FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مئے باقی

 

رازؔ چاند پور ی

 

               مرتبہ: سرور عام رازؔ

 

کتاب ’باقیاتِ راز‘ کا ایک حصہ

 

 

 

 

 

 

 

O

 

جب یہ احساسِ خودی خود آشنا ہو جائے گا

خود بخود تو حق شناس و حق نما ہو جائے گا

دردِ دل بڑھ جائے گا یا جان پر بن جائے گی

بے نیازی سے کسی کی اور کیا ہو جائے گا

حشر پر موقوف تو رکھا ہے میرا فیصلا

کون کہہ سکتا ہے لیکن فیصلا ہو جائے گا

راز راہِ عشق میں کیا حاجتِ خضرِ طریق

جذبۂ صدقِ محبت رہنما ہو جائے گا

 

O

پھر بہار آئی، گلستاں پھر گلستاں ہو گیا

حسنِ پنہاں پردے پردے سے نمایاں ہو گیا

آنکھ والو! دیکھنا نیرنگیِ راز و نیاز

عشق جب ظاہر ہوا تو حسنِ پنہاں ہو گیا

اور کیا تھا رازؔ آشفتہ نوائی کا اثر

جس نے افسانہ سُنا میرا، پریشاں ہو گیا

O

 رفتہ رفتہ حسنِ فطرت دلنشیں ہو جائے گا

وحشت آبادِ جہاں خُلدِ بریں ہو جائے گا

دُور ہے وہ مجھ سے، ہونے دو، مجھے پروا نہیں

دُور ہو کر آنکھ سے، دل کے قریں ہو جائے گا

اضطرابِ شوق میں پیدا تو کر رنگِ سکوں

جو خیال آئے گا پھر وہ دلنشیں ہو جائے گا

دوستوں کی خود نمائی جب عیاں ہو جائے گی

خودبخود اے رازؔ تو خلوت گزیں ہو جائے گا

 

O

دیکھا ہے تماشہ جو تری جلوہ گری کا

ملتا ہے دماغ اب کہاں بادِ سحری کا

اے رازؔ میں ہوں محوِ خیالِ رخِ جاناں

کیا جانے کوئی رازؔ مری بیخبری کا

O

لذّتِ دیدار کیسی، دیکھنا دُشوار تھا

جلوۂ حسنِ حقیقت مانعِ دیدار تھا

انتہا میں زندگی کی آرزو کیوں بڑھ گئی

ابتدائے عشق میں جینے سے میں بیزار تھا

راز دل افگار، مستِ بادۂ صدق و وفا

آہ وہ کافر، خدا بخشے بڑا دیں دار تھا

 

O

شکر ہے تیرا بیکسی، کام یہ کام کا ہوا

تیرے کرم سے آج ادا سجدۂ بے ریا ہوا

منزلِ لامکاں ہے اب میری نظر کے سامنے

دیکھ کہاں پہنچ گیا تجھ کو میں ڈھونڈتا ہوا

جیسے بھی رازؔ بن پڑا، فرض تو ہو گیا ادا

اس سے مجھے غرض نہیں حاصلِ سجدہ کیا ہوا

O

دنیائے محبت میں یہ زیست کا ساماں تھا

جینے کی نہ صورت تھی، مرنے کا نہ امکاں تھا

ہر سمت تھی اک شورش، شورش بھی قیامت کی

امید کی دنیا تھی، یا حشر کا میداں تھا

دنیا سے جدا ہو کر یہ عقدہ کھلا مجھ پر

وہ خود مری طالب تھی، ناحق میں پریشاں تھا

آئینہ تھی پیشانی کیفیتِ پنہاں کی

جو رازؔ کے دل میں تھا چہرے سے نمایاں تھا

 

 

O

آئے گا ہاں آئے گا، اب وقت مشکل آئے گا

دل کی بیتابی یہ کہتی ہے کہیں دل آئے گا

شورِ ہستی کی طرف سے کان پہلے بند کر

پھر ترے کانوں میں بھی آوازۂ دل آئے گا

رنگِ دنیا دیکھ کر اے رازؔ آنکھیں کھل گئیں

اب کسی شے پر یہاں کی کیا مرا دل آئے گا

O

اچھے برے کا جس کو کچھ امتیاز ہو گا

دنیائے عشق میں کیا وہ سرفراز ہو گا

حسنِ نیاز پیدا کر شانِ عاشقی میں

پھر نازِ حسن سے تو خود بے نیاز ہو گا

مصروفِ نغمہ سنجی یہ کون بے نوا ہے

رنگِ سخن سے ظاہر یہ ہے کہ رازؔ ہو گا

 

O

ترے حسن کا جس میں جلوا نہ ہو گا

وہ کچھ اور ہو گا، سُویدا نہ ہو گا

امیدوں سے اچھی مری ناامیدی

کہ اب دل میں ارمان پیدا نہ ہو گا

مری زندگی درد ہے چارہ سازو !

ہُوا میں جو اچھا تو ا چھا نہ ہو گا

سرافراز ہو گا وہ اے رازؔ کیوں کر

جسے اس کی الفت کا سودا نہ ہو گا

O

کوئی اپنا نظر آیا، نہ بیگانہ نظر آیا

جسے دیکھا تری محفل میں دیوانہ نظر آیا

نگاہِ عبرت آگیں ، دوربینی کے ترے قرباں

کہ یہ معمورۂ ہستی بھی ویرانہ نظر آیا

کیا اے رازؔ میں نے غور جب رودادِ ہستی پر

ازل سے تا ابد دلچسپ افسانہ نظر آیا

 

O

سمجھ کر اے دلِ وحشی نواسنجانِ فغاں ہونا

بہت دشوار ہے برہم زنِ بزمِ جہاں ہونا

فنائے عشق میں مضمر حیاتِ جاودانی ہے

مبارک مٹنے والو ! تم کو بے نام و نشاں ہونا

خدا توفیق دے تجھ کو تو ترکِ آرزو کر دے

بڑی خوش قسمتی ہے بے نیازِ دوجہاں ہونا

مقدّر کا دھنی ہے رازؔ، وہ تقدیر والا ہے

میسّر ہو جسے لذّت کشِ دردِ نہاں ہونا

O

رنج و غم اے دلِ ناکام عبث

شکوۂ گردشِ ایّام عبث

جائے عشرت نہیں غم خانہ ہے

دہر میں خواہشِ آرام عبث

دیدۂ دل سے اسے دیکھ اے رازؔ

کیوں ہے سرگشتۂ اوہام عبث

 

 

O

جاں بلب ہے تشنگی سے ایک ناکامِ حیات

اے مسیحا کیش ساقی ! اب کوئی جامِ حیات

کیوں مجھے دیتی ہے اے امید، پیغامِ حیات

کیا نہیں دنیا میں کوئی اور ناکامِ حیات

اب کہاں وہ زندگی کا لطف، وہ زندہ دلی

دل تڑپ اٹھتا ہے جب سُنتا ہوں میں نامِ حیات

آہ یہ افسردگی، یہ بے حسی، یہ بے کسی

راز کیا معلوم، کیا ہونا ہے انجامِ حیات

 

 

 

 

 

 

O

فائدہ بےشک ہوا، لیکن زیاں ہونے کے بعد

دل مرا ہلکا ہوا آنسو رواں ہونے کے بعد

زندگی بھر آرزوئے دل نے رکھا مضطرب

چین پایا بے نیازِ این و آں ہونے کے بعد

بدگماں ہونا بھی ہے اے رازؔ الفت کی دلیل

صاف ہو جائے اگر دل بدگماں ہونے کے بعد

O

سراپا آرزو بن کر، مجسّم آرزو ہو کر

تلاشِ یار میں نکلا ہوں وقفِ جستجو ہو کر

طلسمِ زندگانی کی، حیاتِ دہرخانی کی

حقیقت کھل گئی اب محرمِ اسرارِ ہو ہو کر

تماشہ دیکھتا ہوں رازؔ اب حسنِ خود آرا کا

نئے عالم میں ہوں میں خلق سے بیگانہ خو ہو کر

 

O

اے بیخودیِ الفت، یہ جوشِ جنوں کب تک

دنیائے محبت میں برباد رہوں کب تک

بے ہوشی و ہشیاری، اللہ یہ نیرنگی

حیران ہوں میں ہو گی تکمیلِ جنوں کب تک

تدبیر نہیں چلتی، تقدیر نہیں بنتی

جینے کی تمنّا میں اے رازؔ مروں کب تک

O

شمع بن کر یا تو آتش خانہ مانگ

ورنہ تو سوزِ دلِ پروانہ مانگ

دینے والے کی سخاوت پر نہ جا

ظرف اپنا دیکھ کر پیمانہ مانگ

مانگنے سے کچھ ملا تو کیا ملا

مانگنے کی تو نہ کر پروا، نہ مانگ

مانگنے دے مانگنے والوں کو عقل

راز تو لیکن دلِ دیوانہ مانگ

 

O

یہ کون آیا اٹھا کر پردۂ رخسار گلشن میں

یکایک جو اُجالا ہو گیا میرے نشیمن میں

جو ہوں اہلِ نظر آئیں ، بہارِ آتشیں دیکھیں

وفورِ آتشِ گل نے لگا دی آگ گلشن میں

جوانی میں کیا کرتے ہیں ہم یاد اپنے بچپن کو

جوانی کو کیا کرتے تھے یاد اے رازؔ بچپن میں

O

ستمگر کی جفا ہے اور میں ہوں

مقدّر کا گلا ہے اور میں ہوں

میں اپنی نامرادی کے تصدق

دلِ بے مدّعا ہے اور میں ہوں

تمہیں مطلب مری آہ و فغاں سے

مرے دل کی صدا ہے اور میں ہوں

کہاں تک رازؔ درسِ زندگانی

فریبِ خود نما ہے اور میں ہوں

 

O

بظاہر بادۂ الفت سے میں بیہوش رہتا ہوں

مگر باطن کو دیکھو تو سراپا جوش رہتا ہوں

زباں کھولوں تو ہو برہم نظامِ عالمِ امکاں

قرینِ مصلحت ہے یہ کہ میں خاموش رہتا ہوں

سُنوں تو کیا سُنوں ، کس کی سُنوں اور کیوں سُنوں آخر

کہ دل سے گفتگو کرتا ہوں اور خاموش رہتا ہوں

کوئی جانے تو کیا جانے مجھے اے رازؔ دنیا میں

زمانہ سازیاں آتی نہیں ، روپوش رہتا ہوں

O

نکل کر گوشۂ خلوت سے کوئی خود نما کیوں ہو

سکونِ قلب حاصل ہے ، گرفتارِ بلا کیوں ہو

کسی کو اپنا کر لے یا کسی کا کوئی ہو جائے

مگر جب یہ نہ ہو ممکن تو قسمت کا گلا کیوں ہو

بہت آساں ہے دل لینا، مگر مشکل ہے دل رکھنا

نہ ہو جو واقفِ آئینِ الفت، دلربا کیوں ہو

 

O

حریفِ شیوۂ ابنائے روزگار نہیں

وہ بادہ نوش کہ سرگشتۂ خمار نہیں

عجب جگہ ہے خراباتِ عالمِ امکاں

جو ہوشیار یہاں ہے وہ ہوشیار نہیں

خزاں کی گود میں پائی ہے پرورش میں نے

رہینِ لذّتِ کیفیتِ بہار نہیں

کہاں ہیں اہلِ دل اے رازؔ اس زمانہ میں

خدا کا شکر کوئی میرا راز دار نہیں

O

خدا دنیا میں اُس دن کے لئے رکھے نہ گلشن کو

کہ میں زندہ رہوں اور آگ لگ جائے نشیمن کو

مرا مذہب محبت ہے، میں آزادِ دو عالم ہوں

مبارک رازؔ یہ دیر و حرم شیخ و برہمن کو

 

O

سوز بن جاؤ، ساز بن جاؤ

رونقِ بزمِ ناز بن جاؤ

بے نیازی تو شان ہے اس کی

تم سراپا نیاز بن جاؤ

ہو چکی حدِ بے نیازی بھی

آؤ اب دلنواز بن جاؤ

راز مٹ کر رہِ محبت میں

حاصلِ سوز و ساز بن جاؤ

O

ترے صدقے، بتا اے فطرتِ عشق آفریں مجھ کو

پڑھا لکھا تھا جو کچھ، یاد اب وہ کیوں نہیں مجھ کو

زمانہ کی کشاکش سے رہائی غیر ممکن تھی

لہٰذا لازماً ہونا پڑا خلوت گزیں مجھ کو

مرا حسنِ نظر ہے کارفرما، یا حقیقت ہے

نظر آتی ہے اب اے رازؔ کل دنیا حسیں مجھ کو

 

O

ہے اگر ذوقِ تپش کامل تو یوں بسمل بنو

دل سراپا درد ہو اور تم سراپا دل بنو

جادۂ الفت میں مٹ جاؤ جو مٹنا ہو تمہیں

خاک ہونا ہے تو تم خاکِ سرِ منزل بنو

انگلیاں اٹھنے لگیں ، پڑنے لگی تم پر نگاہ

اور آ کر بزم میں شمعِ سرِ محفل بنو

راز منزل پر پہنچ جاؤ گے یوں ہی ایک دن

ٹھوکریں کھا کھا کے راہِ عشق میں کامل بنو

O

سب کا جہاں میں قبلۂ مقصود ایک ہے

سرحد ملی ہے دیر کی کعبے کی راہ سے

سُن لیں گے پھر تری بھی دلِ شکوہ سنج ہم

ملنے تو دے نگاہ کسی کی نگاہ سے

اے رازؔ اُن سے کیجئے کیا عذرِ بیکسی

عذرِ گناہ ہوتا ہے بدتر گناہ سے

 

O

اب ہوش میں آ تو بھی، اے جلوۂ جانانہ

دیوانہ تھا جو تیرا، ہے ہوش سے بیگانہ

دنیا کے بکھیڑوں میں پڑ کر یہ ہوا ثابت

دیوانہ ہے فرزانہ، فرزانہ ہے دیوانہ

مٹنا ہے مجھے لازم، مٹ جاؤں گا میں اک دن

رہ جائے گا دنیا میں لیکن مرا افسانہ

تو چشمِ حقیقت سے اے رازؔ اگر دیکھے

دنیا کی یہ آبادی، وحشت کا ہے ویرانہ

O

یہ جو مٹ جائے تو شاید ہو میسّر دیدِ یار

اپنی ہستی ہی نظر آتی ہے اک پردا مجھے

مجھ کو حسرت، اک نظر دیکھا تو کیا دیکھے اسے

وہ خفا اس بات پر دیکھا تو کیوں دیکھا مجھے

وہ تو کیا اے رازؔ اپنا بھی پتا ملتا نہیں

جستجوئے دوست نے آخر کہاں کھویا مجھے

 

O

محبت کی کہانی حشر میں پوری کہاں ہو گی

کہ اک دن میں بیاں کیا عمر بھر کی داستاں ہو گی

کہے گا یوں تو اپنی اپنی ہر کوئی قیامت میں

مگر بزمِ زنِ محشر ہماری داستاں ہو گی

مجھے کیا میں تو ہوں منّت پذیرِ تلخئ· دوراں

کسی کو رازؔ اس گلشن میں فکرِ آشیاں ہو گی

O

جلوۂ حسن سے روشن مرا کاشانہ ہے

اب نہ کعبہ ہے نگاہوں میں نہ بُت خانہ ہے

بزمِ امکاں میں نہ تھی پہلے تو رونق ایسی

میرے دم سے مگر آباد یہ ویرانہ ہے

تشنہ لب کس طرح کعبے کو نہ جائیں اے رازؔ

اس خرابہ میں فقط ایک ہی میخانہ ہے

 

O

تقدیر ہوئی یاور، تدبیر کی بَن آئی

وہ آئے ہیں خود کرنے اب عذرِ مسیحائی

تو اپنے ہی جلووں کا ہے آپ ہی شیدائی

اچّھا رے تماشائی، یہ شانِ خود آرائی

وہ چاہتے ہیں سُننا، رودادِ دلِ مضطر

اے کاش پلٹ آئے پھر طاقتِ گویائی

وہ جوش نہیں دل میں ، وہ کیف نہیں سر میں

اب یادِ خدا آئی، اے رازؔ تو کیا آئی

O

کیا پوچھتے ہو حال مرا، اب یہ حال ہے

آغاز کا خیال نہ فکرِ مآل ہے

خالی دل و دماغ ہیں ہر اک خیال سے

ہاں کچھ خیال ہے تو تمہارا خیال ہے

کیا کشمکش ہے زیست کی اے رازؔ الاماں

جینے کا ذکر کیا مجھے مرنا محال ہے

 

O

جوشِ جنوں ہے، آمدِ فصلِ بہار ہے

دیکھو تو کوئی میرے گریباں میں تار ہے

چھائی ہوئی ہے ایک اداسی ہر اک طرف

میں سوگوار ہوں کہ جہاں سوگوار ہے

آسودۂ سکوں نہیں کوئی بھی دہر میں

ہنگامہ خیز ہستیِ ناپائدار ہے

مستِ ازل ہوں رازؔ مرا پوچھنا ہی کیا

پی تھی کچھ ایسی میں نے کہ اب تک خمار ہے

 

O

مداوا سوزِ فرقت کا دلِ غمناک ہو جائے

کوئی آہِ رسا ایسی کہ قصّہ پاک ہو جائے

بصارت ہے تو اس کی ہے، بصیر ت ہے تو اُس میں ہے

مصیبت پر ہر اک کی آنکھ جو نمناک ہو جائے

تجلّی گاہ بن جائے یہی حسنِ حقیقی ہے

غبارِ خود نمائی سے اگر دل پاک ہو جائے

حقیقت منکشف ہو جائے گی اے رازؔ دنیا کی

اگر اپنی حقیقت کا تجھے ادراک ہو جائے

O

سخت جانی کا گلا کیوں کرے بسمل کوئی

واہ کیا جاں سے گزرنا بھی ہے مشکل کوئی

راہِ الفت میں ملا جو بھی وہ بیخود ہی ملا

ہوش والا نہ ملا رہبرِ منزل کوئی

سختیِ راہِ محبت سے نہ گھبرا اے رازؔ

حوصلہ مند کو مشکل نہیں مشکل کوئی

 

O

اہلِ توحید اگر صاحبِ عرفاں ہو تے

جتنے بتخانے ہیں سب کعبۂ ایماں ہوتے

وائے، برباد نہ ہوتی جو متاعِ امید

آج ہم دہر میں کیوں بے سرو ساماں ہوتے

ہم سے اپنوں کا بھی احسان اٹھایا نہ گیا

کس طرح غیر کے شرمندۂ احساں ہوتے

شوقِ دیدار کی ہے اب یہ تمنّا اے رازؔ

جتنے جلوے ہیں نہاں وہ بھی نمایاں ہوتے

O

اپنے دل کو چھوڑ کر کون و مکاں دیکھا کیے

وائے غفلت! وہ کہاں تھا، ہم کہاں دیکھا کیے

اور کیا رکھا تھا دنیا میں جسے ہم دیکھتے

عمر بھر نیرنگیِ دورِ زماں دیکھا کیے

دیکھنے کی چیز ہو گی اور بھی کچھ دہر میں

راز ہم تو حسن کی نیرنگیاں دیکھا کیے

 

O

کوئی حریف ہی نہیں جلوۂ بے نقاب کا

آج ہوا ہے سامنا واقعی آفتاب کا

لطف ستم نما سہی، جَور کرم نما سہی

یہ تو دلوں کی بات ہے، کام ہے کیا حساب کا

مستِ مئے سخن ہے رازؔ، مستِ مئے خودی نہیں

ماہِ تمام ہے مگر بندہ ہے آفتاب کا

O

اس بزمِ تماشا میں تماشا ہے مگر شاذ

آنکھوں کے لئے جلوۂ معنیٰ ہے مگر شاذ

بر آتی ہے امید، نکل جاتی ہے حسرت

دنیا میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے مگر شاذ

ہر پردے میں وہ حسنِ جہاں تاب ہے پنہاں

وہ سامنے بھی آتا ہے، آتا ہے مگر شاذ

میخانۂ وحدت کا وہ بیخود ہوں میں اے رازؔ

کثرت کا بھی احساس تو ہوتا ہے مگر شاذ

 

O

سوزِ غم سے نہیں ہے دل میں داغ

بلکہ روشن ہے آرزو کا چراغ

شرطِ الفت ہے حوصلہ مندی

ایک دل ہے ہزارہا ہیں داغ

ساقیِ جاں نواز، جانِ رازؔ

دھُل گئے آج دل کے سارے داغ

O

شمعِ الفت ہے ضو فشاں دل میں

مایۂ حسن ہے نہاں دل میں

منکشف ہو چکا ہے رازِ جہاں

اب کہاں شورِ این و آں دل میں

میکشی جزوِ حق پرستی ہے

سوچتے کیا ہیں بدگماں دل میں

یہ زمیں اور رازؔ فکرِ سخن

کیا سمائی ہے مہرباں دل میں

 

 

O

 

بزمِ ہستی، دورِ زمانہ

میری کہانی، میرا فسانہ

کون بتائے کون ہے عاشق

شمعِ شبستاں یا پروانہ

میری ہستی ایک حقیقت

اور حقیقت ایک فسانہ

راز کی نغمہ سنجی توبہ

ایک حقیقت ، ایک فسانہ

 

(23 مارچ 1956ء)

 

 

O

 

دلکش تو ہے فضا چمنِ روزگار کی

لیکن میں جانتا ہوں حقیقت بہار کی

دشمن کو دوست، غیر کو اپنا بنا لیا

کیا بات ہے نگاہِ محبت شعار کی

مجبور بھی نہیں ہو میں مختار بھی نہیں

واللہ کیا ہے شان مرے اختیار کی

میں بدگماں نہیں ہوں ، مگر اتنی بات ہے

رکھنی ہے لاج تم کو مرے اعتبار کی

یہ بزمِ نائے و نوش، یہ دَورِ مئے سخن

نیت بخیر رازؔ تہجّد گزار کی

(24 مئی 1958ء)

 

 

 

O

 

آدمی جب بے نیازِ کفر و ایماں ہو گیا

صاحبِ دل ہو گیا وہ اور انساں ہو گیا

جب خودی و بیخودی کی منزلیں طے ہو گئیں

مرکزِ اسرارِ فطرت، قلبِ انساں ہو گیا

شیخ کو مجبوریوں کی داد دینی چاہئے

جب نہ کافر بن سکا تو وہ مسلماں ہو گیا

اے ترے قرباں ، ترے صدقے، نگاہِ حق شناس

بتکدہ بھی اب حریفِ کعبۂ جاں ہو گیا

وہ مسلماں ہے نہ ہندو، ہاں محبت کیش ہے

غالباً اب رازؔ حق آگاہ انساں ہو گیا

 

(24 جنوری 1959ء)

 

 

               دیا نراین نگم

(مالک و مدیر، مجلّۂ زمانہ، کانپور)

 

انقلابِ جہاں ہے حیرت خیز

رنج آموز اور غم انگیز!

رنگ نیرنگِ عالمِ فانی

کھا چکا ہے ہزارہا مانی

آہ! وہ اہلِ دل، وہ اہلِ کمال

روح پرور تھا جن کا حال و قال

نازشِ محفلِ سخن نہ رہے

رونق افزائے انجمن نہ رہے

یہ ستم دیکھئے زمانے کا

موت عنوان ہے فسانے کا

آہ، وہ مصدرِ خلوص و کرم

آہ! وہ صاحبِ نظر، وہ نگم

آہ وہ قدر دانِ اہلِ کمال

تھا زمانے میں آپ اپنی مثال

دردِ ملّت کا راز دار تھا وہ

صاحبِ دل تھا، غمگسار تھا وہ

تھی یہ افتاد اس کی فطرت کی

عمر بھر اُس زباں کی خدمت کی

ہند کی جو زبان ہے گویا

دوستی کا نشان ہے گویا

جب تک اُردو زبان ہے باقی

مٹ نہیں سکتا اس کا نام کبھی

 

(1943ء)

 

 

 

 

               بیادِ سیماب

(المتوفی: کراچی (3 جنوری 1951ء)

 

حیف، صد حیف، وہ نوا پرور

ملکِ شعر و سخن کا پیغمبر

نکتہ سنجِ رموزِ بزمِ ازل

راز دارِ حریمِ نظم و غزل

آشنائے اصولِ زیر و بم

واقفِ راز ہائے کیف و کم

خوش نوا، خوش بیاں ، ادیب شہیر

شاعرِ عصر و صاحبِ توقیر

نے نوازِ حریمِ سوز و ساز

نغمہ پیرائے بزمِ ناز و نیاز

خوش نظر، حق نگر، محبت کیش

میرِ میخانۂ سخن درویش

وہ حقیقت شناسِ حسنِ مجاز

نغزِ گفتار و صاحبِ اعجاز

ناز بردارِ شاہدِ اردو

عاشقِ زارِ شاہدِ اردو

رہبرِ حق نما و خوش گفتار

سالکِ راہ و قافلہ سالار

وہ کلیمِ عجم، وہ سحر طراز

قدسیانِ سخن کا ہم آواز

اُٹھ گیا بزمِ دہر سے، ہیہات

ہو گیا آج فاش رازِ حیات

ملکِ شعروسخن ہے اب ویراں

خاک بر سر ہیں ہند و پاکستاں

شاعرِ بے مثال تھا سیماب

صاحبِ حال و قال تھا سیماب

 

 

 

               الفراق

(بیادِ فاضل٭ راز)

 

 

اکبر آباد تجھے چھوڑ کے جاتا ہوں میں

داستانِ غمِ جاں سوز سناتا ہوں میں

جب نظر تیری طرف آج اٹھاتا ہوں میں

منتشر اپنے خیالات کو پاتا ہوں میں

دل میں وہ درد ہے جس کا کوئی چارا ہی نہیں

زندگی یہ ہے کہ جینے کا سہارا ہی نہیں

کچھ خبر بھی ہے تجھے؟ صاحبِ تاجِ زریں

تا قیامت رہے قائم یہ جلال و تمکیں

اک مسافر تری جنت میں ہے لیکن غمگیں

پوچھنے والا کوئی سوزِ محبت کا نہیں

سخت بیدرد و ستمگار ہیں اربابِ جہاں

اور کچھ ان سے زیادہ ترے حور و غلماں

خیر، جو کچھ بھی مقدّر میں لکھا تھا، وہ ہوا

کون ہوتا ہے غریب الوطنی میں اپنا

وہ ستم میں نے اٹھائے کہ پناہم بخدا

پھر بھی شکوہ نہیں ، واللہ کسی سے اصلا

اب میں جاتا ہوں ، مگر داغِ جُدائی لے کر

اب میں جاتا ہوں ، تجھے اپنی ’’امانت‘‘ دے کر

اس امانت کو کلیجہ سے لگائے رکھنا

اس امانت کو حوادث سے بچائے رکھنا

قبرِ فاضل کو تو پھولوں سے سجائے رکھنا

عبرتِ دیدۂ رہ گیر بنائے رکھنا

دیکھ کوئی نئی اُفتاد نہ ہونے پائے

یہ امانت مری برباد نہ ہونے پائے

(1916ء)

٭ پیدائش: 6 فروری 1914ء – وفات: 6 دسمبر 1915ء (آگرہ)

 

 

 

               بیادِ اختر(١)

 

 

سُنسان جنگل، پُر ہول منظر

ہمدم ہے کوئی اپنا نہ رہبر

غم کی گھٹائیں چھائی ہیں سر پر

شکرِ کرم او چرخِ ستمگر!

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

کس کو سُناؤں اپنی کہانی

کس کو دکھاؤں سوزِ نہانی

یہ زندگی ہے کیا زندگانی

اس زندگی سے مرنا ہے بہتر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

 

 

یہ دشتِ غربت اور یہ مصیبت

افسوس قسمت، صد حیف قسمت

ظالم ہے کتنی معصوم فطرت

چھڑکا نمک پھر زخمِ جگر پر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

مجھ سے چھڑایا، وہ میرا پیارا

وہ میرا پیارا، آنکھوں کا تارا

غربت میں مجھ کو بے موت مارا

بے رحم قسمت، ظالم مقدّر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

رمزِ سخن سے وہ باخبر تھا

ذوقِ ادب سے وہ بہرہ ور تھا

خوش کار و خوش خو، وہ خوش نظر تھا

وہ کون؟ اختر، ہاں میرا اختر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

اے میرے مالک، تیری عنایت

رنگیں بنا دی میری حکایت

آتا ہے لب پر حرفِ شکایت

دل سے نکل کر، بیتاب ہو کر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

حکمت سے تیری کیا دُور تھا یہ

قدرت سے تیری کیا دُور تھا یہ

رحمت سے تیری کیا دُور تھا یہ

رہتا جہاں میں کچھ اور اختر !

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

دنیا پڑی تھی، سارا جہاں تھا

مارا تو اس کو جو نو جواں تھا

مرنے کے قابل، میں ناتواں تھا

آیا نہ تجھ کو کچھ رحم مجھ پر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

 

دنیا ہے فانی، یہ میں نے مانا

دنیا سے آخر، ہے سب کو جانا

لیکن کہیں ہے میرا ٹھکانا

یہ تیری جنت، دوزخ ہے یکسر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

کہنے دے مجھ کو اے میرے داور

رحمت ہے تیری شاید ستمگر

ظالم نے مارا وہ تیر دل پر

جینا ہوا ہے اب مجھ کو دوبھر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

ذوقِ جبیں کو ٹھکرا دیا کیوں

حسنِ یقیں کو شرما دیا کیوں

قلبِ حزیں کو تڑپا دیا کیوں

تجھ کو ملا کیا یہ داغ دے کر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

 

میری دُعا سے یہ بے نیازی

ہر التجا سے یہ بے نیازی

اہلِ وفا سے یہ بے نیازی

کافر ہو، آئے جو تیرے در پر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

گستاخ ! یہ کیا طرزِ فغاں ہے

بیباک کتنی تیری زباں ہے

اُس بارگہ میں شعلہ فشاں ہے

جلتے ہیں جس جا جبریل کے پر

اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

(1944ء)

 

1   پیدائش: 29 اکتوبر 1923ء(کانپور) – وفات: 25 دسمبر 1943ء(جبل پور)

2   1940ءمیں راشدہ راز نے اور 1941ءمیں رابعہ راز نے عین عالمِ شباب میں داغِ مفارقت دائمی دیا تھا۔

 

 

 

               سوزِ نہاں

(بیادِ رفیقۂ حیات المتوفی 31 جنوری 1955ء)

 

کس سے کہئے حدیثِ سوز و ساز

ہم نفس ہے اب نہ کوئی دمساز

حیف، صد حیف، وہ رفیقِ حیات

ہمدمِ جاں نثار و محرمِ راز

واقفِ شیوہ ہائے مہر و وفا

آشنائے رموز و سوز و ساز

خوش نوا، خوش مذاق، خوش آئیں

نکتہ سنجِ حریمِ ناز و نیاز

عندلیبِ ترانہ سازِ وفا

طوطیِ خوش نوائے گلشنِ راز

حق نگر، خودشناس، صاحبِ دل

بے نیازِ فریبِ حسنِ مجاز

راز دانِ جہانِ رنگ و بو

ناز پروردۂ بہارِ نیاز

شمعِ بزمِ حیاتِ رازؔ حزیں

روشنیِ غریب خانۂ رازؔ

وہ فرشتہ خصال، وہ معصوم

عابدہ، زاہدہ، سجود نواز

صابر و شاکر و حلیم و سلیم

صاحبِ ظرف و خوش نظر ہمراز

کم سخن، با وقار، نکتہ سرا

خوش بیاں ، برمحل نوا پرداز

رہروِ خوش خرامِ منزلِ زیست

دور بیں ، واقفِ نشیب و فراز

بے نیازِ ستایش و تحسیں

پاسدارِ رموزِ سوز و گداز

ناز بردارِ سرور و مشہود

روحِ محمود و غمگسارِ ’’ایاز‘‘

وہ مجسّم محبت و رافت

وہ سراپا غزل بہ شکلِ نیاز

وہ انیس و جلیسِ دیرینہ

وہ رفیق و شفیقِ سوز و ساز

سوئے خلدِ بریں روانہ ہوئی

رہ گیا اب جہاں میں تنہا رازؔ

( 1955ء)

٭ سرور راز، مشہود راز، محمود راز : ابنائے راز

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، عملِ لفظی اور تدوین:اعجاز عبید

ای بک: اعجاز عبید