہے کہ ممتاز شخصیتوں کی بعض دوسری تخلیقات ان کی تخصیصی شہرت کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں حالانکہ وہ اُن کی مجموعی شخصیت کے اہم عناصر میں شامل ہوتی ہیں۔ اس کی ڈھیروں مثالیں ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی کے ساتھ بھی کچھایسا ہی ہوا ہے۔ ان کا افسانوی ادب، غیر افسانوی ادب اور معروف اشعار کے جم غفیر میں دب کر رہ گیا ہے۔ مصنف کے نصف صدی کے ادبی سفر کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ابتداء ً افسانے لکھے اور ۱۹۶۰ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعد میں انھوں نے اس صنف ادب سے چشم پوشی اختیار کر لی۔ آج کے ادبی منظر نامے پر وہ ایک ممتاز اور منفرد لب و لہجہ کے شاعر کے حیثیت سے چھائے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عہد حاضر کے اس قد آور فنکار کے غیر معروف گوشہ یعنی افسانہ نگاری پر بھی توجہ دی جائے تاکہ مظفر حنفی کی مجموعی تخلیقی شخصیت پر مزید تحقیق اور تنقیدی کام کرنے میں آسانی ہو سکے۔

مظفر حنفی کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ اینٹ کا جواب‘‘ ہے جس میں اکیس افسانے شامل ہیں۔ تیسرا مجموعہ’’ دیدۂ حیراں ‘‘چوبیس افسانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ۱۹۷۰ء میں ’’ فن کدہ‘‘ سیہور سے شائع ہوا۔ ان میں شامل افسانوں کے علاوہ ’’ ڈربہ‘‘، ’’ملا کی دوڑ‘‘، ’’ ستاروں کا کھیل ‘‘ اور ’’ہم شریف ہیں ‘‘ ادبی حلقہ میں بہت پسند کیے گئے۔ جو موصوف کے افسانوں کے تیسرے مجموعے ’’ دو غنڈے‘‘ میں شامل تھے جسے ۱۹۶۹ء میں نصرت پبلشرز نے لکھنؤ سے شائع کیا تھا۔ کنہیا لال کپور ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ میں نے مظفر حنفی کا کلام دیکھا تھا، ان کے افسانے پڑھ کر میری نظروں میں ان کی توقیر دو چند ہو گئی۔ افسانوں کی فنی اور فکری خوبیوں کو وہ مظفر حنفی ہی کے اشعار سے واضح کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اُس کے دل و دماغ کی دُنیا ہی اور ہے

ظالم کے سوچنے کا طریقہ ہی اور ہے

مرتے ہیں لوگ زُلف و لب رُخ کے نام پر

حالات کا اگرچہ تقاضا ہی اور ہے

واقعی مظفر حنفی کے سوچنے کا طریقہ منفرد ہے۔ وہ زندگی کو اُس کی تمام اچھائیوں، بُرائیوں کے ساتھ دیکھتے ہیں اور ستم ظریفیوں کو بے نقاب کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اکثر افسانے کے اختتام کو ایک نا گہانی مگر مؤثر موڑ دیتے ہیں۔ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر سماجی نا انصافی اور دقیانوسی اقدار پر تیکھے انداز میں طنز کے جواز تلاش کر لیتے ہیں جو قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

’’اینٹ کا جواب‘‘ کے اکیس افسانوں میں ’’ ایمان کی بات‘‘، ’’نقش فریادی‘‘، ’’ غبار آئینہ دل‘‘، ’’ مولانا منے‘‘، مہمان، ’’ دو ٹکے کا آدمی‘‘، ’’ موڑ‘‘ اور ’’ منت کی چادریں ‘‘ کامیاب افسانے ہیں۔ ان میں حُسن بیان کی نغمگی، تخئیل کی بلند پروازی اور احساس کی لطافت جلوہ گر ہے۔ ان سبھی افسانوں میں واقعات کی خوبصورت ترتیب سے پلاٹ تعمیر کی گئی ہے۔ مناظر کی دلکش عکاسی ہے۔ زبان میں سلاست اور روانی کے ساتھ محاورات اور تشبیہات کا بھی استعمال نظر آتا ہے۔ کردار متحرک اور ذہن و دل پر چھا جانے والے ہیں۔ خاص طور سے ’’ ایمان کی بات‘‘ کا ’’ نذیر بابا‘‘ اپنی شباہت، حماقت اور رکھ رکھاؤ کی وجہ سے قاری کے ۱ہن سے محو نہیں ہونے پاتا ہے۔ یہ افسانوی کردار فتح پور ہسوہ تک محدود نہ رہ کر، ہر بستی، ہر محلہ کا کردار بن جاتا ہے اور قاری کو اپنے بچپن کی یاد دلاتا ہے:

’’ہاں ! یہ تھے نذیر بابا، جو بچپن میں ہمارے لئے کسی ہوّا سے کم نہ تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت ہسوہ میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کے بچوں کے دل پر نذیر بابا کی ہیبت کا سکہ نہ بیٹھا ہو۔ ہم لوگ گولیاں کھیل رہے ہوتے اور اچانک نذیر بابا کہیں سے الٰہ دین کے طلسماتی دیو کی طرح برآمد ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ کیو بچو! یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ کہہ کر کچھ ایسے خوف ناک انداز میں دیکھتے کہ بچے سٹی پٹی بھول جاتے اور گولیاں وغیرہ چھوڑ چھاڑ کر اپنی جان لے کر بھاگتے۔ ‘‘

عوامی لب و لہجہ اور روز مرہ سے اُبھارا گیا نذیر بابا کا کردار قاری کے ذہن پر اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑ تا ہے جو کریہہ ہونے کے باوجود بے حد عزیز ہے۔ اردو فکشن میں ایسے بد ہیئت کرداروں کی کمی نہیں ہے جو اپنی گو نا گوں صفات کی بدولت منظر پر چھا جاتے ہیں، مثلاً پنڈت رتن ناتھ سرشار کا خوجیؔ بُزدل، پستہ قد اور کم رو ہے۔ اُسے اپنی جوانی پر ناز ہے اور اپنے حُسن پر آپ عاشق ہے۔ اس حد تک بد مزاج ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر لوگوں سے جھگڑا مول لیتا ہے اور قرولی بھونک دینے کی دھمکی دیتا ہے۔ مصنف نے اُس کا سراپا اس طرح بیان کیا ہے:

’’ پستہ قد، دم نہ خم، پیدائشی گنجا، آنکھیں تیکھی بلا کا احمق، زبان میں روانی کہ لفظ پیچھے رہ جائے اور زبان آگے۔ دماغ میں شر، پلّے درجے کا ڈرپوک، مگر شرارتی چنڈو باز، پیش بندیوں میں ماہر، منظر کشی میں طاق، تنک مزاج اور غصہ ور، جذباتی انداز سے سرشار، جنون اور غصہ کی حالت میں قرولی کی تلاش، بہادری کا جذبہ لیکن ڈرپوک۔ ‘‘

اسی طرح کرشن چندر اپنے ناول ’’شکست‘‘ میں ایک ثانوی کردار، دُرگا داس سے متعارف کراتے ہیں جسے ’’ اختیار کی تصویر اور مصر کی ممی نے مل کر جنم دیا تھا۔ ‘‘ملاحظہ ہو:

’’ اُس کے شانے فراخ تھے لیکن دھڑ سوکھا ہوا۔ کسی سوکھے ہوئے درخت کی جڑوں کی طرح جس کے پتے ابھی تک سبز ہوں۔ بائیں ٹانگ سے لُنجا، ایک آنکھ اور اُس میں سے ہر وقت پانی رستا تھا۔ اوپر کا ہونٹ پتلا اور خوبصورت طریقے پر خمیدہ، نچلا بے حد بے ہنگم اور موٹا جس میں سے دو دانت باہر کو ہر وقت نکلتے رہتے تھے۔ ‘‘

مظفر حنفی کے نذیر بابا میں بد صورتی اور بد ہیئتی پر خوبصورتی کا ہلکا سا پر تو بھی نظر آتا ہے:

’’قد چھ فٹ کے قریب، بدن پر گوشت برائے نام ہی رہ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ہڈیاں کچھ اتنی چوڑی تھیں کہ دیکھنے میں دُبلے نہ معلوم ہوتے تھے۔ چوڑے چکلے شانوں پر اتنا بڑاسر جو کاندھوں کی تقریباً تمام چوڑائی گھیرتا تھا۔ جبڑے کافی اُٹھے ہوئے جن کے درمیان پھولی پھولی موٹی سی ناک، جس کے نتھنے دُور سے کھلے ہوئے تھے، عجیب کریہ المنظر سی معلوم ہوتی تھی۔ ہونٹ کافی موٹے جن میں بالائی، جوانی کے کسی ہنگامہ کی یادگار کے طور پر کٹا ہوا اور نچلا تقریباً ٹھوڑی تک لٹکا ہوا، سرانڈے کی طرح مونڈا ہوا، رہی سہی کسر دو ٹوٹے ہوئے دانت اور دو لمبے لمبے کان پوری کرتے تھے جن کی لویں بدن کی ذرا سی حرکت پر گوشواروں کی طرح لرزنے لگتی تھیں۔ ‘‘

خوجیؔ لکھنؤ کی زوال پذیر معاشرت کا نمائندہ بن کر اُبھرتا ہے۔ دُرگا داس ڈوگرہ شاہی اور سرمایہ داری میں پروان چڑھنے والا ایک ایسا حسّاس کردار ہے جو غربت و افلاس کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو کچل دیا جاتا ہے جب کہ نذیر بابا کی مضحکہ خیز شبیہ آہستہ آہستہ ہمدردی اور اپنائیت کی شکل اختیار کرتی جاتی ہے۔ مظفر حنفی کا یہ کمال مجموعہ ’’ دیدۂ حیراں ‘‘میں اور بھی نکھرا ہے۔ وہ عموماً اپنے کرداروں کو فضا اور ماحول میں تحلیل کرتے ہوئے اُس کی اچھائیوں اور بُرائیوں کا عکس غیر جانب داری سے اُبھارتے ہیں۔

یکم اپریل ۱۹۳۶ء میں مظفر حنفی نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو ملک میں نئے ادبی انقلاب کا اعلان ہو رہا تھا کہ اب وہ ادب کھرا ہو گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تفسیر کی روح ہو اور زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔ اس فضا میں ہوش سنبھالتے ہوئے ۱۹۵۳ء میں انھوں نے پہلا افسانہ لکھا جو اپنے عہد کی بدلتی ہوئی صورت حال کی نمائندگی کرتا ہے۔ ترقی پسند ادبی تحریک سے بیحد متاثر، مظفر حنفی کے تمام افسانے مارکسی یا اشتراکی منثور نامے سے نہیں مگر سماجی اور اقتصادی اثرات سے ضرور متاثر ہیں۔ انھوں نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہوئے انسان دوستی، امن، مساوات اور خیر سگالی جیسی قدروں کو احاطہ تحریر میں لیا ہے اور انسانی کرب کو ہر زاویے سے اُجاگر کیا ہے۔ اس کرب کو مصنف نے اس شدّت سے محسوس کیا ہے کہ بیانیہ میں اکثر راوی، مصنف کی شکل میں آ جاتا ہے۔ ’’ نقش فریادی‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ میں اپنے فن کے ساتھ غدّاری کیسے کروں ؟ مجھے اپنے ماحول میں تو حقیقی مسرت کہیں نظر نہیں آتی۔ ہر فرد اپنی جگہ مضطرب ہے اور رنجور۔ آنسو نہیں نکلتے تو بیچارگی سے ہنستے ہیں اور ہنسی نہیں آتی تو رونے لگتے ہیں۔ سرور کیا ہے؟ کیف کیا چیز ہے؟ نشاط کس چڑیا کا نام ہے؟ پھر میں کیسے لکھوں ؟ جیتی جاگتی دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر کے حقیقت پسندی کا گلا کیسے گھونٹ دوں۔ ‘‘

فکری اور فنی اعتبار سے ہمکنار، مظفر حنفی کا مشہور افسانوں مجموعہ ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ ۱۹۷۰ء میں منظر عام پر آیا جبکہ اس میں شامل سبھی افسانے ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۸ء کے دوران لکھے گئے تھے اور اسی درمیان مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں کی فضا رومانی ہوتے ہوئے بھی حقیقت اور فطرت کا امتزاج ہے۔ افسانہ نگار نے سادہ اور سلیس زبان میں جوسوالات قائم کیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ حقیقت اور واہمہ کے درمیان کیا تعلق ہے۔ انسانی خواہشات، نفسیات اور محبت کے ما بین کیا رشتہ ہے؟ سمجھتے ہوئے بھی انسان اپنے چاروں طرف بچھے ہوئے جال سے نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟

’’ دیدۂ حیراں ‘‘ کی کئی کہانیاں قاری کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ ’’ محبوب بانہہ کٹا‘‘ کا مرکزی کردار محبوب ہے۔ کہانی واحد متکلم میں بیان ہوئی ہے۔ راوی اور مرکزی کردار کے وسیلے سے ثقافتی منظر نامے کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ عنوان میں اختراع ہے۔ لہجہ میں ایمائیت اور طنز نمایاں۔ ’’ بوجھل پردہ۔ ننگی ذہنیت‘‘ میں اس طبقہ پر بالواسطہ طریقہ سے روشنی ڈالی گئی ہے جو مہذب معاشرے میں معتوب ہے۔ دلچسپ انداز اور حسین مناظر کے سہارے ’کوٹھے‘ پر حصول علم کی للک کو اس طرح واضح کیا گیا ہے کہ نفسیاتی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ’’دل اور دل‘‘ کا موضوع تلاش معاش ہے۔ نئی نسل کے دو شاعر کس طرح ملازمت کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں، اسی تگ و دو  کو مصنف نے نہایت دلچسپ انداز میں افسانوی رنگ میں ڈھال دیا ہے۔ پلاٹ چُست، فضا پُر اثر اور زبان با معنی ہے۔ افسانہ ’’ احسان مند‘‘ دیہی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ پریم چند کے عہد میں استحصالی نظام نہایت مضبوط تھا جسے کولو نیل سسٹم کی سر پرستی حاصل تھی۔ آزادی کے بعداُس نے اپنا چولا بدل لیا۔ بدلے ہوئے نظام میں رامو مویشیوں کو چرارہا ہے لیکن وہ اس کی ملکیت نہیں۔ اس کی اپنی چراگاہ بھی نہیں۔ گوجر جابر ہے البتہ پٹواری کی سوچ بدل گئی ہے۔ آزاد ہند کے دیہی معاشرے کی اس ترقی پذیر صورت میں ان گنت سوالات ہیں جواس طرح قائم کیے گئے ہیں کہ حسّاس قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ ’’ رات کا گاہک‘‘ صنعتی شہر کانپور کے مًول گنج کی عالیشان عمارت کی تیسری منزل سے شروع ہوتا ہے۔ جسم فروش کملا ہر روز اپنی دوکان سجاتی ہے۔ طرح طرح کے گاہک آتے ہیں اور اُس کے جسم کو روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ مصنف نے یہ نقشہ اس طرح کھینچا ہے:

’’ عام طور پر جو خریدار اس کے یہاں آتے تھے وہ اگر با ذوق ہوتے تو پہلے اس سے داغؔ یا غالبؔ کی ایک آدھ غزل سُنتے اور ساتھ ہی ساتھ اسکاچ وہسکی سے شغل فرماتے، پھر جب سرور میں آتے تو اس سے اپنے والہانہ عشق کا اظہار کرتے۔ رفتہ رفتہ بے تکلف ہو جاتے اور آخر کچھ دیر بعد جب جذبات نفسانی خواہشات کی بھٹّی میں تپ کرسرخ ہو جاتے تو وہ انسانیت اور تہذیب کا لبادہ اُتار کر بالائے طاق رکھ دیتے اور کسی وحشی درندے کا روپ دھارن کر لیتے۔ اُسے مسلتے، نوچتے اور وہ دل میں آہوں اور سسکیوں کا طوفان اور ہونٹوں پر تبسم نمایاں کیے یہ سب زیادتیاں برداشت کیے جاتی۔ حتیٰ کہ خریدار یا تو تھک ہار کر ڈگمگاتے ہوئے قدموں سے زینوں سے نیچے اُتر جاتا یا پھر شراب کا بڑھتا ہوا نشہ اس کے حواس معطل کر دیتا، اور نشے میں دھت وہیں فرش کے کسی کونے میں اوندھے منہ پڑ جاتا اور وہ اپنی جسمانی کوفت اور روحانی کرب کو دور کرنے کے لیے بستر پر پڑ جاتی اور دوسرے دن دوپہر تک پڑی رہتی۔ ‘‘

تکان تو مجبوراً دور ہو جاتی ہے مگر روح بے چین رہتی ہے۔ ایک دن صبح لاؤڈاسپیکرپر، پُر شور انداز میں اعلان کیا جاتا ہے کہ دیش کے مشہور لیڈر شوبھت چند، جوخواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ آج دس بجے دن میں تقریر کریں گے۔ سب سے درخواست ہے کہ پریڈ گراؤنڈ پر جمع ہو کر اُنکے بصیرت افروز خیالات سے مستفید ہوں۔ کملا تھکن نیند بھول جاتی ہے۔ بے چینی اور اضطراب بڑھتا ہے۔ بلکہ جھنجلا کر کراہنے لگتی ہے۔ وہ رات والے وحشی گاہک کو دل ہی دل میں کوستی ہے کہ جس نے اُس کی بوٹی بوٹی نوچ کر جسمانی اذیت میں مبتلا کر دیا تھا۔

پبلک کی سہولت کے لیے جگہ جگہ لاؤڈ اسپیکر لگا دیے گئے تھے جن پر شوبھت مہاراج کی تقریر شروع ہوتی ہے۔ وہ عورتوں کی کسمپرسی اور پھر طوائفوں کی المناک زندگی کا خاکہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے اپنے دیش کی ماؤں کی یہ تذلیل ہرگز گوارہ نہیں ہے۔ کملا کا چہرہ فرط مسرت سے کھل اُٹھتا ہے اور جب تقریر میں انھوں نے:۔

’’ ایک ایسے نظام حکومت کی تمنا ظاہر کی جس پر عمل کرتے ہوئے ایک قریبی ملک نے اپنے یہاں عصمت فروشی اور سیاہ کاری کو دیش نکالا دے دیا تھا تو بے اختیار کملا کا جی چاہا کہ کاش اُس کے پر نکل آئیں اور اسی وقت اُڑ کر نیتا جی کے پاس پہنچے اور اُن کے چرن پکڑ کر کہے۔ ’ دیوتا مجھے بھی اس دیش میں پہنچا دو‘!‘‘

لاؤڈ اسپیکر پر شوبھت چند کی تقریر سنکر اس کا روم روم ناچ رہا تھا۔ اسی بیچ اعلان ہوا کہ مہاراج کا جلوس شہر کی خاص خاص سڑکوں سے گزرے گا جس میں مُول گنج کا وہ حصّہ بھی شامل تھا جہاں کملا رہتی تھی۔ اس اطلاع پر کہ شوبھت مہاراج کی سواری اِدھر سے گزرے گی، وہ کھل اُٹھتی ہے۔ گلاب کے بھاری گجرے لیے ہوئے جھروکے میں آ جاتی ہے۔ شور سنتے ہی اپنی عقیدت سمیت گلاب کے ہار اُن کی موٹر پر پھینک دیتی ہے، لیکن پھر ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اُسے اپنے دل کی حرکت بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور اندر ہی اندر یہ آواز اُبھری۔ ’’ ہے بھگون! یہ تو رات والا گاہک ہے۔ ‘‘ زبان و بیان کے اعتبار سے یہ منفرد افسانہ ہے۔ رشتوں کی اہمیت اور ضرورت کی حد سے تجاوز کر جاتی ہے، یہ افسانہ اُس کی بہترین مثال ہے۔ باپ بیٹی، بھائی بہن، شوہر، بیوی اور پھر اولاد کا رشتہ۔ یہ سب بہت مضبوط ہونے کے باوجود پابند ہیں رسم و رواج، رہن سہن اور طور طریق کے۔ پسند مانع ہوتی ہے، حق کے مطالبات، انصاف کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ مرضی، ہٹ دھرمی بن جائے تو رشتے ٹوٹتے ہیں۔ ذاتی مفادات اور انا کی تسکین، احساسات و جذبات کو فنا کر دیتے ہیں۔ واحد متکلم کے صیغہ میں لکھا گیا یہ افسانہ انھیں تمام رشتوں کو پامال کرنے اور احساسِ تقدس کو دفنانے کی داستان ہے۔ جسے مظفر حنفی نے نہایت سلیقہ سے صفحۂ قرطاس پر اُتار دیا ہے۔ انداز طنز آمیز‘ اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ اس سادگی میں جمالیاتی تاثر کے ساتھ پُرکاری کے بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں۔

’ سارا لہو گلاب کے چہرے پہ مل دینے‘ والے فنکار کے افسانوں میں سیدھا سادہ بیانیہ انداز بھی ہے اور پیچیدہ مسائل و نفسیاتی کشمکش کے اظہار کے لیے علامتوں کا استعمال بھی۔ پلاٹ کی بُنت بھی اور کردار نگاری کی مرکزیت بھی۔ معنی خیز اشارے بھی اور درمیانی کڑیوں کو ملانے کا سلسلہ بھی۔ بہر حال دو دہائیوں تک اپنے قرب و جوار کے دیہی اور شہری اطراف کے شاخسانوں، حسن و قبح اور احتجاجی منظروں سے افسانوں کے تانے بانے بُننے والے مظفر حنفی نے نہ جانے کیوں اپنی تخلیقی بصیرت کے اظہار کے لیے صنف افسانہ نگاری سے چشم پوشی اختیار کر لی۔ اسباب کچھ بھی ہوں ’’ اینٹ کا جواب‘‘ ’’دو غنڈے ‘‘اور ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ کے افسانوں کی قرأت سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشق جاری رہتی تو پروفیسر مظفر حنفی آج کے معتبر اور مستند افسانہ نگار بھی ہوتے۔

٭٭٭

 

 

’’ مظفر حنفی ایک شاعر کی حیثیت سے زیادہ متعارف ہیں لیکن وہ افسانے بھی لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی شخص شاعر ہو تو یہ اندیشہ رہتا ہے کہ وہ ادب کی جس صنف کو بھی ہاتھ لگائے گا، شاعری بنادے گا۔ نیا اردو افسانہ تو یوں بھی شاعری کے ساتھ رشتہ قائم کر چکا ہے۔ لیکن مظفر حنفی نے اپنے افسانوں پر شاعری کا کوئی پر تو نہیں پڑنے دیا اور افسانے کی حقیقی خصوصیات کا احترام کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں اپنی شاعری میں وہ جدید میلانات کے پیرو ہیں وہاں افسانے انھوں نے ٹھیٹ روایتی طرز پر لکھے ہیں۔ ‘‘

گوپال مِتّل

 

 

 

 

 

اوما جھُن جھُن والا

    کولکاتا

 

اسٹیج کے تجربے سے گزرتے حنفی صاحب کے افسانے

 

۲۰۰۵ء میں وزارتِ ثقافت، حکومت ہند کی طرف سے مجھے افسانوں کو اسٹیج کرنے کے سلسلے میں نئے نئے تجربات کرنے کے لیے فیلو شپ ملی تھی۔ افسانوں کو اسٹیج پر پیش کرتے ہوئے میں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا تھا کہ نہ تو میں نے افسانوں کو ڈراما کی شکل میں تبدیل کیا نہ ہی کسی قسم کی اسکرپٹنگ (Scripting)کو راہ دی اور یہی میری اس پیشکش کی خصوصیت قرار دی گئی اور اس طریق کار کو نہ صرف ناظرین نے پسند کیا بلکہ افسانہ نگاروں نے بھی اس کی توصیف کی۔

۲۰۰۷ء تک میں کئی ہندی افسانوں پر طرح طرح کے تجربات کر چکی تھی۔ اس درمیان میں اردو افسانوں پر کام کرنے کی خواہش بیدار ہوئی۔ اس سلسلے میں میں نے حنفی سر سے بات کی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سر اُردو کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ لیکن بات کرنے پر معلوم ہوا کہ سر نے کافی پہلے سو سے زیادہ کہانیاں قلمبند کی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ میں تمھیں وہ افسانے بھیج دیتا ہوں شاید تمھارے کسی کا م کے ہوں۔ ان میں سے ایک کہانی تھی’’ عشق پر زور۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور دوسری کہانی تھی ’’ بجیا تم کیوں روتی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

حنفی صاحب کا اسلوب نگارش جہاں ایک طرف بیانیہ ہے وہیں مکالماتی بھی ہے۔ تھئیٹر کے قارئین کی مکمل دل بستگی کی بھرپور گنجائش موجود ہے ان کے افسانوں میں۔ انھیں اوصاف کی بناء پر ان کہانیوں کو اسٹیج پر پیش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی لیکن ان کی جس خاص خوبی نے مجھے ان کے انتخاب پر آمادہ کیا وہ تھی ان کے پلاٹ کی سماجی مقصدیت۔

بہت پہلے کہیں حنفی صاحب کا ایک شعر پڑھا تھا:

بچے کی کِلکاری سن کر

مُنہ کے بل گر پڑی خموشی

بچپن کا اتنا خوبصورت نفسیاتی بیان۔ ۔ ۔ ۔ نفسیاتی اظہار کہ ایک بچے کی مکمل شخصیت نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ در اصل صرف انسان کے باطن کو ہی نہیں بلکہ خاندان کی متحرک ہلچل کو کرید کر اُس کے اندر پروان چڑھتے ہوئے جذبات واحساسات کو کھینچ کر باہر لانے کا ہنر حنفی صاحب بخوبی جانتے ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں افسانوں میں حنفی صاحب کا یہی وصف بطور خاص اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ مثلاً ’’ عشق پر زور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں اُس کا مرکزی کردار حافظ نابینا ہے لیکن جذبات کی سطح پر بیدار ہے اور اپنے ارد گرد ہونے والی تمام سرگرمیوں کا شاہد بھی ہے اور یہ گواہ بتاتا ہے کہ مصنف نے بڑی صاف گوئی اور شفافیت کے ساتھ معاشرے کا ایک مخصوص پہلو اور گوشہ ہمارے سامنے اُجاگر کیا ہے۔

اُن کی تیس سالہ خدمات کا صلہ تھیں وہ پرلطف یادیں جو حافظ جی نے ذہن میں محفوظ کر رکھی تھیں جیسے:

چھوٹے بابو کے گھُٹنے پر جو چکنا سا تین چار انگل کا دائرہ ہے وہ ایک ہی لڑکی سے عشق کرنے کی وجہ سے اُن کے اور ان کے جِگری دوست کے درمیان پیش آنے والے تنازعہ کا شاخسانہ ہے۔

اور بڑی بِٹیا کا سر دباتے ہوئے جس گڈھے سے ان کی انگلیاں ٹکرایا کرتی ہیں وہ ان کے شوہر کے ظلم و ستم کا دائمی ثبوت ہے۔

اور چھوٹی بی بی کی شادی تیس برس کی ہو جانے کے باوجود ابھی تک کیوں نہیں ہوئی؟

بڑے سرکار نے انتقال سے پہلے جس کمسن دیہاتی لڑکی سے شادی کی تھی وہ ان کے انتقال کے فوراً بعد اپنے نا معلوم رشتہ داروں کے پاس کبھی واپس نہ پلٹنے کے لیے کس طرح پہنچائی گئی؟

چھوٹے سرکار کے کمرے سے رات گئے دبے پاؤں کون نکلا کرتا ہے۔

اور پچھلی رات کو شوفر، بڑی بِٹیا کے کمرے میں کیوں گیا تھا؟

یا پھر جب چھوٹی بی بی حافظ جی سے کہتی ہے:

’’ بھاگ جاؤں تو خاندان کی ناک کٹتی ہے، بھائی نگوڑ مارے جائداد کی لالچ میں شادی نہیں ہونے دیتے کہ میری شادی کے بعد بٹوارہ کرنا پڑے گا۔ ورنہ تم میں کوئی سرخاب کے پر نہیں ٹنکے ہیں حافظ جی!‘‘

محض مذکورہ بالا اقتباسات کو پڑھ کر ہی قاری مکمل افسانے کا تصور بہ آسانی کر سکتا ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیانی رشتوں کے فطری تقاضوں کی بات بہت صاف ہے اور خاندانوں میں پنپنے والی بے حسی اور خود عرضی کا المیہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

’’ بجیا تم کیوں روتی ہو؟‘‘ ایک عام سی کہانی ہے لیکن سماج میں رائج بندھے بندھائے رسم و رواج کے خلاف نسوانی بغاوت کا بیان اسے غیر معمولی بنا دیتا ہے جب بڑی بہن کے لیے طے پانے والے انمِل بے جوڑ رشتے سے ناراض چھوٹی بہن اپنی ماں سے بحث و تکرار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’ جوڑے میں ستارے ٹانک تو رہی ہوں امّی، تم تو چاہتی ہو کہ میں بس گونگی بن جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

یا پھر ایسی نا ہموار شادی کی وجہ سے جب بجیا مائیکے بھیج دی جاتی ہے تو اس کا باپ کہتا ہے کہ وہ ساری زندگی اپنی بیٹی کو کھِلا پہنا سکتا ہے اور اس وقت ہمیشہ چُپ رہنے والی بجیا کہتی ہے:

’’ ابّو! کیا انسان صرف کھانے پہننے کے لیے ہی پیدا ہوتا ہے؟‘‘

پھر ایسے ہی چھوٹی بہن کی شادی طے پاتی ہے تو چھوٹی کی سر کشی دیکھتے ہی بنتی ہے جب وہ کہتی ہے:

’’ بجیا! مت روؤ۔ میں سب کے سامنے صاف صاف اور چیخ چیخ کر کہہ دوں گی کہ لوگو۔ مجھے اس دمہ کے مریض ساٹھ سالہ لکھ پتی کے ساتھ شادی کرنا قطعی منظور نہیں ہے جس کے ساتھ میری یہ سوتیلی ماں جبراً باندھ کر مار ڈالنا چاہتی ہے۔ ‘‘

اور پھر حنفی سر سماج کے اُس مسئلے کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتے ہیں جس سے ہر لڑکی کے ماں باپ نبرد آزما ہیں۔

’’آج کل اچھے لڑکے بہت کم ملتے ہیں، لڑکیوں کی بھرمار ہے اس لیے کسی لڑکی کا اچھی جگہ رشتہ طے ہوتا ہے تو بہتوں کو جلن ہوتی ہے چاہتے ہیں کہ بھیڑ مار کر کسی طرح شادی رُکوا دیں اگر ابھی میں لڑکے والوں کو نا کہہ دوں تو یہی لوگ جنھیں آج لڑکے میں کیڑے نظر آ رہے ہیں، کل شہد کی مکھیوں کی طرح اس کی طرف لپکیں گے اپنی اپنی چھوکریاں لے کر۔ ‘‘

یہ سوال معمولی ہو سکتے ہیں یا پھر کسی مخصوص کُنبے سے متعلق نظر آ سکتے ہیں لیکن کیا واقعی یہ سوال ہمارے سامنے کئی اور سوالات نہیں کھڑے کرتے؟ ہمارے بِکھراؤ کی داستان بیان کرتے نظر نہیں آتے؟ ان معمولی معمولی سوالوں نے ہی مجھے ان افسانوں کو لِٹل تھیسپئین سے اسٹیج کرنے پر آمادہ کیا اور ان کی پیش کش کو ناظرین نے جی کھول کر پسند کیا۔ ان کہانیوں کا پریمئیر شو ۲۰۰۷ء میں نارتھ سنٹرل زونل کلچرل سنٹر، حکومت ہند کی دعوت پر اودے پور میں ہوا تھا اس کے بعد سے لگاتار اس کے شو کلکتہ اور کلکتہ کے باہر کئی بڑے ڈراما فیسٹولوں اور مختلف اداروں کی دعوتوں پر ہو چکے ہیں اور اب بھی ان کے شو ہوتے رہتے ہیں۔

آخر میں یہ وضاحت کرنا چاہتی ہوں کہ یہ افسانے ۱۹۵۴ء میں رسالہ ’’نکہت‘‘ ( الٰہ آباد) میں شائع ہوئے تھے۔ جو آگے چل کر ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں کے لیے وقف ہو گیا تھا۔ اس وقت حنفی صاحب سترہ اٹھارہ برس کے تھے۔

٭٭٭

 

’’مظفرحنفی شاعر کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن ان کے افسانوں کا یہ مجموعہ دیکھ کر احساس ہوا کہ ان کے اندر ایک بہت اچھا کہانی گو بھی چھپا بیٹھا ہے۔ مظفر حنفی کے افسانے موضوعاتی طور پر اپنے گرد و نواح سے بحث کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ کی سماجی، معاشرتی اور معاشی نتائج کے مسئلے کے نتیجہ میں اس طبقے میں جو الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں، مظفر حنفی نے انھیں موضوع بنایاہے چنانچہ ان کے افسانوں میں موضوعاتی تنوع، افسانہ کے دیگر لوازمات پر حاوی رہتا ہے۔ فنی طور پر یہ افسانے کہانی سے زیادہ قریب ہیں۔ اکثر افسانوں میں کہانی کہنے کا انداز، داستان نما ہے۔ اردو افسانے میں اس دوران جو نئے رجحانات آئے ہیں یہ افسانے ان سے متاثر نظر نہیں آتے۔ مظفر حنفی نے ان افسانوں کے توسط سے زندگی کا گہرا مطالعہ کیاہے اور جس سیدھے سادھے انداز میں زندگی کو دیکھا ہے اسی طرح بیان کر دیا ہے۔ ان کے کردار زبان و بیان کی الجھنوں میں پڑنے کی بجائے راست عمل پر گامزن نظر آتے ہیں۔ یہ کردار ایک عام انسان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں غیر معمولی بنا کر پیش نہیں کیا گیا ہے۔ مظفر حنفی کے افسانوں میں ساری باتیں وضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔ اس سے ایک فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ قاری چیزوں کو بہ آسانی سمجھ لیتا ہے اور ابہام کا خدشہ نہیں رہتا لیکن بعض اوقات یہ وضاحت افسانے کے تحیر اور تجسس کو نقصان بھی پہنچاتی ہے۔ اور بعض چیزیں جنھیں اوجھل رہنا چاہیے، کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر رشید امجد

 

 

 

 

                سرور ندیم

  ہاوڑہ

 

 

ڈاکٹر مظفر حنفی بحیثیت افسانہ نگار

 

ڈاکٹر مظفر حنفی بنیادی طور پر ایک شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں زیادہ متعارف ہیں اور اپنے بنیادی لب و لہجہ اور جداگانہ رنگ و آہنگ کی بنیاد پر اپنے ہمعصر شعراء میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن شاعر ی کے علاوہ بھی کئی ادبی میدانوں میں مظفرؔ حنفی کا قلم رواں دواں رہا ہے اور انھوں نے جس صنف پر قلم اٹھایا ہے اس میں اپنی انفرادیت کے نقوش اجاگر کیے ہیں۔ افسانہ نگاری کے میدان میں بھی لکیروں کی فقیری سے احتراز کرتے ہوئے انھوں نے ایک منفرد اور جداگانہ روش اختیار کی اور دنیائے افسانہ میں شہرت اور ناموری کی بلندیوں پر فائز ہوئے۔

مظفر حنفی نے جس وقت افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا اس وقت اردو میں مختلف افسانہ نگاری کی بنیاد ترقی پسند تحریک سے پہلے پریم چند ڈال چکے تھے۔ افسانہ نگاری کے اس ابتدائی زمانے میں دو میلانات سامنے آتے ہیں ایک حقیقت نگاری اور اصلاح پسندی کا رجحان جس کی قیادت پریم چند سنبھالے ہوئے تھے دوسرارومانیت اور تخیل پرستی کا میلان جس کی نمائندگی سجاد حیدر یلدرم اور نیاز فتح پوری کر رہے تھے۔ اس زمانے میں مظفر حنفی کمسن ترین معروف افسانہ نگار سمجھے جاتے تھے۔ عظیم ذہن، خداداد صلاحیت اور کچھ کر دکھانے کی لگن۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ چھے سال کی مشقت نے انھیں اس قابل بنا دیا کہ اپنے ابتدائی افسانوں کی اشاعت کے بعد ہی سولہ سترہ برس کی عمر سے ان کا شمار ہند و پاک کے مقبول و معروف افسانہ نگاروں میں ہونے لگا۔

اس زمانے میں مظفر حنفی کے ساتھ مشہور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کی مزاحیہ اور نفسیاتی کہانیاں شائع ہوتی تھیں گویا جاسوسی کہانیاں لکھنے کی ابتداء مظفر حنفی اور ابن صفی نے ساتھ ساتھ کی تھی۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جاسوسی ادب کی تخلیق کے معاملے میں مظفر حنفی، ابن صفی کے ہم عصر تھے اور اس زمانے میں خاصے مقبول بھی۔ اس حقیقت کی روشنی میں یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ اگر مظفر حنفی سنجیدگی اور یکسوئی سے صرف جاسوسی ادب کی تخلیق کرتے تو آج اس میدان میں یقیناً ابن صفی کی طرح مشہور و مقبول ہوتے۔ لیکن انھیں تو شعر و ادب کے میدان میں دوسرے بڑے معرکے سر کرنے تھے۔ انھوں نے جاسوسی ادب سے دامن چھڑایا اور سنجیدگی کے ساتھ خالص ادبی تخلیقات کی جانب متوجہ ہو گئے۔

اردوکے معتبر اور نامور افسانہ نگار کرشن چندر نے مظفر حنفی کا تعارف اس طرح پیش کیا ہے:

’’مظفر حنفی کو بات کہنے کا ڈھب آتا ہے اور افسانے کی تخلیق کے سارے لوازم معلوم ہیں۔ کون سی بات قاری سے کس وقت کہنی ہو گی، کون سی بات چھپا کر رکھنا ہو گی اور صرف آخری سطر میں مٹھی کھول دینا ہو گی حالانکہ آج کل قاری بہت ہوشیار ہو چلاہے اور افسانہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کا انجام معلوم کر لیتا ہے مگر مظفر حنفی مصنف اور قاری کی اس شطرنجی لڑائی میں اکثر و بیشتر اپنے قاری کو مات دے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظفر حنفی نے اندھیرے کنویں میں ڈول نہیں ڈالے ہیں لا شعور کی بھول بھلیوں میں گم نہیں ہوا ہے حد سے بڑھی ہوئی دروں بینی کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تجزیاتی ٹامک ٹوئیوں میں الجھ کر نہیں رہ گیا ہے۔ وہ زبان و بیان کے الجھاوے دے دے کر زندگی سے آنکھیں چرانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ آنکھیں چار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘

مظفر حنفی کی افسانہ نگاری کا سن آغاز ۱۹۵۰ء ہے انھوں نے سب سے پہلا افسانہ ۱۹۵۰ء میں لکھا تھا ’’ منّت کی چادریں ‘‘ لیکن حقیقت میں ان کا سب سے پہلا شائع شدہ افسانہ ’’اونچی دوکان‘‘ ہے اس کے بعد کے شائع شدہ افسانے ہیں : ’’ دیواریں اونچی ہو گئیں ‘‘، ’’موت کا سایہ‘‘، ’’ سوار ‘‘، ’’ مرنے دو‘‘ وغیرہ

آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہو گی کہ مظفر حنفی کے تینوں افسانوی مجموعے اینٹ کا جواب، دو غنڈے اور دیدۂ حیراں اس وقت شائع ہوئے جب انھیں افسانہ نگاری ترک کیے ہوئے خاصہ عرصہ گزر چکا تھا اور وہ ایک جدید صاحب طرز طنزنگار شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں معروف ہو چکے تھے۔ اکثر لوگوں کو ان کی افسانہ نگاری کا علم بھی نہیں تھا۔ ان کے یہ افسانوی مجموعے منظر عام پر آتے ہی ناقدین اور مبصرین نے ان کی افسانہ نگاری و شاعری دونوں حیثیتوں پر بڑے دلچسپ تجرباتی تبصرے کیے ہیں۔

مظفر حنفی کی افسانہ نگاری پر پروفیسر احتشام حسین کی رائے ملاحظہ فرمائیے:

’’ مظفر حنفی موجودہ اُردو ادب کی دنیا میں اپنی تیکھے لہجے والی شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ داخل ہوئے ہیں شاید میری طرح آپ بھی حیرت کریں گے کہ مظفر حنفی نے گرد و پیش کو کتنی گہری نظر سے دیکھا ہے۔ ‘‘

’’اینٹ کا جواب ‘‘مظفر حنفی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے اس میں ۲۱ افسانے شامل ہیں۔ ’’ دو غنڈے‘‘ دوسرا افسانوی مجموعہ ہے اس کتاب میں ۱۲ افسانے شامل ہیں۔ ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ مظفر حنفی کے اس تیسرے افسانوی مجموعے میں ان کے چوبیس منتخب افسانے شامل ہیں۔

مظفر حنفی کے یہ افسانے زندگی کے مختلف موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ پریم چند اور سعادت حسن منٹو کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے حقیقت نگاری اور بیباکی ٔ اظہار پر ان کہانیوں کی بنیادیں رکھی گئی ہیں۔ دھُلی دھلائی، صاف شفاف، سلیس، عام فہم بول چال کی با محاورہ زبان، دلکش پلاٹ، اچھوتی تکنیک، منظر نگاری اور ہمارے اڑوس پڑوس میں رہنے بسنے والے کردار ان افسانوں کو حقائق سے قریب لاتے ہیں۔

مظفر حنفی کی ہر کہانی عام زندگی کی مکمل اور واضح تصویر ہے۔ ہر کہانی ان کے اندر سے ابھری ہے جس میں ان کا درد اور آس پاس کی بکھری ہوئی زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتیں زبان حال سے اس طرح بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں کہ ہر پڑھنے والا ان آوازوں کو ایک نئے مفہوم کے ساتھ سنتا ہے اور زندگی کے ان موضوعات کو انتہائی جسارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ جن تک سعادت حسن منٹو اور چند دوسرے افسانہ نگاروں کے علاوہ کوئی رسائی حاصل نہ کر سکا۔ انھوں نے رنگیں بیانی اور مرصع عبارت سے اپنی کہانیوں کو سجانے سے گریز کرتے ہوئے پریم چند کی طرح ہمیشہ مقصدیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ ’’نقش فریادی‘‘ میں انھوں نے افسانہ نگار کی حیثیت سے حقیقت نگاری پر مبنی اپنے تخلیقی رجحان کو انتہائی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ کہانی کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے:

’’ میں سوچتا ہوں میں یہ کہانی کیسے لکھ سکوں گا۔ در اصل میں بیحد اُداس ہوں، پریشانیوں نے مجھے بری طرح گھیر رکھا ہے، مجھ پر بہت ذمہ داریاں ہیں، اس بھری دنیا میں میں اپنے آپ کو یکہ و تنہا پاتا ہوں۔ کوئی مونس نہیں، کوئی غم خوار نہیں، غیرت مند اور حساس بھی بہت ہوں۔ ذرا سی بات کو گھنٹوں محسوس کرتا ہوں۔ وہ معمولی تکلیف جو دوسروں کو قطعی متاثر نہیں کرتی میرے دل میں عرصے تک کسکتی رہتی ہے۔ مجھے روپیوں کی ضرورت ہے، میری بیوی بیمار ہے اس کے علاج کے لیے، میرا بھانجہ ذہین ہے، اس کی تعلیم کے لیے، میرے والدین ضعیف ہیں ان کی ضرورت کے لیے۔ میں ادیب ہوں اپنی عزت بنائے رکھنے کے لیے واقعی مجھے روپیوں کی سخت ضرورت ہے۔ ‘‘

کہانی کیا ہے، سیدھے سچے اور بے لاگ انداز میں مظفر حنفی کے تلخ حالات کی عکاسی ہے۔ مظفر حنفی کے بیشتر افسانے ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات کے تانوں بانوں سے بُنے گئے ہیں۔ حنفی نے اپنے گرد و پیش کے حالات، واقعات و کیفیات کے خمیر کو اپنے تخیل میں گوندھ کر کہانیوں کے ایسے خوبصورت دلکش اور متحرک مجسمے گڑھے ہیں جو آپ کے ہمارے ساتھ چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں زندگی کی کرب ناکیوں کے پہلو بہ پہلو عشق و محبت کے خوشگوار عناصر بھی حقیقت پسندانہ توازن کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ رومانی افسانوں میں اسلوب اور مواد کے اعتبار سے مظفر حنفی، منٹو سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ وہی حقیقت نگاری کا رجحان یہاں بھی کار فرما ہے حالانکہ ان کی حقیقت نگاری اس حد و منزل تک نہیں پہنچتی جہاں منٹو فحش نگاری اور عریانیت پسندی کے جرم میں معتوب ٹھہرائے جاتے ہیں۔

ان کے افسانوں سے شوخی اور شرارت آمیز رومان کے نرم و گرم اور حقیقی جذبوں کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔

’’پنگھٹ پر وہ رونق رہتی کہ خدا کی پناہ۔ گاؤں بھر کا حسن پانی بھرنے مولانا منّے کے مکان کے سامنے آ جمع ہوتا۔ ایک سے ایک حسین دوشیزہ گاگر لیے جھومتی مٹکتی کنویں پر آتی اور پانی بھر کر مٹکتی ہوئی چلی جاتی۔ ‘‘

( مولانا منّے)

’’ اس کے انگ انگ سے جوانی یوں جھلک رہی تھی جیسے پکے ہوئے انگور سے رس ٹپکنے ہی والا ہے لیکن بڑی بڑی سیاہ آنکھوں کی وہ معصومیت اور چہرے کا وہ بھولا پن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ( کہتے ہیں جس کو عشق)

اپنے افسانوں میں مظفر حنفی نے طنز کے نشتروں کا استعمال سماج کے رستے ہوئے ناسوروں پر نشتر چلانے کے لیے کیا ہے ایسا سماج جو ضمیر فروش ہے، پست کردار اور نمائش پرست ہے۔ لیکن پر خلوص طنز معاشرے پر صحت مند اثر بھی مرتب کرتا ہے۔ ان کا طنز گہرا اور دیر پا ہوتا ہے۔

زندگی کے تلخ حقائق اور روز مرّہ کے ناخوشگوار مسائل پر مظفر حنفی نے اپنے منفرد طنزیہ اسلوب  میں بڑی بے باکی سے نشتر زنی کی ہے۔ رشوت خوری پر ان کا طنز ملاحظہ فرمائیے:

’’ جنگل کے ٹھیکیداروں سے آڑے وقتوں میں کچھ مل جاتا تھا۔ رشوت نہیں، یہ تو بہت کریہہ لفظ ہے، نذرانہ کہیے۔‘‘ ( دو ٹکے کا آدمی)

واقعہ نگار یوں اور معاشرہ کی نا ہمواریوں پر طنز کے بعد مظفر حنفی کی کہانیوں میں سب سے نمایاں اور قابل ذکر سیکس( جنس) پر ان کا بے باکانہ اظہار ہے۔ آج کی بات چھوڑیے کہ اب تو حالات نے کچھ ایسی چھوٹ دے رکھی ہے کہ ایرا غیرا کھلے بندوں مرد وزن کے اختلاط پر بے لگام اور بے تکان لکھ رہا ہے اور سستی شہرت سمیٹ رہا ہے۔ ۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء کے حالات آج سے یکسر مختلف تھے۔ سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور اس قبیل کے اور ایک دو افسانہ نگار، فحش نگاری اور عریاں پسندی کے جرم میں معتوب قرار دیے جا رہے تھے۔ مظفر حنفی نے اس زمانے میں بھی سیکس پر بڑی جسارت سے لکھا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:

’’ رنڈیوں کا گھر ہے تو کیا ہوا۔ جب تک ان طوائف زادیوں کی نتھ نہیں اترتی۔ یہ اتنی ہی عصمت مآب ہوتی ہیں جتنی کہ اچھی اچھی گھرانوں کی دوشیزائیں بلکہ بعض اوقات تو اونچے گھرانوں کی لڑکیاں بھی جذبات کی رو میں بہہ کر اپنا جوہرِ عصمت گنوا بیٹھتی ہیں لیکن ان طوائف زادیوں کی مائیں اور استاد حی بڑی جانفشانی کے ساتھ ہر لمحہ اُن کی پاسبانی کرتے ہیں کیونکہ انھیں اس کی زیادہ قیمت وصول کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘ ( مُول گنج کی صبحیں )

’’ شرم کی ماں کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امراؤ نے ایک گندی سی گالی دی۔ اتار کپڑے۔ اور پھر عورت کی سسکیوں کی آواز مجھے سنائی دی اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ باہری کمرے میں بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور لنگوٹ پہنے ہوئے امراؤ باہر نکلا۔ پھر سکڑتی سمٹتی اس کی بیوی بھی باہر آ گئی اب اس کے جسم پر کپڑے کے نام پر صرف ایک پھنسی پھنسی سی چولی اور ’ تنگ چڈّی تھی‘۔ ‘‘ ( دو غنڈے)

ان مثالوں سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مظفر حنفی نے جنس پر انتہائی بے باکی سے لکھا ہے وہیں اس بات کی طرف واضح اشارے بھی ملتے ہیں کہ انھوں نے سیکس کو صرف لذّت کوش اور شہوانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ یہاں بھی اصلاح کا مقصد کار فرما دکھائی دینا ہے۔

٭٭٭

 

’’مظفر حنفی کے افسانے اردو کے کئی اچھے رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان افسانوں کو ہزارہا شائقین ادب کی مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ مطالعہ زندگی میں جیسی اور جتنی مدد افسانوی ادب سے ملتی ہے اتنی مدد اور اس قسم کی مدد دوسری اصناف سخن سے نہیں ملتی۔ اگر کافی تعداد میں اچھے افسانے ہمارے ہزارہا ہم وطن پڑھیں اور پڑھتے رہیں توہمارے معاشرے اور ہماری زندگی کے مصائب اور ان کی پیچیدگی کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی۔ ایسا مطالعہ حقیقی تعلیم ہے اور یہ قومی ذہنیت کی تخلیق اور تعمیر میں غیر معمولی طور پر کار آمد ثابت ہو گا۔ مظفر حنفی صاحب ہمارے نئے افسانہ نگاروں میں ایک ہونہار ادیب ہیں۔ یہ ان کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے کئی پہلوؤں کی عکاسی ہے۔ بیان نہایت سلجھا ہوا ہے ان میں نیا پن ہے۔ ان کا انداز دلکش ہے، مکالمے فطری ہیں اور پلاٹ میں جدت ہے۔ پڑھنے والوں کو یہ افسانے کہیں سے گراں نہیں گزریں گے۔ ان افسانوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر نوجوان مصنف نے اپنی کوششیں جاری رکھیں تووہ ترقی کی نئی منزلیں کامیابی سے طے کرتے جائیں گے۔ ‘‘

فراقؔ گورکھپوری

 

 

 

 

 

تنقید و تحقیق

 

 

’’مظفر حنفی کو نظم اور نثر دونوں پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے ایسی کہانیاں لکھی ہیں جن کی اہل ادب نے کھلے دل سے پذیرائی کی ہے اور ایسی تنقیدیں بھی لکھی ہیں جن سے اردو تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ گویا وہ افسانہ نگار بھی ہیں، نقاد بھی اور شاعر بھی۔ ان کی ایک اور اہم حیثیت بھی ہے اور وہ ہے مترجم کی۔ انھوں نے چھے سات کتابوں کا انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کو مختلف اصناف ادب پر واقعی عبور حاصل ہو۔ اور جس میدان میں بھی جائیں اپنی انفرادیت اور امتیاز برقرار رکھیں۔ مظفر حنفی انھیں بہت کم لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر خلیق انجم

 

 

 

 

 

                ڈاکٹر خلیل مشیر احمد صدیقی

اندور

 

 

مظفر حنفی کی شخصیت کے کچھ اہم پہلو

 

پروفیسر مظفر حنفی کی شعری اور نثری خدمات سے اردو ادب کا ہر طالب علم آگاہ ہے۔ وہ شعرو ادب کی تخلیق میں کم از کم ساڑھے پانچ دہائیوں سے مصروف ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت فنکار ہیں اور طالب علمی کے زمانے سے نظم و نثر کی خدمت کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کا نام تاریخ ادب میں چونکا دینے والا نام ہے۔ انھوں نے متعدد اصناف ادب پر کام کیا ہے اور عہدِ حاضر کو کئی علمی اور ادبی نمونے پیش کیے ہیں۔ گو کہ اس عہد میں کئی مشاہیر ادب ہیں جنھوں نے تاریخ سازکارنامے انجام دیے ہیں اور اردو ادب کو مالا مال کیا ہے۔ اسی طرح صوبہ مدھیہ پردیش میں جن اہلِ قلم نے اردو زبان و ادب کی توسیع و ترقی میں حصّہ لیا۔ ان میں مظفر حنفی کا نام اہم ہے۔

مدھیہ پردیش کی ادبی و شعری تربیت میں نشو و نما پانے والے محمد ابو المظفر ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ اردو ادب کی دنیا میں مظفر حنفی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا شمار اردو شعر و ادب کے منفرد لب ولہجہ رکھنے والے صفِ اوّل کے اہلِ قلم میں ہوتا ہے۔

وہ ایک ممتاز شاعر اور معروف نثر نگار ہیں۔ ان کے درجنوں مضامین ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی درجنوں کتب زیور اشاعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئے دن آتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر مظفر حنفی ایک موقر و معتبر شاعر و ادیب ہیں۔ ان کے تخلیقی عمل میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے عناصر دیکھے جا سکتے ہیں۔ علم و ادب کے ہر میدان میں ان کی پختگی، علمیت، قادر الکلامی کا زور دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی مختلف تصانیف شعر و ادب کی متعدد جہتوں کی نقاب کشائی کرتی ہیں اور شائقین ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں یا یوں کہیے کہ ان کی درجنوں شعری و نثری کتب ان کے تخلیقی عمل و قوت کو واضح کر چکی ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی شعر و ادب کے ہر میدان میں ایک ماہر فنکار کی طرح اپنی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو منعکس کر چکے ہیں۔ ادبی تصنیف و تدریس کی بات ہو، یا تعلیم و تدریس کا معاملہ ہو، شعر و ادب کی محفل ہو، یا رسائل کی دنیا میں قلمی تعاون ہو۔ ڈاکٹر مظفر حنفی ہر آزمائش میں پورے اترتے ہیں۔

وہ ایک ماہر فنکار کی طرح جہاں بینی، انسان فہمی میں ایک خاموش تماشائی نہیں ہیں ان کا قلم انسانی اور سماجی چہروں کو بے نقاب کرنے میں تیر و تلوار کا کام کر تا ہے۔ کائنات کے مختلف مظاہر اور انسانی زندگی کے گوناگوں حالات جہاں لطف و بے کیفی کے مظہر ہیں وہیں حوصلہ اور بے اختیاری کی مختلف نوعیتیں بھی ہیں۔ یہ تمام صورتیں ان کے نثری اور شعری کارناموں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جس طرح ہر شے چمکدار یا قابل کشش نہیں ہوتی۔ اسی طرح ہر شے نظر کا فریب بھی نہیں۔ زندگی جس طرح اضمحلال یا تھکن یا خلفشار یا اضطراب کا نام ہی نہیں بلکہ اس میں لطف وسرور کے سامانِ عیش بھی ہیں۔ اسی طرح زندگی کے لیے تگ و تاز اور جد و جہد بھی ضروری ہے تاکہ حیاتِ انسانی کا نور قائم رہ سکے۔ ان حقائق کی جستجو میں ان کا قلم منہمک ہے۔ وہ ہر ادبی تحریک سے واقف ہیں۔ ان کے یہاں نہ ترقی پسندی کی دیوانگی ہے اور نہ جدیدیت کی جنوں خیزی۔ انھوں نے اپنے فن میں انفرادیت رکھی ہے۔ وہ ایک سچے آرٹسٹ کی طرح حقیقی مشاہدات و تجربات کی آنچ میں تپ کر سماج و معاشرے کی زبوں حالی اور انسانی خلش کی نیرنگیوں کو اپنی تخلیقیت کے وسیلے سے بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کائنات کی ہر سچائی ان کے شعری و نثری تجربے میں شامل نظر آتی ہے۔

پروفیسر مظفر حنفی کی نظم ونثر یا شعر و ادب کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ اُن تخلیقات کے خالق کو مضمون و خیال اور زبان وبیان پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی شعری و نثری تخلیقات کو فرسودیت، سطحیت، کہنگی سے آزاد رکھا ہے۔ دلنشیں خیالات، دلآویز زبان و بیان کے سہارے ہر فن پارے کو اپنے مخصوص انداز اور منفرد لب و لہجہ کے ساتھ پیش کیا ہے جس کے باغث ہر خیال جدّت و ندرت کا غماز ہے۔

کوئی بھی تخلیق سماج و معاشرے کی ترجمانی کے بغیر مکمل نہیں کہی جا سکتی۔ ڈاکٹر مظفر حنفی نے سماجی حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر معاشرے اور سماج  کی مختلف بحرانی صورتوں کو اپنی تخلیقات کا جامہ پہنایا ہے۔ غم و یاس، امید و آس کے گوناگوں پہلو بھی ہماری زندگی کی سچائی میں شامل ہیں جن سب سے عہدہ برآ ہونا بھی ناممکن ہے۔ ایک کامیاب فنکار ان حقائق سے پہلو تہی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایک سچے فنکار کو زندگی کے قرینوں اور وسائل کی تلاش رہتی ہے تاکہ زندگی کامیاب و کامران ہو مگر ایک کامیاب زندگی جہدِ مسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔

ادھر ایک حساس و مخلص ادیب و شاعر، مالی و روحانی شکست، محبت و شرافت کی بے چارگی، اعلیٰ اقدار کی پامالی، انسان وسماج کی خستہ حالی، نئی نسل کی غیر ذمہ دارانہ روش، دوست و احباب کا غیر مخلصانہ رویّہ، عزیزوں اور قرابت داروں کا بُغض، کس طرح برداشت کر سکتا ہے۔ ایسے ناسازگار حالات میں گہرا شعور رکھنے والے فنکار کا جو حال ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ڈاکٹر مظفر حنفی نے ناگفتہ بہ حالات و روابط پر کہیں کھل کر تو کہیں رمز و کنایہ کے سہارے اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے یہاں رمز و اشارے کی زبان بھی بڑی معنی خیز ہے۔

غزل اردو کی مقبول صنفِ سخن ہے اردو غزل کی تاریخ میں کئی منفرد غزل گو شعرا نظر آتے ہیں جنھوں نے عشق و محبت کو دلنشیں اور دلآویز زبان و بیان کے سہارے اس طرح پیش کیا کہ ہر خیال عروس نو کی طرح دیدہ و دل پر چھا جاتا ہے۔ غزل عام طور پر رمزو کنایہ یا اختصار و اشارے کی زبان ہے۔ اس میں روایت کا رنگ و روغن، عشق کی چاشنی کے باعث زندہ جاوید رہا ہے۔ ساتھ ہی نزاکت و لطافت، شیرینی و حلاوت اور رنگِ تغزل کا حسن غزل میں شعری مسرت کا باعث ہوتا ہے۔ مگر وقت کے تغیر کے ساتھ ساتھ اب حیات و کائنات کے مختلف یا گو نا گوں پہلو بھی داخلِ غزل ہیں کیونکہ غزل عام طور پر رمز و کنایہ یا اختصار و اشارے کی شعری زبان ہے۔ دوسرے انسانی معاملات کی زبوں حالی کو بھی اگر دامنِ غزل میں سمیٹا جائے تو غزل میں موضوع کی وسعت کے ساتھ اس کا وقار بھی مزید بڑھ جاتا ہے اور غزل نجی کیف و مسرت کے ساتھ عالمی دکھ سکھ کی ترجمان ہو کر گہرے تاثر کی حامل ہو جاتی ہے۔

پروفیسر مظفر حنفی کی شعری تخلیقات کو حیات و کائنات کے وسیع و بسیط منظر نامے کو ذہن میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اردو کے شعری ادب میں منفرد لب و لہجہ پیدا کر کے اردو کے صفِ اول کے شعراء میں اپنی پہچان درج کی اور تاریخ ساز شعری مجموعے پیش کیے جن میں ’’ پانی کی زبان(۱۹۶۷ء)‘‘، ’’ تیکھی غزلیں (۱۹۶۸ء)‘‘، ’’ صریر خامہ (۱۹۷۳ء)‘‘، ’’دیپک راگ (۱۹۷۴ء)‘‘، ’’طلسم حرف (۱۹۸۰ء)‘‘، ’’کھل جا سم سم (۱۹۸۱ء)‘‘، ’’ پردہ سخن کا (۱۹۸۶ء)‘‘، پرچمِ گرد باد (۲۰۰۲ء) اہم ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی مجموعے ہیں جو مختلف اوقات میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔

غرض دورِ حاضر کے شعرا میں ڈاکٹر مظفر حنفی نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے، انھوں نے اردو کے شعری ادب کو نئی سوچ، نیا پہلو اور نیا وقار عطا کیا۔ انھوں نے شعری فکر اور فن شاعری کو جو راہ دکھائی وہ لسانی، خیالی یا فکری عناصر کے باعث اختراعی قوتوں کی حامل ہے۔

مظفر حنفی کا شعری نظام ہر شاعرانہ تغیر سے آگاہی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں جدید لب و لہجہ کے ساتھ جدید فکر و نظر کی کمی نہیں ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں ہونے والی تمام تبدیلیوں کومحسوس ہی نہیں کیا، بلکہ اپنی شاعری میں، پرکھا اور اپنی شاعرانہ انفرادیت بھی قائم کی۔ بہر کیف مظفر حنفی کی شاعری کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ وہ شعری ادب کی مختلف سمتوں، سبھی تحریکوں، تجربوں، بندشوں، تبدیلیوں اور مختلف راہوں سے آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں روایت و تقلید، ترقی پسندی و جدّت یا جدیدیت کے تمام عناصر موجو ہیں۔

یہ ان کی ذہانت اور فکری تجسس ہے کہ وہ اپنے ہر خیال کو نہایت چابکدستی سے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ تمام علامتی اور استعارتی نظام معنی و مفہوم کی گہرائیوں سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔

ان کے یہاں خیال کی ندرت و جدت الفاظ و معنی کے رکھ رکھاؤ کے ساتھ ہلکا طنز و مزاح بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک مخصوص طرز و لہجہ کے شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنے شعری تجربات کا اظہار نئی غزل کی مخصوص شعریت اور نئے لفظوں کی خصوصی ساخت کے ذریعہ کیا ہے۔ نئے دور میں ادب و معاشرے کے نئے دائرے حباب کے مانند ہیں۔ فکر شعر کی نزاکت کے ساتھ، انھیں صحیح سلامت پیش کرنا کمالِ شاعری ہے۔ بقول مظفر حنفی:

نازک ہے فن شعر مگر طرز نو کے ساتھ

ہم اس حباب کو بھی سلامت اٹھائیں گے

علامتوں کے سہارے شعری معنویت بھی قابل دید ہے:

بلندی سے ہمیشہ ایک ہی پیغام آتا ہے

ستارے نوچ لینا، تتلیوں کے پر جلا دینا

چھتوں سے ستارے ٹپکنے لگے

ہری گھاس دیوار پر چڑھ گئی

ہمسائے کے اچھے نہیں آثار خبردار

دیوار سے کہنے لگی دیوار خبردار

اقامت شہر میں دل گاؤں میں ہے

بہر صورت مسافر چھاؤں میں ہے

ڈاکٹر مظفر حنفی کے یہاں نئی معنویت، نئے الفاظ، اور نئے لفظی آئینوں کی کمی نہیں ہے۔ ان کا شعری سرمایہ، نئی شعری معنویت کا ا تھاہ سمندر ہے جس کے لیے ایک بڑے مقالہ کی ضرورت ہے۔ میں یہاں، شاعر کے شعری محاسن کی وضاحت کے لیے چند اشعار پر اکتفاء کرتا ہوں۔ ملاحظہ ہوں :

ہر سمت نیا حرملہ ہر سمت نیا تیر

پانی کی تمنا ہے تو حلقوم پہ کھا تیر

مجھ کو ہونے کا یہ احساس نہ جینے دے گا

سوئی کی نوک پہ ہر سمت گھماتا ہے مجھے

خون تیشہ باز کے سر سے ٹپکنا شرط ہے

دودھ خود ہی سامنے آئے گا پتھر کاٹ کر

ہاتھ میں کاغذ، حساب دوستاں اترا ہوا

اور خنجر عین دل کے درمیاں اترا ہوا

پروفیسر مظفر حنفی نے اپنی فنی بصیرت کے شعری چراغ کو اس طرح روشن کیا کہ شعری ادب نئی بصیرتوں کے ساتھ جگمگا اٹھا۔ انھوں نے اپنے فن کے تخلیقی جوہر کو فکر و نظر سے جلا بخشی اور شاعری کو وہ بلندی عطا کی جہاں کلام فکر و فن کی مثال بن جاتا ہے۔ غرض ان کی شاعری نئے موضوعات، اچھوتی فکر اور الفاظِ نو کی تنظیم و تشہیر کی آئینہ دار کہی جا سکتی ہے۔

پروفیسر مظفر حنفی کے مجموعاتِ شعری کا مطالعہ مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں کیونکہ یہ مختلف اوقات میں لکھے گئے مجموعے ہیں اور متعدد ہیں۔ ایک مختصر مضمون میں ان مجموعوں کی تمام خوبیوں پر روشنی ڈالنا اور مثالی اشعار نقل کرنامحال ہے۔ لہٰذا کچھ مزید شعری خوبیاں پیش خدمت ہیں۔

سرسری مطالعہ کی روشنی میں شاعر کی شعر گوئی کی صداقت، صلاحیت اور فنی بصیرت کا علم ہوتا ہے۔ ان کے اشعار تازہ، شگفتہ اور تخلیقی قوت کا پتہ دیتے ہیں۔ عام اور آسان الفاظ کو شاعر کی فکر نے اس طرح چھُوا کہ لفظ کی قدر و قیمت میں اضافہ ہی نہیں ہوا بلکہ گہری معنویت کا سیلاب امنڈ آیا۔ یہ شعری خوبیاں ایک تازہ کار اور خلاقانہ ذہن رکھنے والے شاعر کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ مظفر حنفی کا شعری ذہن رنگ برنگے پھول کھلاتا ہوا نظر آتا ہے جن کی خوشبو سے شعری گلزار معطر ہے جن میں منفرد رنگ و بو ہے جو نئے شعری گلستانوں کو دعوت فِکر عطا کرتے ہیں۔

مظفر حنفی کی نثر کی مختلف صورتیں ہیں، فکشن نگاری کے مختلف رنگ سے لے کر تنقید و تحقیق تک ان کا قلم کچھ نیا کر دکھانا چاہتا ہے۔ کبھی وہ جاسوسی ناولوں کو طبع زاد دکھانے کے درپَے نظر آتے ہیں، تو کبھی بزم اطفال میں بچوں کی خوبصورت کہانیوں کے تانے بانے بنتے ہیں۔ بچوں کو رجھانے کے لیے شاعری بھی کرتے ہیں۔ تنقیدی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو اپنے تاثر کا گہرا رنگ چھوڑتے ہیں۔ ان کے مضامین کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں تنقید و تحقیق کی دیانت داری، فکر و نظر کی گہرائی، علمی بصیرت کے چراغ روشن نظر آتے ہیں۔ کم وبیش ان کی ہر تحریر متوازن اور تخلیقی نوعیت کی حامل ہوتی ہے اور تنقیدو تحقیق کے معیار کو چھوتی نظر آتی ہے۔ نظم ونثر کا یہ سلیقہ عمیق مطالعہ اور گہرے شغف کے بغیر ناممکن ہے۔ ان کے ادبی مطالعہ کی بصیرت و آگاہی کے باعث مختلف ذائقوں کی جانچ و پرکھ کا رنگ و روغن ان کے تخلیقی  عمل میں دیکھا جا سکتا ہے۔

مظفر حنفی کے ہر نثری مجموعے میں مضامین درجن دو درجن سے کم نہیں ہوتے۔ ان میں بیشتر تنقید و تحقیق کے عناصر لیے ہوتے ہیں۔ نئے موضوعات کے حوالے سے کئی نجی اور ذاتی رودادیں یا ذاتی ملاقاتیں یا صحبتیں، یا مختلف یادداشتیں بھی ان کے ادبی مباحث میں شامل ہو جاتی ہیں جو ادبی تاریخ میں کافی اہم ہونے کے باعث تاریخ سازپہلورکھتی ہیں۔

مطالعے کی روشنی میں افکارِ نو کی توسیع و تلاش میں ان کی تحریر کے اچھے نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تحریریں بحث کی دیانت داری، قلمی گرفت اور علمی بصیرت کے باعث تخلیقی قوت کی مالک بن جاتی ہیں اور یہ مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے تحقیق و تنقید کے رشتوں کواستوار کرتے نظر آتے ہیں۔

ابھی چند سال قبل ڈاکٹر  مظفر حنفی کا مجموعہ ’’مضامینِ تازہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ نظر سے گزرا۔ اس میں تقریباً ڈیڑھ درجن سے اوپر مضامین شامل ہیں۔ ہر مضمون علم و ادب کی نئی جہات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اتنے بڑے مجموعے کے ہر مضمون سے متعلق موضوع پر روشنی ڈالنا محال ہے تاہم ان مضامین کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ وہ صاف گو ہیں ادبی تاریخ پر گہری نظر ہے، علمائے وقت سے قربتوں کے باعث کچھ اہم یادداشتیں ادبی اہمیت رکھتی ہیں۔ خود مصنف کے ادبی مراحل کے کچھ تاریخی پہلو بھی اہم ہیں۔ اردو شعر و ادب کے مختلف موڑ، نئے پہلو، ادبی قدروں کی اہمیت، تحقیق و تنقید کی نوعیت و اہمیت، اردو فکشن نگاری کا نیا موڑ بصورت قرۃ العین حیدر کے علاوہ ڈھیر سے ادبی موضوعات ہیں۔ جنہیں زیر بحث لا کر وہ نئے زاویۂ فکر و نظر کی دعوت دیتے ہیں تاکہ علم و ادب نئی راہوں پر گامزن رہ کر علمی و ادبی بلندیوں کو چھوئے۔ اس ادبی احساس کی پیروی یا رہبری میں ان کا ادبی اور علمی وقار سدا قائم رہتا ہے۔ ان کی تحریروں کا متوازن انداز اس بات کو واضح کرنا ہے کہ وہ ایک مضبوط و مدلل طرزِ تحریر کے مالک ہیں۔ ان کی فکر و نظر میں مطالعہ کی گہرائی ہے۔ غیر متعلق گفتگو، یا لفظوں کی جادو گری کرنا ان کا شیوہ نہیں۔ تحقیق و تنقیدکا انداز سہل، ایماندارانہ ہے۔ وہ ہر موضوع بحث پر مطالعہ کی گہرائی کے ساتھ سنجیدہ غور و فکر پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریروں کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ وہ ادب کے کچھ پوشیدہ امور کو منظر عام پر لانے کے ساتھ ساتھ نئے زاویہ فکر اور نقد و نظر کی نئی راہیں بھی ہموار کرتے ہیں۔ ان کا قلم جدیدوقدیم شعر و ادب کے مطالعہ کے لیے نئی راہیں کھولتا اور نئے زاویہ فکر کی دعوت دیتا ہے۔

ادب کے قاری کو غور و فکر کے ساتھ کچھ اختلاقی امور یا نظریات بھی لاحق ہوسکتے ہیں کیونکہ غور و فکر کے دائرے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ نقد و نظر میں ذاتی پسند و نا پسند کے معاملات داخل ہونے کے باعث اختلاف رائے ممکن ہے۔ خصوصاً خود پرستی، خود فہمی، خود ستائی کے اس دور میں جہاں گروہ بندی، دوست پرستی اور استادنوازی عام ہو وہاں نقد و نظر کی ایماندارانہ توقعات پر پانی پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ ساتھ ہی مقامیت، صوبائیت، دہلویت، لکھنویت اور دکنیت جیسے فخریہ امتیازات سے اوپر اٹھ کر سوچناچاہیے۔ جہاں تک مجھے علم ہے مظفر حنفی نے کسی مقام یا صوبہ سے جڑ کر اپنی شناخت قائم نہیں کی وہ ادب اور تدریس ادب سے جڑے رہے اور یہی ان کی پہچان بنی۔

انصاف پسند، دیانت دار صاحبِ نظر نقاد ہر اعتبار سے اعتدال پسند، متوازن، غیر جانب دار رہ کی فیصلے صادر کرتا ہے۔ اس کا فیصلہ حق بجانب ہوتا ہے۔ وہ کسی فن پارے پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی علمی وسعت یا مطالعہ کا اعتماد و وقار سطر بہ سطر بحال ہی نہیں کرتا بلکہ کسی حقدار کو زیر و زبر کیے بغیر اس کا علمی یا ادبی مقام متعین کرتا ہے۔ مظفر حنفی کی تحریروں میں نقد و نظر کا اعتماد و وقار بحال رہتا ہے ساتھ ہی نئے زاویوں اور نئی سمتوں کی راہیں بھی ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے تحقیق کے میدان میں بھی نئے پہلو روشن کیے ہیں کہ شعر و ادب پر مزید کام کیا جا سکتا ہے۔

نثر میں مظفر حنفی کے متذکرہ مجموعہ کے علاوہ کئی دوسرے تحقیقی و تنقیدی کارنامے ہیں۔ ان میں ’’نقد ریزے (۱۹۷۸ء)‘‘، ’’ جہات و جستجو (۱۹۸۲ء)‘‘، ’’ تنقیدی ابعاد (۱۹۸۷ء)‘‘، ’’ غزلیاتِ میر حسن (۱۹۹۲ء)‘‘، ’’باتیں ادب کی (۱۹۹۴ء)‘‘، ’’ حسرتؔ موہانی (۲۰۰۱ء)‘‘، ’’ لاگ لپٹ کے بغیر( ۲۰۰۱ء)‘‘، ’’ محمد حسین آزاد (۱۹۹۴ء)‘‘، ’’ ادبی فیچر اور تنقیدیں ( ۱۹۹۲ء)‘‘، ’’ شاد عارفی :ایک مطالعہ‘‘، ’’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘ اہم اور مقبول ہیں۔ ان کتب کے علاوہ تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید سے متعلق کئی اور اہم کارنامے ہیں جن کی فضیلت سے ہر اہل علم آگاہ ہے۔

غرض یہ تمام تصانیف تنقید و تحقیق ادب کے لازوال کارنامے ہیں جو مظفر حنفی کے ادبی وقار و مقام میں اضافہ کا باعث ہیں۔ وہ کئی برس سے ادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے مطالعہ کی وسعت اور ذہانت کے باعث اردو ادب کے معتبر نقاد اور مستند ادیب و شاعر ہیں۔ وہ اپنی وقیع تحریروں سے اردو ادب میں گراں مایہ اضافے کر رہے ہیں۔ اگر ادب کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو آزادی کے بعد عصری ادبی مسائل اور تہذیبی و ثقافتی روایت اور انسانی اقدار پر بہت سے اہل قلم نے کام کیا ہے۔ بیشمار اصلاحی، تحقیقی اور تنقیدی تخلیقات اور مقالے شائع ہوئے ہیں۔ رسائل اور جرائد نکلے ہیں۔ مختلف گراں مایہ تصانیف منظر عام پر آئی ہیں۔ ڈاکٹر مظفر حنفی کا قلم کبھی خاموش نہیں رہا۔ ان کی علمی بصیرت اور و سعت کے مختلف نمونے ملک کے مقتدر رسائل میں ہی شائع نہیں ہوئے بلکہ درجنوں کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئیں جو ان کی علمی و ادبی بصیرت کی غماز ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ مظفر حنفی کا علمی و ادبی سفر طالب علمی کے زمانے سے نوکری کے ساتھ جاری رہا۔ پوسٹ گریجویشن سے پی ایچ – ڈی تک وہ مختلف عہدوں کے ساتھ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدوں تک لکھتے، پڑھتے اور پڑھاتے رہے اور ملک کے مشہور اساتذہ اور قلم کاروں میں نام حاصل کیا۔ درس و تدریس کے جادہ پر قدم رکھنے سے قبل وہ اپنی علمی و ادبی بصیرت اور غیر معمولی تخلیقی قوت کے باعث ایک ذہین شاعر و ادیب کا مقام حاصل کر چکے تھے۔ ملک کے کئی مقبول رسالوں میں ان کی شعری و نثری تخلیقات منظر عام پر آ چکی تھیں۔ ادھر جب صحافت کا ذوق پیدا ہوا تو شہر کھنڈوہ سے رسالہ ’’نئے چراغ‘‘ جاری کیا۔

غرض ملازمت کی مختلف نوعیتوں کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہ کر شعر و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ ادبی ادراک اور تخلیقی شعور کے باعث انھوں نے تاریخ ادب میں اپنی پہچان قائم کی۔ ادھر تدریس ادب میں بھی انھوں نے اپنی لیاقت، فراست، صلاحیت اور ریاضت کے باعث نام حاصل کیا۔ یہاں تک کہ کلکتہ یونیورسٹی میں ’’اقبال چیئر‘‘ پر فائز ہو کر اردو کے مشہور اساتذہ میں نام کمایا۔

اردو ادب کی تاریخ میں ایسے اہلِ قلم کم ہیں جو ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں یا ادبی وقار کے باعث لائقِ ستائش ہیں۔ ڈاکٹر مظفر حنفی ہمہ جہت شخصیت رکھتے ہیں۔ وہ اردو کے عہد سازمحقق و نقاد ہیں، فکشن نگاری میں ماہر ہیں۔ بچوں کی ادبی دنیا کے سیّاح ہیں۔ صحافت کے میدان میں بھی آشنا ہیں۔ ذہین استاد ہونے کے ساتھ صاحبِ قلم دانشور، شاعر اور ادیب ہیں۔ غرض وہ ادب کی ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ ان کی ادبی تخلیقات متنوع قسم کی ہیں۔ ان کا ادبی میدان وسیع ہے۔ مختلف اصناف ادب پر ان کا قلم بے تکان رواں دواں رہا ہے۔ ان کی ہر کاوش نظم و نثر کی خدمت میں مصروف رہی ہے۔ ان کی تحریریں واضح پیرایۂ اظہار کے باعث عام فہم و سلیس ہیں۔ جملوں اور فقروں کے ساخت دلنشین ہے۔ اظہار بیان میں شگفتگی و تازگی کے ساتھ معنوی حسن اور طنز و مزاح کی چاشنی ہے۔

مگر جدید شعر و ادب میں جو ذہنی الجھاؤ، تفہیم و ابلاغ کی پیچیدگی، معنوی علائم کی رسّا کشی کی وجہ سے کہیں نثر و نظم گنجلک اور ذہن رسا نہ ہونے کے معائب عام ہیں مظفر حنفی کے ہاں باوجود زبان و بیان کی جدّت نگاری، لطف و شگفتگی لیے ہوئے ہے۔ طرز ادا کا نرالا ڈھنگ، خیال کی وسعت، مشاہدے کی گہرائی ان کی فنی مہارت اور پختہ کاری کی دلیل بن جاتی ہے۔

گو کہ مظفر حنفی کی ادبی حیثیتیں مختلف ہیں مگر شاعری اور نثر نگاری میں وہ آپ اپنی مثال ہیں۔ کئی شعری اور نثری کارنامے منظر عام میں آ چکے ہیں۔ شعر و ادب میں وہ ایک الگ پہچان کے مالک ہیں۔ ناول نگاری، افسانہ نویسی، اور ڈرامہ نگاری ان کی فکشن نگاری کے اہم ستون رہے ہیں۔ اولاً مظفر حنفی نے ناول نگاری کی طرف توجہ دی۔ جاسوسی ناول کے طرزکوپسند کیا، کئی مشاہیر ناول نگاروں کا مطالعہ کیا۔ انگریزی جاسوسی ناولوں سے استفادہ ہی نہیں کیا بلکہ ترجموں کے ذریعہ اردو ادب کو مالا مال کیا۔ ان کا مقبول ناول ’’ چوروں کا قاتل‘‘ ۱۹۵۴ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد نسیم بک ڈپو لکھنؤ نے ’’دوسری سازش ‘‘ ۱۹۵۹ء، ’’ پر اسرار قتل‘‘ ۱۹۵۵ء، اور ’’ شرلاک ہومز ہندوستان میں ‘‘ ۱۹۵۶ء میں شائع کیے۔ مظفر حنفی ایک ماہر ناول نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ وہ ناولوں کی ساخت اور خوبیوں  سے آگاہ ہیں۔ انھوں نے ان جاسوسی ناولوں کے تراجم ایک ماہر ناول نگار کی طرح کئے اور کہیں ترجمے کی بو نہیں آنے دی۔ یہاں تک کہ ان کا ہر ناول طبع زاد معلوم ہونے لگا۔

مظفر حنفی کو ناولوں کی ساخت اور اس کی خوبیوں سے گہری واقفیت ہے۔ انھوں نے ان ناولوں کے تراجم ایک ماہر ناول نگار کی طرح کیے ہیں۔ ان ناولوں میں کہیں زبان و بیان یا ماحول کی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ ناول مظفر حنفی کے طبع زاد معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ انھوں نے ناولوں کے کردار اور اس کے مختلف گوشوں کوہندوستانی رنگ عطا کیا ہے تاکہ ترجموں میں ماحول اور زبان کی اجنبیت محسوس نہ ہو۔ قدرت نے مظفر حنفی کو ناول نگاری کی فطری صلاحیت عطا کی ہے۔ یہ ان کی تخلیقی قوت ہی کا نتیجہ ہے کہ ان کا متذکرہ ہر ناول طبع زاد معلوم ہوتا ہے۔ مظفر حنفی اپنی اس تخلیقی قوت کے لیے فکشن کی تاریخ میں سدا یاد رکھے جائیں گے۔

مظفر حنفی کو یک یابی ڈراموں سے بھی گہرا لگاؤ رہا ہے۔ انھوں نے گجراتی زبان کے کچھ مشہور یک یابی ڈرامے ترجموں کے ذریعہ اردو میں داخل کیے۔ یہ ڈرامے بھی مظفر حنفی کی فنی مہارت کو واضح کرتے ہیں جس کے باعث یہ تراجم کم اور طبع زاد زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔

بچوں کے ادب کے حوالے سے بھی مظفر حنفی کا نام اہم ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے اچھی نظمیں اور خوبصورت کہانیاں لکھیں بچوں کے ادب سے متعلق ان کی چار مقبول اور اہم کتب ’’ نیلا ہیرا‘‘، ’’ کھیل کھیل میں ‘‘، ’’چٹخارے‘‘  اور ’’ بندروں کا مشاعرہ‘‘ ۱۹۵۳ئ۔ ۲۰۰۴ء کے درمیان منظر عام پر آئیں جو بزم اطفال میں بہت مقبول ہوئیں اور مظفر حنفی کا نام بچوں کے ادب میں نمایاں کام کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوا۔ قومی کونسل آف چائلڈ  ایجو کیشل دہلی اور اتر پردیش و بہار کی اکاڈمیوں نے بھی اعزاز و انعام سے نوازا۔

بچوں سے متعلق متذکرہ کتب بے حددلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ بچوں کی اصلاح و تربیت میں ان تخلیقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو وقتاً فوقتاً ہمارے اہلِ قلم نے بچوں کی علمی، تعلیمی اور تربیتی ترقی کے لیے کام کیا ہے لیکن ہر عہد میں بچوں کے ادب پر لکھنے والوں کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ پھر بھی مستقبل امید افزا ہے۔

مظفر حنفی نے جب افسانوی دنیا میں قدم رکھا تو وہاں بھی انھوں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ رنگا رنگ افسانے لکھے۔ معاشرے کے مختلف گوشوں کو اجاگر کیا۔ حیات و کائنات کے پیچیدہ مسائل، انسانی رشتوں، سماجی و سیاسی، اقتصادی الجھنوں، نفسیاتی خلشوں اور جنسی کجرویوں کو ہی بے نقاب نہیں کیا بلکہ ہر سماجی مسئلہ کو خوبصورت افسانوی رنگ دے کر درجنوں افسانے لکھے۔ انھوں نے اپنی انفرادیت قائم رکھی اور اردو کے افسانوی ادب میں ایک الگ پہچان بنائی۔ ان کے افسانے ملک کے مقبول رسالوں میں کم و بیش پندرہ برس تک شائع ہوتے رہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’’ اینٹ کا جواب‘‘ مرکز ادب بھوپال سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے افسانوں کے دو مجموعے ’’دیدۂ حیراں ‘‘ اور دو غنڈے‘‘ ۷۰۔ ۱۹۶۹ء کے درمیان شائع ہوئے۔ اوّل الذکر کو فن کدہ سیہور نے اور مجموعۂ ثانی کو نصرت پبلشرز لکھنؤ نے شائع کیا۔

ایک بڑے فنکار کے یہاں افسانوں کی ہیئت و تکنیک کی منفرد صورتیں ہوتی ہیں جس کے باعث کہانیاں زبان و بیان کے اعتبار سے بیانیہ، تجریدی اور علامتی رنگ و روغن لیے ہوتی ہیں۔ یہی انفرادی صورت مظفر حنفی کی کہانیوں میں نظر آتی ہے۔ دوسری زبانوں کے مطالعہ کے باعث بھی ان کی کہانیوں میں ہیئت و ٹیکنیک کے اچھے تجربے موجود ہیں۔ ان کے یہاں زبان و بیان کی گرفت بھی لا جواب ہے۔ وسعتِ فکر اور مشاہدہ کی گہرائی نے کہانیوں کو دلچسپ اور فکر انگیز بنا دیا ہے۔ وہ تجربات و مشاہدات کو کہانی کی گرفت میں اس طرح لاتے ہیں کہ قاری پڑھتے وقت کہیں بوریت محسوس نہیں کرتا اور نہ اس کا جی اچاٹ ہوتا ہے۔ وہ بے تکان کہانی پڑھنے میں مصروف رہتا ہے۔ کہانی میں اس کا تجسس برقرار رہتا ہے۔ ادھر ان کے اثر دار چھوٹے بڑے جملے اور فقرے ذہن و دماغ کی گرد جھاڑتے نظر آتے ہیں۔ نفسیاتی اور حسین پہلوؤں کو بھی وہ ایک مخصوص معیار تک لانے اور دامنِ تہذیب آلودہ ہونے سے محفوظ رکھنے کی کاوش کرتے نظر آتے ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی ایک ذہین و ذکی انسان ہیں۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے بخوبی واقف ہیں۔

وہ انسانی زندگی اور اس سے متعلقہ سماجی مسائل کو سوچ سمجھ کر کہانی کا رنگ دیتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کے حقائق افسانے کے فن میں ڈھل کر بے حد حسین ہو جاتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے تغیر پذیر حالات اور معتبر واقعات کو شدت کے ساتھ محسوس ہی نہیں کیا بلکہ اپنی فنّی بصیرت کے حوالے سے کہانی کا تانا بانا بُنا اور افسانے کے فن کو بلند کیا۔ عام طور پر افسانوں کا رنگ و روغن یا تعمیر فکر کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ رومانی یا غیر رومانی، متحیر کرنے والے واقعات یا عام واقعات۔ سب ہی معاملات فنکار کی سوچ و فکر کے سہارے قلمبند ہوتے ہیں جو عام نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں اور قاری کو متحیر کرتے ہیں۔ ۔ یہاں افسانہ نگار کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ فکر کی ایک ایسی دنیا تعمیر کرتا ہے کہ قاری کہانی کے اختتام پر غور و خوض یا فکری احساسات کی ایک ایسی دنیا تعمیر کرتا ہے کہ جہاں محض نفسِ طبع ہی نہیں بلکہ ہیجاناتِ حیات کا تحیر بھی غالب ہوتا ہے۔ مظفر حنفی کے افسانوی فن کی امتیازی خوبیوں کی وضاحت پر ہی اکتفا کی جاتی ہے کیونکہ ایک مختصر سے مقالہ میں ہر کہانی کا تجزیہ یا مختلف شعری تخلیقات یا ادبی نگارشات کا الگ الگ جائزہ لینا نا ممکن ہے۔ جس طرح ان کی کہانیاں متنوع موضوعات کی حامل ہیں، اسی طرح ان کی شعری تخلیقات اور نثری نگارشات متنوع موضوعات پر محیط ہیں۔ بہر کیف ان کی نظم و نثر میں زندگی اور ادب کے گو نا گوں پہلو موجود ہیں۔

مختصر یہ کہ ان کا قلم رنگا رنگ موضوعات کی عقدہ کشائی کرتا ہے۔ ان کی تحریریں مدلّل ہوتی ہیں۔ ان میں علمیت، فکر کی گہرائی اور سنجیدگی ہوتی ہے جو نئے ادبی گوشوں کو کھولنے کی دعوت دیتی ہے۔ ادبی امور پر غور و فکر کے لیے میدان ہموار کرتی ہے۔ تحقیق و تنقید کے لیے راہیں کھولتی ہے۔

٭٭٭

 

’’ہندوستان میں بانیؔ کے بعد مظفرؔ حنفی اور محمد علوی ایسے دو شاعر ہیں جنھیں ہم اعتماد کے ساتھ پاکستانی غزل کے مقابلے میں پیش کر سکتے ہیں۔ علوی کے مقابلے میں لسانی اور فنی مہارت کے اعتبار سے مظفر زیادہ پختہ اور زیادہ قادر الکلام شاعر ہیں۔ غزل کی جمالیات کو دونوں نے ہی Desolemnise  کیا ہے مگر میرے خیال میں مظفر حنفی نے یہ کام بہتر فنی شعور کی رہنمائی میں انجام دیا ہے۔ اینٹی غزل کا رویہ اب کمزور پڑ گیا ہے اور ایک نئی سنجیدگی اور خلوص اظہار کی ایک نئی جمالیات جنم لے رہی ہے۔ جو روایتی غزل کی انگرکھا پوش اور شیروانی نواز جمالیات سے ذرا ہٹ کر اپنے آپ کو منوا رہی ہے۔ ‘‘

پروفیسر انور صدیقی

 

 

 

 

                ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

         بھاگلپور

 

مظفر حنفی کی تنقید ی جہتیں

 

مظفر حنفی کے قلم کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ شاعر ہیں، تنقید نگار ہیں، افسانہ نویس ہیں اور مترجم ہیں۔ انھوں نے ترتیب و تدوین کا بھی کام کیا ہے اور تقریباً ڈیڑھ درجن ایسی کتابیں اردو کو دی ہیں۔ سفر نامہ بھی لکھا ہے اور ادبِ اطفال پر بھی ان کی کتابیں ہیں۔

جہاں تک تحقیق و تنقید کی بات ہے ان کی ڈیڑھ درجن کتابیں مطبوعہ ایسی ہی ہیں۔ شادؔعارفی، محمدحسین آزاد، حسرت موہانی اور میرؔ پر ان کی مستقل کتابیں ہیں۔ تنقیدی مضامین کے مجموعے الگ ہیں۔

مظفر حنفی کسی فن پارے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو ذہن سے جملہ ذاتی اور نظریاتی تعصبات کو خارج کر کے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ تنقید اگر فن پارے کی جمالیاتی چکا چوند میں اضافے کا موجب نہیں بن پاتی تو اس کا کوئی جواز موجود نہیں۔ اس طرح اپنے مطالعہ میں اولین حیثیت فن پارے کو دیتے ہیں اور اس کے اندر چھپے ہوئے امکانات کی روشنی میں اپنی تنقیدی حس کو بروئے کار لاتے ہیں نہ کہ اپنے نظریات یا تاثرات کا عکس فن پارے میں تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

کسی بھی نقاد کے لیے سخن فہم ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے اس روح تک پہنچنا ضروری ہے جو شاعری سے مختص ہے۔ وسیع ہمدردی کی، لچکدار ذہن کی اور اس ہمہ گیر طبیعت کی موجودگی ضروری ہے جو شاعر کی فضا میں، شاعر کے ساتھ بلکہ کبھی اس سے بھی آگے پرواز کر سکے۔ مظفر حنفی پہلے شاعر ہیں تب نقاد ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا ذوق سلیم، ان کی بصیرت، ان کا شعورِ انتقاد، ان کا مطالعہ اور مشاہدہ حال کے آئینے میں فردا کا چہرہ دیکھ کر کسی تصنیف کی قدر و قیمت کے متعلق فیصلہ صادر کرتے ہیں۔

مظفر حنفی ادب کے بہترین اور پائیدار حصے کی قدر و قیمت متعین کرتے ہیں اور انہیں تمدن کا جزو بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اجالے کو اندھیرے سے الگ کرتے ہیں۔ رنگ و بو اور کیف و کم کے غیر متعین دائرہ میں صرف قدم ہی نہیں رکھتے بلکہ ابہام میں توضیح کا جلوہ ا ور بے تعینی میں تعین کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ان کی نظر تاریخ پر بھی ہے۔ بہادر شاہ ظفرؔ کے حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام نوابوں اور راجگان کو مختلف طریقوں سے اپنا مطیع بنا لیا جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔ کمپنی نے اپنے نوے سالہ دور اقتدار میں ہندوستان کے خواص و عوام، امیر و غریب، سرمایہ دار اور کسان اور سبھی مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ جس طرح ظلم و جبر کو روا رکھا اور ہر میدان میں ہندوستانیوں کا جس طرح استحصال کیا وہ ایک بہت طویل داستان ہے۔ مختصراً یہ کہ مختلف عوامل نے رفتہ رفتہ ہندوستانیوں کو انگریزوں سے اتنا متنفر کر دیا کہ نفرت کا یہ لاوا مئی ۱۸۵۷ء میں ابل پڑا اور میرٹھ کے فوجیوں کی بغاوت نے آگ کی طرح آناً فاناً پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دہلی کے تخت پر اس  وقت برائے نام ہی سہی آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ متمکن تھے اور کمپنی سے ملنے والے معمولی وثیقے پر لال قلعہ میں اپنے لواحقین اور درباریوں کے ساتھ بادشاہت کا بھرم بنائے رکھنے کی ناکام کوشش کرتے تھے۔ مورخین کا خیال ہے کہ بیاسی سال کا یہ ضعیف العمر صوفی منش بادشاہ مغل سلاطین میں سب سے زیادہ شریف اور خوش خصال حکمراں تھا۔ اکبر شاہ ثانی کا یہ بیٹا ایک ہندو رانی لال بائی کے بطن سے تھا اور ایک نیک، پرہیزگار اور غیر متعصب انسان تھا۔ ‘‘  (دو گز زمین ظفر کے لیے)

۱۸۹۱ء میں شائع شدہ ممتاز علی حافظ کی کتاب ’’ تذکرۂ آثار الشعراء‘‘ پر مظفر حنفی نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ۲۸۰ صفحے کی اس کتاب پر ان کی تنقید ملاحظہ کیجیے:

’’ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، مذکورہ نسخے کے ابتدائی دس صفحات غائب ہیں۔ لیکن خوش قسمتی سے اس کتاب کی فہرست مضامین آخر میں ترتیب دی گئی ہے۔ اس سے بہ آسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ ضائع ہونے والے صفحات میں کیا تھا۔ فہرست کے مطابق ان دس صفحات میں ’’ حمد باری تعالیٰ عزّ اسمہ‘، ’ نعتِ رسولِ خدا‘، ’ سبب تالیف تذکرہ‘، ’ مقدمہ شعر و ایجادِ شاعری‘، ’ بیانِ شعرائے عرب‘ اور ’ بیان شعرائے یونان‘ شامل تھے۔ موخر الذکر بیان کا بیشتر حصہ جو صفحہ ۱۱ تا ۱۴ پھیلا ہوا ہے، محفوظ ہے۔ بعد ازاں صفحہ بیس کے نصف تک ’بیان شعرائے یورپ‘، ’ بیانِ شعرائے فارسی‘، ’ بیان شعرائے ہند‘ اور ’ بیان شعرائے اردو‘ جیسے مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ یہ مختصر مختصر سے ادبی جائزے بڑے تشنہ، سرسری اور بعض مقامات پر ناقص ہیں۔ شعرائے اردو کے بیان میں عہد ولی سے لے کر مؤلف کے دور تک نمائندہ اور مشہور شعرا کی فہرست ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے جس میں مومنؔ اور شیفتہ وغیرہ کے نام تو شامل ہیں لیکن غالبؔ کو برادری سے باہر رکھا گیا ہے جب کہ مؤلف کے ہم عصر سخن گویوں میں غالب کے کئی تلامذہ بھوپال ہی میں موجودتھے۔ ‘‘                    (تذکرہ آثار الشعراء)

انیسویں صدی کے اس تذکرہ کا مفصل جائزہ لینے کے بعد مظفر حنفی مجموعی رائے قائم کرتے ہوئے تنقیدی بصیرت کا ثبوت اس طرح دیتے ہیں :

’’یہ تذکرہ ’گلستانِ سخن ( قادر بخش صابر اور امام بخش صہبائی)‘ جس میں ایک خاص عہد کے دہلوی شعراء کے حالات اور نمونۂ کلام یکجا کر دیے گئے ہیں، کی قبیل سے ہے اور اواخر انیسویں صدی تک کے ان شاعروں سے متعلق ہے جو بھوپالی تھے یا ریاست بھوپال سے کسی نہج سے متعلق تھے۔ تذکرے میں شعرا کے حالات اور نمونۂ کلام وغیرہ پیش کرنے میں کوئی اصول مد نظر نہیں رکھا گیا ہے، چنانچہ بڑی نا ہمواری کا احساس ہوتا ہے۔ ان شاعروں کے حالات اور نمونۂ کلام پیش کرنے میں بڑی دریا دلی اور تفصیل سے کام لیا گیا ہے جن کا کسی طرح مؤلف سے تعلق تھا۔ بقیہ لوگوں کا ذکر سرسری انداز میں کر دیا گیا ہے۔ مؤلف میں تنقیدی بصیرت کی بھی کمی نظر آتی ہے۔ ‘‘     (تذکرہ آثار الشعراء)

لفظ، جملے کی ساخت اور گرمیِ اظہار کے لیے زبان کی ترسیل وغیرہ پر مظفر حنفی نے فکر انگیز نظر ڈالی ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں زبان لفظوں کی ترتیب سے تشکیل پاتی ہے اور احساسات، جذبات اور تصورات کی صورت گری کے لیے ذریعہ بنتی ہے۔ استعاراتی، تاثراتی اور جذباتی استعمال الفاظ کے قرینہ سے ہی ممکن ہے۔ مظفر حنفی کا کہنا ہے کہ شاعری میں الفاظ کے تخلیقی اور غیریقینی استعمال سے ان کے معانی میں کئی سطحیں پیدا ہوتی ہیں اور ایسا ابہام تخلیق پاتا ہے جس کی نوعیت یکسر طلسمی ہوتی ہے۔ غزل میں الفاظ کے انتخاب اور تخلیقی صلاحیت کی بابت وہ آتش تک پہنچتے ہیں اور لفظوں کے نگینے مرصع ساز کی طرح شعر میں جڑنے، چولیں بٹھا کر ترکیبوں کی شکل دینے اور تراش خراش کر گوہر آبدار بنانے کی بات کہتے ہیں اور اپنی رائے پیش کرتے ہیں :

’’ غزل گو انتہائی سبک، شیریں، لطیف، نرم اور نازک الفاظ ویسی متانت اور شائستگی کے ساتھ برتنے پر مجبور ہوتا ہے جیسی کہ خواتین کے ساتھ گفتگو کے دوران مہذب مرد استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ غزل عام طور پر داخلی کیفیات اور واردات قلب کی ترجمانی کے لیے وقف رہی ہے اور یہ داخلی کیفیات بھی زیادہ تر حسن و عشق کے معاملات سے متعلق ہوتی تھیں اس لیے موضوع کی عبارت بھی نرم و ملائم لفظیات کا تقاضا کرتی تھی چنانچہ قصیدے، مرثیے، مثنوی، رباعی اور دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں غزل کی زبان کے لیے صفائی، رچاؤ، سلاست، شیرینی اور ملائمت کی زیادہ کڑی شرطیں عائد کی گئیں اور غزل کے مخصوص مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے نرم و سبک الفاظ کے ساتھ ساتھ لہجے کی اس شائستگی پر بھی زور دیا گیا جس پر ضرورت سے زیادہ اصرار نے آگے چل کر انفعالیت کی شکل اختیار کی۔ ‘‘     ( غزل کی زبان)

اردو کہانی پر بات کرتے ہوئے مظفر حنفی تیکھا لہجہ اختیار کرتے ہیں اور ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں لکھی جانے والی کہانیوں میں ذہنی رابطے کے ٹوٹنے کی بات انھوں نے کہی ہے۔ اس سے قبل کی کہانیوں میں مظفر حنفی سیاسی اور سماجی حالات، عوامی تہذیب، طرز بود و باش، عقائد و نظریات، انسان کے چھوٹے اور بڑے دکھ، باطنی اور ذہنی کیفیات، خارجی ماحول، فرد اور معاشرے کا تصادم، فطرت اور مشین کی کشمکش، گھریلو مسائل، جذبات حسن و عشق، فسادات، ہجرت، بدلتے ہوئے ماحول کی پیچیدگیاں، طبقاتی کشمکش، نئے سماج کی تشکیل، سیاسی استحصال، معاشرے میں فرد کی بے وقعتی، جاگیردارانہ نظام کی شکست و ریخت، سرمایہ داری کا ہولناک شکنجہ، جنسی اور نفسیاتی گتھیاں اور ایسے ہی ان گنت موضوعات پر انوکھے اور مناسب زاویے سے روشنی ڈالتے ہیں۔ علامتی اور تجریدی رنگ پر بات کرتے ہوئے اظہار کی پیچیدگی کی نشاندہی کرتے ہیں اور صوتی و صوری کیفیت کا بھی ذکر کرتے ہیں :

’’جدیدیت کے بطن سے جنم لینے والے بیشتر افسانہ نگاروں میں جو خامیاں نظر آتی ہیں ان کا سر چشمہ یہ ہے کہ انھوں نے نثر میں شاعری کے حربے استعمال کیے اور شعوری طور پر جدید افسانہ لکھنے کی کوشش کرتے رہے جس کے نتیجے میں ان کے یہاں یکسانیت، سپاٹ پن اور تاریک سرنگ میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جدیدیت کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ ساتویں دہائی میں وہ کوئی خالصتاً جدید بڑا افسانہ نگار نہیں پیدا کر سکی۔ ‘‘  (اردو کہانی: آج اور کل)

حالانکہ ۱۹۶۰ء کے آس پاس جب جدیدیت کا رجحان اردو میں آیا تو مظفر حنفی نے اسے کشادہ قلبی سے لبیک کہا کیونکہ ان کی نظر میں اس کا مثبت اثر غزل نے قبول کیا اور جدید علامتوں، استعاروں اور حِسی پیکروں سے اس نے رنگ روپ خوب نکھارا۔ نظم میں بھی تجریدیت اور علامت پسندی نے اچھے اثرات مرتسم کیے۔ لیکن افسانہ میں منفی پہلو سامنے آیا۔ ابہام شعر میں تو پہلو داری، حسن اور وسعت پیدا کرتا ہے لیکن نثر میں وضاحت، افہام و تفہیم اور ابلاغ ضروری ہے۔ مظفر حنفی کی تنقید کی کسوٹی پر ساتویں دہائی کے افسانہ نگاروں کی اہمیت تاریخی زیادہ اور ادبی کم ہے۔ ایسے افسانہ نگاروں کو ایک عبوری دور کے تجرباتی کہانی کاروں سے زیادہ حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ ۱۹۷۰ء کے بعد اور ۱۹۸۰ء کے بعد کے کہانی کاروں سے متعلق مظفر حنفی کا کہنا ہے:

’’ اپنے پیش روؤں کے بر عکس جدید ترین کہانی کاروں نے وحدتِ تاثر کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اسے اپنی کہانیوں میں کامیابی کے ساتھ برتا بھی ہے۔ اس نسل نے اپنی کہانی کو شعوری طور پر زیادہ سے زیادہ مبہم، غیر واضح اور پُر اسرار بنانے کی کوشش نہیں کی جس کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ اس کے سامنے افسانے کی ویسی پائیدار اور مستحکم روایت نہیں تھی جیسی کہ ساتویں دہائی کے کہانی کاروں کے سامنے تھی۔ اور جس سے شعوری انحراف کر کے اپنی انفرادیت کو اجاگر کرنے کی کوشش میں ان کے افسانوں سے افسانویت جاتی رہی تھی اور روایت سے انحراف کی یہ لے اس حد تک بڑھی تھی کہ ہیئت اور تکنیک کے تجربات نے پڑھنے والوں سے ترسیل کا ناتا ہی توڑ لیا تھا۔ جدید ترین نسل نے اپنے پیش رو کہانی کاروں کے تجربات سے تخلیق کے بنجر علاقوں کی نشاندہی میں امداد حاصل کی ہے اور نئی کہانی کا رخ زرخیز میدانوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ ‘‘  ( اردو کہانی:آج اور کل)

قرۃ العین حیدر کی افسانہ نویسی اور ناول نگاری پر مظفر حنفی نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اور ان کی تخلیقی کائنات اور تکنیک کی جہتوں پر، عمق، وسعت اور ہمہ گیری پر عبارت کی دلکشی پر تاریخ کے خلاقانہ شعور پر اور پُر تصنع تہذیب نو کے منظر نامے پر ان کے کارنامے کو اجاگر کیا ہے:

’’ عینی کے افسانوں میں سے بیشتر کے مرکزی کردار زمانے کی بے اعتباری، فریب خوردگی، شکست آرزو اور ہزیمت کے نمائندہ ہیں۔ ’جلاوطن‘ کی کنول رانی ’ چائے کے باغ‘ کی راحت کاشانی، ’ دلربا‘ کی گلنار، ’ نظارہ درمیاں ہے‘ کی ثریا حسین اپنے اپنے افسانوں کے مرکزی کردار ہیں۔ اور ان میں سے اکثر مردوں کے مقابلے پر بڑی خوداعتمادی کے ساتھ اس انداز میں پیش کیے گیے ہیں کہ کہیں کہیں ان میں خود پسندی کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔ ان میں رومانیت، جذباتیت، ضد، سرکشی اور حق پسندی کے اوصاف نمایاں طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اکثر یہ کردار زود حِس اور زود رنج بھی ہیں لیکن نرمی اور لطافت ان کے مزاجوں کا جزو لازم ہے۔ اس نکتے پر بھی دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ قرۃ العین حیدر کو بیانیہ پر مکمل قدرت حاصل ہے اور وہ شستہ، شائستہ، سلیس اور رواں دواں زبان استعمال کرنے پر عبور رکھتی ہیں۔ ان کے مکالمے برجستہ ہوتے ہیں اور لہجے میں حسبِ ضرورت نرمی یا کاٹ پیدا کرنے کا شعور بھی انھیں حاصل ہے۔ مختلف مواقع، مدارج، طبقات اور طبائع کے کرداروں سے مزاجی مطابقت و موافقت رکھنے والا طرز گفتار وہ بخوبی اختیار کر سکتی ہیں ؟‘‘ (عینی اور اردو فکشن)

اردو میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہوئے مظفر حنفی نے تحقیق کو راہ دی ہے اور ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ ادب اطفال کے سرمائے سے روشناس کراتے ہوئے، افادیت اور مقبولیت کا جائزہ لیتے ہوئے اور بچوں کے رسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’دوسری ہندوستانی زبانوں کے مقابلے میں اردو میں بچوں کے رسالوں کی تعداد ہمیشہ محدود رہی اور ان کی طباعت اور پیش کش کا معیار بھی غیر اطمینان بخش رہا۔ کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر ان میں سے بیشتر رسالے خوبصورت اور رنگین تصاویر اور دلچسپ کارٹونوں سے محروم ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے بالکل آغاز میں غالباً بچوں کا پہلا رسالہ شائع ہوا جس کا نام ’بچوں کا اخبار‘ تھا۔ لیکن یہ سلسلہ چند شماروں کے بعد ہی منقطع ہو گیا۔ بعد ازاں ۱۹۰۸ء میں بچوں کا مقبول ترین ہفت روزہ جریدہ ’’پھول‘‘ جاری ہوا جسے لاہور سے سید ممتاز علی نکالتے تھے۔ بچوں کے اس محبوب رسالے کی ادارت وقتاً فوقتا حفیظ جالندھری، عبد المجید سالک اور احمد ندیم قاسمی جیسی نامور شخصیتوں نے کی۔ ان مدیروں نے جو بذاتِ خود بہت اچھے نثر نگار اور شاعر تھے نہ صرف رسالے کو خوبصورتی سے ترتیب دیا بلکہ اپنے ہم عصر اہم اور ممتاز فن کاروں کو ’’ پھول‘‘ کے لیے لکھنے پر بھی آمادہ کیا۔ بحیثیت مجموعی ’’ پھول‘‘ اور اس کے مدیران کی خدمات کو ادب اطفال میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ‘‘       (اردو میں ادب اطفال)

مظفر حنفی کی تنقید میں خیال انگیزی ہے وہ تخلیقات کا جائزہ لیتے وقت لفظی تصاویر سے فنکارانہ حسن پیدا کرتے ہیں۔ قابل قدر مواد کے بطون میں داخل ہو کر کیفیت کی وضاحت کرتے ہیں اور کھردری اور سفاک حقیقت کو سامنے لا کر معانی اور مفاہیم کو مرکزیت عطا کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                پروفیسر محمدنعمان خاں

       نئی دہلی

 

مظفر حنفی کی نثری نگارشات

 

۔ بحیثیت افسانہ نگار

 

 

مظفر حنفی کے افسانوں کے تین مجموعے’’ اینٹ کا جواب‘‘، ’’ دو غنڈے‘‘، اور ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ جس تیکھے پن، لہجہ کی تمازت اور طنزیہ انداز کا اظہار ان کی شاعری سے ہوتا ہے ٹھیک وہی انداز ان کے افسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں منٹو کی طرح چونکا دینے والی کیفیت ضرور ہے لیکن کہانی کا ڈھنگ منٹو کی طرح نہیں۔ زندگی اور سماج کی بے راہ روی اور بے اصولی پر انھوں نے براہِ راست چوٹ کی ہے۔ وہ ادب میں وابستگی کے بجائے حقیقت بیانی کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں آرائش و زیبائش، رنگین بیانی اور افسانوی لوچ کے بجائے کھردرا پن، سادگی اور صاف گوئی کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں دو اور دو چار کا انداز نمایاں ہے بقول کرشن چندر:

’’ مظفر حنفی نے اندھیرے کنوئیں میں ڈول نہیں ڈالے ہیں۔ لا شعور کی بھول بھلیوں میں گم نہیں ہوا ہے۔ حد سے بڑھی ہوئی دروں بینی کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تجرباتی ٹامک ٹوئیوں میں الجھ کر نہیں رہ گیا ہے۔ وہ زبان و بیان کے الجھاوے دے دے کر زندگی سے آنکھیں چرانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ آنکھیں چار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک عجیب لا پرواہ تیقن کے ساتھ بظاہر سنگدل قریب قریب قنوطی پیرایۂ بیان کے ساتھ۔ ‘‘۱؎

مظفر حنفی نے زندگی کی کریہہ المنظر حقیقتوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں کہیں کہیں افسانے کے رچاؤ اور نزاکت کو مجروح کر دیا ہے۔

مظفر حنفی کے افسانے سماج کے مختلف حالات و واقعات پر مبنی ہیں جن میں عموماً نچلے متوسط طبقے کی بے چارگی، بدحالی، مفلسی، بد اخلاقی، بد معاملگی اور بے انصافی پر سادگی اور سچائی کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہے۔

مظفر حنفی کا پہلا مجموعہ ’’ اینٹ کا جواب‘‘ میں شامل افسانوں پر اظہار رائے کرتے ہوئے فراقؔ گورکھپوری لکھتے ہیں :

’’ مظفر حنفی کے یہ افسانے اردو کے کئی اچھے رسالوں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان افسانوں کو ہزارہا شائقین ادب کی مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظفر حنفی ہمارے نئے افسانہ نگاروں میں ایک ہونہار ادیب ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے کئی پہلوؤں کی عکاسی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں نیا پن ہے۔ ان کا انداز دلکش ہے، مکالمے فطری ہیں اور پلاٹ میں جدت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان افسانوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر نوجوان مصنف نے اپنی کوششیں جاری رکھیں تووہ ترقی کی نئی منزلیں کامیابی سے طے کرتے جائیں گے۔ ۲؎

مظفر صاحب کے افسانوی مجموعہ ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مشہور طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور رقم طراز ہیں :

’’مظفر حنفی محفلِ افسانہ نویسی میں نووارد ضرور ہیں لیکن نو مشق اور نو آموز ہرگز نہیں۔ ان کے افسانے بڑے جاندار ہیں اور ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بادی النظر میں وہ سہل ممتنع کے نمونے نظر آتے ہیں لیکن اس سادگی میں غضب کی پُرکاری ہے۔ ۳؎

بہر حال مظفر حنفی بھوپال کے ایسے افسانہ نگار ہیں جن کی شہرت بھوپال کی حدود تک محدود نہیں رہی بلکہ نامور مشاہیر شعراء و ادباء نے بھی ان کی کوششوں کو سراہا ہے۔ انضمام ریاست کے بعد بھوپال میں انھوں نے سب سے زیادہ یعنی ڈیڑھ سو افسانے لکھے۔ ان کے علاوہ انھوں نے افسانچے’’ منی کہانیاں ‘‘ جاسوسی کہانیاں اور بچوں کے لیے کہانیاں بھی تحریر کی ہیں جو مختلف رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔

مظفر حنفی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ اینٹ کا جواب‘‘ اگست ۱۹۶۷ء میں مرکز ادب بھوپال سے شائع ہوا۔ ۱۴۰ صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں ۲۱افسانے شامل ہیں۔

افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’ دو غنڈے‘‘ نومبر ۱۹۶۹ء میں نصرت پبلشرز لکھنؤ کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا۔ ۱۸۰ صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں ۱۲ افسانے شامل ہیں۔

افسانوں کا تیسرا اور آخری مجموعہ ’’دیدۂ حیراں ‘‘ میں ۲۴ افسانے شامل ہیں جو کہ ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا۔

۱۹۴۷ء میں مظفر حنفی نے صغر سنی ( یعنی ۱۱ برس) سے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ ۱۹۵۰ء سے باقاعدہ طور پر افسانے لکھنے لگے۔ اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں کہ:

’’ میں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز گیارہ سال کی عمر کے آس پاس کبھی کیا تھا۔ ‘‘۴؎

’’ ۵۰ء تا ۶۰ء میں بڑی تیزی کے ساتھ افسانے ہی لکھتا رہا ہوں۔ ۵؎

اس طرح ۱۹۶۰ء کے بعد مظفر حنفی نے اس صنف کو خیر باد کہہ دیا اور ان کے افسانوں کے تینوں مجموعے کئی سال بعد کتابی شکل اختیار کر سکے اس وجہ سے بعض ناقدین نے ان کے افسانوں پر جو تبصرے کیے ہیں وہ اس بات کو ملحوظ رکھ کر نہیں کیے گئے کہ یہ افسانے ۵۰ء ؁سے  ۶۰ء؁ کے درمیان لکھے گئے ہیں۔

مظفر حنفی کے افسانے موضوع کے اعتبار سے جدید ضرور ہیں لیکن اسلوب بیان کے اعتبار سے نہیں ان کے افسانے بیانیہ ہیں اور ان میں علامت و ابہام سے کام کم لیا گیا ہے۔ چنانچہ اس امر کی وضاحت وہ خود اس طرح کرتے ہیں :

’’ میرے افسانے اس عہد میں جدید کہے جاتے تھے۔ رومانیت سے اجتناب کرتے ہوئے ان میں حقیقت نگاری، کہانی پن اور طنز کے امتزاج سے بات کو الگ انداز میں کہنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ۶؎

اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں کہ :

’’ یہ وہ دور تھا جب آج کا جدید افسانہ وجود میں نہ آیا تھا۔ اردو افسانہ نگاری میں رام لال، ذکی انور، اقبال فرحت اعجازی، غیاث احمد گدی، ستیہ پال آنند اور راقم الحروف کی گنتی جدید افسانہ نگاروں میں ہوتی تھی پھر کچھ ایسا ہوا کہ میں شادؔ عارفی کا شاگرد ہو کر شاعری کے چکر میں افسانہ نگاری کے کام کا نہ رہا۔ اسی زمانہ میں دوسری زبانوں کی طرح اردو افسانے کا مزاج بھی یک لخت بدل گیا اور آج رام لال تو کجا، اس کے بہت بعد کی پود جس میں جوگیندر پال اور قاضی عبد الستار جیسے اہم نام شامل ہیں پرانی سمجھی جانے لگی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مختصر یہ کہ میں جدید شاعر تو ضرور ہوں، جدید افسانہ نگار ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتا۔ ۷؎

اس طرح مظفر حنفی کے افسانوں کا جائزہ لیتے وقت ان کے زمانۂ تصنیف کو اس عہد میں رائج اردو افسانہ کے میلان و معیار کو ملحوظ و مد نظر رکھنا ضروری ہے۔

اس اعتبار سے مظفر حنفی آج کے دور کے لحاظ سے نہ سہی لیکن اپنے عہد کے اعتبار سے جدید افسانہ نگاروں کے زمرے میں ہی شمار کیے جائیں گے۔ انھوں نے افسانہ کی عام مروجہ رومانوی اور خیالی فضا سے اجتناب کر کے حقیقی زندگی کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔

مظفر حنفی کے افسانہ ’’ ضرب کلیم‘‘ میں مزدوروں کی وطن سے محبت اور اس کے تئیں جذبۂ ایثار کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ’’ الماس کا محبوب‘‘ کی فضا اگرچہ رومانی ہے لیکن اس میں عصر حاضر کے اقتصادی مسائل بھی زیر بحث آ گئے ہیں۔

’’ ڈربہ‘‘ میں مکانوں کی قلت اور رہائشی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ چالیس کا خون‘‘میں انسانی خود غرضی اور ہوسناکی کو نفسیاتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

’’ دو غنڈے‘‘ ایک اچھا افسانہ ہے جس میں امراؤ اور فصیح دو کرداروں کو دو غنڈوں کی شکل میں پیش کر کے ان میں موجود بعض ایسی شریفانہ خصلتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ قاری کے دل میں ان سے نفرت کے بجائے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ مذکورہ دونوں غنڈے سماجی بے حسی اور ظلم و زیادتیوں کے باعث غنڈہ گردی پر آمادہ ہو جاتے ہیں ورنہ فطرتاً وہ نیک و نرم دل واقع ہوئے ہیں۔

’’ غبار آئینہ دل‘‘ میں انھوں نے کلرک اور افسر شاہی کے درمیان کشمکش کو حقیقی روپ میں پیش کیا ہے۔ در اصل یہ ایک کلرک کی کہانی ہے جو ایماندار کلرک گپتا کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ افسانہ نگار افسر شاہی کے خلاف گپتا کے ذریعے اس طرح اپنے دل کا غبار نکالتا ہے۔

’’ اے دستخط کرنے والی مشینو! یہ جو فیصلے لکھے جاتے ہیں اور تحقیقات ہوتی ہے اور احکامات صادر ہوتے ہیں اور جرمانے وصول ہوتے ہیں اور فائلیں آگے بڑھتی ہیں۔ یہ سب ہم کلرک کرتے ہیں اور تم لوگ دماغ پر زور دیے بغیر صرف دستخط کرتے ہو۔ تم ہفتے بھر میں صرف اتنا کام کرتے ہو جتنا ایک کام چور کلرک ایک دن میں کرتا ہے لیکن تنخواہ دس کلرکوں کی ملتی ہے۔ ‘‘ ۸؎

افسانہ ’’ ٹی، اے، بل‘‘ میں بھی دفتری ماحول کی بدعنوانیوں پر ضرب لگائی ہے۔ مظفرؔحنفی کی حقیقت بیانی، طنز اور تیکھے پن کے ساتھ سادہ اندازِ بیان ان کے ہر افسانے سے مترشح ہے۔ ان کے افسانے محض تقریح طبع یا دل بہلانے کے لیے نہیں لکھے گئے بلکہ ایک خاص مقصدیت کے حامل ہیں اور ان میں مظفر حنفی نے اپنی زندگی اور سماج سے حاصل شدہ تلخ تجربات اور ناگوار واقعات کو حقیقت کے آئینے میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ اکثر جگہ ان کے افسانوں کے کرداروں میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خودافسانہ نگار مرکزی کردار بن گیا ہے۔ سچی زندگی سے متعلق واقعات کے عکاس ہونے کے باعث ان کے افسانوں میں قدرے یاسیت اور تلخی پیدا ہو گئی ہے لیکن اس میں تصنع قطعی نہیں ہے یہ افسانے ان حالات اور ماحول کی دین ہیں جس میں افسانہ نگار سانس لے رہا ہے۔

مظفر حنفی کامیاب افسانہ نگار ہیں لیکن اردو ادب میں جو مقام انھیں بحیثیت شاعر حاصل ہے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے نہیں ہوسکا۔

 

بحیثیت مترجم

 

ڈاکٹر مظفر حنفی نے ترجمہ نگاری کے ذریعہ بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے وہ مختلف زبانوں سے متعدد مضامین اور کہانیوں کو اردو کے قالب میں ڈھال چکے ہیں اور ملکی و غیر ملکی زبانوں کے معروف ادیبوں کی تیرہ کتابوں کا ترجمہ کر چکے ہیں۔

مظفر حنفی نے سب سے پہلے ۱۹۵۴ء میں ایک انگریزی جاسوسی ناول کا ترجمہ ’’چوروں کا قاتل‘‘ کے نام سے کیا تھا جو مانسرور پبلشنگ اکیڈمی الٰہ آباد سے شائع ہوا تھا۔

مظفر حنفی کے ترجمہ کردہ دیگر جاسوسی ناولوں میں اسٹانلے گارڈنر کا ناول ’’ دی کیس آف دی رولنگ بونس‘‘ کاترجمہ’’ پر اسرار قتل (مطبوعہ نسیم بکڈپو، ۱۹۵۵ء، لکھنؤ) ’’ شرلاک ہومز ہندوستان میں ‘‘ (مطبوعہ نسیم بکڈپور، لکھنؤ ۱۹۵۶ء)  ’’ دُہری سازش‘‘ ( مطبوعہ نسیم بکڈپو لکھنؤ ۱۹۵۶ء یہ اگا تھا کرسٹی کا ناول ہے)شامل ہیں۔

ان کے علاوہ سیکسٹن بلیک سیریز کے تین اور جاسوسی ناولوں کے ترجمے ’’تار عنکبوت‘‘، ’’بین الاقوامی لٹیرے‘‘ اور پیلی کوٹھی‘‘ کے ناموں سے شائع ہو چکے ہیں۔

مظفرؔحنفی کے ترجمہ کردہ غیر جاسوسی کتابوں میں روسی سائنسداں سخاروف کی انگریزی کتاب "Sakharov Speaks” کا با محاورہ اُردو ترجمہ ’’ سخاروف نے کہا‘‘ کے عنوان سے کیا جسے ۱۹۷۶ء  میں نیشنل اکادمی دلّی نے کتابی صورت میں شائع کیا۔

۱۹۷۷ء میں مظفر حنفی نے نو بل انعام یافتہ روسی مصنف الیگزنڈر سو لنستین کی یادداشت کا ترجمہ ’’ گلاگ مجمع الجزائر‘‘ کے نام سے کیا جو تین جلدوں میں نیشنل اکادمی دلّی کے زیرِ اہتمام شائع ہوا۔ نیشنل بُک ٹرسٹ دلّی نے مظفر حنفی کی ترجمہ کردہ کتاب’’ گجراتی کے یک بابی ڈرامے‘‘ ۱۹۷۷ء میں شائع کی۔

مظفر حنفی کی ترجمہ کردہ دیگر کتب میں ’’ اڑیا افسانے‘‘ ( مطبوعہ نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا (دہلی، ۱۹۸۰ء)، ’’ بیداری‘‘ ( بنگالی ناول جاگری کا ترجمہ، مطبوعہ نیشنل بک ٹرسٹ ۱۹۸۰ء) اور میکسم گورکی کا ناول "The Artamonov” کا اردو ترجمہ ’’طوفان‘‘ کے علاوہ ہندی کتاب ’’ بھارتیندو ہریش چندر‘‘ اور بنکم چند چٹرجی کے ترجمے ( مطبوعہ ساہتیہ اکادمی دہلی ۱۹۸۴ء) کے نام شامل ہیں۔

مذکورہ فہرست اس بات کا ثبوت ہے کہ بھوپال سے تعلق رکھنے والے مترجمین میں مظفرؔ حنفی نے سب سے زیادہ ملکی و غیر ملکی زبانوں کے فن پاروں کا ترجمہ کر کے اردو کے ادبی سرمایہ میں اضافہ کیا ہے۔

مظفر حنفی کے ترجمہ کردہ جاسوسی ناول محض لفظی ترجمہ نہیں ہیں بلکہ اصل کہانیوں سے اہم کردار اور مرکزی خیال کو ہندوستانی ماحول میں پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ جس کے سبب مذکورہ ناولوں کے ترجمہ میں تخلیقی انداز نمایاں نظر آتا ہے، مظفر حنفی نے ہر جگہ اس بات کا خاص طور پر لحاظ رکھا ہے کہ ترجمہ کرتے وقت اصل زبان کے معنی و مفاہیم بھی متاثر نہ ہوں اور اصل عبارت کی خوبی بھی برقرار رہے۔ مظفر حنفی محض لفظی ترجمہ کے قائل نہیں ہیں۔ وہ با محاورہ ترجمہ میں یقین رکھتے ہیں۔

انھیں خصوصیات کے باعث مظفر حنفی کی ترجمہ کردہ کہانیوں میں طبع زاد کہانی کا لطف پیدا ہو گیا ہے۔

بحیثیت محقق و نقاد

مظفر حنفی کے تحقیقی مقالے کا عنوان ’’ شادؔ عارفی: شخصیت اور فن‘‘ ہے جسے انھوں نے پروفیسر عبد القوی دسنوی کی زیر نگرانی پہلے ایم اے سال آخر کے لیے تحریر کیا اور بعد میں اسی موضوع میں ترمیم و اضافہ کر کے پی، ایچ، ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۷ء میں یہ مقالہ مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔

۹ حصوں میں منقسم اس تحقیقی مقالے میں مظفر حنفی نے اپنے استاد شادؔ عارفی کے سماجی اور ادبی پس منظر، سوانح حیات اور شخصیت، غزلیں، نظمیں، متفرق شعری تخلیقات، مضامین، خطوط، اشاریے، شاگردوں کی فہرست، شاد عارفی کی غیر مطبوعہ تخلیقات غرضیکہ شاد عارفی کی شخصیت و شاعری سے متعلق تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کر کے اردو شاعری میں نہ صرف یہ کہ ان کے مقام کا تعین کیا  ماج سے حاصل شدہ تلخ تحہے بلکہ ان سے متعلق بعض ایسے نامعلوم گوشوں کا بھی انکشاف کیا ہے جو اس سے پہلے ادب کے بہت سے قارئین اور ناقدین کی نظروں سے اوجھل تھے۔

بقول پروفیسر مسعود حسین خاں :

’’ میرا خیال ہے، اس مقالے کی اشاعت کے بعد اہل نقد و نظر دیکھیں گے کہ ابھی چند دہے قبل ہمارے درمیان سے جو سخنور خاموشی سے اٹھ گیا ہے اس کی شخصیت اور فن دونوں کس قدر تہہ دار تھے۔ وہ تمام عمر ’’ دار السرور‘‘ میں مقیم رہا لیکن اس کے نصیب میں لذت خمار بھی نہ آئی۔ اس کی زندگی مسلسل دیوانے کا خواب رہی۔ وہ ہمیشہ مر مر کر جیا کیا، لیکن اپنی فنکارانہ انفرادیت کا سودا نہ کیا۔ نا مساعد حالات کے نیش کو اس نے فن کے ذریعہ گوارا بنا لیا۔ اس کی غیور و خود دارانہ انفرادیت نے کبھی ان سے پیار کیا، کبھی ان پر تلوار بن کر ٹوٹ پڑا لیکن ہار نہ مانی اور مانی تو اس طرح کہ اس کی شکست کی آواز عمل بانگِ شعر بن گئی!

میں سمجھتا ہوں کہ یہ تصنیف کئی لحاظ سے ڈاکٹر مظفرؔ حنفی کا ’’ حاصل عمر‘‘ ہے۔ اسے قلم بند کر کے انھوں نے ایک ایسی ادبی شخصیت کو پھر سے تولا ہے جسے ناقد ( رے)پاسنگ سمجھ بیٹھے تھے، اردو شعر و نثر کے ایک ایسے اسلوب سے روشناس کرایا جو اس صدی کے تیسرے اور چوتھے دہے کا سب سے چونکا دینے والا اسلوب ہے۔ ایک ایسی ادبی شخصیت کے نقوش کو ابھارا ہے جو مجبور ہے لیکن مغلوب نہیں، اس لیے کہ وہ زمانے سے ہمدردی کا طالب نہیں !‘‘ ۹؎

شاد ؔعارفی کی شخصیت اور فن پر لکھے گئے نقادوں کے مختلف مضامین کا مجموعہ مظفر حنفی نے ’’ ایک تھا شاعر‘‘ کے نام سے ترتیب دے کر ۱۹۶۷ء میں شائع کیا تھا اس کے علاوہ مختلف رسائل میں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی تھی کہ اس منفرد و مخصوص لہجے کے شاعر کی حیات اور ادبی خدمات پر از سرِنو مبسوط و مکمل کام کیا جائے۔ چنانچہ ڈاکٹر مظفر حنفی نے اس اہم کام کو دقّتِ نظر اور عرق ریزی کے ساتھ مکمل کیا۔

مظفر حنفی نے اس تحقیقی مقالے میں شاد عارفی کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں کے علاوہ ان کی ہمہ جہت ادبی حیثیت سے بھی لوگوں کو روشناس کرایا اور بتایا کہ:

’’ شاد عارفی چومکھے فنکار تھے اور ان کی طبع رواں، نظم و نثر، تخلیق و تنقید، سنجیدہ اور غیر ثقہ مضامین، غرضیکہ کسی میدان میں بند نہ تھی۔ ۱۰؎

اس مقالے میں مظفر حنفی نے تحقیقی و تنقیدی توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے احتیاط اور ذمہ داری کے ساتہ شادعارفی کی شخصیت اور فن پر مفید اور معلومات افزا مواد پیش کیا ہے۔ مظفر حنفی شادؔ عارفی کے شاگرد ہونے اور مزاجی مناسبت کے باوجود غیر جانب دارانہ طور پر اس کام سے عہدہ بر آ ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے شاد عارفی کے اچھے اور بُرے دونوں پہلوؤں پر بلا جھجھک اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں :

’’ مقالے میں حتی الامکان معروضی انداز اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے باوجود اگر کہیں یہ گمان گزرے کہ کسی پہلو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے تو اسے میری شاگردانہ عقیدت پر محمول کرنے کی جگہ اس مزاجی مناسبت کانتیجہ جانیے جو بقول خلیل الرحمن اعظمی مجھے شادؔ عارفی سے ہے اور اگر کہیں شادؔ کے ساتھ زیادتی محسوس ہو تو اسے غیر جانب دار رہنے کی کوشش کا نتیجہ سمجھیے۔ ۱۱؎

بلا شبہ مظفرؔ حنفی کا یہ تحقیقی مقالہ ہر لحاظ سے ایک وقیع اور معیاری مقالہ ہے جسے اردو کے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی اس مقالے کے علاوہ مختلف موضوعات پر متعدد تنقیدی و تحقیقی مضامین تحریر کر چکے ہیں جو مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کے مضامین کے مجموعے ’’ نقد ریزے‘‘، ’’ جہات و جستجو‘‘ اور ’’تنقیدی ابعاد‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ ’’وضاحتی کتابیات‘‘ کے نام سے کتابوں کا اشاریہ کئی جلدوں میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے اشتراک سے شائع ہوا ہے۔

مجموعہ مضامین’’ نقد ریزے ‘‘ میں اگر چہ تنقیدی مضامین کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس میں شامل درج ذیل مضامین تحقیقی نوعیت کے حامل ہیں۔ ’’ شعرائے زنداں ‘‘، ’’ علاقائی زبانوں سے ادبی ترجمے اور قومی یکجہتی‘‘، ’’ رامائن اردو میں ‘‘، اور ’’کلیات شادؔ عارفی :چند وضاحتیں ‘‘ وغیرہ۔

اسی طرح دوسرا مجموعۂ مضامین ’’ جہات و جستجو‘‘ میں بھی بعض تحقیقی مضامین شامل ہیں جن میں ’’ اردو میں ادبِ اطفال‘‘، ’’ نئی غزل کے بیس سال ہندوستان میں ‘‘ اور ’’ تذکرۂ آثار الشعراء‘‘ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

اول الذکر مضمون میں مظفر صاحب نے ادوار کے لحاظ سے امیر خسرو سے لے کر موجودہ عہد تک ادب اطفال سے متعلق ادیبوں اور شاعروں کا جائزہ پیش کیا ہے جبکہ آخر الذکر مضمون خالصتاً تحقیقی نوعیت کا حامل ہے جس میں بھوپال کے شعراء سے متعلق ایک قدیم و کمیاب تذکرہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے متعلق مظفر ؔ حنفی لکھتے ہیں :

’’ بھوپالی شعراء اور ان شاعروں کے جو بہ سلسلۂ ملازمت یا تجارت بھوپال میں مقیم تھے۔ حالات زندگی اور نمونۂ کلام پر مشتمل یہ تذکرہ ۱۳۰۶ھ ( مطابق ۱۸۹۰ء) میں سید ممتاز علی المتخلص بہ حافظؔ نے ترتیب دیا تھا۔ اس وقت کی حکمران ریاست بھوپال، نواب شہاہجہاں بیگم کی خواہش کے مطابق منشی فدا علی فارغؔ نے اس پر نظر ثانی کی تھی اور یہ تذکرہ مطبع شاہجہانی میں ۱۳۰۷ھ میں زیور طبع سے آراستہ ہوا تھا۔ ۱۲؎

مظفر حنفی نے مذکورہ تحقیقی مضمون کے ذریعہ بھوپال کے اس تاریخی تذکرے کو گمنامی سے نکال کر اہلِ نظر کے سامنے پیش کر کے اہم تحقیقی کام انجام دیا ہے۔

’’ وضاحتی کتابیات‘‘ کتابوں کا وہ اشاریہ ہے جو مظفر حنفی اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے اشتراک سے تحقیقی پروجیکٹ کے تحت دو جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔ جلد اول ۱۹۷۶ء میں شائع ہوئی کتابوں پر مشتمل ہے جسے ترقی اردو بورڈ نے ۱۹۸۰ء میں کتابی صورت میں شائع کیا۔ ۷۸۔ ۱۹۷۷ء کی مطبوعہ کتب پر مشتمل دوسری جلد بھی ترقی اردو بورڈ نے ۱۹۸۴ء میں شائع کی ہے۔

ڈاکٹر مظفرؔ حنفی کے تحقیقی کاموں کے اس مختصر جائزے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک باکمال شاعر ہی نہیں با صلاحیت، غیر جانب دار اور با شعور محقق بھی ہیں۔ ان کی زود نگاری نے انھیں سرسری اندازِ نظر اختیار نہیں کرنے دیا بلکہ تحقیقی مضامین میں بھی وہ اعلیٰ معیار قائم رکھنے میں ہر جگہ کامیاب نظر آتے ہیں !

ڈاکٹر مظفر حنفی بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ مظفرؔ حنفی کے تحقیقی و تنقیدی کتابوں میں ’’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘، ’’ نقد ریزے‘‘، ’’جہات و جستجو، ’’ وضاحتی کتابیات ۱۹۷۶ء تا ۱۹۸۴ئ‘‘، ’’تنقیدی ابعاد‘‘ وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ مختلف موضوعات پر وہ متعدد تنقیدی مضامین، کتابوں پر تبصرے، مقدمے اور پیشِ لفظ تحریر کر چکے ہیں۔ اردو تنقید میں وہ نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین اور کتابوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری کی طرح، اردو تنقید میں بھی انھوں نے ایک منفرد انداز اختیار کر کے لکیر کے فقیر بننے سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ ہم عصر ادب کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے انھوں نے خود اپنے اصول وضع کیے ہیں۔ وہ کسی خاص نظریے کے پیرو نہیں۔ مظفر حنفی کی تنقید میں غیر جانب داری، اعتدال پسندی اور صاف گوئی کے عناصر نمایاں ہیں۔ اپنے تنقیدی نظریات کے سلسلے میں اظہار خیال کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

’’میں کسی فن پارے کو اس کے اندر سے برآمد ہونے والی روشنی میں پرکھنے کا قائل ہوں کہ نظریے کے عینک نگاہ میں بالغ نظری کی جگہ کج بینی پیدا کر دیتی ہے۔ ۱۳؎

’’ نئے ناقد کے لیے وسیع النظری اور غیر جانب داری پہلی شرط ہو گی۔ ‘‘۱۴؎

مظفرؔ حنفی بنیادی طور تخلیق کار ہیں لیکن ہر تخلیق کار کے اندر ایک ناقد بھی چھپا ہوتا ہے جو اسے تنقید لکھنے پر مجبور کرتا ہے اور اسی سبب سے بعض تخلیق کار اچھے نقاد بھی بن جاتے ہیں اور  ایسے ناقد اصول و نظریات کے جال میں قید رہ کر تنقیدی ضروریات و مطالبات کو فن اور تخلیق پر فوقیت دینا پسند نہیں کرتے۔ مظفرؔ حنفی بھی اس قبیل کے نقاد ہیں۔ انھوں نے ناقدین کی غیر منصفانہ روش، نظریاتی جکڑ بندی اور تنقید کی بے مروتی کے خلاف اپنے مضامین اور اشعار میں آواز احتجاج بلند کی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا خیال ہے:

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کبھی کسی نظریاتی گروپ سے وابستہ نہیں رہا ہوں اور اپنے طور پر ہمیشہ آزادانہ اظہار خیال کی کوشش کی ہے۔ جہاں مجھے خامی نظر آئی ہے میں نے اس کے اظہار میں کوئی تکلف نہیں کیا، اور خوبی جہاں کہیں ملی ہے، اس کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لیا۔ ۱۵؎

تنقید کے سلسلے میں مظفر حنفی کے مذکورہ خیالات اور طریقۂ کار کی کارفرمائی ان کی تنقیدی کتب اور مضامین میں نمایاں نظر آتی ہے۔

مظفر حنفی کا تحقیقی مقالہ ’’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘ کے بعض ابواب میں تنقیدی تجزیے بھی شامل ہیں۔ انھوں نے شادؔ عارفی کی شاعری پر ناقدین کی آراء کی روشنی میں موضوعات کے لحاظ سے اشعار کی درجہ بندی کر کے ان کے محرکات اور پس منظر کو ملحوظ رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

’’شاد عارفی۔ شخصیت اور فن‘‘ میں شادؔ عارفی کی عشقیہ غزلوں، طنزیہ غزلوں اور نظموں کے سلسلے میں منظریہ نظمیں، عشقیہ نظمیں اور طنزیہ نظمیں کے عنوان سے اور ان کے علاوہ متفرق شعری تخلیقات مضامین اور خطوط کا تنقیدی تجزیہ کر کے ان کی ہمہ جہت ادبی خدمات کی روشنی میں اردو ادب میں شادؔ عارفی کے مقام کا تعین کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

’’ ان تمام اوصاف کے پیش نظر شادؔ عارفی کی مجموعی ادبی حیثیت کا تعین کرنا ہو تو بہت محتاط رہتے ہوئے بھی انھیں میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے بعد اردو ادب کے گنتی کے ان چند بڑے اور ممتاز فنکاروں کی صف میں نمایاں جگہ دینی ہو گی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں ہے۔ ‘‘ ۱۶؎

’’ نقد ریزے‘‘  مظفر حنفی کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔ مارچ ۱۹۷۸ء میں یوپی اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع شدہ ۲۰۶ صفحات پر مشتمل اس مجموعہ مضامین میں ۲۳ مضامین شامل ہیں جن میں درج ذیل مضامین تنقیدی نوعیت کے ہیں :

’’ شفاگوالیاری کا فن‘‘

’’ کوثر چاند پوری شعلہ سنگ کی روشنی میں ‘‘

’’ آواز کا متلاشی خورشید احمد جامی‘‘

’’ مجتبیٰ حسین بحیثیت خاکہ نگار‘‘

’’ طنز اور بسمل سعیدی‘‘

’’ گوپال متّل بحیثیت نثر نگار‘‘

’’ نئی اور پرانی تنقید‘‘

’’اردو ادب میں ہندوستانی عناصر کی تلاش‘‘

’’ اردو شاعری کے نئے ابعاد‘‘

’’غالبؔ اور نئے شاعر‘‘

’’ تجریدی شاعری اور ترسیل کا مسئلہ‘‘

’’جدیدیت ایک تعارف‘‘

مذکورہ تنقیدی مضامین میں سے بیشتر اچھوتے موضوعات سے متعلق ہیں۔ ۱۹۶۲ء سے ۱۹۷۷ء کے درمیان تحریر کیے گئے یہ مضامین مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں چار مضامین ریڈیو پروگرام کے لیے لکھے گئے ہیں جو مختصر بھی ہیں اور تشنہ بھی اور ان میں موضوع سے پورے طور پر انصاف نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن جو مضامین طویل ہیں، ان میں موضوع سے متعلق نئے انداز سے، مکمل طور پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ جن کے مطالعہ سے مظفر حنفی کی تنقیدی بصیرت و صلاحیت کا معترف ہونا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کے تحقیقی، تنقیدی مضامین کا دوسرا مجموعہ ’’ جہات و جستجو‘‘ میں درج ذیل مضامین تنقیدی نوعیت کے حامل ہیں :

’’ اردو شاعری اور ہندو ستانیت‘‘

’’ نئی غزل کے بیس سال ( ہندوستان میں )‘‘

’’غزل کی زبان‘‘

’’ جنگل کے مناظر اردو شاعری میں ‘‘

’’ کیفیؔ اعظمی:مثلث کاتیسرا زاویہ‘‘

’’ ایک اور تنقید گزیدہ شاعر: اعزاز افضل‘‘

’’ حسرتؔ کی شخصیت‘‘

’’ڈاکٹر عابد حسین بحیثیت طنز و مزاح نگار‘‘

’’ اردو میں ادب اطفال‘‘

’’ جہات و جستجو‘‘ میں شامل مضامین پر اظہار رائے کرتے ہوئے پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:

’’ یہ مضامین جو مختلف موضوعات و جہات پر مشتمل ہیں ’’ نقد ریزے ‘‘ کی اشاعت کے بعد کی مختصر مدت میں معرض وجود میں آئے ہیں اور اسی سے ڈاکٹر مظفر حنفی کی محنت و لگن، تیز نگاہی اور زود نگاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زود نگاری اکثر سرسری اندازِ نظر کا باعث ہوتی ہے مگر مظفرؔ حنفی کی پختگی نے ہر جگہ اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے میں مدد دی ہے۔ ۱۷

ڈاکٹر مظفرؔ حنفی کے تنقیدی مضامین کا تیسرامجموعہ ’’ تنقیدی ابعاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس مجموعہ میں مختلف نئے موضوعات پر ۱۷ تنقیدی مضامین شامل ہیں جن میں نصف سے زیادہ تحریریں مختلف سیمیناروں کے لیے لکھی گئی ہیں۔ ان میں بھی ان نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عام ناقدین کی نگاہ نہیں پہنچ سکی ہے۔

’’ تنقیدی ابعاد‘‘ میں شامل مضامین کے عنوانات سے ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے موضوعات نئے ہیں اور ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مظفر حنفی نے پیشہ روانہ تنقید سے ہٹ کر صاف ستھرے انداز میں موضوع سے متعلق نئے نئے گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اور ایک منفرد انداز سے قاری کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔

مظفر حنفی نے متعدد کتابوں پر تبصرے بھی کیے ہیں، اور دیباچے، مقدمے اور پیش لفظ بھی لکھے ہیں۔ ان کی تنقیدی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک متوازن انداز نظر کے حامل نقاد ہیں انھوں نے تنقید کے لیے نظریہ کی پابندی کے بجائے فن پارے کی صفات کو ملحوظ رکھ کر اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں وہ کوثر چاند پوری سے متعلق اپنی متوازن رائے کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :

’’ میں نہیں کہتا کہ کوثر صاحب نے بہت اچھا لکھا ہے لیکن انھوں نے بہت زیادہ لکھا ہے۔ بڑے خلوص کے ساتھ لکھا ہے۔ اس بات سے نہ میں انکار کر سکتا ہوں نہ کوئی ناقد، اب وہ اس منزل پر آ گئے ہیں کہ ان کے تخلیق کردہ تمام ادبی سرمائے کا جائزہ لیا جائے، چھان پھٹک کر اچھی اور بُری چیزوں کی نشاندہی کی جائے، ان کی اچھی چیزوں کا ان کے کل میں کیا اوسط ہے اور دوسرے اہم افسانہ نگاروں کی بہ نسبت انھوں نے کتنا کم یا زیادہ اچھا لکھا ہے اس کا فیصلہ کیا جائے کہ کسی فنکار کے مقام کا تعین کرنا اس کے بغیر نا ممکن ہے۔ ظاہر ہے اس طرح چھان بین کرتے ہوئے کوثر صاحب کی خامیاں بھی منظرِ عام پر آئیں گی اور خوبیاں بھی۔ ‘‘ ۱۸؎

اس طرح مظفر حنفی کی تنقیدی تحریروں میں اعتماد، اعتدال، بے باکی، بے ساختگی، اور سنجیدگی نمایاں نظر آتی ہے۔ اور ان کے اشعار کی طرح ان کی تنقیدی تحریروں کا لہجہ و انداز بھی بالکل منفرد ہے۔

 

حواشی

 

۱؎       تعارف کرشن چند مشمولہ ’ دو غنڈے‘ ص ۹

۲؎       پیش لفظ ’ اینٹ کا جواب‘ فراق گورکھپوری ص۵

۳؎      پیش لفظ ’ دیدۂ حیراں ‘ کنھیا لال کپور ص ۸

۴؎      پیش لفظ ’ دو غنڈے‘ ص ۳

۵؎      ’نقد ریزے ‘ مظفر حنفی، ص ۱۵۲

۶؎      اعتراف’ دیدۂ حیراں ‘ مظفر حنفی ص ۹

۷؎     نقد ریزے ص ۱۵۲

۸؎  افسانہ غُبار آئینۂ دل، مشمولہ ’ اینٹ کا جواب، ص ۲۱

۹؎      ’ پیش لفظ ‘، ’ شاد عارفی: شخصیت اور فن

۱۰؎      دیباچہ ’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘ ص ۱۲

۱۱؎       دیباچہ’’ ’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘ ص ۱۲۔ ۱۳

۱۲؎     تذکرہ آثار الشعراء ’جہات و جستجو‘ مظفر حنفی۔ ص ۱۰۲

۱۳؎     ’’ شرح گفتار‘‘ مشمولہ ’’ نقد ریزے‘‘ از ڈاکٹر مظفر حنفی۔ ص ۹

۱۴؎     ’’ شرح گفتار‘‘ مشمولہ ’’ نقد ریزے‘‘ از ڈاکٹر مظفر حنفی۔ ص ۹

۱۵؎     ’’ شرح گفتار‘‘ مشمولہ ’’ نقد ریزے‘‘ از ڈاکٹر مظفر حنفی۔ ص ۹

۱۶؎     ’’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘ ص ۳۷۹

۱۷؎    ’’ پیش لفظ ‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ مشمولہ ’’ جہات و جستجو‘‘ مظفر حنفی ص ۷

۱۸؎     کوثر چاند پوری شُعلۂ سنگ کی روشنی میں، مشمولہ ’ نقد ریزے‘ ص ۳۵

٭٭٭

 

 

 

 

 

                فیاض رفعت

   لکھنؤ

 

مظفر حنفی کے ’’مضامینِ تازہ‘‘

 

ادب کی ایک معروف و مقبول شخصیت مظفر حنفی کے ’’مضامین تازہ‘‘ کا مجموعہ پیش نظر ہے۔ کتاب میں پندرہ مختلف النوع موضوعات اور اہم شخصیات پر پروفیسر موصوف نے اپنے بصیرت افروز خیالات کا یگانہ ذکر کیا ہے۔ گو کہ شریف النفس مصنف نے کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ یہ مضامین نقد و تحقیق کے بے مثل نمونے ہیں مگر یہ حقیقت لازمہ ہے کہ اسلوبیاتی تنقید کے جوہر خفتہ مختلف مضامین میں اپنی طرفگی کی خبر دیتے ہیں اور قاری کے ذہن و دل کے لیے سامان نشاط فراہم کرتے ہیں۔

مظفر نے اپنا تخلیقی سفر آج سے نصف صدی قبل بچوں کی کہانیوں سے شروع کیا تھا مگر جلد ہی افسانوں کی حیرت و تجسس سے بھری ہوئی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ’ اینٹ کا جواب‘،  ’دو غنڈے ‘اور ’دیدۂ حیراں ‘ ان کی افسانوی کائنات کے روشن مینار ہیں۔ انھوں نے ابنی ادبی تشنگی کی سیرابی کے لیے کھنڈوہ سے ماہنامہ’’ نئے چراغ‘‘ کا اجرا کیا اور نقادان ادب سے اپنی مدیرانہ صلاحیتوں اور صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ حنفی اپنے ادبی کیریر کے آغاز میں مظفر حنفی ہسوی تھے۔ اسے زمانے کی ستم انگیزی ہی کہیے کہ مظفر کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کم ہی کم حاصل ہوئے مگر مشق سخن جاری رہی اور چکی کی مشقت بھی۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے کام چلاتے رہے۔ ادیب، ادیب ماہر، ادیب کامل کے بعد انھوں نے انگریزی میں انٹر اور بی اے کی اسناد حاصل کیں۔ سیفیہ کالج بھوپال سے ایم اے کرنے کے بعد انھوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ محض ایک سال کی مدت میں پورا کر لیا۔ اس دوران وہ افسانہ و افسوں کی دنیا سے نکل کر بزمِ شعر و شاعری میں شمع ادب روشن کرنے لگے۔ باقاعدہ شاد عارفی کے شاگرد ہوئے۔ ۱۹۶۷ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ پانی کی زبان‘‘ منصۂ شہود پر آیا۔ تیکھی غزلیں ۱۹۶۸ء اور طویل طنزیہ نظم ’’عکس ریز‘‘ ۱۹۶۹ء میں منظر عام پر آئیں۔ بطور خوش گو شاعر انھوں نے اعتبار حاصل کر لیا تھا مگر ابھی امتیاز و انفراد قائم کرنا باقی تھا کہ ان تینوں شعری مجموعوں میں استاد شاد عارفی کا رنگ غالب تھا۔ صریر خامہ سے یا اخی اور آگ مصروف ہے تک آتے آتے مظفر حنفی نے اپنے مصرعوں اور شعروں کو ایسی نشتریت عطا کی کہ ایک دنیا ان کی ہنر مندی کی قائل ہو گئی۔ اور شاعر نے وہ درجۂ اعتبار و امتیاز حاصل کر لیا جس کا انتظار تھا۔ معاصر شعری منظر نامے پر نظر ڈالیں تو غزلیہ شاعری کے چند بڑے ناموں میں ایک نام مظفر حنفی کا بھی ہے۔

ہندوستان میں عرفان صدیقی، سید امین اشرف، شہریار، مخمور سعیدی، فرحت احساس، مہتاب حیدر نقوی، عالم خورشید، راشد انور راشد، خورشید اکبر عصری شاعری کے منظر نامے پر اپنے دستخظ ثبت کر چکے ہیں۔ پاکستان میں ابن انشاء، افتخار عارف، اطہر نفیس اور عباس رضوی ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب کے مضامین پڑھ کر ہمیں احساس ہوا کہ شگفتہ اور شائستہ نثر لکھنے والوں کی پہلی صف میں مظفر حنفی کا شمار بھی ہونا چاہیے۔ کوثر چاند پوری، امتیاز علی خاں عرشی اور ابو محمدسحرؔ ان کے غیر معمولی تاثراتی مضامین ہیں جن میں خاکہ نگاری کے فن کو بہ حسن و خوبی برتا گیا ہے۔ اہل خاکہ کے دلپذیر نقش و نگار طبیعت میں جولانی پیدا کرتے ہیں۔ دلیپ سنگھ کے بارے میں ان کا تراشیدہ مضمون پڑھ کر لطف و مزاح کے پھول کھل اٹھتے ہیں۔ عینی اور اردو فکشن سے ان کی تنقیدی بصیرت اور عمیق مطالعہ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر ان کا یہ کہنا کہ کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے عینی تا حال اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں۔ بہت صحیح نہیں ہے اور ان کا یہ ارشاد بھی قابل گرفت ہے کہ’ آگ کا دریا‘ کے رد عمل میں ’ اداس نسلیں ‘، ’آنگن، ، ’بستی، ’راجہ گدھ‘، ’دو گز زمین‘، ’ علی پور کا ایلی‘، ’ خدا کی بستی‘، ’لہو کے پھول‘  اور ’شب گزیدہ‘جیسے ناول لکھے گئے۔ ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہر مصنف اپنی کائنات خود تخلیق کرتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ اپنے ظرف کے مطابق اپنے ماضی کے ادبی سرمائے سے خوشہ چینی کرتا ہے۔ اپنے تہذیبی ورثے سے فیضیاب ہوتا ہے مگر اس کے لیے وہ اپنے اجتماعی شعور سے کام لیتا ہے اور کسی ایک مصنف کا رہین منت نہیں ہوتا۔ ’’ الف لیلیٰ‘‘، ’’ طلسم ہوش ربا‘‘، ’’ فسانۂ آزاد‘‘، ’’ امراؤ جان ادا‘‘، ’’ گؤ دان‘‘ جیسے شاہکار اردو میں موجود نہ ہوتے تو ’ آگ کا دریا‘ کا تصور بھی محال تھا۔ آخر میں عرض ہے کہ قاضی عبد الستار کا ناول شب گزیدہ اسلوبیاتی، موضوعی اور تکنیکی سطح پر کسی طور آگ کے دریا سے کم نہیں بلکہ فنی اعتبار سے بڑا ناول ہے۔

گو کہ ’’ میرا جی‘‘ شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات ہر اعتبار سے ایک مکمل مضمون ہے مگر کہیں کہیں مظفر سے اختلاف کرنے کو جی چاہتا ہے۔ انھوں نے میرا جی کو نیوراتی اور سادیت پسند فنکار بتلایا ہے جو حتمی طور سے درست نہیں۔ میرا جی کو بد قماش اور بد کار کہنا بھی ان کے ساتھ شدید زیادتی ہے۔ وہ نہایت معصوم اور مخلص شخص تھے۔ ساغر نظامی، نصرؔ غزالی، جذبی صاحب اور احمد زین الدین پران کے مضامین انکشاف و اکتشاف کی نئی دنیائیں آباد کرتے ہیں۔ محبوب راہیؔ کے نام ان کا مکتوب چشم کشا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی عظمت کا بھی پتہ دیتا ہے۔

٭٭٭

 

’’شاد عارفی نے طنز میں جو ممتاز حیثیت حاصل کی اور غزل کو جن اسالیب و مفاہیم سے روشناس کرایا وہ بذات خود ایک علیحدہ داستان ہے۔ ان کے شاگردوں کی کمی نہیں۔ لیکن مظفر حنفی ایسے شاگرد کم ہی نکلے ہوں گے۔ مظفر حنفی صرف طنز کا شاعر ہی نہیں بلکہ کیفیات عشق میں جدید طرز احساس کا ترجمان بھی ہے۔ اس کا عشق روایتی نہیں اور نہ ہی آج کی غزل اور اس کے قاری کا روایتی عشق سے گزارا ہوتا ہے۔ مظفر کی ان غزلوں میں روایت سے بچنے کی شعوری کوشش کا احساس ہوتا ہے اور جہاں اسے طنز نے مہلت دی ہے وہیں اس نے واردات عشق میں بیان حسن سے جذبات کے تموج کی تصویر کشی کی ہے اور خوب کی ہے۔ ‘‘

پروفیسر سلیم اختر

 

 

 

 

                مکتوب نویسی

 

 

’’مظفر حنفی کا پہلا عشق بھی شاعری ہے اور شاعری کے واسطے سے ان کا نام و مقام محفوظ ہو چکا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ تنقیدو تدوین اور تحقیق کی وادیوں سے بھی گزرتے آئے ہیں۔ معلمی کا پیشہ اختیار کرنے سے پہلے بھی ان کی کئی مرتّبہ کتابیں اور تنقیدی تحریریں سامنے آئیں اور مقبول ہوئیں۔ اب کہ انھوں نے باقاعدہ طور پر تدریس کا منصب سنبھال رکھاہے، انھوں نے کئی ایسے تنقیدی اور تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں جن سے ان کے مطالعے کی وسعت و تنظیم اور نظر کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی ادبی روایت سے مظفر حنفی کا شغف یک رخا اور محدود نہیں ہے۔ اردو نثر و نظم کے مختلف ادوار و اصناف سے ان کی دلچسپی یکساں ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی ادبی روایت کا ہمہ گیر شعور، اس رویے کے بغیر مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘

پروفیسر شمیم حنفی

 

 

 

 

 

                ڈاکٹر محبوب راہی

    بارسی ٹاکلی

 

 

مظفر حنفی کی مکتوب نگاری

 

’’خانگی خطوں میں اور خاص کر ان خطوں میں جو اپنے عزیز اور مخلص دوستوں کو لکھے جاتے ہیں ایک خاص دلچسپی ہوتی ہے، تکلف کا پردہ بالکل اُٹھ جاتا ہے اور مصلحت کی در اندازی کا کھٹکا نہیں رہتا۔ ‘‘

(خطوط کی اہمیت، مولوی عبدالحق، بحوالہ شاد عارفی :شخصیت اور فن)

مولوی عبد الحق کے اس اقتباس سے وابستہ سب سے پہلے میں پروفیسر مظفر حنفی اور اپنے ما بین رشتے کی نوعیت واضح کرنا ضروری سمجھتاہوں تاکہ اس کی روشنی میں قارئین کے لیے خاکسار کے نام موصوف کے مکتوبات گرامی کی ٹھیک ٹھیک تشریح و تعبیر ہو نے میں سہولت رہے۔ حقیر فقیر نے جب سے طلسم کدۂ ادب میں قدم رکھا ہے مظفر حنفی صاحب کے گنجینۂ معنی کے طلسم سے معمور دلکش طنزیہ لہجے، منفرد طرز اسلوب، دلفریب رنگ و آہنگ اور ایک نئے اور اچھوتے ذائقے کی حامل نگارشات کی سحر طرازیوں سے متاثر رہا ہے۔ انما الاعمال بالنیات کے مصداق کارسازحقیقی نے موصوف سے بالمشافہ ملاقات کا ایک موقع اتفاقاً فراہم کر دیا اور ہوتے ہوتے یہ ملاقات خلوص و یگانگت کے بے تکلف رشتوں میں تبدیل ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ملاقات سے کوئی ڈیڑھ دو برس پیشتر کھنڈوہ کے ارباب قلم سے ایک رسالے ’’ علم و شعور‘‘ کے اجراء کے تعلق سے برائے مشورہ ملاقات دوستانہ تعلقات استوار ہونے کا بہانہ ہوئی اور ان حضرات نے اپنے شہر میں اقبال صدی تقریبات ۱۱ فروری ۱۹۷۷ء میں شرکت کے لیے خاکسار کومدعو کر لیا۔ نووارد بساط شعر و ادب ہونے کے ناتے یہ میری ادبی زندگی کی اولین بڑی کامیابی تھی اور میرے لیے موجب اعزاز و افتخار بھی۔ پاکستان سے قتیل شفائی اور دلاور فگار کے علاوہ ہندوستان سے ظ۔ انصاری اور مخمور سعیدی جیسے جید قلمکاروں کی شرکت نے اس تاریخی پروگرام کو میرے لیے طلسم کدۂ حیرت و استعجاب بنا کر رکھ دیا تھا۔ مسرت و استعجاب کا احساس دگنا ہو گیا یہ جان کر کہ ڈاکٹر مظفر حنفی اس پروگرام کے نگراں اور سرپرست ہیں نیز یہ کہ کھنڈوا موصوف کا مولد ومسکن ہے اور قاضی حسن رضا وغیرہ آپ کے بچپن کے یار غار ہیں اور یہ بھی کہ دلی جیسے شہر کے تکلفات کا گرد و غبار صاف کر کے اپنے آپ کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیے مظفر صاحب اکثر کھنڈوا کی کھلی ڈلی فضاؤں میں بے تکلف دوستوں میں چند روز گزارنے کے لیے تشریف لاتے رہتے ہیں۔ یاد اقبالؔ پروگرام میری توقعات سے کئی گنا زیادہ کامیاب رہا اس سے بھی کئی گنا کامیابی کا احساس مجھے مظفر صاحب کے ساتھ چند روز گزارنے کی سعادت پا کر ہوا۔ مرعوب کن تاثر زائل ہو کر ایک کھلے پن کے احساس نے ذہن و دل کو کیف آگیں بشاشت سے دو چار کر دیا۔ موصوف کی طنز آلود تحریروں سے جو ایک نوع کی غصہ ور شخصیت کی شبیہ عالم تصور میں ابھرتی ہے برتاؤ میں اس کے قطعی برعکس پایا۔ بات بات میں بذلہ سنجی، لطیفہ بازی، بے تکلفی، حاضر جوابی، فقرہ بازی، لہجے میں شوخی، لطافت، شگفتگی، شائستگی اور شستگی، چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ، حسبِ ضرورت باتوں میں علمیت، ذہانت اور فطانت کی چھوٹ مختصر یہ کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی، کاساعالم کا تھا، تین چار روز کب گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا، ۱۵؍ فروری کو مظفر صاحب دلی کے لیے اور میں اپنے گھر کی طرف لوٹا، میں کہ ویسے بھی تاثر پذیری میری فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہونے کے باعث معمولی سے معمولی غیر معمولی پن میرے ذہن و احساس پر انمٹ نقوش مرتسم کر جاتا ہے۔ اپنی پہلے ہی سے پسندیدہ شخصیت مظفر حنفی کی انتہائی غیر معمولی یادداشتوں کو کیوں کر فراموش کر پاتا۔ گھر آتے ہی شدت تاثر کے تحت موصوف کے نام اپنے اولین خط میں نہ جانے کیا لکھا اس کا جو جواب موصول ہوا اس کی داد ہی دیتے بنتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

دہلی

یکم مارچ ۱۹۷۸ء

برادر عزیز

خلوص اور یادیں !

اچانک آپ کا خط پا کر بیحد مسرت ہوئی۔ اگر آپ نے اسی طرح چند اور تعریفی خطوط مجھے بھیج دیے تو یقین کیجیے ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ بھائی میرے، آپ میرے عزیز ترین دوست ۱؎ کے ساتھ ملے تھے، کسی قسم کا پردہ رکھ کر ملاقات کرنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا تھا۔ پھر میں اس زمین ۲؎ سے تعلق رکھتا ہوں جہاں خلوص اور صفائی قلب کی دولت خدا نے لوگوں کو افراط سے عطا کی ہے۔ در اصل دونوں آئینے مجلّا ہوں تو نقوش تہہ در تہہ گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ آپ کے اور میرے درمیان وہی معاملہ ہوا۔ آپ کا خط میں نے ۳؎ وحید صاحب کو پڑھوا دیا تھا۔ غالباً جلد ہی خط لکھیں گے یا ممکن ہے لکھ چکے ہوں کل رضا حسن کا خط بھی آیا۔ بڑا جذباتی آدمی ہے، خط ایسا ہے کہ جواب اسے ہضم کرنے کے بعد ہی لکھ سکوں گا۔ انشاء اللہ ہم لوگ گرمیوں میں کھنڈوا میں ضرور ملیں گے اور کھل کر باتیں ہوں گی، مشاعروں اور جشن ہائے مسرت کی تفصیلات بھی تیار کریں گے۔ البتہ اگر کھنڈوا والے گرمیوں سے قبل کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو دوسری بات ہے۔

خدا کرے آپ بعافیت ہوں

مظفر حنفی

کمترین کے نام ڈاکٹر مظفر حنفی جیسے بلند قامت شاعر و ادیب کا یہ پہلا خط ہے۔ ہر قسم کے تکلف اور رکھ رکھاؤ کے گرد و غبار سے پاک شفاف محبت اور اپنائیت سے لبالب مجلّا، آئینے کی طرح تہہ در تہہ گہرائیوں تک جس کے نقوش اتر تے چلے گئے کہ برسوں بعد آج بھی اسی طرح اپنی جگمگ بکھیر رہے ہیں، ظاہر ہے مظفر صاحب کے تئیں میری عقیدتمندانہ جذباتی وابستگی کے پیش نظر اپنے لیے محبت اور اپنائیت بھری اس مخاطبت سے مزین موصوف کا نامۂ شفقت پا کر میری مسرت کا عالم دیدنی تھا، بواپسی ڈاک جذبہ تشکر سے لبریز عریضہ خدمت مظفر حنفی میں ارسال کیا جسکا جواب قدرے تاخیر سے ۳۰؍ مارچ ۱۹۷۸ء کو بذریعہ پوسٹ کارڈ اپنے پتے سمیت مرحمت فرمایا گیا جو کچھ یوں ہے:

۳۵۸۔ بٹلہ ہاؤس۔ جامعہ نگر، نئی دہلی ۲۵

۳۰؍ مارچ ۷۸ء

برادر عزیز۔ خلوص!

تاخیر جواب کا باعث یہ ہے کہ اب میں نئے اور اپنے مکان میں منتقل ہو گیا ہوں۔ تمام کاغذات گڈمڈ ہو گئے تھے امید ہے آپ محسوس نہ کریں گے اور خوش ہوں گے کہ دہلی میں آپ کے قیام کرنے کا ایک  بندوبست خدا نے کر دیا ہے۔ جی ہاں ! کھنڈوا کے احباب اکثر پاسبان عقل کو دل سے دور رکھتے ہیں اور آتش نمرود میں اکثر بے خطر کود پڑنے کے عادی ہیں چنانچہ ابھی تو آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے مخلصین کوکس کس طرح پریشان کرنے کے حیلے نکال سکتے ہیں۔ اس وقت آپ کا خط سامنے نہیں ہے کہ ہر بات کا جواب لکھ سکوں بہر حال خط میں تاخیر ہو یا جواب میں اختصار سے کام لیا جائے ہر موقع پر یہ یقین رکھیے کہ آپ کے لیے دل میں خاص جگہ ہے۔ آج ہی رضا حسن کو خط لکھ رہا ہوں۔ احباب کو آداب!

آپ کا : مظفر حنفی

 

اپنے اتاولے پن کے زیر اثر ظاہر ہے خاکسار تقلید غالبؔ میں :

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں وہ جو لکھیں گے جواب میں

بواپسی ڈاک جواب ارسال کر چکا تھاجس کا اندازہ حنفی صاحب کے ۲۳؍ اپریل ۱۹۷۸ء کے مکتوب گرامی سے ہوتا ہے جس میں تاخیر جواب کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ نقد ریزے‘‘ پر ملنے والے انعام کے سلسلے میں میری مبارک بادی پر کس زہر خند کے ساتھ حق گوئی و بیباکی کا مظاہرہ کیا ہے ملاحظہ کیجیے۔

’’ مبارکباد کا شکریہ۔ میری کتاب میں صدر اکادمی اور ججوں میں سے بیشتر کے بارے میں تفصیل کے ساتھ ایسے ابواب ہیں جن کی سزا میں جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔ حیرت ہے الٹے یہ ایک ہزار کیسے مل گئے۔ ‘‘

(۲۲؍ اپریل ۷۸ء)

متذکرہ بالا خط کے بعد میرے پاس موجود حنفی صاحب کے ذخیرۂ مکتوبات میں ستمبر ۷۸ء کی کسی تاریخ کو پوسٹ کیا گیا خط ملتا ہے اپریل تا ستمبر چار ماہ کا یہ خلا کچھ غیر فطری سالگتا ہے۔ ممکن ہے اس عرصے کے خطوط میری افراتفری اور بے ترتیبی کی نذر ہو گئے ہوں جس پر جتنا ماتم کروں کم ہے۔ بہر حال آئیے لگے ہاتھوں موصوف کے مکاتیب کی تفصیلات کے ساتھ میرے تئیں موصوف کے رویوں پر مختصراً عرض کر چلوں جن کی روشنی میں ہمارے مابین رشتوں کے درجۂ حرارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سابقہ سطور میں کھنڈوا میں ہمارے اولین تعارف کے بعداس تعارف کے آہستہ آہستہ موانست میں تبدیل ہونے کا اندازہ قارئین کوہو چکا ہو گا۔ اس کے بعد سے لے کرتا حال اس داستان لطیف و لذیذ کی تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ میں چونکہ تعلقات کی استواری کے بعد ۱۹۷۹ء میں ایم اے کر چکا تھا۔ موصوف کی نگارشات  کی تہوں میں اترنے اور شخصیت کی پرتیں الٹ پلٹ کر نزدیک سے ان کا مطالعہ کرنے کی غرض سے پی ایچ ڈی کے لیے تحقیق کرنے کی خواہش کا اظہار میں نے حنفی صاحب کے رو برو کیا۔ موصوف پہلے بوجوہ راضی نہ ہوئے بالآخر ہم دونوں کے مشترکہ دوست مرحوم قاضی حسن رضا کی یقین دہانی پر کہ خاکسار موصوف کے تئیں پورا پورا انصاف کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، مظفر صاحب نے اجازت دے دی۔ ناگپور یونیورسٹی میں استاذی مرحوم منشاء الرحمن منشاء کی زیر نگرانی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی جو منظور کر لی گئی۔ مقالے کی تیاری کے اولین مرحلے میں رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے منشاء صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے نہایت شفقت کے ساتھ میری صلاحیت پر اعتماد کرتے ہوئے مجھے مقالہ کی تکمیل کے بعد حاضر ہونے کے لیے کہا۔ لاکھ عرض کیا کہ حضرت والا، ہیچمداں کی تخلیقی صلاحیتوں پر مشفقانہ اعتماد کا شکریہ لیکن پی ایچ ڈی تومیں پہلی بار کر رہا ہوں۔ کم از کم طریقۂ کار تو بتا دیجیے۔ حضرت کا وہی جواب پا کر اور کوئی راستہ نہیں سوجھاتو میں سیدھادلی جا پہنچا۔ صورت حال مظفرؔ صاحب کے روبرو پیش کی۔ پہلے تو پتہ نہیں کیا نتیجہ اخذ کیا۔ مجھ پر برس پڑے۔ ’’ کیا تم سمجھتے ہو میں اپنے آپ پر تمھیں مقالہ لکھواؤں گا جس کے لیے ساری دلّی بدنام ہے۔ ‘‘ اس وقت تو چپ رہا  بعد میں عاصمہ بھابی کا سہارا لے کر صورت حال ان پر واضح کرتے ہوئے کہ حنفی صاحب جس طرح اپنی زیر نگرانی ریسرچ اسکالر کو گائیڈ کرتے ہیں مجھے ابتدائی طور پر آغاز کار کے تعلق سے سمجھا دیں، ایسی سفارش کے لیے ان سے کہا، موصوف راضی  بھی ہوئے تواس طرح کہ ایک سفارشی خط دے کر اپنے استاد مرحوم عبد القوی دسنوی کے پاس بھوپال بھیج دیا۔ مرحوم کی خوش اخلاقی اور حسن سلوک کے چرچے سن رکھے تھے اس سے کئی گنا نوازشات و التفات سے فیض یاب کرتے ہوئے انھوں نے اپنی نگرانی میں کی جانے والی پی ایچ ڈی اور ایم فل کی فائلیں دکھلا کر ابواب کی تقسیم سے لے کر دوران مطالعہ کتب و رسائل سے مطلوبہ نوٹس کی نقلیں متعلقہ ابواب کی فائلوں میں نقل کرنے اور آخر میں جملہ نقل شدہ تمام مواد کو یکجا کر کے اسے آخری شکل دینے کے بارے میں کچھ اس انداز سے رہنمائی کی کہ مجھ پر مقالے کی تکمیل تک کے سارے راستے روشن ہو گئے۔ بھوپال سے گھر لوٹ کر کچھ اس انہماک کے ساتھ اپنے مقالے کی تکمیل میں لگا کہ معینہ مدت کے اندر اندر ساڑھے پانچ سو صفحات کی ضخامت کا مقالہ یونیورسٹی میں داخل کر کے ہی دم لیا۔

مظفر حنفی صاحب سے اولین تعارف سے پی ایچ ڈی کی تکمیل تک کم و بیش چھ سات برسوں پر محیط واقعاتی تسلسل کو مذکورہ بالا سطور میں اجمالی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران تحریر کردہ حنفی صاحب کے خطوط، مقالے سے متعلق مطلوبہ معلومات، وقتاً فوقتاً دستیاب مواد کی فراہمی، ماخذات سے متعلق ضروری ہدایات کے ساتھ ساتھ ذاتی امور پر رہنمایانہ مشوروں، تبصروں اور تجزیوں پر مبنی ہیں۔ موصوف کے خطوط میں مشمولہ مضامین سے اندازہ ہو جائے گا کہ تحقیقی مقالے کے علاوہ بھی میرے بیشتر معاملات میں حنفی صاحب کا رویہ میرے ایک مشفق رہنما، استاد یا برادر بزرگ و محترم کا رہا ہے۔ جبکہ خود انھیں محض ایک بے تکلف دوست ہونے پر اصرار ہے۔ ابتدائی چند خطوط میں موصوف نے میرے لیے آپ، جناب، کا پر تکلف تخاطب روا رکھا ہے۔ ۱۷؍اپریل۷۹ء کے مفصل مکتوب سے تکلفات کے پردے ہٹا کر اپنائیت کا رسیلا لہجہ اختیار کرتے ہوئے’’ تمھارے اور رضا حسن کے خطوط ایک ساتھ ملے‘‘ سے آغاز کلام کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظفر صاحب کے خطوط کی تفصیلات سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرنے سے قبل اعداد و شمار کی ایک مختصر جھلک پیش کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں۔ پچھلے صفحات میں پیش کردہ ۳۰ ؍مارچ ۷۸ء کے خط سے شروع ہو کر یہ سلسلہ نامہ و پیام  ۹؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ خوشگوار سلسلے آج بھی بادی النظر میں کچھ بہتر صورت میں جاری و ساری ہیں۔ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی کے مصداق بس ذرا موبائیل آن کیا اور جب تک جی چاہا گفت و شنید کے مزے لوٹ لیے لیکن یہ مزے محض چند ثانیوں کے لیے ہوتے ہیں۔ سلسلہ گفتگو ختم، سب کچھ ختم۔ ان خطوط کی طرح کہاں کہ گزشتہ کم و بیش ساڑھے ستائیس برسوں کے دوران حنفی صاحب نے کب کب، کیا اور کس سیاق و سباق میں کہا ایک ایک لفظ جوں کا توں موجود۔ عالم تصور میں تحریر کو تقریر میں ڈھال کر جب جی چاہے موصوف کی آواز اور لب و لہجہ سے اکتساب لطف و سرور کرتے رہیے۔ افسوس صد افسوس سارا کچھ نیست و نابود کر کے رکھ دیا اس جدید موبائیل اور انٹر نیٹ کلچر نے، ایک شاندار، جاندار اور مستحکم تہذیب ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم ہو کر رہ گئی۔ خیر تو عرض کر رہا تھا مظفر صاحب کے کم و بیش ساڑھے ستائیس برسوں کے دوران اپنے نام مختصر، طویل اور طویل تر مکتوبات گرامی کے بارے میں جن کی تعداد ایک سو چالیس ہے۔

اس سلسلہ جنبانی کی شروعات بھلے ہی رسماً ہوئی ہو لیکن دو سال کی قلیل مدت کے بعد ہی یہ سلسلہ ایک اہم مقصد یعنی پی ایچ ڈی سے وابستہ ہو گیا لہٰذا خطوط کی غالب تعداد اور ان میں مشمولہ تحریریں تحقیق کے ضمن میں استفسارات کے جوابات نیز در پیش مسائل کی تشریح و تفہیم پر مبنی ہیں۔ لہٰذا ۷۸ء کے تمام خطوط رسمیات اور آپ، جناب کے تکلفات کے آئینہ دار ہیں ۲؍اگست ۷۹ء کا دوسرا اور تفصیلی خط میری ایم اے کی کامیابی پر مبارکباد کے ساتھ میرے لیے اپنے آپ پر پی ایچ ڈی کرنے کا اجازت نامہ ہے۔ اس سے قبل ۱۷؍ اپریل ۷۹ء والے خط میں میرے اولین مجموعۂ  غزلیات’’ ثبات‘‘ کی اشاعت کے لیے مہاراشٹر اردو اکادمی کی گرانٹ ملنے پر تہنیت ہے۔ پی ایچ ڈی کے لیے اجازت مرحمت فرماتے ہوئے مظفر صاحب نے لکھا ہے:

’’ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر کام کرنے کے لیے تا حال میں افتخار احمد، رشید آثار اور اختر فراہی کو منع کر چکا ہوں۔ آپ سے خلوص اور بے تکلفی کاجو تعلق قائم ہو گیا ہے اس کے تحت دوسرے رخ سے بھی سوچنا پڑا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی ہے کہ مذکورہ بالا اشخاص کے مقابلے میں سب سے زیادہ با صلاحیت بھی آپ ہیں اور سب سے زیادہ حق بھی آپ ہی کو پہنچتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ شاعر ہونے کے ناتے فنی نزاکتوں کے ساتھ بہتر انصاف آپ ہی کر سکیں گے۔                      (مکتوب ۲؍ اگست ۷۹ء)

بعد ازاں آغاز تحقیق ۷۹ء تا تکمیل مقالہ ۸۴ء تک تعداد اور طوالت کے اعتبار سے خطوط کا سال بہ سال فزوں تر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سلسلۂ نامہ و پیام ایک خاص مقصد کی تکمیل کے لیے جاری و ساری رہا۔ مرحوم منشاء صاحب کی رہنمائی محض دعاؤں کی صورت میں شریک کار رہی مظفر صاحب سے محبت اور بے تکلفی کے رشتوں کو میں تکمیل مقالہ تک در پیش مراحل میں، ان کی رہنمائی اور معاونت کی شکل میں کیش کرتا رہا۔

عرض کر چکا ہوں کہ تکمیل مقصد کے بعد بھی حنفی صاحب سے تعلقات کی حرارت میں ذرّہ بھر تخفیف نہیں ہوئی اور نہ انشاء اللہ تا دم زیست ہونا ہے۔ تاہم ۲؍ اگست ۷۹ء تا ۱۵؍ مارچ ۸۴ء لکھے گئے خطوط اس محنت طلب صبر آزما، حوصلہ شکن معرکۂ کوہکنی کی باہم دگر مسلسل اور مربوط کڑیاں ہیں جو پانچ برسوں کی محنت شاقہ کے ثمر شیریں ’’ مظفر حنفی: حیات، شخصیت اور کارنامے‘‘ کی شکل میں ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالے کو تکمیل دے کر مجھے حاصل ہوا جس پر ۱۹۸۵ء میں ناگپور یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سندتفویض کی۔ فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی نے اشاعت کے لیے گرانقدر رقم عطا فرمائی اور شائع ہونے پر مہاراشٹر اردو اکادمی نے تحقیق کے اول انعام سے نوازا۔ ۴؎

مظفر حنفی صاحب کے ان خطوط میں تحقیقی مقالے کی تلخیص، درکار کتب کی نشاندہی، رجسٹریشن سے تکمیل تک قدم بہ قدم گرانقدر رہنمایانہ مشورے، طریقۂ کار اور اس سلسلے میں در پیش ضروریات کے اعتبار سے وہ سارے نسخہ ہائے کیمیا درج ہیں جن کا حسبِ ہدایت استعمال میری سرخروئی پر منتج ہوتا ہے۔ لہجہ بیشتر اپنائیت آمیز مشفقانہ اور مخلصانہ ہے۔ کہیں کہیں قدرے تلخ بھی ہو جاتا ہے جو موصوف کے فطری مزاج کا حصہ ہے۔ تیکھے، نکیلے، کٹیلے طنز کی نشتریت کبھی لطف دے جاتی ہے تو کبھی کبھار اس کی چبھن قدرے تکلیف دہ بھی ہوتی ہے۔ موصوف کے خنک مرہم جیسے پر خلوص الفاظ جس کی خراشوں کو فوراً مندمل کر دیتے ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

’’ کتابیات وغیرہ کی تیاری کے لیے آپ کو مجھ سے مسلسل رابطہ رکھنا ہو گا اور کئی بار ملاقاتیں کرنی ہوں گی۔ یہ ظاہر ہے کہ میٹر تک آپ کی دسترس میرے توسط سے بہ آسانی ہو گی۔ تبصرے اور تنقیدی مضامین کافی تعداد میں میرے پاس محفوظ ہیں۔ ‘‘                  (مکتوب ۳؍ اگست ۷۹ء)

’’ اس قسم کا کام کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چند کتابیں دیکھ لینی چاہئیں، سوداؔ ( شیخ چاند)، ذوق: سوانح اور انتقاد ( تنویر علوی)، حسرت: حیات اور کارنامے (احمر لاری)، حیاتِ جاوید ( حالیؔ)، میرؔ: حیات اور شاعری (خواجہ احمد فاروقی)، شاد عارفی: شخصیت اور فن ( مظفر حنفی)، مقدمہ کلام آتش (خلیل الرحمن اعظمی)۔                  ( مکتوب ۹؍ اکتوبر ۷۹ء)

’’ یہ تمام کتب یونیورسٹی کی لائبریری میں دستیاب ہیں، متعلقہ شاعر کے تمام مجموعہ ہائے کلام اور دیگر تحریروں کا بار بار مطالعہ بھی نئے نئے امکانات روشن کرتا ہے۔ ‘‘              (مکتوب ۲۳؍ اکتوبر ۷۹ء)

’’ جب بھی پی ایچ ڈی کا کام سنجیدگی سے شروع کرنے کا ارادہ ہو اس کی ابتدا میری نثری تصنیفات پڑھ کر کر سکتے ہو، خصوصاً ’’ شاد عارفی: شخصیت اور فن‘‘۔ ۔ ۔ ۔  اور ’ نقد ریزے‘ تمھیں جلد از جلد دیکھ لینی چاہیے اس سے تحقیقی کام کرنے کے سلسلے میں بہت سی باتیں صاف ہو جائیں گی۔ ‘‘          ( مکتوب ۶؍ دسمبر ۷۹ء)

’’ تمھیں اپنی پی ایچ ڈی کے لیے کام شروع کر دینا چاہیے، رجسٹریشن کے سلسلے میں تمام ضابطوں کی تکمیل ہو جائے تو مجھے لکھو، کتابیات کی فہرست تیار کر کے بھیج دوں گا۔ ایک دو بار تمھیں دہلی بھی آنا ہو گا کھنڈوا سے بہت سا نایاب میٹر ملے گا، بھوپال میں ہمارے استاد عبد القوی دسنوی معاون ہوں گے۔ ‘‘  (مکتوب  ۱۲ جنوری ۸۰ء)

’’ تمہارے رجسٹریشن کی تکمیل ہو گئی یہ اچھا ہوا۔ میری جو کتابیں تا حال منظر عام پر آ چکی ہیں ان کی تفصیل  اس طر ح ہے۔ ‘‘

( اس وقت منظر عام پر آ چکی ۳۵ کتابیں جن میں امتیاز علی عرشی، فراقؔ گورکھپوری، احتشام حسین، مسعود حسین خاں، ظ۔ انصاری، کرشن چندر، کنھیا لال کپور، خلیل الرحمن اعظمی، مخمور سعیدی، عمیق حنفی، خلیق انجم جیسے اکابرین کے پیش لفظ شامل ہیں ) ان کے علاوہ اس دور کے ہند و پاک کے بیشتر ثقہ ارباب قلم کے ناموں کی فہرست بھی حنفی صاحب نے فراہم کی ہے جنھوں نے مستقل مضامین یا تبصروں کی شکل میں ان کے فن پر اظہار خیال کیا ہے۔ اس طویل چار صفحاتی خط کے اگلے حصے میں موصوف نے لکھا:

’’ اپنے متعلق بات کرنے میں مجھے بڑا تکلف ہوتا ہے اور تمھاری خاطر اتنی لن ترانیاں ہانکنی پڑیں۔ تم کو سب سے پہلے میری کتابیں پڑھ کر نوٹ اپنے طور پر تیار کرنے چاہئیں۔ فن اور شخصیت پر کئی کتابیں پڑھو بطور خاص فانی پر مغنی تبسم کی کتاب، محمد حسین آزاد پر اسلم فرخی کی کتاب، ذوق پر تنویر علوی کی کتاب اور شادؔ عارفی پر میری کتاب، اس طرح شخصیات پر کام کرنے کا طریقہ معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘

مزید چند ہدایات کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ میری کتابوں کا مکمل سیٹ حاصل کرو۔ میرے پاس اپنی کتابوں کی صرف ایک ایک ریکارڈ کاپی ہے۔ یہیں ان سے استفادہ کر سکتے ہو۔ اور اب اس سلسلے میں مزید گفتگو پھر کبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں ! اصول تحقیق پر لکھنؤ یونیورسٹی کی ’’رہبر تحقیق‘‘، خلیق انجم کی ’’ متنی تنقید‘‘ رشید حسن خاں کی ’اصول تحقیق‘ اور تنویر علوی کی ’ترتیب متن‘ وغیرہ تمھیں ضرور پڑھنی ہیں۔ ’ یم بہ یم‘ پر خلیق انجم کا پیش لفظ تعارفی نوعیت کا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوں بھی نقاد مجھ سے خوش نہیں ہیں۔ اپنے مضامین اور مقطعوں میں انھیں چھیڑتا رہتا ہوں۔ ترقی پسندمجھے جدید شمار کرتے ہیں اور جدید لوگوں کو میں ترقی پسند نظر آتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ کبھی خوشامد اور تعلقات استوار کرنے کی روش اختیار کی نہ گروپ بندی کی اس کے باوجود لوگ اگر کسی نہ کسی طرح اعتراف کرتے ہیں تو در اصل یہ ان کی مجبوری ہے۔ ‘‘

(۲؍ مارچ ۸۰ء کے طویل مکتوب سے)

’’ کھام گاؤں آؤں گا۔ وہ لوگ کہتے ہیں جگن ناتھ آزادؔ کو ان کے لیے رضا مند کروں۔ معاملہ یہ ہے کہ ان سب سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ میرے لکھنے سے ذراسی رعایت ایک بار کر دیں گے اور مجھے کافی دنوں تک مفت خدمت کرنی ہو گی اس لیے احتیاط برتتا ہوں۔ ‘‘ (۴؍ اپریل ۸۰ء) ۶؎

’’کھام گاؤں والے ملیں تو کہنا ۷؍ مئی کے لیے ( جو قانون کے مطابق بھساول میں رات کو بارہ بجے کے بعد آٹھ مئی ہو گا)میرے لیے دہلی کی برتھ ریزرو کر رکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بواپسی ذرا وہ تینوں طرحی مصرعے لکھ بھیجو جن پر مشاعرے میں غزلیں پڑھی جائیں گی۔ ‘‘    ۷؎

(۲۰؍ اپریل۸۰ء)

’’ادھر ودربھ نامے کی تحریروں اور آنے والے ایک خط ( جومنسلک ہے) سے اندازہ ہوا کہ شاید کھام گاؤں کے مشاعرے پر کچھ اعتراضات تم لوگوں نے کیے ہیں۔ مناسب سمجھوتواسی موقع پر میرے ساتھ کھام گاؤں میں جو واقعہ پیش آیا تھا وہ بھی عوام کے سامنے لاؤ کیونکہ اس کے چشم دید گواہ تم رہ چکے ہو۔ ‘‘     (۵؍فروری ۸۳ء) ۸؎

’’ مضمون میری مرضی سے چھپا ہے کہ میرا خیال ہے لوگوں کو اپنے بارے میں بے باکانہ اظہار خیال کا موقع دینا چاہیے۔ ‘‘ ۹؎

’’ بھائی جتنا کچھ اس دور ابتلا میں کہیں سے مل جائے غنیمت جانو کہ آج کل متاع سخن کے خریدار کہاں ہیں اور خوشامد وغیرہ جیسے حربے استعمال کرنے کے لیے بھی ظرف چاہیے جو ہمارے پاس نہیں۔ ۱۰؎

’’ مہاراشٹر اردو اکادمی کا پہلا انعام ( ثبات پر ) مبارک ہو۔ امید ہے اعلان جلد ہو جائے گا۔ ‘‘ ( ۲۵؍نومبر ۸۰ء)

’’ مبارکباد قبول کرو البتہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے کی جگہ دوسرا انعام کیوں دیا گیا۔ بات شاید قبل از وقت کھل گئی۔ ‘‘ (۳۰؍ مارچ ۸۱ء)

’’ مدیران رسائل کی نگاہ میں ٹیڑھی امیج بنی ہوئی ہے اسے برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ اپنی کسی کتاب پر تبصرے کے لیے ایک کے بعد دوسراخط کسی مدیر کو نہیں لکھا۔ ‘‘ ۱۱؎

’’ پھر کہتا ہوں تم نے ریسرچ کے لیے بہت گندے آدمی کا انتخاب کیا ہے۔ ‘‘ ۱۲؎

’’ میں جانتا ہوں کہ یہ سب باتیں پڑھ کر تم کو الجھن ہوتی ہو گی کہ عجب بے ڈھب آدمی سے سابقہ پڑا ہے جو اپنی تعریف سے بھی خوش نہیں ہے۔ ‘‘ ۱۳؎

’’ پہاڑوں، چشموں، یخ بستہ چوٹیوں اور جھیلوں کے اس شہر میں آ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ہی دوسری ہے۔ انسان فطرت سے زیادہ حسین ہیں۔ ‘‘                                        (۱۲؍ جون ۱۹۸۲ء کشمیر سے)

’’ تحقیق میں بار بار کہا ہے کہ یادداشت پر بھروسہ کم کیا جاتا ہے۔ ریسرچ اسکالر کے پاس ہر وقت کا غذا اور قلم ہونا چاہیے اور اس سے کام لینے کا حوصلہ بھی۔ ‘‘                             ( ۱۵ جنوری ۱۹۸۳ء)

’’ نظامؔ کے لیے پیش لفظ کی سفارش تم نے کی، ساغر اعظمی کے لیے مضمون کی تمھارے دوست نظر ایٹوی نے، جوگیندر پال بالی صابرؔ کے مقدمے کے لیے رازؔ اٹاوی نے، تم اور تمھارے دوست مجھ خاکسار کو اتنی بلندیوں پر کیوں لے جانا چاہتے ہیں، میں اپنی اوقات میں رہنا چاہتا ہوں۔ لوگوں کے خطوں میں تمھارے حوالے سے فرمائشیں مجھے سخت نا پسند ہیں۔ ‘‘                         (۲۵؍ اپریل ۱۹۸۳ء)

’’ میری سفارش کا طریقہ وہ نہیں ہوتا جوتم یا رضا حسن پسند کرتے ہو کہ  براہ راست سفارش سے سبکی کا پہلو نکلتا ہے کوشش کرتا ہوں کہ متعلقہ شخص کا وقار بھی قائم رہے۔ بظاہر سفارش بھی نہ معلوم ہو اور نتیجہ خاطر خواہ نکلے۔ ‘‘                                             ( ۵؍ فروری ۱۹۸۳ء)

’’ دیکھو بھائی ! بحث کرنے کے لیے بھی مخاطب صحیح کی ضرورت ہوتی ہے، سخن شناسوں کی تحسین حاصل کرنے کے لیے کاوش کرناتوسمجھ میں آتا ہے نا آشنایان ادب سے تکرار میں وقت ضائع کرنا مناسب نہیں۔ اپنی ہی راہ کھوٹی ہوتی ہے۔ ‘‘                   (۱۱؍ اپریل۸۳ء)

’’ حسن رضا اور تم مجھے معلوم نہیں کیا سمجھتے ہو۔ بے اثر سا کھردرا آدمی ہوں۔ جس حد تک ممکن تھا۔ اگلے برس کا وعدہ پھر فضل تابش نے کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمھیں صورتِ حال کو سمجھنا چاہیے۔ اس پیچیدگی میں خود مجموعی خدمات والا میرا انعام رک چکا ہے۔ عہدیداران نے پخ لگائی کہ یہ شخص ایم پی کا نہیں، یوپی کا ہے۔ ‘‘                  ( ۲۶؍ جون ۱۹۸۴ء)

( قاضی حسن رضا کے مجموعے میثاق کے لیے کہا تھا جو مدھیہ پردیش اکادمی نے آئندہ سال شائع کر دیا لیکن حنفی صاحب نے جن مجموعی خدمات کا ذکر کیا ہے افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ موصوف کی پیدائش ایم۔ پی کے شہر کھنڈوہ میں ہوئی۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم وہیں ہوئی ابتدائی ملازمتیں اور اعلیٰ تعلیم ایم کی راجدھانی بھوپال میں ہوئی اس روشن حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود ایم۔ پی کے ارباب بست و کشاد بار بار اقبالؔ سمان کے سلسلے میں مظفر صاحب کومسلسل نظر انداز کر رہے ہیں جب کہ ادبی قامت میں ان سے بہت چھوٹے اس اعزاز سے سرفراز کر دیے گئے ہیں )

’’ کوشش کروں گا کہ ظ۔ صاحب تمہارے فنکشن میں آ جائیں۔ ‘‘

(۲۹فروری ۱۹۸۸ء)

’’ چند روز ہوئے شارجہ، بحرین اور دبئی سے تین مشاعروں کے دعوت نامے آئے ہیں۔ عاصمہ بضد ہیں کہ رضا مندی بھیج دوں۔ لیکن وہاں کون محبوب راہی بیٹھا ہے میرے لیے۔ ‘‘       (۲؍ دسمبر ۱۹۸۸ء)

’’ نیشنل اسکیم بہت اچھی اور بروقت ہے لیکن تم بیگم کے بغیر اس سے استفادہ ہرگز نہیں کرو گے۔ ان کے لیے کچھ انتظار کر لو۔ مئی کی جگہ جون میں نکلوا نھیں اور بچوں کو ساتھ لاؤ، وہ جو شعر ہے:

’’بہر گامے تو برداری ز تو پائے ز من چشمے‘‘  تمھاری بیگم کے لیے سنبھال رکھا ہے۔ انھیں مطلب سمجھا دینا۔ ‘‘             ( ۴۰؍ مئی ۱۹۸۹ء)

’’ پیارے ! جب آدمی بے نیاز ہوتا ہے تو خداوند کریم اسے توکّل کی دولت سے بھی نوازتا ہے اور خوداعتمادی بھی عطا کرتا ہے۔ زیادہ انعام، اعزاز، کرسیاں اور عہدے حاصل کرنے والے فنکار پہلے خود کو اور پھر اپنے فن کو بیچتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہر ہر سانس پر ادا کرو، ہم نے یہ سودا کبھی نہیں کیا پھر بھی اس نے ہمیں مخالفین کے ہجوم میں سرخرو اور سر بلند رکھا۔ ‘‘                                              (۱۰؍ اپریل ۱۹۸۹ء)

’’ تمھاری بیگم کے بارے میں جو کچھ کہتا یا لکھتا ہوں اس میں ہرگز کوئی بناوٹ نہیں ہوتی کہ میں اس ڈھب کا آدمی ہی نہیں ہوں۔ ان کی قدر کرو اور ان کے ساتھ مل بیٹھنے کا وقت نکالو۔ تمھاری ترقی میں ان کا نصف سے زائد حصہ ہے بخدا۔ ‘‘ ۱۴؎

’’تمھارے لیے کتابیں انجمن ترقی اردو نے وی۔ پی سے بھیج دی ہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضروری کتابیں اور ریسرچ کے بارے میں پلان وغیرہ پر تمھاری آمد کے بعد غور کر لیں گے۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے جو میٹر تمھارے پاس ہے اور جتنے عرصے تک تم میرے ساتھ رہے ہو ان کو بنیاد بنا کر شروع کے دو ابواب (سوانح حیات اور شخصیت) مکمل کر سکتے ہو۔ ‘‘                   ( مکتوب۱۶؍ ستمبر ۱۹۸۰ء)

’’ منشاء الرحمن آئے تھے چند پاکستانی رسائل لے گئے ہیں، ماہ نو کراچی  اکتوبر ۱۹۸۹ء میں شاد عارفی پر ایک مضمون میں میرا تفصیلی ذکر منفی انداز میں آیا ہے۔ ان سے کہا تھا کہ پرچہ تمھیں بھیج دیں۔ حاصل کر لو تو ایک حوالہ اور بڑھے گا۔ ہندی کا جو اقتباس تم لے گئے تھے وہ ’آدھونک اُردواتہاس‘ مرتبہ دیویندر اسّر کے ص ۳۰ میں شامل ہے۔ اس کا حوالہ دینا بہتر ہو گا۔ انجمن ترقی اردو پاکستان سے عبدالقوی دسنوی صاحب کی کتاب ’’ عبد الحق بنام محوی‘‘ میں بھی میرا ذکر ہے۔ ‘‘ (۴؍ ستمبر ۸۱ء)

’’ اوراق‘‘ میں ’طلسم حرف‘ پر نارنگ صاحب کا مضمون آیا ہے۔ پھر انور سدید کا تبصرہ۔ مضمون تم کومل چکا ہے۔ تبصرے کی نقل بھیج رہا ہوں۔ منشاء صاحب جو پرچے ماہ نو کے لے گئے تھے اس میں شادؔ عارفی مرحوم کے خطوط پر بشارت فروغ کا مضمون تھا  (انھیں چار پرچوں میں سے کسی میں ) مضمون میں مجھے مغلظات سے نوازا گیا تھا۔ چاہتا تھا تم دوسرا رخ دیکھ لیتے، سلسلے دور سے جڑتے ہیں۔ تمھارا امتحان بھی ہو جاتا۔ ‘‘

( مکتوب ۱۲؍ دسمبر ۱۹۸۱ء)

’’ ہماری زبان میں ’’ کھل جا سم سم‘‘پر نارنگ صاحب کا تبصرہ تم نے دیکھ لیا ہو گا۔ ۔ ۔ ’طلسم حرف‘ پر ظ۔ انصاری کا تبصرہ جو پہلے ’بلٹز ‘میں آیا تھا اب ان کی’ کتاب شناسی‘ میں (ص ۳۰۸ سے ۳۱۴ تن) شامل ہے۔ اس میں ’وضاحتی کتابیات‘ پر بے حد منفی تبصرہ بھی شامل ہے۔ ‘‘

( مکتوب ۱۲؍ دسمبر ۸۱ء)

’’ ریسرچ تمہیں کرنی ہے۔ مجھے مفت پریشان کرتے ہو اور شرمندہ بھی۔ بحیثیت دوست دہلی میں میرا گھر تمھارا گھر ہے۔ جب چاہے آ جاؤ۔ ‘‘

(۳۰؍ دسمبر ۸۲ء)

’’ پھر لکھتا ہوں۔ تمھیں اپنے مقالے کی تکمیل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ منشاء الرحمن صاحب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ اس طرف کے لوگ اس کے تعلق سے نا مناسب فائدے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں میں زیادہ مصلحت شناس نہیں ہوں۔ کبھی بھی میں کسی کو زیادہ سخت سست کہہ سکتا ہوں۔ لیکن تمھارے لیے مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘ (مکتوب ۱۱؍ اپریل ۸۳ء)

’’ معاصرین کے مجموعوں کی ضرورت نہیں۔ تمھارے پاس ’’ جہات و جستجو‘‘ ہے۔ جس کے کئی مضامین میں ان کے اشعار اور ان پر رائیں ملیں گی دو ایک انتخابات اور رسائل کے نمبر بھی تمھارے پاس ہیں۔ ان سے کام چلا سکتے ہو۔ اشعار بہر حال دینے ہوں گے۔ سب کے نہیں، چند ناموں کو اہم قرار دے کر ان سے موازنہ کر ڈالو۔ غیر اہم لوگوں کو زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘            ( مکتوب ۱۵؍ جون ۸۳ء)

’’ اپنا مقالہ جوسنہ ۸۳ء تک محدود رکھو۔ مجھے مزید لکھنے سے باز نہیں رکھ سکتے اور سب کا ذکر کرنا چاہو  تو مقالہ کبھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔ ‘‘   ( مکتوب ۱۴؍ اکتوبر ۸۳ء)

’’ مقام شکر ہے کہ مقالہ لکھا گیا۔ کتابیات میں تمھیں ہر وہ کتاب شامل کرنی ہے جواس مقالے کی تیاری کے دوران تمھارے مطالعے میں آئی۔                                           (مکتوب ۱۵؍ مارچ ۸۴ء)

’’ مقالہ تم نے اپنی طرف سے مکمل کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کو اپنا کام کرنے دو۔ اس سلسلے میں میرا کسی سے کچھ کہنا مناسب نہیں۔ ‘‘                               ( مکتوب ۷؍ مئی ۸۴ء)

’’ مقالہ دیکھ چکا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعی تم نے حق ادا کر دیا۔ ‘‘                    (۳۱؍ جنوری ۸۵ء)

’’ ناگپور کی کیا خبر ہے۔ ڈاکٹریٹ کب تک ایوارڈ ہو گی۔ ‘‘           (۳۱؍ مارچ ۸۵ء)

’’ ۱۹؍ اپریل ۸۵ء کے ناگپور یونیورسٹی نوٹبفیکیشن کے مطابق تم کو پی ایچ۔ ڈی تفویض کر دی گئی ہے اور اب با قاعدہ ڈاکٹر ہو گئے ہو بہت بہت مبارک ہو۔ عاصمہ بھی بہت خوش ہیں اور مبارکباد کہتی ہیں۔ ‘‘       (۲۱؍ اپریل ۸۵ء)

اقتباسات کے اس طولانی سلسلے کو سمیٹتے ہوئے اجمالاً عرض ہے کہ میری درخواست کو شرف قبولیت عطا فرماتے ہوئے مظفر حنفی صاحب نے ایک مشروط اور محدود دائرے میں رہتے ہوئے درکار مشوروں کے علاوہ مواد کی فراہمی کے معاملے میں جتنی اور جیسی معاونت فرمائی اس کا اندازہ موصوف کے خطوط کے پیش کردہ اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ مظفر حنفی کی شخصیت اور فن جیسے عمیق، وسیع اور بسیط موضوع پر پی ایچ۔ ڈی کرنے کا خواب دیکھنا تو آسان تھا لیکن اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے حقائق کے جن خارزاروں سے گزر کر منزلِ کامرانی تک پہنچنے کا معاملہ تھا اس کے لیے جو اسباب و وسائل درکار تھے ان کا میرے پاس فقدان تھا۔ دلی، بھوپال، سیہور، کھنڈوہ، فتح پور، کانپور، جیسے شہروں کے بار بار اسفار، متعلقہ افراد، اداروں، کتب خانوں وغیرہ سے روابط پیدا کر کے ان سے مواد کی فراہمی، ہزارہا ہزار روپیے کی کتابوں وغیرہ کے لیے میری پرائمری مدرسی کی معمولی تنخواہ میں سات آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کی کفالت کے بعد گنجائش ہی کہاں سے نکل سکتی تھی۔ بلا مبالغہ اگر مظفر حنفی صاحب، در پیش کم و بیش تمام مراحل میں قدم بہ قدم میری مشفقانہ معاونت نہ فرماتے تو میرے لیے اس آگ کے دریا کو عبور کرنا کسی طرح ممکن ہی نہیں تھا۔ موصوف نے موضوع سے متعلق بیشتر کتابیں رسائل، تراشے، خطوط اپنی ذاتی لائبریری سے مہیا کیے، جامعہ نگر کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری سے مجھے مراعات دلوائیں کہ میں گھنٹوں آزادانہ کتابوں کی چھان بین، ورق گردانی اور ان سے ضروری نوٹس لے سکوں۔ دلی، بھوپال، سیہور، کھنڈوہ وغیرہ کے احباب و متعلقین سے بشمول قیام و طعام وہ تمام سہولتیں فراہم کرا دیں جو میرے مقالے کی تکمیل کے لیے درکار تھیں۔ ان تمام سہولیات کی فراہمی کے باوجود مجھے مقالے کی تکمیل کے لیے جتنی مشفتیں جھیلنی پڑیں جن جن آزمائشوں اور امتحانوں سے گزرنا پڑا، ان کی حقیقت ایک تومیں جانتا ہوں۔ دوسرے میرا اللہ  اور تیسرے خود مظفر حنفی صاحب۔ اس کا ثمر بھی ویسا ہی لذیذ اور شیریں بھی ملا۔ جب مقالہ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا تو وزیر آغاؔ اور ظ۔ انصاری جیسے ناقدین نے اسے شخصیات پر کام کرنے والوں کے لیے قابل تقلید قرار دیا۔ ماڈرن پبلشنگ ہاؤس کو اس کے ایک سے زائد ایڈیشن شائع کرنے پڑے۔ مہاراشٹر، یو۔ پی، بہار اور بنگال کی صوبائی اکادمیوں نے اسے انعامات سے نوازا۔

سابقہ صفحات میں مظفر صاحب کے خطوط سے محض  تحقیق کے سلسلے میں رہنمائی پر مبنی اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ موصوف سے جس نوع کے تعلقات کا ذکر میں سابقہ سطور میں کر چکا ہوں ان کے مختلف رنگوں کی جھلکیاں آپ کے خطوط میں جا بجا نظر آتی ہیں وہ جو کسی نے کہا ہے دوستوں کے نام خطوط میں مکتوب نگار اپنا دل نکال کر رکھ دیتا ہے۔ کوئی پردہ دونوں کے درمیان نہیں ہوتا کمترین کے نام حنفی صاحب کے خطوط کی کئی خصوصیات میں سب سے اہم خصوصیت میرے تئیں ان کا بے پناہ اخلاص، بے لوث محبت اور بے انتہا اپنائیت کا جذبہ ہے جو ان کے ہر ہر لفظ میں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ چند مثالیں دیکھیے:

’’ یقین جانو ’’ ثبات‘‘ کی اشاعت سے مجھے اتنی ہی خوشی ہوئی جتنی اپنی کسی کتاب کے منظر عام پر آنے پر ہوتی ہے۔ ‘‘

(مکتوب ۱۳؍ اکتوبر ۷۹ء میرے اولین شعری مجموعے ’’ثبات‘‘ کی اشاعت پر)

’’ تمھاری بھابی کتاب دیکھ کر بہت مسرور ہیں اور مٹھائی کا تقاضہ کر رہی ہیں۔ ‘‘  ( ۹؍ اکتوبر ۷۹ء ’’ ثبات دیکھ کر)

’’ تمھارے پروگرام سے واپس پر جو دشواریاں پیش آئیں وہ سر آنکھوں پر۔ دوستوں کے لیے میرے بس میں ہو تو پیدل سفر کر کے ان کی تسکین قلب کا سامان فراہم کروں۔ ‘‘۱۵؎

’’ یہاں انسان کو سانس لینے کے لیے وقت نکالنا بھی دشوار ہوتا ہے، خطوط کے جواب میں تاخیر ہوا کرے تو بد گمانی کی جگہ مجھ پر ترس کھایا کرو۔ ‘‘                                                 (۲؍ مارچ ۸۰ء)

’’ یہ بچوں کے لیے نظمیں اور دوسری مزاحیہ ’مذہبی نوعیت ‘کی چیزیں لکھنا اب بند کر دو۔ اچھے ادبی رسائل میں چھپو، جتنا لکھتے ہو اس سے دس گنا زیادہ پڑھو۔ میری بات فی الحال تمھیں اچھی نہ لگے گی لیکن دس سال بعد اس کا احساس ہو گا کہ سچ کہا تھا۔ ‘‘ ۱۶؎

’’ مجھے چھوڑ کر گھر بھر تمھارا خط پڑھ کر بہت خوش ہوا۔ صبا تسنیم، بفصلہٖ اچھی ہے۔ تیزی سے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ تمھاری آمد تک بڑے سے سوٹ کی مستحق ہو جائے۔ ‘‘ ۱۷؎

’’ تمھاری خوبیاں اور خامیاں دونوں مجھ پر کھلی کتاب کی طرح عیاں ہیں اور میں اپنے دوستوں کی کمزوریوں کو بھی عزیز رکھتا ہوں البتہ ایک بات گرہ میں باندھ لو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ شہرت اور عزت کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ برداشت کرنے کے لیے سمندر جیسا ظرف چاہیے۔ یہ چیز اگر چھلکنے لگے تو تریاق سے زہر ہلاہل بن جاتی ہے، مختلف کاموں کی اہمیت کے پیش نظر انھیں ردّ و قبول کرنے کی صلاحیت بھی اب تمھیں پیدا کرنی چاہیے۔ ‘‘                (۴؍ مئی ۸۱ء)

’’ تمھاری غزلیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں۔ دیکھ کر بیک وقت خوشی اور جھلاہٹ ہوتی ہے۔ ملاقات ہونے پر آخر الذکر تمھارے حصے میں آئے گی۔ ‘‘                                                    ( ۲؍ دسمبر ۸۱ء)

’’ مضمون کے لیے انھیں ٹال چکا تھا۔ اب تم نے پھر سفارش لکھی۔ تم جانتے ہو میرے لیے احباب کی فرمائش کو رد کرنا دشوار ہوتا ہے۔ ‘‘ ۱۸؎

’’ جی! میں تمھاری تحریریں دیکھ رہا ہوں، اسباق۔ اردو ٹائمز، مورچہ، قومی آواز اور نکھار سب نگاہ سے گزرے، تمھارا خلوص مجھے جی بھر کر رسوا کر رہا ہے یقین مانو۔ مجھے فرشتے زیادہ پسند نہیں (کہ انہیں میں منکر نکیر، عزازیل، کراماً کاتبین بھی ہیں ) ہاروت و ماروت کا حشر سامنے ہے، خدا کے لیے مجھے ایک جیتا جاگتا معمولی آدمی رہنے دو۔ ‘‘         (۶؍ فروری ۸۲ء)

’’ سمینار اور سیاحت سے آج اتنی فرصت نکالی ہے کہ تمھیں خط لکھ سکوں۔

’’ مسافر تا حال سفر میں ہے، سری نگر کا لکھا ہوا خط ملا ہو گا۔ ‘‘ ۱۹؎                 (۲۱؍ جون ۸۲ء)

’’ میں جو تمھارے ساتھ قربت کی بنا پر کبھی تلخ اور کبھی ترش رویہ اختیار کرتا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ تم سے ناراض رہتا ہوں۔ اب یہ دیکھو کہ اس اثنا میں گاندھی کی نظم اور کتاب پر تبصرے سے لے کر متعدد غزلیں تمھاری اچھے برے پرچوں میں دیکھیں اور تمھیں کچھ نہیں لکھا۔ بے شک تم خوب لکھتے ہو اور ثقلین حیدر جیسے ناقدین ان باتوں سے یقیناً خوش ہوں گے۔ بقول ظ۔ انصاری احتیاط لازمی ہے۔ ۲۰؎

’’ اگر تم نے تا حال ’’ ثبات‘‘ پر آنے والا خرچ اس کی فروخت سے وصول نہیں کیا تودوسرا ایڈیشن پیارے راہیؔ کس توقع پر چھاپنے جا رہے ہو۔ رنگا رنگ سے اتنے ہنگامے اور دو تین ماہ کے بعد اگر صرف نو سو روپیے کما سکے ہو تو یہ تضیع اوقات کیوں۔ ‘‘ ۲۱؎

’’تمھارے پچھلے دو تین خطوط نے مجھے بُری طرح جھلاہٹ میں مبتلا کر دیا تھا، تمھیں معلوم ہے کہ ایسے مواقع پر میں رضا حسن جیسے اپنے بے تکلف دوست کی خوش فہمیوں تک کو بڑھنے سے روکتا اور بُرا مانتا ہوں۔ ‘‘  ۲۲؎

مزید چند تلخ و ترش اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

’’ مجھے صرف مقالے کے سلسلے میں خط لکھو۔ مختصر اور اپنی کھال میں رہ کر۔ مرعوب کرنے والوں کی کمی دہلی میں بھی نہیں ہے۔ دور کے احباب یہ زحمت فضول کرتے ہیں۔ ‘‘ ( ۲۸؍ اپریل ۸۳ء کے طویل خط سے)

دوسرے ہی روز لکھا :’’ تم شاید ضرورت سے زیادہ کھال میں آ گئے ہو۔ جانتے ہو مجھے بہت جلد اور بہت شدید غصہ آتا ہے اور بھڑاس نکال لینے پر کوئی سابقہ اثر باقی نہیں رہتا۔ اس لیے تمھیں بھی دیر تک محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ ‘‘                                    (۲۹؍ اپریل ۸۳ء)

’’ اس بار تمھارے خط کا جواب خفگی کی بنا پر نہیں رکا یوں بھی تم نے اپنے تئیں مجھے مفت ہوّا بنا رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکرر: صبا آ گئی ہے سلام لکھوانے، بہت بولتی ہے، سنوگے تو حیرت ہو گی آج کل میرا آدھے سے زیادہ وقت لیے لیتی ہے۔ رات کو بھی دو تین بار جگا کر خیریت دریافت کرتی ہے۔ ‘‘       (۱۴؍ اکتوبر ۸۳ء)

’’ برادرم شکیل اعجاز کے خط سے معلوم ہوا کہ تمھاری صحت ٹھیک نہیں ہے۔ کسی بڑے بوجھ کے سر سے اتر جانے پر اعصاب بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ایک آدھ سفر تفریحی کر ڈالو۔ ٹھیک ہو جاؤ گے۔ ‘‘۲۳؎  (۷؍ مئی ۸۴ء)

’’ میں کیا لکھوں۔ میں اور تمہاری بھابی دونوں تمھارے لیے فکر مند ہیں۔ ‘‘             ( ۳؍ نومبر ۸۴ء)

’’ تمھاری حالت کے بارے میں معلوم کر کے میں اور مجھ سے زیادہ عاصمہ پریشان ہیں۔ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرو، چند تفریحی سفر کر ڈالو اور جی چاہے تو کچھ دنوں کے لیے یہاں آ جاؤ، آج کل میری بھی چھٹیاں ہیں۔ رضا حسن کو ساتھ لیتے آؤ۔ گھومو پھرو۔ خدا کرے اس خط کے جواب میں تمھاری صحت یابی کی اطلاع ملے۔ ہم لوگ دعا کرتے ہیں۔ ‘‘                                         ( ۱۱؍ دسمبر ۸۴ء)

’’ تمھارا خط پا کر واقعی بڑا سکون ملا۔ آج کل میں تمھیں بہت سنبھل کر خط لکھتا ہوں کہ جذباتیت نہ آنے پائے اور تم کوئی منفی اثر قبول نہ کر لو۔ اس کے باوجود شاید پچھلے خط میں پریشانی کا کچھ اظہار ہو گیا۔ شرمندہ ہوں۔ تم نے اپنے خلوص، منکسر المزاجی اور اخلاق و رویّے سے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اور کئی مقامات پر تمھارے مخلصین تمھارے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور متفکر ہیں۔ اطمینان رکھو کہ صاف ستھرے لوگوں کے لیے ہر پریشانی عارضی ہوا کرتی ہے۔ میں بھی دو ایک دن کا موقع نکال کر تمہیں دیکھنے آتا لیکن بوجوہ ہمت نہیں پڑی۔ بہر حال نارمل حالات میں کبھی بھی ٹپک سکتا ہوں۔ عاصمہ حالانکہ صبا بھی تمھارے لیے دعا مانگتی ہے۔ متعلقین کو میری جانب سے واجبات کہو۔ وہ لوگ ( خصوصاً بھابی) بالکل پریشان نہ ہوں۔ انشاء اللہ تم بحال رہو گے۔ گھر میں سکون کا ماحول رہے۔ ‘‘  (۲۱؍ دسمبر ۸۴ء)

’’بہت پیارے راہی!ؔ امید ہے تم بالکل  نارمل اور صحت مند ہو گے۔ دنیا بھر کی الٹی سیدھی باتوں پر جی کڑھانا بیکار ہے زندگی ہنس کھیل کر احباب اور متعلقین کے ساتھ خوش رہ کر گزارنے میں بڑا مزہ ہے۔ یہ بھی کر دیکھو۔ ‘‘                                    (۳۱؍ جنوری ۸۵ء)

’’ خدا کرے تم اب بالکل نارمل ہو۔ خوب خوش رہو اور مستقبل سے اچھی توقعات رکھو۔ ‘‘   (۱۵؍ فروری ۱۹۸۵ء)

’’خدا کرے تم اسی طرح خوش اور تندرست رہو عاصمہ تمھارے خط سے بہت خوش ہیں اور دعا کرتی ہیں۔   (۳۱؍  مارچ ۸۵ء)

’’ خط ملا۔ یہ بات میرے لیے بڑی تسکین دہ ہے کہ اب تمھاری حالت قطعی نارمل ہے۔ ’’ محبت کرو اور محبت پاؤ۔ ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا رہو۔ انشاء اللہ زندگی خوشگوار رہے گی۔ ‘‘           (۱۲؍ اپریل ۸۵ء)

مذکورہ بالا خطوط سے میری بیماری کے باعث میرے تئیں مظفر صاحب اور عاصمہ بھابی کی مسلسل فکر مندی اور تشویش اور صحت یابی پر اطمینان و مسرت کے مخلصانہ اظہار سے ان کی بے پناہ چاہتوں اور بے مثال محبتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ درد مندی اور اپنائیت کے چھلکتے ہوئے جذبات سے لبریز ایسے خطوط کہ ایک بار مردہ بھی پڑھ یا سُن لے تو دوبارہ جی اٹھے میرے دن بدن صحت مندی اور تندرستی کی طرف بڑھنے کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوئے اور تمام مخلصین کی دعاؤں کے طفیل بفضلہٖ تعالیٰ میں اپنے سابقہ معمولات کی طرف لوٹ آیا۔ ڈاکٹریٹ اور صحت مندی حاصل ہو جانے کے بعد بھی مظفر حنفی صاحب کی محبتوں کے نامہ ہائے اخلاص و محبت کا سلسلہ برابر جاری و ساری رہا۔ مثلاً:

’’ صاحب عالم کی واپسی اور اکلوتی بیٹی کی خوشی بہت بہت مبارک، عاصمہ بھی دونوں اطلاعات پر مسرور ہیں اور میرے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہیں کہ چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘( ۱۹؍ اگست ۸۵ء میری صحت کامل اور میری اکلوتی بیٹی ناظمہ کی شادی کی خبر پڑھ کر)

اسی خط میں یونیورسٹی کھلنے اور بچوں کے داخلوں وغیرہ کی مصروفیات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’اگر یہ بیڑیاں اتر گئیں تو مجھے آیا سمجھو ورنہ جی مسوس کر رہ جاؤں گا اور خود کو مدتوں مجرم تصور کروں گا تم اور تمھاری بیگم ناراض ہونے کا پورا حق رکھتے ہیں، گزارش صر ف یہ ہے کہ اسے عذر لنگ نہ سمجھا جائے۔ ‘‘

’’ امید کہ شادی بخیر و عافیت ہو گئی ہو گی۔ میں نے محض مبارکبادی تار بھیج کر کام چلایا۔ اب اپنی کوتاہی اور نفسیاتی کمزوری پر سخت جھنجھلاہٹ ہے کہ ایسے موقع پر دل کی جگہ عقل کے بہکانے میں کیوں آ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب تم شادی کی تفصیلات لکھو۔ بچی کہاں ہے؟ ۲۴؎ کیا وہ سعودیہ جائے گی؟ ۲۵؎۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سُنا ہے تم کانووکیشن میں شرکت نہ کر سکے ۲۶؎۔ یہ بھی خبر ہے کہ ہائر سیکنڈری میں آ گئے ہو ۲۷؎۔ ‘‘             (۲۱؍ ستمبر ۸۵)

’’ بھائی اِدھر بھی سکون نصیب نہیں۔ سوائے اس کے کہ ہم ایک دوسرے کی دل دہی کرتے رہیں اور کوئی چارہ نہیں۔ امید ہے احمد آباد سے اعزا کی خیریت کے خطوط مل گئے ہوں گے۔ ‘‘ ۲۸؎

’’ کچھ تم سے خفا بھی تھا کہ تم نے رضا حسن جیسے دوست کو مجھ سے بد ظن کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ لیکن رشتہ مضبوط ہے ہل کر رہ گیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مجھے کبھی تمہاری نیت پر شبہ ہوا ہو۔ تم نے بھی اسے جو کچھ لکھا ہو گا از راہ خلوص ہی لکھا ہو گا لیکن پھر بھی۔ ‘‘ ۲۹؎

’’ گھر والوں کی شکایت سر آنکھوں پر۔ اس بار کھنڈوا آنا ہو گا تو بارسی ٹاکلی بھی چند دن قیام رہے گا ویسے ان سے عاصمہ اور میری شکایت تم نے کہہ دی ہو گی۔ دہلی والے اعزاز کے موقع پر مسز راہیؔ کی عدم موجودگی بہت کھلی، انھیں سال بھر پہلے سے مدعو کر رکھا تھا۔ ‘‘ ۳۰؎

’’ تمھیں چھوٹے چھوٹے پچڑوں میں پڑ کر اپنی ذہنی صحت متاثر نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا اس طرح چلنے سے رہی جیسی ہم چلانا چاہتے ہیں۔ ‘‘          (۱۱؍ دسمبر ۸۷ء)

’’ دادا بننے کی بہت مبارکباد۔ ‘‘   ( ۲۹؍ فروری ۸۸ء پہلے پوتے مجاہدالاسلام کی پیدائش پر)

’’ جس طرح موڈ میں آ کر تم نے لکھا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی مصروفیات سے تمھاری طبیعت میں بشاشت رہتی ہے۔ پوسٹر میں نام دے چکے ہو اور میں کھنڈوا آ بھی رہا ہوں اس لیے بے تکلف حاضر ہو جاؤں گا۔ ‘‘                               ( ۲؍ دسمبر ۸۸ء)

’’تمھارا بجھا بجھا سا خط ملا، اچھا ہوا کہ تم کوئلوں کی دلالی سے بچ گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۱۱ ؍ دسمبر کو کھنڈوا پہنچ رہا ہوں انشاء اللہ۔ پروگرام کیا کیا بنائے ۲۵؍ اور ۲۶؍ دسمبر کو شادی کی مصروفیات ہوں گی۔ ایسا کرو کہ بھابی سمیت آ جاؤ کھنڈوا، یا کہ ہم لوگ بارسی ٹاکلی تم لوگوں کو لینے آئیں۔ جو مزاج یار میں ہو یار بتا دے۔ خدا کرے تم رونی صورت بنا کر زیادہ دیر بیٹھے نہ رہو کہ مسئلہ زیادہ گمبھیر نہیں ہے۔ ‘‘           ( ۷؍ دسمبر ۸۸ء)

’’ آخر تم کوئلے کی دلالی کر کے رہے، میں توسمجھا تھا بآسانی نجات مل گئی خیر آج قاضی صاحب باصرار بیٹھ کر خط لکھوا رہے ہیں۔ میں انھیں اور احباب کو ساتھ لے کر ۱۶؍ یا ۱۷؍ کو بن بلائے مہمانوں کی طرح بارسی ٹاکلی پہنچ رہا ہوں۔ ‘‘ ۳۱؎  ۳۲؎  ۳۳؎         (۱۳؍ دسمبر ۸۸ء)

’’ اردو اکادمی کی رکنیت بہت بہت مبارک ہو۔ عاصمہ بھی خوش ہیں انشاء اللہ یہ سب ابتدائی زینے ہیں۔ کامرانیاں اور قدم چومیں گی، نظر بلند رکھو، حق پرستی شعار کرو، کسی کے سامنے سر جھکاؤ نہ کسی کے ساتھ بے انصافی کرو۔ ‘‘                                            (۱۰؍ اپریل ۸۹ء)

’’ تمھارے ساتھ سفر اور چند دن خوش گزرے، امید ہے بعافیت گھر پہنچ گئے ہوں گے۔ ‘‘       (۱۵؍ اکتوبر ۹۱ء)

’’ اچھا کیا اکادمی سے مستعفی ہو گئے۔ یہاں ہم لوگوں نے بھی استعفیٰ دے رکھے ہیں حکومت میٹنگیں کر رہی ہے کہ واپس لے لیں۔ ‘‘ ۳۴؎

’’ قبل ازیں خط لکھ چکا ہوں تمھیں کلکتہ یونیورسٹی کے اردو بورڈ آف اکزامنرس کا ممبر منتخب کیا گیا ہے۔ مبارکباد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رضا حسن اور دیگر احباب سے رابطہ قائم کر کے اکولہ، برہانپور، مانڈو وغیرہ ( بڑواہا اور کھرگون مقصود باوا نے تجویز کیے تھے) میں تفریحی پروگرام مرتب کرو گے۔ ‘‘               ( ۲۵؍ ستمبر ۹۳ء)

’’ میں ملتمس ہوں بیگم سمیت ۲۸؍ مئی ۹۴ء کو سہیل کی شادی میں شرکت کیجیے۔ احباب کھنڈوا اور اکولہ کو ساتھ لائیے دہلی کی طرف۔ آپ لوگوں کے قدموں تلے میری آنکھیں بھی ہوں گی اور دل بھی۔ ‘‘      ( ۱۰؍ مئی ۹۴ء)

’’ کھنڈوا والے اپنے ڈھنگ کے بہت پیارے  پیارے لوگ ہیں۔ اصل میں اب انھیں صحیح مشورے دینے والے نہیں رہے۔ قاضی جتنا مخلص اور پیارا آدمی ہے اتنا ہی جذباتی اور نا سمجھ بھی ہے۔ کس سے مشورہ کرنا ہے اور کِس سے کام لینا ہے اس کا فیصلہ بعض اوقات نہیں کر پاتا۔ بہر حال دوست ہے دیوتا نہیں ہے وہ۔ بخش دو۔ ‘‘

(۱۸ دسمبر ۹۴ء کسی غلط فہمی کی بنا پر قاضی صاحب کی شکایت کر دی ہو گی)

’’ مہاراشٹر اکادمی کا انعام مبارک ہو۔ وہ اعزاز یا انعام چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ پہلا ہو یا دوسرا جو بغیر سفارش اور جوڑ توڑ کے حاصل ہو۔ واقعی انعام ہوتا ہے۔ ‘‘                                  (۳؍ اگست۹۵ء)

’’ کیسے ہو! حبس دم ہی میں مزہ ہے کہ ہوا چاہتے ہو! سفر کی یادیں ابھی مہک رہی ہیں دسمبر میں حسن رضا سے طے کر کے اپنی آمد کی تاریخوں سے مطلع کرو۔ ‘‘                                          ( ۹؍ نومبر ۹۵ء)

’’ نئے مکان میں منتقلی بہت بہت مبارک ہو۔ حالانکہ بقول غالب:

’’کی مِرے قتل کے بعداس نے جفا سے توبہ‘‘

دعا ہے کہ اس مکان میں اہل و عیال کے ساتھ خوش و خرم طویل زندگی بسر کرو۔ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند اور شاد کام رہو، بیگم راہیؔ کو ہم دونوں کی طرف سے مبارکباد۔ کہو تازہ بہوؤں کی تلاش میں کتنی کامیابی ہوئی۔ ورنہ آ جاؤ ابھی ہگلی چلتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گوا کے لیے تیار رہو۔ ‘‘ ۳۵؎

’’ واقعی تمہارے صاحبزادے اپنے بارے میں زیادہ خوش فہمی رکھتے ہیں۔ یہ عمر بھی ویسی ہی ہے انھیں ان کے حال پر چھوڑ کر بقیہ بیٹوں کی شادیاں کر دو۔ وہ حضرت جب خود اپنی پسند کا اظہار کر دیں اس وقت سوچ لینا۔ ‘‘                                  (۲۷؍ مارچ ۹۶ء)

’’ خوب دلجمعی، اطمینان اور بشاشت کے ساتھ لکھو پڑھو اور خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے کروروں لوگوں میں تمھیں ممتاز اور صاحب اولاد بنایا ہے۔ ‘‘                                          (۱۲؍ اگست ۹۶ء)

’’ میرا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ کسی بھی معاملے کو اس حد تک نہ الجھاؤ کہ ذہنی سکون درہم برہم ہو۔ ‘‘

(۲۵؍ جنوری ۹۷ء کالج انتظامیہ سے دھوکادہی کے بارے میں جان کر)

’’ اپنے آپ کو مصروف رکھو، گھریلو الجھنوں میں پڑے تو بیمار ہو جاؤ گے۔ ‘‘       (۱۴؍ جنوری ۲۰۰۰ء)

’’ تم کو خداوند کریم خوش رکھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر انیس نے امام حسینؓ کی زبان سے کہلوایا تھا ’’ کس کس طرح شبیرؓ کو خوش رکھتے ہیں عباس‘‘ ۳۶؎

’’ یکمشت ایک نہ دو پورے تین نسخے اسباق کے ملے۔ سیراب کر دیا دل منت گزار کو‘‘سرورق کی تصویر ہی اتنی پیاری ہے ایسا شگفتہ شاعرانہ چہرہ، اول تا آخر ساری تحریریں جو تمھارے گوشے میں شامل ہیں بہت پسند آئیں۔ ‘‘               (۲۰؍ جنوری ۲۰۰۵ء اسباق کا گوشۂ محبوب راہی دیکھ کر)

’’ تم اپنے لیے مضمون کی فرمائش کر کے خود کو بھی اور مجھے بھی نقصان میں ڈالو گے۔ پیش لفظ اور تقریظ کا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے مستقل مضمون میں نہج بدل جاتی ہے، ویسے انٹرویو اور مضامین میں تمھیں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں۔ سعودی عرب ریڈیو سے انٹرویو میں اور سفارت خانہ ہند جدہ کے یادگار مجلے میں جو باتیں کہیں وہاں تم بھی موجود تھے۔ فاروقی وغیرہ کی طرح میرا بھی وہی مضمون لگا لو۔ ‘‘             (۹؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء)

مظفر حنفی صاحب کے اس شفقت آمیز حوصلہ افزا اور تسلی بخش آخری خط پر نامہ و پیام کا یہ خوشگوار سلسلہ اختتام پذیر ہوا اس کی جگہ بظاہر ایک جدید، متاثر کن اور سہولت بخش ٹیلی فونک رابطے نے نعم البدل کی صورت پیدا کی کہ جب چاہیں ایک دوسرے سے شرف ہمکلامی حاصل کر لیں لیکن سچ پوچھیے تووہ بات کہاں مولوی مدن والی سی، سلسلہ گفتگو ختم ہوا اور آوازیں ہواؤں میں تحلیل ہو کر خلاؤں میں گم ہو گئیں۔ بیٹھے رہیے تصورِ جاناں کیے ہوئے جبکہ خط و کتابت کے مزے ہی کچھ اور ہیں۔ اب یہی دیکھیے نا آج سے کوئی چونتیس برس قبل گزشتہ صدی کی مظفر حنفی صاحب کی محبتوں کی خوشبوؤں سے معطّر، چاہتوں کی کھٹی میٹھی لذتوں سے لبریز تحریروں سے لفظ لفظ اکتساب کیف و نشاط کر رہا ہوں اور گنجینہ معنی کے طلسم اس تمام خزینۂ بے بہا کو فیض رسانی کے لیے آئندہ نسلوں تک پہنچانے کے لیے کتابی شکل میں محفوظ کر دینے کی سعادت بھی حاصل کر رہا ہوں کہ یہ خطوط محض یک رنگی نہ ہو کر بیک وقت رنگا رنگ، کثیر الجہات اور کثیر المعانی و مفاہیم ہیں۔ ان میں نہ تو محض ہجر و وصال کی تلخ و شیریں حکایتیں ہیں نہ ہی ستم ہائے روزگار کی شکایتیں، یہ نہ تو کسی سیاسی، مذہبی، ادبی اور تہذیبی و ثقافتی نظریہ تحریک کے پرچار ک ہیں نہ کسی تجارتی یا کاروباری مشن کے مبلغ، ان میں نہ تو پند و نصائح کے دفتر ہیں نہ وحدت الوجود شہود جیسے کسی فلسفے کی تشریح و تفہیم۔ یہ محض خطوط ہیں۔ سادگی و سلاست کے آئینہ دار لیکن ایسی سادگی اور سلاست کے حامل جو اپنے اندر نئے نئے مفاہیم اور نو بہ نو معنویت کے دروازے کھول کر مقصدیت کے کئی پہلوؤں اور افادیت کے کئی زاویوں سے روشناس کراتی ہے۔ اس میں مکتوب نگار کی شخصیت کے کئی روپ ہیں وہ اپنے مخاطب ( مکتوب الیہ) کی کبھی ایک مشفق استاد کی شکل میں کبھی تلخ و ترش تو کبھی شیریں لہجے میں اپنے گرانقدر مشوروں سے رہنمائی کرتا ہے تو کبھی ایک بڑے بھائی کی طرح اپنے تجربوں کی روشنی میں اسے زندگی کے نشیب و فراز سے مطلع کر کے لڑکھڑاہٹوں، لغزشوں اور گمراہیوں سے بچاتا ہے جبکہ بیشتر ایک بے تکلف دوست کی طرح تکلفات کے سارے پردے ہٹا کر اسے رزم گاہ حیات میں معرکہ آرائیوں کے رموزو نکات سے آگاہ کرتا ہے۔

ان خطوط میں جہاں حق گوئی و بیباکی کے آئین جوانمرداں پر ثابت قدمی، اولوالعزمی، علو ہمتی، استحکام اور استقامت کے ساتھ کار بند رہنے کی حوصلہ افزا مثالیں ملتی ہیں، انسان دوستی، بھائی چارگی، اخوت، ہمدردی، ملنساری، یگانگت، اخلاص، بے ریائی، جیسی ارفع اور پاکیزہ اخلاقی قدروں کی پاسداری کے روشن ثبوت بھی فراہم ہوتے ہیں۔ ان انسانی اوصاف کے علاوہ مظفر حنفی صاحب کے خطوط اپنے اندر ایک ادبی شان بھی رکھتے ہیں، ان میں جا بجا مکتوب نگار کی تبحر علمی، نکتہ رسی، بے تکلفی، فقرہ بازی، بذلہ سنجی، بے ساختگی، معنی آفرینی جیسے فنکارانہ اوصاف جھلکتے ہیں جن کی شمولیت سے یہ خطوط انشا پردازی کے منفرد مرقعوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ ان میں زبان کی نفاست، بیان کی لطافت، طرز اظہار کی جدت، اسلوب کی ندرت، احساس کی شدت، جذبوں کی حرارت، لب و لہجے کی دلکشی اور شگفتگی نیز محاوروں کی بے ساختگی اور بر جستگی کے کرشمے’ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا ست‘ کے مصداق ہر قدم پر جلوہ گر ہیں۔

متذکرہ بالا خوبیوں نیز اپنی ہمہ گیر اہمیت و افادیت کی بنا پر مظفر حنفی صاحب کے یہ خطوط اردو مکتوب نگاری کی دنیا میں ایک خوشگوار اضافے سے تعبیر کیے جائیں گے اور جس طرح موصوف کی شاعری اپنے تیکھے ترچھے طنزیہ اسلوب، ایک اچھوتے رنگ و آہنگ اور منفرد لب و لہجے کے پیش نظر اپنی الگ پہچان رکھتی ہے، نثر میں جیسے ان کا اپنامخصوص انداز اور تنقید کے میدان میں جو جداگانہ زاویہ نقد و نظر ہے ان خطوط میں اپنے مخصوص اسلوب نگارش کی بنا پر مکتوب نگاری میں بھی موصوف کو غالبؔ کی طرح اپنے ایک طرز خاص کا موجد کہا جائے گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

حواشی

 

۱؎      قاضی حسن رضا جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہو چکا ہے۔

۲؎      شہر کھنڈوا

۳؎      میرے ماموں زاد بھائی وفات پا چکے ہیں۔

۴؎      اس کتاب پر توصیفی تبصرے کرتے ہوئے وزیر آغا اور ظ۔ انصاری نے اسے زندہ شخصیتوں پر تحقیق کے لیے رہنما کتاب قرار دیا۔

۵؎      معروف نقاد ڈاکٹر محمد حسن کے حنفی صاحب کی کسی کتاب پر منفی تبصرہ کے تعلق سے میرے استفسار کے جواب میں۔

۶؎  ۷؎  ۸؎  کھام گاؤں کاکل ہند طرحی مشاعرہ جس میں حنفی صاحب نے جگرؔ کے مصرعے ’’جس دل پہ مجھ کو ناز تھا وہ دل نہیں رہا‘‘ پر غزل پڑھی تھی میرے اصرار پر موصوف تشریف لائے تھے۔ جگن ناتھ آزاد کو صدارت حنفی صاحب کے انکار کرنے پر پیش کی گئی۔ دوسرے روز ایک تو ان لوگوں کے ریزرویشن نہ کرنے پر حنفی صاحب خفا بھی تھے اور پریشان بھی پھر جب منتظمین نے نذرانے کی رقم آزاد صاحب کے مقابلے میں کم پیش کی تو حنفی صاحب اس میں سبکی کا پہلو محسوس کر کے رضا مند نہ ہوئے۔ منتظمین کے یہ کہنے پر کہ آپ کو گھر کا آدمی سمجھ کر کم دے رہے ہیں حنفی صاحب نے خوشدلی سے رقم لوٹا دی کہ گھر کا آدمی کہتے ہو تو میری طرف سے مشاعرے میں چندہ رکھ لو اور زبردستی نوٹ منتظم مشاعرہ کی جیب میں ٹھونس دیے اور صورت حال یہ ہے کہ نہ تو دلّی کا ٹکٹ موجود ہے نہ کرایہ کی مناسب رقم جیب میں  (جس کا علم مجھے کھام گاؤں سے کھنڈوہ والی بس میں سوار ہونے پر ہوا جس کے دو ٹکٹ مجھ سمیت حنفی صاحب نے نکالے) کھنڈوا پہنچنے پر حنفی صاحب نے اپنے بے تکلف یار غار سے دلی کے ٹکٹ کا بندوبست کرنے کے لیے کہا تب جا کر مجھے حقیقت حال کا علم ہوا۔ وہاں سے لوٹ کر میں نے جھلاہٹ میں اخبارات میں مراسلہ بازی کی اور کھام گاؤں والوں کی پول کھول کر رکھ دی جن میں عبدالرحیم نشتر کا پندرہ روزہ ودربھ نامہ بھی شامل تھا۔ حنفی صاحب کی اعلیٰ ظرفی اور کشادہ قلبی کا وہ واقعہ آج تک ذہن پر نقش کالحجر ہے)

۹؎      ۱۶؍ ستمبر ۸۰ء صریر خامہ پر وزیر آغا کے منفی تبصرے مشمولہ اوراق کے تعلق سے استفسار کرنے پر۔

۱۰؎     ۱۷؍ اپریل ۷۹ء ’’ ثبات‘‘ کی اشاعت کے لیے مہاراشٹر اردو اکادمی کی جزوی مالی اعانت ملنے پر۔

۱۱؎     ۲؍ اپریل ۸۱ء ’’ یم بہ یم‘‘ پر راست اوراق کو تبصرہ بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے۔

۱۲؎     ۶؍ فروری میرے توصیفی مضامین لکھنے پر سرزنش کرتے ہوئے۔

۱۳؎     ۱۳؍ اپریل ۸۲ء۔ حنفی صاحب کے بچپن اور جوانی کے دوستوں جناب ہاشمی الٰہ آباد، قاضی حسن رضا کھنڈوہ وغیرہ سے میں نے خطوط کے ذریعے حنفی صاحب کے تعلق سے کچھ راز ہائے دروں جاننے چاہے تھے۔ احباب نے معاملہ حنفی صاحب کے سامنے پیش کر دیا۔ اس کے ردِّ عمل میں۔

۱۴۔    ۱۰؍ اپریل ۸۹ء بخدا مظفر صاحب کے خطوط میں اپنی طرفداری پر مبنی اس قسم کے جملے بیگم نے ہمیشہ اپنی مدافعت میں استعمال کیے اور بحث و مباحثہ میں کامیابی کے پرچم لہراتی رہیں۔

۱۵؎     ۲۴؍ اکتوبر ۸۹ء ثبات کے اجرائی جشن سے لوٹتے ہوئے ریزرویشن غلط ہو جانے کی بنا پر حنفی صاحب کو بغیر ریزرویشن دلی تک کے سفر میں نا قابل بیان زحمتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

۱۶؎     ایضاً۔ شرمندہ ہوں اپنی افتاد طبع کی بنا پر نہ تو حنفی صاحب کے زریں مشوروں پر عمل کیا آج ۳۲ برس گزر جانے پر اس کا احساس ہے۔

۱۷؎    یکم اگست ۸۱ء ڈاکٹر صبا تسنیم، مظفر حنفی صاحب کی اکلوتی بیٹی، اس وقت بمشکل دو برس کی ہو گی۔ اب بفضلہ دو بچوں کی ماں ہے۔

۱۸؎     ایضاً۔ اسباق پونہ کے سال اولیں نمبر کے لیے مضمون کی فرمائش کی گئی تھی۔

۱۹؎     ۱۲؍ جون ۸۲ء سرینگر سے۔ مظفر صاحب جہاں بھی جائیں مجھے خط لکھنا یا فون کرنا بھولتے نہیں، اپنے بیٹوں پرویز مظفر اور عرفان مظفر کے پاس برمنگھم اور دبئی گئے وہاں سے بھی مجھے برابر یاد کیا۔

۲۰؎    طنز ملیح کا دلکش چٹکی لینے والا انداز آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ تیر نیم کش جیسا۔ ثقلین حیدر کلکتہ کے مشہور ناظم مشاعرہ غضب کا حافظہ پایا تھا۔ ثبات کے مشاعرے میں میرا پورا مجموعہ زبانی سنایا اور میری تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔

۲۱؎     ۵؍ فروری۸۳ء رنگا رنگ طفلی نظموں کا مجموعہ جس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے اور ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔

۲۲؎    ۱۱؍ اپریل ۸۳ء کا سخت و سست پر مبنی یہ طویل تلخ و ترش خط من و عن پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

۲۳؎    گزشتہ دو برس رات دن ایک کر کے مقالہ مکمل کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپریل ۸۴ء میں ناگپور جا کر یونیورسٹی میں مقالہ داخل کیا۔ وہاں سے لوٹا تو گھر پہنچتے پہنچتے اعصاب پوری طرح معطل ہو چکے تھے۔ چھ برقی شاک لگائے تھے دو ماہ دنیا وما فیہا سے یکسر بے خبر رہا، مدتوں ذہن تقریباً مفلوج رہا۔ اللہ کا شکر ہے مسلسل علاج اور پر خلوص دعاؤں سے کچھ دنوں بعد ٹھیک ہو گیا۔ اس دوران مظفر حنفی صاحب نے اپنے مشفقانہ خطوط سے ڈھارس بندھائی اس کا اندازہ ذیل کے اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے:

’’ خدا کرے اب تمھاری صحت ٹھیک ہو ورنہ مندرجہ ذیل شعر کا تعویذ بنا کر سینے پر آویزاں کر لو:

بے دست پائی کا یہی تو اک علاج ہے       آوازۂ جرس پہ دما دم سفر سفر

۲۴؎  ۲۵؎   ناظمہ میرے حقیقی بھانجے یونس ساکن پونہ کو بیاہی گئی تھی جو سعودیہ میں برسرکار تھا۔ بعد میں لوٹ آیا۔ ان دنوں پونا کارپوریشن میں ملازم ہے۔

۲۶؎    پی ایچ۔ ڈی کی سند کے لیے کانووکیشن میں شرکت نہیں کی۔

۲۷؎    مقامی ہائر سیکنڈری میں چند ماہ کام کیا۔ نباہ نہ ہو سکا۔ پرائمری میں لوٹ آیا۔ بعدہ‘ مقامی غلام نبی آزاد ڈگری کالج میں دس برس تک پرنسپل رہا۔ وہاں بھی انتظامیہ سے تنازعات رہے۔

۲۸؎    ۲۴؍ جولائی ۸۶ ء۔ فسادات کے بعد احمد آباد میں بسے میرے افراد خاندان کی خیر و عافیت دریافت کرتے ہوئے۔

۲۹؎    ۴؍ مارچ ۸۶ء۔ کچھ غلط فہمیاں تھیں، بہر حال حنفی صاحب نے میری نیت پر شبہ نہیں کیا۔

۳۰؎    ۲۵؍ ستمبر ۸۷ء۔ مجھے مثالی مدرس کا قومی اعزاز دینے کے لیے سال بھر قبل مدعو کیا گیا تھا۔ صدر جمہوریہ کے ہاتھوں بیگم کے ساتھ ۵؍ ستمبر ۸۶ء کو میرا اعزاز ہونا تھا جس کے لیے حنفی صاحب اور بھابی نے دعوت دی تھی اور خوب تیاریاں بھی کر رکھی تھیں۔ میری سادہ لوح بیوی اپنی کم آمیزی کی بنا پر پہنچ نہیں سکی۔

۳۱؎  ۳۲؎  ۳۳؎    ۱۷؍ دسمبر کے مجوزہ کل ہند مشاعرے میں شرکت کے لیے میرے کہنے پر حنفی صاحب کو مدعو کیا گیا تھا۔ درمیان میں کچھ ایسا ہوا کہ میں نے اس میں اپنی اور حنفی صاحب کی سبکی محسوس کی لہٰذا پہلے جھلاہٹ میں موصوف کو مشاعرے کے التوا کی غلط اطلاع دے دی۔ جب منتظمین معاملے پر پر وقار طریقے سے رضا مند ہوئے تو میں نے موصوف سے دوبارہ تشریف آوری کی درخواست کی اور آٹھ دس احباب کے ہمراہ بذریعہ جیپ حنفی صاحب غریب خانہ پر تشریف فرما ہوئے۔

۳۴؎    ۱۸؍ فروری ۹۳ء۔ ۶؍ دسمبر ۹۲ء کے بابری مسجد سانحہ پر خاکسار نے مہاراشٹر اردو اکادمی کی رکنیت سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔

۳۵؎    ۵؍ مارچ ۹۶ء۔ سفر کلکتہ بلکہ چند روزہ قیام کلکتہ کے دوران ہگلی کے کنارے واقع ایک قدیم ترین چرچ دیکھ کر ہگلی شہر کی طرف لوٹتے ہوئے بس میں ایک حسین ترین بنگالی لڑکی پر نظر پڑی۔ میرا دوسرے نمبر کا بیٹا شفیق جس کے تعلق سے حنفی صاحب کے علم میں تھا کہ شادی کے لیے حسین ترین لڑکی کی تلاش میں کئی لڑکیوں کو رد کر چکا ہے، مجھے اُدھر متوجہ پا کر فرمایا کہو تو شفیق کے لیے بات چلائی جائے۔ خط میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

۳۶؎    ۲۲؍ ستمبر ۲۰۰۲ء۔ کلکتہ سے اپنی کتابوں پر میرے توصیفی تبصرے پڑھ کر

٭٭٭

 

 

 

                سفرنامہ

 

’’        ’ چل چنبیلی باغ میں ‘ کے دیگر سفر ناموں سے مقابلتاً منفرد ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ بنیادی وجہ اس کے سابقہ سفرناموں سے مختلف اور منفرد ہونے کی۔ اسباب و محرکات، مقاصد اور عوامل کا سابقہ روایتی اسفار سے قطعاً علیحدہ ہونا ہے۔ مظفر حنفی کے اس سفر نامہ کا مقصد نہ تو سیاحت ہے نہ تجارت، نہ سفارت، نہ حصولِ تعلیم، نہ ملازمت اور نہ ہی کسی سیمنار یا مشاعرے میں شرکت۔ خالصتاً گھریلو سفر ہے جو موصوف اپنی شریک حیات، اپنی اکلوتی بیٹی صبا تسنیم کے ساتھ کرتے ہیں اپنے بیٹے پرویز مظفر سے ملنے اور اسے ازدواجی رشتے میں منسلک کرنے کے لیے۔ لیکن وہ چونکہ بین الاقوامی حیثیت اور شہرت کے حامل اردو کے شاعر و ادیب ہیں لہٰذا لاکھ چھپانے پر بھی برطانیہ میں ان کے وجود کی خوشبو تمام اردو بستیوں تک پہنچ جاتی ہے اور اپنے گھریلو ہنگاموں سے وقت نکال کر انھیں ان ادبی شخصیتوں کو شرف ملاقات عطا کرنا پڑتا ہے۔ ان ادبی محفلوں، جلسوں، مشاعروں میں شرکت کرنی پڑتی ہیں جو ان کے اعزاز میں وہاں منعقد کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں پرویز مظفرؔ، شادی کے بعد ان کی بیوی نسرین اور ان کے احباب، مظفر صاحب، عاصمہ بیگم اور صبا تسنیم کو بساط بھر انگلینڈ کے تفریحی اور تاریخی مقامات کی سیر کروا دیتے ہیں۔ اب مظفر حنفی جیسا چشم بصیرت، فکر رسا اور غیر معمولی تخلیقی ذہانت کا حامل فنکار قرطاس و قلم سے ان غیر معمولی واقعات اور مشاہدات کو بقائے دوام عطا نہ کر دے یہ کس طرح ممکن  ہے۔ لہٰذا اپنی نوعیت کا سب سے منفرد یہ سفرنامہ وجود میں آیا ہے’’ چل چنبیلی باغ میں۔ ‘‘

ڈاکٹر محبوب راہیؔ

 

 

 

 

                پروفیسر آفاق احمد

    بھوپال

 

 

چل چنبیلی باغ میں : ایک منفرد سفر نامہ

 

سفر کو وسیلۂ ظفر بھی کہا جاتا ہے۔ پُرانی کہاوتیں بھی خوب ہوتی ہیں کہ زمانے کے کتنے ہی تیز و تند طوفان اُن کے سر سے گزر جائیں، وہ ہر دور میں تر و تازہ اور شگفتہ رہتی ہیں۔ اب اسی کہاوت یعنی ’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘ کو لے لیجیے۔ پتہ نہیں یہ کہاوت کتنے تجربوں کا حاصل ہو گی؟ ورنہ اسے بقائے دوام کے دربار میں یوں ہی جگہ نہیں مل جاتی۔

نئے نئے جہانوں کی سیر کرنا، نئی نئی چیزیں دیکھنا، نئے نئے لوگوں سے ملنا، بہت سے دور افتادہ دوستوں اور عزیزوں سے ملاقاتیں کرنا، اپنے ذہنی افق کو بالیدہ کرنا اور اپنے جی کو خوش کرنا کتنا بھلا لگتا ہے بس سفر پر نکل پڑنا شرط ہے کہ مسافر نوازوں کی کوئی کمی نہیں رہتی۔ پھر راہ کی دھوپ کیا معنی کہ راستے میں ہزاروں سایہ دار درخت اپنا سایہ کیے دھوپ سے بچانے کو موجود ملیں گے۔

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

خود میری کیفیت یہ ہے کہ سفر کرنا میرا شوق ہی نہیں اب تو عادت بن گیا ہے۔ اپنے ملک میں کشمیر سے کنیا کماری تک کہاں کہاں نہیں گھوما پھرا۔ پھر ان پچھلے بیس بائیس برسوں میں لگ بھگ اتنی ہی بار یورپ، امریکہ، کینیڈا کے بھی پھیرے ہوئے۔ اور پھر بھی سیری نہیں ہوئی تو سفر نامے پڑھنا میرا محبوب مشغلہ ہے۔ یہ تو دعویٰ نہیں کروں گا کہ جتنے سفر نامے میں نے پڑھے ہیں اتنے مشکل سے کسی دوسرے نے پڑھے ہوں گے۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اپنے فرصت کے شب و روز کے کتنے ہی دن رات اُن کے مطالعے میں گزارے ہیں۔

جب پتہ چلا کہ ہمارے دوست مظفر حنفی صاحب جو اردو کے کثیر الجہات مصنفین میں سے ایک ہیں خیر سے انھوں نے اپنا سفر لندن کا سفر نامہ بھی لکھ لیا ہے تو دل میں اس آرزو نے جگہ بنائی کہ دیکھیں یہ کب ہمارے مطالعہ کا حصّہ بنتا ہے اور جذبہ صادق تھا کہ انھوں نے ’’ محبت کے ساتھ‘‘ اپنے ’’ برادر مکرم‘‘ کو اُس کی ایک جلد عطا کرنے کی نوازش کی۔ اتنا بھی صبر نہیں ہوا کہ گھر جانے کا انتظار کرتا، دلّی سے بھوپال کا سفر در پیش تھا۔ یوں ہی سرسری دیکھنے لگا تو احساس ہوا کہ ارے بھائی یہ سر سری طور پر گزر جانے والی چیز نہیں۔ نتیجہ میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔ یہ کتاب مجھے ابھی تک پڑھے ہوئے سفرناموں سے کافی مختلف نظر آئی۔ کچھ عرصہ بعد مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی میں تدریسی لیکچرز کا دعوت نامہ آیا تو تین دیگر عنوانات (اردو میں سوانح نگاری۔ اردو میں رپورتاژ۔ اردو میں خاکہ نگاری) کے ساتھ اردو میں سفر نامے کا عنوان بھی شامل تھا۔

مظفر حنفی صاحب کا سفر نامہ’’ چل چنبیلی باغ میں ‘‘کا بے اختیار خیال آیا کہ اس کا تفصیلی ذکر ہونا چاہیے کہ یہ عام سفر ناموں سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ منفرد بھی ہے۔ بلکہ انیسویں صدی میں تحریر کیے ہوئے یوسف خاں کمبل پوش کے سفر نامے ’’ تاریخِ یوسف‘‘ ( جو عجائباتِ فرنگ‘‘ کے نام سے مشہور ہے) سے لے کر تا حال جو سفر نامے لکھے گئے ہیں بلا شبہ اُن میں ایک سے بڑھ کر ایک سفر نامہ موجود ہے لیکن اُن میں وہ ایک چیز نہیں جو ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘میں ہے اور وہ ’’ ایک چیز‘‘ ہے نہ صرف اپنے بطون میں بلکہ آس پاس کے لوگوں سے لے کر مناظر و واقعات کے بطون میں جھانکنے اور اُن کی رگوں میں دوڑتے خون کو اپنی تحریر کا حصہ بنانے کا جو وصف اس سفر نامے میں موجود ہے اور جس طرح چھوٹی چھوٹی جزئیات کو پیش کرنے کا سلیقہ برتا گیا ہے وہ سفر نامہ نگار کا اپنا کارنامہ ہے۔ پھر جوسفری کوائف کو بے تکلفی اور بے ساختگی کا اسلوب دیا گیا ہے وہ سفر نامہ نگار کا وصفِ اضافی ہے۔

یہ سفر نامہ بغیر کسی غیر ضروری تمہید کے برٹش ہائی کمیشن میں ویزا کے حصول کے جویاؤں کے کیو سے شروع ہوتا ہے اور وہاں کی منظر کشی سے گزرتا ہوا ویزا افسر سے کامیاب انٹرویو سے ہوتا ہوا سفر کے ٹکٹوں کے مرحلے تک پہنچتا ہے اور پھر شروع ہو جاتا ہے ہوائی جہاز کا سفر اور لینڈنگ اور ٹیک آف کا تذکرہ۔ ائیر ہوسٹس اور عملہ کی خدمت گزاری، اطالوی اور آئرش خواتین سے گفتگو، بالآخر ہتھیرو کا ہوائی اڈا آ جاتا ہے۔ جہاں مظفر صاحب کا بیٹا پرویز اپنے ماں باپ اور بہن کے استقبال کے لیے موجود ہے۔

در اصل مظفر حنفی کا یہ سفر پرویز مظفر کی شادی کے مختلف مراحل طے کرنے سے عبارت تھا۔ فرمانبردار بیٹا ہر مرحلہ پر اپنے بزرگوں کی منظوری کا طلب گار تھا اور آخر میں وہ جذباتی لمحہ آ گیا جب ماں بیٹے سے اور بہن بھائی سے بغل گیر ہوئی۔ پرویز کے دوستوں نے سامان اٹھایا اور پھر مسافر برمنگھم پہنچ گئے جہاں پرویز مقیم تھا۔ کار کے اس سفر سے ہی مظفر صاحب کے ذہن نے راستے کے مناظر کو ذہن کے نہاں خانے میں آباد کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ سلسلہ برطانیہ میں قیام کے دوران جاری رہا اور بالآخر ’’چل چنبیلی باغ میں‘‘ کی شکل میں ایک کارنامہ بن کر سفر ناموں کے سلسلے کا ایک خوب صورت اضافہ بن گیا۔

پھر بر منگھم پہنچتے ہی شروع ہو گئیں شادی کے سلسلے کی سرگرمیاں ! ان کے بیان میں مظفر صاحب کے ذہن رسا کی داد دینا پڑتی ہے کہ پیام سلام سے لے کر شادی کے طے ہونے اور پھر شادی اور اس سے متعلق رسموں کی جزئیات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ مجھے ایک ہندوستانی فلم ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ یاد آ گئی۔ ( یہاں اس راز میں آپ کو بھی شریک کر لوں کہ ایک زمانے میں پہلے دن، ہر فلم کا پہلا شو دیکھنا میرے شوق میں شامل تھا) اس فلم میں جس تفصیل سے شادی کے مختلف مرحلوں کو فلمایا گیا تھا، ہو بہو یہی کیفیت مجھے مظفر صاحب کے بیان میں بھی نظر آئی۔ وہ فلم سپر ہِٹ تھی۔ اگر فلمی زبان میں سفر نامے کے اس حصے کو تحریر کا ’’ سُپر ہٹ‘‘ کہوں تو غلط نہ ہو گا۔

شادی سے فارغ ہوئے تو پھر سیاحت کا سلسلہ شروع ہوا اور مظفر صاحب کا ذہن یہاں بھی اپنی کارفرمائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تاریخ کے تناظر میں اُن مقامات کے بارے میں آگاہی اور ارد گرد کی تصویر کشی۔ خواہ دریائے ایوان کے کنارے بسا ہوا شہر ’’ اسٹریٹ فورڈ اپان اے ون‘‘ جہاں مظفر صاحب کی یادوں میں کشمیر آیا جہاں کھیت کے کھیت چوری ہو جاتے ہیں اس شہر کی خوش سوادی:

’’ ایوان کے کنارے دونوں طرف کشتی رانی، تیراکی اور مختلف کھیلوں کے کلب، بے حد خوب صورت باغیچے، پھولوں کے تختے دور دور تک بھڑک دار قالینوں کی طرح بچھے ہوئے۔ بیچ بیچ میں رستوران، بڑے بڑے سایہ دار چتروں کے نیچے خوش پوش خوب صورت عورتیں، بچے، مرد سیاحوں کی گہما گہمی۔ ‘‘

مظفر صاحب کے نزدیک اس شہر کی حیثیت ایک زیارت گاہ سے کم نہیں کہ اس میں عظیم ڈراما نگار شیکپیئر کا مکان بھی ہے جو آٹھ سو برسوں سے عوام کے دلوں پر حکمرانی کر رہا ہے۔ مظفر صاحب حیران ہو جاتے ہیں کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود مکان کا ہو بہو سلامت و محفوظ رہنا خود ایک کارنامہ ہے۔ بقول مظفر صاحب ’’اس کی ایک ایک اینٹ کی حفاظت ہیروں کی طرح کی جاتی ہے۔ ‘‘

کچھ معلومات کا خزانہ، چڈّر کے بیان میں بھی ہے جسے دیکھ کر مظفر صاحب کو اجنتا اور ایلورا کی یاد آ جاتی ہے۔ چڈر کے عجیب و غریب جادوئی ماحول کی عکاسی سے خوف و تجسس برقرار ہے کہ مظفر صاحب ہمیں ’’ واروک کیسل‘‘کی سیر کرانے لگتے ہیں۔ یہاں انہیں لال قلعہ یاد آتا ہے۔ ’’واروک کا قلعہ‘‘سڈول، مستحکم، بلند و بالا، عہد وسطیٰ کی عظمت کا نقیب ہے۔ ‘‘

مظفر حنفی کے سفرنامے میں ان مقامات کے علاوہ چند اور مقامات کے بارے میں پڑھ کر محرومی کا احساس ہوا کہ یوں تو میں ۲۰ بار اس دیار مغرب میں آ چکا ہوں مگر ان مقامات کو کیوں نہیں دیکھا۔ بشرط زندگی آئندہ اس کی تلافی کی کوشش کروں گا اور پرویز میاں سے کہوں گا کہ بھائی اپنے انکل کو بھی اِن دنیاؤں کی سیر کراؤ۔ مشتاق سنگھ اور مختار الدین احمدسے شکایت کروں گا کہ ادبی دنیا کی سیر بہت ہو چکی، انھوں نے ان مقامات کو کیوں نظروں سے چھپا کے رکھا۔

مظفر حنفی صاحب نے اس سفر نامے میں ادبی محفلوں اور برطانیہ کے ادبی ماحول کا احوال بھی بیان کیا ہے۔ وہاں کی ادبی سیاست، گروہ بندی، نظریاتی اور نجی اختلافات اور ادبی مجلسوں کے معیار اور رنگ ڈھنگ پر جس غیر جانبدارانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے اُس کا اعتراف کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ میں خود بھی ان سب کا عینی شاہد ہوں۔ مظفر صاحب برطانیہ کی ادبی کہکشاں سے وابستہ قریب قریب سارے ادیبوں اور شاعروں کے ملاقاتی رہے۔ کیونکہ اُن کی ادبی شہرت اُن کی آمد سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکی تھی۔ اس لیے یہ سب اُن سے ملنے کے متمنی تھے اور انہیں اپنی محفلوں کی رونق بنانے کے خواہش مند تھے۔ مختار الدین احمد، سلمان الارشد، قیصر تمکین، عاشور کاظمی، رضا عابدی، نور جہاں نوری، بانو ارشد، شوکت واسطی، گلشن کھنّہ، پرم جیت کھنّہ، ساحر شیوی، اقبال مرزا، بخش لائل پوری، ساقی فاروقی، ڈاکٹر عزم، سیما جبّار، سوہن راہی، اکبر الٰہ آبادی، محمود ہاشمی، خالد یوسف۔ مشکل سے کوئی ایسی ادبی ہستی ہو گی جس نے مظفر صاحب سے ملاقات نہ کی ہو۔ خواہ وہ ادبی محفلوں میں ہو یا نجی ضیافتوں میں۔ کیونکہ ان میں سے بیشتر سے ذاتی طور پر میری بھی ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس لیے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میری اور اُن کی رائے میں حیرت ناک یکسانیت ہے۔

چند سفر ناموں میں، میں نے دیکھا ہے کہ زیب داستان کے لیے نسوانی حسن و جمال پر مر مٹنے اور وہاں کی تہذیب کی برہنگی ( حالانکہ وہ اُن کے کلچر کا حصہ ہے) کا ذکر ضرور ہوا ہے۔ پھر جب میں نے دیکھا کہ کتاب کا نام ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ ہے تو مجھے بے اختیار ایک فلمی مُکھڑا یاد آیا:

چل چنبیلی باغ میں گڈّی اڑائیں گے

گڈّی کے ساتھ آکاش پہ انکھیاں لڑائیں گے

لیکن مظفر صاحب کے یہاں برائے نام بھی ’’انکھیاں لڑانے‘‘ والی کیفیت نظر نہیں آئی تو اُن کے قلم اور مزاج کی شرافت کا قائل ہونا پڑا۔

اس کتاب کے آخر میں بی بی سی، جنگ اور دی نیشن کو مظفر صاحب نے جو انٹرویو دیے ہیں، وہ بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ان کا سفر نامے سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن ان کی شمولیت کے جواز کے لیے یہ باور کرنا غلط نہ ہو گا کہ کیونکہ وہ بھی اُنکے قیام برطانیہ کا حصّہ ہیں اور ان میں بعض مباحث ایسے ہیں جو مظفر صاحب کی شخصیت اور نظریات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ مغرب میں ہندوستانیت اور ہندوستان کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں، خاص طور سے اردو زبان اور اقبال کے بارے میں، اُن کا بڑی خوش اسلوبی سے مظفر صاحب نے جواب دیا ہے اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اپنی اس کج کلاہی کے بانکپن کا مظاہرہ کیا ہے جو اُن کی ذات سے منسوب رہا ہے۔

’’ چل چنبیلی باغ میں ‘‘ اردو سفرناموں کے سلسلے کی ایک منفرد آواز ہے جس میں بیک وقت ناول، رپورتاژ، خاکہ نگاری کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ فلم کی طرح صفحہ کاغذ پر پردۂ سیمیں کا لطف آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردو سفرنامے کی اُس لائبریری میں اُسے اُس کا صحیح مقام ملے گا جہاں ساڑھے نو سو سے زیادہ سفر ناموں کی ایک کہکشاں سجی ہوئی ہے۔ میری مراد گوجرانوالہ (پاکستان) کی عبد المجید کھوکر یادگار لائبریری سے ہے۔

٭٭٭

 

 

’’جدید اردو غزل میں مظفر حنفی اپنے منفرد رویے اور منفرداسلوب اظہار سے پہچانے جاتے ہیں۔ نئی اردو غزل کے ایک ممتاز شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقی شخصیت کا کرشمہ ہے کہ اشعار کی تاثیر اور دلکشی دیر تک قائم رہتی ہے۔ ’’ یا اخی‘‘ ان کی غزلوں کا نیا مجموعہ ہے، جو تجربے کی توانائی اور تازگی لیے ہوئے ہے۔ مظفر حنفی حسیات اور گہرے مشاہدے کے ایک معتبر شاعر ہیں۔ حقائق کے شعور اور مشاہدات سے ان کے باطن میں ایسی کیفیت پیدا ہوئی ہے کہ جمالیاتی انکشافات کا ایک سلسلہ قائم ہو گیا ہے۔ تلخی کے حسن کو پیش کرنا آسان نہیں ہوتا، مظفر حنفی نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کی وجہ سے اپنے ہم عصر غزل نگاروں کی صف میں ان کو ممتاز درجہ حاصل ہوا ہے۔ انھوں نے مشاہدوں اور تجربوں سے جو پایا اسے احساس اور جذبے سے ہم آہنگ کیا اور پھر اپنے منفرد رنگ اور انداز میں پیش کر دیا:

لہو کی بوند ہر اک لفظ کو عطا دل کی

بقیہ سب مری طبع رواں کا حصہ ہے

’’ یا اخی‘‘ کا شاعر سنجیدہ اور مہذب ہے، اس نے شاعری کی روایات کو جانا پہچانا اور ان کے رسوں کو بھی پایا لیکن خود بینی کی لذت کو سب سے اہم جانا، تلخ سچائیوں نے جو بصیرت عطا کی وہ شعری تجربوں کی روشنی بن گئی۔ مظفر حنفی کی تیز کاٹنے والی اور جھٹ سے کلیجے میں چبھ جانے والی شاعری ان کے احساس جمال اور سوزو گداز، ان کی درد مندی اور آرزو مندی کا عطیہ ہے۔ ‘‘

پروفیسر شکیل الرحمٰن

 

 

                پروفیسر مشتاق اعظمی

آسنسول

 

پروفیسر مظفر حنفی:سفرناموں کے تناظر میں

 

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

متذکرہ بالا شعر ’ سفر نامہ‘ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ صنفِ غزل اسی لیے مقبول و محبوب ہے کہ اس کا ہر شعر ایک جہانِ بیکراں اپنے اندر سمیٹے رہتا ہے۔ یہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن ہے۔ اس ایک شعر میں پورے سفر کی تفصیل پوشیدہ ہے۔ حالانکہ عام طور پر سفر کا تصور ہی پریشان کن اور اور  تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لاکھ سہولت سہی، لاکھ آرام و آسائش کا اہتمام و انتظام ہو سفر سفر ہی ہوتا ہے۔ سکون و اطمینان کہاں، لیکن جن کا قلم اور کاغذ سے رشتہ ہوتا ہے جو آتے جاتے لمحات کو قید کرنا جانتے ہیں اور جن کے قلم کی نوک چاندنی بکھیرتی رہتی ہے اُن کے لیے یہی سفر بڑے کام کی چیز ہو جاتا ہے کہ سفر نامہ دیکھی، خود پر بیتی اور ذاتی تجربات و مشاہدات کی خوبصورت، دلچسپ اور حقیقی تفصیلات و روداد بن کر سامنے آتا ہے۔ یہاں سچ کی حکمرانی ہوتی ہے جھوٹ کی نہیں، یہاں رات کو دن اور دن کو رات کہنا گناہ ہے۔ یہ صداقت پہ مبنی محسوسات کی ایک جیتی جاگتی، چلتی پھرتی، ہنستی بولتی دنیا ہے جو دل و نگاہ کومسحور و محصور اور مسرور کرتی ہوئی مائل رقص سفر ہوتی ہے۔ جو زندگی اور زندگی سے وابستہ وہم رشتہ خوبصورت اور دلپذیر کہانی بیان کرتی ہے۔ یہاں ماضی اور حال گلے ملتے ہیں اور مستقبل تماشائی ہوتا ہے۔ دورانِ سفر جن حالات و واقعات سے سابقہ بڑتا ہے، جنھیں سیاح جھیلتا ہے، جن سے دو چار ہوتا ہے اور جن سے متاثر ہوتا ہے انھیں اپنے کاغذ قلم کی زینت بٹاتا ہے اور اپنے اسلوب و انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہیں اس کے قلم کی آزمائش ہوتی ہے۔ یہیں اس کی قوت مشاہدہ و تجزیہ اور تجربہ کی پرکھ ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی شگفتہ مزاجی اور حقیقت نگاری  کا راز کھلتا ہے اس کی تحریر کی ہم آہنگی و ہمہ گیری کا اندازہ ہوتا ہے کہ سفر نامہ لکھنا کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔ یہاں ہمہ وقت چوکنا رہنا پڑتا ہے اور لمحہ لمحہ بیدار کہ یہ سونے والوں کا کام نہیں، بیدار اور ہوشیار لوگوں کا کام ہے۔ انتہائی  معمولی اور چھوٹی باتیں بھی ان کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں رہتی ہیں۔

دنیا کی تقریباً ہر زبان و ادب میں سفرنامے کا سراغ ملتا ہے۔ یہ کسی زبان و ادب میں ہو اس کی اہمیت و حقیقت ایک ہی ہے۔

اردو میں سفرنامے لکھنے کا رواج انیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے شروع ہوا۔ ۱۹۵۷ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعدہندوستان پر پوری طرح انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں پر جی کھول کر مظالم ڈھائے۔ مولوی محمد جعفر تھانیسری کو قید کر کے انڈمان جیل میں بھیج دیا گیا۔ مولوی صاحب کا سفر نامہ ’’تواریخِ عجیب ‘‘ موسوم بہ ’’ کالا پانی‘‘ انگریزوں کے اسی ظلم و ستم  کی ایک دستاویز ہے۔ سر سید نے ۱۸۶۹ء میں لندن کا سفر کیا تھا۔ وہاں ڈیڑھ سال انھوں نے قیام کیا، واپس آ کر ’’ مسافرانِ لندن ‘‘ کے نام سے ایک کتاب ترتیب جی۔ علامہ شبلی نے انیسویں صدی کی آخری دہائی میں اسلامی ممالک کا سفر کیا۔ واپس آنے پر دوسروں کے اصرار پر ’’حالاتِ سفر ‘‘تحریر کیے۔ اس طرح اردو ادب میں ایک وقیع سفر نامے ’’ سفر نامہ روم و مصر و شام‘‘ کا اضافہ ہوا۔ یہ چند مثالیں ہیں ورنہ در حقیقت اردو میں اچھے سفر ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔

اب تک کے باقاعدہ اردو سفرناموں کی فہرست خاصی طویل ہے جس میں اولیت کا شرف یوسف خاں کمبل پوش کے سفر نامے ’’ تاریخ یوسفی‘‘ معروف بہ عجائباتِ فرنگ‘‘ کو حاصل ہے۔ یوسف خاں کمبل پوش نے ۱۸۳۷ء میں انگلستان کا سفر کیا۔ یہ سفر نامہ اسی سفر کی روداد ہے۔

اس وقت ہمارے پیش نظر پروفیسرمظفر حنفی کا سفر نامہ’’ چل چنبیلی باغ میں ‘‘ ہے یہ سفر انھوں نے خانگی ضرورت کے تحت کیا تھا۔ اگر چہ یہ سفر موصوف کے ذاتی اور خاندانی ضرورت اور مقصد کے تحت پیش آیا لیکن اس کی شگفتہ اور باغ و بہار تحریر نے اسے ممتاز و مقبول بنا دیا ہے۔ اردو کے سفر ناموں میں شاید یہ پہلا سفر نامہ ہے جس میں تخلیقی اپج اور نمو کا بھی احساس ہوتا ہے۔ یہ یقیناً موصوف کے قلم کا کمال ہے جو ان کی انگلیوں کی روشن گرفت میں ہے، جس کی خصوصیت یہ ہے کہ سفر میں قاری بھی نہ صرف شریک ہوتا جاتا ہے بلکہ ان کی شیریں بیانی کے لطف و لذت میں کھو کر خود بھی سفر کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ اس سفر میں تین نفوس ( موصوف خود، ایک صاحبزادی صبا اور شریک حیات عاصمہ) ساتھ تھے۔ اس طویل سفر کا مقصد سیاحت نہیں تھا بلکہ اس سفر کو ہم ذاتی اور کچھ حد تک ادبی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ جہاں انھوں نے سفر کی تفصیلات تحریر کی ہیں وہیں اپنے منجھلے صاحبزادے پرویز مظفر کی تقریب شادی، ادبی مجلسوں، مشاعروں ادبی جرائد میں دیے گئے انٹرویوز اور دوست احباب کی نشستوں کا ذکر بھی کیا ہے جس سے ان کی ذاتی اور مجلسی زندگی کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اور ان کی شخصیت کے وہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں مثلاً خلوص، انکساری، محبت، ہمدردی، مہمان نوازی، گفت و شنید کا فطری سلیقہ اور عزیز داری وغیرہ جو ایک مثالی انسان کے لیے ضروری ہیں۔ ان کی تحریر کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کی نگاہوں اور قلم کی گرفت سے کوئی شے چھپتی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بڑے ہی خوبصورت اور دل نشیں انداز میں مختلف مناظر کا ذکر کیا ہے۔ شادی کی رسم، نئے پرانے احباب کی آمد اور ان سے ملاقات، سفر کی تیاری سے لے کر شادی کی تیاری، خرید و فروخت اور پھر وطن واپسی تک کے واقعات مندرجات میں ہیں۔ غیر ممالک میں کیا کیا دشواریاں ہوتی ہیں، ویزا کی حصولیابی میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، دوران سفر کیسے کیسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، کیسا ماحول ہوتا ہے، کس طرح وقت گزرتا ہے، ایر ہوسٹس کا حسن سلوک اور اس کی کار گزاریوں پر بھرپور روشنی پڑتی ہے۔ یہ سفر امہ ایک طرح سے گائڈ پیپر (Guide Paper) ہے۔

اس سفر نامے میں موصوف نے اپنی تحریر کی چاندنی بھر دی ہے اور اسے اپنے فطری اسلوب اور رجحان کا غماز بنا دیا ہے۔ کاغذ پر بکھرے ہوئے الفاظ ان کی روح کے ترجمان محسوس ہوتے ہیں اور آنکھوں میں فرحت بخش نور بھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور تہذیبی اقدار کا گہرا عکس جھلکتا ہے جس سے موصوف کا خاندان جڑا اور وابستہ ہے۔ اس کا اندازہ مختلف جگہوں پر ہوتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر حالت میں انھیں اپنی مشرقی تہذیب سے کس درجہ محبت و عقیدت ہے۔ بالخصوص جب رشتہ دار اور سارے متعلقین انہیں رخصت کرنے آتے ہیں تو مشرقی تہذیب کی خوشبو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

’’ ادھر اعزاء کو خبر ملی کہ میں اپنے دوسرے بیٹے پرویز مظفر کی شادی کرنے کی غرض سے انگلینڈ جا رہا ہوں تو ان میں اکثر تہنیت کے لیے دہلی آ گئے۔ کانپور سے چھوٹی بہن انیس اور اس کے شوہر بشارت حسین جو ہمارے سمدھی بھی ہیں اپنے بچوں کے ساتھ آ گئے۔ اِٹاوا سے منجھلی بہن کی بیٹی شمیم اور اس کے بچے آئے، بھوپال سے بڑی بہن کا بیٹا اشفاق ہاشمی اپنے اہل و عیال کے ساتھ وارد ہوا اور اس کے خسر نیز میرے دوست محمود عمرسیہور سے تشریف لائے۔ موصوف کے ہمراہ ان کی بیگم جمیلہ بھی تھیں جو عاصمہ کی گہری دوست ہیں۔ ہمارا گھر ماشا ء اللہ کافی بڑا ہے پھر بھی مکینوں سے لبالب بھر گیا۔ ‘‘

ایک دوسری جگہ اپنائیت، خلوص اور رواداری کی راحت بخش فضا ملاحظہ فرمائیے:

’’تم لوگ آئی، ایس، ڈی پر بھی اس طرح گفتگو کرتے ہو جیسے لوکل فون پر۔ اکثر میں دہلی اور کلکتہ سے بھی پرویز کو سمجھاتا تھا کہ آدھ آدھ گھنٹہ فون پر بات کر کے اپنا پیسہ ضائع نہ کیا کرے۔ بلا ناغہ وہ ہر ہفتے دس دن بعد فون کرتا اور دیر تک باتیں کر کے تیس چالیس پاؤنڈ کا بل ادا کرتا، ماں بہن، بھائی حتیٰ کہ اپنے چھوٹے چھوٹے بھتیجوں ( ایمن، زمن، فیضی) کی آواز سننے کے لیے بھی اصرار کرتا۔ مجھ سے تو ہمت نہیں ہوئی اکثر صبا اور عاصمہ کی خوشامد کرتا کہ پاپا کی بیاض کھول کر نئی غزل کے شعر اسے سنائیں۔ ایک بار اس نے کہا تھا پاپا! آپ کو معلوم نہیں ہے کہ یہاں کتنا اکیلا پن محسوس کرتا ہوں۔ کچھ خرچ کر کے اپنے لوگوں سے باتیں کرتا ہوں تو بڑی تسلی ہوتی ہے اور گھبراہٹ ختم ہو جاتی ہے۔ ‘‘

متذکرہ بالا اقتباس میں پروفیسر صاحب نے یہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ جسے وطن سے محبت ہوتی ہے اور جسے پردیس میں اپنوں کی یاد آتی ہے اس کا اضطراب اسے کبھی چین سے نہیں رہنے دیتا ہے۔ اسے اسی وقت چین آتا ہے جب وہ اپنوں سے گفتگو کر چکے ہوتے ہیں۔ وطن کی محبت اور وطن کی مٹی کی سوندھی خوشبو کب پر سکون رہنے دیتی ہے۔ اس کا خیال ہمیشہ مضطرب رکھتا ہے۔ بہر حال کوئی پہلو پروفیسر صاحب نے تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ سفر نامے کی اس محبت و عقیدت کی دلکش فضا میں ان کی ظرافت اور طنز کی آمیزش نے فضا کو مزید خوشگوار کر دیا ہے۔ دیکھیے ان کی رگِ ظرافت کس طرح پھڑکتی ہے:

’’ اب اسے کیا معلوم کہ میں خود تنہا سفر کرنے کے خیال سے بھی پریشان تھا۔ صباؔ کمسن ہے اور عاصمہ بہت اچھی شریک حیات ہونے کے باوجود شریک سفر کی حیثیت سے زیادہ معاون نہیں ہو پاتیں بلکہ اپنے مزاج کی سادگی اور بھولپن کی وجہ سے ہم سفر کے بجائے رختِ سفر بن جاتی ہیں۔ ‘‘

ایک دوسری جگہ مزاح کا اس طرح پہلو نکالتے ہیں :

’’ یہ مٹھائی لیجیے‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کیک اچھا نہیں لگتا، میں نے بتایا۔ موصوفہ نے بے تکلفی سے کہا ’’تو آپ کی اجازت سے میں کھا لیتی ہوں۔ ‘‘اس نے میرے کیک کا ایک ٹکڑا سرے پر بیٹھی ہوئی آئرش خاتون کی خدمت میں بھی پیش کیا پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی’’ یہ کیلا بھی آپ لے لیجیے‘‘  ’’ کیک کا بدل کیلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑکی میں دوتانٍ سفر تجارت نہیں کرتا۔ ‘‘

دہلی کی گرمی سے متعلق کہتے ہیں :

’’جون کے مہینے میں گرمی یوں بھی اپنے شباب پر ہوتی ہے پھر یہ تو دہلی تھی۔ یہاں تو گرمی پڑتی نہیں جھلساتی ہے۔‘‘

ہندوستان میں اگر آپ سفر کریں تو معمولی افسر سے لے کر بڑے افسر تک کی جھڑکی، سخت کلامی، بد سلوکی اور عدم اشتراک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دیکھیے غیر ممالک کے سفر میں کس طرح افسران حسن سلوک سے کام لیتے ہیں اس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے:

’’ خیال تھا کہ یہاں چونکہ کاغذات کی جانچ پڑتال ہو گی اور امیدواروں سے سوال جواب کیے جائیں گے اس لیے ہمارا نمبر آتے آتے کافی وقت لگے گا لیکن یہاں بھی ہائی کمیشن کے اہل کاروں نے بڑی مستعدی دکھائی اور چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ہم لوگ ایک ویزا آفیسر کے سامنے تھے۔ یہ ایک تیس بتیس سال کی خوبرو انگریز خاتون تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے پاسپورٹ اور ویزا کی درخواستوں پر ایک سرسری نظر ڈال کر ویزا افسر نے مسکرا کر پوچھا ’’آپ انگلینڈ کیوں جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے فائل موصوفہ کی طرف بڑھائی جس میں پرویز مظفر کی برمنگھم میں رہائش، ملازمت اور ہم لوگوں کو اسپانسر کرنے کے قانونی کاغذات، کلکتہ یونیورسٹی میں میری ملازمت، تنخواہ، انکم ٹیکس، رخصت کی منظوری، نو آبجیکشن سرٹیفکٹ، بینک اکاؤنٹس سے متعلق دستاویزات وغیرہ شامل تھے۔ ویزا افسر نے فائل کھولے بغیر بے نیازی کے ساتھ میری طرف سرکا دی اور خوش گوار لہجے میں کہا’’ آپ ایک پروفیسر ہیں آپ کے کسی بیان کی صداقت کے لیے ثبوت کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

متذکرہ بالا جملوں سے ایک تو دو ملکوں کے افسروں کے سلوک کا پتہ چلتا ہے اور دوسرے یہ کہ ویزا کے لیے کن کن کاغذات کی ضرورت پڑتی ہے اس کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ غیر ممالک میں ایک مدرس کی کیا حیثیت ہے اور ہمارے ملک میں کیا حیثیت ہے؟اس پر بھی روشنی پڑتی ہے اور اس کی تصدیق متذکرہ بالا جملوں سے ہو جاتی ہے۔ دوران سفر انھوں نے کچھ اہم موضوعات کی طرف بھی ہمارا دھیان کھینچا ہے۔ ہندوستان اور بیروں ملک ٹیچروں کی تنخواہ، ان کی حیثیت اور ان کی زندگی پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں :

’’ میں ٹیچر آدمی ہوں بہت زیادہ پیسے نہیں خرچ کر سکتا۔ ‘‘

ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں :

’’قطار کا جائزہ لیا تو اس میں اکثر سکھ خاندان نظر آئے جن میں ستر سالہ مرد اور عورتیں بھی شامل تھیں اور چھ سات سال کے بچے اور بچیاں بھی۔ ‘‘

ان جملوں سے اس بات کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے کہ عام ہندوستانی میں سفر کے نام سے الرجی پیدا ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ کی وجہ سے بال بچوں کے ساتھ سفر نہیں کرتے ہیں لیکن سکھ قوم کے بچے اور عورتیں بھی طویل سے طویل سفر کا لطف اُٹھاتی ہیں۔

ایک اور مقام پر بیٹھے ہوئے مسافروں سے متعلق جس پس منظر میں اپنے قلم کو اذنِ سفر دیا ہے ملاحظہ فرمائیے:

’’ ہمارے والے حصہ میں تیس سے چالیس نشستیں تھیں جن پر مختلف ملکوں کے باشندے براجمان تھے۔ بوڑھے، جوان، مرد، بچے، عورتیں، فرانسیسی، عربی، انگریزی اور دوسری زبانیں بولتے ہوئے بھانت بھانت کے کپڑے پہنے ہوئے کوئی سنجیدہ، کوئی اداس، کوئی چنچل، کوئی قہقہہ بر دوش اور کوئی اپنی نشست پر نیم خوابیدہ۔ خداوندا یہ دنیا جلوہ گاہِ ناز ہے کس کی!‘‘

ان جملوں سے انسان کی ایک اہم خصوصیت پر روشنی پڑتی ہے کہ انسان جب سفر میں ہوتا ہے تو نہ مسلمان قوم کی ردا اوڑھتا ہے اور نہ ہندو یا عیسائی مذہب کا ڈنڈا گھماتے ہیں۔ نہ رنگ، نہ طبقہ، نہ مسلک اور نہ نسل و قوم بیچ میں آتی ہے۔ یہ سب مسافر ہوتے ہیں، مسافر کی ایک ذات ہوتی ہے، ان کا ایک خاندان ہوتا ہے اور سب بھائی بھائی ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک، ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کے لیے تیار۔ اس شعر کی مثال:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اس طرح مظفر حنفی صاحب نے اس سفر کی تفصیلات، حالات اور کیفیات بیان کرتے ہوئے انگلینڈ سے واپسی تک کے معاملات پر پوری نظر رکھی ہے اور انہیں اپنے سفر نامے میں جگہ دی ہے۔ شادی سے فراغت پانے کے بعد ادبی حلقوں میں گھرے اور وہاں کے ادبی ماحول کی تفصیل پیش کی ہے اور اپنے ادبی حلقوں کے جانے پہچانے، دیکھے ان دیکھے ملنے والوں کی پر لطف گفتگو سے ہمیں واقف کرایا ہے۔ مشاعروں اور اعزازی نشستوں اور انٹرویوز  کے سوال و جواب سے ہمیں مستفیض کیا ہے جس سے موصوف کی سر گرمیوں اور علمی و ادبی حیثیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ سفر نامہ پروفیسر مظفر حنفی صاحب کا ایسا کارنامہ ہے جسے اردو زبان و ادب کا قیمتی سرمایہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی چمک دمک جب تک اردو قائم ہے، باقی رہے گی اور سفر نامہ لکھنے والوں کی راہ نمائی کرے گی۔

٭٭٭

 

’’ وضاحتی کتابیات کا اس طرح کا کام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اردو میں دُور دُور تک نظر نہیں آتا، ایک دو کام، جن کی طرف مظفر حنفی نے اپنے دیباچہ میں ذکر کیا ہَے ان کی حیثیت اس کتابیات سے مختلف ہے۔ ایسے خشک، مشکل، محنت طلب اور مفید کام کو سلیقے سے وضاحت کے ساتھ ترتیب دینے کی ذمہ داری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر حنفی نے انجام دی ہے یقین تھا کہ جس کام میں ان کا ہاتھ ہو گا وہ ہر اعتبار سے اس لائق ہو گا کہ اردو والے خوش ہو سکیں چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ وضاحتی کتابیات کی کئی جلدیں نہایت سلیقے سے شائع ہو کر منظرِ عام پر آ گئی ہیں۔ ‘‘

پروفیسر عبد القوی دسنوی

 

 

 

 

 

 

                ترتیب و تدوین

 

’’میری رائے براہِ راست صرف اس مجموعے سے متعلق ہے جس میں کثرت سے چھوٹی بڑی رائیں جمع کر دی گئی ہیں شاد صاحب کے خطوط بھی دیے گئے ہیں اور اس طرح مظفر حنفی صاحب نے اپنے استاد کے لیے ایک مستقل یادگار بنا دی ہے۔ ان کے مقاصد میں خلوص ہے اور یہ کتاب ان کو ضرور پورا کرے گی۔ حنفی صاحب کی یہ کتاب(ایک تھا شاعر) ایک مثال سامنے لاتی ہے جس پر اس دور میں چلنے کی بڑی ضرورت ہے۔ اگر جدید و قدیم معروف شعرا پر اس قسم کی کتابیں تالیف ہوتی رہیں تو عام قاری کو ہمارے ادب اور تہذیب سے آسانی کے ساتھ مانوس  ہوتے رہنے کا موقع ملتا رہے گا نیز طالبان ادب کے لیے بھی ضروری مواد یکجا ملتا رہے گا اور اس طرح ہماری کلچر ایک زندہ چیز رہے گی۔ ‘‘

پروفیسر محمد احسن فاروقی

 

 

 

                ڈاکٹر تابش مہدی

     نئی دہلی

 

 

مظفرؔ حنفی کی کتاب شماری

 

پروفیسر مظفر حنفی (پ: ۱۹۳۶ء)ہمارے عہد کے ممتاز رجالِ ادب میں ہیں۔ انھوں نے اپنی بے پناہ تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی کاوشوں اور متنوع علمی و ادبی سرگرمیون سے اُردو دنیا کے ایک وسیع حلقے کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ شعر و ادب سے ان کی غیر مشروط وابستگی، مسلسل قلمی و فکری جد و جہد اور ان کے مزاج کی انفرادیت نے ان کی شہرت و نام وری کو غیر معمولی وسعت دے دی ہے۔ جہاں اور جس علمی و ادبی حلقے میں وہ پہنچتے ہیں اُنھیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور لوگ اُنھیں عزّت و وقار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ارباب علم و دانش کے لیے یہ بات مزید وجہِ کشش بنتی ہے کہ مظفر حنفی ادبی و تنقیدی حلقوں میں پائے جانے والے تخرّبات اور اور  گروہ بندیوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔ وہ ادب میں کسی بھی قسم کی گروہ بندی یا تخرّب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ حرّیتِ فکر سے کام لیا ہے اور آزادانہ طور پر لکھنے اور بولنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حریتِ فکر ان کی شاعری میں بھی ملتی ہے اور نثر میں بھی۔ اُنھیں جس شاعر یا ادیب کے ہاں جو خوبی یا خامی نظر آتی ہے، اس کا وہ برملا اظہار کرتے ہیں۔ خواہ وہ شاعر یا ادیب کسی بھی طائفے سے تعلق رکھتا ہو۔ میرا خیال ہے کہ ان کے اِس رویّے نے انھیں نقصان بھی پہنچایا ہے۔ اس لیے کہ یہ تخرّب، گروہ بندی، انجمن پسندی اور ادارہ سازی کا دور ہے۔ ان سے کٹ کر کوئی شاعر یا ادیب فوائد حاصل نہیں کر سکتا۔

پروفیسر مظفر حنفی گرچہ بنیادی طور پر تخلیق کار ہیں، ان کی ادبی و فکری زندگی میں شاعری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ فکر کا تنوع، اسلوب کی ندرت اور بیان کی تازگی ان کی شناخت بن چکی ہے۔ اُنھوں نے اُردو غزل کو جس بانکپن اور توانائی سے نوازا ہے اس کے لیے وہ پورے ہندوستان و پاکستان بلکہ اُردو کی ادبی دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ شعر و غزل سے ہٹ کر اُنھوں نے علم و ادب کے دوسرے شعبوں میں بھی فکر نظر کی قندیلیں روشن کی ہیں اور اپنے فہم و دانائی کا لوہا منوایا ہے۔ اب تک ان کی کم و بیش چھے درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی بعض تنقیدی و تحقیقی کتابیں ادب و تنقید کی دنیا میں مراجع کی حیثیت حاصل کر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ترتیب و تدوین کی  منفرد صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔ اس ذیل میں بھی ان کی متعدد کتابیں علم و ادب کی دنیا میں مقبول ہیں۔ بائیس جلدوں پر مشتمل ’ وضاحتی کتابیات‘ ان کا ایسا تدوینی کارنامہ ہے  جسے علم و ادب کی تاریخ میں تا دیر فراموش نہ کیا جا سکے گا۔ اس میں اُنھوں نے ۱۹۷۶ء سے ۱۹۹۹ء کے دوران ہندوستان میں اردو میں شائع ہونے والی تقریباً پچیس ہزار علمی، ادبی، تنقیدی، تحقیقی اور تاریخی کتابوں کے سلسلے میں جو ضروری معلومات فراہم کی ہیں، وہ مصنفین اور ریسرچ اسکالروں کے لیے ایک بیش بہا خزانہ ہے۔

ہم پروفیسر مظفر حنفی کی خواہ کوئی تخلیق دیکھیں، خواہ تصنیف یا تدوین و ترتیب، ان کی سوچ کی بالیدگی، مزاج کی انفرادیت اور طریق کار کی ندرت ہر جگہ جلوہ گر نظر آئے گی۔ ان کی جو چیز بھی سامنے آتی ہے، اچھوتی اور منفرد ہوتی ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اس میں سہلِ ممتنع کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ ابھی حال ہی میں کچھ دنوں پہلے ان کی ایک کتاب ’ کتاب شماری‘ کے نام سے آئی ہے۔ یہ کتاب بھی ان کے مزاج کی انفرادیت کی مظہر ہے۔

’کتاب شماری‘ چار سو چوبیس صفحات پر مشتمل صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے ایک نہایت اہم، جاذب نظر اور پر کشش کتاب ہے۔ اِسے دلّی کے معروف اِشاعتی اِدارے ماڈرن پبلشنگ ہاؤس نے اپنے روایتی معیار اور گٹ اپ کے ساتھ بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ یہ در اصل بیسویں صدی عیسوی کے ربع آخر ۱۹۷۶ سے ۱۹۹۹ء کے دوران میں اُردو زبان، ادب، تنقید، تحقیق، سوانح، لسانیات، سماجی علوم، سیاسیات، تعلیم، سائنس، طب اور مذہب سے متعلق شائع ہونے والی کتابوں کا اشاریہ ہے۔

پروفیسر مظفر حنفی کی یہ بات اپنے اندر غیر معمولی وزن رکھتی ہے اور غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں جب کہ چھوٹی سے چھوٹی بات چند سکنڈ میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور یورپ و امریکا سے شائع ہونے والی ہر کتاب مختصر سی مدّت میں عام ہو جاتی ہے، اردُو کتابوں کا معاملہ نا گفتہ بہ ہے۔ اِس مظلوم زبان کی تمام کتابوں کا حصول اور ان سے استفادہ تو بہت دور کی بات ہے۔ ان کے ناموں اور موضوعات تک سے واقفیت نہیں ہو پاتی۔ یہ چیز شائقین اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے بہر حال تکلیف دہ ہے۔ پروفیسر مظفرؔ حنفی کا یہ بڑا اہم کارنامہ ہے کہ انھوں نے اردو زبان و ادب کے شائقین اور محققین و مصنفین کی دشواریوں کو شدّت کے ساتھ محسوس کیا اور کسی نہ کسی درجے میں ان کی تلافی کی کوشش کی۔ ’ کتاب شماری‘ اس کی بہترین مثال ہے۔

پروفیسر مظفر حنفی نے کتاب کی ترتیب یہ قائم کی ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے کتابوں کا مجموعی اعتبار سے سال بہ سال جائزہ لیا ہے ہر سال کے جائزے میں انھوں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ کتابوں کی ترتیب انھوں نے حروفِ تہجی کے اعتبار سے رکھی ہے تاکہ استفادے میں سہولت رہے۔ اس کے بعد اُس سال کی کتابوں کے اندراجات کو شِقوں میں تقسیم کیا ہے اور بتایا ہے کہ کن کن شقوں میں کن موضوعات سے متعلق کتابیں ہیں۔ اِس تفصیلی گفتگو کے بعد بتایا ہے کہ اِس سال شائع ہونے والی کتابوں کی مجموعی تعداد کیا ہے اور ان میں موضوعاتی اعتبار سے کتابوں کی کیا تعداد ہے اور ان میں اوّلیت کا درجہ کن موضوعات کو حاصل ہے۔ مثال کے طور پر ۱۹۷۶ء کولے لیجیے:

۱۹۷۶ء میں مصنف کی تحقیق کے مطابق کل ۳۸۰ کتابیں شائع ہوئیں انھیں انھوں نے سولہ شقوں میں تقسیم کیا ہے۔ اولین نو (۹) شفوں میں اوّلیت ادبی تنقید کو حاصل ہے۔ اس کے بعد علی الترتیب شاعری، ناول، افسانہ، ڈراما، مضامین، انشائیہ، خاکہ، سفر نامہ، مکتوبات اور زبان کا نمبر آتا ہے۔ بعد کی سات شِقوں میں سماجی علوم، سائنسی علوم، تاریخ، تہذیب، سیاسیات، صنعت و حرفت، مذہبیات اور بچوں کے ادب سے متعلق کتابیں ہیں۔ پھر فہرست دے کر بتایا ہے کہ اس سال ادبی تنقید و تحقیق میں کل ۷۸ کتابیں شائع ہوئیں صنفِ شاعری میں ۱۰۱، ناول میں ۳۷، افسانوں کی ۳۴، ڈراموں کی ۹، مضمون، انشائیہ اور خاکہ کی صنف میں ۸، سفر نامے کے  ذیل میں ۲، مکتوباتی ادب میں ۳ اور اُردو زبان کے موضوع پر ۱۷ کتابیں شائع ہوئیں۔ اسی طرح تاریخ، تہذیب اور سیاست کے موضوع پر ۲۰ کتابیں شائع ہوئیں۔ تعلیم کے موضوع پر ۳، صنعت و حرفت اور کامرس سے متعلق ۶، سائنسی علوم سے متعلق ۷، مذہبیات کے موضوع پر ۲۱، بچّوں کے ادب سے متعلق ۳۸ اور متفرقات کے ذیل میں ۶ کتابیں شائع ہوئیں۔ اس طرح ان کی مجموعی تعداد ۳۸۰ ہوئی۔

ہر سال کی شائع شدہ کتابوں کے اشاعتی جائزے کے بعد پروفیسر مظفر حنفی نے ناشرین کی ترجیحات اور شائقینِ کتب کے ذوق و رجحان کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے اور اِن ترجیحات اور ذوق و رجحان کے اسباب و علل پر روشنی ڈالی ہے۔ اپنے جائزے میں انھوں نے اس بات کو بھی دیکھا ہے کہ اِن شائع شدہ کتابوں میں کتنی کتابیں سرکاری اداروں اور ریاستی اردو اکادمیوں نے شائع کیں اور کتنی ان کے جزوی مالی اشتراک سے شائع ہوئیں اور یہ بھی کہ کتنی کتابیں شخصی یا پرائیویٹ اشاعتی اداروں نے شائع کیں اور کتنی مصنفین، مرتبین یا مترجمین نے۔

مذکورہ بالا تفصیلی جائزوں کے بعد موضوعاتی اعتبار سے مصنفین کے ناموں کے ساتھ کتابوں کی فہرست دی گئی ہے۔ یہاں بھی حروفِ تہجی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔

بہ ظاہر ’کتاب شماری‘ ایک فہرستِ کتب ہے، تکنیکی اعتبار سے اِسے اشاریے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی اور مصنف نے اسے تیار بھی اِسی حیثیت سے کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تیار کر کے پروفیسر مظفرؔ حنفی نے شائقین مطالعہ، مصنفین، محققین اور ریسرچ اسکالروں کو بہت بڑی مدد بہم پہنچائی ہے۔ اس کی صحیح قدر وقیمت کا احساس وہی لوگ کرسکیں گے، جو اس دشت کے سیاح ہیں اور جنھیں آئے دن اس قسم کی پریشانیوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جس کی کسی نہ کسی درجے میں تلافی کی کوشش اس کتاب کے ذریعے کی گئی ہے۔ بلاشبہ وہ اپنی اِس منفرد دریافت کے لیے پورے اہلِ علم طبقے کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔

پروفیسر مظفر حنفی نے اپنی اِس کتاب کا انتساب اپنے خالق و مالک رب ذو الجلال والاکرام کے نام کیا ہے۔ اِس کا اظہار اس طرح کیا ہے:

خدائے عزّ و جل تو جاوداں کرتا ہے لفظوں کو

مظفر اپنی ہر تخلیق تیرے نام کرتا ہے

اس انتساب سے بھی مظفر حنفی صاحب کی طباعی اور جودتِ فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سے ان کی اس بلند خیالی، تعمیری سوچ اور ذہن و فکر کی سمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہتا جوان کی اس علمی کاوش میں کار فرما رہی ہے۔ در اصل ان کی علمی، ادبی اور تحقیقی زندگی کا یہی وہ رویّہ ہے جو اُنھیں آج کے بے شمار تخلیق کاروں، ناقدوں اور محققوں کی بھیڑ میں ممتاز و نمایاں کرتا ہے۔

٭٭٭

 

 

’’ عکس ریز‘‘ اپنی نوعیت کی اردو میں پہلی تخلیق ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے جو کم و بیش سوا سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہر صفحہ پر ایک ایک بند ہے۔ ان بندوں کا آپس میں کوئی ہیئتی رشتہ نہیں ہے اپنے طور پر سب آزاد اور خودمختار بند ہیں۔ لیکن معنوی ربط کی مضبوطی نظم میں حسن تشکیل پیدا کرتی ہے۔ ان ٹکڑوں میں کہیں طنز آمیز ہمدردی ہے، کہیں چھپا چھپا طنزیہ تبسم ہے، کہیں رکا رکا خندہ ملامت، کہیں دشنام طرازی ہے۔ کہیں اصلاح کا جذبہ ہے، کہیں ٹھٹھول ہے، کہیں سنجیدگی ہے کہیں بے احتیاطی۔ غرض ان تمام کڑیوں کی اجتماعی تنظیم سے ہمیں فرد، سماج، رسم و رواج، تہذیب، سائنس، علم، جہل، دولت اور مفلسی وغیرہ موضوعات کے سلسلہ میں مختلف احساسات ملتے ہیں۔ مظفر حنفی کے یہ احساسات رد عمل کے طور پر پیش ہوئے ہیں، اور یہ بات ایک ثابتہ حقیقت ہے کہ رد عمل عموماً پیچیدہ، شدید، قدرے تخریب کارانہ اور متنوع ہوتا ہے، محترم ظ۔ انصاری نے اس تخلیق کے سلسلہ میں مصنف سے مخاطب ہو کر کچھ اچھی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان احساسات میں رد عمل کی پیچیدگی، شدت، تنوع اور تخریب کی رعایتوں کا خیال کیا جائے تو ایک خاص حیثیت سے یہ تخلیق بڑی گراں بہا نظر آئے گی۔

پروفیسر علیم اللہ حالیؔ

 

 

 

 

                فصیح اللہ نقیبؔ

     اکولہ

 

 

’روحِ غزل‘ پر ایک نظر

 

تذکرہ نگاروں نے اکثر شعرائے اردو کے مختصرسوانحی خاکے اور نمونہ ہائے کلام یکجا کیے۔ کئی ادبی انجمنوں اور اشاعتی مراکز نے چند ایک شعراء کے کلام کے نمونے گلدستے کی شکل میں گاہے گاہے شائع کیے( جن میں سے اکثر کتابچوں کی صورت میں ملتے ہیں ) جنھیں پڑھ کر سیرابیٔ ذوق تو کیا ہوتی بلکہ تشنگی اور بڑھ جایا کرتی ہے جنھیں دیکھ کر شدید خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اردو غزل پر کوئی ایسی کتاب ملے جس میں ہم عصر غزل گو شعراء کا منتخب کلام یکجا ہو۔

انجمن روحِ ادب الٰہ آباد نے اپنے جشنِ زرّیں کے موقع پر ’’ روحِ غزل‘‘ کے نام سے اردو غزل کا پچاس سالہ انتخاب شائع کیا ہے جس میں ۱۹۴۰ء سے لے کر ۱۹۹۱ء تک پچھلے پچاس برسوں  کے دنیائے اردو کے چھ سو ترانوے شعراء کی غزلوں کو شامل کیا گیا۔ کتاب آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ خوبصورت گرد پوش، عمدہ جلد، نفیس کاغذ، معیاری کتابت اور روشن طباعت زبانِ حال سے انجمن کے اخلاص اور تندہی کے ساتھ کسی کام کو سر انجام دینے کی لگن کے مظہر ہیں۔ سادہ لیکن سنجیدہ سرِ ورق رزاق ارشد نے بنایا ہے( جس میں رنگوں کا امتزاج بڑا دلچسپ ہے۔ اوپر ہلکا فیروزی رنگ آسمان کی علامت اور نیچے گہرا نیلا رنگ سمندر کا سمبل بھی ہو سکتا ہے اور اس کی ترچھی پٹی میں گہرے نیلے رنگ کے سمندر سے فیروزی آسمان کی طرف اٹھتا ہوا، دعوتِ فکر دیتا ہوا، کتاب کے مرتب پروفیسر مظفر حنفی کا نام ) بانیِ انجمن سر تیج بہادر سپرو کا اسکیچ ہندوستان کے معروف و ممتاز مصور جناب شکیل اعجاز کے موئے قلم کا اعجاز ہے۔ یہ اسکیچ بھی کتاب کی خوبصورتی اور شکیل اعجاز کے Collection میں اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

کتاب الفبائی صورت میں شعراء کی فہرست سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد انجمن کے عہدیداران کا گروپ فوٹو، انجمن کی عمارت کے تئیں مختلف پوز اور انجمن کے سیکریٹری جناب سیدعبد الکریم کے ساتھ روحِ غزل کے مرتب و مدون پروفیسر مظفر حنفی کا فوٹو ہے۔ اگلے سات صفحات پر انجمنِ روحِ ادب الٰہ آباد کی مختصر مگر جامع روداد انجمن کے سیکریٹری سید عبدالکریم نے تحریر فرمائی ہے۔ اس کے بعد پروفیسر مظفر حنفی کا تحریر کردہ مقدمہ ہے اور پھر چھ سو ترانوے شعرائے کرام کی غزلیات کا انتخاب ہے جن میں ترسٹھ شعراء کی چھ چھ غزلیات اور باقی تمام کی تین تین غزلیں شامل ہیں جن کی تعداد سوا دو ہزار سے اوپر پہنچتی ہے۔

انجمن روحِ ادب الٰہ آباد لائقِ صد مبارکباد ہے کہ اس نے اپنے جشنِ زرّیں کے موقع پر اردو غزل کے ایک زرّیں مجلہ پیش کیا اور کتاب کی ترتیب و تدوین کے لیے بھی اس کی نظرِ انتخاب کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے محترم مظفر حنفی صاحب کو اس کی ذمہ داری سونپی۔ کتاب کی ترتیب و تدوین کے تعلق سے جیسا کہ خود حنفی صاحب تحریر فرماتے ہیں، الفبائی صورت اختیار کر کے تقدیم و تاخیر کی قید اٹھا لی گئی ہے جس کے سبب کتاب میں از اول تا آخر دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ اس شعری مجموعے کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا دور ان کے کلام پر مشتمل ہے جن کی ادبی حیثیت ۱۹۴۰ء کے آس پاس مسلم تھی۔ دوسرے دور میں ۱۹۴۱ء سے ۱۹۵۵ء تک تیسرے دور میں ۱۹۵۶ سے ۱۹۷۰ء تک اور چوتھے دور میں ۱۹۷۶ء سے ۱۹۹۱ء تک غزل کے میدان میں اپنی شناخت مستحکم کرنے والے شعراء کا منتخب کلام ہے۔ ہر دور کے شروع میں سر تیج بہادر سپرو کے اردو اور ہندوستانی تہذیب کے تعلق سے تاثرات رقم ہیں۔ یہ ایک طرح سے بانیِ انجمن کے لیے خراج عقیدت بھی ہے اور تدوین میں سلیقہ کی گوٹا کناری بھی۔ شعراء کے کلام کے انتخاب میں ان کی اپنی پسند نیز مرتب کی پسند کی تقطیر ہے۔ مرحومین کے کلام کا انتخاب مرتب کی اپنی پسند ہے اور اس طرح اردو دنیا کی پچھلی پانچ دہائیوں میں کہی جانے والی نمائندہ غزلوں پر مشتمل مجلہ تیار ہوا ہے۔

کتاب کا سب سے اہم جزو پروفیسر مظفر حنفی کا تحریر کردہ مقدمہ ہے جس میں انھوں نے اردو کی دیگر اصنافِ سخن کے عروج و زوال کو دو دو تین تین خوبصورت، وقیع جملوں میں سمیٹ کر غزل کے ارتقائی سفر کو بالتفصیل تحریر فرمایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ غزل کبھی گردشِ حالات کا سیاسی انقلابات کا یا نظریاتی تصادم کاشکار نہیں ہوتی بلکہ اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو زمانے کے بدلتے ہوئے رنگ اور ماحول کے بدلتے ہوئے تیور کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے نہ صرف ایڈجسٹ کیا بلکہ وہ زندگی کے ہر رنگ کی ہر دور میں بھرپور ترجمانی کرتی رہی اور اس کی مقبولیت کسی طرح کم نہ ہو سکی۔ آٹھ سوصفحات میں پھیلی ہوئی ’’ روحِ غزل‘‘ کی جان کل تیرہ صفحات میں سمٹا ہوا یہ مقدمہ اردو غزل کا ارتکازی تعارف ہے جس کا اندازِ بیاں کہیں تو ڈھلانوں سے اترتے ہوئے جھرنے کی طرح سجل سجل اور کہیں میدانوں میں بہتی ہوئی رودِ آب کی طرح گمبھیر اور متین ہے، اس میں غزل مسلسل کا سا مستقل بہاؤ ہے جہاں قاری ہر قدم اپنے آپ کو غزل کا ہم سفر پاتا ہے، مقدمہ سے چند اقتباسات ’’مُشتے از خروارے ‘‘بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔

’’غزل کو عورتوں سے گفتگو کرنے کا فن بھی کہا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ غزل میں ہم ایسی کھلی ڈلی، بے تکلف زبان استعمال نہیں کر سکتے جیسی کہ دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں غزل گو انتہائی سبک، شیریں، لطیف، نرم اور نازک الفاظ ویسی متانت اور شائستگی کے ساتھ برتنے پر مجبور ہوتا ہے جیسی کہ خواتین کے ساتھ گفتگو کے دوران مہذب مرد کرتے ہیں۔ ‘‘

’’آگے چل کر ولیؔ نے اپنے عہد کے متصوفانہ خیالات کو غزل کے پیرائے میں ڈھال کر اسے حرفِ عاشقی کا نام دیا۔ پھر پہلے ولیؔ اور بعد ازاں ان کا دیوان دہلی پہنچتا ہے اور ان کے اثر سے اردو شاعری اپنی سلطنت کو دکن سے بڑھا کر شمالی ہند تک پھیلا لیتی ہے۔ ‘‘

’’خاص بات یہ ہے کہ انگریزوں کی طرح فارسی زبان قلمروئے سخن سے اردو کے حق میں دسبتردار ہوتے ہوئے کچھ ایسے بیج بو گئی جو بہت بعد تک گُل کھلاتے نظر آتے ہیں۔ دکنی اردو کی ہندوستانی فضا ایرانی تہذیب کے دھندلکے میں دھندلانے لگتی ہے۔ فارسی تراکیب، تشبیہات، تلمیحات و استعارات اردو غزل میں اپنی جڑیں پیوست کر لیتے ہیں۔ ‘‘

’’ جب مغلیہ سلطنت کے زوال نے اردو کی مرکزیت کا تاج لکھنؤ کے سر پر آراستہ کیا تو بیشتر دہلوی شعرا دہلی سے اودھ کے دارالخلافہ میں منتقل ہو گئے، ان میں میرؔ، سوداؔ، جرأتؔ، انشاؔ، مصحفیؔ غرض اہلِ سخن کی بڑی تعداد شامل ہے۔ لکھنؤ، اس کے عوام اور اس کے حکمرانوں میں نودولتیوں کا سا ہلکا پن اور سطحیت ہے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کے زیر اثر خود اعتمادی ختم ہو چکی ہے۔ کیا جانے کب سلطنت ہاتھ سے نکل جائے۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور ساعتِ امروز سے پورا پورا رس نچوڑ لینے کی آرزو نے نمائش اور تکلف کو حقیقی جذبات سے زیادہ قیمتی بنا دیا ہے۔ میرؔ، سوداؔ پختہ ذہن ہیں اور مصحفیؔ اعتدال پسند۔ انشاؔ اور جرأتؔ کھل کھیلتے ہیں اور اردو شاعری میں طوائف داخل ہوتی ہے۔ ‘‘

’’ زبانوں اور اصنافِ  ادب کی تاریخ میں نصف صدی کی مدت کوئی بڑی مدت نہیں سمجھی جاتی لیکن اسی مختصر سی مدت میں اردو غزل کی کم و بیش چار نسلیں ایک دوسرے کو کاٹتی، ہم آغوش ہوتی اور رنگوں کے استخراج و امتزاج سے مسلسل رنگ بدلتی ہوئی قوس قزح بناتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ‘‘

’’ یہ وہ زمانہ ہے کہ فانیؔ عظمتِ غم کے ترانے الاپتے ہوئے ۱۹۴۰ء کے اواخر میں دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ حسرتؔ موہانی غزل کو سچ بولنا سِکھا رہے ہیں اور جگرؔ اپنی مخصوص والہانہ سرشاری کے عالم میں غزل کہہ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یگانہ کی غزل میں خود داری اور خود اعتمادی کا لہجہ واضح ہے۔ فراق ؔ اپنی غزل میں جدید فلسفیانہ رجحانات کو غزل کی چاشنی میں آمیز کر کے نیا ذائقہ پیدا کر رہے ہیں اور شادؔ عارفی کا واشگاف اور بے تکلف انداز اور خالص طنز کا استعمال ان کی غزل کو قطعی منفرد بنا رہا ہے( کچھ آگے چل کر شادؔ، یگانہؔ، اور فراقؔ کے زیرِ اثر جدیدیت کے رحجان نے اپنے بال و پر نکالے)‘‘

’’آج کی غزل میں ہندوستانی اساطیر، تاریخی واقعات، دیہات کے مناظر، مقامی حالات، جغرافیائی اثرات سے لے کر موجودہ ترقی پذیر مشینی نظام تک ہندوستانی زندگی کے سبھی پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی غزل نے اب ان عجمی تلمیحات و تشبیہات سے بڑی حد تک کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ ‘‘

’’ الغرض ہر دم جواں اردو غزل رواں دواں ہے اور ہر قدم پر نئے لکھنے والے اس کے قافلے میں شریک ہو رہے ہیں بلکہ مجھے تو اس کے بعد کی نسل کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دینے لگی ہے۔ ‘‘

کتاب میں شامل غزل گو شعراء کے سوانحی اشاریوں کے شمول اور ان کی جائے قیام کی نشان دہی نہ کر کے ( خواہ اس کی وجہ جو کچھ بھی رہی ہو) ایک لحاظ سے مجلہ کو علاقائی کشاکش سے بلند کر دیا کیا گیا ہے اور شعراء کا کلام ہی ان کا تعارف ہو گیا ہے جس کے سبب مجموعی طور پر ان پچاس برسوں میں غزل کے رخِ پرواز، رجحان اور مزاج کا واضح خاکہ ابھرتا ہے۔ ادوار کے تعین میں ممکن ہے کچھ نام اِدھر اُدھر ہو گئے ہوں ( جیسا کہ راقم الحروف کی غزلوں کو تیسرے دور میں جگہ ملی ہے جبکہ اسے اعتراف ہے کہ وہ چوتھے دور کے پیشتر شعرائے کرام سے جونیر ہے) مگر ظاہر ہے کہ مرتب کے پیش نظر اردو غزل کی تاریخ مرتب کرنا نہیں ہے بلکہ پچھلی نصف صدی میں کہی جانے والی غزلوں کا انتخاب ہے۔ ممکن ہے کہ چند ایک قابلِ ذکر غزل گو شامل انتخاب ہونے سے رہ گئے ہوں ( جیسا کہ محترم حنفی صاحب نے اعتراف کیا ہے لیکن اس کی وجہ بھی بیان فرمائی گئی ہے جو بہ آسانی سمجھ میں آنے والی بھی ہے اور دل کو لگتی ہوئی بھی)

الغرض ’ روحِ غزل‘ کے نام سے شائع ہونے والی یہ کتاب انجمنِ روحِ ادب الٰہ آباد کی ایک زرین پیش کش ہے جو محترم مظفر حنفی کی محنت شاقہ، عرق ریزی اور حسنِ ترتیب و تدوین کی آئینہ دار ہے جو یقیناً غزل پر تحقیقی مقالہ نگاروں کی رہنمائی بھی کرے گی اور اربابِ ذوق اور صاحبانِ نظر کے ذوق و نظر کے لیے تسکین و طمانیت کا باعث بھی ہو گی۔

٭٭٭

 

’’مظفر حنفی جس بے تکلفی کے ساتھ عام بول چال کی زبان میں رواں دواں شعر کہتے ہیں اور بات کہنے کے لیے جن انوکھے اور نادر اسالیب بیان سے کام لیتے ہیں اس کی مثال ان کے معاصرین میں نظر نہیں آتی۔ زبان پر ان کی گرفت مضبوط ہے اور اس کی لطافتوں اور نزاکتوں سے مظفر کی گہری شناسائی ہے۔ چنانچہ ان کے یہاں ایک ایسی قادرالکلامی کی کیفیت نظر آتی ہے جو مدتوں کے ریاض سخن کے بعد ہی نصیب ہوا کرتی ہے۔ مطالعے اور مشاہدے کے تال میل سے وہ ایسے ایسے پہلو دار شعر تیار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جن میں جذبے کی گھلاوٹ، فکر کی شادابی، احساس کی گرمی، طرزِ ادا کی ندرت اور جدید حسیت شیر و شکر کی طرح آمیز نظر آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظفر حنفی کے اکثر اشعار میں ایک خاص نوع کی واقعاتی قضا پائی جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افسانے کے کسی مرکزی واقعے کو شعر کا قالب عطا کر دیا گیا ہے۔ شعریت اور واقعیت کا یہ امتزاج ان کے کلام کو ایک ایسی کیفیت کا حامل بنا دیتا ہے جس کا ذائقہ ہم عصر شاعری سے بالکل الگ ہے۔ ‘‘

پروفیسر گوپی چند نارنگ

 

 

 

 

                ڈاکٹر مہتاب عالم

    بھوپال

 

 

اردو ادب کا مظفر: مظفر ؔحنفی

 

برار سے مدھیہ پردیش کو جو علاقہ جوڑتا ہے اس میں خاندیش اور نماڑ دونوں شامل ہیں۔ بھارت کا نقشہ آپ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ دریائے تاپتی اور گرناکی سر سبز و شاداب وادیوں میں واقع سر زمین نماڑ زمانہ قدیم سے ہی رشی منیوں کی آماجگاہ اور بزرگانِ دین کی تبلیغی، علمی اور روحانی سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے۔ نماڑ جنوبی ہند کے کوہستانی سلسلہ وندھیا چل اور ستپوڑہ کے درمیان واقع ہے۔ نماڑ کی سرحدیں مغرب میں گجرات، مشرق میں ہوشنگ آباد، جنوب میں خاندیش اور شمال میں مالوہ سے ملتی ہیں۔ تاپتی اور نربدا اس کی مشہور ندیاں ہیں۔ ریاستی امور اور سرکاری کام کاج کے لحاظ سے یہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ قدیم حصہ مغرب میں ہونے کی وجہ سے مغربی نماڑ اور باقی حصہ مشرق میں ہونے کی وجہ سے مشرقی نماڑ کہلاتا ہے۔

نماڑ میں عام طور سے جو زبان بولی جاتی ہے اسے نماڑی کہتے ہیں۔ یہ زبان( بولی) مالوی گجراتی، بھیلی، خاندیشی، مراٹھی اور قدیم اردو کا مرکب ہے۔ اس زبان کا چلن شہروں کی بہ نسبت گاؤں اور دیہاتوں میں زیادہ ہے۔ یہاں اردو زبان کا چلن دیہاتوں اور گاؤں سے زیادہ شہری علاقوں میں ہے۔ کھنڈوہ، برہانپور، کھرگون، سناود، بڑوانی اور بڑواہا وغیرہ میں اردو زبان رائج ہے۔ نماڑ میں بولی جانے والی اردو زبان پر علاقائی زبان نماڑی کے ساتھ ساتھ دکنی، دہلوی اور لکھنوی زبان کے بھی اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ نماڑ میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کا کام کسی ایک عہد میں نہیں ہوا بلکہ یہ عہد بہ عہد جاری ہے۔ یہاں اردو زبان و ادب کی سر پرستی ہر دور میں ہوئی ہے، نماڑ میں ادب کے دو بڑے مراکز میں کھنڈوہ اور برہانپور کا نام نمایاں ہے۔

ریختہ کے موجد کہے جانے والے شیخ سعدی دکنی کی ملاقات سلطان الاولیا کے دربار میں امیر خسروؒ سے ہونے کا ذکر خزائن الفتوح میں بھی ہے۔ مخزن نکات میں قائم نے بھی اس ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ یہ بات تاریخ سے ثابت ہو چکی ہے کہ فاروقی باشاہ ملک نصیر خاں فاروقی نے جب اپنے پیرو مرشد صوفی زین الدین کی خواہش کے احترام میں ۱۴۰۷ ء میں نماڑ میں دریائے تاپتی کے کنارے برہان پورکو آباد کیا تو یہ شہر اس زمانے میں ایک گاؤں کی شکل میں تھا جو وسانا کہلاتا تھا اور حضرت شیخ سعدی دکنی کو چھوڑ کر گنگا جمنی اردو شاعری کی ابتدا کر چکے تھے۔  جبکہ شیخ سعدی دکنی کا مزار برہانپور سے دس میل دور شکار پور میں آج بھی موجود ہے۔ اس طرح نماڑ میں شیخ سعدی دکنی نے اردو کے لیے ریاضت کی، بہاء الدین باجن نے اردو کو خزانۂ رحمت عطا کیا۔ عیسیٰ جنداللہ نے اردو کو مسیحائی عطا کی اور شیخ علی متقی نے اسے پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ یہ تحریک اپنے ارتقائی عمل سے جب آگے بڑھی تو اسی تحریک کے بطن سے سعد اللہ گلشن نے جنم لیا۔ یہ وہی سعد اللہ گلشن ہیں جنھوں نے ولی کو شاعری کے آداب سکھائے تھے اور انھیں کے مشورے پر ولی نے دلی کے ایک فارسی مشاعرے میں اردو غزل پیش کی تھی۔ نماڑ کی مٹی میں وہ خمیر موجود ہے جو ہمیشہ اردو کے معیاری شاعر اور ادیب پیدا کرتا ہے۔ پروفیسر مظفر حنفی کا تعلق  نماڑ کے تاریخی شہر کھنڈوہ سے ہے۔

کھنڈوہ ایک تاریخی قدیم شہر ہے۔ اس کی تاریخ تقریباً ڈھائی ہزار سال قدیم ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ کھنڈوہ مہا بھارت کے کھنڈروں کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اس شہر کی قدامت کا پتہ اس بات سے بھی چلتا ہے کہ گیارہویں صدی کی ابتدا میں ابی ریحان نے کھنڈوہ کا ذکر کیا ہے۔ عربی سیاح البیرونی گیارہویں صدی میں یہاں آیا تھا۔ اس نے اس کا نام کھنڈوہ ہی تحریر کیا ہے۔ یہاں بکھرے ہوئے آثار اس شہر کی قدامت کے گواہ ہیں۔ کھنڈوہ میں آج بھی بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی کی خوبصورت جین مورتیاں اور دیگر تراشے ہوئے پتھر ملتے ہیں جن سے اس شہر کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ممتاز مؤرخ قاسم فرشتہ نے اپنی کتاب تاریخ فرشتہ میں مالوہ ریاست کے صوبے دار کی قیام گاہ کے طور پر کھنڈوہ کا ذکر کیا ہے۔ کھنڈوہ چاروں جانب تالابوں سے گھرا ہوا ہے۔ جن کے نشانات آج بھی اس کی ترقی اور قدامت کے مظہر ہیں۔ ان تالابوں اور کنڈوں پر بڑی تعداد میں مندر تعمیر ہیں۔ کھنڈوہ شہر کے نام کے پیچھے ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کے چہار جانب بنے تالابوں اور کنڈوں کی وجہ سے سے اس شہر کا نام کھنڈوہ پڑا ہو گا۔ شہر کے مشرقی سمت میں سورج کنڈ، مغربی سمت میں پدم کنڈ، شمال میں رامیشور کنڈ اور جنوب میں بھیم کنڈ کے نام سے تالاب موجود ہیں۔

کھنڈوہ میں اردو زبان و ادب کی تاریخ کے حوالے سے جو دستاویز ملتے ہیں اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کھنڈوہ میں اردو شعر و ادب کے جو سوتے زمانہ قدیم سے دکھائی دیتے ہیں اس کا منبع نماڑ کے تاریخی شہر برہانپور سے ملتا ہے۔ برہانپور آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد تقریباً ۲۰۰۰ء تک ضلع کھنڈوہ کی ایک تحصیل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اسی ادبی اور تاریخی شہر میں مظفر حنفی کی پیدائش یکم اپریل ۱۹۳۶ء کو ہوئی۔ آپ کا نام محمد ابو المظفر ہے۔ لیکن ادبی دنیا میں آپ کو مظفر حنفی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مظفر حنفی کی ابتدائی تعلیم کھنڈوہ میں ہوئی۔ انھوں نے پہلی کلاس سے آٹھویں درجہ تک کی تعلیم اردو میڈیم سے حاصل کی لیکن جب نویں جماعت میں پہنچے تو اس وقت ملک آزاد ہو چکا تھا۔ اس آزادی کا تحفہ مظفر حنفی صاحب کو اس شکل میں ملا کہ ان سے ان کی مادری زبان چھین لی گئی۔ اردو ذریعہ تعلیم سے تعلیم حاصل کرنے کا ان کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ تعلیم حاصل کرنا تھا، اس لیے انھوں نے اردو زبان کے ساتھ ہندی زبان کو سیکھا اور امتحان بھی دیا لیکن کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ جبکہ آٹھویں جماعت میں مظفر حنفی نے پورے ضلع میں امتیازی نمبر حاصل کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ مظفر حنفی کی تعلیم کا سلسلہ ایک ساتھ جاری نہ رہا۔ انھوں نے نا مساعد حالات میں ملازمت کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایف اے اور بی اے، بھوپال برکت اللہ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ممتاز شاعر شادؔ عارفی کے فن اور شخصیت پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مظفر حنفی نے ۱۹۷۴ء میں دہلی کا سفر کیا۔ پھر تو دہلی کی زلف گرہ گیر کے ایسے اسیر ہوئے کہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ اب دہلی ہی ان کا وطن ثانی بن چکا ہے۔ ڈاکٹر مظفر حنفی پہلے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ میں اسسٹنٹ پروڈکشن افسر ہوئے اس کے بعد ۱۹۷۶ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں ریڈر ہوئے۔ بعد ازاں کلکتہ میں اقبال چیئر پرپروفیسر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔

مظفر حنفی کے ادبی سفر کا آغاز نماڑ  کھنڈوہ میں ضرور ہوا لیکن ان کے فن کو جلا بخشنے میں نماڑ کے ساتھ مالوہ اور بھوپال کی ادبی فضا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مظفر حنفی کا نام ادب کے حوالے سے اب صرف نماڑ یا مدھیہ پردیش ہی نہیں بلکہ ملک کی سرحد کے باہر بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ مظفر حنفی کو تعریف و تعارف کے مراحل سے گزرے ہوئے ایک زمانہ ہو چکا ہے۔ ان کی تخلیقات میں تحقیق، تنقید، انشائیے، افسانے، خاکے، سفر نامے، تراجم، غزلیں، نظمیں، آپ بیتیاں اور جگ بیتیاں سبھی شامل ہیں۔ وہ بیک وقت ایک ممتاز محقق، مستند ناقد، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، صحافی، بہترین مترجم اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ مظفر حنفی کے یہاں موضوع اور تجربے کا تنوع بھی ہے خیال اور نظریات کا تسلسل بھی ہے۔ مظفر حنفی کی غزلیں اور نظمیں لغت، محاورہ، اظہار و آہنگ میں کافی حد تک بے مثل و یک رنگ ہیں لیکن بعض نظموں میں وہ خوبیاں نہیں ہیں جن کی توقع مظفر حنفی جیسے صاحب طرز نظم نگار سے کی جاتی ہے۔ البتہ غزل جو مظفر حنفی صاحب کا فطر ی اور دل پسند میدان ہے اس صنف میں اظہار و ابلاغ کی ایسی صفائی، سلاست و کفایت اور انسانی احساسات کی ایسی آمیزش ملتی ہے کہ آپ فال کی طرح ان کے شعری مجموعوں کی کسی بھی غزل پر انگلی رکھ دیجیے اس میں آپ کو فن اور معنی کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی ایسا کرشمہ ضرور مل جائے گا جو بقول شاعر:  ’’ دامن دل می کشد کہ جا اینجا است‘‘   میں اپنے اس دعوے کی تائید میں مظفر حنفی صاحب کے مجموعے سے پچاسوں اشعار پیش کر سکتا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے اس دعوے کی تصدیق کے لیے آپ خود ان کے شعری مجموعوں کا مطالعہ کریں تاکہ آپ کسی بھرم میں نہ رہیں۔ ان سب باتوں پر مستزاد مظفر حنفی کا صحت مند، با مقصد، حقیقت پسندانہ اور انسان دوست مسلک فکر ہے جس کا بیان مظفر حنفی نے صرف اپنی غزلوں، نظموں میں ہی نہیں بلکہ اپنی تحقیق، تنقید، افسانے، سفر نامے، تراجم میں بھی کیا ہے۔ پراگندہ خیالی اور کج مج نویسی کے اس دور میں پروفیسر مظفر حنفی جیسے ادیبوں، شاعروں کی ہر تحریر مستحسن ہے۔ میرے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ مجھ جیسے طالب علم کو ایسے فنکار پر قلم اٹھانے کا موقع ملا جس کی تحریریں آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کی مختلف موضوعات پر اب تک ۷۱ کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں پانی کی زبان ۱۹۶۷ء، ’’ تیکھی غز لیں ‘‘، ۱۹۶۹ء ’’ عکس ریز‘‘ طویل طنزیہ نظم۱۹۶۹ء ’’ صریر خامہ‘‘ ۱۹۶۹ء، ’’ دیپک راگ‘‘۱۹۷۴ء، ’’ یم بہ یم‘‘۱۹۷۹ء، ’’طلسم حرف‘‘، ۱۹۸۰ء، ’’ کھُل جا سم سم‘‘ ۱۹۸۱ء،  ’’پردہ سخن کا‘‘۱۹۹۶ء، ’’ یا اخی‘‘۱۹۹۷ء، ’’پرچمِ گرد باد‘‘۲۰۰۱ء، ’’ ہات اوپر کیے‘‘ ۲۰۰۲ء  اور ’’آگ مصروف ہے‘‘ ۲۰۰۴ء وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ وہیں اگر ان کے افسانوی مجموعوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں اینٹ کا جواب ۱۹۶۷ء، دو غنڈے ۱۹۷۹ء، دیدۂ حیراں ۱۹۷۰ء کے نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی نے تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی اپنی تحریروں کے انمٹ نقوش مرتب کیے ہیں۔ تحقیق و تنقید کے میدان میں ان کی جو تصانیف زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں ان میں شاد عارفی شخصیت اور فن ۱۹۷۸ء، نقد ریزے ۱۹۷۸، تنقیدی ابعاد ۱۹۸۰ء، جہات و جستجو ۱۹۸۲ء، غزلیات میر حسن انتخاب و مقدمہ ۱۹۹۱ء، ادبی فیچر اور تقریریں ۱۹۹۲ء، باتیں ادب کی ۱۹۹۴ء، محمدحسین آزاد ۱۹۹۶ء، حسرت موہانی (کئی زبانوں میں ) ۲۰۰۰ء، وضاحتی کتابیات ( بائیس جلدیں ) ۲۰۰۱ء، شاد عارفی فن اور فنکار ۲۰۰۱ء، لاگ لپیٹ کے بغیر ۲۰۰۱ء، ہندوستان اردو میں ۲۰۰۷ء، سوالوں کے حصار میں ( انٹرویوز )۲۰۰۷ء، میر تقی میر ۲۰۰۹ء، کتاب شماری ۲۰۱۲ء کے نام قابل ذکر ہیں۔ ترجمے کے میدان میں بھی مظفر حنفی نے اہم کام کیا ہے۔ ان کے تراجم میں پانچ جاسوسی ناول ۱۹۵۴ء، دو ہری سازش ۱۹۵۴ء، گلاگ مجمع الجزائر تین، دفتر ۱۹۷۵ء، سخاروف نے کہا ۱۹۷۶ء، گجراتی کے یکبابی ڈرامے ۱۹۷۷ء، اڑیا افسانے ۱۹۸۰ء، بیداری۱۹۸۰ء، بھارتیندو ہریش چندر ۱۹۸۴ء، بنکم چندر چٹر جی ۱۹۸۸ء کے نام قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی نے سفر نامہ بھی لکھا ہے۔ ان کا سفر نامہ چل چنبیلی باغ میں ۱۹۹۸ء میں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکا ہے۔

کسی بھی زبان کے فروغ میں ادب اطفال کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اردو ادب میں اس کی بڑی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ادب اطفال پر ہمارے یہاں لکھنے والوں کی بڑی کمی ہے۔ لیکن ادب اطفال میں بھی اہم کارنامہ مظفر حنفی کی جو کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں ان میں بندروں کا مشاعرہ۱۹۵۴ء، نیلا ہیر ۱  ۱۹۷۳ء، کھیل کھیل میں ۲۰۰۴ء، چٹخارے نرسری کے گیت ۲۰۰۷ء، بچوں ک ے لیے ۲۰۰۸ء کے نام قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی نے ترتیب و تدوین کے ذریعہ بھی اہل قلم  کو متوجہ کیاہے۔ انھوں نے جن اہم کتابوں کی ترتیب و تدوین کی ہے اس میں :  نئے چراغ ماہنامہ ۱۹۵۹ء، ایک تھا شاعر ۱۹۶۷ء، نثر و غزل دستہ ۱۹۶۷ء، شوخیِ تحریر، شادؔ عارفی کی غزلیں ۱۹۷۴ء، کلیات شاد عارفی ۱۹۷۵ء، جدیدیت تجزیہ و تفہیم ۱۹۷۱، جائزے ۱۹۸۵ء، آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح ۱۹۹۰ء، شاد عارفی ایک مطالعہ ۱۹۹۲ء، روح غزل ( پچاس سالہ انتخاب) ۱۹۹۳ء، کلیات ساغر نظامی (تین جلدیں )، شریسٹھ ایکانکی ہندی ۲۰۰۳ء، مظفر کی غزلیں دیو ناگری ۲۰۰۳ء جھرنے اور بگولے کے، بیچ دیو ناگری ۲۰۱۰ء، مضامین تازہ ۲۰۱۰ء کے نام پیش کئے جا سکتے ہیں۔

مظفر حنفی کا شمار مدھیہ پردیش کے کثیر التصانیف قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ مدھیہ پردیش کی تاریخ میں نواب صدیق حسن خان کے بعد پروفیسر مظفر حنفی دوسرے ایسے ادیب ہیں جنھوں نے مختلف موضوعات پر اتنی بیش قیمتی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مظفر حنفی صاحب نے صرف کتابوں کی تعداد بڑھانے کے لیے اتنی کتابیں ترتیب دی ہوں بلکہ ان کی ہر کتاب اپنی جگہ اہمیت اور معنویت کی حامل ہے۔ ابھی ان کی دو کتابیں زیر اشاعت بھی ہیں ان میں ایک ’کمان‘ کے نام سے ان کی کلیات ہے جبکہ دوسری سیلیکٹیڈ غزلیں (Selected Ghazals) ہے۔ پروفیسر مظفر حنفی نے اپنے کھنڈوہ قیام کے دوران انجمن ترقی اردو کی شاخ قائم کی تھی جس کے ذریعہ اردو اردو طلبا کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے گئے تھے۔ آپ کی تحریک کے بعد کھنڈ، ہ میں جو اردو میڈیم اسکول قائم کیے گئے تھے وہ آج بھی نہ صرف قائم ہیں بلکہ ان میں اردو طلبا کی ایک بڑی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ پروفیسر مظفر حنفی نے ۱۹۵۹ء میں کھنڈوہ سے نئے چراغ کے نام سے رسالہ بھی جاری کیا تھا۔ گرچہ یہ رسالہ بند ہو چکا ہے لیکن اس کے ذریعہ جو خاص نمبر شائع کیے گئے تھے وہ آج بھی انتہائی اہم ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                ادبِ اطفال

 

 

’’مظفر حنفی اردو ادب اطفال میں کئی حیثیتوں سے پہچانے جاتے ہیں، وہ ناقد بھی ہیں محقق بھی۔ ڈراما نگار بھی ہیں اور بہترین کہانی نویس بھی۔ شاعر اعلیٰ پایہ کے ہیں۔ ان کی تمام تخلیقات نظم و نثر بچوں کے دلوں کو چھوتی ہیں۔ بچوں کی آپسی نوک جھونک، محبت و نفرت شرارتیں، کھیل، تماشے، ایک دوسرے سے حسد جیسے موضوعات رہے ہیں۔ موصوف  تقریباً پچھلے ۴۵ برس سے مسلسل بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں۔

مظفرؔ حنفی کی تخلیقات نظم و نثر پہلے پہل دہلی کے ماہنامے کھلونا اور پھلواری جیسے پرچوں کے باکل ابتدائی دور میں ہی شامل اشاعت نظر آتی ہیں۔ چونکہ یہ ان کا لڑکپن ہی کا زمانہ تھا۔ اس لیے ان کی تخلیقات میں فطری شوخیاں، شرارتیں، نفسیاتی پیچیدگیاں اور بچوں کے ذاتی مسائل بہت خوبصورت انداز میں مل جاتے ہیں، بعد کی تخلیقات میں بھی انھوں نے کبھی بڑا بننے کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘

ڈاکٹر خوشحال زیدی

 

 

 

 

                ڈاکٹر رضیہ حامد

    بھوپال

 

مظفر حنفی اور بچوں کا ادب

 

قصے کہانیاں کہنا اور سننا ابتدائے آفرینش سے انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اپنے دل میں آئے خیالات، اپنے ساتھ پیش آئے واقعات و حالات کو دوسروں سے بیان کر کے دل و دماغ کو فرحت حاصل کرنا ایک نفسیاتی عمل ہے۔ مختلف قوموں کی ادبی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے جب سے اجتماعی زندگی گزارنی شروع کی اس وقت سے کہانیاں ان کی زندگی کا حصہ بن گئیں۔

کام کاج میں پورے دن مصروف رہنے کے بعد فارغ اوقات میں لوگ مجلسیں منعقد کرتے تھے جن میں وہ اپنے اسلاف کے کارنامے بیان کرتے۔ ان کی بہادری اور شجاعت کے قصّے سناتے تھے۔ ان میں عموماً جنگ، بہادروں کی دلیری اور شجاعت کے کارنامے بیان کیے جاتے ہیں۔ سیدھی صاف زبان میں بات کرنے کے ساتھ ہی لوگوں کی دلچسپی منظوم قصے کہانیوں کی طرف مبذول ہوئی۔ ابتداء میں نثر و نظم میں زیادہ تر جادو اور طلسم کے قصے لکھے جاتے تھے۔ جو صرف خیالی ہوتے تھے۔ یہ روایتی قصّے اپنے زمانہ کی فکر سے مطابقت رکھتے ہیں۔

عربی، فارسی اور اردو زبان میں حکایات کا چلن صرف خیالی قصوں اور کہانیوں تک محدود نہ رہ کر صحیح اور سچے سبق آموز و دلچسپ واقعات کو بھی لکھنے کا رواج و چلن رائج ہوا۔ ان میں حکایات الاغانی، الف لیلیٰ و لیلہ۔ مقامات حریری، کلیلہ و دمنہ، حکایات گلستاں و بوستاں، طلسم ہوش رُبا، یوسف و زلیخا۔ قصہ چہار درویش المعروف باغ و بہار وغیرہ وہ مشہور زمانہ کتب ہیں جو قصے کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ قصّے کہانیاں جن کو ادب  میں داستان اور مثنویوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے، ماضی کا سب سے بڑا تحفہ ہیں یہ سب روایتیں فرد کا رشتہ فرد سے اور زمانہ کا رشتہ زمانے سے قریب کرتی رہی ہیں۔

دھیرے دھیرے فرصت کے اوقات میں کمی آتی گئی اور قصّہ خوانی کی مجلسیں کم ہوتی گئیں اب کتب بینی کا رواج بڑھ گیا۔ اس کے باوجود بزرگ خواتین میں بچوں کو کہانی قصے سنانے کا چلن قائم رہا۔ رات کو بچے اپنی نانی یا دادی کے بستر میں ان کے گرد جمع ہو کر کہانی سننے کے مشتاق رہتے تھے۔ ان قصوں میں سبق آموز باتیں ہوتی تھیں وہیں زبان کا روز مرہ بھی بچوں کے کانوں میں پڑتا رہتا تھا اور وہ غیر شعوری طور پر اپنی زبان کی گہرائی اور گیرائی سے واقف ہوتے جاتے تھے۔ یہ سب مشترکہ خاندان کا خصوصی وصف تھا کہ قصّے کہانیاں سنتے ہوئے بچے اپنی تہذیب و تمدن میں ڈھلتے جاتے تھے۔ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھتی جاتی تھی۔

آج کے سائنسی دور میں بچوں کو اسکول کی ڈھیرساری کتابوں کے پڑھنے کے بعد جو وقت ملتا ہے وہ ریڈیو اور ٹی وی کی نذر ہو جاتا ہے۔ ٹی وی نے بچوں سے ان کا بچپنا، معصومیت، چلبلا پن چھین لیا ہے۔ کھیل کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔ ٹی وی دیکھتے دیکھتے کھانا کھانا اور سونا ان کی عادتِ  ثانیہ بنتی جا رہی ہے۔ ایسے میں قصے کہانیوں کے لیے وقت کہاں سے آئے۔

وقت نے اپنی طنابیں کھینچ لیں اور انسان کے پاس ذہنی بالیدگی اور تفریح کے مواقع کم ہوتے چلے گئے۔ جس کا اثر ان قصہ کہانیوں، چھوٹی بڑی نظموں کے سننے اور پڑھنے پر پڑنا ناگزیر تھا۔ ان سب کے باوجود شاعر و ادیب اپنے فرض سے غافل نہیں رہے۔ مشترکہ خاندان کا تصور ختم ہو جانے سے بچوں کے لیے ان کہانیوں اور قصوں کا بدل ضروری تھا۔ شاعروں اور ادیبوں نے بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی نظمیں کہیں اور دلچسپ کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے کوشش کی کہ بچوں میں ان کا بچپنا موجود ر ہے اور وہ دنیا سے واقف ہوتے  جائیں۔ بچوں کی معلومات میں اضافہ اور صحیح راہ کے تعیّن کے ساتھ دلچسپی قائم رہے۔ یہی ان کا مقصد رہا ہے۔

اردو میں بچوں کے لیے نظمیں لکھنے کا سلسلہ دور قدیم سے جاری ہے۔ ان شاعروں میں اسمٰعیل میرٹھی، قلقؔ میرٹھی، شفیع الدین نیر، شوکت پردیسی اور حامد اللہ افسر کے نام نمایاں ہیں۔ آج کے دور میں بھی ان کی نظمیں وقت کی مطابقت  کے ساتھ بچوں کی دلچسپی کا باعث ہیں مظفر حنفی نے بچوں کے ادب نظم و نثر میں مزید اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی عمر کے ابتدائی ماہ و سال یعنی چودہ سے انیس سال کے درمیانی عرصہ میں بچوں کے لیے کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ ابتداء میں لکھی کہانیوں میں بھی کسی قسم کا سقم نہیں پایا جاتا۔ ان کہانیوں کے کردار اپنے سماج میں آس پاس گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کہانیوں کی زبان صاف سادہ اور آسان ہے۔ جس میں بچوں کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔ مظفر حنفی نے ایک بندر کے انسانی قید سے آزاد ہونے پر بندروں کی طرف سے ایک استقبالیہ تقریب اور مشاعرہ کی روداد’ بندروں کا مشاعرہ‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔ ان کی کہانیوں کا انداز بیان پر لطف، بچپن کی شوخیوں اور معصوم حرکتوں سے بھرا ہوا ہے۔

مظفر حنفی نے بچوں کی نفسیات کا مطالعہ بڑے غور و فکر سے کیا ہے۔ باریک بینی سے بچوں کی حرکات و سکنات ان کے ما بین ہونے والی گفتگو کا مشاہدہ کرنے کے بعد مظفر حنفی نے بچوں کے لیے نظمیں لکھیں اور ان میں بچوں کی پسند اور شوق کو مد نظر رکھا ہے۔ ان کی نظموں کا انداز بہت دلچسپ وبرجستہ ہے۔ انھوں نے بچوں کے انداز میں ہی نظمیں لکھی ہیں۔ ان میں معصومیت، شوخی اور چلبلا پن ہے جو بچوں کو جلد اپنی جانب متوجہ کرتا ہے

چھ دن بعد آیا اتوار

بند کرو سب کارو بار

دن بھر موج کریں گے یار

( موج مستی کا دن)

ٹانگیں ٹوٹی ہیں گھوڑے کی

درگت، ہنسوں کے جوڑے کی

آپا توڑ کے میری بقچی

ان پر کس نے بولا ہلّا

کوئی دوڑو ہائے اللہ!

( ہائے اللہ)

ٹافی کس دن برساؤگی؟بولو  نا  دادی

چاند ستارے کب لاؤ گی؟بولو  نا  دادی

کب تک ہم کو ٹرخاؤ گی؟ بولو  نا  دادی

( دادی سے باتیں )

دن بھر پڑھنا نا ممکن ہے

اوپر سے اتوار کا دن ہے

آ جائے جو بھی کم سن ہے،

موٹر گاڑی ٹھیلو بچو

آؤ بچو، کھیلو بچو           ( کھیلو بچو)

بچوں کو بڑوں کی نصیحتیں، روک ٹوک بہت بُری محسوس ہوتی ہے۔ مظفر حنفی نے اپنی نظموں میں خاص طور سے نصیحت کرنے سے گریز کیا ہے۔ کھیل کھیل میں اپنی نظموں کے ذریعہ بچوں کو غیر شعوری طور پر سبق آموز باتیں سکھائی و بتائی ہیں۔ انھوں نے بڑی محبت اور اپنائیت سے بچوں کوبڑوں کا کہنا ماننے کی ترغیب دی ہے اور کہنا نہیں ماننے کے نقصانات بتائے ہیں۔ بچے عموماً کرکٹ اور فٹبال کھیلنا پسند کرتے ہیں۔ اس زمانہ میں گھروں میں صحن کا تصور ہی نہیں۔ بند گھر میں کمروں میں کرکٹ یا فٹ بال کھیلنے سے سامان کی ٹوٹ پھوٹ ہو جاتی ہے۔ مظفر حنفی نے اپنی نظموں کے ذریعہ بچوں کی توجہ دوسرے کھیلوں کی طرف کر دی ہے۔

پودے ٹوٹ نہیں جائیں گے

گملے پھوٹ نہیں جائیں گے

ابو روٹھ نہیں جائیں گے

کیرم لا کر کھیلو نا

( کیا کھیلیں کہاں کھیلیں )

جگ میں نام کمانا ہو تو

اول نمبر آنا ہو تو

ثمرہ بیٹی دودھ پیو

( دودھیا نغمہ)

اور نہ مانو بڑوں کا کہنا

کیچڑ ہی میں لیٹے رہنا

ہم نے منع کیا تھا منّے

مت کھیلو فٹ بال

کیسا چھل گیا سارا گال

اس میں ہے اپنی ہی بھلائی

کہنا بڑوں کا مانو بھائی

مرہم لگوا لو اور جا کر لیٹو اوڑھ کے شال

کیسا چھل گیا سارا گال

( بے موسم فٹ بال)

مظفر حنفی نے اپنی نظموں کے ذریعہ بچوں میں جذبۂ ہمدردی، انسان دوستی، رواداری، مساوات اور حب الوطنی کے جذبات کو ابھار نے اور فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔

انور ہو، اربندو ہو

مریم ہو یا اندو ہو

مسلم ہو یا عیسائی

وہ سکھ ہو یا ہندو ہو

سب کا مان برابر ہے

ہر انسان برابر ہے

(انسان برابر ہے)

جین، پارسی، سکھ، عیسائی، ہندو، مسلم سارے

تیرے راج دلارے

بنگالی، پنجابی، اردو، ہندی اور ملیالم

ایک گیت کے سرگم

تری ذات عظیم ہے سب سے تیری بات مہان

میرے ہندوستان، میرے ہندوستان

( میرے ہندوستان)

حقیقتاً بہشت سے کئی گنا حسین ہے

جواب اس کا رروس ہے نہ مصر ہے نہ چین ہے

یہی ہمارا دھرم ہے یہی ہمارا دین ہے

کہ دو جہاں میں سرزمینِ ہند بہترین ہے

( سر زمینِ ہند)

انسانی ہمدردی کی بہترین مثال مظفر حنفی کی نظم ’اپنے چاروں جانب دیکھو ‘ہے  اس پوری نظم میں دلی کرب اور درد کا اظہار ہے۔ اس کو پڑھ کر جہاں انسان کے حالات پر دل دکھی ہوتا ہے وہیں ان لوگوں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ بھی ابھرتا ہے۔ مظفر حنفی نے نظم کے آخری بند میں بچوں کو ہمدردی کا درس دیا ہے۔

اپّی وہ دن کب آئیں گے/جب گھر میں چاول پکیں گے/سوندھی سوندھی دال بنے گی/ ہم سب جی بھر کے کھائیں گے/اپیّ کب تک پہنوں گا میں /یہ پیوند لگا پا جاما/منگل کے بازار سے مجھ کو/نیکر جرسی دلوا دو نا!

میرے سب ساتھی پڑھتے ہیں /میں اسکول نہ جاؤں گا کیا؟/وہ سب راجا بن جائیں گے/میں ان پڑھ کہلاؤں گا کیا؟

اپی ّ بے چاری کیا بولے/اس کے ابو روٹھ گئے ہیں / ماں کی بیماری کے ہاتھوں / سندر سپنے ٹوٹ گئے ہیں

اے میرے دل والے بچو/ اپنے چاروں جانب دیکھو/ ایسے کنبے مل جائیں تو/ ان کوبھی حینے کا حق دو                       ( اپنے چاروں جانب دیکھو)

مشترکہ خاندان میں بچوں کی سب سے پسندیدہ شخصیت ان کی دادی اماں ہوتی ہیں جو ان کے لاڈ اٹھاتی ہیں اور کی فرمائشیں بھی پوری کرتی ہیں بچوں کو کہانیاں سناتی، نظمیں سناتی ہیں اور ساتھ ہی گھر کے کاموں میں بہو کا ہاتھ بھی بٹاتی ہیں۔ ایسی مثالی دادی کی تصویر ’’مکھن گیت‘ نامی نظم میں مظفر حنفی نے کھینچی ہے۔ یہ نظم بلا شبہ بچوں کی پسندیدہ نظم ہونا چاہیے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ آشکار کرتا ہے کہ مظفر حنفی کی خانگی زندگی خوشگوار ہے اس میں خوشیاں، دلی سکون اور اطمینان ہے۔ شخصیت کی پیکر تراشی کے ساتھ فعال دادی کی محبت بھی اس میں جھلکتی اور چھلکتی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا عنوان ’ مکھن گیت‘ بڑا معنی خیز ہے۔

لمبا چہرہ بھولی صورت/ ممتا کی اک زندہ مورت/ گوری چٹّی سیدھی سادی/ گڈو پپو کی اماں / میرے ایمن کی دادی

اب اس پوتے کو چمکارا/ پھونک دیا اس کا غبارہ/ خوش قسمت بوڑھی شہزادی/ چھوٹو دمو کی اماں / میرے زمو کی دادی

مظفر حنفی نے کئی نظموں کے ذریعہ بچوں کی معلومات میں اضافہ کیا ہے:

ماموں آئے کلکتہ سے/ لے کے آئے  بسکٹ کھلّے/ لانے تھے رس گلے      ( اُفوہ)

اس طرح وہ بتاتے ہیں کہ خورجہ کی کھرچن، متھرا کے پیڑے اور میرٹھ کی قینچی مشہور ہے۔ جانوروں کی بولیوں سے بچوں کے کان آشنا ہوں۔ اس سلسلہ میں انھوں نے ’اپنی اپنی بولیاں ‘ نظم میں کوا، کبوتر، مینڈک، جھینگر، بکری، گیّا، گھوڑا، مچھر، بندر اور کتّے کی آوازوں کو بتایا ہے۔

کوّا بولے کاؤں کاؤں، بلّی کرتی میاؤں میاؤں، مرغا بولے ککڑوں کوں، چڑیا کرتی چوں چوں۔

مظفر حنفی نے اپنی ایک نظم میں بندر کے ناچ کا تذکرہ اس خوبی سے کیا ہے کہ بچے تو بچے بڑے بھی اس کو پڑھ کر مسکرائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس پر ’ تاک دھنا دھن دھنک دھن‘ کا اضافہ نظم کے لطف کو دوبالا کر دیتا ہے۔

پہن کے نیکر، لاٹھی لے کر کاندھے پر رکھ دلّی جا

دلّی جا کر اپنے واسطے، ایک چاند سی بیوی لا

تاک دھنا دھن دھنک دھنا/ چل میرے بندر ناچ دکھا

مظفر حنفی بچوں کو مزدور سے ہمدردی سکھاتے ہیں، مزدور کی محنت و جد و جہد کا ذکر کرتے ہوئے اس کی عظمت بیان کرتے ہیں۔

یہ ناویں تیراتے ہیں اور جہاز اڑاتے ہیں / سکھ دیتے ہیں، دُکھ سہہ کر/ سوکھی روٹی کھاتے ہیں / بے شک دنیا قائم ہے، مزدوروں کی محنت پر     ( مزدور کی عظمت)

مظفر حنفی ایک انٹرویو میں بچوں کے ادب تخلیق کرنے کے متعلق اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے لیے انھیں لوگوں کو لکھنا چاہیے جوکسی طور پر اپنے اندر وہ مادہ پیدا کر سکیں کہ وہ حلول کر جائیں کسی بچے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اپنے بچپن میں پلٹ سکیں۔ کسی طور پر۔ اس وقت دس بارہ سال کے جس بچے کے لیے وہ لکھ رہے ہیں۔ اس عمر کے بچوں کی طرح وہ سوچ سکتے ہیں یا نہیں۔ اور یہ کہ اس عمر کا بچہ کس طرح کی چیزیں پڑھنا پسند کرتا ہے۔ جب آپ فنکار ہو جاتے ہیں تو پھر آپ کے قابو کی بات ہے کہ آپ ان کے لیے اس طرح کی چیزیں لکھیں جو انھیں اچھی بھی لگیں۔ اس کے اندر کچھ اس طرح کی اخلاقی باتیں ڈال دیں کہ بظاہر نظر نہ آتے ہوئے بھی بچے کی طبیعت ادھر مائل ہو جائے۔ ‘‘

( دو بدو: صغرا مہدی)

مظفر حنفی نے بچوں کے لیے لکھی اپنی تخلیقات میں بچوں کی فہم و فراست اور ان کی عمروں کا لحاظ رکھتے ہوئے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ وہ الفاظ کے مزاج داں ہیں اور ان کو برتنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ ان کا انداز بیاں دلکش اور دلنشیں ہے۔ مظفر حنفی بچوں کو جو بات بھی ذہن نشیں کرانا چاہتے ہیں اس پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ کانوں سے سن کر یا آنکھوں سے پڑھ کر بچوں کے ذہن و دل میں نقش ہو جاتی ہے۔ مظفر حنفی کی تحریر کی بڑی خوبی یہی ہے۔ بلا شبہ آج کے دور میں مظفر حنفی بچوں کے منفرد شاعر، ڈرامہ نگار، کہانی نویس اور مضمون نویس ہیں۔

٭٭٭

 

 

’’نئے شاعروں میں مظفر حنفی نے ندرت اظہار اور ادبی سنجیدگی میں ایک پر وقار توازن برقرار رکھا ہے۔ ان کا نیا پن محض ہیئت پرستی نہیں بلکہ شگفتہ اور منفرد انداز بیان کی کوشش ہے۔ نئی تکنیک یعنی رمزیت اور بکھرے ہوئے تاثر پاروں کو ایک رشتے میں پرو کر وحدت میں تاثیر پیدا کرنے کا ہنر انھیں آتا ہے اور یہ ہنر سماجی معنویت اور کیفیت کے ساتھ ابھرتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر محمد حسن

 

 

 

 

                شخصیت

 

                یادیں

 

 

’’مظفر حنفی جدید کلاسکس کا شاعر ہے۔ جدید ہونے کے لیے قدیم ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ جو اسما اور اشیا کی ماہیت کوسمجھتے ہیں، ان کے ہاتھ بے شک آسمانوں کو چھو رہے ہوں، وہ اپنے پاؤں مضبوطی سے زمین پر جمائے رکھتے ہیں۔ مظفر حنفی ایک ایسے ہی جدید کلاسیکی شاعر ہیں۔ مظفر حنفی شاعر ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔ ناقد، محقق، افسانہ نگار، مترجم، معلم، ماہر ادبیات اطفال اور ریسرچ اسکالر۔ شاد عارفی پر ان کا کام معرکے کا ہے۔ یہی ان کی تحقیق کا موضوع بھی تھا۔ وہ خود بھی تحقیق کا موضوع بن چکے ہیں اور ڈاکٹر محبوب راہیؔ نے ۱۹۸۲ء میں ان پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ناگپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یہ مقالہ کتابی صورت میں بھی شائع ہو چکاہے۔ مظفر ڈھیروں ایوارڈ اور انعامات پا چکے ہیں اور ان دنوں کلکتہ یونیورسٹی میں پروفیسر اقبال چیئر ہیں مگر یہ سب زیبِ داستان کے لیے ہے۔ ان سب چیزوں کی اہمیت ان کی زندگی تک ہے۔ ہمیشہ رہنے والی چیز تخلیق ہوتی ہے اور تخلیقی نقطۂ نظر سے مظفر حنفی اول و آخر شاعر ہیں۔ شاعری میں انھوں نے جدید طرز احساس کو قادر الکلامی کے ساتھ اور کلاسیکی رکھ رکھاؤ کے ساتھ جدید شعری لغات میں پیش کیا ہے۔ از آدم تا ایں دم، غزل اتنی کہی جا چکی ہے اور اتنے پہلوؤں سے اور اتنے آسنوں سے برتی جا چکی ہے کہ اب غزل کہنا کار فرہاد کے مماثل ہے۔ اس کے باوجود مظفر حنفی تازہ تر غزل کے شاعر ہیں اور اس باب میں مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے عبور فن اور اعجاز سخن سے اس زلیخا کو نئے سرے سے جوان کر دیا ہے۔ ‘‘

شبنم رومانی

 

 

 

 

                مجتبیٰ حسین

حیدرآباد

 

 

مظفر حنفی : ایک تاثر

 

قدرت نے ہم عصر اُردو ادب کو تین عدد’’ حنفی‘‘ عطا کیے ہیں۔ ہماری مراد ہے عمیق حنفی، شمیم حنفی اور مظفر حنفی سے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ’’ حنفیان ثلاثہ‘‘ ایک سے بڑھ کر ایک رہے ہیں کیونکہ یہ اپنے اپنے اعتبار سے ادب کے اپنے اپنے میدان میں منفرد، معتبر اور مسلّم مقام رکھتے ہیں۔ عمیق حنفی مرحوم سے ہمارے مراسم نیاز مندانہ رہے۔ برسوں ہم اُن کے آگے اپنا زانوئے ادب تہہ کرتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ زانوئے ادب تہہ کرنے کے بعد جب جانے کا وقت آتا تھا تو اپنا زانو ہم اپنے ساتھ لے آتے تھے اور ’’ادب‘‘ کو پھر عمیق حنفی کے حوالہ کر کے چلے آتے تھے۔ تاہم ما بقیہ دو ’’حنفیوں ‘‘ یعنی شمیم حنفی اور مظفر حنفی سے ہمارے مراسم دوستانہ رہے اور یہ مراسم آج بھی برقرار ہیں۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ ہم اپنے پرانے نامی گرامی دوست مظفر حنفی کے بارے میں کچھ اظہار خیال کریں۔ ہم کیا ہماری حیثیت کیا۔ اُردو ادب میں ایسے کئی ممتاز اہل قلم موجود ہیں جو مظفر حنفی کے علمی و ادبی کارناموں پر لکھنے بیٹھیں تو دفتر کے دفتر لکھ سکتے ہیں۔ پھر مظفر حنفی ’’ جامع الحیثیات‘‘ قسم کے انسان ہیں۔ اُن کی ہر حیثیت پر کیا لکھیں اور کتنا لکھیں۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ ہم اپنے  آپ کو زندگی کے اُس موڑ تک محدود رکھیں جہاں چالیس برس پہلے ہم اور مظفر حنفی اتفاقاً اچانک مل گئے تھے اور زندگی کا یہ موڑ نہ صرف ہماری زندگی میں بلکہ مظفر حنفی کی زندگی میں بھی نہ صرف اہم ثابت ہوا بلکہ اس کے دوررس اثرات بھی ہم دونوں کی زندگی پر مرتب ہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو اس موڑ کی بنیاد پر دو حصوں یعنی ’’ ما قبل موڑ‘‘ اور ’’ما بعد موڑ‘‘ کے طور پر تقسیم کر رکھا ہے۔

یادش بخیر : ۱۹۷۲ء کے اواخر میں ہم دوسال کے ڈیپوٹیشن (Deputation) پر حیدر آباد کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ سے مرکزی وزارت تعلیم کی کمیٹی برائے فروغ اُردو  (المعروف بہ گجرال کمیٹی) میں ریسرچ اسسٹنٹ بن کر دہلی آئے تھے۔ سوچا تھا کہ دو سال دہلی میں گزار لیں گے اور اس کے بعد بوریا بستر لپیٹ کر پھر حیدر آباد واپس چلے جائیں گے۔ دہلی میں بھلا کون اتنی آسانی سے رہنے دیتا ہے۔ یوں بھی دہلی بڑا ظالم شہر سمجھا جاتا ہے(یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہی شہر ہمارے حق میں نہایت مہربان شہر ثابت ہوا) اسی اثناء میں جب ہم اپنے ڈیپوٹیشن کا سوا برس گزار چکے تو ایک دن اخبار میں یہ اشتہار نظر سے گزرا کہ نیشنل کونسل آف ایجو کیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کو ایسے عہدیداروں کی ضرورت ہے جو کونسل کی اُردو نصابی کتابوں کی اشاعت کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ امید واروں کے لیے لازمی شرط یہ رکھی گئی تھی کہ وہ کم از کم ایم اے کامیاب ہوں۔ جبکہ ہمارے پاس بی اے کی ڈگری کے سوائے کچھ بھی نہ تھا۔ تاہم ہمارے پاس اُردو میں طباعت و اشاعت کا آٹھ برس کا تجربہ تھا۔ اگرچہ ہم اس ملازمت کی بنیادی شرط کی تکمیل تو نہیں کر سکتے تھے لیکن محض اس بل بوتے پر کہ ہمارے پاس اُردو طباعت و اشاعت کے کام کا تجربہ ہے ہم نے بڑی بے دلی کے ساتھ اس ملازمت کے لیے اپنی درخواست این سی ای آر ٹی کو بھیج دی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا بالکل یقین نہیں تھا کہ ہم جیسے ہیچمدان کو اس ملازمت کے لیے انٹرویو میں طلب کیا جائے گا۔ ۱۹۷۴ء کے آغاز میں جب دہلی میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی تو ایک دن ہمارے پاس این سی ای آر ٹی سے ایک مراسلہ آیا کہ ہم فلاں تاریخ کو انٹرویو میں حاضر ہوں۔ اُس وقت بھی ہمارے اندر آشا کی کرن پیدا نہیں ہوئی۔ ہم نے سوچاکہ ہمیں تو صرف ضابطے کی تکمیل کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ مظفر حنفی سے ہماری پہلی ملاقات این سی ای آر ٹی کے دفتر میں اس انٹرویو کے دوران ہوئی: علی گڑھ، دہلی، لکھنؤ اور مختلف حصوں سے آئے ہوئے نامی گرامی امیدواروں کا جم غفیر تھا۔ ان امیدواروں میں بعض ایسے نامی گرامی حضرات بھی تھے جن کے پاس ایم اے کی ڈگری کے علاوہ پی ایچ ڈی کی دو دو ڈگریاں تھیں۔ مظفر حنفی اس انٹرویو میں شرکت کے لیے بھوپال سے آئے تھے جہاں وہ حکومت مدھیہ پردیش کے محکمہ جنگلات میں پیشکار کے عہدے پر فائز تھے۔ البتہ آپ اسے مذاق نہ سمجھیں کہ ہم اپنے بچپن سے مظفر حنفی کو رسالوں میں پڑھتے آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہم سے عمر میں بڑے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مظفر حنفی نے بچپن میں ہی لکھنا اور رسالوں میں چھپنا شروع کر دیا تھا اور ہم نے اپنے بچپن میں ہی اُن کی تحریروں کو پڑھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ بس اتنی سی بات ہے تاہم جب اُن سے انٹرویو میں ہماری ملاقات ہوئی تو اُس وقت تک ہم باضابطہ مزاح نگار بن گئے تھے۔ اُن سے پہلی ملاقات کے بعد ہمیں یہ اطمینان ضرور ہوا کہ چلو ہمارا انتخاب ہو یا نہ ہو یہ کیا کم ہے کہ ہماری ملاقات اپنے محبوب ادیب سے ہو گئی۔ پہلی ملاقات میں ہمیں مظفر حنفی کا رنگ زیادہ سیاہ نظر آیا تھا۔ اس کی وجہ غالباً یہ رہی ہو گی کہ وہ جنگلات کے محکمہ میں کام کرتے تھے اور جنگل میں زیادہ رہنے کا اثر آدمی کے رنگ پر بھی پڑتا ہے۔ تاہم دہلی میں قیام اور اس کے بعد اُن کی پے بہ پے ترقیوں نے اُن کے رنگ کو اب زیادہ خوشگوار اور خوشنما بنا دیا ہے۔ انٹرویو بورڈ کے ارکان میں این سی ای آر ٹی کے ڈائرکٹر پروفیسر رئیس احمد کے علاوہ پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، پروفیسر آل احمد سرور اور شہباز حسین، پرنسپل پبلی کیشنز آفیسر ترقی اردو بورڈ شامل تھے۔ یہاں اس انٹرویو کی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ اگرچہ ہمیں بالکل امید نہیں تھی کہ ہمارا یہاں انتخاب عمل میں آئے گا تاہم کچھ عرصہ بعد این سی ای آر ٹی سے اطلاع آئی کہ شعبہ ادارت میں ہمارا انتخاب اسسٹنٹ ایڈیٹر (اردو) کی حیثیت سے اور شعبہ پروڈکشن میں مظفر حنفی کا انتخاب پروڈکشن اسسٹنٹ کے طور پر عمل میں آیا ہے۔ عبدالوحید کو پروف ریڈر مقرر کیا گیا تھا۔

بھلے ہی مظفر حنفی اس بات کو نہ مانیں لیکن ہم اس بات کو یقیناً مانتے ہیں کہ این سی ای آر ٹی میں ہم دونوں کے تقرر نے ہماری زندگی کو  بنانے سنوارنے اور اسے بڑھانے میں نہایت اہم حصہ ادا کیا ہے۔ مظفر حنفی کو بھوپال سے دہلی آنے کا چانس ملا جہاں کئی مواقع اور امکانات اُن کی ترقی کے منتظر تھے۔ دوسری طرف دہلی میں ہمارے مستقل قیام کی صورت جو نکل آئی تو ہم نے ادبی سطح پر ترقی کی کئی منزلیں طے کیں اور کئی ممالک کے سفر کیے۔ حیدر آباد میں ہوتے تو وہ نہ ہوتے جو دہلی میں قیام کی وجہ سے بن گئے۔

این سی آر ٹی میں ایک ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ہمیں مظفر حنفی کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اُن کی خوبیاں ہم پروا ہوتی چلی گئیں۔ ابتداء میں جب ہم نے این سی ای آر ٹی میں کام کرنا شروع کیا تو اردو کے سلسلہ میں دفتری رویہ کچھ ایسا تھا کہ میاں اطمینان سے تنخواہ پاؤ اور آرام سے کام کرو۔ دوسری طرف ہم اور مظفر حنفی دونوں ہی ’’ آرام حرام ہے‘‘ کے تصور پر عمل کرنے کے قائل تھے۔ مظفر حنفی کی سب سے بڑی خوبی جو ہمارے لیے ایک اثاثہ ثابت ہوئی وہ یہ تھی کہ وہ دفتری قواعد و ضوابط سے گہری واقفیت رکھنے کے علاوہ دفتروں میں استعمال ہونے والی تحریروں کیNotingاورDrafting پر گہری قدرت رکھتے تھے۔ ( حکومت مدھیہ پردیش کے سرکاری دفتروں میں کام کرنے کا تجربہ جو رکھتے تھے) ہم نئی نئی تجویزیں عہدیداروں کے پاس بھیجنے لگے۔ دوسری طرف سیاسی دباؤ اور پارلیمنٹ میں سوالات کے ذریعہ ہم نے این سی ای آر ٹی میں کام کی رفتار کو آگے بڑھانے کے لیے ماحول کو سازگار بنایا۔

این سی ای آر ٹی نے اردو کا کام ترقی اردو بورڈ کے تعاون سے شروع کیا تھا اور ہمیں ترقی اردو بورڈ کے عہدیداروں شہباز حسین اور راج نارائن رازؔ وغیرہ کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی۔ ادھر ہم نے اپنے بال بچوں کو حیدر آبادسے اور اُدھر مظفر حنفی نے بھی اپنے بال بچوں کو بھوپال سے دہلی بلا لیا۔ ہم دونوں کے بچے اُن دنوں پرائمری اسکول اور مڈل اسکول وغیرہ کے طالب علم تھے۔ ہم دونوں کے گھر بھی پاس پاس تھے۔ اس طرح مظفر حنفی اور اُن کے ارکان خاندان سے ہمارے ارکان خاندان کے مراسم بھی استوار ہوتے چلے گئے۔ مظفر حنفی کو ہم نے کبھی اپنا وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔ نہ صرف دفتر میں بلکہ گھر پر بھی ہمیشہ مصروف ہی پایا۔ شعر کہہ رہے ہیں، مضامین لکھ رہے ہیں، تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں، ترجمہ کر رہے ہیں، پروف پڑھ رہے ہیں۔ کوئی ایک کام ہو تو گنائیں بھی۔ دہلی میں آنے کے بعد مظفر حنفی کے سامنے مواقع اور امکانات کے دروازے کھل گئے تو مظفر حنفی نے اسی مناسبت سے اپنے کام کی رفتار بھی بڑھا دی۔ مظفر حنفی کی کامیاب و کامران زندگی کے پیچھے اُن کی کڑی محنت اور مشقت کو بڑا دخل ہے۔ مظفر حنفی دفتری معاملات میں بڑے معاملہ فہم اور کارسازبھی ثابت ہوئے۔ این سی ای آر ٹی میں جب اُردو کی کتابوں کی اشاعت کا کام شروع ہوا تو کتابوں کی تیاری پر بھاری خرچ آتا تھا اور چونکہ اُردو نصابی کتابوں کی تعداد اشاعت کم ہوا کرتی تھی تو نتیجہ میں اردو کتابوں کی قیمت ہندی اور انگریزی کتابوں کے مقابلہ میں تین گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ قیمتوں کے اس بھاری فرق کو دور کرنے کے لیے یہ تجویز آئی کہ انگریزی اور ہندی کتابوں کے ری پرنٹ ایڈیشنوں کے بھاری تعداد میں چھپنے کے بعد این سی ای آر ٹی کو جو منافع ہوتا ہے اس منافع کو اُس خسارے پر صرف کیا جائے جو اردو کتابوں کی اشاعت کے باعث پیش آتا ہے۔ اس تجویز کو پیش کرنے اور عملی جامہ پہنانے میں مظفر حنفی کی نوٹنگ اور ڈرافٹنگ کو بڑا دخل رہا۔ چنانچہ آج تک این سی ای آر ٹی کی اردو کتابوں کے دام نرخوں کے اسی فارمولے پر رکھے جاتے ہیں۔

چالیس برس پرانے بے شمار واقعات یاد آرہے ہیں لیکن اب ان کو دہرانے کا یارا نہیں رہا کیونکہ اب ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ غرض مظفر حنفی کے ساتھ این سی ای آر ٹی میں دو تین برس نہایت سرگرم، کار آمد اور فائدہ مند گزرے۔

ہمیں پہلے ہی دن سے اندیشہ تھا کہ مظفر حنفی ایک بار دہلی میں قدم جما لیں تو دنیا اُن کے لیے بہت چھوٹی ثابت ہو گی۔ دہلی آنے کے دو برس بعد ہی وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو کے لکچرر بن گئے۔ پھر ریڈر بنے اور ’’ اقبال چیئر‘‘ کی پیش کش قبول کر کے بحیثیت پروفیسر کلکتہ چلے گئے۔ اب وہ ایک خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ بال سارے سفید ہو چکے ہیں لیکن اُن میں اب بھی کام کرنے کی نوجوانوں کی سی صلاحیت ہے۔ بحیثیت ناقد، بحیثیت مترجم، ، بحیثیت محقق، بحیثیت شاعر، بحیثیت استاد وہ ایک بلند درجہ پر فائز ہیں۔ انھوں نے یہ رتبۂ بلند اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور کڑی محنت کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔

ہماری طرح وہ بھی اب دادا، نانا اور نہ جانے کیا کیا بن چکے ہیں۔ اگرچہ ہم بوجوہ اب گوشہ نشین سی زندگی گزارتے ہیں لیکن اب بھی اردو کے رسالوں میں آئے دن مظفر حنفی کی تحریریں نظر سے گزرتی ہیں تو ادب سے اُن کے گہرے سروکار پر رشک آتا ہے۔ مظفر حنفی جتنی دلنشین اور دلکش نثر لکھتے ہیں اُتنے ہی بلیغ اور معنی آفریں شعر بھی کہتے ہیں۔ خاص طور پر اُن کے شعروں میں طنز کا عنصر بے حد نمایاں اور معنی خیز ہوتا ہے۔ ایک نہایت منظم، مستعد اور سرگرم تخلیق کار کی حیثیت سے ہم مظفر حنفی کی بے حد عزت کرتے ہیں۔ مظفر حنفی کا ایک شخصی احسان ہم پر یہ بھی ہے کہ لگ بھگ پینتیس برس پہلے جب ہماری مزاح نگاری کے بارے میں ناقدین کرام نے کوئی خاص توجہ نہیں کی تھی، مظفر حنفی نے ہماری خاکہ نگاری پر ایک بھرپور تنقیدی مضمون لکھا تھا جسے انھوں نے ہماری ایک کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر فکر تونسوی کے گھر میں سنایا تھا۔ اس مضمون کو آج بھی ناقد حضرات حوالہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ مظفر حنفی کا تخلیقی سفر اسی آب و تاب کے ساتھ جاری رہے اور وہ اُردو ادب کے سرمایہ کو مالا مال کرتے رہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

’’ ’ تیکھی غزلیں ‘ مظفر حنفی کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ ایسامجموعہ جس کے لب و لہجہ کو فی الواقع صرف تیکھے ترچھے لب و لہجہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان کی غزلوں کو صرف اس لحاظ سے روایتی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بحر و وزن اور ردیف و قافیہ کی پابند ہیں ورنہ اپنی معنویت، اسلوب اور مزاج کے لحاظ سے یہ اردو غزل کی مروجہ ڈگر سے بہت الگ ہیں، ان میں غزل کا وہ نسائی اور مصنوعی لہجہ کہیں نظر نہیں آتا جو اردو غزل کو ’سخن باز ناں گفتن‘ اور ’ تصوف برائے گفتن خوب است‘ کے طفیل ملا تھا اور جسے اگلے وقتوں کا مزاج رکھنے والے شعراء آج بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ ان غزلوں میں تخیل اور رومان کی وہ رنگینیاں نہیں ہیں جو افسانے کو حقیقت اور حقیقت کو افسانہ بنا دیتی ہیں اور جنھیں آج بھی بعض حضرات غزل کا طرہ امتیاز خیال کرتے ہیں۔ اس فرسودہ روش کے بر عکس زیر نظر مجموعہ کی غزلوں کا لہجہ آج کی زندگی کی طرح پر شور، سخت اور حقیقت پسندانہ ہے۔ یہ غزلیں پرانے خیال اور رسمی مضامین سے بہت دور ہیں۔ یہ در اصل شاعر کے حقیقی اور سچے تجربات و مشاہدات کا آئینہ ہیں۔ ایسا آئینہ جس میں ہمارے آپ کے عہد کی زندگی اپنی جملہ رعنائیوں اور ریا کاریوں کے ساتھ صاف نظر آتی ہے۔ زندگی کی یہی روش جو خود کو بے نقاب کر کے ان غزلوں کے ذریعہ ہمیں اپنی جھلک دکھاتی ہے، اس مجموعہ کو ایسے مردانہ لب و لہجہ سے ہمکنار کرتی ہے جس کا واضح نشان اس سے پہلے صرف شادؔ عارفی کے یہاں ملتا ہے۔ غزل کی شاعری سے شعوری طور پر طنز کے نشتروں کا کام لینے کا آغاز اردو میں مظفر کے استاد شاد عارفی نے کیا تھا۔ مظفر حنفی نے ان نشتروں کو کچھ اور آبدار بنانے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ ہر طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ ‘‘                          پروفیسر فرمان فتح پوری

 

 

 

 

                نعیم کوثرؔ

بھوپال

 

میرے دوست مظفر حنفی

 

٭مظفر حنفی کی ہزار شیوہ شخصیت میں ہزار آہنگ ہیں اور ہر آہنگ میں انفرادیت ہے۔

٭ ادب اطفال میں حنفی کی کہانیاں اور نظمیں اخلاقی درس ہی نہیں بلکہ بچوں کی ذہنی نشوونما، مزاج کی تربیت اور تہذیبی روایات سے انھیں روشناس کراتی ہیں۔

٭ مظفر حنفی کے افسانوں میں تجریدیت، ارضیت اور آفاقیت ہے۔

٭ ڈاکٹر مظفر حنفی کی تنقید و تحقیق میں ژرف نگاہی، فکری توازن اور عمیق بصیرت ہے۔

٭ ’’چل چنبیلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ سفرنامہ ہونے کے باوجود مواد اور اسلوب میں منفرد ہے۔ اس میں تخلیقی شان اور شگفتگی ہے۔

٭ ان کی نظموں اور غزلوں میں جدیدیت، فصاحت اور بلاغت ہی نہیں سلاست، متانت، حلاوت، فراست اور ملاحت ہے۔

روانی سے قلم یہ سب لکھتے لکھتے یک لخت رک گیا۔ درد بھری سسکاری لی جیسے تیز رفتار اونٹ ’’ژاژ‘‘ کے جھاڑ دیکھ کر رک جاتا ہے۔ سر تھام کر سوچا کہ اے عالم کے رب! ڈاکٹر حنفی کی فکری اور تخلیقی لیاقت و صلاحیت سے اردو ادب کا ہر معتبر قلم کار بخوبی واقف ہے۔ ایسی درسگاہیں جہاں ’’ پی ایچ ڈی ٹکسال سے فیضیاب مدرس نہیں پائے جاتے وہاں کے طلباء نے بھی مظفر حنفی کی نثری تصنیفات اور شعری مجموعے ضرور پڑھے ہوں گے۔ معیاری رسائل میں ہوش مند قارئین ان کی تخلیقات سے محظوظ ہو چکے ہیں۔ لیکن فکر و تشویش ہوئی، موجودہ نسل کے طلباء اور قارئین کی جن سے قبل کی تین نسلیں اپنے گھر کے آنگن اور اطراف کی کشادہ چھتوں پر اردو زبان کو برہنہ لاچار اور اپاہج دیکھ چکی ہیں۔ وہ کس طرح پروفیسر حنفی کے تخلیقی شعور کی عظمت پہچانیں گے۔ آج کے مدرس ماضی قریب کے قد آور ادیب و دانشور نما مدرس جیسے نہیں ہیں۔ وہ مرحومین بیتی صدیوں کے شعراء، انشاء پرداز ادیبوں اور دانشوروں کی عالمانہ صلاحیتوں اور فرزانگی کو اپنے طلباسے مخلصانہ دلجوئی اور بڑی دل سوزی سے روشناس کراتے تھے۔ اب تو سہل پسندپروفیسر ان ٹائی سوٹ میں ملبوس، کر و فر کے ساتھ ماروتی کار میں بیٹھ کر آتے ہیں۔ ریڈی میڈ نوٹس کلاس میں تقسیم کرتے ہیں کہ پڑھ لو۔ اس قسم کے شارٹ کٹ سے مستقبل کے مدرسوں کا جو اسٹاک تیار ہو گا وہ اردو کی منتشر اور بے ترتیب نسل کی کیسے آبیاری کرے گا۔ یہ تو بلند قامت فاروقیؔ اور نارنگؔ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ محولہ حالات میں مظفر حنفی کو کس طرح کی آسان زبان اور اسلوب میں باندھ کر قارئین کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ فصاحت، بلاغت، ارضیت اور آفاقیت کی ست لڑی آنکھوں کو خیرہ کر دے گی۔ ہزایکسی لنسی ڈاکٹر محمد حسن کی ایک تقریر کا یہ اسٹائل بھی قاری کو ہضم نہیں ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ اس میں ایک مفروضہ ہے۔ ایک چیز سپوز کر لی گئی۔ ان دونوں کے اندر کوئی کنٹروڈکشن، کمیونیکیشن ہے۔ کوریلیشن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ راقم الحروف نہ نا قدانہ نثار۔ صرف معمولی کہانی کار ہے۔ ’’ تو گدھی کمہار کی تجھے رام سے کیا کام‘‘۔ اچھا یہ ہے کہ انداز تحریر اور قارئین کے درمیان کبڈّی والی موٹی لائن کھینچ دی جائے۔ ایک طرف سے شکایت فنکار چیخے ’’خنجر سے شمشیر بنے گا‘‘ تو ادھر سے قاری گھٹی گھٹی آواز دے ’’ کبڈّی تین تارا، سلطان بیگ مارا‘‘ بہر حال مجھے پورن وشواس ہے کہ طالب علم اتنا تو کہے گا کہ ڈاکٹر مظفر حنفی اپنی کلا میں سمپورن ہیں۔ وہ پریاس کرے گا کہ شبدوں کے اس گورکھ دھندے کو حل کیا جائے۔ کیونکہ یہ شبد اس دھرتی پر جنمے ہیں۔ سموچہ اردو سماج ان کی سمیٹا سمیٹی کرے۔

شروع کرتا ہوں نام لے کر سید احمد دہلوی کا جنھوں نے اردو کی تعلیم دی۔ املا درجہ اوّل اور تلفظ فرید کوٹی۔ پانی میں الفاظ ڈالے اور پانی منجمد ہوا۔ آغاز کیا ’’ الف سے‘‘ اور امیر خسرو دکھائی دیے:

نیم سے کڑوے جن کے بول

پھر بھی ادب میں ہیں انمول

ناقد بھی ہیں اور سخن ور

کیا سکھی حالیؔ؟ نا سکھی مظفرؔ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مظفر حنفی نے ۱۹۳۶ء کا مالی سال شروع ہونے پر دنیا میں آمد درج کی اور ہم نے ۱۹۳۶ء کے آخری مہینے میں آنکھیں کھولیں۔ ایک نیم کے درخت کو ’’ نر نیم‘‘ کہتے ہیں۔ بہت کڑوا اور کسیلا۔ لیکن سر سبز اور عمر بھی طویل ہوتی ہے۔ اسی لیے بزرگ نو مولود بچے کو دعا دیتے ہیں۔ ’’تیری عمر کڑوے نیم سے بڑی ہو‘‘۔ قارئین اس نکتہ کو باریکی سے نوٹ کر لیں۔ پروفیسر حنفی کا چہرہ کتابی ہے۔ گردن معشوقانہ تو نہیں پھر بھی صراحی دار کہی جا سکتی ہے۔ سانولا رنگ، کشیدہ قامت، یعنی دراز قد۔ جسے ’’ لم چھڑ‘‘ کہتے ہیں۔ بال گھونگر والے ایسے کہ گانا گانے کو دل چاہے۔

مونچھوں کے بجائے بل کھاتے ہوئے سر کے بالوں کو بل دیتے ہیں۔ شلجمی آنکھیں، دونوں ایک دوسرے کی سہیلیاں۔ سرسوں آنکھوں میں پھولے۔ ستواں ناک جس پر مکھی بھی نہ بیٹھے۔ ہونٹ کیا بات ہے؟ جیسے ہر وقت یہ کہنے کو کھلتے ہیں ’’ سچ کا زمانہ نہیں ‘‘۔ سوٹ اور ٹائی میں دیکھنے والے کو مجبور کرتے ہیں کہ کہہ اٹھے کیا سجیلا جوان ہے۔ خوش مزاج۔ ہنستے ہی گھر بستے ہیں۔ دل اور زبان کے سچے۔ ’’ جو ہانڈی میں ہے وہی ڈوئی میں نکلے گا‘‘ یہی وجہ ہے کہ ’’ وہی لکھتا ہے جو کچھ دیکھتا ہے۔ ‘‘ جہاں تک لیاقت اور صلاحیت کا سوال ہے۔ مکمل ابجد، ہوّز، مل گیا۔ حطی، واقف ہوا۔ کلمن، متکلم ہوا۔ سعفص سے سیکھا۔ قرشت، ترتیب دیا۔ ثخّذ، محفوظ رکھا۔ ضظّغ، تمام کیا۔

نسیمؔ دہلوی ہم موجدِ بابِ فصاحت ہیں

کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں

محکمہ جنگلات میں ساگون، سال اور ببول کی چھال اور کانٹوں میں تُل کر بکے۔ کار طفلاں پر اس انداز سے جھپٹے جیسے امّاں، دادی بچوں پر سے تکّے اتارتی ہیں۔ نظر گزرنے کے واسطے منگل کے روز بچوں کے اوپر سے گوشت کے ٹکڑے اتار کر چیلوں کو کھلاتی ہیں اور بچے ’’چیل چلو چیل چلو‘‘ کہہ کر اچھالتے ہیں۔ بچوں کی کہانی ہو کہ نظم۔ ہر لفظ بڑی بات ’’ تل کی اوٹ پہاڑ‘‘۔ بچوں کی کھلواڑ اور چالاکی انھیں کی طرف اچھال دیتے ہیں۔ تم نے اڑائی ہم نے بھون کھائی۔ بچے مسکراتے، خوش ہوتے اور بدبداتے ہیں۔ تُو ڈال ڈال میں پات پات۔

اس میں ہے اپنی ہی بھلائی

کہنا بڑوں کا مانو بھائی

کڑوے نیم کی کونپلیں بالکل لوکاٹ کی طرح کھٹ میٹھی تھیں۔ کانا باتی کُرکراتے ہوئے ادب میں جلوہ دکھایا۔ خدا مہربان تو جگ مہربان۔ بس قدم بڑھتے گئے۔

خلّاقی میں ابال آیا تو افسانہ نگاری کے میدان میں خم ٹھونک کر اترے۔ حنفی صاحب کو ربِّ کریم نے علم و عقل دی تو چھپر پھاڑ کر دی۔ ہینگ لگی نہ پھٹکری۔ کرشن چندر کے روئیں روئیں نے دعائیں دیں۔ کہانی کی ہر کسوٹی پر کھرے اترے حلق سے نکلی خلق میں پڑی۔ ماہنامہ ’’ شب خون‘‘ الٰہ آباد کے شمارہ جولائی ۱۹۶۷ء میں ان کے افسانوں کے پہلے مجموعہ ’’ اینٹ کا جواب‘‘ کا اعلان آنکھوں میں کھٹکا۔ واہ پیر علیا، پکائی تھی کھیر ہو گیا دلیا۔ چار روپے میں بھونچال باقی آئندہ سال۔ ’’ دو غنڈے‘‘ اور ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ اسے کہتے ہیں سونے پر سہاگہ۔ علی گڑھ سے کامیاب ہوئے اور سرخاب کا پر لگا کر لوٹے تو پروفیسر عبدالقوی دسنوی کے ہتّے چڑھ گئے۔ سو بات کی ایک بات یوں کہ نسیم دہلوی کے شعر کی طرح شعر و سخن کے دروازے کھل گئے۔ بنا تکلف، رکاوٹ، مرعوبیت اور آرائش۔ دل خوش ہوا کہ افسانہ نگاری سے ایک رقیب نے ہاتھ کھینچ لیے۔ اس طرح داستانوں نے گونگے کا گڑ کھا لیا۔ حضرت شاد عارفیؔ کا Correspondence course تھام کر نظم اور غزل کو سنبھالا دیا۔

مجازؔ ٹھیک کہتا تھا’’ آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی‘‘ غزل ہو کہ نظم۔ فکر و خیال اور الفاظ کی تُرپائی یوں کرتے ہیں مانو دلہن کی اوڑھنی میں گوٹا کناری ٹانک دیا ہو۔ استاد مرحوم نے سچ فرمایا تھا۔

خنجر سے شمشیر بنے گا

وہ ظالم دو چار برس میں

بہر حال کنوئیں کی مٹی کنوئیں کو لگی۔ شاد عارفیؔ سے سند لیاقت ملی۔ نیک نامی اور نیک چلنی کی شہادت مل گئی۔ استاد نے فرمایا:

اب ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہو گا

فن کو سو میل کی رفتار سے چلنا ہو گا

اس نکتے کو ڈاکٹر مظفر حنفی سمجھ گئے۔ وقت نے دکھا دیا کہ شاگردانِ شاد عارفی میں خلیل الرحمن اعظمی اور مظفر حنفی نے شعر و ادب میں بڑے منصب پائے۔ عقل مند آدمی درخت کا پھل تو کھاتا ہی ہے لیکن درخت کی حفاظت کو اوّلیت دیتا ہے۔ شہرت کی لالچ نہیں کی۔ شیر کے برقعہ میں چھیچھڑے نہیں کھائے۔ رام پور کی افغانی انا اور وقار کو قائم رکھا۔ اعظمی اور حنفی لگتا ہے شادؔعارفی کے ’’ ناک رگڑے بچّے‘‘ تھے۔ مراسلاتی منتیں چوکھا رنگ لائیں۔ مظفر حنفی کی سخن دانی ہو یا سخن چینی، تنقید ہو یا تحقیق۔ ہر میدان میں شادؔ کی شادمانی کا باعث بنے۔ ’’ گرو جو تھا وہ تو گڑ ہی رہا ولے اس کا چیلا شکر ہو گیا۔ ‘‘ پروفیسر دسنوی کی کسوٹی پر کھرے ترے تو ’’ فرید شکر گنج۔ نہ رہے، دکھ نہ رہے رنج‘‘ کا ورد کرتے دہلی آ گئے۔ چار قدم چلے اور اوکھلا میں دبی آگ اکھیڑنے لگے۔ جیسے طے کر لیا ہو اوکھلی میں دیا سر تو موسلوں کا کیا ڈر، بیضہ فولاد سے غزل کشید کرنے لگے۔ شادؔ عارفی پھر چوک گئے۔ ببولوں پہ بلبل کہیں بولتا ہے۔ ہم جانتے تھے محکمہ جنگلات کی چاکری میں مظفر حنفی کو درختوں، پرندوں، درندوں اور چرندوں نے شعر و سخن کا بایاں پاؤں پوجنے کی رغبت دی تھی۔ ببول جسے مغیلاں کہتے ہیں اس کی چھال سے چمڑا رنگتے ہیں۔ شراب کا خمیر اٹھاتے ہیں۔ بتائیے جب بلبلہ خمیر میں ابھرے گا تو بلبل ببول پر بیٹھنے سے کیوں شرمائے گی۔

جب شادؔ عارفی سے شاگردی کا رشتہ ہوا اس وقت مظفر حنفی ’’ بندروں کا مشاعرہ‘‘ (۱۹۵۴ء) لکھ چکے تھے۔ ان کے پانچ ناول چھپ چکے تھے اور پہلا شعری مجموعہ ’’ پانی کی زبان‘‘ (۱۹۶۷ء) بھی شادؔ صاحب کے انتقال (۱۹۶۴ء) کے فوراً بعد آیا۔ ویسے استاد مرحوم ہند و پاک کے مقتدر رسائل میں چیلے کا کلام پڑھ چکے ہوں گے۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو مظفر حنفی کے فکر و فن کو ’’ گز الٰہی‘‘ سے ناپتے جو اکبر اعظم کے دور میں ۴۱ انگل کا ہوتا تھا۔ پھر بھی ’’ گز فاروقی‘‘ اور ’’ گز نارنگ‘‘ ان کی پیمائش کر چکے ہیں۔ کئی عظیم ناقدین ان کے ۱۲ شعری مجموعوں اور تخلیقی توازن پر مہر لگا چکے ہیں۔ ہاتھی کا بوجھ ہاتھی ہی اٹھا سکتا ہے۔ شادؔ عارفی کی روح مطمئن ہوئی کہ گھوڑے کی دم بڑھے گی تو اپنی ہی مکھیاں اڑائے گا۔ انھوں نے کہا تھا:

ہو چکا ہے خیر سے ہشیار تو

اپنے دشمن پر اٹھا تلوار تو

مظفر نے بے باک تنقید کا میان خالی دیکھا تو لنگوٹ باندھ کود پڑے۔ ایمان دار اور غیر متعصب ناقدین کا تیل جل چکا تھا۔ سونا گھر بھڑوں کا راج، دیمک کے دانت، سانپ کے پاؤں اور چیونٹی کی ناک کسی نے نہیں دیکھی۔ مگر حنفی کی تنقید کچھ ایسی ہی ہے کہ بھاری بھرکم کتابوں اور ان کے مصنفین کی لیاقت و بصیرت اور شعری رموز کو جھنجھوڑتی ہے اور ڈنک مارتی ہے۔ ایرے غیرے بدک گئے۔ شاد عارفی نے کس بلا کو پیچھے لگا دیا۔ ناقدین کا کیا؟ اس طرح کے ہو گئے ہیں کہ گدھا گھوڑا ایک بھاؤ۔ ڈاکٹر حنفی قلم کی روشنائی میں خمیر اٹھاتے ہیں تب خم اڑتا ہے۔ جوش اور سچ ابلتا ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتے ہیں۔ بات کا بتنگڑ نہیں بناتے۔ چھلنی میں ڈال چھاج میں اڑا دینا ان کا شیوہ ہے۔ موضوع کی چٹکی دابتے ہیں  بالکل سنگ شوئی کے انداز میں۔

چاول دال میں پانی ڈال نیچے تلی میں بیٹھے کنکر چنتے ہیں اپنی رائے سے مصالحت کرنے کے عادی نہیں۔ کچھ گوشہ جھکے کچھ کمان، ان کے ایجنڈا میں نہیں ہے۔ ان کی نقد و نگاہ ایسا گُڑ نہیں جسے مکھیاں کھائیں۔

شاد عارفی ( مرحوم) مظفر حنفی کے خضر ہیں۔ استاد ان کی کمزوری ہیں۔ یوں تو کسی سے بغض نفاق نہیں۔ یاراں چوری نہ پیراں دغا بازی، لیکن شاد عارفی پر جاہلانہ اور غیر معقول تبصرے اور نکتہ چینی کسی قیمت پر برداشت نہیں کرتے۔ ڈاکٹر بشیر بدر نے گستاخی کی حنفی مسکرائے۔ ابھی دکھاتا ہوں۔ احمد کی داڑھی بڑی یا محمود کی۔ گنجی کبوتری محل میں ڈیرا۔ ڈاکٹر حنفی کے ذہن میں کالے کی سی لہر آئی۔ کیا بھدا کا دیا، وہ للکار ا، قاضی جی اپنا آگا تو ڈھانکو، پیچھے نصیحت کرنا۔ میاں بشیر پر ایسی کونچ کی پھلی مسل دی کہ ناخنوں سے کھجا کھجا کر گنجے ہو گئے۔ ذات کی بلائی برابر بیٹھے کم ذات کی بلائی نیچے بیٹھے۔ ڈاکٹر حنفی کی حالت اس معاملے میں کچھ ایسی ہوتی ہے کہ سوا نیزے پر سورج آ جاتا ہے۔

ڈاکٹر حنفی نے دلائل کی ڈولی سجا کر ڈاکٹر بشیر بدر کی گلی میں آواز لگائی۔ سواری اتر وا لو، نتیجہ ہم نے دیکھا بشیر بدر پتلی گلی سے آٹھ آٹھ آنسو روتے نکل گئے۔ ڈاکٹروں کی لڑائی میں تنقید کی باگڑ فضیحت سے محفوظ رہی۔ کیونکہ ڈاکٹر حنفی کو نقص نگاری سے چڑ ہے۔ نقد نگاری سے نہیں۔ ویسے شاد کی نکتہ چینی کرنے والوں کو وہ بچھیرہ پلٹن سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ہم انھیں شاخ زعفران کہتے ہیں۔ اب کیا کریں ان کی عادت ہے لومڑی کے شکار کو جاتے ہیں تو شیر کا سامان کرتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کی ’’ آسماں محراب‘‘ ہویا خود ہمارے پدر بزرگوار کوثر چاند پوری کی ’’ شعلہ سنگ‘‘ کورا استرا ہاتھ میں اور توقع نہیں کرتے کہ چونی بھی کہے مجھے گھی سے کھاؤ۔ ان کی تنقید اور تحقیق انتہا پسند نہیں۔ بے باک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سامنے والے چیخ اٹھتے ہیں۔

کسی فنکار کی شخصیت فن یا کتاب پر قلم اٹھانے سے پہلے چھی چھی کوا کھائے۔ دودھ بھاتی ننّا کھائے‘‘ کی ترازو پر اچھائیاں اور کمزوریاں چھانتے ہیں۔ راگ کا چھنا سر گنگناتے ہیں، سا۔ ر۔ ے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی لکھتے ہیں تو کسی طرح کی مروت سے کام نہیں لیتے۔ دلائل ایسے کہ کوئی تردید اور تصدیق کی ہمت نہ کرے۔ دمڑی کی ہانڈی لیتے ہیں اسے بھی ٹھونک بجا کر، الفاظ اور دلائل کو کرکری ہڈی کی طرح چباتے ہیں پھر خود ساختہ قد آوروں کی خوب کرکری کرتے ہیں اور جتا دیتے ہیں۔ ’’ ابھی دور رہو۔ ‘‘ورنہ کھینچوں گا وہ بال کہ جس کی جڑ دور ہو گی۔ کیونکہ ناقدین کی پیشہ ورانہ حکمت عملی سے اچھی طرح واقف تھے اور ببانگ دہل کہہ چکے تھے:

کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں

مظفر سر بسر انکار ہو جا

شاعر کا کیا؟ وقت وقت کی راگنی، جیسا موقعہ دیکھا ویسی ہی راہ پکڑی۔ مگر حنفی صاحب نے ہر صنف میں استاد کی روایات کو سر آنکھوں پر رکھا۔ ڈاکٹر عبد الرحمن بجنوری نے دیوان غالب نسخہ حمیدیہ کا مقدمہ تحریر کر کے غالب کو نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ تازی کو مارا ترکی کانپا۔ ایسا ہی ایک ناقابل فراموش کارنامہ ڈاکٹر حنفی کا بھی ہے جنھوں نے تن تنہا، ’’شادیات‘‘ کو اردو شعر و ادب میں محمد شاہی مہر کی طرح ثبت کیا تو شادؔ نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ ایسا کر کے مظفر حنفی خود بھی اٹاری پر چڑھ جائے گا اور انھیں بھی کڑی محنت اور لوہے کے چنے چبا کر چھپا رستم بنا دے گا۔ غالبؔ کا کیا وہ تو صدی پہلے مشہور تھے اور آج بھی ہیں۔ لیکن شادؔ ہمارے زمانے کے شاعر تھے اور گمنام ہو رہے تھے۔ انھیں دریافت کر لینا قارون کا خزانہ پانے سے کم نہیں۔ جیسا سوت ویسا پھینٹا۔ شاگردی کا حق ادر کر دیا۔ اگر چہ یہ مسئلہ بھی دیمک کے دانت جیسا تحقیق کا مطالبہ کرتا ہے۔ حنفی نے بڑے پاپڑ بیلے، زور زبردستی بلکہ بالجبر شاگرد بنے اور شادؔ مرحوم نے بھی باز کو شاہین کا لقمہ دے دیا۔ نہ استادکو جی بھر کے دیکھا نہ رام پور گئے۔ سوچتے تھے کہ کھنڈوا سے باہر جانا ایسا ہی ہے کہ دلی کی بیٹی اور متھرا کی گائے۔ کرم پھوٹیں تو باہر جائے۔ دنیا کچھ بھی کہے حنفی صاحب لیاقت مند شاعر ہیں اور اب تو بخت کرے یاری تو کر گھوڑے کی سواری۔ شعر و ادب میں ان کا ڈنکا بج گیا۔

شادؔ عارفی کی رحلت پر اہل شعر و ادب اور عمائدین شہر کی سرد مہری، ہمدموں کی بے رخی اور شاگردوں کی بے حسی کا المناک بیان دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔ ’’کتیا چوروں مل گئی۔ پہرہ دیو سو کون‘‘۔ ’’ کس کا انتقال ہو گیا؟‘‘ دس پندرہ آدمیوں کی انتہائی مختصر جمعیت کے ساتھ جنازہ دیکھ کر ایک راہ رونے از راہ ترحم پوچھا۔ ’’ شادؔ عارفی کا!‘‘ اسے کہتے ہیں قاضی جی کی لونڈی مری سارا شہر آیا۔ قاضی مرے کوئی نہ آیا۔ اردو کے ایسے کتنے عظیم شاعر اور ادیب گمنامی، لاچاری اور قدر نا شناسی کا شکار ہوئے۔ کون یاد رکھتا ہے۔ یہ اعلیٰ ظرفی نہیں تو کیا ہے۔ حنفی کی عقیدت استاد کے لیے آج بھی برقرار ہے۔ لاٹھی مارے پانی جدا نہیں ہوتا۔ رام پور کے نیاز مندان تو بس یونہی تھے۔ من میں شیخ فرید بغل میں اینٹیں۔

پروفیسر حنفی کو خوب دیکھا اور پرکھا ہے۔ ادبی محفلوں میں جاتے ضرور ہیں پھر بھی احتمال رہتا ہے کہ کاجل کی کوٹھری میں دھبے کا ڈر۔ شادؔ صاحب کو کوئی معزز آدمی محفل میں نہیں بلاتا تھا کہ منہ پھٹ آدمی ہیں۔ کہیں ایسی ویسی بات نہ کر بیٹھیں۔ بے باک اور دلیر تو حنفی صاحب ہیں۔ مگر خاکساری سے سر جھکا کر بیٹھتے ہیں۔ لگتا ہے پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی ایسی نہ ہو گی۔ کبھی ایسے موقع پر داغ یاد آ جاتے ہیں :

پوچھو جناب داغؔ کی ہم سے شرارتیں

کیا سر جھکائے بیٹھے ہیں حضرت غریب سے

دانشوروں کے بیچ ایسے رہتے ہیں کہ پانچوں پنڈے چھٹے نارائن۔ ادبی مسئلہ چھڑ جائے تو شادؔیات کی رگ پھڑک اٹھتی ہے۔ کوئی گونگے کا گڑ نہیں کھایا۔ ان کا ظاہر اور باطن، فنی اور فکری ذمہ داری کی نظیر ہے۔ استاد کی تحریر موجود ہے’’ اپنی سنجیدہ اور بے باک رائے ظاہر کرنے میں قطعاً تکلف نہ کرو‘‘۔ بے قائدہ تکرار نہیں کرتے۔ اس بات کے قائل ہیں کہ بڑا بول نہ بولیے، بڑا لقمہ نہ کھائیے۔ احساس برتری نہیں لیکن کمتری سے لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ ہر ایک سے ملنساری اور خلوص سے پیش آتے ہیں مگر صاف گوئی سے پلا نہیں جھاڑتے۔ با مسلما ں ا للہ اللہ، با برہمن رام رام۔

پہلے جامعہ ملیہ کے شعبۂ اردو میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ساتھ ریڈر تھے۔ بنگال والوں نے آب و دانہ دکھایا۔ اقبالؔ کی کرسی پیش کر دی۔ اللہ شکر خورے کو شکر ہی دیتا ہے۔ اس اچانک تلوا کھجلائے آفر کو بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا سمجھ کر ٹیگور کا دامن تھاما، جدھر مولا ادھر اُدھر دولہ۔ جا کر خوب نام کمایا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی خدمات کو کلکتہ میں شامل کیاتو بڑی رقم ہاتھ آئی۔ سوچا اوس سے پیاس نہیں بجھتی۔ دہلی کے قریب باغ لگایا اور مرغیوں کو شعر و شاعری سکھانے کی ٹھانی۔ لیکن مقطع بگڑ گیا۔ آ پڑوسن گھر کا بھی لے جا۔ کیا کرتے اب تو پتھر تلے ہاتھ دب گیا تھا۔ ہوئے آب آب مثل فوّارہ۔ ثواب نہ عذاب۔ کمر ٹوٹی مفت میں۔ آگے حالات کی خبر نہیں۔ ستّر کان بہتّر جھول۔ اللہ اللہ خیر صلیّٰ۔ تماشا دیکھ لیا گھر نہیں پھونکا۔

یہ بات اہم ہے کہ حنفی نے کھنڈوا سے ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ تو شادؔ صاحب نے فتویٰ دیا ’’گھاسپورہ سے نئے چراغ کا اجرا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ کسی کچھار میں جگنو کا چمکنا‘‘۔ میری رائے الگ ہے۔ گھوڑا گھڑ سال ہی میں قیمت پاتا ہے۔ مظفر حنفی نے کھنڈوا میں مکمل نروان حاصل کیا۔ وہاں جو چھوٹا سا چراغ جلایا تھا، آپ خود دیکھ لیں آج ’’ پاور ہاؤس ‘‘بن گیا ہے۔ جس کی روشنی دنیا بھر کی اردو محفلوں کو جگمگا رہی ہے۔

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

اہلِ خانہ بھی جماعت سے کرامت ہے کے مصداق بی بی نیک بخت۔ چھٹانک دال میں دو وقت۔ موم کی مریم۔ جنگلات کی ملازمت نے اچار کر دیا تھا۔ لیکن شریکِ حیات ’’ آپ آئے بھاگ آئے‘‘۔ ہاتھ چھاؤں رکھتیں اور دیکھ لیا ہنستے ہی گھر بستے ہیں۔ سخی کا بیڑا پار ہوا تو کہاں سے کہاں چھلانگ لگائی، عزت اور عظمت نے قدم چومے۔ سارس کی سی جوڑی۔ بہو بیٹی کو سل بٹّے سے نجات دلائی۔ ہر وقت یہی کہنا۔ جس میں تیری خوشی ہو میں خوش، میرا خدا خوش۔ پانچ بیٹے آنکھوں کا نور۔ ان سعادت مند دودھ پوت کی ایک بہن۔ بہن بھی ایسی جیسی مائی ویسی جائی۔ خوشیوں کی چھ لڑیاں چمکتی رہیں۔

٭٭٭

 

’’  ’طلسمِ حرف‘ کے شاعر نے شاد عارفی مرحوم کے رنگ سے شروعات کی تھی۔ بے رحم چٹکیاں، کھرونچ، بے باکی، بے تعلقی، بے لطفی کی حد تک پہنچنے والے طنز، گلی کے کھڑنجے پر کھڑاؤں پہن کر کھٹاپٹ چلنے کی آوازیں۔ شاد کی باز گشت سے نکل کر وہ یگانہ چنگیزی کے تیکھے لہجے، دلنواز ترنم اور اکھڑ تغزل تک آیا۔ زندگی کے وسیع مشاہدے اور شدید تر سنگھرش نے اسے خاص اپنے زمانے کی کھردری حقیقتوں، روز مرہ کی نا ہمواریوں اور بیان کی آڑی ترچھی لکیروں کا برتنا سکھایا۔ غزل تیار کرتے وقت اب وہ لفظوں کو کھرل اور ترکیبوں کو کپڑچھن نہیں کرتا۔ دردرا پن رہنے دیتا ہے تاکہ آپ ایک گھونٹ میں حلق سے نہ اتار لیں۔ تھمیں، اٹکیں، چبائیں اور تب لطف لیں۔ غزل کے بعض مصرعوں کا تو ’’ حالانکہ ‘‘، ’’ یوں سہی‘‘، ’’ چناں چہ‘‘ وغیرہ الفاظ سے شروع ہونا، دانستہ شروع ہونا، اس دردرے پن کا ایک پہلو ہے، دوسراپہلولفظوں سے وہ بے تکلفانہ برتاؤ کہ علاقائی، مقامی اور انگریزی وغیرہ کے کام آنے والے الفاظ اور علامات (کرفیو، اسپیڈ، لائیٹر، بلب، کلہاڑی، استھیاں، جیپ، انجینئر، ڈائری، فوٹو وغیرہ)آلتی پالتی مار کر جا بجا بیٹھے ہیں۔ ‘‘                پروفیسر ظ۔ انصاری

 

 

 

 

 

                پروفیسرمختار شمیم

      سرونج

 

 

مظفر حنفی اور غزل کے آبگینے

 

صاحبو! میں ادب کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔ پڑھنا لکھنا میرا ذوق اور شوق رہا ہے، لیکن زندگی کے بعض معاملات کی طرح میری فطرت میں بھی شامل ہے کہ کم گوئی اور کم سخنی کے ساتھ ساتھ قلم کے آداب اور تحریر کے سلسلے کو کبھی دراز نہ کر سکا۔ لاکھ کوشش کے باوجود میں اس میدانِ  کار زار سے بچتا رہا۔ مجھے ان ادیبوں اور شاعروں پر ہمیشہ رشک آیا کہ ان کی جہتیں ہر فن میں آئے دن اپنی ذکاوت کا ثبوت دے رہی ہیں اور ان کا جوہر علمی ہر اعتبار سے اپنے مراحل کو طے کر رہا ہے۔ ہم تو بس! دل ہی دل میں ان کی مشاقی اور فضیلت پر آہ اور واہ کا وظیفہ دہراتے رہتے ہیں۔

جناب زمانہ اُسی کا ہے جس نے وقت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ شعلۂ جوالہ وہی بن سکتا ہے جس نے ہواؤں سے لڑنا سیکھ لیا ہے ورنہ کسی چنگاری کو خاکستر بننے میں دیر کتنی لگتی ہے!

محترم مظفر حنفی ان شاعروں اور ادیبوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے زندگی کے ہر محاذ پر اپنی طرحدار شخصیت اور اپنے بانکپن کو محفوظ رکھا ہے۔ ادب کی کون سی ایسی جہت ہے، فن کی کون سی ایسی صورت ہے کہ جس میں انھوں نے اپنی مہارت کا ثبوت نہ دیا ہو۔ یہی سبب ہے کہ ان کی طرحداری اور شخصیت کے بانکپن نے شعر و ادب کے گلزاروں میں اپنے لہو کی مہک کو شامل کیا ہے تو ادب اور فن کی جہات انگڑائیاں لے کر مسکرا اُٹھی ہیں۔

افسانہ، ناول، ترجمہ، تنقید اور تحقیق سے لے کر شعر و سخن کی سنگلاخ چٹانوں کو انھوں نے اپنی فطانت اور ذہانت سے یوں پانی کر دکھایا ہے کہ باید و شاید ہی کوئی ان کی ہمسری کا دعوا پیش کر سکے۔

دیکھنا کیسے ہمکنے لگے  سارے پتھر

میری وحشت کو تمھاری گلی پہچانتی ہے

غالباً اب سے پچاس برس پہلے مظفر حنفی سے میری پہلی ملاقات بھوپال میں واحد پریمی کے توسط سے ہوئی تھی۔ اس وقت میں حمیدیہ کالج میں زیر تعلیم تھا اور مظفر صاحب سیہور میں سرکاری ملازمت میں تھے۔ بھوپال میں مظفر حنفی کا ایک وسیع حلقہ تھا اور ان کی وہاں بڑی قدر و منزلت تھی ( آج بھی ہے) میری نا پختہ عمر تھی اور مجھ پر یہ منکشف ہو چکا تھا کہ مظفر حنفی ادب میں عظمتوں کے مینار تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی لیے ہر ملاقات میں یاتو میری نظریں زمین میں گڑی ہوئی ہوتیں یا انھیں گردن اٹھا کر دیکھنے کی جرأت میں اپنی ٹوپی بھی نہ سنبھال پاتا۔ بہر حال جس دور کا ذکر ہو رہا ہے، اس دور میں بھی مظفر حنفی قابل صد احترام تھے اور آج بھی وہی صورت ہے۔ بسیار نویسی اگرچہ مجھ خاکم بدہن کے نزدیک کوئی خوبی نہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ یہی چیز اس وقت خوبی کی دلیل بن جاتی ہے جب وہ ایک سطح سے بلند ہو کر اپنے معیار کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔ مظفر حنفی نہ صرف خوب لکھتے ہیں، ادب کی ہر صنف میں اپنا جوہر دکھاتے ہیں بلکہ اپنی ہر تخلیق کو شعور کی وہ رمق بخش دیتے ہیں کہ اس کے معیار اور وقار کی ضمانت کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔

اُسی زمانے ( غالباً ۶۶۔ ۶۵ء) کا ایک واقعہ ہے، ماہنامہ’ آذر‘ بھوپال سے جاری ہوا تھا؟ شفاؔ گوالیاری اس پرچے کے نگراں اور سرپرست تھے اور ان کے ایک شاگرد واحد پریمی اس کے ادارہ میں شامل تھے۔ ’ آذر‘ کا پہلا شمارہ ایڈٹ کرنے کے بعد میں نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ ’آذر‘ کے دوسرے یا تیسرے شمارہ میں مظفر حنفی کا ایک افسانہ ’کتّے‘ شائع ہوا تھا۔ افسانہ پر کسی صاحب کا رد عمل ( اگلے شمارہ میں ) سامنے آیا اور غالباً واحد پریمی نے اس کی درپردہ حمایت بھی کی۔ تو صاحب!  مظفر حنفی بھڑک اٹھے۔ ان کا مختصر مگر کرارا جواب بھی چھاپا گیا۔ ان کے مراسلہ کا یہ شعر میرے ذہن میں چپک گیا، اس کے باوجود کہ میں مجرم ذہن نہیں تھا، اور نہ مجھے اس قضیہ سے کچھ لینا دینا تھا:

’’ مظفرؔ چور کی داڑھی میں تنکا دیکھنا ہو تو

ہمارا شعر مجرم ذہن پر اچھا چپکتا ہے‘‘

بات در اصل یہ ہے کہ مظفر حنفی کا مذکورہ شعر ( یا مقطع) ان کی شعری افتاد کی بھرپور چغلی کھا رہا ہے اور یہی وہ طرز ہے جواب بہر حال بہت شستہ اور مہذب انداز میں ان کے اسلوب کا طرۂ امتیاز بن گیا ہے۔ اساسِ شعراسی حسّیت سے نمو پذیر ہے:

سیلابوں کو شہ دینے میں طوفاں کو اکسانے میں

کتنے ہاتھوں کی سازش ہے اک دیوار گرانے میں

ہمیں بھی پیاس لگتی ہے ہمیں بھی سانس لینی ہے

سمندر پر تمھیں قابو، ہوا پر حکمراں تم ہو

سوال یہ ہے کہ مظفر حنفی کا اسلوب شعر اتنا کاٹ دار، اتنا نکیلا کیوں کر ہوا؟ ان کی ذکاوتِ حس اتنی برق یاب کیوں ہے؟کیا شخصیت کی طرحداری میں اور شعر گوئی کی انفرادیت کی لپک میں کسی سوزشِ برق یا کسی شعوری کوشش کا دخل ہے؟ یا یہ کہ یہ شاعر کے مزاج ہی کا حصّہ ہے؟

توسنیے! زمانہ کی سفاکیت ہی اس کی تنہا ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ تو ان کے مزاج کے آتش زیر پا ہونے اور طبیعت کے برق رو ہونے کا باعث بھی ہے۔ پھر یہ کہ انھیں استاد بھی شادؔ عارفی جیسا جلا بھنا شخص ملا تھا۔ جو بہر حال نالاں تھا اپنے عہد کے طور طریق سے اور نا شائستہ ادبی خدمت کاروں سے۔ مظفر حنفی سے آپ پوچھیں تو شاید وہ بھی اپنے استاد کے فیض سخن کا اعتراف کریں۔ لیکن بات یہیں تک نہیں ہے۔ مجھ کم شعار کا خیال ہے کہ شاد عارفی سخن طرازی میں جس ہنر مندی کی تلاش میں تھے اور لپک لپک کر اس جگنو کی چمک کو اپنی گرفت میں لینا چاہتے تھے، حسنِ اتفاق کہ وہ ہنر مندی و ہیروں کی تراش کی جیسی واردات، مظفر حنفی کی شاعرانہ فطرت میں حلول کر گئی اور سراپا روشنی بن گئی۔

مجھے نہیں معلوم کہ مظفر حنفی کی ادبی زندگی کا آغاز نثر سے ہوا کہ نظم سے۔ اگر وہ نثر سے نظم( شاعری) کی طرف آئے ہیں تو یقیناً فتح یاب آئے ہیں۔ بالفرض انھوں نے (جیسی کہ روایت ہے) ابتدا میں ہی غزل کی زلفوں میں پناہ لی تواس میں حیرت کیا ہے کہ آج بھی وہ غزل کے ناموس کی حفاظت میں چاق و چوبند ہیں۔ صاحبان عالی شان اس جملۂ معترضہ سے میں گریز کرتا ہوں کہ’ ہر بوالہوس نے عشق پرستی شعار کی‘۔ مظفر حنفی کا معاملہ غزل کے ساتھ بوالہوسی کا ہے نہ عشق پرستی کا۔ اصل میں مظفر حنفی نے اردو غزل کے آداب کا بہر طور لحاظ رکھا ہے اور اردو غزل نے مظفر حنفی کو بڑے احترام سے نوازا ہے۔ مظفر حنفی کا زود حس ہونا اور اس پر جودت ذہن کی کار فرمائی کہ پلکوں سے ریزہ ریزہ چن لینا، اس کا رگہِ شیشہ گری سے بھی سوا نازک کام تھا، جسے غزل کا مزاج داں ہی ادا کر سکتا تھا۔ پُر گوئی کے باوجود وہ غزل کی ایمائیت کو ایقان کا درجہ دیتے ہیں۔

یقینا غزل کا ہیئتی نظام موضوع کا پابند نہیں رہ سکتا لیکن مظفر حنفی کا فن اس مقام پر ہے کہ جہاں موضوع ان کی غزل میں پناہ لینے کے لیے تڑپتے ہیں، بیتاب نظر آتے ہیں کہ قاری یا سامع ان کی شاعرانہ اپج کے ساتھ ساتھ ان کی غزل کے فنی رچاؤ کی بے پناہی پر تحیر کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

بنے ہوئے ہیں فصیلِ نظر در و دیوار

ہر اک طرف درو دیوار پر در و دیوار

خبر نہ پھیلنے پائے کہ جار رہا ہے کوئی

نہیں تو سر پہ اٹھا لیں گے گھر درو دیوار

 

فصلیں آتے جاتے لشکر کاٹے گا

اپنے بھاگ پسینہ، مولا پانی دے

 

اونچا ہوا سر نیزہ بہ نیزہ

یاروں کا احسان لبیک لبیک

مذکورہ اشعار مظفر حنفی کی پرانی غزلوں سے ماخوذ ہیں، لیکن ایمان سے کہیے ان اشعار میں ردیف و قافیہ کی پابندیوں کے باوجود مضمون ( موضوع) پانی سا بہتا نظر آ رہا ہے کہ نہیں !

مظفر کے لہجہ نے ثابت کیا

غزل قافیوں کا پلندہ نہیں

لفظوں کی بندش اور روزمرّہ محاورے کی آرائش کا یہی عالم ان کی نئی غزلوں میں مزید نکھر کر سامنے آیا ہے۔

تھوڑا سا التفات میاں یار بادشاہ

دینے لگے ہیں زخم دھواں یار بادشاہ

ہے کون دستگیر مِرا آپ کے سوا؟

سیلاب میں ہے قریۂ جاں یار بادشاہ

پھول برسائیں مرے دوست کہ پتھر برسائیں

میں نے ہاتھ اپنے اٹھا رکھے ہیں اوپر کی طرف

 

درد کے رشتے عداوت سے بڑے ہیں

آئے کانٹے سے کوئی کانٹا نکالے!

 

جو آ کے دشت میں دیکھا تو دشت غائب ہے

وہ میرے گھر پہ نہ کرتا ہو انتظار مرا

واقعہ یہ ہے کہ مظفر حنفی نے غزل کی روایتوں کو اک نیا موڑ دیا ہے اور اس صنف کو انھوں نے اپنے تیکھے لہجہ، نئے خیال اور درک سے آشنا کیا ہے۔ ان کے معاصرین میں شہریار، مخمورسعیدی، زبیر رضوی اور ندا فاضلی سے وہ انھیں اوصاف کی وجہ سے نمایاں ہیں کہ ان کے شعر کا خمیر انسانی ضمیر کی تہوں سے ابھر تا ہے اور کائنات کی وسعتوں کو رنگ آمیز بنا دیتا ہے۔

انھوں نے اپنی سخن طرازی کے بارے میں جو دعوا کیا ہے تو اس میں کیا شک ہے:

لکھتا ہے مظفرؔ روش عام سے ہٹ کر

شہرت اسے درکار نہ رسوائی کا غم ہے

نوٹ کر لیں مرا لہجہ نہ سمجھنے والے

کھردرا پن ہی مرے شعر کا گہنا ہو گا

اے مظفر مرے نقاد نہ مانیں لیکن

سینکڑوں رنگ مری طرزِ اداسے نکلے

سبھی جانتے ہیں کہ مظفر حنفی کی بے قرار روح کسی ایک صنف کی اسیر ہو کر نہیں رہ سکتی لیکن صنفِ غزل کو وہ اپنے اعمال نامہ کے لیے غیب سے فردوس خیال کی بشارت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اور اسی لیے لفظوں کی ایک کائنات اپنی طلسماتی قوت کے ساتھ انھیں غزل ہی میں نظر آتی ہے۔ ۱؎

تاہم عجیب بات ہے کہ غزل کے سیمیا بازار میں ہزار ہا خوشنما، طوطیِ جلوۂ صد رنگ تو نظر آتے ہیں لیکن جب طلسم ٹوٹتا ہے اور وقت آئینہ دکھاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے بہت کم غزل گو شاعر اپنی قدر و قیمت کے ساتھ تاریخ ادب کا حصہ بن پاتے ہیں، ورنہ تو کئی خوشنما پرندے اپنی اپنی بولیاں بول کر آسمانوں کی اونچائیوں کی فکر میں انھیں پہنائیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ مظفر حنفی ان خوش نصیب غزل گو شعرا میں سے ہیں جن کے اشعار اپنی چمک دمک، اپنی قدر کے اجالوں کا خود احساس دلاتے ہیں اور اپنی بلندیوں کی خبر خود ہی دیتے ہیں۔

مظفر حنفی کی غزل سے وابستگی کا عالم یہ ہے کہ تحریکوں اور نظریوں کی روشنی بھی ان کے گہر ہائے آب دار کو متاثر نہ کر سکی۔ ان کی غزل کا سچا شعر سچا ہی رہا۔ اسے نہ تو وقتی جبلّتوں نے اور نہ ہی جذباتی کرشموں نے اپنا اسیر بنایا کہ وہ تولا مکاں کی آزادانہ تلاش کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے کہ جس کس طرفگی میں شادابی و تازگی اور روشنی کے احساس کے ساتھ مشام جاں میں خوشبو بن کر باقی رہنے کی قدرت تا حیات موجود رہے گی۔

٭٭٭

 

 

 

۱؎       ’’ لفظوں کی طلسماتی قوت کے سب سے زیادہ کرشمے ہمیں غزلوں میں نظر آتے ہیں۔ ‘‘ (مظفر حنفی: روح غزل، ص ۴۵)

 

 

 

                ڈاکٹر مدحت الاختر

       ناگپور

 

ڈاکٹر مظفر حنفی اور میں

 

ڈاکٹر صاحب کا نام سب سے پہلی دفعہ میں نے پختہ روشنائی میں چھپا ہوا دیکھا، ’’مظفر حنفی ہسوی‘‘۔ یہ نام میں نے بحیثیت ایک مدیر کے ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ (کھنڈوہ)کے سرِ ورق پر دیکھا تھا۔ غالباً وہ پہلا ہی شمارہ تھا۔ ملک کے مقتدر ادیبوں کی تخلیقات اور نامور شاعروں کے کلام سے آراستہ۔ یہ کھنڈوا تو بھساول کے آس پاس کا کوئی مقام ہے یعنی میری اپنی کامٹی سے بہت قریب کا۔ تعجب بھی ہوا اور مسرت بھی۔ جی چاہا، خط لکھ کر ان صاحب سے رسم و راہ پیدا کی جائے۔ جسارت نہ ہوئی۔ کہاں ایک صاحب نظر مدیر اور ادیب اور کہاں ایک طالب علم جس نے ابھی ابھی میٹرک کامیاب کر کے بی۔ اے کے پہلے سال میں داخلہ لیا ہے اور جس کا کچھ ٹوٹا پھوٹا کلام روز نامہ انقلاب کے بچوں کے صفحے اور بزمِ شعرا کے کالم میں شائع ہوا ہے۔ جی مار کر رہ گیا۔ انھیں دنوں کامٹی سے ماہنامہ  ’خیال‘ شائع ہو کر بند  ہو گیا تھا۔ اس میں شاد عارفی کی چند غزلیں نہایت توجہ سے پڑھیں۔ ایک غزل کا مطلع اور مقطع اب بھی یاد ہے:

کچھ اس ادائے مصلحت سے مجھ کو دیکھتا ہے وہ

کہ یا تو جانتا نہیں ہے یا بہت خفا ہے وہ

کسی کی زلف پر شکن غزل ہے شادؔ عارفی

جہاں جہاں بھی موڑ ہے ’’ شکستِ نا روا ‘‘ ہے وہ

اپنے استادوں سے ’’ شکستِ ناروا‘‘ کا مفہوم تھوڑا بہت سمجھ کر وہ حظ حاصل ہوا کہ باید و شاید۔ کاش میں فنِ شعر گوئی میں شاد عارفی کا تلمیذ ہوتا۔ پھر چند ادبی رسالوں میں مطبوعہ خطوط سے معلوم ہوا کہ مظفر ؔحنفی، شادؔ عارفی کے شاگرد، مداح اور کلام شادؔ کے محقق و مرتب بھی ہیں۔ پھر دل میں ہوک اٹھی۔ کاش مظفر حنفی کا سایۂ شفقت میسر ہو جائے، لیکن:

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

بہر حال میرا تعلیمی سفر جاری رہا۔ تحریک، کتاب، شاعر اور شب خون جیسے معیاری رسالوں میں ان کے کلام سے استفادہ کرتا رہا، میرا ناچیز کلام بھی ان رسائل میں جگہ پاتا رہا۔ نہ ان سے ملاقات ہوئی نہ تعلقات استوار ہوئے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔

یونیورسٹی تدریس میں آنے کے بعد فارسی میں مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینی پڑی اور اردو فارسی شعبوں کے مشترک ہونے کے باعث دونوں مضامین کا ریسرچ گائیڈ بننا بھی نصیب ہوا۔ میری ایک طالب علم نے کنھیا لال کپور پر جیسا تیسا مقالہ تیار کر کے داخل کیا۔ ڈاکٹر موصوف ممتحن تھے۔ وائیوا کے لیے تشریف لائے۔ میرے ہم عصر شاعر محبوب راہیؔ ان کے ہمراہ تھے۔ پہلی ملاقات میں موصوف قدرے چیں بہ جبیں نظر آئے۔ یا الٰہی، یہ ماجرا کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ پورا مقالہ میرے اور ڈاکٹر عبد الرب صاحب کے خط میں مرقوم ہونے کے باعث کچھ مشتبہ سا ہو کر رہ گیا تھا۔ میں نے سادگی سے وضاحت کر دی کہ نہ صرف مقالہ ہم دونوں نے کتابت کیا ہے بلکہ کاغذ، جلد بندی اور یونی ورسٹی کی فیس بھی Shareکی ہے۔ خیر، وائیوا کے بعد ان کا عالم اور ہی تھا۔ محسوس ہوا کہ کوئی سینئر دوست یا بے تکلف بڑا بھائی جس کے خلوص اور شرافت کی بارشوں سے شرابور ہو گیا ہوں۔

اس کے بعد انھوں نے میری پہلی کتاب ’’ منافقوں میں روز و شب‘‘ پر حوصلہ افزا تبصرہ لکھا جو قلبی طمانیت کا باعث ہوا۔ خط کتابت، فون ٹاک سے کام چلتے رہے۔ پھر بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہمارے دوست اور محبِ اردوسید قمر الزماں (ایس۔ کیو۔ زماں ) صاحب نے ناگپور سے اردو روز نامہ جاری کر نے کا بیڑا اٹھایا اور بزم غالب کے چند ارکان مذکورہ اخبار کے ڈکلیریشن کے سلسلے میں نئی دہلی گئے تو محض چار چھ گھنٹے فرصت کے میسر آئے۔ دہلی کی سیر کرنے پر جملہ احباب نے اس بات کو ترجیح دی کہ جامعہ نگر چل کر ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے۔ ملاقات ہوئی اور ایسی کہ ہر ایک کے دل پر موصوف کے اخلاص، علمی لیاقت اور ادبی خدمات کا نقش کا لحجر تھا۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب پھر یونیورسٹی کے کام سے تشریف لائے اور اپنے قریبی عزیز، مشہورِ زمانہ حکیم ابّو میاں کے دولت کدے پر فروکش ہوئے۔ ان دنوں میرے ایک نا فہم اور کج مزاج شاگرد  نے ان کی آمد کی خبر سن کر ایک اُلٹی فرمائش کی۔ میں نے اس کو لاکھ سمجھایا کہ بد خواہی اور مظفر حنفی میں کوئی نسبت ہی نہیں، وہ نہ مانا۔ آخر عملی فہمائش کے لیے میں اس کو اپنے ساتھ لے گیا اور ان سے ملاقات کرائی۔ اس نے عرضِ مدعا کیا، خواہی نخواہی میں نے بھی اشارے کِنایوں سے کام لیا۔ میں آج بھی اس صبر و تحمل کو یاد کر کے اپنی درست فہمی پر ناز کرتا ہوں۔ انھوں نے بہت سادگی اور استقلال کے ساتھ اس ’’ کارِ ناحق‘‘ کی انجام دہی سے انکار کیا اور اپنی ’’ حق شناسی‘‘ پر اصرار کیا۔ کوئی دوسرا ہوتا تو ہم دونوں کو ذلیل و خوار کر کے اپنی قیام گاہ کے باہر کر دیتا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے اس شاگرد کو ان کے کردار کی عظمت کا ادراک ہو گیا۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس کے دوسرے ہی دن ڈاکٹر صاحب میری ایک عزیز شاگرد ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی کی ایک تازہ مطبوعہ کتاب کی رسم اجرا میں شریک ہوئے۔ میرے دل میں کوئی وسوسہ نہیں تھا۔ میں ان سے حسبِ معمول ملا۔ ان کو تو بیتے ہوئے کل کی کوئی بات یاد ہی نہ تھی۔

ہاں، یاد آیا۔ آکاش وانی ناگپور کی فرمائش پر میں نے ان کا انٹرویو بھی لیا ہے۔ یہ انٹرویو ’’ مظفر حنفی : ایک مطالعہ‘‘ مرتبہ فیروز مظفر میں شامل ہے۔ ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب کی ادبی اور تعلیمی خدمات کثیر الجہت ہیں۔ ان موضوعات کو چھونے کا یا را میرے قلم کو نہیں۔ میری حالت اس مصرع سے واضح ہے:

ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

                کامل بہزادی

     بھوپال

 

 مظفر حنفی: کچھ شیریں یادیں

 

میرے مضمون میں مظفرؔ حنفی کے فن و فکر کی ترجمانی ہے اور نہ ہی ان کی پہلو دار شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مضمون میں صرف ان خوشگوار یادوں کا ذکر ہے جو بھوپال میں ان سے وابستہ رہی ہیں۔

میر تقی میرؔ کے لیے دلّی عالم میں انتخاب ایک شہر تھا لیکن میرے لیے بھوپال ایک ایسا شہر ہے جس کے رخ پر تقدیسِ اِرم بھی ہے اور جس کی عظمت پر مورخ کا قلم بھی سرنگوں ہے۔ اس شہر میں جو بھی آتا ہے وہ اس سر زمین کے نشیب و فراز، چھوٹی بڑی جھیلوں اور خوشگوار فضاؤں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یوں تو میری پیدائش ناگپور کی ہے۔ ہائی اسکول کے امتحان میں کامیابی کے بعد میں ناگپور سکریٹریٹ میں ملازم ہو گیا ان دنوں ناگپور مدھیہ پردیش کی راجدھانی ہوا کرتا تھا لیکن لسانی اعتبار سے صوبوں کی تقسیم کے بعد بھوپال مدھیہ پردیش کی راجدھانی ہو گیا اور میرا تبادلہ بھوپال ہو گیا۔ یہاں کی مٹی نے میرے پاؤں اس مضبوطی سے جکڑ ے کہ میں یہیں کاہو کر رہ گیا۔

ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ (کھنڈوہ) مظفر حنفی سے میرے تعلقات کا ذریعہ ثابت ہوا لیکن ان کے بھوپال آنے کے بعد میرا رشتہ اور مضبوط ہو گیا۔ بھوپال میں مظفر حنفی کا قیام ۱۹۵۵ء سے ۱۹۵۸ء تک اور بعد ازاں ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۴ء تک رہا۔ مظفر حنفی محکمہ جنگلات میں تھے اور میں سکریٹریٹ میں ملازم تھا۔ ملازمت میں رہتے ہوئے ہم نے بی اے اور ایم اے کے امتحانات ایک ہی یونیورسٹی سے دیے۔ ان دنوں ہم دونوں سفینہ کالج بھوپال کے طالب علم تھے لیکن  ایم اے کرتے وقت مظفر حنفی سفینہ کالج میں تھے اور میں حمیدیہ کالج کا طالب علم تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں ایم اے اردو میں ٹاپ کروں لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ مظفر حنفی بھی اس سال ایم اے اردو کا امتحان دے رہے ہیں تو میرے دل میں خدشہ پیدا ہو گیا کہ میں اب یونیورسٹی میں ٹاپ نہیں کر پاؤں گا۔ یہ حق تو صرف مظفر حنفی کا ہے۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ امتحان سے کچھ دن پہلے میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور میں امتحان کی تیاری نہ کرسکا۔ میں امتحان میں ایک سال کا وقفہ چاہتا تھا لیکن استادِ محترم ڈاکٹر ابو محمد سحر نے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور کہا کہ ایک سال ضائع کیوں کر رہے ہو۔ محنت کرو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤگے۔ اس سال امتحان نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں جانتا تھا کہ اس سال مظفر حنفی بھی امتحان دے رہے ہیں ان کا یونیورسٹی میں ٹاپ کرنا طے ہے۔ لیکن سحرؔ صاحب بضد رہے کہ آپ اِن خیالات سے متاثر نہ ہوں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے امتحان دے دیا لیکن بد قسمتی سے یونیورسٹی میں میری تیسری پوزیشن آئی جس کا ملال مجھے آج تک ہے میں سمجھ رہا تھا کہ مظفرؔ حنفی ایک ذہین اور سمجھ دار طالبِ علم ہیں ان کے آگے میرا چراغ نہیں جلے گا، اور وہی ہوا اور مظفر حنفی کی یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن آئی۔

بھوپال کا ادبی ماحول ہمیشہ سے سر سبز و شاداب رہا ہے۔ یوں تو یہاں مختلف ادبی انجمنیں سرگرمِ عمل تھیں اِن میں حلقۂ دانشوراں، حلقۂ اربابِ ادب، ٹیگور کلا نکیتن، اور بزم فنکار قابلِ ذکر ہیں۔ مظفر حنفی اِن سبھی انجمنوں کے جلسوں میں شامل ہوا کرتے تھے اور اپنی ذہانت کا لوہا منواتے تھے۔ حلقۂ دانشوراں میں پروفیسر ست پرکاش سنگر، کوثر چاند پوری، شفاؔگوالیاری، پروفیسر شہاب اشرف اور اختر سعید خاں جیسے نامور فنکار شریک ہوا کرتے تھے تو حلقۂ اربابِ ادب میں پروفیسر آفاق احمد، پروفیسر شفیقہ فرحت جیسے قلمکار سرگرم عمل تھے۔ ٹیگور کلا نکیتن کے جلسے میں عرفان صاحب ( جو اِن دنوں ایران میں مقیم ہیں ) سرپرستی کرتے تھے۔ اسی طرح بزمِ فنکار میں پروفیسر فضل تابش، عیسیٰ صدیقی، عشرت قادری، انور اسمٰعیل اور پروفیسر قاسم نیازی وغیرہ شریک ہوا کرتے تھے۔ ان ادبی انجمنوں میں قلمکار نہ صرف اپنی تازہ تخلیقات پیش کرتے تھے بلکہ اِن تخلیقات پر صحت مند تنقید بھی ہوا کرتی تھی۔ مظفر حنفی نہ صرف اِن ادبی انجمنوں کے جلسوں میں شریک ہوا کرتے تھے بلکہ تخلیق تنقید میں حصہ لے کر اپنی ذہانت کا لوہا بھی منواتے تھے۔

ایک زمانہ تھا جب بھوپال میں ہر گھر کے سامنے پٹیے ہوا کرتے تھے اِن پٹیوں پر مذہبی رہنما، سیاستداں اور ادب کے خدمتگار گھنٹوں بیٹھ کر اپنے اپنے مسلک کی گفتگو کیا کرتے تھے۔ اِن پٹیوں پر کمیونسٹ رہنما خان شاکر علی خاں، ایم عرفان، آصف شاہمیری، متھرا پرشاد شریواستو اور گووند بابو وغیرہ تو کبھی عشرت قادری، ارشد صدیقی، قاسم نیازی، وحید پرواز، فضل تابش اور واحد علی بانگے وغیرہ براجمان ہوتے تھے۔ فیروز خیل کی گلی کے پٹیوں پر عشرت قادری، تاج بھوپالی، واحد پریمی، وفا صدیقی، فضل تابش، آفاق احمد، مظفر حنفی، شاہد اختر، وحید پرواز وغیرہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ یہاں مختلف موضوعات پر گپ شپ ہوا کرتی تھی۔ ایک دن پتہ چلا کہ وفا صدیقی کا مجموعۂ کلام ’ تارِ پیرہن‘ کے نام سے شائع ہو گیا ہے تو یاروں نے اس کا نام ہی بدل کر ’ اُتار پیرہن‘ رکھ دیا۔ اسی ذیل میں یاد آیا کہ ایک دن کیف بھوپالی انھیں پٹیوں پر  آ گئے کسی نے ان سے پوچھا کہ کیف صاحب جب تاجؔ مشاعرے میں غزل سناتے ہیں تووہ اپنی آنکھیں کیوں بند کر لیتے ہیں اس پر کیفؔ صاحب فوراً بولے میاں !تاج صاحب سے سامعین کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ مظفر حنفی اور میرے چہرے کا رنگ ایک جیسا ہے کبھی کبھی اس پر بھی یارانِ خوش مزاج تبصرہ کیا کرتے تھے۔ واحد علی بانگے کی عادت تھی اکثر بڑے شاعروں کے ساتھ شراب پینے کا تذکرہ کرتے کبھی فیض کے ہم پیالہ بنتے تھے کبھی مجروح سلطانپوری کے ساتھ مئے نوشی کا قصّہ سناتے تھے۔ ایک دن مظفر حنفی مُصر ہو گئے کہ بانگے آج غالبؔ کے ساتھ پینے کی روداد سُنائیں۔ ظاہر ہے بانگے بہت خفیف ہوئے۔ یہ سب گزر ے ہوئے وقت کی باتیں ہیں جو کچھ بھی یاد رہا قلمبند کر دیا۔

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید