FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               مختلف  مصنفین

حصہ دوم

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

ریچھ کا شکار

کاغان کی خوب صورت وادی مغربی پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ اس کا موسم کشمیر کی طرح نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ یہ علاقے چاروں طرف سے بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے ، جن میں صاف شفاف پانی کی ندیاں بہتی ہیں۔ اس علاقے میں بالاکوٹ کے مقام پر ایک خوبصورت کوٹھی میں احسن کی والد جو محکمہ جنگلات کے افسر تھے ، رہا کرتے تھے۔ احسن اور اس کا چھوٹا بھائی ضیا دونوں گرمیوں کا موسم اپنے والد کے پاس ہی گزارا کرتے۔

ایک روز دونوں بھائی سیر کو نکلے۔ چوں کہ اس علاقے میں جنگلی جانوروں کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے ، اس لیے باہر جاتے وقت احسن اپنی شکاری بندوق ہمیشہ ساتھ لے جاتا اور آج بھی بندوق اس کے پاس ہی تھی۔

دونوں بھائی اطمینان سے باتیں کرتے چلے جا رہے تھے کہ احسن نے ضیا کا بازو پکڑ کر اسے ایک دم ٹھہرا دیا۔

کیا ہے ؟ ضیا نے گھبرا کر پوچھا اور پھر احسن کے منہ کی طرف دیکھنے لگا۔ ا اس نے اسے خاموش کرنے کے لیے اس کے منہ پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ دیا اور پھر فوراً ہی بندوق تان کر سامنے فائر کر دیا، فائر کے ساتھ ہی وہ سڑک کے پار جھاڑیوں کی طرف بھاگا اور ضیا کو بھی اپنے پیچھے پیچھے بھاگنے کو کہا۔ اب ضیا سمجھا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے ایک ریچھ کا بچہ لنگڑاتا ہوا بڑے عجیب انداز سے ان کی طرف چلا آ رہا ہے۔ وہ گولی کھا کر زخمی ہو چکا تھا۔ جونہی وہ ان کے قریب آیا، اس نے اپنا منہ اور دونوں پنجے ان پر حملہ کرنے کے لیے اوپر اٹھائے ، اس نے بڑھ کر بندوق کا دستہ ان کے منہ پر زور سے دے مارا جس سے اس کے منہ سے خون فوارے کی طرح بہنے لگا۔ زخمی تو وہ ہی چکا تھا۔ دوسری ضرب کھا کر اور کچھ دیر زمین پر تڑپنے اور شور مچانے کے بعد وہیں ختم ہو گیا۔ احسن نے خوشی کا ایک نعرہ لگایا اور ضیا کو ایسی نظروں سے دیکھنے لگا، گویا اس کی زبان سے اپنی بہادری کی تعریف سننا چاہتا ہے۔

اب اسے گھر لے چلیں ؟ ضیا نے کہا۔ ہاں ابا جان کو دکھائیں گے۔ اس نے جواب دیا۔

لیکن مجھے تو اس پر رحم آتا ہے تم نے اس بے چارے کو مارا کیوں۔ ضیا نے کہا۔

"کیوں مارا؟ یہ موذی جانور ہے۔ نہ مارتے تو یہ ہمیں مار ڈالتا، احسن نے مردہ ریچھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ضیا کی طرف دیکھنے لگا لیکن ضیا نے اس کی بات نہ سنی کیوں کہ اس کی توجہ کسی اور طرف چلی گئی تھی۔ وہ گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے کانوں میں کچھ فاصلے پر سے خوفناک قسم کی آواز آ رہی تھی اور اب اس آواز کو دونوں بھائی سن رہے تھے۔ یہ آواز لمحہ بہ لمحہ نزدیک آنے لگی، اچانک احسن نے گھبرا کر ضیا کو دونوں کندھوں سے پکڑ لیا۔

ریچھ! ریچھ آ گیا۔

گھبراہٹ میں یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے اور سامنے ایک بہت بڑا سیاہ ریچھ نمودار ہوا۔ وہ اپنے خوفناک سر کو زمین کی طرف جھکائے بڑے خطرناک انداز سے آ رہا تھا۔

دونوں بھائیوں پر اس قدر دہشت چھا گئی کہ انہیں کچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ بندوق احسن کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن اسے اندازہ تھا کہ گولی بھرنے اور نشانہ باندھنے سے پہلے ہی ریچھ اسے آلے گا۔ وہ بندوق زمین پر پھینک قریب کے ایک درخت پرچڑھ گیا اور ضیا کو بھی فوراً دوسرے درخت پر چڑھنے کی ہدایت کی۔

ریچھ نہایت تیزی سے ادھر ادھر زمین کو سونگھتا ہوا اپنے بچے کے قریب آیا اور اسے چاروں طرف سے ہلا جلا کر سونگھنے لگا۔ ریچھ سونگھ کر معلوم کر لیتا ہے کہ لاش میں جان ہے یا نہیں جب اسے تسلی ہو گئی کہ بچہ مر چکا ہے تو اس نے ایک دردناک چیخ ماری جس سے سارا جنگل ہل گیا اور دونوں بھائیوں کے دل بھی دہل گئے۔ اب وہ لاش کو چھوڑ کر ان دونوں کی طرف لپکا۔ غصے کے مارے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔

پہلے وہ اس درخت کے قریب آیا جس پر خوفزدہ احسن بیٹھا ہوا تھا۔ ریچھ نے اپنا بھاری سر اوپر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنے پنجے درخت پر جما کر اس پر چڑھنا شروع کر دیا۔ ضیا دور ایک درخت پر بیٹھا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اور خوف سے لرز رہا تھا۔

ابھی ریچھ احسن تک پہنچا نہ تھا کہ احسن چھلانگ لگا کر اسی درخت کے ساتھ والی شاخ پر کود گیا۔ ریچھ دوسری شاخ تک نہ جا سکتا تھا۔ اس لیے وہ اب نیچے اتر آیا تاکہ نیچے سے دوسری شاخ کی طرف جا سکے۔

اسی دوران میں ضیا نے اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس نے درخت سے نیچے اتر کر زمین پر پڑی ہوئی بندوق اٹھائی اور گولی بھر کر ریچھ پر نشانہ لگایا۔ ریچھ جو ابھی درخت کے تنے پر ہی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا زخمی ہو کر ایک دم مڑا اور احسن کو چھوڑ کر ضیا کی طرف دوڑا جو اب بندوق پھینک کر دوبارہ درخت پر چڑھ رہا تھا۔ دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا تھا۔ ریچھ نے اپنا اگلا پنجہ اسے مارا جس سے وہ زخمی ہونے سے تو بچ گیا لیکن اس کی لٹکتی ہوئی قمیض کے ٹکڑے علیحدہ ہو کر ریچھ کے پنجے میں رہ گئے اور ریچھ پھسلتا ہوا زمین پر آ گیا۔ احسن نے دوسرے درخت پر سے بھائی کو آواز دی کہ اور اوپر چڑھ جائے کیوں کہ ریچھ دوبارہ درخت پر چڑھ رہا تھا۔

اب جب احسن کو ضیا کی جان خطرے میں نظر آئی تو وہ درخت پر سے اترا اور ایک گولی ریچھ پر چلا دی۔ ریچھ جو ضیا سے اب چند فٹ کے فاصلے پر تھا، گولی کھاتے ہی دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ اس دوسری گولی کا زخم اتنا کاری ثابت ہوا کہ وہ گرتے ہی ٹھنڈا ہو گیا۔

ضیا نے جو درخت کی بہت اونچی شاخ پر بیٹھا تھا، جب ریچھ کو اس طرح زمین پر گرتے دیکھا تو اس نے خیال کیا کہ شاید ریچھ کو گولی نہیں لگی بلکہ اس نے درخت پر سے احسن پر چھلانگ لگا دی ہے اور اب وہ احسن کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔

یہ خیال آتے ہی وہ بھائی کے غم میں اپنے حواس کھو بیٹھا اور غش کھا کر درخت سے نیچے گر پڑا لیکن خوش قسمتی سے وہ مردہ ریچھ کے اوپر گرا جس کے بدن کی کھال اور بڑے بڑے بالوں نے اس کے لے گدیلے کا کام دیا، جب اسے ہوش آیا تو ریچھ کو مردہ اور بھائی کو زندہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی اور پھر دونوں بھائی ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔

اب ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ دونوں ریچھ اور اس کے بچے کو گھسیٹتے ہوئے گھر لے گئے اور جب دونوں بھائیوں نے سب واقعات گھر والوں کو سنائے تو وہ ان کی بہادری پر حیران رہ گئے اور دونوں بھائیوں کی اس محبت کی یادگار کے طور پر ریچھ اور اس کے بچے کی کھال اتروا کر انہوں نے اپنے کمرے کی دیوار پر لٹکا دی۔

٭٭٭

 

حاجی صاحب

               ام ایمان

حاجی ظہیر الدین بریانی والے صبح کام پر جانے کے لے گھر سے نکلے تو کچھ نڈھال سے تھے ، ایک تو رات بھر پیٹ میں درد کے باعث نیند اچھی طرح نہیں آئی تھی، دوسرے صبح صبح بیوی سے بھی جھڑپ ہو گئی تھی۔

پیٹ میں درد کی وجہ تو یہ تھی کہ رات کو اپنی ہی دکان کی بریانی چکھ لی تھی اور پھر بیوی نے صبح صبح انہیں ملاوٹ والی اور باسی بریانی پر ایک لیکچر پلا دیا تھا۔

لیکن بیوی کی سنتا کون ہے بھلا بتاؤ کہ اگر ایک دن پہلے کی بریانی ملا کر فروخت نہ کروں تو کیا بچ جانے والی بریانی کوڑے کے ڈھیر پر ڈال آؤں ؟؟

حاجی صاحب نے غصے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا اور بغیر ناشتہ کیے ہی دکان کے لیے نکل گئے۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ محمود دھوبی کا بیٹا اپنے باپ کی دکان کے سامنے چھوٹی سی میز رکھے اس پر جھنڈیوں اور مختلف خوبصورت بیجوں کو سلیقے سے سجارہا تھا۔ ایک طرف کچھ چھوٹے بڑے جھنڈے رکھے تھے اور ایک چھوٹی سی تپائی پر بیجوں کی تھیلی رکھی تھی۔ حاجی صاحب کی تیوریاں کچھ اور چڑھ گئیں۔

ہونہہ! پیسہ کمانے کے لیے نئے نئے دھندے نکالتے ہیں !! رات میں ان کے بیٹے نے ان سے جھنڈے اور سجانے والی جھنڈیوں کے لیے پیسوں کی ضد کی تھی جو ان کے خیال میں بالکل بے فضول اور بے مقصد خرچ تھا۔

سو ان کی جیب سے ایک روپیہ نہ نکلا۔ کنجوس تو وہ سدا کے تھے۔ مثلاً ابھی پچھلے مہینے بھی انہوں نے اپنے بیٹے کی سالگرہ بڑے دھوم دھام سے منائی تھی۔ سارے رشتہ داروں اور پڑوسیوں اور تحفوں کا بھی حساب کتاب کیا تھا۔ بڑے خوش تھے کہ دعوت نفع بخش ثابت ہوئی تھی۔ خرچ بھی نکل آیا اور تحفے بھی اچھے خاصے مل گئے۔ بیوی سے کہہ دیا تھا کہ اگلی عید تک کسی قسم کے کپڑوں کی کوئی بات نہ کی جائے۔ بیوی ان کے مزاج کو سمجھتی تھی۔ ان کے جانے کے بعد بیٹے کے ہاتھ پر جھنڈوں کے لیے پیسے رکھے اور ساتھ ہی نصیحت کی کہ بارش کی آمد ہے لہٰذا جھنڈیاں چودہ اگست سے ایک دن پہلے لگانا تو اچھا رہے گا۔ مایوس دانش کی پیسے پاکر بانچھیں کھل گئیں۔

محمود دھوبی کے بیٹے حسن سے اس کی اچھی سلام دعا تھی بلکہ کرکٹ کے کھیل کے ساتھی تھے۔ اسے یقین تھا کہ حسن اسے کم قیمت میں جھنڈیاں دے دے گا لہٰذا پیسے حاصل کر کے دانش فوراً حسین کے پاس پہنچا۔

حسین کے چھوٹے سے اسٹال پر کئی ننھے گاہک موجود تھے ، چمکتے دمکتے بچوں کو بڑے شوق سے اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے ، کچھ دیر دیکھ بھال کر سب نے اپنے اپنے لیے ایک بیج خریدا کس کس نے گھر میں لگانے کے جھنڈے بھی لیے۔

حسین جب فارغ ہوا تو دانش کی طرف متوجہ ہوا۔

ہاں بھئی دانش صاحب کو کیا لینا ہے۔ حسین نے مسکرا کر پوچھا۔

یار ویسے تو میں جھنڈیاں لینے آیا ہوں لیکن یہ بیج بڑا شاندار ہے۔ دانش نے رنگین جہاز والا چمکتا ہوا بیج اٹھایا۔

کتنے کا ہے ؟۔

دس روپے کا۔

ہوں، میرے لیے کم نہیں ہوں گے۔

یار میں نے ان میں بہت تھوڑا منافع رکھا ہے اور وہ بھی ایک خاص مقصد کے لیے۔

ہوں کس مقصد کے لیے ، دانش نے دلچسپی سے پوچھا۔ اس کو پورا یقین تھا کہ وہ مقصد کمپیوٹر کے گیم خریدنے ہوں گے یا آئس کریم کھانی ہو گی یا پھر موبائل کے لیے جمع کرنے ہوں گے۔

یار یہ جو ہمارے گھروں کے پیچھے کچی جھونپڑیاں ہیں ناں۔

ہاں یا وہ ہی جو بازار والی گلی کے بعد آتی ہے۔ تمہارے ابا کا بریانی کا ٹھیلہ جہاں لگتا ہے۔

اچھا تو پھر۔

یار وہاں بہت سے بچے ہیں جو یا تو کوڑا چنتے ہیں یا دن بھر یوں ہی بیکار پھرتے ہیں اگر ہم ان کو تھوڑا بہت پڑھا دیا کریں تو کیسا رہے گا۔

یار تمہیں پڑھانا ہی ہے تو بچوں کو ٹیوشن پڑھاؤ کہ کچھ ہاتھ بھی آئے۔

نہیں یا میرے ابا کہتے ہیں کہ جس طرح پیسوں کی زکوٰۃ ہوتی ہے اس طرح جسمانی صلاحیتوں اور علم کی بھی زکوٰۃ ہوتی ہے اور زکوٰۃ ادا کی جائے تو ہر چیز پاک بھی ہوتی ہے اور برکت بھی حاصل ہوتی ہے۔ دانش نے سر اٹھا کر حسین کو دیکھا عزم و ہمت کا ایک عجیب رنگ اس کے چہرے پر تھا۔

میرے ابا کہتے ہیں کہ اگر ہر پڑھا لکھا اپنے علم کی زکوٰۃ نکالتا رہے تو بہت جلد ہمارے ملک کا کوئی بچہ جاہل نہ رہے۔

یار تمہارے ابا تو مفکر لگتے ہیں۔

دانش نے پیچھے فاصل پر بیٹھے محمود چاچا کو دیکھا۔ کاؤنٹر پر کھڑے کسی گاہک کے کپڑے گن رہے تھے۔ دانش نے فی الحال بیج خریدنے کا ارادہ ترک کر کے صرف جھنڈیاں خرید لیں لیکن امی کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے انہیں احتیاط سے الماری میں رکھ دیا، ابھی 14 اگست میں کئی دن تھے۔

امی کا پیاز کاٹ کاٹ کر برا حال تھا۔ بریانی کے مصالحے کے لیے ڈھیروں پیاز، لہسن اور ادرک کا مصالحہ بنانا کوئی آسان کام تھا؟؟ کبھی کبھی تو دانش کو بھی ان کے ساتھ لگنا پڑتا۔

امی ابا سے کہہ کر اس کام کے لیے کوئی نوکر رکھیں یا کوئی لڑکا۔

کہا تو کئی دفعہ ہے بیٹا ہر دفعہ کہتے ہیں کہ ایک دیگ کا منافع اتنا تھوڑی ہوتا ہے کہ گھر کا خرچ بھی نکلے اور نوکر کی تنخواہ بھی ہو۔

اچھا یہ بتائیے خریدنے والے اگر زیادہ ہیں تو زیادہ دیگ بنائی جائے تو منافع بھی زیادہ ہو۔

چھوڑو بیٹا ابھی ایک دیگ کے لیے مصالحہ بنانا مشکل ہے اور تم مزید کی کہانی سنارہے ہو۔

امی کی بات سن کر دانش خاموش ہو گیا لیکن اس کے ذہن میں کوئی بات تھی جو چکر کھا رہی تھی، بے کار پھرنے سے بہتر ہے بریانی کی دیگ کے مصالحے بنانے کا کام

اگلا دن چھٹی کا تھا۔ صبح کرکٹ کا میچ تھا، اس دن میچ کے بعد دانش نے حسین کو روک لیا۔

آؤ یار کچھ گپ شپ کرتے ہیں۔

گلی کے نکڑ پر چائے والے کی کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ کرنے کا مزا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ حسین نے چائے کے ساتھ دو گرما گرم کرارے پراٹھے بھی منگا لیے۔

واہ بھئی واہ مزا آ گیا۔

دانش نے کرارے نمکین مزے دار پراٹھے کا لقمہ توڑ کر منہ میں رکھا اور ساتھ ہی چائے کی چسکی لی۔

باتیں کرتے ہوئے دانش کی نظر دو لڑکوں پر پڑی جو ہر دکان اور ٹھیلے کے سامنے سے گتے کے ڈبے اور کاغذ سمیٹ سمیٹ کر اپنے کندھے پر پڑے تھیلے میں ڈال رہے تھے۔

ارے ہاں یار…. یاد آیا تم بچوں کی تعلیم کے بارے میں کچھ سوچ رہے تھے ناں ؟

ہاں،

حسین کے منہ میں پراٹھے کا ایک بڑا ٹکڑا تھا لہٰذا وہ اس سے زیادہ کچھ بول بھی نہیں سکتا تھا۔

یار ابا کہہ رہے تھے کہ اگر آدم پلازہ کے روڈ میں جہاں بہت آفس اور دکانیں ہیں بریانی کا ایک اور ٹھیلا لگایا جائے تو دوگنا منافع ہو۔

ہاں ….! حسین پھر صرف اتنا ہی بول پایا۔

لیکن اماں تو ایک دیگ کا مصالحہ کاٹ کاٹ کر پریشان رہتی ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم ان بچوں کی مدد سے مصالحے کا کام کروائیں پھر ان کو دو سے تین گھنٹے پڑھا دیں۔

ہونہہ! یہ لوگ اپنے وقت کو بڑا قیمتی سمجھتے ہیں وہ کیوں مصالحہ بنانے اور پڑھنے میں وقت ضائع کرنا چاہیں گے۔

لیکن تم ہی تو کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ بے کار پھرتے رہتے ہیں۔

ہاں لیکن صبح کے وقت ان کا اسی طرح تھیلے بھرتے گزرتا ہے۔

تو پھر کیا ہے ہم ان کو دوپہر میں پڑھا دیں اور اگر دیگ میں منافع ہوا تو ابا بھی ان کو کچھ نہ کچھ دینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔

ہاں منصوبہ کچھ نہ کچھ قابل عمل لگ رہا ہے ، چلو یوں کریں گے کہ آج ان سے بات کر کے دیکھیں گے لیکن ابھی ان کو صرف یہ کہنا کہ ایک گھنٹہ آ کر پیاز، لہسن چھیلیں، اس کے بعد دو گھنٹے ان کی پڑھائی ہو گی۔ صرف ابھی تین مضمون پڑھائیں گے اردو، انگریزی اور حساب، ٹھیک ہے ناں۔

حسین اور دانش کی کوششوں سے نہ صرف بچے تیار ہو گئے بلکہ دانش کے ابا بھی خوش ہو گئے کہ انہیں تھوڑا سا پیسہ لگا کر اچھا خاص بلکہ دو گنا منافع ہونے لگا تھا۔ دوسرے مہینے سے دانش نے ابا سے منافع میں سے ایک چوتھائی ان کی محنت کے معاوضہ کی ادائیگی کے لیے لینا شروع کر دیا۔ ابا اس پر بھی راضی تھے کیوں کہ پورے محلے میں حاجی ظہیر الدین بریانی والے کی دھوم تھی۔ چھوٹے بڑے سب ہی ان کا پرانا نام حاجی صاحب بھلا کر بڑے ادب سے ان کا پورا نام لیتے تھے۔ حاجی ظہیر الدین بریانی والے۔

٭٭٭

 

اور حارث جیت گیا

               عمران یوسف زئی

حارث بہت اداس تھا۔

اس کے لیے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہیں تھی کہ اب وہ اپنے ہی گھر میں دادی اماں سے نہیں مل سکے گا، اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس پر دادی اماں سے ملاقات پر پابندی کیوں عائد کر دی گئی تھی۔

اگر اب میں نے تمہیں اماں کے ساتھ دیکھا تو اچھا نہیں ہو گا۔

امی کے ان الفاظ نے حارث کو اداس کر دیا تھا، اس نے نم آنکھوں سے ابو کی طرف دیکھا لیکن ان کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ وہ بھی اس فیصلے میں شامل ہیں یا شاید انہیں اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔ حارث بہت ہونہار، ذہن اور فرمانبردار بچہ اور ساتویں جماعت کا طالب علم تھا، پڑھائی اور کھیل سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے دادی اماں سے مزیدار کہانی سننا گویا اس کے روزمرہ کا معمول تھا، وہ اپنی دادی سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ بھی اسے بہت چاہتی تھیں اس کے لیے خوبصورت کھلونے لانے کے علاوہ وہ اسے بہت اچھی اچھی کہانیاں سناتی تھیں، ہو کچھ عرصے سے بیمار تھیں، مسلسل کھانسی اور بیماری نے انہیں بہت کمزور کر دیا تھا لیکن آج اسکول سے آنے کے بعد جب اسے پتا چلا کہ امی نے دادی اماں کا کمرہ خالی کروا کر انہیں گھر کے پچھلے حصے میں موجود کوارٹر منتقل کر دیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا اور پھر امی کا غصے والے انداز میں حارث کو دادی اماں سے نہ ملنے کا حکم دینا اس کے ننھے سے ذہن اور سمجھ سے بالا تر تھا۔

بیٹا امی بیمار ہیں نا، انہیں ٹی بی ہے …. انہیں آرام کی ضرورت ہے اس لیے ان کا کمرہ بدل دیا گیا ہے۔

امی نے کچن میں جانے کے بعد ابو نے اسے اپنے پاس بلا کر پیار سے سمجھایا تھا۔

لیکن ابو! حارث کی آواز بھرا گئی تھی۔ کیا گھر کے کسی اور کمرے میں ان کے لیے جگہ نہیں تھی۔

پھر اس سے پہلے کہ ابو سے جواب ملتا، امی نے دونوں کو کھانے کے لیے بلا لیا، کھانے کے دوران بھی وہ یہی سوچتا رہا کہ ٹی بی کون سی بیماری ہے ، دوسرے دن اسکول میں اسے پتا چلا کہ کوئی غیر سرکاری تنظیم اسکول کے دورے پر ہے جو بچوں کو ٹی بی کے حوالے سے آگاہی دے رہی ہے ، حارث ایک روز پہلے ہی ابو سے اس کا نام سن چکا تھا لہٰذا اسے بے چینی ہونے لگی کہ وہ اس بیماری کے بارے میں جان سکے۔ یہ ٹی بی کون سی بیماری ہے۔ حارث نے اپنے کلاس فیلو سجاد سے پوچھا لیکن اسے بھی اس کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، بریک کے بعد ان کی کلاس میں اس تنظیم کے چار لوگ آئے جن میں سے دو ڈاکٹرز تھے۔

بچو! یہ ڈاکٹر صدیقی اور ان کے ساتھی ہیں جو آپ کو ٹی بی کی بیماری کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں۔

کلاس ٹیچر سر عزیز نے تعارف کرایا اور حارث سمیت سارے ہی بچے غور سے سننے لگے۔

پیارے بچو! ٹی بی دراصل ایک متعدی بیماری ہے ، کیا آپ میں سے کسی کو پتا ہے متعدی بیماری کون سی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر صدیق نے سوال کیا۔ دو چار بچوں نے ہاتھ کھڑا کیا لیکن ان کے جواب درست نہیں تھے۔

اچھا میں بتاتا ہوں، ڈاکٹر صدیق نے مسکراتے ہوئے کہا۔

متعدی بیماری وہ ہوتی ہے جو جراثیم کے ذریعے دوسرے لوگوں تک منتقل ہوتی ہے ، ٹی بی بھی ایک متعدی بیماری ہے اور اس کے جراثیم سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور عموماً پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں۔

اس دوران ڈاکٹر صدیق کے ساتھیوں میں سے دو نے چارٹس نکال کر ہاتھوں میں پکڑ لیے جس پر ٹی بی کی علامات اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے تصاویر بنی تھیں، سارے بچے دلچسپی سے ڈاکٹر صدیق کی باتیں سن رہے تھے ، لیکن سب سے زیادہ دھیان سے حارث سن رہا تھا۔ پیارے بچو! ڈاکٹر صدیق نے دوبارہ کہنا شروع کیا۔ ٹی بی کی علامات میں تین یا تین سے زیادہ ہفتوں سے مسلسل کھانسی سب سے اہم علامت ہے ، یہ مرض ٹی بی کے مریض کے کھانسنے ، چھینکنے یا تھوکنے سے پھیلتا ہے لیکن عام میل جول اور ایک ساتھ کھانے پینے سے ، مریض کا بستر یا کپڑے استعمال کرنے سے نہیں پھیلتی۔

حارث کا ذہن تیزی سے ساری تفصیلات یاد کرنے میں مصروف تھا۔

ٹی بی کے علاج کا دورانیہ 8 ماہ ہے ، جو دوا تجویز کی جائے اسے باقاعدگی کے ساتھ کھایا جائے تو اس مرض کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر صدیق دوسرے چارٹ کی طرف متوجہ ہوئے جس میں احتیاطی تدابیر درج تھیں۔ ٹی بی کے مریض کو چاہیے کہ کھانستے یا چھینکتے ہوئے منہ کو ڈھانپ لے ، جگہ جگہ نہ تھوکے اور مریض کے کمرے کو روش اور ہوا دار رکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر صدیق نے اپنی بات ختم کی اور کلاس ٹیچر سر عزیز سے مخاطب ہوئے۔

عزیز صاحب آپ کے اسکول کے قریب ہی نئی ڈسپنسری قائم ہوئی ہے جہاں اس مرض کے مکمل علاج کی سہولت موجود ہے ، چنانچہ آپ بچوں کو سمجھائیں کہ اگر کسی کے گھر میں ایسی بیماری ہو تو اسے ضرور ہم سے رابطہ کرنا چاہیے۔

جی ضرور ڈاکٹر صاحب، سر عزیز پہلے ڈاکٹر صدیق اور پھر بچوں سے مخاطب ہوئے ، بچو! یہ ساری باتیں آپ یاد رکھیں اور اگر آپ کے گھر میں خاندان میں یا آس پاس ایسا کوئی مریض ہو تو اسے ڈاکٹر صدیق سے ملنے کا مشورہ دیں۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر صدیق اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چلے گئے لیکن حارث کا ذہن ان کی بتائی ہوئی باتوں کی طرف ہی تھا، گھر واپسی کے بعد اسکول کے کام سے فارغ ہوا تو امی ابو کسی سے ملنے چلے گئے ، یہ حارث کے لے سنہری موقع تھا، ملازم بھی اپنے کاموں میں مصروف تھے ، چنانچہ حارث چپکے سے گھر کے پچھلے حصے میں واقع کوارٹر میں پہنچ گیا، حارث کو دیکھ کر دادی اماں رو پڑیں اور ایسا ہی کچھ حال حارث کا بھی تھا، ا اس نے دو دن بعد اپنی دادی اماں کو دیکھا تھا جن کی آنکھیں نیند نہ آنے یا شاید رونے کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھیں۔

دادی اماں ! آپ فکر نہ کریں، میں بہت جلد آپ کو واپس لے جاؤں گا۔

حارث نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا اور پھر جلدی جلدی ڈاکٹر صدیق کی بتائی ہوئی باتیں اور احتیاطی تدابیر دادی اماں کو بتانے لگا، پھر کونے میں رکھی ٹیبل گھسیٹ کر اس نے روشن دان کے نیچے کی اور اس پر چڑھ کرروشن دان بھی کھول دیا۔

دادی وعدہ کریں آپ ان باتوں پر عمل کریں گی، میں پھر آؤں گا، حارث نے دادی اماں کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے بیٹا لیکن خیال رکھنا امی کو پتا چلا تو بہت ناراض ہوں گی۔ دادی اماں کے لہجے میں انجانا سا خوف تھا۔

کچھ نہیں ہو گا دادی…. اب میں چلتا ہوں، اپنا خیال رکھنا۔

حارث نے اداس لہجے میں کہا اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں گیا اب اس کے لیے اگلا مرحلہ دادی اماں کے مکمل علاج کا تھا، وہ امی کے غصے سے ڈرتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ ابو بھی امی کے سامنے کچھ نہیں بول سکیں گے چنانچہ اس نے سر عزیز سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

تو یہ بات ہے …. ڈاکٹر صدیق نے حارث کی ساری باتیں تفصیل سے سننے کے بعد کہا، وہ پہلے سر عزیز کو ساری بات بتانے کے بعد ان ہی کے ساتھ ڈسپنسری آیا تھا۔

جی ڈاکٹر صاحب، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ دادی کا علاج کیسے کروایا جائے۔ حارث کے لہجے میں اداسی در آئی۔

اس کا حل میرے پاس ہے ، ڈاکٹر صدیق نے مسکراتے ہوئے کہا تو حارث کا چہرہ کھل اٹھا۔

کسی بھی شخص کو ٹی بی کا مرض لاحق ہونے کے بعد علاج کے سب سے پہلے مرحلے میں ہم اس کے گھر میں کوئی سپورٹر تلاش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صدیق نے کہنا شروع کیا۔ اس سپورٹر کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ مریض کو وقت پر دوا دے اور کوئی ناغہ نہ ہو تو تمہاری دادی کے لیے ہم تمہیں سپورٹر بنا سکتے ہیں۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے ڈاکٹر صاحب اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی ناغہ نہیں ہو گا۔ حارث نے پر جوش لہجے میں کہا۔

لیکن بیٹا اس بات کا خیال رکھنا کہ یہ دوا تمہیں دادی کو صبح نہار منہ دینا ہو گی اور پہلا ٹیسٹ دو ماہ کے بعد، دوسراپانچ ماہ اور تیسرا سات ماہ کے بعد ہو گا۔ ڈاکٹر صدیقی نے مزید تفصیل بتائی۔

ٹھیک ہے سر! میں صبح اسکول جانے سے پہلے گھر کے پچھلے دروازے سے اندر جا کر دادی کو دوا کھلا دیا کروں گا اور کسسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ حارث نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ویل ڈن، اگر ایسا ہو گیا تو انشاء اللہ تمہاری دادی بالکل ٹھیک ہو جائیں گی، میں ابھی تمہیں دوا اور اسے کھلانے کا طریقہ بتا دیتا ہوں۔ ڈاکٹر صدیق نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر ڈاکٹر صدیق سے طریقہ سمسجھ کر اور دوا لے کر حارث سر عزیز کے ساتھ اسکول آ گیا۔

دوسرے روز وہ اپنے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے اٹھا اور تیار ہو کر اسکول جانے کے لیے پندرہ منٹ پہلے نکل آیا، گھر کے دروازے سے نکل کر وہ نظر بچا کر پچھلی گلی میں آ گیا، حارث ایک روز پہلے ہی گھر کے پچھلے دروازے کے تالے کی چابی بنوا چکا تھا، چنانچہ بڑی آسانی سے وہ دادی اماں کے کوارٹر میں پہنچا اور جلدی جلدی انہیں دوا دے کر طریقہ سمجھایا اور گل دوبارہ آنے کا کہہ کر باہر نکل آیا، اسکول کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اس کے دل میں ایک عجیب سا اطمینان تھا اور پھر اسی روٹین کے ساتھ دو مہینے گزر گئے ، اب اسے دادی کو ٹیسٹ کے لیے ڈسپنسری لے کر جانا تھا، ایک روز پہلے ہی اس نے سر عزیز سے بات کی تھی اور اسے بریک کے بعد چھٹی کی اجازت مل گئی تھی چنانچہ بریک کے بعد چپکے سے نکلنے ، گھر آنے پچھلے دروازے سے دادی کو باہر نکالنے اور ڈسپنسری سے ٹیسٹ کروانے کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی، ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، اس کی محنت رنگ لا رہی تھی اور پھر ایسے ہی شب و روز کے ساتھ چھ مہینے اور بھی گزر گئے ، آخری ٹیسٹ کی رپورٹ حارث کے ہاتھ میں آئی تو اس کے چہرے پر مسرت کے کئی رنگ لہرا رہے تھے ، اب ایک آخری مرحلہ امی ابو کو یہ خوشخبری سنانے کا تھا کہ دادی اماں اب اس مرض سے نجات پا چکی ہیں، دوسرے روز اس کے اسکول میں سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب منعقد تھی جس میں اس کے والدین نے بھی شریک ہونا تھا چنانچہ حارث نے اس تقریب کے بعد ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اسکول کے پرنسپل اور سرعزیز کے علاوہ ڈاکٹر صدیق بھی اسٹیج پر بیٹھے تھے ، تقریب شروع ہوئی تو بہتری کارکردگی دکھانے والے بچوں میں اسناد تقسیم کی جانے لگیں جس میں حارث بھی شامل تھا، اتنے میں سر عزیز نے اسٹیج پر ڈاکٹر صدیق کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مدعو کیا۔

پیارے بچو! ڈاکٹر صدیق نے بولنا شروع کیا۔ آج کی تقریب میں تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں بچوں کو اسناد دی گئی ہیں لیکن آج ہمارے پاس ایک ایسا ایوارڈ بھی ہے جو ٹی بی کے خلاف لڑنے والے ایسے بچے کے لے جس نے اپنے ہمت سے ایک مریض کو اس موذی بیماری سے نجات دلائی ہے ، سب سے پہلے میں دعوت دوں گا اس مرض میں مبتلا خاتون کو جنہیں ان کے با ہمت پوتے نے ٹی بی سے چھٹکارا دلایا۔

اور تالیوں کی گونج میں جب اسٹیج کے پردے کے پیچھے سے حارث کی دادی اماں نمودار ہوئیں تو حارث کے ساتھ ساتھ اس کے امی ابو بھی حیران رہ گئے ، حارث کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب بھی ہوسکتا ہے ، دادی اماں آ کر اسٹیج پر پرنسپل صاحب کے ساتھ کرسی پر بیٹھ چکی تھیں۔

اور اب میں دعوت دینے جا رہا ہوں اس بچے کو جس نے اپنی ہمت سے نہ صرف ٹی بی کو شکست دی بلکہ اپنی دادی اماں کی جان بھی بچائی…. حارث۔ ڈاکٹر صدیقی نے پکارا تو حارث تالیوں کی گونج میں اٹھ کر اسٹیج پر آ گیا۔

پیارے بچو! ٹی بی کا مرض قابل نفرت ہے ، مریض نہیں۔ ڈاکٹر صدیقی گویا ہوئے اور پھر انہوں نے پوری تفصیل بتائی کہ کس طرح اپنی دادی کے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد حارث نے ان سے رابطہ کیا اور مسلسل آٹھ ماہ تک باقاعدگی کے ساتھ ان کا علاج کیا اور اس مرض کے خلاف لڑتا رہا۔ ہال میں بیٹھے حارث کے امی ابو حیرت اور فخر کے ملے جلے احساسات سے اپنے بیٹے کا کارنامہ سن رہے تھے۔

پیارے بچو! ہم تھوڑی سی محنت، توجہ اور باقاعدہ علاج سے اس مرض کو شکست دے سکتے ہیں اور یہی سب حارث نے اپنی دادی کے لیے کیا ہے اور آج حارث کی دادی اماں اس مرض سے نجات پا چکی ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی نے حارث کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر پرنسپل صاحب نے ایک خوب صورت شیلڈ حارث کو دی۔

مجھے معاف کر دو بیٹا…. حارث امی ابو اور دادی کے ساتھ گاڑی میں گھر کی طرف روانہ ہوا تو امی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تمہاری محبت اور تمہیں اس بیماری سے دور رکھنے کے خیال نے مجھے اتنا بے حس کر دیا تھا کہ مجھے اماں کا خیال ہی نہیں رہا، لیکن تمہاری محبت تو مجھ سے بھی زیادہ ہے اور تم نے اسی محبت کے زور سے ٹی بی جیسے مہلک مرض کو شکست دے کر میری آنکھیں کھول دیں …. مجھے معاف کر دیجئے اماں ! اب آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گی۔ امی نے حارث کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو حارث کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو حارث کے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ پھیل گئی۔

٭٭٭

 

چراغ

               حافظ عبدالمتین

ایسا آج پہلی مرتب نہیں ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے اس حالت میں اس وقت دیکھا جب ایک ماہ پہلے میں نے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او میں ملازمت اختیار کی تھی۔ اس دن سے ہر روز میں دفتر سے نکلتے ہی اس بچے کو فروٹ چاٹ کی ریڑھی پر اس کے باپ کے ساتھ دیکھتا تھا۔ پہلے روز میں نے اسے غور سے اس وقت دیکھا جب فروٹ چاٹ سے زیادہ اس کی معصوم آواز میں تشہیری پکار۔

بابو جی فروٹ چاٹ کھالو، اس کے فروغ چاٹ ڈالتے ننھے ہاتھوں کو دیکھا تو مجھے محسوس ہوا، اور شاید ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کے منصوبے بنانے والوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہو، کہ اس معصوم بچے کی عمر تو اسکول میں جا کر علم کا خزانہ سمیٹنے اور کھیلنے کودنے کی تھی، تاہم اس روز کی پہلی ملاقات پر میں نے چاٹ کھانے پر ہی اکتفا کیا اور کوئی بات کیے بنا اپنی راہ لی۔

اتفاق سے اگلے روز ہی مجھے ایک سیمینار کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑا اور دوبارہ کچھ دن تک مجھے چاٹ کھانے کے لیے وہاں جانے کا موقع نہ مل سکا۔

میں اکثر سوچتا ہوں، ہم پڑھے لکھے لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں، مجبور لوگوں کا درد ہمارے دل میں تھوڑی دیر کے لیے اس وقت جاگتا ہے جب وہ ہمارے سامنے ہوتے ہیں، ان کے غائب ہونے کے بعد ہماری مصروفیت ہمیں اپنی ذات کے خول سے باہر ہی نہیں نکلنے دیتی۔

میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، اس بچے کا خیال میرے ذہن میں محو ہو گیا۔ تین دن بعد جب دوبارہ دفتر گیا تو جاتے ہوئے میں نے اس بچے کو ریڑھی پر دیکھا، اس کے ساتھ موجود شخص کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ اس کا باپ ہو گا۔ میں نے سوچا کہ واپسی پر اس سے چاٹ کھاؤں گا۔ شاید اس طرح اس کے باپ سے بات کرنے کی کوئی سبیل نکل آئے۔

دفتر سے چھٹی ہونے تک میں بے تاب ہی رہا۔ چھٹی کے فوراً بعد میں نے اپنے ذہن میں تعلیم کے حق اور چائلڈ لیبر کی مخالفت میں تمام تر دلائل کو جمع کیا اور اس کی ریڑھی پر چلا گیا۔

میرے سلام کا گرم جوشی سے جواب دینے کے بعد اس نے چاٹ تیار کرنا شروع کی تو میں نے اس سے نام پوچھا۔

محمود! اس نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے جواب دیا۔ جانتے ہو ہماری تاریخ میں محمود نام کی مشہور شخصیت کا کیا کارنامہ ہے۔ میں نے ایک اور سوال جڑ دیا۔ جی صاحب جی جانتا ہوں میں نے پانچویں کی کتاب میں پڑھا تھا کہ محمود غزنوی نے سومنات کا مندر توڑا تھا اور ہندوستان پر سترہ حملے کیے تھے ، حقیقت یہ ہے کہ اس کے جواب سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اس ریڑھی والے شخص سے پوچھا۔ آپ نے اپنے بیٹے کو اسکول سے کیوں اٹھا لیا۔

بیٹا! میں اس کا باپ نہیں ہوں، یہ تو میری ریڑھی پر کام کرتا ہے۔ میں نے اپنے اندازے کی غلطی پر شرمندہ ہوتے ہوئے بچے کی طرف دیکھا تو وہ چاٹ کی پلیٹ میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بولا۔ صاحب جی! میرے ابو تو چھ ماہ قبل اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ میری امی کے پاس تو ہماری اچھی پرورش کے لیے وسائل نہیں تھے ، وہ بھلا اسکولوں کی مہنگی تعلیم کیسے برداشت کرتیں …. مجھے پانچویں تک پڑھایا مگر میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں۔ اپنی ماں کی مشکلات کو دیکھ کر میں نے پڑھائی چھوڑ دی اور یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ میری ماں کو بہت شوق تھا کہ میں پڑھائی کروں۔ اب بھی میں جب شام کو اپنی کمائی اس کے ہاتھ میں رکھتا ہوں تو خوشی کے بجائے غم کے دو آنسو اس کے گالوں پر ڈھلک جاتے ہیں۔

میں نے سوچا اس سے بڑی منافقت کیا ہو گی کہ میں این جی او کے سیمیناروں میں جوشیلی تقریریں کرنے کے بعد بھی اس بچے کے لیے کچھ نہ کر سکوں۔

ایک لمحے میں یہ فیصلہ ہوا اور میں نے اسے کہا، اگر میں تمہاری تعلیم کے سارے اخراجات برداشت کروں تو کیا تم پڑھنے کے لیے تیار ہو، اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو اس کی معصوم آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے اور یہ خوشی کے آنسو تھے۔ مجھے لگا کہ شاید میرے ایک چراغ روشن کرنے سے اردگرد کے ماحول سے تاریکی چھٹ گئی ہو اور چہار سو علم کی روشنی پھیلنے لگی ہو۔ کیا آپ مزید چراغ جلانے میں میری مدد کریں گے۔

٭٭٭

 

بوتل میں کشتی

لہریں مارتے سمندر کے کنارے ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ غریب مچھیرے ، ان پڑھ، جاہل اور غیر مہذب ماہی گیر سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر شہر کی منڈی میں لے جاتے اور اس طرح اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے۔

ننھا راہو ماہی گیروں کے سردار کو پوتا تھا، اس کے ماں باپ بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ، اب اس کے دادا اور دادی ہی اس کے لیے سب کچھ تھے جو اپنے سے زیادہ اس کی دیکھ بھال کرتے اور اپنے ہونہار پوتے کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار ہو جاتے۔

راہو کے دادا کے پاس تین شکاری کشتیاں تھیں، جب بوٹھا کشتی میں بیٹھ کر سمندر کی اتھاہ گہرائی میں مچھلیاں پکڑنے جاتا تو ننھے راہو کے دل میں بھی یہ خواہش لہریں مارتی کہ وہ بھی اپنے دادا کی طرح مضبوط ہاتھ پیروں کا بڑا سا آدمی ہوتا، اس کی بھی کوئی کشتی ہوتی اور وہ اس میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑا کرتا۔ دن رات وہ اسی طرح کے سنہرے خواب دیکھا کرتا۔ اس کے ننھے سے دل میں جلدی سے بڑا ہو کر ماہی گیر بننے کی بے حد تمنا تھی، کبھی کبھی وہ بوڑھے دادا سے کہہ دیتا۔ کیوں دادا اب تو میں اتنا بڑا ہو گیا۔ اب میں کوئی بچہ تھوڑا ہی ہوں۔ کل کو مجھے بھی اپنے ساتھ شکار پر لے چلنا۔ میں بھی کشتی میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑوں گا اور بوڑھا ہنس کر جواب دیتا۔ بس تھوڑے دن اور ٹھہر جاؤ۔ ابھی تو تم بالکل ننھے منے سے ہو۔ سمندر کی طوفانی موجوں کو دیکھ کر ڈر جاؤ گے۔ جب تم بڑے ہو جاؤ گے ، جوان، مضبوط، دلیر اور عقل مند۔ تب تم بھی سمندر سے مچھلیاں پکڑا کرنا۔ لیکن راہو کے دل پر بوڑھے دادا کی تسلیوں کا کچھ اثر نہ ہوتا اور وہ بری طرح مچل جاتا۔

ایک دن بوڑھے نے اس کی روز روز کی ضد سے تنگ آ کر اسے ایک نہایت عجیب و غریب چیز دی۔ یہ ایک چھوٹی سی کشتی تھی جو بوتل میں بند تھی۔ ننھے راہو نے اچنبھے سے بوتل کو دیکھا اور پھر اپنے دادا کو سوالیہ نظروں سے گھورنے لگا۔ بوڑھا اس کا سر سہلا کر بولا۔ بیٹا تمہیں ماہی گیر بنانے سے پہلے میں تمہارا امتحان لینا چاہتا ہوں۔ اگر تم ماہی گیروں جیسے بہادر، عقل مند اور دلیر ثابت ہوئے تو پھر میں تمہیں اپنے ساتھ سمندر میں لے جایا کروں گا۔ یہ جادو کی کشتی ہے ، اسے بہت سنبھال کر رکھنا کیوں کہ اگر یہ ٹوٹ گئی تو پھر سمجھ لینا کہ میری کشتی بھی سمندر میں غرق ہو گئی۔ جب تک یہ بوتل اور اس کے اندر کی کشتی تمہارے پاس صحیح سلامت رہے گی مجھے سمندر کی طوفانی موجیں اور ہیبت ناک بھنور کوئی نقصان ا نہیں پہنچائیں گے لیکن اگر اسے کوئی گزند پہنچا تو پھر میرا خدا ہی حافظ ہے۔

تم بے فکر رہو دادا۔ راہو سینہ تان کر بولا۔ میں اس کشتی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے اور تم دیکھو گے کہ میں اپنے وعدے کا کہاں تک پاس کرتا ہوں۔

دوسرے دن علی الصبح راہو بستر پر پڑا کروٹیں بدل رہا تھا کہ اسے اپنی دادی کی آواز سنائی دی۔ وہ زور زور سے کہہ رہی تھی۔ خدا کے لیے ما ان جاؤ۔ آج سمندر میں جانا موت کو دعوت دینا ہے۔ دیکھتے نہیں موسم کتنا خراب ہے۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں اور جھکڑ چل رہے ہیں۔ کیوں خواہ مخواہ خطرہ مول لیتے ہو مگر بوڑھا مستقل مزاجی سے بولا۔ اسی برس ہو گئے مجھے سمندر کی چھاتی پر کشتی سے کھیلتے ہوئے۔ اب بھی میں اس سے ڈروں تو یہ میری بزدلی ہو گی اور پھر آج مچھلیاں نہ پکڑوں گا تو کل روٹی ک یسے ملے گی؟ اناج بالکل ختم ہے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔

ننھے راہو کا دل سینے میں دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے خوف بھری نگاہوں سے بوتل والی کشتی کو دیکھا اور پھر مضبوطی سے اسے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ اس کے دماغ میں اپ نے دادا کے وہ الفاظ گھوم رہے تھے جو اس نے بوتل دیتے وقت کہے تھے۔ وہ چیخ اٹھا۔ دادا تم فکر نہ کرو۔ طوفان تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا۔ میں اس بوتل کو بڑی احتیاط سے رکھوں گا۔

دوپہر کے وقت جھکڑ زیادہ تیز ہو گیا۔ ہوا کے تیز و تند جھونکوں سے سار گھر لرزنے لگا۔ راہو ڈرا سہما بوتل پکڑے چولہے کے پاس بیٹھا تھا اور اس کی دادی کھڑکی میں کھڑی سمندر کی اٹھتی ہوئی موجوں کو خوفزدہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

اف میرے اللہ! اب کیا ہو گا۔ بڑھیا کانپ کر بولی۔ سمندر کی لہریں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ خدایا، خدایا۔

راہو چپ چاپ بیٹھا آگ کو تکتا رہا مگر بوتل کے گرد اس کے ہاتھوں کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہو گئی۔ چولہے کی آگ بجھ چکی تھی۔ گھر میں اور لکڑیاں نہ تھیں۔ بڑھیا بولی۔ بیٹا دروازے کے باہر والے پیڑ کے نیچے سے لکڑیاں تو چن لا۔ خبر کہیں اور نہ چلے جانا۔

راہو نے بوتل کو بڑی آہستگی سے تپائی پر رکھ دیا اور دروازہ کھول کر باہر جانے لگا مگر ابھی اس نے کنڈی کھولی ہی تھی کہ ہوا کا جھونکا ایسا آیا کہ کواڑ بڑے زور سے کھل گئے اور راہو اچھل کر نیچے گر پڑا۔ ساتھ ہی جھونپڑی میں کھنکھناہٹ کی آواز گونجی۔ بوتل زمین پر گر کر ٹوٹ گئی تھی۔

آہ دادی اماں۔ ہائے دادی اماں، وہ سسکیاں لے کر بولا۔ بوتل ٹوٹ گئی۔ اب کیا ہو گا، دادا تم کہاں ہو۔ میں تمہیں بچاؤں گا۔ میں تمہیں بچاؤں گا۔ اس نے دیوانوں کی طرح ٹوٹی ہوئی بوتل کے ٹکڑوں اور کشتی کو اٹھایا اور دروازہ کھول کر سمندر کی طرف دوڑنے لگا۔

شام کا بھیانک سناٹا۔ ہولنا اک سمندر، کنارہ مگر راہو اردگرد سے بالکل بے خبر ایک پتھریلی چٹان پر کھڑا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ یا اللہ، یا اللہ، اس نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگتے ہوئے کہا۔ میرے دادا کو صحیح سلامت کنارے تک پہنچا دے۔ تو جانتا ہے کہ بوتل میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑی۔ میرا اس میں کوئی قصور نہیں۔ میں بالکل بے گناہ ہوں۔ اس نے آنکھیں جھکا کر ٹوٹی ہوئی بوتل کو دیکھا جو اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں لرز رہی تھی اور پھر اس کے ننھے سے دماغ میں امید کی ایک ہلکی سے شعاع پیدا ہوئی۔ ٹوٹی ہوئی چیز جوڑی بھی تو جا سکتی ہے ، اس نے کشتی کو بوتل میں رکھ دیا اور قمیض کا دامن پھاڑ کر بوتل کے ٹکڑوں کو جوڑ کر خوب مضبوطی سے باندھ دیا۔ کشتی پھر بوتل میں محفوظ تھی۔ راہو کی آنکھیں خوشی کے مارے جگمگانے لگیں۔ اب دادا بالکل محفوظ ہو گئے ، اب انہیں سمندر کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ اس نے زور سے چیختے ہوئے کہا اور منہ اٹھا کر دیکھا۔ دور دھندلکے میں ایک کشتی ہچکولے کھاتے کنارے کی طرف آ رہی تھی۔ راہو کے منہ سے خوشی کی ایک چیخ نکل گئی اور وہ آواز دے کر بولا۔ دادا، دادا۔ کیا تمہی ہو۔ ل ٹھہرو، میں آگ جلاتا ہوں تاکہ تمہیں کنارہ نظر آسکے ، وہ چٹان سے کود گیا اور ادھر ادھر سے لکڑیاں اکٹھی کر کے کنارے پر جمع کر دیں اور پھر پتھروں کو رگڑ کر انہیں آگ لگا دی۔ سمندر کا کنارہ روشنی سے جگمگانے لگا۔

کشتی آہستہ آہستہ ہلکورے لیتی کنارے کی طرف آ رہی تھی۔ جوں جوں وہ قریب آتی گئی۔ راہو کی بے چینی بڑھتی گئی۔ وہ اچھل اچھل کر آوازیں دے رہا تھا۔ اب کشتی والا بھی اسے جواب دے رہا تھا۔ راہو نے سنا۔ اس کے دادا ہی کی آواز تھی۔ اس نے آگ اور تیز کر دی اور کشتی کی رسی تھامنے کے لیے تیار ہو گیا۔

کون راہو، بوڑھے ملاح نے پوچھا۔ لو یہ رسی کھونٹے سے باندھ دو اور جب راہو نے رسی مضبوطی سے جکڑ دی تو بوڑھا اسے گود میں لے کر بولا۔ شاباش بیٹا، تم نے بڑا بہادری کا کام کیا۔ اب تم بے شک ملاح بننے کے لائق ہو۔ کل سے میرے ساتھ سمندر میں مچھلیاں پکڑنے چلنا۔

اور راہو کا ننھا سا دل کشتی کی طرح ہچکولے کھانے لگا۔

٭٭٭

 

مغرور بادشاہ

بہت عرصے کی بات ہے۔ ایران پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، اس کا نام ابراہیم تھا، اسے اپنی دولت پر بہت غرور تھا، وہ کہا کرتا کیا دنیا میں مجھے سے بھی زیادہ کوئی دولت مند ہے ؟

ایک دفعہ صبح فوج کی پریڈ دیکھنے کے بعد اس نے اپنے وزیر سے کہا۔ آج میں شکار کھیلنے جاؤں گا۔

جلد ہی شکار کا انتظام کیا گیا اور بادشاہ اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ جنگل کو چل دیا۔ ایک ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے بادشاہ اپنے ساتھیوں سے جدا ہو گیا لیکن ہرن ہاتھ نہ آیا۔ وہ تھک کر چور ہو گیا تھا اور اسے بڑی زور کی پیاس لگ رہی تھی، ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ ایک تالاب کے کنارے پہنچ گیا۔ اس کی جان میں جان آئی۔ وہ جھٹ کپڑے اتار کر پانی میں کود پڑا اور تیرتے تیرتے کنارے سے دور نکل گیا۔

اسی وقت ایک اجنبی جو شکل و صورت میں بادشاہ سے بہت ملتا تھا، ادھر آ نکلا، اس نے بادشاہ کے کپڑے پہن لیے اور پاس ہی کھڑے گھوڑے پر سوار ہو کر چل دیا، ادھر بادشاہ کے دوسرے ساتھی بادشاہ کو تلاش کر رہے تھے ، جب ان لوگوں نے گھوڑے پر سوار اپنے بادشاہ کو آتے دیکھا تو بہت خوش ہوئے ، شام ہوتے ہوتے وہ لوگ محل میں پہنچ گئے۔

ادھر بادشاہ جب نہا چکا تو اس نے دیکھا کہ اس کے کپڑے اور گھوڑا غائب ہے ، ادھر ادھر تلاش کرنے کے باوجود گھوڑا کہیں نہ ملا تو وہ بہت گھبرایا۔

کافی دیر سوچنے کے بعد اسے خیال آیا کہ پاس ہی اس کا ایک سردار رہتا ہے ، میں اس کے پاس جاؤں اور اس سے گھوڑا لے کر محل میں جاؤں اور پتا لگاؤں کہ کس نے میرا گھوڑا اور کپڑے چرانے کی ہمت کی ہے۔

جب وہ سردار کے قلعے کے پاس پہنچا تو شام ہو گئی تھی، اس نے دروازہ کھٹکھٹایا، پہرے دار نے پھاٹک کھولنے سے پہلے پوچھا۔ کون ہے ؟

پھاٹک کھولو بادشاہ نے چلا کر کہا۔ پھاٹک کھلا۔ پہرے دار نے ایک ننگے آدمی کو دیکھ کر حیرانی سے پوچھا۔ کون ہے تو اور کہاں سے آیا ہے ؟

بادشاہ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے کہا تم مجھے نہیں پہچانتے ؟ میں بادشاہ ابراہیم ہوں۔ اپنے مالک سے جا کر کہو کہ بادشاہ نے ایک گھوڑا اور کپڑے مانگے ہیں۔

بدمعاش پہرے دار نے ڈانٹ کر کہا۔

ابھی ابھی تو میرے مالک بادشاہ کے ساتھ شکار کھیل کو لوٹے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بادشاہ کو محل کی طرف جاتے دیکھا ہے ، میں ابھی سردار کو یہ بات بتاتا ہوں۔

وہ بادشاہ کو اندر لے گیا اور سردار کو سب حال بایا۔

سردار نے پوچھا۔ تم کون ہو؟ کیا نام ہے تمہارا؟

میں تمہارا بادشاہ ہوں۔ کیا تم مجھے نہیں پہچانتے ؟ ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے تمہارا عہدہ بڑھایا تھا۔

جھوٹا کہیں کا۔ سردار نے غصے سے کہا۔

تو اپنے آپ کو بادشاہ کیسے کہتا ہے ، میں خود بادشاہ کو محل تک چھوڑ کر آیا ہوں۔ بھاگ جا یہاں سے ورنہ دھکے دے کر باہر نکلوا دوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے نوکروں کی طرف دیکھا۔ نکال دو اس کو باہر۔

بادشاہ باہر آ کر اس بے عزتی کا بدلہ لینے کی سوچنے لگا۔ اس نے دل میں کہا، اس آدمی کے ساتھ میں نے اتنی بھلائی کی اور آج یہ مجھے پہچاننے سے انکار کرنے لگا۔

اب اسے اپنے ایک وزیر کی یاد آئی اور وہ اس کے پاس پہنچا۔ مگر یہاں بھی وہی بے عزتی ہوئی جو سردار کے ہاں ہوئی تھی۔

بادشاہ کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ وہ سوچنے لگا کہ محل میں نہ جانے کون بادشاہ بن بیٹھا ہے ، یہ خیال آتے ہی اسے غصہ آیا اور وہ محل کی طرف چل دیا۔

محل پر کھڑے پہرے دار نے اسے روکا، بادشاہ نے کہا۔ تم مجھے نہیں پہچانتے ؟ میں تمہارا بادشاہ ہوں۔ اگر تمہیں یقین نہ ہو تو یہ انگوٹھی لے جا کر ہماری بیگم کو دے دو اور کہو کہ ہمارے لیے بادشاہ لباس بھیج دو۔

پہرے دار نے ڈانٹ کر کہا۔ تم پاگل ہو گئے ہو؟ اس وقت بادشاہ خود بیگم کے پاس بیٹھے ہیں۔ خیر میں تمہاری بات مان لیتا ہوں۔ لیکن جو کچھ ہوا اس کے تم ذمہ دار ہو گے۔ یہ کہہ کر پہرے دار محل کے اندر چلا گیا۔

پہرے دار نے محل میں جا کر بیگم کو انگوٹھی دے کر سارا حال سنا دیا۔

بیگم پہلے تو چونگی۔ لیکن اتنے میں اس اجنبی نے کہا۔ شکار کے وقت میری انگوٹھی گر گئی تھی۔ جاؤ اس آدمی کو لے آؤ۔

پہرے دار بادشاہ کو اندر لے گیا۔ خود اس کی بیگم بھی اسے نہ پہچان سکی۔ لیکن اس کے دل میں شک ضرور ہوا۔ بادشاہ نے ہمت کر کے پوچھا۔ تم مجھے نہیں پہچانتیں ؟ میں تمہارا خاوند ہوں۔

بیگم نے بات کاٹ کر نوکروں کو حکم دیا کہ اس کو دھکے دے کر باہر نکال دو۔

بے چارہ بادشاہ دھکے دے کر باہر نکال دیا گیا۔ وہ تڑپ اٹھا۔ زندگی میں پہلی دفعہ اس کے غرور کو ٹھیس لگی تھی۔

اچانک اسے اپنے پیر کی یاد آئی۔ جھٹ پٹ اس کے پاس پہنچا۔ پہلے تو دوسروں کی طرح انہوں نے بھی اس کو نہیں پہچانا۔ لیکن جب اس نے اپنی زندگی کے کئی واقعات بتائے تو پیر صاحب کو یقین آیا۔ بادشاہ نے شرمندہ ہو کر ان سے کہا۔ یہ ضرور میرے غرور کا پھل ہے۔

پیر صاحب نے بادشاہ کو کپڑے پہنا کر کہا۔ جاؤ۔ اب لوگ تمہیں پہچان سکیں گے۔

جب بادشاہ کپڑے پہن کر شہر میں پہنچا تو لوگ اسے جھک جھک کر سلام کرنے لگے۔ شہر بھر میں کھلبلی مچ گئی۔

لوگوں کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اصلی بادشاہ کون ہے۔

اجنبی کے کانوں میں بھی یہ بات پہنچی اور اس نے بیگم سے کہا۔ جاؤ۔ تم دیکھ کر آؤ۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔

بیگم خود حیران تھی کہ یہ بات کیا ہے

آخر دربار لگایا گیا۔ اور درباریوں سے بادشاہ کو پہچاننے کے لیے کہا گیا، مگر کوئی بھی نہ پہچان سکا۔

آخر اجنبی خود اٹھا اور کہا۔ تمہارا اصلی بادشاہ تو یہ ہے۔ لیکن یہ اپنے غرور میں اتنا چور تھا کہ اسے خدا سے بھی ڈر نہیں لگتا تھا، اس لیے اس کو یہ سزا دی گئی تھی، اب اس کا غرور ٹوٹ گیا ہے۔ اب میں خود اسے گدی پر بٹھاتا ہوں۔ اتنا کہہ کر اجنبی محل سے باہر چلا گیا۔

٭٭٭

 

لکڑی کا گھوڑا

پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایران پر ایک بڑا زبردست بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ نئی نئی ایجادات اور عجائبات کا بڑا ہی اشتیاق رکھتا تھا۔ اسی لیے دور دور کے کاریگر نفیس اور عجیب و غریب چیزیں بادشاہ کے حضور لاتے اور انعام پاتے۔

ایک دفعہ ہندوستان کا ایک شخص بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور لکڑی کا ایک گھوڑا پیش کیا۔ گھوڑا اس کاریگری اور خوب صورت سے بنایا گیا تھا کہ دیکھنے میں بالکل جان دار لگتا تھا۔

ہندوستانی نے بادشاہ نے کہا، حضور، بندہ یہ نادر گھوڑا آپ کے ملاحظے کے لیے لایا ہے ، اس گھوڑے کا وصف یہ ہے کہ اس پر سوار ہو کر انسان جدھر چاہے ہزاروں کوس چلا جائے۔

بادشاہ نے کہا۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو ایسا نادر گھوڑا نہ میں نے دیکھا نہ سنا، لیکن جب تک میں خود اس کی آزمائش نہ کر لوں گا، تمہاری بات کا یقین نہیں کروں گا۔

یہ سن کر شہزادہ فیروز نے جو ولی عہد تھا، آگے بڑھ کر کہا۔ عالی جاہ! اگر اجازت ہو تو میں اس گھوڑے پر سواری کروں ؟

بادشاہ سے اجازت پا کر شہزادے نے گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر ایڑ لگائی، لیکن گھوڑا اپنی جگہ سے ذرا بھی نہ ہلا۔

شہزادے نے سوداگر سے مخاطب ہو کر کہا:اس کی تیزی کہاں گئی۔

یہ بات سن کر ہندوستانی آگے بڑھا اور گھوڑے کی گردن کے نیچے ایک پیچ دکھا کر کہا: حضور، اس پیچ کے پھیرنے سے گھوڑا ہوا کی مانند آسمان کی طرف اڑ جائے گا۔

شہزادے کے پیچ گھماتے ہی گھوڑا تیر کی مانند آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا اور یکایک لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہو گیا۔

بہت دیر تک بادشاہ اور وزیر بادشاہ کا انتظار کرتے رہے لیکن جب وہ واپس نہ آیا تو بادشاہ کو شبہ ہوا کہ شہزادے کو ضرور کسی آفت کا سامنا پڑ گیا ہو گا۔

بادشاہ نے ہندوستانی کو بلا کر کہا: شہزادے کو کسی قسم کا بھی صدمہ پہنچا تو تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا۔

حضور خاطر جمع رکھیں مجھے پورا یقین ہے کہ شہزادے کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ گھوڑے کی گردن کے نیچے ایک اور پیچ ہے جس کے مروڑنے سے گھوڑا زمین کی طرف اتر آئے گا۔

بادشاہ نے کہا: خواہ کچھ ہی ہو، مجھے تمہاری باتوں کا یقین نہیں آتا۔ اس نے افسروں کو حکم دیا کہ جب تک شہزادہ صحیح سلامت واپس نہ آ جائے ، اس ہندی کو قید میں رکھو۔

ادھر شہزادہ فیروز تیر کی طرح ہوا میں آسمان کی طرف اڑتا چلا گیا، ابھی آدھ گھنٹا بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ وہ اس قدر بلندی پر چڑھ گیا کہ سے کوئی شے زمین کی سطح پر نظر نہ آتی تھی۔ پہاڑ زمین کے ساتھ بچھے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ تب اس نے چاہا کہ جہاں سے سوار ہوا تھا، وہاں واپس آ جائے ، گھوڑے کو نیچے اتارنے کے لیے اس نے پیچ کو الٹی طرف مروڑا، لیکن بے سود، پھر اس نے اسے ادھر ادھر سب طرف گھمایا، مگر گھوڑا نیچے نہ اترا۔

فیروز نے خطرے کو محسوس تو کیا، مگر ہوش و حواس پر قابو رکھا، اس نے گھوڑے کے سر اور گردن کو بڑے غور سے ٹٹولا کہ شاید کوئی پیچ مل جائے ، جس کے مروڑنے سے گھوڑا نیچے اترے ، آخر بہت جستجو کے بعد دائیں کان کے نیچے اسے ایک پیچ دکھائی دیا جو پہلے پیچ سے چھوٹا تھا، اس پیچ کو مروڑتے ہی گھوڑا جس تیزی سے چڑھا تھا، ویسی ہی تیزی سے نیچے اترنے لگا۔

جب فیروز زمین پر اترا، تو رات کا وقت تھا مگر تاریکی ایسی نہ چھائی تھی کہ کچھ نظر نہ آئے ، اس نے دیکھا کہ وہ جگہ جہاں وہ اترا ہے ، ایک محل کی چھت ہے جو چاروں طرف سینے تک بلند منڈیر سے گھری ہوئی ہے ، گھوڑے سے نیچے اتر کر راہ ڈھونڈنے لگا، آخر ایک طرف اس نے دیکھا کہ ایک زینہ ہے جو نیچے کی منزل تک جاتا ہے۔ اس زینے سے اتر کر وہ مکان کی نچلی منزل میں گیا۔ دالان کا فرش سنگ مرمر کا تھا، دیواروں پر نقاشی اور گل کاری کو دیکھ کر فیروز دنگ رہ گیا، مکان میں بالکل خاموشی تھی، حیران تھا کہ کیا کرے۔

اسی وقت اسے دالان کے ساتھ والے کمرے میں کچھ روشنی معلوم دی۔ فیروز آگے بڑھ کر ایک باریک ریشمی پردے کو اٹھا، ایک سجے ہوئے کمرے میں داخل ہوا جہاں ایک خوب صورت لڑکی سو رہی تھی، لباس سے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شہزادی ہے۔

فیروز نے دو زانو ہو کر شہزادی کی آستین کو کھینچا، جس سے اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ ایک خوب صورت نوجوان کو اپنے پلنگ کے پاس پا کر بڑی گھبرائی۔

فیروز نے اسے دلاسا دیا اور اپنی بپتا سنائی۔

یہ شہزادی بنگال کے راجا کی بڑی لڑکی تھی اور یہ عالی شان محل اس کے باپ نے دارالحکومت سے کچھ فاصلے پر خاص اس کے لیے ہی تعمیر کروایا تھا اور وہ اسی میں رہائش کیا کرتی تھی۔

جب فیروز نے اپنا حال بیان کر چکا تو شہزادی نے کہا۔ ارے شہزادے ، مطمئن رہو، یہاں تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو گی، جس طرح سے تم اپنے ملک میں رہتے تھے ، یہاں بھی اسی شان و شوکت کے ساتھ رہو گے ، مجھے امید ہے کہ تمہیں میرے مہمان بن کر رہنے میں کوئی عذر نہیں ہو گا۔

فیروز کو بھلا اس کی درخواست قبول کرنے سے کب انکار ہوسکتا تھا شہزادی نے بھی اس کا دل بہلانے میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا۔ اسی طرح چند ہفتے گزر گئے۔

ایک دن فیروز نے شہزادی سے کہا۔ میں کب تک یہاں بے کار پڑا رہوں گا۔ اب مجھے اجازت دیجیے تاکہ ا پنے گھر جاؤں۔ اس پر شہزادی بولی۔ میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی۔

ایک دن صبح ہی صبح، جب کہ سب خدمت گار سوئے پڑے تھے ، فیروز نے اپنے گھوڑے پر سوار ہو، شہزادی کو پیچھے بٹھا، پیچ مروڑا، گھوڑا آناً فاناً ہوا میں اس تیزی سے اڑا کہ ابھی دو گھنٹے بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ ایران کے پایہ تخت کے قریب آ پہنچا۔ فیروز نے گھوڑے کا رخ ایک حویلی کی طرف کیا جو محل سے کچھ فاصلے پر تھی، شہزادی کو وہاں چھوڑا، خدمت گاروں کو اس کی سب ضروریات بہم پہنچانے کا حکم دیا اور خود گھوڑے پر سوار ہو، تن تنہا بادشاہ کوا پنا قصہ سنانے کے لیے روانہ ہوا، جب وہ بازاروں سے گزرا تو لوگوں نے شہزادے کو دوبارہ زندہ دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجانی شروع کیں۔ محل میں پہنچا تو بادشاہ اسے دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ شہزادے کو گلے لگایا۔ خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس خوشی میں حکم دیا کہ ہندی کو فوراً رہا کر کے مع گھوڑے کے ملک سے باہر نکال دیا جائے۔

شہزادی کو محل میں لانے کے لیے تیاریاں ہونے لگیں۔ ایک عظیم الشان جلوس اس غرض سے نکالا گیا۔

جب ہندی نے سنا کہ فیروز اس گھوڑے پر ایک شہزادے اپنے ساتھ لایا ہے اور اسے ایک حویلی میں چھوڑ کر بادشاہ کے پاس آیا ہے تو اس نے سوچا کہ اب بدلہ لینے کا موقع ہے ، اس نے اس حویلی کی راہ لی جہاں شہزادہ ٹھہری ہوئی تھی، وہاں پہنچ کر شہزادی سے کہا۔ بادشاہ نے مجھے آپ کو لانے کے لیے بھیجا ہے۔

شہزادی تیار ہو گئی، دونوں کل کے گھوڑے پر جسے فیروز وہاں چھوڑ گیا تھا، سوار ہو گئے۔ ہندی کا پیچ مروڑنا تھا کہ گھوڑا ہوا کی تیزی سے بادشاہ اور خادموں کی نظروں کے سامنے آسمان کی طرف اڑ گیا۔

بادشاہ نے للکار کر کہا۔ نیچے اتر اور شہزادی کو ہمارے حوالے کر۔ لیکن ہندی نے ذرا بھی اس کے حکم کی پروا نہ کی، اور دوسرے دن دونوں کشمیر کے ایک خوب صورت اور سر سبز جنگل میں پہنچے ، شہزادی کو اب معلوم ہوا کہ وہ ایک دشمن کے ہاتھ میں ہے جو ضرور اس پر ظلم کرے گا۔ اس نے چاہا کہ کسی طرح سے اپنی جان اس کے ہاتھ سے چھڑائے۔

جونہی وہ زمین پر اترے ، شہزادی نے چلا کر رونا شروع کر دیا۔ اس کے رونے سے ایک ہنگامہ جنگل میں برپا ہوا۔ اس غل کے سنتے ہی سواروں کے ایک گروہ نے وہاں آ کر دونوں کو گھیر لیا۔ یہ سوار کشمیر کے بادشاہ کے ملازم تھے ، شار سے لوٹتے وقت ادھر آنکلے اور رونے کی آواز سن کر وہاں دوڑے آئے۔

کشمیر کے بادشاہ نے ہندی سے پوچھا: تو کون ہے اور یہ عورت جو تیرے ہمراہ ہے ، کون ہے ؟

ہندی نے کہا۔ یہ میری بیوی ہے ، تمہیں اس بات سے کیا غرض۔

شہزادی بولی: یہ شخص جھوٹا ہے ، اس کا آپ ہرگز اعتبار نہ کریں، یہ ایک جادوگر ہے جو مجھے کل کے گھوڑے پر بٹھا کر ایران سے اڑا کر دھوکے سے لے آیا ہے۔

بادشاہ کو شہزادی کی بات کا اعتبار آ گیا۔ اس نے سواروں کو حکم دیا کہ اس ہندی کا سر قلم کر دو۔

شہزادی اس ہندی سے نجات پا کر اب بادشاہ کشمیر کے بس میں پڑ گئی، محل میں پہنچ کر بادشاہ نے شہزادی سے کہا۔

خواہ تم رضا مند ہو یا نہ ہو۔ میں نے تمہارے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہ بات سنتے ہی شہزادی بے ہوش ہو کر گر پڑی۔

جب اسے ہوش آیا تو ایک ترکیب سوجھی۔ خود کو دیوانہ بنا کر، بادشاہ کو ہزار ہا گالیاں دینے لگی، بادشاہ نے کئی طبیب شہزادی کے معالجے کے لیے بلوائے ، لیکن شہزادی کا یہ حال تھا کہ وہ کسی کو پاس نہ پھٹکنے دیتی تھی، وہ جانتی تھی کہ اگر حکیموں نے نبض دیکھی تو سب راز فاش ہو جائے گا، جب کوئی نزدیک پہنچنے کی کوشش کرتا تو جھنجھلا کر اس کے مارنے اور کاٹنے کا قصد کرتی، اس خوف سے کوئی اس کے پاس نہ جا سکتا تھا۔ بادشاہ نے دور دور کی سلطنتوں سے طبیب بلوائے ، مگر سب ناکام رہے۔

اب فیروز کا حال سنیے ، وہ شہزادی کی جدائی میں بے قرار ہو کر فقیرانہ لباس پہنے ، شہر بہ شہر اور ملک بہ ملک اسے ڈھونڈتا پھرتا تھا، اتفاق سے پھرتا پھرتا بادشاہ کشمیر کے محل میں پہنچ گیا، وہاں اس نے لوگوں کی زبانی سنا کہ ایک بنگالے کی شہزادی آئی ہوئی ہے ، جس کے ساتھ بادشاہ شادی کرنا چاہتا ہے مگر وہ پاگل پن میں ایسی مبتلا ہے کہ کسی طرح اچھی نہیں ہوتی۔

فیروز سمجھ گیا کہ یہ شہزادی وہی ہے جس کی تلاش میں میں نے شہر بہ شہر خاک چھانی ہے۔

حکیم کا بھیس بدل کر وہ محل میں پہنچا اور علاج کرنے کی ذمہ داری اٹھائی، لیکن یہ شرط کر لی کہ علاج وہ کسی کے سامنے نہیں کرے گا۔

بادشاہ نے اس شرط کو قبول کیا اور حکیم کو شہزادی کے کمرے میں جانے کی اجازت بخشی، شہزادی نے اسے حکیم سمجھ کر برا بھلا کہنا شروع کر دیا، لیکن فیروز نے نزدیک پہنچ کر آہستہ سے کہا۔ میں حکیم نہیں ہوں۔ ایران کا شہزادہ ہوں اور تمہاری رہائی کے لیے یہ بھیس بدل کر یہاں آیا ہوں۔

شہزادی نے بھی فیروز کو پہچان لیا اور حیران ہو کر اس کے وہاں تک پہنچنے کا حال پوچھا۔ اور اپنا حال بھی جو اس پر گزرا تھا، بیان کیا، شہزادی نے کہا کہ بادشاہ کشمیر اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ، فیروز نے کہا۔ تسلی رکھو۔ اس کا ارادہ ہر گز پورا نہ ہونے دوں گا۔ تمہیں اس کے ظلم سے بچانے کی کوئی اچھی سی تدبیر نکالوں گا۔

اب شہزادہ فیروز بادشاہ کے حضور میں پہنچا اور عرض کیا: جہاں پناہ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہزادی کسی جادو کے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کی سلطنت میں پہنچی ہے۔ بادشاہ نے کہا۔ ہاں یہ بات درست ہے اور گھوڑا اب بھی میرے خزانے میں موجود ہے۔ گھوڑا کیا ہے ، ایک عجیب و غریب چیز ہے۔

شہزادے نے کہا: حضور، شہزادی پر جادو کا اثر ہو گیا ہے جو ایک خوشبودار سفوف کے جلانے سے ، جو کہ میرے پاس ہے ، دور ہوسکتا ہے ، کل آپ گھوڑے کو کسی میدان میں منگوائیے اور شہزادی بھی وہاں پہنچے ، میں وعدہ کرتا ہوں کہ چند ہی منٹوں میں شہزادی صحت یاب ہو جائے گی۔

یہ عجیب علاج دیکھنے کے لیے بہت سے لوگ جمع ہو گئے ، شہزادی کو گھوڑے پر بٹھایا گیا، فیروز نے گھوڑے کے اردگرد آگ کی بارہ انگیٹھیاں رکھوائیں اور ان میں خوشبودار سفوف ڈال دیا۔ فوراً ہی انگیٹھیوں سے دھوئیں کا بادل اٹھا جس میں گھوڑا اور شہزادی چاروں طرف سے چھپ گئے تب شہزادہ لپک کر شہزادی کے پیچھے بیٹھ گیا اور گھوڑے کی گردن کا پیچ گھما دیا۔ پیچ گھماتے ہی گھوڑا آسمان کی طرف اڑنے لگا۔

اسی روز شہزادہ فیروز شہزادی کو لے کر ایران میں اپنے باپ کے محل میں پہنچ گیا، بادشاہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کچھ دن بعد دونوں کی شادی دھوم دھام سے رچائی گئی۔

شادی کے بعد بادشاہ ایران نے ایک سفیر بنگالہ کے راجا کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ اسے اس امر سے مطلع کرے اور یہ شادی دونوں ملکوں کے درمیان ایک قسم کا صلح نامہ سمجھا جائے ، بنگالہ کا راجا یہ خبر سن کر نہایت خوش ہوا اور اس طرح یہ دونوں ملک دوستی کے بندھن میں بندھ گئے۔

٭٭٭

 

وہ تو ہماری بھی نانی نکلی

ظفر، شوکت اور اقبال اپنے چچا سے کہانی سننے کے لیے ضد کر رہے تھے ، چھوٹی نسرین بھی توتلی زبان سے ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ چچا ہمیں ٹھگوں والی کہانی سناؤ۔

ہاں ہاں ! ٹھگوں والی۔ ٹھگوں والی، ٹھگوں والی۔ دوسرے بھی بول پڑے اور شور مچانے لگے۔

اچھا بھئی لو۔ ٹھگوں والی کہانی ہی سن لو۔ ہاں نسرین، بھئی تم ہنکارا دیتی جانا۔

ہاں تو ایک بڑھیا تھی۔

جیسے ہماری نانی ہیں ….؟ نسرین بول پڑی۔

نہیں، جیسے میری نانی ہیں۔ شوکت نے کہا۔

تم سب جھوٹے ہو وہ تو میری نانی کی طرح تھی۔ ظفر بول پڑا۔

ہاں بھئی تمہاری نانی کی طرح ہی تھی۔ اب اگر بیچ میں کوئی بولا تو میں کہانی نہیں سناؤں گا۔

ہاں تو وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پاتا پہن کر کہیں جا رہی تھی۔

چچا کیا کیا گہنا تھا؟

دیکھو نسرین! تم پھر بیچ میں بول پڑیں۔ گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ باہوں میں گنگن تھے اور گلے میں ہار تھا۔ مگر یہ سارے زیور تھے سونے کے۔ سمجھی نا۔ پھر یہ ہوا کہ بے چاری بڑھیا کے پیچھے دو ٹھگ لگ گئے۔ دونوں بڑے چال باز، مکار اور عیار تھے۔ دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔ دونوں چاہتے تھے کہ بڑھیا سے سارے کا سارا زیور ہتھیا لیں۔ لیکن بڑھیا نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے ، وہ ٹھگ تو ٹھگ تھے ہی…. یہ بڑھیا ان کی بھی نانی تھی۔

ایک ٹھگ نے آگے بڑھ کر علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ بڑی اماں کہاں جا رہی ہو؟

بیٹا! شہر جا رہی ہوں بڑھیا نے جواب دیا۔

پھر تو خوب ساتھ ہوا۔ بڑی اماں ، ہم بھی تو شہری ہی جا رہے ہیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔

ہاں بیٹا! اچھا ہو گیا۔ بڑھیا نے کہا۔

تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک ٹھگ بولا۔

بڑی اماں کوئی کہانی ہی سناؤ جس سے سفر کی تھکان معلوم نہ ہو اور وقت بھی جلد کٹ جائے۔

بیٹا! میں بھلا کون سی کہانی سناؤں ؟ تم ہی کچھ کہو۔

ہم سنائیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ مگر بڑی اماں ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ اگر تم نے ہماری کہانی کو جھوٹ کہا تو ہم تمہارے کنگن اتار لیں گے۔ بڑھیا نے ان کی یہ شرط مان لی اور ایک ٹھگ کہانی سنانے لگا۔

بڑی اماں ! ہماری ایک گائے تھی۔ بڑی خوب صورت موٹی موٹی آنکھیں تھیں اس کی۔ لمبے لمبے کان تھے۔ دودھ اتنا دیتی تھی کہ ہم دوہتے دوہتے تھک جاتے تھے لیکن دودھ پھر بھی ختم نہ ہوتا تھا۔ اس میں خاص بات یہ تھی کہ اگر ہم اس کے داہنے سینگ پر بیٹھ جاتے تو مغرب میں پہنچ جاتے اور جب بائیں پر بیٹھتے تو مشرق میں آ جاتے۔

پاکستان بننے پر جب ہم قافلے کے ساتھ پاکستان آ رہے تھے تو ہم پر فسادیوں نے حملہ کر دیا۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور ہماری گائے کو لگی جس سے بے چاری وہیں ڈھیر ہو گئی۔

بڑا افسوس ہوا۔ بڑھیا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

بڑی اماں ! اب تم کچھ سناؤ۔ ٹھگ نے تیر نشانے پر نہ لگتے دیکھ کر کہا۔

میں سناؤں ؟ بڑھیا نے کہا۔ اگر تم نے میری بات کو غلط جانا تو تمہیں ایک سو روپیہ دینا پڑے گا۔

ٹھگو نے کہا۔ ہمیں منظور ہے۔

تو پھر سنو بیٹو! جب میری شادی ہوئی تو میرے والد نے ایک بیل بھی مجھے جہیز میں دیا۔ بڑا اچھا بیل تھا۔ کسی کو کچھ نہ کہتا تھا، ایک دفعہ یوں ہی باہر کھیت میں کوئی دوسرا بیل اس سے لڑ پڑا۔ ایسا لڑا کہ ہمارے بیل کے ماتھے پر اچھا خاصا زخم ہو گیا ہم نے بہتیرے علاج کرائے لیکن زخم نہ بھر سکا…. کرنا خدا کا یوں ہوا کہ بنولے کا دانہ اس کے زخم میں کہیں سے گر گیا۔ ہوتے ہوتے وہ اچھا خاصا پودا بن گیا۔ اس میں ایسی نفیس کپاس لگی کہ تمہیں کیا بتاؤں، وہ کپاس ہم نے جمع کرنی شروع کر دی۔ اتنی کپاس جمع ہو گئی کہ اب گھر میں جگہ نہ رہی، گھر گھر ہمارے بیل کے چرچے ہونے لگے ، بڑی بڑی دور سے لوگ اس انوکھے بیل کو دیکھنے کے لیے آتے۔ اس کی کپاس کو دیکھتے اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ اب ہمارے پاس اتنی زیادہ کپاس ہو گئی کہ سنبھالنا مشکل ہو گئی۔ ہم نے اسے بیلوا کر کاٹنا شروع کیا اور اس کا کپڑا لتا بنانے لگے ، کئی قسم کے کپڑے بنوائے ، جن میں کھیس بھی تھے ، ان کھیسوں میں سے دو کھیس کہیں چور ہو گئے۔ بیٹا! خدا جھوٹ نہ بلوائے ، یہ کھیس جو تم اوڑھے ہوئے ہو، وہی ہیں جو چوری ہوئے تھے۔ مہربانی کر کے یہ کھیس اتار دو۔

دونوں ٹھگوں نے اپنے کھیس بڑھیا کو دے دیے اور کرتے بھی کیا۔ شرط جوتھی۔ مجبور تھے۔

ہاں تو بیٹا! بڑھیا نے پھر کہانی کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم نے اس کپاس میں سے ململ کے تھان بنوائے۔ ململ کے تھانوں میں سے ایک تھان گم ہو گیا۔ یہ جو تمہاری پگڑیاں ہیں، اسی تھان کی ہیں، یہ بھی اتار دو۔

انہوں نے پگڑیاں بھی اتار دیں۔ نہ اتارتے تو شرط کے مطابق سو روپیہ دیتے۔

اب شہر نزدیک ہی تھا۔ ایک ٹھگ بولا۔ بڑی اماں ! بھوک لگ رہی ہے۔

اچھا بیٹا! شہر آیا ہی سمجھو۔ مجھے اپنے کنگن بیچنے ہیں۔ کنگن بیچ لیں اور پھر آرام سے کسی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔

وہ خاموش ہو گئے اور سوچنے لگے کہ بڑھیا کنگن بیچ لے پھر کوئی داؤ چلائیں گے۔ وہ بڑھیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی دماغی سڑکوں پر تدبیروں کے گھوڑے دوڑانے لگے۔

اب وہ شہر میں پہنچ گئے تھے۔ ہر طرح خوب چہل پہل تھی۔ کھوے سے کھوا چلتا تھا۔ بڑھیا نے اپنے کنگن اتارلیے اور ان سے کہنے لگی:

بیٹا! سنار کی دکان آ گئی ہے۔ تم یہاں بیٹھو میں اپنے کنگن بیچ لوں۔

وہ سنار کی دکان کے قریب ہی بیٹھ گئے اور بڑھیا سنار کی دکان پر پہنچ گئی۔

کیا چاہیے اماں تمہیں ؟ سنار نے پوچھا۔

میں اپنے دو نوکر بیچنا چاہتی ہوں وہ سامنے بیٹھے ہیں۔

نوکروں کی تو ہمیں بہت ضرورت تھی۔

سنار نے کہا۔ بولو اماں ! کیا قیمت ہے ان دونوں کی؟

تین سو روپے۔ بڑھیا نے کہا اور بات دو سو روپے پر طے ہو گئی۔

میں نوکروں سے پوچھ لوں کہ ان میں سے ایک بکنا چاہتا ہے یا دونوں ؟ بڑھیا نے کہا اور پھر بلند آواز سے پوچھنے لگی۔ بیٹا! ایک بیچوں یا دونوں ؟

ادھر سے جواب ملا۔ اماں ! دونوں بیچ دے۔ ایک کو کہاں رکھے گی؟

بڑھیا نے دو سو روپوں میں دونوں ٹھگوں کو سنار کے ہاتھ بیچ دیا اور ان کے پاس آ کر کہنے لگی۔ بیٹا! تم یہیں بیٹھو۔ میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔

کچھ مٹھائی بھی لیتی آنا اماں ! دونوں نے کہا اور بڑھیا اچھی بات کہہ کر نو دو گیارہ ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد سنار نے انہیں بلایا اور دریاں جھاڑنے کا حکم دیا تو ان کو حقیقت معلوم ہوئی اور انہوں نے کہا۔

ارے ، وہ تو ہماری بھی نانی نکلی۔

کیوں ظفر! اچھی کہانی ہے ناں ….؟

ہاں چچا جان! اچھی کہانی ہے۔ کوئی اور سنائیے۔ بچوں نے کہا۔

نہیں بھئی۔ اب رات زیادہ ہو گئی ہے سوجاؤ۔ صبح تمہیں اسکول بھی جانا ہے۔ دیکھو نسرین بھی جمائیاں لے رہی ہے۔ کل تم نے اپنے سبق فر فر سنا دیے تو ایک اور دلچسپ کہانی سناؤں گا۔ اچھا اب سوجاؤ۔ شاباش۔

٭٭٭

 

ایک دن کا ذکر ہے

جب میں اسکول سے آئی تو دیکھا کہ گھر اکیلا ہے۔ صرف نوکر ہی گھر میں ہیں۔ میں نے رشید سے پوچھا۔ ممی کہاں ہیں رشید؟ اس نے بتایا کہ جیلر صاحب کے لڑکے کی شادی ہے۔ وہاں گئی ہیں۔ سیمیں کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی تھیں۔ چھوٹے بھائی ابھی اسکول سے نہیں آئے تھے۔ پاپا دورے پر تھے اور باجی، بھائی جان تو اپنے کالج میں رہتے ہی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ کہ گھر پر میں ہی تھی۔ کھانا نکالنے کے لیے کہہ کر میں کپڑے بدلنے چلی گئی۔

زیبا بی بی! آپ کو بھی آنے کے لیے حکم دیا ہے بیگم صاحب نے۔ انور نے مجھے پانی دیتے ہوئے کہا۔

کہاں آنے کا؟ میں نے پوچھا۔

شادی میں۔ آپ کے واسطے فراک، شلوار نکال کر رکھ دیا ہے۔ کچھ دیر آرام کر لیجئے۔

سہ پہر کو حمید پہنچا دے گا۔ تب تک چھوٹے میاں بھی آ جائیں گے۔ انور نے کہا۔

اچھا کہہ کر میں کھانا کھانے لگی۔ اس کے بعد اپنے کمرے میں آئی۔ سوچا کچھ دیر آرام کر لوں۔ مگر پھر خیال آیا کہ اسکول کا کام پورا کر لینا چاہیے۔ نہ جانے کتنی رات کو واپسی ہو۔ پھر نیند آ جائے۔ میں نے اپنی نوٹ بک دیکھی، جس میں اسکول کا ملا ہوا کام لکھتی ہوں۔ آج کا کام تو بہت ہی ہے۔ کیسے پورا ہوسکے گا اتنی سی دیر میں۔ تین سوال حساب کے کرنا، انگریزی کے جملے بنانا، نقشے میں پہاڑ دریا بنانا۔ اردو نظم یاد کرنا۔ تاریخ کے سوال لکھنا اور ڈرائنگ…. یا اللہ ! آج تو سب ہی استانیوں نے کام دے دیا۔ میں نے قطعی فیصلہ کر لیا کہ آج شادی میں نہیں جاؤں گی۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں پڑھنے بیٹھ گئی اور ابھی پورا صفحہ بھی نہیں لکھ پائی تھی کہ قلم ٹوٹ گیا۔ قلم بنانا مجھے آتا نہیں۔ سوچا چھوٹے بھائی آ گئے ہوں گے۔ ان سے بنوا لوں گی۔ کمرے سے باہر آئی۔ رشید نے بتایا کہ وہ تو شادی میں چلے گئے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں۔ کہتی ہوئی پاپا کے کمرے میں گئی تاکہ قلم تراش لے کر خود ہی جیسا بھی آتا ہے ، قلم بنا کر کام چلا لوں۔

میں چاقو تلاش کر رہی تھی۔ چیزوں کو احتیاط سے اٹھاتی تھی تاکہ خراب نہ ہو جائیں اور پاپا آ کر خفا ہوں۔ یکایک مجھے میز کے نیچے کچھ سرسراہٹ معلوم ہوئی۔ ساتھ ہی ردی کی ٹوکری بھی گری۔ جھک کر دیکھا تو مارے ڈر کے برا حال ہو گیا۔ ایک سانپ خاصہ بڑا تقریباً دو ڈیڑھ فٹ لمبا، بہت چمکیلا اور خوب صورت میز کے نیچے …. یا اللہ! اب میں کیا کروں ….؟ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ دل چاہا بھاگ جاؤں۔ مگر پھر سوچا نہ جانے یہ سانپ کدھر چلا جائے اور پھر کس وقت نکل آئے …. کیا کروں ! مارنا میرے لیے ناممکن تھا۔ اگر چیخ کر کسی نوکر کو بلاتی تو یہ خیال تھا کہ شاید آواز سن کر سانپ مجھ پر حملہ کر دے۔ ایک ہی منٹ میں یہ سب خیالات میرے دماغ میں پیدا ہوئے ، مگر سب میں خطرہ ہی خطرہ تھا۔ ایک دم مجھے خیال آیا کہ ممی سوتے وقت آیتہ الکرسی پڑھ کر سارے گھر پر حصار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اللہ ہماری حفاظت کرتا ہے مگر مجھے تو آیتہ الکرسی بھی نہیں آتی۔ صرف دو ایک آیتیں شروع کی، سنتے سنتے یاد ہو گئی تھیں۔ جلدی جلدی میں نے وہی پڑھنا شروع کیں اور قل ھو اللہ کئی بار پڑھ کر اپنے اوپر حصار کیا۔ مجھے ایسا معلوم ہونے لگا جیسے سانپ کوئی ڈرنے کی چیز ہی نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ثریا نے ایک مرتبہ کہا تھا۔ اس کی باجی یا حفیظ بہت پڑھتی ہیں۔ ان کو ڈر نہیں لگتا۔

میں نے یاحفیظ یا حفیظ بہت جلدی جلدی کہہ کر حصار کرنا شروع کیا۔ میں برابر یا حفیظ کہتی رہی اور وہ سانپ مجھ کو دیکھتا رہا۔ اب اس کی آنکھوں سے مجھے بالکل ڈر نہیں لگ رہا تھا اور شاید اس کی بھی اتنی ہمت نہ پڑتی تھی کہ میرے قریب آئے یا کم از کم کہیں بھاگ ہی جائے۔ وہ جہاں تھا وہاں ہی کنڈلی بنا کر بیٹھ گیا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔ جب خدا تمہاری حفاظت کر رہا ہے تو میری کیا مجال جو نقصان پہنچاؤں۔

گزشتہ چھٹیوں میں باجی میرے لیے جو کتاب لائی تھیں، اس میں لکھا تھا کہ سانپ کو ہرگز زندہ نہ چھوڑو۔ وہ انسان کا دشمن ہے اور موقع ملنے پر اس کو مار ڈالتا ہے ، اس لیے بہتر ہے کہ موذی کو ایذا پہنچانے سے پہلے مار ڈالا جائے۔ مگر میں اس کو ماروں کیسے ؟ یہ بڑا مشکل سوال تھا۔ آخر کار میری نظر میز پر رکھی ہوئی لکڑی کی ٹرے پر پڑ گئی جس میں پاپا کے کاغذات اور فائل رکھے تھے۔ میں نے اس کو خالی کیا اور مسلسل یا حفیظ پڑھتے ہوئے بڑی ہمت کر کے وہ ٹرے سانپ کے اوپر الٹی رکھ دی۔ میری خوشی کی حد نہ رہی، جب دیکھا کہ وہ سانپ بہت آسانی سے اس کے اندر بند ہو گیاہے۔ پھر بھی اندیشہ تھا۔ شاید اس کو ہٹا کر بھاگ جائے۔ کچھ وزن اس کے اوپر رکھنا چاہیے۔ سارے کمرے میں تلاش کرنے کے بعد اور تو کچھ ملا نہیں۔ ٹائپ رائٹر اٹھا کر اس پر رکھ دیا اور باہر جانے لگی کہ کسی نوکر کو بلا کر سانپ کو مروا دوں۔ میں ابھی برآمدے ہی میں تھی کہ دیکھا پاپا آ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ رشید ان کا ہیٹ اور چھڑی لیے آ رہا تھا۔ اپنے کمرے سے نکلتے دیکھ کر پاپا نے کہا۔ "کیا کر رہی تھیں زیبی ہمارے کمرے میں ؟۔

جی کچھ نہیں …. قلم تراش لینے گئی تھی۔ میں نے جواب دیا۔

ملا؟ انہوں نے پوچھا۔

جی نہیں ! وہاں سانپ ہے میں نے کہا۔

سانپ! کہاں ہے ؟ چلو دکھاؤ کہتے ہوئے پاپا اندر آئے اور رشید گھبرانے لگا۔

سرکار! سانپ کیسے ہوسکتا ہے ؟ روزانہ تو جھاڑو لگتی ہے فرش پر۔ سانپ کا کیا کام؟ بیبی کو دھوکا ہوا ہو گا مگر پاپا نے اس کی ایک بھی نہ سنی۔ اندر آ کر بولے۔ کہاں ہے سانپ؟ کس طرف دیکھا تھا تم نے ؟

دیکھو الماری کے نیچے چلا گیا ہو گا۔ فرش ہٹا دو رشید…. اور نہ جانے کیا کیا ایک ہی سانس میں کہہ گئے۔ ان کو بہت تعجب ہوا جب میں نے میز کے نیچے اشارہ کیا۔ جہاں الٹی ٹرے پر ٹائپ رائٹر رکھا تھا۔ کہاں ؟ انہوں نے ایک مرتبہ پھر پوچھا۔

ٹرے کے نیچے …. میں نے کہا۔

وہ کیسے ؟

میں نے سارا قصہ بتایا کہ کس طرح میں نے اس کو قید کیا ہے۔ پاپا نے رشید سے چھڑی لے کر ٹرے ہٹانا چاہی۔ مگر رشید نے ایک جاں نثار نوکر کا فرض ادا کرتے ہوئے کہا۔

آپ نہ تکلیف کیجئے سرکار! میں ابھی مارے ڈالتا ہوں وہ باہر سے بلم لایا اور ٹرے ہٹا کر دیکھا۔ سانپ بدستور بیٹھا تھا۔ رشید نے اس کو مار دیا۔

پاپا دیکھیے ! میں سچ کہہ رہی تھی نا؟ میں نے کہا۔

اور کیا جھوٹ بھی بول سکتی ہے میری بیٹی؟ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے خوب زور سے پیار کیا۔

شام کو خلاف توقع ممی جلدی واپس آ گئیں۔ میرے نہ آنے کا سبب پوچھا تو میں نے بتایا کہ اسکول کا کام زیادہ تھا۔ اس لیے نہیں آئی۔

وہاں ثریا، ناہید، رفعت، شاہدہ، آمنہ اور اچھی بی نے تمہارا اس قدر انتظار کیا کہ حد ہو گئی”۔ ممی نے برقع اتارتے ہوئے کہا۔

بیگم! اور سنا تم نے آج کا زیبی کا کارنامہ؟ پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ کیا؟ ممی بولیں۔

اور پاپا نے کل قصہ سنا دیا۔ ممی بہت خوش ہوئیں۔ مجھے پیار کیا اور خوب شاباش دی۔

٭٭٭

 

ننھا شاہین

صبح کے نو بج چکے ہیں۔ لاس اینجلس کے ایک چھوٹے سے ائیر پورٹ پر ہر طرف مانوس سی ہلکی ہلکی دھند پھیلی ہوئی ہے۔ ائیر پورٹ کے ایک کونے میں سیسنا۔ 210 ایک چھوٹا سا جہاز کھڑا ہے۔ ائیر پورٹ کے اطراف میں لگی ہوئی ریلنگ کے ساتھ مقامی باشندے کافی تعداد میں موجود ہیں۔ لوگ بار بار بے چینی سے کبھی اپنی کلائیوں پر بندھی گھڑیوں اور کبھی ائیر پورٹ کے ایک کونے میں بنے ہوئے کیبن کی جانب دیکھتے ہیں اور پھر چپس کھاتے یا چیونگم چباتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مدھم مدھم گفتگو میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

یکایک بھیڑ میں ایک شور بلند ہوا اور سب لوگ تیزی کے ساتھ کھڑے ہو کر کیبن کی جانب دیکھنے لگے جہاں سے سرخ و سپید رنگت اور بھورے بالوں والا ایک گداز بچہ پائلٹ کا لباس پہنے اپنے انسٹرکٹر کے ساتھ نکل رہا تھا۔ ہجوم نے بچے کو دیکھ کر زور دار انداز میں تالیاں بجانا شروع کریں۔ بچہ لوگوں کے استقبالیہ نعروں اور تالیوں کا ہاتھ ہلا کر جواب دیتے ہوئے جہاز میں جا کر بیٹھ گیا۔ لوگ خاموش ہو گئے اور تجسس بھری نظروں کے ساتھ ائیرپورٹ کے ایک کونے میں کھڑے ہوئے چھوٹے سے جہاز کو دیکھنے لگے۔

تھوڑی دیر بعد وہ چھوٹا سا جہاز گھرگھرا کر رن وے پر دوڑتا ہوا فضا میں بلند ہو گیا اور یوں دنیا کی فضائی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ کا اضافہ ہوا۔

جہاز اڑانے والے اس بچے کا نام جان لیون مل ہے۔ اس کی عمر گیارہ برس ہے۔ اس اعتبار سے یہ دنیا کا کم ترین پائلٹ ہے۔ کم عمری کے علاوہ جان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اس جہاز کے ذریعے لاس اینجلس سے واشنگٹن ڈی سی تک ڈھائی ہزار میل کا سفر خود جہاز اڑا کر طے کیا۔ جان سے پہلے چوں کہ اتنے کم عمر بچے نے جہاز اڑا کر اتنا طویل فاصلہ طے نہیں کیا تھا۔ اس لیے وہ جس شہر سے گزارا اس کا زبردست استقبال کیا گیا۔

جان کو جہاز اڑانے کا شوق اس وقت ہوا جب اس نے اتفاقی طور پر نو برس کی عمر میں 20 منٹ کی پہلی تعارفی فلائٹ لی۔ اس وقت بیس منٹ فضا میں رہنے کے بعد جب وہ دوبارہ زمین پر آیا تو اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ باقاعدہ جہاز اڑانا سیکھنا چاہتا ہے۔ جان کے شوق کو دیکھتے ہوئے اس کے والد نے اسے مقامی فلائنگ کلب کا ممبر بنوا دیا۔ یوں جان نے نو برس کی عمر سے جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ اپنے شوق کے باعث جان جلد ہی اس منزل پر پہنچ گیا کہ وہ طویل سفر پر روانہ ہوسکے۔

اگرچہ جان نے سات دنوں پر مشتمل ڈھائی ہزار میل کا یہ فضائی سفر خود جہاز اڑا کر طے کیا لیکن اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا انسٹرکٹر بھی مسلسل موجود رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی سول ایوی ایشن ا تھارٹی نے کسی حادثے کے امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے جان کو تنہا جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی۔

امریکا میں تنہا جہاز اڑانے کے لیے سولہ سال کی عمر ضروری ہے۔

سات دن کے اس طویل سفر کے دوران جان سارا دن جہاز اڑانے کے بعد شام ڈھلے کسی ائیر پورٹ پر اتر جاتا اور پھر رات گزار کر صبح پھر اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا۔ سفر کے دوران اگرچہ کئی بار موسم سخت خراب ہوا لیکن جان کا جہاز ہر بار کسی مصیبت کا شکار ہونے سے محفوظ رہا۔

سفر کے اختتام پر جب جان کا جہاز واشنگٹن کے نیشنل ائیرپورٹ پر اترا تو وہاں موجود سیکڑوں افراد نے جان کا زبردست استقبال کیا۔

واشنگٹن میں جان نے اپنی پسندیدہ شخصیت امریکا کے صدر رونالڈ ریگن سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان نے صدر سے اپنی ملاقات کو شاندار قرار دے دیا۔

جان کو صحافیوں سے شکایت ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا، صحافی حضرات سائے کی طرح وہیں پہنچ جاتے ہیں اور بقول جان کے اس سے اتنے مشکل مشکل سوالات کرتے ہیں کہ وہ پریشان ہو جاتا ہے۔

جان کو مچھلیوں کے شکار کا بہت شوق ہے ، مگر اب جہاز اڑانے کی تربیت میں اس کا ا تنا وقت صرف ہو جاتا ہے کہ اسے مچھلیوں کے شکار کے لیے وقت نہیں ملا، جان کو اس کا افسوس ہے۔

جان اب جہاز اڑانے میں اتنا ماہر ہو گیا ہے کہ جہاز اڑانے کو وہ کار چلانے کی طرح آسان قرار دیتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ جلد جہاز پر پوری دنیا کا سفر کرے۔ جان مستقبل میں خلا باز بن کر چاند پر جانا چاہتا ہے۔ جان کے شوق، محنت اور عزم کو دیکھتے ہوئے آپ کو ہمارا مشورہ ہے کہ جان کے نام کو یاد رکھیں، ممکن ہے دس بارہ سال بعد آپ سنیں کہ جان لیون مل نام کا ایک خلا باز چاند یا مریخ پر جانے والی شٹل کے چار خلا بازوں میں شامل ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید