FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

(۲۱)

 

 

مرتّب: ارشد خالد

 

معاون مدیر: ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(برمنگھم)

سرکولیشن منیجر: نوید ارشد

 

 

 

 

رابطہ کے لئے مکتبہ عکاس

مکان نمبر 1164، گلی نمبر 2، بلاک سی

نیشنل پولیس فاؤنڈیشن سیکٹر O-9۔ لوہی بھیر، اسلام آباد

 

ناشر: مکتبہ عکاس

AKKAS PUBLICATIONS

House No 1164 Street No 2 Block C

National Police Foundation ,Sector O-9

Lohi Bhair, Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

………………………………………………………….

E- Mail:

akkasurdu2@gmail.com

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

اپنی بات

 

قوم ابھی تک۱۶دسمبر۲۰۱۴ء کے سانحۂ پشاور کے صدمہ سے باہر نہیں نکلی تھی کہ اب سانحۂ قصور کے انکشاف نے سب کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ دو مختلف نوعیت کے سانحات ہونے کے باوجود دہشت گردی کے ذیل میں آتے ہیں۔ ان دونوں سانحات کے سارے کرداروں کو ان کے انجام تک پہچانے کے لیے اور ان جیسے مزید سانحوں سے بچنے کے لیے ضربِ غضب کونہ صرف مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے بلکہ اسے پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ سانحۂ پشاور کے عقب میں جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر اب تک کی پوری تاریخ کا عمل کارفرما ہے۔ جبکہ سانحۂ قصور ہمارے اخلاقی انحطاط کی روداد کا خلاصہ بن گیا ہے۔ جدید میڈیا، آئی ٹی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے مثبت اور موثر کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتالیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے ان جدید ایجادات کا جتنا منفی بلکہ بھیانک استعمال کیا ہے دنیا کی کسی اور قوم نے نہیں کیا ہو گا۔ سانحۂ قصور اس کی محض ایک مثال ہے۔ اتنی شرمناک صورتِ حال کے باوجود کسی حد تک امید افزا بات یہ ہے کہ قوم کی ایک بڑی اکثریت اور مقتدر و موثر ریاستی ادارے ہر دو طرح کی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پُر عزم دکھائی دیتے ہیں۔ سو مایوس کن حالات ہونے کے باوجود اچھے دنوں کی امید کی جا سکتی ہے۔

ادب اپنے معاشرے پر اثرات مرتب کرتا ہے اور معاشرے کے اثرات کو قبول بھی کرتا ہے۔ ہم جس قسم کے معاشرے میں جی رہے ہیں اس کے مثبت و منفی اثرات ہمارے ادیبوں پر بھی دکھائی دے رہے ہیں اور ہمارے ادب میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ذاتی مفاد کے حصول کے لیے ادبی حقائق سے چشم پوشی اور طاقت ور کی بے جا حمایت کے منفی رویے تو عام ہیں۔ اب سینئر ترین ادیبوں کی باہمی چپقلش میں گالی کی سطح تک پہنچتے ہوئے الفاظ کا استعمال ہمارے قلم کاروں اور کالم نگاروں کے ہاں نمایاں ہونے لگا ہے۔ دوسری طرف فرسٹریشن کا یہ عالم ہے کہ ایک اچھے خاصے معقول نظم نگار کے بارے میں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایک سے زائد بار خود کشی کی کوشش کی۔ یہ اپنے لکھے پر عدم اعتماد کی کوئی صورت ہے یا حد سے زیادہ نام آوری کا پاگل پن؟فرش پر رہنے والوں کوتو اندر سے خاکسار ہونا چاہئے۔ ورنہ شخصیت کا دہرا پن بالآخر جسمانی یا اخلاقی خود کشی کی طرف ہی لے جائے گا۔

ہمیں اپنے پورے سماج میں متشدد مریضانہ رویوں سے نجات کی اشد ضرورت ہے۔ معاشرہ جتنا صحت مند ہو گا اتنا ہی ہمارا ادیب اپنی نجی زندگی میں پُر سکون ہو گا۔ اور مریضانہ رویوں کو رد کرتا ہوا ہمارا ادب بھی صحت مند رویوں کے فروغ میں بہتر کردار ادا کر سکے گا۔

ارشد خالد

 

 

 

 

 

کشور ناہید کا کالم اور اصل حقائق ۔۔۔ حیدر قریشی(جرمنی)

(ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے )

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

یہ مضمون۳؍اپریل ۲۰۱۵ء کو لکھا گیا اور۴؍اپریل۲۰۱۵ء کو اس بلاگ پر آن لائن کر دیا گیا

http: //hamara-adabi-manzarnama.blogspot.de/

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

 

اپنی کتاب ہمارا ادبی منظر نامہ کے اختتامیہ میں ادبی دنیا کی عمومی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے میں نے کشور ناہید کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا، یہاں پیش کر رہا ہوں۔

’’کشور ناہید کی قلمی کاری گری بھی اپنی جگہ کمال کی ہے۔ ایک ہی کالم کے تیر سے ایک طرف انتظار حسین کی خبر لیتی ہیں کہ وہ صرف گوپی چند نارنگ کی ہی تعریف و توصیف کیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف گوپی چند نارنگ کے سابقہ احسانات فراموش کر کے ان پر بھی کچھ ان الفاظ میں حملہ زن ہو جاتی ہیں:

’’نام پڑ گیا ہر جگہ نارنگ صاحب کا۔ مانا وہ بہت گنی آدمی ہیں۔ جس کو چاہتے ہیں آج بھی انعام دلوا دیتے ہیں۔ دعوت نامہ بھیج دیتے ہیں۔ اور جس کو کاٹنا ہو بس اس کی شامت۔ خیر بہت کام کرتے ہیں دنیا بھر میں۔ محبت اور کام کرنے میں ان کی بیوی منورما بھی کسی سے کم نہیں۔ مگر برا ہو شاہد بھنڈاری جیسے لکھنے والوں کا کہ سب کچھ جو کہیں سے لیا ہے، وہ صاف بتا دیتا ہے کہ یہ مستعار کہاں کہاں سے ہے۔ ‘‘

(کشور ناہید کا کالم ’’جستجو کیا ہے ‘‘ ۔ مطبوعہ روزنامہ جنگ۔ ۱۸ نومبر۲۰۱۱ء)

جب نارنگ صاحب کے ساتھیوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا، کشور ناہید جیسے لکھنے والے سب اپنے اپنے مفادات کی فصلیں کاٹ رہے تھے۔ بلکہ تب کشور ناہید نے ایک کالم میں ناحق طور پر شمس الرحمن فاروقی صاحب کو بھی ان معاملات کا ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔ تو اب یکایک انہیں نارنگ صاحب کی مستعار تحریروں کا خیال کیسے آ گیا؟اس کالم سے پہلے کا کچھ عرصہ چیک کر لیں۔ انڈیا کی ادبی تقریبات میں جہاں نارنگ صاحب کا عمل دخل تھا وہاں کشور ناہید کے دورے رُک گئے تھے۔ اور اس کالم کے بعد کا ریکارڈ دیکھ لیں کہ وہ دورے پھر بحال ہو گئے تھے۔ تو اخباری کالموں کے سہارے زندہ رہنے والے ہمارے ادیبوں، دانشوروں کی ساری حق گوئی و بے باکی کا حدود اربعہ بس اتنے سے مفادات میں گھرا ہوا جزیرہ ہے۔ ‘‘ (ہمارا ادبی منظر نامہ۔ ص ۹۷۷۔ ۹۷۸)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

میں نے کشور ناہید کی حق گوئی و بے باکی کو دعوت ناموں کے مفادات میں گھرا ہوا جزیرہ قرار دیا تھا۔ اس کی مزید تصدیق ان کے ایک نئے کالم کے ذریعے ہو رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں انہیں نہ صرف انڈیا جانے کا موقعہ ملا بلکہ کئی شہروں کی تقریبات میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ چونکہ یہ سب کچھ در حقیقت ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی نظرِ عنایت کے باعث ہوا تھا، اس لیے انہوں نے حق الخدمت کے طور پر ایک کالم لکھا، جس کا عنوان ہی بڑا دھانسو قسم کا ہے ’’اردو ادب کے مہادیو۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ‘‘ ۔ یہ کالم روزنامہ جنگ لاہور۔ ۳؍اپریل ۲۰۱۵ء میں شائع ہوا ہے۔ اگر کشور ناہید نارنگ صاحب کی جائز و ناجائز تعریف و توصیف تک محدود رہ کر اپنا پبلک ریلشننگ کا سلسلہ جاری رکھتیں تو مجھے اس کا نوٹس لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ آخر ایک دنیا اسی کاروبار میں مصروف ہے اور ہر ایک کے پاس اس کا جواز بھی موجود ہے۔ لیکن اس کالم میں ان کی بیان کردہ دو باتوں کی وجہ سے مجھے اس کا نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔ ان کی دو باتیں ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہیں۔

۱۔ ’’کوئی دشمن بھنڈر کی طرح ان کے علمی تجربہ پر وار کرے تووہ ایرے غیرے سے جواب نہیں دلواتے بلکہ خود تحقیق کے ترازو میں تول کر جواب دیتے ہیں ‘‘

۲۔ ’’حریفوں نے جب بھی انہیں اُڑانے کی کوشش کی وہ خود پس غبار میں گئے۔ ‘‘

جب کشور ناہید کو گوپی چند نارنگ صاحب انڈیا کے ادبی دورے نہیں کرا رہے تھے، تب ان کے بقول:

’’ برا ہو شاہد بھنڈاری جیسے لکھنے والوں کا کہ سب کچھ جو کہیں سے لیا ہے، وہ صاف بتا دیتا ہے کہ یہ مستعار کہاں کہاں سے ہے۔ ‘‘

۔۔ ۔ اور ایک ہی دعوت نامہ کے نتیجہ میں کئی شہروں کی تقریبات بھگتا کر آئیں تواسی بھنڈر کو یوں زد پر رکھ رہی ہیں:

’’کوئی دشمن بھنڈر کی طرح ان کے علمی تجربہ پر وار کرے تووہ ایرے غیرے سے جواب نہیں دلواتے بلکہ خود تحقیق کے ترازو میں تول کر جواب دیتے ہیں ‘‘ ۔

بہتر ہو کہ محترمہ خود بتائیں کہ انہوں نے پہلے جھوٹ لکھا تھا یا اب جھوٹ لکھ رہی ہیں ؟

کشور ناہید کے مفاداتی تضاد سے قطع نظر واقعاتی طور پر بھی انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ جب نارنگ صاحب پر ترجمہ بلا حوالہ کا الزام آیا تھا، تب انہوں نے ایروں غیروں سے ہی جواب دلائے تھے اور ابھی تک انہوں نے خود اس الزام کا کوئی مدلل تو کیا غیر مدلل جواب بھی نہیں دیا۔ حالانکہ وہ اس موضوع پر بھنڈر کے پہلے مضمون کے جواب میں کچھ لکھ دیتے تو یہ معاملہ شدت اختیار نہ کرتا۔ اس سلسلہ میں میری یہ تحریر ریکارڈ پر موجود ہے۔

’’ ایک بار پھر واضح کر رہا ہوں کہ جہاں تک ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا تعلق ہے، عمران بھنڈر اس معاملہ میں اصل الزام کی حد سے آگے تک نکل گیا تھا اور اپنی اوقات سے باہر ہو گیا تھا لیکن یہ الزام یکسر غلط ہر گز نہیں تھا۔ اگر نارنگ صاحب شروع میں ہی دانشمندانہ طریق سے اس پر ردِ عمل ظاہر کر دیتے تو بات پہلے مضمون کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی۔ لیکن جیسے جیسے ان کا دفاع کرنے والے غیر ادبی طریق سے حملہ آور ہوتے چلے گئے ویسے ویسے ان کا تماشہ بنتا چلا گیا۔ ‘‘

(مضمون۔ مار دھاڑ سے ادبی حقیقتِ حال تک۔ بحوالہ: ہمارا ادبی منظر نامہ۔ ص۔ ۷۸۱)

نارنگ صاحب نے ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا خود کوئی معقول جواب دینے کی بجائے اپنے ’’ایروں غیروں ‘‘ سے کام چلانے کی کوشش کی، یوں ’’ترجمہ بلا حوالہ‘‘ کا الزام اُن کے کارندوں کی مار دھاڑ کے ردِ عمل میں سرقہ، چوری اور ادبی ڈاکہ سے موسوم ہوتا چلا گیا۔ نقصان ان کا اپنا ہی ہوا۔ کشور ناہید کے خوشامدانہ کالم کی غلط بیانی نے ایک بار پھر حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے۔ اگر نارنگ صاحب نے ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا کوئی معقول جواب کبھی دیا تھا تو کشور ناہید پر لازم ہے کہ ان کی اس تحریر کو سامنے لائیں۔ نارنگ صاحب کا ایسا کوئی وضاحتی مضمون پیش نہیں کیا جا سکے گا۔

بھنڈر کے بعض حوالہ جات نظر ثانی کا تقاضا ضرور کرتے ہیں، لیکن ان کے پیش کردہ بیشتر حوالے فکرمند کرنے والے ہیں۔ بھنڈر نے تہذیب، شائستگی اور ادبی سلیقے کے ساتھ اپنا کیس پیش کیا ہوتا تو بعد میں اس کی وہ عبرت ناک حالت نہ ہوتی جو اَب ادب کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ایک مقبول روزنامہ میں پیہم لکھنے کی مشقت کرنے کے باوجوداس کی کوئی ادبی تو کیا صحافیانہ حیثیت بھی نہیں بن سکی۔ اس کا یہ انجام نارنگ صاحب کی کسی کرامت کا نتیجہ نہیں بلکہ بھنڈر کی اپنی بدزبانی کا نتیجہ ہے۔ مجھے بھنڈر کے غیر مہذب لب و لہجہ سے اختلاف تھا اور اختلاف ہے۔ لیکن اس کے باوجود نارنگ صاحب پر ترجمہ بلا حوالہ کا الزام یکسر غلط نہیں ہے۔ تہذیب، شائستگی اور ادبی سلیقے کے ساتھ یہ بات نارنگ صاحب کے نیازمند اور معروف نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے بھی نہ صرف تسلیم کی ہے بلکہ اسے اپنے تحقیقی مقالہ کا حصہ بنایا ہے۔ میں اپنے مضمون ’’مار دھاڑ سے ادبی حقیقتِ حال تک‘‘ میں ناصر عباس نیر کا ایک اقتباس انگریزی اور اردو متن کے ساتھ پیش کر چکا ہوں۔ یہاں اسی اقتباس کے بعد کی عبارت بطور ثبوت پیش کر رہا ہوں۔ اسے کسی مخالف کی نہیں بلکہ گھر کے اندر کی گواہی شمار کیا جا سکتا ہے۔ (ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات،ص ۳۱) اور(Catherine Belsey, Critical Practice, P 4) کا اقتباس پہلو بہ پہلو دینے کے بعد ناصر عباس نیر لکھتے ہیں۔

’’یہ مثال اس کتاب سے لی گئی ہے، جسے اردو میں ساختیات اور پس ساختیات کی بائبل کا درجہ دیا گیا ہے۔ (۸) ہرچند مصنف نے کتابیات میں ان کتابوں کو ستارے کے نشان سے ممیز کیا ہے اور حاشیے میں لکھا ہے کہ ان کتابوں سے بہ طور خاص استفادہ کیا گیا ہے، مگر مذکورہ مثال کی روشنی میں، یہ استفادہ نہیں راست ترجمہ ہے۔ استفادے اور ترجمے کے مطالب بین ہیں، لہٰذا ان پر مزید روشنی ڈالنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ جن کتابوں سے ترجمہ کیا گیا ہے، ان کا حوالہ اس متن میں موجود نہیں، جو ترجمہ ہے۔ اس طرح ان ترجمہ شدہ حصوں کو مصنف نے اپنے خیالات بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ عمل علمی دیانت داری کے مسلمہ اصولوں سے قطعاً ہم آہنگ نہیں ہے۔

ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات، کے بیش تر مندرجات جن کتابوں سے ترجمہ ہیں یا جن کی تسہیل کی گئی ہے، وہ ساختیات اور پس ساختیات کے بنیادی ماخذ نہیں ہیں۔

(اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر۔ باب ۷۔ ص۲۵۱۔ )

ڈاکٹر ناصر عباس نیر حوالہ(۸) کے تحت حاشیہ میں لکھتے ہیں:

حواشی: ۸-                              اس کتاب کے بیش تر مقالات بعض انگریزی کتابوں سے براہ راست ترجمہ ہیں، مثلاً باب اوّل کا پہلا حصہ کیتھرین بیلسی کی مذکورہ کتاب، باب اوّل کا حصہ تنقیدی دبستان اور ساختیات، رامن سیلڈن اور پیٹرو ڈوسن کی کتاب Contemporary Literary Theory کے صفحات ۳ تا ۶ کا ترجمہ ہیں۔ دوسرے باب کے آخری صفحات جوناتھن کلّر کی کتاب Structuralist Poetics کے صفحات ۶ تا ۷ کا ترجمہ ہیں۔ کتاب ۲ کا پہلا باب ’’رولاں بارت، پس ساختیات کا پیش رو کے صفحات ۱۶۱ تا ۱۶۴، جان سٹروک کی کتاب Structuralism and Since کے صفحات ۵۳ تا ۶۰ کا ترجمہ ہیں۔ ‘‘

( ’’اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات‘‘ از ڈاکٹر ناصر عباس نیر۔ باب ۷۔ ص ۲۸۳)

ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا ایک اور بیان بھی دیکھ لیں۔ کیتھرین بیلسی نے آلیتھوسے کے حوالے سے جو لکھا ہے۔ انگریزی حوالے کے بعد ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ’’اس طور نئی تھیوری میں آئیڈیالوجی کو (i) فرد کے حقیقی تجربے سے جوڑا گیا ہے۔ (ii) فرد کا اختیاری نہیں، لازمی و غیر اختیاری معاملہ قرار دیا گیا ہے (iii) مانوس اور تشکیک سے مبرا ’’سچائی‘‘ سمجھا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آئیڈیالوجی زبان کے اندر لکھی ہوئی ہے۔ زبان کو وسیلہ اظہار بناتے ہوئے آئیڈیالوجی فرد کے شعور اور ادراک میں، قطعاً غیر محسوس انداز میں شامل ہو جاتی ہے۔ گوپی چند نارنگ نے آئیڈیالوجی کی اسی تھیوری کو قبول کیا اور اپنی تحریروں میں جا بجا اسے اپنے موقف کے طور پر پیش کیا ہے۔ ‘‘

(اردو تنقید پر مغربی تنقید کے اثرات۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر۔ باب ۷۔ ص۲۷۶)

سو اب بھنڈر کی بد تہذیبی اور بد زبانی کو ایک طرف بھی کر دیں تو ترجمہ بلا حوالہ کاجو الزام نارنگ صاحب پر لگا ہوا ہے، وہ ان کے اپنے گھر کے اندر کی گواہی کے مطابق بھی ختم نہیں ہوتا۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ اس بارے میں نارنگ صاحب خود ہی اپنا موقف بیان کر دیں۔ ورنہ سب کچھ ادب کی تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔ تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد جب کوئی دعوت نامہ دینے والا اور دعوت نامہ لینے والا نہیں ہو گا، تب دستیاب شواہد اور حقائق کی بنیاد پر وقت خود اپنا فیصلہ سنائے گا۔

کشور ناہید کا دوسرا بیان بجائے خود کنفیوژن کا شکار ہے۔ لکھتی ہیں۔

’’حریفوں نے جب بھی انہیں اُڑانے کی کوشش کی وہ خود پس غبار میں گئے۔ ‘‘

غالباً محترمہ یہ فرما رہی ہیں کہ جب بھی کسی نے نارنگ صاحب پر کوئی الزام لگایا نارنگ صاحب کا کچھ نہیں بگڑا البتہ الزام لگانے والے اپنی مخالفت کے غبار میں خود ہی گم ہو کر رہ گئے۔

اگر یہ بیان خود کشور ناہید صاحبہ کی پہلی مخالفت والی بات ( ’’جستجو کیا ہے ‘‘ ۔ مطبوعہ روزنامہ جنگ۔ ۱۸ نومبر۲۰۱۱ء) کے تناظر میں ہے تو بالکل درست ہے۔ وہ ایک دعوت نامہ کی طلب میں نارنگ صاحب کی مخالفت میں جہاں چلی گئی تھیں وہاں سے انہیں غائب ہونا پڑا۔ یعنی اپنے ہی غبار میں گم ہو گئیں۔ لیکن جن لوگوں نے ترجمہ بلا حوالہ کے مسئلہ کو علمی و ادبی رنگ میں بیان کیا، اُن میں سے کوئی بھی کسی غبار میں گم نہیں ہوا۔ ناصر عباس نیر مطلع ادب پر موجود ہیں۔ میں اپنی ۹۹۶ صفحات کی کتاب ہمارا ادبی منظر نامہ کے ساتھ پورے شواہد اور حقائق کے ساتھ کتابی صورت میں بھی اور انٹرنیٹ پربھی موجود ہوں۔ کسی مار دھاڑ کے بغیر علمی و ادبی زبان میں مکالمہ کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں۔ (جیسے اب حاضر ہو گیا ہوں )۔ البتہ جب سے اس جھگڑے میں نارنگ صاحب کے ’’ایرے غیرے ‘‘ ٹائپ کارندوں نے گرد اُڑائی تھی، تب سے نارنگ صاحب اپنی مجلسی زندگی سے غائب سے ہو کر رہ گئے ہیں۔ کینیڈا سے کراچی تک کی بعض تقریبات میں انہیں بار بار ترجمہ بلا حوالہ کے الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ بے حد احتیاط کے ساتھ منعقد کی جانے والی تقریبات سے بھی نارنگ صاحب غائب ہونے لگے۔ اسی پس منظر میں نارنگ صاحب کے عزیز دوست ظفر اقبال نے مزاحیہ انداز سے ان کا کتبہ ان الفاظ میں شائع کیا تھا۔

’’گوپی چند نارنگ: حضرات حیدر قریشی اور عمران شاہد بھنڈر کی طرف سے مغربی مصنفین کی تحریروں سے سرقے کے جھوٹے سچے تابڑ توڑ الزامات کے بعد ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ تارک الدنیا ہو گئے۔ یار لوگوں نے ڈھونڈ تو نکالا اور دوبارہ دنیا داری کی طرف مائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جو روگ دل کو لگا بیٹھے تھے آخر جان لیوا ثابت ہوا۔ آخری رسوم میں شمولیت کے لیے پاکستان سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر سیدھے شمشان گھاٹ پہنچے اور ار تھی کے کنارے کھڑے ہو کر حاضرین کے سامنے اپنا معرکۃ الآراء مضمون ’’ما بعد جدیدیت‘‘ پڑھا جو سورگباشی کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ ’’خبر نامۂ شب خون‘‘ کی طرف سے بھجوائے گئے پیغامِ تعزیت میں کہا گیا کہ ایسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ کیونکہ ایک آدمی کے لیے روز روز پیدا ہونا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے ساہتیہ اکیڈمی کا نام تبدیل کر کے نارنگ ساہتیہ اکیڈمی رکھ دیا گیا۔

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا‘‘

( دال دلیا از ظفر اقبال۔ روزنامہ دنیا لاہور۔ ۲۰؍اگست ۲۰۱۴ء)

صرف یہی نہیں، خود کشور ناہید جس حالیہ ہند یاترا پر گئی تھیں، اس دوران ایک تقریب ہندی، اردو ساہتیہ ایوارڈ اکیڈمی لکھنؤ کے زیر اہتمام لکھنؤ میں بھی ہوئی تھی۔ یہ تقریب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تھی لیکن اس تقریب میں بھی ڈاکٹر نارنگ صاحب دکھائی نہیں دئیے۔ حالانکہ وہاں تو سب ان کے اپنے ہی لوگ تھے۔ سو پس غبار ہو جانے والی بات کہیں اور جاری ہے۔ رہے نام اللہ کا!

کشور ناہید کا کالم ’’جستجو کیا ہے ؟‘‘ در اصل انتظار حسین کی خود نوشت پر تبصرہ تھا۔ تبصرہ کیا تھا غم و غصہ کا اظہار تھا۔ مختلف لوگوں کے نام لے لے کر لکھا کہ انتظار حسین نے ان کا ذکر نہیں کیا یا بہت کم کیا ہے، جبکہ اس مخالفانہ کالم کا اصل غم یہ تھا کہ انتظار حسین نے کشور ناہید کو ایک طرح سے نظر انداز کر دیا تھا۔ سو کالم نگاری کی دھونس جما کر جہاں کشور ناہید دعوت نامے حاصل کر لیتی ہیں، وہیں اس انداز میں بھڑاس نکال کر اپنا دل کا بوجھ بھی کم کر لیتی ہیں۔

ہند یاترا کے بعد نارنگ صاحب کی شان میں اتنا توصیفی کالم لکھنے کے دوران کشور ناہید نے بڑے اچھے پیرائے میں نارنگ صاحب سے ایک فرمائش بھی کر ڈالی ہے۔ یعنی صرف دعوت نامے کافی نہیں ہیں، کچھ اور بھی چاہئے۔ یہ ’’کچھ اور‘‘ کیا ہے ؟ کشور ناہید کے اپنے الفاظ میں دیکھ لیں۔

’’میری جیسی لکھنے والیاں جنہوں نے اپنے سفید بالوں کو کالا کیا ہوا ہے، وہ بھی نارنگ صاحب کی تاریخیت میں اپنا حوالہ چاہتی ہیں کہ ان میں بھی انسانی تجربے کی صدیاں سمٹی ہوئی ہیں۔ ‘‘

کشور ناہید کی اس ’’خود شناسی‘‘ پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور نارنگ صاحب اور کشور ناہید کے مشترکہ دوست ظفر اقبال کے ایک جملہ پر بات مکمل کرتا ہوں۔ ان کے کالم میں یہ جملہ کسی اور پس منظر کے ساتھ کشور ناہید کے لیے لکھا گیا تھا۔ موجودہ پس منظر میں بھی یہ جملہ کشور ناہید کے لیے بے حد مناسب ہے۔

’’شعر و ادب میں رعائتی نمبر نہیں ہوتے اور جو لوگ یہ نمبر دیتے ہیں وہ خود بھی رعائتی نمبروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ‘‘

(مطبوعہ دال دلیا از ظفر اقبال۔ روزنامہ دنیا لاہور۔ ۶؍مارچ ۲۰۱۵ء)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

نوٹ: جو دوست میری کتاب ہمارا ادبی منظر نامہ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر ناچا ہیں، ان کے لیے اس کے چند لنک درج کر رہا ہوں۔ کسی لنک سے بھی کتاب ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں

http: //hamara-adabi-manzarnama.blogspot.de/

http: //kuliat-library.blogspot.de/

http: //issuu.com/haiderqureshi

https: //archive.org/details/HamaraAdabiManzarNamaByHaiderQureshi

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈاکٹر ناصر عباس نیرؔ بطور انشائیہ نگار ۔۔۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن(شاہ پور صدر، سرگودھا)

 

پاکستان میں اُردو انشائیہ کا سفر اپنے ابتدائی دور میں ایک متنازعہ کھیوٹ کی طرح رہا۔ جس میں مالکانہ حقوق حاصل کرنے کے لیے کچھ نام نہاد لوگوں نے بھی بڑے جتن کیے۔ اُردو کے بڑے بڑے ناقدین نے اُردو انشائیے کو تعصب کی عینک سے پرکھا اور جانچا ہے۔ اس کھیوٹ(انشائیہ) کے مالکانہ حقوق اس وقت منظر عام پر آئے جب ۱۹۵۶ء میں ڈاکٹر وزیر آغا کا سب سے پہلا انشائیہ ماہ نامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شایع ہوا اور ڈاکٹر وزیر آغا ہی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اس کھیوٹ(انشائیہ) کی تمام جمع بندیوں کو منضبط کیا اور ادبی دنیا کے قارئین کو شناسائی دلوائی۔ اس ضمن میں جمیل آذر کی رائے بیان کرنا مناسب ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر وزیر آغا پہلے ادیب ہیں جنھوں نے انشائیہ کے عناصر ترکیبی اور اس کی روح کو دریافت جو انگریزی کے بلند پایہ انشائیوں کے اندر برقی رو کی طرح جاری و ساری ہے۔ ‘‘ [۱]

اس کے ساتھ ساتھ اُردو انشائیے پر تنقید خود انشائیہ کو ہی مستحکم کرتی چلی گئی۔ اختلافی مباحث اُردو انشائیہ کی تخلیق کی دیوار نہ بن سکے اور رسائل و جرائد میں اُردو انشائیہ کا سفر جاری و ساری رہا۔ آج اُردو انشائیہ با قاعدہ ایک صنفِ ادب بن چکی ہے۔ انشائیہ محض کاغذی پھول نہیں بلکہ ایک گلِ سر سبد ثابت ہوا ہے۔ مقامِ مسرت و انبساط یہ ہے کہ انشائیہ آج بھی تخلیق ہو رہا ہے۔ اُردو انشائیہ کی روایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج بھی انشائیہ نگار، انشائیہ کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ اُردو انشائیہ کا مستقبل پوری طرح روشن ہے۔ بقول انور سدید:

’’قریباً اسی سال تک ڈگمگانے اور گمنامی کی بے عنوان زندگی گزارنے کے بعد اب انشائیہ نگاروں کی ایک روشن کہکشاں مرتب ہو گئی ہے اور اس میں نئے انشائیہ نگاروں کا روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ متعدد انشائیہ نگاریوں نے اس کہکشاں کو جگمگا رکھا ہے اور یہ کہنا درست ہو گا کہ انشائیہ کا مستقبل تابندہ ہے۔ ‘‘ [۲]

اُردو انشائیے کی اس ادبی کہکشاں کا ایک روشن ستارہ ڈاکٹر ناصر عباس نیرؔ ہیں، جنھوں نے اپنے زمانہ طالب علمی سے اُردو انشائیے کے ساتھ اپنا رشتہ استوار کیا جو ہنوز جاری ہے۔ ناصر عباس نیر کے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’’چراغ آفریدم‘‘ ۲۰۰۰ء میں کاغذی پیرہن لاہور سے شایع ہوا جس میں چوبیس(۲۴) انشائیے شامل تھے۔ بعد ازاں ۲۰۱۴ء میں بیکن بکس ملتان سے ان کے انشائیوں کا مجموعہ ’’چراغ آفریدم‘‘ دوبارہ شائع ہوا جس میں کل بتیس(۳۲) انشائیے شامل ہیں۔ ان کے انشائیوں میں انفرادی زاویوں کی عکاسی غالب ہے۔

ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اپنے انشائیوں میں تازہ معنی کی تخلیق اور انفرادی زاویوں کی دریافت کی ہے اور بڑے قرینے کے ساتھ اپنے خیال کی چمک کو تخلیقی تقاضوں سے مزین کر کے پیش کیا ہے۔ انھوں نے اپنے انشائیوں میں ایک متنوع کائنات تخلیق کی ہے جس میں مختلف پہلوؤں کی طرف بڑی کشادگی اور فنی بصیرت کے ساتھ قاری کو ایک شعوری کیفیت سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ معنوی لطافت اور شگفتگی ان کے انشائیوں میں رچی بسی ہے۔ یہ متنوع پرت ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے انشائیوں کو اعلیٰ تخلیقی مدارج عطا کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ پاتال میں اتر کر فن کا موتی تلاشتے ہیں۔ اکبر حمیدی انشائیے میں گہرائی اور گیرائی کی اہمیت کو یوں اجاگر کرتے ہیں:

’’انشائیہ میں موضوع کے پرت نہیں کھولے جاتے بلکہ موضوع کی نئی جہتوں کی سیر کروائی جاتی ہے کسی موضوع کے محض چند پہلو بیان کر دینا تخلیق کار کے انٹیلیکٹ کا اظہار نہیں ہو سکتا۔ انشائیہ نگار تو پہاڑ کے دوسری سمت بھی دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ بلکہ پہاڑ کے اس حصے کی سیر بھی کرواتا ہے جو زمین کے پاتال میں ہے اور ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ انشائیہ نگار در اصل اس موجود کو وجود میں لاتا ہے جو اس کے انٹیلیکٹ کا حصہ اور دوسرے اس سے آگاہ نہیں ہیں۔ انشائیہ نگار اس موجود کی تلاش میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں غوطہ بھی لگاتا ہے۔ ‘‘ [۳]

’’کمرہ‘‘ ناصر عباس نیر کے انشائیوں میں سر فہرست ہے۔ اس انشائیہ میں انھوں نے کمرے کی خوشگوار فضا کو فطری انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کا انشائیہ کمرہ قاری پر بہت سے انکشاف کرتا ہے۔ ایسے انکشاف جو زندگی کا لازمہ ہیں لیکن عمومی طور پر زندگی کے منظر نامے سے اوجھل ہوتے ہیں۔ کمرے کی فضا اور اسرار و رموز سے ایسے نقش و نگار مرتب کیے ہیں جن کی چکا چوند مانند نہیں پڑتی۔ قلم، کتاب اور تنہائی اسی انشائیے کے ارتقائی مدارج ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کمرے کی طرف دوستی کا ہاتھ کیسے بڑھایا ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’کمرے سے میری دلچسپی کا آغاز اس لمحے ہوا جب کتاب کی محبت میری رگ و پے میں بس گئی۔ کتاب کی محبت کسی گبھرو کے پہلے پیار کی طرح متعدد تقاضے کرتی ہے۔ سب سے پہلے تو دنیا کے اس آئین کو تج دینے کی فرمائش ہوتی ہے، جس نے آپ کو، یعنی آپ کے اقوال و اعمال کو بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ کتاب کے ناز اٹھانا، دلھن کے ناز اٹھانے کی طرح ایک پر لطف اور تخلیقی سر گرمی ہے اور ہر تخلیقی عمل خلوت کا طلب گار ہے۔ کتاب دوستی نے مجھے جن تخلیقی لمحات کی چاٹ لگا دی تھی، ان کے حصول کے لیے مجھے کمرے کی فضا بے حد راس آئی، کیوں کہ یہاں معطر تنہائی ہر وقت میرے لیے چشم براہ رہتی۔ ‘‘ [۴]

معنوی بصیرتوں کی ترجمانی کرتا ہوا ان کا انشائیہ ’’معنی‘‘ ایک انوکھے معنوی جہان تازہ میں پیدا ہونے والی کثافتوں اور لطافتوں کے شاخسانے پیش کرتا ہے۔ دوسری طرف یہی انشائیہ قاری کے معنوی کجل کو بھی کھولتا اور اس کے تخلیقی طرزِ عمل کے بہت سے مغالطوں کو بھی دور کرتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا انشائیہ ’’بیماری‘‘ مریضانہ رویوں اور بیمار کیفیتوں کا آئینہ دار ہے۔ اسی طرح ڈاک کے ہرکارے کی طرح اہلِ زمین کو اندھیرے کا سندیسہ دینے والی شام کے عنوان سے ان کا انشائیہ ’’شام‘‘ ایک ماورائی اشارے کی طرح ہے۔ ناصر عباس نیر نے اس انشائیے میں زندگی کے افق پر ڈھلتی شاموں اور بدلتی صبحوں کو عرفانی ادراک کے ساتھ ساتھ زمانی و مکانی لمحوں کا مصحف بھی قرار دیا ہے۔ ’’نا تجربہ کاری‘‘ ایسا انشائیہ ہے جس کو تجربے کی دیگ میں رکھ کر اسلوب کی چاشنی میں پکایا گیا ہے۔ معاشرے میں تجربے اور نا تجربے کو لازم و ملزوم صورت میں پیش کیا ہے۔

رشتوں کے ’’کُل‘‘ کی تقسیم اور قربت کے خوف میں اجنبی کیفیتوں کو اپنے انشائیہ ’’تنہائی‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اسی انشائیے میں نئے تہذیبی تناظر کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ بقول انور سدید:

’’ناصر عباس نیر نے انشائیہ ’’تنہائی‘‘ میں تہذیب نو کے اس ارتقا کو تلاش کیا ہے جو ’’ہم‘‘ سے ’’میں ‘‘ کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ ‘‘ [۵]

انسانی پاتال میں اتری تنہائی اور بے خبری کی کچی نیند دماغوں کو کھچا کھچ بھر چکی ہے۔ تنہائی کی فِصیل ’’آخری آدمی‘‘ ان کا ایسا انشائیہ ہے جس میں زندگی کی متاع اور عطا کے خفیف فرق کے ساتھ ساتھ چیزوں کی بجائے زندگی اور مظاہر فطرت کو اہمیت دی گئی ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے انہی مظاہر اور انسانی خصائل کو اپنے انشائیوں میں بطور خاص ملحوظ رکھا ہے۔ بشیر سیفی اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’تنہائی سے مکالمہ اور فطرت سے معانقہ ناصر عباس نیر کے انشائیوں کا بنیادی موضوع ہے۔ وہ جب تنہائی میں مظاہر فطرت اور انسانی خصلت پر غور کرتا ہے تو ساری کائنات اس کے اندر سمٹ جاتی ہے، اور وہ انسان اور فطرت کے ازلی روابط سے آشنا ہونے کے بعد اسی طرح وجد میں آتا ہے جس طرح ایک صوفی عالمِ استغراق میں ایک نئی حقیقت پا لینے کی مسرت سے سر شار ہوتا ہے۔ اس وجد کے عالم استغراق میں وہ جب اپنے محسوسات صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے تو قاری بھی اس کے تجربے میں شریک ہو جاتا ہے۔ یہی ایک اچھے انشائیے کی خوبی ہوتی ہے۔ ‘‘ [۶]

استغراقی کیفیات میں ڈوب کر لکھا گیا ایک انشائیہ ’’نئے موسموں کی ہوا‘‘ بھی ہے۔ اس انشائیے میں انشائیہ نگار نے لمحہ با لمحہ بدلتی ہوئی کیفیات کو کبھی گندم کے نوخیز پودوں میں، کبھی پتوں کو جھاڑتے درختوں میں، کبھی تاریخ کے ایوانوں میں اور کبھی اپنے پردہ سماعت میں جھوم جھوم کر ٹکرانے والی ہوا کے مختلف انداز میں، ہوا اور روح کی مماثلتوں کو بیان کیا ہے۔ ایسی مماثلتیں جن میں ہوا کی تازگی روح کے نہاں گوشوں تک رسائی ممکن بناتی ہے۔ ناصر عباس نیر فطرت سے جڑا ہوا انشائیہ نگار ہے۔

انسانی زندگی میں دائروں کی داستان کو دائروی سفر کی بے معنویت کا استعارہ قرار دیا ہے۔ ’’دائرہ در دائرہ‘‘ ان کا ایسا انشائیہ ہے جس میں دائروں میں مقید زندگی اور دائرے کے گول مٹول وجود کی ماہیت کی تفہیم کو بھی واضح کیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے دائرے کو رسوم و رواج، بیتے لمحوں کی یاد اور کائنات کی بجھارتوں کو دائرے کے باطن اور خارج میں یاد کی شمع جلا کر نورانی دائروں میں دیکھا اور سوچا ہے۔ یہ انشائیہ قاری کے گرد بھی ایک دائروی کیفیت پیدا کرتا ہے اور یہی انشائیہ نگار کا فنی معراج ہے۔ نیر صاحب کے انشائیے قاری کی سوچ کے زاویوں کو نئی سمت عطا کرتے ہیں۔ یہ انشائیہ نگار کا کامیاب ترین روپ ہوتا ہے۔ بقول رشید امجد:

’’انشائیہ قاری کو سوچ کے نئے زاویے دکھاتا ہے اور اس کے اندر ایسے رویوں کو جنم دیتا ہے جن کے نتیجے میں وہ چیزوں کو معمول کے بجائے غیر معمولی انداز میں دیکھنے لگتا ہے۔ یہ غیر معمولی نتائج اسے مسرت بھی فراہم کرتے ہیں اور اس کو فکری بالیدگی بھی عطا کرتے ہیں۔ ‘‘ [۷]

اب ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے انشائیے ’’دائرہ در دائرہ ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’دائرہ زندگی کے گرد اپنے مضبوط بازو حمائل کیے ہوئے ہے۔ زندگی بازوں کے اس حلقے سے رہائی کی جتنی تگ و تاز کرتی ہے، دائرہ اسی نسبت سے اپنا حلقہ تنگ کر لیتا ہے۔ یوں دونوں میں ایک ایسی کشمکش کا منظر وجود میں آتا ہے جس کا مشاہدہ ہم اپنی روز مرہ زندگی اور تاریخ میں کرتے ہیں۔ دائرے کا کام اپنے محیط میں آنے والی چیزوں کے جملہ رابطوں اور سلسلوں کو خود میں جذب کر لینا ہے، جب کہ زندگی اپنے فطری جذبہ بقا کے تحت کسی غیر کے تسلط سے اس طرح پرہیز کرتی ہے جس طرح شوگر کا مریض میٹھی اشیاء سے۔ زندگی دائرے سے بھاگتی بھی ہے، مگر جگہ جگہ دائرے کے بچھائے ہوئے جال میں بڑی معصومیت سے گرفتار بھی ہوتی جاتی ہے۔ یوں دونوں میں ایک ایسی کھینچا تانی کا آغاز ہوتا ہے، جس کا انجام معلوم نہیں ہے۔ دائرہ بھی آغاز و انجام کے چکر سے آزاد ہے اور زندگی بھی اپنے آغاز و انجام کی بابت کچھ نہیں جانتی۔ ‘‘ [۸]

مکالماتی انداز میں لکھا گیا انشائیہ ’’بے کاری اور بے روز گاری‘‘ تجسس اور دل چسپی سے لبریز کیفیات کا مجموعہ محسوس ہوتا ہے۔ زندگی کے دو نقطہ ہائے نظر کو اسلوب کی سادگی اور لفظوں کی چاشنی میں رقم کیا گیا ہے۔ ناصر عباس نیر نے اپنے انشائیوں میں کومل لفظوں اور انشائی اسلوب کو مد نظر رکھا ہے۔ ان کے انشائیوں کی تمہیدی سطور قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ یہی کیفیت ان کے انشائیوں کے باطنی اسلوب کی غمازی بھی کرتی ہے۔ ناصر عباس نیر کا اسلوب عام اسلوب نہیں ہے بل کہ انھوں نے اپنے انشائیوں کے لیے خالص انشائی اسلوب اختیار کیا ہے۔ یہی انشائی اسلوب انشائیے کو مہکار دیتا ہے۔ یہاں عام اسلوب اور انشائی اسلوب کی وضاحت ضروری ہے۔ بقول سجاد نقوی:

’’عام اسلوب اور انشائی اسلوب میں یہ فرق ہوتا ہے کہ عام اسلوب کے اجزائے ترکیبی میں مواد، زبان اور تکنیک شامل ہوتے ہیں، مگر انشائی اسلوب میں ان کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ مثلاً غیر رسمی انداز، تازگی، شگفتگی، بذلہ سنجی، مزاح، تحریف اور کفایتِ لفظی وغیرہ۔ پھر جس طرح غزل میں تغزل سے جو شے، موضوع، خیال اور جذبہ مس کرتا ہے، اس کی قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے، اسی طرح انشائیہ میں بھی انشائی اسلوب فکر و خیال کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے۔ ‘‘ [۹]

یہ انشائی اسلوب ناصر عباس نیر کے انشائیوں کا لازمی جزو ہے۔ ان کے انشائیوں میں انشائی اسلوب کے اجزائے ترکیبی کو بالخصوص ملحوظ رکھا گیا ہے۔ حرف شناسی اور لفظ فہمی میں ناصر عباس نیر کو خصوصی ملکہ حاصل ہے اور انشائی مزاح ان کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کے انشائیوں میں سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

’’بے کار آدمی زندگی سے ٹوٹ کر پیار کرتا ہے، اس لیے وہ زندگی کے نئے ذائقوں کی دریافت کرتا ہے۔ وہ اس جہان رنگ و بو پر قناعت نہیں کرتا۔ وہ ایک پر اسرار جذبے کی تحریک پر نئے جہانوں کی تسخیر کا خواب دیکھتا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری تمدنی اور ثقافتی اور علمی ترقی بے کاری کا ہی ثمر شیریں ہے۔ قدیم زمانے میں جب لوگوں کے پاس فرصت اور فراغت کی فراوانی تھی تو وہ مظاہر فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ان پر غور و فکر کرنے لگتے۔ بساطِ آسمان کے مطالعے کو انھوں نے مشغلے کے طور پر اپنایا تھا۔ جدید انسان نے ان کے اسی شغل سے علمِ فلکیات کے بنیادی تصورات اخذ کیے۔ طویل راتوں کی فرصت میں قدیم انسان نے عجیب و غریب طلسماتی کہانیاں گھڑی تھیں۔ آج کا انسان انھی اساطریی کہانیوں میں دانش تلاش کر رہا ہے۔ ‘‘ [۱۰]

انشائی اسلوب میں ’’بوریت‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا انشائیہ بھی اپنے اندر انشائی اسلوب کی تازگی سے مزین ہے۔ ناصر عباس نیر اس انشائیے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’بوریت کی آمد پرانی داستانوں کے دیو کی طرح ہے۔ پہلے اندھیرا چھا جاتا ہے، آدمی کے روز مرہ کو بریک لگ جاتے ہیں، اندر کی رفتار مدھم پڑ جاتی ہے، چیزیں اور لوگ ایک دم بے رونق ہو جاتے ہیں، مگر تھوڑی ہی دیر بعد وہی اندھیرا لو دینے لگتا ہے اور آدمی خود شناسی کی سعادت پا لیتا ہے۔ ‘‘ [۱۱]

فطرتی قوانین فاصلوں کے عمل کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے چلے آتے ہیں۔ ناصر عباس نیر نے ’’فاصلے ‘‘ کے عنوان سے لفظوں میں فاصلوں کا خلا خوب صورت کرداروں، کانوں میں رس گھولتی آوازوں اور عہد با عہد بلند ہوتی فاصلوں کی فصیلوں کو حقیقی نقوش اور اصلی رنگوں میں بیان کیا ہے۔ دائروں اور فاصلوں میں لپٹی زندگیوں کے مابین نظریوں اور سرحدوں کی کشمکش کو بھی انشائی اسلوب میں یوں پیش کیا ہے:

’’فطرت فاصلوں کو بر قرار رکھنے پر سدا قائل رہتی ہے۔ کائنات کی کوئی سی دو چیزیں ایک دوسرے میں ضم ہو کر اپنی اپنی شخصی علامتوں سے دستبردار نہیں ہو سکتیں، اور جب اس قسم کی کوشش کی جاتی ہے تو آئینِ فطرت کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ عشق اور تصوف میں عاشق اور صوفی کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ محبوب سے وصل کی آرزو میں ہر دم جلتا رہا مگر جب یہ مراد بر آئے تو اپنی ہستی کو محبوب کی ہستی میں گم ہونے سے بچائے رکھے، اپنے اوصافِ ذات کو ذاتِ محبوب پر تج نہ دے۔ فطرت نے انسان کو ایک منفرد وجود کے طور پر جنم دیا ہے، اسے اپنا ذاتی تشخص بہر صورت محفوظ رکھنا ہو گا، ورنہ وہ بے نام و نشان ہو جائے گا۔ پروانہ شمع کے سوز میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں آتا۔ مزہ تو جب ہے کہ شمع کی روشنی سے اس کے اندر بھی چراغ جلنے لگیں۔ اہل دل کے نزدیک حرکت عین زندگی اور فاصلے کا شعور حقیقی بصیرت ہے۔ ‘‘ [۱۲]

معمولی میں غیر معمولی اور عام زاویوں میں خاص راہوں کو ناصر عباس نیر نے اپنے انشائیوں میں دریافت کیا ہے۔ عام طور پر نظر انداز شدہ روز مرہ کے معمولات میں ایسا شعوری پہلو تلاش کرتے ہیں کہ قاری اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ناصر عباس کا یہ تخلیقی شعور کبھی ننھے استاد، کبھی خواہش، موت اور کبھی دور اور قریب کی دھُند میں لپٹے فاصلے اور قربتوں کی فکری کائنات تک پھیلا ہوا ہے۔ ناصر عباس نیر اس فکری کائنات کا تخلیق کار خود ہے۔ انھوں نے اس متنوع انشائی کائنات میں فکر و بصیرت کے جتھوں کو خراماں خراماں پیش کیا ہے کہ قاری اسی کائنات کی دُور افتادگی میں زندگی اور موت کی اصل حقیقت اور گونا گوں لذتوں اور نو بہ نو دریافتوں سے محفوظ ہونے لگتا ہے۔ آرزوؤں، حسرتوں اور خواہشوں کے گرد ناچتی زندگی کو انشائیہ ’’خواہ‘‘ش میں بڑی وضع داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا یہ غیر رسمی انداز تحریر ان کے انشائیوں کو مقبولیت کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ انشائیہ ’’خواہ‘‘ش سے ایک قتباس ملاحظہ ہو:

’’خواہش حقیقت میں ایک اندھی قوت ہے جو لازماً عمل آرا رہنا پسند کرتی ہے۔ ہر چند یہ اپنے بہاؤ میں رائی سے لے کر پہاڑ تک ٹکرا جانے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔ تاہم یہ اپنی ساری شکتی راہ میں حائل کوہِ گراں پر دھاڑنے یا اُسے ہٹانے میں خرچ کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوتی۔ اسے اپنی قوت کی عظمت اور تقدیس کا اس قدر خیال ہے کہ وہ اس کے رتی بھر زیاں کو گوارہ نہیں کرتی۔ یوں بھی وہ راستے بدل بدل کر اپنے ذوقِ تماشا کی تسکین نیز اپنی عزیمتوں کی آزمائش خود اپنے ہاتھوں کرنے کی خوگر ہے۔ ‘‘ [۱۳]

انشائیہ نگار انواع و اقسام کے موضوعات اور معنوی جہاں کی سیر کروانے کے ساتھ ساتھ قارئین کی شعور کی توسیع Extension of Consciousness’کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ [۱۴] یہ شعوری توسیع ناصر عباس کے انشائیوں میں موجود ہے۔ انھوں نے اپنے انشائیوں کے متنوع موضوعات میں اپنے مزاج کی داخلیت کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان کا انشائی طرزِ تحریر بوجھل پن سے دُور اور نت نئے جملوں کے ساتھ نئی تراکیب کا بھی امین ہے۔ بل کہ ناصر عباس نیر کے انشائیوں میں قدم قدم پر زبان و بیان کے نئے شگوفے بھی پھوٹتے ہیں ؛جو بسا اوقات شعری صورت میں ڈھلتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔

قدیم و جدید کے سنگم پر عظمتِ رفتہ کی کہانی اور پہیے کے انقلاب کو بہ نفسِ نفیس اپنے انشائیے ’’تانگہ‘‘ میں واضح کیا ہے۔ اس انشائیے میں بڑی خوب صورتی کے ساتھ وقت کے بدلتے تناظر اور جدت کے ہاتھوں، قصباتی زندگی میں بھی تانگے کے وجود کو ہارنا پڑا ہے۔ فاصلوں کو کچلتی ہوئی جدید گاڑیوں نے تانگے کے سہج سہج طے کرتے فاصلے کو شکست دے دی ہے۔ انشائیہ ’’تانگہ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

’’تانگے کی شکل میں تیز رفتاری اور سست روی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتی ہے۔ تیز رفتاری، زمین اور گرد و پیش سے انسان کو علیحدہ کر کے ایک مصنوعی دنیا میں بند کر دیتی ہے، جب کہ سست روی میں انسان کو دھرتی اور ارد گرد جکڑ لیتے ہیں۔ یوں دونوں، انسان کی فطرت آزادی کے سبک دھارے کے آگے بند ڈال دیتی ہے۔ تانگے کا کمال یہ ہے کہ وہ دو انتہاؤں کے درمیان ایک سنگم کو وجود میں لاتا ہے اور انسان اس سنگم پر ٹھہر کر اپنی فطری آزادی کے امرت رس کو پی سکتا ہے۔ تانگہ آپ کو منزل کی طرف بھی لے جا رہا ہوتا ہے اور آس پاس کی اشیاء، افراد اور حالات سے بھی مربوط رکھتا ہے۔ ٹیکسی رکشے میں تو ادھر اُدھر کی چیزیں ہلکی سی جھلک دکھلا کر آناً فاناً منہ چھپا لیتی ہیں۔ شاید وہ آپ کی تیز رفتاری پر احتجاج کر رہی ہوتی ہیں۔ ‘‘ [۱۵]

شورشوں اور ہنگامہ آرائیوں میں ’’خاموشی‘‘ کے عنوان سے میٹھی سی غنودگی کی کیفیت کے انکشاف کا نرالا پہلو اس انشائیہ میں نمایاں کیا ہے۔ تند و تیز آوازوں میں اظہار کے اس اعلامیے میں خاموشی کی کیفیتوں کو لطیف انداز میں پیش کیا ہے۔ کیوں کہ خاموشی زندگی کی ایک لازم صورت ہے۔

ناصر عباس نیر نے دو مختلف سر گرمیوں، پڑھنا اور مطالعہ کرنا کو انشائیے کے روپ میں دھارا ہے۔ دونوں سر گرمیوں کے مزاج اور مقاصد کو بھی دھیمی دھیمی مماثلتوں میں لپیٹ کر قاری کو شناسائی کروائی ہے۔ پڑھنے اور مطالعہ میں ایک حد فاصل بھی کھینچتے ہیں کہ پڑھنے کا سفر حیرت انگیز اشیا سے آگاہی دلاتا ہے، جب کہ مطالعہ کا عمل ان دیکھے منطقوں کا نظارہ کرواتا ہے۔ انشائیہ نگار کا اندازِ نگارش اس قدر نئی طرز ادا اور اظہار و ابلاغ کے متنوع زاویوں سے ہم آہنگ ہے کہ ان کے انشائیوں میں تشبیہات اور استعارات کا استعمال ان کی انشائی کائنات کو نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست معلوم ہوتی ہے کہ انشائیوں نے اُردو کو استعاراتی نثر لکھنے کی ترغیب بھی دی ہے۔ [۱۶] بعینہٖ،  ناصر عباس نیر کے متعدد انشائیوں میں رمزیت، تشبیہات اور استعارات کا استعمال واضح طور پر ملتا ہے۔ ان کا یہ انشائی اسلوب اپنی چاشنی کی بدولت قاری کے گرد ایک ہالہ بُننے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ ہالہ قاری اپنے گلے کا طوق بنا لیتا ہے اور اس سے خلاصی کا خواہش مند نظر نہیں آتا۔ ’’سرما کی دھوپ‘‘ سیاہی سے نہیں انشائی قلم سے لکھا گیا ہے جس کی سطر سطر معطر نظر آتی ہے۔ ناصر عباس نیر نے لفظوں کے ظروف گھڑنے کی بجائے، بولتی زبانوں اور مہکتی چہکتی لطافتوں کو پیش کیا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:

’’جسم کی خوشبو سے مشام جاں کو عطر بیز کرنے کا انوکھا ڈھنگ اہلِ مغرب نے اپنا رکھا ہے۔ وہ سردیوں کی مخملی دھوپ میں سمندر کنارے اپنے بدن کو تہذیب کے ہر چولے سے آزار کر دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے بدن پر تہذیب کا لیپ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوتا ہے جو ایک طرح سے جسم کی نفی کا عمل ہے۔ جسم کی نفی رِشی مُنی اور صُوفیا بھی کڑی ریاضتوں سے کرتے ہیں۔ ایک تہذیبی عمل میں جسم کو اڑیل گھوڑا سمجھ کر قابو میں لانا چاہتے ہیں اور دوسرے جسم کو روحانی پرواز کی راہ میں حائل بھاری پتھر سمجھ کر چکنا چور کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ شیخ چلی کی طرح اسی شاخ کو کاٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جن پر بیٹھتے ہیں۔ ‘‘ [۱۷]

کائنات کے تسلسل میں واقعات کی تلاطم خیز موجوں کو سوچ اور فکر کے دائروں میں مقید کر کے اپنے انشائیے ’’میں سوچتا ہوں سو میں ہوں ‘‘ میں پیش کیا ہے۔ زندگی کے مدار میں اٹھنے والی لہروں کو تاریخ کے دھاروں میں بھی تلاش کیا ہے۔ اسی طرح ’’کیا گزرے ہے !‘‘ میں بسترِ علالت پر پڑے مریض کی آہوں اور کراہوں میں زندگی کی تمنا اور کچھ بے معنی آوازوں کا شعور اس انشائیے میں سنائی دیتا ہے۔ علیل آدمی کے باطن میں وقوع پذیر ہونے والی ہجرتوں اور پھر صحتِ کاملہ کی بہاروں کے نقش بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ناصر عباس کے انشائیوں میں معنوی جہاں کی چکا چوند روشنی اور نکتہ آفرینی انھیں تخلیقی اُپج عطا کرتی ہے۔ ان کے انشائیوں میں جگہ جگہ تخلیق کاری اور انشائیہ نگاری کے فکری و فنی جگنو جگمگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ناصر عباس نیر نے زندگی کو عمومی سطحوں کو خصوصیت کا زاویہ عطا کیا ہے اور یہی ان کے فن کی معراج ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول:

’’آپ ناصر عباس نیر کے انشائیے پڑھیں تو آپ کو معمولی چیزوں اور افعال میں ایک جہانِ معنی نظر آئے گا۔ صنفِ انشائیہ کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ ان گری پڑی چیزوں کو فرشِ خاک سے اٹھا لیتی ہے جنھیں ہماری ادبی اشرافیہ نے ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا تھا اور پھر انھیں جھاڑ پونچھ کر کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ انشائیہ نگاری کا یہی عمل نقاد کو بھی اس بات پر مائل کرتا ہے کہ وہ ان نام نہاد لکھاریوں سے متاثر نہ ہو جو میک اپ کے رسیا اور نمائش کے دلدادہ ہیں بلکہ ان تخلیق کاروں پر توجہ مبذول کرے جن کی گودڑیوں میں لعل چھپے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھیں تو ناصر عباس نیر نے جو نہ صرف زندہ رہنے والے انشائیے تخلیق کیے ہیں بلکہ اس صنفِ ادب کے طریق کار کو برت کر اپنی تنقید کو بھی تخلیقی سطح تفویض کر دی ہے۔ ‘‘ [۱۸]

یادوں کی منڈیر پر رکھا ہوا قلم، کائنات کے اسرار کو ایک تازہ رخ اور احساس کو ایک نئی زندگی سے روشناس کرواتا ہے۔ قلم، لفظ، خیال اور انسان کے گہرے سمبندھ کو انشائیہ ’’قلم‘‘ میں واضح کیا ہے۔ قلم صرف لفظوں کے محل اُسارنے میں معاون نہیں ہوتا بل کہ قلم سیر چشمی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ تعمیرِ کائنات اور تسخیرِ کائنات کا زندہ استعارہ ہے۔ انشائیہ ’’کہنا سننا‘‘ شیریں لفظوں کے طاق میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے۔ سننے کو مسیحائی عمل اور جمالیاتی تصرف کے آرٹ سے تعبیر کیا ہے۔ زنجیر کی کڑی سے کڑی ملتی اور ٹوٹتی صورت کو کائنات کی تخریبی اور تعمیری کشمکش کے طور پر انشائیہ ’’کائنات بوڑھی نہیں ہوتی‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اس انشائیے میں ناصر عباس نیر نے بڑی خوشیوں کو ننھے منے خیالات میں پیش کر دیا ہے۔ ہر نوع بنتی، بگڑی اور چمکیلی زندگی کو نئی نویلی دُلھن کی طرح تخلیق کی تازگی اور بناؤ سنگھار سے مزین کیا ہے۔ انشائیے ’’جھوٹ سچ‘‘ میں جھوٹ کی کڑواہٹ اور سچ کی مٹھاس کو خوب صورت اظہار کے پیرائے میں سامنے لائے ہیں۔

’’سفر جاری رکھنا ہے !‘‘ میں رختِ سفر کے کھونے کا خوف اور سمتِ سفر کے چراغ کو جلائے رکھنے کی خواہش کو نئی لفظی معنویت عطا کی ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ ناصر عباس نیر لفظوں کے دیپ جلانے والا انشائیہ نگار ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کے انشائیوں میں ہر تان لفظوں کے دیپ روشن نظر آتے ہیں۔ یہ روشن دیپ محض بینائی کی طرف اشارہ نہیں بل کہ بصیرت افروزی کی طرف قارئین کی توجہ کو مرکوز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’سفر جاری رکھنا ہے !‘‘ سے ایک مثال ملاحظہ ہو:

’’اس سفر میں میرے پاس جو دیپ ہیں، ان میں سے کچھ میں نے اوروں کے چراغوں سے اور کچھ خود جلائے ہیں۔ خود چراغ روشن کرنے کے لیے کبھی خونِ جگر جلانا پڑتا ہے، کبھی لہو رونا اور بعض اوقات اپنے پورے وجود کو بھسم کرنا پڑتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ روشنی ہر جگہ روشنی ہے مگر مجھے اصرار ہے کہ روشنی روشنی میں فرق ہے۔ دوسروں سے حاصل کی گئی روشنی، اپنے خون یا خونِ جگر سے نکلنے والی روشنی اور اپنے پورے وجود کی راکھ سے پھوٹنے والی روشنی میں بہت فرق ہے۔ نوعیت کا بھی اور درجے کا بھی! مستعار روشنی صرف راستہ دکھاتی ہے، خونِ جگر سے حاصل ہونے والی روشنی راستے پر چلنے کا اعتماد بخشتی ہے، مگر پورے وجود کی بھوبھل سے طلوع ہونے والا نور نئے راستے تخلیق کرتا ہے اور یہ راستے زمینی بھی ہوتے ہیں اور زمانی بھی، مکانی بھی اور لا مکانی بھی۔ ‘‘ [۱۹]

ناصر عباس نیر کی سوچ کے دھارے چیونٹیوں کے گرد طواف کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ بظاہر حجم میں چھوٹی مگر زندگی کے بڑے بڑے فلسفے اور صلح پسندی کے مرکز کے گرد گھومتی ’’چیونٹیاں ‘‘ عرفان و ادراک کی نئی نئی راہوں کا اعلان کرتی نظر آتی ہیں۔ اس انشائیے میں آدم زاد کی توجہ صلح جوئی کی جانب بھی دلوائی گئی ہے۔

انشائیہ ’’خوشی‘‘ خوش مزاجی کے قلم سے لکھا گیا ہے جس میں خوشیوں کے پرت مختلف صورتوں اور کیفیات میں لپٹے زندگی کے دریا میں حلاوت گھولتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ خوشیوں کے دھیان میں لگے ہوئے انسانوں کی حاصل اور لا حاصل خوشیوں کی عطا ئی اور دہائی محو رقصاں نظر آتی ہے۔ خوشیوں کی مخملی چادر میں لپٹا یہ انشائیہ خوشی کے آہنگ کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتے ہیں۔ خوشی کی دوہری کیفیت کو یوں اُجاگر کرتے ہیں:

’’خوشی دو طرح کی ہوتی ہے ایک ہا ہو، دوسری فقط ’’ہو‘‘ ۔ ایک لہو و لعب، دوسری سکوت محض۔ ایک پہاڑ جھرنے کی پر شور لہر، دوسری میدانی ندی کا آبِ سست رو، ایک اردگرد کو اپنی چنگھاڑ کی طرف متوجہ کرتی ہے اور دوسری اپنی طرف متوجہ رہتی ہے۔ ایک دنیا کے تعاقب میں، دوسری کے تعاقب میں دنیا ایک ہر جگہ اور شاید ہر پل موجود، دوسری کہیں کہیں اور کم کم موجود۔ ایک آدمی کی منتظر تو دوسری کا منتظر آدمی! ایک راستہ روکے کھڑی اور راستے میں پڑی ہے، دوسری ایک نیا راستہ دکھاتی ہے۔ ایک ویشیا کی طرح جذبات بھڑکاتی ہے دوسری دیوی کے مانند جذبات میں توازن لاتی ہے۔ ایک آگ، دوسری ستارہ! ایک میں جارحیت، دوسری سر تا پا ملائمت۔ ‘‘ [۲۰]

ان انشائیوں کے باطنی رموز پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے انشائیے ٹمٹماتے ہوئے ان جگنوؤں کی مانند ہیں جو گھپ اندھیری رات میں ٹمٹما کر غائب نہیں ہوتے بل کہ ان کی چمک چاندنی کا روپ دھار کر قاری کو اپنا سفیر بنا لیتی ہے۔

’’چھوٹا، بڑا اور خالص آدمی‘‘ فکر و شعور کا مرقع ہے۔ اس انشائیے میں ناصر عباس نیر نے انسانی نفسیات کے پاتال میں اُتر کر ایک فلسفی کی طرح آدمیت کے نہاں خانوں کو روشن کیا ہے۔ ناصر عباس نیر لفظ شناس بھی ہیں، لفظ فہم بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر آدمی شناس بھی ہیں۔ اس انشائیے میں آدمیت کے پاتال میں اتر کر آدمیت کے گہرے رموز منکشف کر کے آدمی کی خالصیت کی توضیح کر دی ہے۔ انھوں نے اس انشائیے میں بڑی گہرائی اور گیرائی سے آدمی کے روپ قارئین کے سامنے رکھے ہیں۔ یہ انشائیہ (چھوٹا، بڑا اور خالص آدمی) ان کے ذاتی تجربے کا بھی نمائندہ ہے تو دوسری طرف زندگی کے حاشیے میں رنگ بھرتے پست قامتوں اور دیو قامتوں کی تفہیم کا ادراک بھی بڑے لطیف پیرائے میں رقم کرتا ہے۔ آدمی کی خالصیت کی مختلف سطحوں کو نرالی صورتوں میں یوں پیش کرتے ہیں:

’’خالص آدمی کئی منطقوں میں زندگی جیتا ہے۔ بدن ذہن اور ماورائے ذہن منطقوں میں۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی اپنا اظہار جسم میں کرتی ہے۔ اپنی حکمت عملیوں کو ذہن میں منکشف کرتی ہے اور اپنے اسرار کو ماورائے ذہن منطقوں میں نہاں رکھتی ہے۔ چناں چہ وہ بدن کے جمال کا قصیدہ پڑھنے میں خوشی محسوس کرتا ہے، فطرت کی حکمت عملیوں کو سمجھنے میں مسرت پاتا ہے اور اسرار حیات کے کشف میں نشاط محسوس کرتا ہے۔ خالص آدمی نہ راہب ہوتا ہے نہ نرا لذت پسند اور نہ محض فلسفی!وہ بس ایک خالص آدمی ہوتا ہے۔ زندگی کی سب صورتوں اور سطحوں سے وابستہ۔ ‘‘ [۲۱]

خبر کی فراوانی اور خبر کی تشہیر کے معاملات کو ’’خبر کی بھوک‘‘ میں موضوع بنایا ہے۔ فی زمانہ خبر کی دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات اور لوگوں میں نئی خبر کی بھوک کو بھی اس انشائیے میں جادوئی ہنر کے طور پر پیش کیا ہے۔ لمحہ با لمحہ انسانی محسوسات اور تجسس کو اخبار میں بدلتی سرخیوں کی طرح نمایاں کر دیا ہے۔ انشائی طرزِ نگارش کے حامل ناصر عباس نیر کے انشائیے فکری و فنی لوازمات کے ساتھ ساتھ فکر اور شعور کو تحریک دینے کا بھی ایک موثر ذریعہ ہیں۔ فی الحال ناصر عباس نیر کے ہاں انشائیہ کی تخلیق کا سلسلہ سست روی کا شکار ضرور ہے لیکن انھوں نے اس صنف کے ساتھ اپنی استواریت کو کچا نہیں پڑنے دیا۔ انور سدید کی ناصر عباس نیر کے بارے میں اپنی رائے یہاں پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ انور سدید لکھتے ہیں:

’’انشائیہ بلا شبہ ناصر عباس نیر کی تخلیق کاری کی محبوب صنف ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ’’خاموشی‘‘ ، ’’بیماری‘‘ معنی، ’’کہنا سننا‘‘ ، اور خوشی جیسے کثیر الجہات انشائیے اور ان کا مجموعہ ’’چراغ آفریدم‘‘ پیش کرنے کے بعد تنقید کے خار زار کو مرغزار بنانے میں مصروف ہو گئے۔ تاہم اس وقت تک وہ انشائیہ کی صنف میں ایک اور مقام امتیاز حاصل کر چکے تھے۔ ان کی انفرادیت کو ڈاکٹر وزیر آغا اور پروفیسر جمیل آزر نے جو جدید اُردو انشائیہ کے بنیاد گزار ہیں تسلیم کر چکے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی پہلی محبت کو فراموش نہیں کیا۔ ‘‘ [۲۲]

مجموعی طور پر ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے انشائیوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فطرت سے جڑا ہوا انشائیہ نگار ہے۔ فطرت مختلف مظاہر کے ساتھ ان کی انشائی کائنات میں کسی شوخ رنگ کی طرح نمایاں ہے۔ ناصر عباس نیر اُردو انشائیہ کے ساتھ ساتھ اُردو لفظوں کا بھی پارکھ ہے جس نے حرف شناسی اور لفظوں کی تعبیر شناسی میں بڑی فکر و نظر سے لفظوں کا معنوی سنجوگ تخلیق کیا ہے، جو اُن کی ذہنی اُپج اور فنی و فکری بصیرت کا مظہر ہے۔ اُردو انشائیہ کے ساتھ ناصر عباس نیر کی وابستگی فطری ہے اور ان کے قویٰ میں انشائی رنگ پوری آب و تاب کے ساتھ رچے بسے ہیں۔ ناصر عباس نیر کے انشائیے ان کے معنوی، مشاہداتی، تنوعاتی، تجرباتی اور سب سے بڑھ کر ان کی تخلیقی صلاحیت کے ترجمان ہیں۔ اُن کے یہ انشائیے، اُردو انشائیہ نگاری کی روایت میں بالخصوص اپنی فکری بالیدگی اور جگمگاتے اسلوب کے ساتھ روشن اور زندہ رہیں گے۔ بعینہٖ،  جیسے چراغ روشن۔

٭٭

 

حوالہ جات

۱۔                             جمیل آزر، اُردو کے بہترین انشائیے، مکتبہ اُردو زبان، سرگودھا، ۱۹۷۲ء، ص۱۰

۲۔ ڈاکٹر انور سدید، انشائیہ اُردو ادب میں، مشمولہ ماہ نامہ ’’الحمرا‘‘ ، لاہور، جلد ۱۲، شمارہ ۱۱، نومبر ۲۰۱۲ء، ص۱۸

۳۔                             اکبر حمیدی(مرتب) جدید اُردو انشائیہ، اکادمی ادبیات، اسلام آباد، ا۱۹۹ء، ص۱۴

۴۔                             ناصر عباس نیر، چراغ آفریدم، بیکن بکس ملتان، ۲۰۱۴ء، طبع دوم، ص۱۰

۵۔                             ڈاکٹر انور سدید، مزید ادبی جائزے، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص۲۸۹

۶۔                             بشیر سیفی(پیش لفظ) چراغ آفریدم، ناصر عباس نیر، بیکن بکس ملتان، ۲۰۱۴ء، ص۱۳۶

۷۔                             ڈاکٹر رشید امجد، وزیر آغا کی انشائیہ نگاری، ماہنامہ کاغذی پیرہن، لاہور، جلد ۱۱، شمارہ ۵/۶، مارچ اپریل ۲۰۱۱ء، ص۳۵

۸۔                             ناصر عباس نیر، چراغ آفریدم، ص۳۹

۹۔                             سجاد نقوی، مطالعے، مکتبہ فکر و خیال، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۷۶

۱۰۔                    ناصر عباس نیر، چراغ آفریدم، ص۴۶

۱۱۔                     ایضاً، ص۴۹

۱۲۔                     ایضاً، ص۵۶

۱۳۔                     ایضاً، ص۶۸

۱۴۔                     ناصر عباس نیر، نئے انشائیہ نگاروں کا شعور تخلیق، سہ ماہی ادبیات، اسلام آباد، شمارہ ۵۳، ۲۰۰۰ء، ص۱۸۵

۱۵۔                     ناصر عباس نیر، چراغ آفریدم، ص۷۹

۱۶۔                     ڈاکٹر نصیر احمد خان (مرتب)، آزادی کے بعد دہلی میں اُردو انشائیہ، اُردو اکادمی دہلی، ۱۹۹۱ء، ص۲۱

۱۷۔                     ناصر عباس نیر، چراغ آفریدم، ص۹۱

۱۸۔                     وزیر آغا(بیک فلیپ) چراغ آفریدم، ناصر عباس نیر

۱۹۔                     ناصر عباس نیر، چراغ آفریدم، ص۱۹۹

۲۰۔                    ایضاً، ص۱۲۵

۲۱۔                     ایضاً، ص۱۳۰

۲۲۔                     انور سدید، جدید اُردو انشائیہ کے نئے ہم سفر، مشمولہ ماہ نامہ ’’الحمرا‘‘ ، لاہور، جلد ۱۱، شمارہ ۱۰، اکتوبر ۲۰۱۱ء، ص۱۴

٭٭٭

 

 

 

 

 

وزیر آغا کے تنقیدی رویے ۔۔۔ رفیع ازہر

 

ڈاکٹر وزیر آغا ایک ایسے نابغہ ہیں جن کے تنقیدی نظریات میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مغربی ادب کا مسلسل مطالعہ کرتے رہے ہیں اور وہاں آنے والی تبدیلیوں سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ اس لیے وہ مغرب کی ان مثبت اور تعمیری اقدار کو اردو ادب میں منتقل اور رائج کرنے کی کوشش کر تے رہے جو مشرقی تہذیب و ثقافت سے پورے طور پر ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ وزیر آغا کا مغرب کے تنقیدی اصول قبول کرنے کی ایک اپنی منطق ہے۔ وہ کسی بیرونی نظریے کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے اس رویے کو سامنے رکھیں تو ’’ ڈرائیڈن ‘‘ (۱۶۳۱ء۔ ۱۷۰۰ء) جسے یورپی تنقید کا باوا آدم کہا جاتا ہے، کے اس قول کی تصدیق کرنی پڑتی ہے کہ: –

’’ ہر قوم کی جینیئس مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے اصول بھی دوسری قوموں سے مختلف ہونے چاہئیں۔ ‘‘ [۱]

یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی اصول کہیں بھی حتمی نظر نہیں آتے بلکہ فن پارے کی آفاقیت کے سامنے بدل جاتے ہیں اور اس کی تخلیقیت کے لمس میں ڈھل جاتے ہیں: –

’’جب تخلیق کار منور آئینے میں تبدیل ہو جاتا ہے تو تخلیق کو بھی منور آئینے کا منصب عطا کر دیتا ہے اور یوں دونوں ایک دوسرے کو منعکس کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا تنقید کا اصل کام یہ نہیں کہ وہ ادب کی پرکھ کے معاملے میں محض آئینہ یا محض چراغ کے حق میں آواز بلند کرے بلکہ چراغ کو آئینہ اور آئینہ کو چراغ متصور کرتے ہوئے ان کے باہمی انعکاس کا منظر دکھائے۔ ‘‘ [۲]

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ چیز سامنے آئی کہ وزیر آغا تنقید کے فنی اصول کی تغیر پذیری کے با وصف چند ایسی باتوں کو بنیادی حیثیت ضرور قرار دیتے ہیں جوکسی فن پارے کی کسوٹی بننے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور وہی چند باتیں در اصل مشرقی تہذیب و ثقافت کی پہچان ہوتی ہیں۔ بہر حال یہ بات طے ہے کہ ان کے فنی اور تنقیدی اصول میں انضباط کسی فن پارے کی جسامت کو دیکھ کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے تعمق کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے: –

’’ داخلی رویے کو بروئے کار لانے کے دوران نقاد اپنے ذاتی عمل سے اوپر اٹھ کر جائزہ لے تو بات بنے گی ورنہ نہیں۔ ‘‘ [۳]

ڈاکٹر وزیر آغا ادب کی ایسی تقدیم اور تشریح کے قائل ہیں جو ایک ادبی تحریر کو غیر ادبی تحریر سے ممیزّ کرنے پر قادر ہو۔ وہ اردو ادب اور مغربی فنِ تنقید میں رائج متضاد رویوں میں سے کسی کو بھی یک سر مسترد نہیں کرتے، بلکہ وہ ہر ایک میں سے تعمیری اور مثبت پہلوؤں کو اخذ کر لیتے ہیں یا ان میں قدر مشترک کا ارتکاز کرتے ہوئے تنقید کو ایک متوازن سطح پر لاتے ہیں، ایسی سطح جس سے مشرقی تنقید کا خمیر تیار ہو سکے: –

’’ تنقید کو معروضی یا موضوعی رویوں میں تقسیم کرنا محض افہام و تفہیم کے لیے ہے۔ ورنہ ادب کی پرکھ کے سلسلے میں دونوں مل جل کر کام کرتے ہیں۔ یہی حال متخیلہ اور منطق کا ہے۔ اگر متخیلہ سے اس کی مخصوص منطق منہا کر دی جائے تو وہ مجذوب کی بِڑ یا ایک افیونی کے آزاد تلازمۂ خیال کی صورت اختیار کرے گا۔ ‘‘ [۴]

یہ بات طے ہے کہ ایک نقاد کو کسی فن پارے کی تنقید نگاری کے بعد کسی نہ کسی نتیجے پر ضرور پہنچنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ نتیجہ جو ایک فیصلے کی صورت میں سامنے آتا ہے، وزیر آغا اس کو عقلی یا منطقی سے زیادہ وہبی خیال کرتے ہیں: –

’’ داخلی رویہ ادب پارے کے اصلی یا نقلی ہونے کے بارے میں فیصلہ دیتا ہے اور یہ فیصلہ اصلاً وہبی ہوتا ہے . . . داخلی رویے سے مراد، اس وہبی قوت کا اظہار ہے جو حسن کو پہچانتی ہے، خوشبو اور رنگ کے فرق کو سمجھتی ہے اور شے یا واقعہ کے عقب میں جھانکنے کی قدرت رکھتی ہے۔ ‘‘ [۵]

ڈاکٹر وزیر آغا نے رائج تمام سائنسی نظریات کا تقابل و تجزیہ کر کے ان بنیادی نکات کا انکشاف کیا ہے جو اپنے اثرات اور رویوں کے سبب عالمی ادبیات کا گاہے بہ گاہے حصہ بنتے گئے۔ انھوں نے سائنسی، فلسفیانہ اور صوفیانہ علوم کے بنیادی مآخذ سے بھی اردو ادب کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ ’’زمان و مکان‘‘ جو فلسفہ اور تصوف کا ایک اہم موضوع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں لیکن وزیر آغا اس کے لیے ایک منفرد اور ممتاز اصطلاح متجاوز کرتے ہیں۔ یعنی وہ اس کو آہنگ اور پیڑن پر محمول کرتے ہوئے اس کا ارتباط فنِ تنقید سے کر دیتے ہیں: –

’’ دیکھا جائے تو تنقید کے بیش تر مباحث در اصل آہنگ اور پیڑن ہی کے مباحث ہیں اور ان مباحث ہی نے تنقید کے متعدد مکاتب کو جنم دیا ہے۔ ‘‘ [۶]

ان کی تنقیدات کا بہ غور جائزہ لینے سے یہ جہت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ تنقیدی مباحث میں ثنویتی نقطۂ نظر سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ تنقیدی عمل میں مثبت اور منفی، تخریبی اور تعمیری، جمود اور تحرک، توازن اور انتشار، جز اور کل، قطرہ اور دریا، ین اور یانگ۔ اسی طرح شر اور خیر وغیرہ کے تناظر میں بحث و تمحیص کرتے ہوئے نتائج کی طرف آتے ہیں۔ چوں کہ ادب ایک لا مرکز شے کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے وہ تصوف کی زبان میں ادب کو بھی ایک ’’ عظیم اسرار ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس تناظر میں نقاد بھی ایک سالک کا روپ اختیار کر لیتا ہے: –

جس طرح ’’ عظیم اسرار ‘‘ بہ یک وقت ماورا بھی ہے اور حقیقی بھی اسی طرح ادب بھی ہے، لہٰذا اس کی نہایت کو پانے کے لیے خود تنقید کو بھی اس کی وضع اور نہایت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ اس کا احاطہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے گی۔ [۷]

ان کے خیال میں اب تک رائج تمام تنقیدی نظریات کے پیچھے دوہی بنیادی نظریات کار فرما رہے ہیں ؛ ایک ارسطو کا نظریۂ کیتھارسس اور دوسرا، لان جائنس کا نظریہ جسے ’’ Esctatis‘‘ کہا گیا ہے۔ وزیر آغا نے اپنی تحقیق میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مغرب میں رائج کوئی بھی تنقیدی نظریہ کسی رد عمل کا نتیجہ یا اپنے کسی پیش رو کے اثرات کا متحمل ضرور ہے۔ انھوں نے اپنی تنقیدات میں ’’ نئی تنقید‘‘ پر تفصیل سے بات کی ہے، اور اس میں روس کے پروردہ نظریۂ فارمل ازم (ہیئت پسندی ) کے اثرات کی نشان دہی کی ہے۔ ’’نئی تنقید ‘‘ کا نظریہ در اصل تجزیاتی تکنیک کا حامل ہے جس میں تخلیق کار اور اس کی سوانح سے احتراز برتا جاتا ہے۔ وزیر آغا کا شروع میں عملاً جھکاؤ اس طرف بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھیں ’’ ادبی دنیا ‘‘ کے لیے شریک مدیر کے حیثیت سے ذمہ داری ملی تو انھوں نے اسی نقطۂ نظر سے نظموں کا تجزیاتی مطالعہ شروع کرایا اور اسی بنیاد پر تنقید بھی کی جاتی، جو خاصی مقبول رہی۔ انھوں نے ’’نظمِ جدید کی کروٹیں ‘‘ میں اس تجزیاتی تنقید کو خوبی سے برتا ہے۔

’’کارل مارکس‘‘ کے نظریات، مغرب سے زیادہ روس میں ’’ لینن‘‘ کی وساطت سے مشہور ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے وہاں ۱۹۱۷ء میں انقلاب بھی آیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات عالمی ادبیات پر بھی پڑے۔ برصغیر نے اپنے سیاسی پس منظر کی وجہ سے اس سے زیادہ اثرات قبول کیے۔ ترقی پسند مصنفین اور ترقی پسند تحریک ان اثرات کا بین ثبوت ہیں۔ وزیر آغا نے ان اثرات کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔ بایں ہمہ انھوں نے ’’کارل مارکس‘‘ کے نظریۂ جدلیات کی بنیادی تکنیک کو قبول ضرور کیا۔ بہ الفاظ دیگر انھوں نے اس بنیادی تھیوری پر ہاتھ ڈالا جس پر اشتراکیت کی بلند و بالا عمارت کھڑی تھی۔ چوں کہ ’’ کارل مارکس‘‘ نے یہ تکنیک ’’ہیگل ‘‘ سے لی تھی۔ لہٰذا ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ’’ ہیگل ‘‘ سے رجوع کیا۔ کارل مارکس نے تو اپنے مزاج اور ماحول کے مطابق اس پر اپنے طبقاتی نظریات کی بنیاد کھڑی کی جب کہ وزیر آغا نے اپنے مزاج اور اپنے کلچر کے مطابق اس سے اخذ و اکتساب کیا۔ اس نظریے کے تحت؛ کسی بھی چیز کا دعویٰ حتمی نہیں ہوتا یا کوئی بھی بات کامل نہیں ہوتی بلکہ اس کے مقابل یا متضاد دوسرا دعویٰ یا دوسری بات ضرور ہوتی ہے۔ پہلا دعویٰ تھیسس (Thesis)کہلاتا ہے اور اس کا متضاد یا جوابِ دعویٰ (Anti Thesis)ہوتا ہے۔ ان دونوں کے تصادم سے جو چیز معرض و جود میں آتی ہے وہ حتمی بات (Synthesis)ہوتی ہے، لیکن مرورِ زمانہ سے Synthesis دوبارہ Thesisکا روپ اختیار کر لیتا ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے تا آں کہ نقطۂ تکمیل وجود میں آ جائے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب ’’تخلیقی عمل ‘‘ میں اس پر بحث کی ہے اور اس نظریے کے بنیادی نقص کو دور بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں، انھوں نے ’’ اردو شاعری کا مزاج ‘‘ میں بھی اس تکنیک کو بروئے کار لا کر، آریائی اور دراوڑی اقوام کی تہذیب و ثقافت میں تصادم و ارتقا پر بحث کر کے، دل چسپ نتائج مرتب کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے حیاتیاتی نظریۂ تقلیب (Mutation)سے بھی روشنی حاصل کی ہے۔ اس کے مطابق زندہ اجسام میں موروثی تبدیلی غیرمسلسل جستوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ مزید برآں، وہ انسانی دماغ کے متعلق حیاتیاتی دریافت سے بہت متاثر ہیں بلکہ اس سے انھوں نے تنقیدی اصول بھی وضع کیے ہیں۔ اس کے مطابق انسانی دماغ کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں۔ ایک پرانا دماغ جو دائیں جانب ہوتا ہے اور دوسرا نیا دماغ جو بائیں طرف ہے۔ نیا دماغ تو منطقی قوت کا مالک ہے جب کہ پرانا دماغ وہبی قوت رکھتا ہے۔ دونوں دماغوں کے درمیانی واسطے کو ’’ کو ریڈار ‘‘ کہتے ہیں۔ وزیر آغا کے خیال میں کوریڈار کو عام آدمی عبور نہیں کر پاتا، سوائے تخلیق کار یا صوفی کے۔

انھوں نے مغربی تنقید کے جدید نظریات میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ جدیدیت کے حامل نقادوں نے ثقافتی امور کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ وزیر آغا بہ ذاتِ خود شروع ہی سے ثقافتی اور تہذیبی امور کو اہمیت دیتے آئے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ آزادؔ کو حالیؔ کی نسبت جدید نقاد مانتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایک نقاد کے لیے کسی ایک نظریے کا تابع رہ کر تنقید نگاری روا نہیں، کیوں کہ اس طرح وہ اکہری اور سطحی قرار پائے گی۔ لہٰذا نقاد کو کسی ایک نظریے کے بجائے تمام تنقیدی نظریات کو خود کے تابع رکھ کر فن پارے کی طرف بڑھنا چاہیے اور بڑھتے ہوئے بھی یہ خیال رہے کہ وہ اس کی طرف ایک بت شکن کی طرح نہ بڑھے بلکہ ایک پجاری کی طرح ( مراد گہری وابستگی سے ) بڑھے۔ یہ مثال وہ کئی جگہ پیش کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق فن پارہ نہ تو نقاد یا قاری کے تابع ہے اور نہ ہی قاری فن پارے کے تابع ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کو دریافت کرتے ہیں۔ اور یہی نقطۂ نظر ’’ نو تنقید ‘‘ سے متصادم ہے: –

’’ ہر فرد یا زمانے کی اپنی ذات، اپنا معنی، اپنی شناخت ہوتی ہے، جو تخلیق کے آئینے میں دیکھے بنا سطح پر نہیں آتی۔ اسی طرح تخلیق کا باطن بھی قاری کی نظروں کے لمس کے بغیر سطح پر نہیں آ سکتا، لہٰذا یہ ایک دوہرا عمل ہے جس سے دونوں فریق نہ صرف ایک دوسرے کو دریافت کرتے ہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کو از سر نو تخلیق بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیق کے مطالعہ کے بعد قاری وہ نہیں رہتا جو تخلیق کے مطالعہ سے پہلے تھا اور نہ تخلیق ہی اس صورت میں باقی رہتی ہے جو وہ قرأت سے پہلے تھی۔ ‘‘ [۸]

ا س اقتباس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے فن پارے کو پرکھنے کے علاوہ اس سے ملاقات کے اصول بھی مرتب کیے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے ملنے جائے تو اس سے قبل وہ ایک خاص تیاری کرتا ہے۔ اس تیاری میں اس کا ظاہر و باطن دونوں ہم آہنگ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات کسی فن پارے کے تخلیقی ملاپ سے جانچ اور پرکھ کے فاصلے خود بہ خود طے ہو جاتے ہیں اور نتائج از خود منکشف ہونے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق، اردو ادب میں خواجہ الطاف حسین حالیؔ کے تنقیدی مسلک سے ترقی پسند اور اسلام پسند نقادوں نے فائدہ اٹھایا جب کہ شبلیؔ  کا مسلک، علامہ اقبال اور حلقہ اربابِ ذوق نے اپنایا۔ وزیر آغا کے اپنے نظریات کے ڈانڈے، ان دونوں مسلکوں کے برعکس، محمد حسین آزادؔ سے ملتے ہیں۔ اسی لیے وہ کسی فن پارے کی کلیت کے اعتبار سے اس کے جمالیاتی ادراک کے ساتھ ساتھ ثقافتی امور کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔ انھوں نے مغرب اور مشرق کی پوری تنقیدی روایت کا تجزیہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اب تک تنقید کے تین رویوں میں سے، ایک رویہ ہی ہر دور میں غالب رہا ہے۔ وہ تین رویے لکھاری، لکھت اور قاری کے حوالے سے ہیں۔ اگر کسی دور میں، لکھاری کو زیادہ اہمیت دے دی گئی تو اس کے رد عمل میں بعد ازاں، لکھت کو فوقیت مل گئی مگر ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں قاری کو دونوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی۔ وزیر آغا نے تینوں رویوں کے اختلاف کے برعکس ان کے ارتباط سے عرقِ توازن کشید کرنے کی ایک مثبت کوشش کی ہے۔ اسے انھوں نے امتزاجی تنقید سے موسوم کیا ہے۔ ممکن ہے، کوئی اعتراض کرے کہ انھوں نے یہ نظریہ باقاعدہ وضع نہیں کیا بلکہ یہ تو حالات و واقعات اور دیگر تنقیدی نظریات کے تسلسل کا منطقی انجام ہے کہ آج دنیا سمٹ کر ایک مٹھی میں آ چکی ہے۔ گلوبل ولیج کا تصور ابھر آیا ہے اور چند لمحوں میں پوری دنیا کا منظر نامہ آدمی کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مزید براں میڈیا نے انسانی رویوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ علاقائی تہذیب میں بین الاقوامیت کی ثقافتی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ پوری دنیا میں کئی سطحوں پر انضمام اور امتزاج کی کیفیت پیدا ہو چلی ہے اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی بڑی عالمی تبدیلی نے ہمیشہ ادبیات کو متاثر کیا ہے۔ … اس کے با وصف وزیر آغا کا در اصل کمال یہ ہے کہ ایک تو انھوں نے امتزاج کی مذکورہ روش کا فوری ادراک کر لیا اور دوسرا؛ تنقید کی امتزاجی تھیوری انھوں نے مشرقی ادب کی کوکھ ہی سے دریافت کی اور اس سے قبل کہ مغربی دنیا یہ سہرا بھی اپنے سر سجانے کی کوشش کرتی، انھوں نے پہلے ہی فنِ تنقید میں اپنے امتزاجی نظریے کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ البتہ اردو ادب میں ’’ امتزاجی تنقید ‘‘ کا نام سب سے پہلے محمود ہاشمی اور مشتاق قمرؔ  نے استعمال کیا تھا۔ [۹] بہرکیف اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ضمن میں وزیر آغا کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں ؟ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ کئی مغربی ناقدین کے ہاں امتزاجی رویے ضرور ملتے ہیں اور بین السطور انھوں نے اس کا کہیں نہ کہیں اظہار بھی کیا ہے جیسا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھا ہے کہ: –

’’ آرنلڈ نے اپنی نظریاتی و مسائلی تحریروں میں سماجی، تعلیمی، مذہبی اور ادبی خیالات کو ایک دوسرے میں جذب کر کے ادبی تنقید کو ایک نئی شکل دی۔ ‘‘ [۱۰]

لیکن یہ ایک طرح سے مغرب کا سطحی رویہ ہے جب کہ وزیر آغا نے مشرقی ادب کے تناظر میں باقاعدہ امتزاجی تنقید کا نظریہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس نظریے کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لینے کے لیے ہمیں ان کی ادبی زندگی کی تمام کروٹوں کے بہ باطن پلنے والی فکر اور ذہنی اُپج کو پرکھنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ان کے مشاہدات و تجربات کا سرسری جائزہ لینا ہی کافی نہیں بلکہ ان کے اُس تمام تنقیدی سرمائے کو کھنگالنا ضروری ہے جو در حقیقت تنقیدی و تحقیقی فکر کے امتیازی نشانات ہیں۔

اس کے لیے ہمیں کیا طریق اختیار کرنا چاہیے ؟اور اس کا کیسے آغاز ہو ؟ یہ ایک نہایت مشکل کام تھا لیکن بار بار غور کرنے کے بعد راقم نے ڈاکٹر سید عبداللہ کی درج ذیل رائے سے استفادہ کرنے کی ٹھان لی جو انھوں نے ڈاکٹر وزیر آغا پر لکھے گئے، اپنے ایک مضمون ’’ مفکر ادیب ‘‘ میں دی ہے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں: –

’’ اگر تنقیداتِ آغا کا لبِ لباب پیش کرنا ہو یعنی یہ واضح کرنا ہو کہ ان کے تنقیدی اجتہادات کیا ہیں ؟ جنھیں مستقل افادیت کا مالک سمجھا جائے تو ہمیں ان کے مقالات کی کثیر تعداد کی روح کشید کر کے، ان خاص الخاص خیالات کی ایک فہرست بنانی پڑے گی، جنھیں ہم آغا کے منفرد تصورات کہ سکیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ آغا کے ان خصائصِ ذہنی کا جائزہ ہو گا، جن کے قالب میں ان کی ساری تنقید ڈھلی ہے۔ ‘‘ [۱۱]

ڈاکٹر سید عبداللہ کی مذکورہ رائے کے پیشِ نظر، راقم نے تنقیداتِ وزیر آغا کا حتی الامکان جائزہ لینے کی سعی مشکور کی ہے۔ نتیجتاً؛ جن ’’خاص الخاص‘‘ تصورات کی نشان دہی ہو سکی اور جو تنقیدی رویے ان کے تنقیدی سرمائے میں جا بہ جا دیکھے جا سکتے ہیں، ان کی فہرست کچھ اس طرح بنتی ہے: –

۱۔ اخلاقی جہت       ۲۔ فکری جہت                                                        ۳۔ تحقیقی جہت

۴۔ اصطلاحی جہت                                      ۵۔ اجتہادی جہت                                                                                      ۶۔ سائنسی جہت

۷۔ امتزاجی جہت                                          ۸۔ اعترافی جہت                                                                                                                                          ۹۔ اثباتی جہت

۱۰۔ تعمیری جہت                                    ۱۱۔ احتسابی جہت                                                                                   ۱۲۔ استفہامی جہت

۱۳۔ ارتقائی جہت                                       ۱۴۔ ادبی جہت                                                        ۱۵۔ تخلیقی جہت

۱۶۔ حیاتیاتی جہت                                     ۱۷۔ ثنویتی جہت                                                                                                                                           ۱۸۔ اساطیری جہت

۱۹۔ تجرباتی جہت                                         ۲۰۔ معلوماتی جہت                                                                                                                                ۲۱۔ تاریخی جہت

۲۲۔ نفسیاتی جہت                                         ۲۳۔ جمالیاتی جہت                                                                                                                                   ۲۴۔ توجیہاتی جہت

۲۵۔ فنی جہت                                                                ۲۶۔ حوالہ جاتی جہت                                                                        ۲۷۔ ترتیبی جہت

۲۸۔ تجزیاتی جہت                                        ۲۹۔ تقابلی جہت                                                                                                                                               ۳۰۔ فیصلہ جاتی جہت

۳۱۔ ساختیاتی و پس ساختیاتی جہت                                           ۳۲۔ اسلوبیاتی جہت

مذکورہ تنقیدی جہات کے تحت راقم نے فرداً فرداً ہر موضوع کا تنقیداتِ وزیر آغا کی روشنی میں احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ راقم کا ایم اے اردو کی سطح کا تحقیقی مقالہ تھا جو سرگودھا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں فاضل استاد طارق حبیب صاحب کی نگرانی میں ۲۰۰۸ء میں جمع کرایا گیا۔ ان میں سے بیشتر مضامین مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں تاہم کتابی شکل میں اشاعت کے لیے ابھی تک شرمندۂ تکمیل ہے۔ اس کا مسودہ ۲۰۰۹ء سے تیار ہے لیکن اشاعت کی راہوں کا انجان کھلاڑی اشاعتی اداروں کے تاخیری حربوں اور اشاعتی داؤ پیچ سے ناواقف ہی رہا۔ اللہ تعالیٰ اشاعتی اداروں کے دامِ فریب سے ہر ادیب کو بچائے اور مخلص لکھاریوں کو اچھے اشاعتی اداروں کا ساتھ نصیب فرمانے۔ اب جا کر کہیں اس کی اشاعت کی امید بندھی ہے اور اس مساعیِ جمیلہ میں نام ور افسانہ نگار ڈاکٹر سلیم قزلباش اور نام ور شاعر و نقاد جناب شاہد شیدائی برابر کے شریک ہیں۔ ان جیسے مخلص ادیبوں کی اردو ادب کو سخت ضرورت ہے۔ اللہ کرے اور زورِ قلم زیادہ۔

٭٭

 

حوالہ جات

[۱] ’’ ارسطو سے ایلیٹ تک ‘‘ ، ڈاکٹر جمیل جالبی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، طبع ہفتم: ۲۰۰۳ء ،ص: ۵۱

[۲] ’’ تنقید اور جدید اردو تنقید ‘‘ ، ڈاکٹر وزیر آغا، کراچی، انجمن ترقیِ اردو، پاکستان، بارِ اوّل: ۱۹۸۹ء ،ص: ۲۵

[۳]                        ایضاً ،ص: ۱۷

[۴]                        ایضاً ،ص: ۱۷

[۵]                        ایضاً ،ص: ۱۷

[۶]                       ایضاً ،ص: ۲۲

[۷]                        ایضاً ،ص: ۲۳

[۸]                       ایضاً ،ص: ۱۳۰

[۹]                        ایضاً ،ص: ۱۲۳

[۱۰] ’’ ارسطو سے ایلیٹ تک ‘‘ ،ص: ۳۳۴

[۱۱] ’’ مفکر ادیب ‘‘ ، ڈاکٹر سید عبداللہ، مشمولہ: ’’شام کا سورج ‘‘ مرتبہ: ڈاکٹر انور سدید، لاہور، مکتبۂ فکر و خیال،

بارِ اول: ۱۹۸۹ء ،ص: ۶۲۷

٭٭٭

 

 

 

 

امین خیال مرحوم ۔۔۔ ارشد خالد( اسلام آباد)

 

امین خیال مرحوم سے میرا تعلق کب اور کیسے قائم ہوا اس بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ اتنا یاد ہے کہ جب میں پہلی بار پیپلز کالونی گوجرانوالا ان کے گھر ملنے گیا تو گلی کی نکڑ پر تین آدمی کھڑے یہ اندازہ لگا رہے تھے اس سڑک پر آنے والے لوگوں میں ارشد خالد کون ہے۔ اور پھر امین خیال کا اندازہ بالکل درست نکلا اور جب میں ان کے قریب پہنچا اور اپنا تعارف کروانا چاہا تو امین خیال صاحب نے کہا تھا۔ ’’ ارشد صاحب ہم نے آپ کو دور سے ہی پہچان لیا تھا۔ ‘‘ یاد رہے کہ پیپلز کالونی کے رکشہ سٹاپ سے ان کے گھر کی سمت ایک میں سڑک جاتی ہے جس پر سینکڑوں لوگ اس وقت اپنی اپنی منزل کی جانب جا رہے تھے۔ یہ غالباً ۲۰۰۰؁ء کا واقعہ ہے۔ اور پھر میں محبت کی اس سڑک پر چلتے چلتے امین خیال کے دل تک پہنچ گیا۔ جہاں مجھے ایک بزرگ کی شفقت اور محبت ملی جو میری ذہنی اور قلبی آسودگی کا باعث بنی۔

امین خیال صاحب گوجرانوالا میں ہی نہیں بلکہ پوری پنجابی ادبی دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے، وہ پنجابی کے استاد شاعر کے ساتھ ساتھ ایک دانشور، محقق، اور بہترین ادیب بھی تھے۔ امین خیال نے اپنی ادبی شناخت ’’ شرلاٹی‘‘ سے کروائی جو غالباً ۱۹۷۵ء میں گوجرانوالا سے چھپی تھی۔

امین خیال پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو کے بھی ایک اچھے ادیب اور شاعر تھے۔ ان کے اردو دوہوں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ اردو ماہیا کی تحریک میں ان کا شاندار اور جاندار کردار رہا ہے۔ کیونکہ وہ پنجابی کے عمدہ شاعر تھے اور پنجابی ماہیا کی ہئیت اور رنگ ڈھنگ سے واقف تھے سو ان کو اردو ماہیے کو اصل ہئیت میں لکھنے میں کو ئی دشواری پیش نہ آئی۔

انھوں نے حیدر قریشی کی اردو ماہیا کی تحریک میں مثبت کردار ادا کیا۔ حیدر قریشی اردو ماہیا کی اصل شناخت کروانے میں کامیاب رہے۔ ’’یادوں کے سفینے ‘‘ اور ’’ پانی کی کہانی‘‘ کے نام سے امین خیال کے ماہیوں کے دو مجموعے بھی منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ جب میں نے اسلام آباد سے عکاس انٹر نیشنل کا اجرا کیا تو امین خیال نے ہر مرحلہ پر میری رہنمائی کی۔ قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی۔ ابتدائی چند شماروں کی اشاعت کے بعد میں نے اصرار کر کے امین خیال کو عکاس انٹرنیشنل کی ادارت میں شامل کیا اور پھر وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک ’’عکاس انٹر نیشنل‘‘ کی رہنمائی کرتے رہے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہے۔ امین خیال ایک اچھے ادیب تو تھے ہی ایک نہایت ہی مخلص اور شریف النفس انسان بھی تھے۔ انسان دوستی ان کی زندگی کا مشن تھا۔ امین خیال ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ ایک گھنے گھنیرے برگد کی مانند تھے جن کے سائے میں کئی تھکے ہارے لوگ کچھ دیر آرام کر کے تازہ دم ہوتے اور پھر اپنے ادبی سفر پر روانہ ہو جاتے۔

میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کو اپنے جوارِ رحمت میں رکھے اور بلند درجات عطا کرے۔ آمین۔

٭٭٭

 

امین خیال ۱۴؍اکتوبر۱۹۳۲ء میں بمقام گرجاکھ(گجراکھ)پیدا ہوئے۔ آپ کا پیدائشی نام محمد امین ولد چراغ دین ہے۔ بی اے فاضل علوم شرقیہ کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۵۵ء میں شعر کہنا شروع کیا۔ آپ کو پنجابی شعراء میں اساتذہ کا مرتبہ و مقام حاصل ہے اور چند اہم پنجابی شعراء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ کی مطبوعہ تصانیف میں ’’شرلاٹے ‘‘ ،  ’’کن من‘‘ ، ’’پھہاراں ‘‘ ، ’’چماسے ‘‘ ، ’’سولاں سر سرداری‘‘ ، ’’من کی جوت جگے ‘‘ ، ’’یادوں کے سفینے ‘‘ ، ’’گلاں دین اسلام دیاں ‘‘ ، ’’مٹھڑے نیں بول‘‘ ، ’’سی حرفی امر‘‘ ، ’’سیدی یا رسول اللہ‘‘ شامل ہیں۔

متعدد ادبی و سماجی مجلوں کی ادارت کرتے رہے ہیں، جن میں تحریک، قرطاس، رچناب، اور بھنگڑا شامل ہیں۔

(عارف فرہاد کی کتاب ’’اردو ماہیے کے خد و خال‘‘ سے اقتباس۔ صفحہ نمبر۱۸۴)

 

 

 

 

جناب امین خیال کی شاعری روایت اور کلاسیکیت سے گہرا تعلق رکھتی ہے تاہم جدید طرزِ احساس سے مملو اس ٹھہرے پانیوں میں ارتعاش کا احساس بھی جھلکتا ہے۔ رومان پرور ماحول کے بطون سے جنم لینے والی زندگی آمیز لطافت، نزاکت، سپردگی، شبنم افشاں الفت برقرار رکھتے ہوئے اور مثبت اقدار کی تعمیر میں گہرے نقوش مرتب کرتے ہیں۔ زندگی سے کشید کیے گئے یہ رنگ جب دل و نظر میں اترتے ہیں تو رنگوں کی یہ کہکشائیں انسانی وجود کو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں اور یہی مخصوص رنگ و آہنگ ان کے ماہیوں کا فنی و فکری امتیاز و وصف ٹھہرتا ہے۔

(غلام مصطفی بسمل کے تاثرات سے اقتباس

بحوالہ امین خیال کے ماہیوں کا نیا مجموعہ ’’پانی کی کہانی‘‘ ۔ صفحہ نمبر ۱۶)

 

 

 

 

خصوصی مطالعہ

 

مطالعۂ میرؔ، عبداللہ جاوید کی کتاب ’ مت سہل ہمیں جانو ۔ آئیے میرؔ پڑھیے ‘  کے حوالے سے

 

 ’’ مت سہل ہمیں جا نو ‘‘  ۔۔۔ ڈاکٹر جمیل جالبی(کراچی)

 

عبداللہ جاوید کہنہ مشق اور پختہ کار شاعر ہیں۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ان کی شاعری روایت اور جدت کا امتزاج ہے اظہار کا قرینہ اور دروبست کا شعور انہوں نے روایت سے لیا ہے، جب کہ ذات اور اپنے سماج کی عصری کیفیات کے بیان کا رویہ عہد جدید کی دین ہے۔ ان کے شعر میں تخلیقی بر جستگی نمایاں ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ سنبھل کر شعر کہتے ہیں۔ تا ہم انہوں نے صرف شاعری پر قناعت نہیں کی ہے۔ قدرت نے انہیں اظہار کی جو صلاحیت عطا کی ہے، وہ ایک سے زائد اصناف میں بروئے کار آئی ہے۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں اور ان کے افسانوں کا مجمو عہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس وقت ان کی نئی کتاب پیشِ نظر ہے جس میں وہ ذوق شوق کے ساتھ میرؔ کو پڑھ رہے ہیں۔

ہماری شعری تہذیب میں میرؔ کا مقام آج بھی مستحکم ہے۔ میرؔ کی بڑائی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اپنی وفات کے دو سو برس بعد بھی ان کے اشعار آج کی زندگی کے تجربے اور انسانی احساس کو بڑی خوبی سے بیان کر تے، ان پر پوری طرح منطبق ہو تے اور ہمارے دل کو منور کرتے ہیں۔ بڑے اشعار کی خوبی یہی ہو تی ہے کہ ان کی خوشبو ماورائے زمانہ سفر کر تی ہے اور بڑے شاعر اپنے عہد اور اپنے مادی وجود کی حدوں سے گزر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ اس امر کی صداقت کا ثبوت میرؔ کے اشعار سے آج بھی ملتا ہے۔

’’ مت سہل ہمیں جا نو ‘‘ میں عبداللہ جا وید نے عصری ادبی و سماجی رجحانات اور فکری و نظری عنا صر کو میرؔ کے اشعار کی تفہیم کے لئے خوبی سے برتا ہے۔۔ عبداللہ جا وید خود شاعر ہیں اور ایک حساس اور با شعور انسان ہیں۔ میرؔ کے اس مطالعے سے ہمیں ان کے ذوق کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور ما شا ء اللہ حافظہ بھی قوی ہے۔ اس لئے وہ دوسرے اساتذہ کے اشعار اور دوسری زبانوں کے ادبی حوالوں کو بھی بر محل استعمال کر تے ہیں۔ اس طرح یہ مطالعہ صرف تفہیم میرؔ تک محدود نہیں رہتا بلکہ قاری کے وسیع ادبی ذوق کی سیرابی کا ذریعہ بن جا تا ہے۔

اس کتاب کی اشاعت پر میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ وہ اس نوع کے وقیع کام اس کے بعد بھی جاری رکھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

عبداللہ جاوید کی کتاب ۔۔۔ محمد سلیم الرحمن(لاہور)

 

میر تقی میر کی انفرادیت کو اردو کے سبھی کلاسیکی بڑے شاعروں نے تسلیم کیا اور مان لیا کہ میر کے رنگ میں شعر کہنا بہت مشکل ہے۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں میر کی شہرت ذرا کم ہو گئی اور مرزا غالب کی رتّی چمکی۔ میر کے بارے میں طرح طرح کی متعصبانہ آرا عام ہوئیں، جیسے ان کا کلام کہیں نہایت پست ہے اور کہیں بہت بلند۔ بہتّر نشتروں کا چرچا بھی ہوا۔ یہ سوچا اور کہا جانے لگا کہ میر کے دیوان رطب و یابس کا مجموعہ ہیں اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ خود ہی کاٹ چھانٹ کر انہیں مختصر کر جاتے۔ غالب کا ستارہ نہ صرف زیادہ درخشاں نظر آنے لگا تھا بلکہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی تاب ناکی میں فرق نہ آئے گا۔ مگر1947ء کے بعد زمانے نے کروٹ لی اور شاعروں اور نقادوں نے میر کے شعری سرمائے کو نئے سرے سے دیکھا۔ بعض نے انہیں غالب کا ہم سر سمجھا، بعض نے غالب سے بہتر قرار دیا۔ اس کا سبب شاید یہ ہو کہ تقریباً ایک صدی کے بڑی حد تک پر امن دور کے بعد برصغیر کے بعض علاقوں کو، جہاں اردو کا چلن زیادہ تھا، جس طرح کی خوں ریزی، ترکِ وطن، عسرت اور غربت سے واسطہ پڑا اس کا عجب سا عکس میر کے پر آشوب زمانے میں دکھائی دیا تھا۔ شاعر تو میر کے سے شعر کہنے میں نہ پہلے کامیاب ہوے تھے نہ 1947ء کے بعد ہو سکے لیکن میر کے کلام اور شعری نظام پر از سر نو غور کرنا ممکن ہو گیا۔ محمد حسن عسکری نے کہا کہ ’’میر کو پڑھنا زندگی بھر کا جھگڑا مول لینا ہے۔ ‘‘ عسکری کے علاوہ آل احمد سرور، مجنوں گورکھپوری، یوسف حسن، فراق گورکھپوری، سید عبداللہ، سردار جعفری اور گوپی چند نارنگ نے بھی میر کے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالی۔ میر کا فارسی دیوان بھی چھپا۔ افضال احمد سید نے پورے فارسی دیوان کا متن کے ساتھ نثری ترجمہ بھی کر دیا۔ اس طرح ان کے اردو اور فارسی کلام کا تقابل آسان ہو گیا۔ تاہم یہ اقرار کرنا ناگزیر ہے کہ جس تفصیل اور نئے نئے زاویوں سے شمس الرحمن فاروقی نے میر کے کلام کا مطالعہ ’’ شعرِ شور انگیز‘‘ کی چار جلدوں میں کیا اس کا مقابلہ کوئی اور نہیں کر سکا۔ اب میر کے بارے میں۔

عبداللہ جاوید کی کتاب ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ سامنے آئی ہے۔ عبداللہ جاوید خود بھی شاعر ہیں۔ آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کی کتاب ضخیم اور عالمانہ ہے۔ عبداللہ جاوید کی تصنیف دوستانہ ہے۔ اپنے پسندیدہ اشعار درج کرتے چلے گئے ہیں۔ ان پر کہیں دو تین سطروں میں اور کہیں ذرا تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ کتاب کو علمیت کے بوجھ تلے بے حال نہیں کیا۔ کتاب کو ایک اچھا انتخاب سمجھ کر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ میر کی شخصیت کے بارے میں بعض غلط فہمیاں محمد حسین آزاد کی پھیلائی ہوئی ہیں جو محقق سے زیادہ فکشن نگار اور انشا پرداز تھے۔ اگر ان کو ناول لکھنے کی سوجھتی یا ان کے سامنے اعلیٰ ناولوں کے ترجمے موجود ہوتے تو وہ عالمی سطح کا فکشن بھی لکھ سکتے تھے۔ آزاد کی صفائی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو انھوں نے بڑوں سے یا بوڑھوں سے سنا وہ لکھ دیا۔ محمد حسین آزاد نے میر کو مغرور اور تنک مزاج اور دنیا سے بیزار دکھایا ہے۔ اس میں تو شک نہیں کہ اول درجے کے فن کاروں کے مزاج میں ٹیڑھ ضرور ہوتی ہے لیکن اس ٹیڑھ کا رنگ چوکھا کرنے کے لیے اپنی طرف سے خواہ مخواہ اضافے نہ کیے جائیں تو بہتر ہے۔ عبداللہ جاوید نے اس تصور کی تغلیط اس طرح کی ہے کہ میر ایک سماجی آدمی تھے اور ریاستوں اور نوابیوں کے مابین سفارتی امور انجام دینے پر معمور تھے۔ کوئی مغرور اور تنک مزاج شخص اس نوع کے فرائض انجام

دینے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ وہ سیلانی آدمی بھی تھے۔ ان کی شاعری میں جا بجا باغ کا ذکر اور حقیقی تصویر کشی ملتی ہے۔ عبداللہ جاوید لکھتے ہیں: ’’بنے ہوے بے کمال باکمالوں کے ساتھ ایک دنیا ہوتی ہے شاید اس سبب سے کہ وہ کچھ لو اور کچھ دو کے ماہر ہوتے ہیں جب کہ باکمالوں میں یہ خود اعتمادی حد سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کا کمال ہی کافی ہے۔ نتیجہ یہ کہ حقیقی باکمالوں کو قدم قدم دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘ عبداللہ جاوید کا کہنا ہے کہ میر نے یہ تو مانا کہ ان کو توجہ ملی لیکن دبی زبان سے یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ دولت نہیں ملی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خود ہی اپنی کسی بھی حسرت کی تکمیل کے خواہاں نہ تھے۔ ان کی شخصیت خود مرکزی نہ تھی۔ مشرقی اخلاق کا اگر وہ اعلیٰ نمونہ نہ بھی ہوں لیکن اس سے عاری بھی نہ ہوں گے۔ اس ضمن میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان حضرات کا اخلاق کون سا مثالی رہا ہو گا جن سے میر کو سابقہ پڑتا رہا۔ عبداللہ جاوید نے اور بھی باتیں بڑی پتے کی کہی ہیں، مثلاً ’’میر کی غزلوں کا ایک اپنا آہنگ ہے جو صرف ان سے متعلق ہے۔ ان کے اشعار کو تحت میں پڑھیں، خواہ ترنم میں، پڑھنے والے کو ایک مخصوص نغمگی کی لپیٹ میں لے لیتے ہیں لیکن کوئی کوئی غزل ایسی بھی ملتی ہے جس کو آپ محض آنکھوں سے بے آواز پڑھیں تب بھی اس کو آپ کا سارا وجود گنگنانے لگتا ہے ‘‘ یا ’’شاعری کی اپنی موسیقی ہوتی ہے۔ افسوس کا امر تو یہ ہے کہ زیادہ تر پڑھنے والے شعر پڑھتے سمے اس کے مفہوم پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس شعر کے حرف و صوت سے لاتعلق رہتے ہیں ‘‘ یا ’’زمانے کے ساتھ چلنا انھیں (میر کو) نہیں بھایا اور زمانے سے لڑنا ان کے بس کی بات نہ تھی‘‘ یا ’’اگر کوئی یہ خیال کرے کہ ساکاری لوگ بتوں کو برہما، پرماتما یا ایشور مانتے ہیں یا ان کا مبدّل مانتے ہیں تو ان کے ساتھ یا ان کے بارے میں خام خیال کا مرتکب ہو گا۔ بت کی پرستش کرنے والے ان کا محض نشان مانتے ہیں، اصل نہیں مانتے۔ ‘‘ یہ نکتہ ہم میں سے بیشتر کی سمجھ میں نہیں آیا۔ کتاب سے عبداللہ جاوید کے شعری ذوق کی صحت اور باریک بینی ظاہر ہے۔ کیوں نہ ہو۔ وہ آپ بھی

خوش گو شاعر ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ کسی شاعر کے بارے میں بامعنی تحریر لکھنے کا اہل کوئی شاعر ہی ہو سکتا ہے (بشر طے کہ ذاتی تعصبات حائل نہ ہو جائیں )۔ ایک غلطی البتہ تعجب خیز ہے۔ نہ جانے کیوں انھوں نے فرانسس پریچٹ کو مرد سمجھ لیا ہے (ص 289)۔ مت سہل ہمیں جانو از عبداللہ جاوید ناشر، اکادمی بازیافت۔ صفحات، 323؛ پانچ سو روپے –

٭٭٭

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل