FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

مؤطا

 

 

حصہ اول

               امام مالک

 

 

 

تاب نذروں کے بیان میں

 

               قسم کے بیان میں مختلف احادیث

 

کہا مالک نے جو شخص یہ کہے کہ مال میرا خدا کی راہ میں ہے تو تہائی مال صدقہ کرے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی لبابہ کو ایسا ہی حکم کیا۔

 

 

کتاب ذبیحوں کے بیان میں

 

               ذبیحہ پر بسم اللہ کہنے کا بیان

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کہ بدو لوگ گوشے لے کر ہمارے پاس آتے اور ہم کو نہیں معلوم کہ انہوں نے بسم اللہ کہی تھی یا نہیں ذبح کے وقت۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم بسم اللہ کہہ کے اس کو کھا لو۔

کہا مالک نے یہ حدیث ابتدائے اسلام کی ہے ،۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس نے حکم کیا اپنے غلام کو ایک جانور ذبح کرنے کا جب وہ ذبح کرنے لگا تو عبداللہ نے کہا بسم اللہ کہہ، غلام نے کہا میں کہہ چکا، پھر عبداللہ نے کہا بسم اللہ کہہ خرابی ہو تیرے لئے، غلام نے کہا میں کہہ چکا عبداللہ نے کہا قسم ہے خدا کی میں یہ گوشت کبھی نہیں کھاؤں گا۔

 

 

               زکوٰۃ ضروری کا بیان

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص انصاری اپنی اونٹنی چرا رہا تھا احد میں، یکایک وہ مرنے لگی تو اس نے ایک دھاری دار لکڑی سے ذبح کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ اندیشہ نہیں کھاؤ اس کا گوشت۔

 

معاذ بن سعد سے روایت ہے کہ ایک لونڈی کعب بن مالک کی بکریاں چرا رہی تھی سلع میں، ایک بکری اس سے مرنے لگی تو اس نے پتھر سے ذبح کر دی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ حرج نہیں کھاؤ اس کو۔

 

عبد اللہ بن عباس سے سوال ہوا کہ عرب کے نصاریٰ کا ذبیحہ درست ہے یا نہیں انہوں نے کہا درست ہے بعد اس کے پڑھا اس آیت کو ومن یتولہم منکم فانہ منہم۔

 

مالک کو پہنچا ہے کہ عبداللہ بن عباس کہتے تھے جو چیز کاٹ دے رگوں کو پس کھا لے اس کو۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے جس چیز سے ذبح کیا جائے جب وہ کاٹ دے کچھ حرج نہیں کھانے میں اس کے جب ضرورت ہو۔

 

 

               ذبیحہ کا کھانا مکروہ ہے اس کا بیان

 

ابوہریرہ سے سوال کیا گیا کہ ایک بکری ذبح کرتے وقت تھوڑا سا ہلی؟ ابوہریرہ نے اس کے کھانے کا حکم دیا، پھر ابو مرہ نے زید بن ثابت سے پوچھا انہوں نے کہا مردہ بھی ہلتا ہے اور منع کیا اس کے کھانے سے۔

 

               پیٹ کے بچہ کی زکوٰۃ کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جب نحر کی جائے اونٹنی تو اس کے پیٹ کے بچے کی بھی زکوٰۃ ہو جائے گی بشرطیکہ اس بچے کے تمام اعضا پورے ہو گئے ہوں اور بال بالکل نکل آئے ہوں اگر وہ بچہ پیٹ سے زندہ نکل آئے تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے تاکہ خون اس کے پیٹ سے نکل جائے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ زکوٰۃ پیٹ کے بچہ کی اس کی ماں کی زکوٰۃ سے ہو جائے گی جب وہ بچہ پورا ہو گیا ہو اور بال نکل آئے ہوں۔

 

 

 

کتاب شکار کے بیان میں

 

               جو جانور لکڑی یا پتھر سے مارا جائے اس کے نہ کھانے کا بیان

 

نافع نے کہا میں نے دو چڑیاں ماریں پتھر سے جرف میں ایک مر گئی اس کو پھینک دیا عبداللہ بن عمر نے اور دوسری کو دوڑے ذبح کرنے کو بسولے سے وہ مر گئی ذبح سے پہلے، اس کو بھی پھینک دیا عبداللہ بن عمر نے

 

قاسم بن محمد اس جانور کو کھانا مکروہ جانتے تھے جو لاٹھی یا گولی سے مارا جائے۔

 

سعید بن مسیب مکروہ جانتے تھے ہلے ہوئے جانور کا مارنا اس طرح جیسے شکار کو مارتے ہیں تیر وغیرہ سے۔

 

               سکھائے ہوئے درندوں کے شکار کے بیان میں

 

عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں اگرچہ وہ کتا اس شکار میں سے کچھ کھا لے تب بھی اس کا کھانا درست ہے۔

 

سعد بن ابی وقاص سے سوال ہوا کہ سیکھتا ہوا کتا اگر شکار کو مار کر کھا لے تو؟ سعد نے کہا کہ تو کھا لے جس قدر بچ رہے اگرچہ ایک ہی بوٹی ہو۔

 

کہا مالک نے میں نے سنا اہل علم سے کہتے تھے کہ باز اور عقاب اور صقر اور جو جانور ان کے مشابہ ہیں اگر ان کو تعلیم دی جائے اور وہ سمجھدار ہو جائیں جیسے سکھائے ہوئے کتے سمجھدار ہوتے ہیں تو ان کا مارا ہوا جانور بھی درست ہے بشرطیکہ بسم اللہ کہہ کر چھوڑے جائیں۔۔

 

کہا مالک نے اگر باز کے پنجے سے یا کتے کے منہ سے شکار چھوٹ کر مر جائے تو اس کا کھانا درست نہیں۔

 

کہا مالک نے نے جس جانور کے ذبح کرنے پر آدمی قادر ہو جائے مگر اس کو ذبح نہ کرے اور باز کے پنجے یا کتے کے منہ میں رہنے دے یہاں تک کہ باز یا کتا اس کو مار ڈالے تو اس کا کھانا درست نہیں۔

 

               دریا کے شکار کے بیان میں

 

عبدالرحمن بن ابی ہریرہ نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے اس جانور کے بارے جس کو دریا پھینک دے، تو منع کیا عبداللہ نے اس کے کھانے سے، پھر عبداللہ گھر گئے اور کلام اللہ کو منگوایا اور پڑھا اس آیت کو "حلال کیا گیا واسطے تمہارے شکار دریا کا اور طعام دریا کا” نافع نے کہا پھر عبداللہ بن عمر نے مجھ کو بھیجا عبدالرحمن بن ابی ہریرہ کے پاس یہ کہنے کو کہ اس جانور کا کھانا درست ہے۔

 

سعد جاری مولی عمر بن خطاب نے کہا کہ میں نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے جو مچھلیاں ان کو مچھلیاں مار ڈالیں یا سردی سے مر جائیں انہوں نے کہا ان کا کھانا درست ہے پھر میں نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا انہوں نے بھی ایسا ہی کہا۔

 

ابوہریرہ اور زید بن ثابت اس جانور کا کھانا جس کو دریا پھینک دے درست جانتے تھے۔

 

ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ کچھ لوگ جار کے رہنے والے مروان کے پاس آئے اور پوچھا کہ جس جانور کو دریا پھینک دے اس کا کیا حکم ہے مروان نے کہا اس کا کھانا درست ہے اور تم جاؤ زید بن ثابت اور ابوہریرہ کے پاس اور پوچھو ان سے پھر مجھ کو آن کر خبر کرو کیا کہتے ہیں، انہوں نے پوچھا ان دونوں سے دونوں نے کہا درست ہے ان لوگوں نے پھر آن کر مروان سے کہا مروان نے کہا میں تو تم سے پہلے ہی کہہ چکا تھا۔

 

               ہر دانت والے درندے کے حرام ہونے کا بیان

 

ابو ثعلبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر درندے دانت والے کا کھانا حرام ہے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہر درندے دانت والے کا کھانا حرام ہے۔

 

               جن جانوروں کا کھانا مکروہ ہے ان کا بیان

 

کہا مالک نے گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو نہ کھائیں کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا "اور پیدا کیا ہم نے گھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو سواری اور آرائش کے واسطے”، اور فرمایا باقی چوپاؤں کے حق میں "پیدا کیا ہم نے ان کو تاکہ تم ان پر سوار ہو اور ان کو کھاؤ” اور فرمایا اللہ تعالی نے "تاکہ لیں نام اللہ کا ان چوپاؤں پر جو دیا اللہ نے ان کو سو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ فقیر اور مانگنے والے کو”۔

 

 

               مردار کی کھالوں کا بیان

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی زوجہ میمونہ کے غلام کی مردار بکری کے پاس سے گزرے ، یہ بکری آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلام کو دی تھی۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیوں کام میں نہ لائے تم کھال اس کی، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ مردار ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا مردار کا کھانا حرام ہے۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کھال دباغت کی جائے پاک ہو جائے گی۔

 

حضرت عائشہ زوجہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت ہے کہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مردار کی کھالوں سے نفع اٹھانے کو جب دباغت کر لی جائیں۔

 

               جو شخص بے قرار ہو جائے مردار کے کھانے پر اس کا بیان

 

کہا مالک نے مضطر کو درست ہے کہ مردہ پیٹ بھر کر کھائے اور اس میں سے کچھ توشہ اٹھا رکھے لیکن حلال مل جائے تو اس توشہ کو پھینک دے۔

 

 

 

کتاب عقیقے کے بیان میں

 

               عقیقے کا بیان

 

بنی ضمرہ کے ایک شخص سے روایت ہے اس نے اپنے باپ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عقیقے کے بارے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں عقوق کو پسند نہیں کرتا یعنی اس نام کو ناپسند کیا اور فرمایا جس شخص کا بچہ پیدا ہو اور وہ اپنے بچے کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کرے۔

 

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ نے حضرت حسن حضرت حسین اور زینب اور ام کلثوم کے بال تول کر ان کے برابر چاندی صدقہ کی۔

 

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ نے حسن اور حسین کے بال تول کر ان کے برابر چاندی صدقہ کی۔

 

               عقیقے کی ترکیب کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جو کوئی ان کے گھر والوں میں سے عقیقے کے بارے کہتا تو وہ دیتے اپنی اولاد کی طرف سے خواہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک ایک بکری (عقیقے میں)۔

 

محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ عقیقہ بہتر ہے اگرچہ ایک چڑیا ہی ہو۔

 

حضرت حسن اور حسین کا عقیقہ ہوا تھا۔

 

عروہ بن زبیر اپنی اولاد کی طرف سے خواہ لڑکا ہو خواہ لڑکی ایک ایک بکری کرتے تھے عقیقے میں۔

 

 

 

کتاب الصلوٰۃ

 

               نماز کے شروع کرنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر جب شروع کرتے نماز کو اٹھاتے دونوں ہاتھوں کو برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے رکوع سے اٹھاتے دونوں ہاتھ ذرا کم اس سے۔

 

وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری سکھاتے تھے ان کو تکبیر نماز میں تو حکم کرتے تھے کہ تکبیر کہیں ہم جب جھکیں ہم اور اٹھیں ہم۔

 

ابن شہاب کہتے تھے جب پا لیا کسی شخص نے رکوع اور تکبیر کہہ لی تو یہ تکبیر کافی ہو جائے کی تکبیر تحریمہ سے۔

 

               مغرب اور عشاء کی نماز میں قرات کا بیان

 

جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ سنا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھا سورہ طور کو مغرب کی نماز میں

 

ام فضل نے عبداللہ بن عباس کو سورۃ المرسلات عرفا پڑھتے سنا تو کہا اے بیٹے میرے! یاد دلا دیا تو نے یہ سورۃ پڑھ کر اخیر جو سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سورہ کو پڑھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغرب میں

 

ابو عبداللہ صنابحی سے روایت ہے کہ میں آیا مدینہ میں جب ابوبکر خلیفہ تھے تو پڑھی میں نے پیچھے ان کے مغرب کی نماز تو پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورہ مفصل کو چھوٹی سورتوں میں سے پڑھی پھر جب تیسری رکعت کے واسطے کھڑے ہوئے تو میں نزدیک ہو گیا ان کے یہاں تک کہ میرے کپڑے قریب تھے کہ چھو جائیں ان کے کپڑوں سے تو سنا میں نے پڑی انہوں نے سورۃ فاتحہ اور اس آیت کو ربنا (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃ  ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ) 3۔ ال عمران:8)۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو چاروں رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورۃ پڑھتے تھے اور کبھی دو دو تین سورتیں ایک رکعت میں پڑھتے تھے فرض کی نماز میں اور مغرب کی نماز میں دو رکعتوں میں فاتحہ اور سورت پڑھتے تھے۔

 

برا بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے نماز پڑھی ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عشاء کی تو پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں والتین و الزیتون۔

 

               کلام پڑھنے کا طریقہ

 

حضرت علی سے روایت ہے کہ منع کیا حضرت نے ریشمی کپڑا اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور قرآن کو رکوع میں پڑھنے سے۔

 

فروہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے لوگوں کے پاس اور وہ نماز پڑھ رہے تھے آوازیں ان کی بلند تھیں کلام اللہ پڑھنے سے تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نمازی کانا پھوسی کرتا ہے اپنے پروردگار سے تو چاہئے کہ سمجھ کر کانا پھوسی کرے اور نہ پکارے ایک تم میں دوسرے پر قرآن میں۔

 

انس بن مالک نے کہا نماز کو کھڑا ہوا میں پیچھے ابوبکر اور عمر اور عثمان کے جب نماز شروع کرتے تو کوئی ان میں سے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھتا۔

 

مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ ہم سنتے تھے قراۃ عمر بن خطاب کی اور وہ ہوتے تھے نزدیک دار ابی جہم کے اور ہم ہوتے تھے بلاط میں

 

نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر جب فوت ہو جاتی کچھ نماز ان کی ساتھ امام کے جس میں پکار کر قرات کی ہوتی تو جب سلام پھیرتا امام، اٹھتے عبداللہ بن عمر اور پڑھتے جو رہ گئی تھی نماز میں پکار کر۔

 

یزید بن رومان سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھتا تھا نافع کے ایک جانب تو اشارہ کر دیتے تھے مجھ کو واپس بتا دیتا تھا میں ان کو جہاں وہ بھول جاتے تھے اور ہم نماز میں ہوتے تھے۔

 

               صبح کی نماز میں قرات کا بیان

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے نماز پڑھائی صبح کی تو پڑھی اس میں سورۃ بقرہ دو رکعتوں میں

 

عروہ بن زبیر نے سنا عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے کہتے تھے نماز پڑھی ہم نے پیچھے عمر بن خطاب کے صبح کی تو پڑھی انہوں نے سورۃ یوسف اور سورۃ حج ٹھہر ٹھہر کر عروہ نے کہا قسم خدا کی پس اس وقت کھڑے ہوتے ہوں گے نماز کو جب نکلتی ہے صبح صادق کہا عبداللہ نے ہاں۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ فرافصہ بن عمیر حنفی نے کہا کہ میں نے سورہ یوسف یاد کر لی حضرت عثمان کے پڑھنے سے آپ صبح کی نماز میں اس کو بہت پڑھا کرتے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سفر میں مفصل کے پہلی دس سورتوں میں سے ہر ایک رکعت میں سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھا کرتے تھے۔

 

               سورہ فاتحہ کی فضلیت کا بیان

 

ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پکارا ابی بن کعب کو اور وہ نماز پڑھ رہے تھے تو جب نماز سے فارغ ہوئے مل گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پس رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ اپنا ابی کے ہاتھ پر اور وہ نکلنا چاہتے تھے مسجد کے دروازے سے سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں چاہتا ہوں کہ نہ نکلے تو مسجد کے دروازے سے یہاں تک کہ سیکھ لے ایک سورت ایسی کہ نہیں اتری تورات اور انجیل اور قرآن میں مثل اس کے کہا ابی نے پس ٹھہر ٹھہر کر چلنے لگا میں اسی امید میں پھر کہا میں نے اے اللہ کے رسول وہ سورت جس کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وعدہ کیا تھا بتلائیے مجھ کو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیونکر پڑھتا ہے تو جب شروع کرتا ہے نماز کو کہا ابی نے تو میں پڑھنے لگا الحمد للہ رب العالمین یہاں تک کہ ختم کیا میں نے سورت کو پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ یہی سورت ہے اور یہ سورت سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا۔

 

ابی نعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا جابر بن عبداللہ انصاری سے کہتے تھے جس شخص نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے نماز نہ پڑھی مگر جب امام کے پیچھے ہو

 

 

               سورہ فاتحہ امام کے پیچھے سری نماز میں پڑھنے کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص نے پڑھی نماز اور نہ پڑھی اس میں سورہ فاتحہ تو نماز اس کی ناقص ہے ناقص ہے ہرگز تمام نہیں ہے ابو السائب نے کہا اے ابوہریرہ کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو دبا دیا ابوہریرہ نے میرا بازو اور کہا پڑھ لے اپنے دل میں اے فارس کے رہنے والے کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے فرمایا اللہ تعالی نے بٹ گئی نماز میرے اور میرے بندے کے بیچ میں آدھوں آدھ آدھی میری اور آدھی اس کی اور جو بندہ میرا مانگے اس کو دوں گا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھو بندہ کہتا ہے کہ سب تعریف اللہ کو ہے جو صاحب ہے سارے جہاں کا پروردگار کہتا ہے میری تعریف کی میرے بندے نے بندہ کہتا ہے بڑی رحمت کرنے والا مہربان پروردگار کہتا ہے خوبی بیان کی میرے بندے نے بندہ کہتا ہے کہ وہ مالک بدلے کے دن کا پروردگار کہتا ہے بڑائی کی میری میرے بندے نے بندہ کہتا ہے خاص تجھ کو پوجتے ہیں ہم اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ہم تو یہ آیت میرے اور میرے بندے کے بیچ میں ہے بندہ کہتا ہے دکھا ہم کو سیدھی راہ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے اپنا کرم کیا نہ دشمنوں کی اور گمراہوں کی تو یہ آیتیں بندہ کے لئے ہیں اور میرا بندہ جو مانگے سو دوں۔

 

عروہ بن زبیر سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے امام کے پیچھے سری نماز میں

 

نافع بن جبیر امام کے پیچھے سری نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جب کوئی پوچھتا کہ سورۃ فاتحہ پڑھی جائے امام کے پیچھے تو جواب دیتے کہ جب کوئی تم میں سے نماز پڑھے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرات امام کی اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے کہا نافع نے اور تھے عبداللہ بن عمر نہیں پڑھتے تھے پیچھے امام کے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہوئے ایک نماز جہری سے پھر فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ کلام اللہ پڑھا تھا ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ہی میں کہتا تھا اپنے دل میں کیا ہوا ہے مجھ کو چھینا جاتا ہے مجھ سے کلام اللہ کہا ابن شہاب یا ابوہریرہ نے تب لوگوں نے ٍ کیا قرات کو حضرت کے پیچھے نماز جہری میں جب سے یہ حدیث سنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔

 

               امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب امام کہے آمین تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین مل جائے گی ملائکہ کی آمین سے بخش دئیے جائیں گے اگلے گناہ اس کے کہا ابن شہاب نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آمین کہتے تھے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو کیونکہ جس کا آمین کہنا برابر ہو جائے گا ملائکہ کے کہنے کے بخش دئیے جائیں گے اگلے گناہ اس کے۔

 

 

               اذان کے بیان میں

 

یحیی بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قصد کیا دو لکڑیاں بنانے کا اس لئے کہ جب ان کو ماریں تو آواز پہنچے لوگوں کو اور جمع ہوں لوگ نماز کے لئے پس دکھائے گئے عبداللہ بن زید دو لکڑیاں اور کہا کہ یہ لکڑیاں تو ایسی ہیں جیسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاہیں پھر کہا گیا ان سے خواب میں کہ تم نماز کے لئے اذان کیوں نہیں دیتے تو جب جاگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور ان سے خواب بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کا حکم دیا۔

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب سنو تم اذان کو تو کہو جیسا کہ کہتا جاتا ہے موذن۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر معلوم ہوتا لوگوں کو جو کچھ اذان دینے میں اور صف اول میں ثواب میں پھر نہ پا سکتے ان کو بغیر قرعہ کے البتہ قرعہ ڈالتے اور اگر معلوم ہوتا لوگوں کو جو کچھ نماز کے اول وقت پڑھنے میں ثواب ہے البتہ جلدی کرتے اس کی طرف اور اگر معلوم ہوتا جو کچھ ثواب ہے عشاء اور صبح کی نماز با جماعت پڑھنے کا البتہ آتے جماعت میں گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تکبیر ہو نماز کی تو نہ دوڑتے ہوئے آؤ تم بلکہ اطمینان اور سہولت سے تو جتنی نماز تم کو ملے پڑھ لو اور جو نہ ملے اس کو پورا کر لو کیونکہ جب کوئی تم میں سے قصد کرتا ہے نماز کا تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔

 

عبد اللہ بن عبدالرحمن انصاری سے ابو سعید خدری نے کہا کہ تو بکریوں کو اور جنگل کو دوست رکھتا ہے تو جب جنگل میں ہو اپنی بکریوں میں اذان دے نماز کی بلند آواز سے کیونکہ نہیں پہنچتی آواز موذن کی نہ جن کو نہ آدمی کو اور نہ کسی شئے کو مگر وہ گواہ ہوتا ہے اس کا قیامت کے روز کہا ابو سعید نے سنا میں نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جب اذان ہوتی ہے نماز کے لئے شیطان پیٹھ موڑ کر پادتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ نہ سنے اذان کو پھر جب اذان ہو چکتی ہے چلا آتا ہے پھر جب تکبیر ہوتی ہے بھاگ جاتا ہے پیٹھ موڑ کر پھر جب تکبیر ہو چکتی ہے چلا آتا ہے یہاں تک کہ وسوسہ ڈالتا ہے نمازی کے دل میں اور کہتا ہے اس سے خیال کر فلاں چیز کا خیال کر جس کو خیال نماز کو اول بھی نہ تھا یہاں تک کہ رہ جاتا ہے نماز اور خبر نہیں ہوتی اس کو کہ کتنی رکعتیں پڑھیں۔

 

سہل بن سعد سے روایت ہے کہا انہوں نے دو وقت کھل جاتے ہیں دروازے آسمان کے اور کم ہوتا ہے ایسا دعا کر نے والا کہ نہ قبول ہو دعا اس کی ایک جس وقت اذان ہو نماز کی دوسری جس وقت صف باندھی جائے جہاد کے لئے۔

 

مالک بن ابی عامر اصبحی جو دادا ہیں امام مالک کے کہتے ہیں کہ میں نہیں دیکھتا کسی چیز کو کہ باقی ہو اس طور پر جس پر پایا میں نے صحابہ کو مگر اذان کو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے تکبیر سنی اور وہ بقیع میں تھے تو جلدی جلدی چلے مسجد کو۔

 

               سفر میں بے وضو اذان کہنے کو بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اذان دی رات کو جس میں سردی اور ہوا بہت تھی پھر کہا کہ نماز پڑھ لو اپنے اپنے ڈیروں میں پھر کہا ابن عمر نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حکم کرتے تھے موذن کو جب رات ٹھنڈی ہوتی تھی پانی برستا تھا یہ کہ پکارے نماز پڑھ لو اپنے ڈیروں میں۔

 

نافع سے روایت ہے عبداللہ بن عمر سفر میں صرف تکبیر کہتے تھے مگر نماز فجر میں اذان بھی کہتے تھے اور عبداللہ بن عمر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اذان اس امام کے لئے ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوں۔

 

ہشام بن عروہ سے ان کے باپ نے کہا کہ جب تو سفر میں ہو تو تجھے اختیار ہے چاہے اذان یا اقامت دونوں کہہ یا فقط اقامت کہہ اور اذان نہ دے۔

 

سعید بن مسیب نے کہا جو شخص نماز پڑھتا ہے چٹیل میدان میں تو داہنی طرف اس کے ایک فرشتہ اور بائیں طرف اس کے ایک فرشتہ نماز پڑھتا ہے اور اگر اس نے اذان دے کر تکبیر کہہ کر نماز پڑھی تو اس کے پیچھے بہت سے فرشتے نماز پڑھتے ہیں مثل پہاڑوں کے۔

 

               اذان کا سحری کے وقت ہونا

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال رات رہے سے اذان دے دیتے ہیں تو کھایا پیا کرو جب تک اذان دے عبداللہ بیٹا ام مکتوم کا۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال اذان دیتا ہے رات کو تو کھایا پیا کرو جب تک اذان نہ دے بیٹا ام مکتوم کا کہا ابن شہاب نے یا سالم نے یا عبداللہ بن عمر نے کہا تھا بیٹا ام مکتوم کا نابینا اذان نہ دیتا تھا جب تک لوگ اس سے نہ کہتے تھے صبح ہو گئی صبح ہو گئی۔

 

               نماز کے شروع کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب شروع کرتے تھے نماز کو اٹھاتے تھے دونوں ہاتھ برابر دونوں مونڈھوں کے اور جب سر اٹھاتے تھے رکوع سے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اسی طرح اٹھاتے اور کہتے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد اور سجدوں کے بیچ میں ہاتھ نہ اٹھاتے نہ سجدے کو جاتے وقت۔

 

امام زین العابدین سے جن کا اسم مبارک علی ہے اور وہ بیٹے ہیں حضرت امام حسین بن علی بن ابی طالب کے روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر کہتے نماز میں جب جھکتے اور جب اٹھتے اور ہمیشہ رہے اسی طور سے نماز ان کی یہاں تک کہ مل گئے اللہ جل جلالہ سے۔ سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اٹھاتے تھے ہاتھوں کو نماز میں

 

ابو سلمہ سے روایت ہے کہ ابوہریرہ امام ہوتے تھے ان کے تو تکبیر کہتے تھے جب جھکتے اور جب اٹھتے اور پھر جب فارغ ہوئے تو کہا قسم خدا کی میں زیادہ مشابہ ہوں تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز میں۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تکبیر کہتے نماز میں جب جھکتے اور اٹھتے۔

 

               امام کے پیچھے آمین کہنے کا بیان

 

ابویرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے فرشتے بھی آسمان میں آمین کہتے ہیں پس اگر برابر ہو جائے ایک آمین دوسری آمین سے تو بخش دئیے جاتے ہیں اگلے گناہ اس کے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ربنا لک الحمد کہو کیونکہ جس کا کہنا ملائکہ کے کہنے کے برابر ہو جائے گا اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

 

 

               نماز میں بیٹھنے کا بیان

 

علی بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھ کو عبداللہ بن عمر نے نماز میں کنکریوں سے کھیلتا ہوا دیکھا تو جب فارغ ہوا میں نماز سے منع کیا مجھ کو اور کہا کہ کیا کر جیسے کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے کہا کیسے کرتے تھے کہا جب بیٹھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں تو داہنی ہتھیلی کو داہنی ران پر رکھتے تو سب انگلیوں کو بند کر لیتے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کر تے اور بائیں ہتھیلی کو ران پر رکھتے اور کہا کہ اس طرح کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم۔

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کے پہلو میں نماز پڑھی ایک شخص نے تو جب وہ بیٹھا بعد چار رکعت کے چار زانو بیٹھا اور لپیٹ لئے دونوں پاؤں اپنے تو جب فارغ ہوئے عبداللہ بن عمر نماز سے عیب کہا اس بات کو تو اس شخص نے جواب دیا آپ کیوں ایسا کرتے ہیں کہا میں تو بیمار ہوں ۔

 

مغیرہ بن سکیم سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو کہ بیٹھے تھے درمیان دونوں سجدوں کے دونوں پاؤں کی انگلیوں پر اور پھر سجدہ میں چلے جاتے تھے تو جب فارغ ہوئے نماز سے ذکر ہوا اس کا پس کہا عبداللہ نے کہ اس طرح بیٹھنا نماز میں درست نہیں ہے لیکن میں بیماری کی وجہ سے اس طرح بیٹھتا ہوں ،۔

 

عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو چار زانو بیٹھتے ہوئے نماز میں تو وہ بھی چار زانو بیٹھے اور کمسن تھے ان دنوں میں پس منع کیا ان کو عبداللہ نے اور کہا کہ سنت نماز میں یہ ہے کہ داہنے پاؤں کا کھڑا کرے اور بائیں پاؤں کو لٹا دے کہا عبداللہ نے کہ میں نے ان سے کہا تم چار زانو بیٹھتے ہو جواب دیا عبداللہ نے کہ میرے پاؤں میرا بوجھ اٹھا نہیں سکتے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد نے سکھایا لوگوں کو بیٹھنا تشہد میں تو کھڑا کیا داہنے پاؤں کو اور جھکایا بائیں پاؤں کو اور بیٹھے بائیں سرین پر اور نہ بیٹھے بائیں پاؤں پر کہا قاسم نے کہ بتایا مجھ کو اس طرح بیٹھنا عبید اللہ نے اور کہا کہ میرے باپ عبداللہ بن عمر اسی طرح کرتے تھے۔

 

               تشہد کا بیان

 

عبدالرحمن بن عبدالقاری نے سنا عمر بن خطاب سے اور وہ منبر پر تھے سکھاتے تھے لوگوں کو تشہد کہتے تھے کہو التحیات للہ الزاکیات لللہ الطیبات الصلوت لللہ الخ۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تشہد پڑھتے تھے اس طرح بسم اللہ التحیات لللہ کہتے تھے یہ پہلی دو رکعتوں کے بعد مانگتے تھے بعد تشہد کے جو کچھ جی چاہتا تھا پھر جب اخیر قعدہ کرتے اور اسی طرح پڑھتے مگر پہلے تشہد پڑھتے پھر دعا مانگتے جو چاہتے اور بعد تشہد کے جب سلام پھیرنے لگتے تو کہتے السلام علی البنی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد الصالحین السلام علیکم داہنی طرف کہتے پھر امام کے سلام کا جواب دیتے پھر اگر کوئی بائیں طرف والا ان کو سلام کرتا تو اس کو بھی جواب دیتے۔

 

حضرت بی بی عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ کہتیں تشہد میں التحیات الطیبات الصلوت الزکیات۔

 

امام مالک نے ابن شہاب زہری اور نافع مولی ابن عمر سے پوچھا کہ ایک شخص امام کے ساتھ آ کر شریک ہوا جب ایک رکعت ہو چکی تھی اب وہ امام کے ساتھ تشہد پڑھے قعدہ اولی اور قعدہ اخیر میں یا نہ پڑھے کیونکہ اس کی تو ایک رکعت ہوئی قعدہ اولی میں اور تین رکعتیں ہوئیں قعدہ اخیرہ میں تو جواب دیا دونوں نے کہ ہاں تشہد پڑھے امام کے ساتھ امام مالک نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

               جو شخص سر اٹھائے امام کے پیشتر رکوع یا سجدہ میں اس کا بیان

 

ابوہریرہ نے کہا کہ جو شخص سر اٹھاتا ہے یا جھکاتا ہے امام کے پیشتر تو اس کا ماتھا شیطان کے ہاتھ میں ہے۔

 

               جس شخص نے دو رکعتیں پڑھ کر بھولے سے سلام پھیر دیا اس کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام پھیر دیا دو رکعتیں پڑھ کر تو کہا ذوالیدین نے کیا نماز گھٹ گئی یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے۔ رسول آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں سے کیا سچ کہتا ہے ذوالیدین، کہا لوگوں نے ہاں سچ کہتا ہے پس کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور پڑھیں دو رکعتیں پھر سلام پھیر کر تکبیر کہی اور سجدہ کیا مثل سجدوں کے یا کچھ بڑا پھر سرا اٹھایا اور تکبیر کہی اور سجدہ کیا مثل سجدوں کے یا کچھ بڑا پھر سر اٹھایا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی تو سلام پھیر دیا دو رکعتیں پڑھ کر پس کھڑا ہوا ذوالیدین اور کہا کیا نماز کم ہو گئی یا بھول گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اے اللہ کے رسول اللہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی بات نہیں ہوئی متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں پر اور کہا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے لوگوں نے کہا ہاں پس اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام کیا جس قدر نماز باقی تھی پھر دو سجدے کئے بعد سلام کے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے تھے۔

 

ابی بکر بن سلیمان سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پڑھیں ظہر یا عصر کی پھر سلام پھیر دیا تو کہا ذولشمالین اور وہ ایک شخص تھا بنی زہرہ بن کلاب سے کہ نماز کم ہو گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ نماز کم ہوئی نہ میں بھولا ذوالشمالین نے کہا کچھ تو ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پس متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں پر اور کہا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے لوگوں نے کہا ہاں تو تمام کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے باقی نماز کو پھر سلام پھیرا۔

 

سعید بن مسیب اور ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔

 

               جب مصلی کو شک ہو جائے تو اپنی یاد پر نماز تمام کر نے کا بیان

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب شک ہو تم میں سے کسی کو نماز میں تو نہ یاد رہے اس کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو چاہئے کہ ایک رکعت اور پڑھ لے اور دو سجدے کرے قبل سلام کے پھر اگر یہ رکعت جو اس نے پڑھی ہے درحقیقت پانچویں ہو گی تو ان سجدوں سے مل کر ایک دوگانہ ہو جائے گا اگر چوتھی ہو گی تو ان سجدوں سے ذلت ہو گی شیطان کو۔

 

               جب مصلی کو شک ہو جائے تو اپنی یاد پر نماز تمام کر نے کا بیان

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کہ جب شک کرے کوئی تم میں اپنی نماز کا تو سوچے جو بھول گیا ہے پھر پڑھ لے اس کو اور دو سجدے سہو کے بیٹھ کر کر لے۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص اور کعب احبار سے اس شخص کے بارے میں جو شک کرے اپنی نماز میں تو نہ یاد رہے اس کو کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار پس جواب دیا دونوں نے کہ ایک رکعت اور پڑھ کر دو سجدے سہو کے کر لے بیٹھے بیٹھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے سوال ہوا نماز میں بھول جانے کا تو کہا سوچ لے جو بھول گیا ہے پھر پڑھ لے اس کو۔

 

               جو شخص نماز پڑھ کر یا دو رکعتیں پڑھ کر کھڑا ہو جائے اس کا بیان

 

عبد اللہ بن بحینہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو رکعتیں پڑھا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور نہ بیٹھے تب لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے پس جب تمام کیا نماز کو اور انتظار کیا ہم نے سلام کا تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو سجدے کئے بیٹھے بیٹھے قبل سلام کے پھر سلام پھیرا۔

 

عبد اللہ بن بحینہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی پھر کھڑے ہو گئے دو رکعتیں پڑھ کر اور نہ بیٹھے تو جب پورا کر چکے نماز کو دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا بعد اس کے۔

 

               نماز میں اس چیز کی طرف دیکھنے کا بیان جو غافل کر دے نماز سے

 

مرجانہ سے روایت ہے کہ عائشہ نے فرمایا کہ ابو جہم بن حذیفہ نے تحفہ بھیجی ایک چادر شام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے جس میں نقش تھے تو نماز کو آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اوڑھ کر پھر جب فارغ ہوئے نماز سے فرمایا کہ پھیر دے یہ چادر ابوجہم کو کیونکہ میں نے دیکھا اس کے بیل بوٹوں کو نماز میں پس قریب تھا کہ غافل ہو جاؤں میں۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک چادر شام کی بنی ہوئی نقشی بھیجی پھر وہ چادر ابو جہم کو دے دی اور ایک چادر موٹی سادی لے لی تو ابو جہم نے کہا کیوں ایسا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ فرمایا میں نے نماز میں اس کو نقش و نگار کی طرف دیکھا۔

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابو طلحہ انصاری نماز پڑھ رہے تھے باغ میں تو ایک چڑیا اڑی اور ڈھونڈے لگی راہ نکلنے کی کیونکہ باغ اس قدر گنجان تھا اور پیڑ آپس میں ملے ہوئے تھے کہ چڑیا کو جگہ نکلنے کی نہ ملتی تھی پس پسند آیا ان کو یہ امر اور خوش ہوئے اپنے باغ کا یہ حال دیکھ کر تو ایک گھڑی تک اس طرف دیکھتے رہے پھر خیال آیا نماز کا سو بھول گیا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں تب کہا مجھے آزمایا اللہ جل جلالہ نے اس مال سے تو آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور بیان کیا جو کچھ باغ میں قصہ ہوا تھا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ باغ صدقہ ہے واسطے اللہ کے اور صرف کریں اس کو جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں۔

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار میں سے نماز پڑھ رہا تھا اپنے باغ میں اور وہ باغ قف میں تھا جو نام ہے ایک وادی کا جو مدینہ کی وادیوں میں سے ہے ایسے موسم میں کہ کھجور پک کر لٹک رہی تھی گویا پھلوں کے طوق شاکوں کے گلوں میں پڑے تھے تو اس نے نماز میں اس طرف دیکھا اور نہایت پسند کیا پھلوں کو پھر جب خیال کیا نماز کا تو بھول گیا کتنی رکعتیں پڑھیں تو کہا کہ مجھے اس مال میں آزمائش ہوئی اللہ جل جلالہ کی پس آیا حضرت عثمان کے پاس اور وہ ان دنوں خلیفہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور بیان کیا ان سے یہ قصہ پھر کہا کہ وہ صدقہ ہے تو صرف کرو اس کو نیک راہوں میں پس بیچا اس کو حضرت عثمان نے پچاس ہزار کا اور اس مال کا نام ہو گیا پچاس ہزارہ۔

 

 

 

کتاب السہو

 

               نماز میں بھول جانے کا علاج

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک تم میں سے جب کوئی کھڑا ہوتا ہے نماز کو تو آتا ہے شیطان اس کے پاس پھر بھلا دیتا ہے اس کو یہاں تک کہ اس کو یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں تو جب تم میں سے کسی کو ایسا اتفاق ہو تو وہ سجدے کرے بیٹھے بیٹھے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں بھولتا ہوں یا بھلایا جاتا ہوں تاکہ اپنی امت کے لئے ایک راہ پیدا کروں۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ ایک شخص نے قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق سے پوچھا کہ مجھے نماز میں وہم ہوتا ہے اور بہت وہم ہوتا ہے تو قاسم نے کہا کہ تو نماز اپنی پڑھے جا اور وہم کی طرف مت خیال کر اس لئے کہ تجھے وہم کبھی نہ چھوڑے گا جب تک تو نماز سے فارغ نہ ہو اور دل میں یہ خیال رہے کہ میں نے پوری نماز پڑھی۔

 

 

کتاب الجہاد کے بیان میں

 

               گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شرط لگائی آگے بڑھنے کی ان گھوڑوں میں جو تیار کئے گئے تھے گھوڑ دوڑ کے لئے خفیا سے ثینہ الوداع تک اور جو گھوڑے تیار نہیں کئے گئے تھے ان کی حدی ثینہ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقرر کی عبداللہ بن عمر بھی گھوڑ دوڑ میں شریک تھے۔

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب کہتے تھے گھوڑ دوڑ کی شرط میں کچھ قباحت نہیں ہے جب دو شخصوں کے بیچ میں ایک اور شخص آ جائے اگر وہ آگے بڑھ جائے تو شرط کا روپیہ لے لے اور جب پیچھے رہ کچھ نہ دے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لوگوں نے دیکھا کہ اپنے گھوڑے کا منہ چادر سے صاف کر رہے ہیں لوگوں نے اس کا سبب پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رات مجھ پر عتاب ہوا گھوڑے کی خبر نہ لینے پر۔

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب چلے خیبر کو پہنچے وہاں رات کو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی قوم پر رات کو پہنچتے تو جنگ شروع نہ کرتے یہاں تک کہ صبح ہو تو خیبر کے یہودی اپنی کدالیں اور زنبیلیں لے کر نکلے جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا تو کہنے لگے قسم ہے خدا کی محمد ہیں اور پورا لشکر ان کے ساتھ ہے تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ اکبر خراب ہو خیبر انا اذانزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ایک جوڑا صرف کرے اللہ کی راہ میں تو قیامت کے روز جنت کے دروازے پر پکارا جائے گا اے بندے اللہ کے! یہ خیر ہے تو جو شخص نمازی ہو گا وہ نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا جو شخص جہادی ہو گا وہ شخص جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا جو شخص صدقہ دینے والا ہو گا وہ صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا جو شخص روزے بہت رکھے گا اور باب الریان سے بلایا جائے گا حضرت ابوبکر صدیق نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو شخص کسی ایک دروازے سے بلایا جائے اس کو کچھ حزن نہ ہو گا مگر کوئی ایسا بھی جو سب دروازوں سے بلایا جائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو گے۔

 

               ذمیوں میں سے جو کوئی مسلمان ہو جائے اس کی زمین کا بیان دو آدمیوں یا زیادہ کو ایک قبر میں دفن کر نے کا بیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وعدے کا بعد آپ کی وفات کے ابوبکر کی وفا کرنے کا بیان

 

عبدالرحمن بن ابی صعصہ سے روایت ہے کہ عمرو بن الجموع اور عبدالرحمن بن عمرو انصار سلمی جو شہید ہوئے تھے جنگ احد میں ان کی قبر کو پانی کے بہاؤ نے اکھیڑ دیا تھا اور قبر ان کی بہاؤ کے نزدیک تھی اور دونوں ایک ہی قبر میں تھے تو قبر کھودی گئی تو لاشیں ویسی ہی تہیں جیسے وہ شہید ہوئے تھے گویا کل مرے ہیں ان میں سے ایک شخص کو جب زخم لگا تھا تو اس نے ہاتھ اپنے زخم پر رکھ لیا تھا جب ان کو دفن کر نے لگے تو ہاتھ وہاں سے ہٹایا مگر ہاتھ پر وہیں آ لگا جب ان کی لاشیں کھو دیں تو جنگ احد کو چھیالیس برس گزر چکے تھے۔

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر کے پاس روپیہ آیا بحرین سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منادی کرائی کہ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ دینے کا وعدہ کیا ہو وہ ہمارے پاس آئے جابر بن عبداللہ حضرت ابوبکر نے ان کو تین لپ بھر کر دیئے۔

 

 

کتاب نذروں کے بیان میں

 

               پیدل چلنے کی نذروں کا بیان

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ میری ماں مر گئی اور اس پر ایک نذر واجب تھی اس نے ادا نہیں کی آپ نے فرمایا تو ادا کرو اس کی طرف سے۔

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اپنی پھوپھی سے انہوں نے بیان کیا کہ ان کی دادی نے نذر کی مسجد قبا میں پیدل جانے کی پھر مر گئیں اور اس نذر کو ادا نہیں کیا تو عبداللہ بن عباس نے ان کی بیٹی کو حکم کیا کہ وہ ان کی طرف سے اس نذر کو ادا کریں۔

 

عبد اللہ بن ابی حبیبہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا ایک شخص سے اور میں کمسن تھا کہ اگر کوئی شخص صرف اتنا ہی کہے کہ علی مشئی الی بیت اللہ یعنی میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک اور یہ نہیں کہا کہ میرے اوپر نذر ہے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا، وہ شخص مجھ سے بولا کہ میرے ہاتھ میں یہ ککڑی ہے تجھے دیتا ہوں تو اتنا کہہ دے کہ میرے اوپر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک میں نے کہا ہاں کہتا ہوں تو میں نے کہہ دیا اور میں کم سن تھا پھر ٹھہر کر تھوڑی دیر میں مجھے عقل آئی اور لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تجھ پیدل چلنا بیت اللہ تک واجب ہوا میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان سے پوچھا انہوں نے بھی کہا کہ تجھ پر پیدل چلنا واجب ہوا بیت اللہ تک تو میں پیدل چلا بیت اللہ تک۔

 

 

               جو شخص نذر کرے پیدل چلنے کی بیت اللہ تک اس کا بیان

 

عروہ بن اذینه لیثی سے روایت ہے کہ کہا میں نکلا اپنی دادی کے ساتھ اور اس نے نذر کی تھی بیت اللہ تک پیدل جانے کی، راستے میں تھک گئیں تو اپنے غلام کو بھیجا عبداللہ بن عمر کے پاس مسئلہ پوچھنے کو میں بھی ساتھ گیا اس نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ اب سوار ہو جائے پھر دوبارہ جب آئے جہاں سے سوار ہوئی تھیں وہاں سے پیدل چلے۔

 

کہا مالک نے اور باوجود اس کے ایک ہدیہ بھی اس پر واجب ہے۔

 

سعید بن مسیب اور ابا سلمہ بن عبدالرحمن کہتے تھے اس مسئلہ میں جیسا عبداللہ بن عمر نے کہا۔

 

یحیی بن سعید نے کہا میں نے بیت اللہ تک پیدل چلنے کی نذر کی تھی میری ناف میں درد ہونے لگا میں سوار ہو کر مکے میں آیا اور عطا بن ابی رباح وغیرہ سے پوچھا انہوں نے کہا تجھ کو ہدی لازم ہے جب میں مدینہ آیا وہاں لوگوں سے پوچھا انہوں نے کہا تجھ کو دوبارہ پیدل چلنا چاہئے جہاں سے سوار ہوا تھا تو پیدل چلائیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک جو شخص یہ کہے کہ مجھ پر پیدل چلنا ہے بیت اللہ تک اور چلے پھر عاجز ہو جائے تو سوار ہو جائے پھر دوبارہ جب آئے تو جہاں سے سوار ہوا تھا وہاں سے پیدل چلے اگر چلنے کی طاقت نہ ہو تو جہاں تک ہو سکے چلے پھر سوار ہو جائے اور ہدی میں ایک اونٹ یا گائے دے اگر نہ ہو سکے تو بکری دے۔

 

 

               کعبہ کی طرف پیدل چلنے کا بیان

 

کہا مالک نے اگر مرد یا عورت قسم کھائے کعبہ شریف کو پیدل جانے کی پھر قسم اس کی ٹوٹے اور اس کو پیدل جانا کعبہ کا لازم آئے تو عمرہ میں جب تک سعی سے فارغ ہو پیدل چلے اور حج میں جب تک طواف الزیارۃ سے فارغ ہو پیدل چلے۔

 

حمید بن قیس اور ثور بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو دھوپ میں کھڑا ہوا دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا باعث پوچھا لوگوں نے کہا اس نے نذر کی ہے کہ میں کسی سے بات نہ کروں گا نہ سایہ لوں گا نہ بیٹھوں گا اور روزہ سے رہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو حکم کرو بات کرے، سایہ میں آئے، بیٹھے، روزہ اپنا پورا کرے۔

 

               جو نذریں دوست نہیں جن میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے ان کا بیان

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک عورت عبداللہ بن عباس کے پاس آئی اور بولی میں نے نذر کی اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی ابن عباس نے کہا مت ذبح کر اپنے بیٹے کو اور کفارہ دے اپنی قسم کا ایک شخص بولا ابن عباس سے اس نذر میں کفارہ کیوں ہو گا ابن عباس نے جواب دیا کہ ظہار بھی ایک معصیت ہے اور اس میں اللہ نے کفارہ مقرر کیا۔

 

کہا مالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو یہ فرمایا اگر کوئی نذر کرے اللہ کی معصیت کی تو معصیت نہ کرے مراد اس سے یہ ہے کہ مثلاً آدمی نذر کرے شام یا مصر یا جدہ یا زبدہ میں جانے کی یا اور کسی کام کی جو ثواب نہیں ہے اگر ایسے امورات میں اس کی قسم ٹوٹے مثلاً یوں کہے کہ اگر میں زید سے بات کروں تو مصر جاؤں گا پھر زید سے پات کرے تو اس پر کچھ لازم نہیں آتا بلکہ اس نذر کا پورا کرنا ضرور ہے جس میں ثواب ہو۔

 

 

               لغو قسم کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ فرماتی تھیں کہ لغو قسم وہ ہے جو آدمی باتوں میں کہتا ہے نہیں واللہ ہاں واللہ۔

 

               جن قسموں میں کفارہ واجب نہیں ہوتا ان کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص قسم کھائے اللہ کی پھر کہے انشاء اللہ پھر نہ کرے اس کام کو جس پر قسم کھائی تھی تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔

 

               جن قسموں میں کفارہ واجب ہوتا ہے ان کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص قسم کھائے کسی کام پر پھر اس کے خلاف بہتر معلوم ہو تو کفارہ دے قسم کا اور کرے جو بہتر معلوم ہو۔

 

               قسم کے کفارہ کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص قسم کھائے پھر اس کو مکرر سہ کرر کہے پھر قسم توڑے تو اس پر ایک بردے کا آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنانا لازم آئے گا اگر ایک ہی مرتبہ کہے تو دس مسکینوں کو کھانا دے ہر مسکین کو ایک مد گیہوں کا اگر اس پر قدرت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔

 

سلیمان بن یسار نے کہا کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ جب کفارہ قسم کا دیتے تھے تو ہر ایک مسکین کو ایک مد گیہوں کا چھوٹے مد سے دیا کرتے تھے اور اس کو کافی سمجھتے تھے۔

 

عبد اللہ بن عمر جب اپنی قسم کا کفارہ دیتے تھے تو دس مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہر مسکین کو ایک مد گیہوں کا دیتے تھے اور جب ایک قسم کو چند بار کہتے تھے تو اتنے ہی بردے آزاد کرتے تھے۔

 

               قسم کے بیان میں مختلف احادیث

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ملے عمر بن خطاب سے اور وہ جا رہے تھے سواروں میں اور قسم کھا رہے تھے اپنے باپ کی فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ جل جلالہ منع کرتا ہے تم کو اس بات سے کہ قسم کھاؤ تم اپنے باپو کی جو شخص تم میں سے قسم کھانی چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے۔

 

امام مالک کو پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے قسم مقلب القلوب کی۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ ابو لبابہ کی توبہ جب اللہ نے قبول کی تو انہوں نے کہا یا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا چھوڑ دوں میں اپنی قوم کے گھر کو جس میں میں نے گناہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب رہوں اور اپنے مال میں سے صدقہ نکالوں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تہائی مال تجھ کو اپنے مال میں سے صدقہ نکالنا کافی ہے۔

 

حضرت عائشہ سے سوال ہوا ایک شخص نے کہا مال میرا کعبہ کے دروازے پر وقف ہے انہوں نے کہا اس میں کفارہ قسم کا لازم آئے گا۔

 

 

کتاب مدبر کے بیان میں

 

               مدبرہ کی اولاد کا بیان

 

کہا مالک نے ہر عورت کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہو گی اگر وہ مدبر ہے یا مکاتبہ ہے یا معتقہ الی اجل ہے یا مخدمہ ہے یا معتقۃ البعض ہے یا گرو ہے یا ام ولد ہے۔ ہر ایک کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہو گی وہ آزاد تو وہ آزاد اور وہ لونی ہو جائے گی تو وہ بھی مملوک ہو جائے گی۔

 

کہا مالک نے اگر لونڈی حالت حمل میں مدبر ہوئی تو اس کا بچہ بھی مدبر ہو جائے گا اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنی حاملہ لونڈی کو آزاد کر دیا اور اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ حاملہ ہے تو اس کا بچہ بھی آزاد ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے اسی طرح اگر ایک شخص حاملہ لونڈی کو بیچے تو وہ لونڈی اور اس کے پیٹ کا بچہ مشتری کا ہو گا خواہ مشتری نے اس کی شرط لگائی ہو یا نہ لگائی ہو۔

 

کہا مالک نے اسی طرح بائعے کے لئے درست نہیں کہ لونڈی کو بیچے اور اس کا حمل بیچے کیونکہ اس میں دھوکا ہے شاید بچہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص پیٹ کے بچے کو بیچے اس کی بیع درست نہیں۔

 

 

               مدبر کے احکام کا بیان

 

کہا مالک نے اگر مدبر اپنے مولیٰ سے کہے تو مجھے ابھی آزاد کر دے میں تجھے پچاس دینار قسط وار دیتا ہوں مولیٰ کہے اچھا تو آزاد ہے تو مجھے پچاس دینار پانچ برس میں دے دینا ہر سال دس دینار کے حساب سے مدبر اس پر راضی ہو جائے بعد اس کے دو تین دن میں مولیٰ مر جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا اور پچاس دینار اس پر قرض رہیں گے اور اس کی گواہی جائز ہو جائے گی اور اس کی حرمت اور میراث اور حدود پورے ہو جائیں گے اور مولیٰ کے مر جانے سے ان پچاس دینار میں کچھ کمی نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مدبر کرے پھر مر جائے اور اس کا مال کچھ موجود ہو کچھ غالب ہو جس قدر موجود ہو اس کے ثلث میں سے مدبر کو روک رکھیں گے اور اس کی کمائی کو بھی جمع کرتے جائیں گے یہاں تک کہ جو مال غائب ہے وہ بھی نکل آئے پھر اگر مولیٰ کے کل مال کے ثلث میں سے مدبر آزاد ہو سکے گا تو آزاد ہو جائے اور مدبر کا مال اور کمائی اسی کو ملے گی اور جو ثلث میں سے کل آزاد نہ ہو سکے گا تو ثلث ہی کی مقدار آزاد ہو جائے گا اس کا مال اسی کے پاس رہے گا۔

 

               مدبر کرنے کی وصیت کا بیان

 

کہا مالک نے آزادی کی جتنی وصیتیں ہیں صحت میں ہوں یا مرض میں ان میں رجوع اور تغیر کر سکتا ہے مگر تدبیر میں جب کسی کو مدبر کر دیا اب اس کے فسخ کا اختیار نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے جس لونڈی کے آزاد کرنے کی وصیت کی اور اس کو مدبر نہ کیا تو اس کی اولاد اپنی ماں کے ساتھ آزاد نہ ہو گی اس لیے کہ مولیٰ کا اس وصیت کے بدل ڈالنے کا اختیار تھا نہ ان کی ماں کے لیے آزادی ثابت ہوئی تھی بلکہ یہ ایسا ہے کوئی کہے اگر فلانی لونڈی میرے مرنے تک رہے تو وہ آزاد ہے پھر وہ اس کے مرنے تک رہی تو آزاد ہو جائے گی مگر مولیٰ کو اختیار ہے کہ موت سے پیشتر اس کو یا اس کی اولاد کو بیچے تو آزادی کی وصیت اور تدبیر کی وصیت میں سنت قدیمہ کی رو سے بہت فرق ہے اگر وصیت مثل تدبیر کے ہوتی تو کوئی شخص اپنی وصیت میں تغیر و تبدل کا اختیار نہ رکھتا۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنے چند غلاموں کو صحت کی حالت میں مدبر کرے اور سوا ان کے کچھ مال نہ رکھتا ہو اگر اس نے اس طرح مدبر کیا کہ پہلے ایک کو پھر دوسرے کو تو جس کو پہلے مدبر کیا وہ ثلث مال میں سے آزاد ہو جائے گا پھر دوسرا پھر تیسرا اسی طرح جب تک ثلث مال میں گنجائش ہو اگر سب کو ایک ساتھ مدبر کیا ہے ایک ہی کلام میں تو ہر ایک ثلث آزاد ہو جائے گا جب سب کو بیماری میں مدبر کیا۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور سوا اس کے کچھ مال نہ تھا پھر مولیٰ مر گیا اور مدبر کے پاس مال ہے تو ثلث مدبر آزاد ہو جائے گا اور مال اس کا اسی کے پاس رہے گا۔

 

کہا مالک نے جس مدبر کو مولیٰ مکاتب کر دے پھر مولیٰ مر جائے اور سوا اس کے کچھ مال نہ چھوڑے تو اس کا ایک ثلث آزاد ہو جائے گا اور بدل کتابت میں سے بھی ایک ثلث گھٹ جائے گا اور دو ثلث مدبر کو ادا کرنا ہوں گے۔

 

               لونڈی کو جب مدبر کر دے اس سے صحبت کرنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی لونڈیوں کو مدبر کیا اور اس سے صحبت بھی کرتے تھے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے تو اس سے وطی کر سکتا ہے مگر بیع یا ہبہ نہیں کر سکتا اور اس کی اولاد بھی مثل اپنی ماں کے ہوں گی۔

 

 

               مدبر کے بیچنے کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مدبر کو مولیٰ نہ بیچے اور نہ کسی طرح سے اس کی ملک منتقل کرے اور مولیٰ اگر قرضدار ہو جائے تو اس کے قرض خواہ مدبر کو بیچ نہیں سکتے جب تک اس کا مولیٰ زندہ ہے اگر مر جائے اور قرض دار نہ ہو تو ثلث مال میں کل مدبر آزاد ہو جائے گا کیونکہ اگر کل مال میں سے آزاد ہو تو سراسر مولیٰ کا فائدہ ہے کہ زندگی بھر اس سے خدمت لی پھر مرتے وقت آزادی کو بھی ثواب کما لیا اور ورثاء کا بالکل نقصان ہے اگر سوا اس مدبر کے مولیٰ کا کچھ مال نہ ہو تو ثلث مدبر آزاد ہو جائے گا اور دو ثلث وارثوں کا حق ہو گا اگر مدبر کا مولیٰ مر جائے اور اس قدر مقروض ہو کہ مدبر کی کل قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ تو مدبر کو بیچیں گے کیونکہ مدبر جب آزاد ہوتا ہے کہ ثلث مال میں گنجائش ہو اگر قرضہ غلام کے نصف قیمت کے برابر ہو تو نصف مدبر کو قرضہ ادا کرنے کے لیے بیچیں گے اور نصف جو باقی ہے اس کا ایک ثلث آزاد ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے مدبر کا بیچنا درست نہیں اور نہ کسی کو اس کا خریدنا درست ہے مگر مدبر اپنا آپ مولیٰ سے خرید سکتا ہے یہ جائز ہے اور یہ بھی جائز کہ کوئی شخص مدبر کے مولیٰ کو کچھ مالک دے تاکہ وہ اپنے مدبر کو آزاد کر دے مگر ولاء اس کے مولیٰ کو ملے گی جس نے اس کو مدبر کیا تھا۔

 

کہا مالک نے جو غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو اور یہ شخص ان میں سے اپنے حصے کو مدبر کر دے تو اس کی قیمت لگا دیں گے اگر جس شخص نے مدبر کیا ہے اس نے دوسرے شریک کا بھی حصہ خرید لیا تو کل غلام مدبر ہو جائے گا اگر نہ خریدا تو اس کی تدبیر باطل ہو جائے گی مگی جس صورت میں جس نے مدبر نہیں کیا وہ اپنے شریک سے قیمت لینے پر راضی ہو جائے اور قیمت لے لے تو غلام مدبر ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے اگر نصرانی اپنے نصرانی غلام کو مدبر کرے بعد اس کے غلام مسلمان ہو جائے تو اس کو مولیٰ سے الگ کر دیں گے۔

 

 

               مدبر کسی شخص کو زخمی کرے تو کیا کرنا چاہئے

 

عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا کہ جب مدبر کسی شخص وہ اس سے خدمت لے اپنے زخم کی دیت کے بدلے میں جب اس کی دیت ادا ہو جائے اور مولی نہ مرا ہو تو پھر اپنے مولی کے پاس چلا آئے۔

 

               مدبر کسی شخص کو زخمی کرے تو کیا کرنا چاہئے

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ مدبر اگر کسی شخص کو زخمی کرے پھر اس کا مولیٰ مر جائے اور سوائے اس کے اور کچھ مال نہ ہو تو ثلث مدبر آزاد ہو جائے گا پھر زخم کی دیت کے تین حصے کریں گے ایک حصہ تو مدبر کے اس ثلث پر ڈالا جائے گا جو آزاد ہو گیا اور دو حصے ان دو ثلث پر واقع ہوں گے جو ورثہ کے ہاتھ میں ہیں اب ورثاء کو اختیار ہو گا اگر چاہیں تو ان دو ثلث کو بھی مدبر کے مجروح کے حوالہ کریں اگر چاہیں تو دیت کے دو ثلث ادا کریں اور مدبر کے دو ثلث رکھ چھوڑیں کیونکہ اس زخم کی دیت غلام کی جنایت کے سبب سے ہے اور سید پر دین نہیں ہے تو غلام کے اس قصور سے سید نے جو کام کیا تھا آزادی یا تدبیر باطل نہ ہو گا۔ اگر مولیٰ اس صورت میں قرضدار بھی ہو تو مدبر میں سے موافق دیت کے اور قرضہ کے بیچ کے پہلے دیت کو ادا کریں گے پھر دین کو ادا کریں گے پھر جو کچھ حصہ غلام کا بیچ رہے گا اس کا ثلث آزاد ہو جائے گا اور دو ثلث اس کے وارثوں کو ملیں گے کیونکہ غلام کی جنایت کا تاوان مولیٰ کے قرض پر مقدم ہے اس کی مثال یہ ہے ایک شخص مر گیا اور ایک غلام مدبر چھوڑ گیا جس کی قیمت ڈیڑھ سو دینار ہے اور اس غلام نے ایک شخص کو زخمی کیا تھا جس کے زخم کی دیت پچاس دینار ہے اور سید پر بھی پچاس دینار کا قرض ہے تو پہلے مدبر کی قیمت میں سے دیت کے پچاس دینار ادا کریں گے پھر قرض کے پچاس دینار ادا کریں گے اب جو کچھ بچ رہا اس کا ایک ثلث آزاد ہو جائے گا اور دو ثلث وارثوں کو ملیں گے تو دیت قرض سے مقدم ہے اور جو وصیت ہے مال تو تدبیر جائز نہ ہو گی۔ جب سید پر دین ہو جو ہو بلکہ تدبیر ایک وصیت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (من بعد وصیۃ یوصی بھا او دین) اور دین مقدم ہے وصیت پر اجمالا۔

 

کہا مالک نے اگر مدبر ثلث مال میں سے آزاد ہو سکتا ہے تو آزاد ہو جائے گا اور زخم کی دیت اس پر دین رہے گی اگرچہ یہ پوری دیت ہو بعد آزادی کے اس سے مؤاخذہ کیا جائے گا جب سید پر کچھ دین نہ ہو۔

 

کہا مالک نے مدبر جب کسی شخص کو زخمی کرے اور مولیٰ اس کو مجروح کے حوالے کر دے پر مولیٰ قرضدار ہو کر مر جائے اور سوائے اس کے کچھ مال نہ چھوڑے پھر وارث یہ کہیں کہ ہم مدبر کو مجروح کے حوالے کرتے ہیں اور قرض خواہ یہ کہے کہ مدبر اگر مجھ کو ملے تو دیت سے زیادہ میں قیمت دیتا ہوں اس صورت میں وہ مدبر قرض خواہ کے حوالے کیا جائے گا اور جس قدر قرض خواہ نے دیت سے زیادہ دیا ہے اتنا قرضہ مولیٰ کے ذمے سے ساقط ہو گا اگر دیت سے زیادہ نہ دے تو قرض خواہ اس مدبر کو نہ لے سکے گا۔

 

کہا مالک نے اگر مدبر مالدار ہو اور کسی شخص کو زخمی کرے پھر مولیٰ دیت دینے سے انکار کرے تو جو شخص زخمی ہوا ہے وہ مدبر کا مال اپنی دیت میں لے گا اگر اس کی دیت اسی مال میں پوری ہو گئی تو مدبر اس کے مولیٰ کے حوالے کرے گا ورنہ جس قدر دیت باقی رہ گئی ہے اسی قدر خدمت مدبر سے لے گا۔

 

               ام ولد کسی شخص کو زخم کرے تو کیا کرنا چاہئے

 

کہا مالک نے اگر ام ولد کسی شخص کو زخمی کرے تو دیت اس کے مولیٰ کو دینا ہو گی مگر جس صورت میں دیت ام ولد کی قیمت سے زیادہ ہو تو مولیٰ پر لازم نہیں کہ کہ ام ولد کی قیمت سے زیادہ دے اس لیے کہ اگر کوئی لونڈی یا غلام جنایت کرے تو مولیٰ اس پر اس سے زیادہ لازم نہیں کہ اس لونڈی یا غلام کو صاحب جنایت کے حوالے کرے اگرچہ دیت کتنی ہی اس لونڈی یا غلام کی قیمت سے زیادہ ہو اب یہاں پر ام ولد کا مولیٰ یہ تو نہیں کر سکتا کہ ام ولد صاحب جنایت کے حوالے کرے اس لیے کہ ام ولد کی بیع یا ہبہ اور کسی طور سے نقل ملک درست نہیں بلکہ خلاف ہے سنت قدیمہ کے جب ایسا ہوا تو قیمت ام ولد کی خود ام ولد کے قائم مقام ہے اس سے زیادہ مولیٰ پر لازم نہیں یہ میں نے بہت اچھا سنا مولیٰ پر ام ولد کی قیمت سے زیادہ جنایت میں دینا لازم نہیں۔

 

حضرت عمر بن خطاب یا عثمان بن عفان نے حکم کیا جو عورت دھوکا دے کر کسی سے کہے میں آزاد ہوں پھر نکاح کرے اولاد پیدا ہو بعد اس کے وہ کسی کی لونڈی نکلے تو اپنی اولاد کی مثل غلام لونڈی دے کر اپنی اولاد کو چھڑا سکتا ہے۔

 

 

کتاب بیع کے بیان میں

 

               عربان کے بیان میں

 

عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا عربان کی بیع سے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بائع سے یا جانور والے سے کہہ دے کہ میں تجھے ایک دینار یا کم زیادہ دیتا ہوں اس شرط پر کہ اگر میں اس غلام یا لونڈی کو خرید لوں گا تو وہ دینار اس کی قیمت میں سے سمجھنا یا جانور پر سواری کروں گا تو کرایہ میں سے خیال کرنا ورنہ میں اگر غلام یا لونڈی تجھے پھیر دوں یا جانور پر سوار نہ ہوں تو دینار مفت تیرا مال ہو جائے گا اس کو واپس نہ لوں گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو غلام تجارت کا فن خوب جانتا ہو زبان اچھی بولتا ہو اس کا بدلنا حبشی جاہل غلام سے درست ہے اسی طرح اور اسباب کا جو دوسرے اسباب کی مثل نہ ہو بلکہ اس سے زیادہ کھرا ہو اور ایک غلام کا دو غلاموں کے عوض میں یا کئی غلاموں کے بدلے میں درست ہے جب وہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے کھلا کھلا فرق رکھتی ہوں اور جو ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو دو چیزوں کا ایک کے بدلے میں لینا درست نہیں۔

 

کہا مالک نے سوا کھانے کی چیزوں کے اور اسباب کا بیچنا قبضہ سے پہلے درست ہے مگر اور کسی کے ہاتھ نہ اسی بائع کے ہاتھ بشرطیکہ قیمت دے چکا ہو۔

 

 

کتاب صلوۃ اللیل

 

               صبح کی سنتوں کا بیان

 

ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ لوگوں نے تکبیر سنی تو کھڑے ہو کر پڑھنے لگے سنتوں کو تب نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور فرمایا کیا دو دو نمازیں ایک ساتھ کیا دو دو نمازیں ایک ساتھ اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ صبح کی نماز میں ان دو رکعتوں میں جو پڑھی جاتی قبل نماز صبح کے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر کی فوت ہو گئیں سنتیں فجر کی تو پڑھ لیں انہوں نے بعد آفتاب نکلنے کے۔

 

قاسم بن محمد سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔

 

 

 

 

کتاب صلوۃ الجماعۃ

               نماز جماعت کی فضلیت کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز جماعت کی فضلیت رکھتی ہے اکیلی نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز جماعت کی افضل ہے اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس حصہ۔

 

ابوہریرہ سے روایت کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے قصد کیا کہ حکم کروں لکڑیاں توڑ کر جلا نے کا پھر حکم کروں میں نماز اور اذان ہو پھر حکم کروں ایک شخص کو امامت کا اور وہ امامت کرے پھر جاؤں میں پیچھے سے ان لوگوں کے پاس جو نہیں آئے جماعت میں اور جلادوں ان کے گھروں کو قسم اس ذات کی جسکے قبضہ میں میری جان ہے اگر کسی کو ان میں سے معلوم ہو جائے کہ ایک ہڈی عمدہ گوشت کی یا دو کھر بکری کے اچھے ملیں گے تو ضرور آئیں عشاء کی نماز میں۔

 

بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن ثابت نے کہا افضل نماز وہ ہے جو گھروں میں پڑھی جائے سوائے فرض نماز کے۔

 

 

               عشاء اور صبح کی جماعت کی فضلیت

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمارے اور منافقوں کے درمیاں میں یہ فرق ہے کہ وہ صبح اور عشاء کی جماعت میں نہیں آ سکتے یا مثل اس کے کچھ کہا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص جا رہا تھا راہ میں اس نے ایک کانٹا پایا تو اس کو ہٹا دیا پس راضی ہو گیا اللہ تعالی اس سے تو بخش دیا اس کو اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہید پانچ قسم کے لوگ ہیں جو طاعون سے مر جائے یا دستوں کی راہ میں ڈوب جائے یا مکان سے گر کر مر جائے یا اللہ جل جلالہ کی راہ میں شہید ہو جائے۔

 

ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے نہ پایا سلیمان بن ابی حثمہ کو صبح کی نماز میں اور عمر بن خطاب گئے بازار کو اور گھر سلیمان کا بازار اور مسجد کے بیچ میں سو ملی ان کو شفا ماں سلیمان کی تو پوچھا حضرت عمر نے شفا سے کہ میں نے نہیں دیکھا سلیمان کو صبح کی نماز میں تو کہا شفا نے کہ وہ رات کو نماز پڑھتے رہے اس لئے ان کی آنکھیں لگ گئیں تب فرمایا عمر نے البتہ مجھے صبح کی نماز میں حاضر ہونا رات کی عبادت سے بہتر معلوم ہوتا ہے۔

 

عبدالر حمن بن ابی عمرہ انصاری سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان آئے مسجد میں نماز عشاء کے لئے تو دیکھا کہ لوگ کم ہیں تو لیٹ رہے مسجد میں اخیر میں انتظار کر تے تھے لوگوں کے جمع ہونے کا پس آئے بن ابی عمرہ اور بیٹھے عثمان کے پاس پس پوچھا عثمان نے کہ کون ہو تم بیان کیا ان سے ابن ابی عمرہ نے نام اپنا پھر پوچھا عثمان نے کہ کتنا قرآن تم کو یاد ہے تو بیان کیا انہوں نے پھر فرمایا حضرت عثمان نے ان سے جو شخص حاضر ہو صبح کی جماعت میں تو گویا اس نے ساری رات عبادت کی۔

 

 

               امام کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھنے کا بیان

 

محجن بن ابی محجن سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے تھے رسول اللہ کے پاس اتنے میں اذان ہوئی نماز کی تو اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور نماز پڑھ کر آئے تو دیکھا کہ محجن وہیں بیٹھے ہیں تب فرمایا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیوں تم نے نماز نہیں پڑھی سب لوگوں کے ساتھ کیا تم مسلمان نہیں ہو کہا محجن نے کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بلکہ میں پڑھ چکا تھا نماز اپنے گھر میں تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تو آئے مسجد میں تو نماز پڑھ لوگوں کے ساتھ اگرچہ تو پڑھ چکا ہو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے کہ میں نماز پڑھ لیتا ہوں اپنے گھر میں پھر پاتا ہوں جماعت کو ساتھ امام کے کیا پھر پڑھوں ساتھ امام کے کہا عبداللہ بن عمر نے ہاں کہا اس شخص نے پس دو نمازوں میں کو نسی نماز کو فرض سمجھوں اور کس کو نفل تو جواب دیا عبداللہ بن عمر نے کہ تجھ کو اس سے کیا مطلب یہ تو اللہ جل جلالہ کا اختیار ہے جس کو چاہے فرض کر دے جس کو چاہے نفل کر دے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا سعید بن مسیب سے میں نماز پڑھ لیتا ہوں اپنے گھر میں پھر آتا ہوں مسجد میں سو پاتا ہوں امام کو نماز پڑھتا ہوا کیا پھر پڑھوں اس کے ساتھ نماز کہا سعید نے ہاں تو کہا اس شخص نے پھر کس نماز کو فرض سمجھوں کہا سعید نے تو فرض اور نفل کر سکتا ہے یہ کام اللہ جل جلالہ کا ہے۔

 

ایک شخص سے جو بن اسد کے قبیلہ سے تھا روایت ہے کہ اس نے پوچھا ابو ایوب انصاری سے تو کہا کہ میں نماز پڑھ لیتا ہوں گھر میں پھر آتا ہوں مسجد میں تو پاتا ہوں امام کو نماز پڑھتے ہوئے کیا نماز پڑھ لوں دوبارہ ساتھ امام کے کہا ابو ایوب نے ہاں جو ایسا کرے گا اس کو ثواب جماعت کو ملے گا یا مثل جماعت کے یا اس کو لشکر اسلام کے ثواب کا ایک حصہ ملے گا یعنی غازی کا ثواب پائے گا اس کو مزدلفہ میں رہنے کا ثواب ملے گا یا اس کو دوہرا ثواب ملے گا ایک اکیلے نماز پڑھنے کا دوسرا جماعت سے نماز پڑھنے کا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص نماز پڑھ لے مغرب یا صبح کی پھر پائے ان دونوں جماعتوں کو تو دوبارہ نہ پڑھے۔

 

               جماعت سے نماز پڑھنے کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب نماز پڑھائے کوئی تم میں سے تو چاہیے کہ تخفیف کرے کیونکہ جماعت میں بیمار اور ضعیف اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب اکیلے پڑھے تو جتنا چاہے طول کرے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ میں کھڑا ہوا نماز میں ساتھ عبداللہ بن عمر کے اور کوئی نہ تھا سوائے میرے تو پیچھے سے پکڑ کے عبداللہ نے مجھے اپنی داہنی طرف برابر کھڑا کیا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص امامت کرتا تھا لوگوں کی عقیق میں تو منع کروا بھیجا امامت سے اس کو عمر بن عبدالعزیز نے۔

 

               امام کا بیٹھ کر نماز پڑھنا

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سوار ہوئے ایک گھوڑے پر پس گر پڑے اس پر سے تو چھل گیا داہنی جانب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پس نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھ کر اور نماز پڑھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے بیٹھ کر پھر جب فارغ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے تو فرمایا کہ امام اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور جب امام کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب امام رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب امام سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیماری سے بیٹھ کر اور لوگوں نے کھڑے ہو کر پڑھنا شروع کیا تب اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے کہ بیٹھ جاؤ پھر جب فارغ ہوئے نماز سے اور فرمایا امام اس لئے مقرر ہوا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب امام رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب سر اٹھائے تم بھی سر اٹھاؤ اور جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باہر نکلے مرض موت میں سو آئے مسجد میں اور پایا ابوبکر کو نماز پڑھا رہے تھے کھڑے ہو کر تو پیچھے ہٹنا چاہا حضرت ابوبکر نے پس اشارہ کیا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی جگہ پر رہو اور بیٹھ گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم برابر پہلو میں ابوبکر کے تو ابوبکر حضرت کی نماز کی پیروی کرتے تھے اور لوگ ابوبکر کی پیروی کر تے تھے۔

 

               کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی فضلیت کا بیان بیٹھ کر پڑھنے سے

 

عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹھ کر نماز پڑھنے میں آدھا ثواب ہے بہ نسبت کھڑے ہو کر پڑھنے کے۔

 

عبد اللہ بن عمر العاص سے روایت ہے کہ کہ جب آئے ہم مدینہ میں تو بخار وبائی بہت سخت ہو گیا ہم کو پس آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے پاس اور وہ نفل نمازیں بیٹھ کر پڑھ رہے تھے سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو بیٹھ کر پڑھے گا اس کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے کا آدھا ثواب ملے گا

 

               نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان

 

حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ نہیں دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نفل بیٹھ کر پڑھتے ہوئے کبھی مگر وفات سے ایک سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نفل بیٹھ کر پڑھتے اور سورت کو اس قدر خوبی سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ بڑی سے بڑی ہو جاتی۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کبھی نہیں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تہجد کی نماز بیٹھ کر پڑھتے ہوئے مگر جب سن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا زیادہ ہو گیا تو بیٹھ کر پڑھنے لگے پھر بھی تیس یا چالیس آیتیں رکوع سے پہلے کھڑے ہو کر پڑھ لیتے پھر رکوع کرتے۔

 

 

کتاب القرآن

 

               بعد صبح اور عصر کے نماز پڑھنے کی ممانعت

 

عبد اللہ صنابحی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب آفتاب نکلتا ہے تو شیطان اس کے نزدیک ہوتا ہے اور جب بلند ہو جاتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے پھر جب سر پر آ جاتا ہے نزدیک ہو جاتا ہے پھر جب ڈھل جاتا ہے تو الگ ہو جاتا ہے پھر جب ڈوبنے لگتا ہے تو نزدیک ہو جاتا ہے پھر جب ڈوب جاتا ہے الگ ہو جاتا ہے اور منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان ساعتوں میں نماز پڑھنے سے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب کنارہ آفتاب کا نکلے تو نماز میں تو قف کرو یہاں تک کہ پورا آفتاب نکل آئے اور جب کنارہ آفتاب کا ڈوب جائے تو توقف کرو یہاں تک کہ پورا آفتاب ڈوب جائے۔

 

علاء بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ہم گئے انس بن مالک کے پاس بعد ظہر کے تو کھڑے ہوئے وہ نماز عصر کے واسطے پس جب فارغ ہوئے نماز سے بیان کیا ہم نے یا انہوں نے نماز جلد پڑھنے کا حال تو کہا انس نے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے یہ نماز منافق کی ہے کہ بیٹھے رہتا ہیں جب آفتاب زرد ہو جاتا ہے یا اس کے اوپر ہوتا ہے تو کھڑے ہو کر چار ٹھونگے لگا لیتا ہے اس میں، نہیں یاد کرتا اللہ کو مگر تھوڑا۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کوئی تم میں سے قصد کر کے نماز نہ پڑھے آفتاب کے طلوع اور غروب کے وقت۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا نماز سے بعد عصر کے یہاں تک کہ ڈوب جائے آفتاب اور بعد صبح کے یہاں تک کہ نکل آئے آفتاب۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب فرماتے تھے قصد نہ کرو نماز کا آفتاب کے طلوع اور غروب کے وقت کیونکہ شیطان کے دو جانب سر کے ساتھ نکلتے ہیں آفتاب کے اور ساتھ ہی ڈوبتے ہیں اور عمر مارتے تھے لوگوں کو اس وقت نماز پڑھنے پر۔

 

سائب بن یزید نے دیکھا حضرت عمر نے مارا منکدر کو اس لئے کہ انہوں نے نماز پڑھی تھی بعد عصر کے۔

 

 

کتاب الجنائز

 

               مردہ کو غسل دینے کا بیان

 

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غسل دیے گئے ایک قمیص میں۔

 

ام عطیہ انصاریہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی نے انتقال کیا تو آئے ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور کہا کہ غسل دو ان کو تین بار یا پانچ بار پانی اور بیری کے پتوں سے اور اخیر میں کافور بھی شامل کرو اور جب تم غسل سے فارغ ہو تو مجھے اطلاع دو کہا ام عطیہ نے جب غسل سے ہم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا تہہ بند دیا اور کہا کہ یہ ان کے بدن پر لپیٹ دو۔

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ اسما بنت عمیس نے اپنے شوہر ابوبکر صدیق کو غسل دیا جب ان کی وفات ہوئی پھر نکل کر مہاجرین سے پوچھا کہ میں روزے سے ہوں اور سردی بہت ہے کیا مجھ پر بھی غسل لازم ہے بولے نہیں۔

 

               مردے کو کفن پہنانے کا بیان

 

ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کفن دیے گئے تین سفید کپڑوں میں جو سحول کے بنے ہوئے تھے نہ ان میں قمیص تھی نہ عمامہ۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کفن دیے گئے تین سفید کپڑوں میں جو سحول کے بنے ہوئے تھے۔

 

یحیی بن سعید نے کہا مجھے پہنچا کہ ابوبکر صدیق نے حضرت عائشہ صدیقہ سے کہا اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کتنے کپڑوں میں کفن دیے گئے تھے حضرت عائشہ نے کہا سفید تین کپڑوں میں سحول کے، تب ابوبکر نے کہا کہ یہ کپڑا جو میں پہنے ہوں اس میں گیرو یا زعفران لگا ہوا ہے اس کو دھو کر اور دو کپڑے لے کر مجھے کفن دے دینا حضرت عائشہ بولیں یہ کیا بات ہے ابوبکر بولے کہ مردے سے زیادہ زندے کو کپڑے کی حاجت ہے کفن تو پیپ اور خون کے لئے ہے۔

 

عمر وبن عاص سے روایت ہے کہ مردہ قمیص پہنایا جائے اور تہ بند پہنایا جائے پھر تیسرے کپڑے میں لپیٹ دیا جائے اگر ایک ہی کپڑا ہو تو اس میں کفن دیا جائے۔

 

               جنازہ کے آگے چلنے کا بیان

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابوبکر اور عمر بن خطاب اور تمام خلفاء جنازے کے آگے چلتے تھے اور عبداللہ بن عمر بھی ایسا کرتے تھے۔

 

ربیعہ بن عبداللہ بن الہدیر سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا حضرت عمر کو آگے چلتے تھے زینب بن جحش کے جنازے میں۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے باپ عروہ کو ہمیشہ جنازہ کے آگے چلتے دیکھا یہاں تک کہ وہ بقیع میں آ جاتے اور بیٹھے رہتے یہاں تک کہ جنازہ آ کر گزر جاتا۔

 

ابن شہاب نے کہا جنازہ کے پیچھے چلنا خطا ہے یعنی خلاف سنت ہے۔

 

               جنازے کے پیچھے آگ لے جانے کی ممانعت

 

اسما بن ابی ابکر نے کہا اپنے گھر والوں سے میں جب مر جاؤں تو میرے کپڑوں کو خوشبو سے بسانا پھر میرے بدن پر خوشبو لگانا لیکن میرے کفن پر نہ چھڑکنا اور میرے جنازہ کے ساتھ آگ نہ رکھنا۔

 

ابوہریرہ نے منع کیا کہ ان کے جنازے کے ساتھ آگ رکھی جائے۔

 

               جنازے کی تکبیرات کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جس دن نجاشی کا انتقال ہوا اسی روز آپ نے لوگوں کو خبر دی اس کی موت کی اور نکلے مصلے کی طرف اور صف کھڑی کر کے نماز پڑھی جنازے کی اور تکبیریں کہیں چار۔

 

ابوامامہ سے روایت ہے کہ ایک عورت مسکین بیمار ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ یہ تھا کہ بیمار پرسی کرتے تھے مسکینوں کی اور ان کا حال پوچھتے تھے سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مر جائے یہ عورت تو مجھے خبر کرنا سو رات کو اس کا جنازہ نکلا اور صحابہ نے ناپسند کیا کہ جگائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب صبح ہوئی تو اس کی کیفیت معلوم ہوئی فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے تو تم سے کہہ دیا تھا کہ مجھے خبر کر دینا صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جگانا اور رات کو باہر نکالنا نا گوار ہوا سو نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صف باندھی اس کی قبر پر اور چار تکبیریں کہیں

 

امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ جس شخص کو بعض تکبیریں جنازہ کی ملیں اور بعض نہ ملیں وہ کیا کرے کہا جس قدر نہ ملیں ان کی قضا کر لے۔

 

               جنازہ کی دعا کا بیان

 

ابو سعید مقبری نے پوچھا ابوہریرہ سے کس طرح تم نماز پڑھتے ہو جنازہ کی کہا ابوہریرہ نے قسم ہے اللہ جل جلالہ کی بقا کی میں تمہیں خبر دوں گا میں جنازہ کے ساتھ ہوتا ہوں اس کے گھر سے پھر جب رکھا جاتا ہے تو میں تکبیر کہہ کر اللہ کی تعریف کرتا ہوں اور پیغمبر پر اس کے درود بھیجتا ہوں پھر کہتا ہوں یا اللہ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا اور تیری لونڈی کا بیٹا اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ کوئی معبود سچا تیرے سوا نہیں ہے اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تیرے بندے اور تیرے پیغمبر ہیں اور تو اس کا حال خوب جانتا ہے اے پروردگار اگر وہ نیک ہو تو زیادہ کر اجر اس کا اور جو گناہگار ہو تو درگزر کر اس کے گناہوں سے اے پروردگار مت محروم کر ہم کو اس کے ثواب سے اور مت فتنہ میں ڈال ہم کو بعد اس کے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے نماز پڑھی میں نے ابوہریرہ کے پیچھے ایک لڑکے پر جو بے گناہ تھا تو سنا میں نے ان سے کہتے تھے اے اللہ بچا اس کو قبر کے عذاب سے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر قرآن نہیں پڑھتے تھے جنازہ کی نماز میں۔

 

               نماز جنازہ بعد نماز صبح اور نماز عصر کے پڑھنے کا بیان

 

محمد بن ابی حرملہ سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ مر گئیں اور اس زمانے میں طارق حاکم تھے مدینہ کے تو لایا گیا جنازہ ان کا بعد نماز صبح کے اور رکھا گیا بقیع میں اور طارق نماز پڑھا کرتے تھے صبح کی اندھیرے میں ابی حرمہ نے کہا میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا وہ کہتے تھے زینب کے لوگوں سے یا تو تم جنازہ کی نماز اب پڑھ لو یا رہنے دو یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو جائے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا نماز جنازہ کی پڑھی جائے بعد عصر کے اور بعد صبح کے جب یہ دونوں نمازیں اپنے وقت میں پڑھی جائیں۔

 

 

مختلف مسائل

 

               باب نماز کے وقتوں کا بیان

 

محمد بن مسلم بن شہاب زہری سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ وقت نے ایک روز دیر کی عصر کی نماز میں تو گئے ان کے پاس عروہ بن زبیر اور خبر دی ان کو کہ مغیرہ بن شعبہ نے ایک روز دیر کی تھی عصر کی نماز میں جب وہ حاکم تھے کوفہ کے پس گئے ان کے پاس ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری اور کہا کہ کیا ہے یہ دیر نماز میں اے مغیرہ کیا تم کو نہیں معلوم کہ جبرائیل اترے آسمان سے اور نماز پڑھی انہوں نے (ظہر کی) تو نماز پڑھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (عصر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (مغرب کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (عشاء کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر نماز پڑھی جبرائیل نے (فجر کی) تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ ہی ان کے پھر کہا جبرائیل نے پیغمبر خدا سے ایسا ہی تم کو حکم ہوا ہے۔

 

تب کہا عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہ سمجھو تم جو روایت کرتے ہو کیا جبرائیل نے قائم کیے نماز کے وقت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے عروہ نے کہا کہ ابو مسعود بن عقبہ بن عمرو انصاری کے بیٹے بشیر ایسا ہی روایت کرتے تھے اپنے باپ سے اور مجھ سے روایت کیا حضرت عائشہ نے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے تھے عصر کی اور دھوپ حجرے کے اندر ہوتی تھی دیواروں پر چڑھنے سے پہلے۔

 

روایت ہے عطا بن یسار سے ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز صبح کا وقت تو چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب دوسرا روز ہوا نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اندھیرے منہ صبح صادق نکلتے ہی پھر تیسرے روز نماز پڑھی فجر کی روشنی میں اور فرمایا کہ کہاں ہے وہ شخص جس نے نماز فجر کا وقت دریافت کیا تھا اور وہ شخص بول اٹھا میں ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز فجر کا وقت ان دونوں کے بیچ ہے۔

 

ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے فجر کی نماز پھر عورتیں نماز سے فارغ ہو کر پلٹتی تھیں چادریں لپیٹی ہوئیں اور پہچانی نہ جاتی تھیں اندھیرے سے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص نے پا لی ایک رکعت نماز صبح کی آفتاب نکلنے سے پہلے تو پا چکا وہ صبح کو اور جس شخص نے پا لی ایک رکعت نماز عصر کی آفتاب ڈوبنے سے پہلے تو پا چکا وہ نماز عصر کو۔

 

نافع عبداللہ بن عمر کے مولی (غلام آزاد) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب نے اپنے عالموں کو لکھا کہ تمہاری سب خدمتوں میں نماز بہت ضروری اور اہم ہے میرے نزدیک جس نے نماز کے مسائل اور احکام یاد کئے اور وقت پر پڑھی تو اس نے اپنا دین محفوظ رکھا جس نے نماز کو تلف کیا تو اور خدمتیں زیادہ تلف کرے گا پھر لکھا نماز پڑھو ظہر کی جب آفتاب ڈھل جائے اور سایہ آدمی کے ایک ہاتھ برابر ہو یہاں تک کہ سایہ آدمی کا اس کے برابر ہو جائے اور نماز پڑھو عصر کی جب تک کہ آفتاب بلند اور سفید رہے ایسا کہ بعد نماز عصر کے اونٹ کی سواری پر چھ میل یا نو میل قبل غروب کے آدمی پہنچ سکے اور نماز پڑھو مغرب کی جب سورج ڈوب جائے اور عشاء کی نماز جب شفق غائب ہو جائے تہائی رات تک جو شخص سو جائے عشا کی نماز سے پہلے تو خدا کرے نہ لگے آنکھ اس کی نہ لگے آنکھ اس کی نہ لگے آنکھ اس کی اور نماز پڑھو صبح کی اور تارے صاف گھنے ہوئے ہوں۔

 

مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ نماز پڑھ ظہر کی جب سورج ڈھل جائے اور نماز پڑھ عصر کی اور آفتاب سفید صاف ہو زرد نہ ہونے پائے اور نماز پڑھ مغرب کی جب سورج ڈوبے اور دیر کر عشاء کی نماز میں جہاں تک تو جاگ سکے اور نماز پڑھ صبح کی اور تارے صاف گھنے ہوں اور نماز پڑھ فجر کی نماز دو سورتیں لمبی مفصل سے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ نماز پڑھ عصر کی اور آفتاب سفید ہو اتنا دن ہو کہ اونٹ کا سوار بعد نماز عصر کے نو میل جا سکے اور پڑھ عشاء کی نماز تہائی رات تک آخر درجہ آدھی رات تک اور غافل مت ہو۔

 

عبد اللہ بن رافع جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بی بی ام سلمہ کے مولی ہیں انہوں نے پوچھا ابوہریرہ سے نماز کا وقت، کہا ابوہریرہ نے میں بتاؤں تجھ کو نماز پڑھ ظہر کی جب سایہ تیرا تیرے برابر ہو جائے اور عصر کی جب سایہ تیرا تجھ سے دوگنا ہو اور مغرب کی جب آفتاب ڈوب جائے اور عشاء کی تہائی رات کی اور صبح کی اندھیرے منہ۔

 

انس بن مالک کہتے ہیں کہ ہم نماز عصر کی پڑھتے تھے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ میں پھر ہم میں سے کوئی جاتا بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں تو پاتا ان کو عصر کی نماز میں۔

 

انس بن مالک کہتے ہیں کہ ہم نماز عصر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پڑھتے تھے پھر ہم میں سے کوئی جانے والا قبا کو جاتا تھا پھر وہاں کے لوگوں کو ملتا تھا اور آفتاب بلند رہتا تھا۔

 

قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق کہتے ہیں کہ میں نے تو صحابہ کو ظہر ٹھنڈے وقت پڑھتے دیکھا۔

 

               باب جمعہ کے وقت کا بیان

 

مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہا انہوں نے میں دیکھتا تھا ایک بوریا عقیل بن ابی طالب کا ڈالا جاتا تھا جمعہ کے دن مسجد نبوی کے پچھم کی طرف کی دیوار کے تلے تو جب سارے بوریے پر دیوار کا سایہ آ جاتا عمر بن خطاب نکلتے اور نماز پڑھتے جمعہ کی مالک نے کہا کہ ہم بعد نماز کے آ کر چاشت کے عوض سو رہا کرتے۔

 

عبد اللہ بن اسید بن عمرو بن قیس سے روایت ہے کہ عثمان نے نماز پڑھی جمعہ کی مدینہ میں اور عصر کی ملل میں

 

               بیان اس شخص کا جس نے ایک رکعت پائی

 

ابوہریرہ نے روایت کیا ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس نے ایک رکعت نماز میں سے پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی۔

 

عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جب قضا ہو جائے رکوع تیرا تو قضا ہو گیا سجدہ تیرا۔

 

امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے پہنچا عبداللہ بن عمر اور زید بن ثابت سے کہ وہ دونوں فرماتے تھے جس نے رکوع پایا تو اس نے سجدہ پا لیا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے وہ فرماتے تھے کہ جس شخص نے رکوع پا لیا تو اس نے سجدہ پا لیا یعنی رکعت پائی اور جس کو سورہ فاتحہ پڑھنا نہ ملا تو اس کی بہت خیر جاتی رہی۔

 

               باب ماجاء فی دلوک الشمس وغسق اللیل

 

روایت ہے نافع سے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے دلوک الشمس سے آفتاب کا ڈھلنا مراد ہے۔

 

عبد اللہ بن عباس کہتے تھے کہ دلوک الشمس جب ہوتا ہے کہ سایہ پلٹے پچھم سے پورب کو اور غسق اللیل رات کا گزرنا اور اندھیر اس کا۔

 

               وقتوں کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص کی قضاء ہو جائے عصر کی نماز تو گویا لٹ گیا گھر بار اس کا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب عصر کی نماز پڑھ کر لوٹے ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو عصر کی نماز میں نہ تھا پوچھا آپ نے، کس وجہ سے تم رک گئے جماعت میں آنے سے؟ اس نے کچھ عذر بیان کیا تب فرمایا آپ نے طففت کہا امام مالک طففت تطفیف سے ہے عرب لوگ کہا کرتے ہیں لکل شییء وفاء وتطفیف

 

یحیی بن سعید کہتے تھے کہ نمازی کبھی نماز پڑھتا ہے اور وقت جاتا نہیں رہتا لیکن جس قدر وقت گزر گیا وہ اچھا اور بہتر تھا اس کے گھر بار سے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر بے ہوش ہو گئے ان کی عقل جاتی رہی پھر انہوں نے نماز کی قضا نہ پڑھی

 

               نماز سے سو جانے کا بیان

 

سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب لوٹے جنگ خیبر سے رات کو چلے جب اخیر رات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اتر پڑے اور بلال سے فرمایا صبح کی نماز کا تم خیال رکھو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو رہے اور جب تک خدا کو منظور تھا بلال جاگتے رہے پھر بلال نے تکیہ لگایا اپنے اونٹ پر اور منہ اپنا صبح کی طرف کئے رہے اور لگ گئی آنکھ بلال کی تو نہ جاگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور نہ بلال اور نہ کوئی شتر سوار یہاں تک کہ پڑنے لگی ان پر تیزی دھوپ کی تب چونک اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور فرمایا کیا ہے یہ اے بلال کہا بلال نے زور کیا مجھ پر اس چیز نے جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر زور کیا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوچ کرو تو لادے لوگوں نے کجاوے اپنے۔ تھوڑی دور چلے تھے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال کو تکبیر کہنے کا تو تکبیر کہی بلال نے نماز کی پھر نماز پڑھی رسول اللہ نے فجر کی۔ بعد اس کے فرمایا جب نماز پڑھ چکے جو شخص بھول جائے نماز کو تو چاہیے کہ پڑھ لے اس کو جب یاد آئے کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے قائم کر نماز کو جس وقت یاد کرے مجھ کو۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رات کو اترے راہ میں مکہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مقرر کیا بلال کو اس پر کہ جگا دیں ان کو واسطے نماز کے تو سو گئے بلال اور سو گئے لوگ پھر جاگے اور سورج نکل آیا تھا اور گھبرائے لوگ تو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوار ہونے کا تاکہ نکل جائیں اس وادی سے اور فرمایا کہ اس وادی میں شیطان ہے پس سوار ہوئے اور نکل گئے اس وادی سے تب حکم کیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اترنے کا اور وضو کرنے کا اور حکم کیا بلال کو اذان کا یا تکبیر کا پھر متوجہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کی طرف اور دیکھا ان کی گھبراہٹ کو تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو۔ بے شک روک رکھا تھا اللہ تعالی نے ہماری جانوں کو اور اگر چاہتا تو وہ پھیر دیتا ہماری جانوں کو سوا اس وقت کے اور کسی وقت تو جب سو جائے کوئی تم میں سے نماز سے یا بھول جائے اس کی پھر گھبرا کے اٹھے نماز کے لئے تو چاہئے کہ پڑھ لے اس کو جیسے پڑھتا ہے اس کو وقت پر پھر شیطان آیا بلال کے پاس اور وہ کھڑے ہوئے نماز پڑھتے تھے تو لٹا دیا ان کو پھر لگا تھپکنے ان کو جیسے تھپکتے ہیں بچے کو یہاں تک کہ سو رہے وہ پھر ہلایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال کو پس بیان کیا بلال نے اسی طرح جیسے فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حال ان کو پس بیان کیا بلال نے اسی طرح جیسے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حال ان کا ابوبکر سے تو کہا ابوبکر نے میں گواہی دیتا ہوں اس امر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔

 

 

               ٹھیک دوپہر کے وقت نماز کی ممانعت کا بیان

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیزی گرمی کی جہنم کے جوش سے ہے تو جب تیز ہو گرمی تاخیر کرو نماز میں ٹھنڈک تک اور فرمایا آپ نے شکوہ کیا آگ نے اپنے پروردگار سے اور کہا اے پروردگار میں اپنے آپ کو کھانے لگی تو اذن دیا اس کو پروردگار نے دو سانس کا ہر سانس لینے کا جاڑے میں اور سانس نکالنے کا گرمی میں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تیز گرمی ہو تو تاخیر کرو نماز کی ٹھنڈک تک اس لئے کہ تیزی گرمی کی جہنم کے جوش سے ہے اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ آگ نے گلہ کیا پروردگار سے تو اذن دیا پروردگار نے اس کو دو سانسوں کا ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تیز گرمی ہو تو تاخیر کرو نماز کی ٹھنڈک تک کیونکہ تیزی گرمی کی جہنم کے جوش سے ہے۔

 

               مسجد میں لہسن کھا کر جانے کی ممانعت کا بیان اور نماز میں منہ ڈھانپنے کی ممانعت کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص نے کھایا اس درخت میں سے (یعنی لہسن میں سے) تو نزدیک نہ ہو ہماری مسجدوں کے تاکہ ہم کو تکلیف دے اس کی بو سے۔

 

عبدالرحمن بن مجبر سے روایت ہے کہ سالم بن عبداللہ بن عمر جب کسی کو دیکھتے تھے کہ منہ اپنا ڈھانپے ہے نماز میں کھینچ لیتے تھے کپڑا زور سے یہاں تک کہ کھل جاتا اس کا منہ۔

 

 

کتاب الطہارۃ

 

               وضو کی ترکیب کا بیان

 

عمرو بن یحیی المازنی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن زید سے جو دادا ہیں عمرو بن یحیی کے اور اصحاب میں سے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کیا تم مجھ کو دکھا سکتے ہو کس طرح وضو کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کہا انہوں نے ہاں تو منگایا انہوں نے پانی وضو کا پھر ڈالا اس کو اپنے ہاتھ پر اور دھویا دونوں ہاتھوں کو دو دو بار پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین بار پھر دونوں ہاتھ دھوئے کہنیوں تک دو دو بار پھر مسح کیا سر کا دونوں ہاتھوں سے آگے سے لے گئے اور پیچھے سے لائے یعنی دونوں ہاتھوں سے مسح شروع کیا پیشانی سے گدی تک پھر لائے گدی سے پیشانی تک پھر دونوں پیر دھوئے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب وضو کرے تم میں سے کوئی تو پانی ڈال کر چھینکے اور ڈھیلے کے واسطے استنجاء لے تو طاق لے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص وضو کرے تو ناک چھنکے اور جو ڈھیلے لے تو طاق لے۔

 

کہا یحیی نے سنا میں نے مالک سے کہتے تھے اگر کوئی شخص ایک ہی چلو لے کر کلی کرے اور ناک میں بھی پانی ڈالے تو کچھ حرج نہیں ہے۔

 

امام مالک روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو پہنچا کہ عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق گئے ام المومنین کے پاس جس دن مرے سعد بن ابی وقاص تو منگایا عبدالرحمن نے پانی وضو کا پس کہا عائشہ نے پورا کرو وضو کو کیونکہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے خرابی ہے ایڑیوں کو آگ سے۔

 

عبدالرحمن بن عثمان سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب کہتے تھے کہ پانی سے دھوئے اپنے ستر کو۔

 

کہا یحیٰ نے پوچھا گیا امام مالک سے اس شخص کے بارے میں جس نے وضو کیا تو بھول کر قبل کلی کرنے کے منہ دھو لیا یا پہلے ہاتھ دھو لئے اور منہ نہ دھویا کہا امام مالک نے جس شخص نے منہ دھو لیا کلی کرنے سے پیشتر تو وہ کلی کر لے اور دوبارہ منہ نہ دھوئے لیکن جس نے ہاتھ دھو لئے منہ دھونے سے پیشتر تو اس کو چاہئے کہ منہ دھو کر ہاتھوں کو دوبارہ دھوئے تاکہ دھونا ہاتھ کا بعد دھونے منہ کے ہو جائے جب تک وضو کرنے والا اپنی جگہ میں ہے یا قریب اس کے۔

 

کہا یحیی نے پوچھے گئے امام مالک اس شخص سے جو وضو میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا اور نماز پڑھ لی کہا مالک نے ہو گئ نماز اس کی دوبارہ پھر نماز پڑھنا لازم نہیں لیکن آئندہ کی نماز کے واسطے کلی کر لے یا ناک میں پانی ڈال لے۔

 

               جو کوئی سو کر نماز کے لئے اٹھے اس کے وضو کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب سو کر اٹھے کوئی تم میں سے تو پہلے اپنے ہاتھ دھو کر پانی میں ہاتھ ڈالے اس لئے کہ معلوم نہیں کہاں  رہی ہتھیلی اس کی۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ کہا عمر بن خطاب نے جو شخص تم میں سے سو جائے لیٹ کر تو وضو کرے۔

 

زید بن اسلم نے کہا یہ جو فرمایا اللہ جل جلالہ نے جب اٹھو تم نماز کے لئے تو دھوؤ منہ اپنا اور ہاتھ اپنے کہنیوں تک اور مسح کرو سروں پر اور دھوؤ پاؤں اپنے ٹخنوں تک اس سے یہ غرض ہے کہ جب اٹھو نماز کے لئے سو کر۔

 

ابن عمر سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سو جاتے تھے پھر نماز پڑھتے تھے اور وضو نہیں کرتے تھے۔

 

               وضو کے پانی کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تو کہا اس نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سوار ہوتے ہیں سمندر میں اور اپنے ساتھ پانی تھوڑا رکھتے ہیں اگر اسی سے وضو کریں تو پیاسے رہیں کیا سمندر کے پانی سے ہم وضو کریں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پاک ہے پانی اس کا حلال ہے مردہ اس کا۔

 

کبشہ بنت کعب سے روایت ہے کہ ابو قتادہ انصاری گئے ان کے پاس تو رکھا کبشہ نے ایک برتن میں پانی ان کے وضو کے لئے پس آئی بلی اس میں سے پینے کو تو جھکا دیا برتن کو ابو قتادہ نے یہاں تک کہ پی لیا بلی نے پانی۔ کہا کبشہ نے دیکھ لیا ابو قتادہ نے کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھتی ہوں تو پوچھا ابوقتادہ نے کیا تعجب کرتی ہو؟ اے بھتیجی میری میں نے کہا ہاں۔ تو کہا ابو قتادہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی ناپاک نہیں ہے وہ رات دن پھرنے والوں میں سے ہے تم پر۔

 

یحیی بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نکلے چند سواروں میں ان میں عمرو بن عاص بھی تھے راہ میں ایک حوض ملا تو عمرو بن عاص نے حوض والے سے پوچھا کہ تیرے حوض پر درندے جانور پانی پینے کو آتے ہیں تو کہا عمر بن خطاب نے اے حوض والے مت بتا ہم کو کس لئے کہ درندے کبھی ہم سے آگے آتے ہیں اور کبھی ہم درندوں سے آگے آتے ہیں۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ مرد اور عورتیں وضو کرتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اکٹھا۔

 

               جن امور سے وضو لازم نہیں آتا ان کا بیان

 

ابراہیم بن عبدالرحمن کی ام ولد نے پوچھا ام المومنین ام سلمہ سے کہ میرا دامن نیچا اور لمبا رہتا ہے اور ناپاک جگہ میں چلنے کا اتفاق ہوتا ہے تو کہا ام سلمہ نے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پاک کرتا ہے اس کو جو بعد اس کے ہے

 

امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کو دیکھا کئی مرتبہ انہوں نے قے کی پانی کی اور وہ مسجد میں تھے پھر وضو نہیں کیا اور نماز پڑھ لی۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے خوشبو لگائی سعید بن زید کے بچے کو جو میت تھا اور اٹھایا اس کو پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔

 

               جو کھانا آگ سے پکا ہو اس کو کھا کر وضو نہ کرنے کے بیان میں

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دست کا گوشت بکری کا پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔

 

سوید بن النعمان سے روایت ہے کہ وہ ساتھ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جس سال جنگ خبیر ہوئی یہاں تک کہ جب پہنچے صہبا میں پیچھے کی جانب خبیر سے مدینہ کی طرف اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ پھر عصر کی نماز پڑھی اور مانگا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے توشہ تو نہ آیا مگر ستو پس حکم کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے کھولنے کا سو کھولا گیا پھر کھایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور ہم لوگوں نے پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز مغرب کے لئے کلی کی اور ہم نے بھی کلیاں کر لیں پھر نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور وضو نہ کیا۔

 

ربیعہ بن عبداللہ نے حضرت عمر کے ساتھ شام کا کھانا کھایا پھر حضرت عمر نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔

 

ابان بن عثمان سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان نے روٹی اور گوشت کھا کر کلی کی اور ہاتھ دھو کر منہ پونچھا پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔

 

امام مالک کو پہنچا حضرت علی اور عبداللہ بن عباس سے کہ وہ دونوں وضو نہ کرتے تھے اس کھانے سے جو آگ سے پکا ہو۔

 

یحیی بن سعید نے پوچھا عبداللہ بن عامر سے کہ ایک شخص وضو کرے نماز کے لئے پھر کھائے وہ کھانا جو پکا ہوا ہو آگ سے کیا وضو کرے۔ دوبارہ کہا عبداللہ نے کہ دیکھا میں نے اپنے باپ عامر بن ربیعہ بن کعب بن مالک کو کہ وہ آگ کا پکا ہوا کھانا کھاتے پھر وضو نہیں کرتے تھے۔

 

ابو نعیم وہب بن کیسان نے سنا جابر بن عبداللہ سے کہ انہوں نے دیکھا ابوبکر صدیق کو گوشت کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔

 

محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت ہوئی کھانے کی تو سامنے کیا گیا ان کے روٹی گوشت پس کھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے اور وضو کر کے نماز پڑھی پھر اس کھانے کا بچا ہوا آیا اس کو کھا کر نماز پڑھی اور وضو نہ کیا ،۔

 

عبدالرحمن بن زید انصاری سے روایت ہے کہ انس بن مالک جب آئے عراق تو گئے ان کی ملاقات کو ابو طلحہ اور ابی بن کعب تو سامنے کیا انس نے ان دونوں کے کھانا جو پکا ہوا تھا آگ سے پھر کھایا سب نے تو اٹھے انس اور وضو کیا پس کہا ابو طلحہ اور ابی بن کعب نے کہ کھانا کھا کر وضو کرنا کیا تم نے عراق سے سیکھا ہے پس کہا انس نے کاش میں وضو نہ کرتا اور کھڑے ہوئے ابو طلحہ اور ابی بن کعب تو نماز پڑھی دونوں نے اور وضو نہ کیا۔

 

               اس باب میں مختلف مسائل طہارت کے مذکور ہیں

 

عروہ بن زیبر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پوچھا گیا استنجاء کے بارے میں تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا نہیں پاتا کوئی تم میں سے تین پتھروں کو۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گئے مقبرہ کو سو کہا سلام ہے تمہارے پر اے قوم مومنوں کی اور ہم اگر خدا چاہے تو تم سے ملنے والے ہیں تمنا کی میں نے کہ میں دیکھ لوں اپنے بھائیوں کو تو کہا صحابہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا نہیں ہیں ہم بھائی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلکہ تم بھائیوں سے بڑھ کر اصحاب ہو میرے اور بھائی میرے وہ لوگ ہیں جو ابھی نہیں آئے دنیا میں اور میں قیامت کے روز ان کا پیش خیمہ ہوں گا حوض کوثر پر تب کہا صحابہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیونکر پہچانیں گے ان لوگوں کو قیامت کے روز جو دنیا میں بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیدا ہوں گے امت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم مجھ کو بتلاؤ کہ کسی شخص کے سفید منہ اور سفید پاؤں کے گھوڑے خالص مشکی گھوڑوں میں مل جائیں کیا وہ اپنے گھوڑے نہ پہچانے گا کہا صحابہ نے پہچانے گا پس فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ قیامت کے روز بھائی میرے آئیں گے چمکتے ہوں گے منہ اور پاؤں ان کے وضو سے اور میں ان کا پیش خیمہ ہوں گا حوض کوثر پر تو ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص نکالا جائے میرے حوض سے جیسے نکالا جاتا ہے وہ اونٹ جو اپنے مالک سے چھٹ گیا ہو تو پکاروں گا میں ان کو ادھر آؤ ادھر آؤ کہا جائے گا مجھ سے کہ ان لوگوں نے بدل دیا سنت تیری کو بعد تیرے تب میں کہنے لگوں گا دور ہو دور ہو۔

 

روایت ہے حمران سے جو غلام ہیں عثمان بن عفان کے کہ عثمان بن عفان بیٹھے تھے چبوترہ پر اتنے میں موذن آیا اور نماز عصر کی خبر دی حضرت عثمان نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر کہا کہ خدا کی قسم میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں اگر وہ حدیث اللہ کی کتاب میں نہ ہوتی تو میں بیان نہ کرتا سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے کہ کوئی آدمی نہیں ہے کہ وضو کرے اچھی طرح پھر نماز پڑھے مگر جتنے گناہ اس کے اس کی نماز سے لے کر دوسری نماز تک ہوں گے معاف کر دئیے جائیں گے یہاں تک کہ دوسری نماز پڑھے۔

 

روایت ہے عبداللہ صنابحی سے کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت وضو شروع کرتا ہے بندہ مومن پھر کلی کرتا ہے نکل جاتے ہیں گناہ اس کے منہ سے پھر جس وقت ناک صاف کرتا ہے نکل جاتے ہیں گناہ اس کی ناک سے پھر جس وقت منہ دھوتا ہے نکل جاتے ہیں اس کے منہ سے یہاں تک کہ نکل جاتے ہیں پلکوں کے اگنے کی جگہ یعنی پپوٹوں سے پھر جس وقت مسح کرتا ہے سر کے گناہ نکل جاتے ہیں اس کے دونوں کانوں سے پھر جس وقت پاؤں دھوتا ہے نکل جاتے ہیں گناہ اس کے دونوں پاؤں کے ناخنوں سے پھر چلنا اس کا مسجد کی طرف اور نماز الگ ہے یعنی اس کا ثواب جدا گانہ ہے۔

 

روایت ہے ابوہریرہ سے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت وضو شروع کرتا ہے بندہ مسلمان یا مومن پھر دھوتا ہے منہ اپنا نکل جاتا ہے اس کے منہ سے وہ گناہ جو دیکھا تھا اس نے اپنی آنکھوں سے ساتھ پانی کے یا سات اخیر قطرہ کے پانی سے پھر جب ہاتھ دھوتا ہے نکل جاتا ہے اس کے ہاتھوں سے جو گناہ کہ پکڑا تھا اس کے ہاتھوں نے ساتھ پانی کے یا ساتھ اخیر قطرے پانی کے پھر جب دھوتا ہے وہ پاؤں اپنے نکل جاتا ہے جو گناہ کہ چلے تھے اس کے لئے پاؤں اس کے ساتھ پانی یا ساتھ آخر قطرے پانی کے یہاں تک کہ نکل آتا ہے پاک صاف گناہوں سے۔

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب قریب آ گیا عصر کا وقت پس ڈھونڈا لوگوں نے پانی وضو کے لئے مگر نہ پایا اور ایک برتن میں پانی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا وضو کرنے کا انس کہتے ہیں کہ میں دیکھتا تھا پانی کا فوارہ نکلتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں کے نیچے سے پھر وضو کر لیا لوگوں نے یہاں تک کہ جو سب سے اخیر میں تھا اس نے بھی وضو کر لیا۔

 

نعیم بن عبداللہ نے سنا ابوہریرہ سے کہتے تھے جس نے وضو کیا اچھی طرح پھر نکلا نماز کی نیت سے تو وہ گویا نماز میں ہے جب تک نماز کا قصد رکھتا ہے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور دوسرے قدم پر ایک برائی مٹائی جاتی ہے تو جب کوئی تم میں سے تکبیر نماز کی سنے تو نہ دوڑے کیونکہ زیادہ ثواب اسی کو ہے جس کا مکان زیادہ دور ہو کہا انہوں نے کیوں اے ابوہریرہ کہا اس وجہ سے کہ اس کے قدم زیادہ ہوں گے

 

سعید بن مسیب سوال کئے گئے بعد پاخانے کے پانی لینے سے تو کہا کہ یہ طہارت عورتوں کی ہے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب پی جائے کتا تمہارے کسی برتن میں تو دھوئے اس کو سات بار۔

 

مالک کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدھی راہ پر رہو اور نہ شمار کر سکو گے اس کے ثواب کا یا نہ طاقت رکھو گے تم استقامت کی اور سب کاموں میں تمہارے بہتر نماز ہے اور نہیں محافظت کرے گا وضو پر مگر مومن۔

 

               سر اور کانوں کے مسح کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر اپنے کانوں کے مسح کے واسطے دو انگلیوں سے پانی لیتے تھے۔

 

مالک کو پہنچا کہ جابر بن عبداللہ انصاری پوچھے گئے عمامہ پر مسح کرنے سے تو کہا کہ نہ کرے یہاں تک کہ مسح کرے بال کا پانی سے۔

 

عروہ بن زبیر عمامہ سر سے اتار کر سر پر مسح کرتے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا صفیہ کو جو بیوی تھیں عبداللہ بن عمر کی اتارتی تھیں اس کپڑے کو جس سے سر ڈھانپتے ہیں اور مسح کرتی تھیں اپنے سر پر پانی سے اور نافع اس وقت نابالغ تھے۔

 

               موزوں پر مسح کرنے کا بیان

 

مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گئے حاجت ضروری کو جنگ تبوک میں تو میں نے پانی ساتھ لے کر گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم فارغ ہو کر آئے میں نے پانی ڈالا تو دھویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منہ اپنا پھر نکالنے لگے ہاتھ اپنے جبہ کی آستینوں سے مگر وہ اس قدر تنگ تھیں کہ ہاتھ نہ نکل سکے آخر نکالا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھوں کو جبہ کے نیچے سے اور ہاتھ دھوئے اور مسح کیا سر پر اور موزوں پر پھر آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو عبدالرحمن بن عوف امامت کر رہے تھے اور ایک رکعت ہو چکی تھی پس پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت جو باقی تھی عبدالرحمن بن عوف کے پیچھے اور لوگ گھبرائے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا کہ اچھا کیا تم نے۔

 

نافع اور عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر آئے کوفے میں سعد بن ابی وقاص پر اور وہ حاکم تھے کوفہ کے تو دیکھا ان کو عبداللہ نے کہ مسح کرتے ہیں موزوں پر پس انکار کیا اس فعل کا عبداللہ نے۔ کہا سعد نے تم اپنے باپ سے پوچھنا جب جانا تو جب آئے عبداللہ بھول گئے پوچھنا اپنے باپ سے یہاں تک کہ سعد آئے اور انہوں نے کہا ذکر کیا تم نے اپنے باپ سے پوچھا تھا عبداللہ نے کہا نہیں پھر پوچھا عبداللہ نے تو فرمایا حضرت عمر نے جب ڈالے تو پاؤں اپنے موزوں کے اندر اور پاؤں پاک ہوں تو مسح کر موزوں پر کہا عبداللہ نے اگرچہ ہم پائخانہ سے ہو کر آئیں کہا ہاں اگرچہ کوئی تم میں سے پائخانہ سے ہو کر آئے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے پیشاب کیا بازار میں پھر وضو کیا اور دھویا منہ اور ہاتھوں کو اپنے اور مسح کیا سر پر پھر بلائے گئے جنازہ کی نماز کے لئے جب جا چکے مسجد میں تو مسح کیا موزوں پر پھر نماز پڑھی جنازہ پر۔

 

سعید بن عبدالرحمن نے دیکھا انس بن مالک کو آئے وہ قبا کو تو پیشاب کیا پھر لایا گیا پانی وضو کا تو وضو کیا دھویا منہ کو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک اور مسح کیا سر پر اور مسح کیا موزوں پر پھر مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔

 

               موزوں کے مسح کی ترکیب کا بیان

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کو دیکھا جب مسح کرتے موزوں پر تو مسح کرتے موزوں کی پشت پر نہ کہ اندر کی جانب۔

 

               نکسیر پھوٹنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب نکسیر پھوٹتی ان کی نماز میں پھر آتے اور وضو کر کے لوٹ جاتے پھر بناکرتے اور بات نہ کرتے۔

 

امام مالک کو پہنچا عبداللہ بن عباس کے نکسیر پھوٹتی تو باہر جا کر خون دھوتے پھر لوٹ کر بنا کر لیتے جس قدر کہ پڑھ چکے تھے۔

 

یزید بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب کے نکسیر پھوٹی نماز میں تو آئے حجرہ میں ام سلمہ کے جو بی بی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پھر لایا گیا پانی وضو کا تو وضو کیا پھر لوٹ گئے اور بنا کر لی نماز اپنی سابق پر۔

 

 

               نکسیر پھوٹنے کے بیان میں

 

عبدالرحمن بن سعید بن مسیب کو دیکھا کہ ان کی نکسیر پھوٹتی اور خوں نکلتا یہاں تک کہ انگلیاں ان کی رنگین ہو جاتیں اس خون سے پھر نماز پڑھتے اور وضو نہ کرتے۔

 

عبدالر حمن سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا سالم بن عبداللہ بن عمر کو خون نکلتا تھا ان کی ناک سے یہاں تک کہ رنگین ہو جاتی تھیں انگلیاں ان کی پھر آئل ڈالتے تھے اس کو پھر نماز پڑھتے اور وضو نہ کرتے۔

 

               جس شخص کا خون زخم یا نکسیر پھوٹنے سے برابر بہتا رہے اس کا بیان

 

مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ وہ گئے حضرت عمر کے پاس اس رات کو جس میں وہ زخمی ہوئے تھے تو جگائے گئے حضرت عمر نماز صبح کے واسطے پس فرمایا کہ ہاں اور اچھا نہیں حصہ اس شخص کا اسلام میں جو ترک کرے نماز کو تو نماز پڑھی حضرت عمر نے اور زخم سے ان کے خوں بہتا تھا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ جس شخص کا خون نکسیر پھوٹنے سے جاری رہے اور خون بند نہ ہو تو اس کے حق میں تم کیا کہتے ہو یحیی بن سعید نے پھر کہا سعید بن مسیب نے کہ میرے نزدیک نماز اشارہ سے پڑھ لے۔

 

 

               مذی سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان

 

مقداد بن الاسود کو حکم کیا حضرت علی نے کہ پوچھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جب کوئی مرد نزدیکی کرے اپنی عورت سے اور نکل آئے مذی تو کیا لازم ہوتا ہے اس شخص پر؟ کہا علی نے کہ آنحضرت کی صاحبزادی میرے نکاح میں ہیں اس سبب سے مجھے پوچھنے میں شرم آتی ہے تو پوچھا مقداد نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کسی کو ایسا اتفاق ہو تو دھو ڈالو ذکر کو پانی سے اور وضو کرے جیسے وضو ہوتا ہے نماز کے لئے۔

 

اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے کہا مذی اس طرح گرتی ہے مجھ سے جیسے بلور کا دانہ تو جب ایسا اتفاق ہو تم میں کسی کو تو دھو ڈالے اپنے ذکر کو اور وضو کرے جیسے وضو کرتا ہے نماز کے لئے۔

 

جندب سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے عبداللہ بن عمر سے مذی کا حکم تو کہا انہوں نے جب دیکھے تو مذی کو دھو ڈال ذکر کو اپنے اور وضو کر جیسے وضو کرتا ہے نماز کے لئے۔

 

               ودی کے نکلنے سے وضو معاف ہونے کا بیان

 

یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ سعید بن مسیب سے پوچھا ایک شخص نے اور میں سنتا تھا کہ مجھے تری معلوم ہوتی ہے نماز میں کیا توڑ دوں میں نماز کو تو کہا سعید نے کہ اگر بہہ آئے میری ران تک تو نہ توڑوں میں نماز کو یہاں تک کہ تمام کروں نماز کو۔

 

صلت بن زبید سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سلیمان بن یسار سے کہ تری پاتا ہوں میں۔ کہا پانی چھڑک لے اپنے تہبند یا ازار پر اور غافل ہو جا اس سے یعنی اس کا خیال مت کر اور بھلا دے اس کو۔

 

               شرم گاہ کے چھونے سے وضو لازم ہونے کا بیان

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا عروہ بن زبیر سے کہ میں گیا مروان بن الحکم کے پاس اور ذکر کیا ہم نے ان چیزوں کا جن سے وضو لازم آتا ہے عروہ نے کہا میں اس کو نہیں جانتا مروان نے کہا مجھے خبر دی بسرہ بنت صفوان نے اس نے سنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے جب چھوئے تم میں سے کوئی اپنے ذکر کو تو وضو کرے۔

 

مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ میں کلام اللہ لئے رہتا تھا اور سعد بن ابی وقاص پڑھتے تھے ایک روز میں نے کھجایا تو سعد نے کہا کہ شاید تو نے اپنے ذکر کو چھوا میں نے کہا ہاں تو سعد نے کہا اٹھ وضو کر سو میں کھڑا ہوا اور وضو کیا پھر آیا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب چھوئے تم میں سے کوئی ذکر اپنا تو واجب ہوا اس پر وضو

 

عروہ بن زبیر کہتے تھے جو شخص چھوئے ذکر کو اپنے تو واجب ہوا اس پر وضو۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا اپنے باپ عبداللہ بن عمر کو غسل کر کے پھر وضو کرتے ہیں تو پوچھا میں نے اے باپ میرے کیا غسل کافی نہیں ہے وضو سے کہا ہاں کافی ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعد غسل کے چھو لیتا ہوں ذکر اپنا تو وضو کرتا ہوں۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں سفر میں ساتھ تھا عبداللہ بن عمر کے تو دیکھا میں نے جب آفتاب نکلا تو وضو کیا انہوں نے اور نماز پڑھی میں نے کہا کہ آج آپ نے ایسی نماز پڑھی جس کو آپ نہ پڑھتے تھے کہا عبداللہ بن عمر نے کہ آج میں نے وضو کر کے اپنے ذکر کو چھو لیا تھا پھر وضو کرنا بھول گیا اور نماز صبح کی میں نے پڑھ لی اس لئے میں نے اب وضو کیا اور نماز کو دوبارہ پڑھ لیا۔

 

               بو سہ لینے سے اپنی عورت کے وضو ٹوٹ جانے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ بوسہ لینا مرد کا اپنی عورت کو اور چھونا اس کا ہاتھ سے ملامست میں داخل ہے تو جو شخص بوسہ لے اپنی عورت کا یا چھوئے اس کو اپنے ہاتھ سے تو اس پر وضو ہے۔

 

مالک کو پہنچا عبداللہ بن مسعود سے کہتے تھے بوسہ سے مرد کے اپنی عورت کو وضو لازم آتا ہے۔

 

ابن شہاب زہری کہتے تھے بوسہ سے مرد کے اپنی عورت کو وضو لازم آتا ہے۔

 

               غسل جنابت کی ترکیب کے بیان میں

 

ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت جب غسل کرتے جنابت سے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے پھر وضو کرتے جیسے وضو ہوتا ہے نماز کے لئے پھر انگلیاں اپنی پانی میں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا انگلیوں سے خلال کرتے پھر اپنے سر پر تین چلو دونوں ہاتھوں سے بھر کر ڈالتے پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے۔

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم غسل کرتے تھے اس برتن میں جس میں تین صاع پانی آتا تھا جنابت سے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب غسل جنابت شروع کرتے تو پہلے اپنا داہنا ہاتھ پانی ڈال کر دھوتے پھر اپنی شرمگاہ دھوتے پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے پھر منہ دھوتے اور آنکھوں کے اندر پانی مارتے پھر داہنا ہاتھ دھوتے پھر بایاں ہاتھ دھوتے پھر سارے بدن پر پانی ڈال کر غسل کرتے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عائشہ ام المومنین سے پوچھا گیا کس طرح غسل کرے عورت جنابت سے کہا کہ ڈالے اپنے سر پر تین چلو دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کر اور ملے اپنے سر کر دونوں ہاتھوں سے۔

 

               دخول سے غسل واجب ہونے کا بیان اگرچہ انزال نہ ہو

 

سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عائشہ کا قول یہی تھا کہ جب مس کرے ختنہ ختنہ سے یعنی سر ذکر عورت کی قبل میں غائب ہو جائے تو واجب ہوا غسل۔

 

ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا حضرت عائشہ سے کس چیز سے غسل واجب ہوتا ہے تو کہا حضرت عائشہ نے کہ تو جانتا ہے اپنی صفت کو اے ابو سلمہ صفت تیری مثل چوزہ مرغ کے ہے جب مرغ کو بانگ کرتے سنتا ہے تو آپ بھی بانگ کرنے لگتا ہے جب تجاوز کرے ختنہ ختنے سے تو واجب ہوا غسل۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ابو موسیٰ اشعری آئے حضرت عائشہ کے پاس اور کہا ان سے کہ بہت سخت گزرا مجھ کو اختلاف صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک مسئلے میں شرماتا ہوں کہ ذکر کروں اس کو تمہارے سامنے تو فرمایا عائشہ نے کہ کیا ہے وہ مسئلہ جو تو اپنی ماں سے پوچھ لے مجھ سے کہا ابو موسیٰ نے کوئی جماع کرے اپنی بیوی سے پھر دخول کرے لیکن انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے اس نے کہا کہ جب تجاوز کر جائے ختنہ ختنے سے واجب ہوا غسل کہا ابو موسیٰ نے کہ اب نہ پوچھوں گا اس مسئلے کو کسی سے بعد تمہارے۔

 

محمود بن لبید انصاری نے پوچھا زید بن ثابت انصاری سے کہا ایک شخص جماع کرے اپنی بیوی سے پھر دخول کرے لیکن انزال نہ ہو کہا زید نے غسل کرے کہا محمود نے کہ ابی بن کعب اس صورت میں غسل کو واجب نہیں جانتے تھے کہا زید نے کہ ابی بن کعب قبل موت کے پھر گئے اس قول سے۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جب تجاوز کرے ختنہ ختنہ سے واجب ہوا غسل۔

 

               جنب جب سورہنے کا ارادہ کرے غسل سے پہلے تو وضو کر کے سونے یا کھانے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ اسے رات کو نہانے کی حاجت ہوتی ہے تو فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کر لے اور دھو لے ذکر اپنے کو پھر سو جائے۔

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ وہ کہتی تھیں جب کوئی تم میں سے جماع کرے اپنی عورت سے پھر سونا چاہے قبل غسل کرے تو یہ سوئے یہاں تک کہ وضو کر لے جیسے کہ وضو ہوتا ہے نماز کے لئے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ جب سو رہنے یا کھانے کا ارادہ رکھتے حالت جنابت میں منہ دھوتے اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک اور سر پر مسح کرتے پھر کھانا کھاتے یا سو رہتے۔

 

               جنب نماز کو لوٹا دے غسل کر کے جب اس نے نماز پڑھ لی ہو بھول کر بغیر غسل کے اور اپنے کپڑے دھوئے اگر اس میں نجاست لگی ہو

 

عطا بن یسار سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیر کہی کسی نماز میں نمازوں میں سے پھر اشارہ کیا مقتدیوں کو اپنے ہاتھ سے اس بات کا کہ اپنی جائے پر جمے رہو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم گئے گھر میں بعد اس کے لوٹ کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بدن پر پانی کے نشان تھے۔

 

زیبد بن صلت سے روایت ہے کہ نکلا میں ساتھ عمر بن خطاب کے جرف تک تو دیکھا عمر نے اپنے کپڑے کو اور پایا نشان احتلام کا اور نماز پڑھ چکے تھے بغیر غسل کے تب کہا قسم اللہ کی نہیں دیکھتا ہوں میں اپنے کو مگر مجھے احتلام ہوا اور خبر نہ ہوئی اور نماز پڑھ لی اور غسل نہیں کیا کہا زبید نے پس غسل کیا حضرت عمر نے اور دھویا جو نشان دکھائی دیا کپڑے میں اور جو نہ دکھائی دیا اس پر پانی چھڑک دیا اور اذان کہی یا اقامت کہی پھر نماز پڑھی جب آفتاب بلند ہو گیا اطمینان سے۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب صبح کو گئے اپنی زمین میں جو جرف میں تھی پس دیکھا اپنے کپڑے میں نشان احتلام کا پھر کہا میں مبتلا ہو گیا احتلام میں جب سے خلیفہ ہوا پھر غسل کیا اور دھویا جو نشان پایا اپنے کپڑے میں احتلام کا پھر نماز پڑھی جب آفتاب نکل آیا

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے صبح کی نماز پڑھائی لوگوں کو پھر گئے اپنی زمین کی طرف جو جرف میں تھی پس دیکھا اپنے کپڑے میں نشان احتلام کا تو کہا کہ جب سے ہم کھانے لگے چربی نرم ہو گئیں رگیں پھر غسل کیا اور دھویا احتلام کے نشان کو اپنے کپڑے سے اور لوٹا یا نماز کو۔

 

یحیی بن عبداللہ بن حاطب سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرہ کیا ساتھ عمر بن خطاب سے کئی شتر سواروں میں ان میں عمرو بن عاص بھی تھے اور عمر بن خطاب رات کو اترے قریب پانی کے تو احتلام ہوا حضرت عمر کو اور صبح قریب تھی اور قافلہ میں پانی نہ تھا تو سوار ہو کے حضرت عمر یہاں تک کہ آئے پانی کے پاس اور دھونے لگے کپڑے اپنے یہاں تک کہ روشنی ہو گئی اور عمر بن عاص نے کہا حضرت عمر سے صبح ہو گئی ہمارے پاس کپڑے ہیں اپنا کپڑا چھوڑ دیجئے دھو ڈالا جائے گا اور ہمارے کپڑوں میں سے ایک کپڑا پہن لیجئے تو کہا عمر بن خطاب نے کہ تعجب ہے اے عمرو بن عاص کیا تمہارے پاس کپڑے ہیں تو تم سمجھتے ہو کہ سب آدمیوں کے پاس کپڑے ہوں گے قسم خدا کی اگر میں ایسا کروں تو یہ امر سنت ہو جائے بلکہ دھو ڈالتا ہوں میں یہاں نجاست معلوم ہوتی ہے اور پانی چھڑک دیتا ہوں جہاں نہیں معلوم ہوتی۔

 

               عورت کو اگر احتلام ہو مثل مرد کے تو اس پر غسل واجب ہے

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ام سلیم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عورت دیکھے خواب میں جیسا کہ مرد دیکھتا ہے کیا غسل کرے تو کہا عائشہ نے ام سلیم کو نوج نگوڑی کیا عورت بھی دیکھتی ہے خواب میں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاک آلود ہو داہنا ہاتھ تیرا اور کہاں سے ہوتی ہے مشابہت۔

 

ام سلمہ سے روایت ہے ام سلیم آئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تو کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نہیں شرماتا اللہ سچ سے کیا عورت پر بھی غسل ہے جو اس کو احتلام ہو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں جب کہ دیکھے پانی کو۔

 

               اس باب میں مسائل غسل جنابت کے مذکور ہیں

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کچھ مضائقہ نہیں کہ مرد غسل کرے اس پانی سے جو عورت کی طہارت سے بچا ہو جبکہ وہ عورت حیض اور جنابت سے نہ ہو۔

 

عبد اللہ بن عمر کو پسینہ آتا کپڑے میں اور وہ جنبی ہوتے تھے پھر اسی کپڑے سے نماز پڑھتے تھے۔

 

ابن عمر کی لونڈیاں ان کے پاؤں دھوتی تھیں اور ان کو جائے نماز اٹھا کر دیتی تھیں حالت حیض میں۔

 

               تیمم کا بیان

 

عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی سفر میں تو جب پہنچے ہم بیدا یا ذات الجیش کو گلوبند میرا ٹوٹ کر گر پڑا تو ٹھہر گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے ڈھونڈنے کے لئے اور لوگ بھی ٹھہر گئے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور وہاں پانی نہ تھا اور نہ ساتھ لوگوں کے پانی تھا تب لوگ آئے ابوبکر صدیق کے پاس اور کہا کہ دیکھا تم نے کیا عائشہ نے ٹھہرا دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور لوگوں کو اور نہ یہاں پانی ہے نہ ہمارے ساتھ پانی ہے تو ابوبکر آئے میرے پاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنا سر میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے تو کہا ابوبکر نے روک دیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور لوگوں کو اور نہ پانی ملتا ہے نہ ان کے پاس پانی ہے کہا عائشہ نے غصہ ہوئے میرے اوپر ابوبکر اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں مارنے لگے تو میں ہل جاتی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک میری ران پر تھا اس وجہ سے میں نہ ہل سکتی تھی پس سوتے رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہاں تک کہ صبح ہوئی اور پانی نہ تھا تو اتاری اللہ جل جلالہ نے آیت تیمم کی تب کہا اسی دن اسید بن الحضیر نے کہا اے ابوبکر کے گھر والوں یہ کچھ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے یعنی تم سے ہمیشہ ایسی ہی برکتیں اور راحتیں مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہیں کہا عائشہ نے جب ہم چلنے لگے تو وہ گلو بن اس اونٹ کے نیچے سے نکلا جس پر ہم سوار تھے۔

 

               تیمم کی ترکیب کا بیان

 

نافع کہتے ہیں کہ میں اور عبداللہ بن عمر جرف سے آئے تو جب پہنچے مربد کو اترے عبداللہ اور متوجہ ہوئے پاک زمین کی طرف تو مسح کیا اپنے منہ کا اور ہاتھوں کا کہنیوں تک پھر نماز پڑھی۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تیمم کر تے تھے دونوں کہنیوں تک۔

 

               جنب کو تیمم کرنے کا بیان

 

عبدالرحمن بن حرملہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ جنبی نے تیمم کیا پھر پایا پانی کو تو کہا سعید نے کہ جنبی پائے پانی تو اس پر غسل واجب ہو گا آئندہ کے واسطے۔

 

               حائضہ عورت سے مرد کو جو کام کرنا درست ہے اس کا بیان

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کیا درست ہے مجھ کو اپنی عورت سے جب وہ حائضہ ہو تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باندھ اس پر تہ بند اس کے پھر تجھے اختیار ہے تہ بند کے اوپر۔

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ لیٹی تھیں ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک کپڑے میں اتنے میں کود کر الگ ہو گئیں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شائد حیض آیا تجھ کو کہا ہاں تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باندھ لے تہ بند اپنے پھر آ کر وہیں لیٹ جا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر نے بھیجا کسی آدمی کو حضرت عائشہ کے پاس اور کہا پوچھو آیا کہ مرد مباشرت کرے اپنی عورت سے حالت حیض میں تو کہا حضرت عائشہ نے چاہیے کہ باندھ لے تہ بند نیچے کے جسم پر پھر اگر چاہے مباشرت کرے اس سے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ سالم بن عبداللہ بن عمر اور سلیمان بن یسار پوچھے گئے حائضہ عورت سے جب پاک ہو جائے تو جماع کرے خاوند اس کا قبل غسل کے کہا ان دونوں نے نہیں جب تک غسل نہ کرے۔

 

               حائضہ کب پاک ہوتی ہے حیض سے اس کا بیان

 

مرجانہ سے جو ماں ہیں علقمہ کی اور مولاۃ ہیں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ عورتیں ڈبیوں میں روئی رکھ کر حضرت عائشہ کو دکھانے کو بھیجتی تھیں اور اس روئی میں زردی ہوتی تھی حیض کے خون کی پوچھتی تھیں کہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو کہتی تھیں حضرت عائشہ مت جلدی کرو تم نماز میں یہاں تک کہ دیکھو سفید قصہ مراد یہ تھی کہ پاک ہو جاؤ حیض سے۔

 

ام کلثوم سے جو بیٹی ہیں زید بن ثابت کی روایت ہے کہ ان کو خبر پہنچی اس بات کی کہ عورتیں منگاتی ہیں چراغ بیچا بیچ رات کو اور دیکھتی ہیں کہ حیض سے پاک ہوئیں ام کلثوم عیب جانتی تھیں اس بات کو اور کہتی تھیں کہ صحابہ کی عورتیں ایسا نہیں کرتیں تھیں۔

 

               اس باب میں مختلف مسائل حیض کے مذکور ہیں

 

امام مالک کو پہنچا حضرت عائشہ سے کہا کہ انہوں نے عورت حاملہ اگر دیکھے خون کو تو چھوڑ دے نماز کو۔

 

امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ عورت حاملہ اگر دیکھے خون کو تو کہا ابن شہاب نے باز رہے نماز سے۔

 

حضرت عائشہ نے کہا کنگھی کرتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک میں اور حائضہ ہوتی تھی۔

 

اسما بنت ابی بکر صدیق سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ اگر ہمارے کپڑے کو خون حیض کا لگ جائے تو کیا کریں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب بھر جائے کسی ایک کے کپڑے میں تم سے خون حیض کا تو مل ڈالے اس کو پھر دھو ڈالے پانی سے پھر نماز پڑھے اس کپڑے سے۔

 

               مستحاضہ کا بیان

 

مستحاضہ اس عورت کو کہتے ہیں کہ جس کا خون بعد ایام حیض کے بھی آیا کرے۔

 

عائشہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بن ابی حبیش نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں پاک نہیں ہوتی ہوں تو کیا چھوڑ دوں نماز کو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خون کسی رگ کا ہے اور حیض نہیں ہے تو جب حیض آئے تو چھوڑ دے نماز کو پھر جب مدت گزر جائے تو خون دھو کر نماز پڑھ لے۔

 

ام سلمہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا خون بہا کرتا تھا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں تو فتوی پوچھا اسی کے واسطے ام سلمہ نے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ شمار کرے ان دنوں اور راتوں کا جن میں حیض آتا تھا قبل اس بیماری کے تو چھوڑ دے نماز کو اس قدر مدت میں ہر مہینے سے پس جب گزر جائے وہ مدت تو غسل کرے اور ایک کپڑا باندھ لے فرج پر پھر نماز پڑھے۔

 

زینب بن ابی سلمہ نے دیکھا زینب بنت جحش کو جو نکاح میں تھیں عبدالرحمن بن عوف کے ان کو استحاضہ تھا اور وہ غسل کر کے نماز پڑھتی تھیں۔

 

قعقاع بن حکیم اور زید بن اسلم نے سمی کو بھیجا سعید بن مسیب کے پاس کہ پوچھیں ان سے کیوں کر غسل کرے مستحاضہ کہا سعید نے غسل کرے ایک طہر سے دوسرے طہر تک اور وضو کرے ہر نماز کے لئے تو اگر خون بہت آئے تو ایک کپڑا باندھ لے اپنی فرج پر۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہا انہوں نے مستحاضہ پر ایک ہی غسل ہے پھر وضو کیا کرے ہر نماز کے لئے۔

 

               بچے کے پیشاب کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک لڑکا لائے سو اس نے پیشاب کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے پر پس منگوایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی تو ڈال دیا اس پر۔

 

ام قیس سے روایت ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کو جس نے نہ کھانا کھایا تھا لے آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تو بٹھا لیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بچے کو گود میں اپنی تو پیشاب کر دیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے پر پس منگایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی اور ڈال دیا اس پر اور نہ دھویا کپڑے کو۔

 

               کھڑے کھڑے پیشاب کرنے وغیرہ کا بیان

 

یحیی بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں آیا اور ستر اپنا کھولا پیشاب کے لئے تو غل مچایا لوگوں نے اور بڑا پکارا تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوڑ دو اس کو پس چھوڑ دیا لوگوں نے جب وہ پیشاب کر چکا تو حکم کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ڈول پانی کا ڈال دیا گیا اس جگہ پر۔

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو کھڑے کھڑے پیشاب کرتے۔

 

               مسواک کر نے کا بیان

 

عبید اللہ بن سباق سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی جمعہ کو فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس کو اللہ تعالی نے عید کا دن کہا ہے تو غسل کرو اور جس کے پاس خوشبو ہو تو آج کے دن خوشبو لگانا نقصان نہیں ہے اور لازم کر لو تم مسواک کو۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر مشکل نہ گزرتا میری امت پر تو واجب کر دیتا میں مسواک ان پر۔

 

ابوہریرہ نے کہا اگر شاق نہ ہوتا حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پر تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم حکم کرتے ان کو مسواک کر نے کا ہر وضو کے ساتھ۔

 

 

کتاب الجمعہ

               جمعہ کے دن غسل کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص غسل کرے جمعہ کے دن مانند غسل جنابت کے پھر جائے مسجد کو پہلی ساعت میں تو گویا اس نے صدقہ دیا ایک اونٹ اور جو جائے دوسری ساعت میں تو گویا اس نے صدقہ دیا ایک بیل یا گائے اور جو جائے تیسری ساعت تو گویا اس نے صدقہ دیا ایک مینڈھا سینگ دار اور چوتھی ساعت میں جائے تو گویا اس نے صدقہ دیا ایک مرغ اور جو پانچویں ساعت میں جائے تو صدقہ دیا اس نے ایک انڈا پھر جس وقت امام نکلتا ہے خطبہ کو فرشتے آتے ہیں خطبہ سننے کو۔

 

ابوہریرہ کہتے تھے جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے ہر بالغ پر مثل غسل جنابت کے۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ایک شخص آئے اصحاب میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں جمعہ کے دن اور حضرت عمر خطبہ پڑھ رہے تھے تو بولے حضرت عمر کیا وقت ہے یہ آنے کا جواب دیا اس شخص نے کہ میں لوٹا بازار سے تو سنا میں نے اذان کو پس وضو کیا اور چلا آیا تو کہا حضرت عمر نے یہ دوسرا قصور ہے تم نے صرف وضو کیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حکم کرتے تھے غسل کا۔

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا غسل جمعہ کا واجب ہے ہر شخص بالغ پر۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص آئے جمعہ کو تو غسل کر کے آئے یا جو شخص نماز جمعہ کا ارادہ کرے تو غسل کر لے۔

 

               جمعہ کے دن خطبہ ہو تو چپ رہنا چاہئے

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت امام خطبہ پڑھتا ہے اگر تو اپنے پاس والے سے کہے چپ رہ تو تو نے بھی ایک لغو حرکت کی۔

 

ثعلبہ بن ابی مالک قرظی سے روایت ہے کہ لوگ نماز پڑھا کرتے تھے جمعہ کے دن یہاں تک کہ نکلیں عمر بن خطاب پھر جب نکلتے عمر اور بیٹھے ہوئے باتیں کیا کرتے جب موذن چپ ہو رہتے اور عمر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تو کوئی بات نہ کرتا کہا ابن شہاب نے جب امام نکلے خطبے کے لئے تو نماز موقوف کرنا چاہئے اور جب خطبہ شروع کرے تو بات موقوف کرنا چاہئے۔

 

مالک بن ابی عامر سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان جب خطبہ کو کھڑے ہوئے تو اکثر کہا کرتے بہت کم چھوڑ دیتے یہ بات اے لوگو! جب امام کھڑا ہو خطبہ کے لئے تو سنو خطبہ کو اور چپ رہو کیونکہ جو شخص چپ رہے گا اور خطبہ اس کو نہ سنائی دے گا اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اس شخص کو ملے گا جو چپ رہے اور خطبہ اس کو سنائی دے اور جب تکبیر ہو نماز کی تو برابر کرو صفوں کو اور برابر کرو مونڈھوں کو کیونکہ صفیں برابر کرنا نماز کا تتمہ ہے پھر تکبیر تحریمہ نہ کہتے تھے عثمان یہاں تک کہ خبر دیتے آ کر ان کو وہ لوگ جن کو مقرر کیا تھا صفیں برابر کرنے پر اس بات کی صفیں برابر ہو گئیں اس وقت تکبیر تحریمہ کہتے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے دیکھا دو مردوں کو خطبہ کے وقت باتیں کر رہے ہیں تو کنکر پھینکے ان پر اس لئے کہ چپ رہیں۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ ایک شخص چھینکا دن جمعہ کے اور امام خطبہ پڑھتا تھا تو جواب دیا اس کو ایک آدمی نے پھر پوچھا سعید بن مسیب سے تو منع کیا انہوں نے اس سے اور کہا کہ پھر ایسا نہ کرنا۔

 

امام مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا ابن شہاب زہری سے کہا جب امام منبر سے اترے خطبہ پڑھ کر تو قبل تکبیر کے بات کہنا کیسا ہے کہ ابن شہاب نے کچھ قباحت نہیں ہے۔

 

               جس نے امام کے ساتھ ایک رکعت جمعہ کی پائی اس کا بیان

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے جو شخص جمعہ کی نماز کی ایک رکعت پائے تو وہ ایک رکعت ادا کرے یہی سنت ہے۔

 

               جمعہ کے دن سعی کا بیان

 

امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ اس آیت کی تفسیر کیا ہے اذانودی للصلوۃ من یوم الجمعہ فاسعو الی ذکر اللہ تو ابن شہاب نے جواب دیا کہ حضرت عمر بن خطاب اس آیت کو یوں پڑھتے تھے اذانودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فامضوا(فاسعوا) الی ذکر اللہ۔(62۔ الجمعہ:9)

 

               جمعہ کے دن اس ساعت کا بیان جس میں دعا قبول ہوتی ہے

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذکر کیا جمعہ کا پھر کہا کہ اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ نہیں پاتا اس کا بندہ مسلمان اور وہ نماز میں کھڑا ہوتا ہے اور مانگتا ہے اللہ سے کچھ مگر دیتا ہے اللہ اس چیز کو اس کو اور اشارہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے کہ وہ ساعت تھوڑی ہے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں گیا کوہ طور پر تو ملا میں کعب بن الاحبار سے اور بیٹھا میں ان کے پاس پس بیان کیں کعب الاحبار نے مجھ سے باتیں تورات کی اور میں نے بیان کیں باتیں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تو جو باتیں میں نے ان سے کہیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہتر سب دنوں میں جن میں سورج نکلا ہے جمعہ کا دن ہے اسی دن پیدا ہوئے آدم اور اسی دن اتارے گئے جنت سے اور اسی دن معاف ہوا گناہ ان کا اور اسی دن قیامت قائم ہو گی اور کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جو کان نہ لگائے جمعہ کے دن آفتاب نکلنے تک قیامت کے خوف سے مگر جنات اور آدمی غافل رہتے ہیں اور جمعہ میں ایک ساعت ایسی ہے کہ نہیں پاتا اس کا مسلمان بندہ نماز میں اور وہ مانگے اللہ سے کچھ مگر دے اللہ جل جلالہ اس کو کعب الاحبار نے کہا یہ تو ہر سال میں ایک دن ہوتا ہے میں نے کہا نہیں بلکہ ہر جمعہ کو تو کعب نے تورات کو پڑھا پھر کہا سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا ابوہریرہ نے پھر ملا میں بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے تو کہا انہوں نے کہاں سے آتے ہو میں نے کہا کہ کوہ طور سے کہا انہوں نے اگر قبل طور جانے کے تم مجھ سے ملتے تو تم نہ جاتے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے نہ تیار کئے جائیں اونٹ مگر تین مسجدوں کے لئے ایک مسجد الحرام دوسری میری مسجد یہ تیسری مسجد ایلیا یا بیت المقدس شک ہے راوی کو کہا ابوہریرہ نے پھر ملا میں عبداللہ بن سلام سے اور بیان کیا میں نے ان سے جو گفتگو کی تھی میں نے کعب الاحبار سے جمعہ کے باب میں اور میں نے یہ کہا کہ کعب الاحبار نے کہا یہ دن ہر سال میں ایک بار ہوتا ہے تو عبداللہ بن سلام نے کہا کہ جھوٹ بولا کعب نے پھر میں نے کہا کہ کعب نے تورات کو پڑھ کر یہ کہا کہ بے شک یہ ساعت ہر جمعہ کو ہوتی ہے تب عبداللہ بن سلام نے کہا کہ سچ کہا کعب نے پھر کہا عبداللہ بن سلام نے میں جانتا ہوں اس ساعت کو وہ کونسی ہے ابوہریرہ نے کہا کہ بتاؤ مجھ کو اور بخل نہ کرو عبداللہ بن سلام نے کہا کہ وہ آخر ساعت ہے جمعہ کی ابوہریرہ نے کہا کیونکہ آخر ساعت ہو گی حالانکہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا نہیں پاتا اس کو مسلمان بندہ نما میں مگر جو مانگتا ہے اللہ سے دیتا ہے اس کو یہ ساعت تو ایسی ہے کہ اس میں نماز نہیں ہو سکتی ہے تو جواب دیا عبداللہ بن سلام نے کیا نہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جو شخص بیٹھے نماز کے انتظار میں تو وہ نماز میں ہے یہاں تک کہ نماز پڑھے ابوہریرہ نے کہا ہاں عبداللہ بن سلام نے کہا پس یہی مطلب ہے۔

 

               جمعہ کے دن کپڑے بدلنے کو پھاند کر جانے اور امام کی طرف منہ کر کے بیٹھنے کا بیان

 

یحیی بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا نقصان ہے کسی کا تم میں سے اگر بنا رکھے کپڑے جمعہ کی نماز کے واسطے سوائے روز مرہ کے کپڑوں کے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نہ جاتے جمعہ کو یہاں تک کہ تیل لگاتے اور خوشبو مگر جب احرام باندھے ہوتے۔

 

ابوہریرہ نے کہا کہ اگر کوئی تم میں سے نماز پڑھے ظہر جرہ میں بہتر ہے اس سے کہ بیٹھا رہے اپنے گھر میں پھر جب امام خطبہ پڑھنے کو کھڑا ہو آئے پھاندتا ہوا گردنوں کو لوگوں کی دن جمعہ کے۔

 

               جمعہ کی نماز میں قرات کا بیان اور احتباء کا بیان اور جمعہ کو جو ترک کرے بغیر عذر کے اس کا حال

 

ضحاک بن قیس نے پوچھا نعمان بن بشیر سے کہ کون سی سورت پڑھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کے روز بعد سورۃ جمعہ کے کہا کہ پڑھتے تھے ھل اتک حدیث الغاشیہ

 

صفوان بن سلیم سے روایت ہے لیکن مالک کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا یا نہیں۔ کہا جو شخص چھوڑ دے گا جمعہ کو تین مرتبہ بغیر عذر اور بیماری کے مہر کر دے گا اللہ تعالی اس کے دل پر۔

 

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو خطبے پڑھے جمعہ کو اور بیٹھے درمیان میں ان کے۔

 

 

 فی رمضان

 

               رمضان میں تراویح پڑھنے کا بیان

 

ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی مسجد میں ایک رات تو نماز پڑھی پیچھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لوگوں نے پھر دوسری رات میں اسی طرح پڑھی تو لوگ بہت آئے پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات جمع ہوئے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم ( تراویح ) کے لئے نہیں نکلے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے دیکھا جو تم نے کیا لیکن مجھے کسی چیز نے نکلنے سے نہیں روکا سوائے اس خوف سے کہ کہیں یہ ( تراویح ) تم پر فرض نہ ہو جائے اور یہ قصہ رمضان میں تھا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رغبت دلاتے تھے لوگوں کو تراویح پڑھنے کی راتوں کو اور نہ حکم کرتے تھے بطور واجب کے تو فرماتے تھے آپ جس نے تراویح پڑھی رمضان میں اس کو حق سمجھ کر خاص خدا کے لئے بخشے جائیں گے اگلے گناہ اس کے کہا ابن شہاب نے پس وفات ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اور ایسا ہی حال رہا پھر ایسا ہی حال رہا حضرت ابوبکر کی خلافت میں اور شروع شروع حضرت عمر کی خلافت میں

 

عبدالر حمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ میں نکلا عمر بن خطاب کے ساتھ رمضان میں مسجد کو تو دیکھا کہ لوگ جدا جدا متفرق پڑھ رہے ہیں کسی شخص کے ساتھ آٹھ دس آدمی پڑھ رہے ہیں تو کہا عمر نے قسم خدا کی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ان سب کو ایک قاری کے پیچھے کر دوں تو اچھا ہو پھر ان سب کو ابی بن کعب کے پیچھے کر دیا کہا عبدالرحمن نے پھر جب دوسری رات کو میں ان کے ساتھ آیا تو دیکھا کہ سب لوگ ابی بن کعب کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تب کہا حضرت عمر نے اچھی ہے یہ بدعت اور جس وقت تم سوتے ہو وہ بہتر ہے اس وقت سے جب نماز پڑھتے ہو یعنی اول رات اور لوگ کھڑے ہوتے تھے اول رات میں۔

 

               ما جاء فی قیام رمضان

 

سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حکم کیا حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعت پڑھانے کا کہا سائب بن یزید نے کہا امام پڑھتا تھا سو سو آیتیں ایک رکعت میں یہاں تک کہ ہم سہارا لگاتے تھے لکڑی پر اور نہیں فارغ ہوتے تھے ہم مگر قریب فجر کے۔

 

یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ پڑھتے تھے حضرت عمر کے زمانے میں تیئس رکعتیں۔

 

داؤد بن حصین نے سنا عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے کہتے تھے میں نے پایا لوگوں کو لعنت کرتے تھے کافروں پر رمضان میں اور امام پڑھتا تھا سورۃ بقرہ آٹھ رکعتوں میں جب بارہ رکعتوں میں پڑھتا تھا تو لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ تخفیف کی۔

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہتے تھے سنا میں نے اپنے باپ سے کہتے تھے جب فراغت پاتے تھے تراویح سے رمضان میں تو جلدی مانگتے تھے نوکروں سے کھانے کو فجر ہونے کے ڈر سے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ذکوان جو غلام تھے حضرت عائشہ کے اور ان کو حضرت عائشہ نے آزاد کر دیا تھا اپنے بعد کھڑے ہوتے تھے اور پڑھاتے تھے نماز ان کی رمضان میں۔

 

 

               تہجد کا بیان

 

عائشہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو نماز پڑھے ہمیشہ رات کو پھر غالب آ جائے اس پر نیند مگر یہ کہ اللہ جل جلالہ لکھے گا اس کے لئے ثواب نماز کا اور سونا اس کو صدقہ ہو گا۔

 

عائشہ سے روایت ہے کہ میں سوتی تھی سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور پاؤں میرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے تھے پس جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کرتے تھے آپ دبا  دیتے تھے مجھ کو سو سمیٹ لیتی تھی میں پاؤں اپنے کہا حضرت عائشہ نے اور گھروں میں ان دنوں چراغ نہ تھے۔

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اونگھنے لگے کوئی تم میں سے نماز میں تو سو رہے یہاں تک کہ نیند بھر جائے کیونکہ اگر نماز پڑھے گا اونگھتے ہوئے تو شاید وہ استغفار کرنا چاہے اور اپنے تئیں برا بولنے لگے۔

 

اسمعیل بن ابی حکیم کو پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ آپ نے سنا ذکر ایک عورت کا جو نماز پڑھا کرتی تھی رات بھر تو پوچھا کہ کون ہے یہ عورت کہا لوگوں نے یہ حولاء ہے بیٹی تویت کی نہیں سوتی ہے رات کو تو برا معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ امر یہاں تک کہ معلوم ہوئی ناراضگی آپ کے چہرے سے پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خداوند کریم نہیں بیزار ہوتا تمہاری بیزاری تک اتنا عمل کر جس کی طاقت رکھو۔

 

اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رات کو نماز پڑھتے جتنا اللہ کو منظور ہوتا پھر جب اخیر رات ہوتی تو اپنے گھر والوں کو جگاتے نماز کے لئے اور کہتے ان سے نماز نماز، پھر پڑھتے اس آیت کو اور حکم کر اپنے گھر والوں کو نماز کا اور صبر کر اس کے لئے ہم نہیں مانگتے تجھ سے روٹی بلکہ ہم کھلاتے ہیں تجھ کو اور عاقبت کی بہتری پرہیزگاری سے ہے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے مکروہ ہے سونا عشاء کی نماز سے پہلے اور باتیں کرنا بعد عشاء کے۔

 

امام مالک کو پہنچا حضرت عمر بن خطاب سے فرماتے تھے نفل نماز رات اور دن کی دو دو رکعتیں ہیں سلام پھیرے ہر دو رکعتوں کے بعد۔

 

               باب وتر کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے ایک رکعت ان میں سے وتر کی ہوتی جب فارغ ہوتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم لیٹ جاتے داہنی کروٹ پر۔

 

ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت کہ انہوں نے پوچھا حضرت عائشہ سے کیونکہ تھی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رمضان میں تو کہا حضرت عائشہ نے نہیں زیادہ کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت پڑھتے تھے چار رکعتیں تو مت پوچھ ان کی خوبی اور طول کا حال پھر پڑھتے تھے چار رکعتیں تو مت پوچھ ان کی خوبی اور طول کا حال پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے پوچھا حضرت عائشہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو جاتے ہیں وتر پڑھنے سے پہلے فرمایا اے عائشہ میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔

 

عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے رات کو تیرہ رکعتیں پھر جب اذان سنتے صبح کی تو پڑھ لیتے دو رکعتیں ہلکی پھلکی۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ وہ ایک رات رہے اپنی خالہ میمونہ کے پاس جو بی بی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کہا ابن عباس نے لیٹا میں بستر کے عرض کی طرف اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بی بی لیٹیں بستر کے طرل میں پس سو گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی یا کچھ پہلے یا کچھ بعد اس کے جاگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور ملنے لگے آنکھیں اپنے ہاتھ سے پھر پڑھیں دس آیتیں اخیر کی سورہ آل عمران سے یعنی (اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیلِ وَالنَّھَارِ لَایٰٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ) 3۔ ال عمران:190) سے اخیر سورۃ تک پھر گئے آپ ایک مشک کی پاس جو لٹک رہی تھی اور وضو کیا اس سے اچھی طرح پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے ابن عباس نے کہا میں بھی اٹھ کھڑا ہوا اور جیسا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ویسا ہی میں نے بھی کیا تو جب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ کر ملنے لگے پھر پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر دو رکعتیں پھر وتر پڑھے پھر لیٹے رہے جب موذن آیا تو دو رکعتیں ہلکی پڑھیں پھر باہر نکلے اور نماز پڑھی صبح کی۔

 

زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں ضرور دیکھوں گا نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رات کو کہا زید نے کہ تکیہ لگایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان کی چوکھٹ پر یا گھر جو بالوں سے ڈھپا ہوا تھا پھر کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سو پڑھیں دو رکعتیں بہت لمبی بہت لمبی بہت لمبی پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر پڑھیں دو رکعتیں ان سے کچھ کم پھر ایک رکعت وتر کی پڑھی سب تیرہ رکعتیں پڑھیں۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے رات کی نماز کا تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رات کی نماز دو رکعتیں ہیں اور جب ڈر ہو صبح ہونے کا پڑھ لے ایک رکعت جو طاق کر دے اس کی نماز کو۔

 

عبد اللہ بن محیریز سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی کنانہ سے جس کو مخدجی کہتے تھے سنا ایک شخص سے شام میں جن کی کنیت ابو محمد ہے کہتے تھے وتر واجب ہے مخدجی نے کہا کہ میں عبادہ بن صامت کے پاس گیا اور ابو محمد کے قول کو نقل کیا عبادہ نے کہا کہ جھوٹ کہا ابو محمد نے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے پانچ نمازیں ہیں جو فرض کیں اللہ نے اپنے بندوں پر جو شخص ان کو پڑھے گا اور ہلکا جان کر ان کو نہ چھوڑے گا تو اللہ جل جلالہ نے اس کے لئے عہد کر رکھا ہے کہ جنت میں اس کو لے جائے گا اور جو شخص ان کو چھوڑ دے گا اللہ کے پاس اس کا کچھ عہد نہیں ہے چاہے اس کو عذاب کر دیں چاہے جنت میں پہنچا دے۔

 

سعید بن یسار سے روایت ہے کہ رات کو سفر میں ساتھ عبداللہ بن عمر کے راہ میں مکہ کی کہا سعید نے جب مجھے ڈر ہو اصبح کا تو میں اونٹ پر سے اترا وتر پڑھے پھر ان کو آگے بڑھ کر پالیا تو عبداللہ بن عمر نے مجھ سے پوچھا کہ تو کہاں تھا میں نے کہا مجھے صبح ہونے کا اندیشہ ہوا اس لئے میں نے اتر کر وتر پڑھے تو عبداللہ نے کہا کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی نہیں کرتا میں نے کہا واہ کیوں نہیں کہا عبداللہ نے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو وتر پڑھتے تھے اونٹ پر۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ابوبکر جب سونے کو آتے اپنے بستر پر وتر پڑھ لیتے اور عمر بن خطاب آخر رات میں وتر پڑھتے تھے بعد تہجد کے اور سعید بن مسیب نے کہا کہ میں جب اپنے بچھونے پر سونے کو آتا ہوں تو وتر پڑھ لیتا ہوں۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ ایک شخص نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے کیا وتر واجب ہے تو کہا عبداللہ بن عمر نے وتر ادا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ بی بی عائشہ فرماتی تھیں جس شخص کو خوف ہو کہ اس کی آنکھ نہ کھلے گی صبح تک تو وہ وتر پڑھ لے سونے سے پیشتر اور جو امید رکھے جاگنے کی آخر شب میں تو وہ دیر کرے وتر میں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ تھا میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ مکہ کے راستہ میں اور آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا تو ڈرے عبداللہ بن عمر صبح ہو جانے سے پس پڑھی ایک رکعت وتر کی پھر کھل گیا ابر تو دیکھا ابھی رات باقی ہے پس دوگانہ کیا اس رکعت کو ایک رکعت اور پڑھ کر پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں پھر جب خوف ہوا صبح کا تو ایک رکعت وتر پڑھی۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سلام پھیر تے تھے دو رکعت وتر کی پڑھ کر اور کچھ کام ہوتا تو اس کو کہہ دیتے پھر ایک رکعت پڑھتے تھے۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص وتر پڑھتے تھے بعد عشاء کے ایک رکعت۔

 

               وتر پڑھنا بعد فجر ہو جانے کے

 

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سو رہے پھر جاگے تو کہا آپ نے خادم سے دیکھو لوگ کیا کر رہے ہیں اور ان دنوں میں عبداللہ بن عباس کی بصارت جاتی رہی تھی سو گیا خادم پھر آیا اور کہا کہ لوگ پڑھ چکے صبح کی نماز تو کھڑے ہوئے عبداللہ بن عباس اور وتر پڑھے پھر نماز پڑھی صبح کی۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عباس اور عبادہ بن الصامت اور قاسم بن محمد اور عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے وتر پڑھے بعد فجر ہو جانے کے۔

 

عبد اللہ بن مسعود نے کہا کہ مجھے کچھ ڈر نہیں ہے اگر میں وتر پڑھتا ہوں اور تکبیر ہو جائے صبح کی نماز کی۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت امامت کرتے تھے ایک قوم کی تو نکلے ایک روز صبح کی نماز کے لئے اور موذن نے تکبیر کہی پس خاموش کیا عبادہ نے موذن کو یہاں تک کہ وتر پڑھا پھر نماز پڑھائی صبح کی۔

 

عبدالرحمن بن قاسم سے روایت ہے کہ سنا انہوں نے عبداللہ بن عامر سے وہ کہتے تھے میں وتر پڑھتا ہوں اور سنا کرتا ہوں تکبیر صبح کی یا وتر پڑھتا ہوں بعد فجر کے شک ہے عبدالرحمن کو کس طرح کہا انہوں نے۔

 

عبدالرحمن بن قاسم نے سنا اپنے باپ سے وہ کہتے تھے میں وتر پڑھتا ہوں بعد فجر ہو جانے کے۔

 

               صبح کی سنتوں کا بیان

 

حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ جب اذان ہو چکتی صبح کی تو پڑھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو رکعتیں ہلکی، جماعت کھڑی ہونے سے پیشتر۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جلد پڑھتے فجر کی سنتوں کو یہاں تک کہ میں کہتی تھی سورہ فاتحہ بھی پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا نہیں۔

 

عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو پڑھا کرتے کلام اللہ کو بیٹھے بیٹھے جب تیس یا چالیس آیتیں باقی رہتیں تو کھڑے ہو کر ان کو پڑھتے پھر رکوع اور سجدہ کر تے اور دوسری رکعت میں اسی طرح کرتے۔

 

امام مالک کو پہنچا عروہ بن زبیر اور سعید بن مسیب سے کہ وہ نفل نماز پڑھتے بیٹھ کر دونوں پاؤں کو کھڑا کر کے اور سرین زمین سے لگا کر۔

 

 

               نماز وسطیٰ کا بیان

 

ابو یونس سے روایت ہے کہ حکم کیا مجھ کو ام المومنین حضرت عائشہ نے کلام کے لکھنے کا اور کہا کہ جب تم اس آیت پر پہنچو (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ:238) تو مجھ کو خبر کر دینا پس جب پہنچا میں اس آیت کو تو خبر دے دی میں نے ان کو، کہا انہوں نے یوں لکھو حافظو علی الصلوت والصلوٰۃ الوسطی والصلوٰۃ العصر یعنی محافظت کرو نمازوں پر اور وسطی نماز پر اور عصر کی نماز پر کہا عائشہ سے کہ میں نے سنا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔

 

عمرو بن رافع سے روایت ہے کہ کلام اللہ لکھتا تھا حضرت ام المومنین حفصہ کے واسطے تو کہا انہوں نے جب تم اس آیت پر پہنچو (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃ الْوُسْطیٰ) 2۔ البقرۃ:238)  تو مجھے اطلاع کرنا پس جب پہنچا اس آیت پر خبر کی میں نے ان کو تو لکھوایا انہوں نے اس طرح حافظوا علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطی وصلوۃ العصر وقومو اللہ قانتین یعنی محافظت کرو نمازوں پر اور بیچ والی نماز پر اور عصر کی نماز پر اور کھڑے رہو اللہ کے سامنے چپ اور خاموش۔

 

عبدالرحمن بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا زید بن ثابت سے کہتے تھے صلوۃ الوسطیٰ ظہر کی نماز ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا حضرت علی بن ابی طالب اور عبد اللہ بن عباس سے وہ دونوں صاحب فرماتے تھے کہ صلوۃ وسطیٰ صبح کی نماز ہے۔

 

 

               ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان

 

عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے ایک کپڑے میں لپیٹتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو اور دونوں کنارے اس کے دونوں کندھوں پر تھے حضرت ام سلمہ کے گھر میں

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ نماز درست ہے ایک کپڑے میں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا تم میں سے ہر کسی کو دو کپڑے ملتے ہیں۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ پوچھے گئے ابوہریرہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے سے کہا درست ہے پس کہا گیا ان سے کیا تم بھی ایسا کرتے ہو جواب دیا ہاں میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتا ہوں باوجود اس بات کے کہ میرے کپڑے تپائی پر رکھے ہوتے ہیں۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ جابر بن عبداللہ انصاری نماز پڑھتے تھے ایک کپڑے میں۔

 

ربیعہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ محمد بن عمرو بن حزم نماز پڑھتے تھے صرف کرتہ پہن کر۔

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص نہ پائے تو نماز پڑھے ایک کپڑا لپیٹ کر اگر کپڑا چھوٹا ہو تو اس کی تہ بند کر لے۔

 

               عورت کی نماز فقط کرتے اور سر بندھن میں ہو جانے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت ام المومنین عائشہ نماز پڑھتی تھیں کرتہ اور سر بندھن میں

 

ام حرام سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا حضرت ام سلمہ سے کہ عورت کس قدر کپڑوں میں نماز پڑھ سکتی ہے تو جواب دیا کہ خمار اور کرتہ میں ایسا لمبا ہو کہ اس سے پاؤں ڈھپ جائیں۔

 

عبید اللہ خولانی جو لے پالک تھے حضرت میمونہ ام المومنین کے ان سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ نماز پڑھتی تھیں کرتہ اور خمار یعنی سر بندھن میں اور ازار نہیں پہنے ہوتی تھیں۔

 

عروہ بن زبیر سے ایک عورت نے پوچھا کہ ازار باندھنا دشوار ہوتا ہے مجھ کو کیا نماز پڑھ لوں کرتہ اور سر بندھن میں جواب دیا عروہ نے کہ ہاں جب کرتہ خوب بڑا ہو۔

 

 

کتاب قصر الصلوٰۃ فی السفر

 

               دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان سفر اور حضر میں

 

اعرج سے روایت ہے کہ رسول اللہ جمع کرتے تھے ظہر اور عصر کو سفر تبوک میں

 

معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ صحابہ نکلے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوہ تبوک کے سال تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمع کرتے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو پس ایک دن تاخیر کی ظہر کی پھر نکل کر ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھا پھر داخل ہوئے ایک مقام میں پھر وہاں سے نکل کر مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھا پھر فرمایا کہ کل اگر خدا چاہے تو تم پہنچ جاؤں گے تبوک کے چشمہ پر سو تم ہرگز نہ پہنچو گے یہاں تک کہ دن چڑھ جائے گا اگر تم میں سے کوئی اس چشمہ پر پہنچے تو اس کا پانی نہ چھوئے جب تک میں نہ آلوں پھر پہنچے ہم اس چشمہ پر اور ہم سے آگے دو شخص وہاں پہنچ چکے تھے اور چشمہ میں کچھ تھوڑا سا پانی چمک رہا تھا پس پوچھا ان دونوں شخصوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا چھوا تم نے اس کا پانی بولے ہاں سو خفا ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں پر سخت کہا ان کو اور جو منظور تھا اللہ کو وہ کہا ان سے پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی چشمہ سے نکال کر ایک برتن میں اکٹھا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے منہ اور ہاتھ دونوں اس میں دھو کر وہ پانی پھر اس چشمہ میں ڈال دیا پس چشمہ خوب بھر کر بہنے لگا سو پیا لوگوں نے پانی اور پلایا جانوروں کو بعد اس کے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریب ہے اے معاذ اگر زندگی تیری زیادہ ہو تو دیکھے گا تو یہ پانی بھر دے گا باغوں کو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب جلدی چلنا سفر میں منظور ہوتا تو جمع کر لیتے مغرب اور عشاء کو۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ پڑھیں ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عصر ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء ایک ساتھ بغیر خوف اور بغیر سفر کے امام مالک نے کہا میرے نزدیک شاید یہ واقعہ بارش کے وقت ہو گا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جمع کر لیتے حاکموں کے ساتھ مغرب اور عشاء بارش کے وقت میں۔

 

ابن شہاب نے پوچھا سالم بن عبداللہ بن عمر سے کیا سفر میں ظہر اور عصر جمع کی جائیں بولے کچھ حرج نہیں ہے کیا تم نے عرفات میں نہیں دیکھا ظہر اور عصر کو جمع کر تے ہیں۔

 

امام زین العابدین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب دن کو چلنا چاہتے ظہر اور عصر کو جمع کر لیتے اور جب رات کو چلنا چاہتے مغرب اور عشاء کو جمع کر لیتے۔

 

               سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان

 

امیہ بن عبداللہ نے پوچھا عبداللہ بن عمر سے کہ ہم پاتے ہیں خوف کی نماز اور حضرت کی نماز کو قرآن میں اور نہیں پاتے ہیں ہم سفر کی نماز کو قرآن میں عبداللہ بن عمر نے جواب دیا کہ اے بھتیجے میرے اللہ جل جلالہ نے بھیجا ہمارے طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت میں کہ ہم کچھ نہ جانتے تھے پس کرتے ہیں ہم جس طرح ہم نے دیکھا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو کرتے ہوئے۔

 

حضرت ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ کہا انہوں نے نماز دو دو رکعتیں فرض ہوئیں تھیں حضر میں اور سفر میں بعد اس کے سفر میں نماز اپنے حال پر رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔

 

یحیی بن سعید نے کہا سالم بن عبداللہ سے کہ تم نے اپنے باپ کو کہاں تک دیر کرتے دیکھا مغرب کی نماز میں سفر میں سالم نے کہا آفتاب ڈوب گیا تھا اور ہم اس وقت ذات الجیش میں تھے پھر نماز پڑھی مغرب کی عقیق میں۔

 

               قصر کی مسافت کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب مدینہ سے نکلتے مکہ کو حج یا عمرہ کے لئے تو قصر کر تے نماز کو ذوالحلیفہ سے

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عبداللہ بن عمر مدینہ سے سوار ہوئے ریم کو جانے کے لئے تو قصر کیا نماز کو راہ میں

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سوار ہوئے مدینہ سے ذات النصب کو تو قصر کیا نماز کو راہ میں۔

 

عبد اللہ بن عمر سفر کرتے تھے مدینہ سے خیبر کا تو قصر کرتے تھے نماز کو۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر قصر کرتے تھے نماز کو پورے ایک دن کی مسافت میں۔

 

نافع سفر کرتے تھے عبداللہ بن عمر کے ساتھ ایک برید کا تو نہیں قصر کرتے تھے نماز کا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عباس قصر کرتے تھے نماز کو اس قدر مسافرت میں جتنی مکہ اور طائف کے بیچ میں ہے اور جتنی مکہ اور عسفان کے بیچ میں ہے اور جتنی مکہ اور جدہ کے بیچ میں ہے۔

 

               جب نیت اقامت کی نہ کرے اور یونہی ٹھہر جائے تو قصر کرنے کا بیان

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عرم کہتے تھے میں نماز قصر کیا کرتا ہوں جب تک نیت نہیں کرتا اقامت کی اگرچہ بارہ راتوں تک پڑا رہوں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر مکہ میں دس رات تک ٹھہرے رہے اور نماز کا قصر کرتے رہے مگر جب امام کے ساتھ پڑھتے تو پوری پڑھ لیتے۔

 

               مسافر جب نیت اقامت کی کرے تو اس کا بیان

 

سعید بن مسیب کہتے تھے جو شخص نیت کرے چار رات کے رہنے کی تو وہ پورا پڑھے نماز کو۔

 

               مسافر کا امام ہونا یا امام کے پیچھے نماز پڑھنا

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب جب مدینہ سے مکہ آئے تو جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیتے پھر کہتے اے مکہ والو تم اپنی نماز پوری پڑھو کیونکہ میں مسافر ہوں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر امام کے پیچھے منی میں چار رکعتیں پڑھتے تھے اور جب اکیلے پڑھتے تھے تو دو رکعتیں پڑھتے۔

 

صفوان بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر عیادت کرنے آئے عبداللہ بن صفوان کے پاس تو دو رکعتیں پڑھائیں پھر جب انہوں نے سلام پھیرا ہم اٹھے اور پورا کیا نماز کو۔

 

               سفر میں رات اور دن کو نفل پڑھنے کا بیان اور جانور پر نماز پڑھنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سفر میں فرض کے ساتھ نفل نہیں پڑھتے تھے نہ آگے فرض کے نہ بعد فرض کے مگر رات کو زمین پر اتر کے اور کبھی اونٹ ہی پر نفل پڑھتے تھے اگرچہ منہ اونٹ کا قبلہ کی طرف نہ ہوتا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ قاسم بن محمد اور عروہ بن زبیر اور ابوبکر بن عبدالرحمن نفل پڑھا کر تے تھے سفر میں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے بیٹے عبید اللہ کو سفر میں نفل پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے پھر کچھ انکار نہ کر تے تھے ان پر۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے گدھے پر اور رخ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خیبر کی جانب تھا۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے تھے اونٹ پر سفر میں جس طرف اونٹ کا منہ ہوتا تھا اسی طرف اپنا منہ کرتے تھے عبداللہ بن دینار نے کہا کہ عبداللہ بن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضرت انس کو نماز پڑھتے تھے سفر میں گدھے پر اور منہ ان کا قبلہ کی طرف نہ تھا رکوع اور سجدہ اشارہ سے کر لیتے تھے بغیر اس امر کے کہ منہ اپنا کسی چیز پر رکھیں۔

 

               چاشت کی نماز کا بیان جس کو اشراق کی نماز بھی کہتے ہیں وقت اس کا آفتاب کے بلند ہونے سے دوپہر تک ہے

 

ام ہانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس سال مکہ فتح ہوا آٹھ رکعتیں چاشت کی پڑھیں ایک کپڑا اوڑھ کر۔

 

ام ہانی سے روایت ہے کہ میں گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جس سال فتح ہوا مکہ تو پایا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل کرتے ہوئے فاطمہ بیٹی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی چھپائے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک کپڑے سے کہا ام ہانی نے سلام کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کون ہے میں نے کہا ام ہانی بیٹی ابو طالب کی تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خوشی ہو ام ہانی کو پھر جب فارغ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل سے کھڑے ہو کر آٹھ رکعتیں پڑھیں ایک کپڑا پہن کر جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے بھائی علی کہتے ہیں میں مار ڈالوں گا اس شخص کو جس کو تو نے پناہ دی ہے وہ شخص فلاں بیٹا ہبیرہ کا ہے پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم نے پناہ دی اس شخص کو جس کو توں نے پناہ دی اے ام ہانی۔ کہا امی ہانی نے اس وقت چاشت کا وقت تھا۔

 

حضرت ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا نہیں دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز چاشت کی پڑھتے ہوئے کبھی بھی مگر میں پڑھتی ہوں اس کو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاعدہ تھا کہ ایک بات کو دوست رکھتے تھے مگر اس کو نہیں کرتے تھے اس خوف سے کہ لوگ بھی اس کو کرنے لگیں اور وہ فرض ہو جائے۔

 

حضرت ام المومنین حضرت عائشہ نماز ضحی کی آٹھ رکعتیں پڑھا کرتیں پھر کہتیں اگر میری ماں اور باپ جی اٹھیں تو بھی میں ان رکعتوں کو نہ چھوڑوں۔

 

               نماز چاشت کی متفرق حدیثیں

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ ان کی نانی ملیکہ نے دعوت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پس کھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھانا پھر فرمایا کہ کھڑے ہو تاکہ میں نماز پڑھوں تمہارے واسطے کہا انس نے پس کھڑا ہوا میں ایک بوریا لے کر جو سیاہ ہو گیا تھا بوجہ پرانا ہونے کے تو بھگویا میں نے اس کو پانی سے اور کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر اور صف باندھی میں نے اور یتیم نے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور بڑھیاں نے پیچھے ہمارے تو پڑھائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو رکعتیں پھر چلے گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم۔

 

عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ میں گیا عمر بن خطاب کے پاس گرمی کے وقت تو پایا میں نے ان کو نفل پڑھتے ہوئے پس کھڑا ہونے لگا میں یچھے ان کے سو قریب کر لیا انہوں نے مجھ کو اور کھڑا کیا آپ نے برابر داہنی طرف بعد اس کے جب آیا یرفا تو پیچھے ہٹ گیا میں اور صف باندھی ہم دونوں نے پیچھے حضرت عمر کے۔

 

               نمازی کے سامنے سے چلے جانے کا بیان

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہو تو کسی کو اپنے سامنے سے جانے نہ دے اگر کوئی جانا چاہے تو اس کو اشارہ سے منع کرے اگر نہ مانے تو پھر زور سے منع کرے اس لئے کہ وہ شیطان ہے۔

 

ابو جہیم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر جانے گزر جانے والا سامنے سے نمازی کے کتنا عذاب ہے اس پر تو چالیس (دن، یا مہینے، یابرس) کھڑا رہے تو بہتر معلوم ہو اس کو گزر جانے سے شک ہے اس روایت میں ابو النصر کو۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ کعب الاحبار نے کہا جو شخص گزرتا ہے نمازی کے سامنے سے اگر اس کو معلوم ہو عذاب اس فعل کا تو اگر دھنس جائے زمین میں تو اچھا معلوم ہو اس کو سامنے سے گزر جانے سے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ تھے عبداللہ بن عمر ناپسند سمجھتے تھے یہ کہ وہ گزرے عورتوں کے آگے سے اور وہ نماز پڑھ رہی ہوں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نہیں گزرتے تھے نماز میں کسی کے سامنے سے اور نہ اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے دیتے تھے۔

 

               نمازی کے سامنے سے گزر جانے کی اجازت

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں گدھی پر سوار ہو کر آیا اور سن میرا قریب بلوغ کے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھا رہے تھے منی میں تو گزر گیا میں تھوڑا صف کے سامنے سے پھر اترا میں اور چھوڑ دیا گدھی کو وہ چرتی رہی اور میں صف میں شریک ہو گیا بعد نماز کے کسی نے کچھ برا نہ مانا۔

 

امام مالک کو پہنچا سعد بن ابی وقاص صفوں کے سامنے سے گزر جاتے تھے نماز میں۔

 

امام مالک کو پہنچا حضرت علی سے کہتے تھے نمازی کے سامنے سے کوئی چیز بھی گزر جائے تو نماز اس کی نہیں ٹوٹتی۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کہ نمازی کے سامنے سے کوئی چیز بھی گزر جائے مگر اس کی نماز نہیں ٹوٹتی۔

 

               سفر میں سترہ کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا عبداللہ بن عمر اپنے اونٹ کو سترہ بنا لیتے جب نماز پڑھتے سفر میں

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ نماز پڑھتے تھے صحرا میں بغیر سترہ کے۔

 

               نماز میں کنکروں کا ہٹانا

 

ابو جعفر قاری سے روایت ہے کہ دیکھا میں نے عبداللہ بن عمر کو جب جھکتے تھے سجدہ کرنے کے لئے اور اپنے سجدہ کے مقام سے ہلکا سا کنکریوں کو ہٹا دیتے تھے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ پہنچا ان کو ابوذر کہتے تھے کنکریوں کا ایک بار ہٹانا درست ہے اور نہ ہٹانا سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔

 

               صفیں برابر کرنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب لوگوں کو صفیں برابر کرنے کا حکم دیتے تھے جب وہ لوگ لوٹ کر خبر دیتے کہ صفیں برابر ہو گئیں اس وقت تکبیر کہتے۔

 

مالک بن ابی عامر اصبحی سے روایت ہے کہ تھا میں عثمان بن عفان کے ساتھ اتنے میں تکبیر ہوئی نماز کی اور میں ان سے باتیں کرتا رہا اس لئے کہ میرا کچھ وظیفہ مقرر کریں اور وہ برابر کر رہے تھے کنکریوں کو اپنے جوتوں سے یہاں تک کہ آن پہنچے وہ لوگ جن کو صفیں برابر کرنے کے لئے مقرر کیا تھا اور انہوں نے خبر دی ان کو اس بات کی صفیں برابر ہو گئیں تو کہا مجھ سے کہ شریک ہو جا صف میں پھر تکبیر کہی۔

 

               نماز میں داہنا ہاتھ بائیں پر رکھنا

 

عبدالکریم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا نبوت کی باتوں میں سے یہ بات ہے کہ جب تجھے حیا نہ ہو تو جو جی چاہے کر اور نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا اور روزہ جلدی افطار کرنا اور سحری کھانے میں دیر کرنا۔

 

سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ لوگوں کو حکم کیا جاتا تھا نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کا کہا ابو حازم نے کہا میں سمجھتا ہوں سہل اس حدیث کو مرفوع کہتے تھے۔

 

               صبح کی نماز میں قنوت پڑھنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر قنوت نہیں پڑھتے تھے کسی نماز میں

 

               پاخانہ یا پیشاب کی حاجت کے وقت نماز نہ پڑھنا

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ارقم امامت کرتے تھے اپنے لوگوں کی تو ایک دن نماز تیار ہوئی لیکن آپ چلے گئے حاجت کو پھر آئے اور بولے کو سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے جب قصد کرے کوئی تم میں سے پائخانہ کا تو پہلے پائخانہ کر لے پھر نماز پڑھے۔

 

حضرت عمر نے فرمایا کہ کوئی تم میں نماز نہ پڑھے جب وہ روکے پیشاب یا پائخانہ کو۔

 

               نماز کے انتظار کرنے کا اور نماز کا جانے کا ثواب

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرشتے دعا کرتے ہیں کہ اس شخص کے لئے جو بیٹھا رہے اس جگہ میں جہاں وہ نماز پڑھ چکا ہے جب تک اس کو حدث نہ ہو کہتے ہیں اے اللہ بخش دے اس کو رحم کر اس پر۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز ہی میں رہتا ہے وہ شخص جس کو نماز گھر میں جانے سے روکے رہے۔

 

ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے تھے جو شخص صبح کو یا سہ پہر کو جائے مسجد میں نیک امر سیکھنے کو یا سکھانے کو پھر لوٹ آئے اپنے گھر میں تو گویا جہاد سے غنیمت لے کر لوٹا۔

 

ابوہریرہ کہتے تھے جو شخص تم میں سے نماز پڑھ کر وہیں بیٹھا رہے تو ملائکہ دعا کرتے ہیں اس کے لئے یا اللہ بخش دے اس کو رحم کر اس پر اگر کھڑا ہو گیا اس جگہ سے لیکن بٹیھا رہا مسجد میں نماز کے انتظار میں تو گویا وہ نماز ہی میں ہے جب تک نماز پڑھے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا نہ بتاؤں میں تم کو وہ چیزیں جو دور کرتی ہیں گناہوں کو اور بڑھاتی ہیں درجوں کو پورا کرنا وضو کا تکلیف کے وقت اور قدم بہت ہونا مسجد تک اور انتظار کرنا نماز کا بعد ایک نماز کے یہی رباط ہے یہی رباط ہے یہی رباط۔

 

سعید بن مسیب نے کہا کہتے ہیں مسجد سے بعد اذان کے جو نکل جائے اور پھر آنے کا اردہ نہ ہو تو وہ منافق ہے۔

 

               جو شخص مسجد میں جائے تو بغیر دو رکعتیں نفل پڑھے ہوئے نہ بیٹھے

 

ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے۔

 

ابو النضر سے روایت ہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہا مجھ سے میں نہیں دیکھتا تمہارے صاحب یعنی عمر بن عبید اللہ کو تحیۃالمسجد پڑھتے ہوئے جب آتے ہیں مسجد کو تو بیٹھ جاتے ہیں بغیر پڑھے ہوئے ابو نضر نے کہا کہ ابو سلمہ عیب کرتے تھے اس امر کا عمر بن عبید اللہ پر۔

 

               جس چیز پر سجدہ کرے اس پر دونوں ہاتھ رکھے

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب سجدہ کرتے تھے تو جس چیز پر سجدہ کرتے تھے اسی پر ہاتھ رکھتے تھے نافع نے کہا کہ سخت جاڑے کے دن میں نے عبداللہ بن عمر کو دیکھا اپنے ہاتھ نکالتے تھے جبہ سے اور رکھتے تھے ان کر پتھریلی زمین پر۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص پیشانی زمین پر رکھے تو اپنے ہاتھ بھی زمین پر رکھے پھر منہ اٹھائے تو ہاتھ بھی اٹھائے اس لئے کہ ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں جیسے منہ سجدہ کرتا ہے۔

 

               نماز میں کسی طرف دیکھنا یا دستک دینا وقت حاجت کے

 

سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گئے بنی عمرو بن عوف کے پاس ان میں صلح کرنے کو اور وقت آ گیا نماز کا تو موذن ابوبکر صدیق کے پاس آ کر بولا اگر تم نماز پڑھاؤ تو میں تکبیر کہوں بولے اچھا پس شروع کی نماز ابوبکر نے اور آ گئے رسول اللہ اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم صفوں کو چیر کر پہلی صف میں آ کر کھڑے ہو گئے پس دستک دی لوگوں نے مگر ابوبکر نماز میں کسی طرف دھیان نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے بہت زور سے دستکیں دینا شروع کیں تب دیکھا ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور ارادہ کیا پیچھے ہٹنے کا پس اشارہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی جگہ پر رہو تو دونوں ہاتھ اٹھا کر ابوبکر نے خدا کا شکر کیا اس بات پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو امام رہنے کا حکم دیا پھر پیچھے ہٹ آئے ابوبکر اور آگے بڑھ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور نماز پڑھا کر فارغ ہوئے پھر فرمایا اے ابوبکر تم کیوں اپنی جگہ پر کھڑے نہ رہے جب میں نے تم کو اشارہ کیا تھا ابوبکر نے کہا بھلا ابو قحافہ کے بیٹے کو یہ بات پہنچتی ہے کہ نماز پڑھاۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہوتے ہوئے تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے تم نے اس قدر دستکیں کیوں بجائیں جس شخص کو نماز میں کچھ حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہے لوگ اس طرف دیکھ لیں گے اور دستک دینا عورتوں کے لئے ہے

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز میں التفات نہیں کرتے تھے۔

 

ابو جعفر قاری سے روایت ہے کہ میں پڑھتا تھا اور عبداللہ بن عمر میرے پیچھے تھے مجھے خبر نہ تھی میں نے ان کو دیکھا تو دبا د یا انہوں نے مجھ کو۔

 

               جو شخص آیا اور امام کو رکوع میں پایا وہ کیا کرے

 

ابو امامہ بن سہل سے روایت ہے کہ زید بن ثابت مسجد میں آئے تو امام کو رکوع میں پایا پس رکوع کر لیا پھر آہستہ چل کر صف میں مل گئے۔

 

امام مالک کو پہنچا عبداللہ بن مسعود سے کہ وہ رکوع میں آہتسہ چلتے تھے صف میں مل جانے کو۔

 

               دورد شریف کے بیان میں

 

ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیونکر درود بھیجیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہو اے پروردگار رحمت اتار اپنی محمد اور ان کی بیبیوں اور آل پر جیسے رحمت کی تو نے ابراہیم پر اور برکت اتار محمد اور ان کی بیبیوں پر اور آل پر جیسے تو نے برکت اتاری ابراہیم کی اولاد پر بے شک تو تعریف کے لائق اور بڑا ہے۔

 

ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے ہمارے پاس سعد بن عبادہ کے مکان میں تو کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بشیر بن سعد نے حکم کیا ہم کو اللہ جل جلالہ نے درود بھیجنے کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر تو کیوں کر درود بھیجیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر پس چپ ہو رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہاں تک کہ ہم کو تمنا ہوئی کہ کاش نہ پوچھتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہو اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم فی العالمین انک حمید مجید اور سلام بھیجنے کی ترکیب جیسے تم جان چکے ہو۔

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو کھڑے ہوتے تھے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر پر درود بھیجتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ابوبکر اور عمر پر۔

 

               متفرق حدیثیں نماز کی

 

ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے ظہر کی اول دو رکعتیں اور بعد ظہر کے دو رکعتیں اور بعد مغرب کے دو رکعتیں اپنے گھر میں اور بعد عشا کے دو رکعتیں اور نہیں پڑھتے تھے بعد جمعہ کے مسجد میں یہاں تک کہ گھر میں آتے تو دو رکعتیں پڑھتے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم دیکھتے ہو میرا منہ قبلہ کی طرف قسم خدا کی مجھ سے چھپا نہیں ہے خشوع تمہارا نماز میں اور رکوع تمہارا میں دیکھتا ہوں تم کو پیٹھ کے پیچھے سے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آتے تھے قبا میں سوار ہو کر اور پیدل۔

 

نعمان بن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا رائے ہے تمہاری اس شخص میں جو شراب پئے اور چوری کرے اور زنا کرے اور تھا یہ امر قبل اترنے حکم کے ان کے باب میں تو کہا صحابہ نے اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ برے کام ہیں ان میں سزا ضرور ہے اور سب چوریوں میں بری نماز کی چوری ہے پوچھا صحابہ نے نماز کا چور کیونکر ہے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا چور وہ ہے جو رکوع اور سجدہ کو پورا نہ کرے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ ایک حصہ اپنی نماز میں سے اپنے گھروں میں ادا کرو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے بیمار کو اگر سجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو تو سر سے اشارہ کرے لیکن کوئی چیز اپنی پیشانی کے سامنے اونچی نہ رکھے۔

 

ربیعہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب آتے مسجد میں اور معلوم ہوتا کہ جماعت ہو چکی ہے تو فرض شروع کرتے اور سنتیں نہ پڑھتے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر گزرے ایک شخص پر اور وہ نماز پڑھ رہے تھے تو سلام کیا اس کو اس نے جواب دیا زبان سے پھر لوٹے عبداللہ بن عمر اور کہا اس سے جب کوئی سلام کرے تم پر تم نماز پڑھتے ہو تو زبان سے جواب نہ دو بلکہ ہاتھ سے اشارہ کر دو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص بھول جائے نماز کو پھر یاد کرے اور وہ دوسری نماز میں امام کے پیچھے ہو تو جب امام سلام پھیرے تو چاہئے کہ اس نماز کو پڑھ کر جو نماز امام کے ساتھ پڑھی ہے اس کا اعادہ کرے۔

 

واسع بن حبان سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور عبداللہ بن عمر قبلہ کی طرف پیٹھ کئے ہوئے بیٹھے تھے تو جب نماز سے فارغ ہوا بائیں طرف سے مڑ کر ان کے پاس گیا تو عبداللہ بن عمر نے کہا تو داہنی طرف سے مڑ کر کیوں نہ آیا میں نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر بائیں طرف سے مڑ کر چلا آیا عبداللہ نے کہا تو نے اچھا کیا ایک صاحب کہتے ہیں کہ جب نماز پڑھ چکے تو داہنی طرف سے مڑ کر مگر تو جب نماز پڑھے تو جدھر سے چاہے مڑ کر جا داہنی طرف سے یا بائیں طرف سے۔

 

عبد اللہ بن عمر بن العاص سے ایک شخص نے پوچھا کیا نماز پڑھوں میں اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ میں نے کہا نہیں لیکن پڑھ لے بکری کے تھانوں میں۔

 

سعید بن مسیب نے کہا کہ وہ کون سی نماز ہے جس میں ہر رکعت کے بعد بیٹھنا پڑے پھر خود ہی کہا وہ نماز مغرب کی ہے جب ایک رکعت فوت ہو جائے امام کے ساتھ۔

 

               جامع الصلوٰۃ

 

ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے تھے اپنی نواسی امامہ کو جو بیٹی زینب کی تھیں ابو العاص سے اٹھائے ہوئے تو جب سجدہ کرتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بٹھا دیتے ان کو زمین پر جب کھڑے ہوتے اٹھا لیتے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آتے جاتے رہتے ہیں فرشتے تمہارے پاس رات کے جدا ہونے کے وقت اور دن کے جدا ہونے کے وقت اور جمع ہو جاتے ہیں سب عصر کی اور فجر کی نماز میں پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے ساتھ رہتے ہیں چڑھ جاتے ہیں اور پس پوچھتا ہے ان سے پروردگار ( حالانکہ وہ خوب جانتا ہے) کس حال میں چھوڑا تم نے میرے بندوں کو؟ کہتے ہیں ہم نے چھوڑا ان کو نماز میں، جب ہم گئے تھے جب بھی نماز پڑھتے تھے۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا مرض موت میں ابوبکر کو نماز پڑھانے کا تو کہا میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ابوبکر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو روتے روتے ان کی آواز نہ نکلے گی تو حکم کیجئے عمر کو نماز پڑھانے کا میں نے حفصہ سے کہا تم کہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ابوبکر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ میں کھڑے ہوں گے تو روتے روتے ان کی آواز نہ نکلے گی پس حکم کیجئے عمر کو نماز پڑھانے کا سو کہا حضرت نے تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم یوسف کی ساتھی عورتوں کی طرح ہو کہو ابوبکر سے نماز پڑھانے کو پس کہا حفصہ نے عائشہ سے تم سے مجھے بھلائی نہ ہوئی۔

 

عبید اللہ بن عدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے لوگوں میں، اتنے میں ایک شخص آیا اور کان میں کچھ بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے لگا ہم کو خبر نہیں ہوئی کیا کہتا ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پکار کر بول اٹھے تب معلوم ہوا وہ شخص حضرت سے ایک منافق کے قتل کی اجازت چاہتا تھا تو جب پکار اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو فرمایا کیا وہ شخص گواہی نہیں دیتا اس امر کی کہ کوئی معبود حق نہیں ہے سوا خدا کے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم بے شک اس کے رسول ہیں اس شخص نے کہا ہاں مگر اس کی گواہی کا کچھ اعتبار نہیں تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا وہ نماز نہیں پڑھتا بولا ہاں پڑھتا ہے لیکن اس کی نماز کا کچھ اعتبار نہیں ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں کے قتل سے منع کیا ہے مجھ کو اللہ نے۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اے پروردگار مت بنا قبر میری کو بت، کہ لوگ اس کو پوجیں بہت بڑا غضب اللہ کا ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔

 

محمود بن لبید انصاری سے روایت ہے کہ عتبان بن مالک امامت کرتے تھے اپنی قوم کی اور ان کی بینائی میں ضعف تھا کہا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کبھی اندھیرا یا پانی یا بہاؤ ہوتا ہے اور میری بینائی میں فرق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر میں کسی مقام پر نماز پڑھ دیجئے تاکہ میں اس جگہ کو اپنا مصلی بناؤں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور کہا کس جگہ تم میری نماز پڑھنا پسند کرتے ہو انہوں نے ایک جگہ بتا دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں نماز پڑھ دی۔

 

عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چپ لیٹے ہوئے تھے مسجد میں ایک پاؤں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرے پاؤں پر تھا

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان ایسا کیا کرتے تھے

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے کہا ایک شخص سے تم ایسے زمانے میں ہو کہ عالم اس میں بہت ہیں صرف لفظ پڑھنے والے کم ہیں عمل زیادہ کیا جاتا ہے قرآن کے حکموں پر اور لفظوں کا ایسا خیال نہیں کیا جاتا پوچھنے والے کم ہیں جواب دینے والے بہت ہیں یا بھیک مانگنے والے کم ہیں اور دینے والے بہت ہیں لمبا کرتے ہیں نماز کو اور چھوٹا کرتے ہیں خطبہ کو نیک عمل پہلے کرتے ہیں اور نفس کی خواہش کو مقدم نہیں کرتے اور قریب ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کم ہوں گے عالم اس وقت میں الفاظ پڑھنے والے بہت ہوں گے یاد کئے جائیں گے الفاظ قرآن کے اور اس کے حکموں پر عمل نہ کیا جائے گا پوچھنے والے اور مانگنے والے بہت ہوں گے اور جواب دینے والے اور دینے والے بہت کم ہوں گے لمبا کریں گے خطبہ کو اور چھوٹا کریں گے نماز کو اپنی خواہش نفس پر چلیں گے اور عمل نیک نہ کریں گے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ پہنچی ان کو حدیث کہ قیامت کے دن پہلے نماز دیکھی جائے گی اگر نماز قبول ہو گئی تو پھر اور عمل اس کے دیکھے جائیں گے ورنہ کوئی عمل پھر نہ دیکھا جائے گا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ کام بہت پسند تھا جو ہمیشہ آدمی اس کو کرتا رہے۔

 

سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ دو بھائی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ان میں سے ایک دوسرے سے چالیس دن پہلے مر گیا تو لوگوں نے تعریف کی اس کی جو پہلے مرا تھا تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا دوسرا بھائی مسلمان نہ تھا بولے ہاں مسلمان تھا وہ بھی کچھ برا نہ تھا تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم کیا جانو دوسرے کی نماز نے اس کو کس درجہ پر پہنچایا نماز کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک نہر میٹھے پانی کی بہت گہری کسی نے دروازے پر بہتی ہو اور وہ اس میں پانچ وقت غوطہ لگایا کرے کیا اس کے بدن پر کچھ میل رہے گی پھر تم کیا جانو کہ نماز نے دوسرے بھائی کے مرتبہ کس درجہ کر پہنچایا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عطاء بن یسار جب دیکھتے کسی شخص کو جو سودا بیچتا ہے مسجد میں پھر بلاتے اس کو پھر پوچھتے اس سے کیا ہے تیرے پاس اور تو کیا چاہتا ہے اگر وہ بولتا کہ میں بیچنا چاہتا ہوں تو کہتے جاؤ دنیا کے بازار میں یہ تو آخرت کا بازار ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر نے ایک جگہ بنا دی مسجد کے کونے میں اس کا نام بطیحا تھا اور کہہ دیا تھا کہ جو کوئی بک بک کرنا چاہے یا اشعار پڑھنا چاہے یا پکارنا چاہے تو اس جگہ کو چلا جائے۔

 

طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے کہ آیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نجد کا رہنے والا اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی لیکن اس کی بات سمجھ میں نہ آتی تھی یہاں تک کہ قریب آیا تو وہ پوچھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اسلام کے معنی فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ نمازیں پڑھنا رات دن میں تب وہ شخص بولا سوا ان کے اور بھی کوئی نماز مجھ پر ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں مگر نفل پڑھنا چاہے تو تو پڑھ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور روزے رمضان کے بولا سوا ان کے اور بھی کوئی روزہ مجھ پر ہے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں مگر نفل رکھے تو پھر ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زکوٰۃ کا وہ شخص بولا اس کے سوا بھی کچھ صدقہ مجھ پر فرض ہے فرمایا نہیں مگر اگر اللہ چاہے تو دے پس پیٹھ موڑ کر چلا وہ شخص تب فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیڑا اس کا پار ہوا اگر سچ بولا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب آدمی سو جاتا ہے تو باندھتا ہے شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں ہر گرہ مار کر کہتا جاتا ہے کہ ابھی تجھ کو بڑی رات باقی ہے تو سو رہ پھر اگر جاگتا ہے آدمی اور یاد کرتا ہے اللہ جل جلالہ کو کھل جاتی ہے ایک گرہ اگر وضو کرتا ہے کھل جاتی ہے دوسری گرہ پھر اگر نماز پڑھتا ہے صبح کی کھل جاتی ہے تیسری گرہ پس رہتا ہے وہ شخص اس دن خوش دل اور خوش مزاج ورنہ رہتا ہے بد نفس مجہول۔

 

 

کتاب العیدین

 

               عیدین کے غسل کا بیان

 

کہا مالک نے کہ میں نے سنا ہے بہت سارے علماء سے کہتے تھے عید الفطر اور عید الضحی میں اذان اور اقامت نہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے اب تک مالک نے کہا ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر غسل کر تے تھے عید فطر کے دن قبل عید گاہ جانے کے۔

 

               نماز عید کی قبل خطبے کے پڑھنا

 

روایت ہے ابن شہاب سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے عید الفطر اور عید الضحی کی قبل خطبے کے (یعنی خطبہ عیدین کا بعد نماز عیدین کے) پڑھتے تھے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت ابوبکر اور عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

 

ابو عبید سے جو معلی ہیں عبدالرحمن بن ازہر کے روایت ہے کہ میں حاضر ہوا عید کے روز عمر بن خطاب کے ساتھ تو نماز پڑھی حضرت عمر نے پھر فارغ ہوئے اور خطبہ پڑھا تو کہا کہ یہ دو دن وہ دن ہیں کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روزہ رکھنے سے ان دنوں میں یہ عید الفطر کا دن ہے جس دن تم روزہ موقوف کرتے ہو اور عید الضحی وہ دن ہے کہ اس دن اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو ابو عبید نے کہا کہ پھر حاضر ہوا میں عید کو عثمان بن عفان کے ساتھ تو انہوں نے آ کر نماز پڑھی پھر نماز سے فارغ ہو کر خطبہ پڑھا اور کہا کہ آج کے روزہ دو عید ہیں تو جس شخص کا جی چاہے باہر والوں سے تو ٹھہر جائے جمعہ کے واسطے اور جو چاہے کہ اپنے گھر جائے تو چلا جائے میں نے اجازت دی کہا ابو عبید نے پھر حاضر ہوا میں عید کو ساتھ علی بن ابی طالب کے اور عثمان گھرے ہوئے تھے تو حضرت علی نے آ کر نماز پڑھائی پھر نماز سے فارغ ہو کر خطبہ پڑھا۔

 

               عیدالفطر میں نماز کو جانے کے اول کچھ کھا لینا

 

عروہ بن زبیر عیدالفطر کے روز کھانا کھا لیتے قبل نماز کو جانے کے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ لوگوں کو حکم ہوتا تھا کھانا کھا لینے کا قبل نماز کو جانے کے۔

 

               عیدین کی تکبیرات اور قرأت کا بیان

 

عمر بن خطاب نے پوچھا ابو واقد لیثی سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کون سی سورتیں پڑھتے تھے عیدین میں بو لے سورۃ قاف اور سورہ قمر۔

 

نافع سے روایت ہے کہ میں نے نماز پڑھی عید الضحی اور عید الفطر کی ساتھ ابوہریرہ کے تو پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں قبل قرات کے اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قبل قرات کے۔

 

               عیدین کی نماز کے اول اور بعد نفل نہ پڑھنا

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نہیں نفل پڑھتے تھے قبل نماز عید کے اور نہ بعد نماز کے۔

 

مالک کو پہنچا کہ سعید بن مسیب عید گاہ کو جاتے تھے نماز صبح کی پڑھ کر قبل طلوع آفتاب کے۔

 

               قبل نماز عید کے اور بعد اس کے نفل پڑھنے کی اجازت

 

قاسم بن محمد قبل عیدگاہ جانے کے چار رکعتیں نفل اپنے گھر میں پڑھ کر جاتے تھے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ وہ نفل پڑھتے تھے قبل نماز عید کے مسجد میں۔

 

               امام کا نماز عید کو جانے کا وقت اور انتظار کرنا خطبے کا

 

کہا مالک نے وہ سنت جس میں ہمارے نزدیک اختلاف نہیں ہے یہ کہ عید الفطر اور عید الضحی کے لئے اس وقت گھر سے نکلے کہ عید گاہ تک پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت آ جائے۔

 

 

کتاب صلوۃ الخوف

 

               نماز خوف کا بیان

 

روایت ہے اس شخص سے جس نے نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں خوف کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کچھ لوگ کھڑے ہوئے نماز کو اور کچھ لوگ دشمن کے سامنے رہے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت پڑھی ان لوگوں کے ساتھ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے رہے اور وہ لوگ اپنی نماز پوری کر کے چلے گئے اور جو لوگ دشمن کے سامنے تھے وہ آئے ان کے ساتھ آپ نے ایک رکعت پڑھی پھر آپ بیٹھے رہے اور ان لوگوں نے ایک رکعت پڑھی جب آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا

 

سہل بن ابی حثمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا نماز خوف کی اس طرح پر ہے کہ امام کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ نماز کے لیے کھڑا کر لے اور کچھ لوگ دشمن کے سامنے رہیں تو امام ایک رکعت پڑھے اور سجدہ کرے جب سجدہ سے کھڑا ہو تو امام کھڑا رہے اور مقتدی اپنی ایک رکعت جو باقی ہے پڑھ کو سلام پھیر کر چلے جائیں دشمن کے سامنے اور دشمن کے سامنے جو لوگ تھے وہ آ کر تکبیر تحریمہ کہہ کر امام کے ساتھ شریک ہوں تو امام رکوع اور سجدہ سے فارغ ہو کر سلام پھیر دے اور لوگ کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیریں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر سے جب سوال ہوتا نماز خوف کا کہتے امام آگے بڑھے نماز کو اور کچھ لوگ اس کے پیچھے ہوں تو ان کو امام ایک رکعت پڑھائے اور کچھ لوگ دشمن کے سامنے ہوں تو جب وہ لوگ جو امام کے پیچھے تھے ایک رکعت پڑھ چکیں دشمن کے سامنے چلے جائیں اور سلام نہ پھیریں اور وہ لوگ چلے آئیں جنہوں نے نماز نہیں شروع کی اب وہ لوگ امام کے پیچھے ایک رکعت پڑھیں پھر امام سلام پھیر دے اور باری باری ہر ہر گروہ کے لوگ آ کر ایک ایک رکعت اور پڑھ کر نماز اپنی تمام کریں تاکہ ہر ایک گروہ کی دو دو رکعتیں ہو جائیں اور اگر خوف بہت سخت ہو تو کھڑے کھڑے پیادے نماز پڑھ لیں اشارے سے اور سوار سواری پر اگرچہ منہ ان کا قبلہ کی طرف نہ ہو۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عصر کی نماز نہیں پڑھی جنگ خندق میں یہاں تک کہ ڈوب گیا آفتاب۔

 

 

 

کتاب صلوۃ الخسوف

 

               نماز کسوف کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ گہن لگا سورج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں تو نماز پڑھائی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ لوگوں کے پس کھڑے ہوئے بہت دیر تک پھر رکوع کیا بڑی دیر تک پھر کھڑے ہوئے بڑی دیر تک لیکن اول سے کچھ کم پھر رکوع کیا بڑی دیر تک لیکن اول رکوع سے کچھ کم پھر سر اٹھایا یا رکوع کیا پھر سجدہ کیا پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب روشن ہو گیا تھا پھر خطبہ پڑھا اور حمد و ثناء کی اللہ جل جلالہ کی پھر فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں نشانیاں ہیں پروردگار کی نشانیوں سے کسی کی موت یا زیست کے واسطے ان میں گہن نہیں لگتا تو جب دیکھو تو گہن پس دعا کرو اللہ سے اور تکبیر کہو اور صدقہ دو پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم قسم خدا کی اللہ جل جلالہ سے کسی کو زیادہ غیرت نہیں ہے اس امر میں کہ اس کا بندہ یا اس کی لونڈی زنا کرے اے امت محمد اگر تم جانتے ہوتے جو میں جانتا ہوں تو ہنستے تم تھوڑا اور روتے بہت۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ گہن لگا سورج میں تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور لوگوں نے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم دیر تک جیسے سورۃ بقرہ پڑھنے میں دیر ہوتی ہے پھر رکوع کیا ایک لمبا رکوع پھر سر اٹھایا پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بڑی دیر تک لیکن پہلے قیام سے کچھ کم پھر رکوع کیا ایک رکوع لمبا لیکن اول رکوع سے کچھ کم پھر سجدہ کیا پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بڑی دیر تک لیکن اول قیام سے کچھ کم پھر رکوع کیا لمبا رکوع لیکن اول رکوع سے کم پھر سر اٹھایا پھر کھڑے ہوئے بڑی دیر تک لیکن اول قیام سے کچھ کم پھر رکوع کیا ایک لمبا رکوع لیکن اول رکوع سے کچھ کم پھر سجدہ کیا تو فارغ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے اور آفتاب روشن ہو گیا تھا پس فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورج اور چاند دو نشانیاں ہیں اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے، نہیں گہن لگتا ان میں سے کسی کی زندگی اور موت سے جب تم ایسا دیکھو تو ذکر کرو اللہ کا صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم آگے بڑھے کسی چیز کو لینے کے لئے پھر پیچھے ہٹ آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پس دیکھا میں نے جنت کو پس لینا چاہا میں نے اس میں سے ایک گچھا اگر میرے ہاتھ لگ جاتا تو تم اس میں سے کھایا کرتے جب تک دنیا باقی رہتی اور میں نے دیکھا جہنم کو ایسی ہولناک اور ہیبت صورت کہ کبھی میں نے ایس صورت نہ دیکھی ہے نہ دیکھی تھی اور میں نے دیکھا کہ جہنم میں عورتیں زیادہ ہیں صحابہ نے کہا کیوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عورتوں کی نا شکری نے ان کو جہنم میں ڈالا کہا صحابہ نے کیا کفر کرتی تھیں ساتھ اللہ کے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفر کرتی ہیں یعنی نا شکری کرتی ہیں خاوند کی اور بھول جاتی ہیں احسان کو اگر کسی عورت کے ساتھ ساری عمر احسان کرو پھر کوئی رنج اس کو پہنچے تو کہنے لگتی ہے خاوند سے مجھے کبھی تجھ سے بھلائی نہیں پہنچی۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت آئی ان کے پاس مانگنے کو تو کہا اس نے اللہ بچائے تجھ کو قبر کے عذاب سے پس پوچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا لوگوں کو عذاب ہو گا قبروں میں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے اس عذاب سے پھر سوار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن سواری پر سو گہن لگا آفتاب کو اور لوٹے آپ صلی اللہ علیہ و سلم حجروں کے پیچھے سے پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہوئے پھر قیام کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑی دیر تک پھر سر اٹھایا اور قیام کیا بڑی دیر تک لیکن پہلے قیام سے کچھ کم پھر رکوع کیا بڑی دیر تک لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم پھر سر اٹھا کر سجدہ کیا پھر قیام کیا آپ نے بڑی دیر تک لیکن اول رکعت کے قیام سے کچھ کم پھر رکوع کیا لمبا رکوع لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم پھر سر اٹھا کر سجدہ کیا پھر نماز سے فارغ ہو کر جو کچھ اللہ تعالی نے چاہا باتیں کیں پھر حکم کیا ان کو کہ پناہ مانگیں اللہ سے قبر کے عذاب سے۔

 

               اس چیز کا بیان جو نماز کسوف کے باب میں آئی ہے

 

اسما بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ میں آئی عائشہ کے پاس جس وقت گہن لگا آفتاب کو تو دیکھا میں نے لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے اور عائشہ بھی کھڑی ہوئی نماز پڑھ رہی تھیں تو میں نے کہا کیا ہوا لوگوں کو تو اشارہ کیا حضرت عائشہ نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اور سبحان اللہ کہا میں نے کہا کوئی نشانی ہے انہوں نے اشارہ سے کہا ہاں کہا اسما نے تو میں کھڑی ہوئی یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی اور میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تعریف کی اللہ کی اور ثنا کی اس کی پھر فرمایا جو چیز میں نے دیکھی تھی وہ آج میں نے سیکھ لی اس جگہ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا اور مجھے وحی سے معلوم ہوا کہ قبر کے بارے میں تم فتنہ میں پڑ جاؤ گے مثل فتنہ دجال کے یا اس کے قریب معلوم نہیں اسماء نے کیا کہا آئیں گے اس کے پاس فرشتے تو پوچھیں گے اس سے تو کیا سمجھتا ہے اس شخص کو جو ایمان رکھتا ہے یا یقین رکھتا ہے معلوم نہیں کیا کہا اسما نے وہ کہے گا یہ شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اللہ جل جلالہ کے بھیجے ہوئے ہمارے پاس کھلی کھلی نشانیاں اور ہدایت یعنی کلام اللہ لے کر پس قبول کیا ہم نے اور ایمان لائے ہم اور پیروی کی ہم نے ان کی تب فرشتے اس سے کہیں گے سو رہ اچھی طرح ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ تو مومن ہے اور منافق جس کو شک ہے حضرت کی رسالت میں معلوم نہیں کیا کہا اسما نے وہ کہے گا میں نہیں جانتا لوگوں سے میں نے جو سنا وہ کہا۔

 

 

کتاب الاستسقاء

 

               اس چیز کا بیان جو نماز کسوف کے باب میں آئی ہے

 

عبد اللہ بن زید مازنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکلے نماز استسقاء کے لئے اور الٹایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چادر کو جس وقت منہ کیا قبلہ کی طرف۔

 

عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب دعا مانگتے پانی برسنے کے واسطے تو فرماتے یا اللہ پانی پلا اپنے بندوں اور جانوروں کو پھیلا دے اپنی رحمت کو اور جلا دے اپنے مرے ہوئے ملک کو۔

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا اس نے اے اللہ کے رسول کہ مرگئے جانور اور بند ہو گئے راستے، سو دعا کیجیے اللہ سے پس دعا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو برستا گیا پانی ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک پھر ایک شخص آیا اور اس نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے گر پڑے گھر اور بند ہو گئیں راہیں اور مرگئے جانور تب دعا کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا اللہ برسا پہاڑوں پر اور ٹیلوں پر اور نالوں پر اور درختوں کے اردگرد کہا انس نے جب یہ دعا کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھٹ گیا ابر مدینہ سے جیسے پھٹ جاتا ہے پرانا کپڑا۔

 

               ستاروں کی گردش سے پانی برسنے کا اعتقاد رکھنا

 

زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ نماز پڑھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی حدیبیہ میں اور رات کو پانی پڑ چکا تھا تو جب نماز سے فارغ ہوئے متوجہ ہوئے لوگوں کی طرف اور فرمایا کہ تم جانتے ہو جو کہا تمہارے پروردگار نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو معلوم ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے، فرمایا اللہ جل جلالہ نے صبح کو میرے بندے دو قسم کے تھے ایک وہ جو ایمان لایا میرے اوپر دوسرے وہ جس نے کفر کیا ساتھ میرے جس شخص نے کہا کہ پانی برسا اللہ کے فضل اور رحمت سے تو وہ میرے اوپر ایمان لایا تاروں پر اعتقاد نہ رکھا اور جو بولا کہ پانی برسا فلاں تارہ کی گردش سے تو اس نے کفر کیا میرے ساتھ اور ایمان لایا تاروں پر۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اٹھے ابر سمندر کی طرف سے پھر شام کی طرف جانے لگے تو جانو کہ ایک چشمہ ہے بھر پور۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ ابوہریرہ کہتے تھے جب صبح ہوتی تھی اور پانی برس جاتا تھا پانی برسا اللہ کے حکم سے پڑھتے تھے اس آیت کو مایفتح اللہ للناس یعنی اللہ جل جلالہ اگر لوگوں پر رحمت کرنا چاہے تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا اور جو روکنا چاہے تو کوئی چھوڑ نہیں سکتا۔

 

 

کتاب القبلہ

 

               قبلہ کی طرف منہ نہ کرنا پاخانہ یا پیشاب کے وقت

 

ابو ایوب انصاری سے روایت ہے جو صحابی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہ وہ مصر میں کہتے تھے قسم خدا کی میں کیا کروں ان پائخانوں کا حالانکہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب جائے کوئی تم میں سے پائخانہ یا پیشاب کو تو نہ منہ کرے قبلہ کی طرف اور نہ پیٹھ کرے۔

 

ایک مرد انصاری سے روایت ہے کہ اس نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منع کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم قبلہ کی طرف منہ کرنے سے پیشاب یا پائخانہ میں۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے بعض لوگ سمجھتے ہیں جب تو اپنی حاجت کو جائے تو منہ نہ کر قبلہ اور بیت المقدس کی طرف عبداللہ بن عمر نے کہا میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو اینٹوں پر حاجت ادا کر رہے ہیں منہ ان کا بیت المقدس کی طرف ہے پھر کہا عبداللہ بن عمر نے واسع بن حبان سے شاید تو ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں واسع نے کہا میں نہیں سمجھا کہا مالک نے اس قول کی تفسیر میں وہ لوگ ہیں جو سجدہ میں زمین سے لگ جاتے ہیں اور اپنی پیٹھ کو سرین سے جدا نہیں رکھتے۔

 

 

               قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تھوک پڑا ہے قبلہ کی دیوار پر سو چھڑایا اس کو پھر متوجہ ہوئے لوگوں پر اور فرمایا جب کوئی تم میں سے نماز پڑھے تو اپنے سامنے نہ تھوکے اس لئے کہ اللہ اس کے سامنے ہے جب وہ نماز پڑھ رہا ہے۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا دیوار میں قبلہ کے تھوک یا رینٹ یا بلغم تو چھڑا دیا اس کو۔

 

               قبلہ کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے مسجد قبا میں صبح کی اتنے میں ایک شخص آ کر بولا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر رات کو قرآن اترا اور حکم ہوا کعبہ کی طرف منہ کرنے کا پھر گئے وہ لوگ نماز میں کعبہ کی طرف اور پہلے منہ ان کے شام کی طرف تھے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعد مدینہ میں آنے کے سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف پھر قبلہ بدل گیا دو مہینے پہلے جنگ بدر سے

 

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا درمیان پورب اور پچھم کے قبلہ ہے جب منہ کرے خانہ کعبہ کی طرف۔

 

               مسجد نبوی کی فضلیت کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک نماز پڑھنا میری مسجد میں بہتر ہے ہزار نمازوں سے دوسری مسجد میں سوائے مسجد حرام کے۔

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے گھر اور منبر کے بیچ میں ایک باغیچہ ہے جنت کے باغیچوں میں سے اور منبر میرا حوض پر ہے۔

 

عبد اللہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے گھر اور منبر کے بیچ میں ایک باغیچہ ہے جنت کے باغوں میں سے۔

 

               عورتوں کا مسجد میں جانے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مت منع کرو اللہ جل جلالہ کی لونڈیوں کو مسجد میں آنے سے۔

 

بسر بن سعید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تم میں سے کوئی عورت عشاء کی جماعت میں آئے تو خوشبو لگا کر نہ آئے۔

 

حضرت عمر بن خطاب کی بی بی عاتکہ اجازت مانگتی تھیں حضرت عمر سے مسجد جانے کی تو چپ ہو جاتے حضرت عمر پس کہتیں عاتکہ میں تو قسم خدا کی جاؤں گی جب تک تم منع نہ کروں گے تو نہیں منع کرتے تھے حضرت عمر ان کو۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ نے کہا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دیکھتے جو اس زمانے میں عورتوں نے نکالا ہے البتہ روک دیتے ان کو مسجدوں میں جانے سے جیسے روک دی گئیں عورتیں بنی اسرائیل کی کہا یحیی بن سعید نے میں نے پوچھا عمرہ سے کیا بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئیں تھیں مسجدوں سے؟ کہا ہاں۔

 

               قرآن چھونے کے واسطے با وضو ہونا ضروری ہے

عبداللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لکھی تھی عمرو بن حزم کے واسطے اس میں یہ بھی تھا کہ قرآن نہ چھوئے مگر جو شخص با وضو ہو۔

 

               کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت

 

محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آ کر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضو کے حضرت عمر نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا

 

               کلام اللہ کا دور مقرر کرنا

 

عبد اللہ بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ جس کسی کے ورد کا رات کو ناغہ ہو جائے اور وہ دوسرے دن زوال تک ظہر کی نماز تک پڑھ لے تو گویا فوت نہیں ہوا بلکہ اس نے پا لیا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں اور محمد بن یحیی بن حبان بیٹھے ہوئے تھے سو محمد نے ایک شخص کو بلایا اور کہا تم نے جو اپنے باپ سے سنا ہے اس کو بیان کرو اس شخص نے کہا میرا باپ گیا زیدی بن ثابت کے پاس اور ان سے پوچھا کہ سات روز میں کلام اللہ تمام کرنا کیسا ہے بولے اچھا ہے میرے نزدیک پندرہ روز یا بیس روز میں تمام کرنا بہتر ہے پوچھو مجھ سے کیوں کہا انہوں نے میں نے پوچھا کیوں زید نے کہا تاکہ میں اس کو سمجھتا جاؤں یاد رکھتا جاؤں

 

               قرآن کے بیان میں

 

عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ میں نے سنا عمر بن خطاب سے کہتے تھے میں نے ہشام بن حزام کو پڑھتے سنا سورہ فرقان کو اور طرح سوائے اس طریقہ کے جس طرح میں پڑھتا تھا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی پڑھایا تھا اس سورۃ کو، قریب ہوا کہ میں جلدی کر کے ان پر غصہ نکالوں لیکن میں چپ رہا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوئے نماز سے تب میں انہی کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر لے آیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے ان کو سورہ فرقان پڑھتے سنا اور طور پر خلاف اس طور کے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے پڑھایا ہے تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوڑ دو ان کو پھر فرمایا ان سے پڑھو تو پڑھا ہشام نے اسی طور سے جس طرح میں نے ان کو پڑھتے ہوئے سنا تھا تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح اتری ہے یہ سورت پھر ارشاد کیا آپ نے کہا تو پڑھ پھر میں نے پڑھی پھر فرمایا قرآن شریف اترا ہے سات حرف پر تو پڑھو جس طرح سے آسان ہو۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حافظ قرآن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے اونٹ والے کی جب تک اونٹ کو بندھا رکھے گا وہ رہے گا جب چھوڑ دے گا چلا جائے گا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام نے پوچھا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کس طرح وحی آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی آتی ہے جیسے گھنٹے کی آواز اور وہ نہایت سخت ہوتی ہے میرے اوپر پھر جب موقوف ہو جاتی ہے تو میں یاد کر لیتا ہوں جو کہتا ہے فرشتہ جو آدمی کی شکل بن کر مجھ سے باتیں کرتا ہے تو میں یاد کر لیتا ہوں جو کہتا ہے حضرت ام المومنین عائشہ کہتی ہیں کہ جب وحی اترتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سخت جاڑے کے دنوں میں پھر جب موقوف ہوتی تھی تو پیشانی سے آپ کے پسینہ بہتا تھا۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہا انہوں نے عبس وتولی اتری ہے عبداللہ بن ام مکتوم میں وہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہنے لگے اے محمد بتاؤ مجھ کو کوئی جگہ قریب اپنے تاکہ بیٹھوں میں وہاں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اس وقت ایک شخص بیٹھا تھا بڑے آدمیوں میں سے مشرکوں کے ابی بن خلف یا عتبہ بن ربیعہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم توجہ نہ کرتے تھے اے باپ فلاں کے کیا میں جو کہتا ہوں اس میں کچھ حرج ہے وہ کہتا تھا نہیں قسم ہے بتوں کی تمہارے کہنے میں کچھ حرج نہیں ہے تب یہ آیتیں اتریں عبس وتولی

 

اسلم عدوی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو سفر میں سوار ہو کر چل رہے تھے اور عمر بن خطاب بھی ان کے ساتھ تھے پس حضرت عمر نے ایک بات پوچھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے تو جواب نہ دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر پوچھی جب بھی جواب نہ دیا پھر پوچھی جب بھی جواب نہ دیا اس وقت حضرت عمر نے دل میں کہا کاش تو مر گیا ہوتا اے عمر تین بار تو نے گڑگڑا کر پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور کسی بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہ دیا عمر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ کو تیز کیا اور آگے بڑھ گیا لیکن میرے دل میں یہ خوف تھا کہ شاید میرے بارے میں کلام اللہ اترے گا تو تھوڑی دیر میں ٹھہرا تھا اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو مجھ کو پکارتا ہے اس وقت مجھے اور زیادہ خوف ہوا اس بات کا کہ کلام اللہ میرے بارے میں اترا ہو گا سو آیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور سلام کیا میں نے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ رات کو میرے اوپر ایک سورت ایسی اتری ہے جو ساری دنیا کی چیزوں سے مجھ کو زیادہ محبوب ہے پھر پڑھا انا فتحنا لک فتحا مبینا

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے نکلیں گے تم میں سے کچھ لوگ جو حقیر جانیں گے تمہاری نماز کو اپنی نماز کے مقابلے میں اور تمہارے روزوں کو اپنے روزوں کے مقابلہ میں اور تمہارے اعمال کو اپنے اعمال کے مقابلہ میں پڑھیں گے کلام اللہ کو اور نہ اترے گا ان کے حلقوں کے نیچے نکل جائیں گے دین سے جیسے نکل جاتا ہے تیر اس جانور میں سے جو شکار کیا جائے آر پار ہو کر صاف اگر پیکان کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہیں پائے اگر تیر کی لکڑی کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہ پائے اگر پر کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہ پائے اور سو فار میں شک ہو کہ کچھ لگا ہے یا نہیں۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر سورۃ بقرہ آٹھ برس تک سیکھتے رہے۔

 

               سجدہ ہائے تلاوت کے بیان میں سجدہ تلاوت سنت ہے یا مستحب ہے اور حنفیہ کے نزدیک واجب ہے

 

ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ابوہریرہ نے پڑھا سورہ اذالسماء انشقت کو تو سجدہ کیا اور جب فارغ ہوئے سجدہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا اس میں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مصر والوں میں سے خبر دی مجھ کو کہ عمر بن خطاب نے سورہ حج کو پڑھا تو اس میں دو سجدے کئے پھر فرمایا کہ یہ سورۃ فضلیت دی گئی بسبب دو سجدوں کے۔

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے انہوں نے دیکھا عبداللہ بن عمر کو سورۃ حج میں دو سجدے کرتے ہوئے۔

 

اعرج سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے والنجم اذا ہوا پڑھ کر سجدہ کیا پھر سجدہ سے کھڑے ہو کر ایک اور سورہ پڑھی۔

 

عروہ بن الزبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ایک آیت سجدہ کی منبر پر پڑھی جمعہ کے روز اور منبر پر سے اتر کو سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا پھر دوسرے جمعہ میں اس کو پڑھا اور لوگ مستعد ہوئے سجدہ کو تب کہا حضرت عمر نے اپنے حال پر رہو اللہ جل جلالہ نے سجدہ تلاوت کو ہمارے اوپر فرض نہیں کیا ہے مگر جب ہم چاہیں تو سجدہ کریں پس سجدہ نہ کیا حضرت عمر نے اور منع کیا ان کو سجدہ کرنے سے۔

 

               قل ہو اللہ احد اور تبارک الذی کی فضیلت کا بیان

 

حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ قل ہو اللہ احد برابر ہے تہائی قرآن کے اور تبارک الذی بیدہ الملک لڑے گی اپنے پڑھنے والی کی طرف سے۔

 

               ذکر الہی کی فضیلت کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص کہے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ ایک روز میں سو بار تو گویا اس نے دس غلام آزاد کئے اور سو نیکیاں اس کے لئے لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس کی مٹائی جائیں گی اور وہ اس دن پھر شیطان کے شر سے بچا رہے گا یہاں تک کہ شام ہو اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل نہ لائے گا مگر اس سے بھی زیادہ عمل کرے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کہا سبحان اللہ وبحمدہ ایک دن میں سو بار مٹائے جائیں گے گناہ اس کے اگرچہ ہوں مثل سمندر کے پھین کے۔

 

ابوہریرہ نے کہا جو شخص ہر نماز کے بعد سبحان اللہ کہے تینتیس بار اور اللہ اکبر کہے تینتیس بار اور الحمد للہ کہے تینتیس بار اور ختم کرے سو کے عدد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر۔ پس بخش دیے جائیں گے گناہ اس کے اگرچہ ہوں مثل سمندر کی جھاگ کے۔

 

سعید بن مسیب نے کہا باقیات صالحات یہ کلمے ہیں اللہ اکبر سبحان اللہ والحمدللہ لا الہ الا اللہ ولاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

 

ابو الدردا نے کہا کیا تم کو نہ بتاؤں وہ کام جو تمہارے سب کاموں سے بہتر ہے تمہارے لئے اور درجہ میں سب سے زیادہ بلند ہے اور تمہارے مالک کے نزدیک سب کاموں سے زیادہ عمدہ ہے اور بہتر ہے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے اور بہتر ہے اس سے کہ تم اپنے دشمن سے لڑ کر اس کی گردن مارو اور وہ تمہاری گردن مارے کہا صحابہ نے ہاں بتاؤ کہا انہوں نے ذکر اللہ سبحانہ کا۔

 

معاذ بن جبل نے کہا آدمی نے کوئی عمل ایسا نہیں کیا جو زیادہ نجات دینے والا ہو اس کو اللہ کے عذاب سے سوا ذکر الہی کے۔

 

رفاعہ بن رافع سے روایت ہے کہ ہم ایک روز نماز پڑھ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تو جب سر اٹھایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع سے اور کہا سمع اللہ لمن حمدہ ایک شخص بولا ربنا لک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ پس جب فارغ ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فرمایا کون شخص بولا تھا ابھی اس شخص نے کہا میں تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے دیکھا کہ تیس سے زیادہ کچھ فرشتے جلدی کر رہے تھے کہ کون پہلے لکھے اس کو۔

 

               دعا کے بیان میں

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر نبی کے لئے ایک دعا مقرر ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس دعا کو اٹھا رکھوں اپنی امت کی شفاعت کے واسطے دن آخرت کے۔

 

یحیی بن سعید کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دعا مانگتے تھے پس فرماتے تھے اے اللہ پیدا کر نے والے صبح کو اور رات کو راحت بنانے والے اور سورج اور چاند کے حساب سے چلانے والے ادا کر تو قرض میرا اور غنی کر مجھ کو محتاجی سے اور فائدہ دے مجھ کو میرے کان اور آنکھ سے اور میری قوت سے اپنی راہ میں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب کوئی تم میں سے دعا کرے تو یوں نہ کہے یا خدا بخش دے مجھ کو اگر چاہے تو اور رحم کر ہم پر اگر چاہے تو بلکہ یوں کہے بخش دے مجھ کو اس لئے کہ اللہ جل جلالہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا قبول ہوتی ہے جب تک دعا مانگنے والا جلدی نہ کرے اور یہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی سو دعا میری قبول نہ ہوئی۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اترتا ہے رب ہمارا ہر رات کو آسمان دنیا تک جب تہائی رات باقی رہتی ہے سو فرماتا ہے کون شخص ہے جو دعا کرے مجھ سے اور قبول کروں میں دعا اس کی، کون شخص ہے مانگے مجھ سے پس دوں میں اس کو، کون شخص ہے جو بخشش چاہے مجھ سے سو بخش دوں اس کو۔

 

محمد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ ام المومنین نے کہا میں سو رہی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں سو نہ پایا میں نے ان کو پس چھوا میں نے آپ کو تو رکھا میں نے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں پر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ میں تھے فرماتے تھے پناہ مانگتا ہوں ہو تیری رضامندی کی تیرے غصے سے اور تیری عفو کی تیرے عتاب سے اور تجھ سے میں تیری تعریف نہیں کر سکتا تو ایسا ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔

 

طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا افضل دعاؤں میں دعا عرفہ کے دن کی ہے اور افضل ان سب کلمات میں جو میں نے کہے ہیں اور اگلے پیغمبروں نے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سکھاتے تھے ان کو یہ دعا جیسے سکھاتے تھے ان کو ایک سورت قرآن کی فرماتے تھے اے اللہ پناہ مانگتا ہوں میں تیری جہنم کے عذاب سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری دجال کے فتنہ سے اور پناہ مانگتا ہوں تیری زندگی اور موت کے فتنہ سے۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کھڑے ہوتے نماز کو عین رات میں فرماتے یا اللہ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، تو نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں ، اور تو ہی قائم رکھنے والا ہے آسمانوں اور زمینوں کو ، اور سب تعریفیں تیرے لیے ہیں اور تو ہی پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان کا جو آسمان اور زمین کے بیچ میں ہیں تو حق ہے تیرا قول سچا ہے تیرا وعدہ برحق ہے تجھ سے ملنا حق ہے جنت و جہنم حق ہے قیامت حق ہے اے پروردگار تیرے حکم کا میں تابعدار ہوں اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ ہی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف متوجہ ہوا اور تیری مدد سے میں لڑا کفار سے اور تجھ کو میں نے حاکم بنایا جب اختلاف ہوا سو بخش دے میرے اگلے اور پچھلے اور چھپے اور کھلے گناہ تو میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔

 

عبد اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ہمارے پاس آئے بنی معاویہ میں اور وہ ایک گاؤں ہے انصار کے گاؤں میں سے تو پوچھا مجھ سے تم کو معلوم ہے کس جگہ پر نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے کہا ہاں عبداللہ بن عمر نے کہا بتاؤ مجھ کو میں نے کہا دعا کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس امر کی، کہ مسلمانوں پر کوئی دشمن ان کی غیر قوم کا یعنی کافروں میں سے مسلط نہ کرنا اور ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا تو یہ دونوں دعائیں قبول ہو گئیں تیسری دعا یہ ہے کہ مسلمانوں کی آپس میں خون اور جنگ نہ ہو تو یہ دعا قبول نہ ہوئی عبداللہ بن عمر نے کہا سچ کہا تو نے پھر کہا کہ اب قیامت تک فساد آپس میں چلتا جائے گا

 

زید بن اسلم سے روایت ہے وہ کہتے تھے جو شخص دعا کرتا ہے تو اس کی دعا تین حال سے خالی نہیں ہوتی یا قبول ہو جاتی ہے یا رکھ لی جاتی ہے قیامت کے دن پر یا گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔

 

               دعا کی ترکیب

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ دیکھا مجھ کو عبداللہ بن عمر نے دعا کرتے ہوئے اور میں دو انگلیوں سے اشارہ کرتا تھا ہر ایک ہاتھ کی ایک ایک انگلی تھی سو منع کیا مجھ کو۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے بے شک آدمی کا درجہ بلند ہو جاتا ہے اس کے لڑکے کے دعا کرنے سے بعد اس کے مر جانے کے اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں ہاتھوں سے آسمانوں کی طرف پھر اٹھایا ان کو۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ یہ آیت (وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَینَ ذٰلِكَ سَبِیلًا) 17۔ الاسراء:110) دعا میں اتری ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دعا مانگتے تھے یا اللہ میں مانگتا ہوں تجھ سے نیک کام کرنا اور برے کاموں کو چھوڑنا اور محبت غریبوں کی اور جب تو کسی مصیبت کو لوگوں میں اتارنا چاہے تو مجھے اپنے پاس بلا لے اس مصیبت سے بچا کر۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو مثل اس کے ثواب ملے گا جو اس کی پیروی کرے کچھ کم نہ ہو گا اس کے ثواب سے اور جو شخص گمراہی کی طرف بلائے اس پر اتنا گناہ ہو گا جتنا پیروی کرنے والے پر ہو گا کچھ کم نہ ہو گا پیروی کرنے والے کے گناہ سے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے یا اللہ مجھ کو متقیوں کا پیشوا بنانا۔

 

امام مالک کو پہنچا ہے ابو درداء سے جب اٹھتے تھے رات کو کہتے تھے سو گئیں آنکھیں اور غائب ہو گئے تارے اور تو اے پروردگار زندہ ہے بیدار ہے۔

 

               مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ نے حکم دیا کہ سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد میں سے ہو کر ان کے حجرہ پر سے جائے تاکہ میں دعا کروں ان کے لئے سو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تب کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا جلدی لوگ بھول گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہیل بن بیضا پر نماز نہیں پڑھی مگر مسجد میں۔

 

عبداللہ بن عمر نے کہا کہ حضرت عمر پر نماز پڑھی گئی مسجد میں

 

               نماز جنازہ کے احکام

امام مالک کو پہنچا کہ عثمان بن عفان اور عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے تھے عورتوں اور مردوں پر ایک ہی وقت میں تو مردوں کو امام کے نزدیک رکھتے تھے اور عورتوں کو قبلہ کے نزدیک

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب نماز پڑھ لیتے تھے جنازہ کی سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ ان کے نزدیک جو لوگ ہوتے تھے وہ سن لیتے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جنازہ کی نماز بغیر وضو کے کوئی نہ پڑھے۔

 

 

               مردہ کے دفن کے بیان میں

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات کی دو شنبہ کے روز اور دفن کئے گئے منگل کے روز اور نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر لوگوں نے اکیلے اکیلے کوئی ان کا امام نہ تھا پھر کہا بعض لوگوں نے دفن کئے جائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم منبر کے پاس اور بعض نے کہا بقیع میں تو آئے حضرت ابوبکر اور کہا سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے نہیں دفن کیا گیا کوئی نبی مگر اس مقام میں جہاں اس کی وفات ہوئی پھر کھودی گئی قبر اسی مقام میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کی تھی جب غسل کا وقت آیا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کرتہ اتارنا چاہا سو ایک آواز سنی مت اتارو کرتے کو پس نہ اتارا گیا کرتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اور غسل دیے گئے کرتہ پہنے ہوئے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ دو آدمی قبر کھود نے والے تھے ایک ان میں سے بغلی بناتا تھا اور دوسرا نہیں بناتا تھا لوگوں نے کہا جو پہلے آئے گا وہی اپنا کام شروع کرے گا تو پہلے وہی آیا جو بغلی بناتا تھا پس قبر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بغلی بنائی۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ بی بی ام سلمہ کہتی تھیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کا یقین نہیں یہاں تک کہ میں نے کدال مارنے کی آواز سنی۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے حجرے میں تین چاند گر پڑے سو میں نے اس خواب کو ابوبکر صدیق سے بیان کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ کے حجرہ میں دفن ہو چکے تھے ابوبکر نے کہا کہ ان تین چاندوں میں سے ایک چاند آپ صلی اللہ علیہ و سلم تھے اور یہ تینوں چاندوں میں بہتر ہیں۔ کئی ایک معتبر لوگوں سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید کی وفات ہوئی عقیق میں (ایک جگہ ہے مدینہ کے قریب) اور ان کا جنازہ اٹھا کر مدینہ میں لایا گیا اور وہاں دفن ہوئے

 

عروہ بن زبیر نے کہا مجھے بقیع میں دفن ہونا پسند نہیں ہے اگر میں کہیں اور دفن ہوں تو اچھا ہے اس لئے کہ بقیع میں جہاں پر میں دفن ہوں گا وہاں پر کوئی گناہگار شخص دفن ہو چکا ہے تو اس کے ساتھ مجھے دفن ہونا منظور نہیں ہے اور یا کوئی نیک شخص دفن ہو چکا ہے تو میں نہیں چاہتا کہ میرے لئے اس کی ہڈیاں کھودی جائیں۔

 

               جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو جانا اور بیٹھنا قبروں پر

 

حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو جاتے تھے جنازوں میں پھر بیٹھنے لگے بعد اس کے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت علی تکیہ لگاتے تھے قبروں پر اور لیٹ جاتے تھے ان پر۔

 

ابو امامہ کہتے تھے ہم جنازوں میں جاتے تھے تو اخیر کا شخص بھی بدوں اذن کے نہ بیٹھتا تھا۔

 

               میت پر رونے کی ممانعت

 

جابر بن عتیک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عبداللہ بن ثابت کی عیادت کو آئے تو دیکھا ان کو بیماری کی شدت میں سو پکارا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو انہوں نے جواب نہ دیا پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا اور فرمایا ہم مغلوب ہوئے تمہارے پر اے ابو الربیع! پس رونا شروع کیا عورتوں نے چلا کر اور جابر بن عتیک ان کو چپ کرانے لگے سو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سبھی عورتوں کو رونے دو جب آن پڑے تو اس وقت کوئی نہ روئے۔ رونے والی صحابیہ نے پوچھا کیا مطلب ہے آن پڑنے کا فرمایا جب مر جائے۔ اتنے میں عبداللہ بن ثابت کی بیٹی نے کہا مجھے امید تھی کہ تم شہید ہو گے کیونکہ تم سامان جہاد کا تیار کر چکے تھے تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ جل جلالہ اجر دے گا مواقف اس کی نیت کے۔ تم کس چیز کو شہادت سمجھتی ہو بولی اللہ جل جلالہ کی راہ میں مارے جانے کو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوا اس کے سات شہید ہیں ایک وہ جو طاعون سے مر جائے دوسرے وہ جو ڈوب کر مر جائے تیسرے وہ جو ذات الجنب سے مر جائے چوتھے جو پیٹ کے عارضہ سے مر جائے پانچویں وہ جو آگ سے جل کر مر جائے چھٹے وہ جو دب کر مر جائے ساتواں وہ عورت جو زچگی میں مر جائے۔

 

عمرہ بن عبدالر حمن سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا حضرت عائشہ سے جب ان کے سامنے بیان کیا گیا کہ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں مردہ کو عذاب دیا جاتا ہے زندہ کے رونے سے خدا بخشے ابا عبدالرحمن کو انہوں نے جھوٹ نہیں بولا لیکن وہ بھول گئے یا چوک گئے اصل اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گزرے ایک یہودن پر جو مر گئی تھی اور لوگ اس پر رو رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اس پر عذاب قبر میں ہو رہا ہے۔

 

               مصیبت کے وقت صبر کرنے کا ثواب

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی مسلمان کے تین بچے مر جائیں پھر وہ جہنم میں جائے یہ ممکن نہیں مگر قسم پورا کرنے کو۔

 

ابو النصر سلمی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس مسلمان کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ صبر کرے تو قیامت کے روز وہ لڑکے بچائیں گے اس کو جہنم سے ایک عورت نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر دو مر جائیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بھی۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ مسلمان کو مصیبت پہنچتی ہے اس کی اولاد اور عزیزوں میں یہاں تک کہ ملتا ہے اپنے پروردگار سے اور کوئی گناہ اس کا نہیں ہوتا۔

 

               مصیبت میں صبر کرنے کی مختلف حدیثیں

 

عبدالرحمن بن قاسم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کی تمام مصیبتیں ہلکی ہو جاتی ہیں میری مصیبت کو یاد کر کے۔

 

حضرت بی بی ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے پھر وہ جیسا اس کو خدا نے حکم کیا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر کہے اے پروردگار مجھ کو اس مصیبت میں اجر دے اور اس سے بہتر نیک بدلہ مجھے عنایت فرما تو اللہ تعالی اپنے فضل سے اس کے ساتھ ایسا ہی کرے گا ام سلمہ کہتی ہیں جب میرے خاوند نے وفات پائی تو میں نے یہی دعا مانگی پھر میں نے اپنے جی میں کہا ابو سلمہ سے کون بہتر ہو گا سو اللہ تعالی نے اس کا بدلہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا نکاح کیا۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ میری زوجہ مر گئی سو آئے محمد بن کعب قرظی تعزیت دینے مجھ کو اور کہا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص فقیہ عالم عابد مجتہد تھا اور اس کی ایک بیوی تھی جس پر وہ نہایت فریفتہ تھا اور اس کو بہت چاہتا تھا اتفاق سے وہ عورت مر گئی تو اس شخص کو نہایت رنج ہوا اور بڑا افسوس ہوا اور وہ ایک گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہا اور لوگوں سے ملاقات چھوڑ دی تو اس کے پاس کوئی نہ جاتا تھا ایک عورت نے یہ قصہ سنا اور اس کے دروازے پر جا کر کہا کہ مجھ کو ایک مسئلہ پوچھنا ہے میں اسی سے پوچھوں گی بغیر اس سے ملے ہوئے یہ کام نہیں ہو سکتا تو اور جتنے لوگ آئے تھے وہ چلے گئے اور وہ عورت دروازے پر جمی رہی اور کہا کہ بغیر اس سے طے کیے کوئی علاج نہیں ہے سو ایک شخص نے اندر جا کر اس کو اطلاع دی اور بیان کیا کہ ایک عورت مسئلہ پوچھنے کو تم سے آئی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں تم سے ملنا چاہتی ہوں تو سب لوگ چلے گئے مگر وہ عورت دروازہ چھوڑ کر نہیں جاتی تب اس شخص نے کہا اچھا اس کو آنے دو پس آئی وہ عورت اس کے پاس اور کہا کہ میں ایک مسئلہ تجھ سے پوچھنے کو آئی ہوں وہ بولا کیا مسئلہ ہے اس عورت نے کہا میں نے اپنے ہمسایہ میں ایک عورت سے کچھ زیور مانگ کر لیا تھا تو میں نے ایک مدت تک اس کو پہنا اور لوگوں کو مانگنے پر بھی دیا اب اس عورت نے وہ زیور مانگ بھیجا ہے کیا میں اسے پھر واپس دے دوں اس شخص نے کہا ہاں قسم خدا کی واپس دیدے عورت نے کہا کہ وہ زیور ایک مدت تک میرے پاس رہا ہے اس شخص نے کہا کہ اس سبب سے اور زیادہ تجھے واپس دینا ضروری ہے کیونکہ ایک زمانے تک تجھے اس نے مانگنے پر دیا عورت بولی اے فلانے خدا تجھ پر رحم کرے تو کیوں افسوس کرتا ہے اس چیز پر جو اللہ جل جلالہ نے تجھے مستعار دی تھی پھر تجھ سے لے لی اللہ جل جلالہ زیادہ حقدار ہے تجھ سے جب اس شخص نے غور کیا تو عورت کی بات سے اللہ تعالی نے اس کو نفع دیا۔

 

               کفن چوری کے بیان میں

 

عمرہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ لعنت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مرد پر جو کفن چرائے اور اس عورت پر جو کفن چرائے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی تھیں کہ میت مسلمان کی ہڈی توڑنا ایسا ہے جیسا زندہ مسلمان کی ہڈی توڑنا۔

 

               جنازوں کے احکام میں مختلف حدیثیں

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے وفات سے پہلے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم تکیہ لگاۓ ہوئے تھے حضرت عائشہ کے سینے پر اور حضرت عائشہ کان لگائے ہوئے تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف فرماتے یا اللہ رحم کر مجھ پر اور ملا دے مجھ کو بڑے درجے کے رفیقوں سے۔

 

حضرت بی بی عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کوئی پیغمبر نہیں مرتا ہے یہاں تک کہ اس کو اختیار دیا جاتا ہے کہا حضرت عائشہ نے میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے یا اللہ میں نے اختیار کیا بلند رفیقوں کو تب میں نے جانا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جانے والے ہیں دنیا سے

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو صبح اور شام اس کا مقام اس کو بتایا جاتا ہے اگر جنت والوں میں سے ہے تو جنت میں اور اگر دوزخ والوں میں سے ہے تو دوزخ میں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ٹھکانا ہے تیرا جب تجھے اٹھائے گا اللہ جل جلالہ دن قیامت کے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمام بدن کو آدمی کے زمین کھا جاتی ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کو اسی سے پیدا ہوا اور اسی سے پیدا کیا جائے گا دن قیامت کے۔

 

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندہ کی شکل بن کر جنت کے درخت سے لٹکتی رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ پھر اس کو لوٹا دے گا اس کے بدن کی طرف جس دن اس کو اٹھائے گا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے جب میرا بندہ مجھ سے ملاقات چاہتا ہے تو میں بھی اس کی ملاقات چاہتا ہوں اور جب وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے تو میں بھی اس سے نفرت کرتا ہوں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی جب وہ مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا کہ بعد مرنے کے مجھے جلانا اور میری راکھ کے دو حصے کر کے ایک حصہ خشکی میں ڈال دینا اور ایک حصہ دریا میں اس لئے کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے پا لیا تو ایسا عذاب کرے گا کہ سارے جہاں میں ویسا عذاب کسی کو نہ کرے گا جب وہ مر گیا تو اس کے ساتھ لوگوں نے ایسا ہی کیا اللہ جل جلالہ نے خشکی کو حکم دیا کہ اس کی تمام راکھ اکٹھی کر دی پھر دریا کو حکم کیا اس نے بھی اکٹھی کر دی بعد اس کے اللہ جل جلالہ نے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا وہ بولا تیرے خوف سے اے پروردگار اور تو خوب جانتا ہے پس بخش دیا اس کو اللہ جل جلالہ نے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر بچہ پیدا ہوتا ہے دین اسلام پر پھر ماں باپ اس کے اس کو یہودی بناتے ہیں یا نصرانی بناتے ہیں جیسے اونٹ پیدا ہوتا ہے صحیح سلامت جانور سے بھلا اس میں کوئی کنکٹا بھی ہوتا ہے صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو بچے چھوٹے پن میں مر جائیں ان کا کیا حال ہو گا فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں بڑے ہو کر۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت نہیں ہو گی یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے شخص کی قبر کے سامنے سے نکل کر کہے گا کاش کہ میں اس کی جگہ قبر میں ہوتا۔

 

ابوقتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر گزرا ایک جنازہ تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مستریخ ہے یا مستراح منہ، صحابہ نے پوچھا مستریح کسے کہتے ہیں اور مستراح منہ، کسے کہتے ہیں فرمایا بندہ مومنی مستریح ہے یعنی جب مر جاتا ہے تو دنیا کی تکلیفوں اور اذیتوں سے نجات پا کر اللہ تعالی کی رحمت میں راحت پاتا ہے اور بندہ مستراح منہ ہے جب وہ مر جاتا ہے تو لوگوں کو بستیوں کو اور درختوں کو اور جانوروں کو اس سے راحت ہوتی ہے۔

 

ابو النصر نے کہا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب گزرا ان پر جنازہ حضرت عثمان بن مظعون کا چلے گئے تم دنیا سے اور نہیں لیا اس میں سے کچھ۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ کھڑے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک رات کو اور کپڑے پہنے پھر چلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو کہا میں نے اپنی لونڈی بریرہ سے کہ پیچھے پیچھے جائیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تو گئی وہ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بقیع پہنچے اور کھڑے ہوئے قریب اس کے جب خدا کو منظور تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کھڑا رہنا پھر لوٹے آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو بریرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اول میرے پاس پہنچ گئی اور میں نے کچھ ذکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں کیا یہاں تک کہ صبح ہوئی پھر میں نے ذکر کیا اس کا حضرت سے تو فرمایا مجھے حکم ہوا تھا بقیع والوں کے پاس جانے کا تاکہ دعا کروں ان کے لئے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ ابوہریرہ نے کہا جلدی کرو جنازہ کو لئے ہوئے چلنے میں اس لئے کہ اگر وہ اچھا ہے تو جلدی اس کو بہتری کی طرف لے جاتے ہو اور اگر برا ہے تو جلدی اپنے کندھوں سے اتارتے ہو۔

 

 

کتاب الصیام

 

               رمضان کا چاند دیکھنے کا بیان اور رمضان میں روزہ افطار کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذکر کیا رمضان کا تو فرمایا نہ روزہ رکھو تم یہاں تک کہ چاند دیکھو رمضان کا اور نہ روزے موقوف کرو یہاں تک کہ چاند دیکھو شوال کا سو اگر چاند چھپ جائے ابر سے پس گن لو دن رمضان کے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی مہینہ انتیس روز کا ہوتا ہے تو نہ روزہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھو اور نہ روزہ موقوف کرو جب تک چاند نہ دیکھو پس اگر ابر ہو تو شمار کر لو۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کا ذکر کر کے نہ روزہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور نہ روزے موقوف کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اگر ابر ہو تو تیس روزے پور کر لو۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عثمان بن عفان کے زمانے میں چاند دکھائی دیا تیسرے پہر کو تو روزہ نہ توڑا حضرت عثمان نے یہاں تک کہ شام ہو گئی اور آفتاب ڈوب گیا۔

 

               فجر سے پہلے روزہ کی نیت کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر نے کہا روزہ کسی شخص کا درست نہیں ہوتا جب تک کہ نیت نہ کرے قبل صبح صادق کے۔ حضرت ام المومنین عائشہ اور ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہما نے بھی ایسا ہی فرمایا

 

               روزہ جلد افطار کرنے کا بیان

 

سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ لوگ اچھے رہیں گے اپنے دین میں جب تک وہ روزہ جلدی افطار کریں گے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ لوگ اچھے رہیں گے جب تک روزہ جلدی کھولیں گے۔

 

حمید بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان نماز پڑھتے تھے مغرب کی رمضان میں جب سیاہی ہوتی تھی پچھان کی طرف پھر بعد نماز کے روزہ رکھ لتیے تھے۔

 

               جو شخص جنب ہو اور صبح ہو جائے اس کے روزہ کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ایک شخص بولا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے تھے دروازہ پر اور میں سن رہی تھی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح ہو جاتی ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں روزہ کی نیت سے تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں بھی جنبی ہوتا ہوں اور صبح ہو جاتی ہے روزہ کی نیت سے تو میں غسل کرتا ہوں اور روزہ رکھتا ہوں بولا وہ شخص یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا کہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم جیسے تھوڑی ہیں اللہ جل جلالہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اگلے اور پچھلے گناہ سب بخش دیے تو غصے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں امید رکھتا ہوں کہ تم سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ جاننے والا پرہیز گاری کی باتوں کو میں ہوں گا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ اور ام سلمہ سے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنبی رہتے تھے جماع سے نہ کہ احتلام سے اور صبح ہو جاتی تھی رمضان میں پھر روزہ رکھتے تھے۔

 

ابوبکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں اور میرے باپ عبدالرحمن دونوں بیٹھے مروان بن حکم کے پاس اور مروان ان دنوں میں حاکم تھے مدینہ کے تو ان سے ذکر کیا گیا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں جو شخص جنبی ہو اور صبح ہو جائے تو اس کا روزہ نہ ہو گا مروان نے کہا قسم دیتا ہوں تم اے عبدالرحمن تم جاؤ ام المومنین حضرت عائشہ اور ام المومنین ام سلمہ کے پاس اور پوچھو ان سے یہ مسئلہ تو گئے عبدالرحمن اور گیا میں ساتھ ان کے یہاں تک کہ پہنچے ہم ام المومنین عائشہ کے پاس تو سلام کیا ان کو عبدالرحمن نے پھر کہا اے ام المومنین ہم بیٹھے تھے مروان بن حکم کے پاس ان سے ذکر ہوا کہ ابوہریرہ کہتے ہیں جس شخص کو صبح ہو جائے اور وہ جنبی ہو تو اس کا روزہ نہ ہو گا فرمایا حضرت عائشہ نے ایسا نہیں ہے جیسا کہا ابوہریرہ نے اے عبدالرحمن کیا تو منہ پھیرتا ہے اس کام سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کرتے تھے کہا عبدالرحمن نے نہیں قسم خدا کی فرمایا حضرت عائشہ نے میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کہ ان کو صبح ہو جاتی تھی اور وہ جنبی ہوتے تھے جماع سے نہ کہ احتلام سے پھر روزہ رکھتے اس دن کا۔ کہا ابوبکر نے پھر نکلے ہم یہاں تک کہ پہنچے ام المومنین سلمہ کے پاس اور پوچھا ہم نے ان سے اس مسئلہ کو انہوں نے بھی یہ کہا جو حضرت عائشہ نے کہا کہا ابوبکر نے پھر نکلے ہم اور آئے مروان بن حکم کے پاس ان سے عبدالرحمن نے بیان کیا قول حضرت عائشہ اور ام سلمہ کا تو کہا مروان نے قسم دیتا ہوں میں تم کو اے ابو محمد تم سوار ہو کر جاؤ میرے جانور پر جو دروازہ پر ہے ابوہریرہ کے پاس کیونکہ وہ اپنی زمین میں ہے عقیق میں اور اطلاع کرو ان کو اس مسئلہ سے تو سوار ہوئے عبدالرحمن اور میں بھی ان کے ساتھ سوار ہوا یہاں تک کہ آئے ہم ابوہریرہ کے پاس تو ایک ساعت تک باتیں کیں ان سے عبدالرحمن نے پھر بیان کیا ان سے اس مسئلہ کو تو ابوہریرہ نے کہا مجھے علم نہیں تھا اس مسئلہ کا بلکہ ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا تھا۔

 

ام المومنین عائشہ اور ام المومنین سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنبی ہوتے تھے جماع سے نہ کہ احتلام سے اور صبح ہو جاتی تھی پھر روزہ رکھتے تھے۔

 

               روزہ دار کو بوسہ لینے کی اجازت کا بیان

 

عطا بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بوسہ دیا اپنی عورت کو اور وہ روزہ دار تھا رمضان میں سو اس کو بڑا رنج ہوا اور اس نے اپنی عورت کو بھیجا ام المومنین ام سلمہ کے پاس کہ پوچھے ان سے اس مسئلہ کو تو آئی وہ عورت ام سلمہ کے پاس اور بیان کیا ان سے، ام سلمہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بوسہ لیتے ہیں روزے میں تب وہ اپنے خاوند کے پاس گئی اور اس کو خبر دی پس اور زیادہ رنج ہوا اس کے خاوند کو اور کہا اس نے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سے نہیں ہیں اللہ اپنے رسول کے لئے جو چاہتا ہے حلال کر دیتا ہے پھر آئی اس کی عورت ام سلمہ کے پاس اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی وہیں موجود ہیں سو پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ہوا اس عورت کو تو بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ام سلمہ نے سو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیوں نہ کہہ دیا اس سے کہ میں بھی یہ کام کرتا ہوں ام سلمہ نے کہا میں نے کہہ دیا لیکن وہ گئی اپنے خاوند کے پاس اور اس کو خبر کی سو اس کو اور زیادہ رنج ہوا اور وہ بولا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سے نہیں ہیں حلال کرتا ہے اللہ جل جلالہٗ جو چاہتا ہے اپنے رسول کے لئے غصہ ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم خدا کی تم سب سے زیادہ ڈرتا ہوں اللہ تعالی سے اور تم سب سے زیادہ پہچانتا ہوں اس کی حدوں کو۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بوسہ دیتے تھے اپنی بعض بیبیوں کو اور وہ روزہ دار ہوتے تھے پھر ہنستی تھیں۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عاتکہ بیوی حضرت عمر کی بوسہ دیتی تھیں سر کو حضرت عمر کے اور حضرت عمر روزہ دار ہوتے تھے لیکن ان کو منع نہیں کرتے تھے۔

 

عائشہ بن طلحۃ سے روایت ہے کہ وہ ام المومنین عائشہ کے پاس بیٹھی تھیں اتنے میں ان کے خاوند عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق آئے اور وہ روزہ دار تھے تو کہا ان سے حضرت عائشہ نے تم کیوں نہیں جاتے اپنی بی بی کے پاس بوسہ لو ان کا اور کھیلو ان سے تو کہا عبداللہ نے بوسہ لوں میں ان کا اور میں روزہ دار ہوں حضرت عائشہ نے کہا ہاں۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابوہریرہ اور سعد بن ابی وقاص روزہ دار کو اجازت دیتے تھے بوسہ کی۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ ام المومنین جب بیان کرتیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بوسہ لیتے تھے روزہ میں تو فرماتیں کہ تم میں سے کون زیادہ قادر ہے اپنے نفس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے۔

 

عبد اللہ بن عباس سے سوال ہوا روزہ دار کو بوسہ لینا کیسا ہے تو اجازت دی بوڑھے کو اور مکروہ رکھا جوان کے لئے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر منع کرتے تھے روزہ دار کو بوسہ اور مباشرت سے۔

 

               سفر میں روزہ رکھنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکلے مکہ کو جس سال مکہ فتح ہوا رمضان میں تو روزہ رکھا یہاں تک کہ پہنچے کدید کو پھر افطار کیا تو لوگوں نے بھی افطار کیا اور صحابہ کا یہ قاعدہ تھا کہ نئے کام کو لیتے تھے پھر لیا اس نئے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کاموں میں

 

بعض صحابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا لوگوں کو سفر میں جس سال مکہ فتح ہوا ہے روزہ نہ رکھنے کا فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تاکہ تم قوی رہو دشمن کے مقابلہ میں اور روزہ رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا ابوبکر بن عبدالرحمن نے مجھ سے بیان کیا اس صحابی نے جس نے حدیث بیان کی مجھ سے کہ میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو عرج میں کہ پانی ڈالا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر پر پیاس کی وجہ سے یا گرمی کی وجہ سے پھر کہا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہ بعض لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے روزہ رکھنے کے سبب سے تو جب پہنچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کدید میں ایک پیالہ پانی کا منگا یا اور پانی پیا تب لوگوں نے بھی روزہ کھول ڈالا۔

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ ہم نے سفر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رمضان میں تو نہ عیب کیا روزہ دار نے روزہ کھولنے والے پر اور نہ بے روزہ دار نے روزہ دار پر۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے میں روزہ رکھا کرتا ہوں تو کیا روزہ رکھو سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیرا جی چاہے تو روزہ رکھ چاہے نہ رکھ۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر روزہ نہیں رکھتے تھے سفر میں۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر سفر کرتے تھے رمضان میں اور ہم سفر کرتے تھے ساتھ ان کے تو روزہ رکھتے تھے اور ہم نہ رکھتے تھے سو ہم کو حکم نہیں کرتے تھے روزہ رکھنے کا۔

 

               جو شخص رمضان میں سفر سے آئے یا سفر کو جائے اس کا بیان

امام مالک سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب رمضان میں سفر میں ہوتے پھر ان کو معلوم ہوتا کہ آج کے روز شہر میں داخل ہوں گے دوپہر سے اول تو روزہ رکھ کر داخل ہوتے

 

 

               جو شخص رمضان کا روزہ قصداً توڑ ڈالے اس کے کفارہ کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے روزہ توڑ ڈالا رمضان میں تو حکم کیا اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بردہ آزاد کرنے کا یا دو مہینہ روزے رکھنے کا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا سو اس نے کہا مجھ سے یہ کوئی کام نہیں ہو سکتا اتنے میں ایک ٹوکرا کھجور کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیا اور کہا کہ اس کو صدقہ کر دے وہ شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کچلیاں کھل گئیں پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہی کھا لے اس کو۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنا سینہ کوٹتا ہوا اور بال نوچتا ہوا اور کہتا تھا ہلاک ہوا وہ شخص جو دور ہے نیکیوں سے تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا ہوا بولا میں نے صحبت کی اپنی بی بی سے رمضان کے روزہ میں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ایک بردہ آزاد کر سکتا ہے بولا نہیں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک اونٹ یا گائے ہدی کر سکتا ہے بولا نہیں اتنے میں ایک ٹوکرا کھجور کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو لے اور صدقہ کر وہ بولا مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھا لے اس کو اور ایک روزہ رکھ لے اس دن کے بدلے میں جس دن تو نے یہ کام کیا ہے۔

 

               روزہ دار کے پچھنے لگانے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ پچھنے لگاتے تھے روزے میں پھر اس کو چھوڑ دیا پھر جب روزہ دار ہوتے پچھنے نہ لگواتے یہاں تک کہ روزہ افطار کر تے۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر پچھنے لگواتے تھے روزے میں

 

عروہ بن زبیر پچھنے لگاتے تھے روزے میں پھر افطار نہیں کر تے تھے کہا ہشام نے میں نے کبھی نہیں دیکھا عروہ کو پچھنے لگاتے ہوئے مگر وہ روزہ سے ہوتے تھے۔

 

               عاشورہ کے روزہ کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے انہوں نے کہا عاشورہ کے دن لوگ روزہ رکھتے تھے جاہلیت میں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے زمانہ جاہلیت میں پھر جب آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں تو روزہ رکھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن اور لوگوں کو بھی حکم کیا اس دن روزہ رکھنے کا پھر جب فرض ہوا رمضان تو رمضان ہی کے روزے فرض رہ گئے اور عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا سو جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

 

حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے انہوں نے سنا معاویہ بن ابی سفیان سے کہتے تھے جس سال انہوں نے حج کیا اور وہ منبر پر تھے اے اہل مدینہ کہاں ہیں علماء تمہارے سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے اس دن کو یہ دن عاشورہ کا ہے اس دن روزہ تمہارے اوپر فرض نہیں ہے اور میں روزہ دار ہوں سو جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہلا بھیجا حارث بن ہشام کو کہ کل عاشورے کا روزہ ہے تو روزہ رکھ اور حکم کر اپنے گھر والوں کو وہ روزہ رکھیں۔

 

               عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنے کا اور سدا روزہ رکھنے کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو دن روزے رکھنے سے ایک یوم الفطر دوسرے یوم الاضحی میں۔

 

               تہہ کے روزوں کی ممانعت کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا تہہ کے روزے رکھنے سے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکھتے ہیں فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں کھلایا جاتا ہوں پلایا جاتا ہوں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بچو تم تہہ کے روزے رکھنے سے لوگوں نے کہا آپ رکھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے رات کو میرا رب کھلا دیتا ہے اور پلا دیتا ہے۔

 

               روزۂ نذر کا بیان اور میت کی طرف سے روزہ رکھنے کا بیان

 

سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے نذر کی ایک مہینہ روزے رکھنے کی اب اس کو نفل روزہ رکھنا درست ہے جواب دیا کہ پہلے نذر کے روزے رکھ لے پھر نفل رکھے۔

 

امام مالک کو پہنچا ہے عبداللہ بن عمر سے پوچھتے کیا کوئی روزہ رکھے کسی کی طرف سے یا نماز پڑھے کسی کی طرف سے بولے نہ کوئی روزہ رکھے کسی کی طرف سے اور نہ کوئی نماز پڑھے کسی کی طرف سے۔

 

               رمضان کی قضا اور کفارہ کے بیان میں

 

خالد بن اسلم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ایک روزہ افطار کیا رمضان میں اور اس دن ابر تھا ان کو یہ معلوم ہوا کہ شام ہو گئی اور آفتاب ڈوب گیا پس ایک شخص آیا اور بولا یا امیر المومنین آفتاب نکل آیا حضرت عمر نے فرمایا اس کا تدارک سہل ہے ہم نے اپنے ظن پر عمل کیا تھا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جس شخص کے رمضان کے روزے قضا ہوں بیماری سے یا سفر سے تو ان کی قضا لگاتار رکھے۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ نے اختلاف کیا رمضان کی قضا میں ایک نے کہا کہ رمضان کے روزوں کی قضا پے درپے رکھنے ضروری نہیں دوسرے نے کہا پے درپے رکھنا ضروری ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ کس نے ان دونوں میں سے پے درپے رکھنے کو کہا اور کس نے یہ کہا کہ پے درپے رکھنا ضروری نہیں۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص قصداً قے کرے روزے میں تو اس پر قضا واجب ہے اور جس کو خود قے آ جائے تو اس پر قضا نہیں ہے۔

 

یحیی بن سعید نے سنا سعید بن مسیب سے پوچھا گیا ان سے رمضان کی قضا کے بارے میں تو کہا سعید نے میرے نزدیک یہ بات اچھی ہے کہ رمضان کی قضا پے درپے رکھے۔

 

حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ میں ساتھ تھا مجاہد کے اور طواف کر رہے تھے خانہ کعبہ کا اتنے میں ایک آدمی آیا اور پوچھا کہ قسم کے کفارے کے روزے پے درپے ہیں یا جدا جدا حمید نے کہا ہاں جدا جدا بھی رکھ سکتا ہے اگر چاہے مجاہد نے کہا نہیں کیونکہ ابی بن کعب کی قرات میں ہے ثلثۃ ایام متتابعات یعنی روزے تین دن کے پے درپے۔

 

               نفل روزے کی قضا کا بیان

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ اور ام المومنین حفصہ صبح اٹھیں نفل روزہ رکھ کر پھر کھانے کا حصہ آیا تو انہوں نے روزہ کھول ڈالا اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے عائشہ فرماتی ہیں کہ حفصہ نے کہا شروع کر دیا مجھے بولنے نہ دیا آخر اپنے باپ کی بیٹی تھیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اور عائشہ صبح کو اٹھیں نفل روزہ رکھ کر تو ہمارے پاس حصہ آیا کھانے کا ہم نے روزہ کھول ڈالا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے عوض میں ایک روزہ قضا کا رکھو۔

 

               جو شخص رمضان میں روزے نہ رکھ سکے اس کے فدیہ کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا انس بن مالک بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ روزہ نہ رکھ سکتے تھے تو فدیہ دیتے تھے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر سے سوال ہوا کہ حاملہ عورت اگر خوف کرے اپنے حمل کا اور روزہ نہ رکھ سکے تو کہا انہوں نے روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک مد گیہوں دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مد سے۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے وہ کہتے تھے جس شخص پر رمضان کی قضا لازم ہو پھر وہ قضا نہ کرے یہاں تک کہ دوسرا رمضان آ جائے اور وہ قادر رہا ہو روزے پر تو ہر روزے کے بدلے میں ایک ایک مسکین کو ایک ایک مد گیہوں کا دے اور قضا بھی رکھے۔

 

امام مالک کو سعید بن جبیر سے بھی ایسا ہی پہنچا

 

               روزوں کی قضا کے بیان میں

 

ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں میرے اوپر روزے ہوتے تھے رمضان کے اور میں قضا رکھ نہیں سکتی تھی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا

 

               روزے کے مختلف مسائل کا بیان

 

ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے اب افطار نہ کریں گے اور پھر افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے اب روزہ نہ رکھیں گے اور میں نے نہیں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہ کسی مہینہ کے پورے روزہ رکھے ہوں سوائے رمضان کے اور کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہ رکھتے تھے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا روزہ ڈھال ہے تو جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو چاہیے کہ بے ہودہ نہ بکے اور جہالت نہ کرے اگر کوئی شخص اسے گالیاں بکے یا لڑے تو کہہ دے میں روزہ دار ہوں میں روزہ دار ہوں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بو زیادہ پسند ہے مشک کی بو سے اللہ جل جلالہ کے نزدیک کیونکہ وہ چھوڑ دیتا ہے اپنی خواہشوں کو اور کھانے کو اور پانی کو میرے واسطے تو وہ روزہ میرے واسطے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا جو نیکی ہے اس کا ثواب دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک ملے گا مگر روزہ وہ میرے واسطے ہے اور اس کا ثواب بھی میں ہی دوں گا۔

 

ابوہریرہ نے کہا جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیطان باندھ دیے جاتے ہیں

 

               شب قدر کا بیان

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اعتکاف کیا کرتے تھے رمضان کے درمیانی عشرے کا تو ایک سال اعتکاف کیا جب اکیسویں رات آئی جس کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اعتکاف سے باہر آیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے تو چاہیے اور دس دن تک اخیر میں اعتکاف کرے میں نے شب قدر کو معلوم کیا تھا پھر میں بھلا دیا گیا میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ میں شب قدر کی صبح کو سجدہ کرتا ہوں کیچڑ اور پانی میں پس ڈھونڈو تم اس کو اخیر دس میں سے ہر طاق رات میں ابو سعید خدری نے کہا کہ اسی رات پانی برسا اور مسجد کی چھت پتوں اور شاخوں کی تھی تو ٹپکی مسجد ابو سعید نے کہا میری دونوں آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے اور پیشانی اور ناک مبارک پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مٹی اور پانی کا نشان تھا۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ڈھونڈو تم شب قدر کو رمضان کی اخیر دس راتوں میں

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ڈھونڈو تم شب قدر کو رمضان کی آخر سات راتوں میں

 

ابو النصر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن انیس جہنی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرا گھر دور ہے تو ایک رات مقرر کیجئے کہ اس رات میں اس مسجد میں رہوں اور عبادت کروں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسویں شب کو رمضان میں

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس اور فرمایا کہ مجھے شب قدر معلوم ہو گئی تھی مگر دو آدمیوں نے غل مچایا تو میں بھول گیا پس ڈھونڈو اس کو اکیسویں تئیسویں ، اور پچیسویں شب میں یا انتیسویں اور ستائیسویں میں۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ چند صحابہ نے شب قدر کو دیکھا خواب میں رمضان کی اخیر سات راتوں میں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں دیکھتا ہوں کہ خواب تمہارا موافق ہوا میرے خواب کے رمضان کی اخیر سات راتوں میں سو جو کوئی تم میں سے شب قدر کو ڈھونڈنا چاہے تو ڈھونڈے اخیر کی سات راتوں میں۔

 

امام مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا ایک معتبر شخص سے اہل علم میں سے کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اگلے لوگوں کی عمریں بتلائیں گئیں جتنا اللہ کو منظور تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کی عمروں کو کم سمجھا اور خیال کیا کہ یہ لوگ ان کے برابر عمل نہ کر سکیں گے پس دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی نے شب قدر جو بہتر ہے ہزار مہینے سے۔

 

امام مالک کو پہنچا سعید بن مسیب کہتے تھے جو شخص حاضر ہو عشاء کی جماعت میں شب قدر کو تو اس نے ثواب شب قدر کا حاصل کر لیا

 

 

کتاب الاعتکاف

 

               اعتکاف کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اعتکاف میں ہوتے تو جھکا دیتے سر اپنا میری طرف سو میں کنگھی کر دیتی اور گھر میں نہ آتے مگر حاجت ضروری کے واسطے۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عائشہ جب اعتکاف کرتیں تو بیمار پرسی نہ کرتیں مگر چلتے چلتے، ٹھہرتی نہیں تھیں۔

 

امام مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا ابن شہاب سے کہ معتکف کو پٹے ہوئے مکان میں حاجت ضروری کو جانا درست ہے بولے ہاں درست ہے کچھ حرج نہیں۔

 

               جس کے بدون اعتکاف درست نہیں اس کا بیان

 

قاسم بن محمد اور نافع جو مولی ہیں عبداللہ بن عمر کے دونوں کہتے تھے کہ اعتکاف بغیر روزے کے درست نہیں ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا اپنی کتاب میں کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاری معلوم ہونے لگے سیاہ دھاری سے فجر کی تمام کرو روزوں کو رات تک اور نہ چمٹو اپنی عورتوں سے جب تم اعتکاف سے ہو مسجدوں میں تو ذکر کیا اللہ جل جلالہ نے اعتکاف کا روزے کے ساتھ۔

 

               معتکف کا نماز عید کے لئے نکلنا

 

سمی جو مولی ہیں ابی بکر کے ان سے روایت ہے کہ ابوبکر بن عبدالرحمن اعتکاف کرتے تو جاتے حاجت ضروری کے واسطے ایک چھت دار کوٹھری میں جو بند رہتی خالد بن ولید کے گھر میں، پھر نہ نکلتے اعتکاف سے یہاں تک کہ حاضر ہوتے عید میں ساتھ مسلمانوں کے۔

 

               اعتکاف کی قضا کا بیان

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارادہ کیا اعتکاف کا جب آئے آپ اس جگہ جہاں اعتکاف کرنا چاہتے تھے پائے آپ نے کئی خیمے ایک خیمہ عائشہ کا اور ایک خیمہ حفصہ کا اور ایک خیمہ زینب کا تو پوچھا آپ نے یہ کن کے خیمے ہیں لوگوں نے کہا عائشہ اور حفصہ اور زینب رضی اللہ عنھن کے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا تم نیکی کا گمان کرتے ہو ان عورتوں کے ساتھ، پھر لوٹ آئے آپ اور اعتکاف نہ کیا پھر شوال کے دس دنوں میں اعتکاف کیا۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حاجت ضروری کے لئے گھروں میں آئے تھے اعتکاف کی حالت میں۔

 

 

 

کتاب الزکوۃ

 

               جن مالوں میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان کا بیان

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیوں سے جو چاندی کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ وسق سے جو غلہ کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کھجور پانچ وسق سے کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جو چاندی پانچ اوقیہ سے کم ہو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا اپنے عامل کو دمشق میں کہ زکوٰۃ سونے چاندی اور زراعت اور جانوروں میں ہے۔

 

               سونے اور چاندی کی زکوٰۃ کا بیان

 

محمد بن عقبہ نے پوچھا قاسم بن محمد بن ابی بکر سے کہ میں نے اپنے مکاتب سے مقاطعت کی ہے ایک مال عظیم پر تو کیا زکوٰۃ اس میں واجب ہے قاسم بن محمد نے کہا کہ ابوبکر صدیق کسی مال میں سے زکوٰۃ نہ لیتے تھے۔

 

قدامہ بن مظعون سے روایت ہے کہ جب میں عثمان بن عفان کے پاس اپنی سالانہ تنخواہ لینے آیا تو مجھ سے پوچھتے کہ تمہارے پاس کوئی ایسا مال ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو اگر میں کہتا ہاں تو تنخواہ میں سے زکوٰۃ اس مال کی لے لیتے اور جو کہتا نہیں تو تنخواہ دے دیتے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے کسی مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک اس پر کوئی سال نہ گزرے۔

 

ابن شہاب نے کہا کہ سب سے پہلے معاویہ نے تنخواہوں میں سے زکوٰۃ لی۔

 

               کانوں کی زکوٰۃ کا بیان

 

کئی ایک لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاگیر کر دی تھیں بلال بن حارث مزنی کو کانیں قبیلہ کی جو فرح کی طرف ہیں تو ان کانوں سے آج تک کچھ نہیں لیا جاتا سوائے زکوٰۃ کے۔

 

               دفینے کی زکوٰۃ کا بیان

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رکاز میں پانچواں حصہ لیا جائے گا۔

 

 

               بیان ان چیزوں کا جن میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے جیسے زیور اور سونے چاندی کا ڈلا اور عنبر

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ پرورش کرتی تھیں اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کی یتیم بیٹیوں کی اور ان کے پاس زیور تھا تو نہیں نکالتی تھیں اس میں سے زکوٰۃ۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنی بیٹیوں اور لونڈیوں کو سونے کا زیور پہناتے تھے اور ان کے زیوروں میں سے زکوٰۃ نہیں نکالتے تھے۔

 

               یتیم کے مال کی زکوٰۃ کا بیان اور اس میں تجارت کر نے کا ذکر

 

امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن خطاب نے فرمایا تجارت کرو یتیموں کے مال میں تاکہ زکوٰۃ ان کو تمام نہ کرے۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ پرورش کرتی تھیں میری اور میرے بھائی کی دونوں یتیم تھے ان کی گود میں تو نکالتی تھیں ہمارے مالوں میں سے زکوٰۃ۔

 

ا مام مالک کو پہنچا کہ حضرت ام المومنین عائشہ یتیموں کا مال تاجر کو دیتی تھیں تاکہ وہ اس میں تجارت کریں۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کے یتیم لڑکوں کے واسطے کچھ مال خریدا پھر وہ مال بڑی قیمت کا بکا۔

 

 

               ترکہ کی زکوٰۃ کا بیان

 

کہا مالک نے ایک شخص مر گیا اور اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دی تو اس کے تہائی مال سے زکوٰۃ وصول کی جائے نہ زیادہ اس سے اور یہ زکوٰۃ مقدم ہو گی اس کی وصیتوں پر کیونکہ زکوٰۃ مثل دین کے ہے اس پر اس واسطے وصیت پر مقدم کی جائے گی مگر یہ حکم جب ہے کہ میت نے وصیت کی ہو زکوٰۃ ادا کرنے کی اگر وہ وصیت نہ کرے لیکن وارث اس کو ادا کر دیں تو بہتر ہے مگر ان کو ضروری نہیں۔

 

               دین کی زکوٰۃ کا بیان

 

سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان فرماتے تھے یہ مہینہ تمہاری زکوٰۃ کا ہے تو جس شخص پر کچھ قرض ہو تو چاہئے کہ قرض اپنا ادا کر دے اور باقی جو مال بچ جائے اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔

 

ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا ایک مال کے بارے میں (جس کو بعض حکام نے ظلم سے چھین لیا تھا) کہ پھیر دیں اس کو مالک کی طرف اور اس میں سے زکوٰۃ ان برسوں کی جو گزر گئے وصول کر لیں اس کے بعد ایک نامہ لکھا کہ زکوٰۃ ان برسوں کی نہ لی جائے کیونکہ وہ مال ضمار تھا۔

 

یزید بن خصیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سلیمان بن یسار سے ایک شخص کے پاس مال ہے لیکن اس پر اسی قدر قرض ہے کیا زکوٰۃ اس پر واجب ہے بولے نہیں۔

 

               اموال تجارت کی زکوٰۃ کا بیان

 

زریق بن حیان سے روایت ہے کہ وہ مقرر تھے مصر کے محصول خانہ پر ولید اور سلیمان بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا ان کو جو شخص گزرے اوپر تیرے مسلمانوں میں سے تو جو مال ان کو ظاہر ہو اموال تجارت میں سے تو لے اس میں سے ہر چالیس دینار میں سے ایک دینار یعنی چالیسواں حصہ اور جو چالیس دینار سے کم ہو تو اسی حساب سے بیس دینار تک اگر بیس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم تو اس مال کو چھوڑ دے اس میں سے کچھ نہ لے اور جو تیرے اوپر کوئی ذمی گزرے تو اس کے مال تجارت میں سے ہر بیس دینار میں سے ایک دینار لے جو کم ہو اسی حساب سے دس دینار تک اگر دس دینار سے ایک تہائی دینار بھی کم ہو تو کچھ نہ لے اور جو کچھ تو لے اس کی ایک رسید سال تمام کے واسطے لکھ دے۔

 

               کنز کے بیان میں

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا عبداللہ بن عمر سے کسی نے پوچھا کنز کسے کہتے ہیں جواب دیا کنز وہ مال ہے جس کی زکوٰۃ نہ دی جائے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ کہتے تھے جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے روز وہ مال ایک گنجے سانپ کی صورت بنے گا جس کی دو آنکھوں پر سیاہ داغ ہوں گے اور ڈھونڈے گا اپنے مالک کو یہاں تک کہ پائے گا اس کو پھر کہے گا اس سے میں تیرا مال ہوں جس کی زکوٰۃ تو نے نہیں دی تھی۔

 

 

               زکوٰۃ چار پایوں کی

 

امام مالک نے پڑھا حضرت عمر بن خطاب کی کتاب صدقہ اور زکوٰۃ کے باب میں اس میں لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ کتاب ہے صدقہ کی چوبیس اونٹنیوں تک ہر پانچ میں ایک بکری لازم ہے جب چوبیس سے زیادہ ہوں پینتیس تک ایک برس کی اونٹنی ہے اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ ہے اس سے زیادہ میں پینتالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے اس سے زیادہ میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے جو قابل ہو جفتی کے اس سے زیادہ میں پچھتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے اس سے زیادہ میں نوے اونٹ تک دو اونٹنیاں ہیں دو دو برس کی اس سے زیادہ میں ایک سو بیس اونٹ تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو قابل ہوں جفتی کے اس سے زیادہ میں ہر چالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی اونٹنی ہے بکریاں جو جنگل میں چرتی ہوں جب چالیس تک پہنچ جائیں ایک بکری زکوٰۃ کی لازم ہو گی اس سے زیادہ میں تین سو بکریوں تک تین بکریاں بعد اس کے ہر سینکڑے میں ایک بکری دینا ہو گی اور زکوٰۃ میں بکرا نہ لیا جائے گا اسی طرح بوڑھے اور عیب دار مگر جب زکوٰۃ لینے والے کی رائے میں مناسب ہو اور جدا جدا اموال ایک نہ کئے جائیں گے اسی طرح ایک مال جدا جدا نہ کیا جائے گا زکوٰۃ کے خوف سے اور جو دو آدمی شریک ہوں تو وہ آپس میں رجوع کر لیں برابر کا حصہ لگا کر اور چاندی میں جب پانچ اوقیہ ہو تو چالیسواں حصہ لازم آئے گا۔

 

               گائے بیل کی زکوٰۃ کا بیان

 

طاؤس یمانی سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل نے تیس گایوں میں سے ایک گائے ایک برس کی لی اور چالیس گایوں میں دو برس کی ایک گائے لی اور اس سے کم میں کچھ نہ لیا اور کہا کہ نہیں سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں یہاں تک کہ پوچھوں گا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پس وفات پائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ بن جبل کے آنے سے پہلے۔

 

               جب دو سال کی زکوٰۃ کسی پر واجب ہو جائے اس کے طریقے کا بیان

 

سفیان بن عبداللہ کو عمر بن خطاب نے متصدق ( یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والا ) کر کے بھیجا تو وہ بکریوں میں بچوں کو بھی شمار کرتے تھے لوگوں نے کہا تم بچوں کو شمار کرتے ہیں لیکن بچہ لیتے نہیں ہو تو جب آئے وہ عمر بن خطاب کے پاس بیان کیا ان سے یہ امر تو کہا حضرت عمر نے ہاں ہم گنتے ہیں بچوں کو بلکہ اس بچے کو جس کو چرواہا اٹھا کر چلتا ہے لیکن نہیں لیتے اس کو نہ موٹی بکری کو جو کھانے کے واسطے موٹی کی جائے اور نہ اس بکری کو جو اپنے بچے کو پالتی ہو اور نہ حاملہ کو اور نہ نر کو اور لیتے ہیں ہم ایک سال یا دو سال کی بکری ہو جو متوسط ہے نہ بچہ ہے نہ بوڑھی ہے نہ بہت عمدہ ہے۔

 

               زکوٰۃ میں لوگوں کو تنگ کرنے کی ممانعت

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے پاس بکریاں آئیں زکوٰۃ کی اس میں ایک بکری دیکھی بہت دودھ والی تو پوچھا آپ نے یہ بکری کیسی ہے لوگوں نے کہا زکوٰۃ کی بکری ہے حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کے مالک نے کبھی اس کو خوشی سے نہ دیا ہو گا لوگوں کو فتنے میں نہ ڈالو ان کے بہترین اموال نہ لو اور باز آؤ ان کا رزق چھین لینے سے۔

 

محمد بن یحیی بن حبان سے روایت ہے کہ خبر دی مجھ کو دو شخصوں نے قبیلہ اشجع سے کہ محمد بن مسلمہ انصاری آتے تھے زکوٰۃ لینے کو تو کہتے تھے صاحب مال سے لاؤ میرے پاس زکوٰۃ اپنے مال کی پھر وہ جو بکری لے کر آتا اگر وہ زکوٰۃ کے لائق ہوتی تو قبول کر لیتے۔

 

               صدقہ لینا اور جن لوگوں کو لینا درست ہے ان کا بیان

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زکوٰۃ درست نہیں مالدار کی مگر پانچ آدمیوں کو درست ہے پہلے غازی جو جہاد کرتا ہو اللہ کی راہ میں دوسرے جو عامل ہو زکوٰۃ کا یعنی زکوٰۃ کو وصول اور تحصیل کرتا ہو تیسرے مدیون یعنی جو قرضدار ہو چوتھے جو زکوٰۃ کو خرید لے اپنے مال کے عوض میں پانچویں جو مسکین ہمسایہ کے پاس سے بطور ہدیہ کے آئے۔

 

               زکوٰۃ نہ دینے والوں پر سختی کا بیان

 

امام مالک سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ اگر نہ دیں گے رسی بھی اونٹ باندھنے کی تو میں جہاد کروں گا ان پر۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے دودھ پیا تو بھلا معلوم ہوا پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا جو لایا تھا وہ بولا کہ میں ایک پانی پر گیا تھا اور اس کا نام بیان کیا وہاں پر جانور زکوٰۃ کے پانی پی رہے تھے لوگوں نے ان کا دودھ نچوڑ کر مجھے دیا میں نے اپنی مشک میں رکھ لیا وہ یہی دودھ تھا جو آپ نے پیا تو حضرت عمر نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈال کر قے کی۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ ایک عامل نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ ایک شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا عمر نے جواب میں لکھا کہ چھوڑ دے اس کو اور مسلمانوں کے ساتھ اور زکوٰۃ نہ لیا کر اس سے۔ یہ خبر اس شخص کو پہنچی اس کو برا معلوم ہوا اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی بعد اس کے عامل نے حضرت عمر کو اطلاع دی انہوں نے جواب میں لکھا کہ لے لے زکوٰۃ کو اس شخص سے۔

 

               پھلوں اور میووں کی زکوٰۃ کا بیان

 

سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بارانی اور زیر چشمہ یا تالاب کی زمین میں اور اس کھجور میں جس کو پانی کی حاجت نہ ہو دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جو زمین پانی سینچ کر تر کی جائے اس میں بیسواں حصہ زکوٰۃ کا ہے۔

 

ابن شہاب زہری نے کہا کہ کھجور کی زکوٰۃ میں جعرور (ایک قسم کی خراب کھجور ہے جو سوکھنے سے کوڑا ہو جاتی ہے) اور مصران الفارہ اور عذق بن حبیق(یہ بھی ردی کھجوروں کی قسم ہیں) نہ لی جائیں گی اور مثال ان کی بکریوں کی سی ہے کہ صاحب مال کے مال کے شمار میں سب قسم کی شمار کی جائیں گی لیکن لی نہ جائیں گی۔

 

               غلوں اور زیتوں کی زکوٰۃ کا بیان

 

امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ زیتون میں کیا واجب ہے بولے دسواں حصہ۔

 

               غلام لونڈی اور گھوڑوں اور شہد کی زکوٰۃ کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں ہے مسلمان پر اپنے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ شام کے لوگوں نے ابو عبیدہ بن جراح سے کہا کہ ہمارے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ لیا کرو انہوں نے انکار کیا اور حضرت عمر بن خطاب کو لکھ بھیجا حضرت عمر نے بھی انکار کیا پھر لوگوں نے دوبارہ ابو عبیدہ سے کہا انہوں نے حضرت عمر کو لکھا حضرت عمر نے جواب میں لکھا کہ اگر وہ لوگ ان چیزوں کی زکوٰۃ دینا چاہیں تو اسے ان سے لے کر انہی کے فقیروں کو دے دے اور ان کے غلاموں اور لونڈیوں کی خوراک میں صرف کر۔

 

عبد اللہ بن ابی حزم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا خط میرے باپ کے پاس آیا جب وہ منی میں تھے کہ شہد اور گھوڑے کی زکوٰۃ کچھ نہ لے۔

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ پوچھا میں نے سعید بن مسیب سے کہ ترکی گھوڑوں میں زکوٰۃ کیا ہے انہوں نے جواب دیا کیا گھوڑوں میں بھی زکوٰۃ ہے۔

 

               یہود و نصاریٰ اور مجوس کے جزیہ کا بیان

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ پہنچا مجھ کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جزیہ لیا بحرین کے مجوس سے اور عمر بن خطاب نے جزیہ لیا فارس کے مجوس سے اور عثمان بن عفان نے جزیہ لیا بربر سے۔

 

امام محمد بن باقر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ذکر کیا مجوس کا اور کہا کہ میں نہیں جانتا کیا کروں ان کے بارے میں تو کہا عبدالرحمن بن عوف نے گواہی دیتا ہوں میں کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان سے وہ طریقہ برتو جو اہل کتاب سے برتتے ہو۔

 

اسلم جو مولی ہیں عمر بن خطاب کے سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے مقرر کیا جزیہ کو سونے والوں پر ہر سال میں چار دینار اور چاندی والوں پر ہر سال میں چالیس درہم اور ساتھ اس کے یہ بھی تھا کہ بھوکے مسلمانوں کو کھانا کھلائیں اور جو کوئی مسلمان ان کے یہاں آ کر اترے تو اس کی تین روز کی ضیافت کریں۔

 

اسلم بن عدوی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا حضرت عمر بن خطاب سے کہ شتر خانے میں ایک اندھی اونٹنی ہے تو فرمایا حضرت عمر نے وہ اونٹنی کسی گھر والوں کو دے دے تاکہ وہ اس سے نفع اٹھائیں میں نے کہا وہ اندھی ہے حضرت عمر نے کہا اس کو اونٹوں کی قطار میں باندھ دیں گے میں نے کہا وہ چارہ کیسے کھائے گی حضرت عمر نے کہا وہ جزیے کے جانوروں میں سے ہے یا صدقہ کے میں نے کہا وہ جزیے کے حضرت عمر نے کہا واللہ تم لوگوں نے اس کے کھانے کا ارادہ کیا ہے میں نے کہا نہیں اس پر نشانی جزیہ کی موجود ہے تو حکم کیا حضرت عمر نے اور وہ نحر کی گئی اور حضرت عمر کے پاس نو پیالے تھے جو میوہ یا اچھی چیز آتی آپ ان میں رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیبیوں کو بھیجا کرتے اور سب سے آخر میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس بھیجتے اگر وہ چیز کم ہوتی تو کمی حفصہ کے حصے میں ہوتی تو پہلے آپ نے گوشت کو پیالوں میں ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیبیوں کو روانہ کیا بعد اس کے پکانے کا حکم کیا اور سب مہاجرین اور انصار کی دعوت کر دی۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھ بھیجا اپنے عاملوں کو جو لوگ جزیہ والوں میں سے مسلمان ہوں ان کا جزیہ معاف کریں۔

 

               ذمیوں کے دسویں حصہ کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نبط کے کافروں سے گیہوں اور تیل کا بیسواں حصہ لیتے تھے تاکہ مدینہ میں اس کی آمدنی زیادہ ہو اور قطنیہ سے دسواں حصہ لیتے تھے۔

 

سائب بن یزید سے روایت ہے کہ میں عامل تھا عبداللہ بن عتبہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے بازار میں تو ہم لیتے تھے نبط کے کفار سے دسواں حصہ۔

 

امام مالک نے پوچھا ابن شہاب سے کہ حضرت عمر کفار نبط سے دسواں حصہ کیسے لیتے تھے تو ابن شہاب نے کہا کہ ایام جاہلیت میں ان لوگوں سے دسواں حصہ لیا جاتا تھا حضرت عمر نے وہی قائم رکھا ان پر۔

 

               زکوٰۃ دیکر پھر اس کو خرید کر نے یا پھیرنے کا بیان

 

اسلم بن عددی سے روایت ہے کہ سنا میں نے عمر بن خطاب سے کہتے تھے میں نے ایک شخص کو عمدہ گھوڑا دے دیا خدا کی راہ میں مگر اس شخص نے اس کو تباہ کیا تو میں نے قصد کیا کہ پھر اس سے خرید لوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ سستا بیچ ڈالے گا سو پوچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت خرید اس کو اگرچہ وہ ایک درہم کا تجھے دے دے اس لئے کہ صدقہ دے کر پھر اس کو لینے والا ایسا ہے جیسے کتا قے کر کے پھر اس کو کھا لے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ایک گھوڑا دیا خدا کی راہ میں پھر قصد کیا اس کے خرید نے کا تو پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت خرید اس کو اور نہ پھیر صدقہ کو۔

 

               جن لوگوں پر صدقہ فطر واجب ہے ان کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر نکالتے اپنے غلاموں کی طرف سے جو وادی قری اور خیبر میں تھے۔

 

کہا مالک نے جو بہتر سنا ہے اس باب میں وہ یہ ہے کہ آدمی اس شخص کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے جس کا نان ونفقہ اس پر واجب ہے اور اس پر خرچ کرنا ضروری ہے اور اپنے غلام اور مکاتب اور مدبر اور سب کی طرف سے صدقہ ادا کرے خواہ یہ غلام حاضر ہوں یا غائب شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوں تجارت کے واسطے ہوں یا نہ ہوں اور جو ان میں مسلمان نہ ہو اس کی طرف سے صدقہ فطر نہ دے۔

 

               صدقہ فطر کی مقدار کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقہ فطر مقرر کیا لوگوں پر ایک صاع کھجور کا اور ایک صاع جو کا ہر آزاد اور ہر غلام پر مرد ہو یا عورت مسلمانوں میں سے۔

 

عیاض بن عبداللہ نے سنا ابو سعید خدری سے ہم نکالتے تھے صدقہ فطر ایک صاع گیہوں سے یا ایک صاع جو سے یا ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع پنیر سے یا ایک صاع انگور خشک سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صاع سے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر میں ہمیشہ کھجور دیا کرتے تھے مگر ایک بار جو دئیے۔

 

               صدقہ فطر بھیجنے کا وقت

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر صدقہ فطر بھیج دیا کرتے تھے عید سے دو تین روز پہلے اس شخص کے پاس جہاں صدقہ فطر جمع ہوا کرتا تھا۔

 

کہا مالک نے میں نے دیکھا اہل علم کو وہ مستحب جانتے تھے صدقہ فطر کو نکالنا جب فجر ہو عید کی قبل نماز کے۔

 

 

 

کتاب الحج

 

               احرام کے لئے غسل کر نے کا بیان

 

اسما بنت عمیس سے روایت ہے کہ انہوں نے جنا محمد بن ابی بکر کو مقام بیدا میں تو ذکر کیا ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ غسل کر کے احرام باندھ لے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس نے جنا محمد بن ابی بکر کو ذوالحلیفہ میں تو حکم کیا ان کو ابوبکر نے غسل کر کے احرام باندھنے کا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر غسل کرتے تھے احرام کے واسطے احرام باندھنے سے پہلے اور غسل کر تے تھے مکہ میں داخل ہونے کے واسطے اور غسل کر تے تھے نویں تاریخ کو عرفات میں ٹھہرنے کے واسطے۔

 

               محرم کے غسل کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن حنین سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور مسور بن مخرمہ نے اختلاف کیا ابوا میں تو کہا عبداللہ بن عباس نے محرم اپنا سر دھو سکتا ہے مسور بن مخرمہ نے کہا نہیں دھو سکتا ہے کہ عبداللہ بن حنین کو بھیجا عبداللہ بن عباس نے ابوایوب انصاری کے پاس تو پایا میں نے ان کو غسل کرتے ہوئے دو لکڑیوں کے بیچ میں جو کنوئیں پر لگی ہوتی ہیں اور وہ پردہ کئے ہوئے تھے ایک کپڑے کو تو سلام کیا میں نے ان کو، پوچھا انہوں نے کون ہے یہ میں نے کہا عبداللہ بن حنین ہوں مجھ کو بھیجا ہے عبداللہ بن عباس نے تاکہ تم سے پوچھوں کس طرح غسل کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب وہ محرم ہوتے تھے تو ابو ایوب نے اپنا ہاتھ کپڑے پر رکھ کر سر سے کپڑا ہٹایا یہاں تک کہ ان کا سر مجھ کو دکھائی دینے لگا پھر کہا انہوں نے ایک آدمی سے جو پانی ڈالتا تھا ان پر کہ پانی ڈال تو پانی ڈالا اس نے ان کے سر پر اور انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے ملا کر آگے لائے پھر پیچھے لے گئے اور کہا کہ ایسا ہی دیکھا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کرتے ہوئے۔

 

عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا یعلی بن منبہ کے اور وہ پانی ڈالا کرتے جب حضرت عمر غسل کرتے تھے کہ پانی ڈال میرے سر پر یعلی نے کہا تم چاہتے ہو کہ گناہ مجھ پر ہو اگر تم حکم کرو تو میں ڈالوں حضرت عمر نے کہا ڈال کیونکہ پانی ڈالنے سے اور کچھ نہ ہو گا مگر بال اور زیادہ پریشان ہوں گے۔

 

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب نزدیک ہوتے مکہ کے ٹھہر جاتے ذی طوی میں دو گھاٹیوں کے بیچ میں یہاں تک کہ صبح ہو جاتی تو نماز پڑھتے صبح کی پھر داخل ہوتے مکہ میں اس گھاٹی کی طرف سے جو مکہ کے اوپر کی جانب میں ہے اور جب حج یا عمرہ کے ارادے سے آتے تو مکہ میں داخل نہ ہوتے جب تک غسل نہ کر لیتے ذی طوی میں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہوتے ان کو بھی غسل کا حکم کرتے قبل مکہ میں داخل ہونے کے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نہیں دھوتے تھے اپنے سر کو احرام کی حالت میں مگر جب احتلام ہوتا۔

 

               جن کپڑوں کا احرام میں پہننا ممنوع ہے ان کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محرم کون سے کپڑے پہنے تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ پہنو قمیص اور نہ باندھو عمامہ اور نہ پہنو پائجامہ اور نہ ٹوپی اور نہ موزہ مگر جس کو چپل نہ ملے تو وہ اپنے موزوں کو پہن لے اور ان کو کاٹ ڈالے اس طرح کہ ٹخنے کھلے رہیں اور نہ پہنو ان کپڑوں کو جن میں زعفران لگی ہو اور ورس۔

 

               احرام میں رنگین کپڑے پہننے کا بیان

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے کہ محرم رنگا ہوا کپڑا زعفران میں ورس میں پہنے اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کو نعلین نہ ملیں وہ موزے پہن لے مگر اس کو ٹخنوں سے نیچا کر کے کاٹ لے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اسلم سے جو مولی تھے عمر بن خطاب کے حدیث بیان کرتے تھے عبداللہ بن عمر سے کہ عمر بن خطاب نے دیکھا طلحہ بن عبید اللہ کو رنگین کپڑے پہنے ہوئے احرام میں تو پوچھا حضرت عمر نے کیا یہ کپڑا رنگا ہوا ہے طلحہ، طلحہ نے کہا اے امیر المومنین یہ مٹی کا رنگ ہے حضرت عمر نے کہا تم لوگ پیشوا ہو لوگ تمہاری پیروی کرتے ہیں اگر کوئی جاہل جو اس رنگ سے واقف نہ ہو اس کپڑے کو دیکھے تو یہی کہے گا کہ طلحہ بن عبید اللہ رنگین کپڑے پہنتے تھے احرام میں، تو نہ پہنو تم لوگ ان رنگین کپڑوں میں سے کچھ۔

 

اسما بنت ابوبکر خوب گہرے قسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں احرام میں لیکن زعفران اس میں نہ ہوتی تھیں۔

 

               محرم کو پیٹی باندھنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے پیٹی کا باندھنا واسطے محرم کے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعد بن مسیب کہتے تھے کہ اگر محرم اپنے کپڑوں کے نیچے پیٹی باندھے تو کچھ قباحت نہیں ہے جب اس کے دونوں کناروں میں تسمے ہوں وہ ایک دوسرے سے باندھ دیے جاتے ہوں۔

 

               محرم کو اپنا منہ ڈھانپنا کیسا ہے

 

فرافصہ بن عمیر حنفی سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا عثمان بن عفان کو عرج (ایک گاؤں کا نام ہے مدینہ سے تین منزل پر) میں ڈھانپتے تھے منہ اپنا احرام میں

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے ٹھوڑی کے اوپر ( والا حصہ) سر میں داخل ہے محرم اس کو نہ چھپائے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کفن دیا اپنے بیٹے واقد بن عبداللہ کو اور وہ مر گئے تھے جحفہ میں احرام کی حالت میں اور کہا کہ اگر ہم احرام نہ باندھے ہوتے تو ہم اس کو خوشبو لگاتے، پھر ڈھانپ دیا سر اور منہ ان کا۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو وہ نقاب نہ ڈالے منہ پر اور دستانے نہ پہنے۔

 

فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے کہ ہم اپنے منہ ڈھانپتی تھیں احرام میں اور ہم ساتھ ہوتے اسما بنت ابی ابکر صدیق کے سو انہوں نے منع نہ کیا ہم کو۔

 

               حج میں خوشبو لگانے کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ میں خوشبو لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے احرام کو احرام باندھنے سے پہلے اور احرام کھولنے کے وقت طواف زیارت سے پہلے۔

 

عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم حنین میں تھے اور وہ اعرابی ایک کرتہ پہنے ہوئے تھا جس میں زرد رنگ کا نشان تھا تو کہا اس نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے نیت کی ہے عمرہ کی پس میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنا کرتہ اتار اور زردی دھو ڈال اپنے بدن سے اور جو حج میں کرتا ہے وہی عمرہ میں کر۔

 

اسلم جو مولی ہیں عمر بن خطاب کے ان سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب کو خوشبو آئی اور وہ شجرہ میں تھے سو کہا کہ یہ خوشبو کس شخص سے آتی ہے معاویہ بن ابی سفیان بولے مجھ سے اے امیر المومنین، حضرت عمر نے کہا ہاں تمہیں قسم ہے خداوند کریم کے بقا کی، معاویہ بولے کہ حبیبہ نے خوشبو لگا دی میرے اے امیر المومنین۔ حضرت عمر نے کہا میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ تم دھو ڈالو اس کو جا کر۔

 

صلت بن زبید سے روایت ہے کہ انہوں نے کئی اپنے عزیزوں سے سنا کہ حضرت عمر بن خطاب کو خوشبو آئی اور وہ شجرہ میں تھے اور آپ کے پہلو میں کثیر بن صلت تھے تو کہا عمر نے کس میں سے یہ خوشبو آتی ہے کثیر نے کہا مجھ میں سے میں نے اپنے بال جمائے تھے کیونکہ میرا ارادہ سر منڈانے کا نہ تھا بعد احرام کھولنے کے، حضرت عمر نے کہا شربہ (وہ گڑھا جو کھجور کے درخت کے پاس ہوتا ہے جس میں پانی بھرا رہتا ہے) کے پاس جا اور سر کو مل کر دھو ڈال تب ایسا کیا کثیر بن صلت نے۔

 
یحیی بن سعید اور عبداللہ بن ابی بکر اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ولید بن عبدالملک نے پوچھا سالم بن عبداللہ اور خارجہ بن زید سے کہ بعد کنکریاں مارنے کے اور سر منڈانے کے قبل طواف الافاضہ کے خوشبو لانگا کیسا ہے تو منع کیا سالم نے اور جائز رکھا خارجہ بن زید بن ثابت نے۔

 

 

               احرام باندھنے کے میقاتوں کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ احرام باندھیں اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے اور اہل شام جحفہ سے اور اہل نجد قرن سے کہا عبداللہ بن عمر نے پہنچا مجھ کو کہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام باندھیں اہل یمن یلملم سے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مدینہ کو ذوالحلیفہ سے احرام باندھنے کا اور اہل شام کو جحفہ سے اور اہل نجد کو قرن سے عبداللہ بن عمر نے کہا ان تینوں کو تو سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور مجھے خبر پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا احرام باندھیں اہل یمن یلملم سے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا فرع سے۔

 

مالک نے ایک معتبر شخص سے سنا کہ عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا بیت المقدس سے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام باندھا عمرہ کا جعرانہ سے۔

 

 

               لبیک کہنے کا بیان اور احرام کی ترکیب کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لبیک یہ تھی لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنمعۃ لک والملک لا شریک لک اور عبداللہ بن عمر اس میں زیادہ کرتے لیبک لبیک لبیک وسعدیک والخیر بیدیک لبیک الرغباء الیک والعمل۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے ذوالحلیفہ میں مسجد میں دو رکعتیں پھر جب اونٹ پر سوار ہو جاتے لبیک پکار کر کہتے۔

 

سالم بن عبداللہ نے سنا اپنے باپ عبداللہ بن عمر سے کہتے تھے کہ یہ میدان ہے جس میں تم جھوٹ باندھتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے احرام باندھا وہاں سے حالانکہ نہیں لبیک کہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مگر ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس سے۔

 

عبید اللہ بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن عمر سے پوچھا اے ابو عبدالرحمن میں نے تم کو چار باتیں ایسی کرتے ہوئے دیکھیں جو تمہارے ساتھیوں میں سے کسی کو نہیں کرتے دیکھا، عبداللہ بن عمر نے کہا کون سے باتیں بتاؤ اے ابن جریج، انہوں نے کہا میں نے دیکھا تم کو نہیں چھوتے ہو تم طواف میں مگر رکن یمانی اور حجر اسود کو اور میں نے دیکھا تم کو کہ پہنتے ہو تم جوتیاں ایسے چمڑے کی جس میں بال نہیں رہتے اور میں نے دیکھا خضاب کرتے ہو تم زرد اور میں نے دیکھا تم کو جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو لوگ چاند دیکھتے ہی احرام باندھ لینے ہیں اور تم نہیں باندھتے مگر آٹھویں تاریخ کو، عبداللہ بن عمر نے جواب دیا ارکان کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی رکن کو چھوتے نہیں دیکھا سوائے حجر اسود اور رکن یمانی کے اور جوتیوں کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسے چمڑے کی جوتیاں پہنتے دیکھا جس میں بال نہیں رہتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کر کے بھی ان کو پہن لیتے تو میں بھی ان کو پہننا پسند کرتا ہوں اور زرد رنگ کا حال یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو زرد خضاب کئے ہوئے دیکھا تو میں بھی اس کو پسند کرتا ہوں اور احرام کا حال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لبیک نہیں پکارتے تھے یہاں تک کہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سیدھا کھڑا ہو جاتا چلنے کے واسطے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے ذوالحلیفہ کی مسجد میں پھر نکل کر سوار ہوتے اس وقت احرام باندھتے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبدالملک بن مروان نے لبیک پکارا ذوالحلیفہ کی مسجد سے جب اونٹ ان کا سیدھا ہوا چلنے کو، اور ابان بن عثمان نے یہ حکم کیا تھا ان کو۔

 

               لبیک بلند آواز سے کہنے کا بیان

 

سائب بن خلاد انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا آئے میرے پاس جبرائیل اور کہا کہ حکم کروں میں اپنے اصحاب کو بلند آواز سے لبیک پکارنے کا۔

 

کہا مالک نے میں نے سنا اہل علم سے کہتے تھے یہ حکم عورتوں کو نہیں ہے بلکہ عورتیں آہستہ سے لبیک کہیں اس طرح کہ آپ ہی سنیں۔

 

               حج افراد کا بیان

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال تو ہم میں سے بعض لوگوں نے احرام باندھا عمرہ کا اور بعضوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اور بعضوں نے صرف حج کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حج کا احرام باندھا سو جس نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اس نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا اور جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا یا صرف حج کا اس نے احرام نہ کھولا دسویں تاریخ تک۔

 
حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حج افراد کیا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے افراد کیا حج کا۔

 

               قران کا بیان

 

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ مقداد بن الاسود آئے حضرت علی کے پاس اور وہ پلا رہے تھے اپنے اونٹ کے بچوں کو گھلا ہو آٹا اور چارہ پانی میں، تو کہا مقداد نے یہاں عثمان بن عفان منع کرتے ہیں قران سے درمیان حج اور عمرہ کے پس نکلے علی اور ان کے ہاتھوں میں آٹے کے نشان تھے سو میں اب تک اس آٹے کے نشانوں کو جو ان کے ہاتھ پر تھے نہیں بھولا اور گئے حضرت عثماں بن عفان کے پاس اور کہا کیا تم منع کرتے ہو قران سے درمیان حج اور عمرہ کے انہوں نے کہا ہاں میرے رائے یہی ہے تو حضرت علی غصے سے باہر نکلے کہتے تھے لبیک اللہم البیک بحجۃ وعمرۃ۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکلے حجۃ الوداع کے سال حج کرنے کے لیے تو ان کے بعض اصحاب نے احرام باندھا حج کا اور بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا اور بعض نے صرف عمرہ کا سو جس شخص نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ دونوں کا اس نے احرام نہ کھولا اور جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اس نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا۔

 

               لبیک موقوف کرنے کا وقت

 

محمد بن ابی بکر نے پوچھا انس بن مالک سے جب وہ دونوں صبح کو جا رہے تھے منی سے عرفہ کو، تم کیا کرتے تھے آج کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بولے بعض لوگ ہم میں سے آج کے روز لبیک کہتے تھے پکار کر تو کوئی منع نہ کرتا بعض لوگ تکبیر کہتے تو کوئی منع نہ کرتا۔

 

محمد باقر سے روایت ہے کہ حضرت علی لبیک کہتے تھے حج میں مگر جب زوال ہوتا آفتاب کا عرفہ کے روز تو موقوف کرتے لبیک کو۔

 

ام المومنین عائشہ موقوف کرتی تھیں لبیک جب جاتی تھیں عرفات کو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر موقوف کرتے تھے لبیک کہنے کو حج میں حرم میں طواف کرنے بیت اللہ کا اور سعی کرنے تک پھر لبیک کہنے لگتے یہاں تک کہ صبح کو منی سے چلتے عرفہ کو سو جب عرفات کو چلتے لبیک موقوف کرتے اور عمرہ میں موقوف کرتے لبیک کو جب داخل ہوتے حرم میں۔

 

ابن شہاب کہتے تھے کہ عبداللہ بن عمر طواف میں لبیک نہ کہتے تھے۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ وہ جب عرفات میں آتیں تو نمرہ میں اترتیں پھر اراک میں اترنے لگیں اور عائشہ اپنے مکان میں جب تک ہوتیں تو بھی، ان کے ساتھی لبیک کہا کرتے جب سوار ہوتیں تو لبیک کہنا موقوف کریں اور عائشہ بعد حج کے عمرہ ادا کرتیں مکہ سے احرام باندھ کر ذوالحجہ میں پھر یہ چھوڑ دیا اور محرم کے چاند سے پہلے جحفہ میں آ کر ٹھہرتیں جب چاند ہوتا تو عمرہ کا احرام باندھتیں۔

 

عروہ بن زبیر لبیک موقوف کرتے تھے عمرہ میں جب داخل ہو جاتے حرم میں

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز صبح کو چلے نویں تاریخ کو منی سے عرفہ کو تو بلند آواز سے تکبیر سنی، انہوں نے اپنے آدمیوں کو بھیج کر کہلوایا کہ اے لوگو یہ وقت لبیک کہنے کا ہے۔

 

               اہل مکہ کے احرام کا اور جو لوگ مکہ میں ہوں اور ملک والے ان کے بھی احرام کا بیان

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہا اے مکہ والو لوگ تو بال بکھرے ہوئے پریشان یہاں تک آتے ہیں اور تم تیل لگائے ہوتے ہو جب چاند دیکھو ذی الحجہ کا تو تم بھی احرام باندھ لیا کرو۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر نو برس مکے میں رہے جب چاند دیکھتے ذی الحجہ کا تو احرام باندھ لیتے اور عروہ بن زبیر بھی ایسا ہی کرتے۔

 

               ہدی کے جانور کے گلے میں کچھ لٹکانے سے آدمی محرم نہیں ہو جاتا

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ زیادبن ابی سفیان نے لکھا ام المومنین عائشہ کو کہ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں جو شخص ہدی روانہ کرے تو اس پر حرام ہو گئیں وہ چیزیں جو حرام ہیں محرم پر یہاں تک کہ ذبح کی جائے ہدی سو میں نے ایک ہدی تمہارے پاس روانہ کی ہے تم مجھے لکھ بھیجو اپنا فتوی یا جو شخص ہدی لے کر آتا ہے اس کے ہاتھ کہلا بھیجو، عمرہ نے کہا عائشہ بولیں ابن عباس جو کہتے ہیں ویسا نہیں ہے میں نے خود اپنے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدی کے ہار بٹے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے لٹکائی اور اس کو روانہ کیا میرے باپ کے ساتھ سو آپ پر کوئی چیز حرام نہ ہوئی ان چیزوں میں سے جن کو حلال کیا تھا اللہ نے ان کے لئے یہاں تک کہ ذبح ہو گئی ہدی۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا عمرہ بنت عبدالرحمن سے کہ جو شخص ہدی روانہ کرے مگر خود نہ جائے کیا اس پر کچھ لازم ہوتا ہے وہ بولیں میں نے سنا عائشہ سے کہتی تھیں محرم نہیں ہوتا مگر جو شخص احرام باندھے اور لبیک کہے۔

 

ربیعہ بن عبداللہ نے دیکھا ایک شخص کو عراق میں کپڑے اتارے ہوئے تو پوچھا لوگوں سے اس کا سبب لوگوں نے کہا اس نے حکم کیا ہے اپنی ہدی کی تقلید کا سو اس لئے سلے ہوئے کپڑے اتار ڈالے ربیعہ نے کہا میں نے ملاقات کی عبداللہ بن زبیر سے اور یہ قصہ بیان کیا انہوں نے کہا قسم کعبہ کے رب کی یہ امر بدعت ہے۔

 

               جس عورت کو حج میں حیض آ جائے اس کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو حج یا عمرہ کا پھر اس کو حیض آنا شروع ہو جائے تو وہ لبیک کہا کرے جب اس کا جی چاہے اور طواف نہ کرے اور سعی نہ کرے صفا مروہ کے درمیان باقی سب ارکان ادا کرے لوگوں کے ساتھ فقط طواف اور سعی نہ کرے اور مسجد میں نہ جائے جب تک کہ پاک نہ ہو۔

 

               حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین عمرے ادا کئے ایک حدیبیہ کے سال اور ایک عمرہ قضا کے سال اور ایک عمرہ جعرانہ کے سال۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں عمرہ کیا مگر تین بار ایک شوال اور دو ذیقعدہ میں۔

 

عبدالرحمن بن حرملہ اسلمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ میں عمرہ کروں قبل حج کے انہوں نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرہ کیا قبل حج کے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن ابی سلمہ نے اجازت مانگی حضرت عمر سے عمرہ کرنے کی شوال میں تو اجازت دی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو وہ عمرہ کر کے لوٹ آئے اپنے گھر کو اور حج نہ کیا۔

 

               تمتع کا بیان

 

محمد بن عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس سے جس سال معاویہ بن ابی سفیان نے حج کیا اور وہ دونوں ذکر کر رہے تھے تمتع کا تو ضحاک بن قیس نے کہا کہ تمتع وہی کرے گا جو خدا کے احکام سے ناواقف ہو سعد نے کہا بری بات کہی تم نے اے بھتیجے میرے۔ ضحاک نے کہا کہ عمر بن خطاب نے منع کیا تمتع سے سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کیا۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے قسم خدا کی مجھ کو قبل حج کے عمرہ کرنا اور ہدی لے جانا بہتر معلوم ہوتا ہے اس بات سے کہ عمرہ کروں بعد حج کے ذی الحجہ میں۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جس شخص نے عمرہ کیا حج کے مہینوں میں شوال یا ذی قعدہ یا ذی الحجہ میں قبل حج کے پھر ٹھہرا رہا مکہ میں یہاں تک کہ پا لیا اس نے حج کو اس نے تمتع کیا اگر حج کرے تو اس پر ہدی لازم ہے اگر میسر ہو اگر ہدی نہ میسر ہو تو تین روزے حج میں رکھے اور سات روزے جب حج سے لوٹے تو رکھے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے انہوں نے سنا سعید بن مسیب سے کہتے تھے جس نے عمرہ کیا شوال یا ذی قعدہ میں یا ذی الحجہ میں پھر مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ حج پایا تو وہ متمتع ہے اگر حج کرے تو اس پر ہدی لازم ہو گی اگر میسر ہے ورنہ تین روزے حج میں اور سات جب لوٹے رکھنے ہوں گے۔

 

               عمرہ کی متفرق حدیثوں کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک عمرہ سے لے کر دوسرے عمرہ تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو ان دونوں کے بیچ میں ہوں اور حج مبرور کا کوئی بدلہ نہیں ہے سوائے جنت کے۔

 

ابوبکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہتے تھے ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا میں نے تیاری کی تھی حج کی پھر کوئی عارضہ مجھ کو ہو گیا تو حج ادا نہ کر سکی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رمضان میں عمرہ کر لے کیونکہ ایک عمرہ رمضان میں ایک حج کے برابر ہے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر فرماتے تھے جدائی کرو حج اور عمرہ میں تاکہ حج بھی پورا ادا ہو اور عمرہ بھی پورا ادا ہو اور وہ اس طرح کہ حج کے مہینوں میں نہ کرے بلکہ اور دنوں میں کرے۔

 

امام مالک کو پہنچا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان جب عمرہ کرتے تو کبھی اپنے اونٹ سے نہ اترتے یہاں تک کہ لوٹ آتے مدینہ کو۔

 

               محرم کے نکاح کا بیان

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مولی ابو رافع اور ایک شخص انصاری کو بھیجا ان دونوں نے نکاح کر دیا ان کا میمونہ بنت حارث سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں تھے نکلنے سے پہلے۔

 

نبیہ بن وہب سے روایت ہے کہ عمر بن عبید اللہ نے بھیجا ان کو ابان بن عثمان کے پاس اور ابان ان دنوں میں امیر تھے حاجیوں کے اور دونوں احرام باندھے ہوئے تھے کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں کہ نکاح کروں طلحہ بن عمر کا شیبہ بن جبیر کی بیٹی سے سو تم بھی آؤ، ابان نے اس پر انکار کیا اور کہا کہ سنا میں نے عثمان بن عفان سے انہوں نے کہا سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ نکاح کرے محرم اپنا اور نہ غیر کا اور نہ پیغام بھیجے نکاح کا۔

 

ابو غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ ان کے باپ طریف نے نکاح کیا ایک عورت سے احرام میں تو باطل کر دیا اس کو حضرت عمر نے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے نہ نکاح کرے محرم اور نہ پیغام بھیجے اپنا اور نہ غیر کا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ سعید بن مسیب اور سالم بن عبداللہ بن سلیمان بن یسار سے سوال ہوا محرم کے نکاح کا تو ان سب نے کہا محرم نہ نکاح کرے اپنا نہ پرایا۔

 

 

               محرم کو پچھنے لگانے کا بیان

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پچھنے لگائے احرام میں اپنے سر پر لحی جمل میں جو ایک مقام ہے مکہ کی راہ میں

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں محرم پچھنے نہ لگائے مگر جب اس کو ضرورت پڑے۔

 

               جس شکار کا محرم کو کھانا درست ہے اس کا بیان

 

ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے مکہ کے ایک راستے میں ، پیچھے رہ گیا وہ (ابوقتادہ) اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن وہ (ابوقتادہ) احرام نہیں باندھے ہوئے تھے انہوں نے ایک گورخر کو دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور ساتھیوں سے کوڑا مانگا انہوں نے انکار کیا پھر برچھا مانگا انہوں نے انکار کیا آخر انہوں نے خود برچھا لے کر حملہ کیا گورخر پر اور قتل کیا اس کو اور بعض صحابہ نے وہ گوشت کھایا اور بعض نے انکار کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ایک کھانا تھا جو کھلایا تم کو اللہ جل جلالہ نے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ زبیر بن عوام ناشتہ کرتے تھے ہرن کے بھونے ہوئے گوشت کا جس کو قدید کہتے ہیں۔

 

عطاء بن یسار نے ابو قتادہ کی حدیث گورخر مارنے کی ویسی ہی روایت کی جیسے اوپر بیان ہوئی مگر اس حدیث میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیا اس گوشت میں کچھ تمہارے پاس باقی ہے۔

 

زید بن کعب بہزی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکلے مکہ کے قصد سے احرام باندھے ہوئے جب روحا میں پہنچے تو ایک گورخر زخمی دیکھا تو بیان کیا یہ ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو پڑا رہنے دو اس کا مالک آ جائے گا اتنے میں بہزی آیا وہی اس کا مالک تھا وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس گورخر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مختار ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوبکر کو حکم کیا انہوں نے اس کا گوشت تقسیم کیا سب ساتھیوں کو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم آگے بڑھے جب اثابہ میں پہنچے جو درمیان میں ہے رویثہ اور عرج کے تو دیکھا کہ ایک ہرن اپنا سر جھکائے ہوئے سائے میں کھڑا ہے اور ایک تیر اس کو لگا ہوا ہے تو کہا بہزی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو کہ کھڑا رہے اس کے پاس، تاکہ کوئی اس کو نہ چھیڑے یہاں تک کہ لوگ آگے بڑھ جائیں۔

 

ابوہریرہ جب آئے بحرین سے تو جب پہنچے ربذہ میں تو چند سوار ملے عراق کے احرام باندھے ہوئے تو پوچھا انہوں نے ابوہریرہ سے شکار کے گوشت کا حال جو ربذہ والوں کے پاس تھا ابوہریرہ نے ان کو کھانے کی اجازت دی پھر کہا کہ مجھ کو شک ہوا اس حکم میں تو جب آیا میں مدینہ تو ذکر کیا میں نے عمر بن خطاب سے حضرت عمر نے پوچھا تم نے کیا حکم دیا ان کو میں نے کہا کہ میں نے حکم دیا کھانے کا حضرت عمر نے کہا اگر تم ان کو کچھ اور حکم دیتے تو میں تمہارے ساتھ ایسا کرتا یعنی ڈرانے لگے۔

 

سالم بن عبداللہ نے سنا ابوہریرہ سے وہ کہتے تھے عبداللہ بن عمر سے کہ مجھ کو ملے کچھ لوگ احرام باندھے ہوئے ربذہ میں تو پوچھا انہوں نے شکار کے گوشت کی بابت جو حلال لوگوں کے پاس موجود ہو وہ کھاتے ہوں اس کو ابوہریرہ نے ان کو کھانے کی اجازت دی، کہا ابوہریرہ نے جب میں مدینہ میں آیا حضرت عمر کے پاس میں نے ان سے بیان کیا انہوں نے کہا تو نے کیا فتوی دیا؟ میں نے کہا میں نے فتوی دیا کھانے کا حضرت عمر نے کہا اگر تو اور کسی بات کا فتوی دیتا تو میں تجھے سزا دیتا۔

 

کعب الاحبار جب آئے شام سے تو چند سوار ان کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے راستے میں انہوں نے شکار کا گوشت دیکھا تو کعب الاحبار نے ان کو کھانے کی اجازت دی جب مدینہ میں آئے تو انہوں نے حضرت عمر سے بیان کیا آپ نے کہا تمہیں کس نے فتوی دیا بولے کعب نے حضرت عمر نے فرمایا کہ میں نے کعب کو تمہارے اوپر حاکم کیا یہاں تک کہ تم لوٹو، پھر ایک روز مکہ کی راہ میں ٹڈیوں کا جھنڈ ملا کعب نے فتوی دیا کہ پکڑ کر کھائیں جب وہ لوگ حضرت عمر کے پاس آئے ان سے بیان کیا آپ نے کعب سے پوچھا کہ تم نے یہ فتوی کیسے دیا کعب نے کہا کہ ٹڈی دریا کا شکار ہے حضرت عمر بولے کیونکر، کعب بولے اے امیر المومنین قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ ٹڈی ایک مچھلی کی چھینک سے نکلتی ہے جو ہر سال میں دو بار چھینکتی ہے۔

 

صعب بن جثامہ لیثی سے روایت ہے کہ انہوں نے تحفہ بھجا ایک گورخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابوا یا ودان میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واپس کر دیا صعب کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے چہرے کا حال دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہم نے اس واسطے واپس کر دیا کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔

 

عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا عثمان بن عفان کو عرج میں گرمی کے روز انہوں نے ڈھانپ لیا تھا منہ اپنا سرخ کمبل سے اتنے میں شکار کا گوشت آیا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کھاؤ انہوں نے کہا آپ نہیں کھاتے آپ نے فرمایا میں تمہاری مثل نہیں ہوں میرے واسطے تو شکار ہوا ہے۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ نے فرمایا عروہ بن زبیر سے کہ اے بیٹے میرے بھائی کے، یہ دس راتیں ہیں احرام کی اگر تیرے جی میں شک ہو تو بالکل چھوڑ دے شکار کا گوشت۔

 

               حرم کے شکار کا بیان

 

کہا مالک نے جو جانور شکار کیا جائے حرم میں یا کتا شکاری جانور پر حرم میں چھوڑا جائے لیکن وہ حل میں جا کر اس کو مارے تو وہ شکار کھانا حلال نہیں ہے اور جس نے ایسا کیا اس پر جزا لازم ہے لیکن جو کتا حل میں شکار پر چھوڑے اور وہ اس کو حرم میں لے جا کر مارے اس کا کھانا درست نہیں مگر جزا لازم نہ ہو گی الا یہ کہ اس نے حرم کے قریب کتے کو چھوڑا ہو اس صورت میں جزا لازم ہو گی۔

 

               شکار جزا کا بیان

 

کہا مالک نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے اے ایمان والو مت مارو شکار جب تم احرام باندھے ہو اور جو کوئی تم میں سے قصدا شکار مارے تو اس پر جزا ہے اس کی مثل جانور کے جب حکم کر دیں اس کو دو پرہیز گار شخص، خواہ جزا ہدی ہو جب کعبہ میں پہنچے یا کفارہ ہو مسکینوں کو کھلانا یا اس قدر روزے تاکہ چکھے وبال اپنے کام کا

 

               محرم کو کون سے جانور مارنے درست ہیں

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پانچ جانور ہیں محرم کو ان کا قتل منع نہیں ہے کوا اور چیل بچھو اور چوہا اور کاٹنے والا کتا۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں کہ جو کوئی ان کو احرام کی حالت میں مار ڈالے تو کچھ گناہ نہیں ہے ایک بچھو دوسرے چوہا تیسرے کاٹنا کتا چوتھے چیل پانچواں کوا۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور ناپاک ہیں قتل کئے جائیں گے حل اور حرم میں چوہا اور بچھو اور کوا اور چیل اور کاٹنا کتا۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے حکم کیا سانپوں کے مارنے کا حرم میں۔

 

               جو کام محرم کو درست ہیں ان کا بیان

 

ربیعہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا حضرت عمر بن خطاب کو جوئیں نکالتے تھے اپنے اونٹ کی اور پھینک دیتے تھے جوں کو خاک میں موضع سقیا میں اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے مالک نے کہا میں اس کام کو مکروہ جانتا ہوں۔

 

مرجانہ نے سنا حضرت ام المومنین عائشہ سے ان سے سوال ہوا کہ کیا محرم اپنے بدن کو کھجائے؟ بولیں ہاں کھجائے اور زور سے کھجائے اور اگر میرے ہاتھ باندھ دیے جائیں اور پاؤں قابو میں ہوں تو اسی سے کھجاؤں۔

 

ایوب بن موسیٰ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے آئینہ میں دیکھا بسبب کسی مرض کے جو ان کی آنکھ میں تھا اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے اپنے اونٹ کی جوں یا لیکھ نکالنے کو۔

 

محمد بن عبداللہ بن ابی مریم نے پوچھا سعید بن مسیب سے کہ میرا ایک ناخن ٹوٹ گیا ہے اور میں احرام باندھے ہوئے ہوں سعید نے کہا کاٹ ڈال اس کو۔

 

               دوسرے کی طرف سے حج کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سوار تھے اتنے میں ایک عورت آئی خنعم سے مسئلہ پوچھنے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے، تو فضل اس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضل کی طرف دیکھنے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فضل کا منہ اور طرف پھیرنے لگے اس عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حج اللہ کا فرض ہوا میرے باپ پر ایسے وقت میں کہ میرا باپ بوڑھا ہے اونٹ پر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں! اور یہ قصہ حجۃ الوداع میں ہوا۔

 

               احصار کا بیان

 

کہا مالک نے جس شخص کو احصار ہوا دشمن کے باعث سے اور وہ اس کی وجہ سے بیت اللہ تک نہ جا سکا تو وہ احرام کھول ڈالے اور اپنی ہدی کو نحر کرے اور سر منڈائے جہاں پر اس کو احصار ہوا ہے اور قضا اس پر نہیں ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کو جب روکا کفار نے تو احرام کھول ڈالے حدیبیہ میں اور نحر کیا ہدی کو اور سر منڈائے اور حلال ہو گئے ہر شئے سے یعنی بیت اللہ کا طواف اور اس کی طرف ہدی کو پہنچانے سے پہلے، پھر ہم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا ہو کسی کو اپنے اصحاب اور ساتھیوں میں سے دوبارہ قضا یا اعادہ کرنے کا۔

 

عبد اللہ بن عمر جب نکلے مکہ کی طرف عمرہ کی نیت سے جس سال فساد درپیش تھا یعنی حجاج بن یوسف لڑنے کو آیا تھا عبداللہ بن زبیر سے جو حاکم تھے مکہ کے تو کہا اگر میں روکا جاؤ بیت اللہ جانے سے تو کروں گا جیسا کیا تھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ، جب روکا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار نے تو عبداللہ بن عمر نے احرام باندھا تھا عمرہ کا اس خیال سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی حدیبیہ کے سال میں احرام باندھا تھا عمرہ کا پھر عبداللہ بن عمر نے سوچا تو یہ کہا کہ عمرہ اور حج دونوں کا حکم احصار کی حالت میں یکساں ہے پھر متوجہ ہوئے اپنے ساتھیوں کی طرف اور کہا کہ حج اور عمرہ کا حال یکساں ہے میں نے تم کو گواہ کیا کہ میں نے اپنے اوپر حج بھی واجب کر لیا عمرہ کے ساتھ پھر چلے گئے عبداللہ یہاں تک کہ آئے بیت اللہ میں اور ایک طواف کیا اور اس کو کافی سمجھا اور نحر کیا ہدی کو۔

 

               جو شخص سوائے دشمن کے اور کسی سبب سے رک جائے اس کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر نے کہا جو شخص بیماری کی وجہ سے رک جائے تو وہ حلال نہ ہو گا یہاں تک کہ طواف کرے خانہ کعبہ کا اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں اگر ضرورت ہو کسی کپڑے کے پہننے کی یا دوا کی تو اس کا استعمال کرے اور جزا دے۔

 

ام المومنین عائشہ نے فرمایا کہ محرم حلال نہیں ہوتا بغیر خانہ کعبہ پہنچے ہوئے۔

 

ایوب بن ابی تمیمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا ایک شخص سے جو بصرہ کا رہنے والا پرانا آدمی تھا اس نے کہا کہ میں چلا مکہ کو راستہ میں میرا کولہا ٹوٹ گیا تو میں نے مکہ میں کسی کو بھیجا وہاں عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر اور لوگ بھی تھے ان میں سے کسی نے مجھ کو اجازت نہ دی احرام کھول ڈالنے کی یہاں تک کہ میں وہیں پڑا رہا سات مہینے تک جب اچھا ہوا تو عمرہ کر کے احرام کھولا۔

 

عبد اللہ بن عمر نے کہا جو شخص خانہ کعبہ نہ جا سکے بیماری کی وجہ سے تو اس کا احرام نہ کھلے گا یہاں تک کہ طواف کرے بیت اللہ اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ سعید بن حزابہ مخزومی گر پڑے مکہ کو آتے ہوئے راہ میں اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے تو جہاں پانی دیکھ کر ٹھہرے تھے وہاں پوچھا عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور مروان بن حکم ملے ان سے بیان کیا اس عارضے کو ان سب نے کہا جیسی ضرورت ہو ویسی دوا کرے اور فدیہ دے۔ جب اچھا ہو تو عمرہ کر کے احرام کھولے پھر آئندہ سال حج کرے اور موافق طاقت کے ہدی دے۔

 

               کعبہ کے بنانے کا حال

 

روایت ہے حضرت ام المومنین عائشہ سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ تیری قوم نے جب بنایا کعبہ کو تو حضرت ابراہیم نے جیسے بنایا تھا اس میں کمی کی، حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ اس کو جیسے حضرت ابراہیم نے بنایا تھا ویسا کیوں نہیں بنا دیتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تیری قوم کا کفر قریب نہ ہوتا تو میں بنا دیتا۔ عبداللہ بن عمر نے کہا اسی وجہ سے شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکن شامی اور عراقی کو جو حطیم کے متصل ہیں استلام نہ کیا کیونکہ خانہ کبعہ ابراہیم کی بنا پر نہ تھا۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ نے فرمایا مجھے کچھ فرق نہیں معلوم ہوتا اس میں کہ نماز پڑھوں کعبہ کے اندر یا حطیم میں۔

 

               طواف میں رمل کا بیان

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہ رمل کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود سے حجرا اسود تک تین پھیروں میں

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رمل کرتے تھے حجر اسود تک تین پھیروں میں اور باقی چار پھیروں میں معمولی چال سے چلتے تھے۔

 

عروہ بن زبیر جب طواف کرتے خانہ کعبہ کا تو دوڑ کر چلتے تین پھیروں میں اور آہستہ سے کہتے اے اللہ سوائے تیرے کوئی سچا معبود نہیں اور تو جلا دے گا ہم کو بعد مرنے کے۔

 

عروہ بن زبیر نے دیکھا عبد اللہ بن زبیر کو انہوں نے احرام باندھا عمرہ کا تننعیم سے پھر دیکھا کہ وہ دوڑ کر چلتے ہیں پہلے تین پھیروں میں خانہ کعبہ کے گرد۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب احرام باندھتے مکہ سے تو طواف نہ کرتے بیت اللہ کا اور نہ سعی کرتے صفا مروہ کے درمیان یہاں تک کہ لوٹتے منی سے اور نہ رمل کرتے۔

 

               طواف میں استلام کرنے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب طواف سے فارغ ہو کر دوگانہ رکعت پڑھ چکتے اور پھر صفا مروہ کو نکلنے کا ارادہ کرتے تو حجر اسود کو چوم لیتے نکلنے سے پہلے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عبدالرحمن بن عوف سے کس طرح تم نے چوما حجر اسود کو عبدالرحمن نے کہا کبھی میں نے چوما اور کبھی ترک کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ٹھیک کیا تم نے۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ بن زبیر جب طواف کرتے خانہ کعبہ کا تو سب رکنوں کا استلام کرتے خصوصا رکن یمانی کو ہرگز نہ چھوڑتے مگر جب مجبور ہو جاتے۔

 

 

               حجر اسود کے استلام کے وقت اس کو چومنے کا بیان

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جب وہ طواف کر رہے تھے خانہ کعبہ کا حجر اسود کو! کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں نہ چومتا تجھ کو پھر چوما حجر اسود کو۔

 

               دوگانہ طواف کا بیان

 

عروہ بن زبیر دو طواف ایک ساتھ نہ کرتے تھے اسطرح پر کہ ان دونوں کے بیچ دوگانہ طواف ادا نہ کریں بلکہ ہر سات پھیروں کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے مقام ابراہیم کے پاس یا اور کسی جگہ۔

 

               دو گانہ طواف کا ادا کرنا بعد نماز صبح یا عصر کے

 

عبدالرحمن بن عبدالقاری نے طواف کیا خانہ کعبہ کا حضرت عمر بن خطاب کے ساتھ بعد نماز فجر کے تو جب حضرت عمر طواف ادا کر چکے تو آفتاب نہ پایا پس سوار ہوئے یہاں تک کہ بٹھایا اونٹ ذی طوی میں وہاں دوگانہ طواف ادا کیا۔

 

ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ دیکھا میں نے عبداللہ بن عباس کو طواف کرتے تھے بعد عصر کے پھر جاتے تھے اپنے حجرے میں پھر معلوم نہیں وہاں کیا کرتے تھے۔

 

ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا خانہ کعبہ کو خالی ہو جاتا طواف کرنے والوں سے بعد نماز صبح اور بعد نماز عصر کے کوئی طواف نہ کرتا۔

 

               خانہ کعبہ سے رخصت ہونے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے فرمایا کوئی حاجی مکہ سے نہ لوٹے یہاں تک کہ طواف کرے خانہ کعبہ کا کیونکہ آخری عبادت یہ ہے طواف کرنا خانہ کعبہ کا ہے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو مرا الظہران سے پھیر دیا اس واسطے کہ اس نے طواف الوداع نہیں کیا تھا۔

 

عروہ بن زبیر نے کہا کہ جس شخص نے طواف الافاضہ ادا کیا اس کا حج اللہ نے پورا کر دیا اب اگر اس کو کوئی امر مانع نہیں تو چاہیے کہ رخصت کے وقت طواف الوداع کرے اور اگر کوئی مانع یا عارضہ درپیش ہو تو حج تو پورا ہو چکا۔

 

               طواف کے مختلف مسائل کا بیان

 

حضرت ام المومنین ام سلمہ سے روایت ہے کہ شکایت کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنی بیماری کی سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مردوں کے پیچھے سوار ہو کر تو طواف کر لے ام سلمہ نے کہا کہ میں نے طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت خانہ کعبہ کے ایک گوشے کی طرف نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ والطور  وکتاب مسطور پڑھ رہے تھے

 

ابو ماعز اسلمی سے روایت ہے کہ وہ بیٹھے تھے عبداللہ بن عمر کے ساتھ اتنے میں ایک عورت آئی مسئلہ پوچھنے ان سے، تو کہا اس عورت نے کہ میں نے قصد کیا خانہ کعبہ کے طواف کا جب مسجد کے دروازے پر آئی تو مجھے خون آنے لگا سو میں چلی گئی جب خون موقوف ہوا تو پھر آئی جب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو خون آنے لگا تو میں پھر چلی گئی پھر جب خون موقوف ہوا پھر آئی جب مسجد کے دروازے پر پہنچی تو پھر خون آنے لگا عبداللہ بن عمر نے کہا یہ لات ہے شیطان کی، تو غسل کر پھر کپڑے سے شرمگاہ کو باندھ اور طواف کر۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ سعد بن ابی وقاص جب مسجد میں آتے اور نویں تاریخ قریب ہوتی تو عرفات کو جاتے قبل طواف اور سعی کے پھر جب وہاں سے پلٹتے تو طواف اور سعی کرتے۔

 

               سعی صفا سے شروع کر نے کا بیان

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب نکلتے مسجد حرام سے صفا کی طرف فرماتے تھے شروع کرتے ہیں ہم اس سے جس سے شروع کیا اللہ جل جلالہ نے تو شروع کی سعی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صفا سے۔

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کھڑے ہوتے صفا پر تین بار اللہ اکبر کہتے اور فرماتے نہیں ہے کوئی معبود سچا سوائے اللہ پاک کے کوئی اس کا شریک نہیں ہے اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے وہ ہر شئے پر قادر ہے، تین بار اس کو کہتے تھے اور دعا مانگتے تھے پھر مروہ پر پہنچ کر ایسا ہی کرتے۔

 

نافع نے سنا عبداللہ بن عمر سے وہ صفا پر دعا مانگتے تھے اے پروردگار! تو نے فرمایا کہ دعا کرو میں قبول کروں گا اور تو وعدہ خلافی نہیں کرتا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ جیسے تو نے مجھ کو اسلام کی راہ دکھائی سو مرتے دم تک اسلام سے نہ چھڑائیوں یہاں تک کہ میں مروں مسلمان رہ کر۔

 

               سعی کی مختلف احادیث کا بیان

 

عروہ بن زبیر نے کہا کہ میں نے پوچھا ام المومنین عائشہ سے دیکھو اللہ جل جلالہ فرماتا ہے بے شک صفا اور مروہ اللہ کی پاک نشانیوں میں سے ہیں سو جو حج کرے خانہ کعبہ کا یا عمرہ کرے تو ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں اس پر کچھ گناہ نہیں ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سعی نہ کرے تب بھی برا نہیں ہے حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ ہرگز ایسا نہیں اگر جیسا کہ تم سمجھتے ہو ویسا ہوتا تو اللہ جل جلالہ یوں فرماتا کہ گناہ ہے اس پر سعی نہ کرنے میں صفا اور مروہ کے درمیان اور یہ آیت تو انصار کے حق میں اتری ہے وہ لوگ حج کیا کرتے تھے منات کے واسطے اور منات مقابل قدید کے تھا اور قدید ایک قریہ کا نام ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان میں وہ لوگ صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کرنا برا سمجھتے تھے جب دین اسلام سے مشرف ہوئے تو انہوں نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں تو اس وقت اللہ جل جلالہ نے اتاری یہ آیت کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں جو شخص حج کرے خانہ کعبہ کا اور عمرہ کرے تو سعی کرنا گنا نہیں ہے ان دونوں کے درمیان میں۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ سودہ بیٹی عبداللہ بن عمر کی عروہ بن زبیر کے نکاح میں تھیں ایک روز وہ نکلیں حج یا عمرہ میں پیدل سعی کرنے صفا اور مروہ کے بیچ اور وہ ایک موٹی عورت تھیں تو آئی سعی کرنے کو جب لوگ فارغ ہوئے عشاء کی نماز سے، اور سعی ان کی پوری نہیں ہوئی تھی کہ اذان ہو گئی صبح کی پھر انہوں نے پوری کی سعی اپنی اس درمیان میں، اور عروہ جب لوگوں کو دیکھتے تھے کہ سوار ہو کر سعی کرتے ہیں تو سختی سے منع کرتے تھے اور وہ لوگ بیماری کا حیلہ کر تے تھے عروہ سے شرم کی وجہ سے تو عروہ کہتے تھے ہم سے اپنے لوگوں کے آپس میں ان لوگوں نے نقصان پایا مراد کو نہ پہنچے۔

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفا اور مروہ میں جب آتے تو معمولی چال سے چلتے جب وادی کے اندر آپ کے قدم آتے تو دوڑ کر چلتے یہاں تک کہ وادی سے نکل جاتے۔

 

 

               عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا بیان

 

ام الفضل سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کے سامنے شک کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے روزے میں عرفہ کے دن بعضوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم روزے سے ہیں بعضوں نے کہا نہیں تو ام الفضل نے ایک پیالہ دودھ کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اونٹ پر سوار تھے عرفات میں تو پی لیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ام المومنین عرفہ کے روز روزہ رکھتی تھیں قاسم نے کہا میں نے دیکھا کہ عرفہ کی شام کو جب امام چلا تو وہ ٹھہری رہیں یہاں تک کہ زمین صاف ہو گئی پھر ایک پیالہ پانی کا منگایا اور روزہ افطار کیا۔

 

               منیٰ کے دنوں میں یعنی گیارھویں بارھویں تیرھویں ذی الحجہ کے روزے کے بیان میں

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا منی کے دنوں میں روزہ رکھنے سے۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن حذافہ کو بھیجا منی کے دنوں میں کہ لوگوں میں پھر کر پکار دیں کہ یہ دن کھانے اور پینے اور خدا کی یاد کے ہیں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا دو دن روزہ رکھنے سے ایک عیدالفطر اور دوسرے عیدالاضحی کے دن۔

 

عبد اللہ بن عمرو بن عاص گئے اپنے باپ عمرہ بن عاص کے پاس ان کو کھانا کھاتے ہوئے پایا تو انہوں نے بلایا عبداللہ کو عبداللہ نے کہا میں روزے سے ہوں انہوں نے کہا ان دنوں میں منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روزے رکھنے سے اور حکم کیا ہم کو ان دنوں میں افطار کرنے کا۔

 

               جو جانور ہدی کے لئے درست ہے اس کا بیان

 

عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدی بھیجی ایک اونٹ کی جو ابو جہل بن ہشام کا تھا حج یا عمرہ میں

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا ایک شخص کو ہانکتا تھا اونٹ ہدی کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سوار ہو جا اس پر وہ بولا کہ ہدی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سوار ہو جا خرابی ہو تیری، دوسری یا تیسری مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہا۔

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر حج میں دو اونٹوں کی ہدی کیا کرتے تھے اور عمرہ میں ایک ایک اونٹ کی میں نے دیکھا ان کو کہ وہ نحر کرتے تھے اپنے اونٹ کا اور اونٹ کھڑا ہوتا تھا خالد بن اسید کے گھر میں وہیں وہ اترتے تھے اور میں نے دیکھا ان کو عمرہ میں کہ برچھا مارا انہوں نے اپنے اونٹ کی گردن میں یہاں تک کہ نکل آیا وہ اس کے بازو سے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے ہدی بھیجی ایک اونٹ کی حج یا عمرہ میں۔

 

ابو جعفر قاری سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عیاش نے دو اونٹوں کو ہدی کیا ایک اونٹ ان میں سے بُختی تھا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب جنے اونٹنی ہدی کی تو اس کے بچے کو بھی ساتھ لے چلیں اور اپنی ماں کے ساتھ قربانی کریں اگر اس کے چلنے کے لئے کوئی سواری نہ ہو تو اس کو اپنی ماں پر سوار کر دیا جائے تاکہ اس کے ساتھ نحر کیا جائے۔

 

ہشام بن عروہ نے کہا کہ میرے باپ عروہ کہتے تھے کہ اگر تجھ کو ضرورت پڑے تو اپنی ہدی پر سوار ہو جا مگر ایسا نہ ہو کہ اس کی کمر ٹوٹ جائے اور جب ضرورت ہو تجھ کو اس کے دودھ کی تو پی لے جبکہ بچہ اس کا سیر ہو جائے، پھر جب تو اس کو نحر کرے تو اس کے بچے کو بھی اس کے ساتھ نحر کر۔

 

               ہدی ہانکنے کی ترکیب کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر جب ہدی لے جاتے مدینہ سے تو تقلید کرتے اس کی اور اشعار کرتے اس کا ذوالحلیفہ میں، مگر تقلید اشعار سے پہلے کرتے لیکن دونوں ایک ہی مقام میں کرتے اس طرح پر کہ ہدی کا منہ قبلہ کی طرف کر کے پہلے اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دیتے پھر اشعار کرتے بائیں طرف سے اور ہدی کو اپنے ساتھ لے جاتے یہاں تک کہ عرفہ کے روز عرفات میں بھی سب لوگوں کے ساتھ رہتے پھر جب لوگ لوٹتے تو ہدی بھی لوٹ کر آتی، جب منی میں صبح کو یوم النحر میں پہنچتے تو اس کو نحر کرتے قبل حلق یا قصر کے اور عبداللہ بن عمر اپنی ہدی کو آپ نحر کرتے ان کو کھڑا کرتے صف باندھ کر منہ ان کا قبلہ کی طرف کرتے پھر اس کو نحر کرتے اور ان کا گوشت بھی کھاتے دوسروں کو بھی کھلاتے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب اپنی ہدی کے کوہان میں زخم لگاتے اشعار کے لئے کہتے اللہ کے نام سے اللہ بڑا ہے

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر فرماتے تھے کہ ہدی وہ جانور ہے جس کی تقلید اور اشعار ہو اور کھڑا کیا جائے اس کو عرفات میں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے اونٹوں کو جو ہدی کے ہوتے تھے مصری کپڑے اور چار جامی اور جوڑے اوڑھاتے تھے (قربانی کے بعد) ان کپڑوں کو بھیج دیتے تھے کعبہ شریف اوڑھانے کو۔

 

امام مالک نے پوچھا عبداللہ بن دینار سے کہ عبداللہ بن عمر اونٹ کی جھول کا کیا کرتے تھے جب کعبہ شریف کا غلاف بن گیا تھا؟ انہوں نے کہا صدقہ میں دے دیتے تھے

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے قربانی کے لئے پانچ برس یا زیادہ کا اونٹ ہونا چاہیے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر اپنے اونٹوں کے جھول نہیں پھاڑتے تھے اور نہ جھول پہناتے تھے یہاں تک کہ عرفہ کو جاتے منی سے۔

 

عروہ بن زبیر اپنے بیٹوں سے کہتے تھے اے میرے بیٹو! اللہ کے لئے تم میں سے کوئی ایسا اونٹ نہ دے جو آپ اپنے دوست کو دیتے ہوئے شرماتے ہو اس لئے کہ اللہ جل جلالہ سب کریموں سے کریم ہے اور زیادہ حقدار ہے اس امر کا کہ اس کے واسطے چیز چن کر دی جائے۔

 

               جب ہدی مر جائے یا چلنے سے عاجز ہو جائے یا کھو جائے اس کا بیان

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدی لے جانے والے نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو ہدی راستے میں ہلاک ہونے لگے اس کا کیا کروں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو اونٹ ہدی کا ہلاک ہونے لگے اس کو نحر کر اور اس کے گلے میں جو قلادہ پڑا تھا وہ اس کے خون میں ڈال دے پھر اس کو چھوڑ دے کہ لوگ کھا لیں اس کو۔

 

سعید بن مسیب نے کہا جو شخص ہدی کا اونٹ لے جائے پھر وہ تلف ہونے لگے اور وہ اس کونحر کر کے چھوڑ دے کہ لوگ اس میں سے کھائیں تو اس پر کچھ الزام نہیں ہے البتہ اگر خود اس میں سے کھائے یا کسی کو کھانے کا حکم دے تو تاوان لازم ہو گا، عبداللہ بن عباس نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔

 

ابن شہاب نے کہا جو شخص اونٹ جزا کا یا نذر کا یا تمتع کا لے گیا پھر وہ راستے میں تلف ہو گیا تو اس پر اس کا عوض لازم ہے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص اونٹ ہدی کا لے جائے پھر وہ راستے میں مر جائے یا گم ہو جائے تو اگر نذر کو ہو تو اس کا عوض دے اور جو نفل ہو تو چاہے عوض دے چاہے نہ دے۔

 

               محرم جب اپنی بیوی سے صحبت کرے اس کی ہدی کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب اور ابوہریرہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے جماع کیا اپنی بی بی سے احرام میں وہ کیا کرے ان سب نے جواب دیا کہ وہ دونوں حج کے ارکان ادا کرتے جائیں یہاں تک کہ حج پورا ہو جائے پھر آئندہ سال ان پر حج اور ہدی لازم ہے۔ حضرت علی نے یہ بھی فرمایا کہ پھر آئندہ سال جب حج کریں تو دونوں جدا جدا رہیں یہاں تک کہ حج پورا ہو جائے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا سعید بن مسیب سے وہ کہتے تھے لوگوں سے تم کیا کہتے ہو اس شخص کے بارے میں جس نے جماع کیا اپنی عورت سے، احرام کی حالت میں تو لوگوں نے کچھ جواب نہ دیا تب سعید نے کہا کہ ایک شخص نے ایسا ہی کیا تھا تو اس نے مدینہ میں کسی کو بھیجا دریافت کرنے کے لئے بعض لوگوں کے پاس، بعض لوگوں نے کہا کہ میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی کی جائے، سعید نے کہا دونوں حج کرنے چلے جائیں اور اس حج کو پورا کریں جو فاسد کر دیا ہے جب فارغ ہو کر لوٹیں تو دوسرے سال اگر زندہ رہیں تو پھر حج کریں اور ہدی دیں اور دوسرے حج کا احرام وہیں سے باندھیں جہاں سے پہلے حج کا احرام باندھا تھا اور مرد عورت جدا رہیں جب تک فارغ نہ ہوں حج سے۔

 

               جس شخص کو حج نہ ملے اس کی ہدی کا بیان

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ابو ایوب انصاری حج کرنے کو نکلے جب نازیہ میں پہنچے مکہ کے راستے میں تو ان کا اونٹ گم ہو گیا سو آئے وہ مکہ میں حضرت عمر بن خطاب کے پاس دسویں تاریخ کو ذی الحجہ کی اور بیان کیا ان سے حضرت عمر نے فرمایا کہ عمرہ کر لے اور احرام کھول ڈال پھر آئندہ سال حج کے دن آئیں تو حج کر اور ہدی دے موافق اپنی طاقت کے۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ہبار بن اسود آئے یوم النحر کو اور عمر بن خطاب نحر کر رہے تھے اپنی ہدی کا تو کہا انہوں نے اے امیر المومنین ہم نے تاریخ کے شمار میں غلطی کی ہم سمجھتے تھے کہ آج عرفہ کا روز ہے حضرت عمر نے کہا مکہ کو جاؤ اور تم اور تمہارے ساتھی سب طواف کرو اگر کوئی ہدی تمہارے ساتھ ہو تو اس کو نحر کر ڈالو پھر حلق کرو یا قصر اور لوٹ جاؤ اپنے وطن کو، آئندہ سال آؤ اور حج کرو اور ہدی دو جس کو ہدی نہ ملے وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے جب لوٹے تب رکھے۔

 

               جو شخص صحبت کرے اپنی بی بی سے قبل طواف الزیارۃ کے اس کی ہدی کا بیان

 

عبد اللہ بن عباس سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے صحبت کی اپنی بی بی سے اور وہ منیٰ میں تھا قبل طواف زیارۃ کے، تو حکم کیا اس کو عبداللہ بن عباس نے ایک اونٹ نحر کرنے کا۔

 

عبد اللہ بن عباس نے کہا جو شخص صحبت کرے اپنی بی بی سے قبل طواف زیارۃ کے تو وہ ایک عمرہ کرے اور ہدی دے۔

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔

 

               موافق طاقت کے ہدی کیا چیز ہے

 

حضرت علی فرماتے تھے کہ مَا اسْتَیسَرَ مِنْ الْهَدْی سے مراد ایک بکری ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عباس کہتے تھے مَا اسْتَیسَرَ مِنْ الْهَدْی سے ایک بکری مراد ہے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے مَا اسْتَیسَرَ مِنْ الْهَدْی سے ایک بکری یا گائے مراد ہے۔

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک آزاد لونڈی عمرہ بنت عبدالرحمن کی جس کا نام رقیہ تھا مجھ سے کہتی تھی کہ میں چلی عمرہ بنت عبدالرحمن کے ساتھ مکہ کو تو آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی وہ مکہ میں پہنچیں اور میں بھی ان کے ساتھ تھی تو طواف کیا خانہ کعبہ کا اور سعی کی صفا اور مروہ کے درمیان میں پھر عمرہ مسجد کے اندر گئیں اور مجھ سے کہا کہ تیرے پاس قینچی ہے میں نے کہا نہیں عمرہ نے کہا کہیں سے ڈھونڈھ کر لاؤ سو میں ڈھونڈھ کر لائی عمرہ نے اپنی لٹیں بالوں کی اس سے کاٹیں جب یوم النحر ہوا تو ایک بکری ذبح کی۔

 

 

               مختلف حدیثیں ہدی کے بیان میں

 

صدقہ بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا عبداللہ بن عمر کے پاس اور اس نے بٹ لیا تھا اپنے بالوں کو تو کہا اے ابا عبدالرحمن میں صرف عمرہ کا احرام باندھ کر آیا عبداللہ بن عمر نے کہا اگر تو میرے ساتھ ہوتا یا مجھ سے پوچھتا تو میں تجھے قران کا حکم کرتا اس شخص نے کہا اب تو ہو چکا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ جتنے بال تیرے پریشان ہیں ان کو کتروا ڈال اور ہدی دے، ایک عورت عراق کی رہنے والی بولی اے ابا عبدالرحمن کیا ہدی ہے اس کی؟ انہوں نے کہا جو ہدی ہے اس کی، اس عورت نے کہا کیا ہدی ہے؟ عبداللہ بن عمر نے کہا میرے نزدیک تو یہ ہے کہ اگر مجھے سوا بکری کے کچھ نہ ملے تب بھی بکری ذبح کرنا بہتر ہے روزے رکھنے سے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو عورت احرام باندھے ہو جب احرام کھلوائے تو کنگھی نہ کرے جب تک اپنے بالوں کی لٹیں نہ کٹوا دے اور جو اس کے پاس ہدی ہو جب تک ہدی نحر نہ کرے تو اپنے بال نہ کتروائے۔

 

ابو اسما سے جو مولی ہیں عبداللہ بن جعفر کے روایت ہے کہ عبداللہ بن جعفر کے ساتھ وہ مدینہ سے نکلے تو گزرے حسین بن علی پر اور وہ بیمار تھے سقیا میں پس ٹھہرے رہے وہاں عبداللہ بن جعفر یہاں تک کہ جب خوف ہوا حج کے فوت ہو جانے کا تو نکل کھڑے ہوئے عبداللہ بن جعفر اور ایک آدمی بھیج دیا حضرت علی کے پاس اور ان کی بی بی اسما بنت عمیس کے پاس وہ دونوں مدینہ میں تھے تو آئے حضرت علی اور اسماء مدینہ سے امام حسین کے پاس انہوں نے اشارہ کیا اپنے سر کی طرف حضرت علی نے حکم کیا ان کا سر مونڈا گیا سقیا میں، پھر قربانی کی ان کی طرف سے ایک اونٹ کی وہیں سقیا میں، کہا یحیی بن سعید نے کہ امام حسین حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ نکلے تھے حج کرنے کو۔

 

 

               عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عرفات تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن عرفہ میں نہ ٹھہرو اور مزدلفہ تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن محسر میں نہ ٹھہرو۔

 

عبد اللہ بن زبیر کہتے تھے جانو تم کہ عرفات سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطن محسر۔

 

کہا مالک نے فرمایا اللہ تعالی نے فلا رفث ولا فسوق ولاجدال فی الحج، نہ رفث ہے نہ فسق ہے نہ جھگڑا ہے حج میں، تو رفث کے معنی جماع کے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے فرمایا ہے احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الی نساءکم حلال ہے تمہارے لئے روزوں کی رات میں جماع اپنی عورتوں سے یہاں پر رفث سے جماع مراد ہے۔

 

               بے وضو عرفات یا مزدلفہ میں ٹھہرنے کا اور سوار ہو کر ٹھہرنے کا بیان

 

کہا یحیی نے سوال ہوا امام مالک سے کہ عرفات میں یا مزدلفہ میں کوئی آدمی بے وضو ٹھہر سکتا ہے یا بے وضو کنکریاں مار سکتا ہے یا بے وضو صفا اور مروہ کے درمیان میں دوڑ سکتا ہے تو جواب دیا کہ جتنے ارکان حائضہ عورت کر سکتی ہے وہ سب کام مرد بے وضو کر سکتا ہے اور اس پر کچھ لازم نہیں آتا مگر افضل یہ ہے کہ ان سب کاموں میں با وضو ہو اور قصداً بے وضو ہونا اچھا نہیں ہے۔ سوال ہوا امام مالک سے کہ عرفات میں سوار ہو کر ٹھہرے یا اتر کر، بولے سوار ہو کر مگر جب کوئی عذر ہو اس کو یا اس کے جانور کو تو اللہ جل جلالہ قبول کرنے والا ہے عذر کو۔

 

               وقوف عرفات کی انتہا کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر کہتے تھے جو شخص عرفہ میں نہ ٹھہرا یوم النحر کے طلوع فجر تک تو فوت ہو گیا حج اس کا اور جو یوم النحر کے طلوع فجر سے پہلے عرفہ میں ٹھہرا تو اس نے پا لیا حج کو۔

 

عروہ بن زبیر نے کہا کہ جب مزدلفہ کی رات کی صبح ہو گئی اور وہ عرفہ میں نہ ٹھہرا تو حج اس کا فوت ہو گیا اور جو مزدلفہ کی رات کو عرفہ میں ٹھہرا طلوع فجر سے پہلے تو پا لیا اس نے حج کو۔

 

               عورتوں اور لڑکوں کو آگے روانہ کر دینے کا بیان

 

سالم اور عبید اللہ سے جو دو بیٹے ہیں عبداللہ بن عمر کے روایت ہے کہ ان کے باپ عبداللہ بن عمر آگے روانہ کر دیتے تھے عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے منی کی طرف تاکہ نماز صبح کی منی میں پڑھ کر لوگوں کے آنے سے اول کنکریاں مار لیں۔

 

اسماء بنت ابی بکر کی آزاد لونڈی سے روایت ہے کہ ہم اسما بنت ابی بکر کے ساتھ منی میں آئے منہ اندھیرے تو میں نے کہا کہ ہم منی میں منہ اندھیرے آئے اسماء نے کہا ہم ایسا ہی کرتے تھے اس شخص کے ساتھ جو تجھ سے بہتر تھے۔

 

امام مالک نے سنا بعض اہل علم سے مکروہ جانتے تھے کنکریاں مارنا قبل طلوع فجر کے نحر کے دن، اور جس نے ماریں تو نحر اس کو حلال ہو گیا۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت المنذر دیکھتی تھیں اسما بنت ابی بکر کو مزدلفہ میں کہ جو امامت کرتا تھا ان کی اور ان کے ساتھیوں کی نماز میں حکم کرتی تھیں اس شخص کو کہ نماز پڑھائے صبح کی فجر نکلتے ہی پھر سوار ہو کر منی کو آتی تھیں اور توقف نہ کرتی تھیں۔

 

               عرفات سے لوٹتے وقت چلنے کا بیان

 

عروہ بن زبیر نے کہا کہ سوال ہو اسامہ بن زید سے اور میں بیٹھا تھا ان کے پاس کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حج وداع میں کس طرح چلاتے تھے اونٹ کو؟ کہا انہوں نے چلاتے تھے ذرا تیز جب جگہ پاتے تو خوب دوڑا کر چلاتے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر تیز کرتے تھے اپنے اونٹ کو بطن محسر میں ایک ڈھیلے کی مار تک۔

 

               حج میں نحر کرنے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا منی کو نحر کی جگہ یہ ہے اور ساری منی نحر کی جگہ ہے اور عمرہ میں کہا مروہ کو نحر کی جگہ یہ ہے اور سب راستے مکہ کے نحر کی جگہ ہے۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جب پانچ راتیں باقی رہی تھیں ذیقعدہ کی اور ہم کو گمان یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حج کو نکلے ہیں جب ہم نزدیک ہوئے مکہ سے تو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو جس کے ساتھ ہدی نہ تھی کہ طواف اور سعی کر کے احرام کھول ڈالے کہا عائشہ نے کہ یوم النحر کے دن ہمارے پاس گوشت آیا گائے کا تو میں نے پوچھا کہ یہ گوشت کہاں سے آیا لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے نحر کیا ہے۔

 

حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرہ کر کے اپنا احرام نہیں کھولا تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں نے تلبید کی اپنے سر کی اور تقلید کی اپنی ہدی کی تو میں احرام نہ کھولوں گا جب تک نحر نہ کر لوں۔

 

حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ہدی کے بعض جانوروں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بعضوں کو اوروں نے ذبح کیا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا جو شخص نذر کرے بدنہ کی (بدنہ اونٹ یا گائے یا بیل کو کہتے ہیں) جو بھیجا جائے مکہ کو قربانی کے واسطے تو اس کے گلے میں دو جوتیاں لٹکا دے اور اشعار کرے پھر نحر کرے اس کا بیت اللہ کے پاس یا منی میں دسویں تاریخ ذی الحجہ کو، اس کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہے اور جو شخص نذر کرے قربانی کے اونٹ یا گائے کی اس کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے نحر کرے۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ نحر کرتے تھے اپنے اونٹوں کو کھڑا کر کے۔

 

               سر منڈانے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر صحابہ نے کہا اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ رحم کرے حلق کرنے والوں پر پھر صحابہ نے کہا اور قصر کرنے والوں پر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اور قصر کرنے والوں پر۔

 

عبدالرحمن بن القاسم سے روایت ہے کہ ان کے باپ قاسم بن محمد مکہ میں عمرہ کا احرام باندھ کر رات کو آتے اور طواف وسعی کر کے حلق میں تاخیر کرتے صبح تک لیکن جب تک حلق نہ کرتے بیت اللہ کا طواف نہ کرتے اور کبھی مسجد میں آ کر وتر پڑھتے لیکن بیت اللہ کے قریب نہ جاتے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ کوئی شخص سر نہ منڈائے اور بال نہ کتروائے یہاں تک کہ نحر کرے ہدی کو اگر اس کے ساتھ ہو اور جو چیزیں احرام میں حرام تھیں ان کا استعمال نہ کرے جب تک احرام نہ کھول لے منی میں یوم النحر کو کیونکہ فرمایا اللہ تعالی نے ولا تحلقو رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ مت منڈاؤ سروں کو اپنے جب تک ہدی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔

 

               قصر کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے اور حج کا قصد ہوتا تو سر اور داڑھی کے بال نہ لیتے یہاں تک کہ حج کرتے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جب حلق کرتے حج یا عمرہ میں تو اپنی داڑھی اور مونچھ کے بال لیتے۔

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا قاسم بن محمد کے پاس اور اس نے کہا کہ میں نے طواف الافاضہ کیا اور میرے ساتھ میری بی بی نے بھی طواف الافاضہ کیا پھر میں ایک گھاٹی کی طرف گیا تاکہ صحبت کروں بی بی سے وہ بولی کہ میں نے ابھی بال نہیں کتروائے میں نے دانتوں سے اس کے بال کترے اور اس سے صحبت کی قاسم بن محمد ہنسے اور کہا کہ حکم کر اپنی عورت کو کہ بال کترے قینچی سے۔

 

عبد اللہ بن عمر اپنے عزیزوں میں سے ایک شخص سے ملے جس کا نام مجبر تھا انہوں نے طواف الافاضہ کر لیا تھا لیکن نہ حلق کیا نہ قصر نادانی سے، تو ان کو عبداللہ بن عمر نے لوٹ جانے کا اور حلق یا قصر کر کے اور طواف زیادہ دوبارہ کرنے کاحکم کیا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ سالم بن عبداللہ بن عمر جب ارادہ کرتے احرام کا تو قینچی منگاتے اور مونچھ اور داڑھی کے بال لیتے سواری اور لیبک کہنے سے پہلے احرام باندھ کر۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص بال گوندھے احرام کے وقت وہ سر منڈا دے احرام کھولتے وقت اور اس طرح بال نہ گوندھو کہ تلبید سے مشابہت ہو جائے۔

 

               تلبید کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص جوڑا باندھے یا گوندھ لے یا تلبید کرے بالوں کو احرام کے وقت تو واجب ہو گیا اس پر سر منڈانا۔

 

               بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کا اور عرفات میں نماز قصر کرنے کا اور خطبہ جلدی پڑھنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم داخل ہوئے کعبہ شریف کے اندر اور ان کے ساتھ اسامہ بن زید اور بلال بن رابح اور عثمان بن طلحہ تھے تو دروازہ بند کر لیا اور وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ نے کہا میں نے بلال سے پوچھا جب نکلے کیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے؟ تو کہا انہوں نے ایک ستون پیچھے کو بائیں طرف کیا اور دو ستون داہنی طرف اور تین ستون پیچھے اپنے اور خانہ کعبہ میں ان دنوں چھ ستون تھے پھر نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے۔

 

سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ لکھا عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو جب وہ آیا تھا عبداللہ بن عمر کا کسی بات میں حج کے کاموں میں سے کسی میں اختلاف نہ کرنا، کہا سالم نے جب عرفہ کا روز ہوا تو عبداللہ بن عمر زوال ہوتے ہی آئے اور میں بھی ان کے ساتھ اور پکارا حجاج کے خیمہ کے پاس کہ کہاں ہے حجاج؟ تو نکلا حجاج ایک چادر کسم میں رنگی ہوئی اوڑھے ہوئے اور کہا اے ابا عبدالرحمن کیا ہے انہوں نے جواب دیا کہ اگر سنت کی پیروی چاہتا ہے تو چل حجاج بولا ابھی؟ انہوں نے کہا ہاں ابھی، حجاج نے کہا مجھے تھوڑی مہلت دو کہ میں نہا لوں پھر نکلتا ہوں عبداللہ بن عمر سواری سے اتر پڑے پھر حجاج نکلا سو میرے اور میرے باپ عبداللہ کے بیچ میں آ گیا میں نے اس سے کہا اگر تجھ کو سنت کی پیروی منظور ہو تو آج کے روز خطبہ کو کم کر اور نماز جلد پڑھ وہ عبداللہ کی طرف دیکھنے لگا تاکہ ان سے سنے جب عبداللہ نے یہ دیکھا تو کہا سچ کہا سالم نے۔

 

               منی میں آٹھویں تاریخ نمازوں کا بیان اور جمعہ منی اور عرفہ میں آپڑنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نماز پڑھتے تھے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کی منی میں پھر صبح کو جب آفتاب نکل آتا تو عرفات کو جاتے۔

 

               مزدلفہ میں نماز کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی مغرب کی اور عشاء کی مزدلفہ میں ملا کر۔

 

اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوٹے عرفات سے یہاں تک کہ جب پہنچے گھاٹی میں اترے اور پیشاب کیا اور وضو کیا لیکن پورا وضو نہ کیا میں نے کہا نماز یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز آگے ہے تیرے، پھر سوار ہوئے جب مزدلفہ میں آئے اترے اور پورا وضو کیا پھر تکبیر ہوئی تو نماز پڑھی مغرب کی اس کے بعد ہر شخص نے اپنا اونٹ اپنی جگہ میں بٹھایا پھر تکبیر ہوئی عشاء کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کی نماز پڑھی بیچ میں ان دونوں کے کوئی نماز نہ پڑھی۔

 

ابو ایوب انصاری نے حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیساتھ مغرب اور عشاء ملا کر مزدلفہ میں پڑھیں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبدللہ بن عمر مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔

 

               منی کی نماز کے بیان میں

 

کہا مالک نے مکہ کے رہنے والے حج کو جائیں تو منی میں قصر کریں اور دو رکعتیں پڑھیں جب تک وہ حج سے لوٹیں۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی منی میں دو رکعتیں پڑھیں اور ابوبکر نے بھی وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور عمر بن خطاب نے بھی دو رکعتیں وہاں پڑھیں اور عثمان بن عفان نے بھی دو رکعتیں وہاں پڑھیں اور آدھی خلافت تک پھر چار پڑھنے لگے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب جب مکہ میں آئے تو دو رکعتیں پڑھ کر لوگوں سے کہا اے مکہ والوں تم اپنی نماز پوری کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں پھر منی میں حضرت عمر نے وہی دو رکعتیں پڑھیں لیکن ہم کو یہ نہیں پہنچا کہ وہاں کچھ کہا۔

 

اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے مکہ میں دو رکعتیں پڑھ کر لوگوں سے کہا اے مکہ والوں تم اپنی نماز پوری کرو کیونکہ ہم مسافر ہیں پھر منی میں بھی حضرت عمر نے دو ہی رکعتیں پڑھیں لیکن ہم کو یہ نہیں پہنچا کہ وہاں کچھ کہا ہو۔

 

               مقیم کی نماز کا بیان مکہ اور منی میں

 

کہا مالک نے جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی مکہ میں آ گیا اور حج کا احرام باندھا تو وہ جب تک مکہ میں رہے چار رکعتیں پڑھے اس واسطے کہ اس نے چار راتوں سے زیادہ رہنے کی نیت کر لی۔

 

               ایام تشریق کی تکبیروں کا بیان

 

یحیی بن سعید کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب گیارہویں تاریخ کو نکلے جب کچھ دن چڑھا تو تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی پھر دوسرے دن نکلے جب دن نکلا اور تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی تاکہ ایک تکبیر دوسری تکبیر سے ملتے ملتے آواز بیت اللہ کو پہنچے اور لوگ جانیں کہ حضرت عمر رمی کرنے نکلے ہیں۔

 

               معرس اور محصب کی نماز کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ بٹھایا بطحا میں جو ذوالحلیفہ میں تھا اور نماز پڑھی وہاں کہا نافع نے عبداللہ بن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ظہر اور عصر اور مغرب محصب میں پڑھتے پھر مکہ میں جاتے رات کو اور طواف کرتے خانہ کعبہ کا۔

 

               منی کے دنوں میں رات کو مکہ میں رہنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب چند آدمیوں کو مقرر کرتے اس بات پر کہ لوگوں کو پھیر دیں منی کی طرف جمرہ عقبہ کے پیچھے سے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کوئی حاجی منی کی راتوں میں جمرہ عقبہ کے ادھر نہ رہے۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عروہ بن زبیر نے کہا کہ منی کی راتوں میں کوئی مکہ میں نہ رہے بلکہ منی میں رہے۔

 

               کنکریاں مارنے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب ٹھہرتے تھے جمرہ اولی اور وسطی کے پاس بڑی دیر تک کہ تھک جاتا تھا کھڑا ہونے والا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر جمرہ اولی اور وسطی کے پاس ٹھہرتے تھے بڑی دیر تک پھر تکبیر کہتے اور تسبیح اور تحمید پڑھتے اور دعا مانگتے اللہ جل جلالہ سے اور جمرہ عقبہ کے پاس نہ ٹھہرتے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کنکریاں مارتے وقت تکبیر کہتے ہر کنکری مارنے پر۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جس کا آفتاب ڈوب جائے بارہویں تاریخ کو منی میں تو وہ نہ جائے جب تک تیرہویں تاریخ کو رمی نہ کر لے۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ لوگ جب رمی کرنے کو جاتے تو پیدل جاتے اور پیدل آتے لیکن سب سے پہلے معاویہ بن ابی سفیان رمی کے واسطے سوار ہوئے۔

 

امام مالک نے پوچھا عبدالرحمن بن قاسم سے کہ قاسم بن محمد کہاں سے رمی کرتے تھے جمرہ عقبہ کی، بولے جہاں سے ممکن ہوتا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے تینوں دنوں میں رمی بعد زوال کے کی جائے۔

 

               رمی جمار میں رخصت کا بیان

 

عاصم بن عدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجازت دی اونٹ والوں کو رات اور کہیں بسر کرنے کی سوائے منی کے، وہ لوگ رمی کر لیں یوم النحر کو پھر دوسرے دن یا تیسرے دن دونوں پھر اگر رہیں تو چوتھے دن بھی رمی کریں

 

عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ زمانہ اول میں اونٹ چرانے والے کو اجازت تھی رات کو رمی کرنے کی۔

 

نافع سے روایت ہے کہ صفیہ بن ابی عبید کی بھتیجی کو نفاس ہوا مزدلفہ میں تو وہ اور صفیہ ٹھہر گئیں یہاں تک کہ منی میں جب پہنچیں آفتاب ڈوب گیا یوم النحر کو تو حکم کیا ان دونوں کو عبداللہ بن عمر نے کنکریاں مارنے کا جب آئیں وہ منی میں اور کوئی جزا ان پر لازم نہ کی۔

 

               طواف الزیارۃ کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے خطبہ پڑھا عرفات میں اور سکھائے ان کو ارکان حج کے اور کہا ان سے! جب تم آؤ منی میں اور کنکریاں مار چکو تو سب چیزیں درست ہو گئیں تمہارے واسطے جو حرام تھیں احرام میں، مگر عورتوں سے صحبت کرنا اور خوشبو لگانا کوئی شخص تم میں سے صحبت نہ کرے اور نہ خوشبو لگائے جب تک طواف نہ کر لے خانہ کعبہ کا۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو شخص کنکریاں مارے اور سر منڈائے یا بال کتروائے اور اس کے ساتھ اگر ہدی ہو تو نحر کرے پس حلال ہو جائیں گیں اس پر وہ چیزیں جو حرام تھیں مگر صحبت کرنا عورتوں سے اور خوشبو لگانا درست نہ ہو گا طواف الزیارہ تک۔

 

               حائضہ کو مکہ میں جانے کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حجہ الوداع کے سال میں تو احرام باندھا ہم نے عمرہ کا پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص کے ساتھ ہدی ہو تو وہ احرام حج اور عمرہ کا ساتھ باندھے پراحرام نہ کھولے یہاں تک کہ دونوں سے فارغ ہو ، حضرت عائشہ نے کہا کہ میں آئی مکہ میں حیض کی حالت میں تو میں نے نہ طواف کیا نہ سعی کی صفا مروہ کی اور شکایت کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنا سر کھول ڈال اور کنگھی کر اور عمرہ چھوڑ دے اور حج کا احرام باندھ لے میں نے ویسا ہی کیا جب ہم حج کر چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو عبدالرحمن بن ابی بکر کے ساتھ تنیعم کو بھیجا میں نے عمرہ ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمرہ عوض ہے تیرے اس عمرہ کا تو جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ طواف اور سعی کر کے حلال ہو گئے پھر حج کے واسطے دوسرا طواف کیا جب لوٹ کر آئے منی سے، اور جن لوگوں نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج اور عمرہ کا ایک ساتھ باندھا تھا انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔

 

عروہ بن زبیر نے بھی حضرت عائشہ سے ایسا ہی روایت کیا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ میں آئی مکہ میں حالت حیض میں اور میں نے طواف نہ کیا خانہ کعبہ کا اور نہ سعی کی صفا اور مرہ کی تو میں نے شکوہ کیا اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کام حاجی کرتے ہیں وہ تو بھی کر فقط طواف اور سعی نہ کر جب تک کہ پاک نہ ہو۔

 

کہا مالک نے جو عورت عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ میں آئے اور وہ حیض سے ہو اور حج کے دن آ جائیں اور طواف نہ کر سکے تو اگر حج کے فوت ہونے کا خوف ہو تو حج کا احرام باندھ لے اور ہدی دے اور اس کا حکم قارن جیسا ہو گا ایک طواف اس کو کافی ہے اور وقوف عرفہ اور وقوف مزدلفہ اور رمی جمار حیض کی حالت میں ادا کر سکتی ہے مگر طواف الزیارۃ نہ کرے جب تک حیض سے پاک نہ ہو۔

 

               حائضہ کے طواف الزیارۃ کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ صفیہ کو حیض آیا تو بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ہمیں روکنے والی ہے لوگوں نے کہا وہ طواف الافاضہ کر چکی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر نہیں۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفیہ کو حیض آ گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید وہ ہم کو روکے گی کیا اس نے طواف نہ کیا خانہ کعبہ کا، عورتوں نے کہا ہاں کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر چلو۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عائشہ جب حج کرتیں عورتوں کے ساتھ اور خوف ہوتا ان کو حیض آ جانے کا تو یوم النحر کو ان کو روانہ کر دیتیں طواف الافاضہ کے واسطے، جب وہ طواف کر چکتیں اب اگر ان کو حیض آتا تو ان کے پاک ہونے کا انتظار نہ کرتیں بلکہ چل کھڑی ہوتیں۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذکر کیا صفیہ کا تو لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کو حیض آ گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید وہ ہمیں روکنے والے ہے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ طواف کر چکیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ نہیں۔

 

ہشام نے کہا عروہ نے کہا عائشہ نے جب ہم اس کا ذکر کرتے تھے کہ اگر پہلے سے عورتوں کو طواف کے لئے روانہ کر دینا مفید نہیں تو لوگ کیوں بھیج دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ جیسے سمجھتے ہیں کہ طواف الوداع کے لئے ٹھہرنا لازم ہے صحیح ہوتا تو منی میں چھ ہزرار عورتوں سے زیادہ حیض کی حالت میں پڑی ہوتیں طواف الوداع کے انتظار میں۔

 

ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ام سلیم نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور اس کو حیض آ گیا تھا یا زچگی ہوئی تھی بعد طواف الافاضہ کے یوم النحر کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت دی اور وہ چلی گئیں

 

کہا مالک نے جس عورت کو حیض آ جائے منی میں تو وہ ٹھہری رہے یہاں تک کہ وہ طواف الافاضہ کرے اور اگر طواف الافاضہ کے بعد اس کو حیض آیا تو اپنے شہر کو چلی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو رخصت پہنچی ہے حائضہ کے واسطے اور اگر حیض آیا طواف الافاضہ سے پہلے پھر خون بند نہ ہوا تو اکثر مدت لگا لیں گے حیض کی۔

 

               جو شکار مارے پرند چرند کا کی جزا کا بیان

 

ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حکم کیا بجو کے مارنے میں (جزا) ایک مینڈھے کا اور ہرن میں ایک بکری اور خرگوش میں بکری کے بچے کا جو سال بھر کا ہو اور جنگلی چوہے میں بکری کے چار ماہ کے بچے کا۔

 

محمد بن سرین سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت عمر بن خطاب کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنے ساتھی کے ساتھ گھوڑے ڈالے ایک تنگ گھاٹی میں تو مارا ہم نے ہرن کو اور ہم دونوں احرام باندھے ہوئے تھے حضرت عمر نے ایک شخص کو جو ان کے پہلو میں بیٹھا تھا بلایا اور کہا آؤ ہم تم مل کر حکم کر دیں تو دونوں نے مل کر ایک بکری کا حکم کیا وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہنے لگا یہ ہیں امیر المومنین ایک ہرن کا فیصہ اکیلے نہ کر سکے جب تک کہ ایک اور شخص کو اپنے ساتھ نہ بلایا۔ حضرت عمر نے یہ بات سن لی تو اس پکارا اور کہا تو نے سورۃ مائدہ پڑھی ہے وہ بولا نہیں حضرت عمر بولے تو اس شخص کو پہچانتا ہے جس نے میرے ساتھ مل کر فیصلہ کیا اس نے کہا نہیں حضرت عمر نے کہا اگر تو یہ کہتا کہ میں نے سورۃ مائدہ پڑھی ہے تو اس وقت میں تجھے مارتا پھر کہا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے اپنی کتاب میں تجویز کر دیں جزا کر دو عادل تم میں سے وہ ہدی ہو جو پہنچے مکہ میں اور یہ شخص عبدالرحمن بن عوف ہے

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ عرہ کہتے تھے نیل گائے میں ایک گائے لازم اور ہرن میں ایک بکری لازم ہے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے مکہ کے کبوتر کو جب قتل کیا جائے تو ایک بکری لازم ہے۔

 

               احرام کی حالت اگر ٹڈی مارے تو اس کی جزا کا بیان

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا حضرت عمر کے پاس اور کہا کہ میں نے چند ٹڈیوں کو کوڑے سے مار ڈالا اور میں احرام باندھے ہوئے تھا آپ نے فرمایا کہ ایک مٹھی بھر کھانا کسی کو کھلا دے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا حضرت عمر بن خطاب کے پاس اور پوچھا آپ سے میں نے ایک ٹڈی مار ڈالی حالت احرام میں حضرت عمر نے کہا آؤ ہم تم مل کر فیصلہ کریں کعب نے کہا ایک درہم لازم ہے حضرت عمر نے کہا تیرے پاس بہت درہم ہیں میرے نزدیک ایک کھجور بہتر ہے ایک ٹڈی سے۔

 

               جو شخص قبل نحر کے حلق کرے اس کے فدیہ کا بیان

 

کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے، ان کی سر میں جوئیں پڑ گئیں تو حکم دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو سر منڈانے کا اور کہا تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو دو دو مد کھانا دے یا ایک بکری ذبح کر ان میں سے جو بھی کرے گا کافی ہے۔

 

کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شاید تجھ کو تکلیف دیتی ہیں جوئیں انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یا منڈوا ڈال سر اپنا اور تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا یا ایک بکری ذبح کر۔

 

کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ آئے میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور میں ہانڈی پھونک رہا تھا اپنے ساتھیوں کی اور میرے سر اور ڈاڑھی کے بال جوؤں سے بھر گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میری پیشانی تھام کر فرمایا ان بالوں کو منڈوا ڈال اور تین روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے واسطے کچھ نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے ناک کے بال اکھاڑے یا بغل کے یا بدن پر نورہ لگایا یا سر میں زخم ہوا اور ضرورت کی وجہ سے سر منڈوایا یا گدی کے بال منڈوائے پچھنے لگانے کے واسطے احرام میں، اگر بھولے سے یا نادانی سے یہ کام کرے تو ان سب صورتوں میں اس پر فدیہ ہے اور محرم کو درست نہیں کہ پچھنے لگانے کی جگہ مونڈے۔ کہا مالک نے جو شخص نادانی سے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لے تو فدیہ دے۔

 

               جو شخص کوئی رکن بھول جائے اس کا بیان

 

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس نے کہا جو شخص اپنے کاموں میں سے کوئی کام بھول جائے یا چھوڑ دے تو ایک دم دے ایوب نے کہا مجھے یاد نہیں سعید نے بھول جائے کہا یا چھوڑ دے کہا۔

 

               فدیہ کے مختلف مسائل کا بیان

 

کہا مالک نے جو شخص چاہے ایسے کپڑے پہننا جو احرام میں درست نہیں ہیں یا بال کم کرنا چاہے یا خوشبو لگانا چاہے بغیر ضرورت کے فدیہ کو آسان سمجھ کر تو یہ جائز نہیں ہے بلکہ رخصت ضرورت کے وقت ہے جو کوئی ایسا کرے فدیہ دے۔

 

کہا مالک نے جو شخص حج میں تین روزے رکھنا بھول جائے یا بیماری کی وجہ سے نہ رکھ سکے یہاں تک کہ اپنے شہر چلا جائے تو اس کو اگر ہدی کی قدرت ہو تو ہدی دے ورنہ تین روزے اپنے گھر میں رکھ کر پھر سات روزے رکھے۔

 

               حج کی مختلف احادیث کا بیان

 

عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ٹھہرے منی میں حجۃ الوداع میں اور لوگ مسئلہ پوچھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سو ایک شخص آیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے سر منڈا لیا قبل نحر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اب ذبح کر لے کچھ حرج نہیں ہے پھر دوسرا شخص آیا وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے نادانی سے نحر کیا قبل رمی کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رمی کر لے کچھ حرج نہیں ہے عبداللہ بن عمر نے کہا پھر جب سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی چیز کے مقدم یا موخر کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کر لے اور کچھ حرج نہیں ہے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب لوٹتے جہاد یا حج یا عمرہ سے تو تکبیر کہتے ہر چڑھاؤ پر تین بار فرمایا لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شئی قدیر۔ ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرنے والے ہیں اللہ کی طرف پوجنے والے ہیں سجدہ کرنے والے ہیں اللہ اپنے پروردگار کی طرف سچا کیا اللہ نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے بندے کی اور بھگادیا فوجوں کو اکیلے۔

 

کریب سے روایت ہے جو مولی ہیں عبداللہ بن عباس کے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ہوا ایک عورت پر اور وہ اپنے محافہ میں تھی تو کہا گیا اس سے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اس نے اپنے لڑکے کا بازو پکڑ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لڑکے کا بھی حج ہے فرمایا ہاں اور تجھ کو اجر ہے۔

 

طلحہ بن عبید اللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں دیکھا جاتا شیطان کسی روز ذلیل اور منحوس اور غضبناک زیادہ عرفے کے روز سے اس وجہ سے کہ دیکھتا ہے اس دن خدا کی رحمت اترتی ہوئی اور بڑے بڑے گناہ معاف ہوتے ہوئے مگر بدر کے روز بھی شیطان کا یہی حال تھا لوگوں نے کہا اس دن کیا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دیکھا اس نے جبریل کو فرشتوں کی صف باندھے ہوئے۔

 

عبید اللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہتر دعاؤں میں عرفے کی دعا ہے اور بہتر اس میں جو کہا میں نے اور میرے سے پہلے پیغمبروں نے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم داخل ہوئے مکے میں جس سال مکہ فتح ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر پر خود تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اتارا تو ایک شخص آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ابن خطل کعبے کے پردے پکڑے ہوئے لٹک رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو مار ڈالو۔ امام مالک نے کہا کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم محرم نہیں تھے

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر آئے مکے سے جب قدید میں پہنچے تو مدینے کے فساد کی خبر پہنچی پس آپ مکہ میں بغیر احرام کے لوٹ آئے۔

 

ابن شہاب سے ایسی ہی روایت ہے

 

عمران انصاری سے روایت ہے کہ میرے پاس عبداللہ بن عمر آئے اور میں مکے کی راستے میں ایک درخت کے تلے ٹھہرا ہوا تھا ، تو انہوں نے پوچھا کیوں ٹھہرا تو اس درخت کے تلے ، میں نے کہا سایہ کے واسطے انہوں نے کہا یا اور کسی کام کے واسطے میں نے کہا نہیں، میں صرف سایہ کے واسطے ٹھہرا ہوں، عبداللہ بن عمر نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تو منی میں دو پہاڑوں کے بیچ میں پہنچے اور اشارہ کیا ہاتھ سے پورب کی طرف وہاں ایک جگہ ہے جس کو سُرر کہتے ہیں وہاں ایک درخت ہے اس کے تلے ستر نبیوں کی نال کاٹی گئی یا ستر نبیوں کو نبوت ملی پس وہ اس سبب سے خوش ہوئے۔

 

ابن ابی ملکیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ایک جذامی عورت کے پاس سے گزرے جو خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھی، تو (عمر نے) کہا اے خدا کی لونڈی لوگوں کو تکلیف مت دے، کاش تو اپنے گھر میں بیٹھتی ، وہ اپنے گھر میں بیٹھی رہی یہاں تک کہ ایک شخص اس سے ملا اور بولا کہ جس شخص نے تجھ کو منع کیا تھا وہ مر گیا، اب نکل، عورت بولی میں ایسی نہیں کہ زندگی میں تو میں اس شخص کی اطاعت کروں اور مرنے کے بعد اس کی نافرمانی کروں۔

 

امام مالک کو یہ روایت پہنچی کہ عبداللہ بن عباس کہتے تھے کہ "ملتزم ” حجر اسود اور کعبہ کے دروازہ کے درمیان میں ہے۔

 

محمد بن یحیی بن حبان سے روایت ہے کہ ایک شخص ابوذر کے پاس سے گزرے ربذہ میں (ایک مقام کا نام ہے)، ابوذر نے پوچھا کہاں کا قصد ہے؟ اس نے کہا حج کا، ابوذر نے پوچھا اور کسی نیت سے تو نہیں نکلا ؟ بولا نہیں، ابوذر نے کہا پس شروع کر کام، اس شخص نے کہا میں نکلا یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور وہاں ٹھہرا رہا پھر دیکھا میں نے لوگوں کو کہ گھیرے ہوئے ہیں ایک شخص کو ، تو میں لوگوں کو چیر کے اندر گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہی شخص جو ربذہ میں مجھ کو ملا تھا موجود ہے یعنی ابوذر انہوں نے مجھ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا تو وہی ہے جس سے میں نے حدیث بیان کی تھی۔

 

امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ حج میں شرط لگانا درست ہے؟ بولے کیا کوئی ایسا کرتا ہے؟ اور اس سے انکار کیا۔

 

               عورت کو بغیر محرم کے حج کرنے کا بیان

 

امام مالک نے کہا کہ جن عورتوں کے خاوند نہیں ہیں اور انہوں نے حج نہیں کیا، اگر ان کا کوئی محرم نہ ہو یا ہو لیکن ساتھ نہ جا سکے تو فرض حج کو ترک نہ کرے بلکہ عورتوں کے ساتھ حج کو جائے۔

 

 

               جو شخص تمتع کرے اس کے روزوں کا بیان

 

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے . وہ کہتی تھیں روزہ اس شخص کے اوپر ہے جو تمتع کرے یعنی عمرہ کر کے حج کرے اور ہدی نہ پائے حج کے احرام سے لے کر عرفہ تک روزے رکھے اگر ان دنوں میں نہ رکھے تو منی کے دنوں میں رکھے۔

 

عبد اللہ بن عمر بھی اس مقدمے میں مثل قول عائشہ کے کہتے۔

 

               جہاد کی طرف رغبت دلانے کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دن بھر روزہ رکھے اور رات بھر عبادت کرے، نہ تھکے نماز سے اور نہ روزے سے یہاں تک کہ لوٹے جہاد سے

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ ضامن ہے اس شخص کا جو جہاد کرے اس کی راہ میں، اور نہ نکلے گھر سے مگر جہاد کی نیت سے، اللہ کے کلام کو سچا جان کر. اس بات کا کہ داخل کرے گا اللہ اس کو جنت میں یا پھیر لائے گا اس کو اس کے گھر میں جہاں سے نکلا ہے ثواب اور غنیمت کے ساتھ۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گھوڑے ایک شخص کے واسطے اجر ہیں اور ایک شخص کے واسطے درست ہیں اور ایک شخص کے واسطے گناہ ہیں. اجر اس کے واسطے ہیں جو باندھے ان کو جہاد کے واسطے پھر لمبی کر دے اس کی رسی ، ان کی کسی موضع یا چراگاہ میں تو جس قدر دور تک اس رسی کے سبب سے چرے اس کی واسطے نیکیاں لکھی جائیں گی ، اگر وہ رسی توڑا کر ایک اونچان یا نیچان چڑھیں ان کے ہر قدم اور لید پر نیکیاں لکھی جائیں گی اور اگر وہ کسی نہر پر جا نکلے اور پانی پائے اور مالک کا ارادہ پانی پلانے کا نہ تھا تب بھی اس کے واسطے نیکیاں لکھی جائیں۔ اور درست اس کے واسطے ہیں جو تجارت کے واسطے باندھے اور ان کی زکوٰۃ ادا کرے۔ اور گناہ اس کے واسطے ہیں جو فخر اور ریا اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھے۔ اور حضرت سے سوال ہوا گدھوں کے باب میں، آپ نے فرمایا کہ اس مقدمے میں میرے اوپر کچھ نہیں اترا مگر یہ آیت جو اکیلی تمام نیکیوں کو شامل ہے ” فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة خَيْرًا يَرَه ﴿7﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة شَرًّا يَرَه ﴿8﴾ الزال۔ ۶

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، کیا میں نہ بتاؤں تم کو وہ شخص جو سب سے بڑھ کر درجہ رکھتا ہے. وہ شخص ہے جو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے جہاد کرتا ہے خدا کی راہ میں، کیا نہ بتاؤں میں تم کو اس کے بعد جو سب سے بڑھ کر درجہ رکھتا ہے وہ شخص ہے جو ایک گوشے میں بکریوں کا غلہ لے کر نماز پڑھتا ہے اور اللہ کو پوجتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔

 

عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ ہم نے بیعت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر آسانی اور سختی میں خوشی اور غم میں، اور بیعت کی ہم نے اس بات پر کہ جو مسلماں حکومت کے لائق ہو گا اس سے نہ جھگڑیں گے اور اس امر پر کہ ہم سچ کہیں گے یا سچ پر جمے رہیں گے جہاں ہوں گے، اللہ کے کام میں کسی کے برا کہنے سے نہ ڈریں گے۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ابو عبیدہ بن جراح نے حضرت عمر کو روم کے لشکروں کا اور اپنے خوف کا حال لکھا . حضرت عمر نے جواب لکھا کہ بعد حمد و نعت کے معلوم ہو کہ بندہ مومن پر جب کوئی سختی اترتی ہے تو اس کے بعد اللہ پاک خوشی دیتا ہے. اور ایک سختی دو آسانیوں پر غالب نہیں ہو سکتی. اور بے شک اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا . "اے ایمان والو صبر کرو مصیبتوں پر اور صبر کرو کفار کے مقابلہ میں اور قائم رہو جہاد پر اور ڈرو اللہ سے شاید کہ تم نجات پاؤ”۔

 

               دشمن کے ملک میں کلام اللہ لے جانے کی ممانعت ہے

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا قرآن شریف کو دشمن کے ملک میں لے جانے سے. کہا مالک نے منع اس واسطے کیا "تاکہ ایسا نہ ہو کہ دشمن قرآن شریف کو لے کر اس کی توہین کرے”۔

 

               بچوں اور عورتوں کو مارنے کی ممانعت لڑائی میں

 

عبدالرحمن بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا تھا ان لوگوں کو جنہوں نے قتل کیا ابن ابی حقیق کو عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے ; ابن کعب نے کہا کہ ایک شخص ان میں سے کہتا تھا کہ ابن ابی حقیق کی عورت نے چیخ کر ہمارا حال کھول دیا تھا; تو میں تلوار اس پر اٹھاتا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ممانعت کو یاد کر کے رک جاتا تھا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم اسے بھی قتل کر دیتے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض لڑائیوں میں ایک عورت کو قتل کئے ہوئے پایا تو ناپسند کیا اس کے قتل کو ، اور منع کیا عورتوں اور بچوں کے قتل سے۔

 

یحیی بن سیعد سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے شام کو لشکر بھیجا تو یزید بن ابی سفیان کے ساتھ پیدل چلے اور وہ حاکم تھے ایک چوتھائی لشکر کے. تو یزید نے ابوبکر سے کہا آپ سوار ہو جائیں نہیں تو میں اترتا ہوں، ابوبکر صدیق نے کہا نہ تم اترو اور نہ میں سوار ہوں گا ، میں ان قدموں کو خدا کی راہ میں ثواب سمجھتا ہوں پھر کہا یزید سے کہ تم پاؤ گے کچھ لوگ ایسے جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں کو روک رکھا ہے اللہ کے واسطے سو چھوڑ دے ان کو اپنے کام میں اور کچھ لوگ ایسے پاؤ گے جو بیچ میں سے سر منڈاتے ہیں تو مار ان کے سر پر تلوار سے

 

امام مالک نے روایت نقل کی ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عاملوں میں سے ایک عامل کو لکھا کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ روایت پہنچی ہے. کہ جب فوج روانہ کرتے تھے تو کہتے تھے ان سے جہاد کرو اللہ کا نام لے کر، اللہ کی راہ میں تم لڑتے ہو ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا اللہ کے ساتھ، نہ چوری کرو نہ اقرار توڑو نہ ناک کان کاٹو نہ مارو بچوں اور عورتوں کو اور کہہ دے یہ امر اپنی فوجوں اور لشکروں سے، اگر خدا نے چاہا تو تم پر سلامتی ہو گی۔

 

               کسی کو امان دے تو پورا کرے اقرار کو

 

ایک کوفہ کے رہنے والے سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے لشکر کے ایک افسر کو لکھا. کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض لوگ تم میں سے کافر عجمی کو بلاتے ہیں جب وہ پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اور لڑائی سے باز آتا ہے، تو ایک شخص اس سے کہتا ہے مت ڈر، پھر قابو پاکر اس کو مار ڈالتا ہے. قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں کسی کو ایسا کرتے جان لوں گا تو اس کی گردن ماروں گا۔

 

               جو شخص خدا کی راہ میں کچھ دے اس کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب جہاد کے واسطے کوئی چیز دیتے تو فرماتے "جب پہنچ جائے تو وادی قری میں تو وہ چیز تیری ہے”۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب کہتے تھے. جب کسی شخص کو جہاد کے واسطے کوئی چیز دی جائے اور وہ دار جہاد میں پہنچ جائے تو وہ چیز اس کی ہو گئی۔

 

               غنیمت کے بیان میں مختلف احادیث

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لشکر نجد کی طرف روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر تھے، تو غنیمت میں بہت سے اونٹ حاصل کئے اور ہر ایک کا حصہ بارہ اونٹ یا گیارہ اونٹ تھے، اور ایک اونٹ زیادہ دیا گیا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا . کہتے تھے جب جہاد میں لوگ غنیمتوں کو بانٹتے تھے تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر سمجھتے تھے۔

 

               جس کا مال پانچواں حصہ نہیں دیا جائے گا اس کا بیان

 

کہا مالک نے جو کفار بند کے کنارہ پر مسلمانوں کی زمین میں ملیں اور وہ یہ کہیں کہ ہم سوداگر تھے، دریا نے ہم کو یہاں پھینک دیا مگر مسلمانوں کو اس امر کی تصدیق نہ ہو، البتہ یہ گمان ہو کہ جہاز ان کا ٹوٹ گیا یا پیاس کے سبب سے اتر پڑے بغیر اجازت مسلمانوں کے، تو امام کو ان کے بارے میں اختیار ہے اور جن لوگوں نے گرفتار کیا ان کو خمس نہیں ملے گا۔

 

               غنیمت کے مال سے قبل تقسیم کے جس چیز کا کھانا درست ہے

 

کہا مالک نے جب مسلمان کفار کے ملک میں داخل ہوں اور وہاں کھانے کی چیزیں پائیں تو تقسیم سے پہلے کھانا درست ہے۔

 

کہا مالک نے، اونٹ بیل بکریاں بھی کھانے کی چیزیں ہیں، تقسیم سے قبل ان کا کھانا درست ہے۔

 

               مال غنیمت میں سے قبل تقسیم کے جو چیز دی جائے اس کا بیان

 

امام مالک کو روایت پہنچی. کہ عبداللہ بن عمر کا ایک غلام اور ایک گھوڑا بھاگ گیا تھا تو کافروں نے ان دونوں کو پکڑ لیا . پھر غنیمت میں پایا ان دونوں کو مسلمانوں نے پس واپس کر دیا ان دونوں کو ، عبداللہ بن عمر کو تقسیم سے قبل کے۔

 

               ہتھیاروں کو نفل میں دنیے کا بیان

 

ابی قتادہ بن ربعی سے روایت ہے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جنگ حنین میں، جب لڑے ہم کافروں سے تو مسلمانوں میں گڑبڑ مچی میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ اس نے ایک مسلمان کو مغلوب کیا ہوا ہے، تو میں نے پیچھے سے آن کر ایک تلوار اس کی گردن پر ماری، وہ میرے طرف دوڑا اور مجھے آن کر ایسا کر دیا گویا موت کو مزہ چکھایا، پھر وہ خود مرگیا اور مجھے چھوڑ دیا، پھر میں حضرت عمر سے ملا . اور میں نے کہا آج لوگوں کو کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کا ایسا ہی حکم ہوا، پھر مسلمان واپس لوٹے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے "جو کسی شخص کو مارے تو اس کا سامان اسی کو ملے گا جبکہ اس پر وہ گواہ رکھتا ہو” ابوقتادہ کہتے ہیں. جب میں نے یہ سنا تو اٹھ کھڑا ہوا پھر میں نے یہ خیال کیا کہ کون گواہی دے گا میری؟ تو میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کو مارے گا ، اس کا سامان اسی کی ملے گا بشرطیکہ وہ گواہ رکھتا ہو تو میں اٹھ کھڑا ہوا پھر میں نے یہ خیال کیا کہ کون گواہی دے گا میری؟ پھر بیٹھا رہا۔ پھر تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا. میں اٹھ کھڑا ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا ہوا تجھ کو اے ابو قتادہ؟ میں نے سارا قصہ کہہ سنایا.

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ. "سنا میں نے ایک شخص کو ، عبداللہ بن عباس سے نفل کے معنی پوچھتا تھا” ، ابن عباس نے کہا کہ” گھوڑا اور ہتھیار نفل میں داخل ہیں۔ پھر اس شخص نے یہی پوچھا، پھر ابن عباس نے یہی جواب دیا۔ پھر اس شخص نے کہا میں وہ انفال پوچھتا ہوں جن کا ذکر، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ قاسم کہتے ہیں کہ وہ برابر پوچھے گیا، یہاں تک کہ تنگ ہونے لگے عبداللہ بن عباس، اور کہا انہوں نے تم جانتے ہو اس شخص کی مثال. صبیغ کی سی ہے جس کو حضرت عمر بن خطاب نے مارا تھا۔

 

               نفل خمس میں سے دئیے جانے کا بیان

 

سعید بن مسیب نے کہا لوگ نفل کو خمس میں سے دیا کرتے تھے۔

 

               گھوڑے کے حصے کا بیان جہاد میں

 

مالک نے روایت کیا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا "گھوڑے کے دو حصے ہیں اور مرد کا ایک حصہ ہے”۔

 

               گھوڑے کے حصے کا بیان جہاد میں

 

کہا مالک نے "میں ہمیشہ ایسا ہی سنتا ہوا آیا”۔

 

               غنیمت کے مال میں چرانے کا بیان

 

عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب حنین سے لوٹے اور ارادہ رکھتے تھے جعرانہ کا. مانگنے لگے لوگ آپ سے (مال غنیمت)، اسی اثنا میں آپ کا اونٹ کانٹوں کے درخت کی طرف چلا گیا، اور کانٹے آپ کی چادر میں اٹک کر چادر آپ کی پشت مبارک سے اتر گئی، تب آپ نے فرمایا. "کہ میری چادر مجھ کو دے دو کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں نہ بانٹوں گا وہ چیز تم کو جو اللہ نے تم کو دی” "قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر اللہ تم کو جتنے تہامہ کے درخت ہیں اتنے اونٹ دے تو میں بانٹ دوں گا تم کو. پھر نہ پاؤ گے مجھ کو بخیل نہ بودا نہ جھوٹا، پھر جب اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑ ہوئے لوگوں میں، اور کہا کہ. اگر کسی نے تاگا اور سوئی لے لی ہو وہ بھی لاؤ کیونکہ غنیمت کے مال میں سے چرانا شرم ہے دین میں اور آگ ہے اور عیب ہے قیامت کے روز، پھر زمین سے اونٹ یا بکری کے بالوں کا ایک گچھا اٹھایا، اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، جو مال اللہ پاک نے تم کو دیا. اس میں سے میرا اتنا بھی نہیں ہے، مگر پانچواں حصہ اور پانچواں حصہ بھی تمہارے ہی واسطے ہے۔

 

زید بن خالد جہنی نے کہا ایک شخص مر گیا حنین کی لڑائی میں تو بیان کیا گیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز پڑھ لو اپنے ساتھی پر، لوگوں کے چہرے زرد ہو گئے، تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس شخص نے مال غنیمت میں چوری کی تھی، زید نے کہا ہم نے اس شخص کا اسباب کھولا تو چند منکے یہودیوں کے پائے جو دو درہم کے مال کے برابر تھے۔

 

عبد اللہ بن مغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے لوگوں کی جماعتوں پر تو دعا کی سب جماعتوں کے واسطے مگر ایک جماعت کے واسطے دعا نہ کی کیونکہ اس جماعت میں ایک شخص تھا جس کے بچھونے کے نیچے سے ایک کنٹھا چوری کا نکلا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس جماعت پر آئے تو آپ نے تکبیر کہی جیسے جنازے پر کہتے ہیں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نکلے ہم ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے, خبیر کے سال تو غنیمت میں سونا اور چاندی حاصل نہیں کیا بلکہ کپڑے اور اسباب ملے اور رفاعہ بن زید نے ایک غلام کالا ہدیہ دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جس کا نام مدعم تھا, تو چلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وادی القری کی طرف تو جب پہنچے ہم وادی القری میں تو مدعم اتنے میں ایک تیر بے نشان کے آ لگا اور وہ مرگیا، لوگوں نے کہا مبارک ہو جنت کی اس کے واسطے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، ہرگز ایسا نہیں قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے وہ جو کمبل اس نے حنین کی لڑائی میں غنیمت کے مال سے قبل تقسیم لیا تھا، آگ ہو کر اس پر جل رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ سنا ایک شخص ایک یا دو تسمے لے کر آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ تسمہ یا دو تسمے آگ کے تھے۔

 

عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جو قوم غنیمت کے مال میں چوری کرتی ہے ان کے دل بودے ہو جاتے ہیں، اور جس قوم میں زنا زیادہ ہو جاتا ہے ان میں موت بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے، اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ان کی روزی بند ہو جاتی ہے، اور جو قوم ناحق فیصلہ کرتی ہے ان میں خون زیادہ ہو جاتا ہے، اور جو قوم عہد توڑتی ہے ان پر دشمن غالب ہو جاتا ہے۔

 

               شہادت کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے چاہی یہ بات کہ اللہ کی راہ میں لڑوں پھر قتل کیا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں۔ ابوہریرہ کہتے تھے. اس بات کی میں تین بار گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی فرمایا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا. ہنسے گا اللہ تعالی قیامت کے دن دو شخصوں پر کہ ایک دوسرے کا قاتل ہو گا اور دونوں جنت میں جائیں گے ایک شخص نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور مارا گیا بعد اس کے مارنے والے پر اللہ نے رحم کیا اور وہ مسلمان ہوا اور جہاد کیا اور شہید ہوا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے نہیں زخمی ہو گا کوئی شخص اللہ کی راہ میں اور اللہ خوب جانتا ہے اس کو جو زخمی ہوتا ہے اس کے راستے میں ، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون جاری ہو گا جس کا رنگ بھی خون جیسا ہو گا اور خوشبو مشک جیسی ہو گی۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے تھے اے پروردگار!میرا قاتل ایسے شخص کو نہ بنانا جس نے تجھے ایک سجدہ بھی کیا ہو تاکہ اس سجدہ کی وجہ سے قیامت کے دن تیرے سامنے مجھ سے جھگڑے۔

 

ابوقتادہ انصاری سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر میں قتل کیا جاؤں اللہ کی راہ میں جس حال میں کہ میں صبر کرنے والا ہوں مخلص ہوں منہ سامنے رکھنے والا ہوں نہ پیٹھ موڑنے والا ہوں، کیا بخش دے گا اللہ گناہ میرے؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں، جب وہ شخص واپس لوٹا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بلایا یا بلانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ کیا کہا تو نے؟ اس نے اپنی بات کو دہرا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں مگر قرض، ایسا ہی کہا مجھ سے جبرائیل نے۔

 

ابو النصر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ احد کے شہیدوں کے لئے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کا میں گواہ ہوں حضرت ابوبکر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا ہم ان کے بھائی نہیں ہیں مسلمان ہوئے ہم جیسے وہ مسلمان ہوئے اور جہاد کیا ہم نے جیسے انہوں نے جہاد کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں مگر مجھے معلوم نہیں کہ بعد میرے کیا کرو گے تو ابوبکر رونے لگے اور فرمایا کہ ہم زندہ رہیں گے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور قبر کھد رہی تھی، مدینہ میں ایک شخص قبر کو دیکھ کر بولا کیا بری جگہ ہے مسلمان کی! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بری بات کہی تو نے، وہ شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرا یہ مطلب نہ تھا کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونا اس سے بہتر ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں مگر ساری زمین میں کوئی مقام ایسا نہیں کہ میں اپنی قبر وہاں پسند کرتا ہوں مدینہ سے تین بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے اے پروردگار میں چاہتا ہوں کہ شہید ہوں تیری راہ میں اور مروں تیرے رسول کے شہر میں

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے. عزت مومن کے تقوی میں ہے اور دین اس کی شرافت ہے اور مروت اس کا خلق ہے اور بہادری اور نامردی دونوں خلقی صفتیں ہیں جس شخص میں اللہ چاہتا ہے ان صفتوں کو رکھتا ہے تو نامرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور بہادر اس شخص سے لڑتا ہے جس کو جانتا ہے کہ گھر تک نہ جانے دے گا اور قتل ایک موت ہے موتوں میں سے اور شہید وہ ہے جو اپنی جان خوشی سے اللہ کے سپرد کر دے۔

 

               شہید کے غسل دینے کے بیان میں

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر غسل دئے گئے اور کفن پہنائے گئے اور نماز جنازہ ان پر پڑھی گئی حالانکہ وہ شہید تھے۔

 

               کونسی بات اللہ کے راستے میں بری ہے

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ایک برس میں چالیس ہزار اونٹ بھیجتے تھے شام کے جانے والوں کو فی آدمی ایک ایک اونٹ دیتے اور عراق کے جانے والوں کو دو آدمیوں میں ایک اونٹ دیتے تھے ایک شخص عراق کا رہنے والا آیا اور حضرت عمر سے بولا کہ مجھ کو اور سحیم کو ایک اونٹ دیجئے حضرت عمر نے فرمایا میں تجھ کو دیتا ہوں خدا کی قسم سے تیری مراد کد ہے وہ بولا ہاں۔

 

               جہاد کی فضلیت کا بیان

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد قبا کو جاتے تو ام حرام بنت ملحان کے گھر میں آپ تشریف لے جاتے وہ آپ کو کھانا کھلاتیں اور وہ اس زمانے میں عبادہ بن صامت کے نکاح میں تھیں ایک روز آپ ان کے گھر میں گئے انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور بیٹھ کر آپ کے سر کے بال دیکھنے لگیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم جاگے ہنستے ہوئے ام حرام نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں ہنستے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ لوگ میرے امت کے پیش کئے گئے میرے اوپر جو خدا کی راہ میں جہاد کے لئے سوار ہو رہے تھے بڑے دریا میں جیسے بادشاہ تخت پر سوار ہوتے ہیں ام حرام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا کیجئے کہ اللہ جل جلالہ مجھ کو بھی ان میں سے کرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سر رکھ کے سو گئے پھر جاگے ہنستے ہوئے ام حرام نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں ہنستے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ لوگ میری امت کے پیش کئے گئے میرے اوپر جو خدا کی راہ میں جہاد کو جاتے تھے جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں ام حرام نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا کیجئے اللہ جل جلالہ مجھ کو بھی ان میں سے کرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پہلے لوگوں میں سے ہو چکی ام حرام معاویہ کے ساتھ دریا میں سوار ہوئیں جب دریا سے نکلیں تو جانور پر سے گر کر مر گئیں۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر میری امت پر شاق نہ ہوتا تو میں کسی لشکر کا جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے ساتھ نہ چھوڑتا مگر نہ پاس اس قدر سواریاں ہیں کہ سب لوگوں کو ان پر سوار کروں نہ ان کے پاس اتنی سواریاں ہیں کہ وہ سب سوار ہو کر نکلیں اگر میں اکیلا جاؤں تو ان کو میرا چھوڑنا شاق ہوتا ہے میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں لڑوں اور مارا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر جلایا جاؤں پھر مارا جاؤں

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ جنگ احد کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کون خبر لا کر دیتا ہے مجھ کو سعد بن ربیع انصاری کی ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں دوں گا وہ جا کر لاشوں میں ڈھونڈھنے لگا سعد نے کہا کہ کیا کام ہے؟ اس شخص نے کہا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہاری خبر لینے کو بھیجا ہے کہا کہ تم جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور میرا سلام عرض کرو اور کہو کہ مجھے بارہ زخم برچھوں کے لگے ہیں اور میرے زخم کاری ہیں اپنی قوم سے کہ اللہ جل جلالہ کے سامنے تمہارا کوئی عذر قبول نہ ہو گا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہوئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رغبیت دلائی جہاد میں اور بیان کیا جنت کا حال اتنے میں ایک شخص انصاری کھجوریں ہاتھ میں لئے ہوئے کھا رہا تھا وہ بولا مجھے بڑی حرص ہے دنیا کی اگر میں بیٹھا رہوں اس انتظار میں کہ کھجوریں کھالوں پھر کھجوریں پھینک دیں اور تلوار اٹھا کر لڑائی شروع کی اور شہید ہوا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل نے کہا جہاد دو قسم کے ہیں ایک وہ جس میں عمدہ سے عمدہ مال صرف کیا جاتا ہے اور رفیق کے ساتھ محبت کی جاتی ہے اور افسر کی اطاعت کی جاتی ہے اور فسار سے پرہیز رہتا ہے یہ جہاد سب کا سب ثواب ہے اور ایک وہ جہاد ہے جس میں اچھا مال صرف نہیں کیا جاتا اور رفیق سے محبت نہیں ہوتی اور افسر کی نافرمانی ہوتی ہے اور فسار سے پرہیز نہیں ہوتا یہ جہاد ایسا ہے اس میں جو کوئی جائے ثواب تو کیا خالی لوٹ کر آنا مشکل ہے۔

 

               گھوڑوں کا اور گھوڑ دوڑ کا بیان اور جہاد میں صرف کرنے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں بہتری اور برکت بندھی ہوئی ہے قیامت تک۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید