FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو صحافت اور ضلع مرادآباد

 

محمد فرقان سنبھلی

 

 

انتساب

 

شریک حیات شمیم فاطمہ

 اور

بیٹے عاطر فرقان

کے نام





نام کتاب:                             اردو صحافت اور ضلع مرادآباد

مصنف کا نام:                        محمد فرقان سنبھلی

سنہ اشاعت:         ۲۰۰۸

ملنے کا پتہ:                             محمد فرقان سنبھلی

                                معرفت کیپٹن عرفان ، دیپا سرائے   چوک، سنبھل پن کوڈ۔ 244302

                                                M.9411808585

                                                9897407431

 

تعارفی خاکہ

۱۔ نام                     :               محمد فرقان

۲۔ قلمی نام            :               محمد فرقان سنبھلی

۳۔ ولدیت           :               محمد غفران مرحوم

۴۔ تاریخ پیدائش               :               ۲۰/جون ۱۹۷۳ء

۵۔ پتہ                   :               آفس روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو

                                                معرفت کیپٹن عرفان دیپا سرائے چوک، سنبھل،

                                                ضلع مرادآباد (یو۔ پی)

                                                M.9411808585, 9897407431

                                email: furqansambhli@rediffmail.com

                                Website: www.f-sambhli.weebly.com

                    Blog : www.furqansambhli.blogspot.com

۶۔ تعلیمی لیاقت   :               (۱) ڈپلومہ سول انجینیرنگ (یو پی ٹیکنیکل بورڈ)

                                                (۲) ادیب کامل (جامعہ اردو علی گڑھ)

                                                (۳) عالم (عربی فارسی بورڈ یو پی)

                                                (۴) بی اے۔ ||| ( بھیم راؤ امبیڈکر یو نیورسٹی آگرہ)

                                                (۵) معلم اردو۔ جامعہ اردو علی گڑھ

                                                (۶) ایم اے (اردو) (بھیم راؤ امبیڈکر ینورسٹی آگرہ)

۶۔ زبان                                :               اردو، ہندی، انگریزی،

۷۔ صحافت           : (۱)روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو ( تقریباً ۷  سالوں سے )

                                (۲) ایڈیٹوریل صفحہ مضامین:۔ (ا) روز نامہ شاہ ٹائمس  (ہندی)مظفر نگر

                                  (ب) جگت کلیان (ہندی) سرائے ترین، مرادآباد

                                  (ج) نئے سماج کا درپن سرائے ترین، سنبھل

۸۔ اشاعت شدہ مضامین: مختلف جرائد اور اخبارات میں (۱۵۰) سے زائد مضامین کی اشاعت ہو چکی ہے۔

جن اخبارات میں مضامین شائع ہوئے :۔

 (۱) روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو دہلی (۲)     خبردار جدید اردو ہفتہ روزہ دہلی(۳) کاروان اردو ، دہلی (۴) خیر و خبر ، مرادآباد(۵) کھلی خبریں (ہندی)، بریلی (۶) نقوش اردو سنبھل (۷) دینک آج ( ہندی) بریلی (۸) سائنس اور کائنات(اردو)علیگڑھ(۹) روشن چراغ(اردو) امروہہ وغیرہ

جن جرائد میں مضامین شائع ہوئے :۔

                                (۱) تہذیب الاخلاق (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)

                                (۲)مشرقی آنچل دہلی (۳) معرکہ ( دہلی) (۴) ترجمان اہل سنت                                            (سنبھل)              (۵) ہاسیہ اٹیک(دہلی) (۶)ریئل ٹارگیٹ (ہندی) مرادآباد

                (۷) رہنمائے تعلیم وغیرہ

                ۹۔ پہلی کتاب۔ مصر قدیم (اشاعت ۲۰۰۳ء):۔ عالمی شہرت یافتہ اور پر اسرار مصری تہذیب کی قدیم تاریخ پر مضامین شامل کئے گئے ہیں جس میں قدیم راج شاہی،

فراعنہ مصر ،اہرام ،ممی ،حضرت موسیٰؑ اور قاہرہ کا عجائب گھر وغیرہ پر جامع معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ملک بھر میں اور پاکستان میں بھی کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔ حکومت ہند کے ایچ آر ڈی وزارت کے تحت کام کرنے والے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی نے ملک بھر کی لائبریریوں میں بھیجنے کے لئے کتاب کی (۱۰۰) کاپیاں بلک پرچیز اسکیم کے تحت خریدی ہیں۔ رضا لائبریری رامپور نے بھی کتاب خریدی ہے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت عنقریب ہونے کی امید ہے۔ کئی معیاری اخبارات اور رسائل جن میں عالمی سہارا،  باجی،  رہنمائے تعلیم، آج کل وغیرہ نے کتاب پر تبصرے شائع کئے ہیں۔

                (۱۰) دوسری کتاب آئینہ فلکیات ( اشاعت ۲۰۰۴):۔ اردو میں سائنسی موضوعات خصوصاً فلکیات کے موضوع پر مواد کی کمی کو ملحوظ رکھتے ہوئے آئینہ فلکیات کی تصنیف کا کام مکمل کیا گیا۔ کتاب میں فلکیات کی تاریخ ، نظام شمسی، آسمانی کتب میں فلکیات، اڑن طشتری ، ماہرین فلکیات کی زندگی اور کارناموں وغیرہ پر جامع معلومات فراہم کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کی جانب سے کتاب کی اشاعت کے لئے جزوی مالی تعاون حاصل ہوا ہے۔ ملک بھر سے کتاب کو تائید حاصل ہوئی ہے اور سبھی صوبوں کے علاوہ پاکستان سے بھی کتاب کی فروخت کے آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ کتاب کو اردو اکادمی یوپی سے سال ۲۰۰۴ میں ۲۰۰۰ روپیہ کا انعام بھی ملا ہے۔

کی اشاعت کے لئے جزوی مالی تعاون حاصل ہوا ہے۔ ملک بھر سے کتاب کو تائید حاصل ہوئی ہے اور سبھی صوبوں کے علاوہ پاکستان سے بھی کتاب کی فروخت کے آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ کتاب کو اردو اکادمی یوپی سے سال ۲۰۰۴ میں ۲۰۰۰ روپیہ کا انعام بھی ملا ہے۔

 رضا لائبریری نے بھی نسخے خریدے ہیں۔ کئی معیاری اخبارات اور رسائل جن میں عالمی سہارا، رہنمائے تعلیم، باجی، آج کل وغیرہ نے تبصرے شائع کئے ہیں۔

                نوٹ:۔ سنبھل کے شعرا اور ادباء کا تذکرہ اور تاریخ سنبھل کے موضوعات پر کتب زیر ترتیب ہیں

انعامات اور اعزازات:

(۱)  نہرو یوا  کیندر پرتبھا اکادمی سنبھل نے صحافتی خدمات کے لئے ایوارڈ سے نوازا

(۲) قومی سطح کا یو پی اردو اکادمی ایوارڈ برائے ۲۰۰۴ ’’آئینہ فلکیات‘‘ کتاب پر حاصل ہوا

(۳) یو پی جنرل نالج کمپٹیشن کمیٹی سنبھل کے ذریعہ صحافتی اور قلمی خدمات کے اعتراف میں

    ’’سرسوتی النکرن ‘‘ ایوارڈ ۲۰۰۵ (صوبائی سطح )سے نوازا گیا

(۴) مرادآباد میں منعقدہ ضلع سطح کے اجلاس میں نہرو یوا کیندر سنگٹھن مرادآباد کے ذریعہ

    ’’یوا لیکھک ایوارڈ ‘‘ ۲۰۰۷ء سے نوازا گیا۔

(۵)  یو۔ پی۔ حکومت کے ذریعہ صوبہ کے سب سے بڑے اعزاز ’’یش بھارتی‘‘ ایوارڈ

    کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔

عہدے و دیگر مصروفیات :(۱) جنرل سکریٹری۔ مصور سبزواری ادبی سوسائٹی۔ سنبھل

 (۲) انچارج شعبہ ادب۔ یوپی سامانیہ گیان پرتیوگیتا سمیتی    رجسٹرڈ سرائے ترین، سنبھل

(۳) صدر۔ پیراڈائز لسنرس کلب، سنبھل

(۴) خزانچی۔ عاشق پبلک لائبریری ، سنبھل

(۵) رکن۔ ریڈیو وائس آف رشین فرینڈس کلب و ایجوکیشنل سوسائٹی سہارنپور(رجسٹرڈ) (۶) سینئرنائب صدر’’ پترکار سنگھ‘‘سنبھل

 

 

دیباچہ

ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی بد عہدی اور لاقانونیت اور ظلم و ستم کا عجیب و غریب مرکب تھی لیکن کمپنی کا دامن قانون صحافت سے خالی تھا۔ انگریز حکومت کے دور میں اخبار نکالنا اور اس کے ذریعہ آزادی کی جنگ میں شامل ہونا دشوار ترین عمل تھا انگریز حکومت کی بات کو رد کرنا انگریزی عتاب نازل ہونے کا سبب بن جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی ایسے بہت سے صحافی ہوئے جنہوں نے اپنے سر قلم کرائے لیکن حق کی آواز کو بلند رکھا۔ اردو صحافت کو یہ فخر حاصل ہے کہ سب سے پہلے آزادی کی جنگ میں شہید ہونے والے صحافی مولوی باقر دہلوی تھے۔

                ضلع مرادآباد میں بھی جب نگاہ ڈالی گئی تو پتہ چلا کہ یہاں بھی اردو صحافت سے وابستہ دیوانوں نے آزادی کی جنگ میں اہم کردار ادا کئے۔ ساتھ ہی انہوں نے اصلاح معاشرہ اور ایڈمنسٹریشن سے عوام تک کے کردار کو نئی جہت اور روشنی دینے کی کوشش کی۔ مرادآباد ضلع میں اردو صحافت کی تاریخ مرتب کرنے کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی گئی ہے۔ بتایا جا تا ہے کہ جناب انور اسرائیلی نے اس سمت میں اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں کافی روشنی ڈالی ہے لیکن افسوس تلاش کے باوجود ان کی کتاب حاصل نہ ہو سکی۔ یہ بھی پتہ نہیں لگ پایا کہ یہ شائع بھی ہوئی ہے یا نہیں۔ بہر حال محکمہ اطلاعات مرادآباد کی جانب سے اردو صحافت کی تاریخ مرادآباد ضلع میں تلاشنے کی اہم کوشش نائب انفارمیشن آفیسر جناب شو پرساد بھارتی جی نے شروع کی ہے اور انہیں میں نے بھی کچھ معلومات فراہم کیے ہیں۔ اس کے بعد یہ خیال آیا کہ میں مرادآباد کی اردو صحافت پر کچھ لکھوں لیکن وقت گزرتا رہا اور بات سوچنے تک ہی محدود رہی۔ لیکن سنبھل میں پترکار سنگھ کی تشکیل اور ’’یوم صحافت‘‘ منانے کا اعلان ہوتے ہی میں نے اس کتاب کو مکمل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

اس کتاب کو ہندی اور اردو میں تیار کیا گیا ہے تاکہ دونوں زبانوں کے قاری اس کے مطالعہ سے مستفید ہو سکیں۔ کتاب میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کم وقت اور عجلت کی وجہ سے کوتاہیاں ہوئی ہوں تو اس کو درگزر فرمائیں۔ ساتھ ہی یہ درخواست بھی ہے کہ اغلاط اور مزید معلومات سے مجھے مطلع کرنے کی زحمت کریں تاکہ اگلا ایڈیشن تفصیلی انداز کے ساتھ شائع ہو سکے۔ کتاب کی اشاعت میں کچھ لوگوں کا میں بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کو مکمل کرنے میں مجھے اپنا بے لوث تعاون دیا۔ ان میں میری شریک حیات محترمہ شمیم فاطمہ ایڈوکیٹ اور بیٹے عاطر فرقان کے علاوہ جناب سکندر صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے وقت پر کتاب مکمل کرنے میں اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔ اپنی امّی عبیدہ خاتون، بھائی محمد فرحان اور بہنوں ، مولانا خورشید ، ڈاکٹر سبحان عادل، پترکار سنگھ کے صدر نریش  شکلا ایڈوکیٹ وغیرہ کا بھی شکر گزار ہوں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وجے کلشریشٹھ (میڈیا  لیکھن) اور نادر علی خاں (ہندوستانی پریس) صاحبان کا بھی بے حد شکر گزار ہوں کہ انکی کتابوں نے مجھے کئی اہم معلومات فراہم کیں جن کا ذکر میں نے کتاب میں کیا ہے۔

                آخر میں اس درخواست کے ساتھ کہ کتاب کی غلطیوں سے مجھے آگاہ فرمائیں مجھے امید ہے کہ یہ کتاب ضلع مرادآباد کے ساتھ ساتھ دیگر اضلاع کے صحافیوں کے لئے بھی دلچسپی کا باعث بنے گی۔

                                                                                                                                                محمد فرقان سنبھلی

 

اردو صحافت کی تاریخ اور ضلع مرادآباد

                اردو کا پہلا روز نامہ ۱۸۲۳ء میں ’’جام جہاں نما‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ حالانکہ یہ اخبار اسی نام سے فارسی میں شائع ہونے والے اخبار کا سپلیمینٹری (Supplementary) تھا مگر مواد کے اعتبار سے یہ اردو کا با قاعدہ اخبار تھا۔ کلکتہ سے ۱۸۲۲ء جام جہاں نما‘‘ کی اشاعت ہوئی جس کے مدیر منشی سدا سکھ لال اور بانی ہر دتّ تھے ۱۸۰۰ء میں آگرہ اخبار‘‘ کے نام سے ایک روز نامہ شائع ہوتا تھا جس میں عدالتی کاروائی شائع کی جاتی تھی۔ ۱۸۳۷ء میں ’’دہلی اخبار‘‘ کے نام سے دہلی سے اخبار نکلا جو کہ پوربی ہندوستان کا پہلا اور ہندوستان کا دوسرا ہفتہ روزہ اخبار تھا۔ اس کے مدیر مشہور و معروف صحافی مولوی محمد باقر دہلوی تھے۔  جو کہ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں کود پڑے تھے اور انہوں نے اسی وجہ سے جام شہادت نوش کیا۔ وہ ۱۸۷۰ء میں پھانسی پر لٹکا دیے گئے۔

                ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی سرگرمیاں اچانک زور پکڑ گئی تھیں۔ ۱۸۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ختم ہو گئی۔ اور بھارت کا نظام برطانیہ حکومت کے زیر سایہ آ گیا۔ لارڈ لینسن نے پہلا وائسرائے بنتے ہی تمام اخبارات پر پابندی عائد کر دی تھی۔ بعد میں لائسنس ، سینسر اور بڑی ضمانتی رقم جمع کرانے کی سخت پابندیاں نافذ کر دی گئیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے اخبار تو خود بہ خود ہی بند ہو گئے۔ اس سختی کا سب سے بڑا اثر اردو اخباروں پر ہی پڑا۔ مولوی باقر کے بعد ’’صادق الاخبار‘‘ کے مدیر جمیل الدین سحر کو پھانسی ہو گئی۔ اس کے بعد ’’اخبار عالم‘‘ میرٹھ سے شائع ہوا۔ جس نے شہروں کی گندگی سے لے کر تمام امور پر خبریں شائع کیں۔ ۱۹۰۰ء میں ’’انقلاب‘‘ اخبار کی اشاعت لاہور سے شروع ہوئی۔ اس

اخبار نے جنگ آزادی میں انگریزوں کو کافی نقصان پہنچایا۔ ۱۹۰۳ء میں ’’زمیندار‘‘ روزنامہ کی اشاعت ہوئی جو کہ اس زمانے کا مشہور اخبار تھا۔ لکھنو کا پہلا اردو اخبار ۱۸۴۷ء میں ’’لکھنؤ اخبار‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ۱۸۵۶ء میں ’’طلسم لکھنو‘‘ نکلا ۱۸۵۸ ء میں منشی نول کشور نے ’’اودھ اخبار‘‘ نکالنا شروع کیا۔ ۱۸۷۷ء میں مشہور اردو اخبار’’ اودھ پنج‘‘ منشی سجاد حسین نے نکالنا شروع کیا۔ ان کے علاوہ لکھنؤ سے ’’ہمدم‘‘ ’’مسلم گزٹ‘‘ ’’حقیقت‘‘ ،’’قومی آواز‘‘، ’’عزائم‘‘ اور راشٹریہ سہارا وغیرہ اخبار نکلنے لگے۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے ۱۸۹۹ء میں ’’نیرنگ‘‘ عالم جاری کیا۔ ۱۹۰۰ء میں محمد موسیٰ نے ہفت روزہ ’’’المصباح‘‘ نکالا۔ مولوی حسین احمد نے ۱۹۰۲ء میں ’’ تحفہ محمدیہ‘‘ اور ۱۹۰۷ء میں کلکتہ سے ’’دارالسلطنت ‘‘ نکالا۔ ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء کو مولانا آزاد نے کلکتہ سے ہفتہ روزہ ’’’الہلال، شائع کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ’’البلاغ‘‘ بھی نکالا۔ ۱۳/فروری ۱۹۱۳ء کو ’’نقیب ہمدرد، ، مولانا جو ہر نے جاری کیا اور ۱۳ جون ۱۹۱۳ء میں ’’ہمدرد ‘‘ نکالا جبکہ ’’کامریڈ‘‘ کی شہرت انگریزوں کے لئے پریشانی کا سبب بنی رہی۔ اس کے علاوہ خواتین کے لئے بھی کئی میگزین اور اخبار کا اجرا ہوا۔ ۱۸۹۸ ء میں لاہور سے ممتاز علی نے ’’تہذیب نسواں ‘‘ نکالا۔ ۱۹۰۶ء میں شیخ عبد اللہ نے ’’خاتون‘‘ کے نام سے رسالہ نکالا۔ ۱۹۰۸ء میں ’’عصمت ‘‘ راشد الخیری نے دہلی سے نکالا۔

 

ضلع مرادآباد میں اردو صحافت

مرادآباد کی صحافت کی تاریخ حالانکہ زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن کثیر تعداد میں اخباروں کا رجسٹریشن مرادآباد میں ہونے کی وجہ سے یہاں کی صحافت کا ملک بھر میں چرچا ہے۔ اردو صحافت کا مرادآباد میں آغاز ۱۸۷۶ء میں مانا جاسکتا تھا۔ جبکہ ’’جام جمشید‘‘ نام کے ہفتہ روزہ کی اشاعت شروع ہوئی۔ ۱۸۷۷ء میں ’’’نیر اعظم‘‘ کی اشاعت امجد علی کے ذریعہ شروع ہوئی۔ ۱۸۸۱ء میں ’’رہبر‘‘ نام سے شائع ہوا۔ ۱۸۸۹ء میں ’’کرنیل‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔

                صوفی انبا پرساد مرادآباد صحافت کے اہم ستون کہلائے جاتے ہیں انہوں نے جنوری ۱۸۸۴ء میں مرادآباد سے اردو رسالہ ’’جامع علوم‘‘ کی اشاعت شروع کی۔ جو کہ بعد میں ہفت روزہ اخبار میں تبدیل ہو گیا۔

تفصیل کے ساتھ اخبار ات کا جائزہ

(۱) ۱۸۴۰ء میں جمشید علی نے ’’ بلند اخبار‘‘ و ’’جامع جم‘‘ اردو ہفت روزہ کی اشاعت اور

   ادارت کی شروعات کی۔

 (۲) ۱۸۸۱ء میں ’’رہبر‘‘ اخبار کی اشاعت کا آغاز ہوا۔

(۳) ۸۲۔ ۱۸۸۱ء میں ’’تنتر پربھا کر‘‘ ہفت روزہ ہندی اور اردو زبانوں میں صوفی انبا

    پرساد نے نکالا۔

(۴) ۱۸۸۷ء میں ’’ستار ہند‘‘ کے نام سے بھی صوفی انبا پرساد نے اخبار نکالا۔

(۵) ۱۸۸۹ء میں ابن علی نے ’’نیر اعظم‘‘ ہفت روزہ نکالا۔ جو کہ ۱۹۳۶ء میں بند ہو گیا۔

   صوفی انبا پرساد نے ’’جام العلوم‘‘ کی اشاعت شروع کی۔

(۶) ۱۸۹۶ء میں مرادآباد سے نرائن سوامی پرساد کے زیر ادارت ’’محرک‘‘ کا اردو میں

  اشاعت ہفت روزہ کے طور پر شروع ہوئی جو کہ ایک ماہ کے بعد ’’آریہ متر‘‘ کے نام سے

   نکلا جانے لگا۔

(۷) ۱۹۰۱ء سے ابن علی جو کہ امجد علی کے بھائی تھے نے انکی موت کے بعد ’’نیر اعظم‘‘ کی

   اشاعت شروع کی۔

(۸) ۱۹۰۳ء میں ’’مخبر عالم‘‘ نام سے اخبار عبد العلی عابد نے نکالنا شروع کیا۔

(۹) ۱۹۱۳ء میں ۶ اردو ہفت روزہ اور ایک ماہنامہ کی اشاعت ہوئی تھی۔

(۱۰) ۱۹۲۲ء میں برباد مرادآبادی نے ’’برباد‘‘ نام سے اخبار نکالا۔

(۱۱) ۲/جنوری ۱۹۳۰ء کو شیدا علی نے ہندی اور اردو زبانوں میں ’’حکو مت‘‘ کی اشاعت

   شروع کی جو کہ بعد میں کافی مشہور ہوا۔

(۱۲) ۱۹۳۳ء میں عمر دراز بیگ نے ’’جدت‘‘ نام سے اخبار نکالا۔

(۱۳) ۱۹۳۷ء میں افتخار فریدی نے ’’کانگریس‘‘ کے عنوان سے اردو اخبار نکالا۔ اسی سال

    مر زا اسحق بیگ نے ’’پبلک‘‘ نام سے اخبار کی اشاعت شروع کی۔

(۱۴) ۱۹۵۰ء میں ماہنامہ ’’ساتھی‘‘ کی اشاعت پرتھوی راج مشرا نے کی۔

(۵) ۱۹۵۳ء میں آر کے پوربی نے اردو میں ’’سنسار‘‘ کی اشاعت شروع کی۔

(۱۶) ۱۹۵۷ء میں پیارے میاں انصاری نے ’’انصاری دنیا ‘‘ کے نام سے اخبار نکالا۔

(۱۷) ۱۹۶۰ء میں تابش حیدری نے ’’قوم‘‘ کے نام سے اخبار نکالا۔

(۱۸) ۱۹۶۱ء کیف مرادآبادی نے ’’ادراک‘‘ نکالا

(۱۹) ۱۹۶۳ء میں دیوکی نندن شرما نے ’’علاج‘‘ نکالا

(۲۰) ۱۹۶۵ء میں سحر صدیقی نے ’’رہنما ‘‘ نکالا۔

(۲۲) ۱۹۶۶ء دلشاد بزمی نے ’’ بزم کیف ‘‘ کی اشاعت کی۔

(۲۳) ۲۷/اپریل ۱۹۷۳ء میں ’’کمل چھایا‘‘ کے نام سے ہندی اردو میں ہفت روزہ نکلا۔  اسی سال ’’محافظ قوم‘‘ کی اشاعت اور ادارت سرفراز الدین صدیقی نے شروع کی۔

۱۹۸۴ء میں ’’روز نامہ گرج‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی

روزنامے :۔ آواز، جدت، قومی کارواں ، نیر اعظم، دشت بہ دشت، جدید خیر و خبر، مظلوم کی پکار، گرج، آئین عالم، وغیرہ

ہفت روزہ:۔ رہنما، چلتی دنیا، نیا سنسار، غریب کی آواز، فدائے قوم، سن آف انڈیا، ہم کسی سے کم نہیں ، انصاری دنیا، صدائے حق، نقوش، عکس سنبھل، آفتاب، پنج بہادر، المہندی، وغیرہ

پندرہ روزہ:۔ عصائے کلیم، قریشی دنیا، الاخبار، نئی نسل، نئی روشنی وغیرہ

ماہنامہ:۔ گل و خار، چاند، انصار گزٹ، تیر نیم کش وغیرہ

سنبھل کے اردو اخبارات

(۱) ہفتہ روزہ المہدی:۔ جادو رقم سید مہدی حسین زیدی ، محمود احمد (مدیر) (1927)

(۲) مرقع:۔         حامد حسین آزاد (مدیر)

(۳)  پنج بہادر:۔  مہدی حسین زیدی، عبد العحد زیدی(مدیر)

(۴) مسلم گزٹ:۔ صابر حسین نسیم زیدی

(۵)صحیفہ وارث:۔

(۶)آج کی کاشت:۔ محمود حسین آزاد (1-06-89) شمارہ

(۷) (پندرہ روزہ)عکس سنبھل:۔ 15-02-1986نظام سنبھل

(۸) پیغام شہادت :۔  عبد المجیب صدیقی (26-09-85)

 (۹)  ہفت روزہ’’ شہاب‘‘:۔ حبیب احمد اسرائیلی(10-08-1939)

(۱۰) ہفتہ وار اخبار تجارت سنبھل:۔ آر جی مصرا (1928)

(۱۱) اہل سنت:۔                مختار اشرفی

(۱۲)الاشرف:۔                  مولانا فاروق اشرفی

(۱۳) آفتاب:۔   نواب زادہ راشد حسین خاں (8-11-61)

(۱۴) الحامد ماہنامہ :۔ حبیب اشرفی (1971-1970کے چہا شمارے )

(۱۵) نقوش:۔     محمد انتظار

قلم قبیلہ (ماہنامہ):۔ نفیس احمد (بانی) ایک شمارہ

(ماخذ۔ اخبار کے نسخے۔ عاشق پبلک لائبریری سنبھل)

ہفتہ وار ’’جامع جمشید‘‘:۔  اختر الدولہ نے اس کا اجراء ۵!ستمبر ۱۸۷۰ء لکھا ہے۔ محلہ سنبھلی دروازہ مرادآباد، مالک سید جمشید علی مہتمم مہدی حسن

ہفتہ وار’’ اسٹریچی گزٹ‘‘:۔  مالک سید زین العابدین اجراء  ۱۸۷۲ء

ہفتہ وار ’’نیر اعظم‘‘:۔         مدیر قاسم علی ذکاء۔ اجراء ۱۸۷۶ء

ہفتہ وار ’’اخبار نجم الہند‘‘:۔ مدیر پنڈت پرتاپ کشن ۱۸۸۱ء

ہفتہ وار ’’عین الاخبار‘‘:۔    ۱۸۸۱ء مالک مولوی دلاور علی

ہفتہ وار ’’نور الاخبار‘‘:۔       ۱۸۸۲ء نور الاخبار کے مالک عزیز اللہ اور مہتمم نور اللہ تھے۔

ہفتہ وار’’ نظام الاخبار‘‘:۔   ۱۸۸۴ء مالک قاضی فہیم الدین، مہتمم احتشام الدین

نسیم سنبھل:۔  ۱۸۸۸ء مالک سید احمد حسن مہتمم سید آل احمد

                                                 (ہندوستانی پریس از نادر علی سے ماخوذ)

 ضلع مرادآباد کے پریس جہاں سے اخبار شائع ہوئے

(۱) مطبع آفتاب ہند :۔  محلہ سنبھل دروازہ مالک قاضی سید جمشید علی جم مہتمم سید مہدی حسن پرنٹر عبد العلی۔ ہفت وار اردو اخبار بمام جام جمشید ۴ ورق اوسط پر ہر سنبہ کو طبع ہو کر شائع ہوتا تھا۔ مئی ۱۸۷۰ء کو جاری ہوا۔

(۲) مطبع خورشید عالم:۔ مالک حکیم سید زین العابدین اجراء یکم جولائی ۱۸۷۲ء ہفتہ وار

   ’’اسٹریجی گزٹ‘‘۴ ورق اوسط پر سہ شنبہ کو شائع ہوتا تھا۔

(۳) مطبع نیر اعظم:۔  مالک مولوی امجد علی مدرس فارسی مشن اسکول مہتمم منشی ابن علی پرنٹر

    اشفاق کاتب واجد علی، ہفتہ وار اردو اخبار ’’نیر اعظم‘‘ ۴ ورق اوسط پر ہر دو سنبہ کو قاسم

    علی ذکاء کی ادارت میں طبع ہو کر شائع ہوتا تھا۔

(۴) مطبع نجم الہند:۔  محلہ بازار بادشاہی کو تھی مر زا محمد عسکری ، مالک پنڈت اوتار کشن نجم۔

   ہفت وار اردو اخبار نجم الہند ۶ ورق اوسط پر ہ پنج شنبہ کو پنڈت پرتاپ کشن کی ادارت

   میں طبع ہو کر شائع ہوتا تھا۔

(۵) مطبع امداد الہند:۔ محلہ کارواں سرائے مالک مولوی دلاور علی مہتمم اشرف علی اجرا یکم

   اپریل ۱۸۸۱ء ہفتہ وار اردو اخبار ’’عین الاخبار‘‘ ۶ ورق اوسط پر ہر شنبہ کو شائع ہوتا تھا۔

(۶) مطبع عزیزی:۔  محلہ کسرول متصل مسبحدمولسری مالک عزیز اللہ، اجرا۔ ۱۸۸۲ء ’’نور

   الاخبار‘‘ کے نام سے اردو میں ہفتہ میں دو بار شنبہ اور چہار شنبہ کو ۶ ورق اوسط پر طبع ہوتا تھا۔

(۷) مطبع احتشامیہ:۔  محلہ قاضی ٹولہ مالک قاضی فہیم الدین اجرا۔ ۱۸۸۴ء کو ہوا۔ ۱۵   فروری ۱۸۸۴ء سے ہفتہ وار اردو اخبار بنام ’’نظام الاخبار‘‘ ۶ ورق اوسط پر طبع ہو کر

    ہر شنبہ کو شائع ہوتا تھا۔ اس کے بعد یکم جولائی ۱۸۸۶ء سے ماہنامہ تفسیری  رسالہ’’اکسیر اعظم‘‘ بھی جاری ہوا۔

سنبھل کا پریس جہاں سے اخبار نکالا گیا

سنبھل پریس:۔    مالک سید احمد حسن مہتمم سید آل احمد اجرا ۱۸۸۸ء گلدستہ آفتاب سخن ۱۴ ورق خرد پر اور ہفتہ وار ’’نسیم سنبھل‘‘ ۴ ورق خرد پر طبع ہو کر شائع ہوتا تھا۔

 

اردو صحافت کے چند اہم ستون

مولانا حسرت مو ہانی

                بیسویں صدی کے آغاز میں اردو صحافت نے نئی انگڑائی لی اور ایک نئی طرز کے ساتھ حسرت موہانی نے 1903ء میں علی گڑھ سے اخبار ’’ اردوئے  معلی‘‘ جاری کیا۔ حسرت موہانی بلند پایا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ قوم و ملت کی زبوں حالی سے بڑے متفکر رہتے تھے۔ انہوں نے ’’اردوئے  معلی‘‘ میں علمی، ادبی، اور سیاسی مضامین کی اشاعت پر زور دیا۔ مولانا بین الاقوامی شخصیت کے حامل تھے لیکن افسوس کہ انہیں ہندوستان میں بھی وہ قدر نصیب نہ ہوئی جس کے وہ حقدار تھے۔

                1902ء میں محمڈن اینگلو اورئنٹل کالج اور علیگڑھ (اے ایم یو ) موجودہ سے گریجویشن کرنے کے بعد انگریزی حکومت کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ کی انقلاب آفریں تحریروں نے انگریز حکومت کے ہوش اڑا دیے۔ 1908ء میں انکی پہلی گرفتاری ہوئی۔ 1920ء میں خلافت کمیٹی میں شامل ہوئے اور انہوں نے اس کے ذریعہ نہ صرف انگریزوں کو پریشان کرنا جاری رکھا بلکہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان عدیم المثال اتحاد قائم کیا۔ مولانا حسرت موہانی نے سب سے پہلے مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔ 1946میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر یو۔ پی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ، ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے لئے ممبر نامزد ہوئے۔ آزادی کے بعد تقسم ملک کے باوجود وہ آخری سانس تک ہندوستان میں رہے۔ افسوس کہ انہیں اور انکی قربانیوں کو بالکل فراموش کر دیا گیا۔ سیاست اور صحافت کے میدان میں مولانا کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ تحریک آزادی میں انہیں ’’رئیس الاحرار‘‘ کا خطاب ملا۔ ان کا آخری وقت کانپور میں بے حد کسمپر سی کے عالم میں گزرا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نامور مجاہد آزادی سردار بھگت سنگھ کے والد جب انکی شادی کر دینا چاہتے تھے تو انہوں نے مولانا حسرت کو خط لکھ کر رائے طلب کی تھی کیونکہ وہ انکی بہت عزت کرتے تھے۔ 13مئی 1951ء کو لکھنؤ میں علاج کے درمیان ہی ان کا انتقال ہو گیا۔

مولانا ابو الکلام آزاد

                مولانا ابو الکلام آزاد اور صحافت کے ایسے عظیم المرتبت شخصیت تھے جنہوں نے میدان سیاست سے لیکر مذہب اور ادب تک میں کا رہائے نمایاں انجام دیے۔ مولانا آزاد کو عربی فارسی اور اردو پر دسترس حاصل تھی۔ اخبار بینی کا شوق بچپن سے تھا۔ 1899ء میں کلکتہ سے ’’نیرنگ عالم‘‘ کے ذریعہ علمی طور پر صحافت سے وابستہ ہوئے۔ ان کی نگارشات  ’’ خد رنگ نظر‘‘ اور’’ مرقع عالم (ہردوئی)‘‘ میں بھی شائع ہوئی تھیں۔ 1900ء میں مولانا آزاد کلکتہ سے ہی جاری ہوئے ہفت روزہ ’’المصباح‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ وہ ہفت روزہ ’’ایڈوڈ گزٹ‘‘ اور ’’احسن الاخبار‘‘ ’’تحفہ المحمدیہ‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ انہوں نے 1903ء میں کلکتہ سے ہی ’’ لسان الصدق‘‘ شائع کیا۔ ’’الندوہ، وکیل دارالسلطنت، اردو گائڈ، وغیرہ کی ادارت بھی مولانا آزاد نے سنبھالی۔ لیکن وہ اپنے پیش نظر مقاصد کو حل نہ ہوتے دیکھ مایوس تھے انہوں نے عزم کیا کہ وہ مضبوط و طاقتور اور وسیع انتظام کے ساتھ اپنا ذاتی اخبار نکالیں گے۔ 13جولائی 1912ء میں انہوں نے ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا اجراء کیا۔ اس اخبار نے اردو صحافت میں نئی طرز کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے ’’البلاغ‘‘ بھی نکالا۔ ان دونوں اخبارات نے مولانا آزاد کی صحافت کے جو ہر عوام کے سامنے پیش کئے۔ دونوں

اخبار انگریزوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے لیکن آزادی کے پروانوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے۔

مولانا محمد علی جو ہر

                مولانا محمد علی جو ہر کی ابتدائی تعلیم گھر پر رہ کر ہوئی تھی لیکن بریلی سے ہائی اسکول کرنے کے بعد وہ علیگڑھ پہنچے۔ وہ زبردست مقرر اور بلا کے ذہین طالب علم تھے۔ 1896ء میں بی اے میں اول پوزیشن حاصل کی۔ برطانیہ جا کر آئی سی ایس کا امتحان دیا لیکن ناکام رہے۔ شادی کے بعد پھر وہ برطانیہ گئے اور آکسفورڈ سے بی۔ اے۔ پاس کیا۔ واپسی میں رامپور میں اعلیٰ ملازمت پر تقرری ہوئی۔ چند روز بڑودہ میں بھی گزارے۔ 1910 ء ملازمت چھوڑ کر صحافت کی وادی پر خار میں کود پڑے۔  1911ء میں کلکتہ سے ’’کامریڈ‘‘ شائع کیا پہلے جو انگریزی میں نکلتا تھا۔ کامریڈ میں ان کے حریت پسند مضامین نے دھوم مچا دی۔ 1912ء میں انہوں نے اسی اخبار کو دہلی سے نکالنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی 1913ء کو ’’نقیب ہمدرد‘‘ کے نام سے اخبار نکالنا شروع کیا۔ اسی سال انہوں نے ’’ہمدرد‘‘ کا اجرا بھی کیا۔ 26ستمبر 1914ء میں ان کا مشہور اداریہ ’’چوائس آف ٹرکس‘‘ شائع ہوا جس نے انگریزی حکومت کو ہلا دیا۔ انہیں رامپور اور مہرولی میں نظر بند کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد ’’ہمدرد‘‘ پر توجہ مرکوز کی۔ یہ اخبار انکے خیالات اور عزائم کی بھر پور ترجمانی کرتا تھا۔ مضطرب سیاسی دور میں جھٹکے لے لے کر یہ اخبار نکلتا رہا اور اس نے عوام کے دلوں میں برسوں راج کیا۔

ظفر علی خاں

                مولانا ظفر علی خاں نے دسویں پاس کر کے علیگڑھ میں داخلہ لیا اور یہاں سے 1894ء میں بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ علامہ شبلی نعمانی سے بے حد متاثر تھے۔ انہوں نے ظفر علی خاں کو نواب محسن الملک کے پرائیویٹ سکریٹری بطور نوکری دلا دی۔ بعد میں وہ حیدرآباد میں فوج میں نوکر ہو گئے تھے۔ لیکن طبیعت میں ادب سے گہرا شغف اور سیاست میں دلچسپی کے چلتے فوج سے نوکری چھوڑ دی۔ وہ افریقہ چلے گئے واپسی میں ممبئی میں تجارت شروع کی۔ لیکن ناکام رہے۔ وہ پھر حیدرآباد پہنچ گئے جہاں انہوں نے ادبی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ لارڈ کر زن کی کتاب کا ترجمہ ’’خیابان فارس‘‘ اور شبلی نعمانی کی کتاب ’’الفاروق‘‘ کا انگریزی ترجمہ کر کے دھوم مچا دی۔ 1903ء میں علمی و ادبی رسالہ ’’افسانہ‘‘ نکالا اور اسی سال ’’دکن ریویو‘‘ کا اجرا ہوا۔ 1909ء میں اپنے والد کے انتقال کے بعد انہوں نے ’’زمیندار‘‘ کی ادارت شروع کی۔ انہوں نے لاہور سے اس کو نکالنا شروع کیا۔ یہ پہلا اخبار تھا جس نے ’’رائٹر‘‘ اور ’’ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا‘‘ سے نیوز سروس حاصل کی۔ ہفت روزہ اخبار کو ظفر علی خاں نے روزنامہ بنا دیا۔ اس اخبار کی مقبولیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ سرحدی علاقوں کے پٹھان اس اخبار کو جتنی قیمت میں خریدتے تھے اتنی ہی قیمت وہ کسی سے اس کی تحریریں سننے کے لئے خرچ کرتے تھے کیوں کہ نہیں پڑھنا نہیں آتا تھا۔ سامراج اور مغربی طاقتوں پر بے پناہ یلغار نے اس اخبار کو مقبولیت دی لیکن حکومت وقت اس سے ناراض ہو گئی جس کے سبب اخبار کو ضبط کر دیا گیا۔ مولنا ظفر علی خاں نے ’’پریس ایکٹ‘‘ پر اپنے تاثرات بھی پیش کئے تھے لیکن یہ کتاب منظر عام پر نہ آ سکی۔

جنگ آزادی میں شہید ہونے والے پہلے صحافی مولانا باقر دہلوی

                انگریزی حکومت کے خلاف جہاں ہندوستان میں توپ اور تلوار کے ذریعہ جنگ لڑی گئی وہیں قلم کے ذریعہ بھی ملک کے جیالوں نے ملک کے وقار کی خاطر جنگ لڑی۔ اردو زبان کے صحافیوں نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انگریزی حکومت کے ظلم و زیادتی کے خلاف یوں تو بہت سے صحافی جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے لیکن سب سے پہلے جنگ آزادی کے شہید صحافی مولوی باقر دہلوی تھے جنہوں نے تا عمر انگریزوں کی ناک میں دم کئے رکھا۔

                ۱۸۳۰ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کی جگہ اردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کر لیا اور ۱۸۳۶ء میں ہندوستان کے لوگوں کو اخبار نکالنے کی اجازت دے دی۔ ۱۸۳۷ء میں مولانا باقر دہلوی نے ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے نام سے ہفت روزہ اخبار نکالنا شروع کر دیا۔ مولوی باقر جدت پسند صحافی تھے اور نئے تجربے کرتے رہتے تھے۔ وہ بھارت کے پہلے صحافی تھے جنہوں نے خود دارالسلطنت دہلی کی آبادی کے صحیح اعداد شمار اپنے اخبار میں شائع کئے تھے۔ اس اخبار میں انگریزوں کے ظلم، پولس کی نااہلی، سرکاری محکموں کی بد عنوانی، اور چاپلوس حضرات کی انگریز پروری کی خبروں کے ساتھ ساتھ تنقید بھی پیش کی جاتی تھیں۔ جس کے بعد یہ اخبار انگریز مخالف اور آزادی کے پروانوں کا ساتھی کے طور پر مشہور ہو گیا۔ مولوی باقر نے دہلی کالج سے (موجودہ ذاکر حسین کالج) تعلیم مکمل کی۔ وہ اسی کالج میں استاد ہو گئے۔ ۱۸۳۴ء میں سرکاری نوکری چھوڑ کر انہوں نے ’’لیتھو پریس‘‘ شروع کیا۔ انہوں نے صحافت سے متاثر ہو کر اخبار نکالنا شروع کر دیا۔ اس اخبار نے سب سے پہلے جنگی حالات کی خبر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ انگریزوں نے مسلسل اپنے خلاف لکھ رہے مولوی باقر دہلوی کو باغی قرار دے دیا۔

                مولوی باقر کے اخبار کی مالی حالت بہت اچھی تھی لیکن وہ اس سے حاصل ہوئی آمدنی کا بڑا حصہ غریب غرباء پر صرف کر دیتے تھے۔ دہلی کالج کے پرنسپل ٹیلر کے کاغذات وعدہ کے مطابق انگریزوں کو پہنچانے گئے مولوی باقر کو انگریز حکومت نے گرفتار کر لیا۔ ۱۱ ستمبر ۱۸۵۷ ء کو دہلی گیٹ پر دوسرے باغیوں کے ساتھ انہیں بھی شہید کر دیا گیا۔ اس طرح وہ شہید ہونے والے پہلے صحافی بن گئے۔

ضلع مرادآباد کے نامور صحافی مہدی حسین زیدی جادو رقم

                تاریخی شہر سنبھل کو یہ بلند مرتبہ حاصل ہے کہ یہاں مختلف اوقات میں مختلف شعبوں میں عظیم شخصیات نے کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ سنبھل کی تاریخی اہمیت کسی سے منفی نہیں ہیاس شہر کو بابر، ہمایوں ، اکبر ،لودھی وغیرہ بادشاہوں نے عظمت بخشی تو وہیں دوسری طرف شاہ حاتم جیسے عالم، جاں نشین داغ باغ سنبھل کی ڈاکٹر عندلیب شادانی اور مصور سبزواری جیسے فن شاعری کے استاد شعراء نے بھی سنبھل کو منفرد و بلند و بالا مقام دلایا۔ تقریباً ۸۰ سال قبل سنبھل کے نام کو دنیائے ادب و صحافت میں بلند و بالا مقام تک پہنچانے والی شخصیت سید مہدی حسین زیدی تھے۔ جن کی بے مثال قلمی کاوشوں کے سبب انہیں ’’جادو رقم‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

                سید مہدی حسین جادو رقم ۱۸۷۱ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے (ماخذ انجمن ترقی اردو پاکستان کے ماہنامہ ’قومی زبان،  کراچی‘‘ شمارہ ستمبر ۱۹۸۳ ء مضمون از ڈاکٹر سعادت علی صدیقی) انکے والد آگرہ میں پولس میں تھے اور نام منشی شاد حسین قادری تھا۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت حسین ابن علیؓ سے ملتا ہے ان کے اجداد عرب سے ہجرت کر کے کرمان فارس ، غور تک پہنچے۔ 1193ء میں سلطان شہاب الدین غوری کے لشکر کے ساتھ ہندوستان آ گئے اور دہلی میں مقیم ہوئے۔ بعد میں سلطان ناصر الدین کے عہد میں سنبھل کے محلہ کوٹ غربی میں آ کر بس گئے۔ مہدی حسین زیدی کی تعلیم و تربیت یہاں کے اہم اساتذہ نے کی۔

                سید حسین زیدی کو صحافت سے گہرا شغف تھا۔ انہوں نے 1927ء میں ایک ہفت روزہ اخبار ’’المہدی‘‘ جاری کیا جو کہ مسلسل 15 سال بڑی آب و تاب کے ساتھ نکلتا رہا۔ انہوں نے تفریحی اخبار ’’پنج بہادر‘‘ کے نام سے بھی نکالا جو کہ اس وقت روہیلکھنڈ کا واحد مزاحیہ اخبار تھا جس میں مزاحیہ کلام اور ظریفانہ تحریریں افسانے وغیرہ شائع ہوتے تھے۔ سید مہدی حسن زیدی پختہ کار صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر، شگفتہ نگار ادیب، با صلاحیت انسان اور ماہر طبیب بھی تھے۔

                مہدی حسین صاحب مختلف شہروں کی مختلف تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔ سادات پریس کے مالک ’’مسلم گزٹ سنبھل‘‘ اور ’’ مرقع ‘‘کے نگراں کی حیثیت سے اردو زبان و ادب صحافت اور کتابت و طباعت کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دئے۔ اپنی اردو صحافتی خدمات کو انجام دیتے ہوئے وہ 22ستمبر1941ء کو دنیا سے کو الوداع کہہ کر گئے۔ مرحوم کے انتقال کے بعد 15فروری 1942ء کو ’’المہدی‘‘ ’’جادو رقم نمبر‘‘ بھی نکلا جس میں اس وقت کے نامور اہل قلم نے انہیں اپنا خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ انہیں مختلف ریاستوں سے اعزاز بھی ملے تھے۔

صوفی انبا پرساد

                ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی جنگ صحافت کے ذریعہ لڑنے والے جانباز صحافی صوفی انبا پرساد کی پیدائش ۱۸۵۸ء میں مرادآباد کے قانون گویان محلہ میں ہوئی تھی۔ جہاں انہوں نے ۱۸۷۸ء میں چھاپا خانہ لگا یا تھا۔ بعد میں ۸۲۔ ۱۸۸۱ء میں ’’ تنتر پربھا کر‘‘ نام سے ہفت روزہ ہندی اور اردو زبان میں اخبار نکالا۔ انہوں نے ۱۸۸۷ء میں ’’ستار ہند‘‘ کے نام سے اخبار نکالا۔

                عظیم مجاہد آزادی سید محبوب حسین کے دادا محمد حسین کی صحبت میں آپ تصوّف سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے ۱۸۹۰ء میں اپنے چھاپے خانے سے ’’جامع العلوم‘‘ ہفت روزہ اخبار نکالا انہیں انگریز حکومت کے خلاف لکھنے کے لئے جیل بھی جانا پڑا۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ لالا لاجپت رائے کے اخبار ’’پیسا‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو گئے۔ آپ نے اپنی قلم کی طاقت سے انگریزوں کی ناک میں دم کئے رکھا۔ بعد میں انہوں نے نام بدل کر بھی لکھنا جاری رکھا۔ گرفتاری کے بعد آپکو ایران کی جیل بھیج دیا گیا جہاں آپکی موت ہو گئیَ۔

قاضی سید جمشید علی جم

                قاضی سید علی جمشید جم ولد قاضی سید علی ولایت علی کی پیدائش ۱۸۱۶ء میں ہوئی۔ آپ نے ۱۸۴۰ء میں ’’بلند اخبار‘‘ و ’’جام جم‘‘ اردو ہفت روزہ کی ادارت اور اشاعت کا کام بہ خوبی سنبھالا۔ اردو اور فارسی کے ماہر تھے ان کا انتقال ۱۹۰۶ء میں ہو گیا۔

قاضی عبد العلی عابد

                قاضی جمشید علی کے بیٹے قاضی عبد العلی کی پیدائش ۱۸۵۳ء کو ہوئی تھی۔ ۸ جون ۱۹۰۳ء سے ہفت روزہ ’’مخبر عالم‘‘ کی ادارت و اشاعت انجام دی۔ اس سے قبل ۱۸۸۲ء میں ’’جام جمشید‘‘ اور ’’روہیلکھنڈ  پنچ ‘‘ کی بھی ادارت کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’’بلند اخبار‘‘ اور ’’عین الاخبار‘‘ میں کام کیا۔ ۱۳ نومبر ۱۹۴۳ء کو  ۹۰ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

 

ایس ابن علی

                ایس ابن علی نے ۱۸۹۰ء میں ’’نیرّ عالم‘‘ اور ہفت روزہ اردو کی ادارت اور  اشاعت کا کام انجام دیا۔ یہ اخبار مسلسل ۱۹۳۶ء تک نکلتا رہا۔

منی دیو شرما

                مجاہد آزادی منی دیو کی پیدائش  ۱۹۱۴ء میں ہوئی تھی۔ بی اے پاس کرنے کے بعد صحافت میں داخلہ لیا اور ’’ومل اخبار‘‘ اردو کی ادارت اور اشاعت شروع کی۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۲ء تک ضلع بورڈ (موجودہ ضلع  پنچایت) کے مسلسل چیرمین رہے۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۸۰ء  تک  ودھان  پریشد کے ممبر رہے۔ گرامودے انٹر کالج گنگیشوری کے بانی اور منیجر رہے۔ ۲ دسمبر ۱۹۸۰ء کا انتقال ہو گیا۔

شرافت حسین مائل صدیقی

                شرافت حسین مائل صدیقی ولد محمد اسحاق نے انٹر پاس کرنے کے بعد ’’صدائے حق اردو‘‘ کی اشاعت شروع کی۔ انہوں نے ہندی میں ’’ہماری بھاشا‘‘ اخبار بھی نکالا۔ وہ مرادآباد کچہری میں پیٹیشن رائٹر تھے۔ تقریباً ۷۰ سال کی عمر تک اخبار نکالتے رہے۔

ڈاکٹر شبیر احمد عرف ڈاکٹر رامو

                ڈاکٹر شبیر احمد عرف ڈاکٹر رامو کی پیدائش ۱۸۴۲ء میں ہوئی۔ آپکے والد ڈاکٹر جمّا علاقہ کے مشہور ڈاکٹر تھے جن کی وجہ سے طب انہیں وراثت میں ملی تھی۔ حالانکہ تعلیم محض انٹر تک ہی ہوئی۔ ۲۷ اپریل۱۸۷۳ء سے اردو اور ہندی ہفت روزہ ’’کمل چھایا‘‘ کی اشاعت کی۔ تیز ترّار اور جو جھارو صحافی کہلانے والے ڈاکٹر  رامو نے ایڈ منسٹریشن سے سماج تک برائیوں کو حتم کرنے کی مہم چلائی۔ ۳۰/جنوری ۱۹۳۷ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

مولانا عمر دراز بیگ

                مولانا عمر دراز بیگ کی پیدائش جامع مسجد روڈ مرادآباد کے مولانا اسمٰعیل بیگ کے گھر ہوئی تھی۔ آپ نے مولوی کی تعلیم حاصل کر کے دور نوجوانی میں ہی اردو روزنامہ ’’جدت‘‘ نکالنا شروع کر دیا تھا۔ ’’حرمین‘‘ نامی جریدے کی ادارت و اشاعت بھی کی۔ جنگ آزادی میں بھی پیش پیش رہے۔ ۱۹۸۷ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔

رادھا کرشن پوربی

                رادھا کرشن پوربی کی پیدائش ۵ دسمبر ۱۹۱۰ء کو شرینگر کشمیر کے کشمیری پنڈت گھرانے میں ہوئی۔ ہائی اسکول کرنے کے بعد ہی آزادی کی جنگ میں شامل ہو گئے۔ انہیں زمانہ طالب علمی سے ہی صحافت سے گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے ۱۹۴۲ء سے آزادی تک شرینگر سے شائع ہونے والے ’’سدھار‘‘ اور ’’نشات‘‘ اخبارات کے ذریعہ برطانیہ حکومت کے خلاف جم کر مہم چلائی۔ کشمیر پر پاکستان کے حملے کے بعد وہ پہلے پنجاب چلے گئے اور وہاں سے ۱۹۵۳ء میں مرادآباد آ گئے۔ یہاں انہوں نے ’’ہمالیہ‘‘ اور اردو ’’سنسار‘‘، اخبارات کی اشاعت شروع کی۔ انہوں نے مرادآباد میں [L:8] ضلع پترکار سنگھ بھی تشکیل دیا۔ مختلف تنظیموں نے انہیں اعزاز سے نوازا اور مختلف تنظیموں سے وابستہ بھی رہے۔

سید شیدا علی

                سید شیدا علی کی پیدائش ۱۸۹۰ء میں ہوئی۔ والد یاد علی کے حکم پر ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ ۲!جنوری ۱۹۳۰ء سے ’’حکومت‘‘ ہفت روزہ ہندی اور اردو زبان میں نکالنا شروع کیا۔ اس اخبار کی مقبولیت بہت ہوئی۔ آزادی کی جنگ میں بھی شرکت کی۔

’’حکومت‘‘ میں اس وقت کے نامور کالم نگاروں نے کالم لکھے۔ ۷!اپریل ۱۹۸۰ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

چودھری سبطِ حسن

                چودھری سبط حسن کی پیدائش ۱۹۵۸ء میں ہوئی آپکے والد کا نام چودھری ابن حسن تھا۔ ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ مالی حالات خراب ہونے کے سبب پرائیویٹ نوکری بھی کرنی پڑی۔ ڈاکٹر رامو اور حبیب اختر قادری کی صحبت میں صحافت سے وابستگی اختیار کی۔ انہوں نے ’’ندائے ایشیاء‘‘ کے نام سے اردو ہفت روزہ نکالا۔ ۲۲٬دسمبر ۱۹۹۳ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

 

سرفراز الدین صدیقی

                سرفراز الدین صدیقی کی پیدائش دسمبر ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔ قادری پریس کے نام سے والد عبد المجید قادری چھاپا خانہ چلاتے تھے۔ سرفراز الدین نے ایم ایس سی کمیسٹری مضمون کے ساتھ مکمل کی۔ صحافت سے دلچسپی کے چلتے ۱۹۷۱ء میں ’’رانا پریس‘‘ لگائی۔ اور ۱۹۷۳ء میں ’’محافظ قوم‘‘ کے نام سے اخبار نکالا۔ ۱۹۸۴ء سے اردو میں روز نامہ ’’گرج‘‘ کی اشاعت شروع کی جو کہ بہت مقبول ہوا اور اس کا ۱۹۹۰ء میں سہارنپور سے بھی ایڈیشن نکلا۔ انہیں کئی ایوارڈ بھی ملے۔ ۴!اکتوبر ۱۹۹۷ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

اخبارات و کتابیات (جن سے مد د لی گئی)

(۱) قومی آواز ضمیمہ (۱۸ جون ۱۹۸۹ء)

(۲)संयुक्त आवास हिन्दी साप्ताहिक, मई 2003

(۳) راشٹریہ سہارا اردو روز نامہ( ۲!جون ۲۰۰۶ء دہلی ایڈیشن)

(۴) راشٹریہ سہارا اردو روز نامہ( ۱۲/جون ۲۰۰۶ء دہلی ایڈیشن)

(۵) راشٹریہ سہارا اردو روز نامہ( ۹!جولائی ۲۰۰۷ء دہلی ایڈیشن)

(۶)मीडिया लेखन, डॉ० विजय कुलश्रेष्ठ

(۷) ہندوستانی پریس از نادر علی خاں ( یو پی اردو اکادمی)

(۸) عاشق پبلک لائبریری میں موجود اخبارات وغیرہ

***

مصنف کے تشکر اور  اجازت کے ساتھ، جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید