FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

لفظوں کے کھیل

                عذرا عبّاس

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

دکھ

 

دکھ جھیلے جاتے ہیں

دکھ کہے نہیں جاتے

ان کی شکل اس خودرو پودوں کی طرح ہوتی ہے جو زمین پر نہیں تمھارے دل میں اگتے ہیں

یہ سینچتے ہیں خود کو تمھارے دل میں

تمھارے لئے

تا کہ تم دوسروں سے الگ نظر آؤ

یہ تمھارے دشمن نہیں ہوتے

یہ دوست ہوتے ہیں

تمہیں سنوارتے ہیں

اتنا کہ تم سب کو نظر آنے لگتے ہو

سب ،سب کون ؟

وہ جن کے دلوں میں دکھ نہیں اگتے

وہ جو ان کی اداؤں سے واقف ہی نہیں

دکھ بھی ان کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے

وہ جانتے ہیں

کہاں ان کی قدر ہو گی

کون ان کو سینت  سینت کر رکھے گا

کون ان کو اپنے شانوں پر بیٹھا کر گھومے گا

اور اکڑ کر کہے گا

یہ میرے دوست ہیں

یہ تو صرف میرے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ آزادی

 

ہم نے فرض کر لیا ہم آزاد ہو گئے

ہم نے فرض کر لیا ہم ایک ایسی زندگی جئیں گے

جس میں زندہ رہنے کی آزادی ہو گی

ہم کبھی بھوکے نہیں مریں گے

ہمارے بچے بڑے لوگوں کے بچوں کے ساتھ

اپنے قیمتی بستوں کے ساتھ بڑے اس کولوں میں جائیں گے

بڑے لوگ  جو کبھی ہمیں دھتکاریں گے نہیں

بڑے لوگ ؟ ہاں بڑے لوگ

جن میں لوٹ کھسوٹ کی شکتی ہے

آزادی اب صرف کتابوں میں نہیں پڑھی جائے گی

آزادی ہمارے ساتھ پٹھو کھیلے گی آزادی ہمارے ساتھ

کبھی کبھی کبڈی بھی کھیلے گی

صرف فلموں میں ،صرف  سٹیج پر نہیں

وہ سڑکوں اور گلیوں میں

ہمارے گھروں میں ہمارے ساتھ کودتی پھرے گی

وہ قہقہے لگائے گی

جب ہم پیٹ بھر کھانا کھا رہے ہوں گے

جب ہم آرام دہ چارپائیوں پر لمبی تان کر سو رہے ہوں گے

وہ ہمارے سرہانے

اپنے گیتوں سے ہمارے سوئے ہوئے خواب جگائے گی

چلو ہم فرض کر لیتے ہیں

ہم آزاد ہیں

نہیں نہیں ہم فرض نہیں کرتے

ہم ڈھونڈتے ہیں آزادی

اپنے پرانے صندوقوں میں

کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہم اپنے بستر بند کھول کر دیکھیں

وہ کہیں کسی تکیے میں کسی لحاف میں آنکیں موندے پڑی ہو

ہم اسے ضرور ڈھونڈھ نکالیں گے

اور جو ایسا نا ہوا تو ؟تو

ہم نہیں چاہتے

یہ مادر پدر آزاد

آزادی

٭٭٭

 

 

 

 

تمہارا خدا

 

 

دنیا کی تمام عورتوں کو جمع کر لو

ان عورتوں کو

جنہوں نے اپنے بیٹے کھوئے ہیں

جنہوں نے اپنے بچے کھوئے ہیں

اور ان کو ایک دائرے میں بیٹھا دو

اور انہیں رونے کی اجازت بھی دے دو

پھر دیکھو

تمھیں کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے گی

ان کے بین مل کر جو آواز پیدا کریں گے

وہ تم کو بہرا کر دیں گے

ان کے آنسو سیلاب بن کر تمہیں بہا لے جائیں گے

روک دو اب یہ سب جو تم کر رہے ہو

روک دو

اب یہ تماشہ جو تم دنیا کے ٹھیٹر پر کھیل رہے ہو

بہت ہو گیا

کیا تم چاہتے ہو کہ سمندر تم پر چڑھ دوڑے

اور بہا لے جائے اس دنیا کو

پھر تم کہاں جا ؤ گے

کیا کوئی خدا تم نے اپنے زور سے خرید لیا ہے

اگر ایسا ہے

کہ خدا کو خریدا جا سکتا ہے

پھر تو سب ایسا ہی چلتا رہے گا

یہ عورتیں ایسے ہی بین کرتی رہیں گی

اور کھوتی رہیں گی

اپنے بچے

اور روتی رہیں گے ایک آواز میں

ایک ایسی آواز میں

جو ایک دن آسیب بن جائے گی

اور تمھارا خریدا ہوا خدا بھی

اس کی دہشت سے کانپ رہا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

موت کی جگل بندی

 

ہم دو زندگیاں جی رہے ہیں

ایک وہ جو تم دیکھ رہے ہو

ہمیں اچھے کپڑے پہن کر گھومتے ہوئے

ہنستے مسکراتے ہوئے

ایک وہ ،جو ہم سہ رہے ہیں

یہ آوازوں کے گولے

ہمارے کانوں میں داغے جا رہے ہیں

جوآسمان سے گرتے ہیں

اور پچھاڑ دیتے ہیں  انھیں جو زندہ رہنا چاہتے تھے

ڈھکیل  دیتے ہیں انھیں

جو اپنے پالنوں میں یا اپنی ماؤں کی گودوں میں جینے کے لئے آئے تھے

صرف تصویریں

ہمارے قلب و جگر کو زخمی کر رہی ہیں

صرف تصویریں

آوازیں تو ہم تک نہیں پہنچ رہی ہیں

ان کے کھلے ہوئے منہ اور پھٹی ہوئی آنکھوں کو دیکھ رہے ہیں

جو ہمارا بھی کلیجہ چبا رہی ہیں

وہ کون ہیں وہ بھی ہم ہی ہیں

غور سے دیکھو

ہمیں آواز دو

پکارو ہمیں

وہ آواز جانی پہچانی ہو گی

وہ ہماری ہی ہو گی

ایک یہاں ایک وہاں

وہاں

جہاں  سیریل کِلر موت  ا پنی جُگل بندی میں مستعد نظر آ رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ پرندے

 

وہ سرمئی گردنوں والے

وہ سمندروں کے ساحلوں  پر ٹکتے ہیں

اپنی ہجرتوں اور جلا وطنی کے درمیان

ایک ٹھکانہ ڈھونڈتے  ہوئے

وہ کیوں اتنے جھنڈ کے  جھنڈ میں اڑتے ہیں

ان کا ایکا دیکھ کر میرے آنسوں کل پڑتے ہیں

مجھے تکلیف ہوتی ہے جب میں ان کی بولی سمجھ نہیں پاتی

اگر خدا مجھے سرمئی سارس بنا دیتا

تو میں بھی ان کی طرح معتبر ہو کر ساحل ساحل اڑتی

اور آسمان کو چھونے کی کوشش کرتی

ان کی تیکھی آوازوں میں شامل ہو  کر ان سے کہتی

کتنا اچھا ہوا

ہم کو خدا نے انسان نہیں بنایا

پھر میں لمبی ٹانگوں والے

سرمئی سارسوں کی بھیڑ میں گردن اٹھا کر چلتی

اس فخر کے ساتھ

کہ میں انسان نہیں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کب تک

 

 

کب تک

کب تک سنیں گے ہمارے کان

کب تک دیکھیں گی ہماری آنکھیں

موت کا یہ تماشہ

مارنے والے کون ہیں ،مرنے والے کون ہیں

اذیتوں کی بھیڑ میں

دل کے صحراؤں میں

دھول اڑاتے زخموں کی آوازیں

ہم تو صرف ماتم گساروں میں ہیں

بے بسی اب تو بے حسی میں تبدیل ہو رہی ہے

کون دیکھے گا ہمارا ماتم

جو مرنے والوں کے لئے جاری ہے

وہ بھی نہیں جانتے

ہم ان کے ماتم گسار ہیں

ہماری آوازیں ہمارے دل سے نکل کر

اب آسمان کی طرف روانہ ہو چکی ہیں

لیکن آسمان کیا دیکھ رہا ہے ؟

ہم کیوں رو رہے ہیں ؟

اور کب تک روتے رہیں گے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

سدرہ کے لئے

 

ایک دنیا

جس کے راستے

محبت سے لبریز بھی ہو سکتے ہیں

اپنی مٹھی کو کھول دینا

کھول دینا

اپنا دل

سونے نہ دینا اپنا دماغ

جاگتی رہنا جاگتی رہنا

جو خواب تم اپنے کندھوں پر لے کر جا رہی ہو

ان کے ساتھ جاگتی رہنا

ایک خواب بھی نہ گرنے دینا

اپنے کندھوں سے

یہ خواب صرف تمھارے ہیں

سب کچھ ملے گا تمہیں

سوائے تمھارے خوابوں کے

بہت سنبھال کر رکھنا

کہیں رکھ کر بھول نہ جانا

خوابوں کی گٹھری

ہمیشہ اپنے سرہانے رکھنا

کسی کو چھونے نہ دینا

جب جب

موقع ملے کسی ایک خواب کی گٹھری کو کھول دینا

سارے کاموں کی بھیڑ میں

تمام محبتوں کے جھمگٹے میں

اپنے خوابوں سے محبت کرتی رہنا

یہی تمھاری بقا ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اداسی

 

اداسی مجھے راس نہیں آتی

میں اداس رہنا چاہتی ہوں

لیکن میں ہنستی رہتی ہوں

تم سب کے لئے

ان  سب کے لئے جو ہمیشہ اداس رہتے ہیں

میں جب جب اداس ہوتی ہوں

مجھے تمھاری اداسی یاد آتی ہے

تمھاری اور ان کی جن کے خواب چھین لئے گئے

جن کو دھوپ نے شکستہ حال کر دیا

جو مہربانی کی زبان کبھی نہیں سن سکے

جن کو ادھ موا کر دیا بھوک اور بے گھری نے

جو نہیں جانتے  خوشی کیا ہوتی ہے

میں ان کے لئے ہنستی ہون

ہو سکتا ہے میری ہنسی کی آوا ز ان تک پہنچ جائے

اور وہ مجھ سے آ کر پوچھیں

تم کیوں ہنس رہی ہو؟

اپنے غموں پر بھی ہنسا جا سکتا ہے

مجھے دیکھو مجھے اداسی راس نہیں آتی

جب میں اداس ہوتی ہوں

تو مجھے یہ اداسی ہنسنے پر مجبور کرتی ہے

تاکہ تم جان سکو

کہیں ہنسی بھی ہوتی ہے

صرف اداسی پر یہ دنیا نہیں ٹھہری ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یارو

 

یاروں

ایک سال اور کم ہو گیا

جب میں چڑھائی پر تھی

اور کتنے مزے میں اوپر جا رہی تھی

نیچے دیکھے بغیر

گویا نیچے تو دیکھنا حماقت ہے

سب دیکھ رہے تھے

میرے مزے

اور خوش ہوتے تھے

دیکھو کیسے جا رہی ہے رومتی جھومتی

بغیر کسی رسی کے

اپنے پاؤں پر کتنا گھمنڈ ہے

یاروں

تم سب مجھے کتنی داد دیتے تھے

تمھاری آوازیں میرے قدموں میں تیزی پیدا کرتی تھیں

جو میرا ایک سال کم ہو گیا

تو کیا

تم سب اداس نہیں ہونا

اگر ایک سال کم ہو گیا

اب اترنا تو ہو گا

جلدی یا بدیر

یہ ڈھلان جو شروع ہو گئی ہے

مجھے یقین ہے تم مجھے اترتے ہوئے بھی دیکھو گے

اور کہو گے دیکھو

کتنے مزے میں جا رہی ہے رومتی جھومتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک نظم لکھنا مشکل ہے

 

ایک نظم لکھنا  مشکل ہے

اسے وہی جانتا ہے

جس نے ایک بچہ جنا ہو

یا اسے جنم دینے سے پہلے بہا دیا ہو

دونوں دکھ ایک ہی ہیں

جیسے تمہیں

گرم گرم جلتے ہوئے لوہے سے داغا جا رہا ہو

یا تمھارے جسم کو گودا جا رہا ہو

ایک سرے سے دوسرے سرے تک

اندھیرے اور سناٹے میں

دروازہ ہو نا کوئی شگاف

کہ آواز باہر جا سکے

بس جیسے

ایک کند چھری جو تمھارے ہی ہاتھوں

تمھاری گردن کاٹ رہی ہو

اور اس لذت آمیز خود اذیتی میں

تم خود کو ہلکان ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہو

لمحہ بہ لمحہ

ایک وجود کو

دوسرے سے باہر دھکیلنا

باہر آلودگیوں کے ڈھیر پر

دھیرے دھیرے

کوئی نام دینے کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل کوزے میں کیوں بند ہے

 

دیکھنے کے لئے آنکھیں

پڑھنے کے لئے زبان

اور لکھنے کے لئے دل

دل جو کوزے میں بند

سمندر کی لہروں میں ڈولتا

رات کی پچھلی ہواؤں میں

سمندراپنی دھڑکنیں سنتا ہے

کوزہ گر اور سمندر کی دشمنی ازل سے ہے

دل اور سمندر کی دوستی

کوزہ گر

دل کوزے میں کیوں بند ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

فاصلے

 

تم مجھے یاد کرتے ہو

میں نے سنا ہے

تم ان جگہوں پر جاتے ہو

جہاں جہاں میں تمھارے ساتھ ہوتی تھی

تم بینچوں پر بیٹھ کر بارش میں بھیگتے ہو

اور بارش کے پانی سے اپنی آنکھیں دھوتے ہو

میں نے سنا ہے

تم اداس ہو

مجھے حیرت ہو رہی ہے

یہ فاصلے ہمیں اتنا قریب بھی لا سکتے ہیں

یہ فاصلے  شاید تم جھیل رہے ہو

میں ان فاصلوں  کی رسی پر چل رہی ہوں

اور اپنے پاؤں زخمی کر رہی ہوں

اور ہر زخم کے بعد

ایک نظم مجھے دلا سا دینے آ جاتی ہے

وہ نظمیں جو صرف تمھارے لئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہم اور وہ

 

ہم ان کے ساتھ ہیں جو مار دئیے گئے

ہم ان کے ساتھ ہیں جو مارے جانے والے ہیں

ہم ان کے ساتھ ہیں

جن کو مارنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے

گلی کے نکڑ پر جس کو ابھی مارا جا رہا ہے

آسمان دہائی دے رہا ہے

ہمیں ایک خنجر دے دیا جائے

شب خون مارنے کے لئے

تاکہ  ہم بھی مارنے والوں کی قطار میں کھڑے ہو جائیں

اور ان کی پیٹھ میں خنجر  اتار  سکیں

ان کے ارادوں سے پہلے

مخبری کرنے والوں کو ہم  ڈھونڈھ نکالیں

ہمیں یقین ہے

وہ ہمیں بھی مار دیں گے

ان کی طرح ہم اپنے خنجر آستینوں میں چھپا لیں گے

اور ان کا تعاقب کریں گے

جن کے ہاتھ سنگسار کرنے میں مبتلا ہیں

ہم ان کے ہاتھوں کو ایندھن  میں استعمال کریں گے

اگر ہماری آگ ہم سے چھین لی گئی

ہم ان کی آنکھیں اپنے نابیناؤں میں تقسیم کریں  گے

ہم  ان کی ٹانگیں

اپنے علاقے کی باڑ بنانے میں استعمال  کریں گے

مگر  جب

جب ان کے مخبر ہمیں ڈھونڈھنے میں ناکام ہو جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دوسرا کہتا ہے

 

رات کھانس رہی ہے

دن اونگ رہا ہے

درختوں کو پالا مار گیا

پھول آپس میں دست و گریبان ہیں

آنکھیں چھتیں تک رہی ہیں

اندھیروں کے بیچ ٹمٹماتی روشنی میں

کہیں شاید کوئی مر گیا

آہوں اور فغاں کے درمیان صرف سانس باقی ہے

اس کو ٹوٹنا نہیں چاہیے

ورنہ

آنے والی نسلیں

مری ہوئی اس دنیا میں داخل ہوں گی

سب جٹے ہوئے ہیں

خدا سے منت سماجت  میں

وہ سب جن کے آگے سے روٹیاں ہٹائی جا رہی ہیں

ان  کے گداموں میں  رکھنے کے لئے

جو  اپنی قبروں کے محل تیار کر رہے ہیں

مگر

ہمیں اپنی قبروں میں اترنے کی جلدی نہیں کرنی چاہئے

شاید ہمارے حصے کی روٹی ہمیں مل جائے

خودکشی کرنے والے آدمی سے کوئی کہہ رہا ہے

مگر تم کس سے کہہ رہے ہو

اس سے بھوک برداشت نہیں ہو رہی تھی

وہ مر گیا

دوسرا کہتا ہے

اور مر جا تا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک دن

 

جب سارا دن گزر جا تا ہے

بستر پر لیٹے ہوئے

یا چادر کی شکنیں دور کرتے ہوئے

یہ سوچا جا تا ہے

یہ دن کیسے گزرا

تو بہت حیرت ہوتی ہے

صرف جمائیاں لیتے ہوئے

فرصت سے پاؤں پھیلا کر

ہاتھوں میں سگریٹ کو ڈھیلا چھوڑ کر

دھواں نکالتے رہنا

یا بہت ضروری کاموں کے درمیان

جس میں استنجا بھی شامل ہے

یہ سوچنا کہ اب کیا کرنا ہے

ذہن کی چکی گھومتی ہے

اب یہ ،اب یہ،اب یہ

یا پھر فضول باتیں محلے پڑوس کے آنے جانے والوں سے

آٹے دال کا بھاؤ

جسم کے بھاؤ  تاؤ تک

اور یہ بھی نہیں

تو یہ سوچنا

کہ وقت کتنا بچ گیا

زندگی کو کیسے چلایا جائے

آگے جانے والوں کے ساتھ

یا رک جانے والوں کے ساتھ

ایک جھرجھری سی بدن میں اٹھتی ہے

لیس دار آٹے کی طرح

خیال کونوں کھدروں سے ابھرتا ہے

سب کام تو ہو گئے

گھر سے باہر تک

لیکن خواب اور حقیقت کی ریل

دماغ میں چلتی رہتی ہے

آوازیں آتی رہتی ہیں

یادوں کی ،رونے اور ہنسنے کی

ہوا کی طرح سوچ

بے بس اور نا مکمل ہونے والے کاموں کے ساتھ

لڑھکتی ہوئی

یہ سوچ رات کو دن سے ملاتی ہے

حالتِ جنابت سے لے کر

غفلت کی نیند تک

پھر جمائیاں اور بے حسی

سارا وقت گزر جا تا ہے

اور بستر کی شکنیں دور کرتے ہوئے

نیند آ جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دکھ

 

 

دکھ کے کتنے ہاتھ ہوتے ہیں

اس کے کتنی آنکھیں ہیں

جو گھورتی ہیں

زمین پر بچھے ہوئے انسانوں کو

جو بھوکے رہتے ہیں

جو پانی کو بھی ترستے ہیں

دکھ چمگاڈر بن کر ان کے گھروں کی چھتوں سے چپک جا تا ہے

یہ دکھ ہی تو ہے جو بچے کو ماں کے پیٹ میں ہی مار  دیتا ہے

یہ دکھ  زندگی کو موت کے دسترخوان پر لے جا تا ہے

دکھ کی بے شمار آنکھیں  ہیں

جو تاڑتی رہتی ہیں

سڑکوں پہ ،بازاروں میں  ،فٹ پاتھوں پر چلتے پھرتے لوگوں کو

یہ جب چاہتا ہے لوگوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا تا ہے

اس کے انگنت سْر ہوتے ہیں

جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں

جو بچنا چاہتے ہیں اس سے

وہ بھی اس کی آواز کی طرف راغب ہوتے ہیں

یہاں تک کہ یہ اْ نکو نچوڑ نہ دے

اس کے سْروں کی مدہوشی

اکثر لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہے

اپنی اپنی قبروں میں اترنے سے پہلے

وہ لوگ جو دکھ کے ہاتھوں مارے گئے

ان کا ایک الگ قبرستان ہے

جو   دکھ کی تحویل میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک نظم

 

ایک نظم لکھنا آسان ہے

ایک کاغذ اور قلم ہونا چاہئیے

اور دماغ اور ایک دل

اور وہ لفظ جو نظم لکھنا چاہ رہے ہیں

اور دل اور دماغ کے درمیان

ایک سلسلہ

لیکن کبھی کبھی

نظم نہیں لکھی جاسکتی

دل اور دماغ اور لفظ

کاغذ اور قلم

جب ان میں سے کوئی ایک نہیں ہوتا

تو پھر نظم درمیان سے کھو جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواب

 

جب ہم اپنے خوابوں کے ادھڑے  پیوندوں کو سیتے ہیں

جب ہم  میلوں اپنی بیل گاڑیوں کو دھول اور دھوپ میں گھسیٹ رہے ہوتے ہیں

تب

ہمارے پیوند لگے خواب  اس وقت بھی مسکراتے ہیں

وہ ہمیں اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے گھورتے ہیں

وہ ہمیں اپنی مسکراہٹوں سے گدگداتے  ہیں

ان کی شرارتیں ہماری طرفداری میں ہیں

وہ خوش ہوتے ہیں جب ہم ان کی پیوند کاری کرتے ہیں

ہماری ریڑھ کی ہڈی کو وہ جھکنے نہیں دیتے

وہ چھلاووں کی طرح ہمارے ارد گرد ناچتے ہیں

اس وقت بھی جب

شاہی دستر خوانوں سے بچی ہوئی ہڈیاں چبانے والے

ہمیں اپنے جھوٹے غرور سے پچھاڑنا چاہتے ہیں

وہ ہماری بھوک کو  ایک ایسی کہانی سناتے ہیں

کہ ہم  بھوکے پیٹ ہی خوشگوار نیند میں اتر جاتے ہیں

ہمیں ایسا لگتا ہے

جب تک ہم ان کی پیوند کاری کرتے رہیں گے

وہ ہمیں مرنے نہیں دیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

 

لفظوں کے کھیل

 

لفظوں کے کھیل بہت عجیب ہوتے ہیں

کبھی آسمان پر لے جاتے ہیں

اور کبھی زمین پر دے مارتے ہیں

یہ کپڑوں کے رنگوں سے زیادہ

کبھی بہت گہرے

کبھی بہت ہلکے

سروں میں دھیمے دھیمے

خون سیراب کرتے ہیں

اور کبھی ایک ایک قطرہ نچوڑلیتے ہیں

یہ آرام دہ بستروں پر ہم سے ہم بستری کرتے ہیں

اور کبھی ہماری آنول نال سے چپک جاتے ہیں

اور جب تک ہم زندہ رہتے ہیں

یہ ہم کو لوریاں دیتے ہیں

اور کبھی ہمیں اچانک مر جانے پر مجبور کرتے ہیں

اور یہ لفظ ہی اعلان کرتے ہیں

کہ کسی جگہ/کسی تاریخ کو

ہم

کہاں مردہ حالت میں پائے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

مہربان مالکوں کے نام

آپ کی گزارش پر ہم

اپنے آپ کو بھونکنے سے روکتے ہیں

آپ چاہتے ہیں ہم بھونکیں نہیں

صرف آپ کو بھونکنے دیں

ہماری آواز آپ کی آواز کو دبا دے گی

یہی ڈر ہے نا آپ کو

تو چلیئے

اگر آپ ہماری بھوک کا خیال رکھیں گے

اور

ہمارے سروں پر چھاؤں

اور ہم کو ننگے ہونے سے بچائیں گے

تو ہم وعدہ کرتے ہیں

ہم اپنی آواز دھیمی کر لیں گے

لیکن اگر صرف آپ بھونکتے رہے

اور ہم کو گلی کے کتے برابر بھی روٹی نہیں دے سکے

تو ہمارا بھونکنا تو جائز ہے

آپ بہت مہربان ہیں

ہم مانتے ہیں

بہت قدردان ہیں

یہ بھی ہم مانتے ہیں

لیکن اس وقت تک

جب تک ہم بھونکتے نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہم

 

میں مزدور ہوں

تم مزدور ہو

وہ سب مزدور ہیں

وہ سب

جو ہمارے قبیلے کے لوگ ہیں

ہمارے قبیلے میں جب کوئی پیدا ہوتا ہے

بھوک اس کے سرہانے آ کھڑی ہوتی ہے

پہلے دن سے

جسم محتاط ہو جا تا ہے

جب ہماری ماؤں کے پستانوں میں دودھ سوکھ جا تا ہے

ہمارے  گھروں میں آنگن نہیں ہوتے

ہم سڑکوں پر کھیل کر جوان ہوتے ہیں

ہمارے پاؤں ترستے ہیں اس کولوں کی جانب جانے کے لئے

ہمارے درجے ہیں

کہیں ہمارے ہاتھ زمینوں کی صفائی کرتے ہیں

کہیں ہم دوسروں کا سامان ڈھوتے ہیں

کہیں ہم اپنا سیکھا ہوا دوسروں کو سکھاتے ہیں

مگر ہم ایک ہی ہیں ایک ہی قبیلے کے

کسی وقت بھی

بھوک ہمارے گھروں میں ڈیرا ڈال لیتی ہے

ہم جو مزدور ہیں

ہم تو مزدور ہیں

ہمارا قبیلہ کبھی نا ختم ہونے والا قبیلہ ہے

کوئی ہمیں مٹا نہیں سکتا

کوئی بھی نہیں

ہم ہمیشہ سے ہیں

اور ہمیشہ رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

 

ہمارے سامنے گناہوں کی پلیٹیں سجی ہوئی ہیں

ہم گناہوں کے نوالے چبا رہے ہیں

اور اذانیں دے رہے ہیں

ہم گناہوں کے لقمے  نگلتے جا رہے ہیں

اور ہمارے لئے چھوڑی گئی کتاب کو حفظ کر رہے ہیں

ہم گناہوں کی لذتوں میں تیر رہے ہیں

اور مدرسے کھول رہے ہیں

مدرسے جہاں ہم نفرتوں کی داغ بیل ڈال رہے ہیں

جہاں ہم ماؤں سے چھین لیتے ہیں ان کے بچے

عورتوں سے ان کے شوہر

باندھ دیتے ہیں ان کے جسموں سے موت

مٹانے کے لئے گلیوں بازاروں میں چلتی پھرتی زندگیاں

ہم آدم خور ہیں

کھا جاتے ہیں منٹوں میں خواب دیکھنے والوں کو

غور سے دیکھو تو ہمارے دانت نوکیلے ہو رہے ہیں

ہمارے ہونٹوں پر خون لگا ہے

ان کا

وہ جو اپنے اپنے گھروں میں ہنس رہے ہوتے ہیں

مزے میں چارپائیوں پر بیٹھے خوش گپیاں کر رہے ہوتے ہیں

مگر ہم جو آدم خوروں کی لسٹ کو بڑھانے میں لگے ہیں

اگر کوئی ہم سے پوچھے

کہ ہم کون ہیں

تو ہمارے جواب سے پہلے وہ جان جائیں گے

ہمارے ہونٹوں پر لگے ہوئے خون کو دیکھ کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

اڑتیس سال

 

سنو کہاں گزارے یہ اڑتیس سال

کہاں

تم نے کہاں گزارے

پہلے تم بتاؤ

اچھا میرے منہ سے سننا چاہتے ہو

ہاں

یہیں ایک چھت کے نیچے

اور تم نے

چھت تو یہی تھی

مگر تم کہاں تھیں

ہنسی

آنکھوں میں شرارت

یہ بتانا ضروری ہے

ہاں

ان تین سالوں میں جو اڑتیس سال سے پہلے گزارے

ان اڑتیس سال میں داخل ہونے کے لئے

وہ تین سال کیسے یاد رکھے

کیسے

کیا تم کو یاد نہیں

تم سناؤ کیا کیا یاد رکھا

ہنسی ایک اور ہنسی

یاد نہیں وہ جھاڑیاں جہاں ہم اپنے بوسے چھوڑ آئے

وہ سڑکیں جہاں پوسٹ لیمپوں کی روشنیاں ہمارے سائیوں پر روشنی ڈال کر خوش ہوتی تھیں

وہاں جہاں دیوار کی آڑ میں ہمارے پسینے ایک دوسرے کے کپڑے بھگو دیتے تھے

تم کو سب یاد ہے

ہاں

اور یہ اڑتیس سال

مجھے کچھ یاد نہیں

کیوں ؟

یہ سال تو میرے نہیں تھے

تمھارے نہیں تھے ؟

ہاں

یہ ان ماہ و سال کے تھے

جو مجھے گزار رہے تھے

اور وہ تین سال

خوابوں کے بادل جہاں میرے ساتھ تھے

وہ ہمیشہ میرے سر پر سائے کی طرح رہتے تھے

اور وہ خواہشوں کا بستہ جو ہر وقت میرے کاندھے پر جھولتا رہتا

تم نے بھی ان میں سے کچھ چرا کر اپنے بستے میں ڈالے تھے

تم نے دیکھ لیا تھا

ہنسی

اڑتیس سال گزر گئے

اب کیا ہے تمھارے پاس

وہی تین سالوں کی یادیں

میں کبھی کبھی ان جھاڑیوں کی طرف جاتی ہوں

اور ان بوسوں کو تلاش کرتی ہوں

آج بھی ؟

ہاں

ہنسی ایک اور ہنسی

نا ختم ہونے والی ہنسی

٭٭٭

 

 

 

 

چیخیں

 

جگر کو چیرنے والی چیخیں کیا تمھیں سنائی دے رہی ہیں

کیا کوئی غم تمھاری بغل میں چھپنے کی کوشش کر رہا ہے

کیا تم سو رہے ہو

ابھی ابھی جاگتے رہنے کی صدا میرے کانوں میں گونجی ہے

اور میرے گھر کے کواڑوں سے ہوتی ہوئی

ناہموار سڑکوں میں داخل ہو کر سارے شہر میں پھیلی ہے

کیا تم سن رہے ہو

اچھا سوتے رہو

جاگنے کا زمانہ تو چلا گیا

اگر جاگے تو

مار دئیے جاؤ گے

ان ابابیلوں کے پروں میں چھپے ہوئے پتھروں سے

جن کو ہمیں مارنے کی ٹریننگ دے جا رہی تھی

برسوں سے تیار کیا جا رہا تھا

انھیں ایک غول میں اڑان کی تربیت دی جا رہی تھی

خاص طور پر جب ان کو بھوکا رکھا جاتا

وہ بہت جلد سیکھ جاتیں تھیں

اپنی بھوکی اڑان سے پہلے

ان کو پتہ تھا

اس اڑان کی حد جہان ختم ہو گی

وہاں

ان کے لئے غذا کا دستر خوان بچھا ہو گا

کیا تمہیں جگر چیرنے والی چیخیں سنائی دے رہی ہیں

نہیں

تو سوتے رہو

تم بے خبر ہو اس تواضع سے

جو جلدی تمھارے گھروں میں

ابابیلوں کے پروں میں چھپے ہوئے

پتھروں سے کی جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

غرور

 

اگر تم مجھے ایک برقعہ پہنا  کر مجھ ڈھانپنا چاہو

تو

کیا میری چھاتیوں کا غرور

تمھاری آنکھوں سے چھپ جائے گا

اگر تم مجھے دو برقعے پہنا دو

یہ غرور پھر بھی  تمھاری نظروں سے چھپ نہیں سکے گا

چلو پہناتے جاؤ مجھے

تلے اوپر بہت سے لبادے

اور چھوڑ دو میری آنکھیں صرف یہ دیکھنے کے لئے

کہ تمھاری آنکھیں اب کیا دیکھ رہی ہیں

مجھے یقین ہے

تم میری چھاتیوں کے غرور کو ڈھونڈھ رہے ہو گے

تلے اوپر لدے ہوئے

میرا جسم چھپانے والے کپڑوں کے اوپر

تمھاری بینائی  کے اسکرین ونڈ پر پانی کے قطرے

چھپاکے مار رہے ہوں گے

اور میری غرور سے بھری چھاتیاں

تمھاری شکست پر

کبھی نا ختم ہونے والے غرورسے  بھری

مسکرا رہی ہوں گی

٭٭٭

 

 

 

 

سویرااپنی مرضی سے کب جئے گی

 

سویرا اپنی مرضی سے کب جیئے  گی

سویرا اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئی تھی

وہ ایسے پیدا ہوئی تھی

جیسے خودرو درختوں میں سے کوئی ایک ہو

اچانک

اس کی ماں نے اسے ایسے ہی پالا

سویرا اپنے نام سے خود کو جانتی تھی

کوئی پکارتا تو پلٹ کر دیکھ لیتی

اور بس

کھانا ،پانی ،کپڑے جب دئیے جاتے

تو کھا لیتی ،پی لیتی،پہن لیتی

اکثر چلتے ہوئے سوچتی

چلوں یا نا چلوں

کوئی کہہ سکتا ہے کہاں چلی؟

کیوں اٹھی

بلکہ وہ یہ بھی نہیں سوچتی تھی

اپنے گھر کے سازوسامان کی طرح

ادھر یا ادھر رکھ دی جاتی

اچانک ایک دن اس کی ماں اسے دیکھ کر

چیخ اٹھی

اس کی کرتی سے چھوٹے چھوٹے ابھرے ہوئے سینے کو دیکھ کر

ادھر آ

سویرا ڈر گئی

ادھر آ

یہ کب ہوا

یہ کیا ؟

اس کی ماں نے اسے آگے سے پھٹک پھٹک  کر دیکھا

مجھے کیا پتہ

ارے کنجری تو نے مجھے بتایا کیوں نہیں

سویرا خود حیران تھی

یہ کیا ہو رہا ہے

بس وہ سمجھتی تھی

ہر چیزاس کی مرضی کے بغیر ہی تو چل رہی ہے

ایک دن برتن مانجھتی سویرا کو

اس کی ماں نے گھسیٹا

تو اب یہاں نہیں رہے گی

سویرا ایسی گھسیٹی گئی

جیسے وہ صحن کی بکری تو ہو

اس کے اختیار میں کچھ نہیں تھا

وہ کب صبح کو ،شام کو، رات کو

اور دن کو گزرتے ہوئے روک سکتی تھی

سویرا دوسرے گھر میں حیران ہو کر سسکتی رہی

دوسرے گھر کا مالک

اسے نوچتا کھسوٹتا رہا

وہ دکھ اٹھاتی رہی

بہت دن ایسا ہی ہوتا رہا

ایک دن سویرا کو یہ سب اچھا لگا

وہ آدمی بھی

وہ بھی جو کچھ اس کے بھیتر ہو رہا تھا

اچانک

سرسراتی ،سمٹتی اس کے رانوں ، پستانوں میں

ریشمی ڈوریاں کھلنے لگیں

مگر کس سے کہے

شام کو اس کی آنکھیں

اس کےبھیتر کی سرسراہٹ سے مدہوش تھیں

جب وہ آیا

وہ جلدی سے اٹھی

آگے بڑھی

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہے

سویرا کے بھیتر کو مار ڈالا گیا

رنڈی  تیرا بھی دل چاہتا ہے

اب جب بھی اس کے بھیتر میں

ریشمی ڈوریاں کھلنے لگتیں

وہ آٹا گوندھنے لگتی یا صحن میں

اڑتی ہوئی دھول پر پانی ڈال کر

خوب جھاڑو لگاتی

سویرا نے جانے انجانے کئی بچے جنے

وہ سب کچھ ایسے کر رہی تھی

جیسے کولھو کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو

بچے بڑے ہو گئے

اپنے اپنے گھر کے

وہ جب چاہتے اپنی مرضی سے

اس کی ڈولی اٹھا کر

کسی دوسرے کی چوکھٹ پر رکھ آتے

سویرا اپنی مرضی سے کب جئیے گی

سویرا یہ بھی کب سوچے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نفرت

 

محبت کو بے دخل کر دیا گیا

نفرت کے لئے شامیانے لگائے جا رہے ہیں

اسلحہ بردار گھوڑوں کو تیار کیا گیا ہے

جہاں نفرت نہیں ہے وہاں  بستیوں کو روندے جانے کا حکم ہے

اب محبت کو سرِعام پھانسی کا حکم تیار ہو رہا ہے

بستیوں میں صرف دہشت راج کرے گی

آئندہ آنے والی نسلیں صرف خون پئیں گی

ان کی پرورش ہو گی

ایک دوسرے کی لاشوں سے دماغ کھوجنے کی

یہ ان کی ضیافت کی سب سے شاندار ڈش ہو گی

ان کے ہڈیوں کی کاشت کی جائے گی

تاکہ آنے والے زمانے میں نفرت کے سوا کچھ نا بویا جا سکے

سب اس اقرار پر زندہ رہ سکتے ہیں

اپنے اپنے گھروں اور ٹھکانوں پر نفرت کی پرورش کریں

ورنہ نفرت کی کاشت میں ان کو کھاد کی طرح استعمال کیا جائے گا

لوگ  ان آوازوں کے خوف سے

دبا سادھے بیٹھے ہیں

کب یہ اعلان ہو جائے کہ نفرت کی کاشت میں

ان کے بچوں کی ہڈیاں درکار ہیں

کیوں کہ یہ ابھی نفرت کے

سے ناواقف ہیں

اور محبت کے استعارے ہیں

محبت کی وبا کو زیادہ پھیلنا نہیں چاہئے

لہذا ہر گھر میں نفرت کی گیس

اسلحہ بردار گھوڑوں کے ذریعے چھوڑی جائے گی

جو موت کا کارندہ بن کر نفرت کو فاتح بننے کی خبر سنائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

اپنے ہونے میں مبتلا

 

اپنے ہونے میں مبتلا

آدمی اپنے ہونے میں مبتلا ہے

کھائے جا تا ہے اس کو یہ ہوکا

کہ وہ آ جائے کہیں کسی کو

کوئی تو اسے دیکھے

خوب سج بن کر ،ٹھن کر نکلتا ہے

اپنے کو شیشے کے سامنے

گھما پھرا کر

دیکھ دیکھ کر

خود کو نظر تو آ رہا ہوں

یہ میں ہوں ؟

اب دیکھتا ہوں ،کون نہیں دیکھتا مجھے

لیکن جب باہر نکلتا ہے

دھول اور دھوپ

اور سیٹیاں بجاتی ہوائیں

قدموں کی دندناہٹ

روں روں کرتے ہوئے پہیئے

کسی کو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی

جب سننے کی قوت ساتھ چھوڑ دے

تو دیکھا بھی کیا جاسکتا ہے

وہ بھی بھول جا تا ہے اس شور میں

میں تو اپنے کو دکھانے نکلا تھا

میں بھی تو کسی کو نہیں دیکھ رہا

سب ایسے ہی نکلے ہوں گے

میرے ارادے سے

لیکن سارے  شور کی زد میں آ گئے

وہ دور کھڑی عورت

بالکل فٹ کمر اور کولھے اور چھاتیوں سے

ایک دم نمائش کے موڈ

وہ بھی شاید اسی لئے نکلی ہو

میں نے آخر اسے دیکھ ہی لیا

سب نے نہ دیکھا تو کیا

وہ تو آج کے دن کامیاب ہے

میں کتنی دیر سے اسے دیکھ رہا ہوں

ضائع ہو گیا میرا بن ٹھن کر نکلنا

لیکن نہیں

وہ بھی مجھے دیکھ رہی ہے

ہنہ ، سمجھ رہی ہو گی

میں کیسے اسے دکھا رہا ہوں

جیسے

اس لئے تو تیا رہو کر نکلا تھا

کہ یہ مجھے دیکھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

غم بے آسرا ہوتے ہیں

 

غم بے آسرا ہوتے ہیں

موت کھنڈروں میں چھپی ہوئی

ایک عیاش محبوبہ

جس کا سب انتظار کرتے ہیں

کس کے بستر میں پہلے داخل ہو گی

کس سے ہم بستری کرتے ہوئے

اپنے قہوہ خانے میں لے جانے کی دعوت دے گی

دعوت قبول کرنے والوں کے نافرمان لباس

شرمندگی کے پسینے  میں اپنی دھجیاں خود بکھیرتے ہیں

آنکھیں دیکھ رہی ہیں انھیں مادر زاد برہنہ

غم بے آسرا ہوتے ہیں

موت ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی

موت غموں سے ہی ہاری ہے

وہ اعلان کرنے والی ہے

اپنی موت کا ان کے سامنے

جو غموں کو اپنی گود میں رکھے بیٹھے ہیں

موت کی کیا مجال

جو ان کے سامنے آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے

موت تو ان سے کھلواڑ کرتی ہے

جو کمزور ہوتے ہیں

غم جو بے آسرا ہوتے ہیں

لیکن کبھی ختم نہ ہونے کے لئے جنم لیتے ہیں

یہ تو وراثت میں ملتے ہیں

انھیں جو انھیں گود میں لئے بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یہ ہو سکتا ہے

 

یہ بھی ہو سکتا ہے

اگر ایک گھڑی ہمارے بستر کے

سامنے ہو

تو ہم سب سے پہلے گھڑی دیکھیں گے

اس وقت کچھ بھی بج رہا ہو

مثلاً صبح کے سات

یا آٹھ بج کر دس منٹ

گھڑی

جو اپنی دو سوئیوں کے سہار ے

وقت کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے

اگر گھڑی نہ ہو

تو وقت منہ دیکھتا رہ جائے

ہم سورج کے نکلنے

اور اس کے ڈوبنے پر

تو بتا سکتے ہیں

کہ دن ہوا ہے اور رات شروع ہوئی ہے

لیکن بیچ کے تمام وقت

ہم اس کا منہ نہیں دیکھ سکتے

سوائے

جب سورج ہمارے سروں پر ہوتا ہے

اور ہمارے سائے

نہ ادھر ہوتے ہیں نہ ادھر

اس سمے جب ہم

پوچھتے ہیں کہ

کیا وقت ہوا ہے

تو تیز دھوپ ہمارے سروں پر

منڈلانے لگتی ہے

اب اگر ہم ایک کیل

اپنے بستر کے سامنے دیوار پر لگا دیں

اور اس پر ایک گھڑی

تو ہم  وقت کے گزرنے کے بارے میں

آنکھ کھلتے ہی سوچے لگیں گے

یہ بھی ہو سکتا ہے

ہم دوبارہ آنکھیں موند یں

اور دوبارہ سو جائیں

اور گھڑی

گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ

ٹھمکتی رہ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ماتم گسار

 

تمہیں آ رہی ہے ماتم کی آواز

اندھیرے میں جھانکو

جھانکو اندھیرے میں

یہ زندہ ہیں

قطار در قطار بیٹھے ہیں

ان تابوتوں کے درمیان جنہیں انہوں نے خود سجایا ہے

کیا یہ زندہ ہیں

اگر یہ زندہ نہیں ہیں تو کہاں سے اٹھ رہی یہ ماتم کی آواز

تو کون بین کر رہا ہے

اندھیرا ہے تو کیا

آواز غور سے سنو

یہ تابوت کچھ کہہ رہے ہیں

ہاں سنو

ہم سے کس نے چھین لی یہ زندگی

ہم سے کیوں چھین لی یہ زندگی

سنا تم نے

ان ماتم گساروں میں ان کی آواز

تمھیں سنائی نہیں دے گی

اگر تم سننا چاہو گے تو بھی نہیں

اندھیرا تو اندھیرا ہوتا ہے

کچھ سجھائی نہیں دیتا

کچھ دکھائی نہیں دیتا

پھرتو وہ آوازیں  ہیں سوگ سے لبریز

٭٭٭

 

 

 

 

 

مصدق کے لئے

 

موت بے آواز کیوں ہے

اتنی چپکے سے آتی ہے

اور کسی کی بھی انگلی پکڑ کر لے جا تی ہے

ایسا کیوں کرتی ہے

نہیں دیکھتی کسے لے جا رہی ہے

نہیں دیکھتی جس کو لے جا رہی ہے

اس کے پاس تو اسے پھٹکنا بھی نہیں تھا

ا  ب وہ تجوری کون کھولے گا

جس میں بند تھیں

اس کی مہارتیں

اس تجوری کا نمبر تو

اس کے دل کی کسی پاکٹ میں ہو گا

اب کہاں سے لائیں گے وہ آواز

جو ایک خواب میں  لپٹی ہوئی

اپنی دھمک سے ہمیں لوری سناتی تھی

اور کہتی تھی

خواب دیکھنا مت بھولنا

ہمیں خوابوں کی بھیڑ میں چھوڑ کر

اپنے خوابوں کی گٹھری سمیٹ کر چلا گیا

ہم اپنی اپنی منڈیروں پر بیٹھے دیکھ رہے ہیں

موت اس کی انگلی پکڑ کر کہیں لے جا رہی ہے

کہاں ؟

یہ کسی کو نہیں معلوم

٭٭٭

 

 

 

 

ایک سفر جاری رہنا چاہئے

 

سفر جاری رہنا چاہئے

اس شہر میں کسی سڑک پر

ایک سفر ہو

ایک تھیلا ہو

اور ایک روٹی

صبح سے شام تک

لوگوں کی بھیڑ میں

نکل جاؤ

گھر سے باہر

اور چلو زِگ زیگ

بڑا مزا آتا ہے

ایسے چلنے میں

ہلکورے لیتا ہوا جسم

اور تیز تیز چلتے ہوئے قدم

ایسے چلو

بھیڑ سے ٹکراتے ہوئے

ایسے چلو

جیسے ہوا تمھارے چہرے سے

ٹکرا رہی ہو

تیز اور تیز چلتے رہو

سفر جاری رہنا چاہئے

بڑا مزا آتا ہے ایسے چلنے میں

کسی ریستوران کے سامنے

شور کو سنتے ہوئے

کسی نیون سائین کی روشنی کو پڑھتے ہوئے

شام کے جھٹپٹے میں

روشنیوں کے ساتھ بہتے ہوئے

گاڑیوں کے ساتھ دوڑتے ہوئے

آوازوں سے ٹکراتے ہوئے

بڑا مزا آتا ہے

نکل پڑو گھر سے

بس ایک سڑک ہو

ایک  سفر ہو

اور تھیلے میں گرم گرم روٹی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹوٹی ہوئی رسی

 

ٹوٹی ہوئی رسی

اب سفر میں ساتھ لے جانے والے

بستر بند کے کام آتی ہے

اور کبھی کبھی بچے اپنی ٹوٹی ہوئی

بے پہیوں کی گاڑی سے

اسے باندھ دیتے ہیں

بہت دن پہلے

وہ دو دلوں سے بندھی تھی

جب چیوٹیاں دکھاتی تھیں اس پر اپنی بازی گری

منہ میں غذا دبائے

اِدھر سے اُدھر اٹھلاتی ہوئی

کبھی کبھی پرندے

اپنی اپنی اُڑانوں سے تھک کر

اس پر بیٹھ جاتے تھے

جب یہ بھیگتی تھی بارشوں میں

سینکتی تھی بہاروں کی دھوپ

کبھی کبھی یہ بن جاتی تھی

رنگ برنگ کے کپڑوں کی الگنی

ٹوٹی ہوئی رسی سے جڑے

دل

اب کہاں ہیں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک چپ

 

ایک چپ لگی ہے

یہ چپ جو تمھارے ہونٹوں سے لے کر

میرے ناخنوں تک اتر گئی ہے

شور جو میرے انگ انگ سے پھوٹتا تھا

اب شکلیں بنا بنا کر دیواروں پر

گھومتا ہے

آنکھیں ،ہونٹ اور تمام اعضا

مجھے ڈر لگتا ہے

پلستر کی ہوئی دیواروں میں جذب ہو کر

یہ میرا منہ چڑا تا ہے

چپ کا سناٹا

مجھے آہستہ آہستہ

سنبھل سنبھل کر چلنے پر

مجبور کرتا ہے

یہ میرے قدموں سے لپٹ گیا ہے

جب کبھی میں اس چپ سے باہر

جھانکتی ہوں

کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے

کوئی چل رہا ہے

شور ہو رہا ہے

کان سنی ان سنی کر دیتے ہیں

بچوں کی آوازیں

دھیرے دھیرے چلتی ہوئی فلم کی طرح

میرے کانوں سے ٹکراتی ہیں

جب میں تم کو دیکھتی ہوں

تم مجھ سے کچھ کہہ رہے ہوتے ہو

میں کہتی ہوں

چپ ہو جاؤ

تم تاسف سے میرے جسم کا احاطہ کر لیتے ہو

اور چپ سادہ لیتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

میرا سایہ

 

میرا سایہ

اب سورج کے عکس کے ساتھ

زمین پر نہیں گرتا

میرا نام لے کر مجھے کوئی نہیں پکارتا

کھانا تقسیم ہوتے ہوئے

میرے حصے کی پلیٹ

میرے آگے نہیں رکھی جاتی

شور میں میری آوازسنائی نہیں دیتی

جب جرم ہوتا ہے

ملزموں کی فہرست میں میرا نام نہیں آتا

قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں میں

مجھے شمار نہیں کیا جاتا

میری چاپ کسی کو سنائی نہیں دیتی

لیکن جب کبھی کوئی مجھے کہیں

دیکھ لیتا ہے

تو میرے سینے میں چھرا گھونپ دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بلا ناغہ

 

بلا ناغہ دھوپ نکلتی ہے

ہوا چلتی ہے

شام ہوتی ہے

رات گزرتی ہے

روزمرہ-بلا ناغہ

یہ سب کچھ ہوتا ہے

بالکل ایسے ہی جیسے بلا ناغہ

ہمیں جینا پڑتا ہے

کھانا کھاتے ہوئے

پانی پیتے ہوئے چلتے ہوئے

لوگوں کو دیکھتے ہوئے

اور زندہ رہنے کے لئے

ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے

بلا ناغہ

یہ سب کچھ ہوتا ہے

اور گاہے گاہے

کبھی کبھی

ہمیں جینے کے لئے

ہاتھ پاؤں مارنے کے ساتھ

ہم محبت کرتے ہیں

اور چاہے جاتے ہیں

اس چاہے جانے میں

اور اس محبت کے دوران

ہمارا جسم پکے ہوئے تازہ پھل کی طرح نظر آتا ہے

ہماری آنکھیں چمکنے لگتی ہیں

ہم اپنی محبت کو دھڑکتے ہوئے دل

اور تنے ہوئے جسم کے ساتھ

دیکھتے ہیں

اور بھول جاتے ہیں

بلا ناغہ زندہ رہنے کی اداسی

کھیلنے دیتے ہیں اس کو

اپنے جسم سے

اور دیکھتے ہیں

خوشبوؤں سے بسے ہوئے لفظوں  سے

اس کی زبان اپنے گرد منڈلاتے ہوئے

اس کی ہر فرمائش پر

ہم اپنا ہر لمحہ بخش دیتے ہیں

لیکن یہ محبت بلا ناغہ نہیں آتی

یہ روزمرہ کی طرح

ہمارے ساتھ نہیں رہتی

٭٭٭

 

 

 

 

نیا سال

 

نیا سال آیا ہے

کیا وہ جانتا ہے اس کے پیچھے کیا ہوا

کون بتائے گا اسے

و ہ جو مارے گئے

یا وہ جو نشانے پر ہیں

نیا سال جب آتا ہے

وہ جن پر کچھ نہیں گزری

اپنے اپنے علاقوں میں ناچتے ہیں گاتے ہیں

خوب رنگ رلیاں مناتے ہیں

پیتے ہیں پلاتے ہیں

جشن بھی مناتے ہیں

یہ جانے بوجھے بغیر کس پر کیا گزری

ُاس سال پر بھی جو ابھی ابھی لہولہان گزرا ہے

اپنی زخمی آنکھوں سے یہ دیکھ دیکھ کر

کہ بوجھل جسموں سے اپنے اپنے دکھوں کا درد اٹھائے

زمین پر چلتے پھرتے یہ لوگ

جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے

ان کی زندگی کا مقصد صرف موت ہے

کوئی ان کو مارنے کی گھات میں ہے

یا وہ خود مرنے کی گھات میں

نئے سال کو اگر پتہ چل جائے

کہ گزرے سال کے ساتھ کیا ہوا

تو وہ

ان ناچنے والوں کے اژدحام سے چپکے سے کھسک جائے

پھر یہ ناچتے گاتے لوگ کسی خلا میں جھول  جائیں

اور جشن کی دفلی بجاتے بجاتے تحلیل ہو جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک نظم

 

ایک نظم کھو گئی

کون تلاش کرے گا

میری نظم

کہاں ڈھونڈھوں اس کو

کیسے آتی ہے ایک نظم

اس بے فرصتی میں

اس ہنگام میں

جب صبح سے رات تک آٹے دال کا بھاؤ

سرہانے کو سخت کرتا رہے

کہاں گئی وہ نظم

میں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر شل ہو چکی ہوں

کس سے پوچھوں

وہ کیا مجھ سے کھلواڑ کر رہی ہے

کسی اندھیرے میں تو نہیں چلی گئی

مجھ سے چھپنے کے لئے

اندھیرے میں چھپنے کے چکر میں دور کسی کھائی میں اتر گئی ہو

یا ان گھاٹیوں  میں جو اپنا کوئی نشان نہیں رکھتیں

مجھے کیوں یقین ہے ایک دن وہ واپس آ جائے گی

ایک صبح وہ میرے ٹیرس کی دیوار پر بیٹھی مجھے ملے گی

یا کسی پھول میں آنکھ مچولی کھیلتی ہوئی

پہلے تومیں اس کو ڈراؤں گی

اگر وہ نہیں آتی

تو میں ایک اور نظم لکھ لیتی

ایک اور

پھر ایک اور

میں اس کے ذائقے کو بھی بھلا دیتی

جب لوگ مجھ سے پوچھتے

کیا نام رکھا تھا تم نے اس کا

تو میں بھی اس کا نام بھلا دیتی

اس کو کیا پتہ جب کو ئی کھو جا تا ہے

تو ڈھونڈھنے والا خون کے آنسو روتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک کش

 

ٹماٹر مہنگا ہو گیا

ماسی کہتی ہے

ٹماٹر مہنگا ہو گیا

پڑوسن کہتی ہے

ٹماٹر مہنگا ہو گیا

کھانا پکانے والا کہتا ہے

باجی گوشت میں کیا ڈالوں

کھانا کیسے پکے گا

میں حیران ہوں

جس شہر میں انسان

انسان نہیں رہتے

اس میں ٹماٹر کو تو مہنگا ہونا ہی ہے

میں ماسی سے کہتی ہوں

آج کی خبریں کہتی ہیں

دس لوگ مر گئے

کل کتنے مر گئے

یہ اب روز کی خبر ہے

باجی

بس اہم خبر یہ ہے

ٹماٹر مہنگے ہو گئے

ہے نا!

ہاں باجی

میرے بچے ٹماٹر سے روٹی کھا لیتے تھے

اب؟

صرف پیاز کے ساتھ

چھوٹے بچے سے

صرف پیاز سے روٹی نہیں کھائی جاتی

اب کیا کرو گی

کچھ نہیں

وہ روتا جا تا ہے

اور کھاتا جا تا ہے

کبھی کبھی تو بھوکا ہی سو جا تا ہے

میں گولڈ لیف کا ایک سگریٹ جلاتی ہوں

ایک کش لے کر سوچتی ہوں

خُدا  کا شکر ابھی سگریٹ خریدنا ہمارے بس میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 شاید

 

وراثت میں مجھے کچھ نہیں ملا

سوائے ایک عشق کے

میں نے سنا تھا

میرے باپ نے بھی عشق کیا تھا

ماں کا پتہ نہیں چلا

اس کے دل کی بات میں کبھی نہیں سن سکی

عشق کہاں سے شروع ہوتا ہے کہاں ختم ہوتا ہے

یہ مجھے کبھی پتہ نہیں چلا

لیکن بچے کہتے ہیں تم ہمارے باپ سے عشق کرتی ہو

مجھے وراثت میں کچھ نہیں ملا

ہاں گاہے بگاہے جو دیوانگی میرا راستہ روکتی رہی

وہ ورثے کا حصہ نہیں تھی

اور وہ آوارگی

جو میرے خوابوں کو تعمیر کرتی رہی

میرا ایک دوست کہتا ہے  میں نے کسی سے عشق نہیں کیا

مجھے اپنے آپ سے عشق کرنے سے فرصت ہی نہیں ملی

میں سوچتی ہوں کیا وہ ٹھیک کہتا ہے ؟اگر ایسا ہے تو

مجھے وہ لڑکی کیوں یاد آتی ہے جو ہسپتال میں مرنے کے انتظار میں پڑی تھی جو عشق کی جرم میں جلا دی گئی تھی جو مرنے سے پہلے اتنی خوبصورت نظر آ رہی تھی کہ موت بھی شاید اس کو لے جاتے ہوئے افسردہ ہو

اس کی آنکھیں اتنی زندہ تھیں کہ مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ بند ہو گئیں

خدا نے ان آنکھوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا وہ آج بھی میرے دل میں کھبی ہوئی ہیں

لیکن اسے عشق تو نہیں کہتے

میں ساری زندگی آوارہ گردی کرتی رہی

اپنے دھیان کے میدانوں میں

میں ساری زندگی اپنا پتہ پوچھتی رہی

اور ان  لفظوں کو باریک کرچیوں کی طرح آنکھوں سے اٹھاتی رہی

جو مجھے میرا پتہ بتا سکتے تھے

لیکن نہیں یہ مشقت آج بھی جاری ہے

شاید مجھے ورثے میں یہ مشقت ملی ہو گی

شاید کچھ نہیں

شاید وہ عشق جو مجھے تم سے ہوا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

وہ کہتا ہے

 

وہ کہتا ہے

میرے شہر کو ریپ کیا جا رہا ہے

کون کر رہا ہے

تم نہیں جانتیں

جانتی ہوں

نہیں

ہاں

ان ریپ کرنے والوں کے لئے

کوئی قانون نہیں

ہو گا

لیکن سب بے بس ہیں

سب شرمندہ ہیں

وہ روز اپنے شہر کو اپنی آنکھوں کے سامنے ریپ ہوتے ہوئے  دیکھتا ہے

رات دن وہ اپنے خوابوں میں ان کو سنگسار کرنے کے خواب دیکھتا ہے

لیکن کسی کی ہمت نہیں ریپ ہوتے ہوئے

اپنے شہر کو ان سے بچا سکے

اب کیا ہو گا

کچھ نہیں

شہر نڈھال ہوتا جا رہا ہے

میرا شہر

جو کبھی کنواریوں کی طرح جگمگاتا تھا

دور دراز علاقوں سے آنے والے اس کے لمس کی خواہش لے کر آتے تھے

اب اس کے چاروں اور اندھیرا ہے

وہ اپنی بینائی آہستہ آہستہ کھو رہا ہے

وہ لمحے لمحے اپنے جسم کو بے جان ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے

وہ آنکھیں موندے اس انتظار میں ہے

کوئی ہے

جو اس کو اس تشدد سے بچانے آئے گا

کب تک وہ اس تشدد کی زد میں رہے گا

کب تک؟

٭٭٭

 

 

 

آخر اداسی کو جشن منانے کا موقع مل ہی گیا

 

 

آخر اداسی کو جشن منانے کا موقع مل ہی گیا

اپنی تمام تر کوششوں کے با وجود

میں اسے روک نہیں سکی

اس کی آنکھیں میرے تعاقب میں رہتیں

اس کے ناخنوں پر

مجھے زخمی کرنے کے ارادے ہمیشہ رہتے

لیکن میں ہمیشہ بچ نکلتی

جب بھی وہ

گلیوں ،بازاروں اور تماش گاہوں میں

میرا پیچھا کرتی

میں اس سے کترا کترا کر نکلتی

کبھی کبھی اس کی کوششوں کے نتیجے میں

میرا لباس دھول سے اٹ جاتا

میرے پاؤں کی جلد پھٹنے لگتی

لیکن اس کی جیت نہیں ہوتی

اس نے بہت سی شکلیں اختیار کیں

میرے  روشندان ،کھڑکیاں اور دروازے

اور دیواروں پر نت نئی صورتیں اور شبیہوں کے ساتھ

کبھی یوں بھی ہوا

وہ بالکل میرے بستر میں میرے برابر میں لیٹی ہوئی ملی

میرے اور میرے شوہر کے بیچ

وہ میرے تکیے پر اپنے آنسو چھوڑ جاتی

میری آواز سے اپنی آواز ملا کر چلنے لگتی

لیکن میں بہت جلد اسے پہچان لیتی

وہ ہمیشہ میری تاک میں رہتی

صبح کے اخبار میں

روپے کے بھاؤ کرنے کی خبر میں

میرے آٹے کے ڈبے

میرے باورچی خانے میں

میری کپڑوں کی الماری میں

اور جہاں جہاں وہ گھات لگاسکتی ہے

وہ کبھی کبھی تو میرے ہونٹوں پر اپنے دانت گڑو دیتی

اس کی سرسراہٹ

کسی بھی ہم بستری کے دوران

اس نشے میں داخل ہو جاتی

جو صرف میرے حصے میں آیا ہے

مجھے پتہ نہیں چل سکا

وہ کس راستے سے اور کس وقت

میرے کمرے میں داخل ہوئی

پہلی بار اس کو دیکھنے والوں نے مجھ سے چھپایا

وہ ڈرتے ہوں گے

جب وہ دبے پاؤں میرے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہو گی

انہوں نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے ہوں گے

کسی کے منہ سے سی کی آوازبھی نہیں نکلی ہو گی

شاید وہ سوچ رہے ہوں

کہ میں گہری نیند سے جاگ جاؤں گی

شاید وہ سوچ رہے ہوں

کہ میں اپنے کمرے کو سجانے کا خواب دیکھ رہی ہوں گی

تو کیا ہوا؟

ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی ناکام جائے گی

لیکن جب وہ آئی

تو

میری بالکونی میں ٹنگے پرندے نے بھی

اس دن شور نہیں مچایا

نہ ان پودوں نے مجھ سے کچھ کہا

جن کو میں روز پانی دیتی ہوں

میں نے بھی وہ دن ایسے ہی گزارا

جیسے روز گزارتی ہوں

شام ان درختوں پر گر رہی ہے

جن کے نیچے میں

جوگنگ پارک میں ایک بینچ پر بیٹھی  سوچ رہی ہوں

روز مرہ کی طرح شروع ہونے والا دن

روزمرہ کی طرح ختم ہو رہا ہے

پھر اداسی کو جشن منانے کا موقع کیسے ملا؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

ذیشان ساحل

 

ذیشان ساحل

چڑیوں کی یاد داشت کا خزانہ

اور سفید قالین کی بنت کاہنر تمھاری مٹھی میں تھا

ایک آزردہ محبت کی کہانی

جس کا سحر میرے کانوں میں

ایک آبشار کی آواز کی طرح گونجتا

جو میں نے کبھی نہیں دیکھا

تمھاری آنکھوں میں پھیلے اس محبت کے بادل

اور گاہے بگاہے

ان سے گرتی بارش

میرے کندھے بھگو دیتی تھی

وہ محبت

جو تمھاری شاعری میں

ایک نویلی رقاصہ کی طرح رقص کرتی رہتی تھی

تم ہوتے تو دیکھتے

وہ آج ہمارے دلوں کی دہلیز پر

ایک منجھی ہوئی رقاصہ کی طرح کیسے رقص کر رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نا مراد

 

یہاں انسان بستے ہیں

تم جانتے ہو انسان کسے کہتے ہیں

ہاں !

جس کے دو ہاتھ ہوتے ہیں دو ٹانگیں

دو آنکھیں ایک ناک

ایک زبان

ایک دماغ

تو جھگڑا کس بات کا ہے ؟

سب انسان تو ہیں

نہیں !

کچھ ایسے بھی ہیں

یہ اپنے دماغ میں بچھو لے کر پیدا ہوتے ہیں

ہاتھوں میں خنجر

جو نظر نہیں آتے

یہ گھونپ دیتے ہیں

کسی انسان کو دیکھ کر

یا انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں

اپنے اپنے چبوتروں پر پسرا مارے

یا گزر گاہوں پر

اس تاک میں کوئی انسان کب گزرتا ہے

یہ بھی تو انسان ہوتے ہیں

نہیں

ان کو جنگل میں پیدا ہونا تھا

یہ شہروں میں پیدا ہو گئے

ان کو پھر کیسے ہنکایا جائے

اس جنگل میں جہاں ان کو پیدا ہونا تھا

گھبراؤ نہیں

ایک دن خود جنگل والے

ان نا مرادوں کو گھسیٹ کر لے جائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

مردہ خانہ

 

واقعہ تاریخ بنا تا ہے

تاریخ مسخ کر دی جاتی ہے

لفظ پانی میں پھینک دئیے جاتے ہیں

مارے جانے والے اور مارنے والوں کے

نام بدل جاتے ہیں

گلیوں کے رخ موڑ دئیے جاتے ہیں

جہاں خون پڑا ہوتا ہے

وہاں بکری کا دودھ بہادیا جا تا ہے

زبانیں درجہ بدرجہ

گواہی میں تبدیل ہو جاتی ہیں

ہم تاریخ کے کونے پر کھڑے

ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں

ہم کس کنارے پر کھڑے ہیں

بند راستوں کی کوکھ سے

گھناؤنے چہرے والے

رکھوالے پیدا ہوتے ہیں جو

پیدائشی دانتوں سے بھرے  جبڑوں سے گوشت کھاتے ہیں

انکا

جو بچے کچے بھوک سے مارے ہوئے

گلی کے نکڑ پر کھڑے ہیں

پھر تاریخ کے مردہ جسم کو

مردہ خانے میں رکھ دیا جا تا ہے

٭٭٭

 

 

 

قبر

 

تم میری ہر نظم پر مجھے پھول بھیجتے ہو

تمھارے پھول پر دو قطرے ہوتے ہیں

یا وہ تمھارے آنسووں ہیں

یا اوس کی بوندیں

تمھارا پھول لانے والا کبھی نہیں بتاتا کہ وہ کس سمت سے آیا ہے

وہ ہمیشہ پھول میری دہلیز پر رکھ کر چلا جا تا ہے

میں اس پھول کو اپنے دل کے سرہانے رکھ چھوڑتی ہوں

تاکہ وہ تمام دن میرے ساتھ گزار سکے

اس کی خوشبو میرے دل کے تکیے کو معطر رکھتی ہے

مرجھانے سے پہلے میں اس کی پتیوں کو اپنے دل کے دالان میں دفن کر دیتی ہو

انگنت پھول اب تک اس دالان میں دفن ہیں

اس پھول کا انتظار مجھے روز ایک  نظم لکھوا تا ہے

جس دن میں نظم لکھنا بھول جاؤں گی

تمھارے پھول آنا بند ہو جائیں گے

میں ان پھولوں کی قبر کے لئے ایک کتبہ تیار کر رہی ہوں تاکہ

میرے مرنے کے بعد تم اس قبر کو ڈھونڈھ سکو

اس کتبے پر لکھا ہو گا

یہاں پھول دفن ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

اینٹیں ڈھونے والے ہاتھوں کو

ماں کے پیٹ سے نکلے صرف چھ برس ہوئے ہیں

ان کی

ایک تصویر کھینچی جا رہی ہے

انعام یافتہ کہلانے کے لئے

ان پر

ایک نظم لکھی جا رہی ہے

داد بٹورنے کے لئے

لیکن راہگیر روز دیکھتے ہیں

ایک روٹی کے عیوض کی مشقت

جاری ہے

وہ آہیں بھرتے ہوئے

راستے سے گزر جاتے ہیں

لیکن وہ پیٹ

جس کے لئے وہ ہاتھ اینٹیں اٹھا رہے ہیں

ذرا بھی رحم نہیں کھاتا

روز تلملا تا ہے

اور کہتا ہے مجھے روٹی چاہئے

٭٭٭

 

 

 

 

گپ شپ

 

تمھارے وعدے کباڑی کے

پاس گروی ہونے کے لئے چلے گئے

تمھاری باتیں گندے نالے کی کیچڑ میں کود گئیں

زندگی کے آخری پڑاؤ پر  تمھاری دہشت نے دودھ پلانے والی ماؤں  کے پستانوں کو نچوڑ دیا

کب کیا ہو جائے

اب تمھیں کچھ نظر نہیں آتا

موتیا تمھاری آنکھوں  کی زینت بن گیا

سب بھول جاؤ

اور تیار ہو جاؤ

گیدڑ کی مو ت تمھارے لئے اپنی آغوش کھولے کھڑی ہے

وہ جو تمھارے ساتھ ایک ہی تسلے میں کھانا کھا رہے ہیں

ان سے کہہ دو

ان کے نصیب میں شیر کے موت نہیں لکھی

٭٭٭

 

 

 

یہ نظم نہیں ہے

 

ایک اور گپ شپ

یہ نظم نہیں ہے

——————–

زمین کے ننگے ہونے کا خد شہ ہے

کس کس کو بچنا چاہئیے

زمین تو مونث ہے

اور مرد کم ہیں

کیسے گزارا کرے گی

یہ نا ہو کہ یہ ایک نوحہ لکھے اپنی مظلومیت کا

اور خود کو گولی مار لے

پھر سمندر مزے کرے گا

کیا

خدا یہاں بھی منہ چھپاتا پھرے گا

خدا کی لاچاری پر مجھے ہنسی آ رہی ہے

کہیں وہ میری ہنسی نہ سن لے

مجھے چھپنا پڑے گا

مجھے بھاگنے میں دقت ہو رہی ہے

ہو سکتا ہے میں اس جگہ چھپوں

جہا ں وہ چھپا ہوا ہے

بڑا مزہ آئے گا

جب مل بیٹھیں گے

دیوانے دو

٭٭٭

 

 

 

 

موت کا نوحہ

 

 

میں کتنی سفاک ہوں

نہیں میں سفاک نہیں ہوں

سفاک پھر کون ہے ؟

میں بتاتی ہوں

یہ حرامزادے

میں جن کی قید میں ہوں

یہ مجھے گھسیٹے گھسیٹے

لئے پھرتے ہیں

مجھے یعنی موت کو

جہاں یہ دیکھتے ہیں زندہ انسانوں کی بھیڑ

مجھے گردن سے گھسیٹتے ہوئے

وہاں لے جاتے ہیں

میں بے بس

مجھے وہی کرنا ہوتا  ہے

جو یہ چاہتے ہیں

میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہ

مجھے لے کر گھومتے ہیں

یہ زندہ انسانوں کی بھیڑ میں مجھے چھوڑ دیتے

ایک بھیانک آواز آتی ہے

اور چیخو پکار

ہمیشہ یہی ہوتا ہمیشہ

کوئی بتائے گا

یہ حرامزادے کون ہیں

اگر یہ مجھے چھوڑ دیں

میں انھیں مزہ چکھاؤں

اپنا

ان حرامزادوں کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہاں ہیں وہ

 

کھڑکی کے نیچے مجھے قدموں کی آہٹ سنائی دی رہی ہے

اٹھوں دیکھوں

یہ کون ہیں

چلو دیکھتی ہوں

ہوا   کی دھند میں پھیلا ہوا ہے

ایک دھواں

کیا کوئی بین کر رہا ہے

سوگ کا ماتم کہیں جاری ہے کیا؟

شاید کوئی آسیب ڈرانے آ پہنچا ہو

نہیں تو

جیسے کوئی ماں گریہ کر رہی ہو

جیسے کسی کا کوئی کھو گیا ہو

ہائیں کیا ایسا ہے ؟

خواب کے بسترسے سے نکلو

کھڑکی سے جھانکو ،دیکھو

کون مبتلائے بلا ہیں

ہاں جھانکتی ہوں

دیکھتی ہوں

ارے یہ تو کتنے قدم ہیں

دھول سے چھپ گئی ہے ان قدموں  کی آہ و بکا

بے سروسامانی کے جھنڈے اٹھائے

غموں کی بد حواسی میں ڈوبے ہوئے

بے یارو مددگاری کی سلیں

اپنے کندھوں پے لادے ہوئے

چلے آ رہے ہیں

میری کھڑکی کے نیچے سے

چلے جا رہے ہیں

اپنے ماتھے پے باندھے ہوئے سوگ کی پٹیاں

جو کہہ رہی ہیں

ہمارے پیاروں کو ہم سے ملا دو

ہمارے بچوں کو جنگل کی لومڑیاں لے گئی ہیں

ان کو واپس دلا دو ہمیں

اس جنگل کو آگ لگا دو

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں ؟

 

 

میرا باپ مار دیا گیا

اسماعیل اپنے دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھا رو رہا ہے

سوچ بھی رہا ہے

اگر باپ زندہ ہوتا تو پہلی تاریخ پر اپنی تنخواہ سے

مجھے نیا بستہ دلاتا

اسماعیل رو رہا ہے

وہ کب تک روتا رہے گا

اس کی ماں کھری چارپائی پر منہ لپیٹے پڑی ہے

فوزیہ  سڑک پر کھڑی ہے

ڈھونڈھ رہی ہے

کوئی نشان

رات ختم ہو گئی

راجہ نہیں آیا

کیا وہ بیوہ ہو گئی؟

اس نے ابھی رونا شروع نہیں کیا

بس دہلے ہوئے دل سے وہ

اپنے بیوہ ہونے کی علامت ڈھونڈھ رہی ہے

احمد کو یقین آ گیا ہے

اس کا بیٹا کل رات مار دیا گیا

وہ رو نہیں رہا

اس کی ماں اتنا رو رہی ہے کہ

اس کے آنسؤوں سے اسے اپنے گھر کے بہہ جانے کا ڈر بھی ہے

شاہدہ پوچھ رہی ہے

کیوں مر گیا اس کا بھائی

وہ کہاں کھڑا تھا؟

کن لوگوں میں

مارنے والوں میں یا مرنے والوں میں

تماشہ دیکھنے والے

اور موت کا تماشہ کھیلنے والے

اپنی اپنی آرام گاہوں میں ڈرائی فروٹ کھاتے ہوئے سوچ رہے ہیں

کل کا تماشہ کامیاب گیا

کیا اتنے ہی لوگ مارے گئے

جتنا انھوں نے اندازہ لگا یا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لنڈا بازار

 

 

جب سردی آتی تھی

ہم بہت خوش ہوتے تھے

ماں لحافوں میں روئی بھرتی

اور ہماری چمڑی کو سردی سے بچانے کے لئے بنڈیاں تیار کرتی

اس کے ہاتھوں میں ہنر تھا

باپ موم پھلی اور کبھی کبھی چلغوزے لے کر آتا تھا

چونکہ غربت لال بیگوں کی طرح ہمارے گھر میں سرسراتی رہتی تھی

ہم ان موم پھلیوں کو اور چلغوزوں کو چٹکی چٹکی کتر کتر کر کھاتے

جیسے ہمارے گھر کے چوہے

اکثر ہماری روٹیوں کے ساتھ سلوک کرتے تھے

پھر ہم بڑے ہو گئے

اپنے اپنے گھروں کے جہاں ہمیں یہ اختیار تھا

ہم جو چاہیں کریں

مگر کیسے

غربت اپنی تمام تام جھام کے ساتھ

ہمارے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی تھی

ماں کی طرح

ہاتھ ہنر مند نہیں تھے

جو بچوں کو سردی سے بچانے کے لئے بنڈیاں تیار کرتے

لنڈا بازار کی شکل

پہلی بار دیکھی تو دل متلا گیا

بچے  اپنی انا کے ساتھ پیدا ہوئے تھے

یوں سستے بد شکل سوئیٹروں پر گزارا کرتے

سردی اکثر دھو م دھام سے ہمارے کھڑکی دروازے  کھٹکھٹاتی

وقت بہت تیز ہے

ہمیں دھکا دے کر گزر گیا

اور اپنے ساتھ میلی کچیلی غربت بھی لے گیا

لندن کے بڑے اسٹور میں لال نیلے پیلے سوئٹر

خریدتے ہوئے

مجھے یاد آ رہا ہے اپنے علاقے کا لنڈا بازار

جس کے بارے میں کہا جا تا ہے

وہ بدبو دار تو ابھی تک ہے

لیکن بہت مہنگا ہے

اور غریب کو اپنی چمڑی ڈھکنے کا

رہا سہا آسرا بھی ختم ہو گیا ہے

اب لنڈا بازار بھی امیروں کی سہولت کے لئے

بنا دیا گیا ہے

لیکن سردی اپنے موسم کا انتظار کرتی ہے

یہ جانے بغیر کہ لنڈا بازار مہنگا ہو چکا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بشارت ہوئی تھی

 

بشارت ہوئی تھی

کہ لوگ بھوکے نہیں مریں گے

ا ن کو بے نیاز کر دیا جائے گا

بھوک سے اور کپڑوں سے

ان کے ننگے جسم کسی کی نگاہ میں نہیں آئیں گے

جہاں ان کو رکھا جائے گا

چونکہ وہ خدا کی زمین ہے

سب کے حصے میں دو دو گز زمین آئے گی

یہ اعلان رات کسی پہر ہو چکا ہے

لوگوں کو جمع کیا جانے لگا

جن کو جمع نہیں ہونے کی صلاحیت تھی

وہ جو بھوک سے نڈھال ہو چکے تھے

اور بڑی خوش دلی سے اپنے اپنے مرنے کا انتظار کر رہے تھے

پریشان ہو گئے

یہ نیا اعلان ان کے جسموں کو منظور نہیں تھا

وہ عادی ہو چکے تھے

نہیں ان کو عادی کر دیا گیا تھا

بولنے کی سکت چھین کر

اور اب کچھ نیا ہو نے جا رہا تھا

لیکن کیوں

وہ اپنے ننگے جسموں کو ایک دوسرے سے کیسے چھپائیں گے

کیا یہ ممکن ہو گا

ان میں شامل عورتیں

جب یہ اعلان سن چکیں

تو سمجھ گئیں

فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے

ایک طرف خالی ترازو ہے

اور ایک طرف وہ

جو موت کا انتظار اس طرح کر رہے تھے جیسے

کبھی کھانے کا انتظار کرتے تھے

جس د ن انھیں بشارت کی آواز پر لے جایا جا رہا تھا

سمندر کے راستے

عورتوں نے ان بچوں کو چھوڑ کر

جو ان کے پیٹ میں چھپے ہوئے تھے

اپنے تمام بچے سمندر کو سونپ دئے

اور خود کو دھند کی چادر میں لپیٹ لیا

اس کشتی میں بیٹھے ہوئے وہ سب

آج تک انتظار کر رہے ہیں

انھیں کب بے نیاز کیا جائے گا

ان کی اس برہنگی سے

٭٭٭

 

 

 

 

نظم؟

 

تمھارے پاس کیا ہے ؟

ایسی کوئی چیز

جو تمہیں دیر تک زندہ رکھے

نہیں

صرف بھوک ہے

کوئی گھر ہے

نہیں

پھر رہتے کہاں ہو

کہیں نہیں

کرایہ پر

نہیں

پھر

ایک چھت ہے کپڑے کی

ایک زمین ہے فٹ پاتھ کی

بچے کتنے ہیں

نہیں ہیں

شادی نہیں کے

نہیں

کیوں ؟

کھانے کو روٹی نہیں ہے

کام نہیں کرتے

نہیں

کیوں

جہاں کرتا تھا وہ کارخانہ بند ہو گیا

دو دن سے روٹی نہیں کھائی

اب کیا کرو گے

ایک کام جو آج ہی ملا ہے

وہ کیا ہے

یہ بتانا ضروری نہیں

چلو زندگی آسان ہو جائے گی

ایک ہنسی

کیوں ہنس رہے ہو

زندگی بچے گی تب

کیا کرنا چاہتے ہو

ایک ہنسی

آپ سوال بہت کرتی ہیں

آپ کا پیٹ بھرا ہوا ہے

ہاں

ایک بھوکا کیا کر سکتا ہے ؟

کل کے اخبار میں پڑھ لیجئے گا

٭٭٭

 

 

 

 

دل

 

 

وقت جس کی رفتار کبھی پھرکی کی طرح  ہے

کبھی کیچوے کی

یوں

جیسے ہم لندن آئی میں بیٹھے ہوں

یا ڈزنی لینڈ کے کسی  تیز جھولے پر

ہمارا دل

جس  کی دو آنکھیں ہوتی ہیں

اس وقت کی رفتار میں وہ کچھ دیکھ لیتا ہے

جو ہم نہیں دیکھ پاتے

کچھ ایسا کہ ہمیں ہکا بکا کرتا چلا جا تا ہے

ہم حیران ہوتے ہیں

ہم نے یہ کیوں نہیں دیکھا

سب ہماری سمجھ سے باہر ہوتا ہے

دل کا دماغ ہوتا ہے

جب کچھ نہیں سوجھتا ہمیں

پھرکی کے طرح گھومتے وقت کے ساتھ

عجلت میں

ہم اپنا آپا کھو بیٹھتے ہیں

لیکن دل اپنے دماغ کی شاطر چالوں سے ہمیں

ہانپنے نہیں دیتا

دل کا ایک دل ہوتا ہے جو نفرت سے بھرا ہے

ان کے لئے

جو اپنے ہاتھوں سے  ہمارے گلے گھونٹنا چاہتے ہیں

دل کے دو ہاتھ ہوتے ہیں

اکثر یہی ہوتا ہے

وہ ہمارے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر ان کا گلا دبا دیتا ہے

جو ہمارا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں

اور جب وہ ہم سے ناراض ہوتا ہے

جب ہم نا اہل ہو جاتے ہیں

تو اپنے ہاتھوں سے ہمارا گلا بھی دبا دیتا ہے

دل کی دو ٹانگیں ہیں

جب ہم پسپا ہو جاتے ہیں

اور بھاگنے کی سکت ہم میں نہیں ہوتی

دل کے پاؤں ہمیں وہاں سے بھگا لے جاتے ہیں

کبھی کبھی ہمیں وہاں سے بھی

جہاں سے ہمیں بھاگنا نہیں چاہیے

دل کے ہونٹ ہوتے ہیں

ایسے موقع پر جب ہم بھاگ رہے ہوتے ہیں

اس کی ایما پر

وہ خود کو گالیاں دے رہا ہوتا ہے

ہم آنکھیں موندے سرپٹ دوڑ رہے ہوتے ہیں

اس کے پیچھے

اس کی گالیوں کے شور میں آواز ملاتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

 

سفر کی دقتوں سے آلودہ ہیں ہمارے پاؤں

وہ پگڈنڈی کہاں تک جاتی ہے

جس نے ہمیں اکسایا تھا چلنے پر

راستہ کتنا نا ہموار تھا

راستے تو ناہموار ہی ہوتے ہیں

آوارہ کتوں کے بھونکنے کی بازگشت کے ساتھ ساتھ

بے لگام لٹیروں کی دھما چوکڑی بھی

بے آسرا خوابوں کی آہ و پکار

درمیان میں وہ جسم جو ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچتے ہوئے

کچھ نہیں چھوڑا ہماری آنے ولی نسلوں کے لئے

آپا دھاپی کی زد میں ہے زمانہ

کب تک لمحوں کی خود فریبی میں  مبتلا رہیں گی

یہ خواب دیکھنے والی آنکھیں

کیا یہ بینائی کھو دیں گی

کیا بچے گا ؟

ان کے حصے کا پانی

اور ان کے حصے کی خوراک تو پہلے ہی بٹ چکی ہو گی

سفر کی مٹی سے آلودہ

آنے والے زمانے میں ان کے چہرے

دھول سے اٹ جائیں گے

وہ کیسے پہچانیں گے ایک دوسرے کو

اپنے دشمنوں کو

جن کے سامنے ہم ہتھیار ڈال چکے ہیں

سفر کی دھول سے اٹے ہمارے پاؤں آج شرمندہ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

ہم امیدوں کے نرغے میں ہیں

خواہشوں کے جال اوڑھے ہوئے

دس قدم چلنے کی سکت ہمارے پیروں میں نہیں

سڑکوں پہ پڑی ہوئی اوجھڑیاں تماشہ دیکھ  رہی ہیں

ان کے ساتھ یہ کس کی اوجھڑیاں پڑی ہیں

نہیں

یہ کشکول ہیں

غور سے دیکھو

کشکول ایسے ہوتے ہیں ؟

ہاں

اگر بھوک  بڑھ جائے

یہ بھوک کب ختم ہو گی

چراگاہیں خالی ہو چکی ہیں

جانور بھوکے مر جائیں گے

لوگ اپنے پیٹوں پر باندھنے کے لئے اینٹیں ڈھونڈھ رہے ہیں

مگر یہ کون لوگ ہیں

جن کی بھوک ختم نہیں ہوتی

یہ بھیڑیے ہیں

بھیڑیے جنگلوں میں ہوتے ہیں

ہاں

یہ آدم خور بھیڑے ہیں

جن کی نسلوں کی افزائش شہروں میں ہوئی

اب یہ عادی ہو چکے

یہ انسانی خون پیتے ہیں

اور ان کے آگے کی روٹی چھین چھین کر

اپنی نسلوں کو کھلاتے ہیں

کیا یہ ختم نہیں کیے جا سکتے

ہاں

جب عذاب ان کو ڈھونتڈا  ہوا یہاں پہنچے گا

یہ بہہ جائیں گے

ابھی عذاب کہاں ہے

سنا ہے ان کو ڈھونڈھنے نکل پڑا ہے

٭٭٭

 

 

 

نظم

 

محبت کے دروازوں پر گدھوں نے قبضہ کر لیا ہے

نفرت اپنی ماں کا نام بھول گئی

اس کو گود لینے ولے بھوکے ہیں

اب روٹی نہیں بٹے گی

خدا ناراض ہے

یہ اعلان ہوا ہے راتوں رات

سب کو بھوکا سونا پڑے گا

سب کو ؟ ہاں

سوائے ان کے جو اپنے ہتھیاروں کو سجدہ گاہ بنائے ہوئے ہیں

ان کو انسانی گوشت

کا ناشتہ ملے گا

اور پینے کو

کیا؟

ہا ہا ہا

سب کچھ جانتے ہوئے بھی سوال کرتے ہو

خدا ناراض ہو جائے گا

تمھارے حصے کا پانی بھی ان کو مل جائے گا

کن کو؟ سوال بہت کرتے ہو

جو تحفے میں اس کو روز مشکوں خون بھیجتے ہیں

اور ڈھڑ اپنے کھانے کے لئے رکھ لیتے ہیں

خدا منصف ہے ؟

ہاں

لیکن خدا اکیلا ہے

ان کی  تعداد زیادہ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

وہ لوگ جو بچپن میں سڑک پار کرتے ہوئے

حادثے کا شکار نہیں ہوتے

انہیں کوئی وبائی مرض

کھا جا تا ہے

اور جو اس سے بچ جاتے ہیں

وہ کسی ناگہانی میں پھنس کر

مر جاتے ہیں

لیکن جو اس ناگہانی کی زد میں نہیں آتے

انھیں دوسرے بچے ہوئے

مار دیتے ہیں

اور دوسرے بچے ہوئے

پھر

اپنی موت آپ مر جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

اسے ایک مرد سے

ہم بوسہ ہوتے ہوئے پکڑ لیا گیا

اور سرِعام فحش حرکت کرنے کے الزام میں

اسے تین ماہ قید با مشقت

کاٹنی پڑی

وہ تین  مہینے اس نے

سخت مشقت میں گزارے

اس کے رحم میں

ہر نسل کا نطفہ جمع ہوتا رہا

تین مہینے کے بعد

وہ

با عزت زندگی گزارنے  پر مجبور ہو گئی

اس نے

ایک نئے شہر میں

پناہ لی

اور نئے شہر کو

ایک با عزت شہری فراہم کیا

٭٭٭

 

 

 

فساد

 

فسا د کے پھیلاؤ  میں

زندگی درختوں سے گرتے پتوں سے بدتر ہے

پاؤں کے نیچے آ جانے والے پتے

زندگی کہاں ہے

سہمی ہوئی

ٹھٹھری ہوئی

زندگی نہیں جانتی نشانے پر کون ہے

چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے

ہے تو بس کھلا آسمان

فساد کا پھیلاؤ اپنی چادر تان رہا ہے

جنگل !

وہ بھی آنکھیں موندیں پڑا ہے

اس کے جانور

وہ تو پہلے ہی بھاگ نکلے ہیں

جنگل نہیں جانتا کہاں گئے

بس

زندگیوں کو فساد کے پاؤں تلے کچلنے کی آوازیں سن رہا ہے

آنکھیں موندے

اس کے جانور کہاں گئے ؟

وہ نہیں جانتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھیل

 

آپ اس کھیل میں مجھے بھی شامل کر لیجئے

جو کھیل آ پ کھیل رہے ہیں

خدا را اس سے پہلے کہ میں آپ کا نشانہ بنوں

میں بھی وہی کھیل کھیلوں

جو آپ کھیل رہے ہیں

وہی کھیل جسے میں موت کہتی ہوں

اور آپ لذت

جن لاشوں پر آپ چہل قدمی کرتے ہیں روز

آپ کی گنتی میں اضافے کے باعث

زمین تنگ ہو رہی ہے

لوگوں کے گھر چھوٹے ہو رہے ہیں

یہ الگ بات ہے کہ

جب میں آپ کے کھیل میں شریک ہوں گی

تو میں کس کو نشانہ بناؤں گی؟

یہ کچھ نہیں کہا جاسکتا

ہو سکتا ہے کہ نشانہ آپ ہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ریاکار وقت

 

یہ  وقت کی ریا کاری ہے

ہمیں کیسے کیسے کاموں میں لگا دیا

کبھی خالی بنچوں پر بیٹھے ہم انتظار کر رہے ہیں

ان کا جو اب کبھی نہیں آئیں گے

کبھی حیرت کے مارے منہ کھولے یہ دیکھنے میں لگ جاتے ہیں

ہمارے حصے کی روٹی کون لے گیا

اورخالی پیٹ اپنی  مجبوریوں پر کڑھتے کڑھتے

یہ بھی بھول جاتے ہیں

ہمارا دشمن کون ہے

یہ بھی بھول جاتے ہیں

ریا کار وقت ہم سے بینچ خالی کرنے کا اصرار کرے گا

ہم بھولے بھٹکے

کن راستوں پر چلیں گے ؟

وہ جو  لبریز ہیں

پانیوں سے

یا ان جنگلوں میں بڑھا دئیے جائیں گے

جہان جنگلی جانور ہمارے منتظر ہیں

اس ریاکار وقت نے اکٹھا کیا ہے ان لوگوں

جو اس کے سکھائے ہوئے ہیں

جو ہمیں نشانہ بنانے کے لئے مورچہ تانے بیٹھے ہیں

ان کے ایندھن جلیں گے

جب ہمیں وہ

ان کی بجھتی ہوئی آگ میں پھینکیں گے

تاکہ  وہ ہمیں ہمیشہ کے لئے  نابود کر دیں

کیا یہ وقت کے ریاکاری نہیں ہے ؟

کیا یہ وقت کے سدھائے ہوؤں کی ریا کاری نہیں ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

ہم  نے دوستی کو دشمنی میں تبدیل کر دیا ہے

اور دشمنی کو دوستی میں

ہمارے آخری دنوں میں

ہماری جلاوطنی کے حکم کے بعد

جب ہمارے گھر کی تلاشی لی جا رہی تھی

تو ہمارے حصے کی روٹیاں باہر سے آئے چوہے

ہمارے گھر کے صوفوں کی پیچھے کھاتے ہوئے پائے گئے

ہم کو اس لئے بھوکا رکھا گیا کہ ہم نے ان کے حصے کی روٹی

اپنے بھوک کے دنوں میں کھا لی

ہماری سزا یہی تجویز کی گئی کہ  ہمیں جلا وطن کر دیا جائے

ورنہ ہم ان کی فصلوں کی تباہی کا باعث بنے گے

وہ فصلیں جو وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ذخیرہ کرنے والے ہیں

کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے

کہ ہم ان کو روک سکیں اس ظلم سے

جو وہ ہماری آنے والی نسلوں سے کرنے جا رہے ہیں

جو وہ لگاتار  ہمارے ساتھ کرتے رہے

اس دوران ہم نے بس ایک نوحہ تیار کا ہے

جو ہم ان راتوں میں اکٹھا ہو کر گاتے ہیں

جب چاند کی پہلی تاریخ ہوتی ہے

ہمارے پاس شکوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے

ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے

جو ہم بھوکا مارنے والوں پر استعمال کریں

ہم تو اب اپنے دوستوں اور دشمنوں کے چہرے بھی بھولتے جا رہے ہیں

سب گڈمڈ ہو چکا ہے سب

یہاں تک کہ ہمارے اپنے چہرے بھی پہچان میں نہیں آ رہے

کس کو کس نام سے پکاریں

 

 

استنبول میں پہلی شام

اورحان پامک جہاں رات گئے تک

اوارہ گردی کرتا تھا

ان تنگ گلیوں میں میرے قدم

سرشار ہیں

اس کے کسی قدم پر میرا پاؤں ضرور پڑا ہو گا

ہاں یہ وہی گلیاں  ہیں ان پر آج میں

اوارہ گردی تو نہیں کر رہی

لیکن میری کھوجتی آنکھیں ڈھونڈھ رہی ہیں

شاید اورحان پامک  میرے سامنے

آ کر کھڑا ہو جائے

اور کہے کس کو ڈھونڈھ رہی ہو

ان گلیوں میں کتنا شور ہے

ہے کہ نہیں ؟

کتنا حزن ہے ؟

ہے کہ نہیں

یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے سامنے

کوئی نہیں ہے

میں اسے جواب دے رہی ہوں

سب کچھ جو تم نے سوچا

ضروری نہیں کہ میں بھی سوچوں

میں آگے بڑھ جاتی ہوں

میرے قدم تقسیم کے بازار سے گزرتے ہوئے

غلاطہ ٹاور تک پہنچ گئے ہیں

میں مولیز کیفے میں بیٹھی ہوں استنبول کے

ان تمام شاعروں کے ساتھ

جو کل وہاں کبھی بیٹھتے تھے

وہ آج سب میرے ساتھ بیٹھے ہیں

میں بہت خوش ہوں

اگر وہ سب نہیں بھی ہیں تو کیا

اگر مولیزکیفے بھی نہیں رہا تو

بھی کیا

میں بھی تو سوچ سکتی ہوں

کہ جو نہیں ہے

وہ بھی کہیں تو ہے

میں تو وہاں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

گزار دی یہ زندگی

صرف  روٹی کے چند ٹکڑوں کے لئے

جو بھر سکیں ہمارا پیٹ

اس وقت تک کے لئے

جب تک دوسری بھوک

ہمیں  نہ اکسائے

گزار دی یہ زندگی

اپنے تن کو ڈھانپنے کے لئے

گزار دی یہ زندگی

ان  ایک ایک لمحہ برستے   ہوئے

عذابوں کے ساتھ

کبھی موت کو دیکھتے ہوئے

کبھی اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے

گزار دی یہ زندگی

ان لہروں میں جن میں خوشیاں

بہتی ہوئی ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں

کہاں گزار دی یہ زندگی

جو گزر گئی

کوئی نشان ایسا نہیں ہے

کوئی لفظ

کوئی بات

جو ہمارے جسموں کو سنبھال کر رکھ سکے

اور گلنے سڑنے نہ دے

دوسرے جسموں کی طرح

جو کھاتے ہوئے

اور خوشیوں سے کھیلتے ہوئے

گزار دیتے ہیں

اپنی زندگی

٭٭٭

ماخذ:

https://www.facebook.com/azra.abbas.90/notes

تدوین اور ی بک کی تشکیل: اعجاز عبید