FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فیض احمد فیض

"تلخی امروز اور شیرینی فردا شاعر"

               غلام نبی خیال

فیض احمد فیض کی داستانِ زندگی کُلفتوں اور راحتوں کی کہانی ہے جس میں بالآخر صدیوں سے بہتی ہوئی نور کی ایک بوند ہر شب تار کو ماہ تمام کی سیمیں روشنی سے منور کر لیتی ہے اورحسن و صداقت کا یہ نُورسالہاسال کا احاطہ کرتاہواانسان کی نیک قدروں اور دانش کے جلال جمال کو نئی جلوہ باری سے روشن کر لیتا ہے۔

فیض کا غم اُس کا اپنا غم نہیں ، یہ غم ایرانی طلباء کے خون کا غم ہے، فلسطین کی محکومی کا قلق ہے اور افریقہ کے غلاموں کی اذیتوں کا درد اور انقلابِ روس کا رجز بھی ہے:

 آ جاؤ میں نے سُن لی تیرے ڈھول کی ترنگ

آجاؤمست ہو گئی میرے لہو کی تال

آ جاؤ ایفریقا

آ جاؤ میں نے دھول سے ما تھا اُٹھا لیا

آ جاؤ میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال

آ جاؤ میں نے دردسے بازو چھڑا لیا

آ جاؤ میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال

آ جاؤ ایفریقا

فیض احمد فیض کرب کا شیدائی ہے جوحُسنِ ماہ سے دل کو جلاتا ہے۔ فیض نے زندان کو آہنی زنجیروں سے تلواریں نہیں بلکہ قلم کی نوکیں تراش لیں اوراس کا یہ بے ضرر مگر با اثر ہتھیار بر صغیر کی اُردو شاعری کے مزاج میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کا باعث بن گیا:

دیکھ کر آہنگر کی دُکاں سے

تند ہیں شعلے سُرخ ہے آہن

کھلنے لگے قُفلوں کے دہانے

پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے

جسم و زبان کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

کسی شاعر یا دانشور کو اگر جیل جانے کا اِتفاق ہوااوراگراُسے زنداں میں اُن دوسرے قلم کاروں ، شاعروں یا ادیبوں کی نگارشات کا مطالعہ کرنے کا بھی موقعہ نصیب ہوا جو بجائے خود قید خانوں ہی میں تخلیق کی گئی ہوں تواس تجربے کا عالمِ احساس ہی عجیب و غریب ہوتا ہے۔ جہاں آپ نے کسی کے زنداں نامہ میں دردِ دل یا غم جہاں کا نوحہ پڑھ لیا وہاں آپ کو یہ اپنی ہی زندگی کا حال دکھائی دیا۔ زندانی تخلیقات میں کسی اور قیدی کے خیالات میں استبدادا ور وقتی جبر کے بوجھ تلے ایک آزاد فضا کی صبح کی طلوع کی بشارت دی گئی ہو تو یہ سارامنظرنامہ آپ کو اپنی ہی پا بہ جولاں زندگی کی کہانی کا آئینہ دار نظر آتا ہے۔

میں خوداس تجربے کے انوکھے دورسے گذر چکا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ فیض کے ساتھ ساتھ میں جواہر لال نہرو، مولانا آزاد، سجادظہیر، ناظم حکمت جولیس فیوچک کے علاوہ ذو الفقار علی بھٹو اورسب سے بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو فیض کا ہم نوا تصور کرتا ہوں ۔

محبت اتفاق ہے کہ گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں جب فیض احمد فیض، سجادظہیراوراُن کے کئی احباب کو راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کر کے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ کشمیر میں بھی کشمیرسازش کیس میں ماخوذ کر کے مجھے دوسال تک قید و بند میں رکھا گیا۔ اس دوران میں نے اُن برگزیدہ اصحابِ دانش و قلم کی زندانی تخلیقات کا بھرپور اور پُر شوق مطالعہ کیا جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔

نہرو اور آزاد تو کئی سال تک تحریک آزادی ہند کے دوران جیل خانوں میں اپنے ہی وطن میں قیدیوں کی زندگی گذارنے پر مجبور کئے گئے، ناظم حکمت کو تُرکی سے بالآخراسی نوع کا الم ناک دور دیکھنے کے بعدروس جلاوطن ہوناپڑااورچیکوسلوواکیہ کے جولیس فیوچک کو عالمِ شباب میں ہی نازی عدالت نے برلن میں 25 اگست 1943 ءکوپھانسی کی سزاسنائی تھی جسے صرف تیرہ دن بعد عمل میں لایا گیا۔

تختہ دار پر چڑھائے جانے سے قبل جولیس فیوچک نے موت کے فرشتے کو اپنی آنکھوں کے سامنے رقصاں دیکھ کر زندگی سے اپنی بے پناہ چاہت کو امر بنانے کے لئے یہ الفاظ رقم کر لئے :”مجھے زندگی سے محبت تھی اوراسی کے حسُن نے مجھے مرنے کے لیے میدان میں بھیج دیا۔ انسانو! مجھے تم سے محبت تھی اور میں خوش ہوتا تھا جب تم میری محبت کا جواب محبت سے دیتے تھے۔ جب بھی تم نے مجھے غلط سمجھاتومجھے تکلیف ہوئی۔ تم میں سے جسے بھی میں نے تکلیف پہنچائی مجھے معاف کرو اور مجھے چاہنے والو! مجھے بھول جاؤ۔ یاس و غم کو کبھی غم کے ساتھ وابستہ نہ کرنا۔ میری ماں اور باپ اور بہنو اور تم میری آگسٹینااورمیرے تمام ساتھیوجنھیں میں نے ہمیشہ رفیق رکھا۔ تم سے میری یہ آخری وصیت ہے۔ اگر تمہارا خیال ہے کہ آنسوغم کے میل کو دھو لیں گے تو چند لمحے بیٹھ کر رو لینا لیکن دل کو ملول نہ کرنا۔ میں مسرت اور شادمانی کے لئے زندہ رہا اور میں مسّرت اور شادمانی ہی کے لئے جان بھی دے رہا ہوں ۔ اسی لئے میری قبر پر غم ویاس کا بُت نصیب کر کے میرے ساتھ ناانصافی نہ کرنا”۔

جیولیس فیوچک کا یہ اقتباس یہاں پراس لحاظ سے برمحل اورحسب حال ہے کہ فیض قید و بند کے دنوں میں جن دو مغربی ترقی پسندادیبوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اُن میں ناظم حکمت اور فیوچک شامل ہیں ۔ فیض نے حکمت کے کلام اور فیوچک کے "پھانسی کے سائے میں ” سے کئی جگہ استفادہ بھی کیا ہے اور اُن کی منظومات میں بار بار ان دونوں کے خیالات اور حیات پرورمحسوسات کی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

سری نگر کے سنٹرل جیل میں ہی مجھے بھی فیض کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا اوراس طرح سے میرے اولین مجموعہ کلام "سازِ زنجیر” میں فیض کا اثر اور فیضانِ سخن واضح طور پر جلوہ آرا ہے۔ اسی دوران میں نے فیض کے اس عدیم المثال شہہ پارے کا کشمیری ترجمہ بھی کیاجسے میں فیض کی زندانی شاعری کا دُرِ بیش بہاسمجھتارہا۔

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم

"قید خانوں کی تہہ میں اُتارے گئے "

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

(فیض نے یہ نظم جیولس روزنبرگ اور ایتھل امریکی جوڑے کوروس کے لئے جاسوسی کرنے کی پاداش میں 1953 میں امریکی سرکارنے موت کی سزادے کران دونوں کو برقیاتی کرسی پر بٹھا کر ان کا کام تمام کر دیا۔ ہینڈی سازش کیں ۔ داد، فیض اور کارظہر کو موت کی سزافیض نے اسی پس منظر میں۔

مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یارسے نکلے توسوئے دار چلے

فیض کے ایک انگریز مُترجم پروفیسروی جی کیرنن کا بھی یہی خیال ہے کہ "فیض کی بہترین شاعری وہی ہے جواُس نے قید خانوں میں تخلیق کی ہے”

فیض ہر بدصورتی میں خوبصورتی کی تلاش کرتا تھا۔ اس کی نظروں میں اگرسڑکوں اور گلی کوچوں میں پڑے ہوئے کتے بھی دوسروں کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے چھیننے اور خواب خرگوش سے بیدار ہونے کا عزم کریں تو وہ دُنیا کو تبدیل کرسکتے ہیں اور آقاؤں کی ہڈیاں چباسکتے ہیں ۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی اُن کی سوئی ہوئی دُم ہلا دے۔

جستجوئے حسن اور تلاش جمال کے اس شوق اور لگن کے بارے میں فیض خود کہتا ہے۔ "مجھے یاد ہے کہ ہم لاہور میں مستی دروازے کے اندر رہتے تھے۔ ہمارا گھر بالائی سطح پرتھا۔ نیچے بدرو بہتی تھی۔ چھوٹاساایک چمن بھی تھا۔ چار طرف باغات تھے۔ ایک رات چاند نکلا ہوا تھا، چاندنی بدرو اور ارد گرد کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑ رہی تھی۔ چاندنی اورسائے یہ سب مل کر کچھ عجیب پر اسرارمنظربن گئے تھے۔ چاند کی عنایت سے منظر کی بد وضعی چھپ گئی تھی اور کچھ عجیب ہی قسم کاحسن پیدا ہو گیا تھا۔ جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ایک آدھ نظم میں منظر کشی کی ہے۔ جب شہر کی گلیوں ، محلوں اور کٹڑیوں میں کبھی دوپہر کے وقت کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کا روپ آ جاتا ہے جیسے معلوم ہو کوئی پرستان ہو۔ "

"صلیبیں میرے دریچے ہیں ” میں فیض نے اسی حسنِ خیال اور دُنیائے حسن و جمال کے خوش آئند پہلوؤں کا یوں تذکرہ کیا ہے۔

 "ایسے لمحے بھی آتے ہیں کہ کوئی ننھاسابیج بوجھل مٹی بہت سلیقے سے ہٹا کر ایک ننھی سے کونپل زمین سے برآمد کرتا ہے اوراسے دیکھ کر دل بے پناہ اور قابل بیان مسرت سے لبریز ہو جاتا ہے اور تمام وقت دل جانتا ہے کہ اسی سبزننھی کونپل کے ہاتھوں میں حقیقت بھی ہے اور ابدیت بھی۔ جیل کی دیواریں اور پہریدار اور وردیاں سب جھوٹ ہیں سب غیر حقیقی ہیں ۔ اسی صورت سے دل یہ بھی جانتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک  لحد میں سوجانے کے بعد بھی جینے والوں کی ملکیت اور اُن کے رنج و راحت میں دخیل رہتا ہے۔ جیل میں محرومیاں بہت ہیں لیکن جینے اورہنسنے اور پیار کرنے کے اسباب میں یہاں بھی کمی نہیں ہوتی”۔

فیض تابناک اُمید۔ روشن مستقبل اورانسان کی ابدیت اوراُس کی عظیم انسانی اقدار کا ایک مجسم تھا۔ اس پس منظر میں جب وہ جیل خانے میں بھی تھا تو وہ اسی ابدی اُمید کے نغمے ایک مخمور گویےّ کی طرح گاتا تھا:

ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں ہرروزنسیم صبحِ وطن

یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منّور جاتی ہے

فیض کی تہلکہ مچانے والی شاعری کاسُروراُس کے ہم عصروں کے دل و دماغ کو بھی اپنے قابو میں کر چکا تھا۔ اُس کے ایک روسی مداح اور تجزیہ نگارالیکزینڈرسرکوف نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بار پرانی دہلی میں ایک مشاعرہ ہو رہا تھا۔ جب مشاعرہ اختتام کو پہنچنے کو تھا کہ علی سردارجعفری مایک پر آ کر فیض کے اشعار کی ادائیگی اوراس جیسے طرح دار آواز کے مالک کی زبانی۔ محفل پر گویا جادو طاری ہوا۔ ایسالگاکہ فیض اس مجلس میں موجود تھا۔ سرداراس ادائیگی میں اس قدر کھو گیا کہ وہ اپنا کلام سُنانابھول ہی گیا”۔

فیض آنے والے کل کے تناظر کو بھی اپنی دُوربین نگاہوں سے دیکھ کر دُنیا میں بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کرنے والا ایک منفرد فن کار تھا۔ بیسویں صدی میں جہاں اس نے ایران، چین، سنکیانگ، افریقہ کی کشتہ سرزمین اور عوام کے سوختہ دلوں کی دھڑکنوں کو اپنے احساس کے کان لگا کر پوری طرح سُن لیا وہاں اُس کے لاشعور میں اُن اقوام میں اُس وقت آزاد ہوئے ممالک میں استعماریت اور شخصی حکومتوں کے ناقابل برداشت اور عفونت زدہ تسلسل کے اختتام کا بھی ایک اندازہ تھا۔ یہ صورتِ حال مصر، لیبیا، بحرین، تیونس اور چین میں آج شعلہ بدامان ہے۔

جولیس اوزبزگ اوراُس کی اہلیہ ایتھل دونوں امریکی اشتراکی تھے جنھیں 1953ءمیں امریکہ نے پھانسی کی سزادی۔ یہ سزاانہیں اس لئے دی گئی کہ وہ مبینہ طور پر دورانِ جنگ جاسوسی کی سازش میں ملوث تھے۔ ان الزامات میں ایٹم بم سے متعلق جانکاری سوویت یونین کو دینا شامل تھا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے جب عام شہریوں کوسزائے موت دی گئی ہو۔ اس سلسلے میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اس ضمن میں کئی ایسی دیگر شخصیات کو بہیمانہ طور پر زیر عتاب لایا جن کے نام کا ایک حصہ روزن برگ تھا۔ جولیس ایک برقیاتی انجینئر تھا اور ایتھل ایک اداکارہ اور گلوکارہ تھی۔ ان دونوں کے خلاف مقدمہ اگست 1950ءمیں ہوا۔ مارچ 1951ءمیں اس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ 19 جون 1953ءکوبالآخران دونوں کو برقیاتی کرسی پر بٹھا کر بجلی کے جھٹکوں سے ان کی جان نکالی گئی۔

نہ مدعّی نہ شہادت حساب پاک ہوا

یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

زنداں نامہ کے آغاز میں سابق میجرمحمداسحاق رودادِ قفس کے عنوان کے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے”۔ روزن برگ جوڑے کی بے مثال قربانی سے مُتاثر ہو کر لکھی گئی ہے جو مرتے دم تک انسانیت کے مستقبل، انقلابات ماتحت یا ان سب کے ساتھ اپنی وفاداری جتلاتے رہے۔ فیض کی اس نظم کی آفاقیت عجیب و غریب ہے۔ انہوں نے صدیوں کو پاٹ کر ہر زمانے اور ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے ہر ملک کے شہیدوں کو ایک صف میں کھڑا کر  دیا ہے۔ یہ نظم کربلا، پلاس، سرنگاپٹنم، جھانسی، جلیانوالہ، قصّہ خوانی، سٹالن گراؤ، ملایا، کینا، کوریا، تلنگانہ، مراقش، تیونس سبھی سے متعلق معلوم ہوتی ہے اور تہران، کراچی اور ڈھاکہ کی سرماکوں پر دم توڑتے طلباء، مراقش، تیونس، کینیا اور ملایاکے خون میں لت پت سب ایک ہی جاں فروز نعرہ دوہراتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ۔

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم

ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم

لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیل غم

اپنا غم تھا گواہی تیرے حُسن کی

دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

جن شاعروں کے خیالات پر الہام کا ورود ہو وہ آنے والے ادوار کے بارے میں تصوراتی طور پر اُن کوائف کی جھلک واضح طور پر دیکھتے ہیں جو اقوام اور ممالک کی تاریخ سازتبدیلیوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں ۔ ایک اور ممتاز ترقی پسندشاعرمخدوم محی الدین نے پچاس سال قبل تلنگانہ کی تحریک کو اپنے اشعارسے حرارت بخشی تھی اور آج یہ تحریک ایک ملک گیر موضوع کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔

مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اس وقت جو انقلاب آفریں اور ہنگامہ خیز واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کی صدائے بازگشت فیض کی ان منظومات میں آج سنائی دیتی ہے جواس نے گذشتہ صدی کے پانچویں عشرے میں تخلیق کیں ۔ اس قبیل کی فیض رجز خوانی ایک پیغمبرانہ پیش گوئی کی طرح اس زودحس اور دور بین سخنورکی معاملہ فہمی اورسیاسیات عالم پراس کی گہری نظر کا ماحصل ہے جب وہ کہتا ہے:

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سربھی بہت

چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے

اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے

فیض کی شاعری جب بھی زیر مطالعہ آتی ہے یاسُنائی جاتی ہے تو حافظ شیرازی کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آ جاتا ہے۔

نفسِ بادِمبامشک فشاں خواہدشد

عالمِ پیردگرب ارہ جواں خواہدشد

٭٭٭

بشکریہ

سہ ماہی۔ تفہیم۔ راجوری۔ جموں وکشمیر

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید