FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مزیدار کہانیاں

حصہ سوم

               جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

اورنگزیب عالمگیر

شہنشاہ ہندوستان اورنگزیب عالمگیر آج بھی دنیا جس کو عدل و انصاف کے نام سے جانتی ہے۔ سولہ سو انیس میں پیدا ہوئے۔ وہ بڑے خوش اخلاق، بے باک، نڈر اور بہادر تھے۔ ایک دفعہ شاہ جہان اپنے بیٹوں کے ساتھ ہاتھیوں کی لڑائی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں ایک ہاتھی نے بے قابو ہو کر تماشائیوں کا رخ کیا اور دوسرا ہاتھی اس کے پیچھے بھاگا۔ تمام تماشائی بدحواس ہو کر بھاگے لیکن اورنگزیب عالمگیر خود گھوڑا لے کر مقابلے کے لیے سامنے آ گئے۔ اتنے میں دوسرے آدمیوں نے ہاتھی کو روک لیا، شاہجہان نے اس موقع پر بہت سارا زر اور جواہر تقسیم کیے۔

عالمگیر کے دور حکومت میں مغلیہ سلطنت کی حدیں دور دور تک پہنچ گئیں۔ وہ ایک سچے مسلمان اور بہت بڑے منظم تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں کئی اصلاحات کیں، انہوں نے تمام غیر شرعی ٹیکس معاف کر دیے۔ دربار میں رائج تمام غیر اسلامی رسمیں بند کر دیں۔ انہوں نے استادوں کے لیے جاگیریں اور امدادی رقمیں مقرر کیں۔ طلبہ کو وضائف دیے۔

عالمگیر ذاتی طور پر بہت سادہ پرہیزگار اور نیک دل انسان تھے۔ وہ اسلام کے اصولوں پر سختی سے کار بند تھے۔ ابھی آپ شہزادے ہی تھے کہ بلخ کے حکمرانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے۔ جنگ زوروں پر تھی کہ نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے گھوڑے سے اتر کر وہیں نماز ادا کی۔ اس بات کا دشمن پر بڑا اثر ہوا۔ آپ دینیات اور اسلامی قانون کے عالم بھی تھے۔ اس کے علاوہ آپ کو عربی، فارسی، ترکی اور ہندی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔

فارسی زبان میں لکھے گئے آپ کے خطوط آج بھی فارسی زبان کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے ہیں۔

آپ نے اپنی تمام زندگی عوام کی خدمت میں گزاری۔ رعایا کی طرف سے پیش کی گئی درخواستیں آپ خود پڑھ کر حکم جاری کرتے تھے۔ سلطنت کے امور کی بطور خاص خود نگرانی کرتے۔

آپ کے دور میں مغلیہ سلطنت بہت وسیع و عریض تھی۔ اس زمانے میں برصغیر میں امن و امان کا دور دورہ تھا۔ اورنگزیب عالمگیر اکثر نوجوانوں کی سپہ سالاری خود کیا کرتے تھے اور زندگی بھر اس فرض کو انجام دیتے رہے۔

اورنگزیب عالمگیر نے سترہ سو سات میں دکن میں وفات پائی۔ خلد آباد میں دفن ہوئے۔

لاہور میں ایک عمارت آج تک عالمگیر کی یاد تازہ کرتی ہے۔ یہ یہاں کی شاہی مسجد ہے جس کو اورنگزیب عالمگیر نے خود تعمیر کرایا تھا۔ اس پر شکوہ مسجد کے مینار بہت بلند اور شاندار ہیں۔ اس مسجد کا شمار شاندار مساجد میں ہوتا ہے۔ مسجد کے سامنے قلعہ لاہور کا عالمگیر دروازہ ہے۔ اسے بھی عالمگیر نے ہی بنوایا تھا۔

اورنگزیب عالمگیر کا دور حکومت مغلیہ دور حکومت کی ایک اہم بات ہے۔ تاریخ میں اورنگزیب حلیم الطبع اور نیک سیرت حکمران کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا۔

٭٭٭

 

شیر شاہ سوری

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اقتدار کے لیے بڑی بڑی جنگیں ہر زمانے میں بہت زور و شور سے لڑی جاتی رہی ہیں۔ ہر طاقتور نے کمزور کو دبا کر ا پنی حکومت تو بنا لی لیکن اس منصب کو استقامت کے ساتھ قائم رکھنا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا ہے۔

بادشاہت کی گدی پر براجمان ہونے کے بعد ہر بادشاہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام نے اس سے ان گنت توقعات وابستہ کی تھیں، وہ خود غرض، عیاش اور ظالم ثابت ہو چکنے کے بعد عوام کی امیدوں پر پورا نہ اترے تو بادشاہت کی کرسی تا دیر اس کے ہاتھ نہیں رہتی حتیٰ کہ وہ نیست و نابود ہو جاتا ہے اور اس کا نام لیوا کوئی نہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی رہے ہیں جنہوں نے خود کو تاریخ میں امر کر دیا۔

اس کے والدین نے اس کا نام فرید خان رکھا تھا لیکن حالات و واقعات کی پھرکی گھومنے پر وہ تاریخ میں شیر شاہ سوری کے نام سے جانا جانے لگا۔ وہ اپنے باپ کا بڑا بیٹا تھا۔ لیکن اس کے باپ کی دوسری بیوی اور شیر شاہ سوری کی سوتیلی ماں جو شیرہ شاہ سے شدید نفرت اور حسد کرتی تھی۔

فرید خان سے شیرہ شاہ وہ اپنی بہادری، فہم و فراست اور معاملہ فہمی کی بناء پر بنا۔ اس نے بہار کے حاکم سلطان محمد کی ملازمت کی اور شکار میں اس کی جان اس وقت بچائی جب ایک شیر اس پر حملہ کر رہا تھا۔ سلطان محمد نے اس کی بہادری پر اسے شیر شاہ کا خطاب دیا۔ ابراہیم لودھی جو کہ اس وقت تقریباً آدھے ہندوستان کا حکمران تھا، نے ہر علاقے میں اپنے حاکم مقرر کیے تھے۔ جونپور کا حاکم امیر جمال خان تھا جس کے ہاں شیر شاہ سوری کے والدہ حسن خان ملازمت کرتے تھے ، امیر جمال خان نے حسن خان کی جرات و بہادری کی قدر کرتے ہوئے اسے پانچ سو سپاہیوں کا سالار مقرر کیا اور دو جاگیریں بھی عنایت فرمائیں تھیں۔

فرید خان بہت ذہین تھا۔ اس نے تین برسوں میں فارسی پر عبور حاصل کر لیا۔ اس کے علاوہ ادب، تاریخ اور مذہب میں بھی خاصی دسترس حاصل کر لی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں پٹھانوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں پایا جاتا تھا، پٹھان جنگ جو تھے اور فوج میں ہی اپنی ذہانت اور شجاعت کے جوہر دکھایا کرتے تھے ، اس لیے فرید خان کا اس طرح لکھ پڑھ جانا اس دور میں بڑی بات تھی، ویسے بھی جونپور اس زمانے میں علم و ادب اور فنون کا گہوارہ تھا، اسے برصغیر پاک و ہند کا شیراز بھی کہا جاتا تھا۔

پڑھائی ختم کرنے کے بعد شیر شاہ نے اپنے والد کی دونوں جاگیروں کی باگ دوڑ سنبھالی۔ فرید خان کا یہ دور بعض مورخوں کے نزدیک جو چودہ سو اٹھانوے سے پندرہ سو اٹھارہ تک مشتمل ہے ، بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس زمانے میں اس نے جو کارنامے سر انجام دیے ان سے ثابت ہوا کہ وہ مستقبل میں زبردست حکمران ثابت ہو گا اور اس میں ملک کا نظم و نسق چلانے کی زبردست صلاحیتیں پنہاں تھی، اس نے پوری جاگیر کو قابل کاشت بنا کر اس کی پیمائش کروائی۔ نظم و نسق درست کیا اور جاگیر کی آمدنی میں خوب اضافہ کیا، پیداوار کا تناسب مقرر کر کے اس کے حساب سے مالیہ مقرر کیا۔ مالیہ وصول کرنے والے کارندوں کو سختی سے سمجھا دیا کہ وہ کسی کاشتکار سے سختی سے پیش نہ آئیں، یوں جاگیر میں خوش حالی اور امن و امان کا دور دورہ شروع ہوا اور لوگ شیر خان کو دل و جان سے چاہنے لگے ، شیر شاہ کی یہ مقبولیت اور ہر دلعزیزی اس کی سوتیلی ماں کو قطعاً پسند نہ آئی اور اس نے شیر شاہ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔

شیر شاہ اپنی ماں کی سازشوں اور باپ کی بے بسی سے بد دل ہو کر اپنے سگے بھائی نظام کے ساتھ آگرہ چلا آیا۔

٭….٭….٭

امیر جمال خان فرید خان کا دشمن ہو چکا تھا کیوں کہ اس نے اس کا مشورہ نہیں مانا تھا کہ دونوں بھائی، فرید خان اور اس کے سوتیلی ماں کا بڑا بیٹا سلیمان آپس میں جاگیر تقسیم کر لیں لیکن قانون کی رو سے جاگیریں بڑے بیٹے فرید خان کی ملکیت تھیں۔ فرید خان نے اپنی حیثیت کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے خوب غور و فکر کے بعد صوبہ بہار کا رخ کیا۔ صوبہ بہار پہنچنے پر شیر شاہ سوری نے جہاں در خان توہانی کی ملازمت اختیار کی جو کہ سلطان محمد کے لقب سے حکومت کر رہا تھا اور اسی سلطان محمد کی شیر سے جان بچانے پر اسے شیر شاہ کا لقب دیا اور اس کے منصب میں بھی اضافہ کیا۔

شیر خان نے حالات کو سنبھالا دینے کے لیے بہتر یہی سمجھا کہ وہ واپس اپنی جاگیروں پو چلا جائے۔ اس نے نہ صرف اپنی جاگیریں واپس لیں بلکہ جون پور اور آس پاس کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ جما کر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی اور اس کے بعد اپریل پندرہ سو ستائیس کو بابر کی ملازمت کی اور بہت جلد اپنی بہادری، محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر ظہیر الدین بابر کے قریب پہنچ گیا، لیکن بہت جلد ظہیر الدین بابر بھانپ گیا کہ شیر شاہ بہت خطرناک آدمی ہے اور وہ مغلوں کو ہندوستان سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے ، بابر نے شیر شاہ کی کڑی نگرانی کا حکم دیا اور اپنے جاسوس اس کے پیچھے لگا دیے۔ شیر شاہ کو معلوم ہوا تو وہ بھاگ کر اپنی جاگیر پر آ گیا۔

کچھ عرصہ جاگیر پر رہنے کے بعد شیر شاہ کا دل یہاں سے اکتا گیا اور وہ دوبارہ سلطان محمد کے پاس چلا گیا۔ سلطان اس وقت ملک دشمن اور حاسدوں کی چالوں کو سمجھ چکا تھا اس لیے سلطان نے شیر شاہ کے دوبارہ آنے پر خوب آؤ بھگت کی اور اسے پھر اس کے عہدے پر بحال کر دیا۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا نہ تھا کہ سلطان محمد حاکم بہار کا انتقال ہو گیا۔

سلطان محمد کے بعد اس کا بیٹا جلال خان جو کہ ابھی چھوٹا تھا کو تخت پر بٹھا دیا گیا، دوسری طرف ابراہیم لودھی کے بھائی محمود لودھی نے بنگال میں اپنی حکومت بنا رکھی تھی، محمود لودھی نے بعض اختلافات کے باعث بہار پر فوج کشی کا حکم صادر فرمایا، مگر اسے شیر شاہ نے شکست فاش دی۔ محمود لودھی نے شیر شاہ کو اپنی آن کا مسئلہ بنایا اور جلال خان کے ساتھ مل کر شیر شاہ کے خلاف سازش شروع کر دیں۔ شیر شاہ نے ان کی سازشوں کو اپنے پیروں تلے روند کر بہار پر قبضہ کر لیا۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور شیر شاہ سوری نے آہستہ آہستہ اپنی مملکت میں اضافہ شروع کر دیا، بہت جلد ہی ہندو حکمران اور نام نہاد حکمرانوں کا قلع قمع کر کے ہندوستان میں ایک مضبوط اور مربوط اسلامی حکومت کا نظام قائم کر دیا گیا۔

شیر شاہ سوری کا دور حکومت صرف پانچ سال۔ پندرہ سو انتالیس سے پندرہ سو پینتالیس تک رہا اور اس نے اپنے اس مختصر سے دور اقتدار میں ملک کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں برپا کیں اور عوامی بہبود کے لیے بڑے بڑے موثر کام سرانجام دیے اور آج بھی سینکڑوں برس گزرنے کے بعد بھی لوگ ان کے ان عوامی بہبود کے کاموں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی چھوڑی ہوئی یادگاروں سے آج بھی انسان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

شیر شاہ سوری نے اپنے مختصر سے دور حکومت میں قیام امن، رعایا کی بھلائی، جرائم کا خاتمہ، سلطنت کا استحکام، تجارت میں ترقی، زراعت میں اضافہ، نظام مالیہ کا اجراء کیا۔ اس کے علاوہ شیر شاہ نے چار عظیم سڑکیں تعمیر کروائیں جن سے آج تک استفادہ حاصل کیا جا رہا ہے ، پہلی سڑک سنار گاؤں جو کہ موجودہ بنگلہ دیش سے شروع ہو کر آگرہ، دھلی اور لاہور سے ہوتی ہوئی دریائے سندھ تک پہنچتی تھی، اسے جرنیلی سڑک کہتے ہیں، اس کی لمبائی ڈیڑھ ہزار کوس تھی، دوسری سڑک آگرہ سے بنارس تک جاتی تھی، تیسری سڑک آگرہ سے جودھ پور تک جاتی تھیں، چوتھی سڑک لاہور اور ملتان کو ملاتی ہے۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ شیر شاہ نے ان سڑکوں پر ایک ہزار سات سو سرائیں تعمیر کروائیں۔

ان سراؤں کی خصوصیات یہ تھیں کہ ہر سرائے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے رہائش اور خوراک کا انتظام الگ الگ ہوتا تھا، ہر سرائے کے ساتھ مسجد اور کنواں ہوتا تھا، مسجد کے لیے امام کا تقرر ہوتا۔ سامان کی حفاظت کے لیے چوکیدار متعین ہوتے تھے اور دروازے پر پانی کے ٹھنڈے مٹکے رکھے جاتے تھے۔

شیر شاہ سوری بے تعصب حکمران تھا، ہندوؤں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں، انہیں پوری مذہبی آزادی حاصل تھی، ان کے دیوانی مقدمے ان کی اپنی روایات کے مطابق طے کیے جاتے تھے۔ شیر شاہ سوری کا قول تھا کہ:

انصاف سب سے بڑا مذہبی فریضہ ہے۔

کالنجر کی مہم اس کی زندگی کی آخری مہم ثابت ہوئی، اس نے نومبر پندرہ سو چوالیس میں کالنجر کا محاصرہ کیا، اس نے فوج کو گولہ بارود کا حکم دیا اور خود نگرانی کرنے لگا، ایک بارودی ہوائی بھٹی اور بارود خانہ جل گیا، جس سے شیر شاہ سوری شدید زخمی ہوا لیکن یہ مرد مجاہد اس وقت تک زندہ رہا جب تک اسے قلعہ کالنجر کی فتح کی خبر نہ مل گئی تھی۔ یہ بائیس مئی پندرہ سو پینتالیس کا دن تھا۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ آج بھی سہسرام میں فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔

شیر شاہ کے بعد اس کا لڑکا بادشاہ بنا لیکن نہایت ظالم اور سخت گیر ہونے کی وجہ سے اپنی حکومت برقرار نہ رکھ سکا، اس کے بعد اور بادشاہ آئے لیکن کوئی بھی جم کر حکومت نہ کر سکا اور بالآخر صرف دس سال میں سوری حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

٭٭٭

 

نئی امید

فضل پھر ایک نئی امید کے لیے اپنی کشتی کو دھکیلتا ہوا تیرتے ہوئے جال کی طرف بڑھا مگر اس جال میں بھی اسے ایک کچھوا پھنسا ہوا ملا۔ اب تو فضل پر جنون سوار ہو گیا۔ اس نے جال کو کشتی سے باندھا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا غصے کی حالت میں کنارے کی طرف آنے لگا، کنارے پر پہنچتے ہی اس نے جال کو کھینچا اور خشکی پر لے آیا۔ جہاں جال میں پھنسا ہوا بڑا سا کچھوا آزاد ہونے کے لیے بری طرح مچل رہا تھا۔ کچھوے کو جلا سے نکالتے ہی اس ظالم نے ایک بڑا موٹا سا ڈنڈا اپنی کشتی سے نکالا اور بے تحاشا اس بے چارے کچھوے کو مارنے لگا۔ کشتی ہی میں اس کا معصوم ممو بیٹھا ہوا تھا وہ ہمدردی سے چیخا۔ نہ مار اسے ابا…. نہ مار، مگر اس ظالم پر اس کا ایک بھی اثر نہ ہوا۔ تکلیف سے کچھوا پتھر کی طرح سخت ہو گیا مگر ممو کو اس کی تکلیف کا اندازہ اس کے کانپتے ہوئے وجود سے ہو رہا تھا۔ جب بہت مار پیٹ کر فضل نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو اس نے ایک مضبوط سی رسی سے کچھوے کی ٹانگ باندھی اور انتہائی قوت سے کچھوے کو کھینچتا ہوا بجلی کے کھمبے کے پاس لے گیا پھر پوری قوت لگا کر کچھوے کو کھمبے سے لٹکا کر باندھ دیا۔ یہ کام کرتے ہوئے اس کی سانس بری طرح پھول گئی تھی اور پیشانی پسینے سے تر بتر ہو گئی۔ ارے بابا اتنا مار کر اس بے چارے کو کیوں لٹکا دیا، ایسے لٹکتے لٹکتے تو یہ مر جائے گا ممو نے اداسی اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں کہا مرتا ہے تو مر جائے۔ فضل نے کچھوے کو تکلیف سے مچلتے ہوئے دیکھ کر غصے سے کہا۔ ایسا ظلم نہ کر ابا…. اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے گا۔ تو چپ کر شام سے پہلے پہلے تیس چالس کلو مچھلیاں پکڑنی ہیں ٹھیکیدار کو کل بھی پیسے نہیں دیے تھے جبکہ پہلے والے دونوں جال بھی مچھلیوں سے خالی تھے۔ ممو کا ابا اس وقت بہت غصے میں تھا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے ابا کی اس حرکت پر افسردہ اور غمگین تھا وہ چاہتا تھا کہ کچھوے کو آزاد کر کے اس کی تکلیف کو دور کر دے مگر فی الحال وہ اپنے ابا کے غصے کے آگے مجبور تھا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی ممو کی ماں فضل کا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ آج میاں کا پارہ چڑھا ہوا ہے۔ وہ فضل کے چہرے پر لکھی پریشانی کو پڑھ تو نہ سکی مگر پھر بھی پوچھ بیٹھی۔ کیا ہوا خیر تو ہے۔ آج بھی دو کلو مچھلیاں نہیں لگیں۔ ریا کا بند ابھی کھلا نہیں ہے۔ کچھوؤں نے الگ ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ ادھر ٹھیکیدار الگ پریشان کر رہا ہے۔ ممو کے ابو نے فکر مندانہ انداز میں کہا۔ ممو کی ماں بولی۔

اللہ ہماری پریشانی سے خوب واقف ہے تو فکر نہ کر اللہ بھلا کرے گا۔

چائے لاؤں ، ممو کی امی نے رخ بدلتے ہوئے پوچھا۔

ہاں لے آ، اب تو بس اللہ ہی عزت رکھے ، اگر دریا کا بند کھل جائے تو ساری پریشانیاں دور ہو جائیں۔ فضل نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔

ممو، لے بیٹا چل وحید سے دو روپے کا دودھ لے آ۔ اس وقت تو ممو خود باہر اڑ جانے کے چکر میں تھا۔ برتن اور پیسے لیتے ہی وہ تیزی سے باہر کی جانب دوڑا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ، اگر کچھوے کو بچانا ہے تو ابا ناراض ہو جائے گا اور اگر ابا سے ڈرنا ہے تو کچھوا مارا جائے گا اور اس کا عذاب ابا پر آئے گا۔ اب کیا کروں۔

ممو دل و ضمیر کے ہاتھوں پریشان تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح اس کچھوے کو بچانے کہ ابا بھی ناراض نہ ہو اور اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو جائے۔ آخر اس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ ابا کی ناراضگی کچھوے کی زندگی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ پھر وہ دوڑتا ہوا دریا پر آیا کشتی سے بندھی رسی کو کھولا اور اللہ کا نام لے کر کشتی کو آہستہ آہستہ بجلی کے کھمبے کی طرف لے جانے لگا۔ ممو بہت چھوٹا تھا جبکہ کشتی کے چپو انتہائی بڑے تھے اور کافی قوت سے چلانا پڑ رہے تھے مگر اسے تو صرف کچھوے کو بچانے کی فکر تھی۔ چپو چلاتے چلاتے اس کے دونوں بازو تھک گئے تو اس نے کشتی کو دریا ہی میں روک دیا۔ کنارا ابھی کافی دور تھا جبکہ ممو جلد از جلد کنارے تک پہنچنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر ہمت کی اور کافی کوشش کے بعد کشتی کو دورسرے کنارے تک لے ہی آیا۔ کنارے پر آتے ہی اس نے دونوں چپو کشتی میں ڈالے اور کنارے پر ایک بڑی سی لکڑی کو ٹھونک کر اسے مضبوطی سے باندھ دیا۔ اس کام سے فارغ ہوتے ہی وہ انتہائی سرور کیفیت میں بھاگتا ہوا کچھوے کے پاس پہنچا جو کہ ابھی تک بجلی کے کھمبے سے اوندھا لٹکا ہوا تکلیف سے بری طرح مچل رہا تھا۔

کچھوے میرے ابا نے واقعی تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا ہے میں تمہیں آزاد کرانے کے لیے آیا ہوں۔ ہوسکے تو میرے ابو کو معاف کر دینا۔ ممو نے کہا اور فوراً ہی پول کے ساتھ بندھی رسی کھول دی۔ رسی کا کھلنا تھا کہ کچھوا دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ پھر ممو نے بغیر کسی خوف کے کچھوے کے پاؤں کی رسی بھی کھول دی۔

جاؤ، جاؤ کچھوے اب تم آزاد ہو، ممو نے کہا۔

رسی کا کھلنا تھا کہ کچھوے نے ایک نظر ممو پر احسان مندی سے دیکھا اور پھر پوری قوت سے دریا کی طرف بڑھنے لگا۔ اس وقت ممو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ دریا کے قریب پہنچتے ہی کچھوے نے ایک نظر پھر ممو کو دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دریا کی تیز لہروں میں غائب ہو گیا۔ دریا کا بند اب کھل چکا تھا اور ایسے میں دریا میں کشتی چلانا اور واپس دوسرے کنارے اپنے گاؤں تک پہنچنا ناممکن تھا۔ پانی کے تیز بہاؤ کو دیکھتے ہی ممو تو پریشان ہو گیا کہ اب کیا کرے اور کس طرح واپس جائے۔ خیر ریلوے پل کے اوپر سے جانے کا راستہ تھا۔ پل کا خیال آتے ہی ممو کو کچھ سکون ملا۔ پل پر پہنچتے ہی اس نے پل کے دونوں جانب دیکھا کہ کہیں ریل تو نہیں آ رہی۔ پورا اطمینان کرنے کے بعد ممو تیزی سے پل پار کرنے لگا۔ پل دریا کے اوپر کوئی تین سو فٹ لمبا اور دریا سے سو فٹ بلند تھا۔

ادھر جب کافی وقت گزرا تو فضل پریشان ہو گیا۔ پھر ممو کے دوست رحمت نے فضل کو بتایا کہ اس نے ممو کو دریا کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ یہ سنتے ہی فضل دوڑتا ہوا لنگر والی جگہ پر آیا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کی کشتی دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑی تھی جبکہ دور بجلی کے کھمبے سے لٹکا ہوا کچھوا بھی اسے نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس وقت فضل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے کیوں کہ دریا کا بند کھلنے کی وجہ سے پانی میں تیزی آ گئی تھی اور دوسری پریشانی کی وجہ یہ بھی تھی کہ دور دور تک اسے ممو نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسے میں دریا میں دوسری کشتی ڈالنا یا تیر کے دریا پار کرنا بہت مشکل تھا لہٰذا فضل نے وقت ضائع کیے بغیر پل کی جانب دوڑ لگا دی۔ پل سے تھوڑا ہی دور تھا مگر پریشانی اور گھبراہٹ سے فضل کو پسینہ آنے لگا۔ ریلوے لائن پر آتے وہ پوری قوت سے پل کی جانب دوڑا پل پر پہنچتے ہی اس نے دیکھا کہ ممو آہستہ آہستہ پل پار کرتا ہوا اس طرف آ رہا تھا۔ اچانک ہی فضل کو ممو کے پیچھے سے ٹرین آتی ہوئی نظر آئی۔ فضل نے چیخ کر ممو سے کہا۔ ممو واپس چلا جا، ممو واپس چلا جا، پیچھے سے ریل آ رہی ہے۔ اب ممو نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ مزید بدحواس ہو گیا کیوں کہ ریل پوری رفتار سے پل کی طرف ہی آ رہی تھی۔ ایسے میں فضل نے اڑ کر ممو تک پہنچنا چاہا مگر یہ ناممکن تھا اپنے پیچھے دیکھتے ہی ممو واپس پلٹ اور دوڑتے ہوئے پل پار کرنے لگا۔ گھبراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں اس کی رہی ہمت بھی جواب دے رہی تھی۔ فضل کا ممو تک پہنچنا ناممکن تھا مگر پھر بھی اس نے اپنے ممو تک پہنچنے کے لیے پل پر دوڑ لگا دی۔

بھاگ ممو بھاگ، جلدی بھاگ۔ مگر اس سے پہلے کہ فضل ممو تک پہنچتا، ریل ممو کے سر پر آ گئی، اب جو اپنے سامنے موت کو آتے ہوئے دیکھا تو ممو کو دوسرے کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے دریا کے بہتے ہوئے دھارے میں چھلانگ لگا دی۔ ممو کو دریا میں کودتے دیکھتے ہی فضل بھی دریا میں کود گیا مگر ممو اس کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ بند کھلنے کی وجہ سے دریا میں جیسے طغیانی آئی ہوئی تھی۔ ایسے میں طوفانی لہروں نے ممو کو طری طرح اچھالا مگر وہ معصوم بچہ تھا اسے تو ابھی صحیح طرح سے تیرنا بھی نہیں آتا تھا۔ فضل نے ممو کے قریب پہنچنے کی بہت کوشش کی مگر اس کے سامنے ہی ایک زبردست لہر نے ممو کو غوطہ دیا اور پھر دوسرا غوطہ، فضل کی تو چیخ نکل گئی۔ دوسرے غوطے کے بعد ہی ممو پھر سے پانی کی سطح پر نمودار ہوا۔ فضل نے دیکھا کہ وہ تختے جیسے کسی چیز سے چمٹ گیا ہے۔ فضل جلد از جلد اپنے بچے تک پہنچنا چاہ رہا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ چیز ممو کو کنارے کی طرف لے جانے لگی۔ وہ چیز اضل میں کچھوا تھا جس نے جب اپنے محسن ممو کو تکلیف میں دیکھا تو بھاگ کر آیا، قریب پہنچنے پر فضل نے دیکھا کہ ممو کے نیچے سے تختہ نکل گیا۔ اتنی دیر میں فضل بھی ممو تک پہنچ چکا تھا، اپنے بچے کو صحیح سلامت دیکھتے ہی فضل نے خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے اپنے ممو کو گلے لگا لیا۔

اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو میں جیتے جی مر جاتا میرے بچے ، فضل نے محبت سے اپنے بچے سے پیار کرتے ہوئے کہا۔

ابا یہ سب اللہ کی مہربانی سے ہی ہوا ہے۔ بھلائی کا بدلہ جانور بھی دینا جانتے ہیں۔ اگر آج کچھوا بھلائی کا بدلہ بھلائی سے نہ دیتا تو میں ڈوب ہی گیا ہوتا۔ ممو نے سچی بات کہی جو کہ فضل کے دل میں اتر گئی۔

تم سچ کہتے ہو، غلطی میری ہی تھی۔ کچھوے تم نے احسان کا بدلہ احسان سے دیا۔ میں اپنے کیے پر نادم ہوں، ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا۔ فضل نے اپنے ممو کو گود میں اٹھا کر کچھوے کے قریب ہوتے ہوئے کہا۔ کچھوا آہستہ آہستہ واپس دریا کی طرف جانے لگا۔ پھر قریب پہنچتے ہی اس نے فضل کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہوں۔

بھلائی کا اجر بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔

٭٭٭

 

مامتا کی مہک

مجھے اپنی والدہ سے دلی محبت تھی۔ وہ بھی میرے بغیر دسترخوان پر نہیں بیٹھتی تھیں، جب تک گھر نہیں آتا تھا وہ دروازے پر بے تابی سے میرا انتظار کیا کرتی تھیں، گھر کے سبھی افراد کے نظروں میں میری اہمیت تھی کیوں کہ میں پڑھائی بھی کیا کرتا تھا اور چھوٹے موٹے ٹھیکے پر کام کر کے پیسے بھی کماتا تھا، والدہ کی دعائیں اور مدد میرے ساتھ شامل تھی اس لیے بڑے بھائی اور ان کی بیویاں بھی محبت کا اظہار کرتے رہتے تھے ، مجھے کئی دن سے اسکر دو جانے کی دھن سوار ہو گئی تھی۔ وہاں میرے ماموں رہتے تھے ، اسکر دو سے آگے ان کا گاؤں تھا والدہ سے اجازت لی۔

وہ رضا مند نہ تھیں، کہنے لگیں، تم ابھی وہاں مت جاؤ مجھے کئی روز سے پریشان کن خواب آ رہے ہیں۔ میں صدقہ وغیرہ دے رہی ہوں، جب تک میں اجازت نہ دوں تم اس ارادے سے گھر سے قدم نہ نکالنا۔ ان کے حکم کو میں نے وہم سمجھا اور سولہ اکتوبر کو ان کی اجازت کے بغیر تیاری کر کے راولپنڈی روانہ ہو گیا۔ جوان آدمی کو کہیں آنے جانے سے کون روک سکتا ہے۔ راولپنڈی پہن کر ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اسکر دو کے لیے جہاز کی سیٹ بک کروائی۔ راجہ بازار سے کچھ شاپنگ کی، ایک دوست کے ساتھ جا کر پستول بھی خرید لیا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ میاں بلا لائسنس ہتھیار لے جاؤ گے تو پکڑے جاؤ گے۔ شاید اسے بھی اس بات کا زیادہ پتا نہیں تھا۔ ہوائی جہاز پر جانے کے لیے بورڈنگ کارڈ بھی حاصل کر لیا تھا کہ چیکنگ کے دوران اپنی غلطی سے پکڑا گیا۔

اتفاق سے اس فلائٹ پر میرے چچازاد اور خالہ زاد بھائی بھی تھے جو میری حرص میں اسی فلائٹ سے جا رہے تھے انہوں نے دیکھا کہ مجھے حراست میں لے لیا گیا ہے تو وہ انجان بن گئے اور میں حوالات پہنچ گیا۔ اس کے بعد تفتیش اور مقدمے کا صبر آزما اور طویل دور شروع ہو گیا، میرا خیال تھا کہ مہینے دو مہینے میں فیصلہ ہو جائے گا لیکن اس مقدمے کو چلتے چوتھا ماہ گزر گیا ملاقات کے لیے بھائی ایک دفعہ آئے اور پھر وہ بھی غائب ہو گئے ، مجھے گھر کا کچھ پتا نہیں تھا کہ کون کس حال میں ہے ، والدہ کی فکر تھی کہ جانے وہ کس پریشانی میں ہوں گی۔ انہوں نے جو خواب دیکھا تھا وہ واقعی حقیقت پر مبنی تھا، اگر ان کا حکم مان لیتا تو یہ حال نہ ہوتا، اسی سوچ بچار میں سزا کا دن بھی آ گیا جج نے مجھے دو ہزار تین سو روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی جس کی کوئی صورت بنتی دکھائی نہ دیتی تھی کیوں کہ میری پیشی پر میرا کوئی رشتے دار موجود نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سب نے مشترکہ طور پر میرا بائیکاٹ کررکھا ہے میں شدید پریشانی کی حالت میں جیل میں دن کاٹ رہا تھا ایک رات سوتے سوتے ایسا محسوس ہوا جیسے والدہ نے آواز دی ہو۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا میرے آس پاس خوشبو پھیلی ہوئی تھی، انتہائی لطیف اور مانوس سی خوشبو تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ایسی خوشبو والدہ صاحبہ میرے بچپن میں استعمال کیا کرتی تھیں۔ یہ خوشبو تقریباً مہینے بھر تک میرے کوٹھڑی میں ایک مخصوص وقت یعنی صبح سویرے چار بجے کے قریب پھیلتی تھی اور سورج نکلنے تک کوٹھڑی مہکتی رہتی تھی کبھی میں مٹی اٹھا کر سونگھتا تھا، کبھی سلاخوں سے باہر سونگھتا تھا کہ شاید کسی سپاہی نے یہ خوشبو لگا رکھی ہو۔

ایک روز ماں کی یاد نے مجھے اتنا بے چینی کیا کہ میرے آنسو گالوں پر بہنے لگے ، مجھے سپاہی نے آ کر بتایا کہ ایک سائیں بابا کی ملاقات تمہارے لیے آئی ہے یہ حضرت اکثر قیدیوں کی اصلاح کے لیے مذہبی تبلیغ کرنے آتے تھے اور باری باری سبھی قیدیوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے ، میں سائیں بابا سے ملنے گیا، انہوں نے ملاقات کے دوران میری سزا کی مدت اور جرم کے بارے میں سوالات کیے۔

میں نے انہیں ساری بات سچ سچ بتا دی انہوں نے کہا، بیٹا دنیا بہت بری جگہ ہے تم نے دیکھا لیا کہ جب تمہارے پاس چار پیسے ہوتے تھے تو ہر شخص تمہارے اردگرد منڈلایا کرتا تھا، اب تم مصیبت میں ہو تو کسی نے تمہاری خبر لینا تو درکنار تم سے رشتے داری ظاہر کرنا بھی اپنے حق میں برا سمجھا۔ بالکل اسی طرح آخرت میں بھی تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ تم صرف اپنے اعمال سے پہچانے جاؤ گے۔ ان کے درس نے دل پر گہرا اثر کیا۔ میں نے گلہ کیا کہ کیا ایسے حالات میں ماں کا دل بھی بدل جاتا ہے۔ وہ کہنے لگے۔ ماں ایک عورت ہے وہ بیچاری تمہارے لیے تڑپتی ہو گی مگر اکیلی عورت سوائے رونے دھونے کے کچھ نہیں کر سکتی میں تمہارا جرمانہ ادا کر دوں گا۔ چاہو تو تم بعد میں یہ رقم مجھے ادا کر دینا۔ تمہارا جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ اپنی عمر کا اتنا بڑا حصہ یہاں خرچ کر دو۔ گھر جا کر صرف اپنی ماں کے فرائض ادا کرنا باقی وقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی میں صرف کرنا یہی سچا راستہ ہے۔

اس رحمت کے فرشتے نے میرے جرمانے کی معمولی سی رقم جو ان حالات میں میرے لیے غیر معمولی تھی ادا کر دی اور مجھے رہائی دلوا دی۔ دل تو چاہتا تھا کہ کبھی اس گھر نہ جاؤں جس میں کسی نے میری خبر تک نہ لی تھی مگر ماں کی محبت نے ایسا نہ کرنے دیا، گھر پہنچا تو پتا چلا کہ میری والدہ میری یاد میں روتے روتے اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں ان کے انتقال کی وہی رات اور وہی وقت تھا جب میں نے جیل کی کوٹھڑی میں سوتے سوتے ایسا محسوس کیا تھا کہ ماں نے مجھے آواز دی ہو اور ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ مہینے بھر تک ان کی مہک میرے پاس موجود رہی تھی مجھے پورا یقین ہے کہ اس وقفے میں وہ میرے آس پاس موجود ہوتی تھیں۔ ان کی بے چین روح میری تلاش میں وہاں تک آ پہنچی تھی۔ کاش میں نے ان کی بات مان لی ہوتی اور ماموں کے گاؤں جانے کا ادارہ ملتوی کر دیا ہوتا۔ میں نے پھر ہمیشہ کے لیے اپنا گھر چھوڑ دیا۔

کوئٹہ آ گیا اور ایک کوٹھی میں چوکیدار کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ اب اکیلا رہتا ہوں جو مل جاتا ہے کھا لیتا ہوں اور باقی وقت اللہ کے کاموں کے لیے وقف کر دیا ہے ، مسجد کے ایک امام صاحب کی خدمت کر کے روحانی خوشی حاصل کرتا ہوں۔ دکھی لوگوں کی حتیٰ المقدور مدد کرتا ہوں، اس واقعہ نے میری باطنی نگاہیں کھول دی ہیں اور اب سوائے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے کسی شے میں میرا جی نہیں لگتا۔

٭٭٭

 

طیارے کی تلاش

اسٹنسن ایر لائنز کا طیارہ ایک ہفتے سے گم تھا۔ ہوائی جہاز میں پانچ مسافر اور عملے کے دو آدمی سوار تھے۔ یہ نو فروری انیس سو سینتیس کا ذکر ہے۔ جمعہ کا دن تھا اور سہ پہر کا وقت طیارہ برسین سے سڈنی روانہ ہوا تھا۔ پرواز چھ میل کی تھی، لیکن راستے میں منطقہ حارہ کے سائیکلون (ہوا کا بگولہ) نے آ لیا اور پھر اس کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ شہری پرواز اور فضائیہ کے طیارے رات دن اس کا کھوج لگاتے رہے ، ایک ایک میل چھان مارا، ساحلی علاقوں پر پرواز کر کے تلاش کیا، مختلف مقامات کے آدمیوں نے طیارہ پرواز کرتے ہوئے دیکھا یا اس کی آواز سنی تھی، ان کی رپورٹ کی روشنی میں کھوج لگایا گیا، مگر بدقسمت طیارے کا کہیں نشان نہ ملا۔

فضائیہ کے طیاروں نے پینسٹھ ہزار میل پرواز کی۔ کھوجیوں میں آسٹریلیا کے نامور طیارہ ران بھی تھے۔ عام خیال یہ تھا کہ طیارہ سڈنی کے قریب سمندر میں گر پڑا ہے ، اس خیال کے مطابق طیارے نے سائیکلون سے بچنے کے لیے ساحلی روٹ اختیار کر لیا تھا، مگر ابھی منزل مقصود کچھ دور تھی کہ حادثہ پیش آیا۔ بندرگاہ سڈنی سے دس میل کے فاصلے پر تیل کے بڑے بڑے خشک تالاب دور دور تک چلے گئے تھے ، انہیں دیکھ کر یہ خیال پختہ ہو گیا کہ طیارہ سمندر ہی میں گر کر تباہ ہوا ہے۔

آخر کار مایوس ہو کر دسویں دن تلاش ترک کر دی گئی، تاہم فضائیہ کے طیاروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ ہر وقت تیار رہیں جونہی کوئی اتا پتا چلے فوراً روانہ ہو جائیں۔ ایک مسافر کی ماں نے پیش کش کی کہ دوبارہ تلاش شروع کی جائے وہ تمام مصارف برداشت کرے گی لیکن اسے کہہ دیا گیا کہ اب کوئی فائدہ نہیں۔

ادھر تلاش کرنے والے مایوس ہو چکے تھے ، ادھر کوئنز لینڈ اور ساؤتھ ویلز کی سرحد پر پہاڑوں میں رہنے والا ایک کسان برنارڈ اور ریلے سوچ رہا تھا کہ ماہرین غلط نتیجے پر پہنچے ہیں، حادثہ سڈنی کے قریب نہیں ہوا، طیارے کا پہلا پڑاؤ لزمور تھا مگر وہ وہاں اترا ہی نہیں اور لزمور سڈنی سے چار سو میل دور ہے ، طیارہ یقیناً میکفرسن کے پہاڑی جنگل میں تباہ ہوا ہے۔ یہ جنگل اسی ہزار ایکڑ کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے ، نہایت گھنا ہے اور بہت کم لوگ اس کی چھان بین کر پائے ہیں، بظاہر تھا تو یہ پاگل پن، لیکن ایک روز وہ گم شدہ طیارے کا کھوج لگانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔

اسٹنسن تین انجنوں کا ایک چھوٹا سا طیارہ تھا۔ برسین سے اس نے تیسرے پہر پرواز کی تو اسے کیپٹن رابرٹ اور ہیری چلا رہے تھے ، ان دونوں کا شمار آسٹریلیا کے انتہائی ماہر اور تجربہ کار پائلٹوں میں ہوتا تھا۔ طیارہ روانہ ہوا تو ہوا چل رہی تھی، مگر یہ خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ نصف گھنٹے کی مسافر پر بادلوں میں لپٹی ہوئی پہاڑیوں میں تباہ کن سائیکلون ان کا انتظار کر رہا ہے ، طیارہ روز مرہ کی پرواز پر تھا اور اس میں ریڈیو وغیرہ کچھ نہ تھا، اس زمانے میں آسٹریلیا کے ہوائی جہازوں کا ریڈیو سے محروم ہونا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی، طیارے میں آٹھ تشستیں تھیں، مگر جب پرواز پر روانہ ہوا تو صرف پانچ مسافر سوار تھے ، دو مسافر مائیکل اور گراہم ایک جانب بیٹھے تھے اور تین جیمز، ولیم اور جوزف دوسری جانب۔

طیارہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، ہوا تند و تیز ہوتی چلی گئی۔ لزمور کے اڈے پر اترنا ممکن نہ تھا، چنانچہ اس نے پرواز جاری رکھی۔ ہوائی اڈے کے حکام بھی کچھ ایسے پریشان نہ ہوئے ، وہ یہی سمجھے کہ کیپٹن رابرٹ تند و تیز ہوا کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے سمندر کی طرف نکل گیا ہے اور اب سیدھا سڈنی چلا جائے گا۔

شام کا جھٹپٹا ہو چلا تھا، طیارے کو سڈنی پہنچ جانا چاہیے تھا، لیکن وہ نہ پہنچا، تاہم کسی کو بھی فوری تشویش نہ ہوئی، سورج ڈوب گیا اور تاریکی پھیل گئی، پھر آہستہ آہستہ رات بھیگنے لگی، مگر طیارے کا کچھ پتا نہ تھا، وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اندیشے بڑھتے چلے گئے ، راستے کے تمام شہروں سے فون کر کے پوچھا گیا، مگر ہر جگہ سے یہی جواب ملا کہ کچھ خبر نہیں، ساحلی مقامات خراب موسم، گہرے بادلوں اور طوفانی ہواؤں کی خبر دے رہے تھے ، صبح تک اس بات میں کوئی شک و شبہ نہ رہا کہ اسٹنسن گر کر تباہ ہو چکا ہے ، سوال یہ تھا کہ بدقسمت طیارہ کس مقام پر حادثے سے دوچار ہوا، وہ جب سائیکلون کی زد میں آیا اس وقت ایک سو پینسٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے میکفرسن کی پہاڑیوں پر پرواز کر رہا تھا، سائیکلون میں گرتے ہی پتنگ کی طرح چکر کھانے لگا، مسافروں نے کھڑکیوں میں دے دیکھا، پہاڑ چشم زد میں پیچھے رہ گئے تھے ، سامنے پائلٹ طیارے کو قابو رکھنے کی زبرست کوشش کر رہا تھا، اس کے چہرے سے امڈتے ہوئے خطرے کے آثار صاف ظاہر تھے ، تاہم ہوائی جہاز میں نہ تو افراتفری مچی اور نہ نالہ و فریاد کی آواز بلند ہوئی، مسافر اپنی اپنی سیٹ پر خاموش دم سادھے بیٹھے تھے ، یوں نظر آتا تھا کہ ان کی قوت گویائی چھن گئی ہے۔ اچانک سائیکلونی ہوا کی ایک رون نے کسی دیو کی طرح اسٹنسن کو اپنی گرفت میں لے لیا، طیارہ سیدھا سرسبز پہاڑوں کے دامن کی طرف نہایت تیزی سے بڑھا، کیپٹن رابرٹ نے مشین پر قابو پانے اور حادثے سے بچانے کی آخری بار بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ طیارہ دیو ہیکل درختوں کو چیرتا ہوا، کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی آواز کے ساتھ تیسرے درخت سے جا ٹکرایا، وہ مائیکل والے پہلو پر گرا تھا، اس طرف کے دونوں مسافر اور دونوں پائلٹ فوراً ہلاک ہو گئے ، دوسری طرف کے تینوں مسافر بچ گئے۔

سب سے پہلے جیمز کے اوسان بحال ہوئے ، وہ سخت پریشان تھا، اس نے فوراً خطرے کو بھانپ لیا، کیبن سے سیاہ دھوئیں کے مرغولے اٹھ رہے تھے ، پیٹرول کی بو آ رہی تھی اور ننھی ننھی چنگاریاں سی سلگنے لگی تھیں۔ اس نے نشستوں پر نگاہ دوڑائی، سب مرے پڑے تھے ، وہ ڈگمگاتا ہوا اٹھا اور اپنے اسے اگلے مسافر کو زور سے جھنجھوڑا، اٹھو اٹھو، وہ چیخا، اگر جل بھن کر راکھ ہونا نہیں چاہتے تو یہاں سے فوراً نکلو، آگ کسی وقت بھی بھڑک اٹھنے والی ہے ، جوزف نیم غنودگی کے عالم میں تھا، جیمز نے اسے ایک بار پھر جھنجھوڑا، اس نے آنکھیں کھول دیں، جوزف نے بھی صورتحال فوراً بھانپ لی اور وہ آہستہ آہستہ اٹھ کھڑا ہوا، اب ان کی نظر ایک اور مسافر پر پڑی، یہ نوجوان انگریز ویلم تھا، وہ شعلوں سے گزر کر لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ کیبن کے پچھلے حصے میں پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا، دونوں نے اس کے بازو تھام لیے ، وہ بریہ طرح جل گیا تھا اور اس کے ہاتھ کا گوشت نکل آیا تھا۔ جیمز اور جوزف نے مل کر اسے طیارے کی ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی میں سے باہر لٹکایا اور وہ چھ فٹ کی بلندی سے نیچے گر پڑا۔ جوزف خاص بھاری بھرکم تھا، اسے تنگ کھڑی میں سے نکلنے کے لیے زبردست جدوجہد کرنا پڑی، جگہ جگہ سے اس کا جسم چھل گیا اور پھر وہ ویلم کے پہلو میں کود گیا۔ جیمز کی حالت سب سے بہتر تھی اور وہ ان دونوں کے مقابلے میں طاقتور بھی زیادہ تھا، آگے بڑھا، کھڑی میں سے نکلا اور نیچے کود گیا، وہ جوزف کے پہلو میں گرا تو چٹاخ سی آواز آئی، یوں معلوم ہوا کہ جیسے درخت کا ٹہنا ٹوٹ گیا ہو، اس نے گرتے ہی اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہ سکا، اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔

میرا ہاتھ پکڑو، اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا، میری ٹانگ ٹوٹ گئی ہے مجھے سہارا دو ہمیں طیارے سے دور چلے جانا چاہیے۔

ویلم اور جوزف بمشکل اٹھے اور جیمز کو کچھ گھسٹتے اور کچھ سہارا دیتے ہوئے چلے ، طیارہ تیزی سے جل رہا تھا، مگر اب وہ اس کے شعلوں کی زد سے نکل چکے تھے ، ان کے دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ زرد آگی کی بھٹی میں جل کر بھسم ہو گیا۔

جونہی شعلے مدہم ہوئے ، وہ نہایت بے کسی سے زمین پر گر پڑے ، ان کی نگاہیں گھنے جنگل پر تھیں، جو ان کے چاروں طرف دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ فوراً سمجھ گئے کہ سارا علاقہ غیر آباد ہے اور اس جنگل سے بچ کر نکل جانے کی امید بہت کم ہے ، بھڑکتی ہوئی آگ شاید کسی کو دکھائی دیتی ہو گی اور تلاش کرنے والی پارٹیاں ممکن کبھی پہنچنے نہ پائیں۔

جوزف نے جیمز کو درخت کے سہارے بٹھایا اور اس کی ٹانگ کا معائنہ کیا۔ ہڈی دو ٹکڑے ہو چکی تھی اور گوشت چیر کر نکل آئی تھی، اسے جھر جھری سی آ گئی تھی، جوزف نے اپنی قمیض پھاڑ کر پٹیاں بنائیں، ہوائی جہاز درخت سے ٹکرایا تھا تو اس کے کئی ٹکڑے ادھر ادھر بکھر گئے تھے ، جوزف نے چند ٹکڑے لیے ، انہیں ٹانگ پر رکھا اور پٹیاں سے باندھ دیا، ویلم نہ صرف جل گیا تھا بلکہ حادثے سے بری طرح متاثر بھی ہوا تھا، وہ پاگلوں کی طرح جنگل میں نکل جاتا، جوزف کو بار بار تعاقب کر کے اسے واپس لانا پڑتا۔

دیکھو ویلم، اگر تم نیچے نہیں بیٹھو گے تو میں تمہارے اوپر بیٹھ جاؤں گا، پھر تم ہل جل بھی نہ سکو گے ، تمہیں اتنی ناگفتہ بہ حالت میں یہاں سے نہیں جانا چاہیے ، زندہ بچ نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے ، یہاں ٹھہرے رہو، امید ہے کھوج لگانے والی کوئی نہ کوئی پارٹی ضرور ہمیں دیکھ لے گی۔

ویلم، جوزف کے قریب بیٹھ گیا، مجھے کل انگلینڈ جانا تھا، وہ بڑبڑایا، آج رات میرے دوست سڈنی میں الوداعی پارٹی دینے والے تھے۔

سہ پہر کے وقت موسلا دھار بارش شروع ہو گئی اور تینوں شرابور ہو گئے ، اب وہ تھے اور امید و بیم میں ڈوبی ہوئی انتظار کی گھڑیاں، نہ کھانے کو کچھ تھا اور نہ پناہ گار۔ روزانہ پچھلے پہر یا شام کے قریب چھاجوں مینہ برسنے لگتا۔ ان کا خیال تھا کہ جنگل میں بڑا سا الاؤ جلا کر ڈھونڈنے والوں کو متوجہ کریں گے لیکن مسلسل بارش نے اس منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ اندھیرا چھا گیا، پہلی رات آہستہ آہستہ رینگنے لگی، تینوں اپنے خیالات میں گم بیٹھے کپکپا رہے تھے ، جوزف سوش رہا تھا نہ جانے ایسی کتنی راتیں یہاں گزارنی ہوں گے۔ دونوں ساتھیوں کی دیکھ بھال اس کے کندھوں پر آ پڑی تھی، ان کے زخموں نے انہیں بالکل بے بس کر دیا تھا، ویلم ذہنی طور پر بھی ایک مسئلہ بن چکا تھا، ذہنی حالت سدھر بھی جاتو تو بھی اس کے ہاتھ اس قدر جل گئے تھے کہ خوراک اور پانی ڈھونڈنا اس کے لیے ناممکن تھا۔

اگلی صبح جوزف خوراک اور پانی تلاش کرنے نکل گیا۔ ادھر وہ نگاہوں سے اوجھل ہوا، ادھر ویلم کھڑا ہو گیا، میں یہاں نہیں ٹھہروں گا، اس نے جیمز سے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ تم کھوج لگانے والوں کے انتظار میں پڑے پڑے سڑ جاؤ گے ، میں اپنا راستہ خود تلاش کروں گا۔

دیکھو غلطی کرو گے ، جیمز نے کہا۔ مگر میرا خیال ہے کہ ہم چاہیں بھی تو تمہیں نہیں روک سکتے ، اچھا قسمت تمہارا ساتھ دے تو ہمیں بھول نہ جانا، راستہ مل جائے تو ہمیں لینے لیے ضرور آنا۔

ویلم چل پڑا، اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے ، لیکن وہ چلتا رہا اور گھنے درختوں اور جھاڑیوں میں راستہ بناتے ہوئے غائب ہو گیا۔ پھر اسے کبھی کسی نے زندہ نہ دیکھا۔

جوزف واپس آیا تو پتا چلا کہ ویلم چلا گیا ہے ، اس نے بے بسی کے انداز میں کندھے اچکائے اور بڑبڑایا۔ میں ہوتا تب بھی اسے روکنا مشکل تھا، ہمیں زندہ رہنے کے لیے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے ، جوزف نے جنگلی بیر ڈھونڈ لیے تھے ، مگر ڈر تھا کہیں زہریلے نہ ہو، آخر ہمت کر کے انہوں نے چند کھائے اور پھر اگلے دس روز وہ صرف ان ہی پر گزر بسر کرتے رہے ، کوئی تین سو گز نیچے ڈھلان پر ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ بھی مل گیا تھا، جوزف روزانہ وہاں سے پانی لاتا، بھوک اور فاقہ زدگی سے وہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا تھا، چند دن بعد تو یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے چشمہ میلوں دور ہو، لیکن سفر کے بغیر چارہ نہ تھا، جیمز بخار کی آگ میں پھنک رہا تھا اور بار بار پانی مانگتا تھا، جوزف کے پاؤں جواب دے گئے تو وہاں ہاتھ اور گھٹنوں کے بل رینگ کر جاتا اور پانی لاتا، ناہموار چٹانوں پر گھسٹنے سے زخم ہو گئے لیکن وہ ان سے بے نیاز اپنا فرض انجام دیتا رہا، اب تو پورا پورا دن اسی کام میں لگ جاتا، جیمز بار بار کہتا جوزف تم چلے کیوں نہیں جاتے ، کم از کم اپنی جان تو بچا سکتے ہو، لیکن وہ جواب میں صرف مسکرا دیتا۔

آٹھویں دن جوزف کو چشمے تک آنے جانے میں اٹھ گھنٹے لگے ، یہی وہ دن تھا جب برنارڈ اپنے ڈیرے میں اسٹنسن کے انجام پر غور و فکر کر رہا تھا، اسے سرکاری رپورٹوں پر یقین نہیں آیا تھا، اس نے میکفرسن کے پہاڑوں کا نقشہ نکالا، اس کا چھی طرح معائنہ کیا اور بیوی سے مخاطب ہو کر چیخا۔ ایکن، میں جا کر طیارہ تلاش کرتا ہوں، وہ سمندر میں نہیں میکفرسن کے پہاڑوں میں گرا ہے۔

ستائیس فروری کو برنارڈ اوریلے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے کوئی لمبی چوڑی تیاری نہ کی۔ دو روٹیاں ایک پونڈ مکھن، درجن بھر پیار، چائے ، چینی، چاقو، ٹین کا ایک ڈبہ، پانی پینے کا جگ اور زہریلے کیڑوں سے محفوظ رہنے کے لیے لوازمات لیے ، گھوڑے پر بیٹھا اور کوہستان میکفرسن کا رخ کیا۔ اگر واپسی میں دیر ہو جائے تو پریشان نہ ہونا، نہ جانے کہاں تک جانا پڑے ، اس نے اپنی بیوی سے کہا اور روانہ ہو گیا۔ پہاڑی کے قریب پہنچ کر گھوڑی سے اترا، اس کی باگ ایک رکاب سے باندھی اور اسے راستے پر ڈال کر گھر کی طرف روانہ کر دیا۔ خود پاپیادہ میکفرسن کا ابھار عبور کرتے ہوئے پہلی چوٹی کی طرف بڑھا۔ یہاں جنگل نہایت گھنا تھا۔ درختوں کی شاخیں ایک دوسرے سے گھستی ہوئی اس طرح چلی گئی تھیں کہ آدمی زمین پر قدم رکھے بغیر میلوں تک شاخوں ہی شاخوں پر سفر کر سکتا تھا۔ سورج کی روشنی گھنے پتوں سے چھن کر بمشکل زمین پر پہنچ رہی تھی، پتلی پتلی سبز زمینی بیلوں کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا اور قاتل کانٹے چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے ، روشنی اس قدم معمولی تھی کہ دس فٹ آگے کی چیز دکھائی نہ دیتی، ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ بارش شروع ہو گئی، رات گیلی زمین پر گزارنا پڑی۔

اگلے روز سورج طلوع ہوتے ہی برنارڈ روزانہ ہو گیا، تقریباً آٹھ بجے وہ دوسری چوٹی پر تھا، اس نے ایک نظر دور تک پھیلے ہوئے علاقے پر دوڑا۔ تیسری چوٹی پر سرسبز ڈھلوان پر اسے کچھ درخت جلے ہوئے دکھائی دیے ، وہ سیدھا اس طرف ہولیا۔ نیچے اترا تو گھنا جنگل شروع ہو گیا جس میں سے گزرتے وقت اسے خاصی دقت پیش آئی۔ بار بار سمت کا اندازہ کرنا پڑتا۔ دوپہر تک وہ صرف تین میل طے کر سکا تھا۔

چار گھنٹے مسلسل سفر کرنے کے بعد اس نے اندازہ لگایا کہ وہ کہیں قریب پہنچ چکا ہے ، زور سے چیخا کوئی ہے ؟ اس کی آواز جنگل کی خاموشی فضا میں تحلیل ہو گئی۔ ایک بار پھر اس نے آواز دی۔ کوئی ہے۔

عین اس وقت چند سو گزر دور جوزف اور جیمز موت کا استقبال کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ان کی قوت جواب دے چکی تھی۔ میرا خیال ہے کہ زندگی پر پردہ گرا ہی چاہتا ہے ، مرنا ہی لکھا ہے تو آرام سے مرنا چاہیے۔ جوزف کہہ رہا تھا۔ میں کچھ پتے لاتا ہوں، تاکہ لیٹنے کے لیے کوئی نرم چیز تو ہو۔

جیمز نے اسے رینگ کر ایک طرف جاتے ہوئے دیکھا اور پھر پتے جمع کرنے کی سرسراہٹ محسوس کی۔ اچانک اس نے سر اٹھایا اور کہا، یہ کیسی آواز تھی۔

شاید کوئی پکار رہا تھا، جوزف نے ہانپتے ہوئے کہا۔ جیمز، خوشی کے گیت گاؤ، ان لوگوں نے ہمیں ڈھونڈ لیا ہے ، دونوں نے پکار کا جواب دیا، لیکن انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کی آواز حلق میں پھنس کر رہ گئی ہو، تاہم برنارڈ اوریلے نے ان کی مزور سی آواز سن لیں وہ پھر زور سے پکارا اور ان کی طرف تیزی سے بڑھا۔ آوازوں کا تبادلہ جاری رہا، اوریلے نے درخت کی آخری شاخیں ہٹائیں اور کھلی جگہ پہنچ گیا۔ اس کی پہلی نظر جیمز پر پڑی، ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ زمین پر لیٹا ہوا تھا، آنکھیں اندر کو دھنس چکی تھیں، داڑھی بڑھی ہوئی تھی، بالکل لاش معلوم ہوتا تھا، ٹوٹی ہوئی ٹانگ بھی بری طرح خراب تھی، پاجامہ تار تار تھا۔

چند لمحے تینوں چپ چاپ ایک دوسرے کو تکتے رہے ، فرط مسرت سے جیسے زبانیں گنگ ہو چکی ہوں، آخر جوزف نے خاموشی توڑی۔ چائے کا ایک پیالہ ہو جائے ، کیا خیال ہے ، اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔

کرکٹ کا کیا حال ہے ، جیمز کا پہلا سوال تھا۔ اس کا اشارہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کی طرف تھا جو آسٹریلیا کے دورے پر آئی ہوئی تھی۔

اوریلے نے انہیں کھانا دیا ار چائے بنا کر پلائی، انہوں نے حادثے کی تفصیلات بیان کیں اور اشارے سے بتایا کہ ویلم اس راستے سے گیا تھا اوریلے گھنٹہ بھر ٹھہرا رہا اور پھر واپس روانہ ہو گیا۔

پریشان نہ ہونا، اس نے جاتے ہوئے کہا۔ میں جا کر ڈاکٹر اور آدمی لاتا ہوں۔

اوریلے نے ایک میل فاصلہ طے کیا تھا کہ اس کا گزر ویلم کی لاش سے ہوا۔ وہ بیس فٹ اونچی چٹان سے گر گیا تھا اور پھر وہاں سے گھسٹتا ہوا کوئی آدھ میل دور ایک پہاڑی کھانچے تک آیا، جہاں ایک درخت کے تنے سے پیٹھ لگائے مرا پڑا تھا، بعد ازاں بچانے والی ایک پارٹی نے اسے دفن کر دیا۔

تین گھنٹے بعد اوریلے اپنے ایک دوسرے کے ڈیرے پر پہنچا۔ وہاں سے گھوڑوں پر بیٹھ کر دونوں قریب ترین شہر لامنگٹن پہنچے ، ٹیلی فون کے ذریعے آنا فاناً یہ خبر پورے آسٹریلیا میں پھیل گئی کہ اسٹنسن کا جلا ہوا ڈھانچا مل گیا ہے ، صرف دو آدمی زندہ بچے ہیں، بچاؤ پارٹیاں، ڈاکٹر اور اسٹریچر لیے جائے حادثہ کی طرف پوری تیزی سے بڑھ رہی تھیں اور بارنارڈ  اوریلے قومی ہیرو بن چکا تھا۔

٭٭٭

 

پانچ گناہ گاروں کی انوکھی سزا

آج بادشاہ کو بیٹھے بٹھائے ایک عجیب خیال آیا۔ اس نے وزیر اعظم کو حکم دیا کہ ریاست کے بڑے بڑے پانچ گناہ گار پکڑ کر دربار میں پیش کیے جائیں، یہ ایک عجیب و غریب خیال تھا۔ اب بھلا یہ تعین کیسے ہوتا کہ سب سے بڑا خطا کار کون ہے اور وہ بھی ایک نہیں پانچ۔

وزیر اعظم نے بادشاہ سے دو یوم کی مہلت طلب کی جو اس نے بخوشی دے دی۔ وزیر اعظم اپنی رہائش گاہ کو لوٹ آیا۔ پہلا دن تو سوچ بچار میں گزر گیا، وہ جتنا سوچتا اس قدر پریشان ہو جاتا۔ اب بھلا وہ کسے بڑا گناہ کار سمجھ کر گرفتار کروا دیتا۔ بالآخر سوچتے سوچتے اسے ایک نکتہ مل گیا، بس اسی نکتے کو ذہن میں رکھ کر اس نے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا شروع کر دیا۔

دو دن جھٹ پٹ گزر گئے ، پانچ بڑے گناہ گاروں والی بات اب ریاست کی عوام تک پہنچ چکی تھی، ہر شخص پارسائی کا دعویدار تھا۔ گناہ گار بھی خود کو نیک ظاہر کر رہے تھے ، آخر وزیر اعظم کا حکم تھا، چنانچہ کوتوال نے شہر بھر سے پانچ بڑے گناہ گار پکڑ لیے ، ان پانچ گناہ گاروں کو دیکھنے کے لیے ایک جم غفیر امڈ آیا۔ ہر کوئی یہ دیکھنے کو بے تاب تھا کہ آخر ریاست کی نظر میں کون بڑا گناہ گار ہے اور اس کا حشر کیا ہو گا، شاہی دربار کے اندر اور محل کے باہر ہجوم تھا، بادشاہ تخت پر براجمان تھا، بادشاہ کے اشارے پر پانچ بڑے گناہ گاروں میں سے پہلے شخص کو پیش کیا گیا۔

عالم پناہ، یہ بہت بڑا گناہ گار ہے ، یہ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرتا ہے ، ناجائز منافع کمانے کے لیے یہ کچھ بھی کر سکتا ہے ، اسے موت یاد نہیں اور ہر لحظہ دولت کمانے کے نت نئے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ اس کی دولت کا شمار نہیں اور یہ بہت بڑا گناہ گارا ہے ، وزیر اعظم نے اس کا تعارف کروایا۔ بادشاہ نے غصے سے اسے دیکھا اور جیل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ حکم دیا کہ جیل میں اسے سونے اور اوڑھنے کے لیے نوٹ دیے جائیں، اس قدر دولت دے دی جائے کہ اسے ہر طرف نوٹ ہی نوٹ دکھائی دیں۔ اس کے علاوہ ہر روز اسے ملاوٹ والا کھانا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور جیل میں پہنچا دیا گیا۔

عالم پناہ، یہ دوسرا بڑا گناہ گار ہے ، یہ غیبت، چغلی اور حسد میں مصروف رہتا ہے ، ساری دنیا بری ہے بس یہ اچھا ہے۔ دوسروں کی خوشی، ترقی اور خوشحالی سے جلتا رہتا ہے ، زبان زیادہ چلاتا ہے اور کام کم کرتا ہے ، معاشرے میں فساد پھیلاتا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک شخص کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ بادشاہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ جاؤ اسے قید خانے میں ڈال دو، اس کی سزا یہ ہے کہ یہ ہر وقت زبان سے بک بک کرتا رہے ، تاکہ اسے فضول بولنے کی سزا مل سکے۔ جب یہ خاموش ہو تو کوڑے مار مار کر اس کی زبان کھولی جائے ، حتیٰ کہ سوائے اچھی بات کے کوئی اور بات اس کے منہ سے نہ نکلے۔ بادشاہ کے حکم پر اسے بھی قید میں ڈال دیا گیا۔

عالی جاہ، یہ تیسرا بڑا گناہ گار ہے ، یہ راشی ہے ، حالاں کہ اسے اچھی بھلی تنخواہ ملتی ہے لیکن اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں سے جائز کام کے بھی پیسے بٹورتا ہے۔ یہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف سے عاری ہے۔ وزیر اعظم کی اس بات پر بادشاہ کا پارہ چڑھ گیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے ، اس کو اس قدر دولت دی جائے کہ وہ ہر وقت نوٹ گنتا رہے ، جب اس کے ہاتھ نوٹ گنتے ہوئے تھک جائیں تو ہاتھوں پر ضرب لگائی جائے ، اس کو اتنا تھکا دو کہ آئندہ جائز دولت کے علاوہ یہ کوئی ناجائز پیسہ نہ پکڑسکے۔ چنانچہ حکم کی تعلیم کی گئی۔

اب چوتھے کی باری آ گئی۔ بادشاہ سلامت یہ چوتھا گناہ گار ہے ، یہ والدین کا نافرمان ہے ، لوگوں پر رحم نہیں کرتا، بچوں پر شفقت نہیں کرتا۔ جواب کھیلتا ہے اور ناجائز کام کرتا ہے ، اس مرتبہ بھی بادشاہ سخت برہم ہوا۔ حکم کے مطابق اسے جیل پہنچا دیا گیا۔ اس کو سزا ملی کہ روزانہ اس کے والدین اسے قید خانے میں ملاقات کریں گے اور یہ ان کی خدمت کرے گا، روزانہ ایک ہزار بچے اس سے ملیں گے ، جن کے ساتھ یہ شفقت سے پیش آئے گا اور روزانہ لاکھوں روپے اسے دے کر رات کو واپس لے لیے جائیں تاکہ جواری کی حیثیت سے اسے دولت کا غم دیا جا سکے۔

پانچواں گناہ گار دربار میں پیش کیا گیا تو ہر طرف ہوکا عالم تھا، کیوں کہ یہ ملک کا مشہور عالم تھا۔ لوگ اس کے علمی جاہ و جلال کے باعث اس کی بہت عزت کرتے تھے ، مجرموں اور گناہ گاروں کی فہرست میں اس کو دیکھ کر لوگ دم بخود رہ گئے۔ وزیر اعظم نے کہا عالی جاہ، یہ پانچواں بڑا گناہ گار ہے ، یہ سائنسی علوم کا ماہر ہے۔ لوگوں کو سائنس اور سائنسی طرز زندگی کے بارے میں بتاتا ہے۔ خود صاف ستھرا رہتا ہے ، کتابیں شوق سے پڑھتا ہے ، رات دن مطالعہ میں غرق رہتا ہے ، لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتا ہے ، لوگ اس کی زبان دانی سے بہت مرعوب ہوتے ہیں، اب تک وزیر اعظم نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی، جو اسے بڑا گناہ گار ثابت کرتی۔ بادشاہ حیرت سے ساری بات سن رہا تھا، وزیر اعظم نے کہا۔ حضور! تمام تر اچھی باتوں کے باوجود یہ شخص خود اپنی روزمرہ زندگی میں کسی سائنسی اصول پر عمل نہیں کرتا۔ لوگوں کو درس دیتا ہے کہ آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی سائنسی تھا، لیکن خود اس کے خلاف عمل کرتا ہے ، گویا اس عالم کا علم بے عمل ہے۔ بادشاہ اس مرتبہ تخت سے اٹھ کھڑا ہوا، بے شک یہ ہمارا اور ہماری قوم کا سب سے بڑا مجرم ہے۔ اگر عالم بے عمل ہو جائے تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی، جوا، شراب، چوری، بدمعاشی اور ناجائز دولت کی ہوس کے ساتھ ساتھ والدین کی نافرمانی اور حقوق العباد سے بے اعتنائی کی شکایت تبھی پیدا ہوتی ہے کہ جب کسی معاشرے کا استاد قول و فعل کے تضاد کا شکار ہو جائے ، بادشاہ کی نگاہیں قہر آلود ہو رہی تھیں۔ وزیر اعظم نے پوچھا۔

عالی جاہ، اس کے لیے کیا حکم ہے۔

بادشاہ نے ایک نظر اس پر ڈالی اور کہا۔

دوسرے گناہ گاروں کو چھوڑ دو اور اس عالم کا سر قلم کر دو تاکہ آئندہ اس معاشرے میں بے عمل لوگ باقی نہ رہ سکیں۔

بادشاہ کی طرف سے سزا کے اعلان پر دربار پر سکتہ طاری ہو گیا۔ محل کے اندر اور باہر پہلی بار اس بات کو محسوس کیا گیا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے لیے استاد کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ سزا ملتے ہی عالم کا رنگ زرد پڑ گیا۔ وہ التجا کرنے لگا، عالی جاہ رحم، مجھ پر اس قدر سزا کا حکم نہ لاگو کیا جائے ، مجھے مہلت دی جائے ، لیکن بادشاہ ٹس سے مس نہ ہوا، بادشاہ کے جاہ و جلال کے سامنے کسی کو بولنے کی جرات نہ تھی، یقینی تھا کہ بے عمل کا سر قلم کر دیا جاتا لیکن اس دوران قاضی بول پڑا، بادشاہ سلامت آپ نے درست فیصلہ صادر فرمایا، لیکن میری ایک درخواست ہے کہ پروردگار عالم بھی گناہ گار کو توبہ کی مہلت ضرور دیتا ہے ، اگر یہ اور اس طرح کے دوسرے اساتذہ بے عملی چھوڑ کر راہ راست پر آ جائیں تو کیا خوب ہو جائے۔ خطاکار کو اصلاح کی گنجائش کا فائدہ ضرور دینا چاہیے ، لہٰذا سزا پر نظر ثانی کی جائے۔ قاضی کی بات میں وزن تھا، چنانچہ بادشاہ نے عالم کو پانچ سال کا وقت دے دیا کہ وہ اپنے علم و عمل سے معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

٭٭٭

 

محنت کا پھل

بہت پہلے کی بات ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز سفر کرنا پڑتا تھا۔ ایک بڑے دارالعلوم میں جہاں وزیر اور گورنر، بڑے لوگوں کے بچوں کے علاوہ غریب لوگوں کے بھی ذہین بچے بھی پڑھتے تھے۔ اسی میں یعنی دارالعلوم میں وزیروں کے بچوں کے ساتھ ایک غریب کسان کا بیٹا بھی پڑھتا تھا۔ علم حاصل کرنے کے بعد بچے اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاتے تھے۔ کسان کا بیٹا بھی اپنے گاؤں واپس آ گیا۔

اس علاقے میں ہندوؤں کا راج تھا۔ اس میں علم کی کوئی قدر و قیمت وہاں نہ تھی۔ کچھ مدت بعد ماں باپ بھی فوت ہو گئے۔ یہ لڑکا بیچارہ کام تو کوئی اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ ماں باپ نے شادی کر دی تھی۔ شادی کے بعد بیوی بچوں کی ذمہ داری سر پر پڑ گئی اس کا گاؤں دریا کے کنارے آباد تھا۔ کئی کئی دن فاقہ کرنے پڑتے تھے۔ ایک دن اس کی بیوی نے سمجھایا کہ آپ کے دارالعلوم میں بڑے بڑے لوگوں کے بچے پڑھتے تھے کیوں نہ آپ دریا جاؤ۔ ان سے کوئی ضرورت حاجت بیان کرو جو اس وقت ہے۔ کسان نے ہمت پکڑی کیوں کہ وہ بڑے عرصے بعد وزیر دوست سے ملنے جا رہا تھا۔

دوسرے دن صبح سویرے وزیر سے ملنے تیار ہو کر نکلا۔ دریا پار گیا اور شام کے وقت پہنچا۔ وزیر بادشاہ سے کسی امور پر مشاورت کی وجہ سے نہ مل سکا۔ البتہ اس کے ملازم نے اس کو مہمان خانے میں ٹھہرا دیا۔ رات کا کھانا وزیر نے بادشاہ اور کسان کے بیٹے نے وزیر کے مہمان خانے میں کھایا۔ صبح نماز کے وقت مسجد میں دونوں کی ملاقات ہوئی۔ نماز کے بعد دونوں نے بات چیت کی پھر کسان نے اپنی حاجت بیان کی کہ میری کچھ مالی مدد کرو۔ میں اور میرے بیوی بچے کئی دن سے فاقے پر ہیں۔ کچھ نہیں تو فوج میں سپاہی بھرتی کراؤں۔

وزیر نے کچھ دیر سوچا اور گھر جا کر الماری میں ایک چاندی کا سکہ لا دیا اور کہا اس وقت میرے پاس یہی ذاتی رقم ہے اور جنگ کی وجہ سے خزانے سے رقم نہیں نکل سکتا اور تم کو فوج میں بھرتی نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ کمزور ہو۔ آئندہ پھر کبھی آنا تو میں تمہاری مدد کروں گا۔ یہ چاندی کا سکہ میری اپنی محنت کی کمائی ہے۔

یہ کہہ کر وزیر چلا گیا اور کسان بھی۔ وہ بہت خفا تھا کہ اس سے بہتر تھا کہ نہ ہی آتا۔ لیکن اس بات پر مطمئن تھا کہ چلو چاندی کا سکہ تو جیب میں موجود ہے اس سے کوئی روزگار کرتا ہوں۔ دریا کے کنارے پہنچا تو مچھیروں نے بڑی مچھلی ہاتھ میں پکڑے ہوئے جا رہے تھے ، اس نے سوچا کہ چلو اس سکے سے مچھلی خرید لوں تاکہ بھوک مٹ جائے۔ اس نے مچھلی خرید لی مچھیرے بھی مچھلی فروخت کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے چاندی کے سکے کے عوض مچھلی فروخت کی۔

مچھلی لے کر کسان افسردہ گھر گیا تو سب نے پوچھا کہ وزیر نے تمہاری مدد کی یا نہیں۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا اس نے کسی سے بات نہیں کی اور مچھلی پکانے کا کہا۔ اس کی بیوی مچھلی صاف کر رہی تھی کہ مچھلی کے پیٹ میں ایک چمکدار چیز نکلی، جسے صاف کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک بیش قیمت لعل ہے ، اس کی بیوی نے سوچا کہ وزیر بڑا ہوشیار آدمی ہے اس نے مچھلی کے اندر رکھ کر اس لیے دیا کہ ڈاکو اسے لوٹ نہ لیں اور اس کے گاؤں میں مشہور نہ ہو جائے کیوں کہ گاؤں میں اگر سوئی گرتی ہے تو چند لمحوں بعد اس کی خبر بھی گاؤں والوں کو ہو جاتی ہے۔ اس کی قدر و قیمت تو جوہری کو پتا ہو گی۔ اس نے حواس پر قابو پایا اور تحمل سے مچھلی تیار کی۔ کھانا کھانے کے بعد کسان کی بیوی نے وزیر کی تعریف کی اور ساری بات کہہ دی اور اس کے ساتھ بیش قیمت لعل سامنے رکھا۔

کسان کی بیوی یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ مچھلی وزیر نے دی ہے جبکہ کسان نے تو خریدی ہوئی تھی۔ اس نے یہ لعل اگلے دن کسی جوہری کو دکھانے کے بہانے گھر سے سیدھا وزیر کے گھر گیا۔ وزیر بھی حیران تھا کہ کسان اچانک میرے گھر کیوں آیا؟ کسان نے وزیر کو ساری بات بتائی اور لعل بھی اس کو پیش کیا۔ وزیر نے لعل کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔

کسان نے کہا کہ تمہارے چاندی کے سکے میں بڑی برکت تھی۔ وزیر سوچنے لگا اور اچانک چونک گیا۔ کسان نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ وزیر بننے کے بعد میں اکثر سلطنت کے خفیہ دورے کرتا تھا تاکہ عوام کی ضرورت و حاجت کا پتا چلے۔ ایک دن میں مزدور کے بھیس میں دورے میں مصروف تھا، آسمان پر بادل آ گئے۔ بارش کا امکان تھا ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ کسی وقت بھی بارش ہوسکتی ہے جس سے میرے کچے مکان کی چھت گر جائے گی، میں اکیلا چھت پکی نہیں کر سکتا تم نیچے مسالہ تیار کرو اور مجھے اوپر دیتے جاؤ۔ میں خود چھت کی مرمت کر لوں گا۔ میں نے خاموشی سے مسالہ تیار کر کے چھت پر پہنچتا رہا اور وہ شخص چھت کی مرمت کرتا رہا۔ ساری رات چھت کی مرمت میں صرف ہوئی، جیسے ہی چھت کی مرمت ہوئی تو اس نے شخص نے میرا شکریہ ادا کیا اور یہ چاندی کا سکہ دیا۔ میں نے انکار کرنا چاہا تو اس نے زبردستی میری جیب میں ڈال دیا۔

اس وقت سے اب تک یہ سکہ میرے پاس تھا۔ جو میں نے تمہیں دیا۔ یہ کہہ کر وزیر بادشاہ کے پاس گیا اور کسان کے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کرنے کی اجازت حاصل کی اور گھڑ سوار اور پیادہ فوجی دستوں کے ساتھ کسان کے علاقے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ علاقے کے لوگوں نے فوج کا ساتھ دیا کیوں کہ ہندو مہاراجہ نے ظلم کا راج قائم کیا تھا۔ علاقہ فتح ہونے کے بعد بادشاہ نے کسان کو علاقے کا گورنر بنایا۔ کسان نے بادشاہ کو لعل بطور شکریہ ادا کیا۔ بادشاہ نے ایسا لعل پہلے نہیں دیکھا تھا۔ وزیر نے بادشاہ کے کہنے پر علاقے کی کھدائی کروائی تو معلوم ہوا کہ کسان کا علاقہ جواہرات اور دیگر قیمتی پتھروں اور معدنیات سے بھرا پڑا ہے جس سے بادشاہ اتنا خوش ہوا کہ کسان کو یہ علاقہ بخش دیا۔ جو وزیر کی محنت کا پھل تھا۔

٭٭٭

 

نیند خواب اور پاکستان

رات کا پچھلا پہر تھا سرد برفانی ہواؤں کے تھپیڑوں سے صحن میں لگے درخت جو ہل رہے تھے۔

ہواؤں کے شور سے رات کے سناٹے میں عجیب سی آوازوں سے زیرو بلب کبھی مدھم اور کبھی تیز تر ہو جاتا۔ محمد صلاح الدین کا کل میتھ کا آخر پیپر تھا وہ میٹرک کا امتحان دے رہا تھا اور تمام پیر بہت اچھے دے چکا تھا وہ رات کا کھانا کھانے اور نماز عشاء سے فارغ ہو کر میتھ کے پیپر کی تیاری کے لیے اپنے چھوٹے سے کمرے میں آ بیٹھا تھا اس کے حجرے نما کمرے میں لائٹ نہیں تھی ایک چھوٹا سا دیا ٹمٹما رہا تھا اور زردی مائل روشنی دیوار و در پر لرزاں تھی۔

محمد صلاح الدین کو اب نیند کے غلبے نے ستانا شروع کر دیا تھا لیکن اس نے اپنی آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کی چھیٹے مارے اور تھوڑا سا بیدار ہو کر ایک بار پھر ریاضی کے مختلف سوالات کے دہرانی کرنے لگا اس نے جیو میٹری، الجبراء کے تمام سوالات حل کیے اور اب ریاضی کے مسئلوں کو حل کر رہا تھا۔

نیند نے ایک بار پھر اس پر غنودگی کا حملہ کیا مگر وہ سونا نہیں چاہتا تھا۔ نیند اسے پیاری تھی مگر وہ خوابوں کی حرمت کا قائل تھا خوابوں کی تعبیروں کے لیے وہ اپنی کئی نیندیں قربان کر چکا تھا۔

نیند کے بغیر خواب کا حصول ناممکن ہے مگر وہ اس وقت نیند سے بھاگ رہا تھا۔

نیند اسے اپنی آغوش میں سمیٹنا چاہتی تھی اور وہ ضدی بچے کی طرح نیند کی گود سے بار بار نکلنا چاہتا تھا۔

اذان فجر تک اس نے ریاضی مسئلے اچھی طرح ذہن نشین کر لیے تھے۔

وہ مطمئن تھا اگرچہ نیند سے بوجھل پلکیں اس کے لیے ایک بار بن چکی تھیں۔

اس نے وضو کیا اور نماز فجر کے لیے مسجد چلا گیا۔

آج کا پیپر بھی دوسرے پیپرز کی طرح بہت اچھے ہوئے تھے وہ بہت خوش تھا۔

اس نے امتحان کی تیاری بہت ایمانداری سے کی تھی دوران پڑھائی جب اسے نیند آئی اس کے ذہن میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم رہنما کا قصہ آ جاتا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔

فاطمہ جناح نے دیکھا محمد علی کے کمرے کی لائٹ جل رہی ہے ، اندر جھانکا تو دیکھا ان کا بھائی کتاب پڑھ رہا ہے ، بہن نے پیار سے کہا بھیا، رات بہت گزر چکی ہے اب سوجاؤ۔

بھائی نے جواب دیا۔ میں سوگیا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا۔ مجھے پڑھنے دو، میں محنت کرنا چاہتا ہوں۔

محمد صلاح الدین کو اپنے قائد کا قصہ ذہن نشین تھا۔ وہ بھی بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔

اس نے پورے امتحان کے دوران نیند کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ آج وہ فارغ تھا اس نے سوچا آج وہ خوب مزے سے سوئے گا اور خواب دیکھے گا۔ اسے پاکستان کے خواب دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے پیارے وطن پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔

بڑا آدمی بن کر بڑا کام کرنے کی آرزو لیے وہ پڑھتا رہا۔ محنت کرتا رہا اور اب وہ ایم ایس سی کرنے کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان بھی امتیازی نمبروں سے کر چکا تھا، کئی میٹھی نیندوں کی قربانی کے بعد آج وہ جب مزے کی نیند سویا تو اس نے خواب دیکھا۔ وہ پاکستان کی وزارت خارجہ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو چکا ہے ، صبح اس کی آنکھ کھولی تو اس کی اماں نے اسے خاکی رنگ کا ایک بڑا لفافہ تھماتے ہوئے کہا محمد صلاح الدین یہ ڈاکیا تمہارے نام ایک خط لایا تھا۔

محمد صلاح الدین نے جب لفافہ چاک کیا تو سچ مچ اسے اس کے خوابوں کی تعبیر مل گئی تھی۔

وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے بعد وزارت خارجہ میں بحیثیت سفیر خاص منتخب ہو چکا تھا۔

وہ سجدہ بجا لانے کے لیے سجدہ ریز ہو گیا۔

یا اللہ محمد توفیق دینا میں اپنے ملک پاکستان کی بہتر انداز میں خدمت کر سکوں۔ نیند خواب اور پاکستان کی مثلث پر مبنی ایک کہانی مکمل ہو چکی تھی۔ محمد صلاح الدین کی تقرری بیرون ملک ہوئی تھی اور آج وہ بائی ائیر جا رہا تھا۔

صدر مملکت نے اس سے ملاقات کے دوران اسے سفارت کاری کے لیے دستاویزات دیں تو اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑھے اس نے سبز ہلالی پرچم کو سلامی دی اور سلوٹ کیا اور جہاز میں سوار ہو گیا۔

٭٭٭

 

نرالے طریقے

کتنی پیاری اور خوبصورت گڑیا ہے یہ کاش یہ میرے پاس ہوتی، اس بڑی سی دکان کے بڑے سے شوکیس میں رکھی ہوئی گڑیا کو دیکھ کر نازش نے دل ہی دل میں سوچا اور اس کے بڑھتے قدم وہیں تھم گئے ، اس کی نظریں شوکیس میں سجی گڑیا پر جم کر رہ گئی تھیں۔

دس سال کی عمر کی نازش پانچویں کلاس کی طالبہ تھی، تین سال پہلے ٹریفک کے ایک حادثے میں اس کے والد عرفان صاحب اپنی زندگی سے ہار کر اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ چکے تھے اور تب سے ہی اس کی امی عقیلہ خاتون اس کی والدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے والد ہونے کے فرائض بھی ادا کر رہی تھیں۔

روز ہی وہ اسکول سے گھر واپس جاتے ہوئے اس گفٹ سینٹر کے سامنے سے گزرتی تھی اور ہر روز ہی گفٹ سینٹر کے سامنے پہنچ کر اس کے قدم ٹھٹک جاتے اور نظر اس شوکیس میں رکھی خوبصورت گڑیا کے وجود پر جم جاتی تھیں، کافی دیر تک وہ شوکیس میں رکھی گڑیا کو نظر میں جمائے دیکھتی رہتی جیسے وہ اسے نظروں ہی نظروں میں اپنے دل میں اتار لے گی، نازش کو اس گڑیا کی آنکھیں خصوصی طور پر بہت پسند تھیں، تھیں بھی وہ آنکھیں بہت بڑی بڑی اور خوبصورت، ان میں بلا کی کشش تھی، وہ گڑیا کی طرف دیکھتی تو اسے محسوس ہوتا جیسے وہ گڑیا کو دیکھ رہی ہو اور مسکرا کر اسے خوش آمدید کہہ رہی ہو اور نازش بھی اس کی مسکراہٹ کے جواب میں مسکرا دیتی، یہ سلسلہ گزشتہ کئی دنوں سے جاری تھا۔

ایک دن نازش نے ہمت کر کے سیلز مین سے گڑیا کی قیمت پوچھ ہی لی، تین سو روپیہ، کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے سیلز مین نے جواب دیا اور یہ قیمت سن کر بے چاری نازش اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔

انکل اتنی مہنگی گڑیا، مگر میرے پاس تو اتنے سارے پیسے بھی نہیں ہیں۔ نازش بولی۔

تو بیٹی گھر جاؤ، یہاں رش مت لگاؤ، جب اتنے پیسے تمہارے پاس جمع ہو جائیں، تب گڑیا لے جانا آ کر، سیلز مین نے اس سے کہا اور نازش خاموشی سے سرجھکائے اپنے گھر واپس پہنچ گئی، اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں، نازش اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کی امی مہینے بھر سخت محنت کرتی ہیں تب کہیں جا کر گھر میں دو وقت کا کھانا اور جیسے تیسے اس کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے ہیں۔

آج اگر میرے ابو زندہ ہوتے تو شاید، سوچتے ہوئے اس کا دل بھر آیا، جیسے تیسے اس نے کھانا تو کھا لیا مگر چہرے پر رنج و ملال کے بادل دیر تک قبضہ جمائے رہے ، لبوں کی مسکراہٹ ماند اور آنکھوں کے جگنو بجھ کر رہ گئے۔

اگلے دن اسکول سے چھٹی ملنے کے بعد وہ جب گفٹ سینٹر کے سامنے پہنچی تو اس کے بڑھتے قدم سینٹر کے سامنے ہی تھم گئے اس کی نظر میں اپنی پسندیدہ گڑیا کے وجود پر جم گئیں۔

پاپا آئسکریم والا، وہ دیکھیے ، ادھر نازش کی توجہ یہ آواز سن کر گڑیا کی طرف سے ہٹ گئی، دیکھا ایک چھ، سات سال کی بچی اپنے پاپا سے آئسکریم کھلانے کے لیے کہہ رہی ہے۔

بیٹے آج تو میں تمہیں آئسکریم ضرور ہی کھلاؤں گا، کہتے ہوئے اس کے پاپا نے اشارے سے آئسکریم والے کو قریب بلایا اور اپنی بیٹی کو آئسکریم دلوا دی۔

آئسکریم والے کو پیسوں کی ادائیگی کے بعد جب اس لڑکی کے پاپا اپنا پرس پینٹ کی جیب میں رکھنے لگے تو بے خیال وہ پرس وہیں گر گیا، نازش نے وہ گرا ہوا پرس اس وقت دیکھا جب وہ صاحب اپنی بیٹی کے ہمراہ وہاں سے جا چکے تھے۔

اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا پرس کو اٹھائے ، نازش نے جھک کر وہ پرس اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اپنے بستے میں رکھ کر گھر کی طرف بڑھنے لگی، وہ راستے میں کہیں اور نہیں رکی، گھر پہنچ کر ہی اس نے سانس لی۔

گھر آ کر اس نے بستہ اپنی جگہ رکھا، یونیفارم تبدیل کر کے گھریلو لباس زیب تن کیا، پھر منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئی، کھانے سے فارغ ہوئی تو اسے پرس کا خیال آیا، بستے میں سے پرس نکالا…. اس میں ہزار اور پانچ پانچ سو والے کئی نوٹ تھے ، چھوٹا نوٹ تو ایک بھی نہیں تھا پرس میں، اتنے سارے روپے اتنی چھوٹی سی عمر میں اس نے پہلی مرتبہ دیکھے تھے ، وہ پریشان ہو گئی۔

اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھ گئیں، نوٹوں سے بھرا پرس ہاتھ میں لیے وہ سوچ رہی تھی کہ ان کا کیا کرے ، دوسروں کے پیسے اپنے پاس رکھنا اچھی بات تو نہیں، اپنے پیسے تو وہی ہوتے ہیں جو اپنی محنت سے کام کر کے بطور اجرت حاصل کیے جائیں، جیسے اس کی امی سلائی، کڑھائی، بنائی کر کے پیسے کماتی ہیں، یہ پیسے اپنے پاس رکھ لیے تو خالق کائنات ناراض ہو جائے گا، پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہو گی یہ بات، پیارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق کہلاتے تھے اور امین بھی، وہ ان کی امتی ہے ، وہ ان کی تعلیمات کے خلاف کیسے کر سکتی ہے ، یہ ساری باتیں ذہن میں آتے ہی نازش نے دوبارہ پرس کھول کر دیکھا، اس میں کئی خانے تھے۔ کئی پورشن تھے ، ایک پورشن میں اسے ایک وزیٹنگ کارڈ ملا، اس نے کارڈ نکال کر دیکھا، اس پر عبدالکریم خان اکاؤنٹس منیجر لکھا ہوا تھا، کمپنی کے نام کے ہی ساتھ ایک کونے میں فون نمبر بھی درج تھا، نازش نے اپنی امی کو یہ بات بتائی، امی خوش ہو گئیں، کہنے لگیں بیٹی تم نے یہ بہت اچھا کیا، لاؤ میں اس کمپنی کے نمبر پر فون کر کے پتا کرتی ہوں، اگر پرس کمپنی کے فرد کا ہے تو میں ان سے کہوں گی کہ وہ پرس کی نشانی اور پرس میں رکھی رقم کی تعداد بتا کر میرے گھر سے اپنا پرس لے جائیں۔

پھر نازش کی امی نے گلی کے پی سی او سے اس کمپنی کے نمبر پر فون کیا، اتفاق کی بات یہ کہ فون اٹھانے والے عبدالکریم خان صاحب ہی تھے ، نازش کی امی نے ان سے دریافت کیا۔ آج آپ کا کوئی پرس کھوگیا ہے ، جواب ملا۔ جی ہاں، یہ تقریباً ساڑھے بارہ بجے کی بات ہے ، آپ کون ہیں اور کہاں سے بات کر رہی ہیں۔ کیا آپ کو میرے پرس کے متعلق کچھ معلوم ہے۔

نازش کی امی نے عبدالکریم خان کو یہ بات بتا دی کہ آپ کا پرس میری بیٹی کو اسکول سے گھر آتے ہوئے ملا تھا، آپ یہ بتائیں اس پرس میں آپ کی کتنی رقم ہے۔

عبدالکریم خان نے پرس میں موجود رقم کی تعداد بتا دی، جو بالکل صحیح تھی، نازش کی امی نے اب اپنے گھر کا پتا عبدالکریم خان کو اچھی طرح سمجھا دیا اور کہا وہ شام کو اس پتے پر آ کر اپنا پرس واپس لے جائیں۔

شام ہوئی تو عبدالکریم خان دیے ہوئے پتے پر نازش کے گھر پہنچ گئے ، انہوں نے پرس ہاتھ میں لے کر رقم گنی جو پچیس ہزار پوری تھی، انہوں نے نازش کو دیکھا، گھر کی حالت کا اندازہ لگا کر کہا۔ بیٹی اتنی بڑی رقم دیکھ کر تمہارے دل میں ذرا بھی خیال نہ آیا کہ اسے واپس کر دینے کے بجائے اپنے ہی پاس رکھ لو، اتنی رقم سے تمہاری کتنی ضروریات پوری ہوسکتی تھیں۔

نازش نے کہا: انکل ضروریات رقم سے نہیں اللہ تعالیٰ کی مدد، اس کے فضل و کرم سے پوری ہوتی ہیں، میری امی نے مجھے بتایا ہے اور یہ تربیت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے ، جو اس کے امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کو اپنے فضل و کرم، اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے ، یہ پیسہ تو چند روز کی ہی ضرورت پوری کر سکتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ کی رضا، اس کی رحمت تو تمام زندگی کام آتی ہے۔

عبدالکریم خان نازش کایہ جواب سن کر خوش ہو گئے ، انہوں نے کہا، افشاں میری بیٹی ہے ، آج سے تم اس کی بڑی بہن، تم بھی ہمارے ہی ساتھ رہو گی، کہہ کر وہ نازش کو اس کی امی کے ساتھ اپنے گھر لے آئے۔

اب نازش ایک اچھے صاف ستھرے ماحول میں رہ رہی تھی، اس کے پاس وہ گڑیا بھی تھی جسے دیکھنے کے لیے وہ گفٹ سینٹر کے سامنے رک جاتی تھی، وہ سوچ رہی تھی واقعی اللہ تعالیٰ کے دینے اور نوازنے کے طریقے بھی نرالے ہیں۔

٭٭٭

 

انجانا خوف

وقاص پانچویں جماعت کا طالب علم تھا، وہ انتہائی ذہین اور پڑھائی میں دلچسپی رکھنے والا بچہ تھا، گزشتہ کوئی دنوں سے وہ سخت پریشان تھا، اس کا دل پڑھنے لکھنے میں نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے اسکول میں تھرڈ ٹرم کے امتحانات قریب آ رہے تھے لیکن وہ مسلسل سوچوں میں مگن پریشان دکھائی دیتا تھا۔ وقاص کی امی نے دو تین بار اس سے پریشانی کی وجہ جاننا چاہی اور کئی بار پوچھا کہ وہ کھویا کھویا سا کیوں رہتا ہے مگر اس نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا اور امی سے حقیقت چھپائے رکھی۔

وقاص کے ابو تمام صورتحال سے بے خبر تھے ، ایک دن اچانک انہیں وقاص کے اسکول سے پرنسپل صاحب کا فون آیا۔ پرنسپل صاحب نے دعا سلام اور خیریت جاننے کے بعد بتایا کہ وقاص کی کلاس انچارج ان کے علم میں یہ بات لائی ہیں کہ آپ کا بیٹا ان دنوں کسی خاص الجھن کا شکار ہے جب دیکھو سوچوں میں گرفتار نظر آتا ہے اور کسی انجانے خوف اور ڈر میں مبتلا ہے ، جب اس سے سوال کیا جائے یا کچھ بھی پوچھا جائے تو سہم جاتا ہے۔ پرنسپل صاحب کچھ دیر توقف کے بعد پھر بولے۔ آپ وقاص سے گھر میں پیار اور محبت سے پوچھیے کہ وہ اس قدر خوفزدہ اور سہما ہوا کیوں ہے ، اگر کوئی گھریلو مسئلہ ہے تو مہربانی فرما کر اسے گھر ہی حل کیجیے اور ہاں، اگر کوئی نفسیاتی و ذہنی مسئلہ ہے تو آپ کسی ماہر ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں اور اس معاملے کو نظر انداز مت کیجیے گا، کیوں کہ اگلے ہفتے وقاص کے تھرڈ ٹرم کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔

پرنسپل صاحب نے امتحانات کے لفظ پر زور دیا اور اجازت لے کر فون بند کر دیا۔

وقاص جب اسکول سے چھٹی کے بعد گھر پہنچا تو خلاف معمول ابو جان کو گھر میں موجود پایا، ابو نے پرنسپل کے فون کے فوراً بعد اپنے دفتر سے چھٹی لے لی تھی، وقاص کی بڑی بہن مناہل بھی کالج سے آ چکی تھیں، دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ابو جان نے دونوں بچوں کو اپنے کمرے میں اکٹھا ہونے کو کہا، تھوڑی دیر بعد ہی مناہل اور وقاص ابو کے کمرے میں تھے ، تب ابو نے مناہل سے پوچھا: بیٹی کیا تم جانتی ہو کہ وقاص آج کل بہت زیادہ اداس اور پریشان رہتا ہے۔ مناہل بولی، جی ابو میں نے کئی بار محسوس کیا ہے اور بھائی سے اصرار کر کے وجہ جاننے کی کوشش بھی کی ہے ، مگر یہ کچھ بتاتا ہی نہیں کہ اس کی پریشانی کی وجہ کیا ہے۔

آخر کیوں، ابو یہ کہہ کر مناہل کے جواب کے انتظار میں بیٹھ گئے ، وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی کہ بھائی آپ کے سامنے بیٹھا ہے ، آپ خود اسے وجہ جان سکتے ہیں۔ اتنے میں مناہل کی امی بھی کمرے میں چائے کی پیالیاں لے کر پہنچ گئیں، وہ باورچی خانے میں کھڑی مناہل اور ابو کے درمیان ہونے والی بات چیت کو غور سے سن رہی تھیں، وہ گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہنے لگیں کہ، میں نے محسوس کیا ہے کہ جب شام کو ٹیوشن سے فارغ ہونے کے بعد وقاص کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتا ہے تو اس کے چہرے پر خوف اور پریشانی کی سلوٹیں نمایاں نظر آنے لگتی ہیں، وقاص گم سم بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا، ابو نے اس سے مخاطب ہو کر پریشانی کی وجہ جاننا چاہی تو وہ بجائے کچھ بتانے کے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بھاگ گیا اور اوندھے منہ بستر پر گر پڑا۔

ابو جان نے شہر کے معروف ماہر نفسیات سے ٹیلی فون پر شام کا وقت لیا اور مقررہ وقت پر وقاص کو لے کر ڈاکٹر مشہود علی کے کلینک پہنچ گئے ، ڈاکٹر مشہود علی نے وقاص سے گپ شپ شروع کی اور ابو کا انتظار گاہ میں بیٹھنے کے لیے کہہ دیا، ڈاکٹر مشہود نے پوری توجہ، خوشگوار ماحول اور دوستانہ انداز میں وقاص سے تبادلہ خیال کیا اور اس کی پریشانی جان لی، اس سارے عمل میں دو گھنٹے صرف ہوئے ، ابو انتظار گاہ میں بڑی بے چینی سے نتیجے کا انتظار کر رہے تھے ، ڈاکٹر مشہود نے اپنی تسلی ہو جانے کے بعد ان کو اپنے کمرے میں بلایا، جب وہ ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوئے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب وقاص نے آگے بڑھ کر ان کو گلے لگا لیا، وہ دونوں بہت خوش نظر آ رہے تھے ، ڈاکٹر مشہود نے وقاص کے ابو کو بتایا کہ وقاص جیسے بچوں کی پریشانی کا سبب صرف ان کے والدین ہوتے ہیں، جو اپنے بچوں کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت پر نظر نہیں رکھتے ، ڈاکٹر نے بتایا کہ وقاص دو ہفتے قبل مارکیٹ سے ایک کارٹون فلم خرید کر لے آیا تھا اور یہ کارٹون فلم ایک خوفناک اور ہیبت ناک جن کے کارناموں پر مشتمل تھی۔ اس فلم کا جن خاص خطرناک ہوتا ہے جو بچوں کو ان کی غلطیوں پر سزا دیتا اور تشدد کرتا ہے اور ننھے بچوں کو غاروں اور جیلوں میں رکھ کر ان پر ظلم کرتا ہے ، اس فلم کی وجہ سے وقاص کے ذہن پر جن کا خوف سوار ہو گیا تھا، ڈاکٹر مشہود نے بتایا کہ انہوں نے بڑی کوشش اور محنت سے وقاص کا ڈر ختم کر دیا ہے ، لیکن آئندہ آپ لوگ خیال رکھیں کہ آپ کا بچہ کیا دیکھتا اور پڑھتا ہے۔

وقاص کے ابو نے وعدہ کیا کہ وہ وقاص کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی صحیح سمت میں رہنمائی کے لیے وقت نکالیں گے اور اس کے ویڈیو شیلف سے ایسی تمام بے ہودہ سی ڈیز نکال کر باہر کریں گے ، ڈاکٹر مشہود علی نے انہیں تاکید کی کہ بچوں کو ایسی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جو ان کے اخلاق و کردار کو سنواریں اور انہیں تربیت کے مواقع اس طرح فراہم کریں کہ بچوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو اور وہ اپنے ملک کے لیے مفید اور معاون ثابت ہوسکیں، ابو نے انشاء اللہ کہا اور وقاص کا ہاتھ تھامے ہوئے کلینک سے باہر نکل آئے۔

٭٭٭

 

عجیب امتحان

یونان میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ بڑا نیک دل اور دانش مند تھا، اسی لیے عقل مندوں اور حکیموں کا بڑا قدر دان تھا، خود بھی بہت بڑا عالم تھا اور عالموں کی بہت زیادہ قدر کرتا، اسے اچھی اچھی باتیں لکھوانے اور انہیں اپنے کتب خانے میں جمع کرنے کا بہت شوق تھا، دس برس کے عرصے میں اس نے سینکڑوں کتابیں جمع کر لی تھیں، وہ ان نادر کتب کا مطالعہ کر کے بہت خوش ہوا کرتا۔

بادشاہ ایک دن بیٹھا مطالعے میں مصروف تھا کہ اسے خیال آیا، کتب خانے میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں جس میں انسانی جسم کی تمام بیماریوں کی علامت اور ان کا علاج تحریر ہو، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسی کتاب ضرور لکھوائے گا۔

بادشاہ نے اسی وقت شاہی حکیم کو بلایا اور کہا، حکیم صاحب میں چاہتا ہوں کہ آپ حکمت پر ایسی کتاب لکھیں جس میں تمام انسانی بیماریوں کی علامات اور ان کا علاج تحریر ہو۔

شاہی حکیم نے کہا۔ سرکار میں آپ کی بات اچھی طرح سمجھ گیا، میں بہت جلد ایسی کتاب تیار کروں گا جسے آپ پسند فرمائیں گے اور وہ نہایت مفید کتاب ہو گی۔ یہ کہہ کر جناب حکیم نے بادشاہ سے اجازت لی اور رخصت ہو گئے۔

بادشاہ کو دلی طور پر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کتاب نہ صرف اس کے کتب خانے کی زینت بنے گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنما اور مفید ثابت ہو گی۔

شاہی حکیم نے بادشاہ کے فرمان کے مطابق کتاب لکھنا شروع کر دی، سب سے پہلے انہوں نے ایسی تمام بیماریوں کے نام اکٹھے کیے جو انسانوں کو لاحق ہوسکتی تھیں، اس کے بعد ان کے علاج اور پرہیز لکھنے کا مرحلہ آیا، اس سلسلے میں حکیم صاحب نے ان تمام جڑی بوٹیوں کے نام لکھ ڈالے جو بطور دوا استعمال ہوسکتی تھیں، اس کتاب کو تیار کرنے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا مگر حکیم نے اسے ایک ہی جلد میں تیار کر دیا۔

کتاب مکمل کر لینے کے بعد وہ دربار میں گیا اور نہایت ادب و احترام سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں اسے پیش کیا۔

بادشاہ کتاب دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس نے انعام کے طور پر ممدوح کو مالا مال کر دیا، شاہی حکیم بھی بہت خوش ہوئے ، انہیں اس بات کی زیادہ خوشی تھی کہ ان کی محنت کا صلہ کہیں زیادہ بڑھ کر دیا گیا ہے اور دوسری خوشی اس بات پر کہ ان کی کتاب ایک سچے قدر دان کے پاس گئی ہے ، کچھ عرصے کے بعد وہ قضائے الٰہی سے وفات پا گئے۔

بادشاہ نے وہ کتاب اپنے مطالعے کے خاص کمرے میں رکھوا دی، ایک دن جب وہ فارغ بیٹھا تھا تو اسے اچانک اس کتاب کا خیال آیا، اس نے فوراً منگوائی اور اس کا مطالعہ شروع کر دیا، بادشاہ کو شروع ہی سے کتاب بہت پسند آئی، اسے نہایت آسان اور سلیس زبان میں لکھا گیا تھا۔

بادشاہ نے بیماریوں کی علامات کے بارے میں پڑھا پھر ان کے آسان ترین علاج کے بارے میں مطالعہ کیا اور جن ادویہ کے استعمال میں جن چیزوں کا پرہیز تھا، انہیں بھی غور سے پڑھا، آخر وہ ایک ایسے باب پر پہنچا جس میں لکھا ہوا تھا کہ کیا کیا چیزیں کھانے کے بعد کن کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے ، اس کے بعد لکھا گیا تھا کہ اگر دو متضاد چیزیں کھا لی جائیں تو ان سے کون کون سے بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اور انسان کن کن تکالیف میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

یہ باب پڑھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا، وہ سوچنے لگا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ دو متضاد چیزیں کھا لینے سے آدمی بیماری ہو جائے ، ایک جگہ لکھا تھا کہ اگر تربوز کھا لینے کے فوراً بعد دودھ پی لیا جائے تو شدید درد قولنج یعنی انتڑیوں کے درد کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ، اسے یہ بات ناممکن لگی، اس نے سوچا کہ حکیم صاحب تو اب اس دنیا میں نہیں رہے ، ان کے بیٹے کو بلا کر دریافت کیا جائے کہ حکیم صاحب کے دعوے میں کس حد تک صداقت ہے۔

دوسرے روز بادشاہ سلامت نے شاہی حکیم کے بیٹے کو بلایا اور اس سے اس مسئلے کے بارے میں دریافت کیا کیوں کہ وہ خود بھی ممتاز حکیم تھا۔

بیٹے نے کہا، بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو، آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد ایک لائق اور تجربہ کار حکیم تھے انہوں نے جو کچھ تحریر کیا وہ ضرور تجربے کی کسوٹی پر پورا اترے گا۔

بادشاہ نے کہا، ہم اسے آزما کر دیکھنا چاہتے ہیں، حکیم صاحب کے بیٹے نے کہا کہ آپ صبح کسی شخص کو طلب فرمائیں اسے یکے بعد دیگرے دونوں چیزیں کھلائیں اور پھر اس کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرما لیں۔ بادشاہ نے اس کی بات مان لی۔

صبح ہوتے ہی سپاہی ایک صحت مند کسان کو بادشاہ کے دربار میں لے آیا، بادشاہ نے حکیم صاحب کے بیٹے کو بھی بلا لیا اور اسے کہا کہ کسان کو پہلے تربوز کھلایا جائے ، اس کے بعد اسے دودھ پلایا جائے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ واقعی یہ درد قولنج میں مبتلا ہوتا ہے یا نہیں، حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔

کسان کو پہلے تربوز کھلایا گیا اس کے دو منٹ بعد اسے گرم گرم دودھ پلا کر ایک کرسی پر بٹھا دیا گیا، ایک منٹ گزرا، پھر دو منٹ، پھر تین منٹ، پھر پانچ منٹ یہاں تک کہ آدھا گھنٹہ گزر گیا، لیکن کسان پر کسی قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہ ہوا۔

جب کسان سے پوچھا گیا کہ تمہیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہو رہی، تو اس نے کہا۔ بادشاہ سلامت، میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں۔

بادشاہ نوجوان سے مخاطب ہوا اور بولا۔

تمہارے والد نے یہ عجیب بات لکھ دی، اب تم نے بھی دیکھ لیا کہ کسان پر ان دونوں چیزوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔

حکیم صاحب کا بیٹا سوچ میں پڑ گیا۔ آخر تھوڑی دیر بعد بولا، بادشاہ سلامت مجھے تین ماہ کی مہلت دی جائے ، اسی عرصے کے دوران کسان میرے پاس رہے گا، تین ماہ بعد میں آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔ بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کر لی۔

حکیم صاحب کا بیٹا کسان کو اپنے ساتھ گھر لے گیا اور اسی دن سے اسے شاہی کھانے کھلانے لگا، اسے نرم و ملائم کپڑے پہننے کے لیے دیے گئے اور سونے کے لیے بھی نرم اور انتہائی آرام دہ بستر دیا گیا، غرض کسان نہایت آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے لگا، جب کھانے کا وقت ہوتا تو اسے بڑے لذیذ کھانے پیش کیے جاتے کسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اپنی زندگی میں ایسے عمدہ کھانے کھا سکے گا اور عیش کی ایسی زندگی بسر کرے گا۔

آخر کار تین ماہ کا عرصہ پورا ہو گیا، حکیم نے سوچا کہ اب کسان کے مزاج کا امتحان لینا چاہیے ، اس نے ایک رات اس کے بستر کی چادر کے نیچے مختلف جگہوں پر گندم کے دانے بکھیر دیے اور پلنگ کے ایک پائے کے نیچ گتے کے موٹے موٹے ٹکڑے کاٹ کر رکھے تاکہ دیکھا جائے ، اسے نیند آتی ہے یا وہ بے چین ہوتا ہے۔

سونے کا وقت آیا تو کسان اپنے پلنگ پر جا کر لیٹ گیا، اس نے محسوس کیا کہ اس کا بستر ناہموار ہے اور اسے کوئی چیز چبھ رہی ہے وہ جس طرف بھی کروٹ لیتا اس کا یہی حال ہوتا، کمرے میں اندھیرا تھا، اسے نظر بھی کچھ نہیں آیا، اس نے ساری رات بے چین اور بے کل ہو کر کاٹی، دن نکلا تو اس نے شکر ادا کیا۔ ناشتے کے وقت حکیم نے کسان سے پوچھا، کہو بھئی رات کیسی گزری، کسان نے کہا، حکیم صاحب کچھ نہ پوچھیں، رات بہت بے چینی سے گزری، یوں لگتا تھا جیسے پلنگ اونچا نیچا ہو، کمر میں تمام رات کنکر چبھتے رہے ، میری تو ساری رات آنکھ نہیں لگی۔

یہ سن کر حکیم نے سوچا کہ اب اس کا مزاج بدل چکا ہے ، عیش کی زندگی نے اس کی طبعیت بدل دی ہے ، وہ کسان جو تمام دن دھوپ میں کام کیا کرتا تھا آج اتنا نازک مزاج ہو چکا ہے کہ اسے گتے کے صرف دو ٹکڑوں سے پلنگ ناہموار محسوس ہونے لگا ہے اور باریک گندم کے دانے پتھروں کی طرح چبھنے لگے ہیں۔

حکیم اپنے کام سے مطمئن ہو کر کسان کو بادشاہ کے پاس لے گیا اور کہا کہ حضور اب آپ اس کا امتحان لیں۔

بادشاہ تو اسی انتظار میں تھا، اس نے فوراً تربوز اور دودھ لانے کا حکیم دیا، جب دونوں چیزیں آ گئیں تو کسان کو پہلے تربوز کھلایا، پھر دودھ پلایا گیا، ابھی ایک منٹ بھی نہ گزرا تھا کہ کسان کے پیٹ میں شدید درد شروع ہو گیا اور تکلیف کی شدت سے وہ تڑپنے لگا، یہاں تک کہ اس کی حالت غیر ہو گئی، بادشاہ اس تبدیلی پر بہت حیران ہوا، اس نے حکیم سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب ہے ، اس نے کہا۔ حضور، بات یہ ہے کہ میرے والد نے یہ نسخے بہت سوچ سمجھ کر لکھے تھے ، کتاب میں زیادہ تر نسخے بادشاہوں کے لیے لکھے گئے اور جو باتیں تحریر کی گئیں وہ شاہی مزاج کے مطابق تھیں۔

اب اس کسان کی بات سن لیں، پہلے یہ بڑا محنتی تھا، سخت محنت مشقت کیا کرتا اور اس کا معدہ لکڑ ہضم، پتھر ہضم تھا، لیکن جب اسے عیش و عشرت میں رکھا گیا تو یہ نرم اور نازک مزاج ہو گیا، شاہی کھانے کھا کھا کر اس کا معدہ پہلے جیسا نہیں رہا، آج آپ نے دیکھ لیا کہ تربوز اور دودھ نے اس پر کتنی جلدی اثر کیا اور یہ درد اور تکلیف کی وجہ سے تڑپنے لگا، یہ صرف اور صرف آرام طلبی اور محنت نہ کرنے کا نتیجہ ہے ، کسان جب تک محنت کرتا اور سادہ زندگی بسر کرتا رہا، وہ بیماریوں سے دور رہا لیکن جب وہ محنت ترک کر کے عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے لگا، اس کی طبیعت میں نزاکت آ گئی اور وہ بہت جلد بیمار ہو گیا۔

بادشاہ نے حکیم کے بیٹے کی بات مان لی اور کسان کے علاج کا حکم دے دیا۔

٭٭٭

 

احسان کا قدر داں

میرے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ میں ایک کامیاب تاجر اور اچھا انسان ہوں، کاروباری دنیا میں میری سچائی، دیانت اور وعدے کی پابندی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ میں نے چند سال پہلے ہی ایک چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کاروبار ترقی کرتا چلا گیا۔ اب میرا شمار ملک کے چند بڑے تاجروں میں ہوتا ہے ، یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم اور میری والدہ کی بہترین تربیت کا نتیجہ ہے ، میرے والدین بہت نیک، قناعت پسند اور محنتی تھے اور یہی اچھائیاں وہ اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے تھے ، کبھی کبھی ہماری ایک چھوٹی سی نیکی اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آتی ہے کہ وہ اس کے بدلے میں ہمیں دونوں جہاں کی نعمتوں سے نواز دیتا ہے۔ بے شک نیکی اور احسان کا حقیقی قدر دان اللہ تعالیٰ ہے ، میں اس سلسلے میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک واقعہ بتانا چاہوں گا۔

یہ کافی سال پہلے کی بات ہے ، جب ہمارے گھر کے معاشی حالات اتنے اچھے نہ تھے ، ہم تین بہن بھائی تھے ، مجھ سے چھوٹی سارہ اور پھر معید تھا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ والد صاحب کا چلتا ہوا کاروبار نقصان کا شکار ہو گیا، انہیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا تھا، جسے پورا کرنے کے لیے والد صاحب نے مکان اور گاڑی تک بیچ دی، ہم لوگ کرائے کے مکان میں آ گئے۔

ابھی ہم ان صدموں سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ والد صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، انہیں ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا، ان کے علاج کے لیے امی جان نے اپنا سارا زیور بیچ دیا۔ والد صاحب چار ماہ کے بعد گھر آ گئے ، ایک مہینہ انہوں نے جیسے تیسے گزارا اور پھر کمزوری کے باوجود کسی چھوٹی موٹی نوکری کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ان کے اچھے وقتوں کے دوستوں میں سے کسی نے بھی ان کی کوئی مدد نہ کی۔ رشتے داروں نے بھی ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا۔ ہم ایک اور جگہ کم کرائے والے مکان میں آ گئے ، گھر میں فاقے ہونے لگے ، والد صاحب بہت پریشان رہنے لگے تھے ، امی جان ہمیشہ ان کی ہمت بندھاتی تھیں کہ آزمائش کا وقت جلد ٹل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزماتے ہیں۔

مجھے نیا محلہ بالکل پسند نہ آیا۔ میرے سارے پرانے دوست چھوٹ گئے تھے۔ ہم بہن بھائی ایک معمولی سے اسکول میں پڑھنے لگے ، میں اکثر اداس ہو جاتا تو امی جان مجھے پیار سے سمجھاتی تھیں کہ جیسے اچھا وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ایسے ہی برے وقت کو بھی صبر اور شکر سے گزارنے والے اللہ کو بہت پسند ہیں۔ والد صاحب روز شام کو مایوس لوٹتے۔ وہ بہت چپ اور اداس رہنے لگے تھے ، امی جان کو سلائی کڑھائی بہت اچھی آتی تھی، مگر سلائی مشین خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہ تھے ، گھر کا سامان آہستہ آہستہ بکتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ بیچنے کے لیے گھر میں باقی کچھ نہ بچا۔

میں اور سارہ گھر کے حالات اچھی طرح جانتے تھے ، اس لیے ہم امی ابو سے کبھی کوئی فرمائش نہ کرتے ، امی جان نے چاہا کہ محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر تھوڑا بہت کما لیں، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا، محلے والے اتنے غریب تھے کہ وہ بڑی مشکل سے اپنے بچوں کو اسکول میں تعلیم دلا رہے تھے ، ٹیوشن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ والد صاحب ایکسیڈنٹ کے بعد اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ وہ مزدوری نہیں کر سکتے تھے ، ایک دو دن انہوں نے مزدوری کی اور ہفتہ بھر بستر پر پڑے رہے ، وہ بہت مایوس ہو گئے تھے ، اگر امی جان ان کی ہمت نہ بڑھاتیں تو شاید وہ بالکل حوصلہ ہار دیتے۔

ایک دن گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ والد صاحب صبح سویرے بغیر کچھ کھائے پیے چلے گئے ، میں اور سارہ صبر کیے بیٹھے رہے ، مگر چھوٹا معید بھوک کے مارے روئے جا رہا تھا، میں نے برابر والے گھر سے کچھ پیسے ادھار لینے کا سوچا، میں ان کے دروازے تک آیا، وہاں تالا لگا دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی، مجھے رہ رہ کر معید کا خیال آ رہا تھا، میں گھر واپس آیا تو دیکھا کہ معید لیٹا ہوا ہے ، اب اس سے رویا بھی نہیں جا رہا تھا، ہم سب اسے بہلانے کی کوشش کرنے لگے ، مگر وہ کسی طرح بہل نہیں رہا تھا، اذان ہوئی تو میں نماز پڑھنے چلا گیا، نماز کے بعد میں دیر تک دعا مانگتا رہا۔ دعا مانگ کر میں نے ہاتھ چہرے پر پھیرے تو میری نظر اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر پڑی۔ میں نے بازار جا کر گھڑی بیچ دی، اس کے اتنے پیسے ملے کہ میں صرف ایک دودھ کا ڈبا خرید سکا، میں گھر آیا اور معید کو پینے کے لیے دودھ دیا، امی جان نے کہا کہ میں اور سارہ بھی تھوڑا سا دودھ لے لیں، مگر ہم نے انکار کر دیا، ہمیں معلوم تھا کہ وہ دودھ معید کے لیے بھی کم ہے۔

شام کو امی جان قرآن شریف پڑھنے کے بعد دیوار میں بنی کپڑوں کی بوسیدہ الماری ٹٹولنے لگیں کہ شاید کوئی ایسی چیز مل جائے جسے فروخت کیا جا سکے۔ انہوں نے والد صاحب کا ایک موٹا سا کوٹ نکالا اور مجھ سے کہا: اسے بیچ آؤ۔

انہوں نے کوٹ اچھی طرح جھاڑا اور اسے تہ کرنے لگیں، پھر انہوں نے اس کی جیبیں ٹٹولیں تو ایک جیب میں انہیں کسی کاغذ کی موجودگی کا احساس ہوا، انہوں نے اسے نکالا تو دیکھا کہ وہ پچاس روپے کا نوٹ ہے ، پچاس کا نوٹ دیکھ کر ہم سب بہت خوش ہوئے ، میں نے اسے چھو کر دیکھا اور خوشی خوشی سوچنے لگا کہ ان پچاس روپوں سے کھانے کے لیے کیا کیا لاؤں۔ اب تو بھوک سے جان نکلی جا رہی ہے ، امی جان مجھے بتانے لگیں کہ ان روپوں سے کیا لانا ہے۔

اتنے میں ہمارے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے والی پڑوسن کھڑی ہیں، وہ امی جان سے ملیں اور بڑی مشکل سے بولیں، بہن میرے گھر دو دن سے فاقہ ہے ، میں ہر طرف سے مایوس ہو کر آئی ہوں، چھوٹے بچوں سے بھوک برداشت نہیں ہو رہی ہے ، اس لیے میں آپ کے آگے ہاتھ پھیلا رہی ہوں۔

امی جان نے میری طرف دیکھا، ہمیں معلوم تھا کہ وہ بیوہ خاتون ہیں، جو دوسروں کے گھروں میں کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں، امی جان کی نظروں کا مطالبہ سمجھتے ہوئے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پچاس روپے نکال کر ان خاتون کو دے دیے ، روپے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ ڈھیروں دعائیں دیتی ہوئی چلی گئیں، میں امی جان کے پاس بیٹھ گیا، انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا، میں نے کہا: امی جان ان کو ان روپوں کی زیادہ ضرورت تھی، ہم نے اچھا کیا کہ انہیں پیسے دے دیے ، امی نے ہاں میں سر ہلا دیا، شاید انہیں ہماری بھوک یاد آ رہی تھی۔

رات کو والد صاحب بہت دیر سے گھر آئے ، ان کے ہاتھوں میں ڈھیر ساری کھانے پینے کی چیزیں تھیں اور وہ بے حد خوش تھے ، ہم سب اتنا سامان دیکھ کر حیران اور خوش ہو گئے ، ڈھیر ساری کھانے کی مزے دار چیزیں تھیں، والد صاحب نے کہا، پہلے کھانا کھاتے ہیں، پھر بتاتا ہوں کہ آج کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آج ہم پر کیسا کرم کیا۔

کھانا کھاتے ہوئے مجھے ہر چیز مزیدار لگ رہی تھی اور میں ہر نوالے پر اللہ کا شکر ادا کرتا رہا، کھانے کے بعد والد صاحب بولے ، آج بھی میں حسب معمول مایوس ہو کر گھر لوٹ رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنا ایک پرانا دوست مل گیا، وہ اچھے وقتوں میں مجھ سے دو لاکھ روپے ادھار لے کر کینیڈا چلا گیا تھا، مجھے تو یاد بھی نہیں تھا، مگر اس نے نہ صرف روپے لوٹا دیے ، بلکہ شکریہ بھی ادا کیا کہ اس کے کام آیا، اب ان شاء اللہ میں دوبارہ اپنا کاروبار شروع کروں گا۔

ابا جان بتا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ بے شک احسان کا سب سے بڑا قدر داں اللہ تعالیٰ ہے ، وہ ایک نیکی کے بدلے اتنا نوازتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ پچاس روپے کے بدلے اس نے دو لاکھ روپے دے ڈالے ، بے شک اللہ تعالیٰ جب انسان کو نوازنے پر آتا ہے تو ان راستوں سے نوازتا ہے جن کے بارے میں انسان خواب و خیال میں بھی نہیں سوچ سکتا۔

٭٭٭

 

نیا سال

اس دن امتیاز احمد صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے وہ آفس سے جلدی چھٹی لے کر گھر جا رہے تھے ، وہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر نیم دراز ہو کر گہرے گہرے سانس لے رہے تھے ، ٹیکسی سست رفتار سے چل رہی تھی، اچانک انہیں اپنے سینے میں شدید درد محسوس ہوا، انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے تیز چلنے کو کہا، ٹیکسی ڈرائیور نے ان کی حالت دیکھتے ہوئے مختصراً راستہ اپنایا، جو ایک پل پر سے جاتا تھا، اس دن شاید امتیاز احمد کی قسمت بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی، پل پر ٹریفک جام تھا۔

امتیاز احمد صاحب کی طبیعت مزید بگڑنے لگی، وہ بڑی مشکلوں سے بولے۔ یہ کیا ہو رہا ہے ، تم رک کیوں گئے ، جلدی گاڑی چلاؤ۔

ڈرائیور پریشانی سے بولا۔ صاحب جی، آپ کی حالت بگڑ رہی ہے ، میں آپ کو ہسپتال لیے چلتا ہوں۔

امتیاز صاحب سینے سے اٹھنے والی ٹیس سے کراہ کر بولے۔ ابھی تم مجھے جہنم میں بھی لے چلو، مگر یہاں سے تو نکلو۔

ڈرائیور بے چارگی سے بولا۔ پل پر سے ٹریفک ہٹے تو نکلوں، امتیاز صاحب تکلیف برداشت کرتے رہے ، پھر سیٹ پر ہی بے ہوش ہو گئے ، ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں ہسپتال پہنچایا تھا، انہیں ہوش آنے پر بتایا گیا کہ ان پر دل کا دورہ پڑا تھا، اب ان کی والدہ اور بیوی بچے ہسپتال پہنچ گئے تھے۔

اپنی والدہ سے امتیاز صاحب نے رو رو کر پوچھا۔ یہ مصیبتیں ہم پر کیوں نازل ہونے لگی ہیں، ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی پریشانی آ جاتی ہے ، مجھے اسے سے پہلے کوئی بیماری نہیں رہی ہے۔

ان کی والدہ نے شفقت سے انہیں تسلی دی، بیٹا! صبر کرو۔ اللہ سے معافی مانگو اور اس کی رحمتیں طلب کیا کرو۔

٭….٭….٭

آفس کے اسٹاف نے امتیاز صاحب کو کبھی اتنا بدحواس نہیں دیکھا تھا، جب انہیں اطلاع ملی کہ ان کے بیوی بچوں کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے تو گویا وہ اپنے حواس کھو بیٹھے ، فوراً وہ اپنے آفس سے نکلے اور ٹیکس میں ہسپتال جاپہنچے ، ہسپتال پہنچتے ہی خود ان کی حالت غیر ہو گئی، اپنے بیٹے کو زخمی اور درد سے تڑپتا ہوا دیکھ کر ان کی آنکھوں میں اندھیرا آنے لگا، کئی بار وہ چکرا کر گرے بھی تھے ، ان کی بیوی اور بیٹی بھی زخمی تھیں، لیکن ان کی چوٹیں معمولی تھیں، ان دن بھی انہوں نے ہسپتال میں اپنی والدہ سے پوچھا تھا کہ یہ مصیبتیں ان پر کیوں نازل ہونے لگی ہیں اور اس کے اسباب کیا ہیں، جواب میں ان کی والدہ خاموش رہیں۔

یہ سوال اب تک کانٹے کی طرح امتیاز صاحب کے دماغ میں چبھ رہا تھا۔

٭….٭….٭

بڑی پیاری شام تھی، دسمبر کے آخری دنوں کی سرد اور نرم شام، مبین کے سارے دوست اس کے گھر کے لان میں خوش گپیوں میں مصروف تھے ، وہ سب نئے سال کی رات کے لیے تفریح کا پروگرام بنا رہے تھے ، فیضان بڑے جوش و خروش سے اپنا منصوبہ پیش کرتے ہوئے بولا۔ میں تو کہتا ہوں کہ نئے سال کی رات ہم سب اپنی موٹر سائیکلیں لے کر نکلتے ہیں اور سب ان کے سائلنسر نکلوا دیتے ہیں۔

ناصر اچھل کر بولا۔ واہ کیا پرشور تفریح ہو گی، کیا خیال ہے دوستو، اگر ہم موٹر سائیکلوں پر ساحل سمندر کی طرف بھی نکل چلیں تو کیسا رہے گا۔

مبین نے سر ہلا کر کہا، مگر ہمیں آتش بازی بھی تو کرنی ہے۔

ساجد چٹکی بجا کر بولا، یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے ، ہم سی سائیڈ پر ہی آتش بازی کریں گے۔

سارے دوستوں نے ساجد کو داد دی، قریب ہی نذیر بابا کیاریاں ٹھیک کر رہے تھے ، وہ کھرپی رکھ کر ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو گئے ، پھر دھیرے دھیرے چلتے ہوئے ان کے پاس آ کر بولے۔ تم لوگ آتش بازی کرو گے۔

ناصر تھوڑا منہ پھٹ تھا، لہٰذا فوراً بولا۔ ہاں بابا، ہم نئے سال کا جشن منائیں گے ، اس میں خرابی کیا ہے آخر۔

مبین نے ناصر کو پیچھے کیا اور بولا۔ بابا ہم صرف ایک دن کے لیے ہی تو خوشی کے طور پر نئے سال کا جشن مناتے ہیں۔

نذیر بابا اس گھر کے کافی پرانے ملازم تھے ، وہ مبین کے داد کے زمانے سے یہاں کام کر رہے تھے ، ان کی حیثیت گھر کے فرد جیسی تھی، مبین ان کی عزت بھی کرتا تھا، بابا اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔ بیٹا، یہ سب چیزیں فضول ہیں، تم ان کاموں میں کیوں اپنا پیسہ اور وقت برباد کرتے ہو، نئے سال کو اگر خوش آمدید کہنا ہی ہے تو سادگی سے کہو، دعائیں مانگو کہ نیا سال سب کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آئے۔

مبین نے ان کی بات سن کر بڑی سعادت مندی سے سر ہلایا، ٹھیک ہے بابا، جیسا آپ نے سمجھایا ہم ویسا ہی کریں گے۔

نذیر بابا خوش ہو گئے ، مبین کے دوستوں کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا، نذیر بابا چلے گئے تو دوستوں نے اس پر برسنا شروع کر دیا۔ سب سے پہلے فیضان چیخا۔ یہ کیا حماقت ہے ، تم ہماری تفریح کو بھی ملیامیٹ کرو گے۔

ناصر ناگواری سے بولا۔ سادگی سے تم اکیلے ہی منانا نیا سال۔ ہم الگ چلے جائیں گے ، کیوں دوستو۔

سب نے اپنے سر ہلا دیے۔ بالکل بالکل۔

مبین نے بری مشکلوں سے انہیں خاموش کرایا اور دبے دبے لہجے میں بولا۔ تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں، بابا ہمارے بزرگ ہیں، میں ان کی عزت کرتا ہوں، اس لیے میں نے ان کی بات مان لی، لیکن ہم اپنی تفریح ضرور کریں گے۔

یہ سن کر سب نے قہقہہ لگایا۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ نذیر بابا لان کے پیچھے راہ داری میں کھڑے ان کی باتیں سن رہے تھے اور افسوس کر رہے تھے۔ قہقہے تھمے تو مبین پریشانی سے بولا۔ پتا نہیں، ابو مانیں گے بھی یا نہیں، مجھے ان سے آتش بازی کے سامان کے لیے پیسے لینے ہیں۔

جواد نے جو اب تک خاموش تھا، ایک لفافہ مبین کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ اس میں ہم سب نے پیسے جمع کررکھے ہیں، یہ تم اپنے پاس رکھو اور اپنے پیسے بھی اس میں ڈال دینا، ہم کل لے لیں گے۔

مبین نے لفافہ لے لیا اور بولا۔ تم سب کو تو معلوم ہے کہ کافی عرصے سے ہمارا گھر مسلسل پریشانیوں کی لپیٹ میں ہے ، خاندانی جھگڑے ، بے قصور چچا پر غبن کا کیس، ہمارا ٹریفک ایکسیڈنٹ، ابو کی بیماری اور گھر کے دیگر معاملات میں پریشانی، یہ سب دیکھتے ہوئے ابو شاید مجھے جانے کی بھی اجازت نہ دیں۔

فیضان منہ بنا کر بولا: اس کا مطلب ہے تم نہیں آؤ گے۔

اچانک گلا کھکارنے کی آواز پر وہ پلٹے اور انہوں نے مبین کے ابو امتیاز احمد صاحب کو دیکھا۔ انہوں نے مبین کی بات سن لی تھی۔ وہ بولے۔ میں نہیں منع کرو گا۔ تم اپنے دوستوں کے ساتھ جا سکتے ہو۔

مبین خوش ہو گیا۔ آپ بہت اچھے ہیں ابو، میرے دوستوں نے ایک ہزار روپے جمع کیے ہیں۔

امتیاز احمد صاحب بولے۔ تم میری طرف سے دو ہزار لے لو، میں بھی تو ایک تقریب میں جاؤں گا، لہٰذا تمہیں بھی تفریح کرنی چاہیے۔ آخر نیا سال ہے۔

مبین کے سب دوستوں نے ایک ساتھ کہا۔ شکریہ انکل۔ امتیاز صاحب نے مبین کو دو ہزار روپے دیے ، جو مبین نے لفافے میں رکھ لی۔ راہ داری میں کھڑے نذیر بابا کی نظریں اس لفافے پر جم گئیں۔

٭….٭….٭

امتیاز احمد صاحب خوشگوار موڈ میں نئے سال کی تقریب میں جانے کی تیاری کر رہے تھے ، وہ اپنی والدہ کے کمرے میں آئے تو انہیں عبادت میں مصروف پایا، وہ تخت پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ اتنے میں مبین پریشانی کے عالم کے کمرے میں داخل ہوا۔ ابو میں نے اپنے بستر پر تکیے کے نیچے پیسوں کا لفافہ رکھا تھا، وہ کسی نے نکال لیا ہے۔

امتیاز احمد صاحب کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور وہ بولے۔ کیا مطلب، گھر میں سے پیسے کون لے سکتا ہے ، تم ضرور ادھر ادھر رکھ کر بھول گئے ہو گے۔

مبین بولا، میں نے آج تک کوئی چیز ادھر ادھر نہیں رکھی، پھر بھی میں نے ہر جگہ چھان ماری، مگر وہ لفافہ غائب ہے۔

اتنے میں امتیاز احمد کی والدہ بولیں۔ میں بتاتی ہوں۔ وہ لفافہ نذیر بابا کے پاس ہے۔

امتیاز احمد اور مبین بری طرح چونکے۔ کیا، آخر نذیر بابا کو پیسے چرانے کی کیا ضرورت تھی، امتیاز احمد صاحب ایک دم بھڑک اٹھے تھے۔

ان کی والدہ نے انہیں ڈانٹا، پہلے پوری بات سن لو، نذیر بابا نہیں چاہتے کہ تم لوگ نئے سال کی رات فضول کاموں اور کھیل تماشوں میں گزارو۔

مبین جھنجھلا کر بولا: ہم تو صرف تفریح کریں گے۔

اس کی دادی نے کہا: تم لوگ ہمیشہ تفریح کے نام پر شور شرابا، ہنگامے اور ناچ گانے کر کے نئے سال کا استقبال کرتے ہو، سال چاہے ہجری ہو یا عیسوی ہمیں اس کا استقبال سادگی سے اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں طلب کرتے ہوئے کرنا چاہیے ، تمہاری پریشانیوں کی وجہ بھی یہی ہے ، بلکہ پوری دنیا کی پریشانیوں کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ سال کے شروع میں ہم اللہ کی رحمتیں طلب کرنے کے بجائے خرافات میں مصروف رہتے ہیں اور پھر پورے سال ہم ان کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔

نذیر بابا اچانک کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے امتیاز احمد صاحب کے کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہا، میں آپ کے والد کے زمانے سے یہاں ملازم ہوں، وہ پہلی محرم پر بھی اللہ سے پورے سال کے لیے رحمت و برکت کی دعائیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہم سال کی شروعات ہی غلط طریقے سے کریں تو پورے سال اس کے نتائج بھگتتے رہیں گے ، اس لیے نئے سال کو سادگی سے خوش آمدید کہنا چاہیے۔

امتیاز احمد صاحب نے شرمندگی سے کہا، میں کس قدر غفلت میں تھا، میں یہ پیغام اپنے دوستوں کو بھی بتا دوں گا۔

مبین نے کہا، میں بھی ان باتوں پر عمل کروں گا اور اپنے دوستوں کو بھی سمجھاؤں گا۔

نذیر بابا نے خوش ہو کر کہا، میں نے ان پیسوں سے بیگم صاحبہ کے کہنے پر ضرورت مندوں کے لیے گرم کپڑے وغیرہ خرید لیے ہیں۔

امتیاز صاحب کے ہونٹوں پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گئی، آج انہیں اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا۔

گھڑی نے رات کے بارہ بجائے۔ 2009ء رخصت ہو گیا، آنکھوں کو اشک بار کر کے ، اپنے دامن میں بہت سی یادیں سمیٹ کر اور اب 2010ء آ گیا ہے ، امیدوں کو لیے اور کہہ رہا ہے کہ رحمتیں اور خوشیاں سمیٹ لو، دکھتی انسانیت کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیر دو۔

٭٭٭

 

شیطان اور کسان

تم سب لوگ نالائق ہو، اگر تم لوگوں کی یہی ناقص کارکردگی رہی تو ایک دن دنیا سے بے ایمانی، نفرت، حسد، لالچ، خود غرضی، جھوٹ اور ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا اور ہم شیطانوں کے کالے منہ مزید کالے ہو جائیں گے ، بل کھائی ہوئی ٹانگوں والے شیطانوں کے سردار نے چنگاریاں برساتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے شاگردوں کو ڈانٹا۔

سردار، آپ یقین کریں کہ ہم لوگ دن رات اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی انسان نیکی کی طرف راغب نہ ہو، پھر بھی کچھ لوگ سچائی اور محبت کی شمع کو روشن رکھتے ہیں، لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنے ایک شیطان نے سر جھکا کر صفائی پیش کی۔

بکواس بند کرو، مقیم پور گاؤں کا ایک معمولی کسان گلاب خان تمہارے قابو ہی میں نہیں آ رہا ہے ، یہ بھینگا شیطان نمبر 911کئی سال سے اس کام پر لگا ہوا ہے ، لیکن ابھی تک اس شخص کو گمراہ نہیں کر سکا۔ احمقو، ہر انسان پر ایک ہی فارمولا نہیں چلتا، جس کو ڈرا نہیں سکتے ، اسے پھسلاؤ، رجھاؤ، بہکاؤ، للچاؤ کسی نہ کسی طرح تو مار کھائے گا۔ سردار کا مکروہ چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا اور منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔

حضور، مجھے ایک موقع دیں، میں گلاب خان کو ایک ہفتے میں ایسا بھٹکاؤں گا کہ پھر وہ زندگی بھر کوئی نیک کام نہیں کرے گا، غبارے جیسی پھولی ناک والے شیطان نے سینے پر ہاتھ مار کر دعویٰ کیا۔

بس، بس رہنے دو، تم سب کی کارکردگی دیکھ لی، اب اس کیس کو میں خود دیکھوں گا، اور ہاں دیکھو، اگلے ماہ ہم ہفتہ گناہ منا رہے ہیں، اس لیے اس ہفتے جو سب سے زیادہ لوگوں کو گمراہ کرے گا، اس کو تمغائے شیطانیت دی جائے گا۔ سردار نے گرج کر کہا۔

گلاب خان چھوٹے سے گاؤں مقیم پور کا ایک غریب کسان تھا، اپنے دو بچوں کو اپنے بازوؤں پر لٹا کر دلچسپ کہانیاں سناتا۔ گلاب خان کے اخلاق، ایمان داری اور شرافت کی وجہ سے گاؤں کا ہر شخص اس سے محبت کرتا تھا۔

بچو، یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ شیطان ہر لمحہ انسان کو بہکانے کے لیے کوشاں رہتا ہے ، نماز کے وقت وہ چپکے سے آپ کے کان میں کہتا ہے : ارے چھوڑو گڈو میاں، دیکھو آسمان پر کیسی رنگ برنگی پتنگیں اڑ رہی ہیں، کتنا اچھا موسم ہے۔ کچھ دیر اور کرکٹ کھیل لو، صبح اسکول کے وقت آپ کے سرہانے آ کر شیطان کھڑا ہو جاتا ہے اور بہکاتا ہے : ارے ننھے میاں، ابھی سوتے رہو، بھلا اس سردی میں بھی کوئی اسکول جاتا ہے ، آج تو لحاف میں لیٹ کو مونگ پھلیاں کھانے اور کارٹون دیکھنے کا دن ہے۔

شیطان نظر نہیں آتا، لیکن اپنے شیطانی چکر چلاتا رہتا ہے ، کبھی کبھی شیطان کسی پرندے ، جانور یا انسان کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور انسان کو بہکانے کے لیے ہمدرد یا دوست بن کر آتا ہے۔

گلاب خان کو بہکانے کے لیے بھی شیطان سردار نے یہی طریقہ اپنایا اور ایک بوڑھے مزدور کا بھیس بدل کر اس کے کھیت پر پہنچ گیا، دوپہر کو جب گلاب خان نیم کی چھاؤں میں مکئی کی روٹی، پیاز اور اچار کھا رہا تھا تو شیطان ایک بوڑھے کے بھیس میں اس کے پاس پہنچا اور اپنی پریشانیوں اور دکھوں کی فرضی داستان سنا کر رونا شروع کر دیا۔ گلاب خان سیدھا سادھا، رحم دل انسان تھا، اس نے آدھی روٹی بوڑھے کو دی اور کہا بھائی میں خود ایک غریب کسان ہوں ِ لیکن میرا ایمان ہے کہ قناعت اور ایمانداری سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں، میں اس روکھی سوکھی میں بہت خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے نیک بیوی اور پیارے بچے دیے ہیں، بہرحال، اگر تم چاہو تو میرے ساتھ رہ سکتے ہو، دونوں محنت مزدوری کریں گے ، دینے والا اللہ ہے۔

اس طرح شیطان نے گلاب خان کے گھر میں جگہ پیدا کر لی، شیطان دن رات ایسے موقع کی تلاش میں رہتا کہ وہ گلاب خان کو بہکا سکے ، آخر کار اس کو ایک ترکیب سوجھی۔

جب گندم کی بوائی کا موسم آیا تو شیطان نے گلاب خان کو مشورہ دیا کہ اس بار نشیب کے علاقے میں بیج بوئے ، کیوں کہ اس بار بارش کم ہونے کے امکانات ہیں، اتفاق سے اس سال کم بارش ہوئی اور کھیت جل گئے ، صرف گلاب خان کے کھیت نشیب میں ہونے کی وجہ سے محفوظ رہے اور زبردست فصل ہوئی، گلاب خان کی گندم چار گنا زیادہ قیمت میں فروخت ہوئی اور اس کے وارے نیارے ہو گئے ، شیطان نے اسے مشورہ دیا کہ اتنی رقم گھر کے بجائے بینک میں رکھی جائے ، جہاں رقم محفوظ رہے گی اور بڑھتی رہے گی۔ گلاب خان نے اس مشورے پر عمل کیا اور یوں گلاب خان کو سود کے چکر میں پھنسا کر شیطان بہت خوش ہوا۔

اگلے سال شیطان نے گلاب خان کو مشورہ دیا کہ اس بار بلند مقام پر بیج بویا جائے ، اتفاق سے اس سال خوب زوردار بارش ہوئی، ہر طرف جل تھل ہو گیا، کئی جگہ سیلاب آ گئے ، پچھلی بار گلاب خان کی دیکھا دیکھی کسانوں نے نشیب میں فصل بوئی تھی، اس لیے اس بار شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے لوگوں کی فصلیں تباہ ہو گئی لیکن گلاب خان کے کھیت میں گندم کی بالیاں لہراتی رہیں، اس کے گودام گندم سے بھر گئے ، گندم کی فصل تباہ ہونے کی وجہ سے قحط کی کیفیت تھی، اس لیے گلاب خان کو گندم کی منہ مانگی قیمت ملی، اس نے مسجد کے سامنے والا ایک بڑا پلاٹ لے کر اپنا شان دار مکان بنوایا، اب گلاب خان گاؤں کا سب سے دولت مند شخص تھا۔

جیسے جیسے گلاب خان کی دولت کے انبار اونچے ہوتے رہے ، وہ لالچ، خود غرضی اور غرور کی پستی میں گرتا جا رہا تھا، رفتہ رفتہ وہ اپنے پرانے ساتھیوں سے دور ہوتا گیا اور اس کے گرد خوشامدی لوگوں کی بھیڑ نظر آنے لگی۔

آج گاؤں والوں نے گلاب خان کو گاؤں کا نمبر دار چنا تھا، آج اس کے محل نما گھر کے سامنے ایک بڑے شامیانے میں جشن تھا، آس پاس کے گاؤں کے زمین دار، تھانے دار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے ، ناچ گانے کی آوازیں دور تک آ رہی تھیں، شامیانے کے ایک طرف گاؤں کے غریب کسان اور بچے اس انتظار میں کھڑے تھے کہ آج ان کو بھی پیٹ بھر کر اچھا کھانا نصیب ہو گا۔

اسی دوران گلاب خان زرق برق لباس پہنے اپنے کسی مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لیے آ رہا تھا کہ وہ سامنے خستہ حال لوگوں کا ہجوم دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا۔ دو تین لوگوں کو ٹھوکریں مارنے کے بعد اس نے نوکروں کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو دھکے دے کر باہر نکال دیا جائے ، جب وہ غصے میں گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی نے اس کے نامناسب رویے پر اعتراض کیا تو اس نے اپنی بیوی کو بھی مارنا شروع کر دیا۔ اس کے بچے ایک کونے میں سہمے کھڑے تھے اور حیران تھے کہ ان کے باپ کو کیا ہو گیا ہے۔

رات کو جب محفل ختم ہوئی اور مہمان ایک ایک کر کے چلے گئے تو کچھ دیر بعد چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔

بستی کے باہر پیپل کے درخت کے نیچے شیطانوں کا سردار خوشی سے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنے شاگردوں سے کہہ رہا تھا: وہ دیکھو، تم لوگ اتنے عرصے سے ایک معمولی شخص کو گمراہ کرنے میں ناکام رہے ، میں نے مختصر عرصے میں اس کو لالچ، ہوس، دولت، خود غرضی کے جال میں پھانس کر کس پستی میں پہنچا دیا۔ آج ہر شخص اس سے نفرت کرتا ہے ، یہی ہماری فتح ہے ، کچھ دن پہلے گلاب خان کی زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور سکون سے روشن تھی، آج وہ غرور، لالچ اور نفرت کی کیچڑ میں لتھڑا لوگوں کے لیے عبرت کا نمونہ بنا کھڑا ہے۔٭٭٭

 

آخری شرارت

گرمیوں کی شام تھی میں صحن میں کرسی ڈالے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ الفاظ بار بار ذہن سے نکل جاتے ، معاشیات کے خشک قوانین بلائے جان بنے ہوئے تھے ، اچانک کوئی چیز کان کو چھوتی ہوئی پیروں میں آ گری، چونک کر دیکھا تو کاغذی جہاز تھا، مقام پرواز دیکھنے کے لیے نظریں گھمائی تو حسب توقع نومی کو ہی پایا۔ وہ دیوار پر سے گردن نکالے جھانک رہا تھا۔

یہ کیا حرکت ہے۔ میں نے کہا۔ وہ بولا۔

آپ بھی کمال کرتے ہیں ہر وقت پڑھائی، اتنی پتنگیں اڑ رہی ہیں، آئیں چھت پر پتنگ اڑاتے ہیں۔

تم کو معلوم ہے ، میرے امتحان سر پر ہیں۔

لیکن آپ کے سر پر تو مکھیاں اڑ رہی ہیں۔ وہ معصومیت سے بولا۔

جاؤ اپنا کام کرو، بڑوں سے مذاق اچھا نہیں ہوتا۔ میں نے غصے سے کہا۔

آپ مجھ سے صرف پانچ سال ہی تو بڑے ہیں اور میں نے اسکول کا کام کر لیا ہے۔ جب میں دیکھا وہ ٹلنے والا نہیں تو کتابیں اٹھائے اندر چلا گیا۔

نومی ہمارے پڑوس میں رہتا تھا، وہ پانچویں جماعت کا ذہین طالب علم تھا، ہر وقت ہنستا بولتا، بلاکا شرارتی اور حاضر جواب تھا۔ اس کی ہر بات میں شوخی اور ذہانت نمایاں ہوتی۔ دونوں گھروں کی درمیانی دیوار ایک ہی تھی۔ دیوار کے ساتھ چھت پر جانے کا زینہ تھا، ،  وہ زینے پر چڑھ کر جھانکتا رہتا، دونوں گھرانوں میں اچھے تعلقات تھے اکثر اس کی امی ہمارے گھر میری امی سے ملنے چلی آتیں۔ وہ پڑھے لکھے ، سلجھے ہوئے لوگ تھے ، اس کے ابو کسی دفتر میں کام کرتے تھے۔

نومی کی شرارتوں سے سب تنگ آئے ہوئے تھے لیکن اس کی معصومیت اور بھولپن کو پسند بھی کرتے تھے ، میرا اکثر اس سے واسطہ پڑتا اگرچہ اس کی حرکتوں پر غصہ آتا لیکن اس کا معصومیت بھرے انداز میں بھائی جان کہنا اچھا بھی لگتا، میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا، اس کے منہ سے اپنے لیے بزرگانہ الفاظ اچھے لگتے تھے۔

دن بدن اس کی شرارتوں کا دائرہ کار وسیع ہو رہا تھا، اس میں دوسرے پڑوسی، دکاندار اور پھیری والے بھی شامل ہو رہے تھے ، ایک دن ایک پھل فروش گلی میں کیلے بیچ رہا تھا، وہ اس کے پاس گیا اور پوچھا۔

کیلے کیا کلو ہیں، پھل فروش نے حیرانگی سے اسے دیکھا اور بولا۔

میاں تیس روپے درجن ہیں۔

درجن کیوں، آپ کلو کے حساب سے کیوں نہیں بیچتے ، دراصل کراچی آنے سے پہلے وہ لوگ اندرون سندھ میں رہے تھے وہاں اکثر کیلے اور کینو وغیرہ کلو کے حساب سے بکتے تھے ، نومی کی بات صحیح تھی، لیکن پھل فروش کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ بعد میں اگرچہ نومی کو پتا چل گیا کہ یہاں کیلے درجن کے حساب سے بکتے ہیں لیکن وہ پھل فروش جب بھی گلی میں آتا نومی اس سے جرح ضرور کرتا۔

ایک روز میں کتابیں ٹھیک کر رہا تھا، وہ آن ٹپکا۔

کیا ہو رہا ہے بھائی جان، دیکھ نہیں رہے کتابیں درست کر رہا ہوں۔

کیا کتابیں بگڑ بھی جاتی ہیں۔ وہ ناک پر انگلی رکھتے ہوئے بولا۔

دماغ مت کھاؤ، میں نے ڈانٹا۔ کیا دماغ بھی کوئی کھانے کی چیز ہے۔ اس نے معصومیت سے پوچھا۔ میں خاموش رہا، ان دنوں میں مسلمان اکابرین کی تصویریں جمع کر رہا تھا، وہ انہیں دیکھنے لگا، سرسید احمد خان کی تصویر پر نظر پڑی تو حیرت سے بولا۔

یہ تو ایک دن ہمارے گھر آئے تھے ، میں نے اسے گھورا۔

جب ہم نواب شاہ میں رہتے تھے تو ایک دن یہ ہمارے گھر آئے تھے ، میں نے ایک کتاب اٹھائی اور ورق گردانی کرنے لگا۔

اچھا آپ کو یقین نہیں آتا میں ابھی آیا۔ وہ باہر بھاگ گیا، عجیب لڑکا ہے میں نے سوچا۔ کچھ دیر بعد اپنی امی کو لیے چلا آیا، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی۔ دیکھیں امی، یہ ہمارے گھر آئے تھے نا۔

اس کی امی نے حیرت سے تصویر لے لی پھر ہنس کر بولیں۔ یہ تو سرسید احمد خان ہیں، یہ ہمارے گھر کہاں آئے تھے ، پھر سوچتے ہوئے بولیں۔

اچھا تم شاید اپنے ابو کے ماموں کی بات کر رہے ہو، ہاں ان کا حلیہ ہو بہو سر سید احمد خان جیسا ہی تھا۔ میں نے بامشکل ہنسی کو دباتے ہوئے کہا۔ نومی تم بہت شرارتی ہو۔ وہ حیرت سے بولا لیکن میں شرارت تو نہیں کرتا۔ میرا دل چاہا اسے ایک تھپڑ لگاؤں۔

ایک دفعہ پوچھنے لگا۔ بھائی جان افلاطون سقراط کا شاگرد تھا یا سقراط افلاطون کا۔ میں نے طنزاً کہا۔ کیوں کیا یہ لوگ بھی تمہارے گھر آئے تھے۔ ہنس کر بولا۔ نہیں یہ تو مشہور فلسفی تھے ، میں نے کہیں پڑھا ہے اب یاد نہیں آ رہا۔ میرے بھی ذہن میں نہ تھا اس لیے کہا۔ جاؤ مجھے یاد نہیں۔

وہ بولا۔ واں، آپ اتنی موٹی موٹی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں اور اتنے سے سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔

ہمارے گھر میں جامن کا درخت تھا لیکن اس پر پھل نہیں لگتا تھا، ایک دن رات کو اس کی امی میری امی کے ساتھ تخت پر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ درخت کے متعلق باتیں ہونی لگیں، قریب ہی وہ بھی موجود تھا۔ وہ بولا، اب تو اس میں جامن آنے لگی ہیں۔ میری امی نے حیرت سے کہا۔ کہاں بیٹا اس میں پھل کہاں آتا ہے۔

وہ دیکھیں، میں نے خود دن میں دیکھی تھیں۔ نومی نے اشارہ کیا۔ سب اوپر دیکھنے لگے ، میں اندر کمرے میں تھا لیکن میرے کان بھی ادھر لگ گئے ، نومی کی امی بولیں۔ ہاں دیکھیں کچھ لگا تو ہے ، اندھیرے میں ٹھیک سے نظر نہیں آتا۔ امی نے مجھے آواز دی، بیٹا ذرا ٹارچ لا کر دیکھو، میں ٹارچ لے کر گیا۔ اسی اثناء میں وہ جا چکا تھا، روشنی ہوئی تو معلوم ہوا کہ کسی نے ہری مرچیں دھاگے میں باندھ کر شاخوں میں لگا رکھی ہیں۔ میری امی بہت ہنسیں، میں نے کہا۔ یہ بھی ضرور نومی کی شرارت ہے۔

برابر گھر سے آواز آئی۔ بھائی جان لیکن میں شرارت تو نہیں کرتا۔

اس کی امی بولیں۔ ٹھہر ابھی آ کر بتاتی ہوں۔

غرض اسی طرح ہنستے کھیلتے دن گزر رہے تھے ، امتحانوں کے بعد میں کہانیاں پڑھتا رہتا۔ ایک دن کتاب میں گم تھا۔ وہ آیا اور پاس بیٹھ گیا۔ خلاف توقع وہ دیر تک کچھ نہ بولا تو میں نے کتاب سے نظر ہٹا کر دیکھا اس کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔

خیریت کیا ہوا، میں نے پوچھا۔ ابو کا تبادلہ دوسرے شہر میں ہو گیا ہے ، اگلے ہفتے ہم یہاں سے چلے جائیں گے ، اس نے دھیرے سے لب کشائی کی۔

اچھا تم چلے جاؤ گے۔ میں بے خیال میں بولا۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر مجھے شاید کوئی چبھتا ہوا جملہ کہنا چاہتا تھا لیکن پھر سر جھکا لیا، مجھے لگا وہ رو رہا ہے ، میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں، اس کی بات نے اداس کر دیا تھا۔ پھر میں نے اسے قریب کر لیا اور پیار کرتے ہوئے کہا۔ دیکھو وہاں جا کر کھیل کود میں وقت ضائع نہیں کرنا اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھنا، وہ کچھ دیر بیٹھا رہا پھر گھر چلا گیا۔

زندگی میں ہمیں بہت سے لوگ ملتے ہیں اور پھر بچھڑ جاتے ہیں، زندگی اسی کا نام ہے ، لیکن ان کے جانے کا سب کو افسوس تھا حیرت انگیز طور پر مجھے بھی، اداسی مجھ پر ڈیرے ڈال رہی تھی، میں دھیان ہٹانے کے لیے کوئی کتاب اٹھاتا لیکن ذرا سی پڑھ کر رکھ دیتا۔

روانگی والے دن وہ میرے پاس آیا اور بولا۔ بھائی جان آپ کا تحفہ، اس نے پھولدار کاغذ میں لپٹا ڈبہ میری طرف بڑھایا۔ اس کی کیا ضرورت تھی۔

بس میرا دل چاہ رہا تھا۔ میں نے بھی اسے کہانیوں کی کتابیں دیں، وہ بہت خوش ہوا اور مل کر رخصت ہو گیا۔

دوسرے دن گھر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ لوگ جا چکے تھے ، میں بور ہو رہا تھا کہ مجھے نومی کے تحفے کا خیال آیا۔ کاغذ اتار کر ڈبہ کھولا تو اس میں دوسرا ڈبہ تھا، اسے کھولا تو اس میں ایک اور چھوٹا ڈبہ تھا، اس طرح چوتھے پانچویں کے بعد آخری ڈبے میں سے کاغذ کا ایک پرزہ برآمد ہوا جسے میں نے غصے سے زمین پر پھینک دیا۔ آخر کار وہ جاتے جاتے بھی اپنی حرکت سے باز نہیں آیا تھا، کچھ دیر میں غصے سے کھولتا رہا پھر خیال آیا دیکھوں تو کیا لکھا ہے۔

بھائی جان، آپ ناراض ہوں گے ، میں نے پھر شرارت کی، آپ ہمیشہ میری حرکتوں کا برا مناتے تھے اور مجھے شرارتی کہتے تھے لیکن میرا خیال ہے کہ میری حرکتیں کبھی بھی ایسی نہ ہوتی تھیں جن سے کسی کو نقصان پہنچے اس لیے میں ہمیشہ کہتا تھا کہ میں شرارت نہیں کرتا، یقین ہے آپ مجھے کبھی نہیں بھولیں گے۔ خدا حافظ۔

مجھے لگا میری آنکھوں میں نمی اتر رہی ہے ، میں دھیرے سے بڑبڑایا۔ ہاں …. شاید تم ٹھیک ہی کہتے تھے۔

٭٭٭

 

آستین کا سانپ

مستطیل چھت سے بنا ہرے رنگ کا گھر جس کے احاطے کو جنگلہ لگا کر محفوظ کیا ہوا تھا، اس وقت مکمل طور پر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا، جب پولیس انسپکٹر نینسی وہاں پہنچی، نینسی جب ڈیوڑھی میں پہنچی تو پہلے سے موجود پولیس کے ایک افسر فرینک نے دروازہ کھول دیا، وہ تب سے نینسی کو جانتا تھا جب سے وہ پولیس کی مشہور سراغ رساں ایجنسی میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھی۔

ہیلو نینسی ایک بری خبر ہے ، ایک بوڑھے آدمی کو سر پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے ، اس کے پڑوسی نے جب معمول سے ہٹ کر اسے گھر کے احاطے میں چہل قدمی کرتے نہ دیکھا تو پولیس کو فون کر کے بلا لیا۔

فرینک نے نینسی کو جائے وقوعہ پر ہونے والی واردات کے بارے میں آگاہ کیا، انسپکٹر نینسی نے رہائشی کمرے کی طرف قدم بڑھا دیے اور لاش کا معائنہ کرنے لگی۔ ڈکیتی کیس ہے۔

بکھرے کاغذات اور کھلی درازوں کی طرف سرسری نظر ڈالتے ہوئے نینسی نے پوچھا۔

دیکھنے میں تو ایسا ہی لگتا ہے لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ فرینک نے کندھے اچکاتے ہوئے رائے دی۔

دیواروں پر پرانی تصاویر کے فریم لٹکے ہوئے ہیں جو کافی قیمتی معلوم ہوتے ہیں، کیا تمہارے خیال میں ڈکیتی کے دوران یہ سب ڈاکوؤں کو نہیں لے جانا چاہیے تھا، افسر اب تفتیش کا دوسرا رخ پیش کر رہا تھا۔

بعض اوقات ڈاکوؤں کو صرف کیش کی ضرورت ہوتی ہے۔ نینسی نے جواب دیا۔

ویسے نام کیا ہے اس کا؟۔

جیمز ایڈیسن۔

پورے شہر میں اس کی آئس کریم کی دکانیں ہیں مگر اس کا سارا بزنس اس کا بھتیجا سنبھالتا ہے۔

اچانک ساتھ والے کمرے سے آنے والی کتے کے بھونکنے کی آواز نے گھر کے سکوت کو توڑ کر رکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی ایک اور پولیس افسر ایک درمیانی عمر کے آدمی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا جس نے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

کافی خطرناک کتا معلوم ہوتا ہے ، ہم آ رہے تھے تو بہت بری طرح ہم پر بھونک رہا تھا۔ اندر آنے والا پولیس افسر بڑبڑا رہا تھا۔

یہ زبردست پالتو کتا ہے ، میں مائیکل ہوں، برابر والے گھر میں رہتا ہوں۔ آپ پولیس کے ساتھ معاونت کر رہی ہیں۔ افسر کے ساتھ آنے والے شخص نے نینسی سے پوچھا۔

جی نہیں، میں پولیس افسر ہوں اور کئی عرصے سے اپنی خدمات اس محکمے کے لیے انجام دے رہی ہوں۔ آپ اس واقعے کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ نینسی اب مائیکل سے محو گفتگو تھی۔

صحیح صورتحال تو مجھے بھی نہیں پتا۔ میں صبح جب جوگنگ کرنے کے لیے نکلتا ہوں تو عموماً جیمز اپنے گھر کے احاطے میں چہل قدمی کر رہا ہوتا ہے ، مگر آج وہ خلاف معمول باہر نظر نہیں آیا۔ میں نے اس کے گھر فون کیا تو کسی نے اٹھایا نہیں، میں پریشان ہو گیا اور پھر میں نے پولیس کو بلوا لیا۔

آپ نے دروازہ نہیں کھٹکھٹایا، نینسی نے پوچھا۔

شکریہ، مجھے کتے کا شکار بننے کا شوق نہیں۔ مائیکل نے ہنستے ہوئے کہا۔

پولیس افسر فرینک نے نینسی کو اطلاع دی کہ کتے کو دوسرے کمرے میں بند کر دیا گیا ہے۔

جب پولیس کے فوٹو گرافر اور ڈاکٹرز آئے تو کتا دوبارہ بھونکا۔ نینسی نے احتیاط سے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولا اور گھور گھور کر دیکھنے لگی، اسے چھوٹے قد کا ایک شکاری کتا دکھائی دیا جس کی جلد پر سفید دھبے موجود تھے۔

کتے نے مشتبہ طور پر نینسی کو دیکھا اور دروازے کی طرف دوڑا۔ نینسی نے فوراً اس کے باہر نکلنے سے پہلے دروازہ بند کر دیا اور دوسرے کمرے کی طرف مڑ گئی۔ کمرے میں دبلا پتلا آدمی ایک عورت پولیس کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔

میں رابرٹ ایڈیسن ہوں اور یہ میری بیوی ڈیزی۔

یہاں اس کیس کا نگران کون ہے۔ آدمی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے پوچھا۔

میں نینسی ہوں، آپ جیمز ایڈیسن کے بھتیجے ہیں۔ نینسی نے پوچھا۔

جی بالکل، رابرٹ نے جواب دیا۔

مجھے افسوس ہے کہ آپ کے انکل کو قتل کر دیا گیا ہے۔ نینسی نے افسوس کا اظہار کیا۔

کچھ چوری تو نہیں ہوا۔ ڈیزی نے اردگرد نظریں دوڑاتے ہوئے پوچھا۔

نہیں ابھی کچھ نہیں پتا۔ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ڈکیتی مقصد نہیں تھا۔

پھر کیا۔

نینسی نے گفتگو ادھوری چھوڑی اور فوٹو گرافر کو ہدایت دینے لگی۔

آج انسپکٹر ویلیم کہاں ہیں۔ فوٹو گرافر نے پوچھا۔

وہ مصروف تھے۔ آپ اپنا کام کریں۔ یہ میرا کیس ہے۔ نینسی نے جواب دیا۔ فوٹو گرافر نے کندھے اچکاتے ہوئے اپنا کیمرہ جیمز ایڈیسن کی لاش پر فوکس کر دیا تھا۔

کتے نے ایک بار پھر بھونکنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بند کمرے میں لگی کھڑی سے باہر کھڑے اجنبی افراد کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔

نینسی مائیکل کی طرف مڑی۔ یہ کبھی چپ نہیں رہتا کیا۔ ہر وقت بھونکتا ہی رہتا ہے۔

یہ سارا دن بھونکتا رہتا ہے ، بلکہ آدھی رات کو بھی۔ کچھ پڑوسیوں نے شکایت بھی کی تھی مگر ایڈیسن نے کبھی کوئی ایکشن نہ لیا۔

کیا گزشتہ رات تم نے کتے کو بھونکتے سنا تھا۔

اندھیرا ہونے کے بعد یہ نہیں بھونکتا۔ اگر کوئی دروازے پر آئے تو اسی صورت میں بھونکتا ہے۔

مگر کل رات کوئی ضرور آیا ہے اور وہی ہے جس نے جیمز ایڈیسن کا قتل کیا ہے۔ نینسی کافی فکر مند ہو چکی تھی۔

بالکل صحیح۔ مائیکل بھی نینسی سے متفق تھا اور صورتحال سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

طبی معائنہ کار آیا اور اس نے بتایا کہ جیمز کل رات گیارہ بجے کے وقت قتل کیا گیا ہے اور اس کا ثبوت اس کی ٹوٹی ہوئی گھڑی ہے جو کہ گیارہ بجے کا وقت بتا رہی ہے۔

تم نے کل رات گیارہ بجے کے درمیان کتے کے بھونکنے کی آواز سنی تھی۔ نینسی نے مائیکل سے پوچھا۔

نہیں، میں نے نہیں سنی۔ مائیکل کا سر نفی میں ہلا تھا۔

کیا اس کے گھر کوئی مہمان آیا تھا پہلے سے موجود ہو اور دیر تک رکا رہا ہو۔

نہیں، اس کا کوئی مہمان نہیں آیا تھا، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کیوں کہ وہ عام طور پر چھوٹی لائٹ جلا کر رکھتا ہے ، اگر کوئی مہمان وغیرہ آتا ہے تو وہ گھر کی دیگر لائٹوں کو بھی روشن کرتا ہے۔ پولیس افسر فرینک باہر سے آیا تو کتا ایک بار پھر بھونکا۔

تمام پڑوسیوں نے تصدیق کی ہے کہ کل رات کتا نہیں بھونکا۔ تو آپ کیسے سوچ سکتی ہیں کہ قاتل گھر میں گھسا ہے۔ فرینک نینسی سے مخاطب تھا۔

دروازے پر زور آزمائی کی گئی ہے۔ نینسی نے جواباً پوچھا۔

دروازے پر کوئی نشان نہیں ہے۔

اس کا مطلب قاتل کے پاس گھر کی چابی پہلے سے تھی یا پھر جیمز ایڈیسن نے اسے دی تھی۔

یہ کہہ کر نینسی اپنی جگہ سے اٹھی اور وہاں جا کر کھڑی ہو گئی جہاں رابرٹ اپنی بیوی ڈیزی کے ساتھ کھڑا تھا۔

مسٹر رابرٹ کیا آپ کے پاس اس گھر کی چابی ہے۔

ہے مگر آپ انکل کو قتل کرنے کا شک مجھ پر نہیں کر سکتیں۔

میں ان کا قتل کر کے کیا مقاصد حاصل کر سکتا ہوں۔ وہ تو پہلے ہی اپنا پورا بزنس میرے سپرد کر چکے تھے۔

اس کے علاوہ کسی اور کے پاس چابی ہے۔

نہیں اس کے علاوہ کسی نے پاس نہیں۔ یہ میں جانتا ہوں۔

کل رات گیارہ بجے کے وقت آپ کہاں تھے۔

میں آئس کریم کی دکانوں کے دورے پر نکلا ہوا تھا۔

اس وقت تمام دکانیں بند ہو رہی تھیں اور کل ہفتہ کا آخری دن تھا لہٰذا میں دکانوں سے ہفتہ بھر کی ہونے والی آمدنی لینے گیا تھا۔

اکیلے ، پھر پوچھا گیا۔

جی، کل رات میں اکیلا تھا۔

تو گویا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

آپ میرے شوہر سے سوالات کیوں پوچھ رہی ہیں۔ آپ دیکھ رہی ہیں کہ یہاں ڈکیتی پڑی ہے۔ ڈیزی نے دونوں کی گفتگو کاٹ کر شکوہ کیا۔

قاتل اس واردات کو ڈکیتی ثابت کرنا چاہتا ہے مگر دروازے پر کوئی زور آزمائی نہیں کی گئی اور قیمتی تصاویر بھی نہیں چرائی گئیں، بلکہ دکھائی یہ دیتا ہے کہ جیمز ایڈیسن اپنی کرسی پر غنودگی میں تھا یا ٹی وی دیکھ رہا تھا جب قاتل اندر داخل ہوا اور اس کے سر کے پچھلے حصے پر حملہ کر دیا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قاتل اندر آیا اور کتا بھونکا نہیں۔

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کتے نے گزشتہ رات حرکت تک نہ کی۔ مائیکل نے بھی نینسی کی حمایت کی۔

ممکن ہے کتا کسی کمرے میں بند ہو۔ نینسی نے جواز پیش کیا۔ پھر اس نے سوچا کہ پولیس افسر کہہ رہا تھا کہ آنے کے بعد انہوں نے کتے کو دوسرے کمرے میں بند کیا تھا۔

کتا قتل کی واردات کے دوران یہیں تھا اور وہ بھونکا نہیں تھا۔ نینسی کھڑی کی طرف گئی اور کتے کو دیکھ کر دوبارہ ڈیزی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

کیا آپ کی گاڑی میں ایسا نقشہ ہے جس پر وہ راستہ بنا ہو جس سے گزر کر آپ کے شوہر نے آئس کریم کی دکانوں کا دورہ کیا ہو۔

میرے خیال میں باہر گاڑی میں نقشہ رکھا ہوا ہے۔ ڈیزی نے کہا اور اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی۔

رابرٹ، انہیں تمہارا وہ نقشہ چاہاے جس پر کل رات تم نے سفر کیا تھا۔

رابرٹ دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ نینسی نے اسے روکا۔ کیا آپ کی بیوی لا سکتی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ یہیں رکیں۔

ڈیزی تھوڑی دیر بعد ایک طے شدہ نقشے کے ساتھ واپس آئی تھی، گھر پر خاموشی تھی اور ڈیزی خاموش کھڑی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ سب اسے گھور کر کیوں دیکھ رہے ہیں۔

کیا ہوا، میں نقشہ لے آئی جو آپ نے منگوایا تھا۔ ڈیزی نے پوچھا۔

کتا نہیں بھونکا۔ نینسی نے صرف اتنا کہا۔

کیا….!۔

کتا نہیں بھونکا جب تم ابھی واپس آئیں تو، اور وہ کل رات بھی نہیں بھونکا تھا جب تم نے اپنے شوہر کی چابی استعمال کی تھی یا اس کی نقل استعمال کی تھی۔ اس گھر میں آنے اور جیمز ایڈیسن کو قتل کرنے کے لیے۔

بہت عمدہ، نہ صرف یہ بلکہ کتے کو تربیت دی گئی ہے کہ وہ مردوں پر بھونکتا ہے ، میں تب ہی اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا جب میں صبح یہاں پہنچی تھی، یہ کتا اس وقت بھونکا تھا جب تم اور تمہارا شوہر ایک ساتھ یہاں آئے تھے مگر اس وقت نہیں بھونکا جب تم اکیلے نقشہ لے کر باہر سے آئیں۔

ڈیزی تم نے ، رابرٹ کو صدمہ پہنچا تھا۔

تم جیمز ایڈیسن کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھیں تاکہ تمہارا شوہر اس پورے بزنس کا اکیلا وارث بن جائے۔ آستین کا سانپ ثابت ہوئیں تم جیمز ایڈیسن کے لیے۔

جب رابرٹ شہر میں نکلا ہوا تھا، تم یہاں آئیں اور تم نے یہ قتل کیا اور یہ قتل تمہاری نا تجربہ کاری کی بناء پر تمہاری پکڑ کا ذریعہ بن گیا اور میں تمہیں موقع دیتی ہوں کہ اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اب تم اپنے وکیل کا بندوبست کر لو۔ نینسی اپنی بات مکمل کر چکی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب ڈیزی اندر سے مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔

٭٭٭

 

چور…. چور

آخری روزہ تھا، افطاری کے بعد ہم اپنی کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹے ہی تھے کہ بہت سی ملی جلی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکرائی۔ مبارک ہو عید کا چاند نظر آ گیا۔ یہ سن کر ہم بستر سے ایسے اچھلے جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو، لانگ جمپ لگایا اور باہر کی طرف بھاگے ، جہاں سے عید مبارک کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جونہی ہم گھر سے باہر نکلے ایک بڑے میاں گلی میں خراماں خراماں چلے آ رہے تھے ، ان کا چلنے کا اور ہمارا بھاگنے کا انداز آپس میں میل نہ کر سکا اور وہی ہوا، جس کا ہمیں کوئی ڈر نہ تھا، ہم سیدھے بڑے میاں سے جا ٹکرائے ، ٹکرانے کے بعد ہم تو سنبھل گئے لیکن بڑے میاں سنبھلنے میں ناکام رہے اور کسی کٹے ہوئے شہتیر کی مانند زمین پر آ رہے ، قبل اس کے کہ ہم ان سے بے ارادہ ٹکر کی معذرت کرتے ، انہوں نے چور چور کا شور مچا دیا، ان کی آوازیں سن کر ہم بوکھلا گئے ، بوکھلاہٹ میں ہماری سوچ ختم اور دماغ ماؤف ہو گیا، یہی بوکھلاہٹ ہمیں بھگانے میں ناکام اور پھنسانے میں کامیاب ہو گئی، ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً آگے کی جانب دوڑ لگا دی، ان کی آوازیں سن کر گھروں کے دروازے دھڑا دھڑ کھلنے لگے پھر بہت سے لوگ ان کی طرف لپکے۔

 کیا ہو بزرگو، کئی آوازیں ابھریں۔

ظالمو، دیکھتے کیا ہو، وہ میری چوری کر کے بھاگا جا رہا ہے ، تم کھڑے میرا منہ دیکھ رہے ہو، انہوں نے میری جانب اشارہ کیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، کئی نظریں ہماری جانب اٹھیں، ہم تیزی سے بھاگے جا رہے تھے ، یہ دیکھ کر حاضرین کا دل پسیجا، ایک کڑیل نوجوان نے آگے بڑھ کر بڑے میاں کو تسلی دی اور کہا۔

بڑے میاں، گھبرائیے نہیں میں ابھی جا کر اس کا پتا کرتا ہوں، اسے چوری کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔

آؤ میرے ساتھ، آخری جملہ اس نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا، اس جملے میں نہ جانے کیا تاثیر تھی کہ سب ہمارے پیچھے بھاگنے لگے ، اب صورتحال یہ تھی کہ غصے سے بھرے لوگوں کا لشکر ہمارے پیچھے تھا اور ہم اکیلی جان آگے تھے ، بچپن میں ہم نے کچھوا اور خرگوش کی کہانی پڑھی تھی، جنہوں نے آپس میں دوڑ کا مقابلہ کیا تھا جس میں سست ترین کچھوا پیچھے اور تیز ترین خرگوش آگے ہوتا ہے ، پھر بھی کچھوا دوڑ جیت جاتا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کہانی سے ہم ذرا سبق حاصل کرتے اور مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے اور مسلسل دوڑتے تاکہ لاؤ لشکر کی پہنچ سے دور ہو جاتے ، لیکن ہم جو بھاگنے میں ذرا پھسڈی واقع ہوئے تھے ، ایک جگہ رک کر سانس درست کرنے لگے اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی تھی، وہ سب ہمارے سر پر پہنچ چکے تھے ، اس سے پہلے کہ ہم دوبارہ بھاگنے کی کوشش کرتے ، لوگوں نے ہمیں مل کر پکڑ لیا، اتنے میں وہ بڑے میاں بھی ایک لڑکے کا ہاتھ تھامے وہاں پہنچ گئے۔

ابے تجھے چوری کرنے کی جرات کیسے ہوئی، انہوں نے دانت پیستے ہوئے کہا، وہ غصے میں سوکھے ہوئے پتے کی مانند کانپ رہے تھے ، انہوں نے اپنے پاؤں سے بہت ہی پرانے ماڈل کی ہوائی چپل اتاری اور دھڑا دھڑ تین چار فائر کر دیے ، ایک درد ناک چیخ فضا میں منتشر ہوئی، ہم گھبرا کر منہ دوسری طرف کر لیا، ہمسائے کریم بخش کا لڑکا بری طرح رو رہا تھا۔

بڑے میاں چور تو وہ ہے ، آپ نے خواہ مخواہ میرے بیٹے کو پیٹ ڈالا، کریم بخش نے لال پیلا ہو کر کہا۔ دراصل ہمارے دھوکے میں بڑے میاں نے کریم بخش کے بیٹے کو پیٹ ڈالا تھا جو بڑے میاں کے قریب کھڑا بغور تماشا دیکھ رہا تھا، بڑے میاں نے ہاتھ جوڑ کر کریم بخش سے معافی مانگی، پھر ہمیں بالوں سے پکڑتے ہوئے بولے۔

اب بتا چور کے بچے ، میرے پاس کیا تھا جو لوٹ کر لے گیا، چوری کرنے سے پہلے تجھے موت کیوں نہ آ گئی، میں تجھے نہیں چھوڑوں گا، تو نے میری زندگی کا تمام اثاثہ لوٹ لیا ہے ، انہوں نے اپنی آواز کو مزید درد ناک بتاتے ہوئے کہا اور اس درد کی فکر نہ کی جو ہماری سر سے اٹھ رہا تھا، درد سے ہمیں اپنے ہیر اسٹائل کی فکر کھائے جا رہی تھی، جس کا بڑے میاں کے ہاتھوں سے ستیاناس ہوتا جا رہا تھا۔

شاہد! ہم تجھے شریف آدمی سمجھتے تھے ، تم نے یہ غلط حرکت کر کے نہ صرف ہمیں دکھ پہنچایا ہے بلکہ ہماری نظروں سے بھی گر گئے ہو، اس سے پہلے کہ ہم تم پر ٹوٹ پڑیں بڑے میاں کی چرائی ہوئی چیز انہیں واپس کر دو، ان کے پاس کچھ تھا کیا چوری کرنے کے لیے ، ہم نے سوچا۔ کل عید ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ کسی رنگ میں بھنگ پڑے ، کریم بخش نے کہا۔ سر عام ہماری بے عزتی ہو گئی تھی اس سے بڑا بھنگ کیا پڑتا تھا، ہماری تو عید کرکری ہو گئی تھی۔

مگر جناب، ہم نے کچھ کہنا چاہا مگر درمیان میں مولوی صاحب ٹپک پڑے ، لاحول ولاقوۃ، رمضان ختم ہونے کی دیر تھی لوگوں نے اصل عادتیں دکھانا شروع کر دی ہیں، آخری روزے کا احترام بھی نہیں کیا، یا اللہ ہمیں معاف کر دے یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔

مگر جناب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس مرتبہ بھی ہماری بات کاٹ دی گئی، محلے کے اکلوتے ماسٹر صاحب آگے بڑھے ، ہم تمہاری کوئی بات نہیں سننا چاہتے میاں، ہم صرف اتنا جانتے ہیں تم نے بڑے میاں کی چوری کی ہے اور بڑے میاں اس بات کے گواہ ہیں۔

دیکھیں پہلے میری بات تو سنیں، مجھے کچھ کہنے کا موقع تو دیں، میں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہا مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ، مجمع میں بس ایک آواز آئی، بھائیوں ! دیکھتے کیا ہو…. چلو شروع ہو جاؤ۔ اور پھر سب نے مل کر ہم پر حملہ کر دیا، حملہ کرنے والوں میں ہمارا جگری دوست شیدا بھی شامل تھا جس کو میں ادھار پیسے اور کہانیوں کے آئیڈیاز دیا کرتا تھا، بے وفا، بے مروت نے بھی ہماری کوئی نہ سنی، کوئی عزت نہ کی۔

ٹھہرو بھئی، ایسی بھی کیا جلدی ہے ، ایک آواز ہمارے کانوں میں رس گھولتی چلی گئی، سب کے ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ گئے ، چند قدم پر ہمارے بڑے بھیا کھڑے مسکرا رہے تھے۔

کیوں جناب کیا بات ہے ، بڑے میاں نے بھائی جان کو گھورتے ہوئے کہا۔

بات جو بھی ہے بہت جلد آپ کی عقل شریف میں آ جائے گی، فی الحال آپ میرے چھوٹے بھائی کو نہیں مار سکتے ، بھائی جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ کس لیے ، جندو قصائی بولا۔

بس کہہ جو دیا نہیں مارسکتے ، بھائی جان اسی انداز سے بولے۔

شاید تمہیں معلوم نہیں تمہارے بھائی نے بڑے میاں کی چوری کی ہے ، بشیرا نائی بولا۔

آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے۔ بھائی جان نے ان کی طرف دیکھا۔

بڑے میاں خود اس بات کا ثبوت ہیں۔ بشیرے نے کہا۔

اگر میرا بھائی چور ثابت ہو گیا تو میں آپ کو ہرگز نہیں روکوں گا، آپ نے چوری شدہ چیز برآمد کر لی ہے ، بھائی جان نے پوچھا۔

جی! نہیں یہ کام ہم نے نہیں کیا۔ ماسٹر صاحب نے کہا۔

سب سے پہلے آپ کو یہی کام کرنا چاہیے تھا اور اگر میں کہوں کہ میرا بھائی چور نہیں ہے تو۔ بھائی جان نے عجیب لہجے میں کہا۔

جناب! آپ یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ ماسٹر صاحب حیران ہو کر بولے۔

بس کہہ سکتا ہوں۔ بھائی جان نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

مگر جناب، آپ کو ثابت کرنا ہو گا۔ کریم بخش نے کہا۔

پھر بھائی جان بولے ، شاہد جب تیزی سے گھر سے نکلا تو عید کا چاند دیکھ کر واپس آ رہا تھا، اسی وقت شاہد کی سامنے سے آتے ہوئے بڑے میاں سے ٹکر ہو گئی شاہد تو خیر سنبھل گیا مگر بڑے میاں نہ سنبھل سکے اور دھڑام سے زمین پر آگرے ، شاہد کی عادت سے میں اچھی طرح واقف ہوں یہ کبھی چوری کر ہی نہیں سکتا، چنانچہ جب میں نے بڑے میاں کو چور چور کا شور مچاتے دیکھا تو حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا، میری نظر زمین پر پڑی، وہاں بڑے میاں کی یہ عینک پڑی تھی پھر یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ بڑے میاں اس عینک کی وجہ سے پریشان ہیں، حالاں کہ اگر یہ زمین پر نگاہ ڈالتے تو انہیں اپنی عینک ضرور مل جاتی، جب بڑے میاں نے چور چور کا شور مچایا تو میں نے ان کے پاس سے گزرا اور یہ عینک اٹھا لی، یہی وجہ ہے کہ انہیں عینک وہاں سے نہ مل سکی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ سب کے سامنے ہے ، آپ لوگ کم از کم تحقیق تو کر لیتے کہ بڑے میاں جو بات کر رہے ہیں وہ کس حد تک ٹھیک ہے ، ہمیں قرآن مجید کے ذریعے یہی تعلیم دی گئی ہے کہ جب کوئی شخص تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو پہلے اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کی تحقیق کر لیا کرو، ا یسا نہ ہو کہ تم اس شخص کی جھوٹی بات پر یقین کر بیٹھو، جس کے نتیجے میں تمہیں نقصان اٹھانا پڑے۔

بھائی جان کی مفصل بات سن کر سب کے سب شرمندہ رہ گئے ، بڑے میاں اپنی عینک لے کر روانہ ہو گئے۔

وعدے کے مطابق ہم سب ہرجانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، آؤ ہمارے ساتھ۔ کریم بخش نے کہا اور سب مٹھائی کی دکان کی طرف بڑھے ، ہم بھی خوش ہو گئے کہ ہماری جان چھوٹی اور پھر خوشی خوشی ان کے پیچھے چل پڑے ، جان بچ جانے کی اور عید کی خوشی میں اور پھر آسمان پر عید کا چاند مسکرارہا تھا اور اردگرد سے آوازیں آ رہی تھیں۔

 عید مبارک۔ عید مبارک۔

٭٭٭

 

دل کے کالے

               طاہر عمیر

یہ مثالی ٹاؤن کا ایک چمکیلا سا عام دن تھا۔ ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا، لیکن ماہ رمضان ابھی باقی تھا، تیسرہ عشرہ شروع ہونے پر بجائے اس کے کہ آخری دنوں میں عبادت زیادہ کی جائے ، سب کی توجہ عید کی خریداری پر تھیں، پچھلا مہینہ چوں کہ آزادی کا تھا لہٰذا ہر گھر پر پاکستانی جھنڈے لہرا رہے تھے اور ہر گلی سبز جھنڈیوں سے سجی ہوئی تھی، یوں لگ رہا تھا جیسے آزادی کا سب سے بڑا جشن مثالی ٹاؤن والوں نے ہی منایا تھا، ملک میں سیلاب کی آفت کی وجہ سے بہت سے لوگ مشکلات کا شکار تھے ، حکومت نجی اور عالمی تنظیمیں مل کر اس آفت میں پھنسے لوگوں کی مدد کر رہی تھیں، پھر مثالی ٹاؤن کی میڈم رقیہ کی این جی او کیسے پیچھے رہ سکتی تھی، انہوں نے مثالی ٹاؤن کے پارک میں ایک ریلیف کیمپ لگا رکھا تھا تاکہ لوگ مدد کر سکیں، لیکن فی الحال ابھی تک وہاں کوئی نہیں آیا تھا، سورج مشرق سے ابھرتا ہوا کافی اوپر اٹھ گیا تو مثالی ٹاؤن والے نیند سے بیدار ہونا شروع ہو گئے ، سیٹھ کبیر نے اپنی موٹی توند پر پتلون کو ٹھیک کرتے ہوئے اپنے سیکرٹری سے پوچھا۔ کیا پتلون میں ازار بند نہیں لگایا جا سکتا۔

کیوں نہیں، آج کل ایسی ہی الٹی سیدھی چیزوں کا فیشن ہے لیکن آپ کے سائز کا ازار بند ملے گا نہیں، ہاں ایک کام ہوسکتا ہے کہ دو ازار بندوں کو گانٹھ دے کر ایک لمبا سا ازار بند تیار کر لیا جائے۔ ” سیکرٹری نے اپنی عقل کے مطابق جواب دیا۔

کس گدھے نے تمہیں میرا سیکرٹری بنایا ہے۔ سیٹھ کبیر نے جھنجھلا کر کہا۔

جی آپ نے ، وہ منہ لٹکا کر بولا۔

اوہ اچھا اچھا ٹھیک ہے ، یہ بتاؤ آج کا پروگرام کیا ہے۔ سیٹھ کبیر کھانستے ہوئے بولے۔

آج آپ نے وہ گندم بیچنی ہے جو پچھلے کئی ماہ سے ذخیرہ کر رکھی ہے ، اور انڈوں کی ذخیرہ اندوزی کرنی ہے ، بیواؤں کے لیے جو آپ نے سینٹر بنایا تھا اس کے تہہ خانے میں کافی جگہ ہے ، انڈے وہاں رکھے جا سکتے ہیں۔ سیکرٹری نے کہا تو سیٹھ کبیر بہت خوش ہوئے۔

واہ واہ، کس ہونہار شخص نے تمہیں میرا سیکرٹری رکھا ہے۔ اور وہ آگے بڑھ گئے۔

بادشاہ ویڈیو گیم والے نے دکان کھولی، جھاڑو دی اور قرآنی آیات پڑھ کر دکان کی برکت کے لیے پھونکنے لگا، اسی دوران ایک بچہ اندر داخل ہوا۔

واہ واہ، صبح ہی صبح گاہک۔ "بتا بچے کتنے کے ٹوکن دوں "۔ بادشاہ خوش ہو کر بولا۔

بادشاہ بھائی، ،  آج میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مجھے ٹوکن دے دو، کل میں پیسے لادوں گا۔ ” بچے نے کہا۔

کیا….؟ صبح ہی صبح ادھار، ہرگز نہیں، چل بھاگ یہاں سے ، اگر پیسے نہیں ہیں تو چرا کر لے آ۔

لیکن چوری کرنا تو بری بات ہے۔ بچہ معصومیت سے بولا۔

ارے بیٹا اپنے ہی گھر میں چوری، چوری نہیں ہوتی، تمہارے امی ابو کے پاس جو پیسے ہیں وہ تمہارے لیے ہی تو ہیں، چل بھاگ۔ اس نے معصوم ذہن کو ایک بڑا غلط سبق دیتے ہوئے کہا۔

مسٹر جہانگیر نے کلاک کی طرف دیکھا جہاں گیارہ بج رہے تھے۔ ان کی بیگم بولیں۔

کیا آج بھی دفتر نہیں جانا۔

کیا فائدہ، کام تو گھر بیٹھے بھی ہوسکتا ہے ، انہوں نے کہا، تبھی فون کی گھنٹی بجی تو انہوں نے ریسیور اٹھا لیا۔

جی کون…. جی کون بات کر رہا ہے ، آپ کو، اچھا اچھا وہ نہر والی زمین کے قبضے کا معاملہ….؟ ہاں ہاں میرے پاس ہی ہے ، صرف میرے دستخط کی دیر ہے ، پھر فائل بڑے صاحب کے پاس جائے گی لیکن دستخط کیسے کروں میرے پاس قلم نہیں ہے …. کیا کہا؟ قلم کتنے کا آئے گا…. اجی جناب یہی کوئی پچاس ہزار کا، نہیں نہیں اس سے کم نہیں ہوسکتا، اچھا آپ کے لیے صرف پنتالیس، اس سے کم نہیں، ٹھیک ہے آپ کا کام ہو جائے گا، خدا حافظ، وہ فون بند کرتے ہوئے بولے۔

میں نے کہا تھا نا کہ کام تو گھر بیٹھے بھی ہو جائے گا”۔ اتنا کہہ کر وہ پھر سوگئے۔

حاجی اکبر نے اپنے دونوں یتیم بھانجوں کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور پھر دھاڑتے ہوئے بولا۔

کم بختو مفت کی روٹیاں توڑنی آتی ہیں، اتنی بڑی جائیداد جو تمہاری سنبھال رہا ہوں، پتا ہے سو مسئلے مسائل ہوتے ہیں، سارا دن میرا ان معاملوں میں گزر جاتا ہے ، سوچتا ہوں چلو نیک کام ہے خیر ہے لیکن تم نکمے دونوں بھائی، میرے گھر کا ذرا سا کام بھی نہیں کر سکتے ؟ اور کام ہے ہی کتنا، سارے گھر کی صفائی اور برتن دھونا، کبھی کبھی دکان پر کام آن پڑتا ہے اور بس لیکن تم دونوں کی تو جان جاتی ہے ، چلو کام کرو، ورنہ ڈنڈوں سے تواضع کروں گا۔

دونوں بھائی چپ چاپ کام پر لگ گئے ، ان کے ہر دن کا آغاز ایسے ہی ہوتا تھا۔

پارک میں بیٹھے بیٹھے میڈم رقیہ اور میڈیا کی ٹیم بور ہو رہی تھی، کیوں کہ کوئی امداد دینے ہی نہیں آیا تھا، لیکن تھوڑی دیر بعد مثالی ٹاؤن کی واحد بدصورتی راجو ضرور آ گیا۔

میڈم جی! میرے پاس دو ہی سوٹ ہیں، ایک میں آپ کے کیمپ میں جمع کروانا چاہتا ہوں۔

تیرا یہ میلا کچیلا اور پھٹا ہوا سوٹ کوئی بھکاری بھی نہیں پہنے گا، چل اٹھا اسے اور بھاگ۔ میڈم نے اسے بری طرح لتاڑدیا تو وہ اپنا سا منہ لے کر ایک طرف چلا گیا، تبھی میڈم کی نظریں مشہور مصنف بشیر روی فروش المعروف آواز کائناتی پر پڑی جو اپنے خیال میں گم پارک میں ٹہل رہا تھا۔

کائناتی صاحب! کچھ امداد کیجیے نا آپ بھی”۔ میڈم نے کائناتی صاحب سے کہا۔

امداد؟ میں ؟۔ ارے میڈم رقیہ آپ کو کسی نے بتایا نہیں کہ ادبی لوگ کتنے مفلوک الحال ہوتے ہیں، انہیں تو خود امداد کی ضرورت ہوتی ہے ، ویسے آپ کے ریلیف کیمپ کا آئیڈیا اچھا ہے ، اس پر ایک زبردست سی کہانی لکھی جا سکتی ہے ، میں ابھی سے نوٹس لکھ لوں، بعد میں بھول ہی نہ جاؤں "۔ وہ کہہ کر فوراً ایک طرف بڑھ گیا۔

جب کوئی بھی امداد دینے نہ آیا تو میڈم رقیہ نے کہا کہ ہمیں خود مثالی ٹاؤن کا ایک چکر لگانا چاہیے ، میڈیا والوں نے سر ہلا دیا، سبھی پارک سے باہر نکل آئے ، سامنے عظیم الشان عمارت کے دروازے پر سیٹھ کبیر اپنی گاڑی میں بیٹھنے ہی والا تھا جب میڈم نے اسے جا لیا۔

سیٹھ صاحب! سیلاب زدگان کے لیے امداد دیں۔

ہاں ہاں …. کیوں نہیں …. سیکرٹری انہیں امداد کی رقم کے بارے میں بتاؤ۔

جی میں سیٹھ صاحب کی طرف سے ایک کروڑ روپے کا اعلان کرتا ہوں۔ میڈم رقیہ اور میڈیا ٹیم کے ساتھ ساتھ سیٹھ صاحب بھی بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔

الو کے پٹھے …. یہ کیا بکواس ہے۔ وہ دانت پیستے ہوئے آہستہ سے بولے۔

جناب یہ سیاسی بیان ہے …. جتنے مرضی اعلان کر دو، جب لینے آئیں گے تو پانچ دس ہزار دے دیں گے۔ سیکرٹری کے جواب سے صاحب کو حوصلہ دیا۔

تو ہم کب پیسے لینے آئیں ؟ میڈم نے پوچھا۔

شام کو…. سیکرٹری نے کہہ کر گاڑی کا دروازہ بند کر دیا اور یہ امدادی ٹیم آگے بڑھ گئی۔

حاجی اکبر صاحب کا سپر اسٹور کھل چکا تھا۔ وہ تسبیح کے دانے گھما رہے تھے لیکن زبان سے اس ٹیم کو صلواتیں سنا رہے تھے جو ان سے فنڈ لینے آ پہنچی تھی۔

میں دوں گا…. ضرور دوں گا پیسے …. بیس ہزار لکھ لیجیے۔

صرف لکھنے نہیں …. دیجیے بھی۔ میڈم نے کہا۔

حاجی صاحب نے پچاس کا نوٹ نکال کر دیتے ہوئے کہا۔ آج کل کام دھندہ بند ہے ، میں پیسے ضرور دوں گا لیکن قسطوں میں …. آپ روازانہ مجھ سے بیس تیس یا پچاس روپے لے جایا کریں۔ انہوں نے کہا۔

صرف بیس، تیس یا پچاس۔

مم مجھے نماز کے لیے جانا ہے ، پھر بات ہو گی۔ یہ کہہ کر وہ دکان سے نکل گئے۔

حاجی صاحب اس وقت کون سی نماز پڑھنے جا رہے ہیں ؟

نماز حاجات….” انہوں نے کہا اور مسجد کی طرف چل دیے۔

میڈم رقیہ نے وہی پچاس روپے کا ایک بچے کو تھماتے ہوئے کہا۔ جا پپو میرے موبائل پر ایزی لوڈ کروا کر آ۔

اس کے بعد میڈیا ٹیم اور میڈم رقیہ مسٹر اینڈ مسز جہانگیر کے گھر پہنچ گئے ، مسز جہانگیر تو فنڈ دینے کے لیے اتنی خوش ہوئیں کہ اپنے سارے کپڑے اور زیور اور کئی پرانی چیزیں ریلیف فنڈ میں دے دیں، میڈیا والوں نے کھچا کھچ کئی تصویریں لیں اور چلے گئے۔

یہ تم نے کیا کیا…. اتنا سامان دینے کی کیا ضرورت تھی۔ مسٹر جہانگیر نے اپنا سر پکڑتے ہوئے کہا۔

اونہہ، آپ کو نہیں پتا، میں نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، پرانے کپڑے اور سامان جو دیا ہے اس کے بدلے نیا سامان اور کپڑے لیں گے ، دوسرا جب میری فوٹو اخبار میں چھپے گی تو میری سہیلیاں سڑ کے سواہ ہو جائیں گی۔ وہ خوش ہوتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔

شام کے سائے گہرے ہونے لگے ، روشنی مدھم پڑنے لگی اور تاریکی نے سر اٹھانا شروع کیا۔ لوگوں نے دیکھا، راجو گلیوں میں لگی پاکستانی پرچم کی جھنڈیاں اتار رہا تھا، کسی نے اسے روکا اور پھر کسی نے اسے پکڑ کر مارنا شروع کریا، اس کے بعد دور دور سے لوگ راجو کو مارنے آئے۔

جہانگیر، بادشاہ، حاجی صاحب، سبھی نے اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالا، مشہور مصنف آواز کائناتی دور بیٹھ کر اس واقعے پر ایک اور کہانی لکھنے کی سوچ رہا تھا حتیٰ کہ رات گہری ہو گئی اور مثالی ٹاؤن کے مکین اپنے اپنے گھروں میں جا دبکے اور فوارے والے چوک پر وہ دونوں ہر رات کی طرف پھر سے نمودار ہوئے۔

آج میں بہت اداس ہوں۔ دائیں جانب والے نے کہا۔

وہ کیوں۔ بائیں جانب والے نے پوچھا۔

اس مثالی ٹاؤن میں صرف ایک شخص ہی ایسا تھا، جو نیک کام کرتا تھا تو میں لکھتا تھا، لیکن آج اس نے بھی ایک عجیب حرکت کر ڈالی، جانتے ہو اس نے کیا کیا؟

ہاں، اس نے گلیوں میں سجی جھنڈیاں اتار پھینکیں۔ بائیں جانب والے نے کہا۔

یہ اتنا پیارا ملک ہے …. اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ، اوپر سے آج کل یہ آزمائش سے دوچار ہے ، لیکن پھر بھی یہاں ! چلے چہروں والے لوگ اندر سے اتنے کالے کیوں ہیں، ہر کوئی اپنا اپنا مفاد کیوں چاہتا ہے ؟ دائیں جانب والا بولا۔

تمہیں کیا لگتا ہے ، جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے ، وہاں کے لوگ آزمائش میں مبتلا ہیں۔ "

تو کیا نہیں ؟۔

نہیں …. آزمائش ان لوگوں کی ہے جو اس آفت سے محفوظ ہیں، قدرت دیکھنا چاہتی ہے کہ یہ لوگ اپنے دکھی اور مصیبت میں مبتلا بھائیوں کی مدد کیسے کرتے ہیں، مثالی ٹاؤن والوں کی بھی آج آزمائش تھی، جس میں سوائے راجو کے کوئی بھی پورا نہیں اترا”۔ بائیں جاب والے نے کہا۔

ہاں اس نے اپنا ایک سوٹ امداد کے لیے دینا چاہتا تھا”۔ دائیں جانب والا بولا۔

صرف اتنا نہیں تم اس کی وہ نیکی کیوں نہیں لکھتے ، جس پر اسے اتنی مار پڑی؟

جھنڈیاں اتارنے والی، کیا اسے اپنے ملک سے پیار نہیں ہے۔

ہے بہت ہے …. تبھی تو اس نے یہ کیا، تمہیں یاد نہیں آج شام جب اس نے گلیوں میں سجی جھنڈیوں میں سے چند ایک ہوا کی وجہ سے ٹوٹ کر نالیوں میں گرتی دیکھیں، تبھی تو وہ ساری جھنڈیاں اتارنا چاہتا تھا تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو…. یہ اس کی ایک بڑی نیکی ہی تو تھی”۔ بائیں جانب والے نے کہا تو دائیں جانب والا مسکرا دیا۔

ہاں واقعی…. تم نے سچ کیا…. لیکن کھڑے کیوں ہو گئے ہو…. ابھی تو رات شروع ہوئی ہے اور تم جانے کی تیاری کر رہے ہو”۔ وہ یک لخت چونک کر بولا۔

پارک میں لیٹا زخمی راجو اور حاجی صاحب کے یتیم بھانجے رو رہے ہیں، مجھے ان کے ہر آنسو اور تکلیف کی لہر کے بدلے مثالی ٹاؤن میں رہنے والوں کے نامہ اعمال میں گناہ لکھنے ہیں، شاید ساری رات…. اس لیے میں تو چلا، خدا حافظ۔ بائیں جانب والے نے کہا اور غائب ہو گیا، دائیں جانب والا سپیدہ سحر ہونے تک اللہ کی تسبیح کرتا رہا اور سورج کی اولین کرن کے ساتھ ہی غائب ہو گیا۔

٭٭٭

 

امی مجھ سے پیار کرتی ہیں

صبح سے امی جان روئے جا رہی تھیں، کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اور امی جان تھیں کہ بس روئے جا رہی تھیں۔

"اے بہو…. کاہے کو ہلکان ہوئی جا رہی ہو، شعیب نے کچھ کہا ہے تو بتلاؤ”۔ ساس نے بہو سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا کہ کہیں میاں بیوی میں ان بن نہ ہو گئی ہو۔

"نہیں اماں …. یہ تو میرا بہت خیال رکھتے ہیں، بس ایسے ہی رونا آ رہا ہے "۔ امی جان نے بڑی بے بسی سے ہتھیلیوں سے آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا۔

"تو بیٹی یقین کرو کہ تمہیں روتا دیکھ کر مجھے بھی رونا آ رہا ہے ، تم جانتی ہو کہ میں نے تمہیں کبھی بہو نہیں سمجھا، ہمیشہ بیٹی جانا اور کہا بھی بیٹی ہے۔ کیا تمہیں مجھ سے کوئی شکایت ہو گئی ہو”؟ اما گھبرانے لگیں۔

نہیں اماں کیسی باتیں کرتی ہیں آپ، آپ سب لوگ تو بڑے اچھے انسان ہیں، بس بات یہ ہے "۔

امی جان کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔

"ہاں ہاں …. بولو بیٹی، کہہ دینے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو گا، ہوسکتا ہے میں تمہاری کچھ مدد بھی کر سکوں "۔ بوڑھی اماں بی نے بہو کو تسلی دی۔

وہ…. وہ اماں بی…. اماں بی…. میں نے زین کی ڈائری پڑھ لی ہے "۔ اتنا کہہ کر امی جان پھر زار و قطار رونے لگیں، ساتویں جماعت میں پڑھنے والے اپنے پوتے ، زین کی ڈائری کا سن کر تو وہ نہال ہو گئیں، جلدی سے خوشی اور مسرت بھرے لہجے میں بولیں :

"اے بیٹی تو اس میں رونے والی کون سی بات ہے ، اللہ سلامت رکھے ، پھلے پھولے ، ساتویں جماعت کا بچہ اگر اپنا رونا پیٹنا (ڈائری) لکھ رہا ہے تو یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے اور تم ہو کہ روئے جا رہی ہو”۔

اماں بی مستقبل میں اپنے پوتے کو اعلیٰ افسر کے روپ میں دیکھ رہی تھیں۔

"ارے اماں بی…. پہلے پوری بات تو سن لیجئے "۔

امی جان نے ان کی خوشی گویا چھین لی۔

"ہاں ہاں بتاؤ ڈائری میں کچھ لکھا ہوا تھا، تم بتلارہی تھیں "۔

جی ہاں، میں نے ڈائری پڑھی، اتفاق سے زین اپنے تکیے کے نیچے بھول گیا، اس میں لکھا ہوا تھا….” اتنا کہہ کر امی جان نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے۔

"اس میں لکھا تھا اماں بی…. کہ میں بڑا بدنصیب بچہ ہوں، میری امی مجھ سے بالکل بھی پیار نہیں کرتیں، حسیب کیا، حسیب کی امی، نادر کی امی، اختر کی امی…. میرے سارے دوستوں کی امیاں تو ان سے اتنا پیار کرتی ہیں لیکن افسوس کہ میری امی مجھ سے بالکل بھی پیار نہیں کرتیں، صبح سویرے مجھے اسکول جانے کے لیے اٹھا دیتی ہیں، میرا دل چھٹی کرنے کو چاہے بھی تو زبردستی بھیجتی ہیں۔ ظہر کی نماز سے تو بچ جاتا ہوں لیکن عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں تو مسجد میں مجھے بھیجے بغیر انہیں چین ہی نہیں آتا، میں نیند میں جھوم رہا ہوتا ہوں مگر امی مجھے ہوم ورک کرواتی رہتی ہیں، کہتی ہیں تم ڈبل پروموشن ہو یعنی چھٹی پڑھے بغیر ساتویں میں آ گئے ہو اس لیے سخت محنت کرو تاکہ کسی سے پیچھے نہ رہ جاؤ۔

میرے جوتے اور یونیفارم ذرا سے گندے ہو جائیں تو امی خواہ کتنی ہی تھکی ہوئی کیوں نہ ہوں ان چیزوں کو چمکا کر رکھ دیتی ہیں اور میں جو اسکول شوز پہن کر احمد اور اختر کے ساتھ فٹ بال میچ کھیلنے کا سوچ رہا ہوتا ہوں …. دل مار کر رہ جاتا ہوں، امی میری ایک ایک بات ابو کو بتلاتی ہیں، ابو ان سے بہت خوش ہیں، دادی جان بھی امی کو بہت پسند کرتی ہیں، چاچو تو ہر وقت بھابھی جان سلام…. بھابھی جان سلام…. آتے جاتے ان سے یوں ڈرتے ہیں جیسے وہ میری نہیں، ان کی امی ہیں، آج میں تھک گیا، اب کل امی کی بہت سی باتیں اور لکھوں گا”۔

امی جان نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے درمیان تمام بات اماں بی کو بتلا دی۔ "ہوں "۔

تجربہ کار دادی نے سرہلایا، لمحوں میں ساری بات سمجھ گئیں۔

"اولاد اپنے لیے کی گئی آسانیوں کو سختیاں سمجھتی ہیں بیٹی، فرخندہ تم فکر نہ کرو۔ یہ ڈائری اسی طرح زین کے تکیے کے نیچے رکھ آؤ اور شام کو جب شعیب دفتر سے آئیں تو انہیں لے کر عشاء کے بعد میرے کمرے میں آنا”۔

دادی جان نے گویا حکم دیا، وہ بہت گہری سوچ میں تھیں۔ "جی بہتر اماں بی”۔

رات کو عشاء کی نماز اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر زین ماں باپ اور دادی کو "شب بخیر” کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور جاتے ہی ڈائری نکال لی، ابو نے دادی جان کے منہ سے تمام بات سن کر چپکے سے زین کے کمرے میں جھانکا۔ وہ تیزی سے ڈائری لکھے جا رہا تھا اور آہستہ آہستہ بڑبڑا بھی رہا تھا، امی بہت گندی ہیں، امی مجھ سے ذرا بھی پیار نہیں کرتیں "۔

شعیب صاحب نے یہ منظر دیکھ کر سر تھام لیا، انہیں اپنے سر میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا۔

وہ اپنے کمرے کی طرف پلٹے ہی تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے لگی:

"ہیلو”۔

"ہیلو…. کون شعیب میں افتخار بات کر رہا ہوں "۔

"اوہ…. کب آئے پاکستان”۔

"آج بلکہ دو گھنٹے پہلے اور سناؤ گھر میں خیریت ہے "۔

"ہاں آں …. نن…. نہیں …. ہاں ہاں سب خیریت ہے "۔ شعیب صاحب گڑبڑا گئے۔

"بھائی کیا بات ہے ؟ بھابھی اور بچہ تو ٹھیک ہیں، جلدی بتلاؤ میں ابھی قبرستان سے اماں ابا کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر آیا ہوں، قبروں کی حالت ذرا ابتر ہو رہی تھی، ایک گورکن سے انہیں مرمت کرنے کو کہا ہے ، یہاں ہمارے ملک میں قبرستان کی حالت تو انتہائی خراب ہوتی ہے ، میں ایک عرصے بعد پاکستان یہ سوچ کر آیا کہ اماں اور ابا کی قبریں جو پختہ کرا کے گیا تھا، لڑکا ملازم رکھ کے گیا تھا کہ روزانہ قبروں کو پانی وغیرہ کا چھڑکاؤ دے لیکن یہاں آ کر تو….” شعیب خاموش رہے۔

"ہیلو…. کیا بات ہے شعیب تم مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو”۔

افتخار نے پوچھا…. جواب میں شعیب نے زین سے متعلق ساری بات بتلا دی۔

دوسری جانب سے افتخار کے ہنسنے کی آواز آئی۔

"کل تم ایک کام کرنا”۔ افتخار نے ہنستے ہوئے کہا۔

"کون سا بھلا؟” شعیب نے کہا۔

"کل تم اپنے لڑکے کو میرے ساتھ قبرستان جانے دینا میرے والدین کی قبروں پر”۔

"لیکن…. لیکن…. اس کا زین کے مسئلے سے کیا تعلق ہے ؟” شعیب صاحب حیران رہ گئے۔

"تعلق ہے ناں بھائی”۔

"اچھا…. تو پھر میں بھی ساتھ چلا چلوں "۔

"ہاں ہاں کیوں نہیں "۔

٭….٭….٭

قبرستان میں بڑی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

افتخار نے ایک نظر ننھے زین کے چہرے پر ڈالی کہ کہیں وہ قبرستان میں آ کر خوف زدہ تو نہیں ہے۔

"زین بیٹا…. آپ کو ڈر تو نہیں لگ رہا”۔

"جی نہیں انکل…. میں ابو کے ساتھ دادا جان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے آتا رہتا ہوں اور پھر ہماری اسلامیات کی ٹیچر بتاتی ہیں کہ دنیا کی زندگی تو چند دنوں کی ہے ، مرنے کے بعد تو سارے انسان ادھر ہی آئیں گے "

 شعیب اور افتخار اتنے سے بچے کے منہ سے ایسی عقل مندی کی بات سن کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔

"زین”۔ افتخار نے اسے پکارا۔

"جی انکل”۔

"زین…. تمہیں پتا ہے یہ قبر میری والدہ کی ہے "۔

"کون سی…. کون سی والی انکل”۔

"یہی جہاں سلیمہ بیگم لکھا ہے ، یہ میری امی کا نام تھا”۔ افتخار صاحب نے اسے ایک قبر دکھلاتے ہوئے کہا۔ پھر نجانے ان کے دل میں کیا آئی کہ جیب سے ہزار ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں نکالیں اور اپنی امی کی قبر پر رکھ دی۔

"لیجئے امی یہ میری تنخواہ میں سے تھوڑے سے پیسے آپ رکھ لیجئے !” افتخار صاحب نے کہا۔

ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، زین اور شعیب انکل خاموش کھڑے تھے ، تقریباً بیس پچیس ہزار روپے قبروں کی مٹی پر یوں ہی رکھے تھے اور افتخار صاحب برابر کہے جا رہے تھے کہ "لیجئے امی…. یہ پیسے لے لیجئے …. یہ آپ کا حق ہیں "۔

آخر کو زین سے ضبط نہ ہوسکا۔

بولا، لیکن انکل آپ کی امی یہ پیسے کیوں کر لے سکتی ہیں ؟ وہ تو…. وہ تو۔ زین کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ کچھ کہے۔

"کیوں بیٹا…. کیوں نہیں لے سکتیں ؟ جب انہوں نے مجھے پال پوس کر جوان کیا، میری ہر خوشی اور آرام کا خیال رکھا، اپنے آپ کو تکلیف دی لیکن مجھے ہر لمحہ آرام دیا، بچپن میں مجھے کبھی کبھی یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ میرے لیے سختیاں بو رہی ہیں لیکن ان کی تربیت ہی تو آج میرے کام آ رہی ہے ، زین بیٹا! میری امی میری اس قدر خیال رکھا کرتیں کہ مجھے یوں لگتا کہ وہ مجھ سے بالکل بھی محبت نہیں کرتیں، نماز، اسکول، ہوم ورک، کھیل کود، غرض ہر موقع پر انہوں نے میری تربیت کی تاکہ عملی زندگی میں مجھے کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

پھر…. پھر…. میری امی اپنی محنت کا صلہ کیوں نہیں لیتیں ؟ انہوں نے مجھ پر جو اتنی محنت کی اس کا معاوضہ کیوں نہیں لیتیں …. آج میں ہزاروں لاکھوں ان ہی کی محنتوں اور اعلیٰ تربیت کی وجہ سے کما رہا ہوں نا۔ تم بتاؤ زین میاں ! کیا میری خوشیوں میں ان کا حصہ نہیں ہے "۔

افتخار انکل باقاعدہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔

شعیب صاحب کی آنکھوں میں بھی آنسو تیرنے لگے۔ زین بالکل خاموش کھڑا تھا۔

وہ اتنا چپ تھا کہ شعیب صاحب کا دل چاہ رہا تھا کہ اس فتنے کا گلا دبا دیں جس کی سوچیں اس کی عمر سے اتنی بڑی اور اتنی باغی تھیں جو اپنی ہی ماں کو اپنا دشمن سمجھ رہا تھا۔

ذرا دیر بعد زین بڑے شرمندہ لہجے میں بولا:

"نہیں افتخار انکل…. آپ کی امی واقعی آپ سے پیار کرتی ہوں گی، جب ہی تو آپ کا اتنا خیال کرتی تھیں، مجھے دیکھئے …. میری امی تو زندہ ہیں، مجھ سے اتنا پیار کرتی ہیں اور میں اتنا بدنصیب ہوں کہ اس نعمت کو اپنے پاس پاتے ہوئے بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرتا”۔

٭….٭….٭

زین ماں کے پیٹ سے لگا زار و قطار رو رہا تھا، برابر ایک ہی بات کہے جا رہا تھا۔

"مجھے معاف کر دیجئے …. امی جان میں افتخار انکل کی طرح پچھتانا اور افسوس کرنا نہیں چاہتا۔ میں آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جو آپ میری اس قدر خدمت کرتی ہیں "۔

فرخندہ بیگم مسکراتے ہوئے بولیں۔

"بیٹا…. ماں باپ کوئی صلے یا انعام کے لیے اولاد کی خدمت تھوڑا ہی کرتے ہیں۔ یہ تو فرض ہے ، اللہ تمہیں خوش رکھے کہ تمہیں احساس ہو گیا، صبح کو بھولا شامل کو گھر آ جائے تو اسے کب کسی نے بھولا ہوا کہا ہے ؟” یہ کہتے ہوئے انہوں نے بھینچ کر زین کو گلے لگا لیا۔

٭٭٭

 

احساس

               عبدالصمد مظفر

بھائی اب اٹھ بھی جاؤ….!! دیکھو سورج سر پر آ رہا ہے ، تم نے تو دوسری شفٹ میں اسکول جانا ہوتا ہے ، مگر میں نے تم کو ناشتہ دے کر کالج جانا ہوتا ہے۔ ” یہ زریں گل کی آوازیں تھیں، جو اسے روزانہ صبح اپنے چھوٹے بھائی کو جگانے کے لیے د ینا پڑتیں، دو کمروں پر مشتمل چھوٹے سے گھر میں پانچ افراد رہتے تھے ، میاں جی اپنے تینوں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا کر اچھے عہدوں پر فائز دیکھنا چاہتے تھے ، مگر وہ تو اپنے تمام ارمان اور خواب دل میں لے کر اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔

اب گھر کا سارا بوجھ ان کے بڑے بیٹے عمر گل کے کندھوں پر آ پڑا تھا۔ وہ اپنی پڑھائی بھی مکمل نہ کر سکا اور اپنے باپ کے خواب کی تعبیر کے لیے ائیر کنڈیشنڈ اور فریج کا کام سیکھنے لگا، ماں نے اسے کئی مرتبہ کہا کہ بیٹا! تم پہلے اپنی تعلیمی مکمل کر لو، پھر شام کو گھر میں اپنی دکان کھول لینا، مگر گھر کا واحد کفیل ہونے کے احساس نے اسے مزید پڑھنے کا موقع نہ دیا، وہ اپنے کالج کا سب سے ہونہار او قابل طالب علم تھا، مگر تقدیر کے ہاتھوں مجبور تھا، حالاں کہ وہ جانتا تھا کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے مگر جن حالات کا سامنا اسے کرنا پڑ رہا تھا وہ مجبور تھا کہ تقدیر کے لکھے پر راضی رہے ، اب اس نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد چن لیا تھا کہ اپنے چھوٹے بہن بھائی کو مکمل تعلیم یافتہ بنا کر انہیں کسی اچھے عہدے پر دیکھے ، وہ اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دن رات محنت سے کام کر رہا تھا۔

زریں گل کالج سے واپس آ کر اپنی ماں کے ساتھ گھر کے تمام کاموں میں ان کا پورا ساتھ دیتی تھی، صرف فخر گل ہی لاپروا اور ضدی تھا، وہ رات کو اکثر دیر تک جاگتا رہا اور پھر اگلے دن اسکول جانے کے لیے بڑی مشکل سے اٹھتا اور تیاری کرتا تھا، میٹرک کے سالانہ امتحان بھی نزدیک تھے ، مگر وہ اس سے بے خبر ہو کر نہایت ڈھٹائی سے بری عادتوں کو اپنائے ہوئے تھا، فخر گل میں احساس نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی، وہ بچپن کے بے جا لاڈ پیار سے لاپروا ہو چکا تھا، اسکول سے واپس آ کر گھنٹہ بھر بے دلی سے کتاب کھول کر پڑھتا، پھر فوراً محلے میں واقع انٹرنیٹ کیفے میں چلا جاتا، جہاں سے رات کو دیر سے واپس گھر آتا تھا، عمر گل نے اس کو کئی مرتبہ ذمہ داری کا احساس دلایا، مگر وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا تھا، بلکہ اب تو وہ اپنے بڑے بھائی کے سامنے بھی نہیں آتا تھا کہ کہیں اسے کوئی نصیحت سننی نہ پڑ جائے ، وہ ان نصیحتوں سے بیزار ہو چکا تھا۔

عمر گل صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھتا اور ناشتہ کر کے اپنی پرانی موٹر سائیکل پر سمن آباد چلا جاتا، جہاں اس کے استاد کی دکان تھی، گرمیوں کے دن تھے اور آج کل ائیر کنڈیشنڈ اور فریج کی مرمت کروانے والوں کا ہجوم رہتا تھا، عمر گل کو اپنی پرانی موٹر سائیکل سے بہت محبت تھی، وہ اسے بہت عزیز رکھتا تھا کیوں کہ یہ مرحوم میاں جی کی نشانی تھی، اس کی ٹینکی پر بیٹھ کر وہ میاں جی کے ساتھ سفر کرتا تھا اور کبھی کبھی سوچتا کہ وہ کب اتنا بڑا ہو جائے گا کہ اس کو خو چلا لیا کرے گا؟ اب وہ اپنے بچپن کی ایسی باتیں سوچتا تو اکیلے میں مسکرا دیتا، اس موٹر سائیکل کے ساتھ اسے جنون کی حد تک پیار تھا۔

دکان پر دلچسپی اور اپنے اوپر آنے والی ذمہ داریوں کے احساس نے عمر گل کو چند ماہ میں ہی ہنر مند بنا دیا تھا، پھر یہ دکان کم اور ورکشاپ زیادہ تھی، معیاری کام کی وجہ سے لاہور بھر سے لوگ اسی دکان پر آتے تھے اور تسلی بخش کام سے مطمئن ہو کر جاتے تھے ، جب سے عمر گل نے یہاں آنا شروع کیا تھا ہر گاہک اس کے کام کو سراہتا تھا، دکان کا مالک ملک نعمان بھی اس کا بہت خیال رکھتا تھا، مگر وہ کام پورا کرواتا تھا، عمر گل صبح نو بجے سے رات نو بجے تک اپنے کام میں مگن رہتا تھا، اس کی اپنے کام سے زیادہ کوئی اور ترجیح نہیں تھی، اگر کبھی اس کی ماں کوئی کام کہہ دیتی تو وہ کام کی زیادتی کی وجہ سے نہ کرپاتا، وہ دکان پر سے کام کے بتائے کام پر جانے لگتا تو کوئی نہ کوئی ائیر کنڈیشنڈ یا فریج ٹھیک ہونے کے لیے آ جاتا، اسے اپنی ماں کے کام کا خیال تو رہتا مگر اپنے چھوٹے بہن بھائی کو تعلیم یافتہ بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے رک جاتا اور کام میں مگن ہو جاتا تھا۔

رات کو جب عمر گل گھر آتا تو ماں کے سامنے شرمندہ ہو جاتا اور تھکن سے چور آواز میں کہتا "ماں ! آج کام بہت زیادہ تھا، کہیں جانے کا وقت نہیں ملا”۔ زریں گل سیکنڈ ائیر کے امتحان دے رہی تھی، وہ اکثر بڑے بھائی سے کسی اسکول میں نوکری کرنے کا کہتی تو وہ ناراض ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہتا "میری بہنا! تم دونوں میاں جی کے خواب پورے کرنے کے لئے اپنی پڑھائی مکمل کر لو، پھر جہاں چاہے نوکری کر لینا، ارے پگلی، میں جو سارا دن کام کرتا ہوں، وہ تم دونوں کو پڑھانے کے لیے ہی تو کرتا ہوں نا….” یہ کہہ کر اس کی آنکھوں میں نمی آ جاتی تھی۔

چند دنوں سے فخر گل موبائل فون اور کمپیوٹر لینے کا مطالبہ کرنے لگا تھا، اسکول سے گھر آ کر اپنی ماں سے بحث و تکرار کرتا رہتا کہ مجھے موبائل اور کمپیوٹر لے کر دیں، اگر دونوں چیزیں نہیں تو صرف کمپیوٹر ہی لے دیں، جماعت میں سب لڑکوں کے پاس کمپیوٹر ہے ، آج کل یہ ہر طالب علم کی ضرورت بن چکا ہے ، مجھے بھی اس کی ضرورت ہے۔

رات کو جب عمر گل گھر آیا تو ماں جی نے فخر گل کا مطالبہ اس کے سامنے بیان کر دیا، وہ اپنی ماں کی بات سن کر خاموش ہو گیا، ابھی وہ اپنی ماں کی بات پوری کرنے کا سوچ ہی رہتا تھا کہ زریں گل نے چھت سے آواز دیں۔ "بھیا! اماں …. فخر گل نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا ہے اور رو رہا ہے ، کہتا ہے کہ اگر میاں جی زندہ ہوتے تو میری خواہش ضرور پوری کرتے۔ اے اللہ مجھے بھی ان کے پاس لے جا۔ ” عمر گل کو یہ سن کر شدید دھچکا لگا، وہ یہ الفاظ سننے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس نے تو اپنی پڑھائی، مستقبل اور اپنا سب کچھ ان دونوں کے لیے وقف کر دیا تھا، مگر اب صورتحال واقعی سنگین تھی، عمر گل اور اس کی ماں جلدی سے چھت پر گئے اور فخر گل کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر اس نے دروازہ نہ کھولا۔ آخر عمر گل نے زور لگا کر اندر سے لگی چٹخنی اکھاڑ لی اور جب وہ اندر گئے تو فخر گل اپنے بستر پر اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا، اس کا تکہ آنسوؤں سے تر تھا۔ روتے روتے وہ بے ہوش ہو چکا تھا، عمر گل نے جلدی سے اسے اٹھایا اور قریبی ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے کوشش کر کے اسے جلد ہوش دلایا مگر ہسپتال میں دو دن رہنے کا کہا تاکہ ذہنی کیفیت معمول پر آ جائے۔

تین دن بعد جب فخر گل گھر لوٹا تو اپنے کمرے میں گیا جہاں کمرے کے ایک طرف بالکل نیا کمپیوٹر اور موبائل فون پڑا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، وہ دوڑ کر کمپیوٹر کے پاس چلا گیا اور اسے آن کرنے لگ گیا۔ عمر گل نے میاں جی کی نشانی موٹر سائیکل جو اسے بہت پیاری تھی اسے بیچ دیا تھا تاکہ چھوٹے بھائی کو باپ کی کمی جو احساس ہوا ہے ، وہ آئندہ کبھی نہ ہو۔

رات کو جب دکان سے عمر گل گھر آیا تو آتے ہی چارپائی پر لیٹ گیا، زریں گل اور ماں بھاگ کر اس کے قریب آئے ، اماں نے اس طرح آ کر لیٹ جانے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا ماں ! آج طبیعت بہت اداس ہے ، پھر وہ سارے کام گننے لگا جو اس کی ماں نے اسے کہے تھے ، پھر کہنے لگا "ماں ! کل دکان سے چھٹی کروں اور تمہارے سارے کام کروں گا”۔ پھر اس نے زریں گل سے پوچھا۔ "بہنا تم کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ؟ اگر ضرورت ہو تو ضرور بتانا، کیوں کہ آج تنخواہ میں اضافہ بھی ہوا ہے اور پھر موٹر سائیکل بیچ کر کمپیوٹر اور موبائل خریدنے کے بعد کچھ روپے بچ گئے ہیں "۔ یہ کہہ کر وہ اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر بولا "ماں ! یہاں سینے میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہو رہا ہے "۔ ماں نے کہا بیٹا! تم آرام کرو اور اپنی صحت کا خیال کرو۔ زیادہ نہ سوچا کرو۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے بعد تمہارا ہی سہارا ہے "۔ ماں نے عمر گل کا سر اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا اور اس کے سینے پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگی، عمر گل نے ماں سے پوچھا "ماں ! اب آپ کی صحت کیسی ہے ؟ صبح آپ بھی ڈاکٹر کے پاس جانا اور اچھی سی دوائی لکھوا لانا اور ہاں …. ماں ! فخر گل دونوں چیزیں لے کر خوش تو ہے نا؟ بس ماں ! آپ دعا کریں کہ میں اپنے بہن بھائی کو پڑھا کر بہترین مستقبل دے سکوں "۔

ماں بیٹا ابھی باتیں کرہی رہے تھے کہ عمر گل کے سینے میں اٹھنے والا درد شدید ہو گیا، وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر کھانسنے لگ گیا، ماں نے فخر گل کو جلدی سے آواز دی کہ وہ بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا لائے یا بھائی کو ہسپتال لے جائے ، مگر وہ تو کمپیوٹر پر گیم کھیلتے ہوئے موبائل فون کی ہینڈ فری کانوں میں لگائے گانے سن رہا تھا، اتنی دیر میں عمر گل اپنے بہن بھائی کو پڑھانے اور باپ کی کمی کا احساس نہ ہونے کا خواب لیے ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔

٭٭٭

 

مہلت چوبیس گھنٹے کی

کاشف اور آصف دادی اماں کے پہلو میں لیٹے ہوئے تھے ، دونوں کو دادی اماں کہانی سنانے والی تھیں، جب کافی دیر تک انہوں نے کہانی شروع نہ کی تو کاشف بولا۔

دادی جان کہانی شروع کریں، آج بھی پہلے کی طرح کوئی اچھی سے کہانی سنائیے گا۔

میں ہر روز تمہارے لیے نئی نئی کہانیاں کہاں سے لاؤں، بس ذرا سوچنے دو کوئی نہ کوئی کہانی ضرور یاد آ جائے گی۔ دادی اماں کی بات سن کر کاشف نے کہا۔

دادی جان ہمیں نہیں پتا جہاں مرضی سے کہانی تلاش کریں اور ہمیں سنائیں۔ آپ نے کہانی نہیں سنائی تو نیند کیسے آئے گی، میرا دوست سلیم تو کہتا ہے کہ اس کی دادی جان کے پاس کہانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے ، کیا آپ کے پاس کہانیوں کا خزانہ نہیں ہے۔

کہانیوں کا خزانہ تو میرے پاس بھی ہے میں تو یہ سوچ رہی ہوں کہ آج تمہیں کون سی کہانی سناؤں اب ذرا دم لو۔ دیکھ لو آصف خاموش سے لیٹا ہوا ہے اسے علم ہے کہ جونہی مجھے اچھی سی کہانی یاد آئے گی میں سنانا شروع کر دوں گی۔ یہ سن کر کاشف بھی خاموش ہو گیا۔ وہ بار بار دیوار پر لگے کلاک کی ٹک ٹک کرتی ہوئی سوئیوں کو دیکھ رہا تھا، نو بج چکے تھے مگر دادی جان ابھی تک خاموش تھیں۔ دونوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ آج کی رات بغیر کہانی سنے ہی سونا پڑے گا۔ دونوں نا امید ہو چکے تھے مگر اس وقت ان کے چہروں پر رونق آئی جب دادی جان نے انہیں مخاطب کیا۔

لو بچو، کہانی سننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

ہم نے کون سا ہاتھی گھوڑے سجانے ہیں، بس آپ جلدی سے کہانی شروع کریں۔ آصف شوخ لہجے میں بولا۔

کسی ملک پر ایک ظالم بادشاہ حکومت کرتا تھا۔

دادی جان بادشاہ ہمیں ظالم کیوں ہوتا ہے ، کاشف دادی جان کی زبان سے پہلا جملہ سن کر بولا۔

بادشاہ، بادشاہ ہوتا ہے اسلیے ظالم ہوتا ہے ، دادی جان جو کہانی بھی سناتی ہیں اس میں بادشاہ ضرور ہوتا ہے اور اس کا آغاز بھی اسی طرح ہوتا ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، آصف نے درمیان میں لقمہ دیا ا۔

تمہارا تبصرہ ختم ہو چکا ہو تو کہانی آگے سناؤں۔ دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

ظالم بادشاہ سے رعایا بہت تنگ تھی، اس نے حکم دے رکھا تھا کہ جو بھی زبان کھولے اس کو قید خانے میں ڈال دو۔ کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے ، بادشاہ کے ظلم کے وجہ سے رعایا اس کے خلاف ہو گئی تھی، ایک دن بھرے دربار میں ایک وزیر نے کہا ا۔

بادشاہ سلامت رعایا پر اس قدم ظلم اچھی بات نہیں، رعایا کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے ، یہ بات بادشاہ کو ناگوار گزری، وہ غصیلے لہجے میں بولا۔

مجھے مشورہ دیتے ہو۔

بادشاہ سلامت یہ مشورہ آپ کی بھلائی کے لیے ہے۔

اپنی زبان بند رکھو مجھے علم ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے ، میرے سامنے زبان کھولنے کے جرم میں تمہیں ملک بدر کیا جاتا ہے۔

بادشاہ سلامت یہ ظلم ہے۔ وزیر نے التجا کی۔

ہم نے کہہ دیا ہے اور ہمارا کہا پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔ تمہیں ہمارا حکم ماننا پڑے گا، میں تمہیں چوبیس گھنٹے کی مہلت دیتا ہوں، تم نے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ملک نہ چھوڑا تو تمہیں قتل کروا دوں گا۔ بادشاہ بولتا چلا گیا۔

وزیر نے تو ایسا خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کو بادشاہ سلامت ایسا حکم دیں گے ، اس کی آنکھوں تلے اندھیرا چھانے لگا، وہ پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا تو اس کی عقل مند بیٹی نے اس کے چہرے پر پریشانی کو بھانپ لیا۔

بابا آپ کچھ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

بات ہے ہی پریشانی والا۔ وزیر بولا۔

کونسی بات؟۔

بادشاہ سلامت نے مجھے چوبیس گھنٹے کے اندر ملک چھوڑے کا حکم دیا ہے۔

مگر کیوں ؟۔ وزیر کی بیٹی نائلہ نے پوچھا۔

اس کے جواب میں وزیر نے ساری بات اپنی بیٹی کو بتا دی۔ بابا جان آپ فکر نہ کریں۔

کیسے فکر نہ کرو، میں نے چوبیس گھنٹے میں ملک نہ چھوڑا تو بادشاہ مجھے قتل کر دے گا، وزیر نے نائلہ کی بات بھی پوری نہ ہونے دی۔

میں نے کہا ناں آپ بالکل فکر نہ کریں میں سارا مسئلہ حل کر دوں گی۔

مگر کیسے ؟۔ مجھ پر بھروسہ کریں آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔ میں نے مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے ، آپ بے فکر ہو کر آرام کریں۔ نائلہ کے لہجے میں یقین تھا۔

وزیر کو یقین تو تھا کہ اس کی بیٹی اپنی عقل مندی سے اس کی جان ضرور بچائے گی مگر اس کے باوجود موت کا خوف اس کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا، وہ اپنی بیٹی کے کہنے پر سو تو گیا۔ مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی، اس کو کسی بھی کروٹ چین نہ تھا۔ اس کی نظر مسلسل گھڑی پر تھی، ہر گزرنے والا لمحہ بادشاہ کی دی ہوئی مہلت میں سے کم ہو رہا تھا، اسی پریشانی میں اس نے رات گزاری، جب صبح ہوئی تو ملک چھوڑنے کے لیے صرف بارہ گھنٹے رہ گئے تھے۔

بیٹی وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے ، مجھے تو لگتا ہے کہ میں زندہ نہیں رہوں گا۔

بابا ایسی باتیں مت کریں۔ اللہ نے چاہا تو ہم اسی ملک میں عزت و وقار سے رہیں گے۔

دادی جان کہانی سنارہی تھیں کہ آصف بولا۔

دادی جان چوبیس گھنٹے تو خاصا وقت ہوتا ہے ، وزیر ہوائی جہاز پر سوار ہو کر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلا جاتا۔

بے وقوف اس زمانے میں ہوائی جہاز نہیں تھے ، کاشف نے آصف کو گھورا۔

یہ جس زمانے کی کہانی ہے تب انسان اونٹ اور گھوڑوں کو سواری کے لیے استعمال کرتے تھے ، جب چوبیس گھنٹے ختم ہونے کو آئے تو وزیر کا چہرہ خوف کے مارے زرد پڑ گیا۔ باپ کو خوف زدہ دیکھ کر نائلہ بولی۔

بابا جان آپ مسجد چلے جائیں۔

اس سے کیا ہو گا۔ وزیر نے پوچھا۔

بابا جان! گھبرائیں مت بس مسجد میں جا کر نماز ادا کریں۔

وزیر کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، وہ ڈرتے ڈرتے مسجد میں داخل ہوا۔ وہ مدتوں بعد مسجد میں داخل ہوا تھا۔ وہ دنیا داری میں اس قدر لگا رہا تھا کہ مسجد میں جانے کی اس کے پاس فرصت ہی نہیں تھی۔ مسجد میں جا کر اس نے وضو کیا اور نفل نماز پڑھنے لگا۔ وہ مسجد میں ہی تھا کہ ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ موذن نے خوش الحانی سے اذان دی۔ جب امام نماز پڑھانے کے لے آئے تو وزیر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، وزیر مسجد میں آ کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا، ادھر تو وزیر نماز پڑھنے میں مصروف تھا ادھر بادشاہ کے حکم پر سپاہی وزیر کے گھر موجود تھے ، سپاہیوں نے گھر کی تلاشی لی مگر وزیر کو نہ پا کر ایک سپاہی نے پوچھا۔

اے لڑکی، تمہارا باپ کہاں ہے ؟۔

میرے بابا نماز پڑھنے کے لیے مسجد گئے ہیں۔

یہ سن کر سپاہی مسجد پہنچے تو وزیر دیگر نمازیوں کے ساتھ نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ سپاہی عجیب کشمکش میں مبتلا تھے ، وہ نماز پڑھتے وزیر کو مسجد سے نہیں نکال سکتے تھے ، سپاہی جب بادشاہ کے دربار میں پہنچے تو اس نے پوچھا۔

کیا وزیر نے ملک چھوڑ دیا ہے۔

"نہیں بادشاہ سلامت۔ ” ایک سپاہی نے کہا۔

"وزیر اس وقت کہاں ہے ؟” بادشاہ چلایا۔

وزیر اس وقت مسجد میں نماز ادا کر رہا ہے۔ سپاہی کی بات سن کر بادشاہ سلامت سوچ میں پڑ گیا۔

بادشاہ سلامت اب ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ سپاہی نے نہایت ادب سے پوچھا۔

تم سب جاؤ، بادشاہ بولا۔

سپاہیوں کے جاتے ہی بادشاہ نے علماء سے اس بارے میں رائے طلب کی تو ایک عالم بولے۔

وزیر نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔

وزیر نے کس طرح میرے حکم کی تعمیل کی ہے وہ تو اب تک ملک میں موجود ہے۔ بادشاہ نے کہا۔

آپ غلط کہہ رہے ہیں وزیر اس وقت آپ کے ملک میں نہیں ہے۔

سپاہی ابھی وزیر کو دیکھ کر آ رہے ہیں۔

وزیر اس وقت آپ کے نہیں خدا کے ملک یعنی مسجد میں ہے ، آپ نے وزیر کو اپنے ملک سے نکلنے کا حکم دیا ہے نہ کہ خدا کے ملک سے۔ وزیر نے آپ کا حکم مان لیا ہے۔

عالم نے بادشاہ کو لاجواب کر دیا تھا، یہ بات سن کر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔

آپ نے درست کہا ہے کہ وزیر نے میرا حکم مان لیا ہے۔

میرے بچو! یوں مسجد میں جا کر نماز کی ادائیگی سے وزیر کی جان بچ گئی، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ "نماز مومن کے لیے باعث رحمت ہے "۔ نماز واقعی وزیر کے لیے رحمت ثابت ہوئی تھی۔ پتا ہے اس کے بعد کیا ہوا”۔ دادی جان چند لمحوں کے لیے خاموشی ہوئیں تو کاشف جھٹ بولا۔

"مجھے پتا ہے اس کے بعد کیا ہوا تھا؟”۔

"بتاؤ اس کے بعد کیا ہوا تھا؟”۔ آصف نے پوچھا۔

بادشاہ نے وزیر کی عقل مند بیٹی کو بلا کر اس کی عقل مندی پر انعام کے طور پر آدھی سلطنت اس کے نام کر دی ہو گی اور وزیر سے معافی مانگی ہو گی۔ دادی جان یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آپ جو کہانی سناتی ہیں اس کے آخر میں بادشاہ اپنی آدھی سلطنت انعام کے طور پر کیوں دے دیتا ہے ، اس کی کیا وجہ ہے۔ کاشف مسکراتے ہوئے بولا۔

"اس کی وجہ ہے کہ تمہارا سر، کل سے کہانی بند” اپنی دادی اماں کو ناراض دیکھ کر کاشف نے نعرہ بلند کیا۔

"دادی جان!”

"زندہ باد” آصف نے پر جوش انداز میں نعرے کا جواب دیا۔ دادی اماں نے اپنے پوتوں کا نعرہ سن کر انہیں پیار سے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔

٭٭٭

 

حاتم طائی

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ یمن میں طے نامی ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس قبیلے کے سردار کا نام حاتم طائی تھا۔ حاتم طائی اپنی سخاوت اور خدمت خلق کی وجہ سے مشہور تھا، اس کی سخاوت کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ، اس زمانے میں عرب کا حکمراں نوفل تھا۔ نوفل نے جب دیکھا کہ ہر طرف حاتم کے ہی چرچے ہیں، ہر کوئی اس کی نیکی اور اچھائی کے گن گاتا ہے ، ہر ضرورت مند مدد کے لیے حاتم کے ہی پاس جاتا ہے تو وہ حاتم کا دشمن بن گیا۔ دشمنی کی وجہ صرف یہ تھی کہ بادشاہ کے بجائے ہر کوئی حاتم کی تعریف کرتا تھا۔ حاتم کی سخاوت کے قصے بیان کرتا تھا۔ وہ حاتم سے جلتا تھا کہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی حاتم کی شہرت اس سے زیادہ ہے۔ بادشاہ نے حسد کا شکار ہو کر حاتم کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا اور اس نے اپنی فوج کے ساتھ حاتم کے علاقے پر حملہ کر دیا۔

حاتم کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ اس کے علاقے پر حملہ کر دیا ہے۔ حاتم نے یہ سوچ کر کہ اس کی وجہ سے خون خرابا ہو گا، بے گناہ لوگ مارے جائیں گے ، اس نے اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ حاتم اپنا شہر چھوڑ کر پہاڑوں میں جا کر چھپ گیا۔ بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ جب شہر میں داخل ہوا تو کسی نے اس کی فوج کا مقابلہ نہ کیا، کیوں کہ حاتم طائی شہر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ بادشاہ نے حاتم کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ نے یہ اعلان کرا دیا کہ جو شخص حاتم کو ڈھونڈ کر لائے گا، اس کو بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔

حاتم نے پہاڑ کی ایک کھوہ میں پنا لے رکھی تھی، ایک روز اسی کھوہ کے قریب ایک بوڑھا لکڑہارا اور اس کی بیوی لکڑیاں کاٹ رہے تھے ، وہ بہت غریب تھے اور مشکل سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ روز روز کی محنت و مشقت سے تنگ آئی ہوئی لکڑ ہارے کی بیوی حسرت سے بولی۔ کاش حاتم طائی ہمارے ہاتھ لگ جاتا تو ہم اسے بادشاہ کے حوالے کر کے انعام پا لیتے اور ہمیں روز روز کی اس مصیبت سے نجات مل جاتی۔

لکڑہارا بولا: فضول بات مت سوچ، ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حاتم ہمارے ہاتھ لگ جائے اور ہم انعام حاصل کر کے آرام سے زندگی بسر کر سکیں۔ ہمارے نصیب میں تو یہی لکھا ہے کہ ہم جنگل سے لکڑیاں کاٹیں، سر پر رکھ کر شہر لے جائیں اور ان کو فروخت کر کے اپنا پیٹ بھر لیں۔

حاتم طائی کھوہ کے اندر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا۔ یہ سوچ کر حاتم دل میں خوش ہوا کہ چلو، اس بے سروسامانی کی حالت میں بھی کسی کے کام آسکتا ہوں۔ چناں چہ وہ کھول سے باہر آیا اور بوڑھے میاں بیوی سے بولا، میں ہی حاتم ہوں، مجھے بادشاہ کے پاس لے چلو اور اس کے حوالے کر کے انعام حاصل کر لو، جلدی کرو، اگر کسی اور نے مجھے دیکھ لیا تو پھر تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے۔

حاتم کی باتیں سن کر لکڑہارا بولا: بھائی، تمہارا بہت شکریہ، بے شک ہم غربت کے ستائے ہوئے ہیں، مگر ہم اتنے ظالم نہیں کہ تمہیں بادشاہ کے حوالے کر کے انعام حاصل کریں، ہم اسی طرح محنت مزدوری کر کے زندگی کے دن کاٹ لیں گے ، اپنے آرام کی خاطر ہم یہ ظلم نہیں کریں گے۔

حاتم نے کہا، ارے بھائی، یہ ظلم نہیں، تم مجھے زبردستی پکڑ کر تو نہیں لے جا رہے ہو، میں تو اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ جانے کو تیا رہوں، میرے اوپر تمہارا یہ احسان ہو گا کہ تم مجھے نیکی اور خدمت کا موقع دو گے۔

حاتم نے ان کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن لکڑہارا کسی صورت تیار نہ ہوا تو حاتم نے اس سے کہا، اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میں خود بادشاہ کے پاس جاتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے چھپایا ہوا تھا، پھر بادشاہ تمہیں سزا دے گا۔

لکڑہارا اور حاتم اس بحث میں مصروف تھے کہ کچھ اور لوگ حاتم کو تلاش کرتے ہوئے ادھر آنکے ، انہوں نے حاتم کو پہچان لیا اور اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے ، بوڑھا اور اس کی بیوی بھی ان لوگوں کے پیچھے چل پڑے ، بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر ہر شخص یہ دعوی کر رہا تھا کہ حاتم کو اس نے پکڑا ہے ، وہی انعام کا مستحق ہے ، بہت سارے دعوے داروں کی وجہ سے بادشاہ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ حاتم کو پکڑنے والا کون ہے۔

آخر بادشاہ نے حاتم سے کہا: حاتم، تم ہی بتاؤ کہ تمہیں پکڑ کر لانے والا کون ہے ، تاکہ اسے انعام کی رقم دی جائے۔

حاتم بولا، حضور والا، سچ تو یہ ہے کہ مجھے پکڑنے والا بوڑھا لکڑہارا ہے ، جو چپ چاپ پیچھے کھڑا یہ تماشا دیکھ رہا ہے ، باقی لوگ انعام کے لالچ میں جھوٹ بول رہے ہیں۔

لکڑا ہارا بولا، حضور والا، سچ تو یہ ہے کہ میں بھی حاتم کو پکڑ کر نہیں، بلکہ یہ خود آیا ہے ، پھر لکڑہارے نے بادشاہ سلامت کو تفصیل سے بایا کہ کس طرح لکڑیاں کاٹتے وقت اس کی بیوی نے کہہ دیا تھا کہ اگر حاتم ان کو مل جائے تو وہ اسے بادشاہ کے حوالے کر کے انعام پائیں اور مصیبت کی زندگی سے نجات پائیں، حاتم ہماری باتیں سن کر پہاڑ کی کھوہ سے نکل آیا اور اصرار کرنے لگا کہ ہم اسے بادشاہ کے پاس لے جائیں اور انعام پائیں۔ ہم جب حاتم کو کسی طرح بھی لانے پر تیار نہ ہوئے تو وہ خود ہی آپ پاس آنے کے لیے چل پڑا۔ دوسرے لوگ تو ویسے ہی چل پڑے تھے ، اب یہ سب انعام کی خاطر جھوٹ بول رہے ہیں۔

بادشاہ کو جب حقیقت معلوم ہوئی تو اس نے حاتم سے کہا: حاتم، میں تمہاری شہرت سے تمہارا دشمن بن گیا تھا، مجھے اپنے کیے کا افسوس ہے ، تم واقعی عظیم انسان ہو، جو ہر حال میں دوسروں کی مدد اور خدمت کے لیے تیار رہتے ہو، میں تم سے اپنے کیے کی معافی مانگتا ہوں۔

اس کے بعد بادشاہ نے لکڑہارے کو انعام دیا اور جھوٹے دعویداروں کو سزا دی اور حاتم کا سارا علاقہ اسے واپس کرنے کا اعلان کیا۔

٭٭٭

 

غریب ہی اچھا

ایک آدمی دولت کمانے کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہالینڈ گیا۔ وہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈم پہنچا، اس شہر میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے اس نے ایک بہت عالی شان عمارت دیکھی، بہت دیر تک وہ عمارت کو دیکھتا اور سوچتا رہا کہ یہ کس شخص کا مکان ہے۔ کون خوش قسمت شخص اس میں رہتا ہو گا، وہ کتنا مالدار ہو گا، ایک آدمی قریب سے گزر رہا تھا۔ مسافر نے اس آدمی سے پوچھا کہ یہ کس کا مکان ہے تو اس آدمی نے کہا: کے نی ٹو ورس ٹن۔

ہالینڈ کی زبان میں اس کا مطلب ہے ، میں آپ کی بات نہیں سمجھا لیکن مسافر یہ زبان نہیں جانتا تھا، اس لیے اس نے سمجھا کہ شاید یہ مکان مالک کا نام ہے۔

اس آدمی کی خواہش اور بھی بڑھ گئی کہ چھوٹی موٹی نوکری یا محنت مزدوری کرنے کے بجائے کوئی بڑا کام کرے ، خوب کمائے اور بہت ساری دولت جمع کرے ، اس فکر میں اس نے اور زیادہ کوشش شروع کر دی۔ ایک دن وہ سمندر کے کنارے پہنچا، اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا جہاز گودی پر لگا ہوا ہے اور ہزاروں مزدور سامان اتار رہے ہیں۔ مسافر نے ایک آدمی سے پوچھا۔

"یہ جہاز کس کا ہے ؟”۔

جواب ملا: کے نی ٹو ورس ٹن (میں آپ کی بات نہیں سمجھا) مسافر نے پھر یہی سمجھا کہ یہ جہاز کے مالک کا نام ہے۔ وہ دل میں سوچنے لگا کہ "کے نی ٹو ورس ٹن” کتنا بڑا رئیس ہے جو چیز دیکھو اسی کی ہے۔

کچھ دن بعد مسافر نے دیکھا کہ ایک جنازہ جا رہا ہے ، ہزاروں آدمی جنازے کے جلوس میں شریک ہیں۔ سیاح سمجھ گیا کہ کوئی بڑا آدمی مرگیا ہے ، اس نے سوچا کہ اس آدمی کا نام معلوم کرنا چاہیے ، جب اس نے کسی سے پوچھا تو وہی جواب ملا۔ کے نی ٹو ورس ٹن۔

سیاح کو بہت رنج ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ دیکھو، کوئی آدمی کتنا ہی بڑا ہو، کتنی ہی دولت اور جائیداد کا مالک ہو، موت سے نہیں بچ سکتا۔ تو پھر مال و دولت اکھٹا کرنے سے کیا فائدہ، اب اس آدمی کو دیکھو، سارا مال و متاع دوسروں کے لیے چھوڑ کر رخصت ہو گیا، میں خواہ مخواہ دولت کمانے کی فکر میں ملکوں ملکوں گھوم رہا ہوں، مال دار بننے کی خواہش نے مجھے پریشان کر رکھا ہے ،

نہیں، اب میں لالچ نہیں کروں گا اور جو کام بھی کروں گا، محنت سے کروں گا اور بس اتنا کماؤں گا کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکوں اور عزت سے رہ سکوں۔ محنت اور ایمانداری سے کما کر کھانے میں ہی زندگی مزے سے گزرتی ہے۔

٭٭٭

 

ہائے رے نیند

               سیما سعدیہ

دنیا میں سب لوگوں کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے جس سے دوسرسے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور جس کی کمزوری ہوتی ہے وہ نقصان اٹھاتا ہے ، کچھ اس طرح کی کمزوری میرے بھائی کی بھی ہے مگر اس سے کسی کا فائدہ تو نہیں ہوتا مگر بھائی جان کا نقصان ہو جاتا ہے ، یہ کمزوری کم بیماری زیادہ معلوم ہوتی ہے جس کا خمیازہ عموماً بھائی جان کو اکثر ہی بھگتنا پڑتا ہے۔

ایک دفعہ بھائی جان حسب معمول کلاس میں لیکچر کے دوران سورہے تھے ، ویسے تو فزکس کے پیریڈ میں عموماً سب ہی بچے اونگھ رہے ہوتے ہیں مگر سونے کی ہمت کبھی کسی نے نہیں کی ہو گی، اچانک ہی ٹیچر کی نظر جماعت کی سب سے آخری بینچ پر پڑی جہاں پر بھائی جان بے خبر سورہے تھے ، ان کو دیکھتے ہی مس کا فیوز بھک سے اڑ گیا۔ مس نے بھائی جان کو بہت پیار سے کان کھینچ کر جگایا، بھائی جانے نے موت کے فرشتے کو کبھی اتنے قریب سے نہ دیکھا تھا اس لیے ان کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی، ہاتھ پیر تھر تھر کانپنے لگے اور سر کے بال مس کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے اور ساتھ ہی کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں، مس نے دو ہاتھ بھائی جان کی کمر پر جڑ دیے اس کے بعد بھی مس کا دل نہ بھرا تو چہرے پر بھی تھوڑی بہت نقش و نگاری کر دی، پھر بھائی جان کی صحت کا مزید خیال کرتے ہوئے انہیں وٹامن ڈی سے مستفید ہونے کے لیے باہر دھوپ میں کھڑا کر کے باقی کلاس کو بڑھانے میں مشغول ہو گئیں۔

بھائی جان بے چارے معصوم سی صورت بنا کر کلاس سے باہر نکل گئے ، وہاں پر بھی نیند نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ دیوار کا سہارا لے کر سوگئے۔

آج بھائی جان کی قسمت بھی شا اید بھائی کی طرح سو رہی تھی، اس لیے جب وہ خواب میں دیس دیس کی سیر کو نکلے ہوئے تھے عین اسی وقت پرنسپل بھی اسکول کے گشت پر نکل کھڑی ہوئیں۔ بھائی جان کو کلاس روم سے باہر سوتا دیکھ کر وہ بھی اپنے چہرے کے بدلتے رنگ کو چھپا نہ سکیں، پھر روایتی پرنسپل کی طرح ان کو جائے وقوعہ پر بے عزت کرنے کے بجائے انتہائی عزت و احترام سے اپنے آفس لے کر گئیں اور 100 دفعہ اٹھک بیٹھک کرنے کی فرمائش کر ڈالی۔ میڈیم کی اس فرمائش پر بھائی جان کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ منمناتے ہوئے معافی مانگنے لگے ، مگر یہ کوشش ان کو بہت مہنگی پڑی اور میڈم نے اپنی ڈیمانڈ میں مزید اضافہ کر دیا، انہیں اب 100 کی بجائے 150 مرتبہ اٹھک بیٹھک کرنے کے لیے کہا گیا، لٰہذا انہوں نے توبہ کرنے سے بھی توبہ کر لی اور خاموشی سے میڈم کی فرمائش پوری کرنے لگے ، دس، بیس، پچاس۔ اف ابھی وہ پچاس تک ہی پہنچے تھے کہ ان کی ٹانگیں جواب دے گئیں مگر سزا مزید بڑھ جانے کے خوف سے انہوں نے سزا پر عمل درآمد جاری رکھا اب تو ٹانگوں کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ جسم بھی احتجاج پر اتر آیا تھا، مزید وہ اپنے جسم ناتواں کو مجبور کرتے تو شاید زمین بوس ہی ہو جاتے کہ پرنسپل صاحبہ کو بھائی جان کی حالت پر رحم آہی گیا، انہوں نے باقی ماندہ سزا معاف کرنے کی نوید سناتے ہوئے ایک لمبا چوڑا لیکچر بھی دے ڈالا جس میں رات کو جلدی سونے اور اسکول میں نہ سونے کے فوائد پر روشنی ڈالی گئی تھی، بھائی جان کی نیند تو کب کی رخصت ہو چکی تھی اور ان کے چودہ طبق بھی روشن ہو چکے تھے اس لیے میڈیم کی پوری تقریر حرف بہ حرف انہیں ازبر ہو چکی تھی۔

اس دن اسکول میں ہونے والی عزت افزائی نے انہیں دن میں تاروں کے ساتھ چاند کا بھی دیدار کروا دیا۔ زیادہ اور بے وقت سونے کی عادت میں اب بھی موجود ہے مگر بس اب اسکول میں نہیں سوتے۔

٭٭٭

 

انصاف

               بنت عبدالجبار

وہ ایک انصاف پسند بادشاہ تھا انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا گویا اس کی فطرت میں شامل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی رعایا اس سے بہت خوش تھی اور ملک میں چہار سو امن ہی امن تھا۔

مجرم جرم کرنے سے پہلے سوبار ضرور سوچتا اور ہر دفعہ میں مایوس ہوتا اور لوگ اپنی جان اور مال کی حفاظت سے مطمئن تھے ہر روز بادشاہ کے دربار میں حاجت مند آتے اور بادشاہ ان سب کی ضروریات کو پورا کرتے۔

اور لوگ بادشاہ کی سخاوت اور فیاضی کے باعث خوشی خوشی لوٹتے اور بادشاہ کے چہرے پر پھیلا اطمینان مزید بڑھ جاتا۔

بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا، شہزادہ شہروز۔

بادشاہ سلامت اس سے بہت محبت کرتے تھے اور اس کو ہر وقت رعایا کے ساتھ انصاف کی تلقین کرتے۔

لیکن شہزادہ شہروز اس کے برعکس تھے ان کو اپنے والد کا اس طرح نصیحت کرنا بہت ناگوار گزرتا، آج خلاف معمول شہزادہ شہروز بادشاہسلامت کے دربار میں بیٹھے تھے کہ ایک درباری بادشاہ سلامت کے پاس آیا اور آداب بجالانے کے بعد بولا۔

بادشاہ سلامت کوئی حاجت مند آپ سے ملنے آیا ہے۔ بادشاہ نے اسے اندر لانے کا حکم دیا، جیسے ہی وہ شخص اندر داخل ہوا بادشاہ سلامت کے قدموں میں گر گیا اور زار و قطار روتے ہوئے کہنے لگا۔

بادشاہ سلامات انصاف، انصاف مجھے انصاف چاہیے ، پورے دربار میں سکوت طاری ہو گیا۔

بادشاہ نے اٹھ کر اس کو اپنے قدموں سے اٹھایا اور کہنے لگے ، برخوردار، ٹھہر تم ہمیں اپنے ساتھ کی گئی زیادتی بتاؤ ہر مجرم کو اس کے جرم کا بدلہ ضرور دیں گے۔

وہ شخص روتے ہوئے کہنے لگا۔

بادشاہ سلامت، میں ایک غریب اور کمزدور آدمی ہوں اللہ کی ذات کے علاوہ میرا کوئی سہارا نہیں سوائے اپنے ایک جوان بیٹے کے جو میری بہت خدمت کرتا تھا، مگر، یہ کہہ کر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

مگر کیا؟۔ بادشاہ نے بے چین ہو کر پہلو بدلا، پورے دربار میں پہلے تو سکوت طاری تھا مگر اب تو جیسے سب پر سکتہ ہی طاری ہو گیا تھا۔

مگر بادشاہ سلامت، کل میں اور میرا بیٹا جنگل کی طرف گئے میرا بیٹا تو وہاں بیٹھ کر لکڑیاں کاٹنے لگا اور میں آس پاس کے درختوں میں سے جڑی بوٹیاں تلاش کرنے لگا۔ یہ کہہ کر بوڑھا خاموش ہو گیا۔

پھر، بادشاہ سلامت کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

پھر مجھے ایک گولی چلنے کی آوا زسنائی دی میں دوڑ کر اپنے بیٹے کے پاس پہنچا مگر، مگر یہ دیکھ کر میرا پورا بدن لرز کر رہ گیا کہ مجھ سے پہلے اس اندھی گولی کا نشانہ میرا بیٹا بن چکا تھا، جسم سے تیزی سے بہتا ہوا خوش اور خون آلود کپڑے۔

کیا۔ بادشاہ کی حیرت اور صدمے میں ملی جلی آواز آئی۔

بادشاہ سلامت، آپ کے دربار سے تو کوئی بغیر انصاف کے نہیں جاتا مجھے بھی انصاف چاہیے۔

ضرور تمہیں انصاف ملے گا مگر کیا تم مجھے اپنے بیٹے کے قاتل کا نام بتا سکتے ہو۔

بادشاہ سلامت نے اس بوڑھے سے سوال کیا۔

جی بادشاہ سلامت، میں نے اس سے اسی وقت اس قاتل کا نام پوچھا تھا۔

پورے دربار میں سکون طاری تھا اور ہر کوئی قاتل کا نام سننے کے لیے بے چین تھا۔

بادشاہ سلامت، وہ قاتل آپ کا بیٹا شہزادہ شہروز ہے۔

کیا، بادشاہ کا چہرہ شدت غم و غصے سے سرخ ہو گیا۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔

جی بادشاہ سلامت وہ آپ کا ہی بیٹا تھا۔

شہزادہ شہروز کا رنگ بالکل زرد اور اس کا جسم سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا۔

کچھ دیر بعد بادشاہ سلامت کی آواز دربار میں گونجی، تمہیں ضرور انصاف ملے گا اور ایسا انصاف ملے گا کہ پوری دنیا اس انصاف کو یاد کرے گی۔

بادشاہ سلامت نے خادم کو حکم دیا کہ وہ آج شام کو پورے ملک میں منادی کرے کہ جس کو آج بادشاہ کا انصاف دیکھنا ہو وہ آج شام کو میدان میں جمع ہو جائے۔

لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں، کوئی کہتا، بادشاہ کا ایک ہی تو بیٹا ہے اور بادشاہ سلامت اس سے محبت بھی تو بہت کرتے ہیں۔

کوئی کہتا، اس بوڑھے کو بادشاہ کے پاس آنے کی کیا ضرور تھی پتا بھی ہے بادشاہ سلامت کتنے انصاف پسند ہیں ذرا سی بھی حق تلفی برداشت نہیں کرتے ، اب اللہ ہی جانے وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، اللہ کرے کچھ اچھا ہی فیصلہ کریں۔ غرض کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ مگر ہوتا تو وہی جو انصاف کہتا ہے۔

شام ہوتے ہی پورا مجمع ایک میدان میں جمع ہو گیا، انسانی سروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ایسا لگتا تھا کہ یہاں صرف انسانی سر ہی سر ہوں۔

اتنے میں بادشاہ آ گئے۔

سب کی سانسیں رکی ہوئی تھیں کہ نہ جانے کیا فیصلہ ہو گا کیوں کہ بادشاہ کی صرف ایک اولاد تھی صرف اور صرف ایک، اور ایک اولاد کے لیے اس طرح کا فیصلہ کرنا بہت دم خم کی بات تھی۔

اتنے میں بادشاہ سلامت کی آواز گونجی، جی تو میرے بزرگو، میرے نوجوانو اور میرے بچو!۔

السلام و علیکم۔

ہاں تو آج کا دن انصاف کا دن ہے ، آپ سب سمجھ رہے ہوں گے کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے تو میں اس کی لغزش کو معاف کر دوں گا، نہیں نہیں ہرگز نہیں۔ میں تو اپنے بیٹے کی وہی سزا تجویز کروں گا جو انصاف کہے گا اور میں نے اس فیصلے کو کل تک موخر بھی اس لیے نہیں کیا کہ میری موت آئے تو میں اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ سب لوگ بادشاہ کے اتنے بڑے حوصلے پر حیران تھے۔

جی تو میرے بزرگ، آپ اپنے بیٹے کے قاتل کی کیا سزا تجویز کرتے ہیں۔ بادشاہ نے بزرگ سے پوچھا۔

ماحول میں پہلے تو سکون طاری تھا مگر اب تو جیسے سب پر سکتہ طاری ہو گیا تھا لوگوں کی سانسیں تھم گئیں اور لوگ اپنی آتی جاتی سانسوں کی بخوبی آواز سن رہے تھے۔ شہزادہ شہروز سب کے سامنے شرمندہ سرجھکائے ہوئے کھڑے تھے۔

اسی عرصے میں اس بوڑھے کی آواز گونجی۔

بادشاہ سلامت، کیا آپ نے قرآن مجید کی وہ آیت نہیں پڑھی کہ اے ایمان والو، تم پر مقرر کیا گیا ہے قصاص (قتل) کے بدلے۔۔۔ ؟،

جی ضرور پڑھی ہے۔ بادشاہ نے کہا۔

تو پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ جو آپ فیصلہ کریں۔ بوڑھے شخص نے اپنا اختیار بادشاہ کو سونپ دیا۔

بادشاہ نے اپنے بیٹے کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا، شہزادہ شہروز آس بھری نگاہ سے اپنے باپ کو دیکھ رہے تھے۔

لیکن بادشاہ نے توجہ نہیں دی کیوں کہ وہ ان کی اولاد تھی اور وہ حکم خداوندی پر اپنی اولاد کو کیسے ترجیح دیتے ؟۔

جی تو حاضرین! فیصلہ ہو چکا ہے ، میں اپنے بیٹے کو سزائے موت کا فیصلہ سناتا ہوں کیوں کہ قتل کے بدلے قتل۔

نہیں نہیں نہیں۔ مجمع سے کئی آوازیں ابھریں، بادشاہ نے قدرے حیرت سے ان سب کی طرف دیکھا۔

بادشاہ سلامت آپ کا ایک ہی تو بیٹا ہے آپ اسے اس طرح فیصلہ مت سنائیں۔

نہیں، بادشاہ کی اطمینان بھری آواز آئی، میں اپنے بیٹے کی خاطر انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، اگر آج میں نے اپنے بیٹے کو معاف کر دیا تو کل قیامت کے دن اس نوجوان کا خون میرے سر پر ہو گا کیا اس وقت مجھے اللہ کے عتاب سے کوئی بچا لے گا۔

سب کے سر جھک گئے۔

بوڑھا آگے بڑھا اور کہنے لگا۔ بادشاہ میں نے اس کو معاف کیا خدارا آپ بھی اس کو معاف کر دیں۔

بادشاہ نے حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ جی بادشاہ سلامات مت دیجیے ان کو سزا معاف کر دیجئے اس کو۔

مگر میری ایک شرط ہے ، بادشاہ گویا ہوئے۔

وہ کیا بادشاہ سلامت۔ اس بوڑھے نے پوچھا۔

میرا یہ بیٹا آج سے تمہارا بیٹا بن کر رہے گا اور تمہاری خدمت کرے گا میں بھول جاؤں گا کہ میرا بھی کوئی بیٹا تھا۔

بادشاہ کا انصاف ہو چکا تھا، بادشاہ نے انصاف کی خاطر اپنا اکلوتا لخت جگر بھی قربان کر دیا۔

مگر کیوں قربان کیا۔

کیا آپ نے یہ پوری کہانی پڑھ کر سوچا۔ اس لیے کہ انصاف سے قومیں متحدہ رہتی ہیں۔

انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور گناہوں میں کمی آتی ہے۔

لیکن آج ہم نے سوچا کہ ہم پر کیوں مصائب آ رہے ہیں، کیو مشکلات سر پر کھڑی ہیں، ہم پر آزمائشیں کیوں آ رہی ہیں، سیلاب، زلزلوں، قحط سالی، بھوک، بے روزگاری، مہنگائی کی صورت میں، ان سب کو ختم صرف انصاف ہی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے ، اگر آپ سوچیں تو۔

٭٭٭

 

کہا نہ ماننے کا انجام

               مصطفے مغل

اف میرے خدا، اتنی گرمی اور اوپر سے ان بجلی والوں نے بجلی بھی لے رکھی ہے ، حامد نے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔

یار رات کو تو نیند ہی نہیں آتی بجلی جاتی ہے ، اور جناب مچھر صاحب کی زیادت ہو جاتی ہے ، ویسے علامہ اقبال اور واپڈا کا ایک ہی مقصد ہے سوئی ہوئی قوم کو جگانا۔ علی کے اس جملے پر سب کو ہنسی آ گئی، 4گھنٹے گزر چکے تھے مگر بجلی آنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی جیسے وہ ہم سے روٹھ گئی ہو، دھڑک کی آواز سے دروازہ کھلا۔

آؤ حارث آؤ، تمہاری ہی کمی تھی، علی نے اندر آتے ہوئے حارث سے کہا۔

ایک خوشخبری لایا ہوں۔ حارث نے چہکتے ہوئے انداز میں کہا۔

کہیں تمہارے گھر میں یو پی ایس یا جنریٹر تو نہیں آ گیا، علی نے ہاتھ میں موجود پنکھے کو روکتے ہوئے کہا۔

حارث نے سنجیدہ لہجے میں کہا، نہیں یار آج تو ہم نہر پر جا رہے ہیں وہ !بھی۔۔۔۔۔

کس کے ساتھ، کامران نے کہا۔

یار ہم اب بچے نہیں رہے ہیں جو اپنے بڑوں کی انگلی تھامے چلیں، اپنے آس پاس دیکھو اب ہم بڑے ہو گئے ہیں۔ حارث نے قابل دلیل دیتے ہوئے قابل وکیل کی طرح جواب دیا۔

ابھی ہم اتنے بڑے بھی نہیں ہوئے ہیں کہ ہم خود کو اپنے والدین سے بھی عقلمند اور بڑا سمجھیں۔ علی نے دونوں کے درمیان بولتے ہوئے کہا۔

میں جس کام کے لیے آیا تھا ہم ابھی جا رہے ہیں ہمارے ساتھ چلنا چاہتے ہو تو چل سکتے ہو۔

میں چلوں گا۔ علی نے جواب دیا۔

میں نہیں جاؤں گا، کامران نے کہا۔

اور کون کون جا رہا ہے ، تم میں اور میرے دوست، حارث نے بات کو کاٹتے ہوئے جواب دیا۔

تو پھر چلیں، ہاں تم تیاری کر لو، کامران جاتا تو کچھ اور مزہ تھا۔ علی نے کہا۔

ارے یار اگر وہ نہیں جانا چاہتا تو نہ سہی اس کو منت سماجت کرانے کی عادت ہے ، اتنی منت سماجت اچھی نہیں ہوتی، حارث نے نہر کے قریب رکتے ہوئے جواب دیا۔

چلو یار، سب باتیں چھوڑو، آؤ پل پر سے چھلانگ لگاتے ہیں ِ بہت مزہ آئے گا۔

نہیں یار، پانی بہت زیاد ہے رہنے دو کم پانی والی جگہ پر نہاتے ہیں۔

تو تو ڈرپوک نکلا ہے دیکھ میں تجھے قلابازی لگا کر دکھاتا ہوں۔

حارث ہم یہاں پر کرتب دکھانے نہیں آئے ہیں۔ رہنے دو حارث ہمیں تو ڈر لگ رہا ہے ، حارث کے ساتھ آئے ہوئے حامد نے ڈرتے ہوئے انداز میں کہا۔

تم تو سارے ڈرپوک نکلے۔ دوستوں کے کہنے کے باوجود حارث نہ رکا چھلانگ مارتے ہوئے حارث کا پاؤں پھسلا اور وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور بے قاعدہ پاؤں مارنے لگا اور ڈبکیاں کھانے لگا، علی کی نظر حارث پر پڑی تو علی بھاگتے ہوئے ایک آدمی کو بلا لایا۔ آخر کار بڑی مشکل سے ایک آدمی نے حارث کو باہر نکالا۔ ہسپتال میں حارث کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے دوستوں اور والدین کو اپنے پاس پایا تو اس کے اٹھتے ہی سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔

اگر تم نے نہانا جانا تھا تو اپنے بڑے بھائی کو ساتھ لے جاتے۔ تم بغیر بتائے ہی چلے گئے۔ تمہیں آزادی دی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم کہیں بھی جاؤ۔ اس کے ابو نے پیار بھرے انداز میں کہا۔ آہستہ آہستہ اس کو اپنے دوستوں کی اور اپنے والدین کی نصیحتوں کا خیال آ رہا تھا اور وہ رو رہا تھا حالاں کہ اس کی آنکھ میں ایک قطرہ بھی آنسو نہ تھا کیوں کہ یہ خون کے آنسو تھے۔

٭٭٭

 

میاں وہمی بنے دکاندار

               محمد توصیف ملک

بچو ایک دن میاں وہمی نے اپنی کثیر رقم ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا۔ انہیں یہ خیال سوجھا کہ شہر میں ایک اچھا خاصا جنرل اسٹور بنایا جائے۔ انہوں نے شہر کے ایک بڑے چوک پر دکان کرائے پر حاصل کی اور سامان خریدنے مارکیٹ کا رخ کیا۔ میاں وہمی نے ہر چیز وافر مقدار میں خرید لی۔ اب کیا تھا؟ دکان کی جگہ کم پڑ گئی اور انہیں ایک اور دکان کرائے پر خریدنا پڑی لیکن یہ دکان پہلی دکان سے کچھ فاصلے پر تھی۔ میاں وہمی صبح سویرے ہی دونوں دکانیں کھول لیتے۔

بچو آپ کو پتا ہی ہے کہ ایک آدمی کے لیے بیک وقت دو دکانوں پر کام چلانا کتنا مشکل کام ہے لیکن میاں وہمی اس وہم کا شکار تھے کہ اگر کسی اور بندے کو تنخواہ پر رکھ بھی لیا جائے تو اس کا کیا اعتبار، ایک دن ایک گاہک ٹوتھ پیسٹ اور بجلی کا بلب خریدنے میاں وہمی کی دکان پر آیا۔ میاں وہمی نے اسے ٹوتھ پیسٹ تو دے دیا لیکن بلب دوسری دکان پر پڑا تھا۔ اب میاں وہمی گاہک کو اپنے ساتھ لے کر دوسری دکان پر چل دیے اور پہلی دکان کھلی ہی چھوڑ گئے۔ گاہک کو فارغ کر کے میاں وہمی سامان کو ترتیب دینے لگ گئے۔ وہ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد پہلی دکان پر واپس آئے تو یہ دیکھ کر سخت پریشان ہو گئے کہ وہاں کسی چیز کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ دراصل کچھ شرپسندوں نے دن دیہاڑے ہی میاں وہمی کی دکان کو لوٹ لیا تھا۔ میاں وہمی یہ سمجھے کہ شاید وہ بھولے سے کسی اور دکان پر آ گئے ہیں کیوں کہ ان کی دکان کافی بھری ہوئی تھی۔ اب لگے میاں وہمی شہر بھر میں اپنی دکان تلاش کرنے۔ کبھی ایک دکان تو کبھی دوسری دکان، کبھی کسی سے پوچھتے کبھی کسی سے۔ بالآخر ایک جنرل اسٹور میں داخل ہوئے اور اس کے مالک سے جھگڑنے لگے کہ یہ تو میری دکان ہے۔ دیکھو یہ ٹوتھ پیسٹ، یہ کریمیں، یہ جرابیں یہ بچوں کے سوٹ یہ سب میں نے خریدے ہیں۔ لوگوں نے میاں وہمی کو بہت سمجھایا کہ ایسا سامان کسی اور کے پاس بھی ہوسکتا ہے لیکن وہ اپنے وہم پر جمے رہے اور جھگڑا کرتے کرتے شام ہو گئی۔ کچھ دکانداروں نے آ کر میاں وہمی کوبڑے اچھے طریقے سے سمجھایا تو ان کی عقل میں بات آ گئی۔ اب وہ دوسری دکان پر پہنچے تو وہاں بھی یہی حال تھا۔ اب لگے وہ سٹپٹانے لیکن اب کیا کیا جا سکتا تھا۔

بچو، میاں وہمی نے ہمت نہیں ہاری اور دوبارہ سامان خریدا لیکن تھورا سا، اب انہوں نے ایک ہی دکان پر اکتفا کرنے کا سوچا۔ میاں وہمی اب خوش تھے کہ چلو دو دکانوں کے بکھیڑے سے تو جان چھوٹی لیکن ان کی اپنے وہم سے جان نہ چھوٹ سکی جب بھی کوئی گاہک آتا تو وہ بار بار دی ہوئی رقم گنتے جس سے گاہک کا کافی وقت ضائع ہوتا۔ ایک دن میاں وہمی کو شک پڑا کہ گاہک کا دیا ہوا نوٹ جعلی ہے ، اب وہ نوٹ ہاتھ میں لیے مختلف دکانوں پر گئے کبھی کسی کودکھاتے تو کبھی کسی کو۔ کبھی کہتے کہ دیکھو یہ نوٹ جعلی ہے کیوں کہ اس میں قائد اعظم کی تصویر واضح نہیں ہے۔ اس تصویر میں جناح کیپ ٹیڑھی نظر آ رہی ہے۔ اس میں کوٹ کا رنگ ذرا مدھم سا ہے۔ اس نوٹ کا کاغذ بوسیدہ ہو چکا ہے۔ گاہک میاں وہمی کی ان حرکتوں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے دوسری دکانوں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ میاں وہمی اب سارا سارا دن اپنی دکان پرمکھیاں مارتے رہتے۔ اگر کوئی اکا دکا گاہک بھولے سے آ جاتا تو وہ آئندہ کے لیے ان کے پاس آنے سے توبہ کر لیتا۔

میاں وہمی نے اپنی دکان چلانے کا یہ منصوبہ سوچا کہ گاہکوں کو لمبے ادھار پر چیزیں فروخت کر دی جائیں۔ اب میاں وہمی کی دکان پر سخت بھیڑ رہنے لگی اور وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے کہ ان کی دکان کافی چل رہی ہے۔ وہ یہ سوچ کر بہت محظوظ ہوتے کہ اب تو شام تک گاہکوں کا رش ہی ختم نہیں ہوتا لیکن گاہک تو میاں وہمی کو ایک نہایت ہی وہمی قسم کا انسان سمجھتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ کم و بیش دو ہفتوں میں ہی ان کی دکان ختم ہو گئی اور اب ان کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ وہ مزید سامان خریدسکیں۔ انہوں نے دکان کو تالا لگایا اور گاہکوں کے گھر جا کر رقم کا مطالبہ کرنے لگے لیکن کوئی کہتا میاں صاحب آپ نے تو ایک ماہ کے ادھار پر چیزیں دی ہیں کوئی کہتا کہ دو ماہ کے ادھار پر چیزیں دی ہیں۔ ان کا کوئی بس نہ چل رہا تھا۔ آخر انہیں یہ یاد آیا کہ ایک گاہک نے ان سے اکٹھا دس ہزار کا سامان خریدا ہے اور کل رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا۔ میاں وہمی دفعتاً اس کے گھر پہنچ گئے اور اسے اس کا وعدہ یاد دلایا لیکن گاہک نے یہ کہتے ہوئے پیسے دینے سے انکار کر دیا کہ میاں وہمی صاحب میں نے کل کا وعدہ کیا تھا لیکن کل تو کل ہی نا۔ میاں وہمی نے فوراً اس سے معذرت کرتے ہوئے کہا۔ ہاں بھئی کل تو کل ہی ہے میں کل ہی آ جاؤں گا۔

میاں وہمی یہاں بھی اپنے وہم کا شکار ہو گئے اور یہ بھول گئے کہ کل تو کبھی نہ آئے گا۔ وہ جب بھی گاہک کے پاس جاتے تو وہ بھی یہی کہتا کہ میں نے تو کل کا وعدہ کیا ہے آپ آج ہی آ گئے۔ میاں وہمی اس سے معذرت کرتے اور کل آنے کا کہہ کر واپس آ جاتے۔ میاں وہمی نے اسی کل کی تلاش میں کوئی دو ماہ گزار دیے وہ روزانہ اپنے پرانے گاہک کے پاس جاتے اور ناکام ہی واپس لوٹ آتے۔

میاں وہمی اب اس وہم کا شکار ہو گئے کہ اگر ایک گاہک کا کل ابھی تک نہیں آ رہا تو باقی گاہکوں کے دو دو ماہ کب تک آئیں گے۔ وہ یہ بات سوچ کر بے فکر ہو کر گھر بیٹھ گئے کہ جب کل آئے گا تو پیسے بھی مل جائیں گے۔

٭٭٭

 

دوست کی پہچان

               پروفیسر محمد ظریف

امی تو مجھے اس بات کی نصیحت کرتی ہی رہتی ہیں کہ میں احمر سے دوستی نہ رکھوں، مگر ابو نے تو حد ہی کر دی۔ اب تک تو وہ مجھے کبھی ہلکی سی ڈانٹ پلا دیتے تھے ، مگر آج تو انہوں نے بڑا ظلم کیا۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ میں احمر کے ساتھ ڈبو کھیل رہا تھا تو انہوں نے وہیں پہنچ کر سب کے سامنے مجھے تھپڑ رسید کیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور گھیسٹتے ہوئے گھر تک لے آئے ، لو بھلا یہ کیا بات ہوئی، پتا نہیں انہیں کیا ہو گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا خیال بھی نہیں کیا کہ میرے دوستوں کی موجودگی میں میری کتنی بے عزتی ہوئی تھی اور وہ، جعفر اور رافع میری حالات دیکھ کر کیسے بری طرح ہنس رہے تھے ، اب میں کوئی بچہ نہیں رہا۔ میٹرک میں پڑھنے والا سولہ برس کا جوان لڑکا ہوں اور پھر ڈبو کھیلنے میں برائی کیا ہے۔ کبھی کبھی دس بیس روپے کی شرط لگتی یا ہار جیت ہوتی ہے تو وہ بھی اس کھیل کا ایک حصہ ہی ہے۔ مگر میرے شریف ماں باپ مجھے تو وہ جینے ہی نہیں دیتے ، احمر اگار برا ہے تو کیا ہو، وہ جانے اور اس کا کام، کیا ابو نے یہ بات نہیں سنی کہ دوست کی دوستی سے غرض ہے اس کے فعال سے کیا تعلق؟ اگر احمر برا لڑکا ہے بھی، تو کم از کم میں تو نہیں ہوں، کمال اوندھے منہ اپنے بستر پر لیٹا ہوا دل ہی دل میں یہ سب کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کا دل بڑا بے چین سا تھا۔ کبھی وہ بڑبڑاتا تو کبھی من ہی من میں پیچ و تاب کھانے لگتا۔ اس کے خیال میں آج اس کے والد جمال صاحب نے سرعام اس کی بے عزتی کر دی تھی اور وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ اپنے دوستوں کو کیا منہ دکھائے گا۔

کمال کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے والد جمال صاحب شہر کی ایک بڑی مارکیٹ میں بچوں کے سلے سلائے کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے ، مگر ان کی دکان داری محدود پیمانے پر تھی۔ کمال ان کی سب سے بڑی اولاد تھا۔ اس کے بعد چودہ سالہ جلال اور بھر دو بہنیں فاطمہ اور مریم تھیں۔ کمال صاحب پڑھے لکھے دکاندار تھے۔ کاروبار میں دیانت ان کا اصول تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کمال لکھ پڑھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بنے ، کیوں کہ ہمارے پیارے ملک کو ایسے لوگوں کی بڑی ضرورت ہے ، مگر بدقسمتی سے کمال کی دوستی پہلے احمر جیسے لڑکے سے ہوئی، جو عمر میں اس سے کوئی دو برس بڑا تھا اور پھر اس کے توسط سے جعفر اور رافع جیسے لڑکے بھی اس کے دوست بن گئے ، علاقے میں احمر کی اچھی شہرت نہ تھی، اس کے والد طاہر علی اپنے نام کے بالکل الٹ تھے ، طاہر پاکیزہ یا پاک کو کہتے ہیں مگر طاہر علی بڑا گھناؤنا کام کیا کرتا تھا، نوجوان نسل کی رگوں میں زہر اور موت اتارنے کا کام، وہ نشہ آور چیزیں فروخت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ قانون کے شکنجے میں جکڑا گیا، اور اب دس برس کی جیل کاٹ رہا تھا، اس کے جیل جاتے ہی اس کا بیٹا احمر بالکل آزاد ہو گیا، گھر میں ناجائز دولت موجود تھے ، جسے وہ دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا تھا، یوں تو باپ کی موجودگی میں ہی اس کے لچھن درست نہ تھے اور کیوں ہوتے ، وہ اپنے والد کے نقش قدم پر ہی تو چل رہا تھا۔

کمال اچھا طالب علم تھا اور توقع تھی کہ وہ بورڈ کے امتحانات میں کوئی نہ کوئی پوزیشن ضرور حاصل کرے گا۔ مگر احمر کی دوستی کی وجہ سے اس کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی تھی اور وہ ششماہی امتحانات میں دو مضامین میں بہت کم نمبر لے کر کامیاب ہوا تھا۔ دیگر مضامین میں بھی اس کے نمبر 60 فیصد بھی نہ تھے ، احمر نے اسے ڈبو جیسے فضول اور وقت ضائع کرنے والے کھیل کا عادی بنا دیا تھا۔ وہ شرطیں لگا کر یہ کھیل کھیلا کرتا۔ ابتداء میں وہ جان بوجھ کر ہارتا رہا، تاکہ احمر شرط کی رقم حاصل کر کے خوش ہو جائے ، مگر پھر اس نے جیتنا شروع کیا تو کمال کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو گئیں، اس کا سار جیب خرچ شرطیں ہارنے میں صرف ہونے لگا، اور جب اس سے بھی کام نہ چلا تو وہ مختلف بہانوں سے اپنی ماں سے پیسے مانگتا اور ڈوب کے ڈبے میں پھینک دیتا۔ جب اس کی ماں کو اس بات کا پاتا چلا تو وہ اس پر بہت ناراض ہوئیں۔ کمال صاحب نے بھی اسے کئی بار ڈانٹا، مگر وہ باز نہ آیا اور آخر ایک دن وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔

کمال روانہ شام کو پانچ بجے کے قریب ٹیوشن پڑھنے کے لیے اکیڈمی جانے کی بجائے اسی ڈبو کلب میں چلا جاتا اور وہ گھنٹہ کا وقت وہیں گزار دیتا۔ جمال صاحب تقریباً نو بجے شب کو گھر واپس آیا کرتے تھے۔ انہیں اس بات کی خبر بھی ہوتی کہ کمال اکیڈمی جاتا ہے یا نہیں، مگر ایک روز ان کی طبیعت ناساز ہو گئی تو انہوں نے سرشام ہی دکان بند کر دی اور گھر واپس آنے لگے ، چوں کہ گھر سے ان کی دکان کا فیصلہ ایک ڈیڑھ کلو میٹر ہی تھا اس لیے وہ عموماً پیدل ہی دکان پر جاتے اور پیدل ہی گھر واپس آتے۔ کمال کا ڈبو کلب ان کے راستے میں پڑتا تھا۔ انہوں نے جب کمال کو وہاں ڈبو کھیلتے ہوئے دیکھا تو غصے میں آگ بگولا ہو کر اس کے ایک زور دار طمانچہ رسید کیا، اور اس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً گھسیٹے ہوئے گھر لے آئے۔

نو بجے شب گھر کے تمام لوگ ایک ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر رات کا کھانا کھاتے تھے ، اب نو بج رہے تھے ، کمال کی امی دسترخوان پر کھانا چن رہی تھیں، مگر کمال کھانے پر نہیں پہنچ ا تھا۔

جمال صاحب عشاء کی نماز ادا کر کے واپس آئے تو وہاں کمال کو موجود نہ پا کر حیرت زدہ رہ گئے ، انہوں نے اپنی بیگم سے اس کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں انہیں بتایا کہ کمال اپنے بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ وہ تیر کی طرح سیدھے کمال کے کمرے میں پہنچے اور اسے وہاں اوندھے منہ پڑا دیکھ کر ذرا ٹھٹکے اور پھر آگے بڑھ کر بڑی شفقت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔

کمال بیٹا اٹھو، کھانے پر تمہارا انتظار ہو رہا ہے۔

اور پھر جیسے ہی باپ کی پیار بھری انگلیوں کا لمس محسوس کر کے کمال نے اپنے چہرہ ان کی طرف موڑا تو جمال صاحب اس کی آننسو بھری آنکھیں دیکھ کر آزردہ ہو گئے ، ادھر جمال بڑی آہستگی کے ساتھ کہہ رہا تھا۔

مجھے بھوک نہیں ہے ابو، آپ جا کر کھانا کھا لیں۔

ارے بھئی تمہیں بھوک کیوں نہیں، آج تو تمہیں دوہری بھوک لگنی چاہیے ، آج تم نے میرا ایک تھپڑ تو کھایا ہے ناں۔ انہوں نے اس کے پیٹ میں گدگدی کرتے ہوئے کہا۔ مگر کمال نے آہستگی کے ساتھ ان کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا۔ ابو مجھے واقعی بھوک نہیں ہے ، آپ دسترخوان پر جائیں۔ سب لوگ آپ کے منتظر ہوں گے۔ بیٹے کو یوں آب دیدہ دیکھ کر کمال صاحب کا دل کٹ گیا۔ وہ اسے بستر سے اٹھا کر اپنے گلے سے لگاتے ہوئے بولے۔

اوہو اب سمجھا ہمارا بیٹا ناراض ہے ہم ہے ، چلو چلو اٹھو سیدھے چلو دسترخوان پر، پھر ہوں گے صلح صفائی کی باتیں۔

وہ مزاحیہ انداز میں کہہ رہے تھے ، انہیں اس طرح بات کرتے دیکھ کر کمال بڑی آہستگی کے ساتھ بستر سے اترا اور بوجھل قدموں کے ساتھ برآمدے کی طرف چل دیا۔ جہاں چوڑا چکلا دسترخوان پختہ فرش پر بچھا ہوا تھا، اس گھر میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ موجود تھے ، مگر کھانا ہمیشہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کھایا جاتا تھا یعنی نیچے زمین پر دسترخوان بچھا کر، سکون سے بیٹھ کر۔

کمال کو دیکھ کر اس کی امی، بھائی جلال اور بہنوں کے چہرے کھل اٹھے ، کمال نے جیسے ہی کھانا کھانا شروع کیا تو وہ بھی لمبے لمبے ہاتھ مارنے لگے ، کھانے کے بعد سبب لوگ قہوہ پینے کے لیے بیٹھک میں جمع ہو گئے ، اب جمال صاحب نے کمال سے کہا۔

اچھا بیٹا، اب مجھے ذرا سوچ کر بتاؤ کہ میں نے تمہیں تھپڑ کیوں مارا تھا اور تمہیں گھسیٹ کر اپنے ساتھ کیوں لایا تھا۔

ابو آپ میرے والد ہیں، آپ کی مرضی، میں کیا بتا سکتا ہوں۔ اس نے آہستگی کے ساتھ جواب دیا۔ نہیں بیٹا نہیں …. تم سب کچھ جانتے ہو تم ننھے بچے نہیں ہو۔ ماشاء اللہ سولہ برس کے جوان ہو، تم خود سوچو، پہلے تو تم نے احمر جیسے لڑکے کے ساتھ دوستی کی، جو عمر میں تم سے بڑا ہے ، پھر تم نے اس کے ساتھ ڈبو کھیلنا شروع کیا، آہستہ آہستہ شرطیں لگا کر کھیلنے لگے ، یہ بھی جوئے کی ایک قسم ہے جو ہمارے دین کے مطابق بالکل حرام ہے ، احمر ایک بدنام اور سزا یافتہ شخص کا بیٹا ہے ، جو خود بھی بری عادتوں میں مبتلا ہے تم لاکھ اچھے سہی، مگر تم اس کی صحبت میں بیٹھ کر برے نہ بنتے تو بدنام ہو جاؤ گے۔ یہ کہہ کر وہ سانس لینے کے لیے تھوڑی دیر رکے اور پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولے۔ بیٹے یاد رکھو…. ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، ابھی وہ آگے کچھ اور کہتے کہ اکمل ان کی بات کاٹ کر بولا۔

ابو جہاں تک دین کا تعلق ہے تو احمر کا اور میرا دین تو ایک ہے۔ وہ بھی مسلمان ہے اور میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان ہوں۔

کمال کی یہ بات سن کر جمال صاحب ہنس پرے اور پھر بولے۔

بیٹے دین صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ضابطہ حیات بھی ہے ، یعنی زندگی گزارنے کا طریقہ اس میں عبادت، اخلاق اور کردار، روایت اور ثقافت وغیرہ سب کچھ شامل ہے ، اس حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سن کر سمجھ لو۔

جی ابو بتائیے۔ کمال نے بے چینی کے ساتھ دریافت کیا۔

بیٹے کمال صاحب نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر گویا ہوئے۔

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی کے حوالے سے فرمایا ہے۔

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، تو تم میں سے ہر ایک یہ دیکھ لیا کرے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ دوستی کرتے ہوئے اس شخص کا اخلاق و کردار ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ جس کے ساتھ دوستی کی جا رہی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ نصیحت فرمائی ہے کہ ہمیشہ اس شخص کے ساتھ دوستی کرو، جو اعلیٰ اخلاق و کردار کا حامل ہو، کیا تم نے احمد فراز کا یہ مشہور شعر نہیں سنا۔

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

جی ابو میں نے یہ شعر سن رکھا ہے ، کمال نے سر جھکا کر جواب دیا۔

شاباش! اب تم میری بات کا مطلب سمجھ گئے ہو، یاد رکھو دوستی کی مثال خوشبو اور بدبو جیسے ہے ، اگر آدمی کسی گندی جگہ پر بیٹھے گا تو غلاظت اس کے لباس کے ساتھ لگ کر بدبو کا سبب بن سکتی ہے اور اگر خوشبو اور پھولوں کے درمیان ہو گا تو اس کی خوشبو اور اس کے ملبوس کے ساتھ اس کے دل و دماغ کو بھی معطر کر دے گی۔

سمجھے کچھ نالائق…. وہ اس کا کان کھینچ کر بڑے پیارے سے بولے۔

جی ابو جان میں اس حدیث شریف کا مطلب اور آپ کی نصیحت خوب سمجھ گیا۔ اب ان شاء اللہ میں احمر کے ساتھ دوستی بالکل ختم کر دوں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے ، پکا وعدہ۔ کمال بڑے عزم کے ساتھ کہہ رہا تھا۔ ا

بہت خوب…. تم تو بڑے پیارے بچے ہو۔ یہ کہہ کر جمال صاحب نے کمال کو اپنے گلے لگا لیا۔

مگر ابو ایک بات ہے۔ کمال نے شرارت کے ساتھ اپنی گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔

وہ کیا، جمال صاحب نے دریافت کیا۔

وہ یہ کہ احمر کے ساتھ دوستی نہیں کروں گا مگر وہ تو مجھ سے دوستی کر سکتا ہے ناں، میں تو گندا بچہ نہیں ہوں۔ کمال چہکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

کمال کے اس جملے سے سنجیدہ فضا کو پردہ چاک ہوا اور کمرے میں قہقہے گونجنے لگے جب کہ جمال صاحب اس کے گال پر بڑے پیار کے ساتھ ایک ہلکا سا طمانچہ مار کر کہہ رہے تھے۔

چپ شریر کہیں کا، باز نہیں آئے گا اپنی حرکتوں سے۔

٭٭٭

 

ہوکا عالم

               حبیب احمد حنفی

رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے ہوکا عالم تھا ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا مگر وہ ان دیکھے راستوں پر سر پٹ دوڑا چلا جا رہا تھا اس کا دل ایسے دھڑک رہا تھا گویا کہ ابھی نکل کر باہر گر پڑے گا مگر وہ بھاگا چلا جا رہا تھا، اک انجانا سا خوف اسے گھیرے میں لے چکا تھا کہ جیسے کوئی اس کے پیچھے لگا ہوا ہے اور یہی خوف تھا کہ جس نے اسے راستے سے بھی بھٹکا دیا تھا بھاگتے بھاگتے اچانک وہ ٹھوکر کھا گیا اور منہ کے بل گر پڑا، عجیب سا ذائقہ منہ میں محسوس ہوا اس نے منہ پر ہاتھ پھیرا تو خون سے ہاتھ بھی چپچپا رہا تھا اس نے آنکھیں پھاڑ کر غور سے دیکھا کہ وہ کس چیز سے ٹکرایا تھا مگر اندھیرے میں کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا اس نے ہاتھ سے ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ وہ تو کسی قبر کا کتبہ ہے یعنی اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی قبرستان میں پھنس چکا ہے اتنا سونا تھا کہ اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے اسے کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک کالا ہیولا اسے نظر آیا اس کا شک یقین میں بدل چکا تھا وہ اٹھا اور دوبارہ دوڑ پڑا جیسے ایک بجلی سی بھر گئی ہو، اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا پھر وہ تھک ہار کر گر پڑا اور بے اختیار اس کی سسکیاں نکل گئیں اور آنسو بہ گئے۔

وہ اپنے دوست کے پاس کمبائنڈ اسٹڈی کرنے گیا تھا۔ کیوں کہ نویں کے امتحان نزدیک تھے۔ وہ وقت کا اندازہ بھی نہ کر سکا اور دس بج گئے اس نے دوست سے اجازت چاہی اور باہر نکل گیا یہ علاقہ سنسان تھا اور آبادی بھی بہت کم تھی لوگ نو بجے کے بعد گھروں میں بند ہو جاتے تھے پہلے تو وہ بہت ڈرا مگر اللہ کا نام لے کر چل پڑا وہ بار بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا اس کو ایسا لگتا جیسے کوئی اس کے پیچھے لگا ہوا ہے مگر جب وہ مڑ کر دیکھتا تو کوئی نظر نہ آتا وہ اس کو وہم ہی سمجھا مگر جب قدموں کی ہلکی سی چاپ اور سانس لینے کی آواز بھی سنائی دینے لگی تو وہ ڈر کے مارے دوڑ پڑا پندرہ منٹ مسلسل دوڑنے کے بعد وہ راستہ بھول کر قبرستان میں پھنس چکا تھا۔

وہ مسلسل رو رہا تھا وہ زندگی میں کبھی اتنا نہیں بھاگا تھا وہ نڈھال ہو چکا تھا اس کی کتابیں بھی شاید کہیں بھاگتے میں گر گئی تھیں۔ وہ اس وقت کوکوسنے لگا جب اس نے دوست کے ساتھ مل کر پڑھنے کا پروگرام بنایا تھا نہ وہ پروگرام بناتا اور نہ آج اس طرح پھنستا وہ ابھی اپ نے آپ کو کوس ہی رہا تھا کہ اس کو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی چیز اس کے پاؤں پر چل رہی ہے اب اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو چکی تھیں، اس نے غور سے دیکھا تو اس کی چیخ نکل گئی وہ کافی لمبا کالا سانپ تھا اس نے ایک جھٹکے سے ہاتھ مار کر سانپ کو دور پھینکا اور دوبارہ دوڑ پڑا اب تو اس کا بھاگنا بھی مشکل ہو رہا تھا کیوں کہ جگہ جگہ قبریں تھیں اور بڑے بڑے کتبے لگے تھے جن سے ٹکرانا گویا ٹانگ تڑوانے کے مترادف تھا اس چکر میں اب وہ رونا دھونا بھی بھول چکا تھا، اچانک بجلی چمکی اور ایک ساعت کے لیے روشنی سی پھیل گئی، اس نے دیکھا کہ تاحد نگاہ قبریں ہی قبریں ہیں۔ پھر بارش بھی شروع ہو گئی وہ بہت بری طرح کانپ رہا تھا اور ساتھ ساتھ ہانپ بھی رہا تھا مگر بھاگا چلا جا رہا تھا اس کو عجیب عجیب آوازیں سنائی دے رہی تھیں جیسے کوئی بد روح اس کو پکار رہی ہو اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے کہ اچانک اس کا پاؤں کیچڑ میں پڑا اور وہ دور تک پھسلتا چلا گیا اور گڑھے میں جا گرا اچانک دوبارہ بجلی چمکی تو اس نے دیکھا کہ وہ جس گڑھے میں گرا ہے اس میں تو ہڈیاں ہی ہڈیاں پڑی ہیں گویا وہ کسی قبر میں گر گیا ہے ، یہ سوچنا تھا کہ اس کا ذہن ماؤف ہو گیا اور سر ایک طرف ڈھلک گیا پھر پھر پھر….

نبیل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ آگے کیا لکھے ، اس نے کہانی کو خطرناک موڑ پر پہنچا دیا تھا مگر اس کا ذہن کام نہیں کر رہا تھا کہ وہ آگے کیا لکھے ، وہ جھنجھلا گیا وہ کہانیاں لکھنا جانتا تھا مگر ڈراؤنی اور خوفناک اور وہ سب کچھ جس سے عام قارئین محظوظ ہوں اور اس نے اس میں شہرت بھی حاصل کر لی تھی مگر وہ مزید شہرت کا خواہشمند تھا جب وہ سوچتے سوچتے تھک گیا تو اس نے قلم پٹخ دیا اور سستانے لگا اچانک اس کے ذہن میں آپی کا خیال آیا جو ڈراؤنی کہانیاں بہت پڑھتی ہیں، وہ فوراً ان کے پاس پہنچا اور مدد کی درخواست کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں انہوں نے کہا۔ دیکھو نبیل میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے میرے امتحانات قریب ہیں اور میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی، مگر نبیل اپیا کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا وہ کہہ رہا تھا کہ آپ پڑھ کر تو دیکھیں شاید کوئی آئیڈیا آپ کے ذہن میں آ جائے مجبوراً انہوں نے پڑا اور قہقہے لگا کر ہنس پڑیں کہنے لگیں۔ نبیل اب تم ایسا کرو کہ اس بیچارے پڑھاکو بچے کو وہیں دفن کر ڈالو کیوں کہ اگر وہ بچ بھی گیا تو پاگل تو ہوہی جائے گا، نبیل نے سینڈل اٹھائی اور اپیا کے پیچھے دوڑ پڑا اس شور شرابے میں ان کی امی اندر آ گئیں، ارے نبیل یہ تم کیا کر رہے ہو بڑی بہن سے لڑ رہے ہو چلو ادھر آؤ کیا مسئلہ ہے ؟ اور پھر نبیل نے ساری کہانی سنا ڈالی۔

امی نے کہا اچھا لاؤ کہانی مجھے دو شاید میں تمہیں کچھ بتا سکوں وہ کہانی لے کر پڑھنے لگیں کہانی ختم کرنے کے بعد انہوں نے نبیل سے پوچھا کہ بیٹا تم یہ بتاؤ کہ تم کہانیاں کیوں لکھتے ہو اور تمہارا مقصد کیا ہوتا ہے ؟

نبیل نے کہا مقصد؟ میرا تو کوئی مقصد نہیں ہوتا بس اس لیے لکھتا ہوں کہ میرا دل چاہتا ہے ، امی نے کہا نہیں یہ تو نہیں ہوسکتا کچھ نہ کچھ مقصد ضرور ہوا کرتا ہے اچھا تم اسکول میں کیوں پڑھتے ہو۔

نبیل نے کہا اس لیے کہ پڑھ لکھ کر انجینئر بنوں گا اور ملک کی خدمت کروں گا تو امی نے کہا کہ تمہارا مقصد انجینئر بننا ہے پھر تو کہانی لکھنے کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہو گا۔

نبیل کہنے لگا کہ امی میں کہانی لکھتا ہوں تاکہ میری شہرت ہو اور جس طرح لوگ دوسرے ادیبوں سے آٹو گراف لیتے ہیں بالکل اسی طرح مجھے سے بھی لیں اور میری اہمیت کو تسلیم کیا جائے اور بڑے بڑے پروگرامات میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جاؤں اور کیا ہوسکتا ہے مقصد بلکہ ہر کہانی نویس اور ادیب کا یہی مقصد ہوتا ہے۔

امی نے کہا۔ نہیں نبیل بیٹا تم غلطی پر ہو ہر ادیب اور کہانی نویس کو تم اپنی طرح نہ سمجھو یہ صرف تمہاری اپنی سوچ ہے اور اس سوچ میں سے تو سوائے خود غرضی اور ذاتی مفاد کے مجھے اور کچھ نہیں نظر آتا۔

نبیل روہانسا ہو کر بولا: امی اور کیا مقصد ہوسکتا ہے کہانی لکھنے کا۔

امی نے کہا: بیٹا کہانی لکھنا بہت ہی اچھا اور نیک کام ہے مگر جب اس نیکی کے کام میں بے مقصدیت ہو تو وہ نیکی بھی برائی بن جاتی ہے یا پھر اس کا شمار خرافات میں ہوتا ہے۔

میں نے تمہاری کہانی پڑھی تم نے لکھی تو اچھی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم کہانی لکھ بھی سکتے ہو، مگر اس میں کوئی مقصد نہیں ہے ، یہ صرف وقت کا ضیاع ہے اپنا بھی اور اور دوسروں کا بھی، پڑھنے والے دلچسپی سے پڑھ لیں گے اور کوئی مقصد اور سبق حاصل کیے بغیر رسالہ بند بھی کر دیں گے۔

بیٹا تمہارا مقصد اور معاشرہ کی اصلاح ہونا چاہیے ، ایسے پراگندہ ماحول کی اصلاح جس میں اندھیرا ہی اندھیرا اور نیکیاں کرنے والوں کا فقدان ہے ہر طرف برائی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ایسے ماحول کی اصلاح جس میں قوم کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں جس میں تعصب اور فرقہ واریت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس میں بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے ، بیٹا تمہیں تو ایسی کہانی لکھنی چاہیے جس سے نئی آنے والی نسل کی تربیت ہوسکتے جو لوگ بگڑ چکے ہیں ان کی اصلاح ذرا مشکل سے ہوتی ہے مگر نئی نسل کو صحیح ڈگر پر چلانا آسان ہوتا ہے جس طرح کہ تناور درخت کا رخ موڑنا مشکل ہے مگر ایک ننھے پودے کو تم جس طرف چاہو جیسے چاہو ڈھال سکتے ہو صرف ایک دھاگا باندھ کر تم اس کو مطلوبہ رخ پہ لا سکتے ہو۔

بیٹا اگر تم اصلاحی کہانیاں لکھو تو تمہاری کہانی کا ہر ہر لفظ تمہارے لیے نیکی بن جائے گا اور اگر تمہاری تحریری سے کسی ایک بچے کی بھی اصلاح ہو گئی اور وہ سیدھے راسستے پر چل نکلا اسی طرح صراط مستقیم پر جس کا رب نے حکم دیا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے تو یقین جانو وہ تمہارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گا اور نیکیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

اب نبیل کی سمجھ میں بات آ چکی تھی، امی میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اب ایسی کہانیاں لکھوں گا جس سے شہرت نہیں بلکہ دوسروں کی اصلاح ہو گی اور جیسے لکھوں گا ویسے عمل بھی کر کے دکھاؤں گا، نبیل نے پر عزم لہجے میں کہا تو امی نے زور سے آمین کہا اور نبیل کی پیشانی چوم لی کہ وہ بیٹے کو مقصدیت کی راہ دکھا چکی تھیں۔

٭٭٭

 

امن پسند

               ابن ساحل

ارسلان بیٹا، اٹھ جاؤ، دیکھو سورج سر پر آ پہنچا ہے ، جلدی سے اٹھ جاؤ شاباش۔

ارسلان کی امی نے صبح کے وقت ہمیشہ کی طرح بیٹے کو اٹھاتے ہوئے کہا مگر اسش کی نیند کچھ ایسی گہری تھی کہ اسے اٹھانا آسان نہ تھا۔ آج بھی بڑی تگ و دو کے بعد امی جان ارسلان کو بستر سے اتارنے میں کامیاب ہوئیں۔

جاگنے کے بعد بھی وہ کبھی ایاک جگہ بیٹھ کر جمائیاں لینے لگتا تو کبھی دوسری جگہ، منہ ہاتھ دھونے میں بھی اس نے کافی وقت صرف کیا، ارسلان صرف صبح ہی نہیں بلکہ ہر وقت سستی کا مظاہرہ کرتا تھا۔ سودا سلف لینے کے لیے بھیجو تو گھنٹے بعد واپس آتا، اسکول میں کبھی امتحان ہوتا تو مقررہ وقت میں بمشکل آدھے سوالات کر پاتا، دوسرے کمرے میں موجود ہوتا تو کئی آوازیں دینے پر بھی جواب نہ دیتا۔ ارسلان کی سستی اور غائب دماغی کی وجہ سے اس کے امی ابو شدید نالاں تھے۔

احمد کا خاندان ارسلان کے پڑوس میں نیا نیا آباد ہوا تھا۔ وہ بہت خوش اخلاق اور ملنسار لوگ تھے۔ احمد، ارسلان کا ہم عمر اور بہت اچھا لڑکا تھا۔ چند ہی دن میں ارسلان کے گھر والوں سے ان کے اچھے مراسم پیدا ہو گئے ، مگر ارسلان اپنی آدم بیزاری کی وجہ سے کھنچا کھنچا رہا۔

احمد روزانہ ورزش کرنے کا عادی اور کھیلوں میں شریک ہونے والا چست و ہوشیار لڑکا تھا جبکہ ارسلان اس کا الٹ۔ رفتہ رفتہ احمد اپنے پڑوسی کی غائب دماغی اور عدم اعتمادی کا سبب جان گیا۔ اس نے دل میں فیصلہ کیا کہ وہ ارسلان کو ضرور راہ راست پر لائے گا۔

احمد آہستہ آہستہ ارسلا ان سے قربت بڑھانے لگا۔ پر اخلاق طبیعت کے باعث چند روز میں ارسلان اس کی طرف مائل ہو گیا۔ ایک اچھا دوست ہونے کے ناتے احمد کی خواہش تھی کہ ارسلان سستی سے چھٹکارا حاصل کر لے۔

ایک روز احمد نے کہا۔ ارسلان آخر تمہیں کھیل کود اور ورزش سے چڑ کیوں ہے۔

بھئی میں اچھا کھاتا پیتا ہوں۔ پھر ورزش اور بلاوجہ دوڑ لگا کر خود کو تھکانا ضروری تو نہیں۔ ارسلان نے جواب دیا۔

صرف کھانے پینے سے ہی تو صحت برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ احمد نے کہا۔ جو خوراک ہم کھاتے ہیں، اسے ٹھکانے بھی تو لگانا چاہیے ، خوراک اسی وقت بھرپور اثر دکھاتی ہے جب وہ بدن میں توانائی پیدا کرے اور یہ مقصد ورزش سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ کراٹے کلب جایا کرو۔

ارے بھئی یہ کراٹے وغیرہ کس لیے۔ بندہ امن پسند ہو تو جنگ کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ارسلان نے کہا۔

نہین ارسلان کبھی کبھی جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ احمد نے مسکرا کر کہا تو ارسلان نے منہ بنا لیا۔

جلد ہی احمد کی بات درست ثابت ہو گئی۔

ایک شام موسم بہت خوشگوار تھا، احمد اصرار کر کے اسے سیر کرانے باہر لے گیا۔ چہل قدمی کرتے ہوئے ابھی وہ کچھ ہی دور گئے تھے کہ کہیں سے ان کے ہم چند لڑکے آئے اور چھیڑ خانی کرنے لگے۔ یہ شرارتی لڑکے تھے جن کا کام ہی لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔

کیا چاہتے ہو تم، کیوں ہمیں تنگ کر رہے ہو، احمد نے غصے سے کہا۔

بھولے میاں، یہ تو شکر کرو ہم تمہیں صرف تنگ کر رہے ہیں، اگر پٹائی شروع کر دی تو تم کیا کر لو گے۔ ایک لڑنے سے بدتمیزی سے کہا تو باقی قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔

ان کے قہقہوں پر احمد کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ مگر ارسلان گھبرایا ہوا لگ رہا تھا، اسے آج پہلی مرتبہ ایسی صورتحال کا سامان تھا۔ اسے اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی، ان لڑکوں کے سامنے اسے اپنی من پسندی بیکاری نظر آ رہی تھی۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا احمد مخالفوں پر چھلانگ لگا چکا تھا۔ وہ مضبوط بدن کا مالک اور ورزش کا عادی تھا، اس کی جاندار لاتیں اور مکے ماہرانہ انداز میں لڑکوں پر پڑیں تو وہ زمین چاٹنے پر مجبور ہو گئے ، آخر انہیں فرار ہونا پڑا۔

احمد ہاتھ جھاڑ کر ارسلان کی طرف مڑا جو حیرت زدہ سا اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ احمد کے چہرے پر موجود مسکراہٹ سے نہ صرف ارسلان کو بہت کچھ سمجھایا بلکہ اندر ہی اندر شرمندہ بھی کر دیا۔

اس واقعے کے دو روز بعد ارسلان بازار سے سودا سلف لے کر واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اسے انہی آوارہ لڑکوں سے پکڑ لیا جو احمد سے مار کھا کر فرار ہوئے تھے ، انہوں نے ارسلان کی خوب پٹائی کی اور ارسلان اپنا دفاع تک نہ کر سکا۔ وہ اپنے اندر اتنی قوت ہی محسوس نہیں کر رہا تھا کہ ان کا مقابلہ کر سکتا۔ جب وہ گھر پہنچا تو امی ابو اپنے لاڈلے کے جسم پر لگی چوٹیں دیکھ کر پریشان ہو گئے ، اس نے سائیکل سے ٹکر لگ جانے کا بہانہ بنا کر انہیں ٹال دیا۔

اگلے دن کا سورج ارسلان کے گھر والوں کے لیے خوشگوار حیرت لے کر طلوع ہوا۔ ارسلان صبح سویرے ہی اٹھ بیٹھا، نماز با جماعت پڑھنے کے بعد وہ احمد کے ہمراہ ورزش کرنے گیا اور پھر یہ اس کا معمول بن گیا۔ وہ نہ صرف روزانہ ورزش کرنے لگا بلکہ اس نے احمد کے ساتھ کراٹے کلب میں جسمانی دفاع کی تربیت بھی لینا شروع کر دی۔

اس معمول سے ارسلان کو بدل کر رکھ دیا، وہ ہر وقت ہشاش بشاش رہنے لگا اور احمد کی طرح حاضر دماغ اور پھرتیلا ہو گیا۔ ہر کام کو بہتر طریقے سے کرنے کی صلاحیت اس میں خودبخود پیدا ہونے لگی۔ اسے اب احساس ہوا کہ جسم کے لیے ورزش کی اہمیت نئی زندگی جیسی ہے ، اس کے بدلتے اطوار اور بہتر جسمانی حالت پر اس کے والدین حیران تھے جبکہ احمد خوشی سے سرشار دکھائی دیتا تھا۔

وہ آوارہ لڑکے جنہوں نے ارسلان سے جھگڑا کیا تھا ابھی تک دوبارہ نظر نہیں آئے تھے ، ارسلان ان کی تلاش میں تھا، وہ ان سے اپنی توہین کا بدلہ لینا چاہتا تھا، آخر ایک روز اس کی خواہش پوری ہو گئی، وہ احمد کے ہمراہ معمول کے مطابق کراٹے کلب جا رہا تھا کہ راستے میں وہی لڑکے کھڑے نظر آئے۔ ارسلان ٹھٹک کر رک گیا، اس نے بے اختیار مٹھیاں بھیج لیں، ارسلان نے پلٹ کر احمد کی طرف دیکھا مگر وہ نظر نہیں آیا، نجانے کہاں غائب ہو گیا تھا، اس نے دوست کا خیال چھوڑا اور اپنے حریفوں کی جانب مڑ گیا، اچانک ان میں سے ایک لڑکا آگے بڑھا، ارسلان نے اپنے آپ کو تیار کر لیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا، آگے بڑھنے والا لڑکا بولا۔ کہو دوست کیسے ہو۔

اس کا لہجے ایسا با اخلاق اور شائسہ تھا کہ ارسلان چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اس کے لبوں پر دوستانہ مسکراہٹ رقصاں تھی، وہ گویا ہوا۔

دوست ہمیں معاف کر دینا، ہم نے تمہارے ساتھ جو کچھ کیا وہ تمہارے بھلے کے لیے تھا، ہم احمد کے دوست ہیں، ہم نے احمد کے کہنے پر ہی تمہیں یہ سکھانے کی کوشش کی ہے کہ زندگی کا اصل مزا جوش اور ولولے کے ساتھ جینے میں ہے ، سست اور کاہل انسان کو ہر میدان میں ناکامی کا سامان کرنا پڑتا ہے ، تندرستی خدا کی بڑی نعمت ہے اور اس کی حفاظت کے لیے ورزش جیسی عادت اپنانا ضروری ہے ، تم احمد کا شکریہ ادا کرو جس نے تمہیں نئی زندگی سے روشناس کرایا اور سچا دوست ہونے کا حق ادا کر دیا۔

لڑکے نے بات ختم کی تو ارسلان کو اپنے پیچھے آہٹ کا احساس ہوا، اس نے مڑ کر دیکھا اور احمد مسکرا رہا تھا۔ ارسلان پرامن رہنے کے لیے امن پسندی ہی کافی نہیں بلکہ ہمیں اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ کوئی ہم پر جنگ مسلط نہ کر سکے۔

احمد کا ایک ایک لفظ ارسلان کے دل میں اترتا گیا اور اسے اپنے دل کی دنیا بدلتی محسوس ہونے لگی۔

٭٭٭

 

لاپروائی کی سزا

راشدہ ایک نیک اور خوب صورت لڑکی تھی، اس میں بہت ساری خوبیاں تھیں مگر چوں کہ ہر انسان سے کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے ، اسی لیے وہ بھی اکثر ایک غلطی کر دیا کرتی تھی اور وہ غلطی یہ تھی کہ جب بھی وہ کھانا پکانے لگتی تو چولہا جلانے کے لیے سوئی گیس پہلے کھولتی اور پھر دیا سلائی جلاتی اور اگر ماچس نہ ملتی تو ادھر ادھر تلاش کرتی رہتی مگر چولہے کی گیس بند نہ کرتی، اس پر اس کی امی جان نے کئی مرتبہ منع کیا، ٹوکا، ناراض بھی ہوئیں اور پیار سے بھی سمجھایا کہ دیکھو اس حرکت سے اگر زیادہ گیس کمرے میں جمع ہو گئی اور پھر تم نے دیا سلائی جلائی تو اس طرح آگ بھڑک اٹھے گی، مگر وہ ان سب باتوں کو کوئی اہمیت نہ دیتی اور انہیں فرسودہ جان کر سنی ان سنی کر دیتی۔

اس کا خیال تھا کہ یہ محض امی کا وہم ہے ، ہماری بلڈنگ میں اتنے گھر ہیں اور سب میں سوئی گیس ہے مگر آج تک کبھی کسی گھر میں آگ نہیں لگی۔

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز اس نے حسب معمول کچھ پکانے کی خاطر آگ جلانے کے لیے گیس کھولی اور پھر ماچس تلاش کرنا شروع کر دی پہلے تو ماچس نہ ملی، مگر جب ملی تو بھیگی ہوئی تھی جو کسی طرح جل نہیں رہی تھی اس نے سوچا کہ پڑوس سے ماچس لے آؤں، ماچس لینے کے لیے راشدہ اپنے پڑوس میں گئی تو یہ بات بھول گئی کہ وہ گیس کا چولہا کھلا چھوڑ کر آئی ہے۔

واپس آ کر راشدہ نے جونہی دیا سلائی جلائی پورے باورچی خانے میں آگ بھڑک اٹھی، آگ نے راشدہ کے کپڑوں کو بھی اپنی لیٹ میں لے لیا اور پل بھر میں یہ آگ پورے گھر میں پھیل گئی، پھر کیا تھا….کہرام مچ گیا، محلے بھر کے لوگ جمع ہو گئے ، کوئی پانی کی بالٹیاں بھر کر لایا، کسی نے مٹی سے آگ بجھانے کی کوشش کی، مگر بے سود۔

جلتے ہوئے گھر سے راشدہ کو تو بچا لیا گیا مگر راشدہ کا چہرہ بری طرح جھلس چکا تھا، فائر بریگیڈ کے آنے تک گھر کا بہت سا قیمتی سامان جل کر خاک ہو چکا تھا، فائر بریگیڈ نے کافی کوشش کے بعد آگ پر قابو پا لیا، اس طرح اڑوس پڑوس کے گھر آگ کی زد میں آنے سے بچ گئے۔ راشدہ کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی…. امی مجھے معاف کر دیجئے ! امی مجھے معاف کر دیجئے ، میں نے آپ کا کہنا نہیں مانا…. مجھے میری غلطی کی بہت بڑی سزا مل گئی۔

امی نے راشدہ کو سینے سے لگایا، امی رو بھی رہی تھیں اور راشدہ کے ٹھیک ہونے کی دعائیں بھی کر رہی تھیں۔

راشدہ چند دنوں بعد ٹھیک تو ہو گئی مگر نہ تو اس نقصان کی تلافی ہوسکی جو اس بھیانک آگ کی وجہ سے ہوا تھا اور نہ ہی راشدہ کے حسین چہرے سے آگ کے وہ نشان مٹ سکے جو خود اس کی غلطی کا نتیجہ تھے ، راشدہ اب جب کبھی آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہے ، اپنے چہرے کو دیکھ کر رونے لگتی ہے ، چہرے پر آگ کے نشان اسے یاد دلاتے ہیں کہ لاپروائی اور نافرمانی کی پاداش میں ملنے والی سزا کے نشان کبھی نہیں مٹتے۔

٭٭٭

 

 

مسئلے کا حل

دروازہ دھڑ سے کھلا تو انہوں نے چونک کر دیکھا، ببلی اندر گھستی چلی آ رہی تھی، انہوں نے حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھا، اس طرح وہ پہلے کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئی تھی۔

ببلی، انہوں نے آواز دی، ببلی اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے رک گئی، جی مما۔

ادھر آؤ، انہوں نے بلایا۔

ببلی نے سر جھٹکا بستہ کندھوں سے اتار کر قریب کسی چیز پر ڈال دیا اور تھکی تھکی سی چلتی ہوئی ان کے پاس پہنچ گئی۔

جی مما، آپ نے ہم کو بلایا، ہم سمجھے کہ آپ اپنے کمرے میں ہوں گی۔

نہیں بیٹی، مجھے تمہارا ہی انتظار تھا، آج شبنم کی سالگرہ میں جانا ہے اس نے دوپہر کو ہی بلایا تھا، جاؤ گی نہیں۔

نہیں مما، اس نے سر جھٹکا۔

کیوں ….! انہوں نے تعجب سے پوچھا۔ صبح تو تم خود بہت شور مچارہی تھیں۔

بس ہمارا جی نہیں چاہتا، ببلی نے کہا، انہوں نے غور سے دیکھا۔

کیا لڑائی ہوئی ہے کسی سے ، ببلی نے کچھ سوچا، وہ جھوٹ نہیں بولتی تھی سچی کہنے سے کیا ہوتا، جی بس ہمارا دل نہیں کرتا جانے کو۔

کیا بات ہوئی۔

مما آج ہمیں پھر انٹرول میں بھوکے رہنا پڑا، آخر نے کہہ ہی دیا۔

ہائیں …. وہ کیوں۔

آپ جو لنچ بکس دیتی ہیں، اس میں سے روزانہ کوئی نہ کوئی چیز غائب ہو جاتی ہے۔

اوہ…. اچھا، مما نے کہا۔

اس نے بالوں میں انگلیاں پھیریں، مما اسے غور سے دیکھ رہی تھیں۔

آج تو پورا بکس ہی غائب تھا، ہم کو کھانے کو کچھ نہ ملا، اس کے باہر بہت سارے ٹھیلے والے آتے ہیں، مگر آپ کو معلوم ہے نا کہ ان کی ساری چیزیں گندی، باسی اور خراب ہوتی ہیں۔

اس لیے ہم ان سے کچھ نہیں لے سکتے اب بھوکے رہنا پڑتا ہے ، اس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا، مما کسی سوچ میں پڑ گئیں، تمہارے آس پاس کون کون ہوتا ہے۔

جی ہم اور تارا سب سے اگلی سیٹ پر ہوتے ہیں صرف پچھلی سیٹ صوفیہ اور شبانہ ہوتی ہیں، باقی لوگ دور دور ہوتے ہیں۔

اس نے کچھ تعجب سے مما کو دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہیں۔

اچھا صوفیہ اور شبانہ کیسی لڑکیاں ہیں۔ انہوں نے دوسرا سوال کر دیا۔

صوفیہ تو ٹھیک ہے ، شبانہ سے میری دوستی نہیں ہے ، بہت غریب گھر کی ہے اور ندیدی بھی۔ ببلی کے الفاظ منہ میں رہ گئے۔ مما اسے کچھ دوسرے انداز سے دیکھ رہی تھیں۔

ببلی چاند، کوئی غریب ہوتو ہو، ندیدہ یا برا نہیں کہتے۔

سوری مما، اس نے کچھ پریشان ہو کر کہا، اب ہم کیا کریں۔

اچھا بتاؤ جس وقت تمہاری چیزیں غائب ہوتی ہیں اس وقت کلاس میں کون کون ہوتا ہے۔

جی سب باہر چلے جاتے ہیں لیکن صوفیہ اور شبانہ عام طور پر اندر ہی رہتی ہیں، دونوں کلاس ہی میں اپنا لنچ کھاتی ہیں۔

اور تم خود کہاں ہوتی ہو۔

ہم تو پہلے گراؤنڈ میں کھیلنے چلے جاتے ہیں وہاں سے آ کر کھاتے ہیں مگر اب تو روزانہ چیزیں غائب ہونے کی وجہ سے باہر جانا چھوٹ گیا ہے۔ آج گئے تو پورا بکس ہی غائب ہو گیا۔

اچھا، مما مسکرائیں، اس کا بہت آسان حل ہے ، کہو جو ہم کہیں گے کرو گی۔

جی، ببلی نے حیران ہو کر کہا۔ وہ کیسے۔

مما پھر مسکرائیں، اچھا لو، ہم کل سے تم کو ایسا بکس بنا کر دیں گے جس میں تم چاروں مل کر کھا سکو۔

کون چاروں، ببلی نے تعجب سے پوچھا۔ کلاس میں تو صرف ہماری اور تارا کی دوستی ہے۔

میرا مطلب ہے تم دونوں اور صوفیہ اور شبانہ۔

ہیں صوفیہ اور شبانہ کیوں، ببلی نے حیرت سے موٹی موٹی آنکھیں جھپکائیں۔ یہ تم خود دیکھ لو گی، اس کے بعد تمہارا لنج بکس بھی غائب نہیں ہو گا۔

ببلی نے کچھ سوچا۔ پھر گہرا سانس لیا۔

اوہ مما، ببلی بات سمجھ گئی، بہت بہت شکریہ آپ کا۔

اور ببلی چاند، جب تم انہیں اپنے پاس سے کھلاؤ گی تو وہ تمہاری دوست بھی بن جائیں گی اور تمہیں شکایت بھی نہیں ہو گی۔

بہت اچھا مما۔

ہاں ایک بات اور بیٹی، مما کچھ کہتے کہتے رک گئیں، تم بتاؤ ہم کیا کہنے والے ہیں۔

ببلی نے کچھ سوچا، گہرا سانس لیا، پھر مما کی طرف دیکھا، جی مما، ہم نے یہ سیکھا کہ کسی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے ، چاہے وہ خرابی اس میں کتنی بھی ہو اور کوئی ہمارے ساتھ برا بھی کرے تو ہمیں اس سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

ممتا آہستہ سے آگے بڑھ کر جھکیں، اسے بازوؤں میں لپیٹ کر اس کے نرم نرم گالوں پر ہونٹ رکھ دیے ، ببلی مما سے لپٹتی چلی گئی۔

٭٭٭

 

قربانی کا مقصد

               محمد عذیر سلیم

جب پاپا نے بکرا لینے سے انکار کیا تو سمیر کا دل چکنا چور ہو گیا۔

پاپا ہم اس دفعہ بکرا کیوں نہیں لیں گے۔ پچھلی دفعہ تو ہم نے بہت موٹا تازہ بکرا لیا تھا تو اس دفعہ کیوں نہیں لیں گے ، سمیر سوال پر سوال کیا جا رہا تھا لیکن اس کے پاپا سمیر کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بیٹا اب قربانی کرنے کی ہماری حیثیت نہیں ہے پچھلے سال ہم قربانی کر سکتے تھے حالات ایک جیسے نہیں رہتے اس دفعہ ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ہم قربانی کر سکیں ؟۔

اتنے میں گھر میں، میں …. میں …. کی آواز آنے لگی سمیر خوشی سے جھوم اٹھا کہ شاید پاپا نے اس کے لیے بکرا منگوایا ہے لیکن باہر پہنچتے ہی اس کی یہ خوشی اداسی میں تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی دی جب اس نے آصف کو بکرا پکڑ کے آتے ہوئے دیکھا۔ آصف کے ساتھ اس کا بھائی عمیر بھی تھا۔ سمیر روتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا، تھوڑی دیر بعد سمیر کے پاپا اس کے کمرے میں گئے تو دیکھا کہ سمیر رو رہا ہے ، بیٹا کیوں رو رہے ہو، پاپا آپ نے دیکھا کہ وہ آصف بکرا ہاتھ میں لیے مجھے دکھا رہا تھا انہوں نے تو بکرا لے لیا لیکن آپ نے کیوں نہیں لیا، مجھے ہر حال میں بکرا چاہیے میں نے بھی انہیں اپنا بکرا دکھانا ہے کہ ہم بھی بکرا لے سکتے ہیں۔ مجھے ان سے اچھا اور موٹا بکرا چاہیے اور ہاں بکرا ہونا چاہیے بکری نہیں۔

بیٹا میں آپ کو کیسے سمجھاؤں، ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے ، ہم قربانی نہیں کر سکتے ، آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ اب تم ہی اس کو سمجھاؤ میں تو سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں۔ سمیر کے پاپا نے اس کی مما کو کہا۔ کیا ہوا بیٹا۔ کیا بات ہے اس کی مما نے کہا۔ مما دیکھیں نہ سب نے بکرا لے لیا اور ہم نے نہیں لیا، بیٹا آپ کے پاپا ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ نے بکرے کے ساتھ کھیلنا ہی ہے نا آپ آصف کے بکرے کے ساتھ کھیل لو۔ آپ اس کو اپنا بکرا سمجھ لو بس، اب یہ رونا بند کرو اور اچھے بچے کی طرح سو جاؤ۔ اگلے دن صبح کو سب سوئے ہوئے تھے لیکن میں …. میں کی آواز سمیر کی کانوں میں گونج رہی تھی سمیر اپنے بستر سے اٹھا اور صحن کی طرف گیا، صحن میں آصف کا بکرا میں …. میں کر رہا تھا سمیر نے دور پڑا ہوا گھاس اٹھایا اور بکرے کو کھلانے لگا بکرا بھی بڑے آرام سے اس کے ہاتھوں سے گھاس کھا رہا تھا اتنے میں آصف منہ پر ہاتھ پھیرتا ہوا باہر نکلا، اوئے سمیر تمہاری تمہاری جرات کیسے ہوئے میرے بکرے کو ہاتھ لگانے کی۔ تم ہوتے کون ہو، آئندہ تم میرے بکرے کے قریب بھی نظر نہ آنا، آصف میری بات تو سنو تمہارا بکرا میں …. میں کر رہا تھا اسے بھوک لگ رہی تھی میں تو صرف اس کو گھاس کھلا رہا تھا۔ ٹھیک ٹھیک ہے اب زیادہ بہانے بنانے کی ضرورت نہیں اب تم مجھے اس کے قریب بھی نظر مت آنا، دادا جان ساتھ کمرے میں بیٹھے قرآن پاک پڑھ رہے تھے انہوں نے سمیر اور آصف کی ہونے والی گفتگو سن لی۔ دوپہر کو آصف نے اپنے بکرے کو خوب سجایا اور پھر اس کو گھمانے کے لیے گراؤنڈ میں لے گیا، راستے میں جاتے ہوئے دوستوں سے کہتا کہ دیکھو میرا بکرا کتنا خوبصورت ہے تمہارے بکرے سے اور کتنا موٹا بھی ہے ، جب یہ ساری باتیں دادا جان کو پتا چلیں تو انہوں نے آصف کو اپنے پاس بلایا اور کہا بیٹا تم نے صبح سمیر کو بکرے کو گھاس کھلانے سے کیوں منع کیا، دادا جان وہ میرے بکرے کو گھاس کھلا رہا تھا وہ اپنا بکرا لے اور اس کو کھلائے ، بیٹا قربانی کا مطلب بکرا خرید کر اس کو دکھاوا کرنا نہیں ہے تم قربانی کے مطلب کو غلط سمجھ رہے ہو، تم ثواب نہیں گناہ کما رہے ہو، قربانی کر کے ہم سنت ابراہیمی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں لیکن تم اس کو دکھاوا بنا کر خود کو اور اپنے والد کو گناہ گار کر رہے ہو۔ قربانی کرنا صاحب استطاعت پر فرض ہے ، سمیر کے پاپا اس دفعہ استطاعت نہیں رکھتے اس لیے انہوں نے بکرا نہیں لیا۔ چوری کر کے ، ڈاکا ڈال کے یا قرض لے کر قربانی نہیں کی جاتی۔ یہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہیں، آپ دوسروں کو دکھانے کے لیے اگر قربانی کرو گے تو آپ کا سارا ثواب جاتا رہے گا۔ آپ کیا چاہتے ہو آپ کے پاپا آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے آگے شرمندہ ہوں، بیٹا عید الضحیٰ ہمیں آپس میں پیار، محبت، ایثار اور ایک دوسرے سے قربانی کا درس دیتی ہے اس مبارک دن کو ہم اپنے عزیزوں، غریبوں، مسکینوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں، آپ کو چاہیے کہ جو لوگ قربانی نہیں کر سکتے آپ ان کو اپنے ساتھ ملاؤ تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کر سکو۔ بیٹا قربانی کا مقصد صرف بکرے کی قربانی کرنا نہیں ہے ، قربانی کا ثواب اور طریقوں سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ، بیٹا آپ نے صبح سمیر کو دھتکارا اس کو کتنا دکھ ہوا ہو گا وہ تمہارا کزن ہے کوئی غیر تو نہیں ہے اس کے دل سے نکلی ہوئی ہر آہ تمہارے اور تمہارے پاپا کے ثواب کو کم کرتی رہے گی، اگر تم صبح سمیر کو کچھ کہنے کے بجائے اس کو اپنے ساتھ ملاتے تو تم اپنے جذبات کی قربانی دیتے اگر تم ایسا کرتے تو تم نے سچ مچ قربانی کا مقصد جان لیا ہوتا لیکن آپ کو سمجھانے کا کیا فائدہ، آپ کے سرپر تو دولت، عیش و آرام اور دکھاوے کا بھوت سوار ہے ، اگر آپ یہی چاہتے ہو تو ٹھیک ہے آپ خوشی سے لوگوں کو دکھاؤ جا کر اپنے بکرے کو۔ ان کے ساتھ مقابلے کرو میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا، دادا جان مجھے معاف کر دیں آصف کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ، میں بھول گیا تھا میں دکھاوے کو ثواب سمجھ بیٹھا تھا، آپ مجھے معاف کر دیں، بیٹا معافی مجھ سے نہیں سمیر سے مانگو جس کا آپ نے دل دکھایا، ٹھیک ہے دادا جان۔

سمیر دروازے پر کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا، سمیر مجھے معاف کر دو میں نے تمہارا دل دکھایا، یہ بکرا میرا نہیں بلکہ تمہارا بھی ہے ، آؤ دوسرے بچوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کریں اور اس کو گھمانے کے لیے لے کر چلیں، چلو جلدی سے چلیں یہ کہتے ہی دونوں دروازے کی طرف گئے اور دادا جان مسکراتے ہوئے دونوں کو جاتا دیکھ کر اپنے کمرے کی طرف روانہ ہو گئے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/1

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید