FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

   غلطیوں کی اِصلاح    کا   نَبوی طریقِ کار

 

 

 

عَلامَہ مُحمّد صَالح المنجد // ترجمہ و تفہیم: عطَا اللہ ساجد

 

 

 

 

الحَمدُللہِ ربِّ العَالمِین، الرَّحمٰنِ الرَّحیم، مالکِ یَوم الدِّین، الٰہ الاوَّ لین وَالآخِرین، وَقَیُّومِ السَّمَاواتِ وَالا رضین، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ علی نبیِّہِ الاَمِین، مُعَلِّمِ الخَلقِ المَبعوثِ رحمۃ للعَالمین۔۔۔۔اَمَّابَعد:

 

لوگوں کو دین کی باتیں بتانا اور دین کی تعلیم دینا بہت بڑی نیکی ہے، جس سے نہ صرف تعلیم دینے والے کو فائدہ پہنچا ہے، بلکہ اس کی خیر و برکت ہر خاص و عام نہ صرف تعلیم دینے والے کو فائدہ پہنچتا ہے، بلکہ اس کی خیر و برکت ہر خاص و عام تک پہنچتی ہے۔ پھر یہ عمل انبیاء ورسل کی وہ میراث ہے جس میں سے تبلیغ و تربیت کا فریضہ انجام دینے والے ہر شخص کو حصہ نصیب ہوا ہے۔

"لوگوں کو نیکی کی تعلیم دینے والے پر اللہ بھی رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے، بلکہ آسمان و زمین میں رہنے والی تمام مخلوقات اسے دعائیں دیتی ہیں، حتیٰ کہ بل میں موجود چیونٹی بھی اور مچھلی بھی اس کے لئے دُعا کرتی ہے”۔(سنن ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العباد، ح:۲۶۸۵۔ امام ترمذی اور علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔)

تعلیم کے بہت سے طریقے اور مختلف ذرائع ہیں۔ ان میں "غلطی کی اصلاح” بھی شامل ہے۔ اصلاح، تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔

غلطیوں کی اصلاح اُس "خیر خواہی” میں شامل ہے جو ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کا "اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر” کے فریضہ سے گہرا تعلق ہے، جس ی وضاحت کی ضرورت نہیں۔

علاوہ ازیں وحی الہٰی میں بھی غلطیوں کی اصلاح پائی جاتی ہے اور یہ قرآنی طریقہ کار ہے، کیونکہ قرآن مجید میں اوامر و نواہی بھی نازل ہوئے ہیں، اس میں بعض امور کو سابقہ حالت پر برقرار بھی رکھا گیا ہے، بعض امور کی تردید کی گئی ہے اور غلطیوں کی اصلاح بھی کی گئی ہے، حتیٰ کہ اگر نبی اکرمﷺ سے بھی کوئی لاف اولیٰ بات ہو گئی ہے تو قرآن مجید میں اس پر تنبیہ نازل ہو گئی ہے۔ مثلاً اللہ تعالی نے فرمایا:

عبَسَ وَتَوَلَّىٰ ،أَن جَاءَہُ الْأَعْمَىٰ،وَمَا یُدْرِیكَ لَعَلَّہُ یَزَّكَّىٰ،أَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنفَعَہُ الذِّكْرَىٰ،أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ،فَأَنتَ لَہُ تَصَدَّىٰ،وَمَا عَلَیْكَ أَلَّا یَزَّكَّىٰ ،وَأَمَّا مَن جَاءَكَ یَسْعَىٰ،وَہُوَ یَخْشَىٰ ،فَأَنتَ عَنْہُ تَلَہَّىٰ(عبس:۱۔۱۰)

"(محمدﷺ) ترش رو ہوئے اور منہ پھر بیٹھے، کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا، آپ کو کیا معلوم شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا، یا نصیحت قبول کرتا تو اُسے نصیحت سے فائدہ پہنچتا۔ جو پروا نہیں کرتا، آپ اس کی طرف توجہ کرتے ہیں، حالانکہ اگر وہ پاکیزگی حاصل نہ کرے تو آپ پر کچھ (الزام)نہیں، اور جو آپ کے پاس دوڑتا ہوا آیا، اور وہ (اللہ سے) ڈرتا ہے،    اُ س سے آپ بے رخی برتتے ہیں۔”

اور فرمایا:

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْہِ أَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّہَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّہُ مُبْدِیہِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّہُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاہُ(الاحزاب:۳۷)

"جب آپ اُس شخص سے فرما رہے تھے جس پر اللہ نے احسان کیا، اور آپ نے بھی احسان کیا، (فرماتے تھے) اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر، اور آپ اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا، اور آپ لوگوں سے ڈرتے تھے، حالانکہ الہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ آپ اُس سے ڈریں۔”

اور فرمایا:

مَا كَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَكُونَ لَہُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ ۚ تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللَّہُ یُرِیدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّہُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ(الانفال: ۶۷)

"پیغمبر کو شایاں نہیں کہ اُس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک وہ (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں خون نہ بہا لے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو، اور اللہ آخرت(کی بھلائی) چاہتا ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔”

اور فرمایا:

یْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ(آل عمران:۱۲۸)

"(اے نبیﷺ) اِس کام میں آپ کو کچھ اختیار نہیں۔(اب دو صورتیں ہیں) یا اللہ ان پر مہربانی کرے یا انہیں عذاب دے کہ وہ ظالم لوگ ہیں۔”

بعض اوقات کسی صحابی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تو اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے اس کی وضاحت فرمائی۔ قرآن مجید میں اس طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔مثلاً حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ سے ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی کہ انہوں نے قریش کے نام خط لکھ دیا کہ نبی اکرمﷺ ان پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا:

یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْہِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِی سَبِیلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی ۚ تُسِرُّونَ إِلَیْہِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن یَفْعَلْہُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ(المُمتحنۃ:۱)

"اے مؤمنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔ تم چھپ کر ان سے دوستی (کرے کی کوشش) کرتے ہو، حالانکہ وہ اس دین حق سے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے، وہ رسول کو اور تمہیں صرف اس لئے(وطن سے) نکالتے ہیں کہ تم اپنے مالک اللہ پر ایمان لائے ہو۔ اور مجھے کوب معلوم ہے جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو کچھ علی الاعلان کرتے ہو۔ اور تم میں سے جو شخص یہ کام(کافروں سے دوستی) کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔”

اسی طرح غزوہ اُحد میں جب تیر انداز صحابہ کرامؓ نے وہ جگہ چھوڑ دی جہاں نبیﷺ نے انہیں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا تو یہ فرمانِ الہٰی نازل ہوا:

حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنكُم مَّن یُرِیدُ الْآخِرَةَ(آل عمران:۱۵۲)

"حتیٰ کہ تمہیں اللہ نے وہ کچھ دکھا دیا جو تم پسند کرتے تھے، اس کے بعد تم نے ہمت ہار دی ، اور (نبی کے) حکم کے بارے میں اختلاف کرنے لگے، تم میں بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض آخرت کے طالب تھے۔”

جب نبی اکرمﷺ نے تادیب کے طور پر ازواج مطہراتؓ سے الگ قیام فرمایا تو بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آنحضرتﷺ نے ازواجِ مطہرات کو طلاق دے دی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

وَإِذَا جَاءَہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِہِ ۖ وَلَوْ رَدُّوہُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِی الْأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ(النساء:۸۳)

"اور جب اُن کے پاس امن یا جنگ کی کوئی خبر پہنچی ہے تو اسے (بلا تحقیق) مشہور کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ اس کو رسول(ﷺ) کے پاس اور اپنے میں سے ذمہ دار حضرات کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے۔”

بعض مسلمانوں نے بغیر کسی شرعی عذر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کی تو اللہ تعالی نے یہ فرمان نازل کیا:

إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِی أَنفُسِہِمْ قَالُوا فِیمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّہِ وَاسِعَةً فَتُہَاجِرُوا فِیہَا (النساء:۹۷)

"جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم زمین میں عاجز اور کمزور تھے۔ وہ کہتے ہیں: کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟”

جب منافقوں نے حضرت عائشہؓ کے بارے میں افواہ پھیلائی جس سے اُمّ المؤمنینؓ کا دامن پاک تھا، تو بعض مسلمانوں نے بھی منافقوں کے بہکاوے میں آ کر زمان سے نامناسب الفاظ نکالے۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں:

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِی مَا أَفَضْتُمْ فِیہِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ،إِذْ تَلَقَّوْنَہُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاہِكُم مَّا لَیْسَ لَكُم بِہِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَہُ ہَیِّنًا وَہُوَ عِندَ اللَّہِ عَظِیمٌ(النُّور:۱۴۔۱۵)

"اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات کا تم چرچا کرتے تھے اس کی وجہ سے تم پر ایک بڑا عذاب نازل ہو جاتا۔ جب تم اپنی زبانوں سے اس کا ایک دوسرے سے ذکر کرتے تھے اور اپنے منہ سے ایسی بات کہتے تھے جس کا تمہیں علم نہ تھا، اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بھاری بات تھی۔”

اس کے بعد فرمایا:

وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُم مَّا یَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِہَٰذَا سُبْحَانَكَ ہَٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیمٌ ،یَعِظُكُمُ اللَّہُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِہِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ(النُّور:۱۶۔۱۷)

"جب تم نے اسے سنا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ایسی بات زبان پر لائیں۔ (اے اللہ) تُو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مؤمن ہو تو دوبارہ کبھی ایسا کام نہ کرنا۔”

ایک بار نبی اکرمﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا۔ بحث کے دوران ان کی آوازیں کچھ بلند ہو گئیں۔ اس پر یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں:

یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّہَ ۚ إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ،یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ كَجَہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ(الحُجُرات: ۱۔۲)

"اے مؤمنو! (اپنی بات کو)اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھاؤ، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔ اے مؤمنو! نبی(ﷺ) کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو، اور اُن سے اس طرح بلند آواز سے بات نہ کرو جس طرح ایک دوسرے سے بلند آواز سے بات کر لیتے ہو، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں احساس بھی نہ ہو۔”

ایک دفعہ جناب رسول اللہﷺ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک تجارتی قافلہ آگیا۔ بعض لوگوں نے خطبہ چھوڑ دیا اور تجارتی سامان کی خرید و فروخت کے لئے چلے گئے۔ اس پر یہ فرمانِ الہٰی نزل ہوا:

وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَہْوًا انفَضُّوا إِلَیْہَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّہُ خَیْرُ الرَّازِقِینَ(الجُمُعۃ:۱۱)

"جب وہ تجارت یا کھیل تماشے کی چیز دیکھتے ہیں تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر اُدھر چلے جاتے ہیں۔ کہہ دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تماشے اور تجارت سے بہتر ہے۔ اور اللہ بہتر رزق دیتے والا ہے۔”

اس قسم کی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جن غلطیوں کی اصلاح اور خاموش رہنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

جناب رسول اللہﷺ کی عملی زندگی سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ اللہ کے نازل کردہ نور کی روشنی میں بُرائی کی روک ٹوک اور غلطی کی اصلاح کے اسی طریق کار پر عمل پیرا رہے، اور آپﷺ نے اس کام میں کسی قسم کی سُستی سے کام نہیں لیا۔ اسی قسم کے دلائل سے علماء کرام نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ:”نبیﷺ کے حق میں بیان اور وضاحت کو ضرورت کے وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں۔”

نبی اکرمﷺ کی زندگی جن افراد کے درمیان گزری، ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کے بارے میں آنحضرتﷺ کا طرز عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل تھی، اور آپﷺ کے اقوال و افعال کی تائید یا تصحیح وحی کے ذریعے ہوتی رہتی تھی۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اختیار کردہ اسالیب زیادہ محکم اور زیادہ مفید ہیں۔ ان کے استعمال سے یہ امید زیادہ ہے کہ لوگ اصلاح کرنے والے کی بات مان لیں۔ تربیت کا فریضہ انجام دینے والا کوئی بھی فرد اگر ان طریقوں اور اسالیب پر عمل پیرا ہو تو اس کا یہ عمل زیادہ صحیح اور بہتر ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ نبی اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے، اس لئے نبوی طریق کار اور اسالیب پر عمل کرنے سے آنحضرتﷺ کی اقتداء کا شرف بھی حاصل ہو جاتا ہے اور اخلاص کی موجودگی میں یہ چیز اجر و ثواب کے حصول کا باعث ہے۔

نبوی طریق کار کا مطالعہ کرنےسے دنیا میں پائے جانے والے متعدد اسالیب کی ناکامی اور غلطی واضح ہو جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر اسلوب تو واضح طور پر غلط ہیں اور ان کی بنیاد غلط نظریات پر رکھی گئی ہے، مثلاً بے قید آزادی کا نظریہ۔۔۔۔۔ یا وہ نسل درنسل منتقل ہونے والے غلط خیالات پر مبنی ہوتے ہیں، مثلاً آباء و اجداد کی اندھی تقلید۔

یہاں یہ اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس نبوی منہج کو عملی طور پر اختیار کرتے ہوئے بہت حد تک اجتہاد سے کام لینا پڑتا ہے، تا کہ حالات و واقعات اور نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اسلوب زیادہ مناسب معلوم ہو وہی کام میں لایا جائے۔ اور فقیہانہ نظر رکھنے والا شخص ملتے جلتے حالات و کیفیات پر گہری نظر ڈال کر مناسب اسلوب کا انتخاب کرسکتا ہے۔

اِس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ آنحضرتﷺ کا واسطہ جن افراد سے تھا اور جن حضرات کے درمیان آپﷺ کی زندگی گزری، ان کے مقام و مرتبہ کے فرق اور ذہن و فکر کے اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے،آنحضرتﷺ نے ان کی غلطیوں کے بارے میں جو مختلف انداز کا رویہ اختیار کیا، ان اسالیب کو جمع کیا جائے، اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالی مجھے اور میرے مسلمان بھائیوں کو توفیق دے، فائدہ پہنچانے اور صحیح بات کی طرف راہنما ئی فرمائے۔ یہ سب کچھ اُسی کے قبضہ قدرت میں ہے، اور وہی سیدھی راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

   غلطیوں کی اصلاح کے موقع پر پیش نظر رکھے جانے والے بعض امور

اصل موضوع پر بات شروع کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ بعض ایسی باتیں بیان کر دی جائیں جن کا دوسروں کی غلطیوں کی اصلاح کرنے سے پہلے اور اصلاح کے دوران خیال رکھنا ضروری ہے:

 

1) اخلاص

 

جب کسی کی غلطی کی اصلاح کا ارادہ کیا جائے تو ضروری ہے کہ اس عمل سے مقصود اللہ کی رضا کا حصول ہو، کسی سے برتری کی خواہش نہ ہو، نہ کسی پر اپنا غصہ نکالنے کا جذبہ کارفرما ہو، نہ یہ کوشش ہو کہ عوام کی نظروں میں کوئی مقام حاصل ہو جائے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ نے ایک تابعی حضرت شفی اصبحی کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ وہ مدینہ منورہ پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک بزرگ کے ارد گرد جمع ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ تو لوگوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول ابو ہریرہؓ ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ لوگوں کو احادیث نبویہ سنا کر وعظ کر رہے تھے۔ میں آہستہ آہستہ قریب ہوتے ہوتے آپؓ کے سامنے جا بیٹھا۔ جب وہ وعظ سے فارغ ہوئے اور لوگ اٹھ کر جانے لگے تو مین نے عرض کیا: میں آپؓ کو حق کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ آپ مجھے ایسی کوئی حدیث سنائیں جو آپ نے جناب رسول اللہﷺ سے برہ راست سنی اور سمجھی ہو اور آپ کو اچھی طرح یاد ہو۔ ابو ہریرہؓ نے فرمایا: "ہاں، میں سناؤں گا، میں ایسی ہی حدیث سناؤں گا جو رسول اللہﷺ نے مجھے سنائی، اور میں نے اسے سمجھا اور یاد کیا”۔ پھر اچانک ان کی حالت غیر ہو گئی، تھوڑی دیر بعد حواس بجا ہوئے تو فرمایا:”میں آپ کو ضرور وہ حدیث سناؤں گا جو رسول اللہﷺ نے مجھے اس گھر میں سنائی تھی، اس وقت آنحضرتﷺ کے پاس میرے سوا کوئی نہیں تھا”۔ اس کے بعد پھر حضرت ابو ہریرہؓ کی حالت خراب ہو گئی اور آپؓ چہرے کے بل جھک گئے ، میں نے بہت دیر تک آپؓ کو سہارا دیئے رکھا۔ تب آپؓ کی حالت سنبھلی تو فرمایا: مجھے جناب رسول اللہﷺ نے یہ حدیث سنائی کہ:

"جب قیامت کا دن ہو گا اللہ تعالی بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے زمین پر تشریف فرما ہوں گے۔ ہر جماعت گھٹنوں کے بل جھلی ہوئی ہو گی۔ سب سے پہلے اللہ تعالی جن اشخاص کو بلائیں گے، ان میں سے ایک وہ آدمی ہو گا جس نے قرآن پاک یاد کیا ہو گا، اور ایک وہ آدمی ہو گا جو اللہ کی راہ میں جنگ کرتا رہا ہو گا اور ایک بہت مال دار آدمی ہو گا۔ اللہ تعالی قرآن کے عالم سے فرمائیں گے: کیا میں نے تجھے وہ کتاب نہیں سکھائی تھی جو میں نے اپنے رسول پر نازل کی تھی؟ وہ ہے گا: جی ہاں، یا رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: پھر تو نے اپنے علم پر کیسے عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں رات دن اس میں مشغول رہتا تھا۔ اللہ تعالی فرمائیں گے: تو نے جھوٹ کہا، اور فرشتے اسے کہیں گے: تو نے جھوٹ کہا ۔ اللہ تعالی فرمائیں گے: تیری نیت تو یہی تھی کہ کہا جائے فلاں آدمی (بڑا) قاری اور عالم ہے۔ وہ (دنیا میں) کہا جا چکا ہے۔ اسی طرح صاحب ثروت شخص کو حاضر کیا جائے گا، اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے: کیا میں تجھے (مالی) آسودگی نہیں بخشی تھی حتیٰ کہ میں نے تجھے کسی کا محتاج نہ رہنے دیا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، یا رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: پھر تو نے میرے دیئے ہوئے مال کا کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں رشتہ داروں پر احسان کرتا تھا اور(سب ضرورت مندوں پر) صدقہ کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تو جھوٹا ہے۔ فرشتے بھی کہیں گے: تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالی فرمائیں گے: تو یہ چاہتا تھا کہ لوگ کہیں: فلاں بہت سخی ہے وہ (دنیا میں) کہا جا چکا۔ اسی طرح اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے: تجھے کس لئے قتل کیا گیا؟ وہ کہے گا: مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم ملا، تو میں جنگ کرتا رہا حتیٰ کہ مجھے قتل کر دیا گیا۔ اللہ تعالی اسے فرمائیں گے: تو جھوٹا ہے۔ فرشتے بھی اسے کہیں گے: تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالی فرمائیں گے: بلکہ تیری خواہش صرف یہ تھی کہ کہا جائے: فلاں بہت بہادر ہے۔ وہ کہا جا چکا”۔ اس کے بعد جناب رسول اللہﷺ نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا:” ابو ہریرہ! یہ تین شخص ہیں، جو قیامت کے دن تمام مخلوقات میں سب سے پہلے جہنم میں جھونکے جائیں گے”۔

اگر نصیحت کرنے والے کی نیت صحیح ہو تو اسے ثواب بھی ملے گا، اور اللہ کے حکم سے بات میں اثر بھی پیدا ہو گا اور سننے والے اس کی بات مانیں گے۔

 

2) غلطی فطری چیز ہے

 

(کُلُّ بَنِی آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیرُ الخَطَّائِینَ التَّوَّابُونَ))

"تمام بنی آدم خطا کار ہیں، اور بہتر خطا کار وہ ہیں جو توبہ کر لیتے ہیں۔”

(سنن الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب ۴۹۔ وسنن ابن ماجۃ، کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ ، ح:۴۲۵۱۔ علامہ البانی نے حدیث کو حسن کہا ہے۔)

یہ ایک واضح حقیقت ہے، اسے یاد رکھنے سے ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ تربت کرنے والے استاد اور واعظ کو افراد سے اعلیٰ ترین مثالی کردار یا معصوم عن الخطا ہونے کی توقع رکھ کر ان کا محاسبہ نہیں کرنا چاہئے ، نہ دوبارہ غلطی ہو جانے پر یا بڑی غلطی سرزد ہو جانے پر ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا درست ہے کہ ان کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ بلکہ ان کے ساتھ حقیقت پر مبنی رویّہ رکھنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہیئے کہ انسان فطری طور پر لاعلمی، غفلت ، نقص، خواہش نفس اور نسیان جیسے عوارض کا شکار ہو جایا کرتا ہے۔

اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ اچانک کوئی غلطی سامنے آ جانے کی صورت میں داعی جذبات میں آ کر توازن سے محروم نہیں ہو جائے ا، ورنہ غلطی کرنے والے کی طرف سے نا مناسب ردِّ عمل پیش آ سکتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے سے نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے منع کرنے والے مبلغ اور استاد کو یہ بات یاد رہے گی کہ وہ خود بھی ایک انسان ہے، اس سے بھی اسی غلطی کا صدور ممکن ہے جو دوسرے شخص نے کی ہے۔ چنانچہ وہ غلطی کرنے والے کے ساتھ سختی کی نسبت نرمی کا معاملہ اختیار کرنے کو ترجیح دے گا، کیونکہ اصل مقصد اصلاح ہے، انتقام یا سزا نہیں۔

لیکن مذکورہ بالا گزارشات کا یہ مطلب نہیں کہ ہم غلطی کرنے والوں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد کی طرف سے یہ معذرت کریں کہ وہ نوجوان ہیں یا ان کا دور گناہوں پر ابھارنے والے عوامل اور فتنوں سے بھر پور ہ، بلکہ بُرائی سے روکنا اور محاسبہ کرنا چاہیئے، لیکن شریعت کی میزان کے مطابق۔

 

3)شرعی دلیل کی بنیاد پر تردید، نہ کہ بغیر علم کے محض جذبات کی بنیاد پر

 

حضرت محمد بن منکدرؒ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت جابرؓ نے صرف ایک چادر اوڑھ کر، اسے سر کے پیچھے گرہ لگا کر نماز پڑھی حالانکہ اس کے کپڑے (قریب ہی) تپائی پر پڑے ہوئے تھے۔ کسی نے کہا:” آپ ایک چادر میں نماز پڑھتے ہیں؟” انہوں نے فرمایا:” میں نے اس لئے یہ کام کیا ہے تا کہ تجھ جیسا احمق دیکھ لے۔ نبی اکرمﷺ کے زمانہ مبارک میں ہم میں سے کس کے پاس دو کپڑے ہوتے تھے؟”(صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب عقد الازار علی القفا فی الصلاۃ، ح352۔)

امام ابن حجرؒ نے فرمایا:” یہاں احمق سے مراد بے علم ہے۔۔۔۔ حضرت جابرؓ کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے، اگر چہ دو کپڑے پہن کر نماز پڑھنا افضل ہے۔ انؓ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ میں نے یہ کام جان بوجھ کر بیان جواز کے مقصد سے کیا ہے، تا کہ بے علم یاویسے ہی میری پیروی کر لے، یا مجھے ٹوکے تو میں اسے بتاؤں کہ یہ جائز ہے۔ انہوں نے کلام میں سختی اختیار فرمائی تاکہ علمائے کرام کو ٹوکنے سے منع فرمائیں، اور اس لئے بھی کہ لوگ شرعی مسائل میں تحقیق کیا کریں”۔(فتح الباری ج1،ص:55(طبع الریان))۔

 

4) غلطی جتنی بڑی ہو، اس کی اصلاح کا اہتمام اتنا ہی زیادہ ہونا چاہیئے

 

چنانچہ جن غلطیوں کا تعلق عقیدہ سے ہے، ان کی اصلاح کا اہتمام آداب وغیرہ سے تعلق رکھنے والی غلطیوں کی نسبت زیادہ ہونا چاہئیے۔ نبی اکرمﷺ نے شرک کی ہر قسم سے تعلق رکھنے والی غلطیوں کر اصلاح کی، کیونکہ شرک سب سے خطرناک چیز ہے۔ ذیل میں چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:

حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ جس دن جناب رسول اللہﷺ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ کی وفات ہوئی، اس دن سورج گرہن تھا۔ بعض لوگوں نے کہا: یہ تو ابراہیمؓ کی وفات کی وجہ سے بے نور ہو گیا ہے۔ اس پر آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:

((اِنَّ الشَّمسَ وَالقَمَرَ آیَتَانِ مِن آیَاتِ اللہِ، لَا یَنکَسِفَانِ لِمَوتِ اَحَد وَلاَ لِحَیَاتِہ، فَاِذَا رَاَیتمُو ھُمَا فَادعُو االلہَ وَصَلُّوا حتَّی یَنضَلِیَ))

"سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، انہیں کسی کے مرنے جینے سے گرہن نہیں لگتا۔ تم جب انہیں گہنا یا ہوا دیکھو تو گرہن ختم ہونے تک اللہ سے دُعا اور نماز میں مشغول رہو”۔صحیح البخاری کتاب الکسوف،بابا لدعاء فی الخسوف، ح:1060۔)

حضرت ابو واقد لیثیؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ جہاد کے لئے حنین تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جو”ذاتِ انواط” کے نام سے معروف تھا۔ وہ لوگ اس پر(برکت حاصل کرنے کے لئے) اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے۔ بعض مسلمانوں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ ! جس طرح ان کا یہ "ذاتَ انواط” ہے اسی طرح ہمارے لئے بھی کوئی درخت مقر فرما دیجئے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((سُبحَانَ اللہِ، ھٰذَا کَماَ قَالَ قَومُ مَوسٰینعَل لَّنَا اِلٰھًاکَمِا لَھُم آلِھَۃٌ۔ وَالَّذِہ نَفسِی بِیَدہ لَتَرکَبُنَّ سُنَّۃَ مَن کَانَ قَبلَکُم))

"سبحان اللہ! یہ تو ایسی ہی بات ہے جس طرح موسٰی علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا:جس طرح اِن لوگوں کے معبود (بُت) ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیجئے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم (مسلمان) ضرور اپنے سے پہلوں(غیر مسلموں) کے طریقوں پر چلو گے”۔

سنن الترمذی، کتاب الفتن، بابماجاء لَتَر کَبُنَّ مَن کان قَبلَکم، ح:2180۔ امام ترمذی اور علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔)

حضرت ابوواقدؓ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ کرامؓ جناب رسول اللہؓ کے ساتھ حنین کی طرف روانہ ہوئے۔ (راستے میں) کافروں کی ایک بیری تھی، وہ اس کے پاس (مجاور بن کر) بیٹھتے اور اس پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ اسے ذاتِ انواط کہا جاتا تھا۔ صحابی ارشاد فرماتے ہیں: ہم ایک بڑی ہری بھری بیری کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: یا رسول اللہﷺ ! ہمارے لئے بھی ایک ذاتِ انواط مقرر فرما دیجئے۔ اس پر جناب رسول اللہﷺنے فرمایا:

((قَلتُم وَالَّذِی نَفسی بِیَدِہ کَمَا قَالَ قَومُ مُوسٰی(اجعَل لَّنَا اِلٰھًا کَمَا لَھُم اٰکِھَۃَّ، قَالَ اِنَّکُم قَومٌ تَجھُلُونَ) اِنَّھَالَسُنَنٌ لَتَر کَبُنَّ سُنَنَ مَن کَانَ قَبلَکُم سُنَّۃً سُنَّۃً))

"قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم نے وہی بات کی ہے جیسے موسٰی علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا:”جس طرح ان لوگوں کے معبود ہیں ہمارے لئے بھی ایک معبود بنا دیجئے۔ موسٰی علیہ السلام نے فرمایا: "تم تو جہالت کی بات کر رہے ہو: یہی تو وہ طور طریقے ہیں، تم گزشتہ اقوام کی ایک ایک رسم اپنا لو گے”۔

(مسند احمد، ج5:ص218)

حضرت زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جناب رسول اللہﷺ نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، رات کو بارش ہوئی تھی، نماز سے فارغ ہو کر آنحضرتﷺ صحابہ کرام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:” کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے کیا فرمایا ہے؟” صحابہ نے عرض کیا: اللہ کو اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” اِس صبح میرا کوئی بندہ مجھ پر ایمان لانے والا بن گیا ، کوئی کفر کرنے والا۔ جس نے تو یہ کہا: ہمیں اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ملی ہے، وہ مجھ پر ایمان رکھنے والا ہے اور ستاروں کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ اور جس نے کہا : فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے، وہ میرے ساتھ کفر کرنے والا اور ستارے پر ایمان رکھنے والا ہے”۔صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب یستقبل الامام الناس اذا سلَّم ،ح:846۔))

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول! جو کچھ اللہ چاہے ، اور جو آپ چاہیں وہی ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” تو نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا؟ بلکہ وہی ہوتا ہے جو اکیلا اللہ چاہے”۔(مسند احمد،ج1،ص:283۔ علامہ شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو ح: 2561۔)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک قافلہ مین حضرت عمرؓ کو اپنے باپ کی قسم کھاتے پاا تو جناب رسول اللہﷺ نے سب لوگوں کو بلند آواز سے مخاطب کر کے فرمایا:

((اَلاَ اِنَّ اللہَ یَنھَا کُم اَن تَجلِفُوا بِآبَا ئِکُم ، فَمَن کَانَ حالِفًا فَلیَحلِف بِاللہِ وَاِلاَّ فَلیَصمُت))

"سنو! اللہ تمہیں اپنے باپوں کی قسمیں کھانے سے منع فرماتا ہے، جسے قسم کھانا ہو وہ اللہ کی قسم کھائے، ورنہ خاموش رہے”۔صحیح البخاری، کتاب الادب، باب74، ح:4108۔)[1]

حضرت ابو شریح ہانی بن یزیدؓ سے روایت ہے ، کچھ لوگ نبی اکرم ۡﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے دیکھا کہ وہ ایک آدمی کہ عبد الحجر (پھر کا غلام) کہہ کر بلاتے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اس سے کہا:”تمہارا نام کیا ہے؟” اس نے کہا: عبد الحجر(پتھر کا بندہ)۔ فرمایا:” تُو عبد اللہ(اللہ کا بندہ ) ہے”۔

(الادب المفرد للامام البخاری،جٍ1،ص:282، باب کنیۃ ابی الحکم ح:811۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔”صحیح الادب المفرد” ح 623۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]: [نوٹ: مسند احمد میں سعد بن عبیدہؓ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں ایک حلقہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے دوسرے حلقہ میں موجود ایک شخص کو کہتے سنا:” میرے باپ کی قسم” ۔ ابن عمرؓ نے اسے کنکریاں ماریں اور فرمایا:” عمرؓ نے یہ قسم کھائی تھی تو نبیؓ نے انہیں منع کیا اور فرمایا: یہ شرک ہے۔”(الفتح الربانی،ج14،ص:164)]

 

 

5) اصلاح کرنے والے کے مقام و مرتبہ کا لحاظ

 

بعض اوقات ایک شخص کی ایسی سختی برداشت کر لی جاتی ہے جو دوسروں کی طرف سے ہو تو برداشت نہیں کی جاتی، کیونکہ اس کو وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو دوسروں کو نہیں ہوتا، یا اس کو وہ اختیار حاصل ہوتا ہے جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوتا۔ مثلاً باپ کو بیٹے پر، استاد کو شاگرد پر، محتسب کو عام آدمی پر وہ اختیار حاصل ہے جو دوسروں کو نہیں ہے۔ اپنے سے بڑی عمر والے سے اس انداز سے بات نہیں کی جاتی جس طرح ہم عمر سے یا چھوٹے سے کی جاتی ہے۔ رشتہ دار اور اجنبی برابر نہیں ۔ صاحب اختیار کی حالت وہ نہیں ہے جو اختیار نہ رکھنے والے کی ہے۔ اس فرق کو پیش نظر رکھ کر اصلاح کرنے والا ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھ سکتا ہے اور معاملات کو صحیح طور پر پرکھ سکتا ہے، تا کہ غلطی سے منع کرنے یا اصلاح کرنے کی کوشش میں اس سے بڑی غلطی پیدا نہ ہو جائے۔ تنبیہ کس درجہ کی ہو اور اس میں سختی یا نرمی کا کیا معیار رکھا جائے، اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ غلطی کتنی بڑی ہے اور غلطی کرنے والے کے دل مین منع کرنے والے کا کیا مقام اور کس درجہ کا رعب و دبدبہ ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے دو امور مستنبط ہوتے ہیں:

اول: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی مقام مرتبہ اور اقتدار و اختیار عطا فرمایا ہے اُس کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور لوگوں کی تربیت کا اکام انجام دے اور اس بات کااحساس کرے کہ اس کی ذمہ داری بہت بڑی ہے، اور لوگ دوسروں کی نسبت اس کی بات زیادہ مان سکتے ہیں اور وہ جو کچھ کرسکتا ہے دوسرے لوگ نہیں کر سکتے۔

دوم: امر و نہی کا فریضہ انجام دینے والے کو چاہیئے کہ اپنے مقام کا غلط اندازہ نہ لگائے، اور خود کو اپنے حقیقی مقام سے بلند تر مقام پر رکھ کر اس انداز سے کام نہ کرے جو اس کے لئے مناسب نہیں ، کیونکہ اس طرح لوگ اس سے دور ہیں گے اور اصل مقصد کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہو گی۔

جناب رسول اللہﷺ کو اللہ تعالی نے جس عظیم مقام سے سرفراز فرمایا تھا اور عام لوگوں کے دلوں میں آپﷺ کی جو ہیبت عطا فرمائی تھی، آنحضرتﷺ تنبیہ اور تربیت میں اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اور بعض اوقات آپﷺ کا طرف عمل ایسا ہوتا تھا کہ اگر کوئی اور شخص وہ انداز اختیار کرے تو اس سے صحیح فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے:

حضرت یعیش بن طھفہ غفاری نے اپنے والدؓ سے روایت کیا ، انہوں نے فرمایا: جو نادار حضرات نبی اکرمﷺ کے مہمان ہوا کرتے تھے(ایک بار)اس میں(شامل ہو کر))میں بھی آنحضرت ﷺ کے ہاں مہمان ہوا۔ آنحضرتﷺ رات کواپنے مہمانوں کی دیکھ بھال کی غرض سے تشریف لائے تو مجھے پیٹ کے بل لیٹے دیکھا۔ آنحضرتﷺ نے مجھے قدم مبارک سے ٹھوکا دیا اور فرمایا” اس انداز سے نہ لیٹو۔ اللہ تعالی اس انداز سے لیٹنے کو نا پسند فرماتے ہیں”۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قدم مبارک سے ٹھوکا دے کر جگایا اور فرمایا: "یہ اہل جہنم کا لیٹنے کا انداز ہے”۔(سنن الترمذی، کتاب الادب، باب ماجاء فی کراھیۃ لاضطجاع علی البطن،ح:2768۔ وسنن ابی داؤد، کتاب الادب، ابتدا میں، ح:5040۔ ومسند احمد ،ج2،ص:287والفتح الربانی،ج14،ص:244۔245۔)

نبی اکرمﷺ کے مقام و مرتبہ کے پیش نظر آنحضرتﷺ کے لئے تو اس انداز سے تنبیہ کرنا بالکل مناسب تھا، لیکن عام آدمی کے لئے اسے اختیار کرنا قطعاً مناسب نہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنے بھائی کو پیٹ کے بل سوئے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ درست نہیں کہ اسے پاؤں کی ٹھوکر مار کر جگا دے، اور پھر یہ امید رکھے کہ وہ اس کی بات مان لے گا اور شکریہ بھی ادا کرے گا۔[1]

ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ اپنے خاص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی اعرابی یا اجنبی کی نسبت زیادہ سختی سے تنبیہ فرماتے تھے۔ اور یہ سب کچھ حکمت میں شامل ہے، اور تنبیہ کرتے وقت حالات کا صحیح اندازہ کرنے کی مثال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]: [اس سے ملتی جلتی مثال غلطی کرنے والے کو پیٹنا یا اسے کنکری مارا ہے۔ بعض صحابہؓ اور تابعین ؒ نے ایسا کیا ہے ۔ ان سب کا دارومدار تنبیہ کرنے والے کے مقام و مرتبہ پر ہے۔ یہاں چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:

حضرت سلیمان بن یسار ؒسے روایت ہے کہ مدینہ میں ایک آدمی آیا۔ اس کا نام صبیع تھا ۔ وہ قرآن مجید کی متشابہ آیات کے بارے میں سوالات کرنے لگا۔ حضرت عمرؓ نے کھجور کی چھڑیا منگوائیں اور اس شخص کو طلب فرما لیا۔ آپؓ نے فرمایا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں اللہ کا بندہ صبیع ہوں۔ حضرت عمرؓ نے ایک چھڑی لے کر اسے پیٹا اور فرمایا: مین اللہ کا بندہ عمر ہوں۔ آپؓ نے اسے اتنا پیٹا کہ اس کے سر سے کون نکل آیا۔ تب اس نے کہا: امیر المومنین ! بس کریں ، میرے سر کی بیماری دور ہو گئی ہے۔(سنن دارمی، تحقیق عبد اللہ بن ہاشم یمانی،ج1،ص51۔حدیث 146)

حضرت ابن ابی لیلٰی ؒ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت حذیفہؓ مدائن میں تھے۔ آپؓ نے پانی طلب فرمایا۔ ایک کسان چاندی کے برتن میں پانی لے آیا۔ آپؓ نے پیالہ اس کے منہ پر دے مارا۔ پھر فرمایا: میں نے اسے اس لیے دے مارا کہ میں نے اسے اس سے منع کیا تھا مگر یہ باز نہیں آیا، جبکہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں باریک اور موٹا ریشم پہننے سے اور سونے چاندی کے برتنوں میں پینے سے منع کیا تھا اور فرمایا تھا” یہ دنیا میں ان (کافروں) کے لیے ہیں اور آخرت میں ہمارے لیے”۔(صحیح البخاری کتاب الشربۃ بابا لشرب فی آنیۃ الفضۃ’ ح: 5432)

مسند احمد کی روایت میں عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ کا یہ واقعہ ان الفاظ میں آیا ہے: میں حضرت حذیفہؓ کے ساتھ کہیں باہر نکلا تو آپؓ نے پانی طلب فرمایا۔ ایک کسان چاندی کے برتن میں پانی لے آیا۔ آپؓ نے برتن اس کے منہ پر دے مارا۔ ابن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں ہم نے ایک دوسرے سے کہا: خاموش رہو۔ اگر ہم نے سوال کیا تو اپؓ ہمیں بات نہیں بتائیں گے۔ کچھ دیر کے بعد آپؓ نے فرمایا : جانتے ہو میں نے پیالہ اس کے منہ پر کیوں دے مارا تھا؟ ہم نے کہا : جی نہیں۔ فرمایا: میں نے اسے منع کیا تھا( لیکن اس نے پھر یہی حرکت کی)۔ اور فرمایا: نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے” سونے کے برتنوں میں نہ پیا کرو”۔ حضرت معاذؓ سے یہی حدیث ان الفاظ میں مروی ہے:” سونے یا چاندی کے برتن میں نہ پیو، نہ باریک یا موٹا ریشم پہنو، یہ چیزیں دنیا میں ان (کافروں) کے لئے ہیں اور آخرت میں تمہارے لئے”۔(مسند احمد ج5،ص396)۔

امام بخاری ؒ نے روایت کیا ہے کہ حضرت سیرین ؒ نے حضرت انسؓ سے مکاتب کی درخواست کی۔ حضرت انسؓ صاحب ثروت تھے، تاہم انہوں نے یہ درخواست قبول نہ کی ۔ سیرین ؒ نے حضرت عمرؓ کو جا بتایا۔ حضرت عمرؓ نے حضر انسؓ سے فرمایا: اس سے مکاتبت کر لو۔ انسؓ نے انکار کیا، تو عمرؓ نے انہیں کو ڑا مارا، اور یہ آیت پڑھی:(فَکَاتِبو ھُم اِن عَلِمتُم فِیھِم خَیرًا)”اگر تمہیں ان غلاموں میں خیر نظر آئے تو ان سے مکاتبت کر لیا کرو” ۔ چنانچہ انسؓ نے مکاتبت کر لی۔(فتح الباری ج5،ص184)

امام نسائی ؒ نے روایت کی ہے کہ حضرت ابو سید خدریؓ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک مروانؓ کا ایک بیٹا ان کے سامنے سے گزرنے لگا۔ انہوں نے (اشارے سے) روکا، وہ نہ رکا، انہوں نے اسے مارا۔ بچہ رونے لگا ور مروانؓ کو جا کر بتایا۔ مروانؓ نے ابو سعیدؓ سے کہا : آپ نے اپنے بھتیجے کو کیوں مارا؟ انہوں نے فرمایا: میں نے اسے نہیں مارا میں نے شیطان کو مارا ہے۔ میں نے جناب رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا :” جب کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سانے سے کوئی انسان گزرنا چاہے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے، اگر نہ رکے تو اس سے لڑے، وہ شیطان ہے”۔ (سنن النسائی، کتاب القسامۃ باب۴۷، ح4877، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو صحیح سنن النسائی ح4518۔)

حضرت ابو النضرؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدریؓ کی ٹانگ میں تکلیف تھی۔ وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر لیٹ گئے۔ ان کے بھائیؓ تشریف لائے، (انہیں اس طرح لیٹے دیکھا تو ) ان کی دکھتی ٹانگ پر ہاتھ مارا جس سے انہیں تکلیف ہوئی ۔ انہوں نے کہا: آپ نے میری ٹانگ کو تکلیف پہنچائی ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ دکھتی ہے؟ فرمایا: ہاں (معلوم تھا)۔ انہوں نے کہا: پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ جناب رسول اللہﷺ نے اس(طرح لیٹنے) سے منع فرمایا ہے۔(مسند احمد،ج3،ص4)

حضرت ابو زبیر مکیؒ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے سے اس کی بہن کا رشتہ مانگا ۔ لڑکی کے بھائی نے(بات چیت کے دوران) ذکر کر دیا کہ لڑکی سے ناجائز تعلق کی غلطی سرزد ہو چکی ہے۔ حضرت عمرؓ کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے اس شخص (لڑکی کے بھائی) کو پیٹا، یا سختی سے سرزنش کی۔ اور فرمایا : تو نے یہ بات کیوں بتائی؟(موطا امام مالک، حدیث1553، روایت ابو مصعب زہری)

حضرت ابو اسحاقؒ نے فرمایا: میں بڑی مسجد میں حضر ت اسود بن یزید کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ امام شعبیؒ بھی تھے۔ شعبی نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ والی حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے اسے رہائش اور خرچ نہیں دلوایا تھا۔ حضرت اسود نے کچھ کنکریاں پکڑ کر شعبی کو ماریں اور فرمایا: تم یہ حدیث بیان کرتے ہو حالانکہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا: ہم ایک عورت کی وجہ سے اللہ کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت نہیں چھوڑ سکتے۔ معلوم نہیں، اس خاتون کو واقعہ یاد بھی رہا ہے یا نہیں۔ بلکہ (تین طلاق والی) عورت کو (عدت کے دوران) رہائش اور خرش ملے گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:(لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَن یَأْتِینَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ)”عورتوں کو ان کے گھروں سے مت نکالو، نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ واضح بے حیائی کی مرتکب ہوں”(صحیح مسلم، ح:1480)

امام ابو داؤد نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ دو آدمی کندہ کے دروازوں کی طرف سے آئے ۔ ابو مسعود انصاریؓ ایک حلقہ میں تشریف فرما تھے۔ ان دونوں آدمیوں نے کہا: ہے کوئی شخص جو ہمارے درمیان فیصلہ کرے؟ حلقہ میں موجود ایک شخص بولا: میں کرتا ہوں۔ حضرت ابو مسعودؓ نے ہاتھ میں کنکریاں پکڑ کر اسے دے ماریں اور فرمایا:” رُک جاؤ، صحابہ کرامؓ اس طرح جلدی سے منصف بن جانا پسند نہیں کرتے”۔(سنن ابوداؤد، کتاب الافضیۃ، باب فی طلب القضاء والتسر عالیہ، ح: 3577)]

 

6) مسئلہ سے لاعلم اور جانتے بوجھتے غلطی کرنے والے میں فرق کرنا

 

اس کی ایک واضح مثال حضرت معاویہ بن حکم سلمیؓ کا واقعہ ہے۔ وہ صحرائی زندگی گزارنے والے آدمی تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ نماز کے دوران بات چیت کرنا حرام ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

"میں جناب رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک نمازی کو چھینک آ گئی ۔ میں نے (نماز کے دوران ہی) کہہ دیا:” یرحمک اللہ” صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مجھے گھور کر دیکھا تو میں نے کہا: ہائے میں مر جاؤں! تم لوگ میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مار کر مجھے خاموش کرانا چاہا۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو (میرا جی چاہا کہ انہیں جواب دوں) لیکن (اپنے آپ پر ضبط کر کے) میں خاموش ہو گیا۔ جب رسول اللہﷺ نے نماز مکمل کر لی تو۔۔۔۔ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان، میں نے کوئی معلم آنحضرتﷺ سے بہتر انداز سے تعلیم دینے والا نہیں دیکھا۔۔۔ اللہ کی قسم ، حضور علیہ السلام نے نہ مجھے جھڑکا، نہ مارا، نہ برا بھلا کہا، بس یہ فرمایا: ((اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلاَۃَ لاَ یَصلحُ فِیھَا شَی ءٌ مِن کَلَامِ النَّاس ، اِنَّمَا ھُوَالتَّسبِیِحُ وَالتَّکبیرُ وَقِرَاءَ ۃُ القُرآنِ)) "اس نماز میں لوگوں والی باتیں کرنا درست نہیں، اس میں تو تسبیح و تکبیر اور تلاوت ہوتی ہے”۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب تحریم الکلام فی الصلاۃ،ح:537۔)

یعنی جاہل کو تعلیم دینے کی ضرورت ہوتی ہے، جسے کوئی شبہ یا غلط فہمی ہو اسے مسئلہ کی وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے، غافل کو یاد دہانی چاہیئے،اور غلطی پر اصرار کرنے والے کو نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا کہ مسئلہ سے واقف اور نا واقف کو ایک ہی انداز سے تنبیہ کی جائے۔ بلکہ جاہل پر سختی کرنے سے عام طور پر اس کے دل میں نفرت اور انکار کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگر پہلے حکمت کے ساتھ نرمی سے سمجھایا جائے تو ایسا نہیں ہوتا۔ مسئلہ سے ناواقف شخص اپنے آپ کو غلطی پر تصور نہیں کر رہا ہوتا، لہٰذا جب اس پر تنقید کی جاتی ہے تو وہ گویا زبان حال سے کہہ رہا ہوتا ہے : بھائی ! مجھ پر حملہ کرنے سے پہلے مجھے مسئلہ تو بتایا ہوتا۔

بعض اوقات غلطی کرنے والا غیر شعوری طور پر درست راہ سے ہٹ گیا ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات وہ خود کو صحیح راستے پر تصور کر رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس چیز کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔ مسند احمد میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے کھانا تناول فرمایا۔ پھر نماز کی اقامت ہوئی تو آنحضرتﷺ نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے اس سے پہلے وضو کیا ہوا تھا، لیکن میں(دوبارہ) وضو کے لئے انی لے آیا۔ حضور علیہ السلام نے مجھے جھڑک دیا۔ فرمایا:”پیچھے رہو” ۔ مجھے اس سے بہت تکلیف ہوئی۔ نماز کے بعد میں نے حضرت عمرؓ کو یہ بات بتائی۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مغیرہؓ آپ کی سرزنش کی وجہ سے بہت دلگیر ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ آپ کے دل میں ان سے ناراضگی تو نہیں ۔ نبیﷺ نے فرمایا:” میرے دل میں تو اس کے لئے اچھے جذبات ہی ہیں، لیکن وہ میرے پاس وضو کے لئے پانی لے آیا تھا ، حالانکہ میں نے صرف کھانا کھایا تھا۔ اگر میں وضو کرتا تو میری اتباع میں سب لوگ (کھانا کھا کر) وضو کیا کرتے(جس سے امت کے لئے مشقت ہوتی)”۔(مسند احمد ج4،ص253)

یہاں یہ امر ملحوظ رہنا چاہیئے کہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عظیم مقام پر فائز تھے ہ آنحضرتﷺ کے انہیں غلطی پر متنبہ کرنے سے ان کے دلوں میں کوئی نا پسندیدگی یا ذہنی بعد جیسے منفی اثرات پیدا ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا ان پر مثبت اثر ہوتا تھا۔ چنانچہ اگر آنحضرتﷺ ان میں سے کسی سے عدم التفات کا اظہار فرماتے تھے تو وہ اپنے آپ و قصور وار تصور کرتا ا ور ڈرا سہما رہتا تھا۔ وہ اس وقت تک بہت پریشان رہتا تھا جب تک اسے یقین نہ ہو جاتا کہ آنحضرتﷺ کی ناراضگی دور ہو چکی ہے۔

اس واقعہ میں یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جب مغیرہؓ پر عتاب فرمایاتو اس کی وجہ حضرت مغیرہؓ کی شخصیت سے ناراضگی نہیں، بلکہ آنحضرت ۡﷺ کی عام مسلمانوں پر شفقت اور مسئلہ کی وضاحت تھی، تا کہ وہ غیر واجب کو واجب سمجھ کر مشکل میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

شاگرد او رپیرو کار کے دل میں استاد اور قائد کا مقام بہت بلند ہوتا ہے، لہٰذا جب وہ کسی شاگرد یا پیرو کار کو تنبیہ کرتا ہے یا اس کے کسی کام کو غلط قرار دیتا ہے تو اس کے دل میں اس کا بہت اثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات تربیت کا فریضہ انجام دینے والا شخص عام لوگوں کے فائدہ کے پیش نظر اپنے کسی ساتھی کو تنبیہ کرتا ہے اور مقصود دوسرے لوگوں سے متعلق کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے دل میں منفی اثر باقی رہنے دیا جائے بلکہ دوسرے طریقوں سے اس کا تدارک ہونا چاہیئے تا کہ وہ اثر ختم ہو جائے۔ مثلاً پیروکار کسی مناسب طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار کرسکتا ہے اگرچہ کسی کے واسطہ سے ہی ہو۔ جیسے حضرت مغیرہؓ نے حضرت عمرؓ کے ذریعہ اپنے جذبات آنحضرتﷺ تک پہنچائے۔ اس کے جواب میں قائد کی طرف سے موقف کی وضاحت کر کے یہ واضح کیا جانا چاہیئے کہ وہ اس سے حسن ظن رکھتا ہے اور اس کے دل میں اس کا ایک مقام ہے۔

 

7) اجتہاد کی بناء پر ہونے والی غلطی میں اور جان بوجھ کریا غفلت اور کوتاہی سے ہونے والی غلطی میں فرق ہے

 

پہلی قسم کی غلطی کا مرتکب تو یقیناً ملامت کا مستحق نہیں، بلکہ وہ اپنے اخلاص و اجتہاد کی بنا پر ثواب پائے گا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((اِذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجتَھَدَ فَاَ صَابَ فَلَہَ اَجرَانِ، وَاِذَا حَکَمَ فَاَخطَاَ فَلَہُ اَجرٌ وَاحدٌ))

"فیصلہ کرنے والا جب فیصلہ کرنے وقت اجتہاد کرے اور اس کا اجتہاد صحیح ہو جائے تو اس دوگنا ثواب ملے گا اور اگر اس سے فیصلہ میں غلطی ہو گئی تو اسے اکہرا ثواب ملے گا۔”

(سنن الترمذی۔ کتاب الاحکام، باب فی القاضی یصیب ویخطی، ح 1326، ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ صحیح البخاری ح 6919، و صحیح مسلم ح 1716۔)

اس کے برعکس جو شخص جان بوجھ کر غلطی کرے یا غلطی میں خود اس کی کوتاہی کا دخل ہو تو اس کا یہ حکم نہیں۔ پہلے آدمی سے خیر خواہی کا سلوک کرتے ہوئے اسے صحیح مسئلہ بتایا جائے گا، دوسرے کو وعظ و نصیحت کر کے غلطی سے روکا جائے گا۔ وہ اجتہاد جس میں غلطی کرنے والے کو معذور قرار دیا جا سکتا ہے، اس کی شرط یہ ہے کہ اجتہاد کرنے والا اس کا اہل ہو اور اس پر عمل ہوسکتا ہو، اس کے برعکس جو شخص بغیر علم کے فتویٰ دیتا ہے یا لوگوں کے حالات کی رعایت نہیں کرتا ، اس کا اجتہاد درست نہیں۔ اسی لئے زخمی شخص کو غسل کا فتویٰ دینے والے صحابہ کرام کو آنحضرتﷺ نے سختی سے تنبیہ فرمائی تھی۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:

” ہم لوگ سفر میں تھے، ہم میں سے ایک صاحب کو پتھر لگا جس سے ان کےسرمیں زخم آگیا۔ اس کے بعد انہیں نیند میں نہانے کی حاجت ہو گئی ۔ انہوں نے اپنے ہم سفر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مسئلہ پوچھا اور کہا: کیا آپ کے علم کے مطابق میرے لئے تیمم کرنا جائز ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے خیال میں تو آپ کو یہ اجازت حاصل نہیں، کیونکہ پانی موجود ہے۔ چنانچہ انہوں نے غسل کیا جس کے نتیجے میں وہ فوت ہو گئے۔ جب ہم آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے تو یہ واقعہ بھی عرض کیا گیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:(( قَتَلُوہَ قَتَلھُمَ اللہُ اَلاَ ساَلو ااِذ لَم یَعلمُوا؟ فَاِنَّمَا شِفَاءُ العَیِّ السُّوَالُ)) "انہوں نے اسے قتل کر دیا، اللہ انہیں قتل کرے! اگر نہیں معلوم نہیں تھا تو انہو نے (کسی صاحبِ علم سے) پوچھ کیوں نہ لیا؟ کیونکہ لاعلمی کا علاج سوال کرنا ہے”۔(سنن ابی داود، کتاب الطھارۃ، باب المجدوح یتمم ح336۔ علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح ابی داود، ح 325۔)

اسی طرح رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا ہے:

((القُضاۃُ ثَلاثَۃ’ واحِدفِی الجَنَّۃِ وَاثنانِ فِی النَّار’ فَاَمَّاالَّذِی فِی الجَنَّۃِ فرجل عرَفَ الحَقَّ فَقَضٰی بِہ ورَجل عرَفَ الحقَّ فجَارَفِی الحُکُمِ فھوفیِ النَّار’ ورَ جل قَضٰی لِلنَّاسِ علٰی جھل فھو فِی النَّار))

"فیصلہ کرنے والے تین طرح کے ہیں ، ان میں سے ایک جنّتی ہے اور دو جہنمی ہیں۔ جنت میں تو وہ جائ گا جس نے حق کو سمجھ کر اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ البتہ جس نے حق کو سمجھ لیا، پھر غلط فیصلہ کیا، وہ جہنم میں جائے گا۔ اسی طرح جس نے حق کو سمجھے بغیر بے علمی کے باوجود فیصلہ کر دیا وہ بھی جہنم میں جائے گا۔”

(سنن ابی داؤد، کتاب القضیۃ، باب فی القاضی یخطیء، ح:3583، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (ارواء الغلیل ح:2164)

اس حدیث میں آپﷺ نے اس تیسری قسم کے آدمی کو معذور قرار نہیں دیا۔ تنبیہ میں شدت کا درجہ متعین کرنے میں جن امور کا دخل ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس ماحول کو مد نظر رکھا جائے جس میں غلطی کا صدر ہوا ہے۔ مثلاً اس ماحول میں اکثر لوگ سنُت پر عمل کرنے والے ہیں یا بدعت کا رواج ہے۔ اور اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ اس ماحول میں وہ غلطی کتنی عام ہے، یا اس کے جواب کا فتوی ٰ دینے والا کوئی نام نہاد یا متساہل عالم تو موجود نہیں جس کے علم پر اس غلطی کا ارتکاب کرنے والا اعتماد کرتا ہو۔

 

8) غلطی کرنے والے کی خیر خواہی ، تنبیہ کرنے سے رکاوٹ نہیں بن سکتی

 

حضرت عمر بن یحییٰ ؒ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے اپنے والد سے سنا ، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ہم لوگ صبح کی نماز سے پہلے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی دیوڑھی پر(انتظار میں) بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جب وہ گھر سے باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد میں جاتے۔(ایک دن) ہمارے پاس حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ تشریف لائے اور فرمایا: کیا ابھی تک ابو عبد الرحمٰن (ابن مسعودؓ) باہر نہیں آئے؟ ہم نے ہا: جی نہیں۔ وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے حتیٰ کہ وہ باہر تشریف لے آئے۔جب وہ آئے تو ہم سب اکھٹے ہی اُٹھ کر ان کے پاس پہنچ گئے۔ ابو موسیٰؓ نے کہا: ابو عبد الرحمٰن ! میں نے ابھی ابھی مسجد میں ایک کام دیکھا ہے جو مجھے عجیب سا محسوس ہوا ہے، ویسے الحمدللہ میں نے اچھی چیز ہی دیکھی ہے۔ ابن مسعودؓ نے کہا: وہ کام کیا ہے؟ انہوں نے کہا: زندگی رہی تو عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے۔ پھر فرمایا: میں نے مسجد میں کچھ لوگ نماز کے انتظار میں حلقے بنا کر بیٹھے دیکھے ہیں، ان کے سامنے کنکریاں پڑی ہیں، پر حلقہ میں ایک آدمی ہے، وہ کہتا ہے،سو بار اللہ اکبر پڑھو، وہ سو بار اللہ اکبر کہتے ہیں۔ پھر کہتا ہے: سو بار لاَاِلٰہَ اِلاَّاللہُ کہو، وہ سو بارلاَاِلٰہَ اِلاَّاللہُ کہتے ہیں۔ پھر کہتا ہے۔ سو بار سبحان اللہ کہو، وہ سو بار سبحان اللہ کہتے ہیں(اسی طرح ذکر میں مشغول ہیں)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: پھر آپ نے انہیں کیا کہا؟ انہوں نے کہا: میں نے کچھ نہیں کہا، بلکہ آپ کی رائے اور حکم کا انتظار کیا۔ انہوں نے فرمایا: آپ نے انہیں یہ حکم کیوں نہ دیا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں، اور انہیں یہ ضمانت کیوں نہ دی کہ ان کی کوئی نیکی ضائع نہیں ہو گی؟

اس کے بعد وہ(مسجد کی طرف) چل پڑے۔ ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ چلے۔ حتیٰ کہ آپ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس جا کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں یہ کیا کرتے دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: اے ابو عبد الرحمٰن! یہ کنکریاں ہیں ، ہم ان کے ساتھ گن کر تکبیر، تہلیل اور تسبیح کرتے ہیں۔ ابن مسعودؓ نے فرمایا:” اپنے گناہ شمار کرو، میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہو گی۔ اے محمدﷺ کی امت! تم پر افسوس ہے، کتنی جلدی تم ہلاکت کے راستے پر چل پڑے ہو، ابھی تو تمہارے نبیﷺ کے صحابہ بکثرت موجود ہیں، ابھی تو آنحضرتﷺ کے کپڑے بھی نہیں پھٹے، ابھی تو آنحضرتﷺ کے برتن بھی نہیں ٹوٹے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تم محمدﷺ کے راستے سے بھی زیادہ ہدایت والے راستے پر ہو، یا گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو”۔ انہوں نے کہا: ابو عبد الرحمٰن ! اللہ کی قسم ہمارا ارادہ تو صرف نیکی کا ہے۔ فرمایا: "بہت سے لوگ نیکی کا ارادہ رکھتے ہیں لکن انہیں نیکی تک پہنچنا نصیب نہیں ہوتا ، جناب رسول اللہﷺ نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ کچھ لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا(دل پر قرآن کا کوئی اثر نہیں ہو گا) ۔ اللہ کی قسم! معلوم نہیں شاید ان میں سے اکثر تم لوگ ہو” ۔ یہ کہہ کر ان کے پاس سے چلے آئے۔ حضرت عمرو بن سلمہ ؒ نے فرمایا: ہم نے جنگ نہروان میں دیکھا کہ ذکر کے وہ حلقے قائم کرنے والوں میں سے اکثر افراد خارجیوں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف لڑ رہے تھے”۔

(سنن الدارمی، ج1،ص 68، المقدمۃ، باب فی کراھیۃ اخذالرای ح 210۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح 2005، 11/5۔)

 

9) غلطی پر تنبیہ کرنے میں انصاف اور غیر جانب داری کا خیال رکھنا

 

اللہ تعالی نے فرمایا: (وَاِذَا قُلتُم فَاعدلُوا)(الانعام:152)”جب تم بات کرو تو انصاف کرو”۔ اور فرمایا: (وَاِذَا حَکَمتُم بَینَ النَّاسِ اَن تَحکُموا بَالعَدلِ)(النساء:58) "جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو”۔

حضرت اُسامہ بن زیدؓ وہ شخصیت ہیں جن سے رسول اللہﷺ کو بہت محبت تھی اور ان کے والد سے بھی بہت محبت تھی۔ لیکن اس کے باوجود جب انہوں نے اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرنے کی کوشش کی تو جناب رسول اللہﷺ نے انہیں سختی سے تنبیہ فرمائی۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں فتح مکہ کے ایام میں جس عورت نے چوری کی تھی،اس کے بارے میں خاندانِ قریش کے افراد کو بہت فکر ہوئی(کہ اب اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا)۔ انہوں نے کہا: اس کے بارے میں جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں کون عرض کرے گا؟ تب انہوں نے کہا: یہ جرأت تو صرف اُسامہ بن زیدؓ ہی کرسکتے ہیں جو رسول اللہﷺ کو بہت پیارے ہیں۔ جب اس خاتون کو آنحضرتﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے اس کے بارے میں عرض کیا۔ اس پر جناب رسو اللہﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ (غصے کی وجہ سے) متغیر ہو گیا۔ اور فرمایا: کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں شفاعت کرتا ہے؟” اُسامہؓ نے (اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے)عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لئے اللہ سے مغفرت ی دعا فرمایئے۔

شام کو جناب رسول اللہﷺ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا۔ پہلے اللہ کی شایان شان تعریف فرمائی پھر ارشاد فرمایا:

((اَمَّا بَعدُ ، فاِنَّما اُھلِک الَّذین مِن قَبلِکم اِنَّھُم کَانُوا اِذَا سَرَقَ فِیھمُ الشَّریفُ ترَکُوہُ وَاذا سَرَقَ فِیھمُ الضَّعیفُ اَقَا مُوا عَلیہِ الحَدَّ، وَاِنَّی وَالَّذی نَفسِی بِیَدِہ لَو اَنَّ فاطمۃَ بنتَ مُحُمَّد سَرَقَت لَقَطَعتَ یَدٰھَا))

"اللہ کی حمد و ثنا کے بعد واضح ہو کہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے تباہ ہوئے کہ ان مین جب کوئی اونچا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے، اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کر لیتا تھا تو اس پر حد نافذ کر دیتے تھے۔ مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈیتا۔”

پھر آپﷺ نے اس چوری کرنے والی عورت کے بارے میں حکم دیا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔(صحیح البخاری، کتاب النبیاء، باب 54، ح: 3288و صحیح مسلم، کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف وغیرہ ح:1688۔)

نسائی کی روایت کے مطابق حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ایک عورت نے معروف لوگوں کے نام لے کر کچھ زیر عاریت کے طور پر حاصل کئے، وہ خود غیر معروف تھی۔ اس نے وہ زیور بیچ کر رقم حاصل کر لی۔ اسے رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کے گھر والوں نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ سے رابطہ کیا۔ حضرت اُسامہؓ نے رسول اللہﷺ سے بات کی تو آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپﷺ نے فرمایا:” کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے؟”۔ اُسامہؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے لئے بخشش کی دُعا کیجئے۔

اسی شام کو رسول اللہﷺ نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ پھر فرمایا:

((اَمَّا بَعدُ ، فاِنَّما اُھلِک الناسُ قَبلِکم اِنَّھُم کَانُوا اِذَا سَرَقَ الشَّریفُ فِیھمُ ترَکُوہُ وَاذا سَرَق َا لضَّعیفُ فِیھمُ اَقَا مُوا عَلیہِ الحَدَّ،وَالَّذی نَفسِی بِیَدِہ لَو اَنَّ فاطمۃَ بنتَ مُحُمَّد سَرَقَت لَقَطَعتَ یَدٰھَا))

"اما بعد ، تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ ان میں جب کوئی اونچا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا”۔

اس کے بعد اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔(سنن نسائی، کتاب قطع السارق، باب6، ح:4913۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح سنن النسائی ح 4548۔)

حضرت اُسامہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺ کے رویہّ سے آپﷺ کا عدل و انصاف ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی نظر میں شریعت انسانوں کی محبت سے بالا مقام کی حامل تھی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان اس شخص کو تو معاف کرسکتا ہے جس کی غلطی کا تعلق اس کی ذات سے ہو، لیکن جس کی غلطی کا تعلق شریعت کے احکام سے ہو اسے نہ معاف کرسکتا ہے نہ اس سے نرمی کر سکتا ہے۔

بعض لوگ اپنے دوست یا رشتہ دار کی غلطی پر اس شدت سے تنقید نہیں کرتے جس طرح کسی اجنبی کی غلطی پر کرتے ہیں، اور بعض اوقات اس بنیاد پر معاملات میں واضح طور پر خلافِ شریعت حد تک جانب داری اور امتیاز نظر آتا ہے، بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے دوست کی غلطی کو نظر انداز کر دیتا ہے، جب کہ دوسرے کی غلطی پر سخت رویَہ اپنا تا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے:

وَعَینُ الرِّضَا عَن کُلِّ عِین کَلِیلَۃٌ

ولَکِنَّ عَینَ السُّخطِ تُبدِی المَسَاوِیَا

"خوشنودی کی آنکھ کو کوئی عیب نظر نہیں آتا، لیکن ناراضگی کی آنکھ بُرائیاں ہی ظاہر کرتی ہے”۔​

یہی کیفیت اس موقعہ پر نظر آتی ہے جب ہم دوسروں کے کسی عمل کا مقام متعین کرتے ہیں۔مثلاً ایک شخص جس سے ہمیں محبت ہے، اس سے ایک فعل سرزد ہوتا ہے تو ہم اس کا ایک اچھا محمل تلاش کر لیتے ہیں، اور وہی فعل کسی اور سے سرزد ہوتا ہے تو ہم اسے کسی اور چیز پر محمول کر لیتے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام باتیں اس صورت میں ہیں جب حالات ایک جیسے ہوں، ورنہ بعض دوسرے امور کے پیش نظر بظاہر ایک جیسے دو معاملوں میں مختلف طرز عمل اختیار کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ آئندہ سطور میں بیان ہو گا۔

 

10) ایک غلطی کی اصلاح کے نتیجہ میں بڑی غلطی وجود میں نہ آجائے

 

شریعت کا یہ قاعدہ معروف ہے کہ بڑی بُرائی کو دور کرنے کے لئے چھوٹی بُرائی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اصلاح کرنے والے کو بعض اوقات ایک غلطی پر خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے تا کہ اس سے بڑی غلطی کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ منافق کفر پر قائم ہیں، اس کے باوجود آپﷺ خاموش رہے اور اُن کی طرف سے دی جانے والی تکلیفوں پر صبر کرتے رہے، تا کہ لوگ یہ نہ سمجھٰن کہ محمدﷺ اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ اور خاص طور پر اس لئے بھی حضورﷺ خاموش رہے کہ عام لوگ ان منافقین کی حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ اسی طرح آنحضرتﷺ نے کعبہ شریف کو ابراہیم علیہ السلام کی مقرر کردہ بنیادوں پر تعمیر کرنے کے لئے اسے گرانے سے صرف اس لئے اجتناب کیا کہ قریش کے اکثر لوگ حال ہی میں اسلام میں داخل ہوئے تھے اور آنحضرتﷺ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ ان کی سمجھ میں اس کی حکمت نہیں آئے گی۔ اس لئے عمارت کو اسی طرح رہنے دیا،حالانکہ وہ اصل ابراہیمی تعمیر سے رقبہ میں کم تھی، اس کا دروازہ بھی اونچا بنا دیا گیا تھا اور عام لوگ کعبہ میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ سب امور ایسے تھے جیسے نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ اس سے پہلے اللہ تعالی نے مشرکین کے باطل معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا تھا۔۔۔۔ حالانکہ یہ ایک نیک کام ہے۔۔۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں مشرکین اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرسکتے تھے، جو سب سے بڑی برائی ہے۔ بعض اوقات داعی ایک بُرائی کو دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہے، یا اس پر تنقید کو وقتی طور پر مؤخر کر دیتا ہے، یا اس سے منع کرنے کا طریق کار تبدیل کر دیتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح ایک بڑی غلطی یا گناہ کا سدِّباب ہوسکتا ہے۔ اِس اقدام کو کوتاہی یا پسپائی کا نام نہیں دیا جا سکتا، بشرطیکہ اس کی نیت درست ہو اور اس کے دل میں کسی کی ملامت کا خوف نہ ہو، اور وہ بزدلی کی وجہ سے نہیں بلکہ دین کی مصلحت کے لئے اس سے رُکا ہو۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایک غلطی سے منع کرتے ہوئے اس سے بڑی غلطی کے ارتکاب کی ایک وجہ ایسا جوش بھی ہے جس کے ساتھ حکمت کو مدِّ نظر نہ رکھا گیا ہو۔

 

11) غلطی کرنے والے کی فطری کمزوری کا احساس

 

بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا،کیونکہ ان کا تعلق کسی فطری معاملہ سے ہوتا ہے، البتہ ان غلطیوں کو کم یا ہلکا کیا جا سکتا ہے، کیونکہ زیادہ باریک بینی کے نتیجے میں کوئی حادثہ بھی پیش آسکتا ہے، جیسے کہ عورت کا معاملہ ہے، جس کے بارے میں ارشاد نبویﷺ ہے: ((اِنَّ المَرءَ ۃَ خُلِقَت مِن ضِلَع، لَن تَّستقیمَ لکَ علیٰ طریقۃِِ، فَاِنِ ستَمتَعتَ بِھَا وَبِھَا عِوَجٌ، وَاِن ذَھَبتَ نُقیِمھَا کَسَر تَھَا، وَکَسرُھَا طَلاَقُھَا))”عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے، وہ کسی طرح بھی(مکمل طور پر) سیدھی نہیں ہوسکتی، اگر تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کجی کی موجودگی میں ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ بیٹھے گا۔ اس کے ٹوٹنے سے مراد طلاق ہے۔” (صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء،ح:1468)

ایک دوسری روایت میں ہے: ((اِستَو صُوا بِالنَّسَاءِ خَیرًا، فَاِنَّھُنَّ خُلِقنَ مِن ضِلَع، وَاِنَّ اَعوَجَ شَی ءِ فِی الضِّلَعِ اَعلَاہُ، فَاِن ذَھَبتَ تُقِیمُہُ کَسَرتَہُ، وَاِن تَرَ کتَہُ لَم یَزَل اَعوَِج، فَاستَو صُو ابِالنِّسَاءِ خَیرًا))”میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا ، کیونکہ عورتوں کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے، اور پسلی اوپر کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اگر تُو اس کو سیدھا کرنا چاہے گا تو اسے توڑ ڈالے گا، اور اگر رہنے دے گا تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔” (صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء، ح: 4890)

امام ابن حجرؒ نے فرمایا: ” فرمان نبویﷺ ” عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا” میں یہ اشارہ ہے کہ نرمی سے سیدھا کیا جائے، اس میں نہ تو اتنی شدت برتی جائے کہ ٹوٹنے (طلاق) تک نوبت پہنچ جائے، نہ اسے ویسے ہی رہنے دے کہ وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے فطری نقص سے زیادہ ٹیڑھی ہو جائے یعنی کسی گناہ کا ارتکاب کرے یا کسی فرض کو ترک کرے تو اسے اتنی کجی کی حامل نہیں رہنے دینا چاہیئے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جائز کاموں میں اس کی کجی برداشت کرے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تالیف قلب کے لئے لوگوں سے نرمی کا سلوک کرنا چاہیئے۔ اس میں عورتوں سے بہتر سلوک کی ہدایت بھی ہے کہ ان کی غلطیوں کو معاف کیا جائے اور ان کی کجی پر صبر کیا جائے، اور جو شخص انہیں بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا وہ ان سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جائے گا، حالانکہ انسان کو ایک عورت کی ضرورت بہر حال ہوتی ہے، تا کہ اس سے تسکین حاصل ہو اور زندگی بسر کرنے میں اس کی مدد حاصل رہے۔ گویا کہ آنحضرتﷺ یوں فرما رہے ہیں: اس سے فائدہ صرف اسی صورت میں اٹھایا جا سکتا ہے جب اس کی کوتاہیوں پر صبر کیا جائے۔”(فتح الباری۱۶۲/۹ طبع الریان۔)

 

12) دین کی مخالفت اور کسی کی ذات پر حملہ میں فرق ہے

 

چونکہ ہماری نظر میں ہمارے دین کی قدر و قیمت ہماری ذات اور شخصیت کی قیمت سے کہیں بڑھ کر ہے، اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کی حمایت و دفاع میں اپنی شخصیت کے دفاع کی نسبت زیادہ غیرت کا مظاہرہ کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک شخص کو گالی دی جاتی ہے تو اسے غصہ آتا ہے لیکن جب دین کی توہین یا مخالفت کی جاتی ہے تو اسے یا تو غصہ آتا ہی نہیں، یا وہ جواب دیتا بھی ہے تو بڑے کمزور لہجے میں شرماتے اور جھجکتے ہوئے بات کرتا ہے۔ یہ دینی غیرت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپﷺ اپنی ذاتِ اقدس سے متعلق دوسروں کی غلطیوں سے اکثر چشم پوشی فرماتے تھے، خصوصاً جاہل بدّوؤں کی تالیفِ قلب کے لئے ان کی نامناسب حرکتیں معاف فرما دیتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت اَنس بن مالکؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:” میں جناب رسول اللہﷺ کے ساتھ چلا جا رہا تھا، آنحضرتﷺ نے موٹے کنارے والی نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ ایک بدّو پیچھے سے آیا اور آپﷺ کی چادر مبارک پکڑ کر اسے زور سے کھینچا ۔ میں نے دیکھا اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے آنحضرتﷺ کی گردن مبارک پر چادر کے کنارہ کی رگڑ سے نشان پڑ گیا۔ پھر وہ بولا: یا محمد! آپ کے پاس اللہ کا جو مال ہے اس میں سے مجھے بھی دلوایئے۔ جناب رسول اللہﷺ نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور ہنس دیئے، پھر اسے کچھ مال دلوایا:۔(صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب البرود الحبر والشملۃ،ح: 5809)

البتہ اگر غلطی کا تعلق دین سے ہوتا تو نبی اکرمﷺ اللہ کی خاطر غضب ظاہر فرماتے تھے۔ اس کی مثالیں آگے آئیں گی۔

 

   پیش نظر رکھے جانے والے بعض دیگر امور

 

غلطیوں کے بارے میں ہمارے رویہّ میں کچھ اور چیزوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً:

۔بڑی غلطی اور چھوٹی غلطیوں میں امتیاز کریں۔ خود شریعت نے بھی کبیرہ گناہوں اور صغیرہ گناہوں کو ایک درجہ میں نہیں رکھا۔

۔گناہ کے عادی شخص اور شاندار ماضی والے ایسے انسان کے درمیان فرق ہوتا ہے جس کی غلطی اس کی عظیم نیکیوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ماضی میں کارنامے انجام دینے والے شخص کی ایسی بات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے جو اگر کوئی اور کرے تو نظر انداز نہیں کی جاتی۔ اس کی وضاحت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس واقعہ سے ہوسکتی ہے۔

حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم لوگ جناب رسول اللہﷺ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوئے ۔ جب ہم مقام "عرج” پر پہنچے تو رسول اللہﷺ نے پڑاؤ ڈالا۔ ہم بھی سواریوں سے اتر آئے۔ حضرت عائشہؓ جناب رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھی تھیں۔ میں اپنے والد محترمؓ کے پاس بیٹھ گئی۔ جناب رسول اللہﷺ اور ابو بکر صدیقؓ دونوں کا سامان ایک ہی اونٹ پر تھا، جو حضرت ابو بکرؓ کے ایک غلام کی ذمہ داری میں تھا۔ حضرت ابو بکرؓ بیٹھ کر اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ (کچھ دیر بعد) غلام آ پہنچا لیکن اونٹ اس کے ساتھ نہیں تھا۔ ابو بکرؓ نے غلام سے فرمایا:” ایک اونٹ بھی تجھ سے گم ہو گیا؟” اور اسے مارنے لگے۔ رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایا، اور ارشاد فرمایا:” ان احرام والے(حاجی صاحب) کو دیکھو، کیا کر رہے ہیں؟” اب ابی رزمہؓ نے فرمایا:” جناب رسول اللہﷺ صرف یہی بات فرماتے رہے:” دیکھو یہ حاجی صاحب کیا کر رہے ہیں” اور مسکراتے رہے۔(سنن ابوداؤد، کتاب المناسک، باب المحرم یؤدب غلامہ ،ح:1818-علامہ البانی نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داود ، ح:1602)

۔ بار بار غلطی کرنے والے اور پہل بار غلطی کرنے والے میں فرق ملحوظ رکھا جائے۔

۔ یکے بعد دیگرے غلطی کا ارتکاب کرنے والے میں اور طویل عرصہ بعد دوبارہ غلطی کرنے والے میں فرق کا خیال کیا جائے۔

۔ سرعام غلطی کرنے والے اور چھپ کر وہی غلطی کرنے والے میں فرق مدّ نظر رکھا جائے۔

۔ جس شخص کا ایمان کمزور ہر اور اس کی تالیفِ قلب کی ضرورت ہو، اس پر سختی نہ کی جائے۔

۔ غلطی کرنے والے کے مقام و مرتبہ کو پیش نظر رکھا جائے۔ان امور کو ملحوظ خاطر رکھنا اس عدل کے منافی نہیں جس کا کچھ پہلے ذکر ہوا۔

۔ بچے کو غلطی پر تنبیہ کرتے وقت اس کی عمر کا خیال رکھا جائے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت حسن بن علیؓ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر منہ میں ڈال لی تو نبیﷺ نے فرمایا:”تھو، تھو، تجھے معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ نہیں کھایا کرتے”۔(صحیح البخاری، کتاب الجھادوالسیر، بابا من تکلم بالفارسیۃ ح 3072)

امام طبرانی ؒ نے جناب رسول اللہﷺ کی سوتیلی بیٹی حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؒ سے روایت بیان کی ہے کہ آنحضرتﷺ غسل فرما رہے تھے کہ وہ اندر چلی گئیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے چلو بھر پانی لے کر میرے چہرے پر پھینکا اور فرمایا :”اری ، پیچھے رہ!”(المعجم الکبیر للطبرانی، 281/24۔امام ہیثمی نے اسناد کو حسن کہا ہے۔ المجمع 269/1۔)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلطی کرنے والے کا بچہ ہونا اس کی غلطی کی اصلاح سے مانع نہیں، بلکہ یہ اس کی تربیت کا ایک جزو ہے، کیونکہ بچپن میں سنی ہوئی بات اس کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہے اور مستقبل میں محفوظ رہتی ہے۔ مذکورہ بالا مثالوں میں پہلی حدیث میں یہ سبق ہے کہ بچے کو تقویٰ کی تعلیم دینی چاہیئے اور دوسری حدیث میں یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ بچے کو اجازت لے کر اندر آنے کی عادت ڈالی جائے ور سکھایا جائے کہ چھپانے کے قابل چیزوں کو نہیں دیکھنا چاہیئے۔

اس سلسلے کی ایک خوبصورت مثال چھوٹے بچے حضرت عمر بن ابی سلمہؓ (حضرت زینت بنت ابی سلمہؓ کے بھائی) کی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں جناب رسول اللہﷺ کی کفالت میں تھا۔ (ایک بار آنحضرتﷺ کے ساتھ کھانا کھانے کے دوران) میرا ہاتھ برتن میں گردش کر رہا تھا(کبھی کہیں سے لقمہ لے لیا، کبھی کہیں سے)، جناب رسول اللہﷺ نے مجھے فرمایا: ((یَاغُلام سَمِاللہَ وَکُل بِیَمِیِنِکَ وَکُل مِمَّا یَلِیکَ))”لڑکے! اللہ کا نام لو، سیدھے ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے قریب سے کھاؤ”۔ صحابیؓ فرماتے ہیں:”اس کے بعد سے میں ہمشہ اسی طرح کھانا کھاتا ہوں”۔(صحیح البخاری، کتاب الطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین، ح:532)

۔ اجنبی عورتوں کو غلطی پر ٹوکنے میں احتیاط سے کام لیا جائے، تاکہ اس روک ٹوک کا کوئی غلط مطلب نہ لیا جائے، اور انسان فتنہ میں پڑنے سے محفوظ رہے۔ اس لئے جو ان لڑکے کو ڈھیل نہ دی جائے کہ جوان لڑکی سے بات چیت کرے اور غلطی کی وضاحت، برائی سے ممانعت اور مسئلہ کی تعلیم کا بہانہ بنا لے۔ کیونکہ یہ عمل بہت سے مصائب کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ اس میدان میں زیادہ کردار اُن اداروں کے افراد کو ادا کرنا چاہیئے جن پر بُرائیوں کی روک تھام کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، اور معمر بزرگوں کو ان سے تعاون کرنا چاہیئے۔ نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے والے کو چاہیئے کہ عورتوں سے بات کرنے میں وہ اسلوب اختیار کرے جس کے مفید ہونے کا زیادہ امکان ہو۔ اگر اس کا غالب گمان یہ ہو کہ بات کرنے سے فائدہ ہو گا تو بات کرے، ورنہ خاموش رہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی بد تمیز اپنی غلطی پر اصرار کرتے ہوئے روکنے والے پر کوئی نازیبا الزام لگا دے۔ بُرائی سے منع کرنے اور تبلیغ کے عمل میں معاشرے کا حال اور منع کرنے والے کا مقام اہم کردار ادا کرتا ہ۔ یہ واقعہ پڑھئے:

ابو رُہم ؒ کے آزاد کردہ غلام حضرت عبدؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ کو ایک عورت مسجد کی طرف جاتی نظر آئی جس نے خوشبو لگا رکھی تھی۔ آپؓ نے فرمایا:”جبّار کی بندی! کدھر جا رہی ہے؟” وہ بولی” مسجد میں جا رہی ہوں”۔ فرمایا: کیا اسی لئے خوشبو لگائی ہے؟” اس نے کہا: "جی ہاں”۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا:” میں نے رسول اللہﷺ سے یہ ارشاد مبارک سنا ہے: ((اَیُّمَا امرَءَ ۃِِ تطَیَّبَت ثُمَّ خَرَجَت اِلَیا؛مَسجِدِلَم تُقبَل لَھَا صَلاۃٌ حَتّٰی تَغتَسِلَ))”جو عورت خوشبو لگا کر مسجد کی طرف چلے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی، حتٰی کہ غسل کرے”۔سنن ابنِماجۃ، کتاب الفتن، بابا فتنۃ النساء ،ح: 4002۔علامہ البانی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے(صحیح ابن ماجہ 269/2)

صحیح ابنِ خزیمہ میں یہ واقعہ اِن الفاظ میں بیان ہوا ہے: حضر ت ابو ہریرہؓ کے پاس سے ایک عورت گزری ، اور اس کی خوشبو مہک رہی تھی۔ آپؓ نے اس سے فرمایا:” جبار کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟” اس نے کہا:”مسجد میں”۔ فرمایا:”خوشبو لگا رکھی ہے؟” اس نے کہا:” جی ہاں”۔ فرمایا:”واپش جا کر غسل کرو، میں نے جناب رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایاؒ: ((لاَیَقبِل اللہُ مِنِ امرَءَ ۃِ صَلاَۃً خَرِجَت اِلَی المَسجِدِ وَرِیحُھَا تَعصِفُ حَتّٰی تَر جِعَ فَتَرتَسِلَ))”اللہ تعالی اس عورت کی نماز قبول نہیں کرتا جو مسجد کی طرف اس حال میں جائے کہ اس کی خوشبو مہک رہی ہو، حتیٰ کہ واپس جا کر نہا لے(تاکہ خوشبو کا اثر ختم ہو جائے)”۔(صحیح ابن خزیمۃ 92/3، ح 1282، علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ ومسند احمد 246/2، استاد احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو ح :7350، تحقیق احمد شاکر۔)

۔غلطی کے اثرات مٹانے کی کوشش کرنے کی بجائے اصل غلطی اور اس کے سبب کو دور کیا جائے۔

۔ غلطی کو مبالغہ کے ساتھ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں۔

۔ غلطی کو ثابت کرنے میں تکلف سے کام نہ لیں اور یہ کوشش نہ کریں کہ غلطی کرنے والا اپنی زبان سے اپنی غلطی تسلیم کرے۔

غلطی کی اصلاح کے لئے مناسب حد تک وقت دیں ۔ خاص طور پر ایسے شخص کو اصلاح کا کافی موقع دیں جو طویل عرصہ تک اس غلطی کا عادی رہا ہے۔ ساتھ ہی اسے وقتاً فوقتاً تنبیہ کرتے رہیں اور دیکھیں کہ کس حد تک اصلاح ہو رہی ہے۔

۔ غلطی کرنے والے کو یہ احساس نہ پیدا ہونے دیں کہ آپ اسے اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔ یہ امر یش نظر رکھیں کہ اپنے موقف کی تائید حاصل کر لینے سے زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ ایک شخص آپ کا ساتھی بن جائے۔

اس مقدمہ کے بعد اب کچھ رائے اور طریقے پیش خدمت ہیں، جو نبی اکرمﷺ نے لوگوں کی غلطیوں کے بارے میں اختیار فرمائے ، جیساکہ علمائے کرام کی روایت کردہ صحیح احادیث میں مذکور ہیں۔​

٭٭٭

 

 

 

   لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح کے لئے نبی اکرم(ص) کے اختیار کردہ مختلف اسلوب

 

1) غلطی کی فوری اصلاح​

 

نبی اکرمﷺ تنبیہ فرماتے میں جلدی کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ آپﷺ کے لئے یہ جائز نہیں تھا کہ جب وضاحت کی ضرورت ہو آپﷺ اُس وقت بات کرنے کے بجائے اسے ملتوی کر دیں۔ آپﷺ اس بات کے مکلف تھے کہ لوگوں کو حق بتائیں ، نیکی کی طرف رہنمائی فرمائیں اور بُرائی سے روکیں۔ لوگوں کی غلطیوں کی فوری اصلاح کی مثال میں آنحضرتﷺ کی زندگی میں پیش آنے والے متعدد واقعات ذکر کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً اُس صحابی کا واقعہ جنہوں نے نماز اچھی طرح نہیں پڑھی تھی ، بنو مخزوم کی خاتون کا واقعہ، ابن لُتنِیَہ کا واقعہ ، حضرت اُسامہؓ کا واقعہ اور اُن تین حضرات کا واقعہ جنہوں نے عبادت میں جائز حد سے بڑھ کر شدت سے کام لینے کا ارادہ کیا تھا۔ ان واقعات کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آئے گی۔ ان شاء اللہ

غلطی پر تنبیہ کرنے میں تاخیر کی صورت میں بعض اوقات اصلاح کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے اور فائدہ حاصل نہیں ہوا، بعض اوقات موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے، یا بعد میں بات کرنے کی کوئی مناسبت نہیں بنتی، یا ذہنوں میں واقعہ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے تاثیر میں فرق آ جاتا ہے۔

 

2) غلطی کے ازالہ کے لئے شرعی حکم بیان کرنا

 

حضرت جَرہَد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس سے رسول اللہﷺ گزرے، اُس وقت ان کی ران سے کپڑا ہٹا ہوا تھا، نبیﷺ نے فرمایا:

(( غَطِّ فَخِذَکَ ، فَاِنَّھَا مِنَ العَورَۃِ))​

"اپنی ران ڈھانک لو، یہ پردے کے اعضاء میں شامل ہے”۔​

سنن الترمذی، کتاب الادب، باب ماجا اَن الفخذ عورۃ ، ح: 2798-امام ترمذی نے حدیث کو حسن کہا ہے۔)

 

3) غلطی کرنے والے کو اُس شرعی اصول کی طرف توجہ دلانا جس کی مخالفت ہوئی ہو

 

بعض اوقات پیش آمدہ حالات میں شرعی اصول ذہن سے اتر جاتا ہے ، لہٰذا اس اصول و قاعدہ کے اعلان و اظہار سے غلطی کرنے والا راہ راست پر واپس آتا ہے اور غفلت کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ ایک بار منافقوں نے مہاجر اور انصاری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان فتنہ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ایک خطرناک حادثہ پیش آتے آتے رہ گیا۔ اس موقع پر جناب رسول اللہﷺ کا طرز عمل زیر بحث نکتہ کی ایک بہترین مثال ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک غزوہ میں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ آپﷺ کے ساتھ کافی تعداد میں مہاجرین بھی روانہ ہوئے تھے۔ مہاجرین میں ایک صاحب مزاحیہ طبیعت کے حامل تھے۔ انہوں نے(ہنسی ہنسی میں) ایک انصاری صحابی کو پاؤں سے ٹھوکر مار دی۔ انصاری صحابی کو شدید غصہ آیا حتیٰ کہ انہوں نے آوازیں دینا شروع کر دیں۔ انصاری نے کہا: اے انصاریو! اس پر مہاجر نے کہا : اے مہاجرو! نبی اکرمﷺ تشریف لائے اور فرمایا:” یہ جاہلیت والوں کی سی پکار کیوں؟” پھر فرمایا:” بات کیا ہوئی؟” آنحضرتﷺ کو مہاجر کے انصاری کو ٹھوکر مارنے کی بات بتائی گئی۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:

(( دَعوھَا فَانَّھَا مِنَ الخَبِیثَۃِ))​

” یہ بات ترک کر دو، یہ ناپاک ہے۔”​

(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ماینھی عن دعوی الجاھلیۃ،ح: 5318)

صحیح مسلم میں مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:

(( وَلیَنصرِ الرَّجُلُ اَخَاہُ،ظَالِمًا اَو مَظلُومًا، اِن کَانَ ظَالِمًا فَلیَنھَہ فَاِ نَّہ نَصرٌ، وَاِن کَانَ مَظلو مًا فَلیَنصُرہُ))

"آدمی کو اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیئے، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم سے منع کرے، یہی اس کی مدد ہے اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے۔”​

(صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ باب نصر الاخ ظالمًا او ٘مظلومًا، ح

 

4) غلطی کا سبب بننے والی غلط فہمی کی اصلاح

 

صحیح بخاری میں حضرت حمید بن ابی حمید طویل ؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت اَنس بن مالکؓ سے یہ حدیث سنی۔ انہوں نے فرمایا: تین آدمی اُمہات المومنینؓ کی خدمت حاضر ہوئے، اور انہوں نے (پردے کے پیچھے سے) نبی اکرمﷺ کی (نفل) عبادت کے متعلق سوال کیا۔ جب انہیں بتایا گیا( کہ رسول اللہﷺ اس انداز سے عبادت کرتے ہیں) تو انہوں نے محسوس کیا کہ یہ عبادت تھوڑی ہے۔ تا ہم انہوں نے کہا : ہماری آنحضرتﷺ سے کیا نسبت ؟ ان کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں( وہ تو اگر زیادہ عبادت نہ بھی کریں تو کوئی بات نہیں، ہمیں تو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرور ہے)۔ ان میں سے ایک بولا: میں ہمیشہ رات بھر نماز(تہجد) بڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا ” میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کسی دن ناغہ نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے الگ رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ (جب رسول اللہﷺ کو ان باتوں کا علم ہوا تو) آنحضرتﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:

((اَنتُمَ الَّذِینَ قُلتُم کَذَا وَکَذَا؟ اَمَا وَاللہِ اِنِّی لَاَ خشَا کُم لِلہِ وَاَتقَاکُم لَہُ، لٰکنِّی اَصوم وَاُفطِر وَاُصَلِّی وَاَر قُد وَاَ تَزَوَّجُ))​

” تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ خوف خدا اور تقویٰ رکھتا ہوں، لیکن میں (نفلی) روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، (رات کو) نماز (تہجد) بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور میں نے نکاح بھی کئے ہوئے ہیں”۔​

(صحیح البخاری، کتاب النکاح ، باب الترغیب فی النکاح، ح: 4774۔)

صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ چند افراد نے اُمہات المومنینؓ سے آنحضرتﷺ کے وہ اعمال دریافت کئے جو آپﷺ گھر میں انجام دیتے تھے۔ (بعد میں ) ایک نے کہا: میں عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔ ایک نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا۔ ایک نے کہا: میں بست پر نہیں سوؤں گا۔ (جب نبی اکرمﷺ کو معلوم ہوا) تو آنحضرتﷺ نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا:

((مَابَالُ اَقوَامِ قَالُو اکَذَا وَکَذَا؟ لٰکِنّی اُصَلّیِ وَاَنَامُ وَاَصُومُ وَاُفطِرُ وَ اَتَزَ وَّجُ النِّسَاءَ، فَمَن رَغِبَ عَن شُنَّتِی فَلَیسَ مِنِّی))

” کی وجہ ہے کہ کچھ لوگ فلاں فلاں بات کہتے ہیں۔ لیکن میں(رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، (نفلی) روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔۔۔۔۔ پس جو شخص میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے(کوئی تعلق ) نہیں (رکھتا)۔”​

(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح۔۔۔ ح:1401-)

اس واقعہ میں مندرجہ ذیل امور قابل توجہ ہیں:۔

نبی اکرمﷺ ان حضرات کے پاس تشریف لائے، دوسرے لوگوں کو شریک کئے بغیر صرف ان حضرات سے بات کی اور جب عام لوگوں کو یہ مسئلہ بتانا چاہا تو ان حضرات کی طرف اشارہ کئے بغیر اور اّن کا نام لئے بغیر بات کی، ان کو رُسوا نہیں کیا، بلکہ یوں فرمایا:” کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ فلاں فلاں بات کہتے ہیں؟” اس سے ان پر شفقت اور ان کی پردہ پوشی مقصود تھی، اور سب لوگوں کو مسئلہ بتانے کا مقصد بھی حاصل ہو گیا۔

۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بزرگوں کے حالات اس مقصد سے معلوم کرنا درست ہے کہ ان کے اچھے کاموں کی پیروی کی جائے، اور یہ حالات معلوم کرنا اپنے نفس کی تربیت میں شامل ہے، جو عقلمندی کی نشانی ہے۔

۔ اِس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مفید اور شرعی مسائل اگر مردوں کے ذریعے معلوم کرنے میں کسی وجہ سے دشواری محسوس ہو تو خواتین کے ذریعے معلوم کرنا بھی جائز ہے۔

۔ اپنے نیک اعمال کا ذکر کرنا جائز ہے بشرطیکہ ریاکاری کا خطرہ نہ ہو، اور بتانے سے دوسروں کو فائدہ ہو۔

۔ اِس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عبادت میں اپنی جان پر سختی کرنے سے اکتا ہٹ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں عبادت سرے سے چھوٹ جاتی ہے، اس لئے بہتر کام وہ ہے جس میں میانہ روی اختیار کی جائے۔(فتح الباری، ۱۰۴/۹۔)

۔ عملی غلطی کی بنیاد تصور کی غلطی ہوتی ہے۔ جب بنیادی تصور ات صحیح ہوں تو غلطیوں کی مقدار بہت کم ہو جاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ اُن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو رہبانیت اور سخت کوشی اختیار کرنا چاہی تھی اس کی وجہ یہ غلط فہمی تھی کہ نجات کی اُمید تبھی ہو سکتی ہے اگر نبی اکرمﷺ کی عبادت سے زیادہ عبادت کی جائے، کیونکہ نبی اکرمﷺ کو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت بشارت مل چکی ہے، جب کہ ان لوگوں کو یہ شرف حاصل نیں۔ نبی اکرمﷺ نے ان کے اس غلط تصور کی اصلاح کر دی اور انہیں بتا دیا کہ آپﷺ اگر چہ مغفور ہیں ،پھر بھی وہ اللہ تعالی سے بہت ڈرنے والے اور تقویٰ رکھنے والے ہیں اور نہیں حکم دیا کہ عبادت میں آپﷺ کی سنت اور طریقہ پر ہی قائم رہیں۔

اس سے ملتا جلتا واقعہ حضرت کہمس ہلالیؓ کا ہے۔ وہ اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں نے اسلام قبول کیا تو جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور علیہ السلام کو اپنے قبولِ اسلام کی خبر دی۔ایک سال بعد میں دوبارہ حاضر خدمت ہوا تو کیفیت یہ تھی کہ میر اجسم انتہائی دُبلا پتلا ہو چکا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے نظر اٹھا کر مجھے اپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک دیکھا ۔ میں نے عرض کیا: "حضور! آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟” فرمایا: تم کون ہو؟” میں نے کہا:” میں کہمس ہلالی ہوں”۔ فرمایا:” تمہاری یہ حالت کیوں ہو گئی؟” میں نے کہا:” آپ کے پاس سے رخصت ہونے کے بعد میں نے کبھی دن میں روزہ نہیں چھوڑا اور رات کو کبھی نہیں سویا”۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا:” تمہیں یہ حکم کس نے دیا کہ اپنی جان کو عذاب دو؟ صبر والے مہینہ (رمضان) کے روزے رکھو اور ہر مہینہ میں ایک روزہ رکھو”۔ میں نے کہا: ” مجھے اس سے زیادہ کی اجازت دیجئے” فرمایا:” صبر والے مہینے کے روزے رکھو اور ہر مہینہ میں دو روزے رکھو”۔ میں نے کہا:” میں اپنے اندر طاقت محسوس کرتا ہوں، مجھے مزید اجازت دے دیجئے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ” صبر کے مہینہ کے روزے رکھو اور ہر مہینہ میں تین دن کے روزے رکھ لیا کرو”۔المعجم الکبیر للطبرانی، 194/19،ح:435، علامہ البانی نے حدیث کو سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ میں نقل کیا ہے(244/2۔ ح: 2423))

تصور کی اس غلطی کا تعلق بعض اوقات افراد کی قدر و قیمت کے تعین سے ہوتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس کی اصلاح اور توضیح کی طرف بھی خاص توجہ دی۔ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جناب رسول اللہﷺ کے پاس سے ایک شخص گزرا ۔ آنحضرتﷺ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک صحابی سے فرمایا: ” اس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟” انہوں نے عرض کیا:” یہ تو معزز لوگوں میں سے ہے، اللہ کی قسم! یہ تو ایسا آدمی ہے کہ اگر کسی سے رشتہ مانگے تو اس سے نکاح کر دیا جائے گا( ہر شخص کوشی سے رشتہ دینے کو تیار ہو گا)، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول کی جائے گی”۔ جناب رسول اللہﷺ خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور آدمی گزرا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” اِس شخص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟” انہوں نے عرض کیا:” یا رسول اللہ! یہ تو مفلس مسلمانوں میں سے ایک (عام سا) آدمی ہے۔ یہ تو اگر کسی سے رشتہ مانگے تواس کا نکاح نہیں ہو گا، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو، اگر بات کرے تو کوئی بات نہ سنے”۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:” اُس (دولت مند) جیسے آدمیوں سے پوری زمین بھری ہوئی ہو تو اُن سے یہ (مفلس مسلمان) بہتر ہے”۔(صحیح البخاری، کتاب الرقاق باب فضل الفقر، ح: 2447)

ابن ماجہ کی روایت میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: جناب رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص گزرا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” اِ س شخص کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟” انہوں نے عرض کیا:” ہم وہی کہتے ہیں جو آپ کی رائے ہے۔( ویسےبظاہر یہ کیفیت ہے کہ) یہ ایک معزز شخص ہے۔ اگر یہ نکاح کا پیغام بھیجے تو اس کا پیغام قبول کیا جائے ، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش مانی جائے، اگر بات کرے تو اس کی بات سنی جائے”۔ نبیﷺ خاموش ہو گئے۔ ایک اور آدمی گزرا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” اس شخص کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟” انہوں نے عرض کیا:” اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! (ہماری نظر میں تو ) یہ ایک غریب مسلمان ہے؛ اگر نکاح کا پیغام بھیجے تو کوئی اسے رشتہ نہیں دے گا، اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جائے گی، اگر بات کرے تو اس کی بات نہیں سنی جائے گی”۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” یہ (مفلس مسلمان) اُس (دولت مند) جیسے زمین بھر آدمیوں سے بہتر ہے”۔(سنن ابن ماجۃ، کتاب الزھد، باب فضل الفقراء،ح: 4120)

 

5) نصیحت اور بار بار تخویف کے ذریعے غلطی کی شدّت کا احساس دلانا

 

حضرت جندب بن عبد اللہ بَجَلیؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے مشرکین کے مقابلے میں مسلمانوں کا ایک لشکر روانہ فرمایا۔ دونوں لشکروں کا باہم سامنا ہوا۔(جنگ کے دوران ایسا ہوا کہ) مشرکین میں سے ایک مرد جس مسلمان کو چاہتا قتل کر دیتا۔ (اس کے ہاتھ سے متعدد مسلمان شہید ہو گئے)، ایک مسلمان نے اسے غافل پاکر اس پر حملہ کیا۔ حضرت جندبؓ نے فرمایا: صحابہ کرام فرمایا کرتے تھے کہ وہ مسلمان اُسامہ بن زیدؓ تھے ۔ جب انہوں نے اس پر تلوار اٹھائی تو اس نے (فوراً)کہہ دیا: لا الٰہ الااللہ۔ صحابی نے (پھر بھی) اسے قتل کر دیا۔ (واپسی پر) ایک صحابی نے آکررسول اللہﷺ کو (فتح کی) خوش خبری دی، آنحضرتﷺ نے ان سے حالات پوچھے، انہوں نے بتائے اور اُس صحابی کی بات بھی بتائی کہ انہوں نے یہ کام کیا۔ آنحضرتﷺ نے اُس صحابی کو بلا کر پوچھا:” تم نے اس شخص کو کیوں قتل کر دیا؟” انہوں نے عرض کیا:” اس نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا اور فلاں فلاں شخص کو شہید کیا”۔ انہوں نے کئی حضرات کے نام لئے اور کہا:” میں نے اس پر حملہ کیا، اُس نے جب تلوار دیکھی تو لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہہ دیا”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” پھر تم نے اسے قتل کر دیا؟” انہوں نے کہا :” جی ہاں”۔ آپﷺ نے فرمایا: ” قیامت کے دن جب لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ حاضر ہو گا تو تم کیا کرو گے؟” انہوں نے کہا:” یا رسول اللہ ! میرے لئے گناہ کی معافی کی دعا کیجئے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” قیامت کے دن جب لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ حاضر ہو گا تو تم کیا کرو گے؟” حضور علیہ السلام بار بار یہی فرماتے رہے:” قیامت کے دن جب لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللہ حاضر ہو گا ، تو تم کیا کرو گے؟”(صحیح مسلم کتبا الایمان باب تحریم قتل الکافر بعدان قال لاالہ الااللہ،ح:97۔)

حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے خود بھی یہ واقعہ بیان کیا ہے ،وہ فرماتے ہیں : جناب رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک دستہ کی صورت میں رواہ فرمایا، ہم نے صبح صبح جہینہ گاؤں حُرَقات پر حملہ کیا۔ میں نے ایک آدمی کو جالیا۔ اُس نے کہا : لاَ اِلٰہ اِلاَّ اللہ، لیکن میں نے اس پر وار کر دیا۔ پھر مجھے اس بارے میں پریشانی ہوئی ۔ میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ واقعہ بتایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” کیا اُس نے لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہہ لیا تھا، پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا؟” میں نے عرض کیا:” یا رسول اللہ! اس نے ہتھیار سے ڈر کر کلمہ پڑھا تھا”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” کیا تم نے اُس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اُس (دل) نے کہا ہے یا نہیں؟ آپﷺ بار بار مجھے یہی بات فرماتے رہے، حتیٰ کہ میں یہ تمنا کرنے لگا کہ کاش میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا۔(صحیح مسلم کتبا الایمان باب تحریم قتل الکافر بعدان قال لاالہ الااللہ،ح:96)

وعظ و نصیحت کے ذریعے غلطی کی ایک صورت اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت یا د دلانا بھی ہے۔ اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔

امام مسلمؒ نے حضرت ابو مسعود بدریؓ سے روایت کی ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنے ایک غلام کو کوڑا لے کر مار رہا تھا ہ مجھے اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی:” ابو مسعود! تجھے معلوم ہونا چاہیئے”۔ غصے کی شدت کی وجہ سے میں توجہ نہ کرسکا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ جب وہ قریب آ گئے تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو رسول اللہﷺ ہیں ، جو فرما رہے ہیں:” ابو مسعود ! تجھے معلوم ہونا چاہیئے”۔ میں نے کوڑا ہاتھ سے پھینک دیا۔ ایک روایت میں ہے:” آنحضرتﷺ کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے گر پڑا”۔ آپﷺ نے فرمایا: "ابو مسعود! تجھے معلوم چاہیئے کہ تجھے اس غلام پر جس قدر اختیار حاصل ہے، اللہ تعالی کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت حاصل ہے”۔ میں نے عرض کیا:” حضور ! آج کے بعد میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا”۔ ایک روایت میں ہے : میں نے کہا:” یا رسول اللہ ! یہ اللہ کے لئے آزاد ہے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ” اگر تو (ا غلطی کی تلافی) نہ کرتا تو آگ تجھے جھلسا دیتی”۔ یا فرمایا:” آگ تجھے چھو لیتی۔”

صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:” اللہ کی قسم! جتنی تجھے اس پر قدرت حاصل ہے اس سے زیادہ اللہ کو تجھ پر قدرت حاصل ہے”۔ چنانچہ انہوں نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک،ح:1259۔)

سنن ترمذی میں حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اپنے ایک غلام کو پیٹ رہا تھا، کہ مجھے اپنے پیچھے کسی کی آوا ز آئی:” ابو مسعود! جان لو۔ ابو مسعود ! جان لو”۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہﷺ تھے ۔ آپﷺ نے فرمایا:” تجھے اس پر جتنی قدرت حاصل ہے اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت حاصل ہے”۔ ابو مسعودؓ نے فرمایا:” اس کے بعد میں نے کبھی اپنے کسی غلام کو نہیں مارا”۔(سنن الترمذی کتاب البروالصلۃ، باب النھی عن ضرب الخدم وشنمھم، ح1948 اور اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ صحیح مسلم حوالہ سابقہ ۔)

 

6) غلطی کرنے والے پر شفقت کا اظہار

 

جو شخص اپنی غلطی پر انتہائی شرمسار ہو، اسے شدید افسوس ہو رہا ہو، اور واضح طور پر نظر آ رہا ہو کہ وہ دل سے تائب ہوچکا ہے، اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس پر رحمت و شفقت کا اظہار کیا جائے۔ جیسے اس واقعہ میں ہوا:

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے اپنی بیوی سے اظہار کیا تھا، پھر اس سے مباشرت کر بیٹھا تھا ۔ اس نے کہا:” یا رسول اللہ ! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا، پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے اس سے مباشرت کر لی”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” اس کی وجہ کیا بنی؟ اللہ تجھ پر رحم کرے”۔ اس نے کہا:” چاند گی چاندنی میں اس کی پازیب پر میری نظر پڑ گئی (پھر مجھے اپنے آپ پر قابو نہ رہا)”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” اب تو جب تک وہ کام نہ کر لے جس کا اللہ نے تجھے حکم دیا ہے(یعنی کفارہ کی ادائیگی ) دوبارہ اس کے قریب نہ جانا”۔(سنن الترمذی، کتاب الطلاق ، باب ماجاء فی المظاھر بواقع قبل ان یکفر ،ح1199 وسنن ابن ماجۃ ، ح:2065۔)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک آدمی آگیا۔ اُس نے کہا:” یا رسول اللہ! میں تباہ ہو گیا”۔ آپﷺ نے فرمایا:” کیا ہوا؟” اُس نے عرض کیا:” میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی کے پاس چلا گیا”۔ آپﷺ نے فرمایا:” کیا تیرے پاس کوئی غلام یا لونڈی ہے جسے تو آزاد کر سکے؟” اُس نے کہا:” جی نہیں” ۔ آپﷺ نے فرمایا:” کیا تُو مسلسل دو ماہ روزے رکھ سکتا ہے؟” اُس نے کہا:” جی نہیں”۔ فرمایا: ” کیا تُو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہ؟” اُس نے کہا” جی نہیں”۔ نبی اکرمﷺ وہیں تشریف فرما رہے۔(سائل بھی حاضر رہا)۔ اسی اثناء میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں کھجوروں کا ایک ٹوکرا پیش کیا گیا ۔ آپﷺ نے فرمایا: ” سائل کہاں ہے؟” اس نے کہا:” جی ، میں ہوں”۔ فرمایا:” یہ لے جاؤ اور انہیں صدقہ کر دو”۔ اس نے کہا:”اے اللہ کے رسول! کیا اپنے سے زیادہ غریب آدمی کو دوں؟ اللہ کی قسم ! دونوں پتھریلے علاقوں کے درمیان (یعنی پورے مدینہ میں) ہم سے زیادہ غریب کوئی گھر نہیں "۔ نبی اکرمﷺ کھل کر مسکرائے حتیٰ کہ آپﷺ کے (ڈاڑھوں سے پہلے والے) نوکیلے دانت نظر آنے لگے۔ پھر فرماا:” اپنے گھر والوں کو کھلا دو”۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم باب اذا جامع فی رمضان، ح 1936۔)

یہ شخص جو ایک غلطی کا ارتکاب کرنے کے بعد مسئلہ پوچھنے آیا تھا، مذاق نہیں کر رہا تھا، نہ اپنے گناہ کو معمولی سمجھ رہا تھا، بلکہ اسے اپنی غلطی کا جس شدت سے احساس تھا وہ اُس کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ” میں تباہ ہو گیا”۔ اس لئے وہ شفقت کا مستحق ہوا۔

مسند احمد” کی روایت میں زیادہ وضاحت سے بیان ہے کہ جب وہ مسئلہ پوچھنے آیا تو اس کی کیا کیفیت تھی۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے بیان فرمایا: ایک اَعرابی آیا، وہ چہرہ پیٹ رہا تھا اور بال کھسوٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا:” میں تو برباد ہی ہو گیا ہوں۔ جناب رسول اللہﷺ نے اس سے فرمایا:” تجھے کس چیز نے برباد کر دیا؟” اس نے کہا:” میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے مباشرت کر لی ہے”۔ آپﷺ نے فرمایا:” کیا تُو ایک غلام آزاد کر سکتا ہے ؟” اُس نے کہا :” جی نہیں” ۔ آپﷺ نے فرمایا :” کیا تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتا ہے؟” اُس نے کہا:” جی نہیں”۔ آپﷺ نے فرمایا:” کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟” اُس نے کہا:” جی نہیں” اور اپنے فقر کا ذکر کیا ۔ اتنے میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک ٹوکرا پیش کیا گیا، جس میں پندرہ صاع کھجوریں تھیں۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” وہ آدمی کہاں ہے؟” اور اس سے فرمایا:” یہ(غریبوں کو) کھلا دو”۔ اُس نے کہا:” یا رسول اللہ! دونوں پتھریلے علاقوں کے درمیان ہم سے زیادہ حاجت مند گھر موجود نہیں”۔ جناب رسول اللہﷺ ہنس پڑے حتیٰ کہ آپﷺ کے نوکیلے دانت نظر آنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا:”اپنے گھر والوں کو کھلا دو”۔(مسند احمد 516/2، شرح احمد شاکر، ح10699 اور حدیث اکثر کتب میں موجود ہے۔)

 

7) کسی کو غلطی پر قرار دینے میں جلدی نہ کریں

 

حضرت عمرؓ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جو خود انہی کے الفاظ میں ذکر کیا جاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: جناب رسول اللہﷺ کی زندگی میں ایک بار میں نے ہشام بن حکیم بن حزامؓ کو سورۃ الفرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ میں ان کی قرأت توجہ سے سننے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہ کئی الفاظ اس انداز سے پڑھ رہے ہیں جس طرح مجھے رسول اللہﷺ نے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا جی چاہا کہ انہیں نماز میں ہی پکڑ لوں، لیکن میں نے صبر کیا، حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیر لیا۔ تب میں نے انہیں ان کی چادر سے پکڑ کر کہا:” آپ کو یہ سورت کس نے سکھائی ہے جو میں نے آپ کو پڑھتے سنا ہے؟” انہوں نے کہا:” جس طرح آپ نے پڑھی ہے مجھے رسول اللہﷺ نے اس سے مختلف انداز سے پڑھائی ہے”۔ میں انہیں پکڑ کر آنحضرتﷺ کی خدمت اَقدس میں لے گیا اور عرض کیا:” میں نے انہیں سورۃ الفرقان کے کئی الفاظ اس طرح پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھائے”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” انہیں چھوڑ دیجئے”۔ اور فرمایا:” ہشام! پڑھئے!” انہوں نے اسی طرح پڑھی جس طرح میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” اسی طرح نازل ہوئی ہے”۔ پھر فرمایا:” عمر ! آپ پڑھئے”۔ میں نے اس طرح پڑھی جس طرح آنحضرتﷺ نے مجھے پڑھائی تھی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ یہ قرآن سات طریقوں پر نازل ہوا ہے، لہٰذا جو طریقہ آسان معلوم ہو اسی طرح پڑھ لیا کرو”۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن باب انزل القرآن علی سبعۃ احرف،ح:4992۔ وسنن الترمذی کتاب القراءت باب ماجاء ان القرآن انزل علی سبعۃ احرف، ح: 3126۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ صحیح سنن الترمذی ، ح:2347۔)

 

   واقعہ میں تربیت سے متعلق نکات

 

۔آنحضورﷺ نے ہر ایک سے دوسرے کے سامنے پڑھا کر سنا، اور اس کی قرأت کو درست قرار دیا۔ کسی کو غلط قرار نہ دینے اور دونوں کو صحیح قرار دینے کا یہ طریقہ بہت مؤثر ہے۔

۔ نبی اکرمﷺ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ وہ ہشامؓ کو چھوڑ دیں اور پکڑے نہ رکھیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فریقین اطمینان سے ایک دوسرے کی بات سنیں اور اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ عمرؓ نے جدل بازی سے کام لیا ہے۔

۔ طالب علم کسی مسئلہ میں علماء کے جس قول سے واقف ہے، اگر اس کے سامنے اس کے خلاف دوسرا قول پیش کیا جائے تو اسے چاہیئے کہ تحقیق کے بغیر اسے غلط قرار نہ دے۔ ممکن ہے یہ بھی کبار علماء کا ایک قابل قبول قول ہو۔

۔اسی موضوع سے متعلق یہ نکتہ بھی ہے کہ سزا دینے میں جلدی کرنا درست نہیں، جیسا کہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے:

امام نسائیؒ نے حضرت عباد بن شُرَحبِیلؓ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: میں اپنے ایک چچا کے ساتھ مدینہ آیا۔ وہاں ایک کھیت میں چلا گیا اور کچھ خوشے توڑ کر دانے نکال لئے۔ کھیت والے نے آ کر مجھے مارا اور میری چادر چھین لی۔ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کر اس کی شکایت کی۔ آنحضرتﷺ نے اسے بلا بھیجا، وہ حاضر ہوا تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ” تم نے یہ کام کیوں کیا؟” اُس نے کہا:” یہ شخص میرے کھیت میں آگھسا ، اس کے خوشے توڑے اور دانے نکال لئے”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” وہ مسئلہ سے ناواقف تھا، تم نے اسے تعلیم نہیں دی، وہ بھوکا تھا، تم نے اسے کھانا نہیں کھا لیا۔ اس کی چادر واپس کرو”۔۔۔ پھر آنحضرتﷺ نے مجھے ایک آدھ وسق غلہ عطا فرما دیا۔(سنن النسائی، کتاب آداب القضاۃ، باب الاستعداء، ح: 5424۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح سنن النسائی ، ح: 4999۔)

اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ غلطی کرنے والے کے حالات معلوم کر لئے جائیں تو اس کے ساتھ صحیح رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے کھیت کے مالک کو سزا نہیں دی، کیونکہ وہ حق پر تھا۔ لیکن اس کے طرز عمل کو غلط قرار دیا اور واضح فرمایا کہ اس قسم کے موقع پر مسئلہ سے ناواقف آدمی کے ساتھ اس قسم کا رویہّ اختیار کرنا درست نہ تھا۔ پھر اسے بتایا کہ صحیح طرز عمل کیا ہونا چاہیئے اور اسے حکم دیا کہ بھوکے آدمی کے کپڑے واپس کر دے۔

 

8) غلطی کرنے والے کے ساتھ جذباتی رویہّ اختیار کرنے سے پرہیز

 

خاص طور ہر جب منع کرتے وقت سختی سے کام لینے کے نتیجہ میں خرابی کا دائرہ سیع ہونے کا خطرہ ہو۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لئے اس واقعہ پر غور کریں کہ جب ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو رسول اللہﷺ نے اس کی اس غلطی پر کس رد عمل کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت اَنس بن مالکؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ہم مسجد میں نبی اکرمﷺ کی مجلس میں حاضر تھے کہ ایک اعرابی آیا اور مدجس میں (ایک طرف) کھڑا ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ صحابہ کرامؓ نے کہا:” رُک جاؤ، رُک جاؤ”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : "اس کا پیشاب نہ روکو، اسے فارغ ہو لینے دو”۔صحابہ کرامؓ نے اسے چھوڑ دیا حتیٰ کہ اس نے پیشاب کر لیا۔ ا س کے بعد رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا:” اِن مسجدوں میں پیشاب کرنا یا گندگی پھیلانا درست نہیں، یہ تو اللہ کے ذکر کے لئے ، نماز کے لئے اور تلاوتِ قرآن مجید کے لئے ہوتی ہیں”۔ اس کے بعد آپﷺ نے ایک آدمی کو حکم دی اتو اس نے پانی کا ایک ڈول لا کر اس جگہ پر بہا دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الطھار، باب وجودب غسل البول، ح: 285۔)

اَعرابی کی اس غلطی کے سلسلہ میں آنحضرتﷺ نے جس قاعدہ پر عمل کیا وہ ہے” آسانی کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا”۔ صحیح بخاری میں یہ واقعہ حضرت ابو ہریرہؓ سے اس طرح روایت کیا گیا ہے:” ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کر دیا، لوگ غصہ میں آ کر اس کو پکڑنے کے لئے بڑھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، اور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہا دو۔ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، مشکل میں ڈالنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب 80، ح: 6128۔)

صحابہ کرامؓ نے مسجد کو پاک رکھنے کے لئے اور برُائی سے منع کرنے کے لئے جوش و جذبہ کا مظاہرہ کیا تھا، جیسے کہ اس حڈیث کی مختلف روایات کے الفاظ سے ظاہر ہے، جن میں کچھ الفاظ یہ ہیں: فَصَا بِہِ النَّاسُ” لوگوں نے اسے بلند آواز سے روکا”۔ فَثَارَ اِلَیہِالنَّاسُ” لوگ غصے سے اس کی طرف بڑھے”۔ فَزَجَرَہُ النَّاسُ” لوگوں نے اسے ڈانٹا”۔ فَاَسرَ عَ اِلَیہِ النَّاسُ” لوگ تیری سے اس کی طرف بڑھے”۔ فَقَالَ اَصحَابُ رَسُولِ اللہِﷺ مَہ مَہ” صحابہ کرامؓ نے کہا : رُک جاؤ، رُک جاؤ”(صحیح البخاری، کتاب الوضوء وکتاب الادب وصحیح مسلم کتاب الطھارۃ وسنن ابن داود کتاب الطھارۃ وسنن الترمذی کتاب الطھارۃ وسنن النسائی کتاب الطھارۃ کے متعلقہ ابواب میں یہ الفاظ موجود ہیں۔)

لیکن نبی اکرمﷺ کی نظر نتیجہ پر تھی۔ آپﷺ نے دیکھا کہ اس معاملہ میں دو صورتیں ممکن ہیں، یا اُس شخص کو پیشاب کرنے سے منع کیا جائے، یا چھوڑ دیا جائے۔ اگر اسے منع کیا گیا تو اس صورت میں یا تو وہ شخص عملاً پیشاب کرنے سے رُک جائے گا، اس طرح پیشاب روکنے سے اسے نقصان پہنچے گا، یا یہ صورت ہو گی کہ اس کا پیشاب ابھی جاری ہو گا کہ وہ لوگوں کے خوف سے بھاگ کھڑا ہو گا، اس طرح نجاست مسجد میں پھیل جائے گی اور اس شخص کا بدن اور کپڑے بھی ناپاک ہو جائیں گے۔ نبی اکرمﷺ نے یہ محسوس فرما لیا کہ اسے پیشاب کر لینے دیا جائے تو کم خرابی لام آئے گی اور یہ چھوٹی بُرائی ہو گی۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ آدمی غلطی کا ارتکاب شروع کر چکا ہے اور نجاست کا ازالہ پانی کے ذریعے ممکن ہے۔

اس لئے آپﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: اسے چھوڑ دو اسے مت روکو۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اس طرح مصلحت اور فائدے کو ترجیح حاصل ہو رہی تھی۔ یعنی چھوٹی خرابی کو برداشت کر کے بڑی خرابی کو روکا جا رہا تھا اور چھوٹے فائدہ کو چھوڑنے کے نتیجے میں بڑا فائدہ حاصل ہو رہا تھا۔

ایک روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس شخص سے دریافت کیا تھا کہ اس نے یہ کام کیوں کیا۔ طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: نبی اکرمﷺ کی خدمت میں ایک اّعرابی حاضر ہوا اور مسجد میں آپﷺ سے بیعت کی۔ پھر واپس ہوا تو ٹانگیں پھیلا کر کھڑا ہو گیا اور پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اسے پکڑنا چاہا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” اس کا پیشاب نہ روکو”۔ پھر فرمایا:” کیا تم مسلمان نہیں؟” اس نے کہا:” کیوں نہیں؟” فرمایا:” پھر تم نے ہماری مسجد میں پیشاب کیوں کیا؟” اس نے کہا:” قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپﷺ کو حق دے کر مبعوث کیا ہے، میں تو اسے عام زمین کی طرح کی زمین سمجھا تھا، اس لئے میں نے یہاں پیشاب کر لیا”۔پھر نبی اکرمﷺ کے حکم سے اس کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دیا گیا”۔(المعجم الکبیر للطبرانی، 126/11 ، ح: 11552- علامہ ہیثمی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو مجمع الذوائد 10/2 ،ح:1958۔)

اس حکیمانہ انداز کے رویہّ کا اُس اَعرابی کے دل پر گہرا اثر ہوا ، جس کا اظہار اس کے اپنے الفاظ سے ہوتا ہے جو ابن ماجہ کی روایت میں مذکور ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد داخل ہوا۔ جناب رسول اللہﷺ بھی تشریف فرما تھے۔ اُس نے کہا:” اے اللہ! مجھے بخش دے اور محمدﷺ کو بخشش دے، اور ہمارے ساتھ کسی اور کی مغفرت نہ فرمانا”۔ جناب رسول اللہﷺ ہنس پڑے اور فرمایا:” تم نے بڑی وسیع چیز(رحمت) کو محدود کر دیا”۔ پھر وہ واپس ہوا، ابھی مسجد کے ایک حصہ میں ہی تھا کہ ٹانگیں پھیلا کر پیشاب کرنے لگا”۔ اُس اَعرابی کو جب دین کی سمجھ آ گئی تو اپنا واقعہ بیان کرنے ہوئے کہا:” میرے ماں باپ آنحضرتﷺ پر قربان ہوں، آپﷺ اٹھ کر میرے پاس آئے، پھر مجھے نہ ڈانٹا نہ بُرا بھلا کہا۔ فرمایا:” اِس مسجد میں پیشاب نہیں کرتے، یہ اللہ کے ذکر اور نماز کے لئے بنائی گئی ہے”۔ اس کے بعد آپﷺ نے پانی کا ایک ڈول منگوایا جو پیشاب پر بہا دیا گیا”۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ باب الارض یصیبھا البول، ح:529، علامہ البانی نے صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح سنن ابن ماجۃ: ح: 428۔)

امام بن حجرؒ نے اس حدیث کی شرح میں جو فوائد ذکر کئے ہیں، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

۔ جاہل کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے، اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کئے بغیر ضروری مسئلہ سمجھایا جائے، جب کہ اس نے یہ غلطی ضد کی بنیاد پر نہ کی ہو، بالخصوص جب کہ اسے تالیف قلب کی ضرور ہو۔

۔ اس واقعہ سے نبی اکرمﷺ کی شفقت اور حسنِ خلق کا اظہار ہوتا ہے۔

۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے ذہنوں میں یہ مسئلہ خوب جاگزیں تھا کہ نجاست سے بچنا ضروری ہے۔ اس لئے آنحضرتﷺ سے اجازت طلب کئے بغیر ہی اسے روکنا شروع کر دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا لازمی ہونا ان کے نزدیک مسلّم تھا۔

۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مانع دُور ہوتے ہی خرابی کا ازالہ کرنا چاہیئے، کیونکہ اس کے فارغ ہوتے ہی صحابہؓ کو پانی بہانے کا حکم دے دیا گیا۔(فتح الباری، 324و325/1۔)

 

9) یہ واضح کر دینا کہ غلطی بہت بڑی ہے​

 

حضرت محمد بن کعب، حضرت زید بن اسلم اور حضرت قتادہؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت بیان کی کہ غزوہ تبوک کے موقع ہر ایک شخص نے کہا:” ہم نے تو اپنے ان قراء(یعنی رسول اللہﷺ اور علماءِ صحابہؓ) جیسے لوگ کبھی نہیں دیکھے، کھانے پینے کے بے حد شائق، بات کرنے میں انتہائی جھوٹے، اور جنگ کے موقع پر انتہائی بزدل”۔ عوف بن مالکؓ نے کہا :” تُو جھوٹ کہتا ہے۔ بلکہ تُو منافق ہے، میں یہ بات ضرور رسول اللہﷺ کو بتاؤں گا”۔ عوفؓ یہ بات بتانے کے لئے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ ان کے پہنچنے سے پہلے قرآن نازل ہو چکا ہے(اور حضور علیہ السلام کو وحی کے ذریعے اس بات کی اطلاع ہو چکی ہے)۔ آنحضرتﷺ اپنی اونٹنی پر کجاوہ کس کر سوا ہو چکے تھے کہ وہ شخص بھی آ پہنچا، اور کہنے لگا:” اللہ کے رسول ! ہم تو گپ شپ کر رہے تھے، ہم تو دل لگی کر رہے تھے، ہم تو اس طرح کی باتیں کر رہے تھے جس طرح مسافر کیا کرتے ہیں تا کہ ہمارا سفر (آسانی سے) طے ہو جائے”۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ منظر گویا اب بھی میرے سامنے ہے جب اس شخص نے جناب رسول اللہﷺ کی اونٹنی کی رسّی پکڑی ہوئی تھی، اور (ڑاستے کے) پتھر اس کے پاؤں کو زخمی کر رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا:” ہم تو گپ شپ کر رہے تھے، ہم تو دل لگی کر رہے تھے” اوررسو ل اللہﷺ فرماتے تھے:(۔۔۔ أَبِاللَّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ كُنتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ)(التوبۃ:65) "کیا تم اللہ کا، اور اس کی آیات کا اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے؟”۔ آنحضرتﷺ نہ اس کی طرف توجہّ فرماتے تھے نہ اس سے زیادہ کوئی بات ارشاد فرماتے تھے۔

ابن جریر ؒ نے یہ واقعہ ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: غزوہ تبوک میں ایک آدمی نے کسی مجلس میں کہا:” ہم نے اِن قُرّاء(علماءِ صحابہؓ ) جیسے لوگ کبھی نہیں دیکھے، پیٹ بھرنے کے انتہائی شوقین ، زبان کے انتہائی جھوٹے اور جنگ کے موقع پر انتہائی بزدل”۔ مجلس میں موجود ایک صحابیؓ نے کہا:” تُو جھوٹا ہے، بلکہ تُو منافق ہے ، میں ضرور رسول اللہﷺ کو بتاؤں گا”۔ اور قُرآن نازل ہو گیا۔ عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ وہ رسول اللہﷺ کی اونٹنی کی رسی کو پکڑے ہوئے (ساتھ ساتھ بھاگ رہا ) تھا اور پتھر اسے زخمی کر رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا:” یا رسول اللہ! ہم تو گپ اور دل لگی کر رہے تھے”۔ اور رسول اللہﷺ فرماتے تھے:( أَبِاللَّہِ وَآیَاتِہِ وَرَسُولِہِ كُنتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ، لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِیمَانِكُمْ ۚ)(التوبۃ: 65۔66)” کیا تم اللہ کا، اس کی آیات کا اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے؟ معذرت نہ کرو، تم ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کرچکے ہو”۔(تفسیر ابن جریر طبری، 333/14۔ اس کی سند حسن ہے۔)

 

10) غلطی کا نقصان واضح کرنا​

 

حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ (سفر کے دوران) کسی مقام پر پڑاؤ کرتے تو صحابہ کرامؓ گھاٹیوں اور وادیوں میں بکھر جاتے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” تمہارا اِن گھاٹیوں اور وادیوں میں یوں بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے” ۔ اس کے بعد(یہ حال ہو گیا کہ) جب بھی آنحضرتﷺ کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے تو صحابہ کرامؓ ایک دوسرے سے اس طرح مل کر بیٹھے کہ اگر ان پر کپڑا پھیلایا جائے تو سب کو ڈھانک لے”۔(سنن ابی داود کتاب الجھاد مایؤ مر من انضمام العسکر ، ح: 2628، علامہ البانی نے صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو صحیح سن ابی داود، ح: 2288۔)

ایک روایت میں صحابی فرماتے ہیں:” اِتنا مل کر بیٹھے تھے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر میں اُن پر ایک چادر پھیلاؤں تو سب کو ڈھانک لے”۔(مسند احمد، 193/4)

اس میں جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ آنحضرتﷺ صحابہ کرامؓ کا بہت خیال رکھتے تھے اور اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ امیر لشکر کو اپنی فوج کے فائدہ کا بہت خیال رکھنا چاہیئے اور یہ بھی کہ لشکر کے لوگ جب بکھر کر آرام کریں تو اس کی وجہ سے شیطان مسلمانوں کو خوف زدہ کرسکتا ہے اور دشمن کو حملہ کرنے کا حوصلہ ہو سکتا ہے۔(دیکھئے عون المعبود، 292/7۔)

اور بکھر نے کا یہ نقصان بھی ہے کہ لشکر کے افراد ایک دوسرے کی کماحقّہ ، مدد نہیں کرسکتے۔(دیکھئے دلیل الفالحین 130/6۔)

یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے ایک ہدایت ارشاد فرمائی تو صحابہ کرامؓ نے اس کی پوری پوری تعمیل کی۔

غلطی کا نقصان واضح کرنے کی ایک اور مثال حضرت نعمان بن بشیر ؒ کا روایت کردہ ارشاد نبویﷺ ہے:” تم ضروری اپنی صفیں سیدھی کرو، ورنہ اللہ تعالی تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا”۔(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب نسویہ لصفوف عند الاقامہ وبعد ھا،ح: 717۔)

حضرت نعمان بن بشیرؓ نے ارشاد فرمایا: رسول اللہﷺ ہماری صفیں اتنے اہتمام سے سیدھی فرماتے تھے گویا ان کے ساتھ تیر سیدھے کئے جائیں گے (یعنی صفیں تیر سے بھی زیادہ سیدھی ہوتی تھیں)، حتیٰ کہ آپﷺ نے محسوس فرمایا کہ ہم نے یہ مسئلہ سمجھ لیا ہے(تب بار بار کہنا چھوڑ دیا)۔ اس کے بعد ایک دن آنحضرتﷺ (نماز پڑھانے) تشریف لائے، آپﷺ تکبیر کہنے ہی لگے تھے کہ آپﷺ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جس کا سینہ صف(کے دوسرے افراد ) سے آگے نکلا ہوا تھا۔ تب آپﷺ نے فرمایا:” اللہ کے بندو! تم ضرور صفیں سیدھی کرو، ورنہ للہ تعالی تمہارے چہروں کے مابین اختلاف ڈال دے گا”۔(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا ،ح: 436۔)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:” اپنی صفوں کو سیسہ پلائی ہوئی(دیوار کی طرح) کرو(آپس میں فاصلہ چھوڑ کر نہ کھڑے ہوا کرو)۔ اور صفیں قریب قریب بناؤ، اور گردنیں برابر رکھو(آگے پیچھے نہ کھڑے ہو)۔ قسم ہے اُس ذات ی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے، میں دیکھتا ہوں صف کے شگافوں میں شیطان اس طرح گھستے ہیں جیسے سیاہ میمنے”۔(صحیح سنن النسائی، کتاب الامامۃ باب حث الامام علی رث الصفوف ،ح:78، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔)

غلطی کرنے والے کو قائل کرنے کے لئے غلطی سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور اس کے بڑے نتائج کی وضاحت بڑی اہم چیز ہے۔ بعض اوقات غلطی کا نتیجہ خود غلطی کرنے والے کے حق میں ہی بُرا ہوتا ہے۔بعض اوقات اس کے نتیجہ میں دوسروں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پہلی صورت کی مثال سنن ابی داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، جو دوسرے الفاظ سے صحیح مسلم میں بھی مذکور ہے کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ایک آدمی کی چادر ہوا سے اُڑنے لگی تو اُس نے ہوا پر لعنت بھیجی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا” اسے لعنت نہ کرو، وہ حکم کی پابند ہے(یعنی اللہ کے حکم سے چلتی ہے)، جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے جو اس کی مستحق نہ ہو و لعنت خود اُسی(لعنت بھیجنے والے ) پر پڑتی ہے”۔(سنن ابی داود کتاب الادب بابا فی اللعن،ح: 4908۔ علامہ البانی حڈیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، ح:528۔)

دوسری صورت کی مثال حضرت ابو بکرؓ کی حدیث ہے، جسے امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کی۔ مسلم کی روایت کے مطابق اُس شخص نے کہا تھا:” اے اللہ کے رسول ، فلاں معاملے میں رسول اللہﷺ کے بعد اُس شخص سے افضل کوئی نہیں(صحیح مسلم ، کتاب الذھد والرفاق، باب النھی عن المدح، ح: 3000۔)تو آنحضرتﷺ نے فرمایا:” ارے ! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی، تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی۔” کئی بار فرمایا۔ پھر ارشاد فرمایا:” جس نے اپنے بھائی کی تعریف ضروری کرنی ہو، وہ یوں کہے: فلاں شخص کے بارے میں میرا یہ خیال ہے، اور اللہ اس کا حساب لینے والا ہے، اور میں اللہ کے مقابلے میں کسی کو پاکباز قرار نہیں دیتا۔ میں اسے ایسے سجھاتا ہوں۔ یہ بھی تب کہے اگر اس کے علم میں وہ نیک آدمی ہو”۔(صحیح البخاری، کتاب الشھادات باب اذا رکّی رجل رجلا کفاہ، ح: 2662۔)

امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب” الادب المفرد” میں حضرت مجن اسلمیؓ کا ایک واقعہ روایت کیا ہے، اس میں صحابی فرماتے ہیں:” حتیٰ کہ جب ہم مسجد میں پہنچے تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا:” یہ کون ہے؟”میں اس کی خوب تعریف کرنے لگا، میں نے کہا:” یا رسول اللہ! یہ فلاں صاحب ہیں، یہ ایسے ہیں اور ایسے ہیں” [الادب المفرد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ” یہ فلاں صاحب ہیں، یہ تمام اہل مدینہ میں سب سے عمدہ نماز پڑھتے ہیں”] آنحضرتﷺ نے فرمایا:” بس کر، اسے نہ سناؤ، ورنہ تم اسے ہلاک کر دوگے”۔(الادب المفرد للبخاری، باب مایحثیٰ فی وجوہ المدّاحین ،ح:341۔ علامہ البارنی نے حسن کہا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک شخص کو سنا کہ کسی کی تعریف کر رہا ہے اور تعریف میں اسے حد سے بڑھا رہا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تم نے اس آدمی ہو تباہ کر دیا”۔ یا فرمایا:” تم نے اس کی کمر توڑ دی”۔(صحیح البخاری کتاب الشھادات باب مایکرہ من الاصناب فی المدح، ح:2663۔)

یہاں نبی اکرمﷺ نے اُس غلط تعریف کرنے والے کو، جو مبالغہ آمیز انداز میں تعریفیں کر رہا تھا، اس کی غلطی کے انجام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مبالغہ آمیز تعریف کی وجہ سے ممدوح کے دل فخر پیدا ہو جائے گا، وہ غرور اور تکبر کی وجہ سے اکڑنے لگے گا۔ ممکن ہے اس تعریف کی وجہ سے اسے جو شہرت حصل ہو وہ اس پر بھروسا کرتے ہوئے عمل میں سستی کا شکار ہو جائے یا تعریف کی لذّت محسوس کر کے ریا کاری میں مبتلا ہو جائے، اور اس طرح وہ ہلاک ہو جائے۔ جبی اکرمﷺ نے اسی چیز کو اِن الفاظ میں بیان فرمایا:((اَھلَکتُم))”تم نے اسے تباہ کر دیا” یا(( قَطَعتُم عُنُقَ الرَّجلِ))” تم نے اس کی گردن کاٹ دی” یا(( قطَعتُم ظَھرَ الرَّجُلِ))”تم نے اس کی کمر توڑ دی”۔

اس کے علاوہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ تعریف کرنے والا تعریف میں ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کا اسے یقین نہیں ہوتا، اور ایسی بات تاکید کے ساتھ کہہ دیتا ہے جس کو وہ براہِ راست معلوم نہیں کرسکتا ، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ تعریف میں جھوٹ بول دیتا ہے، بعض اوقات ممدوح کے سامنے تعریف میں ریا کاری سے کام لے رہا ہوتا ہے، اس طرح گناہ اور بڑا ہو جاتا ہے، بالخصوص جبکہ ممدوح ظالم یا فاسق ہو تو اس جرم کی شناعت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔(دیکھئے فتح الباری، 478/10۔)

اس کا مطلب یہ نہیں کہ تعریف کرنا سرے سے ممنوع ہے۔ خود نبی اکرمﷺ نے بعض حضرات کی موجودگی میں ان کی تعریف کی ہے۔ صحیح مسلم کے ایک باب کے عنوان سے یہ مسئلہ خوب واضح ہو جاتا ہے۔ باب کا عنوان یوں ہے: بابُ النَّھی عَن المَدح اذا کان فیہ افراط’ وخیفَ منہ فتنۃٌ علَی المَمدُوحِ” تعریف کی ممانعت ، جب کہ اس میں مبالغہ ہو اور اس سے ممدوح کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو”۔(صحیح مسلم، کتاب الزھد والرقائق۔)

البتہ جو شخص اپنی کوتاہیوں کا معترف ہوتا ہے اسے اس قسم کی تعریف سے نقصان نہیں ہوتا اور جب اس کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ اپنے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوتا، کیونکہ اسے اپنے صحیح مقام کا علم ہوتا ہے۔ کسی بزرگ کا قول ہے: جب کسی کی منہ پر اس کی تعریف کی جائے تو اسے چاہیئے کہ یوں دعا کرے: اللّٰھُمَّ غفِرلِی مَالاَ یَعلَمُونَ، وَلاَ تُوَاخِذنِی بِمَا یَقُولُونَ، وَجعَلنِی خَیرًا مِمَّا یظُنُّونَ۔(فتح الباری، 478/19)” اے اللہ! میرے وہ گناہ معاف فرما دے جو ان لوگوں کو معلوم نہیں، اور جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس پر میری گرفت نہ فرمانا، اور مجھے ان کے گمان سے بہتر بنا دے”۔

 

11) غلطی کرنے والے کو عملی طور پر تعلیم دینا

 

اکثر اوقات نظری تعلیم کے بجائے عملی تعلیم زیادہ مؤثر ہوتی ہے، نبی اکرمﷺ نے بھی یہ طریقہ اختیار فرمایا ہے۔ حضرت جبیر بن نفیر اپنے والدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کے لئے پانی منگوایا اور فرمایا:” ابو جبیر! وضو کر لیجئے”۔ ابو جبیرؓ نے مُنہ سے وضو کی ابتدا کی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ” ابو جبیر! مُنہ سے شروع نہ کیجئے کافر منہ سے شروع کرتا ہے” ۔ پھر حضورﷺ نے پانی طلب فرمایا اور اپنے ہاتھ دھو کر اچھی طرح صاف کر لئے۔ پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، اور تین بار چہرہ مبارک دھویا، اور دایاں بازو کہنی تک تین بار دھویا، اور باا بھی تین بار دھویا، اور سر کا مسح کیا، اور قدم مبارک دھوئے۔(السنن الکبریٰ البیھقی، 42/1 کتب الطھارۃ باب التکرار فی غسل الیدین، گلامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، 772/6، ح :2820۔)

یہاں یہ نکتہ توجہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے جب صحابیؓ کو یہ بتایا کہ کافر پہلے مُنہ دھوتے ہیں تو اس کا مقصد ان کے دل میں اس غلطی سے نفرت پیدا کرنا تھا۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ کافر بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دیتا ہے ۔جو صفائی کا اہتمام کرنے کے منافی ہے۔ واللہ اعلم

 

12) صحیح متبادل پیش کرنا

 

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم جب رسول اللہﷺ کی معیت میں نماز ادا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے: بندوں کی طرف سے اللہ کو سلام ، فلاں فلاں کو سلام ۔ (ایک روایت میں ہے) جبرائیل کو سلام ، میکائیل کو سلام۔(سنن النسائی، کتاب التطبیق، باب اکیتیۃ التشھد، ح:1167و 1168، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، (صحیح سنن النسائی ،ح:1118و1119))۔

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: یوں نہ کہا کرو کہ اللہ کو سلام، اللہ تو خود سلامتی والا ہے۔ بلکہ یوں کہو: التحیات للہ والصلوات و الطیبات السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین(تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اے نبیﷺ ! آپ پرسلامتی ہو، اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ ہم پر بھی سلامتی ہو، اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی)۔ جب تم یہ کہو گے تو آسمان اور زمین میں اللہ کے ہر بندے کو یہ دعا پہنچ جائے گی۔(پھر کہو) اشھد ان لا الہ الّا اللہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ(میں گواہی دیتا ہوں کہا للہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں)۔ اس کے بعد جو دعا اسے اچھی لگے وہی منتخب کر کے پڑھ لے”۔(صحیح البخاری، کتبا الاذان بابا مایتخیر من الدعا بعد التشھد، ح:835)

اس کی ایک مثال یہ ہے، جو حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے(مسجدکی) قبلہ والی دیوار پر بلغم لگا دیکھا ۔ آنحضرتﷺ کو یہ چیز انتہائی ناگوار ی محسوس ہوئی ، حتیٰ کہ آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار ظاہر ہو گئے۔ آپﷺ نے خود اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے کھرچ کر دیوار صاف کی اور فرمایا:” جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رَب کے ساتھ سرگوشیاں کر رہا ہوتا ہے، اور رَب قبلہ کی طرف اس کے سامنے ہوتا ہے لہٰذا کوئی شخص قبلہ کی طرف ہر گز نہ تھوکے ، بلکہ بائیں طرف تھوکے ، یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے”۔ پھر آپﷺ نے اپنی چادر کا ایک کونہ پکڑ کر اس میں تھوکا، اور کپڑے کا ایک حصہ دوسرے پر پلٹ دیا اور فرمایا:” یا اس طرح کر لے”۔(صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ باب حک البذاق بالیدمن المسجد ۔ح: 405۔)

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:” کوئی شخص اپنے سامنے ہر گز نہ تھوکے، نہ دائیں طرف تھوکے، لیکن بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے”۔(صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ باب لا یبصق عن یمینہ فی الصلاۃ ، ح: 412۔)

ایک اور مثال: حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضرت بلالؓ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں برنی کھجوریں( ایک عمدہ قسم کی کھجوریں) لے کر حاضر ہوئے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” یہ کہاں سے آئیں؟” حضرت بلالؓ نے عرض کیا:” ہمارے پاس کچھ ادنیٰ قسم کی کھجوریں تھیں، میں نے ان کے دو صاع کے بدلے ایک صاع یہ کھجوریں لے لیں، تاکہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں کھانے کے لئے پیش کی جائیں”۔ اس پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” اوہو! یہ تو عین سود ہے، عین سود ہے! ایسے نہ کیا کرو۔ اگر تم خریدنا چاہو تو(اپنی ادنیٰ) کھجوریں الگ سودے کے طور پر بیچ دو، پھر (ان پیسوں سے) یہ (عمدہ کھجوریں) خرید لو”۔(صحیح البخاری، کتاب الوکالۃ باب اذا باع الوکیل شیاً فاسدًا فبیعہ مردود، ح: 2312۔)

ایک روایت میں یوں ہے کہ: نبی اکرمﷺ کا ایک غلام ایک دن ترو تازہ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور نبی اکرمﷺ کی کھجوریں بارانی زمن میں تھیں، ان میں خشکی محسوس ہوتی تھی۔ نبیﷺ نے فرمایا:” تمہیں یہ کھجوریں کہاں سے ملیں؟” اُس نے عرض کیا:” یہ ایک صاع ہم نے اپنی دو صاع کھجوروں کے بدلے خریدا ہے”۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” ایسے نہ کیا کرو، یہ درست نہیں۔ بلکہ اپنی کھجوریں بیچ دو، پھر جو کھجوریں چاہو خرید لو”۔(مسند احمد 67/3۔)

ہم دیکھتے ہیں کہ اَمر بالمعروف اور نہی ان المنکر کا کام کرنے والے بعض علماء جب لوگوں کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کرتے ہیں تو ان کے کام میں ایک نقص نظر آتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ یہ بات تو واضح کر دیتے ہیں کہ فلاں کام غلط ہے اور فلاں کام حرام ہے، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اس کی جگہ انہیں کیا کام کرنا چاہیئے ، یا اس کام کا صحیح طریقہ کار کیا ہے۔ حالانکہ شریعت کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ جن حرام طریقوں سے اپنی کوئی غرض پوری کرتے ہیں، شریعت ان کی جگہ ان کا متبادل پیش کرتی ہے۔ مثلاً جب زنا کو حرام قرار دیا گیا تو اس کے ساتھ نکاح کا صحیح طریقہ بتا دیا گیا۔ اسی طرح اگر سوف حرام کیا گیا ہے تو اس کی جگہ تجارت کو جائز قرار دے دیا گیا۔خنزیر مردار، کچلی والے جانور اور پنجے سے شکار کرنے والے پرندے حرام قرار دیئے گئے ، تو دیگر مویشیوں اور شکار کئے جانے والے جانوروں کو ذبح کر کے کھانے کی اجازت دے دی گئی ۔ اس کے علاوہ اگر کسی شخص سے حرام کام کا ارتکاب ہو جائے تو شریعت نے اس کیلئے توبہ اور کفارہ کا راستہ کھلا رکھا ہے، جس کی تفصیلات قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ لہٰذا مبلغ کو چاہیئے کہ شریعت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نعم البدل پیش کرے، اور مشکل سے نکلنے کے لیے شرعی حل تلاش کرے۔

یہاں یہ اشارہ کر دینا مناسب ہے کہ متبادل پیش کرنا بہر حال استطاعت کے مطابق ہی ممکن ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک کام غلط ہوتا ہے جس سے پرہیز کرنا واجب ہوتا ہے، لیکن حالات کی خرابی کی وجہ سے یا لوگوں کی شریعت سے دوری کی وجہ سے عملاً کوئی مناسب نعم البدل موجود نہیں ہوتا، یا داعی کو بروقت کوئی متبادل یاد نہیں آتا، یا وہ ان چیزوں سے واقف نہیں ہوتا جو صحیح متبادل بن سکتی ہیں۔ ان حالات میں بھی اس کے لئے غلطی پر تنبیہ کرنا اور برائی سے روکنا ضروری ہے، اگرچہ وہ ان کی توجہ کسی متبادل کی طرف مبذول نہ کرا سکے۔ ایسی صورتحال عام طور پر بعض مالی معاملات اور سرمایہ کاری کے ان طریقوں میں پیش آتی ہے جو غیر ٘ مسلم معاشروں میں وجود میں آئے اور پھر اپنی تمام رباحتوں اور خلافِ شریعت امور سمیت مسلمانوں کے معاشروں میں رواج پا گئے اور مسلمانوں کی کوتاہی اور کمزوری کی وجہ سے ان کا کوئی شرعی نعم البدل ایجاد کر کے رائج نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ یہ نقص اور کوتاہی ہے اور شریعت میں ان کے متبادل موجود ہیں اور ایسے حل موجود ہیں جن کو اختیار کر کے مسلمان اس مشکل سے نکل سکتے ہیں، خواہ کسی کو ان حلوں کا علم ہو یا نہ ہو۔

 

13) غلطی سے محفوظ رہنے کی تدبیر بتانا

 

حضرت ابو امامہؓ نے اپنے والد حضرت سہل بن حنیفؓ سے ان کا ایک واقعہ روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب وہ مقام جُحفَہ کی وادی خزار میں پہنچے تو وہاں حضرت سہل بن حنیفؓ غسل کرنے لگے۔ ان کا رنگ گورا تھا اور جلد بہت خوش رنگ تھی۔ قبیلہ بنو عدی بن کعب کے ایک صاحب حضرت عامر بن ربیعہؓ نے انہیں غسل کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: ایسی جد تو میں نے کبھی کسی پردہ نشین لڑکی کی بھی نہیں دیکھی(یعنی کتان خوبصورت رنگ ہے)۔ اس پر حضرت سہلؓ تو وہیں زمین پر گر پڑے۔ کسی نے آکر رسول اللہﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ سہلؓ کو دیکھیں گے، اللہ کی قسم! وہ تو سر بھی نہیں اٹھاتے، انہیں کوئی افاقہ نہیں ہو رہا(سخت بخار ہے)۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” کیا تم اس کے بارے میں کسی کو قصور وار سمجھتے ہو؟” صحابہ نے کہا: عامر بن ربیعہ نے انہیں(کپڑے اتارے ہوئے ) دیکھا تھا۔ جناب رسول اللہﷺ نے عامرؓ کو طلب فرمایا، اور انہیں سرزنش فرمائی۔ ارشاد فرمایا:” ایک آدمی اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے؟ اگر تجھے ایک چیز اچھی لگی تھی تو تو نے برکت کی دعاء کیوں نہ دی؟” پھر فرمایا:” اس کے لئے اپنے اعضاء دھوؤ” ۔ انہوں نے ایک برتن میں چہرہ، ہاتھ، کہنیاں، گھٹنے، پاؤں اور تہہ بند کے اندر والا حصہ دھو کر (وہ پانی) دے دیا۔ وہ پانی حضرت سہلؓ پر ڈالا گا ۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جس کو نظر لگی ہو ، کوئی شخص پانی اس کے یچھے کی طرف سے اس کے سر اور کمر پر ڈال دے۔ پھر برتن بھی اس کے پیچھے ہی الٹا کر کے رکھ دے۔ چناچہ حضرت سہلؓ کے ساتھ ایسے ہی کیا گیا تو وہ ٹھیک ٹھاک ہو کر لوگوں کے ساتھ روانہ ہو گئے۔(مسند احمد2/486۔ امام ہیثمی نے کہا ہے کہ مسند احمد کی روایت صحیح ہے۔ (ملاحظہ ہو مجمع الزوائد 5/107، ح 8462، باب ماجاء فی العین۔)

موطأ امام مالک میں بھی حضرت ابو امامہؓ سے یہ واقعہ مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:” میرے والد حضرت سہل بن حنیفؓ ے وادی خزّار میں غسل یا۔ انہوں نے جُبّہ پہنا ہوا تھا۔ جب انہوں نے(غسل کرنے کے لئے) جُبّہ اتارا تو عامر بن ربیعہؓ دیکھ رہے تھے۔ سہلؓ کا رنگ گورا اور جلد خوش رنگ تھی۔ عامر بن ربیعہؓ نے کہا:” اس جیسی جلد تو کبھی کسی کنواری لڑکی کی بھی نہیں دیکھی”۔ سہلؓ کو وہیں بخار چڑھ گیا، اور بخار بھی زور کا چڑھا۔ جناب رسول اللہﷺ سے کسی نے آ کر عرض کیا:” سہلؓ کو بخار ہو گیا ہے اور وہ آپ کے ساتھ نہیں جا سکیں گے”۔ جناب رسول اللہﷺ حضرت سہلؓ کے پاس گئے تو انہوں نے عامرؓ کی بات بنائی۔ آنحضرتﷺ نے (حضرت عامرؓ سے) فرمایا:” ایک شخص اپنے بھائی کو کیوں قتل کرتا ہے؟ تم نے برکت کی دعاء کیوں نہ دی؟ نظر یقیناً حق ہے، اس کے لئے وضو کرو”۔ عامرؓ نے ان کے لئے وضو کیا۔ چنانچہ سہلؓ ٹھیک ٹھاک ہو کر آنحضرتﷺ کے ساتھ روانہ ہو گئے۔(موطأ امام مالک، کتاب العین، باب الوضوء من العین2/938۔)

اس واقعہ میں مندرجہ ذیل فوائد ہیں:

1۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچنے کا سبب بنا ہو، تربیت کرنے والا اس پر ناراضگی کا اظہار کر سکتا ہے۔

2۔ غلطی سے نقصان پہنچتا ہے اور بعض اوقات کوئی غلطی کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔

3۔ ایسی تدبیر بتانا، جس سے مسلمان کو پہننے والے نقصان یا تکلیف کا سدِّباب ہو جائے۔

 

14) غلطی کرنے والے کو براہِ راست مخاطب کرنے کے بجائے عمومی وضاحت پر اکتفا کرنا:

 

حضرت أنس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ” کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں؟” حضور علیہ السلام نے اس بارے میں سختی سے تنبیہ فرمائی، حتیٰ کہ ارشاد فرمایا:” وہ ضرور ضرور اس حرکت سے باز آ جائیں، ورنہ ان کی آنکھیں چھین لی جائیں گی”۔(صحیح البخاری، کتاب لاذان، باب رفع النصرا لی السماء فی الصلاۃ، ح750۔)

حضرت عائشہؓ نے ایک لونڈی حضرت بریرہؓ کو خریدنے کا ارادہ کیا۔ ان کے مالکوں نے اس شرط پر بیچنے پر رضا مندی ظاہر کی ولاء(۱) ان لوگوں کی ہو گی۔ جب نبی اکرمﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپﷺ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی حمد وثنا بیان کی ۔ پھر فرمایا:

"کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو الہ کی کتاب(یعنی شریعت) میں نہیں ہیں؟ جو شرط بھی اللہ کی کتاب میں نہیں وہ کالعدم ہے، اگرچہ سو شرطیں ہوں ۔ اللہ کا فیصلہ زیادہ درست ہے اور الہ کی (بیان کی ہوئی) شرط زیادہ پختہ ہے۔ (قانون یہ ہے کہ) ولاء اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے”۔(صحیح البخاری، کتبا المکاتب، باب استعانۃ المکاتب وسوالہ الناس،ح:۲۵۶۳۔)[1]

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک کام کیا، اور اس کی اجازت دی، لیکن کچھ لوگوں نے اس سے پرہیز کیا۔ نبی اکرمﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپﷺ نے خطبہ دیا۔ اللہ کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا:

” کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ اس کام سے بچتے ہیں جو میں کرتا ہوں؟ اللہ کی قسم ! میں اللہ کے بارے میں ان سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں( کہ کونسا کام اللہ کو پسند ہے اور کون سا نہیں) اور ان سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھتا ہوں”۔(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب من لم یواحہ الناس بالعتاب،ح: 6101۔)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے مسجد میں قبلہ کی طرف بلغم لگا دیکھا۔ آپﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ” کیا وجہ ہے کہ ایک آدمی اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس کے چہرے کی طرف تھوک دیتا ہے؟ کیا کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے سامنے آ کر اس کے چہرے پر تھوک دیا جائے ؟ جب کسی کو بلغم پھینکنا ہو تو بائیں طرف اپنے پاؤں کے نیچے پھینکے، ورنہ اس طرح کر لے”۔(حدیث کے راوی قاسمؒ نے بتایا کہ صحابی نے کپڑے میں تھوک کر اسے مسل کر بتایا)۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب النھی عن المبصاق فی المسجد،ح: 550۔)

سنن نسائی میں نبی کریمﷺ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے صبح کی نماز پڑھی اور اس میں سورہ روم کی تلاوت کی آپﷺ کو قرأت میں التباس ہو گیا۔ جب حضور علیہ السلام نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:” لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور وضو اچھی طرح نہیں کرتے؟ قرآن میں یہی لوگ ہمیں مشابہ ڈالتے ہیں”۔سنن النسائی، کتاب الافتاح، باب القراءۃ فی الصبح والروم ،ح: 946۔ اس سے ملتے جلتے الفاظ میں مسند احمد3/473 میں بھی مروی ہے۔)

اس قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں مشترک چیز یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کو شرمندہ نہ کیا جائے۔ غلطی کرنے والے کو براہِ راست مخاطب نہ کرنے اور اشارہ سے اس کی غلطی واضح کرنے کے اس اسلوب میں بہت سے فائدے ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1)۔ غلطی کرنے والے کی طرف سے منفی ردِّ عمل کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اس طرح شیطان اس کے انتقامی جذبات کو ہوا دے کر انتقام کی طرف مائل نہیں کرسکتا۔

2)۔ اس اسلوب کو زیادہ قبول کیا جاتا ہے اور دل پر اس کا زیادہ گہرا اثر ہوتا ہے۔

3)۔ اس سے غلطی کرنے والے کی پردہ پوشی ہوتی ہے۔

4)۔ غلطی کرنے والے کے دل میں نصیحت کرنے والے کی قدر و منزلت اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ تعریض کے اس اسلوب کا مقصد یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کو رُسوا کئے بغیر مسئلہ سمجھا دیا جائے، لہٰذا یہ اسلوب اس وقت استعمال کرنا چاہیئے جب اس کی غلطی عام لوگوں سےپوشیدہ ہو۔ لیکن اگر اکثر لوگوں کو اس کا علم ہو، اور اسے معلوم ہو کہ اکثر لوگ یہ بات جانتے ہیں، تو اس صورت میں یہ اسلوب سخت زجر و بیخ کا حامل اور غلطی کرنے والے کے لئے سخت تکلیف وہ بن جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات تو وہ یہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ کاش اسے براہِ راست تنبیہ کر دی جاتی، اور اس کے ساتھ یہ اسلوب اختیار نہ کیا جاتا۔ اس کی تاثیر میں اس سے بھی فرق پڑتا ہے کہ بات کہنے والا کون ہے؟ اور کس کے سامنے بات کی جارہی ہے؟ اور بات نصیحت اور خیر خواہی کے انداز سے کہی گی ہے یا تنگ کرنے کے انداز سے؟

خلاصہ کلام یہ ہے کہ بالواسطہ کلام کا یہ انداز تربیت کا ایسا انداز ہے جس سے غلطی کرنے والے کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی ، بشرطیکہ اسے استعمال کرتے ہوئے حکمت سے کام لیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] : آزاد کرنے والے اور آزاد ہونے والے کا باہمی تعلق” ولاء” کہلاتا ہے۔ آزاد ہونے کے بعد غلام اسی خاندان کا فرد شمار کیا جاتا ہے جس خاندان سے آزاد کرنے والے کا تعلق ہو۔ چنانچہ آزاد ہونے والا جب فوت ہو جائے تو اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو یہی آزاد کرنے والا اس کا وارث ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

15) غلطی کرنے والے کے خلاف رائے عامّہ کو بیدار کرنا

 

یہ طریقہ بعض خاص حالات میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، اور اس کے لئے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے بہت زیادہ منفی اثرات نہ ہوں۔ نبی اکرمﷺ سے اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔

حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے پڑوسی کی شکایت کی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:”جاؤ، صبر کرو”۔ وہ دو تین دفعہ شکایت لے کر حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا: "جاؤ، اپنے گھر کا سامان راستے میں ڈال دو”۔ اس نے ایسا ہی کیا۔(گزرنے والے) لوگ اس سے پوچھتے، وہ وجہ بتا دیتا۔ لوگ پڑوسی کو برا بھلا کہتے، اللہ اس کے ساتھ یوں یوں کرے۔ آخر پڑوسی نے آ کر اس سے کہا:” ( اپنے گھر میں) واپس آ جاؤ، آئندہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت نہیں ہو گی جو تمہیں ناگوار ہو”۔سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی حق الجوار، ح:5153، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح حسن کہا ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح ابی داود ،ح: 4292۔)

اس کے برعکس ایک دوسرا اسلوب ہے، جو اور قسم کے حالات میں، اور دوسرے قسم کے افراد کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ غلطی کرنے والے کو عام لوگ ناجائز طور پر تنگ نہ کریں۔ اس کی وضاحت آئندہ نکتہ سے ہوتی ہے۔

 

16) غلطی کرنے والے کے خلاف شیطان کی مدد کرنے سے پرہیز

 

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کے زمانہ میں ایک آدمی تھا، اس کا نام تو عبد اللہ تھا، لیکن حمار کے لقب سے معروف تھا۔ وہ (دل لگی کی باتیں کر کے) آنحضرتﷺ کو خوش کر دیا کرتا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے اسے شراب نوشی کی سزا کے طور پر کوڑے بھی مارے تھے۔ ایک بار (پھر) اسے حاضر کیا گیا(کیونکہ اس نے پھر شراب پی لی تھی) ۔ آنحضرتﷺ کے حکم سے اسے کوڑے مارے گئے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: اے اللہ! اس پر لعنت کر، اسے کتنی بار (اس جرم میں پکڑ کر) لایا جاتا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: ” اسے لعنت نہ کرو، جہاں تک مجھے علم ہے وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے”۔( صحیح البخاری ، کتاب الحدود، باب مایکرہ من لعن شارب الخمر۔۔ الخ ،ح: 6780۔)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں ایک آدمی کو حاضر کیا گیا جو نشے میں تھا۔ آنحضرتﷺ نے حکم دیا کہ اسے مارا جائے۔ ہم میں سے کسی نے اسے پاتھ سے مارا، کسی نے جوتے سے مارا، کسی نے کپڑے سے مارا۔ جب وہ (سزا پاکر) واپس ہوا، تو (حاضرین میں سے) کسی نے کہا:” اسے کیا ہے؟ اللہ اسے رُسوا کرے”۔ رسول الہﷺ نے فرمایا:” اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو”۔( صحیح البخاری ، کتاب الحدود، باب مایکرہ من لعن شارب الخمر۔۔ الخ ،ح: 6781۔)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں ایک آدمی کو حاضر کیا گیا جس نے شراب پی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: ” اسے مارو”۔ صحابی فرماتے ہیں:” ہم میں سے کسی نے اسے ہاتھ سے مارا، کسی نے جوتے سے ، کسی نے کپڑے سے ۔ جب وہ (سزا پاکر) واس ہوا تو کسی نے کہا: ” اللہ اسے رُسوا کرے”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” یوں نہ کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو”۔(صحیح البخاری، کتاب الحدود، باب الضرب بالحدید والنعال، ح: 6777)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ” اسے ڈانٹ ڈپٹ کرو”۔ لوگ اس سے کہنے لگے:” تو اللہ سے نہ ڈرا؟ تو نے اللہ کا خوف نہ کیا؟ تجھے رسول اللہﷺ سے شرم نہ آئی؟” پھر اسے چھوڑ دیا ۔ اس روایت میں ہے:” یوں کہو: اے اللہ اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم کر”۔سنن ابی داود، کتاب الحدود، باب الحد فی الخمر، ح: 4478، علامہ البانی نے صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داود، ح: 3759)

ایک روایت میں ہے : جب وہ واپس ہوا، تو لوگوں میں سے کسی نے کہا: اللہ تجھے رُسوا کرے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” ایسے نہ کہو، اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو، بلکہ یوں کہو: بلکہ اللہ تجھ پر رحم کرے”۔(مسند احمد، 2/300۔ استاد احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو شرح احمد شاکر، ح: 7983۔)

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان جب کسی گناہ میں ملوث ہو جاتا ہے تو اس وقت بھی وہ مسلمان رہتا ہے، اور اس کے دل میں بنیادی طور پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت باقی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے ایمان اور اللہ سے محبت کا انکار درست نہیں، نہ اسے ایسی بد دعاء دینی درست ہے جس کے نتیجہ میں اس کے خلاف شیطان کو مدد ملے، بلکہ اس کے لئے ہدایت، مغفرت اور رحمت کی دعا کرنی چاہیئے۔

 

17) غلط کام سے رُک جانے کو کہنا

 

ایک بڑی اہم چیز یہ ہے کہ غلطی کرے والے کو غلطی کرتے چلے جانے سے منع کر دیا جائے، تاکہ وہ مزید غلطیوں کا مرتکب نہ ہو، اور بُرائی سے روکنے کا فریضہ بلا تاخیر انجام پا جائے۔

حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے( کسی بات میں) یوں کہہ دیا:” قسم ہے میرے باپ کی”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” رُک جایئے، جو شخص اللہ کے سوا کسی چیز کی قسم کھاتا ہے، وہ شرک کرتا ہے”۔(مسند احمد 1/47۔ استاذ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے،ح:369)

سنن ابی داؤد میں حضرت عبد اللہ بن بسرؓ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن نبی اکرمﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آگے بڑھا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” بیٹھ جاؤ، تم نے (دوسروں کو) تکلیف پہنچائی ہے”۔(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ،باب تخطیء رواب الناس یوم الجمعۃ ،ح:1118، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح سنن ابی داؤد،ح:989۔)

امام ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کی مجلس میں ڈکار لی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” اپنی ڈکار روکو، جو لوگ دنیا میں زیادہ پیٹ بھرتے ہیں، قیامت کے دن وہ زیادہ دیر تک بھوکے رہیں گے”۔( سنن الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب 36، ح:2478، علامہ البانی نے حدیث کو دیگر معاون احادیث کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 1/606۔211ح:343۔)

ان احادیث میں غلطی کرنے والے کو براہ راست یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کام سے رُک جائے، اور باز رہے۔

 

18) اصلاح کے لئے غلطی کرنے والے کی رہنمائی

 

نبی کریمﷺ نے اس مقصد کے لئے کئی انداز اختیار فرمائے ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1۔ غلطی کرنے والے کی توجہ غلطی کی طرف مبذول کرانا، تاکہ وہ خود ہی اصلاح کر لے۔

اس کی ایک مثال حضرت ابو سعید خدریؓ کا روایت کردہ ایک واقعہ ہے۔ وہ جناب رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ۔ آنحضرتﷺ مجد میں تشریف لے گئے، دیکھا کہ ایک شخص مسجد کے درمیان میں انگلیوں میں انگلیاں ڈالے اپنے خیالات میں کھویا ہوا ہے۔ آنحضرتﷺ نے اسے اشارہ سے متنبہ کیا، اسے اپنی غلطی کی سمجھ نہ آئی۔ نبی اکرمﷺ نے حضرت ابو سعید خدریؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ” جب کوئی شخص نماز پڑھے تو اسے اپنی انگلیوں میں انگلیاں نہیں ڈالنا چاہئیں۔ یہ عمل شیطان کی طرف سے ہے۔ اور آدمی جب تک مسجد میں رہتا ہے، وہ باہر جانے تک نماز ہی میں ہوتا ہے”۔(مسند احمد، 2/54۔ استاذ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو شرح احمد شاکر، ح:11532۔)

2۔ غلط کام کو دوبارہ صحیح طریقے سے انجام دینے کا حکم، بشرطیکہ ممکن ہو:

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ مَسجِد میں ایک طرف تشریف فرما تے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا،نماز پڑھی، پھر آ کر آنحضرتﷺ کو سلام عرض کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ” وعلیکم السلام، جا کر دوبارہ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی”۔ اُس نے جا کر دوبارہ نماز پڑھی، پھر(نبی اکرمﷺ کی مجلس میں) حاضر ہوا اور سلام کہا۔ آپﷺ نے فرمایا:” وعلیکم السلامم جا کر دوبارہ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی”۔ دوسری یا تسیری دفعہ میں اُس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے سکادیجئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ” جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو (اچھی طرح سنوار کر) کامل وضو کر ، پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے اللہ اکبر کہہ ، پھر تجھے جو قرآن یاد ہے س میں سے جو آسان معلوم ہو پڑھ لے، پھر رکوع کر، حتیٰ کہ تو اطمینان سے رکوع کر لے ۔ پھر سر اٹھا حتیٰ کہ تو سیدھا کھڑا ہو جائے، پھر سجدہ کر حتیٰ کہ اطمینان سے سجدہ کر لے، پھر سر اٹھا، حتیٰ کہ اطمینان سے بیٹھ جائے، پھر سجدہ کر ، حتیٰ کہ اطمینان سے سجدہ کر لے، پھر سر اٹھا حتیٰ کہ اطمینان سے بیٹھ جائے، پھر پوری نماز میں اسی طرح کر”۔صحیح البخاری، کتاب السئذان، باب من رد فقال: علیک السلام۔۔۔ ح: 6251، الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ حدیث صحاح ستہ کی تمام کتابوں میں مروی ہے۔)

 

   قابل توجہ امور

 

1-۔نبی اکرمﷺ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے کاموں کو توجہ سے ملاحظہ فرماتے تھے، تاکہ انہیں تعلیم دے سکیں۔ نسائی کی روایت میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:” ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھی۔ رسول اللہﷺ اسے دیکھ رہے تھے لیکن ہمیں محسوس نہ ہوا۔ جب وہ (نماز سے ) فارغ ہوا تو اس نے آ کر رسول اللہﷺ کو سلام عرض کیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جا کر دوبارہ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔۔۔ الخ”۔ لہذا تربیت دینے والے میں یہ خوبی ہونی چاہیئے کہ اپنے ساتھیوں کے افعال سے غافل نہ ہو۔

2- تعلیم کی حکمت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ غلطی کرنے والے کو وہی کام دوبارہ کرنے کو کہا جائے۔ ممکن ہے وہ اپنی غلطی سمجھ جائے اور خود ہی اس کی اصلاح کر لے، بالخصوص جبکہ غلطی واضح ہو، جو اس جیسے شخص سے نہیں ہونی چاہیئے۔ ممکن ہے وہ بھول گیا ہو اور دوبارہ کرتے ہوئے اسے یاد آ جائے۔

3- اگر غلطی کرنے والا اپنی غلطی خود نہ سمجھ سکے تو تفصیل سے بیان کر دینا ضروری ہے۔

4-جب کوئی شخص کسی مسئلہ کو جاننے کی خواہش کرے، اس کے بارے میں سوال کرے، اور اس کا دل اس کی طرف متوجہ ہو، اس وقت مسئلہ بتانے سے اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ پختگی سے ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر سوال کئے بغیر اور شوق پیدا ہوئے بغیر معلومات دی جائیں تو اس قدر فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔

تعلیم کے بہت سے ذرائع ہیں، استاد حالات کے مطابق کوئی بھی مناسب ذریعہ اختیار کر سکتا ہے۔

غلط کام کو دوبارہ نئے سرے سے صحیح انداز سے کرنے کا حکم دینے کی ایک اور مثال صحیح مسلم کی وہ حدیث ہے جو حضرت جابرؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : مجھے حضرت عمر بن خطابؓ نے بتایا کہ ایک آدمی نے وضو کیا ، اس کے پاؤں پر ایک ناخن برابر جگہ خشک رہ گئی۔ نبی کریمﷺ نے اسے دیکھ لیا اور فرمایا:” واپس جا کر اچھی طرح وضو کرو”۔ وہ واپس گیا(اور وضو کیا) پھر نماز پڑھی۔صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب وجوب استیعاب جمیع اجزاء محل الطھارۃ، ح: 243۔)

ایک اور مثال سنن ترمذی کی حدیث ہے جو حضرت کَلَدہ بن حنبلؓ سے مروی ہے کہ حضرت صفوان بن اُمیّہؓ نے انہیں کچھ دودھ ، کھیس(۱) اور ضغابیس(۲) دے کر نبی اکرمﷺ ی خدمت میں بھیجا۔ حضورﷺ اُس وقت وادی کے بلند حصے میں تشریف فرما تھے۔ حضرت کَلَدہؓ فرماتے ہیں: میں سلام کئے اور لئے بغیر اندر حضور علیہ السلام کے پاس پہنچ گیا۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ” واپس جاؤ، اور کہو: السلام علیکم ، کیا میں اندر آ جاؤں؟”(سنن الترمذی، کتاب الاستئذان، باب ماجاء فی النسلبم قبل الستئذان ،ح: ۱۷۱۰، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ، ح: 2818/481۔)[1]

 

غلطی کی اصلاح کے لئے ممکن تلافی کا حکم دینا

 

صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :” کوئی مرد کسی نا محرم عورت کے ساتھ اکیلا نہ رہے”۔ ایک آدمی نے اٹھ کر عرض کیا”یا رسول اللہ! میری بیوی حج کے لئے روانہ ہو گئی ہے اور میں نے فلاں غزوہ میں نام لکھوا دیا ہے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:’ واپس جا کر اپنی بیوی کے ساتھ حج ادا کرو”۔صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب لایخلون رجل بامرءۃ الا ذومحرم،ح: 5233۔)

 

   غلطی کے آثار کی اصلاح

 

سنن نسائی میں حضرت عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:” میں ہجرت کی بیعت کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں،اور اپنے والدین کو روتے چھوڑ کر آگیا ہوں”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” واپس جاؤ ، اور جس طرح انہیں رُلایا ہے، اسی طرح انہیں ہنساؤ”۔سنن النسائی، کتاب البیعۃ، باب البیعۃ علی الھجرۃ،ح: 4174۔)

 

   غلطی کا کَفّارہ ادا کرنا

 

بعض غلطیاں ایسی ہیں جن کا ازالہ ناممکن ہے۔ شریعت نے انکے اثرات ختم کرنے کے لئے دوسرے طریقے مقرر کئے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ کفارہ کی ادائیگی بھی ہے۔ کفار ے کی بہت سی قسمیں ہیں، مثلاً قسم کا کفارہ، ظہار کفارہ، قتل خطاء کا کفارہ، رمضان کے روزہ کے دوران ازدواجی اختلاط کا کفارہ، وغیرہ۔

————————————————–

[1]۔(1) گائے بھینس وغیرہ کا گاڑھا گاڑھا دودھ جو بچہ پیدا ہونے پر تین روز تک نکلتا ہے۔(2) کھیرے یا ککڑی کی قسم کا اک جھوٹی چیز ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

19) جہاں غلطی ہو، اس پر تنبیہ کر کے باقی عمل کو قبول کرنا

 

بعض اوقات کوئی بات یا کوئی کام سارے کا سارا غلط نہیں ہوتا، اس صورت میں حکمت کا تقاضا ہے کہ صرف اتنی چیز کو غلط کہا جائے جو غلطی پر مشتمل ہے، پوری بات یا سارے عمل کو غلط قرار نہ دیا جائے۔ اس کی دلیل صحیح بخاری کی وہ حدیث ہے جو حضرت ربیع بن معوذ بن عفراءؓ سے مروی ہے۔انہوں نے فرمایا: جب میری رخصتی ہوئی تونبی اکرمﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ آپﷺ میرے پاس اس طرح بیٹھ گئے جس طرح تم[1] بیٹھے ہوئے ہو۔ ہماری کچھ بچیاں دف بجانے لگیں اور جنگ بدر میں ہمارے جو بزرگ جاں بحق ہوئے تھے، ان کے بارے میں شعر پڑھنے لگیں۔ اس دوران ایک لڑکی نے یہ شعر پڑھا:” وفینا نبی یعلم مافی غد” (ہم میں وہ نبی ہے جو کل کو پیش آنے والے حالات سے باخبر ہے)۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔” یہ بات چھوڑ دو ، اور جو کچھ تم پہلے کہہ رہی تھیں، وہی کہتی رہو”۔صحیح البخاری، کتاب النکاح باب ضرب الدف فی النکاح والولیمۃ،ح: 5147۔)

ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” اس بات سے خاموش رہو ، اور وہ بات کہو جو تم اس سے پہلے کہہ رہی تھیں”۔(سنن الترمذی کتاب النکاح باب ماجاء فی اعلان النکاح ح:1090۔ امام ترمذی نے حدیث کو ” حسن صحیح” کہا ہے۔)

ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” یہ بات نہ کہو، جو چھ کل ہونے والا ہے اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے”۔سنن ابن ماجۃ ، کتاب النکاح باب الغناء والدف، ح:1897 ، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ صحیح سنن ابن ماجۃ، ح: 1539۔)

 

اس رویئے کے نتیجے میں غلطی کرنے والے کو اصلاح کرنے والے کے عدل والنصاف کا احساس ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے غلطی کرنے والا اس کی تنبیہ کو آسانی سے قبول کر لینا ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگ غلطی دیکھ کر اس قدر غضب ناک ہوتے ہیں کہ وہ اس کی صحیح اور غلط پر مشتمل پوری بات کو غلط کہہ کر رد کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے غلطی کرنے والا بھی اپنی غلطی تسلیم کر کے اصلاح پر آمادہ نہیں ہوتا ۔

بعض اوقات غلطی اُن الفاظ میں نہیں ہوتی جو کہے گئے ہیں، بلکہ جس موقعہ پر وہ الفاظ کہے گئے ہیں وہ صحیح نہیں ہوتا۔ جیسے جب کسی کی وفات ہو جاتی ہے تو تعزیت کے لئے آنے والوں میں سے ایک شخص کہتا ہے کہ فاتحہ پڑھیں اور تام حاضرین سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہیں۔ دلیل کے طور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن ہی پڑھا ہے کوئی کفریہ کلام تو نہیں پڑھا۔ تو ایسے لوگوں کے لئے یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ان کے عمل میں جو غلطی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اس موقعہ پر ایک عبادت کے طور پر فاتحہ کی تخصیص کر لی ہے حالانکہ اس کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں، اور بدعت یہی تو ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی جب ان کے قریب ایک شخص کو چھینک آئی اور اُس نے کہا: الحمدللہ والسلام علیٰ رسول اللہ تو ابن عمرؓ نے فرمایا:” یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ سب تعریف اللہ کے لئے (الحمدللہ) اور رسول اللہﷺ پر سلام ہو(والسلام علیٰ رسول اللہ) ، لیکن رسول اللہﷺ نے ہمیں اس طرح کہنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر حال میں الحمدللہ کہیں۔”سنن الترمذی کتاب الادب باب مایقول العابس اذا عطس ،ح: 2738۔)

——————————————

[1] یعنی حضرت خالد بن ذکوان ، جنہیں حضرت ربیع رضی اللہ عنہا یہ واقعہ سنا رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

20) حق دار کو حق دلانے کے ساتھ ساتھ غلطی کرنے و الے کے مقام کا احترام بر اقرار رکھنا​

 

امام مسلم ؒ نے حضرت عوم بن مالکؓ سے روایت کیا ہے، انہوں نے فرمایا:” خاندانِ حمیر سے تعلق رکھنے والے ایک صحابی نے (جنگ کے دوران) دشمن ے ایک آدمی کو قتل کیا۔ انہوں نے مقتول کا سامان لینا چاہا تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے انہیں وہ سامان دینے سے انکار کر دیا۔ خالد بن ولیدؓ اس فوج کے سپہ سالار تھے۔ حضرت عوف بن مالکؓ نے جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ بیان کیا۔ حضور علیہ السلام نے حضرت خالدؓ سے فرمایا:” آ پ نے اسے مقتول کا سامان دینے سے کیوں انکار کیا؟” انہوں نے کہا:” یا رسول اللہ! میں نے محسوس کیا کہ یہ بہت زیادہ ہے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا :” اسے وہ سامان دے دیجئے”۔ اس کے بعد حضرت خالدؓ حضرت عوفؓ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے حضرت خالدؓ کی چادر کھینچی، اور (حمیری صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا: میں نے تجھ سے جو کچھ کہا تھا وہ کام رسول اللہﷺ سے کروا دیا نا؟ جناب رسول اللہﷺ نے یہ بات سنی تو غصب ناک ہو گئے ۔ فرمایا:” خالد! اسے نہ دینا، خالد ، اسے نہ دینا، کیا تم میرا لحاظ کر کے میرے (مقرر کردہ) امیروں کو چھوڑ نہیں سکتے؟ تمہاری اور ان کی مثال تو ایسے ہے جیسے ایک آدمی کو اونٹوں یا بکریوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی، اُس نے ان کا خوب اچھی طرح خیال رکھا۔ پھر ان کو پانی پلانے کے وقت کا خیال رکھا، اور انہیں(بروقت) حوض پر لے گیا، انہوں نے پانی پینا شروع کیا تو صاف پانی پی لیا اور گدلا پانی چھوڑ دیا۔ تو صاف پانی تو تم لوگوں کے لئے ہے اور گدلا پانی ان(سالاروں) کے لئے؟”صحیح مسلم، کتاب الجھاد، باب استحقاق القاتل سلب القتیل ،ح: 4545،(مع شرح النووی، جلد12 ص:64)

امام احمد ؒ نے اس سے زیادہ تفصیل سے یہ واقعہ روایت کی یے ۔ اس روایت کے مطابق حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ نے فرمایا: ہم شام کی طرف جہاد کے لئے گئے، حضرت خالد بن ولیدؓ کو ہمارا امیر مقرر کیا گیا۔ عقف فرماتے ہیں: حمیر کی امدادی فوج کا ایک آدمی ہمارے ساتھ آ ملا۔ وہ ہمارے خیمہ میں آگیا۔ اس کے پاس صرف ایک تلوار تھی اور کوئی ہتھیار نہ تھا ۔ ایک مسلمان نے ایک اونٹ ذبح کیا، اس نے کسی نہ کسی طرح اس کی کھال کا ڈھال کی شکل کا ایک ٹکڑا حاصل کر لیا۔ اُس نے اسے زمین پر بچھا کر آگ جلا کر خشک کر لیا۔ پھر ڈھال کی طرح اس کو ایک دشتہ لگا دیا۔ پھر ایسا ہوا کہ دشمنوں سے ہماری مڈھ بھیڑ ہو گئی۔ ان میں رومی بھی تھے اور قضاعہ قبیلے کے عربی بھی ۔ انہوں نے ہم سے بڑی شدید جنگ کی۔ ان کی فوج میں ایک رومی سرخ گھوڑے پر سوار تھا، جس کی کاٹھی پر سونا لگا ہوا تھا، اس کی پیٹی پر بھی بہت سا سونا لگا ہوا تھا، اور تلوار بھی ایسی ہی تھی۔ وہ مسلمانوں پر حملے کرنے لگا اور اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔ مسلمانوں ی امدادی فوج کا وہ مجاہد اس رومی کی تاک میں رہا، حتیٰ کہ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو اس پر پیچھے سے حملہ کر دیا، اس کی تلوار گھوڑے کی ٹانگ پر لگی، وہ آدمی گر گیا۔ مجاہد نے اس پر تلوار کے وار کر کے اسے قتل کر دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی ، تو اُس نے اپنے سامان کا مطالبہ کیا (جو مقتول کافر سے حاصل ہوا تھا)،لوگوں نے گواہی دی کہ اِسی نے اس رومی کو قتل کیا ہے۔حضرت خالدؓ نے اُسے کچھ سامان دیا، باقی روک لیا۔ جب وہ حضرت عوفؓ کے خیمے میں آیا تو یہ بات بتائی۔ حضرت عوفؓ نے کہا : دوبارہ ان کے پاس جایئے، وہ باقی سامان بھی دے دیں گے۔ وہ دوبارہ گیا، لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عوفؓ حضرت خالدؓ کے پاس گئے اور فرمایا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ کا یہ فیصلہ ہے کہ سَلَب(مقتول کا ذاتی سامان) قاتل کے لئے ہوتا ہے؟ خالدؓ نے فرمایا: مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ سامان اس کے لئے بہت زیادہ ہے۔ حضرت عوفؓ نے فرمایا: ” اگر میں نے جناب رسول اللہﷺ کی زیارت کی (یعنی جب بھی خدمت نبوی میں حاضر ہوا) تو یہ واقعہ ضرور عرض کروں گا۔” جب وہ مجاہد مدینہ آیا تو حضرت عوفؓ کے کہنے پر اُس نے نبی اکرمﷺ سے شکایت کی۔ آنحضرتﷺ نے خالدؓ کو بلالیا۔ (جب وہ آئے تو) عوفؓ (مجلس میں) بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:” خالد! آپ نے اس شخص کو اس کے مقتول کا سامان کیوں نہیں دیا؟” انہوں نے عرض کیا: ” یا رسول اللہ!میرا خیال تھا کہ وہ بہت زیادہ ہے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” وہ اسے دے دیجئے!”۔(آنحضرتﷺ کے پاس سے اُٹھ کر) خالدؓ عوفؓ کے پاس سے گزرے تو عوفؓ نے ان کی چادر کھینچی اور (حمیری صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا: میں نے تمہارے لئے رسول اللہﷺ سے جو بات عرض کی تھی اس کا تمہیں فائدہ پہنچ جائے گا”۔ جناب رسول اللہﷺ نے یہ بات سن لی۔ آنحضرتﷺ نے غضبناک ہو کر فرمایا:” خالد! اِسے مت دینا۔ یا تم میرا لحاظ کر کے میرے(مقرر کردہ) امیروں کو نہیں چھوڑ سکتے؟ تمہاری اور ان (اُمراء) مثال تو ایسے ہے جیسے کسی شخص کو اونٹ یا بکریاں چرانے کی ذمہ داری سونپی گئی، اس نے انہیں چرایا، پھر ان کو پانی پلانے کے لئے اچھی جگہ تلاش کی، پھر انہیں (وہاں بنے ہوئے) حوض پر لے گیا، انہوں نے پانی پینا شروع کر دیا، اور (سارا) صاف پانی لی لیا، گدلا پانی چھوڑ دیا۔ (تمہاری حالت بھی یہی ہے کہ) صاف پانی تو تمہارے لئے ہے اور گدلا ان کے لئے!”۔(مسند احمد جلد 6، ص 62)

ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت خالدؓ سے اجتہادی غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے قاتل کو زیادہ سَلَب نہیں دیا، تو انبی اکرمﷺ نے حق دار کو اس کا حق دیئے جانے کا حکم دے کر اس غلطی کا ازالہ کر دیا۔ لیکن حضور علیہ السلام نے جب یہ سنا کہ حضرت عوفؓ نے حضرت خالدؓ کا مذاق اڑاتے ہوئے حِمرَی صحابی سے کہا کہ میں نے تجھ سے جو کچھ کہا تھا، کیا میں نے وہ کام رسول اللہﷺ سے کروا دیا یا نہیں؟ تو آنحضرتﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اور حضرت عوفؓ نے حضرت خالدؓ کی چادر کھنچی تھی جب وہ ان کے پاس سے گزر رہے تھے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:’ خالد! اسے مت دینا”۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ امیر اور قائد پر اعتماد بحال رکھا جائے، کیونکہ لوگوں میں ان کے مقام کو قائم رکھنے میں واضح فوائد موجود ہیں۔

یہاں ایک اشکال پیش آتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ جب قاتل سَلَب کا مستحق تھا تو آنحضرتﷺ نے اس کا حق کیوں روک لیا؟

امام نووی ؒ نے اِ س اشکال کے دو جواب دیئے ہیں۔

1) ممکن ہے نبی اکرمﷺ نے بعد میں قاتل کو مقتول کا سامان(سلب) دلوا دیا ہو۔ اس کو سلب دلوانے میں تاخیر کا مقصد اسے اور عوف بن ماکؓ کو تنبیہ کرنا تھا، کیونکہ انہوں نے حضرت خالدؓ کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کئے اور اس طرح لشکر کے قائد اور انہیں قائد مقرر کرنے والے کے احترام کے منافی رویہ اختیار کیا۔

2) ممکن ہے سلب کے مالک نے اپنی خوشی اور اختیار سے اپنا وہ حق چھوڑ دیا ہو، اور اسے عام مسلمانوں کا حق قرار دے دیا ہو۔ اس کا مقصد حضرت خالدؓ کی دل شکنی کا ازالہ تھا، اور اس میں مصلحت یہ تھی کہ لوگوں کے دلوں میں امیروں کا احترام قائم رہے۔

جس شخص کے ساتھ نامناسب رویہّ اختیار کیا گیا ہو، اس کا مقام بحال کرنے کی ایک اور مثال مسند احمد کی یہ حدیث ہے جو حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی کچھ لوگوں خے پاس سے گزرا اور انہیں سلام کہا، انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ جب وہ آگے گزر گیا تو اہل مجلس میں سے ایک شخص بولا:” اللہ کی قسم! میں تو اس (گزرنے والے) آدمی سے اللہ کے لئے نفرت کرتا ہوں”۔ اہل مجلس نے کہا:” اللہ کی قسم ! تو نے بہت بُری بات کہی۔ ہم ضرور اسے بتائیں گے”۔ (اس کے بعد انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو کہا)” اے فلاں! اُٹھ کر اسے بتاؤ!” ۔ ان کے بھیجے ہوئ آدمی نے اس سے مل کر اسے یہ بات بتائی۔

وہ شخص وہیں سے واپس ہو کر جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا اور عرض کیا:” اے اللہ کے رسول ! میں مسلمانوں کی ایک مجلس کے پاس سے گزرا، ان میں فلاں شخص بھی موجود تھا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے جو اب دیا۔ جب میں آگے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھ تک پہنچ کر مجھے بتایا کہ فلاں نے کہا ہے: اللہ کی قسم ! میں اس آدمی سے اللہ کے لئے نفرت کرتا ہوں۔ اسے بلا کر دریافت کیجئے وہ مجھ سے کس بنیاد پر بغض رکھتا ہے”۔

رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور اس سے وہ بات دریافت کی جو اس شخص نے بتائی تھی۔ اُس نے اعتراف کیا اور کہا:” تم اس سے کیوں بغض رکھتے ہو؟”۔ اُس نے کہا:” میں اس کا ہمسایہ ہوں اور اس سے خوب واقف ہوں۔ اللہ کی قسم! مَیں ے اسے اس (فرض) نماز کے سوا کوئی نماز پڑھتے نہیں دیکھا جوہر نیک و بد پڑھتا ہی ہے”۔ اُس آدمی نے کہا:” اے اللہ کے رسول ! اس سے دریافت کیجئے کیا میں نے کبھی وقت سے تاخیر کر کے پڑھی ہے؟ یا کبھی بُری طرح سے وضوء کیا ہے؟ یا نماز کے رکوع سجود صحیح انداز سے ادا نہیں کیے؟” رسول اللہﷺ نے اس(شکایت کرنے والے) سے پوچھا تو اُس نے کہا:” جی نہیں”۔ پھر کہا:” اللہ کی قسم! یہ مہینہ (رمضان) جس میں نیک وبدسب روزے رکھتے ہیں، اس کے علاوہ میں نے اسے کبھی روزہ رکھتے نہیں دیکھا”۔ اُس نے کہا” یا رسول اللہ! کیا اس نے کبھی دیکھا ہے کہ میں نے رمضان میں روزہ چھوڑا ہو یا اس کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کی ہو؟” رسول اللہﷺ نے پوچھا تو اُس نے کہا:” جی نہیں”۔ پھر کہا:” اللہ کی قسم ! میں نے اسے کبھی کسی سائل کو کچھ دیتے نہیں دیکھا، نہ کسی نیکی کے کام میں فی سبیل اللہ خرچ کرتے دیکھا ہے، سوائے اس زکوٰۃ کے جوہر نیک و بد ادا کرتا ہے”۔ اُس نے کہا :”یارسول اللہ! اس سے پوچھئے کیا میں نے زکوٰۃ میں سے کبھی کوئی چیز چھپائی ہے؟ یا اس کی ادائیگی میں لیت و لعل کی ہے؟” رسول اللہﷺ نے اس سے یہ بات پوچھی تو اُس نے کہا:” جی نہیں”۔ پھر آنحضرتﷺ نے شکایت کرنے والے سے فرمایا:” جاؤ، کیا معلوم وہ تم سے بہتر ہو”۔(مسند احمد ، جلد5، ص 455)

یہ بات بہت اہم ہے کہ غلطی کرنے والا جب اپنی غلطی سے رجوع کر کے توبہ کر لے تو پھر اس کے مقام و مرتبہ کا مناسب خیال رکھا جائے، تاکہ وہ راہِ راست پر قائم رہ کر لوگوں کے ساتھ حسب معمول زندگی گزار سکے۔ وہ محزومی خاتون جس کا ہاتھ چوری کے جرم میں کاٹ دیا گیا تھا، اس کے واقعہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی فرمایا ہے:” بعد میں وہ خاتون اچھے انداز سے تائب ہو گئیں اور انہوں نے شادی کر لی۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تھیں ، تو انہیں جو کام ہوتا میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کر دیا کرتی تھی”۔صحیح مسلم، کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف وغیرہ ،ح: 1688۔)

 

21) مشترکہ غلطی میں فریقین کہ تنبیہ کرنا

 

اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ غلطی میں دونوں فریق شریک ہوتے ہیں، اور جس شخص کے حق میں غلطی ہوئی ہوتی ہے خود وہ بھی غلطی پر ہوتا ہے، اگرچہ ایک فریق کی غلطی دوسرے سے زیادہ ہے خود وہ بھی غلطی پر ہوتا ہے، اگرچہ ایک فریق کی غلطی دوسرے سے زیادہ ہو۔ اس صورت میں غلطی سے تعلق رکھنے والے دونوں فریقوں کو تنبیہ یا نصیحت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کی ایک مثال درج ذیل ہے:

حضرت عبد اللہ بن اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی شکایت کی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” خالد!؀ بدر میں شریک ہونے والے ایک آدمی کو تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر آپ اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دیں تو اس کے عمل (کے برابر ثواب ) کو نہیں پہنچ سکتے۔”

انہوں نے عرض کیا:” لوگ مجھے نامناسب باتیں کہہ دیتے ہیں، تو میں بھی جواب دے دیتا ہوں”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” خالد کو تکلیف نہ پہنچاؤ، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو اُس نے کافروں پر مسلّط کر دی ہے”۔المعجم الصغیر للطبرانی، جلد 1، ص 225، ح 571 والمعجم الکبیر ، جلد 4، ص 104 ح: 3801۔ وکشف الاستار بزوائد البزار، جلد 3 ، ص: 62(مناقب خالد بن ولید ) ح:2719۔)

 

22) غلطی کرنے والے سے متأثرہ فریق سے معذرت کا مطالبہ کرنا

 

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا: عرب لوگ سفر میں ایک دوسرے کی خدمت کیا کرتے تھے۔ (ایک سفر میں) حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ ایک آدمی تھا، جو اُن کی خدمت کرتا تھا۔ (ایک بار ایسا ہوا کہ) وہ دونوں سوگئے ، جب جاگے تو اس شخص نے بھی ان کے لئے کھانا تیار نہیں کیا تھا۔ ان حضرات میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:” یہ شخص بہت سوتا ہے”۔ پھر اسے جگایا اور کہا:” رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا: ابوبکر اور عمر سلام عرض کرتے ہیں اور سالن مانگ رہے ہیں”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” ان دونوں کو سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ وہ سالن کھا تو چکے ہیں”۔ (جب انہیں یہ پیغام ملا تو) وہ فوراً گھبرائے ہوئے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:” اے اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کی خدمت میں سالن کے لئے آدمی بھیجا تو آپ نے ارشاد فرمایا: وہ سالن کھا چکے ہیں، ہم نے کون سا سالن کھا لیا ہے؟” آنحضرتﷺ نے فرمایا:” تم نے اپنے بھائی کا گوشت کھایا ہے، اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے تمہارے دانتوں میں اس کا گوشت نظر آ رہا ہے”۔(یعنی جس کی غیبت کی تھی، اس کا گوشت دانتوں میں لگا ہوا ہے۔) ان دونوں نے عرض کیا:” ہمارے لئے مغفرت کی دُعا فرمائیے”۔

حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:” وہی تمہارے لئے بخشش کی دُعا کرے”۔سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی،جلد 6، ص 211، ح: 2608 بحوالہ مساوی الاخلاق للخرائطی والمختارہ للمقدسی۔)

 

23) غلطی کرنے والے کو متأثرہ فریق کی فضیلت یاد دلانا، تاکہ وہ نادم ہو کر معذرت کر لے

 

جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی، تو نبی اکرمﷺ نے ایسے ہی کیا تھا۔ امام بخاری ؒ نے اپنی "صحیح” کی "کتاب التفسیر” میں حضرت ابو دَرداءؓ سے روایت کیا ہے ، انہوں نے فرمایا: حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ بات چیت ہو رہی تھی کہ (کسی بات کی وجہ سے ) عمرؓ ابوبکرؓ سے ناراض ہو گئے، اور غصے کی حالت میں ان کے پاس سے چلے آئے۔ ابوبکرؓ ان کے پیچھے پیچھے آئے ان سے درخواست کی کہ ان کے لئے اللہ سے بخشش کی دُعا کریں،انہوں نے یہ بات نہ مانی، بلکہ اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ حضرت ابو دَرداءؓ نے فرمایا: ہم بھی خدمتِ اَقدس میں حاضر تھے۔ جناب رسول اللہﷺ نے (انہیں دیکھتے ہی) فرما دیا:” تمہارے اس ساتھی کا تو( کسی سے ) جھگڑا ہو گیا ہے”۔ حضرت عمرؓ کو بھی اپنے طرز عمل پر ندامت محسوس ہوئی ، وہ آئے اور سلام کر کے نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھ گئے اور جناب رسول اللہﷺ کو پوری بات بتائی۔ آنحضرتﷺ کو غصہ آگیا۔ ابوبکرؓ نے کہنا شروع کر دیا:” یا رسول اللہ ! بخدا، میری ہی زیادہ غلطی تھی”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

” کیا تم لوگ میرا لحاظ کر کے میرے ساتھی کو نہیں چھوڑ سکتے ؟ کیا تم لوگ میرا لحاظ کر کے میرے ساتھی کو نہیں چھوڑ سکتے؟ میں نے کہا: لوگو! مَیں تم سب کی طرف اللہ کا پیغام رساں بن کر آیا ہوں۔( اُس وقت) تم سب نے کہا: آپ غلط کہتے ہیں اور ابوبکر نے کہا: آپ نے سچ فرمایا”۔صحیح البخاری، کتاب التفسیر سورۃ الاعراف باب 3: ح: 4640۔)

صحیح بخاری ہی میں کتاب المناقب میں بھی یہ واقعہ حضرت ابو درداءؓ سے مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھا تھا کہ ابوبکرؓ آ گئے ، انہوں نے اپنے کپڑے کا کنارہ پکڑا ہوا تھا حتیٰ کہ ان کا گھٹنا ظاہر ہو رہا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” تمہارے ساتھی کا جھگڑا ہو گیا ہے”۔(اتنے میں وہ حضورﷺ تک آ پہنچے) انہوں نے سلام کیا اور کہا :” میرے اور ابن خطاب کے درمیان کچھ بات چیت ہو گئی ، میں جلد بازی یں انہیں کچھ کہہ بیٹھا، پھر مجھے ندامت ہوئی، میں نے انہیں کہا کہ مجھے معاف کر دیں، انہوں نے انکار کر دیا، تب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا ہوں”۔ اللہ کے رسولﷺ نے تین بار فرمایا:” ابوبکر ! اللہ تیری مغفرت فرمائے”۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کو ندامت محسوس ہوئی، وہ ابوبکرؓ کے گھر پہنچے اور پوچھا:” یہاں ابوبکر ہیں؟” گھر والوں نے کہا:” جی نہیں”۔ وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ نبی اکرمﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے حتیٰ کہ ابوبکرؓ ڈر گئے۔ انہوں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دوبارہ کہا:” یا رسول اللہ! اللہ کی قسم ! میری غلطی زیادہ تھی”۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:” اللہ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا۔ تم لوگوں نے کہا : آپ غلط کہتے ہیں۔ ابوبکر نے کہا: حضورﷺ سچے ہیں۔ اُس نے اپنی جان اور مال کے ساتھ میری دلجوئی کی۔ تو کیا تم میرے لئے میرے ساتھی سے درگزر کرسکتے ہو؟” آپﷺ نے دو بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔ اس کے بعد کبھی کسی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دل نہیں دُکھایا۔صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابۃ باب 5، ح: 3661

 

24) فریقین کے درمیان مداخلت کر کے جذبات ٹھنڈے کرنا، تاکہ فتنہ بڑھنے سے پہلے ختم ہو جائے

 

جناب رسول اللہﷺ نے متعدد مواقع پر یہ پالیسی اختیار فرمائی ہے کہ جب مسلمانوں میں لڑائی کی نوبت آئی تو آنحضرتﷺ نے مداخلت کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ ب منافقوں نے حضرت عائشہؓ پر ناپاک بہتان لگایا تھا، اس واقعہ کی تفصیل میں مذکور ہے:

اُس دن رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور عبد اللہ بن اُبیّ کے بارے میں فرمایا:” اے مسلمانو! کون ہے جو اس شخص کی چیرہ دستیوں سے میرے عزت بچائے ، جس نے مجھے میرے گھر والوں کے بارے میں تکلیف پہنچائی ہے؟ اللہ کی قسم ! میں اپنے اہل کے بارے میں بھلائی ہی جانتا ہوں)ان کا کوئی گناہ یا غلطی نہیں جانتا) اور ان لوگوں نے جس شخص کا نام لیا ہے اس کے بارے میں بھی صرف بھلائی ہی جانتا ہوں۔ وہ کبھی میری غیر موجودگی میں میرے گھر نہیں آیا”۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا:قبیلہ بنی عبد الاشھل سے تعلق رکھنے والے صحابی حضرت سعد بن معاذؓ نے اُٹھ کرعرض کیا: "یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ اگر وہ (میرے) قبیلہ اوس سے ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اور اگر وہ ہمارے برا در قبیلہ خزرج سے ہے تو بھی آپ حکم فرمائیں، ہم تعمیل کریں گے”۔( یہ بات سن کر) قبیلہ خزرج کا ایک آدمی اٹھا، حضرت حسُانؓ کی والدہ اس کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور اس کی چچا زاد تھیں، یہ صاحب خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ تھے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ویسے تو وہ نیک آدمی تھے ، لیکن( اُس دن) قبیلہ کی حمیت جوش میں آ گئی ۔ انہوں نے سعد بن معاذؓ سے کہا :” تم غلط کہتے ہو ، تم اسے ہر گز قتل نہیں کرسکتے۔ اگر وہ تمہارے قبیلہ سے ہوتا تو تمہیں اس کا قتل ہونا کبھی پسند نہ ہوتا”۔ سعد بن معاذؓ کے چچا زاد بھائی حضرت اُسید بن حضیرؓ نے اٹھ کر کہا:” تم غلط کہتے ہو، اللہ کی قسم ! ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ تم تو منافق ہو جو منافقوں کی حمایت کرتے ہو”۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: چنانچہ دونوں قبیلے اوس اور خزرج غصے میں آ گئے حتیٰ کہ معلوم ہوتا تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں گے اور رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے تھے۔ آپﷺ انہیں سمجھاتے بجھاتے رہے حتی کہ وہ لوگ خاموش ہو گئے۔صحیح البخاری، کتاب المغازی باب حدیث الافک،ح: 4141 وصحیح مسلم کتاب التوبۃ باب فی حدیث الافک،ح: 2770۔)

اسی طرح ایک بار نبی اکرمﷺ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں صلح کرانے کے لئے محلے میں تشریف لے گئے، حتیٰ کہ اس کی وجہ سے مسجد نبوی میں نماز با جماعت میں تاخر ہو گئی، یہ واقعہ صحیحین میں موجود ہے۔ سنن نسائی میں یہی واقعہ حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک بار انصار کے دو گھرانوں کے مابین کچھ تلخ کلامی ہو گئی، بات یہاں تک بڑھی کے دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کی طرف پتھر پھینکے۔ نبی اکرمﷺ ان میں صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے۔ نماز کا وقت ہوا تو حضرت بلالؓ نے اذان دی اور رسول اللہﷺ کا انتظار کرنے لگے۔ آنحضرتﷺ تشریف نہ لائے تو بلالؓ نے اقامت کہی اور ابوبکر صدیقؓ نماز پڑھانے کے لئے آگے کھڑے ہو گئے۔۔۔۔ الخسنن النسائی کتاب آداب القضاۃ باب مصیر الحا کم الی رعیتہ للصلح بینھم ، ح: 5428۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ صحیح سنن النسائی ، ح: 5003۔)

مسند احمد میں حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا: بنو عمرو بن عوف کی آپس میں لڑائی ہو گئی ہے اور انہوں نے ایک دوسرے کی طرف پتھر پھینکے ہیں تو رسول اللہﷺ ان میں صلح کرانے کے لئے روانہ ہو گئے۔۔۔ الخ(مسند احمد، جلد 5، ص 338)

 

25) غلطی پر غصے کا اظہار

 

جب اصلاح کرنے والا یا عالم آدمی ایک غلط کام ہوتا دیکھے یا کسی سے غلط بات سنے تو ناراضگی کا اظہار کرسکتا ہے، خاص طور پر جب کہ غلطی کا تعلق عقیدے سے ہو۔ اس کی ایک مثال تقدیر کے بارے میں بحث اور قرآن کے بارے میں اختلاف ہے۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت عمرو بن شعیب رحمہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ، انہوں نے اپنے والد حضرت شعیب بن محمد رحمہ اللہ علیہ سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے دادا حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے بیان فرمایا کہ جنابِ رسول اللہﷺ صحابہ کرامؓ کے پاس تشریف لائے تو وہ تقدیر کے متعلق بحث کر رہے تھے۔ غصہ کی وجہ سے آنحضرتﷺ کا چہرہ مبارک اس طرح(سرخ) ہو گیا جیسے انار کے (سرخ) دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:” کیا تمہیں اس کام کا حکم دیا گیا ہے؟” یا فرمایا:” کیا تمہیں اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو باہم نکارنے لگو؟ تم سے پہلی اُمّتیں بھی اسی وجہ سے تباہ ہوئی تھیں”۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ نے فرمایا: مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ میں اس مجلس میں موجود نہیں تھا۔سنن ابن ماجۃ، المقدمۃ، باب فی القدر ح:85۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو صحیح ابن ماجۃ، ح:69۔)

ابن ابی عاصم نے اپنی تصنیف”کتابُ السُّنُّۃ” میں یہ روایت درج کی ہے کہ جنابِ رسول اللہﷺ صحابہ کرامؓ کے پاس تشریف لائے تو وہ تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ کوئی ایک آیت کو اپنے موقف کے حق میں پیش کر رہا تھا، کوئی دوسری آیت سے اپنا موقف ثابت کرنا چاہتا تھا۔ آپﷺ کا چہرہ مبارک اسی طرح ہو گیا گویا اس پر انار کے دانے بکھرے ہوئے ہیں۔ فرمایا:” کیا تمہیں اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے؟ یا تمہیں اس کا حکم دا گیا ہے ؟ اللہ کی کتاب کو باہم مت ٹکراؤ۔ دیکھو، تمہیں جس کام کا حکم دیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور جس کام سے منع کیا گیا ہے اس سے پرہیز کرو”۔السنۃ لابن ابی عاصم ،ص177 باب 85 ح406۔ علامہ البانی نے حدیث خو حسن کہا ہے۔ ملاحظہ ہو 2/178 ۔ نیز دیکھئے مسند احمد 2/178۔ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ح6668۔)

بنیادی مسائل میں غلطی پر تنبیہ کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کرنے کی ایک مثال حضرت عمرؓ کا وہ واقعہ ہے جس سے علم کے ماخذ کا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے ۔ مسند احمد میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے راوی تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اہل کتاب میں سے کسی کے پاس سے ایک کتاب مل گئی، وہ نبی اکرمﷺ کو پڑھ کر سنانے لگے تو حضور علیہ السلام غضبناک ہو گئے اور فرمایا:” خَطّاب کے بیٹے! کیا تم لوگ بھی اس (شریعت) کے بارے میں ٹامک ٹوئیاں مارو گے؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارے پاس اُجلی اور صاف شفّاف شریعت لے کر آیا ہوں۔ تم ان (اہلِ کتاب) سے کچھ نہ پوچھو، ممکن ہے وہ تمہیں صحیح بات بتائیں اور تم اس کو جھٹلا دو، یا وہ غلط بات بتائیں اور تم اسے سچ مان لو۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر موسٰی علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا”۔(مسند احمد 3/387۔ علامہ البانی نے دیگر روایات کی روشنی میں حدیث کو حسن کہا ہے۔ ملاحظہ ہو ارواء الغلیل 6/34 ح: 1589۔)

دارمی نے بھی یہ حدیث حضرت جابرؓ سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطابؓ تورات کا ایک نسخہ لے آئے اور کہا:” اے اللہ کے رسول! یہ تورات کا نسخہ ہے”۔ آنحضرتﷺ خاموش ہو گئے۔ عمرؓ نے پڑھنا شروع کر دیا اور رسول اللہﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہونا شروع گیا ۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: عمر تو گم ہو جائے ، تم رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک کی کیفیت نہیں دیکھ رہے” عمرؓ نے آنحضرتﷺ کے روئے اقدس پر نظر ڈالی تو (فوراً) بول اٹھے:

اعوذ باللہ من غضب اللہ وغضب رسولہ، رضینا باللہ ربا ،وبالاسلام دینا ،وبمحمد نبیا

” اللہ کی ناراضگی سے اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ ہم اللہ ے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمدﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔”

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسی فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل، ولو کان حیا وادرک نبوتی لاتبعنی))​

"قسم ہےاُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے، اگر موسٰیؑ بھی تمہارے سامنے آ جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو، تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔ اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ نہ پاتے تو ضرور میری پیروی کرتے”۔سنن الدارمی، المقدمۃ، باب مایُتقی من تفسیر حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقول غیرہ عند قولہ۔ 1/115، ح:437۔)

اس حدیث کی تائید حضرت ابودرداءؓ کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا: حضرت عمرؓ تورات کے کچھ ورق لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:” یہ تورات کے کچھ ورق ہیں جو مجھے بنو زریق سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک دوست سے ملے ہیں”۔ جناب رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک کی کیفیت تبدیل ہو گئی (یعنی غصہ کے آثار ظاہر ہو گئے)۔ حضرت عبد اللہ بن زیدؓ ۔۔۔۔جنہیں خواب میں اذان دکھائی گئی تھی۔۔۔۔ انہوں نے فرمایا:” کیا اللہ نے تمہاری عقل ختم کر دی ہے؟ کیا تم اللہ کے رسولﷺ کے چہرہ مبارک کی کیفیت نہیں دیکھ رہے؟” حضرت عمرؓ نے کہا:” ہم اللہ کی ربوبیت پر، اسلام کے دین ہونے پر، ٘ محمدﷺ کی نبوت پر اور قرآن کی امامت پر راضی ہیں”۔ جناب رسول اللہﷺ کی ناراضگی ختم ہو گئی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا:” قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدُ(ﷺ) کی جان ہے ، اگر موسیٰ(علیہ السلام) تمہارے درمیان موجود ہوں، پھر تم ان کی پیروی کرنے لگو اور مجھے چھوڑ دو، تو بہت زیادہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ اُمّتوں میں سے تم میرے حِصّہ میں آئے ہو اور نبیوں میں سے میں تمہارے حصہ میں آیا ہوں”۔(امام ہیثمی نے المعجم الکبیر للطبرانی کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے اور ضعیف کہا ہے۔ ملاحظہ ہو مجمع الزوائد 1/174 ح810۔)

اس واقعہ سے مرُبّی کا ایسا کردار سامنے آتا ہے جسے حاضرین کی تائید حاصل ہے، جنہوں نے مربّی کے چہرہ کے تأثرات دیکھ کر ایک موقف اختیار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جسے نصیحت کرنا مقصود ہے وہ جب ان تمام امور کو بیک وقت ملاحظہ کرتا ہے تو اس کے دل پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا واقعہ کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو اس میں مندرجہ ذیل مراحل نظر آتے ہیں:

1) غلطی سامنے آنے پر جناب رسول اللہﷺ پر اس کا شدید اثر ہوا اور کلام فرمان سے پہلے ہی آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک پر ناراضگی کے آثار ظاہر ہو گئے۔

2) حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عبد اللہ بن زیدؓ نے اس چیز کو فوراً محسوس فرما لیا، اور حضرت عمرؓ کو توجہ اس طرف مبزول کرائی۔

3) حضرت عمرؓ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، اور انہوں نے فوراً اصلاح کر کے معذرت کی، اور اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اس بنیادی اصول کا اظہار فرما دیا کہ انہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی مطلوب ہے اور وہ دین اسلام سے خوش ہیں۔

4) نبی اکرمﷺ نے جب دیکھا کہ عمرؓ نے اپنی غلطی محسوس فرما لی ہے اور اس سے رجوع کر لیا تو حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک خوشی سے دمکنے لگا۔

5) نبی اکرمﷺ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بنیادی اصول کی تائید فرمائی اور اس کی تاکید فرماتے ہوئے یہ واضح کیا کہ نبی اکرمﷺ کی شریعت کی پیروی واجب ہے، اور علم کے دوسرے نام نہاد مآخذ سے بچنا ضروری ہے۔

غلط کام دیکھ کر آنحضرتﷺ کے ناراض ہو جانے کی ایک اور مثال صحیح بخاری میں مذکور وہ واقعہ ہے جو حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے قبلہ کی طرف(دیوار پر) بلغم لگا دیکھا ، حضورﷺ کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا، حتیٰ کہ آپﷺ کے چہرہ مبارک سے اس کا اظہار ہوا۔ آپﷺ نے اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ دیا اور فرمایا:

"جب کوئی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے باتیں کر رہا ہوتا ہے اور اس کا ربّ اُس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لئے کسی کو قبلہ کی طرف پر گز نہیں تھوکنا چاہیئے بلکہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوکنا چاہیئے”۔

پھر آپﷺ نے اپنی چادر کا ایک کونا پکڑ کر اس میں تھوکا، اور اس کے ایک حصہ کو دوسےپر پلٹ دیا اور فرمایا:” یا اس طرح کر لے”۔صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ باب حکُّ النزاق بالیدمن المسجد ح405۔)

نبی اکرمﷺ کو جب ایک غلطی کا علم ہوا جس کے نتیجہ میں ایک خرابی پیدا ہو رہی تھی، تو آنحضرتﷺ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اس کی مثال صحیح بخاری کی وہ حدیث ہے جو حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: ایک آدمی نے جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:” یا رسول اللہ ! میں تو فلاں شخص کی وجہ سے فجر کی نماز سے پیچھے رہ جاتا ہوں(با جماعت ادا نہیں کرسکتا)، کیونکہ وہ لمبی نماز پڑھتا ہے”۔ میں نے نبی اکرمﷺ کو وعظ کے دوران کبھی اس قدر غصے میں نہیں دیکھا جتنے اس دن ناراض ہوئے ۔ پھر فرمایا:

((یا ایھالناس ان منکم منفرین فایکم ما صلی بالناس فلیو جز، بان فیھم الکبیر والضعیف وذا الحاجۃ))​

:لوگوں ! تم میں سے کچھ لوگ نفرت پھیلانے والے ہیں، جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے وہ مختصر(قراءت وغیرہ) کرے، ان میں بوڑھے ، کمزور اور کام والے بھی ہوتے ہیں۔صحیح البخاری، کتاب الاذان باب تخفیف الامام فی القیام ،ح:702۔)

اگر مسئلہ پوچھنے والا آدمی حد سے زیادہ تکلف کا شکار ہو اور خواہ مخواہ سختی میں گرفتار ہو تو مفتی کا اظہار غضب بھی اسی قبیل سے ہے۔ حضرت زید بن خالد جھنیؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی خدمت نبوی میں حاضر ہوا، اور گری پڑی چیز کے بارے میں مسئلہ پوچھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” ایک سال تک اس کا اعلان کر ، اس کے بعد اس کا ظرف (مثلاً رقم کا بٹوہ وغیرہ) اور بندھن (یعنی کس چیز سے باندھا گیا ہے) وغیرہ یا د رکھ۔ اگر اس کا مالک آ کر تجھے(نشانیاں) بتا دے(تو ٹھیک ہے، اس کی چیز اسے دے دی جائے)، ورنہ اسے خرچ کر لے”۔ اُس نے کہا:” اے اللہ کے رسول ! گم شدہ بکری ملے تو؟” فرمایا:” وہ تیری ہے، یا تیرے بھائی کی ہے یا بھیڑیئے کی ہے”۔ اُس نے کہا:” اور گم شدہ اونٹ؟” آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک غصے سے تمتما اٹھا ، فرمایا:” تجھے اس سے کیا غرض؟ اس کی مشکاور اس کے جوتے اس کے ساتھ ہیں، (چشموں سے) پانی لے لے گا اور درختوں سے (پتے وغیرہ) کھا لے گا!”صحیح البخاری، کتاب اللقطۃ، باب اذا جاء صاحب اللقطۃ بعد سنۃ۔۔۔ ح:2426۔)

غلطی واقع ہونے پر یا اس کا علم ہوتے ہی، مربّی کا متوازن رد عمل ، جس کا اثر اس کی آواز اور انداز کلام میں ظاہر ہو رہا ہو، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں بُرائی کے خلاف نفرت موجود ہے اور وہ اس پر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ اس سے حاضرین کے دلوں میں اس بُرائی سے خوف پیدا ہو جاتا ہے اور مربی کی اس جذباتی کیفیت کا ان کے دلوں پر بہت اثر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر غلطی پر پردہ ڈال دیا جائے یا ردِّ عمل ظاہر کرنے میں تاخیر کی جائے تو بعد میں اس پر تبصرہ کرنے سے مطلوبہ تاثیر حاصل نہیں ہوسکتی۔

بعض اوقات حکمت کا تقاضا ہ بھی ہوسکتا ہے کہ غلط کام اور بڑی غلطی پر مشتمل کلام پر تبصرہ اُس وقت تک متاخر کر دیا جائے جب تک لوگوں کی مناسب تعداد جمع نہیں ہو جاتی۔ اس لئے کہ وہ معاملہ بہت اہم ہوتا ہے، یا سامعین کی تعداد اتنی نہیں ہوتی کہ تبصرہ سے مناسب فائدہ حاصل ہو، یاوہ زیادہ لوگوں تک بات پہنچا سکیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دو بار تبصرہ کیا جائے، ایک بار فوری طور پر متعلقہ افراد کے سامنے وضاحت کر دی جائے اور دوسری بار مناسب وقت پر عوام کو بات سمجھا دی جائے۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو حُمید ساعدیؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو زکوٰۃ و صدقات کی وصولی کے لئے روانہ فرمایا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی سے فارغ ہو کر وہ صاحب آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا:” یہ آپ لوگوں کا مال ہے(یعنی زکوٰۃ و صدقات ) اور یہ مجھے تحائف ملے ہیں”۔ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا:تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھ رہا، پھر دیکھتا کہ تجھے تحائف ملتے ہیں یا نہیں؟” اسی شام آنحضرتﷺ نے نماز کے بعد کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ارشاد فرمائی جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے، پھر فرمایا:

"اما بعد، کیا وجہ ہے کہ ہم ایک شخص کو عامل مقرر کرتے ہیں، تو وہ آ کر ہمیں کہتا ہے: یہ مال آ پ کی عائد کردہ ڈیوٹی کی ادائیگی سے (زکوٰۃ وغیرہ جمع کر کے) حاصل ہوا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے۔ وہ کیوں نہ اپنے باپ کے اور ماں کے گھر میں بیٹھ رہا، پھر دیکھتا کہ اسے تحفے ملتے ہیں یا نہیں؟ قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے، جو شخص اِس مال میں خیانت کر کے کچھ لے گا وہ قیامت کو اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے حاضر ہو گا۔ اگر اونٹ ہے تو اسے لے کر حاضر ہو گا، اور وہ اونٹ بلبلا رہا ہو گا، اگر گائے ہے تو اسے لے کر حاضر ہو گا، اور وہ رانبھ رہی ہو گی، اگر بکری ہے تو اسے لے کر حاضر ہو گا، اور وہ ممیا رہی ہو گی۔ میں نے(اللہ کا حکم) پہنچا دیا ہے۔”

حضرت ابو حمیدؓ نے فرمایا: جناب رسول اللہﷺ نے اپنا ہاتھ بلند کیا ہمیں آپؓ کی بغلیں نظر آنے لگیں”۔صحیح البخاری، کتاب الایمان والنذور، باب کیف کان یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،ح:6636۔)

 

26) غلطی کرنے والے سے بحث نہ کرتے ہوئے اعراض کر لینا تاکہ وہ خود ہی اصلاح کر لے

 

امام بخاری ؒ نے حضرت علیؓ سے روایت کی کہ جنابِ رسول اللہﷺ رات کے وقت اپنی بیٹی فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:” تم لوگ نماز(تہجد) نہیں پڑھتے؟” حضرت علیؓ نے کہا:” ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ جب ہمیں اٹھانا (اور جگانا) چاہے گا، اٹھا دے گا”۔[1]۔ ان کی یہ بات سن کر آنحضرتﷺ کچھ کہے بغیر واپس پلٹ گئے۔ حضرت علیؓ نے سنا کہ نبی اکرمﷺ واپس جاتے ہوئے اپنی ران پر ہاتھ مار کر فرمارہے تھا:( وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا)” انسان سب سے زیادہ جھگڑالو مخلوق ہے”۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ،باب وکان الاسنان کاثر شی ء جدلا،ح:7347۔)

————————————-

[1]: حضرت علیؓ کے کلام کی متعدد توجیہات ممکن ہیں۔ دیکھئے فتح الباری 7347۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

27) غلطی کرنے والے کو زبانی تنبیہ کرنا

 

جیسے رسول اللہﷺ نے حضرت حاطب (ابن ابی بلتعہ)ؓ کو عتاب فرمایا تھا، جب آپﷺ کو معلوم ہوا کہ حاطبؓ نے قریب کے کافروں کو پیغام بھیجا ہے کہ مسلمان مَکہّ فتح کرنے کے لئے آرہے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:”حاطب ! تُو نے یہ کام کیوں کیا؟” انہوں نے کہا:” میں اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں، اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا، (بات صرف اتنی ہے کہ) میں چاہتا تھا کہ ان لوگوں پر میرا کوئی احسان ہو، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ میرے بچوں اور مال کی حفاظت فرمائے”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” اس نے سچ کہا ہے، لہٰذا اسے کوئی بُری بات نہ کہنا”۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا:” اس نے اللہ کی، رسول کی اور مومنوں کی خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ اسے قتل کر دوں”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” عمر، تجھے کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے بدر (کی جنگ میں شریک ہونے ) والوں سے فرمایا ہے: جو چاہو کرو، تمہارے لئے جنت واجب ہو چکی ہے”۔ حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ، فرمایا:” اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں”۔(صحیح البخاری، کتاب الاستذان باب من نذظر فی کتاب۔۔۔، ح: 6259۔)

اس واقعہ میں تربیت کے نقطہ نظر سے عظیم نکات ہیں:

1) نبی اکرمﷺ نے اس صحابی کو تنبیہ فرمائی جن سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تھی، چنانچہ فرمایا:” تُو نے یہ کام کیوں کیا؟”

2) غلطی کرنے والے سے وہ سبب دریافت کرنا چاہئے جس کی بنا پر غلطی سرزد ہوئی، کیونکہ اس سے اس کے بارے میں اختیار کئے جانے والے موقف پر اثر پڑے گا۔

3) مربیّ میں اپنے ساتھیوں کی غلطیاں برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیئے، تاکہ وہ صحیح راہ پر قائم رہ کر اس کا ساتھ دیتے رہیں، کیونکہ مقصد ان کی اصلاح ہے نہ کہ انہیں اپنے پاس سے بھگا دینا۔

4) تربیت کرنے والے کو اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ کسی ساتھی پر وقتی طور پر انسانی کمزوری کا غلبہ ہوسکتا ہے اور اگر کسی پرانے رفیق سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہو جائے تو اس کا سختی سے مؤاخذہ نہ کیا جائے۔

5) اگر غلطی کرنے والا دفاع کا مستحق ہو تو اُس کا دفاع کیا جائے۔

6) غلطی کو بہت بڑی یا معمولی قرار دیتے وقت اور غلطی کرنے والے کے بارے میں موقف طے کرتے وقت اس کی گزشتہ بڑی بڑی نیکیوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

 

28) غلطی کرنے والے کو ملامت کرنا

 

بالکل واضح غلطی پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا غلطی کرنے والے کو بغیر کسی تمہید کے براہِ راست ملامت کی جا سکتی ہے، تاکہ وہ اپنی غلطی کا احساس کرے۔ صحیح بخاری میں حضرت علیؓ سے روایت ہے ، وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے پاس ایک اونٹنی تھی جو جنگِ بدر کے مال غنیمت میں سے میرے حصے میں آئی تھی۔ اور نبی اکرمﷺ نے خمس میں سے بھی مجھے ایک اونٹنی دی تھی۔ جب میں نے چاہا کہ جناب رسول اللہﷺ کی بیٹی فاطمہؓ کو (نکاح کے بعد) اپنے گھر لاؤں تو میں نے بنوقینقاع کے ایک سنار کے ساتھ طے کیا کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے گا، اور ہم اِذخر گھاس لا کر سناروں کے ہاتھ فروخت کریں گے۔ میں اس کے ذریعے اپنے ولیمہ کا انتظام کرنا چاہتا تھا۔ ابھی میں اپنی اونٹنیوں کے لئے پالان، بورے اور رسیاں وغیرہ جمع کر رہا تھا اور میری اونٹنیاں ایک انصاری کی دیوار کے پاس بیٹھی تھیں۔ میں جو کچھ جمع کر سکا، لے کر واپس ٓیا تو دیکھا کہ کسی نے میری اونٹنیوں کی کوہان کاٹ لئے ہیں، اور پیٹ پھاڑ کر جگر نکال لئے ہیں۔ میں نے جب ان کا یہ حال دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے کہا:” یہ کام کس نے کیا ہے؟” لوگوں نے کہا:” حمزہ بن عبد المطلب نے کیا ہے، اور وہ اس گھر میں کچھ انصاریوں کے ساتھ شراب نوشی میں مصروف ہیں”۔ میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپﷺ کے پاس حضرت زید بن حارثہؓ بھی موجود تھے۔ نبی اکرمﷺ نے میرے چہرے سے میری کیفیت کا اندازہ لگا لیا۔ آپﷺ نے فرمایا:” کیا ہوا؟” میں نے کہا:” یا رسول اللہ! مجھ پر آج جیسی مصیبت کبھی نہیں آئی۔ حمزہ نے میری اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دیئے ہیں اور پیٹ پھاڑ دیئے ہیں۔ وہ اس گھر میں ہیں، ان کے ساتھ کچھ لوگ شراب نوشی میں مصروف ہیں”۔ نبی اکرمﷺ نے اپنی چادر طلب فرما کر اوڑھ لی، پھر چل پڑے۔ میں اور زید بن حارثہؓ بھی آپﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حتیٰ کہ حضورﷺ اس گھر تک جا پہنچے جہاں حضرت حمزہؓ موجود تھے۔ آنحضرتﷺ نے (اندر آنے کی ) اجازت طلب کی، انہوں نے اجازت دے دی۔ دیکھا کہ وہ لوگ پی رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے حمزہؓ کو ان کے اس کام پر ملامت کرنا شروع کر دی۔ دیکھا تو حمزہ کی آنکھیں نشے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔ حمزہ نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، پھر(مشکل سے) نظر اٹھائی تو آنحضرتﷺ کے گھٹنے پر نظر پڑی، پھر نظر اٹھائی تو آنحضرتﷺ کے شکم مبارک تک نظر اٹھی، پھر نظر اٹھا کر چہرہ اقدس کی طرف دیکھا، پھر حمزہؓ بولے:” تم لوگ تو میرے باپ کے غلام ہو”۔ رسول اللہﷺ کو معلوم ہو گیا کہ وہ نشے میں ہیں،(لہٰذا ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں )، چنانچہ جنابِ رسول اللہﷺ الٹے پاؤں لوٹ آئے اور ہم لوگ بھی آپﷺ کے ساتھ ہی وہاں سے چلے آئے۔(صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس باب فرض الخمس،ح: 3091۔)

یہ واقعہ شراب نوشی کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے۔

 

29) غلطی کرنے والے سے بے اعتنائی

 

امام احمد ؒ نے حُمَیدؓ سے روایت کی ، انہوں نے کہا ولید ؒ میرے پاس اور میرے ایک دوست کے پاس آئے ، اور ہم سے کہا:” آؤ چلیں، تم دونوں مجھ سے عمر میں کم ہو اور حدیث مجھ سے زیادہ یاد رکھ سکتے ہو”۔ وہ ہمیں بشر بن عاصم ؒ کے پاس لے گئے اور اُن سے کہا:” اِن دونوں کو اپنی حدیث سنایئے”۔ بشر نے کہا : ہمیں عقبہ بن مالکؓ نے حدیث سنائی کہ ابو النضر لیثی ؒ نے فرمایا: بہزؒ نے، جو کہ ان کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، فرمایا: جنابِ رسول اللہﷺ نے ایک فوجی دستہ روانہ فرمایا۔ انہوں نے ایک جماعت پر حملہ کیا۔ ان میں سے ایک آدمی الگ ہو کر ایک طرف ہو گیا۔ لشکر کے ایک آدمی نے تلوار سونت کر اس کا تعاقب کیا۔ الگ ہونے والے نے کہا:” میں مسلمان ہوں”۔ تعاقب ہونے والے نے اس کی بات پر توجہ نہ دی اور اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیا۔ عقبہؓ فرماتے ہیں: یہ بات رسول اللہﷺ کو معلوم ہوئی تو حضور علیہ السلام نے اس کے بارے میں سخت الفاظ ارشاد فرمائے ۔ قاتل کو آنحضرتﷺ کے ارشاد کی خبر پہنچی (وہ آگیا)، رسول اللہﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، قاتل نے عرض کیا:” یا رسول اللہ! اس (مقتول) نے جو بات کہی تھی وہ جان بچانے کے لئے کہی تھی”۔ آنحضرتﷺ نے اس کی طرف سے اور اُدھر بیٹھے ہوئے افراد کی طرف سے مُنہ پھیر لیا، اور خطبہ ارشاد فرماتے رہے۔ اُس نے دوبارہ کہا:” یا رسول اللہ! اُس نے جو بات کہی تھی وہ جان بچانے کے لئے کہی تھی”۔ حضور علیہ السلام نے دوبارہ اس کی طرف سے اور اُدھر بیٹھے ہوئے افراد کی طرف مُنہ پھیر لیا اور خطبہ ارشاد فرماتے رہے۔ اُس نے تیسری بار کہا:” اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم! اُس نے صرف قتل سے بچنے کیلئے یہ بات کہی تھی”۔ جنابِ رسول اللہﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو آپﷺ کے چہرہ مبارک سے ناراضگی کا اظہار ہو رہا تھا۔ آپﷺ نے تین بار فرمایا:((اِنَّ اللہَ عَزَّوَ جَلَّ اَیٰ عَلیٰ مَن قَتَلَ مُؤمِنَا))” جو شخص کسی مؤمن کو قتل کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس (کی بات ماننے ) سے انکار فرماتے ہیں”۔(مسند احمد 4/110 و 5/289،288۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2/309 ح689۔)

امام نسائی ؒ نے حضرت ابو سعید خُدریؓ سے روایت کیا ہے کہ نجران سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ آنحضرتﷺ نے اس سے اِعراض فرمایا اور ارشاد فرمایا:” تم میرے پاس آئے ہو جب کہ تمہارے ہاتھ میں آگ کا انگارہ ہے”۔سنن النسائی کتاب الزینۃ، باب 45،ح:5203۔ علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو صحیح سنن النسائی ،ح: 4793۔)

مسند احمد میں حضرت عمر بن شعیب ؒ سے روایت ہے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا(حضرت عبد اللہ بن عمرؓ) سے روایت کیا کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے ایک صحابی کو سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھا تو ُاُس سے اعراض فرمایا۔ اُس نے وہ اتار کر لو ہے کی انگوٹھی بنوا لی، آنحضرتﷺ نے فرمایا:” یہ زیادہ بُری ہے، یہ تو اہل جہنم کا زیور ہے”۔ اُس نے وہ بھی اتار دی اور چاندی کی انگوٹھی بنوا لی۔ اس پر آنحضرتﷺ خاموش رہے۔(مسند احمد 2/163۔ علامہ شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ملاحظہ ہو شرح احمد شاکر 10/25 ،ح: 6518۔)[1]

———————————————

[1]: مسند احمد میں یہ واقعہ حضرت ابو سعید خدریؓ ہی کی روایت سے بالتفصیل مذکور ہے۔ وہ فرماتے ہیں:” نجران سے ایک آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ آنحضرتﷺ نے اُس سے اعراض فرمایا اور اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ آدمی نے اپنی بیوی کو یہ بات بتائی۔ اُس نے کہا: ضرور کوئی بات ہے،دوبارہ خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس نے انگوٹھی اور وہ جبہ جو پہنا ہوا تھا ، اتار کر حاضری دی۔ اُس نے (پہنچ کر) اجازت طلب کی، تو اجازت مل گئی۔ اس نے سلام عرض کیا ۔ آنحضرتﷺ نے سلام کا جواب دیا۔ اُس نے کہا: یا رسول اللہ! جب میں پہلے آیا تھا تو آپ نے بے اعتنائی فرمائی تھی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” تو ہاتھ میں آگ کا انگارہ پہن کر آیا تھا”۔ وہ آدمی بحرین سے کچھ زیورات لایا تھا۔ اس نے کہا:” یا رسول اللہ! میں تو بہت انگارے لے آیا ہوں”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا” تیرے لائے ہوئے مال میں اتنا ہی فائدہ ہے جتنا حرہ(مقام) کے پتھروں کا ہوتا ہے، لیکن یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے”۔ اُس نے عرض کیا:” یا رسول اللہ! صحابہ کرام میں میرا عذر بیان فرما دیجئے ، وہ یہ نہ سمجھیں کہ آپﷺ کسی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں۔ آنحضرتﷺ نے کھڑے ہو کر وضاحت فرما دی کہ اس شخص کے ساتھ یہ رویہ اس کی سونے کی انگوٹھی کی وجہ سے تھا”۔ (مسند احمد 3/14۔ علامہ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے، ح:11125۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

30) غلطی کرنے والے کا بائیکاٹ

 

یہ ایک انتہائی مؤثر نبوی اسلوب ہے، بالخصوص جب کہ غلطی یا گناہ بہت عظیم ہو۔اس لئے کہ تعلقات منقطع کر لینے سے غلطی کرنے والے کے دل پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت کعب بن مالکؓ اور ان کے دو ساتھی صحابہؓ کا واقعہ ہے، جو غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

جب نبی اکرمﷺ نے یہ تحقیق کر لی، اور خود انہوں نے بھی اعتراف کر لیا کہ ان کے پاس جہاد سے پیچھے رہ جانے کا کوئی عذر نہیں تھا تو پھر کیا ہوا، اس کی تفصیل خود حضرت کعبؓ کی زبان سے پیش خدمت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

جو لوگ رسول اللہﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے، ان میں سے ہم تین سے آنحضرتﷺ نے لوگوں کو بات چیت کرنے سے منع فرما دیا۔ لوگ ہم سے دُور دُور رہنے لگے اور ہمارے ساتھ ان کا رویہّ بالکل تبدیل ہو گیا۔ حتیٰ کہ مجھے زمین اجنبی محسوس ہونے لگی۔ گویا یہ وہ سرزمین نہیں جسے میں جانتا تھا ۔ پچاس دن تک ہمارا یہی حال رہا۔ میرے دونوں ساتھی تو انتہائی دل شکستہ ہو کر گھروں میں بیٹھ رہے اور روتے رہے۔ میں زیادہ جو ان اور مضبوط تھا،(صبر کر کے یہ عظیم مصیبت برداشت کرتا رہا)، میں گھر سے نکل کر مسلمانوں کے ساتھ نمازِ با جماعت میں بھی شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھومتا پھرتا بھی تھا، لیکن کوئی مسلمان مجھ سے کلام نہیں کرتا تھا۔ جنابِ رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہو کر مجلس میں تشریف فرما ہوتے، میں حاضر ہو کر سلام عرض کرتا ، پھر دل میں کہتا : کیا میرے سلام کا جواب دینے کے لئے آنحضرتﷺ کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی ہے یا نہیں؟(شک نہیں رہتا)۔ پھر میں حضور علیہ السلام کے قریب ہی نماز شروع کر دیتا۔ چور نظروں سے حضور علیہ السلام کی طرف دیکھتا ۔ جب میں اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو حضور علیہ السلام میری طرف دیکھتے، جب میں حضور علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوتا تو آنحضرتﷺ مُنہ پھیر لیتے۔ جب لوگوں کی بے التفاتی کی مدت طویل ہو گئی تو(ایک دن) میں دیوار پھاند کر ابو قتادہؓ کے باغ میں داخل ہو گیا، وہ میرے چچا زاد تھے، اور مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارے تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا، اللہ کی قسم! انہوں نے میرے سلام کا جواب تک نہ دیا ۔ میں نے کہا:”ابو قتادہ! میں تجھ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھتا ہوں؟” وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ قسم دے کر پوچھا، وہ پھر بھی خاموش رہے۔ میں نے پھر قسم دے کر پوچھا تو انہوں نے کہا:” اللہ اور اس کے رسولﷺ کو زیادہ معلوم ہے”۔ میر ی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ میں واپس لوٹا اور دیوار پھاند کر باہر آگیا۔۔۔۔

اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے آگے جا کر حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں: جب سے رسول اللہﷺ نے لوگوں کو ہم سے کلام کرنے سے منع کیا تھا، پچاس راتیں گزر گئی تھیں۔پچاسویں رات کی صبح کو میں فجر کی نماز پڑھ کر گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور میری وہی کیفیت تھی جو اللہ تعالیٰ نے(قرآن مجید میں) بیان فرمائی ہے کہ مجھ پر میری جان تنگ ہو گئی تھی، اور زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہو چکی تھی۔ اچانک مجھے کسی پکارنے والے کی آواز سنائی دی، جس نے سلع پہاڑ پر چڑھے کر بلند آواز سے پکارا تھا:” اے کعب بن مالک! تجھے خوشخبری ہو”۔صحیح البخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک۔ح:4418۔)

اس واقعہ میں عظیم نکات اور ایسے نصائح ہیں جنہیں کسی حال میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان سے مطلع ہونے کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جن میں علماء نے اس حدیث کی شرح بیان کی ہے، مثلاً زادالمعاد اور فتح الباری۔

ترمذی کی حدیث سے بھی آنحضرتﷺ کے اس اسلوب کو رو بعمل لانے کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ حدیث حضرت عائشہؓ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا:” جناب رسول اللہﷺ کو تمام عادتوں میں سب سے زیادہ نفرت جھوٹ سے تھی۔ اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ کے پاس غلط بیانی کرتا تو آنحضرتﷺ کے دل پر اُس وقت تک اس کا اثر رہتا جب تک حضرتﷺ کو یقین نہ ہو جاتا کہ اس نے توبہ کر لی ہے۔سنن الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الصدق والکذب، ح:1973۔ امام ترمذی نے حدیث کو حسن کہا ہے۔)

مسند احمد کی روایت ہے :” رسول اللہﷺ کے دل میں اس سے ناراضگی رہتی”۔(مسند احمد ،6/152۔)

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: "اگر حضورﷺ کو اپنے کسی صحابی سے اس قسم کی کوئی چیز معلوم ہوتی تو حضور علیہ السلام ا س سے کبیدہ خاطر رہتے، حتیٰ کہ معلوم ہو جائے کہ اُس نے توبہ کر لی ہے”۔(علامہ البانی نے متعلقہ حدیث کو جمیع طرق بیان کیے ہیں اور بالمجموع صحیح کہا ہے، ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 5/80،ح:2052۔)

ایک روایت میں ہے: "اگر حضور علیہ السلام کو اپنے گھر والوں میں سے کسی کے بارے میں معلوم ہوتا کہ اس نے کوئی بات جھوٹ کہی ہے تو آپﷺ اس سے عدمِ التفات کا رویہّ رکھتے، حتیٰ کہ وہ توبہ کر لے”۔(حوالہ سابقہ بواسطہ”التمھید”1/69۔)

مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غلطی کرنے والے سے خفا ہو جانا، تاکہ وہ اپنی غلطی سے باز آ جائے ، ایک مفید تربیتی اسلوب ہے۔ لیکن یہ اسی صورت میں مفید ہوسکتا ہے جب غلطی کرنے والے کے دل میں خفا ہو جانے والے کا ایک مقام ہو، ورنہ اس پر اس کا کوئی مثبت اثر نہیں ہو گا۔ بلکہ ممکن ہے وہ سوچے کہ اچھا ہوا، جان چھوٹ گئی۔

 

31) غلطی پر اَڑ جانے والے کو بد دُعا دینا​

 

امام مسلمؒ نے روایت کیا ہے کہ جنابِ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص نے بائیں ہاتھ سے کھایا ۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” دائیں ہاتھ سے کھاؤ”۔ اُس نے کہا:” میں نہیں کھا سکتا”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا :” تُو نہ کھا سکے” ۔ اس کے بعد اس کا دایاں ہاتھ اس کے مُنہ تک نہیں پہنچ سکا۔صحیح مسلم، کتاب لاشربۃ، باب آداب الطعام والشراب ،ح:2021۔)

مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے فرمایا:

رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو ، جسےیُسر بن راعی العیر کہا جاتا تھا، بائیں ہاتھ سے کھاتے دیکھا۔ میں نے حضور علیہ السلام کو اسے فرماتے سنا:”دائیں ہاتھ سے کھا”۔ اُس نے کہا:” میں اس کی طاقت نہیں رکھتا”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” تُو طاقت نہ رکھے”۔ صحابی فرماتے ہیں: اس کے بعد اس کا دایاں ہاتھ منہ تک نہیں پہنچ سکا۔(مسند احمد، 4/46و50۔)

امام نوویؒ نے فرمایا: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص بلاعذر کسی شرعی حکم کی مخالفت کرے اسے بد دُعا دینا جائز ہے۔ اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر حال میں کرنا چاہیئے، حتیٰ کہ کھانا کھانے کے دوران بھی کیا جا سکتا ہے”۔(شرح صحیح مسلم ،13/192۔)

 

32) غلطی کرنے والے کے احترام کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ غلطی کی طرف اشارہ کر کے باقی تفصیل بیان کرنے سے گریز کرنا

 

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَ اِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا١ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَ اَظْہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَ اَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ ہٰذَا١ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ(التحریم:3)

"اور جب نبیﷺ نے اپنی ایک بیوی سے ایک راز کی بات کہی ۔ پھر جب اُس نے اس کو افشا کر دیا اور اللہ نے نبیﷺ کو اس سے آگاہ کر دیا ، تو نبیﷺ نے اس پر کسی حد تک (اُس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے درگزر کیا۔ پھر جب نبیﷺ نے اُسے (افشائے راز کی) یہ بات بتائی تو اُس نے پوچھا: آپﷺ کو اس کی کس نے خبر دی؟ نبیﷺ نے کہا: مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جاننے والا اور خوب باخبر ہے۔”

قاسمی رحمہ اللہ علیہ نے تفسیر” محاسن التاویل” میں فرمایا :

"اور جب نبیﷺ نے” یعنی حضرت مُحمّدﷺ نے” اپنی ایک بیوی سے” حفصہؓ سے” راز کی بات کہی” یعنی لونڈی کو’ یا اللہ کی حلال کردہ کسی اور چیز کو ‘ اپنی ذات پر حرام کرنے کی بات بتائی۔” جب اُس نے اس کو افشا کر دیا” یعنی اُس نے وہ راز کی بات اپنی ساتھی حضرت عائشہؓ کو بتا دی” اور اللہ نے پیغمبر کو اس سے آگاہ کر دیا” یعنی آپﷺ کو اطلاع دے دی کہ اُس نے اسے بات بتا دی ہے” تو پیغمبرﷺ نے اس بیوی کو وہ بات کچھ تو بتائی” یعنی انہوں نے جو راز افشاء کیا تھا’ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کچھ بات بتائی” اور کچھ نہ بتائی”۔ یعنی احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ بات نہ بتائی۔

نوٹ: الاکلیل میں ہے:” اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے کسی آشنا یعنی بیوی یا دوست وغیرہ کو راز کے طور پر کوئی بات بتانے میں کوئی حرج نہیں’ اور اس (ہم راز) کے لئے ضروری ہے کہ اس راز کو محفوظ رکھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیویوں سے حسن سلوک کرنا چاہیئے اور ڈانٹ ڈپٹ میں بھی نرمی کو ملحوظ رکھنا چاہیئے اور (غلطی کرنے والے کو جتانے کے لئے) غلطی کی پوری تفصیل ذکر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے”۔(محاسن التاویل، 16/222۔)

 

33) غلطی کے ازالے میں مسلمان کی مدد کرنا

 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا : ہم نبیﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک آدمی آیا۔ اُس نے کہا: "یا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا”۔ فرمایا: ” کیا ہوا؟” اُس نے کہا: ” میں نے روزہ کی حالت اپنی بیوی سے مباشرت کر لی”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ” کیا تمہیں ایک غلام دستیاب ہے جسے تم آزاد کر دو؟” اُس نے عرض کیا :” جی نہیں”۔ فرمایا: ” کیا تم مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟” اُس نے کہا: ” جی نہیں”۔ فرمایا: ” کیا تمہارے پاس اتنا ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو؟” اُس نے کہا: ” جی نہیں”۔ نبی اکرمﷺ وہیں تشریف فرما رہے ۔ اسی اثناء میں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں ایک ٹوکرا پیش کیا گیا’ جس میں کھجور یں تھیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "سائل کہا ہے؟” اُس نے کہا: "جی’ میں ہوں” فرمایا: ” یہ لے کر صدقہ کر دو”۔ وہ بولا:” اللہ کےرسول ! کیا اپنے سے زیادہ غریب آدمی پر صدقہ کروں؟ اللہ کی قسم! سنگریزوں والے دونوں قطعات کے درمیان (یعنی پورے مدینہ میں) مجھ سے غریب گھر موجود نہیں”۔ آنحضرتﷺ کھل کر مسکرائے حتیٰ کہ آپﷺ کے نوکیلے دانت نظر آنے لگے۔ پھر فرمایا: "اپنے گھر والوں کو کھلا دینا”۔صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان ،ح:1936۔)

امام احمد ؒ نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ حسان کے قلعہ کے بلند حصہ کے سائے میں بیٹھے تھے، کہ ایک آدمی حاضر خدمت ہوا اور بولا: "اللہ کے رسول! میں تو جل گیا”۔ فرمایا: "کیا ہوا ؟” اُس نے کہا:” میں نے روزے کی حالت میں بیوی سے مقاربت کی ہے”۔ راوی کہتے ہیں: یہ رمضان کا واقعہ ہے۔ جناب رسول اللہﷺ نے اس سے فرمایا: ” بیٹھ جاؤ”۔ وہ دوسرے لوگوں میں جا بیٹھا ۔ تب ایک آدمی گدھے پر کھجوروں کی بوری لے کر حاضر ہوا اور اُس نے کہا:” یا رسول اللہ! یہ میری طرف سے صدقہ ہے”۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” وہ کہاں ہے جو ابھی جل گیا تھا؟” اُس نے کہا:” میں حاضر ہوں یا رسول اللہ! ” فرمایا:” یہ لے لو اور صدقہ کر دو”۔ اُس نے کہا: "صدقہ مجھ پر اور میرے لئے کرنے کے علاوہ اور کہاں جائے گا؟ قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میرے پاس اور میرے بیوی بچوں کے پاس کچھ بھی نہیں”۔ فرمایا:” تب اسے لے لو”۔ چنانچہ اُس نے وہ کھجوریں لے لیں۔(مسند احمد ،6/276۔)

 

34) غلطی کرنے والے سے مل کر تبادلہ خیال کرنا

 

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرے والد نے ایک معزز خاندان کی ایک خاتون سے میری شادی کر دی۔ وہ اپنی بہو کی خیریت کا پتہ کرنے آتے اور اس سے اس کے خاوند کے بارے میں پوچھتے، وہ کہتی:” وہ بہت اچھے آدمی ہیں، جب سے ہم ان کے پاس آئے ہیں وہ ہمارے بستر پر نہیں بیٹھے نہ ہمارا کپڑا اٹھا کر دیکھا”۔ جب کافی عرصہ تک یہی کیفیت رہی تو انہوں نے جناب رسول اللہﷺ سے یہ بات ذکر کی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” اسے میرے پاس لانا”۔ اس کے بعد میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا:” تم روزے کس طرح رکھتے ہو؟” میں نے کہا:” ہر روز” ۔ فرمایا: ” قرآن کتنی دیر میں ختم کرتے ہو؟” میں نے عرض کیا :” ہر رات "۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” ہر مہینے میں تین روزے رکھو، اور ایک مہینے میں قرآن پڑھو”۔ میں نے کہا :” میں اس سے زیادہ (عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہوں”۔ فرمایا: ” ہفتہ میں تین روزے رکھو”۔ میں نے عرض کیا

:” میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں”۔ فرمایا ” دو دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھو”۔ میں نے عرض کیا :” میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں”۔ فرمایا : ” تو سب سے افضل روزہ رکھ لو’ یعنی داؤد(علیہ السلام) کا روزہ، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن چھوڑو اور سات راتوں میں ایک بار قرآن ختم کرو”۔ کاش! میں نے رسول اللہﷺ کی رخصت قبول کر لی ہوتی! اب میں بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں(اور اتنی عبادت آسانی سے نہیں کرسکتا) ۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) آپ دن کے وقت قرآن کا ساتواں حصہ کسی کو سنالیتے تھے، تاکہ رات کو پڑھنے میں آسانی ہو اور جب یہ چاہتے کہ (انہیں روزے رکھنے کی) طاقت حاصل ہو جائے’ تو کئی دن (مسلسل) روزہ چھوڑ دیتے بعد میں گن کر پورے کر لیتے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جو کام نبی اکرمﷺ کی موجودگی میں کرتے رہے ہیں، اسے ترک کر دیں۔صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن باب فی کم یقرء القرآن ،ح:5052۔)

مسند احمد کی روایت میں یہ واقعہ مزید وضاحت سے بیان ہوا ہے، اور اس روایت میں مزید کئی نکات بھی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرے والد نے قریش کی ایک عورت سے میرا نکاح کر دیا۔ جب وہ رخصت ہو کر میرے گھر آئی تو میں اس کی طرف توجہ نہیں کرتا تھا، کیونکہ میں اپنے اندر عبادت یعنی نماز اور روزے کی طاقت محسوس کرتا تھا۔ (ایک دن ) حضرت عمرو بن عاصؓ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھا: ” تم نے اپنے خاوند کو کیسا پایا؟” اُس نے کہا :” بہت اچھا آدمی ہے ‘ نہ اُس نے ہمارا کپڑا اٹھایا’ نہ ہمارے بستر پر آئے”۔ انہوں نے میرے پاس آ کر مجھے بہت سرزنش کی، اور فرمایا: ” میں تمہارا نکاح قریش کی اونچے حسب نسب والی عورت سے کیا، تُو نے اس سے کنارہ کشی کر لی اور تُو نے یہ کیا’ وہ کیا” (یعنی انہوں نے بہت برا بھلا کہا) پھر وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری شکایت کی ۔ آنحضرتﷺ نے مجھے بلا بھیجا ۔ میں حاضر ہوا تو فرمایا :” دن کو روزے رکھتے ہو؟” میں نے کہا ” جی ہاں”۔ فرمایا:” رات کو قیام کرتے ہو؟” میں نے کہا: ” جی ہاں”۔ پھر فرمایا: ” لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں، اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورت سے تعلق بھی رکھتا ہوں۔ جو میرے طریقے سے بے رغبتی کرے گا وہ مجھ سے نہیں”۔ پھر فرمایا:” ہر مہینے ایک ابر قرآن پڑھا کرو”۔ میں نے عرض کیا: ” میں اپنے آپ میں اس سے زیادہ قوت محسوس کرتا ہوں”۔ فرمایا:” تب دس دن میں قرآن پڑھ لیا کرو”۔ میں نے کہا:” میں خود کو اُس سے زیادہ قوی سمجھتا ہوں” ۔ فرمایا:” تو تین دن میں پڑھ لو” ۔ یہ اس کے بعد فرمایا:” ہر مہینے میں تین دن روزے رکھو”۔ میں نے کہا:” میں اس سے زیادہ قوت رکھتا ہوں”۔ آپ اضافہ کرتے رہے حتیٰ کہ فرمایا:” ایک دن روزہ رکھو’ ایک دن نہ رکھو۔ یہ سب سے افضل روزہ ہے اور یہ میرے بھائی داؤد(علیہ السلام) کا روزہ ہے”۔ پھر آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:” ہر عبادت کرنے والے کا ایک جوش ہوتا ہے اور ہر جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ جوش کے ٹھنڈا پڑنے پر وہ شخص یا تو سنت پر قائم رہتا ہے یا بدعت اختیار کر لیتا ہے۔ تو جو شخص جوش ٹھنڈا ہونے پر بھی سنت پر عمل کرتا ہے وہ ہدایت پا جاتا ہے، اور جو شخص جوش ٹھنڈا ہونے پر دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ تباہ ہو جاتا ہے”۔

مجاہد ؒ نے فرمایا:” جب عبد اللہ بن عمروؓ بوڑھے اور کمزور ہو گئے، تو(یہ طریقہ اختیار کیا کہ) مسلسل کئی دن روزے رکھتے رہتے ، پھر اسی تعداد کے مطابق (مسلسل) روزہ چھوڑ دیتے’ تاکہ کچھ قوت حاصل ہو جائے”۔ انہوں نے فرمایا:” اسی طرح تلاوت کے حصہ میں بھی کمی بیشی کر لیتے تھے لیکن(مجموعی طور پر) مقدار پوری کر کے ساتھ دن میں یا تین دن میں قرآن مجید پڑھ لیتے”۔ انہوں نے فرمایا: ” بعد میں وہ کہا کرتے تھے: ” اگر میں رسول اللہﷺ کی رخصت قبول کر لیتا تو وہ موجودہ متبادل صورت سےبہتر ہوتا۔ لیکن میں رسول اللہﷺ سے جو کام کرتے ہوئے جدا ہوا ہوں، اب اسے چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنے کو جی نہیں چاہتا”۔(مسند احمد،2/158۔ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے،ح: 6477۔)

 

   واقعہ سے مستنبط بعض مسائل

 

  • نبی اکرمﷺ نے اس سبب کی طرف توجہ فرمائی جس کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ یعنی عبادت میں اس حد تک انہماک کہ بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے لئے وقت نہ بچا جس کے نتیجے میں کوتاہی کا ارتکاب ہوا۔
  • "ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو”۔ یہ قاعدہ ہر اُس شخص پر منطبق ہوتا ہے جو نیکی کے کاموں میں حد سے زیادہ مشغول ہو۔ مثلاً وہ طالب علم جو بہت زیادہ اسباق پڑھتا ہے اور وہ مبلغ جو تبلیغ میں اس حد تک منہمک ہو جاتا ہے کہ بیوی کو تکلیف ہوتی ہے اور اسے شکایت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نیکی کے مختلف کاموں کی ادائیگی میں توازن قائم نہیں رہتا اور وقت کو مستحقین میں تقسیم کرنے پر عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مناسب ہے کہ طالب علم اپنے اسباق کے اوقات میں سے اور مبلغ اپنی مصروفیات میں سے اتنی تخفیف کرے کہ گھر کے انتظام اور بیوی بچوں کے حقوق ۔۔۔۔۔ مثلاً اصلاح و تربیت وغیرہ۔۔۔۔ کے لئے کافی وقت بچ سکے۔

 

35) غلطی کرنے والے کو صاف طور پر اس کی غلطی بتا دینا

 

صحیح بخاری میں حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میرا کسی آدمی سے جھگڑا ہو گیا، اس کی ماں عجمی تھی۔ میں نے اس کو ماں کا طعنہ دیا، اُس نے نبیﷺ کو بتایا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:” فلاں شخص سے تمہارا گالی گلوچ ہوا؟” میں نے کہا :” جی ہاں ” ۔ فرمایا:” تم نے اس کی مان کو بُرا کہا؟” میں نے کہا:” جی ہاں”۔ فرمایا: ” تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت کا اثر باقی ہے”۔ میں نے کہا: ” اس بڑھاپے میں بھی؟” فرمایا: ” ہاں ‘ وہ (غلام) تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے قبضہ میں دے دیا ہے۔ تو جس کے قبضہ میں اللہ نے اس کے بھائی کو کیا ہو، اسے چاہیئے کہ جو خود کھائے اسے کھلائے اور جو خود پہنے اسے پہنائے، اور اسے اس کام میں نہ لگائے جو اُس پر غالب آ جائے(انتہائی دشوار ہو) اور اگر اسے کسی ایسے کام میں لگائے جو اس پر غالب آئے تو اس کی ادائیگی میں اس کی مدد بھی کرے”۔صحیح البخاری کتاب الادب باب ماینھی عن السباب واللعن ، ح:6050۔)

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: میرے بھائیوں میں سے ایک آدمی کے ساتھ میری تلخ کلامی ہو گئی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اسے ماں کا طعنہ دیا۔ اُس نے نبی اکرمﷺ کے سامنے میری شکایت کی۔ نبی اکرمﷺ سے میری ملاقات ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا:” ابو ذر! تمہارے اندر جاہلیت پائی جاتی ہے”۔ میں نے کہا:” اللہ کے رسول! جو کوئی لوگوں کو گالی دیتا ہے، لوگ اس کے ماں باپ کو گالی دیتے ہیں”۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ” ابوذر ! تمہارے اندر جاہلیت پائی جاتی ہے۔ وہ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے قبضے میں دے دیا ہے، لہٰذا ا نہیں وہ کچھ کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان کے ذمے وہ کام نہ لگاؤ جو ان پر غالب آ جائے۔ اگر ایسا کام ان کے ذمے لگاؤ تو ان کی مدد کرو”۔صحیح مسلم، کتاب الایمان باب اطعام المملوک مما یاکل، ح:1221۔)

نبی اکرمﷺ نے ابوذرؓ کو بلا تمہید اور پوری صراحت سے یہ بات فرما دی، کیونکہ آنحضرتﷺ کو معلوم تھا کہ صحابیؓ اس کو قبول کر لیں گے۔

کیونکہ صراحت ایک مفید ذریعہ ہے، جس میں وقت بھی کم لگتا ہے اور محنت بھی زیادہ نہیں کرنا پڑتی، اور اصل مقصد بھی بڑی سہولت سے واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن اس طریقہ کار کا استعمال مناسب حالات میں اور مناسب افراد کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔

بعض اوقات عالم غلطی پر صراحت سے تنبیہ کرنے سے اجتناب کرتا ہے، جب کہ اس طریقہ کے استعمال کے نتیجہ میں کوئی بڑی خرابی پیدا ہوے کا خطرہ ہو، یا کوئی بڑا فائدہ ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً غلطی کرنے والا معاشرہ میں ممتاز مقام کا حامل ہے یا کسی بلند عہدے پر فائز ہےجس کی وجہ سے وہ اس اسلوب سے کی ہوئی تنقید برداشت نہیں کرتا۔ یا خطرہ ہے کہ صراحت کرنے پر غلطی کرنے والا اپنے آپ کو سخت مشکل میں محسوس کرے گا، یا وہ اس قدر حساس طبیعت کا مالک ہے کہ اس سے منفی رد عم سرزد ہونے کا امکا ن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غلطی کرنے والا صراحت کے اسلوب کو پسند نہیں کیا کرتا، اور اسے برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس میں سامنے ہو کر بات کی جاتی ہے، اور تنقید کرنے والا گویا استاد جیسے بلند مقام پر فائز محسوس ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں غلطی کرنے و الا ایک نقص کا حامل اور کم تر مقام پر نظر آتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ گھما پھرا کر بات کرنے کا بھی منفی پہلو موجود ہیں، جو بعض اوقات صراحت کے اسلوب سے بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ غلطی کرنے والا یہ محسوس کرسکتا ہے کہ اسے کم عقل سمجھ کر تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ممکن ہے وہ اشاروں کنایوں کی وجہ سے پریشانی محسوس کرے ، کیونکہ وہ انہیں طنز اور ذہنی اذیت سمجھتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے جو بات سمجھانا مقصود ہے وہ اسے سمجھ ہی نہ سکے کیونکہ کلام کا اصل مقصد پوشیدہ ہے اور غلطی کرنے والے کا ذہن اس تک نہیں پہنچ سکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ غلطی پر قائم رہے گا۔ ویسے بھی ہر شخص میں قبولیت کی طرف میلان ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ مزید برآں ایک شخص کے لئے ایک انداز بہتر ہوتا ہے، دوسرے آدمی کے لئے کوئی دوسرا اسلوب بہتر ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ہر حال میں درست ہے کہ تبلیغ کی کامیابی میں رہنمائی کرتے وقت حسن خلق کا اثر سب سے زیادہ ہے۔

 

36)غلطی کرنے والے کو قائل کرنا

 

غلطی کرنے والے کو قائل کرنے کے لئے اس سے تبادلہ خیال کی کوشش کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس طرح اس کی عقل پر سے وہ پردہ ہٹ جاتا ہے جو حق کی قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے، چنانچہ آدمی سیدھی راہ قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سنّت نبویﷺ میں سے اس کی ایک مثال طبرانی کی وہ حدیث ہے جو حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان لڑکا جناب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور کہا : ” اے اللہ کے رسول! مجھے زنا کی اجازت دیجئے”۔ لوگوں نے بلند آواز سے اسے منع کیا ۔ نبی اکرمﷺ نے (حاضرین سے) فرمایا: ” بس کرو” ۔ پھر فرمایا: ” اسے سکون سے بیٹھنے دو” ۔ اور اُسے فرمایا: "قریب آ جاؤ۔ وہ قریب آگیا ، حتیٰ کہ آنحضرتﷺ کے بالکل سامنے آ بیٹھا ۔ جنابِ رسول اللہﷺ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا: ” کیا تم اپنی والدہ کے لئے یہ چیز پسند کرتے ہو؟” اُس نے کہا: ” جی نہیں”۔ فرمایا: "اسی طرح لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے یہ چیز پسند نہیں کرتے۔۔۔۔ کیا تم اپنی بیٹی کے لئے یہ چیز پسند کرتے ہو؟” اُ س نے کہا” جی نہیں”۔ فرمایا:” اسی طرح لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے یہ بات پسند نہیں کرتے۔۔۔۔ کیا تم اپنی بہن کے لئے یہ پسند کرتے ہو؟” اُس نے کہا:” جی نہیں”۔ فرمایا: ” اسی طرح لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے یہ چیز پسند نہیں کرتے۔۔۔ کیا تم اپنی پھوپی کے لئے یہ بات پسند کرتے ہو؟” اُس نے کہا : ” جی نہیں”۔ فرمایا: ” اسی طرح لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے پسند نہیں کرتے۔۔۔ کیا تم اپنی خالہ کے لئے یہ پسند کرتے ہو؟” اُس نے کہا:”جی نہیں”۔ فرمایا: "اسی طرح لوگ بھی اپنی خالاؤں کے لئے پسند نہیں کرتے”۔ پھر آنحضرتﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ اس کے سینے پر رکھا اور فرمایا:

((اَللَّھُمَّ کَفِّر ذَنبَہ وَطَھّر قَلبَہ وَ حَصِّن فَرجَہ))​

"اے اللہ ! اس کا گناہ معاف کر دے، اس کے دل کو پاک کر دے, اور اسے پاک دامنی بھی عطا فرما”۔(مسند احمد، 5/256و257۔ والمعجم الکبیر للطبرانی 8/162، ح:7679، امام ہیثمی نے حدیث کو صحیح کہا ہے مجمع الزوائد 1/129 ح:542 طاط فء ادب العالم۔)

 

37) غلطی کرنے والے کو احساس دلانا کہ اس کا عذر لنگ ناقابلِ قبول ہے

 

بعض اوقات غلطی کرنے والا من گھڑت اور ناقابل قبول وجوہات تراش کر اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، خصوصاً جب کہ معاملہ اچانک ظاہر ہو جائے اور ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہ ہو۔ بعض اوقات جھوٹا بہانہ کرتے ہوئے ذبان اٹکتی ہے خاص طور پر جب آدمی صاف دل والا ہو اور اسے جھوٹ بولنا نہ آتا ہو۔ اگر مربیّ کے سامنے اس قسم کے آدمی کا کوئی معاملہ آئے تو وہ کونسا طریق کار اختیار کرے؟ مندرجہ ذیل قصہ اگر صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو اس سے نبی اکرمﷺ کا اپنے ایک صحابی کے ساتھ بڑا خوبصورت اور مبنی بر حکمت موقف سامنے آتا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مربی کس طرح غلطی کرنے والے کو ایک تسلسل کے ساتھ غلطی کا احساس دلا سکتا ہے، حتیٰ کہ وہ اپنی غلطی سے دستبر دار ہو کر اصلاح کر لے۔

حضرت خوات بن جبیرؓ فرماتے ہیں: ہم نے جناب رسول اللہﷺ کی ہمراہی میں مرالظھران (مکہ کے قریب ایک مقام) پر پڑاؤ ڈالا۔ میں اپنے خیمے سے نکلا، اچانک مجھے کچھ خواتین باتیں کرتی نظر آئیں۔ مجھے یہ منظر اچھا لگا۔ میں نے واپس اپنے خیمے میں جا کر اپنا بقچہ نکالا، اس میں سے ایک حُلہ (عمدہ جوڑا) نکال کر پہنا، اور اُن کے پاس آ بیٹھا۔ (اچانک) رسول اللہﷺ تشریف لے آئے۔ (مجھے عورتوں کے پاس بیٹھے دیکھ کر) فرمایا:” اے ابو عبد اللہ! ” جب میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا تو میں خوفزدہ ہو گیا اور مجھ سے کوئی بات نہ بن پائی۔ میں نے کہا:” اللہ کے رسول! میرا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے، میں اس کے لئے رسّی کی تلاش میں ہوں”۔ حضور علیہ السلام چل دیئے، میں بھی آپﷺ کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ آپﷺ نے اپنی چادر میرے پاس رکھ دی(مطلب یہ تھا کہ یہیں رکے رہو) اور خود (قضائے حاجت کے لئے) درختوں میں تشریف لے آئے۔ مجھے درختوں کے سبز رنگ میں سے آپ کی کمر مبارک کی سفیدی نظر آ رہی تھی۔ فارغ ہو کر آپﷺ نے وضو کیا، اور تشریف لائے تو آپﷺ کی ریش مبارک سے پانی ٹپک ٹپک کرسینے پر گر رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:” ابو عبد اللہ! تمہارے بھاگے ہوئے اونٹ کا کیا بنا؟” اس کے بعد ہم روانہ ہو گئے۔ چلتے چلتے جب بھی رسول اللہﷺ مجھے ملتے تو فرماتے ” السلام علیکم،ابو عبد اللہ! تمہارے بھاگے ہوئے اونٹ کا کیا بنا؟” یہ کیفیت دیکھ کر میں تیزی سے سفر کر کے مدینہ پہنچ گیا، میں نے مسجد میں آنا اور نبی اکرمﷺ کی مجلس میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ جب کافی دن گزر گئے تو میں ایسے وقت مسجد کی طرف چلا جب وہ(نمازیوں سے )خالی ہو، میں وہاں کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ جنابِ رسول اللہﷺ بھی کسی حجرہ شریف میں سے نکل کر تشریف لے آئے اور ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں۔ میں نے نماز لمبی کر دی کہ شاید حضور علیہ السلام مجھے چھوڑ کر تشریف لے جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا:” ابو عبد اللہ! جتنی لمبی چاہو نماز پڑھو، جب تک تم نماز سے فارغ نہیں ہو گے میں بھی نہیں اُٹھوں گا”۔ میں نے دل میں کہا: اللہ کی قسم! میں ضرور جنابِ رسول اللہﷺ سے معذرت کر لوں گا اور اپنے بارے میں حضور علیہ السلام کا دل صاف کر دوں گا۔ جب میں نے نماز سے سلام پھیرا تو آپﷺ نے فرمایا:” ابو عبد اللہ ! السلام علیکم تمہارے بھاگے ہوئے اونٹ کا یا بنا؟” میں نے عرض کیا:” قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ اونٹ تو جب سے میں مسلمان ہوا ہوں، کبھی نہیں بھاگا”۔ آنحضرتﷺ نے تین بار فرمایا:” اللہ تجھ پر رحمت فرمائے”۔ اس کے بعد آپﷺ نے دوبارہ وہ بات نہیں فرمائی۔المعجم الکبیر للطبرانی4/303۔ اس کی سند منقطع ہے کیونکہ زید بن اسلمؒ نے حضرت خواتؓ سے حدیث نہیں سنی۔)

یہ تربیت کا ایک عمدہ درس ہے اور ایسے پُر حکمت طریق کار کی مثال ہے جس سے مطلوبہ نتیجہ حاصل ہو گیا۔ اس واقعہ سے مندرجہ ذیل مسائل بھی اخذ کئے جا سکتے ہیں:

مربّی کی ایک ہیبت ہے، چنانچہ جب وہ غلطی کے مرتکب کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ شرم محسوس کرتا ہے۔

مربّی کے سوالات۔۔۔۔۔ باوجود مختصر ہونے کے۔۔۔۔۔ اور مربی کی نظریں بہت کچھ سمجھا دیتی ہیں، اور ان کا دل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

من گھڑت عذر ، جس میں واضح خلل اس کو غلط ثابت کر رہا ہے، اسے سن کر بحث نہ کرنا اور عذر کرنے والے سے اعراض کر لینا، یہاحساس دلانے کے لئے کافی ہے کہ اس کا عذر قبول نہیں ہوا اور یہ چیز اُسے توبہ اور معذرت کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ نکتہ اس حدیث کے ان الفاظ سے ظاہر ہے: "حضور علیہ السلام چل دیئے”۔

اچھا مربّی وہ ہے جو غلطی کرنے والے کے د ل میں حیاء کا احساس بھی پیدا کر دے جس کی وجہ سے وہ اس سے روپوش رہنا چاہتا ہے، اور یہ احساس بھی پیدا کرے کہ اسے اس کے پاس حاضر ہونے کی ضرورت ہے۔ اور آخر کار دوسرا احساس پہلے پر غالب آ جائے۔

اس قسم کے حالات میں جب غلطی کا مرتکب اپنا موقف تبدیل کر لیتا ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کا معترف ہے اور اس سے رجوع کر رہا ہے۔

 

38) انسان کی فطری کمزوریوں کو ملحوظ رکھنا

 

اس کی ایک مثال عورتوں ، اور خصوصاً سوکنوں میں رقابت کا جذبہ بعض اوقات اس جذبہ کے زیر اثر عورت سے ایسی غلطی سرزد ہو جاتی ہے کہ اگر کسی اور انسان سے عام حالات میں سرزد ہو تو اس سے بالکل مختلف طریقے سے سلوک کیا جائے۔ نبی اکرمﷺ عورتوں کی باہمی رقابت اور اس کے نتیجے مین وقوع پذیر ہونے والی غلطیوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھتے تھے، اور اس میں عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ صبر، برداشت اور تحمل کا اظہار ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جو امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب”صحیح” میں حضرت اَنسؓ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا:

نبی اکرمﷺ اپنی کسی زوجہ محترمہ (رضی اللہ عنھا) کے ہاں تشریف فرما تھے ۔ ایک اُمّ المومنین(رضی اللہ عنھا) نے ایک چوڑے برتن میں کھانا بھیجا۔ نبی اکرمﷺ جس خاتون کے ہاں تشریف فرما تھے، انہوں نے خادمہ کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس کی وجہ سے برتن گر کر ٹوٹ گیا۔ نبی اکرمﷺ نے برتن کے ٹکڑے جمع کئے اور ان میں گرا ہوا کھانا ڈالنے لگے اور فرمایا:” تمہاری ماں کو غیرت آ گئی”۔ پھر آپﷺ نے خادمہ کو روک لیا حتیٰ کہ جس اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا کے ہاں حضور علیہ السلام تشریف فرما تھے ان کے گھر سے برتن حاضر کیا گیا۔ حضورﷺ نے صحیح برتن اُن کے ہاں بھیج دیا جن کا برتن ٹوٹا تھا اور ٹوٹا ہوا برتن ان کے ہاں رہنے دیا جنہوں نے توڑا تھا۔صحیح البخاری، کتاب انکاح، باب حُبُّ الرجل بعض نسائہ افضل من بعض،ح:5225۔)

 

سنن نسائی میں حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنھم کے لئے ایک چوڑے برتن میں کھانا لائیں۔(اتنے میں) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آ گئیں۔ انہوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور ان کے پاس ایک پتھر تھا۔ انہوں نے پتھر مار کر برتن توڑ دیا۔ نبی اکرمﷺ نے برتن کو دونوں ٹکڑوں کو ملا کر رکھا اور دو بار فرمایا:”کھاؤ ، تمہاری ماں کو غیرت آ گئی تھی”۔ اس کے بعد رسو ل اللہﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا برتن لے کر حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا کے ہاں بھیج دیا اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنھا کا(ٹوٹا ہوا) برتن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو دے دیا۔سنن النسائی، کتاب عشرۃ النساء، باب الغیرۃ ح:3966، علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ صحیح سنن النسائی ،ح:3693۔)

سنن دارمی میں حضرت اَنسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی ایک زوجہ محترمہ نے آنحضرتﷺ کی خدمت مین ایک بڑا پیالہ بھیجا جس میں ثرید تھا۔ حضور علیہ السلام اپنی کسی دوسری زوجہ محترمہ کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے پیالے کو کچھ مار کر توڑ دیا۔ نبی اکرمﷺ ثرید اٹھا اٹھا کر پیالے میں ڈالنے لگے اور فرمایا: ” کھاؤ ، تمہاری ماں کو غیر آ گئی”۔سنن الدارمی کتاب البیوع باب من کسر شیئا فعلیہ مثلہ،2/264۔)

٭٭٭

 

 

 

   حرفِ آخر​

 

سُنّتِ نبویہ کے معطر چمن کی اس مختصر سی سیر سے نبی اکرمﷺ کے وہ مختلف اسلوب سامنے آئے ہیں جو نبی اکرمﷺ نے عام لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح کے لئے اختیار فرمائے ۔ اس موضوع پر جو گزارشات پیش کی گئی ہیں، بہتر ہے چند نکات میں ان کی دوبارہ یاد دہانی ہو جائے:

  • غلطیوں کی اصلاح لازمی ہے اور اہم بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ دینی خیر خواہی کی ایک صورت اور نہی عن المنکر کا ایک جزء ہے۔ لیکن یہ فریضہ کا صرف ایک جزء ہے، کیونکہ دین میں صرف نہی عن المنکر نہیں، اَمر بالمعروف بھی شامل ہے۔

تربیت صرف غلطیوں کی اصلاح کا نام نہیں بلکہ اس میں دین کے اصول و قواعد اور شرعی احکام بتانا، سمجھانا اور سکھانا بھی شامل ہے اور افراد کے ذہن میں ان تصورات کو واضح اور راسخ کرنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً عملی نمونہ پیش کرنا، وعظ و نصیحت کرنا، واقعات اور کہانیاں سنانا ، وغیرہ۔ بعض والدین ، اساتذہ اور تربیت کرنے والوں سے یہ کوتاہی سرزد ہوتی ہے کہ پوری توجہ غلطیوں کی تلاش اور ان کے علاج کی طرف مبذول کر دیتے ہیں اور بنیادی تصورات کی تعلیم کی طرف کماحقّہ، توجہ نہیں کرتے، حالانکہ بے راہ روی اور غلطیوں کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے حفاظتی اقدامات اختیار کرنے سے ان کی مقدار کم ہوسکتی ہے، بلکہ یہ ختم بھی ہوسکتی ہیں۔

مذکورہ بالا واقعات سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے غلطیوں کی اصلاح کے لئے جو اقدامات فرمائے ہیں ان میں بہت تنوّع پایا جاتا ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حالات اور افراد کے بدلنے سے اصلاح کا اسلوب بھی بدل جاتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اس معاملہ میں نبی اکرمﷺ کی اقتدا کرنا چاہتا ہے وہ پیش آنے والے واقعات میں تفقّہ اور اجتہاد سے کام لیتے ہوئے ان نظائر کو سامنے رکھتا ہے اور مسئلہ کو اس سے مشابہ مسئلہ پر قیاس کر کے وہ اسلوب منتخب کر لیتا ہے جو کسی خاص موقعہ کے لئے زیادہ مناسب ہو۔

آخر میں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں سمجھ نصیب فرما۴ے اور ہمیں نفس اَمّارہ کی شرارتوں سے محفوظ رکھے۔ ہمیں نیکی کی راہیں کھولنے والے اور بُرائی کی راہیں بند کرنے والے بنائے، ہماری رہنمائی فرمائے اور ہمیں دوسروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ یقیناً وہ ہماری دُعائیں سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہمارا آقا و مولا وہی مدد فرمانے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔

٭٭٭

کمپوزنگ: أبوبکرالسلفی

ماخذ: اردو مجلس

http://www.urdumajlis.net/threads/%D8%BA%D9%84%D8%B7%DB%8C%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%D8%A7-%D9%86%D8%A8%D9%88%DB%8C-%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D8%8C-%D8%A7%D8%B2-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%86%D8%AC%D8%AF.18318/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید