FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

( ۲۰) محرم نمبر

حصہ اول

 

مرتبین

ارشد خالد

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل

 

 

 

رابطہ کے لئے

عکاس انٹرنیشنل

مکان نمبر 1164سٹریٹ نمبر2 بلاک سی

نیشنل پولیس فاؤنڈیشن،لوہی بھیر اسلام آباد

Cell No. 0333 5515412 0300 5114739

E mail

akkasurdu2@gmail.com

Cell No 0333 5515412 0300 5114739

 

 

 

 

انتساب

 

مرحومین

امین خیال ( گوجرانوالا)

زوار خادم حسین ( سرگودھا)

کے نام!

 

پڑھ اللہ ھو سائیں !

لا سے نہیں ہوں میں

ہے تو ہی تو سائیں !

(امین خیال)

 

 

 

 

اپنی بات

 

عکاس انٹرنیشنل کا محرم نمبر پیش خدمت ہے۔

اس سے پہلے جس انداز کے محرم الحرام کے گوشے یا نمبر شائع کیے جا چکے ہیں، عکاس کایہ نمبر بھی اسی انداز کا ہے۔

امید ہے قارئین اس کے جملہ مندرجات کو پسند کریں گے۔

عکاس کا اگلا شمارہ معمول کے مطابق ہو گا۔ اپنی نگارشات بھیجتے رہیں۔

مفید مشوروں سے نوازتے رہیں۔

نیک تمناؤں کے ساتھ

ارشد خالد

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

 

 

 

اُردو مرثیے کا ارتقائی سفر

 

               ڈاکٹر اختر ہاشمی

(کراچی)

 

انسانی جذبات و احساسات کے بیان کا سب سے بہترین وسیلہ شاعری ہے۔ شاعر کے جذبات و احساسات کی ترجمانی شاعری سے بہتر کسی دوسری صنفِ سخن میں نہیں ہو سکتی۔ اہلِ علم و ادب اور ماہرینِ لسانیات کا کہنا ہے :’’ شاعری انسان کے جذبات و احساسات کی نہ صرف ترجمانی کرتی ہے، بلکہ ان کی بھرپور عکاسی بھی کرتی ہے۔ ‘‘

حمد و نعت و منقبت و سلام و نوحہ و مرثیہ میں جذبات و احساسات کا ایک ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دیتا ہے۔ ہر شاعر اپنے دلی احساسات کو باآسانی الفا ظ کا روپ دے کر قارئین و سامعین کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ دیگر اصنافِ سخن میں تو یہ جذباتی رویے یکساں نظر آتے ہیں، مگر نوحہ اور مرثیے جیسی صنفِ سخن میں جذبات و احساسات فکری طہارت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ کیوں کہ مرثیہ ایک مرکب صنفِ سخن ہونے کے باعث اپنے اندر بے شمار صفات رکھتی ہے۔ مرثیے کو مرکب اس لیے کہا جا رہا ہے کہ اس میں تمام اصنافِ نظم کے جوہر شامل ہیں۔ اس میں وہی مرثیہ نگار کام یاب ہو گا، جسے تمام اصنافِ نظم پر دسترس ہو گی اور وہ تمام اصنافِ نظم کے بارے میں مکمل معلومات و آگہی رکھتا ہو گا۔ مرثیے میں تعریفِ ربانی بھی ہوتی ہے اور توصیف ِمحبوبِ ربانی بھی، اس میں بزرگانِ دین کے اذکار بھی آ سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا ذکر بھی۔ اس میں اسلام کی نام ور ہستیوں کو خراجِ عقیدت و خراجِ تحسین پیش کر کے سلام کی شکل بھی دی جا سکتی ہے اور غم و رنج و الم اور آفات و مصائب کا ذکر کر کے نوحہ بھی کہا جا سکتا ہے اور اپنے عزیز و اقارب اور جان سے پیاری معتبر ہستیوں کے اوصافِ حمیدہ کو بیان کر کے اور ان پر ہونے والے ظلم و ستم کا پرچار کر کے مرثیہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے مرثیہ کو مرکب صنفِ سخن کا درجہ حاصل ہے کہ اس میں تمام اصنافِ سخن کے جوہر تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

کسی زمانے میں یہ مشہورِ عام ہو گیا تھا :’’ بگڑا شاعر مرثیہ گو۔ ‘‘

مگر میر انیس اور مرزاسلامت علی دبیر نے مرثیے کے گلے سے یہ طوق اُتار پھینکا اور ثابت کر دیا کہ مرثیہ کہنا بگڑے شاعر کا کام نہیں ہے اور نہ مرثیہ گوئی کارِ طفلاں ہے،بلکہ مرثیہ وہی شاعر کہہ سکتا ہے جو تمام اصنافِ شعری کا عالم اور ان پر دسترس رکھنے والا ہو گا۔ آج غالب ؔکا نام دنیائے شعر و ادب میں غالب نظر آتا ہے، مگر ان کی تمام شاعری کو دیکھ جائیے، اس میں مرثیہ نگاری نظر نہیں آئے گی۔ غالبؔ غزل گو شاعر تھا اور مرثیہ کہنے کے لیے تمام اصنافِ شعری کا عالم اور ان پر دسترس ہونا ضروری ہے۔

اُردو مرثیے کی تاریخ اتنی ہی طویل ہے جتنی کہ اُردو شاعری کی تاریخ، اگر اُردو مرثیے کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اُردو مرثیہ ہیئت اور موضوع کے لحاظ سے ارتقا پذیر رہا ہے اور آج بھی ارتقائی منازل طے کر رہا ہے۔ آئیے اُردو مرثیے کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیتے ہیں۔

مرثیہ عربی لفظ رِثا سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی میت پر رونے کے ہیں۔ مرثیہ عربی زبان میں اس نظم کو کہتے ہیں جو کسی مرنے والے کی یاد میں کہی جائے۔ قدیم عرب میں رسم تھی کہ میت پر عورتوں کے نوحہ کرنے کے بعد میت کے خاندان کا کوئی فرد جس میں شاعرانہ اہلیت موجود ہوتی تھی، مرنے والے کی خوبیاں خاص طور پر شجاعت، مہمان نوازی، غربا پروری، خود داری، اخلاق و کردار، عادات و اطوار، چال و گفتار، جینے کے رنگ ڈھنگ، بول چال، رہن سہن کے طریقے اور اس کے رسم و رواج کے ساتھ ساتھ اس کی تہذیب و ثقافت بھی بیان کی جاتی تھی۔

اُردو ادب کی اصطلاح میں ’’مرثیہ‘‘ وہ صنفِ سخن ہے جس میں سید الشہداء حضرت امامِ عالی مقام،حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقائے کار کے سفرِ کربلا، شجاعت اور اسلام پر جاں نثاری اور شہادت کا بیان موزوں کیا جائے۔

’’مرثیہ کی دنیا میں سب سے پہلی تصنیف حضرت آدم علیہ السلام کے وہ اشعار بتائے جاتے ہیں جو انہوں نے اپنے فرزند ہابیل کی ہلاکت پر کہے تھے۔ ‘‘

(ڈاکٹر صفدر حسین، مرثیہ بعدِ انیس، ص نمبر11، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور 1971ء)

ڈاکٹر صفدر حسین کے مطابق اُردو دنیائے شعر و ادب کا سب سے پہلا مرثیہ حضرت آدم علیہ السلام کے وہ اشعار ٹھہرتے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے ہابیل کی شہادت پہ کہے تھے۔ لہٰذا ڈاکٹر صفدر حسین کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام دنیا کے سب سے پہلے شاعرو مرثیہ نگار ثابت ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شارب ردولوی لکھتے ہیں :

’’مرثیوں کی عظمت کا سبب مذہب و عقائد ہیں اور نہ ان عالمی ادب کے عظیم رزمیوں کی عظمت کا سبب ان کے لکھنے والوں کے عقائد تھے۔ عظمت ان واقعات کی انسانی قدروں میں ہے۔ ان واقعات کو اپنے تخلیقی عمل میں ڈھالنے اور اظہار کے ان طریقوں میں ہے اور ان سب چیزوں نے مل کر اسے عالمی کلاسیک یا کسی ادب کی عظیم تخلیق کا درجہ دیا ہے۔ ‘‘

(اُردو مرثیہ مرتب، ڈاکٹر شارب ردولوی، دہلی اُردو اکادمی، اشاعت 1991ء،ص نمبر 19)

عرب کی شاعری میں بھی مرثیے کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔

علامہ شبلی نعمانی نے ثابت کیا ہے :

’’عرب میں چوں کہ شاعری کی ابتدا اظہارِ جذبات سے ہوئی تھی اس لیے سب سے پہلے شاعری کی ابتداء مرثیہ سے ہوئی جو سب سے قوی تر جذبے کا اثر ہے۔ ‘‘

(علامہ شبلی نعمانی، موازنۂ انیس و دبیر، نئی دہلی، ادارۂ بزمِ خضرِ راہ 2002ء، ص نمبر 23)

عرب شعرا نے مرثیے کے لیے قصیدے کی ہیئت اختیار کی تھی۔ فرق صرف اتنا رکھا گیا تھا کہ قصیدہ کسی زندہ فرد کی تعریف و توصیف سے متعلق ہے، جب کہ مرثیے میں کسی مرنے والے کے محاسن اور کوائف رقم کیے جاتے ہیں۔ عربوں نے زیادہ تر شخصی مرثیوں کو موزوں کیا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ مراثی جو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی وفات پر کہے گئے،ان میں اجتماعیت کا رنگ غالب ہے۔

عربوں کے بعد ایرانی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو مرثیے کی اسی روایت کا تسلسل ہمیں ایرانی شاعری میں نظر آتا ہے۔ ایران کے نام ور شعراء نے کربلا کو حق و باطل کے تصادم کا استعارہ بنا کر پورے رمز و ایمائیت کے ساتھ مرثیے کی صورت عطا کی ہے۔ مثنوی مولانا روم ہو، یا خاقانی اور حکیم ثنائی کی شاعری، ہر ایک میں کربلا کا موضوع اپنی مختلف معنوی اور علامتی شکلوں کے ساتھ رقم ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سے یہ روایت سرزمینِ ہندوستان پر اپنے نقش گہرے کرتی چلی گئی ہے۔ اگرچہ اُردو مراثی میں فارسی اور عربی کی تقلید کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن مرثیہ نگاری کا جو انداز اُردو میں اپنایا گیا ہے، اس کی مثال ان زبانوں میں تو کیا، کسی بھی زبان میں ملنا مشکل ہے۔

اس سلسلے میں امداد امام اثر رقم طراز ہیں :

’’مرثیہ نگاری جیسی اس وقت اُردو میں موجود ہے، کسی زبان میں نہیں پائی جاتی، ہر چند اُردو فارسی کی خوشہ چین کہی جاتی ہے، مگر اس صنفِ شاعری میں بہت زیادہ ترقی کر گئی ہے۔ یہ حالت ہے کہ فارسی کی شاعری کا تو کیا ذکر، اس مرثیہ نگاری کی بدولت اُردو کی شاعری اہلِ یونان، اہلِ روم، اہلِ ہند، اہلِ انگلستان کی شاعریوں کا سامنا کرنے کو مستعد نظر آتی ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی مذکورہ بالا بیان سے متفق ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ہماری شاعری کی اصطلاح میں مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جو شہدائے کربلا اور ان کے واقعات و تاثرات کے ذکر و افکار پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان خاص معنوں میں مرثیہ کسی اور زبان میں نہیں پایا جاتا، حتیٰ کہ عربی اور فارسی شاعری کی تاریخ بھی مرثیے کے اس اصطلاحی مفہوم سے نا آشنا ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں جسے مرثیہ کہتے ہیں، وہ صرف اُردو والوں کی ایجاد ہے۔ ‘‘

اب تک کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہندوستان میں مرثیے کا آغاز دکن سے ہوا۔ دکن سے اُردو شاعری نے دلی کا رخ کیا۔ صنفِ مرثیہ کی ابتدا کاسہرا شعرائے دکن کے سر بندھتا ہے۔ جب اورنگ زیب عالم گیر نے دکن فتح کیا تو دکنی مرثیے مغل سپاہیوں کی زبان پر چڑھے ہوتے تھے۔ انہی کی زبانی یہ مراثی شمالی ہند کی مجالس میں پڑھے جانے لگے۔ شمالی ہند سے پہلے مرثیے غزل کی ہیئت میں لکھے جاتے رہے، مگر مسدس میں مرثیے لکھنے کی ابتدا شمالی ہند سے ہوئی۔ تب مرثیے کو میر انیس اور مرزا سلامت علی دبیر جیسے بلند پایہ مرثیہ گو نصیب ہوئے، جنہوں نے مرثیے کو مرثیہ بنایا۔

انیس و دبیر کے بعد لکھنو میں مرثیہ نگاری کا چوتھا دور شروع ہوا۔ یوں اُردو مرثیہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گیا اور متعدد نام ور مرثیہ گو پیدا ہوئے، جنہوں نے خود کو مرثیے کے لیے وقف کر دیا اور مرثیے کے فن کی معراج عطا کی۔

1947ء تقسیمِ ہندوستان کے بعد بے شمار شعرائے کرام اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ہجرت کر گئے تو ان کے ساتھ ساتھ مرثیہ بھی سفر میں رہا اور بالآخر مرثیے نے پاکستان میں بھی اپنے قدم جما لیے۔ آج کے دور میں ہندوستان و پاکستان کے ساتھ ساتھ اردو کی نئی بستیوں میں بھی مرثیہ اپنے تمام تر فنی و عروضی لوازمات اور شان و شوکت کے ساتھ لکھا جا رہا ہے۔

اس ضمن میں جہاں دیگر مرثیہ نگاروں کے نام آتے ہیں وہاں محترم سید وحید الحسن ہاشمی کا نام سرِ فہرست ہے۔ جنہوں نے مرثیے کو جدید انداز بھی عطا کیا اور مختصر بھی بلکہ ایک تحریک پیش کی اس تحریک کی موافقت اور مخالفت میں ہر دو اعتبار سے ناقدین نے اپنی رائے کا اظہار کیا ڈاکٹر عبد الکریم خالد اس تحریک کے اثرات کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’سید وحید الحسن ہاشمی جدید مختصر مرثیے کے پیش رو ہیں۔ انہوں نے عصر حاضر کے مرثیوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی۔ یہی سبب ہے کہ موجودہ دور کے بیشتر شعراء نے ان کی تحریک سے متاثر ہو کر اپنے مرثیوں کو مختصر بھی کیا اور فکری اور فنی اعتبار سے ان میں ندرتیں بھی پیدا کیں۔ ‘‘

انتظار حسین بھی اس تحریک کا جواز ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :

’’طویل مرثیے کو پیش کرنے کی اب گنجائش کہاں ہے مجلس میں خطیب کا غلبہ ہے ٹی وی اور ریڈیو بھی اپنے پروگراموں میں اختصار مانگتے ہیں۔ اس پس منظر میں وحید الحسن ہاشمی کی مختصر مرثیے کی تحریک سمجھ میں آتی ہے۔‘‘

جناب وحید الحسن ہاشمی کے نقش قدم پر چلنے والے اور اس تحریک میں شامل ہونے والے سینکڑوں مرثیہ نگار ان کی تحریک کے منشور پر عمل پیرا ہیں اور آج کا مرثیہ یہی ہے جو سید وحید الحسن ہاشمی نے پیش کیا۔

معروف نقاد ڈاکٹر سید شبیہ الحسن (شہید) نے اپنی تصنیف ’’مختصر مرثیے کی روایت اور سید وحید الحسن ہاشمی‘‘ میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

’’بیسویں صدی کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تمدنی صورت حال میں ہر صنف ادب کو متاثر کیا اور اردو مرثیے نے بھی جدید رجحانات و نظریات کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کی۔ آپ اردو مرثیے کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ اس صنف میں ہئیت اور موضوع ہر دو اعتبار سے کشادہ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد اردو مرثیے کو جدید تناظر میں دیکھنے اور اسے حیات تازہ عطا کرنے والوں میں سید وحید الحسن ہاشمی کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے 1970ء کے بعد مختصر مرثیے کی ضرورت کا احساس دلایا اور جدید مختصر مرثیے کی ایک تحریک چلائی اس تحریک کو نہ صرف مرثیہ نگار شعرا کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ اس تحریک سے متاثر ہو کر شعرا ء نے مختصر مرثیے لکھنے شروع کیے اور یہ سلسلہ آج بھی اسی آب و تاب سے جاری ہے۔ ان کی مسدس کا ایک بند پیش خدمت ہے ؎

 

اذانِ مرثیہ جس دم سنائی دیتی ہے

رگِ یزید سسکتی دکھائی دیتی ہے

مدد جو فن کو سپاہِ رثائی دیتی ہے

ہر اک صنف کی دنیا دہائی دیتی ہے

حروف غیر نفس کی روش مٹاتا ہے

یہ مرثیہ ہے جو کھوٹا کھرا بتاتا ہے ‘‘

 

اسی طرح کراچی میں معروف مرثیہ نگار سید اقبال کاظمی صاحب فروغ مرثیہ اور ترویج مجالس مرثیہ کے عرفہ و اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے 1992ء میں مرثیہ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ مرثیہ فاؤنڈیشن کی آغاز کردہ تحریک فروغ مرثیہ عزا داران امام مظلوم کے تعاون و اشتراک سے مسلسل آگے بڑھ رہی ہے مرثیہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام 5 کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

٭٭٭

 

 

 

مرثیہ۔ تاریخی جائزہ

 

               ڈاکٹر اشرف کمال

( بھکر)

 

مرثیہ عربی کا لفظ ہے۔ مرثیے کا لفظ رثا سے نکلا ہے۔ رثا ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی مرنے والی کی تعریف کی گئی ہو۔ اصطلاحاً اردو مرثیہ ایک ایسی صنفِ ادب ہے جس میں واقعات کربلا اور حضرت امام حسینؓ اور ان کے خانوادے کی شہادت کے واقعات بیان کیے گئے ہوں۔ احتشام حسین کے بقول :

’’مرثیہ عموماً اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی مذہبی یا قومی پیشوا یا کسی محبوب شخصیت کی موت پر اظہار غم کیا گیا ہو اور اس کے صفات کا بیان اس طرح کیا جائے کہ سننے والے بھی متاثر ہوں۔ ‘‘(۱)

مرثیہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک ثوابی چیز ہے اس کا شمار مذہبی شاعری ہی کی اقسام میں کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح نعت گوئی بڑی ادبی صنف نہیں اسی طرح مرثیہ کا میدان بھی محدود ہے۔ واقعات کربلا کا تذکرہ اس انداز سے کیا جائے کہ سننے والے پر رقت طاری ہو جائے اور وہ بے اختیار رونے لگے یہ ہے مرثیے کا میدان۔ (۲)

مرثیہ رَثی سے متعلق ہے جس کے لغوی معنی مردے کو رونے اور اس کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شعر میں اس صنف کو کہتے ہیں جس میں کسی مرنے والے کی تعریف و توصیف اور اس کی وفات پر اظہارِ ماتم کیا جاتا ہے۔ (۳)

اردو میں مرثیہ فنی حوالے سے کئی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ مرثیہ کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں۔

چہرہ:۔    مرثیہ کے افتتاحیہ یا تمہید کو کہتے ہیں۔ اس میں صبح یا رات کا منظر،دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کے علاوہ نعت یا مناجات بھی شامل ہوتی ہے۔

سراپا:۔ اس میں مرثیہ کے بنیادی کردار کے عادات و خصائل اور سیرت و کردار بیان کیے جاتے ہیں۔

رخصت:۔ اس اہم اور جامع حصہ میں رفقائے امام حسینؓ کا امام حسینؓ سے اجازت لے کر میدان میں جانے تک کے واقعات سے تعلق رکھتا ہے۔

آمد:۔    شہادت علی اصغرؓ کے قطعِ نظر، یہ حصہ تمام تر رزمیہ ہے۔ اس میں میدان جنگ میں آنے کے واقعات اور گھوڑے اور تلوار کی تعریف کی جاتی ہے۔

رجز:۔    اس حصہ میں افرادِ مرثیہ کی تعریف،حسب نسب،اور آباء و اجداد کے کارنامے بیان کیے جاتے ہیں۔ رجز خوانی عربوں کی پرانی خصوصیات میں سے ہے۔

جنگ:۔ یہ حصہ رزمیہ اور ایپک کے بہت قریب ہے۔ اس میں افرادِ مرثیہ کو دشمن کی فوج سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔

شہادت:۔ مرثیہ کا یہ حصہ سب سے زیادہ درد ناک اور رقت آمیز ہوتا ہے اس میں افرادِ مرثیہ کو گھوڑوں سے گرتے،زخمی ہوتے اور جامِ شہادت نوش کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ اور ان کی بالیں پر امام حسینؓ کی موجود گی ضروری خیال کی جاتی ہے۔

بَین:۔    یہ مرثیہ کا اختتامیہ حصہ ہوتا ہے اس میں افرادِ مرثیہ کی لاشیں خیمہ میں آتی ہوئی دکھائی جاتی ہیں اور اس کے عزیز و اقرباء کے رونے اور ماتم کرنے کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔

ساقی نامہ:۔ مرثیہ میں ساقی نامہ دبیر وانیس کے بعد شروع ہوا۔ اس میں عام طور پر حبِ اہلِ بیت اور ذکر ساقی کوثر کے مضامین بیان کیے جاتے ہیں۔

ہئیت کے اعتبار سے مرثیہ مثلث،مربع اور مخمس کی شکل میں لکھا جاتا تھا۔ میر انیس اور مرزا دبیر کے دور سے کچھ پہلے شعراء نے دوسری تمام ہئیتیں ترک کر دیں اور مرثیہ صرف مسدس کی شکل میں لکھا جانے لگا اور یہ صنف سخن واقعاتِ کربلا کے اظہار کے لیے وقف ہو کر رہ گئی۔ (۴)

مرثیہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ عرب کی شاعری۔ روایت کے مطابق پہلا مرثیہ طالوت کے قتل پر داؤد نے کہا تھا۔ عربوں میں مرثیہ نگاری کا رواج عام تھا۔ عبدالمطلب اور ابو طالب کے کہے ہوئے مرثیے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ حسان بن ثابتؓ نے حضرت صلعمؐ کی وفات پر بڑے دردناک پیرائے میں مرثیہ کہا۔ اسی حوالے سے حضرت فاطمہ نے بھی مرثیہ کہا۔ اور حضرت علی نے حضرت فاطمہ کی وفات پر مرثیہ لکھا۔ اسی دور کی شاعرات میں ختماسلمیتہ (۲۴ھ متوفی) کا نام بھی اس اعتبار سے یادگار رہے گا کہ اس نے اپنے بھائی کے قتل پر کئی ایک مرثیے کہے ہیں۔ (۵)

شہدائے کربلا کے حوالے سے اردو میں مرثیے کا آغاز دکن سے ہوا۔ قطب شاہی اور عادل شاہی دور حکومت میں مرثیے کو ترقی ملی۔ دکن میں ملا وجہی، غواصی لطیف، کاظم، افضل، شاہی،مرزا، نوری اور ہاشمی نے مرثیے لکھے۔ شمالی ہند میں سودا نے منفردہ، مستزادہ منفردہ، مثلث،مثلث مستزاد،مربع،،مربع مستزاد،مخمس ترکیب بند،مخمس ترجیع بند مسدس، مسدس ترکیب بند، اور دوہرہ بند مرثیے لکھے۔ اکثر مراثی بین اور نوحہ پر ختم کیے۔ (۶)اس دور کے مرثیوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں ادبی شان پائی جاتی ہے۔ اس وقت سب سے پرانا مرثیہ جو دستیاب ہوا ہے وہ نظامی شاہی سلطنت کے شاعر ’’اشرف‘‘ کا ’’نوسرہار ‘‘ہے۔ اس کے بعد وجہی کا مرثیہ ہے۔ (۷)دکن کے علاوہ برہان پور اور گجرات میں بھی مرثیہ گو شاعر موجود تھے۔

ڈاکٹر ابوللیث صدیقی پہلے مرثیہ نگار کے حوالے سے لکھتے ہیں :

دکھنی ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع سے آخر تک ہر زمانہ میں مرثیہ گوئی کا رواج رہا ہے اور ہر شاعر نے ایک دو مرثیے ضرور کہے ہیں۔ سب سے پہلا مرثیہ ملا وجہی کا ہے جس کی دو اور کتابیں قطب مشتری(۱۶۰۹ء) اور سب رس(۱۶۳۵ء) اب عام طور پر مشہور ہیں۔ ‘‘(۸)

حامد حسن قادری اردو میں مرثیہ کی تاریخ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’جہانگیر بادشاہ کے زمانے میں ’’نوری‘‘ نے اردو میں مرثیے لکھے۔ دکن میں گولکنڈہ وبیجا پور کی سلطنتوں کے عہد میں بھی مرثیے لکھے گئے۔ ہاشم و کاظم کے مرثیے اب بھی موجود ہیں۔ عالمگیر کی حکومت دکن کے زمانے میں شاہی کے مرثیے مشہور تھے لیکن یہ سب مرثیے دکنی اردو میں ہیں۔ ‘‘(۹)

مسدس کی صورت میں سب سے پہلا اردو مرثیہ میر مہدی متین برہان پوری نے لکھا جو کہ سولہ بندوں پر مشتمل ہیاس میں نئے انداز میں کربلا کے واقعات جناب فاطمہ زہرا کی زبان سے بیان کرائے ہیں۔ متین سراج اورنگ آبادی کے شاگرد تھے۔ شمالی ہندوستان میں میں بھی باقاعدہ مرثیہ گو شاعروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن میں صلاح، شاہ مبارک آبرو، خواجہ برہان الدین عاصی، مصطفیٰ خاں یک رنگ، میر عبداللہ مسکین، خلیفہ محمد علی سکندر،مرزا مغل ندرت، وامانی علی قلی ندیم،۔ ۔ شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی، سید محمد تقی،،اشرف علی خاں فغاں، نظیر اکبر آبادی، مہربان خاں رند،قائم چاند پوری، راسخ عظیم آبادی، میر امانی، میر باقر علی باقر، سامانوی، میرزا ظہور علی خلیق اور ظہور، مرزا راجہ رام ناتھ دزہ، محمد ہاشم شائق، شیخ شرف الدین حسین شرف، میرزا محمد شریف شریف، سید الٰہ بخش شیفتہ، میر حسام الدین عرف میر بھچو گریاں، میر محمد علی محب، خدا بخش موج، مرتضیٰ خاں نثار دہلوی، شیخ حسن رضا،نجات دہلوی، میر محمد علی نیاز، میر سعادت علی سعادت امروہوی، حزیں، غمگین، محزوں امروہوی، حیدر بخش حیدری،، نظر علی، نعیم، اعلیٰ علی، درخشاں،شاہ محمد عظیم عظیم، حسینی شاہ،جہاں آبادی، خادم، خطی اللہ، سید محمود صابر استر آبادی،،عبدالسبحان فائز ٹھٹھوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ (۱۰)

دہلی میں مسکین و حزیں اور غمگین تین بھائیوں نے مرثیے لکھے پھر سودا اور میر نے اس میدان میں طبع آزمائی کی مگر لکھنو سے تعلق رکھنے والے مظفر حسین ضمیر نے مرثیے کو موجودہ شکل دی۔ ضمیر مصحفی کے شاگرد تھے اور خلیق کے ساتھ ان کا مقابلہ رہتا تھا۔ خلیق بھی مصحفی کے شاگرد تھے۔ (۱۱)ضمیر سے پہلے مرثیے مختصر تھے ضمیر نے مرثیے کو ایک باقاعدہ فن کی شکل دی۔

میر خلیق نے اردو مرثیے پر جو احسان کیا ہے وہ بھی میر ضمیر سے کچھ کم نہیں ہے۔ لیکن ان کا کلام نہیں ملتا۔ (۱۲) میر خلیق ہی کے ہم عصر مرزا دلگیر ہیں جن کی زبان اور طرز ادا کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ خاندانی ہندو ہونے کے باوجود بیان شہادت اور رخصت کے بیان میں اس کثرت سے مسلمانوں کے مراسم کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کے ہندو ہونے میں شک ہونے لگتا ہے۔ ان کے مراثی کی سات جلدیں ۱۸۹۷ء میں مطبع نولکشور سے شائع ہوئی تھیں۔ مرزا فصیح بھی خلیق،ضمیر اور دلگیر کے ہم عصر تھے ان کے ہاں بھی مرثیہ کی تمام فنی خوبیاں موجود تھی۔

قائم چاند پوری،حسین شاہجہاں آبادی،عظیم شاہجہان آبادی،سکندر، مسکین اور سودا، میر تقی میر،فقیر محمد خاں گویا، دبیر اور انیس نے مرثیے کو ترقی دی اور اس کو فنی بلندی پر پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سودا نے ۹۱ مرثیے تحریر کیے ہیں۔

خلیق،ضمیر، دلگیر،خلیل، اور فصیح نے اردو مرثیے کا جو سانچہ تیار کیا تھا اور انھوں نے جو اختراعات کی تھیں وہ بعد کے مرثیہ نگاروں میں بھی نظر آتی ہیں۔ انیس و دبیر کا دور اردو مرثیے میں ایک سنہری دور کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دور میں مرثیہ گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ خوانی کے فن کو بھی عروج حاصل ہوا۔ انیس اور دبیر کو مرثیہ گوئی کے امام کا درجہ حاصل ہے۔ اسد علی خاں آصفی بھی اسی دور کے مرثیہ نگار تھے۔

اردو مرثیے میں ایک اہم نام سلامت علی خان کا ہے جو مرزا دبیر کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ عربی فارسی کے ماہر تھے۔ ۱۸۰۳ء میں پیدا ہوئے،اور۱۸۷۴ء کو لکھنو میں انتقال ہوا۔ ان کے والد مرزا غلام حسین دہلی سے لکھنو آ گئے تھے۔ جب انیس بھی فیض آباد سے لکھنو آ گئے تو میر انیس اور دبیر کے مقابلے ہوتے تھے۔ دبیر ضمیر کے شاگرد تھے۔ دبیر کی زبان بلند آہنگ اور پر شکوہ ہے۔ ان کے مرثیوں میں موضوعات کا وقار اور ایک تمکنت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے بہت خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ اپنے مرثیوں میں الفاظ کو برتا ہے۔ دبیر نے مرثیے کے فن کو عظمت اور ترفع سے ہمکنار کیا۔

 

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

رن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے

رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے

ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے

 

شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو

جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو  (سلامت علی دبیر)

 

میر ببر علی کا نام بھی اردو مرثیے میں بہت نمایاں ہے ان کا تخلص میر انیس تھا وہ ۱۸۰۲ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے،ان کا انتقال ۱۸۸۰ء میں ہوا۔ ان کے والد کا نام میر خلیق تھا۔ انیس کا کلام پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ میر انیس کے ہاں اثر آفرینی ملتی ہے۔ انھوں مرثیہ کے کرداروں میں مقامی رنگ بھرا ہے۔ (۱۳)جس پر ناقدین نے تنقید بھی کی ہے۔ انیس کے مرثیے زبان زد خاص و عام ہیں۔ ان کے مرثیوں میں سادگی اور جوش پایا جاتا ہے۔

 

دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے

دنیا میں پسر باپ کی زینت کا سبب ہے

اولاد کا ہونا بھی بڑی بخشش رب ہے

یہ سچ ہے مگر داغ بھی بیٹے کا غضب ہے

 

رونے کی ہے جا ظلم نیا کرتی ہے تقدیر

شبیر ؓ سے اکبرؓ کو جدا کرتی ہے تقدیر   (میر انیس)

 

شبلی نعمانی نے میر انیس اور مرزا دبیر کے مرثیے کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے ’’موازنۂ میر وانیس ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۰۷ء میں آگرہ سے شائع ہوا۔ اس کتاب میں شبلی نعمانی نے دونوں مرثیہ نگاروں کے مرثیوں کی شعری خصوصیات پر بحث کی ہے اور فصاحت و بلاغت کے پیمانے پر دونوں کے فن کو پرکھا ہے۔ کہیں انھوں نے میر انیس کو بڑا مرثیہ نگار ثابت کرنے کی کوشش کی تو کسی جگہ مرزا دبیر کو۔ وہ لکھتے ہیں :

’’میر انیس اور مرزا دبیر میں اصلی جو چیز ما بہ الامتیاز ہے،وہ الفاظ کی ترکیب، نشست اور بندش کا فرق ہے۔ میر انیس۔ ۔ ۔ کا اصلی جوہر بندش کی چستی، ترکیب کی دل آویزی، الفاظ کا تناسب اور برجستگی وسلاست ہے یہ چیزیں مرزا صاحب کے ہاں بہت کم ہیں۔ ‘‘(۱۴)

واجد علی شاہ اختر بھی سلام اور مرثیہ گوئی میں مہارت رکھتے تھے۔ مرزا غالب نے بھی مرثیے کے فن میں طبع آزمائی کی۔ زین العابدین خان عارف کی وفات پر مرزا غالب کا مرثیہ مشہور ہے۔ میرانیس کے چھوٹے بھائی میر مونس اور انس بھی مرثیہ گو شاعر تھے۔ انھوں نے لکھنو میں ۱۸۸۵ء میں انتقال کیا۔ میر انیس کی طرح ان کو بھی فن سپہ گری کا شوق تھا۔

میر انیس کے تینوں بیٹے رئیس، سلیس اور نفیس شاعر تھے۔ مگر میر نفیس کو باقی بھائیوں کی نسبت زیادہ شہرت ملی،ان کا نام میر خورشید علی تھا،وہ ۱۸۱۶ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۱ میں وفات پائی۔ مرثیے میں ساقی نامہ کا اضافہ بھی میر نفیس ہی سے منسوب ہے۔ (۱۵)

حسین میرزا معروف بہ میرزا عشق،میر محمد نواب مونس، سید محمد مرزا انس، سید مرزا تعشق، میر خورشید علی نفیس،سید ابو محمد عرف ابو صاحب،سید علی محمد عارف نے بھی مرثیہ نگاری میں نام کمایا۔

میر انیس اور مرزا دبیر کے بعد جن مرثیہ نگاروں کا ذکر کیا جا سکتا ہے ان میں میر جلیس، سید مصطفیٰ مرزا معروف بہ پیارے صاحب رشید، میر تعشق، میر وحید، خورشید حسن دولہا صاحب،امین،عروج جعفر حسین اوج قابلِ ذکر ہیں۔ شاد عظیم آبادی،دہلی میں آغا شاعر قزلباش دہلوی مشہور ہیں۔ اس کے بعد آرزو لکھنوی نے پانچ مرثیے لکھے۔ (۱۶)نجابت علی خان فرزند شجاع الدولہ،کوکب شادانی، جاوید، عزیز لکھنوی،عارف،خیبر لکھنوی،نے بھی مرثیے لکھے ہی۔ اس دور کے دوسرے بہت سے شعراء نے بھی سلام لکھے ہیں۔

غالب کی وفات پر حالی نے مرثیہ لکھا،نواب مرزا داغ دہلوی کی وفات پر علامہ اقبال کا مرثیہ اور اس کے علاوہ علامہ اقبال کا اپنی والدہ محترہ کا مرثیہ(والدہ مرحومہ کی یاد میں )اردو مرثیے کے حوالے سے ایک اہم اثاثہ ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے جو مرثیہ نگار اپنی حیثیت منوا چکے تھے ان میں جوش ملیح آبادی،نسیم امروہوی،راجہ صاحب محمود،سید آل رضا اور نجم آفندی کے نام قابل ذکر ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے پہلا مرثیہ ’’آوازۂ حق‘‘۱۹۱۸ء میں تصنیف کیا اور اسی مرثیہ کی بدولت انھیں جدید مرثیہ کا بانی کہا جاتا ہے۔ ۱۹۴۱ء میں دوسرا مرثیہ ’’حسین اور انقلاب ‘‘لکھا۔ جوش نے پاکستان آنے کے بعد سات مرثیے کہے جو وحدت انسانی، عظمت انسانی اور پانی کے عنوانات سے شائع ہوئے۔ جوش کے مرثیوں میں وہی گھن گرج اور دبدبہ و طنطنہ ہے جو ان کے دیگر کلام کا امتیازی وصف ہے۔ نسیم امروہوی نے پندرہ سال کی عمر میں ۱۹۲۳ء میں پہلا مرثیہ لکھا۔ انھوں نے ایک سوپچاس سے زائد مرثیے تصنیف کیے ہیں۔ نسیم امروہوی کوے مرثیوں میں فصاحت و بلاغت اور تشبیہات واستعارات کا ایک جہان آباد ہے۔ پانی کے موضوع پر راجہ صاحب محمود نے مرثیہ ۱۹۴۲ء میں تصنیف کیا انھوں نے پہلا مرثیہ ۱۹۳۲ء میں لکھا۔ فیض بھرت پوری نے ۱۹۶۹ء میں پانی کے موضوع پر مرثیہ لکھا۔ (۱۷)ان مرثیوں میں موضوع اور بیان کے حوالے سے بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ مشہور شاعر حفیظ جالندھری نے بھی مرثیہ لکھا۔

سید آل رضا لکھنوی ۱۰ جون ۱۸۹۶ء کو پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی آ گئے۔ ۲مارچ ۱۹۷۸ء کوکراچی ہی میں وفات پائی۔ ا ان کے مرثیوں کی کتاب شہادت سے پہلے شہادت کے بعد،۱۹۴۴ء میں شائع ہوئی۔ شریکتہ الحسین ۱۹۷۰ء میں،اور مراثی رضا ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔

مرثیہ نگار قیصر بارہوی کا اسلوب دوسروں سے مختلف اور منفرد ہے۔ رئیس امروہوی نے مرثیے کے فن کو ذوق و شوق مذہبی عقیدت سے اپنایا ہے۔ جمیل مظہری،شائق زیدی، سکندر مہدی آغا،وحیدالحسن ہاشمی،آلِ رضا، افسر عباس زیدی کے نام مرثیے کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔

صبا اکبر آبادی کے مجموعہ مراثی (منجملہ ہجرت، لفظ، خاک قلب، مطمئن اور منبر) میں جہاں ہم اردو مرثیہ کو نئے امکانات سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں وہیں مرثیہ میں نعتیہ عناصر اور سیرت پاک کے دل آویز رنگوں کو بھی مختلف دلنشیں زاویوں میں تحلیل ہوتے اور پھر ان کی چھوٹ سے کربلا کے ریگزار میں عزم واستقلال،سرفروشی و جانثاری اور حکمت و عظمت کے پھول کھلتے دیکھتے ہیں۔ (۱۸)

سید اقبال حیدر نے اپنے مرثیوں میں کوئی بڑا فلسفیانہ نظام حیات تو پیش نہیں کیا البتہ ہمارے لیے سوچ اور فکر کے نئے نئے در ضرور وا کیے ہیں۔ سید عرفی ہاشمی محض ایک روایتی مرثیہ نگار ہی نہیں بلکہ انھوں نے عصر حاضر میں رثائی ادب کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ عرفی ہاشمی کا تعلق وحیدالحسن ہاشمی کے دبستان سے ہے لہٰذا مرثیے کی کلاسیکی روایت سے منسلک ہیں۔ ڈاکٹر ابو الحسن نقوی کا تعلق ملتان سے ہے اور آج کل وہ آئرلینڈ میں رہائش پذیر ہیں۔ ڈاکٹر ابولحسن نقوی کے مراثی جلیل القدر شخصیات کی سیرت و کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔ (۱۹)

ہم کہہ سکتے ہیں کہ میر انیس اور دبیر کا دور اردو مرثیے کے عروج کا دور تھا مگر آج بھی مرثیہ نگاروں کے سوتے خشک نہیں ہوئے۔ یہ بات ضرور ہے کہ دلی لٹنے اور لکھنؤ اجڑنے کے بعد اور تہذیبی و معاشرتی قدریں تبدیل ہونے کے بعد اردو مرثیے کے حوالے سے ایک خلا ضرور پیدا ہو گیا ہے۔ مگر پھر بھی سلام اور نوحہ لکھنے کا رواج کم نہیں ہوا۔

٭٭٭

 

حوالہ جات

۱۔ احتشام حسین، اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، مکتبہ خلیل، لاہور، ۱۹۸۹ء،ص۱۰۷

۲۔ کریم الدین احمد،تنقیدی تحریریں،آئینہ ادب لاہور، ۱۹۸۳ء، ص۱۱۸

۳۔ ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر،لکھنو کا دبستان شاعری،لاہور،غضنفر اکیڈمی،ص۷۱۱

۴۔ قاسم جلالی،ڈاکٹر، ادبی تجزیے،(تحقیقی و تنقیدی مقالات)ادارہ تعمیر فکر،بہاولپور، ۱۹۹۹ ء،ص۴۸

۵۔ عبدالرؤف عروج،اردو مرثیہ کے پانچ سوسال، ماہنامہ نیا راہی، کراچی، خاص نمبر ۱۹۶۱ء شمارہ ۶،۷، جلد ۵،ص۲۷

۶۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی(مرتب) کشاف تنقیدی اصطلاحات، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،۱۹۸۵ء،ص۱۷۰

۷۔ حسن اختر ملک،تاریخ ادب اردو، یونیورسٹی بک ڈپو، لاہور،۱۹۷۹ء،ص۹۴

۸۔ ابواللیث صدیقی،ڈاکٹر،لکھنو کا دبستان شاعری،ص۷۱۵

۹۔ حامد حسن قادری، تاریخ و تنقید، حیدرآباد، س ن، ص۱۱۱

۱۰۔ صفدر حسین، سید،ڈاکٹر، اردو مرثیہ عہد بہ عہد، مشمولہ اردو ادب کی فنی تاریخ از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، الوقار پبلیکیشنز لاہور، ۲۰۰۳ء،ص۲۸۴

۱۱۔ حسن اختر ملک،تاریخ ادب اردو، یونیورسٹی بک ڈپو، لاہور،۱۹۷۹ء،ص۴۲۰

۱۲۔ شبلی نعمانی، موازنہ انیس و دبیر،مرتبہ ڈاکٹر فضل امام،علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۲۰۰۳ء،ص۳۶

۱۳۔ عبد الرؤف عروج،اردو مرثیہ کے پانچ سوسال،ص۴۱

۱۴۔ شبلی نعمانی، موازنہ انیس و دبیر،مرتبہ ڈاکٹر فضل امام،علی گڑھ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۲۰۰۳ء،ص۲۵۶

۱۵۔ حسن اختر ملک،تاریخ ادب اردو،ص۴۳۷

۱۶۔ عبد الرؤف عروج،اردو مرثیہ کے پانچ سوسال،ص۴۹

۱۷۔ سعیدمرتضیٰ زیدی،ڈاکٹر،پاکستان میں اردو مرثیے کے پچاس سال،مشمولہ لب جو،گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج سانگلہ ہل، ص ۴۹۵

۱۸۔ شرافت عباس،پروفیسر، مرثیے میں سیرت نگاری،مشمولہ، نوادر، سہ ماہی،لاہور، ستمبر۲۰۰۴ء تا مارچ ۲۰۰۵ء،ص ۹ ۱۰

۱۹۔ شبیہہ الحسن،ڈاکٹر، تعینات،لاہور، اظہار سنز، ۲۰۱۱ء،ص۱۹۰،۲۱۴،۲۵۷

٭٭٭

 

 

 

 

قیصرِ اقلیم مرثیہ۔ حضرت قیصر بارہوی

 

               ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن

(لاہور)

 

لکھنو برّصغیر کی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا مرکز تھا، یہی سبب ہے کہ جملہ فنونِ لطیفہ یہاں اوجِ کمال تک پہنچے۔ نثر ہو یا شاعری، یہاں کے تخلیق کاروں نے ہر میدان میں اپنی صناعانہ تخلیقی ہنر مندیوں کا ثبوت دیا۔ فن کے اظہار کے لئے نئے نئے راستے تلاش کئے جانے لگے۔ خارجیت اور ڈرامائی عناصر کے امتزاج سے لکھنؤ میں ایک منفرد شعری فضا تشکیل پانے لگی۔ اسی صورتِ حال میں خارجیت، ڈرامائی عناصر اور واقعۂ کربلا کے مثلث نے صنفِ مرثیہ کا تخلیق نامہ مرتب کیا۔ برصغیر کی سرزمین کا طرزِ احساس اور اس کے تہذیبی اثرات نیز عرب کے تاریخی واقعات و عوامل انیس و دبیر کے مرثیوں میں یکجا ہو کر فن کی انتہائی بلندیوں کو چھونے لگے۔ ان دونوں حضرات نے مرثیے کے تخلیقی امکانات کو وسیع کیا اور اپنے بہترین افکار کو اپنے متنوع اسالیب میں پیش کر کے ہر عہد کے شعراء کو متاثر کیا۔ تا اینکہ یہ سلسلہ آج بھی جار ی ہے۔ انیس و دبیر نے برصغیر کے تہذیبی عناصر کو جس طرح اپنے مرثیوں میں محفوظ کیا تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ان کے مرثیوں کے مطالعے سے ہم آج بھی برصغیر کی اسلامی تہذیب و ثقافت کا کھوج لگا سکتے ہیں۔

بیسویں صدی میں ہندوستانی معاشرت پر طرح طرح کے بین الاقوامی سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ انیس و دبیر کا لکھنؤ زوال آمادہ تھا اور عظیم تہذیبی روایات دم توڑ رہی تھیں۔ دانش مندکہتے ہیں کہ جب چراغ بجھنے لگتا ہے تو اس کی لَو تیز ہو جاتی ہے۔ کچھ یہی صورتِ حال لکھنو میں بھی تھی کہ زوال آمادگی کے باوجود یہاں متداولہ علوم و فنون ترقی کر رہے تھے اور یہاں کی چمک دمک نوواردان کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ اس صورتِ حال میں ایک علمی و ادبی خاندان کا چشم و چراغ قیصر عباس لکھنو میں وارد ہوا اور ماحول او ر ذہنی استعداد کے باعث کم سنی ہی میں قیصر بارہوی کے نام سے مقبول ہو گیا۔ یہی قیصر بارہوی سلطنتِ مرثیہ کے قیصر بن کر نصف صدی تک دنیائے مرثیہ پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قابلِ قدر شاعر کی شخصیت کا بھرپور مطالعہ کیا جائے اور اس کی شاعری کے جملہ محاسن کا احاطہ کیا جائے۔

بیسویں صدی کا سورج نئے نظریات و میلانات لے کر طلوع ہوا اور خصوصاً مغربی اصناف کے حوالے سے اُردو اصناف میں جدید افکار و نظریات کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا۔ مغربی تہذیب نے اپنی رنگا رنگی کی وجہ سے اہلِ مشرق کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ سوچ اور فکر کے مروجہ معیارات تبدیل ہونے لگے۔ پرانے پیمانے بوسیدہ قرار دیئے گئے اور اب نئے شعری پیمانوں میں جدید شراب کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ شعر و ادب کا تعلق فرد سے زیادہ معاشرے سے جوڑا جانے لگا اور اجتماعی لب و لہجہ کو اہمیت ملی۔ نتیجتاً قومی اور ملی شاعری کو عروج حاصل ہوا اور مذہبی مرثیوں کی جگہ قومی اور شخصی مرثیوں نے لے لی، اقبالؔ، نظم طباطبائی، صفی لکھنوی، ریاض خیرآبادی، اثر لکھنوی اور چکبست لکھنوی وغیرہ نے قومی اور ملی مرثیوں کے ذریعے ملت کو بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس طرح مرثیے کا رشتہ قومی شاعری سے جڑ گیا۔ بعض ناقدین نے اس منظر نامے کے حوالے سے سطحی بنیاد پر یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ اس عہد میں ’’مذہبی مرثیہ‘‘ کو زوال آ گیا تھا مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ بنظر غائر دیکھیں تو قومی اور ملی مرثیے بھی دراصل اسی روایتی مرثیے کا ایک جدید رُوپ ہیں۔

موجودہ دور ذہنی و فکری انتشار کا دور ہے۔ جب معاشرے میں منتشر قوتیں فروغ پا رہی ہوں تو انسان اپنے اندر سمٹنا شروع کر دیتا ہے۔ چیزوں میں اختصار کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اور اصنافِ شعر بھی مختصر سے مختصر ترین ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی مسائل، سماجی حالات اور اندرونی بے چینیاں بھی انسان کو بے کل کر دیتی ہیں۔ اب قارئین ان اصنافِ ادب و شعر کو اہمیت دیتے ہیں جو ان کے عصری مسائل سے ہم آہنگ ہوں اور ان کے مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر سکیں۔ مرثیہ بھی ان عمرانی حالات سے دوچار ہوا مگر اپنے مزاج کے سبب اس صنف نے جلد ہی عمرانی تقاضوں کو سمجھا اور اپنے اندر تبدیلیوں کی اجازت دے دی۔ نتیجتاً موجودہ مرثیہ نگاروں نے مرثیے میں جدید نفسیاتی، سماجی اور سیاسی مسائل کو نہ صرف یہ کہ پیش کیا بلکہ ان کے حل کے لئے نسخے بھی تجویز فرمائے۔ موجودہ دور میں صباؔ اکبر آبادی، شاہدؔ نقوی، سہیلؔ بنارسی، شائقؔ زیدی، سردارؔ نقوی، ظہوؔ جارچوی، وحیدالحسنؔ ہاشمی، سیفؔ زلفی، عبدالرؤف عروجؔ، افسر عباسؔ زیدی، ظفر شاربؔ، اثرؔ ترابی، حسن عسکریؔ کاظمی، اثرؔ جلیلی، سید فیضیؔ، ہلالؔ نقوی، امیدؔ فاضلی، قسیم ؔ امروہوی، اسیرؔ فیض آبادی، شیداؔ حسن زیدی، میر رضیؔ میر، عارفؔ امام، احمد نویدؔ، کوثرؔ امروہوی، عرفی ہاشمی وغیرہ کے مرثیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان شعراء نے فنی اور فکری سطح پر مرثیے کو عہد جدید سے پیوست کر دیا ہے۔ بیسویں صدی کے آخر میں جس شاعر نے مرثیے میں فکر انگیز اور اجتہادی تبدیلیاں کیں اور اسے مقبولِ خاص و عام بنایا وہ قیصرؔ بارہوی تھے۔ انہوں نے مرثیے کو واقعۂ کربلا کی خیرہ کر دینے والی روشنی میں ایک عالی شان فتح کا نقارہ بنا دیا ہے ؎

کربلا جس کی بلندی ہے وہ مینارہ ہے

مرثیہ سب سے بڑی فتح کا نقارہ ہے

قیصرؔ بارہوی مختلف النوع اصناف پر دسترس رکھنے والے شاعر ہیں۔ انہوں نے مروجہ معروف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنی جدتِ طبع کے رنگا رنگ جوہر دکھائے۔ ان کی غزلوں، قصیدوں اور منقبتوں کے مطالعے سے ان کی ذہنی کشادگی، حساس طبیعت اور الفاظ پر ان کی قدرت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے نوحوں، سلاموں اور مرثیوں کے مطالعے سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ وہ داخلی کیفیات کے اظہار کے ساتھ ساتھ خارجی معاملات کے بیان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ کربلا کے تاریخی واقعہ کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھنا اور محسوس کرنا اور پھر ان محسوسات کو مختلف النوع صورتوں میں پیش کرنا دراصل اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا عمل ہے۔ قیصرؔ بارہوی کی یوں تو تمام شاعری ان کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے۔ تاہم ان کے مرثیوں میں داخلی اور خارجی دونوں کرب ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے مرثیوں میں غزل کی داخلی اور حزنیہ کیفیات بھی اُبھرتی ہیں اور قصیدے کا ظاہری شان و شکوہ بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔

قیصرؔ بارہوی نے ۱۹۴۲ء میں دیارِ سخن میں قدم رکھا۔ ابتداً مشق سخن کے لئے غزل کو منتخب کیا۔ کچھ عرصہ طبع آزمائی کرنے کے بعد سلام اور قصائد کی صنف کی طرف متوجہ ہوئے اور اس گلستان میں رنگارنگ پھول کھلائے۔ جب کلام میں فنی پختگی آ گئی تو صنفِ مرثیہ کی جانب متوجہ ہوئے۔ ۱۹۴۹ء میں حضرت عباسؑ علم بردار کی شان میں ۷۷ بندوں پر مشتمل ایک مرثیہ لکھنؤ کی فضائے شاعری سے متاثر ہو کر، خوب بنا سنوارکر کہا۔ اہلِ علم اور صاحبانِ فن نے اس کی خوب قدر کی اور انہیں مسلسل مرثیہ گوئی کا مشورہ دیا۔ صنفِ مرثیہ کا لگایا ہوا یہ تخم ایسا بار آور ثابت ہوا کہ ایک چھتنار شجر کی صورت اختیار کر گیا اور اب تو مرثیہ قیصرؔ بارہوی کی شناخت بن چکا ہے۔ وہ خود تو دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن انہوں نے اقلیمِ مرثیہ میں خود کو قیصر منوا لیا۔

اس معروضے کے آغاز میں راقم الحروف نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انیسؔ و دبیرؔ نے برصغیر کے تہذیبی اثرات اور واقعۂ کربلا کے ہمہ گیر اثرات کو نہایت فن کاری کے ساتھ ملا جلا کر اپنے مرثیوں میں محفوظ کر دیا تھا۔ اب اسی معروضے کی روشنی میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قیصرؔ بارہوی نے بھی پاکستانی طرزِ احساس اور کربلا کے اثرات کو ایک دوسرے میں جذب کر کے مرثیوں کی صورت میں ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اب اگر ہم چاہیں تو ان مرثیوں میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ پاکستانی اسلامی تہذیب و ثقافت کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

صبا، مرثیہ، کردار، تاریخ

 

               ڈاکٹر علی کمیل قزلباش

( اسلام آباد)

 

حضرت صبا اکبر آبادی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ دراصل غزل کے شاعر ہیں کوئی نئی بات نہیں ہو گی۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ وہ اگر غزل،قطعہ، رُباعی کے شاعر ہیں تو اُن کے ساتھ ساتھ ایک بڑے مرثیہ گو بھی ہیں۔ اسی طرح ہر شخص شاعر نہیں ہو سکتا اس طرح ہر شاعر مرثیہ گو نہیں بن سکتا۔

ع… ہر ایک دل کو یہ دولت کہاں نصیب سلام

مرثیہ گوئی واقعی محمدؐ و آل محمدؐ سے والہانہ محبت کے سبب ممکن ہے اور جتنی اس محبت میں شدت ہو گی اتنا مرثیہ پر اثر ہو گا

میں کہ مداحی ِ شبیرؑ عبادت میری

آلِ اطہار سے ثابت ہے محبت میری

کھینچ لائی مجھے مجلس میں مودت میری

اردو مرثیہ کی تاریخ اردو غزل کی طرح قابلِ فخر ہے اور بہت بڑے بڑے ناموں پر اس صنف کے ابواب مشتمل ہیں۔ یہ سلسلہ ہر دور میں غزل کی طرح اس دور کے تقاضوں کے مطابق جاری رہا ہے۔ میرا انیس و مرزا دبیر کا مرثیہ کوئی معمولی بات نہیں لیکن ہمارے آج کے دور کے مرثیہ گوبھی بالکل اُنہی کی طرح مرثیہ کا حق ادا کر رہے ہیں اس سے بڑھ کر بڑی اور نئی بات کیا ہو گی کہ

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ

جوش نے جو خشتِ اول جدید مرثیہ گوئی کی رکھی اس پر ثریا تک دیوار پہنچانے والے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ جس میں صبا اکبر آبادی کا نام اور کام بہت ہی نمایاں ہیں۔

اگر چہ ان سے پہلے بقول معتبرین مرثیوں میں کربلا کی زمین، امام عالی مقام اور اُن کے احباب کی جنگ کی منظر کشی، تلوار کی دھار اور سواروں کے تیور بیان کئے جاتے تھے لیکن اب اس سلسلہ سے ربط رکھتے ہوئے بھی مرثیہ میں انقلابی صورتیں واقعہ کربلا کے معنوی پہلو تاریخی صداقتیں اور کربلا کے کردار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ یہ واقعی سچ ہے کہ مرثیہ کو رونے کے اسباب کی تکمیل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھیں۔ لیکن یہ سلسلہ آج بھی ہے صرف انداز مختلف ہے کون کافر صبا کے مرثیوں کو پڑھنے اور خصوصاً سننے سے نہیں روئے گا بلکہ میرے خیال میں اگر یہ عنصر مرثیہ سے خارج ہو جائے تو مرثیہ سے سمجھو رُوح نکل گئی۔

صبا مرحوم کے مرثیوں کے مجموعہ ’’خونناب‘‘ میں مرثیوں کے ساتھ ان کے مرثیوں پر بہت سے قابلِ قدر دانشوروں کی تحریریں میرے سامنے ہیں جس سے میری مشکل میں اور بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن میں یہاں حضرت صبا کے مرثیوں کے کرداروں کی کردار نگاری اور تاریخ گوئی کی طرف دھیان دوں گا اور خصوصاً غازی کربلا حضرت زینتؑ کی طرف۔

اگر چہ محمدؐ و آل محمدؐ کے کرداروں کی تصویر کشی ہم عامیوں کے بس کی بات نہیں لیکن مرثیہ پر میں صبا کا یہ احسان سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اس طرح سے مرثیہ کو ایک اور نیا رنگ دیا۔ بلکہ صرف یہ نہیں صبا کے مرثیوں کا یہ پہلو بھی انتہائی قابل تعریف ہے کہ وہ ہر مرثیہ کے عنوان کی تکمیلی ذکر کے بعد سرور کائناتؐ کے ذکر سے بات کا آغاز کرتے ہیں اور امامت کی طرف آ کر حضرت علیؑ کی عظمت فاطمۃ الزہراؑ کی اہمیت اور امامت کے سلسلہ کے دوسرے چشم و چراغ صلح کے داعی حضرت امام حسینؑ سے ہو کر کربلا کے عظیم سالار حضرت امام حسینؑ کی طرف مڑتے اور بڑی خوبصورتی سے تواتر رکھتے ہوئے کربلا کے شہداء کی عظمت بیان کرنے کا شرف حاصل کر لیتے ہیں۔ زیرِ نظر مجموعہ ’’خونناب‘‘ میں پانچ مرثیے شامل ہیں اور ہر ایک میں ہم تو اتر سے حضرت محمدؐ تا امام حسینؑ سلسلہ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ جبکہ آگے مرثیوں کی نوعیت خود اپنے کرداروں کو پیش کرتی گئی ہے۔ مثلاً ’’نقط‘‘…اس کے چند مصرعوں میں تسلسل کی وضاحت دیکھئے۔ ۲

 

تیرا سرمایا محمدؐ کے نواسے کا مزار

وہ علیؑ کا لاڈلا وہ فاطمہؑ کا نورِ عین

قلبِ عالم کی تسلی خاطر زینبؑ کا چین

وہ حسنؑ کا نقش ثانی نام تھا جس کا حسینؑ

 

یعنی اس طرح ہر کردار پر کئی کئی بند تو اتر سے اس کے مختلف اوصاف اور ایک دوسرے سے روابط کو اُجاگر کرنے میں لکھے گئے ہیں۔ اس مرثیہ کا ایک بند حضورؐ کے بارے میں ملاحظہ ہو جس میں ایک شخصیت کی تصویر کے ساتھ تاریخ کے مختلف گوشوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

آمنہ کی گود میں روشن تھا کعبے کا چراغ

منزلِ ظلمات میں توحید کا پہلا چراغ

روشنی جس کی ازل سے تا ابدا ایسا چراغ

ہو گیا ہر ایک قصر جہل کا ٹھنڈا چراغ

 

لو بڑھی ایسے محمد مصطفیؐ کے نام کی

روشنی ہرسمت پھیلا دی خدا کے نام کی

 

اس مرثیہ کے کئی بند اس تواتر کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور آگے حیدر کرار کے ذکر کا آغاز ہو جاتا ہے۔

مرثیہ ’’منبر‘‘ میں حضورؐ کے ذکر کے بعد حضورؐ ہی کی زبانی علیؑ کی عظمت کا تسلسل اس طرح رواں نظر آتا ہے جس میں علیؑ کی عظمت کے ساتھ ساتھ تاریخ کی آئینہ داری بھی ہوتی ہے۔

جس کا مولا ہوں میں اس کے ہیں علیؑ بھی مولا

آج سے کوئی کسی شخص کا دشمن نہیں

آل و قرآں ہیں مرے بعد وسیلہ سب کا

یوں بھلا مقصدِ ایمان کو کیا سمجھو گے

 

ہر مسلمان کے ہیں مالک و مولا حیدرؑ

جس کے مولا ہیں نبیؐ اس کے ہیں مولا حیدر

 

حضرت امام حسینؑ کے دور کی عکاسی اور ان کی عظمت نگاری کا نقشہ بھی صبا کے قلم کا کرشمہ ہے چند مصرعوں میں پوری تاریخ کی تصویر ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں اور امام مجتبیٰ کی عظمت کو بھی خوب اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ملاحظہ ہو

 

اب امام اور خلافت تھی حسینؑ کے واسطے

چھ مہینے تک ستم سب قلبِ شبیرؑ نے سہے

پر قدم پر تھی بغاوت، ہر قدم پر مرحلے

یہ انہیں منظور کب تھا،خون امت کا بہے

 

خلق کے پانی سے دھو ڈالا دلوں کے میل کو

صلح کے پشتے سے رُوکا پھر لہو کے سیل کو

 

واقعہ کربلا کے اہم اور مرکزی کردار حضرت امام حسینؑ تو ہر مرثیہ کی جان ہوتے ہیں اور یہی صورت حضرت صبا کے ہاں بھی ملتی ہے لیکن وسعت اور کئی پہلوؤں کو لئے ہوئے۔ یہاں صرف ایک بند پیشِ خدمت ہے جس میں حضرت امام حسینؑ کے بچپن سے شہادت تک کی عکاسی ملتی ہے اور اس کے ساتھ حق کی دلیلیں اور تاریخ کے دورانیہ میں اصل کہانی کی تصویر ہے۔

اپنے جد کا ایک اک ارشاد لایا ہوں بجا

وعدۂ طفلی کو اس پیری میں پورا کر دیا

بھائی بھی بچھڑے جواں فرزند بھی رخصت ہوا

ایک شش ماہہ تھا وہ بھی تیر کھا کر سوگیا

 

سب ہوئے پورے تقاضے جتنے تھے ایمان کے

خون سے لکھا ہے اک اک لفظ کو قرآن کے

 

اور کربلا کے ننھے شہید علی اصغرؑ کے کردار کو کتنے نئے پن سے اُجاگر کیا جا رہا ہے

 

بے شیر کا مزار نہیں حدِ صبر ہے

تلوار سے کھدی ہے سپاہی کی قبر ہے

 

تاریخ کے سپیدوسیاہ اور دوسرے فریق کے کردار کی تصویر کا ایک عکس پیش کرتا ہوں اس میں صبا کی انفرادیت قلم اور دورِ حاضر کے یزیدوں کی تصویر بھی بخوبی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

 

قصر یزید میں وہ ترانے وہ رقصِ جام

محتاج دانے دانے کو جب فاقہ کش عوام

ظالم کے واسطے مے و مینا کا اہتمام

جمہور پر سکون و عبادت تھا سب حرام

 

گویا پلٹ کے دورِ جہالت پھر آ گیا

یا ساٹھ سال پیچھے زمانہ چلا گیا

 

ابھی آتے ہیں حضرت صبا کے مرثیوں میں دخترِ کرّار ثانئی زہرہؑ ہمشیرہ شبیرؑ غازیِ کربلا حضرت زینبؑ کے ذکر کی طرف کہ اس کردارِ کربلا کو کس انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس عظیم ہستی کی قربانی نے واقعہ کربلا کے اصل مقصد کو تکمیل تک پہنچانے کا دوسرے اہم مرحلہ سر کیا کیونکہ دو بڑے پہلو اس واقعہ میں پوشیدہ ہیں ایک شہادت و شہیدوں کی قیادت اور دوسر ا اسیری اور اسیروں کی قیادت، ویسے بھی کائنات کے آغاز سے آج تک ہر واقعہ میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کا حصہ برابر رہا ہے بلکہ لازمی رہا ہے۔ آدمؑ کی تکمیل سے لے کر ابراہیمؑ کی قربانی تک،بلکہ عیسیٰؑ کے معجزے سے لے کر مصطفی ؐ و مرتضیٰؑ کے ذکر تک،ہواؑ، حاجرہؓ، مریمؓ، خدیجہؓ جیسی معتبر ہستیاں عورت کی عظمت و اہمیت کی مثالیں ہیں۔

کربلا میں بھی اگر بہتر 72 مردوں کی قربانی کا حصہ رہا تو عورتوں نے بھی اسیری کی صبعتوں کو اسلام کی سربلندی کے لئے بہ حسن و خوبی قبول کیا۔ صبا اکبر آبادی نے اس پہلو کو بھی قطعاً نظر انداز نہیں کیا اور رسالار اسیران حضرت زینبؑ کا ذکر ہر مرثیہ میں ایک نئے انداز سے کیا ہے اور ان سے عقیدت کا اظہار نظر آتا ہے۔ مثلاً خونناب کے پہلے مرثیہ لفظ ہی سے آغاز کریں تو ادھر کس خوبصورتی سے کربلا کے کئی کرداروں کی قربانی کا نقشہ، زہراؑ سے ان معصوموں کی نسبت اور زینبؑ کی شخصیت کو ایک بہن ہونے کے علاوہ کوئی دوسرے معتبر رشتوں میں پیش کیا گیا ہے۔ جن کے دکھ یکجا ان کو سہنے پڑے اور یہاں قاری کو صبا بخوبی اس دُکھ اور مقصد تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو کربلا سے منسوب ہے۔ ملاحظہ ہو۔

زینب محزوں نے دیکھ جبکہ خیمہ سے یہ حال

جانب کوثر سدھارا فاطمہ زہراع کا لال

صبر اس عالم میں کرنا ضبط غم کا تھا کمال

لا سکے گا کیا زمانہ بنتِ زہراؑ کی مثال

 

بھائی، بیٹے، اقربا ء حق پر فدا ہوتے ہوئے

تن سے سرشبیرؑ کا دیکھا جدا ہوتے ہوئے

 

دوسرے مرثیہ میں بہن بھائی کی محبت اور جب ماں نہ تو بہن بجائے ماں ہوتی ہے۔ اس کی مثال اس مصرعہ میں دیکھئے

ع… عباس نے بھی نہر پہ زینبؑ کی دعا لی

یعنی صبا اکبر آبادی کے مرثیوں میں رشتوں کی فطری صورتیں بھی تلاش کرنا مشکل نہیں ہے اور اسی مرثیہ کا یہ بند بھی ماں جائے گی ایک بیمار کی تیمار داری کے ساتھ کئی بچیوں کے شدتِ پیاس اور بے کسی کی احساس کا بیان بھی صبا ہی کے فن کا حصہ ہے۔

 

آوازِ فغاں آنے لگی شہؑ کے حرم سے

زینبؑ ہوئی بے تاب و تواں فرطِ الم سے

چلاتی تھی سرپیٹ کے یوں شدتِ غم سے

اے بے وطنی لے لیا شبیرؑ کو ہم سے

 

افسوس جدا ہو گئے سرکارِ امامت

اب عابدِ بیمارؑ ہیں اور بار امامت

 

حضرت زینبؑ سے حضرت علیؑ کی محبت کا ایک پہلو اُجاگر کرنے کے ساتھ یہاں تاریخی حقیقت کی وضاحت اور واقعہ کربلا کی عظمت کو نئے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی حضرت علیؑ کو کربلا کی اذیتوں کو منظر معلوم ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی بیٹی کی غریبی اور اسیری کے احساس سے مغموم ہوتے ہیں۔ تو حسینؑ کو اس کے باوجود کہ ان کی شہادت بھی نظر میں ہے وصیت کرتے ہیں یہاں انسانی فطرت کی عکاسیملاحظہ ہو اور صبا کی فنکاری کی داد دیجئے۔

پھر کہا دوسرے فرزند کے سنئے شبیرؑ!

میں نہ ہوں جب تو رہے اتنا خیام ہم شیر

کسی تکلیف میں گم دیدہ نہ ہونے پائے

میری بیٹی کبھی رنجیدہ نہ ہونے پائے

 

اور حضرت زینبؑ پر شبیرؑ بار قیادت ڈالتے ہیں تو اس کا بیان قابلِ فخر ہے

 

یوں کیا زینبؑ محزوں سے شہِ دیں نے کلام

اب ذرا دیر میں ہو جائے گا کام اپنا تمام

باہر عباس ہیں اور گھر میں تمہارا ہے نظام

اوراسی گفتگو کو صبا اکبر آبادی بہن بھائی کے درمیان جس تفصیل اور شائستگی سے پیش کرتے ہیں وہ عین فطرت ہے یعنی یہاں حب اسلام کے علاوہ ایک بہن کے دل میں جو جذبہ محبت و قربانی بھائی کے لئے ہوتا ہے وہ بالکل صاف نظر آتا ہے۔

 

آپ کی جان سے دور آپ کی جائے کیوں جاں

میں تو زندہ ہوں فقط آپ کی خدمت کے لئے

پہلے ہوں آپ پہ دونوں مرے بچے قرباں

گھر کو چھوڑا تھا اسی عالمِ غربت کے لئے

زندگی وقف ہے دربارِ امامت کے لئے

آپ کے بعد کوئی زیست کا عنوان نہیں

سانس لینا بھی بہن کے لئے آسان نہیں

اس طرح کی مثالیں مرثیہ میں کوئی رنگوں میں موجود ہیں۔

ع…زینبؑ کے لاڈلو نے بھی جوہر دکھادے

ع…اُٹھتا تھا دل سے زینبؑ مغموم کے دھواں

ع… زینبؑ کی مامتا بھی تہہ خاک سوگئی

لیکن یہاں یہ ذکر بھی لازمی ہے کہ صبا صاحب کے مرثیوں میں عنوان کو جس خوبی سے نبھایا جاتا ہے وہ بھی قابلِ رشک ہے یعنی اگر ’لفظ‘ موضوع بنا تو لفظ کو کائنات کے تمام اجزا ء سے واضح کرتے گئے، اگر ’منبر‘ ہے تو منبر کی عظمت بلکہ منبر کے کئی پوشیدہ پہلو سامنے آئے ہیں، اگر خاک ہے تو خاک کے ہر پہلو پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ خاک خاک نہیں رہتی بلکہ وجوداتِ عالم کے ہر شے کا راز نظر آتی ہے اور ہر موضوع میں یہی صورت موجود ہے۔

غرض یہ کہ حضرت صبا اکبر آبادی اپنے عصر کے ایک منفرد انداز کے مالک مرثیہ گو ہیں جن کی مرثیہ گوئی کا مرہونِ منت اردو ادب ہمیشہ رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

فیصلے کی گھڑی

 

               علامہ ضیاء حسین ضیاء

( فیصل آباد)

ٖ

فیصلے کی گھڑی کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ لیکن فیصلے کے ثمرات و عواقب اور نتائج و اثرات بہت دیرپا اور بہت مفصل ہوتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والے کی کاوش میں نیکی اور بدی دونوں صورتوں کی پوری تاریخ درج ہوتی ہے۔ مفادات و مضرات کا پورا پورا تعیّن کر لیا جاتا ہے اور صاحبِ فیصلہ کے اندرون ذات کی طہارت اور نجاست سمٹ کر فیصلے میں آ جاتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب فیصلے کی گھڑی آتی ہے تو نبضیں تھم جاتی ہیں اور فطرت اور مظاہر فطرت گم سم ہو کر صاحب فیصلہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔

فطرتِ انسانی کا بکثرت مشاہدہ تو یہ ہی ہے کہ انسان نے اپنے وقتی جذبات اور عارضی مفادات کو ہی ترجیح دہ ہے۔ صاحب فیصلہ نے اگر جبر اور استحصال پر مبنی فیصلہ دیا تو یقیناً اسے اندیشہ مال و منال، اندیشہ آبرو یا اندیشہ نقصانِ ذات محسوس ہوا۔ ۔ ۔ لیکن یہ ہی تو فیصلے کی گھڑی ہے۔ اسی لئے تو اس ساعت کو بہت نازک وقت کہا گیا ہے۔ خدا وند لم یزل نے بھی اسی قدرت فیصلہ اور آزمائش کی کڑی گھڑیوں میں بندوں سے اس طرح امتحان لیا ہے۔

ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں خوف سے، نقص اموال سے اور نقص جان سے اور پھلوں اور باغات کے نقصان سے، بشارت دو صابرین کو، یعنی مذکورہ آزمائشوں میں صحیح سمت کا تعیّن کرنے والوں کو اور صحیح فیصلہ کرنے والوں کو۔ ۔ ۔ ۔ جب بھی انسان پر خوف وارد ہو گا وہ اس کو فیصلے کی کسی نہ کسی گھڑی پر لے کے آئے گا۔ اسے منصف بنا دے گا۔ ایسا منصف جس کے ایک طرف سچائی ہوتی ہے اور دوسری طرف مفاد ذاتی، بصورت الفاظ دیگر اکثر فیصلہ کرنے والے کی ذات نفع و نقصان اور سود و زیاں کی زد میں ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہی وہ وقت ہے جب فرشتے اپنے امور جاریہ کو روک کر، اجرام فلکی کو ہاتھوں میں تھام کر اور خود خالقِ ارض و سماء اپنے مقامِ عرش پر قاب قوسین او ادنیٰ کی انتہائی معتبر اور مقدس ساعتوں میں بہت انہماک سے فیصلہ کرنے والے کے فیصلے کو سنتا ہے اور پھر اس کے غلط یا صحیح ہونے پر اپنا حقیقی فیصلہ سناتا ہے۔ جو اس کے نصیب میں اس کے عمل کے مطابق ہلاکت و بد بختی اور نجات و ثواب کا ضامن ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

مجھے فیصلے کی وہ گھڑی بڑی بھلی لگتی ہے جب نواسۂ رسول حسین ابنِ علیؑ ریگ زارِ کربلا پر کھڑا یزیدی لشکر کو اپنے خاندانی فضائل اور جادۂ حق و راستی سے آگاہ کر رہا تھا اور اس حجت کو تمام کر رہا تھا جو انبیاء اور آئمہ اور خاصان حق کا وظیفہ و سلیقہ رہا ہے۔ ۔ ۔ حسین ابنِ علیؑ کی دعوت حق و انصاف اور پکار مظلومیت نے یزیدی لشکر کو فیصلے کی گھڑی پر لا کھڑا کیا۔ ۔ ۔ ۔ پورا لشکر مبہوت ہے، ایک طرف حق ہے دوسری طرف باطل اپنے پوری تلذ ذات کیساتھ موجود ہے۔ ۔ ۔ ایک طرف حق کی حمایت کی پاداش میں نقصانِ جان کا خوف ہے، دوسری طرف باطل پرستی کی چھت تلے اطمینان اور بے خوفی موجود ہے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن فیصلے کی گھڑی میں ایک گھوڑے کی ٹاپوں نے سب کو چونکا دیا جو لشکرِ یزید کے قلب سے نکلا اور پہلوئے مبارک حسینؑ ابن ِ علیؑ میں جا کھڑا ہوا، یہ کون ہے ؟ جو فیصلے کی گھڑی پر بہت خوش قسمت نکلا۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو حُر بن تمیمی ہے جس نے یہ کہہ کر فیصلے کی گھڑی کو جیت لیا ’’ اے عمر ابن سعد ! یہ موت اور زندگی اور جنت اور دوزخ میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا معاملہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں اس پست زندگی کے مقابلے میں با عزت موت کو اختیار کرتا ہوں، خدا مجھے اچھے لوگوں کی تاریخ میں زندہ رکھے گا۔ ۔ ۔ ‘‘ مجھے حق کی نصرت و یاری میں موت قبول ہے مگر باطل کی پرورش اور حمایت میں حصہ نہیں ڈال سکتا۔ یہ میرا ایمانی فیصلہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حُسنِ کلامِ محمد(ﷺ)پر ایک نظر

 

               غلام شبیر اسد

(جھنگ )

 

’’حُسن کا احساس بیک وقت فطری اور کلچرل ہے۔ حُسن کی پسندیدگی ایک جبلی اور آفاقی امر ہے مگر حُسن کا معیار اور تصوّر مختلف انسانوں اور معاشروں میں مختلف ہے۔ ‘‘حُسن کیا ہے،اس کی نمود کیونکر ممکن ہے ؟؟انہی سوالات کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارسطو نے حُسن کو سچائی اور سچائی کو حُسن کہا،کروچے حُسن کو خود شئے کی انفرادیت کا اثبات قرار دیتا ہے جبکہ بام گارٹن نے نمود کو الجھاؤ اور انتشار کے خاتمے پر منتج کیا۔ یہ سب بجا مگر حُسن کی نمود کچھ اس طرح کے ممکنات سے مزین ہے کہ تخلیق کی بُنت کاری میں جو شئے بنیادی طور پر کارفرما ہے وہ اس کی تشکیل میں موجود تناسب اور آہنگ کی کیفیت ہے کیونکہ کوئی بھی مظہر یا متن فطری یا تہذیبی،متناسب وپُر آہنگ نہ ہونے کی صورت میں تشکیل سے بہرہ یاب نہیں ہو سکتا۔ یہی تناسب و آہنگ وہ قانونِ فطرت ہے جسے اہلِ دانش حُسن کہتے ہیں۔ فلاسفہ کے نزدیک حُسن کی حقیقت کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک گروہ حُسن کو معروضی سمجھتا ہے جب کہ دوسرا اسے موضوعی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ معروضی حُسن کا لبِ لباب یہ ہے کہ چیزوں میں طبعی طور پر ایک تناسب کامل طور پر موجود ہے اور ان کی ماہیت اسی پر مبنی ہے۔ نیکی،صداقت اس کے ہی روپ کہے جا سکتے ہیں۔ موضوعی نظریۂ حُسن کو کامل اظہار کی صورت قرار دیتا ہے۔ بعض فلاسفہ نے اس میں تطبیق کی کوشش کی ہے اور ایک معتدل نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حُسن یقیناً اشیاء کی طبعی خصوصیت ہے تاہم اسے محسوس کرنے کے لیے حواس میں ان بنیادی زاویوں کا ہونا بھی امرِ لازم ہے جن کی بنا پر شئے میں موجود تناسب و آہنگ ذہن پر ایک حظ کی صورت میں اُجاگر ہوتا ہے۔ بہرحال حُسن معروضی ہے یا موضوعی،ذہن اور شئے کے درمیان ایک رشتہ ضرور تشکیل دیتا ہے اور اسی کی بنیاد پر حُسن کی تمثال شعور کی سطح کو بھی مَس کرتی ہے اور شئے کا تناسب بھی واضح رکھتی ہے۔

اظہار و بیان کی صورت میں حُسن لفظ اور معنی کے درمیان ایک رشتۂ تفہیم کی اکملیت سے پیدا ہوتا ہے جس میں لفظ اور معنی میں سے کسی بھی شرکت کم پڑ جائے تو حُسن ناقص رہ جاتا ہے اور کلام اپنی پوری جلوہ سامانیوں سے ذہن کو گرفت میں نہیں لے سکتا۔ حُسنِ کلام،فصاحت و بلاغت کی جمعی خصوصیات سے متشکل ہوتا ہے جو سماعتوں کے راستے دل دروازے وا کرنے کے ساتھ ساتھ سامع پر اپنی مکمل سحر انگیز گرفت بھی قائم رکھتا ہے۔ ایسے ہی فصیح و بلیغ کلام کے نمونے چھٹی صدی عیسوی میں جزیرۂ عرب کے لوگوں کے بول چال کا حصّہ تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ عرب حُسنِ کلام کی خصوصیات سے کس حد تک بہرہ ور تھے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا پورا پورا مذاق بھی رکھتے تھے۔ فصحائے عرب کے نام گنے جائیں تو کئی ایک طویل فہارس سامنے آئیں گی لیکن اگر ان فہارس کو سمیٹا جائے تو ایک ہی نام کافی ہو رہتا ہے اور وہ نامِ نامی افصح العرب،لوح و قلم کی آواز،محمد ِ عربی (ﷺ) کاہی ہے جو ’’علم البیان‘‘ کی تمام صفات سے متصف تھے۔ اُن کا کلام دنیا کے فصحا پر اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھاری بھی ہے اور حاوی بھی۔ اُنؐ کے کلام کی تاثیر دائمی مسرتوں سے جیسے کل لبریز تھی آج بھی ہے اور رہے گی بھی!

جان کیٹس نے شاید اسی پہلو کو مد نظر رکھ کر کیا خوبصورت بات کی ہے کہ ’’صفتِ حُسن سے مزین وجود (متنی وجود یا کلام)مسرتِ دائمی کا ایسا سرچشمہ ہے جسے کوئی فنا نہیں بلکہ اس کی دلفریبی ارتقا پذیر ہے ‘‘۔ نبی کریم(ﷺ) کے کلام سے جملہ علوم انسانی،کائناتی و آفاقی فلسفوں کی نہاں جہات نمایاں ہوتی ہیں۔ بہ ایں وجہ آج تک اور آئندہ بھی اس مقدس وشیریں کلام کی سحر انگیزی اور پُر تاثیری ہمہ دم محسوس کی جاتی رہے گی۔ مُجھے تو خلیل جبران کی بات اس حوالے سے کافی صائب نظر آتی ہے کہ ’’حُسن ابدیت ہے جو آئینے میں اپنا عکس دیکھنے میں محو ہے ‘‘بلاشبہ حُسنِ کلام ہی ایک ایسی صفت ہے جو ابد تک کے زمانوں کو محیط ہے۔

محمد شفیع بلوچ نے ختمی المرتبت،سیّد المرسلین(ﷺ)سے اپنی عقیدتوں اور محبتوں کا ثبوت پیشِ نظر کتاب ’’حُسنِ کلامِ محمد(ﷺ)‘‘کی شکل میں دیا ہے۔ محبت ہمیشہ احساناتِ سابق یا توقعاتِ آئندہ کے رشتے سے ہوتی ہے۔ یقیناً ایسی والا صفات اکمل واحسن و بے مثال شخصیت کے جتنے احسانات انسانیت پر ہیں ان کا شمار ناممکن ہے۔ بلوچ صاحب نے اس ہستی ؐ کے کلام ِبلاغت ِ نظام پر بات کرنے سے پہلے اپنی کم مائیگی کا اعتراف یوں کیا ہے کہ ’’کہاں میں،کہاں یہ مقام ‘‘اللہ اللہ اور توقعات ِ آئندہ سے یوں پردہ اُٹھاتے ہیں کہ ’’…بے قیمت اَٹی لیے میں بھی یوسفؑ کے خریداروں میں شامل ہونے چلا ہوں۔ اپنی سادہ لوحی پہ نہ کب رحمتِ یزدانی مُسکرا اُٹھے اور بخشش کا سامان ہو جائے۔ ’’(ص؛۹)ایسے مقدس کاموں کے لیے اللہ کریم اپنے مخصوص بندوں کو چنتا ہے۔ بلوچ صاحب اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں،انہوں نے یہ مقدس کام نبی کریم(ﷺ)کے کلام کی فصاحت و بلاغت کو مدنظر رکھ کیا ہے۔ اس حوالے سے اسے پہلی کوشش بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہر چند اس موضوع پر کام کرنے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔ بہرحال انہوں نے انتہائی عرق ریزی سے احادیث کا انتخاب کیا ہے جو بجا طور پر اُن کے معیارِحُسن ِ انتخاب پر بھی دلالت کرتا ہے۔

زیرِ نظر کتاب کو انہوں نے پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب ’’اہلِ عرب۔ زبان سے بیان تک‘‘ کے نام سے ہے جو گیارہ(۱۱)معتبر حوالوں سے اہلِ عرب کی زبان و بیان کا زمانی و مکانی پسِ منظر وزیر و بم بہ تفصیل رقم کیا گیا ہے۔ دوسرے باب کا عنوان ’’فصاحت و بلاغت‘‘ رکھا ہے اور ہر دو الفاظ کے لغوی و اصطلاحی معانی کی توضیح کی ہے۔ لفظ ’’فصاحت‘‘ کے جملہ پہلوؤں کو عیاں کرنے کے لیے بارہ کتابوں سے مدد لے کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے ان کی ساخت،ہئیت،نشست،سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو ورنہ فصاحت قائم نہیں رہے گی‘‘(ص؛۲۱)اس طرح لفظ ’’بلاغت‘‘ کی توضیح کے لیے بِیس کتابوں کے حوالے ان کی محنت پر دال ہیں۔ اپنے اصل موضوع کی طرف بتدریج بڑھتے ہوئے تیسرے باب کا نام ’’فصاحت و بلاغتِ نبی(ﷺ)‘‘تجویز کیا ہے۔ یہ باب ۲۱ صفحات پر مشتمل ہے جو چھبیس کتب کے حوالوں سے مزین ہے۔ کلامِ نبی(ﷺ) کی فصاحت و بلاغت کے اثبات کے لیے معتبر آراء سے مستفیض ہوتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر یوں رقم کرتے ہیں :

’’الغرض پُختہ اندازِ ادا،شانِ فصاحت،شیریں کلام اور سلاست ِ اسلوب کی کوئی ایسی صفت نہ ہو گی جو آنحضرت میں موجود نہ ہو۔ یہ سب اوصاف آپ(ﷺ) کو فطرت نے عطا کیے تھے،نہ تو ان کے لیے آپ کو ریاضت کرنی پڑی اور نہ مشقت اُٹھانی پڑی بلکہ آپ(ﷺ) تو ان اوصاف میں فطرۃً کامل پیدا ہوئے تھے۔ ‘‘(ص؛۴۷)

کتاب کا چوتھا باب ’’جوامع الکلم ‘‘کے نام سے ہے جس میں کلامِ نبی(ﷺ)کی جامعیت کے جملہ پہلوؤں کو واضح کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں بعض اہلِ قلم کی قرآنِ مجید اور کلام ِ نبی(ﷺ)کی مماثلت سے غلط مطالب نکالنے کو بھی بلوچ صاحب نے نشان زد کیا ہے۔ یوں رقم طراز ہیں کہ ’’بعض اہلِ قلم نے جوامع الکلم سے مراد قرآن مجید کو سمجھا ہے۔ کون ہے جو قرآن مجید کے جامع ہونے سے انکار کر سکے ……مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ وہ کلام ِ قدسی مراد ہے جسے ’’حدیثِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلواۃ والسلام‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص ان الفاظ پر غور کرے گا جو حُضور پُر نور کے دل و زبان سے گوشِ عالمیان تک پہنچے اسے یقین ہو جائے گا کہ بے شک یہ کلامِ نبوت ہے۔ مختصر سادہ،صاف،پُر صدق،معانی کا خزینہ،ہدایت کا گنجینہ‘‘۔ اس باب میں چودہ حوالوں سے مصنف کے وسعتِ مطالعہ کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پانچواں باب پچھلے چاروں ابواب کے مباحث کا لبِ لباب ہے یعنی’’حُسنِ کلامِ محمد(ﷺ)‘‘۔ اپنے موقف کے نقطۂ عروج کی طرف بڑھتے ہوئے بلوچ صاحب اس باب کی ابتدا یوں کرتے ہیں :

’’کسی انسان کی عظمت کا معیار محض اس کے افکار و نظریات کی ہمہ گیری،جامعیت اور فلاحِ انسانیت کے لیے ان کی افادیت ہی نہیں بلکہ اس کی سیرت و کردار،اس کی عادات و اطوار اور اس کی رفتار و گفتار بھی اس کی عظمت کو جانچنے کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔ ‘‘(ص؛۵۹)

بیس معتبر حوالوں کی مدد سے اس بحث کو یوں سمیٹتے ہیں کہ’’حُضوررسالتِ مآب(ﷺ) اُمی تھے مگر بحر العلوم تھے،مدینۃ العلم تھے،علم ِلدنی انہیں حاصل تھا۔ حکمت و دانش کے جو لولوئے آبدار انہوں نے اہلِ علم پر برسائے ان کی درخشانی اور تابانی سے اہلِ دانش کی آنکھیں آج تک خیرہ ہیں۔ ‘‘(ص؛۷۰)اسی باب کا ذیلی حصہ بہت مفصل اور تمثیلی ہے۔ پچھلے تمام مباحث کے اثبات کے لیے نبی ٔ کریم(ﷺ)کے کلامِ مقدس سے مثالیں دی گئی ہیں اور ان مثالوں کا بڑی باریک بینی سے انتخاب کیا گیا ہے جو صاحبِ کتاب کی انتھک محنت کا بیّن ثبوت ہے۔ ’’گلدستۂ فصاحت ‘‘مزید ذیلی پانچ عنوانات کے تحت رقم کیا گیا ہے،اس حصے کی ابتدا میں اپنے جامع خیالات کا اظہار یوں کیا ہے :

’’آپ(ﷺ) کا کلام بے حد متنوع تھا۔ انسانیت کی رہنمائی کے لیے آپ (ﷺ) نے متعدد مواقع پر گفتگو فرمائی…مختلف النوع سوالات کے جوابات بھی دیے اور مسائل حل کیے۔ مختلف اجتماعات ومجالس میں لوگوں سے خطاب فرمایا،وعظ و نصیحت اور تزکیہ نفس کی محفلوں میں لوگوں کی روحانی تربیت فرمائی اور متعدد مواقع پر تقاریر و خطبات ارشاد فرمانے کے علاوہ آپ(ﷺ) کی طرف سے احکامات،معائدات اور مکاتیب بھی جاری ہوئے۔ ان تمام مواقع پر آپ(ﷺ)نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس میں سے بیش تر ہم تک محفوظ صورت میں پہنچ گیا ہے اور ہر قسم اور ہر موقعہ کی کوئی نہ کوئی بات کتب ِ حدیث وسیر میں بطور مثال مل جاتی ہے۔ ‘‘(ص؛۷۱)

پہلا حصہ ’’حُسنِ امثال‘‘ کے نام سے ہے جس میں کل اُنتیس احادیث کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے۔ دوسرا حصے ’’ضرب الامثال‘‘ میں گیارہ احادیث کا سہارا لیا گیا ہے۔ ’’جواہرِ حکمت‘‘ میں کل ۲۴۳ احادیث کا انتخاب کیا گیا ہے جن کا متن مختصر مگر فکری سطح عروج پر ہے۔ جہاں ضرورت محسوس ہوئی بلوچ صاحب نے وضاحت بھی کی ہے۔ چوتھے حصے ’’خطابت‘‘ کے ضمن میں مثال کے طور پر گیارہ خطبات ِ نبی(ﷺ)کو رقم کیا گیا ہے۔ آخری حصہ دعاؤں پر مشتمل ہے جس میں ۱۶ دعاؤں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اسی حصے کی ابتدا میں یوں رقمطراز ہیں کہ ’’بطورِ عبد حُضور(ﷺ)نے دعا کو شعارِ زیست بنایا اور بطورِ نبی دعوت اُن کا معمول بن گئی۔ آپ(ﷺ) کی خلوتیں دعاؤں کے نور سے مستنیر اور جلوتیں دعوت و تذکیر کے حُسن استقامت سے ممیّز تھیں۔ غارِ حرا سے لے کر طائف کے میدان تک،بدر سے لے کر حنین تک،غارِ ثور سے لے کر فتحِ مکہ تک،معاشرت سے لے کر خانگی زندگی تک،حُضورِ اکرم(ﷺ)کے شب و روز دعاؤں کے حصار میں رہے ہیں۔ ‘‘(ص؛۱۲۰)یوں اس سعادتِ بے کراں کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔ بلوچ صاحب اس کلامِ مقدس کے ایک نہاں پہلو کو زیرِ بحث لائے ہیں یہ اُن کے لیے سعادتِ سعید بھی ہے اور اعزاز بھی:

ایں سعادت بہ زورِ بازو نیست

دعا ہے کہ اللہ کریم ان کے اعزاز و اکرام میں اضافہ فرمائے اور مزید اس موضوع پر کام کرنے کی توفیق و صلاحیت بخشے،آمین۔ اپنی بات ایمر سن کے اس قول پہ ختم کروں گا کہ ’’کسی عمدہ فقرے (کلام)کے خالق کے بعد وہ شخص قابلِ تعریف ہے جو اس فقرے (کلام)کو پہلی مرتبہ استعمال کرتا ہے۔ ‘‘

٭٭

 

استفادہ:

 

٭جدید اور مابعد جدید،از: ناصر عباس نیّر،انجمن ترقی اردو،کراچی،ص؛۴۷۷

٭کس نے کیا کہا،از: راشد جاوید احمد،فرخ پبلشرز،لاہور،ص؛۱۳۶

٭فلسفے کے بُنیادی مسائل،از: قاضی قیصر الاسلام،نیشنل بُک فاؤنڈیشن،ص؛۳۳۳

٭٭٭

 

 

 

سورہ رحمن

 

               جوش ملیح آبادی

 

 

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

اے فنا انجام انساں !کب تجھے ہوش آئے گا؟

تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائے گا؟

کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اُٹھ جائے گا؟

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

**

 

سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جا بجا

نرم شاخیں جھومتی ہیں رقص کرتی ہے صبا

پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں دلفریب و خوش نما

جن کا ہر ریشہ ہے قندِ شہد میں ڈوبا ہوا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

**

 

یہ سحر کا حُسن، یہ سیارگاں اور یہ فضاء

یہ معطر باغ، یہ سبزہ، یہ کلیاں دلربا

یہ بیاباں، یہ کھلے میداں، یہ ٹھنڈی ہوا

سوچ تو کیا کیا کِیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا؟

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

**

 

پھول میں خوشبو بھری جنگل کی بوٹی میں دوا

بحر سے موتی نکالے صاف، روشن، خوشنما

آگ کا شعلہ نکالا، ابر سے آب صفا

کس سے ہو سکتا ہے اس کی بخششوں کا حق ادا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

**

 

خلد میں حوریں تری مشتاق ہیں آنکھیں اٹھا

نیچی نظریں جن کا زیور جن کی آرائش حیا

جنّ و انساں میں کسی نے بھی نہیں جن کو چھوا

جن کی باتیں عطر میں ڈوبی ہوئی ہیں جیسے صبا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

**

 

ہر نفس طوفان ہے، ہر سانس ہے اک زلزلہ

موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلہ

مضطرب ہر چیز ہے جنبش میں ہے ارض و سما

ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیاء

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

**

 

اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہرِ خدا

بھولتا ہے کوئی اپنی ابتداء اور انتہاء

یاد ہے وہ دور بھی تجھ کو کہ جب تُو خاک تھا

کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کر دیا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

**

 

صبح کے شفاف تاروں سے برستی ہے ضیا

شام کو رنگِ شفق کرتا ہے اک محشر بپا

چودھویں کے چاند سے بہتا ہے دریا نور کا

جھوم کر برسات میں اٹھتی ہے متوالی گھٹا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

               گستاخ بخاری

( جھنگ)

 

نوکِ خامہ پہ حمد آئی ہے

رنگ اور نور ساتھ لائی ہے

 

کچھ بھی تیرے سوا کسی کا نہیں

یہ تری شانِ کبریائی ہے

 

ہو چکا ہے ہر اک دل پر عیاں

بس خدائی تری خدائی ہے

 

نور ترا علاجِ ظلمت ہے

اور ترا فضل رہنمائی ہے

 

تجھ کو تسلیم مرنے والے سے

تو نے ہر حال میں نبھائی ہے

 

دین و دنیا میں کامیاب ہے وہ

تیری جس جس سے آشنائی ہے

 

مالک الملک تو عزیز بھی تو

تیری حکمت میں پیشوائی ہے

 

’’کُن‘‘سے اس کائنات کی ہر شے

تو نے کس حسن سے سجائی ہے

 

تو غفور الرحیم ہے لاریب

ترا احسان ہی کاروائی ہے

 

ایک گستاخ کا بھی ہے اقرار

ہر جہت تری رونمائی ہے

٭٭٭

 

 

 

حمد باری تعالیٰ

 

 

               نیلما تصور

( کراچی)

 

میں برگِ زرد تھی مجھ کو گلاب توُ نے کیا

میں ایک ذرہ مگر آفتاب توُ نے کیا

 

سلام لکھنے کو، نعتِ حضورؐ لکھنے کو

ہزار شکر مجھے انتخاب توُ نے کیا

 

میرے وجود کے صحرا کو تازگی بخشی

میں تپتی ریت مگر مثلِ آب توُ نے کیا

 

تیرا سہارا نہ ملتا تو کب کی مر جاتی

دکھوں کا دُور ہر اک اضطراب توُ نے کیا

 

قدم قدم پہ میرا ہارنا مقدر تھا

قدم قدم پہ مجھے کامیاب توُ نے کیا

 

تیرے کرم سے ہی خوش بخت یہ تصورؔ ہے

کہ جس کے سر پہ کرم کا سحاب توُ نے کیا

٭٭٭

 

 

 

مناجات

 

               انیس انصاری

( جھنگ)

 

آپ سے کیسے کروں خط و کتابت سائیں

پیش کرنی ہے مجھے اپنی حکایت سائیں

 

قلم انگشت ہے، قرطاس ہے دیوارِ حرم

جز ترے کون پڑھے گا یہ عبارت سائیں

 

ایک پلڑے میں مرے جرم کی فردیں رکھ دے

دوسرے میں یہ مرے اشک ندامت سائیں

 

آج بھی اُڑتی ابابیلیں درِ صحنِ حرم

کر رہی ہیں ترے کعبہ کی حفاظت سائیں

 

کل ترے شہر سے جانا ہے مجھے جانِ انیس!

آج کی رات ہے اور تری مدارات سائیں

٭٭٭

 

 

 

نعت

 

               حفیظ شاہد

( خان پور)

 

 

سب سے اعلیٰ ہیں کائنات میں آپؐ

رہنما ہیں رہِ حیات میں آپؐ

 

ہیں دوامی بہارِ ایماں کی

موسموں کے تغیرات میں آپؐ

 

بے سہاروں کا اک سہارا ہیں

اس زمانے کے حادثات میں آپؐ

 

مظہرِ شانِ آدمیت ہیں

زندگی کی تجلیات میں آپؐ

 

جگمگاتے ہیں چاند کی صورت

میرے روشن تخیلات میں آپؐ

٭٭٭

 

 

 

نعتِ رسولِ مقبولؐ

 

               محمد علی سوزؔ

( کراچی)

 

مرے محمدؐ!

تمام عالم تری ہی رحمت سے موجزن ہے

تری شفاعت سے بے عنایت

شفاعتوں کی نوید سُن کے ہی جی رہے ہیں

کہ تیری رحمت جو بے کراں ہے

جو بے بہا ہے، جو ہر جگہ ہے

مرے محمدؐ!

عمیق دریا، ا تھاہ ساگر

میں پلنے والی

تمام ذی روح بہرہ ور ہیں

تری ہی رحمت کا یہ اثر ہے

مرے محمدؐ!

کہ تیری رحمت میں اہلِ مغرب کے اہلِ دانش

بھی سرنگوں ہیں

کہ روزِ محشر، تری یہ رحمت، تری شفاعت

ہمارے سر پر تنی رہے گی

مرے محمدؐ!

تری یہ اُمّت تری شفاعت کی منتظر ہے

٭٭٭

 

 

 

نعت

 

               خالد مصطفی

( گوجرانوالا)

 

لکھنے بیٹھا ہے تری شان مدینے والے

مجھ سا اک بے سروسامان مدینے والے

 

کون ہے دو ست ہمارا نہیں معلوم ہمیں

اور نہ دشمن ہی کی پہچان مدینے والے

 

کب تھمے گی مری دھرتی پہ لہو کی بارش

کب سکوں پائے گا انسان مدینے والے

 

فقرکس کا ہمیں اس کارِ ہوس سے روکے

اب تو بوذرؓ ہیں نہ سلمان ؓ مدینے والے

 

نعت لکھنے کا قرینہ مجھے کیسے آتا

میں نہ بُو صیریؒ نہ حسّان ؓ مدینے والے

 

جامی ؒ و سعدیؒ و قدسی ؒو رضاؒ ہی تو نہیں

میں بھی ہوں تیرا ثنا خوان مدینے والے

٭٭٭

 

 

مولودِ کعبہ

 

               وفا حجازی ( مرحوم)

 

حضور کے درود پر

حیات کی نمود پر

بساط صبحِ نقرئی

ہے عرصہ شہود پر

نزول حرفِ آگہی

جہانِ ہشت و بود پر

۔ ۔ حضور کے درود پر

٭

 

رفیعِ شان و مرتبت

مقام و قدر و منزلت

وہ اقتباسِ عرشیاں

وہ بابِ علم و معرفت

حروف و صوت کی فضا

مقا صدہ و منقبت

رفیع شان و مرتبت

٭

 

ہے جس کے دم سے چار سُو

فروغِ جذبۂ نمو

مہد و نجوم و کہکشاں

فشار دشت و کاخ کو

جہت جہت کی روشنی

افق افق کی آبرو

۔ ۔ ہے جس کے دم سے چار سُو

٭

 

وہ پھول دیکھنے لگے

رسولؐ دیکھنے لگے

ملائکہ کا عرش سے

تمام کائنات کا

اصول دیکھنے لگے

۔ وہ پھول دیکھنے لگے

٭

 

غریب بولنے لگے

نصیب بولنے لگے

وہ شہرو بابِ علم کے

نقیب بولنے لگے

حیات کے مقام پر

ادیب بولنے لگے

۔ غریب بولنے لگے

٭

 

امامتوں کے سلسلے

شہادتوں کے سلسلے

بدن پہ خطِ تیغ ہے

اشاعتوں کے سلسلے

وہ زیرِ خنجرِ رواں

عبادتوں کے سلسلے

۔ ۔ امامتوں کے سلسلے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک لافا نی سلام

 

               علامہ رشید ترابی

 

 

جہاں ولی ہے عیاں لا الہ الا اللہ

نہ کون ہے نہ مکاں لا الہ الا اللہ

 

سبک ہے دونوں جہاں لا الہ الا اللہ

گراں ہے سخت گراں لا الہ الا اللہ

 

سبھی زمانے کی گردش سے ہو گئے مجبور

مگر امام زماں لا الہ الا اللہ

 

کہا علیؑ نے کہاں تک لڑوں نبیؐ بولے

فقط ہے شرطِ اماں لا الہ الا اللہ

 

خدا کی راہ میں کٹتی ہے یوں شبِ ہجرت

نفس نفس پہ جناں لا الہ الا اللہ

 

محمدؐ و علیؑ و فاطمہؑ حسینؑ و حسنؑ

کدھر ہے کہکشاں لا الہ الا اللہ

 

علیؑ کی تیغ سے پوچھو ہر اک تاریخ

کہا ہے کس نے کہاں لا الہ الا اللہ

 

گواہ ہے ہر اک مدعی نہیں مشرک

وہ صبح قتلِ اذاں لا الہ الا اللہ

 

ضعیف باپ نے دیکھی پسر کی یہ حالت

کلیجہ اور سناں لا الہ الا اللہ

 

رگیں گلے کی اِدھر کٹ رہی ہے خنجر سے

اُدھر ہے وردِ زباں لا الہ الا اللہ

 

جناب عابد بیمار اور بھرا دربار

گلے میں طوقِ گراں لا الہ الا اللہ

 

رشیدؔ امامِ زمانہ کی معرفت کے بغیر

فقط ہے وہم و گماں لا الہ الا اللہ

٭٭٭

 

 

 

 

کربلا کے حوالے سے

 

               عبداللہ جا وید

( کینیڈا )

 

سچ رکھا یا کوئی دھوکا رکھا

آئینے نے ہمیں الٹا رکھا

 

باغ کے سارے شجر بھیگ گئے

بارشوں نے کسے سوکھا رکھا

 

سامنا ہو تو ہوا سے پو چھوں

ڈالیوں میں کوئی پتّا رکھا۔ ؟

 

جس نے دریا کی رفاقت بخشی

اس کو حُکّام نے پیا سا رکھا

 

ہائے فرا ء ت تر ے بخت سیاہ

تو نے کس شخص کو پیاسا رکھا

 

رکھنے والے نے جدائی رکھی

ایک کو ایک کا پردہ رکھا

 

رکھا نا نا کو مدینے میں الگ

کر بلا تجھ میں نو اسا رکھا

 

بڑی مشکل مجھے پیش آئی ہے

بڑی مشکل سے سنبھالا رکھا

 

تو جو بکھری ہوئی سچائی ہے

میں نے مالک تجھے یک جا رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

               سید گلفام رضا زیدی

( خیر پورسندھ)

 

کیسے بتائیں آپ کو ہم، کیا حسینؑ ہے

جانِ رسول دیں کا مسیحا حسینؑ ہے

 

آغوشِ فاطمہؑ کی فضیلت نہ پوچھئے

آغوشِ فاطمہؑ میں سمایا حسینؑ ہے

 

جس دم اٹھایا ہاتھوں پہ اپنے رسول نے

لگتا ہے جیسے عرش کا تارا حسینؑ ہے

 

فطرس کو پر ملے تو یہ کہتا ہوا چلا

سب کو حیات بانٹنے والا حسینؑ ہے

 

کل بھی کوئی سمجھ نہ سکا اُس کی منزلت

فکرِ بشر سے آج بھی بالا حسینؑ ہے

 

فطرس کو پر دیئے تو تعجب کی بات کیا

دینِ نبیؐ کو جس نے ہے پالا حسینؑ ہے

 

مردہ ضمیر جیت کے میدان مر گئے

نوکِ سناں پہ آ کے بھی زندہ حسینؑ ہے

 

ہر ذرہ کائنات کا دیتا ہے یہ صدا

دنیا و آخرت کا سہارا حسینؑ ہے

 

حُر نے یہ کہہ کے زانوئے شہ پر جبیں رکھی

میرا نصیب جس نے سنوارا حسینؑ ہے

 

گلفامؔ میں ازل سے ہوں مداحِ اہلِ بیتؑ

میرے نسب کا صرف حوالہ حسینؑ ہے

٭٭٭

 

 

 

مولا علیؑ

 

 

               ڈاکٹر مخدوم محمد حسین

( رحیم یار خان)

 

ہم دوشِ بنیؐ ہم رازِ نبیؐ

اللہ کا کرم تو نیاز نبیؐ

 

ہے علم کے شہر کا دروازہ

وہ صدائے حق آوازِ نبیؐ

 

ایماں والوں میں اوّل مسلم

ہم راہیِ اوّل نمازِ نبیؐ

 

آیۂ قُل کفیٰ ہو یا اِنّمَا

علی ناظق قرآں بہ اندازِ نبیؐ

 

من کُنتّ مولا کا وہ تاج ور

سب سن لیں یہ آوازِ نبیؐ

 

مجھ حسینؔ کو ہو اس در سے عطا

میں بھی ہوں گدائے حجازِ نبیؐ

٭٭٭

 

 

 

مجھے تیرا خیال علیؑ مولیٰ

جانے تو سب حال علیؑ مولیٰ

 

تیرے لیے سورج لوٹ آیا

بعد از زوال علیؑ مولیٰ

 

ہر سوال کا تیرے پاس جواب

میں سارا سوال علیؑ مولیٰ

 

ہو کلام کی یا تلوار کی کاٹ

سب تیرا کمال علیؑ مولیٰ

 

تیری’’عین‘‘ اور ’’با‘‘ کے راز کے ساتھ

ہے میری مجال علیؑ مولیٰ

 

میں ’’ ھم ّ و غمّ میں ڈوبا ہوا

مجھے اس سے نکال علیؑ مولیٰ

٭٭٭

 

 

 

 

جبریلؑ بھی حیراں ہے اس پہ

بسترِ رسولؑ پر جو لیٹا ہے

 

تجھ سے قائم ہوئی مواخاۃِ نبیؐ

تو آپؐ کا بھائی آپؐ کا بیٹا ہے

 

بدر سے تا بہ وقتِ نہروان

کفر کو ہر جگہ لپیٹا ہے

 

بسم اللہ کی ’’با‘‘ کے اندر

تو نے قرآن کو سمیٹا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

میری روح کے تار ہلاتا ہے

میرا سوز علیؑ میرا ساز علیؑ

 

وہ کوفہ ہو یا دشتِ بلا

ہر مومن کی نماز علیؑ

 

اَنہد ہو یا کہ سرمد ہو

ہے ہر ہر کی آوازِ علیؑ

 

مجھ حسینؔ کو تیری گدائی ملے

مجھ پہ یہ کرم ہو نیاز علیؑ

٭٭٭

 

 

 

میری صبح علیؑ میری شام علیؑ

میرے لب پہ تیرا نام علیؑ

 

یہ لمحے سارے تیرے ہیں

میرا ورد علیؑ میرا کام علیؑ

 

سارے گھر میں تیری خوشبو ہے

کہتے ہیں در اور بام علیؑ

 

ھل اتیٰ ہو یا کہ انّما

ہے کیسا تیرا مقام علیؑ

 

تُو چشمۂ کوثر کا مالک

مجھے دے دو حُب کا جام علیؑ

 

میں خالی جھولی خالی قلم

مجھ حسینؔ کو ملے کلام علیؑ

٭٭٭

 

 

 

 

ہے جب سے تیری یاد علیؑ

میرا دل تجھ سے آباد علیؑ

 

مجھے نجف کی گلی دکھا دینا

میری پوری کرو مراد علیؑ

 

میرے دل میں دھڑکن تیری ہے

میری روح میں رچی ہے نادِ علیؑ

 

اب سب کو ملے تیرا عرفان

سب امت کر دو شاد علیؑ

 

میرا داتاؒ ہو یا خواجہؒ ہو

سب زین العبادؑ سجادؑ علیؑ

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں گھرا ہوں بیچ مندھار علیؑ

میرا کر دو بیڑا پار علی

 

کل دنیا تیرے پاؤں میں

تو شاہا اسپ سوار علیؑ

 

میری سانسوں میں ہے تیرا گزر

میری جان بھی تجھ پہ نثار علیؑ

 

دو ٹکرے کر دے ہر شے کو

ہے چیز عجب ذوالفقار علیؑ

 

اپنے قاتل کو بھی معاف کرے

وہ قوتِ پروردگار علیؑ

 

مجھ حسینؔ پہ اپنی مہر لگا

میرے دل کو ملے قرار علیؑ

٭٭٭

 

 

 

 

خود کاتب خود کتاب علیؑ

ہر علم کا پورا باب علیؑ

 

علماء کے علم کی صرف و نحو

فقراء کے دل کا گلاب علیؑ

 

تو میرے سوال کو آساں کر

مجھے دینا نہیں حساب علیؑ

 

سب اہلِ صفا تجھ سے روشن

تو ہستی کا مضراب علیؑ

 

مجھ حسینؔ پہ اپنا سایہ کر

تیری ذات ہے اک سحاب علیؑ

٭٭٭

 

 

 

 

سب اہل صفا کی جان علیؑ

ہر مومن کا ایمان علی

 

جبریلؑ بھی تجھ پہ رشک کرے

ہے ایسی تیری شان علیؑ

 

ہے حدیث کی رو سے ٹو مولیٰ

ہے قرآن میں تیرا بیان علیؑ

 

سب صوفی تیرے سائل ہیں

تیرا نام ہے کل عرفان علیؑ

 

مجھے سوئے نجف روانہ کر

مجھ حسینؔ کی منتی مان علیؑ

٭٭٭

 

 

 

 

یہاں وہاں علیؑ علیؑ

زمیں زماں علیؑ علیؑ

 

سب جگہ ظاہر ہوا

سّرِ نہاں علیؑ علیؑ

 

کعبہ ہے یا مسجد ہے

تیرا مکاں علیؑ علیؑ

 

اہلِ صفا کے قلب پر

تیرا نشاں علیؑ علیؑ

 

میرے قلب کو کرو حضور

شاہِ مرداں علیؑ علیؑ

٭٭٭

 

 

 

 

تو میرا ایماں علیؑ مولا

تیرا دھیان علیؑ مولا

 

لحمک لحمی جسمک جسمی

کیا تیری شان علیؑ مولا

 

چشتی، قادری، سہروردی

ہیں تیرا نشان علیؑ مولا

 

مومن کے سارے جسم کی

ٹُو ہے جاں علیؑ مولا

 

تو اک چلتا پھرتا قرآن

دے سب کو قرآن علیؑ مولا

 

اپنوں کی حب عطا کر دے

اس حسینؔ کی مان علیؑ مولا

٭٭٭

 

 

 

اسیر عابد

               ( سیا لکوٹ)

 

(تین شعر)

 

پارہ پارہ لاشہ قاسمؑ کتابِ دشت میں

مصحفِ ناطق کسی تفسیر کے قابل نہ تھا

 

محسن انسانیتؐ کی بیٹیاں دربار میں

کنبہ آلِ نبیؐ تشہیر کے قابل نہ تھا

 

ہمسر عرشِ معلیٰ ہو گیا ہے یا حسینؑ

دشتِ غربت آپ کی جاگیر کے قابل نہ تھا

٭٭٭

 

 

یا حسینؑ ابنِ علیؑ یا سیّدی

 

               ایوب خاور(لاہور)

 

یا حسینؑ ابنِ علیؑ

یا سیّدی

کربلا کب ختم ہو گی

ریت کے ٹیلوں کے پہلو میں لرزتی، اُڑتی پھرتی

دھُول کے ذرّوں سے خوں کا ذائقہ اب بھی ٹپکتا ہے

گردنیں کٹ کٹ کے پیڑوں کی شکستہ ٹہنیوں میں جا اُلجھتی ہیں

ہوا، آہ و بُکا کے شور میں چکرا کے خود رَو جھاڑیوں سے جا لپٹتی ہے

ہمارے عہد میں

ابنِ زیاد و ابنِ سعد و شِمر کے جائے

زِرہ بکتر نہیں، خود کش دھماکوں کے لئے جیکٹ پہنتے ہیں

یہ ّجنت اور ّجنت کی حسیناؤں کے بیوپاری

گذشتہ کچھ برس سے

کربلا کو کھینچ لائے ہیں یہاں، اِس ّخطۂ خوں ناب میں

تاریخ جس کی پہلے ہی سے ایک سطحِ مرتفع جیسے

نشیبوں اور فرازوں سے بھری ہے

یا حسینؑ ابنِ علیؑ

 

یا حسینؑ ابنِ علیؑ

یا سیّدی

یہ کوفی

خارجی

دشمنانِ آلِ ابراہیمؑ

جو اِس پندرہویں ہجری تک آتے آتے

ہر اُس آدمی کے خوں کے پیاسے ہو گئے ہیں

جس کے دِل میں دین و دنیا

اِک توازن سے دھڑکتی ہے

ہر ایسا آدمی اِن قاتلوں کی زَد پہ ہے

جو اِک نئی دنیا کے شانے سے ملا کر شانہ، چلنا چاہتا ہے

اپنی مرضی اور آزادی سے جینا چاہتا ہے

یا حسینؑ ابنِ علیؑ

یا سیّدی

 

عجب قاتل۔ ۔ ۔ عجب وحشی، جنونی، سنگ دِل قاتل ہیں یہ کوفہ نژاد

ہمیشہ مارنے سے پہلے مر جاتے ہیں

اپنی د ّھجیوں میں لپٹے لوہے کے کٹے ٹکڑوں کی زَد پر بے گنہ بچوں، جوانوں

اور بوڑھے مرد و زَن کو رکھ کے،

یہ خود تو جہنّم کی طرف پرواز کرتے ہیں

مگر چوراہوں شہہ راہوں کو، گلیوں اور محلّوں،

سجدہ گاہوں اور بازاروں

کو مقتل میں بدل دیتے ہیں

یاحسینؐ ابنِ علیؑ یا سیّدی۔ ۔ ۔ مولا!

اگرچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے

خیمے نہیں دیکھے

مگر تاریخ کے آئینے میں جو کربلا محفوظ ہے

اُس کربلا کی شام

شام بھی شامِ غریباں

بی بیوں اور بچّوں کی آہ و فغاں

جلتے ہوئے خیمے

یہ سب کچھ آنسوؤں کی رَو میں بہہ کر بھی نہیں بہتا

دِلوں کی تہہ میں رہتا ہے

مگر اب کچھ برس سے مستقل ہی

گوشۂ چشمِ عزا داراں میں رہتا ہے

ہر اِک دن کربلا

ہر شام

شامِ ہول ہے

ہر گھر، گلی، بازار خیموں کی طرح جلتے بھڑکتے ہیں

اور ان کی آگ میں معصوم جسم و جاں جھلستے ہیں

اور اب کی بار تو

یہ دس محرم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یا حسینؑ ابنِ علیؑ

یا سیّدی

مولا!

عزا داروں کے مجمع پر

اچانک لوہے کے ٹکڑوں کی بارش۔ ۔ ۔ ۔

وہ وقت

وقتِ عصر تھا

پھر ’’ شامِ شہر ِ ہول تھی‘‘

جلتا ہوا بازار تھا

جلتے ہوئے خیموں کی صورت میں پھر اُس جلتے ہوئے بازار کو لوٹا گیا مولا!

قیامت پر قیامت گِر رہی ہے

کربلا لیکن ابھی تک جل رہی ہے

یا حسینؑ ابنِ علیؑ

یا سیّدی

مولا!

کئی صدیوں پہ پھیلی کربلا کب ختم ہو گی

یزیدیت، حسینیت کے ہاتھوں کون سے ہِجرے میں جا کر بھسم ہو گی!!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

امام حسینؑ

 

               ڈاکٹر اختر ہاشمی ( کراچی)

 

تکمیل دین حق کی نشانی حسینؑ ہے

کرب و بلا کی فکر کا بانی حسینؑ ہے

 

صحرا میں اس کا سجدۂ آخر گواہ ہے

نبیوں کی کوششوں کی کہانی حسینؑ ہے

کارِ نبی اسی کے سہارے ہے موجزن

دریا تو مصطفی ہیں روانی حسینؑ ہے

 

وہ پیاس ہو کہ آتش ظلم یزید ہو

تشنہ دہن زمانہ ہے پانی حسینؑ ہے

آزادی خیال کا تردید ظلم کا

جس جس جگہ محاذ ہے بانی حسینؑ ہے

جبرِ یزید سوچ کے بیعت کا نام لے

خیبر شکن پدر کی نشانی حسینؑ ہے

خون گلو سے آ گیا اسلام پر شباب

حق کے نظام نو کی جوانی حسینؑ ہے

 

دین خدا پہ آنچ نہ آئے گی اب کبھی

اخترؔ اصول و صدقِ بیانی حسینؑ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سلام

 

 

               حمیدہ سحر ( کراچی)

 

 

ملی روحانیت مجھ کو حسینی مدح خوانی سے

سبھی حیران بیٹھے ہیں مری معجز بیانی سے

 

لگی تھی آگ دل میں داستانِ کربلا سے جو

اُسے آ کر بجھایا ہے مرے اشکوں نے پانی سے

 

خدا نے سرخ رو اُن کو کیا دونوں جہانوں میں

بقا اسلام کو دے کر گئے دنیائے فانی سے

 

یزیدِ وقت کی باتوں میں اب آتا نہیں کوئی

کسی کی پیاس بجھتی ہی نہیں ہے کھارے پانی سے

 

حسینؓ ابنِ علیؓ سے عابدِؓ بیمار یہ بولے

مری طاقت، مری قوت بڑھی ہے ناتوانی سے

 

حقیقت جان لی ہے کربلا والوں کی دنیا نے

وہ کوثر والے ہو کر کیوں رہے محروم پانی سے

 

ولایت آپ کی مولا خدا کی ہے عطا کردہ

بہت شاداں و فرحاں ہے سحرؔ اِس شادمانی سے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

               کرامت بخاری( لاہور)

 

 

آتے نہ کربلا میں جو سردارِ کربلا

کھُلتا کہاں یہ عقدہ دشوارِ کربلا

 

تفسیر مصحفٔ رخِ شبیرؑ کے لئے

آئینہ خود کیے حاشیہ بردارِ کربلا

 

کیسے مٹائیں ان کو زمانے کی ظلمتیں

آثارِ کردگار ہیں آثارِ کربلا

 

پیشِ نظر ہے منظرِ کرب و بلا ہنوز

آنکھیں ہیں گویا روزنِ دیوارِ کربلا

 

دنیا میں بے مثال ہے شاہِ اُمم کا غم

دنیا میں بے مثال ہے کردارِ کربلا

 

جن سے بندھی ہوئی تھیں امیدیں رسولؐ کی

وہ مرکزِ یقیں ہیں سرکارِ کربلا

 

لاکھوں سلام اے مرے مولائے تشنہ کام

لاکھوں درود قافلہ سالارِ کربلا

٭٭٭

 

 

 

 

               کرامت بخاری

 

جس میں نازل ہوئیں قرآن کی آیات وہ گھر

یعنی آیات بنیں جس کی روایات وہ گھر

 

جس پہ جھکتی ہیں فرشتوں کی جبینیں اکثر

جس میں ہوتی ہے محمدؐ سے ملاقات وہ گھر

 

جس سے تعلیم ہوا دہر میں قرآن کریم

تھا جو وقف بہ آدابِ عبادات وہ گھر

 

آیت آئی کبھی فردوس کی نعمت اتری

جس پہ ہوتی رہیں خالق کی عنایات وہ گھر

 

جس میں آقا نے غلاموں سے محبت کر کے

ساری دنیا کو دیا درسِ مساوات وہ گھر

 

جس کو ہر دور کے فاسق نے مٹانا چاہا

پھر بھی موجود رہے جس کے نشانات وہ گھر

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               حسن عباس رضا

(راولپنڈی)

 

 

راہِ وفا میں نکلو، تو پھر گھر نہیں رہتا

آنکھ میں آنسو اور شانوں پہ سر نہیں رہتا

 

جن سینوں میں تیر ترازو ہو جاتے ہیں

اُن سینوں میں کسی یزید کا ڈر نہیں رہتا

 

یثرب سے تا شام مسافت جتنی کڑی ہو

راہ میں کربل آئے تو رنجِ سفر نہیں رہتا

 

سنگِ رِہ دنیا میں اگر اُس خاک کو چھُولے

پارس ہو جاتا ہے وہ پتھر نہیں رہتا

 

وہ حُر ہو یا حسن رضا ؔ سا شاعر کوئی

آئے اِدھر اک بار تو پھر وہ اُدھر نہیں رہتا

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

 

               شاعر علی شاعر

( کراچی)

 

 

 

یہ جو میں نے سلام لکھا ہے

کتنا اعلیٰ کلام لکھا ہے

 

پہلے لکھا حسین ابنِ علی

پھر علیہ السلام لکھا ہے

 

ہم تو انسان ہیں مَلک نے انھیں

جب بھی لکھا امام لکھا ہے

 

میں نے دنیا کے سب اماموں میں

اُن کو عالی مقام لکھا ہے

 

جن کو رکھا ہے وقت نے پیاسا

اُن کا کوثر پہ نام لکھا ہے

 

میری قسمت میں اُن کی نسبت کا

دونوں عالم میں جام لکھا ہے

 

اُن کو آقا لکھا مرے دل نے

خود کو اُن کا غلام لکھا ہے

 

اُن کو مشکل کشا قلم نے مرے

صد بہ صد احترام لکھا ہے

 

ہم نے حاجت روا اُنھیں لکھ کر

حاجتوں کا پیام لکھا ہے

 

شاعرِ اہلِ بیت ہوں شاعرؔ

میرا جنت پہ نام لکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               رفیع الدین راز

( کراچی)

 

دل نے بس اتنا کہا اے سبطِ پیغمبر چراغ

بچھ گئیں راہوں میں کرنیں بن گئے پتھر چراغ

 

خانۂ شبیرؓ ہے یا سلسلہ انوار کا

روشنی کا یہ تسلسل! یعنی گھر کا گھر چراغ

 

ہم پرستارِ حسین ابنِ علیؓ ہیں اس لیے

دل کا محور آئنہ ہے، آنکھ کا محور چراغ

 

چھو لیا تھا بچپنے میں کربلا کی خاک کو

جل رہے ہیں آج تک میری ہتھیلی پر چراغ

 

کس لیے دیکھوں سفر میں سوئے مہتاب و نجوم

میری آنکھوں میں فروزاں ہیں کہیں بہتر چراغ

 

پرتوِ خاکِ نجف جس دن سے ہے جزوِ حیات

بن گئے ہیں میری فکر و فہم کا لشکر چراغ

 

قریہ قریہ، جادہ جادہ فیض ہے اس نور کا

ہے منوّر اس کی لو سے رہ گزر کا ہر چراغ

 

قطرۂ خونِ شہیداں کے ہیں یہ مہر و نجوم

یا ہواؤں نے جلائے ہیں سرِ منظر چراغ

 

ذکر جب سے روح میں ہے راز!ؔ اہلِ بیتؓ کا

گفتگو کرتے ہیں مجھ سے نیند میں اکثر چراغ

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

 

               افضل گوہر

( پھلروان)

 

 

تھک گیا جو بھی طے یہ رہگزر کرتا ہے

کون تیری طرح نیزے پہ سفر کرتا ہے

 

آج بھی میرے تعاقب میں ہے اک ایسا یزید

پانی مانگوں تو بدن خون سے تر کرتا ہے

 

کربلا اپنے تقدس کو سنبھالے رہنا

خون ایسا ہے کہ ذرات کو زر کرتا ہے

 

سب کو رونے کا سلیقہ نہیں آتا ورنہ

تیرا ماتم تو ہر دل پہ اثر کرتا ہے

 

ہم حسینیؑ ہیں ہمیں اس لئے افضل گوہرؔ

کوئی پابند کوئی شہر بدر کرتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

 

               ذوالفقار نقوی

( پونچھ۔ کشمیر)

 

غمِ حسینؑ کا صدقہ اُتار کر آنا

اَنا کو فرشِ عزا پر نثار کر آنا

 

ترے یقیں کا مصلی بچھے گا پانی پر

تو واہموں کے سمندر کو پار کر آنا

 

حسینؑ حُر کی طرح تجھ کو بخشوا لیں گے

یزیدیت کی اداؤں کو مار کر آنا

 

تمہارے دامن ِ عصیاں میں پھول بھر دیں گے

چراغِ اشک سے پلکیں سنوار کر آنا

 

تمہاری جیت کا اعلان ہو گا محشر میں

بس اپنے نفس کا ہر کھیل ہار کر آنا

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               احمد ادریس

( گوجر خان)

 

پھر آئی شامِ الم خون میں نہائی ہوئی

پڑاؤ کرتی ہوئی دھڑکنوں میں چھائی ہوئی

 

خیام جلنے لگے راکھ ہو گیا سب کچھ

پھر اس کے بعد وہ آزار کہ دہائی ہوئی

 

ہم اہل درد ہیں اپنا یہی حوالا ہے

فضائے کرب و بلا آنکھ میں سمائی ہوئی

 

تمام ہونے لگی مجلسِ شبِ عاشور

کہ بارگاہِ حسینیؑ تلک رسائی ہوئی

 

بفیضِ شام غریباں ملے ہمیں آنسو

شعورِ درد سے صد شکر آشنائی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

               ڈاکٹر محمد اشرف کمال

( بھکر)

 

رہِ وفا پہ چلا ہوں تو آئنہ ہے حسین

کبھی بھٹک نہیں سکتا کہ رہنما ہے حسین

 

میں با وضو جو کبھی نیند اوڑھ لیتا ہوں

تمام شب مری آنکھوں میں جاگتا ہے حسین

 

کسی طرح بھی لکھا ظلم کے خلاف لکھا

خیال و فکر میں ایسے بسا ہوا ہے حسین

 

اسی کے دم سے ہے سورج میں روشنی کا ہجوم

ہوا کے سامنے جلتا ہوا دیا ہے حسین

 

پلٹ گئے ہیں کڑے وقت پر مفاد پرست

یزیدِ وقت کے آگے ڈٹا ہوا ہے حسین

 

میں عین وقت پہ اپنوں سے آملوں گا کمال

اس انتظار میں ہوں کب پکارتا ہے حسین

٭٭٭

 

 

               ڈاکٹر محمد اشرف کمال ( بھکر)

 

 

دلوں میں زندہ ہے یادِ حسین ابنِ علی

لبوں پہ جاری ہے ذکرِ حسین ابن علی

 

چمک رہا ہے زمیں آسماں کے ماتھے پر

لکھا ہے خون سے نامِ حسین ابن علی

 

فلک پہ چاند ستارے بھی رشک کرتے ہیں

کوئی نہ پا سکا شانِ حسین ابن علی

 

جو دیکھنا ہے مرے دل کو چیر کر دیکھو

ابھی بھی تازہ ہے زخمِ حسین ابن علی

 

شعور دیتی ہے سوچیں اجال دیتی ہے کمال

جہاں میں آج بھی فکرِ حسین ابن علی

٭٭٭

 

 

 

لبیک اللھم لبیک

 

               معصومہ شیرازی

( کراچی)

 

وادیِ عشق میں جوق در جوق چلتے ہوئے کارواں

جن کے بڑھتے قدم شوق کی داستاں ………

جن کی پیشانیاں عجز کے آسماں ………

جن کی دھڑکن ہے لبیک کی جلترنگ

جن کے سانسوں میں توحید ہے خیمہ زن

جن کے تشنہ دہن شوق کے دشت میں

آب تسنیم و کوثر کے ہیں ہم قدم

گرمیِ عشق سے جلتی پیشانیوں پر بڑے ناز سے ……

بوسے لیتی ہوئی گردِ خاک خرم

جن کی رگ رگ میں شوق ملاقات کا……

ایک محشر بپا!

اور سلگتے لبوں پر مچلتی صدا

ایک نظر ِ کرم میرے مشکل کشاء میرے حاجت روا

جن کی آنکھوں ہے آب کوثر رواں

جن کی ہونٹوں کی ہر ہر شکن میں نہاں ……

بندگی کی اذاں !

تیری نظرِ کرم دشت میں سائباں !

دستِ بستہ سنو آ رہی ہے صدا ……

وادیِ عشق میں آج اذن ملاقات کا وقت ہے

آج اتمامِ نعمت میں !

نور علیؑ کی الہٰی مدارات کا وقت ہے ……

٭٭٭

 

 

 

گواہی کردار

 

               معصومہ شیرازی

( کراچی)

 

کوئی معجزہ نہ پیمبری

نہ تونگری نہ سکندری

نہ عروج طاقت طاہری کا جلال تھا

فقط ایک درِّ یتیم بن کے کھڑا تھا کوہِ قبیس پر

جسے کفر پیشہ ہجوم نے

سرِ بزم سچ کی ندا کہا

اے جدید دور کے کاہنو!

جو جمال سیرت مصطفیٰ کا تھا ظلمتوں سے مباہلہ

وہ گروہِ کفر سے ہو چکا

سرِ عام کوہِ قبیس پر

٭٭٭

 

 

 

 

وفا کے عہد

 

               حسنین شہزاد

( عبدالحکیم۔ خانیوال)

 

 

دیئے بجھا دیئے گئے

پھر اس کے بعد جنتوں کا بادشاہ

خیمۂ نصیب میں براجمان تھا

فلک نشان تھا

وہ جاں نثار ساتھیوں سے کہہ رہا تھا

دوستو !

مجھے عزیز تر ہے خونِ دوستاں

میں گامزن ہوں سوئے منزلِ مراد

آج رات فیصلے کی رات ہے

نظر کے سامنے ہے دشت اور

دشمنوں کی گھات ہے

ہر ایک کو ہے اجازتِ عام

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عجیب لمحۂ فیصلے سنا دیئے گئے

وفا کے عہد تھے، نبھا دیئے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

نذر حسینؑ

 

               حسنین شہزاد

(عبدالحکیم۔ خانیوال)

 

حسینؑ !

تیرے لہو کی تپش سے زندہ ہے

دل و نگاہ کے مقتل میں جذبۂ شبیرؑ

جہانِ شوق کے کربل میں جذبۂ شبیرؑ

مگر حسینؑ!

یہ جذبات سرد تر ہیں آج

محبتوں سے مبّرا۔ ۔ ۔

ان آبگینوں میں

تمام سجدوں میں رکھی ہوئی جبینوں میں

حسینؑ !

پھر سے مودّت کا درس دینے آ

کہ میرے دین کو پھر سے تیری ضرورت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

               ہدایت کاشف

( رحیم یار خان)

 

شوقِ شہادت مچل رہا ہے چہرہ چہرہ روشن ہے

صحرا میں اک بجھے چراغوں والا خیمہ روشن ہے

 

چاروں اَور اُمڈ آئے ہیں ظلمت کے طوفان مگر

مصباح الہدایت لیکن ان میں تنہا روشن ہے

 

اصغرؑ کے معصوم لہو سے وادی مہکی مہکی ہے

اکبرؑ کی نوری صورت سے پورا صحرا روشن ہے

 

یوں تو لاکھوں سجدے ہیں تاریخ کے چہرے پر لیکن

زخمی پیشانی کا خون آلودہ سجدہ روشن ہے

 

اب بھی چراغِ راہ بنا ہے نقشِ پائے مولا حسینؑ

اب بھی حق اور سچ کی منزل کا ہر رستہ روشن ہے

 

دل میں کاشف سوگ سجا ہے جگر میں بھی اک روگ بسا ہے

اندر قبر حسینؑ کی لَو ہیاس سے سینہ روشن ہے

٭٭٭

 

 

سلام

 

               وسیم عباس

(لاہور)

 

 

ہے توُ ہی مرغزارِ فن مرے کریمِ کربلا

عظیم ہے ترا چلن مرے کریمِ کربلا

 

زمیں تری ہے سلطنت، کمال تیری تمکنت

ہے منفرد ترا سخن مرے کریمِ کربلا

 

ملے ہیں مثلِ حُر گہر، ترے ہی در سے روز و شب

امامِ من، شہِ زمن مرے کریمِ کربلا

 

تجھی سے اہلِ خیر کے تمام سلسلے چلے

تری سبھی کو ہے لگن مرے کریمِ کربلا

 

تری شجاعتوں سے اور ترے ہی ذکرِ خیر سے

سجی ہے دل کی انجمن مرے کریمِ کربلا

 

صداقتوں کی آبرو ترا لہو، ترا لہو

ہے وقت تیرا پیرہن مرے کریمِ کربلا

 

وصالِ حق کی ہو جسے طلب اُسے یہ چاہیے

تری طرف ہو گامزن مرے کریمِ کربلا

 

تری وفا کی صبر کی مثال ہی نہیں ملی

حبیبِ ربِ ضو فگن مرے کریمِ کربلا

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

               سید الطاف بخاری

(راولپنڈی)

 

 

جو چشمہ ہائے فیض ہے گھر کربلا کے بعد

ایسے کھُلا حسینؑ کا در کربلا کے بعد

 

صبر و رضا و جذبۂ ایثار و بندگی

یہ سب ہے اُن کے خوں کا اثر کربلا کے بعد

 

گلشن نبیؐ کا خون سے سیراب کر گئے

پھُولا پھلا ہے دیں کا شجر کربلا کے بعد

 

چھوڑا مدینہ جس کے لئے ذوق و شوق سے

وہ بھی ہوا تمام سفر کربلا کے بعد

 

چادر تنی ہے چار سُو خوف و ہراس کی

ملتی ہے ہر اُداس سحر کربلا کے بعد

 

بکھری متاعِ دینِ نبیؐ کس کو تھی خبر

ہیں خاک و خوں میں لعل و گُہر کربلا کے بعد

 

جس سمت بھی اُٹھی تھی نظر سُرخ تھی زمیں

مٹّی ہوئی تھی خون سے تر کربلا کے بعد

 

نیزے پہ کر رہا تھا تلاوت قرآن کی

اللہ رے حسینؑ کا سر کربلا کے بعد

 

شہزادیوں کی سمت نہ کوئی قدم اُٹھے

زینبؑ نے باندھی ایسے کمر کربلا کے بعد

 

ظلمت کدوں میں کھویا ہوا یہ جہان تھا

روشن ہوئے ہیں قلب و نظر کربلا کے بعد

 

آنکھیں تھیں اشکبار تھا ماتم قدم قدم

پہنچی مدینے جب یہ خبر کربلا کے بعد

 

اِک زلزلہ سا آ گیا قصرِ یزید میں

ایسے ہوئی خبر یہ نشر کربلا کے بعد

 

ہے لشکری حسینؑ کا ظالم کے رو برو

جو بھی ہوا ہے سینہ سپر کربلا کے بعد

 

ابنِ بتول سے ہے تمسّک جنہیں بھی دیکھ

ماتم کناں ہیں جن و بشر کربلا کے بعد

 

دامن میں وہ حسینؑ کے ہونگے بروزِ حشر

آئے ہیں جو بھی لوگ ادھر کربلا کے بعد

 

حُبِ حسینؑ ابنِ علیؑ جن کے دل میں ہے

گھائل ہیں اُن کے قلب و نظر کربلا کے بعد

 

بھرتا ہے دم حسینؑ کا جس کو بھی دیکھئے

ایسی ملی ہے فتح و ظفر کربلا کے بعد

 

لہرا رہا ہے اُن کا علم کائنات پر

اُن کو ملا ہے خوب ثمر کربلا کے بعد

 

قاتل حسینؑ کے سبھی دیکھو ہوئے ہیں قتل

یعنی کہ اِک کے بعد دِگر کربلا کے بعد

 

نام و نشان مٹ گیا قصرِ یزید کا

آباد ہے حسینؑ نگر کربلا کے بعد

 

ہر شخص طعن کرنے لگا ہے یزید کو

نفرت گئی دلوں میں اُتر کربلا کے بعد

 

جھُکتے تھے اُن کے سامنے پہلے بھی مہر و ماہ

اب بھی ہیں رشکِ شمس و قمر کربلا کے بعد

 

یہ راز جا کے پوچھ کسی غمگسار سے

کی مومنوں نے کیسے بسر کربلا کے بعد

 

مسدود ہوتے راستے سب ظلم و جور کے

رہتے حسینؑ زندہ اگر کربلا کے بعد

 

چرچے ہیں اُن کے نام کے اب خاص و عام میں

لایا ہے رنگ اُن کا ہنر کربلا کے بعد

 

زینب نے مجتمع کیا پھر کاروانِ حق

شیرازہ جو گیا تھا بکھر کربلا کے بعد

 

جوہر کا مصرعہ خوب بخاریؔ ہے لازوال

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

صحرا کے بیچ

 

               فیروز خسروؔ

( کراچی)

 

بیچ مخلوقِ خدا صحرا کے بیچ

کھو دیا ہم نے خدا صحرا کے بیچ

 

اک علم سب سے جدا صحرا کے بیچ

ہر قدم بڑھتا گیا صحرا کے بیچ

 

گُل شبِ عاشور پل بھر کو ہُوا

ایک خیمے کا دیا صحرا کے بیچ

 

دینِ حق کی سربلندی کے لئے

تھا نبیؐ کا لاڈلا صحرا کے بیچ

 

ہو گیا روشن ہمیشہ کے لئے

پھر چراغِ کربلا صحرا کے بیچ

 

تھا سوا نیزے پہ اُس دن آفتاب

اک قیامت تھی بپا صحرا کے بیچ

 

تشنہ لب، زخمی دہن، ننھی سی جاں

اور تیر ِحر ملا صحرا کے بیچ

 

آ رہی تھی ہر طرف سے اک صدا

میں ہوں اور میرا خدا صحرا کے بیچ

 

لشکرِ جرار اور مردِ ضعیف

ایک زندہ معجزہ صحرا کے بیچ

 

بارشِ تیر و تبر کے درمیاں

اُٹھ گئے دستِ دعا صحرا کے بیچ

 

تشنگی پھر بھی نہ قاتل کی مٹی

کٹ گیا سوکھا گلا صحرا کے بیچ

 

ہو امامِ وقت کو میرا سلام

رو کے کہتی تھی قضا صحرا کے بیچ

 

زندہ رہ کر بھی رہا مردہ یزید

دفن زندہ ہو گیا صحرا کے بیچ

 

سرنگوں تھی شرم سے انسانیت

سر جو نیزے پر اُٹھا صحرا کے بیچ

 

تک رہا تھا منہ اُٹھائے آسماں

ایک اسپِ با وفا صحرا کے بیچ

 

فوجِ باطل کے مقابل آج بھی

ہے حسینی قافلہ صحرا کے بیچ

 

بیبیاں کہتی تھیں اب جائیں کہاں

آخری خیمہ جلا صحرا کے بیچ

 

مل کے چہرے پر جلے خیموں کی راکھ

منہ چھپاتی تھی حیا صحرا کے بیچ

 

آ گئی شامِ غریبانِ وطن

بجھ گیا فرشِ عزا صحرا کے بیچ

 

عظمتِ اسلام کا پرچم بنی

بنتِ زَہراؑ کی رِدا صحرا کے بیچ

 

دل ہمیشہ کے لئے گہنا گیا

جب اُٹھی گردِ بلا صحرا کے بیچ

 

ہو گیا اک خسروانہ شام سے

آخری سجدہ ادا صحرا کے بیچ

 

دل کو تو خسروؔ فقط صحرا نہ جان

ہے اِدھر اک کربلا صحرا کے بیچ

٭٭٭

 

 

سلام

 

               فیروز خسروؔ

( کراچی)

 

 

تھی بھوک پیاس بلا کی تھا وہ بلا کا سفر

تھا ابتدا ہی سے درپیش ابتلا کا سفر

 

لپٹ کے نانا ؐکے روضے سے کہہ رہے تھے حسینؑ

بہت کٹھن ہے مدینے سے نینوا کا سفر

 

پلٹ کے جانا بھی چاہیں تو جا نہیں سکتے

بندھا ہے پاؤں سے یاروں کے کربلا کا سفر

 

چراغِ راہ ہیں عباسؑ کے نشانِ قدم

اِس ایک نام پہ ہے ختم یہ وفا کا سفر

 

ابھی بھی جاری ہے خونِ رگِ گُلو کی قسم

زمیں سے سوئے فلک تیرِ حُرملا کا سفر

 

بوقتِ عصر جھکاتے ہی سر بنامِ خدا

تمام ہو گیا اک بندۂ خدا کا سفر

 

بہ فیضِ آلِ نبیؐ ہر نفس یونہی جاری

رہے گا سینہ بہ سینہ مری دعا کا سفر

 

ہے پنجتنؑ کا وسیلہ مجھے بہت خسروؔ

کہ تیز تر ہے مرے حرفِ مدعا کا سفر

٭٭٭

 

 

 

حسینؑ

 

               خواجہ محمد عارف

( برطانیہ)

 

 

کلمۂ دین کا وہ حرفِ جلی

نام جس کا حسینؑ ابنِ علیؓ

دشت کی تشنگی میں سر کی شاخ

کٹ گئی تو وہ اور پھولی پھلی

٭

 

باطل و حق کی حدِّ فاصل وہ

عشق کے کارواں کی منزل وہ

سر کٹا تو کھلا یہ راز کہ ہے

کشتِ دینِ مبیں کا حاصل وہ

٭

 

اُس طرف نخوتِ متاعِ غرور

اِس طرف فکرِ اتّباعِ حضورؐ

اُس طرف دن کو بھی ہے تاریکی

بے چراغ اِس کی رات بھی پُر نور

٭

 

راستہ گمرہی کا بند کیا

راستی کو فقط پسند کیا

یوں جھکایا خدا کے آگے سر

خود خدا نے وہ سر بلند کیا

٭

 

چند مردانِ حق شہید ہوئے

حشر تک لوگ مستفید ہوئے

سب زمانوں میں صرف ایک حسینؑ

ہر زمانے میں سو یزید ہوئے

٭

 

معجزہ اک سرِ نماز ہوا

فاش دنیا پہ ایک راز ہوا

عجز کی انتہا یہی تو ہے

سر جھکایا تو سر فراز ہوا

٭

 

کیا ہو اندازہ اُس کی قامت کا

وہ ہے اک کوہ استقامت کا

موقفِ حق سے ہٹ سکا نہ ذرا

کر دیا حق ادا امامت کا

٭

 

کارواں گم نہیں ہوا اُس کا

اب بھی خود ہے وہ رہنما اُس کا

دست و بازو تو کٹ رہے ہیں مگر

ہے بلند آج بھی لواء اُس کا

٭

 

اُس کا کردار ہے درخشندہ

اُس کا ماضی، اسی کا آئندہ

عہدِ حاضر کو ہو خبر کہ حسینؓ

کل بھی زندہ تھا، آج بھی زندہ

٭٭٭

 

 

ابنِ حیدرؑ

 

               خواجہ محمد عارف

( برطانیہ)

 

 

عدو کے ہاتھ میں تلوار، میں نہتا ہوں

وفورِ شوقِ شہادت میں اُس سے لڑتا ہوں

 

قوی ہے مجھ سے مگر دل میں سہما سہما ہے

میں ناتواں ہی سہی، سر اٹھا کے چلتا ہوں

 

اسے یہ زعم کہ طوفاں ہیں اس کے دامن میں

میں وہ چراغ ہوں جو آندھیوں میں جلتا ہوں

 

اسے گماں کہ مری زندگی مٹا دے گا

مجھے یقیں کہ میں مر کر بھی زندہ رہتا ہوں

 

وہ اپنے جبر سے بیعت کا مجھ سے طالب ہے

میں ظلم سہنے کو اک اور ظلم کہتا ہوں

 

فریب و مکر میں مصروفِ کار اُس کا دماغ

خلوصِ قلب کی گرمی سے میں پگھلتا ہوں

 

سکھائے ہیں یہ سبق مجھ کو ابنِ حیدرؑ نے

اسی لئے تو قصیدے میں اس کے پڑھتا ہوں

٭٭٭

 

 

لبِ فرات

 

               خواجہ محمد عارف

( برطانیہ)

 

 

لبِ فرات وہی لب پہ تشنگی ہے ابھی

کسی حسینؑ کی طالب یہ زندگی ہے ابھی

 

بجھا دیئے تھے سرِ شام گو چراغ مگر

رخِ حسینؑ کی دنیا میں روشنی ہے ابھی

 

نماز و صبر کو اب تک بنا رہے ہیں وہ ڈھال

کہ زیرِ تیغ و سناں ذوقِ بندگی ہے ابھی

 

زمانے بیت گئے کربلا کو لاکھ مگر

یہ کس کی لاش زمیں پر تڑپ رہی ہے ابھی

 

نہیں شعور حیاتِ شہید کا اس کو

بشر کے علم کا دامن بہت تہی ہے ابھی

 

مہک رہا ہے ابھی ریگ زارِ کرب و بلا

گرا تھا خوں جو وہاں اُس میں تازگی ہے ابھی

 

بلند آج بھی نیزوں پہ سر ہمارے ہیں

لہو لہان قبائے ستم گری ہے ابھی

 

مٹا نہ عشق، مگر مٹ گئی جفائے دمشق

جہاں میں زندہ وہی رسمِ عاشقی ہے ابھی

 

یزیدیت پہ ہے لرزہ ابھی سے کیوں طاری

کہ بنتِ زہراؓ کے لب پر تو خامشی ہے ابھی

 

یہ کس نے خون فراہم کیا اسے عارفؔ

دھواں نہیں ہے مگر شمع جل رہی ہے ابھی

٭٭٭

 

 

حسینؑ

 

               خواجہ محمد عارف

( برطانیہ)

 

 

یزیدیت کا ظلم و جبر چار سُو ہے آج بھی

کہ ریگِ دشتِ کربلا لہو لہو ہے آج بھی

 

اُدھر ابھی ہے تیغ شمر زہر میں بجھی ہوئی

ہدف ہے کیا؟ حسینؑ کی رگِ گلو ہے آج بھی

 

حسینؑ تو نے کھول کر یہ نکتہ کر دیا بیاں

تِرا عمل ہی شرحِ حکمِ جاہدو ہے آج بھی

 

رکا نہیں حجازیوں کا مختصر سا قافلہ

تِرے ہی نقشِ پا سے اس کی آب رُو ہے آج بھی

 

لٹا کے نقدِ جاں ہمیں پیامِ سرمدی دیا

کرے جو تیری پیروی وہ سرخ رُو ہے آج بھی

 

ہر ایک رزم میں تِرے ہی نام سے ہے ولولہ

ہر ایک بزم میں تِری ہی گفتگو ہے آج بھی

 

مدینۂ نبیؐ سے لے کے کوفہ و دمشق تک

ہر ایک رہ گزارِ عشق مُشک بُو ہے آج بھی

 

خدا کرے کہ آئے پھر نسیمِ باغِ کاظمہ

کہ شہر و دشتِ نینویٰ میں لُو ہی لُو ہے آج بھی

 

وہی وفا شعار ہیں، وہی ہے ان کی سادگی

کہ کوفیانِ بے وفا سے گفتگو ہے آج بھی

 

نفس نفس حیات کا نماز ہے جہاد ہے

لٹائے نقدِ جان جو وہ سرخ رُو ہے آج بھی

 

چلا جو دَور جبر کا حسینؓ یاد آ گئے

تھا امتحان صبر کا، حسینؓ یاد آ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

               خواجہ محمد عارف

( برطانیہ)

 

شہادت

 

یہ بازی جان کی، جانِ عزیز مشکل ہے

کہ زندگی میں یہی ایک چیز مشکل ہے

منیٰ و بدر و حنین اور کربلا جو نہ ہوں

بہت ہی عشق و ہوس میں تمیز مشکل ہے

٭٭٭

 

کاروانِ عشق

 

ہوتا نہیں ہے ختم کبھی امتحانِ شوق

رکتا نہیں کسی بھی جگہ کاروانِ عشق

ہر گام کربلا ہے تو ہر کربلا کے بعد

بازار سب ہیں کوفہ تو دربار سب دمشق

٭

 

اگرچہ واقعہ تاریخ کا ہے

مجھے اب بھی دکھائی دے رہا ہے

منیلا سے مراکش تک مسلماں

جہاں بھی ہے وہیں اک کربلا ہے

٭٭٭

 

 

 

عطائے حسینؑ

 

               سید افتخار حیدر

( کنیڈا)

 

 

ایمان! کربلا میں گدائے حسینؑ ہے

جو دین بچ گیا وہ عطائے حسینؑ ہے

 

آلِ نبی ؐ کیا ہو گئے شہید قرآن پر

یٰسین کو سناں پہ سنائے حسینؑ ہے

 

مشعل بجھا کے پھر کہا ! ’’تم جاؤ دوستو‘‘

کیسی لطیف ! رمزِ حیائے حسینؑ ہے

 

سب کچھ لٹا کے وہ جیت گیا رضائے حق

اب جو رضائے حق ہے رضائے حسینؑ ہے

 

ھل مِن کی آ رہی ہے جو درماندہ سی صدا

حیدرؔ ! کیا پھر وہی یہ ندائے حسینؑ ہے ؟

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

( ڈیرہ غازی خاں )

 

 

دکھوں کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو اشک اپنے تمام لکھوں

لہو میں ڈوبیں جو حرف سارے، امام تیرا سلام لکھوں

 

وہ جس نے سجدے میں سر کٹا کے ہمیں نوازا بلندیوں سے

وفا کے سجدوں کے شاہ کو ہی میں آج شاہ و اما م لکھوں

 

یہاں سکینہ کا، اصغر،اکبر کا اور قاسم کا تذکرہ ہے

ورق ورق پر ہیں اشک پھیلے میں حرف حرف احترام لکھوں

 

مجھے شہیدوں کا ذکر کرنا ہے سوچ کو معتبر تو کر لوں

قطار میں سارے لفظ رکھوں،ملے جنہیں پھر دوام لکھوں

 

ہماری گلیوں میں قتل کب تک روا رہے گا،سوال پوچھوں

ہمارے ظلمت کدے میں کب ہو گا روشنی کا قیام لکھوں

 

یہی تقدس ہے اب تو میرا،اسی سے نجمہؔ مری حفاظت

میں اپنی چادر کے چاروں کونوں پہ بی بی زینب کا نام لکھوں

٭٭٭

 

 

سلام

 

               خالد محمود ذکی

( رحیم یار خان)

 

 

سلسلہ صدیوں سے جو موجود تھا، چلتا رہا

وہ، ہواؤں سے دئیے کا مسئلہ چلتا رہا

 

 

جانتا کیسے کوئی، روشن نہیں ہو گی سحر

رات پھر اک آس پر، اک قافلہ چلتا رہا

 

بڑھتے جاتے تھے قدم گو جانبِ منزل مگر

فاصلہ اک بڑھتے قدموں سے سوا چلتا رہا

 

طے ہوا تھا یہ کہ واپس اب نہیں جائیں گے ہم

تھک گیا جب قافلہ تو فیصلہ چلتا رہا

 

روک سکتا تھا کوئی کیا جاں نثاری سے انہیں

سو، شہیدانِ وفا کا مشغلہ چلتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شہدائے کربلا کی نذر

 

               جبار واصفؔ

( رحیم یار خان)

 

 

پہلے اِک سجدہ کرو جا کر قرینِ کربلا

پھر سنو کیا کہہ رہے ہیں سب مکینِ کربلا

 

اِس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا یقینِ کربلا

محترم ہر اِک زمیں سے ہے زمینِ کربلا

 

کیا حسیں مقسُوم لائی ہے جبینِ کربلا

ہیں حسینؓ ابنِ علیؓ گوشہ نشینِ کربلا

 

صدقہ ء آلِ نبیؐ فیضِ مُبینِ کربلا

تا ابَد روشن رہے گی سرزمینِ کربلا

 

دہر کو درکار ہے پھر اِک مُعینِ کربلا

کیا کہیں موجود ہے کوئی یمینِ کربلا

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

               جبار واصفؔ

( رحیم یار خان)

 

 

آبِ حیات ہے لہُو آلِ رسولؐ کا

اسلام پی چکا ہے جو کرب و بلا کے بعد

 

اس فلسفے پہ غور کریں آج سب یزید

مرتا نہیں حسینؑ کیوں اپنی قضا کے بعد

 

کوفہ کے باسیوں کا مجھے کوئی حال دے

نادم ہے کوئی کیا وہاں اپنی وفا کے بعد؟

 

کوفہ کے باسیوں کا کوئی مجھ سے حال لے

ماتم کناں ہیں سب وہاں اپنی خطا کے بعد

 

لکھی ہوئی تھیں ریت پہ سب کی شہادتیں

کرتے حسینؑ اور کیا رب کی رضا کے بعد

 

کرتے تھے جاں نثار جو اپنے خطوط میں

ٓاصغر بھی قتل ہو گیا اُن کی وفا کے بعد

 

بچوں کے سر قلَم ہوئے خیمے بھی جل گئے

گردُوں بھی سرخ ہو گیا اِس انتہا کے بعد

 

روتا ہے سوچ سوچ کے واصفؔ ضمیرِ دہر

خیر الامم نے کیا کیا خیرالوریٰ کے بعد

٭٭٭

تشکر: مدیرارشد خالد جنھوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی شکیل: اعجاز عبید