FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مصر میرا خواب

سلمیٰ اعوان

 

پیش لفظ

 میں لکھنے میں ذرا تیز نہیں۔ کہہ لیجیے سُستی کی آدھی نہیں پوری پنڈ (گٹھڑی) (ہوں۔ آدھا صفحہ لکھ لوں تو جیسے اُچھڑ پھیڑے (اُٹھنے پھرنے کی بے چینی) لگ جاتے ہیں۔ کاغذ قلم رکھ کر اپنے آپ سے کہنا ضروری ٹھہرتا ہے کہ ’’لو اب اتنا تو لکھ لیا ہے۔ ‘‘ نتیجتاً ادب کی کسی بھی نثری صنف پر کام شروع کروں تو سالوں پر سلسلہ محیط ہو جاتا ہے۔ چترال پر کتاب پانچ چھ سال میں مکمل ہوئی۔ مختلف اوقات میں تین بار وہاں گئی۔ سری لنکا۔ تین چار باب کے بعد معاملہ ٹھپ۔ یہی حال استنبول کے ساتھ ہوا۔ مصر پر بھی چار باب لکھے اور انگڑائیاں لینے لگی۔ پورے چودہ دن مصر کے جنوبی حصّے قاہرہ اور اسکندریہ میں گزار دئیے۔ شمالی مصر کی اہم جگہیں نہر سویز اور جبلِ طُور پھر بھی رہ گئے۔ جو میں نے اگلے دورے کے لیے رکھ چھوڑے۔

 پھر یوں ہوا کہ میں بیمار ہو گئی۔ الحمد اﷲ میں بڑی سخت جان عورت ہوں زندگی میں بیمار پڑنا تو بڑی بات نزلہ زکام اور سر درد بھی میرے پاس سوچ سمجھ کر آتا ہے۔ بھونچکی سی ہو کر میں نے خود کو دیکھا۔ اور اپنی عمر کا حساب لگایا۔ اب ساٹھے میں تو داخلہ ہو گیا اور اوپر والے کی نظر عنایت کہ گاڑی چلائے جا رہا تھا۔

 تو میں کس انتظار میں ہوں۔ یہ جو یہاں وہاں اِس دراز اُس دراز اِس شیلف اُس شیلف میں ڈھیروں ڈھیر ادھورے مسودے پڑے تمہاری جان کو رو رہے ہیں  انہیں تمہاری ادب سے بے بہرہ اولاد چولہے میں تو نہیں جھونکے گی کہ ان کے زیرِ استعمال لکڑیوں کے چولہے نہیں رہے۔ (یہ اور بات ہے کہ گیس کا بحران اُن کی با عزت واپسی کا سبب بن جائے) پر ردّی والوں کے تھیلے ضرور بھروا دے گی۔ اور رہا شمالی مصر تو زندگی اور حالات اگر دوبارہ مصر لے گئے تو اُردن کی طرف نکل جانا۔ کچھ سامان ہو ہی جائے گا۔

 تو صاحب پہلی بار ٹک کر بیٹھی اور میں حد درجہ حیرت زدہ ہوں کہ میں نے اسے مکمل کیسے کر لیا۔ مصر مشکل اور خشک موضوع ہے۔ بہت گہرے مطالعہ کی ضرورت تھی۔ بہر حال خدا کا احسان ہے اپنی جانب سے میں نے اسے واقعات کی مکمل صحت کے ساتھ لکھا۔ فیصلہ تو قارئین کے پاس ہے کہ انہوں نے اسے کیسا پایا۔

٭٭٭

 

۱۔مہربانیاں مصری ایمبیسی کی::نوازشات قاہرہ والوں کی

 مصر میرے بچپنے کا وہ دلکش خواب تھا جس کے ڈانڈے میری عزیز ترین ہستی کی یادوں سے جڑے ہوئے تھے۔ میری اماّں جب جب اپنی بہنوں سے زوردار جنگ لڑتیں تب تب وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں شکست خوردہ سے انداز میں بیٹھ کر مولوی غلام رسول کی ’’یوسف زلیخا ‘‘ کے اشعار ترنم سے پڑھتیں۔ میں ان کی آواز کے سحر میں ڈوبی مصر کنعان قبطی بولی فرعون عزیز مصر زلیخا یُوسف بنیامین یعقوب جیسے الفاظ اشعار میں ڈھلے سُنتی تو کتنے سوال میرے ننھے مُنے دماغ سے نکل کر میری اماں کے پاس تسلی بخش جواب پانے کے لئے دوڑے دوڑے جاتے۔ پر اُن کی تشفی نہ ہو پاتی۔

 مصر ہزار روپ دھارتا۔ اس کے وجود کے سینکڑوں رنگوں نے میری آنکھوں کی پتلیوں میں گویا مستقل بسیرا کر رکھا تھا۔ ایک جہاں آباد کیا ہوا تھا۔ سالوں میں نے بہت سا وقت ان کی فینٹسی میں گزارا۔

 جوانی ڈھیروں مسائل کے انبار تلے سانس لیتی اور پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیاحت اور اُن پر لکھتے گزر گئی۔ اور جب بڑھاپے نے اپنی گرفت میں لیا میں نے مصر جانے کا ارادہ کر لیا۔ معلوم نہیں اِس ارادے کی بھنک بیس 20 گھر پرے رہتی میری ممیری بہن کی نو عمر انتہائی خوبصورت بیٹی ثنا کے کانوں میں کیسے پڑ گئی۔

 ’’آنٹی مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیے۔ مصر دیکھنا میری بڑی خواہشوں میں سے ایک ہے۔ ‘‘

 میں نے دہل کر اُس کے حسین چہرے پر نظر ڈالی اور دل میں کہا۔

 ’’اللہ اِس قلوپطرہ کے حُسن جہاں سوز کو میں پرائے دیس میں کہاں سنبھالتی پھروں گی۔ عربی تو یوں بھی بڑے حُسن پرست ہیں۔ کوئی ہبی نبّی (اونچ نیچ) ہو گئی تو کس کی ماں کو ماسی کہوں گی۔ ‘‘

 ’’نہ بابا نہ۔۔۔ ‘‘

 ناں کی گونج بڑی تیز اور نوکیلی قسم کی تھی جو میرے اندر سے اُٹھ کر میرے ہونٹوں پر آئی تھی۔

 پر ہوا یوں کہ ایک د ن میری بڑی بہو (ثنا کی بڑی بہن) نے میرے اوپر بم گرایا یہ کہتے ہوئے کہ وہ میرے ساتھ مصر جانا چاہتی ہے۔ نیز سرمد (میرا پوتا) کا قطعی فکر نہ کریں۔ وہ اور ثنا اُسے مل کر سنبھال لیں گی۔

 بھونچکی سی ہو کر میں نے اُسے دیکھا۔ تپ چڑھے انداز میں بڑی کڑوی سی سوچ در آئی تھی۔

 ’’دیکھو تو ذرا بالشت بھر کے بلونگڑے کے ساتھ اب یہ میرا چاہتوں بھرا سفر کھنڈت کریں گی۔ ارے چھوٹا سابچہ۔ سفر تو سفر ہوتا ہے نا۔ کہیں اُس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ہو گا نہ میرا امتحان۔ اب چھوڑ کر جاؤں توسُنوں کہ بھئی دادی کو تو سپاٹوں سے فرصت نہیں تھی۔ میں تو ماں تھی نا۔ کیسے کہیں ادھر ادھر جاتی۔ ‘‘

 سوچا غور کیا اور پھر لبوں پر ملائمت سجائی لہجے میں محبت رچائی۔

 ’’فریحہ میری جان زندگی پڑی ہے گھومنے پھرنے کیلئے۔ بچے پال لو پہلے۔ اور ہاں اگر یہ سب ثنا کے لئے ہے تو اُسے میں لے جا تی ہوں۔ ‘‘

 اور یوں ثنا سفری ساتھی بنی۔ مہرالنساء تو میری پکّی سفری ساتھی پہلے سے ہے چلو کاغذی مرحلوں کی تیاری شروع ہوئی۔

پر سچ تو یہ تھا کہ میں دودھ کی جلی ہوئی تھی اب چھاچھ کے لئے کیسے خوش فہمی کا شکار ہو سکتی تھی۔ ابھی کوئی دس10 ماہ پہلے تُر کی ایمبیسی نے تو مجھے رول دیا تھا۔ کانوں کو ہاتھ لگوا دئیے تھے۔ ہر دوسرے دن ٹرنک کالوں نے میرا سفری بجٹ اپ سیٹ کر دیا تھا۔ جُون کے آغاز میں دی گئی درخواست کو ستمبر میں اذن سفر ملا تھا۔

 مصر کے لئے اپلائی کرتے ہوئے گو ہم اپنے ساتھ اصلاً نسلاً مصری خاتون کو (جو ایک پاکستانی محبوب الحق کی بیگم ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری محلے دار بھی ہیں ) لے کر گئے تھے۔ جس نے ایک زوردار ہلّے میں ہی ہمیں بازوؤں سے تھام کر سفارت خانے کی پرُپیچ وادی میں اِس سہولت سے پہنچا دیا کہ ہم چند لمحوں کے لئے تو ہکاّ بکاّ سے ہو گئے۔ کہاں کی سیکورٹی اور کہاں کے گارڈ وہ سب کو ٹھینگے دکھاتی ٹھک ٹھک ایڑیاں بجاتی افسر کے کمرے میں پہنچ گئی۔ مسکراہٹوں کے تبا دلے کے بعد عربی کی عطربیز خوشبوئیں کمرے میں چار سُو پھیلنے لگیں۔ ایک اور بڑا افسر بھی آ شامل ہوا۔ ہم بیٹھے جوس پیتے اور ٹک ٹک دید م کے مصداق زبان یار من عربی کہتے ساتھ خود کو لعن طعن بھی کرتے جاتے تھے کہ بھئی عربی کے لئے یہ کہنا کہ من نمی دانم بے حدافسوسناک ہے۔

 ہمارے کاغذات کی پیشی ہوئی۔ ساتھ ہی ویزا فیس غالباً 1800 فی کس کے حساب سے مانگ لی گئی۔ ڈیڑھ گھنٹہ میں ساری کاروائی مکمل ہونے کے بعد ہمیں انتہائی عزت و احترام سے رُخصت کیا گیا۔

 ہمارے لیے یہ سب بڑا خوش کن تھا۔ کہاں ہم شیڈوں کے نیچے جُو ن کی تپتی دوپہروں میں بھُنتے رہے۔ کہاں وی آئی پی ٹریٹ منٹ۔ اللہ کی شان ہی تھی نا۔ وگرنہ تو ہمیں اپنی اوقات کا بخوبی علم تھا ہی۔

 ’’ارے جرح تو انہوں نے آپ لوگوں کے سلسلے میں خاصی کی۔ مگر میں نے بھی کہا۔ سب کچھ میری گارنٹی پر ہے۔ ‘‘ مسز محبوب نے مختصراً ہمیں بتایا۔

 چوتھے دن ویزا لگنے اور پاسپورٹ لینے کی خوشخبری تھی۔

 ہمارے تو ہاتھ پاؤں ہی پھُول گئے۔ ٹریول ایجنٹ کو فوراً ٹکٹ کنفرم کرنے کے لئے کہا۔ آواز میں تیزی تھی۔

 ’’اتنی جلدی۔ ‘‘ دوسری جانب بلا کا اطمینان تھا۔

 ہماری جانب سے تھوڑی سی تلخی کے اظہار پر جواب ملا تھا۔

 ارے آپ سمجھتی نہیں۔ ائر لا ئنز پر کتنا پریشر ہے۔ اتحاد چونکہ سستی ائرلائن ہے اس لیے ہر کوئی اسی کی طرف بھاگا جاتا ہے۔ ‘‘

 اب فون پر ہی بحث مباحثے اور دلائل کا ایک دفتر کھُل گیا۔ گرم سرد الزام تراشی سبھی کچھ شروع ہو گیا۔

 بیٹے سے بات کی تو اُس کے لہجے میں اچھی خاصی لتاڑسی تھی۔

 ’’جب عورتیں آپ پھُدری ہوں تو پھر یونہی ہوتا ہے۔ تاکید تو کی تھی کہ بھڑپونجے قسم کے ایجنٹوں سے متھا نہیں لگانا۔ پر آپ سُنیں کسی کی تب نا۔ اب بھگتیں۔ ‘‘

 سو بھگتنے کی سزا فی کس تقریباً پانچ ہزار کے لگ بھگ اضافی ادا کرنے پڑے۔ اتحاد سے گلف میں نقل مکانی ہوئی۔ اور یوں خیر سے بدھو مصر سُدھارے۔

 پہلا پڑاؤ بحرین ہونا تھا۔ چار گھنٹے کی پرواز کے بعد پرشین گلف کے دہانے پر اُبھرے ہوئے چھوٹے سے خوبصورت زمینی ٹکڑے پر بستا بحرین کا شاندار شہر جیسے سُورج کی طرح طلوع ہو گیا۔ ائرپورٹ شاندار تھا جس پر دنیا بھر کے بھانت بھانت کے لوگوں اور بولیوں کا قبضہ تھا۔ انڈونیشیا کا اٹھائیس 28 لوگوں پر مشتمل ایک ٹولہ مصر جا رہا تھا۔ سارے جوان لڑکے لڑکیاں تھے۔ یہ انڈونیشی بھی مزے کے لوگ ہیں۔ سارے کام جوانی میں ہی کرتے ہیں۔

 ڈھائی تین گھنٹے کا یہ وقت ہم نے ونڈو شاپنگ میں نہیں بلکہ تحقیق و تجربے میں گزارا۔ ہیروں سے خوشبوؤں سے کا سمیٹکس کی چیزوں سے بغیر دھیلے پولے کی خریداری کے مکمل اور بھرپُور وجودی آشنائی حاصل کی۔

 دو بجے قاہرہ ائر پورٹ پر لینڈنگ ہوئی۔ ائر پورٹ کی شان و شوکت میرے حسابوں کچھ اتنی خاص نہ تھی۔ شاید ایک اور نیا عالیشان ائر پورٹ قریب ہی بن رہا تھا۔ سب مراحل طے کرتے ہوئے جب باہر آئے تو میری توقع کے عین مطابق مسز محبوب کی بہن بوسیما تلبہ ہمارے استقبال کے لئے کہیں نہیں تھی۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود بھی ہم نے اپنا قیمتی پون گھنٹہ اُسے کھوجنے میں گزار دیا۔ کبھی کسی شکل پر گمان گزرے کبھی کسی پر۔ پوچھ گچھ سے انکار پر جو رد عمل سامنے آتا وہ بڑا خفتّ اور تر حّم آمیز سا تھا۔

 با لآ خر یہ فضول کوشش چھوڑ کر ٹیکسی والوں کے گرد ہوئے۔ پر یہاں بھی گھمبیر مسئلہ تھا۔ عربی اور انگریزی کی کھینچا تانی میں کچھ پلے ہی نہیں پڑتا تھا۔ تبھی وہ تیز طرّار ساعلی اپنی بہترین انگریزی کے ساتھ سامنے آیا۔ اور جس نے ہمیں ٹیکسی ڈرائیوروں کے ہجوم سے اُچکتے ہوئے اپنے کسی بندے کی گاڑی میں بٹھایا اور ہماری کسی اچھے اور سستے ہوٹل والی خواہش کو زبان دیتے ہوئے ہمیں اس تاکید کے ساتھ رخصت کیا۔ کہ آپ کا یہ مسئلہ بہ حُسن و خوبی حل ہو جائے گا فکر نہ کریں۔

 او ر جب ٹیکسی صحرائی علاقے میں بھاگی جاتی تھی۔ میں نے نکھرے آسمان کو دیکھا اور مجھے محسوس ہوا تھا جیسے اماں ہنستے ہوئے مجھے کہتی ہوں۔

’’تو پھر تم پہنچ ہی گئی نا مصر۔ ‘‘

 خدا بندے کی اندر کی خواہشوں کو سُننے والا ہے۔ اسوقت میرا مُومُو تشکّر کی پھوار میں بھیگا ہوا تھا۔

 ’’ ہم اسوقت صلاح سلیم روڈ سے گزر رہے ہیں۔ اور یہ سیدہ عائشہ چوک ہے۔ ‘‘ ڈرائیور کا انگریزی سے واقف ہونا بھی نعمت خداوندی تھا۔

 سیدہ عائشہ چوک میں دو تین سڑکوں کے موڑ کاٹنے کے بعد اُس نے ایک دو منزلہ عمارت کے سامنے رُکتے ہوئے ہمیں اُتارا کہ ہوٹل کے بارے میں بات چیت یہاں ہو گی۔

 اندر جانے سے قبل میں نے گرد و نواح پر نظر ڈالی۔ بلند و بالا عمارات سے گھرا ہوا یہ صاف ستھُرا علاقہ کسِی ماڈرن شہر کا حصہ لگتا تھا۔

 اب یہ بات تو اندر جا کر ڈیڑھ گھنٹہ کھپنے کے بعد بھی ہم جیسے احمقوں پر واضح نہیں ہوئی کہ یہ بھی ٹورسٹوں کو پھانسنے کا ایک انداز ہے۔ پہلے دو لڑکوں سے مغز ماری کی۔ پھر فون پر ایک خاتون سے وہ مُصر کہ تین بندوں کے لئے دو کمرے ہوں اور ہمارا ایک کمرے پر اصرار۔

 ارے احمقو کچھ تو سوچو میں ذرا تلخی سے بولی۔ ایک ترقی پذیر ملک کی تین مسلمان عورتیں جن میں ایک کنواری اور نو عمر۔ الگ کمرہ کیسے لیں۔ پچاس 50 ڈالر سے شروع ہو کر 26 ڈالر پر اس کا اختتام کرتے ہوئے ہم بالآخر گاڑی میں بیٹھ گئے۔

 ڈوقی Doqqi کے علاقے سرائے سٹریٹ کے انڈیا نہ ہوٹل میں ہمارا داخلہ ہوا۔ پر یہ داخلہ صرف ریسپشن تک ہی تھا۔ کمرے تک جانے کے لئے تو پابندی لگ گئی کہ چھبیس 26 ڈالر میں اِس تھری سٹار ہوٹل کے کمرے تک جانا ممکن ہی نہ تھا اب سمجھ آئی کہ گویا نو سر بازوں کے ہتھے چڑھے تھے۔ ساری مغز کھپائی ساری محنت اکارت گئی۔ پڑے ساری توانائیاں خرچ کر کے شور مچاؤ کہ ہمارا تو چھبیس 26 پر مُک مُکا ہوا تھا۔ وہاں کو ن سُنے۔

 لاؤنج میں بیٹھے آسٹریلوی سیاح ڈرنک کرتے کتابیں پڑھتے اور ہماری گفتگو سنتے اور مسکراتے ہمیں بڑے زہر لگے تھے۔

 ’’چلو لعنت بھیجو اب ہاتھ ہو گیا ہے تو کیا کریں۔ ‘‘

 چالیس 40 ڈالر پر کمرے کی چابی مل گئی یہ بھی غنیمت کہ کمرہ کشادہ اور بیڈ تین تھے۔

 ذرا کمر سیدھی کی۔ جوان لڑکی جی جان سے تیار ہوئی۔ دونوں بوڑھی عورتوں نے بھی اپنے اپنے مزاج کے مطابق بننے سنورنے کا اہتمام کیا۔

 اب رات کے کھانے کے لئے چلے۔ چلتے چلتے ریسپشن سے ہوٹل کا کارڈ لیتے ہوئے میں نے تو چاہا کہ چلو اِن سے کسی ریسٹورنٹ کا ہی پوچھ لیتے ہیں۔ پر ثنا نے گھُر کا۔

 ’’گولی مارو انہیں۔ باہر لوگ مر تو نہیں گئے۔ ‘‘ ثنا کوئی دو گھنٹے پہلے کی ساری کاروائی دل میں لیے بیٹھی تھی۔

 اور باہر جیالے ٹیکسی والے شہد کی مکھیوں کی طرح جھپٹے۔ ایک میں بیٹھے کہ اُس نے ہانک لگائی تھی کہ قاہرہ کے دل میں لے کر جاؤں گا۔

 لاہور کی تاریخی نہر سے جسامت میں قدرے بڑی پر واقع پل سے گزارتے ہوئے اُس نے گلا برج کا نام بتایا۔

 ’’یہ نیل ہے تو کتنا چھوٹا۔ ‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔

 ’’کہاں چھوٹا۔ ‘‘ڈرائیور فوراً بولا۔

 ’’پار بھی نیل ہے بہت بڑا۔ کہیں کہیں نیل کے درمیان یا اطراف میں خشکی کے بڑے بڑے ٹکڑ ے اُبھرے ہوئے ہیں۔ جیسے یہ الجزیرہ اور زمالک۔ ‘‘

 اور قاہرہ ٹاور پر ہمیں اُتارتے ہوئے اُس نے کہا۔

 ’’یہ الجزیرہ کا علاقہ ہے۔ قاہرہ کا دل جس کے دائیں بائیں نیل کی خوبصورتیاں اور رنگینیاں ہیں۔ ‘‘

 ہم تو بھونچکے سے کھڑے تھے۔ فلک بوس عمارتوں کا ایک طوفان خود رو جنگلی پودوں کی طرح اُگا ہوا نظر آیا تھا۔ آسمان کی وسعتوں کو چھُو تا اپنی بناوٹ میں بڑا منفرد بالائی حصّے پر لوٹس کی طرح کِھلا ہوا قاہرہ ٹاور کو میں نے حیرت بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے خود سے کہا تھا۔

 ’’ تو یہ قاہرہ ٹاور ہے۔ ‘‘ ہمارے فیملی فرینڈمسعود بلوچ یاد آئے جنہوں نے کوئی دس بار کہا ہو گا کہ مصر گئیں تو قاہرہ ٹاور دیکھنا نہ بھولنا۔

 ’’لو میں تو پہلی رات ہی اُس کے سرہانے آ پہنچی ہوں۔ ‘‘

 رات نے منظروں کی دلکشی و زیبائی میں چار چاند لگا رکھے تھے۔ روشنیاں جیسے سیلاب کی صورت بہتی تھیں۔ دوکانوں کی آرائش و زیبائش اور اُن میں گھومتے پھرتے لوگ ماورائی سے نظر آ رہے تھے۔ پاس ہی اوپرا ہاؤس تھا جس کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ جاپانیوں کا مصریوں کو تحفہ ہے۔ عمارت کا حُسن آنکھوں میں کھُبا تو بے اختیار زبان نے کہا۔

 ’’ارے تحفہ تو لاجواب ہے۔ ‘‘

 اب چلنا شروع کیا۔ ہواؤں میں خنکی تھی۔ شاہراہوں پر نفوس کی گرما گرمی تھی۔ غیر مُلکیوں کے ٹولے تھے۔ تب ہم تینوں نے ایک دوسرے سے کہا۔

 چلو قاہرہ ٹاور کے اوپر گھومنے والے ریسٹورنٹ میں کھانا کھائیں۔ پر رُک گئے صرف یہ سوچتے ہوئے کہ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار۔ شہر سے تھوڑی سی آشنائی ہونے دو۔ کیا پتہ کتنا مہنگا ہو۔ آدھی جیب یہاں ہی خالی نہ ہو جائے۔

 جو کھانا کھایا چلو خیر سستا ہی تھا۔ پر نیل کے دوسرے کنارے کو ہاتھ لگانا قدرے مہنگا پڑا۔ کہ خاموش بیٹھ کر پانیوں میں رواں دواں کشتیوں اور روشنیوں کو ڈوبتے اُبھرتے دیکھنا ہواؤں کے دوش پر لہراتی عربی موسیقی اور گیت سننا بھی کوئی کم پر لُطف نہ تھا۔ پر رُوکھے سُوکھے کی بجائے نیل کے پانیوں میں اُتر کر اُسے ہاتھ سے چھُونا اور اُمّ کلثوم کو قریب سے سننا کہیں زیادہ خوبصورت اور انوکھا تجربہ تھا۔ عربی گیت اور موسیقی اسقدر دل نواز ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس کا رتی برابر اندازہ نہیں تھا۔

اور قاہرہ کی وہ اولین شب ہمیشہ یاد رہنے والی تھی۔

٭٭٭

۲۔ الازہر یونیورسٹی و مسجد

                مسجدِ حسین، خانہ خلیلی بازار

 ہلکے سے ملگجے اندھیرے میں ڈوبی قاہرہ کی صبح کو سرد ہواؤں کی بُکّل اوڑھے میں نے بالکونی میں کھڑے ہو کر دیکھا تھا۔ یادوں کی بارات تھی جو گاتی بجاتی میرے سامنے چلی آ رہی تھی۔ ان کا میں ناچ گانا اس وقت تک دیکھتی اور سُنتی رہی جب تک کہ مجھے نماز کے قضا ہو جانے کا احساس نہ ہوا۔

 ناشتے کے لئے آٹھ بجے ڈائننگ ہال گئے۔ سجاوٹ کا وہ عالم تھا کہ بے اختیار سوچنا پڑا کہ تھری سٹار اگر یہ ہے تو فائیو سٹار کیا توپ شے ہو گی۔ کرسٹل کے اِس قدر بڑے شینڈلیرز کہ بندہ حیرت سے ایک پل کے لئے تو پلکیں جھپکنا بھول جائے۔ ناشتے میں ٹھونسا ٹھونسی ظاہر ہے ہم نے ڈٹ کرکی ہو گی کہ تھوڑی سی کسر چھوڑنے کو تو ہم اپنی حلال کی کمائی سے بد دیانتی کرنا تصور کرتے ہیں۔

’’اور آج کا پروگرام ؟‘‘

 ثنا کے یہ پوچھنے پر میں نے فوراً جامعۃ الازہر کا کہا کہ مصر کی اِس قدیم ترین یونیورسٹی کو دیکھنے کی خواہش تو جا نے کب سے دل میں ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی۔

 ریسپشن پر چابی دیتے ہوئے ہم نے رات گئی بات گئی کے مصداق لڑکے سے ہیلو ہائے کی۔ اور اُس سے قاہرہ کا نقشہ لیا۔ جہاں ہم کھڑے تھے اُس مقام کو سمجھا مرکزی جگہ پر نشان لگوایا۔ کچھ اور معلومات حاصل کیں اور اللہ کا نام لے کر نکل کھڑے ہوئے۔

 تحریر سکوائر سے ٹرام اسٹیشن کو کھوج کیا گیا۔ ڈھیر ساری سیڑھیاں اُتر کر زیر زمین بہت سی گھمن گھیریوں سے راستہ نکال کر ایک مصری پاؤنڈ کے ٹکٹ کے ساتھ شو کریں مارتی ٹرین میں لوگوں کے اژدہام کے ساتھ سوار ہو گئے۔ ’’جامع الازہر ‘‘ ہر سٹاپ پر اِس لفظ کی دہائی دیتی۔

پر میرے اِس شور شرابے نے کچھ مدد نہ کی۔ کمبخت زبان آڑے آ جاتی۔ ٹرین زیر زمین دُنیا سے نکل کر کھلے آسمان تلے آ گئی اور پھر ’’ میری گرگس‘‘ اسٹیشن پر رُک گئی۔ ٹرین کا آخری اسٹیشن۔

 اب کیا کریں۔ مجبوراً اُترے۔ یہCoptic Quarter Old کا علاقہ تھا۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی قدیم عبادت گاہیں یہاں سراٹھائے تمکنت سے کھڑی تھیں۔ ٹرام اسٹیشن کی حدُود سے باہر نکل کر ہم قاہرہ کے شہرہ آفاق The Hanging Church میں آ گئے۔ بہت اونچائی پر واقع اِس چرچ کے نام کی وجہ بھی کچھ یوں ہے کہ یہ رومیوں کے قلعہ کی چوٹی پر کھجور کی لکڑی اور پتھروں کی تہوں کے ساتھ تعمیر شدہ فرش پر بغیر گنبدوں کے بنایا گیا ہے۔ جسنے اِسے ایک انفرادیت سی دی ہے اس کی چوبی چھت حضرت نوح علیہ اسلام کی کشتی کی شکل جیسی ہے۔

 یہ عبادت گاہ مقدس میری اور سینٹ Dimiana کے لئے وقف ہے۔

 کس درجہ زیبائش تھی اندر۔ چھت کا چوبی کام۔ محرابوں کی آرائش۔ نقش و نگاری فانوس۔ ہم ملحقہ کمروں کی طرف چلے گئے۔ برگزیدہ ہستیوں سے سجی دیواریں۔ ایک تصویر میں میری میگدلین حضرت عیٰسی کا پاؤں چوم رہی ہیں۔

 گیلریوں کی دیواریں سجی پڑی تھیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہمیں تصویروں کے پس منظر سے آشنائی نہیں تھی۔ بس دیکھتے گئے۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد باہر نکلے پانی پیا۔ ذرا سے فاصلے پر گول گنبد والا میری گرگس کا چرچ تھا۔ صحن میں اینٹوں کے جنگلے میں مقید آدھا درخت اندر اور آدھا باہر تھا۔ ہم اندر نہیں گئے۔ اب اِسے کیا دیکھنا۔ چلتے ہیں۔

 ہم دوبارہ حلقہ دام ٹرین میں آ گئے۔ اِن زیر زمین ٹرینوں میں سفر کرنے کی ایک موج ہے کہ ایک دفعہ اِن کی حدود میں آنے کے بعد آپ دس 10 بار کانٹے بدلیں۔ شمال سے جنوب کو جائیں۔ جنوب سے مشرق کی طرف۔ جیب پر بوجھ نہیں پڑے گا۔

 چرچ کی انگریزی بولنے والی لڑکیوں نے بہت اچھی طرح سب کچھ سمجھایا تھا۔ پتہ نہیں میرا میٹر کیوں گھوم گیا۔ اسٹیشن پر اُترنے کے لئے جونہی میں دروازے کی طرف بڑھی۔ ثنا نے پلّو سے کھینچ لیا۔

 ’’ آنٹی کہاں بھاگی جاتی ہیں۔ ابھی تو سعدزغلول آنا ہے۔ ‘‘

 سروں کو سکارفوں سے ڈھانپے جینز پہنے نو عمر لڑکیوں اورفسٹین (لمبا فراک) میں ملبوس اُدھیڑ اور بوڑھی عورتوں نے چونک کر ہم اجنبی صورتوں کو دیکھا۔

 المالک الصباح اور السیدہ زینب گزرا۔ سعد زغلول پر اُتر کر نئی سیڑھیاں چڑھیں اور اُتریں اور نئی ٹرین میں بیٹھے۔ کوئی تیسرا اسٹیشن العاتبہ کا تھا۔ صد شکر کہ یہاں Escalators سے چڑھے اور باہر آ گئے۔ سامنے ایک کشادہ سا پارک نما میدان تھا۔ اطراف میں فلک بوس عمارتیں تھیں۔ پیشانیوں پر سجے لفظ ’’فندق ‘‘ نے ہمیں سمجھا دیا تھا کہ یہ سب ہوٹل ہیں۔ ایک ٹوٹے پھوٹے بنچ پر ہم تینوں بیٹھ کر ذرا سا سستائے۔

یہ الغمحریہ سکوائرEL-GUMHURIYYA Sqr تھا۔ صفائی نام کو نہ تھی۔ ریڑھیوں او زمین پر بچھی چادروں پر دھری سستی اشیاء کی خریداری زوروں پر تھی۔ کسِی سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ ہماری مطلوبہ جگہ زیادہ دور تو نہیں۔ ٹیکسی کے لئے ہاتھ دیتے ہیں رُکتی ہے پر قریب کا جان کر منہ ٹیڑھا کرتے ہوئے ڈرائیور آگے نکل جاتے ہیں۔ بہرحال ایک بوڑھے کو رحم آ گیا۔ یونیورسٹی کے عین گیٹ کے سامنے اُتار دیا۔

 زمانوں سے دل کے اندر پلتے جذبوں اور ولولوں کے اسوقت منہ زور بہاؤ کے سامنے گارڈ نے یہ کہتے ہوئے بند لگا دیئے۔ ’’کہ آپ اندر نہیں جا سکتیں۔ ‘‘

 اب چیخ اُٹھنے اور غصے سے لال پیلا ہونے کے سوا بھلا کوئی چارہ تھا۔ سو یہ دونوں کام کیے اور یہ بھی دھمکی دی۔

 ’’کہ تم اندر کیسے نہیں جانے دو گے۔ میں تو اس کی دید کی ازلی پیاسی۔ اب یہ جام ہاتھ میں آیا ہے تو ایسے ہی تشنہ چلی جاؤں۔ جاؤ جا کر اندر بتاؤ کہ پاکستا ن سے تین دیوانی عورتیں دروازے پر کھڑ ی ہیں۔ ‘‘

 اِس بلاوجہ پابندی پر میں شدید اضطراب کی کھولن محسوس کر رہی تھیں۔ بارے خدا وہ اجازت نامہ لیکر آیا اور ہم داخل ہوئے۔ یونیورسٹی اور مسجد حضرت فاطمۃ الزہرہ کے نام نامی پر ہے جن سے فاطمی بادشاہت کو نسبت دعویٰ ہے۔ 970 ء میں مسجد کی بنیاد خلیفہ معز کے فوجی جرنیل جوہر نے رکھی۔ مدرسے کا آغاز بھی اس کے ساتھ ہوا۔ 988ء میں یہ اسماعیلی شیعہ سکول بنا۔ یہ مصر میں فاطمی دور تھا۔ صلاح الدین ایوبی کے عہد میں اِسے سُنی سکول میں بدل دیا گیا جس پر یہ آج تک قائم ہے۔

 یونیورسٹی کی عمارت مختلف بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ درمیان میں روشیں اور صحن تھے۔ اتنی قدیم یونیورسٹی کی عمارت کو جس شان و شوکت کا مظہر ہونا چاہیے تھا وہ مفقود تھا۔ جب ہم بین الاقوامی اسلامک سنٹر کے سامنے کھڑے دو پر وفیسروں سے بات چیت کرتے تھے مجھے صفائی کا معیار بھی بہت ناقص نظر آیا تھا۔ اتنی تاریخی اہمیت کی جگہ اور ایسی بے نیازی۔

 یہاں قُرآن، اسلامی قانون، منطق، گرامر، اسلامک اینڈ عرب سٹڈی اور سائنسی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ زمانہ قدیم میں تدریسی عمل ’’حلقہ‘‘ کی صورت میں ہوتا یعنی شیخ کے قدموں میں ایک دائرے کی صورت میں بیٹھ کر۔ اب طریقہ ہائے کار بدل گئے ہیں۔ عصر حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر 1961ء میں قائم ہونے والے شعبوں کیمیا طبیعات میڈیسن انجینئرنگ کامرس فلکیات جیسے شعبوں کے اجراء نے اسے دینی اور دنیوی تعلیم کے امتزاج کے حوالے سے ایک منفرد ادارے کی صورت دے دی ہے۔

 تاہم یہ آج بھی سُنی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم با وقار اور مقدس درسگاہ ہے جس کے علماء کے فتوے پوری عربی اور عجمی دنیا میں مستند جانے جاتے ہیں۔

 باتیں کرتے ہوئے مجھے ان کے انداز میں عجیب سی بے نیازی محسوس ہوئی تھی۔ انہوں نے ڈیپارٹمنٹ دیکھنے کی بھی دعوت نہیں دی۔ وائس چانسلر تشریف نہیں رکھتے تھے۔ اُن کے نائب سے تھوڑی دیر باتیں ہوئیں۔ یورنیورسٹی کا انتظامی بلاک سڑک پار تھا۔

 میں صحن میں کھڑی دھوپ میں چمکتی اس کی نقش کہن والی عمارتوں کو دیکھتے ہوئے کہیں ماضی میں گم تھی۔ بڑے عالم پیدا کیے اس درسگاہ نے۔ صاحب ایمان جنہوں نے نپولین فاتح مصر کے بلاوے پر اُس کے دربار میں حاضر ہونے کو اپنی ہتک جانا اور انکار کیا۔ اخوان المسلمین کی تربیت سازی بھی یہیں ہوتی رہی۔

 میں یہ بالکل نہیں جانتی کہ میری اس سوچ میں جذباتیت کا کتنا دخل تھا۔ پر میں نے اسے ’’کاش‘‘ کے ساتھ سوچا تھا۔ کہ یہاں اگر سائنسی علوم پر تحقیق و تجربات اور تدریس کا سلسلہ اس کے آغاز سے ہی اُسی طرح جاری رکھا جاتا جیسے دینی علوم کا۔ تو یقینا مسلمانوں کا ماضی اور درخشاں ہو کر سامنے آتا۔ اور شاید پھر تاریخ بھی مختلف ہوتی۔

 میں تو سچی بات ہے ابھی اور اس فضا میں سانس لینے کی متمنی تھی۔ پر جو بندہ ساتھ لیے پھرتا تھا وہ اب اُکتایا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ اور اس کے عمل میں ایک غیر محسوس سا پوشیدہ کوفت بھرا اظہار کہ ’’دفع بھی ہو جاؤ اب۔ کیا جان کھا رہی ہو۔ ‘‘ میرے سامنے آیا تھا۔

اُدھیڑ سے عمر والے ایک صاحب نے عقبی گیٹ سے ملحقہ شہزادی زینب زغلول اور شہزادی اشرف کی رہائش گاہوں کے زنانہ حصوں اور مزاروں کی طرف جانے کا راستہ دکھایا۔

گلیاں گندی تھیں اور اُن کے فرش بھی غیر متوازن سے تھے۔ رہائشی حصّہ جو سلام لیک زنانہ تھا چوب کاری کے کام کا بہترین نمونہ تھا۔ دو منزلہ قدیم عمارت کی کھڑکیاں اور دروازوں کی ڈیزائن داری عش عش کرنے پر مجبور کرتی تھی۔

یہ شریف حمزۃ الغلبوتری کی صاحبزادیاں تھیں۔ آنگن کے کمروں میں بڑے بڑے پتھروں والی دیواروں میں وہی قدیمی فضا چمٹی ہوئی تھی۔ ہم گلیوں میں گھوم رہی تھیں۔ بلند و بالا چوبی کام سے سجی بالکونیوں والی عمارتیں جن کی اونچی اونچی چھتیں بڑے بڑے محرابوں والے دروازے قدرے اندھیروں میں ڈوبے چھوٹے چھوٹے کمرے۔ عمارتیں کمرشل بن گئی ہیں۔ مختلف دفاتر اور کاروباری مراکز اُن میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ دوکاندار ٹورسٹوں کو قیمتی پتھروں اور نوادرات کا لالچ دیتے ہوئے گھیر گھیر کر قابو کرنے کی کو شش میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔

پھولے ہوئے روٹی کے پھلکوں کے ڈھیر نظر آئے جو ٹوکریوں میں دھرے دوکانوں پر بکتے تھے۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ اپنی پخت کے گھنٹوں بعد بھی وہ ڈھول کی طرح ہی پھولے ہوئے تھے۔ تعجب سے انہیں دیکھتے ہوئے ان کی طرف بڑھے گھر میں روٹی پکانے کا رواج ہی نہیں جو عورت آتی۔ چھ سات خرید کر لے جاتی۔

گلیوں میں پھرتے ہوئے ہم نے کڑاہیوں میں تلتے گرما گرم پکوڑے اور جلیبی جیسی چیزیں کھائیں۔ یہاں گوشت سبزی کی دوکانیں تھیں۔ بڑا مانوس سا ماحول تھا۔ گھروں کے اندر بھی گئے۔ کہیں غریبی تھی اور کہیں خوشحالی۔ ایک تو زبان کا بڑا مسئلہ۔ گھروں میں گلیوں میں گھومتے پھرتے بچے۔ سکول کب جاتے ہیں ؟ اُس دن چھٹی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا تھا۔

خاصی آوارہ گردی کے بعد واپسی کی کہ ظہر پڑھنے کا پروگرام جامع الازہر میں تھا۔

میں مسجد کے سائیڈوالے دروازے کے عین سامنے ساکت کھڑی ہلکے سرمئی اور سفید پتھروں والے سادہ پر خوبصورت بناوٹ والے میناروں سے پھوٹتی دل میں ہلچل مچاتی انسان کو فلاح کے لئے بُلاتی سرمدی آواز کو سنتی تھی الازہر مسجد صدیوں کے عظیم تعمیری نمونے کی عکاس ہے۔ میری پشت پر کتابوں مقامی مصنوعات اور کھانے پینے کی چیزوں کی دوکانیں تھیں۔ سڑک کے پار مصر کا شہرہ آفاق بازار خانہ خلیلی مسجد حسین اور الازہر یونیورسٹی کا انتظامی بلاک تھا۔

سیڑھیاں اُتر کر کشادہ راستے سے اندر خواتین کے حصے کی طرف جانے سے قبل میں نے عقیدت و محبت کی گہری نظر مسجد کے چاروں طرف ڈالی۔ خوبصورتی سے زیادہ اس کی قدامت پر مجھے پیار آیا۔ زنانہ حصے میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری تھا جو اذان کی آواز کے ساتھ ختم ہوا تھا۔ ما تھا ٹیکا تو آنسو اُبل پڑے۔ کب سوچا تھا کہ یہاں سجدہ بھی دے سکتی ہوں۔ نماز ختم ہوئی۔ کشادہ صحن میں سے مردوں کا رش ختم ہوا تو مسجد کو دیکھا۔

چھتوں اور ان کے درمیان گنبدوں کا چوبی کام بڑا ہی خوبصورت اور انفرادیت لیے ہوئے تھا۔ چھت کے گنبد کے گرد رنگین پچی کاری کا کام تھا۔ خوبصورت اور قیمتی شینڈلیرز متاثر کرتے تھے۔

باہر نکلنے سے قبل ہم راہداری میں بیٹھے اُن لوگوں کے ہتھے چڑھے جن کے پاس ٹھگنے کے سو طریقے تھے۔ انگریزی اخبار ’’ الاہرام‘‘ سے متوجہ کرنے کی کو شش تو خیر میں نے یہ کہتے ہوئے ’’ارے بھئی ہم نے نہیں پڑھنا اخبار وخبار‘‘ ناکام بنا دی۔ کتابیں تو خیر عربی میں تھیں انہیں خریدنے کا کیا سوال۔ جوتے ہم نے ان کے پاس رکھوائے تھے۔ اُن کے پیسے جتنے دینے چاہے وہ لینے پر راضی نہ تھے بہرحال تین مصری پاؤنڈ دے کر جان چھڑائی۔

باتھ روم اور زنانہ وضو کا انتظام باہر کی طرف تھا۔

ڈھائی بجے مسجد کی بیرونی دیوار کے ساتھ مسجد کے آٹھویں اور سب سے اہم دروازے ’’باربرز گیٹ ‘‘ پر آئے۔ یہی وہ تاریخی گیٹ ہے جس کے سامنے بیٹھے حجام طلبہ کی ٹنڈیں کیا کرتے تھے۔ کوئی طالب علم بالوں کے ساتھ ادارے میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ گیٹ کے داہنے رخ پر گرم گرم فلافل تلے جا رہے تھے۔ اُن کا لنچ بھی کیا اور ترکیب بھی جانی۔

سویا بین کی پھلیوں کو ہرے لہسن پیاز کے ساتھ ایک دستی مشین میں پیسنے اس میں انڈے ملانے اور کڑاہی میں تلنے کے بعد ان کی صورت اپنے ہاں کے لڈو پیٹھیوں جیسی ہوتی۔ اسے پھر ایک میدے کی چھوٹی سی روٹی کے اندر رکھا جاتا۔ کسِ غضب کا ذائقے دار کھانا بنتا۔ سستا اور مزے کا۔

زیر زمین راستے سے ہم سڑک کے دوسری جانب نکل گئے۔

کشادہ میدان کے اختتام پر مسجد حسین پُشت پر اطراف میں دوکانوں کے سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔ اِس مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں حضرت حسین ؓ کا سر مبارک دفن ہے۔ مقام صد شکر کہ مزار اقدس کی زیارت کا وقت ختم ہونے میں ابھی تھوڑا ساوقت باقی تھا۔ میں نے جلدی سے اندر جا کر فاتحہ پڑھی اور مزار کی سجاوٹ کو دیکھتی عصر کی نماز کے لئے خواتین کے حصے میں آ گئی۔

اور جب میں ہتھیلیوں پر بچوں کو بٹھائے اُن کی سلامتی کے لئے دعا مانگتی تھی میں نے داہنے ہاتھ بیٹھی ایک بے حد خوبصورت عورت کی سسکیاں سُنیں۔

شام سے آنے والی خاتون جو اپنے لیے نہیں اپنے بچوں کے لئے نہیں مسلمانوں کے لئے گریہ کناں تھی۔ انگریزی بولنے اور سمجھنے والی یہ رشیدہ خاتون جس کے ہونٹوں سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے تھے پر جس کی آنکھوں سے آنسو تو اترسے بہتے تھے۔

پاکستان کا جان کر کس محبت اور جذبے سے اُس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹایا تھا۔ میری بھی آنکھیں اشکبار تھیں کاش ہم نے عربی سیکھنے پر توجہ دی ہوتی۔

بہت دیر تک ہم ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے وہ اقتصادیات کی پروفیسر تھی۔ فرانسیسی پر اُسے زیادہ عبور تھا۔ عالم اسلام کو درپیش مسائل اور خطرات پر اُس کی گہری نظر تھی۔

میں بہت متاثر تھی۔ موبائل فونوں کا تبادلہ اور ایک دوسرے کے ملک آنے کی دعوت تو ظاہر ہے بڑے ہی پر جوش طریقے سے دی گئی۔ مغرب کی نماز کی ادائیگی سے فارغ ہو کر باہر نکلی تو سب کچھ نور میں نہایا ہوا تھا۔ یقینا ثنا اور مہرالنساء بازار کی پُر پیچ گھاٹیوں میں گم ہوں گی میدان حسین اسوقت میلے کا سماں پیش کر رہا تھا۔ مقامی اور غیر مقامی عورتوں اور مردوں کے پرے یہاں وہاں بیٹھے چلتے پھرتے مقامی چیزیں بیچتی عورتوں سے بھاؤ تاؤ کرتے نظر آتے تھے۔ میں پیچھے کی جانب نکل گئی۔ شکر قندی بھی جہازی سائز کی تھی اور ریڑھی پر دھری بھٹی کی وضع قطع بھی بڑی انوکھی سی۔ خیر ذائقہ کرنے میں ہرج ہی کیا تھا۔

پر سواد نہیں آیا۔ اپنے ملک کی بھوبل میں دم پخت شکر قندی کی کیا بات تھی۔

خانہ خلیلی بازار کسِی مشکل معّمے کی طرح پیچ درپیچ گلیوں میں اُلجھا کسِی دُلہن کی طرح اپنے چہرے پر اپنی قدیم تہذیب و ثقافت کا غازہ ملے سجا سنورا سیاحوں کو استنبول کے کیپلی کارسی بازاروں کی یاد دلاتا ہے۔

میں ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئی تھی۔ کسِی ساحرانہ اداؤں والی دوشیزہ کی زلفوں میں اُلجھتی آگے آگے بڑھتی گئی۔ دوکاندار لڑکے بالے گوریوں اور طرحدار گاہکوں سے ٹھٹھول بازی کرتے تھے۔ قہوے اور شیشہ (حقہ) پینے کاکام بھی جاری تھا۔ بھاؤ تاؤ زوروں پر اور رات پر دن کا گمان گزرتا تھا۔ میں اِس پُر کشش دنیا سے نکل جانا چاہتی تھی۔ پرراستوں کی بھول بھلیوں میں پھنس گئی تھی۔ ایک چھوٹے سے ریستوران سے قہوہ پی کر میں نے تھوڑا آرام اور خود کو تازہ دم کیا۔

قریبی مسجد سے عشاء کی اذان گونجی۔ نماز کے لئے اندر جانے لگی۔ مجھ سے آگے جینز میں ملبوس اونچی ایڑی کا جو تا ٹھک ٹھک بجاتی ایک نوجوان لڑکی جو چند لمحے قبل دوکان پر بیٹھی تھی۔ مسجد کے دروازے میں داخل ہو رہی تھی۔ خواتین والے حصے میں پہنچ کر اُس نے طاق میں رکھا چوغہ اٹھایا۔ پہنا اور اللہ اکبر کہتے ہوئے نیّت باندھ لی۔ نماز کے بعد کچھ دیر سستائی جب باہر نکلی لڑکی کا روبار حیات میں گُم تھی۔

’’سبحان اللہ‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا تھا۔

نوب جے میں حسین میدان میں پہنچ کر ایک تھڑے پر بیٹھ گئی۔ دس10بجے یہ دونوں آئیں۔ دیوی آئسس دیوتا ہورس ملکہ نفرتیتی ملکہ ہت شی پشت رعمیس دوم سیتی اول کے مجسموں کے ساتھ چمڑے کے کشن ہینڈ بیگ موتیوں والی کروشیے کی رنگدار ٹوپیاں اور جانے کیا کیا الّم غلّم تھا۔ شاپروں سے لدی پھندی مصر کی سوغاتوں کو سینوں سے لگائے میرے پاس آ کر ڈھیر ہو گئیں۔

٭٭٭

 

۳۔ اہرام

               خیفرن کے ہرم میں مہم جوئی

’’سُنیے ذرا‘‘

یونانی جرنلسٹ ہیروڈوٹس نے کیا لکھا ہے۔ Cheops left behind him a colossal of work his pyramid. اور مصریوں کا کہنا ہے ’’وقت سے ہر چیز ڈرتی ہے لیکن اہرام مصر سے وقت بھی ڈرتا ہے۔ ‘‘

مارچ کی یہ بڑی روشن اور چمکدار سی صُبح تھی۔ ٹیکسی جمعیت الاقاہرہ سٹریٹ پر بھاگی جاتی تھی۔ چڑیا گھر کی بیرونی دیوار کی اندرونی طرف کے بلند و بالا درختوں کی ٹہنیوں پر سفید کبُوتر نما پرندے یوں بیٹھے تھے جیسے اُن شاخوں پر کسِی نے سفیدی مائل اُودے سے پھول سجادیئے ہوں۔

غزہ ہماری منزل تھی جو کبھی فراعنہ مصر کا شاہی قبرستان تھا۔ زمانوں پرانی پڑھی اور سُنی ہوئی کہانیاں گردش میں تھیں۔ عجیب ساتحیر آنکھوں کے زاویوں میں منعکس تھا۔

پھر عقبی نشست پر بیٹھی ثنا نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے موُرّخ ہیروڈوٹس کے ریمارکس سُنائے۔

’’ یہ Cheops دراصل خو فو ہے جو چوتھے فراعنہ مصر کا بانی تھا۔ ‘‘

گاڑی غزہ کے علاقے میں داخل ہو گئی تھی۔ ڈرائیور بتاتا تھا۔ نائٹ کلبوں کے لئے یہ علاقہ بہت شہرت رکھتا ہے۔ یہاں عمارات خوبصورت بھی تھیں اور عام سی بھی۔

’’آنٹی۔ ‘‘

ثنا نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔

’’ہم نے نائٹ کلب بھی دیکھنا ہے۔ ‘‘

ہرم یا اہرام کا نام بعض کے خیال میں قبطی زبان اور کچھ کے خیال میں مصری اور کچھ کا کہنا ہے کہ ہیروڈوٹس جب مصر آیا اور اُس نے واپس جا کر لوگوں کو بتایا کہ تہذیب و تمدّن اور ذہانت و فطانت پر صرف یونان یا کسی اور ملک کی اجارہ داری نہیں۔ مصر جا کر ان کے پائریمس (عمودی بلندی) کو دیکھو۔

د نگ رہ جا ؤ گے۔ یہی پائریمس بعد میں PYRAMIDS بن گئے۔

تو پھر ہم اُس صحرا میں پہنچ گئے گو آبادی کا پھیلاؤ اب اُس کے لبوں تک پہنچا ہوا ہے تا ہم زردئی رتیلا کہیں کہیں پڑے پتھروں سے اٹا ہوا ایک وسیع و عریض صحرا جسمیں اہرام درمیان میں بڑا اور اطراف میں چھوٹوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ چند لمحوں کے لئے تو میں نے جیسے بھونچکی سی ہو کر یہ سب دیکھا اور اپنے آپ سے کہا۔

’’تو یہ ہیں اہرام۔ ‘‘

پرنٹ میڈیا نے تصورات کا ایک جہاں یادداشتوں میں آباد کر رکھا تھا۔ اسی لیے گنگ سی کھڑی اُسے دیکھتی اور پڑھا ہوا باہر نکالتی تھی۔

یہ اہرام دراصل عظیم الشان مقبرے ہیں۔ مصری تمدن کو جب فروغ ہوا تب قبروں کی شکلیں بدل گئیں۔ آغاز میں قبریں چبوتروں کی صورت میں تھیں۔ مختلف قد و قامت کی۔ کسی کی اونچائی دس سے تیرہ میٹر اور لمبائی پچاس میٹر اور کسی کی تین اور آٹھ میٹر۔

یہ چبوترے ہی حقیقت میں مصر کے شہرہ آفاق اہراموں کے مائی باپ ہیں۔ زوسر (تیسرے خاندان کا فرعون) کو چبوترے پر کئی چبوترے بنانے کا خیال اور عمل ہی مصر کے تعمیری فن میں ایک انقلاب کا باعث بنا۔

اب یورپی مورخین اِن کے بارے میں جو مرضی رائے دیں۔ مٹرولوجی کہیں۔ فلکیات سے تعلق ثابت کریں۔ دریائے نیل کو ریت کے طوفان سے بچانے کی کاوش سمجھیں۔ حقیقت میں یہ قبریں ہیں۔

دھوپ میں کھُلی فضاؤں میں دھنک رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ روایتی رنگین پھندنوں اور خوبصورت کجاووں سے سجے اونٹ اور مہاریں تھامے شتربان بھی وہیں گشت کرتے اور سیاحوں کو پھانستے نظر آتے تھے۔ ٹکٹ اور چیکنگ کے مراحل سے فارغ ہو کر جب قریب گئے تو حیرت کے سمندر میں گر گئے۔

یا اللہ آنکھیں تھیں کہ پھٹ پڑیں۔ اس قدر وزنی اور دیو ہیکل قسم کے پتھر۔ ہر پہلو سے ان کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی حیران کن تھی۔ وہ کیا جن تھے یا کوئی ماورائی انسان جنہوں نے انہیں پہاڑوں سے توڑا اٹھایا اور پھر یہاں تک پہنچا کر اس کی تعمیر میں لگایا۔

پاس کھڑا ایک نو عمر لڑکا بتاتا تھا کہ خوفو کے ہرم کی اونچائی تقریباً 138 میٹر ہے۔ پوری عمارت کا پھلاؤ کوئی پچیس لاکھ میٹر مکعب ہے اور اس میں تقریباً 33 لاکھ چٹانیں لگی ہیں۔

میرا نچلا ہونٹ بے اختیار میرے دانتوں تلے آ گیا تھا شاید یہ حیرت واستعجاب کی ایک اضطراری حرکت تھی۔ کتنی صدیاں گزر گئیں غالباً پانچ ہزار برس۔

’’میرے خدایا کیا زمینی اور آسمانی آفات نے انہیں نشانہ نہ بنایا ہو گا۔ یہ کتنے موسموں کے تلخ و شیریں سردوگرم چشیدہ ہیں اور ابھی بھی اسی تمکنت سے کھڑے ہیں۔ ‘‘

سب سے چھوٹا ہرم خوفو کے پوتے MICERINUS اور درمیانہ اُس کے بیٹے CHEPHERN کا ہے۔

سسِلی کا تاریخ دان ڈیوڈورس ہو یا نپولین۔ ایک صدی قبل مسیح مصر آنے والا ڈیوڈورس اِن اہراموں کے سامنے کھڑا حیرت زدہ انہیں دیکھتے ہوئے بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے۔ کہ دنیا اگر عجائبات کے اعتبار سے دو تین کی گنتی میں بھی آئے تب بھی یہ اہرام سر فہرست ہوں گے۔ مجھے ان کے بے تحاشا بڑے سائز سے کہیں زیادہ تعمیراتی طلسم نے متاثر کیا ہے۔

ہیروڈوٹس کی طرح ڈیوڈورس بھی عماراتی تخمینوں کے ساتھ ساتھ لہسن پیاز ادرک مولی گاجروں اور اناج کا بھی حساب کرتا ہے جو تعمیر کے دوران محنت کشوں نے کھایا۔

میں اسوقت خیفرن Chephern کے ہرم کے چبوترے پر بیٹھی اُن پتھروں کو دیکھتے ہوئے سوچتی تھی۔ یہ ہرم ریتلی زمین پر کھڑے ہیں۔ اور زمین پر کوئی ایسی علامت نہیں کہ جس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ ٹھوس ہے بس یوں جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے اسے جادو کے زور سے یہاں کھڑا کر دیا ہے۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ انہیں عجوبہ بنانے میں لاکھوں محنت کشوں کا ہاتھ ہے۔ اُن سے بیگاریں لی گئیں۔ ہر ماہ ایک لاکھ آدمی یہ بیگار کرتے۔ پتھر ڈھونے والی سڑک کی تعمیر میں دس سال لگے با ایں ہمہ جو بھی اور جیسے بھی ہوا کل کے وقت اور پیسے کے بے مہابہ خرچ نے آج کا ایک قیمتی اثاثہ دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا جو ڈھیروں ڈھیر کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

دفعتاً نپولین آنکھوں کے سامنے آ گیا تھا۔

’’ تو نپولین نے تن تنہا خوفو کے ہرم میں رات کسِ تجربے کو حاصل کرنے کے لئے گزاری تھی کاش وہ اپنے احساسات کو بیان کرتا۔ ‘‘

اس کے ساتھی ماہرین نے فتح مصر پر اُسے یہ بھی بتایا تھا کہ غزہ کے اِن اہراموں میں جو پتھراستعمال ہوئے ہیں اِن سے پورے فرانس کے گرد دس فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی دیوار کھڑی کی جا سکتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ لالچ میں کسِی اکھاڑ پچھاڑ میں نہیں لگ گئے۔ وگرنہ فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ تاراج ہو جاتا۔

ثنا ہرم کے اندر جانے کے لئے ٹکٹ لینے چلی گئی۔ صحرا میں داخلہ کا ٹکٹ پچاس مصری پاؤنڈ ابھی لے کر آئے تھے۔ اور اب ایک اور ٹکٹ کا خرچہ ہونے والا تھا۔ اہرام کے چار مثلث پہلو ہیں۔ یہ چاروں پہلو سیدھے شمال جنوب مشرق اور مغرب کی طرف ہیں اس کا زمینی پھیلاؤ ایکڑوں میں ہے لیکن پتھروں کے ہر ردّے پر اس کا پھیلاؤ کم ہوتا جاتا ہے اور جب یہ اپنی چوٹی کو پہنچتا ہے تو اس پر صرف ایک سل دھرنے کی جگہ رہ جاتی ہے۔

ثنا بھاگی بھاگی آئی اور پھولتے سانس کے ساتھ بولی۔

’’خوفو میں جانے کا ٹکٹ سو مصری پاؤنڈ ہے۔ اُس کا دروازہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ صرف کچھ دیر کے لئے کھلتا ہے۔ خوفو کے ہرم میں ہیرے جواہرات اور بہت سی دیگر اشیاء دیکھی جا سکتی ہیں۔ اب کیا کریں۔ تم خوفو کو چھوڑو۔ اس کے بیٹے کے ہاں چلتے ہیں۔ اب اِسی ایڈونچر میں رہنا ہے کیا۔ کل کسی اور طرف نکلیں گے۔

چلیے جناب ٹکٹ آ گئے۔

خیفرنCHEPHERN) (کے ہرم میں اُترنے کے ڈھلانی راستے کے مُنہ پر چھتری کی چھاؤں تلے بیٹھا گارڈ بڑا ترش رُو تھا۔ کیمرے موبائل سب اپنے قبضے میں لیتے ہوئے بیگوں کو بھی سنبھالنے کے موڈ میں تھا۔

دہانے کے باہر مختلف زمینوں اور رنگارنگ بولیوں والوں کا ایک جمگھٹاسالگا ہوا تھا۔ کچھ اندر سے دھونکنی کی طرح سانس پھُلاتے ہونکتے توبہ تلّا کرتے غار سے برآمد ہو رہے تھے۔ باہر والے اِس مہم جوئی میں سرخرو لوٹنے والوں سے احوال سُنتے تھے۔ مہرالنساء نے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے۔ پر مجھے تو بالی عمر والے تجربے کرنے کا خاصا شوق تھا۔ سیڑھیوں میں چند لمحوں کے لئے سوچا بھی کہ اب جوانی دیوانی پاس نہیں ہے۔ اور اندر سے آنے والے کچھ حوصلہ افزاداستان بھی نہیں سُنارہے ہیں۔ پر نہیں جی چلبلا من مہم جوئی پر مائل تھا۔

اللہ کا نام لیکر ڈھلانی سیڑھیوں جن کے پوڈوں پر لوہے کی بار چمکتی تھی پر قدم رکھا۔ دروازے میں داخلہ ہی جھکاؤ کے ساتھ ہوا۔ پاؤں پر زور پڑا اور گھٹنے لگا جیسے تڑخ جائیں گے۔ لمحے بھر کے لئے رُک کر میں نے اپنے توازن کو متوازن کیا۔ یہ بھی سوچا کہ واپس لوٹ جاؤں نگاہیں بھی پھیریں پر فرنٹ لائن میں چلنے والے دو بوڑھوں نے تقویت دی۔

خود کو پھٹکارتے ہوئے میں نے کہا۔

لو ان سے تو جوان ہے تو۔ اتنی بھی کیا تھُڑ دلی۔ چل جی داروں کی طرح قدم اُٹھا۔ چلیں جی آیت الکرسی کی سنگت میں قدم اُٹھنے لگے۔ شروع میں ٹیوب لائیٹس تھیں تھوڑاساچلنے کے بعد اندھیرا تھا۔ آگے پیچھے لوگوں کا چلنا اور آنا جاری تھا۔ دفعتاً شدید قسم کی گھٹن اور گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ پل بھر کے لئے میں نے پھر سوچا کہ رسک نہ لوں۔  پر پتہ نہیں کسِ جذبے کی کشش تھی جس نے قدموں کو توانائی دی۔ پانی کے گھونٹ سے لبوں کو تر کیا۔ تھوڑا سا اور آگے بڑھی۔ خدا گواہ ہے زندگی میں اپنی کسِی حماقت پر اتنا افسوس نہیں ہوا ہو گا جتنا اسپر ہوا۔ وزن کو بر قرار رکھنے میں سخت مشکل تھی۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ درپیش تھا۔

یکدم جیسے کچھوے کی طرح رینگتا وجود کھڑا ہو گیا۔ شکر کا لمبا سانس بھرا اور سیدھی ہو گئی۔ اسے سٹور کہا جا سکتا تھا۔ یہ جیل ٹائپ ایک چھوٹا ساکمرہ تھا جس کے بائیں ہاتھ لوہے کی سلاخیں تھیں۔ یہاں ذرا گھُٹن کم تھی۔ میں نے پھر پانی پیا۔ متلی کی سی کیفیت تھی۔ شاید بلڈ پریشر شوٹ کر رہا تھا۔ اب خداسے دعا ہی کی جا سکتی تھی۔

آگے پھر ٹنل شروع ہو گئی۔ چوبی ریلنگ یہاں بھی نہیں تھی۔ بس ہاتھ دیواروں کو اندھوں کی طرح تھامتے تھے۔

پھر ایک اور پڑاؤ آیا۔ یہاں سُورج کی روشنی تھی۔ یہ روشنی کہاں سے آتی تھی۔ میں کوشش بسیار کے باوجود اس کا سراغ نہیں لگا سکی۔ یہاں کچھ ہوا بھی تھی اور یہ Passage بھی کچھ لمبا تھا۔ یادداشتوں میں اہرام پر پڑھا ہوا کچھ میرے سامنے آیا تھا کہ ہر ہرم کے اندر دوسوراخ رکھے جاتے تھے۔ اِن سے روشنی کا حصول مطمع نظر نہیں تھا۔ بلکہ یہ فرعون کی روح کی آمدورفت میں سہولت کے لئے تھا کہ مصریوں کے عقیدے کے مطابق ہر مقبرے میں روح کے لئے راستہ رکھنا بہت ضروری تھا۔

اب اوپر کی جانب چڑھائی تھی۔ تھوڑا سا چڑھنے کے بعدRectangular Shape کا کمرہ سامنے آیا۔ کمرے کی چھت خاصی اونچی تھی۔ کمرے کے وسط میں گارڈ کھڑا تھا۔ سفید پگڑی اور گرے توپ (چوغہ) پہنے۔ ایک سٹیپ نیچے اُتر کر عین درمیان میں ڈارک براؤن پتھر کا تابوت پڑا تھا۔ ساتھ اس کا ڈھکن تھا۔ دیواریں گرے اور اُن پر موٹی سیاہ لکھائی سے کچھ لکھا ہوا تھا۔ یہ یقیناً ہیرو گلیفی تحریریں ہوں گی۔ واپسی پہلے سے بھی زیادہ اذیت ناک تھی۔ جب باہر نکلی تو چند لمحوں کے لیے یقین ہی نہیں آیا کہ اُس اندھیرے غار سے سلامتی سے نکل آئی ہوں۔ جس میں میرے جیسی خستہ حال کے ساتھ کچھ بھی ہو نے کا امکان تھا۔ گوڈے گٹے تو یوں لگتا تھا جیسے ٹوٹ گئے ہیں اور اُنہیں بس گھسیٹ کر ہی لائی ہوں۔

سکارف اور جینز پہنے نوعمر خوبصورت اور صحت کی لالی سے سجے چہروں کا ایک جتھا تھا جو ثنا پر حملہ آور ہوا تھا۔ سیکنڈری سکول کی طالبات جو سکول کے ساتھ پکنک منانے یہاں آئی تھیں۔ ثنا کی خوبصورتی اور اُس کے لباس کی انفرادیت نے انہیں متوجہ کیا تھا۔ اِس کشش میں ہماری مسلمانیت کا تو میرے خیال تھوڑا سا دخل ہی ہو گا۔ یوں ہمارے مسلمان ہونے کا جاننے پر الحمد للہ الحمد للہ کہتے ہوئے ان کی خوشی قابل دید تھی۔ اور یہ سوچ بھی یونہی میرے اندر در آئی تھی کہ کیا میرے ملک کی اِس عمر کی لڑکیاں مذہب کے اِس عالمگیری احساس پر ایسے ہی مسرت محسوس کرتی ہیں یا نری بونگی ہیں۔ بہرحال تقریباً آدھا گھنٹہ ہم اُن کی گرفت میں رہے۔

دور مشرق کی جانب زردئی ریتلے صحرا کی قدرے اونچی نیچی گھاٹیوں میں لوگوں کے ہجوم SPHINX کو دیکھنے کے لئے پیدل رواں تھے۔ خوفو کے ہرم سے یہ دوری کوئی تین سو پچاس میٹر کی تھی ثنا تو اپنے لونگ سکرٹ کو جھلاتی یوں اُڑی جاتی تھی جیسے کسی رتھ پر سوار ہو۔ میں اور مہرالنساء نے گاڑی میں لفٹ لی۔ پر گاڑی نے خاصا دور اُتار دیا پولیس والوں کی روک ٹوک سلجھانے کی بجائے کچھ اُلجھانے والی سی تھی۔ پوری جگہ کو احاطے میں لیکر کام ہو رہا تھا۔ بڑی سی پختہ گراؤنڈ میں ساؤنڈ اینڈ لائٹ شو کے لئے مشینری کی سیٹنگ کا اہتمام جاری تھا ہمارے تجسس بھرے استفسا ر پر ساتھ چلنے والا ایک کورین بولا تھا۔

یہاں رات کو روشنیوں اندھیروں سایوں اور آوازوں کے پس منظر میں تاریخ فراعنہ تمثیلی انداز میں پیش کی جاتی ہے۔ اپنی پراسراریت اپنے طلسم اپنی ہیبت اور شان و شوکت کے ساتھ وہ دور مجسم ہو کر سامنے آتا ہے تو انسان گنگ رہ جاتا ہے۔

تو پھر یہ طے ہے کہ ہمیں یہ شوہر حال میں دیکھنا ہے۔ میں نے چلتے چلتے خود سے کہا۔

آبادی تو ابوالہول کے سر پر چڑھی بیٹھی ہے۔ ہم ایک چھوٹی سی شیڈ والی جگہ سے گزر کر آگے آئے۔ یہاں اونچی نیچی سنہری رتیلی زمین کا ایک وسیع ٹکڑا جس کے اطراف میں لڑکے بالے فرش پر کپڑے بچھائے منقش پیرامڈ فراعنہ کے مجسمے اور کتابیں بیچتے اور سیاحوں کے تعاقب میں بھاگتے تھے کہ وہ مونڈھے مار مار کر آگے جانے کی بجائے ان کے پاس رُکیں اور کچھ خریدیں۔

آگے دیوار میں دروازے کے پٹ نہیں تھے۔ دہانہ چھوٹا سا تھا۔ اوپر چھت بھی نہیں تھی۔ دیواریں حیران کن بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی تھیں۔ پہلے والے حصے میں مستطیل جنگلے کے نیچے اتھلاسا کنواں تھا جسمیں پڑے سکّے چمکتے تھے۔ یہ سکّے کیوں پھینکے جا رہے تھے غرض و غایت معلوم نہیں ہو سکی۔ آگے بڑھ گئے ڈھلانی راستہ چڑھ کر اوپر آئے۔

چھوٹی سی ڈھلانی دیوار پر سکون سے بیٹھ کر میں نے خودسے چند فٹ کے فاصلے پر تمکنت سے بیٹھے ابوالہول کو دیکھا۔ میری آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔

وہ کون سی ماں تھی میرے اندر سے یہ سوال اُٹھ کر خراج سمیٹتا ہوا میرے لبوں تک آیا تھا۔ جس نے اِس درجہ کمال کے فنکار کو جنا تھا۔

وقت کا ایک عجوبہ آرٹ کا ایک شاہکار۔ ایک بھاری بھر کم طویل الجثہ چٹان کو کاٹ کر جس انداز میں اِسے تراشا گیا وہ آج بھی حیرت زدہ کرتی ہے۔

تقریباً تہتر 73 میٹر لمبا یہ عظیم الشان مجسمہ جس کا دھڑ شیر کا اور چہرہ انسان کا ہے۔ جس کے بارے میں بعض کا کہنا ہے کہ یہ خوفو کے بیٹے کا مجسمہ اس کے مقبرے پر گارڈ کی صورت پہرا دیتا ہے۔ بنیادی طور پر ابوالہول کو (دہشت کا باپ) HOR-EM-AKHET کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہورس دیوتا سے ہے۔ جو اُفق پر ہوتا ہے۔ یہ خوفو کے ہرم کے آگے اپنا چہرہ مشرق کی طرف کیے کھڑا ہے۔ سورج کی پہلی کرن اس کے چہرے کو بوسہ دیتی ہے۔

اُس کی آنکھوں کو بغور دیکھنے سے عجیب سی وحشت اور خوف کا احساس رگ و پے میں اُترتا ہے۔ ناک کٹی ہوئی ہے۔ ہونٹوں پر ناقابل فہم مبہم سی مسکراہٹ ہے۔ اس کی لمبائی کوئی چھپن6 5 میٹر اونچائی بیس 20 میٹر اور چہرے کی چوڑائی پانچ 5 میٹر ہے زمانے کی گزرتی صدیوں میں بہت بار اس کا سارا وجود آندھیوں نے ریت کی تہوں میں چھپا دیا۔ بہت بار اسے کھود کر نکالا گیا۔ ان کھدائیوں میں اُس واقعہ نے زیادہ شہرت حاصل کی جب TUTMOSES IV کو خواب میں دیوتا کی طرف سے حکم ملتا ہے نکال لو اُسے باہر۔ وگرنہ اس کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا۔

قدیم مصریوں کا ایمان تھا کہ ابوالہول کو ئی فرضی وجود نہیں بلکہ یہ ایک حقیقی مخلو ق ہے۔ جو لیبیا کے صحراؤں میں ایک خونخوار شیر کی صورت میں جس کی ذہانت انسانوں کی سی ہے پایا جاتا ہے۔ یونانی عقیدہ بھی کچھ ایسے ہی خیال کا نمائندہ تھا تاہم نئے دور کی تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ خوفو کے بیٹے CHEPHERN (خیفرن) کا مجسمہ ہے جو یقیناً فن کی دنیا کا ایک شاہکار ہے۔

سچ تو یہ تھا کہ میں جانے تاریخ کی کن گھاٹیوں میں بھٹک رہی تھی۔ میری آنکھیں مسلسل اُس چہرے پر جمی تھیں۔ کبھی یہاں اس کے قریب ایک مندر ہوا کرتا تھا۔ بلکہ اہراموں کے ساتھ مندروں کے وجود لازمی امر تھے اور غرض و غایت اتنی سی تھی کہ مرنے والوں کے لیے دعائیں ہوتی رہیں۔ نیل کی روانیاں بھی یہیں آس پاس ہی تھیں۔ پر اب بیچارہ تن تنہا زمانے کی تیز گردشوں اور مملوکوں کی نشانہ بازی کی پریکٹس میں اپنی داڑھی اور چہرے کی سالمیت متاثر ہونے کے کرب میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔

٭٭٭

 

۵۔ سقارہ مقدس حاپی

               مستطبہ طائی

سقارہ کے لئے دونوں ہی رضا مند نہیں تھیں۔ ریت دھول اور شکستگی کی ویرانیوں کی گود میں لپٹے قبرستانوں کی بجائے وہ کسی متحرک زندہ نہایت دلچسپ مناظر کی متلاشی تھیں۔ جو سردست مےّسر آنا مشکل تھا۔ میں نے پیار سے بہلا پھُسلا کر گاڑی میں بٹھایا۔ پیرامڈ کا علاقہ ناکوں ناک مکانوں لوگوں کھجور کے درختوں سے اٹا پڑا تھا۔ گندہ نالہ مزید سونے پر سہاگہ تھا۔ کبھی یہ نیل سے نکالی ہوئی نہر تھی۔ آج آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ نے نالہ بنا دیا ہے۔

باہر نکلے کھیت اور ہریالی نظر آئی۔ آنکھوں کو طمانیت سی محسوس ہوئی۔ سکولوں اور ہوٹلوں کی بہتات تھی۔ کھیتوں کے درمیان چار منزلہ دو منزلہ عمارات کھڑی تھیں۔ مرغیوں کے پولٹری فارم کچے راستے کوڑے کے ڈھیر۔ سامان اُٹھائے گدھے۔ کام کر تے اور حقہ پیتے مرد۔ گدھوں سے چلتے رہٹ۔ کھیتوں میں کام کرتی عورتیں۔ سب مانوسیت کی خوشبو نتھنوں میں گھُسیڑ رہے تھے۔

جونہی سقارہ روڈ پر آئے۔ نخلستان بصارتوں میں آیا۔ کھجوروں کا وسیع و عریض باغ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ باغ سے آگے پہاڑی کا دامن ہریالیوں کی گود میں لپٹا ہوا تھا اور نظریں اٹھا کر اوپر دیکھنے سے صحرا اپنی وسعتوں اور ویرانیوں کے ساتھ سامنے آتا تھا۔ گاڑی اونچائی پر چڑھتے ہوئے درختوں کے جھنڈوں میں ٹکٹ گھر کے سامنے جا رُکی۔ آٹھ میل کے رقبے میں پھیلا ہوا مصر کا یہ قدیم ترین شاہی قبرستان قبروں کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں اور قربان گاہوں پر بھی مشتمل ہے۔

سیڑھی دار یا چبوترے پر دھرا چبوترے دار دُنیا کا پہلا ہرم جس کی بنیاد تیسرے شہنشاہی سلسلے کے پہلے فرعون زوسرنے رکھی تھی میرے سامنے تھا۔ میں ٹوٹی پھوٹی پتھروں کی ایک دیوار کے اُوپر کھڑی ہو گئی حدّ نظر پھیلی ہوئی صحرائی ویرانی کی گھمبیرتا عجیب سا یاس رگ و پے میں اُنڈیلتی تھی اور یہ سوچنے پر مجبور کرتی تھی کہ کل جب یہ نو تعمیر شدہ اور شاندار تھے تب بھی یاس افسردگی ویرانی اور اُداسی کی علامت تھے اور آج یہ جب ٹیلوں کے نیچے اور ریت کے اوپر کھنڈر بنے پڑے ہیں تب بھی سامان عبرت بنے وجود کو لرزاتے ہیں۔

ہرم کا تصور اگر زوسر کا ذہنی کمال تھا تو اِس تصور کو حقیقت کا روپ دینے والا بھی وقت کا ایک فطین طبیب امنہوتپ تھا۔

زوسر کے ہرم پر کھرُنڈ اور زخم تھے۔ زوسر کے ہرم کے ساتھ ہی اوناس کا ہرم بھی ہے۔ باہر سے صورت بہت شاندار نظر آتی تھی۔ شاید ری فیسنگ کی گئی تھی۔ ہرم کو جانے کے لیے گیلری کا راستہ بہت گہرا تھا۔ سیڑھیاں بہت نیچے اُترتی جاتی تھیں۔ سچی بات ہے۔ ہمت ہی نہیں پڑی۔

ہمارا ڈرائیور اِس بار ہمارے ساتھ تھا۔ اور یہ وہی تھا جسنے ایک نئی اور انوکھی چیز دکھانے کے لالچ میں ہمیں مقدس سانڈوں کے تدفینی چیمبر میں لا کھڑا کیا۔

افسوس کے ساتھ ساتھ ہم پر ہنسی کا دورہ بھی پڑا۔ یعنی اب ان کی کسررہ گئی تھی۔

مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق دیکھنا پڑا۔ پر یہ بھی ایک حیرت انگیز دُنیا تھی۔ بڑی بڑی گیلریوں میں بسالٹ اور گرینائٹ (مختلف رنگوں کے پتھر) سے بنائے گئے بڑے بڑے تابوت تھے۔ مہرالنساء نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

’’لو انسانوں کو تو چھوڑو۔ جانوروں کی بھی اِس درجہ عزت افزائی۔ ‘‘

چلو اِس عجوبے پر روشنی بھی ڈرائیور نے ہی ڈالی کہ قدیم مصریوں کے عقیدے کے مطابق اُن کا عظیم دیوتا اوزیرس بیل کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اِس بیل میں اِن علامتوں کا کہ اس کا رنگ بالکل سیاہ ماتھے پر ہیرے کی شکل کا نشان۔ زبان کے نچلے حصّے پر مقدس بھونرے کی شبیہ بدن کے دائیں پہلو پر ہلال پشت پر بازو پھیلائے عقاب کی صورت اور دم پر کالے اور سفید رنگ کے بال ہونا ضروری تھا۔

’’ارے اِن علامتوں کے ساتھ کسی جانور کا ملنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ ‘‘

مہرالنساء بول اٹھی۔

ڈرائیور کی بات میں وزن تھا اور زمانوں پرانی سچائی کی جھلک تھی جب اُس نے یہ کہا تھا۔

’’ہر دور میں انسانی عقائد کے مطابق اوپر والا ان کی مطلوبہ چیزوں کی فراہمی کرتا رہتا ہے یہ شاید قانون قدرت ہے۔ ‘‘

ایسا بیل ملتا تھا۔ اُس کے حصول پر خوشی کا بے پایاں اظہار کیا جاتا تھا۔ مصری اِسے مقدس حاپی HAPI جبکہ یونانی اِسے اپیس APIS کہتے تھے۔ تاجپوشی سے لیکر سرکاری تقریبات میں اُس کی موجودگی لازمی ٹھہرائی جاتی۔ اور پھر روزانہ اُسے مخصوص وقت پر ٹمپل کے یارڈ میں نکالا جاتا۔ یارڈ کے اُس حصّے کی آرائش و زیبائش کا خصوصی اہتمام ہوتا۔ چہار جانب برآمدے اور اُن میں دھرے مجسمے جو چھت کو قائم رکھنے میں ستونوں کا کام دیتے۔ بہترین خوراک بہترین آسائش ہمہ وقت خدمت گار ٹہل سیوا پر ان سب کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بھی کہ اٹھائیس 28سال کی عمر میں اُسے اگلے جہاں بھی پہنچا دیا جاتا۔

’’پھر اُس کے مقبرے اور تابوت بنائے جاتے۔ ‘‘ ثنا نے جملہ مکمل کر دیا تھا۔

سقارہ میں ہرموں کے مستطبے MASTABAS بھی ہیں۔ عربی زبان میں مستطبہ بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ یہ دراصل درباری امراء اور وزراء کے مدفن تھے۔ جو کم و بیش اُن گھروں کے ڈیزائنوں پر بنائے جاتے جن میں یہ لوگ مرنے سے پہلے رہتے تھے۔ مری رو کا نبت پتاح ہوتپ اور طائی کے کے مستطبے بہت مشہور ہیں۔ طائی کا مستطبہ آرٹ کے نقطہ نظر سے ایک شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ طائی پانچویں بادشاہی خاندان کی ایک بے حد اہم شخصیت فرعون کا دست راست اہرام کی تعمیرات کا ڈائر یکٹر اس کی بیوی نفرہوتپ۔

ڈرائیور اُس کے مستطبے کو دیکھنے کے لیے اصرار کرتا تھا۔

اور یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ نہ دیکھتے تو افسوس ہوتا کہ بارہ ستونوں پر مشتمل بڑا چیمبر اور اندرونی کمروں کی دیواروں پر سڈول گداز جسموں والی حسین ماڈل عورتیں اپنے سروں پر ٹوکریاں اٹھائے جیسے آگے پیچھے چلتی کسی فیشن پریڈ کے لئے کیٹ واک کرتی ہوں۔ جسمانی اعضاء کی دلکشی اور تناسب غضب کا تھا۔ کچھ تصویریں کھانے پکانے شکار کرنے اور قربانی سے متعلق تھیں۔

سقارہ میں مزید اہراموں کی کھدائی بھی جاری تھا۔

میرے اللہ اِس سر زمین نے اپنے نیچے کتنا کچھ چھپایا ہوا تھا۔ جو اُگلی ہے تو مصر کو نہال کر دیا ہے اور ابھی اور اُگل رہی ہے۔

٭٭٭

 

۶۔ میمفس اور سلطان عیسیٰ

تومیں اب اُس جگہ جا رہی تھی جو میری اوائل عمری کا خواب تھا۔ اپنی ماں کے گھٹنے پر سر رکھے اس کی مدھ بھری آواز میں یوسف زلیخا عزیز مصر کا شعری نامہ سنتے ہوئے میرے تخیل کی اُڑان یقیناً اتنی اُونچی نہ تھی کہ وہ عزیز مصر کے محل کی شان و شوکت اور اسمیں رہتی حُسن کی مورت زلیخا کے بارے میں اندازے لگا سکتا۔

میمفس سقارہ سے تین اور قاہرہ سے اٹھائیس کلومیٹر پر جنوب مغرب میں فراعنہ کا پہلا دار الحکومت تھا۔

میری آنکھوں میں آنسو سے آ گئے تھے۔ کوئی جیسے چُپکے سے آنکھوں میں اُتر آیا تھا۔ پوروں سے انہیں صاف کرتے ہوئے میں باہر منظروں کی جانب متوجہ ہوئی۔

من نو فر متحدہ مصر کے اولین دارالحکومت کا تصویر ی رسم الخط ہیرو گلیفی کا نام تھا۔ میمفس نام اِسے یونانیوں نے دیا اور یہی مشہور ہوا۔ فراعنہ کے پہلے شاہی خاندان کے بانی فرعون ’’منا‘‘ یونانیوں کے مطابق ’’منیز ‘‘ نے کوئی پانچ ہزار سال پہلے اِس علاقے کا دورہ کیا۔ یہ جگہ پتاح دیوتا کی پرستش کے لئے مشہور تھی۔ یہاں بالائی اور زیریں مصر کی سرحدیں ملتی تھیں یہیں سے نیل شاخوں میں بٹ کر اپنا ڈیلٹا بنانا شروع کر دیتا تھا۔ منیز کی زمانہ شناس اور تجربہ کا ر نگاہوں نے اس کے محل وقوع کی اہمیت کو فی الفور بھانپ لیا۔ اُس نے اِسے اپنا دارالحکومت قرار دے کر قلعہ تعمیر کروایا۔

بس توشہر بسنے لگا اور پہلے خاندان کے دور میں ہی یہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔ قلعہ کے اردگرد اینٹوں کی دوہری فصیل تھی جس پر چونا کیا گیا تھا شاید اسی وجہ سے اس جگہ کو دیوار ابیض کہا گیا۔

فرعونوں کے محل راجباڑیاں قلعوں شاہی خاندان امراء وزراء سبھوں کے یہاں قیام عدالتیں کچہریاں جنگی ہتھیار اور بحری بیڑے کے جہازوں کے کارخانوں نے اسے سیاسی اور عسکری اہمیت دی۔ امراء وزراء فرعونوں کی بیگمات کی مخلوط محفلیں شہر کی تمدنی و تہذیبی زندگی کی بنیادیں بنیں۔

قریبی ہمسایہ ملکوں نے بھی یہ جان لیا کہ مصر پر قبضہ اسوقت تک ممکن ہی نہیں جب تک میمفس ان کے ہاتھوں میں نہ آئے۔

گاڑی تو چند ہی منٹوں میں میمفس کبقال کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ یہ جگہ پتاح ٹمپل کے سامنے ایک کشادہ سی قطعہ زمین پر چھوٹے موٹے مجسموں نوادرات کی چند دوکانوں سے سجے ایک چھوٹے سے میوزیم کی صورت میں نظر آتی تھی۔

اندر جانے کی بجائے ہم نے پہلے گرد و نواح کا جائزہ لینا چاہا۔ سچ تو یہ تھا۔ کہ اِس عظیم شہر کی عظمت رفتہ کا ہلکا سا نشان بھی باقی نہیں تھا۔ ہمارے سامنے بکھری اُن عمارتوں کے کھنڈر تھے جو کبھی زندگی کی حرارت سے لبالب بھری تھیں۔

وہاں ملبے اور اینٹوں کے ڈھیر دنیا کی بے ثباتی کے قصہ خوان تھے۔ سارا شہر نشیبی زمین میں بدلا ہوا ہے۔ کھجوروں کے درخت سر اٹھائے گریہ کناں ہیں۔ سامنے درختوں کے جھنڈوں میں گھرے رحینا RAHINA گاؤں کے بچے پتھروں کے ڈھیروں پر کھیلتے تھے۔

ڈرائیور نے جہاں ہم اُترے تھے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا۔ کبھی یہاں پتاح دیوتا کا بہت شاندار مندر ہوتا تھا۔ Mummification اور بیل کی قربانی دینے اور اُسے حنوط کرنے کا رواج بھی اسی دور میں ہوا۔ ذرا پرے ایک مجسمہ گرا پڑا تھا۔ سیاحوں کی ایک ٹولی گاڑی سے اتر کر اُس کے گرد اکٹھی ہوئی تھی۔

ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر میں نے گردو پیش پر نگاہ ڈالی اور سوچا۔

یہیں کہیں وہ منڈی بھی ہو گی جہاں مختلف ملکوں سے پکڑے ہوئے غلام لائے جاتے اور وہ نیلام ہوتے۔ تو وہ بے مثال حسن کا شہزادہ نام جس کا یوسف اور جو پیدائشی پیغمبر زادہ اور خود بھی پیغمبری کے تمغے سے سجا اِس بازار کی بکنے کے لئے زینت بنا۔ مروجہ رواج کے مطابق اُسے بھی نیلامی کے چبوترے پر چڑھایا گیا ہو گا۔ اُس کی ڈھیروں خوبیوں کا اونچے اونچے اعلان کیا گیا ہو گا میمفس میں تو دھوم مچی ہوئی ہو گی لوگوں نے کبھی کا ہے کو ایسا چکا چوند کر دینے والا حُسن دیکھا تھا۔ پر یہ کوئی کب جانتا تھا کہ وہ کیا ہے؟ اور جس کو خریدنے کے لئے امراء شہر کے ساتھ ساتھ وہ سوترکی اٹی والی عورت بھی اُس کے خریداروں کی صف میں شامل ہونے کے لئے آئی تھی اور جس نے گویا اپنا نام تاریخ میں درج کروایا تھا۔

سیاحوں کی ایک اور گاڑی آ کر رُکی۔ بڑے صحت مند پلے ہوئے مرد و زن اسمیں سے اُترے تھے۔

تصور کی کھلی آنکھ شہر کے بانکپن کو دیکھتی اور اُس کے تقدس کو سراہتی تھی۔ اس میمفس نے پیغمبروں کے باپ ابراہیم اور ان کی بیوی سارہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر خوش آمدید کہی تھی۔ اِس سرزمین نے خود پر رشک کیا ہو گا جب حضرت مریم اپنے منّے سے عیسیٰ کو گود میں لیے اُسے فلسطین کے بادشاہ کے غضب سے بچانے کے لئے اس کی دیواروں میں پناہ گزین ہوئیں۔ اور وہ بھی کیا سماں ہو گا جب بیٹے کی جدائی میں گریہ کناں باپ اور پیغمبر زمانوں کی ہجر سالی کے بعد اُسے ملنے آیا تھا۔ میمفس تُو تو قابل رشک تھا تیرے ساتھ کیا ہوا؟ نیل نے بے وفائی کی تو تُو تاب نہ لا سکا۔

میں جانتی تھی میرا دل میمفس آ کر کیوں بھاری بھاری سا تھا۔

میمفس کبقال آ کر رُکے۔ ٹکٹ تیس 30 پاؤنڈ کا تھا۔ چیکنگ خاصی سخت تھی۔

یہ جگہ ٹمپل پتاح کے سامنے تھی۔ کبھی اس ٹمپل میں فرعونوں کی رسم تاجپوشی ہوتی تھی اور یہیں رعمیس دوم کے گلابی گرینائٹ پتھر کے بڑے بڑے مجسمے قطار در قطا ر پڑے تھے۔ اُن میں سے دو باقی بچے ہیں ایک سٹیشن سکوائر پر فراعنہ کی عظمتوں کا علمبردار بنا کھڑا ہے اور دوسرا ہم اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔ تیرہ میٹر اُونچا یہ اپنی شاہانہ عظمت اور دبدبے کے ساتھ زمین پر پڑا خوفناک دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بھر پور نظارے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیلری میں آنا پڑتا ہے جہاں سے اس کا تفصیلی مشاہدہ ممکن ہے آخری حصہ ٹوٹا ہوا تھا۔ پر کیا شے تھی۔ آرٹ کا ایک نادر شاہکار۔

گیلری سے ہی مجھے ایک سمت چھوٹی سی مسجد نظر آئی تھی۔ فوراً اُتر کر میں اس کی طرف بھاگی سجدے نے جیسے آنسوؤں کا راستہ کھول دیا تھا۔ ہاتھوں کو اُٹھا یا تو بچوں کی بجائے ماں وہاں بیٹھی نظر آئی تھی۔

کشادہ گراؤنڈ کو بہت سے حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ اتنے ڈھیر سارے مجسمے اور اُن کی تاریخیں میں انہیں ہاتھ ہلاتی خدا حافظ کہتی آ کر درختوں کے نیچے رکھی بینچ پر بیٹھ گئی۔ ثنا اور مہرالنساء ڈیکوریشن پیسز کی خریداری میں اُلجھی ہوئی تھیں۔

دفعتاً اُدھیڑ عمر کے ایک مصری نے میرے قریب آ کر ثنا کے لئے کہا کہ وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

میں نے یکدم بھونچکی سی ہو کر اُسے دیکھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

گراؤنڈ میں پھرتی ثنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُس نے اپنا مدعا صاف اور شستہ انگریزی میں دوبارہ دہرایا۔

اسمیں کوئی شک نہیں تھا کہ ثنا اپنی صبیح رنگت جاذب نظر نقوش اور دراز قامتی پر خوبصورت پہناووں کے ساتھ ماورائی سی شے نظر آتی تھی۔ وہ ہر جگہ نظروں کے حصار میں ہوتی۔

’’پر یہ کیا۔ ‘‘

میرے تلووں لگی اور سر پر چھوٹی۔

’’حواسوں میں تو ہو اپنے۔ ‘‘ میں نے ڈپٹ کر کہا۔

’’لڑکی حواسوں پر بجلی بن کر گری ہے اور وہ اُڑ گئے ہیں۔ دیکھو میں یہاں کا امیر ترین آدمی ہوں یہ سامنے ہوٹل اور مکان سب میرے ہیں۔ ‘‘

’’ارے چولہے میں جائیں تمہارے ہوٹل اور مکان۔ تمہاری بیٹی کی عمر کی لڑکی ہے اور تم رال ٹپکانے لگ پڑے ہو۔ چلو بھاگو یہاں سے۔ ‘‘

سچی بات ہے میں تو جیسے کھولتے کڑاھے میں گری پڑی تھی۔

مہرالنساء بھی آ گئی تھی۔ اور یہ نئی رومانی سی صورت دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔ مجھے غصے میں دیکھ کر بولی۔

’’عجیب ہو تم بھی۔ مزے لو۔ یہاں کونسا رشتے ناطے کرنے لگے ہیں۔ ‘‘

ٍٍ بات اس کی ٹھیک تھی۔ ثنا بھی آ گئی تھی۔ اور یہ سب جان کر ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔

’’لو مصر میں کسی نے پروپوز بھی کیا تو ایسا بندہ شرمسارہو ہو جائے۔ ‘‘

سلطان عیسیٰ لسوڑے کی طرح چپک گیا تھا۔ بیوی کو طلاق دینے اور گھر ثنا کے نام کرنے پر بضد تھا۔ اچھا چلو جان چھوڑو سوچیں گے۔

ہمیں بھوک بے حال کر رہی تھی۔ باہر نکل کر بلیو لوٹس ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہوئے ہمیں میمفس جیسے شہر کی تباہ حالی پر دُکھ تھا۔ دراصل یونانیوں کے ہاتھوں مصر پر قبضے اور اسکندریہ کی آبادی اور ترقی نے بھی اسے متاثر کیا تھا۔

٭٭٭

 

۷۔قاہرہ قدیمہ

               مسجد عمرو بن عاص۔ قلعہ صلاح الدین۔ مدرسہ سلطان حسن

دنیا کی شاید ہی کوئی قوم اپنے تہذیبی ورثے کی بنا پر اس درجہ اوج کمال پر پہنچی ہوئی ہو۔ جیسے یہ مصری۔ صدیوں پرانے شاندار تمدّن کے مایہ ناز نمائندے شہروں شہروں پھیلے اس کے ہر شہر کو منفرد کرتے ہیں۔ فراعنہ کا دور ہو۔ یونانیوں رومیوں کا زمانہ ہو۔ مسلمانوں کی مختلف نسلوں فاطمیوں ترکوں اور مملوکوں کے مختلف ادوار ہوں ہر عہد نے اس کے شہروں کو کچھ نہ کچھ سوغاتیں دیں۔ قاہرہ دنیا میں اپنے اہراموں کی بدولت اگر مشہور ہے تو اپنی اسلامی ثقافت کے جا بجا بکھرے رنگوں پر بھی نازاں ہے۔ مسجدوں کا یہ شہر جس میں قدم دھرتے ہی میں نے روایتی مسلمان عورت کی طرح مسجدوں کی زیارتوں سے سیاحت کا آغاز کرنا چاہا تھا۔ پر دونوں ساتھی فراعنہ کی یادگاروں میں جا گھُسی تھیں۔ اور جب میں نے اپنے غصے کا اظہار کیا تو فوراً بول پڑیں۔

’’لو تو کیا ہوا۔ بھئی کل کا سارا دن مسجدوں کی نذر۔ ‘‘

اللہ جانے اب یہ مصر کی سرزمین کا قصور تھا یا ہمارا بڑھاپا ہی بڑا ہنگامہ خیز ہو رہا تھا کہ چھوٹی چھوٹی ناکارہ سی باتوں پر پنگے لینے لگا تھا۔

شامت اعمال سے مہرالنساء کہہ بیٹھی پہلے امام شافعی کے مزار پر چلتے ہیں۔ میں جو دل میں فاتح مصر حضرت عمروبن عاص ؓ کی مسجد کو دیکھنے اور اسمیں نفل پڑھنے کے لئے دنوں سے مری جا رہی تھی بھڑک ہی تو اٹھی۔ سڑک پر کھڑے کھڑے تھوڑی سی تُو تکار کی صورت پیدا ہو گئی۔

بہرحال ثنا نے فوراً جلتی پر پانی ڈال کر اُسے بجھا دیا۔ نقشے کو دیکھنے پر احساس ہوا کہ دونوں مقام تھوڑے سے فاصلے پر ایک ہی جگہ پرانے قاہرہ میں ہیں۔

لو بھلا اب بندہ خود کو کیا کہے ہے نا وہی بات ساٹھے اور سٹھیائے۔

ٹیکسی نیل پر بنے غزہ برج کو کراس کرتی پورے شہر کے گرد بل کھاتی رنگ روڈ صلاح سلیم سٹریٹ پر پڑی اور وہاں سے گلی کوچوں کی سڑکوں پر مار دھاڑ کرتی منزل پر آ رکی جامع قدرے نشیب میں واقع تھی۔ سڑک اونچی ہو گئی تھی۔ گرد و پیش ماٹھے لوگوں کا جان پڑتا تھا۔ پھلوں کی ریڑھیاں سڑک پر گردش میں تھیں۔

مسجد وسعت اور کشادگی میں بے مثال ہے۔ سادگی کا مرقع ہے۔ فانوسوں کے درمیان ستونوں پر گنبد والی چھت کے نیچے وضو کے لئے اہتمام تھا۔

کشادہ صحن میں سے گزرتے ہوئے خواتین کے لئے مخصوص حصے میں چلے گئے۔ چند نوجوان لڑکیاں لکھنے پڑھنے میں مصروف تھیں۔ دو کے قریب جا کر بات کی تو ہنسی آئی Business Correspondence جیسی موٹی کتاب میں سے پوائنٹس نکل رہے تھے پر انگریزی کا ایک لفظ بولنا نہیں آتا تھا۔ آخری کونے میں بیٹھی تین لڑکیاں جیسے گلاب کے تازہ کھلے پھول قریبی محلے میں گھر چھوٹا اور افراد خانہ زیادہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں پڑھنے کے لئے آتی تھیں۔ کالج کی طالبات تھیں۔ یہ لڑکیاں ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اپنا مفہوم واضح کرنے کے قابل تھیں۔

مردانہ اور زنانہ حصّے میں سُرخ قالین بچھے تھے۔ زنانہ حصّے کے قالین کچھ خستگی کا شکار تھے۔ تاہم ٹانگیں پسار لینے میں کیا ہرج تھا۔ تھوڑی سی تھکن دور ہونے کا احساس ملتا تھا۔ اطراف میں بنی الماریوں میں قرآن پاک کے نسخے اور دینی کتابیں موجود تھیں۔ مہرالنساء نے وہاں سے قرآن پاک نکال کر تلاوت شروع کر دی تھی میں تھوڑی دیر سستانے کے بعد عقبی حصّے میں گئی۔ وضو کیا اور جب نفل پڑھتی تھی تو خیال آیا کتنی عظیم ہستیوں نے اِس مسجد میں سجدے کیے ہوں گے۔ یہ جس جگہ میں ما تھا ٹیک رہی ہوں کیا معلوم عین اسی جگہ حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ میں سے کسی کا سجدہ یہاں ثبت ہو۔

’’اے میرے اللہ تو مجھے اپنی اُن محبوب ہستیوں کا سا ایمان دے۔ (امین) ‘‘

ستون سے ٹیک لگاتے ہوئے میں نے ٹانگیں پسار لیں اور چوبی پردے میں بنے سوراخوں سے باہر صحن میں دیکھا۔ میرے سامنے تاریخ کا وہ درویش جرنیل عمرو بن عاص تھا بیبلونBABYLON (پرانے قاہرہ کا ابتدائی نام) پر قبضے اور پھرپینتیس سو 3500 گھڑ سوار مجاہدوں کی ہمراہی میں ا سکندریہ میں رومنوں کی شکست فاش کے بعد اِن اشعار

آئے شان تہوّر دکھاتے ہوئے گئے نصرت کا پرچم اُڑاتے ہوئے

کے ترجمان بنے واپس آ کر فسطاطFUSTAT (ماڈرن قاہرہ کے عین جنوب میں واقع علاقہ) کو اپنا دارالخلافہ قرار دیتے ہیں۔ عرب سے باہر دنیا کی پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یہیں اس کشادہ صحن میں مجاہدوں کا ایک ہجوم ہے۔ کتنے بے شمار روپ ہیں ان کے جو ایک کے بعد ایک نگاہوں میں فلمی مناظر کی طرح اُبھرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہیں آس پاس اُن کے رہائشی حجرے بھی ہوں گے اب ایسا کچھ موجود نہیں۔ عقبی حصّوں میں عمدہ باتھ روم ہیں۔ آنکھیں گیلی سی ہو گئی ہیں۔

کبھی یہ تاریخ کا روشن باب تھا۔ اور ایک آج کا باب بھی ہے جس کی ہر سطر اور ہر ورقہ بے بسی و بے کسی اور ذلالت و خجالت کی سیاہی میں لُتھڑا پڑا ہے۔

ساری مسجد میں گھومے پھرے۔ مردانہ حصے میں بھی نوجوان لڑکے کتابوں کے مطالعہ میں محو تھے لڑکے سائنس کے طالب علم تھے۔

مجھے یہ سب بہت اچھا لگا تھا۔ کیوں نہ ہو ماضی حال میں سرایت تو کرتا ہے۔ زمانوں پہلے یہ مسجد اسلامی یونیورسٹی رہی۔ پر ہم کتنے کوتاہ بین ہیں کہ مسجدیں عورتوں کے لئے شجر ممنوعہ بنا دی گئی ہیں۔ خدا کا شکر ہے مصر میں ایسا نہیں تھا۔

باہر آہ وبکا اور ماتم بینوں سے پُر ایک منظر دیکھنے کو ملا۔ سیاہ چوغوں اور سیاہ رومالوں میں لپٹی عورتیں جس طرح کھلے عام ماتم کر رہی تھیں وہ بڑا تعجب انگیز تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز میرے لیے ہیروڈوٹس کی وہ تحریر تھی جو اس منظر کے ساتھ ہی میرے یادداشتوں میں اُبھر کر صدیوں پہلے اور آج کا تقابل کرتی سامنے آ گئی تھی۔

جب کوئی مصری مرتا تو اس کے گھر کی عورتیں سیاہ لبادوں میں شہر بھر میں ماتم کرتی اور بین ڈالتی پھرتی تھیں۔

تو میرے سامنے من و عین وہی صورت تھی۔ ماتم تھا۔ بین تھے اونچے اونچے رونا دھونا تھا۔

کچھ دیر افسردگی سے یہ سب دیکھتے رہے اور پھر میں اپنے آپ سے یہ کہتے ہوئے چل پڑی کہ وقت چاہے جتنی مرضی چھلانگیں مارتا ہوا آگے آ جائے ماضی کہیں نہ کہیں اپنا کوئی عکس ضرور ظاہر کرتا ہے۔

قہوے اور حقّہ پینے کی دوکانیں سجی ہوئی تھیں۔ سوچا کہ چلو شیشہ گری تو نہیں کر سکتے قہوے کو ہی لطف جان اور شامل جان کرتے ہیں۔

پھر بلک محلہ میں جا گھُسے۔ غریبوں کا محلہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے گھر سوکے کی ماری گلیاں۔ گیند بلاّ کھیلتے ننگ پیرے لڑکے بالے۔ دروازوں سے جھانکتے خوبصورت چہروں والی لڑکیاں وہی ہمارے اندرون لاہور والے منظر تھے۔ ایک چھوٹے سے گھر میں چلے گئے۔ گھر جو ایک بیٹھک پر مشتمل تھا۔ جس میں محبت اور پیار کے شیرے میں لُتھڑی ایک ایسی فیملی جو بہوحنا بیٹے عمرو شوہر محدوس اور پوتے شعید پر مشتمل زندگی کی گاڑی کو کسِ دشواری سے گھسیٹ رہی تھی۔ عمرو کو انگریزی کی شُد بدھ تھی۔

’’حسنی مبارک سے لوگ خوش نہیں ہیں۔ اب وہ اپنے بیٹے کو تیار کر رہا ہے۔ ‘‘ اُس نے اپنی معلومات سے فوراً ہمیں مستفید کیا۔

’’مگر لوگوں میں احتجاج کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ کتنے دنوں سے ہم قاہرہ میں پھر رہے ہیں کہیں کوئی جلوس کوئی جلسہ کوئی ہنگامہ کوئی رد عمل کوئی توڑ پھوڑ۔ لوگ پر سکون بہتی ندی کی طرح ’آج‘ میں رواں دواں ہیں۔ ‘‘

’’مسائل لوگوں کو سراٹھانے نہیں دیتے۔ ‘‘ جواب ملا تھا۔

’’زمانہ قدیم کی مصری قوم نہایت با شعور۔ پر جدید قوم سیاسی بصیرت اور سیاسی عمل سے بہت حد تک لا تعلق۔ ملک میں یک جماعتی نظام لوگوں کی محدود سیاسی سوچ کا عکاس ہے۔ ‘‘ میں نے اپنے تاثرات کو زبان دی تھی۔

بڑا سمجھدار لڑکا تھا۔ تڑسے بول اٹھا تھا۔

’’اُن کا سارا شعور اور ذہانت آرٹ اور دیگر شعبوں میں تھی۔ وہ فرعونوں کے غلام تھے۔ عصر حاضر کے لوگ صدور کے غلام ہیں اور روٹی پانی میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ‘‘

انہوں نے بہتیرا چائے پانی کے لئے زور مارا پر ہم مانے نہیں۔ باہر نکلے۔ تین چار راہگیروں نے تو یہ کہا کہ بس تھوڑا ساہی دور ہے امام شافعی کا مزار۔ پر ہم نے اعتبار نہ کرتے ہوئے ٹیکسی لے لی۔ اور اچھے ہی رہے۔ اتنا بھی نزدیک نہیں تھا یا پھر ٹیکسی والے کی گھمن گھیریاں تھیں۔

بڑا خستہ حال محلہ تھا جہاں وہ عالم دین استراحت فرما تھا۔ تنگ تنگ سی گلیاں پرانے شکستہ سے مکان میلے کچیلے چلتے پھرتے بچے سروں کو ڈھانپے سینوں کو ابھارے مصری عورتیں۔ مسجد بند تھی۔ مزار کھلا تھا اور لوگوں کے پُرے آنگن اور مزار کے اندر نظر آتے تھے۔ منگتوں کا حال ہمارے جیسا ہی تھا۔

مزار کا اندرونی حصہ کبھی بہت شاندار اور پُر وقار ہو گا پر اب خستگی سے دوچار تھا۔ مجھے پتہ نہیں دلّی میں حضرت نظام الدین اولیاء کا مزار کیوں یاد آ گیا تھا۔ مجاوروں کا ٹولہ وہاں بھی ہمارے آگے پیچھے تھا۔ اور یہی صورت یہاں تھی۔

صفائی کا ناقص انتظام۔ ایسا جلیل القدر عالم اور اتنی عزت افزائی۔

یہ مسلمانوں کی بے حسی کی انتہا ہے چلو دلّی میں تو ہم نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی تھی کہ آپ غیر مسلم حکومتوں سے کیا توقع کر سکتے ہیں۔ پر یہاں کیا کہتے۔

فاتحہ پڑھی۔ ایک طرف جا کر نفل ادا کیے۔ فلسطین کے گاؤں اسقلان میں پیدا ہونے والے ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی کی تعلیم و تربیت مکہ اور مدینہ میں ہوئی۔ آپ کو امام مالک کا بہترین شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کچھ وقت بغداد میں رہے پھر مصر آ گئے اور یہیں درس وتدریس کے سلسلے کا آغاز کیا۔ اور یہیں وفات پائی۔

Southern Necoropolis یا دوسرے لفظوں میں City of the Dead قاہرہ کے خاموش مکینوں کا وہ علاقہ ہے جو مقطم پہاڑی کی چوٹی سے قاہرہ قدیم تک پھیلا ہوا ہے۔ امام شافعی کے مزار سے نکلے تو میں نے چاہا کہ چلو ایک نظر اسے دیکھتے ہیں۔ بہت سی برگزید ہ ہستیاں یہاں موجود ہیں۔ ان کے لیے دعائے خیر اور فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ پر دونوں نے ایڑی نہ لگنے دی۔

آگے بڑھو زندگی کی طرف۔ ہمیں نہیں جانا وہاں۔ کورا چٹا جواب تھا۔ چپ چاپ ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔

قاہرہ کی مساجد میں سے 876ئاور 879ء میں بنائی جانے والی اپنے منفرد طرز تعمیر کی بنا پر جامع طولن TULUN خاصی شہرت رکھتی ہے۔ جاہ و جلال والی مسجد تھی۔ کہا جاتا ہے کہ عراق کی سمارہ SAMARRA مسجد کے ڈیزائن پر ہے پر مجھے تو اسمیں استنبول کی مسجدوں کی جھلک جھانکتی نظر آئی تھی۔ بے حد وسیع بجری والا صحن جس میں چلنے کے لئے سنگ مرمر کی روشیں بنائی ہوئی تھیں۔ پر مسجد میں ویرانی تھی۔ اور یہ ویرانی تکلیف دہ تھی۔ صفائی ستھرائی کا انتظام بھی ناقص ہی تھا۔ بہر حال ہم نے تو سر جھکایا اور زمین پر لگایا اور اوپر والے سے یہ بھی کہا کہ گواہ رہنا۔ بڑے تیر مار رہے ہیں۔

ثنا نے گولائی میں لپٹی سیڑھیوں سے اوپر مینار تک جا کر تصویریں بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پر نگران نے بتایا کہ تالا لگا ہوا ہے۔

چلو صلاح الدین کا قلعہ دیکھتے ہیں۔ نقشے نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم قریب ہی ہیں سڑک سے قلعے کے بیرونی گیٹ تک سرخ اینٹ کا کشادہ راستہ خاصی چڑھائی والا ہے۔ داہنے ہاتھ سر سبز لان ہے۔ قلعہ تاریخی اہمیت والی مقطم پہاڑی پر بنا ہوا ہے۔ گیٹ کے پاس پہنچ کر میں نے تعاقب میں دیکھا۔ نیچے نیلگوں دھوئیں کے غبار میں لپٹا قاہرہ بکھرا ہوا تھا۔ پُل پر ٹریفک کا اژدہام مار دھاڑ کرتا گولی کی مانند رواں دواں تھا۔ قلعے کی عمارت مٹی رنگے پینٹ سے مزّین تھی۔ سچی بات ہے اِسے دیکھ کر مجھے تو گاؤں کی سگھڑ گرہستنوں کے وہ گھر یاد آئے تھے جنہیں چھپڑوں (گاؤں کے باہر پانی کے بڑے تالاب) کی چکنی مٹی سے پریت سے لیپا پوتا گیا ہو۔

 ٹکٹ لے کر اندر داخلہ ہوا۔ تعمیر تو اس کی صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ہوئی تھی بعد میں صدیوں تک یہ مصر کے حکمرانوں کی رہائش گاہ رہا۔ پھولوں کے گول قطعوں۔ سرسبز لانوں دائیں بائیں کاٹتی خوبصورت روشوں۔ کھجور کے درختوں اور اطراف میں بنی کوٹھڑیوں سے سجا نظر آیا تھا۔ عجیب سی بات تھی۔ نہیں یہ غلط ہے۔ عجیب سی کیوں ایسا ہونا تو فطری امر تھا۔ میں قلعے کی اِس فضا میں آتے ہی اُس ٹرانس میں آ گئی تھی جو تاریخ اسلام کے اُس جیالے شہ زور بے مثل خوبیوں کے حامل کرُد سپہ سالار سے میری زمانوں پرانی محبت عقیدت اور محبوبیت پر مبنی تھا۔ میں سر سبز گھاس پر بے اختیار بیٹھ گئی تھی۔ بظاہر چمکتی دھوپ میں اِن خوبصورت منظروں پر نظریں جمی تھیں۔ پر ذہنی دریچوں کے پٹ کھلتے جاتے تھے اور سریر جذب و آگہی میں بھیگتا جاتا تھا۔

’’ اور اگر ہم خدائے بزرگ و برتر کی مدد سے اکیانوے 91 برس تک دشمنوں کے قبضے میں محصور بیت المقدس کو آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے تو سوچو یہ خدا کا ہم پر کتنا بڑا احسان عظیم ہو گا۔ یہ مقدس ترین مقام قوموں کا قبلہ اوّل پیغمبروں کے نقش پا کا امین اتنے سالوں کفر اور شرک کا مسکن بنا رہا یہاں ایک دن بلکہ ایک لمحہ کے لیے بھی خدائے واحد کی عبادت نہیں ہوئی۔ ‘‘

وہ رُکا۔ اُس نے اپنے سپاہیوں کو جو اُسے محویت سے سُن رہے تھے پر ایک نظر ڈالی اور بولا۔ گاڈ فری اور ریمنڈ بیت المقدس کے فاتحین نے پوپ کو جو خط لکھا تھا اُس کے الفاظ تھے۔

’’ہمارے گھوڑے رواق سلیمان اور گنبد کے نیچے مسلمانوں کے ناپاک خون میں گھٹنوں گھٹنوں تک نہاتے ہوئے چلے تھے۔ اور یرون کے پہاڑ ان کی چیخوں سے گونج رہے تھے۔ ‘‘

اور وہ جمعہ کا دن تھا جب فتح و نُصرت کا ہما اُس کے سر پر بیٹھا۔ بیت المقدس کی چھُپی ہوئی محرابیں نکالی گئیں اور مسجد کو عرق گلاب سے غُسل دیا گیا۔ وفور شوق سے اُس کا چہرہ تمتماتا تھا جب اُس نے نماز جمعہ کی ادائیگی کی۔

پھر وہ اپنے دست راست اور بھائی عادل سے مخاطب ہوا۔

’’بیت المقدس کو فتح کرنا میرا خواب تھا۔ اور معافی میرے رسول کا شیوہ۔ ‘‘

وہ تخت پر بیٹھا۔ درِ داؤد کو کھُلا رکھا گیا۔ باقی دروازے بند کر دئیے گئے۔ پادریان آئے یروشلم کی ملکہ نائیٹس کے ہمراہ آئی۔ عورتیں اور بچے داخل ہوئے۔ عورتیں شوہروں کے پاس بچے ماؤں کے پاس۔ اُس نے تمام مصیبت زدوں پر رحم کیا۔ جزیہ کے بدلے رہائی ہوئی۔

بیت المقدس کی فتح وہ تھی جس نے گویا یورپ کے ہر گھر میں صف ماتم بچھایا۔ عیسائی دنیا رنج و الم کی گھاٹیوں میں گری۔ لوگوں نے اسے غمِ ذات سے بڑھ کر غم جانا۔

ولیم آرچ بشپ آف ٹائر مشرق سے آہ و زاریاں کرتا یورپ آیا۔ کنگ رچرڈ اور فلپ آگسٹس فرانس اپنی پرانی دشمنیاں بھول ایک دوسرے کے گلے لگ کر زار زار روئے۔

نائٹس اور بشپوں نے ارض مقدس چھڑانے کی قسم کھائی اور Saladin Tenth کے نام سے ٹیکس کا اجرا کیا۔ ٹیکس صلاح الدین جو ادا نہ کرے وہ دائرہ عیسائیت سے خارج۔

تاریخ میں ایسی ناموری کسی کو کہاں نصیب ہوئی۔

اس تیسری اور سب سے بڑی صلیبی جنگ میں پورا یورپ اُس کے مقابلے پر ایشیا آ پہنچا تھا۔ جسے اُس نے اپنی جنگی فہم و تدبر اور خدا کی نظر عنایت کے سہارے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ یورپ خاص طور پر جرمنی اپنی بہترین فوجوں اور جرنیلوں سے محروم ہوا۔ چھ لاکھ کروسیڈرز آئے اور ایک لاکھ واپس گئے۔

تاریخی سچائی صرف اتنی سی ہے کہ قدرت نے اُس کی تخلیق ہی خاص مقصد کے لیے کی تھی۔ چند گھنٹوں کی شب بسری خیمے میں ، دن گھوڑے کی پیٹھ پر اور زندگی میدان جنگ میں جہاد فی سبیل اﷲ کے عشق میں۔ تو یہ تھی وہ ہستی اسلام اور مسلمانوں کی عظمت گم گشتہ کو زندہ کرنے والی۔

بہت سے آنسو رخساروں پر بہہ گئے۔

بوسنیا کے مسلمان سرب عیسائیوں کے ہاتھوں۔ چیچنیا، فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمان کسی صلاح الدین ایوبی کے انتظار میں ہیں۔

پروردگار عالم اسلام کی مائیں کیا اب بانجھ ہو گئی ہیں کہ ایسے جیالوں کی پیدائش خواب بن گئی ہے۔

قلعے میں ایک کنواں بھی ہے چاہ یوسف۔ پتھریلی زمین میں کھدا ہوا بالکل گول۔ پانی نہیں تھا اب۔ شاید کبھی ہو۔ یہ وہ کنعان والا چاہ یوسف نہیں جہاں اُن کے بھائیوں نے انہیں پھینکا تھا بلکہ حضرت یوسف نے زمین کی سیرابی کے لئے ایسے بہت سے کنوئیں اور نہریں نیل سے نکلوائی تھیں۔ قلعے کی بلند ترین جگہ پر مسجد محمد علی قاہرہ کی قابل دید جگہوں میں سے امتیاز ی نشان رکھتی ہے۔ محمد علی پاشا کے دور میں بننے والی اِس مسجد کا ڈیزائن کار یونانی ماہر تعمیرات یوسیف بوبجنا تھا جو استنبول کی ایا صوفیا سے متاثر تھا۔ مسجد کے محراب دار برآمدے اس کے ستون دروازے اور اندرونی حصے کی زیبائش وہی لوہے کی گول دائرے میں بنی چین سے لٹکتے کرسٹل کے شینڈلیئرز میناروں کا نوکیلا سٹائل جیسے ابھی کہیں میزائل داغنے کے لئے پرواز کو تیار کھڑے ہوں۔

سرخ قالینوں سے سجا فرش اور چھت کے گنبد کی حسین نقش و نگاری اگر میں نے استنبول کی مسجدیں نہ دیکھی ہوتیں تو شاید میں گھنٹوں بیٹھ کر اس کی تزئین کاری کو دیکھتی۔ وضو کے لئے فوارہ اور اس کی چھت دونوں قابل دید تھے۔ چھت کے بڑھے ہوئے اُفقی شیڈوں اور حوض دونوں کی نقش و نگاری لاجواب۔ صحن کشادہ اور خوبصورت تھا۔ حوض کے مغربی جانب تنا کھڑا کلاک ٹاور اپنی ساخت اور رنگ آمیزی کے باعث بہت دیدہ زیب۔ بالائی جھروکوں اور درمیانے حصے کو تانبے کی مینا کاری اور سجاوٹ سے مزّین کیا گیا ہے۔ اس کی پیشانی پر چمکتا کلاک محبت کا وہ اظہار یہ ہے جو محمد علی پاشا کو فرانس کے شہنشاہ لوئس فلپ نے بھیجا تھا۔

صحن میں کھڑے ہو کر ایک نظر گرد و پیش پر ڈالی۔ تو پورا قاہرہ قدموں میں بچھے اُس خوبصورت قالین کی طرح نظر آیا تھا جس پر بلند و بالا عمارات کسی ڈیزائن کی صورت کاڑھی ہوئی ہوں۔ ایک طرف صلاح الدین سکوائر کی پُر رونق گہما گہمی سے بھری پُری سڑکیں۔ چوک کے فواروں میں اُچھلتا ناچتا پانی۔ مٹیالے رنگ کی خوبصورت مسجدوں کے مینار۔ دوسری طرف شہر خموشاں کی ویرانیاں تھیں۔ نیل موٹی سی لکیر کی مانند نظر آتا تھا۔

یہ محمد علی پاشا البانوی نژاد اُس فوجی دستے میں ایک معمولی سپاہی تھا جو مصر کو نپولین کے قبضے سے آزاد کروانے یہاں آیا تھا اور جسے سلطنت عثمانیہ کا آشیرباد حاصل تھا۔ وہ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا حامل ذہین انسان تھا۔ اپنی جنگی فہم وفراست کی بنا پروہ جلد البانوی دستوں کا کمانڈر بن گیا۔ اور 1805ء میں مصریوں نے جب ولی خورشید کے خلاف بغاوت کی تو اُس نے حد درجہ ہوشیار ی سے مصر کی حکومت کا چارج سنبھال لیا۔ یہ شاہ فاروق کا پڑ دادا تھا۔ مسجد میں سیاحوں کی ریل پیل تھی۔ مسجد کا تقدس بھی بے چارہ ان کے ہاتھوں پامال ہو رہا تھا۔ کہ کچھ ننگی ٹانگوں اور ننگے سروں کے ساتھ مٹر گشت کر رہی تھیں۔ کوئی روک ٹوک اور پوچھنے والا ہی نہ تھا۔ جب مغرب والے اتنے دیدہ دلیر تھے تو بھلا مشرق والوں کو کُتے نے کاٹا تھا کہ وہ خود پر پابندیاں لگاتے۔

میں نے مسجد کا ایک کونہ منتخب کیا۔ پہلے نماز پڑھی پھر ٹا نگیں پسار کر لم لیٹ ہوئی۔ اللہ کیا سکون ملا تھا۔ بیچاری ٹانگوں کا پلیتھن ہوا پڑا تھا۔

تھوڑی سی اُونگھ آ گئی تھی۔ آنکھ کھلی تو مہرالنساء بھی استراحت کے مزے لوٹ رہی تھی سچی بات ہے اتنے سے آرام نے تازہ دم کر دیا تھا۔

مسجد سے داخلی دروازے کے دائیں ہاتھ محمد علی پاشا کا مقبرہ تھا۔ یہ مسجدوں کے ساتھ مقبروں کی روایت بھی مصر میں ہی دیکھنے کو ملی تھی۔ بہر حال سفید سنگ مرمر کا مقبرہ نفیس نقش و نگاری سے سجا ہوا آنکھوں کو خوبصورت لگا تھا۔ فاتحہ پڑھی اور باہر آ گئے۔

سڑک تک آتے آتے مہرالنساء کی بڑبڑاہٹ آسانی سے سُنی جا سکتی تھی۔ سویرے سے مسجدوں میں ہی پھنس گئے ہیں۔ پہلے تو اچھا سا کھانا کھانا ہے دوسرے اب مسجدوں میں نہیں گھُسنا۔

’’ان کی سنو۔ کوئی پوچھے کھِے کھانے آئے ہیں مصر اگر کچھ دیکھنا نہیں۔ مسجد سلطان رفیع اور مسجد زینب دو ہاتھ پر تو ہیں۔ خوبصورت اور عہد ساز سلطان مدرسہ اور مسجد ارے بابا اتنے تو گنہگار ہیں۔ کہیں سجدہ کہیں دُعا شاید کچھ قبولیت پا جائے۔ ‘‘

پر میں نے زبان کو تالا لگائے رکھا۔ جانتی تھی کہ وہ اگر پٹڑ ی سے اُتر گئی تو دوبارہ ٹریک پر لانا مشکل ہو گا۔

اب مہرالنساء کے کھانے کی تلاش میں جو خواری ہوئی اس کی بیان بازی کیا کروں۔ میکڈونلڈز تو پھر بھی کہیں نظر نہ آیا۔ فلافل تو اپنی گرما گرم کڑاھیوں میں تلنے کے باعث دعوت طعا م دے رہا تھا۔ اب اس کا کیا علاج کہ ہمارے نصیبوں میں اس کا کھانا نہیں لکھا تھا۔ چلو پیزہ کی ایک دوکان نظر آئی پیٹ پوجا ہوئی۔

صلاح الدین سکوائر قاہرہ کا مصروف ترین علاقہ تھا۔ مسجد سلطان حسین اور مسجد الرفیع دونوں ہم نے دیکھیں۔ ایک میں نفل پڑھے دوسری میں عصر کی نماز ادا کی۔ 1365ء اور 1363ء کے دوران بننے والی سلطان مسجد اسلامی طرز تعمیر کا بہترین نمونہ تھی۔ یہ ترک سلطان الناصرحسین کے مصر کے دور حکومت کی یادگار ہے۔ جس کی تعمیر کا آغاز گو سلطان کے ہاتھوں ہوا پر تکمیل بشیر آغا نے کی جو اس کے شہزادوں میں سے ایک تھا۔ مدرسے کی عمارت اب شکستگی سے دوچار تھی پر کبھی یہ بڑی عظیم الشان ہو گی۔ وسیع و عریض صحن میں کھڑے ہوئے میں نے سوچا تھا کتنے لاکھوں ذہنوں نے یہاں سے جلا پائی ہو گی۔

اے مدرسو! اے علم کے خزانو! کبھی تم میں ہم میں بھی راہ تھی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو آج تم مطعون ہو۔ باعث شرمساری ہو۔ تنگ نظری کی علامت ہو۔ قصوروار کون ؟

 الرفیع مسجد کے میناروں کو دیکھتے ہوئے مجھے بے اختیار قطب مینار یاد آیا تھا۔ مسجد کے میناروں کی اتنی باریک کندہ کاری مجھے اُس سے بہت مشابہ نظر آئی تھی۔ مہرالنساء اگر اہلِ تشیع سے ہوتی تو مجھے اُس کا حضرت زینبؓ کے مزار پر دیر تک بیٹھنے کا جواز سمجھ میں آتا۔ وہ مزار سے شہد کی مکھی کی طرح چمٹی ہوئی تھی۔ آنکھیں بند کیے خضوع میں ڈوبی جانے کن گھمن گھیریوں میں اُلجھی ہوئی تھی۔

٭٭٭

 

۸۔قاہرہ سے لُکسر تک

قاہرہ میرے گلے میں اسی طرح پھنس گیا تھا جیسے چھچھوندر سانپ کے گلے میں کہ جسے نہ اُگلے بنے اور نہ نگلے

چلو غزہ، اسقارہ میمفس اہرام فراعنہ اور ابو الہول کے مجسموں اور اُن کی لمبی چوڑی ثقیل سی تاریخ کے ساتھ تھوڑے بہت ہضم کیے۔ پر قاہرہ کے وجود پر شریانوں کی طرح پھیلے بازار مسجدیں اور جا بجا بکھرے اسلامی تہذیب کے نشاں اُس پر طرّہ قاہرہ قدیم کے محلے گلیاں اُن میں سر اُٹھائے پُرانی عمارات اور اُن سے وابستہ ہر ایک کے ساتھ تاریخی داستانیں ہونکانے اور سانس پھلانے کے لیے بہت کافی تھیں۔

دن بھرکی خجل خواری کے بعد جونہی ہم نے انڈیانہ ہوٹل میں قدم دھرے ثنا نے اپنے خوبصورت مخروطی ہاتھ بنتی کے انداز میں جوڑ کر میری ناک کی پھنگی سے مس کرتے ہوئے دھیمے سے تنبیہی انداز میں کہا۔

’’آنٹی خدا کے لیے ہسٹری کے اس پٹارے کو بند کر دیجیے۔ حشر ہو گیا ہے۔ قاہرہ کی سڑکوں زیر زمین ٹرینوں بسوں ویگنوں اور ٹراموں نے رول دیا ہے۔ کروز کا پیکج لیجیے۔ نیل کی نیلگوں لہروں پر چند دن کی یہ عیاشی بہت ضروری ہے۔ ‘‘

’’چلو صبح دیکھیں گے۔ ‘‘

میں نے بدقت جوتے اُتارے اور بستر پر گرتے ہوئے کہا۔

تو پھر یہ طے تھا کہ آج ہر صورت کروز کے لیے صحرا نوردی ہو گی۔ ہوٹل کو چھوڑنا تھا۔ سامان کو کہیں ٹھکانے لگانا تھا۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے سے قدم باہر نکالنے کی دیر ہوتی تھی کہ ٹیکسی ڈرائیوروں کے پُرے شہد کی مکھیوں کی طرح ہم پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ اس بھاؤ تاؤ میں ہمارا ہاتھوں کو نفی میں ہلاتے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانا اور اُن کا ہمارے پیچھے دوڑتے آنا تقریباً روز کا معمول تھا۔ ہم نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ پانچ مصری پاؤنڈ سے تین اور چار پر تو آنا ہے چھ پر ہرگز نہیں جانا۔

تحریر میدان میں پہنچ کر ہم نے اب ٹریولز ایجنٹوں کی دوکانوں کے بورڈ پڑھنے شروع کیے۔ پوچھتے پوچھاتے کھوجتے ایک دو ٹورز کے پیکج اور پیسوں پر انہیں ردّ کرتے بالآخر مصری میوزیم کے بالمقابل مریٹہ باشا سٹریٹ Maritta Basha Street پر Othman Tours کے اندر جا دھمکے۔

گرینڈ پرنسس کا ایک سو نوے ڈالر کا پیکج۔ قاہرہ سے لُکسر تک ٹرین لُکسر سے آگے اسوان تک تین راتیں اور چار دن کا کروز پر قیام۔ جا بجا قابل دید مقامات پر ٹھہراؤ کے ساتھ ساتھ رنگین اور ہوش ربا پروگراموں کی تفصیل اور تصویروں سے سجا کتابچہ دیکھ کر سوچا۔

چلو ذرا غریبانہ سے اندازِ سفر کو شاہانہ رنگ دے کر بھی دیکھتے ہیں۔

اور ایک سونو ے ڈالر فی کس کے پیکج پر مُک مُکا ہو گیا۔

’’چلو اب تیاری کر و کہ روانگی اسی دن شام کو تھی۔

ہوٹل جا کر لُکسرکے لئے ساتھ لے جانے والا سامان الگ کیا۔ بقیہ کے لئے پیکج والوں سے بات کر بیٹھے تھے کہ ہمارا سامان سنبھالنے کی ان کی ذمہ داری ہو گی۔ سو وہ لے جا کر Othman Tours والوں کے متھے مارا کہ ہماری واپسی تک اپنے کسی سٹور میں ٹھکانے لگا دیں۔

چار بجے آفس میں پہنچنے کی تاکید ہوئی کہ پانچ بجے گاڑی کی لُکسر کے لیے روانگی تھی۔ اس عمل سے فراغت کے بعد جب کمر سیدھی کی تو محسوس ہوا کہ پیٹ بھوک کی شدت سے بلبلا رہا ہے۔ ناشتے پر دوپہر کے کھانے کی بچت کا خیال کرتے ہوئے جس جس انداز میں ٹھونسا ٹھونسی ہوئی تھی اُن سب پر پانی پھرا ہوا تھا۔ وقت بھی ایک بجے کا تھا۔

سوچا قریب ہی کہیں کھانا پینا ہو۔ نماز کی ادائیگی کے ساتھ مسجد میں تھوڑا سا آرام بھی مل جائے اور واپسی میں بھی سہولت رہے۔ بس تو تحریر سٹریٹ میں ہی سبھی کچھ مل گیا تھا۔ فلافل، مسجد اور آرام۔

قاہرہ اسٹیشن کی عمارت بڑی گرانڈیل قسم کی تھی۔ گردن کو پُشت کی جانب دہری کر کے آنکھوں کو تب کہیں اس کی چھت نظر آتی تھی۔

صفائی ستھرائی لوگوں کے اژدہام اور بھاگ دوڑ میں افراتفری کا سماں اُنیس اکیس کے فرق کے ساتھ بڑی مانوسیت لیے ہوئے تھا۔ گاڑیوں کی حالت بھی بس وطنی سی تھی۔

’’ارے ان کے ساتھ کیا مرنا ہے۔ سویز کی آمدنی تیل کے ذخائر اور سیاحت اتنا پیسہ کیا کرتے ہیں یہ۔ ‘‘ سوچیں تھیں کہ دماغ میں گھُسی چلی آ رہی تھیں۔

گاڑی کا کوپہ تین نشستوں کے حساب کتاب کے ساتھ ایک لمبی سی سیٹ پر مشتمل تھا آگے تھوڑی سی جگہ خالی اور دروازہ ندارد۔

’’چلیں ٹکٹ سنبھالیں اور بیٹھیں۔ ‘‘

پیکج والوں کے لڑکے نے خدا حافظ کہا اور گاڑی سے نیچے اُتر گیا۔

معلوم نہیں خدا نے کتنے شوموں کی تخلیق روک کر ہمیں بنایا ہو گا۔ مہرالنساء اکیلی جان ناک ناک تک پیسے میں لُتھڑی ہوئی مجھے بھی چار ہاتھ پیچھے چھوڑ گئی تھی۔ جس وقت ہم پیکج والوں سے برتھ والی ٹرین کی بات کرتے تھے اور اُس نے یکسر انکاری ہوتے ہوئے کہا تھا۔

190ڈالر میں فرنچ ٹرین کی سیٹ ناممکن۔ اُس کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔

اُس نے بہت زیادہ کو لمبا سا کھینچ کر کہا۔ اور ہمیں دیکھیے کہ بہت زیادہ کا سُن کر یہ تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ بھئی آخر کتنا زیادہ۔ مہرالنساء بھی گُگو بنی بیٹھی رہی۔ لو اب مزے چکھو۔

مجھے بھی تپ چڑھی۔ پر کب؟ جب چڑیاں کھیت چُگ گئی تھیں۔

ٹرین اپنے وقت پر چلی۔ پر عجیب کسمپرسی کا سا عالم تھا۔ باتھ روم کی حالت بھی ناگفتہ بہ۔ ڈائننگ کار کا یقیناً کوئی وجود نہیں تھا۔ کولڈ ڈرنکس کے جھن جھن چھُن چھُن کرتے ٹھیلے بھی کہیں نہیں تھے۔ کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والے ہاکروں کی آوازوں کو سُننے کے لیے کان ترس رہے تھے۔

ہائے ہماری گاڑیاں صدقے جاؤں۔ پکوڑے سموسوں والوں کی تانیں ، نان کباب، ٹھنڈی ٹھار بوتلیں۔ ارے ہم ایسی روکھی پھیکی گاڑیوں کے کہاں عادی۔ بہرحال مہرالنساء کے نمکو اور بسکٹوں کے پیکٹوں نے کوپے میں تھوڑی سی کھلبلی مچائی۔

دس بج رہے تھے۔ اور آٹھ گھنٹے ابھی باقی تھے۔ ’’ یا اﷲ‘‘ ابھی تک ہم تینوں ایک دوسری میں پھنسی بیٹھی تھیں۔ لیٹا جائے تو کیونکر۔ مہرالنساء نے اپنی سائیڈ پر سر کو صوفے کی بیک سے ٹکاتے ہوئے جسم کو تھوڑا سا پھیلایا۔ میں بھی کھڑکی کے ساتھ سر کو ٹکاتے ہوئے قدرے پھیلی۔ ثنا بیچاری ہم دونوں کے درمیان سینڈوچ بن رہی تھی۔

بالآخر میں اُٹھی کوریڈور میں آئی۔ ساتھ ہی ایک بڑا سا کھُلا خالی کمرہ جہاں عملے کے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ اُن سے ایک کپڑے کا سوال ہوا۔

’’کیا دروازے پر پردہ لگانا ہے؟‘‘ پوچھا گیا۔

’’لو ان کی سنو۔ میں نے اپنے دل میں کہا۔ کتنی پردہ دار بیبیاں سمجھ رہا ہے ہمیں۔ ‘‘

’’ارے بھئی نیچے بچھانا ہے۔ سونا ہے۔ ‘‘ ایکشن کیا۔

ایک بزرگ خاتون کی آنکھوں میں نیند کے ہلکوروں کا لہریں مارتا دریا دیکھ کر انہیں شاید رحم آ گیا تھا۔ کپڑا عنایت ہوا جسے لا کر میں نے فی الفور زمین پر بچھایا۔ سرہانے کپڑوں والا شاپر رکھا۔ ڈالروں والی تھیلی کو سینے میں ہاتھ لگا کر چیک کیا اور آنکھیں موند لیں۔

چلو وہ بھی کھلی ڈُلی ہو گئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے سر کی طرف ٹانگیں پسار لیں۔ کہیں رات کے کسی پہر آنکھ کھلی۔ مدھم سی روشنی میں شیشے کی کھڑکی سے باہر پانی چھل چھل کرتا نظر پڑا۔

نیل ہی ہو گا۔ اور تو اس سرزمین پر ریڈ سی اور غربی جانب نیل سے نکلتی ایک چھوٹی سی لکیر کے سوا کسی چھوٹے موٹے ندی نالے کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔

سوچتے اور اپنے آپ سے کہتے میں نے پھر آنکھیں موند لی تھیں۔

صبح آنکھ کھُلی تو بڑے مانوس سے منظر تھے۔ دیہی زندگی کے لشکارے۔ سرسبز کھیتوں کے دور تک پھیلے سلسلے اُن میں جھُومتے کھجور کے درخت۔ دو منزلہ سہ منزلہ گھر۔ کہیں کوئی بہت خستہ کہیں بہت شاندار گنے کے کھیتوں میں کام کرتے لوگ۔ آبادیوں کو جاتے کچے راستے مسجدوں کے مینار رگ و پے میں اپنائیت کی لہریں دوڑاتے تھے۔

مہرالنساء نہیں تھی۔ میرے خیال میں شاید کہیں واش روم میں ہو گی۔ پر تھوڑی دیر بعد وہ کھلکھلاتی ہوئی کوپے میں آئی اور بولی۔

’’بھئی اس گاڑی کے ٹی ٹی نے مجھے پروپوز کیا ہے۔ ‘‘

’’کیا۔ ‘‘ ہم دونوں کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔

اور جو تفصیل اُس نے ہنستی آنکھوں سے پانی خشک کرتے ہوئے ہمیں سنائی وہ کس قدر دلچسپ تھی۔ مہرالنساء کوئی چار بجے ساتھ والے کوپے میں جو رات کے کسی پہر خالی ہو گیا تھا۔ جالیٹی۔ علی الصبح وہ بیٹھی باہر کے منظروں میں گم تھی جب ٹی ٹی حضرت کوپے میں آئے۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ مہرالنساء خیر سے کنواری ہیں اور وہ رنڈوے۔ جھٹ پٹ رشتہ ڈال دیا گیا۔

اب چھیڑ خانی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

چلو بھئی چل کر ہونے والے جیجا جی سے انٹرویو کریں۔

نجیب مصطفےٰ لُکسر سے دو اسٹیشن پرے بہت سی اراضی اور بڑے سے گھر کا مالک تھا۔ بیوی گزشتہ سال وفات پا گئی تھی۔ بچے بڑے تھے۔ اُس نے ہمیں اپنے شہر اُترنے اور وہاں دو تین دن قیام کرنے کی پیشکش کی۔ جسے ظاہر ہے قبول کرنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ پر ہم نے اُسے پاکستان آنے اور اگر وہ مہرالنساء کے لیے سنجیدہ ہے تو اس ضمن میں اُسے جو کرنا ہے اُس پر عمل کرنے کا مشورہ دیا۔ جس پر مہرالنساء اردو میں چلائی۔

’’ارے پاگل ہو گئی ہو۔ باؤلے کتے نے کاٹا ہے مجھے جو دوزخ میں منہ ڈالوں۔ ‘‘

’’چلو چپ کرو۔ لڑکیاں اِن معاملوں میں نہیں بولا کرتیں۔ ‘‘ میں نے ہنستے ہوئے مصنوعی خفگی دکھائی۔

بہر حال ایک شغل تو ہاتھ آیا۔

اُن کا ا سٹیشن آ گیا تھا۔ ہمارا جیجا جی ہم سے وعدے وعید کے ساتھ رُخصت ہوا۔

لُکسر کیا آیا۔ ہماری تو اچھی خاصی پریڈ ہو گئی۔ لمبے چوڑے ڈبے میں ہم صرف تین عورتیں پنجرے میں بند کسی نو گرفتار پرندے کی مانند سر پٹخ رہی تھیں۔ دروازے بند تھے اور انہیں کھولنے میں ہماری ہر کاوش ناکام ہو گئی تھی۔ ایک دروازے تھپتھپا رہی تھی تو دوسری شیشوں پر ہاتھ مارتے ہوئے باہر پلیٹ فارم پر چلتے پھرتے لوگوں کو اپنی پریشان صورت سے بے کسی کی داستان سُنا رہی تھی۔

بارے خدا دروازہ کھلا اور باہر نکلے۔ پیکج کا تکونی آنکھوں والا لڑکا ہمارے نام کا کارڈ اُٹھائے کھڑا تھا۔ چلو اُس نے ہمیں اور ہم نے اُسے پہچانا۔ اُس کے تعاقب میں بہت سی سیڑھیاں چڑھیں اور اُتریں اور اسٹیشن کی عمارت سے باہر آئے۔

٭٭٭

 

۹۔ ویلی آف کنگز مصری میتھالوجی

               آرٹ اور مقبرے

یہ تو گمان میں بھی نہ تھا کہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکیں گے۔ رات بھر کے سفر کے بعد صبح سویرے پیکج کا گائیڈ ذرا سا سستانے اور نیل کے مشرقی اور مغربی کناروں پر صحرا میں اُگے جنگلی گلاب کی طرح دل کش لُکسرLuxor شہر کو جسے الاقصر (محلات کا شہر) اورطیبس (قدیم یونانی نام THEBES) بھی کہتے ہیں کو نظر بھر کر دیکھنے کی بجائے قدیم ترین تہذیبی اور ثقافتی ورثوں میں لے جائے گا جنہوں نے دنیا بھر میں مصر کو تاریخی حوالوں سے انتہائی معتبر اور منفرد گردانتے ہوئے اُس پر سیاحت کے ذریعے پیسے کی بارش کر دی ہے کہ ہر ہر قدم پر50اور 75 مصری پاؤنڈ کے ٹکٹ جیب سے عشوہ طراز محبوباؤں والا سلوک کرتے ہیں۔ لکسر (طیبس) کے نیچے پورا ایک شہر دریافت ہوا ہے۔ کھدائیاں جاری اور دنیا بھر سے ٹورسٹوں کے پُرے حاضر اور شہر کا ہر شہری کسی نہ کسی رنگ میں سیاحت کے پیشے سے وابستہ۔

نہ ناشتہ نہ چائے۔ Winter Palace ہوٹل میں واش روم جانے اور منہ دھونے کے بس چور ہوئے۔

بیٹھئے بیٹھئے کے شور میں ویلی آف کنگز کی طرف کوچ ہو گیا۔

’’ہائے یہ کمبخت گاڑی کہیں روکتے تو سہی ناشتہ ہی کر لیتے۔ رات بھر کے بھوکے پیاسے ارے ہم سیر سپاٹے کے لئے آئے ہیں نہ کہ کہیں قید با مشقت کاٹنے۔ ‘‘

میری اِس چیخ و پکار پر دریائے نیل پر بنے پُل کو کراس کرنے کے بعد گاڑی ایک شاپ پر رُکی جہاں سے دودھ کے پیکٹ او ر بسکٹ خریدے گئے۔ اور جب ہم گھونٹ گھونٹ دودھ پیتے اور بسکٹ چباتے تھے ہمارے گائیڈ نے ہماری طرف رُخ پھیرا۔

ابھی تھوڑی دیر بعد آپ ہزاروں سال قبل فراعنہ کے دور میں داخل ہونے والی ہیں۔ اس قدیم تہذیب کی تھوڑی سی بھی جانکاری کے لیے مصری معبودوں سے شناسائی ضروری ہے کہ ان سے واقفیت اُس پُر اسرار دنیا کے بہت سے پہلوؤں سے پردہ اُٹھاتی ہے۔

مصریوں کا سب سے بڑا معبود دیوی دیوتاؤں کا باپ اور حکمران را ’’سورج دیوتا ‘‘ تھا۔ ’ را‘ کے تخلیق کردہ دیوتا گب (زمین) اور نت (آسمان) سے چار اولادوں کی تخلیق جن کے نام اوزیرس دیوتا (OSIRIS) آئسس دیوی (ISIS) دیوتا ست (SETII) اور نفتیس دیوی (Nyphthys) ہیں۔

اوزیرس کی شادی اُس کی بہن آئسس دیوی سے ہوئی اور ان کا بیٹا ہورس پیدا ہوا۔ ست کا بیاہ اُس کی بہن نفتیس سے ہوا۔

اوزیرس نیکی کا دیوتا جبکہ ست بدی کا شمار ہوا۔

مصر کی تمدنی اور تہذیبی زندگی کو جو حُسن اور رنگا رنگی اوزیرس اور آئسس نے دی وہ بے مثال ہے۔ مصری میتھالوجی کے پانچ اہم کرداروں میں سے وہ دونوں سر فہرست ہیں۔ بہترین انسانی اور بہترین حکمرانی اوصاف سے مزّین اُن کی خوشیوں اور غموں پر ایسے ایسے طربیہ گیت اور المیہ نوحے وجود میں آئے کہ جنہوں نے انسانی سوچ فکر اور احساس کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے آج کی دُنیا کو ماضی کے انسان سے مکمل روشناس کروایا۔

اواخر مارچ کی خوشگوار دھوپ میں دائیں بائیں پھیلے صحرا میں تاحد نظر بکھری ویرانی اور سناٹا سریر میں خفیف سے خوف کے چھوٹے چھوٹے روزن کھولتا تھا۔ پستہ قامت پہاڑیوں کا سلسلہ داستان گوئی کرتا نظر آتا تھا۔ ہم ویلی آف کنگز Valley of kings کی طرف رواں دواں تھے۔ فرعونوں کے مقبروں کی جانب۔ اور جب پہلو کے بل لیٹی ہوئی بولتی پہاڑیوں کے قریب گاڑی رُکی تو گویا ہم بابان الملوک پہنچ چکے تھے اور سیاحوں کے پُرے جنگل میں منگل جیسی صورت کو پیش کرتے تھے۔ عربی میں ویلی آف کنگز کو بابان الملو ک کہا جاتا ہے۔

ٹکٹ خرید کر جس کمرے میں داخلہ ہوا اُس کی چھت عجیب ساخت کی تھی۔ پوری ویلی کے ماڈل یہاں پڑے تھے۔ دروازے کے باہر کھُلی جگہ پر ٹرام آگے لے جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ اس بے در و دیوار والی ٹرام میں بیٹھنا بھی کیسا دل خوش کن تجربہ تھا۔ گورے گوریاں ہنسی کی پھُلجھڑیاں فضا میں بکھیر رہے تھے۔ ٹرام نے جہاں لے جا کر کھڑا کیا۔ وہاں دونوں اطراف کی جانب فاصلوں سے اندر جانے کے شگاف تھے وہ لمبوترے شگاف جن کے کنارے عمودی رخ اوپر تک چلے گئے تھے۔ سڑک سانپ کی مانند بل کھاتی بہت دور تک جاتی دکھائی دیتی تھی۔

پہلا داخلہ رعمیس چہار م کے مقبرے میں ہوا۔ رعمیس سوم کا بیٹا رعمیس چہارم۔ تاریخ کا بڑا نالائق حکمران ثابت ہوا تھا۔ انتہائی کمزور اور بودے عقیدے کا مالک۔ مندروں کے پروہتوں اور مہنتوں سے خوف زدہ نذر و نیازوں کی اُن پر ایسی بارش کی کہ شاہی خزانہ خالی ہو گیا۔ طاقت سے مالا مال دولت سے نہال یہ مہنت اصل حکمران شمار ہونے لگے۔ اور نتیجتاً لُکسر کے بڑے مہنت تختو نے اپنی حکومت کی بنیاد رکھ کر اس شاندار خاندان کا خاتمہ کر دیا۔

سیڑھیوں کے بعد بڑے سے جالی کے دروازے سے گزرے۔ گزرتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’ باپ نے تو جہانبانی سکھانے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔ حکومت کے اراکین سے بھی بیٹے کے حق میں وفاداری کے حلف لیے۔ پر تاریخ میں خود کو عظیم الشان لکھوانا بھی ہر کسی کے نصیب میں کب ہوتا ہے۔ ‘‘ گزرگاہ مناسب حد تک کشادہ لکڑی کی ریلنگ اور فرش بھی چوبی تھا۔ پر دیواروں اور چھتوں کی زیبائش کس درجہ خوبصورت تھی کہ صدیاں گزر جانے پر بھی ان کے رنگ و روپ قائم تھے۔ گو کہیں کہیں سے ماند ضرور تھے۔ تصویر کشی میں رنگوں کا امتزاج اور اشکال کی ڈرائنگ میں تناسب کمال کا تھا۔

اس مقبرے کی دریافت رچرڈ پوکوکRichard Pocoke کے ہاتھوں 1737 ء کے آغاز میں ہوئی۔ عیسائیوں نے اسے چرچ کے طور پر بھی استعمال کیا۔

میری آنکھیں بہت دیر تک چھت کو دیکھتی رہیں۔ جو حیرت انگیز طور پر خوبصورت تھی۔ اطراف کی بیل تختی بادشاہوں کے ناموں سے سجی تھی۔ پروں والے متبرک بھنورے اور منڈلاتے کرگسوں کی ڈرائنگ اور رنگ آمیزی مصریوں کی آرٹ سے لگاؤ اور مہارت کی عکاس تھیں۔

گائیڈ نے میری اس درجہ محویت کو دیکھتے ہوئے بتانا شروع کیا۔

مصری آرٹ کو سمجھنے کے لیے یہ یاد رکھیے کہ مصری ایک ایسی زندگی کے متمنی تھے جو ابدی ہو۔ اُن کا نظریہ تھا کہ انسان ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے اگراس کا جسم محفوظ ہو جائے اور اُس کے کھانے پینے کا بندوبست ہو۔ اور یہی وہ چیز تھی جس نے انہیں لاشوں کو محفوظ کرنا سکھایا۔ ممیفیکیشن کے آغاز کی بنیادی وجہ یہی تھی۔

اب رہا اس کے کھانے پینے کا بندوبست جو ظاہر ہے مشکل کام تھا اور اس کے لیے سوچا گیا کہ مقبروں میں تصویریں بنا دی جائیں۔ جادو منتروں اور ٹونے ٹوٹکوں کے مصری پہلے ہی بہت عادی تھے چنانچہ یہاں بھی یہ سمجھ لیا گیا کہ جادو اور دعاؤں سے تصویریں کھانے پینے کی چیزیں بن جائیں گی۔

مصری آرٹ اسی بنیادی ڈھانچہ پر کھڑا ہے۔ یہ آرٹ ان کی مذہبی ضرورت کی تکمیل تھی۔

مصری بنیادی رنگوں سے واقف تھے۔ ان رنگوں سے وہ دوسرے رنگ بناتے تھے۔ معدنیات سے دھاتوں سے پیڑوں سے رنگ نکالنے اور بنانے میں وہ طاق تھے۔ اندازہ لگائیے کہ جب رومنوں نے مصری تصویروں میں نیلا رنگ دیکھا تو وہ حیرت زدہ ہو گئے کیونکہ زمانے گزرنے کے بعد بھی یہ رنگ اپنی اصلی صورت میں موجود تھا۔ وگرنہ بالعموم یہ کچھ وقت بعد اپنی صورت بدل لیتا ہے کہیں اس میں کلاہٹ اور کہیں اس میں ہرا پن آ جاتا ہے۔ دفعتاً گائیڈ نے دیواروں کی سمت اشارہ کیا۔

اور میری نظروں نے اس کے کہے کی تصدیق کی تھی۔

اور میرے اس سوال پر کہ اس رنگ کا حصول کیسے ممکن تھا۔ گائیڈ نے وضاحت کی۔

غالب امکان ہے کہ مصری یہ نیلا رنگ ریت اور تانبے کے برادے اور Sub carbonate oysoion کو مکس کرنے، پیسنے اور پھر پکانے سے حاصل کرتے تھے۔ سفید رنگ زندہ چونے اور Sulphate of calcium سے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سے بنی ہوئی بعض دیواریں صدیاں گزر جانے پر آج بھی دودھ کی طرح سفید ہیں۔

سامنے چوبی ریلنگ والے بند حصے میں اُس بڑے سے پتھر کے تابوت کو دیکھتے ہوئے اور یہ سب سُنتے ہوئے سوچے چلی جا رہی تھی۔ ذہانت اور خداداد صلاحیتیں کبھی بھی کسی زمانے کی مرہون منت نہیں رہیں۔ ہر دور کا انسان اپنے ماحول کے مطابق ذہین اور فطین تھا۔ اطراف میں دونوں چھوٹے کمروں کی سجاوٹ میں زیادہ حصہ بک اف Caverns کے حوالوں سے تھا۔

رعمیس نہم کے مقبرے میں ڈھلانی راستہ بہت دور تک جاتا تھا۔ سہولت کے لیے ایک ایک فٹ کے فاصلے پر لکڑی کی رُکاوٹ لگائی گئی تھی تاکہ پھسلنے سے روکا جا سکے۔ دیواروں کی تصویر کشی کو محفوظ رکھنے کے لیے اُن کے آگے شیشے کی دیواریں فکس تھیں۔ پہلی راہداری کے اطراف کے چاروں کمرے شاہوں کی تصویروں سے مزّین تھے۔ رعمیس خاندان کے بادشاہ سورج دیوتا ’’را‘‘ اور مصریوں کے محبوب اور عوامی دیوتا اوزیرس کے حضُو ر پرستش کے انداز میں عبودیت کا اظہار کرتے نظر آتے تھے۔

اگلی راہداریوں کی دیواریں بک آف CAVERNES بُک آف ڈیڈ اور بُک آف ہیون کے نظاروں سے سجی ہوئی تھیں۔

یہ کون سی کتابیں تھیں۔ مصر آنے سے قبل تیاری کے اہتمام میں جو لٹریچر مجھے دستیاب ہوا۔ اُن سے مجھے ان کے بارے میں تھوڑی سی جانکاری ضرور تھی۔ گائیڈوں کو میں بالعموم اعتبار کے قابل نہیں سمجھتی یہ لوگ اپنی چرب زبانی کے ساتھ اکثر و بیشتر حقائق کو مسخ کر کے واقعات بڑے افسانوی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ مگر خدا کا شکر تھا کہ ہمارا گائیڈ جو معلومات فراہم کرتا تھا وہ میرے حسابوں حقیقت سے قریب تر تھیں۔

دیوتاRE ’را‘ سے مراد سورج دیوتا جو کہ پچھترّ 75 مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔

بک آفAMDUAT اور Book of GATES کے مطابق زیر زمین دُنیا بارہ حصّوں جو بارہ گھنٹوں کے برابر ہیں میں تقسیم ہے۔ اور گیٹ رات کا ایک گھنٹہ ہے جس کے ہر گیٹ پر ایک بہت خوفناک سانپ پہرے دار ہے۔ جو سورج دیوتا کی کشتی کو بحفاظت رات کے دریا میں سے پار گزارتے ہوئے دن کی روشنی میں لاتا ہے۔

گائیڈ صحیح معنوں میں گائیڈ تھا۔ یہی سب میرے حافظے میں تھا۔

دراصل مقبروں کی تزئین و آرائش میں مذہبی نظریات پیش نظر رکھے گئے ہیں۔

اِن سب بتائی گئی باتوں کو دماغ کے اُس خانے میں جہاں اِس سے متعلق مواد موجود تھا ٹھونستے ہوئے میں آگے بڑھی۔

آگے ہورس دیوتا کو بادشاہ کے روپ میں دکھایا گیا۔ پھر ایک ہال میں داخلہ ہوا جو سادہ ستونوں پر مشتمل تھا۔

اندھیرا گھٹن لوگوں کا رش اوپر سے پھنکارے مارتے ناگوں کی تصویریں۔ سامنے قبر کے تابوت کا خالی گڑھا سب خوفناک اور عبرت انگیز تھا۔

میں نے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لیا اور چلنے لگی۔ چلتے چلتے رُک کر ٹیٹرھی میڑھی سڑک جس کے دونوں پہلوؤں سے لمبے لمبے شگاف نما راستے مقبروں کے سینوں میں اُترتے تھے کو دیکھنے لگی۔

میں رعمیس III کے مقبرے کی تلاش میں تھی۔ دراصل اُس کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہوا تھا وہ مجھے متحرک کر رہا تھا اُس کے مقبرے کو دیکھنے پر اُکسا رہا تھا۔

تاریخ فراعنہ کا ایک مثالی اور منصف بادشاہ ظلم اور ظالم کا بدترین دشمن۔ زیادتی کا مرتکب کوئی شہزادہ ہوتا یا عام آدمی۔ اُس کا سزا سے بچنا محال تھا۔ عورت نقل و حرکت میں آزاد تھی۔ محفوظ تھی۔ فوج چھاؤنیوں میں رہتی تھی۔ اُن کا داخلہ شہری آبادیوں میں ممنوع تھا۔

1161 قبل مسیح کا یہ فرعون خود لکھتا ہے۔

میں نے سلطنت کے ہر غریب اور دُکھیارے انسان کے دکھ دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ میں نے بے بس بے کس اور کمزور کو تحفظ دیا۔ اور میں نے ہر شخص کے لئے اُس کا گھر اور زندگی آرام دہ کی۔

مجھے یاد تھا جب میں نے یہ پڑھا تھا تو آنکھیں گیلی سی ہو گئی تھیں۔ اور میں نے خودسے سوال کیا تھا۔

کیا میرے دور کے کسی فرمانروا کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ تاریخ میں اس طرح کے جملے لکھنے کے لئے کچھ کرتا۔ ہم قیادت کے سلسلے میں کتنے بد قسمت ہیں۔

مجھے زیادہ نہیں چلنا پڑا تھا۔

مقبرے کا راستہ بڑا ڈھلانی تھا۔ گیٹ پر سختی تھی۔ پندرہ سے زیادہ نفوس کو ایک وقت میں اندر نہیں جانے دیا جاتا تھا۔ داخلی گزرگاہ Hathorحت حور دیوی (آسمانی معبودہ) کے نقش و نگار سے مزّین سروں والے کالموں پر جو دروازے کی ایک جانب ایستادہ تھے۔ سیاحوں کی توجہ کوفی الفور کھینچتے تھے۔ شیشے کی دیواروں کے عقب میں جھانکتی تصویریں قدموں کو چند لمحوں کے لئے روکتی تھیں۔

آغاز کا یہ حصہ رعمیس سوم کے والد نے بنوایا تھا۔ بہت اعلی تصویر کشی تھی۔ دائیں بائیں دونوں جانب’’ مت دیوی‘‘ کی تصویریں اپنے پروں کے ساتھ بادشاہ کی حفاظت کرتی تھیں۔

دائیں طرف اگر شاہی جھنڈے نیل میں تیرتی کشتیاں ہتھیار اور فرنیچر کی تصویروں میں رعنائی اور زیبائی تھی تو دوسری طرف کھا نا پکتا تھا۔ نیل کا دیوتا دوسرے دیوتاؤں کے ساتھ جنہوں نے اناج کی بالیوں سے اپنے سروں کو سجا رکھا تھا نظر آتے تھے۔

آگے آگے بڑھتی ہوئی راہداریاں دیواروں میں بہت بڑے بڑے طاق نیچے اور گہری کھدائی میں بنائے ہوئے کمرے اور مقبرہ نہایت ابتر حالت میں۔

بڑی لمبی سانس بھرتے ہوئے میں نے اپنے سامنے بڑے سے گڑھے نما کمرے کو دیکھا تھا۔ جس کے ستون گرے ہوئے تھے۔ چونے کی پہاڑیوں کی برادہ نما مٹی بکھر ی ہوئی تھی گہرے تاسف سے میں اپنے آپ سے مخاطب ہوئی۔

تو یہاں ہزاروں سال وہ شخص رہا جو بڑا بدقسمت تھا۔ جس نے اپنی رعایا کے ہر فرد کو سکھی کیا پر جسے خود سُکھ نصیب نہ ہوئے اور جسے اس کے اپنے بچوں اور بیوی نے جادو کے زور سے مارنے کی کوشش کی۔ اور شاید یہ اس کی نیکیاں تھیں کہ سازش کا پتہ چل گیا۔ پر اُس نے انہیں تہ تیغ کرنے کی بجائے قانون کے حوالے کیا۔ اور عدالت کو حکم دیا کہ بادشاہ کی طرف داری کی بجائے قانون کے تحت معاملہ نپٹایا جائے۔ یہ انصاف کی وہ اعلی ترین مثال تھی جو آج کے اِس ماڈرن دور کے حکمرانوں کو نصیب نہیں۔

رعمیس چوتھے نویں اورتیسرے کے بعد Tutmosis III کے مقبرے کی کوہ پیمائی کے لئے چلی۔ داخلی دروازے کے آغاز میں ریلنگ سے اوپر پہاڑ میں کتبہ نصب تھا۔ اُسے پڑھنے کے بعد میں نے غار میں قدم دھرا ڈھلانی کو ریڈور کے آگے کی صورت بڑی مخدوش سی تھی۔ پتھر کی سیڑھیوں کے بعد لوہے کی عمودی سیڑھوں کا ایک لمبا سلسلہ تھا۔ جن پر چڑھنے کا ارادہ ملتوی کر تے ہوئے میں نے واپسی کے لئے قدم اُٹھائے۔ جس چیمبر میں کھڑی تھی۔ وہاں گرے بیک گراؤنڈ میں سرخ نقاشی تھی۔ ایک طویل الجُثہ خوفناک سیاہ ناگ اُس کشتی کو جس پر بہت سارے لوگ سوار تھے رات کے وقت اپنی حفاظت میں دوسری دنیا میں لے جا رہا تھا۔ سچی بات ہے اُس طلسمی سے نیم تاریک ماحول میں سانپ کا سرسراتے ہوئے چلنا جسم میں خوف کی جھر جھری پیدا کرتا تھا۔ مجھے تو یوں بھی سانپ سے حد درجہ خوف محسوس ہوتا ہے۔

باہر آ کر میں نے تازہ ہوا میں لمبا سانس بھرا اور اُس عارضی بنائے گئے کمرے کے سامنے بنے ہوئے چبوترے پر جا بیٹھی جو بالعموم تعمیر ات کے دوران تھوڑے سے وقت کے لئے کسی بھی جگہ لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ مجھے نہ ثنا کا پتہ تھا نہ مہرالنساء۔

میں نے بوتل کا ڈھکن کھول کر پانی سے گلے کو تر کیا اور ماحول پر گہری نظر ڈالتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھا۔ اِن ویران پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اِن میں قبریں بنانے کی کوئی تک تھی بھلا۔

’’ہاں تھی۔ ‘‘

مجھے جواب ملا تھا اُس کتاب سے جسے میں نے تھوڑی دیر قبل ایک لڑکے کے پیہم اصرار پر یونہی خرید لیا تھا۔

مصری اپنی لاشوں کے بارے میں حد درجہ ٹچی تھے۔ فراعنہ اور کیا عام لوگ سبھوں کا نظریہ تھا۔ لاش محفوظ روح محفوظ۔ اِسی لیے مقبرے اور اہراموں کا سلسہ شروع ہوا۔ پر چوروں کی چاندی ہو گئی۔ لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع کیا کہ قبریں تک اُکھاڑ کر لے گئے۔ اب کیا کیا جائے۔ چنانچہ فرعونوں نے ایسی جگہ پر انہیں بنانے کا سوچا جہاں یہ خفیہ اور چوروں کی لوٹ مارسے محفوظ ہوں۔

اور جب اٹھارہویں شاہی خاندان نے طیبس (موجودہ لُکسر) کو اپنا پایہ تخت قرار دیا تو انہوں نے قبروں کے لئے طیبس۔ سے خاصے فاصلے پر وہ پہاڑی زمین منتخب کی جولیبیا کے پہاڑوں کا حصہ ہے اور جس کا موجودہ نام بابان الملوک ہے۔ یہ جگہ نیل کی طغیانیوں سے بھی محفوظ تھی۔

میں نے چند لمحوں کے لئے کتاب بند کی اور پاکستان کے علاقے کالاش کا سوچا۔ کالاشی بھی تو اِسی نظریئے پر قائم تھے اپنے مردے کے ساتھ زیورات قیمتی چیزیں کھانے پینے کی اشیاء سب رکھ کر آتے تھے جنہیں آیون کے چالاک مسلمان چور رات کے اندھیروں میں اُڑا لے جاتے تھے۔ اپنے لٹے پُٹے مُردوں کا یہ احوال دیکھ کر انہوں نے اپنے نظریئے میں ضرورت کے تحت تبدیلی کی۔

کتاب کو پھر کھولا۔ آگے جو کچھ پڑھا وہ بھی ہنسانے کے لئے کافی تھا۔

فرعونوں کے مقبروں کے ساتھ مندروں کا وجود لازمی امر تھا۔ تا کہ مرحومین کے لئے قربانیاں اور دعائیں مانگی جا سکیں۔ اب اِس پہاڑی جگہ پر مندروں کا بننا ناممکن امر تھا۔ چنانچہ اس خاندان کے سمجھدار اور عقلمند فرعونوں نے عقیدے میں ہی تبدیلی کر دی۔

بیچاری لاش کے شکنجے میں جکڑی روح کو آزاد کردیا۔ جہاں چاہے رہے جب چاہے آئے جائے۔ دوری نزدیکی روح کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ بس تو مندر دریا کے دوسرے کنارے پر بنے۔

تو اِن ویرانوں میں قبریں سجانے کی وجہ اب سمجھ آئی۔

٭٭٭

 

۱۰۔طوطنخامن

’’آنٹی ‘‘

دُور سے ہوا کی لہروں پر تیرتی یہ مانوس سی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔ میں نے کتابچہ بند کر کے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ثنا دُور کھڑی مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ دیتی تھی۔ میں نے جواباً نفی میں ہاتھ ہلایا اور بغور اُسے دیکھا۔ پُر ہیبت پہاڑوں کے پیش منظر میں کھڑی وہ اپنے عنابی لونگ سکرٹ سیاہ ہیٹ سیاہ گاگلز اور خوبصورت چہرے کے ساتھ مجھے کوئی ہسپانوی دوشیزہ لگی تھی۔ پانچ فٹ سات انچ قامت والی اس حسین لڑکی کو اپنے ساتھ لاتے ہوئے میں تھوڑا سا خائف بھی تھی۔ پر سچ تو یہ تھا کہ اُس نے وطن کا بڑا مان بڑھایا تھا۔

’’پاکستان میں اتنی خوبصورت لڑکیاں ہیں۔ ‘‘ جگہ جگہ اس سوال کا تعاقب مجھے ایک انوکھی مسرت سے سر شار کرتا تھا۔ وطنی خوبی کسی بھی رنگ میں ہو۔ اور قدم قدم پر اُس کا اظہار بھی ہو۔ بندہ نہال تو ہوتا ہے نا۔ میں اور مہرالنساء کو جی بوڑھیوں کی صف میں آتی تھیں۔ مہرالنساء تو اپنی ٹِپ ٹاپ سے بڑھاپے پر تھوڑا سا پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔ پر میں تو بالکل سادھو مہنت چلو شکر ہے اِس دلرُبا لڑکی نے ہمیں ڈھانپ لیا۔

وہ بھاگتی ہوئی میرے قریب آ کر پھُولی سانسوں کے درمیان بولی۔ ’’ مقبرے پر چلنا ہے۔ ‘‘

میں نے قدرے کوفت سے کہا۔ ’’گولی مارو۔ بہتیرے دیکھ لیے ہیں۔ ‘‘

’’ارے نہیں آنٹی۔ طوطنخامن Tutankhamun کے مقبرے پر چلنا ہے۔ ‘‘

’’ اُدھر کچھ وی آنا سے آئے ہوئے لوگ باتیں کرتے تھے۔ اُس کی اصل ممی یہیں اُس کے مقبرے میں ہے۔ میں ابھی سُن کر آر ہی ہوں ‘‘

’’ہیں۔ ‘‘ میں نے حیرت و استعجاب سے آنکھیں پھاڑیں۔

’’تو اور کیا۔ میں نے اپنے گائیڈ کی بھی کلاس لی ہے۔ کتنی ہوشیاری سے اپنی جان بچانا چاہتا تھا۔ چلیے آئیے میں گائیڈ کو وہاں ٹھہرا کر آئی ہوں۔ ‘‘

اور میں نے چبوترے سے لٹکی ٹانگوں کو نیچے فرش پر اُتار دیا۔ اگلے لمحے میں اُس کے ساتھ بھاگتی جا رہی تھی۔ کہاں کی تھکن اور پنڈلیوں میں اینٹھن سب جیسے اُڑنچھو ہوئیں۔

دائیں بائیں نظریں تو بہتیری دوڑائیں کہ کہیں مہرالنساء نظر آ جائے پر جانے وہ کس مقبرے میں گھُسی ہوئی تھی۔ گائیڈ بھی ساتھ ہوا۔ ہمیں K.V 62 نمبر پر چلنا ہے اب۔

طوطنخامن فراعنہ تاریخ کا سب سے نو عمر فرعون جو صرف انیس سال کی عمر میں اچانک موت کا شکار ہو گیا۔ کسی فریب کاری کے نتیجے میں مارا گیا یا بیماری سے۔ اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ البتہ اس کے شواہد ملے ہیں کہ اس کی کھوپڑی میں کوئی ایسا مہلک زخم تھا جو ٹھیک ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔

ویلی آف کنگز کا یہ سب سے چھوٹا ظاہری کشش سے عاری مگر اپنے محفوظ اثاثوں کی وجہ سے سب سے امیر ترین مقبرہ شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل ایک تو نوجوان فراعنہ کی اچانک موت اوپر سے رعمیس IX کے مقبرے کی اوپر پہاڑ پر تعمیر سے ضائع شدہ مواد کی پھینکا پھنکائی نے اس کے راستے بلاک کر کے اسے نہ صرف چوروں ڈاکوؤں سے محفوظ کر دیا بلکہ ایک طرح یہ ایسے مدفن میں بدل گیا جس کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں تھی۔

نومبر1922کو برطانوی آرکیالوجسٹ ہا ورڈ کارٹر نے اسے دریافت کیا اور یہ دریافت بیسویں صدی کی انتہائی اہم سنسنی خیز اور مشہور واقعات میں سے ایک تھی۔

گائیڈ ابھی اتنی معلومات ہی ہم تک پہنچا پایا تھا کہ جائے مطلوبہ آ گئی۔

میں بہت اکسائیٹڈ تھی۔ داخلی راستے کا پہلا کوریڈور بہت مختصر سا تھا۔ فوراً ہی ہم بڑے کمرے میں آ گئے۔ اس کے ساتھ ملحقہ ایک اور چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس کے ساتھ انیکسی تھی دائیں ہاتھ خزانے والا کمرہ اور اُس سے آگے Burial chamber۔

یقیناً میں اعتراف کروں گی کہ یہ سارا ماحول حد درجہ فسوں خیزی کا حامل تھا۔ اینٹی چیمبر میں ممی والے چیمبر کے بالکل سامنے دو انسانی مجسمے بائیں ہاتھوں میں کسی دھات کے بنے لمبے ڈنڈے پکڑے مستعد یوں کھڑے تھے جیسے کہتے ہوں۔ ہے کسی کی مجال جو آگے جائے۔ دائیں ہاتھوں میں چھوٹی سی راڈیں جن کے ایک جانب کے اگلے سرے گیند نما تھے۔ سیاہ چہرے سیاہ بدن۔ سیاہ ٹانگیں سر کو ڈھانپے وگ جس کی پیشانی پر سانپ جن کے لہراتے پھن ایک لمحے کے لئے رگوں میں دوڑتے خون کو منجمد کرتے تھے۔

میری نظریں اُس سکرٹ نما پہناوے پر تھیں جو یقیناً یا سونے کا تھا یا اس پر سونے کی ملمع کاری تھی۔ بازوؤں گلوں پر ڈیزائن اور پاؤں میں جوتے۔ واﷲ سب کچھ جدید وضع کا تھا۔ وہ وضع جو آج کل لاہور میں رائج الوقت تھی۔

بہت پہلے کا پڑھا ہوا ایک مضمون فوراً دماغ میں کلک ہوا۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ فیشن کے گھر پیرس سے جتنے بھی فیشن نکلے ہیں یا نکلتے ہیں۔ اُن کا زیادہ حصہ پرانی مصری عورتوں اور مردوں کی ایجاد ہیں۔

دائیں ہاتھ والے مجسمے کے پاس غالباً آبنوسی لکڑی کا ایک قدرے لمبوترا سا بکس نما چیز تھی جس پر ہاتھی دانت کی مینا کاری اور سونے جواہرات کی پچی کاری نگاہوں کو مقناطیس کی طرح کھینچ رہی تھی۔ اینٹی چیمبر میں گھوڑے کے منہ اور دو پہیوں والی رتھیں تھیں جو شاہی جلوسوں اور شکار وغیرہ میں کثرت سے استعمال ہوتی تھیں۔ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے گاڑیاں نایاب قسم کی کرسیاں۔۔۔ ، تپائیاں اور سٹول ٹائپ کی چیزیں انسان کو اپنی بناوٹ اور اِ س پر کندہ کاری سے حیرت زدہ کر تی تھیں۔ سچی بات ہے مجھے اُن چیزوں کے ناموں کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا تھا۔ پتھر کے ایسے نفیس جار تھے کہ جن کے اندر رکھی ہوئی چیزیں صاف نظر آتی تھیں۔ تیر کمان کا پڑھا کرتے تھے بادشاہوں کے وجود کا جزو لاینفک۔ چلو آج اس کا بھی دیدار ہوا۔ گائیڈ ہمارے قریب آ کر بولا تھا۔

کیا آپ یقین کریں گی کہ کارٹر پانچ سال کی محنت شاقہ کے بعد جب سیڑھیوں سے اس کے دروازے پر پہنچا اور اُس نے اندر جھانکا تو یہاں وہ خزانے تھے جس نے چند لمحوں کے لیے اُس کی دھڑکنوں کو ساکت کر دیا تھا۔ اور نو سال کا طویل وقت صرف ہوا سامان کے ایک بڑے حصے کی قاہرہ میوزیم منتقلی میں۔

اﷲ کیا کیا اینٹیک تھیں یہاں۔ نہ ہوئے چور ڈاکو ہم۔

Burial chamber ایک تو ماحول اس درجہ فسوں خیزی والا۔ اوپر سے حد درجہ احتیاط بندی۔ بے حد خوبصورت پیلے پتھر کے تابوت جس میں وہ بڑی بڑی آنکھوں والا طوطنخامن چھت کو گھُورتا ہمارے قدموں کو منجمد کرتا تھا۔ میں تو سانس روکے اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی تھی۔ اور گائیڈ کی زبان سرپٹ بھاگی جاتی تھی۔

کم و بیش ہر فرعون کی لاش اوپر نیچے چار چار تابوتوں میں رکھی جاتی تھی۔ طوطنخامن کی لاش پہلے سونے کی پٹیوں میں لپیٹی گئی۔ یہ پٹیاں ہیرو گلیفی (تصویری تحریریں ) فیروزے اور عقیق کی پچکاری سے سجائی گئیں پھر اسے خالص کندن کے صندوق میں رکھا گیا جس کی بناوٹ خالصتاً انسانی صورت اور جسم کی سی تھی اور جس کا وزن ایک سو دس گرام ہے۔

اب بغور اِسکی تفصیل سُنیں۔ بادشاہ کا چہرہ ہو بہو اُسی کے نقوش والا آنکھوں کے جڑاؤ کام کے ساتھ بنایا گیا۔ بازو چھاتی پر کراس کی صورت رکھے گئے اور ہاتھوں میں اناج نکالنے والی بالی اور خم کھائی ہوئی چھڑی تھمائی گئیں۔ ممی کا سر سونے کے ماسک سے ڈھانپا گیا اور ا سپر پھر سونے کی ملمع کاری کی گئی۔ ماسک کو قیمتی پتھروں اور رنگا رنگ شیشوں سے آراستہ کیا گیا۔ آنکھیں کالے اور سفید پتھر جس پر لیپس Lapis جیسے قیمتی پتھر کی مینا کاری کی گئی تھی سے بنائی گئیں۔ سر کے لباس پر پیشانی کے عین درمیان کرگس اور اژدہا بٹھائے اور چھاتی کے بڑے کالروں پر کندھوں کی جانب شکرے سجائے گئے۔

دفعتاً وہ رُک گیا۔ پھر اُس نے تابوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بات کو جاری رکھا۔ طوطنخامن یہاں کفن کی دو حالتوں میں موجود ہے۔ اس کے بقیہ دو تابوت قاہرہ میوزیم میں ہیں۔ اور یہ بھی جان لیجیے کہ یہ چیزیں اتنی نایاب اور قیمتی ہیں کہ انسان صرف ان کے بارے میں سوچ ہی سکتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ممی لکڑی کے تابوت میں رکھی گئی جو رنگین قیمتی پتھروں اور سونے کی تختیوں سے سجا ہوا تھا۔

ابھی بے چاری کی جان بخشی نہیں ہوئی۔ میں نے ہنستے ہوئے گائیڈ کو دیکھا جواباً وہ بھی ہنس پڑا اور بولا۔

اب اسے پھر ایک اور سجے سنورے لکڑی کے تابوت میں رکھا گیا۔ چوتھے مرحلے کی تکمیل ہوئی۔ آخر میں ان سب تابوتوں کو پتھر کے ایک بہت بڑے صندوق نما تابوت جس کے چاروں طرف جنازے سے متعلق چاروں دیوی دیوتاؤں اوزیرس، نت، سَت اور نفتیس کی مورتیاں کندہ کی گئی تھیں میں ڈال دیا گیا۔ میں نے گہری نگاہ سے تابوت کے اطراف کا جائزہ لیا۔ دو سمتیں میرے سامنے تھیں اور دیوی جی جس لباس میں ہاتھ پھیلائے کھڑی تھیں اُس کے گلے کا ڈیزائن اور آدھی آستینوں کی فٹنگ اور اگلے حصے کا ڈیزائن میرے ملک میں آج کل بڑا اِن تھا۔

کمال ہے قدیم مصریو! تمہاری ذہانت اور فطانت کو سلام۔ تم لوگ واقعی دنیا کی تہذیبوں کے مائی باپ ہو۔

طوطنخامن سے نظریں اُٹھا کر میں نے دیواروں پر پھینکیں۔ تصویروں سے وہ بھری پڑی تھیں۔ صدیاں گزر جانے پر اُن کے حُسن و جمال کی وہ کیفیت تو نہ تھی۔ پر یہ کیا کم تھا وہ ابھی بھی اپنے رنگوں کی بھر پور جزئیات اور واقعات کی تفصیلی صحت کے ساتھ مو جو د تھیں اور دیکھنے والوں کو اُس دور کی پوری کہانی سناتی تھیں۔

مشرقی دیوار ماتمی جلوس سے سجی ہوئی تھی۔ تقریباً دس اعلیٰ افسروں کا ٹولہ ایک ہتھ گاڑی پر طوطنخامن کی ممی رکھے اُسے گھسیٹ رہا تھا۔

میں نے شمالی دیوار کو تاکا۔ یہاں بارہ بندر نما جانور تین قطاروں میں نظر آئے۔ جو یقیناً رات کے بارہ گھنٹوں کی علامت تھے۔ ان کے اوپر پانچ دیوتا ایک قطار میں کھڑے تھے۔ دیوتا Kheper متبرک بھونرے کی صورت ظاہر ہوا تھا۔

مغربی دیوار پر دائیں سے بائیں تصویروں کی صورت کچھ یوں تھی۔ طوطنخامن کا جانشین ایک پروہت کی صورت چیتے کے سے داغ رکھنے والی کھال والا لباس پہنے ایک ایسا ساز ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا۔ جس ساز سے نکلنے والے سُرممی کی منہ کشائی کرتے ہیں۔ یہ مذہبی رسم ممی میں بعد از حیات کھانے پینے اور بولنے کی صلاحیت پیدا کرنے والی مسٹری Mystery تھی۔ اگلے منظر میں طوطنخامن کو دیوی نت (آسمان کی معبودہ) اُسے اُس کے مقبرے میں خوش آمدید کہتی ہے اور آخری تصویر میں طوطنخامن اپنی روح کے ساتھ دیوتا اوزیرس کے سامنے کھڑا ہے۔

اور جنوبی دیوار کا منظر بڑا اثر انگیز سا تھا۔

طوطنخامن دیوی حت حور Hathor اور بھیڑ کے سر والے) جنازوں اور مُردوں کا دیوتا) انوبیس دیوتا کے درمیان کھڑا ہے۔ دیواروں پر لکھی گئی یہ تصویری کہانی گائیڈ کی مدد کے بغیر پڑھنی بے حد مشکل تھی۔ اور میں جو گزشتہ ہفتہ بھر سے کتابوں اور کتابچوں میں ان کے کتے بلیوں بھیڑوں مینڈھوں اور ناگوں کے سروں والے ڈھیروں معبودوں جیسے نت مت ست کی خصوصیات کو یاد رکھنے کے چکر میں گھن چکی کی طرح پس رہی تھی۔ سخت بد دل ہوئی تھی اس سارے فسانے میں اوزیرس دیوی آئسس کے علاوہ سورج دیوتا کی بیٹی حت ہورHathor اور مُردوں کا دیوتا انوبیس بمشکل یاد ہوئے تھے۔ سارا کچھ گڈ مڈ ہو ہو جاتا تھا۔

کاش میں نے اسی خضوع و خشوع سے اپنے معبود کو یاد کیا ہوتا۔

جب باہر نکلے تو گائیڈ نے ایک اور حیران کن انکشاف کے ساتھ حیرت زدہ کر دیا تھا۔ فرعونوں کی قبروں کی کھدائی کرنے والے کسی نہ کسی انداز میں ان کے عتاب کا شکار ضرور ہوئے۔ طوطنخامن کے مقبرے کی دریافت ہاورڈ کارٹر کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ انہوں نے ایک بہت خوبصورت گیت گانے والی بلبل پالی ہوئی تھی۔ جس دن کارٹر مقبرے میں گئے اسی دن ایک کوبرا سانپ نے بُلبل کو ڈسا اور کھا گیا۔ کوبرا سانپ فرعون کی پیشانی پر تاج کے ساتھ سجا ہوتا ہے۔ اور پرانی مصری دستاویزوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فرعون کو تنگ کرنے والے شخص کو کوبرا جلا کر بھسم کر دیتا ہے۔

chamber میں داخل ہونے کا وقت آیا لارڈ نے ہنستے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا۔

فرعون کے کمرے میں جا کر رات کو جشن منانا بہت ضروری ہے اور یہ کس قدر حیران کن بات ہے کہ ڈیڑھ ماہ بعد لارڈ کی موت بیڈ پر کوبرا سانپ کے ڈسنے سے ہوئی۔ یہی ٹریجڈی پروفیسر سٹیڈ کے ساتھ پیش آئی۔ وہ بھی مقبرے میں داخل ہوئے تھے مرنے سے قبل بالکل تندرست تھے دفعتاً فوت ہو گئے۔

ہم تینوں چلتے چلتے رُک گئی تھیں۔ حیرت اور خوف سے لبالب بھری آنکھوں سے ہم نے گائیڈ کو دیکھا کہ وہ درست کہتا ہے یا یونہی گپیں لگا کر بیان کو سنسنی خیز کر رہا ہے۔ کتابیں پڑھ لیجیے۔ میں نے تو صرف دو تین مثالیں دی ہیں اور وہ بھی طوطنخامن کے حوالے سے۔ بے شمار خوفناک واقعات ہیں جو انگلینڈ کے اُن لوگوں کو پیش آئے جو کسی نہ کسی حوالے سے مقبروں سے وابستہ رہے۔

ثنا کی ہنسی سے پُر آواز صحرا میں دور تک بکھر گئی۔

طوطنخامن مجھے تو سچی بات ہے تمہاری جوان مرگی کا شدید دُکھ ہے۔ تم جیسے اتنے خوبصورت اور ہینڈ سم کو اتنی بھری جوانی میں مرنے کی کیا ضرورت تھی۔ زندگی اور موت دینے والے سبھی دیوتا تو تمہارے ہاتھوں میں تھے۔

٭٭٭

 

۱۱۔ویلی آف کوئینز

               نفرتیری رعمیس دوم

ویلی آف کنگزسے یہی کوئی ڈیڑھ کوس کا پینڈا ہو گا ویلی آف کوئینز Valley Of Queensکا۔ صحرا میں عجیب سی وحشت کا سماں تھا۔ پستہ قامت پہاڑیوں اور زمین پر دوپہر کی تازہ خالص جوانی سے بھر پور سنہری دھوپ بڑے ظالمانہ انداز میں پنجے گاڑے نظر آتی تھی۔ پانچ منٹ بھی نہ لگے تھے کہ منزل پر جا کھڑے ہوئے۔

ثنا لوگ ٹکٹ کے لئے چلی گئیں اور میں اس سے متعلق معلومات کے کتا بچے میں سر گھسیڑ بیٹھی۔

ویلی آف کو ئینز کو عربی میں بابباں الحرم کہا جاتا ہے۔ اسّی80دریافت شدہ مقبروں میں اکثریت کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ ابتری اور خرابی کی وجہ لائم سٹون کا ناقص معیار بارشوں کے پانیوں کا مقبروں میں داخلہ کیمپ فائرز سے اٹھنے والا دھواں اور بیشتر مقبروں کا اصطبل وغیرہ بنا یا جانا خوبصورت مقبروں کی تباہی کے ذمہ دار عناصر تھے۔

مصر آنے سے قبل تیاری کے اہتمام میں جو کچھ پڑھا تھا اُن میں نفرتیتی اور مصر کی حکمران ملکہ ہت شی پشت بہت اہم تھیں۔ پر اِس صحرا میں جو کتاب میں تھا مے کھڑی تھی۔ وہ فرعون رعمیس دوم کی حسین ملکہ نفرتیری پر تھی۔ جس کا مقبرہ خصوصی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بہتر حالت میں بھی تھا۔ اور گائیڈ بھی اُس کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔

’’کہیں ہجّوں کا ہیر پھیر تو نہیں ہو گیا‘‘۔ میں نے گائیڈ سے دریافت کیا۔

’’بالکل نہیں ہو ا مصر کی تاریخ میں ایک نفرتیری جگمگاتی اور دوسری نفر تیتی مہکتی ہے‘‘۔

تکبرّ نما احساس تفاخر تھا اس کے لہجے میں۔ مجھے ہر گز بُرا نہیں لگا تھا۔ تاریخ ناز کرنے والی ہو تو انداز میں یہ سب آنا فطری امر ہے۔

رعمیس دوم تاریخ فرعون کا ایک زبردست شہنشاہ تجربہ کار جنگجو جرنیل تاریخ کا پہلا معاہدہ ساز سالار ڈھیروں بیویوں اور ڈھیروں بچوں کا باپ تھا۔ مگر نفرتیری اس کی بیوی نہیں محبوبہ تھی جسے اُس نے بے شمار ٹائیٹل دے رکھے تھے۔

’’نفرتیری‘‘جسکا مطلب ہی ہے سب سے حسین، حد سے زیادہ وفادار بیوی، دو سری زمینوں کی ملکہ، خوبصورت چہرے اور محبت بھری مسکراہٹ والی۔

نفرتیری کون تھی۔ میرے اِس سوال پر ہمارا گائیڈ کچھ صحیح طرح بتا نہیں سکا۔ قاہرہ پہنچ کر میں نے کتابوں کی دوکانوں پر بیٹھ کر بہتیری مغز ماری کی پر کہیں واضح انداز میں مجھے اپنے اِس سوال کا جواب نہیں ملا۔ مختلف کڑیاں ملانے سے جو میری سمجھ میں آیا اُس کے مطابق نفرتیری رعمیس دوم کے ساتھ جنگ کرنے والے شام کے حکومتی قبیلے Hattiکے بادشاہ ختا سار کی بیٹی تھی۔ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ پا جانے کے بعدختاسار بیٹی کے ساتھ خو د مصر آیا اور اُسے بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ رعمیس دوم نے اس حسن کی مورت کی حد درجہ عزت افزائی کی۔ اُسے آفتاب کا حُسن دیکھنے والی کا خطاب دیا۔

اور یہ آفتاب کون تھا۔ ؟آفتاب وہ خود تھا۔ رعمیس دوم۔ کیا بات ہے خود ستائی کی۔ پڑھتے ہوئے میں بے اختیار ہی مسکرا اُٹھی تھی۔

گفتگو ابھی جاری تھی کہ ثنا لوگ آئے تو آگے چلے۔ پہاڑوں کے درمیان ایک لمبی سی سڑک ہلکی ہلکی اُترائی چڑھائی کے ساتھ دُور تک چلی گئی تھی۔

نفر تیری کا مقبرہ اختتام پر ہے۔ چند لمحوں کے لئے قوسی صورت کی قدرے لمبی سی سرنگ کے سامنے بنے شیڈ کے نیجے ہم لوگ رُکے۔ ہمارے سامنے پہاڑ درمیان سے پھٹے ہوئے بڑی خوفناک سی صورت دکھاتے تھے۔ قوسی سرنگ میں داخل ہوئے چوبی ریلنگ چوبی ڈھلانی راستہ جس پر پھسلنے سے بچاؤ کا پورا اہتمام تھا۔ سامنے دروازہ جس کے اُوپر دو کتبے انگریزی اور عربی میں لکھے ہوئے۔

’’مقبرہ ملکہ رعمیس ثانی۔ ‘‘

داخلی راہداری کی چھت پر سورج ڈسک کی کندہ کاری تھی۔ جس کے دائیں بائیں دو عقاب دیوی آئسس اور اس کی سگی بہن نفتیس کے روپ میں بیٹھے تھے۔ افسوس کہ سورج ڈسک کا بالائی حصّہ اور ایک عقاب کا سر دونوں کے سر اُڑے ہوئے تھے۔ اِس منظر کو پورٹر یٹ کرنے کا مقصد دراصل سورج دیوتا ’’را‘‘ کا مشرقی اُفق پر طلوع ہونا گویا ملکہ کی دوبارہ پیدائش کا مفہوم دیتا تھا۔

اگلی سیڑھیاں ہمیں بڑے کمرے میں لے آئیں۔

’’میرے خدا! ‘‘

بے اختیار میری زبان سے نکلا۔ کبھی یہ رنگوں کا کھلکھلاتا گلزار ہو گا۔ گلزار تو وہ آج بھی تھا پر خزاں کی گھمبیر اُداسی اور ویرانی میں پور پور ڈوبا ہوا۔ سیڑھیوں کے بالکل ساتھ والی دیوار پر کنوپی کے نیچے ایک اُونچی بیک والی خوبصورت کُرسی پر نفرتیری بیٹھی ہاتھ میں ہری بانسری پکڑے دوسرے ہاتھ سے سٹینڈ پر دھرے ایک پیانو نما سا ز پر انگلیاں پھیر رہی تھی۔

واہ کیا شاہانہ لباس تھا۔ سفید سنہری اور رسٹ کے کمبی نیشن۔ لا جواب قسم کی کڑھا ئی والا گلا میکسی نما لباس جس کے سینے سے رسٹ کلر کی سنہری جواہرات سے مزّین پٹیاں نیچے اس کے پاؤں تک آتی تھیں۔ کھلے بال کچھ چھاتی پراور کچھ پیچھے۔

کرسی کی بناوٹ بھی بڑی حیران کرنے والی تھی۔ اس کے پائے اور بیک اس کی سیٹ کا ڈیزائن۔ میری بہو اپنے جہیز میں ایسی ہی کُرسیاں لائی تھی۔ ساتھ ہی ایک اور منظر نے نگاہیں کھینچ لیں۔ نفر تیری گھٹنوں کے بل جھکی عبادت میں مصروف تھی۔ پاس ہی انسانی صورت والا پرندہ ’’با‘‘ بھی موجود تھا۔

اُف میرے خدایا۔ مصریوں کا ہر دل عزیز دیوتا ان کی محبوب دیوی آئسس کا شوہر دنیا و آخرت کی زندگی کی سبھی نعمتیں عطا کر نے والا اوز یرس کوئلے جیسے سیاہ چہرے پر اونچا سا تاج پہنے جس کے ساتھ کلغی نما دو پر لہراتے تھے بے حد ڈراونی تصویر پیش کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں نقش ونگارسے سجی سنوری دو چھڑیاں تھیں۔ ایک طاقت کی علامت اور دوسری شہنشاہیت کی۔

اور جب میں اُ س کے گلے میں پہنے نیکلیس نما ہنسلی (گلے کا زیور) کے ڈیزائن کو دیکھتی تھی۔ مہرالنساء اگلی تصویر کے قریب کھڑی بولتی تھی۔

’’جان چھوڑ دو اِس کلموہے کی۔ کُتے بلیوں کی صورت والے اس کے چار پوتوں کو دیکھ لو۔ ‘‘ واقعی یہ ہورس کے بیٹے تھے۔ آگے پیچھے بیٹھے جیسے کیسیاں لیتے ہوں۔

پتہ نہیں ہماری اِس ٹھٹھول بازی کو گائیڈ کیا سمجھا۔ اُس نے فوراً کہا۔

یہ ہورس کے چاروں بیٹے ہیں اور اِس سین کا تعلق The Book of The Dead سے ہے the book of the dead کیا بلا ہے۔ مہرالنساء نے فوراً اس کی طرف رُخ موڑا۔

ہمارا گائیڈ بولنے بتانے اور سمجھانے میں بڑا پروفیشنل تھا۔

اِس نام سے مربوط کسی کتاب کا تصور ذہن میں مت لایئے گا۔ دراصل پیپرس PAPYRUSکے چھوٹے بڑے ٹکڑوں پر چھوٹی چھوٹی رنگین تصویروں اور پُر تاثیر فقرات پر مبنی حسابِ آخرت جنت دوزخ راستے کا احوال آسمانی دروازوں اور دیگر بہت سے مذہبی عقائد کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ قدیم مصریوں کا یقین راسخ تھا کہ وہ اِن مناجاتوں دعاؤں اور منتروں کو پڑھتے ہوئے موت کے سب مراحل آسانی سے طے کرتے ہوئے دوسری دنیا کے مالک ومختاراوزیرس کے حضور سلامتی سے حاضر ہو جائیں گے۔

اس وقت ایک اور سوچ نے بھی دروازہ کھول کر کہا تھا۔ یہ قبل مسیح کی مذہبی دنیا اور میرے عقائد میں تھوڑے بہت اختلافات کے ساتھ مماثلت بھی کافی ہے۔

’’یہ پیپرس کیا کوئی کاغذ ٹائپ چیز ہے۔ ‘‘ ثنا نے پوچھا۔

Papyrusنامی پودے کی چھال ہے۔ یہ نباتاتی کاغذ (برُدی) مصریوں کی ہی ایجاد تھی۔ ہم نے بے حد دلچسپی سے یہ سنُا۔ مجھے یاد آیا تھا میں نے گلگت کی ایک وادی نلتر میں ایسے درخت دیکھے تھے۔

رُخ بدلا تو ایک اور سین منتظر تھا۔ ایک خوبصورت تخت پر ایک ارتھی رکھی ہوئی تھی۔ سرہانے پائنتی دو عقاب بیچارے مسکین سی صُورتیں بنائے آئسس اور نفتیس دیویوں کے روپ میں بیٹھے تھے۔

مردے کا چہرہ بڑا خوفناک تھا۔

اُف کبھی یہ چوکور ستون رنگوں کے حُسن سے جگمگا تے ہو نگے۔ اب تو ان کے وجود داغوں سے بھرے پڑے تھے۔

ہم بڑے سے ملحقہ دونوں چھوٹے کمروں میں چلے گئے۔ یہاں بڑی تصویروں کے ساتھ ساتھ دیواریں مُنّی مُنّی تصویروں سے بھی بھری پڑی تھیں۔ یہ مُنّی مُنّی کون سی داستانوں کی نمائندہ تھیں۔ مجھے اُن میں ہرگز دلچسپی نہیں تھی۔ بڑی تصویروں کی صورت کچھ اِس شعر کی نمائندہ تھیں۔

’’کہاں تک سُنو گے کہاں تک سناؤں۔ ‘‘

ہر تصویر کچھ بتاتی تھی کچھ بولتی تھی۔ میں نے اُن سبھوں کو دیکھا۔ بھونرے کے سر والا کیپری دیوتا۔ انتہائی خوفناک قسم کے سانپ آسمانوں کی معبود دیوی حت حور میری توجہ تو کھینچ رہی تھیں پر میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔

۔ ٔٔ ًَ۔۔ ’’ نہیں بھئی معاف کریں کتنا مشکل ہے تم لوگوں کو پڑھنا۔ اب کہاں the book of dead کے باب کھولوں اور تمہیں سمجھنے میں بھیجا کھپاؤں بس میں تو نفرتیری کو ہی دیکھوں گی۔ ‘‘

کیا قد و قامت تھی۔ کس قدر خوبصورت سڈول جسم تھا۔ کیا ہاتھوں پاؤں کی نزاکت تھی۔ سفید پیرہ ے تھے بے حد ڈروانمتہئٹ سے نقل کرنے کی اجازت دی

ن تھا جو یہ بتا تا تھا کہ اِس وقت کے سلائی کرنے والے کیسے ماہر لوگ تھے ننگے سڈول بازوؤں پرکس خوبصورتی سے کپڑے نے چُنٹ کی صورت آ کر اُ نہیں کچھ یوں ڈھانپا تھا کہ وہ اِس شعر کا ا کا الُلٹ ہو گئے تھے۔ چھُپے ہوئے بھی ہیں۔ اور پوری طرح سامنے بھی ہیں۔ گلے کی کڑھائی اُن میں رنگوں کا امتزاج ہُڈ پر مینا کاری ہم تینوں دم بخود اُس کی تصویر کو دیکھتی تھیں۔

ایک اور تصویر بھی خاصی دلچسپ تھی۔۔ ’’را‘‘ سورج دیوتا۔ اتنا اہم دیوتا اور صورت کسی منحوس سے پرندے کی۔ ارے کونسے پرندے کا سر چو نچ ہے یہ۔ بہتیرا دماغ لڑایا۔ پر ہمیشہ کی کوڑھ مغز ہوں سمجھ ہی نہیں آئی۔ گائیڈ بھی پاس نہیں تھا کہ پوچھتی۔ ہاں البتہ اُس کے بازو میں ہاتھ ڈالے اس کے ساتھ بیٹھی دیوی حت حور اپنی عنابی رنگی میکسی سیاہ بالوں اور میکسی کے ہمرنگ ہئیر بینڈ کے ساتھ بڑی جاذب نظر تھی۔ اُسے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا آخر سارے فنون لطیفہ والے شعبے موسیقی رقص خوشی محبت اُسی کے قبضہ اختیار میں تو تھے۔

جب مڑنے لگی تو دفعتاً دروازے کی چوکھٹ پر ایک بڑا سا گدھ پر پھیلائے نظر آیا۔

اب یہ منحوس اللہ مارا جانے کسِ دیوی دیوتا کا روپ دھارے بیٹھا ہے۔ گائیڈ نے بتایا تھا کہ یہ بالائی مصر کی دیوی نکبت کا روپ ہے۔ معلوم نہیں اِن قدیم مصریوں کی مت اِس معاملے میں کیوں ماری گئی تھی کہ ہر دیوی دیوتا کو کسی جانور کا چہرہ ضرور سونپاہوا تھا۔

ایک اور تصویر دیوی آئسس اورنفتیس کی تھی۔ دونوں بہنیں۔ دونوں دیورانی جیٹھانی۔ دونوں اپنے سگے بھائیوں سے بیاہی ہوئی۔

دونوں بہنیں سورج دیوتا ’’را‘‘ کا مینڈھا والاسر پکڑے کھڑی تھیں۔

’’را‘‘ دیوتا کو کتنے جانوروں کے روپ میں ڈھالا ہوا ہے۔ حد ہے اِن کی بھی۔

سیڑھیاں اُتر کر میں درمیانے چیمبر میں آئی۔ پر یہاں ٹھہری نہیں۔ ایک نظر ڈالتی کوریڈور Burial Chamberکی طرف بڑھنے لگی تھی۔ پر میں رُک گئی۔ stairsکے چھوٹے سے کوریڈور کی مشرقی اور مغربی دیواروں پر بنی تصویروں نے میرے پاؤں میں زنجیریں ڈال دی تھیں۔ ایک جہازی سائز نما پروں والا سانپ ستون پر نقش بیل تختی پر لکھے گئے نفرتیری کے نام کی حفاظت کے لئے مستعد تھا۔ اوزیرس کا ناجائز بیٹا انوبیس مُردوں اور قبرستانوں کا دیوتا گیڈر کی صورت میں قطعاً میرے لیے قابل توجہ نہ تھا۔

پر وہ دونوں دیویاں مت اور ست اپنی حسین صورتوں اور خوبصورت پہناووں کے ساتھ بھلا نظر انداز کرنے کے قابل تھوڑی تھیں۔ میں نے ان کے لباسوں کی تراش خراش اور جن کرسُیوں پر وہ بیٹھی تھیں اُن کی بناوٹ پر بھی خصوصی غور کیا اور مصریوں کی فنکاری کا کھُلے دل سے اعتراف کیا۔

اور یہیں عقبی دیوار پر اِس مقبرے کی دُلہن نفرتیری شراب کے دو جام دیوی حت حور کو پیش کرتی تھی۔ اُف کیا شے تھی یہ۔ پھر میں نیچے Burial chamber میں اُتر آئی تھی۔

قدرے اندھیرا ویرانی کا گھمبیر سا تاثر شکستگی اور ٹوٹ پھوٹ کی سارے میں اجارہ داری کا پھیلاؤ۔ میں نے دروازے میں رُک کر پورے کمرے پر نگاہ دوڑائی۔ چار چوکور ستون اطراف میں زمین سے اُوپر اُٹھے چبوتروں پر کھڑے چھت سے ملتے تھے۔ جن کے درمیان سے دوپوڈوں کے زینے اطراف کے تین چھوٹے کمروں کی طرف نکلتے تھے۔ مقبرے کی جگہ گراؤنڈ لیول سے تھوڑی سی زمین بوس ہو گئی تھی۔ چھت نیلے پس منظر میں پیلے ستاروں سے سجی ہوئی تھی۔ جو آسمانوں کی نمائندگی کی عکاس تھی۔

دروازے کی چوکھٹ پر سورج دیوتا کی دُلاری بیٹی سچائی اور انصاف کی مظہر اپنے سر پر شتر مرغ کا پر سجائے اپنے بازوؤں کے پروں کو پھیلائے بیٹھی تھی۔ بسنتی لباس کا میچنگ بینڈ بالوں میں سجا ہوا تھا۔

پتہ نہیں کیوں میں پژ مردگی کی دبیز تہہ تلے آ گئی تھی۔ ستونوں پر بنی تصویریں بھی مجھے فی الحال متوجہ نہیں کر رہی تھیں۔ شاید نہیں یقیناً اسوقت میں دنیا کی بے ثباتی پر افسردہ تھی۔ ہندوستان کی عظیم ملکہ نورجہاں مجھے اپنی تمام تر رعنائیوں اور دبدبوں کے سا تھ یاد آئی تھی۔ جہانگیر کے دل کے ساتھ ہندوستان جیسے ملک پر بھی راج کرنے والی۔

شعر بھی کہیں سے اُڑتا ہوا ہونٹوں پر آ کر اکسانے لگا کہ مجھے گنگنانے کا بھلا اِس سے زیادہ موزوں موقع کونسا ہو گا۔

بر مزار ماغریباں نے چراغے نے گلے

نے پرے پروانہ سوزد نے صدائے بلُبلے۔

کس قدر زبوں حالی تھی اس کے مقبرے کی۔ میں جب بھی شاہدرہ اُسے دیکھنے گئی میری آنکھیں ہمیشہ بھیگیں۔

آج بھی وہی صورت تھی۔ رعمیس دوم جو بالائی اور زیریں مصر کا مطلق العنان فرمانروا تھا۔ جو جنگ اور امن کا بادشاہ تھا۔ جس نے دنیا کی سب سے پہلی امن دستاویز تیار کی اوراِس پر دستخط کیے۔ جو بے شمار مقبروں مندروں مجسموں اور یاد گاروں کا بنانے والا تھا۔ جو انتہائی متکبر اور ظالم بھی تھا۔ یہی وہ رعمیس دوم تھا جس نے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور جس کی نفرتیری محبوب بیوی تھی۔ وہ بیوی جس نے اُس کے ساتھ امور مملکت سر انجام دیئے۔ اور یہ کس قدر حیرت انگیز بات ہے۔ کہ ہزاروں سال قبل مسیح کا ایک فرمانروا اس قدر روشن خیال تھا۔ کہ وہ بالائی مصر کے آخری حصے میں ابوسمبل کاٹمپل بناتے ہوئے مصریوں کی حُسن و مُحبت کی محبوب دیوی حت حور کے ساتھ خود کو اور نفرتیری کو 33فٹ اونچے مجسموں کی صورت میں کھڑا کرتا ہے۔ اور یہ بھی اُسی کا حُکم تھا کہ میری محبوبہ کا ویلی آف کو ئینز کا خوبصورت ترین مقبرہ ہو۔

اللہ حُسن اور خوبصورتیوں کو وقت کی بے ثباتی کیسے چاٹ جاتی ہے۔ وہ جن کا کبھی طوطی بولتا تھا۔ قصہ ماضی بنتے ہیں۔

فانی فانی فانی جیسے ہر شے نے پکار کر کہا۔

میں Burial Chamber میں اطرافی چبوترے کے ایک کونے میں دھرے سٹول پر بیٹھ گئی تھی۔ میرا ما تھا پسینے سے تر بتر تھا۔

تھوڑی دیر بعد اُٹھ کر میں نے ستونوں پر پینٹ تصویروں کو دیکھا۔ پہلے ستون کی تصویروں سے میری خاصی شناسائی ہو چکی تھی۔ پر اگلے ستونوں کی کندہ کاری خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھنی بہت مشکل تھی۔

چلیے دوات تو مصریوں کے عقیدے کے مطابق عالم آخرت تھا۔ اور دیوتا اوزیرس کی بادشاہت کے چوتھے اور پانچویں گیٹ کے دربان بھی سمجھ میں آ گئے کہ عالم بالا سات دروازوں میں تقسیم تھا اور ہر گیٹ پر کوئی نہ کوئی دیوتا بیٹھا ہوتا تھا۔ پر یہ The book of deadکے 17,92,94,144,146,148ابواب کو پڑھنا اور سمجھنا خاصا کار مشکل تھا۔ گائیڈ بیچارہ تو پس منظرسمجھانے کے لئے تیار تھا۔ پریہ بڑا مشکل اور بوریت والا کام تھا۔ اورسچی بات میں نے بھی توجہ نہیں دی۔ دراصل قاری کو اتنی گھمن گھیریوں میں ڈالنا کونسی دانشمندی ہے۔ کوئی بیچاروں نے پی ایچ ڈی تھوڑی کرنی ہے۔

Burial chamberکی پینٹنگ دراصل ملکہ کے لمبے سفر آخرت کی عکاس ہیں۔ مصر کی اینٹیک آرگنائز شن Antique Organizationکو بہر حال یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اُس کے واویلا مچانے اور بین الاقوامی سطح پر ’ مقبرہ بچاؤ مہم ‘ خاصی موثر ثابت ہوئی کہ وگرنہ تو آرٹ کے اس نادر شاہکار نے وقت کی گردشوں میں اپنے باقی ماندہ وجود کے ساتھ ڈوب جانا تھا۔ 1986ء Conservation Institute Getty نے اس کو بچانے کی ذمہ داری قبول کی اور خاصی محنت اور تگ و دو کے بعد سب سے زیادہ متاثر زدہ حصہ Burial chamberکو جدید سامان اور اوزاروں سے کسی حد تک محفوظ کر دیا۔

٭٭٭

 

۱۲۔ملکہ ہت شی پشت

               فرعون تھتھومس سوم

               دو منفرد کردار

یہ تھکاوٹ تھی۔ بھوک کی نڈھالی تھی یا گاڑی کے اندر کی حرارت بخش نگھی سی فضا تھی۔ اِن سب کا نتیجہ میرے سر کا کھڑکی کے پٹ سے ٹکنا اور آنکھیں بند ہو جانا تھا۔ جب کوئی آدھ گھنٹہ بعد آنکھ کھلی تو چند لمحوں کے لئے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر ہوں کہاں ؟۔ پھر تھوڑی سی حواسوں میں آئی تو یاد آیا کہ ویلی آف کوئینزسے تو چل پڑے تھے۔

بائیں جانب نظروں کے سامنے لمبے لمبے شگافوں والی دو منزلہ خوبصورت عمارت اپنے کشادہ ڈھلانی راستے کے ساتھ یکدم نگاہوں کو کسی مقناطیس کی طرح اپنی جا نب کھینچتی تھی۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کی طرف رواں تھا۔

ثنا نہیں تھی۔ مہرالنساء عقبی سیٹ پر باقاعدہ سورہی تھی۔ گائیڈ بھی نہیں تھا اور ڈرائیور گاڑی کے قریب ہی ایک چھوٹے سے پتھر پر بیٹھا غالباً کسی عربی گیت کا تیا پانچہ کر رہا تھا۔

یہ کونسی جگہ ہے؟۔ میں نے پوچھا۔

دار الجریہ۔ ملکہ ہت شی پشت کا ٹمپل۔

اُسی ملکہ کا جو تاریخ مصر  ٭اہر لوگ تھے ننگے سڈول با کی واحد فرعون ہوئی ہے۔

صحیح سمجھی ہیں آپ۔

ارے یہ تو دیکھنا از حد ضروری تھا۔ خود سے کہتے ہوئے میں نے ڈرائیو رسے ٹکٹ کے پیسوں کا پوچھا۔

پچاس مصری پاؤنڈ۔

پچاس سے ہر گز کوئی ٹکٹ کم نہیں۔ قسم کھا لی ہے اِن لوگوں نے۔

بڑبڑاتے ہوئے ڈرائیور کو ٹکٹ لانے کے لئے کہا اور خود مہرالنساء کو اُٹھانے لگی۔

ارے تم جاؤ۔ نیم باز سی آنکھوں سے اُس نے مجھے ہاتھ اٹھا کر یوں اشارہ دیا جسے میں مثل ناک پر بیٹھی ہوئی مکھّی ہی تو تھی جسے بندہ ہاتھ جھٹک کر اُڑ ادے۔ پر جب ٹمپل کی طرف رواں دواں تھی۔ میں نے دیکھا مہرالنساء بھاگتی آتی تھی۔ ثنا اوپر ٹمپل پر کھڑی مجھے نظر آئی تھی۔

ٹمپل کی عمودی چڑھائی چڑھتے ہوئے میں نے اپنے سامنے پھیلی عمارت کو بغور دیکھا۔ عمارت کا آرٹسٹک پوائنٹ سے منفرد ہونا اور فنکار SENMUT کے اِس ٹمپل کی تعمیر میں اپنے کمال فن کے اظہار کو زبان دینا اور خود کو مصر کی تعمیری تاریخ میں منوانا سمجھ آتا تھا۔

سینمت پر توصیفی انداز میں لکھا ہوا مواد میرے دماغ میں محفوظ تھا۔ دراصل یہ سینمت کا ہی شاہکار نہ تھا بلکہ اُس خاتون فرعون کے ذوق کا بھی نمائندہ تھا۔ جس نے اِسے اپنے باپ TUTMOSES I کے لئے بنوایا تھا۔ جگہ کے انتخاب سے لیکر اُس نے اس کے تمام مراحل میں جس طرح خصوصی دلچسپی لی اُس نے ثابت کیا کہ وہ ملٹری کمانڈر کے ساتھ ساتھ آرٹ لور (Art Lover) بھی ہے۔ IMHOTED جیسے بے مثل آرٹسٹ کے تقریباً بارہ سو سال بعد سینمت ہی وہ فنکار تھا جس نے یاد گار کے عقب میں پھیلی چٹانوں کی صورت گری بھی بڑے ہی دلفریب اور خوبصورت انداز میں کی تھی۔

لائم سٹون کے پہاڑوں پر تیز بارشوں اور آندھیوں نے اُن میں جو دراڑیں ڈال رکھی تھیں وہ فرعونوں کی مختلف شکلوں میں ڈھلی ہوئی تھیں۔ میری تو ہنسی چھوٹ گئی تھی۔

۔۔ ’’اللہ مصر کی سر زمین اُس زرخیز عورت کی طرح ہے جسے مرد کا ذرا سا لمس فوراً حاملہ کر دے۔۔۔ ‘‘

مشرقی جانب اپنے چہرے کے جھکاؤ کے ساتھ یہ متعدد کشادہ ٹیرسوں پر مشتمل ہے۔ میں سیدھی بالائی ٹیرس سے اندر کی جانب مڑ گئی۔ کم چوڑے لیکن لمبے کوریڈور بڑے بڑے پتھروں والے کھردرے فرش جس پر چلتی ہوئی میں نے دیوار پر بنی اُن تصویروں کو دیکھا جن کی نقاشی وقت کے ساتھ ماند پڑی ہوئی تھی۔ یہاں رکنے کی بجائے میں نے ایک نظر پہلے سارے ٹمپل کو دیکھنا چاہا۔ عقبی جانب ستونوں کا نصف برآمدہ گرا پڑا تھا۔

پہلا ٹیرس Sphinxes (طیبس حالیہ لُکسر کی دیوی جس کا دھڑ شیر اور سر انسان کا) کے لیے مخصوص تھا۔ اِس ٹیرس کے اختتام پر ایک ڈھلانی راستہ اوپر جاتا تھا۔ میں یہاں رُک گئی۔ اور دیوار پر اُن تصویروں کو دیکھنے لگی جو ملکہ ہت شی پشت کی پیدائش اور بچپن کی تھیں۔ کچھ تصویریں ایک جنگی مہم کی بھی تھیں۔

میں کچھ دیکھنے کی خواہشمند تھی جو مجھے ابھی تک یہاں نظر نہیں آیا تھا۔ میں نے بغور دیواروں کا جائزہ لیا اور جیسے میری آنکھیں چمکیں۔

فرعون ملکہ ہت شی پشت کی تاج پوشی کی رسمیں تھیں جو یہاں کندہ تھیں اور جن کے بارے میں میں نے پڑھا تھا۔ اور میں ان کی ہی کھوج میں تھی۔

پہلے منظر میں ملکہ ہورس دیوتا اور آخرت کے دیوتا (THOTH) کے درمیان کھڑی تھی اور دونوں اس پر دو برتنوں سے پانی اُنڈیلتے اور اس کے ہاتھ صاف کرتے تھے۔ پھر دونوں نے اُسے دیوتاؤں کے سامنے پیش کیا۔

ایک دوسرے منظر میں دربار کا سین تھا۔ اپنے پہناووں اور ہاتھوں میں پکڑی اشیاء سے وہ درباری کا تاثر دیتے تھے یہاں ملکہ کی تخت نشینی کا اعلان ہوتا تھا۔

تیسرے سین میں ملکہ کو تاج پہنایا اور شاہی عصا اُس کے ہا تھ میں دیا جا رہا تھا۔ یہاں دو تخت تھے۔ دو تاج۔ شمالی مصر کے تخت کا رنگ سرخ اور جنوبی مصر کا سفید دونوں تاج اس کو پہنائے گئے۔

فرعون TUTMOSES I تھتھومس اوّل کی شاہی بیوی سے صرف ایک ہی بیٹی جو مصری قانون کے مطابق تاج و تخت کی جائز اور حقیقی حقدار۔ پرمسئلہ اُس کے عورت ہونے کا تھا۔ درباری متفق نہ تھے تاہم فرعون نے دلیرانہ فیصلہ کیا اور اُسے اپنا جانشین بنایا۔

یہاں ایک اور سین دیکھنے میں آیا۔ فرعون اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درباریوں سے کچھ کہتا ہے۔

دفعتاً مجھے اپنے داہنے طرف کچھ تیز سی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے فوراً رخ پھیر کر دیکھا۔ چار مرد اور دو عورتیں کاغذات کا پلندہ ہاتھ میں پکڑے تصویریں دیکھنے اور انہیں کاغذات سے میچ کرنے میں محو تھے۔

’’کمال ہے تحقیق تو ختم ہے اِن لوگوں پر۔ ‘‘

میرے اندر رشک وحسد کا ناگ پھنکارا سچ ہے خدا ایسے ہی نہیں نوازتا۔ اندرونی جذبات ہونٹوں پر آ گئے تھے۔

میں نے دوسری طرف کا چکر پورا کاٹا اور جب دوبارہ اس سمت آئی تو وہ ٹولہ وہیں پتھروں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ میں قریب گئی اپنا تعارف کروایا اور ان کے بارے میں جانا کہ سکاٹ لینڈ سے چھ کے اس گروپ میں دو تاریخ کے اُستاد تھے اور بقیہ طالب علم۔ میں نے کاغذات دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ صد شکر کہ انہوں نے خوشدلی سے وہ مجھے پکڑا دئیے۔ اور میرے لیے یہ مقام مسرت تھا کہ مواد سارا انگریزی میں تھا۔ میں نے ورق پلٹا۔ فرعون TUTMOSES تھتھومس کا خطاب تھا۔ اپنی بیٹی کی جانشینی کے بارے میں بیٹی کے لئے اس کی بے پایاں محبت کا اظہار اور اپنے امرا وزراء کو اُس کی فرمانبرداری کی تلقین۔ دیوار پر یہ مناظر موجود تھے۔ میں وہیں بیٹھ کر اوراق کی ورق گردانی کرنے لگی۔

بڑی زبردست ملکہ تھی۔ تےئس 23 سال تک بڑے دبدبے سے حکومت کی۔ شوہر کو کھڈے لائن لگائے رکھا۔ دربار میں مصنوعی داڑھی لگا کر آتی۔

ورق پلٹے۔ پھر اچانک میری نظروں نے پانچویں صفحے کا احاطہ کیا۔ ایک نئی اور انوکھی داستان یہاں رقم تھی۔ تصویریں بھی تھیں جو عید فیسٹیول کے عنوان کے تحت تھیں۔

یقینا یہ تصویریں یہیں کہیں اِن دیواروں پر ہوں گی۔ میں نے خود سے کہا۔ اور نفس مضمون دیکھنے لگی۔

ملکہ ہت شی پشت کے بارے میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ وہ دیوتا امن (لُکسر کا دیوتا) کی بیٹی ہے۔ دیوتا امن نے اہموسی (تھتھومس کی ملکہ) کے حُسن کے بہت چرچے سُنے تھے۔ ایک دن اُس نے دیوتا توت سے دریافت کیا۔ کیا اہموسی فسُوں خیز حُسن کی مالک ہے؟ توت کا جواب تھا آپ نے اُسے دیکھا نہیں۔ دیکھتے تو یہ نہ پوچھتے۔ ایسے سحر انگیز حُسن کی مالکہ سے ملنا تو ضروری ہے۔ دیوتا امن اُس کا دیوانہ ہو گیا۔ پڑھتے پڑھتے میری ہنسی چھوٹ گئی۔ لو یہ دیوتا بھی نرے انسانوں جیسے نکلے۔

تب امن نے شاہی جوڑا پہنا۔ نک سک سے تیار ہوا اور توت اُسے اہموسی کے محل میں لے گیا۔ اُس کے بدن سے پھوٹتی خوشبو سارے محل میں پھیل گئی۔ اسوقت ملکہ اپنی خوابگاہ میں گہری نیند میں تھی ہر سو بکھری خوشبو کے سحر سے بیدار ہوئی۔ اور کمرے سے مسکراتے ہوئے نکلی۔ اور باہر کھڑے امن دیوتا کو والہانہ انداز میں دیکھنے لگی۔

پھر محل میں انوکھی خوشبوئیں پھیل گئیں۔ دیوتا اور ملکہ رات بھر ایک دوسرے کے ساتھ رہے صبح دم دیوتا امن نے ملکہ کو خوشخبری دی کہ میرے اور تیرے ملاپ سے مصر کی ملکہ جنم لے گی۔ وہ زبردست اور طاقتور ہو گی۔ وہ میری بیٹی ہو گی اور کوئی شخص اُسے زیر نہیں کر سکے گا۔

اور جب ملکہ اہموسی کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اُس کا نام ہت شی پشت رکھا گیا۔ دیوی اور دیوتا آئے جنہوں نے اُسے دعاؤں سے نوازا۔

اپنے بچپن کی پڑھی ہوئی کہانی دماغ میں کلک ہوئی۔ اِسی سے کسی حد تک ملتی جلتی۔

تیئس 23 برس تک وہ مصر کے تخت پر راج کرتی رہی۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس کے زمانے میں راوی نے چین ہی چین لکھا۔

پر جونہی اس کی آنکھیں بند ہوئیں۔ اُس کا شوہر TUTMOSES سوم ایک زبردست فرعون کی صورت میں مصر کے تخت پر بیٹھا۔ بیوی کے خلاف اُس کے اندر جیسے زہر بھرا ہوا تھا۔ جسے جانے کب سے دبائے بیٹھا تھا اور جس کا کھُلّم کھُلّا اظہاراُس نے موقع ملتے ہی کرنا شروع کر دیا۔ اُس نے ہر اُس نشان ہر اُس یاد کو سختی سے مٹا دینے کی کوشش کی جس سے ملکہ کا نام یا اس کا کوئی کارنامہ وابستہ تھا۔ اُس کے مجسموں کو تڑوا دیا یا ان کی صورت بدلوا دی۔ اور اگر یہ نہ کر سکا تو اس کے چہرے کے کچھ نقوش کی توڑ پھوڑ سے اُسے بدصورت اور کریہہ بنانے کی پوری کوشش کی۔ نفرت کا جیسے اُس کے اندر لاوہ بھرا ہوا تھا جو پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہا تھا۔

تاہم وہ ایک دوررس دوربین مدبر اور بہترین منتظم ثابت ہوا۔ اپنے فیصلوں اور ارادوں میں پختہ اور اٹل۔ ایسا جیالا اور شہ زور فرعون مصر کو نہ کبھی پہلے نصیب ہوا تھا اور نہ بعد میں ہوا۔ اُس نے ملک کو اتنا سر بلند کیا کہ چہار جانب اس کا ڈنکا بجنے لگا۔

شام ہمیشہ سے مصر کا رقیب رہا۔ کبھی اُس کے HATTI قبیلے اُسپر چڑھ دوڑے اور کبھی سامی۔ Tutomoses III تھتھومس سوم کے کانوں میں جونہی ان کے عزائم کی بھنک پڑی اُس نے خود فوجی لشکر کے ساتھ چڑھائی کر دی۔ وہ پوری قوت سے ان کی طاقت کچل دینا چاہتا تھا۔ اُس کی جنگی چالوں میں دوربینی تھی۔ جُرأت اور شجاعت تھی۔ مر مٹنے کا جذبہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر محاذ پر کامیاب ہوا۔

تینتیس 33 برس میں اُس نے مصر کو وسعت کے اعتبار سے شام وفلسطین تک پہنچا دیا تھا خوشحالی کے لحاظ سے اس کے خزانے بھرے ہوئے تھے اور امن  و امان کی صورت مثالی تھی۔

ہمسایہ ملک خوفزدہ تھے۔ اس کے باجگذار تھے۔ مُلک مصر کے شاہی کالجوں میں اپنے وارثوں کو تعلیم کے لئے بھیجنا اور مصریوں کے اطوار کی نقل کرنا باعث فخر سمجھتے تھے۔

اُنہیں کاغذات واپس کرتے ہوئے میں قبل مسیح تاریخ کے اس کردار پر حیرت زدہ تھی۔

٭٭٭

 

۱۳۔اخناتون نفرتیتی

               کلوسی آف ممنون

’’ویلی آف نوبلز کی طرف چلنا ہے۔ وہاں سے ویلی آف ورک مین کی جانب کوچ ہو گا۔ ‘‘

گائیڈ نے ڈرائیور کو بتاتے ہوئے چلنے کا اشارہ کیا۔

’’خدا کے لئے ہم پر رحم کرو۔ ہمیں نہیں دیکھنے کمبخت مارے شیطان کی آنت کی طرح پھیلے ویلز کے یہ مزید سلسلے۔ پہلے ہی ڈیڑھ گھنٹہ سے گاڑی میں سوکھنے پڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ کی اس بوبو کی کسی طرح تشفی ہو تو آگے بڑھیں۔ ‘‘

مہرالنساء تلخی سے بولی تھی۔

یہ بڑا واضح طنز تھا جو مُجھ پر کیا گیا تھا پر جسے میں نے برداشت اور صبر شکر کے میٹھے گھونٹ کی طرح پی لیا تھا۔ اسوقت واقعی بھوک نے پیٹ میں طوفان اُٹھایا ہوا تھا۔ اور مزید کچھ دیکھنے پر طبیعت قطعی مائل نہیں تھی۔

’’چلیے ٹھیک ہے۔ ‘‘ کہتے ہوئے گاڑی سرپٹ بھاگنے لگی۔

میں نفرتیتی کے بارے میں سخت اُلجھن میں تھی۔ یہ چاروں کھونٹ اپنے حُسن کی دھوم مچانے والی کون تھی؟ کس کی بیوی تھی؟

گائیڈ سے پوچھا کہ بھئی کچھ اس پر تو روشنی ڈالو۔

’’نفرتیتی آپ کے اعصاب پر سوار معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘ وہ ہنسا۔

’’کہہ سکتے ہو۔ ‘‘ میں بھی ہنس پڑی۔

یہ اٹھارویں خاندان کے نویں بادشاہ AMENHOTEP IV امنہو تپ چہارم کی بڑی دلاری اور چہیتی بیوی پر بیوی کم اور محبوبہ زیادہ تھی۔ تاریخ مصر میں قلوپطرہ کے بے مثال حُسن کے بعد نفرتیتی کا شہرہ ہے۔ حُسن میں یکتا تھی تو عشوہ طرازیوں میں بھی بے مثل تھی۔ وہ اپنے وقت کی ذہین ترین عورت تھی کہ جس نے نت نئے فیشنوں اور ملبوسات کی تراش خراش اور ڈیزائنوں میں جدّتیں کیں اُس کا شوہر بھی ایک جینئیس تھا۔ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہونے والا نابغہ روزگار کم عمری میں تخت نشین ہوا اور اپنا نام اخناتون AKHENATEN) (رکھا۔

فرعون اخنا تون ایک سچا صاف گو نڈر بے باک ریاکاری اور بناوٹ سے مبرّا ایک عظیم انسان تھا۔ ہر دور کے فرعون ذاتی اور نجی زندگی کے بارے میں حد درجہ محتاط اور حساس ہوتے تھے۔ اپنی تصویریں اور مجسمے ایسے شاندار بنواتے تھے کہ حقیقی صورت شرمندہ ہو ہو جاتی تھی۔

تاریخ فرعون میں اخناتون واحد مثال ہے جس نے اپنے ہر کام کی اساس سچائی پر اُٹھائی۔ سنگ تراشوں اور آرٹسٹوں کو حکم دیا کہ وہ اُس کے اور اُس کے خاندان کے مجسمے من و عین اُن کی اصلی صورتوں جیسے بنائیں۔ اپنی نجی زندگی کو تصویروں میں عُریاں کیا کہ وہ اپنے محل میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے شب وروز کیسے گزارتا ہے۔ اُس کی تصویریں نفرتیتی سے اس کی بے پایاں محبت کی حقیقی عکاسی ہیں۔ کہیں وہ دونوں بیٹھے ہنس رہے ہیں گلے مل رہے ہیں۔ دربار میں نفرتیتی نک سک سے آراستہ اُس کے ہمراہ تخت پر بیٹھی ہے۔ کہیں ان کے بچے ان کے پاس کھیل کود میں مصروف ہیں۔ مندروں میں اُس نے اپنی تصویروں اور مجسموں کے ساتھ نفرتیتی کی تصویریں اور مجسمے بھی بنوائے اور اُن کی پوجا ضروری ٹھہرائی۔

’’واہ محبت ہوتو ایسی۔ ‘‘ بے اختیار ہی رشک آیا۔ پر چُپ رہے کہ چُپ میں اکیسویں صدی میں سانس لینے والے اعلیٰ تعلیم یا فتہ ہمدم کا پردہ رہنا ضروری تھا۔

گائیڈ بڑے دھیمے لہجے میں بڑے ٹھہراؤ سے بات کرتا تھا۔

شاعر تھا۔ وحدت پرست تھا۔ پروہتوں اور بے شمار دیوی دیوتاؤں کا مخالف تھا۔ اس کے ہاں حقیقی خدا کا تصور تو نہیں ملتا ہاں البتہ اتون کی صورت میں سورج دیوتا کی پرستش ضروری تھی۔ یہی اُس کا واحد خدا تھاجسکی مدح سرائی میں کی گئی شاعری اُس کی وحدت پرستی کو نمایاں کرتی ہے۔

تو نے زمین انسان او ر تونے آسمان پیدا کیا اس لیے کہ تیری عظمت کو مانا جائے

تو ہی معبود ہے اکیلا معبود۔ تو چمکتا ہے۔ تو ایک ہے۔ اکیلا ہے۔ واحد ہے۔

تیرے جیسا کوئی نہیں۔ جب تو اپنی کرنیں زمین پر پھینکتا ہے تو زمین خوشی سے جھومنے لگتی ہے۔ اور تیری بڑائی اور عظمت کے گیت گاتی ہے۔

یہ ایک لمبی حمد ہے۔ مجھے اس کے چند ٹوٹے ہی یاد ہیں۔ گائیڈ نے معذرت کی۔

پر وہ صرف بتیس 32 سال جیا۔ اور اس کی موت کے ساتھ ہی اُس کا مذہب بھی ختم ہو گیا۔ یقیناً اس کی وجہ رائج مذہبی عقائد میں خرابیوں کو دور کرنے میں اس کی عدم دلچسپی تھی۔ شاید اُس نے اِس نکتے کو بھی سمجھنے میں غفلت برتی کہ انتظامی امور کو فعال طریقے سے چلانے کے لئے سخت گیری اور شمشیر زنی کی ضرورت ہوتی ہے۔

دفعتاً مہرالنساء بولی۔

’’دُنیا میں کل کتنے پیغمبر آئے ؟ دُنیا میں ایک لاکھ اور چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔ ارے بھئی یہ سوال پالنے سے اماں نے یاد کروانا شروع کیا اور سارا بچپن اسلامیات کی ٹیچر نے اِسے رٹوانے میں گزارا۔ تو ذرا سوچو کہ یہ اتنے ڈھیر سارے پیغمبر کب آئے۔ تو بھئی میرا خیال ہے کہ یہ اخناتون جیسے لوگ ہی ہوں گے۔ اب ذرا غور کرو اس کی شخصی خوبیوں پر اس کی وحدت پرستی پر۔ ‘‘

واقعی میں نے بھی غور کیا۔

کوڑی تو بڑی دور کی لائی تھی مہرالنساء۔

یہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے بارے میں ہمارا علم تو صفر تھا۔ بس رٹا ہوا جواب آتا تھا۔

اِسی بحث مباحثے میں گاڑی سر پٹ بھاگتی نیل اور ویلی آف کنگز کی درمیانی جگہ اس رڑے میدان میں آ کر رُک گئی۔ جس کے ایک طرف گنّے کے کھیت تھے۔ دوسری جانب چند دوکانیں اور مرکز میں دیو ہیکل قسم کے دو ٹوٹے پھوٹے بُت۔

میں اور مہرالنساء دونوں ہی بول اٹھیں۔

’’ہم تھکے ہوئے ہیں۔ بھُوکے بھی ہیں۔ ہمیں مزید کچھ نہیں دیکھنا۔ ‘‘

بس یہ چھوٹا سا آخری آئٹم ہے۔ کلوسی آف ممنون کا۔ اس کے بعد پانچ منٹ میں آپ کروز پر ہوں گی۔ گائیڈ نے گاڑی کے دروازے کھول دیئے تھے۔

اب اُترنا پڑا۔ ثنا بھاگ کر سامنے شاپ سے بسکٹ اور جوس کے پیکٹ لے آئی۔ بسکٹوں اور جوس کے گھونٹوں نے کچھ توانائی دی۔

گائیڈ کی ہمراہی میں ہم مجسموں کی طرف چلنے لگے۔ بیس 20 میٹر اُونچے دو میٹر لمبے اور ایک میٹر چوڑائی والے اِن ٹوٹے پھوٹے لمبی لمبی دراڑوں والے مجسموں کو دیکھ کر خوف سے بھری جھرجھری وجود کو ہلاتی تھی۔ زمین پر دھرے چبوترے پر رکھی کرسُیوں پر بیٹھے ہاتھوں کو گھٹنوں پر سجائے یہ اپنے ماہر سنگ تراشوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ ٹانگوں کے ساتھ دو عورتیں بندھی تھیں۔ ایک ماں اور دوسری بیوی اِس روشن زمانے میں بیچاری عورت کی جس انداز میں مٹی پلید ہوتی ہے۔ فرعونوں کا عہد تو اس لحاظ سے بڑا تابناک تھا کہ عورت بہرحال مرد کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی۔

یہ اخناتون کے والد امنہوتپ سوئم AMENHOTEP III کے مجسمے ہیں۔ اِس فرعون نے بہت شاندار اور خوبصورت ٹمپل بنائے لیکن اِس جگہ کا شاندار اور پُر شکوہ ٹمپل 27 قبل مسیح ایک خوفناک زلزلے سے زمین بوس ہو گیا اِن مجسموں میں بھی سرسے کولہوں تک دراڑیں پڑ گئیں۔ اب یوں ہوا کہ جونہی صُبح کی کرنیں اِن مجسموں پر پڑتیں ان سے بے حد افسردہ سے گیت نکل کر فضا میں بکھرنے لگتے۔

اور یہ المیہ گیت نیل اور بحیرہ روم کے پانیوں پر تیرتے یونان پہنچ گئے اور یونانی شاعروں کو تو ایسے مواقع اللہ دے۔ بھاگے بھاگے آئے اور اِسے Memnon کی عبادت گاہ کا نام دے دیا۔ ممنون دراصل یونانیوں کا ایک دیوتا تھا۔ پس یہ مجسمے کلُوسی آف ممنون کے نام کے ساتھ دیوتاؤں کا روپ دھار گئے اور یونانیوں اور رومیوں کے لئے مقدس اور زیارت کی جگہ ٹھہرے۔

ہمارے یہ پوچھنے پر کہ کیا واقعی گیتوں کا کوئی سلسلہ تھا۔ گائیڈ زور سے ہنس پڑا اور بولا۔

’’ارے کچھ بھی نہیں۔ بس ہوتا یہ تھا رات بھر کی ٹھنڈک کے بعد صُبح کی پہلی شعاعوں سے پیدا ہونے والی حرارت کی کپکپاہٹ اِن دراڑوں میں ارتعاش پیدا کر دیتی تھی۔ جو افسردہ گیتوں کی صورت میں ڈھلی محسوس ہوتی تھی۔ ‘‘

بس تو اتنی سی بات تھی جسے یاروں نے افسانہ بنا دیا۔

سچی بات ہے اسوقت ہمارا جی چاہتا تھا کہ گاڑی سر پٹ بھاگتی کسی ریسٹورنٹ کے دروازے کے سامنے جا رُکے۔ آناً فاناً دروازے کھُلیں اور ہمیں کھانوں کے طباق نظر آئیں جن پر ہم ٹوٹ پڑیں۔

کورنش نائیل روڈ پر گائیڈ نے ہمیں اِس تاکید کے ساتھ اُتار ا کہ شام کو پانچ بجے آپ لوگوں نے کرنک اور لُکسر ٹمپل کے لئے چلنا ہے لہٰذا وقت کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔

٭٭٭

 

۱۴۔کروز کرنک ٹمپل

               فرعونِ موسیٰ منفتاح

چند لمحوں کے لئے The Great Princess کا چہرہ مہرہ رعب داب اور شان وشوکت دیکھ کر مجھ جیسی ٹٹ پونجی سیاح تو دم بخود رہ گئی۔ مجھے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ جب تین جوڑے کپڑوں کے اثاثے پر مشتمل اپنا چھوٹا سا شاپر ہاتھوں میں جھُلاتی بہت سی سیڑھیاں اُتر کر نیل کے دہانے پر لنگر اندازاس بڑے سے جہاز میں داخل ہوں گی تو گویا ایک طرح دانتوں میں اُنگلی دبا کر بٹر بٹر تکنے والی صورت حال کا سامنا کروں گی۔

ریسپشن روم سے بالائی حصوں کو چڑھتی چمکتے پیتل کی ریلنگ والی سیڑھیاں بہترین قالینوں سے سجے فرش اور آرٹ کے شاہکاروں سے سجی راہداریاں جن میں کھلتے کمروں کے شاندار دروازے پیانو پر بجتے کسی طربیہ گیت کی دھن اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے گورے گوریاں دیکھنے کو ملیں گی۔

سیڑھی کے دوسرے پوڈے پر ایک جانب سکون سے بیٹھتے ہوئے شاپر میں نے اپنے پاس ہی رکھتے ہوئے خود سے کہا۔

’’اب ثنا کو میرا یوں بیٹھنا ایک بار چھوڑ ہزار بار بُرا لگے مجھے قطعی پرواہ نہیں۔ دائیں بائیں دھرے صوفوں پر تو چپہ برابر جگہ نہیں۔ غباروں کی طرح پھولے وجود براجمان ہیں۔ صبح سے سیاحت کی اس اَ نی ّ (اندھی) شوقین کی ٹانگیں لُورلُور کے سپاٹوں میں زخمی ہوئی پڑی ہیں۔ ‘‘

پاسپورٹ اُن کے پاس تھے اور معمول کی کاروائی جاری تھی۔ اور پیٹ میں چوہے بلیاں کودتی تھیں۔ پر اندراج ہونے اور کمرہ کی چابی ملنے سے پہلے ہمارا ڈائننگ ہال میں داخلہ ممنوع تھا۔

میری نظروں کے عین سامنے داخلی دروازہ تھا جس کے ساتھ معلق راستے hanging path پر باہر سے آنے والے جھُولتے جھُومتے اندر داخل ہوتے تھے۔

میں جب ٹھوڑی کو ہتھیلی پر ٹکائے دنیا کے بکھرے رنگوں کے کچھ عکسوں کا اجتماع اس چھوٹی سی جگہ پر حیرت ودلچسپی سے دیکھ رہی تھی ثنا نے ہاتھ میں چابی لہراتے ہوئے ہم دونوں کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔

’’مائی گاڈ۔ ‘‘

دروازہ کھولتے اور بتیاں جلاتے ہی کمرے کی اونچے درجے کی آرائش و زیبائش پر ثنا تو جیسے خوشی سے نہال ہو گئی۔ پل جھپکتے ہی اُس نے کھڑکی کے بھاری پردوں کو جھٹک جھٹک کر کناروں پر کیا اور نیل کے پانیوں کو دیکھنے لگی جو کھڑکی سے ذرا ہی نیچے مدھم مدھم سروں میں انگڑائیاں لیتے تھے۔

میں نے بیگ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ پر دراز ہو گئی۔ پیٹ میں بھوک کی ہا ہا کار مچی ہوئی تھی۔

ثنا باتھ روم سے فارغ ہو کر اب ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے حُلیے کو درست کرتے ہوئے کہتی تھی۔

’’آنٹی واش روم سے ہو آئیے۔ پھر لنچ کے لیے چلیں۔ ڈھائی بج رہے ہیں۔ ‘‘

ڈائننگ ہال نیچے تھا۔ سیڑھیوں میں جو پینٹنگ آویزاں تھی اُس نے قدموں کو روک دیا تھا بدوی اور صحرائی زندگی کا ایک دلآویز شاہکار۔

کھانا کو نٹینینٹل تھا۔ دس بارہ سلاد کی اقسام آٹھ دس سالنوں کی اور چھ سات میٹھے۔ بھوک جس حساب سے تھی وہ ہبڑ ہبڑ کی متقاضی تھی۔ پر فائیو سٹار ماحول نے گواچی گاں کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکتے ہمارے ہاتھوں کو سلیقے اور تہذیب کی زنجیر سی پہنا دی۔ دھیرے دھیرے باوقار انہ انداز میں اُٹھنا پلیٹ میں نخروں سے کچھ ڈالنا واپس آنا مزے سے اُسے کھانا پھر کھانے کی طرف جانا گزشتہ ہفتہ بھرسے اچھے کھانوں کے لیے ترسیدہ تھے۔ ایسے میں بیشتر لوگوں کے اُٹھ جانے پر بھی ہمارا وہاں اسّی 80 منٹ تک بیٹھنے کا جواز سمجھ میں آتا تھا۔

واپس آ کر بستر پر گرے اور پل جھپکتے میں تھکن اور پُر باشی نے آنکھوں کو بند کر دیا۔ پتہ نہیں یہ کون سی آوازیں تھیں۔ گھنٹیاں تھیں جو بجتی تھیں۔ پھر جیسے کسِی نے ز ورسے ہلایا۔

پھر آواز آئی۔

’’آنٹی اُٹھ جائیے۔ نیچے لابی میں ہمارا گائیڈ انتظار میں ہے۔ بار بار کال کیے جا رہا ہے۔ کرنک اورلُکسر ٹمپل چلنا ہے۔‘‘

۔۔ ’’خصماں نو کھان لُکسر تے کر نک ٹمپل۔ ‘‘ مدہوشی میں ڈوبی مہرالنساء کی آواز کمرے میں بکھری۔ اتنی میٹھی نیند جیسے زندگی میں پہلی بار نصیب ہوئی ہو۔

پتہ نہیں کن جتنوں سے خود کو اٹھایا۔ جلدی جلدی کا شور مچایا۔ اپنے کپڑوں کی سلوٹوں کو ہاتھوں سے دُور کیا۔ بالوں میں کنگھا چلایا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔

یہاں سے ہمارے ساتھ ایک ملائی جوڑا مسٹر ومسز لارا کول نتھی ہوئے۔

کرنک کا پہلا منظر ہی ڈراؤنی اور جادوئی کیفیت اور تاثر کا حامل تھا۔ جنگلی گلابوں کی کیاریوں کے عقب میں بھیڑ کے سروں سے مشابہ ابوالہول (Sphinxes) کے پچاسوں مجسمے دور ویہ سجے ہوئے تھے۔ بلند وبالاسنگی اور کہیں کہیں سے شکستہ دیواروں میں لگے چھوٹے سے آہنی گیٹ سے آگے اسی ٹائپ کے تین اور انسانی سروں والے Sphinxes کی ایک قطار ننگے آسمان کی چھت تلے شام کے اس جھٹ پٹے میں خوف کی لہروں کو سارے سریر میں ایک سنسنی کی صورت بکھیر رہی تھی۔ تقریباً تیس 30 ایکڑ میں پھیلا اپنے جہاز ی سائز اور کالموں پر تعمیر دُنیا کا یہ وہ قدیم ترین ٹمپل ہے جو لُکسر (طیبس) کے دیوتا ’’امن‘‘ کے نام پر ہے۔

ہیپو سٹائل ہال حقیقتاً مصری طرز تعمیر کا بہترین نمونہ تھا۔ خدا گواہ ہے کہ جب میں اس سو 100 میٹر لمبے اور ترپن53 میٹر چوڑے ہال میں داخل ہوئی۔ میری حیرت سے پھٹتی آنکھوں کو 23 میٹر بلند ہلکی سی سُرخی کی آمیزش لیے گہرے براؤن کالموں کا ایک جہاں نظر آیا تھا۔ میں نے انہیں گننا چاہا پر تھوڑے سے وقت میں ایسا کرنا مشکل کام تھا۔ کلاوے میں بھر کر ایک ستون کی گولائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی تو اپنی حماقت پر ہنسی آ گئی۔ میرے جیسی چھ عورتوں کی پھیلی بانہوں کے دائروں میں ایک ستون کا آنا شاید ممکن تھا۔ بلندی دیکھنے کی کوشش میں گردن کو تقریباً دوہرا کرنا پڑا تھا۔

ایک فرعون نے نہیں وقت کے کئی فرعونوں جن میں ایمنوفس III رعمیس اول دوم سیتی اول نے اِس کی تعمیر میں ذاتی دلچسپی لی تھی۔ اِن بلند و بالا کالموں اور ستونوں جن پر کھُدی انسانی صورتوں کے ایک دوسرے سے مکالموں کی کیفیات اور واقعات دیکھتے ہوئے انسان حیرت زدہ ہو کر بے اختیار سوچتا ہے۔ قبل مسیح دور کا انسان کسی بھی طرح اپنے ماحول اور حالات کے مطابق کم ذہین اور فطین نہ تھا۔ دیو ہیکل قسم کے پتھر کہاں سے لائے گئے۔ کون سی مٹی گارا چونا مسالا انہیں جوڑنے کے لیے استعمال ہوا جس نے صدیوں پر محیط بارشوں اور موسم کی سختیوں کے باوجود انہیں ابھی تک اُسی آن بان سے کھڑے رکھا۔ اِس ہیپو سٹائل ہال کے عقب میں ایک مخروطی بلند مینار کے بارے میں گائیڈ نے بتایا کہ اب یہ صرف ایک باقی رہ گیا ہے۔ انہیں ملکہ ہت شی پشت نے بنوایا تھا اور جب تعمیر ہو رہی تھی اُس نے سونے سے بھری ہوئی بوریاں یوں بھیجی تھیں جیسے وہ گندم کی بوریاں ہوں۔

کمال ہے۔ میں نے اُس (OBELISK) کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔

اور مقدس جھیل کے پاس ایک نو عمر مصری کُرسی پر بیٹھا سو رہ یٰسین کی تلاوت کرتا تھا۔ میں بھی قریب پڑے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئی۔ ایسی خوبصورت اور رسیلی آواز۔ پتہ نہیں لحن داؤدی میں کتنی نغمگی ہو گی۔ میرا تو اس آواز پر قربان ہونے کو جی چاہ رہا تھا۔

جھیل کے پار اپنے سامنے بکھرے ٹوٹے پھوٹے کالموں اور ہالوں کے سلسلوں کو دیکھتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے کہا تھا حقیقت تو یہ ہے کہ فرعونوں کی طاغوتی طاقت، قوت اُن کے جاہ و جلال اُن کی شان و شوکت اور سطوت کے کھنڈر عبرت کے نشان ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ بندے کا پتر بنو۔ اور یہ جانو کہ دنیا میں باقی رہ جانے والا سچ صرف وحدت ہے۔

یہ جھیل ایمنوفس III کے زمانے میں مذہبی رہنماؤں کے لیے تھی وہ اپنے روزمرہ کے فرائض انجام دینے سے قبل اس میں غسل کرتے تھے۔ اور دن میں چار بار غسل ہوتا تھا۔ بورڈ پر لکھا یہ سب پڑھ کر مجھے ہنسی آئی۔ بے چارے اسی کام میں لگے رہتے ہوں گے۔

تیرہ سالہ ایک خوبصورت سی لڑکی کیپری پر چھوٹا سابلاؤز پہنے ایک دیو ہیکل پتھر کے پاس کھڑی تھی جس پر کمال کی کھدائی تھی اور جسے فرعون مصر نے کیپری دیوتا کے نام منسوب کیا ہوا تھا۔

میں دوسری سمت چلی گئی۔ یہاں دوکانیں تھیں جن میں کتابیں اور سونیئرزسجے تھے اور خرید و فروخت کا سلسلہ جاری تھا۔ سرسری سا ایک جائزہ لیکر میں باہر نکل آئی۔

باہر گرد و غبار کے بادل تھے۔ کرینیں اور بل ڈوزر  مار دھاڑ میں لگے ہوئے تھے۔ کہیں میدان ہموار اور کہیں کھدائی ہو رہی تھی۔ ثنا اور مہرالنساء گائیڈ کے پاس بیٹھی اُس سے معلوم نہیں کیا کیا قصّے کہانیاں سن رہی تھیں۔

بہت دُور پارک کی گئی گاڑی میں بیٹھی۔ مغرب ہو گئی تھی۔ نماز کے لئے کہاں جاؤں۔ سمجھ نہیں آتی تھی۔

چلو رات کو عشاء کے ساتھ پڑھوں گی۔

کروز پر پہنچ کر گائیڈ اور گاڑی دونوں رُخصت ہوئے۔ پر ہمارا تو موڈ سیر سپاٹے پر ابھی مائل تھا۔ نیل کے کناروں پر عالیشان بلند و بالا عمارات کی جگمگاتی روشنیوں نے اگر فضا کو بُقئہ نور بنا رکھا تھا تو نیل کے پانیوں میں بھی ان کے شرارے رقصاں تھے۔

جا  بجا چلتی شاندار بگھیاں اور ان کے سائیسں شہر کی سیرکی دعوت دیتے تھے بھاؤ تاؤ ہوا اور سات مصری پاؤنڈ میں ہم نے شہر کی سیر کا سوداکیا۔

جب پون گھنٹے میں شہر کا ایک اوپری سا چکر لگا کر اُس نے ہمیں شیرٹن ہوٹل کے پاس اُتارنا چاہا تو ہم اُس کے گلے کا ہار ہو گئیں۔

’’لو یہ کیا بات ہوئی۔ ہمیں اندر کی گلیوں اور سڑکوں پرلے کر چلو۔ ‘‘

اب وہ انکاری اور ہم اصراری۔ چلو پانچ پاؤنڈ مزید لو پر ڈنڈی نہیں چلے گی۔

روشنیوں سے بھری ہوئی رات کا پہلا پہر۔ نیل پر سے آتی ہواؤں میں خنکی کی خوشبو۔ شاندار بگھی میں مہارانیوں کی طرح بیٹھے ہونا اور چند لمحوں کے لئے خود کو بھی مہارانی ہی سمجھنا کسِی افسانے کا قصہ ہی تو معلوم ہوتا تھا۔

بڑی سڑکوں سے چھوٹی کی طرف اور چھوٹیوں سے بڑی کی طرف گلیاں راستے کاٹتے ہوئے ہم نے پورا شہر چھان مارا۔ گو شہر بہت بڑا نہیں۔ لیکن نیل کے کنارے کنارے چار پانچ منزلہ عمارتوں کا ایک تسلسل آنکھوں کو خوبصورت لگتا ہے۔ خوبصورت سڑکیں۔ پارک اسپتال۔ مقامی چھوٹی سڑکوں کے کونوں پر ہمارے ہاں کے ڈھابوں کی طرح فلافل والوں کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے سجے تھے۔ گرم گرم فلافل نکل رہے تھے۔

’’ہائے ری میّا۔ ‘‘ ڈھیر سارا پانی منہ میں بھر آیا۔ جی چاہا گرم گرم دو فلافل لے لیں۔ پر کروز پر شاندار ڈنر انتظار میں تھا۔ منہ میں لڑھکتا پھرتا سارا پانی نیچے لے جانا پڑا۔

خالد بن ولید روڈ پر اُترے جہاں سے تھوڑا سا چلنے کے بعد مارکیٹ میں آ گئے۔ مقامی عورتیں سیاہ بُرقعوں میں ملبوس گھومتی پھرتی تھیں۔ مرد لوگ توپ (لمبا چوغہ) پہنے گاہک اور دوکان داروں کی صورت میں نظر آتے تھے۔ توپ صاف سُتھری بھی تھیں اور ملگجی بھی۔

دوکانیں جگمگا رہی تھیں۔ مقامی مصنوعات کے ڈھیروں رنگ تھکی آنکھوں کو چمک اور تازگی دیتے تھے۔ میں کتابوں کی ایک دوکان میں چلی گئی۔ ٹورسٹ آفس کے سامنے اکٹھے ہونے کا طے پایا تھا۔ میری خوش قسمتی کہ دوکاندار انگریزی بول لیتا تھا۔ بتانے پر بھی مائل تھا ا ور صاحب علم بھی تھا۔ کتابوں کی پھولاپھرولی کے بعد میں اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ دوکان میں رش بھی نہیں تھا۔ لہٰذا آمنے سامنے بیٹھ کر علم دینے اور لینے کا عمل شروع ہو گیا۔

لُکسر کی موجود ہ شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے اس کی ماضی کی صورت کو تصور میں لانا خاصا مشکل ہے۔ ایک ہزار سال تک مصر کا دار الخلافہ رہا۔ یہ اپنی دولت اپنے خزانوں اور اپنے محلات کی وجہ سے ہمیشہ تاریخ میں ممتاز رہا۔ گو کبھی یہ معمولی سا شہر تھا۔ چھوٹے سے راجے کا پایہ تخت تھا۔ پر بڑا بخت ور شہر تھا۔ یہی وہ شہر ہے جسے یونانی شاعر ہومر نے سودروازوں کا شہر کہا تھا۔ طیبسکا نام بھی اسے یونانیوں نے دیا ہے۔

دراصل ساتویں آٹھویں اور دسویں فراعنہ کے ادوار میں بادشاہ ملک کے لئے کو ئی قابل قدر کام نہ کر سکے۔ شاہی خاندان اور مذہبی پیشواؤں میں جھگڑے شروع ہو گئے تھے۔ ایسے میں طیبسکے ایک نوابی خاندان نے گیارھویں خاندان کی حکومت قائم کرنے کے بعد طیبسکو پورے مصر کا پایہ تخت بنا دیا۔

وہ دور بُت پرستی کا تھا۔ پوری مصری قوم دیوی دیوتاؤں میں اُلجھی ہوئی تھی۔ ہر شہر اور ہر گاؤں کا اپنا اپنا دیوتا تھا۔ طیبس کا سب سے بڑا دیوتا ’امن‘ تھا۔ ’حت‘ امن کی بیوی تھی۔

حکومتی سطح پر مصریوں کا سب سے بڑا معبود سورج دیوتا ’’را‘‘ تھا۔

اب جب جنوبی اور شمالی مصر اکٹھا ہوا تو سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ’امن‘ اور ’ر ا‘ کو بھی اکٹھا کر دیا گیا۔ اور سرکاری طور پر ’’امن را ‘‘ دیوتاؤں کا حکمران اور زمین و آسمان کے سب سے بڑے معبود کا اعلان کیا گیا۔

فرعون موسٰی کے بارے میں جاننے کے لئے مجھے خاصا تجسّس تھا۔

’’کچھ اس پر تفصیلی روشنی ڈال سکیں گے۔ ‘‘ میں نے ایک نظر اِس نرم خو مصری پر ڈالی جس کا نام مصطفٰی آغا تھا۔ اور جسنے کمال مہربانی سے میرے اُوپر علم و آگہی کے دروازے کھولے تھے۔

تاریخ دانوں میں تضاد ہے۔ مگر چند امور ایسے ہیں جن پر اتفاق ر ائے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ فرعون موسٰی رعمیس دوم نہیں بلکہ اس کا بیٹا منفتاع تھا لیکن حضرت موسٰی پیدا رعمیس دوم کے زمانے میں ہوئے تھے۔ اور یہ رعمیس دوم ہی تھا جس نے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کے قتل عام کا حُکم دیا تھا۔ اس وقت بنی اسرائیل چھ لاکھ سے اوپرنفوس والا قبیلہ تھا۔ جس کی بغاوت سے فرعون خائف تھا۔

رعمیس دوم ڈھیرساری بیویوں کا شوہر اور ڈھیر سارے بچوں کا باپ تھا۔ منفتاح اُس کا اور نفرتیری کا بڑا بیٹاکاروبار مملکت میں اُس کا دست راست تھا۔ اس میں شک نہیں کہ رعمیس دوم بہت ساری عہد ساز خوبیوں کا مالک تھا۔ پر اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی متکبّر ظالم اور خود پرست انسان تھا۔ بادشاہ بنتے ہی اُس نے اپنے بھائی کے تمام مجسمے تڑوا دئیے یا پھر انہیں اپنی صورت میں ڈھلوا لیا تھا۔

اسی نیل میں فرعون کی بیوی نہاتی تھی جب اُس نے لہروں پر تیرتے صندوق کو دیکھا۔ اس کی خادماؤں نے پکڑا۔ کھولا تو ایک خوبصورت بچے کو انگوٹھا چُوستے ہوئے پایا۔ ملکہ نے اُسے کلیجے سے لگایا اور محل لے آئی۔

یہاں میں نے فی الفور’’سوری میں آپ کی بات کاٹ رہی ہوں۔ کہتے ہوئے پوچھا۔ یہ ملکہ کون تھی؟کیا نفرتیری تھی؟‘‘

’’مختلف آراہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ نفرتیری تھی کیونکہ وہ ایک مہربان اور نرم مزاج خاتون تھی پر کچھ کا کہنا ہے کہ یہ رعمیس کی بڑھاپے کی ایک اور شادی تھی۔ جس کا کوئی بچہ نہیں تھا۔ وہ جب بچے کو کلیجے سے لپٹائے محل میں آئی تو اُس پر نظر پڑتے ہی رعمیس چلّا اٹھا۔ ‘‘

’’قتل کر دو اِسے۔ یہ اسرائیلیوں کا لڑکا ہے۔ ‘‘

۔ ’’نہیں نہیں اس کی بیوی چلائی۔ میں اِسے پالوں گی اور یہ میرا بیٹا ہو گا۔ ‘‘

اور یوں وہ فرعون کے محل میں اس کی چھتر چھاؤں تلے پلنے لگے۔

نوے 90 سال کی عمر میں رعمیس دوم مرا اور سترّ70 سال کی عمر میں اُس کا بیٹا منفتاح باقاعدہ فرعون بنا۔ حضرت موسٰی اُس وقت حضرت شعیب کے پاس اپنی آٹھ سالہ مدّت پوری کر رہے تھے۔ اپنے باپ کی طرح منفتاح بھی مغرور اور تکبر پسندتھا۔ وہ لوگوں کا رب بھی بنا ہوا تھا۔ اُن کا خالق و رازق و مالک بھی۔ تو پھر جھوٹے خداؤں کا یہی انجام ہوتا ہے جو اُس کا ہوا۔

میں نے کلاک پر نظر ڈالی۔ نو بج رہے تھے۔

میری جا ن کا سیاپا کر رہی ہوں گی وہ دونوں۔

اجازت چاہی۔ دوکان سے باہر نکلتے ہی دوڑ لگائی۔ اطراف کے بورڈوں اور بڑی بڑی علامتوں کو جنہیں نشانی کے طور پر ذہن میں بٹھایا ہوا تھا۔ دیکھتی جاتی تھی۔ واقعی وہ دونوں وہاں پریشان حال بیٹھی تھیں اور فکر مند تھیں کہ میں کہیں بھٹکتی تو نہیں پھر رہی۔ چلو اب بھاگو۔

کروز کو ڈھونڈنا بھی کونساآسان تھا۔ نیل کے کنارے پر فاصلے فاصلے سے کوئی میل کے ایریا میں پھیلی لمبی قطار لگی پڑی تھی۔

ہماری سمجھداری یا ہوشیاری سے زیادہ خدا کی نظر عنایت تھی کہ جلد ہی ٹھکانے پر پہنچ گئے۔ شکر ہے کہ ابھی رابطہ کا پُل اُٹھایا نہیں گیا تھا۔

کھانے کے فوراً بعد لاؤنج بار میں ڈسکو ڈانس تھا۔ ثنا وہاں چلی گئی مہرالنساء نے آرام کرنے کا کہتے ہوئے کمرے کی راہ لی اور میں عرشے پر آ گئی۔ کیسا سحر انگیز سا ماحول تھا۔ گو رات تاریک تھی پر یہ تاریکی بھی بڑی رومانوی قسم کی تھی۔ چوبی راستے پر چلتی میں سوئمنگ پول کے پاس ریلنگ کے ساتھ کھڑی ہو کر نیل کو دیکھنے لگی۔ دنیا کا شاید ہی کوئی دریا اس درجہ تاریخ سے بھرا ہوا ہو جیسا یہ ہے۔ دیر بعد میں نے رُخ پھیرا۔ انگلش پب اس وقت ویران تھی۔ بیسیوں بیچ بیڈز بھی خالی تھے۔ دو جوڑے عرشے کی بیک پر صوفوں میں دھنسے سگریٹ نوشی کرنے اور باتوں میں مصروف تھے۔

سوئمنگ پول کے اطراف میں لگے پائیپوں سے پانی شرل شرل کرتا اندر گر رہا تھا۔ کنارے پر بیٹھ کر میں نے ہاتھ اندر ڈالے۔ نیم گرم پانی کس قدر فرحت بخش سا تھا۔

میرا کھیڈن کو مانگے چاند جیسی خواہشوں کا اسیر دل کسی شوخ شرارتی بچے کی طرح پانی میں دھم سے چھلانگ مارنے پر مچل رہا تھا۔ پراواخر مارچ کی یہ رات خنکی سے لبالب بھری ہوئی تھی کپڑوں کی بھی قلت تھی ننگے ہو کر ایسی خواہش کی تکمیل ناممکن تھی۔ یوں بھی جوانی والی چستی اور تیزی طرازی کو ئی قصہ پارینہ تھی۔ پردیس میں بیماری اور بستر میں لیٹنے کی عیاشی سے بھی ڈر لگتا تھا۔ اس لیے ایسی بے سروپا خواہش کا گلا گھونٹنا بہت ضروری تھا اور ابھی جب میں اس ضروری کام سے فارغ ہو رہی تھی۔ سیڑھیوں پر آگے پیچھے تین چار چہرے نظر آئے۔ چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا کہ عرشے کی پچھلی جانب چلے گئے۔ دو عورتیں اور دو مرد۔

بعض اوقات زندگی کے اتفاقات بھی کتنا حسین رنگ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ یوں بھلا کبھی کا ہے کو سوچا تھا کہ ایک دن نیل کے سینے پر تیرتی ہوئی اِس دیس کے کسِی اجنبی شہر کو جاؤں گی۔ احسان ہی ہے نا مولا تیرا جو یہ سب دیکھنا تو نے نصیب کیا۔

وقت تو پتہ نہیں کیا تھا۔ پر مجھے اندازے سے محسوس ہوتا تھا کہ رات کافی ہو گئی ہے۔ نیچے بلیرڈ روم اور لاؤنج بار سبھی جگہ سناٹا تھا۔

بستر پر لیٹ کر بھی مجھے بہت دیر تک نیند نہ آئی۔ سرہانے لگی روشنی نے اُکسایا کہ لُکسر پر لٹریچر ہی پڑھ لوں۔

’’بڑا مقدر والا شہر ہے۔ جس کے قریب ہی چھوٹے سے گاؤں ’ ’اطّود‘‘ میں خدا کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسٰی نے جنم لیا تھا۔ ‘‘

پتہ نہیں کب سوئی پر خوابوں میں بھی ا طّود میں ہی گھومتی پھرتی رہی۔

٭٭٭

 

۱۵۔لُکسر ٹمپل ایسنا

               ایدفو کوممبو

غریب غرباء اور محنت کش لوگوں کی طرح میرے مقدر میں بھی صبح دیر تک سونے کی عیاشی کبھی نہیں رہی۔ نور پیر کے تڑکے آنکھ کی کیفیت من و عن الارم کی سی ہوتی ہے جس نے وقت مقررہ پرپٹ سے کھُل جانا ہے۔ پس اُوپر بھاگی کہ طلوع آفتاب کا نظارہ کروں۔ مجھے تو یہاں ایک اور کنفیوژن سے پالا پڑا تھا۔ کہ کعبہ کا تعین غروب آفتاب کی سمت سے نہیں طلوع آفتاب کی سمت سے ہوتا ہے۔ اِدھر کہ اُدھر انہی چکروں نے اُلجھائے رکھا اور پھر سامنے نیل کے پار کی پستہ قامت پہاڑیوں کے اوپری سرے کرنوں میں نہائے نظر آئے تو سخت مایوسی ہوئی۔

ناشتے سے قبل غسل کا سوچا۔ باتھ روم اپنے مہنگے ترین سازوسامان کے ساتھ اُس خوبصورت حسینہ کی طرح تھا جس کے بارے میں ضرب المثل ایجاد ہوئی ہے کہ ہاتھ لگاؤ تو میلی ہونے کا ڈر ہے۔ یہی کیفیت یہاں تھی۔ پہلے تو ٹونٹیاں کھولنے کا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ چلیے اُوپر نیچے دائیں بائیں کی زور آزمائیوں نے شناسائی کی راہ نکالی۔ اب نہانے کے لیے شیشے کے اس قبر نما کیبن میں بیٹھے۔ شاور لینے کے مشکل مراحل تھے جو بالکل طے نہیں ہو پا رہے تھے۔ نتیجتاً سارا باتھ روم پانی سے بھر گیا۔

’’ہائے ری میّا۔ کروز والے تو کہیں گے نا۔ گنوارنیں کسی جنگل سے اُٹھ کر آ گئی ہیں۔ ‘‘

چار و ناچار ثنا کو آوازیں دیں جس نے اپنے جوان اور ماڈرن دماغ سے صورت کو قابو میں کیا۔

ناشتہ کرنے تک میں اپنے آپ سے یہی سوال کرتی رہی اگر میں اطّود چلی جاؤں تو ساڑھے دس کروز کی روانگی تک واپسی ہوسکتی ہے۔ اب جواب ہاں اور نہ کی عجیب سی گھمن گھیری میں پھنسا ہوا تھا۔

اسی نیل کے کنارے وہ چھوٹی سی لڑکی بھی میرے تصور میں تھی جو اپنے بھائی کے پانی پر بہتے صندوق کے ساتھ ساتھ کتنی دور تک دوڑتی چلی گئی تھی۔

میرے مولا اس نیل کو بھی تو نے کتنی فضیلتوں سے نوازا ہے۔ کہیں اس نے پیغمبر کا بار امانت اُٹھایا کہیں تاریخ اسلام کی عظیم ہستی عمرؓ نے اسے مخاطب کیا۔

قاہرہ کے انڈیانہ ہوٹل میں ناشتے پر ہماری ٹھونسا ٹھونسائی بڑی مار دھاڑ قسم کی ہوتی تھی۔ پر یہاں کروز پر ناشتہ بڑی نزاکتوں سے ہوا تھا۔ دوپہر کا کھانا ملنے کی امید تھی نا۔

ہم تینوں اُس پختہ جیٹی جو نیل کے مشرقی کنارے پر میلوں کے دائرے میں بنائی گئی ہے پر چلتی ہوئی اوپر کورنش روڈ (corniche road) پر آ گئیں۔

وہ دونوں تو حسب معمول مجھے یہ کہتے ہوئے کہ دو ڈھائی گھنٹوں کا مارجن ہے۔ ایک دوسرے کے انتظار کی بجائے کروز پر ہی پہنچ جائیں گے بازار کی طرف مڑ گئیں۔ پر ثنا جاتے جاتے یہ کہنا نہیں بھولی۔

’’آنٹی خیال رکھیے گا۔ روانگی ساڑھے دس بجے ہے۔ ‘‘

’’اطّود‘‘ جاؤں۔ میں وہیں ساکت کھڑی خود سے سوال کرتی تھی۔ پر میرا اندر انکاری تھا۔ گاڑی کی بکنگ آنا جانا۔ دیر سویر بندے کے ساتھ ہے۔ ٹینشن والا تو کوئی کام سرے سے کرنا ہی نہیں۔ ایسے ہی پر دیس میں اللہ رحم کرے کوئی کھڑاک ہو جائے تو بندہ کس کی ماں کو ماسی کہے گا۔

’’چلو لُکسرٹمپل چلتی ہوں۔ ہے بھی پاس ہی۔ ایک دو  راہگیروں سے پوچھنے پر اُن کے ہاتھوں کے اشاروں نے سمجھا دیا تھا کہ دو سڑکوں کے موڑ کاٹوں گی تو ٹمپل سامنے ہو گا۔

لُکسر ٹمپل کو نہ دیکھنا زیادتی ہوتی۔ گورعمیس دوم کا دیوتا ’ امن را‘ کے نام پر بنایا ہوا اِس ٹمپل کا کافی حصّہ کھنڈر بن چکا ہے۔ تاہم اُس کے موجود حصّے اس کے انتہائی شاندار ہونے کے گواہ ہیں۔ مینار دار عمارت کے داخلی دروازے پر رعمیس دوم کے دو سٹیچو کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ ٹانگوں کے ساتھ نفرتیری کھڑی ہے۔ ایک چہرہ شناخت سے عاری ہے دوسرا کچھ کچھ چہرہ شناسی کرواتا ہے۔ بغیر چھت کے ایک لمبی راہداری دو طرفہ کالموں سے گھری ہوئی آگے تک جاتی تھی۔ گولائی میں ہشت پہلو اوپر سے Papyrus Flower کی شکل کے یہ کالم فن تعمیر کے حوالے سے مصریوں کی ذہانت اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اندرونی کورٹ یارڈ میں خوبصورت سی مسجد جیسے بتوں کے نرغے میں پھنسی ہوئی اپنے ہلالی نشانوں کے ساتھ بہت پیاری لگی تھی۔

میں اوپر چلی گئی۔ اندر جا کر دونفل کی ادائیگی کی۔ مصر کی زمین کے مسلمان ہونے پر شکر کے کلمات ادا کیے۔

ٹمپل کا بیرونی حصّہ بہت دلچسپ تھا۔ باہر والی دیوار میں بے شمار دروازے جو ملحقہ عبادت گاہوں کی طرف جاتے تھے۔ یہاں رعمیس دوم کی اس جنگ کے مناظر کی کندہ کاری تھی جو اس نے شام کے HITTITE قبیلے کے ساتھ کی۔ کہیں وہ اپنے سپہ سالاروں کی جنگی میٹنگ کی صدارت کر رہا ہے۔ کہیں فوج پڑاؤ ڈالے بیٹھی ہے۔ کسِی کالم پر دشمن کی فوج فرعونی فوج پر حملہ کر رہی ہے۔ کہیں فرعون اپنی رتھ پر سوار ہے۔ بائیں ہاتھ کے کالموں پر سنگین لڑائی کے مناظر ہیں۔ ایک دوسرے پر تیروں کی بارش ہے۔

میدان میں مُردوں اور زخمیوں کے ڈھیر بھی نظر آتے ہیں۔ دشمن کی فوج کے بھاگنے اور شام کے بادشاہ کا فرعون رعمیس کے سامنے تھرتھراتے ہوئے کھڑے ہونا فی الواقع دلچسپ منظر تھے۔

اور نہ چاہتے ہوئے بھی بندہ ماضی اور حال کے موازنوں میں تو اُلجھ ہی جاتا ہے۔ بھلا صدیوں پہلے اور آج کے انسان میں کیا فرق ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ وہی خون خرابہ وہی ہوس گیری جو کل تھی سو آج بھی ہے۔ تو پھر اوپر والے نے یہ سب اپنی دل پشوری کے لیے ہی تخلیق کیا نا۔ خود سے ہی اُلٹی پلٹی باتیں کرتے کرتے باہر نکل آئی۔ تھوڑی دیر کے لئے بازار کی سیر کی د س 10 تو یونہی بج گئے تھے۔

ساڑھے دس10 بجے میں اوپر عرشے پر آ گئی۔ سارا عرشہ ویران تھا۔ بیچ بیڈز خالی تھے۔ ریک میں رکھے گئے صاف تولیوں میں سے ایک نکال کر میں نے بیڈ پر بچھایا اور اس پر لم لیٹ ہو گئی۔ خاصی دور فضا میں فلائنگ غبارے اڑتے تھے۔ میرا جی چاہتا تھا کوئی اُڑتا ہوا عین میرے اوپر آ جائے اور میں کچھ دیکھ سکوں۔

ساڑھے دس کی بجائے کروز نے ساڑھے گیارہ بجے حرکت کی۔ وقت کی اس زیادتی نے اور میرے دل کو جلایا۔ ہم دھیرے دھیرے لُکسر کی بلند و بالا عمارات سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ عرشے پر اس وقت مسافروں کا رش تھا۔ دھوپ بھی تیز تھی اور ہوائیں بھی ٹھنڈی تھیں۔ سوئمنگ پول کے گرد رنگین Bikni کے دھنک رنگ بکھر گئے تھے۔ تھل تھل کرتے مرد و زن کے نیم عریاں اجسام عجیب سی کراہت کا احساس پیدا کر رہے تھے۔

رفتار تیز ہو گئی تھی۔ گو نیل کے دونوں کناروں پر مناظر کی خوب صورتیاں گرفت میں لینے والی فسوں خیزیوں جیسی تو نہ تھیں جہاں بندہ بے اختیار بول اُٹھے کہ:

دامنِ دل می کشد کہ فردوس ایں جا است۔

تاہم اپنے تمام تر تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے ہمراہ زردئی پہاڑیوں گنےّ اور کیلے کے کھیتوں مٹی رنگے کچے اور پکے مکانوں سیاہی مائل سبز پانیوں کے ساتھ ایک خوبصورت اور دلکش تاثر کے نمائندہ تھے۔ اور یہ کیلوں کے کھیت کے کھیت دیکھنا بھی انوکھا اور دلچسپ منظر تھا۔ کیلوں کے گھر بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ میں جھنڈوں سے ہی کیلوں کی پیداوار کے مناظر سامنے آئے تھے۔ پر یہاں تو گندم اور گنّے کی طرح میلوں میں اِن کا پھیلاؤ تھا۔

پر ان منظروں کا حُسن دو چند ہوا جب تیز دھوپ کی کوکھ سے شام نکل کر فضا میں پھیلی۔ کھجوروں کے درختوں کے نوکیلے پتوں کی تیز ہوا کے بلّھوں سے اسی طرح مانگوں نے لشکارے مارے جیسے جوان لڑکیوں کے بالوں سے لمبی لکیریں اشارے کرتی ہیں۔

عرشے پر چائے کے اہتمام نے شام کی رنگینی اور بڑھا دی۔ مغرب نے ایک اور انوکھا منظر دکھایا۔ کروز Esna سے ٹرن لے رہا تھا اور بے شمار کشتیوں نے اُس کا گھیراؤ اسی انداز میں کیا جیسے پولیس کسی مشتبہ گھر کو چاروں جانب سے گھیرے میں لے لے۔ پلاسٹک کے شاپروں میں رکھی شالیں توپ اور سکارف کشتی والے گیند کی طرح اُچھالتے ہوئے عرشے پر کھڑے لوگوں کی طرف پھینکتے۔ بھاؤ تاؤ کے لیے خوب خوب بولا جاتا۔ نہیں نہیں ، ہاں ہاں کی تکرار ہوتی۔ کچھ شاپر واپس بھیجے جاتے کچھ پانی میں گرتے۔ کشتیاں انہیں پکڑنے کے لیے تیزی سے حرکت کرتیں۔ واہ کیا انداز تھا شاپنگ کا۔ انوکھا اور نرالا۔ ضرورت ایجاد کی ماں شاید اسی کو کہتے ہیں۔

میرے پاس کھڑی خاتون فوٹو کاپی کیے چند کاغذات ہاتھوں میں پکڑے ان کے مطالعے میں محو تھی میں نے نظریں دوڑائیں۔ ایسنا کے بارے میں لکھا ہوا تھا کہ کبھی یہ بالائی مصر کاکیپیٹل سٹی تھا ماضی میں Latopolis کے نام سے شہرت رکھتا تھا اور یہ نام اسے یونانیوں نے مقدس مچھلی لیٹو کے نام پر دیا تھا۔ اس کے موجودہ گاؤں میں یہاں صرف ایک ہی ٹمپل خونم دیوتا کے نام سے موسوم موجود ہے۔

رات کے کھانے پر سموک ویل (فرائی مچھلی) گوشت اور چکن تھا۔ چاولوں سے سجی قاب یوں دکھتی تھی جیسے برتن سُچے موتیوں سے بھرا ہو۔ چھ اقسام کے میٹھے اسپرطرہ کھانے کے فوراً بعد پریزنٹیشن کاک ٹیل کا شور ہوا۔ ڈسکو لاؤنج میں عملہ ایک کے بعد ایک تالیوں اور مدھم سی موسیقی کے شور پر بھاگا بھاگا آتا اور سامنے کھڑا ہو جاتا۔ ایک خوبصورت سا نوجوان گلا پھاڑتی آواز میں غالباً تعارفی جملے بولتا تھا۔ ہمارے تو سر سے الفاظ گزر رہے تھے۔ چھت سے منعکس رنگا رنگ روشنیوں کے جلو میں سوفٹ ڈرنک اور کیک پیش کیا گیا۔

میں جب عرشے پر آئی تو خنک اور لطیف ہواؤں میں تاروں بھرے ٹمٹماتے آسمان کی چھت اور روشنیوں سے جگمگاتے زمین کے آنگن خوبصورت منظروں کے عکا س تھے۔ کروز سُبک خرامی سے پانیوں کا سینہ چیرتا ہوا رواں دواں تھا۔ مجھے ڈیڑھ گھنٹہ گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔

کوئی نو بجے صبح ایدفو پر لنگر انداز ہوئے۔ کنارے پر جانے کے لیے راستہ ایک دوسرے کروز میں سے دیا گیا جو آگے کھڑا تھا۔ ایسی ہی شان و شوکت والا۔ جن کے راہداریوں میں کھڑے عملے نے پاس چیک کرنے کے بعد گزارا۔ مصر کی وزارتِ سیاحت نے ہر اہم شہر کے کناروں کو پختہ کر کے ان چھوٹے جہازوں کے کھڑا ہونے کے لیے پختہ جیٹیاں بنا دی ہیں۔ باہر لشکارے مارتے سیاہ لکڑی کے تانگے کھڑے تھے۔ اُونچی اُونچی آوازوں کے ساتھ کرایوں میں کمی بیشی کا عمل زور و شور سے جاری تھا۔ کوچ بان نے بیٹھنے کے ساتھ ہی پوچھا۔

’’انڈیا انڈیا‘‘

’’نہیں نہیں۔ ‘‘ ہم سب اس انداز میں چلّائے گویا ہماری دکھتی رگ کسی نے دبا دی ہو۔ ’’پاکستان پاکستان۔ ‘‘ ساتھ ہی میں نے پنجابی میں کہا۔

’’کمبختو انڈیا کے سوا کچھ اور بھی نظر آتا ہے تمہیں۔ ‘‘

زور دار لہجے میں الحمد ﷲ الحمداﷲ کا ورد ہوا۔ کوچ بان محمد تھا۔ پکا مسلمان۔ جس نے پل جھپکتے میں اپنی مسلمانی کا اظہار کھُلے ڈُلے انداز میں ہاتھوں کو فضا میں لہرا کر کیا۔ امریکہ کو تبرّوں سے نوازا۔ حسنی مبارک کو کوسنوں سے۔ اُسامہ بن لادن کے گلے میں گلابوں کے ہار ڈالے۔ افغانستان اور فلسطین کے لیے دعائے خیر کی۔

’’اﷲ اﷲ میرے اللہ اسلام کا بول بالا ہو۔ (امین) ‘‘ ہم تینوں نے زوردار جذبوں میں گندھی آواز میں کہا۔

ایدفو چھوٹا سا شہر جیسے بانہیں کھولو تو ایک ہی کلاوے کے دائروں میں آ جائے۔

بجے تو صبح کے نو تھے پر بازار اپنی پوری رونقوں کے ساتھ سجا ہوا تھا۔ ٹورسٹوں کے پُرے تانگے جھولتے تھے تو بازاروں میں دوکانوں کے آگے بیٹھے مصری شیشہ (حقہ) پیتے تھے۔

بالائی مصر کا یہ چھوٹا سا غیر اہم شہر اس لحاظ سے مثالی اہمیت کا حامل ہے کہ اس نے ’ہورس ‘ دیوتا کے نام سے منسوب اس ٹمپل کی بہترین انداز میں حفاظت کی ہے۔ یہ 137میٹر لمبا اس کا فرنٹ 79 میٹر چوڑا اور اس کا دروازہ 36 میٹر اونچا ہے۔ داخلی دروازہ خوبصورت سیاہ سنگِ خارا کے عقابی مجسموں جو مصریوں کے غیر متنازعہ اہم معبود اوزیرس (Osiris) اور دیوی آئسس (isis) کے بیٹے ہورس دیوتا کو ظاہر کرتے ہیں سے سجا ہوا ہے۔ میں خروج والے گیٹ سے اندر گئی۔ وسیع و عریض کمپاؤنڈ میں عقابی مجسمے کو دیکھتے ہوئے پہلے میں نے ’’دور دفعان کرو‘‘ کہتے ہوئے ٹمپل دیکھنے کا ارادہ ملتوی کر دیا تھا پر باہر آ کر سوچا۔ کہ یہاں تو ’’اِک بار دا پھیرا اے کس نے مُڑ ادھر آنا ہے دوبارہ۔ ‘‘ چالیس 40 مصری پاؤنڈ کا ٹکٹ خریدا اور اندر داخل ہوئی۔ یہ ٹمپل پٹولو می III نے شروع کیا۔ جس کی تعمیر آخری ملکہ قلوپطرہ ہفتم تک جاری رہی۔ اس کے بڑے ہال کی چھ کالموں پر مشتمل تین قطاریں عبادتوں کے مختلف نظاروں سے بھری پڑی ہیں آگے جا کر ایک اور ہپو سٹائل ہال جس کے دروازے دو ایسے کمروں میں لے جاتے ہیں جہاں عبادت کے لیے تیاری کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں سے آگے سیڑھیاں چڑھ کر ٹیرس جس کے آگے عبادت گاہ جو ابھی بھی اسی آن بان سے کھڑی ہے۔ دیواروں کے خوبصورت سین بہت دلچسپ تاریخی حوالوں کے منہ کھولتے ہیں۔ ٹمپل کی تعمیر کی رسومات دیوتا ہورس کے والد کے قاتلوں پر فتح کی کہانیاں ہورس کی پیدائش کے مناظر سب کا دیکھنے سے تعلق تھا۔

ٹمپل میں دو چیزیں نمایاں تھیں۔ اندر داخل ہونے سے قبل میممسی Mammisi کا پورشن ہے جس کا مطلب ہے بچے کی پیدائش کی جگہ۔ یہ علامتی طور پرہورس سے متعلق ہے جہاں اس کی ہر روز پیدائش ہوتی تھی۔ یہ مقدس جگہ خیال کی جاتی ہے شیر خوار بچوں کی ماؤں اور اُن سب عورتوں کے لیے جو بے اولاد ہیں اور بچے کی تمنا رکھتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں حاضری دینے سے اُن کے صاحب اولاد ہونے کے بہت امکانات ہیں۔ واقعتاً ان کمروں میں کھُدی عورتوں کی تصویریں بچوں کو دودھ پلاتی نظر آتی ہیں۔

دو تین اور چار منزلہ عمارات والا شہر۔ ہر شہر کا ایک اپنا کلچر۔ سادہ سے لوگ چغے پہنے ہوئے۔ عورتیں برقعوں میں ملبوس کہیں چہرے ڈھنپے ہوئے اور کہیں ننگے۔ دوکانیں آلو پیاز ٹماٹروں اور سیبوں مالٹوں کیلوں سے سجی ہوئیں۔

واپسی پر استقبال بڑا وی آئی پی قسم کا تھا۔ Sterilized تولیوں سے ہاتھوں کی صفائی اور لیمن ڈرنک سے تواضع کا مزہ آیا۔ اور چند لمحوں کے لیے ہم نے بھی اپنے آپ کو اہم سمجھا۔

میں جب اوپر آئی میرے سامنے نیل کے خوبصورت کٹاؤ کے مناظر تھے۔ رنگوں کا طلسم تھا کہیں کہیں کوئی ایسی جگہ جہاں دونوں اطراف کے قدرے اونچائی کے سلسلے یہ بتاتے تھے کہ کبھی ان میں زندگی ہو گی۔ ستون دروازے کہیں کوئی تنگ سی گلی شاید یہاں کچھ لوگ رہے ہوں۔ کھجور کے درختوں سے پُر جنگل نیل کے کناروں پر گھاس کے میدان اور اِن میں چرتی پھرتی بھیڑوں کے ریوڑ منظر کو نخلستانی رعنائی دیتے تھے۔

کہیں کہیں بہت دور تا حد نظر اُفق کے کناروں سے ملتا ہوا سرمئی اور بادامی رنگ آمیز پھیلا ہوا صحرا پرندوں کی اُڑتی قطاریں۔ پانی کی لہروں پر دھیرے دھیرے حرکت کرتا جیسے بہتا کروز۔

میں گھنٹوں بیٹھی ان مناظر سے آنکھوں کو سینکتی رہی اور جب شام کے سائے ڈھل رہے تھے سورج کی کرنیں راستہ بناتی تھیں۔ چند بلند و بالا خوبصورت عمارات سے مزین ایک منظرسامنے سے اُبھرا۔ نیل نے بھی اپنی سمت کا رخ بدلا کئی کروز جہازوں کی قطاروں کا لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی کشتیاں کناروں سے بندھی تھیں۔ کنارے پر بازار بھی سجا تھا اور ٹمپل بھی سامنے ہی تھا۔ ہم کوممبو KOMOMBO کے ساحل پر لنگر انداز ہو رہے تھے۔

سورج کی کرنیں راستہ بناتی تھیں۔ ایک چمکتا راستہ پیچھے اور زمینی آگے۔ تین جہازوں سے گزر کر باہر آئے۔ سیڑھیاں چڑھیں تو ایک جانا پہچانا مانوس منظر سامنے آیا۔ ایک مصری زمین پر بیٹھا ناگ اور بین کے ساتھ کھیل رہا تھا۔

کہیں پس منظر میں دف اور رباب کی آوازیں تھیں۔ ڈوبتی شام کے ساتھ اس اجنبی سرزمین کا یہ منظر کس قدر دل آویز تھا۔

اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ دف کی کھنک دار آواز فضا میں بکھری ہو اور رباب کی سُریلی تانیں کانوں میں رس گھولتی ہوں۔ بلا سے مخالف سمت روشنیوں سے جگمگاتا اور مقامی مصنوعات سے سجا بازار بھی دہائیاں دیتا ہو۔ آپ تو اِدھر اُدھر جا ہی نہیں سکتے۔

کوئی ایک ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ حصہ سجاوٹ اور مقامی کلچر کے رنگوں سے آراستہ اپنی مثال آپ تھا۔ آنکھوں کو لُبھاتا اور تحیر کو اُجاگر کرتا تھا۔

کرسیوں میزوں سے سجے ریسٹورنٹ جن کی دیواریں دوم کے پھل کی لمبی لٹکتی زنجیروں سے مزین تھیں اس دوم کی شکل ہمارے ہاں کے دیسی خشک انار جیسی تھی۔ اور یہ مقامی درخت کا پھل تھا۔ چبوترے پر بیٹھے سانولے سلونے سازندے ساز بجاتے تھے۔ شام کے جھٹ پٹے میں اجنبی سرزمین کے اس تاریخی قصبے کی پُر فضا اور تفریحی جگہ پر خاموشی سے بیٹھ کر سازوں سے نکلتی نامانوس سی دھنوں کو سننا حد درجہ لطف اندوز تھا۔

مغرب کی ادائیگی جہاں کی وہ بھی کیا خوب جگہ تھی لوہے کے کھڑے اور بیٹھے راڈوں پر وسیع و عریض مستطیل کمرے جن کی چھتیں رنگین ڈیزائن دار اُونی دریوں سے بنی ہوئیں۔ دیواریں اور فرش سُرخ قالینوں سے سجے ہوئے۔ اطراف میں ڈیڑھ فٹ چوڑے لمبے میٹرس جن کے آگے رکھی چھوٹی تپائیاں جن پر دھرے لمبے پائپوں والے حقے اُن سیاحوں کے منتظر تھے جن کے پُرے اوپر ٹمپل دیکھتے تھے۔ رنگوں کی مار دھاڑ ہوئی پڑی تھی یہاں۔ دعا مانگی اور باہر آئی۔ ٹمپل دیکھنے کے لیے دو تین پوڈے ہی ابھی چڑھی تھی کہ بازار نے آواز دے ڈالی۔

چلو ذرا دل خوش کر آؤں خریدنی تو مجھے دھیلے کی شے نہیں تھی۔

جونہی اس کی حدود میں داخل ہوئی انڈیا انڈیا کا شور ہوا۔ ایک تو کمبخت اس انڈیا نے مار ڈالا۔ جدھر دیکھو اسی نام کی آوازیں تعاقب کرتی پھرتی ہیں۔

جب میں ایک بُک شاپ پر کتابیں دیکھتی تھی اُدھیڑ عمر کے آبنوسی رنگت والے دوکاندارجسے چند لمحے قبل میں نے آوازیں لگاتے دیکھا تھا نے میرے شانوں پر پھیلی خوبصورت کشمیری کڑھت والی اس پشمینے کی چادر کو ہاتھوں سے چھوتے ہوئے بیچنے کی بات کی۔ اس درجہ عجیب اور انوکھی سی بات پر بھونچکی سی ہو کر میں نے اس کی صورت دیکھی۔ وہ جھلّا تے ہوئے پھر بولا۔ یہ کتابیں لے لو اُس نے مصر پر لکھی گئی دو کتابیں میرے ہاتھوں میں تھمائیں اور یہ مجھے دے دو۔

’’ارے پاگل ہو گئے ہو۔ تمہیں کیوں دوں۔ ننگی ہونا ہے مجھے کیا۔ ‘‘

میں ہنس دی۔

ساتھ والی دوکان سے وہ فوراً ایک چادر لے آیا۔ اب تبادلے پر پھر اصرار ہوا۔ میرے انکار پر قیمت پوچھی گئی۔ بہر حال کوئی آدھ گھنٹہ اسی چکر بازی میں گزرا۔ بمشکل جان چھڑائی۔

ٹمپل دیکھنے کے لیے اوپر چڑھی۔ رات تو تاریک تھی پر روشنیوں کی یلغار نے اس کا تخم تک مارا ہوا تھا۔

کوممبو اسوان اور ایدفو کے درمیان واقع ہے۔ یہ پاسیبق کا قدیم ترین شہر پاسیبق دیوتا کا گھر جو دراصل کروکوڈائل Crocodile دیوتا تھا۔ جس کی فراعنہ مصر کے دور سے قبل پرستش کی جاتی تھی۔ دراصل یہ دو ٹمپلوں پر مشتمل ایک ٹمپل ہے۔ دائیں ہاتھ والا سیبق دیوتا جو دراصل دنیا کی تخلیق کا دیوتا خیال کیا جاتا تھا۔ جبکہ بائیں ہاتھ والا جنگ کا دیوتا عظیم ہورس سے معنون ہے۔ دونوں ٹمپل اس چار دیواری کے اندر واقع ہیں جس کے دروازے دریائے نیل کے پانیوں میں اُترتے ہیں دونوں ٹمپلوں اور ان کے ہیپو سٹائل ہال جن میں دیو ہیکل کالموں کی قطاریں اُن پر کھدی انسانی تصویریں اور ان کے ایکشن سب کہانیاں سناتے تھے۔

میں نے مزے سے یہ سب دیکھا اور سُنا۔ مجھے ذرا جلدی نہیں تھی۔ لوگ چلے گئے تھے ایک میں تھی اور دو میرے جیسے اور جنونی تھے۔ بہت دیر بعد جب اُتری تو مجھے کروز کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کس نمبر پر کھڑا ہے۔ میلوں کے رقبوں پر پھیلی جیٹی کے ساتھ جیسے آگے پیچھے کھڑے کروزوں کا ایک طوفان آیا ہوا تھا۔ ایک جیسے چہرے مہرے ایک جیسے سائز۔

پولیس سیاح مقامی لوگوں کا اژدہام اور کروزوں کا عملہ ایک حشر کا عالم تھا۔ اوپر سے رات کی تاریکی۔ میں بھاگتی پھرتی تھی۔ پھر میں نے The grand Princess کا شور مچایا۔ کسِی نے رہبری کی ’’یہاں سے آیئے۔ ‘‘ سپیشل راستہ لگایا گیا۔ مزے سے میں نے ٹھپ ٹھپ کرتے ہوئے اسے طے کیا۔ پہلے ایک کروز میں داخل ہوئی وہاں سے دوسرے میں اور پھر گرینڈ پرنسس پر قدم دھرا۔

جونہی میں ریسپشن لاؤنج میں داخل ہوئی۔ مجھے احساس ہوا کہ کوممبو کے ساحل پر جو رنگ برنگا مینا بازار میں ابھی چھوڑ کر آئی ہوں وہ سارا کا سارا چھلانگیں مارتا ہوا یہاں آ گیا ہے۔ لال چقندر چہرے کیا عورتیں اور کیا مرد کیا بچے اور کیا بوڑھے سب نیلے پیلے فیروزی شوخ و شنگ کڑھائیوں والے مصری چوغے پہنے مٹکتے پھر رہے ہیں۔ عورتوں اور لڑکیوں نے سروں پر موتیوں سے سجی ٹوپیاں اوڑھی ہوئی ہیں۔ اب میں تو یہی شعر گنگنا سکتی تھی کہ:

یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا۔

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا۔

ابھی مغرب سے پہلے تو سب ٹھیک ٹھاک ہی تھا۔ وہ موٹا بڈھا اٹالین جو اپنے ساتھ کسِی جوان چھوکری کو لایا ہوا تھا۔ اسوقت مصری دُولہا بنا جیسے پیل پچھیاں ڈال رہا تھا۔

میں اوپر اپنے کمرے میں گئی۔ ثنا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اُودے رنگے لونگ سکرٹ پر میرون بلاوز اور میرون سنہرے موتیوں کی کڑھائی والی ٹوپی اوڑھے خود کا شیشے میں تنقیدی جائزہ لیتی تھی۔ مہرالنساء بھی نک سک سے آراستہ تیار بیٹھی تھی۔

میرے تجسّس سے بھرے استفسارپر ثنا بولی۔

’’لیجئے آنٹی آپ کو معلوم ہی نہیں آج Galapia نائٹ ہے۔ صُبح آپ نے آج کا پروگرام نہیں دیکھا۔ یہ سب اسی کا اہتمام ہے۔ ‘‘

کھانے کے بعد غُل غپاڑے سے بھرا ہوا پہلا شو تو کروز کے مسافروں کا تھا۔ جوڑوں کا ڈانس اور موسیقی کا شور دونوں نے کانوں کی اچھی تواضع کی۔ یوں مزہ بھی آیا۔ وسیع و عریض ڈسکو میں بے حد آرام دہ صوفے پر بیٹھ کر یہ سب دیکھنا بے حد دلچسپ لگا۔

پونے گیارہ ہو رہے تھے۔ اور میں بس اُٹھنے کی کیفیت میں ہی تھی کہ موسیقی کے ایک تیز گونج دار چھناکے نے بٹھا دیا۔ دراز قامت بے حد خوبصورت اور گداز جسم کی رقاصہ کسی لشکارے مارتی بجلی کی طرح نمودار ہوئی۔ اس کے مختصر سے لباس پر جو سجاوٹی3. چیزیں جلوے دکھا رہی تھیں انہوں نے ایک گیت کا مصرع یاد دلایا۔ پھول مسکرائے ستارے جگمگائے۔

ناف سے نیچے کم گھیرے کا لونگ سکرٹ جو آگے سے کھُلا ہونے کے باعث سڈول ٹانگوں کے جلوے دکھاتا تھا۔ اور اوپری حصّہ تو اﷲ ہی اﷲ۔ بندہ اب کیا حاشیہ آرائی کرے۔

سازوں کی تیزی اوپر سے کولہوں چھاتی اور پیٹ کی تیزی۔ بیچاری کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اِن حصّوں کو کیسے تن سے کاٹ کر ہوا میں اُچھال دے۔

پورا ہال زندگی کی حرارت سے لبا لب بھرا ہوا تھا۔ بڑے کیا اور چھوٹے کیا سبھی اُس کے رقص اُس کی اداؤں موسیقی اور اُس کے بے حد خوبصورت عریاں جسم کے طلسم میں گم تھے۔

اپنے خاندان کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہوئے ایسے کسی منظر کی سکرین پر آمد کے ساتھ ہی میں ریموٹ پکڑنے والے ہاتھ کو گھورتی اور منظر کی تبدیلی میں تھوڑی سی دیری پر میری تنبیہی نگاہیں گویا اُسے کہتیں۔ کچھ شرم کرو۔ چینل بدلو۔ پر اس وقت سرشاری اور مستی کی ایک ایسی کیفیت میرے اوپر طاری تھی جس نے مجھے ڈیڑھ بجنے کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ تو اُس شب مصر کی مشہور بیلے ڈانسر ثریا جمال کا دیدار ہوا۔

٭٭٭

 

۱۶۔سوان ایلیفنٹائن

               نوبین گاؤں اسوان ڈیم

اگر کروز کا ماحول اِس درجہ ہائی فائی قسم کا نہ ہوتا اور اس پر موجود لوگ ایٹی کیٹس کے بارے میں محتاط نہ ہوتے تو یقیناً میرا نا شتہ اور کھانا پینا سب اوپر عرشے پر ہی ہوتا اِن دنوں میں نیل کو میں نے آنکھوں کے راستے گھونٹ گھونٹ پیا تھا اور اس کے باوجود مجھے سیری نصیب نہ ہوتی تھی۔

اسوان کی آمد کا اعلان وہ سینکڑوں کشتیاں کر رہی تھیں جن کے اونچے لمبے مستولوں پر چوڑے لمبے سفیدی مائل پھڑپھڑاتے بادبان منظر کو حد درجہ سحر انگیز کرتے تھے۔ Feluccas (بادبانوں والی کشتیاں ) مصر کی قدیم تہذیبی روایت کی امین اور اسوان جیسے خو بصورت تاریخی شہر کی علامتی نشان ہیں۔ اسوان مصر کا جنوبی شہرجسے یونانیوں نے سنائے کا نا م د یا جو کہ مصری زبان میں تجارت کا مفہوم رکھتا ہے۔ نیل کے دائیں کناروں پر بلند و بالا خوبصورت تاریخی شہر کی عمارتوں کی صورت میں بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں وادی نیل اور مصر کے زیریں حصّے کا اختتام اور نو بیا کے علاقے کا آغاز ہوتا ہے۔

کروز دھیرے دھیرے کنارے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ثنا اوپر آئی یہ کہنے کے لئے کہ ’’ آنٹی اب نیچے آ جائیے۔۔۔۔۔ ‘‘

۔ ’’ارے بیٹے مجھے کونسا ہل جوتنے کی تیاری کرنا ہے۔ چھوٹا سا میرا شاپر جو میری ایک بغل کی مار۔ ‘‘

جب نیچے اُتری تو معلوم ہوا کہ انتظامیہ نے عملے کے لئے فی کس فی شب کے حساب سے پندرہ مصری پاؤنڈ کا بطور ٹپ مطالبہ کیا ہے۔

’’لو یہ تو مرے کو مارے سوُ درّ ے والی بات ہوئی۔ ایک تو ان کا اتنا مہنگا پیکج ارے ہم ہی احمق تھے ذرا تھوڑی سی اور کھوج کر لیتے تو قاہرہ سے لکسُر تک فرنچ ٹرین کی برتھوں پر ٹانگیں پسار کر لم لیٹ ہو کر مزے لوٹتے ہوئے آتے۔ مصر میں ریلوے بہت سستی ہے ساری جا نکاری ہو گئی تھی۔ ہمیں تو خاصا تھُک لگا تھا۔ انہیں تو عادت ہے گوروں کی۔ جن کے تھوڑے سے یورو ڈھیر سارے مصری پاؤنڈوں میں بدل کر اُن کی جیبوں کو وزنی کر دیتے ہیں جنہیں وہ فراخدلی سے ہلکا کرنے کے موڈ میں یہاں وہاں لٹاتے پھرتے ہیں۔

’۔ ’بھئی ہم تو ان کی ریس نہیں کر سکتے نا۔ ‘‘ کہتے ہوئے میں ریسپشن پر کھڑے دو خوبصورت نوجوانوں سے مخاطب ہوئی۔

’’سیدھی اور صاف سی بات۔ یہ پیسے تو ہم نے ہرگز نہیں دینے۔ ہم ایک ترقی پذیر مُلک کے لکھنے والے ہیں جو اپنے خرچ پر یہاں آئے ہیں۔ اتنے ا لّلے تلّلے کرنے کی تو ہم میں ہمت نہیں۔ ‘‘

اب وہ مجھ جیسی ڈھٹائی والی عورت کو جو یوں سینہ تان کر اُن کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی کیا کہتے۔

گائیڈ تو کسِی طرح بھی مصری نہیں لگتا تھا۔ موٹی موٹی چمک والی آنکھوں کے ساتھ سارا چہرہ نمک میں گھُلا ہوا تھا۔

نیلے پانیوں کو دیکھتے ہوئے مجھے بے اختیار ہیروڈوٹس یاد آیا تھا۔ مصر اور نیل دونوں کو اس کے الفاظ نے کتنا بڑا خراج پیش کیا ہے۔

’’مصر نیل کا تحفہ ہے۔ ‘‘

اس کے کناروں پر بسنے والے کیا مصری کیا نوبین کیا سوڈانی نیل ان کی حیات و موت کے سبھی معاملات میں دخیل ہے۔ اس کے پانیوں نے کئی تمدنی تہذیبیں جنم دیں۔

6500 میٹر لمبا یہ دریا جو افریقہ کی بڑی جھیلوں ٹنا وکٹوریہ اور البرٹ سے اپنے مختلف معاون دریاؤں نیل ابیض اور نیل ارضق کے ناموں سے سوڈان میں سانپ کی طرح بل کھاتا جھیل نصر میں غوطے مارتا وادی مصر کے بیچوں بیچ سے گزرتا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ کسی دوشیزہ کے کھلے کھردرے بھورے بالوں کے درمیان سے لمبی سی لشکارے مارتی مانگ کی طرح نیل بھی مصر کی ریگستانی سر زمین کو دو حصوں میں تقسیم کرتا چلا جاتا ہے۔

ہر سال ابی سینا کے پہاڑوں پر برسنے والی طوفانی بارشیں اور جھیلیں نیل کو پانیوں سے لبالب بھر دیتی ہیں۔ یہ پانی وسطی افریقہ اور حبش و سوڈان کی مٹی اور کھاد کی تہیں مصر میں لا کر بچھاتے ہیں۔ مصریوں کی بہترین تمدنی زندگی کا راز یہی نیل ہے۔ جنگلی جانوروں درختوں فصلوں کی ایک بھر مار۔ کشتی رانی ماہی گیری زراعت سب اِ س نیل سے وابستہ۔ نیل نہ ہوتا تو مصر بے آب و گیاہ صحرا ہوتا۔

اسوان میں نیل کا پاٹ قدرے کم چوڑا اور وہ بھی بے شمار جزیروں سے اٹا پڑا۔ ایلیفنٹائنElephantine امن Amun آئسسs Isiسلوگا Saluga۔ بوٹینیکل گارڈن Botanical Garden اور فلی۔ اِن جزیروں کا ظاہری چہرہ مہرہ دکھانا پیکج کا حصہ تھا آگے اُن سے شنا سائی حاصل کر نے کے لئے وقت اور پیسہ خرچ کرنے کا انحصار ہماری مرضی پر تھا۔

نیل کے کنارے پر پختہ اینٹوں کی جیٹی کے ساتھ ساتھ عام کشتیاں اور فلیوکس کھڑی تھیں۔ بہت سارے گورے گوریاں فلیکس میں لڑھکتے قہقہے لگاتے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے بیٹھ رہے تھے۔ فلیکوکس میں بجتی دلنواز قسم کی موسیقی رگ و پے میں اُتر رہی تھی۔ میں نے پاس کھڑے گائیڈ سے اس کے بارے میں پوچھا۔ مختصر سا اُس کا جواب تھا۔

نوبین موسیقی۔

’’کمال ہے۔ ‘‘ سریر تو جیسے موم کی طرح سے پگھلا جا رہا تھا۔

پھر تالیوں کی گونج میں اپنے بادبان پھڑپھڑاتی فلیکو کس روانہ ہوئی ہماری باری آئی۔ پر جیسے ماٹھے ہم ویسی ہی ہماری کشتی نہ موسیقی کی اڑتی تانیں نہ بادبان۔ چلو صبر شکر۔ بیٹھے۔ گائیڈ بولنا شروع ہو گیا تھا۔ میں اُس کی طرف توجہ دینے کی بجائے منظروں کی جانب متوجہ ہوئی۔ کیا دلربائی تھی اُن میں۔ نیل کے پانیوں کے دہانوں پر اُگے سر سبز و شاداب درختوں کی گہری سبز ہریالی نیچے پانیوں میں اُگی نباتات کی بہتات اور عقب میں زرد ئی ریتلی پہاڑیاں۔

کشتی ایلیفنٹا ئن جزیرے کی جیٹی پر جا کر رُک گئی نیل کے پانیوں میں بیٹھی سیڑھیاں بل کھاتی بہت اوپر جا کر خوبصورت پگوڈا نما میوزیم کی شاندار عمارت کے کمپاؤنڈ میں داخل ہوتی تھیں۔ خشکی کا اتنا بڑا قطعہ تاریخ سے بھرا پڑا ہے۔ آثار قدیمہ کے میوزیم کے ساتھ ہی سیت دیوی کا ٹمپل اُس سے تھوڑا آگے اس کے شوہر دیوتا کنم اور بیٹی انکت Anuket کے ٹمپل درمیان میں نوبین گاؤں اور آخری کنارے پر اوبرائے ہوٹل۔

ایلیفنٹائن کبھی بالائی مصر کا تجارتی مذہبی معاشی اور سیاسی سر گرمیوں کا اہم مرکز تھا۔ نیل کی منہ زور لہروں سے یہ محفوظ ترین جگہ جہاں آ کر وہ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوتا تھا۔ یہاں ہاتھیوں کی بہتات ہاتھی دانت کی کثرت شکار کی سہولیات سبھوں کی فراوانی تھی۔ میوزیم جزیرے کی جنوب مشرقی سمت پر واقع 1902ء میں بننے والی وہ عمارت ہے جو ایک زمانے میں سروِل کوکز wilcocks کی رہائش گاہ تھی جو اسوان کے پرانے ڈیم کا انجینئر تھا۔

ثناسے ٹکٹ کے لئے کہا۔ ’’ارے چھوڑیئے اِسے کیا دیکھنا۔ ‘‘ اُس نے منہ بنایا۔

میں جانے کِس ترنگ میں تھی زوردے بیٹھی۔ پر اندر جا کر مایوسی ہوئی۔ پیسوں کے ضائع ہونے کا بھی افسوس تھا۔ گائیڈ سے اظہار کیا تو بے نیازی سے بولا۔ ’’آپ سے تو کہا تھا اس کا تو سارا اہم ما ل و متاع اسوان نوبین میوزیم میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ‘‘

اللہ میں جانے کہاں تھی۔ چلو خیر چھوڑو۔

نوبین گاؤں دیکھنے کے لئے ہم تینوں ہی مری جا رہی تھیں۔ درختوں کے جھنڈوں میں گھرے دو منزلہ ایک منزلہ رنگوں سے سجے گھر جن کے اندر جانے وہاں بیٹھنے اور اُن کا کھانا کھانے کے پیسے تھے۔ دس ڈالر فی کس۔

’’چلو یہ کڑوا گھونٹ بھی بھرو۔ ‘‘

جسں گلی میں داخل ہوئے اُس کے ہر گھر پر رنگوں کی بارش تھی خاکی رنگ پیلا اُوپر سے اُودا جنگلہ سبز دروازوں پر ڈیزائن۔ کہیں پھول بنے ہوئے کہیں لکیروں کے چوکھٹے کہیں پھولوں کی بیلیں۔ گھروں کے باہر وہی اپنے ملک جیسا ماحول۔ پانی کے کین بالٹیاں اور پتیلے پڑے ہوئے۔

جس گھر میں گئے وہ محمود حنفی کا تھا۔ لاجواب حد تک صفائی کا معیار تھا۔ کمرہ بیل بوٹوں اور مختلف چیزوں کے نقش و نگار سے سجا ہوا۔ دیواروں پر رنگین چھابیاں ٹنگی ہوئی۔ کوڈیوں سے بنی ہوئی ٹوکریاں رنگین دھاگوں کی ٹوپیاں اوڑھے اور سفیدچوغے پہنے مرد عورتیں گہرے سیاہی مائل چہروں کے ساتھ مجسم اخلاق تھے۔ پر بولی کا مسئلہ تھا۔ یہ لوگ تین زبانیں بولتے ہیں۔

کنزی۔ فیجکی۔ عربی۔

چلو صد شکر کہ گائیڈ ساتھ تھا۔ میری شدید خواہش پر کہ ان کا کھانا کھایا جائے ثنا نے تو کومل سی ناک کے نتھنے کچھ ہلکی سی ناگواری کے ساتھ جو جوان لڑکیوں کا خاصہ ہوتی ہے پھُلائے اور آنکھوں کے خفیف سے تاثرسے نفی کا اشارہ بھی دیا۔ مہرالنساء تو ’’نہ بھئی الّم غلّم کھا کر کہیں بیمار ہی نہ پڑ جائیں ‘‘ انکاری ہو گئی۔ باقی بچی میں جو تو دل و جان سے اِس تجربے سے گزرنا چاہتی تھی۔ پر اب اتنے ڈھیرسارے ڈالر صرف اِس تجربے کی نذر کرنا بھی مجھ جیسی شوم کے لئے بہت مشکل تھا۔ ذرا فاصلے پر ایک اور نوبین گاؤں تھا۔ گائیڈ آرکیالو جیکل ایریاِ دِکھانے میں خاصا پر جوش تھا۔

یہ جزیرے کی جنوبی سمت پر تقریباً دو کلومیٹر پر محیط رقبہ ہے جس پر سیت کا ٹمپل جسے جرمن اور سوئس حکومتوں کے آرکیا لوجی ڈیپارٹمنٹ کے تعاون سے کھود کر دریافت کیا گیا تھا۔ اِس ٹمپل کا تعلق مصر کی عظیم الشان اور زبردست ملکہ ہت شی پشت کے دور سے ہے۔ گائیڈ کے حد درجہ اصرار پر بھی ہم نے اِن ٹمپلوں کو دیکھنے کی قطعی خواہش ظاہر نہیں کی۔

’’سارے کمبخت ایک جیسے کہاں تک بندہ ان بتوں کے ساتھ مغز اور آنکھیں پھوڑتا رہے۔ ‘‘

یہیں سے گائیڈ ہمیں نائیلو میٹر پر لے گیا۔ یہ دراصل پرانے وقتوں میں نیل کے پانیوں کی ب داعتدالیوں اور بے راہ رویوں کی نشان دہی کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ زراعت میں کامیابی کا انحصار ٹیکس لگانے کا تخمینہ اور سلطنت کی اقتصادی حالت سبھوں کا تعلق اِس سے تھا۔ ابتدائی سکیل یونانی اور عربی نمبروں میں اور جدید سکیل ماربل کے ٹکروں پر کندہ کیے گئے ہیں۔

یا اللہ یہ مصری کس قدر زرخیز دماغ اور متمدن تھے۔

میں پتھر پر بیٹھ گئی تھی۔ خدا کا شکر تھا کہ دھوپ کی تپش کو تیز ہواؤں کے بُلّھے کم کر رہے تھے۔ گائیڈ یک اور نائیلومیٹر کے با رے میں بتا رہا تھا۔ جو کنم ٹمپل کے ساتھ تھا۔ اور جب گائیڈ یہ کہتا تھا کہ کنم ٹمپل جزیرے کی سب سے اہم اور مقدس ترین جگہ ہے۔ میں بولے بنا نہ رہ سکی تھی۔

’’ارے یہاں تو ہر جگہ اور ہر ٹمپل ہی مقدس ترین ہے۔ اب کس کس پر اعتبار کیا جائے۔ ‘‘

گائیڈ تڑسے بولا۔

’’یہ میں تو نہیں کہہ رہا۔ یونانی جغرافیہ دان سڑابو کا بیان ہے جو پہلی صدی قبل مسیح میں مصر آیا تھا۔ ‘‘

’’ ہو گا بھئی ‘‘ میں نے بے نیازی سے کہا۔

دراصل اِس وقت سر میں درد تھا اور چائے کی ہڑک نے بیکل سا کر رکھا تھا۔ اوبرائے ہوٹل آلینڈ کے آخری سرے پر تھا اور میں گائیڈ کے اصرار کے باوجود پیدل وہاں تک جانے کے لئے تیارنہیں تھی۔

کشتی میں بوٹینیکل گارڈن جانے کے لئے بیٹھے۔ یہ چھوٹا سا خشکی کا ٹکڑا ایلیفنٹائن کے سامنے اور نیل کے باقی ماندہ حصے کے عین درمیان میں ہے۔ یہ بڑا دل آویز منظر تھا۔ تین ایبکس اُبھرے ہوئے پتھروں پر ایک ٹانگ پر کھڑے تھے۔ چند ایک فضاؤں میں تھے۔ نیل میں رواں کشتیوں سے آوازوں اور قہقہوں کی گونج تھی۔ دور روشنی کا بلند وبا لا مینا ر دھوپ میں بہت نمایاں تھا۔ اطراف میں پھیلا سبزہ سیاہی مائل دیو ہیکل پتھر عقب میں پہاڑ اوپر نیلا آسمان اور سبزی مائل نیلگوں پانی میں تیرتے ہمارے وجود سب کسی رومانوی ماحول کا حصہ نظر آتے تھے۔

لینڈنگ جیٹی کی طرف بڑھتے ہوئے جو منظر نظر آتا تھا بخدا وہ فردوس بریں جیسا تھا۔ جزیرے پر قدم رکھا تو عطر بیز ہواؤں نے استقبال کیا۔ کہاں کا سر درد سب جیسے اُڑنچھو ہو گیا۔

تقریبا ً 7000سکوئر میٹر پر پھیلا ہوا یہ باغ جو 1916تک برٹش جرنیل لارڈکچنرKITCHENER کی ملکیت تھا۔ جس نے 1928 میں اسے بوٹینیکل گارڈن میں تبدیل کر دیا اور دنیا جہاں کے ہر درخت اور پھول سے اسے سجا دیا۔

’’اللہ یہ کمبخت گورے بھی کیا شے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں چلے جاؤ وہاں یا یہ خود موجود یا ان کے نشان قائم۔ اب اگر یہ سمٹے ہیں تو ان کے بھائی بندو امریکی پسرے بیٹھے ہیں۔ ‘‘

جب نظر بازی میں احتیاط کا عنصر نہ ہو تو پھر مجھ جیسے دل پھینک قسم کے عاشقوں کو جان کے لالے پڑتے ہیں۔ سامنے سیاہ خوفناک سی چٹان پر ڈھیروں دودھیا آبیکس کوئی کھلی آنکھوں اور کوئی بند کے ساتھ یوں بکھرے پڑے تھے جیسے موسم گرما کی کوئی سست سی سہ پہر گزارنے آئے ہوں۔ اب ایسے منظر سے آنکھیں تو کو ئی کور ذوق ہی چرا سکتا ہے۔ اب نظارہ سامنے ہو اور دیدے ہوائی ہوں تو پھر گرنا تو لازمی بنتا ہے۔ شکر ہے لڑکھڑا کر کشتی بان کی بانہوں میں ہی آئی کہیں نیل کے پانیوں میں چلی جاتی تو اور سیاپا پڑ جانا تھا۔

واقعی بوٹینیکل گارڈن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی خوبصورت کشادہ روشیں پھل دار درخت سدا بہار جھاڑیاں خوبصورت پودے جن پر کھلے پھول دل و دماغ کو معطر کرتے تھے۔ ہم پھرتے ہوئے دوسرے کنارے پر چلے گئے جس کے عین سامنے درختوں میں گھرا ایک اور نوبین گاؤں جس کے مٹی رنگے لپے پُتے گھر درخت کے جھنڈوں کے ہجوم سے چہرہ دکھاتے تھے۔ اس سمت پختہ سیڑھیاں نیل میں اُترتی تھیں اور اُوپر مصر کا قومی جھنڈا لہراتا تھا۔

دور زردئی پہاڑیوں کی چوٹی پر زردئی رنگا سر آغا خان کا مقبرہ اپنے گنبد کے ساتھ اسی طرح چمکتا تھا جیسے کسی کپڑے میں سیلف پرنٹ کی کوئی بوٹی۔ اسماعیلی قبیلے کے رہنما اور ہندو پاک کے ممتاز لیڈر مصر سے خصوصی محبت رکھتے تھے اُن کا ہر موسم سرما اسوان میں پہاڑی کے دامن میں بنے اُن کے گھر میں گزرتا۔ وہ اور اُن کی اہلیہ اُمِ حبیبہ یہیں دفن ہیں۔

سچی بات ہے میں تو گھر اور مقبرہ دونوں دیکھنے اور فاتحہ بھی پڑھنے کی خواہشمند تھی پر جب چلبلی اور شوخ و شنگ قسم کی نو جوان لڑکی ساتھ ہو جسے حال کی شخصیتوں سے زیادہ فرعونوں میں دلچسپی ہو تو پھر کشتی کا مغربی سمت رخ موڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔

چلو صبر شکر کشتی آگے بڑھ رہی تھی اور نیل عجیب سی صورت گری کے ساتھ سامنے آ رہا تھا۔ کٹا پھٹا چھوٹے چھوٹے نالوں میں بہتا۔ یہاں مجھے تو وہ کسی امیر کی ایکڑوں میں پھیلی پر شکوہ حویلی کی مانند نظر آیا تھا جو اس کی نا فرمان اولادوں میں بٹ کر ٹکروں میں تقسیم ہو کر ساری رعنائی و زیبائی سے محروم سی ہو گئی ہو۔

نیل نے پھر رخ بدلا۔ سامنے شاہ فاروق کا شاندار گہرے سرخ رنگ کا محل تھا جواب اولڈ کیٹیریکٹ CATARACT ہوٹل کے نا م سے مشہور ہے۔

کیا شاندار عمار ت تھی۔ بیرونی دیوار بڑے بڑے پتھروں سے بنائی گئی تھی۔ سیڑھیاں عین نیل میں اُترتی تھیں۔ تعمیر میں قدیم طرز کا ٹچ جو انفرادیت کے ساتھ ساتھ مانو سیت کا احساس دیتا تھا۔

کشتی بہتی چلی جاتی تھی۔ اور ہوٹلوں کے سلسلے رکنے میں نہ آتے تھے ایک سے بڑھ کر ایک۔ مشرقی سمت ڈاؤن ٹاؤن کی عمارتیں نکل آئی تھیں۔ دھوپ بہت میٹھی اور نگھّی تھی اور ہواؤں میں خنکی۔

ساڑھے چار گھنٹے کی اس سیاحت کے بعد ہم کورنش نائل سٹریٹ پر قدم رنجہ فرما ہوئے۔ پیٹ بلبلاتا تھا۔ وہ کروز والی عیاشیاں سب خواب ہوئیں خیال ہوئیں۔ کسی تھرڈ کلاس ہوٹل کی تلاش ہوئی جس میں ناکامی کے بعد بسکٹ اور کولڈرنک سے اندر مچلتی ہاہاکار کو تھوڑا سا چپ کروایا۔ پیکج والے اب ہمیں اسوان ہائی ڈیم اس کے بعد نوبین میوزیم اور فلی آئی لینڈ دکھا کر پانچ بجے کی گاڑی سے قاہرہ دفع کرنے کے شدید متمنی نظر آتے تھے۔ اسی لیے جلدی جلدی کا شور مچا رکھا تھا۔

لو مجھے تو تپ چڑھی۔ ’’ہم انسان ہیں یا گدھے۔ دو گھنٹوں میں سب کچھ لاد لو اپنے اوپر۔ چلو ہٹاؤ ٹکٹ لو ان سے۔ رات اسوان میں ٹھہریں گے اور کل شام کو قاہرہ کے لئے واپسی ہو گی۔ ‘‘

دونوں لڑکے بڑا جزبز ہوئے۔

میں نے پھر کہا۔

’’یہ تمہارے کلسنے کی تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ نقصان ہو گا تو بھئی ہمارا نا۔ چلو ہمیں ٹکٹ بدلوا دو۔ ‘‘

اسوان ڈیم کے لئے ہم قطعی تیار نہ تھے۔ اپنے ملک میں منگلا اور تر بیلا کا قریبی مشاہدہ اور مطالعہ کر چکے ہیں۔ پر جونہی گاڑی میں سوار ہوئے اُس نے بگٹٹ ڈیم کی طرف دوڑ لگا دی۔

سہ پہر کی دھوپ میں تار کول کی سیاہ سڑک کے اردگرد کا بکھرا ہوا علاقہ کسی اُجڑی پُجڑی بیوہ کی مانند دکھتا تھا۔

گائیڈزوروشور سے ہائی ڈیم پرقصیدے پڑھ رہا تھا۔ کہ بیسویں صدی کا ہائیڈروالیکڑک انجینئر نگ کا بہت بڑا شاہکار جس نے مصر کے زراعتی اور اقتصادی چہرے کو نکھار دیا ہے۔ پرانا ڈیم 1902ء میں انگریزوں نے بنایا تھا۔ اس سے مصر کے زراعتی رقبے میں توسیع تو ہوئی پر صر ف دس فیصد 10%لیکن بہت سارے نوبین گاؤں اور مصر کا ’’موتی فلی‘ ‘ جزیرہ پانیوں کے زیر آ گیا۔ 1960ء میں روس کی مدد سے یہ عظیم الشان ڈیم بنا۔

چیک پوسٹ پر گاڑ ی رُک گئی۔ گائیڈ نے تفصیل چھوڑ کر گاڑی چیک کروائی اور 25 مصری پاؤنڈ فی کس کے حساب سے ٹکٹ کے لئے پیسے اکٹھے کیے۔

رشیئن RUSSIAN مصری میموریل پر رکے۔ خوبصورت یاد گار تھی۔ آگے ہائیڈروالیکڑک سٹیشن تھا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے اتنا بڑا کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ خوفو کے اہرام سے سترہ بار جسامت میں زیادہ ہے۔ سپلائی پوائنٹ اور بیراج پر نظر ڈالنے کے بعد انڈسڑیل زون ایریا کو  دیکھا اور واپسی کی۔

یقیناً یہ انجینئرنگ کا شاہکار تھا۔ مصر کی اقتصادی ترقی کے لئے ایک تحفہ اپنے بہت سارے مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ۔ کا ش کہیں میرے ملک میں بھی کالا باغ ڈیم بن جاتا۔ اب ڈھیروں مثبت اور منفی پوائنٹس نے تو ہمیشہ ہرمسئلے کے ساتھ جڑے ہونا ہوتا ہے۔ پر بڑے لوگ اپنی ذاتی اعتراض کی گھمن گھیریوں سے ہی نہیں نکل پاتے۔ قومی مفاد جائے بھاڑ میں۔

گائیڈ اور ڈرائیور دونوں ہی ہمیں کسی کھوہ کھڈے میں پھینک کر بھاگ جانا چاہتے تھے۔ پر پروگرام کا آخری آئٹم فلی آئی لینڈ ابھی باقی تھا۔ اور وہ اُسے ہمیں دکھانے کے پابند تھے۔

’’ارے چلو کسی ڈھنگ کے ہوٹل میں ہمیں اُتار دو اور جاؤ۔ فلی کو ہم آرام سے دیکھیں گے۔ میں نے بیچاروں کی مشکل آسان کر دی۔

خدا کا شکر کہ اگر ہم نے اپنے جیسے لسوڑوں سے ان کی گلو خلاصی کروائی تو وہ بھی ہمیں کلاباش ہوٹل لے گئے جہاں سے نوبین میوزیم فاطمیہ ٹومبز اور نہ ختم ہونے والی مخروطی شکل بہت قریب تھیں۔

٭٭٭

 

۱۷۔مصر کا موتی فلی

               نوبین نوبین میوزیم

ہوٹل وا لے اگرلیچڑسے تھے تو ہم کونسا کم تھے۔ سیر کو سوا سیر ٹکرے تھے۔ گلے کی پوری توانائیاں صرف کر کے کمرہ سو مصری پاؤنڈ پر حاصل کر ہی لیا۔ سو ٹانگیں سیدھی کیں۔ سستائے منہ ہاتھ دھویا مہرالنسا ء کے لاہور سے لائے گئے نمکو اور بسکٹوں سے پیٹ کو تھوڑاسا بہلایا اور فلی کے لئے چلے۔

جب چلے تو منظر وہی صحرائی ہی تھا۔ پر دوپہر کی نسبت شام میں زیادہ دلفریب اور دیدہ زیب تھا۔ دور دور تک بکھرے ہوئے زردئی سناٹے میں نیلا آسمان اور اس پر چمکتا سورج اور تارکول کی سیاہ سڑک کسی پُراسرار داستان کا حصہ لگتے تھے۔

فلی جزیرہ دریائے نیل کی پہلی آبشار سے پہلے اور اسوان سٹی کے جنوب میں تقریباً 8 کلومیٹر کے فاصلے پر پرانے اور نئے ڈیم کے درمیان پھیلی ہوئی ایک ایسی جادو نگری ہے مصر کی چند ایسی جگہوں کی طرح جہاں ماضی ابھی بھی حال کا ہی حصہ لگتا ہے۔

میں ثنا اور مہرالنساء پہاڑوں سے گھری ایک چھوٹی سی کشادہ جگہ سے نیچے اپنے سامنے بکھرے نیل کے کٹاؤ دار حصوں میں سے ایک پر واقع اِس جادو نگری کو حیرت ودلچسپی سے دیکھتی تھیں۔ یہاں جنگل میں منگل کا سماں تھا۔ کتابوں اور مقامی مصنوعات اورسونیئر ز سے بھری دوکانیں اور بڑے سے کمپاؤنڈ کے ایک کونے میں بیٹھا رمضان محبوب جس کی طنبور کی تانیں ماحول کو اس قدر دلکش بنا رہی تھیں کہ سچی بات ہے قربان ہونے پر طبیعت چاہتی تھی۔

ٹمپل کے لئے چالیس پاؤنڈ کا ٹکٹ پچاس پاؤنڈ فی کس کشتی کا کرایہ۔ پر عجیب سی بات تھی کہ پہلی بار مجھے یہ نو ّے 90 پاؤنڈ ذرا نہیں کھلے شاید مجھ سے کوئی پندرہ گز پر رعنائی سے لبالب بھرا منظر میری بصارتوں میں منجمند سا ہو رہا تھا۔

کشتی بان اور دوکانداروں کی اکثریت نوبین ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں ؟۔ نوبہ یا نوبیا کو اہل مصر کوش کہتے تھے۔ یہ علاقہ اسوان سے لیکر سوڈان میں خرطوم تک چلا گیا ہے۔ یہ دراصل جنوبی مصر اور شمالی سوڈان کا حصّہ ہیں اور مصری نوبہ اور سوڈانی نوبہ کہلاتے ہیں۔ فراعنہ شاہی مقبروں کے لئے تعمیراتی سامان اور غلاموں کے حصول کی خاطر صدیوں تک ان پر حملے کرتے رہے۔ یہ علا قے سونے عمدہ پتھر صحت مند مویشیوں اور اعلی درجے کے سپاہیوں کے لئے بہت مشہور تھا۔

میرے ارد گرد بکھرے کم و بیش سارے ہی چہروں پر گہرے آبنوسی رنگ کی پر دھانی تھی۔ اِس چھوٹی سی مارکیٹ کے کشاد ہ سے آنگن کی مغربی جانب میں بہت سارے نوبین مردوں کے ساتھ بیٹھی گپ شپ کرتی تھی۔ دائیں طرف فلی ٹمپل کی صورت اُس خوبصورت شعر کی غمّا ز تھی کہ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔

نوبین شکوہ کناں تھے۔ گورے مصریوں اور حکومتی ارکان سے ڈھیروں شکوے شکایتیں رکھتے تھے۔ حکومت ان کی ترقی کی جانب سنجیدہ نہیں۔ کشتی کے کرایوں پرٹیکس کی وصولی پر انہیں شدید اعتراض تھا۔

جب میں نوٹس لیتی تھی وہ خوش ہو رہے تھے کہ یہ تو عربی جیسی لکھائی ہے۔ نوبین محبت کرنے والے مخلص سچے مسلمان لوگ ہیں۔

عصر کی نماز میں نے اوپر مسجد میں جا کر ادا کی۔ مسجد سے ملحقہ کشادہ سا کمرہ جس کی دیوار کے بڑے سے شگاف سے فلی اور نیل کا منظر اپنی پوری رعنائیوں سے دید کے لئے آوازیں دیتا تھا۔ ثنا نیچے کشتی کے پاس نظر آئی تھی۔ یقیناً ہماری ٹرن قریب تھی۔ میں نیچے چلی گئی۔

کشتی جیٹی کے قریب آئی تو اس کی مضبوطی اور خوبصورتی دونوں لاجواب تھیں۔ جیٹی سے ہی سیڑھیاں اوپر اُٹھتی چلی گئی تھیں۔ ثنا کے قدموں کی تیزی نے ہمیں بھی ایڑ لگائی۔ کشتیوں کے لئے بہت سارے راستے تھے جن کے ساتھ ساتھ بنی سیڑھیاں اور لمبے راستے ٹمپل تک لے جاتے تھے۔

ایک لمبا سانس کھینچ کر میں نے خود کوسیدھا کرتے ہوئے اپنے سامنے بکھرے ٹمپل کو جسے ’’مصر کا موتی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور جسے پرانے اسوان ڈیم کے پانیوں نے حد درجہ نقصان پہنچایا تھا۔ اور جسے یونیسکو UNESCO نے مصری اور اطالوی ماہروں کے ذریعے بیس 20 ملین ڈالر کے خرچ سے فلی جزیرے سے اٹھا کر Agilkia پر منتقل کر کے محفوظ کر دیا ہے کو بغور دیکھا۔

یہ مصریوں کی محبوب دیوی آئسس ISIS کا ٹمپل ہے۔ وہ آئسس دیوی جو حیات کے تمام موسموں ان کی رنگینیوں ان کے ثمرات کی عطا و بخشش پر قادر اور موت کی تلخیوں پر قابو پانے کی قدرت رکھتی تھی۔ حُسن و جمال کی پیکر محبت کی پیامبر امن و آتشی کی مظہر سچی بات ہے کہ آئسس کے پُر جمال سراپے اُ ف اُس کے سُرخ آگ کی مانند لو دیتے اس کی پنڈلیوں کو چھُوتے گھنیرے بال۔ ماہتاب کی طرح چمکتا اُس کا چہرہ اُس کی دلکش گردن اس کا نازک اور سڈول سراپا جس پرسفید لینن کا پہناوا۔ اُس کا ممتا سے بھرا دل دُکھوں اور مصائب کے طوفانوں میں اُس کا محبت بھرا لمس۔ شوہر سے اس کی بے پایاں محبت اوزیرس اس کا شوہر جو مصریوں کا خدائی صفات کا معبود جب اپنے بھائی کے ظلم کا نشانہ بنا آئسس کا ایسے کڑے وقت میں شوہر کے لئے بلیا پاپ کرنا جنگلوں ویرانوں کی خاک چھاننا اُس کی مشرقی اقدارسے محبت کا جیتا جاگتا ثبوت تھے۔

اس کی ایسی لامحدود صفات پڑھ پڑھ کر تو مجھے بھی اُس کا عاشق تو ہونا ہی تھا۔ سو میں بُری طرح آئسس پر فریفتہ ہو چکی تھی۔ صر ف مصری ہی نہیں آئسس ISISکے عشق میں یونانی اور رومن بھی گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے تھے۔ یونانیوں اور رومیوں نے مصر پر اپنی حکومتوں کے دوران نہ صرف اِس فلی جزیرے پر شاندار عبادت گاہیں بنائیں بلکہ اپنے اپنے ملکوں میں بھی آئسس کے ٹمپل تعمیر کروائے۔

زائرین کے لئے فلی اور بگا  آنا ایک طرح حج کرنے کے مترادف تھا۔ رومن خواتین گروپوں کی صورت میں یہاں نذرانے چڑھانے اور پوجا پاٹ کے لئے آتیں اور واپسی پر مقدس پانی لیکر جاتیں۔ روم میں دریائے TIBERکے کنارے آئسس کے کئی مندر تھے۔ پومپیائی POMPEII کے کھنڈرات میں بھی آئسس کا ایک مندر برآمد ہوا ہے۔

فلی کو دیکھنے کے لئے شاید میں اِسی لیے مری جا رہی تھی۔

کچے راستے پر چلتے ہوئے ہم مغربی جانب بے شمار ستونوں پر مشتمل اُس مستطیل عمارت کی طرف جس کی پشت پر نیل تھابڑ ہے۔ صدیاں گزر جانے پر یہ ستون آج بھی اپنی استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اِن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں گنتے ہوئے ہم اُس مینا ر دار عمارت کی طرف بڑھتے گئے جو آئسس دیوی کا ٹمپل ہونے کے ناطے فلی کی سب سے اہم جگہ ہے۔

اس کی بلند دیواروں پر جو کندہ کاری نظر آئی اس میں Dionysos اپنے دشمنوں کو اپنی مقدس دیوی آئسس اور اس کے بیٹے ہورس کے سامنے مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ بالائی حصے میں بادشاہ پٹولومی ہورس اور آئسس کے سامنے کھڑا ہے۔

اس عظیم مینار دار عمارت کو بادشاہ نکتنبس دوم NECTANEBUS II نے بنایا تھا۔

خدایا زمانے گزر گئے پر یہ کندہ کاری ماند نہیں پڑی۔

دوسرے صحن میں جانے سے قبل دروازے میں اور دروازے کے باہر ٹوٹے چہروں کے ساتھ جو پرندے بیٹھے تھے وہ عقاب لگے تھے کم از کم مجھے ان کی پہچان میں دقت پیش آئی تھی۔ بیٹھنے کا انداز کچھ ایسا ہی تھا جیسا کسی خزانے پر ناگ بادشاہ پہرہ دیتا ہو۔

یہاں مصر کے پہلے رسم الحظ ہیرو گلیفی کا نمونہ دیکھنے کو ملا۔ آئسس کی پہلی اور دوسری مینار دار عمارت اور کالموں پر مشتمل میممسی MAMMISI یعنی برتھ ہاؤس میں بڑے منفرد سے منظر تھے۔ کہیں عظیم خدائی ماں آئسس اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ شاہ پٹولومی دومPTOLEMY II ہورس کے سامنے اور کہیں بادشاہ آئسس کے سامنے نذرانے پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ مغربی جانب دیوار پر کندہ تصویر میں پر وہت آئسس کی مقدس کشتی کو اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہیپو سٹائل ہال میں بھی بڑے طلسم زدہ سے سین تھے۔ ہا ل کی دیواریں پٹولومی ہفتم کی تصویروں سے سجی تھیں جہاں وہ مختلف دیوتاؤں کے حضور اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتا تھا۔

گزر گا ہ چھت کے بغیر مگر اندر کی چھت دیوی نکبت NEKHBETکی تصویروں سے بھری ہوئی۔ کہیں پروں کو پھیلائے کہیں زیریں مصر کا رائج سرخ تاج پہنے حیرت زدہ کرتی تھی۔

پھر ٹیرس سے گزر کر میں عبادت گاہ یا اُس (گرجا گھر) میں داخل ہوئی جو اوزیرس کا کمرہ تھا ساور جہاں OSIRIAN MYSTERIES کی رسومات ادا ہوتی تھیں۔ OSIRIAN MYSTERIES کیا تھیں ؟۔ دراصل یہ آئسس دیوی کے شوہر اوزیرس کے متعلق مذہبی رسوم تھیں ان رسوم کو بند کمرے میں خاص تربیت یافتہ مذہبی رہنما ادا کرتے تھے۔ ان کے لیے جسم و ذہن کی پاکیزگی بے حد ضروری اور غور و فکر مطالعہ اور مراقبہ کرنا لازمی ہوتا۔ اِن رسوم کی ادائیگی میں راز داری برتی جاتی تھی۔

مصری اِس عقیدے کے قائل تھے کہ اِن رسوم کی ادائیگی سے وہ مرنے کے بعد دائمی زندگی اور ابدی مسرت حاصل کر لیں گے۔

میں جب اِس کمرے میں کھڑی چاروں جانب دیکھتی تھی مجھے ایک ایسی تصویر نظر آئی تھی جس میں اوزیرس کے مردہ جسم سے اناج کی بالیاں اُگ رہی تھیں۔ ایک پروہت اِن بالیوں پر پانی چھڑک رہا تھا۔ ساتھ میں کچھ لکھا ہوا بھی تھا۔

میں نے اِدھر اُدھر گائیڈ کو دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ جانے کہاں تھا۔ میں چاہتی تھی اس کا مفہوم سمجھوں۔ پر کیا ہو سکتا تھا۔ آگے بڑھنا پڑا۔

تعمیر میں آڑھی ترچھی ڈیزائن دار برساتی نما دالان کو پار کرنے کے بعد جس عبادت گاہ میں داخلہ ہوا۔ اُس نے آنکھ کے ایک ایک حصے میں حیرت بھر کر اُسے پھاڑنے کی حد تک کشادہ کر دیا تھا۔ فلی کی مقدس ترین جگہ انتہائی سحر زدہ سا ماحول۔ اس کی مشرقی اور مغربی دیواریں اُن نو تصویروں سے سجی ہوئی تھیں جہاں فرعون آئسس اور دوسرے دیوتاؤں کے سامنے اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ شمالی دیوار بھی اسی طرح بھری پڑی تھی۔ قدیم مصر میں زندگی کا علامتی نشان ہر سیسی بادشاہ کو پیش کرتا ہے۔ پھر روحوں کا ایک جلوس نیل جو پانی کی علا مت ہے کی نمائندگی کرتے ہوئے ہاتھوں میں گلدان جن میں کنول کے پھولوں کے گچھے تھے اِس منظر کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ کہ کمرے کا طلسمی ماحول بندے کو اُٹھا کر کہیں اُس دور میں لے جاتا ہے۔

شام نے اپنے پروں کو کائنات پر تیزی سے پھیلانا شروع کر دیا تھا۔ نیل پر پرندوں کی اُڑان جاری تھی۔ اور ہم تیزی سے ٹراجن کو شک کی طرف بڑھ رہے تھے۔ نیل کے کنارے انتہائی شان و شوکت سے کھڑا رومن شہنشاہ ٹراجن کا آئسس اور ہورس کے لئے بنایا ہوا یہ شاندار کو شک جزیرے کا علا متی نشان ہے جسے فرعون کی خوابگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ چھت کے بغیر اس کے چودہ کالم دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِن کالموں کے بالائی حصوں میں کی گئی ڈیزائن داری بھی کمال کا حسن رکھتی تھی۔

فلی کے دامن پر چھوٹے چھوٹے بے شمار ٹمپل مختلف دیوی دیوتاؤں کے ناموں پر بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے تو اِن میں سے بہت سوں کو بس پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا۔

یقینا ًثنا نے کسی سے بگا کے بارے میں سنا ہو گا۔ خاصی دور تھی مجھ سے۔ وہیں سے چلا کر بولی۔

’’آنٹی بگا چلنا ہے۔ ‘‘

میں اسوقت ایک پتھر پر بیٹھ چکی تھی۔ دائیں ہا تھ کو اوپر کرتے ہوئے انگلیاں منفی انداز میں نچا کر بولی۔

’’ارے گولی مارو بگا وگا کو۔ بس بہت ہولیا۔ جتنی جانکاری ہو گئی ہے اتنی ہضم ہو جائے تو سمجھو غنیمت ہے میں تو بس یہاں بیٹھ کر فضا اور اس پر چھائے حسن کو دیکھوں گی۔ ‘‘

یہاں کہیں قریب ہی گرینائٹ کے ایک چھوٹے سے جزیرے’’ بگا‘‘ میں آئسس کے شوہر اوزیرس کی قبر ہے۔

مصر پر یونانی قبضہ ہونے پر اوزیرس کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ اس کی قبر بگا میں دریائے نیل کے کنارے پر ہے۔ اُس کے مقبرے کے گرد تین سوپینسٹھ میزیں بنائی گئی تھیں۔ جن پر دودھ رکھا جاتا تھا مخفی رسموں کی ادائیگی کے دوران عام آدمیوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ اِن دنوں بگا پر گانا بجانا پرندوں کو پکڑنا شکار کرنا منع ہوتا تھا۔

فلی پر مصری یونانی اور رومن رنگ نمایاں ہے۔ دس تو اس جزیرے کے نام ہیں۔ فلی اگر یونانی نام ہے تو رومی پی لک ہے۔ دراصل فلی جزیرے سے نوبیا اور مصر کی سر حد شروع ہوتی تھی۔

یقیناً نیلے شفا ف آسمان کو دیکھتے ہوئے میں نے خداسے اسلام جیسا مذہب عنایت کرنے پر ’’شکر یہ‘‘ کہا تھا۔ ایک اکیلا واحد زبردست طاقتورسب اختیارات کا مالک۔

اب جو چاہیے اِسی سے مانگو۔ بندہ تو اتنے خداؤں میں ویسے ہی پاگل ہو جائے۔ کتے بلیوں مگرمچھوں مینڈھوں کے چہرے رکھنے والے ان کے دیوتاؤں سے گھن ہی آتی ہے نا۔ ہمارے رب نے بھی اپنی انتظامی سہولت کے لئے فرشتوں کو ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ پڑا سوپنے۔ ہمیں کیا۔ ہم پرتو کوئی بار نہیں۔ ہماری تو کوئی دردسری نہیں

اللہ اکبر۔ مغرب کی نماز کے لئے صدا بلند ہوئی۔ صد شکر کہ میرا معبود ایک ہی ہے۔ میں اٹھی اور عبودیت کے گہرے احساس کے زیر اثر زمین پر جھک گئی۔ اللہ اکبر۔ میرا مُو مُو پکا ر رہا تھا۔

رات کو یہاں لائٹ اینڈساؤنڈ شو ہوتا ہے۔ فلی کا جزیرہ روشنیوں میں پُراسرار لگتا ہے۔ تماثیلی انداز میں آئسس کی زندگی کے مختلف حصے پیش کیے جاتے ہیں۔ روشنیوں کا مختلف زاویوں سے عمارات پر انعکاس اور گونج دار آوازوں کا پھیلاؤ ماحول کو پراسرار ہی نہیں کسی حد تک ڈراؤنا بھی بناتا ہے۔ ہم لوگ یہ شو دیکھنا چاہتے تھے پر وہ ناغے کا دن تھا۔

وہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ ہم جو وہاں موجود تھے۔ میں نے اپنے آپ سے کہتے ہوئے کشتی میں پاؤں رکھا۔ سادات سٹریٹ کے ایک ہوٹل سے کھانا خریدا۔ پیکنگ بڑی دھوکا دینے والی نکلی۔ جتنی اوپر سے سجی سنوری تھی اندرسے اتنی ہی کھوٹی تھی۔ زندگی میں ایسے بے سوادے کھانے کم ہی کھائے ہوں گے جتنا یہ تھا۔ نہ نمک نہ مرچ۔ نہ چاولوں کا کوئی مزہ نہ چکن کا۔ اب زہر ما ر کرنے کے سوا کوئی چارہ کار تو نہ تھا۔ سو کھایا۔ اور اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے اپنی ٹانگوں کو لعن طعن کیا کہ کیا تھا جو ذرا سی تکلیف کر لیتیں کو ئی اور اچھا سا ہوٹل کھوج کر لیتے تو کچھ ہرج تھا۔

بیچاری ٹانگیں جن کا پلیتھن ہو گیا تھا۔

مہرالنساء کا موڈ صبح بھی درست نہیں تھا۔ ناشتے پر بھی سُن وٹہ بنی بیٹھی تھی۔ اب مجھے بھی ڈر تھا کہ جونہی میں نے دن کا پروگرام مرتب کرتے ہوئے بسم اللہ نوبین میوزیم سے کی مہرالنساء کا میٹر گھوم جائے گا۔

دراصل رات نوبین کلچرل شو کے لئے اُس نے بہتیرے طرلے مارے۔ دیکھنا تو میں بھی چاہتی تھی پر ہمت ہی نہیں تھی اُٹھنے کی۔ چپکی پڑی رہی۔ گو ملال بھی تھا کہ اتنی خوبصورت چیز مِس کر رہے ہیں۔

ثنا کو میں نے اُسے منانے کا اشارہ کیا۔ ثنا نے پہلے نمکین پھُلیاں ڈالیں۔ پر جب خاطر خواہ اثر نہ ہوا تو دوپہر اور سہ پہر کو شاپنگ کروانے کی میٹھی پھُلیاں ڈالنی پڑیں تب کہیں موڈ ٹھیک ہوا۔ نوبین میوزیم دراصل وہ سیربین ہے جو لمحہ بہ لمحہ نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ آپ کے سامنے آتا ہے۔ پہلے تو اس کی ظاہری خوبصورتی ایک چھوٹی سی سرسبز پہاڑی پر اپنے وسیع و عریض درختوں پھولوں اور پودوں سے آراستہ لانوں سے توجہ کھینچتی ہے۔ پھر آگے ز ردئی اینٹوں کی ایک شاندار عمارت اپنے محرابی دروازے سے آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ ٹکٹ وغیرہ کے مراحل سے فراغت کے بعد داخلے کا راستہ جونہی بڑے کمرے میں سے جاتا ہے۔ آپ کی ساری حسیات بیدار ہو جاتی ہیں۔ کس قدر خوبصورت انداز میں نوبیائی علاقے کی قبل از تاریخ قدیم بادشاہتوں اور پتھروں پر کندہ کاری ان کے نمایاں حصوں پر پڑتی روشنی کے عکس ماحول کو خوابناک بنانے کے ساتھ ساتھ اُسے خفیف سا ڈراؤنا بھی کرتے ہیں۔ سر کٹے KHAFRE کا مجسمہ۔ سورج دیوتا کا پجاری بن بانس کا مجسمہ چہرہ کتے جیسا اور سر پر سورج کی ڈسک رکھے ہوئے۔ پروہت Horema Khet کا طویل قامت مجسمہ پر اُن میں سب سے خوفناک مجسمہ HARWA کا تھا جو دیوتا Amemirdis کی بیوی تھی۔ سنگ تراش نے اُس کا پیٹ چھاتیاں اُس کا نچلا دھڑ اُس کے بیٹھنے کا انداز اس کے بوڑھے چہرے کا ایک ایک خم کس دل جمعی اور مہارت سے تراش کر نمایاں کیا تھا۔ میرا تو سارا وقت بڑے نمائشی ہال میں ہی گزرا تھا۔ نہ خبر تھی ثنا کدھر ہے اور نہ مہرالنساء کا کوئی پتہ تھا اِس میوزیم میں میری دلچپسی کی دوسری اہم چیز نوبین گھر تھے۔ میں یہ گھر ایلیفنٹا ئن جزیرے پر پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔ پر مجھے یہاں بالکل وطنی ماحول محسوس ہوا تھا۔ چوکی پر بیٹھا قران پاک ہاتھ میں کھولے درس دیتا اور رنگین کروشیے کی ٹوپیاں اوڑھے اُس کے سامنے بیٹھے نوبین دل کو لبھانے والے مناظر تھے۔

میں تو تھک کر باہر نکل آئی۔ وقت پوچھنے پر’’ ایک بجا ہے‘‘ پتہ چلا۔ بھُوک اور تھکن دونوں نے جپھی ڈالی ہوئی تھی۔ مرکزی دروازے کے سامنے والے لان کی حفاظتی دیوار کی ایک سلیب پر کھُلے ڈُلے انداز میں بیٹھ کر میں نے بیگ کی پھولا پھرولی شروع کر دی۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں ؟ بیگ الابلاؤں سے بھرا پڑا تھا۔ بس اگر کچھ نہیں تھا تو ٹافی کا کو ئی ٹوٹا بسکٹ کا کوئی مُناسا ٹکڑا جسے میں اُونٹ کے منہ میں زیرہ خیال کرتے ہوئے چلو جگالی کے انداز میں منہ ہی چلا لیتی۔ دھوپ خوشگوار تھی ہوا تیز اور ہلکی سی خنکی والی تھی اور یہاں بیٹھنے میں مزہ آ رہا تھا۔

اِس میوزیم کی تعمیر اور اس روایتوں بھری قوم کی یاد گاروں کو محفوظ کر لینا یونیسکو کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس کی ڈیزائننگ مصری ماہر تعمیرات محمد الحکیم نے کی اور 1997ء میں اِسے پبلک کے لئے کھول دیا گیا۔

دو بجے وہ لوگ آئیں پیٹ پوجا کے لئے ہم لوگوں نے کم خرچ بالا نشین والی پالیسی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔

فلافل آخر ہمیں کہاں سے مل سکتا ہے پوچھتے پوچھاتے کامیاب ہو ہی گئے۔ دس10 مصری پاؤنڈ میں ہم تین عورتوں نے پیٹ بھر کھایا بھی اور کولڈ ڈرنک بھی پی۔

کورنش روڈ پر عین پولیس اسیٹشن کے سامنے اکٹھے ہونے کا طے کر کے میں کتابوں کی دوکان میں گھس گئی اور وہ دونوں ملحقہ بازار کی جانب مڑ گئیں۔ دوکاندار سے میں نے مصر پر کتابوں کے لئے پوچھا تو اس نے میرے سامنے ڈھیر لگا دیا۔ یو نہی دیکھتے دیکھتے میں نے From Aswan To Sowodon Nobians. پڑھا تو قریب پڑی کرسی پر بیٹھ کر کتاب کی پھولا پھرولی شروع کر دی۔

مصریوں کی طرح نیل نوبین کی زندگیوں میں بھی گھُسا ہوا تھا۔ روز مرہ معمولات کے علاوہ شادی دولہا کی افزائش نسل کی قوت بڑھانے پیدائش کو آسان بنانے موت کو سہل کرنے سب میں نیل کا مرکزی کردارتھا۔

اسوان پر ایک کتاب خرید کر میں پونے چار بجے جائے مقررہ پر پہنچ گئی۔ سڑک کے کنارے پختہ پٹڑی پر بیری کے درخت کی چھاؤں میں کھڑی ہو کر ان کی راہ تکنے لگی۔ جب اچانک ایک چھوٹے سے لڑکے نے اپنی ہتھیلی پر رکھے چند بیر میری طرف بڑھائے میں نے فوری طور پر نفی میں سر ہلایا۔

ارے یہاں تو کھانسنے کے بھی پیسے ہیں۔

پر تھوڑی ہی دیر بعد میں نے سوچا شاید میں نے اچھا نہیں کیا۔

کیا تھا دو تین مصری پاؤنڈ خر چ ہو جاتے۔ چلو بچے کی کاروباری ذہنیت اور خلوص دونوں کا پتہ چل جاتا۔

٭٭٭

 

۱۸۔th 6  اکتوبر برِج

               بوسیما تلبہ کا گھر

قاہرہ واپسی پر ٹرین میں ہی پیکج والوں کا message ملا تھا۔ ’’اسکندریہ کے لئے پروگرام بتایئے بکنگ کر دیں۔ ‘‘

میری لُتری ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ پٹڑی پر چڑھی۔ حاصل کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں میں نے اُنہیں بے بھاؤ کی تو نہیں سنائیں پر یہ ضرور سمجھا دیا کہ اب ہم ان کے جھانسے میں ہر گز نہیں آنے والے۔

میری بہشتن ماں اگر کہیں سامنے ہوتیں تو میرے لتّے لیتیں۔ ’’ارے تم سمجھتی نہیں ہو۔ اُن کا اتنا لمبا چوڑا سلسلہ اتنے بڑے دفتر اتنے ملازم اب وہ تم لوگوں سے ہی کمائیں گے۔ ‘‘

میں اُن کی حیاتی تک کبھی انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کہ گاہک کی کھلڑی اُدھیڑ نے کی بجائے کاروباری لوگوں کے لئے منافع کا مارجن مناسب رکھنا بھی بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے۔

گاڑی ہماری ریل کار جیسی ہی تھی۔ صبح ّ آٹھ بجے قاہرہ کے مرکزی اسٹیشن پر پیکج والوں کا لڑکا تو ہمیں وصولنے کے لئے ضرور کھڑا تھا۔ پر میری بکواس نے جو رد عمل پیدا کیا وہ بھی جلد سامنے آ گیا۔ کہ تحریر میدان اپنے دفتر تک لانے کے لئے اُس نے ہمیں پیدل چلایا۔ اُس عیّار انسان کی طرح جوبس یہ دوسڑکیں چھوڑ کر تیسری پر جائیں گے تو سامنے دفتر ہو گا۔ نہ ناشتہ نہ چائے کا کپ۔ نہ منرل واٹر کی کوئی بوتل۔

’’اور بولوسچ ‘‘ مہرالنساء نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہنسی اڑائی۔

بہت سارے کام کرنے والے تھے۔ نیا ہوٹل کھوجنا تھا۔ اسکندریہ جانا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر ناشتہ کرنا تھا۔

اب جہاں ناشتہ کیا اور جو کھانے کو ملا۔ وہ اونچی دوکان اور پھیکے پکوان کے زمرے میں آتا تھا۔ چائے ایسی بدمزہ نہ رنگ نہ روپ جی چاہے ابھی نالی میں گرا دیں پر کوئی نالی وہاں ہوتی تب نا۔ بس پی لی کہ جیب بھی ڈھیلی ہو گئی تھی۔

اب ایسے میں ہم تینوں کے کلیجوں سے ’’ نہیں ریساں شہر لاہور دیاں ‘‘ جیسے آہ بھرے جملے بھلا کیسے نہ نکلتے۔ لوہاری دروازے کی حلوہ پوریاں اور نان چھولے اور لکشمی چوک کے سری پائے کسِ بُری طرح سے یاد آئے۔

ہم تحریر سکوائر کی قصر نائل سٹریٹ کی سڑک پر ہی گھمن گھیریاں کاٹ رہے تھے۔ جب نوادرات کی ایک بڑی دوکان کے سامنے چکریاں کاٹتے ایک مرد نے ہمارا راستہ روک لیا یہ کہتے ہوئے کہ اِس دوکان میں آئیں۔ نوادرات کی ایسی ایسی بے مثال اشیاء ملیں گی جن کا حصول کہیں اور ممکن نہیں۔ لسوڑے کی لیس کی طرح چمٹا ہی جا رہا تھا۔ میرے اُوپر اس وقت کسی مناسب ہوٹل کی تلاش کی کوفت سوار تھی۔ اور اسی کا میری زبان سے اظہار بھی ہو گیا۔ لیجئے اس کی یاوہ گوئی نے دوسری سمت اختیار کر لی ہمارے آگے یہ کہتے ہوئے وہ چل پڑا۔ آئیے بہترین جگہ پر لے چلتا ہوں۔

میں رُک گئی۔ شہر کا مرکزی علاقہ یہاں سستا ہوٹل کہاں۔ مشکل۔ میں نے خود سے ہی سوال جواب کیے۔ میرے ساتھ چارا ور قدم بھی رُک گئے۔ اُس نے رُخ پلٹ کر استفہامیہ نگاہ سے دیکھا۔ میں نے قدرے جھنجھلاہٹ سے پہلی بات یہ پوچھی کہ کتنی دور لے جاؤ گے؟اور ساتھ ہی اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر یہ بھی کہا کہ ہمیں تو معقول ریٹ پر کمرہ چاہیے۔ اور میرے دونوں مضطرب سوالوں کا جو جواب آیا تھا اسمیں ایک پیشہ وارانہ مہارت بھرے اطمینان کی جھلک تھی۔

بھئی یہ سامنے والی سڑک پر تو ہے اور ریٹ نہایت مناسب ہوں گے۔ چلیں تو سہی۔ وہ ایجنٹ تھا اور کھری قسم کا ایجنٹ۔ مرکزی شاہراہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر مڑتی بغلی سڑکوں میں سے شارع محمد فرید پر واقع فندق بوستان (ہوٹل بوستان) میں لے آیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کی حدود میں سات آٹھ منزلہ ہوٹلوں کا ساماحول تھا۔ ساتویں فلور کا کمرہ اور دام دونوں مناسب۔ مہرالنساء نے تھوڑا ساناک بھوں چڑھایا ’’چھوٹا ہے ‘‘ کہنے سے باز نہ رہی۔

مجھے بھی تپ چڑھی ’’تم نے کیا ڈانس کرنا ہے رات کو سونا ہی ہے نا۔ ‘‘

سو مصری پاؤنڈ پر فائنل ہو گیا۔

پُر ر ونق سڑک۔ کھانے پینے پھل مشروبات کی دوکانوں سے سجی شاہراہ۔

فی الفور سامان کی منتقلی کی۔ قریبی دوکان سے بھاگ کر واشنگ پاؤڈر لائی۔ پانچ دنوں کے گندے کپڑے دھوئے۔ غسل خانہ بھی بس کمال کی چیز تھی۔ پر جی کیا کریں ہماری تو گھُٹی میں ہے محل میں پہنچ کر بھی سوکھے ٹکرے چبانے۔ اللہ نے رنگارنگ پکوان دے دیئے ہیں پروہ فقیر کی لڑکی والی عادت کیسے جائے۔ کپڑوں کی دھلائی کے ساتھ نہائی بھی کر لی۔

آٹھویں فلور کی چھت پر سکھانے کے لئے انہیں ڈالنے گئی تو چھت گوڈے گوڈے کاٹھ کباڑ میں لتی پتی پڑی تھی۔ ایک طرف کے بنیرے سے تانکا جھانکی کی تو نظارے بڑے دل موہ لینے والے تھے۔ فالتو اور بے کار سامان سے اٹی ہوٹلوں اور گھروں کی چھتیں ٹوٹے پھوٹے لینٹر اور کپڑوں سے بھری تاریں۔

ماحول میں کسقدر مانوسیت تھی۔ یہی لگا جیسے گوالمنڈی کے کسی چوبارے کی چھت پر چڑھی ہوئی ہوں۔

دونوں نیند کے مزے لوٹ رہی تھیں۔ انہیں سوتا چھوڑ کر ظہر کی نماز کے لئے نکلی چوک میں بڑی خوبصورت مسجد تھی۔ خدا کا شکر ہے مصر میں مسجدوں پر ہندو پاک کی طرح مردوں کی اجارہ داری نہیں۔ مسجدوں میں خواتین کا بھی حصّہ ہے۔ اسی لیے ٹانگیں پسار کر بے تکلفی سے لیٹی۔

واپس آ کر دونوں کو اُٹھایا۔ چوراہے کی نکڑ والی دوکان پر گرما گرم فلافل تلے جا رہے تھے۔ اور لوگوں کے ڈھیر پیٹ پوجا میں مصروف تھے۔ ہم بھی جا شامل ہوئے۔

رش کا عالم داتا دربار پر بٹتے لنگر جیسے سماں کا سا تھا۔ ہم نے اجنبی جگہ پر اجنبی کھانا بہت تھوڑے پیسوں میں مفت ملنے والا لنگر سمجھ کر ہی اُڑایا اور لطف پایا۔

مصر آئے ہوئے آج ہمارا نواں دن تھا اور امانت کا بار کسی تلوار کی طرح سر پر لٹک رہا تھا۔ مسز محبوب نے چلتے ہوئے ہمیں اپنی چھوٹی بہن بوسیماتلبہ BOSIMA-TUL-BAکے لئے ایک ڈالروں والا بند لفافہ دیا تھا۔ خدا کا شکر تھا کہ یہ بیچارہ ہمارے ساتھ ساتھ جنوبی مصر کی سیاحت سے بخیروعافیت واپس آ گیا تھا اور کسیِ حادثے کا شکار نہیں ہوا۔

ٹیکسی والے کو خستہ حال لفافے پر لکھا ہوا ایڈریس دکھایا تو اُس نے پچاس مصری پاؤنڈکا مطالبہ کیا جو پچیس پر آ کر ختم ہوا۔ مصری بھی بھاؤ تاؤ کرنے میں شیر ہیں۔ یہ خدا کا احسان مصریوں پر تو ہے ہی ہم پر بھی تھا کہ یہاں اُس نے تیل نکال کر ٹرانسپورٹیشن کو سستا کر دیا وگرنہ ہم جیسے سیاحوں کا تو کرایے بھاڑوں میں ہی پٹڑا ہو جانا تھا۔

پورا قاہرہ پلوں فلائی اور برجوں اور سڑکوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ دریائے نیل چھ غزہ، الخامہ، گالا، التحریر، سکستھ اکتوبر، ٹونٹی سکستھ جولائی اور اِمبابا پُلوں سے قاہرہ کے دونوں حصوں کو ملاتا ہے۔ جس فلائی اور برج سے ہم اس وقت گزر رہے تھے وہ 6th اکتوبر تھا۔ اِس عجیب سے نام نے ڈرائیور کی طرف بے اختیار دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ خدا کا شکر تھا کہ بہت اچھی انگریزی بولتا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا۔

1973ء کی مصر اسرائیل جنگ کی یاد گار ہے یہ۔

’’یہ یاد گار قومی حمیت کو زندہ رکھنے کے لئے ہے۔ ‘‘

طنز کرنا مقصود نہ تھا پر میں جاننے کی خواہش مند ضرور تھی اسی لیے یہ الفاظ میرے ہونٹوں پر آ گئے تھے کہ چھ جون 1967تومیری یادوں میں اپنی کربناکیوں کے ساتھ زندہ تھا۔ میں ایک جھٹکے سے اُن بے مہر دنوں کی ٹنل میں جا گھسی تھی جب ریڈیو سُن سُن کر میرے آنسو نہیں تھمتے تھے۔ انہیں چھپانے کے لئے مجھے بار بار باتھ روم میں گھسنا پڑا تھا۔ اسرائیل نے گھنٹوں میں مصریوں کے لرفے اُتار دیئے تھے۔ مصری فضائیہ کا حشر ہو گیا تھا۔ مصری فوجیں صحرائے سینا سے پسپا ہو کر نہر سویز کی طرف بڑھیں اور دفاعی انتظامات نہ ہونے پر سولہ ہزار مصری جوان گولیوں کا نشانہ بن گئے۔

اور یہی سوال بار بار میرے سامنے آ کر مجھے تڑپاتا تھا۔

’’ارے ایسا کیوں ہوا۔ ‘‘یہ اتنے جوگے بھی نہیں۔

آنسو تھے کہ تواتر سے بہتے تھے یہ عقیدے کا رشتہ بھی کیسا ظالم ہے۔ بیچ میں ہزاروں میل حائل ہیں۔ نہ کوئی واسطہ نہ تعلق نہ کوئی شناسائی پر دل ہے کہ اُڑا جاتا ہے بوٹیوں میں کٹتا ہے۔ آنسوؤں میں بہتا ہے۔

 دنوں افسردگی کی دبیز تہوں میں دبی رہی تھی۔ اور اب سب کچھ یاد آ گیا تھا۔

 ناصر دل گرفتہ تھا صدمے سے دوچار تھا۔ نئے عزم اور حوصلے سے تیاریوں میں پھر جُتا پر موت کہ منہ میں چلا گیا۔ انور سادات بھی اُدھار کھائے بیٹھا تھا۔

 1973ء کی مصر اسرائیل جنگ میں حملہ اچانک بھی تھا اور بھر پور تیاری کے ساتھ بھی۔ مصر اور شام دونوں شامل تھے۔ عراق کا پورا تعاون پُشت پر تھا۔ اور صرف چار گھنٹوں میں اسرائیلیوں کو درّہ جدی سے بھی اس طرف دھکیل کر صحرائے سینا کا بیشتر حصہ واپس لے لیا گیا اور اِس نظرئیے کی کہ اسرائیل ناقابلِ تسخیر ہے کی دھجیاں اُڑا دی گئیں۔ سادات زیرک اور جرات مند انسان تھا۔ فلسطینی اگر ایک ننگی سچائی ہیں تو اسرائیلی بھی ایک ننگی حقیقت ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اس کے جرات مندانہ فیصلے تھے یہ اور بات ہے کہ اس کے یہ دونوں اقدام عام لوگوں اور عربوں کے نزدیک ناپسندیدہ ٹھہرے اور اس کی موت کا ذمہ دار بنے۔

 ڈرائیور ڈرائیوروں کی صف میں نہیں شمار ہوتا تھا۔ صاحب نظر تھا۔ صاحب علم تھا۔ حالات حاضرہ پر گرفت تھی۔ بولا تھا۔

 دراصل یہ وقت کے Phases ہیں۔ خدا دنوں کو قوموں کے درمیان پھیرتا ہے۔ مصر کا ابتدائی ماضی یہودیوں کے لئے اذیت ناک تھا۔ آج اُن کا زمانہ ہے۔ ہمارے اطوار بھی پسندیدہ نہیں۔ لیڈر بھی اچھے نہیں۔ بے عمل مسلمان کب تک عروج کے زینے چڑھتے رہتے۔ پوری مسلم امّہ کا حال دیکھ لیجیے۔ مجھے افسوس ہے آپ کو تکلیف ہو گی پر بتانا ضروری ہے نہر سویز کے قومی ملکیت میں لیے جانے پر جب مصر برطانیہ فرانس اور اسرائیل کے مقابل کھڑا تھا پاکستان نے برطانیہ کی حمایت کی تھی۔

 وہ ہنسا تھا اور میں خجالت اور شرمندگی کے پاتال میں دھنس گئی تھی۔ مگر بھرم رکھنے کے لئے بولنا ضروری سمجھا تھا۔

’’دراصل ناصر کے اخوان المسلمین کے بے رحمانہ قتل پر پاکستانیوں اور حکومت کے جذبات مجروح تھے۔ اُن کی ڈھکے چھپے لفظوں میں برطانیہ کی حمایت اور خاموشی کی وجہ بظاہر یہی تھی۔ ‘‘

 ’’آپ کی یہ تاویل بالکل بودی ہے۔ وزن نہیں اسمیں۔ نہر سویز کی حیثیت ہر مصری کے لئے شہ رگ کی سی تھی اور ہے خواہ وہ اخوان المسلمین ہوں اعتدال پسند یا ماڈرن مصری۔ صہیونی طاقتیں مقابلے پر تھیں۔ یہ محض چند ہزار یا ایک دو لاکھ لوگوں کی بات نہیں تھی۔ اجتماعی قوم کے مستقبل کا سوال تھا۔ ایسے میں پاکستان کا رویہ شرمناک تھا۔ ‘‘

’’دراصل یہ حکومت کا کردار تھا۔ عوام کا نہیں۔ حکومتوں کے مفادات ان کی کرسیوں کے تابع ہیں۔ ‘‘

 پھر تفصیلاً اُسے میں نے1967؁ٗ؁ٗ؁ٗء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اپنی کیفیات جذبات واحساسات سے آگاہ کیا۔

 ’’میں جانتا ہوں۔ آپ کے ہاں ابھی حالیہ زلزلے کے مناظر نے میری ماں کو گھنٹوں رُلایا۔ ‘‘

 ایک محبت بھرا ایمانی رشتہ ہمارے درمیان استوار ہو گیا۔ جگہ جگہ رُک کر اُس نے ایڈریس لوگوں کو دکھا کر آخرکار گھر ڈھونڈ نکالا یہ قاہرہ جدید کا علاقہ تھا۔ ساتویں منزل کا فلیٹ۔ بمشکل دو مرلے جگہ۔ دو مُنے مُنے کمرے کچن باتھ۔ پر یہ ایک آرٹسٹ کا گھر تھا۔ دیواروں پر سجے شاہکاروں نے ہمیں فوراً سمجھا دیا تھا کہ کسی ماہر ہاتھوں نے انہیں بنایا ہے۔ بوسیما تلبہ ہمیں دیکھ کر نہال ہوئی۔ اُس نے بتایا کہ وہ ائر پورٹ بھی گئی تھی اور خان ہوٹل بھی جس کا ہم نے اُسے نام دیا تھا۔

فی الفور وہ قہوہ بنا لائی۔ آرٹسٹ اس کی بیٹی رانیہ تھی جو اعلیٰ تعلیم کے لئے روم گئی ہوئی تھی۔ اُس کی بالشت بھر کی خوابگاہ میں لکڑی کے گدوں سے لدے پھندے بیڈ پر بیٹھ کر گھونٹ گھونٹ قہوہ پیتے ہوئے ہم نے جانا تھا کہ وہ بڑی دُکھی عورت ہے۔ شوہر وزارت تعلیم میں اچھا بھلا افسر ہے پر دوسری شادی کیے بیٹھا ہے۔ چھوٹی موٹی نوکری اور پُرانی گاڑی سے زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ پاکستانی مردوں کی بڑی مداح تھی۔ اپنے پاکستانی بہنوئی کے بھی گن گاتی تھی اور زندگی کے آخری ایام پاکستان میں گزارنے کی متمنی تھی۔

شیشے سے باہر بکھرے قاہرہ کو ایک نظر دیکھتے ہوئے میں نے اپنے آپ سے کہا تھا۔

زندگی کے یہ روپ ہر جگہ ہیں۔ باہر کے میڈیا نے تو پاکستانی مرد کی دھجیاں اُڑا رکھی ہیں۔ ظالم اور درندہ۔ کوئی اپنی منجی کے نیچے سوٹا نہیں پھیرتا۔

عصر کی نماز سے فراغت پر ہم نے جانے کی اجازت چاہی۔

’’ارے یہ کیسے ممکن ہے کھانا کھائے بغیر۔ ‘‘

اب لاکھ چاہا کہ اُسے تکلیف نہ دیں پر اصرار اتنا شدید تھا۔ بھئی مصری کھانا۔

اب بہتیرا کہا کہ نوکر بھی نہیں۔ پر نہیں جی۔

پھر یہ ہوا کہ ثنا مدد کے لئے کچن میں چلی گئی۔

میں تو اُس بیڈ پر چڑھی مصر کے بلند و بالا فلیٹوں اور سڑکوں پر رینگتی زندگی کا نظارہ کرتی رہی وہیں پھر دسترخوان بچھا اور کھانا سج گیا۔ اس کھانے کا نام ’’بالبشامل‘‘ تھا۔ ثنا نے یہ مصری ڈش سیکھ بھی لی تھی۔ میکرونی اور قیمے سے تیار شدہ جسمیں دودھ اور انڈوں کی بھی آمیزش تھی۔ سویٹ ڈش ’’گلاش‘‘ نام کی تھی۔ میدے کی پٹی میں خشک میوہ بھر کر اُسے تلا اور چاش میں پکایا گیا تھا۔

میں نے تکلیف کے لئے معذرت کی تو میزبان کی بجائے ثنا بولی۔ ارے آنٹی ان کی فرج میں سب چیزیں موجود تھیں۔

سلاد میں کاہو کے بڑے بڑے پتے تھے۔ مولی تھی۔

قہوے کا دور پھر چلا۔ وقت رخصت انہوں نے ثنا کو بیٹی کی ایک خوبصورت پینٹنگ دی۔ چوک تک ہمارے ساتھ آئیں۔ ہاتھوں کے اشارے سے پار عباسیہ سٹریٹ کے بارے میں بتایا جمال عبد الناصر یہاں رہتا تھا۔

میدان الجاز میں بس کھڑی تھی۔ ہمیں بٹھا کر اسوقت تک کھڑی رہیں جب تک وہ چلی نہیں۔

اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئیں میری آنکھیں بھیگ گئیں کہ چلتے چلتے اُس نے کہا تھا۔

’’میری یہ شام بہت خوبصورت گزری ہے۔ آپ لوگوں کا بہت شکریہ۔ ‘‘

٭٭٭

 

۱۹۔مصری میوزیم

 باہر قاہرہ کے ابَر آلود آسمان سے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع تھی۔ ہواؤں میں تیزی اور خنکی کا بھرپور تاثر تھا۔ میں اس وقت رعمیس سٹریٹ کی ایک بڑی بُک شاپ کے ایک حصّے میں سٹول پر بیٹھی کتابوں کی ورق گردانی میں جُتی ہوئی تھی۔ وہ دونوں پتہ نہیں کن کن دوکانوں میں جھانکتی پھر رہی تھیں۔ شاپ کے اگلے حصّے میں نجیب محفوظ کی نوبیل انعام یافتہ کتاب ’’ثرثرہ فوق النیل ‘‘ ڈھیروں کے حساب سے گاڑی سے اُتر کر دوکان کے اندر آئی ہے۔ نہایت مستعدی سے پورا عملہ کتاب کو سمیٹنے میں مصروف ہے۔ نجیب محفوظ عرب دنیا کا محبوب لکھاری ہے۔

 ’’فرانسس لیارڈیٹ‘‘کی ثرثرہ فوق النیل کا انگریزی ترجمہ

” بھی یہاں موجود تھی جسے میں نے خریدا ہے۔

 نو بج رہے تھے۔ دوکان بند ہونے والی تھی میں نے خریدی گئی کتابوں کا شاپر اُٹھایا اور باہر آ گئی۔ موسم نے مجھے کپکپا کر رکھ دیا ہے۔ گھر اور بستر یاد آیا ہے۔ دونوں پر غُصہ بھی آ رہا ہے۔ اور آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد اُن کی صورتیں نظر آئیں۔ جی تو چاہا ہے بولوں۔ پر چُپ رہی۔

 کہیں کافی پی جائے۔ دونوں کی مشترکہ رائے تھی۔

 اور کافی شاپ میں مہرالنساء نے حسب معمول اعتراض کیا۔

 ’’ابوالہول میں لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو دیکھنے جانا تھاپر تمہیں تو کتابیں لے بیٹھیں۔ کل مصری میوزیم دیکھنا ہے اور رات کو وہاں جانا ہے۔ اور پرسوں ا سکندریہ کے لیے نکلو۔ ‘‘

 سارا پروگرام مرتب شدہ تھا۔ چلو سر تسلیم خم ہے۔ جو مزاج یار میں آئے۔ یاروں نے تو پٹھے (چارہ) کھانے ہیں۔

 مصری عجائب گھر تحریر میدان میں ہے۔ ٹکٹ پچاس پاؤنڈ طلبہ کے لئے پچاس فی صد رعایت۔ ثنا اِس پیشکش سے فائدہ اٹھا سکتی تھی پر ثبوت سارے گھر پر چھوڑ آئی تھی۔ دل مسوس کر رہ گئی۔

 عمارت خوبصورت بھی ہے شاندار بھی اور تاریخی ورثے سے لبالب بھری ہوئی بھی۔ محرابی بڑے دروازے کے دونوں اطراف پر اوپر چوکھٹوں میں سجے دو مجسمے لوٹس LOTUS اور پیپائی رس PAPYRUS تھامے بالائی اور زیریں مصر کی نمائندگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔

 باغ میں سنگ مر مر کے چبو ترے پر آ گسٹ میریٹی Auguste Mariette کا کانسی کا مجسمہ اس کے نام پیدائش اور وفات کی تاریخوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ آ گسٹ مصری میوزیم کے سیٹ اپ کا ایک بہت اہم اور ابتدائی نام ہے۔

 چیکنگ کے مرحلے کڑے اور سخت تھے۔ بڑے ہال کا نظارہ ہی چکرا دینے والا تھا۔ دائیں بائیں آ گے پیچھے ہر جا مجسموں کی ایک دنیا آباد تھی دس میٹر اونچے ایمنوفس III کی ملکہ طئی کے بالوں یا ہڈ کا سٹائل اس کے ایک بازو کا محبوبانہ انداز میں شوہر کی کمر کے گرد بڑھا وا دونوں کے چہروں پر ایک مدھم سی مسکراہٹ کا پھیلاؤ اور تینوں بیٹیوں کا ساتھ بندے کو چلتے چلتے رُک کر دیکھنے پر مجبور کرتا تھا۔

 ہال کے پہلے حصّے کی چھت بڑے گول دائرے نما جھروکے کی صورت کشادہ ہے۔ اور تعمیر کے نئے رنگ کی عکاس ہے۔

 میں اوپر اور نیچے کی فنکاریوں میں غرق یکدم چونک اٹھی تھی۔ میری آنکھیں پھیل کر اُس مجسمے پر پڑی تھیں۔

 کیا آرٹسٹ تھا۔ فنکاری بُت میں سے چھلک چھلک پڑتی تھی۔ کمال حیرت سے میں نے اُن دونوں میاں بیوی کے مجسموں کو دیکھا جو فرعون کے کسِی پروہت رہو تپ اور اس کی بیوی نفرت کے تھے۔ کسقدر حسین اور پُروقار کسقدر شاندار سیاہ تراشیدہ بال پیشانی اور بالوں کو حصار میں لیتی رنگین پٹی چوڑا رنگین نیکلس اور خوبصورت لباس جس میں جھانکتا اُس کا سڈول ہاتھ۔ ہلکا سا عریاں شانہ۔ صناع نے اپنا سارا فن اسے نمایاں کرنے پر صرف کر دیا تھا۔ رہوتپ کا ننگا بدن کمر پر چھوٹا سا جانگیہ تھا۔ ایک ہوشیار اور چالاک شخص کا چہرہ۔

 یہاں حیران کن سائز کی چوبی شکستہ کشتی تھی یقیناً کسی فرعون کے سفر آخرت کے اہتمام کے لئے تیار کی گئی ہو گی کہ قدیم مصریوں کے فراعنہ کا کشتیوں کے بغیر موت کا سفر تکمیل نہیں پاتا تھا۔

 طویل برآمدوں گیلریوں اور بالکونیوں والی اِس عمارات کے یہ حصّے آرٹ کی کسِ کسِ انداز میں عکاسی کرتے تھے اس کا صرف دیکھنے سے تعلق تھا۔ مذہبی رہنماؤں کا تقاضا تھا کہ آرٹسٹ جو مورتی بنائے وہ اصل کی کاربن کاپی ہو۔ تاکہ رُوح کو اپنا مردہ شناخت کرنے میں دشواری نہ ہو۔ فنکار کی سوچ کو مقید کرنے کے باوجود انہوں نے آرٹ کے بے مثل نمونے تخلیق کیے۔

 خوفو کے بیٹے (CHEPHREN) کیفرن کا مجسمہ سیاہی مائل آتشی دانے دار کر سٹل کے پتھر سے کسِ خوبصورتی سے بنایا گیا تھا۔ کرسی پر اُس کے اکڑے ہوئے وجود کا انداز نشست اُس کی مُٹھی کا بند ہونا اُس کی گردن کا تناؤ اس کی قوت اور طاقت کا مظہر تھا۔ آرٹسٹ کس خوبی سے اپنے فن کا اظہار کر رہا تھا۔ سر کے پیچھے باز پر پھیلائے بادشاہ کی حفاظت کرتا تھا۔ باز مصریوں کے عقیدے کے مطابق ہورس دیوتا کا نشان ہے۔

 پتھر کی چمک اُس کے قیمتی ہونے کی دلیل تھی او ر اسپر لکھی گئی تحریر میرے لیے نا قابل فہم۔

 میں آرٹ کی پیچیدگیوں اور باریکیوں کو سمجھنے میں کو ئی ایسی کما ل کی عورت نہیں۔ ہمیشہ سے میری ڈرائنگ کمزور رہی۔ مگر مصری فنکاروں کے شہ پارے مجھ جیسی اناڑی کے سامنے بھی اپنے کمال کھولنے اور دادوتحسین لینے کے ساتھ ساتھ بڑھتے قدموں کو بریکیں لگاتے تھے۔

 جن چند اور مجسموں کو میں نے دل جمعی شوق اور حیرت سے دیکھا اُن میں گاؤں کے نمبردار کا لکڑی سے تراشیدہ پوری قامت کا ڈھانچہ تھا ہاتھ میں چھڑی پکڑی ہوئی۔ طباق سا چہرہ چہرے کا ہر نقش بولتا۔ آنکھوں کے کنارے پیتل کے کوئے بلوری پتھر کے اور ڈیلے سنگ مرمر کے۔ آنکھیں اُس کے پیشے کی اُس کے کام کی ترجمان تھیں۔

 پھر میں پتھر کے ایک سٹیپ پر بیٹھے اُس جوڑے کے سامنے رُکی۔ جو ایک بونا تھا۔ نام SENEB سنیب۔ بیوی ساتھ اور ننگ دھڑنگے دو لڑکے قدموں میں کھڑے تھے۔ کمال کی فنکاری تھی۔ سنیب کا ناک ستواں آنکھیں چھوٹی مگر بند ہاتھ سینے پر بندھے ہوئے۔ چہرہ عبادت میں مصروفیت کا عکاس تھا۔ خوبصورت تراشیدہ سیا ہ بالوں والی بیوی کا گداز ہاتھ شوہر کے بازو پرسنیب پر تو کچھ یوں گمان گزرتا تھا جیسے ابھی آنکھیں کھول کر پوچھے گا کہ بولو بتاؤ کیا کام ہے؟

 تاریخ فراعنہ میں جس شخصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ وہ اخناتون تھا۔ اٹھارویں خاندان کا فرعون چھوٹے سے پتھر پر گھٹنوں کے بل کھڑا دُبلے پتلے وجود پر لمبوترا چہرہ لیے جس پر حلیمی اور نرمی کا گھلاؤ رچابسا نظر آتا تھا۔ اُس کی ملکہ نفرتیتی کی بھی کیا شان تھی۔ آرٹسٹ نے اِس شاہکار کی ہر رعنائی کو نمایاں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

 یہ کب ممکن ہے کہ پانچ ہزار سالوں پر محیط اُس تہذیب تمدن سے مالا مال زندگی جو میوزیم کے سو کمروں میں سانس لیتی اور اپنے بارے میں گفتگو کرتی ہے کو چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ساتھ یاد رکھا جائے۔

 ہر مجسمہ حیرت زدہ کرتا تھا۔ خوفو کا ہاتھی دانت کا اسیٹچو بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

اور وہ چھیل چھبیلی نار جس نے سر پر نہایت خوبصورت شراب کی ٹوکری رکھی ہوئی تھی۔ جو اپنے ڈیزائن دار چُست لباس میں آج کی ماڈرن عورت نظر آتی تھی۔ اب بھلا اُسے ٹھہر کر تفصیل سے کیسے نہ دیکھتی۔ وہ اور اُس کا بغیر آ ستینوں کے چُست پہناوا ٹخنوں میں سجی پہخپیاں اور گداز بدن بھلا یونہی ایک نظر ڈال کر آگے بڑھنے والے تھے کیا۔ پاؤں جیسے سریش پر پڑے تھے۔ دیر بعد بمشکل اٹھائے۔

 اوپر کی منزل کے پہلے کمرے زیورات سے سجے تھے۔ اُن زیورات کی نفیس کڑھائی اُن میں جڑے قیمتی پتھر اُن میں چمکتے رنگ اور اُن کی بناوٹ سب ذہن کو چکراتی تھیں۔

 اک پل کے لئے اِن شاہکاروں میں الجھی نظریں اٹھا کر میں نے انہیں دیوار پر پھینکتے ہوئے خود سے کہا۔

’’ تو یہ قوم اُسوقت اتنی متمدن تہذیب یافتہ اور خوبصورت ذوق کی حامل تھی کہ جب ساری دنیا تاریکی کے اندھے غار میں ڈوبی ہوئی تھی۔ مجسمہ ساز اگر کمال کے تھے تو سُنا رکسِ پائے کے تھے۔ کسِ دیدہ ریزی سے یہ ڈیزائن بنائے گئے ہوں گے۔ ‘‘

 دفعتاً میری نظروں کے حصار میں چار خوبصورت کنگن آئے۔ سونے کے یہ کنگن جن پر فیروزے اور یا قوت کا جڑاؤ کام تھا۔

 ’’اوہو‘‘ بے اختیار ہی میرے ہو نٹوں سے نکلا۔

 تو یہ ہیں وہ شہرہ آفاق کنگن جو برطانوی ماہر آثاریات سر فلنڈر س پیٹری کی دریافت ہیں کیا چیز تھی۔ اپنے بنانے والے کی مہارت اور کمال کی نمائندہ۔ اسوقت میری آنکھیں اگر کمال فن سہراہنے میں مصروف تھیں تو ذہن اِن کی دستیابی کی داستان دہرانے میں یہ1899ء سے1901ء کا زمانہ تھا۔ فرعون دجر کے مقبرے کی کھدائی جاری تھی۔ دفعتاً دیوار کے ایک شگاف سے ایک حنوط شدہ پٹیوں میں لپٹا نسوانی بازو ملا۔ فلنڈرس نے جب پٹیاں کھولیں وہاں موجود ہر شخص انگشت بدندان تھا۔ حد درجہ خوبصورت چار کنگن بازو میں لپٹے سامنے آئے تھے۔

 چوروں ڈاکوؤں کا مقبروں کو لُوٹنا تو ایک معمول کا کام صدیوں سے جاری تھا۔ دجر کا مقبرہ بھی ایسے ہی لٹیروں کے ہتھے چڑھا ہو گا۔ اب اگر اِس دوران ان مقبروں کی حفاظت پر مامور سرکاری افسر ادھر آ نکلے تو چوروں کو تو بھاگنا ہوتا ہے۔ بس تو کسِی چور ڈاکو نے اِس کاٹے ہوئے بازو کو کسِی شگاف میں اِس خیال سے پھینک دیا ہو گا کہ پھر کبھی کسِی ساز گار وقت میں آ کر لے جائے گا۔ اب اللہ کی اللہ جانے بیچارے کو جگہ بھول گئی۔ کچھ سانحہ ہو گیا کہ لے جانا نصیب نہ ہوا۔ اور یہ خوبصورت تحفہ میوزیم کی زینت بن گیا۔

 اِن کمروں میں اتنا سونا تھا کہ آنکھیں پھٹنے پر آ گئیں۔ کینٹھے۔ ہار۔ نیکلس۔ انگوٹھیاں۔ کھانے کے برتن۔ تاج۔ جوتے۔ خنجر۔ سوئیاں۔

 تو سونا ہمیشہ سے انسانوں کی کمزوری رہا۔ کل بھی اور آج بھی۔

 یہ عظیم تاریخی ورثے ایک بار نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً ملے۔ اور ابھی بھی کوئی نہیں جانتا کہ مصر کی سرزمین کے نیچے کتنے خزانے اور دفن ہیں۔

 چوروں کا تو خیر پیشہ ہی چوری کرنا ہوتا ہے۔ مقبروں کی حفاظت پر متعین سرکاری افسروں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور حاکم وقت نے بھی اپنا حصّہ بٹورنا فرض جانا۔ 1860ء میں گاؤں ذراع ابی التجاہ سے جو خزانہ نکلا وہ لوٹا تو مقبروں سے گیا تھا پر غالباً چوروں ڈاکوؤں کو اِسے لوٹ کر ٹھکانے لگانے کا وقت یا موقع نہیں ملا۔ اِس دریافت شدہ خزانے پر پہلا ڈاکہ طیبس (لُکسر) کے سرکاری افسروں نے ڈالا۔ قاہرہ پہنچنے پر دوسرا حملہ مرحوم خدیواسمعٰیل پاشا نے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک میٹر سے زیادہ لمبی زنجیر تو اُن کی بیگم نے ہتھیائی۔

 واہ رے بزازوں کے گز اور چوروں کی لاٹھیاں شاید اسی کو کہتے ہیں۔

 کندن کے دستے والے خنجر۔ سرمہ لگانے کی لمبی سلائیاں جو نیلے اور ہرے پتھروں کی پچ کاری سے سجی ہوئی تھیں۔ نہایت خوبصورت تاج۔

 پر میں اب باہر آ گئی۔ سونے اور قیمتی پتھروں کے اِس انبار سے مجھے کوفت سی ہونے لگی تھی۔ سونے سے چھٹکارہ پایا تو کشتیوں کے اژدہام میں پھنس گئی۔ یا اللہ ایسی ایسی کشتی ایسی ایسی اقسام چپو ہی مان نہ تھے۔ سینکڑوں تو اُن کے ڈیزائن تھے۔

 قریب کھڑے دوغیر ملکی انگریزی میں بات کرتے تھے۔ مصری کشتی بنانے کے فن میں بہت طاق نظر آتے تھے۔ پر مصر کی سرزمین درختوں کے سلسلے میں کل بھی قلت کا شکار تھی اورآج بھی ہے تو پھر اِس فن میں ان کی مہارت کیسے ہوئی۔

 دوسرے نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

 یہ نکتہ میرے لئے بھی اہم تھا۔ میں بھی نہیں جانتی تھی۔ بعد میں جب تفصیلی مطالعہ ہوا تو پتہ چلا کہ مصری حکومتیں اپنے مفتوح ملکوں سے قیمتی لکڑی بھی خراج میں لیتی تھیں۔ نیل مصریوں کی زندگی تھا تو اس میں سفر کرنے بوجھ کی نقل مکانی مُردوں کو نیل میں لانے سیر سپاٹوں سبھوں کے لئے کشتی حد درجہ ضروری اور کسی فن میں کمال پیدا کرنا تو مصریوں کے لیے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

 مجھے اعتراف ہے کہ میں نے تابوتوں کو دلچسپی اور رغبت سے نہیں دیکھا۔ بڑے کمرے میں بہت سے زمین پر پڑے تھے اور بہت سے دیواروں کے ساتھ شیلفوں میں لگے ہوئے۔ پتھر کی پلیٹیں اپنے اوپر کندہ تصاویر سے تاریخ کے بہت سے ادوار کو کھولتی تھیں۔ بہت سے واقعات پڑھے اور جانے جا سکتے تھے۔ میں نے اُس پلیٹ کو بہت شوق سے دیکھا تھا۔ جسمیں اخناتون اپنی ملکہ نفرتیتی اور بچوں کے ساتھ گھر یلو زندگی کے خوشگوار لمحات سے حظ اٹھا رہا ہے۔ ایک بچہ ملکہ کی گود میں ہے دوسرا اُس کے دونوں گھٹنوں پر کھڑا منہ ماں کی طرف کیے اُسے متوجہ کر رہا ہے۔ ایک بڑا بچہ زمین پر کھڑا باپ سے مکالمے میں مصروف ہے۔ سورج کی کرنیں روشندان کے راستے اندر آ رہی ہیں۔ ایک پُر مسرت خوش وخرم گھرانہ۔

 بہت لطف اُٹھایا تھا میں نے اِسے دیکھ کر۔

 ایک اور منظر بڑا خوش کن تھا۔ بہت بڑے پتھر پر ایک پلٹن پیدل مارچ کرتی ہوئی نظر آئی تھی۔ ڈھیر سارے سپاہی ننگے بدن صرف کمر سے رانوں تک کا حصّہ چھوٹے سے کپڑے سے ڈھنپا ہوا سروں پر ٹوپیاں اور ہاتھوں میں ڈھال اور نیزے۔

 بڑی ہنر مندی کا اظہار تھا اس میں۔

 بہت ساری تختیاں تھیں۔ میں آگے بڑھ گئی تھی۔ پتھروں پر بنی ہوئی تصویریں بھی دیکھیں۔

 میوزیم میں ایک پورا کمرہ برُدی کاغذوں سے بھرا ہوا ہے۔ مصریوں کے پاس یقیناً کوئی ایسا مسالہ تھا کہ جس سے وہ ڈیلٹائی علاقے میں پیدا ہونے پیپائی ر س PAPYRUS درخت کی چھال کے ٹکڑوں کو جوڑ کر کاغذ بناتے تھے۔ یہ بُردی کاغذ مصریوں کی ایجاد تھی اور صدیاں گزر جانے پر بھی یہ کاغذ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ قدیم مصریوں کی The book of dead انہی کاغذوں پر لکھی ہوئی ہے۔

 میں نے انہیں بغور دیکھا پر مجھ جیسی ناقص العقل کو اس کی کیاسمجھ آنی تھی۔ سو آگے چل دی۔

 میں تھک گئی تھی۔ کہیں بیٹھ کر تھوڑا سا آرام کرنا چاہتی تھی۔ واش روم جانے کی بھی ضرورت تھی۔ دونوں ساتھی پتہ نہیں کہاں تھیں۔

 ’’دفع کرو ہوں گی کہیں۔ ‘‘ آخری حصےّ میں گراؤنڈ فلور اورفسٹ فلور کی درمیانی جگہ پر باتھ روم تھے۔ سنگ مر مر کی کشادہ سیڑھیوں کے پہلے پوڈے پر بیٹھ کر میں نے ٹانگیں نچلے پوڈوں کی جانب پسار لیں۔ چوتھے پوڈے پر ایک گورا چٹا یورپی لڑکا ایک کالی شاہ لڑکی کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑے بیٹھا مصری ریز گاری گن رہا تھا۔

 واش روم سے فارغ ہو کر اوپر آتے ایک اُدھیڑ عمر یورپین مرد کی جانب اُس کالی شاہ لڑکی نے سو پاؤنڈ کا نوٹ ہنستے ہوئے بڑھایا۔ مرد بھی چلبلا تھا۔ چیل کی طرح جھپٹا مار کر نوٹ لے اُڑا۔ قہقہے اُبل پڑے۔ ارد گرد موجود سبھوں نے اِس سین سے لطف اٹھایا۔ میرے قریب آ کر مرد نے نوٹ لہرا کر نیچے ان کی طرف پھینک دیا۔

 حیدرآباد دکن کا ایک ہندو جوڑا میرے قریب آ کر رکا۔ بحث کا موضوع دونوں کے درمیان ممی خانہ دیکھنے سے متعلق تھا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اگر سو مصری پاؤنڈ روہڑنا (بہانا) چاہتا ہے تو روہڑدے اُسے قطعی کوئی دلچسپی نہیں اِس شُدھ عربی والے گاڑھے سے ماحول میں مانوسیت کی جوت جگاتی ان آوازوں نے بے اختیار مجھے ان کی طرف متوجہ کر دیا تھا۔ جوڑا تو یہ شمالی ہند کا تھا پر بزنس کے سلسلے میں حیدرآباد دکن مقیم تھا اور کاروبار کے سلسلے میں ہی مصر آیا تھا۔

 حد ہے یا ر ان کے ٹھگنے کی بھی میں نے  اپنے آپ سے کہا۔

 اب سو پاؤنڈ اور خرچو۔

 اور جب میں نے اپنی ٹانگوں کی مٹھی چاپی کر لی۔ تو مجھے اپنے آپ سے کہنا پڑا تھا۔ اب سو پاؤنڈ کی یہ افیون تو کھانی ہی پڑے گی۔

 اسی فلور پر آگے ممی چیمبر تھا۔ ٹکٹ کی خریداری اور چیکنگ کے سب مرحلے پھر طے ہوئے۔

 داخلہ ہوا تو عجیب سا تجسّس اور تحیر وجود میں بکھرا ہوا تھا۔

 پہلی ممی اُس عورت کی تھی جو نامعلوم کی صف میں کھڑی تھی۔ بغیر نام کے ایک کردار غالباً مصر کی جنگ آزادی میں شہید ہونے والی۔ گہرے اور ہلکے براؤن ململ میں لپٹی ہوئی۔ دانت نکلے ہوئے باقی تو سارے فرعون ہی تھے۔ مختلف وقتوں اور مختلف بادشاہتوں کے۔ پتہ نہیں مصریوں کا یہ کارنامہ کس زمرے میں آتا ہے۔ ارے نہ بیچارے حنوط ہوتے۔ نہ سامان عبرت بنتے۔ چلو معاملہ کتابوں تک ہی رہ جاتا۔ پر کوئی اِن حاضر مصریوں سے تو پوچھے۔ کسقدر نازاں ہیں وہ اپنے فراعنہ پر۔ کسِ طمطراق سے ہمارے ہوٹل کے منیجر نے ہم سے گفتگو کے دوران کہا تھا۔

 لو جب زندہ تھے تو لاکھ کے اور اب سوا لاکھ کے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ساری دنیا میں اُدھم مچا ہوا ہے۔ ہماری تو تجوریاں ڈالروں سے بھر رہی ہیں۔

 بات تو اُن کی بھی ٹھیک تھی۔

 یوں سارے کمرے کا چکر کاٹ کر ایک ایک کے پاس رُک رُک کر بغور ان کی صورتوں کا موازنہ کرتے ہوئے میں نے سوچا تھا۔ ماڑے موٹے فرق کے ساتھ بس ایک سے لگتے ہیں۔

 امنہوتپ اوّل دوم AMENHOTEP TUTHOMOSIS اوّل دوم سوم چہارم۔

 بیچارے۔ کیا زندگی تھی اِن کی بھی۔ مجھے ہنسی آئی تھی۔

 جوانی مقبرے بنانے میں گال (تباہ) دیتے۔ مرتے تو حنوط کروانے کی سُولی پر چڑھتے اور بکسوں میں بند ہوتے تو چوروں ڈاکوؤں کی نو چاکسوٹی کا شکا ر ہونا لازمی ہوتا۔

 طیبس (موجودہ لکسر) کے مقبروں میں چوروں نے بیچاروں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ حکومت نے مقبروں سے نکالا اور محفوظ جگہوں پر پہنچایا پر یار لوگ وہاں بھی جا پہنچے۔ تہہ خانوں تک سرنگیں کھودلیں یہ رعمیس دوم ایک عظیم فاتح ظالم اور متکبر بادشاہ اسرئیلی بچوں کا قاتل فرعون موسیٰ کا باپ۔ لاش ایک جگہ سے دوسری دوسری سے تیسری جگہ رُلتی رہی۔ صندوق بھی چوروں نے توڑ ڈالا۔ آخری بار خدیو محمد توفیق پاشا کے سامنے کفن بدلا گیا۔

 فرعون منفتا حخدائی کا دعویدار اپنے خاندان اور فوج کے ساتھ بحیرہ احمر میں غرق ہوا۔

 تو اس کا بدن بچایا گیا کہ آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کا نشان ہو۔

 اور وہ ہے۔

 میں نے لمبی سانس بھری تھی۔

 امنہوتپ کی ممی سوکھے پتوں (جیسے شریہنہ) سے ڈھنپی ہوئی تھی۔ پھول بھی اوپر پڑا تھا۔

 میں TUTHMOSIS III کی ممی کے پاس کافی دیر کھڑی رہی۔ ملکہ ہت شی پشت کا شوہر جیالا اور اولوالعزم اور بے مثال خوبیوں کا مالک۔ تاریخ فرعون میں میں نے رعمیس سوم امنہوتپ چہارم (اخناتون) اور اسے بہت تفصیل سے پڑھا اور پسند کیا۔

 مصری عجائب گھر میں سب سے اہم نوادرات کا ذخیرہ طوطنخامن کا ہے۔ اس کے مقبرے کی دریافت بیسویں صدی کے انتہائی سنسنی خیز اور دلچسپ واقعات میں سے ایک ہے۔ کمرہ ائرکنڈیشنڈ تھا۔ اِس فرعون کے کفن کی چار تہیں اور تابوت ساڑھے چار سو پاؤنڈ ٹھوس سونے کا وزن رکھتے ہیں۔ دوتہیں ویلی اف کنگز اُس کے اصلی مقبرے میں اور دو یہاں میوزیم میں ہیں۔

 چوبی دروازہ بھی کمال کی چیز تھی۔ پٹوں کے کنگورے علامتی ناگ کی صورت میں تھے۔ آئسس دیوی بازو پھیلائے کسِ انداز میں ہر پٹ کے آگے کھڑی تھی۔ سونے کی اِس مُورتی کے بدن کو کسِ انداز میں تراشا اور بنایا گیا تھا۔

 آبنوسی لکڑی کا قیمتی چیزیں رکھنے والا چھوٹا سا مستطیل باکس اس درجہ خوبصورت پینٹنگ سے سجا ہوا تھا کہ کلر کمبینشن اور نفاست کی داد دینی پڑتی تھی۔ اور وہ کرسی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی جس کے بازوؤں کے دہانے شیروں کے سروں سے سجے ہوئے تھے۔ قیمتی پتھروں کی نقاشی اور پشت پر میاں بیوی کی انتہائی اعلیٰ درجے کی تصویر کشی جوڑے کے ملبوسات کی شان دار ڈیزائن کلر سکیم بندہ کسِ کسِ چیز کو سراہتا۔ ماتمی کوچ جسے دھکیلنے کے لیے دو گائیں جن کے سر سورج ڈسک سے چمکتے تھے دیوتا انوبیس بھی کتے کی صورت موجود تھا اور طوطنخامن کا ہم زاد ’’کا‘‘ (ka) بھی ہاتھ میں چھڑی لیے کھڑا تھا۔

 آرام کرنے اور سونے کے تخت جس کے پایوں پر سونے کی موٹی چادریں چڑھی ہوئی تھیں۔ پر اُن کی بنائی باریک سوت سے کی ہوئی صدیوں سے اسی طرح قائم تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء۔ موٹی روٹیاں اور چنگیر فولڈنگ کرسی پاؤں ٹیک جس پر دشمنوں کی تصویریں تھیں۔

 اِس قدر سازو سامان تھا کہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کسےِ دیکھے اور کسےِ چھوڑے۔

 باہر آ کر آخری کو نے میں بیٹھے گارڈ کے پاس رکھی کرسیوں میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گئی اور خود سے بولی۔

 ’’بس بابا دیکھ لیا میوزیم۔ ‘‘

٭٭٭

 

۲۰۔قاہرہ قدیمہ . السّید یحییٰ محسود

                نامی گرامی چور اور ممیفیکیشن

 ملاقات تو میری اُن سے مصری میوزیم میں ہوئی تھی۔ عورتوں بچوں اور مردوں پر مشتمل اِس ننھے منے سے قافلے کی چال ڈھال اور طور طریقوں نے مجھ پر دور سے ہی اُن کی پاکستانیت ظاہر کر دی تھی۔ مجھے یوں مزے سے سیڑھیوں پر ٹانگیں پسارے دیکھ کر وہ ذرا سا ٹھٹھکے اور پھر میری مسکراہٹ کے تعاقب میں خود بھی ہنس پڑے۔

 آفتاب احمد خان اور محمد نوید خان عرصہ دوسال سے مصر میں مارکیٹ ریسرچ کمپنی ’’فیڈ بیک‘‘  میں جنرل مینیجر اور برانچ مینیجر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ پاکستانی سفارت خانہ قاہرہ میں تئیس 23مارچ کا دن منانے کے بعد وہ عجائب گھر دیکھنے آ گئے اور اب متاسف سے تھے کہ سفارت خانہ کی تقریب آپ کے لیے بہت کار آمد ہوتی۔ اب میں اپنی حماقتوں پر کیا افسوس کرتی کہ ایسی غلطیاں کرنا تو میرا معمول تھا۔ ظاہر ہے وہاں بہت سے لوگ ملتے اور ڈھیر ساری معلومات حاصل ہوتیں۔ چلو خیر کارڈوں کا تبادلہ ہوا۔ مہرالنساء اور ثنا سے بھی فسٹ فلور پر اُن کا ٹکراؤ اور تعارف ہو گیا تھا۔

 میوزیم دیکھنے کے بعد جب میں باہر آ کر باغیچے کے کناروں پر بنی بنچ نما جگہ پر بیٹھی۔ واضح رہے کہ مصر میں لانوں میں بیٹھنے اور چلنے پھرنے کی ممانعت ہے۔ اطراف میں ڈھائی تین فٹ چوڑی دیوارسی بنا دی جاتی ہے۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے جو چاہے کرو اُٹھو بیٹھو لیٹو۔

 تھوڑی ہی دیر بعد آفتاب اور نوید فیملیاں آ کر میرے پاس بیٹھ گئیں۔ باتوں کے دوران پتہ چلا کہ آفتاب کو عربی پر خاصی دسترس حاصل ہو چکی ہے گھومنا پھرنا اُس کامن پسند شوق ہے۔ قاہرہ قدیم کے گلی کوچوں اُن میں واقع نوادرات کی اصلی اور نقلی دوکانوں کے بارے میں اُس کی معلومات حیرت انگیز ہیں۔ اور یہ انکشاف بھی میرے لیے حد درجہ خوش کن تھا کہ پرانے قاہرہ کے عمر رسیدہ دو تین بوڑھوں جن کے آبا ؤ اجداد مقبروں کے پیشہ ورانہ چور اور اُن کی لوٹ کھسوٹ میں خاصے فعال اور ماہر  رہے تھے اور ہیں جنہیں ممی کرنے کے اصلی طریقوں کا بھی علم ہے سے بڑا یارانہ ہے۔

 نوعمر خوبصورت سی بیوی نے فوراً جلے دل کا پھپھولا پھوڑا۔ جب چھٹی آئی یہ یاری میں گانٹھ لگوانے بھاگے اُن کے پاس۔

 واہ میرے لیے تو یہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے والی بات ہوئی۔ بیچارے کی جان بخشی تب ہوئی جب شام کو چلنے کے لئے اُس نے حامی بھری حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے اُسے پکا کر دیا کہ وہ میری دونوں ساتھیوں کو نوادرات کی دوکانوں کی بھنک بھی نہ پڑنے دے وگرنہ وہ اُس کا حشر کر دیں گی بھاؤ کروا کروا کر۔

 اب مطلب بر آری کے لئے ایسی چالاکیاں تو کرنی پڑتی ہیں نا ورنہ لڑکے کا اُن میں اُلجھاؤ اور میرا منہ دیکھتے رہ جانا پکا تھا۔

 ثنا اور مہرالنساء کے آنے پر میں نے انہیں شام کا پروگرام بتایا۔ دونوں کا ناک بھوں چڑھانے کا انداز قابل دید تھا۔ ساتھ میں شاکی لب و لہجے میں یہ بھی کہا۔

 آج دسواں دن ہے مصر میں۔ ابھی اسکندریہ بھی سر پر ہے۔ مہرالنساء نے لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو کی بات کی۔ میں نے ذرا ملتجی لہجے میں کہا۔

 ’’بس آج کی شام چاہیے۔ ‘‘

 دونوں نے خانہ خلیلی کا پروگرام بنا لیا۔ چلو چھٹی ہوئی۔

 آفتاب وقت پر آیا۔ چلنے سے قبل میں نے کہنا ضروری سمجھا۔

 ’’ماں جیسی ایک بوڑھی عورت تمہاری ہمسفر ہے۔ چیزوں کو جاننے اور پوچھنے میں تمہارا صبر آزمانے والی بات ہو گی اسلئے گھبرانا نہیں۔ ‘‘

 ’’ارے نہیں آنٹی بے فکر رہیں۔ ‘‘

 مصری دار الخلافہ کے مراکز ہمیشہ نیل کی شاخوں سے منسلک رہے۔ عُمر وبن عاص کے الفسطاط کے بعد عباسی خلیفہ صلاح بن علی نے فسطاط کو وسعت دینے کے ساتھ اللعسکر کو بھی قائم کیا۔ احمد ابن طولون نے تیسرے اسلامی دار الخلافہ القتیئہ AL-QATAI کی مسجد طولون کے گرد و نواح میں بنیادیں رکھیں۔ الفسطاط اللعسکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی پھیلتا گیا۔ قاہرہ کے دار الخلافہ بننے کے بعد تعمیرات کا سلسلہ شمال کی طرف بڑھا جو قاہرہ جدید کے نام سے مشہور ہوا۔

 ’’تم تو تاریخ دان بھی نکلے۔ ‘‘ اُس کی فراہم کردہ معلومات میرے لیے رہنمائی کا باعث تھیں۔

 یہ گلیاں اپنے اندر تاریخ کے کتنے ادوار سمیٹے بیٹھی تھیں۔ میں نے ایک سے دوسری دوسری سے تیسری میں داخل ہوتے ہوئے سوچا۔

 ابن خلدون نے قاہرہ کو ایسے ہی تو ایک بے مثل شہر کا خطاب نہیں دیا تھا۔

 پھر جیسے میں لاہور کے چھتہ بازار میں داخل ہو گئی۔ کپڑے کی جوتوں کی دوکانیں پھر ایک تنگ سی گلی میں داخلہ ہوا پکتے قہوے کی خوشبو تنور میں لگتے گرم گرم کلچوں کی مہک۔

 ’’میرے اللہ ‘‘ میں نے ندیدی آنکھوں سے دیکھا میرا جی چاہا دوکان میں گھُس جاؤں سماوار میں پکتا قہوہ لوں۔ کلچہ اُسمیں بھگوؤں اور کھاؤں۔

 پر ساتھ میں بیٹوں جیسا جوان لڑکا تھا شرم مانع تھی۔

 انہی تنگ گلیوں میں مسجدیں تھیں دوکانیں تھیں۔ گھروں کی محرابی ڈیوڑھیاں اور دروازے تھے۔ کوئی گلی اتنی تنگ کو ئی ذرا کشادہ۔ بالکونیوں دروازوں کی سال خوردہ لکڑی جس پر کندہ کاری بھی دیکھنے والی تھی۔ گلیوں میں پھرتے چھوٹے بڑے بچے کسِی کے پاؤں ننگے کوئی جوتا پہنے ہوئے۔ بچے عورتیں لڑکیاں ان کے چہروں کے نقش و نگار رنگ پہناوے سب آنکھیں بھٹکاتے تھے۔ لڑکیاں بڑی ماڈرن بھی تھیں اور عام سی بھی۔ رنگ ملے جلے کہیں کوئی بہت گوری اور دل میں کھبتی ہوئی کہیں بس عام ساچہرہ موٹی موٹی عمررسیدہ عورتیں بالوں کو رومالوں سے باندھے لمبے لمبے فراک (مقامی زبان میں فسٹین FUSTAN) پہنے جونہی دیکھتیں محبت بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھرا کر اہلاًوسہلاً کہتیں۔

 تسبیح پھیرتے بوڑھے اور اُدھیڑ عمر مرد سروں پر رومال اور ٹوپیاں دھرے اپنی دھن میں مگن دوکانداری کرتے۔ خریداری میں اُلجھی عورتیں اور مرد۔ کہیں کہیں دوکانوں کے اندر بیٹھے شطرنج کھیلتے لوگ کیسا الف لیلوی سا ماحول تھا۔ میں چلتے چلتے رُک جاتی۔ لمبا سانس بھرتی اور جیسے اِن مناظر کو سانسوں کے ساتھ آنکھوں میں سمونے کی کوشش کرتی۔ اسوقت شدت سے میرا جی چاہا تھا کہ کاش میں اکیلی ہوتی اور یہاں وہاں رُک رُک کر اِن سب کو دیکھتی اور محظوظ ہوتی۔

 ایک چھوٹی سی بند گلی کے ایک گھر کی بیٹھک کے سامنے آفتاب رُک گیا۔ یہ مارگوش محلے کا ایک گھر تھا جس کا دروازہ بند تھا۔

 آفتاب چپ کھڑا تھا۔ یہ تو بڑی مجلسی بیٹھک ہے کسی مہربان اور مشفق ہستی کی طرح ہمیشہ اپنی بانہیں کھولے آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار۔

 اور میرا دل دھڑک اُٹھا مجھے یہی خدشہ تھا۔ یہاں دوبارہ آنا میرے لئے اتنا بڑا مسئلہ نہ تھا۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر میں آسکتی تھی پر اُس سے باتیں کو ن کرتا۔

 ’’ارے آفتاب میں جو تمہارے ساتھ آ گئی ہوں۔ ‘‘ میرے لہجے میں مایوسی اُتری ہوئی تھی۔

 پتہ چلا کہ پچھلی گلی میں اُن کا ایک ساتھی کل مر گیا تھا۔ سب یار دوست وہاں بیٹھے ہیں بس تھوڑی دیر میں آیا ہی چاہتے ہیں۔

 گھرکے بڑے دروازے سے کوئی چودہ پندرہ سالہ لڑکا باہر آ کر آفتاب کو بتانے لگا۔

 اور میں نے لمبی سانس بھر کر خدا کا شکر ادا کیا۔

 یہ السیّد یحییٰ محسود کا پوتا ہے۔ اُس بچے نے بیٹھک کھول کر ہمیں بیٹھایا۔

 جگہ تو چھوٹی سی تھی پر نظروں کو بھری بھری سی محسوس ہوئی۔ سرخ رنگ کا خوش نما قالین پورے کمرے میں بچھا ہوا تھا۔ اطراف میں چمڑے کے خوشنما گول کشن دھرے تھے۔ دف دیوار پر ٹنگی تھی طبلہ اور طنبورا کونے میں پڑے تھے۔

 بڑے شوقین مزاج بڈھے لگتے ہیں۔ میں نے ہنس کر آفتاب کو دیکھا۔

 عثمان رعمیس کا طنبورہ بجانے کا انداز اور بڑھاپے کے باوجود آواز کا لوچ اور رس غضب کا ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ بھی سُنیں۔

 کوئی آدھ گھنٹہ بعد آگے پیچھے تین ہٹے کٹے قسم کے بوڑھے اندر داخل ہوئے آفتاب فوراً کھڑا ہوا۔

 یا السیّدآفتاب خان۔ ایک زور دار آواز گونجی۔ اور اس کے ساتھ ہی بغل گیری اور رخساروں پر بوسے کی رسم ادا ہوئی۔

 ’’کمال ہے آفتاب ! تم نے تو مجھے بتایا ہی نہیں کہ تم اہل سادات میں سے ہو۔ ‘‘

 وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

 ’’ارے ان کی بات پر نہ جائیے۔ یہ تو چوہڑوں کو بھی السیّدبنا دیتے ہیں۔ ہر کسی کو السیّد کہنا مصری قوم کا تکیہ کلام ہے۔ ‘‘

 میرے لیے یحییٰ محسود کی اَسّی 80سالہ عمر تعجب کا باعث تھی۔ وہ تو اپنی خط مستقیم کی طرح بلند قامت اور ریڑھ کی ہڈی کی استقامت پر ساٹھ 60سال کا بھی بمشکل نظر آتا تھا۔ رنگت گہری سانولی اور لہجے میں رعب داب کی جھنکار تھی۔ محبت بھرے لہجے میں مجھے جی آیاں نوں کہا گیا۔

 آفتاب میرے آنے کی غرض یقیناً بتا چکا تھا تبھی اُس نے ہنستے ہوئے کہا اور میرے خیال میں غالب والا ٹوٹا آفتاب نے اپنے پاس سے اس کے جملے کے ساتھ جوڑ دیا ہو گا۔

 غالب کو اپنے آباء کے سو سالہ پیشہ سپاہ گری پر ناز تھا اور یہاں بھی سوسال سے آباء کے مقبرے لوٹنے کے پیشے پر فخر رہا ہے۔

 اب تفصیل آفتاب کی زبانی ملاحظہ ہو۔

 یحییٰ محسود تاریخ میں نوادرات کے سلسلے کی مشہور اور نامی گرامی چور شخصیت عبدالرسول کا پوتا تھا لکُسر کی جانب عبدالقرنہ نامی گاؤں میں کاشتکاری عبدالرسول کی گزر اوقات کا ذریعہ تھی۔ ایک دن ہل چلاتے ہوئے اُس کے ہل کی نوکیلی نوک نرم زمین میں دھنستی چلی گئی۔ کھدائی سے اُسے ’’نیچے کچھ ہے‘‘ کے آثار محسوس ہوئے۔ کسی کو معلوم نہ ہو جائے کے ڈر سے اُس نے کھدائی کو ملتوی کیا۔ بیوی سے مشورہ کیا یوں مکمل راز داری سے کھدائی کرتے وہ مقبرے کی تہہ تک پہنچ گئے اندر داخلے پر بے شمار چیزوں نے مبہوت کر دیا۔ جتنی اُٹھا سکتے تھے اُٹھا لائے۔

 ایک کے بعد ایک قیمتی مورتیاں مختلف جگہوں پر بکتی ضلعی حکومت کے نوٹس میں آئیں۔ پولیس نے کھوج نکالا تو عبدالرسول پکڑا گیا۔ پر عبدالرسول اور اس کی بیوی دونوں حد درجہ تیز اور زیرک تھے۔ فوراًسے پیشتر انہوں نے بقیہ تمام چیزیں زمین کھود کر دبا دیں۔ اورپولیس کو جائے وقوع پر لے گئے۔ وہاں لاشیں تھیں۔ جو پولیس نے بمعہ سامان قابو کر لیں۔

 پر عبدالرسول زمانہ شناس ہو چکا تھا۔ قسمت نے پھر یاوری کی ایک خشک کنوئیں کے نیچے ایک لمبی سرنگ سے وہ اور اس کے تین ساتھی ایک اور بڑے دفینے تک پہنچے۔ یہاں فرعون بھی تھے او رمال بھی تھا۔ لُوٹا عیاری سے سنبھالا اور پولیس کو اطلاع بھی دی۔

 میرا سارا بچپن سونے چاندی اور پتھروں کی مورتیاں دیکھتے گزرا۔

 میرے باپ نے پھر مجھے قاہرہ میں نوادرات کی دوکان بنا دی۔ میرے گاہکوں کی اکثریت یورپین ہے۔ جو مال خاک بھی نہیں پہچانتے پر دام کھرے دے جاتے ہیں۔ لیکن میں بھی ہمیشہ نمبر ایک اور اب میرا بیٹا بھی نمبر ون یعنی جینوئن چیز بیچتے ہیں۔ یہ ہمارا کاروباری اصول ہے۔

 اور میرے اِس سوال پر کہ لوٹ مار کا سلسلہ اب ختم ہو گیا ہے یا جاری ہے۔

 میرے باپ نے ایک دو جگہ مہم بازی کی۔ پر گورنمنٹ ہوشیار ہو چکی تھی۔ سامان اور لاشوں کی میوزیم میں منتقلی وسیع پیمانے پر ہوئی۔ الحمد للہ ہم سیانے لوگ تھے۔ کھیر تتّی تتّی نہیں کھائی۔ خوب ٹھنڈی کر کے کھائی اور کھا رہے ہیں۔

 کیسا دلچسپ آدمی تھا۔ سچا کھرا نڈر اور بے باک۔

 اور پھر جب موضوع گفتگو فرعونوں کی طرف مڑا تو جیسے یحییٰ محسود پھٹ پڑا۔

 ’’الُو کے پٹھے تھے۔ اتنی ذہین قوم کو الٹی طرف لگا دیا۔ تخت پر بیٹھتے بعد میں مرنے کے سامان کی ذخیرہ اندوزی پہلے شروع کر لیتے۔ سارا خزانہ اور قوم کی ساری توانائیاں گارے اینٹوں پتھروں میں جھونک دیں۔ مندروں پروہتوں اور جادو ٹونوں میں اُلجھے رہتے۔ عام لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے ان کی فلاح و بہبود کو مرکز نظر بنانے کی بجائے وہ اپنے مقبروں کو بہترین اور اپنے پیشروؤں سے زیادہ شاندار بنانے کے مقابلوں اور اگلی زندگی میں عیش کرنے کی تمناؤں میں ضائع کرتے لا محالہ بادشاہوں کی سوچ اور طرز فکر عام آدمی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ غریب بھی عالیشان مقبرے کی خواہش میں گھن چکری بنا رہتا۔

 مصری قوم تخلیقی ذہن کی مالک تھی۔ یہاں بھی فرعونوں نے اُن کی سوچ اور خیال کی اُڑان کے پر کاٹ ڈالے۔ وہ محدود کر دئیے گئے اوراِس پر بھی جو شاہکار انہوں نے بنائے اُن پر دنیا حیرت زدہ ہے۔ اگر کہیں انہیں آزاد کیا جاتا تو یقیناً وہ کچھ وجود میں آتا جس کا تصور بھی محال ہے۔

 میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

 ’’اس حقیقت سے منکر کیسے ہوں گے کہ ماضی آپ کے لئے قیمتی اثاثہ بنا ہوا ہے۔ ساری دنیا میں آپ کی ناموری ہے۔ سیاحت ملکی وسائل کے لئے منفعت کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور معاف کیجئے گا آپ اور آپ کی اولاد بھی تو فرعونوں کا کھٹیا کھا رہی ہے۔ ‘‘

 زور دار قہقہہ پڑا تھا میرے اِس جملے پر۔

 ’’کوئی شک نہیں پر مصر ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے کیا اس کا مقابلہ کسی ترقی یافتہ ملک سے کیا جا سکتا ہے۔ کسی گاؤں میں جائیں اگر تو احساس ہو گا کہ وقت کی رفتار جیسے وہاں رُکی ہوئی ہے۔ ‘‘

 ’’پر اس کے لیے فرعون ہی کیوں مورد الزام ٹھہریں۔ مصر کوا سلامی مملکت بنے ہوئے بھی سینکڑوں سال ہو گئے ہیں۔ ‘‘

’’میری کس بات سے آپ کو محسوس ہوا کہ میں مسلمانوں کا طرفدار ہوں ارے بابا سیاحت اِس ملک کی اہم ترین صنعت ہے۔ لاکھوں افراد اِس روزگار سے وابستہ ہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ انتہا پسند مسلمانوں کے چند جذباتی نعرے ملک کی سیاحتی آمدنی کو صفر پر لے آتے ہیں اور ان کے چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ شہروں اور قریوں میں پھیلی رونقیں ویرانیوں اور اُداسیوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ ‘‘

کتنی کھری اور سچی بات تھی۔ میرے اندر سے جیسے ہوک سی اٹھی۔

 کبھی میرے ملک کے شمالی علاقہ جات، بلوچستان اور اندرون سندھ سیاحوں کی محبوب ترین جگہیں تھیں۔ کوہ پیماؤں کے پُر ے کے ٹو سر کرنے کے لئے آتے۔ 1985 میں شمالی علاقوں کی سیاحت کے دوران میری آنکھیں دنیا بھرسے آنے والے سیاحوں کے ٹولوں کو ہنزہ نگر یاسین شندھور اور وادی سکردو کے ہوٹلوں بازاروں اور سڑکوں پر بکھرے دیکھ دیکھ کر حیرت زدہ سی تھیں۔

 اور اُس چھوٹے سے ہوٹل والے کے الفاظ ہمیشہ میری سماعتوں میں رہتے ہیں جس نے ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد میرے آگے کھانا رکھتے ہوئے کہا تھا۔

 ’’معاف کرنا بی بی آپ تو اپنی ہیں۔ دیر کو معاف بھی کر دیں گی پر اِن غیر ملکیوں کے لئے سروس کی تیزی بہت ضروری ہے۔ ‘‘

 ڈھیر سارے اپنے دکھڑے میرے ساتھ پھولنے کے بعد اُس نے کہا تھا۔

 ’’ہم اپریل سے ان کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سیاح ہمارے لیے رزق کا وسیلہ ہیں۔ ‘‘

 اور 2006 میں ان جگہوں کی ویرانی نے مجھے رُلایا تھا۔ میرا خوبصورت ملک اس وقت دنیا کے سب سے بڑے بدمعاش کی مہربانیوں کے طفیل دہشت گرد بنا ہوا ہے۔

 آنکھوں میں پانی آ گیا تھا جسے میں نے فوراً پوروں سے جذب کرنے کی کوشش کی تھی۔

 خوبصورت ٹرے میں چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں قہوہ آیا۔

 ’’اللہ ‘‘کیسے نادیدہ پن سے میں نے لڑکے کو دیکھا تھا اسوقت شدید طلب تھی چائے کی۔ قہوے کا چھوٹا سا سپ لیتے ہوئے میں نے ممیفیکیشن کے بارے میں پوچھا اور یحییٰ محسود پھر پھٹ پڑے۔

 ’’یہ ایجاد بھی تو اِن کمبختوں فرعونوں کی دین ہے۔ ہر تخلیق ریسرچ ذہنی سوچ وبچار مُردے کو محفوظ کرنے کے لئے ہوا۔ جیتا جاگتا انسان جہنم میں جائے بیماریوں کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑتا رہے۔ ہزاروں سال کا انسان محفوظ ہے۔ مصر کی زمین تھوک کے حساب سے حنوط شدہ لاشیں اُگل رہی ہے۔ دُنیا دنگ ہے اُن دماغوں پر۔ پر بتائیں انہوں نے کچھ انسانیت کے لئے بھی کیا۔ کچھ نہیں۔ ‘‘

 امنہوتپ زوسر کے مقبروں کا انجینئر تھا درحقیقت وہ ایک بہت بڑا ڈاکٹر تھا۔ یونانیوں نے اُسے میڈیسن کا دیوتا کہا۔ بہت زمانوں تک اُس کے طریقہ علاج کو یونان میں میڈیکل کی تعلیم میں پڑھایا جاتا رہا۔ اب اگر ایسے فطین انسان کو اُس کے حسب حال کام کرنے دیا جاتا تو وہ طب کی دُنیا میں نہ جانے کتنے معرکے مارتا۔

 ’’اے چارہ گر کچھ تو ہی بتا۔ ‘‘ میں کہنا چاہتی تھی۔ پر نہیں کہہ سکی ہزاروں سال بعد بھی میرے ملک میں تو ابھی بھی یہی سب ہو رہا ہے۔ اور یقیناً مصر میں بھی ہو رہا ہو گا۔ اینٹ کہیں کی اور لگی ہوئی کہیں ہے۔

 پیالی کا قہوہ تو ان کے صرف دو گھونٹوں کی مار تھا۔ پیالی ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے گویا ہوئے۔ لاش کو حنوط کرنے کا عمل ہاؤس آف لائف میں کیا جاتا۔ یہ عمل اِس فن کے ماہروں کے ہاتھوں انجام پاتا جو نسلوں سے یہ کام کرتے چلے آتے تھے۔

 ممی کرنے کا عمل مردے کی حیثیت کے مطابق انجام پاتا۔ تین طریقے رائج تھے فرعونوں اور امراء وزرا کے لئے جو یقیناً مہنگا ترین تھادوسرا متوسط طبقے اور تیسرا غریب غربا کیلئے۔

 پہلے طریقے میں نتھنوں کے راستے دماغ نکالا جاتا۔ پھر کیسٹرائل اور انیمیا سے اندر کی صفائی ہوتی۔ تیز دھار کے آلے سے لاش کے پہلو میں سوراخ کے بعد جگر دل آنتیں اور پھیپھڑے نکال کر چار ڈھکن والے جاروں میں الگ الگ ڈالے جاتے۔ یہ ہورس دیوتا کے چار بیٹے تصور ہوتے۔ لاش کو مسلسل دھویا جاتا بعد میں مومیا مسالہ لگا کر اور خوشبوئیں بھر کر پہلو سی دیا جاتا۔ تقریباً ڈھائی ماہ لاش کو بورہارمنی میں رکھ کرغُسل دیا جاتا اور دعائیں پڑھی جاتیں۔ اور پھر گوند میں سوتی کپڑے کی پٹیاں بھگو اور سکھا کر اُسپر لپیٹی جاتیں۔

 دوسرے طریقے میں لاش کے نچلے حصےّ سے مسالے کی ایک پوٹلی اس کے اندر رکھی جاتی۔ یہ مسالہ اُس کی سب اندرونی کثافتیں رقیق صورت میں باہر لے آتا۔ بعد ازاں مسالے کی پوٹلی نکال لی جاتی۔ اور لاش پر مومیہ سفوف لگایا جاتا۔ یہ سفوف دراصل کوہستان برق سے پانیوں کے ساتھ بہہ کر آنے والا ایک موٹا اور کئی تہوں پر مشتمل سخت قسم کا مرکب ہوتا جسے پیس کر سفوف بنایا جاتا۔

 آخر میں لاش کو سوتی پٹیوں میں لپیٹ دیا جاتا۔

 پر تیسراطریقہ بیچارے ماٹھے لوگوں کیلئے۔ عمل میں دو اقدام پر مشتمل مومیائی سفوف چھڑک کر لاش کو رسیوں سے باندھ کر دھوپ میں رکھ دیا جاتا۔ چلو قصہ ختم۔

 اب عثمان رعمیس کو سننا میری قسمت میں نہ تھا۔ اُن کا قریبی یار مرا تھا۔ اور وہ سب افسوس کی حالت میں تھے۔ نہ طنبورا بجا نہ دف نے آواز بکھیری اور نہ عثمان کی آواز نے جادو جگایا۔

 پر اُٹھتے ہوئے اور اُن سے اجازت لیتے ہوئے میں شکر گزار تھی کہ چلو شام کسی جوگے تو آئی یونہی بازاروں کی خجل خواریوں میں اکارت تو نہیں گئی۔

٭٭٭

 

۲۱۔شہر اسکندریہ قلوپطرہ

               سیسل ہوٹل مسجد ابو عباس

 ’’اسکندریہ کے لئے تو ہر گھنٹے بعد گاڑی جاتی ہے۔ ‘‘

 ہم نے تو نو بجے کی ٹرین کے لئے دُڑکی لگائی تھی۔ پر بکنگ کاؤنٹر پر پہنچ کر پتہ چلا کہ ٹرین تو چلی گئی۔ وہی اپنی پرانی عادت کے اظہاریئے نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں ظہور پذیر ہوئے۔ آنکھوں میں تفکّر کے عکس اضطراری حالت میں ہاتھ کا سینے پر جانا لہجے میں گھبراہٹ اور پریشانی کہ ’’اب کیا ہو گا۔ ‘‘

 اندر بیٹھی صحت مند سُرخ وسفید خاتون نے ان سب علامات کا مشاہدہ کرتے ہوئے اطمینان بھرے لہجے میں وہی کہا۔ جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔

 چلو سانس تو ہموار ہوئی۔ آدھ گھنٹے بعد آنے اور ٹکٹ لینے کے لئے کہا گیا۔

 انگریزوں کی بنائی ہوئی چیزیں بولتی ہیں۔ کتابوں کے سٹال پر انگریزی اخبار دیکھتے ہوئے میری نظریں گرد و پیش کا بھی جائزہ لیتی جاتی تھیں۔

 چھبیس 26 مصری پاؤنڈ کا ٹکٹ لیکر ہم اُس ریسٹورنٹ میں آ کر بیٹھ گئے جہاں ٹی وی پر عربی گانے چلتے تھے لوگ باتیں کرتے اور قہوے کے کسیلے گھونٹوں کو چاہتوں سے حلق سے نیچے اُتارتے تھے۔

 کمرے میں ایک انتہائی خوبصورت الٹرا ماڈرن خاتون داخل ہوئی۔ میک اپ پہناوا اور حرکتیں سبھی کسی اے کلاس ایکٹریس جیسی۔ چین سموکر تھی۔ پہلا سگریٹ بجھنے نہ پاتا کہ نیا جل جاتا۔

 گاڑی مزے کی سیٹیں آرام دہ اور وقت کی پابند ساری خوبیوں سے مزین تھی۔ قاہرہ اور اسکندریہ کے درمیان پہلی ریلوے کا انجینئر رابرٹ سٹیفنسن STEPHENSON جارج سٹیفنسن (بھاپ کے انجن کا موجد) کا بیٹا تھا۔ چلو باپ کے کارناموں کو اولاد نے اور یادگار بنایا۔

 راستے میں سنگتروں کے باغ تھے۔ نارنجی مالٹے تھے۔ ٹرین کی دونوں اطراف سبزے سے نہال تھیں۔ پر گند بھی بڑا تھا۔ دو منزلہ مکانوں نے کہیں آرائشی نیکلس پہن رکھے تھے کہیں اُن کے ماتھے بندی ٹیکوں سے سجے ہوئے تھے۔ تا حد نظر گندم کی فصل اور بھینسوں کا چرنا کھجور کے درختوں کا بانکپن دیکھتے دیکھتے اور اس کے تاریخی اوراق کی ورق گردانی کرتے ہوئے ڈھائی گھنٹے گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا۔

 اسکندریہ مصر کا دوسرا بڑا شہر بحیرہ روم کا موتی جسے سکندراعظم نے تعمیر کیا۔ یہ بھی کیسی ستم زدہ بات تھی کہ اپنے نام پر تعمیر اپنے اِس شہر کو اِسے دیکھنے کا موقع کبھی ملا ہی نہیں۔ اسکندریہ پر کیا موقوف اُس نے اپنی زندگی میں اپنے نام پر ساٹھ سے زیادہ بننے والے شہروں میں سے کتنوں کو دیکھا ہو گا۔ اور کتنے یونہی اُس کی کی ایک نظر کے عشّاق دید رہے ہوں گے۔

 بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ اگر اس کی باریک بین نگاہوں نے اِس جگہ کی خوبصورتی اور محل وقوع کی اہمیت کو پل جھپکتے میں محسوس کرتے ہوئے اپنے آرکیٹکٹ ڈینو کریٹس کو شہر پلان کرنے کے لئے کہا۔ تو وہیں فاتح مصر کے ساتھیوں نے اسکندریہ کو فتح کرنے کے بعد اسے دارالحکومت بنانے پر زور دیا پر مدینے میں بیٹھے ہوئے خلیفہ عمرؓ کی زمانہ شناس آنکھ نے بھی بطور کیپٹل سٹی کے اس کی موزونیت کو فوراً ردّ کر دیا۔

 سکندر اعظم کی وفات کے بعد پٹولومی (سکندراعظم کا ایک سپہ سالار) خاندان نے تقریباً 300قبل مسیح تک یہاں حکومت کی۔ انہوں نے فلاسفروں سائنس دانوں آرٹسٹوں اور لکھنے والوں کو دوسری جگہوں سے لا کر یہاں بسا کر شہر کی اہمیت اُس کے حُسن اور اُس کی قدر و قیمت کو دو چند کر دیا۔ دوسو قبل مسیح تک اِسے دنیا میں ایک بڑے امیر ترین الٹرا ماڈرن شہر کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ اس کی خوبصورت عمارات یونیورسٹی لائبریری اور حیران کرنے والا لائٹ ہاؤس PHAROS جس کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں سے تھا سب دنیا کے لئے باعث رشک تھے۔

 پٹولومیز نے جزیرے PHAROS اور شہر کے درمیان ایک پُل بھی بنایا جس سے دو بندر گاہیں وجود میں آئیں جو آج کل مشرقی اور مغربی بندر گاہیں کہلاتی ہیں۔

 دنیا کی شہرہ آفاق شخصیت قلو پطرہ پٹولومی اولے طیس کی بیٹی تھی جس کی شادی اس کے بھائی سے سترہ سال کی عمر میں اُس کی خواہش کے برعکس ہوئی۔ دس سال کا لڑکا اُس جیسی اقتدار کی ہوس میں ڈوبی بجلیاں گرانے والے حسن کی مالک اور زندگی کی رنگینیوں سے ہر لحظہ لطف کشید کرنے کی خواہشمند عورت کی ناک تلے آتا۔ ہمسایہ مُلک کے رومن شہنشاہ جولیس سیزرکو حملے کی دعوت دے دی۔ نوٹ (جولیس کے بارے میں ایک غلط بات کا ازالہ ضروری ہے کہ وہ دنیا کا پہلا سیزیرین بچہ تھا۔ وہ خود نہیں بلکہ یہ اس کا قانون LEX CAESAREO یعنی LION OF CAESAREO تھا۔ صحت مند بچے کو ماں کا پیٹ چاک کر کے نکال لیا جائے۔ اِس عمل میں ماں مرتی ہے مر جائے۔ بچہ زندہ رہنا چاہیے۔ ایسے تمام بچے سیزیرین برتھ سیکشن میں رکھے جاتے اور ان کی بہترین تربیت ہوتی۔ کیونکہ جولیس کو بہادر اور دلیر جنگجوؤں کی ضرورت تھی۔ )

 حملہ ہوا۔ اس کا شوہر (بھائی بھی) مارا گیا۔ مصر رومن سلطنت کا ایک صوبہ بنا۔ اِس حملے میں علم وآگہی کا گھر مشہور لائبریری جل گئی۔ اور یہ بھی ہوا کہ قلوپطرہ جولیس کی محبت میں گرفتار ہو گئی۔ جولیس نے اُسے مصر کی ملکہ بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی بھی ملکہ بنایا روم لیکر گیا۔

 چوالیس 44 قبل مسیح میں ایک رومن جرنیل مارک انتھونی نے مصر پر حملہ کر کے سیزر کو قتل کر دیا۔ انتھونی بھی اُس کے بے مثل حُسن کا دیوانہ ہوا اور وہ بھی گھائل ہوئی۔ شادی ہوئی انتھونی اُس کے ساتھ اسکندریہ آ گیا۔ پر رومنوں نے اِس عمل کو ناپسندہی نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف صف آرا بھی ہوئے۔ باقاعدہ فوج اور بحری جہازوں سے مقابلہ ہوا۔ یہ بڑی خون ریز قسم کی لڑائی تھی جو یونان کے قریب لڑی گئی۔ دونوں کو شکست ہوئی۔ ان کی موت کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں۔

 دونوں مارے گئے۔ انتھونی لڑائی میں مرا اور قلوپطرہ نے واپس آ کر خود کو سانپ سے ڈسوالیا۔ دونوں واپس ا سکندریہ آئے اور خود کشی کر لی۔

 پھر ایرانی شہنشاہ CHOSROS II نے اس پر حملہ کیا اور رومنوں کو شکست دے کر شہر پر قبضہ کر لیا۔ لیکن گوایرانی زیادہ عرصے تک شہر پر قابض نہیں رہے۔ اور یہ ایک بار پھر رومنوں کے پاس تھا۔

 643ء میں اسے مسلمانوں نے سپہ سالار حضرت عمرو بن العاص کی زیر قیادت فتح کیا۔ قاہرہ کے کیپٹل سٹی بننے سے یہ نظر انداز ہو کر رُو بہ زوال ہوا۔ نپولین ماڈرن خیالات رکھنے والے عالم لوگوں اور محمد علی پاشا کی آمد نے اِس شہر کو دوبارہ نئی زندگی دی۔ نہر سویز کے کھلنے اور 1950ء کے مصری انقلاب نے اس کی گزشتہ شان و شوکت کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔

 تو وقت کے ہاتھوں اتنے چرکے کھانے۔ بن بن کر بگڑنے اور بگڑ بگڑ کر بننے والایہ شہر بس کو ئی دم میں آیا چاہتا تھا۔ کمپارٹمنٹ میں کھلبلی سی تھی۔ ایک ہلچل مچی تھی۔

 میں نے باتھ روم جانے کا سوچا کہ اُتر کر تو معلوم نہیں کتنی دیر لگے کوئی ٹھور ٹھکانہ ڈھونڈنے میں باتھ روم جانا بھی تو کسی عذاب سے کم نہیں۔ بیگ میں رکھے ٹشو پیپروں سے پہلے کموڈ کی صفائی کرو پھر فراغت کے مرحلوں سے گزرو۔ جب اِس مشکل کام سے فارغ ہو کر آئی تو کمپارٹمنٹ میں ایک جوڑے کے سوا وہ دونوں بیگ شانوں پر لٹکائے دروازے کے پاس منہ اٹھائے میرے انتظار میں کھڑی تھیں۔ مہرالنساء نے چلاتے ہوئے کہا۔

 ’’گھر بنا لیتی ہو باتھ روم میں۔ ‘‘

 اور جیسے بھونچال آ جائے۔ ٹرین چل پڑی تھی۔

 ’’میرے اللہ‘‘ شیطان کی آنت جیسے لمبے کمپارٹمنٹ کے ایک سرے پر میں اور دوسری انتہا پر وہ دونوں۔ بھاگی قریب پہنچی۔ گاڑی لمحہ لمحہ رفتار پکڑ رہی تھی۔

 میں زور سے چلائی۔

 ’’چھلانگ لگاؤ۔ ‘‘

 اور ثنا جو بیگ کندھے پر لٹکائے دروازے کی راڈیں پکڑے کھڑی تھی اسوقت ٹینی سن کے ان اشعار کی عملی تفسیربنتے ہوئے پلیٹ فارم پر پل جھپکتے میں کود گئی۔

There’s not to reason why There’s but to do and die.

 ’’میرے اللہ!‘‘

 اِن آنکھوں نے جو دیکھا وہ کلیجہ پیٹ لینے والا تھا اور وہ میں نے پیٹ لیا۔ ثنا پلیٹ فارم پر اپنے بیگ گاگلز ہیٹ اور جوتوں کے ساتھ بکھری پڑی تھی۔

 کیا کروں کود جاؤں۔

 رفتار میں تیزی آ گئی تھی۔ یوں لگا جسے کودی تو گٹے گوڈے ٹوٹ جائیں گے۔ سٹیشن پر لوگ کھڑے دیکھتے تھے۔ پر کسی نے کچھ نہیں کیا۔

 جلے پاؤں کی بلی کی طرح پورے ڈبے میں ایمرجنسی زنجیر کی تلاش میں بھاگتی پھر رہی تھی لگتا تھا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔ پردیس جوان لڑکی۔ پتہ نہیں کہاں کہاں چوٹیں آئیں۔ نہ کوئی واقف نہ جاننے والا۔ میرے معبود کیا غلطی ہو گئی ہم سے۔

 پھر جیسے دو بازوؤں نے مجھے تھام لیا۔ مجھے سینے سے لگا لیا۔

 گھبرایئے نہیں یہ SIDI سٹیشن تھا۔ آگے Mahatta Misr Stationہے۔ مرکزی سٹیشن۔ وہاں سے ٹیکسی مل سکتی ہے۔ ٹرین میں ہی بیٹھ کر یہاں آسکتی ہیں۔

 یہ وہ خاتون تھی جو ڈبے میں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ بُرقع پہنے ہوئے۔ جسنے بھل بھل بہتے میرے آنسوؤں کو صاف کیا۔

 دونوں میاں بیوی تسلّی اور دلجوئی کے شیریں لفظوں سے میری پریشانی کے ازالے میں مصروف تھے پر میرا دل اُڑا اُڑا جاتا تھا۔ بڑی خوفناک اور بھیانک تصویریں میرے سامنے آ کر مجھے ڈرائے اور ہولائے جا رہی تھیں۔

 گاڑی رکی تو جیسے میرے قدموں کو پہیے لگ گئے پر خاتون نے میرا ہاتھ تھام کر میری رفتار کو کم کر دیا۔

 ’’حوصلہ رکھو۔ ‘‘

 مہرالنساء سامان اٹھائے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہتی جاتی تھی۔

’’خدا پر توکل رکھو۔ ‘‘

 باہر آئے۔ ٹیکسی سٹینڈ کی طرف جانے والے تھے کہ عقب سے آوازیں آئیں۔ ’’آنٹی آنٹی‘‘ گھوم کر دیکھا۔ ثنا بھاگی آ رہی تھی۔

 تشکر کے آنسوؤں نے اُس کی صورت دھُند لا دی۔ بانہوں کے دائروں میں سمیٹ کر اُس کا منہ ما تھا چومتے ہوئے اُس کی خیریت دریافت کی۔ اُس کی سمجھ داری اور ذہانت کو بھی سراہا کہ وہ کپڑے جھاڑ کر اُٹھی۔ فی الفور انکوائری آفس سے تفصیل جان کر ٹیکسی اُڑاتی ہوئی ہمارے پاس پہنچ گئی۔

 اُس جوڑے کا شکریہ تہہ دل سے ادا کیا۔ نکھری چمکتی دھوپ میں نیلے آسمان والے کا بھی کہ جس نے ہماری تفریح کا پٹڑہ ہونے سے ہمیں بال بال بچا لیا۔

 اب ذرا گرد و پیش پر نگاہ ڈالی۔ تو لاہور ریلوے سٹیشن سے ملتاجلتا پر صفائی ستھرائی میں ذرا اُس سے بہتر ماحول نظر آیا۔

 بیگ کی سٹرپ ٹوٹ گئی تھی۔ کسی موچی کی تلاش تھی۔ کچھ کھانا مقصود تھا۔ آنکھیں کسی طعام خانے کی کھوج میں تھیں۔ ذرا اور آگے بڑھے تو چھوٹی پٹڑی پر ٹرام چلتی نظر آئی۔ جی چاہا اُچک کر اسمیں بیٹھ جاؤں موچی نظر آ گیا تھا۔ منظر بالکل نو لکھا بازار جیسا لگا تھا۔ بیگ کو ثنا کی ہدایت پر مکمل خالی کر کے موچی کے حوالے کیا اور خود ایک قہوے کی دوکان میں آ بیٹھے تھے۔ ماحول میں قہوے کی چسکیاں تھیں دیوار پر آویزاں ٹی وی کی تیز گونج دار آوازیں اور شیشہ پیتے لوگوں کی باتیں۔

 بیگ میں چیزیں واپس رکھتے ہوئے دفعتاً اندرونی زپ والی جیب پر نظر پڑی۔ یونہی کھول لیا اندر سو ڈالر کا نوٹ تھا جسے بدلوانے کے لیے صبح نکالا تھا۔

 موچی نے کھینچ کر طمانچہ منہ پر مارا تھا۔ چھوٹے انسان بھی ایمان رکھتے ہیں۔

 کھسیا کر میں نے بھی خود کا دفاع کیا۔ احتیاط اور حفاظت ضروری ہے۔ بعد کا پچھتاوا بے کار ہے۔

 ذرا آگے ڈھیروں لوگ کُشری کھانے میں جتے ہوئے تھے۔ ہم بھی جا شامل ہوئے۔ کسی سے ہوٹل کا پوچھا۔ اُس نے سیسل ہوٹل کی ڈھیروں خوبیاں گنوا دیں۔ سب سے بڑی بات اس کا سستا ہونا تھا۔

 ٹیکسی میں مطلوبہ جگہ پہنچے تو اپنے سامنے سڑک پار تا حد نظر پھیلا سیاہی مائل نیلاسمندر دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے۔ بے حس و حرکت کھڑے فطرت کے اس پُر ہیبت اور جاہ و جلال سے بھرے منظر کو دیر تک تکتے رہے۔ جب حواسوں میں آئے تو سیسل ہوٹل کی پُر شکوہ عمارت کو دیکھا۔ عمارت کے بانکپن وجاہت اور محل وقوع کے ساتھ ’’سستا بھی‘‘ کچھ لگاّ نہیں کھاتا تھا پر جب ہمیشہ سے مدرسہ فکر مُلّا سبق نہ دیوے گاتے کَرنوں (گھر) وی نہ آن دیوے گا (یعنی ملّا اگر سبق نہیں دے گا تو کیا گھر بھی نہ آنے دے گا) جیسا ہو تو پھر منہ اٹھا کر دروازہ کھولنے اور پوچھ پڑتال میں کیا امر مانع تھا۔

 بڑے طمطراق سے اندر گئی پر دو سو ڈالر کاسن کر منہ لٹکانے کی بجائے کہ جس کے کارن ہوئے بیمار اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں کے مصداق اب معقول ریٹ والوں کے اتے پتے کی دریافت بھی اُن ہی سے ہونے لگی۔

 پیشانی پر ناگواریت کی ہلکی سی کوئی لکیر ڈالے بغیر رہنمائی کی گئی اب میرا شکریہ ادا کرنا تو واجب تھا۔ پر یونانی حُسن سے مالامال دونوں لڑکے بھی کسی نسلی ماں باپ کے تخم تاثیر تھے خوبصورت انگریزی والے لب و لہجے میں احترام اور ادب کا رچاؤ گھولتے ہوئے انہوں نے معذرت کی کہ سیسل ہوٹل اسکندریہ کا لینڈ مارک ہے۔ 1930ء میں بننے والے اس ہوٹل کے مہمان سمر سٹ ماہم SMERSET MAUGHAM اور ونسٹن چرچل رہے ہیں۔ چرچل نے تو ملٹری آپریشنز کی نگرانی کے لئے اِسی ہوٹل میں لمبا قیام بھی کیا تھا۔

 ’’ارے واقعی ‘‘ اس انکشاف پر میں نے مسرت بھرے لہجے میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔

 تب تو میں بڑی تاریخی جگہ پر کھڑی ہوں۔

 ذرا سا پیچھے کیپری ہوٹل والوں سے لمبی چوڑی بحث کے بعد سو مصری پاؤنڈ پر کمرے کا حصول گویا میدان مار لینے کے مترادف تھا۔ ہوٹل ابھی زیر تعمیر تھا چھٹے فلور پر کمرہ۔ صبح کا ناشتہ گول۔ پر کمرے کی کھڑکی اور عقبی ٹیرس نے جو منظر دکھائے اُس کے پیش نظر ایسے ہزار ناشتے اُسپر قربان۔

 کم خرچ بالانشین پر عمل ہوا۔ سعد زغلول سکوائر سے ٹرام میں سوار ہوئے کہ شہر سے تھوڑا سا تعارف ہو جائے۔

 بیٹھتے ہی لگا جیسے شہد کی مکھیوں کے نرغے میں آ گئے ہوں۔ پانچ خوبصورت تیز طرار لڑکیاں انگریزی سے نابلد پر سارے ماڈرن لوازمات سے لیس ثنا سے خصوصی اور ہم دونوں سے عمومی انداز میں یوں ملیں کہ جیسے زمانوں کی شناساہوں۔ زبان کی دشواری کوجسچر سے حل کیا گیا اپنے منگیتروں کے احوال بڑی خوبی سے بیان کر گئیں۔ پتے اور فون بھی ثنا کو تھما دیئے۔ کل شام گھر آنے کی پر زور دعوت پر بھی اصرار ہوا۔

 عجیب سی بات تھی۔ جب ہم ابوعباس سکوائر پر اُترے ہمیں محسوس ہوا تھا جیسے اپنے ہی لوگوں سے ملے ہیں۔

عمارتوں کے حسن و دلکشی کو ایک طائرانہ نگاہ نے بھی جان لیا تھا۔ کچھ کا طرز تعمیر انفرادیت کے رنگ لئے ہوئے تھا۔ صاف ستھری سڑکیں لوگوں اور سیاحوں کے پروں سے بھری ہوئیں۔

 سہ پہر کی دھوپ خوشگوار تھی اور سمندر کا کنارہ تھا ہم کشادہ سی پست قامت دیوار پر بیٹھے اپنے سامنے بکھرے سمندر کو دیکھتے تھے۔ مشرقی بندرگاہ کے شمالی سرے پر سلطان قطبی کا قلعہ سکندریہ کے ایک امتیازی نشان کے طور پر دکھائی دیتا تھا۔ عمارت کی چوٹی پر نصب مصر کا قومی جھنڈا ہواؤں سے پھڑ پھڑا رہا تھا۔ مشرقی ساحلی حصہ چھوٹی بڑی کشتیوں لانچوں اور اُن میں سوار لوگوں کے ہجوم سے سجا ہوا تھا۔ ایک چہل پہل زندگی سے پرُ نظارے بصارت کو تحیر آمیز سی مسرت سے آشنا کرتے تھے۔

 جہاں آج قلعہ ہے وہاں کبھی دنیا کا ساتواں عجوبہ لائٹ ہاؤس تھا۔ پٹولومی II کا تعمیر کردہ جس کے ایک سو اسّی180 فٹ بلند میناروں میں ہمہ وقت آگ جلتی اور بڑے بڑے شیشوں میں سے منعکس ہو کر پچاس کلومیٹر دوری پر سفر کرتے جہازوں کو راستہ دکھاتی۔ 1303ء اور 1362ء کے زلزلوں میں اُس کا بہت سا حصہ تباہ ہوا اور پھر اسی پر مصر کے حکمران نے قلعہ تعمیر کروایا۔

 ثنا تصویر کشی میں مصروف تھی۔ مہرالنساء کسی لڑکی سے باتیں کر رہی تھی۔ اور میں سمندر کی وسعتوں میں اُن کرداروں کو جو اس کی سرکش لہروں کا سینہ چیرتے مختلف وقتوں میں اس کے ساحلوں پر اُترے اور تاریخ میں درج ہوئے۔ اپنے سامنے خیالی پیکروں میں دیکھتی تھی۔

 اور جب ہواؤں میں تیزی اور خنکی بڑھی۔ دھوپ نے رخصت چاہی ہم تینوں کھڑی ہو گئیں میں مسجد ابوعباس میں مغرب کی نماز چاہتی تھی۔ دونوں نے بتایا کہ وہ دوکانیں دیکھیں گی اور پھر مسجد کے سامنے کھلے میدان میں آ جائیں گی۔

 بڑا خوبصورت چوک تھا۔ سبزہ کھجور کے درخت۔ اطراف میں شاندار دوکانیں میں مسجد کے سامنے کھلے میدان میں آ گئی۔ خیرالنساء میدان۔ سامنے قوالی ہو رہی تھی۔ مردوں سے بھرا ہوا پنڈال۔ اوہو مجھے یاد آیا تھا۔ ربیع الاول نبی پاک کی ولادت سعید کا مہینہ۔ یہ اہتمام اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ مائیک پر پڑھی جانے والی نعت عربی کے باوجود میری سمجھ میں آ رہی تھی۔

 مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر سے بڑی منفرد لگی۔ کتابچہ کھولا اور پڑھا۔

 1219ء ا انڈولوسیہ ANDALUSIA سپین کے ایک قصبے میں اِس عالم دین کی پیدائش ہوئی۔ حج کرنے گئے تو جہازتنسیہ Tunisia کے قریب غرق ہو گیا۔ خدا نے انہیں بچا لیا۔ تیونس میں اسلام کی تعلیمات کا آغاز کیا۔ یہیں ان کی ملاقات ابوالحسن شازی سے ہوئی 1248ء میں ابوالحسن نے اسکندریہ کو اسلامی تعلیمات کے لئے منتخب کیا۔ ابوعباس بھی ان کے پاس آ گئے۔ ان کی بیٹی سے شادی بھی کی۔

 1767ء میں الجریا کے لوگوں نے ابوعباس کو خراج پیش کرنے کے لئے ایک مسجد بنائی۔ 1940ء میں بننے والی اسکندریہ کی یہ مسجد اُسی کے نمونے پر تعمیر کی گئی۔

 خواتین والے حصے میں داخل ہوئی تو عورتیں بھری پڑی تھیں۔ اس اجنبی چہرے کو جو ایک عجیب سے لباس میں ملبوس تھا کو سبھوں نے ایک پل کے لئے حیرت سے دیکھا۔ پر میری زوردار آواز میں اسلام وعلیکم کچھ بے تکلفی اور مانوسیت پیدا کرنے کا باعث ہوئی۔

 قالین پر بیٹھ کر میں نے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں۔ مسجد ستونوں پر کھڑی تھی جو اوپر جا کر چوڑی محرابیں بناتے تھے یہ اُبھری ہوئی کندہ کاری سے مزین تھیں۔ فانوسوں کا سٹائل ترکی کی مسجدوں جیسا اور چھت کا درمیانی حصہ ہشت پہلو تھا۔ جب میں میدان میں کھڑی اس کا جائزہ لیتی تھی۔ مجھے اس کے چار گنبدوں کی ساخت بڑی منفرد سی لگی تھی اور مینار صرف ایک نظر آیا تھا۔ ڈیوٹی پر بیٹھا پولیس والا انگریزی سے خاصی شناسائی رکھتا تھا۔ میں پاکستان سے ہوں۔ اس کی خوشی قابل دید تھی۔ اور یہ مجھے اسی سے پتہ چلا تھا کہ مسجد انڈو لوسین Andalusianسٹائل کی ہے۔ مسجد کے کنگورے دروازوں کے اوپر جالی دار ڈیزائن اور رنگ و روپ سب زبردست تھے۔

 مغرب کی نماز کے لئے سرجھکایا تو میرے آنسونکل آئے۔ پتہ نہیں آنکھیں بھیگتی ہی جا رہی تھیں۔ بہت دیر بعد مسجد سے نکلی۔ میدان النساء میں جیسے میلا لگا ہوا تھا۔ ایک شادی شدہ جوڑا سلام کے لئے آ رہا تھا۔

 ساتھ ہی بازار تھا ابو عباس بازار۔ انڈیا انڈیا کی پکار ہوئی۔ پر پاکستان کا سن کر فوراً خوشی کا اظہار ہوا۔ اسلام کا نعرہ لگا۔

 چلو ابھی اتنی سی رمق باقی ہے۔ اور خدا کے لئے کیا مشکل ہے اِس خاکستر کو چنگاریوں میں بدلنا۔

 بازار میں ہی اُن دونوں سے ٹکراؤ ہو گیا۔ الّم غلّم کی خریداری میں ہلکان ہوتی پھر رہی تھیں۔

٭٭٭

 

۲۲۔سکندریہ یونیورسٹی۔ لائبریری

               سٹینلے برج۔ گریکو رومن میوزیم

مونتزہ

 ناشتے کے لئے ہوٹل والوں کا تو کورا چٹا جواب تھا۔ اس لیے ذرا صبح ہی نکل پڑے۔ باہر جانے سے قبل ڈائننگ ہال کی تاکا جھانکی کرنی پتہ نہیں کیوں ضروری سمجھی۔ ہوٹل والوں کو لعن طعن کرنا مقصود تھا شاید۔

 سعدزغلول سکوائراسکندریہ کا اہم تفریحی اور کاروباری مرکز جس کے مختلف ٹرمینلز اور ٹرین سٹیشن سیاحوں اور مقامی لوگوں کو حد درجہ سہولت سے مختلف ریسٹورنٹوں سنیماؤں اور دیگر قابل دید جگہوں پر لے جاتے ہیں بلیک گرینائٹ سے بنا ہوا مصر کے قومی لیڈر سعدزغلول کا طویل قامت اور اس کے نیچے چھوٹا سا آئسس دیوی کا مجسمہ اِس سکوائر کی شان بڑھانے کا باعث ہیں۔ یہاں سے ٹرام میں بیٹھے اور چیکر سے اسکندریہ لائبریری کے لئے کہا۔ مجھے اسے دیکھنے کی شدید تمنا تھی۔ دُنیا کی چند بہترین لائبریریوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

 یہ الشاطبی سٹاپ تھا۔ وہاں سے کوئی فرلانگ بھر کا فاصلہ تھا پر راستے میں اسکندریہ کالج اور یونیورسٹی کی کینٹین نظر آ گئی۔

 لڑکے لڑکیوں کا کھلا ڈُلا ماحول۔ کھانے پینے کی کھلی ڈُلی جگہ جس کی صرف چھت تھی باقی ہر جگہ سے کھُلی۔ لڑکے لڑکیاں بھی غالباً بھوکے پیاسے ہی گھروں سے اُٹھ کر آئے ہوئے تھے۔ رش تھا۔

 نہ بولی سے واقف نہ کھانے سے بس اشاروں سے سمجھایا کہ جو یہ کھا رہے ہیں وہی ہمیں دے دو۔

 مقام شکر تھا کہ کھانا مزیدار تھا اور ہمیں ہوٹل کے ناشتے کو لعن طعن کرنے کا جواز مل گیا۔

 اسکندریہ یونیورسٹی تو یرغمال ہوئی پڑی تھی۔ سپاہی دروازوں پر یوں تنے کھڑے تھے جیسے شہر دشمن کے قبضے میں آ گیا ہو۔ داخلے کی کوشش پر رعونت سے روکے گئے جیسے ہمارے اندر جانے سے فساد خلق کا اندیشہ ہو۔ طلبہ کا شناخت کے ساتھ داخلہ مادر علم کی درسگاہ میں نہیں بلکہ کسی اسلحہ ساز فیکٹری میں جان پڑتا تھا۔

 یونیورسٹیوں پر یہ پہرے سمجھ سے باہر تھے۔ مسجدوں پر تالے اور پہرہ داریاں تو اب پاکستان میں بھی شروع ہو گئی ہیں پر یونیورسٹیاں ابھی اِس قید وبندسے آزاد ہیں۔

 الازہریونیورسٹی میں بھی یہی صورت پیش آئی تھی۔ سڑک پار لائبریری بھی تھی پر آگے بڑھنے کی بجائے فٹ پاتھ پر کھڑی میں کسی سے اس کی وجہ جاننا چاہ رہی تھی۔ ایک تو کمبخت زبان بھی ہر جگہ روڑے اٹکاتی تھی۔

 بہر حال اچھے لہجے میں انگریزی بولنے والے ایک لڑکے نے اس کا تڑاخ سے جواب دیا۔

 اسرائیل اور امریکہ کو خوش کرنا مقصود ہے۔ ایک عدد گالی حسنی مبارک کو بھی نکالی گئی۔ پٹھو بنا ہوا ہے ان طاقتوں کا۔

 عراق اور فلسطین کے مسائل ہر مسلمان کے لئے تکلیف دہ تو ہیں۔ کہیں سے بھی اینٹی امریکہ اور اینٹی اسرائیل کی کوئی فکر یا تحریک کسی بھی خارجی ذریعے سے یوینورسٹیوں تک پہنچے۔ یہ انہیں برداشت نہیں۔ مصر میں ہمیشہ طلبہ کا انتہائی اہم اور خصوصی کردار رہا ہے۔ فوجی انقلاب سے قبل وہ اپنی ناپسندیدہ حکومت کا جب اور جس وقت چاہتے تختہ اُلٹ دیتے۔ یہی خوف حاضر حکمرانوں کو سکون نہیں لینے دیتا۔ درس گاہیں اسی لیے پا بہ جولاں کر دی گئی ہیں۔ لڑکا سرتا پا جیسے سڑاہوا تھا۔

 لائبریری کی عمارت کسقدر شاندار تھی۔ اس کا اندازہ الفاظ کے ساتھ ممکن ہی نہیں۔ ٹکٹ خریدا لائن میں لگے۔ چیکنگ کے مرحلوں سے گزرے اور اندر پہنچے۔

 علم کی یہ دنیا منفرد طرز تعمیر کے احاطوں میں بٹی سمندر کے کنارے جس خوبصورتی سے کھڑی تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ سکندریہ کی پرانی لائبریری اگر علم و آگہی کا روشن مینارہ تھی تو موجودہ لائبریری بھی اُس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس کے کانفرس ہال دنیا بھر کے دانشوروں کے لیکچرز کے لئے کھلے ہیں۔ یہاں نوجوان نسل کے لئے ہر موضوع پر ہر وہ کتاب دستیاب ہے جو یورپ کی کسی قابل ذکر لائبریری میں ہو۔ نابینا لوگوں کے لئے ایک پورا بلاک بنایا گیا ہے۔ سائنسی میوزیم، نوادرات کا میوزیم، سکرپٹ میوزیم، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے انفرمیشن سٹڈیز، کانفرس ہال۔

 اِس نیو لائبریری کا افتتاح اکتوبر 2002 میں ہوا جس میں اَسی 80 ممالک کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی تھی۔

 کاش کوئی ایسی لائبریری میرے ملک میں بھی ہوتی۔

 وہاں سے نکلے تو سٹینلے برج پر آ گئے۔ سٹینلے برج اور بحیرہ روم کو اُس خوبصورت و جیہہ شادی شدہ جوڑے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جنہیں دیکھتے ہی بے اختیار زبان سے نکل جاتا ہے۔ ’’اے ہے کیا چاند سورج کی جوڑی ہے۔ ‘‘

 یہ دونوں بھی ایک دوسرے کے حسن کو بڑھاوا دینے اور چار چاند لگانے میں پیش پیش ہیں۔

 سٹینلے برج کا چار سو نوے میٹر لمبا ٹکڑا جو AL SARAYAکسینوسے SYRIAالثریا تک خوبصورت سڑک کناروں کی لائٹس آہنی جنگلوں اور اپنے بڑے اور چھوٹے محرابوں والے سہ منزلہ منفرد میناروں سے خود کو بہت نمایاں کرتا ہے۔

 سٹینلے برج سے سمندر کا نظارہ بندے کو فی الفور سبحان اللہ کہنے پر مجبور کرتا ہے۔

 سمندر کے بے شمار جاذب نظر رنگ کہیں پستئی کہیں گہرا سبزکہیں پرپل کہیں سیاہی مائل نیلگوں شفاف اتنا کہ نیچے جھاڑ جھنکار پتھر مچھلیاں سب کا چہرہ کروائے۔ آسمان تو لگتا تھا جیسے سمندر کا حصہ ہو۔ تا حد نظر نگاہیں ایک پراسرار پر ہیبت جاہ و جلال سے پر منظر کی سمفنی کے حصار میں تھیں کہ جو اپنے سحر سے نکلنے نہ دے۔

 لہروں کا بہاؤ اُسوقت کسِی فرمانبردار بچے کی طرح خاموش سا تھا۔ البتہ خوبصورت سڑک پر ٹریفک کا دھواں دھار ریلا شُوں شُوں کرتا بہتا چلا جا رہا تھا۔ میں رُخ بدلے کھڑی تھی اور میرے سامنے کلاسیکل طرز تعمیر کا ایک حُسن سڑک کے ساتھ ساتھ خم کھاتا خفیف ساپہلو بدلتا بہت دور تک سفر کرتا ہے خوبصورت دل موہ لینے والی سڑک اور اس کے ساتھ ساتھ چلتی ساحلی جگہ اپنے آگے کو بڑھے ہوئے خموں کے ساتھ قوسیں بناتی بیس کلو میٹر تک چلی گئی ہے۔

 میں کبھی بنچ پر بیٹھ اور کبھی کھڑے ہو کر کبھی رُخ بدل کر مناظر کی رنگارنگی کو اسی انداز میں دیکھ کر لطف اُٹھا رہی تھی جیسے اپنے بچپن میں جادو کے ڈبے میں منہ گھسیڑ کر بدلتے نظارے دیکھتی تھی۔

 فٹ پاتھ پر لوگوں کے بیٹھنے کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھی گئی بنچوں پر خا ل خال کوئی بیٹھا موٹی سلاخوں میں سے سمندر کی رعنائیوں کو دیکھتا تھا۔ ہواؤں میں گو تیزی نہیں تھی۔ پر پھر بھی کپکپی طاری کر دینے والی خنکی ضرور تھی۔ نظریں ایک جانب سے شروع ہو کر گھومتی ہوئی دوسری طرف مڑتیں تو ساحل پر شیڈوں کے نیچے لوگوں کے ہجوم نظر پڑتے۔ لڑکے والی بال کھیلتے ہوئے۔ رنگین کرسیوں پر بیٹھے ہوئے۔ ڈھیروں ڈھیر پانی میں اُترے ہوئے۔ دور سورج نے جیسے اُودے ڈوپٹے کو نقرئی چاندی رنگا گوٹا لگایا ہو۔ کچھ فاصلے پر فشنگ ہو رہی تھی۔

 ’’میرے خیال میں قریبی جگہیں نامعلوم سپاہی رومن تھیٹر اور گریکو رومن میوزیم دیکھ لینے چاہئیں۔ ‘‘ ثنا نے نقشے پر اِن جگہوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا۔

 میں ابھی تک مناظر کی گرفت میں تھی۔ بات سن کر جی تو چاہا تھا کہوں مجھے تو یہیں چھوڑ جاؤ۔

 یہ مشرقی بندرگاہ کی سائیڈتھی یہاں سے ہم میوزیم سٹریٹ آئے۔ ایک شاندار سی عمارت جس کی پیشانی وائٹ ہاؤس سٹائل کی تھی۔ تیسری صدی قبل مسیح سے ساتویں صدی بعد مسیح تک کے نوادرات یہاں موجود ہیں۔ سچ تو یہ تھا کہ کمروں کی جدید طرز تعمیر۔ ان کی وسعت و کشادگی ان کا اندر ہی اندر ایک دوسرے میں پھیلاؤ اور تیسری صدی قبل مسیح سے ساتویں صدی بعد مسیح تک کے نوادرات کی دل کش و دلربا انداز میں سجاوٹ اور پیشکش حد درجہ متاثر کن تھی۔ کمروں میں گھومتے مجسموں کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا تھا کہ یونانی رومی اور فراعنہ مذاہب کے ملاپ اور ارتقاء سے جس تہذیب نے جنم لیکر نشوونما پائی یہاں اُن کی عکاسی بھر پور انداز میں ہو رہی تھی۔ وہ تہذیب فی الواقع بڑی امیر اورمسحور کن تھی۔ پہلے کمرے میں روستہ پتھر دیکھنے کو ملا۔ یہاں اس کی نقل تھی۔ اصلی والا برٹش میوزیم لندن میں ہے۔ یہ روستہ سٹون نپولین کی مہم جوئی کے دوران ایک فرانسیسی کو روستہ ROSETTA کے مقام سے ملا۔

 یہ پتھر دراصل یوں سمجھ لیجیے کہ قدیم ترین تحریروں کو پڑھنے کی کنجی ہے۔ یونانی دور فراعنہ کی ہیرو گلیفی (تصویری تحریریں ) اور مقامی مصری یعنی قطبی زبان پڑھنے کے اشارے اس پتھر پر لکھے ہوئے ہیں۔ اور تاریخ دانوں کے لئے اس کی مدد سے قدیم زبانوں کو پڑھنا بہت آسان ہو گیا تھا۔

 اور برطانوی فوجیوں کو جب اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے ایک خون ریز جنگ کے بعد یہ پتھر چھین لیا اور اسے برٹش میوزیم کی زینت بنا دیا۔

 کمبخت چور اُچکی قومیں کیا برطانوی اطالوی اور فرانسیسی سب ایک ہی تھا لی کے چٹے بٹے۔ لُو ٹ کر کھا گئیں اُن قوموں کو جنہیں اپنا مفتوح بنایا۔

 اب یہ ممکن نہیں تھا کہ اُن بائیس 22 کمروں میں موجود اُن بے شمار چیزوں کو جو کسی نہ کسی انداز میں ماضی کے کسی دور کی نمائندہ تھیں کو یاد رکھتے۔ پر پھر بھی کچھ ایسی تھیں جو دلچسپ لگیں۔ ان میں سانڈ کا وہ مجسمہ تھا جو مصریوں کا حاپی اور یونانیوں کا اپیسAPIS تھا۔

 سقارہ میں ہم نے ان سانڈ دیوتا کے تدفینی چیمبر دیکھے اور اُن کے بارے میں سنا بھی تھا۔

 اِس کمرے میں سکندر اعظم کے مجسمے اور سر بھی تھے۔ قلوپطرہ کے سرکے مجسموں کو ہم سب نے نہایت توجہ اور دلچسپی سے دیکھا۔ کیا عورت تھی۔ کبھی سیزر کی محبت میں گرفتار اور کبھی انتھونی کی بانہوں میں۔ اوپر سے شکسپئر کا کمال جس نے دونوں کی محبت کے ڈرامے لکھ کر اُسے دو آتشہ بنا دیا۔ TANAGRAمجسمے ہمیں بہت منفرد لگے۔ یہ چھوٹے چھوٹے تھے۔ اور صرف عورتوں اور بچوں کے تھے۔ انہیں تینگرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایسے بہت سے مجسمے تینگرہ نامی یونانی گاؤں سے بھی نکلے ہیں۔

 جب باہر آئے تو دھوپ بادلوں کی زور زبردستی کا شکار ہوئی پڑی تھی۔

 ہواؤں میں تیزی بھی تھی اور خنکی کا زور بھی بڑھا ہوا تھا۔ بڑا رومان پرور موسم۔ خوشی سے کھل ہی تو اٹھے۔

 سٹینلے برج پر آ کر ہم مونتزہ MONTAZA کے لئے ویگن میں بیٹھ گئے۔

 بڑی مزے کی ویگن تھی۔ آرام دہ اور تازہ دم۔ ہماری ویگنوں کی طرح تھکی ہوئی نہیں۔

 خیر یہ تو ہمیں ویگن میں بیٹھے بیٹھے پتہ چل گیا تھا کہ رم جھم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہم بھی ایک نمبر سستی کی پنڈ ہیں گھروں سے چھاتے بیگوں میں گھسیڑ کر لائے تھے اور اب وہ قاہرہ میں پڑے مزے کر رہے تھے۔ ٹکٹ لیکر اندر گئے تو اندازہ ہوا کہ یہ ایک وسیع و عریض باغ ہے جسمیں پستہ قامت ایک پہاڑی پر عنابی رنگ کی ایک خوبصورت محل نما عمارت تھی۔ پارک میں چھوٹی بڑی اور بھی عمارات ہیں۔ معلوم ہوا تھا کہ بنیادی طور پر یہ گرمیوں کے محلات ہیں جو 1892ء میں خدیو عباس دوئم نے بنوائے تھے۔

 اِن محلات کا تعمیری پیٹر ن ترکی اور فلورنٹین Florentine (مراد اٹلی کا شہر فلورنس) سٹائل کی خوبصورت آمیزش ہے۔ ماضی میں بڑی عمارت سلام لیک (مردانہ حصہ) اور ملحقہ چھوٹی عمارت حرم لیک (زنانہ حصہ) تھے۔ جنگ عظیم اول میں سلام لیک کو ملٹری اسپتال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

 سمندر کے کنارے تعمیر شدہ یہ خوبصورت محل آجکل ایک مہنگا ترین ہوٹل ہے۔ جسمیں ایک کسینوبھی ہے۔ ثنا اندر جانے کے حق میں نہیں تھی۔

 ’’ارے ہٹو۔ کیوں نہیں جانا۔ چلو چلتے ہیں۔ ‘‘ قریب سے دیکھنے پر شان  و شوکت کا معیار اور کھل کر سامنے آیا۔ مجھے بے اختیار پٹیالہ (انڈیا) میں کیپٹن مہندر سنگھ وزیر اعلی پنجاب کا موتی محل یا د آیا تھا۔ چیف منسٹر پنجاب پاکستان کے ہمراہ ہم ان کے مہمان بن کر موتی محل میں ڈنر کے لئے گئے تھے وہ بھی کیا لاجواب چیز تھی۔ لانوں کی ورائٹی نے ہی مت مار دی تھی۔

 اس کے در و دیوار پر شاہی خاندان کی تصاویر آویزاں تھیں۔

 شاہ فاروق کی بیوی کسقدر پر وقار حسین اور شاندار عورت تھی۔ کتنی دیر تو اسی کو دیکھتے رہے۔ یہ فاروق بھی کیا شے تھا۔ مصر کی تاریخ کا ایک بدنما دھبہ۔ آوارہ اور جنسیت کا مارا ہوا ایسی حسین بیوی کے ہوتے ہوئے بھی کھِے کھاتا پھرتا تھا۔

 بارش کی وجہ سے ہم پارک میں گھوم پھر نہیں سکے۔ جب باہر نکلے تو چائے کی طلب نے پاگل کر دیا تھا۔ سامنے سڑک پار چلیزCHILISریسٹورنٹ میں چلے گئے۔ مہرالنساء نے کافی کے لئے کہا۔

 ’’چلو وہ پی لیتے ہیں۔ ‘‘ میں بھی اسوقت دل وجان سے آمادہ تھی۔

 شامت اعمال ہی تو تھی جو کافی کا کہہ بیٹھے۔ سوچا چلو اس بڑے اور شاندار ہوٹل میں گھونٹ گھونٹ سٹائل سے کافی پیتے ہوئے ہم اپنے دیسی اور پینڈ و پنے کو تھوڑی دیر ماڈرن ازم کا تڑکا لگائیں گے۔ پر یہ کیا کسی افریقن حبشن کی طرح کالی شا۔ کافی کا گھونٹ بھرا تو چہرے نے جو پوز بنائے ہوں گے وہ اگر کسی بیرے ویرے نے دیکھے تو یقیناً یہی دل میں کہا ہو گا ارے یہ گنوار عورتیں کہاں سے آ گئی ہیں۔

 ہم تو اُس کافی کے تصور میں تھے۔ جو دودھ اور تیز میٹھے کے ساتھ خوب جھاگ دار ہو۔ جس کی پہلی چسکی ہی سرور آگیں لطف سے نہال کر دے۔ مثل مشہور ہے مفت کی شراب قاضی بھی نہیں چھوڑتا پر ہم بڑے دیالو تھے۔ پیسے خرچ کر کے بھی دوسرا گھونٹ نہیں بھرا اور اُسے میز پر چھوڑ کر باہر آ گئے۔

 بارش اب رُک گئی۔ سڑک پر کھڑے کھڑے اسکندریہ شہر میں نبی دانیال کے مقبرے کی موجودگی یاد آئی تھی۔

 ’’ارے قسمت اسکندریہ لے آئی ہے۔ تو اللہ کے برگزیدہ نبی کا روضہ دیکھتے ہیں۔ ‘‘ میں نے دونوں سے کہا۔

 ملحقہ سڑک پر اُترے تو ڈیوٹی پر کھڑے سپاہی سے پوچھا۔

 ’’اولڈاسکندریہ جائیے آگے سے بس مل جائے گی۔ ‘‘ ٹیکسی لے لیں۔ نبی دانیال سٹریٹ میں مزار اور مسجد ہے۔ اُس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہمیں سمجھانے کا فریضہ بہ حسن و خوبی ادا کیا۔

 سوچا ٹیکسی کیا لینی ہے۔ بس میں بیٹھتے ہیں۔ سو بس لینے کے لئے بتائے گئے راستے پر چل پڑے۔ اونچی اونچی عمارتوں سے گھرا چوک آیا۔ بالکل شاہ عالمی اور رنگ محل کے سنگم جیسا۔ پھل اور گوشت کی دوکانیں۔ مچھلی۔ ریسٹورنٹ۔ قطار میں لگی بسیں۔ یہ آخری سٹاپ تھا۔ ویسٹرن ہاربر جانے کے لئے بس لائن میں لگی ہوئی تھی۔

٭٭٭

 

۲۳۔سکندر اعظم کا مدفن قطبے فورٹ

               سوک اور زنکا اسکندریہ کا ایک گھر

 سعدز غلول کے مطعم ہریدی میں کھانا کھاتے ہوئے مہرالنساء نے اچانک کہا۔

یہاں قریب المنشیا میں بہت بڑا بازار ZANKAT EL SITTAT (زنکا اسطاط) ہے۔ میں تمہارے ساتھ جانے کی بجائے بازار جاؤں گی۔ اُن لڑکیوں سے میں نے معلومات لے لی ہیں۔

اور یہ لڑکیاں کون تھیں۔ ابھی تھوڑی دیر قبل یہاں میدانِ زغلول میں بک سنٹر آف الیگزینڈریہ کے عین سامنے کھڑے دو خوشنما گلاب چہرے پل جھپکتے میں اپنے اوپر پڑنے والی ہر نگاہ کو گرفت میں لیتے تھے اورساتھ کھڑا مرد بھی کچھ کم ڈیشنگ نہ تھا۔

 ’’بات کرنی ہے اِن سے۔ ‘‘ ثنا نے دو ٹوک لفظوں میں کہا۔

 سیاحوں کے لئے بات کرنے کے سوبہانے۔ مرد سینئر وکیل اور لڑکیاں اس کی ساتھی۔ بڑی مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ اسوقت مہرالنساء انہی سے حاصل کردہ معلومات کا حوالہ دے رہی تھی۔

 یہ تو بہت ہی اچھا ہوا۔ میں نے دل میں کہا۔ سکون سے گھوموں پھروں گی۔ ثنا بھی بازار کے لئے ہی مائل تھی۔ چلو چھٹی ہوئی۔

 ٹیکسی تو میں نے لے لی پر پتہ نہیں کیسا خر دماغ ڈرائیور تھا۔ جہاں جانا تھا وہ بھی بتایا۔ پر پتہ نہیں کونسی جگہ تھی۔ گاڑی روک کر اشارہ کیا۔

 ’’اُتر جاؤ یہاں۔ ‘‘

 اب میں نبی دانیال مسجد کا ورد الاپ رہی ہوں۔ اور وہ جھلاتے ہوئے اُترنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ عجیب صورت تھی۔ پانچ مصری پاؤنڈ لیکر بکتا جھکتا یہ جا وہ جا۔

’’چلو میاں ڈھونڈو اب۔ ‘‘

 کسی بھی شہر کا پرانا حصّہ نہ دیکھو تو بات نہیں بنتی۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں جن میں سراٹھائے اونچی عمارتیں جن کی خستگی اور کہنہ سالی دور سے بھی نظر آتی تھی۔

 لا کھ راستے اتنے صاف ستھرے نہ تھے اطراف میں کہیں کاغذوں کے ٹکڑے مالٹوں کے چھلکے کہیں کوئی اور گندبلا پڑا آنکھوں پر گراں گزرتا تھا۔ چھوٹی سی سڑک پر کہیں کوئی کھوتے گاڑی بھی سامان سے لدی پھندی گزرتی تھی۔ مقامی نوجوان لڑکے لڑکیاں بوڑھی اُدھیڑ عمر عورتیں مرد اور ان سبھوں کے ساتھ سیاحوں کا بھی زور۔ اب دیدہ ہوائی نہ ہو تو کیا ہو۔

 نظریں تو دیوانہ وار لڑھکتی پھرتی تھیں۔ پنساری کی دوکان کے آگے پھولی روٹیوں کا ڈھیر گوشت دوکانوں کے آگے سلاخوں میں لٹکتا ہوا مچھلی تختوں پر بکتی ہوئی۔ بلا شبہ بہت سے منظروں میں بڑی مماثلت تھی پر ذہن سے یہ کب بھولتا تھا کہ یہ اسکندریہ ہے تہذیبوں کا گھر۔

 اب جب دیدے اپنے اندر شوق و تجسس اور حیرت واستعجاب کے ڈھیر سارے رنگ لیے دائیں بائیں اوپر نیچے بھٹکتے پھریں تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

 مرغیوں سے لدی پھندی تیز رفتاری سے گزرتی گاڑی کچھ اتنے نزدیک سے مجھے چھوتے ہوئے گئی کہ چند لمحوں کے لئے بھونچکی سی ہو کر میں نے کلیجے پر ہاتھ رکھ لیا۔

 ’’خدایا میرا بازو کریک ہو سکتا تھا میں لنگی لُولی ہو سکتی تھی۔ دوکان کے ساتھ ملحقہ دیوار سے ٹیک لگا کر میں نے اپنے حواسوں کو یکجا کرتے ہوئے بلند و بالا دو رویہ عمارات کے حصار میں آئے ہوئے آسمان کے چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

 ’’جہاں بہت سے کرم کیے ہیں وہیں ایک اور کرم ہو۔ اِن اجنبی جگہوں پر اپنے دو فرشتوں کو میری حفاظت پر مامور کر دے۔ ‘‘

 تین لوگوں سے نبی دانیال مسجد کا پوچھا۔ تینوں نے سمجھایا۔ سمجھا بھی پر شاید میں نے غلطی کھائی۔ فرنچ کلچرل سینٹر کے پاس ہے۔ ایک نے کہا۔ اب میری بھی عقل ماشاء اللہ اصل چھوڑ کر نقل کے پیچھے چل پڑی۔ ہنابی شینی گوگ کے پاس ہی ہے۔ ایک اور معمر مرد نے بتایا۔ پر جو تیسرا ٹکرا وہ سب کا سرا نکلا۔ لگتا تھا جیسے باتیں کرنے کو ترسا ہوا ہے یا پھر رسیا ہے باتوں کا۔ یہودی تھا۔ آباؤ اجداد یونان سے یہاں آ کر سیٹل ہوئے تھے۔ لیکن اب رشتے داروں کی اکثریت تل ابیب چلی گئی تھی۔ پروہ یہیں تھا اور کہیں جانے کا ہر گز خواہشمند نہیں تھا۔ گارمنٹس کی بہت بڑی دکان تھی۔ میرے لیے ایک یہودی سے بات چیت کرنا ایک نیا اور دلچسپ تجربہ تھا۔ میں بھی کرسی کے ایک کنارے پر ٹک گئی تھی کچھ جاننے کچھ تجربے کیلئے۔

 قدیم دور میں اسکندریہ کی صرف دو بڑی سڑکیں تھیں۔ کینوپک CANOPIC اور ’’سومہ‘‘ SOMA کینوپک ’’حوریہ‘‘ سٹریٹ میں بدل گئی۔ اور سومہ کو نبی دانیال کا نام دیا گیا۔ اور اب اسکندریہ کے وجود پر پھیلی بے شمار سڑکیں اِن دونوں کی بہو بیٹیاں ہیں۔ مجھے اِس تشبیہ پر ہنسی آئی۔

 اِس سوال کی صداقت کے بارے میں کہ آیا اسکندراعظم کا مدفن نبی دانیال مسجد کے نیچے ہے پوچھا۔

 مختلف آراء ہیں۔ جہاں حوریہ اور نبی دانیال سٹریٹ ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں وہیں کہیں ذرا سے جنوبی رخ والی جگہ پر ہے۔ جگہ کا تعین واضح نہیں۔ یونانیوں کے قبرستان میں بھی ہونے کا ایک قیاس ہے۔ تاہم زیادہ رائے مسجد نبی دانیال کے نیچے ہے۔ درست کیا ہے یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے۔

بڑے لذیز بسکٹ تھے جو قہوہ کی پیالی کے ساتھ کھانے کو ملے۔ جی تو میرا اُس بڈھے سے پکی دوستی کرنے کو چاہتا تھا کہ مجھے وہ کہیں تل ابیب کا ویزہ دلا دے اور بیت المقدس دیکھنے کی میری زمانوں پرانی خواہش پوری ہو۔

 پر میں مسلمان عورت تھی اور پہلی ہی ملاقات میں پسر گئی ٹائپ کا کو ئی تاثر اُس یہودی کو نہیں دینا چاہتی تھی۔ لہٰذا راستہ سمجھی اور دوکان کے تین پوڈے اُتر آئی۔

 پر جب میں سڑک پر آئی میرے ذہن میں بھونچال سا تھا۔

 بندے کا یہ انجام۔ اس کی یہ اوقات۔ بیس سال کی عمر میں ایشیا کا شہنشاہ بننے کی تمنا اور سات سال کے قلیل عرصے میں اِس تمنا کی تکمیل اور پھر فاتح دنیا بننے کی آرزو۔ پر خواہش تشنہ تھی اور کام ابھی ادھورا تھا اور عمر بھی ابھی بتیس 32سال تھی کہ بس رخصت ہوا۔ تواسی شہر میں یار لوگ اُسے لے آئے۔ اُس کا تن مردہ۔ اب اِسے سونے کے کفن میں لپیٹا گیا یا چاندی کے۔ نشان کہاں ؟

 ’’یہ میرے قدموں کے نیچے بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

 ’’میرے اللہ۔ ‘‘ سر یر نے کپکپی محسوس کی۔ مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے۔ نہ گور سکندر نہ قبر دار۔

 پروردگار سب بڑائیاں اور عظمتیں تیرے لیے۔

 مسجد قدامت اور مانوسیت کا رنگ لیے ہوئے تھی۔ دیواروں اور قالینوں تک میں بوسیدگی تھی۔ عصر کی نماز میں خضوع کے ساتھ رقّت بھی تھی۔

 اسکندراعظم کا مدفن میر ے ذہن سے چمٹ گیا تھا۔ کیا اس جگہ کے نیچے جہاں میں بیٹھی ہوں۔ سوال اٹھا تھا۔

 روضے کی طرف گئی۔ بڑا قناعت پسند اور اللہ لوک قسم کا مجاور تھا۔ کوئی دلچسپی نہیں تھی کسی سے۔

 تعویذ فرش سے خاصا اونچا تھا۔ سبز چادر سے ڈھنپا ہوا۔ میں نے فاتحہ پڑھی۔ ساتھ ہی ایک اور مزار حضرت لقمان کا بھی بتایا جا رہا تھا۔ صداقت دونوں کی نہیں تھی۔ حضرت دانیال کا مقبرہ تو سمر قند (ازبکستان) میں خیال کیا جاتا ہے۔ بہر حال فاتحہ پڑھی اور باہر آ گئی۔

 تحریر میدان سکوائر میں انہیں کھوجنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ وہ چوک کے پاس کھڑی تھیں ثنا توجہ کھینچنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی۔ پہناوے بھی نمایاں کرنے والے تھے۔

 ’’آنٹی ایک حیرت انگیز ایک انوکھی اور خوفناک چیز آپ نے مس کر دی۔ ‘‘

 ثنا مجھے دیکھتے ہی با آواز بلند چلائی میں متعجب ہوئی۔ اور ساتھ ہی متجسس بھی کہ اُنہیں آرائشی و زیبائشی اشیاء کے ڈھیروں میں ایسی کونسی چیز ملی جو میں نے مِس کر دی۔ کھُدبھُد نے قدموں کو ایڑی لگا دی۔

 ’’ارے بھئی آنٹی ایک کہانی۔ ‘‘

 اِس بازار کے دو حصے ہیں۔ سوک السطاط۔ SOUK EL SITTAT اور زنکا ا لسطاط ZANKA EL SITTAT سوک طوالت کے اعتبار سے بہت لمبا ہے پر خوبصورتی اور اشیاء کے حوالے سے مجھے زنکا زیادہ پسند آیا۔ ہم تھک کر ذرا سستانے کے لئے ایک دوکان کے باہر بیٹھ گئیں۔ ایک نوجوان لڑکا بھی ہمارے پاس آ کر بات چیت کرنے لگا۔ اچانک اُس نے اپنے لہجے کو حد درجہ ڈرامائی کرتے ہوئے کہا۔

 یہ بازار المنشیا EL-MANSHIYYA میں ہے۔ یہ جگہ زمانہ قدیم سے ثقافتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز رہی ہے۔ اس کے ا للبان ALLABAN علاقے کی رہائشی دو خواتین سکینہ اور ریا اسکندریہ کے لوگوں کے لئے خوف و دہشت کی علامت بن گئی تھیں۔

 دونوں اِسی زنکا بازار میں آتیں اور خوبصورت نوجوان سیاح لڑکیوں اور مقامی عورتوں کو بہانے سے اپنے گھر لے جاتیں۔ اُن کے زیورات اور کرنسی وغیرہ سب کچھ لوٹ کر انہیں قتل کر دیتیں۔

 آنٹی ثنا نے جھرجھری لی۔ خوف کی ایک لہر تو میرے اندر بھی سرسرائی۔ بے اختیار میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ بیچارے ننگے بُچّے سینے پر دھرے ڈالر بھی کونسا زیادہ تھے۔ میری جان اتنی سستی تو نہیں تھی کوئی انہیں سات سو ڈالر کے عوض تہ تیغ کر دیتا۔

 بھئی شام کو جو کل والی لڑکیوں کے ہاں جانے کا پروگرام ہے اُسے کینسل کرو۔

 مہرالنساء نے ہانک لگائی۔

 ذرا ایڈریس تو دیکھو۔

 30صبا بنات سٹریٹ۔ اللبان۔ ثنا نے اونچی آواز پڑھا۔

 ارے یہ تو وہی علاقہ ہے۔ میرے لہجے میں تفکر سا تھا۔

 لیکن اِس ڈراؤنی کہانی کے کچھ انجام کا بھی پتہ چلا۔

 بھئی آنٹی کوئی چالیس 40 عورتیں اُن کے ظلم کی بھینٹ چڑھیں۔ پورا شہر ڈر اور خوف کی سُولی پر چڑھ گیا تھا۔ پولیس پریشان پر کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا تھا۔ اور پھر جب وہ اپنا اکیالیسواں 41 شکار ذبح کرنے جا رہی تھیں۔ سول کپڑوں میں متعین پولیس نے بڑی راز داری سے تعاقب کیا اور انہیں پکڑا۔

 میں خاموش ہو گئی۔ دونوں کہانی کے زیر اثر خاصی حد تک تھیں۔ خفیف سا اثر تو مجھ پر بھی ہوا اب دلیری کتنی بھی ہو اپنے آپ کو کٹوانے کا حوصلہ تو کسی میں بھی نہیں ہوتا۔ اسوقت پروگرام قطبے فورٹ جانے کا تھا پر میرا دل تو لڑکیوں کے گھر جانے کو بھی مچل رہا تھا۔

 چلو کسی سے دریافت تو کریں واقعے میں کتنی صداقت ہے۔ مجھے کچھ اس کی صحت پر اعتبار نہیں آ رہا تھا۔ دو تین بڑی دوکانوں میں جا کر اس کے بارے میں پوچھا۔ تو انہوں نے مجھے یوں دیکھا جیسے میں کوئی پاگل ہوں نہایت فضول اور احمقانہ بات کر رہی ہوں۔

 تو کیا ایسی من گھڑت کہانی سُنا کر ثنا کو ڈرانے کی کوشش تھی کہ یہ بھی ایک انداز ہے مردوں کا خوبصورت اور طرحدار لڑکیوں کی توجہ کھینچنے کا۔ میں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے خودسے کہا۔

 پرمیڈیسن کی ایک بڑی دوکان پر ایک بوڑھے نے تصدیق کر دی۔

 ارے یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ کہیں پچھلی صدی کی تیسری چوتھی دہائی کی اُس نے ہمارے خوف کو یقیناً محسوس کیا تھا۔ شاید اسی لیے تسلی دینا فرض سمجھا۔

 پولیس نہایت مستعد اور لوگ بہت پُر امن۔ کوئی فکر اور پریشانی کی بات نہیں۔ جہاں جی چاہے جاؤ۔ ایسے ہی فضول کسی نے شرارت کی ہے۔

 چلو جی اطمینان نصیب ہوا۔

 پاس ہی ’’گمنام سپاہی‘‘کی یاد گار تھی۔ سوچا لگے ہاتھوں اُسے بھی دیکھ لیں۔ پھر قطبے فورٹ جائیں۔

راستے کی عمارتوں کا حُسن ان کی شان و شوکت دیکھتے سراہتے ان کے طرز تعمیر کی داد دیتے ہوئے ’’گمنام سپاہی‘‘ کی یاد گار پر پہنچ گئے۔ کشادہ ٹیرس پر بہت سی سیڑھیوں کے اوپر ستونوں پر ایک نیم قوسی یاد گار کھڑی ہے۔ سامنے دو بندوق بردار گارڈ سفید یونیفارم میں مجسموں کی طرح آمنے سامنے بتوں کی طرح کھڑے ہیں۔

 ’’اے ہے بیچاروں کی کتنی سخت ڈیوٹی ہے۔ ‘‘ مہرالنساء کو ترس آیا۔

 اور میں جو کالموں کے درمیانی خلاؤں میں جھانکتی عقب کی بلند و بالا عمارتوں کے دلفریب چہرے دیکھتے اور اِس خیال کے تحت کہ ابھی ٹیرس پر پہنچ کر یادگار کے درمیان میں نصب پتھر پر لکھے کو پڑھتے ہوئے یہ تو جانوں گی۔ کہ یہ کس کارنامے پر اور کسِے خراج پیش کیا گیا ہے۔ سیڑھیاں چڑھتی جاتی تھی کہ جب ثنا کی زوردار آواز سنتے ہی پلٹ کر اُسے ایک تانگے والے سے اُلجھتے دیکھ کر دگڑ دگڑ نیچے اُتر آئی۔

 بیوقوف لڑکی قطبے فورٹ کے لئے تانگے والے سے بات کر بیٹھی۔ تانگے میں سوار بھی ہو گئی۔ اور اب تانگے والا ریٹ پر اُس سے اُلجھ رہا تھا۔

 قریب پہنچ کر ساری بات کھُلی تھی۔ چلو خیر ذرا تھوڑی سی آواز اُونچی کی۔ چہرہ پر برہمی کے آثار پیدا کیے کہ دانا سا نا ہو کر بچی کے ساتھ جھگڑا کر رہا ہے۔

 خیر وہ بھی ڈھیلا پڑ گیا۔ فوراً بیٹھنے میں عافیت جانی۔

 ’’ارے وہ پڑھنا تو رہ ہی گیا۔ چلو واپسی پر دیکھوں گی۔ ‘‘

تانگے میں بیٹھ کر ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لوٹتے فورٹ پر پہنچ گئے۔ یہاں بحری جہاز سازی کا بہت بڑا کار خانہ تھا۔ جہازوں کے بڑے بڑے چوبی ڈھانچوں پر مزدوروں کے پُرے کام کرتے تھے۔ ساحل پر لوگوں کے بیٹھنے کے لئے پستہ قامت چوڑی لمبی دیواریں سی بنا دی گئی ہیں۔ بڑا رش تھا۔ شکرقندی بک رہی تھی۔ چینی کے پھولے پھولے رنگ برنگے گولے جنہیں منہ میں رکھو تو پل جھپکتے میں گھل کر حلق سے نیچے جائیں۔ پوپ کارن اور بہت سی مقامی چیزیں جن کے نام ہمیں نہیں آتے تھے۔

 اُس ہلکے زردئی رنگے شاندار قلعے کے محراب نما چھوٹے سے دروازے کے سامنے جا کر پتہ چلا کہ خیر سے بند ہو چکا ہے۔ نو بجے صبح سے چار بجے تک کے اوقات ہیں اور اب ساڑھے چار کا وقت ہے۔

 واپس آ کر ساحل کی دیواروں پر بیٹھ گئے۔ شکر قندی کھائی۔ بانس پر چڑھے ہلکے پیلے اور ہلکے گلابی رنگ کے لچھے خریدے بچپن یادکرتے ہوئے مزے لے لے کر کھائے۔

 ثنا پانی میں اُتر رہی تھی اور ہمیں بھی دعوت دے رہی تھی۔

 نہ بابا نہ۔ ٹھنڈ ہے اور مجھے گیلا ہونے کا شوق نہیں۔

 رش کا جو عالم تھا لگتا تھا آدھا اسکندریہ یہاں اُمنڈا ہوا ہے۔ میں اُٹھ کر ادھر اُدھر گھومنے پھرنے لگی۔ میری خواہش تھی کہ کوئی انگریزی جاننے والا ملے تو اُس سے کچھ باتیں ہی کروں۔

 چلو ایک نوجوان سے مسکراہٹوں کے تبادلے نے سمجھا دیا کہ یہاں بات چیت کی دال گل سکتی ہے۔

 یہ السیّد احمد معوض پیشے کے اعتبار سے میرائن انجینئر تھا۔ جمال عبدالناصر کا عاشق معلوم ہوتا تھا۔ چھوٹتے ہی بولا۔

 آپ نے ناصر کا آبائی گھر دیکھا۔

 مجھے تو کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں نے بونگوں کی طرح سر نفی میں ہلا دیا۔ ناصرا سکندریہ کا بیٹا ہے۔ وہ پندرہ جنوری 1918ء کو مصطفٰے کمال ایریا کی ا الکینویٹی سٹریٹ میں پیدا ہوا۔

 بڑے لوگوں کی بھی کتنی موج ہے۔ جب ناموری اُن کا مقدر بنتی ہے تو گمنام سے گلی محلے بھی اُن کے دم سے روشن ہو جاتے ہیں۔

 جنرل پرویز مشرف کی جائے پیدائش دلّی کی وہ حویلی اُس کے آگرہ مذکرات پر اور بڑے سے بورڈ پر لکھا ہوا یہ فخریہ جملہ A DISTINGUISHED SON OF DELHI بار بار سکرین پر دکھایا گیا۔ واقعی اُس گھر کوتو دیکھنا چاہیے تھا۔ مجھے خود پر افسوس ہوا۔

 المنشیا سکوائر میں وہ جگہ دیکھی آپ نے جہاں اُس نے اپنی عہد ساز تقریر میں برطانیہ کو مصر چھوڑنے کے لئے کہا تھا اور یہیں اسپر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی۔

 ’’لو المنشیا میں تو خجل ہوتی آئی ہوں۔ کوئی کمبخت اتنی تاریخی جگہ کے بارے میں ایک لفظ نہیں پھوٹا الٹا گڑھے مردے اکھاڑ کر خوف زدہ کرنے کی کوشش ہوئی۔ ‘‘

 مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا تھا۔ ساتھ مصر کی وزارتِ سیاحت پر بھی کہ کتابچوں میں ایسی چیزوں کا اندراج کرنا کتنا ضروری ہے۔

 پر اُس نے فوراً میرے ملال کو کم کیا یہ کہتے ہوئے۔

 المنشیا میں جو میدان یا چوک آپ نے دیکھا بس وہی جگہ ہے۔ اسے میدان تحریر بھی کہتے ہیں۔ یہ میدان محمد علی بھی ہے کبھی یہ ڈپلومیٹس کا گڑھ تھا۔ اسکندریہ کی سٹاک مارکیٹ کی شاندار عمارت بھی یہیں تھی۔ پر 1882ء میں اسے برطانیہ نے سخت بمباری سے تباہ کر دیا۔

 میری خواہش پر اُس نے مزید بتایا۔ قدرت کو اُسے زندہ رکھنا مقصود تھا۔ وہ چلاّیا تھا۔ اس کے یہ الفاظ تاریخ میں لکھے گئے ہیں۔

If i die you are all Gamal Abdul Nasirs.

نہر سویز کو قومی ملکیت میں لینے اور اِس سے حاصل شدہ آمدنی سے اسوان ہائی ڈیم بنانے کا اعلان بھی اسکندریہ میں ہی ہوا۔

 احمد معوض کو مصر سے کہیں زیادہ اسکندریہ سے محبت تھی۔ کسقدر محبوبیت تھی اُس کے لہجے میں جب اُس نے کہا قاہرہ اور اسکندریہ کے درمیان صرف 225کلومیٹر کا فاصلہ ہے مگر تہذیبی اور ثقافتی بُعد اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ مردم خیز اِس شہر کا انیسویں صدی میں ایک نیا کردار تھا۔ ماہی گیری کی صنعت کا پھیلاؤ اس کے ڈیلٹاؤں میں اُگتی کپاس کی افراط کاٹن انڈسٹری اور صنعتی ترقی میں اس کا بہت نمایاں حصہ ہے۔ یونانیوں رومیوں اور مشرق وسطیٰ کے لوگوں کے باہمی ربط سے یہ بین الاقوامی شہر کا روپ دھارے ہوئے ہے۔

 عمر شریف کا نام میرے لیے بڑا مانوس تھا۔ لٹریچر میں E.M.FORSTER سے بھی آشنائی تھی اور یہ دونوں اسکندریہ سے تھے۔

 حسنی مبارک کے نام پر اُس نے اپنی یونانیوں جیسی اونچی لمبی تیکھی ناک کو سکیڑتے ہوئے قدرے نفرت بھرے غصیلے لہجے میں کہا۔

 اسرائیل اور امریکہ کا خوشامدی ٹٹو کوئی ٹھوس کام نہیں اُس کے کر یڈٹ پر۔ بتائیے ذرا محض سڑکوں پلوں سے بات بنتی ہے کہیں۔ آپ مصر کے دیہاتوں میں گئی ہیں ؟

 ابھی شرمندگی میں لتھڑا میرا جواب میرے ہونٹوں پر نہیں آیا تھا جب وہ بول اٹھا۔

 ماڈرن ازم کا ہلکا ساٹچ بھی اُن کی زندگی میں نظر نہیں آتا کاشتکاری کے وہی فرسودہ زمانوں پرانے طریقے آج بھی رائج ہیں۔ مصر کے پاس وسائل کی کمی نہیں سویز تیل سیاحت مچھلی اور کپاس کی صنعت پر جذبوں سے بھرا لیڈر نہیں۔ ناصر کو تو بین الاقوامی اور عرب مسائل نے ہی الجھائے رکھا۔ اُس نے کاشتکاروں کے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی پر اُسے وقت نہیں ملا۔

 مغرب کی اذان کے ساتھ ہی وہ کھڑا ہو گیا۔ میں نے اُس کے شانے پر ہاتھ پھیرا حقیقتاً مجھے اس سے بات چیت میں مزہ آیا تھا۔

 ہمارے مابین اب یہی طے ہونا مشکل ہوا جا رہا تھا کہ رات کو ٹرام میں بیٹھ کر ایک سرے سے دوسرے تک سیر کی جائے۔ کسی اچھی جگہ کھانا کھایا جائے یا لڑکیوں کے گھر جایا جائے۔

 یہاں جیت میری ہوئی۔ ٹیکسی لینے کی پھر حماقت کر بیٹھے اب جو گلی کوچوں میں اُس کی چک پھیریاں شروع ہوئیں تو ختم ہونے کا نام نہ لیں ہار کر چلّانا پڑا۔

 چلنے سے قبل ثنا نے موبائل کھڑکا دیا۔ صورت سے چال ڈھال سے یہ نچلے متوسط لوگوں کا علاقہ نظر آ رہا تھا۔ تنگ تنگ گلیاں بالکونیوں میں لٹکتے کپڑے جنہیں سوانیوں نے رات ہونے پر بھی نہیں اُتارا تھا۔ روز مرہ کی ضرورت اشیاء سے بھری ہوئی دوکانیں اُوپر رہائشی گھر۔

 ہماری حیرت کی انتہا نہ تھی کہ وہ پورا ٹولہ جو ٹرام میں ہمیں ملا ہمارے استقبال کے لئے نیچے کھڑا تھا۔ جس انداز میں وہ ہمیں ملیں اور جیسے بانہوں میں سمیٹے اپنے گھر میں لے کر گئیں وہ قابل صد آفرین تھا۔ گھر کی بوڑھی عورتوں نے مسکراہٹوں اور آنکھوں سے چھلکتے محبت بھرے جذبات کی زبان میں اھلًا وسہلاً کہتے ہوئے سب فاصلے آناً فاناً مٹا ڈالے ایک انگریزی بولنے والا لڑکا بھی قابو کیا ہوا تھا۔

 گھر چھوٹا سا تھا۔ ڈرائنگ روم میں چند کرسیاں اور ایک صوفہ پڑا تھا۔ فرش پر میل خوردہ پرانا قالین تھا۔ دیواروں پر چھوٹی چھوٹی مختلف تصویریں ٹنگی تھیں۔

 بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد قہوہ آیا۔ ایک پلیٹ میں بیج آئے بھنے ہوئے نمکین انہیں لِب کہا جاتا ہے۔ یہ کسی پھل کا بیج نہیں بلکہ پودوں کا پھل ہیں جنہیں جھاڑ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ بعد میں بھنائی ہوتی ہے۔

 میں نے اُٹھ کر دیواری تصویروں کو دیکھا۔ اور طرحدار خوبصورت عورتوں پر جاننے کے لئے انگلی رکھی۔ ’’یہ نادیہ لطفی اور یہ مدیحہ کمال ہے۔ ‘‘میرے اشارے پر سیلی نے جو بہت ماڈرن سی تھی بتایا۔

 ’’تمہاری بہنیں یا عزیز رشتے دار۔ ‘‘

 مترجم لڑکے نے فوراً ترجمہ کر دیا۔ قہقہہ کمرے میں گونجا۔

 یہ قہقہہ اور اس کا انداز کچھ اندرون لاہور کی تھوڑی پڑھی لکھی لڑکیوں جیسا ہی تھا۔

 پتہ چلا کہ یہ سینما کی مشہور ایکٹریسیس ہیں۔ ام کلثوم بھی وہاں ٹنگی ہوئی تھی۔ وہ تو غور سے دیکھنے والی چیز تھی۔ سارا عرب اُس کے پیچھے پاگل ہے۔ شکوہ اور جواب شکوہ کی گائیگی نے اُسے پاکستانیوں میں بھی شناسا کیا ہوا ہے۔ دونوجوان مردوں کی تصویروں کے بارے میں پتہ چلا کہ ایک تو عمر شریف ہے۔ میں نے بغور اس عمر شریف کو دیکھا کہ ایک ہمارا بھی عمرشریف ہے۔ اور دوسرا مشہور گائیک برہان ہادی تھا۔

 سچی بات ہے مجھے کمرے کی دیواریں قدیم لاہور کے بار بروں کی اُن دوکانوں کی دیواروں جیسی ہی لگیں جو ہندوستانی اور پاکستانی فلم سٹاروں کی اخباری تصویروں سے سجی ہوتی ہیں۔

 گھر کبھی بڑا تھا۔ پر خاندان در خاندان تقسیم ہوتا اب ہمارے میزبانوں کے پاس ایک سکڑا سکڑایا حصہ ہے۔ دوبیڈ تھے مشترکہ ڈرائنگ اور ڈائننگ چھوٹا سا کچن۔

 بیج لذیذ تھے پر نمک کی جیسے تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ اب بھلا میں کیسے کھاتی ایک دو ٹھونگ کر چھوڑ دیئے اسماء اور شیما ثنا سے چمٹی ہوئی تھیں۔ ایک گھنٹے بعد رخصت چاہی پاکستان آنے کی پُرزور دعوت دی۔

 شب کے گیارہ بجے تک ہم اسکندریہ کے یونانی حصے میں گھومتے پھرتے رہے یہ گریکورومن میوزیم کے قریب ہی تھا۔ کیا شاندار عمارتیں تھیں انتہائی خوبصورت ولاز تھے صاف ستھری شاندار سڑکیں تھیں۔ معلوم ہوا تھا کہ یہاں امیر ترین یونانی یہودی رہتے تھے اور رہتے بھی ہیں۔ پر بہت سارے نقل مکانی کر گئے ہیں۔

٭٭٭

 

۲۴۔پومپئی پلر اور رومن تھیٹر

 سچ تو یہ تھا کہ گو شہر چھوٹا سا تھا پچیس 25 میل لمبا مشرقی بندر گاہ سے مونتزہ تک اور صرف دو میل چوڑا پر بے حد خوبصورت اور شاندار نہ آنکھوں کی پیاس بجھی تھی اور نہ ہی دل رجا تھا۔ اور شاید اسی لئے میں ایک دن اور رہنے کے لئے بضد تھی۔ پر مہرالنساء نے ایک نہ چلنے دی۔ چلو سوچا کہ شام کو روانہ ہوں گے۔

 ہوٹل سے چیک آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی سیدھے سمندر پر آ گئے۔ ویگن میں بیٹھے اور ساحل کے آخری کونے ابو قیر ABU-QIR تک جانے کا پلان کیا۔

 کورنش روڈ پر آٹھ دس BEACHES ہیں۔ پر مندرہ اور سدی بسر کمال کے تھے۔ سیاحوں اور مقامی لوگوں کے جتھے سمندر میں نہاتے سن باتھ لیتے اور کھجور کے پتوں سے بنے شیڈوں کے نیچے گپیں لگاتے اور کہیں زردئی ریت پر لڑکے بالے کھیلتے نظر آتے تھے۔ سڑک کی دونوں اطراف تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر بنے زمین دوز راستوں سے ملی ہوئی ہیں۔

 ابو قیر میں بہت رش تھا۔ لگتا تھا سارا اسکندریہ سمندر میں مستیاں کرنے چلا آیا ہے۔ ہم بھوکے تھے اور مچھلی کھانے کے لئے بیتاب تھے۔ چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں گھسے آرڈر دیا اور انتظار میں بیٹھ گئے۔

 میرے مولا کس منحوس گھڑی یہ تازہ مچھلی کھانے کی تمنا کر بیٹھے تھے ہاتھ بھر لمبی پلیٹوں میں سلاد کے ساتھ سامنے آ گئی تھی۔ ٹکڑا منہ میں رکھا تو لگا جیسے آنتیں نکل کر میز پر آ جائیں گی۔

 اب بہتیرا چاہا کہ پیسے حلال ہو جائیں۔ پر نہیں جی۔ چار و ناچار اُٹھ گئے۔ قہر درویش بر جان درویش کے مصداق بل ادا کیا۔ اور باہر آئے۔ سیب اور کیلے خریدے اور پیٹ کی دلداری کی۔ پانی سے کھیلے تصویریں بنائیں واپسی پر ہم تھوڑی دیر مندرہ رُکے۔

 آسمان سورج اور سمندر کی مثلث نے کمال کے منظر دکھائے۔

 ثنا پومپئی پلر POMPEY’S PILLAR دیکھنا چاہتی تھی۔ میں ٹرام میں بیٹھ کر سارے شہر کا نظارہ اور ظہر AL-ATTAREEN مسجد میں پڑھنے کی متمنی تھی۔ اور مہرالنساء واپس قاہرہ جانے کے لئے مضطرب و بے قرار۔

 ’’قاہرہ میں کیا ہماری ماں بیٹھی ہے جس کے گوڈے منڈھ جا کر لگنا ہے۔ بات تو ایک ہی ہے۔ یہاں رہ لو یا قاہرہ۔ ‘‘

 پر اُسے اپنے سامان کی پیکنگ کی فکر تھی۔ یہاں کی خریدی گئی چیزوں کو حفاظت سے لے جانے کی چنتا تھی کوئی ایک سیاپا تھوڑی تھا۔ دس وختے اور دس مصیبتیں ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔

 تو پھر رائل جیولری میوزیم چلتے ہیں۔ مہرالنساء بھی مجھے زچ کرنے پر تلی ہوئی تھی۔

 اب عذاب میں تو میری جان ہیروں کے چہرے مہروں سے زبانی کلامی مجھے بہتری جانکاری تھی۔ مزید کیا لینی تھی۔ فاتح مصر عُمرو بن عاص کی قائم کردہ ہزار کالمی مسجد دیکھے بغیر اسکندریہ تو میں چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔

 پھر طے یہی ہوا کہ ہر کوئی اپنی اپنی مرضی کرے اور تین بجے ہوٹل پہنچ جائے۔

 جان چھٹی سو لاکھوں پائے۔ شُکر شُکر کرتی میں ٹرام پر چڑھی کہ پہلے مزے سے نظارے تو لوٹوں۔ نظارے بھی لوٹے اور باتیں بھی کیں کہ خوبصورت لڑکی تھی جو میرے ساتھ بیٹھی تھی۔ انگریزی ٹھیک ٹھاک بول سکتی تھی۔ پاکستان کا جاننے پر اس کا مسرت بھرا اظہار یہ تھا۔ مجھے ٹرام میں سفر کرنا بے حد پر لطف لگا تھا۔ کاش پاکستان میں بھی ایسی سروس ہوتی۔

 السیّدہ فاطمہ جمال کا مرس کی سٹوڈنٹ تھی۔ ماسٹرز کے بعد جرمنی جانے کی شدید خواہشمند۔

 شہر کے بارے میں میرے پوچھنے پر بولی۔ تقریباً پینتیس35 لاکھ کے اِس شہر میں یونانی دو فیصد اور عیسائی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ بزنس کے اعتبار سے بہترین شہر ہے۔

 پھر اُس نے مجھ سے کیا کیا دیکھا اور شہر کیسا لگا۔ پوچھا۔

 جو دیکھا وہ بتایا اور اب شہر کیسا لگا کے بارے میں کیا کہتی۔ میں تو ابھی پیاسی ہوں۔ رُک نہیں سکتی کہ ساتھی جانے پر بضد ہیں۔ وہ ہنس پڑی تھی۔

 انٹرنیشنل پارک اور کومل الشوکا فا ضرور دیکھنے تھے۔ کتنی ہی خوبصورت اور قابل دید چیزیں تو گورے اُٹھا کر لے گئے۔ رملہ اسٹیشن جہاں سے ہم ٹرام میں بیٹھے تھے۔ اُس جگہ قلوپطرہ کے دو انتہائی خوبصورت مخروطی مینار تھے۔ ایک ٹمپل بھی تھا جو مارک انتھونی کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ ٹمپل والی جگہ پر رملہ اسٹیشن بن گیا۔ اور مخروطی مینار ایک لندن پہنچ گیا اور دوسرا نیویارک۔

 لڑکی کا سٹاپ آ گیا تھا۔ خدا حافظ کہتے ہوئے وہ اُتر گئی۔

 پر باتوں میں یہ یاد ہی نہیں رہا کہ اُس سے مسجد کا پوچھ لیتی۔

 کوئی پون گھنٹے میں مجھے العتیرین مسجد کا پتہ نہ چل سکا جس کے نزدیک کہیں وہ ہزار کالمی مسجد تھی۔ ایک نے بتایا ویسٹرن ہاربر کے علاقے الگومرک AL GOMOROK جایئے۔ ایک اور نے کہا کو مل ڈکا KOMEL DEKKAمیں پرانا رومن تھیٹر ہے۔ اُس کے قریب ہی مسجد ہے بغیر کسی واضح تعین کے ٹامک ٹوئیاں والی کیفیت میں ہی ٹرام سے اُتر پڑی اور یہ بھی عجیب سی بات ہوئی کہ ذرا سے فاصلے پر پومپئی پلر تھا۔

 چلو ٹکٹ خریدا اور اندر داخل ہوئی۔ ایک ناہموارسے قطعہ زمین پر ایک بلند و بالا کالم ایک سطحی سی نظر میں اس منظر کی مماثلت مجھے اپنے ہاں کے اینٹوں کے بھٹے جیسی نظر آئی تھی۔ سنگی چبوتروں پر تمکنت سے بیٹھے تین SPHINEX (دھڑ شیر کا اور چہرہ انسان کا) دوسُرخی مائل گلابی اور ایک سیاہ جس کا سراُڑا ہوا اور دھڑ چبوترے پر دھرا۔ بڑی معصومیت سی بکھری ہوئی تھی ان کے چہروں پر کسی نیک پروین بی بی کی طرح سر کا ہڈ کانوں کے پیچھے اُڑسا ہوا گردن تک آتا تھا بیچاروں کی ناکیں بھی کسیِ ستم گر کے ہاتھوں تختہ مشق بن کر اڑ گئی تھیں۔ اونچی نیچی پتھریلی سی زمین کہیں راستے اور کہیں سُرخ اینٹوں کے کنویں سے بنے ہوئے۔ عقب میں عظیم الشان عمارتیں نظر آتی تھیں۔

 اللہ مجھے تو کوفت ہوئی بھلا یہاں کیوں آگھُسی پر اُدھیڑ عمر کی ایک برٹش خاتون جو کسی محقق کی طرح ایک ایک چیز کے بارے میں کھوج کرتی پوسٹ مارٹم کرنے کے انداز میں اُن پر ہاتھ پھیرتی ان کے اندر جیسے جھانکتی مجھے نظر آئی۔ قریب پہنچ کر تعارف کروایا اور اُس کے بارے میں جانا۔

 جرنلسٹ تھی پوچھنے کی غلطی تو ضرور کر بیٹھی۔ کچا چٹھا کھل کر سامنے یوں آ گیا کہ جان چھڑانی مشکل ہو گئی۔ پہلے یہاں ایک بڑا ٹمپل تھا پٹولو میز حکمرانوں نے سانڈ دیوتا کی پرستش کے لئے بنایا تھا۔

 پومپئی رومن جرنیل تھا۔ جولیس سیزر کا جانی دشمن۔ بادشاہت چاہتا تھا۔ لڑا پر ہار کر مصر بھاگ آیا لیکن اسکندریہ کی حکومت نے اُسے قتل کر دیا اور سیزر کو اس کا سر پیش کیا۔ سیزر نے اُسے ایک برتن میں ڈالا اور اسکندریہ کی بیرونی دیواروں تلے دبا دیا۔ اور یہ پلر گویا اظہار تشکر تھا اسکندریہ کے لوگوں کیلئے۔ اسوان کا قیمتی سُرخی مائل گلابی گرینائٹ سے بنا ہوا یہ تقریباً پچیس 25 میٹر اونچا جس کا اوپر کا حصہ لوٹس پھول کی طرح کھلا ہوا ہے۔

 قریب ہی زیر زمین وہ گیلریاں تھیں جہاں وہ مقدس سانڈ دبے ہوئے تھے اور مارتھا کے پوچھنے پر کہ میں نے اُن تدفینی چیمبرز کو دیکھا ہے۔ میں نے دیکھے بغیر سراقرار میں ہلا دیا تھا۔ اور اپنے آپ سے کہا تھا۔ بہتیرے دیکھ لیے تھے سقارہ میں اب اور کتنے دیکھنے ہیں۔

 پر جب میں باہر آ کر مسجد کی تلاش میں نکلی مجھے وہ دونوں نظر آ گئیں۔ پتہ چلا کہ رائل جیولری میوزیم اکٹھے دیکھنے کے بعد رومن تھیٹر دیکھنے آ گئیں۔

 میں نے سوچا چلو لگے ہاتھوں میں بھی اُسے دیکھ لوں پر جب وہاں پہنچے تو خوبصورت بلڈنگوں کے حصار میں درختوں سے گھرے سبز لان میں پھولوں بھرے پودوں میں بے چارہ زخمی ہوا پڑا تھا۔ گو خاصی مرہم پٹی تو کی گئی ہے پر بات تو نہیں بنتی۔ لیکن چیز خاصے کی تھی۔ گو چھوٹا سا تھا اس سٹائل کے تھیٹر رومیوں اور یونانیوں سے وابستہ ہیں۔

 گولائی والے تنگ شگاف نما داخلی راستوں کی بھول بھلیاں ادھرسے جاؤ اُدھر نکلو۔ میں توجا کر ماربل کے زینے پر بیٹھ گئی۔ آسمان کو دیکھا دھوپ بڑی چمکیلی تھی آسمان نکھرا ہوا تھا نگھی سی دھوپ اعصاب کو پر لطف حرارت بخش رہی تھی۔ سیڑھیاں تعداد میں بارہ اور صورت سیمی سرکل کی تھی۔ چوٹی پر چار کالم کھڑے تھے گلابی مائل سرخی اور ہلکا زہر مہرہ رنگ لیے شاید کبھی چھت ہو پر اب نہیں تھی۔

 چھٹی صدی عیسویں میں زلزلے نے اِسے شدید نقصان پہنچایا تھا۔ صدیوں دبا رہا۔ گزشتہ صدی میں ہی دریافت ہوا۔

 یہاں آنے کا کیا فائدہ ہوا۔ مہرالنساء ایسی چیزوں کے دیکھنے کی قائل نہیں تھی محض وقت کا ضیاع سمجھتی ہے۔

 ’’ہر وقت سودوزیاں کے چکروں میں نہ رہا کرو۔ میٹھی میٹھی دھوپ سینکی۔ آرام فرمایا۔ ہریالیوں سے آنکھوں کو طراوت دی۔ پھولوں کو دیکھ کر طبیعت مسرورکی۔ اردگرد کی بلند و بالا عمارات کے حُسن کو سراہا۔ اب بتاؤ بھلا اور کیا چاہیے تھا کتنے تو کام کیے۔ ‘‘

 اور جب وقت دیکھا تو تین بج رہے تھے۔ اور دونوں اب مسجد ڈھونڈنے کی بجائے واپسی چاہتی تھیں۔ اسٹیشن کے لئے ٹیکسی لی۔ انڈین پوچھا گیا۔ پاکستانی جواب دیا۔ اور ٹیکسی ڈرائیور نے صرف پانچ مصری پاؤنڈ لیے۔

٭٭٭

 

۲۵۔لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو

               الوداع قاہرہ الوداع مصر

 ناشتہ فندق بوستان کے ساتویں فلور کی چھت پر ہوتا۔ کوئی چھ مرلے کے رقبے پر محیط ایریا کھڑے اور بیٹھے راڈوں پر پڑی ترپال کے نیچے کُرسیوں میزوں سے سجا کچھ ایسا گھٹیا تاثر بھی پیش نہیں کرتا تھا۔ کھرڑ کھرڑ کرتی لفٹ سے جب ہم اوپر پہنچتے تو نئے نئے چہرے نظر پڑتے۔ متعارف ہونے کا ہم تینوں کو حد درجہ شوق تھا۔ دُنیا کے وجودی نقشے پر بکھرے نقطوں انڈونیشیا کے قریب بحر ہند کے پانیوں میں جزیرہ کرسمس اور ینگیپ بحرالکاہل کے انتہائے شمال میں امریکہ کے زیرِ قبضہ جیسی جگہوں کے لوگ جنہیں ہم اکثر حیرت سے دیکھتے اور اُن علاقوں کے بارے میں دریافت کرتے اور جانتے۔

 ہفت منزل عمارت کی بیرونی دیوار کے پاس کھڑے ہونا بھی ہمارے لیے ناشتے ہی کی طرح ضروری تھا۔ چمکدار دھوپ میں قاہرہ کی عمارتوں کے بالائی حصے اپنی خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کے ساتھ ساتھ نظر آتے۔ دور قاہرہ کی پستہ قامت پہاڑیاں بھی جلوہ دکھاتیں۔

 صرف دو دنوں کو چھوڑ کر بقیہ دنوں میں آسمان شفاف اور نیلا کچور تھا۔ دھوپ میں چمک تھی اور ہواؤں میں تیزی۔

 ابی دوس کا اٹھارہ سالہ احمد نصر جو اپنی جینز کی عقبی جیب میں ہمہ وقت اپنی منگیتر لیلیٰ بحجت کی تصویر رکھے پھرتا ہے۔ جو اس کی بھونرا سی آنکھوں اور سیاہ بالوں پر عاشق ہے اور جس نے ہم لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شادی کے بعد بحجت کے ساتھ پاکستان آئے گا۔ ناشتے کی میز سجا کر ہمیں آنے کے لیے اشارہ دیتا ہے۔ یہ ناشتہ ایک اُبلا ہوا انڈہ چار سلائس مکھن اور جیم کی چھوٹی ڈبیوں بہترین چائے کے کپ پر مشتمل ہوتا۔

 مسکراتے ہوئے احمد نصر اسکندریہ کے بارے میں ہمارے تاثرات پوچھتا ہے۔

 ’’اتنے دن‘‘ وہ ہمارے تین دن رہنے پر حیرت زدہ سا تھا۔ لوگ تو صُبح جاتے ہیں اور شام کو واپسی کر لیتے ہیں۔

 ’’لو یہ تو ابھی بھی آنے پر آمادہ نہیں تھی۔ ‘‘ مہر النساء کو کوئی اپنا ہمنوا ملا تھا۔

 ’’احمد نصر نہ تو یہ تم جانو گے اور نہ یہ ہماری مہرالنساء سمجھے گی کہ اسکندریہ کیا ہے؟‘‘

 پتہ نہیں کیسے مہرالنساء نے میری یہ بات پی لی۔

رات کوئی ساڑھے سات بجے قاہرہ اسٹیشن پہنچے تھے۔ رش کا طوفان تھا۔ اسٹیشن سکوائر کے پُلوں کے نیچے اور اوپر سے ٹریفک کا دھواں دھار ریلا دل دہلا تا تھا۔ یہیں گلابی گرینائٹ کا رعمیس دوم کا مجسمہ کھڑا تھا۔ ٹیکسی والا کوئی قریب نہیں پھٹک رہا تھا۔

ایسی بوکھلانے والی صورت میں ثنا نے کہا۔

 ’’چلو غزہ چلتے ہیں۔ لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو بھی دیکھ لیں گے۔ غزہ کے لیے ٹیکسی بھی آسانی سے مل جائے گی۔ ‘‘

 ’’حواسوں میں تو ہو نا ثنا۔ ‘‘ میرا میٹر گھوم گیا۔

 ’’ان پٹاروں کے ساتھ جنہیں تم اور مہرالنساء کلیجے سے لگا کر لائی ہو۔ کوئی چیز ٹوٹ گئی یا تمہارا کوئی شاپر اِدھر اُدھر ہو گیا تو نتھنوں سے نکلتی ہر سانس کے ساتھ تاسف میں لپٹی آہ بھی باہر آئے گی جو تمہارے اِس مزے کو کِرکِرا کر کے رکھ دے گی۔ اور یوں بھی ہوٹل چل کر سٹور سے سامان نکلوانا ہے۔ کمرہ بھی دیکھیں اب کیسا ملتا ہے۔ ‘‘

 سارے مرحلے تھکا دینے والے اور کوفت سے لبا لب بھرے تھے۔ کوئی گیارہ بجے بستروں پر لیٹے تھے۔

 چائے خوب گرم اور مزے کی تھی۔ گلف والوں سے ٹکٹ کی کنفرمیشن کے بعد دوپہر کا کھانا آفتاب لوگوں کے ساتھ کھانا تھا۔ شام اولڈ قاہرہ کے گلی کوچوں میں آوارہ گردی کی نذر کرنی تھی کہ وہاں سے غزہ تو نزدیک تھا اور رات کو شو دیکھنا تھا۔ اور کل دو بجے کی فلائٹ سے بُدھو گھروں کو لوٹ رہے تھے۔

 آفتاب اور نوید دونوں نے ہمیں گیارہ بجے گلف والوں کے دفتر سے پک کیا۔ دونوں قاہرہ جدید میں رہتے تھے۔ بہترین شاپنگ پلازے خوبصورت فلیٹ۔ شاندار سڑکیں۔

 آفتاب بتاتا تھا۔ مصری کا جب تک گھر نہ ہو وہ شادی نہیں کرتا۔ باپ دادا کے بعض اوقات وسیع و عریض مکان بٹتے بٹتے ٹکڑیوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

 کھانا لذیذ تھا۔ میزبان اگر پاکستانیوں کے لیے ترسے ہوئے تھے تو ہم اچھے کھانوں کو۔ لہٰذا دونوں نے حق ادا کیا۔ دونوں نے اپنی اپنی پیاس بُجھائی۔ تین بجے آفتاب لوگوں نے ہمیں التحریر سکوائر چھوڑا جہاں سے گڑ گڑ دڑ دڑ کرتی ٹرام ہمیں اولڈ کوپٹک لے آئی۔ یہاں سے اہرام کا علاقہ خاصا نزدیک تھا۔

 شام کا حُسن صحرا پر ٹوٹ کر برس رہا تھا۔ اہرام کو صبح کی روشنی میں دیکھا تھا پر شام میں تو حُسن و رنگ کا طوفان آیا ہوا تھا۔ میں نے وارفتگی میں ڈوبی نگاہیں اپنے گرد و پیش پر ڈالیں سونے کے رنگ میں ڈوبی تپش سے عاری کرنیں سنہرے ماحول کی ہر شے کو جیسے رعنائیوں کے پیرہن پہنا رہی تھیں۔ کہیں اونٹوں کی گردنوں کے شوخ رنگ دھاگوں کے ہار ان کی گھنٹیاں گورے گوریوں کا کلکاریاں مارتے ہوئے اُن پر چڑھنا اُترنا اور نرم دم ہواؤں کا دھیرے دھیرے آہستگی سے سبک خرام پانیوں کی طرح بہنا کس قدر مسرور کن تھا۔

 شام کا حُسن بے مثل تھا اور آنکھوں کے راستے دل میں اُترتا جا تا تھا۔ ابوالہول کے مجسمے کی طرف بڑھتے ہوئے میں کہیں صحرا کی وسعتوں میں گُم تھی۔ فطری حُسن کے سب لازموں سے محروم ہریالی کے نام پر ایک جھاڑی بھی نہیں۔ کوئی چشمہ کوئی آبشار کچھ بھی نہیں پر ایک انوکھے اور ہیبت بھرے حُسن سے مالا مال۔

 سیاحوں کے گروہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے باتیں کرتے قہقہے لگاتے ابوالہول کے مجسمے کی طرف رواں دواں تھے۔

 اپنے دامن میں عظمت سمیٹے سمے کی بھی کیا شان تھی۔ کیا آن تھی۔ ہم بھی اسی ہجوم کا حصہ بنے آگے بڑھتے جاتے تھے۔ وقت اپنے حُسن کو دھیرے دھیرے گہن لگا تا جا رہا تھا۔ برقی روشنیاں جل اُٹھی تھیں۔ اوپن ائیر تھیٹر میں رنگین کرسیوں پر بیٹھنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔ اندھیرا گہرا ہونے کے ساتھ ماحول کی پُر اسراریت بڑھ گئی تھی۔ کھُلی چھت کے نیچے تیز روشنیوں میں تیز رفتاری سے نشستیں پُر ہو رہی تھیں۔

 یکدم تھیٹر ہال کی ساری روشنیاں گُل ہو گئیں۔ پورا ماحول گہرے اندھیرے میں ڈوب گیا۔ پھر روشنیوں کے عکس جھلملائے مگر یہ جھلملاہٹ ابوالہول کے چہرے کے ارد گرد تھی۔ ایک خوفناک گونج دار تیز اور اونچی آواز جس نے سناٹے کو قینچی کی طرح کُترا تھا۔ ابوالہول بول رہا تھا۔ کیا بول رہا تھاسمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ پر جیسے اُس آواز نے اُس ماحول کو پل بھر میں اپنی گرفت میں جکڑ لیا تھا۔ اس وقت ہوا میں

تیرتی یہ بھاری بھرکم آواز ہی جیسے سمے کی وہ سچائی تھی جو ہمیں اُٹھا کر کہیں ماضی کی گھور وادیوں میں لے گئی تھی۔

 ایک کہانی شروع تھی۔ فراعنہ دور کے مختلف کردار بیتے وقت کو دہرا رہے تھے۔ ایک کے بعد ایک عہد زندہ ہو کر سامنے رقصاں تھا۔ پس منظر کی موسیقی روشنی کے بدلتے زاویوں میں اہرام کے مختلف حصوں کی جھلک ستاروں بھرا آسمان اور سامنے بکھرا صحرا سب مسحور کن تھا۔

 کہانی پھیلتی گئی۔ پھر اس تاثر کے ساتھ سمٹتی چلی گئی کہ ابوالہول لافانی ہے وقت سے ہر چیز ڈرتی ہے پر وقت اہرام مصر سے ڈرتا ہے۔

 سچ تو یہ تھا کہ سمجھ نہ آنے کے باوجود یہ اس قدر ڈرامائی تاثر کی حامل تھی کہ اکثر ہمیں یوں محسوس ہوا تھا کہ جیسے سانس کہیں رُک گیا ہے اور آنکھیں جھپکنے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہیں۔

 اور جب روشنیاں جلیں تو ہم لوگوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ بلا شبہ یہ ایک عمدہ پیشکش تھی جسے ماحول اور اس کی ہیبت نے چار چاند لگا دئیے تھے۔

 اُٹھے تو محسوس ہوا جیسے کسی الف لیلوی داستان کا حصّہ تھے۔ یہ پروگرام قطعی مِس کرنے کے قابل نہیں تھا۔ چلو اﷲ کا شکر ہے کہ ہم نے دیکھا اور محظوظ ہوئے۔ ہنستے کھِل کھِل کرتے کوئی ساڑھے بارہ بجے ہوٹل آئے قاہرہ قابل تعریف ہے کہ یہاں کوئی ڈر ڈکر اور خوف سِرے سے موجود نہیں۔ سیاح محفوظ۔ جوان عورت محفوظ۔ ڈالر محفوظ۔ مصری پاؤنڈ محفوظ۔ سامان اور چیزیں محفوظ تھیں۔

 میں تو فی الفور سو گئی۔ وہ دونوں پیکنگ کے جھمیلوں میں اُلجھی پتہ نہیں کب تک جاگیں۔ صبح کوئی گیارہ بجے پاکستان ایمبیسی سے سفیر صاحب کا فون تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر ہم لوگ بارہ بجے ایمبیسی آ جائیں تو ملاقات ہو جائے۔ ہمارے بارے میں آفتاب نے اُن سے بات کی تھی۔ کل دوپہر کے کھانے پر وہ بھی آفتاب کے ہاں مدعو تھے۔ انہیں آنا بھی تھا پر پھر کسی مصروفیت کی بنا پر وہ نہ آن سکے۔

 ارے میاں گھنٹہ بعد تو ہم ہوائی اڈے جانے والے ہیں۔ آپ کے پاس کس وقت آئیں۔ فون بند کرتے وقت میں نے خود سے کہا تھا۔

 نیل میں میں نے سکّے نہیں مصری پاؤنڈ پھینکا ہے۔ تاکہ اپنی روایت کو سچ ثابت کرتے

ہوئے وہ مجھے دوبارہ بلائے۔

 الوداع قاہرہ۔ الوداع مصر۔ تمہیں نہ دیکھنا بہت بڑی محرومی تھی۔ بہت پسند آئے ہو۔

 شاد رہو۔ آباد رہو۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urdumanzil.com/2011/egypt/index.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید