FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

کتاب: دم جھاڑ کے مسائل

 

باب : نبیﷺ کو جبرئیل علیہ السلام کا دم کرنا۔

1443: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ بیمار ہوتے ، تو جبرئیل علیہ السلام آپﷺ پر یہ دعا پڑھتے کہ ”اللہ تعالیٰ کے نام سے میں مدد چاہتا ہوں وہ تم کو ہر بیماری سے اچھا کرے گا، تم کو ہر حسد کرنے والے کی برائی سے محفوظ رکھے گا اور ہر بُری نظر ڈالنے والے کی نظر سے تمہیں بچائے گا“۔

1444: عبدالعزیز بن صہیب، ابو نضرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ سیدنا ابو سعیدؓ  سے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمدﷺ! تم بیمار ہو گئے ؟ آپﷺ نے فرما یا کہ ہاں۔ سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ ”میں اللہ تعالیٰ کے نام سے تم پر دم کرتا ہوں ہراس چیز سے جو تمہیں ستائے اور ہر جان کی بُرائی سے یا حاسد کی نگاہ سے ، اللہ تمہیں شفاء دے اللہ کے نام سے میں تم پر دم کرتا ہوں“۔

باب : جادو کے بارے میں اور جو یہودیوں نے نبیﷺ پر جادو کیا تھا اس کا بیان۔

1445: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ پر بنی زریق کے ایک یہودی لبید بن اعصم نے جادو کیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ کو خیال آتا کہ میں یہ کام کر رہا ہوں حالانکہ وہ کام کرتے نہ تھے۔ ایک دن یا ایک رات آپﷺ نے دعا کی، پھر دعا کی، پھر فرمایا کہ اے عائشہ! تجھے معلوم ہوا کہ اللہ جل جلالہ نے مجھے وہ بتلا دیا جو میں نے اس سے پوچھا؟۔ میرے پاس دو آدمی آئے ، ایک میرے سر کے پاس بیٹھا اور دوسرا پاؤں کے پاس (وہ دونوں فرشتے تھے ) جوسر کے پاس بیٹھا تھا، اس نے دوسرے سے کہا جو پاؤں کے پاس بیٹھا تھا اس نے سر کے پاس بیٹھے ہوئے سے کہا کہ اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟ وہ بولا کہ اس پر جادو ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے ؟ وہ بولا کہ لبید بن اعصم نے۔ پھر اس نے کہا کہ کس میں جادو کیا ہے ؟ وہ بولا کہ کنگھی میں اور ان بالوں میں جو کنگھی سے جھڑے اور نر کھجور کے گابھے کے ریشے میں۔ اس نے کہا کہ یہ کہاں رکھا ہے ؟ وہ بولا کہ ذی اروان کے کنوئیں میں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ اپنے چند اصحاب کے ساتھ اس کنوئیں پر گئے اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! اللہ کی قسم اس کنوئیں کا پانی ایسا تھا جیسے مہندی کا زلال اور وہاں کے کھجور کے درخت ایسے تھے جیسے شیطانوں کے سر۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپﷺ نے اس کو جلا کیوں نہیں دیا؟ (یعنی وہ جو بال وغیرہ نکلے ) آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے تو اللہ نے ٹھیک کر دیا، اب مجھے لوگوں میں فساد بھڑکانا بُرا معلوم ہوا، پس میں نے حکم دیا اور وہ دفن کر دیا گیا۔

باب : معوذات کا مریض پر پڑھنے اور پھونک مارنے کا بیان۔

1446: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب گھر میں کوئی بیمار ہوتا، تو رسول اللہﷺ اس پر معوذات (سور ہ فلق اور سورہ ناس) پڑھ کر پھونکتے ، پھر جب آپﷺ بیمار ہوئے ، جس بیماری میں جس سے آپﷺ نے وفات پائی تو میں آپﷺ پر پھونکتی اور آپ ہی کا ہاتھ آپﷺ پر پھیرتی تھی کیونکہ آپ کے ہاتھ مبارک میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی۔

باب : اللہ کے نام کا ”دم“ اور پناہ مانگنے کا بیان۔

1447: سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفیؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اپنے ایک درد کی شکایت کی، جو ان کے بدن میں پیدا ہو گیا تھا جب سے وہ مسلمان ہوئے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین بار بسم اللہ کہو، اس کے بعد سات بار یہ کہو کہ ”میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس چیز کی بُرائی سے جس کو پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں“۔

باب : نماز کے اندر وسوسہ والے شیطان سے پناہ مانگنے کا بیان۔

1448: ابو العلاء سے روایت ہے سیدنا عثمان بن ابو العاصؓ  نبیﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! شیطان میری نماز میں حائل ہو جاتا ہے اور مجھے قرآن بھلا دیتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس شیطان کا نام خنزب ہے ، جب تجھے اس شیطان کا اثر معلوم ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اور (نماز کے اندر ہی) بائیں طرف تین بار تھوک لے۔ سیدنا عثمانؓ  نے کہا کہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس شیطان کو مجھ سے دور کر دیا۔

باب : بچھو سے ڈسے ہوئے آدمی کو سورۂ فاتحہ سے دم کرنا۔

1449: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ سفر میں تھے اور عرب کے کسی قبیلہ کے پاس سے گزرے ، ان سے مہمان نوازی چاہی تو انہوں نے مہمانی نہ کی۔ وہ کہنے لگے کہ تم میں سے کسی کو منتر یاد ہے ؟ ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا تھا۔ صحابہؓ میں سے ایک شخص بولا کہ ہاں مجھے منتر آتا ہے۔ پھر اس نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا تو وہ اچھا ہو گیا۔ پس انہیں بکریوں کا ایک گلہ دیا گیا، تو انہوں نے نہ لیا اور یہ کہا کہ میں رسول اللہﷺ سے پوچھ لوں۔ پھر آپﷺ کے پاس آ کر بیان کیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ اللہ کی قسم میں نے کچھ نہیں کیا سوائے سورۃ فاتحہ کے۔ آپﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ تجھے کیسے معلوم ہوا کہ وہ منتر ہے ؟ پھر فرمایا کہ وہ بکریوں کا گلہ لے لے اور اپنے ساتھ ایک حصہ میرے لئے بھی لگانا (کیونکہ قرآن نبیﷺ پر نازل ہوا تھا)۔

باب : ہر زہر کو دفع کرنے کے لئے دم کرنا۔

1450: اسود کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے انصار کے ایک گھر والوں کو زہر کے لئے دم کرنے کی اجازت دی تھی (جیسے سانپ بچھو کے کاٹنے سے )۔

باب : ”نملہ“ (ایک قسم کی پھنسی) کے لئے دم کا بیان۔

1451: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے نظر، ڈنک (زہر) اور نملہ کے لئے دم کرنے کی رخصت دی۔ (نملہ ایک پھنسی ہے جس میں جلن ہوتی ہے اور جگہ بدلتی رہتی ہے یا وہ پھنسیاں جو بغل میں ہوں)۔

باب : بچھو کے لئے دم کی اجازت۔

1452: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دم سے منع کیا تو عمرو بن حزم کے لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہمارے پاس بچھو کا دم ہے اور آپﷺ نے دم کرنے سے منع فرمایا ہے ؟ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے وہ دم نبیﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپﷺ نے فرمایا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، تم میں اگر کوئی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو تو پہنچائے۔

1453: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! مجھے اس بچھو سے بڑی تکلیف پہنچی جس نے کل رات مجھے کاٹ لیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو شام کو یہ کہہ لیتا کہ ”اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَق“ تو تجھے ضر ر نہ کرتا (نہ کاٹتا)۔

باب : نظر بد لگ جاتی ہے اور جب تم کو غسل کرنے کا حکم دیا جائے تو غسل کرو۔

1454: سیدنا ابن عباسؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: نظر سچ ہے (یعنی نظر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے تاثیر ہے ) اور اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو نظر ہی بڑھ جاتی (لیکن تقدیر سے کوئی چیز آگے بڑھنے والی نہیں)۔ جب تم سے غسل کرنے کو کہا جائے تو غسل کرو۔(کیونکہ جس کی نظر بد لگ جائے ، اس کے غسل کے پانی سے نظر لگے ہوئے کو غسل کرا دیا جائے تو ٹھیک ہو جاتا ہے )۔

باب : نظر بد کا دم۔

1455: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ مجھے نظر (لگ جانے کی وجہ سے ) دم کرنے کا حکم دیتے تھے۔

1456: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے آل حزم کے لوگوں کو سانپ کے (کاٹے کے ) لئے دم کرنے کی اجازت دی۔ اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کیا سبب ہے کہ میں اپنے بھائی کے بچوں کو (یعنی جعفر بن ابو طالب کے لڑکوں کو) دبلا پاتا ہوں، کیا وہ بھوکے رہتے ہیں؟ اسماء نے کہا کہ نہیں، ان کو نظر جلدی لگ جاتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی دم کر۔ میں نے ایک دم آپﷺ کے سامنے پیش کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو دم کر دیا کرو۔

باب : نظر بد سے دم کرنے کے متعلق۔

1457: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک لڑکی کو دیکھا، جس کے منہ پر جھائیاں تھیں (یعنی پیلیا کی بیماری تھی، اس کا چہرہ زردی مائل تھا)، آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو نظر لگی ہے ، اس کے لئے دم کرو۔

باب : زمین کی مٹی سے دم۔

1458: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا یا اس کو کوئی زخم لگتا، تو رسول اللہﷺ اپنی شہادت کی انگلی کو زمین پر رکھتے اور فرماتے کہ ”اللہ کے نام سے ہمارے ملک کی مٹی ، کسی کے تھوک کے ساتھ، اس سے ہمارا بیمار شفا پائے گا اللہ تعالیٰ کے حکم سے “۔

1459: سیدہ خولہ بنت حکیم السلمیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی منزل میں اترے ، پھر کہے کہ ”میں تمام مخلوق کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کے ان کامل التاثیر کلمات کی پناہ لیتا ہوں اس کی پیدا کی ہوئی ہر چیز کے شر سے بچنے کے لئے “ تو اس کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ اس منزل سے کوچ کرے۔

باب : آدمی کا اپنے گھر والوں کو دم کرنا، جبکہ وہ بیمار ہوں۔

1460: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہﷺ اپنا دایاں ہاتھ اس پر پھیرتے ، پھر فرماتے کہ ”اے مالک تو اس بیماری کو دُور کر دے اور تندرستی دے تو ہی شفا دینے والا ہے ، تیری ہی شفا ہے ، ایسی شفا دے کہ بالکل بیماری نہ رہے “ جب رسول اللہﷺ بیمار ہوئے اور آپﷺ کی بیماری سخت ہوئی، تو میں نے آپﷺ کا ہاتھ ویسے ہی کرنے کو پکڑا جیسے آپﷺ کیا کرتے تھے (یعنی میں نے ارادہ کیا کہ آپﷺ ہی کا ہاتھ پھیروں اور یہ دعا پڑھوں)، تو آپﷺ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں سے چھڑا لیا پھر فرمایا کہ اے اللہ! مجھے بخش دے اور مجھے بلند رفیق کے ساتھ کر۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر جو میں نے دیکھا تو آپﷺ کی وفات ہو چکی تھی۔ (یعنی اس دعا کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا)۔

1461: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ یہ دم پڑھا کرتے کہ ”اے مالک! تو اس بیماری کو دُور کر دے۔ شفاء تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، اسے تیرے سوا کوئی کھولنے والا نہیں ہے “۔

باب : ایسا دم کرنے میں کوئی حرج نہیں، جس میں شرک نہ ہو۔

1462: سیدنا عوف بن مالک اشجعیؓ  کہتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں دم کیا کرتے تھے ؟ ہم نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپﷺ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے دم کو میرے سامنے پیش کرو، دم میں کچھ قباحت نہیں اگر اس میں شرک کا مضمون نہ ہو۔

 

 

 

کتاب: بیماری اور علاج

باب : جو درد اور مرض مومن کو پہنچتی ہے اس کے ثواب کا بیان۔

1463: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہﷺ کے پاس گیا،آپﷺ کو بخار تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ کو تو سخت بخار آتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اتنا بخار آتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو آئے۔ میں نے کہا کہ کیا یہ اس لئے ہے کہ آپﷺ کے لئے دہرا اجر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو بیماری یا کچھ اور تکلیف پہنچی، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ ایسے گرا دیتا ہے جیسے درخت (سوکھے ) پتے گرا دیتا ہے۔

باب : بیمار پرسی کی فضیلت کا بیان۔

1464: سیدنا ثوبانؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بیمار کی عیادت (اس کے مکان پر جا کر) کرنے والا جنت کے ایک باغ میں ہے ، یہاں تک کہ وہ واپس لوٹے۔

1465: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو نے میری خبر نہ لی۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میں تیری خبر کیسے لیتا؟ تو تو سارے جہان کا مالک ہے ؟۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے معلوم نہیں ہے کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا، تو نے اس کی خبر نہ لی؟ اگر تو اس کی خبر لیتا تو تو مجھے اس کے نزدیک پاتا۔ اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھے کھانا نہ دیا۔ وہ کہے گا کہ اے رب! میں تجھے کیسے کھلاتا ؟ تو سارے جہاں کا مالک ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے اس کو نہ کھلایا؟ اگر تو اس کو کھلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تو نے مجھ کو پانی نہ پلایا۔ بندہ بولے گا کہ میں تجھے کیسے پلاتا تو تو سارے جہان کا مالک ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا، تو نے اس کو نہیں پلایا۔ اگر اس کو پلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔

باب : یوں نہ کہو کہ میرا نفس خبیث (گندا) ہو گیا ہے۔

1466: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی نہ کہے کہ میرا نفس خبیث ہو گیا (یعنی ناپاک اور نجس)، بلکہ یوں کہے کہ میرا نفس کاہل اور سست ہو گیا۔ (خبیث اور ناپاک کافر کا لقب ہے اور اس لئے مسلمان کو یہ لفظ اپنے لئے بولنے سے منع کیا گیا اور ایک حدیث میں آیا کہ پھر صبح کو خبیث النفس اٹھتا ہے تو وہ غیر کی صفت ہے اور شخص مبہم کا بیان ہے ، ایسا اطلاق منع نہیں)۔

باب : ہر بیماری کی دوا ہے۔

1467: سیدنا جابرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ہر بیماری کی دوا ہے ، جب وہ دوا بیماری پر پہنچتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفا ہو جاتی ہے۔

باب : بخار جہنم کی بھاپ سے ہوتا ہے اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔

1468: سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس کوئی بخار والی عورت لائی جاتی، تو وہ پانی منگواتیں اور اس کے گریبان میں ڈالتیں اور کہتیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس (بخار) کو پانی سے ٹھنڈا کرو اور فرمایا کہ بخار جہنم کی بھاپ سے ہوتا ہے۔

باب : بخار گناہوں کو دور کرتا ہے۔

1469: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اُمّ سائب (یا اُمّ مسیب) رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ، تو فرمایا کہ اے اُمّ السائب (یا اُمّ مسیب)! تو لرز رہی ہے تجھے کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ بخار ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو برکت نہ دے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بخار کو بُرا مت کہہ، کیونکہ وہ آدمیوں کے گناہوں کو ایسے دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے۔

باب : مرگی اور اس کے ثواب کے متعلق۔

1470: عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباسؓ  نے مجھ سے کہا کہ کیا میں تجھے ایک جنتی عورت دکھاؤں؟ میں نے کہا دکھلاؤ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کالی عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور بولی کہ مجھے مرگی کی بیماری ہے ، اس حالت میں میرا بدن کھل جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو صبر کرے تو تیرے لئے جنت ہو گی اور اگر تو کہے تو میں دعا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ تجھے تندرست کر دے گا۔ وہ بولی کہ میں صبر کروں گی۔ پھر بولی کہ میرا بدن کھل جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ میرا بدن نہ کھلے۔ آپﷺ نے اس عورت کے لئے دعا کی (چنانچہ اس کا بدن اس حالت میں ہرگز نہ کھلتا تھا۔ معلوم ہوا کہ بیماری اور مصیبت میں صبر کرنے کا بدلہ جنت ہے )۔

باب : تلبینہ بیمار کے دل کو خوش رکھتا ہے۔

1471: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ان کے گھر میں کوئی فوت ہو جاتا تو عورتیں جمع ہوتیں، پھر جب چلی جاتیں اور ان کے گھر میں صرف گھر والے اور خاص لوگ رہ جاتے ، تو وہ تلبینہ کی ایک ہانڈی کا حکم کرتیں (تلبینہ بھوسی یا اٹے میں شہد ملا کر حریرہ تیار کیا جاتا ہے )، پھر وہ پکتا۔ اس کے بعد ثرید (روٹی اور شوربا) تیار ہوتا اور تلبینہ کو اس پر ڈال دیتیں، پھر وہ عورتوں سے کہتیں کہ اس کو کھاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ تلبینہ بیمار کے دل کو خوش کرتا ہے اور اس کے پینے سے رنج کچھ گھٹ جاتا ہے۔

باب : شہد پلا کر علاج کرنا۔

1472: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میرے بھائی کو دست آ رہے ہیں، آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو شہد پلا دے۔ اس نے شہد پلا دیا۔ پھر آیا اور کہنے لگا کہ شہد پلانے سے دست اور زیادہ ہو گئے ہیں۔ آپﷺ نے تین مرتبہ یہی فرمایا کہ شہد پلا دے۔ پھر چوتھی بار وہ آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شہد پلایا، لیکن دست زیادہ ہو گئے آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ پھر اس نے شہد پلایا تو وہ ٹھیک ہو گیا۔

باب : کلونجی کے ساتھ دوا۔

1473: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، کالے دانے میں سوائے سام کے ہر بیماری کی شفا ہے۔ اور سام موت کوکہتے ہیں اور کالے دانے سے مراد کلونجی ہے۔

باب : جو عجوہ کھجور صبح کو کھائے تو اس کو (شام تک) کوئی زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

1474: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لے تو اسکو شام تک کوئی زہر نقصان نہ کرے گا اور نہ کوئی جادو اس پر اثر کرے گا۔

1475: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عالیہ (وہ حصہ مدینہ کا جو نجد کی طرف ہے ) کی عجوہ میں شفا ہے یا فرمایا کہ وہ صبح کے وقت تریاق ہے۔ (تریاق کا سا فائدہ رکھتی ہے )۔

باب : ”کھنبی“ ”من“ سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔

1476: سیدنا سعید بن زیدؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ کھنبی اس ”من“ میں سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اتارا تھا اور اس کا پانی آنکھ کے لئے شفاء ہے۔

باب : عود ہندی کے ساتھ دوا کا بیان۔

1477: سیدنا عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ سیدہ اُمّ قیس بنتِ محصن رضی اللہ عنہا (جو کہ مہاجرات کی پہلی عورتوں میں سے تھیں اور انہوں نے رسول اللہﷺ سے بیعت کی تھی اور وہ عکاشہ بن محصن کی بہن تھیں جو کہ بنی اسد بن خزیمہ میں سے تھے ) نے مجھے خبر دی، کہا کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس اپنا بچہ لے کر آئی جو ابھی کھانا کھانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا۔ اور عذرہ کی بیماری کی وجہ سے انہوں (اُمّ قیس) نے اس کا حلق دبایا تھا (یونس نے کہا کہ اعلقت بمعنی غمزت ہے۔ وہ بچے پر تشنج کے خطرہ سے ڈرتی تھیں) وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی اولاد کو تالو دبانے اور چڑھانے سے (انگلی یا لکڑی کی گھیرنی سے ) تکلیف کیوں دیتی ہو؟ تم عودِ ہندی یعنی ”کست“ کو لازم پکڑو۔ اس میں سات بیماریوں کا علاج ہے ایک ان میں سے ذات الجنب (پسلی کا درد) بھی ہے۔ عبید اللہ نے کہا کہ اُمّ قیس رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے اسی بچے نے رسول اللہﷺ کی گود میں پیشاب کر دیا تو آپﷺ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑے پر چھڑک دیا اور اس کو دھویا نہیں۔

باب : منہ میں دوائی ڈال کر علاج کرنا۔

1478: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی بیماری میں آپﷺ کے منہ میں دوا ڈالی تو آپﷺ نے اشارہ سے فرمایا کہ میرے منہ میں دوا مت ڈالو۔ ہم لوگوں نے آپس میں کہا کہ آپﷺ بیماری کی وجہ سے دوا سے نفرت کرتے ہیں (تو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں)۔ جب آپﷺ کو ہوش آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے سوائے عباسؓ  کے کہ وہ یہاں موجود نہ تھے۔ (آپﷺ نے ان لوگوں کو یہ سزا دی جنہوں نے آپﷺ کا حکم نہ مانا)۔

باب : پچھنا لگانے اور ناک میں دوائی ڈالنے کے متعلق۔

1479: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے پچھنے لگوائے اور پچھنے لگانے والے کو مزدوری دی اور آپﷺ نے ناک میں بھی دوا ڈالی۔

باب : پچھنے لگوانے اور داغنے کے ساتھ علاج کرنا۔

1480: عاصم بن عمر بن قتادہ کہتے ہیں کہ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  ہمارے گھر میں آئے اور ایک شخص کو زخم کی تکلیف تھی (یعنی قرحہ پڑ گیا تھا)۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ تجھے کیا تکلیف ہے ؟ وہ بولا کہ ایک قرحہ ہو گیا ہے جو کہ مجھ پر نہایت سخت ہے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ اے غلام! ایک پچھنے لگانے والے کو لے کر آ۔ وہ بولا کہ پچھنے لگانے والے کا کیا کام ہے ؟ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ میں اس زخم پر پچھنے لگوانا چاہتا ہوں، وہ بولا کہ اللہ کی قسم مجھے مکھیاں ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو مجھے تکلیف ہو گی اور مجھ پر بہت سخت (وقت) گزرے گا۔ جب سیدنا جابرؓ  نے دیکھا کہ اس کو پچھنے لگانے سے رنج ہوتا ہے تو کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ اگر تمہاری دواؤں میں بہتر کوئی دوا ہے تو تین ہی دوائیں ہیں، ایک تو پچھنا، دوسرے شہد کا ایک گھونٹ اور تیسرے انگارے سے جلانا اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا۔ راوی نے کہا کہ پھر پچھنے لگانے والا آیا اور اس نے اس کو پچھنے لگائے اور اس کی بیماری جاتی رہی۔

1481: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہؓ  نے رسول اللہﷺ سے پچھنے لگوانے کی اجازت چاہی، تو آپﷺ نے ابو طیبہ کو ان کے پچھنے لگانے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ ابو طیبہ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے یا نابالغ لڑکے تھے (جن سے پردہ ضروری نہیں اور ضرورت کے وقت دوا کے لئے اگر عورت یا لڑکا نہ ملے تو اجنبی شخص بھی لگا سکتا ہے )۔

باب : رگ کاٹنے اور داغنے سے علاج۔

1482: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا ابی بن کعبؓ  کے پاس حکیم کو بھیجا، اس نے ایک رگ کاٹی (یعنی فصد لی)، پھر اس پر داغ دیا۔

باب : زخم کا علاج داغ دینے سے۔

1483: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا سعد بن معاذؓ  کو اکحل (ایک رگ ہے ) میں تیر لگا، تو رسول اللہﷺ نے ان کو اپنے ہاتھ سے تیر کے پھل سے داغ دیا، ان کے ہاتھ پر سوزش ہو گئی تو آپﷺ نے دوبارہ داغ دیا۔

باب : شراب کے ساتھ دوا (جائز نہیں)۔

اس باب کے بارے میں سیدنا وائل بن حجرؓ  کی حدیث کتاب الاشربہ میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 1279)

کتاب: طاعون کے متعلق

باب : طاعون کے بارے میں، اور یہ کہ یہ ایک عذاب ہے ، اس لئے نہ تو اس (طاعون زدہ بستی) میں داخل ہو اور نہ اس (طاعون زدہ بستی) سے بھاگو۔

1484: سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: یہ بیماری (طاعون ایک) عذاب ہے جو تم سے پہلے ایک امت کو ہوا تھا۔ پھر وہ زمین میں رہ گیا۔ کبھی چلا جاتا ہے ، کبھی پھر آتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی کسی ملک میں سنے کہ وہاں طاعون ہے ، تو وہ وہاں نہ جائے اور جب اس کے ملک میں طاعون نمودار ہو تو وہاں سے بھاگے بھی نہیں۔

1485: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ  شام کی طرف نکلے۔ جب (مقامِ) سرغ پر پہنچے (جو کہ کنارہ حجاز پر شام سے متصل ایک بستی ہے ) تو ان سے اجناد کے لوگوں نے ملاقات کی (اجناد سے مراد شام کے پانچ شہر ہیں، فلسطین ، اردن، دمشق، حمص اور قنسرین) سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح  اور ان کے ساتھیوں نے ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ میرے سامنے مہاجرین اوّلین کو بلاؤ۔ (مہاجرین اوّلین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو) میں نے ان کو بلایا۔ سیدنا عمرؓ  نے ان سے مشورہ لیا اور ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ ایک اہم کام کے لئے نکلے ہوئے ہیں اس لئے ہم آپ کا لوٹنا مناسب نہیں سمجھتے۔بعض نے کہا کہ تمہارے ساتھ وہ لوگ ہیں جو اگلوں میں باقی رہ گئے ہیں اور رسول اللہﷺ کے اصحاب ہیں اور ہم ان کو وبائی ملک میں لیجانا مناسب نہیں سمجھتے۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اب تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ انصار کے لوگوں کو بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو انہوں نے ان سے مشورہ لیا۔ انصار بھی مہاجرین کی چال چلے اور انہی کی طرح اختلاف کیا۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ اب قریش کے بوڑھوں کو بلاؤ جو فتح مکہ سے پہلے یا (فتح کے ساتھ ہی) مسلمان ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو بلایا اور ان میں سے دو نے بھی اختلاف نہیں کیا، سب نے یہی کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیے اور ان کو وبا کے سامنے نہ کیجئے۔ آخر سیدنا عمرؓ  نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ لوٹوں گا) تم بھی سوار ہو جاؤ۔ سیدنا ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے کہا کہ کیا تقدیر سے بھاگتے ہو؟ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا (یا اگر اور کوئی کہتا تو میں اس کو سزا دیتا) }اور سیدنا عمرؓ  بُرا جانتے تھے ان کا خلاف کرنے کو{ ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سرسبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اور تم اپنے اونٹوں کو سرسبز اور شاداب کنارے میں چراؤ تو اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو خشک اور خراب میں چراؤ تب بھی اللہ کی تقدیر سے چرایا (سیدنا عمرؓ  کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس چرواہے پر کوئی الزام نہیں ہے بلکہ اس کا فعل قابلِ تعریف ہے کہ جانوروں کو آرام دیا ایسا ہی میں بھی اپنی رعیت کا چرانے والا ہوں تو جو ملک اچھا معلوم ہوتا ہے ادھر لے جاتا ہوں اور یہ کام تقدیر کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین تقدیرِ الٰہی ہے )؟ اتنے میں سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ  آئے اور وہ کسی کام کو گئے ہوئے تھے ، انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو اُس مسئلہ کی دلیل موجود ہے ، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی ملک میں وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تمہارے ملک میں وبا پھیلے تو بھاگو بھی نہیں۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ  نے اللہ کا شکر ادا کیا (کہ ان کی رائے حدیث کے موافق قرار پائی) اور واپس لوٹ آئے۔

 

 

 

 

کتاب: بدفالی، اور متعدی(اچھوت) بیماری

باب : نہ عدوی کوئی چیز ہے اور نہ طیرہ ، نہ صفر اور نہ ھامہ۔

1486: ابو سلمہ بن عبدالرحمن سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور صف اور ہامہ کی کوئی اصل نہیں تو ایک دیہاتی بولا کہ یا رسول اللہﷺ! اونٹوں کا کیا حال ہے ؟ ریت میں ایسے صاف ہوتے ہیں جیسے کہ ہرن اور پھر ایک خارشی اونٹ ان میں جاتا ہے اور سب کو خارشی کر دیتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارشی کیا تھا؟۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ عدوی، طیرہ، صفر اور ہامہ کوئی چیز نہیں ہیں۔

(عدوی سے مراد کسی بیماری کا متعدی (اچھوت) ہونا، طیرۃکا مطلب کسی چیز سے بدفالی پکڑنا، صفر سے مراد صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھنا، جیسے آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں اور ھامہ سے مراد اُلّو ہے کہ جسے عرب منحوس سمجھتے تھے )۔

باب : بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے۔

1487: ابن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوفؓ  نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی (اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی بیماری کسی سے خود بخود نہیں لگتی۔ دوسرے کسی کو بھی لگتی ہے تو اللہ کے حکم سے لگتی ہے۔ اسی لئے بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لانے کا حکم دیا ہے )۔اور ابو سلمہ یہ حدیث بھی بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹوں کے پاس نہ لایا جائے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  ان دونوں حدیثوں کو رسول اللہﷺ سے روایت کرتے تھے ، پھر اس کے بعد انہوں نے یہ حدیث کہ ”بیماری نہیں لگتی“ بیان کرنا چھوڑ دی اور یہ بیان کرتے رہے کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹ پر نہ لایا جائے۔ حارث بن ابی ذباب نے جو کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  کے چچا زاد بھائی تھے ان سے کہا کہ اے ابو ہریرہ! تم اس حدیث کے ساتھ ایک دوسری بھی حدیث بیان کیا کرتے تھے ، اب تم اس کو بیان نہیں کرتے ، وہ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے انکار کیا اور کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا، البتہ آپﷺ نے یہ فرمایا کہ بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ لایا جائے۔ حارث نے ان سے اس بات میں اس حد تک جھگڑا کیا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  غصے ہوئے اور انہوں نے حبش کی زبان میں کچھ کہا۔ پھر حارث سے پوچھا کہ تم سمجھتے ہو کہ میں نے کیا کہا؟ حارث نے کہا کہ نہیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ میں نے یہی کہا کہ میں اس حدیث کے بیان کرنے کا انکار کرتا ہوں۔ ابو سلمہ نے کہا کہ میری عمر کی قسم! سیدنا ابو ہریرہؓ  ہم سے اس حدیث کو بیان کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی پھر معلوم نہیں کہ ابو ہریرہ اس حدیث کو بھول گئے یا ایک حدیث سے دوسری حدیث کو انہوں نے منسوخ سمجھا۔(صحیح بخاری میں نسخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ابو ہریرہؓ  کو اس حدیث کے سوا کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا)۔

باب : نوء کوئی چیز نہیں۔

1488: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہ تو ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے ، نہ ہامہ ہے ، نہ نوء کی کوئی حقیقت ہے اور نہ صفر کی۔ (نوء ستارے کے طلوع و غروب کو کہتے ہیں جیسے عربوں کا بھی خیال تھا اور آج کل کے نجومیوں کا بھی کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی وغیرہ)۔

باب : غول کوئی چیز نہیں۔

1489: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک کی بیماری دوسرے کو لگتی ہے ، نہ نحوست کوئی چیز ہے اور نہ غول کوئی چیز ہے۔ (غول سے مراد عوام کا یہ خیال ہے کہ جنگل میں شیاطین ہوتے ہیں جو رات کو چراغ کی طرح چمکتے ہیں کبھی لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور کبھی قتل کر دیتے ہیں)۔

باب : جذام (کوڑھ پن) میں مبتلا شخص سے دور رہنے کے متعلق۔

1490: سیدنا شریدؓ  کہتے ہیں کہ ثقیف کے لوگوں میں ایک جذامی شخص تھا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے کہلا بھیجا کہ ہم نے تجھ سے بیعت لے لی تم لوٹ جاؤ۔

باب : اچھی فال کے متعلق۔

1491: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ بدفالی کوئی چیز نہیں (یعنی کسی کو منحوس سمجھنا) اور بہتر فال ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! فال کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ نیک بات جو تم میں سے کوئی سنے۔

باب : نحوست گھر ، عورت اور گھوڑے میں (ہو سکتی ہے )۔

1492: سیدنا ابن عمرؓ نبیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اگر کوئی نحوست یقینی ہو سکتی ہے تو گھوڑے ، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے

1493: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اگر (نحوست) کسی چیز میں ہے تو وہ گھر، خادم اور گھوڑا ہے۔

1490: سیدنا شریدؓ  کہتے ہیں کہ ثقیف کے لوگوں میں ایک جذامی شخص تھا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے کہلا بھیجا کہ ہم نے تجھ سے بیعت لے لی تم لوٹ جاؤ۔

باب : اچھی فال کے متعلق۔

1491: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ بدفالی کوئی چیز نہیں (یعنی کسی کو منحوس سمجھنا) اور بہتر فال ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! فال کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ نیک بات جو تم میں سے کوئی سنے۔

باب : نحوست گھر ، عورت اور گھوڑے میں (ہو سکتی ہے )۔

1492: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اگر کوئی نحوست یقینی ہو سکتی ہے تو گھوڑے ، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے

1493: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اگر (نحوست) کسی چیز میں ہے تو وہ گھر، خادم اور گھوڑا ہے۔

 

 

 

 

کتاب: کہانت کے متعلق۔

باب : کاہن کے پاس آنے کی ممانعت اور لکیر کے ذکر میں۔

اس باب کے بارے میں سیدنا معاویہ بن حکم السلمیؓ  کی حدیث کتاب الصلوٰۃ میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 333)۔

باب : وہ بات جس کو جن اچک کر لے جاتا ہے۔

1494: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بعض لوگوں نے رسول اللہﷺ سے کاہنوں کے بارے میں پوچھا؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ لغو ہیں (ان کی کوئی حیثیت نہیں) اور کسی اعتبار کے لائق نہیں ہیں۔لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ان کی بعضی بات سچ نکلتی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ سچی بات وہی ہے جس کو جن اُڑا لیتا ہے اور اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے جیسے مرغ مرغی کو دانے کے لئے بلاتا ہے۔ پھر وہ اس میں اپنی طرف لغو اور سو جھوٹ سے زیادہ ملاتے ہیں (اور لوگوں سے کہتے ہیں)۔

باب : ستاروں کے ذریعے شیطانوں پر حملے کے متعلق جبکہ وہ (فرشتوں سے ) چوری سنتے ہیں۔

1495: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک انصاری صحابی نے (ایک روایت میں ہے کہ کچھ صحابہ نے ) بیان کیا کہ وہ رات کو رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک ستارہ ٹوٹا اور بہت چمکا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب جاہلیت کے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوتا تھا تو تم اسے کیا کہتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں، ہم جاہلیت کے زمانے میں یوں کہتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا شخص پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ستارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لئے نہیں ٹوٹتا، لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کہتے ہیں، پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں، یہاں تک کہ تسبیح کی نوبت آسمانِ دنیا والوں تک پہنچتی ہے۔ پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں، وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم دیا؟ وہ بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خبر آسمانِ دنیا والوں تک آتی ہے۔ ان سے وہ خبر جن اُڑا لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو آ کر سناتے ہیں۔ فرشتے جب ان جنوں کو دیکھتے ہیں تو ان ستاروں سے مارتے ہیں (تو یہ ستارے ان کے کوڑے ہیں) پھر جو خبر جن لاتے ہیں، اگر اتنی ہی کہیں تو سچ ہے لیکن وہ اس میں جھوٹ ملاتے ہیں اور زیادہ کرتے ہیں۔

باب : جو نجومی کے پاس آتا ہے اس کی نماز قبول نہیں۔

1496: سیدہ صفیہ بنت ابی عبید رسول اللہﷺ کی بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہیں اور وہ رسول اللہﷺ سے کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص نجومی کے پاس جا کر اس سے کوئی بات پوچھے ، تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔

نے فرمایا کہ جب جاہلیت کے زمانہ میں ایسا واقعہ ہوتا تھا تو تم اسے کیا کہتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں، ہم جاہلیت کے زمانے میں یوں کہتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا شخص پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ستارہ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے کے لئے نہیں ٹوٹتا، لیکن ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کہتے ہیں، پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں، یہاں تک کہ تسبیح کی نوبت آسمانِ دنیا والوں تک پہنچتی ہے۔ پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں، وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم دیا؟ وہ بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خبر آسمانِ دنیا والوں تک آتی ہے۔ ان سے وہ خبر جن اُڑا لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو آ کر سناتے ہیں۔ فرشتے جب ان جنوں کو دیکھتے ہیں تو ان ستاروں سے مارتے ہیں (تو یہ ستارے ان کے کوڑے ہیں) پھر جو خبر جن لاتے ہیں، اگر اتنی ہی کہیں تو سچ ہے لیکن وہ اس میں جھوٹ ملاتے ہیں اور زیادہ کرتے ہیں۔

باب : جو نجومی کے پاس آتا ہے اس کی نماز قبول نہیں۔

1496: سیدہ صفیہ بنت ابی عبید رسول اللہﷺ کی بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ سے روایت کرتی ہیں اور وہ رسول اللہﷺ سے کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص نجومی کے پاس جا کر اس سے کوئی بات پوچھے ، تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔

کتاب: سانپ وغیرہ کے متعلق۔

باب : گھروں میں رہنے والے سانپوں کو مارنے کی ممانعت۔

1497: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ  سے سنا، آپﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ سانپوں کو اور کتوں کو مار ڈالو۔ اور دودھاری سانپ کو اور دُم کٹے کو بھی مار ڈالو، کیونکہ یہ دونوں بینائی کھو دیتے ہیں اور حمل والیوں کا حمل گرا دیتے ہیں۔ زہری نے کہا کہ کہ شاید ان کے زہر میں یہ تاثیر ہو گی۔ سالم نے کہا کہ عبد اللہ بن عمرؓ  نے کہا کہ میں جو سانپ دیکھتا ہوں اس کو فوراً مار ڈالتا ہوں۔ ایک بار میں گھر کے سانپوں میں سے ایک سانپ کا پیچھا کر رہا تھا کہ زید بن خطاب یا ابو لبابہؓ  میرے سامنے سے گزرے اور میں اس کا پیچھا کر رہا تھا، انہوں نے کہا کہ اے عبد اللہ ٹھہرو! میں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے سانپوں کے مار ڈالنے کا حکم کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے گھر کے سانپ مارنے سے منع کیا ہے۔(یعنی جن سانپوں میں زہر نہیں ہوتا اور وہ گھروں میں رہتے ہیں یا بعض اوقات شیاطین کی شکل میں رہتے ہیں، ان کے قتل سے دوسرے شیاطین نقصان پہنچاتے ہیں جس کا ذکر اگلی حدیث میں وضاحت سے ہے )۔

باب : گھر میں رہنے والے سانپوں کو تین بار خبردار کرو۔

1498: ابو سائب مولیٰ ہشام بن زہرہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا ابو سعید خدریؓ  کے پاس ان کے گھر گئے۔ ابو سائب نے کہا کہ میں نے ان کو نماز میں پایا تو بیٹھ گیا۔ میں نماز پڑھ چکنے کا منتظر تھا کہ اتنے میں ان لکڑیوں میں کچھ حرکت کی آواز آئی جو گھر کے کونے میں رکھی تھیں۔ میں نے ادھر دیکھا تو ایک سانپ تھا۔ میں اس کے مارنے کو دوڑا تو سیدنا ابو سعیدؓ  نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے ایک کوٹھری دکھاتے ہوئے پوچھا کہ یہ کوٹھڑی دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں، انہوں نے کہا کہ اس میں ہم لوگوں میں سے ایک جوان رہتا تھا، جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ خندق کی طرف نکلے۔ وہ جوان دوپہر کو آپﷺ سے اجازت لے کر گھر آیا کرتا تھا۔ ایک دن آپﷺ سے اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہتھیار لے کر جا کیونکہ مجھے بنی قریظہ کا ڈر ہے (جنہوں نے دغا بازی کی تھی اور موقع دیکھ کر مشرکوں کی طرف ہو گئے تھے )۔ اس شخص نے اپنے ہتھیار لے لئے۔ جب اپنے گھر پر پہنچا تو اس نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ دروازے کے دونوں پٹوں کے درمیان کھڑی ہے۔ اس نے غیرت سے اپنا نیزہ اسے مارنے کو اٹھایا تو عورت نے کہا کہ اپنا نیزہ سنبھال اور اندر جا کر دیکھ تو معلوم ہو گا کہ میں کیوں نکلی ہوں۔ وہ جوان اندر گیا تو دیکھا کہ ایک بڑا سانپ کنڈلی مارے ہوئے بچھونے پر بیٹھا ہے۔ جوان نے اس پر نیزہ اٹھایا اور اسے نیزہ میں پرو لیا، پھر نکلا اور نیزہ گھر میں گاڑ دیا۔ وہ سانپ اس پر لوٹا اس کے بعد ہم نہیں جانتے کہ سانپ پہلے مرا یا جوان پہلے شہید ہوا۔ ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ سے سارا قصہ بیان کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس جوان کو پھر جلا دے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے ساتھی کے لئے بخشش کی دعا کرو۔ پھر فرمایا کہ مدینہ میں جن رہتے ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں، پھر اگر تم سانپوں کو دیکھو تو تین دن تک ان کو خبر دار کرو، اگر تین دن کے بعد بھی نہ نکلیں تو ان کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہیں (یعنی کافر جن ہیں یا شریر سانپ ہیں)۔

باب : سانپوں کو مارنا۔

1499: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ غار میں تھے اس وقت آپﷺ پر سورۂ ”وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا“ اتری تھی۔ ہم آپﷺ کے منہ مبارک سے تازی تازی یہ سورت سن رہے تھے کہ اتنے میں ایک سانپ نکلا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اُس کو مار ڈالو۔ ہم اس کے مارنے کو لپکے تو وہ ہم سے سبقت لے گیا (یعنی چھپ گیا)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسکو تمہارے ہاتھ سے بچایا جیسا کہ تمہیں اس کے شر سے بچایا۔

باب : گرگٹوں کو مارنے کے بارے میں۔

1500: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور اس کا نام فویسق رکھا (یعنی چھوٹا فاسق)۔

1501: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص گرگٹ کو پہلی مار میں مار ے ، اسکو اتنا ثواب ہے اور جو دوسری مار میں مارے ، اسکو اتنا ثواب ہے لیکن پہلی بار سے کم اور جو تیسری مار میں مار ے ، اسکو اتنا ثواب ہے لیکن دوسری بار سے کم۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص گرگٹ کو پہلی مار میں مارے اس کی سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو دوسری مار میں مار ے ، اس کو اس سے کم اور جو تیسری مار میں مارے ، اس کو اس سے کم۔

باب : مکوڑوں اور چیونٹیوں کو مارنے کے بارے میں۔

1502: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ایک درخت کے نیچے اترے ، ان کو ایک چیونٹی نے کاٹا تو ان کے حکم سے چیونٹیوں کا چھتہ نکالا گیا پھر انہوں نے حکم دیا تو وہ جلا دیا گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ ایک چیونٹی کو (جس نے کاٹا تھا) تو نے سزا دی ہوتی (دوسری چیونٹیوں کا کیا قصور تھا)۔

باب : بلی کو مارنے کے متعلق۔

1503: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا۔ اس نے بلی کو پکڑے رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی، پھر اسی بلی کی وجہ سے وہ جہنم میں گئی۔ جب اس نے بلی کو قید میں رکھا تو نہ کھانا دیا، نہ پانی اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے جانور کھاتی (اس نے بلی کو تڑپا تڑپا کر مارا تھا اس لئے جہنم میں گئی)۔

باب : چوہے کے بارے میں اور یہ کہ یہ مسخ شدہ ہیں۔

1504: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل کا ایک گروہ گم ہو گیا تھا، معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں گیا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گروہ چوہے ہیں (مسخ ہو کر)۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب چوہوں کے لئے اونٹ کا دودھ رکھا جائے تو وہ نہیں پیتے اور جب بکری کا دودھ رکھو تو پی لیتے ہیں (گویا قرینہ یہ ہے کہ چوہے وہ بنی اسرائیل کے لوگ ہوں جو مسخ ہوئے تھے اگرچہ وہ زندہ نہ رہے ہوں اس لئے کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں اونٹ کا گوشت اور اونٹ کا دودھ حرام تھا) سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدنا کعب سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ تم نے یہ رسول اللہﷺ سے سنا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر انہوں نے کئی بار پوچھا، تو میں نے کہا کہ کیا میں تورات پڑھتا ہوں؟ (جواس میں دیکھ کر یہ روایت میں نے حاصل کی ہو میرا تو سارا علم رسول اللہﷺ سے سنا ہوا ہے ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے جواب دیا کہ کیا مجھ پر تورات نازل ہوتی ہے (جس سے پڑھ کر میں تمہیں بتاتا ہوں)؟

باب : جانوروں کو پانی پلانے کے متعلق۔

1505: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک شخص راہ میں بہت پیاس کی حالت میں جا رہا تھا کہ اسے ایک کنواں ملا۔ وہ اس میں اترا اور پانی پی لیا۔ پھر نکلا تو ایک کتے کو دیکھا کہ اس نے (پیاس کی وجہ سے ) اپنی زبان نکالی ہوئی ہے اور ہانپ رہا ہے اور گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ وہ شخص بولا کہ اس کتے کا یہ حال پیاس کے مارے ویسا ہی ہے جیسا میرا حال تھا۔ پھر وہ کنوئیں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، اور موزہ منہ میں لے کر اوپر چڑھا اور وہ پانی کتے کو پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ نیکی قبول کی اور اس کو بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمیں ان جانوروں کو کھلانے اور پلانے میں بھی ثواب ہے ؟آپﷺ نے فرمایا کہ ہر تازے جگر والے میں ثواب ہے (یہ اس لئے کہا کہ مرے ہوئے حیوان کا جسم اور جگر خشک ہو جاتا ہے )

 

 

 

کتاب: شعر وغیرہ کا بیان۔

 

باب : شعر اور اس کے پڑھنے کے بارے میں۔

1506: سیدنا شریدؓ  کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہﷺ کے پیچھے سوار ہوا، آپﷺ نے فرمایا: تجھے امیہ بن ابی صلت کے کچھ شعر یاد ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پڑھ۔ میں نے ایک بیت پڑھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اور پڑھ۔ میں نے ایک اور پڑھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اور پڑھ یہاں تک کہ میں نے سو ابیات پڑھے۔

باب : سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی (وہ کونسی ہے ؟)

1507: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شاعروں میں سب سے زیادہ سچ کلام لبید کا یہ کلام ہے کہ ”خبردار اللہ کے علاوہ ہر چیز لغو ہے “ اور ابو صلت کا بیٹا امیہ اسلام کے قریب تھا (کیونکہ اس کے عقائد اچھے تھے گوہ وہ اسلام سے محروم رہا)۔

باب : شعر سے پیٹ بھرنے کی کراہت۔

1508: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر کسی مرد کا پیٹ پیپ سے بھرے ، یہاں تک کہ اس کے پھیپھڑے تک پہنچے تو یہ اس کے حق میں شعروں سے اپنا پیٹ بھرنے سے بہتر ہے۔ (یعنی اشعار میں اتنا مصروف ہو جانا کہ قرآن وحدیث و علوم دینیہ سے غافل ہو جائے )۔

باب : تعریف کرنے والوں کے مونہوں میں مٹی ڈالنے کا بیان۔

1509: ہمام بن حارث سے روایت ہے کہ ایک شخص سیدنا عثمانؓ  کی تعریف کرنے لگا۔ سیدنا مقدادؓ  اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے ، اور وہ ایک موٹے آدمی تھے اور تعریف کرنے والے کے منہ میں کنکریاں ڈالنے لگے۔ سیدنا عثمانؓ  نے کہا کہ اے مقداد! تمہیں کیا ہوا؟ وہ بولے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں خاک ڈال دو۔

باب : تزکیہ اور مدح کی کراہت کے بارے میں۔

1510: سیدنا ابو بکرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ایک شخص کا ذکر آیا تو ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کے رسول کے بعد کوئی شخص فلاں فلاں کام میں اس شخص سے بہتر نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہائے تو نے اپنے صاحب کی گردن کاٹ لی، کئی بار ایسا ہی فرمایا۔ پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی تعریف کرنا ضروری سمجھے (اگر وہ واقعی ایسا ہو) تو یوں کہے کہ میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ایسا ہے اس پر بھی میں اللہ کے سامنے کسی کو اچھا نہیں کہتا (یعنی معلوم نہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک کیا ہے کیونکہ یہ علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں یا جس کو اللہ بتائے )۔

باب : چوسر کے ساتھ کھیلنے کے متعلق۔

1511: سیدنا بریدہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جو شخص چوسر کھیلا اس نے گویا اپنے ہاتھ سؤر کے گوشت اور سؤر کے خون سے رنگے۔

 

 

 

کتاب: خوابوؑ کا بیان

 

باب : نبیﷺ کے خواب کے بیان میں۔

1512: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے ایک رات کو نیند کی حالت میں دیکھنے والے کی طرح (خواب) دیکھا کہ جیسے ہم عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں، پس ہمارے آگے تر کھجوریں لائی گئیں، جس کو ابن طاب کی کھجور کا نام دیا جاتا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ ہمارا درجہ دنیا میں بلند ہو گا، آخرت میں نیک انجام ہو گا اور یقیناً ہمارا دین بہتر اور عمدہ ہے

1513: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے اس زمین کی طرف ہجرت کرتا ہوں جہاں کھجور کے درخت ہیں، میرا گمان یمامہ اور حجر کی طرف گیا لیکن وہ مدینہ نکلا، جس کا نام یثرب بھی ہے اور میں نے اپنے اسی خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار کو ہلایا تو وہ اوپر سے ٹوٹ گئی، اس کی تعبیر اُحد کے دن مسلمانوں کی شکست نکلی۔ پھر میں نے تلوار کو دوسری بار ہلایا تو آگے سے ویسی ہی ثابت اور اچھی ہو گئی۔ اس کی تعبیر یہ نکلی کہ اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب کی اور مسلمانوں کی جماعت قائم ہو گئی (یعنی جنگ اُحد کے بعد خیبر اور مکہ فتح ہوا اور اسلام کے لشکر نے زور پکڑا) اور میں نے اسی خواب میں گائیں دیکھیں (جو کاٹی جاتی تھیں) اور اللہ تعالیٰ بہتر ہے (جیسے یہ جملہ بولا جاتا ہے اللہ خیر) اس سے مسلمانوں کے وہ لوگ مراد تھے جو اُحد میں شہید ہوئے اور خیر سے مراد وہ خیر تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بھیجی اور سچائی کا ثواب جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کے بعد عنایت کیا۔

باب : نبیﷺ کا خواب میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کذاب کے متعلق

1514: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب (جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا تھا اور اسی وجہ سے اس کا لقب کذاب ہوا، رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مع اپنے تابعین کے مارا گیا) رسول اللہﷺ کے زمانے میں مدینہ منورہ میں آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمدﷺ مجھے اپنے بعد خلافت دیں تو میں ان کی پیروی کرتا ہوں۔ مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ اپنی قوم کے بہت سے لوگ لے کر آیا تھا۔ رسول اللہﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور آپﷺ کے ساتھ ثابت بن قیس بن شماسؓ  تھے اور آپﷺ کے ہاتھ میں لکڑی کا ایک ٹکڑا تھا۔ آپﷺ مسیلمہ کے لوگوں کے پاس ٹھہرے اور فرمایا کہ اے مسیلمہ! اگر تو مجھ سے یہ لکڑی کا ٹکڑا مانگے تو بھی تجھ کو نہ دوں گا اور میں اللہ کے حکم کے خلاف تیرے بارے میں فیصلہ کرنے والا نہیں اور اگر تو میرا کہنا نہ مانے گا تو اللہ تعالیٰ تجھ کو قتل کرے گا (آپﷺ کا یہ فرمانا صحیح ہو گیا) اور یقیناً تجھے وہی جانتا ہوں جو مجھے تیرے بارہ میں خواب میں دکھایا گیا ہے اور یہ ثابت تجھے میری طرف سے جواب دے گا۔ پھر آپﷺ وہاں سے چلے گئے۔ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ نبیﷺ نے کیا فرمایا کہ تو وہی ہے جو مجھے خواب میں تیرے بارے دکھلایا گیا، تو سیدنا ابو ہریرہؓ  نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے بیان کیا کہ میں سو رہا تھا کہ میں نے (خواب میں) اپنے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے ، وہ مجھے بُرے معلوم ہوئے اور خواب ہی میں مجھ پر القا کیا گیا کہ ان کو پھونک مارو، میں نے پھونکا تو ہ دونوں اُڑ گئے۔ میں نے ان کی تعبیر یہ کی کہ اس سے مراد دو جھوٹے ہیں، جو میرے بعد نکلیں گے۔ ان میں سے ایک عنسی صنعاء والا اور دوسرا یمامہ والا (مسیلمہ کذاب) ہے۔

باب : نبیﷺ کا قول کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا، تحقیق اس نے مجھے سچ مچ دیکھا۔

1515: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص مجھے خواب میں دیکھے ، وہ عنقریب مجھے جاگتے میں بھی دیکھے گا یا فرمایا کہ جو خواب میں مجھے دیکھے ، اس نے مجھے بیداری میں دیکھا۔ شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔ ابو سلمہ نے کہا کہ ابو قتادہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے مجھے دیکھا، اس نے سچ دیکھا۔

باب : اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔

1516: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو قتادہؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے۔ پھر جب کوئی تم میں سے ناپسندیدہ خواب دیکھے تو بائیں طرف تھوکے یا (تھوکے بغیر) تھو تھو کرے اور اللہ کی پناہ مانگے اس کے شر سے ، پھر وہ خواب اس کو ضرر نہیں پہنچائے گا۔ ابو سلمہ نے کہا کہ میں بعض خواب ایسے دیکھتا جو کہ پہاڑ سے بھی زیادہ مجھ پر بھاری ہوتے ، لیکن جب میں نے یہ حدیث سنی تو مجھ کو کچھ پرواہ نہ رہی۔

باب : اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور (خواب میں) جو کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو کسی کو بیان نہ کرے۔

1517: ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں بعض خواب ایسے دیکھتا کہ (اس کے ڈر کی وجہ سے ) بیمار ہو جاتا تھا۔ پھر میں ابو قتادہؓ  سے ملا (ان سے اس بارہ میں پوچھا) انہوں نے کہا کہ میرا بھی یہی حال تھا، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو بیان نہ کرے مگر اپنے دوست سے اور جب بُرا خواب دیکھے تو بائیں طرف تین بار تھوکے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور کسی سے بیان نہ کرے تو اس کو نقصان نہ ہو گا۔

باب : اگر ناپاپسندیدہ (خواب) دیکھے تو وہ پناہ مانگے اور کروٹ بدل لے۔

1518: سیدنا جابرؓ  رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جس کو بُرا سمجھے ، تو بائیں طرف تین بار تھوکے اور تین بار شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور جس کروٹ پر لیٹا ہو، اس سے پھر جائے۔

باب : مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔

1519م: سیدنا عبادہ بن صامتؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ (یعنی نبوت میں چھیالیس اہم چیزیں ہوتی ہیں ان میں ایک سچا خواب ہے )۔

باب : نیک خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔

1519: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نیک خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔(یہ باب اور حدیث تحقیق البانی والی کتاب میں نہیں ہے )۔

باب : جب زمانہ قیامت کے قریب ہو گا تو مسلمان کا خواب جھوٹا نہ ہو گا۔

1520: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب قیامت قریب آ جائے گی تو مسلمان کا خواب جھوٹ نہ ہو گا اور تم میں سے سچا خواب اسی کا ہو گا جو باتوں میں سچا ہے اور مسلمان کا خواب نبوت کے پینتالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اور خواب تین طرح کاہے ، ایک تو نیک خواب جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہو اور دوسرے رنج کا خواب جو شیطان کی طرف سے ہے اور تیسرے وہ خواب جو اپنے دل کا خیال ہو۔ پھر جب تم میں سے کوئی بُرا خواب دیکھے تو کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور لوگوں سے بیان نہ کرے۔ اور میں خواب میں بیڑیاں پڑی دیکھنا اچھا سمجھتا ہوں اور گلے میں طوق بُرا سمجھتا ہوں۔ راوی (ایوب) نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کلام حدیث میں داخل ہے یا ابن سیرین کا کلام ہے۔

باب : خواب کی تعبیر کے متعلق جو وارد ہوا ہے۔

1521: عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  بیان کرتے تھے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ بادل کے ٹکڑے سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے ، لوگ اس کو اپنے لپوں سے لیتے ہیں کوئی زیادہ لیتا ہے اور کوئی کم۔ اور میں نے دیکھا کہ آسمان سے زمین تک ایک رسی لٹکی ہے ، آپﷺ اس کو پکڑ کر اوپر چڑھ گئے۔ پھر آپ کے بعد ایک شخص نے اس کو تھاما، وہ بھی چڑھ گیا۔ پھر ایک اور شخص نے تھاما وہ بھی چڑھ گیا۔ پھر ایک اور شخص نے تھاما تو وہ ٹوٹ گئی، پھر جڑ گئی اور وہ بھی اوپر چلا گیا۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میرا باپ آپ پر قربان ہو مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا بیان کر۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ وہ بادل کا ٹکڑا تو اسلام ہے اور گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت اور نرمی مراد ہے اور لوگ جو زیادہ اور کم لیتے ہیں وہ بھی بعضوں کو بہت قرآن یاد ہے اور بعضوں کو کم اور وہ رسی جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہے وہ دین حق ہے جس پر آپﷺ ہیں۔ پھر اللہ آپﷺ کو اسی دین پر اپنے پاس بلا لے گا آپ کے بعد ایک اور شخص (آپﷺ کا خلیفہ) اس کو تھامے گا وہ بھی اسی طرح چڑھا جائے گا پھر اور ایک شخص تھامے گا اور اس کا بھی یہی حال ہو گا۔ پھر ایک اور شخص تھامے گا تو کچھ خلل پڑے گا لیکن وہ خلل آخر مٹ جائے گا اور وہ بھی چڑھ جائے گا۔ یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھ سے بیان فرمائیے کہ میں نے ٹھیک تعبیر بیان کی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے کچھ ٹھیک کہا کچھ غلط کہا۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم یا رسول اللہﷺ! آپ بیان کیجئے کہ میں نے کیا غلطی کی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم مت کھا۔

باب : خواب میں شیطان کے کھیل کو دیکھے تو وہ بیان نہ کرے۔

1522: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا سر کاٹا گیا، وہ ڈھلکتا جا رہا ہے اور میں اس کے پیچھے دوڑ رہا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ (خواب) لوگوں سے مت بیان کر کہ جو شیطان تجھ سے خواب میں کھیلتا ہے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ اس کے بعد میں نے آپﷺ سے خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کوئی وہ بات بیان نہ کرے جو کہ شیطان اس سے خواب میں کھیلے۔

کتاب: نبیﷺ کے فضائل

باب : نبیﷺ کا (نبوت کے لئے ) چنا جانا۔

1523: سیدنا واثلہ بن الاسقعؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ  سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ جل جلالہ نے سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ میں سے اور بنی ہاشم کو قریش میں سے اور مجھے بنی ہاشم میں سے چنا۔

باب : نبیﷺ کا قول کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔

1524: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن آدم کی اولاد کا سردار ہوں گا۔ اور سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی اور میں سب سے پہلے شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہو گی۔

باب : اس کی مثال جو نبیﷺ مبعوث کئے گئے ہیں ہدایت اور علم کے ساتھ

1525: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اس کی مثال جو اللہ نے مجھے ہدایت اور علم دیا، ایسی ہے جیسے زمین پر بارش برسی اور اس (زمین) میں کچھ حصہ ایسا تھا جس نے پانی کو چوس لیا اور چارا اور بہت سا سبزہ اگایا۔ اور اس کا کچھ حصہ کڑا سخت تھا، اس نے پانی کو جمع رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس (پانی) سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا کہ انہوں نے اس میں سے پیا، پلایا اور چرایا۔ اور اس کا کچھ حصہ چٹیل میدان ہے کہ نہ تو پانی کو روکے اور نہ گھاس اگائے۔ (جیسے چکنی چٹان کہ پانی لگا اور چل دیا) تو یہ اس کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ نے اس کو اس چیز سے فائدہ دیا جو مجھے عطا فرمائی، اس نے آپ بھی جانا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور جس نے اس طرف سر نہ اٹھایا (یعنی توجہ نہ کی) اور اللہ کی ہدایت کو جس کو میں دے کر بھیجا گیا قبول نہ کیا۔

1526: سیدنا ابو موسیٰؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میری مثال اور میرے دین کی مثال جو کہ اللہ نے مجھے دیکر بھیجا ہے ، ایسی ہے جیسے اس شخص کی مثال جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! میں نے لشکر کو اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا ہے (یعنی دشمن کی فوج کو)اور میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں، پس جلدی بھاگو۔ اب اس کی قوم میں سے بعض نے اس کا کہنا مانا اور وہ شام ہوتے ہی بھاگ گئے اور آرام سے چلے گئے اور بعض نے جھٹلایا اور وہ صبح تک اس ٹھکانے میں رہے اور صبح ہوتے ہی لشکر ان پر ٹوٹ پڑا اور ان کو تباہ کیا اور جڑ سے اکھیڑ دیا۔ پس یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اس کی اتباع کی اور جس نے میرا کہنا نہ مانا اور سچے دین کو جھٹلایا۔

باب : انبیاء علیہم السلام کے آنے کی تکمیل اور خاتمہ (نبوت) سیدنا محمد اکے ذریعہ ہونا۔

1527: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اور دوسرے پیغمبروں کی مثال جو کہ میرے سے پہلے ہو چکے ہیں، ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کی زیبائش اور آرائش کی، لیکن اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی پس لوگ اس کے گرد پھرنے لگے اور انہیں وہ عمارت پسند آئی اور وہ کہنے لگے کہ یہ تو نے ایک اینٹ یہاں کیوں نہ رکھ دی گئی؟ نبیﷺ نے فرمایا کہ میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم الانبیاء ہوں۔

باب : پتھر کا نبیﷺ کو سلام کرنا۔

1528: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ میں ہے ، وہ مجھے نبوت سے پہلے سلام کیا کرتا تھا۔ میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں۔

باب : نبیﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی بہنا۔

1529: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ اور آپﷺ کے اصحاب (مقامِ) زوراء میں تھے }اور زوراء مدینہ میں مسجد اور بازار کے نزدیک ایک مقام ہے { آپﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اپنی ہتھیلی اس میں رکھ دی، تو آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹنے لگا اور تمام اصحاب رضی اللہ عنہم نے وضو کر لیا۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے انسؓ  سے کہا کہ اے ابو حمزہ! اس وقت آپ کتنے آدمی ہوں گے ؟ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ تین سو کے قریب تھے۔

باب : نبیﷺ(کی نبوت ) کے نشانات پانی میں۔

1530: سیدنا معاذ بن جبلؓ  کہتے ہیں کہ ہم غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ اس سال نکلے۔ آپﷺ اس سفر میں دو نمازوں کو جمع کرتے تھے۔ پس ظہر اور عصر دونوں ملا کر پڑھیں اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں۔ ایک دن آپﷺ نے نماز میں دیر کی۔ پھر نکلے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں پھر اندر چلے گئے۔ پھر اس کے بعد نکلے تو مغرب اور عشاء ملا کر پڑھیں اس کے بعد فرمایا کہ کل تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور دن نکلنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے اور جو کوئی تم میں سے اس چشمے کے پاس جائے ، تو اس کے پانی کوہاتھ نہ لگائے جب تک میں نہ آؤں۔ سیدنا معاذؓ  نے کہا کہ پھر ہم اس چشمے پر پہنچے اور ہم سے پہلے وہاں دو آدمی پہنچ گئے تھے۔ چشمہ کے پانی کا یہ حال تھا کہ جوتی کے تسمہ کے برابر ہو گا، وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپﷺ نے ان کو بُرا کہا (اس لئے کہ انہوں نے حکم کے خلاف کیا تھا) اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا وہ آپﷺ نے ان کو سنایا۔ پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیا تو آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھویا، پھر وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا تو وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا اور لوگوں نے (اپنے جانوروں اور آدمیوں کو) پانی پلانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اے معاذ! اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھے گا کہ اس (چشمے ) کا پانی باغوں کو بھر دے گا (یہ بھی آپﷺ کا ایک بڑا معجزہ تھا اس لشکر میں تیس ہزار آدمی تھے اور ایک روایت میں ہے کہ ستر ہزار آدمی تھے )۔

باب : نبیﷺ(کی وجہ سے ) طعام میں برکت۔

1531: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے کھانا طلب کر رہا تھا تو آپﷺ نے اس کو آدھا وسق جَو دئیے (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے )۔ پھر وہ شخص، اس کی بیوی اور مہمان ہمیشہ اس میں کھاتے رہے ، یہاں تک کہ اس شخص نے اس کو ماپا۔ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو نہ ماپتا تو ہمیشہ اس میں سے کھاتے اور وہ ایسا ہی رہتا (کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کا بھروسہ جاتا رہا اور بے صبری ظاہر ہوئی پھر برکت کہاں رہے گی)۔

1532: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہﷺ کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟ کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جَو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپﷺ کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے ، آپﷺ چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہﷺ بھی تشریف لائے۔ آپﷺ آگے آگے تھے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی بُرا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہﷺ نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی)میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہﷺ نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے ) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے ، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا،اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔

1533: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے ؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ اللہ کی قسم ان ایک سو تیس آدمی میں سے کوئی نہ رہا جس کے لئے آپﷺ نے اس کلیجی میں سے کچھ جدا نہ کیا ہو، اگر وہ موجود تھا تو اس کو دے دیا اور (اگر موجود نہ تھا تو) اس کا حصہ رکھ دیا۔ اور آپﷺ نے دو پیالوں میں گوشت نکالا، پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا، اس کو میں نے اونٹ پر لاد لیا یا ایسا ہی کہا (اس حدیث میں آپﷺ کے دو معجزے ہیں ایک تو کلیجی میں برکت اور دوسرے بکری میں برکت)۔

1534: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ  سے روایت ہے کہ اصحابِ صُفّہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہﷺ نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابو بکرؓ  تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہﷺ دس آدمیوں کو لے گئے (آپﷺ کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبد الرحمنؓ  نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی مَیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابو بکرؓ  کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ  نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ  نے رات کا کھانا رسول اللہﷺ کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابو بکرؓ  گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے ؟ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبد الرحمنؓ  نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابو بکرؓ  کی ناراضگی کے ڈر سے ) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے بُرا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے )۔ اور سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن (ان کا نام اُمّ رومان تھا اور بنی فراس ان کا قبیلہ تھا) یہ کیا ہے ؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہﷺ کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہے تین حصے زیادہ ہے (یہ سیدنا ابو بکرؓ  کی کرامت تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے )۔ پھر سیدنا ابو بکرؓ  نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہﷺ کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپﷺ نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔

باب : نبیﷺ کی وجہ سے دودھ میں برکت۔

1535: سیدنا مقدادؓ  کہتے ہیں کہ میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ کی) تکلیف سے ہماری آنکھوں اور کانوں کی قوت جاتی رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو رسول اللہﷺ  کے اصحاب پر پیش کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں قبول نہ کرتا تھا۔ آخر ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کا دودھ دوہو، ہم تم سب پئیں گے پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہﷺ کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپﷺ رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ پھر آپﷺ مسجد میں آتے ، نماز پڑھتے ، پھر اپنے دودھ کے پاس آتے اور اس کو پیتے۔ ایک رات جب میں اپنا حصہ پی چکا تھا کہ شیطان نے مجھے بھڑکایا۔ شیطان نے کہا کہ رسول اللہﷺ تو انصار کے پاس جاتے ہیں، وہ آپﷺ کو تحفے دیتے ہیں اور جو آپﷺ کو ضرورت ہے ، مل جاتا ہے آپﷺ کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہو گی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ دودھ نہیں ملنے کا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت کی اور کہنے لگا کہ تیری خرابی ہو تو نے کیا کام کیا؟ تو نے رسول اللہﷺ کا حصہ پی لیا، اب آپﷺ آئیں گے اور دودھ کو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی۔ میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب اس کو پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آ رہی تھی جبکہ میرے ساتھی سو گئے اور انہوں نے یہ کام نہیں کیا تھا جو میں نے کیا تھا۔ آخر رسول اللہﷺ آئے اور معمول کے موافق سلام کیا، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، اس کے بعد دودھ کے پاس آئے ، برتن کھولا تو اس میں کچھ نہ تھا۔ آپﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا میں سمجھا کہ اب آپﷺ بددعا کرتے ہیں اور میں تباہ ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! کھلا اس کو جو مجھے کھلائے اور پلا اس کو جو مجھے پلائے۔ یہ سن کر میں نے اپنی چادر کو مضبوط باندھا، چھری لی اور بکریوں کی طرف چلا کہ جو ان میں سے موٹی ہو اس کو رسول اللہﷺ کے لئے ذبح کروں۔ دیکھا تو اس کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ پھر دیکھا تو اور بکریوں کے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے آپﷺ کے گھر والوں کا ایک برتن لیا جس میں وہ دودھ نہ دوہتے تھے (یعنی اس میں دوہنے کی خواہش نہیں کرتے تھے )۔ اس میں مَیں نے دودھ دوہا، یہاں تک کہ اوپر جھاگ آگیا (اتنا بہت دودھ نکلا) اور میں اس کو لے کر آپﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اپنے حصے کا دودھ رات کو پیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ دودھ پیجئے۔ آپﷺ نے پی کر مجھے دیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اور پیجئے۔ آپﷺ نے اور پیا۔ پھر مجھے دیا، جب مجھے معلوم ہو گیا کہ آپﷺ سیر ہو گئے اور آپﷺ کی دعا میں نے لے لی ہے ، تب میں ہنسا، یہاں تک کہ خوشی کے مارے زمین پر گر گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے مقداد! تو نے کوئی بُری بات کی؟ وہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! میرا حال ایسا ہوا اور میں نے ایسا قصور کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت کا دودھ (جو خلافِ معمول اترا) اللہ کی رحمت تھی۔ تو نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی جگا دیتے کج وہ بھی یہ دودھ پیتے ؟ میں نے عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا کلام دے کر بھیجا ہے کہ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں جب آپ نے اللہ کی رحمت حاصل کر لی اور میں نے آپﷺ کے ساتھ حاصل کی تو کوئی بھی اس کو حاصل کرے۔

باب : نبیﷺ کی وجہ سے گھی میں برکت۔

1536: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ اُمّ مالک رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کو ایک کپی میں بطور تحفہ کے گھی بھیجا کرتی تھیں، پھر اس کے بیٹے آتے اور اس سے سالن مانگتے اور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اُمّ مالک رضی اللہ عنہا اس کپی کے پاس جاتی، تو اس میں گھی ہوتا۔ اسی طرح ہمیشہ اس کے گھر کا سالن قائم رہتا۔ ایک بار اُمّ مالک نے (حرص کر کے ) اس کپی کو نچوڑ لیا، پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں تو آپﷺ نے استفسار فرمایا کہ کیا تم نے اس کو نچوڑ لیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو یوں ہی رہنے دیتی (اور ضرورت کے وقت لیتی) تو وہ ہمیشہ قائم رہتا۔

باب : نبیﷺ کے لئے درخت کا تابع فرمان ہو جانا۔

1537: سیدنا عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامتؓ  کہتے کہ میں اور میرا والد حصول علم کی غرض سے قبیلہ انصار کی طرف نکلے مبادا یہ کہ ان کا کوئی فرد باقی نہ رہے (فوت ہو جائیں یا ادھر ادھر ہجرت کر جائیں)۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم ابو الیسر سے ملے جو رسول اللہﷺ کے صحابی تھے۔ ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا جو کتابوؑ (خطوں) کا ایک بنڈل لئے ہوئے تھا۔ اور ابو الیسر کے بدن پر ایک چادر تھی اور ایک معافری نامی ایک کپڑا تھا۔ ان کے غلام پر بھی ایک چادر تھی اور ایک معافری کپڑا تھا (یعنی مالک اور غلام دونوں ایک ہی طرح کا لباس پہنے ہوئے تھے )۔ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا آپ کچھ رنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بولے کہ بنی حرام قبیلے کے فلاں بن فلاں پر میرا قرض آتا تھا، میں اس کے گھر والوں کے پاس گیا، سلام کیا اور پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہے۔ اتنے میں اس کا ایک نوجوان بیٹا باہر نکلا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کہاں ہے ؟ وہ بولا کہ آپ کی آواز سن کر میری ماں کے چھپر گھٹ میں گھس گیا ہے۔ تب میں نے آواز دی اور کہا کہ اے فلاں! باہر نکل مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تو کہاں ہے۔یہ سن کر وہ باہر نکلا۔ میں نے کہا کہ تو مجھ سے چھپ کیوں رہا ہے ؟ وہ بولا کہ اللہ کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا ، اللہ کی قسم میں ڈرا کہ آپ سے جھوٹ بات کروں یا وعدہ کروں اور اس کے خلاف کروں اور تم صحابی رسولﷺ ہو، اور اللہ کی قسم میں محتاج ہوں۔ میں نے اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا تم واقعی محتاج ہو؟ تو اس نے اللہ کی قسم کھائی اور کہا کہ میں محتاج ہوں۔میں نے پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے پھر قسم کھائی، میں نے پھر قسم دی تو اس نے پھر اللہ کی قسم کھائی۔ پھر اس کا وثیقہ یا نوشتہ (قرض نامہ) لایا گیا۔ ابو الیسرؓ  نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور کہا کہ اگر تیرے پاس روپیہ آئے تو ادا کرنا وگرنہ تو آزاد ہے۔ پس میں گواہی دیتا ہوں، میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے دیکھا اور ابو الیسرؓ  نے اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا اور ابو الیسرؓ  نے اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے گا۔ عبادہ نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا اگر تم اپنے غلام کی چادر لے لو اور اپنا معافری کپڑا اس کو دے دو، تو تمہارے پاس بھی ایک جوڑا پورا ہو جائے گا اور اس کے پاس بھی ایک جوڑا ہو جائے گا۔ ابو الیسرؓ  نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا یا اللہ اس لڑکے کو برکت دے ، اے میرے بھتیجے ! میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا اور اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ لونڈی اور غلام کو کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ پھر اگر میں اس کو دنیا کا سامان دے دوں تو وہ میرے نزدیک اس سے آسان ہے کہ وہ قیامت کے دن میری نیکیاں لے لے۔ عبادہؓ  نے کہا پھر ہم چلے یہاں تک کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ  کے پاس ان کی مسجد میں پہنچے ، وہ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا ان کے اور قبلہ کے درمیان میں جا بیٹھا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے ، آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہیں حالانکہ آپ کی (دوسری) چادر آپ کے پہلو میں رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے سینے پر اس طرح سے اشارہ کیا، انگلیوں کو کشادہ رکھتے ہوئے انہیں کمان کی طرح خم کیا اور کہا کہ میں نے یہ چاہا کہ تیری مانند کوئی احمق میرے پاس آئے ، پھر وہ مجھے دیکھے جو میں کرتا ہوں اور ویسا ہی کرے۔ رسول اللہﷺ ہماری اس مسجد میں آئے اور آپﷺ کے ہاتھ میں ابن طاب (کھجور) کی ایک چھڑی تھی۔ آپﷺ نے مسجد میں قبلہ کی طرف بلغم دیکھا (کسی نے تھوکا تھا)، تو آپﷺ نے اس کو لکڑی سے کھرچ ڈالا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کون یہ بات پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے ؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے ؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم میں سے تو کوئی بھی یہ نہیں چاہتا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے نماز میں کھڑا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے منہ کے سامنے ہوتا ہے (نووی نے کہا یعنی جہت جس کو اللہ تعالیٰ نے عظمت دی یا کعبہ)، تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے اور نہ داہنی طرف بلکہ بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے (تھوکے )۔ اگر بلغم جلدی نکلنا چاہے تو اپنے کپڑے میں تھوک کر ایسا کر لے ، پھر اپنے کپڑے کو تہہ در تہہ لپیٹا۔ اس کے بعد فرمایا کہ میرے پاس خوشبو لاؤ۔ ہمارے قبیلے کا ایک جوان لپکا اور دوڑتا ہوا اپنے گھر میں گیا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس خوشبو کو لکڑی کی نوک پر لگایا اور جہاں اس بلغم کا نشان مسجد پر تھا وہاں خوشبو لگا دی۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ اس حدیث سے تم اپنی مسجدوں میں خوشبو رکھتے ہو۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ بطن بواط کی لڑائی میں چلے (وہ جہینہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے )۔ آپﷺ مجدی بن عمرو جہنی کی تلاش میں تھے (جو ایک کافر تھا) اور ہم لوگوں کا یہ حال تھا کہ پانچ اور چھ اور سات آدمیوں میں ایک اونٹ تھا، جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک انصاری کی باری آئی، اس نے اونٹ کو بٹھایا، اس پر چڑھا، پھر اس کو اٹھایا تو اونٹ کچھ اڑا۔ وہ انصاری بولا ”شاء“ (یہ کلمہ ہے اونٹ کو ڈانٹنے کا) اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا یہ کون ہے جو اپنے اونٹ پر لعنت کرتا ہے ؟ وہ انصاری بولا کہ میں ہوں یا رسول اللہﷺ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس اونٹ پر سے اتر جا اور ہمارے ساتھ وہ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہو۔ اپنی جانوں، اپنی اولاد اور اپنے مالوں کے لئے بددعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بددعا اس ساعت نکلے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا جاتا ہے اور وہ قبول کر لیتا ہے (تو تمہاری بددعا بھی قبول ہو جائے اور تم پر آفت آ جائے )۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے ، جب شام ہوئی اور عرب کے ایک چشمے کے قریب آئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کون شخص ہم لوگوں سے آگے بڑھ کر اس حوض کو درست کرے گا، خود بھی پیئے اور ہم کو بھی پلائے ؟ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں وہ شخص ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا اور کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا؟ چنانچہ جبار بن صخر اٹھے۔ خیر ہم دونوں آدمی کنویں / چشمے کی طرف چلے اور حوض میں ایک یا دو ڈول ڈالے ، پھر اس پر مٹی لگائی۔ اس کے بعد اس میں پانی بھرنا شروع کیا، یہاں تک کہ لبالب بھر دیا۔ سب سے پہلے ہم کو رسول اللہﷺ دکھائی دیئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم دونوں (مجھے اور میرے جانوروں کو پانی پینے پلانے کی) اجازت دیتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ”جی ہاں یا رسول اللہﷺ“۔ آپﷺ نے اپنی اونٹنی کو چھوڑا، اس نے پانی پیا، پھر آپﷺ نے اس کی باگ کھینچی اس نے پانی پینا موقوف کیا اور پیشاب کیا۔ پھر آپﷺ اس کو الگ لے گئے اور بٹھا دیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ حوض کی طرف آئے ، اس میں سے وضو کیا۔ میں بھی کھڑا ہوا اور جہاں سے آپﷺ نے وضو کیا تھا میں نے بھی وہیں سے وضو کیا۔ جبار بن صخرؓ  قضائے حاجت کے لئے چلے گئے۔ رسول اللہﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ میرے بدن پر ایک چادر تھی۔ میں اس کے دونوں کناروں کو الٹنے لگا، وہ چھوٹی ہوئی ، اس (چادر) میں پھُندے لگے تھے۔ آخر میں نے اس کو الٹا کیا، پھر اس کے دونوں کنارے الٹے ، پھر اس کو اپنی گردن سے باندھا، اس کے بعد آ کر رسول اللہﷺ کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا ، گھمایا اور داہنی طرف کھڑا کر لیا۔ پھر جبار بن صخر آئے ، انہوں نے بھی وضو کیا اور رسول اللہﷺ کی بائیں طرف (نماز پڑھنے کے لئے ) کھڑے ہو گئے۔ آپﷺ نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور پیچھے ہٹا دیا یہاں تک کہ ہم کو اپنے پیچھے کھڑا کیا (معلوم ہوا کہ اتنا عمل نماز میں درست ہے )۔ پھر رسول اللہﷺ نے مجھ کو گھورنا شروع کیا اور مجھ کو خبر نہیں۔ خبر ہوئی تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنی کمر باندھ لے (تاکہ ستر نہ کھلے )۔ جب رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ اے جابر! میں نے عرض کیا کہ حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ۔ آپ نے فرمایا جب چادر کشادہ ہو تو اس کے دونوں کنارے الٹ لے اور جب تنگ ہو تو اس کو کمر پر باندھ لے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ پھر ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے اور ہم میں سے ہر ایک شخص کو خوراک کے لئے ہر روز ایک کھجور ملتی تھی اور وہ اس کو چوس لیتا تھا۔ پھر اس کو اپنے دانتوں میں پھراتا۔ اور ہم اپنی کمانوں سے درخت کے پتے جھاڑتے اور ان کو کھاتے ، یہاں تک کہ (گرمی ، خشکی اور پتے کھاتے کھاتے ) ہمارے منہ اندر سے زخمی ہو گئے۔ پھر ایک دن کھجور بانٹنے والا ایک شخص کو بھول گیا۔ ہم اس شخص کو اٹھا کر لے گئے اور گواہی دی کہ اس کو کھجور نہیں ملی۔ بانٹنے والے نے اس کو کھجور دی۔ وہ کھڑا ہو گیا اور کھجور لے لی۔ پھر ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے ، یہاں تک کہ ایک کشادہ وادی میں اترے۔ رسول اللہﷺ حاجت کو تشریف لے گئے۔ ایک ڈول پانی لے کر میں بھی آپﷺ کے پیچھے چلا گیا۔ رسول اللہﷺ نے کوئی آڑ نہ پائی۔ دیکھا تو دو درخت وادی کے کنارے پر لگے ہوئے تھے۔ آپﷺ ایک درخت کے پاس گئے ، اس کی ایک شاخ پکڑی، پھر (درخت سے ) فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔وہ آپﷺ کا تابعدار ہو گیا جیسے وہ اونٹ جس کی ناک میں نکیل ڈال دی جاتی ہے اور وہ اپنے کھینچے والے کا تابعدار ہو جاتا ہے۔ پھر آپﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی بھی ایک شاخ پکڑی اور فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔ وہ بھی اسی طرح آپﷺ کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپﷺ ان درختوں کے درمیان میں پہنچے تو ان کو ایک ساتھ کر کے فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرے سامنے جڑ جاؤ، چنانچہ وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ میں دوڑتا ہوا نکلا اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہﷺ مجھ کو نزدیک دیکھیں اور زیادہ دور کہیں تشریف لے جائیں۔ میں بیٹھا اپنے دل میں باتیں کئے جا رہا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ سامنے سے تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت جدا ہو کر اپنی جڑ پر کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ تھوڑی دیر کھڑے ہوئے اور سر سے اس طرح دائیں اور بائیں اشارہ کیا، پھر سامنے آئے۔ جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا اے جابر ! میں جہاں کھڑا تھا تو نے دیکھا؟ سیدنا جابرؓ  نے عرض کیا کہ ”جی ہاں یا رسول اللہﷺ“ آپﷺ نے فرمایا کہ تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹ کر لے آؤ۔ جب اس جگہ پہنچے جہاں میں کھڑا ہوا تھا تو ایک شاخ اپنی داہنی طرف ڈال دے اور ایک ڈالی بائیں طرف۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور ایک پتھر لیا، اس کو توڑ کر تیز کیا۔ وہ تیز ہو گیا تو ان دونوں درختوں کے پاس آیا اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹی، پھر میں ان شاخوں کو کھینچتا ہوا اس جگہ پر لے آیا جہاں رسول اللہﷺ ٹھہرے تھے اور ایک شاخ داہنی طرف ڈال دی اور ایک شاخ بائیں طرف ڈال دی ، پھر آپﷺ سے جا کر مل گیا اور عرض کیا کہ جو آپﷺ نے فرمایا تھا وہ میں نے کر دیا، لیکن اس کی وجہ کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہاں دو قبریں ہیں، ان قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے تو میں نے چاہا کہ ان کی سفارش کروں، جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ پھر ہم لشکر میں آئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اے جابر! لوگوں وضو کے پانی کے لئے آواز لگاؤ۔ میں نے تین دفعہ آواز دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ قافلہ میں ایک قطرہ پانی کا نہیں ہے۔ ایک انصار ی مرد تھا جو رسول اللہﷺ کے لئے ایک مشک میں جو لکڑی کی شاخوں پر لٹکتی تھی، پانی ٹھنڈا کیا کرتا تھا، آپﷺ نے فرمایا کہ اس انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو، کیا اس کی مشک میں کچھ پانی ہے ؟ میں گیا، دیکھا تو مشک میں پانی نہیں ، اس کے منہ میں صرف ایک قطرہ ہے کہ اگر اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی لے۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ اس مشک میں تو پانی نہیں ہے صرف ایک قطرہ اس کے منہ میں ہے ، اگر میں اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی جائے۔ آپﷺ نے فرمایا جاؤ اور اس مشک کو میرے پاس لے آؤ۔ میں اسی مشک کو لے آیا۔ آپﷺ نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا، پھر زبان سے کچھ فرمانے لگے جس کو میں سمجھ نہ سکا اور مشک کو اپنے ہاتھ سے دباتے جاتے تھے۔ پھر وہ مشک میرے حوالے کی اور فرمایا کہ اے جابر آواز دے کہ قافلے کا گھڑا لاؤ (یعنی پانی والا بڑا برتن)۔ میں نے آواز دی وہ (برتن) لایا گیا۔ لوگ اس کو اٹھا کر لائے۔ میں نے آپﷺ کے سامنے وہ برتن رکھ دیا۔ رسول اللہﷺ نے اپنا ہاتھ اس گھڑے میں پھیر کر اس طرح سے پھیلا کر انگلیوں کو کشادہ کیا، پھر اپنا ہاتھ اس کی تہہ میں رکھ دیا اور فرمایا اے جابر! وہ مشک لے اور میرے ہاتھ پر ڈال دے اور بسم اللہ کہہ کر ڈالنا۔ میں نے بسم اللہ کہہ کر وہ پانی ڈال دیا۔ پھر میں نے دیکھا تو آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی جوش مار رہا تھا، یہاں تک کہ گھڑے نے جوش مارا اور گھوما اور بھر گیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اے جابر! آواز دے کہ جس کو پانی کی حاجت ہو (وہ آئے )۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا لوگ آئے ، پانی لیا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ میں نے کہا کوئی ایسا بھی رہا جس کو پانی کی ضرورت ہو؟ پھر آپﷺ نے اپنا ہاتھ گھڑے سے اٹھا لیا اور وہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اور لوگوں نے آپﷺ سے بھوک کی شکایت کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ اللہ تم کو کھلائے۔ پھر ہم دریا (یعنی سمندر) کے کنارے پر آئے۔ سمندر کی لہر نے جوش مارا اور ایک جانور باہر ڈال دیا۔ ہم نے اس کے کنارے آگ سلگائی اور اس جانور کا گوشت بھون کر پکایا اور سیر ہو کر کھایا۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ پھر میں اور فلاں فلاں پانچ آدمی اس کی آنکھ کے گولے میں گھس گئے ، ہم کو کوئی نہ دیکھتا تھا یہاں تک کہ ہم باہر نکلے (اتنا بڑا جانور تھا)۔ پھر ہم نے اس کی پسلیوں میں سے پسلی لی اور قافلے میں سے اس شخص کو بلایا جو سب سے بڑا تھا اور سب سے بڑے اونٹ پر سوار تھا اور سب سے بڑا زین اس پر تھا تو وہ اپنا سر جھکائے بغیر اس پسلی کے نیچے سے گزر گیا(اتنی اونچی اس جانور کی پسلی تھی۔ بیشک اللہ اپنے راہ میں نکلنے والوں کو دیتا ہے )۔

باب : چاند کا ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جانا۔

1538: سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ منیٰ میں تھے کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا تو پہاڑ کے اس طرف رہا اور ایک اس طرف چلا گیا۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گواہ رہو۔

1539: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے رسول اللہﷺ سے کوئی نشانی چاہی تو آپﷺ نے انہیں دو حصوں میں چاند کا پھٹنا دکھایا۔

باب : شر کے ارادے سے آنے والے سے نبیﷺ کا محفوظ رہنا۔

1540: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ابو جہل نے کہا کہ محمدﷺ اپنا منہ تمہارے سامنے زمین پر رکھتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ ابو جہل نے کہا کہ قسم لات اور عزیٰ کی کہ اگر میں ان کو اس حال (یعنی سجدہ) میں دیکھوں گا تو میں ان کی گردن روندوں گا یا منہ میں مٹی لگاؤں گا۔ پھر جب آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے ، وہ رسول اللہﷺ کے پاس اس ارادہ سے آیا تاکہ آپﷺ کی گردن روندے ، تو لوگوں نے دیکھا کہ یکایک ہی ابو جہل الٹے قدموں پھر رہا ہے اور ہاتھ سے کسی چیز سے بچتا ہے۔لوگوں نے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ وہ بولا کہ میں نے دیکھا کہ محمدﷺ کے درمیان میں آگ کی ایک خندق ہے اور خوف ہے اور (پر) بازو رہیں (وہ فرشتوں کے بازو/پر تھے ) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے نزدیک آتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی، عضو عضو اچک لیتے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں کہ ”ہرگز نہیں، آدمی شرارت کرتا ہے۔ اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو امیر سمجھتا ہے۔ آخر تجھے تیرے رب کی طرف جانا ہے۔ کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جوا یک بندے کو نماز سے روکتا ہے ؟ (معاذ اللہ جو کسی مسلمان کو نماز سے منع کرے یا مسجد سے روکے تو وہ ابو جہل جیسا ہے ) بھلا تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر یہ (محمدﷺ) سیدھی راہ پر ہوتا اور اچھی بات کا حکم کرتا ہو؟ تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر اس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیری؟ یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ہرگز نہیں اگر یہ (ان بُرے کاموں سے ) باز نہ آئے گا تو ہم اس کو ماتھے کے بل گھسیٹیں گے اور اس کا ماتھا جھوٹا اور گنہگار ہے وہاں وہ اپنی قوم کو پکارے اور ہم فرشتوں کو بلائیں گے تو ہرگز اس کا کہنا نہ مان“ (العلق:13–6)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس نے اس کو حکم دیا جس کا اس نے اس کو حکم دیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ پس چاہئیے کہ اپنی قوم کو پکارے یعنی اپنی قوم کے لوگوں کو۔

باب : نبیﷺ کا، قتل کے ارادے سے آنے والے (کے شر) سے محفوظ رہنا۔

1541: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ  کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کو گئے تو ہم نے آپﷺ کو ایک وادی میں پایا جہاں کانٹے دار درخت بہت زیادہ تھے۔ آپﷺ ایک درخت کے نیچے اترے اور اپنی تلوار ایک شاخ سے لٹکا دی اور لوگ اس وادی میں الگ الگ ہو کر سایہ ڈھونڈھتے ہوئے پھیل گئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص میرے پاس آیا، میں سو رہا تھا کہ اس نے تلوار اتار لی اور میں جاگا تو وہ میرے سر پر کھڑا ہوا تھا۔ مجھے اس وقت خبر ہوئی جب اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار آ گئی تھی۔ وہ بولا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ میں نے کہا کہ اللہ! پھر دوسری بار اس نے یہی کہا تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ۔ یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ وہ شخص یہ بیٹھا ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس سے کچھ بھی نہ کہا۔

باب : زہر اور زہر ملی بکری (کا گوشت) کھانے کا بیان۔

1542: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت رسول اللہﷺ کے پاس زہر ملا کر بکری کا گوشت لائی تو آپﷺ نے اس میں سے کھایا۔ پھر وہ عورت آپﷺ کے پاس لائی گئی تو آپﷺ نے پوچھا کہ یہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولی کہ میں آپﷺ کو مار ڈالنا چاہتی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے اتنی طاقت دینے والا نہیں (کہ تو اس کے پیغمبر کو ہلا ک کر سکے )۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم اس کو قتل نہ کر دیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں (یہ آپﷺ کا اس پر رحم تھا اور اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ آپﷺ پیغمبر برحق تھے ورنہ اگر بادشاہ ہوتے تو اس عورت کو قتل کراتے ) راوی نے کہا کہ میں ہمیشہ اس زہر کا اثر آپﷺ کے حلق کے کوے میں پاتا رہا۔

باب : نبیﷺ کا اندازہ درست نکلنے کے متعلق۔

1543: سیدنا ابو حمیدؓ  کہتے ہیں کہ تبوک کی جنگ میں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نکلے۔ وادی القریٰ (شام کے راستے میں مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے ) میں ایک عورت کے باغ کے پاس پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اندازہ لگاؤ اس باغ میں کتنا میوہ ہے ؟۔ ہم نے اندازہ کیا اور رسول اللہﷺ نے کے اندازے میں وہ دس وسق معلوم ہوا۔ آپﷺ نے اس عورت سے فرمایا کہ جب تک ہم لوٹ کر آئیں تم یہ (اندازہ) گنتی یاد رکھنا ، اگر اللہ نے چاہا۔ پھر ہم لوگ آگے چلے ، یہاں تک کہ تبوک میں پہنچے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آج رات تیز آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، وہ اس کو مضبوطی سے باندھ لے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ زوردار آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تو اس کو ہوا اڑا لے گئی، اور (وادی) طے کے دونوں پہاڑوں کے درمیان ڈال دیا۔ ابن العلماء حاکم اَیلہ کا ایلچی ایک خط لے کر آیا اور رسول اللہﷺ کے لئے ایک سفید خچر تحفہ لایا۔ رسول اللہﷺ نے اس کو جواب لکھا اور ایک چادر تحفہ بھیجی۔ پھر ہم لوٹے ، یہاں تک کہ وادی القریٰ میں پہنچے۔ آپﷺ نے اس عورت سے باغ کے میوے کا حال پوچھا کہ کتنا نکلا؟ اس نے کہا پورا دس وسق نکلا۔ (پھر) آپﷺ نے فرمایا کہ میں جلدی جاؤں گا، لہٰذا تم میں سے جس کا دل چاہے وہ میرے ساتھ جلدی چلے اور جس کا دل چاہے ٹھہر جائے۔ ہم نکلے یہاں تک کہ مدینہ دکھائی دینے لگا، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ”طابہ“ ہے (طابہ مدینہ منورہ کا نام ہے ) اور یہ احد پہاڑ ہے جو ہم کو چاہتا ہے اور ہم اس کو چاہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ انصار کے گھروں میں بنی نجار کے گھر بہترین ہیں (کیونکہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہوے ) پھر بنی عبدالاشہل کے گھر، پھر بنی حارث بن خزرج کے گھر۔ پھر بنی ساعدہ کے گھر اور انصار کے سب گھروں میں بہتری ہے۔ پھر سعد بن عبادہؓ  ہم سے ملے۔ ابو اسیدؓ  نے کہا کہ تم نے نہیں سنا کہ رسول اللہﷺ نے انصار کے گھروں کی بہتری بیان فرمائی تو ہم کو سب کے اخیر میں کر دیا؟۔ یہ سن کر سیدنا سعدؓ  رسول اللہﷺ سے ملے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے انصار کی فضیلت بیان کی اور ہم کو سب سے آخر میں کر دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ کافی نہیں ہے کہ تم اچھوں میں رہے ؟۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم سے روکتا ہوں۔

1544: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے گرد روشنی ہوئی تو اس میں کیڑے اور یہ جانور جو آگ میں ہیں، گرنے لگے اور وہ شخص ان کو روکنے لگا، لیکن وہ نہ رکے اور اس میں گرنے لگے۔ یہ مثال ہے میری اور تمہاری، میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم سے روکتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم نہیں مانتے اسی میں گھسے جاتے ہو۔

باب : نبیﷺ لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والے تھے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔

1545: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک کام میں رخصت روا رکھی۔ آپﷺ کو معلوم ہوا تو خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ جس کام میں مجھے رخصت دی گئی ہے اس سے احتراز کرتے ہیں؟ اللہ کی قسم میں تو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں (تو میری پیروی کرنا اور میری راہ پر چلنا، یہی تقویٰ اور پرہیز گاری ہے اور بے فائدہ نفس پر بار ڈالنا اور جائز کام سے بچنا اسکے جائز ہونے میں شک کرنا ہے )

باب : نبیﷺ کا گناہوں سے دور رہنا اور اللہ تعالیٰ کی محارم کا خیال رکھنا۔

1546: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) دو کاموں کا اختیار دیا گیا، تو آپﷺ نے آسان کو اختیار کیا، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ اور جو گناہ ہوتا تو آپﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے۔ اور کبھی آپﷺ نے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر کوئی اللہ کے حکم کے برخلاف کرتا تو اس کو سزا دیتے۔

باب : نبیﷺ کی نماز ایسی تھی کہ (پڑھتے پڑھتے ) پاؤں سوج جاتے اور آپﷺ فرماتے کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

1547: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپﷺ کے پاؤں سوج گئے۔ لوگوں نے کہا کہ آپﷺ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں، آپﷺ کے تو اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دئیے گئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ میں حوض پر تمہارا منتظر ہوں گا۔

1548: سیدنا جندبؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا (یعنی آگے جا کر تمہارا منتظر ہوں گا اور تمہارے پلانے کا سامان درست کروں گا)۔

باب : نبیﷺ کے حوض، اس کی وسعت و عظمت اور آپ کی امت کے حوض پر آنے کے متعلق۔

1549: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ میرا حوض ایک مہینہ کے سفر کے برابر ہے ، اس کے چاروں کونے برابر ہیں (یعنی طول اور عرض یکساں ہے )، اس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہے اور اس کی خوشبو مشک سے بہتر ہے۔ اس پر جو آبخورے (پیالے ) رکھے ہیں، ان کی گنتی آسمان کے تاروں کے برابر ہے۔ جو اس میں سے پئے گا، پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ عبد اللہ نے کہا کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں حوض پر رہوں گا اور دیکھوں گا کہ تم میں سے کون کون وہاں آتے ہیں۔ اور کچھ لوگ میرے پاس آنے سے روکے جائیں گے ، تو میں کہوں گا کہ اے پروردگار! یہ لوگ میرے ہیں، میری امت کے ہیں۔ تو جواب ملے گا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ جو کام انہوں نے تمہارے بعد کئے۔ اللہ کی قسم تمہارے بعد ذرا نہ ٹھہرے اور ایڑیوں پر لوٹ گئے (اسلام سے پھر گئے ان لوگوں میں خارجی بھی داخل ہیں جو سیدنا علیؓ  کے ساتھ سے الگ ہو گئے اور مسلمانوں کو کافر سمجھنے لگے اور وہ لوگ بھی داخل ہیں جنہوں نے نبیﷺ کی وصیت پر عمل نہ کیا اور آپﷺ کے اہل بیت کو ستایا اور شہید کیا۔ معاذ اللہ) ابن ابی ملیکہ (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم ایڑیوں پر لوٹ جانے سے یا دین میں فتنہ ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

1550: سیدنا حارثہ بن وہبؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میرا حوض اتنا بڑا ہے جیسے صنعاء سے مدینہ (ایک مہینہ کی راہ)۔ مستورد نے کہا کہ تم نے آپﷺ سے برتنوں کا ذکر نہیں سنا؟ حارثہ نے کہا کہ نہیں۔ مستورد نے کہا کہ وہاں ستاروں کی طرح برتن ہوں گے۔

1551: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تمہارے سامنے ایک حوض ہو گا، جس کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہو گا جیسے جرباء اور اذرح میں ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ تمہارے سامنے میرا حوض ہو گا۔اور ایک روایت میں ہے ،عبید اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے (یعنی نافع سے ) پوچھا کہ جرباء اور اذرح کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ شام میں دو گاؤں ہیں اور ان میں تین رات کی مسافت کا فاصلہ ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تین دن کی مسافت ہے۔

1552: سیدنا جابر بن سمرہؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: میں حوض پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا اور اس کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جیسے صنعاء اور ایلہ میں اور اس کے آبخورے تاروں کی طرح ہیں۔

1553: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! حوض کے برتن کیسے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ، اس حوض کے برتن آسمان کے تاروں سے زیادہ ہیں اور رات وہ جو اندھیری بے بدلی کے ہو۔ وہ جنت کے برتن ہیں۔ جو اس حوض سے (پانی) پی لے گا، وہ پھر ہمیشہ تک کبھی پیاسا نہ ہو گا، (یعنی جنت میں جانے تک) اس حوض میں جنت کے دو پرنالے بہتے ہیں، جو اس میں سے پئیے گا وہ پیاسا نہ ہو گا اور اس کا طول اور عرض برابر ہے جتنا فاصلہ ایلہ سے عمان تک ہے (یہ دونوں شام کے شہر ہیں) اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔

1554: سیدنا ثوبانؓ  سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: میں اپنے حوض کے کنارے پر لوگوں کو ہٹاتا ہوں گا یمن والوں کے لئے۔ میں اپنی لکڑی سے ماروں گا، یہاں تک کہ یمن والوں پر اس کا پانی بہہ آئے گا (اس سے یمن والوں کی بڑی فضیلت نکلی۔ انہوں نے دنیا میں رسول اللہﷺ کی مدد کی اور دشمنوں سے بچایا، پس نبیﷺ بھی آخرت میں ان کی مدد کریں گے اور سب سے پہلے حوضِ کوثر سے وہ پئیں گے )۔ پھر آپﷺ سے پوچھا گیا کہ اس حوض کا عرض کتنا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جیسے یہاں سے عمان۔ پھر آپﷺ سے پوچھا گیا کہ اس کا پانی کیسا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ دودھ سے زیادہ سفید ہے اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ دو پرنالے اس میں پانی چھوڑتے ہیں، جن کو جنت سے پانی کی مدد ہوتی ہے ایک پرنالہ سونے کا ہے اور ایک چاندی کا۔

1555: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن نکلے اور شہداء اُحد پر نماز جنازہ پڑھی ، پھر منبر کی طرف آئے اور فرمایا کہ میں تمہارا پیش خیمہ ہوں گا اور گواہ ہوں گا اور اللہ کی قسم میں اس وقت حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں ملیں یا زمین کی چابیاں اور اللہ کی قسم مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے بلکہ یہ ڈر ہے کہ تم دنیا کے لالچ میں آ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو۔

باب : نبیﷺ کے حلیہ مبارک، آپ کی بعثت اور آپ کی عمر کے بیان میں۔

1556: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نہ بہت لمبے تھے ، نہ بہت چھوٹے قد کے ، نہ بالکل سفید تھے نہ بالکل گندمی۔ آپﷺ کے بال نہ بالکل سخت گھنگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے۔ اللہ جل جلالہ نے آپﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز کیا۔ پھر آپﷺ دس برس مکہ میں رہے اور دس برس مدینہ میں اور ساٹھویں برس کے اخیر میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اٹھا لیا (تو) اُس وقت آپﷺ کے سر اور داڑھی مبارک میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔

1557: سیدنا براءؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ درمیانے قد کے تھے اور آپﷺ کے دونوں مونڈھوں میں زیادہ فاصلہ تھا (یعنی سینہ چوڑا تھا)۔ بال بہت تھے کانوں کی لُو تک۔ آپﷺ سرخ جوڑا پہنتے (یعنی جس میں سرخ اور زرد لکیریں تھیں)، میں نے کسی کو آپﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔

1558: سیدنا ابو طفیلؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا اور اب زمین پر سوا میرے آپﷺ کو دیکھنے والوں میں کوئی نہیں رہا۔ (راوی حدیث جریری) )کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے دیکھا آپﷺ کیسے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ آپﷺ سفید رنگ تھے ، نمکینی کے ساتھ اور میانہ قد، متوازن جسم کے تھے۔ امام مسلم نے کہا کہ ابو الطفیل 100 ء ھ میں فوت ہوئے اور رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سب کے بعد وہی فوت ہوئے۔

باب : مہر نبوت کے متعلق۔

1559: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سر اور ڈاڑھی کا آگے کا حصہ سفید ہو گیا تھا جب آپﷺ تیل ڈالتے تو سفیدی معلوم نہ ہوتی اور آپﷺ کی ڈاڑھی بہت گھنی تھی۔ ایک شخص بولا کہ کیا آپﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح یعنی لمبا تھا؟ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ نہیں آپﷺ کا چہرہ مبارک سورج اور چاند کی طرح اور گول تھا اور میں نے نبوت کی مہر آپﷺ کے کندھے پر دیکھی جیسے کبوتر کا انڈا ہوتا ہے اور اسکا رنگ جسم کے رنگ سے ملتا تھا۔

1560: سیدنا سائب بن یزیدؓ  کہتے ہیں کہ میری خالہ مجھے رسول اللہﷺ کے پاس لے گئی اور کہا کہ یا رسول اللہا! میرا بھانجا بہت بیمار ہے۔ آپﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا کی۔ پھر وضو کیا تو میں نے آپﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی پی لیا۔ پھر میں آپﷺ کی پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہوا اور میں نے نبوت کی مہر دونوں مونڈھوں کے درمیان میں دیکھی جیسے گھنڈی چھپر کٹ کی (یا حجلہ ایک جانور ہے اس کے انڈے کی طرح تھی)۔

1561: سیدنا عبد اللہ بن سرجسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا اور آپﷺ کے ساتھ روٹی، گوشت یا ثرید کھایا (راوی حدیث عاصم) کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہؓ  سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے تمہارے لئے بخشش کی دعا کی؟ انہوں نے کہا ہاں اور تیرے لئے بھی۔ پھر یہ آیت پڑھی کہ ”بخشش مانگ اپنے گناہ کی اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے گناہ کی“۔ عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ پھر میں آپﷺ کے پیچھے گیا تو میں نے دونوں کندھوں کے درمیان میں چلنی ہڈی کے پاس کندھے کے قریب مہر نبوت دیکھی، وہ بند مٹھی کی طرح تھی اور اس پر مسوں کی طرح تل تھے۔

باب : آپﷺ کے چہرہ مبارک، آنکھوں اور آپﷺ کی ایڑی کا بیان۔

1562: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا دہن کشادہ تھا (کیونکہ مردوں کے لئے دہن کی کشادگی عمدہ ہے اور عورتوں کے لئے بری ہے ) آنکھوں میں سرخ ڈورے چھوٹے ہوئے اور ایڑیاں کم گوشت والی تھیں۔ سماک سے (شعبہ نے ) پوچھا کہ ”ضلیع الفم“ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ بڑا چہرہ۔ پھر (شعبہ) نے کہا ”اشکل العین“ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا دراز شگاف آنکھوں کے (لیکن سماک کا یہ کہنا غلط ہے اور صحیح وہی ہے کہ سفیدی میں سرخی ملی ہوئی) شعبہ نے کہا ”منہوس العقبین“ کیا ہے تو انہوں نے کہا ایڑی پر کم گوشت والے۔

باب : نبیﷺ کی داڑھی مبارک کا بیان۔

1563: سیدنا انس بن مالکؓ  روایت کرتے ہیں کہ سر اور داڑھی کے سفید بال اکھیڑنا مکروہ ہے اور رسول اللہﷺ نے خضاب نہیں کیا۔ آپﷺ کی چھوٹی داڑھی میں جو نیچے کے ہونٹ تلے ہوتی ہے ، کچھ سفیدی تھی، اور کچھ کنپٹیوں پر اور سر میں کہیں کہیں سفید بال تھے۔

باب : نبیﷺ کے بڑھاپے کا بیان۔

1564: سیدنا ابو جحیفہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، آپﷺ کا رنگ سفید تھا اور آپﷺ بوڑھے ہو گئے تھے اور سیدنا حسن بن علیؓ  آپﷺ کے مشابہ تھے۔

باب : نبیﷺ کے سر کے بالوں کا بیان۔

1565: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے بال کندھوں کے قریب تک تھے۔

1566: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے بال آدھے کانوں تک تھے۔

باب : نبیﷺ کا سر کے بالوں کو لٹکانا اور مانگ نکالنے کا بیان۔

1567: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے (یعنی مانگ نہیں نکالتے تھے ) اور مشرک مانگ نکالتے تھے اور رسول اللہﷺ اہل کتاب کے طریق پر چلنا دوست رکھتے تھے جس مسئلہ میں آپﷺ کو کوئی حکم نہ ہوتا (یعنی بہ نسبت مشرکین کے اہل کتاب بہتر ہیں تو جس باب میں کوئی حکم نہ آتا آپﷺ اہل کتاب کی موافقت اس مسئلے میں اختیار کرتے ) تو آپﷺ بھی پیشانی پر بال لٹکانے لگے اس کے بعد آپﷺ مانگ نکالنے لگے۔

باب : نبیﷺ کے تبسم کے متعلق۔

اس باب کے متعلق سیدنا انس کی حدیث کتاب الصلوٰۃ میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث:281)۔

باب : نبیﷺ کنواری لڑکی جو پردے میں ہوتی ہے ، سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔

1568: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ میں اس کنواری لڑکی سے جو پردے میں رہتی ہے ، زیادہ شرم تھی اور آپﷺ جب کسی چیز کو بُرا جانتے تو ہم اس کی نشانی آپﷺ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے۔

باب : نبیﷺ کے جسم کی خوشبو اور جسم کا ملائم ہونا۔

1569: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا رنگ مبارک سفید، چمکتا ہوا تھا (نووی نے کہا کہ یہ رنگ سب رنگوں سے عمدہ ہے ) اور آپﷺ کا پسینہ مبارک موتی کی طرح تھا اور جب چلتے تو (پسینے کے قطرے دائیں بائیں، ادھر اُدھر جھکے جاتے تھے جیسے کشتی جھکتی جاتی ہے ) اور میں نے دیباج اور حریر بھی اتنا نرم نہیں پایا جتنی آپﷺ کی ہتھیلی نرم تھی اور میں نے مشک اور عنبر میں بھی وہ خوشبو نہ پائی جو آپﷺ کے جسم مبارک میں تھی۔

1570: سیدنا جابر بن سمرہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر آپﷺ اپنے گھر جانے کو نکلے اور میں بھی آپﷺ کے ساتھ نکلا۔ سامنے کچھ بچے آئے تو آپﷺ نے ہر ایک بچے کے رخسار پر ہاتھ پھیرا اور میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا۔ میں نے آپﷺ کے ہاتھ میں وہ ٹھنڈک اور وہ خوشبو دیکھی جیسے نبیﷺ نے خوشبو ساز کے ڈبہ میں سے ہاتھ نکالا ہو۔

باب : وحی کے دوران سردی میں نبیﷺ کا پسینہ مبارک۔

1571: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ پر سردی کے دنوں میں بھی وحی اترتی، تو آپﷺ کی پیشانی سے (وحی کی سختی سے ) پسینہ بہہ نکلتا تھا۔

1572: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ آپﷺ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کبھی تو ایسی آتی ہے جیسے گھنٹی کی جھنکار، اور وہ مجھ پر نہایت سخت ہوتی ہے۔ پھر جب پوری ہو جاتی ہے تو میں یاد کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی ایک فرشتہ مرد کی صورت میں آتا ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اس کو یاد کر لیتا ہوں۔

باب : نبی ﷺ کے پسینے کی خوشبو۔

1573: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے گھر میں تشریف لائے اور آرام فرمایا، آپﷺ کو پسینہ آیا، میری ماں ایک شیشی لائی اور آپﷺ کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگی، آپﷺ کی آنکھ کھل گئی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے اُم سُلیم یہ کیا کر رہی ہو؟ وہ بولی کہ آپﷺ کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں شامل کرتے ہیں اور وہ سب سے بڑھ کر خود خوشبو ہے۔

باب : نبی ﷺ کے پسینہ مبارک سے تبرک کا بیان۔

1574: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ اُمّ سُلیم کے گھر میں جاتے اور ان کے بچھونے پر سو رہتے ، اور وہ گھر میں نہیں ہوتیں تھیں ایک دن آپﷺ تشریف لائے اور ان کے بچھونے پر سو رہے۔ لوگوں نے انہیں بلا کر کہا کہ رسول اللہﷺ تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر سو رہے ہیں، یہ سن کر وہ آئیں دیکھا تو آپﷺ کو پسینہ آیا ہوا ہے اور آپﷺ کا پسینہ چمڑے کے بچھونے پر جمع ہو گیا ہے۔ اُمّ سلیم نے اپنا ڈبہ کھولا اور یہ پسینہ پونچھ پونچھ کر شیشوں میں بھرنے لگیں۔ رسول اللہﷺ گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! کیا کرتی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ہم اپنے بچوں کے لئے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔

باب : نبیﷺ کا لوگوں کے قریب ہونا اور ان کا آپﷺ سے تبرک لینے کا بیان۔

1575: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ جب آپﷺ صبح کی نماز پڑھتے تو مدینے کے خادم اپنے برتنوں میں پانی لے کر آتے ، پھر جو بھی برتن آپﷺ کے پاس آتا آپﷺ اپنا ہاتھ اس میں ڈبو دیتے۔ اور کبھی سردی کے دن میں بھی اتفاق ہوتا تو آپﷺ ہاتھ ڈبو دیتے۔

1576: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا اور حجام آپﷺ کا سر بنا رہا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم آپﷺ کے گرد تھے ، وہ چاہتے تھے کہ کوئی بال زمین پر نہ گرے بلکہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔

1577: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ ایک عورت کی عقل میں تھوڑا پاگل پن تھا، اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے آپﷺ سے کام ہے (یعنی کچھ کہنا ہے جو لوگوں کے سامنے نہیں کہہ سکتی)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے اُمّ فلاں! (یعنی اس کا نام لیا) تو جہاں چاہے گی میں تیرا کام کر دوں گا۔ پھر آپﷺ نے راستے میں اس سے تنہائی کی، یہاں تک کہ وہ اپنی بات سے فارغ ہو گئی۔

باب : رسول اللہﷺ بچوں اور اہل و عیال کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔

1578: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو بچوں پر اتنی شفقت کرتے نہیں دیکھا، جتنی رسول اللہﷺ کرتے تھے۔ آپﷺ کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم (مدینہ کے عوالی میں) دودھ پیتے تھے (عوالی مدینہ کے پاس کچھ گاؤں تھے ) آپﷺ جایا کرتے اور ہم آپﷺ کے ساتھ ہوتے ، پھر اس کے گھر تشریف لے جاتے ، وہاں دھواں ہوتا تھا کیونکہ ”انّا“ کا خاوند لوہار تھا۔ آپﷺ بچے کو لیتے ، پیار کرتے اور پھر لوٹ آتے۔ عمرو نے کہا کہ جب سیدنا ابراہیم نے وفات پائی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم میرا بیٹا ہے ، اس نے دودھ پیتے میں وفات پائی اب اس کو دو انّائیں (دائیاں) ملی ہیں جو جنت میں اس کے دودھ پینے کی مدت تک دودھ پلائیں گی۔

1579: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے رسول اللہﷺ کو سیدنا حسنؓ  کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تو وہ بولا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے دس بچے ہیں میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو (بچوں اور یتیموں اور عاجزوں اور ضعیفوں پر) رحم نہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہ کرے گا۔

باب : نبی ﷺ کی رحمت عورتوں کے ساتھ اور عورتوں کی سواری چلانے والے کو آہستہ چلانے کا حکم۔

1580: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سفر میں تھے اور ایک حبشی غلام جس کا نام انجشہ تھا حدی گاتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے انجشہ! آہستہ آہستہ چل اور اونٹوں کو شیشے لدے ہوئے اونٹوں کی طرح ہانک۔

باب : نبیﷺ کی بہادری اور جنگ میں سب سے آگے ہونے کا بیان۔

1581: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ والوں کو (کسی دشمن کے آنے کا) خوف ہوا تو جدھر سے آواز آ رہی تھی لوگ ادھر چلے ، تو راستے میں رسول اللہﷺ کو لوٹتے ہوئے پایا (آپﷺ لوگوں سے پہلے اکیلے خبر لینے کو تشریف لے گئے ہوئے تھے ) اور سب سے پہلے آپﷺ آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے اور سیدنا ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور آپﷺ کے گلے میں تلوار تھی اور فرماتے تھے کہ کچھ ڈر نہیں، کچھ ڈر نہیں۔ یہ گھوڑا تو دریا ہے اور پہلے وہ گھوڑا سست تھا (یہ بھی آپﷺ کا معجزہ تھا کہ وہ تیز ہو گیا)۔

باب : نبیﷺ سب سے زیادہ حسن اخلاق والے تھے۔

1582: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سب لوگوں سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ ایک دن آپﷺ نے مجھے ایک کام پر جانے کو کہا تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نہیں جاؤں گا، لیکن میرے دل میں یہی تھا کہ جس کام کے لئے آپﷺ حکم دیتے ہیں جاؤں گا۔ (لڑکپن کے قاعدے پر میں نے ظاہر میں انکار کیا) آخر میں نکلا یہاں تک کہ مجھے لڑکے ملے جو بازار میں کھیل رہے تھے (غالباً وہاں تک کر ان کو دیکھنے لگے۔ اور کام سے دیر ہو گئی)۔ یکایک رسول اللہﷺ نے پیچھے سے آ کر میری گردن تھام لی میں نے آپﷺ کی طرف دیکھا آپﷺ ہنس رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے انیس! (یہ تصغیر ہے انس کی پیار سے آپﷺ نے فرمایا) تو وہاں گیا جہاں میں نے حکم دیا تھا؟ میں نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہﷺ میں جاتا ہوں۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے نوبرس تک آپﷺ کی خدمت کی، مجھے یاد نہیں کہ کسی کام کے لئے جس کو میں نے کیا ہو تو آپﷺ نے یہ فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا یا کسی کام کو میں نے نہ کیا ہو اور آپﷺ نے فرمایا ہو کہ کیوں نہیں کیا۔

باب : نبیﷺ کے گفتگو کے انداز کے بیان میں۔

1583: سیدنا عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سن اے حجرہ والی سن اے حجرہ والی۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نماز پڑھتی تھیں۔ جب نماز پڑھ چکیں تو انہوں نے عروہ سے کہا کہ تم نے ابو ہریرہؓ کی باتیں سنیں (اتنی دیر میں انہوں نے کتنی حدیثیں بیان کیں) اور رسول اللہﷺ اس طرح سے بات کرتے تھے کہ گننے والا اس کو چاہتا تو گن لیتا (یعنی ٹھہر ٹھہر کر آہستہ سے اور یہی تہذیب ہے۔ چڑ چڑ اور جلدی جلدی باتیں کرنا عقلمندی اور دانائی کا شیوہ نہیں)۔

باب : رسول اللہﷺ نصیحت کرنے میں ہمارا خیال کرتے تھے (صحابہ تنگ نہ پڑ جائیں)۔

1584: شفیق بن ابو وائل کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  ہمیں ہر جمعرات کو وعظ سنا کرتے تھے ایک شخص بولا کہ اے ابوعبدالرحمن! (یہ سیدنا عبد اللہؓ  کی کنیت ہے ) ہم تمہاری گفتگو(سننا)چاہتے ہیں اور پسند کرتے ہیں ہم یہ چاہتے کہ تم ہمیں ہر روز حدیث سنایا کرو۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ میں تم کو جو ہر روز حدیث نہیں سناتا تو اس وجہ سے کہ تمہیں اکتاہٹ میں ڈال دینا بُرا جانتا ہوں اور رسول اللہﷺ کئی دنوں میں کوئی دن مقرر کرتے تھے اس لئے کہ آپﷺ ہمیں رنج دینا بُرا جانتے تھے (یعنی بار ہونا)۔

باب : نبیﷺ سب سے زیادہ سخی تھے بھلائی (کے کاموں )میں۔

1585: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سب لوگوں سے زیادہ مال دینے میں سخی تھے اور سب وقتوں سے زیادہ آپﷺ کی سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔ اور سیدنا جبرائیل علیہ السلام ہر سال رمضان میں آپﷺ سے ملتے تو آخر مہینہ تک۔ آپﷺ انہیں قرآن سناتے جب جبرئیل علیہ السلام آپﷺ سے ملتے اس وقت آپﷺ مال کے دینے میں چلتی ہوا سے بھی زیادہ تیزی سے سخاوت کرتے تھے۔ (معلوم ہوا کہ مبارک مہینہ اور مبارک وقت میں زیادہ سخاوت کرنا چاہئیے )۔

باب : ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبیﷺ سے کچھ سوال کیا گیا ہو کہ آپﷺ نے فرمایا ہو کہ نہیں۔

1586: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہﷺ سے کوئی چیز مانگی گئی، اور آپﷺ نے نہیں کہہ دیا ہو۔

1587: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے دونوں پہاڑوں کے بیچ کی بکریاں مانگیں، تو آپﷺ نے اس کو دے دیں۔ وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے لوگو! مسلمان ہو جاؤ اللہ کی قسم محمدﷺ تحفہ دیتے ہیں کہ محتاجی کا ڈر بھی نہیں کرتے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ ایک شخص محض دنیا کے لئے مسلمان ہوتا تھا، پھر وہ ایسا مسلمان ہو جاتا یہاں تک کہ اسلام اس کے نزدیک ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہو جاتا۔(پہلے تو لالچ میں مسلمان ہوا تھا مگر بعد میں مخلص ہو گیا)۔

باب : نبیﷺ کے کثرت سے عطیات دینے کے بیان میں۔

1588: ابن شہاب سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غزوہ فتح مکہ کے موقعہ پر جہاد کیا۔ پھر آپﷺ اپنے ساتھ مسلمانوں کو لے کر نکلے اور حنین میں لڑائی کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور مسلمانوں کی نصرت فرمائی۔ اس دن آپﷺ نے (مالِ غنیمت سے ) صفوان بن امیہ کو 100 اونٹ دیئے۔ پھر 100 اونٹ دیئے۔ پھر 100اونٹ دیئے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ صفوان نے کہا کہ اللہ کی قسم رسول اللہﷺ نے مجھے جو کچھ دیا، دیا۔ اور (اس سے قبل) میری نگاہ میں آپﷺ سب سے زیادہ بُرے تھے پھر آپﷺ ہمیشہ مجھے دیتے رہے حتی کہ آپﷺ میری نگاہ میں سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو گئے۔

باب : نبیﷺ کے وعدوں کے بارے میں۔

1589: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا تو میں تجھے اتنا، اتنا اور اتنا دوں گا اور دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا (یعنی تین لپ بھر کر)۔ پھر بحرین کا مال آنے سے پہلے آپﷺ کی وفات ہو گئی۔ وہ مال سیدنا ابو بکر صدیقؓ  کے پاس آپﷺ کے بعد آیا تو انہوں نے ایک منادی کو یہ آواز کرنے کے لئے حکم دیا کہ جس کے لئے رسول اللہﷺ نے کچھ وعدہ کیا ہو، یا اس کا قرض آپﷺ پر آتا ہو وہ آئے۔ یہ سن کر میں کھڑا ہوا اور کہا کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر بحرین کا مال آئے گا تو تجھ کو اتنا ، اتنا اور اتنا دیں گے۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر صدیقؓ  نے ایک لپ بھرا پھر مجھ سے کہا کہ اس کو گن۔ میں نے گِنا تو وہ پانچ سو نکلے سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ اس کا دوگنا اور لے لے ( تو تین لپ ہو گئے )۔

باب : نبیﷺ کے ناموں کی تعداد کے بیان میں۔

1590: سیدنا جبیر بن مطعمؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے کئی نام ہیں، میں محمد، احمد اور ماحی یعنی میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا۔ اور میں حاشر ہوں، لوگ میرے پاس قیامت کے دن شفاعت کے لئے اکھٹے ہوں گے۔اور میں عاقب ہوں، یعنی میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا نام رؤف اور رحیم رکھا (بہت نرم اور بہت مہربان)ﷺ۔

1591: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے کئی نام ہم سے بیان کرتے تھے اور آپﷺ نے فرمایا کہ میں محمدﷺ ہوں اور احمدﷺ اور مقفی (یعنی عاقب) اور حاشر اور نبی التوبہ اور نبی الرحمۃ(کیونکہ توبہ اور رحمت کو آپﷺ اپنے ساتھ لے کر آئے )۔

باب : نبیﷺ مکہ اور مدینہ میں کتنی کتنی مدت رہے ؟

1592: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مکہ میں تیرہ برس تک رہے کہ آپﷺ پر وحی اترا کرتی تھی اور مدینہ میں دس برس تک رہے۔ اور آپﷺ نے تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔

1593: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مکہ میں پندرہ برس تک (فرشتوں کی) آواز سنتے تھے اور (فرشتوں کی یا اللہ کی آیات کی) روشنی دیکھتے تھے سات برس تک، لیکن کوئی صورت نہیں دیکھتے تھے پھر آٹھ برس تک وحی آیا کرتی تھی اور دس برس تک مدینہ میں رہے (یہ روایت شاذ ہے )۔

باب : وفات کے وقت نبیﷺ کی عمر کتنی تھی۔

1594: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی تریسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی اور سیدنا ابو بکرؓ  کی بھی تریسٹھ برس میں وفات ہوئی اور سیدنا عمرؓ  کی بھی تریسٹھ برس کی عمر میں وفات ہوئی۔

1595: عمار مولیٰ بنی ہاشم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے پوچھا کہ جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو آپﷺ کتنے برس کے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم آپﷺ کی قوم سے ہو کر اتنی بات نہ جانتے ہو گے۔ میں نے کہا کہ میں نے لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا، پس مجھے اس بارے میں آپ کا قول سننا بہتر معلوم ہوا۔ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ تم حساب جانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں تو انہوں نے کہا کہ چالیس برس کو یاد رکھو کہ اس وقت آپﷺ پیغمبر ہوئے۔ اب پندرہ اور جوڑو کہ جب تک آپﷺ مکہ میں رہے کبھی امن کے ساتھ اور کبھی ڈر کے ساتھ۔ اب دس اور جوڑو جو مدینہ میں ہجرت کے بعد گزرے (تو سب ملا کر پینسٹھ برس ہوتے ہیں)۔ اور اس سے پہلے سیدنا انسؓ  کی حدیث گزر چکی ہے کہ نبیﷺ نے ساٹھ برس کی عمر میں وفات پائی۔ (دیکھئے حدیث: 1556)۔

نوٹ: آپﷺ کی عمر کے بارے میں صحیح حدیث نمبر 1592ہے جو کہ ابن عباسؓ کی ہی ہے۔

باب : جب اللہ تعالیٰ کسی امت پر رحمت فرماتا ہے تو اس کی امت سے پہلے نبی کو وفات دے دیتا ہے۔

1596: سیدنا ابو موسیٰؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل جب کسی امت پر رحم کرتا ہے تو اس کا نبی امت کی ہلاکت سے پہلے فوت ہو جاتا ہے اور وہ اپنی امت کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اور جب کسی امت کی تباہی چاہتا ہے تو اس کو نبی کے سامنے ہلاک کرتا ہے اور ان کی ہلاکت سے نبی کی آنکھ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کیونکہ وہ (امت) اس کو جھٹلانے والی اور اس کے احکام کی نافرمانی کرنے والی ہوتی ہے۔

باب : اللہ تعالی کے قول ﴿فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک… ﴾ الآیۃکے بارے میں۔

1597: سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  سے روایت ہے کہ انصار کے ایک آدمی نے سیدنا زبیرؓ  (جو آپﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے ) سے رسول اللہﷺ کے پاس (مقامِ) حرہ کے موہرے میں جھگڑا کیا (حرہ کہتے ہیں کالے پتھر والی زمین کو) جس سے کھجور کے درختوں کو پانی دیتے تھے۔ انصاری نے کہا کہ پانی کو چھوڑ دے کہ بہتا رہے۔ سیدنا زبیر نے انکار کیا۔ آخر سب نے رسول اللہﷺ کے سامنے جھگڑا کیا تو آپﷺ نے سیدنا زبیر سے فرمایا کہ اے زبیر! تو (اپنے درختوں کو) پانی پلا لے پھر پانی کو اپنے ہمسائے کی طرف چھوڑ دے۔ یہ سن کر انصاری غصہ ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! زبیر آپﷺ کے پھوپھی کے بیٹے تھے (اس وجہ سے آپﷺ نے ان کی رعایت کی)۔ یہ سن کر آپﷺ کے چہرے مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپﷺ نے فرمایا کہ اے زبیر! اپنے درختوں کو پانی پلا پھر پانی کو روک لے ، یہاں تک کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ سیدنا زبیرؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری کہ ”اللہ کی قسم وہ مومن نہ ہوں گے جب تک تجھ کو اپنے جھگڑوں میں حاکم نہ بنائیں گے پھر جو تو فیصلہ کر دے اس سے رنج نہ کریں اور مان لیں“۔پوری آیت ﴿فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک …﴾

باب : نبیﷺ کی اتباع اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿ولا تسألوا عن اشیاءَ ان تبدلکم تسؤکم﴾ الآیۃکے بارے میں۔

1598: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کی کوئی بات سنی (جو بُری تھی) تو آپﷺ نے خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ میرے سامنے جنت اور دوزخ لائی گئی اور میں نے آج کی سی بہتری اور آج کی سی بُرائی کبھی نہیں دیکھی (یعنی جنت میں نعمتیں اور دوزخ میں عذاب)۔ اگر تم وہ کچھ جانتے جو میں جانتا ہوں تو البتہ تم لوگ کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ آپﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر اس دن سے زیادہ کوئی سخت دن نہیں گزرا۔ انہوں نے اپنے سروں کو چھپا لیا اور رونے کی آواز ان سے نکلنے لگی۔ پھر سیدنا عمرؓ  کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمدﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہو گئے۔ ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ میرا باپ کون تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تیرا باپ فلاں شخص تھا (اس کا نام بتا دیا) تب یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر وہ ظاہر ہوں تو تم کو بُری لگیں“۔

1599: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمانوں میں سے سب سے بڑا قصور اس مسلمان کا ہے جس نے وہ بات پوچھی جو مسلمانوں پر حرام نہ تھی، لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہو گئی۔

1600: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ دوزخ میں۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر چلا تو آپﷺ نے اس کو بلوایا اور فرمایا کہ میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنم میں ہیں۔

باب : جس سے نبیﷺ روک دیں اس سے رکنے اور اس کے خلاف کرنے کے بارے میں۔

1601: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے ،بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں تمہیں جس چیز سے روک دوں، اس سے رک جاؤ اور جس کے کرنے کا حکم دوں، اسے اپنی استطاعت کے مطابق بجا لاؤ۔ پس سوائے اس کے نہیں کہ تم سے پہلی اقوام کو ان کے کثرتِ سوال اور انبیاء پر اختلاف کرنے نے ہلاک کر دیا۔

باب : دین کی جس بات کی نبیﷺ خبر دیں، اس میں اور دنیاوی رائے میں فرق کے متعلق۔

1602: سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو کھجور کے درختوں کے پاس تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ پیوند لگاتے ہیں یعنی نر کو مادہ میں رکھتے ہیں کہ وہ گابہہ ہو جاتی ہے (یعنی زیادہ پھل لاتی ہے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔ یہ خبر ان لوگوں کو پہنچی تو انہوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر اس میں ان کو فائدہ ہے تو وہ کریں، میں نے تو ایک خیال کیا تھا تو میرے خیال کو نہ لو۔ لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تواس پر عمل کرو، اس لئے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔

باب : نبیﷺ کے دیکھنے کی تمنا اور اس پر حریص ہونے کے بارے میں۔

1603: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ، ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تم مجھے دیکھ نہ سکو گے اور میرا دیکھنا تمہیں تمہارے بال بچوں اور اپنے مال سے زیادہ عزیز ہو گا (اس لئے میری صحبت غنیمت سمجھو، زندگی کا اعتبار نہیں اور دین کی باتیں جلد سیکھ لو)۔ابو اسحاق (یعنی ابن محمد بن سفیان) نے کہا کہ میرے نزدیک اس کا معنی یہ ہے ”لان یرانی معہم“ کا مطلب میں یہ سمجھتا ہوں کہ نبیﷺ کا دیدا ر مقدم ہو گا۔۔ اور اس عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے۔

باب : اس آدمی کے بارے میں جو پسند کرے کے مجھے نبیﷺ کا دیکھنا نصیب ہو جائے اگرچہ میرے اہل و عیال قربان ہو جائیں۔

1604: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت میں بہت چاہنے والے میرے وہ لوگ ہوں گے ، جو میرے بعد پیدا ہوں گے ان میں سے کوئی یہ خواہش رکھے گا کہ کاش اپنے گھر والوں اور مال سب کو قربان کرے اور مجھے دیکھ لے۔

 

 

 

کتاب: انبیاء علیہم السلام کا ذکر اور ان کے فضائل

 

باب : آدم علیہ السلام کی پیدائش کی ابتداء کے بارے میں۔

1605: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا (یعنی زمین کو) اور اتوار کے دن اس میں پہاڑوں کو پیدا کیا اور پیر کے دن درختوں کو پیدا کیا اور کام کاج کی چیزیں (جیسے لوہا وغیرہ) منگل کو پیدا کیں اور بدھ کے دن نور کو پیدا کیا اور جمعرات کے دن زمین میں جانور پھیلائے اور سیدنا آدمؑ کو جمعہ کے دن عصر کے بعد بنایا ، سب سے آخر مخلوقات میں اور جمعہ کی سب سے آخر ساعات میں عصر سے لے کر رات تک۔

باب : سیدنا ابراہیمؑ کی فضیلت میں۔

1606: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے خیر البریہ ! یعنی بہترین خلق۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو سیدنا ابراہیمؑ (کا مقام) ہے۔

باب : سیدنا ابراہیمؑ کا ختنہ کرنا۔

1607: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیدنا ابراہیمؑ نے بسولے سے ختنہ کیا اور اس وقت ان کی عمر اسی برس کی تھی۔

باب : سیدنا ابراہیمؑ کے قول (رب ارنی … الایة) کے بارے میں اور سیدنا لوطؑ اور یوسفؑ کا ذکر۔

1608: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہم ابراہیمؑ سے شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں، جب انہوں نے کہا کہ ”اے میرے رب! مجھے دکھلا دے کہ تو مُردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تجھے یقین نہیں ہے ؟سیدنا ابراہیمؑ بولے کہ کیوں نہیں؟ مجھے یقین ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تشفی ہو جائے “ (علم الییقن سے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہو جائے (۔ (البقرة:260) اور اللہ تعالیٰ لوطؑ پر رحم کرے ، وہ مضبوط اور سخت چیز کی پناہ چاہتے تھے اور(یعنی نبی تو اللہ سے مانگتا ہے جبکہ لوطؑ مضبوط رکن کی خواہش کر رہے تھے )۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت سیدنا یوسفؑ رہے ، تو فوراً بلانے والے کے ساتھ چلا آتا۔

باب : سیدنا ابراہیمؑ کے قول کہ ”میں بیمار ہوں“ اور اس قول کہ ”بلکہ کیا ہے اس کو ان کے بڑے نے “ اور سارہ کے متعلق کہ ”یہ میری بہن ہے “۔

1609: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیدنا ابراہیمؑ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر، تین دفعہ (بولا) (یہ اصطلاحاً جھوٹ کہے گئے ہیں، حقیقت میں جھوٹ نہیں ہیں بلکہ یہ توریہ کی ایک شکل ہیں) ان میں سے دو جھوٹ اللہ کے لئے تھے ، ایک تو ان کا یہ قول کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا یہ کہ ”ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا“ تیسرا جھوٹ سیدہ سارہ علیہا السلام کے بارے میں تھا۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے ان کے ساتھ ان کی بیوی سیدہ سارہ بھی تھیں اور وہ بڑی خوبصورت تھیں۔ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بیوی ہے تو مجھ سے چھین لے گا، اس لئے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے۔ (یہ بھی کچھ جھوٹ نہ تھا) اس لئے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا جب سیدنا ابراہیمؑ اس کی قلم رو (اس کے علاقہ) سے گزر رہے تھے تو اس ظالم بادشاہ کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایک ایسی عورت آئی ہے جو تیرے سوا کسی کے لائق نہیں ہے۔ اس نے سیدہ سارہ کو بلا بھیجا۔ وہ گئیں تو سیدنا ابراہیمؑ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے (اللہ سے دعا کرنے لگے اس کے شر سے بچنے کے لئے ) جب سیدہ سارہ اس ظالم کے پاس پہنچیں تو اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا، لیکن فورا اس کا ہاتھ سوکھ گیا وہ بولا کہ تو اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے ، میں تجھے نہیں ستاؤں گا۔ انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ اس نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے دعا کی۔ پھر اس مردود نے دست درازی کی، پھر پہلی دونوں دفعہ سے بڑھ کر سوکھ گیا۔ تب وہ بولا کہ اللہ سے دعا کر کہ میرا ہاتھ کھل جائے ، اللہ کی قسم اب میں تجھ کو نہ ستاؤں گا۔ سیدہ سارہ نے پھر دعا کی، اس کا ہاتھ کھل گیا۔ تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سیدہ سارہ کو لے کر آیا تھا اور اس سے بولا کہ تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا، یہ انسان نہیں ہے اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ایک لونڈی ہاجرہ اس کے حوالے کر دے سیدہ سارہ ہاجرہ کو لے کر لوٹ آئیں جب سیدنا ابراہیمؑ نے دیکھا تو نمازوں سے فارغ ہوئے اور کہا کیا ہوا ؟سارہ نے کہا بس کہ سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا اور ایک لونڈی بھی دی۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ پھر یہی لونڈی یعنی ہاجرہ تمہاری ماں ہے اے بارش کے بچو!

باب : سیدنا موسیٰؑ اور اللہ تعالی کے فرمان”فبراہ الله مما“ … کے متعلق۔

1610: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ موسیٰؑ بڑے حیا دار مرد تھے ، ان کو کبھی کسی نے ننگا نہیں دیکھا تھا۔ آخر بنی اسرائیل کہنے لگے کہ ان کو فتق (خصیئے پھول جانے ) کی بیماری ہے۔ ایک بار انہوں نے کسی پانی کے مقام پر غسل کیا اور اپنا کپڑا پتھر پر رکھا، تو وہ بھاگتا ہوا چلا اور سیدنا موسیٰؑ پنا عصا لئے اس کے پیچھے چلے ، اس کو مارتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ یہاں تک کہ وہ پتھر جہاں بنی اسرائیل کے لوگ جمع تھے وہاں جا رکا۔ اور اسی کے متعلق یہ آیت اتری کہ ”اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے موسیٰؑ کو ستایا (ان پر تہمت لگائی) پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس بات سے پاک کیا جو لوگوں نے کہی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے تھے “۔

باب : سیدنا موسیٰؑ کا قصہ ، خضرؑ کے ساتھ۔

1611: سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ  سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰؑ جو بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے ، وہ اور ہیں اور جو موسیٰ خضرؑ کے پاس گئے تھے وہ اَور ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ کا دشمن جھوٹ بولتا ہے۔ میں نے سیدنا ابی بن کعبؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ سیدنا موسیٰؑ اپنی قوم بنی اسرائیل پر خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے ، ان سے پوچھا گیا کہ سب لوگوں میں زیادہ علم کس کو ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہے (یہ بات اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوئی) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر اس وجہ سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ دو دریاؤں کے ملاپ پر میرا ایک بندہ ہے ، وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے سیدنا موسیٰؑ نے عرض کیا کہ اے پروردگار! میں اس سے کیسے ملوں؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل (ٹوکرے ) میں رکھ، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے ، وہیں وہ بندہ ملے گا۔ یہ سن کر سیدنا موسیٰؑ اپنے ساتھی یوشع بن نونؑ کو ساتھ لے کر چلے اور انہوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ دونوں چلتے چلتے صخرہ (ایک مقام ہے ) کے پاس پہنچے تو سیدنا موسیٰؑ اور ان کے ساتھی سو گئے۔ مچھلی تڑپی یہاں تک کہ زنبیل سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہنا اس پر سے روک دیا، یہاں تک کہ پانی کھڑا ہو کر طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ سیدنا موسیٰؑ اور ان کے ساتھی کے لئے تعجب ہوا پھر دونوں چلے دن بھر اور رات بھر اور موسیٰؑ کے ساتھی مچھلی کا حال ان سے کہنا بھول گئے جب صبح ہوئی تو موسیٰؑ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر سے تھک گئے ہیں اور تھکاوٹ اسی وقت ہوئی جب اس جگہ سے آگے بڑھے جہاں جانے کا حکم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم (مقامِ) صخرہ پر اترے تو میں مچھلی بھول گیا اور شیطان نے مجھے بھلایا اور تعجب ہے کہ اس مچھلی نے دریا میں جانے کی راہ لی۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ ہم تو اسی مقام کو ڈھونڈھتے تھے ، پھر دونوں اپنے پاؤں کے نشانوں پر لوٹے یہاں تک کہ صخرہ پر پہنچے۔ وہاں ایک شخص کو کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا تو سیدنا موسیٰؑ نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں سلام کہاں سے ہے ؟ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ سیدنا موسیٰ نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے وہ علم دیا ہے جو میں نہیں جانتا۔ اور مجھے وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اس لئے کہ مجھے وہ علم سکھلاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے اور تم سے اس بات پر کیسے صبر ہو سکے گا جس کو تم نہیں جانتے ہو۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ اچھا اگر میرے ساتھ ہوتے ہو تومجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر نہ کروں۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ بہت اچھا۔ پس خضرؑ اور سیدنا موسیٰؑ دونوں سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک کشتی سامنے سے نکلی، دونوں نے کشتی والوں سے کہا کہ ہمیں بٹھا لو، انہوں نے سیدنا خضرؑ کو پہچان لیا اور دونوں کو بغیر کرایہ چڑھا لیا۔ سیدنا خضرؑ نے اس کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ ڈالا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں بغیر کرایہ کے چڑھایا اور تم نے ان کی کشتی کو توڑ ڈالا تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دو، یہ تم نے بڑا بھاری کام کیا۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ کیا میں نہیں کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے ؟ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ بھول چوک پر مت پکڑو اور مجھ پر تنگی مت کرو۔ پھر دونوں کشتی سے باہر نکلے اور سمندر کے کنارے چلے جاتے تھے کہ ایک لڑکا ملا جو اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، سیدنا خضرؑ نے اس کا سر پکڑ کر اکھیڑ لیا اور مار ڈالا۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ تم نے ایک بے گناہ کو ناحق مار ڈالا، یہ تو بہت بُرا کام کیا۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ کیا میں نہ کہتا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکو گے ؟ اور یہ کام پہلے کام سے بھی زیادہ سخت تھا۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ اب میں تم سے کسی بات پر اعتراض کروں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا بیشک تمہارا اعتراض بجا ہو گا۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں میں پہنچے ، گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کیا، پھر ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی اور جھک گئی تھی، سیدنا خضرؑ نے اس کو اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا۔ سیدنا موسیٰؑ نے کہا کہ ان گاؤں والوں سے ہم نے کھانا مانگا اور انہوں نے انکار کیا اور کھانا نہ کھلایا (ایسے لوگوں کا کام مفت کرنا کیا ضروری تھا؟) اگر تم چاہتے تو اس کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سیدنا خضرؑ نے کہا کہ بس، اب میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے ، اب میں تم سے ان باتوں کا مطلب کہے دیتا ہوں جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰؑ پر رحم کرے ، مجھے آرزو ہے کہ کاش وہ صبر کرتے اور ہمیں ان کی اور باتیں معلوم ہوتیں۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ پہلی بات سیدنا موسیٰؑ نے بھولے سے کی۔ پھر ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھی اور اس نے سمندر میں چونچ ڈالی، سیدنا خضرؑ نے کہا کہ میں نے اور تم نے اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا ہی علم سیکھا ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں سے پانی کم کیا ہے۔ سیدنا سعید بن جبیر نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ  اس طرح پڑھتے تھے کہ ”ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ثابت کشتی کو ناحق جبر سے چھین لیتا تھا“ اور پڑھتے تھے کہ ”وہ لڑکا کافر تھا“۔ (آخری دونوں جملوں سے مراد یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیات تو اس طرح نہیں ہیں لیکن سیدنا ابن عباسؓ  گویا بطور تفسیر اس طرح پڑھتے تھے )۔

باب : نبیﷺ کا فرمان ”لا تفضلوا بین“ … کے متعلق۔

1612: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک یہودی کچھ مال بیچ رہا تھا، اس کو قیمت دی گئی تو وہ راضی نہ ہوا یا اُس نے بُرا جانا تو بولا کہ نہیں قسم اس کی جس نے سیدنا موسیٰؑ کو آدمیوں میں سے چنا۔ یہ لفظ ایک انصاری نے سنا تو اس کے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ تو کہتا ہے کہ سیدنا موسیٰؑ کو آدمیوں میں سے چنا اور رسول اللہﷺ ہم لوگوں میں موجود ہیں؟ وہ یہودی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! میں ذمی ہوں اور امان میں ہوں اور مجھے فلاں شخص نے طمانچہ مارا ہے۔ آپﷺ نے اس شخص سے پوچھا کہ تو نے اس شخص کو کیوں طمانچہ مارا؟ وہ بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! اس نے کہا کہ قسم اس کی جس نے موسیٰؑ کو تمام آدمیوں میں چن لیا اور آپﷺ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے ہیں (اور سیدنا موسیٰؑ سے آپﷺ کا رتبہ زیادہ ہے اس لئے میں نے اس کو مارا)۔ یہ سن کر آپﷺ غصے ہوئے ، یہاں تک کہ غصہ آپﷺ کے چہرہ مبارک پر معلوم ہونے لگا، پھر فرمایا کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر پر فضیلت مت دو (اس طرح سے کہ دوسرے پیغمبر کی شان گھٹے ) کیونکہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جن کو اللہ تعالیٰ چاہے گا (وہ بیہوش نہ ہوں گے ) پھر دوسری بار پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں اٹھوں گا اور کیا دیکھوں گا کہ سیدنا موسیٰؑ عرش تھامے ہوئے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ طُور پہاڑ پر جو ان کو بیہوشی ہوئی تھی وہ اس کا بدلہ ہے (کہ وہ اس بار بیہوش نہ ہوں گے ) یا مجھ سے پہلے ہوشیار ہو جائیں گے اور میں یوں نہیں کہتا کہ کوئی پیغمبر سیدنا یونس بن متیؑ سے افضل ہے۔

باب : سیدنا موسیٰؑ کی وفات کے متعلق۔

1613: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: موت کے فرشتے (عزرائیل ں) سیدنا موسیٰؑ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے موسیٰ! اپنے پروردگار کی پکار پر لبیک کہو (یعنی موت کا وقت ہے ) تو سیدنا موسیٰؑ نے ان کی آنکھ پر ایک طمانچہ مارا، جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ لوٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ اے مالک! تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا، اس نے میری آنکھ پھوڑ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پھر درست کر دی اور فرمایا کہ پھر میرے بندے کے پاس جا اور کہہ کہ اگر تو جینا چاہتا ہے تو اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھ، اور جتنے بالوں کو تیرا ہاتھ ڈھانپ لے گا، اتنے برس تو اور زندہ رہے گا۔ سیدنا موسیٰؑ نے عرض کیا کہ اے پروردگار! اس کے بعد کیا ہو گا؟ فرمایا کہ اس کے بعد پھر مرنا ہو گا۔ سیدنا موسیٰؑ نے عرض کیا کہ پھر تو ابھی مرنا بہتر ہے۔ اے میرے مالک مجھے مقدس زمین سے ایک پتھر کی مار کے فاصلہ پر موت دے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میں وہاں ہوتا تو میں تمہیں سیدنا موسیٰؑ کی قبر بتا دیتا جو کہ راستہ کے ایک جانب سرخ ریت کے ٹیلے کے پاس ہے۔

باب : نبیﷺ کے فرمان ”مر رت علی موسیٰ … “ کے متعلق۔

1614: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: معراج کی رات میں موسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو ان کو سرخ ٹیلے کے پاس دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں وہ کھڑے ہوئے پڑھ رہے تھے۔

باب : سیدنا یوسفؑ کے متعلق۔

1615: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہﷺ ! لوگوں میں سب سے بزرگی والا کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے آپﷺ نے فرمایا کہ تو سب میں بزرگ سیدنا یوسفؑ ہیں اللہ کے نبی بن نبی بن نبی اور خلیل اللہؑ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم عرب قبیلوں کو پوچھتے ہو؟ تو عرب کے بہتر وہ لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت میں بہتر تھے اور اسلام کے زمانے میں بھی بہتر ہیں، جب وہ دین میں سمجھ حاصل کریں۔

باب : سیدنا زکریاؑ کے متعلق۔

1616: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: زکریاؑ بڑھئی تھے۔

باب : سیدنا یونسؑ کے متعلق۔

1617: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے کسی بندے کو یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔

باب : سیدنا عیسیٰؑ کے متعلق۔

1618: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں عیسیٰؑ سے دنیا اور آخرت دونوں جگہ میں سب سے زیادہ نزدیک ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ کس طرح؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پیغمبر ایک باپ کے بیٹوں کی طرح ہیں جن کی مائیں الگ الک ہیں، ان کا دین ایک ہی ہے اور میرے اور ان کے بیچ میں اور کوئی نبی نہیں ہے۔

باب : سوائے مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کے باقی ہر بچے کو شیطان مس کرتا ہے۔

1619: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی بچہ ایسا نہیں جس کو شیطان کونچا نہ مارے ، کہ وہ اس کے کونچا مارنے سے روتا ہے مگر مریم علیہا السلام کا بچہ اور اس کی ماں (یعنی سیدنا عیسیٰؑ اور ان کی والدہ سیدہ مریم علیہا السلام کہ ان کو شیطان کونچا نہ دے سکا)۔ پھر سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو (مریم کی ماں اور عمران کی بیوی نے کہا) ”میں اس بچہ کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں“۔ (آل عمران:36)۔

باب : سیدنا عیسیٰؑ کے قول ”امنت بالله وکذبت نفسی“ کے متعلق۔

1620: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیدنا عیسیٰؑ نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا، تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تو نے چوری کی؟ تو وہ بولا کہ ہرگز نہیں، قسم اس کی جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے (میں نے چوری نہیں کی)۔ سیدنا عیسیٰؑ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا اور میں نے اپنے آپ کو جھٹلایا (یعنی مجھ ہی سے غلطی ہوئی ہو گی جب تو قسم کھاتا ہے تو تو ہی سچا ہے )۔