FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مظفر حنفی ۔۔ حیات و جہات

 

حصہ اول (شاعری ۔۲)

                ترتیب: فیروز مظفر

 

 

 

 

 

 

 

                ڈاکٹر ممتاز الحق

    نئی دہلی

 

 

اپنی غزل میں نقاد مظفر حنفی

 

شعراء بعض اوقات اپنے اشعار میں اپنے شعری تجربے یا تخلیقی عمل کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ شعری تجربے کے دوران وہ کن کیفیات درد و تڑپ احساس مسرت وغیرہ سے دو چار ہوئے اس کا پُر تاثیر بیان ان کے اشعار میں ملتا ہے۔ ساتھ ہی شعراء اپنے شعری موقف نظریات زبان و بیان سے متعلق اپنی آراء دوسرے شعرا کے تئیں اپنے خیالات اور جن شعراء سے متاثر ہوئے ان کے تئیں احسان مندی کا اظہار بھی اکثر اشعار میں کرتے رہے ہیں۔ ان اشعار سے شعراء کے تنقیدی خیالات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اکثر شعراء نقاد ان شعر سے متعلق رائے زنی سے بھی نہیں کتراتے۔

مظفرؔ حنفی کے یہاں ایسے اشعار کافی تعداد میں ملتے ہیں جن سے درج بالا کام لیا گیا ہے۔ وہ ایک نقاد بھی ہیں اور اپنی صاف گوئی اور بیباکی کے لیے مشہور ہیں اپنے اشعار میں اظہارِ خیال کرتے وقت بھی اسی صاف گوئی اور بیباکی کی وجہ سے ایسے اشعار ان کے شاعرانہ موقف اور تنقیدی نظریات کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔

ان کی اس خصوصیت کی طرف سب سے پہلے ڈاکٹر سیداعجاز حسین نے اشارہ کیا تھا۔ مظفر حنفی کے ہاں روایت سے انحراف کی نشاندہی کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے ’’ شاعر نے (مظفر حنفی نے) جا بجا اپنے نظریہ فکر و فن سے زمانے کو آگاہ کرنے کا فرض بھی انجام دیا ہے۔ ‘‘ (ماہنامہ ’’ شاہکار‘‘ الٰہ آباد، ۱۹۷۰ء)

یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ ایسے اشعار اکثر شعراء کے یہاں ملتے ہیں مگر یہاں مظفر حنفی کا ذکر بطور خاص اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ ان کے یہاں ایسے اشعار کی تعداد کافی ہے اور انہوں نے تواتر کے ساتھ ایسے اشعار دانستہ طور پر کہے ہیں۔ شاید ہی کوئی غزل ایسی ہو جس میں ان موضوعات پر کوئی شعر نہ ہو۔ اب تک مظفرؔ حنفی کے دس شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں یہ مجموعے اس بات کے شاہد ہیں کہ وقت کے ساتھ ان کے کلام میں کافی تنوع اور پختگی آتی رہی ہے مگر ایک بات جو تمام مجموعوں میں مشترک ہے وہ ان کی یہ خصوصیت ہے۔ بیشتر شعراء میں خاص طور پر انھیں میرؔ و غالبؔ پسند ہیں اور وہ ان کے خیالات سے جا بجا متاثر ہوئے ہیں اور ان کے تئیں احسان مندی کا اظہار بھی کیا ہے اور ان کے مقابلے میں اپنی انفرادیت کا بھی ذکر کیا ہے اس معاملے میں پیشرو شعراء میں یا ہمعصروں میں کوئی بھی مظفرؔ حنفی کا ہمسر نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟یہ ایک علاحدہ سوال ہے ناقدین اس سلسلے میں غور و فکر کر سکتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ آدمی جس بات کو صحیح سمجھتا ہے، اس پر اصرار کرتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص یا معاشرہ ایک خاص بات کو نظر انداز کرتا ہے تو اس وقت بھی دوسرافریق اپنی بات کو شدت کے ساتھ بیان کرتا ہے یا احساس برتری اور احساس کمتری کی صورتوں میں بھی ایسا رخ اپنایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک احساس کمتری کا سوال ہے مظفر حنفی کے ہاں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ اول تو انہیں خود پر مکمل اعتماد ہے اور انھوں نے بڑے غور و فکر کے بعد شعر و ادب کا راستہ اختیار کیا ہے۔

ادھر ہے ملکِ سخن، اُس طرف زمانہ ہے

سفینے ہم نے بھی کچھ سوچ کر جلائے ہیں

اور اس سلسلے میں ان کے کارناموں اور ادبی فتوحات کو استحسان اور اعتبار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لہٰذا احساس کمتری کا سوال نہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی بے حسی اور پیش کردہ مسائل کو نظر انداز کرنے کی روش نے انھیں ان خیالات و مسائل کو دہرانے پر مجبور کیا ہے بہر حال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیقی عمل، شاعری سے متعلق اپنے نظریے اپنی شاعری سے متعلق اپنی رائے اور دوسروں کی رائے، دیگر شعراء سے متعلق اپنی رائے، اردو زبان کے مسائل، غزل اور دیگر اصناف کے تئیں اپنے رویے وغیرہ کا بیان جتنا واضح اور تسلسل کے ساتھ مظفر حنفی نے کیا ہے اس سے ان کی شاعری کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ان کے تنقیدی خیالات سے آگاہی ہوتی ہے۔

بلا شبہ تخلیقی عمل ایک نہایت پیچیدہ اور پُراسرار عمل ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر فنکار کے لیے اس تجربے کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ ایک مخصوص فنکار کے ہاں مختلف اوقات میں اس تجربے کی شدت میں فرق ہو سکتا ہے۔ شعرائے متقدمین سے لے کر عہد حاضر تک تقریباً تمام اہم شعراء نے اپنے اس تجربے کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔ مظفر حنفی نے اپنی تخلیقی تجربے کو بار بار مختلف انداز سے پیش کیا ہے:

اک آگ کا حصار مظفرؔ کے گرد تھا

تخلیقِ شعر کرتے نہ پھر والہانہ کیوں

 

پھڑپھڑاتا ہے پرندہ سا رگوں کی جال میں

شعر صاحب آپ ہیں میں بھی کہوں کوئی تو ہے

 

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے مظفرؔ شعر کہنے میں

کہ جیسے ہاتھ آ کر کوئی جگنو سا نکل جائے

تخلیقی عمل کے دوران تخلیق کار اپنے وجود سے بے خبر کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے بقول میرؔ:

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

یہاں تک کہ وقت کا اندازہ نہیں ہوتا تمام رات ایک غزل مکمل کرنے میں گزرتی جاتی ہے:

یہ کائنات مظفرؔ کے ساتھ جاگتی کیوں

غزل کے شعر اگر ٹھیک ٹھاک ہو جاتے

تخلیق کار کا دل کتنا ہی غمگین کیوں نہ ہو، وہ اندر سے کتنا ہی ٹوٹا ہوا کیوں نہ ہو، حالات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں وہ ان پر قابو پاتا ہے۔ بقول میرؔ ناکامیوں سے کام لینا تخلیق کار کا اہم فریضہ ہے:

ظلمت کی مذمّت میں مظفرؔ نے کہے شعر

پھر تیر اندھیروں پہ چلانے لگے جگنو

تلخیاں تو مظفر کی میراث ہیں

شعر میں آنسوؤں کو چھپاتا ہے وہ

ہمت بڑھا رہا ہے مظفرؔ وہ معجزہ

سچائی کا وہ مشتِ خزف سے پکارنا

ہم بھی غزلیں پیش کریں گے اس دنیا دیوانی کو

جس نے پہلے دل نوچا ہے پھر چوما پیشانی کو

حقیقت ہے کہ تخلیق اپنا اعمال نامہ لکھنے کا بھی فن ہے:

دشمن بن کر خود لکھتا ہوں میں اپنے اعمال

لاکھ فرشتہ آزو بازو بیٹھا رہتا ہے

اور

ہماری تو عبادت میں ہے داخل

غزل کہنا کسی کو یاد کرنا

شعراء ہمیشہ سے خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر لکھتے رہے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا ہے:

’’معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود‘‘

مظفر حنفی بھی اس کے قائل ہیں :

لہو کی بوند ہر اک لفظ کو عطا دل کی

بقیہ سب مری طبع رواں کا حصہ ہے

مگر ساتھ ہی مظفر حنفی کو نکمے، ناکارہ سست اور بے عمل لوگوں سے سخت نفرت ہے وہ شعر گوئی میں بھی محنت اور پسینے کی اہمیت پر اصرار کرتے ہیں اور یوں اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں :

مظفرؔ اس کو لہو چاہئے غلط ہے یہ قول

کہ شعر محنتِ مزدور سے چمکتا ہے

جن اشعار میں سچائی اور تجربہ کی گرمی نہ ہو ان میں اثر اور چمک کہاں سے پیدا ہو سکتی ہے:

تو مجمع لگانے سے کیا فائدہ

ترے پاس اپنی کہانی نہیں

غیروں کی داستاں میں اثر کیسے لاؤ گے

کچھ اپنے تجربوں کی حکایت رقم کرو

مظفر حنفی کو اپنے لہجے، آہنگ اور زبان پر اصرار ہے اس کے لیے انھوں نے بڑی مشقت اٹھائی ہے۔ دانستہ طور پر یہ کٹھن راہ اختیار کی ہے انھیں معلوم ہے کہ زمانے کی آواز میں آواز ملانے میں ہی عافیت ہے، اس کے باوجود وہ اس سے انحراف کا خطرہ مول لیتے ہیں انھوں نے عشقیہ موضوعات، روایت پرستی اور رجعت پسندی سے انحراف کیا انھیں اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے ایک نیا راستہ بنانا پڑا:

شاہراہوں پہ تو مجمع ہے مظفر صاحب

شعر کہنے کے کئی اور بھی رستے ہوں گے

نئے راستوں کی تلاش انھیں سب سے پہلے شادؔ عارفی تک لے گئی طبیعت اور مزاج کی مناسبت کی بنا پر انھیں شادؔ عارفی سے گہرا لگاؤ پیدا ہوا اور اس کے نتیجے میں :

ہے شادؔ عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

مظفر حنفی نے اپنے مزاج اور لہجے سے متعلق بے شمار اشعار کہے ہیں :

سر اونچا آنکھیں روشن لہجہ بے باک ہمارا

تلوے زخمی ہاتھ بریدہ دامن چاک ہمارا

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے

ہمیشہ سے وہی کہتے ہیں جومحسوس کرتے ہیں

مظفر شاعری میں ہم سے عیّاری نہیں ہوتی

انھیں احساس ہے کہ:

مری شناخت مری کج کلاہیاں ہی تو ہیں

کلاہ کج سے مظفرؔ مجھے زیاں ہے بہت

سارے اعزازات سے افضل ترین

لہجۂ بیباک میرے واسطے

میر انیس نے اپنی زبان و بیان کی انفرادیت کے لیے خدا سے ایک مرثیے میں دعائیں مانگی تھیں ان کی یہ دعائیں خدا کے حضور قبول ہوئیں اور وہ مرثیے کے بادشاہ تسلیم کیے گئے۔ مظفر حنفی کے یہاں دعائیہ اشعار کم ہیں ان کے مجموعہ کلام ’’ پردہ سخن کا‘‘ میں یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :

ویسے تو مظفرؔ کی تمنائیں بہت ہیں

آہنگ الٰہی مرا آہنگ الٰہی

مظفر حنفی کا پورا کلام اس بات کا شاہد ہے کہ انھوں نے اپنے لہجے آہنگ اور زبان کے لیے بڑا مجاہدہ کیا ہے۔ انفرادیت اور جدت کی تلاش میں انھوں نے کچھ ایسے راستے بھی اختیار کیے جسے تغزل سے مناسبت نہ تھی جو کھردرا، در در ا اور آڑا ترچھا تھا مگر گھٹن ( روایت کا بندھا ٹکا فرسودہ راستہ) سے نجات پانے کے لیے یہ ضروری تھا:

بلا سے گرد تغزل مری غزل میں نہیں

جدید لہجہ، گھٹن کو تو صاف کرتا ہے

ہیں مضامینِ مظفر تازہ

اور پھر طرزِ ادا دیکھا جائے

اس راستے پر چلنے میں انھیں طنز کا نشانہ بننا پڑا کھری کھوٹی سننی پڑی، اس وجہ سے ان کے کلام میں چیخ، احتجاج اور کہیں کہیں جھلاہٹ بھی آ گئی۔

کرنا وہ زمانے کا یلغار مظفر پر

پھر اس کا زمانے کو اشعار پہ رکھ لینا

نقاد کے حضور مظفرؔ کی سر کشی

تنقید کی نگاہ میں پہچان سے گیا

ماحول نہ راس آئے تو کس طرح مظفرؔ

رنگین غزل کہتے ہرے شعر سناتے

میں بھی تیر چلا سکتا ہوں تم پر اپنے شعروں کے

آئندہ میرے بارے میں گل افشانی مت کرنا

مظفر حنفی کو اپنے اوپر اعتماد تھا۔ انھیں اعتماد تھا کہ ان کے ذریعے منتخب کیا گیا راستہ صحیح راستہ ہے اور انھیں اس میں ایک دن کامیابی ضرور ملے گی۔ ظ۔ انصاری نے مظفر حنفی کے مجموعۂ کلام ’’ طلسم حرف‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ خامیوں کی طرف اشارہ کیے تھے مگر مظفر حنفی نے استقامت کا ثبوت دیا اور خلوص نیت سے اپنے راستے پر چلتے رہے بعد ازاں ظ۔ انصاری کو اپنی رائے تبدیل کرنی پڑی، درج ذیل شعر میں اسی تبدیلی کا ذکر ہے:

مظفر برگِ گل سے پتھروں کو کاٹ سکتے ہیں

مذمت اب غزل کی ظوئے انصاری نہیں کرتے

اس سلسلے میں انھوں نے اور بھی کئی شعر کہے ہیں :

بُت بولنے لگے ہیں مظفر کے شعر پر

یہ کون دے رہا ہے اذاں دیکھنا ذرا

عہد سازوں میں مظفرؔ کا کوئی ہمسر ہے

ایک ناقد سے مری فکر رسا نے پوچھا

تنقید انھیں مانے مظفرؔ کو نہ مانے

اس باب میں کیا کہتے ہیں فاروقیؔ و نارنگؔ

اپنے بنائے ہوئے نئے راستہ پر انھیں فخر ہے انھیں فخر ہے کہ انھوں نے نئی نسل کو ایک نئی راہ دکھائی۔

لکیروں کے فقیروں سے مظفرؔ کچھ نہیں ہوتا

نئی نسلوں کی خاطر ہم نئی راہیں بناتے ہیں

خود کرتے ہیں تخلیق سے معیار مقرر

تنقید کے جھانسے میں مظفرؔ نہیں آتے

مظفرؔ ظلمتوں سے جب محاذ آرائی ہونی تھی

تو اِک لشکر اجالے کا مرے اشعار سے نکلا

دریا دریا دو مصرعوں کے کوزے میں

حد بندی میں بے اندازہ میرے شعر

مظفر حنفی کی انفرادیت کا ذکر سبھی نقادوں نے کیا ہے کہا جاتا ہے کہ ان کا لہجہ دور سے پہچانا جاتا ہے۔ مظفر حنفی کو بھی اپنی اس انفرادیت کا احساس ہے اور یکسانیت کے اس دور میں یہ بڑی چیز بھی ہے:

میں اپنی پہچان کی تختی پیشانی پر جڑتا ہوں

شہر تمنا میں تو یارو، سب کا چہرہ یکساں ہے

ٹھپّہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے شعر کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ

مظفرؔ کے لہجے نے ثابت کیا

غزل قافیوں کا پلندہ نہیں

آج مظفرؔ حنفی کا ہر شعر بہ باطن مقطع ہے

استادوں نے تو اس کو ناکارہ سمجھا لیکن وہ

مظفرؔ حنفی کے مجموعۂ کلام ’’ یم بہ یم‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر محمد حسن نے لکھا ہے کہ:

’’ نئے شاعروں میں مظفرؔ حنفی نے ندرت اظہار اور ادبی سنجیدگی میں ایک پُر وقار توازن برقرار رکھا ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب شعراء جدیدیت کے نام پر جدت طرازی کے ایسے نمونے پیش کر رہے تھے جسے بعد میں ادب کے دائرے سے خارج کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر مظفرؔ حنفی نے طرزِ ادا کی ندرت، تازگی اور نئے پن کو برتا ہے۔ ‘‘

ندرت کی نئی راہ پہ سبزے کی طرح ہوں

کیا غم ہے جو اس راہ میں پامال ہوا میں

عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدت کو ناپیے

ہم اور چیز غالبؔ و میرؔ و فراقؔ اور

اے مظفرؔ زندہ رہنے کے لیے

شاعری میں دھار ہونی چاہیے

ہم اپنا اسلوب مظفر دانستہ رکھتے ہیں یوں

مشکل ہو لیکن سب جانیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں یوں

نازک ہے فن شعر مگر طرز نو کے ساتھ

ہم اس حباب کو بھی سلامت اٹھائیں گے

مظفر حنفی کے مجموعۂ کلام ’’ دیپک راگ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی نے ان کے اشعار کی آمد اور روانی پر خامہ فرسائی کی ہے۔

’’ مظفر حنفی نے انتہائی شگفتہ زمینوں میں رواں دواں شعر کہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ نئے ردیف، قافیے کا ایک فوارہ ہے جو اُبلتا جا رہا ہے۔ ‘‘

مظفر حنفی اپنی اس خصوصیت سے واقف ہیں اور اپنے اشعار میں اکثر اس کا اظہار نئے نئے ڈھنگ سے کرتے ہیں :

پیہم نئی زمین مظفرؔ نئی غزل

کیا نقد و احتساب ترے واسطے نہیں

بلا کی آمد ہے تیرے اشعار میں مظفر

تری غزل میں رواں دواں ہر طرف سمندر

بات کیجے تو گردن سلامت نہیں

اور طبعِ رواں ہے کہ آمد پہ ہے

اے مظفر ہماری طبع رواں

تیز جھرنا ہے جو رُکے ہی نہیں

آنکھوں سے انگلیوں سے اشعار رِس رہے ہیں

سر تا قدم مظفرؔ دیوان ہو رہا ہے

مقطع مدد کو آئے مظفر کنارے سے

گرداب شعر چار طرف، درمیان میں

مظفر حنفی کے کلام میں جن شعراء کا نام بار بار آیا ہے وہ ہیں میرؔ، غالبؔ اور شادؔ عارفی:

یوں تو غالبؔ کی غزل پر بھی پھڑک جاتے ہیں ہم

میرؔ کے اشعار سن کر سنسنا جاتا ہے جی

میرؔ اور مظفرؔ حنفی کی افتاد طبع جداگانہ ہے اس کے باوجود مظفرؔ حنفی میرؔ کے کلام کی خستگی اس کی نشتر زنی اور تاثر آفرینی کے قائل ہیں :

چلے ہیں قلب مظفر پہ میرؔ کے نشتر

پتہ چلا کہ غزل دوربین کتنی ہے

اے مظفرؔ تری افتاد جداگانہ ہے

شعر میں خستگی میرؔ کہاں سے آئی

ہوتی ہے نم زمین کہ پکاروں نصیرؔ کو

رکتی ہے میری طبع تو پڑھتا ہوں میرؔ کو

میرؔ نہیں بلبل سے یاری کرتے کیا

اب آہوں میں ساجھے داری کرتے کیا

یہ لہجہ، وہ تاثیر پہچان کر

مظفر نہیں میرؔ پہچان کر

غالبؔ، میرؔ کی عظمت کے قائل تھے اور انہوں نے اپنے اشعار میں میرؔ کو نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :

غالبؔ اپنا بھی عقیدہ ہے بقول ناسخؔ

آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں

مظفر حنفی نے اس شعر پر یوں رائے زنی کی ہے:

مظفر، میرؔ کا دیوان، غالبؔ کو نہ راس آتا

اگر ناسخؔ اسے کشمیر کی وادی نہیں کہتے

میرؔ کے علاوہ مظفر حنفی نے اپنے اشعار میں غالبؔ سے بھی استفادہ کیا ہے ہر چند کہ غالبؔ ان کے لیے نمونہ نہیں ہیں ہر شاعر چاہتا ہے کہ اس کے کارناموں کا اعتراف کیا جائے مگر ہوتا یہ ہے کہ انعام و اکرام کی بارش نا اہلوں پر ہوتی ہے اس کی وجہ جو بھی ہو، چاہے سیاسی جوڑ توڑ کی وجہ سے یا شعراء کی اپنی لالچ اور قصیدہ خوانی کی وجہ سے۔ مظفر حنفی نے ان امور پر بھی اشعار کہے ہیں۔

یہ شوخ نگاروں کا زمانہ ہے مظفرؔ

اور آپ غزل کہتے ہیں آداب کے اندر

مری زمین رہی آسماں پہ چھائی ہوئی

مگر غزل کی کمائی کوئی کمائی ہوئی

پیش کرتا ہوں اگر پھول ستارے جگنو

سنگریزے ہی مرے دست ہنر میں رکھیے

کافی ہیں مظفرؔ کے لیے ہاتھ کے چھالے

گلدستہ کبھی دستِ ہنر تک نہیں پہنچا

غالبؔ نے کہا تھا:

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

مظفر حنفی نے اپنی ناقدری پر خود کو یوں تسکین دی ہے:

شعر کہتا ہوں مظفر داد سے بیگانہ وار

پھل میں وہ لذت کہاں ہے جو شجر کاری میں ہے

غالبؔ سے استفادہ چند اور اشعار میں کیا گیا ہے:

غالبؔ کی طرح ہم نے بھی کب اختیار کی

جب شاعری ذریعۂ عزت نہیں رہی

کیا جانے کس کے ہاتھ پڑیں آپ کے خطوط

غالبؔ کی طرح ہم نہ لٹائیں گے اپنا گھر

فکر سیلاب بلا ورثۂ غالبؔ مجھے

میں تو زندہ ہوں ابھی، وہ مرے گھر آئے گا

۱۹۸۹ء میں مظفر حنفی کی تقرری کلکتہ یونیورستی کے شعبۂ اردو میں اقبال چیئر پروفیسر کی حیثیت سے ہوئی اس موقع پر ان کا یہ شعر غالبؔ و اقبالؔ دونوں کو عمدہ خراجِ تحسین ہے:

سنا ہے فیض سے اقبالؔ کے تقلیدِ غالبؔ میں

مظفرؔ جلد ہی دلّی سے کلکتہ پہنچتا ہے

میرؔ اور غالبؔ کے علاوہ مظفر حنفی کی شاعری میں جس شاعر سے والہانہ لگاؤ اور جذباتی وابستگی کا پتہ چلتا ہے وہ ان کے محترم استاد شادؔ عارفی ہیں۔ یوں تو مظفرؔ حنفی نے اس نے استاد کے جو مرثیے لکھے ہیں اپنی تاثیر کے لحاظ سے اردو کے اہم شخصی مرثیوں میں شمار ہوتے ہیں ان کے علاوہ غزل کے اشعار میں استاد سے اپنے قلبی لگاؤ، ان کے ادبی مرتبے اور ان کی ناقدری وغیرہ کی عکاسی برابر کرتے رہے ہیں :

شامل ہیں ان میں شادؔ و مظفرؔ کے نام بھی

کچھ لوگ انقلاب تو لائے تھے شعر میں

شادؔ نے اردو ادب کو منفرد لہجہ دیا

ہم وہ محسن کش کہ جیتے جی انھیں دفنا دیا

اور شادؔ عارفی کی شاگردی پرتو وہ فخر کرتے رہے ہیں :

مبارک تمھیں شادؔ و ناشاد ہونا

بالآخر مظفرؔ کے استاد ہونا

شادؔ عارفی اور مظفر حنفی جیسے لوگ

باغی سمجھے جائیں گے اشعار بتاتے ہیں

مانجھی دھوئی پاک زباں پر تلخی کی بنیاد کہاں

اس جھانسے میں آسکتے ہیں شاگردانِ شادؔ کہاں

فکر و فن کا اک جہانِ نو نظر آیا اُسے

جو مظفر شادؔ جیسے انقلابی سے ملا

اوروں سے تقابل نہ کرو، ہے مری توہین

ہاں شادؔ و مظفرؔ میں کجا شادؔ کجا میں

درج ذیل اشعار میں اردو کے ساتھ روا سیاست اور برتے جانے والے امتیاز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

جانے مرتی ہے کہ بچتی ہے مظفرؔ اردو

چند نسلوں کو اسی خوف و خطر میں رکھیے

مصلحت کا یہ تقاضا ہے مظفرؔ حنفی

اور سب کچھ ہو ترے شعر میں اردو ہی نہ ہو

ستم رسیدہ ہے ہندوستان میں اردو

اسی زبان میں ہندوستاں زیادہ ہے

خاص طور پر آخری شعر بلاغت کی عمدہ مثال ہے جس میں اردو کی ہندوستان گیر حیثیت اجاگر کی گئی ہے۔

اردو غزل سے اپنی وابستگی، اس کی اہمیت اور اس کے فن سے متعلق بھی مظفرؔ حنفی نے بے شمار اشعار کہے ہیں :

بری نہیں ہے مظفرؔ کوئی بھی صنفِ ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے

ایجاز و اختصار غزل کا مزاج ہے

نو شعر بھی بقول مظفرؔ زیادہ ہیں

جدیدیت کے نام پر لوگوں نے علامت کا استعمال من مانے ڈھنگ سے کیا ہے اس دور میں نہایت ذاتی قسم کی علامات کو فروغ ملا۔ مظفرؔ حنفی ابتدا سے ہی اس رویّے کے خلاف تھے:

پیچیدہ عہد نو کی علامت کے نام پر

یاروں نے شاعری کو ٹھکانے لگا دیا

ہے تو ابہام میں پہلو داری

شعریت سچ کو چھپانے میں نہیں

یہ بلبلے صابن کے مظفرؔ نہ بناؤ

وہ شعر سناؤ کہ مرا سر نہیں گھومے

اُٹھ گیا شعر سے ابلاغ مظفرؔ حنفی

جب تلک تم سے بنے بات بنائے رکھنا

عوام کی خواہشات اور ان کی پسند نا پسندسے اگر شاعر نا واقف ہے تو وہ سچی شاعری نہیں کر سکتا، مظفر حنفی نے عوام سے اپنا تعلق برقرار رکھا ہے مگر وہ بھیڑ میں گم ہو جانے کے قائل نہیں :

اگر فنکار عام انسان سے دامن بچاتے ہیں

تو پھر فنکار کیا ہیں وہ نرے مکّار ہیں سارے

بکے ہوئے ہیں مظفر تمام دانش ور

سخن وروں میں کوئی معتبر نہ آئے نظر

شاعری کے لیے ذاتی تجربہ، خلوص اور سچائی نہایت ضروری ہے۔ قادر الکلامی کے بل بوتے شعری زبان کا التباس ضرور پیدا کیا جا سکتا ہے مگر وہ بیجان ہو گی اگر اس میں تجربے کی گرمی شامل نہ ہو:

کتنا ہی عطر ملیے اس پر مبالغے کا

جھوٹی غزل مظفرؔ پھر بھی نہیں مہکتی

عیش و نعم کے بیچ غزل کہہ رہے ہیں آپ

اور ایک شعر دار و رسن سے الگ نہیں

مختلف انداز رکھتی ہے مظفرؔ کی غزل

یہ ہماری آپ بیتی ہے خبر نامہ نہیں

ادبی دنیا میں اکثر کسی مسئلے پر مباحثہ شروع ہو جاتا۔ موافقین اور مخالفین اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں ایسے موقعوں پر منافقوں کی بھی کمی نہیں ہوتی:

مظفر آپ کے احباب خوش گفتار ہیں سارے

وہاں دشمن کی صف میں سر بسر تلوار ہیں سارے

ان کی شکایت ان کا شکوہ اکثر کرتے رہتے ہو

اور مظفرؔ ہم نے تم کو اکثر دیکھا ان کے پاس

تمھاری چال میں پوشیدہ ہوتی ہیں کئی چالیں

کہ ہمرازی بھی کرتے ہو نگہبانی بھی کرتے ہو

مظفر حنفی کی شاعری میں روایت سے بغاوت کا رجحان ابتدا سے ہی ملتا ہے۔ وہ روایت کا احترام تو کرتے ہیں مگر اس کی پیروی اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔ روایت کی اندھی تقلید گمراہی کا باعث بنتی ہے:

غزل کی روایات اپنی جگہ

ہماری کھری بات اپنی جگہ

مظفرؔ  بغاوت نہ کرتے اگر

تو ان کو زمانہ نہیں مانتا

روایتوں سے بغاوتوں پر جوان تیار ہو رہے ہیں

بہت دنوں پٹ چکا ہے ڈنکا اساتذہ کی سخنوری کا

راستہ خود ہی بنانے میں مزہ آتا ہے

کہکشاں ہو تو اسے راہگزر ہم نہ کریں

شاعرانہ تعلّی کے ذیل میں آنے والے مضامین کی بھی مظفر حنفی کے یہاں کمی نہیں :

ہمارے عہد میں آ کر مظفرؔ

غزل ہندوستانی ہو رہی ہے

صدیوں کریں گے راج مظفرؔ دلوں پہ ہم

حاصل ہے سلطنت کی جگہ شاعر ی ہمیں

بنا رکھتا ہے وہ اشعار کی مضمون تازہ پر

مظفر کانپتا ہے قافیہ پیمائی کے ڈر سے

شعروں میں مظفر کے قائم ہے طرحداری

ہر چند کہ محفل میں افضل بھی نہیں بنتے

نہ خوف سیل مظفرؔ نہ زلزلوں سے خطر

زمین شعر پہ قائم ہے قصر بالا مرا

مظفر حنفی نے بطور خاص اپنے عہد کے سکہ بند نقادوں کو اپنی طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ آج کے نقاد گروپ میں تقسیم ہیں انہیں ادب و شاعری سے غرض نہیں، انھیں تو بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کون سا شاعر ان کے گروپ سے تعلق رکھتا ہے، کون سا شاعر ان کے جا و بیجا احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ شاعر کے لیے تو بہت سی پابندیاں ہیں نقاد کے لیے کوئی پابندی نہیں، وہ جسے چاہتا ہے بانس پر چڑھا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمنامی کی غار میں ڈھکیل دیتا ہے:

مظفر ہمیں تجربہ ہو چکا ہے

کہ آساں ہے شاعر سے نقاد ہونا

پل بھر میں ناقدین نے تجزیہ کر لیا

ہم نے پچاس سال کھپائے تھے شعر میں

ہر چیز جو حسین لگی اس کو ڈس لیا

تنقید کا شعور کسی کو خدا نہ دے

مظفر حنفی نقادوں کی غلط نوازیاں دیکھ رہے ہیں کہ کیسے مبتدی اور نقال شعراء کو آسمان پر چڑھایا جا رہا ہے مگر وہ اپنی روش تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں :

شعر کب کہتا ہوں تیری شان میں

میں کہاں آنے لگا پہچان میں

مظفرؔ پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے

کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکر میں نہیں رہتا

انھیں یقین ہے کہ سچا تخلیق کار آج نہیں توکل تسلیم کیا جائے گا لہٰذا انھوں نے کبھی نہ اپنا شعری رویہ تبدیل کیا اور نہ کسی نقاد کی شان میں قصیدہ پڑھا:

بدلتی رہتی ہے تیور غزل مظفرؔ کی

میاں کو دھر نہ لیا جائے شرپسندوں میں

احباب پڑھ رہے تھے قصیدے بہار کے

میں نے غزل میں ذکر خزاں کم نہیں کیا

قصیدہ پڑھ نہیں سکتا مظفر

غزل گو ہے بچارا بیٹھ جائے

مظفرؔ وہ مرے فن کی بلندی دیکھتی کیسے

اِدھر تو دیکھ کر تنقید کی دستار گرتی ہے

تنقید کی چوکھٹ ہے مظفرؔ کے لیے تنگ

موہوم مرے شعر نہ بانیؔ کی طرح میں

واضح ہو کہ مظفرؔ حنفی کسی مخصوص شاعر (بانیؔ) کے خلاف نہیں بلکہ وہ اس تنقیدی رویے کے خلاف ہیں کہ منفی رجحانات کے باوجود بانیؔ کے شعری امتیازات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ در اصل زیادہ تر نقادوں کا رویہ یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شاعر ان کی جی حضوری کرے۔ مظفرؔ حنفی اس روش کے سخت خلاف ہیں :

کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں

مظفرؔ سر بسر انکار ہو جا

سمجھتا ہے مرے اشعار پر تنقید لکھنے سے

وہ میری سات پشتوں پر کوئی احسان کر دے گا

کچھ نقاد اردو شعر و ادب کی پرکھ مغربی معیار کے مطابق کرتے ہیں۔ مظفرؔ حنفی اس کے بھی خلاف ہیں :

اے مظفر مغربی میزان و تنقید غزل

میرؔ جی کا بھی کوئی دیوان دیکھا آپ نے

شعراء میں ایک بے جا رجحان یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اشعار اہل دولت کی نذر کرتے ہیں، ان کی ثنا خوانی کرتے ہیں، شعراء کی اس کمزوری کے خلاف بھی مظفر حنفی نے آواز اٹھائی ہے:

اس جنس بے بہا کو مظفرؔ  سمیٹ لے

بازار میں بکی ہے متاعِ ہنر کہیں

میں اپنے شعر کیسے نذر کر دوں اہلِ دولت کو

اُجالے میں تو یہ روشن ستارا ڈوب جائے گا

غزل کہنے میں اپنے خون کو پانی بھی کرتے ہو

وہاں دربار میں شہہ کی ثنا خوانی بھی کرتے ہو

مظفر حنفی نے نقال شعراء کی بھی خبر لی ہے۔ لطف تو یہ ہے کہ ان نقال شعراء میں وہ بھی شامل ہیں جو مظفر حنفی کی شعری روش کے مخالف ہیں :

وہ جو بیٹھا ہے مسند پر حلیہ عالی شان بنائے

میری غزلوں کی کترن سے اس نے بھی دیوان بنائے

جس کو دیکھو آج مظفرؔ اپنی غزلوں میں

میرے شعروں کے پیوند لگاتا رہتا ہے

مظفرؔ کی غزلوں کے نقال بھی ہیں

یہی الحذر الحذر کہنے والے

لازم ہے کہ ان سے نئے مضمون نکالو

الفاظ تو اشعار مظفرؔ سے چرا لائے

لٹتی ہے بار بار مظفرؔ کی کائنات

دیوان پھر بغل میں کوئی داب لے گیا

مظفر حنفی کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کے اشعار کا چربہ اتارنا مشکل ہے نقل بہر حال نقل ہے پکڑی جاتی ہے:

کسی بھی نام سے غزلیں پڑھو مظفرؔ  کی

پتے بدلنے سے چہرے نہیں بدل جاتے

مشاعروں میں ترنم سے کلام سنانے والوں کو خوب داد ملتی ہے، اس واہ واہ سے بعض شعراء خود کو بڑا شاعر سمجھنے لگتے ہیں :

غزل دستے میں کیوں آواز کی پتّی لگاتے ہو

خدا نے پاؤں دے رکھے ہیں بیساکھی لگاتے ہو

سارا آواز کا جادو تھا مظفر صاحب

ورنہ غزلیں تو کسی اور کی نقالی تھیں

اور موجودہ دور میں عزل گائیکی کے ذریعے غزل کی مقبولیت کے پس منظر میں یہ شعر بھی قابل توجہ ہے:

خوب سمجھ رہے ہیں آپ گائیکی اور غزل کا فرق

خوش ہے مظفرؔ آپ سے چپ کی یہ داد کم نہیں

میں اپنے اس مضمون میں کچھ خاص موضوعات کو ہی شامل کر سکا ہوں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مظفر حنفی نے اس پہلو پر اتنے زیادہ اشعار اتنے زیادہ موضوعات پر لکھے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ واقعی مظفر حنفی کی شاعری کا یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ جس پر اور زیادہ غور و خوض کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ پوری اردو شاعری میں اس معاملے میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ ان کی یہ شاعری نئی شاعری کا مقدمہ کہی جانے کی مستحق ہے جس میں اس دور کی شاعری کے تمام مباحث در آئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ڈاکٹر ارجمند بانو افشاںؔ

      بھوپال

 

 

ڈاکٹر مظفر حنفی: عصرِ حاضر کی عہد ساز شخصیت

 

ڈاکٹر مظفر حنفی عہدِ حاضر کی وہ عہد ساز شخصیت ہیں جنھیں ملک گیر ہی نہیں بین الاقوامی شہرت، عزت اور علیحدہ پہچان حاصل ہے اور وہ بجا طور پر اس کے مستحق بھی ہیں۔ ان کی کثیر الجہات شخصیت کے تمام پہلو تابناک ہیں۔ وہ بیک وقت ایک بلند مرتبت افسانہ نگار بھی ہیں، قد آور اور معتبر محقق اور ناقد بھی، وہ بہترین ترجمہ نگار بھی ہیں اور ترتیب و تدوین کی ذمہ داریوں کو بھی انھوں نے بحسن و خوبی نبھایا ہے، وہ ایک ہمدرد، ذمہ دار اور ممتازاستاد بھی ہیں اور محبِ زبان اردو بھی۔ ان کی ان تمام جہات پر جو جہت سب سے زیادہ حاوی ہے اور جس نے ان کی تمام ادبی زندگی کا احاطہ کیا ہوا ہے اور جس کے سبب وہ لا تعداد دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں وہ ہے مختلف خوبصورت رنگوں سے عبارت ان کی شاعری۔ ان کی فکر بالغ، ان کا ذہن رسا، ان کا طرزِ بیان سب سے جدا گانہ ہے۔ وہ اپنے عہد کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور انسانی رویوں کے نبّاض اور انسانی رشتوں میں رو نما ہونے والے زبردست انقلاب کے سچے پارکھی ہیں۔

شاعری میں ان کا لہجہ پر وقار، زور آور اور منفرد ہے۔ وہ سچائی کو کھل کر بیان کرنے والے حق گو، حساس اور بے باک شاعر ہیں۔ وہ کم و بیش ۱۵ شعری مجموعے اہلِ فنون و حکمت کی نذر کر چکے ہیں۔ ان کے کلام میں جمود کی کیفیت نظر نہیں آتی بلکہ ان کی شاعری ان کے ذہنی، جذباتی، فکری اور فنی ارتقاء کا پتہ دیتی ہے۔ وہ ایسے بلند اور ممتاز مقام پر فائز ہیں کہ ان کو پڑھے بغیر آج اردو ادب کا کوئی بھی سنجیدہ قاری اپنے عہد کے شعری مذاق سے واقفیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ خدائے برتر نے انھیں بھرپور تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ایک حساس دل اور باریک بیں نظر بھی عطا کی ہے۔ ان کا تخیل بے حد اونچی سطح سے ان کی راہ نمائی کرتا ہے۔ فطری طور پر ان کا لہجہ بے حد تیکھا اور زور دار ہے۔ وہ بچپن سے ہی بے حد نڈر، ذہین، روشن دماغ، حاضر جواب اور ناقابلِ تسخیر شخصیت کے مالک رہے ہیں جس کا ذکر محبوب راہیؔ نے مظفر حنفی پر تحریر کردہ اپنے تحقیقی مقالے ’’ مظفر حنفی حیات، شخصیت اور کارنامے‘‘ میں ( جو کتابی صورت میں طبع ہو چکا ہے)  بڑی تفصیل سے کیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ خدائے برتر جن گراں قدر شخصیات کو دنیا میں بھیجتا ہے وہ اپنی اضافی خوبیوں اور صلاحیتوں کے باعث بچپن سے ہی اپنی علیحدہ شناخت قائم کر لیتی ہیں۔ اس کتاب میں مظفر حنفی کے لڑکپن کے تدبر، ذہانت، ہم جولیوں سے خوش فعلیوں، طنز یہ رجحان، شرارتیں بیان کی گئی ہیں اس کے علاوہ خود ان کا یہ انکشاف بھی شامل ہے کہ انھوں نے نو سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔ اس کتاب میں ڈاکٹر مظفر حنفی کے قریبی دوست قاضی حسن رضا کے بیان کو ڈاکٹر راہیؔ نے اس طرح قلمبند کیا ہے:

’’ ایک دبلا پتلا محنتی لڑکا  ( ڈاکٹر مظفر حنفی) ساتویں جماعت میں میرا ہم جماعت ہوا۔ یہ لڑکا پڑھنے میں بے حد ذہین تھا اپنی ذہانت سے جلد ہی اس نے جماعت میں امتیازی حیثیت حاصل کر لی اور سالانہ امتحان میں ہندی مراٹھی اور اردو کے ساتوں سیکشنوں میں اوّل آیا۔ اردو میں کیونکہ یہ لڑکا خصوصی استعداد رکھتا تھا لہٰذا اس نے نہ صرف اپنے ہم جماعتوں پر بلکہ اساتذہ پر بھی سکہ جما لیا تھا۔ بزمِ ادب کے سرپرست احسان الحمید اکثر اس کی مضمون نویسی کی کاپی پر اس قسم کے نوٹ لکھتے ’تم مستقبل میں اچھے ادیب بنو گے ‘ یا ’ ماشاء اللہ مستقبل بہت شاندار نظر آتا ہے‘ ۔ ‘‘       (مظفر حنفی : حیات شخصیت اور کارنامے، ص ۴۹)

استاد کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور مظفر حنفی نے بہت جلد بحیثیت شاعر و ادیب ایک علیحدہ مقام بنا لیا۔ اگر چہ ان کا ابتدائی کلام کافی حد تک روایتی رنگ لیے ہوئے ہے مگر ان کا جداگانہ شعری مذاق اور ان کا منفرد لہجہ اس میں بھی جھلکتا ہے۔

حالانکہ انھوں نے اپنے مجموعے شائع کرتے ہوئے ابتدائی  دَور کی سیکڑوں غزلیں ناقابلِ اعتنا سمجھ کر رد کر دی تھیں مگر ڈاکٹر محبوب راہیؔ نے نہایت کاوش اور کوشش کے بعد مختلف رسائل سے نکال کر اس کا نمونہ اپنی کتاب ’’ مظفر حنفی شخصیت اور کارنامے‘‘ میں پیش کیا ہے۔ چند شعر دیکھیے:

خلش بڑھ گئی میری پہنائیوں میں

نہ آیا کرو میری تنہائیوں میں

اک بار ادھر ساقی پھر چشم کرم کر دے

چاہے مرے حصے کی مقدار میں کم کر دے

جب سے غم جہاں میرے سینے میں آ گیا

بگڑا ہوا نظام قرینے میں آ گیا

اے مظفرؔ مرے اشعار کے آئینے میں

دیکھ لو شکل نئے دور کے انسانوں کی

اپنی آزادی کا مژدہ سن کے دیوانہ تِرا

دیر تک سرگوشیاں کرتا رہا زنجیر سے

اس کے بعد کا کلام وہ ہے جس میں ان کا طنز یہ لہجہ اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ یہ غزلیں اپنے طنز کی شدت کے سبب تیکھی غزلیں ہیں۔ ان پر استاد شادؔ عارفی کا رنگ غالب ہے۔ خود مظفر حنفی کو بھی اس کا اعتراف ہے اور ان کے ناقدین کو بھی، لیکن مظفر کا انفرادی لہجہ اس میں بھی اُبھر کر سامنے آنے لگا جس پر اظہار رائے کرتے ہوئے پروفیسر سلیم اختر لکھتے ہیں :

’’ شادؔ عارفی کا تیر طنز بغض اوقات زہر میں بجھا ہوا تیر بن جاتا ہے لیکن مظفر حنفی کا طنز اساسی طور پر ایک لطیف اشارہ ہی رہتا ہے۔ ‘‘

(تبصرہ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ سلیم اختر کتاب لکھنؤ۔ ص ۷۰)

لیکن عمیق حنفی کی رائے میں :

’’ یہ بات مظفر حنفی کے مجموعے کے بارے میں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ وہ شادؔ عارفی کی آزاد، بے باک، راست گو اور منھ پھٹ روایت کے تسلسل کو قائم رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

(پیش لفظ ’’ دیپک راگ‘‘ عمیق حنفی ص ۶)

مظفر حنفی نے اپنے بیشتر اشعار میں اعتراف کیا ہے کہ وہ شاد عارفی کے رنگ کے پیروکار ہیں۔ شعر دیکھیے:

ہے شادؔ عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

پیرو کارِ شادؔ مظفر گنتی میں دو ایک سہی

طنزِ غزل کے تار پہ چل کر دکھلاتے ہیں مثلاً میں

کچھ عرصے شادؔ کے رنگ میں غزلیں کہنے کے بعد مظفر کو ان کے انفرادیت پسند مزاج اور ماحول نے مجبور کر دیا کہ وہ اپنا الگ راستہ اختیار کریں جس کے متعلق وہ خود ’’ نقد ریزے‘‘ میں شامل اپنے مضمون ’’ عصری ادب اور میری پہچان‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ میں نے اپنے لیے ابتدا میں شادؔ عارفی کا رنگ پسند کیا جس کے اثرات میرے ابتدائی کلام کے مجموعے ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ میں نسبتاً واضح نظر آتے ہیں۔ رموز فن اور قدرتِ کلام حاصل کرنے کے بعد میں نے اس رنگ سے اپنا رنگ پیدا کیا۔ شادؔ مرحوم کا زمانہ بہر حال میرے زمانے سے مختلف تھا۔ ان کے طنزیہ اسلوب میں عصری حسّیت، تجریدیت، علامت نگاری، پیکر تراشی اور داخلی کیفیات وغیرہ کی آمیزش سے میری آواز ان کی آواز سے قطعی مختلف اور نئی ہو گئی۔ ‘‘

(عصری ادب اور میری پہچان: مظفر حنفی۔ مشمولہ نقد ریزے۔ ص ۱۴۳۔ ۱۴۴)

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ شاعری میں مظفر حنفی نے شادؔ عارفی سے الگ ہٹ کر جو راہ متعین کی اس کے لیے ان کے مزاج میں آنے والی وہ تبدیلیاں بھی ذمہ دار ہیں جو زبردست عالم، پر وقار، متین، مدبر، عاقل اور متوازن شخصیت کے مالک پروفیسر عبد القوی دسنوی جیسے استاد کی شاگردی کا نتیجہ تھیں جس کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں :

’’ مجھے جن دو شخصیتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ہیں شادؔ عارفی اور عبد القوی دسنوی۔ ‘‘

( کچھ اپنے بارے میں۔ مشمولہ نقد ریزے ص ۱۰۲)

ڈاکٹر محبوب راہیؔ اس سلسے میں رقم طراز ہیں :

’’ مظفر حنفی نے پروفیسر عبد القوی دسنوی کے کردار و عمل سے براہِ راست تاثر قبول کیا ہے۔ مظفر حنفی کے مزاج میں جو فطری برہمی، جھلاہٹ، شوخی، کھلنڈرا پن، طنز کی تلخی، تیزی، تندی، تیکھا پن اور احتجاج کی شدّت تھی شادؔ عارفی سے تعلقات نے جنھیں دو آتشہ بنا دیا تھا قوی صاحب کے فیضانِ صحبت کے طفیل ان کے مذکورہ بالا رجحانات میں اعتدال و توازن پیدا ہوا اور برہمی و جھلاہٹ کی جگہ رکھ رکھاؤ، شوخی، کھلنڈرے پن کی جگہ متانت اور سنجیدگی اور جارحانہ طنز کی جگہ لطیف طنز نے لے لی۔ فطرت بدلی نہیں جاتی البتہ اسے حسبِ ضرورت موڑا ضرور جا سکتا ہے۔ ‘‘

( مظفر حنفی حیات، شخصیت اور کارنامے از محبوب راہیؔ۔ ص ۸۴)

شاعری میں ان کے بدلے ہوئے طرزِ عمل اور انفرادی پہچان کے متعلق وہاب اشرفی ایک ریڈیو تقریر میں فرماتے ہیں :

’’طنز نگاری، مظفر حنفی کا عمومی مزاج ہے۔ مظفر حنفی کو شادؔ عارفی سے تلمذ تھا اور موصوف کتنے بے باک اور خطرناک تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاد عارفی کے یہاں تو ایک قسم کا کھردرا پن نکتہ چینی کا تیور اور لڑائی بھڑائی کی کیفیت ہے لیکن مظفر حنفی لب و لہجہ کی متانت انتہائی سنگین موقعوں پر بھی نہیں کھوتے اس لیے ان کے طنز پر غصہ نہیں بلکہ سوچنے سمجھنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘

در حقیقت طنز کا مقصد ہونا بھی یہی چاہیے اور مظفر حنفی کے یہاں طنز محض دل آزاری کے لیے نہیں ہے بلکہ اس میں اصلاحی رجحان ملتا ہے، وہ ذہن کو آمادہ کرتے ہیں کہ انسان اپنے غلط رویوں سے باز آئیں، صحیح وقت اور موقع پر صحیح جگہ وار کرنا لازمی ہے۔ طنز یہ روش پر چل کر مظفر حنفی نے جو راستہ اختیار کیا وہ ان کی علیحدہ پہچان بن گیا جس میں خلوص بھی ہے درد و سوز بھی، میرؔ جیسا گداز اور سادگی بھی۔ جس عہد میں ان کی شاعری پروان چڑھی جدت پسندی کے نام پر لوگوں نے بے معنی اظہار اور علامتی انداز کے نام پر بعید از فہم شاعری کو اپنا شعار بنا رکھا تھا۔ مظفرؔ حنفی نے بڑی جد و جہد کے ساتھ خود کو ان رویوں سے بچایا اور اپنے ہم عصروں کی رہ نمائی اور پیش روی کی ذمہ داری بھی نبھائی۔

مظفر حنفی زبردست تنقیدی صلاحیت رکھتے ہیں انھوں نے اپنے اشعار میں جا بہ جا اپنے متعلق بھی تنقیدی رائے کا اظہار کیا ہے جس کے متعلق ڈاکٹر محبوب راہیؔ لکھتے ہیں :

’’ مظفر حنفی نے اپنی ابتدائی غزلوں میں شادؔ کا رنگ و آہنگ اپنانے کے ساتھ ساتھ پچاس سے زائد اشعار میں اپنے طنز نگار ہونے کا اعلان کیا ہے جس پر مشہور جدید نقاد شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں :’’ ایسے شاعر ہمیشہ دھوکا کھاتے ہیں جو قاری پر اعتماد کرنے کے بجائے اسے بار بار ٹوکتے رہتے ہیں۔ دیکھو میں یہ ہوں میں وہ ہوں یا اپنے بارے میں قاری کو وہی باور کرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو وہ خود باور کرتے ہیں۔ ان طریقوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو قاری جھنجھلا جاتا ہے یا پھر غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے اور شاعر کا معروضی محاسبہ نہیں کرتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظفر حنفی کا کچھ ایسا ہی حال ہے انھوں نے متعدد بار پڑھنے والے کو اپنی طرز نگاری کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ‘‘

(تبصرہ ’ تیکھی غزلیں، شمس الرحمن فاروقی مشمولہ ’ شب خون‘ الٰہ آباد فروری ۱۹۷۰ئ۔ ص ۷۵)

میرے خیال میں ہر بڑا تخلیق کار بنیادی طور پر زبردست ناقد ہوتا ہے بغیر تنقیدی صلاحیت کے وہ اپنے لیے صحیح سمت اور صحیح رویے کا تعین نہیں کر سکتا۔ اگر تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے تو تنقیدی شعور بھی فطری ہے جِسے اپنے عہد کے مروّجہ رجحانات، نظریات اور حالات اور سماجی رویوں کے مطابق صیقل کیا جاتا ہے۔ انگریزی کے مقبول و مشہور شاعر ورڈس ورتھ نے کہا تھا کہ ’’ ہر عظیم شاعر بنیادی طور پر ایک معلم ہوتا ہے‘‘ گویا وہ سماج کی تدریس کی ذمہ داری کو محسوس کرتا ہے۔ تو اس کا یہ سمجھانا بھی یقیناً ضرور ی ہے کہ اس کے اشعار سے کیا معنی لیے جائیں اور کیا تاثر قبول کیا جائے یا اس کے مرتبے کا تعین کس طرح کیا جائے چنانچہ اکثر بڑے شعرا نے اپنے اشعار میں اپنے قاری کی رہنمائی کی، میرؔ نے کہا:

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

یا

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے

رنج و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

غالبؔ نے کہا:

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور

چنانچہ مظفر حنفی نے بھی یہ وضاحت ضروری سمجھی کہ ان کے اشعار کو سرسری نہ پڑھیں اور نہ حظ اٹھائیں۔ ان میں چھپے طنز کی نشتریت کو محسوس کریں تاکہ بگڑے ہوئے سماجی رویوں اور گرتی ہوئی انسانی اقدار پر قابو پایا جا سکے۔ ان کے اشعار ہمارے سماج کا آئینہ ہیں انھوں نے عام موضوعات کو عامیانہ پن سے بچا کر پیش کیا ہے ان کی فکر میں گہرائی ہے اور طرزِ بیان میں اثر انگیزی ہے۔ ان کے اشعار محض اظہارِ ذات نہیں بلکہ وہ اجتماعی شعور رکھتے ہیں۔

اپنے عہد کے رنج و غم، درد و کرب کو وہ شدت سے محسوس کرتے ہیں اور سماج کی اصلاح کے خواہشمند ہیں۔ ان کے طنزیہ لہجے میں اکثر کاٹ سے زیادہ دلوں کو پگھلا دینے والا گداز ہے۔ خلوص ہے درد و اثر ہے۔ شعر ملاحظہ کیجیے:

میاں یہی ہے نظام ہستی چلو یہاں سے

وگرنہ رونا پڑے گا حنفی چلو یہاں سے

یہی تو ہونا ہے ایک بے نور صبح ہو گی

پھر ایک بے کیف شام ہو گی چلو یہاں سے

نہیں تو کیوں بال و پر لرزتے ہیں بے ارادہ

گرایا جائے گا یہ شجر بھی چلو یہاں سے

عہدِ حاضر کے حالات، دہشت گردی، تعصب، فسادات، انسانوں میں باہمی خلوص و محبت کی کمی، ہمسایہ ہمسائے کا دشمن، مطلب پرستی، خود غرضی جیسے رویوں سے شاعر کس قدر دکھی ہے۔ اس کی باریک بیں آنکھیں دیکھ رہی ہیں سب کچھ جو ہو رہا ہے اور وہ بھی وہ جو ہونے والا ہے۔ ان حالات کو بدلنا اکیلے اُس کے لیے ممکن نہیں۔ نہایت غمزدہ لہجے میں وہ اس ماحول سے فرار چاہتا ہے۔ تلخ تجربات اسے مجبور کر رہے ہیں :

نہ جانے کب آئے ان کی راحت کا کیابھروسہ

گلے گلے آ چکا ہے پانی چلو یہاں سے

صدق گوئی کا یہ خوبصورت انداز بھی دیکھیے:

میرے سچ کا تری خود رائی برا مانتی ہے

تجھ کو دنیا بھی میرے بھائی برا مانتی ہے

ملا سکتے ہو کیا ہم سے نگاہیں

بغاوت کی سزا دینے سے پہلے

مندرجہ بالا اشعار اور ایسے ہی تمام اشعار کو ذرا ان کے ہی اس شعر کی روشنی  میں دیکھیے اس سے بہتر تشریح کوئی تعریف کوئی تنقید نہیں ہو سکتی:

چھلک نہ جائے مظفرؔ یہ قیمتی آنسو

یہی شرارہ تو شعروں کو تر بناتا ہے

آج کے تلخ موضوعات کو تر بنائے بغیر گلے سے اُتارنا یقیناً نا ممکن ہے:

پتھر ہیں تو شیش محل پر جائیں نا!

گھاؤ میری پیشانی میں کیا کرتے ہیں

لہجے کی کاٹ بھی ملاحظہ کیجیے:

سچ بولنے کا تجھ کو بڑا اشتیاق ہے

اچھا تو سر سے باندھ کفن میرے ساتھ آ

لیکن یہ یقین بھی ہے:

مظفر اہلِ نظر بے خبر نہیں کہ خدا

سزا بھی دیتا ہے اعزاز ہی نہیں دیتا

آج کے عہد کی سچائیاں وہ کتنی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور کیسے دلگداز انداز میں بیان کرتے ہیں :

یوں تو اس نے عرضی کر لی ہے منظور

لہجے میں ہے نا منظوری جیسا کچھ

یہ دیکھیے کس قدر دلگداز طنز ہے:

کہتی ہے یہ بھوکے بچے کی مسکان

دھیان میں آیا حلوہ پوری جیسا کچھ

اگرچہ مظفر حنفی نے اپنے عہد کے درد اور سوزکومیرؔ کی سی تپش اور گداز عطا کیا ہے جو دیرپا اثر انگیزی لیے ہوئے ہے مگر پھر بھی وہ یہ سمجھتے ہیں :

پیچیدہ ہیں اس دور میں مضمون غزل کے

موتی سے کوئی میرؔ پرو بھی نہیں سکتا

مگر اپنے زندہ تر و تازہ اشعار کی قدر و قیمت انھیں خوب معلوم ہے لیکن بتانے کا انداز اچھوتا ہے:

بیاض اور کتابیں ہیں کام آئیں تو

ہمارے گھر سے دفینہ نہیں نکلنے کا

ایک شعر اور دیکھیے:

کاغذ پر کچھ پھول کھلائے شعروں کے

چھالے میرے دستِ ہنر میں کرتے کیا

مقامِ عبرت ہے آپ کو بھی دکھائی پڑتے ہیں پستہ قامت

ہمارے شانے پہ بیٹھ کر ہی جنابِ عالی بڑے ہوئے تھے

جو لوگ آج کے عہد میں جائز و ناجائز ذرائع سے اپنی خود داری کو بیچ کر اونچائیوں کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں ان پر یہ شعر نہایت گہرائی تک وار کر رہا ہے۔ اس کی داد الفاظ میں دینا ممکن نہیں شعر دیکھیے:

طمانچے بجلی لگا رہی ہے گھٹائیں پیہم گھڑک رہی ہیں

یہی ہے وہ آسمان جس پر تمام تارے جڑے ہوئے تھے

اس کے بر عکس بھی ایک رویہ ہے ملاحظہ کیجیے:

شہر یاری کا گُر اس کو معلوم ہے

شہر میں کچھ ہُوا تو نکلتا نہیں

جو سماج کی ایسی حقیقتوں سے دو چار ہو اس کے شعروں میں طنز کی کاٹ نہ ہو تو کیا ہو:

اب ان کا مال ہی کیا جان بھی نہیں بچتی

وہ رہزنوں کی نہیں رہ نما کی زد پر ہیں

مدد، مدد، کوئی طوفان، کوئی موجِ بلا

ہمیں بچاؤ کہ ہم نا خدا کی زد پر ہیں

بہر حال مظفر حنفی کے اشعار کو جتنا اور جس قدر ڈوب کر پڑھیے نئی نئی پرتیں کھلتی جاتی ہیں گہرائی بھی ہے، فکر کی اونچی اُڑان بھی، درد اور کسک بھی، سوز اور گداز بھی، طنز کا نشتر بھی، خلوص اور اثر بھی، تعمیر کی خواہش بھی۔ کسی شاعر کے کلام میں مشکل ہے جو اس قدر شعر انتخاب کے قابل ہوں جس قدر مجھے ملے مگر اس مختصر سے مضمون میں انھیں شامل نہ کر پانے کا دکھ ہے۔ عصرِ حاضر کے وہ ایسے شاعر ہیں جنھیں بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                علیم صبا نویدی

    چینئی

 

 

نئی غزل کا تاجور

 

گزشتہ پچاس برسوں سے مجھے مظفر حنفی سے قربت کا شرف حاصل ہے۔ موصوف نے میری سب سے پہلی کتاب ’ اُجلی مسکراہٹ‘ کا پیش لفظ قلمبند فرمایا تھا۔ بعد ازاں متعدد بار اُن سے دو بدو ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا اور مشاعروں میں بھی ان کا کلام سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔

غزل لکھنا بہت آسان ہے، مگر غزل میں روحِ غزل اور نورِ غزل سمونا دشوار ہے۔ اس فن میں طاق ہونے کے لیے ذہنی ورزش، فکری ریاضت اور جذبے کی پرورش و پرداخت کی اشد ضرورت ہے۔ غزل کے جسم کو ترو تازہ رکھنے کے لیے فکر کو لہو دینا اور جذبے کی گرمی دینا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے آس پاس جو غزل گوئی ہو رہی ہے اُس میں فکرو جذبے کی حرارت موجود ہے مگر فکری رمزیت کا فقدان ہے۔ میرؔ و غالبؔ کے ہاں اس طرح کی رمزیت سے معمور بہت سے اشعار مل جاتے ہیں۔

دورِ جدید میں اردو غزل نے یقیناً اپنا پارینہ پیراہن اُتار دیا ہے اس نے اپنے تیور بھی بدل لیے ہیں اور اس کے خد و خال میں بھی کافی تغیر آ گیا ہے اور اس تغیر میں آج کی نئی سوچوں کی نئی دھڑکنیں کروٹیں لے رہی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ غزل کے اشعار میں سارا جادو لفظوں کا ہی ہوتا ہے۔ جذبوں کا اظہار بھی لفظوں کی علامات سے ہوتا ہے۔ اگر الفاظ نہ ہوں تو جذبات بھی کوئی معنی نہیں رکھتے گویا یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ الفاظ ہی روشنی کی کرن بن کر اپنا جادو جگاتے ہیں۔ مومن کا یہ شعر دیکھیے:

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

یہاں لفظوں نے جذبے کو نورٌ علیٰ نور بنا دیا ہے۔

ملارمے کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ’’ شعر الفاظ سے بنتے ہیں خیالات سے نہیں ‘‘ ۔

آج سے پانچ سو برس پہلے ابن خلدون نے بھی اپنے ایک مقدمے میں لکھا تھا کہ ’’شعر کی بنیاد الفاظ پر ہے‘‘ ۔ مگر مذکورہ بالا خیالات کے بالمقابل ذرا مظفر حنفی کو بھی سنیے:

شعر لفظوں سے نہیں بن جاتے

خون میں تیرے شرر ہے کوئی

مظفر حنفی کا کہنا ہے کہ بدن میں خون کی جو چنگاریاں ہیں وہی اشعار کے روپ دھار کے منصۂ شہود پر آتی ہیں گویا مظفرؔ کے ہاں الفاظ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے وہ اس لیے کہ ہر شاعر کے سینے میں الفاظ کا ذخیرہ پہلے ہی موجود رہتا ہے۔

پھر مظفر حنفی کا یہ شعر بھی پڑھیے:

میں نے ڈبو کے نوکِ قلم اپنے خون میں

جس لفظ کو چھُوا وہ شرارہ سا بن گیا

مظفر حنفی کے ہاں خون کی آنچ سے لفظوں کے شرر نکالنے کا کمال موجود ہے:

جھلملانے لگے ہم آپ ستارہ بن کر

خون کی آنچ سے لفظوں کو گہر کرنے میں

واقعہ یہ ہے کہ مظفر حنفی نے اپنی شاعری کے ذریعے ابن خلدون اور ملارمے کے تصورات کو باطل کر دکھایا ہے۔ مظفر حنفی نے صنفِ غزل کی طرف مسلسل توجہ دے کر اس کی کنواری مانگ میں روشن سیندور بھرا ہے۔ غزل میں ان کا اپنا خاص اسلوب موجود ہے۔

غزل گوئی سے ہٹ کر نعت گوئی میں بھی نہ صرف ان کا صالح اور انتہائی عقیدت و احترام کا جذبہ جھلکتا ہے بلکہ ان کے اظہار میں سچائی اور والہانہ پن کے ساتھ ساتھ ان کے ایک اچھے اور سچے امتیِ رسول ہونے کے نقوش روشن ہوئے ہیں :

دم گھٹنے کی کیفیت میں

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا محمدؐ

یومِ ازل سے یومِ ابد تک

رحمت کا سلسلہ محمدؐ

مرنے کے لاکھوں حیلے ہیں

جینے کا آسرا محمدؐ

مندرجہ بالا نعتیہ اشعار ہمارے دلوں میں ایک طرح کی ٹھنڈک ضرور پیدا کرتے ہیں۔ مظفرؔ نے ردیف ’’ محمدؐ‘‘ کو برقرار رکھتے ہوئے آسان قوافی میں پوری سلاست کا خیال رکھا ہے تاکہ قاری کو مفہوم شعر تک کی رسائی میں زیادہ شاعرانہ قوت صرف نہ ہو اور عقیدت و خلوص کے اظہار میں پیچیدگی نہ حائل ہو۔

مظفر حنفی کی یہ نعت ایک مرقع ادب و عقیدت ہے۔ نعت سے پہلے ایک  حمد’’ اللہ‘‘ کی ردیف میں ہے جو اللہ کے حضور ان کی عبودیت اور اللہ کی رحیمی اور کریمی کا ماحول پیش کرتی ہے:

دعا کبھی مانگی نہیں سو مانگ لیں اللہ

کہ درد ہو تو ہم آنسو بہا سکیں اللہ

ہر ایک شے میں مظفرؔ خدا نظر آیا

اگرچہ ہم ہیں خود اپنی تلاش میں اللہ

مظفر حنفی کے کلام کے مطالعہ سے ان نتائج کا استنباط بہ آسانی ہو جاتا ہے کہ ان کی طبیعت میں مضامینِ نو کر فراوانی ہے گویا تازہ بہ تازہ، نو بہ نو مضامین ان کے میدان خیال میں دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ مظفرؔ اپنی شاعری میں معنوی خوبیوں کے ساتھ ساتھ زبان اور لطف ِ بیان کے دلدادہ ہیں۔ اکثر اشعار میں انھوں نے زبان صاف اور رواں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور کہیں بھی کسی شاعر کی تقلید نہیں کی ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کی تمام تر غزلیں ذہن و دل پر ان مٹ نقش چھوڑنے میں کامیاب ہیں بالخصوص ان کی چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی غزلیں بڑی نکھری نکھری ہیں۔

سورج لے کر کیا کرتے ہم

چھوٹا سا اک دیا چاہیے

دونوں عالم آپ سنبھالیں

ہمیں سانس بھر ہوا چاہیے

لہو کو ذرا اور حدّت ملے

کہ اشعار کو نشتریت ملے

مجھے زندہ رہنے کا احساس ہو

اگر سانس لینے کی مہلت ملے

یہ نظارے چار دن کے ہیں

کھیل سارے چار دن کے ہیں

کہہ رہی ہے ہم سے کالی رات

چاند تارے چار دن کے ہیں

پریشاں کیوں ہو گئے مہربان

میاں ہم کدورت نہیں پالتے

یہ شہرت کی مسند یہ عظمت کا تاج

مظفرؔ یہ علّت نہیں پالتے

مظفر حنفی نے اکثر اپنے شعروں میں چھوٹی چھوٹی سادہ سی باتیں اثر انگیز طریقے پر بڑی آسانی سے کہہ دی ہیں۔ شاعری کا یہ کمال یونہی سب کو حاصل نہیں ہو جاتا۔ اس کے لیے جو مشق و مزاولت، ذہنی ورزش اور جذبے و تخیل کے علاوہ حسی تجربے کی ضرورت ہوتی ہے وہ مظفرؔ حنفی کے ہاں بدرجۂ اتم موجود ہے۔

مظفر حنفی اپنی غزلوں کی طویل بحروں میں چونکا دینے والی کیفیت ضرور پیدا کرتے ہیں اور ان طویل بحروں کا تاثر بھی طویل ہی ہوتا ہے۔

سوکھی شاخیں سوچ رہی ہیں اب آنے سے کیا ہوتا ہے

پتّے تال پیٹ رہے ہیں، آیا پانی آیا پانی

حال اندھیرا گھپ ہے لیکن مستقبل کی آس کے جگنو

میری جلتی پیشانی پر ڈال رہے ہیں ٹھنڈا پانی

ہم ہیں کہ مظفرؔ خاک ہوئے سنتے تھے کہ ان کے پاس آ کر

ذرے سورج ہو جاتے ہیں، قطرے دریا بن جاتے ہیں

سیلابوں کی زد میں آ کر جلنے سے محفوظ ہوا گھر

میں بھی خطرے سے باہر ہوں سر قاتل کو بیچ دیا ہے

روشنی کی روح سایا ہے سمجھتا کیوں نہیں

نور کا سیلاب آیا ہے سمجھتا کیوں نہیں

یہ ہوا کہ تیرے خیال نے مرا دل سرور سے بھر دیا

شبِ ہجر میں تِرے درد نے مرا سینہ نور سے بھر دیا

اُن کی شکایت، اُن کا شکوہ اکثر کرتے رہتے ہو

اور مظفرؔ ہم نے تم کو اکثر دیکھا اُن کے پاس

مظفر حنفی نے ہندوستان کے شہروں اور بستیوں کے پُر آشوب ہنگامہ خیز ماحول کی عکاسی یوں کی ہے:

ملک بھر میں ہے مظفرؔ کہرام

تجھ کو بنگال میں چپ رہنا ہے

دور تک دھواں دھواں، گرچہ ہے سر پہ آفتاب

شور ہے اتحاد کا اور فساد کم نہیں

حملے کلس پر، لرزاں کلیسا

مسجد پہ یلغار افسوس افسوس

آج تک بستی سے اٹھتا ہے دھواں

اب تو احساس ندامت کیجیے

یہ نکتہ کس طرح سمجھائیں ہم اہلِ سیاست کو

کہ دل تسخیر کرنے ہوں تو بمباری نہیں کرتے

تم گھر جلانے آئے تہہِ دل سے شکریہ

لیکن مرا اثاثہ تو سیلاب لے گیا

کسی بھی گھر میں لگے آگ ساری بستی میں

دھواں اٹھے گا ہمارے غریب خانے سے

پھر آج مِرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں سا

بستی میں کہیں آگ لگا دی ہے کسی نے

غزل کے مقطعوں کا استعمال رمزیت کی ایک نئی دنیا سے آشنا کراتا ہے اور اس رمزیت میں خودی کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور خودی کے جذبے سے ہی تخلیق وجود میں آتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قدیم دور میں مومن خاں مومنؔ نے تخلص سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لفظی رعایت سے رمز و ایما کا ایک نیا جہاں آباد کیا تھا۔ یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ مظفر حنفی نے بھی مقطع کے ذریعہ رمز آفرینی کا کام لیا ہے:

قلم کو تیز مظفرؔ  غزل کو تیغ کرو

نہ باز آئے گی دنیا تمھیں ستانے سے

غزل کے شعر مظفرؔ بھی خوب کہتا ہے

اگرچہ آدمی لگتا نہیں قرینے کا

غریقِ فن ہے مظفرؔ اُسے خبر تو کرو

کہ اس کے شعر بھی چھپنے لگے خبر بن کر

ہنر دکھایا مظفرؔ نے اپنے شعروں میں

ہر ایک لفظ کے اندر شرارے توڑنے کا

صدیوں کریں گے راج مظفرؔ دلوں پر ہم

حاصل ہے سلطنت کی جگہ شاعری ہمیں

نگہ مرکوز رکھی ندرت و مضمونِ تازہ پر

مظفرؔ نے غزل کے نکتہ چینوں کو نہیں دیکھا

راتیں تباہ کی ہیں مظفرؔ نے بے شمار

اِک مصرعۂ غزل کے لیے کیا نہیں کیا

لہو سے مل کے آنسو شعر بنتا ہے مظفر کا

بُرا لگتا ہے ان قطروں کو بحرِ بیکراں کرتے

شعر کہہ کر بھی مظفرؔ نے بہت رنج کیا

ہاتھ سے کیا گہرِ بیش بہا جاتا ہے

مظفر اپنی حقیقت کو خوب جانتے ہیں

شمار ہوتے ہیں اہلِ ہنر میں ہم لیکن

یہ الگ بات مظفرؔ ہی نہ مانے خود کو

ورنہ غالبؔ کے طرفدار میرے گھر میں نہیں

مظفر حنفی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انھیں حضرت شادؔ عارفی رام پوری سے شرفِ تلمذ حاصل رہا ہے۔ حضرت شادؔ عارفی اپنے طنزیہ لہجہ کے لیے اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ مظفر حنفی نے بھی اپنے استادِ محترم شاد عارفی کے لہجہ میں اشعار تخلیق کیے ہیں۔ میری رائے میں موجودہ دور میں اس رنگ میں اشعار کہنے والوں میں انھیں انفرادیت حاصل ہے۔ موصوف کے جن اشعار میں نشتریت اور طنز کی گل کاریاں نظر آتی ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں :

تو بھی کشتی میں بنا لے سوراخ

اور پھر حیلۂ گرداب تراش

ہم فقیروں کی صحبت میں بیٹھا کرو

اور توقیر سادات بڑھ جائے گی

اس قدر صاف گوئی مظفرؔ میاں

کون سی آپ کی ذات بڑھ جائے گی

اک جھُرجھُری سی دور تلک لی زمین نے

بچے نے شاخِ گل میں بندھا بم اٹھا لیا

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اُتارا جائے

میں گنہگار اور اَن گنت پارسا چار جانب سے یلغار کرتے ہوئے

جیسے شب خون میں بوکھلا کر اٹھیں لوگ تلوار تلوار کرتے ہوئے

شاہوں کے نام لو نہ گداؤں کے سامنے

جلتے نہیں چراغ ہواؤں کے سامنے

ماں کی آنکھوں میں اُتر آیا لہو

دودھ کا ڈبّہ نہیں دوکان میں

مظفر حنفی کا یہ طنزیہ لہجہ یقیناً اردو کے شعری ادب میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

مظفر حنفی کے بعض اشعار کا مطالعہ یہ بھی احساس دلاتا ہے کہ مظفرؔ کو علمِ نجوم پر بھی کما حقہ دسترس حاصل ہے اور انھیں زائچے کے بارہ ستاروں ( گھروں ) کی نشست اور برخواست کے مرتب ہونے والے اثرات کا بھی ادراک ہے۔ اس ضمن میں وہ مومن خاں مومنؔ کے نقشِ قدم کی بازیافت کرتے ہوئے لگتے ہیں :

یہ کہکشاں، یہ عطارد، یہ مشتری، یہ زحل

الاؤ کس نے سرِ رہ گزر جلائے ہیں

بہ حیثیت مجموعی مظفر حنفی کی غزلوں میں اثر انگیزی، سلاست، روانی، گداختگی، برجستگی اور طنز کی بہترین مثالیں مل جاتی ہیں اور ان کے زیادہ تر اشعار میں ان کے اچھوتے طرز ادا نے معمولی لفظوں کو بھی وسعت اور کشادگی عطا کی ہے اور ان کی غزلوں کے موضوعات اور ان موضوعات میں نہا کر نکلنے والی نورانی کرنیں ان کے فن اور شخصیت کو نیک شہرت کی تاجور بناتی ہیں۔

٭٭٭

 

’’  اگر عوام سے نزدیک ہوں مظفر میں

تو اک خفیف سا کج بھی مری کلاہ میں ہے

غزل کا مقطع صرف شاعر کے تخلص کا اعلان نہیں، بلکہ شاعر کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مظفر حنفی کی غزل کا مقطع ایک ایسے شاعر کی داخلی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے جو جبر و اختیار کی کشمکش میں شامل ہے۔ عوامی اور اجتماعی احساس سے پوری طرح وابستہ رہ کر اپنی انفرادیت اور کج کلاہی کو قائم رکھنا چاہتا ہے جو ابتلا سے گزر کر ابتہاج اور ابتسام کی منزل تک پہنچتا ہے۔ زندگی اور لا زندگی کے درمیان اظہار کا معرکہ جاری رکھنے والا یہ شاعر اپنی حقیقت پسندانہ شعوری تخلیقی روش سے اس امکان کی منزل پر ہے جو نئی ترقی پسندی یا زندگی آمیز تخلیق کی منزل ہے۔ ‘‘

محمود ہاشمی

 

 

 

 

                نثار احمد صدیقی

گیا

 

 

 مظفر حنفی:فن اور فنکار

 

مظفر حنفی کا شمار اردو کے ان چند ادیبوں میں ہوتا ہے جو اپنی گراں قدر تصانیف سے اردو شعر و ادب کے سرمائے میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ مظفر حنفی صرف ایک شاعر ہی نہیں افسانہ نگار اور ناقد بھی ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلا افسانہ ’’ اونچی دکان‘‘ تحریر کیا تھا جو ’’ بیسویں صدی‘‘ میں ۱۹۵۳ء کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ’’ اینٹ کا جواب‘‘ (۱۹۶۷ء)، ’’ دو غنڈے‘‘ (۱۹۶۹ء)،  ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ (۱۹۷۰ء)، ان کے تین افسانوی مجموعے ہیں۔ ان مجموعوں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں کہانی بُننے کا انداز بالکل انوکھا ہے۔ وہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنا نقش اردو افسانوی ادب میں ثبت کر چکے ہیں، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

احتشام حسین، آل احمد سرور، مجنوں گورکھپوری، اختر اورینوی اور دیگر ناقدین فن افسانے کے راستے سے ہی ادب کی دنیا میں داخل ہوئے پھر بعد میں شاعری شروع کی اور تنقید نگاری میں اپنا لوہا منوایا۔ مظفر حنفی بھی اپنے ہم عصر بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے افسانہ نگاری کے دروازے سے ادبی دنیا میں داخل ہوئے۔ لیکن افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے رہے۔ ابتدائی زمانہ میں شاعری سے زیادہ افسانہ نگاری سے ہی انھیں دلچسپی رہی۔ پتہ نہیں کیوں انھوں نے افسانہ نگاری سے توبہ کر لی جب کہ ان کے اندرافسانہ گڑھنے کی بھرپور صلاحیت تھی۔ ممکن ہے شاعری اور تنقید نگاری کا شوق ان پر حاوی ہو گیا ہو۔

جس زمانے میں مظفر حنفی ادب میں داخل ہوئے وہ زمانہ ترقی پسندی کے زوال کا تھا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ بہت سارے فنکار ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہے تھے۔ وہ پناہ لینے کے لیے کوئی دوسرا نعم البدل تلاش کر رہے تھے تاکہ اپنے خیالات کو کھوکھلی نعرہ بازی کے ذریعہ نہیں بلکہ صاف ستھرے انداز سے عوام کے سامنے پیش کر سکیں۔ اسی زمانے میں جدیدیت کا رجحان ہند و باک کے اردو ادب میں آہستہ آہستہ اپنے قدم جما رہا تھا۔ پاکستان میں وزیر آغا، جمیل جالبی اور ہندوستان میں شمس الرحمن فاروقی، محمود ہاشمی اور مین را اس رجحان کو عام کرنے میں کوشاں تھے۔ یہ ’’اوراق‘‘ اور شب خون‘‘ جیسے رسالے کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کر رہے تھے۔ ان رسالوں کے مواد سے بہت سارے فنکار جو ترقی پسند تحریک کے کھوکھلے پن سے بیزار تھے، کافی متاثر ہوئے اور جدیدیت کے رجحان کو مد نظر رکھ کر اپنی تخلیقوں کے ذریعہ اسے عام کرنے میں کوشاں ہو گئے۔ ظاہر ہے اس رجحان سے مظفر حنفی کیوں متاثر نہ ہوتے۔

جدیدیت سے ہمارے بزرگ نقاد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وہاب اشرفی بھی متاثر ہوئے اور اس رجحان کے موافقت میں کئی مضامین لکھے۔ بیس سال بعد جب امریکہ کے ایک سیمینار سے گوپی چند نارنگ کی واپسی ہوئی تو انھوں نے اپنی ٹکسال سے مابعد جدیدیت کا نیا سکّہ نکالا اور اس کے عملی تعارف کے لیے ساختیات، قاری اساس تنقید، رد تشکیل، تانیثیت، نوتاریخیت اور پس ساختیات وغیرہ پر بحثیں چھیڑیں۔ اس سے یہ ہوا کہ جدیدیت میں جو ابہام پرستی آ گئی تھی اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے بہت سارے فنکار مابعد جدیدیت کے زیر سایہ آ گئے اور اپنی تخلیق اس رجحان کے زیر سایہ تحریر کرنے لگے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کوئی نیا رجحان یا تحریک نہیں ہے بلکہ یہ ترقی پسند تحریک کا نیا لبادہ ہے۔ آج یہ رجحان  یا تحریک اردو دنیا کے بیشتر فنکاروں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اس میں اردو ادب کو نقصان ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی تحریکیں یا رجحان ادب میں آئے ان سے ادب کو فائدہ ہی ہوا ہے۔

یہاں میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ یا شمس الرحمن فاروقی کے متعلق ادبی رجحان یا تحریک سے بحث کرنا نہیں چاہتا بلکہ میں مظفر حنفی کی ادبی ایکٹیویٹی یعنی تنقید نگاری یا شاعری سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گرچہ انھوں نے افسانے بھی لکھے ادبی صحافت (ماہانہ نئے چراغ) بھی کی ترجمے کا کام بھی کیا اور ترتیب و تدوین سے بھی وابستہ رہے لیکن مظفر حنفی کا اصل میدان شاعری اور تنقید نگاری ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ شادؔ عارفی شخصیت اور فن، نقد ریزے، تنقیدی ابعاد، جہات و جستجو، غزلیاتِ میر حسن، ( انتخاب و مقدمہ) ادبی فیچر اور تقریریں، باتیں ادب کی، محمد حسین آزاد، حسرت موہانی، (کئی زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں ) ہندوستان میں اردو، لاگ لپیٹ کے بغیر، شادؔ عارفی، فن اور فنکار اور مضامینِ تازہ اس کے علاوہ وضاحتی کتابیات بھی ہے جس میں بیسویں صدی کے آخری ربع کی تقریباً ساری اردو کتابوں کا احوال اور مختصر تعارف شامل ہے، یہ کتاب بائیس ضخیم جلدوں میں پھیلی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شاد عارفی پر جو کام کیا ہے وہ لائق تعریف ہے۔ اردو دنیا کے چند نقادوں نے بھی اس کتاب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا ہے۔ آج بھی شاعری کے ساتھ تنقیدی مضامین مظفر حنفی لکھ رہے ہیں۔

دورِ حاضر میں جو بھی تنقیدیں لکھی جا رہی ہیں۔ ان سب مضامین میں تنقید و تجزیے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا ہے بلکہ اس میں تعریف و توصیف کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ لیکن مظفر حنفی کا تنقیدی رویّہ اس سے بالکل الگ تھلگ نظر آتا ہے۔ وہ غلطیوں کی نشاندہی اور خامیوں کی طرف دو ٹوک اور بے باکی کے ساتھ اشارہ کر دیتے ہیں۔ چاپلوسی، جی حضوری اور اقربا پروری سے انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین کو دور رکھا ہے۔ میں ہی کیا اردو دنیا کے سارے اسکالر س بات سے متفق ہیں۔

آج مظفر حنفی کی شاعری میں مابعد جدیدیت کا اثر آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی تنقید میں بھی ایک مابعد جدیدیت تلاش کر سکتے ہیں۔ لیکن مابعد جدیدیت سے متاثر ہونے کے باوجود اپنی شاعری کو چوں چوں کا مربّہ نہیں بننے دیا۔ انھوں نے بڑی اچھی غزلیں کہیں ہیں۔ غزل میں مظفر حنفی نے ایک نیا رنگ نکالا ہے۔ ایک نئے آہنگ سے اردو غزل کو روشناس کرانے کی کوشش بھی کی ہے۔ ایک نیا انداز اس میں پیدا کیا ہے۔ ان کی غزلیں جدیدیت سے مختلف اور مابعد جدیدیت سے قریب ضرور ہیں لیکن ان کی شاعری میں عشقیہ معاملات اور واردات و کیفیات کی ترجمانی بھی دیکھ سکتے ہیں۔ غزلوں میں ان کے یہاں مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ غزل کے عام مضامین کا بھی ان کی غزلوں میں پتہ نہیں چلتا۔ وہ غزل میں اپنے مخصوص تجربات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس لیے جن مضامین کو انھوں نے موضوع بنایا ان میں ایک جدّت پائی جاتی ہے۔ ان میں تجربے کا خلوص اور مشاہدے کی صداقت صاف نمایاں ہے۔ اس لیے ان کے کلام میں زندگی اور جولانی کا احساس ہوتا ہے۔ مظفر حنفی کی غزلوں کی بنیاد صرف داخلیت پر ہی استوار نہیں ہے بلکہ خارجیت کو بھی انھوں نے غزل کے لیے اختیار کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں موڈ کی ہم آہنگی بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور ایک قسم کا تسلسل بھی پایا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مظفر حنفی نے اپنی غزلوں سے جذبات نگاری کے وسیلے اور انسانی زندگی کی بعض بنیادی حقیقتوں کا بھی سراغ لگایا ہے۔ اس طرح وہ عقل و شعور کی باتیں بھی کرتے ہیں اور اپنی شاعری میں جگہ جگہ جذباتی بھی ہو گئے ہیں۔ بلکہ کہیں کہیں ان کے یہاں ایسی باتوں کا بھی بیان ملتا ہے جس کی بنیاد غور و فکر پر استوار ہے۔ جن میں ایک فلسفیانہ آہنگ پایا جاتا ہے۔ مظفر حنفی فلسفی نہیں ہیں اسی لیے ان کی شاعری میں خالص فلسفہ نہیں ملتا البتہ وہ ایسی باتوں کو اپنی شاعری کا موضوع ضرور بناتے ہیں جن کی نوعیت  فلسفیانہ ہوتی ہے۔ مظفر حنفی کا اپنا نقطہ نظر یا نظریہ حیات بھی ان کی شاعری میں کبھی کبھی سامنے آ جاتا ہے، اسے آپ اسے فلسفہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ انھوں نے فلسفیانہ باتیں بھی کی ہیں۔ فلسفیانہ موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔

مظفر حنفی کی شاعری کے مزاج کا اگر کوئی اندازہ لگانا چاہے تو اسے ان کی تشبیہوں کی طرف نظر کرنی پڑے گی۔ تشبیہوں کے انتخاب سے مظفر حنفی کے ذہنی عمل کا پتہ چلتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مظفر حنفی نہ روایت پسند ہیں نہ ترقی پسند، نہ جدت پسند ہیں اپنی شاعری میں وہ ایسی تشبیہوں اور استعاروں کواستعمال نہیں کرتے جو اردو شاعری کے لیے تکیہ کلام بن چکے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ان تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال سے احتراز کرتے ہیں، وہ اس معاملے میں براہِ راست اپنے مشاہدے پر بھروسہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔ بہت سی ایسی تشبیہیں ہیں جن کی طرف ذہن کبھی منتقل نہیں ہوتا لیکن ان کے یہاں موجود ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کے یہاں بہت سی تشبیہوں کا تلازمۂ ذہنی بدل گیا ہے۔ مظفر حنفی مروجہ تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال میں جدت پیدا کرنے پر قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنے مفہوم کو پورے طور پر ادا کرنے کے لیے ان چیزوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے ملک کے اصول و مزاج سے قریب تر اور ہم آہنگ ہیں۔ در اصل مظفر حنفی نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔ اس سے اردو غزل میں ایک خوشگوار اضافہ ہوا ہے، جس سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ مظفر حنفی کی تشبیہیں اور استعارے بڑے اچھوتے اور خیال انگیز ہوتے ہیں۔ یہ جامد نہیں ہوتے بلکہ ان میں زندگی پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں انفرادیت ہے اور ان کا لب و لہجہ منفرد ہے۔ ان کے یہاں تیکھا پن بھی پایا جاتا ہے۔ ان کی شعری تصانیف’’ پانی کی زبان‘‘ ، ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ ، ’’عکس ریز‘‘ ، ’’صریر خامہ‘‘ ، ’’دیپک راگ‘‘ ، ’’ یم بہ یم‘‘ ، ’’پردہ سخن کا‘‘ ، ’’یا اخی‘‘ ، ’’آگ مصروف ہے‘‘ ،  ’’ہاتھ اُوپر کیے‘‘ اور ’’ کھل جا سم سم‘‘ کا مطالعہ اس سلسلے میں کیا جا سکتا ہے۔ آپ مندرجہ ذیل اشعار سے ان کی شاعری کے متعلق اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کا شاعری میں کیا مقام ہے:

چلنے میں آ رہا تھا مزا آبلوں کے ساتھ

منزل خود آ گئی کوئی عجلت نہ تھی ہمیں

بجھتے بجھتے بھی ظالم نے اپنا سر جھُکنے نہ دیا

پھول گئی ہے سانس ہوا کی ایک چراغ بُجھانے میں

یہ ہاتھ رہے میرے کام آئیں گے قاتل کے

لے جاؤ مرا چہرہ اخبار پہ رکھ دینا

کانٹے ہی کھینچ دیتی تھی منزل کی آرزو

اب وہ بھی میرے ہم سفروں میں نہیں رہی

یہ بھی جلتا ہے کسی اور علاقے میں چلیں

یہ مناظر تو کئی بار کے دیکھے ہوئے ہیں

ہزاروں مشکلیں ہیں دوستوں سے دُور رہنے میں

مگر اک فائدہ ہے پیٹھ پر خنجر نہیں لگتا

پھر میں نے بادل سے پوچھا اینڈے اینڈے پھرتے ہو

اب کے بنجر کتنے ڈالے کتنے ریگستان بنائے

ساری جھیلیں سری نگر کی باغ بغیچے دلّی کے

بابا اپنے گاؤں میں کیوں ہے اتنی کیچڑ اتنی دھول

کہاں آ کر کہانی ختم کی ہے داستاں گو نے

ہمارا نام آنے ہی کو تھا افسانۂ دل میں

سرد ہو جائے گا دل جیسے کوئی ٹھنڈا چراغ

ہم تو مر جائیں گے جس دن زخم اچھا ہو وے گا

تجھے پھر سمت ممنوعہ بلاتی ہے خدا حافظ

مجھے بھی جستجو کا ساتواں در باز کرنے دے

تمام عمر جسے ڈھونڈتا رہا ہوں میں

وہی تو میرے تعاقب میں تھا فریب فریب

مدد مدد، کوئی طوفان، کوئی موجِ بلا

ہمیں بچاؤ کہ ہم ناخدا کی زد پر ہیں

مختلف انداز رکھتی ہیں مظفر کی غزل

یہ ہماری آپ بیتی ہے خبر نامہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

’’جناب مظفر حنفی شعر و سخن کی بزم میں یکے از تازہ وار دانِ بساط ہوائے دل ہیں مگر ان کی شاعری کا تعارف شہرت کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ مظفر صاحب کا کلام ’’پانی کی زبان‘‘ ہمارے سامنے ہے جس کا پروفیسر احتشام حسین سے انتساب کیا گیا ہے۔ ’’پیش لفظ‘‘ شاعر کا اپنا ایک شعر ہے:

عظمت سے ہٹ کے نُدرت و جدّت کو ناپیے

ہم اور چیز، غالبؔ و میرؔ و فراقؔ اور

’ ناپیے‘ اس شعر میں غلط استعمال ہوا ہے۔ شعر و سخن کی ندرت و جدت اور محاسن کو ناپا نہیں جاتا۔ دیکھا، جانچا، پرکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر اظہارِ خیال میں زبان و روزمرہ کی پروا نہیں کرتا۔ مظفر حنفی کی غزلوں میں یقیناً چونکا دینے والے اشعار ملتے ہیں۔ بعض شعر ایسے بھی ہیں جو خیال و اظہار کے اعتبار سے اچھوتے ہیں ان میں خاصی کشش اور تاثیر پائی جاتی ہے۔ ’’

ماہر القادری

 

 

 

 

                نیّر قریشی

 گنگوہ

 

 

بیباک اور تیکھے لہجے کا شاعر: مظفر حنفی

 

شاعری ایک ایسا عمل ہے جس میں شاعر کو اپنے حواس کو بیدار رکھنا پڑتا ہے۔ شاعر کی سوچ عام انسان سے علیحدہ ہوتی ہے۔ شاعر پر شعور و آگہی کی نمائندگی کرنے کا فریضہ عائد ہو جاتا ہے۔ چونکہ وہ انسانی معاشرت و تہذیب اور اقدار کو سمیٹ کر اشعار میں ڈھالتا ہے۔ یہی محرکات و عوامل ایک نئی کائنات کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں۔ جِسے ہم اشعار کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں۔

مظفر حنفی میرے ہم عصر ہیں۔ کسی ہم عصر پر لکھنا واقعی مشکل کام ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کو کہنے میں ذرا بھی تامّل نہیں کہ مظفر حنفی وہ شاعر ہیں جن کے کلام کو پڑھ کر اہلِ ذوق لطف اندوز ہی نہیں ہوتے بلکہ ٹھہر کر سوچتے ہیں۔ انھوں نے اپنے استاد شادؔ عارفی کے بیباک اور منھ پھٹ انداز کو قائم ہی نہیں رکھا بلکہ آگے بڑھایا ہے۔ جب شاعر کا قاری ان کی شاعری کا مطالعہ کرتا ہے تو اُسے حیرت ہوتی ہے کہ شاعر کی طرح اس کی شاعری کو بھی سچّائی کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا، زبان اور قواعد کا شعور پختہ ہے۔ وہ تاریخی، تہذیبی اور تمدنی شعور سے بھی کام لے لیتے ہیں۔ کسی سچ بات کو کہنے سے وہ ذرا بھی نہیں چوکتے۔ حالانکہ عہد حاضر میں منافقت کا رویہ عام ہے۔ آج کا فرد چاپلوسی سے کام کر لیتا ہے۔ جس سے سامنے والا فرد مطمئن و شاد ہو جاتا ہے، لیکن مظفر حنفی نے اپنی راہ الگ اختیار کی ہے۔ ان کے منفرد لب و لہجے نے ان کے اشعار کی تازہ کاری کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔ شاعر پر اپنے استاد کا رنگ کس حد تک چھایا ہوا ہے وہ اس کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :

شاد صاحب کی طرح میں نے مظفرؔ حنفی

طنز پر سان چڑھانے کی قسم کھائی ہے

یا پھر    ؎

ہے شادؔ عارفی سے مظفر کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

طنز پر سان چڑھانے والے شاعر نے نشتریت کو آبدار کیا ہے۔ ان کی دھار اتنی تیز ہو گئی ہے کہ وہ قاری کے کلیجے میں چُبھ کر اسے زمانے کی سچّائی دکھانے کا کام کرتی ہے۔ ان کا لہجہ نکیلا ضرور ہے لیکن وہ ان کی کج کلاہی اور انفرادیت کو کہیں ختم نہیں ہونے دیتا۔ اُن کی شاعری کے موضوعات میں ایک کرب ہے، آگہی ہے جو احساسِ جمال اور سوز و گداز کے ساتھ قاری کے ذہن و دل پر دستک دیتی ہے اور عصری آگہی کے در وا کرتی ہے:

یہ سوز یہ گداز مظفر کے شعر میں

صحرا میں گونجتی ہے اذاں یا ر بادشاہ

شاعر نے غزل میں سچائی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو وسعت دی ہے۔ ان کے اشعار کا تجزیہ کیا جائے تو چند فکری عناصر سامنے آتے ہیں جس میں زمانے کی خرابی کی طرف وہ طنزیہ اشارے بھی کرتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر بہت حسّاس ہے اور اس کا شعور زخم خوردہ ہے۔ شاعر کا غزل سے رشتہ نہایت قریب کا ہے۔ اس کا ذہن اندیشوں سے معمور ہے۔ لہٰذا وہ اپنے کھردرے اور تیکھے لہجے سے معاشرے کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں :

کوئی بھی چلنے پر آمادہ نظر آتا نہیں

کارواں کا کارواں مصروف سالاری میں ہے

کبھی تو صدقہ مرا خاک سے اتارا جائے

مجھے بلندیِ افلاک سے اتارا جائے

چپکے چپکے اونچی کر لی میری کھڑکی پر دیوار

ہمسائے نے کاٹ لیا ہے آسمان مجھ بے پر کا

کس لیے صحن میں دیوار ہے پوچھو ان سے

کون بٹوارے پر تیار ہے پوچھو ان سے

باپ کے دل میں بے روزگاری کا غم

ماں کو حیرت کہ برکت کہاں اڑ گئی

مظفر حنفی ایک شاعر ہونے کی ذمہ داری کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، وہ اپنے تجربات کو شعروں میں تجسیم دینے کے لیے جو لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں سختی اور کرختگی ضرور آتی ہے۔ کیوں کہ وہ قلب مجروح کی صدا ہوتی ہے۔ ان کے اشعار میں کھردرا پن پایا جاتا ہے اور ان کا لہجہ درشت ہے۔ غزل کے روایتی لہجے سے ہٹ کر وہ تہذیبی شعور اور احساس و ادراک کو اپنے اشعار میں سمیٹ لیتے ہیں۔

مظفر حنفی کے یہاں تغزل کم ہے، کہیں کہیں زبان کا ذائقہ بدلنے اور اپنی تہذیبی، ادبی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ اپنے جمالیاتی حسن کا بھی خیال کرتے ہیں۔ ملاحظہ کریں :

اب کہہ دیا تو بات نبھائیں گے عمر بھر

حالانکہ دوستی کا زمانہ تو ہے نہیں

عہدِ حاضر میں نقادوں کا جو رویہ ہے اس پر بھی وہ طنزیہ کاٹ سے نہیں چوکتے:

پل بھر میں ناقدین نے تجزیہ کر لیا

ہم نے پچاس سال کھپائے تھے شعر میں

مظفر پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے

کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکّر میں نہیں پڑتا

اے مظفر مرے نقاد نہ مانیں، لیکن

سیکڑوں رنگ مری طرز ادا سے نکلے

عہدِ حاضر کی کشمکش، نفاق، عروج و زوال اور نظریات کی شکست و ریخت نے معاشرہ کو بہت متاثر کیا ہے۔ اس لیے شاعر بھی ان تمام حالات پر نظر رکھتا ہے اور تمام تر مسائل کا اظہار اپنی شاعر ی میں اس طرح کرتا ہے:

دور تلک دھواں دھواں گرچہ ہے سر پر آفتاب

شور ہے اتحاد کا اور فساد کم نہیں

جن بستیوں کو آگ لگانے چلے ہو تم

ان بستیوں میں ہو نہ تمھارا بھی گھر کہیں

گولی برسی خوب مظفرؔ دہشت گردوں پر کل رات

مرنے والوں میں شامل ہے تین برس کا بچہ بھی

دل ہلتا ہے مکانوں سے نکلتے ہوئے کیوں

ہول کیسا سرِ بازار ہے پوچھو ان سے

شہر میں جشن ہے نیزوں پہ چڑھے ہیں بچے

آج مکتب میں مناجات نہیں ہونے کی

مظفر حنفی نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ شاعر کی غزل، احساس و ادراک اور اس کے وسیلۂ اظہار فنی قواعد کے اعتبار سے قابل مطالعہ ہی نہیں قابلِ اعتبار بھی ہیں جس سے ان کی باریک بینی اور فن شناسی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں فکر انگیز طنز کی نشتریت ہے۔ تیکھے لہجے کی جاذبیت ہے، ایجاز و ایمائیت ہے۔

ان کی غزلوں میں طنز کی جو کیفیت پائی جاتی ہے یہ ان کی اپنی انفرادیت ہے۔ جن عصری موضوعات کو وہ اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں وہ تعمیری پہلو ہوتے ہیں۔ تخلیقی سطح پر ان کے اشعار غزل کے روشن مستقبل کا پتہ دیتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                عمران عظیم

   دہلی

 

 

مظفر حنفی: تیکھے اور کھردرے لہجے کا شاعر

 

سوچ نئی ہے، لہجہ تیکھا، لفظ کھرے، آواز جدا

دانستہ رکھا ہے اپنے شعروں کا انداز جدا

مظفر حنفی نے دنیائے سخن میں برق رفتاری سے شہرت و مقبولیت کی منازل طے کی ہیں۔ وہ ایک اچھے ادیب و شاعر ہی نہیں بلکہ ایک با شعور و نیک باطن انسان بھی ہیں۔ وہ ان اکابرین ادب میں ہیں جو مجھ سے نہایت شفقت و محبت رکھتے ہیں۔ اس وقت مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ دہلی کے کسی مشاعرہ میں راقم الحروف بھی ان کے ساتھ شامل تھا۔ مشاعرہ کے بعد مظفر حنفی صاحب نے کہا کہ ’’عمران! ایک صبح اوکھلا کے پارک میں ٹہلتے ہوئے کسی صاحب کو دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ وہ روزانہ سیر کو آتے ہیں لیکن کبھی دعا سلام بھی نہیں ہوتی۔ یہ بات جب مجھے شدّت سے کھلی تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ حیرت ہے عمران، تم مجھے پہچان نہیں پا رہے ہو۔ میں مظفر حنفی ہوں۔ اُن صاحب نے مجھے بتایا کہ آپ کا اندازہ غلط ہے، میں عمران نہیں ہوں۔ ‘‘ بہر حال یہ میرے تئیں مظفر حنفی صاحب کی محبت نہیں تو اور کیا تھی؟

یہ بات اہم ہے کہ ہر شاعر کی شخصیت اُس کے تخلیق کردہ شعر و ادب سے نمایاں ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کے فکر و شعور میں انفرادیت ہوتی ہے تو اُس کے شعر و ادب میں لمعہ ریز ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص سچا ہوتا ہے تو اُس کے شعر و ادب سے سچائی اور واقعیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ مظفرؔ حنفی سادہ مزاج، مخلص اور ملنسار انسان ہیں۔ وہ سچ بات کہنے کی جرأت و حوصلہ رکھتے ہیں۔ اس لیے اُن کی شاعری میں کھردرا پن اور تیکھا پن در آتا ہے۔ وہ اس عہد زبوں کار کی آنکھ دیکھی کو برملا اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔

مظفرؔ حنفی کی شخصیت میں سب سے منفرد خصوصیت اُنکے تیکھے لہجے کی ہے۔ اُن کی شاعری کے جائزے میں اُن کے تیکھے لہجے کا تذکرہ اُن کے سبھی نقاد کرتے ہیں۔ یہ وصف اُن کے استاد شادؔ عارفی کے لہجے میں بھی تھا۔ اس انداز کو انھوں نے مزید آگے بڑھایا جو اُن کی شناخت بن گیا۔ خلیل الرحمن اعظمی فرماتے ہیں :

’’ مظفر حنفی کی غزل کی نمایاں خصوصیت اس کا غیر رومانی لہجہ ہے۔ انھوں نے نئے دور کی حقیقت پیش کرنے کے لیے کھردرے اور درشت لہجے کو اپنایا ہے۔ انفعالی جذبات نگاری کے بجائے ایک طنز آمیز جارحیت سے کام لینے کی کوشش کی ہے جو اس دور کے مزاج سے ہم آہنگ ہے جہاں زندگی کی تمام قدریں اور سماجی و معاشرتی ادارے انحطاط و بوسیدگی کا شکار ہیں۔ انھیں شاد عارفی کے شاعرانہ مزاج سے ایک فطری مناسبت ہے اور اس نوع کی ہم آہنگی اور مماثلت مجھے اردو شاعری میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘

گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :

’’ اس میں شک نہیں کہ کاٹ دار تیکھی غزل کی راہ انھوں نے شاد عارفی سے پائی لیکن اس میں بو قلمونی اور تہہ داری کی فضا اپنی بنائی۔ ‘‘

مظفر حنفی اس بات کا اعتراف ’’ میرا نظریۂ تخلیق‘‘ میں اس طرح کرتے ہیں :

’’ سچاشاعر، حسرتؔ موہانی کی طرح ہر اچھے استاد سے فیض اٹھاتا ہے۔ اساتذہ کے کلام سے بہتر اچھا استاد اور کون ہو سکتا ہے۔ چنانچہ میں نے میرؔ سے یہ سبق حاصل کیا کہ سچّا شعر وہ جو پڑھنے یا سننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ غالبؔ نے مجھے پہلو داری اور لفظ کو گنجینۂ معنی بنانے کا گُر سکھایا اور حالیؔ نے اصلیت اور سادگی کا رمز بتایا۔ طنز کے مناسب استعمال اور سامنے کے مضامین کو تخلیقی عمل سے گزار کر بات کو نئی اور لہجے کو منفرد بنانے کا فن میں نے شادؔ عارفی سے حاصل کیا ہے اور میری شاعری جیسی کچھ بھی وہ ہے، ان ہی چار ستونوں پر ایستادہ ہے۔ ‘‘    ( بیسویں صدی نئی دہلی، جولائی تا دسمبر ۲۰۱۱ء ص ۱۹)

درج ذیل اشعار میں وہ شادؔ عارفی کے اثر کو قبول کرنے کا اعتراف بھی کرتے ہیں :

ہے شادؔ عارفی سے مظفر کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

شادؔ صاحب کی طرح میں نے مظفرؔ حنفی

طنز پر سان چڑھانے کی قسم کھائی ہے

مظفر حنفی کی شاعری کا دائرۂ فکر تنگ و محدود نہیں۔ یہ نہایت وسیع ہے جہاں انھوں نے ادبی و تہذیبی روایات سے بہت کچھ اخذ وکسب کیا ہے۔ وہاں زمانے کے مشاہدات اور خارجی تجربات کا خود میں انجذاب کر کے اپنی شاعری کا آئینہ بنایا ہے۔ لفظوں پر اُن کی گرفت، مہارتِ اظہار اور عصری مزاج کے رچاؤ نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کے عمل میں اُن کے اشعار کو شگفتگی عطا کی ہے۔ انکے یہاں تجربات کے تنوع نے ان کی شاعری کے رنگ روپ کو نکھارا ہے۔ وہ بے باک اور راست گو شاعر ہیں۔ اس لیے وہ طنز کے نشتروں سے کام لیتے ہوئے اظہار میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے پر اُن کی عمیق نگاہ ہے۔ زندگی کا تجربہ، گہرائی و گیرائی اور معنویت و مقصدیت اُنکے اشعار میں ابھر کر آتی ہے۔ درج ذیل اشعار ملاحظہ کریں۔

ہم بھوک اگاتے ہیں کھیتوں میں ہمارے گھر

سبزی بھی نہیں پکتی چاول بھی نہیں بنتے

رات کے سائے در و دیوار سے لپٹے رہے

دن بھی نکلا تو ہمارا گھر کہاں روشن ہوا

میں اپنا شعر کیسے نذر کر دوں اہلِ دولت کو

اجالے میں تو یہ روشن ستارا ڈوب جائے گا

کس لیے صحن میں دیوار ہے پوچھو ان سے

کون بٹوارے پہ تیار ہے پوچھو ان سے

ناخن سے گوشت، گوشت بدن سے الگ نہیں

ہم منفرد ہیں اور وطن سے الگ نہیں

ہونے لگا ہے ماں کی دعا میں غلط اثر

بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے بیٹا نکل گیا

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

مجھے سنبھال کے اس چاک سے اتارا جائے

مظفر حنفی نے اپنے خونِ جگر سے اپنی فصلِ تخلیق کو سینچا ہے اور اپنے گہرے مطالعے اور مشاہدے سے شعر و ادب کی دنیا میں اپنا نام روشن کیا ہے۔ انھوں نے اپنے مزاج کی سادگی کے ساتھ اپنے اشعار میں بھی سادگی، صداقت و سلاست کا سہارا لیا ہے۔ وہ تخلیق کو تنقید سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ نقادوں کی رعونت اور بر خود غلط رویوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور اپنے مخصوص تیکھے انداز میں فرماتے ہیں :

تقلیدیوں کے بس کی مری شاعری نہیں

اندازِ میرؔ حضرتِ فانیؔ نہ پا سکے

مظفر پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے

کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکّر میں نہیں رہتا

اے مظفر مرے نقاد نہ مانیں لیکن

سیکڑوں رنگ مری طرز ادا سے نکلے

معاصرین مجھے رد کریں تو کیا غم ہے

کہ اپنے عہد میں غالبؔ سخنوروں میں نہ تھا

لاکھ ناقد ہوں مظفر کے مخالف لیکن

شہ سواروں کے لیے بھیڑ بھی چھٹ جاتی ہے

کل تک ان کے تکراروں سے میری غزلیں زخمی تھیں

آج مظفرؔ نقادوں کے جھگڑے میں دیوان گیا

پل بھر میں ناقدین نے تجزیہ کر لیا

ہم نے پچاس سال کھپائے تھے شعر میں

انتشار، بیزاری، نا امیدی، مایوسی اور عدم تحفظ کے اندھیروں میں مظفر حنفی عزم و استقلال کے چراغ سے چراغ جلانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ بات ان کے قاری کو حوصلہ دیتی ہے۔ عہد حاضر میں جو اقدار کی شکست و ریخت کے مناظر ہیں ان کا اظہار وہ اپنے اشعار میں کرتے ہیں اور اصلاح و فلاح کے راستے وضع کرتے ہیں :

دل دہلتا ہے مکانوں سے نکلتے ہوئے کیوں

ہول کیسا سرِ بازار ہے پوچھو ان سے

شہر میں جشن ہے نیزوں پہ چڑھے ہیں بچے

آج مکتب میں مناجات نہیں ہونے کی

جو دہشت گرد کہہ کر بے خطا پروار کرتے ہیں

زمانے کو بغاوت کے لیے تیار کرتے ہیں

جنازے اٹھ چکے منصور اور سرمد کے

ہمارے جسم کہ مستول پر معلق ہیں

خود کو ہر سمت سے محفوظ سمجھتے تھے بہت

مار ڈالا ہمیں آئینہ دکھا کر تم نے

آج دس بیس پھر جان سے جائیں گے

آج ہر موڑ پر سنتری ہے میاں

گولی برسی خوب مظفر دہشت گردوں پر کل رات

مرنے والوں میں شامل ہے تین برس کا بچہ بھی

دور تلک دھواں دھواں گرچہ ہے سر پر آفتاب

شور ہے اتحاد کا اور فساد کم نہیں

امن و سکون کی زندگی کی قندیلیں بُجھانے والی کالی آندھیاں اور جابر طاقتیں کب تک کسی زندہ قوم کو طاقت ور دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ اسے نیست و نابود کرنے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ زندہ قومیں اس حیوانی کھیل کا مقابلہ کرتی ہیں اور یہیں سے اُن کی آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ سچ بات کہنے والا شاعر ان حالات سے مجروح تو ہوتا ہی ہے لیکن اُس کی غیرت، انا اور جوش عمل اسے نئی روشنی دیتے ہیں۔ اسے اس جد و جہد سے امید کی کرن ملتی ہے جس سے وہ اپنے قاری کا حوصلہ بھی بڑھاتا ہے۔

معاشرہ کا مسخ چہرہ دکھانے کے مستحسن فرض کو مظفرؔ حنفی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے عہد کی زندگی کا ا ایک المیہ جہیز کی لعنت ہے۔ معاشرہ میں دولت کی ہوس اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہر شخص کی نگاہ دوسرے کی تجوری پر ہے۔ رشتوں کی بنیاد بھی زرپرستی پر مبنی ہے۔

معاشرے کے دھنوان افراد اور قوم کے ٹھیکیدار رشتے ناطوں میں کھُلے طور پر اپنے بچوں کا سودا کر رہے ہیں۔ یہ زوال نہیں تو کیا ہے؟ اس تعلق سے مظفر حنفی کا تیکھا لہجہ کس قدر پُرسوز ہو گیا، اس صداقت کا عرفان کریں :

چپکے چپکے روتا ہے اِک نازک سا دل محمل میں

دُور کہیں ویرانے میں زنجیر چھنکتی جاتی ہے

بھائی کس منہ سے جا کر محبت کرے اس کی بہنوں کو رشتے میسر نہیں

باپ کے دل میں بے روزگاری کا غم ماں کو حیرت کہ برکت کہاں اُڑ گئی

معاشرہ کے ایک خستہ حال عام فرد کے اس کرب کو محسوس کیے بغیر شاعر کے تصور کی رمزیت تک پہنچنا دُشوار ہے۔ جہاں نہ ذہن کی آسودگی ہے اور نہ ہی تحفظِ ذات۔ ایسے ماحول میں خوف و اضطراب کا نزول ہوتا ہے۔ اس ذہنی اذیت کو کوئی شاعر ہی محسوس کر سکتا ہے۔

حج بیت اللہ کے سفر کی خواہش ہر مومن کو ہوتی ہے۔ آج بے شمار دولت کے ہوتے ہوئے بھی چند اہلِ زر کو بار بار حج کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے اور دوسری طرف مفلس و نادار وسائلِ زر کی کمی کے باعث حج بیت اللہ کی سعادت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ اسے اپنا نصیب مان کر دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ شاعر اس مایوسی کا اظہار یوں کرتا ہے:

اِک بار مظفر کو بھی توفیق عطا کر

مزدور بھی جاتے ہیں عرب تک مرے مولا

مظفرؔ حنفی نے اپنی شاعری کے انداز کو اپنے ہم عصروں سے منفرد رکھتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں پر نظر رکھی ہے۔ نیز اہم شخصی، سماجی اور اجتماعی موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے کھردرے اور تیکھے لہجے سے اپنے قاری کو جھنجھوڑا ہے اور جھٹکے سے بیدار کیا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ مظفر حنفی نے اپنے قاری کو بامعنی شاعری سے محظوظ و حقیقت آشنا کیا ہے۔ یہ ہنر اور صلاحیت ان کی طویل مدّت کی ریاضت کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے فن کے تئیں خود سپردگی اور لگن سے اپنے قاری کو بیش بہا شعری سرمایہ دیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی

کڑپّہ

 

غزل کے روشن مستقبل کا شاعر مظفر حنفی

 

مظفر حنفی ان جدید شاعروں میں سے ایک ہیں، جن کی انفرادیت کے دوست اور دشمن دونوں قائل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف ہے، جسے ہر زمانے میں معتوب ٹھہرانے والے لوگ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کیونکہ غزل میں اپنی انفرادیت قائم کرنا اور نئے ذائقے کی دریافت اور منفرد لہجے کی بازیافت بہت مشکل ہوتا ہے، شاید اسی لیے اختر الایمان نے کہا تھا کہ غزل کو جس مقام تک پہنچنا تھا وہ میرؔ و غالبؔ کے ہاتھوں پہنچ گئی۔ اب کوئی دوسرا شاعر اسے اس مقام سے آگے نہیں لے جا سکے گا۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف یہ کہ غزل سے گریز کیا بلکہ غزل کی زبان سے بھی انحراف کیا اور شاعری کی نئی لغت مرتب کی جس سے اردو شاعری میں روز مرہ الفاظ کے استعمال اور عام بول چال کے لہجے کا اندراج ہوا۔

اس تناظر میں مظفر حنفی کی شاعری پر توجہ کریں تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے اور بھی مشکل راہ اپنائی۔ یعنی انھوں نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے انتخاب تو غزل کا ہی کیا مگر غزل کی روایتی زبان اور اس کے روایتی  اسلوب اور موضوعات سے انحراف بھی کیا۔ اس طرح انھوں نے بھی اپنی شاعری کی نئی لغت مرتب کی جس نے ان کے انفراد و امتیاز کواستحکام بخشا اور غزل کو نئے امکانات سے روشناس کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ مظفر حنفی کا اپنی شاعری کے بارے میں ہر دعویٰ سچ معلوم ہوتا ہے:

ٹھپّہ لگا ہوا ہے مظفر کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ

ڈبو کر خون میں لفظوں کو انگارے بناتا ہوں

پھر انگاروں کو دہکا کر غزل پارے بناتا ہوں

سپاٹ لفظوں کو لہجے کی سان پر رکھ دے

سیاہ مرچ غزل کی زبان پر رکھ دے

شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ جو فنکار تخلیقی کرب کی لذت سے آگاہ ہوتا ہے اس کی ہر غزل پر اس کی شخصیت کی چھاپ ہوتی ہے، ایسا فنکار اپنے آپ میں پارس کی سی حیثیت حاصل کر لیتا ہے اور جب وہ بے جان سے بے جان اور مردہ لفظ کو بھی اپنے اظہار کا وسیلہ بناتا ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ ایسا فنکار کسی بھی فن پارے سے رنگ و نور کشید کر کے محض اپنے فن کو چمکانے کی کرتب بازی نہیں کرتا بلکہ زندگی کے تجربات سے عطر کشید کر کے فن کو نئی خوشبو سے آشنا کرتا ہے اور اسے نئے امکانات سے روشناس کراتا ہے۔ در اصل ایسے ہی فنکاروں کی وجہ سے فن کو جِلا ملتی ہے اور اظہار و بیان کے نئے در وا ہوتے ہیں۔

مظفرؔ حنفی کی شاعری مجموعی طور پر زبان غزل پر سیاہ مرچ کے ذائقے والی ایسی شاعری ہے جسے غزلیہ شاعری کے تناظر میں روشن امکانات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں جو تلخی، کڑواہٹ اور طنز کی کاٹ ہے اسے ان کا فنی شعور نہ صرف یہ کہ گوارہ بناتا ہے بلکہ اس میں ایک خاص طرح کے ذائقے کا احساس بھی پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ سماج و معاشرے کے بلند قامت بونے لوگوں کو حقیقت کا آئینہ دکھاتے ہیں اور شرافت کے پیچھے چھپی حیوانیت سے آشنا کراتے ہیں تب بھی ان کے لہجے کا ٹھہراؤ اور ان کے آواز کی کھنک قائم رہتی ہے۔ چند اشعار دیکھیے:

طوفاں سے کیا باتیں کی ہیں پیارے مانجھی سچ بتلانا

دریا کو گِروی رکھا ہے یا ساحل کو بیچ دیا ہے

بتا رہی ہے تمھارے گھروں کی شادابی

کہ تم نے کھیت اجاڑے ہیں گھر جلائے ہیں

اس نے اپنے لیے چاندنی کھینچ لی

اور مجھ سے کہا عیش کر دھوپ میں

آج تیری مجبوری مانگتی ہے دو لقمے

کل ضمیر جائے گا صد ہزار لائے گا

اگرچہ کہتا نہیں کوئی، جانتے سب ہیں

مہینے بھر میں وہ اتنا امیر کیسے ہوا

اپنی پیشانی جو دینار پہ رکھ دیتے ہیں

تہمتیں قوم کے معیار پہ رکھ دیتے ہیں

ذرا سی روشنی مانگی تھی رات کاٹنے کو

چراغ اتنے جلے گھر ہی پھونک ڈالا مرا

ظاہر ہے کہ ان اشعار میں سماج و معاشرے کے جن افراد و اشخاص اور واقعات کا ذکر ہوا ہے وہ سب ہمارے دیکھے بھالے اور بھگتے ہوئے ہیں اور ہمارے اندر بھی ان کے لیے اتنا ہی غم و غصہ ہے جتنا شاعر کے اندر ہے کہا جاتا ہے کہ لوگ کہانیوں میں اور فلموں میں اس لیے دلچسپی لیتے ہیں کہ جو کچھ وہ کرنا اور کہنا چاہتے ہیں وہ نہیں کہہ پاتے نہ کر پاتے ہیں۔ مگر جب وہی سب کچھ اپنی کہانی اور فلموں کے ہیرو کو کہتے اور کرتے دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کی انا کوتسکین ملتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ جنگ ہیرو نے نہیں بلکہ اُنھیں نے جیتی ہے۔ ایسی ہی خوبی سے متصف ہے مظفر حنفی کی شاعری۔

مظفر حنفی کے مندرجہ بالا اشعار کے مطالعے سے ایسا بالکل نہیں لگتا ہے کہ وہ جدید شاعر ہیں۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستان میں جدید شاعری کا جو پہلا مجموعہ شائع ہوا وہ مظفر حنفی ہی کا مجموعہ کلام ’’ پانی کی زبان‘‘ تھا جسے شب خون کتاب گھر نے ۱۹۶۷ء میں اہتمام سے شائع کیا تھا۔ بات در اصل یہ ہے کہ سچائی کسی ایک دائرے یا کسی ایک لباس میں ملبوس و محدود نہیں رہتی ہے۔ بالکل اسی طرح سچا فنکار کسی ایک رجحان یاکسی ایک نظریے کا کبھی بھی اسیر نہیں ہوتا ہے۔ پھر مظفر حنفی تو اپنے عہد کے ممتاز فنکار ہیں۔ وہ بھلا کسی ایک نظریے یا رجحان کے کیونکر اسیر ہو سکتے ہیں۔ یوں بھی اردو غزل میں ان کا ورود کسی نظریے کو اعتبار بخشنے کے لیے نہیں بلکہ پوری اردو شاعری کے تناظر میں غزل کو مرتفع کرنے کے لیے ہوا ہے۔ وہ اُن شعرا میں سے نہیں ہیں جو نظریات و رجحانات کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ وہ تو ان شعرا میں سے ہیں جن سے ہر مکتبۂ فکر کے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق کسبِ فیض اور استفادہ کرتے ہیں وہ اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ وہ بھی ایسے کاٹ دار لہجے میں کہ سامنے والے کی جھوٹی شخصیت دھواں ہو جاتی ہے۔ چند اشعار دیکھیے:

ہم تو خوشبو کی طرح خود ہی بکھر جاتے ہیں

تم وہ دیوار کہ مزدور اٹھاتا ہے جسے

ڈھلتے ہوئے سورج سے بہر حال بڑے ہیں

ہم رات کے رستے میں ابھی تن کے کھڑے ہیں

کچھ قدر نہیں آپ کی دنیا میں ہماری

ہیرا ہیں مگر غم کی انگوٹھی میں جڑے ہیں

بیٹھیں گے اگر نقش قدم خاک اُڑے گی

مرنے پہ کہاں میرا سفر ختم ہوا ہے

آگ سی ہے دامن میں زخم ہے ہتھیلی پر

بیج میرے آنسو کا برگ و بار لائے گا

آ مرے سینے سے لگ جا تو اگر سیلاب ہے

اور خوشبو ہے تو جا بستی میں گھر گھر پھیل جا

شریعت نہ فرما تصوّف نہ کر

محبت میں گردن کٹا اُف نہ کر

ڈوب جاتا ہے یہاں تیرنا آتا ہے جسے

وہ کبھی ناؤ تھی دریا لیے جاتا ہے جسے

ان اشعار میں طنز کی کاٹ ہے اور لہجے کی دودھاری تلوار کا جو احساس ہے وہ شاعر کی شخصیت کو نہ صرف یہ کہ جارحیت کا شکار ہونے سے بچا لیتی ہے بلکہ انفعالیت سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ ظفر اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے انفعالیت کو رد کر کے جارح مردانہ لہجے کی پرورش کی، جب کہ احمد مشتاق نے تفکر کی نرم و گرم روشنی میں غزل سفر کی منزلیں طے کیں۔ مظہر امام نے تغزل کی چھاؤں میں زندگی کے ہزار شیوہ جلوؤں کو شعر کے پیکر میں ڈھالا اور شہریار نے ذات کی شکست و ریخت اور گمشدگی کو شعریت کے تناظر میں پیش کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مظفر حنفی نے زندگی کو اس کے سموچے پن کے ساتھ قبول کیا اور اپنی تخلیقی فکر کی روشنی میں اسے اجالنے کی کوشش کی جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہے۔

میرا احساس یہ ہے کہ نئے شاعروں میں مظفر حنفی پہلے ایسے شاعر ہیں جن پر مضمون لکھتے وقت کسی بھی طرح کی گفتگو کرنے سے کہیں زیادہ ان کے اشعار سنانے کو دل چاہتا ہے اور ان پر لکھے اچھے سے اچھے مضامین پڑھنے سے کہیں زیادہ ان کی شاعری کے مطالعے میں لطف آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو مضمون اشعار کی کھتونی بن کر رہ جاتا ہے وہ کسی کام کا نہیں ہوتا ہے مگر مظفر حنفی کے معاملے میں سب الٹ پلٹ ہو جاتا ہے۔ ان کی شاعری سے متعلق کسی بھی قسم کی گفتگو سننے سے کہیں زیادہ ان کی شاعری پڑھنے میں مزہ آتا ہے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مظفر حنفی کی شاعری کسی بھی قسم کی تنقیدی موشگافی اور ناقدانہ فتوے کی محتاج نہیں ہے۔

دنیا کا وہ سلوک ہمارا وہ زہر خند

انمول آنسوؤں کا لٹاتے خزانہ کیوں

تیرا سایہ ہے لرزتا ہے جسے دیکھ کے تو

اور آئینہ ہے، تو آنکھ دکھاتا ہے جسے

کانٹے نہیں کہ گرتے ہوئے تھام لیں تمھیں

آسان راستوں پہ سنبھل کر چلا کرو

وفا کی راہ میں مرنا تو ہم بھی جانتے ہیں

ہمارے مسئلے کیا محترم بھی جانتے ہیں

برچھی سے اندازہ کر لو رشتے کی گہرائی کا

بٹوارے کے بعد بھی نکلا خون میں حصہ بھائی کا

تری محفل سے اچھا ہے مرا وحشت کدہ جس میں

جدھر آواز دیتا ہوں وہیں سے تو نکلتا ہے

سارے دروازے اندھے ہیں سب دیواریں کالی ہیں

اس بستی کی ساری گلیاں میری دیکھی بھالی ہیں

ایسانہیں ہے کہ مظفر حنفی صرف دیواروں کی سیاہی اور دروازے کے اندھے پن کو ہی اپنا موضوع بناتے ہیں اور ہر وقت طنز کی ننگی تلوار لیے پینترے بدلتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بسا اوقات وہ چراغ دل کی روشنی سے کام لیتے ہیں، مگر داغ دل دکھانے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔

ایسا لگا سمٹ سی گئی ساری کائنات

اس نے کمر کے گرد جو ساری کو بل دیا

ویرانیوں سے اس نے مرا حال سن لیا

تنہائیوں سے اس کا پتہ مل گیا مجھے

قریب آؤ کہ مہندی رچی ہتھیلی پر

ستارہ دیدۂ نمناک سے اتارا جائے

اس کی پلکوں کو مظفرؔ چوم لوں گا اور پھر

دور افق پر دو ستارے دھند میں کھو جائیں گے

کہاں کہاں سے کیا کسبِ نور مت پوچھو

کسی کی مانگ میں چھوٹی سی کہکشاں کے لیے

وہ ظالم دیکھ لیتا ہے تو دل پر تیر چلتے ہیں

پلک جھپکائے تو تلوار پر تلوار گرتی ہے

مظفر حنفی کی خاصیت یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر شعر کہیں اپنی آواز اور لہجے کی کھنک کو قائم رکھتے ہیں۔ مظفرؔ حنفی کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عام طور پر شادؔ عارفی کا نام لیا جاتا ہے اور اس کے طنز یہ لہجے کو شادؔ عارفی کے طنزیہ لہجے سے جوڑ دیا جاتا ہے، جوکسی طرح مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ مظفرؔ حنفی جیسے تیکھے مزاج کے شاعر کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کسی اور کے اسلوب کو اپنائے۔ چاہے وہ ان کا استادہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح ناصر کاظمی اور فانیؔ کا غم ایک نہیں ہے بالکل اسی طرح شادؔ عارفی اور مظفر حنفی کا طنزیہ لہجہ ایک سا نہیں ہے۔ شادؔ کے طنز میں ایک طرح کی جھنجھلاہٹ پائی جاتی ہے جب کہ مظفر حنفی کے طنز میں ایک طرح کی شان بے نیازی پائی جاتی ہے۔

مظفر حنفی کو اس معنی میں خوش قسمت کہا جا سکتا ہے کہ انھیں ترقی پسندوں اور جدیدیوں، دونوں کی توجہ اور محبت ملی۔ مگر ان کی خلاقانہ قوت اور تخلیقی موّاجی نے انھیں ہر طرح کے نظریے اور رجحان سے بلند رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ترقی پسندی نے مظفر حنفی کی شناخت میں اہم رول ادا کیا یا جدیدیت نے مظفر حنفی کی شاعری کے امتیازکومستحکم کیا۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے اور کہا جانا چاہیے کہ ترقی پسندی کے آخری دور میں مظفر حنفی کی غزلوں نے ترقی پسند موضوعات سے بیزار لوگوں کو بھی رام کر لیا اور جب جدیدیت کی طرف متوجہ ہوئے تو اس پائے کی شاعری کی کہ جدیدیت سے کد رکھنے والے لوگ بھی مظفر حنفی کی غزلوں کے تناظر میں اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔ میں سمجھتاہوں کہ کسی بھی فنکار کے لیے اس سے بڑی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے عہد کے  اہم ترین ادبی رجحان کو ان کے کلام سے مقبولیت اور تقویت ملنے کی بات کہی جائے۔

آئیے اب جدیدیت کے رنگ کے چند ایسے اشعار دیکھیں جن پر جدیدیت سے کہیں زیادہ مظفر حنفی کا رنگ حاوی ہے:

تازہ دن کی خوشیو لے کر نکلا تھا دروازے سے

شام ہوئی تو زخموں کا گلدستہ لے کر آیا ہوں

اتنی مبہم اتنی تنہا، اتنی بھاری بھاری شام

جانے کس کو ڈھونڈ رہی ہے جنگل میں بے چاری شام

تھم کر کبھی جوسانس بھی لی ہے سکون سے

نشتر سا ایک دل میں اترتا چلا گیا

اب کہہ دیا تو بات نبھائیں گے عمر بھر

حالانکہ دوستی کا زمانہ تو ہے نہیں

دیواروں سے در اگتے ہیں روشن دانوں سے آنکھیں

تنہا ہوں تو کیسی کیسی کارستانی گھر میں ہے

بگولے کو بلایا ریت نے کس درد مندی سے

کہ سنتے ہو، کوئی آواز دیتا ہے بلندی سے

سائے مچل رہے ہیں چراغوں کی گود میں

سمجھے تھے ہم کہ گھر سے اندھیرا نکل گیا

آگ سی ہے دامن میں زخم ہے ہتھیلی پر

بیج میرے آنسو کا برگ و بار لائے گا

ہمیشہ آئِنے کے سامنے محسوس کرتا ہوں

کہ یہ چہرہ نہیں ہے آئِنے پر زنگ ہے میرا

گِدھ اُڑ رہے تھے خون پڑا تھا اِدھر اُدھر

کچھ کہہ رہی تھی ریت، ندی نے نہیں سنا

مظفر حنفی کی شاعری کے اس سرسری مطالعے سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ایک توانا تخلیق کار اور خود آگاہ شاعر ہیں۔ ان کی آواز میں ایسی کھنک اور لہجے میں ایسی کاٹ ہے جو انھیں سنگ زار غزل کے کوہکن کے طور پر پیش کرتی ہے اور ان کی شاعری کی نئی لغت غزل کو نئے امکانات کی بشارت دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                فرحت حسین خوشدل

    ہزاری باغ

 

اردو شعر و ادب کا منفرد فنکار: ڈاکٹر مظفر حنفی

 

اردو کے مشہور و معروف شاعر، ادیب، افسانہ نگار، ناقد، ماہرِ ادبِ اطفال، نامور قلم کار اور با شعور فنکار ڈاکٹر مظفر حنفی کی شخصیت سے شاید ہی کوئی اردو شعر و ادب کا طالب علم واقف نہ ہو گا۔ موصوف مدت مدید سے لوح و قلم کی پرورش کر رہے ہیں۔

موصوف معاصر اردو شعر و ادب کی ہر دل عزیز شخصیت ہیں جو آج کے چند سکّہ بند ناقدوں کے گروہی تصادم سے دور ۱۹۴۹ء سے تا دمِ تحریر اردو شعر و ادب کی آبیاری اور اس کے فروغ میں مصروف ہیں۔

مظفر حنفی کا پورا نام محمد ابو المظفر ہے۔ اتر پردیش کے مشہور و معروف ضلع فتح پور کا مردم خیز قصبہ ہسوہ ان کا آبائی وطن ہے اردو شعر و ادب کے رسائل و جرائد کے مطالعہ نے انھیں بہت ہی کم عمر میں با ذوق قاری اور صاحبِ قلم بنا دیا۔ ۱۹۴۹ء کے آس پاس وہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے لگے۔ ۱۹۵۵ء میں انھوں نے سیہور کے مڈل اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۹ء تا ۱۹۵۵ء تک مظفر حنفی کے لیے لکھنے پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ یہی وہ جذبہ تھا جس کی بنا پر انھوں نے ۱۹۵۹ء میں کھنڈوا سے ایک ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ کے نام سے شائع کیا جس کی شہرت کے چرچے بہت جلد اردو کے اہم ادبی رسائل کے ساتھ ہونے لگے۔ تقریباً سات درجن کتابوں کے مصنف اور مؤلف مظفر حنفی کی پیدائش ایک متوسط آمدنی والے گھرانے میں ہوئی۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق انھوں نے اپنی انتھک محنت، سچی لگن، ادبی بصیرت اور بے پناہ صلاحیت کی بدولت اردو شعر و ادب کے با شعور فنکاروں کی فہرست میں اپنا نام درج کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۷۴ء ء میں اپنے استاد گرامی شادؔ عارفی کی فکری و فنی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ بعد ازاں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ میں ان کا تقرر اسسٹنٹ پروڈکشن آفیسر ( اردو) ہوا۔ دو سال کے مختصر سے عرصے میں انھوں نے اردو نصابیات کی تیاری کرنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقرری کے بعد ابو المظفر پر فتح و نصرت کے ابواب وا ہوتے گئے۔ سچ تو یہ ہے کہ موصوف کی تقریباً سات درجن کتابوں میں کچھ کی حیثیت دستاویزی اور سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر مظفر حنفی نے حقیقی معنوں میں اردو طلباء کی علمی اور عملی رہنمائی فرما کر اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈیڑھ درجن اسکالر زمیں ڈاکٹر خوشحال زیدی، ڈاکٹر خالد محمود اور ڈاکٹر شمع افروز زیدی کے اسمائے گرامی میری نظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔

ڈاکٹر مظفر حنفی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بعد ۱۹۸۹ء میں کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی اقبال چیئر کے منصب پر بحیثیت پروفیسر متمکن ہوئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ہو یا جامعہ کلکتہ دونوں مقام پر انھوں نے اپنی جملہ ادبی خدمات سے اردو شعر و ادب کے خزینے میں بھرپور اضافہ کیا۔ اپنی مصروف اور سرگرم زندگی کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہ صرف اپنا ادبی سفر جاری رکھا بلکہ یہ سفر اب بھی رواں دواں ہے۔ ۷۷ سالہ عمر کے پڑاؤ میں وہ آج بھی سرگرم عمل ہیں۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کی ہمالہ صفت شخصیت کو اس مختصر سے مقالہ میں سمیٹنا اگر چہ آسان نہیں ہے لیکن اپنی بساظ بھر کوشش یہ رہے گی کہ موصوف کی جملہ خدمات کو اجمالی طور پر آپ کے سامنے رکھ دوں۔ موصوف کی چند اہم کتابوں کے نام درج کرتا ہوں۔

’’ پانی کی زبان‘‘ ، ’’ ایک تھا شاعر‘‘ ، ’’ طلسم حرف‘‘ ، ’’ نثر و غزل دستہ‘‘ ، ’’ صریر خامہ‘‘ ، ’’پردہ سخن کا‘‘ ، ’’ یم بہ یم‘‘ ، ’’ دیپک راگ‘‘ ، ’’ کھل جا سم سم‘‘ ، ’’ عکس ریز‘‘ ، ’’تیکھی غزلیں ‘‘ ، ’’چوروں کے قاتل‘‘ ، ’’ بین الاقوامی لٹیرے‘‘ ، ’’ پیلی کوٹھی‘‘ ، تار عنکبوت‘‘ ، ’’ پُر اسرار قتل‘‘ ، ’’شرلاک ہومزہندوستان میں ‘‘ اور ماہنامہ’’ نئے چراغ ‘‘ کے علاوہ بھی کئی کتابیں ایسی ہیں جو انہیں اردو شعر و ادب اور غزل کے صحرا نوردوں کی فہرست میں اہم مقام عطا کرتی ہیں۔ وہ میدانِ علم و ادب کے ایسے سپہ سالار ہیں جنھیں نظم و نثر پر یکساں مہارت حاصل ہے۔ میری باتوں کی صداقت کو ان درجِ بالا کتابوں کے اوراق میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

’’پانی کی زبان‘‘ ڈاکٹر مظفر حنفی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ہندوستان جدید شاعری کا اولین صحیفہ ہے جس کے پیش لفظ میں موصوف نے اپنا ایک ایک ایسا شعر درج کیا ہے جس سے انکی خوداعتمادی اور خود شناسی کی عکس ریزی ہوتی ہے:

عظمت سے ہٹ کے ندرت و جدّت کو  ناپیے

ہم اور چیز، غالبؔ و میرؔ و فراقؔ  اور

’’ ایک تھا شاعر‘‘ ۱۹۶۷ء میں منظرِ عام پر آیا یہ ڈاکٹر مظفر حنفی کا مرتب کردہ مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جو ۸۵۰ صفحات پر مشتمل ہے جس میں موصوف نے اپنے استادمحترم شاد عارفی کی ادبی شخصیت کے علاوہ مختلف جہات کا عقیدتمندانہ جائزہ لیا ہے۔

’’ شاد عارفی: ایک مطالعہ‘‘ ڈاکٹر مظفر حنفی کا مرتب کردہ ایسا مجموعہ ہے جس میں موصوف کی تنقیدی صلاحیت نمایاں ہو کر منظر عام پر نہ صرف آئی ہے بلکہ اس کو پڑھ کر ان کی ناقدانہ بصیرت افروزی بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔ پہلے باب میں شاد عارفی کے فن اور شخصیت پر مختلف ادباء اور ناقدین فن کے مضامیناوراقتباسات شامل ہیں جبکہ دوسرے باب میں باقیات شادؔ عارفی کو صفحۂ قرطاس کی زینت بنایا گیا ہے۔ اس کتاب میں عقیدتمندانہ جائزہ کم اور ناقدانہ جائزہ زیادہ نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی اس سے قبل ’’ کلیات شادؔ عارفی‘‘ ، ’’ ایک تھا شاعر‘‘ جن کا تذکرہ سطور بالا میں ہو چکا ہے کے علاوہ ’’ شاد عارفی:فن اور شخصیت‘‘ میں ان کے شعری اور نثری فن پاروں کے علاوہ دوسری تخلیقات کو شامل کر کے حقِ شاگردی ( کُل چودہ ماہ) کا فریضہ ادا کر چکے تھے۔ شادؔ عارفی سے متعلق شمس الرحمان فاروقی نے Nutshellکی شکل میں جو لکھا ہے اس کا تعمیمی جائزہ لینے کی اب بھی ضرورت ہے:

’’شاد عارفی بہر حال ایک عہد ساز شاعر تھے۔ ان کے بعد آنے والے ہر شاعر اور علی الخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتساب فیض کیا ہے۔ زمانے نے ان کی خاطر خواہ قدر نہ کی۔ ۔ ۔ ۔ اور شاعر کی یہ بد نصیبی ہے کہ جب تک وہ کسی سیاسی یا تہذیبی ادارہ سے منسلک نہ ہو، اس کی قدر شناسی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ ‘‘

اس ضمنی گفتگو کا ماحصل صرف یہ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بڑی ہی قیمتی باتیں اور ایک ایسی سچائی کو رہتی دنیا تک کے لیے لکھ دیا ہے جس کی زد میں موصوف کے ساتھ ڈاکٹر مظفر حنفی جیسی شخصیت کے علاوہ دوسری شخصیات بھی آتی ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرے گا کہ:

مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید

لیکن لاکھ ایوارڈ اور انعامات کے حصول کے بعد بھی اہلِ نظر اور قارئین کی نظر میں کمتر فنکار ابد الآباد تک نہیں رہ سکتا۔ یہ بھی سچ ہے کہ کسی فنکار کی ستائش میں جس طرح بے جا جملے دیر پا ثابت نہیں ہوسکتے اسی طرح یہ انعامات بھی۔ سچائی تو یہ ہے کہ دیر پا ثابت ہونے والی چیز اس فنکار کی افادیت سے پُر تخلیق ہوتی ہے۔

گفتگو’ شادؔ عارفی: فن اور شخصیت‘ کی ہو رہی تھی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مظفر حنفی سے متعلق عنبر شمیم لکھتے ہیں :

’’ شاد عارفی نے نہایت کس مپُرسی کے عالم میں زندگی گزاری اور انھیں حسب مرتبہ قدر و منزلت بھی نہیں ملی، اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ ایک خوش قسمت شاعر تھے جنھیں مظفر حنفی جیسا شاگرد مل گیا۔ غالبؔ کے عہد میں غالبؔ کو بھی حسب مرتبہ قدر و منزلت  نہیں ملی تھی جس کے وہ حقدار تھے مگر حالیؔ نے ’’ یادگار غالب‘‘ لکھ کر غالبؔ کو امر کر دیا۔ اس طرح پروفیسر مظفر حنفی لائقِ ستائش ہیں کہ انھوں نے حالیؔ کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ ‘‘

مذکورہ بالا عبارت کے روایتی انداز فکر سے میں کلّی طور پر اتفاق نہیں کرتا۔ مجھے امید ہے کہ ناقدین فن اور اہلِ نظر میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے میرے درجِ ذیل جملے کی تائید کریں گے۔ سچ تو یہ ہے غالبؔ کو غالبؔ ان کے کلام نے کیا نہ کہ ’’یادگارِ غالب‘‘ نے۔

اگر حالیؔ نے یہ کتاب نہ بھی لکھی ہوتی تب بھی غالبؔ اپنے شعر کی روشنی میں اردو شاعری کی تاریخ میں زندہ رہنے کی سکت رکھتے تھے۔ انھوں نے بصیرت افروز درج ذیل شعر میں جس بات کی طرف اشارہ کیا تھا وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا:

کو کبم را در عدم اوج قبول بودہ است  ٭  شہرت بگیتی بعد من خواہد شدن

(کلیاتِ غالب ۴۸۹)

علامہ شبلی نعمانی کی ’’موازنہ انیسؔ و دبیرؔ ‘‘ کو اس پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ علاّمہ کی لاکھ کوشش کے باوجود دبیرؔ کی شاعرانہ عظمتِ انیس کے مقابلے میں ذرا بھی کم نہیں ہوئی۔ انیسؔ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں وہ ماحول اور وہ گھرانا دبیرؔ کے حصے میں نہیں آیا۔ اس کے باوجود دبیر اپنے بل بوتے اور اپنے کلام کی فصاحت و بلاغت کے سہارے آج بھی زندہ ہیں۔ انیس سے وہ اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہ تھے۔ یہاں پر میں الطاف حسین حالیؔ، علّامہ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر مظفرؔ حنفی کو ایک لحاظ سے عطّار کی صف میں کھڑا دیکھتا ہوں۔

یہاں اس بات کا بھی اعتراف کرتا چلوں کہ ابو المظفر اور مظفر حنفی کو ڈاکٹر مظفر حنفی بنانے میں افسانہ نگاری، ناول نگاری اور ترجمہ نگاری سے زیادہ شاعری کا ہاتھ رہا ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی نے آفرین حسین کے درج ذیل سوال’’ سینکڑوں افسانوں اور تین افسانوی مجموعوں کے باوجود آپ نے اس صنف کو خیر باد کیوں کہا۔ ‘‘ کے جواب میں جو باتیں کہیں ذرا اس بھی ایک نظر ڈالتے چلیں امید ہے کہ میرے سطور بالا میں کیے گئے دعویٰ کی کسی حد تک تصدیق ہو جائے گی۔

’’ بے شک ادبی زندگی کے ابتدائی گیارہ برسوں میں کہانیاں اور افسانے زیادہ تخلیق کیے۔ ۱۹۶۰ء کے آس پاس ادب میں جدید رجحانات کا بول بالا ہوا۔ جدیدیت نے تمام اصناف ادب میں رمزیت، اشاریت، علامت اور ابہام پر زور دیا۔ ان کی شمولیت سے شاعری خصوصاً غزل کو نئے پر و بال مل گئے۔ مجھے تخلیق کار ہونے کے ناتے شاید بروقت احساس ہو گیا اور میں نے افسانے کی جگہ غزل کو اپنا وسیلۂ اظہار بنا لیا۔ میرا ایک مقطع ہے:

بری نہیں ہے مظفرؔ کوئی بھی صنف ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے ‘‘

درج بالا شعر معنوی اور صوری لحاظ سے جامع صفات کا حامل ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ڈاکٹر مظفر حنفی نے اردو شاعری کی مجبوب صنف شاعری کو وسیلۂ اظہار بنا کر اردو غزل کو نئے سرے سے فکر کی تازگی عطا کی ہے۔ میری نظر میں غزل کے شعر میں ندرت خیال، ندرتِ فکر اور ندرتِ طرز ادا کے ساتھ زبان کی صحت اور اسلوب کی برجستگی ضروری ہے۔ ڈاکٹر مظفر حنفی کی غزلوں میں کم و بیش درج بالا عناصر کو بدرجہ اتم تلاش کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کے پہلے شعری مجموعہ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جس میں جدید شاعری کی جھلک نمایاں ہیں :

الفاظ کو خیال کی تتلی جو مل گئی

کچھ دیر لطفِ رنگ اٹھا کر مسل دیا

اے مظفر مجھے ان پر بھی ترس آتا ہے

جن کے حصے میں کوئی چوٹ نہ کاری آئی

اپنا آنگن، اپنا بستر، اپنی یادیں، اپنا وقت

یوں لگتا ہے جیسے دن سے رات زیادہ روشن ہے

اتنی مبہم، اتنی تنہا، اتنی بھاری بھاری شام

جانے کس کو ڈھونڈ رہی ہے جنگل میں بیچاری شام

پیچیدہ عہدِ نو کی علامت کے نام پر

یاروں نے شاعری کو تماشا بنا لیا

اول الذکر اور موخر الذکر شعر اپنی جامعیت کے لحاظ سے فکر تازہ کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔ دوسرا شعر شاعر کے تجربے اور مشاہدے کی عکس ریزی کرتا ہے۔ تیسرے اور چوتھے شعر سے شاعر کی تخلیقیت افروزی نمایاں ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ تیکھی غزلیں ‘‘ ہے جس میں ان کے فکر اور فنی ہنر مندی کے ساتھ طنز کے نشتر کو بہ یک وقت محسوس کیا جا سکتا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:

ہم تم کو جانتے ہیں ہمیں مت فریب دو

شیخِ حرم سلام نمستے برہمنو

تری یہ مصلحت اندیشیاں بیکار ہیں اے دل

محبت میں بلندی اور پستی دیکھتا کیا ہے

کہتے ہیں یار لوگ مظفر کے باب میں

کڑوے زبان کے ہیں، طبیعت کے صاف ہیں

چھپائے پھر رہے ہیں تیز خنجر آستینوں میں

یہی جو آپ سے شانہ ملا کے ساتھ چلتے ہیں

یوں کسی کے عیب گنوانے کے ہم عادی نہیں

چشم پوشی سے مگر جرأت تمھاری بڑھ گئی

عصر حاضر میں شیخ حرم اور برہمنوں کی حالتِ زار سے شاعر آشنا ہے اس لیے انکے دامِ فریب سے بچنے کی تلقین کرتا ہے، مؤخر الذکر شعر میں شاعر جس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ میری نظر میں نہ صرف اہم ہے بلکہ ہماری اخلاقی اقدار کے نا گزیر ہونے کی علامت ہے۔ ظاہر ہے ہماری چھوٹی سی بھول ہی بڑی بھول  کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ چھوٹی سی چھوٹی  بنیادی غلطی چشم پوشی سے زہر ہلاہل بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر مظفر حنفی کا اول الذکر شعر اس بنیادی نکتے کی زد میں اس لیے آتا ہے کہ اہلِ ایمان خدائے حقیقی کے علاوہ کسی غیر کے آگے سر خم نہیں کرتے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کے بقیہ اشعار میں طنز کے نشتر کے ساتھ ان کے ذاتی تجربے اور مشاہدے کا بھی عمل دخل ہے۔ وہ مصلحت اندیشی اور مصلحت کوشی کو محبت کے باب میں ضروری نہیں سمجھتے۔ تیسرے شعر میں وہ خود سے باتیں کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میرے مزاج آشنا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ میں کڑوی زبان کا ہوں مگر دل میں کڑواہٹ نہیں رکھتا۔ لیکن اگلے ہی شعر میں وہ ہمیں متنبہ کرتے ہوئے اس حقیقت سے بھی آگاہ کرتے ہیں کہ جو آپ کے شانہ بہ شانہ چلتے ہیں عصر حاضر میں ان سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کی ایک دعائیہ غزل جو مجھے بہت اچھی لگی اس کے چند اشعار آپ کی نذر کرتا ہوں :

میں شاعر ہوں، تمنا ہے مجھے مقبول ہونے کی

مگر مقبولیت سے پہلے مجھ کو نیک نامی دے

مری حق گوئی خامی ہے خرد مندوں کی نظروں میں

یہ بے حد قیمتی خامی ہے مولا اور خامی دے

اگر درکار ہے تاثیر تجھ کو اپنے شعروں میں

انھیں رنگت مقامی دے انھیں لہجہ عوامی دے

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہر شاعر کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی شاعری مقبولیت سے ہمکنار ہو جائے۔ ظاہر ہے یہ تمنا سب کی یکساں پوری نہیں ہوتی۔ مظفر حنفی نے درج بالا شعر میں دو دو تمناؤں کا ایک ساتھ اظہار کیا ہے۔ وہ مقبولیت سے پہلے نیک نامی کی دعا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ موصوف کی تمنا بشکل دعا بارگاہ ایزدی میں قبول ہوئی۔ البتہ دوسرے شعر پر نظر ٹکتی ہے۔ خرد مندوں کی نظروں میں کسی کی حق گوئی خامی کے زمرے میں نہیں آسکتی۔ سچ تو یہ ہے کہ’ قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘ کے مصداق جو اہلِ خرد ہوتے ہیں وہ حق گوئی کو خامی کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ موخر الذکر شعر میں شاعر نے جس قاعدے کلیے کا بیان کیا ہے وہ سو فیصد اچھی شاعری اور دیر پا اثر انگیزی کے لیے لازمی قرار دی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی کی غزلوں کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اپنی غزلوں میں الفاظ کا جادو جگاتے ہوئے نہایت ہی بلیغ اور دل آویز اسلوب میں خیال و فکر کو شعری تجسیم عطا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ سہل ممتنع میں وہ بڑی سے بڑی اور قیمتی بات نہایت روانی اور سلاست سے کہہ جاتے ہیں :

اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ

کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آ کے دیکھ

تو میرا ہم سفر ہے تو پھر میرے ساتھ چل

ہے راہ زن تو نقشِ قدم رہ نما کے دیکھ

ٹھپّا لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اُٹھا کے دیکھ

میرا ایسا ماننا ہے کہ مظفر حنفی شعر کی تخلیق کے بعد اپنی شاعری کی تعریف کے لیے در بدر اور گھر گھر کشکول لیے نہیں پھرتے نیز وہ ہر ناقدِ فن سے اپنے فن کی داد لینا نہیں چاہتے۔ وہ تو صرف اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ جو حقیقی معنوں میں فن کا پارکھ ہو وہ بغیر کسی تحریص و ترغیب اور بغیر کسی تعصب کے ان کے شعر کا بنظرِ غائر مطالعہ کرنے کے بعد اپنی صائب رائے کو صفحۂ قرطاس کی زینت بنائے۔

٭٭٭

 

’’مظفر حنفی کی موجودہ غزل کا سارا سیاق و سباق بڑا شور آگیں، کٹا پھٹا اور جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا ہے۔ تمام میمنہ اور میسرہ چیخوں اور فریادوں سے لبریز ہے۔ کہیں دھواں ہے کہیں آگ ہے، کہیں بگولے گردش میں ہیں تو کہیں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ گنبد و مینار فریاد کناں ہیں تو محرابیں دعا بہ لب۔ مظفر حنفی کی غزل کا یہ وہ چہرہ ہے جو خاصا مسخ ہے۔ ’ یا اخی‘ سے پہلے کی غزلوں میں مظفر حنفی کے لفظوں نے اس تراوش اور تاثر سے کم ہی واسطہ رکھا ہے۔ چونکہ طنز بلکہ ہجا ان کے اسلوب میں ایک خاص اہمیت کا حامل تھا اس لیے موجودہ دہشت ناکیوں کو زیادہ موثر اور بے باکانہ طریقے سے ادا کرنے میں طنز کا جوہر بڑی خوبی سے کام آیا ہے۔ اسی اسلوب میں ان کی انفرادیت کا راز بھی مضمر ہے۔ مظفر حنفی بلا شبہ ہمارے عہد کے ان قلیل ترین ناموں میں سے ایک ہیں جن کی غزل اپنے مفاہیم میں وسیع، اسلوب میں کاری اور تلفیظ میں قطعی مختلف و منفرد ہے۔ ‘‘

پروفیسر عتیق اللہ

 

 

 

 

                ڈاکٹر راشد انور راشدؔ

      علی گڑھ

 

 

’ ہاتھ اوپر کیے‘ کا شاعر: مظفرؔ حنفی

 

ہاتھ اُٹھا کر خدا سے دعا مانگی جاتی ہے۔ جب کہ ہاتھ اوپر کرنا مخالف کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف بھی ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ مظفر حنفی کا گیارہواں شعری مجموعہ ان کے تخلیقی سفر کا آخری پڑاؤ ہے؟ مجموعے کا مطالعہ اس خدشے کو غلط ثابت کرتا ہے اور ہم اس جذبے سے سرشار ہوتے ہیں کہ انوکھے لب و لہجے کا یہ البیلا شاعر ہنوز، آن بان اور شان کے ساتھ مستقبل کی جانب رواں دواں ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ شعری مجموعے کا نام کتاب میں شامل شاعری کے کلیدی نکتے سے وابستہ ہونا چاہیے تاکہ مطالعہ کے دوران قاری ذہنی طور پر ہم آہنگ ہو سکے اور شاعری کے ساتھ نام کا مخصوص رابطہ قائم کر سکے۔ اس پہلو کو ذہن میں رکھ کر دیکھا جائے تو پیش نظر مجموعے کا نام منطقی طور پر شاعر کے مزاج سے میل نہیں کھاتا، لیکن شاعری کے مطالعے کے بعد ہم خوشگوار تاثرات سے دو چار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ویسے مظفر حنفی نے درج ذیل شعر کی بنیاد پر اس مجموعے کا یہ نام تجویز کیا ہے:

پھول برسائیں مرے دوست کہ پتھر برسائیں

میں نے ہات اپنے اٹھا رکھے ہیں اوپر کی طرف

لیکن پیش نظر مجموعے کا نام جس ترکیب سے عبارت ہے وہ اس شعر میں موجود نہیں، البتہ اس کا مفہوم ضرور موجود ہے۔ بہر حال یہ تو ضمنی بات ہوئی۔ اچھی شاعری کا معیار ان باتوں سے متاثر نہیں ہوتا۔

میں سمجھتا ہوں جسے شعر موزوں کرنے کا ہنر آتا ہے اس کے لیے دنیا کا سب سے آسان کام غزلیں کہنا ہے۔ غزل کی ریزہ خیالی اس آسانی میں حد درجہ معاون بھی ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس حقیقت سے بھی آگاہی ہونی چاہیے کہ تمام تر صلاحیتوں کے باوجود اچھی غزلیں کہنا شاید دنیا کا سب سے مشکل کام بھی ہے۔ یہ بات اپنے آپ میں کتنی ہی حیرت انگیز معلوم ہو، لیکن در اصل یہی سچائی ہے اور اہلِ نظر اس کا اعتراف بہ آسانی کر سکتے ہیں۔ مظفر حنفی کا کمال یہ ہے کہ وہ اچھی غزلیں کہنے پر قادر ہیں اور کامیابی کا یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔

جب ہم جدید غزل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں کئی پہلوؤں پر دھیان دینا پڑتا ہے۔ شاعر نے مضمون کس نوعیت کا منتخب کیا ہے اور اسے کس انداز سے باندھا ہے؟ لفظیات کی سطح  پر تازگی کس حد تک برقرار رہ پائی ہے؟ اسلوب کے اعتبار سے انوکھے پن کا ذائقہ کہاں تک در آیا ہے؟ وغیرہ۔ اس سلسلے میں مزید پہلوؤں کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر ان نکات کے حوالے سے جدید شاعری، یا بعد کی شاعری کے متعلق رائے اخذ کی جاتی ہے۔ ان کسوٹیوں پر جب ہم مظفر حنفی کی غزلوں کو پرکھتے ہیں تو ہمیں طمانیت کا احساس ہوتا ہے اور ہم اچھی شاعری سے خاطر خواہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پیش نظر مجموعہ بھی بہتر رائے کے استحکام میں ہماری مدد کرتا ہے۔

مظفر حنفی نے دیباچے کے طور پر اپنی شاعری اور تخلیقی عمل کے متعلق جن باتوں کی نشاندہی کی ہے، ان کے توسط سے ہمیں فن اور فنکار کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ انھوں نے نام نہاد نقادوں کی رائے پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے قارئین سے براہِ راست خطاب کیا ہے اور اسی رویے کا رواج عمل میں آنا چاہیے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے صاحب کتاب کی رائے سے محظوظ ہوتے چلیں تاکہ ان کی شاعری کا تجزیہ کرنا ہمارے لیے آسان ہو۔

مظفر حنفی کہتے ہیں :

’’شدتِ احساس کو قابو میں رکھنے اور اس کی تیز آنچ سے اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کے لیے شاعری میری پناہ گاہ ہے۔ بہت کچھ کہنے پر ناز کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اپنی پُر گوئی پر کوئی شرمندگی بھی نہیں کہ اپنے اشعار و افکار میں اعادے کا اور تکرار کا عیب تا حال پیدا نہیں ہونے دیا اور بات یا تو نئی کہی ورنہ کہنے کا اسلوب نیا اختیار کیا۔ غالباً آپ بھی صواد کریں گے کہ میں نے اظہارِ خیال میں جرأت و ندرت کے با وصف زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کو پامال نہیں کیا۔ لیکن جہاں ضرورت محسوس کی ان مرحلوں میں اعلان کے ساتھ اجتہادی بغاوتیں بھی کی ہیں۔ ‘‘

مظفر حنفی کا یہ بیان ان کے شعری سفر اور اس کے اتار چڑھاؤ کا بھرپور احاطہ کر لیتا ہے۔ بہت زیادہ کہنے پر اکثر لوگ ناک بھوں سکوڑتے ہیں، لیکن سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ رویہ مناسب نہیں۔ اگر کوئی فنکار بہت کچھ کہنے کے باوجود اپنے آپ کو دوہرا نہیں رہا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پاس کہنے کے لیے باتیں بہت ہیں اور جب ذہن کا چشمہ خشک نہیں ہوا ہے تو تخلیقی سفر مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ مظفر حنفی نے اچھا خاصہ شعری سرمایہ چھوڑنے کے باوجود اپنے آپ کو دہرایا نہیں ہے۔ یہ بڑی بات ہے اور اس کی پابندی واقعی مشکل ہے۔ انھوں نے نئی نئی زمینوں کی تلاش میں خاصی محنت کی اور بیشتر جگہوں پر ان کی محنت رنگ لائی ہے۔ شاعروں کی بھیڑ میں اپنی آواز کے ذریعے  پہچانے جانے والے شاعر انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں۔ مظفرؔ حنفی کا شمارایسے ہی چنندہ شاعروں میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل میں نئے عہد کی کروٹوں کو بڑی خوبی کے ساتھ شامل کیا ہے۔ ان کی تخلیقی زرخیزی ہمیں مسحور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ اس مجموعے کے چند اشعار ثبوت کے طور پر پیش کرنا چاہوں گا:

مرتبے رنگ نے، خوشبو نے، ہوا نے پائے

خار تھے ہم، ترے نزدیک نہ آنے پائے

ایطائے خفی میری غزل میں بھی نکالی

ظالم نے کمی تاج محل میں بھی نکالی

پھولوں کے میلے میں دیکھیں کیا ہے اپنا مول

اے خوشبو کورے برتن کی چلنا ہے تو چل

مظفر آپ پہ تنقید کرتے کرتے وہ

بس آج کل ہی میں علامہ ہونے والا ہے

تمھیں کیسے بتاؤں چاندنی پر شعر کہتا ہوں

تو ظلمت آ کے میرے بام و در میں بیٹھ جاتی ہے

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مظفر حنفی نے اپنی شاعری کے ذریعے محسوسات کی چاشنی کو اجاگر تو کیا لیکن اعتراف کے سلسلے میں نقادوں کی ظلمتیں انھیں نصیب ہوئیں۔ چونکہ انھوں نے کسی تحریک یا  رجحان کے زیر اثر اپنے تحقیقی سفر کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں دکھائی اور ہمیشہ دل کی آواز پر لبیک کہتے رہے لہٰذا انہیں قدم قدم پر نقادوں کی بے اعتنائی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بقول مظفر حنفی:

’’سر اونچا رکھنے کی یہ قیمت کچھ ایسی زیاد ہ بھی نہیں۔ پھر سچے ادبی فیصلے تو ہمیشہ سے آنے والا کل ہی کرتا رہا ہے، سو میں انتظار کروں گا۔ ‘‘

یہ بیان واضح کرتا ہے کہ انوکھے لب و لہجے کا یہ البیلا شاعر کسی تمنا اور صلے کی پرواہ کیے بغیر اپنا شعری سفر مستقبل میں بھی کامیابی کے ساتھ جاری رکھے گا۔

٭٭٭

 

’’ایک عرصے تک ڈاکٹر مظفر حنفی کو شادؔعارفی کے قبیلے کا شاعر شمار کیا جاتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شادؔ عارفی کے ہونہار تلامذہ میں سے ہیں اور بات کو کھردری سچائی سے کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، تاہم اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ ایک طویل عرصے تک شادؔعارفی کے سائے تلے سفر طے کرنے کے باوجود مظفر حنفی نے اپنی الگ انفرادیت نکھاری ہے۔ ان کی شاعری کا ذائقہ الگ ہے اور وہ اپنی ایک الگ پہچان بھی رکھتے ہیں۔ وہ اپنی تازہ ترین کتاب ’’ طلسم حرف‘‘ میں انبوہ میں گم نہیں ہو جاتے بلکہ اپنا تشخص اپنی شاعری کے حوالے سے قائم کرتے ہیں۔ مظفر حنفی نے قدیم سچائی کو جدید اسلوب میں پیش کیا ہے۔ وہ نہ تو خود انکشافی سے خوف کھاتے ہیں اور نہ جذبے پر بند باندھنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ زمانے کے گرم و سرد کو چکھنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے باوجود مظفر حنفی کے یہاں تلخی یا  زہر ناکی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی یہ خوبی انہیں شاد عارفی سے مختلف مزاج کا شاعر ثابت کرتی ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر انور سدید

 

 

 

 

                ڈاکٹر شمع افروز زیدی

نئی دہلی

 

 

ایک البیلا، طنز نگار شاعر

 

پروفیسر مظفرؔ حنفی کا نا م نوکِ زبان پر آتے ہی ایک ایسی شخصیت کا تصوّر اُبھرتا ہے جو بے حد فعال اور متحرک ہے۔ ان کی شخصیت کے مختلف النوع زاویے ہیں۔ وہ ناقد بھی ہیں، مضمون نگار اور افسانہ نگار بھی۔ انھوں نے سفرنامے بھی قلمبند کیے ہیں اور ترتیب و تدوین، تراجم نیز ادب ِ اطفال میں بھی ان کے کارنامے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ’’ نئے چراغ‘‘ کے مدیر ہونے کے ناطے صحافی کی حیثیت سے بھی پہچان رکھتے ہیں۔ غرض یہ کہ کوئی ایسا موضوع نہیں جس کا انھوں نے احاطہ نہ کیا ہو اور اپنی شناخت درج نہ کرائی ہو۔

عام طور پر ہمارے ناقدین ادب سچی اور کھری تنقید سے پہلو تہی کرتے ہیں وہ دو اور دو چار کے مسئلے پر ہی اٹکے رہتے ہیں۔ مظفر حنفی ایسے سچے اور کھرے فنکار ہیں کہ سچی بات کہنے سے چوکتے نہیں بلکہ خدا لگتی کہنے پر آ جائیں تو بلا تکلف قد آور شخصیتوں کو بھی قلم کی زد پر رکھ لیتے ہیں۔ بلا شبہ جدید شاعری کے حوالے سے مظفر حنفی کے لہجے کی انفرادیت مسلم ہے ناقدین نے ان کے  شعری منظر نامے پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے انھیں سندِافتخار سے نوازا ہے۔ ان کی شاعری پر ظ۔ انصاری جیسے اکھڑ ناقد اس انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں :

’’ قدرتِ کلام، کلاسیکی ورثے پر بھرپور گرفت، طبیعت کا رچاؤ سہار اور سبھاؤ، پھر ماضی کی طرف ایک چھلانگ میں بے نیازانہ باہر نکل پڑنے کا دم خم جب یکجا ہو جائے تب کہیں جا کے ویسی سڈول غزل ہوتی ہے جس کی اُٹھان جاں نثار اخترؔسے ہوئی تھی اور شباب مظفرؔ حنفی کے قلم میں نظر آتا ہے۔ ‘‘

شمس الرحمن فاروقی جیسا ناقد بھی مظفر حنفی کی شعری معجز بیانی کا معتقد نظر آتا ہے:

’’مظفر حنفی نے انتہائی شگفتہ زمینوں میں رواں دواں شعر کہے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ نئے نئے ردیف و قافیہ کا ایک فوّارہ ہے جو ابلتا جا رہا ہے۔ ان کی شاعرانہ چالاکی کہیں مات نہیں کھاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

خلیل الرحمن اعظمی فرماتے ہیں۔

’’ مظفر حنفی ان شاعروں میں ہیں جنھوں نے شاعری اور فن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے اور اس کے لیے وہ ریاضت کی ہے جس کے بغیر شاعری کی انفرادیت نہیں اُبھر سکتی۔ ‘‘

فرمان فتح پوری ان کی عظمتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’ مظفر حنفی اردو کے ممتاز ترین شعروں میں سے ہیں اور ہندو پاک کے ایسے منفرد غزل گو ہیں جنھیں اپنے لہجے کی بنا پر دور سے پہچانا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :

’’مظفرؔ حنفی کی غزل نے محض ایک موضوع یا واقعات کے کسی ایک سلسلے تک خود کو محدود نہیں رکھا ان کے ہاں بیک وقت سوچ کے کئی سلسلے کار فرما نظر آتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کاٹ دار تیکھی غزل کی راہ انہوں نے شاد عارفی سے پائی لیکن اس میں بوقلمونی، تہہ داری اور طرحداری کی فضا اپنی بنائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

وزیر آغا کا خیال ہے:

’’ تجربے اور روایت کا بنتا بگڑتا سنجوگ مظفر حنفی کی غزل کا امتیازی وصف ہے۔ ‘‘

سجاد نقوی رقمطراز ہیں :

’’ غزل کے میدان میں وہ تازہ ڈکشن اور منفرد لہجے کے باعث بآسانی پہچانے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اس میں شک نہیں کہ ان کی شاعری میں فکر کے ساتھ طنز کی دھیمی دھیمی آنچ سہج سہج ذہن کو چھوتی ہوئی دل کی عمیق گہرائیوں میں جاں گزیں ہو جاتی ہے۔ ناقدین اُن کے لہجے کو شادؔ عارفی سے مماثل قرار دیتے ہیں یہ بات کسی حد تک درست ہے لیکن کلیتاً اس کا اطلاق ان کے کلام پر نہیں کیا جا سکتا۔ مظفر حنفی نے اپنا رنگ علیحدہ اختیار کیا اور ان کا لہجہ و آواز دور سے ہی اپنی پہچان کراتا ہے۔ البتہ ابتدائی دور کی شاعری پر شاد عارفی کا اثر قبول کرنے کا اعتراف مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعہ کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں :

ہے شادؔ عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

شادؔ صاحب کی طرح میں نے مظفرؔ حنفی

طنز پر سان چڑھانے کی قسم کھائی ہے

لیکن اپنی راہ یکہ و تنہا متعین کرنے کے ضمن میں وہ کیا کہتے ہیں اسے بھی ملاحظہ کیجیے:

لکھتا ہے مظفرؔ روشِ عام سے ہٹ کر

شہرت اسے درکار نہ رسوائی کا غم ہے

تقلیدیوں کے بس کی مری شاعری نہیں

اندازِ میرؔ حضرت فانیؔ نہ پا سکے

مظفرؔ شاعری میں عمر ضائع ہو گئی لیکن

مری آواز الگ ہے منفرد آہنگ ہے مرا

تمھارا نام ہر سو گونجتا ہے قریۂ جاں میں

مظفرؔ ایک صحرا اور صحرا کی اذاں، تم ہو

بے شک ابتدائی دور کی شاعری میں مظفرؔ حنفی کے یہاں شادؔ عارفی کا طنطنہ اور طنزیہ لہجے کی کاٹ محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ان کا لہجہ کھردرا ہونے کے باوجود شگفتگی اور شیرینی کی گھلاوٹ سے لبریز شعری منظر نامے کے افق پر امتیازی شان اور نمایاں اسلوب کے ساتھ اپنے منفرد ہونے کا اظہار یوں کراتا ہے:

یہ سوز یہ گداز مظفرؔ کے شعر میں

صحرا میں گونجتی ہے اذاں یار بادشاہ

میں نے ڈبو کے نوکِ قلم اپنے خون میں

جس لفظ کو چھوا وہ شرارہ سا بن گیا

نازک ہے فنِ شعر مگر طرزِ نو کے ساتھ

ہم اس حباب کو بھی سلامت اٹھائیں گے

تازگی، پختگی اور جدّت پسندی کے سبب مظفر حنفی کو اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں ہی ایسی شہرت حاصل ہو گئی تھی جو کم لوگوں کا مقدر بنتی ہے۔ یہ ان کی انفرادیت ہی تو تھی کہ ان کی شاعری کا اعتراف مخالفین نے بھی کیا۔ ان کی شہرت کو پَر لگ گئے یہاں تک کہ ان کا شمار پختہ کار شاعروں میں کیا جانے لگا۔ پھر ان کی شاعری کے ایسے ایسے جوہر کھل کر سامنے آئے جن کی بنا پر وہ اپنے جدید لب و لہجے سمیت دنیائے شعر و ادب پر چھا گئے۔

اچھے شعر کی خوبی یہی ہے کہ اس کی تاثیر نہ صرف سامع اور قاری کے ذہن و دل کو اسیر کر لے بلکہ وہ اس کے حصار سے باہر نکل ہی نہ سکے۔ شعر کا تاثر جتنا گہرا اور دیر پا ہو گا شعر اتنا ہی کامیاب اور ابدی ہو گا، اور اپنے سامع یا قاری کو مغلوب کرنے میں معاون ہو گا۔ غزل ہو یا نظم شاعری زندگی کی سچائیوں اور حقیقتوں کی ترجمان ہوتی ہے اور اس ترجمانی میں عام انسان کے دکھوں، پریشانیوں، پشیمانیوں، مسرتوں اور خوشیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعر کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے:

اوپر بوڑھے ہاتھ اُٹھائے سوکھتے تھے دو چار درخت

پہلے ان پر بجلی ٹوٹی، ویسے بادل برسا بھی

چلے تھے کارواں کے ساتھ پھر مڑ کر نہیں دیکھا

پشیماں کس قدر ہیں آ کے منزل پر اکیلے ہم

بچوں کا نہیں ذکر کہ تہذیب و ادب سے

بیگانہ ہیں کچھ اہلِ ادب تک مرے مولا

فنّی خلوص، جبلّی شرافت اور ذوقِ جمال، کے سائے میں پروان چڑھنے کے سبب مظفر حنفی کی شاعری طنزیہ ہوتے ہوئے بھی لطیف احساسات و جذبات کا مرقع بن گئی ہے۔ انکے مخصوص انداز اور اس سے بڑھ کر وجدان اور شعور نیز لفظوں کے استعمال پر ان کی خلّاقانہ دسترس نے ان کی شاعری کو سان پر چڑھا دیا لیکن انھوں نے اپنے استاد شادؔ عارفی سے اپنی راہ کچھ اس طور سے مختلف رکھی کہ ان کی آواز کو بھیڑ میں بھی شناخت کر لیا گیا یہاں تک کہ انکے ایک ایک شعر کو موتی کی طرح چُن کر یکجا کیا جا سکتا ہے۔ خود شاعر اس کا اعلان مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعہ کرتا ہے:

ٹھپہ لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ

واللہ مظفرؔ تری غزلیں ہیں کہ ترکش

پیوست ہوئے دل میں، تِرے شعر ہیں یا تیر

یوں بھیڑ میں چھپی ہے مری انفرادیت

جس طرح ریگزار میں موتی رُلے ہوئے

خوش فہم مظفرؔ سا زمانے میں نہ ہو گا

کہتا ہے نہ ہو گا کوئی مجھ سا مرے پیچھے

مظفرؔ حنفی کا دامنِ فکر تجربات و مشاہدات سے مزیّن ہے انھوں نے جدید شاعری کے تمام و کمال تقاضوں کو اپنے یہاں نہایت خوبی سے نبھایا ہے ان کے یہاں تراکیب، استعاروں کی تہہ داری اور بے ساختگی کا  اتنا رچاؤ ہے کہ وہ اپنے آہنگ میں یکتا و تنہا نظر آتے ہیں۔ شاعر کو اپنی اس خوبی کا خوب احساس ہے جب ہی تو وہ کہتا ہے:

ہاں مظفرؔ کی غزل ہے تو جدید

اے روایت کے امیں سُن تو سہی

سوچ نئی ہے لہجہ تیکھا لفظ کھرے آواز جدا

دانستہ رکھا ہے اپنے شعروں کا انداز جُدا

آپ کے مظفرؔ نے زندگی کو برتا ہے

اس لیے مظفرؔ کے شعر بھی مثالی ہے

شعر کہتا ہے مظفرؔ داد سے بیگانہ وار

پھل میں وہ لذّت کہاں ہے جو شجر کاری میں ہے

مظفر حنفی کا لہجہ روایتی شاعری سے جدا ہے ان کی سوچ و فکر جامد نہ ہو کر متحرک ہے اور ان کے اسی مخصوص رویے نے انھیں دنیائے شاعری میں لازوال شان عطا کر دی ہے۔ ایک زمانے میں شاعری کا ایک بڑا حصّہ یکسانیت کا شکار ہو کر رہ گیا تھا، فنکاروں میں خود کو دہرانے کا عمل شروع ہو چکا تھا لیکن مظفرؔ حنفی کے یہاں خود کو دہرانے کا عمل دور دور تک نظر نہیں آتا۔ انھیں اس بات کا غم یا اس کی پرواہ ہرگز نہیں کہ ان کی اہمیت و انفرادیت کو ناقد حضرات گردانتے ہیں یا نہیں، ان کا شِعار تو بہتر سے بہترین شاعری پیش کرنا رہا جب ہی تووہ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں :

اے مظفرؔ مرے نقاد نہ مانیں لیکن

شہ سواروں کے لیے بھیڑ بھی چھٹ جاتی ہے

مظفرؔ پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے

کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکَر میں نہیں رہتا

نیاز مند مظفرؔ کہاں سے ہو جائے

کہ بانکپن توہے اس کی سرشت میں داخل

غزل کی شمع کو میں اشتعال دیتا ہوں

نئی زبان، انوکھے خیال دیتا ہوں

مظفرؔ حنفی نے اپنی شاعری کو فقط اپنی ذات تک محدود نہ رکھ کر اپنے افکار و تصورات کو کائناتی وسعت عطا کر دی ہے۔ وہ عملاً ایک حقیقت پسند فنکار ہیں اسی لیے سماج میں پرورش پا رہی خامیوں کے خلاف آواز بلند کرنے سے چوکتے نہیں۔ انھیں زندگی میں جو تلخیاں، سچائیاں، دلفریبیاں اور بد صورتیاں نظر آتی یا محسوس ہوتی رہی ہیں۔ انھیں وہ فنّی مہارت اور چابکدستی کے ساتھ اپنے اشعار میں سمیٹتے رہے۔ انھوں نے اپنے فن کو کسی بھی مصنوعی جذبے سے آلودہ نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کے شعر ہمیں بار بار باور کراتے ہیں کہ ان کی شاعری نئے تجربوں کی شاعری اور اپنے سماج کی تاریخ ہے۔ ان کے فکری رویّوں کے ساتھ ان کی غزل کا اٹوٹ اور گہرا رشتہ ہے اور قاری سمجھتا ہے جیسے یہ اشعار صرف اور صرف اس کے جذبات کی ترجمانی کے لیے ہی کہے گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مثلاً

کس لیے صحن میں دیوار ہے پوچھو اُن سے

کون بٹوارے پہ تیار ہے پوچھو ان سے

چپکے چپکے اونچی کر لی میری کھڑکی پر دیوار

ہمسائے نے کاٹ لیا ہے آسمان مجھ بے پر کا

زخموں کے اسرار نہ پوچھو    ٹانکے روز اُدھڑ جاتے ہیں

جب کوئی تن کر ملتا ہے   ہم کچھ اور اکڑ جاتے ہیں

موجودہ معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل جاری ہے بھائی بھائی کے درمیان جو معرکہ آرائی، کشمکش اور نفرت فروغ پا رہی ہے کوئی بھی سچا فنکار اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا چنانچہ مظفر حنفی اپنی شاعری میں ان مسائل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں :

ہوا چلی ہے ہرے درختوں سے دشمنی کی

ہمیں بھی آلے گی سرخ آندھی چلو یہاں سے

آگ لگی ہے بستی بھر میں

تم اب تک اپنے گھر میں ہو

دل دہلتا ہے مکانوں سے نکلتے ہوئے کیوں

ہول کیسا سرِ بازار ہے پوچھو ان سے

شہر میں جشن ہے نیزوں پہ چڑھے ہیں بچّے

آج مکتب میں مناجات نہیں ہونے کی

گولی برسی خوب مظفرؔ دہشت گردوں پر کل رات

مرنے والوں میں شامل ہے تین برس کا بچّہ بھی

ایسے اور اس قبیل کے کتنے ہی اشعار فرقہ وارانہ فسادات کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں جو آزادی کے بعد سے ہمارا مقدر بن گئے ہیں۔ مظفرؔ حنفی کے کلام میں جو تأثر، ماحول اور فضا ملتی ہے وہ معاشرے کی دین ہے۔ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے ان اشعار میں محسوس کیجیے:

دور تلک دھواں دھواں گرچہ ہے سر پر آفتاب

شور ہے اتحاد کا اور فساد کم نہیں

آج دس بیس پھر جان سے جائیں گے

آج ہر موڑ پر سنتری ہے میاں

نگر نگر میں بظاہر ملاپ ہم نے کیے

فساد خون میں ہے وار آپ ہم نے کیے

جن بستیوں کو آگ لگانے چلے ہو تم

ان بستیوں میں ہو نہ تمھارا بھی گھر کہیں

مظفر حنفی زندگی کے ہر پہلو کو اپنے دائرۂ اختیار میں رکھتے ہیں ہر جہت اور ہر سمت میں ان کی نظر جاتی ہے انھیں وہاں سے جو کچھ بھی دستیاب ہوتا ہے وہ نشاط انگیز جذبہ ہو یا کربناک احساس، اسے الفاظ کا جامہ عطا کر دیتے ہیں ان کی شاعری کا خمیر چونکہ ان کی اپنی مٹی سے اٹھا ہے اس مٹی کی تاثیر ہے کہ اس میں جنم لینے والے شاعر کے یہاں وہ جذبہ بہر صورت موجود ہوتا ہے جو زندگی میں ترتیب پانے والے دُکھوں اور اندیشوں کی صورت میں بار بار اسے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ ہمارے سماج میں جہیز کی لعنت اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ پیسہ نہ ہونے کے سبب لڑکیاں باپ کی دہلیز پار نہیں کر پاتیں اس درد کو شاعر نے ان اشعار میں سمویا ہے:

چپکے چپکے روتا ہے اک نازک سا دل محمل میں

دور کہیں ویرانے میں زنجیر چھنکتی جاتی ہے

بھائی کس منہ سے جا کر محبت کرے اس کی بہنوں کو رشتے میسر نہیں

باپ کے دل میں بے روزگاری کا غم ماں کو حیرت کہ برکت کہاں اُڑ گئی

مظفر حنفی کی غزلوں کی دلکشی کا باعث ان کی شفاف اور سادہ زبان ہے وہ بھاری بھرکم الفاظ سے اپنی غزلوں کو بوجھل نہیں بناتے۔ اکثر اوقات زبان ایسی سرل استعمال کرتے ہیں جو عام انسان کی فہم سے اس طرح نزدیک ہو جاتی ہے کہ قاری یا سامع کے ذہن پر مخصوص تاثر چھوڑنے کے ساتھ ہی مفہوم ایک دم واضح ہو جاتا ہے مثلاً جب وہ کہتے ہیں :

سہج سہج اُپلوں سے آنچ نکلتی ہے

ترل ترل بہتی ہے نالی رات ہوئی

گھنگھرو جیسی رم جھم بوندنیاں

بادل جھینا جھینا مولا پانی دے

ابھی درخت پہ پتھر چلا رہا تھا میں

گرے ہیں پھل تو انھیں چوم کر اٹھاتا ہوں

مظفر حنفی کے یہاں اس جذبے کا ذکر کرنا بھی بے حد ضروری ہے جس کا ذکر قدیم و جدید شعراء نے اپنے یہاں اپنے اپنے انداز میں کیا ہے۔ اس البیلے شاعر نے بھی عشق کی دھیمی دھیمی آنچ کو محسوس کر کے اس موضوع کو اپنی شاعری میں اس خوبصورتی اور صناعی سے برتا ہے کہ ان اشعار کو پڑھ یا سُن کر عشق کی وادیوں میں سرگرداں مسافر اپنے اندر شگفتگی اور تازگی محسوس کرنے لگتا ہے لیکن یہاں بھی مظفر حنفی نے اپنی انفرادیت و شان برقرار رکھی ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے۔

میں اکثر سوچا کرتا ہوں چاند نہیں لیکن پھر بھی

سورج ڈھلنے پر وہ کیوں بالائے بام آ جاتا ہے

چاندنی اتنی گھٹی پہلو میں گھٹ کر آ گئی

یاد ان کی دامنِ شب سے لپٹ کر آ گئی

کچھ ایسے انداز سے جھٹکا اس نے بالوں کو

میری آنکھوں میں در آیا پورا کجلی بن

آج اِک لڑکی نے میرا حافظہ مہکا دیا

رنگ تیرے پیرہن جیسا تھا بو تری نہ تھی

ہر ایک سانس تری یاد سے معطّر ہے

ہر ایک لمحہ ترے انتظار سے روشن

وہ کنوار پن میں دبی دبی، وہ حیا کے بار سے مضمحل

مری اک نگاہ کے لمس سے وہ متاعِ حسن نکھر پڑی

وہ سر سے پا تک تمام شعلہ

اسے کوئی چومتا کہاں سے

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مظفر حنفی نے جدید اُردو غزل کو جو وقار بخشا ہے وہ ان کی تخلیقی بصیرتوں کا غمّاز ہے ان کی بعض غزلوں میں صوتی آہنگ اور نغمگی کا بھرپور رچاؤ ملتا ہے۔ ذرا گنگنائیے تو سہی:

پاس آ کر حال پوچھا آپ کو زحمت ہوئی

لیکن اس کے بعد مجھ کو اور بھی وحشت ہوئی

آئنے میں عکس بھی اپنا نہیں لگتا مجھے

اب کوئی تیرے سوا اچھا نہیں لگتا مجھے

دل کی یلغار ناکام پھر ہو گئی

پھر بگل بج گیا شام پھر ہو گئی

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مظفر حنفی نے فکر کی پختگی کے ساتھ ذات و کائنات کے مسائل کا ادراک نیز دورِ حاضر، ماضی اور مستقبل سے اپنا رشتہ اس طرح استوار رکھا ہے کہ اُن کی عظمت ہر دور میں تسلیم کی جاتی رہے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ڈاکٹر جاوید ارشد

   بچھرایوں

 

مظفر حنفی اور کربلا

 

دنیا کی تمام تر زبانیں ہمیشہ حق کی علمبردار رہی ہیں۔ حق و باطل اور نیکی و بدی کی لڑائی میں تمام زبانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ جنگیں ہر زمانہ میں ہوتی رہی ہیں اور شاعروں نے ہمیشہ ہی باطل کے مقابلے میں حق کی طرف داری کی ہے۔ جدید غزل میں بھی حق کی آواز کافی سنی جا سکتی ہے۔ ایسی شخصیتوں کی طرف متوجہ ہونا جو حق کے طرفدار ہیں جنھوں نے تلوار کے سائے میں سجدہ کیے ہیں۔ ایسی عظیم المرتبت شخصیات جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ سقراط، ارجن، رام، حضرت امام حسین شہیدِ کربلا۔ ان میں سید الشہداء کی جرأت، استقلال، شجاعت، حق گوئی کو شعراء متقدمین اور متاخرین نے اپنی شاعری کی علامت بنایا ہے اور ایک صنفِ سخن مرثیہ میں یہ ہی موضوعات ہیں۔

کربلا اور واقعاتِ کربلا، حق و صداقت، ایثار و قربانی، جرأت و ہمت و استقلال کی علامت بن گئے ہیں۔ بہت سے شعراء کرام نے اس موضوع کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ مولانا محمد علی جوہرؔ نے غزل میں اس موضوع پر یہ شعر کہا:

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

غزل خصوصاً جدید غزل کو لہو سے تر کرنے کے فن سے مظفر حنفی واقف ہیں۔ نوکِ سناں پر سرفرازی کی جرأت مظفر حنفی صاحب کے یہاں ہے۔ کربلا باطن میں جلوہ گر ہو تو جرأت و ہمت واستقلال کی موجیں اشعار کی شکل میں رواں دواں ہوتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں موصوف کے سلام کا یہ مطلع اور اس کا طمطراق:

اونچا ہوا نشان سناں پر حسینؓ کا

کٹنے کے بعد بھی نہ جھکا سر حسینؓ کا

مظفرؔ صاحب نے غزل میں اگرچہ ایک موضوع تک خود کو محدود نہیں رکھا ہے۔ تاہم باطنی کرب، جبر و تشدد کے خلاف ایک احتجاجی شناخت کربلا کی علامت بن کر ان کے اشعار کو لہو رنگ کرتی ہے۔ سربلندی ان کا مزاج ہے جرأت ان کی سرشت میں داخل ہے۔ اس دور میں بھی جہاں مصلحت اور خوشامد ضرورت بن گئی ہیں وہ بہ بانگِ دہل اعلان فرماتے ہیں۔

آپ نیزے بلند فرما لیں

سرِ مظفرؔ کو خم نہیں کرنا

مظفرؔ حنفی نے اکثر کربلا کی علامتوں کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے اور کربلا کے کرب کو جدید غزل میں لہو رنگ کیا ہے۔ نوک سناں اور بریدہ سر، سرفرازی کی علامت بن کر ان کے اشعار کے پیکر میں ڈھل جاتے ہیں۔

حالانکہ مظفر صاحب نے کسی ایک موضوع یا واقعات کے کسی ایک سلسلہ تک خود کو محدود نہیں کیا، زندگی کے تمام رنگ ان کی شاعری میں ہیں۔ تلخ و شیریں احساسات، سیاسی و معاشرتی مد و جزر، جبر کے خلاف ایک آواز:

میں شاعر ہوں مِری پرچھائیں مستقبل پہ پڑتی ہے

مگر تاریخ کی ہر چوٹ میرے دل پہ پڑتی ہے

میرا موضوع ’ مظفر حنفی اور کربلا ‘ ہے۔ نوکِ سناں پہ سر رکھنا، گلے سے تیغ کا رشتہ استوار کرنا، سرفرازی کا دکھ یہ سب مظفر صاحب نے واقعاتِ کربلاسے سیکھا ہے۔ صحرائے کربلا کی تمازت، تشنگی، بریدہ سر، نوکِ سناں یہ وہ علامتیں ہیں جو مظفر صاحب نے اپنے باطن میں محسوس کی ہیں۔

مظفر حنفی نے اکثر کربلا کی علامتوں کوبڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ اس موضوع پر ان کے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

کوفہ و کربلا سے دور بغض و عناد کم نہیں

قحط حسینؓ ہے بہت ابن زیاد کم نہیں

نیزہ بردار و کماں دار مِرے گھر میں نہیں

وہ دلاور ہوں کہ تلوار میرے گھر میں نہیں

ہمیشہ دل نے کہا ہے ادائے سجدہ پر

اُٹھا یہ سر کہ فرازِ سناں کا حصہ ہے

ہم سجدے میں جھک جاتے ہیں چاہے گردن پر خنجر ہو

اپنا سر اونچا رکھنے کو خود ہی نیزہ بن جاتے ہیں

اٹھائے پھرتے ہو نیزے پہ تم یہ کس کا سر

دلیر وہ ہے جو شانے پہ سر نہیں رکھتا

میرے مذہب نے سکھایا ہے مظفر مجھ کو

جنگ کی مجھ سے شروعات نہیں ہونے کی

رجز عدو نے پڑھا زہر خند کرتے ہوئے

ہمارا نیزہ ہمیں پر بلند کرتے ہوئے

یہ بات دشمنوں سے نہیں دوستوں سے پوچھو

یک لخت ہم پہ بند ہوا آب و دانہ کیوں

مظفر کے لیے یہ کلمہ ہائے خیر کیا کم ہیں

کہ بیشک سر بریدہ ہے مگر ہارا نہیں ہے وہ

کبھی حسینؓ بھی سرمد اور اب ہم بھی

گلے سے تیغ کا رشتہ بہت پرانا ہے

سرفرازی کی یہ پہچان کتنی خوبصورت ہے

وہ پہلے سر کو نیزے پر گھما کر دیکھ لیتے ہیں

نعرہ زن ہاتھ میں تلوار عدو ہے کہ اخی

دیکھنا بر سرِ پیکار عدو ہے کہ اخی

ہمیں بھی جان پیاری ہے مگر اتنی نہیں پیاری

یزیدِ وقت کی بیعت سے ہم انکار کرتے ہیں

نوک سناں پہ سر رکھنا، گلے سے تیغ کا رشتہ استوار کرنا، سرفرازی کا دکھ سہنا یہ سب کچھ مظفر صاحب نے واقعاتِ کربلاسے سیکھاہے۔ وہ آج بھی میدان کربلا میں ہیں۔ آج بھی اعلانِ حق جاری ہے چاہے مظفرؔ حنفی کے اشعار ہی کیوں نہ ہوں۔ کربلا کی علامات’’ پردہ سخن کا‘‘ مجموعۂ کلام کا انتساب برطانیہ میں مقیم اپنے بیٹے پرویز مظفرؔ کے نام کے ساتھ کیا:

دائیں ہاتھ میں نیزہ ہو تو بائیں شانے پر مشکیزہ

باہر کیساہی بنجر ہو، اندر سے مٹی نم رکھنا

جرأت، ہمت و ایثار کے جذبہ کی تلقین کے لیے حضرت عباس علمبردار کی شہادت کی علامت ’’مٹی نم رکھنا‘‘ کی تاکید۔

سردار کے ہر حال میں توقیر کے پہلو

سجدہ میں جھکا سر ہو کہ نیزہ پر چڑھا سر

خنجر تِرا پیاسا ہے تو سچ بول رہا ہوں

پھندا تیرا خالی ہو تو اونچا ہے میرا سر

اونچا ہوا سر نیزہ بہ نیزہ

یاروں کا احسان لبیک لبیک

یاد کرو کیا فرمایا تھا بابا نے گرنے سے پہلے

گھوڑے پر تکیہ مت کرنا ہمت کو تازہ دم رکھنا

سر اونچا ’ آنکھیں روشن لہجہ بے باک ہمارا

تلوے زخمی، ہاتھ بریدہ، دامن چاک ہمارا

تمھیں کوسوچنا ہے نیزہ بازو

مِرا سر ایک ہے بھالے بہت ہیں

بریدہ سر تماشا دیکھنا ہے

نِشانہ حرملہ کا دیکھنا ہے

خلوص اور شجاعت کا امتحاں ہے آج

ادھر سے دوست ادھر سے عدو بلاتا ہے

میں اس کو روکتا کیسے میں اس سے پوچھتا بھی کیا

کہ اس کی گود سے دو ننھے ننھے ہاتھ باہر تھے

ہمارے بال و پر باندھے ہوئے ہیں

شہادت پر کمر باندھے ہوئے ہیں

راستے میں ہو نہ جائے شام چلنا ہے تو آ

درمیاں ہے کوفۂ بدنام چلنا ہے تو آ

اجازت ہو تو میں بھی سر جھکا دوں روک لوں نیزہ

کبھی نرغے میں اپنی حیثیت ممتاز کرنے دے

روندا گیا بدن کہ غلط بیعتیں نہ کیں

نیزے پہ ہوں بلند کہ سر خم نہیں کیا

ہم بھی یزیدیوں سے مظفرؔ بہت لڑے

ہاں اہتمامِ لشکر و پرچم نہیں کیا

اس نوع کے ایک دو نہیں بلا مبالغہ سیکڑوں اشعار مظفر حنفی کی غزلوں میں موجود ہیں ایک شعر اس موضوع پر اور سن لیں۔ لفظ ’ پھر‘ میں طویل داستان سمیٹ کر علی اصغر کی میدانِ جنگ میں تشریف آوری کا بیان ہے:

پھر اک چھے ماہ کا بے حال بچہ

شہادت کے لیے خیمے سے نکلا

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اردو شاعری میں سانحۂ کربلا کے استعاراتی استعمال پر پوری کتاب قلم بند کی ہے مجھے حیرت ہے کہ اتنے دیدہ ور نقاد کی نظر مظفر حنفی کے کلام پر کیوں نہیں گئی۔

نقادوں کا ذکر چھِڑا تو ظ۔ انصاری یاد آ گئے جنھوں نے اپنی’’ کتاب شناسی‘‘ میں مظفر صاحب کے دوسرے مجموعۂ کلام ’’ طلسمِ حرف‘‘ پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھا ہے:’’ ہم’ طلسمِ حرف‘ کے طلسم میں گرفتار ہوتے ہوتے رہ گئے کیونکہ اس میں اگرچہ طنز کے لوچ، لچک اور بیان کے پیچ و خم کی کمی نہیں البتہ ’ اسرار‘ ہلکے ہیں۔ نہ تجربوں کی کمی ہے نہ تجزیوں کی، ہاں وہ جو کہرے کی دلرُبائی ہوتی ہے اور دور تک لرزتی ہوئی روشنیوں کی قطار، جھلملاتے دیوں کی سی بات، وہ جس سے طلسم پورا ہوتا ہے۔ وہ آخری ورق اُلٹنے سے پہلے کافور ہو گئی۔ ‘‘

میں اسے تنقید کی سہل انگاری سے تعبیر کرتا ہوں۔ مظفر صاحب نے اتنا وقیع سرمایۂ شعر اردو ادب کو تفویض کیا ہے کہ اُسے پڑھنے کے لیے وقت درکار ہے اور ناقدین کو فیصلے کرنے کی عجلت ہوتی ہے چنانچہ ایسے اشعار تلاش کرنے کی فرصت نہیں ملتی جن کی کمی کا شکوہ ظ۔ انصاری نے مندرجہ بالا اقتباس میں کیا ہے وگرنہ کلام مظفرؔ میں اُن کی کمی نہیں ہے۔ مشتے از خروارے سیکڑوں میں سے چند ابیات پیشِ خدمت ہیں :۔

یہ کون جاتا ہے تاروں کی گرد راہ کے پار

خلا میں کس کے قدم کا نشان بیٹھ گیا

آخرش آئی داستاں جھیل میں خود کشی کے پاس

رات نے آنکھ موند لی چاند نے جب کہا کہ یوں

میں اپنی وحشتوں سے محظوظ ہو رہا ہوں

اپنے مزے میں دریا گرداب دیکھتا ہے

بجھتے ہوئے چراغ مظفرؔ بھڑک اُٹھے

جلتے ہوئے پروں سے پتنگا کہاں چلا

سر پر یہ گھٹا چھائی ہوئی ہے کہ تری یاد

سایہ سا کوئی راہ میں جاتا ہے کہ میں ہوں

خفیف رہتے ہیں اپنے ضمیر کے آگے

یہ تو نے کیسے ترازو یہ رکھ دیا ہے ہمیں

آبلوں سے چور سر پر آسماں

رات بھر چُنتا ہے کانٹے پاؤں کے

ٹوٹتی رہتی ہے سینے میں مسلسل کوئی شے

درد مصروف ہے راتوں کو سحر کرنے میں

اک ستارا سا کہیں ٹوٹ گیا پہلو میں

چاندنی رات نے چپکے سے کہا سنتے ہو!

مظفرؔ حنفی کے چودہ شعری مجموعوں کو ذرا تھم تھم کر پڑھا جائے تو اُن کے ہاں بڑی تعداد میں ایسے اشعار مل جائیں گے جن میں ربودگی، فضا آفرینی اور کیفیت سازی کی افراط ہے۔

کچھ نقادوں کو مظفر صاحب کی غزلوں میں عاشقانہ مضامین اور حسن و محبت کے حامل شعروں کی قلت نظر آتی ہے۔ میں نے اس زاویے سے موصوف کے مجموعہ ہائے کلام کا جائزہ لیا تو ہر ورق پر اس طرح کے اشعار جھلملاتے جگمگاتے دکھائی دیے:

نکلی نہا کے آج وہ جب باتھ روم سے

ساری کا رنگ آب گہر کی طرح لگا

ایسا لگا سمٹ سی گئی ساری کائنات

اس نے کمر کے گِرد جو ساری کو بَل دیا

محبوب کے بدن کی نمی سے چسپاں ساری کو آبِ گہر سے مشابہت کرنا کمال فن ہے کبھی حسرتؔ نے کہا تھا:

اللہ رے جسمِ یار کی خوبی کہ سر بسر

رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

مظفر صاحب کے دوسرے شعر میں ساری کے محبوب کی کمر سے لپٹنے کے ساتھ کائنات کے سمٹ جانے کا احساس ایک انوکھا تجربہ ہے اور دیکھیے:

تیر چڑھائے کھول رہی تھی خون کی ہر اک بوند

رات ہوئی تو سارے شکوے ایک نظر میں صاف

یہ میرا مہرباں پردے سے نکلا

کہ اک لشکارا آئینے سے نکلا

اُگی ہے دُوب یہاں بھی تِرے بدن جیسی

کھلے ہیں پھول یہاں بھی تِرے لبوں کی طرح

آئِنے کے سامنے انگڑائیاں مت لیجیے

آئنے کو چُور کر دے گا خُمارِ آئِنہ

اس نے اس انداز سے جھٹکا اپنے بالوں کو

میری آنکھوں میں در آیا پورا کجلی بن

میں سرتا لمس کی خواہش، لَو دیتا ہے خون

اور اِدھر میلا ہوتا ہے ہاتھ لگائے تُو

کسی کو یاد کر کے موند لے آنکھ

کسی کو سوچ لے، سر شار ہو جا

دِیا بے نور ہے سورج کے آگے

ترے آگے غزل فرضی ہماری

مظفرؔ بھی چلے ہیں عشق کرنے

کہیں سے دل مہیّا کر لیا ہے

مجھ پہ اس عمر میں بھی خاص کرم ہے ان کا

ہو گئے کھا کے مظفرؔ کی قسم شرمندہ

یہ چمکتی ہوئی آنکھیں یہ لرزتے ہوئے لب

ہے کوئی بات مظفرؔ سے چھپاتا ہے جِسے

اس کا بدن تو لمس کی فردوس بن گیا

اب میری اُنگلیوں کو ضرورت زباں کی ہے

کہاں کہاں سے کیا کسبِ نور مت پوچھو

کسی کی مانگ میں چھوٹی سی کہکشاں کے لیے

پھینکا گیا ہے پھول جہاں سے رقیب پر

ڈرتا ہوں میں وہ تیرا دریچہ نہ ہو کہیں

نظارہ کر رہا ہے اک نیم وا دریچہ

اک پھول پھول پر وہ قربان جا رہا ہے

تم نے میرے دیدہ و دل کی حالت پوچھی۔ صد احسان

آنکھوں میں موتی ہی موتی پھولوں کی ڈالی ہے دل

روز اس کے پاس جا کر بیٹھنا

روز کچھ دیوار جیسا درمیاں

اس نوع کے شعروں کی مظفر صاحب کے کلام میں کمی نہیں ہے اور یہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اُن کا عشق عام روایتی اور بازاری قسم کے عشق سے مختلف نوعیت رکھتا ہے جس کی تشریح و تفسیر میں پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلیؔ

    کولکاتا

 

تاج دارِ غزل:مظفرؔ حنفی

 

غزل اردو شاعری کی مقبول ترین صنف ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک مربوط، مسلسل اور ہم آہنگ صنف شاعری ہے۔ اُردو غزل چونکہ فارسی کی مرہونِ منت ہے اس لیے اس میں فارسی غزل کے سارے اثرات پائے جاتے ہیں۔ غزل کا داخلیت سے گہرا تعلق ہے۔ داخلیت اور تغزل لازم و ملزوم ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ک غزل میں سراسر داخلیت ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ داخلیت کی حقیقی بنیاد یہ ہے کہ خارجی تجربوں کو دل کے آتش کدے میں کندن بنا کر اس طرح پیش کیا جائے کہ صوری اور معنوی اعتبار سے اس پر تخلیقِ نو کا گمان ہو۔

اس طرح تجزیہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ داخلیت اور خارجیت کی گہری ہم آہنگی سے اعلیٰ اور منفرد فن کی تخلیق ہوتی ہے ایک اور بات غور طلب ہے کہ دل کی دنیا میں کیونکہ ان جذبات و احساسات میں تصنع کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے اس میں سراسر آمد اور وارفتگی ہوتی ہے آورد نہیں۔ جذبہ کو ئی برقی رو نہیں ہے جو آئی اور گزر گئی کہ اس میں ٹھہراؤ ہوتا ہے اور گہرائی و گیرائی بھی۔ ساتھ ہی اس جذبے میں فکر و خیال کے عناصر شامل ہوتے ہیں جس میں ایک تسلسل اور متناہیت ہوتی ہے۔ یہی وہ خیالات ہیں جن کا استعمال غزلوں میں فنکارانہ طور پر ہوتا ہے۔

ہم جب مظفر حنفی کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت سے نکتے ذہن میں صاف ہو جاتے ہیں۔ مظفر حنفی غزل کی جس روایت پر گامزن ہیں وہ انہیں شادؔ عارفی سے ملی ہے۔ شادؔ عارفی نے اُستاد کی حیثیت سے ان کی ذہنی و فکری تربیت کی اور انھیں ذہن اور فکر کی دولت سے مالامال کیا۔ اس کے علاوہ مظفرؔ حنفی کی خاندانی، علمی و ادبی روایت بھی ہے۔ ان روایتوں نے مل کر ان کے فکر و خیال کی تعمیر کی۔ مظفر حنفی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں کو صرف جذب و کیف اور حال و خال کی کیفیت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے وسیع تجربوں کے وسیلے سے ان میں زندگی کی اعلیٰ قدروں کا حسن و جمال پیدا کیا۔ غزل کی آن بان کو برقرار رکھنے میں مظفر حنفی نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے انہوں نے غزل کو چاہا بھی ہے اور پوجا بھی۔ اس کے بدلے میں غزل نے بھی ان کو اپنایا ہے۔ غزل ان کے یہاں سادگی اور فطری رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ مظفر حنفی نے غزل میں وسعت اور ہمہ جہتی پیدا کی ہے۔ غزل کو ایک نیا آہنگ اور نیا اسلوب عطا کرنے میں ان کا نام نمایاں ہے۔

مظفر حنفی کی غزلوں میں تکرار اور ربط ملتا ہے اور یہی خصوصیت ان کی شاعری کو انفرادیت بخشتی ہے۔

گھما پھرا کے بھنور انکشاف کرتا ہے

کہ بلبلے کا سمندر طواف کرتا ہے

ایسے میں کیا پیار پنپتا پانی میں کیا گلتی ریت

تو گہرے ساگر کا موتی، میں ساحل کی جلتی ریت

سبھی دشمنوں کو جو پہچانتے ہم

تو پھر اپنا خیمہ کہاں تانتے ہم

خدا حد بندیِ محراب و منبر میں نہیں رہتا

ہمیں معلوم ہے بھگوان پتھر میں نہیں رہتا

یہ اشعار مظفر حنفی کی غزلوں کے منتخب مطلعے ہیں۔ ان سارے مطلعوں کا مخصوص لب و لہجہ، آہنگ، اسلوب، شعور اور موضوع ہے۔ ان میں شروع سے آخر تک گہرا تسلسل، ربط اور ہم آہنگی ہے، مظفر حنفی کی ایسی غزلیں بہت کم ہیں جن میں تکرار اور انتشار خیال پایا جاتا ہو۔ ان کی بیشتر غزلوں میں خیال اور معنی کا ظاہری و باطنی ربط قائم رہتا ہے۔

مظفر حنفی کی غزلوں کی اہم خصوصیات ان کی سادگی، سلاست، بانکپن، اچھوتا انداز، مخصوص تیور، بانکا لہجہ، تیکھا پن، ندرت ادا اور فکری عناصر ہیں، غرض کہ غور سے دیکھا جائے تو غزل کا مکمل ڈکشن مظفر حنفی کے یہاں انفرادی حیثیت میں ملتا ہے۔ غزل پر ان کی گرفت بہت ہی مضبوط اور بھرپور ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ مظفر حنفی غزل نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ان کے ذریعے غزل کو گویائی مل گئی ہے اور ان کی ذات غزل کے لیے گویا ایک میڈیم کی حیثیت رکھتی ہے۔

مظفر حنفی کی فکر پیچیدہ اور اُلجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ سادگی، سلاست، زبان و بیان کی صفائی، الفاظ کے انتخاب، اسلوب کی شگفتگی، ہیئت کی توسیع اور اظہار کی جدت ان کی غزلوں کے اہم عناصر ہیں اور یہ عناصر ان کے بڑے اور کامیاب شاعر ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ مظفر حنفی ایک مخصوص فکر و نظر کے حامل ہیں۔ انھوں نے عموماً فکر کو شعریت عطا کی ہے اور اشعار کے ذریعہ فنِ تغزل کی کسی نہ کسی خوبی کو اُجاگر کیا ہے۔ چونکہ ان کی غزل کا ڈکشن قطعی مکمل ہے اس لیے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے وجدان اور تصورات خودبخود غزل میں ڈھل گئے ہیں اگرچہ ان کے اشعار کے الفاظ سیدھے سادے ہیں۔ لیکن وقار، سلاست، فنی رکھ رکھاؤ اور بانکپن میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کا لب و لہجہ بڑا بانکا اور تیکھا ہے۔ ذیل میں چند اشعار پیش ہیں جو بظاہر دیکھنے اور پڑھنے میں سادہ و سلیس ہیں لیکن اپنی فکر، بے باک لہجہ اور منفرد اسلوب کے باعث اُردو شاعری کو ایک نئی جہت سے روشناس کراتے ہیں :

آگا پیچھا سوچ مظفر اس محفل میں ایسی غزلیں

منہ پر سچ کہہ دینے والے اکثر دیوانے کہلائے

جانے بارات گزری کہ میت کوئی

پھول بکھرا ہوا راستے بھر میں ہے

بھیج مظفر تیکھے شعر

اُن کی خدمتِ عالی میں

اُس نے اپنے لیے چاندنی کھینچ لی

اور مجھ سے کہا عیش کر دھوپ میں

مجھ کو پاگل کہتے ہیں، اس بستی کے سب لوگ

بانٹ رہا ہوں تارے، تتلی، شبنم اور گلاب

کچھ مظفر کا پتہ ہے دوستو

کس لیے کیسے کہاں مارا گیا

ایسے بے شمار اشعار آپ کو مظفر حنفی کی غزلوں میں نظر آئیں گے جن میں ایک مخصوص تیور، تیکھا پن اور بھرپور قوت کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے غزل کے لب و لہجہ، اسلوب اور مزاج کو بدل کر اسے ایک نئی جہت اور ایک نئے اسلوب سے روشناس کرایا ہے۔

مظفر حنفی کے یہاں بے شمار حسین، دلکش اور پُر اثر ترکیبیں ملتی ہیں۔ ترکیبوں کے علاوہ ان کے یہاں لفظوں کا رکھاؤ بھی بہت فنکارانہ ہے ہر لحظہ بدلتی ہوئی رنگا رنگ زندگی کی مختلف کیفیتوں اور حالتوں کو ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے مختلف علامتوں کا سہارا لیا ہے اور دیگر رمزیہ کنایہ میں بھی شاعری کی ہے:

قرمزی ساری پہن کر اس طرح سجتی ہے وہ

پھول اپنے سر کٹا دیں چاندنی قربان جائے

کس جگہ رہیے، کہاں دن کاٹیے کیا کیجیے

گاؤں میں کیچڑ بہت ہے شہر میں کم ہے ہوا

ہمیں اپنی کمزوریوں کا پتہ ہے

تمھیں بھی فرشتہ نہیں مانتے ہم

اب سمندر کی طرح پھیل کے رہنا یارو

ہم اڑے جاتے ہیں گمنام جزیروں کی طرف

مظفر حنفی کی غزلیات اور ان کے فن شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ انھوں نے اپنی شخصیت کو معاشرے سے کبھی الگ نہ جانا۔ شاعری ان کے نزدیک فقط قصہ ہے بھی تو یوں کہ ذات اور کائنات ایک دوسرے میں مدغم ہیں۔ ذات کے پردے میں انھوں نے دل کا ماجرا بھی بیان کیا ہے اور دنیا کا بھی۔

مظفر حنفی کی غزلوں کا ایک اہم پہلو ان کے طنزیہ اشعار کی شکل میں بالخصوص مقطعوں میں ہمارے سامنے آیا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کا اظہار بڑی دیانت داری کے ساتھ کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انھوں نے ان اشعار کے ذریعہ ایک نئے شعری اسلوب اور اس کے ممکنات کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ مظفر حنفی نے اپنے طرزِ اظہار میں استعاروں اور ترکیبوں کے استعمال سے غزلوں کو ایک خاص فنی بلندی اور فکری گہرائی و گیرائی عطا کی ہے۔ انھوں نے جذبہ، احساس اور تخیل فکر کو ایک مربوط اور ہم آہنگ شعری پیکر عطا کیا ہے:

نئی قدروں پہ فرسودہ  عقیدے طنز کرتے ہیں

مبارک ہو مظفر چیونٹی کے پَر نکل آئے

فلسفہ اور تغزل نہیں ہے نہ ہو

بات پھر بھی کلامِ مظفر میں ہے

بلا سے گردِ تغزل مری غزل میں نہیں

جدید لہجہ گھٹن کو تو صاف کرتا ہے

میرا ہر ایک شعر مظفر

تنہا لاکھوں پر بھاری ہے

جناب مظفر حنفی کو اپنی جدیدیت پر فخر ہے جس کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں بار بار کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جدیدیت کے رجحان اور مزاج کا تیقن مظفرؔ حنفی جیسے فنکاروں کی تخلیق سے ہی ہوا ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔ مظفرؔ حنفی ایک منفرد اور جدید غزل گو ہیں ان کی اپنی ایک انفرادی شان ہے اور جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی غزلوں میں عصرِ حاضر کی تبدیلیوں اور نئی قدروں کا ادراک ملتا ہے۔ وہ اپنی شاعری کو روایات کی چار دیواری میں محصور نہیں کرتے۔

مظفر حنفی نے بھی محبت کی ہے۔ ان کے یہاں بھی محبوب کا سراپا ملتا ہے لیکن عشق و محبت شاعر کے پیروں کی بیڑی نہیں بنی۔ محبت اس میں فرار اور قنوطیت پیدا نہیں کرتی۔ معاملاتِحسن و عشق میں بھی ایک توازن اور اعتدال ہے اظہارِ عشق کے انداز میں انفرادیت پیدا ہو گئی ہے۔ مظفر عشق کی کسک محسوس کرتے ہوئے بھی سپردگی کی منزل میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرتے اور منزل عشق کی سر حد تک پہنچ کر واپس آ جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

باغ میں اور ایک ہنگامہ

لڑکیاں پھول چن رہی ہوں گی

اُگا ہے چاند جذبے کے اُفق پر

دھڑکتا ہے قلم آہستہ بولو

کھلی چھت پہ کل چاند ٹہلا کیا

مرے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے

رات بھر سنتے رہے ہم آنکھ سے

چاند اپنی داستاں کہتا رہا

سارے خط میں تجھے لوٹا دوں گا

تو مجھے خواب مرا دیتا جا

ان اشعار میں تخیل کا ایک نیا انداز ہے جو قاری کو اپنی طرف راغب کر لیتا ہے۔ قاری ان اشعار کو صرف اپنے محسوسات ہی کے ذریعے نہیں بلکہ اپنی عقل و خردکو بروئے کار لا کر ان کی گہرائی تک پہونچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان اشعار میں جذبے کے سوز و ساز نے تخیل کو پیدا کیا ہے اور اس کو پرواز بھی عطا کی ہے۔ سب سے اہم فنی تقاضہ یہ ہے کہ انسانی جذبات بے لگام گھوڑے کی طرح نہ ہو جائیں۔ ایک اچھے شاعر کے یہاں جذبات کی دھنک بہت روشن ہوتی ہے اور ان جذبات کی آنچ اور آہنگ میں بھی فرق ہوتا ہے جب ہم مظفر حنفی کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ رائے پیش کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی کہ ان کے یہاں جذبے کا توازن بدرجۂ اتم موجود ہے۔

مظفر حنفی نے تخلیقی کرب کا طویل سفر طے کرنے کے بعد ہی اپنی غزلوں میں فکر کی گہرائی، شعور کی بلندی اور تجربہ کی پختگی پیدا کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم انھیں تاجدارِ غزل کہنے پر مجبور ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                نسیم عزیزی

  کولکاتا

 

 

رزم گاہ طنز کا تنہا شہسوار: مظفر حنفی

 

کسی شاعر کے تخلیقی عمل سے متعلق عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں ان تصویروں کے نقش و نگار کو زندگی اور روشنی کا پیراہن عطا کرتا ہے جواس کی ذات کے نہاں خانے میں اس کے نجی تجربات و محسوسات کے خمیر سے وجود میں آنے کے متلاشی رہتے ہیں۔ اگر کوئی شاعر اپنے گرد و پیش کے مسائل، کش مکش زیست، حکایات خونچکاں، چادر آلام جہاں کو اپنی ذات کا اہم ترین حصہ تصور کرتے ہوئے اس طرز فکر کو یکسر طور پر مسترد کرے اور اس حقیقت کا برملا اعتراف کرنا ضروری سمجھے کہ اس کے یہاں اس قسم کا کوئی معاملہ ہے ہی نہیں، نیز وہ اپنی ذات کے سحر کو محض سراب ہی نہیں سمجھتا بلکہ اس کی شعری نگارشات میں ( ظاہری طور پر) اس کی داستان کا گزر تک نہیں اور وہ اس روایت کو منہ لگانا بھی نہیں چاہتا جو ابتذال پسندی اور چونچلے پن کی راہیں ہموار کرتی ہے تو ایسے میں انداز ہ قائم کرنے میں ذرا بھی تامل نہ ہونا چاہیے کہ یہ شاعر اپنے مخصوص لہجے کو بجا طور پر establishکرنے کا ارادہ رکھتا ہے کیونکہ اسے اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ روایت کی کوری تقلید کرنے والے لوگ شاعری میں ایک ذرّہ بھی اضافہ نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ندرت خیال، جدت طرازی، جذبے کی اثر آفرینی، لفظوں کے اعجاز و مرتبے کا ادراک اور جدید اسلوب کا دور دور تک شائبہ نظر نہیں آتا ہے۔ مظفر حنفی ایک ایسے شاعر ہیں جو نہ صرف قاری اور سامع کو اپنے جدید لہجے کی سحر انگیزی سے روشناس کرانے کی شاعرانہ سبیل پیدا کرتے ہیں بلکہ نقد و نظر کی دہائی دینے والے تنگ نظر ناقدوں کو آئینہ دکھانے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ آئیے ان اشعار کی روشنی میں شاعر کے نقطۂ نظر کی تفہیم کی واضح صورت کا مشاہدہ کریں۔

طلسمِ ذات مظفرؔ سراب ہے یکسر

مری غزل میں مری داستاں کہیں بھی نہیں

بلا سے گرد تغزل مری غزل میں نہیں

جدید لہجہ گھٹن کو تو صاف کرتا ہے

تنقید مظفر کو ذرا غور سے دیکھے

لکھتا ہے زیادہ کہ سلگتا ہے زیادہ

مظفر حنفی نے اس بات کا اقرار کیا ہے ان کے یہاں دل کی گرمی سے اشعار تخلیق کرنے کا چلن ہے اس لیے ان کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کرنے والے اگر سمجھتے ہیں کہ شاعر کے ہاں محض لکھنے لکھانے کی روش فروغ پا رہی ہے تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہو سکتی ہے۔ در اصل مظفرؔ حنفی کی شاعری میں طنز کو ارفع و اعلیٰ مقام حاصل ہے اس لیے ان کے یہاں ہر لمحہ سلگتے رہنے کا عمل کچھ زیادہ مستحکم اور توانا نظر آتا ہے۔ غالبؔ نے اپنی شاعری میں اگر سوزش دل سے سخن گرم کی صورت گری کی بات کی ہے اور میر انیسؔ جیسے مرثیہ گو شاعر نے اپنے شعر میں تنقید نگاری کے غیر صحت مند رویے پر حیرت و استعجاب کچھ یوں ظاہر کیا ہے:

لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم

تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پہ انگشت

غلط یہ لفظ، وہ بندش بری، یہ مضمون سست

ہنر عجیب ملا ہے یہ نکتہ چینوں کو

مظفرؔ حنفی لفظوں کی بازی گری سے غزل کے دامن کو آلودہ کرنا نہیں چاہتے اس لیے شعر کی مجموعی کیفیت کی تجسیم کاری کے لیے اپنی مخصوص آواز کی شدت اور پر کاری کو ballistic approachسے ہم آہنگ کرتے ہیں تاکہ لفظوں کے بطون میں شرارے توڑنے کے عمل کی ہنر وری اپنے بال و پر نکال سکے۔ کبھی وہ شمع غزل کو ندرت فکر اور نئی زبان کے رو برو کرنے کے لیے اس کی دھیمی آنچ اور نجیف حدت کو التہاب و اشتعال کی لذتوں سے ہم کنار ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں تو کبھی شہر غزل کے ایک مرد آہن کی صورت تحیر افزا تخلیق خلق کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ان کے لہجے کی ندرت پامال زمینوں کو بھی سر سبز و شاداب بنائے رکھتی ہے اور کھردرے پن کو ایک مخصوص وقار عطا کرتی ہے۔ جو لوگ عشقیہ شاعری کو حرز جاں بنا کر اپنی شاعری پر ناز کرتے ہیں وہ در حقیقت چکنی غزل والے ہیں اور ریشمی غزلوں کے سائے میں پناہ لیتے ہوئے زندگی کی ان تلخ حقیقتوں سے آنکھیں چار کرنے سے کتراتے رہتے ہیں۔ ایک حق پرست اور حساس فن کار کو زندگی کی کڑوی سچائیاں لمحہ لمحہ مضطرب کرتی رہتی ہیں ایسے میں لازم ہے کہ ترکش غزل سے نکلنے والے اشعار تیروں کی صورت دِلوں میں پیوست ہونے کا احساس دلائیں۔ مظفر حنفی کو اپنے استاد شادؔ عارفی کی طرح اس بات کا پورا یقین ہے کہ وہ طنز کے میدان کار زار میں تنِ تنہا بہت دور تک سفر کریں گے جہاں ان کے قدموں کے روشن نشانات زمانۂ مستقبل میں راہ روؤں اور جادہ پیماؤں کے لیے سنگ میل ثابت ہوں گے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان کے یہاں طنز کے خمیر سے پیدا شدہ تقریباً ہر شعر ان کے مجموعی فکری رویے کا ایک ایسا password نظر آتا ہے جو شاعر کے شعور اور لا شعور کی دنیاؤں کی سیر کراتا ہے لیکن اس میں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ بعض اوقات، یا کسی کسی مقام پر طنز کی صورت میں نکلنے والے تیر زہر میں ٹھیک سے بجھے نہ ہونے کے سبب کاری ضرب لگانے سے قاصر رہتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سپاٹ لفظوں کے لہجے کو پُر رکھنے میں کہیں نہ کہیں شاعر کی طرف سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہے۔ اس لیے غزل کی زبان پر سیاہ مرچ کی عدم موجودگی شاعر کے موقف کی پاسداری نہیں کرتی ہے۔ آئیے ان کے اشعار دیکھیں جن میں ایک طرف شاعر کے پر وقار لہجے کی دھمک ہے تو دوسری طرف ہماری سماعتوں کا امتحان لیتی سرگوشیاں بھی ہیں۔

غزل میں لوگ حسن و عشق تک محدود رہتے ہیں

مظفر طنز کے میدان میں تنہا نکل آیا

چوٹ کھائی ہے مظفر نے کہیں

طنز گوئی زور پر ہے آج کل

جدت طرازی اور طنز کے میدان میں مظفرؔ حنفی خواہ کتنی ہی دور نکل آئے ہوں لیکن انھیں اس بات کی از حد خوشی ہے کہ وہ اپنے استاد مکرم کی ادبی رہنمائی کو اپنے مخصوص رنگ سخن کے لیے سود مند تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنے استاد محترم ہی طرح غزل کے اشعار سے شمشیر و سناں کا کام بخوبی لینا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں انھیں یہ تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ ان کے اشعار میں جو تلوار کی سی تاب و توانائی ہے وہ در اصل ان ہی کی دین ہے۔ وہ بھی اپنے استاد کی پیروی کرتے ہوئے رسم و رواج کی بخیہ گری کرتے ہوئے ان کی روایت کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں کیونکہ انھیں اس بات کا علم ہے کہ جب ماضی پرستی کا زور ٹوٹے گا تو اچھی اور کھری شاعری ہی مستقبل کے ماتھے پر جھومر کی صورت میں جلوہ گر ہو گی اور انصاف پسند ناقد اسی شاعری کا خیر مقدم کرے گا جو پٹی پٹائی راہ سے نسبت نہ رکھتی ہو۔ اگر ایک طرف شاد عارفی نے نئی نسل سے یہ توقع رکھی کہ ان کے مخصوص طرز سخن کے حوالے سے وہ انھیں یاد رکھے گی تو دوسری طرف مظفر حنفی نے بھی عین یہی خواہش ظاہر کی، مگر ایک معمولی سی ترمیم کے ساتھ یعنی مستقبل کے کسی ناقد کو محتسب بنانا چاہا ہے۔ آئیے ہم یہ اشعار دیکھیں۔

کریں گی یاد مجھے شادؔ کل نئی نسلیں

جو آج رسم و رواج کہن پہ چوٹ کروں

( شادؔ عارفی)

رنگ نہیں تو خیر مظفرؔ مستقبل کا کوئی ناقد

میرے فن کی گہرائی میں جدت ہی پا کر جھانکے گا

(مظفر حنفی)

تنقید نگاری کے فن میں درج بالا شعر شاعر کے کمزور موقف کی دلالت کرتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے دیگر اشعار میں ناقدوں کے سلسلے میں جو شاعرانہ تبصرے کیے ہیں وہ کچھ اور تاثر پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں دیے گئے اشعار ممکن ہے کہ ان سے قطعی مختلف نظر آئیں۔

نظر مرکوز رکھی ندرت مضمون تازہ پر

مظفر نے غزل کے نکتہ چینوں کو نہیں دیکھا

مظفر ہمیں تجربہ ہو چکا ہے

کہ آساں ہے شاعر سے نقاد ہونا

ان ہی لفظوں کے ساتھ مناسب ہو گا کہ اخیر میں شاعر کے اس شعر کا مطالعہ کیا جائے تاکہ کسی حد تک میرے خیال کو اعتبار کا درجہ حاصل ہو۔

معاصرین مجھے رد کریں تو کرنے دو

کہ اپنے عہد میں غالبؔ سخنوروں میں نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

                سید حیدر علی

   کڈپہ

 

مظفر حنفی کی غزل گوئی

 

جدید غزل کو جدید علوم اور غور و فکر کے انداز میں تبدیلی کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ خیال میں وسعت و رفعت اور انداز بیان میں پہلے سے زیادہ متانت اور سنجیدگی اس کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ جن غزل گو شعراء کے یہاں جدید ذہن کی کار فرمائی زیادہ ہے ان میں مظفرؔ حنفی ایک ہیں بقول آل احمد سرورؔ:

’’جدید غزل کے جلوۂ حد رنگ میں ان کی کرنوں کی روشنی اور گرمی سے کون واقف نہ ہو گا۔ ‘‘     (’ یا اخی، پیش لفظ، ص ۷)

غور کیا جائے تو ہر شاعر کا کلام جلوہ صد رنگ ہے لیکن نوعیت الگ الگ ہے۔ جدید شعراء نے شعوری طور پر یہ کوشش کی کہ ان کی شاعری ہر زاویہ سے مختلف رنگوں کے مست کر دینے والے خوشبودار پھولوں کا سدا بہار گلدستہ بن جائے اور بیشتر کامیاب بھی ہوئے۔ مظفرؔ حنفی کا شمار ایسے ہی جدید شاعروں میں ہوتا ہے۔

ہمارے بعض شاعروں کے خیال میں غزل صرف سننے، سنانے کی چیز ہے جس کی مشاعرہ میں زیادہ گنجائش ہوتی ہے اور مشاعرے کی روایت نے اردو شاعری کو نقصان پہنچایا ہے۔ کچھ نقاد کہتے ہیں غزل میں کسی پیچیدہ تجربے کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مظفر حنفی کی شاعری خصوصاً غزل ایسے خیالات کی نفی کرتی ہے ان کے اشعار اس سچائی کا بیّن ثبوت ہیں کہ تمام اصناف سخن میں صرف ایک غزل ہی ہے جو سننے سنانے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کی چیز بھی ہے۔

اس کو مرہم، اس کا غازہ میرے شعر

کھٹّے میٹھے، تازہ تازہ میرے شعر

دریا دریا دو مصرعوں کے کوزے میں

حدبندی میں بے اندازہ میرے شعر

غزل کی روایات اپنی جگہ

ہماری کھری بات اپنی جگہ

کیا دیر ہے مجھ کو بھی اجازت ہو رجز کی

حرف آنے لگا نام و نسب تک مرے مولا

مرے دل پہ یا شیخ اتنا کرم

دعا کر کہ آرام آنے نہ پائے

کوفہ و کربلا سے دور، بغض و عناد کم نہیں

قحطِ حسینؓ ہے بہت، ابنِ زیاد کم نہیں

سیاسی مسائل اور معاصر حالات کو غزل میں پیش کرنا آسان نہیں ہے۔ لیکن مظفرؔ حنفی نے اپنی کہنہ مشقی اور فنی بصیرت سے کام لے کر انھیں شعری قالب میں انتہائی کامیابی کے ساتھ ڈھالا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کی شخصیت کا جزو بن گئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ موصوف نے شعری آداب کو کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا ہے:

یہ نکتہ کس طرح سمجھائیں ہم اہل سیاست کو

کہ دل تسخیر کرنے ہوں تو بمباری نہیں کرتے

خون کے داغ آستینوں پر

اور تمغے انھیں کے سینوں پر

حملے کلس پر، لرزاں کلیسا

مسجد پہ یلغار، افسوس افسوس

ہمیں بھی جان پیاری ہے مگر اتنی نہیں پیاری

یزیدِ وقت کی بیعت سے ہم انکار کرتے ہیں

مظفرؔ حنفی نے اپنی غزل میں اکثر و بیشتر علامتی و اشاریاتی انداز میں وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو برملا کبھی نہ تو کہا گیا ہے اور نہ ہی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ آج ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں بلاشبہ آزادی پر بھی پابندیاں ہیں حتیٰ کہ عقاید اور جذبات بھی اسی دائرے میں آتے ہیں۔ مظفرؔ حنفی نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اِدھر خاص توجہ دی ہے:

بلا سے بجھے یا بڑھے تشنگی

سمندر کو آداب کرتے رہو

اگر خاموش رہتے ہیں تو سر جاتا ہے کاندھے سے

ہماری جان جاتی ہے اگر تکرار کرتے ہیں

دور تک دھواں دھواں، گر چہ ہے سر پہ آفتاب

شور ہے اتحاد کا اور فساد کم نہیں

ہم کروروں میں ہیں لیکن بے کار

ہم کو ہر حال میں چپ رہنا ہے

ہر ایک سانس میں پیوست جبر کا احساس

ہمارے جسم میں چلتا ہوا اِک آرا سا

انسان کو اپنی صلاحیتوں کا علم ہو جانے پر انھیں مستحکم کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور ایسے انسان بے شک ہیں لیکن نسبتاً فنکار اور خاص کر شاعر زیادہ۔ ہمارے کلاسیکی شاعروں میں میرؔ و غالبؔ نے اپنی صلاحیتوں کا ارتفاع کر کے انھیں استحکام بخشا ہے۔ اقبالؔ کے ہاں بھی یہ رجحان ملتا ہے کہ انھوں نے انسان کو اس کی صلاحیتوں کا احساس دلانے کی جا بجا کوشش کی ہے۔ مظفرؔ حنفی کے مجموعہ کلام ’’ یا اخی‘‘ سے متعدد اشعار ایسے پیش کیے جا سکتے ہیں جو اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں :

نہ خوفِ سیل مظفرؔ، نہ زلزلوں سے خطر

زمینِ شعر پہ قائم ہے قصرِ بالا مِرا

اسلوب بھی نیا ہے مظفر خیال بھی

ابلاغ میرے طرزِ سخن سے الگ نہیں

ہاں مظفر کی غزل ہے تو جدید

اے روایت کے امیں، سن تو سہی

کاوش تو خوب کی تھی مظفر کے رنگ میں

لیکن ہمارے یار کو شہرت نہیں ملی

اس شعر کو پڑھ کر میرؔ سے متعلق ذوقؔ کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے:

نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب

ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا

ڈاکٹر وزیر آغا کے الفاظ میں :

’’ مظفر حنفی کی غزل جدید اردو غزل کے بربط سے چھوٹا ہوا ایک منفرد، تازہ پیچ و خم کھاتا، دل موہ لینے والا وہ سُر ہے جس نے غزل کے ’’ کُل‘‘ سے لحظہ بھر کے لیے الگ ہو کر اپنے وجود کا اثبات کیا، مگر پھر لپک کر غزل کی سمفنی میں دوبارہ شامل ہو گیا ہے۔ تجربے اور روایت کا بنتا بگڑتا سنجوگ مظفرؔ حنفی کی غزل کا امتیازی وصف ہے۔ ‘‘

( یا اخی۔ مظفر حنفی کی غزل از ڈاکٹر وزیر آغا ص۲۲)

واقعی روایت اور تجربے کا بنتا بگڑتا سنگم مظفر حنفی کی غزل میں نمایاں ہے۔ تاہم روایت کی پاسداری ہو یا تجربہ کاری کا عمل، مظفر حنفی کا لہجہ اور کھری زبان ان کی پہچان ہے جس کا اعتراف خود شاعر نے ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے:

شعروں کے یہ تیر مظفر چڑھی کمانیں غزلوں کی

تم جس لہجے میں کہتے ہو، شمشیر اور سناں کیا ہے

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصّہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصّہ ہے

اس غزل کے تمام اشعار مظفر حنفی کی غزل کے امتیازی وصف پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔

جدید شاعری سے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ اس نے معاشرہ کے مقابلے میں فرد کو، خدا کے سامنے بندے کو اور آسمان کے رو برو زمین کو لا کھڑا کر دیا ہے۔ جدید شاعری کا یہ امتیاز اگر حقیقی اور فیصلہ کُن ہے تو مظفرؔ حنفی نے جدید فنکاروں کی طرح اپنی غزل میں فرد کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے:

مسلسل بکھرتی ہوئی کائنات

مری مرکزی ذات اپنی جگہ

ہمیں جینے کی خواہش ہے کوئی تدبیر کرنے دو

اگر مرنا ہے، مر جائیں گے، تیاری نہیں کرتے

خود داری کا احساس ہے جو مظفرؔ حنفی کو یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے:

آج تیری مجبوری مانگتی ہے دو لقمے

کل ضمیر جائے گا، صد ہزار لائے گا

غزل کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے غالباً اسی لیے جدید غزل نے اپنا دائرہ وسیع کیا اور پوری زندگی پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ ہمارے جدید شعراء نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور یہ نظریہ قائم کیا کہ زندگی اور زمانہ نے ہم کو لاکھ مصیبتیں اور پریشانیاں دیں تو کیا ہوا ہم بھی اس سے نبرد آزمائی کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مظفرؔ حنفی کی غزل میں یہی عزم کار فرما نظر آتا ہے:

حکایتِ غمِ دل ہو کہ قصّۂ غمِ زیست

قدم قدم پہ ملے گا تمھیں حوالہ مرا

قلم کو تیز مظفرؔ غزل کو تیغ کرو

نہ باز آئے گی دنیا تمھیں ستانے سے

زندگی سے لطف لینا خوب آتا ہے مجھے

درد میں لذت بہت، زخموں سے زیبائش بہت

کرنا وہ زمانے کا یلغار مظفرؔ پر

وہ اس کا زمانے کو اشعار پہ رکھ لینا

اس شعر کو پڑھ کر ساحرؔ لدھیانوی کا یہ شعر یاد آتا ہے:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

محنت کش طبقہ کی بے بسی و لاچاری اور سرمایہ داروں کی عیش و عشرت اور فارغ البالی کا نقشہ مظفرؔ حنفی نے کیا خوب کھینچا ہے:

ہم بھوک اُگاتے ہیں کھیتوں میں، ہمارے گھر

سبزی بھی نہیں پکتی، چاول بھی نہیں بنتے

بتا رہی ہے تمھارے گھروں کی شادابی

کہ تم نے کھیت اجاڑے، شجر جلائے ہیں

مظفر حنفی کی غزل پر نقد و تبصرہ کرنے والوں نے بجا طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ شادؔ عارفی سے ان کے تعلق خاطر کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی غزل میں ایک نیا ذائقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، عموماً اس کو تقلید کہا جاتا ہے۔ تاہم راقم کے خیال میں مظفرؔ حنفی کی شاعرانہ شخصیت نے اکثر ’’ تقلید میں تحقیق‘‘ کو اپنا مطمح نظر بنایا ہے۔ تقلید میں داد تحقیق دینا اور ساتھ ہی تخلیقی امکانات کی نئی جہتوں کا انکشاف ایک تازہ کار ذہن ہی سے ممکن ہوسکتا ہے۔

مظفرؔ حنفی کے اسلوب، زبان و بیان پر عبور، فنِ عروض اور اس کی باریکیوں سے ان کی گہری واقفیت، اردو غزل کی روایات کا گہرا اور صحیح شعورجیسی امتیازی خصوصیات نے ان کے کلام کے رنگ کو پختہ اور ان کی غزل کو تحسین کے قابل بنا دیا ہے۔ مظفر حنفی کی غزل کا رشتہ کلاسیکی قدروں سے مربوط ہوتے ہوئے بھی جدید غزل سے استوار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                زماں قاسمی

   کولکاتا

 

 

مظفر حنفی : ’’ یا اخی‘‘ کے آئینے میں

 

شطرنج کا کھیل مجھے بیحد پسند ہے۔ اس کھیل کے تعلق سے کھلاڑی بھی اچھے لگتے ہیں۔ ایک دن ’’ یا اخی‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک شعر پر نظر پڑی تو دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔  ؎

کٹ جائیں یہ پیدل تونکل آئیں گی راہیں

فرزیں کے لیے ورنہ کوئی گھر نہیں کھلتا

مظفر حنفی کھیل کی باریکیوں سے واقف ہوں یا نہ ہوں، اُن کے نوکِ قلم سے شطرنج کا ایک بنیادی نکتہ ضرور سامنے آیا ہے اور اس کھیل سے اُن کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس شعر کو پڑھنے کے بعد مظفر صاحب کی غزلوں سے میری دلچسپی بڑھ گئی۔ ’’ یا اخی‘‘ کا مطالعہ شروع ہوا۔ شطرنج سے متعلق دیگر اشعار تو نہیں ملے لیکن شمشیر آبدار، تیغ وسناں کی دھار رکھنے والے درجنوں اشعار، تلوار بن کر نگاہوں کے سامنے آ گئے۔

زندگی دیکھ ترے ناز اٹھانے والے

سر پہ آ جائے تو تلوار اٹھا لیتے ہیں

قلم کو تیز مظفرؔ، غزل کو تیز کرو

نہ باز آئے گی دنیا تمھیں ستانے سے

آپ نیزے بلند فرما لیں

سر مظفر کو خم نہیں رکھنا

شعروں کے یہ تیر مظفرؔ، چڑھی کمانیں غزلوں کی

تم جس لہجے میں کہتے ہو، شمشیر اور سناں کیا ہے

لوح و قرطاس اک طرف ہیں، تخت و تختہ اِک طرف

اور میرے ہاتھ میں بھی تیغ ہے، خامہ نہیں

ہم سجدے میں جھُک جاتے ہیں چاہے گردن پر خنجر ہو

اپنا سر اونچا رکھنے کو خود ہی نیزہ بن جاتے ہیں

کیا دیر ہے مجھ کو بھی اجازت ہو رجز کی

حرف آنے لگا نام و نسب تک مرے مولا

زندگی کے ناز اٹھانا، ضرورت پڑنے پر ہاتھوں میں تلوار اٹھا لینا، نیزے کے سامنے سر کو خم نہ کرنا، غزلوں کی کمان چڑھا کر شعروں کے تیر چلانا، شمشیر و سناں کی بات کرنا، نام و نسب پر حرف آنے پر رجز کی اجازت طلب کرنا، سر کو اونچا رکھنے کی خاطر خود نیزہ بن جانا، ہاتھوں میں قلم کی جگہ تیغ سنبھال لینا وغیرہ۔ ایسے مضامین کو ایک طرزِ نو کے ساتھ بندشِ شعر میں لا کر مظفر صاحب فکر کے نئے دروازے کھول دیتے ہیں۔

مظفر حنفی کی غزل میں سوچ کے کئی دھارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی قوتِ فکر کسی ایک مرکز پر قیام نہیں کرتی بلکہ گھومتی رہتی ہے اور نِت نئے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ سیاسی اتھل پتھل، جبر و تشدد ہو یا معاشی استحصال کی بات ہو، ان کے اشعار میں ایک خاص تیور کا آہنگ ملتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مظفر حنفی کے طنزیہ اسلوب پر ان کے استادمحترم شادؔ عارفی کا رنگ چوکھا اترا ہے۔ مظفر حنفی کے نزدیک شادؔ عارفی کی حیثیت ایک مینارۂ نور کی سی ہے جس کی روشنی میں وہ اپنا تخلیقی سفر طے کرتے ہیں۔ وہی تیور، وہی تیکھا انداز جو شاد عارفی کا حصہ تھا، دور سے ان کی غزلوں کی پہچان کرا دیتا ہے۔ طنزیہ پیرائے میں اپنے خیال کو ظاہر کرنا ایک مشکل فن ہے لیکن زبان و بیان پر عبور، فن عروض اور اس کے رموز و نکات کی گہری آگہی، غزل کی روایات کاسچا شعور، مظفر حنفی کی تحریروں کو قابلِ رشک بنا دیتا ہے۔

بلا سے بجھے یا بڑھے تشنگی

سمندر کو آداب کرتے رہو

ہوا ہوا ہے، توازن بگاڑ سکتی ہے

اگرچہ ناؤ میں تم ہو بھنور میں ہم لیکن

طوفاں سے کیا باتیں کی ہیں پیارے مانجھی بتلانا

دریا کو گروی رکھا ہے یا ساحل کو بیچ دیا ہے

سچ بولنے لگے ہیں کئی لوگ شہر میں

دیواریں اُٹھ رہی ہیں نئے قید خانے کی

ذرا سی روشنی مانگی تھی رات کاٹنے کو

چراغ اتنے جلے گھر ہی پھونک ڈالا مرا

’’یا اخی ‘‘ ڈاکٹر مظفر حنفی کادسواں شعری مجموعہ ہے جس کا پیش لفظ آل احمد سرور نے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’ مظفر حنفی کے شعر پڑھیے تو شادؔ عارفی کا خیال ضرور آتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ شادؔ کے یہاں طنز کی کاٹ زیادہ تھی۔‘‘

اس سے قبل ان کی درج ذیل کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی تھیں :

۱۹۶۷ء         پانی کی زبان

۱۹۶۸ء         تیکھی غزلیں

۱۹۶۹ء          عکس ریز

۱۹۷۳ء         صریر نامہ

۱۹۷۴ء         دیپک راگ

۱۹۷۹          یم بہ یم

۱۹۸۰ء         طلسمِ حرف

۱۹۸۱ء          کھل جا سم سم

۱۹۸۶ء         پردہ سخن کا

گویا ہر دو برس کے بعد ایک کتاب منصۂ شہود پر آئی ہے۔ یہ کم بڑی بات نہیں ہے۔ ’یا اخی ‘ کی غزلوں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مظفر حنفی کے اشعار میں توانائی کے ساتھ ساتھ کاٹ دار لہجے کی گونج ہے۔ یہی گونج انھیں دوسرے شعراء سے ممتاز بھی کرتی ہے اور انھیں منفرد بھی بناتی ہے۔ مظفر صاحب شعر نہیں کہتے ہیں، پردۂ سخن میں تیر اندازی اور تیغ زنی کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب اتنا واضح اور ادق بیانی سے دور ہوتا ہے کہ قاری کوسمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خاص بات یہ ہے کہ صاف اور واضح اشعار میں بھی معنی کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے۔ جیسے جیسے پرتیں کھلتی ہیں، نئے نئے معانی اچھل اچھل کر سامنے آتے رہتے ہیں۔ ادب کا مجھ جیسا ادنیٰ قاری بھی ان کی غزلوں کو پڑھ کر ایک عجیب سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

فریب کیجیے لیکن ذرا قرینے سے

حضور سوئی سے نیزے نہیں بدل جاتے

خون کے داغ آستینوں پر

اور تمغے انھیں کے سینوں پر

ہونے لگا ہے ماں کی دعا میں غلط اثر

بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے، بیٹا نکل گیا

ساری بستی پہ نہ لے آئے وہ آفت کوئی

کون ہے، کوہِ ندا روز بلاتا ہے جسے

کہاں ہے تیرا قبیلہ کہ راہ پانی دے

عصا نہیں ہے تو جادو گروں سے جنگ نہ کر

میرے مذہب نے سکھایا ہے مظفرؔ مجھ کو

جنگ کی مجھ سے شروعات نہیں ہونے کی

مظفر حنفی جدید اُردو غزل کا ایک معتبر نام ہے۔ شادؔ عارفی کی شخصیت اور فن پر تحقیقی مقالہ لکھ کر جہاں انھوں نے شاگردی کا حق ادا کیا ہے، وہیں اپنی تنقیدی بصیرت کا ثبوت بھی دیا ہے۔ شاعر کی ایک تیسری آنکھ بھی ہوتی ہے جو مخصوص بصارت رکھتی ہے۔ دنیا میں ہونے والے واقعات و حادثات کو عوامی سطح سے ہٹ کر دیکھتی ہے، سچ بولنے پر زنداں کی دیواروں کا اٹھنا، ذراسی روشنی مانگنے پر مکانوں کا جل جانا، ہوا کا توازن بگاڑ دینا، سمندر کو آداب کرتے رہنا وغیرہ جیسے خیالات مظفر حنفی کے زورِ قلم کا خاصہ ہیں۔

قدرت فنکار کو کچھ خاص عطیہ ودیعت کرتی ہے۔ شاعر کا موزوں طبع ہونا عطیۂ خداوندی کے زمرے میں آتا ہے جو ہر انسان کو میسر نہیں ہوتا۔ مظفر حنفی کے اشعار ایک طرف اگر ان کی تیکھی زبان اور کاٹ دار لہجے کی ترجمانی کرتے ہیں ( جس کا نمونہ گزشتہ صفحات پر دیکھ چکے ہیں ) تو دوسری طرف ان کی تخلیقی بصیرت کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ہم اپنے آبلوں سے راستے گلنار کرتے ہیں

ہمارے پاؤں پر قوسِ قزح بیکار گِرتی ہے

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے

ڈوب جاتا ہے یہاں تیرنا آتا ہے جسے

وہ کبھی ناؤ تھی دریا لیے جاتا ہے جسے

یا اخی یا اخی پکارتا ہوں میں

ہے کوئی تیر مارنے والا

نعرہ زن ہاتھ میں تلوار عدو ہے کہ اخی

دیکھنا برسرِ پیکار عدو ہے کہ اخی

حاجت مرے بدن کو ترے خون کی نہیں

اے دوست لے رہا تھا ترا امتحان میں

رومان و محبت بھی ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ مفلس و غریب ہو یا امیر و رئیس، محبت ہر جگہ اپنا نشیمن بنا لیتی ہے۔ ہر دل میں اس کے تار بجتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں اظہار ہوتا ہے کہیں نہیں۔ شاعر جو حساس ذہن کا مالک ہوتا ہے، اس سے مبرّا نہیں۔ آئیے مظفر حنفی کے شعروں میں رومانی آہنگ تلاش کریں۔

وہ ظالم دیکھ لیتا ہے تو دل پر تیر چلتے ہیں

پلک جھپکائے تو تلوار پر تلوار گرتی ہے

کھل گئے پھول لفافے پہ ترے نام کے گِرد

رقص کرتا ہے قلم زیر و زبر میں کیسے

وسعتیں مجھ کو خلاؤں سے صدا دیتی ہیں

یہ نشیمن کی گرہ پڑ گئی پر میں کیسے

وہ مسکرا رہے تھے کہ تصویر کھینچ لی

کل رات ہم نے وقت کی زنجیر کھینچ لی

نہایت عام ہو کر بھی وہ خاص الخاص ہے دل کو

جسے ہم چاہتے ہیں اس کو شہزادی نہیں کہتے

آج مظفر اپنا مقطع اس کی نذر کیے دیتے ہیں

جس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کیا کیا شعر عطا فرمایا

یہاں بھی مظفر صاحب دوسروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ میدان کوئی بھی ہو، غزل کی روایات کی پاس داری کرتے ہوئے انھوں نے اپنی راہ سب سے ہٹ کر نکالی ہے اور میں سمجھتا ہوں یہی ان کا سب سے بڑا کمال ہے۔

غزل کی روایات اپنی جگہ

ہماری کھری بات اپنی جگہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

                حفیظ محمود بلند شہری

آگرہ

 

 

تذکرہ ایک بڑے فنکار کا

 

جناب پروفیسر ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب شعر و ادب کی دنیا میں سفِ اول میں نظر آتے ہیں۔ وہ پُر اعتماد سلجھے ہوئے فنکار، نامور نقّاد، ممتاز افسانہ نگار ہیں گویا انشا و ادب کے میدان کے شہسوار ہیں ان کی رنگا رنگ شخصیت کی ترجمانی کے لیے علاّمہ اقبالؔ کا یہ شعر موزوں نظر آتا ہے:

ہیں ہزاروں اس کے پہلو، رنگ ہر پہلو کا اور

سینے میں ہیرا کوئی ترشا ہوا رکھتا ہوں میں

ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب دریائے شعر و ادب کے رواجی اور روایتی بہاؤ سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ نہیں بہتے بلکہ وہ صلاحیت خداداد اور اعتماد کے بل بوتے پر یہ فیصلہ فرماتے ہیں کہ کہاں اور کس قدر بہاؤ کی جانب چلنا ہے اور کب اور کہاں مخالف سمت کو چلنا ہے۔ مظفر حنفی صاحب اپنے تیکھے اور منفرد لب و لہجے کی وجہ سے فنکاروں کی بھیڑ میں بھی نمایاں طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ موصوف اپنی انفرادیت اور تیکھے پن سے بخوبی واقف ہیں تبھی تو ان کے بہت سے اشعار ان کے تیکھے پن اور انفرادیت کی منھ بولتی دلیل ہیں۔ مثلاً:

کئی بقراط شاعر پُر تکلف شعر کہتے ہیں

مظفرؔ کو غزل میں دعوتِ شیراز کرنے دے

ٹھپّا لگا ہوا ہے مظفرؔ کے نام کا

اس کا کوئی بھی شعر کہیں سے اٹھا کے دیکھ

مظفر نئی راہ پر گامزن ہے

بھروسہ نہیں ہے اسے رہبروں پر

مظفر بغاوت نہ کرتے اگر

تو ان کو زمانہ نہیں مانتا

ایسے میں بھی قائم رکھی لہجے سے پہچان

غزلوں کے نقّال بہت ہیں اور مظفر ایک

ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب اپنے علم و مطالعہ اور فکر و فن کی روشنی میں بڑے اعتماد سے اشعار کہتے ہیں ان کا لہجہ منفرد ہونے میں ان کی خود اعتمادی کو بڑا دخل ہے۔ جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ دو ٹوک انداز میں مصلحت کی بندشوں سے آزاد و بے خوف ہو کر کہتے ہیں انھیں نہ کسی سے ڈر اور نہ یہ لالچ کہ ان کے کلام پر نقد و تبصرہ کرنے والے ان کی تعریف کے پل باندھیں بلکہ منھ دیکھ کر تعریف یا تنقیص کرنے والے نقّادوں سے مظفر حنفی صاحب بیزار نظر آتے ہیں :

کئی نقاّد عظمت بانٹتے ہیں

مظفّر سر بسر انکار ہو جا

خود کرتے ہیں تخلیق سے معیار مقرر

تنقید کے جھانسے میں مظفر نہیں آتے

لاکھ ناقد ہوں مظفر کے مخالف لیکن

شہ سواروں کے لیے بھیڑ بھی چھٹ جاتی ہے

ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب غزل میں انتہائی منفرد اور خاص مقام رکھتے ہیں وہ اکثر اپنے تیکھے اور نمایاں لب و لہجے میں روایتی اور رواجی بندھنوں سے آزاد ہو کر غزل کہتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ موصوف نے روایتی انداز کو بالکل ہی ترک کر دیا ہو بلکہ ان کے کلام میں کہیں کہیں ایسا زوردار روایتی تغزل پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ جس کی چاشنی سامع اور قاری کو اپنی پوری پوری مٹھاس سے نوازتی ہے:

ایک مدت سے جن پہ مرتا ہوں

میرا جینا انھیں پسند نہیں

اس آئِنے کے جلال و جمال دو رخ ہیں

میں دھوپ چھاؤں سے اس کی مثال دیتا ہوں

قصہ یہ ہے اک شیشہ تھا اک پتھر تھا پھر کیا تھا

اس نے مجھ کو میں اس کو چھو کر دیکھا پھر کیا تھا

چلتی تھی اس کی یاد مظفر ہمارے ساتھ

اک چاندنی تھی رہگزروں میں نہیں رہی

نگہ کے ہونٹ تجھے کس مقام سے چومیں

کہ تو تو سر سے قدم تک شراب جیسا ہے

مہکی ہوئی ہے زلف کسی دلنواز کی

آؤ کہ ایک رات یہاں بھی کریں قیام

ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب کے حصے میں یہ بڑی سعادت آئی کہ اپنے استادِ گرامی حضرتِ شادؔ عارفی صاحب سے انھیں والہانہ محبت رہی۔ ان کی خدمت انجام دینے کا جذبہ اور ان کا انتہائی احترام مظفر حنفی صاحب کی فطرت میں رچا بسا تھا اور ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مظفر حنفی صاحب نے استاد گرامی کی ایسی خدمت کی جس کو مثالی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے ادبی سرمائے کی بے حد قدر کی اور دنیا کو ان کے ادبی مقام سے روشناس کرایا۔ مظفر حنفی صاحب کا یہ ایسا کارنامہ ہے جو بڑے لائق اور سعادت مند شاگردوں کو نصیب ہوتا ہے اس کے لیے ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب لائقِ مبارکباد ہیں۔

عموماً ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب اپنے کلام میں صاف صاف اور سچی سچی باتیں کہنے کے عادی ہیں لیکن ان کے بعض اشعار میں مزاج سے کچھ انحراف بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً ایک شعر میں فرماتے ہیں :

ترے کرم سے بڑا تھا کچھ اعتقاد میرا

اسی لیے مجھ کو فکرِ صوم و صلوٰۃ کم تھی

سچائی یہ ہے کہ اللہ کے کرم پر اعتقاد صوم و صلوٰۃ کی فکر کو کم نہیں کرتا دلیل کے طور پر انتہائی اعتقاد رکھنے والی انبیاء، اولیاء، صلحاء کی شخصیتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ صوم و صلوٰۃسے بے فکری، تساہلی، بے رغبتی اور دوسرے کاموں کو صوم و صلوٰۃ پر مقدم رکھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ غالبؔ نے اس سلسلے میں بڑی سچّی بات کہی ہے:

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

مضمون کے آخری حصے میں طبیعت چاہتی ہے کہ ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب کے کلام میں سے مختلف رنگوں میں اور مختلف زاویوں سے کہے گئے کچھ اشعار تحریر کروں تاکہ قارئین موصوف کے مزاج، قابلیت و صلاحیت اور فن سے لطف اندوز ہوں اور آشنا بھی:

مظفر آج کے شداد ہوں کہ ناقد ہوں

سبھی کے دل میں غزل کی کٹاریاں میری

مطمئن ہوں کہ کوئی جاگ رہا ہے اوپر

گھُپ اندھیرے میں ستاروں کی ضیا کافی ہے

ہم اپنا اسلوب مظفر دانستہ رکھتے ہیں یوں

مشکل ہو لیکن سب جانیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں یوں

ذرا سا زاویوں میں فرق ہو تو کچھ نہیں ورنہ

یہی دو آئِنے ترتیب پا کر لاکھ آئینے

جو شخص جس جگہ بھی ہے ٹوٹا ہوا سا ہے

تہذیب آئی ہے تو قبیلے نہیں رہے

پیلی فصلیں کاٹ رہا ہوں کالے تلخ عقیدوں کی

جرم بزرگوں نے فرمایا میرے سر بہتان لگا

کنکری سے جھیل میں اٹھتا ہوا موجوں کا جال

جیسے اک مجبور کے دل میں ہزاروں ولولے

پر زور احتجاج کا موقع یہی تو ہے

اب ہر معاملے میں مروّت روا نہیں

بڑھو کہ دشتِ طلب سے غبار اٹھتا ہے

سوالِ جاں سے زیادہ سوال کیا ہو گا

مگر توڑ سچ کا کسی میں نہیں

ہزاروں وسیلے ہیں باطل کے پاس

میں یقیناً روزنِ زنداں کی نگرانی میں ہوں

ورنہ کیوں ہے اس اندھیرے میں کرن میری طرف

فربہ کرتی ہے ہمیں یہ دھرتی

اور اِک روز نِگل جاتی ہے

ماں کے زیور چوری کر کے بھاگ رہا تھا وہ کمبخت

ماں چیخی، آہستہ بیٹا، چوٹ ہے تیرے گھٹنے میں

ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب مختلف اصناف کی غالباً ایک سو سے زائد کتب کے مصنف ہیں اور اردو ادب میں ایسے مقام پر فائز ہیں کہ دُنیا بھر میں عزّت و احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ان کے قدر شناسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ انشاء اللہ

٭٭٭

 

 

 

                نذیر فتح پوری

     پونے

 

غزل، آئینہ اور چہرہ

(مظفر حنفی کی غزل کے حوالے سے)

 

غزل کو اردو ادب کی آبرو کہا جاتا ہے اور یہ ناقابل تردید سچائی بھی ہے کہ غزل اردو ادب کی آبرو ہی نہیں بلکہ اردو ادب کے سر پر ایک ایسا تاج ہے جس کے روشن ہیرے جواہرات سے تخلیقی ادب کی پیشانی جگمگ کر رہی ہے۔ ادب کی محفلوں میں اور سخن کی انجمن میں جتنی روشنی غزل کے وجود سے ہے کسی اور صنفِ سخن سے نہیں۔ غزل کی تعریف اور توصیف میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لکھا بھی جا رہا ہے اور آنے والے زمانے میں بھی لکھا جائے گا۔

روایتی غزل، ترقی پسند غزل، نئی غزل، جدید غزل، ما بعد جدید غزل، غزل کے ناقدین نے کن کن صورتوں میں غزل کا طواف کیا ہے  یہ ایک طویل اور بحث طلب گفتگو ہے، نئی غزل نے کب نیا چولہ بدلا، اس کا نیا روپ کب نکھرا، کب اس کے نئے سورج کی کرنیں بکھریں، اس تعلق سے جدا جدا نظریات موجود ہیں۔ میرے خیال میں جب مظہر جانِ جاناں نے کہا تھا:

خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو

یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے

تو غزل نے نئے احساس کے رستے پر پہلا قدم رکھ دیا تھا۔ اگر اسے سچ مان لیا جاتا ہے تو نئی غزل کی نئی تاریخ از سرٍ نو مرتب کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ مجھے اس بات کا خوف نہیں لیکن خیال ضرور ہے کہ چھوٹا منھ رکھنے والوں کو بڑی باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔ تاریخ بہر حال تاریخ ہوتی ہے۔ جب اسے تحقیق کی اُنگلی کے سہارے چلایا جاتا ہے تو اس میں انکشافات کا ہونا ناگزیر ہے۔

مظفر حنفی کو ہمارے عہد کی نئی غزل کے نمائندہ شاعر کے طور پر تقریباً تمام ہی سکّہ بند ناقدین نے حرفِ تحسین سے نوازا ہے۔ کیوں کہ مظفر حنفی کی غزل کے تیور انوکھے اور نرالے ہیں۔ وہ روش عام سے ہٹ کر قدم اٹھاتے ہیں اور اپنی راہ خود بناتے ہیں۔ ایک شعر میں وقت کے لیے ان کے تیور دیکھیے:

ہاتھ آ گیا کبھی تو دکھاؤں گا وقت کو

بھاگا تھا میرے ساتھ جو لمحات چھوڑ کر

لیکن یہاں آگے جو گفتگو ہو گی وہ مظفر حنفی کی غزل اور آئینے کے حوالے سے ہو گی۔

آئینہ اردو غزل کا ایک ایسا استعارہ ہے جس نے غزل کو بہت ہی با معنی اور حقیقت کُشا اشعار دیے ہیں۔ غالبؔ نے کہہ دیا تھا کہ:

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

تو غزل کے شہر میں آئینے کی شمولیت کے دروازے وا کر دیے تھے۔ بعد کے شعرا میں مظفر حنفی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر غزل کے آئینے میں بے حد خوبصورت چہرے آویزاں کیے ہیں۔

آئینہ انسان کے اچھے بُرے کردار کا عکس نمایاں کرنے سے خوف نہیں کھاتا۔ دنیا کا پہلا قاتل اور مقتول آج بھی ہر آدمی میں زندہ ہے۔ یہ اپنے اپنے ظرف اور قوتِ ضبط کی بات ہے کہ ہم قاتل کے روپ میں جینا چاہتے ہیں یا مقتول کے۔ مظفر حنفی نے آدمی کی اس جبلت کی بہت ہی سچائی کے ساتھ عکاسی کی ہے۔

آئینے میں بھی روپ بدلتا ہے میرا عکس

ہابیل کی طرح کبھی قابیل کی طرح

مظفر حنفی نے انوکھی سوچ اور منفرد فکر کو بروئے کار لا کر آئینے کو اس طرح سوچا ہے جس طرح شاید ہی کوئی اور سوچتاہو گا۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ کریں۔

کھونٹی بتا رہی ہے، آئینہ بولتا ہے

تصویر تیری مجھ سے چہرہ بدل رہی تھی

اس شعر کی تفہیم کے لیے ایک منظر ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے دیوار پر کھونٹی لگائیے۔ پھر اُس میں ایک آئینہ لٹکائیے اور اس کے بعد تبدیل ہونے والے چہروں کی صورتِ حال ملاحظہ کیجیے۔ تب شعر کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔

احساسات کی دنیا بہت طلسماتی ہے۔ اس دنیا میں جو رونما ہوتا ہے وہ کسی اور دنیا میں دکھائی نہیں دیتا۔ آئینہ بھی ایک طلسمِ حیرت ہے۔ لیکن اس کا طلسم یہ ہے کہ یہ اسی عکس کو درشاتا ہے جو اس کے رو برو ہوتا ہے۔ آئینے پر کسی کا جادو نہیں چلتا۔ مظفر حنفی ہمیشہ آئینے سے دو دو ہاتھ کرتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ آئینہ کبھی کبھی ان سے شرارت کر بیٹھتا ہے۔ وہ حال کے آئینے میں اپنے موجود کاعکس دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن آئینہ انھیں ماضی کا وہ عکس دکھاتا ہے جب آتش جوان تھا۔

مری نگاہ مرے عکس کو ترستی ہے

ہر آئینے میں وہی نو جوان بیٹھ گیا

اسی صورت میں وہ آئینے سے مطالبہ کر بیٹھتے ہیں :

آئِنہ خانے میں مرا عکس مجھے واپس دے

ورنہ میں ہاتھ بڑھا سکتا ہوں پتھر کی طرف

غالبؔ کی طرح مظفر حنفی آئینے سے خوف نہیں کھاتے، بلکہ اسے ڈراتے ہیں، دھمکاتے ہیں وہ پتھر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ آئینے کو خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ لیکن اچانک انھیں خیال گزرتا ہے کہ آدمی کی زندگی خود’’ کانچ کا برتن‘‘ ہے جس کے بطن سے ہر لمحہ ہر پل چھَن چھَن کی آواز آتی رہتی ہے لیکن یہ آواز ہر کس و ناکس کی سماعت کومحسوس نہیں ہوتی اس کے لیے مظفر حنفی جیسی حسیت میں لپٹی ہوئی سماعت کی ضرورت ہے تبھی یہ شعر صفحہ قرطاس پر نمودار ہوتا ہے:

خود ہمارا جسم چھن چھن بولتا ہے

پھر بھی آئینوں پہ پتھر مارتے ہیں

آئینہ بہر حال آئینہ ہے، وہ ہزار نگار خانے سجاتا ہے۔ ہزار ہا چہروں کو سنوارتا ہے۔ نقوش نمایاں کرتا ہے۔ خد و خال کی عکاسی کرتا ہے۔ ہرن کی آنکھ میں لکھی کاجل کی ڈوریاں خود ہرن کو دکھا کر حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن مظفر حنفی تو بہر حال مظفر حنفی ہیں وہ نہ آئینے سے اتفاق کرتے ہیں نہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ وہ آئینے کو نظر انداز کرتے ہوئے آئینہ گروں کی تیشہ زنی پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں :

ہر ایک شکل ادھوری دکھائی پڑتی ہے

شعورِ تیشہ زنی آئینہ گروں میں نہ تھا

تتلی کی طرح آئینے کا استعارہ بھی مجھے محبوب و مرغوب ہے۔ اپنی دسترس کے مطابق میں نے بھی آئینہ خانوں کی سیر کرتے وقت ایک شعر اس طرح کہا تھا:

یہ کون آئینے میں آج چھُپ کے بیٹھا ہے

کہیں یہ میں تو نہیں جس کو ڈھونڈتے ہیں لوگ

آج مضمون لکھنے کے بہانے مظفر حنفی کے آئینہ خانے کا عکس در عکس مطالعہ کیا تو مجھے اپنے اس شعر کے حوالے سے اپنے تذبذب بھرے سوال کا جواب مل گیا۔

مظفر حنفی کہتے ہیں :

آئینہ خانے میں محصور ہوا ہے جو شخص

کوئی تنہائی کا مارا ہوا انسان کاہو گا

جب بستی میں رہتے ہوئے کسی کو تنہائی کا احساس ہوتا ہے تو وہ آئینہ خانے میں قید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنا ہی عکس دیکھ دیکھ کر اپنی تنہائی کے احساس کو مصلوب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کیفیت اکثر مجھ پر بھی گزرتی ہے۔ جب دوستوں کی منافقت اور ہم جلیسوں کی رقابت حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو میں ’’بزمِ احباب‘‘ سے روپوش ہو کر آئینے میں مقید ہو جاتا ہوں اور اس طرح اپنے آپ سے مسلسل ملاقات کر کے اپنے اعتماد کی ’’ بیٹری چارج‘‘ کر کے پھر بزمِ احباب کی تاریکیوں کو منور کر نے کے لیے جا دھمکتا ہوں۔

میں نے یہاں مظفر حنفی کی غزل کو آئینے کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور ان کے تخلیقی نگار خانے سے بہت ہی کم اشعار اپنے لیے چُنے ہیں، ابھی اس نگار خانے میں آئینوں پر بہار ہے۔ مظفر حنفی کی غزل کا یہ ایک ایسا پہلو ہے جس پر مکمل کتاب نہ سہی مختصر کتابچہ ضرور سپرِدِقلم کیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے کے چند اشعار درج کر کے اپنی بات ختم کرتا ہوں :

ترے سلوک کے آئینہ دار ہم بھی ہیں

ہمیں بھی دیکھ کہ سینہ فگار ہم بھی ہیں

کہا جو ہم نے مظفر کہ دل ہے آئینہ

تو اس نے آئینہ بھی مسکرا کے توڑ دیا

کوئی رنجیدہ نہیں عکس گنوا کر اپنا

آئینہ خانوں سے یہ راز بھی پتھر کہتے

ہمزاد نِت آئینہ دکھاتا ہے کہ میں ہوں

پھر کوئی لہو میں اتر آتا ہے کہ میں ہوں

ساری جھیلیں دھول اڑانے والوں کی

اندھا ہر آئینہ مولا پانی دے

٭٭٭

 

’’میرے نزدیک انکار، اقرار سے زیادہ جرأت کا کام ہے۔ باغیانہ اور منحرفانہ رویے کی اپنی اہمیت ہے۔ فرد، سماج اور نظامِ حکومت سے تعمیری انحراف و احتجاج، تاریخ ساز تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس عہد کی پوری زندگی میں یہی احتجاجی لہر کارفرما ہے اور مظفر کی شاعری کا بڑا حصہ اسی احساس کی صدائے باز گشت ہے۔ مظفر نے زندگی کی نا ہمواریوں کو اندر سے جھانک کر دیکھا ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ کبھی طنز کا وار کیا ہے کبھی فکر و تدبر سے جائزہ لیا ہے اور کبھی درد مندانہ آہ کی ہے۔ ان کی غزلوں کا بڑا حصہ طنز سے عبارت ہے اور دنیائے ادب میں وہ انھیں تیوروں سے پہچانے جاتے ہیں۔ غزل میں طنز کی روایت نئی نہیں ہے لیکن ابتدا میں اس کا دائرہ حکایت با یار گفتن تک محدود تھا۔ غزل میں جب سیاسی اور سماجی موضوعات نے اپنا اعتبار قائم کر لیا تو طنز کا نشانہ بھی بدل گیا۔ مظفر کی غزل اسی سلسلہ کی ارتقائی کڑی ہے۔ ‘‘

اختر سعید خاں

 

 

 

 

                ضیا کرناٹکی

    بنگلور

 

میرے مزاج کے فنکار

 

میں بچپن سے بہت حساس، خود دار اور ہر نا انصافی کے خلاف لڑنے کا عادی ہوں۔ حالات نے مجھے ایسا بنا دیا، صرف چھ سال کی عمر میں ماں کا سایہ اُٹھ گیا۔ باپ کے مر جانے کے بعد اس کے بچوں کو یتیم کہا جاتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک ایسا سوچنا غلط ہے۔ در اصل ماں کے انتقال کے کے بعد اس کے بچوں کو یتیم کہنا چاہیے۔

باپ، بڑے بھائی، بڑی بہن، بہنوئی اور دیگر قریبی رشتہ دار اور مال و دولت کے باوجود ہم تینوں پر جو قیامت ٹوٹ پڑی، اس کو یاد کر کے اب بھی جگر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرتے کرتے جو زندگی بیتی وہ شاعری اور افسانوں کے ذریعہ عیاں ہونے لگی اور دیگر افسانہ نگاروں اور شاعروں کی تخلیقات نے جینے کا حوصلہ بخشا۔ اور اظہار کے لیے قلم کا سہارا ملا اور مظفرؔ حنفی کا یہ شعر میری تخلیقات کا تعارف بن گیا۔

چونکہ ہر گام پہ دیکھی ہے قیامت میں نے

میری تحریر میں گرمی بھی قیامت کی ہے

نوجوانی بیتی، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ہر جگہ مکاری، جھوٹ، فریب کا بازار گرم تھا۔ افسانے اور غزلوں کو پڑھنے والوں کا طبقہ محدود تھا۔ اس لیے تحریروں کے ساتھ تقریروں کا سہارا بھی لینا پڑا۔ چاہے وہ ادبی جلسے ہوں، مذہبی جلسے ہوں، یا سیاسی جلسے ہوں۔ ہر جگہ سیاسی داؤ پیچ کے شکنجے تھے۔ ان جلسوں میں تقاریر کا سلسلہ چل پڑا تو یہاں بھی مظفر حنفی کے اشعار نے سہارا دیا:

ہماری گمرہی سے فائدہ کیا

یہاں بھی راہبر بیٹھے ہیں یارو

اٹھیں گے حشر بن کر، ہم اُٹھے تو

غنیمت ہے اگر بیٹھے ہیں یارو

زندگی آگے بڑھتی رہی، میری تحریر و تقریر کے چرچے ہر طرف ہونے لگے۔ میں نے قلم تیز کرنے کی ٹھان لی اور مظفرؔ حنفی کے ان اشعار سے قلم تیز کرنے لگا:

خود اپنی ہی پرچھائیں سے میں خوفزدہ ہوں

یاروں کی نوازش ہے، عنایت ہے، کرم ہے

شہکار کی تخلیق پہ اصرار بہت تھا

تکمیل پہ دیکھا تو مرا ہاتھ قلم ہے

میری بے باکی، نا انصافی کے خلاف لڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا جینا حرام کر دیا گیا، قدم قدم پر کانٹے بچھائے جانے لگے۔ لوگ کہنے لگے، ارے یہ کل کا چھوکرا جس کے پاس نہ دولت ہے اور نہ غنڈوں پہ راج ہے اور نہ ہی اس کا کوئی کریمنل ریکارڈ ہے یہ ملّت کے ٹھیکے داروں پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔ سر عام ان پر طنز کر رہا ہے۔ چلو اسے سبق سکھاتے ہیں۔ میں نے پھر مظفر حنفی کے اشعار کا سہارا لیا اور سر پر کفن باندھ کر چل پڑا۔ یہاں اپنوں سے جنگ لڑنا پڑی تھی۔ اس لیے ان کے خلاف میں نے چیخ چیخ کر کہا:

جا رہے ہیں خون میں ڈوبے ہوئے

رنگ و بو کی خوشنما وادی سے ہم

قاتلوں سے بچ کے بھی مارے گئے

اپنے ہمدردوں کی جلّادی سے ہم

میں لہو لہان ہو کر راستے سے نکل گیا۔ مجھے کامیابی مل گئی، میں اس کامرانی سے بہت خوش ہوا اور مجھے سچ بولنے کی عادت پڑ گئی، ہر جگہ ہر جلسہ میں ببانگِ دہل مظفرؔ حنفی کا یہ شعر سناتا رہا:

شاعری کم تھی کہ یہ لت پڑ گئی

مجھ کو سچ کہنے کی عادت پڑ گئی

سچ کہنے کے علاوہ مظفرؔ حنفی  کے اشعار نے مجھے بہت زیادہ حسّاس بھی بنا دیا۔ اتنا حساس کہ جس کی وجہ سے مجھے نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ کیونکہ میں چھوٹی چھوٹی بے اعتدالیوں اور نا انصافیوں سے غضبناک ہو جاتا اور ظلم و ستم کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھاتا اور بڑی ہی سختی کے ساتھ میری آواز دبا دی جاتی اور میں آزردہ خاطر ہو کر مظفرؔ حنفی کا یہ شعر دہرانے پر مجبور ہو جاتا:

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ حساس پھولوں کو

ہوا کے سرد جھونکے خون کے آنسو رُلاتے ہیں

لیکن ضیا کرناٹکی کا مزاج، مظفر حنفی کے مزاج سے ملتا جلتا تھا اور ہے۔ اس نے ہمت جٹائی اور قانون کی ڈگری حاصل کر لی۔ اس سے پہلے کہ بے گناہوں اور معصوموں کی حمایت میں کھڑا ہو جاؤں حاسدوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور مظفر حنفی کے بقول مجھے مٹانے کی سازشیں ہونے لگیں :

ہم کسی گنتی کسی فہرست میں شامل نہیں

صاف گوئی آج کے آئین میں داخل نہیں

کیا کریں، دھبّے انھیں کی آستیں پر مل گئے

جن کی پیشانی پہ لکھا تھا کہ یہ قاتل نہیں

چند دنوں تک ان زخموں کے بھرنے کا انتظار کرتا رہا اور مظفرؔ حنفی کا یہ شعر پڑھ کر اپنے محاذ پر واپس آ گیا:

جب مرے ہاتھ میں ظالم کا گریباں ہو گا

اس کے چہرے سے مرا درد نمایاں ہو گا

دو ماہی رسالہ جاری کرنے کے لیے میں نے کمر کس لی اور اس میں خواجہ احمد عباس، اختر الایمان، علی سردار جعفری وغیرہ کے انٹرویوز شائع کیے۔ لگاتار اس کو تین سال تک جاری رکھا اور اس کو خوب سنوارا۔ مظفر حنفی کے ان دو شعروں کی طرح:

جیب نہیں رکھتا کُرتے میں

لاکھوں کی بخشش کرتا ہوں

اپنے تن کا ہوش نہیں ہے

گھر کی آرائش کرتا ہوں

وکالت کرنے کی تیاری کرنے لگا تو ادارت ہاتھ سے جاتی رہی۔ وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد میں نے مکار لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا۔ خود مسلم وکلاء شریعت کی دھجیاں اڑانے میں مصروف تھے۔ مصلحینِ قوم چیختے رہتے اور میں اپنی تقریروں میں مظفرؔ حنفی کا یہ شعر پوری طاقت سے سُنا کر عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا۔

ہزار مصلحینِ  قوم چیختے رہے مگر

سماج میں جو تھا وہ انحطاط برقرار ہے

اس سے پہلے گوکاک کمپنی کی شکل میں اردو زبان کو مٹانے کے لیے گہری سازش ہوئی اور اُردو والوں کی پیٹھ میں ایسا خنجر گھونپا کہ ہم سنبھل بھی نہ سکے اور مزے کی بات یہ کہ حکومت کے اس فرمان پر دستخط کرنے والے خود ہمارے اردو داں قائدین ہی تھے۔ اب میں اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدان میں اتر پڑا اور میں نے مظفر حنفی کے شعر سنا سنا کر قوم کو جگانے کی کوشش کی۔

پُر زور احتجاج کا موقع یہی تو ہے

اب ہر معاملے میں مروّت روا نہیں

سیاسی قائدین نے ہمیں رائے دی کہ مصلحتاً چپ ہو جائیں ورنہ ہم مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ لیکن میں نے انھیں دو ٹوک جواب دیا:

ایک تو آگ لگا دی ہے چمن میں اس نے

پھر یہ الزام کہ پھولوں نے بغاوت کی ہے

زندگی گزرتی رہی، کسی نہ کسی بہانے ریاست میں فرقہ پرست لوگ فسادات کی آگ اکثر بھڑکاتے رہے۔ ان فسادات میں مسلمان ہی لٹتے اور مسلمان نوجوان ہی سلاخوں کے پیچھے جانے پر مجبور ہوتے۔ اور اس وقت ان بے گناہ نوجوانوں کو رہا کروانے کے لیے کرناٹک مسلم اڈووکیٹس فورم کے ساتھیوں کو ساتھ لے کر جو دوڑ دھوپ کرنی پڑتی تھی، اس کی روداد تو اردو کے ہر اخبار میں آج بھی محفوظ ہے۔ ظالموں کے ظلم و ستم کی داستان کو میں مظفرؔ حنفی کے اس شعر میں بار بار سناتا رہتا ہوں :

صیّاد و باغباں کی کہانی نہ پوچھیے

یہ داستاں چھڑی توسمیٹی نہ جائے گی

اور ملت کو پریشان کرنے کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح آج تک جاری ہے۔

ہمارے معاشرے میں دھوم دھام سے شادیاں کرنے کا رواج سا ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں، میں نے ایک افسانہ ’’مہر تصدیق‘‘ لکھا تھا۔ شاید میرے افسانے نے ملت کے ذی حس افراد کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہو گا۔ اسی لیے اب ایسی شادیوں کے خلاف پُر زور احتجاج ہو رہا ہے۔ ایسی شادیوں کا انجام بھی بڑا بُرا ہوتا ہے۔ معاشرے میں شادی شدہ زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں۔ بیچ کے لوگ صلح کروانے کی بجائے آگ کو اور بھی ہوا دینے میں لگے ہیں۔ ایسے موقعوں پر میں بھیڑ مجلسوں میں مظفر حنفی کا یہ شعر سناتا رہتا ہوں :

تکرار جب اس سے ہے تو اے بیچ کے لوگو

لازم ہے کہ زحمت وہی فرمائے، تمھیں کیا؟

آج معاشرے کا جو حال ہے اور ہمارے قائدین، ہمارے رہنما جو کردار ادا کر رہے ہیں اس کے بارے میں لکھ لکھ کر میرا قلم گھس گیا ہے۔ لیکن میں مظفر حنفی کا یہ شعر تو ضمیر فروشوں کے منہ پر کہتا رہتا ہوں :

اگر جناب کو مجھ پر یقین ہو تو یہاں

قدم قدم پہ ملیں گے ضمیر کے غدّار

میں تو ایسے لوگوں کے خلاف لکھتا بھی ہوں اور تقریروں میں انھیں لتاڑتا بھی ہوں۔ وہ بھی مظفر حنفی کے حوالے سے:

ہونٹوں کو زخمی کرنا ہے

ٹُوٹا پھُوٹا جام لگا کر

اور پھر ظالم زمانہ نے مجھ پر ایسا ظلم ڈھایا کہ میں نے مظفر حنفی کا شعر پڑھتے ہوئے اپنا شعری مجموعہ زمانے کے ہاتھوں میں تھما دیا:

ظالم کے اس لحاظ و مروت کو کیا کہیں

تڑپا رہا ہے جان سے مارا نہیں ہمیں

ادب میں بھی اب سیاست ہو رہی ہے اور اب قد آور صحافیوں اور فنکاروں کے خلاف سازشیں بھی ہو رہی ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے میں مظفر حنفی کے یہ شعر پیش کرتا رہتا ہوں۔

جنابِ نا خدا ساحل کی جانب دیکھتے کیا ہیں

ڈبونے کا اشارہ مل چکا اربابِ ساحل سے

مظفرؔ آج کے ناقد بھی جانبدار ہوتے ہیں

ہمارا نام ان کے ذہن میں آئے گا مشکل سے

میں روز نامہ ’’ سالار‘‘ کے اتوار ایڈیشن میں تقریباً دس سال تک ’’قانونی مسائل‘‘ کے عنوان سے مضامین لکھتا رہا۔ جب میں نے یہ سلسلہ شروع کیا تو میرے ذہن میں مظفر حنفی کا یہ شعر گونجا:

چوٹیں کھا کر چپ رہ جانا سر تا سر نادانی ہے

میں ہر تیر انداز پہ چُن کر اِک مصرعہ چپکاتا ہوں

سو میں موضوع کے اعتبار سے اُن کے کسی شعر سے مضمون کا آغاز کرتا اور جہاں جہاں ضرورت پڑتی، ان کے شعر کا سہارا لے کر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا۔

کئی کالم نگاروں نے میری تقلید کی اور کامیاب کالم نگار بن گئے اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ان کالم نگاروں نے میری تقلید نہیں کی بلکہ مظفر حنفی کے مندرجہ بالا شعر کی تقلید کر کے کامیاب ہوئے ہیں اس دوران میں میرے ساتھ ساتھ مظفر حنفی کے اشعار بھی رواں دواں تھے جیسے:

دھول سر پر لے کے آئے گا زمیں کی گود میں

کیا بگولہ سر اُٹھا کر آسماں ہو جائے گا

انقلابِ وقت بھی رکھتا ہے شاہانہ مزاج

کیا پتہ کس وقت کس پر مہرباں ہو جائے گا

پھر میرے افسانوں کا مجموعہ منظرِ عام پر آیا جو مندرجہ بالا اشعار کی ترجمانی کرتا ہے جس کی ہندوستان بھر میں خوب پذیرائی ہوئی۔ اس کے بعد بھی حسب سابق مظفرؔ حنفی کا سایہ میرے ساتھ چلتا رہا مثلاً:

مری غزلیں نہ اتنی تلخ ہوتیں

زمانہ ہی اگر ایسا نہ ہوتا

اگر خوشحال ہوتا ہر طرف سے

مظفرؔ بھی ترا دیوانہ ہوتا

’’ قانونی مسائل‘‘ سے متعلق میرے تمام مضامین ’’ قانون کی رہگزر‘‘ بن کر ایک ضخیم کتاب کی شکل میں کرناٹک اردو اکادمی کے توسط سے منظر عام پر آ گئے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ جس عظیم فنکار کے اشعار کے سہارے میری شخصیت نکھری اُسی کے دستِ مبارک سے اس کتاب کی رونمائی ہو گئی ہے تاکہ مظفرؔ حنفی کے ان اشعار کی طرح میری یہ کوشش عوام کے کام آئے:

بلا سے گھر میں اجالا نہ ہو، نمائش کو

چراغ در پہ سرِ شام رکھ دیا جائے

رہِ غزل میں مظفرؔ کی کوششیں یہ ہیں

کہ اک چراغ بہر گام رکھ دیا جائے

اور مجھے یقین ہے کہ ’’ قانون کی رہگزر‘‘ پر چلنے والے راستے کے خار دار سنگریزوں کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے مظفرؔ حنفی کا یہ شعر گنگناتے ہوئے، منزل کی طرف چلتے ہی جائیں گے:

کانٹے بونے والے! سچ مچ تو بھی کتنا بھولا ہے

جیسے راہی رک جائیں گے تیرے کانٹے بونے سے

میں نے معاشرے کو سدھارنے کے لیے بہت کچھ نہیں کیا بلکہ مظفرؔ حنفی کے شعر کے حوالے سے بس اتنا ہی کیا ہے:

گھور کر میں نے اسے دیکھ لیا، کافی ہے

ایک حساس کو اتنی ہی سزا کافی ہے

اور آپ سب کو مظفر حنفی کے ان اشعار کے حوالے سے یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ:

اگر سکون سے جینے کی بات کرتے ہو

تو دشمنوں کو نہیں، دوستوں کو پہچانو

جن کے ہاتھوں میں جان ہوتی ہے

وہ نہیں کوستے نصیبوں کو

کیا اضافہ کیا مظفر نے

سوچنا چاہئے ادیبوں کو

اور مظفرؔ حنفی کے حوالے سے اپنے بارے میں آپ سے یہ بھی کہنا چاہوں گا:

تمھاری آنکھ میں دو بوند غم روکے نہیں رُکتا

مجھے دیکھو سمندر پی چکا ہوں اور پیاسا ہوں

سر جھُکانا مرا اصول نہیں

مشورہ قابلِ قبول نہیں

آپ کیا راستہ دکھائیں گے

پاؤں میں خار سر پہ دھول نہیں

اور نام نہاد رہنماؤں کو بھی مظفر حنفی کے اشعار کے حوالے سے مشورہ دیتا ہوں :

میرے ہاتھوں میں قلم ہے جب تک

سر کسی کا نہ قلم کیجیے گا

انگلیاں خون اگلتی ہوں گی

جب حقیقت کو رقم کیجیے گا

مظفرؔ حنفی میرے مزاج کا شاعر ہے۔ اسی کے اشعار اپنی تقریروں میں استعمال کر کے میں نے ضمیر فروشوں کے ضمیر کو جگایا ہے۔ اور یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اس کا مزاج لا شعوری طور پر میرے مزاج میں در آیا۔ اسی لیے میں نے کسی کی شان میں بے جا خوشامد کرنے کی کوشش نہیں کی:

جو مجھ سے چاہتے ہیں خوشامد پسند لوگ

اس کی مرے قلم سے توقع فضول ہے

آخر میں مظفر حنفی کے مزاج اور میرے مزاج کے تعلق سے اس کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کر کے اپنے اس حقیقت پر مبنی مضمون کو ختم کرتا ہوں اور پاسبانوں کو آگاہ کر رہا ہوں کہ ان کی کوتاہیوں کا ان کو حساب دینا ہو گا:

کچھ آساں نہ تھا شادؔ و ناشاد ہونا

بالآخر مظفرؔ کے استاد ہونا

مری طنز گوئی کا باعث نہ پوچھو

مقدر میں لکھا تھا برباد ہونا

مظفرؔ ہمیں تجربہ ہو چکا ہے

کہ آساں ہے شاعر سے نقاد ہونا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چمن میں آں محترم نے جو گل کھلائے ہیں، آنچ دے رہے ہیں

نہ بھولیے گا کہ اصل مع سود محترم سے اصول ہو گا

ہمیں مظفرؔ سے تلخ لہجے کے باوجود انس ہو گیا ہے

غزل کے تیور بتا رہے ہیں کہ آدمی با اُصول ہو گا

کرناٹک کے شعرا کو میں مظفرؔ حنفی کے حوالے سے مشورہ دے رہا ہوں :

شادؔ صاحب کی ہدایت پہ سنبھلنا ہو گا

فن کو سو میل کی رفتار سے چلنا ہو گا

اب تمھیں بزم کا آئین بدلنا ہو گا

ورنہ خود اپنی ہی محفل سے نکلنا ہو گا

مجھے اس بات کا بھی علم اور تجربہ ہے کہ صاف گو فنکار کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے لیکن میں انجام سے بے خبر ہو کر صاف صاف لکھتا اور بولتا ہوں۔ کیونکہ مظفرؔ حنفی کے اشعار نے مجھے یہی سکھایا ہے۔ اور میں ان نام نہاد رہنماؤں کے نقش قدم پر نہیں چلتا اور بے خوف و خطر ہو کر مظفرؔ حنفی کے یہ شعر پڑھ کر آگے بڑھ جاتا ہوں اور فنکاروں کو با خبر کرتا رہتا ہوں :

رہنما کرتا ہے ہر منزل پہ تقریریں بہت

ہم جو اپنی راہ پر چل دیں تو زنجیریں بہت

ہاں میں ہاں کا گُر جو از بر ہو تو لاکھوں غمگسار

صاف کہہ کر دیکھیے گردن کو شمشیریں بہت

داستان طویل ہے اور اس کے کئی باب ہیں مگر میں مظفرؔ حنفی کے اس شعر پر داستان کا یہ باب ختم کرتا ہوں :

دلکش بنا رہا ہے مظفرؔ کا خاص رنگ

حالانکہ داستان بڑی جاں گداز ہے

٭٭٭

 

 

 

 

                معراج احمد معراج

  کلٹی، مغربی بنگال

 

 

مظفر حنفی کی غزل گوئی: ’یا اخی ‘ کے حوالے سے

 

مظفر حنفی کی سخن طرازی پر قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں، حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ان کی شاعری سے متعلق کچھ کہنا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے لیکن جب مجھے ان کا مجموعہ کلام ’’ یا اخی‘‘ پڑھنے کا موقع ملا تو میری انتر آتما نے کہا تو بھی کچھ لکھ۔ سومیں بھی ان پر کچھ لکھنے کے لیے آمادہ ہو گیا۔

مظفر حنفی کی شاعری کی تعریف کرنا آئینے کو آئینہ دکھانا ہے۔ میں ساقی فاروقی کے اس قول سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں کہ:

’’ زبان و بیان پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ اچھے اچھے شاعروں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ‘‘

میں نے ان کی غزلیں بار بار پڑھیں اور بار بار احساس کمتری کا شکار ہوا۔ پورے دیوان میں کوئی بھی ایسا شعر نہیں جسے فضول کہا جا سکے۔ ہر شعر اپنے دامن میں معنویت کا ایک عمیق سمندر سمیٹے ہوئے ہے۔ کچھ شعر تو ایسے ہیں کہ پڑھنے کے بعد میں گھنٹوں بھر ان کی معنوی وسعت کے بارے میں سوچتا رہا۔ در اصل ان کے شعروں میں معنویت کی موج تہہ موج بہتی رہتی ہے جو الفاظ ان کے اشعار کا حصہ بن گئے ان کا وقار بلند ترین  ہو گیا۔ لفظوں کے اجماعِ ترتیبی سے معنویت کی پرتیں کھولنے کا ہنر کوئی مظفر صاحب سے سیکھے۔

ان کے اشعار بالکل جدید اور منفرد ہیں۔ انھوں نے جو مضامین باندھے ہیں وہ کہیں اور نظر نہیں آتے۔ سارے دیوان میں شاید ہی کوئی ایسا شعر ہو جو کسی دوسرے شاعر کے شعر سے لگّا کھاتا ہو۔ ہر غزل کے منفرد مضامین اور منفرد زمین۔ زمین بھی اتنی سخت کہ اچھے اچھے شاعروں کی کھٹیا کھڑی کر دے۔ لیکن مظفر حنفی نے مشکل زمینوں پر اشعار کے خوبصورت گل بوٹے کھلا کر یہ ثابت کر دیا کہ غزل کی دنیا میں ان کا مقام بہت ارفع ہے۔

مظفر حنفی کو جدید شاعر اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جدید خیالات کو جدید لہجے اور جدید انداز میں پیش کیا ہے جدیدیت کی تعریف ڈاکٹر عنوان چشتی نے یوں پیش کی ہے:

’’ جدیدیت روایت سے ما ورا نہیں ہے، سچی جدیدیت روایت کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ وہ نقاد جو جدیدیت کو فن اور زندگی کے تعلق اور تسلسل نیزاس کی بنیادی اقدار سے الگ کر کے دیکھتے ہیں وہ اس کو خلاء میں معلّق کرتے ہیں۔ سچی جدیدیت اپنے دور کے تمام تقاضوں کا احترام کرتی ہے۔ ‘‘

متذکرہ بالا بیان کی روشنی میں اگر مظفر حنفی کے کلام کو پرکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان کے شعروں میں دورِ حاضر کے تمام فکری اور جمالیاتی تقاضوں کی تکمیل ہو رہی ہے۔ انھوں نے وارداتِ قلبی کو جمالیاتی کیفیت عطا کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایتی عناصر بھی جدیدیت کے رنگ سے سرشار ہو گئے ہیں۔ میں اپنے دعوے کی دلیل کے لیے حضرت ف۔ س۔ اعجاز کی رائے یہاں منعکس کرنا چاہتا ہوں :

’’ جدید غزل کا احترام جن شعراء سے قائم ہے ان میں مظفر حنفی کا نام آتا ہے۔ جب ہم غزل کے جدید ہونے کی بات کرتے ہیں تو در اصل تمام نئے عصری تقاضوں کو اپنے شعور یا لا شعور میں لیے ہوتے ہیں جن میں نئے سماجی پس منظر میں نہ صرف حسن و عشق کا مسلمہ وجود شامل ہوتا ہے بلکہ پرانی حقیقتوں کی تلاش بھی ہوتی ہے۔ ‘‘

مظفر صاحب کے کلام میں عصری تقاضوں کے علاوہ سماجی پس منظر میں حسن و عشق کی بوقلمونی اور زمانے کے مسائل کی قبیح تصویر بھی صاف نظر آتی ہے۔

کوئی شاعر جدید اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کے اشعار میں نئے زمانے کے ہوش ربا افکار ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ جدت طرازی میں روایتی اقدار کا احترام بھی کرتا ہے۔

پروفیسر آل احمد سرور بھی مظفر حنفی کی جدید شاعری کے معترف ہیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ :

’’ مظفر حنفی جدید اردو غزل کا ایک معتبر نام ہے۔ جدید غزل کے جلوۂ صد رنگ میں ان کی کرنوں کی روشنی اور گرمی سے کون واقف نہ ہو گا۔ مذکورہ اقوال کے جواز میں مظفر صاحب کے کچھ اشعار پیش کر رہا ہوں :

ڈوب جاتا ہے یہاں تیرنا آتا ہے جسے

وہ کبھی ناؤ تھی دریا لیے جاتا ہے جسے

خود اپنے آپ کو پایاب کرتی رہتی ہے

عجب جنوں ہے ندی کو کنارے توڑنے کا

ہمارا کیا مجسم پیاس ہیں ہم

وہی پانی وہی برتن ہمارا

عصائے کلیم اور  دریا سے متعلق تلمیح کا شعر تقریباً ہر شاعر کی بیاض میں مل جائے گا لیکن ان کی انفرادیت دیکھیے:

کہاں ہے تیرا قبیلہ کہ راہ دے پانی

عصا نہیں ہے تو تو جادوگروں سے جنگ نہ کر

جدید شاعری کا ایک خاص وصف ’’ توسیعی استعارہ‘‘ کا استعمال ہے۔ مظفر حنفی صاحب نے بھی اس صنعت کو خوب برتا ہے۔ چند اشعار حاضر خدمت ہیں :

سب نے چنگاریاں بو رکھی تھیں

تتلیاں کیسے اُگیں سن تو سہی

ہم بھوک اُگاتے ہیں کھیتوں میں ہمارے گھر

سبزی بھی نہیں پکتی چاول بھی نہیں بنتے

اک ذرے نے لی تھی انگڑائی

آسماں آ پڑے زمینوں پر

سنّاٹے اوڑھے بیٹھا ہوں

تن اکتارا چھن چھن کرتا

’ یا اخی‘ کے شعروں میں رمزیت اور ایمائیت کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ رمز و ایما کی شاعری کو علامتی شاعری(Symbolic Poetry)بھی کہتے ہیں۔ اس میں استعارہ سازی، کنایہ بندی اور پیکر تراشی کے ذریعہ ایک ایسی کائنات معانی کی تشکیل کی جاتی ہے جہاں تک ایک عام قاری کی رسائی مشکل سے ہوتی ہے۔ ایسی شاعری میں ابلاغ و ترسیل کے ذرائع، استعارے، کنائے اور شعری پیکر ہوتے ہیں۔ ایسی تخلیق جس میں الفاظ لغوی اور ظاہری معانی کے علاوہ باطنی معانی بھی پیدا کر دیں اسے Allegoryکہتے ہیں۔ مظفر حنفی کے بہت سے اشعار متذکرہ خوبیوں سے متصف ہیں۔ آئیے ان شعروں پر نظر ڈالیں :

سائے مچل رہے ہیں چراغوں کی گو د میں

سمجھے تھے ہم کہ گھر سے اندھیرا نکل گیا

سرخ آندھی نے بڑا شور مچایا کل رات

گھر بنائے ہیں پرندوں نے شجر میں کیسے

آنکھ جھپکاتے ہی تبدیلی ہر اک منظر میں تھی

اک ذرا کھولا دریچہ اور آندھی گھر میں تھی

کھلی چھت پر ستارہ بیٹھ جائے

بلا سے گھر ہمارا بیٹھ جائے

مظفر حنفی کی غزلیں زندگی کے تجربات کی عکاس ہیں۔ لہٰذا ان کے شعروں میں تلخی اور کڑواہٹ کی آمیزش فطری ہے۔ اسی لیے ان کا لہجہ بھی گاہ گاہ کھردرا اور جارحانہ ہو گیا ہے لیکن ان کی زبان کھری ہے، وہ خود فرماتے ہیں :

نہ پوچھیے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے

کھری زبان مرے جسم و جاں کا حصہ ہے

قلم کو تیز، مظفرؔ غزل کو تیغ کرو

نہ باز آئے گی دنیا تمھیں ستانے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

                نظم/ رباعی/ مرثیہ

 

 

’’مظفر حنفی موجودہ اردو ادب کی دنیا میں اپنی تیکھی لہجہ والی شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ داخل ہوئے ہیں اور غالباً ’’ عکس ریز‘‘ کے روپ میں اپنی پہلی شعری تصنیف پیش کر رہے ہیں۔ اس وقت جب شعر و فن میں انسانی قدروں کی اہمیت شدید انفرادیت اور انانیت کی وجہ سے بالکل اضافی ہو گئی ہے، ان کی یہ طویل نظم زندگی کے کھوکھلے پن کی طرف ایک خاص انداز میں متوجہ کرتی ہے۔ شاعری اپنے وجود میں آنے سے آج تک محض تفریح ہی کا نہیں، مثبت اثر انگیزی کا ذریعہ بھی سمجھی جاتی رہی ہے اور ہر شاعر نے اس کے لیے کوئی نہ کوئی اسلوب اختیار کیا ہے تاکہ وہ اپنے خیالات کی برش کو دوسرے ذہنوں کی کسوٹی پر آزما سکے۔ مظفر حنفی نے اس کے لیے طنز کا انتخاب کیا ہے جو اس نظم کا بنیادی عنصر ہے۔ یوں تو ’’ عکس ریز‘‘ ایک ہی جذبہ اور تأثر کے تحت تخلیق کی ہوئی ایک طویل نظم ہے لیکن در حقیقت یہ چھوٹے چھوٹے مرقعوں کا ایک البم ہے جس میں بہت سی تصویریں یکجا کر دی گئی ہیں۔ مظفر حنفی نے یہاں نہ تو ناصح مشفق بننے کی کوشش کی ہے اور نہ اپنے کو ایک معلم اخلاق ہی کی حیثیت سے پیش کیا ہے، بلکہ ایک شاعر کی طرح پڑھنے والوں کی رگ احساس کو چھیڑا ہے تاکہ وہ بھی سماج کی ان گندگیوں کو دیکھ لیں جنھیں انھوں نے دیکھا ہے اور جو اوپر سے صاف ستھرا، ڈھلا ڈھلایا اور منظم نظر آ رہا ہے۔ شاعر اور ادیب کی حیثیت سے وہ یہیں تک جا بھی سکتے ہیں۔ احساس کا بیدار کرنا ہی اگلے قدم کی دعوت دینا ہے اور خاص کر اس کو جو ان آلودگیوں سے نکلنا بھی چاہتا ہو۔ جب آپ مرقعوں کے اس دلچسپ مجموعے کو شروع سے آخر تک دیکھ لیں گے تو شاید میری ہی طرح حیرت بھی کریں گے کہ مظفر حنفی نے گرد و پیش کو کتنی گہری نظر سے دیکھا ہے اور اتنے خاکے، جن میں انوکھا پن، نقص اور عدم توازن ہے، کس طرح اکٹھا کر لیے ہیں۔ غور سے دیکھیے تو ان میں اشخاص اور افراد پر نہیں، اطوار اور اعمال پر، خام کاریوں اور نقائص پر طنز ہے۔ ان اداروں کا خاکہ اڑایا گیا ہے جو صدیوں سے اپنے مفید اور کار آمد ہونے کا کھوکھلا ڈھول پیٹ رہے ہیں  اور اب جدید انسان نے ان کے کھوکھلے پن کا راز فاش کرنے کا عہد کر لیا ہے۔ مظفر حنفی نے اس کے لیے جو بول چال کی زبان اور جو بات چیتی انداز اختیار کیا ہے اس نے تاثر کا رنگ اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔ ‘‘

پروفیسر احتشام حسین

 

 

 

 

                پروفیسر اعجاز علی ارشد

پٹنہ

 

مظفرؔ حنفی کی نظمیں

(’پانی کی زبان‘ کے حوالے سے)

 

مظفرؔ حنفی سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی یہ اب یاد نہیں۔ یہ ضرور یاد ہے کہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۸۲ء میں خاصی تکلیف اٹھا کر میری دعوت پر وہ پٹنہ آئے تھے اور دستخط کے ساتھ اپنا شعری مجموعہ ’’ پانی کی زبان‘‘ مجھے عنایت کر گئے تھے۔ تب سے اب تک ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں جن کا شمار دشوار بھی ہے اور بے کار بھی۔ کبھی شاہد علی خاں ( دہلی) کے دفتر میں، کبھی خود ان کے گھر پر، کبھی کلکتہ کی کسی ادبی محفل میں، کبھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں۔ ان سے بار بار ملاقاتیں ہوئیں اور میرا یہ حال رہا کہ عام طور پر ان سے ہر ملاقات کے بعد ایک نئے لطف کا احساس ہوتا رہا۔ انگلینڈ میں ان کے فرزند پرویز مظفر نے ہم جیسے کارِ زیاں کرنے والوں کے لیے اپنی کئی شامیں برباد کیں۔ میں نے ایک ملاقات میں اس کے لیے مظفر حنفی کا شکریہ ادا کیا تو ایک خاص انداز میں بس مسکرا کے رہ گئے۔ پھر میرا دہلی آنا جانا کچھ مختصر ہونے لگا اور ان سے ملاقاتیں بھی اسی اعتبار سے کم ہوتی گئیں مگر وہی کیفیت کہ :

ایک مدت سے تِری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

اس درمیان ان کا کلام ( عام طور پر غزلیں ) بھی پڑھنے کا موقع ملا۔ زود گوئی کے باوجود ان کی مسلسل تازہ کاری اور معیار سازی پر حیرت بھی ہوتی رہی اور مسرت بھی۔ موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ ان کے لب و لہجے کا ایک مخصوص تیکھا پن مجھے اکثر پسند آیا۔ اس لیے چند ہفتوں قبل جب ایک خصوسی شمارے کے لیے ان سے متعلق کچھ لکھنے کی فرمائش ہوئی تو میں نے چند ہی دنوں بعد ان کی غزلوں کے حوالے سے ایک مضمون ارسال کر دیا۔ شاید وہ مضمون قاصد کی خوش ذوقی یا ترسیل کی ناکامی کی نذر ہوا اور ’مری یہ عادت نہیں کہ رکھوں کسی کی خاطر مئے شبانہ‘ کے انداز پر میں اپنے تحریر کردہ مضامین کی عام طور پر نقل نہیں رکھتا۔ اس لیے اب یہ دوسرا مضمون ان کی نظموں کے حوالے سے لکھ رہا ہوں۔

اس اچھی خاصی تمہید کے بعد یہ لکھنا غیر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اردو شاعری کی دنیا میں آج مظفر حنفی کا مقام کیا ہے۔ مگر ان کی شاعری اپنی وسیع تر معنویت کے سبب خود کو ’’حرفِ معتبر‘‘ سمجھنے کا تقاضہ کرتی ہے۔ بہر حال ان کی شاعری خصوصاً نظم نگاری سے متعلق بعض عمومی نتائج تک پہنچنے سے قبل میں ’’ پانی کی زبان‘‘ کی چند نظموں کا موضوعاتی تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس مجموعے کی پہلی نظم ’’ یا اخی‘‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ نظم کم و بیش نصف صدی پہلے کی ہے مگر محتویات کے اعتبار سے آج بھی گہری معنویت کی حامل ہے۔ کارخانوں، دفتروں، بازاروں اور فلک بوس فلیٹوں میں تو خیر حبس اور گھٹن کا عالم نا گفتنی ہے لیکن سانسوں کے جنگل سے نکل کر سکون کی خاطر کسی پارک کا رُخ کرنے والے کی نا امیدی بھی دیدنی ہے۔ وہی شور و غل، ہنگامہ، اضطراب، کارو باری ذہنیت، چیخ پکار اور بے پناہی کا احساس، جس سے انسان بھاگ رہا ہے، یہاں بھی ہے۔ تو کیا یہی اس کی تقدیر کا نوِشتہ ہے ؟ یا پھر یہ تمام تر صورت حال اس کی اپنی ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے، جِس نے خود ہی اپنے آپ کو ’’ دائرے سے مربعہ تک‘‘ مختلف حلقوں، ٹکڑوں اور خانوں میں قید کر کے اپنے لیے حبس، گھٹن، تنہائی اور دوسری دشواریاں پیدا کر لی ہیں ؟ سچائی جو بھی ہو لیکن عہدِ حاضر کے عام انسان کی اس بے بسی اور نا رسائی کے بیان میں فنکار کی ہنر مندی اپنی جگہ ہے۔ نظم کا پہلا مصرع ہے :

کارخانے سے نکل کر پارک میں آیا تو کیا

اور آخری دو سطریں یہ ہیں :

آج کا اتوار بھی ضائع گیا واحسرتا

ہر طرف آواز دیتا ہے مجھے کوہِ ندا

اب یہ جو احساس زیاں ہے، یعنی نظم کا مرکزی خیال، اس کی وضاحت کے لیے یکے بعد دیگرے مختلف تصویریں سامنے آتی ہیں۔ یہ ساری تصویریں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہوئے بھی ہمارے عمومی مشاہدے کا ایک حصہ ہیں اس لیے ایک دوسرے سے نہ صرف مربوط ہیں بلکہ نظم کو ارتقائی کیفیت سے گزارتے ہوئے ایک بھرپور تاثر کے ساتھ اختتام تک لے جاتی ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ فنکار کا ذاتی تجربہ ہے اور وہ بھی کسی ایک دن کا مگر کیا دوسرے پارکوں یا دوسرے دنوں اور لوگوں کا حال اس سے مختلف ہے؟  جواب ہو گا کہ نہیں۔ میرے خیال سے یہی عمومیت نظم میں پیش کردہ تجربے کو اہم بناتی ہے۔

نئے زمانے کے اضطراب کی یہ صورت ’’ نئے خدا کا قہر‘‘ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ شہر میں تو خیر امن و سکون کی تلاش ہی بے سود ہے، گاؤں کا حال بھی برا ہوتا جا رہا ہے۔ اور کیوں ؟ یہاں پہلے مصرع کی وضاحت کے لیے زیادہ تصویریں نہیں ہیں مگر اس مصرع کو دہراتے ہوئے نظم کا پورا تاثر آخری دو مصرعوں میں سمیٹ دیا گیا ہے:

چپکے چپکے گھس آیا ہے میرے گاؤں میں شہر

سونگھ رہا ہوں کھیتوں کی شاداب ہوا میں زہر

فنی اعتبار سے یہ نظم بہت چست نہیں کہی جا سکتی چونکہ درمیانی اشعار میں ترمیم و اضافہ ممکن ہے مگر آج سے پچاس برس قبل کا زمانہ سامنے رہے تو مظفرؔ حنفی کا یہ بیان ندرتِ فکر کا نمونہ ضرور کہا جا سکتا ہے۔

صارفیت کے بوجھ سے دبے ہوئے شہر کی بے پناہی کا ایک چھوٹا سا منظر ’’صورِاسرافیل‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی کارخانے کا بجتا ہوا سائرن ملازمین کو جلد سے جلد ڈیوٹی پر حاضر ہونے کی ہدایت دیتا ہے اور وہ عجیب و غریب افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال کی تصویر کشی چند اضطرابی کیفیات کے بیان کے سہارے کامیابی سے کی گئی ہے۔ بنی نوع انسان کی عارضی اور مستقل بے بسی کے اور بھی مناظر ہیں جو ’’ ہنسی کا ڈر‘‘ ، ’’ کال کوٹھری‘‘ ، ’’سونے کی کان کا حادثہ‘‘ اور ’’ گوتم کا خط‘‘ جیسی نظموں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان تمام نظموں میں بیان کردہ تجربات کا راوی بظاہر صرف شاعر ہے مگر یہ پھیلتے ہیں تو زمانہ بن جاتے ہیں۔

نظم ’’ آج کی بات‘‘ بھی ایک درد انگیز تجربے کو پیش کرتی ہے۔ پہلے وہ نظم ملاحظہ ہو:

میں نے مرحوم دادا کی تصویر سے

باسی پھولوں کا گجرا اُتارا

مہکتے ہوئے تازہ پھول ان کے چرنوں پہ رکھتے ہوئے

اچانک نگاہوں میں وہ کیل آ ہی گئی

جو اکھڑنے کو تھی

جس پہ مرحوم دادا کھڑے تھے مرے

میں نے اس کیل کو

احتیاطاً ذرا  زور سے جڑنا چاہا تھا

پتھر کی دیوار میں

غالباً زاویہ کچھ غلط ہو گیا

چوٹ میرے انگوٹھے پہ آ کر پڑی

اور مُنّا نے اِک قہقہہ جڑ دیا

اب اس نظم کے مصرعوں پر غور کیجیے۔

ظاہر ہے کہ اپنے دادا کی تصویر پر جو شخص عقیدت کے پھول چڑھا رہا ہے وہ روایتوں کا پاسدار ہے۔ روایتیں پختہ دیوار میں جڑی ہوئی کیلوں کی طرح ہوتی ہیں مگر اب وہ کیل اکھڑنے کو ہے جس پردادا کی تصویر آویزاں ہے۔ ( روایتوں کے انہدام کا کس قدر بلیغ استعارہ ہے!) ظاہر ہے کہ وہ شخص کیل کو دوبارہ مضبوطی سے جڑنا چاہتا ہے اور اس کوشش میں خود کو زخمی کر لیتا ہے ( غالباً زاویہ کچھ غلط ہو گیا، میں بھی ایک اشارہ ہے)۔ لیکن اس پورے واقعے پر مُنّا ( اسے نئی نسل کا نمائندہ سمجھیے) اظہار ہمدردی یا افسوس کی جگہ جس طرح قہقہہ لگاتا ہے اس کے سبب نظم ذاتی تجربہ نہیں رہ کر عمومی تجربہ بن جاتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ نئی نسل کے لیے روایتیں جس طرح بے معنی ہو چکی ہیں اس کی تصویر منّا کے رویّے میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب کہ پرانی نسل کے دل میں ماضی کا احترام اب تک باقی ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ نظم جنریشن گیپ کی طرف ایک اشارہ ہے اور اس موضوع پر لکھی گئی پہلی نظم نہ سہی مگر اردو کی ابتدائی چند نظموں میں سے ایک ضرور ہے۔ یہاں نظم کا فنّی تجزیہ میرا مقصد نہیں۔ پھر بھی اتنا یقینی ہے کہ ان کی دوسری کامیاب نظموں کی طرح یہ نظم بھی خاصی Compact اور مربوط ہے جس میں ترمیم و اضافہ محال ہے۔

نہ جانے کیوں مجھے یہ نظم پڑھتے ہوئے مظفر حنفی کی ایک اور نظم ’’بھیگی ہوئی تہذیب‘‘ یا د آئی۔ حالانکہ وہاں تجربے کی نوعیت کچھ مختلف ہے۔ ایک راہ چلتے ہوئے شخص کی چھتری تیز ہوا کے زور سے الٹ جاتی ہے اور وہ شہر کے چوراہے سے گزرتا ہوا بارش کے پانی سے بھیگ جاتا ہے۔ اسے غم یہ نہیں کہ وہ بھیگ گیا ہے، دکھ یہ ہے کہ لوگ اس سے ہمدردی کرنے کی جگہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ انسانی تہذیب کے زوال کی یہ عجیب و غریب صورت ہے کہ دکھ درد اور پریشانی میں یہاں کوئی کسی کا معاون نہیں بنتا۔ یہ پیچیدگی احساس مختلف زاویوں سے ’’ ٹوٹی ہوئی کڑیاں ‘‘ ، ’’ پانی کی زبان‘‘ اور ’’ پریشانی کی ادائیگی‘‘ جیسی نظموں میں بھی بیان ہوئی ہے۔

بات در اصل یہ ہے کہ مظفر حنفی اس عہد حاضر سے اچھی طرح واقف ہیں جہاں ایثار بھی دکھاوا ہے اور صارفیت کے دباؤ سے آزاد نہیں۔ ’’ ہابیل کی زبان‘‘ کی یہ سطریں دیکھیے:

کوٹھے سے حوّا کی بیٹی جھانک رہی تھی

اس نے اپنا بٹوہ دیکھا

لہجے میں ایثار سمو کر

وہ اپنے ساتھی سے بولا

پہلا حق تو تیرا ہے بھائی قابیل

صاف ظاہر ہے کہ ہابیلؔ کا طرز اظہار ایثار پہ نہیں مفاد پرستی پر مبنی ہے اور یہ مفاد پرستی سماج کے بیشتر طبقوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ ’’ ایک انمول پالیسی‘‘ کا بیمہ ایجنٹ تو خیر کسی حد تک صارفیت کے حصار میں رہنے پر مجبور ہے مگر ’’ اس کی سوچ کا سایہ‘‘ میں باپ کی جگہ بیٹے کی خدمت کرنے والا مرکزی کردار جو اپنا مستقبل سنوارنے کی فکر میں ہے، اس کی سوچ کو کیا کہا جائے؟ ظاہر ہے کہ ستیہ وادی ہریش چند تو دوسرا کو ن ہو سکتا ہے لیکن آج کے بیٹوں کو یہ بھی توفیق نہیں کہ حسابِ سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر بیمار باپ کی تیمار داری کر لیں ؟ ’’ فائلوں کا جادوگر‘‘ ہو یا ’’ پاگل، چاند اور چور‘‘ میں اپنا جرم چھپانے کے لیے دوسرے کو چور قرار دینے والے سبھی کسی نہ کسی طور پہ ریاکار بھی ہیں اور مفاد پرست بھی، مگر شاعر کی نگاہ سے ان کی اصلیت پوشیدہ نہیں۔

نئے عہد کی اور بھی کئی جہتیں مظفر حنفی کی نظموں کا موضوع ہیں۔ ایک اور مختصر سی نظم ’’دوسری جلا وطنی‘‘ یہاں نقل کرتا ہوں جس میں خاصی کامیابی کے ساتھ عہد حاضر کا ایک کرب اساطیر سے ہم آمیز ہے۔ نظم ملاحظہ ہو:

جب گیہوں کا دانہ جنس کا سمبل تھا

اس کو چکھنے کی خاطر

میں جنّت کو ٹھکرا آیا تھا

اب گیہوں کا دانہ

بھوک کا سمبل ہے

جس کو پانے کی خاطر

میں اپنی جنت سے باہر ہوں

غور کیجیے کہ یہاں تجربہ کس قدر سامنے کا ہے۔ اس کے باوجود موضوع کے ساتھ فنکار کے Treatment کے سبب کتنی تاثیر اور درد انگیزی پیدا ہو گئی ہے۔ اپنے ملک، شہر، گاؤں اور رشتوں کو چھوڑ کر تلاش معاش میں دور دراز کے علاقوں کا سفر کرنے اور در بدری کا دکھ جھیلنے والے آج اپنی جنت سے باہر رہنے کے غم کو طرح طرح سے بیان کر رہے ہیں مگر آج سے پچاس برس قبل یہ موضوع اس سادگی اور پرکاری کے ساتھ کہاں پیش ہو رہا تھا۔

ظاہر ہے کہ مظفر حنفی کی اور بھی کئی نظمیں ایسی ہیں جن کا موضوعاتی اور فنی تجزیہ کیا جا سکتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ نتائج وہی برآمد ہوں گے جو مذکورہ بالا نظموں کے تجزیے سے برآمد ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ’’جدیدیت‘‘ کے عہدِ خاص میں لکھے جانے کے باوجود یہ نظمیں صرف جدیدیت سے منسوب موضوعات تک محدود نہیں ہیں۔ ان میں کلاسیکیت سے آگہی کا شعور بھی ہے اور آنے والے دنوں کی تصویر بھی۔ شاید اسی لیے نظموں میں پیش کردہ تجربات خاصے متنوع ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں خیال آرائیاں کم اور حقیقت کی پرچھائیاں زیادہ ہیں۔ شاعر مجموعے کی ابتدا میں ہی یہ کہتا ضرور ہے کہ

ع     آج مظفر کی باتیں بہکی بہکی ہیں

مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ بہت ہوش مندی کی باتیں ہیں۔ بظاہر سامنے کی باتیں ذاتی تجربات و مشاہدات کے انداز میں بیان کی گئی ہیں مگر یہ بیان عہد حاضر کی عام حیات انسانی سے وابستہ کتنی ہیCruel realities   تک پہنچتا ہے۔ گویا ذات کا غم کائنات کے غم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ غزل کا مزاج رہا ہے اس لیے مظفر حنفی کی نظموں میں اس کی موجودگی غزل گوئی سے ان کے ذہنی رشتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان کی نظمیں بے حد مربوط اور Compact  ہوتی ہیں۔ حالانکہ انھوں نے کچھ ایسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جو اب تک ہماری شعری روایت کا حصہ نہیں بن پائے۔ اس کے باوجود عام طور سے سیدھی سادہ عام فہم زبان میں کہی گئی باتیں قاری کے نازک احساسات کے بند دروازوں پر بڑی آہستگی کے ساتھ دستک دیتی ہیں۔ یہ انداز خود کلامی کا نہیں مگر اس میں بلند آہنگی بھی نہیں۔ پہاڑیوں سے گرتے ہوئے پُر شور نالوں کی جگہ اس میں سبک خرامی سے بہتی ہوئی ندیوں کا انداز ہے جوتا دیر اثر رکھتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر نظموں کی معنویت آج بھی برقرار ہے۔

شاعر کو تعلّی کا حق بھی حاصل رہا ہے مگر مظفر حنفی کے اس بیان میں مجھے تعلّی سے زیادہ حقیقت گوئی دکھائی دیتی ہے:

میں نہیں کہتا

کہ میری کھردری نظموں کو پڑھ کر

سنگ میل راہِ نو تسلیم کیجے

میری نظمیں تو

روایت کی بہت پامال و فرسودہ سڑک کے دونوں جانب

کنکروں اور پتھروں کے ڈھیر کی مانند ہیں

جن سے

آئندہ نئی راہیں بنائی جائیں گی

’’ پانی کی زبان‘‘ ۱۹۶۷ء میں شب خون کتاب گھر سے چھپی تھی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تقریباً نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی شاعر کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا یا نہیں لیکن میں توقع کرتا ہوں کہ نظم گوئی کے اس نئے آہنگ کی جانب مزید لوگ توجہ دیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

                ضیاء فاروقی

  بھوپال

 

 

جدید شعری تہذیب کے امانت دار ڈاکٹر مظفر حنفی

 

ڈاکٹر مظفر حنفی کے شعری سروکار پر ادھر تین چار دہائیوں میں جو تفصیلی اور اجمالی گفتگو ہوتی رہی ہے وہ عہدِ حاضر کے کسی بھی شاعر کے لیے یقیناً قابل فخر ہے۔ کیوں کہ صارفیت کے اس دور میں جب ہر کس وناکس اپنی شاعری اور شخصیت کا اشتہار لیے بازار ادب  میں جوڑ توڑ میں مصروف ہو اور لفظوں کے سودا گر مالی منفعت یا ذاتی مصلحت کی بنا پر ہما شما کو بھی میرؔ و  غالبؔ اور اقبالؔ و فیضؔ کا ہم پلہ قرار دے رہے ہوں، اگر واقعی کسی سچے، کھرے اور بیدار مغز شاعر کو محض اعتراف فن کے نقطہ نگاہ سے موضوع گفتگو بنایا جاتا ہے تو یقیناً یہ مسرت کی بات ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ ڈاکٹر مظفر حنفی عہد حاضر کے ان شعرا میں نمائندہ حیثیت کے حامل ہیں جنھوں نے شروع سے ہی انفرادیت کو مد نظر رکھا اور اس وقت جب جدیدیت اردو ادب میں بطور تحریک متعارف ہوئی۔ یہ اپنے تیکھے لہجے کی بنا پر یاس یگانہ اور شاد عارفی کی یاد دلا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے اولین علمبرداروں میں ان کا نام بھی حرف معتبر کے بطور نظر آتا ہے۔ حالانکہ اس دور میں کچھ ایسے بھی تھے جو شاعری میں نت نئے تجربات کے سیل بے پناہ میں الجھے ہوئے تھے اور نئے مضامین اور نا مانوس غریب الفاظ کے تخلیقی استعمال کے امکانات کو کھنگالنے کے چکر میں ابتذال کی حدوں سے بھی گزر گئے تھے مگر مظفر حنفی نے شعوری طور پروہ راستہ اختیار کیا جس میں تجربات سے زیادہ ترجیحات کو دخل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں روایتی اسالیب کومسمار کیے بغیر جو جدید تعمیرات ہوئیں انھوں نے جدیدیت کی تفہیم کو ہمارے لیے آسان بنا دیا۔ مظفر حنفی کے اشعار میں الفاظ کا ایک خلّاقانہ نظام ہمیں ابتدا سے ہی نظر آتا ہے انھوں نے فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری کے  بطن سے اُبھری جدیدیت کو جس سطح پر برتا وہ یقیناً انھیں ادب میں ایک اہم اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ ان کے اشعار جہاں سہل ممتنع سے عبارت ہیں وہیں متنوع بحروں اور رواں دواں ردیف اور قافیوں کے اعتبار سے بھی اردو شعری ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں :

وہ میرے ذہن میں کانٹے سا ہو گیاپیوست

تعلقات کا دروازہ بند کرتے ہوئے

مدد مدد کوئی طوفان، کوئی موج بلا

ہمیں بچاؤ کہ ہم ناخدا کی زد پر ہیں

پلکیں بچھی ہیں میری ہر اک موج آب میں

اس پالکی پہ چاند کرن میرے ساتھ آ

سچ بولنے کا تجھ کو بہت اشتیاق ہے

اچھا تو سر سے باندھ کفن میرے ساتھ آ

بازاروں کی کچھ آوازیں تھوڑی رونق جیبوں میں

دروازے سے پوچھ رہا ہوں کیا ویرانی گھر میں ہے

ترے سوا جو کوئی میرے دل کو چھیڑتا ہے

عجیب ساز ہے آواز ہی نہیں دیتا

مرا وجود ہے اظہار کے لیے بیتاب

زمانہ موقعِ آغاز ہی نہیں دیتا

زخموں کا عالم انگوری جیسا کچھ

اور نمک اپنی مجبوری جیسا کچھ

نافہ وافہ میرے اندر خاک نہیں

مہکا کرتا ہے کستوری جیسا کچھ

ترستی رہیں روشنی کو نگاہیں

چمکتے رہے چاند تارے وغیرہ

درج بالا اشعار نہ صرف زبان کی دلکشی، بیان کی سادگی اور اظہار کی وارفتگی سے عبارت ہیں بلکہ یہاں جمالیاتی سطح پرحسیت کے وہ تمام رنگ موجود ہیں جن میں داخلی کرب و انتشار بھی ہے اور خارجی شور شرابا بھی۔ مظفر حنفی علامتوں اور استعاروں کے حوالے سے اشعار میں ایک جہان معنی آباد کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کے اشعار نہ صرف بیانیہ کے اعتبار سے متاثر کن ہوتے ہیں بلکہ اپنے اندرونِ میں طنز کے وہ نشتر بھی رکھتے ہیں جن میں رگ جاں میں اتر جانے کی پوری صلاحیت موجود ہے اور اسی مقام پر وہ اپنے استاد شادؔ عارفی کے قریب نظر آتے ہیں۔ حالانکہ شادؔ عارفی کے یہاں طنزیہ لہجہ بہت نمایاں اور کسی حد تک براہِ راست ہے جبکہ مظفر حنفی کے اشعار کی اندرونی پرتوں میں اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بقول نامیؔ انصاری، مظفر حنفی نے شادؔ کے کھردرے پن کو من و عن قبول نہیں کیا بلکہ اس کو تراش خراش کے عمل سے گزار کر اپنے اشعار میں پیش کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا اپروچ زیادہ وسیع اور طنز کی دھار زیادہ کار گر ہو گئی ہے۔

مرنے پہ مرے چاہنے والے نکل آئے

قاتل بھی مرا لوٹ کے گھر تک نہیں پہنچا

شریف خون اگر مختلف ہوا کرتا

تو اسپتال میں بچے بدل نہیں جاتے

آج تیری مجبوری مانگتی ہے دو لقمے

کل ضمیر جائے گا صد ہزار لائے گا

سارے زخموں پہ نمک رکھتا ہے

چارہ گر اہل نظر ہے کوئی

ہزاروں مشکلیں ہیں دوستوں سے دور رہنے میں

مگر اک فائدہ ہے پیٹھ پر خنجر نہیں لگتا

سنا ہے زور گھٹ جائے گا دریا کا سویرے تک

مدد آنے سے پہلے گھر ہمارا ڈوب جائے گا

مظفر حنفی کے شعری مجموعوں کی تعداد خاصی ہے۔ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں خوش رنگ پھول کھلائے ہیں۔ نئی نئی بحروں اور مانوس اور نا مانوس الفاظ کا استعمال بھی خوب کیا ہے مگر شعریت کہیں مجروح نہیں ہوتی اور نہ ہی مصرعوں میں بوجھل پن محسوس ہوتا ہے اور یہی انداز انھیں منچندا بانی، زیب غوری، ظفر اقبال اور شہر یار کے نزدیک کرتا ہے۔ میرے پیش نظر ان کا ایک شعری مجموعہ’’ آگ مصروف ہے‘‘ جسے مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے شائع کیا ہے، اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کیساتھ موجود ہے۔ تقریباً دوسوصفحات کے اس مجموعے میں غزلوں کے علاوہ نظموں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ جہاں تک میرا مطالعہ ساتھ دیتا ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ غزلوں کے مقابلہ میں اُن کی نظموں پر گفتگو بہت کم ہوئی ہے حالانکہ یہ نظمیں بھی نہ صرف موضوع کے اعتبار سے بلکہ لفظوں کے درو بست کے حوالے سے بھی ذہن پر دیر پا تاثر چھوڑتی ہیں۔ یہاں معرکہ ذات بھی ہے اور معرکہ صفات بھی۔ کہیں کہیں ابہام کا ہلکا ساعکس بھی تھرتھراتا ہے مگر یہ قاری کوکسی الجھن میں نہیں ڈالتا اور نہ ہی یہ نظمیں ترسیل کے المیہ کا شکار ہوتی ہیں۔ ان نظموں میں سے پیشتر مختصر کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ عصری مسائل کا آئینہ بھی ہیں اور شاعری کی تخیلاتی پیکر تراشی کا نمونہ بھی۔ ’’ لوح طلسم آب و باد‘‘ ، ’’ شتر گربہ‘‘ ، ’’ جینا ہو تو‘‘ ، ’’ لوہے کے راستے پر‘‘ اور ’’اسے دیکھ کر ‘‘ جیسی نظمیں اپنے آپ میں مختصر اکائی بھی ہیں اور ایک بسیط منظر نامے سے عبارت بھی۔ یہاں بطور ثبوت میں ان کی دو نظمیں پیش کر رہا ہوں۔ ایک موجودہ تنقیدی رویوں پر ہے، عنوان ہے ’’ پرانی تنقید کا باب‘‘ ظاہر ہے کہ کسی سماج میں چلے آرہے قدیم افکار اور نظریات سے بغاوت آسان نہیں ہوتی اور اس در کو کھولنے والے کو کتنی کرخت صداؤں کو بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے اس سے اہلِ نظر بخوبی واقف ہیں :

زنگ لگے

دیمک خوردہ

یہ پھاٹک

جو سالوں سے بند پڑے ہیں

بن کر ویرانی کے پہرے دار کھڑے تھے

ان کو کھلنے میں تھوڑی تکلیف تو ہو گی

چیں چوں، چرمر

کھٹ پٹ جیسی

بھونڈی آوازیں نکلیں گی

ہر چند کہ یہ ایک مختصر سی نظم ہے مگر علامتوں اور استعاروں کی مدد سے قدیم افکار و نظریات اور ان سے بغاوت یا ان میں تبدیلی کی کوشش میں جن مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے اس کا اظہار پورے سلیقے اور ہنر مندی سے کیا گیا ہے۔ اسی طر ح ان کی دوسری نظم ’’ اسے دیکھ کر‘‘ بھی اپنے در و بست کے اعتبار سے انتہائی متاثر کن منظر بناتی ہے۔ صنف نازک اور صنف مخالف کی چاہ اور اسے حاصل کرنے کی خواہش عین انسانی فطرت سے عبارت ہے اور اس سرائے فانی کی ہمیشگی کا راز بھی اِسی فطری جذبے اور ایک دوسرے کے تئیں جنسی کشش کی بدولت ہے۔ متذکرہ نظم میں اسی فطری خواہش کا اظہار دلچسپ پیرائے میں کیا گیا ہے۔ نظم ایک تسلسل کے ساتھ جس طرح اور مختصر الفاظ میں فطرت کے اس حقیقی رنگ کی عکاسی کرتی ہے وہ دلچسپ بھی ہے اور پُر اثر بھی۔

ساری تہذیب جیسے ہوا ہو گئی

میں اسے دیکھ کر

دیکھتا رہ گیا

جی میں آیا کہ سینے میں رکھ لوں اسے

واقعی نا مکمل ہے میرا وجود

مجھ سے چھینی گئی تہی جو روز ازل

وہ یہی ہے یہی

بائیں پسلی مری

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مظفر حنفی کی شعری روایت میں جوسنجیدہ معیار اور منطقی استدلال نظر آتا ہے وہ یقیناً ان کے منفرد لب و لہجے کا ثبوت ہے۔ اور یہی انفرادیت نہ صرف آج کے شعری رویوں کا روشن استعارہ ہے بلکہ آنے والے زمانوں میں بھی اس کی قدر و قیمت کم نہیں ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                ہمدم نعمانی

 کولکاتا

 

مظفر حنفی کی نظمیں اور رباعیاں

 

شعری اصناف سخن میں الّا غزل کے تمام کا اطلاق نظم پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی نظم غزل نہیں ہو سکتی لیکن غزل کے فارم میں نظم کہی جا سکتی ہے۔ اور نظموں کی متعدد اقسام بھی ہیں۔ اردو میں جدید نظم نگاری کا آغاز ۱۸۶۷ء میں انجمن پنجاب کے زیر اہتمام محمد حسین آزادؔ اور مولانا حالیؔ کی سر پرستی میں ہوا۔ اقبالؔ اور جوشؔ کی نظمیں اسی جدید نظم نگاری کی باز گشت ہیں۔ ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ترقی پسند شعراء میں فیضؔ اور مجروحؔ وغیرہ نے غزلوں میں بھی اپنا اسلوب و آہنگ برقرار رکھا۔ ترقی پسندوں کے نظریے سے انحراف کرتے ہوئے شعراء کا ایک حلقہ میرا جی اور ن۔ م۔ راشدؔ کی سربراہی میں حلقۂ ارباب ذوق کی شکل میں افق ادب پر نمودار ہوا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادبی بد دیانتی ہو گی اگر اردو نظم کی تاریخ میں امیر خسرو تا حال نظم نگاروں ( جنھوں نے اپنے زمانے کے تقاضے کے مطابق نظمیں کہی تھیں ) اور ماضی بعید و ماضی قریب کے پیش روؤں کی خدمات کو مسترد کر دیا جائے یا انھیں آؤٹ ڈیٹیڈ قرار دے دیا جائے جو اردو ادب کا سرمایۂ عظیم ہیں۔

در اصل جدیدیت ترقی پسندوں کی تنگ نظری اور بندھے ٹکے نظریے کے خلاف ایک اقدام تھا۔ یہ سچ ہے کہ ہر زمانے کا سچا شاعر و ادیب عصری رجحان اور حقائق کو فنی رموز و علائم سے مزین کرتے ہوئے ترسیل و ابلاغ کی مہم کو سہل بناتا ہوا اپنی تخلیق کو آراستہ کرتا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے آس پاس ترقی پسندی اور حلقہ ارباب ذوق سے مختلف ایک بدلے ہوئے تخلیقی رویے کا نام جدیدیت ہے۔ جہاں ہر طرح سے توسیع پسندی کے واضح امکانات ملتے ہیں۔ مظفر حنفی کا شمار جدیدیت کے نمائندوں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت کثیر الجہات ہے۔ اپنی عمر سے زیادہ کتابوں کے مصنف اور تخلیقی سفر کی نصف صدی گزارنے کے بعد بھی موصوف کے فن پارے رواں دواں آبشار جیسے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی ایک اور نئی کتاب ’’ ہندوستان میں اردو‘‘ اس کا بیّن ثبوت ہے۔ خواہ افسانہ نگاری ہو یا غزل گوئی، سفر نامہ ہو یا ترجمہ نگاری، ادب اطفال ہو یا نظم نگاری، وادیِ تحقیق کی سیر ہو یا معرکۂ تخلیق و تنقید، غرض ہر شعبے میں نہ صرف اپنے قلم کا نقش قائم کیا بلکہ اپنے استاد محترم شادؔ عارفی کو اردو دنیا میں نہایت ہی سلیقے سے متعارف کرایا جو ان کی قدر شناسی بھی ہے اور بحیثیت شاگرد سعادت مندی بھی۔

مظفر حنفی کا یہ تیرہواں شعری مجموعہ ’’ آگ مصروف ہے‘‘ جسے بھوپال اردو اکاڈمی نے شائع کیا ہے جس میں ۵۹ غزلیں، ۱۰۶ نظمیں اور ۵۶ رباعیات شامل ہیں۔ سر دست غزلوں سے صرف نظر کرتے ہوئے نظمیں اور رباعیات پیش نظر ہیں۔ حنفی صاحب نے رباعیات، پابند اور آزاد نظمیں اور غزلیں کہی ہیں۔ غزل کا وافر سرمایہ موجود ہے جو تقریباً دو ہزار غزلیات پر مشتمل ہے۔ اور اس وافر سرمائے سے انتخاب آسان تھا۔ موصوف نے خود ہی کہا ہے:

بری نہیں ہے مظفر کوئی بھی صنف ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے

’’ لوحِ طلسم آب و باد‘ سے ’ ابھی مہذب نہیں ہوئے ہیں ہم‘ تک ۱۰۶ نظموں میں سے بزدلی، ایک طنزیہ نظم، اندھیر نگری، نئے خدا کا قہر اور ابھی مہذب نہیں ہوئے ہیں ہم، کا شمار پابند نظموں میں ہے اور بقیہ تمام نظمیں آزاد نظموں کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان نظموں میں شاعر نے عرفان ذات اور انا پرستی، تجربہ و تجزیہ، نفسیاتی ژرف بینی، جدیدیت کی شعوری قبولیت، انداز بیان میں مکالمے کا رنگ، منفرد اسلوب، کھری زبان کہیں کہیں خود سے بیگانگی اور کہیں خود کلامی تو کہیں خود آگہی سے اپنی شعری کائنات کی تزئین بڑی ہنر مندی سے کی ہے۔ طنزیہ لہجے کی کاٹ نے نظم کو دھار دار بنا دیا ہے۔ یہ کہنے میں باک نہیں کہ موصوف کے لسانی تجربے نے لفظوں کے حسن میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ نظم کا ہر مصرعہ ایک بیانیہ وصف سے متصف ہے۔ نظموں کا اختتام کہیں ایک نئے تجسس کے باب وا کرتا ہے تو کہیں قاری شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کہیں ایک خوش گوار حیرت بصیرت افروزی کا سامان مہیا کرتی ہے۔ جہاں موصوف کی غزلوں میں ایک جہان معانی آباد ہے وہیں نظمیں بھی انسانی جبلتوں اور اس کی آفاقی سچائیوں کو آشکار کرتی ہیں۔ زیادہ تر نظمیں آزاد ہیں مگر پابند نظمیں بھی افکار کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ بر صغیر میں اپنے لہجے اور اسلوب سے پہچانے جانے والے منفرد قلم کار اور ہر شعر پر اپنے نام کا ٹھپا لگانے والے شاعر کی نظمیں اس کے قلب و نظر کی گہرائیوں کو آشکار کرتی ہیں۔ جس میں حیات و کائنات کے تمام مسائل سانس لیتے ہیں اور مظفر حنفی انھیں اپنی صداقت کے آئینہ خانے میں جگہ دیتے ہیں  ان میں ایک شان بے نیازی اور انکساری بھی ہے جو قلندرانہ رویے کے غماز ہیں۔ مگر حالات کے انتشار اور کسی کی حق تلفی پر مظفر حنفی لاوا کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔ خودی کو متاع عزیز تصور کرتے ہوئے زعمائے ادب کی پرواہ کیے بغیر۔ نام نہاد سکہ بند ناقدوں کو وہ خاطر میں نہیں لاتے:

کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں

مظفر سر بہ سر انکار ہو جا

کہہ کر معیار و مرتبہ کا فیصلہ آنے والے کل پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس تناظر میں نظم ’ میری نظموں کا مصرف‘ ملاحظہ کریں :

میں نہیں کہتا

کہ میری کھردری نظموں کو پڑھ کر

سنگ میل میں راہ نو تسلیم کیجے

میری نظمیں تو

روایت کی بہت پامال و فرسودہ

سڑک کے دونوں جانب

کنکروں اور پتھروں کے

ڈھیر کی مانند ہیں

جن سے نئی راہیں بنائی جائیں گی

میری دانست میں کھردرے الفاظ اور کھرا لہجہ شاعر کے جسم و جاں کا حصہ ہے۔ اس نظم میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ نئے راستے نکالنے کا اعلانیہ بھی ہے جس پر آج کی نئی نسل روا ں دواں ہے۔

لوہے کے راستے پر، نو کی لکڑی، ہابیل کی منطق اور دوسری جلا وطنی کا شمار مظفر حنفی کی نمائندہ آزاد نظموں میں کیا جانا چاہیے۔ یہاں شاعر نے سرشت آدم کی نفسیات کو اپنے منفرد اسلوب میں آشکار کیا ہے۔

’آگ مصروف ہے، میں ۵۶ رباعیات کا ایک الگ ذائقہ ہے۔ واضح ہو کہ اس سے قبل ’ دیپک راگ‘ میں ۳۳ اور ’ طلسم حرف‘ میں ۳۳ رباعیاں شامل تھیں۔ رباعی اپنی مخصوص بحر کی وجہ سے اپنا ایک الگ وقار رکھتی ہے۔ اساتذہ نے رباعی گوئی کے لیے فکر و فن پر عبور اور قادر الکلامی کی شرط رکھی اور یہ خوبی بتائی ہے کہ پہلے تین مصرعے ذخیرہ آب بنائیں اور چوتھا مصرعہ فوارہ کی طرح چھوٹتا نظر آئے۔ حنفی صاحب کے رباعیات کے مطالعہ سے بے ساختہ مجروحؔ کا یہ مصرعہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے:    ’’اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ‘‘

ان رباعیات میں موضوعات کا تنوع، بول چال کی زبان، مکالماتی انداز، سربلندی اور انا پسندی، اندرون ذات کا سلگتا طنزیہ احساس، کھرا لہجہ اور سہل ممتنع کا ایک نکھرا ہوا شگفتہ اسلوب کار فرما ہیں۔ عمیق مشاہدے کے ذریعہ عرفان ذات کی بصیرت اور حساسیت ملاحظہ کریں :

کیا عرض کروں پست کہ قد آور ہوں

باہر سے تو اندر ہی کا پس منظر ہوں

ہاں قد سے خیالات اگر جوڑے جائیں

میں اپنی رسائی سے بھی بالا تر ہوں

مرنا ہے تو بے موت نہ مرنا بابا

دم سادھ کے اس پل سے گزرنا بابا

سنتے ہیں کہ ہے موت سفر کا وقفہ

اُس پار ذرا بچ کے اترنا بابا

تقدیر پہ الزام نہیں دھر سکتے

خاکے میں سیہ رنگ نہیں بھر سکتے

ہر لوح پہ تحریر کہ جینا ہے حرام

آواز لگا دوکہ نہیں مر سکتے

شاعر کے سفر کا ایک ارفع مقام یہ ہے کہ انسان خود اپنا احتساب کرے اور اس کا یہ احتساب ہی اس کا سب سے بڑا ہمزاد ہے۔ جب اس کا عرفان ہو جائے تو قد کو خیالات سے جوڑ کر دیکھنے کے بعد وہ خود اپنی رسائی سے بالا تر نظر آتا ہے۔ موت ایک تلخ سچائی ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک دنیا ہے جو اس ماندگی کے وقفے کے بعد کی دنیا ہے لہٰذا وہاں بھی ہم صحیح و سالم گزر جائیں :

شبنم ہے کہ تاروں کے وضو کی بوندیں

یہ پھول گرے کہ رنگ و بو کی بوندیں

احساس کا یہ حال ہے کہ ہر منظر پر

آنکھوں سے ٹپکتی ہیں لہو کی بوندیں

حساس شاعر و ادیب کے یہاں اس کے اندر ہی اندر سلگتے رہنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ غزلوں پر غزلیں کہہ کر جذبہ تشنہ رہ جاتا ہے اور وحشت کو پچیسوں گھر بنا کر بھی چین نہیں ملتا ہے۔ کیونکہ اس کے سینے میں حساس دھڑکتا ہوا دل ہے جو معاشرے کے جبر پر کائنات کا ایک فرد ہونے کے ناطے لفظوں کو انگارے بنا ڈالتا ہے۔

اب تک وہی افسانۂ محمود و ایاز

سچ ہے کہ تضادات کی رسّی ہے دراز

دامن میں دو بت خون کے، رنگوں کے صنم

ظاہر میں مساوات کی اُونچی آواز

 

ہر گام پہ سو بار جھجکتی حیرت

آئینہ در آئینہ بھٹکتی حیرت

رہبر نہ اگر جھوٹ سا ملتا اس کو

سچ کو کبھی پہچان نہ سکتی حیرت

 

جملوں میں مقید ہیں پریشان الفاظ

منھ بند سسکتے ہوئے حیران الفاظ

افسانے گڑھے، شعر کہے، نظم لکھی

الفاظ نرے کھوکھلے بے جان الفاظ

محولہ بالا رباعیات کی روشنی میں یہ کہنے میں تامل نہیں کہ مظفر حنفی نے اپنی رباعیوں میں منفرد اچھوتے اور مخصوص اسلوب سے روز مرہ کے واقعات کی مرقع نگاری حسین انداز میں کی ہے۔

٭٭٭

 

’’ہم مظفر حنفی کی رباعیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ اس پُل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزرے ہیں اور ان کی رباعیوں میں اس فن کی امتیازی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ مظفر حنفی ایک سچے تخلیقی فنکار ہیں اس لیے جس طرح موضوع کا تنوع، بول چال کی زبان کا کھردرا پن، بے باک لہجہ اور طنزیہ کاٹ ان کی غزلوں کی خصوصیات ہیں، اسی طرح یہ ان کی رباعیوں کو بھی جاندار اور پرکشش بناتی ہیں اور ہم ایک حیرت انگیز اور خوشگوار جمالیاتی تجربے سے دوچار ہوتے ہیں۔ طنز مظفر حنفی کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ انھیں زندگی کی ناہمواریوں، گرد و پیش کی کھردری حقیقتوں اور معاشرتی کجیوں اور خامیوں کا گہرا احساس ہے۔ وہ طنزیہ پیرایہ بیان میں ان کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ کثرتِ مشاہدہ اور نفاست طبع نے اسے تلوار کی دھار بنا دیا ہے جس کا نشانہ دوسرے ہی نہیں، خود شاعر بھی ہیں۔ ‘‘

علقمہ شبلی

 

 

 

 

                ڈاکٹر رخسانہ مراد

    نئی دہلی

 

 

شاد عارفی کے مرثیے اور مظفرؔ حنفی

 

ممتاز ادبی و سیاسی شخصیات کے سانحۂ ارتحال پر مختلف شعراء نے اُنھیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ شاد عارفی کے انتقال پر تو ایسا لگا جیسے آنسوؤں کا سمندر اُمنڈ پڑا ہو۔ عقیدت و محبت سے سرشار اُن کے دیوانوں نے اُنھیں اپنے مخصوص انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ نیاز حیدر، وارثؔ فہمی، ہلالؔ رضوی، راشدؔ رامپوری، ذوقؔ رامپوری،  نزہتؔ بریلوی، عشرت قادری، ڈاکٹر حیدر شاہینؔ، شمسؔ  شادانی، منو لال شرما عارفی، شہنشاہؔ رامپوری، واحدؔ پریمی، رئیسؔ رامپوری، معین احسن جذبیؔ، صباؔ مجددی، رفیق مسلمؔ تسلیمی۔ قیسؔ رامپوری،  عامر بارہ بنکوی اور ڈاکٹر مظفر حنفی کا نام اُن میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ مظفر حنفی نے شاد عارفی پر مرتب کردہ دستاویز ’’ ایک تھا شاعر: شاد عارفی‘‘ کے آغاز میں خود کو شاد کا آخری شاگرد لکھا ہے۔ ویسے شاد عارفی کے ایک خط سے بھی اس حقیقت کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔ مظفر حنفی نے اپنے استاذ شاد عارفی کے انتقال پر سات نظمیں لکھیں جن میں سے پانچ ’’ ایک تھا شاعر: شاد عارفی‘‘  میں اور دو اُن کے مجموعہ کلام ’’ طلسم حرف‘‘ میں شامل ہیں۔ دیگر شعراء کے مقابلے میں مظفر حنفی کو جو پذیرائی اُن کی رثائی نظموں کے لیے ملی اتنی کسی اور کو نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ صرف استادی و شاگردی کا رشتہ نہیں بلکہ وہ تعلق خاطر بھی تھا جس کے سلسلے میں اُنھوں نے خود ایک جگہ لکھا ہے:

’’ موت برحق ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مجھے اپنے والد مرحوم کے انتقال پر بھی اتنا افسوس نہیں ہوا تھا کیونکہ والد مرحوم عام حالات میں اللہ کو پیارے ہوئے جبکہ شادؔ عارفی کو اُن کے وطن میں شیر کی طرح ہانکا کر کے موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ‘‘

جس طرح حالی نے مرثیہ غالبؔ اور یاد گار غالبؔ لکھ کر ان کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ان سے دو قدم آگے بڑھ کر شادؔ  عارفی سے مظفر حنفی نے جوشِ محبت و عقیدت کا ثبوت دیا۔ ان کا مرثیہ ’’ بزدلی‘‘ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اکبر علی خاں عرشی زادہ نے اس کی تاثیر انگیزی کو حالیؔ کے مماثل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

’’ مظفرؔ کو شادؔ صاحب سے تعلق نہیں عشق تھا۔ شادؔ صاحب کے مرنے کو جتنا اُنھوں نے محسوس کیا، بس اتنا ہی شادؔ صاحب سے کوئی قریب سے قریب رشتے والا محسوس کر سکتا ہے۔ مظفرؔ صاحب نے ’ بزدلی‘ کے عنوان سے شاد صاحب کا مرثیہ کیا لکھا ہے ہمارے عہد کا مرثیہ لکھا ہے۔ حالیؔ کے مرثیے کے بعد یہ دوسرا مرثیہ ہے جس میں دل کو زبان مل گئی ہے۔ میں نے جب جب اسے پڑھا مجھ پر رقّت طاری ہو گئی۔ اس کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس میں طنزیہ اندازِ بیان اختیار کرنے کے باوجود مرثیے کا تاثر موجود ہے۔ ‘‘

’ بز دلی‘ نامی یہ رثائی نظم پابند نظم کے نو مفرد اشعار پر مشتمل ہے۔ عنوان کے نیچے مظفرؔ حنفی نے قوسین میں ’’ مرنے کے جرم میں شادؔ عارفی پر طنز‘‘ لکھا ہے۔ پھر شادؔ سے مخاطب ہو کر نظم کا آغاز یوں کیا ہے:

یہ کوئی طریقہ ہے طنزیوں نہیں کرتے شادؔ عارفی صاحب

آپ جیسے دل والے اس طرح نہیں مرتے شاد عارفی صاحب

ان کے درمیان شاد عارفی کے جیل جانے کی تمنا، کرائے کے گھر میں انتقال کرنا، دنیا کا ساٹھ سال تک مسلسل انھیں لوٹنا، ماں کی موت پر مکان بیچ ڈالنا، سماج کا فکر و فن کے بدلے تلخیاں عطا کرنا، پُر خلوص سینے پر برچھیاں چلانا  یہ تمام باتیں شادؔ صاحب کو یاد دلا کر اُنھیں اس دنیا اور سماج سے انتقام لینے پر اُبھارا گیا ہے۔ ان ہی حالات کے پس منظر میں آٹھویں شعر میں یہ سوالیہ نشان اُبھرتا ہے:

بزدلی نہ ہو گی کیا زندگی کے مجرم کو یوں معاف کر دینا

موت کا تو مطلب ہے ظلم کے لیے راہیں اور صاف کر دینا

شادؔ مرحوم تو اس کا جواب دینے سے قاصر رہے سو خود ہی اس کا تسلی بخش جواب مظفر نے تلاش کر لیا ہے۔

خیر ہم سمجھتے ہیں موت سے نہیں ڈرتے شاد عارفی صاحب

یہ بھی طنز ہی ہو گا مر کے بھی نہیں مرتے شادؔ عارفی صاحب

۱۹۶۴ء

آخری شعر کے دوسرے مصرعے سے شاد عارفی کی تاریخ وفات بھی نکلتی ہے۔ اندازِ تخاطب، تاثیر، طنز کے تیکھے پن اور ایجاز و اختصار کے ساتھ صرف چار اشعار میں المناک حالاتِ زندگی کی ترجمانی اور جذبات کی شدت کے باوجود آخر میں مرنے کو شاد صاحب کی موت پر طنز کرنے سے محمول کرنا ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر یہ شخصی مرثیہ لا ثانی بن گیا ہے، مظفر حنفی نے پورے مصرعے سے ان کی تاریخ وفات نکالی ہے۔ میرے مطالعے کی حد تک اردو شاعری میں پورے مصرعے سے بہت کم تاریخ وفات نکالی گئی ہے۔ یہی صورت مظفرؔ حنفی نے اپنی والدہ کے سنہ وفات برآمد کرنے میں اپنائی ہے:

وصال کا سنہ اُنھیں میں پنہاں تھا اے مظفرؔ

مزار خاتون فاطمہ پر جو پھول برسے

۱۹۶۶ء

مظفر حنفی کی دوسری شاہکار رثائی نظم ’’ وصیت‘‘ ہے جو کہ آزاد نظم کے فارم میں ہے۔ مظفر حنفی کی اس نظم کا تخاطب اُن کا بیٹا گڈو ( فیروز مظفر) ہے  اس میں بیانیہ انداز میں سلاست کے ساتھ مختصراً شاد عارفی کی مکمل سوانح حیات آ گئی ہے۔ نظم کا آغاز بیحد خوبصورت ہے۔

گڈو بیٹے روتے کیوں ہو

قصہ سننے کی خواہش ہے

اچھا اپنے آنسو پونچھو

لو ہم اک قصہ کہتے ہیں

پھر لڈن خاں کی کہانی شروع ہوتی ہے جو ایک افغانی النسل داروغہ کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے کھاتے پیتے گھرانے میں بڑے لاڈ پیار سے اپنا بچپن ہنستے کھیلتے گزارا۔ لڈن خان کی فطرت میں نچلا بیٹھنا شامل نہ تھا سو وہ مکتب میں لڑائی جھگڑے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ چودہ برس کی عمر میں جب دونوں سر پرستوں ( نانا اور والد) کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تو اُنھوں نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ ٹیوشن کیے اور اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے لگے۔ ادھیڑ عمری میں شادی کی لیکن بیماری کا مستقل علاج نہ ہونے کی وجہ سے صرف ڈیڑھ سال کے مختصر عرصۂ رفاقت کے بعد اُن کی شریکِ حیات نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ انھوں نے جب بھی کہا سچ کہا اور اور  سچ کی اس تلخی کو قبول کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ سو دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ بے روزگاری کی نوبت آ گئی، حد تو یہ ہے کہ اپنی ماں کی موت پر تجہیز و تکفین کے لیے اُنھیں اپنا مکان تک بیچنا پڑا۔ اس ساری صورت گری کے بعد مظفر حنفی آگے کہتے ہیں :

لڈن خاں نے اپنی غزلیں، اپنی نظمیں، ساری چیزیں چھوڑ چھاڑ کر

چپکے سے مر جانے ہی کو بہتر سمجھا

غور کیجیے تو اس نظم کے آغاز سے لے کر انتہا تک صداقت کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ وہ سچ جس نے لڈن خان کو شاد عارفی بنایا اور اسی سچ نے اُنھیں موت کا زہر پینے پر مجبور کر دیا۔ نظم کے اختتام پر وہ ابتدائی آہنگ کو اپناتے ہوئے قصہ کا اختتام کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو نصیحت کرتے ہیں وہ بھی خوب ہے:

گڈو!

میرے پیارے بیٹے

میرے راج دلارے بیٹے

دیکھو تم غزلیں مت کہنا

بیٹے!

تم نظمیں مت کہنا

لکھنا ہی پڑ جائے تو پھر سچ مت کہنا

دیکھو بیٹا سچ مت کہنا

سچ مت کہنا

اس میں چونکہ بچے کو قصہ سنایا جا رہا ہے۔ بچے کی عمر، شعور کی عدم پختگی کو دیکھتے ہوئے دانستہ طور پر زبان بچکانہ استعمال کی گئی ہے۔ درمیان میں تخاطب کی رو بچے کی طرف موڑی گئی ہے تاکہ اس کی توجہ کسی اور طرف نہ مڑ سکے۔ ملاحظہ ہو:

لڈن خان اچھے بچے تھے( بالکل ویسے جیسے تم ہو)

لڈن خاں نے پڑھنا سیکھا، لڑنا سیکھا ( آخر وہ افغانی بھی تھے)

نانا اور ابو دونوں نے لڈن خاں سے کٹّی کر لی( مرنا جینا تم کیا سمجھو)

لوگوں پر پھبتی کستے تھے  ( اپنے ہوں یا غیر سبھی پر)

سچ کہنے میں سچ لکھنے میں باک نہ کرتے ( یہ تو ایک نشہ ہوتا ہے)

لیکن وہ تو راجہ جی پر پھبتی کس کر امّی کی پنشن لے ڈوبے

(بولو اُن کی کیا اٹکی تھی، راجہ جو کچھ بھی کرتا تھا، لڈن خاں سے کیا مطلب تھا؟)

غرض کہ یہ نظم اپنے اسلوب، لہجے اور سلاست کے اعتبار سے ایک منفرد مرثیہ ہے جس کے سلسلے میں شمس الرحمن فاروقی نے بجا طور پر لکھا ہے:

’’مظفر حنفی کی نظم ’ وصیت‘ اردو کے اہم مرثیوں میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ اس میں طنز اور افسردگی کا انوکھا امتزاج دیکھنے میں آتا ہے۔ شادؔ عارفی خود اپنا مرثیہ اس سے بہتر نہیں لکھ سکتے تھے۔ ‘‘

اس مرثیے کی اشاعت جب ماہنامہ ’ تحریک‘ میں ہوئی تو بمل کرشن اشکؔ نے اپنے تاثراتی خط میں لکھا:

’’ مظفر حنفی کی نظم نے رُلا دیا، اس عجیب انداز سے یہ نوحہ لکھا ہے کہ پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ ‘‘

مظفر حنفی کی تیسری نظم جو ’ چراغ طنز یہ غزل‘ کے عنوان سے ہے، تیرہ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کی تکنیک مکمل طور پر غزل کی ہے۔ اگرچہ اس مرثیہ میں مظفر حنفی کے اندازِ بیان میں سوگواری ہے پھر بھی طنز کا پہلو اس میں شامل ہو گیا ہے۔

غریب ہوکے پھر وہ آن بان شاد عارفی

تری زمین بھی تھی آسمان شادؔ عارفی

یہی تو دور طنز کا ہے کس عجیب وقت میں

خموش ہو گئی تیری زبان شادؔ عارفی

برائے طنز ہنس کے موت کو گلے لگا لیا

تجھے سمجھ رہے تھے سخت جان شادؔ عارفی

ہزار حیف اک عظیم شخص تھا، نہیں رہا

اگرچہ آدمی تھا دھان پان شادؔ عارفی

’’ شادؔ عارفی‘‘ کے نام سے لکھی گئی چوتھی نظم بھی مکمل طور سے غزل کے فارم میں ہے جس میں کل ۲۱ اشعار ہیں۔ گزشتہ نظم کی طرح اس کا بھی آہنگ وہی ہے، بس لہجہ اور ردیف و قافیہ کا فرق ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

سخی تو خیر تھا مگر بخیل سا بخیل تھا

خوشی تو بانٹتا پھرا ہے غم چھپا گیا ہے وہ

قضا پہ دسترس نہیں، نظر سے دور لے گئی

مگر دلوں کے اور بھی قریب آ گیا ہے وہ

برائے فکر و فن تمام عمریوں گزار دی

کہ بیسویں صدی کی روح میں سما گیا ہے وہ

مظفر حنفی کی پانچویں رثائی تخلیق ’’ شادؔعارفی کا قاتل‘‘ سات مصرعوں کے دو بندوں پر مشتمل ہے۔ پہلے بند میں بتایا گیا ہے کہ اگر شاد عارفی گلوں کے سفیر، قفس کے اسیر، لکیر کے فقیر، غزل میں شوخ اور شریر، سماج کے دست گیر اور بد ضمیر ہوتے تو دولت اُن کے گھر کی باندی ہوتی۔ دوسرے بند میں زمانہ شناسی اور مصلحت پرستی کے جوہر کا شادؔ کی شخصیت میں فقدان ظاہر کیا گیا ہے۔

جو حکم حاکم پر کان دھرتے

کہیں ٹھٹکتے، کہیں ٹھہرتے

صداقتوں ہی کا دم نہ بھرتے

بلا سے تیور نہیں نکھرتے

جو سازش باغباں سے ڈرتے

سخاوت خونِ دل نہ کرتے

تو غالباً اس طرح نہ مرتے

اس بند میں صداقت کا دم بھرتے اور خونِ دل کی سخاوت کرنے کے جرم میں موت کی سزا پانے کا تذکرہ مظفر حنفی نے کیا ہے۔ آخر میں اس کا واضح نتیجہ سامنے آ جاتا ہے:

یہ فرض کر کے بہل گیا دل

کہ شادؔ تھے عارفی کے قاتل

’گفتنی ناگفتنی ‘ کے عنوان سے مظفر حنفی کا شاد عارفی پر لکھا گیا مرثیہ جو ۱۴ اشعار پر مبنی ہے اس میں مختلف قسم کے جذبات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ جذبات کی شدت، جھلاہٹ آمیز تیکھا لہجہ اور رزمیہ آہنگ نے اس کا روپ ہی بدل دیا ہے۔ اس مرثیہ میں شدتِ غم کے ساتھ ایک جارحانہ احتجاج کی زیریں لہر بھی محسوس ہوتی ہے۔ ابتدا ہی سے اس میں جھنجھلاہٹ کا اظہار نظر آتا ہے:

شادؔ عارفی کا نام مرے رو برو نہ آئے

یہ طنزیہ کلام مرے رو برو نہ آئے

ایسا لگتا ہے کہ جذبات کا ایک پُر شور طوفان ہے جو کسی بھی بند کے باندھنے سے نہیں رُک سکتا۔ یہ اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے جانے کا خواہاں ہے۔ گویا احساسات کا ایک آتش فشاں ہے جو شدت کے ساتھ پھٹ پڑا ہے۔ آخر میں جب یہ طوفان تھمتا ہے تو شاعر کے سلسلے میں ایسا لگتا ہے کہ اس نے غموں کے سامنے سپر ڈال دی ہو۔ مظفر حنفی کے خیال میں :

پلکوں پہ آنسوؤں میں کہاں تک لہو نہ آئے

شادؔ عارفی کا نام مرے رو برو نہ آئے

ظ۔ انصاری نے شادؔ عارفی پر اظہار خیال کرتے ہوئے مظفر حنفی کو اس طرح ڈھارس دی  ہے:

’’ وہ اپنی کرنی سی کر گئے ایسا قادر الکلام شاعر اگر اور کچھ نہیں تو آپ کے لکھے ہوئے مرثیوں میں زندہ رہ جائے گا۔‘‘

٭٭٭

 

’’ عکس ریز‘‘ مظفر حنفی کی طویل طنزیہ نظم ہے، جس میں ۱۲۴ خاکے یا کردار ہیں۔ طنز نگاری مظفر حنفی کا عمومی مزاج ہے، ویسے جدید شاعروں میں ان کی آواز اپنے تیکھے انداز کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام ’’ پانی کی زبان‘‘ کا مطالعہ کے بعد تو یہی رائے قائم کرنی پڑتی ہے۔ وہ شادؔ عارفی کے شاگرد ہیں اور موصوف بے حد بے باک اور خطرناک طنز نگار تھے۔ مظفر حنفی کی طنز نگاری محض تقلیدی نہیں ہے۔ شاد عارفی کے یہاں ایک قسم کا کھردرا پن ہے۔ نکتہ چینی کا تیور اور لڑائی بھڑائی کی کیفیت ہے۔ لیکن مظفر حنفی لب و لہجہ کی متانت انتہائی سنگین موقعوں پر بھی نہیں کھوتے، اس لیے ان کے طنز پر غصہ نہیں آتا بلکہ سوچنے سمجھنے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ ’’ عکس ریز‘‘ کے کردار ہماری دیکھی اور محسوس کی ہوئی دنیا کے لوگ ہیں۔ یہ اپنی اپنی جگہ پر بہت دلچسپ ہیں اور اپنی کمزوریوں کے باعث عجیب و غریب بھی ہیں، مظفر حنفی نے ان کی دکھتی رگوں پر انگلی رکھ دی ہے۔ پہلے اور آخری مصرعہ کو ریفرنس کہہ لیجیے تو پھر ہر کردار کے لیے ساڑھے تین اشعار کہے گئے ہیں۔ اتنے اشعار کی پابندی کے بعد بھی ہر خاکہ مکمل ہے۔ پوری تصویر صاف ابھر آئی ہے۔ یعنی شاعر نے کرار تخلیق نہیں کیے ہیں بلکہ چاول پر قل ہو اللہ لکھا ہے۔ ‘‘

پروفیسر وہاب اشرفی

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید