FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس

انٹرنیشنل اسلام آباد

(۱۹)

 

حصہ دوم

 

مرتّب: ارشد خالد

معاون مدیر

امین خیال(لاہور)

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(برمنگھم)

 

 

 

 

عکاس اب انٹرنیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے

http://akkas-international.blogspot.de/

اور

http://issuu.com/akkas

 

 

 

غزلیں

 

عبداللہ جاوید(کینیڈا)

 

دل کی دیوانگی کا سماں ہر طرف

آسماں آسماں آسماں ہر طرف

 

سوجھتا ہی نہیں راستہ کیا کریں

اک دھواں، اک دھواں،اک دھواں،ہر طرف

 

اُڑ گئی، ہے زمیں، پاؤں رکھئے کہاں

فرش ہے یا کہ آبِ رواں ہر طرف

 

ایک دریا ہے پیروں سے لپٹا ہوا

بے سکوں ، بے سکوں ، بے کراں ہر طرف

 

اصل چہرے کی پہچان ممکن نہیں

عکس ہی عکس ہیں درمیاں ہر طرف

 

ایک صورت کی سو صورتیں بن گئیں

آئینے رکھ دیے ہیں یہاں ہر طرف

 

اتنی آنکھیں کہاں، دیکھ سکتے جو ہم

آپ کے حسن کی کہکشاں ہر طرف

 

آپ سے دور جاتے تو جاتے کہاں

آپ ہی آپ تھے مہر باں ہر طرف

کون کہتا ہے جاویدؔ جی مر گئے ؟

وہ تو موجود ہیں اے میاں ہر طرف

٭٭٭

 

 

 

 

قفس تو ہے مگر دکھتا نہیں ہے

جو یہ گھر ہے تو گھر دکھتا نہیں ہے

 

تم اپنے آشیاں کو رو رہے ہو

ہمیں اپنا شجر دکھتا نہیں ہے

 

مشینوں کے گھنے جنگل ہیں اتنے

کہیں دل کا نگر دکھتا نہیں ہے

 

ملے جب وہ اسے جی بھر کے دیکھو

وہ یاں بارِ دگر دکھتا نہیں ہے

 

صدف دو لخت جب تک ہو نہ جا ئے

صدف کو بھی گُہر دکھتا نہیں ہے

 

عجب وحشت میں ہم سب جی رہے ہیں

عجب ڈر ہے کہ ڈر دکھتا نہیں ہے

 

جہاں زیر و زبر کر کے وہ بو لے

جہاں زیر و زبر دکھتا نہیں ہے

 

فقیری میں ہم اتنے مطمئن ہیں

کسی کا کرّ و فر دِکھتا نہیں ہے

 

وہ سب سے با خبر رہتا تو ہو گا

وہ ہم سے با خبر دکھتا نہیں ہے

 

ہماری شاعری عرض ہنر ہے

مگر کارِ ہنر دکھتا نہیں ہے

 

میں جب بھی آئینہ دیکھوں ہوں جاوید ؔ

بدن دِکھتا ہے سر دِکھتا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اشک ڈھلتے نہیں دیکھے جاتے

دل پگھلتے نہیں دیکھے جا تے

 

پھول دشمن کے ہوں یا اپنے ہوں

پھول جلتے نہیں دیکھے جاتے

 

تتلیاں ہاتھ بھی لگ جا ئیں تو

پر، مسلتے نہیں دیکھے جاتے

 

جبر کی دھوپ سے تپتی سڑکیں

لوگ ، چلتے نہیں دیکھے جا تے

 

خواب دشمن ہیں زمانے وا لے

خواب، پلتے نہیں دیکھے جاتے

 

دیکھ سکتے ہیں، بدلتا سب کچھ

دل بدلتے نہیں دیکھے جاتے

کر بلا میں رخِ اصغرؑ کی طرف

تیر چلتے نہیں دیکھے جاتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دریا میں کاغذ کی کشتی ڈالی ہے

خوابوں میں جانے کی راہ نکالی ہے

 

اک تتلی کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں

اک تتلی کو رخصت بھی دے ڈالی ہے

 

اک ہرنی کے پیچھے گھوڑے ڈالے ہیں

اک ہرنی خود اپنے گھر میں پالی ہے

 

جس ہرنی کی آنکھوں پر ہم پاگل ہیں

وہ ہرنی وحشت کے جنگل والی ہے

 

وحشت کے اس بن میں گھر ہے پیارا سا

اس گھر کے اطراف بڑی ہریالی ہے

 

اونچی اونچی دیواریں ہیں اس گھر کی

لیکن ہر دیوار کے اندر جالی ہے

 

ہر جالی کے پیچھے کالی آنکھیں ہیں

ان کالی آنکھوں میں ہلکی لالی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جو دل کی بات ہی کرنی نہیں تھی

تو کوئی بات بھی کرنی نہیں تھی

 

اگر اندر سے اتنا چا ہنا تھا

تو با ہر بے رخی کرنی نہیں تھی

 

خطائیں اور تھیں کرنے کے لائق

خطائے عاشقی کرنی نہیں تھی

 

ہمیں یہ امتحاں دینا نہیں تھا

ہمیں یہ زندگی کرنی نہیں تھی

 

محبت بھول تھی تو بھول ایسی

کبھی بھولے سے بھی کرنی نہیں تھی

 

بکھر کے پھول یہ بولے شجر سے

ہوا سے دوستی کرنی نہیں تھی

 

ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ جا ویدؔ

زمانے کی خوشی کرنی نہیں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

شجر سب چہچہوں کے اڑ گئے کیا

بھرے گھر الفتوں کے اڑ گئے کیا

 

یہ سورج پوچھتا پھرتا ہے سب سے

چمن تھے شبنموں کے اُڑ گئے کیا

 

کہاں جا کر ہم اپنی رات جا گیں

تھے کوچے رَت جگوں کے اُڑ گئے کیا

 

فلک کا چاند تو روٹھا ہوا تھا

ستارے بھی شبوں کے اُڑ گئے کیا

 

نئے مو سم میں طائر، پھول، پودے

پرانے موسموں کے اُڑ گئے کیا

 

چمن سنسان، جنگل بے زباں ہیں

پرندے ہجرتوں کے اُڑ گئے کیا

 

عجب حالت ہے دل کے آسماں کی

غبارے رنگتوں کے اُڑ گئے کیا

 

زمانہ ساتھ لے کر اُڑ رہا تھا

مسافر بے پروں کے اُڑ گئے کیا

 

ہوا گریاں ہے جلتے جنگلوں میں

مکیں ان جنگلوں کے اُڑ گئے کیا

 

زمیں روتی ہے خالی آسماں کو

نشاں بھی رحمتوں کے اُڑ گئے کیا

 

ہوا معصومیت سے پوچھتی ہے

منارے عظمتوں کے اُڑ گئے کیا

 

نظر آتے نہیں جا ویدؔ صاحب

تھے عاشق عزلتوں کے اُڑ گئے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

گرمیِ با زار ہی سب کچھ نہیں

شہر ، * شو رو شار ہی سب کچھ نہیں

 

لکھنے والے کے لئے سوچیں بہت

اک دلِ بیمار ہی سب کچھ نہیں

 

ہے بہت کچھ عشق نا ہنجار بھی

عشقِ نا ہنجار ہی سب کچھ نہیں

 

تشنگی دل کی بجھا نے کے لئے

چشم و لب ، رخسار ہی سب کچھ نہیں

 

بو ریا بھی ہے بہت، عزت کے ساتھ

کرسی و دستار ہی سب کچھ نہیں

 

نو بہ نو آ زار ہیں اک دل کے ساتھ

دل کا اک آ زار ہی سب کچھ نہیں

 

آپ کے دیدار کا کہنا ہی کیا

آپ کا دیدار ہی سب کچھ نہیں

 

گھر کے باہر ہیں، حریفوں کے حصار

گھر کے اندر یار ہی سب کچھ نہیں

 

دوریاں دل کی بڑی سنگین ہیں

درمیاں دیوار ہی سب کچھ نہیں

 

( * جائز خیال کر تا ہوں )

٭٭٭

 

اکیلا ہوں کہ تنہائی بہت ہے

کسی کی یاد بھی آئی بہت ہے

 

مجھے ہر جائی آنکھوں نے بنایا

مری آنکھوں میں بینائی بہت ہے

 

محبت۔ ۔ اور یہ عمرِ گریزاں

تعارف اور شناسائی بہت ہے

 

تعلق توڑنا آساں ہے لیکن

جدا ہو نے میں رسوائی بہت ہے

 

تری سوچوں سے عاجز ہوں میں جاویدؔ

تری سوچوں میں گہرائی بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پتھر وہ پتھر ہو تے ہیں

جو دل کے اندر ہو تے ہیں

 

کچھ لوگوں کے دل نہیں ہو تے

دل کی جگہ پتھر ہو تے ہیں

 

آپ بھی اپنا گھر بنوا لیں

سانپوں کے بھی گھر ہو تے ہیں

 

امن کے بھاشن دینے والے

ساتھ لئے لشکر ہوتے ہیں

 

دور گھروں سے رہنا سیکھو

جنگ کی زد پہ گھر ہو تے ہیں

 

فلک فلک ، ہوائی حملے

زمیں زمیں لشکر ہو تے ہیں

(ق)

آدم زاد جہاں رہتے ہیں

وہاں یہی منظر ہو تے ہیں

٭٭٭

 

وہ گیا ابرِ رواں ٹہرا رہا

اس کے جا نے کا سماں ٹہرا رہا

 

پاؤں کے نیچے زمیں چلتی رہی

سر کے اوپر آ سماں ٹہرا رہا

 

مر حلہ ایسا بھی آیا کوچ کا

ہم چلے اور کارواں ٹہرا رہا

 

بعد اپنے یاد باقی رہ گئی

بجھ گیا شعلہ دھواں ٹہرا رہا

 

اصل مہماں کے چلے جانے کے بعد

صرف اک خالی مکاں ٹہرا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

دستِ اجل نے دستِ دعا کو نگل لیا

مٹّی نے ایک جا نِ حیا کو نگل لیا

 

دریا کی پیاس ساحلِ غم سے نہ بجھ سکی

موجوں نے آج شہرِ وفا کو نگل لیا

 

کوہِ ندا سے کوئی صدائے ’’اخی‘‘ اٹھی

یا راستے نے آبلہ پا کو نگل لیا

 

دنیا و دین وقت کی گردش میں آ گئے

لمحوں نے آ دمی کی انا کو نگل لیا

 

صحنِ چمن میں ، تیز ہواؤں نے، شاخ شاخ

پھو لوں کی رنگ رنگ قبا کو نگل لیا

 

تہذیبِ نو میں مہر و محبت کہاں ملے

اک اژدہے نے لعلِ وفا کو نگل لیا

 

جاویدؔ ہم بھی غم کے سمندر کو پی گئے

شبنم نے ایک دشتِ بلا کو نگل لیا

٭٭٭

 

 

 

 

پھول پر زخم نہ آنے دینا

دل نہ کانٹوں سے لگانے دینا

 

عشق کی آ گ میں جلنا لیکن

عشق پر آنچ نہ آنے دینا

 

چھوٹی چڑیوں کو بڑے خطرے ہیں

ان کو محفوظ ٹھکانے دینا

 

جہاں ہجرت کے پرندے اتریں

وہاں افراط سے دانے دینا

 

اک دیا اور بجھانے والو

اک دیا اور جلا نے دینا

 

اے زمانوں کو بنانے والے

میرے لفظوں کو زمانے دینا

٭٭٭

 

 

 

 

سر گزشت

 

عشق مذہب کیا

اور مذہب

جسم سے جان تک

اتار دیا

 

لوگ با ہر کے سانپ پر

بھاگے

ہم نے اندر کا سانپ

مار دیا

 

وقت نے

دل کو زخم زخم کیا

دل نے ہر زخم کو

نکھار دیا

 

زندگانی نے

کیا دیا ہم کو

جو دیا، ہم نے

یاد گار دیا

٭٭٭

 

 

 

عشق نے

 

عشق نے

بے قراریاں بخشیں

عشق نے ، کب کسے

قرار دیا

 

عشق نے

پہلے چھین لی دستار

بعد میں

پیرہن اتار دیا

 

عشق نے

لمحہ لمحہ زخم دیئے

عشق نے

لحظہ لحظہ مار دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیں آہستہ چلنا تھا

 

ہمیں آہستہ چلنا تھا

بہت

آہستہ چلنا تھا

گلی میں یار کی

ہم کو

بہت آہستہ چلنا تھا

 

گلی کی ابتدا سے

ان کے در تک

جاتے جاتے عمر مُک جاتی

ہماری سانس رک جا تی

وہ

دروازے پہ آ تے

اور ہم

آنکھیں بچھا کر

ان کے قدموں میں

بہت آہستہ

مر جا تے ! !

٭٭٭

 

 

 

 

 

ضرورت

 

ٹپکتے ، ٹپکتے ہوئے خشک آنسو

یہ دل نے کہا

’’ آنسوؤں کی زباں کو ۔

سمجھنے کی مہلت نہیں ہے جہاں کو

کہ سارا جہاں

تیز سے تیز تر دوڑنے میں مگن ہے

یہاں آنسوؤں کی ہے قیمت نہ وقعت

۔ ۔ ۔ ۔ کو ئی روتی آنکھوں کو ، چہروں کو

دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے ۔

 

یہاں

سرد آہوں ، کراہوں کو ، چیخوں کو

سننے کے قابل سماعت نہیں ہے۔

سماعت اگر ہے

تو فرصت نہیں ہے

جو فرصت اگر ہے

ضرورت نہیں ہے ۔ !! ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

نقاد کی مشکل

 

 

مانتا ہوں

اچھا لکھتا ہے

جانتا ہوں

شاعر اچھا ہے

 

میں خود اس کو،

اپنے قلم سے

اس کی شناخت عطا

کر دیتا

اس کا مقام بنا کر دیتا

لیکن میری

مشکل یہ ہے

میرا قلم

اس پر چلتا ہے

جس کی ناک کی نوک کا لکّھا

میرے در کی چوکھٹ پر ،

قدموں میں بچھ جا تا ہو

لکھنے پر اکساتا ہو

 

آتے جاتے،

ناک سے لکّھی،

سب تحریریں پڑھتا ہوں

اُس شاعر کی

ناک نے اب تک

میرے گھر کی چوکھٹ پر

کوئی لفظ

نہیں لکھا

کوئی لکیر نہیں کاڑھی! !

٭٭٭

 

 

 

 

دن کے سورج تلے

 

شب ڈھل گئی

تارے خلا میں کھو گئے

ایک ایک کر کے رات کے خوش ہو نے والے سو گئے

سب رونے والے سو گئے

 

چاند کے اندر جو مانگے کی چمک

روشن تھی شب

ماند پڑتے پڑتے وہ

ساری کی ساری بجھ گئی

 

رات کی سب بتیاں

شا ہرا ہوں، راستوں، گلیوں میں روشن قمقمے

سب بجھ گئے

کون سوچے، کون پوچھے

کب جلے کب بجھ گئے۔ ؟

 

دن کے سورج تلے ہر نور

لا یعنی ہوا

شب کی بے توقیری کے سا تھ

٭٭٭

 

 

 

 

تشکیک

 

 

زیست کی راہ پر

چلنے والے سبھی

طے شدہ وقت وقت پر اک معین جگہ

اپنے اپنے قفس

چھوڑ جاتے ہو ئے، گردنیں موڑ کر

دیکھتے ہیں تو کیا ۔

دیکھتے ہیں کہ پیچھے جو چھوڑا وہ سب

کچھ اگر تھا

حقیقت میں کچھ بھی نہ تھا

 

ا ور جب حال پر غور کر تے ہوئے سوچتے ہیں

’’ بِنا جسم کیا رہ گیا۔ ؟

اپنے ہونے کا احسا س سا رہ گیا

یا پھر احساس کے روپ میں

۔ ۔ یہ ہمارا نفس

خود کو محسو س کر تا ہوا ۔ ۔ رہ گیا

ہم میں کیا تھا جو آخر بچا۔ ۔ رہ گیا۔ ۔ ؟

 

ہم اگر روح ہیں تو ہمارا وجود

روح کے بھیس میں

ہے بھی یا کچھ نہیں ؟

امر ربی ہے اور

ما سوا کچھ نہیں۔ !!

٭٭٭

 

 

 

 

راستہ

 

یہ راستہ۔ ۔

یہ عجب ہے راستہ۔

نصب گو اس پر نہیں

کوئی نشاں

پھر بھی ہر دم ہیں رواں

گا ڑیاں۔

اور پیدل آدمی،

دائیں بائیں ، درمیاں۔

 

جس کو ، جس جس سمت چلنا

اور مڑنا ہے اسے

’ روڈ سائن ‘ سوجھ جاتے ہیں،

نظر آ تے نہیں۔

جانے کب مجھ کو سجھائی دے ’ نشاں ۔

آگے رستہ بند ہے ۔ ‘

میں کھڑا رہ جاؤں اک بے جان

پُتلے کی طرح۔

خاک ہو نے کے لئے۔

طا ئرِ جاں

( راستے سے بے نیاز )

چھوڑ کر اپنا قفس

بے صدا،

اُ ڑنے لگے۔ ۔

طا ئرِ جاں کو

کسی رستے سے کیا۔ ؟

طا ئرِ جاں کا کوئی

رستہ نہیں ۔ ۔ !!

٭٭٭

 

 

 

 

آزار لوحِ جاں پہ

 

آزار لوحِ جاں پہ

محبت نے لکھ دیئے

 

کانٹے کسی کی پھول سی

صورت نے لکھ دیئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بے چہرگی

 

یہاں کوئی چہرہ، کسی دوسرے کو

نہیں دیکھتا ہے

یہاں

اصل چہروں سے بیزار لو گوں نے

چہرے اتارے ہوئے ہیں

کہ بے چہرگی میں، سہولت بڑی ہے

 

کسی فرد کا کو ئی چہرہ نہیں ہے

کسی چیز کی کوئی صورت نہیں ہے

یہ مانا کہ چہرے،

زبانوں کے مالک ہیں اور بولتے ہیں،

زبانوں میں اپنی

مگر یہ بھی سچ ہے کہ سچ سے گریزاں

زمانے کا کلچر ہے بے چہرگی کا

کہ بے چہرگی میں سہولت بڑی ہے

 

اگر اصل چہرے، زباں کھولتے تو،

جو محسوس کر تے وہ سب بول دیتے۔

وہ ’ سچ ‘ بول دیتے !!

٭٭٭

 

 

 

 

 

اونچا مکان

 

میرا جی

 

 

 

 

بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے ہوئے استادہ ہے

تعمیر کا اک نقشِ عجیب

اے تمدّن کے نقیب !

تری صورت ہے مہیب،

ذہن انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا،

ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی مجھے دیتے ہیں، مگر

ان میں اک جوش ہے بیداد کا، فریاد کا اک عکسِ دراز،

اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے،

کیا کوئی روحِ حزیں

ترے سینے میں بھی بے تاب ہے تہذیب کے رخشندہ نگیں ؟

 

گھٹ کے لہریں ترے گیتوں کی مٹیں، مجھ کو نظر آنے لگا

ایک تلخابہ کسی بادۂ بد رنگ کا اک ٹوٹے ہوئے

ساغرمیں،

نشّۂ مئے سے نظر دھندلی ہوئی جاتی ہے

رات کی تیرہ فضا کیوں مجھے گھبراتی ہے ؟

 

رات کی تیرہ فضا میں تری آنکھوں کی چمک مجھ کو ڈرا

سکتی نہیں ہے، میں تو

اس سے بھی بڑھ کے اندھیرے میں رہا کرتا تھا

اور اس تیرگیِ روح میں رخشاں تھے ستارے دکھ کے،

اور کبھی بھول میں ہر نجمِ درخشاں سے لپک اٹھتے تھے

شعلے سکھ کے،

جیسے روزن سے ترے تان لپکتی ہوئی پھیلاتی ہے

بازو اپنے،

جذب کر لیتا ہے پھر اس کو خلا کا دامن،

یاد آنے لگے تنہائی میں بہتے ہوئے آنسو اپنے

وہی آنسو، وہی شعلے سکھ کے

لیکن اک خواب تھا، اک خواب کی مانند

لپک شعلوں کی تھی،

مری تخئیل کے پر طائرِ زخمی کے پروں کی مانند

پھڑپھڑاتے ہوئے بے کار لرز اٹھتے تھے،

مرے اعضا کا تناؤ مجھے جینے ہی نہیں دیتا تھا، تڑپ کر، یکبار

جستجو مجھ کو رہائی کی ہوا کرتی تھی،

مگر افسوس کہ جب درد دوا بننے لگا

مجھ سے وہ پابندی ہٹی،

اپنے اعصاب کو آسودہ بنانے کے لیے

بھول کر تیرگی ٔ روح کو میں آ پہنچا

اس بلندی کے قدم میں نے لیے

جس پہ تو سینکڑوں آنکھوں کو جھپکتے ہوئے استادہ ہے۔

 

ترے بارے میں سنا رکھّی تھیں لوگوں نے مجھے

کچھ حکایاتِ عجیب،

میں یہ سنتا تھا ترے جسمِ گرانبار میں بستر ہے بچھا،

اور اک نازنیں لیٹی ہے وہاں، تنہائی

ایک پھیکی سی تھکن بن کے گھسی جاتی ہے

ذہن میں اس کے، مگر وہ بے تاب

منتظر اس کی ہے پردہ لرزے،

پیرہن ایک ڈھلکتا ہوا بادل بن جائے

اور دَر آئے اک اَن دیکھی، انوکھی صورت،

کچھ غرض اس کو نہیں ہے اس سے

دل کو بھاتی ہے، نہیں بھاتی ہے

آنے والے کی ادا۔ ۔ ۔

اس کا ہے ایک ہی مقصود، وہ استادہ کرے

بحرِ اعصاب کی تعمیر کا اک نقشِ عجیب

جس کی صورت سے کراہت آئے

اور وہ بن جائے ترا مدّ مقابل پل میں

ذہنِ انسانی کا طوفان کھڑا ہو جائے

اور وہ نازنیں بے ساختہ، بے لاگ، ارادے کے بغیر

ایک گرتی ہوئی دیوار نظر آنے لگے

شب کے بے روح تماشائی کو !

بھول کر اپنی تھکن کا نغمہ

مختصر لرزشِ چشمِ در سے

ریگ کے قصر کی مانند سبکسار کرے،

بحرِاعصاب کی تعمیر کا اک نقشِ عجیب

ایک گرتی ہوئی دیوار کی۔ ۔ ۔ مانند لچک کھا جائے

 

یہ حکایات مرے ذہن میں اک بوئے خراماں بن کر

جب کبھی چاہتی تھیں رقص کیا کرتی تھیں،

اور اب دیکھتا ہوں سینکڑوں آنکھوں میں تری

ایک ہی چشمِ درخشاں مجھے آتی ہے نظر،

کیا اسی چشمِ درخشاں میں ہے شعلہ سُکھ کا ؟

ہاتھ سے اپنے اب اس آنکھ کو میں بند کیا چاہتا ہوں۔ ؎

٭٭٭

 

میرا جی کی نظمیں

 

 

 

واپسی

 

               وزیر آغا

 

گلی بھی وہی ہے

مکاں بھی وہی ہے

وہی ہے مکاں کا پُر اسرار،بے نور چہرہ

مگر چور قدموں کی بے نام آہٹ

ملائم لبادے کی محجوب سی سرسراہٹ

’’ہٹو راستہ چھوڑ دو‘‘ کی چمکتی غصیلی ادا

پھر ہنسی ضبط کرنے کی مدھم صدا

وہ صدا اب نہیں ہے،کہیں بھی نہیں ہے

کہیں کچھ نہیں ہے

خموشی کی بھیگی ہوئی التجا کے سوا!

 

یہ سنسان زینہ کہ صحرا کی صورت ہے پھیلا ہوا

اس کی ٹھہری ہوئی،ریت ہوتی ہوئی

سلوٹوں میں کہیں

رُت کے پھولوں کی بکھری ہوئی پتیاں

اب بھی ہوں گی

لرزتے ہوئے مکڑیوں کے پُر اَسرارجالوں میں

سرگوشیاں

جھولتے نرم دھاگوں میں لپٹی ہوئی

اَن کہی داستاں کی طرح

بے زباں اب بھی ہوں گی

گھِسی اور اُکھڑی ہوئی چھوٹی اینٹوں پہ

مہندی کی سُرخی کا مدھم سا کوئی نشاں اب بھی ہو گا

مگر تازہ پھولوں کی پاگل مہک

اور مہکتے لبادے میں اجلا بدن

اور کھنکتی ہنسی

پھر ہنسی ضبط کرنے کی مدھم صدا

تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کا مدھُر سلسلہ

وہ مدھۃر سلسلہ اب کہاں ہے !

زمانے کے جالے میں محبوس بجھتی ہوئی یہ صدا

جس کی خاطر تو سنسان زینے کے

پہلے قدم پر کھڑا ہے

صدا تو نہیں ہے

فقط لاش ہے ایک مُردہ صدا کی!

٭٭٭

 

 

 

اکبرؔحمیدی

(اسلام آباد)

 

اس کو نظر میں بھر رکھا ہے

آدھا کام تو کر رکھا ہے

 

اس نے کہا تھا مت گھبرانا

ہر دیوار میں در رکھا ہے

 

کچھ تو اس کے معنی ہوں گے

ہر شانے پر سر رکھا ہے

 

سب جھلکے پر نظر نہ آئے

ایسا پردہ کر رکھا ہے

 

میری خاک کے اندر اکبرؔ

لطفِ خیر و شر رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

سچ پہ اصرار بھی ضروری ہے

حسنِ اظہار بھی ضروری ہے

 

یونہی بدنامیاں نہیں ملتیں

اچھا کردار بھی ضروری ہے

 

وحشتیں ایسے ہی نہیں ہوتیں

رہ میں دیوار بھی ضروری ہے

 

سر اٹھانے کا لطف ہے لیکن

سر پہ تلوار بھی ضروری ہے

 

پیروی کب تلک کرو گے میاں

اپنا کردار بھی ضروری ہے

 

اتنا اقرار مار ڈالے گا

دیکھو انکار بھی ضروری ہے

 

ڈوب جانے میں لطف ہو گا مگر

کوئی اس پار بھی ضروری ہے

 

کون اس کو بتائے گا اکبرؔ

عشق میں پیار بھی ضروری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مبارکیں ہوں !

 

مبارکیں ہوں،مبارکیں ہوں،مبارکیں ہوں

کہ پچھلی آدھی صدی کی مانند اس برس بھی

تمام منصب، تمام اعزاز،سارے اکرام

حضورِ والا تبار ہی کے لیے ہیں مخصوص

میں اس برس بھی ہوا ہوں حاضر

سلامِ اخلاص عرض کرنے

دعائیں دینے،نیاز مندی کے سارے جذبے

حضور عالی میں نذر کرنے

خدا کرے ایسے سارے موسم

جو پچھلی آدھی صدی سے یونہی رُکے کھڑے ہیں

اسی طرح سے رُکے رہیں سب

تمام منصب، تمام اعزاز، سارے اکرام

حضورِ والا تبار ہی کے لیے ہوں مخصوص

حضور کے آہنی شکنجے سے وقت باہر نکل نہ پائے

نکل نہ پائے، سنبھل نہ پائے، بدل نہ پائے

اسی طرح سے ہر اک برس مَیں

مبارکیں عرض کرنے آؤں

مبارکیں ہوں، مبارکیں ہوں، مبارکیں ہوں،!

٭٭٭

 

 

 

 

حیدر قریشی

(جرمنی)

 

کون دیکھے گا بھلا میرے خدا میرے بعد

رنگ لائے گی اگر میری دعا میرے بعد

 

رُوبرو میرے بنا بیٹھا تھا پتھر کی طرح

کسی چشمے کی طرح پھُوٹ بہا میرے بعد

 

عشق کے قصے سبھی مجھ پہ ہوئے آ کے تمام

کوئی مجنوں، کوئی رانجھا نہ ہوا میرے بعد

 

اس میں مل جائے گا جا کر مِرے اندر کاخلا

اور بڑھ جائے گا باہر کا خلا میرے بعد

 

جس نے دشمن کو مِرے قتل پہ اُکسایا ہے

لینا چاہے گا وہی خون بہا میرے بعد

 

ابھی ممکن ہی نہیں قرض چکانا تیرا

زندگی! قرض ترا ہو گا اَدا میرے بعد

 

روز طوفان اُٹھانے کی مشقت تھی اسے

دشت بے چارے کو آرام ملا میرے بعد

 

میرؔو غالبؔ کی عطا اُن کی زمیں میں یہ غزل

حیدرؔ اوروں پہ بھی ہو گی یہ عطا میرے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

گرچہ ہمیں ہے پہلے بھی اک زک لگی ہوئی

لیکن گئی نہ یاس سے چشمک لگی ہوئی

 

ہر آن ہے گمان کہ شاید وہ آ گئے

دھڑکن ہے دل کی یا کوئی دستک لگی ہوئی

 

اپنا تمام حصہ اُنہیں دے کے آ گیا

آخر کو ختم کرنی تھی جھک جھک لگی ہوئی

 

تم اہلِ علم و فضل ہو لیکن کچھ اِس طرح

جیسے کوئی کتاب ہو دیمک لگی ہوئی

 

اُس کی محبتیں ہیں کسی اور کے لئے

تہمت ہمارے سر پہ ہے بے شک لگی ہوئی

 

پڑتا ہے یوں تو حُسن پہ اِس کا اثر مگر

اچھی لگی ہے آپ کو عینک لگی ہوئی

 

حیدرؔ مذاق مت اِسے سمجھو یہ عشق ہے

بازی ہے اِس میں پاؤں سے سر تک لگی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

درد اندر کے سب آنکھوں میں اُبھر آئے تھے

عشق میں جب ہمیں پانی کے سفر آئے تھے

 

شہر کی گلیوں نے چومے تھے قدم رو رو کر

جب ترے شہر سے یہ شہربدر آئے تھے

 

آپ نے ہی درِ دل وا نہ کیا تھا ورنہ

صبح کے بھولے تو دوپہر کو گھر آئے تھے

 

یہ الگ بات کہ جی اُٹھے دوبارہ لیکن

ہم تری راہ میں تو جاں سے گزر آئے تھے

 

بازگشت اپنی ہی آواز کی بننا تھا ہمیں

ہم نے کب لَوٹ کے آنا تھا مگر آئے تھے

 

ایک سوہنی کی پذیرائی کی خاطر حیدرؔ

دل کے دریا میں کبھی کتنے بھنور آئے تھے

٭٭٭

 

 

 

حسن عباس رضاؔ

( اسلام آباد)

 

تلاشنا تھا مجھے تیسرے کنارے کو

سو میں نے ساتھ لیا شام کے ستارے کو

 

ترے بہاؤ میں ہوتا رہا کٹاؤ مرا

کہ روک پایا نہ تیری انا کے دھارے کو

 

اُتر کے آ تو گیا ہوں میں سیڑھیاں، لیکن

پلٹ کے دیکھ رہا ہوں ترے چوبارے کو

 

میں تیری آنکھ کا صدقہ اتار آیا ہوں

کہ تُو بھی دیکھ لے ڈوبتے نظارے کو

 

جو رتجگے مری آنکھ سے لے گئے سپنے

وہ ڈھونڈتے ہیں تری نیند کے دوارے کو

 

اسی لیے تو دکاں بند کی ہے خوابوں کی

کہ دکھ بھی گھیر چکے ہیں مرے خسارے کو

 

وہ کہہ رہی تھی حسنؔ ہجر ایک نعمت ہے

میں سادہ دل نہیں سمجھا تھا اس اشارے کو

٭٭٭

 

 

 

 

تجھ سے دوری کا مداوا نہیں کر سکتا میں

دکھ تو یہ ہے تجھے اغوا نہیں کر سکتا میں

 

تُو مجھے بھول کے خوشیوں میں مگن ہو جائے !

یہ سہولت تو مہیا نہیں کر سکتا میں

 

وہ جو رُت چھوڑ گئی ہے مجھے تنہا کر کے

اب تو اُس رُت کا بھی پیچھا نہیں کر سکتا میں

 

دل تو اُکساتا ہے میں تجھ سے بغاوت کر دوں

جانتا بھی ہے کہ ایسا نہیں کر سکتا میں

 

عشق میں رنج زیادہ ہیں ترے یا میرے ؟

فیصلہ اس کا اکیلا نہیں کر سکتا میں !

 

بھولنے کی تجھے کوشش تو کروں گا پوری

لیکن اس بات کا وعدہ نہیں کر سکتا میں

 

خود کو تقسیم حسن ؔتیس برس تک کر کے

تیس دن بھی تو اکٹھا نہیں کر سکتا میں

٭٭٭

 

 

 

 

کبیر اطہر

( صادق آباد)

 

اُس کی آنکھوں میں طلب اپنی بڑھاتے ہوئے ہم

ہونے لگتے ہیں عیاں خود کو چھپاتے ہوئے ہم

 

تجھ تک آتے ہیں عجب شوق گرفتاری میں

آپ اپنے لئے زنجیر بناتے ہوئے ہم

 

زادِ رہ اس لئے باندھا ہے کہ یہ دیکھ سکیں

کیسے لگتے ہیں تجھے چھوڑکے جاتے ہوئے ہم

 

جنبشِ لب سے چھلک پڑتی ہیں آنکھیں اپنی

رونے لگتے ہیں اسے حال سناتے ہوئے ہم

 

جانے کس وقت ہوئے پیڑ سے پیوند کبیرؔ

اُس کے رستے میں کھڑے پھول گراتے ہوئے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

احمد ادریس

( کوجر خان)

 

زندگی سے قریب تر ہونا

اچھا لگتا ہے معتبر ہونا

 

کتنے پتھر ہی مجھ پہ برسے ہیں

پھر بھی اچھا لگا شجر ہونا

 

یہ بھی ایک کرب ہے مسافت کا

میرے راستے میں تیرا گھر ہونا

 

دل پہ چلتے ہیں سوچ کے نشتر

کتنا مشکل ہے دیدہ ور ہونا

 

کون دے گا اماں تجھے احمدؔ

اک ضرورت ہے اپنا گھر ہونا

٭٭٭

 

 

 

دل کسی ساعتِ دیدار میں رہ جاتا ہے

آدمی رونقِ بازار میں رہ جاتا ہے

 

یوں بھی ہوتا ہے کبھی قوس نہیں بن پاتی

زاویہ حلقۂ پرکار میں رہ جاتا ہے

 

آخرِ کار یہی ہوتا ہے چلتے چلتے

قافلہ وقت کی رفتار میں رہ جاتا ہے

 

آدمی اپنے لیے جو متعین کر لے

پھر اسی دائرہ کار میں رہ جاتا ہے

 

جانے کب موسمِ ابہام کھلے گا احمدؔ

مرا ہونا کسی تکرار میں رہ جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

قاضی اعجاز محور

(گوجرانوالا)

 

لمحہ لمحہ حسیں گزر گیا دن

تیری آنکھوں میں یوں اتر گیا دن

 

ایک غنچہ سا کھلتے دیکھا تھا

چھو لیا تو وہیں بکھر گیا دن

 

کس سے جا کر ملوں کسے نہ ملوں

بس یہی سوچتے گزر گیا دن

 

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ملتا نہیں

رات آئی تو کیسے ڈر گیا دن

 

کس سے افسوس اب کریں محورؔ

یار اپنا تھا ہائے مر گیا دن

٭٭٭

 

 

 

 

طاہر حنفی

(اسلام آباد)

 

لاکھوں دنوں کے بوجھ تلے غم رسیدہ لوگ

اپنی تلاش میں ہیں رواں سر بریدہ لوگ

 

دھاگے خوشی کے اپنے بدن سے لپیٹ کر

زخموں کی بستیوں میں رہے آب دیدہ لوگ

 

بحران میرے اسم کو دے کر چلے گئے

جو میرے عہد میں تھے کبھی نا شنیدہ لوگ

 

اک عہد کے سفر میں انا بھی شریک تھی

لیکن اسے سمجھ نہ سکے بے عقیدہ لوگ

 

وہ میرے ہی خیال کے روشن نشان تھے

لفظوں میں جو بیان ہوئے خط کشیدہ لوگ

 

میرے لہو کو چھین کے بازار میں بکے

تاجر میرے شعور کے طاہر ؔ ندیدہ لوگ

٭٭٭

 

 

 

پروین کمار اشک

( انڈیا)

 

 

جسم کو روح سے ملا دینا

ارے دیوار مت اُٹھا دینا

 

سجدہ کرنا سبھی بزرگوں کو

سارے بچوں کو تُو دعا دینا

 

باغ کے سوکھنے سے پہلے ہی

خوشبوؤں کو کہیں چھپا دینا

 

رات کے ساتھ جا رہا ہوں میں

چاندنی آوے تو بتا دینا

 

لاج رکھ لینا ننگے جسموں کی

سب کو چادر مرے خدا دینا

 

میٹھے سیبوں کے باغ میں پیارے

نیم کے پیڑ مت اُگا دینا

 

بادلوں کا یقین مت کرنا

آنسوؤں کی جھڑی لگا دینا

 

پہلے انگلی پکڑنا رہبر کی

پھر اسے راستا دکھا دینا

 

شام للکارنا چراغ کا اشکؔ

صبح سورج کا مسکرا دینا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرے خلاف آکاش میں کوئی سازش کرتا رہتا ہے

میری قسمت کا تارہ گردش کرتا رہتا ہے

 

دودھ کی خالی بوتل سے بھی بچے کا ہے عشق عجیب

تھک جاتے ہیں ہونٹ مگر وہ کاوش کرتا رہتا ہے

 

باغ انگور کے چھوڑ آیا تھا سرحد پار جوانی میں

پاگل بوڑھا پل پل ’’ کشمش کشمش ‘‘کرتا رہتا ہے

 

تُو کانٹوں کو بوسے دیتی رہنا اے میری خوشبو

مرجھانے سے پہلے پھول گزارش کرتا رہتا ہے

 

پہنچ کے منزل پر بھی بھولا نہیں سفر کے محسن کو

پھٹے پرانے جوتے پر وہ پالش کرتا رہتا ہے

 

یا تو آگ دکھاتا رہتا ہے وہ میری فصلوں کو

یا پھر اشک ؔمرے کھیتوں پر بارش کرتا رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

علامہ ضیاء حسین ضیاء

( فیصل آباد)

 

ایک قلم برداشتہ نظم

 

 

ایک شخص بھی تو نہیں ملتا

جو مرے داستاں کے پہلو میں

اپنی ساری شہادتیں رکھ دے

جو مری بے بسی کو کھوجے تو

شہر مدفون تک چلا جائے

میرے کتبے تلاش کرتا پھرے

ایک تاریخ سے گزرتا رہے

ایک شخص بھی تو نہیں ملتا

جس کے سائے سے گھر نکلتا ہو

دھوپ کی آنکھ بند ہوتی ہو

میری مکفون رقتِ غم پر ایک وابستہ دل تڑپتا ہو

کوئی تو راستہ نکلتا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

گستاخ بخاری

( جھنگ)

 

جب خلش روح و جان میں رکھ دی

زیست کیوں خاک دان میں رکھ دی

 

تجھ کو ہونا نہ تھا کسی کا بھی

کیوں توقع جہان میں رکھ دی

 

آنا جانا تجھے عزیز نہیں

روشنی لا مکان میں رکھ دی

 

بال و پر نے مجھے اڑانا تھا

پھر کجی کیوں اڑان میں رکھ دی

 

خاک کیسے ہو باخبر تو نے

ہر خبر آسمان میں رکھ دی

 

وہ زوال آشنا ہوئے جن کے

دشمنی خاندان میں رکھ دی

 

تیرا ہونے کے واسطے میں نے

بے دھیانی دھیان میں رکھ دی

 

ترکِ الفت کا کب کہا اس نے

بس خرابی زبان میں رکھ دی

 

ہم نے گستاخ دل کی سب وحشت

دوستوں کے گمان میں رکھ دی

٭٭٭

 

 

 

صفدر سلیم سیال

(جھنگ)

 

 

وہ درد اٹھا کہ پیار کا منظر بدل گیا

اس بار انتظار کا منظر بدل گیا

 

تاخیرِ التفات کی تاویل کے سبب

یک لخت قربِ یار کا منظر بدل گیا

 

بے دست و پا دکھائی دیا یوں امیرِ شہر

پل میں گیر و دار کا منظر بدل گیا

 

سمجھے تھے جس کو شوق میں ہم ساحلِ مراد

ترے جو ہم تو پار کا منظر بدل گیا

 

کس کس سے کوئی ربط بڑھائے کہ ان دنوں

ہر ایک اعتبار کا منظر بدل گیا

 

احکام اس کو اپنے نظر آئے سب غلط

جب اس کے اقتدار کا منظر بدل گیا

 

بچھڑے کچھ اس طرح سے کہ صفدر سلیم آج

شامِ فراقِ یار کا منظر بدل گیا

٭٭٭

 

 

 

 

افضل چوہان

( مظفر گڑھ)

المیہ

 

 

مری مٹھی میں جگنو ہے

جسے کل رات میں نے دوڑ کر پکڑا تھا

مشکل سے

جو اب تک میرے بستے میں پڑے

ماچس کے خالی خول میں بند تھا

اسے میں اپنی مٹھی میں پڑا محسوس کرتا ہوں

جو میری ننھی مٹھی سے

نکلنے کے لئے بے تاب ہے کتنا

مگر میں سوچتا ہوں

روشنی کو قید کرنے سے

اندھیرے پھیلنے کے راستے ہموار ہوتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

صادق باجوہ

(امریکہ)

 

آنکھوں کے دریچوں میں جلے دیپ وفا کے

مدت سے سنبھالے ہیں زمانے سے بچا کے

اک بار نظر میں جو سما جاتا ہے کوئی

پھر آنکھ تو لگتی ہی نہیں آنکھ لگا کے

 

الفاظ میں یارا ہی کہاں اس کے بیاں کا

جو لذّتِ آزار ملی دل کو لگا کے

 

اس عشقِ بلا خیز کی راہیں بھی عجب ہیں

مل جاتا ہے مقصود کبھی خود کو گنوا کے

 

ہو پیشِ نظر جن کے اناؤں کی پرستِش

تسکین کہاں پائیں گے انساں کو ستا کے

 

اب ظلم کے خُوگر سے گلہ ہو بھی تو کیا ہو

کیا فائدہ حسرت سے بھرے دل کو جلا کے

 

جو عظمتِ انساں سے بھرا گیت ہے صاؔدق

بھرتا ہی نہیں دل مرا وہ گیت سنا کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تسلیم الہٰی زلفی

(کینیڈا)

 

کس نے پھینکا ہے ‘ مری سمت یہ پتّھر زلفی

چھن سے کچھ ٹوٹ گیا ہے مرے اندر زلفی

 

صرف اْمید کے ساحل پہ کھڑے رہنے سے

پار ہوتا نہیں قسمت کا سمندر زلفی

 

خود کو بدلو گے تو ہر چیز بدل جائے گی

یونہی بدلا نہیں کرتا ہے مقدّر زلفی

 

زندگی کیسی لگی! آپ ہمیں بتلائیں

ہم نے تو ٹھیک سے دیکھا نہیں جی کر زلفی

 

چاک پہ اْس کے ہے گردش میں مرا خام وجود

کوزہ گر دیکھئے کب دے مجھے پیکر زلفی

 

یہ سماجی فنِ گفتار ہمیں کب آیا!

ہم ادا کار نہیں ہم ہیں سخنور زلفی

 

ساحلوں نے ہمیں پانے کی تمنّا کی ہے

ہم سے مِلنے کو ہے بیتاب سمندر زلفی

 

اْس کی آنکھوں میں اْداسی ہے لبوں پر مْسکان

چْپ ہیں خوشبو کی طرح بولتے منظر زلفی

 

فصل اْس دل میں محبّت کی اْگا دی ہم نے

موسمِ عشق کے صحراء سے گزر کر زلفی

 

دمِ رخصت کوئی چاہت بھرا فقرہ کہنا

کیا خبر آخری مِلنا ہو مقدّر زلفیؔ

٭٭٭

 

 

 

 

اعجاز روشن

( جہلم)

 

رنگ خوابوں کے مٹا دیتی ہے

فکر پتھر کا بنا دیتی ہے

 

خواہش زر بھی ہے وہ زہر کہ جو

عمر مفلس کی بڑھا دیتی ہے

 

جب خلا شاعری کا بھرتا ہوں

پھر نیا ایک خلا دیتی ہے

 

دوپہر کی یہ جھلستی ہوئی شام

گم ہواؤں کا پتہ دیتی ہے

 

بے رخی مجھ سے جہاں والوں کی

زخم تیرے بھی جگا دیتی ہے

 

زیست تیرا یہ چلن کیسا ہے

ہارنے پر بھی سزا دیتی ہے

 

بات جو ہم نہ کبھی کہہ پائیں

دل میں اک حشر اٹھا دیتی ہے

 

جس نے لوٹا اسی سے پھر روشنؔ

سادگی آس لگا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ابراہیم عدیل

(جھنگ)

 

کرے جو عہد سے بھی انحراف کرنے دے

یہ اس کا حق ہے اسے اختلاف کرنے دے

 

مجھے یقیں ہے چمن میں گلاب مہکیں گے

ذرا یہ موسموں کی دھول صاف کرنے دے

 

ازل کے دن سے ترے دل کا صحن سونا ہے

تو اس حرم میں مجھے اعتکاف کرنے دے

 

ابھی ہٹا نہ دریچے سے ریشمی پیکر

ابھی کرن کو صبا کو طواف کرنے دے

 

ابھی تو جسم کی مٹھی میں چند سانسیں ہیں

فصیل جبر میں کچھ تو شگاف کرنے دے

 

میں چاہتا ہوں پیمبر کی پیروی کرنا

مجھے بھی اپنے عدو کو معاف کرنے دے

 

عدیل ایک ہوس راستے میں حائل ہے

مجھے تو فیصلہ اپنے خلاف کرنے دے

٭٭٭

 

 

 

 

عصمت اللہ

(جھنگ)

 

بھیگے ہوئے دامن پہ جو برسات ہوئی ہے

ہاں تجھ سے بچھڑ جانے کی ہی بات ہوئی ہے

 

دیوار کے قد سے جو بڑھے جاتے ہیں سائے

اس دھوپ کے موسم میں کسے مات ہوئی ہے

 

اے ہمدمِ دیرینہ یہ کیوں طرزِ تغافل

کیا مجھ سے کبھی ایسی کوئی بات ہوئی ہے

 

دل اپنے کو تھاموں کہ سنبھالوں میں جگر کو

بے بس ہوں عجب صورتِ حالات ہوئی ہے

 

سو جاتے ہیں پلکوں پہ مری دیکھ کے تارے

ان نیند کے ماتوں کے لئے رات ہوئی ہے

 

کٹ کٹ کے گرا جاتا ہوں میں بحرِ الم میں

اک بیمِ شکستہ جو مرے سات ہوئی ہے

 

ہر شخص نیا پیچ دکھاتا ہے جنوں میں

جس جس سے جہاں جب بھی ملاقات ہوئی ہے

 

اس وقت حقیقت کا صحیح علم ہوا ہے

جب میرے مقابل میں مری ذات ہوئی ہے

 

دے اتنی محبت کہ تجھے ٹوٹ کے چاہوں

ہردھڑکنِ دل منبعِ حاجات ہوئی ہے

 

اک پیار کے سورج کو اجالو میری جانب

یہ عمر تو اک عرصۂ ظلمات ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سرفراز حسین ضیاء

(سعودی عربیہ)

 

شاید کہیں وہ بھول گیا ہے سنبھال کر

یا راستہ بدل گیا مجھ کو وہ ٹال کر

 

پَر کیا لگے کہ گھونسلے سے اُڑ گئے سبھی

وہ پھر اکیلی رہ گئی بچوں کو پال کر

 

گر چاہتا ہے باغ میں خوشبو رہے سدا

پھولوں کی تلخ موسموں میں دیکھ بھال کر

 

ہے راز جو کسی کا سدا راز ہی رہے

کیا فائدہ کسی کی بھی پگڑی اُچھال کر

 

بہتر ملائکہ سے تجھے کیوں کہا گیا

توُ اپنی ذات سے یہ کبھی خود سوال کر

 

شہ مات ہو نہ جائے غلط چال پر ضیاء

چلنی ہے چال تجھ کو زرا دیکھ بھال کر

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ایسا بازار سجا تھا رستے میں

یوسفؑ جیسے بکتے دیکھے سستے میں

 

کچھ تصویریں ٹھہر گئیں ہیں آنکھوں میں

سُوکھے پھول جو دیکھے میں نے بستے میں

 

زہر بھی ممکن ہے کچھ میٹھی باتوں میں

سانپ بھی دیکھے ہیں اکثر گلدستے میں

 

غم کا ایک سمندر اس کے اندر تھا

عمر گذاری جس نے ہستے ہستے میں

٭٭٭

 

 

 

 

تجمل جرال

( گوجر خان)

 

پلٹ آؤ

 

 

اگر چاہو تو آ جاؤ

ابھی کچھ بھی نہیں بگڑا

ابھی دل کے دریچے میں

چراغِ آرزو اپنی سبھی بے تابیوں کے ساتھ روشن ہے

ابھی شمع محبت پر

تیری یادوں کے پروانے دیوانہ وار آتے ہیں

ابھی تک جاں کا نذرانہ لٹانے کی تمنائیں سلامت ہیں

پلٹ آؤ

تمہاری بے وفائی کو

تمہاری بے بسی کہہ کر

جدائی کی اذیت ناک گھڑیوں کو

فقط اک خواب کہہ دیں گے

تمہیں باہوں میں لے لیں گے

ابھی دل کے نہاں خانے میں اک تصویر کندہ ہے

ابھی امید قائم ہے

پلٹ آؤ

٭٭٭

 

 

 

 

جاوید احمد

( کہوٹہ)

 

 

وہ موجِ زلف شامِ غم تک آئی

بکھر جانے لگی تو ہم تک آئی

 

ستارے چشم و دل کے درمیاں تھے

چمک ان کی مگر شبنم تک آئی

 

وہ کیا صورت گری تھی جن کی خاطر

عدم سے زندگی آدم تک آئی

 

گئی بادِ صبا تو اس کلی تک

مگر وہ بے کلی جو ہم تک آئی

 

وہ خواہشیں اب کہاں سادہ رہی ہیں

جو ان زلفوں کے پیچ و خم تک آئی

 

انہی باتوں کی خوشبو تھی جو کچھ دیر

مرے لہجے کے زیر و بم تک آئی

٭٭٭

 

 

 

 

بقا بلوچ

( سوئی۔ بلوچستان)

 

 

کیسا لمحہ آن پڑا ہے

ہنستا گھر ویران پڑا ہے

 

بستر پر کچھ پھول پڑے ہیں

آنگن میں گلدان پڑا ہے

 

کرچی کرچی سپنے سارے

دل میں اک ارمان پڑا ہے

 

لوگ چلے ہیں صحراؤں کو

اور نگر سنسان پڑا ہے

 

اک جانب اک نظم کے ٹکڑے

اک جانب عنوان پڑا ہے

 

دل میں ایک الاؤ ہے روشن

اس میں اک دیوان پڑا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اکرام الحق سرشار

( چیچا وطنی)

 

ایسا موسم بھی یہاں آ جائے گا

ہر شجر اپنا ثمر کھا جائے گا

 

دشتِ شب پر خوں چھڑکا جائے گا

تب کہیں جا کر اندھیرا جائے گا

 

یہ سفینہ جو ابھی ساحل پر ہے

دیکھ کر طوفاں کو چکرا جائے گا

 

چھ مہینے دھوپ رہتی ہے جہاں

موم کا چہرہ وہاں کیا جائے گا

 

جب بھی پیش آیا انا کا مسئلہ

دل فصیلِ غم سے ٹکرا جائے گا

 

صبح ہونے دو کرن کے ساز پر

نغمۂ سرشارؔ چھیڑا جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

انتظار باقی

(جھنگ)

 

کبھی دلوں میں کبھی ڈر سروں میں رہتا ہے

یہ کیسا باسی ہے اجڑے گھروں میں رہتا ہے

 

کریدتا ہے جو اندر سے جسم و جاں اس کے

عجیب کیڑا شجر کی جڑوں میں رہتا ہے

 

انہیں کتر دو یا دروازۂ قفس کھولو

اک اضطراب سا میرے پروں میں رہتا ہے
بھلا نہ دے وہ کہیں آذری ہنر اپنا

صنم تراش جو کوزہ گروں میں رہتا ہے

 

یہ انتقال سکونت عجیب ہے اس کا

دلوں کا باسی ہے اور اژگروں میں رہتا ہے

 

اگرچہ روح و بدن ہیں لہو لہان مگر

ابھی بہت سا جنوں پتھروں میں رہتا ہے

 

بچی نہ ہو گی پرندوں میں طاقتِ پرواز

خوشی سے کوئی بھلا پنجروں میں رہتا ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

دستک و بات چیت جاری ہے

کون؟ کوئی نہیں، بھکاری ہے

 

پاؤں من من کے ہو گئے میرے

سر پہ دستار کتنی بھاری ہے

 

چھد رہے ہیں بدن درختوں کے

گرم سورج کی تابکاری ہے

 

گونجتی ہے جو ہر طرف بن میں

ہونٹ میرے،صدا تمہاری ہے

 

خوں ٹپکتا ہے سینۂ گل سے

یہ نمو رُت کی کاروکاری ہے

 

میرے اس دل کے اندھے کنوئیں میں

تیرگی کی اجارہ داری ہے

 

سانس لے کر تمہاری محفل میں

دل میں اک آگ سی اتاری ہے

 

وحشتیں باندھ میرے پاؤں سے

خامشی دشت میں پکاری ہے

 

لازمی راستوں کا جال سا ہے

کون سی راہ اختیاری ہے !

 

خون ٹپکے تو ہو غزل باقی

اب غزل کیا ہے !دستکاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جمیل ؔافضل

(جہلم)

 

یہ کون ہے جو رگ جسم و جاں میں اترا ہے

مرے شعور سے دل کے مکاں میں اترا ہے

 

چمن میں یوں تو بہاروں کا دور دورہ ہے

یہ آشیاں مرا پھر کیوں خزاں میں اترا ہے

 

ہمیں نے پیار کے بوئے تھے بیج گلشن میں

مگر یہ قہر سا کیوں گلستاں میں اترا ہے

 

مجھے نہ دن کے اجالے نے روشنی بخشی

مگر یہ نور کہاں سے مکاں میں اترا ہے

 

تلاش منزل ہستی میں چل پڑا تھا جمیلؔ

گزر کے راہ کٹھن کارواں میں اترا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رحمت اللہ جاوید

( جہلم)

 

چھوڑ جائے گا ہر اک مجھ کو یہ اندارہ نہ تھا

شعر کہنے کا تو اتنا سخت خمیازہ نہ تھا

 

تتلیاں آہیں گی اڑ کر کیوں گلستاں کے قریب

دل کے اجڑے باغ میں اک پھول بھی تازہ نہ تھا

 

تھے ستم کی زد میں چمپا،موتیا، نرگس، گلاب

نکہت گل پر تبسم کا کوئی غازہ نہ تھا

 

بے کلی سی تھی دماغ و جگر میں کیا منتشر

یاد میں گندھی ہوئی خوابوں کا شیرازہ نہ تھا

 

آ گیا ہے پھر کہاں سے ایک رہزن خوبرو

خانہ دل میں تو اپنے کوئی دروازہ نہ تھا

 

سن رہا ہوں ہم تمارے ساتھ ہیں لا تقظو

کیا تسلی کو مری کافی یہ آوازہ نہ تھا

 

چل پڑے طوفان غم کے پر انہیں جاوید تو

میرے صبر و سخت جاں کا کچھ بھی اندازہ نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

اسلم بیگ اسلم

( جہلم)

 

اب مدعائے وصل کا سودا نہیں رہا

میں عالم خیال میں تنہا نہیں رہا

 

یوں تو سبھی کی آنکھ کا تارا ہے آج کل

یہ اور بات ہے کہ ہمارا نہیں رہا

 

تیرے سوا بھی مائل کرم ہیں جہان میں

تیرے ستم کا اب مجھے یارا نہیں رہا

 

جلتے تھے ایک ساتھ ترے انتظار میں

جب شمع بجھ گئی تو شرارہ نہیں رہا

 

گزرا ہے آج تیرے ستم کی حدود سے

اسلمؔ غم فراق کا مارا نہیں رہا

٭٭٭

 

 

 

 

سُہیل احمد

(راولپنڈی)

 

وفا سے رابطہ رکھنا

 

میں یہ تسلیم کرتا ہوں

مُجھے اُلفت کے رستے پر

وفا کی حق پرستی پر

بڑا ہی ناز ہے جاناں

میں جِتنے خواب بُنتا ہوں

میں جِتنے لفظ لِکھتا ہوں

مِری تحریر میں شامل

مِرے جذبوں کی عکاسی

میری خُود آگہی ہر پل

مُجھے یوں درس دیتی ہے

اگر تُم ہار بھی جاؤ

تو اِتنا حوصلہ رکھنا

وفا سے رابطہ رکھنا

مُحبت کے سفر میں تو

وفا ہی شرطِ اول ہے

وفا ہی حرفِ آخر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نوید ملک

(اسلام آباد)

 

انا

 

انا کے جنگلوں میں حبس بڑھنے سے

بہت سی قربتوں کا خون ہوتا ہے

بہت سی چاہتوں کا دم بھی گھٹتا ہے

کسی کی آنکھ میں آنسو

جنم لے کر

بلک پر سولی چڑھ کے مر بھی سکتے ہیں

٭٭٭

 

پیامِ صبح

 

صبح ہوتے ہی اجالوں نے تکلف سے مرے

جسم پر ہاتھ رکھا اور کہا یہ مجھ سے

زندگی تم کو کسی روپ میں ملنے کے لیے

رات بھر سجتی رہی

گھر کی دہلیز سے جب تم نے اٹھانا ہو قدم

دیکھ لینا کہ تفکر کے دریچے ہوں کھلے

ہر قدم پر تمہیں دنیا کوئی

اپنی جانب بھی بلائے گی، نظر آئے گی

٭٭٭

 

 

 

 

انیس انصاری

(جھنگ)

 

ہم کہاں ہیں،ہجومِ حشر میں ہیں

یا کسی اجتماعی قبر میں ہیں

 

جیسے جنگل میں شیر اور ہرن

ہم بھی اس کارزارِ عصر میں ہیں

 

ساری دنیا ہے گوانتانامو

جب تلک ہم گرفتِ نصر میں ہیں

 

بے گناہی کوئی جواز نہیں

سب ہی مجرم جہانِ جبر میں ہیں

 

حبس کا زور ٹوٹنے کو ہے

بارشوں کے سندیسے ابر میں ہیں

 

ان کو لاؤ سیاہ گھر کی طرف

جو فروکش سفید قصر میں ہیں

 

شور اٹھا محل سے جانِ انیس!

موج مارو، عوام صبر میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

دوسرے کی بھی کچھ سنو ہو تم

یا فقط اپنی ہی کہو ہو تم

 

کس کی آنکھوں میں ہے قیام،کہو

کون سے دل میں اب رہو ہو تم

 

رہ دکھاتے ہو رہروؤں کو یا

دو قدم ساتھ بھی چلو ہو تم

 

کیا غضب ہے کہ سچ بھی بولو ہو

پھر بھی انجام سے ڈرو ہو تم

 

توبہ توبہ،انیسِ جاں توبہ!

کیسا انصاف یہ کرو ہو تم

٭٭٭

 

 

 

 

 

خالد جاوید

( رحیم یار خان)

 

 

اَنا کا خوف تھا لیکن ا’سے سنبھلنا تھا

کہ دل کے شہر سے طوفان تو گزرنا تھا

 

وفا کے بدلے جفا کا خطر تو ملنا تھا

وہ موم کب تھا کہ جس نے کبھی پگھلنا تھا

 

وہ کب بدلتا ہے یہ دیکھنے کو ساتھ تھا میں

مجھے خبر تھی اُسے راستہ بدلنا تھا

 

یہ آرزو تھی اُُسے ٹوٹنے نہ دیں گے مگر

وہ پھول تھا سو اسے شاخ سے تو گرنا تھا

 

تُو ساتھ ہوتا تو رستہ نکال بھی لیتے

کہ تیرے بعد کہاں راستہ نکلنا تھا

 

وہ جان بوجھ کر ٹھہرا تھا راہ میں خالد

وہ جانتا تھا اُسے ساتھ ساتھ چلنا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

اُس سے میری آشنائی تب بھی تشنہ کا تھی

زندگی کی ہر خوشی جب صرف دوہی گام تھی

 

ٹہنیوں پہ پھول کی خوشبو برائے نام تھی

بے رخی کی یہ روش تو ہر جگہ ہی عام تھی

 

کیسے بجھ پاتی وفا کی کربلا میں پیاس پھر

اُس طرف کے پانیوں میں بے وفائی عام تھی

 

سرد شب تھی اُس کی یادیں اوڑھ کر میں سو گیا

نیند بھی مجھ کو سلانے میں ہوئی ناکام تھی

 

آج پھر بدنام ہے خالدؔ تمنا پیار کی

عہدِ رفتہ میں بھی چاہت موردِ الزام تھی

٭٭٭

 

 

 

 

مرزا فیصل

( رحیم یار خان)

٭

رات کو دن بنا کے دم لوں گا

اپنا سکہ جما کے دم لوں گا

 

وہ رُلا کر چلا گیا ہے مجھے

میں بھی دریا بہا کے دم لوں گا

 

جل رہا ہوں تیری تمنا میں

چاند تارے بجھا کے دم لوں گا

 

تو نے کیسے بُھلا دیا مجھ کو

میں بھی تجھ کو بُھلا کے دم لوں گا

 

پاؤں کے آبلوں سے مت گھبرا

میں نے تجھ سے کہا کے دم لوں گا

 

تھک گیا ہوں غمِ فریب حیات

جانے کب مسکرا کے دم لوں گا

 

راہ جتنی بھی کٹھن ہو فیصلؔ

تیرے پہلو میں آ کے دم لوں گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

غلام شبیر اسد

(جھنگ)

 

فقط عرقِ میسر کی کتھا ہوں

مرادِ دل سے ہٹ کر سوچتا ہوں

 

تمناؤں کی بجھتی سرحدوں پر

ضمیرِ وقت کا روشن دیا ہوں

 

یقیں،یعنی گماں ہے زندگی یہ

عطا تیری کو اکثر تولتا ہوں

 

یہ درد و غم مری نشوونما تھے

برائے نام ہی روتا رہا ہوں

 

فرازِ دار پر پہنچا تو جانا

کسی معراج کا اک راستہ ہوں

 

اسد کچے مکاں کی جستجو میں

بہت سے شہر اب تک ڈھا چکا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

خالد محمود ذکی

( رحیم یار خاں )

دکھ

 

 

میں کوئی راز بھی نہیں تھا کبھی

تم نے کب دیکھنا مجھے چاہا

کاش ملتی تمہیں یہ فرصت بھی

یا ضرورت نہیں تھی اس کی تمہیں

تم نے اس روز بھی نہیں دیکھا

جب نکل کر میں اپنے اندر سے

اپنی آنکھوں میں آن ٹھہرا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر فخرعباس

( لاہور)

 

گھر سے تمہاری دی ہوئی چیزیں نکال دیں

جیسے خود اپنے جسم سے سانسیں نکال دیں

 

حیرت ہے اس نے قید بھی خود ہی کیا مجھے

پھر خود مرے فرار کی راہیں نکال دیں

 

دیکھا بس اک دفعہ اسے میں نے قریب سے

پھر اہلِ شہر نے مری آنکھیں نکال دیں

 

کچھ اس نے بھی سہیلیوں کے منہ سے سن لیا

کچھ میرے دوستوں نے بھی باتیں نکال دیں

 

اک پل میں ختم ہو گئی عمرِ طویل بھی

جب زندگی سے ہجر کی راتیں نکال دیں

 

میں اک مقام ضبط سے آگے نہ جا سکا

اک شب غمِ فراق نے چیخیں نکال دیں

 

جانے وہ کس کے واسطے لکھی گئیں اے دوست

میں نے مسوّدے سے جو نظمیں نکال دیں

٭٭٭

 

 

 

 

ارشد خالد

 

فقیر کا کاسہ

٭

میں نے دیکھا تھا خواب سا شاید

ایک بابا فقیر۔ ۔ ۔ اورکاسہ

ساری دنیا سمیٹ کر اس نے

خالی کاسے میں ڈال رکھی تھی

٭٭٭

 

 

 

اختتام

 

شور نے اپنی حد سے بڑھ کر

خاموشی کو مار دیا ہے

میں نے جیون

ہار دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

بے نیازی

 

تیری اداؤں کا شاخسانہ

خزاں رتوں میں بلا کے ہم کو

بہار موسم میں روٹھ جانا

٭٭٭

 

 

 

خزاں

 

دل نگری کے سارے بوٹے

اک اک کر کے

سوکھ گئے ہیں

پیار آنگن میں بسنے والے

سارے اپنے روٹھ گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

قسمت

 

کیا کرتے ہم

ہاتھ کھلے جب، تب دیکھا تھا

بند مٹھی میں جگنو جیسی ریکھائیں دَم توڑ چکی تھیں

سب خوشیاں منہ موڑ چکی تھیں

٭٭٭

 

 

 

ماضی

 

 

ہاتھ نہ رکھ تو دکھتی رگ پر

ناچ اٹھے گی تیری پائل

اور میں ترا ازلی گھائل۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر سے بے کل ہو جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

ایوب خاور

(لاہور)

 

پہلی رات

 

اے بے چاند فراقی رات

رگوں میں ٹھہرے سنّاٹے پر

کالی، گاڑھی دلدل کی صورت آخر کیوں جمی ہوئی ہو!

نیند،دریچوں، دروازوں سے باہر

بے کل کھڑی ہوئی ہے

وقت کی کائی بستر کی ہر اک سلوٹ میں پھنسی ہوئی ہے

اُس کے حصے کے تکئے پر

چھپکلی گِر کر مری پڑی ہے

کمرے کی دیواریں، سانسیں روک کے

ساکت کھڑی ہوئی ہیں

فون کے مانیٹر پر پچھلے دن کے بے بس لمحوں کی

اک گہری چپ کھدی ہوئی ہے

میں اپنے پنجر سے باہر

زینے کی ریلنگ سے لگ کر کھڑا ہوا ہوں

میرے جسم کی ہڈی ہڈی کھڑک رہی ہے،

جس کی تال پہ

رات کی آہٹ میری روح کو دُھنک رہی ہے

سانس کا آرا

خواب شجر کوکاٹ رہا ہے

دریا پتھر چاٹ رہا ہے

٭٭٭

 

 

ایوب خاور

رات کی جوگن

 

خوشبو دار ہَوا کی تال پہ ناچ رہی ہے

ناچتے ناچتے صبح کے ماتھے پر وہ دستک دیتی ہے

فون کی گھنٹی بجتی ہے

میں اپنے پنجر میں واپس آ کر فون اٹھاتا ہوں

اِک آواز

جانی پہچانی آواز

جیسے صدیوں کی خاموشی

میرے کان میں جلدی سے انڈیل کے

چپ ہو جاتی ہے

فون کی گہری ٹھنڈی چپ پھر

جانے کب تک

دل میں گھم گھم کرتی ہے

گھم گھم کرتی جاتی ہے

 

سورج رات کی کالک پھانک کے آخر یوں ڈکراتا ہے

جیسے کوئی سچ کا بھوکا

جانتے بوجھتے جھوٹ کی کائی کھا جاتا ہے

٭٭٭

 

 

ایوب خاور

 

دوسری رات

[دو بحروں میں ایک نظم]

 

رات کی گدڑی میں لپٹا ہوا دن

میرے کشکول میں ہے

میرے کشکول میں

اِس سہمے ہوئے دن کا ہر اک لمحۂ خام

کھوٹے سکّے کی طرح

ایک دوجے سے مری

آتی جاتی ہوئی ہر سانس کے مانند

الجھتا ہے، سسکتا ہے

مگر حرف نہیں بن پاتا

ایک بے حرف سا دن

جس کے پہلو میں کوئی چاند، ستارہ، نہ چکور

رات کی گدڑی کے ہر بخئے سے

چاند کی دُھول اُڑی جاتی ہے

چاند کی دھول میں الجھا ہوا ہر تارۂ شام

ریزۂ ریگ کے مانند سرچشمِ ملال

اشکِ نا پختہ کے مانند رِڑکتا ہے مگر

حرف ِ اظہار نہیں بن پاتا

رات کی گدڑی میں

کچھ سوکھی ہوئی نیند کے ٹکڑے ہیں

اندھیرے کی کثافت ہے

بہت ٹھنڈک ہے

ہے کوئی بندۂ خاص!

جو اوڑھا دے مجھے اس رات کی گدڑی کا سراب

مجھے کوئی اوڑھا دے

رات کی گدڑی

میں تجھ سے دور… اِس بستر سے باہر

بے یقینی سے پرے

وعدے کی کھڑکی میں دھری اک جھوٹی سچائی

کے ریزوں سے پرے

اپنی اَنا کی کرچیوں پر

پیٹھ کے بل

سر کے نیچے چاند کی ٹوٹی کلائی رکھ کے سونا چاہتا ہوں

ہاں … مگر… اے دل

مرے بے بس… غریب ِ شہرِ ناپُرساں !

یہاں کوئی نہیں ایسا…

چل اب سوجا

نظر کشکول سے اس رات کی گدڑی کو خود بڑھ کر اٹھا

اور اوڑھ کر سوجا…

مگر یہ کیا!

مرے کشکول میں سِمٹی ہوئی یہ رات کی گدڑی تو

اب تک گاڑھے

نیلے چھلنی چھلنی آسماں کی اوس

میں گل گل کے آنسو بن چکی ہے !

کیا کروں

اب کیا کروں اے دل، مرے بے بس،غریب ِشہر!

یوں کر

اب کسی اُدھڑی ہوئی دھڑکن سے پوچھ اور فیصلہ کر

رات کو پی پی کے جینا ہے

کہ روکھی روح کو پھر راکھ کر کے

صبح کے چہرے پر ملنا ہے !

٭٭٭

 

 

 

ایوب خاور

 

تیسری رات

 

مری راکھ اڑ رہی ہے

مرے اپنے دشت ِ جاں میں مری راکھ اُڑ رہی ہے

مری ہڈیوں کا سرمہ

مرے دل کی سرخ مٹی

مری روح کا اندھیرا

مری چشمِ خشک تر میں وہ جو عکس منعکس تھے

وہ جو عکس منعکس تھے

وہ بھی ریزہ ریزہ ہو کر

مری راکھ کے بگولوں کی مثال ہو رہے ہیں

خس و خاک کی طرح سے

خس و خاک ہو رہے ہیں

ترے عشقِ دل شکن میں

مری جان اِن دنوں کچھ یہ کمال ہو رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایوب خاور

 

چوتھی رات

 

کوئی تو چیز کچھ دن کے لیے

اپنی جگہ پر ہو

ابھی اِک زلزلہ تھمتا نہیں

چیزیں ذرا اپنی جگہ پر آ نہیں پاتیں

کہ پھر اِک زلزلہ آتا ہے، ہر وہ چیز

جو اپنی جگہ محتاط ہو کر میں نفاست سے

کہیں رکھتا ہوں، اوندھی ہو کے گر پڑتی ہے،

بال آ جاتا ہے شیشے کے لمحوں میں۔

کرسٹل جیسے لمحے

چاند کی تھالی سے گر کر

رات کی نیلاہٹوں میں اس طرح سے

ریزہ ریزہ ہوکے گھلتے ہیں کہ آنکھیں

ضبط کی شدت سے پھٹ پڑتی ہیں، ہونٹوں

کے کناروں سے نئے آنسو چھلکتے ہیں، نظر آئینے

میں رکھا ہوا ہر عکس الٹ جاتا ہے، سینے

کے درو دیوار بنیادوں سے ہٹ جاتے ہیں

اور کم بخت یہ دل، یہ دلِ غم زاد،چاروں شانے

چِت ہو کر کئی ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے،

خواب و آب کا ساحل، سونامی کی ہلاکت خیز

موجوں کی غضب ناکی سے اَٹ جاتا ہے، جب

بھی جانِ جاں تیری کتاب ِ زندگی کا کوئی تازہ

باب کُھلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شہناز نبی

(کولکاتا)

 

خوابوں کا تماشہ جو ہے منظور تو آؤ

آنکھوں میں نیا خوف ہے مستور تو آؤ

 

ہم کو تو فقط جہدِ عمل پر ہے بھروسہ

تم اپنے نصیبوں پہ ہو مغرور تو آؤ

 

میں نے تو ابھی دار پہ رکھی نہیں گردن

تم میری شہادت پہ ہو مامور تو آؤ

 

سب سے یہی کہتا ہے یہ صحرائے لق و دق

معلوم ہے گر عشق کا دستور تو آؤ

 

اس شہر میں اوچھوں کو ملا کرتی ہے شہرت

پھرتے ہو کہیں تم بھی جو مقہور تو آؤ

 

اس آئینہ خانے میں تو ہر شخص ہے عریاں

ملنے پہ اگر خود سے ہو مجبور تو آؤ

 

ہم جیسوں میں اک لمعہ بغاوت ہے ابھی تک

جینے کا نہیں ہے کوئی مقدور تو آؤ

٭٭٭

 

 

 

 

وفائیں اتنی کہ جتنی سنبھال پاؤں میں

بلا جھجھک اسے دل سے نکال پاؤں میں

 

پرکھ سکے تو پرکھ لے کدورتوں سے مجھے

تری نگاہ پڑے تو جمال پاؤں میں

 

دیا ہے دل تو اسے وسعتوں سے ناپ ذرا

وہ عشق ہو کہ اسے لازوال پاؤں میں

 

جسے بھی دیکھو مگن ہے وہ زیر دستی میں

سوالِ حق پہ کسے ہم خیال پاؤں میں

 

جواب کتنے مچاتے ہیں شور سینے میں

کسی بھی آنکھ میں لیکن سوال پاؤں میں

 

یہ کم نہیں کہ کئی شیشے جھنجھنا کے گریں

فضا میں ایک ہی پتھر اچھال پاؤں میں

 

رکھے تو کوئی یاں زخموں پہ ہاتھ نرمی سے

شبِ ستم میں کسے خوش خصال پاؤں میں

 

کوئی بھی دل سے ترا غم بھلا سکے نہ کبھی

دعا یہ ہے کہ تجھے بے مثال پاؤں میں

 

لکھے ہیں جس کے لئے اس نے ’واہ ‘کی تو بہت

جہانِ شعر میں اتنا کمال پاؤں میں

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ میں مری تلاش بہانہ ہوا اسے

خود کو بھلائے ایک زمانہ ہوا اسے

 

ہم نے تو پہلی چوٹ سے دل کو بچا لیا

باتوں میں آ گیا جو نشانہ ہوا اسے

 

گم گشتگی میں چہرے ملے کیا نئے نئے

ہر تازہ واقعہ بھی فسانہ ہوا اسے

 

لوگوں سے مل کے بھی کہاں ویرانیاں گئیں

پھر اندرونِ ذات ٹھکانہ ہوا اسے

 

فرزانگی کے زعم میں دنیا غلط لگی

ہر باشعور جیسے دوانہ ہوا اسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گھنے جنگلوں کی دہائی نہ دے

کہ اب شور کوئی سنائی نہ دے

 

وہ بنیادِ شہرِ ستم رکھ گیا

اسے اپنے غم تک رسائی نہ دے

 

لہو سے چراغاں شبِ امتحاں

جنوں کو یوں وحشت سرائی نہ دے

 

ہر اک سے طلب سجدہ ہائے رضا

خداؤں کو ایسی خدائی نہ دے

 

خطِ امتیازِ وفا ہے یہی

سنائی تو دے وہ دکھائی نہ دے

 

کوئی ساحلِ موجِ امکاں نہیں

کہیں نقشِ پا تک دکھائی نہ دے

 

کھلے آسمانوں میں کھونے کا ڈر

قفس آشنا کو رہائی نہ دے

 

جسے آسماں کی تمنا نہیں

اسے بال و پر کی سنائی نہ دے

 

ابھی ہجرتوں کا رکھا ہے بھرم

ابھی گریۂ بے ردائی نہ دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب ہجر اور وصال کے سب ذائقے گئے

اس شہرِ دل سے جیسے سبھی واقعے گئے

 

اب تو سپاسِ جاں کی کوئی قدر ہی نہیں

کیوں رشتۂ جنوں کے جو تھے لاحقے گئے

 

پھر خود کو اجنبی سے لگے اس دیار میں

پھر غم شناسیوں سے جڑے واسطے گئے

 

پتھر پسیجے اب تو زمانہ گذر گیا

دل پر سے جانے کتنے نئے سانحے گئے

 

برسوں کی یہ تھکن تو نشہ بن گئی مجھے

بانگِ درا کے ساتھ کئی قافلے گئے

 

کس کے سہارے کیف سے گذرے گی زندگی

اب تو خیال و خواب کے بھی سلسلے گئے

 

جب مستعد ہوئے ہیں پئے امتحانِ جاں

ان کا پیام آیا کہ سب مرحلے گئے

 

جینے کا شوق ہے نہ تو مرنے کا ہے جنوں

دنیا کو جیت لینے کے سب حوصلے گئے

٭٭٭

 

 

 

پابستہ آرزوؤں میں آزادیاں کئی

ہم نے قفس میں رکھی ہیں بر نائیاں کئی

 

طوفاں گذر گیا تو نہ سمجھو کہ بات ختم

خاموشیوں کے بعد ہیں خاموشیاں کئی

 

کب رہ روانِ شوق سے مٹتی ہیں خلوتیں

گھر سے چلے تو ساتھ تھیں تنہائیاں کئی

 

منزل سے اجتناب اگر ہے تو اس لئے

لاتی رہی ہیں راہ پہ گمراہیاں کئی

 

تیرہ نوازیوں میں بھی ہے منفرد سا وہ

تاریکیوں میں بھی رکھیں پرچھائیاں کئی

 

کھل کر کسی سے مل نہیں پانے کی ہے وجہ

ہر تازہ تجربے میں ہیں بے زاریاں کئی

 

ہر رت جگے میں نیند کا غلبہ چھپا رہا

ہر خواب کے سرور میں بیداریاں کئی

٭٭٭

 

 

 

 

جس دن سے مرے خوابوں کی تعبیر الگ ہے

اس دن سے فلک پر مری تحریر الگ ہے

 

ہم جیسوں کے دامن کو ترا لمس میسر

اب کے اے رفو گر خطِ تقدیر الگ ہے

 

ہر شخص کہاں رقصِ جنوں کا متحمل

دیوانوں کے مانند یاں زنجیر الگ ہے

 

ہم پر تو ہے آزادی کی خواہش ہی کوئی جرم

دیواروں سے ٹکرانے کی تقصیر الگ ہے

 

خاموش کھڑے ہیں تری محفل میں ازل سے

کہتے ہیں کہ اس چپ کی بھی توقیر الگ ہے

 

آخر کوئی روشن تو کرے یہ شبِ دیجور

پھر اپنے ثوابت کی بھی تعمیر الگ ہے

 

اک زہر تھا جس کو کبھی ہونٹوں سے لگایا

اب جا کے بنا عشق تو تاثیر الگ ہے

 

ہم جیسے دوانوں کو کہاں دشتِ محبت

وحشت کے فزوں ہونے کی تدبیر الگ ہے

٭٭٭

 

 

 

ہاتھوں سے رکھ دیا ہے ولیکن اچھال کے

ظالم نے دل پہ چوٹ لگائی سنبھال کے

 

آنکھوں سے پھر ہوائے تمنّا نکل گئی

رکھے ہیں اشک آج بھی لیکن ملال کے

 

اب تو کسی بھی رنگ سے وحشت ہوئی عجب

وہ دن گئے کہ چھائے تھے بادل گلال کے

 

کیا جانے کب وہ ہجر کے صدمے میں ڈھل گیا

دیکھے تھے ہم نے خواب کبھی جس وصال کے

 

مجھ کو کسی جواب کی خواہش نہیں رہی

چہرے پہ نقش کرب نشانِ سوال کے

 

عادت بدل رہی ہے پرندوں کی ان دنوں

یا پر فریب ہو گئے پھندے ہی جال کے

٭٭٭

 

 

 

 

زیرِ ادبار کئی تازہ ستم ہیں اب بھی

اور یاں طبل و علم، لوح و قلم ہیں اب بھی

 

کئی مفروضے بنائے تھے زمانے کے لئے

ورنہ یہ سچ ہے کہ بادیدۂ نم ہیں اب بھی

 

یاں تو دنیائیں پلٹ جاتی ہیں اک پل میں مگر

ان کو کیا علم کہ وہ ریزۂ جم ہیں اب بھی

 

پھر کسی برگِ حنا پر کئی تازہ قطرے

تھک چکے ہیں مگر وارفتۂ رم ہیں اب بھی

 

کسرِ نفسی نے کبھی تجھ سے مقابل نہ کیا

جب ملے ایسا لگا پہلے سے کم ہیں اب بھی

 

تجھ سے ملنے کی تڑپ نے ہمیں موجود کیا

اور اب جا کے کھلا ہے کہ عدم ہیں اب بھی

٭٭٭

 

 

 

 

اب کے سفر میں اتنے لاچار ہو گئے ہیں

اپنی تھکن کو خود ہی دیوار ہو گئے ہیں

جب سے کسی نے یہ دل تنہائیوں کو سونپا

کچھ لوگ بے ضرورت غم خوار ہو گئے ہیں

 

صحرا کو چھانٔیے کیوں، سیرِ چمن سے حاصل

ہم اپنے واسطے جب آزار ہو گئے ہیں

 

اندر کی چپقلش نے گھبرا دیا ہے ہم کو

کیوں جسم و جاں میں وجہہِ تکرار ہو گئے ہیں

 

بہتی ہیں کتنی ندیاں اپنی نواحِ جاں میں

اور ان کو لگ رہا ہے کہسار ہو گئے ہیں

 

تھے ہجرتوں میں جب تک پوچھا نہیں کسی نے

اب تو عدو بھی اپنے انصار ہو گئے ہیں

 

ہم نے تو آنسوؤں کو لفظوں میں تھا پرویا

فہمیدۂ سخن کو اشعار ہو گئے ہیں

 

سونی پڑی ہیں تب سے مقتل کی سر زمینیں

جانباز جب سے وقفِ دربار ہو گئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

دل کو دل میں اتار لینا تھا

عشق ہم سے ادھار لینا تھا

 

روز کی گردشیں تھکا دیں گی

ایک دو دن قرار لینا تھا

 

اپنے ہی بوجھ سے پریشاں ہوں

دوسروں کا بھی بار لینا تھا

 

دشت بے خار ہوتے جاتے ہیں

آبلوں کا شمار لینا تھا

 

جتنی وسعت، اداسیاں اتنی

چاہتوں میں حصار لینا تھا

 

جانے کب تک سوال پوچھے گا

دل کو چپکے سے مار لینا تھا

 

اب پلٹنے میں بھی پشیمانی

راستوں کو بچار لینا تھا

 

لوگ شک کرتے ہیں مسافت پر

منزلوں کا غبار لینا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

خلا ہی خلا ہے جدھر دیکھتی ہوں

میں دنیا کو پھر بھی بہت سوچتی ہوں

 

تصور کا سارا تماشہ ہے ورنہ

ترے سامنے میں کہاں بولتی ہوں

 

جسے عید کا چاند ہو گا تو ہو گا

میں ہر چاند میں تجھ کو ہی دیکھتی ہوں

 

تمنائیں کب کی ہوئیں خاک لیکن

شراروں کو میں آج بھی جوڑتی ہوں

 

چلا جائے مجھ سے نکل کر یہ تجھ میں

مگر اپنے دل کو بہت روکتی ہوں

 

مرے آنسوؤں نے مرے خواب سینچے

میں حسرت میں تعبیر کو رولتی ہوں

 

یہ دہشت اجالوں نے بوئی ہے مجھ میں

اندھیروں سے ڈر کر اگر چیختی ہوں

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جن سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید