FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عالم میں انتخاب

اور دوسرے مضامین

 

 

 

                چوہدری لیاقت علی

 

 

 

 

 

آباد نگر کا اجڑا شاعر۔ اسلم کولسری

 

آباد نگر میں رہتا تھا اور اجڑی غزلیں کہتا تھا

کچھ نام بھی شاید تھا اس کا یاد آیا اسلم کولسری

میرے خیال میں شاعری اپنے جذبات و محسوسات کو سلیس اور سادہ زبان میں مختلف تشبیہات اور استعاروں سے بیان کرنے کا نام ہے۔ اساتذہ اور دیگر شعراء بھلے اس تعریف کو نہ تسلیم کریں مگر یہ ایک بالکل عام قاری کے ذہن میں آنے والا خیال ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری وہ ہے جس میں اپنے آپ پر گزرنے والی واردات میں آپ دوسروں کو اس طرح شریک کرتے ہیں کہ آپ کے محسوسات صرف آپ کے نہیں رہتے بلکہ اس میں آپ کا قاری بھی شریک ہو جاتا ہے۔ اردو یا لشکری زبان کے آغاز کے ساتھ ہی اس زبان کے بہت سے شاعر مشہور اور معروف ہو گئے۔ ابتدا میں فارسی کا بہت گہرا رنگ اردو شاعری پر چڑھا رہا جسے انیسویں صدی کے شعراء کرام نے خالص اردو کے قالب میں ڈھالا۔ مختلف مکاتیب فکر وجود میں آ گئے جن میں دو مکاتیب میر اور غالب آج بھی شعراء کرام کی بنیادی تقسیم کا اہم ذریعہ ہیں۔ ان دونوں شعراء نے اردو شاعری پر بہت گہرا اثر ڈالا اور۔ ان اساتذہ کے بعد اردو شاعری نے بہت بڑے بڑے نام پیدا کئے جن میں حالی، اقبال، سیماب اکبر آبادی، حسرت اور پھر ان کے بعد آنے والوں میں فیض، ناصر، نصیر ترابی، جمال احسانی وغیرہ شامل ہیں۔ اس قبیلے میں اقبال و حالی نے امت مسلمہ کو مخاطب بنایا اور ایک مشن کے تحت شاعری کی۔ بعد میں فیض اور ناصر کاظمی نے عام ڈگر سے ہٹ کر ایک نئی راہ اپنائی۔ اسی قبیلے کے اہم رکن جناب اسلم کولسری بھی ہیں جن کے فن اور عمدہ شاعری سے آپ کو روشناس کروانے کی ایک کوشش یہ مضمون ہے۔

ہمارے ہاں آج بھی ہجر، جدائی، وصال، نشہ، آنکھیں اور ان جیسی بے شمار اصطلاحات جو اردو شاعری کے آغاز سے ہی موضوع سخن رہی ہیں شد و مد کے ساتھ آباد ہیں اور عام ڈگر کے شاعر ان کو اپنی شاعری میں استعمال کر کے قاری اور شاعری دونوں کا امتحان لیتے ہیں اور آخر میں قاری اور شاعری دونوں شرمندہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسے شاعر بھی موجود ہیں جو تول کر شاعری کرتے ہیں۔ جی ہاں جب لکھے ہوئے کاغذوں کا وزن ایک کلو ہو گیا تو ایک کتاب تیار۔ اس طرح شاعری میں اوزان کی اہمیت ہوتی ہے تاہم اس وزن سے قطع نظر شاعر موصوف ٹنوں کے حساب سے شاعری کر چکے ہیں۔ اور جب کتابیں بکنا بند تو کسی نجی چینل پر میزبانی اپنی شاعری گائیں گے بھی اور سنائیں گے بھی۔ پھر ایک گروہ ایسا ہے جو دھڑے بندی کر کے کسی مقام تک پہنچا اور پھر !!! پچھلے چند سالوں سے ایک اور طرز کی بنیاد پڑی جس میں اپنی کتاب کو سرخ رنگ سے سجا کر ساتھ ایک سی ڈی فری اور ویلنٹاین ڈے کا تحفہ تیار۔ یاد رہے یہ مقدمہ شعر و شاعری نہیں ہے بلکہ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ آج بھی ایسے شاعر موجود ہیں جو اردو زبان میں ایسی شاعری کر رہے ہیں جو عام ڈگر سے ہٹ کر اور انوکھی ہے۔

اسلم کولسری اوکاڑہ کے نواحی گاؤں کولسر کے رہنے والے ہیں پھر جب یہاں فوجی چھاؤنی بنی تو ان کا گاؤں اس میں ضم ہو گیا، مگر یہ گاؤں ان میں اور ان کی شاعری میں جوں کا توں موجود ہے۔ انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے۔ شاعری کی تمام مروجہ اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور اب تک ان کی شاعری کے دس مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مجھے اسلم کولسری کیو ں پسند ہیں۔ ندرت خیال، منفرد استعارے، سادگی و سلاست یہ وہ خیالات ہیں جو ذہن میں کولسری کی شاعری پڑھنے کے فوراََ بعد آتے ہیں۔ کولسری کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت اس کا سادہ ہونا ہے۔ ہمت اور کوشش سے اور خاص طور پر آرڈر پر تیار کر کے آرائشی الفاظ اور مشکل استعارے سے ان کی شاعری محفوظ ہے۔ ان کی شاعری عام مصالحوں مثلاً شرابیں شرابوں میں ملیں کتابیں کتابوں میں ملیں اور درختوں پر نام وغیرہ سے پاک ہے۔ موخر الذکر استعاروں کا استعمال اپنی غیر تکمیل شدہ خواہشات کا اظہار تو ہو سکتا ہے مگر شاعری نہیں۔ صاف و سادہ زبان، عام فہم شاعری، اپنی مٹی اور اپنے گاؤں سے محبت کولسری کی پہچان ہے۔ اسلم کولسری نے ہر صنف میں شاعری کی۔ تاہم ان کا بیشتر شعری سفرغزل پر مشتمل ہے جو ان کی پہچان ہے۔

ابھی کہتا ہوں میں تازہ غزل بھی

ابھی تو زہر کا ساغر پیا   ہے

 

پرو کر دیکھ لو کانٹے میں    جگنو

کوئی اس شہر میں یوں بھی جیا ہے

مشہور مصنفہ بانو قدسیہ ان کے لئے رقم طراز ہیں :

’’اسلم کولسری لوگوں سے کٹا ہوا، ہاتھ ملتا، بجھا ہوا روہانسا شاعر ہے۔ وہ دو قدم آگے چل کر میلوں پیچھے بھاگ جانے والا تعریف اور شہرت کا آرزو مند ہو کر بھی گم نامی کے سہارے جینے کا خواب دیکھتا ہے۔ عید کے روز دروازہ مقفل کر کے سو جانے والا اسلم کولسری دراصل اندر ایک آوارہ تنکے کی صورت عمر گزار رہا ہے۔ اسلم کولسری محنت مزدوری، شکاری خواب، محبت، صبر، دعا سب مرحلوں سے گزر چکا ہے۔ اور ان ساری کڑی دھوپ سی کیفیتوں کے سائے اس کی شاعری پر پڑے ہیں۔ ‘‘

اسلم کولسری نے مختصر اور طویل دونوں بحروں میں اچھوتی اور عمدہ غزلیں تخلیق کی ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی کے تجربات ان کی شاعری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام آدمی جن مصائب کا سامنا کرتا ہے اور معاش کیلئے جن خارزار راستوں پر گزرتا ہے وہ تمام کے تمام اپنی تلخ حقیقتوں سمیت ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری کی مثال ایسے دی جا سکتی ہے جیسے مدھر موسیقی میں کونج کی آہ شامل ہو جائے۔ جیسے گھائل ہو کر گرنے والا پرندہ گرتے گرتے نظر اٹھا کر آسمان کو دیکھتا ہو۔ یا جیسے کسی حساس دل پر کوئی ناگہانی آفت بیت جائے۔ ان کی شاعری میں گاؤں کی فطری سادگی اور پھر اس سادگی کے خاتمے کا دکھ، مشینوں کا راج، ہجرت کرنے کا دکھ، اپنی مٹی سے بچھڑ جانے کا دکھ، اپنا آپ بھلا دینے کا غم، معاشی نا ہمواری کا نوحہ سب اپنی پوری شدت کے ساتھ اثر انداز ہیں۔

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

 

شہر نے پھر سے ایک گاؤں پر

ایک کالی کمند پھینکی ہے

لوگ پکی سڑک کہتے ہیں

 

تو بھی تو کو ئی غیر نہیں  غم گسار ہے

تھوڑی سی خاک تو بھی میرے سر میں ڈال دے

 

کردار یوسفی کا صلہ یوں ملا مجھے

ہر یار غم گسار میرا بھائی بن گیا

 

نوحہ

بنسری توڑ دی گڈرئیے نے

اور چپکے سے شہر میں جا کر

کارخانے میں نوکری کر لی

 

آنکھوں کے گل رنگ چمن میں اتری ہے برسات، غزل کی رات

آج تو جیسے قطروں میں تقسیم ہوئی ہے ذات،   غزل کی رات

 

ہر صبح زندگی نئے اخبار کی طرح

میرے نحیف جسم کو دفتر میں پھینک دے

 

وقت نے کیا کیا مقدس روپ گھائل کر دیے

چاندنی، برکھا، پون، گاگر، ندی، ہمجولیاں

 

اسلم کولسری کی شاعری کی سب سے بڑی انفرادیت مختلف اور اچھوتے استعارے ہیں۔ تمثال آفرینی میں تشبیہ، استعارے اور اسم صفت کا استعمال شامل ہوتا ہے۔ کولسری کی شاعری ان تمام کو اس خوبصورتی سے یک جا کرتی ہے کہ ایک انتہائی عام خیال نادر ہو جاتا ہے۔ اور بالکل عام الفاظ قاری کے ذہن سے چپک کر رہ جا تا ہے۔ کولسری کی شاعری میں ہمیں منہ زور آندھیاں، جلتا ہوا مکان، شکستہ دیواریں، سنسان جنگل، سوکھا لہو، اداس بستی، بجھتی ہوئی تمنا، زخم زخم احساس، سوکھے پتے، عیار درندے، یخ بستہ موسم، رستے زخم، سلگتے شعر، گونجتے گاؤں، ٹوٹا ہوا تارا، جلتا ہوا جہاز، سیہ دھول، خالی ٹفن، دریدہ تن، نچے ہوئے آنچل، ابلتا پانی، جلتا ہوا اصرار، سنسناتی گولیاں، سلگتے شعر، بھیگی چھاؤں، جگمگاتی سڑکیں، مقدس روپ، پر خلوص دعوت، شبنمی دعوتیں جیسے سادہ مگر پر اثراستعارے موجود ہیں۔ ان منفرد استعاروں کی شعروں میں بنت بھی اس کمال کی ہے کہ ان کے اشعار صرف اشعار نہیں بلکہ ایک تصویر بن جاتے ہیں۔

 

دیدہ بے خواب کے بھیگے ہوئے اصرار پر

میں ترے لہجے کی سختی بھی گوارا کر گیا

 

تتلیوں کی جستجو میں گھر سے نکلا تھا مگر

جھاڑیوں میں اڑ رہی تھیں سنسناتی گولیاں

 

مسائل کے ابلتے پانیوں میں

جوانی کا جزیرہ جل رہا ہے

 

جوانی عارضی شے ہے جوانی

کسی مفلس کی بیماری نہیں ہے

رستے زخموں سے ڈھانپ رکھا ہے

جسم   با ر   قبا   نہیں    سہتا

 

دامان کوہسار میں اک جھیل دیکھ کر

جلتا ہو ا جہاز فضا میں ٹھہر گیا

 

مسئلوں کی جھاڑیوں میں پھنس گیا

خواہش دیدار کا   زخمی ہرن

 

سارا پانی چھاگلوں سے آبلوں میں آ گیا

چلچلاتی دھوپ کے جلتے ہوئے اصرار پر

 

تیرے نام کی خوشبو شامل کر لیتا ہوں

خالی سانس تو سینے میں کنکر لگتا ہے

 

شرافت؟ میں نہیں سمجھا

پرانی بات ہے شاید

 

تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی

ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا

 

میں نے کرنوں سے نچوڑی تھی ذرا سی روشنی

اور میرے ہاتھ کیا حالات چھلنی ہو گئے

 

منصوبہ سفر ہی بڑا جاں گداز تھا

بیٹھے بٹھائے تھک کے ہوئے چُور چُور ہم

 

حسرتوں کی اداس بستی میں

مستعد مسئلوں کا پہرا ہے

 

ہاں اسی رستے پہ ہے شہر نگار آرزو

آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر

 

ایک باسی نان کے ٹکڑے پہ آخر بک گئی

سانولی مالن کے تازہ پھول بکتے ہی نہ تھے

 

لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے

ایک ٹوٹی سائیکل خالی   ٹفن

 

کولسری کی شاعری کی مجموعی فضاء میں اگرچہ حزن کا جذبہ ابھر کر سامنے آتا ہے مگر اس جذبے کو انہوں نے منفی اور نہیں جانے دیا بلکہ یہ جذبہ شاعر کی نظر میں موجودہ تناظر کا ایک نوحہ ہے۔ اس منظر کشی سے شاعر قاری کو اپنے ذہن پر گزرنے والی واردات میں شامل کر لیتا ہے اور شاعر اور قاری ایک جیسے خطوط پر سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم شاعر اس حزنیہ جذبے کے بعد ایک امید بھری دنیا کا خواب دیکھتا ہے جس میں سدابہار ہریالی، صبح سہانی، شام سرمئی، چاندنی معطر اور آندھیوں، طوفانوں اور بگولوں کو یہاں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ شہر گاؤں کو ہڑپ نہیں کریں گے اور مشینوں کی جگہ انسانی جذبات کو اہمیت حاصل ہو گی۔ معاشرہ باہمی تعاون کے اصولوں پر عمل کر ے گا اور تمام توانائیاں مثبت سمت میں استعمال ہوں گی۔ کولسری کی شاعری کا کینوس تمام جذبات کو الگ الگ رنگوں کی شکل میں ظاہر کرتا ہے، جس میں ہر رنگ اپنی چھب دکھاتا ہے اور پھر جیسے ایک قوس قزح آپ کی نگاہوں میں بکھر جاتی ہے۔

کولسری نے ایک غزل اپنے بیٹے کی وفات پر لکھی۔ یہ اشعار لکھتے ہوئے ان کا دل کتنی زور سے کانپا ہو گا۔ ہاتھ کتنی بار رکا ہو گا، آنکھ کتنی بار نم ہوئی ہو گی۔ اس کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

 

سورج سر مژگاں ہے اندھیرے نہیں جاتے

ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے

 

تو جانب صحرائے عدم   چل   دیا تنہا

بچے تو گلی میں بھی اکیلے نہیں جاتے

 

جو پھول سجانا تھے مجھے تیری جبیں پر

بھیگی ہوئی مٹی پہ بکھیرے نہیں جاتے

 

اسلم لفظ عربی مادے سلم سے نکلا ہے جس کے معنیٰ مکمل یا سالم ہوتے ہیں۔ ایک حمد میں انہوں نے اپنے نام کو اس خوبصورتی سے پرویا ہے :

 

ریزہ ریزہ ہونے پر بھی

اسلم کہلاتا ہوں سائیں

یوں کولسری کا بیشتر شعری سفر غزل پر محیط ہے تاہم انہوں نے نظموں اور گیتوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی نظم کا انتخاب، ان اصناف میں ان کی مہارت کی دلیل ہے :

 

تو کیا جانے

ڈھل گئی رات پھر دسمبر کی

شیلف میں سو گئیں کتابیں تک

ایک تیر ا خیال روشن ہے

کیا گئے تم

کیا گئے تم کہ پھر نہیں گذرا

میرے ویران گھر کے اوپر سے

قافلہ   دودھیا   چراغوں کا

 

دنیا

قطرۂ آب آب میں خرم

ذرۂ خاک خاک میں رقصاں

آدمی اپنے شہر میں  تنہا

 

دل دریا

صلح کے زمانے میں

مجھ کو ایسا لگتا ہے

وہ اگر بچھڑ جائے

صرف اتنا دکھ ہو گا

جتنا آنکھ کھلنے پر

خواب ٹوٹ جانے کا

پر عجب تماشا ہے

وہ اگر کبھی مجھ سے

یونہی روٹھ جاتی ہے

کائنات کی ہر شے

ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔

 

اسلم کولسری کے چند اشعار جن میں انتہائی سادہ زبان استعمال کی گئی ہے مگر اس کمال سے کہ!!!!

 

اب کہاں تک کہو، تمہی کوئی

ٹوٹ کے بنتا، ٹوٹتا بن کر

 

بہت مشکل ہے کچھ کہنا یقیں سے

چمکتے ہیں کہ تارے کانپتے ہیں

 

ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھلتی

کبھی نہ ساتھ رہا جو کبھی کا چھوڑ گیا

 

نہیں کھلتا پریشانی کا باعث

اسی باعث پریشانی بہت ہے

 

کسی بھی شاعر کے اچھے ہونے کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ وہ میڈیا میں کتنا مقبول ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری کرنا اس بات سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ آپ مشہور شاعر ہوں۔ اس مضمون کا مقصد کسی کو بڑا یا چھوٹا شاعر ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اسلم کولسری کا قارئین سے تعارف کروانا مقصود تھا۔ ذیل میں دیا گیا انتخاب میری اس بات کی تائید کرے گا کہ کولسری کس پائے کے شاعر ہیں :

 

یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی

لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا

 

ایک انوکھا سپنا دیکھا   نیند اڑی

آنکھیں ملتے ملتے جیون بیت گیا

 

شام ڈھلے اس کو ندیا پر آنا تھا

سورج ڈھلتے ڈھلتے جیون بیت گیا

 

دیوانی سی دیوانی ہے اندھی   بڑھیا

زخمی ہاتھ سے کار کا شیشہ صاف کیا ہے

 

بچھڑ گئے ہو تو اے دوست لوح دل سے مجھے

کچھ اس طرح سے مٹانا   کمال کر دینا

 

جذبے کی ہر کونپل پر

آگ لگی مجبوری کی

 

شاعری کے مہکتے زخموں پر

ہوشمندوں نے زہر چھڑکا ہے

 

اہل دانش نے جہاں خار بچھائے دن بھر

شام کے بعد وہیں رقص ہے دیوانے کا

 

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا

وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑ گیا

 

سلگنا،   مسکرانا،   شعر کہنا،   راکھ ہونا

بہت معصوم ہوتے ہیں محبت کرنے والے

 

من کی مانگ ہی کیا تھی مولا

پیتم، پیڑ، پرندے، پانی

 

اوراس شعر پر میں اس مضمون کا اختتام کروں گا:

 

روشن یادوں کے جھرمٹ میں دل زندہ ہے لیکن

لالٹین کی چمنی میں    ہو بند     پتنگا   جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ۔ ابن صفی

 

 

پہلا پتھر

بر صغیر پاک و ہند نے نابغہ روزگار ہستیاں پید ا کی ہیں۔ تاہم ہماری سرشت میں ایک عجیب طرح کا احساس کمتری ہے جس کی بدولت ہم ان ہستیوں پر فخر کرنے کی بجائے ایک عجیب سی شرمندگی کا شکار رہتے ہیں۔ ہم اپنی زمین سے محبت کی بجائے ہمیشہ بیرونی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں یا کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہیں۔ ہماری ہمدردیاں ہمیشہ سکندر کے ساتھ ہوتی ہیں جو کہ فطری طور پر پورس (جو کہ ہمارا ہم وطن تھا) کے ساتھ ہونی چاہیئں۔ ہم اپنے مسائل کا حل بھی دوسروں سے چاہتے ہیں۔ یہی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو ان کا صحیح مقام دینے کی بجائے ان کو ان کی حیثیت سے ہی گر ا دیتے ہیں۔ جتنا شرمندہ ہم اپنے ہیروز کو کرتے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پھر ایک اور مسئلہ بھی ہمارے ساتھ ازل سے چل رہا ہے اور وہ ہے دھڑے بندی۔ جہاں دو افراد ملے وہیں انھوں نے ایک گروہ بنا لیا۔ پھر جس دھڑے کو اوپر آنے کا موقع ملا وہ باقیوں کا خلاف ایک محاذ کھول لیتا ہے۔ اس معاملے میں ارباب اقتدار بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں اور اپنے پسندیدہ اشخاص کو اوپر لانا ہی ان کی ترجیح ہوتی ہے جس کا اولین مقصد صرف اور صرف ذاتی تشہیر ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہی گروہ ارباب اقتدار کو ان کی من پسند تصویر دکھلا کر ان کے نشے کو مزید دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ یہ گروہ مشیروں کا ہو یا وزیروں کا ادیبوں کا ہو یا صحافیوں کاسب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے صرف اور صرف ذاتی مفادات کی تکمیل۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مزاج کو تبدیل کریں اور ان لوگوں کو ان کا جائز مقام دیں جو کہ ان کا حق ہے۔ ہماری پچھلی نسلوں نے جو سلوک ابن صفی کے ساتھ روا رکھا ہے اس کی تلافی ہمارا قومی فرض ہے۔ اس سلسلے کی ابتداء راشد اشرف نے ابن صفی۔ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اور ابن صفی۔ فن اور شخصیت کی صورت میں پہلا پتھر پھینک کر کر دی ہے۔

 

ابن صفی۔ ایک تنقیدی جائزہ

 

ابن صفی کی شخصیت کا مکمل جائزہ ابن صفی۔ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اور ابن صفی۔ فن اور شخصیت میں مکمل طور پر سامنے آگیا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی، عادات و اطوار، خاندان، اولاد، مشاغل غرض ہر پہلو کو نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ ان کے فن کے تفصیلی پہلو خرم علی شفیق نے اپنی دو کتابوں سائیکو مینشن اور رانا پیلس میں پیش کئے ہیں۔ تاہم جیسا کہ راشد اشرف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ

ابھی بہت کام کرنا ہے

اس جملے سے مجھ جیسے کم علم کو بھی تحریک ملی کہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے جن کی بدولت ابن صفی بر صغیر کے مشہور ترین ادیب تھے۔ ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔ ان کے قارئین ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ ان کے لئے مسجدوں، مندروں اور کلیساؤں میں دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بدولت آج بھی دنیا ابن صفی کی دیوانی ہے۔ ان تمام باتوں کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔ تاہم اس جائزے سے پہلے دنیا میں سری ادب کا مقام اور اردو زبان میں اس کا حشر پیش خدمت ہے۔

 

جاسوسی ادب اور ارد و زبان

 

جاسوسی ادب کسی بھی زبان میں ایک نہایت عمدہ مقام رکھتا ہے۔ انگریزی زبان میں جاسوسی ادب کی تاریخ سر آرتھر کانن ڈائل سے شروع کی جا سکتی ہے جنہوں نے شرلک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن جیسے لا فانی کردار تخلیق کئے۔ اس وقت سے اب تک بہت اہم نام ہمارے سامنے آئے جن میں اگاتھا کرسٹی، وکٹر گن، آئن فلیمنگ، روتھ رینڈل، ایڈورڈ ڈی ہوچ، رابرٹ بی پارکر، رابرٹ لڈ لم، مائیکل کونولی، رابرٹ کریس، جان گریشم، ولبر سمیتھ، کین فولے، ہارلن کوبن، سٹیفن کونٹس، آئن رینکن اور ان جیسے بہت سے نام شامل ہیں۔ ان میں ہر مصنف Best Seller کی فہرست میں شامل ہے۔ اور ان تمام مصنفین کو بہت پذیرائی ملی اور مل رہی ہے۔ ان میں بہت سے مصنفین کی کتابوں پر فلمیں بن چکی ہیں۔

اردو زبان اس لحاظ سے بد قسمت ہے کہ ادب کے اس اہم گوشے کو مجرمانہ غفلت سے نظر انداز کیا اور جن لوگوں نے کچھ کرنا چاہا ان کو سرے سے ادیب ہی قرار نہیں دیا گیا۔ ابن صفی سے پہلے منشی تیرتھ رام فیروزپوری، ظفر عمر، اکرم الہ آبادی(یہ ابن صفی کے بعد ہی میدان میں آئے تھے لیکن کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے ) وغیرہ نے اس ضمن میں طبع آزمائی کی تاہم ان میں سے اکثر نے انگریزی ادب کو مشرف بہ اردو کیا۔ رہی سہی کسر اس طبقے نے پوری کر دی جو قیام پاکستان سے ہی ہر ارباب اقتدار کا گن گاتا رہا اور جن کی کتابیں چند سو کے ہندسوں سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اکثر مخالفین بھی انہی کی کتابیں پڑھا کرتے تھے مگر شاید یہ تسلیم کرنے سے ان کو ادبی قد کھونے کا ڈر رہا۔ اور تو اور ایسے ادیب جن کا ادبی سرمایہ ایک دو کتابوں تک محدود ہے وہ بھی ابن صفی کا تذکرہ استہزائیہ انداز میں کرتے رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں جاسوسی ادب ایک صنف ہے جس کی مانگ میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر ہمارے ہیں آج بھی ادبی ٹھیکے دار اس کی اہمیت کو شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈال کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس تمام عمل میں نقصان اردو ادب کا ہے جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔

اب ابن صفی کے فن کا جائزہ پیش خدمت ہے

 

نظریات ابن صفی

 

ہر مصنف کسی نہ کسی جذبے یا کسی تحریک کے تحت لکھنا شروع کرتا ہے۔ ابن صفی نے لکھنا کیسے اور کیوں شروع کیا اس کی وجہ وہ خود ایک مضمون بقلم خود (۱۹۷۰ء عالمی ڈائجسٹ) مین بیان کیا ہے :

جاسوسی ناولوں کا سلسلہ ۱۹۵۲ء میں شروع کیا تھا۔ ۔ ۔ اس کی تحریک ایک مباحثے سے ہوئی۔ ایک بزرگ کا خیال تھا کہ اردو میں صرف جنسی کہانیاں ہی مارکیٹ بنا سکتی ہیں۔ میں ان بزرگ سے اتفاق نہ کر سکا! میرا خیال تھا کہ اگر سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے تو اور بھی راہیں نکل سکتی ہیں۔ کچھ اور بھی کرنا چاہیے کا مطالبہ بالآخر پورا ہو گیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ایک جاسوسی ماہنامے کی داغ بیل ڈالی گئی اور میں اس کے لئے ہر ماہ ایک مکمل ناول لکھنے لگا۔

یوں اس سلسلے کا آغاز ہوا جو آج بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث ہے۔ اپنے اسی مضمون میں انہوں نے کھل کر اپنے ان نظریات کا ذکر کیا ہے جس کو انہوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیا۔ انہی کی زبانی:

مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب آرٹ اور ثقافت کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی بھی کچھ خدمت کروں۔ ان کی دانست میں شاید میں جھک مار رہا ہوں۔ حیات و کائنات کا کون ساایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریق کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت زیادہ اونچی باتوں اور ایک ہزار کے ایڈیشن تک محدود رہ جانے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے احباب کا اعلٰی و ارفع ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کس قسم کا انقلاب لاتا ہے۔ افسانوی ادب خواہ کسی پائے کا ہو محض ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی معیار کی تفریح فراہم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔ جس طرح فٹ بال کا کھلاڑی شطرنج سے نہیں بہل سکتا۔ اسی طرح ہماری سوسائٹی کے ایک بہت بڑے حصے کے لئے اعلیٰ ترین افسانوی ادب قطعی بے معنی ہے۔ تو پھر میں گنے چنے ڈرائنگ روموں کے لئے کیوں لکھوں ؟ میں اسی   انداز میں کیوں نہ لکھوں جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ شاید اسی بہانے عوام تک کچھ اونچی باتیں بھی پہنچ جائیں۔

ابن صفی ابھی صرف انیس برس کے ہی تھے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اس دور میں جو کچھ ہوا اس نے بہت سے ذہنوں پر انتہائی دور رس اور گہرے نتائج مرتب کئے۔ ابن صفی کا ذہن بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ ایک حساس طبیعت شاعر اور ادیب کا ذہن ہے جو کسی بھی واقعے کا اثر عام آدمی سے زیادہ لیتا ہے۔ یہ وہی عرصہ ہے جس کے دوران دو سری عالمی جنگ کے اثرات بھی مٹائے نہ مٹتے تھے۔ ایک عجیب صورت حال تھی جس سے ہر شخص بری طرح متاثر تھا۔ اور پھر انہوں نے ان واقعات کا تجزیاتی نتیجہ اخذ کیا اور بجائے کسی منفی رجحان کو ذہن میں جگہ دینے کے ایک مثبت اور منفرد سوچ اپنائی۔ ان کے مطابق:

آدمی میں جب تک قانون کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہو گا یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام سیکھے اور جاسوسی ناول کی راہ میں نے اسی لئے منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لئے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور اور انہیں قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں

 

زبان

 

ابن صفی کا تعلق الہ آباد سے تھا اور بنیادی طور پر وہ شاعر تھے۔ ان دونوں باتوں کا اثر جہاں تہاں ان کی ذات پر محسوس کیا جا سکتا ہے وہیں پر یہ اثرات ان کی تحاریر میں بھی نظر آتے ہیں۔ آپ نے نہایت عام فہم زبان ایک دلکش پیرائے میں پیش کی جو اس وقت یعنی ۴۰ء اور ۵۰ء کے زمانے میں جب مولانا ابوالکلام آزاد جیسے جناتی زبان استعمال کرنے والے ادیب موجود ہوں، ایک کمال تھا۔ عوام ہوں یا خواص سب آپ کی تحریر کے دیوانے اسی لئے تھے کہ یہ تحریر ان ہی کی عام زبان میں انھی کے لئے تھی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابن صفی کی کتاب آپ سے مکالمہ کر رہی ہو۔ اور کبھی کبھی تو آپ خود کو بھی ان کتابوں کا ایک حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جب دوسرے مصنفین اپنی قابلیت کا اظہار مشکل زبان اور ادق الفاظ میں کر رہے تھے ابن صفی نے سادہ پیرائے میں اردو زبان کا سب سے نادر نمونہ پیش کیا۔ اور قاری کی توجہ فیروز اللغات کی بجائے کتاب پر ہوتی تھی۔ اگر دو لفظوں میں ابن صفی کی زبان کا مطالعہ کیا جائے تو وہ سادہ اور سلیس ہوں گے۔

 

کردار نگاری

 

ابن صفی کو باقی تمام مصنفین بلکہ غیر ملکی مصنفین پر ایک برتری حاصل تھی اور وہ تھی ان کی کردار نگاری۔ دنیا کے مشہور ادیب اور ان کے تخلیق کردہ کرداروں کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے

Victor Gun     Iron Sides

Ian Flemming     James Bond

Robert B Parker     Inspector Spencer

Ruth Rundell     Inspector Wexford

Michael Connelly   Harry Bosch

Robert Crais     Elvis Cole, Joe Pike

Harlan Coben     Myron Bolitar

Faye Kellerman     Rina & Peter

Robert Ludlum     Jason Bournce

Ian Rankin     Inspector Rubeus

Edward De Hoch   Nick Velvet

 

ان تمام مصنفین کے تخلیق کردہ کرداروں کی تعداد ایک یا دو ہے۔ مگر ابن صفی نے ایک دو نہیں بیسیوں کردار تخلیق کئے۔ سب اپنی علیحدہ علیحدہ خصوصیات و عادات کے ساتھ۔ ابن صفی کے دونوں سلسلوں میں مرکزی کرداروں کے علاوہ ان گنت کردار قارئین کے ذہنوں میں نقش رہیں گے۔ ان کے سلسلے جاسوسی دنیا کے مرکزی کردار احمد کمال فریدی ہیں جو ایک سنجیدہ، متین، بردبار، دلیر، نڈر، قانون کا احترام کرنے اور کروانے والے کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا دست راست ساجد حمید چلبلا، شوخ، نڈر، ہمہ وقت تبدیلی کا شائق ہے جو ہر معرکے میں ان کے ساتھ ہے۔ ان کرداروں کے علاوہ انور، رشیدہ، جگدیش، امر سنگھ، شہناز، نیلم، ریکھا، قاسم، چپاتی بیگم اور نہ جانے کتنے ہی کردار ہیں جو ہمیشہ ہمارے ذہنوں پر راج کریں گے۔ ان کے دوسرے سلسلے عمران سیریز کے مشہور و معروف کردار علی عمران جو ایک نہایت شوخ و شنگ، ہر چیز کو چٹکیوں میں اڑا دینے کو ماہر اور ایک حماقت انگیز ذہانت کا مرکب ہیں۔ اس سلسلے میں بلیک زیرو، طاہر، صفدر، روشی، جولیا، تنویر، جوزف، سلیمان، جعفری، سر سلطان، سر رحمٰن، اماں بی، ثریا، ظفر الملک، جیمسن مشہور و معروف ہیں۔

ان کے علاوہ نجانے کتنے کردار اپنی اپنی خصلتوں اور عادات کے ساتھ ان کتابوں میں زندہ ہیں۔ ان مثبت کرداروں کے علاوہ ابن صفی نے لافانی منفی کردار تخلیق کئے جن میں سنگ ہی، تھریسیا، فنچ، جابر، قلندر بیابانی، لیونارڈ، نانوتہ، کنور شمشاد، ڈاکٹر سلمان، جیرالڈ شاستری۔ یہ تمام کردار اپنے اپنے اطوار اور خصائل سمیت اسی دنیا کا حصہ ہیں جو ابن صفی نے اپنے قلم سے تعمیر کی۔ یہاں یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا اتنے جاندار کرداروں کی تخلیق کے بعد، جب تک اردو زبان زندہ ہے ابن صفی کا نام اور ان کے کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

 

ابن صفی کی منظر نگاری

 

ابن صفی کی منظر نگاری کے متعلق میرے نزدیک ایک یہی بات کافی ہے کہ جسے ایک مصور کا کینوس جس میں جا بجا رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور یہ تصویر پوری آب و تاب کے ساتھ قاری کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے۔ ابن صفی ہر ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ لکھتے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ فزارو، ٹپ ٹاپ، نیاگرہ، آرلکچو، مئے پول جیسے کلب اور ریستوران موجود ہیں یا نہیں مگر اپنی تمام سہولیات کے ساتھ ابن صفی کی آباد کردہ دنیا میں موجود ہیں۔ قاری خود بھی تارجام، رام گڑھ، سردار گڑھ، نصیرآبادجیسے شہروں میں خود کو رہائش پذیر محسوس کرتے ہیں۔ میں یہاں مشہور نوبل انعام یافتہ مصنف گارشیا مارکیز کے متعلق کہے گئے چند جملے لکھنا چاہوں گا:

 

اگر میکسیکو اور سپین دنیا کے نقشے پر زندہ نہ ہوتے تو پھر بھی وہ مارکیز کی تحریروں میں زندہ ہوتے۔

 

تو یہ کہ فزارو، ٹپ ٹاپ، نیاگرہ، آرلکچو، مئے پول، تارجام، رام گڑھ، سردار گڑھ، نصیرآباد دنیا کے نقشے پر موجود ہوں یا نہ ہوں مگر ابن صفی کی تحریر اور قاری کے ذہن میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میں صرف چند مثالیں پیش کروں گا کہ ابن صفی کس کمال کی منظر کشی کرتے ہیں :

’’ تاریکی آہستہ آہستہ غائب ہوتی جا رہی تھی۔ آسمان میں ننداسے تارے جھپکیاں سی لیتے معلوم ہو رہے تھے۔ ہر طرف ایک پر   اسرار روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والا سناٹا تھا۔ دور تک پھیلے ہوئے جنگل بیکراں آسمان کی وسعتوں سے سرگوشیاں کرتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔‘‘ (پو پھٹنے کا منظر کس کمال سے قاری کو دکھایا)

 

’’ اس کا سر چکرا رہا تھا! آنکھوں میں دھند سی چھا رہی تھی! اس دھند میں چنگاریاں بھی تھیں جو لا تعداد جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی پھر رہی تھیں ! پھر یہ دھند آہستہ آہستہ گہری تاریکی میں تبدیل ہوتی گئی! اور کچھ دیر بعد اس تاریکی میں رہ رہ کر روشنی کو تیز جھماکے ہونے لگے۔‘‘ (ہوش اور بے ہوشی کے درمیان کی کیفیت)

’’ محکمہ سراغ رسانی کی عمارت کی دیواریں جو بڑے بڑے چوکور پتھروں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی، اپنے استحکام کا اعلان کر رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ موسم کی شر انگیزیوں سے بے نیاز کہر کی گہری چادر پر طنزیہ ہنسی ہنستی ہوئی کہہ رہی ہوں کہ ہمیں کیا پرواہ ہے، ہم میں تو ایک رخنہ بھی نہیں جس سے اس سردی کی ٹھنڈی لہریں ہمارے اندر پہنچ سکیں۔ ہمارے قلب میں ایسے ایسے راز دفن ہیں جن کی ہوا بھی دنیا کو نہیں لگی۔‘‘

ابن صفی اور جدیدیت

 

ہر نابغہ اپنے عہد میں رہ کر بھی اس عہد سے آگے کا کام کرتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے والے ہر زمانے کے لئے کام کرتا ہے۔ ابن صفی اس تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریر میں ایسے تصورات پیش کئے جن میں سے کچھ تو ان کی زندگی میں اور کچھ ان کے بعد من و عن پورے ہوئے۔ انہوں نے بغیر آواز جہاز و آبدوز، مصنوعی دھند، ٹریفک کنٹرول کرنے والے روبوٹ، مصنوعی آندھی، ایٹم بم سے بھی خطرناک شعاعی ہتھیاروں، لاسلکی آلات، بغیر تاروں کے ٹرانسمیٹرز، خلائی جہاز، لاسلکی ٹیلے وژن، کیمیاوی ہتھیاروں غرض کون سا تصور نہیں تھا جو انہوں نے اپنی کتابوں میں نہ لکھا ہو۔ ان چیزوں پر آج تو شاید ہمیں حیرت نہ ہو مگر آپ آج سے ساٹھ سال پہلے کا زمانہ سوچئے۔ اس وقت جب نہ بجلی تھی، نہ موبائل، نہ ٹیلے وژن نہ پاکستان میں سائنسی سوجھ بوجھ۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت تو یہ باتیں صرف دیوانے کی بڑ ہی لگتی تھیں۔ مگر آج اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز چیزیں ہمارے علم میں ہیں۔ تبھی تو اقبال نے کہا تھا:

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا کہیں مہ کامل نہ بن جائے

ابن صفی کو ان کے ہم عصروں سے یہی بات ممتاز بناتی ہے کہ انہوں نے اپنے قد سے بڑھ کر نکل جانے کی کامیاب کوشش کی۔ خود کے اپنے عہد کے روایتی علم تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اپنے عہد سے آگے کا سوچا۔ مستقبل کیا ہوگا۔ اس وقت کیا سائنسی ترقی ہو سکتی ہے۔ شاید یہی وہ کوشش تھی کہ آج بھی ابن صفی اپنی پوری آب و تاب سے زندہ ہیں اور ان کے ہم عصر شاید چندسرکاری لائبریریوں کی زینت بن کر رہ گئے۔

 

ابن صفی کی تحریر میں بیرونی ممالک کا تذکرہ

 

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ابن صفی نے اپنی پوری زندگی صرف دو ملک یعنی بھارت اور پاکستان ہی دیکھے مگر ان کی کتابیں ان کے قاری کو دنیا جہان کی سیر کروا دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں مصر، جزائر غرب الہند، امریکہ، جنوبی امریکہ، انگلستان، سپین، اٹلی، فرانس، عرب، یونان، ایران، تاہیتی اور افغانستان کا اتنا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ جیسے انہوں نے خود وہاں جا کر یہ جگہیں دیکھی ہوں۔ یہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ تھا جس کی وجہ سے یہ منظر کشی نہیں بلکہ ایک سفرنامہ بن گیا۔ انہی کی زبانی کہ:

’’میری چارپائی مجھے جہانوں کی سیر کرواتی ہے۔ ‘‘

 

اثرات ابن صفی

 

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ابن صفی کی تحریر اردو ادب کی ان اصناف پر پور اترتی ہے :

 

ناول (سری ۔ ادبی)

مزاح نگاری

سفرنامہ

انشائیہ

افسانہ

غزل

نظم

ابن صفی نے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کے اثرات مٹائے نہیں مٹتے۔ ہر صنف میں انہوں نے اس کمال کے شہ پارے تخلیق کئے ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی۔ اگر ہم صرف ان کے پیش رس ہی کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ انہیں اردو کی کس صنف میں شامل کیا جائے۔ ان کا ایک ناول تزک دو پیازی اردو ادب میں مزاح نگاری ایک شائستہ نمونہ ہے۔ انشائیہ نگاری میں ان کے فن کا ادراک ہمیں ان کی کتاب ڈپلومیٹ مرغ پڑھ کر ہوتا ہے۔ میرے خیال میں متذکرہ اصناف میں ہر صنف میں ابن صفی کی مہارت پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اور آپ بھی راشد اشرف کی اس بات سے متفق ہو ں گے کہ

ابھی بہت کام کرنا ہے۔

 

حاصل کلام

 

ابن صفی جیسی ہمہ جہت شخصیت پر مجھ جیسے نا علم کا قلم اٹھانا ان کی ادبی شخصیت کی مزید بلندی کا باعث نہیں بلکہ مجھ جیسے جاہل کے لئے ایک اعزاز ہے۔ اور جہاں تک ابن صفی کے ادبی مقام کا تعلق ہے تو مجھے یقین کامل ہے کہ بہت جلد قارئین خود اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ابن صفی ایک ہمہ جہت شخصیت اور ایک انتہائی اعلی پائے کے ادیب تھے جن کی ادبی حیثیت طے کرنے کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہو سکتا۔ اور مجھے اس بات کا اتنا یقین ہے جتنا کل سورج کے طلوع ہونے کا۔

٭٭٭

 

 

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں۔ عرفان صدیقی

 

توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دلداری کی

اور  تشہیر   کرو اپنی گرفتاری کی

 

کچھ عرصہ قبل میرے پسندیدہ ترین شاعر جناب سعود عثمانی نے میری فرمائش پر اپنے پسندیدہ اشعار بذریعہ برقی ڈاک بھیجے جس میں یہ شعر بھی شامل تھا۔ اس کے بعد سعود صاحب کا ایک مضمون ـ، تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے پڑھنے کا موقع ملا جو شاعر عرفان صدیقی کی شاعری اور سعود صاحب کی ان سے ملاقاتوں پر مبنی تھا۔ مضمون کا ایک ایک لفظ محبت و عقیدت میں ڈوبا ہوا۔ مضمون میں عرفان صاحب کی شاعری کا انتخاب جیسے دل کو چھو گیا۔ جنوری ۲۰۱۵ء میں سعود صاحب اسلام آباد آئے تو میرے لیئے عرفان صدیقی صاحب کی کلیات دریا بطور تحفہ لائے۔ میرے لیئے تو سعود صاحب سے ملاقات ہی نعمت غیر مترقبہ تھی اس پر ایک ایسی کتاب جو ان کی پسندیدہ ترین کتاب ہو تو میری خوشی کی کیا انتہا ہو گی۔ مجھے ذاتی طور پر عام ڈگر سے ہٹ کر کی گئی شاعری بے حد پسند ہے۔ ایسے میں عرفان صدیقی کا مجموعہ کلام کیا کہنے۔ انتہائی سادہ اور پر اثر انگیز شاعری۔ جگہ جگہ دل کو چھو لینے والے اشعار۔ کچھ اشعار تو بغیر کسی کوشش کے جیسے دل میں بس گئے۔

ذرا سی بات ہے دل میں اگر بیاں ہو جائے

تمام مسئلے اظہار حال ہی کے تو ہیں

 

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے

تم سے بڑھ کر تو مجھے موج فنا چاہتی ہے

 

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

 

سر شوریدہ کو تہذیب سکھا بیٹھا ہوں

ورنہ دیوار مجھے روکنے والی بھی نہیں

 

بہت دنوں میں یہ بادل ادھر سے گزرا ہے

مرا مکاں کبھی سائباں بھی رکھتا تھا

ملی نہ جب کوئی راہ مفر تو کیا کرتا

میں ایک، سب کے مقابل میں ڈٹ گیا آخر

 

آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد

میرا سوجانا مرے دیوار و در کا جاگنا

 

یا مرا وہم ہے یہ نغمہ موج گزراں

یا کوئی نہر ہے اس کو ہ گراں کے پیچھے

 

اسی طرح کے ان گنت اشعار جا بجا ان کے کلیات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سعود عثمانی کا لکھا ہوا تعریفی کلمہ صد فیصد سچا لگنے لگا کہ:

ہندوستان میں تو ایک ہی شاعر تھا اور وہ تھا عرفان صدیقی

میرے ذہن میں عرفان صاحب کے بارے میں کچھ اور جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ غالباً فروری میں محترم عزیز نبیل کی مرتب کردہ کتاب ـ عرفان صدیقی حیات، خدمات اور شعری کائنات کی اشاعت کا علم ہوا۔ کسی طرح عزیز صاحب سے رابطہ ہو ا اور انہوں نے بہت محبت سے اپنی کتاب بھیجی۔ کتاب کیا ملی گویا عرفان صدیقی صاحب کی پوری شخصیت اور ان کی شاعری کے بہت سے پہلو آشکار ہوئے۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ محترم عزیز نبیل اور آصف اعظمی نے ذاتی دلچسپی سے ایک ایسا مرقع تیار کیا ہے جو عرفان صدیقی صاحب پر تحقیق کام میں ممد اور سند ہو گا۔

سب سے پہلے کتاب کا ظاہری حسن۔ یہ کتاب نہایت سادہ اور پر کشش سر ورق کی حامل ہے۔ کتاب کا عقبی ورق بھی سادہ اور پر کشش ہے۔ سب سے اچھی بات یہ لگی کہ کتاب چونکہ عرفان صاحب پر لکھی گئی ہے، لہذا سرورق اور پس ورق پر انہی کی تصاویر لگائی گئیں ہیں وگرنہ تجریدی فن کے نمونے سے قارئین کا امتحان بھی لیا جا سکتا تھا۔ کاغذ بہت اعلیٰ، طباعت عمدہ اور اغلاط سے پاک۔ بہت سے رنگین اوراق سے مزین یہ کتاب انتہائی کم قیمت میں دستیاب ہے۔ تاہم یہ کتاب بحرین، قطر اور عرفان صدیقی کے آبائی وطن میں دستیاب ہے۔ پاکستان میں یہ کتاب کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارا ہمسایہ ملک ہمارے ملک میں دہشت گرد بھیجنے کے بجائے کچھ اچھی کتابیں بھیجے تو شاید دونوں طرف کا بھلا ہو جائے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب پہلی نظر میں ہی دل کو چھو جاتی ہے۔

کتاب کو بجا طور پر چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یاد عرفان، تفہیم عرفان، عرفانیات اور آئینہ عرفان۔ پہلے حصے یاد عرفان میں یادیں، ملاقاتیں اور خاکے ہیں۔ ان کے قریبی اعزہ کے ان کے دوستوں کے ان کے رفقاء اور ان کے ہم عصروں کے۔ دوسرے حصے میں عرفان صدیقی کی شاعری، ملازمت اور صحافت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تیسرے حصے عرفانیات میں ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو، ان کی نثری تحاریر اور ان کی شاعری کا انتخاب اور چوتھے حصے آئینہ عرفان میں ان کے ذاتی کوائف، ان کی کتب کے سرورق اور ان کی چند تصاویر شامل کی گئیں ہیں۔ پوری کتاب کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ ان کی حیات اور شعری کائنات کا کوئی بھی گوشہ خالی نہ رہے۔ تاہم میری ذاتی رائے میں ایک مقولے کے مصداق کہ بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے، اگر ان کے ذاتی کوائف کتاب کے شروع میں ترتیب دیئے جاتے تو یہ قیمتی کتاب مزید بہتر ہو جاتی۔ مگر اب بھی تمام حصے اپنا مقصد من و عن بیان کر رہے ہیں۔

عرفان صدیقی حیات، خدمات اور شعری کائنات کے پہلے حصے یاد عرفان میں بہت سے اچھے انشایئے شامل ہیں تاہم ان کے قریبی عزیز سید محمد اشرف کا لکھا ہوا مضمون اس کتاب کا خاصہ ہے۔ اشرف صاحب کی نثر بہت سادہ اور انداز بیان میں بہت روانی ہے۔ عرفان صدیقی کو جتنے قریب سے انہوں نے دیکھا شاید ہی کسی اور کو اتنی قربت ملی ہو۔ عرفان صاحب کی ذاتی زندگی، ان کا مزاج، ان کا شعری سفر، ان کی عادات و اطوار ہر چیز نہایت تفصیل سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ عرفان صاحب اوسط قدو قامت اور صبیح چہرے کے حامل تھے۔ مجموعی طور پر ایک دھیمی طبیعت رکھتے تھے۔ گفتگو سلیس اور شستہ۔ سنجیدہ، بردبار اور حلیم۔ بہت کم گو، وضعداری اور شرافت ان کی پہچان تھی۔ یہ تو تھی ان کی شخصیت۔ اب ذکر ہو ان کی شاعری کا۔ جس پر میری حیثیت ہی کیا کہ میں بات کروں۔ بڑے بڑے ناقدین اور شعراء کرام جن میں محترم شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر خورشید رضوی اور سعود عثمانی جس کلام پر قلم اٹھا چکے ہوں، میری کیا اوقات کہ میں ان پر بات کروں۔ سو میں انہی کی زبانی کچھ اہم چیزیں نقل کرتا ہوں :

 

بقول شمس الرحمٰن فاروقی:

’’عرفان صدیقی کی غزل میں فن کی اہمیت، بلکہ فن کی حرمت پوری طرح جلوہ گر ہے۔ ان کے مصرعے انتہائی مربوط ہوتے ہیں اور ایک مصرعہ دوسرے کی پشت پناہی کرتا ہے۔ بات آگے بڑھاتا ہے اور دونوں مل کر مضمون قائم کرتے ہیں۔ یہ ایسا فن ہے جو آج بھی بہ مشکل ہی لوگوں کے قابو آتا ہے۔ عرفان صدیقی کی غزل میں استعارے سے زیادہ پیکر اور براہ راست جذبات سے زیادہ مضمون کی تازگی نظر آتی ہے۔ ان کے یہاں نئے الفاظ اور نئے فقرے کثرت سے ہیں۔ کہیں کہیں ان پر انگریزی کا بھی ہلکا سا اثر ہے۔ فارسیت اور جدت کے امتزاج سے ان کی غزل کی فضا نہایت خوشگوار اور شائستہ ہے۔ جو چیز ان کی آواز کو مزید انفرادیت عطا کرتی ہے وہ اس کا ٹھہراؤ اور لہجے کی روانی ہے۔ ‘‘

 

سعود عثمانی ان کے بارے میں رقم طراز ہیں :

’’ان (عرفان صدیقی) کی غزل ایک تہذیب کی بازیافت ہے۔ اور یہ تہذیب ان کی غزل کی دریافت۔ اور یہ دونوں مل کر انکے شعری مزاج کی اس طرح تشکیل کرتے ہیں جیسے رنگ برنگ مشروب اس طرح ملا دئے جائیں کہ ایک ہی رنگ نظر آئے اور انہیں علاحدہ علاحدہ کرنا ممکن نہ رہے۔ ‘‘

 

مظہر امام لکھتے ہیں :

’’عرفان صدیقی کی نازک خیالی، ان کے ڈکشن کی نفاست، ان کے شعور حیات کی رعنائی اور ان کے تصور عشق کی تہذیب ان کے اشعار سے چھلکی پڑتی ہے۔ ‘‘

 

اسعد بدایونی یوں عرفان صاحب کے فن کا احاطہ کرتے ہیں :

’’عرفان صدیقی کی غزل اپنے زمانے کا سچا اور کھرا اعلامیہ بن کر ابھرتی ہے۔ اس میں وہ تمام اعمال و افعال موجود ہیں جنہیں عرف عام میں ـ عصری حسیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عرفان صدیقی کی شعری کائنات کا احاطہ اگر صرف چند لفظوں میں کرنے کی کوشش کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ گم گشتہ تہذیب و ثقافت کی باز آفرینی اور حال سے مثبت رابطے کی کوشش کے شاعر ہیں، مگر ان چند الفاظ سے ان کی شاعری کو پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا کہ یہ صرف گم شدگی اور رابطوں کی کہانی نہیں ہے۔ اس میں جو زیریں لہجہ ہے وہ ایک حساس فنکار کے ذہن کا مواج سمندر ہے اور اس سمندر کی لہریں غضب ناکی و طرب ناکی کا مجموعہ ہیں۔ ‘‘

 

ڈاکٹر توصیف تبسم عرفان صدیقی کے بارے میں یوں قلم اٹھاتے ہیں :

’’ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کا سفر، دراصل تہذیب انسانی ہی کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔ عرفان اسی تسلسل حیا ت کا شاعر ہے، اس کے یہاں زندگی ایک مسلسل بہاؤ کی صورت میں موجود ہے۔ ‘‘

 

اس نادر کتاب میں شامل ایک مضمون عرفان صدیقی اور روایت کی پاسداری جسے محترم توقیر عالم توقیر (پٹنہ) نے تحریر کیا ہے، کا ایک ایک حرف پڑھنے کے قابل ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے اساتذہ کی شاعری کی عرفان صدیقی پر چھاپ اور پھر عرفان صدیقی کی شاعری میں موجود استعارے، ان کے الفاظ کا چناؤ، غرض ہر سطر پڑھنے کے قابل ہے۔

کتاب کا تیسراحصہ عرفان صاحب کے خیالات اور افکار پر مبنی گفتگو پر مشتمل ہے۔ ان کی گفتگو اور مختلف موضوعات پر ان کی گرفت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے صاحب علم اور قادر الکلام تھے۔ کوئی بھی موضوع ہو ان کا مطالعہ نہایت وسیع، ان کی گفتگو سادہ مگر مدلل ہوتی تھی۔ نیر مسعود، شمس الرحمٰن فاروقی اور شکیل صدیقی سے ان کی گفتگو۔ مضمون کی طوالت سے خوف آ رہا ہے ورنہ ان کی گفتگو کا بہت سا حصہ شامل کرنے کے لائق ہے۔ اسی حصے میں ان کی شاعری اور ان کے اخباری کالموں کا ایک عمدہ انتخاب بھی شامل ہے۔ کتاب کے اواخر میں ان کی تمام مطبوعات کا عکس اور ان کی چند نادر تصاویر۔ غرض کتاب اپنے عنوان کو ہر طرح سے صحیح ثابت کرتی ہے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مرتبین کی عرفان صدیقی سے عقیدت، ان تھک محنت، ذاتی توجہ اور دلچسپی ہی اس کتاب کے اتنے بامعنی اور پر اثر ہونے کا باعث ہے۔

کتاب کے مختلف مضامین پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ جس طرح ہم اپنے ملک میں نابغوں کی قدر نہیں کرتے ویسے ہی ہمارے ہمسایہ ملک میں بھی یہی روایت ہے۔ پھر ایک اور مسئلہ بھی دونوں ممالک میں ازل سے چل رہا ہے اور وہ ہے دھڑے بندی۔ جہاں دو افراد ملے وہیں انھوں نے ایک گروہ بنا لیا۔ پھر جس دھڑے کو اوپر آنے کا موقع ملا وہ باقیوں کا خلاف ایک محاذ کھول لیتا ہے۔ ادباء اور شعراء میں بھی لسانی، علاقائی اور مسلکی بنیادوں پر بہت سے دھڑے موجود ہیں۔ تاہم عرفان صاحب سب سے لا تعلق ہو کر ایک ایسے شجر کی آبیاری میں مصروف رہے کہ جو پوری آب و تاب سے اپنی چھب دکھلا رہا ہے۔ انہوں نے سب سے بے نیاز ہو کر ایسی کمال شاعری کی کہ جس کی بہت سی پرتوں پر سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ ان کے فن کے بہت سے رخ اس کتاب میں شامل ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ابھی بھی بہت کام باقی ہے۔ تبھی تو میں عرفان صدیقی سے معذرت کے ساتھ، انہی کے ایک شعر میں معمولی رد و بدل کر کے کہتا ہوں کہ:

غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادو ہے

مگر یہ نوک پلک تیرے فن کا جادو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جمال اور احسا ن کا مرکب : جمال احسانی

 

آتا ہے بہت یاد جمال احسانی

تھا خوب بھلا شخص دوبارہ نہ ملا

 

اپنے نام کی طرح منفرد لب و لہجہ کے شاعر جمال احسانی ان شاعروں میں سے ہیں جو شاید میڈیا پر تو اتنے مشہور نہیں ہوئے مگر اپنی عمدہ شاعری کی بدولت ہمیشہ قارئین کے ذہنوں پر راج کریں گے۔ ان کا شعری سفر تین مجموعوں پر مشتمل ہے جبکہ ۲۰۰۸ء میں ان کی کلیات بھی شائع ہو چکی ہے۔ اپنے ان تینوں مجموعوں کی صورت میں انھوں نے اردو شاعری پر ایک پر جمال احسان کیا ہے۔ اسی کا قرض اتارنے کی کوشش یہ ایک چھوٹا سا مضمون ہے۔

جمال احسانی کا آبائی شہر پانی پت تھا جہاں سے ان کے والدین سرگودھا آ کر آباد ہوئے۔ اس شہر میں انہوں نے آنکھ کھولی۔ قریب قریب بیس سال سرگودھا رہنے کے بعد یہ خاندان کراچی آ کر آباد ہوا اور ا۱۹۹۸ء میں اپنی وفات تک وہ کراچی میں ہی رہے۔ جمال احسانی تمام عمر معاشی ناہمواری کا شکار رہے جس میں اپنا ذاتی گھر نہ ہونے کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ اس تمام جہد کا اثر ان کی ذات پراور شاعری پر بھی نظر آتا ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری کے لئے ذاتی تجربات کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ جن حالات سے ایک حساس شخص گذرتا ہے وہ اس پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جو طنز اور جو کاٹ ہے وہ انہی حالات کی دین ہے۔

جمال نے شاعری کیسے شروع کی۔ انھی کی زبانی سنئے :

’’میں نے شاعری نہ تو پڑھ کر شروع کی اور نہ سن کے۔ یہ دولت تو مجھے بن مانگے ملی ہے۔ یہ خزانہ مجھے کسی نقشے سے نہیں بلکہ لغزش پا سے ملا ہے۔‘‘

مزید لکھتے ہیں :

’’میں نے شاعری اور زندگی کا کوئی بھی اصول نہیں بنایا۔ الغرض میں جو کچھ بھی ہوں اور جیسا بھی، اپنے آپ سے مطمئن ہوں۔ اور اسی نا اطمینانی کا ماحصل میری زندگی اور شاعری ہے۔ ‘‘

جمال احسانی کی یہی عاجزی اور یہی سادگی ان کی پوری شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے۔ مجھے شاعری میں زبردستی ڈالے گئے الفاظ اور تشبیہات سے چڑ ہے۔ اچھی شاعری خودبخود آپ کے دل میں اتر جاتی ہے۔ بس ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ یہ دل سے تخلیق کی گئی ہو۔ جمال کے ذاتی حالات اس کی شاعری پر بالکل اثر پذیر ہوئے ان کی شاعری میں حساسیت، محرومی، پچھتاوے اور تھکن نظر آتی ہے مگر کسی منفی پہلو سے نہیں بلکہ اس پر ہونے والی واردات کے رد عمل کے نتیجے کے طور پر۔ شاعر ان منفی جذبات کو اپنے اوپر طاری نہیں کرتا بلکہ ان سے آگے نکل کر وہ ایک امید اور حوصلہ تلاش کرتا ہے۔

جمال احسانی نے اپنی شاعری میں اپنے ذاتی تجربات کو اس طرح ضم کیا کہ اس کی شاعری اس کی زندگی کی کہانی بن کر سامنے آتی ہے۔ ایک عام آدمی معاش کے جن نا ہموار راستوں پر گزرتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگرچہ اس کا رنگ ان کی شاعری پر بھی چڑھا، تاہم اپنی شاعری سے جو دھنک رنگ بکھیری اس کی پہلی کرن ہی ان کے تابناک شعری سفر کی پہچان بن گئی۔

 

چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

 

یہ غم نہیں کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے

یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

 

بعد ازاں اس کی شاعری نے قارئین کو ایسا گرفت میں لیا کہ آج بھی شاعر تو بہت ہیں مگر جمال جیسا کو ئی نہیں۔ ان کے ان اشعار کی توصیف تو مشتاق احمد یوسفی اور ساقی فاروقی نے بھی کی، آخری مصرعہ یوسفی نے اپنی کتاب آب گم میں استعمال کیا ہے۔

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

آگے   راہ کا سناٹا ہے   پیچھے  گونج کھڑاؤں کی

 

اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں  جمال

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاؤں کی

 

جمال احسانی کا شعری سفران کے مجموعہ کلام ستارہ سفر سے شروع ہوا۔ میری ذاتی پسندیدگی سے قطع نظر یہ پورا مجموعہ اردو شاعری میں ایک نہایت معتبر اضافہ تھا۔ ہر غزل، ہر شعر جمال کے فن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ان کے اس مجموعہ کلام سے جمال کا تابناک شعری مستقبل بھی لوگوں سے چھپا نہ رہا۔ اس وقت کے مشہور اور معروف شعراء کرام جن میں احمد ندیم قاسمی، پروین شاکر، ساقی فاروقی، ریاض احمد شاد وغیرہ نے تقریب رونمائی میں شرکت کی یا تبصرے کئے۔ جمال احسانی کی ابتدائی تربیت احسان امروہوی جیسے روایتی استاد کے ہاتھوں ہوئی۔ انھیں سلیم احمد اور قمر جمیل جیسے جدید شعراء کا قرب بھی حاصل رہا۔ اس قدیم اور جدید شاعری کے ملاپ سے ان کی شاعری ایک طرف تو روایت کا رنگ لئے ہوئے ہے وہیں اس میں جدیدیت کا تڑکا بھی ہے جو اس شاعری کو دو آتشہ بنا دیتا ہے۔ ستارہ سفر کے بعد آپ کو دو مزید شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ایک آپ کی زندگی میں رات کے جاگے ہوئے اور ایک آپ کی وفات کے فورا بعد تارے کو مہتاب کیا شائع ہوا۔ ان کی آخری کتاب میں انہوں نے پیش لفظ بھی لکھا اور اپنے بارے میں قاری کو روشناس کروایا۔ اسی کتاب کو انہوں نے اپنی شریک حیات کے نام اس شعر کے ساتھ معنون کیا

 

کوئی طوفان ہو رہتا ہے جمال

ایک دریا کا کنارہ مرے ساتھ

 

جمال احسانی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ اس صنف میں محاورات کی بر جستگی، زبان کی پختگی اور باہمی ربط ان کی غزل کا شعار ہیں۔ جمال کے یہاں ہر جذبہ اپنی پوری شدت سے موجود ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں سمندر، صحرا، سفر، آسمان، تنہائی اور وصل اپنے پورے تاثر کے ساتھ محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ایک بہت بڑے کینسوس پر ان کی شاعری کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ ان کے خوابوں اور امنگوں کی عکاسی کرتی ہے :

 

سمندروں کا سفر آج تو مزہ دے گا

ہوا بھی تیز ہے کشتی بھی بادبانی ہے

 

آنکھوں آنکھوں کی ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے

ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے   صحراؤں کی!

 

جمال ہر شہر سے ہے وہ شہر پیارا مجھ کو

جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے

 

جمال کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت ریاض احمد شادیوں بیان کرتے ہیں :

 

جمال کی شاعری میں کھلے مناظر سے محبت اور تنگ ماحول سے نفرت بڑے بلیغ استعاروں کے طور پر ابھری ہے۔ اس میں شاعر کی ذاتی واردات سے لے کر ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کے سارے روئیے سمٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سارے موضوعات ہماری روایتی شاعری کا بھی حصہ ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ جمال احسانی کے ہاں یہ پہلو کسی روایت کا حصہ نہیں بلکہ شاعر کی ذات بن کرسامنے آتے ہیں۔

 

گھر بھی عزیز شوق بھی دل میں سفر کا ہے

یہ روگ ایک پل کا نہیں عمر بھر کا ہے

 

یہ   ہجر   کون   جانے   یہ   بات   کون سمجھے

میں اپنے گھر میں خوش ہوں وہ اپنے گھر میں خوش ہے

 

نازک اگر نہیں ہے تو شیشہ ہے بے جواز

بھاری اگر نہیں ہے تو پتھر خراب ہے

 

نہ اجنبی ہے کوئی اور نہ آشنا کوئی

اکیلے پن کی بھی ہوتی ہے انتہا کوئی

 

خموش   ہوں تو مجھے کم جواز نہ جان

مرے بیان سے باہر بھی ہیں سبب میرے

 

منہ اندھیرے نظر آتے ہیں جو کچھ لوگ یہاں

یہ سحر خیز ہیں یا رات کے جاگے ہوئے ہیں

 

ہر اسم بے طلسم تھا لیکن جمال میں

تارے کو ماہتاب کیا اس کے نام نے

 

جمال احسانی نے شاعری میں عام فہم اور بلیغ استعارے استعمال کئے ہیں۔ اس کی شاعری بھی روایتی مصالحہ چیزوں سے پاک ہے جس سے اس کا قد اپنے ہم عصروں بڑھ جاتا ہے کہ جمال کے ہاں اپنے عصر کی شاعری بھی موجود ہے اور اس میں عصر سے آگے بڑھ جانے کا امکان بھی موجود ہے۔ اس میں روایت بھی ہے اور جدت بھی۔ اپنے دکھ بھی ہیں اور ان سے نمٹنے کا حوصلہ بھی۔ اپنے دور کے مسائل بھی ہیں اور اس سے قطع نظر ایک امید ایک امنگ بھی ہے۔

 

اس تاریک فضاء میں میری ساری عمر

دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے

 

کاش میں تجھ پہ ریاضی کے سوالوں کی طرح

خود کو تقسیم کروں کچھ بھی نہ حاصل آئے

 

ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب

آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے آدھی دولت چھاؤں کی

 

دیے کی لو سے جو تحریر میں نے لکھی تھی

ہوا کے پاس وہ اب تک مری نشانی ہے

 

اک آدمی کی رہائی سے بھی تو ہو جاتا

جو سارے شہر کی گرفتاریوں کے بعد ہوا

 

جو دل کے طاق میں تو نے   چراغ رکھا تھا

نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا

 

چراغ بن کے جلا جس کو واسطے اک عمر

چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے

 

یہ شہر اپنے حریفوں سے ہارا تھوڑی ہے

یہ بات سب پہ مگر آشکارا تھوڑی ہے

ترا فراق رزق حلال ہے مجھ   پر

یہ پھل پر ائے شجر سے اتارا تھوڑی ہے

 

یہ عام فہم اور دل میں اتر جانے والی شاعری جمال کی پہچان ہے۔ سادہ مگر پر اثر یہ ہے وہ شاعری جس سے اردو شاعری کے زندہ رہنے کے امکانات ختم نہیں ہوتے۔ جمال احسانی اتنی خوبصورتی سے شعر بنتے ہیں کہ قاری کا ذہن مسلسل اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ جمال کے ذاتی تجربات ہوں یا محسوسات، زندگی سے شکوہ ہو یا کوئی محرومی، سب اس طریقے سے اپنی شاعری میں سمو لیتے ہیں کہ قاری ان کے طلسم سے نکل نہیں پاتا۔

 

کوئی بھی شخص اکیلا نہیں تھا ساحل پر

کسی کو ڈوبنے والا اشارہ کیا کرتا

 

تو نے احساس ہی نہ ہونے دیا

جو بھی کچھ تھا تری بدولت تھا

 

دنیا کو بھی کسی طرح نزدیک کر لیا

اور نفس کو بھی مار رہے ہیں کسی طرح

 

بہت دوسروں کو بہم آیا میں

مگر اپنے حصے میں کم آیا میں

 

تمام عمر کی جہد مسلسل کے بعد جمال کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ شاید اب وہ زندگی کی ڈور سے نکلنے والا ہے۔ اپنے کئی اشعار میں انہوں نے اس کا ذکر کیا ہے :

 

نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا

بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا

 

اسٹیشن پر کس کو ڈھونڈ رہے ہو

جمال احسانی تو کب کا جا چکا ہے

 

چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار

میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

 

اور اتفاقاً جو انہوں نے آخری شعر کہے جس میں اس نے دنیا سے رخصت کا اشارہ دے دیا تھا:

 

تمام اسباب خاک و آب کو اب ڈھونڈنے والا ہے

ترا مہمان چند لمحوں میں رخصت ہونے والا ہے

 

جمال احسانی کو دنیا کے فانی ہونے کا بھی اندازہ تھا جس کا ادراک وہ ایسے ظاہر کرتے ہیں :

 

تیرا انجام جو ہوا وہی ہونا تھا جمال

اس جہاں میں تو کسی اور جہاں کا نکلا

٭٭٭

 

 

 

راہیں ۔ منشا یاد

ایک جائزہ

 

 

ناول اطالوی زبان کے لفظ Noveela سے ماخوذ ہے۔ لغت کی رو سے ناول کے معنی کسی نئی اور انوکھی بات کے ہیں۔ اصطاحاً ناول کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے ایک طویل نثری قصہ(بیانیہ) جو فرضی یا حقیقی کرداروں اور واقعات پر مشتمل اور عام طور کسی ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے۔ عالمی ادب میں ناول سترہویں صدی کے اوائل میں نمودار ہوا۔

ڈینئیل ڈیفو کا ناول رابنسن کروسو اور Miguel de Cervantes کا ناول Don Quixoteانگریزی اور ہسپانوی زبانوں کے ابتدائی ناول ہیں۔ دیگر زبانوں میں بھی انتہائی شاندار ناول لکھے گئے جو اپنے موضوع اور کرداروں میں تنوع کے باعث انگریزی زبان کے ناولوں سے بھی زیادہ پر کشش ہیں۔ ان میں ڈوما، ٹالسٹائی، ترگنیف، گورکی شامل ہیں۔ آج بھی ددسب سے زیادہ معروف مصنف ایسے ہیں جو ہسپانوی اور پرتگالی زبان میں لکھتے ہیں اور موجودہ زمانے کے بہترین ناول نگار ہیں۔ جی ہاں میں مارکیز اور کوئہلو کی بات کر رہا ہوں۔ مارکیز کے لئے تو طلسماتی حقیقت پسندی(Magical Realism) کی اصطلاح وضع کی گئی۔ اردو زبان کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد ہیں جنہوں نے ۱۸۶۹ء میں مراۃالعروس نامی ناول لکھا۔ تاہم اس میں وہ لوازمات شامل نہیں تھے جو ایک ناول کے لئے ضروری ہیں۔ تاہم آپ کے ذہن میں دو چیزیں واضح ہوں کہ ایک تو اردو زبان بھی نوعمری کے مراحل میں تھی دوسرے ڈپٹی صاحب ایک مقصد کو سامنے رکھ کر لکھ رہے تھے۔ اس ناول کے بعد مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤجان ادا کو اردو زبان کا پہلا مکمل ناول کہہ سکتے ہیں۔ جس میں باقاعدہ ایک مربوط پلاٹ کے ساتھ انسانی جذبات اور محسوسات کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کے بعد قاضی عبدالغفار اور پریم چند نے بہت اہم نقوش چھوڑیں ہیں۔ برصغیر کا سب سے اہم واقعہ اس کی تقسیم ہے اور اس ایک واقعہ نے انتہائی ان مٹ نقش چھوڑے ہیں لوگوں کی زندگیوں پر بھی اور ادباء کے ذہنوں پر بھی۔ اس دور میں قرہ العین حیدر نے آگ کا دریا نامی ناول لکھ کر اردو ناول کی تاریخ بدل دی۔ انہی کے ہم عصروں میں ممتاز مفتی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ شامل ہیں جنہوں نے اردو ادب میں ناول کو ایک نئے درجہ پر پہنچایا۔ ان کے بعد عبداللہ حسین، رحیم گل اور منشا یاد کے نام آتے ہیں۔

منشا یاد اردو ادب کا ایک انتہائی معتبر نام ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار، ناول نگار اور ڈرامہ نگار ان کا نام ادبی حلقوں کے لئے نیا نہیں۔ وہ نہ صرف اردو بلکہ پنجابی کے بھی بہت بڑے ناول نگار ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کو ایک بہت بڑا ناول راہیں کی صورت میں دیا ہے۔ یہ چند سطور اسی ناول کے متعلق ہیں۔ تاہم منشا یاد صاحب کا مختصر تعارف۔ آپ ۱۹۳۷ء میں فاروق آباد جو شیخوپورہ کے قریب ہے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے رسول میں واقع فنی مہارت کے مشہور ادارے سے انجینئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ ۱۹۶۴ء میں فاضل اردو، ۱۹۶۵ء میں بی اے اور ۱۹۶۷ء میں ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ۱۹۵۸ء میں کیا اور ۱۹۹۷ء میں سی ڈی اے سے بطور ڈپٹی ڈائریکٹر سبکدوش ہوئے۔ انہوں نے اکتوبر ۲۰۱۱ء میں وفات پائی۔

یہ تحریر منشا یاد صاحب کے ناول راہیں جو ان کے پنجابی ناول کا ترجمہ ہے کا ایک جائزہ ہے۔ اس ناول کو اردو کے قالب میں ڈالنے کا کام انہوں نے خود سر انجام دیا۔ اسی لئے کتاب کا مجموعی تاثر برقرار رہا۔ تاہم یہ اہم ناول ان کی وفات کے بعد ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ ان کا پنجابی ناول ٹانواں ٹانواں تارا ایک بہت بڑا ناول ہے۔ اس ناول کو بھارت میں مخصوص رسم الخط گورمکھی اور شاہ مکھی میں چھاپا گیا۔ یہ ناول امرتسر یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے اور اس پر ایک ایم فل کی ڈگری جاری ہو چکی ہے۔ قارئین اس ناول پر مبنی ڈرامہ راہیں دیکھ چکے ہیں۔ اس ناول سے ماخوذ یہ ڈرامہ ۱۹۹۹ء میں آن ائیر ہوا اور آج یہ ڈرامہ پی ٹی وی کے انتہائی مشہور ڈراموں میں سے ایک ہے۔ تاہم اس ڈرامے میں اصل پلاٹ سے ہٹ کر کافی تبدیلیاں کی گئیں۔ تاہم منشا صاحب کی تحریر میں چھپا پیغام سب لوگوں تک پہنچا، سب نے اسے محسوس کیا اور پذیرائی بخشی۔ اس ڈرامے کے ساتھ ہی راقم نے اس ناول کو پنجابی زبان میں پڑھنے کی کوشش کی۔ تاہم پنجابی زبان پڑھنے میں انتہائی مشکل زبان ہے۔ اسی لئے آج اس ناول کو اردو میں پڑھ کر بے حد مزہ آیا اور میں دل سے ایک بات کا قائل ہو گیا کہ اگر ہجرت سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک کی پاکستانی تاریخ کو ایک تحریر میں سمو دیا جائے تو اسے راہیں کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اس ناول کو پڑھنے کے بعد جو پہلا تاثر ذہن میں آتا ہے وہ مصنف کی زبان اور بیان پر گرفت ہے۔ آپ نے خود بھی غور کیا ہو گا کہ ایسی تمام تحاریر جن میں گاؤں کی روایتی سادگی اور اپنی مٹی، اس سے جڑے رشتے، دوستی اور خلوص ہو وہ ان تمام فرضی قصوں سے زیادہ مشہور ہوتے ہیں۔ جن میں دولت کی چکا چوند، دیس بدیس، کاریں یا دیگر لوازمات ہوں۔ مصنف کی تحریر میں ان کا گاؤں میں گزرا بچپن اورجیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہجرت کا انتہائی گہرا تاثر نظر آتا ہے۔ پھر فاضل مصنف پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو و فارسی زبان پر بھی قادر تھے لہذا ان کی یہ مہارت بھی ان کی تحریر میں واضح نظر آتی ہے۔ اسی ضمن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اپنی اس کتاب میں انہوں نے ادق اور کڈھب الفاظ کی جگہ انتہائی آسان اور سلیس زبان لکھی جسے قاری انتہائی آسانی سے پڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحریر میں جا بجا پنجابی کے شعر انگوٹھی میں نگینوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ کئی دفعہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مصنف نے ان اشعار کے ذریعے اسی کتاب میں درج واقعات کو منظوم شکل میں بیان کر دیا ہے۔ پورا ناول اس طرح لکھا گیا ہے کہ تحریر کی سادگی اور روانی دل کو چھوتی ہے اور اور ایک دفعہ کتاب شروع کر لیں تو اسے ختم کئے بنا چین نہیں آتا۔ اس ناول کی شکل میں اردو زبان میں ایک ایسے ناول کا اضافہ ہو گیا ہے جس کے بغیر اردو ناول کی تاریخ ادھوری ہے۔

ناول کا دوسرا تاثر اس کا منظر نامہ ہے۔ ہر مصنف ایک اچھا مشاہدہ کار ہوتا ہے۔ جو ہر چیز سے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے اور پھر اسے قرینے سے اپنی تحریر کی شکل دیتا ہے۔ اس پورے ناول میں مصنف کا ذاتی مشاہدہ جابجا نظر آتا ہے۔ انہوں نے اس کمال کی منظر نگاری کی ہے جیسا کہ مشہور فارسی شاعر انوری کہتا ہے کہ جب میں شاعری کرتا ہوں تو الفاظ اور استعارے میرے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور میں انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا چلا جاتا ہوں۔ اپنی ایسی ہی قوت تخلیق سے اس ناول میں انہوں نے چاہ کلاں اور چاہ خورد گاؤں اور دریا آباد نامی قصبہ تخلیق کیا۔ یہ ان کے قلم کی تخیلی طاقت ہے کہ یہ فرضی علاقے ہمیں اپنے ارد گرد محسوس ہوتے ہیں۔ اس پوری تحریر میں انہوں نے ایسے حالات بیان کئے ہیں کہ کہیں سے بھی ان میں تصنع اور بناوٹ محسوس نہیں ہوتا۔ ایسی ہی کمال کی منظر نگاری پر مارکیز کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ اگر لاطینی امریکہ دنیا کے نقشے پر موجود نہ ہوتا تب بھی یہ مارکیز کی تحریروں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ شاید یہ علاقے کہیں موجود ہوں لیکن اگر کہیں نہیں بھی ہیں تو بھی یہ قاری کے ذہن میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ قاری خود کو ان میں سانس لیتا محسوس کرتا ہے۔ اس ناول کی مثال ایک ایسے کینوس کی سی ہے جس میں بہت سارے دائرے موجود ہیں مگر ان تمام پیچ و خم کے باوجود یہ پورا کینوس ایک ہی تصویر دکھائی دیتا ہے۔ اس ایک ناول میں اتنی کہانیاں اور اتنے گھماؤ پھراؤ موجود ہیں کہ ان کو ایک ساتھ لے کر چلنا مشکل بلکہ ناممکن لگتا ہے۔ مگر مصنف نہایت چابکدستی سے ان تمام کہانیوں کو ایک دھاگے میں پرو کر انہیں منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔

اس ناول میں پنجاب کے روایتی گاؤں اور قصبات میں بسنے والے عوام و خواص مذکور ہیں۔ اسی طرح شہر میں بسنے والے اہم کرداروں میں نظر آتے ہیں۔ گاؤں میں بسنے والے چودھری، پیر، کمہار، کمی، مزارع، میراثی و مولوی اپنی تمام تر جملہ خوبیوں اور خامیوں سمیت نظر آتے ہیں۔ شہر میں رہنے والے صنعت کار، وکیل، اخبار نویس، سیاستدان اس ناول میں اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جز نگاری کی اوج یہ کہ گاؤں میں ہونے والی تمام تقریبات خواہ بارات ہو، سالانہ عرس ہو، کبڈی کے مقابلے ہوں، روایتی پنچایت ہویا کوئی جلسہ، ہر واقعہ اپنی منسلک جزئیات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اگر منظر کسی شہر کا ہے تو شہریوں کی مخصوص ذہنی اپج، رہن سہن، موقع پرستی، شر انگیزی، دیگر خصائل من و عن پیش کئے گئے ہیں جیسا کہ ہمیں نظر آتے ہیں۔ منشا یاد کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ زندگی کو اسی انداز میں پیش کرتے ہیں جیسی وہ بسر ہوتی ہے، ویسی نہیں جیسا اسے ہونا چاہیئے۔ انہوں نے اپنے ہیرو کو عام آدمی ہی رہنے دیا اسے سپر مین نہیں بنا دیا۔ اگر آپ دیہات کا ذکر پڑھ رہیں تو آپ خود کو دیہات میں سانس لیتا پائیں گے اگر منظر کسی شہر کا ہے تو اس میں شہریت درجہ اتم نظر آتی ہے۔ اس منظر نامے میں قیام پاکستان کے وقت کی ہنگامہ خیزیاں بھی اپنی تمام تر خونخواری کے ساتھ موجود ہیں۔ ان تمام واقعات میں منشا یاد کے ذاتی تجربات و مشاہدات بھی شامل ہوں گے تبھی یہ تحریر انتہائی پر اثر ہوئی۔ روایتی چودہریوں اور ملکوں کا اپنے مزارعوں سے سلوک، اپنے سے کم تر انسانوں کی بے عزتی، جھوٹے مقدمات، سازشیں، بے جا مداخلت، جعلی پیر، لڑکیوں کا اغواء غرض اس پورے منظر نامے میں معاشرے کی ایک انتہائی گھمبیر شکل دکھائی گئی ہے۔ جہاں ایک طرف ہمیں یہ گھناؤنی حقیقت نظر آتی ہے وہیں ہمیں اس ناول میں وہ تمام اقدار بھی نظر آتی ہیں جن کی بناء پر آج بھی ہمارا معاشرہ کسی نہ کسی طور قائم ہے۔ روایتی سادگی، مہمان نوازی، دریا دلی، وعدہ نبھانا، دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھنا، ہمسایوں کا رشتہ داروں سے بڑھ کر خیال رکھنا، بے لوث خدمت، گاؤں کے ہر فرد کو اپنا سمجھنا، کڑے وقت میں تمام برادری کا متحد ہونا۔ نظام کو بدلنے کی لگن، دوستی، وفا۔ اس ناول میں وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود ہیں جو اسے ایک بہت بڑا ناول بناتے ہیں۔

منشا یاد نے اس ناول میں ایسے لازوال کردار تخلیق کئے ہیں جو ذہنوں سے چپک کر رہ جاتے ہیں۔ مثبت ہوں یا منفی، تمام کردار اپنی جملہ خصوصیات سمیت موجود ہیں۔ اس ناول کا ہیرو خالد نامی شخص ہے جو روایتی کرداروں کی طرح خوبصورت، ذہین، محنتی، نرم دل، بے لوث اور خوش قسمت ہے (ماسوائے محبت کے معاملات کے )ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک عام انسان بھی ہے۔ جو کبھی کبھار جذباتی فیصلے بھی کرتا ہے۔ خالد کا تعلق چاہ خورد کے ایک انتہائی دین دار اور نیک نام خانوادے سے ہے جن کی زمینوں پر قبضہ ہو چکا ہے۔ اس کا ایک بھائی جو دماغی مرض کا شکار ہے اغوا کر لیا جاتا ہے، اس کی ایک بیوہ بہن ہے جو گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی ہے۔ وہ انتہائی کڑی محنت سے، تمام نامساعد حالات کا مقابلہ کرتا ہے۔ اور ایک اچھا مقام حاصل کرتا ہے۔ وہ دریا آباد نامی قصبے میں ایک نامی وکیل کی حیثیت سے اپنا مقام بناتا ہے۔ اس کے بعد وہ سیاست میں حصہ لیتا ہے اور روایتی سیاستدانوں کے آگے بے بس ہو کر اپنا ذہنی توازن ہی کھو دیتا ہے۔ مجھے منشا یاد کی اس بات نے بہت متاثر کیا کہ ہر ناول روایتی کہانیوں کی طرح Happy Endingsپر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس میں زندگی کی تمام تر کٹھنائیاں بھی دکھائی جا سکتی ہیں۔ حقیقی زندگی میں ایک عام انسان جس دشواری سے گزرتا ہے اس کی بھی عکاسی کی جا سکتی ہے۔ اس ناول میں ہیروئین کا کردار فرح نامی لڑکی نے ادا کیا ہے۔ وہ بھی ہمارے معاشرے سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی لڑکی ہے مگر وہ ان تمام لڑکیوں سے کہیں زیادہ حوصلہ مند اور ثابت قدم ہے کہ اپنے خالد کے انتظار میں وہ ساری عمر بتا دیتی ہے، خود گھل جاتی ہے مگر خالد کے لئے ہمیشہ ایک گرم جوشی و التفات کا ذریعہ ہے۔ ان دونوں کی محبت حسرت موہانی کی شاعری میں موجود رومان کی طرح ہے کہ عاشق تو دل دینے کے لئے بے تاب ہے مگر محبوب بے اعتنائی برت رہا ہے۔ آخر کا جب عاشق اپنا دل کھول کر رکھ دیتا ہے تو محبوب بہت دیر میں اس کے جذبات کو سمجھتا ہے، مگر جب وہ اس کو اپنا مان لیتا ہے تو تمام عمر صرف اسی کے انتظار میں گزار دیتا ہے۔ اگرچہ دونوں کا ملن اس کہانی میں ممکن نہیں ہو پاتا مگر ان کا آپس میں اظہار محبت، دونوں کے درمیان کی کیمسٹری، چھپن چھپائی جیسا پیار، ہر ادا، ہر منظر دل میں جیسے کھب سا جاتا ہے۔ اس ناول کا انجام تمام ناولوں مے مختلف ہے مگر مجموعی دلچسپی کم نہیں ہو پاتی۔ کہانی کو تیسرا اہم کردار نجمہ عرف نجی سناری کا ہے جو چاہ کلاں کے سناروں کی بیٹی ہے۔ ایک عجیب مگر دلچسپ اتفاق کے تحت وہ خالد سے یک طرفہ محبت شروع کر دیتی ہے۔ بلکہ اس کے نام پر دھوکے سے بلا کر اغوا کر لی جاتی ہے اور تہی دامن ہو جاتی ہے۔ گو بعد میں اس کا اغوا کار اس سے نکاح کر لیتا ہے تاہم نجی جس کرب سے گزرتی ہے اسے الفاظ کا قالب میں ڈھالنا صرف منشا صاحب کا خاصہ ہے۔ نجی خالد کے لئے بدنام ہو گئی، برباد ہو گئی مگر خالد نے اسے دیکھا تک نہیں۔ ایک بڑا دلچسپ موقعہ جب خالد کے تمام دوست نجمہ کو دیکھنے کے بہانے اس کے گھر جاتے ہیں گو خالد ان کا ساتھ نجی کے گاؤں آتا ہے مگر وہاں جا کر سو جاتا ہے۔ کہانی میں بہت بعد جب وہ اسے دیکھتا ہے تو تاسف کا اظہار کرتا ہے کہ اگر اسے دیکھ لیتا تو شاید وہ اسی کے ساتھ اپنی زندگی گزار لیتا۔ اس وقت تک تو وہ فرح کی زلفوں کا اسیر بھی نہیں ہوا تھا۔ تاہم یہ سوچ بھی اسے ایک عام آدمی ظاہر کرتی ہے جو اپنے فیصلوں پر پچھتاتا بھی ہے اور انہیں غلط بھی تسلیم کرتا ہے، اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ خالد کا دوست انور اس کہانی کے اخیر تک ہر چیز میں خالد کا شریک، ممد و معاون ہے۔ بعد میں وہ نجی سے شادی کر لیتا ہے اور تب بتاتا ہے کہ وہ پہلے دن سے ہی نجی کو پسند کرتا ہے۔ انور دریا آباد میں کاروبار شروع کرتا ہے اور ملکوں اور چودھریوں کے ستائے ہوئے دیہاتیوں کو نوکریاں دیتا ہے۔ انور کا بڑا بھائی عباس عرف باسو کبڈی کا بہت بڑا کھلاڑی، خالد کا بہنوئی بن جاتا ہے۔ خالد یہ رشتہ تمام گاؤں برادری سے لڑ کر کرتا ہے۔ باسو کے اندر کا کھلاڑی تمام عمر اپنی چھب دکھلاتا ہے۔ گاؤں کے چودھریوں کے ذاتی انتقام کا نشانہ اس کی ٹانگ کٹنے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس ناول میں جہاں پنجاب کے روایتی کردار اپنی سادہ لوحی اور وفا شعاری کے ساتھ نظر آتے ہیں وہیں کریہہ صورت و کردار وڈیرے، جعلی پیر، نااہل پولیس، بکاؤ صحافی، روایتی سیاستدان تمام کے تمام اپنی منسلکہ برائیوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ خالد کی بیوی کا کردار بھی اس کہانی میں ایک اہم موڑ رکھتا ہے۔ سادہ لوح مگر ایک انتہائی دین دار مگر اس کی خالد سے ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی متاہلانہ زندگی انتہائی بے کیف گزرتی ہے۔ خالد صرف اور صرف انسانی جذبے کے تحت نجی سناری کی بیٹی کو اپنے گھر پر رکھ لیتا ہے اس کی تعلیم کا ذمہ لیتا ہے گو بعد میں اس کی یہی نیکی اس کے گلے پڑتی ہے۔

جب ایک اچھے کھلاڑی کو عمدہ کھیل پیش کرنے پر انعام کی بجائے سزا دی جائے، مثالی حسن کے نمونے کو روند کر تباہ حال کر دیا جائے، ذہین اور پڑھاکو بچوں کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں، نیک اور بے غرض لوگوں پر جھوٹے مقدمات بنا دئیے جائیں، انسانی ہمدردی کو بوالہوسی کا نام دے دیا جائے، رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جائے، نااہل لوگ پیسے اور ذاتی تعلقات پر بڑے عہدوں پر فائز ہو جائیں، اس مٹی سے محبت کرنے والوں پر رقیق الزام لگا کر انھیں پاگل کر دیا جائے، تو ذہن میں ایک انتہائی گھناؤنی تصویر ابھرتی ہے۔ ہجرت کے زخم پھر تازہ ہو جاتے ہیں۔ ذہانت، حب الوطنی، ہمدردی و ایثار کے پیکر کے پیکر کو اس معاشرے کے ناسور عوامل جن میں جھوٹے پیر، وڈیرے، زرد صحافت کے علمبردار، بے کردار سیاستدان مل کر مٹی پھنکوا دیتے ہیں اور پتھر چبوانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خالد کی زندگی کے بہت سے پہلو ہمارے سامنے آئے، جذباتی وابستگی کے، بے کیفی کے، جدوجہد کے، الزامات کے، مگر وہ اجتماعی بھلائی Greater Good لے لئے ہمہ تن جدوجہد میں مصروف رہا۔ اس نے اس تباہ حال اور کینسر زدہ نظام کو کس کس طرح بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کتنے خارزار رستوں پر چلا، کبھی اپنی آپا کے لئے ساری برادری کی مخالفت مول لی، کبھی اپنے بچوں کے لئے اپنی محبت قربان کی، کبھی ایک مظلوم بچی کے لئے اپنی بیوی تک کی ناراضگی برداشت کی، صرف اور صرف ان انسانی قدروں کے لئے جو تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ عارف عبد المتین خالد کی جدوجہد کو ایک شعر میں یوں سمیٹتے ہیں :

 

سپنا دیکھتے دیکھتے ہو گئے ہم تو سپنا آپ

چلتے چلتے کچھ ایسے تھکے کہ باقی رہی نہ چاپ

 

سو وہ سر زمین جس کے لئے ہم نے اتنی قربانیاں دیں وہ کہاں ہے، کیا یہی کچھ ہونا ہمارا مقدر ہے۔ اگر آپ خالد ہیں اور کسی حسین چہرے کی طرف مائل ہیں تو یہ حسن کہولت میں بدل جائے گا، اور اگر آپ کسی جمہوری معاشرے کی طلب لئے ہوئے ہیں تو جلد ہی کسی موڑ پر ریت پھانکتے نظر آئیں گے۔ اگر آپ اچھے کھلاڑی ہیں تو آپ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں گی، اگر آپ حسین ہیں تو آپ کو اس کی سزا دی جائے گی، اگر آپ ایک اچھے گلوکار ہیں تو اپنا شوق صرف میلوں ٹھیلوں میں گانے گا کر پورا کر لیں۔ ورنہ اٹھیں اور خالد کی طرح اپنی حالت بدلنے کی کوشش کریں۔ اس معاشرے اور اس نظام کے لئے بغاوت پیدا کریں کہ ہم یہ ظلم اپنے ساتھ نہیں ہونے دیں گے ہم ایک اور خالد یا نجی نہیں بنیں گے۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اس مٹی کی محبت اور اس نظام کو بدلنے کا پیغام جس طرح منشا یاد نے اس تحریر کے ذریعے دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ راہیں کی صورت میں اردو زبان میں ایک نہایت اچھے ناول کا اضافہ ہو گیا ہے اور میری رائے میں جب تک اردو زبان زندہ ہے، اس ناول کے تذکرے کے بغیر اس کی تاریخ ادھوری ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سر گزشت دل بے تاب سنا دی ۔ سرگزشت از عبدالمجید سالک

 

خرد میں مبتلا ہے سالک دیوانہ برسوں سے

 

صحافی، ڈرامہ نگار، افسانہ نگار، مزاح نگار، ادیب و شاعر عبد المجید جو قلمی نام عبدالمجید سالک کے نام سے اپنے قلم کا جادو بکھیرتے رہے ، ۱۲ ستمبر ۱۸۹۳ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ والد اور چچا دونوں کو شاعری سے شغف تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کیا کرتے تھے۔ اس علمی خانوادے کا اثر ان کی تحریر میں نظر آتا ہے۔ عبدالمجید سالک نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خاں کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے لیا۔ غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر اپنا اخبار ’’انقلاب‘‘ جاری کیا جو برسوں آسمان صحافت پر اپنی چھب دکھلاتا رہا۔ ان کی شہرت میں چار چاند ان کے مزاحیہ کالم ’’افکار و حوادث‘‘ نے لگائے۔ عبدالمجید سالک ’’زمیندار‘‘ کے چیف ایڈیٹر تھے، لیکن بڑے بڑے سیاسی جلسوں کی رپورٹنگ خود کیا کرتے تھے۔ سالک بہت سے رسائل کے مدیر رہے جن میں ماہنامہ "فانوسِ خیال” لاہور، ماہنامہ "تہذیبِ نسواں ” لاہور اور ماہنامہ "پھول” لاہور شامل ہیں۔ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ وہ جس محفل میں ہوتے اسے اپنی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے باغ و بہار بنا دیتے، وہ ایک عمدہ شاعر بھی تھے۔ عبدالمجید سالک نے بہت مختلف النوع موضوعات پر لکھا۔ اپنے انداز تحریر سے انہوں نے اردو کا دامن بہت سے اہم پھولوں سے بھرا۔ ان میں شاعری کا ایک مجموعہ راہ و ررسم منز لہا اور نثر کی بہت سی اہم کتابیں جن میں یاران کہن، ذکر اقبال، آئین حکومت ہند، قدیم تہذیبیں، مسلم ثقافت ہندوستان میں، تشکیل انسانیت اور دو تراجم بوڑھا بگولہ اور چترا شامل ہیں۔ اس ہمہ جہت ادیب، شاعر و صحافی نے ۲۷ ستمبر ۱۹۵۹ء میں وفات پائی۔

 

وہ ہے حیرت فزائے چشم معنی، سب نظاروں میں

 

زیر نظر کتاب سرگزشت جو عبدالمجید سالک کے ذاتی تاثرات اور یاد داشتوں پر مشمول ہے ، قسظ وار پہلے امروز اور پھر نوائے وقت میں شائع ہوئی۔ عبدالمجید سالک کی اس لاجواب تحریر پر چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ’’آبِ صافی کا ایک چشمہ ہے جو اپنی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘ یہ کتاب ایک عہد کی داستان ہے جو ۲۰ ویں صدی کی چار دہائیوں پر محیط ہے۔ اس داستان میں ۱۹۰۶ء سے لے کر ۱۹۷۴ء کے دوران پنجاب، تحریک پاکستان اور صحافت کی تاریخ میں ہونے والے اہم واقعات اور نامور لوگوں کا ذکر شامل ہے۔ اپنی زندگی اور اس کے گرد رونما ہونے والے واقعے لکھنا بیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔ آسان ہے دوسروں کے بارے میں لکھنا اور مشکل ہے اپنے بارے میں لکھنا۔ اپنے بارے میں لکھنا شدید دباؤ کا کام ہے۔ بہت سارے دباؤ، ضمیر، اولاد، رشتہ دار، دوست احباب غرض ایک نہایت ایم مرحلے ہے۔ تاہم سالک صاحب نے اپنے بارے میں بھی ’’سچ‘‘لکھا۔ بقول چراغ حسن حسرت ’’مصنف نے جو تحریکیں دیکھی ہیں، جن محفلوں میں بیٹھا ہے، جن لوگوں سے ملا ہے، ان کے حالات بڑے سیدھے سادے انداز میں بیان کرتا چلا گیا ہے، وہ اشارے کنائے کا سہارا بھی نہیں لیتا، جو کہتا ہے بڑی بے تکلفی سے کہتا ہے ‘‘۔

اس زمانے کی صحافت کے اسرار و رموز ہوں یا مسلم لیگ و کانگریس کی تشکیل کے ابتدائی مراحل۔ مسلم لیگ کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی کہانی ہو(جب میاں شفیع اور علامہ اقبال ایک دھڑے کے صدر و سیکرٹری تھے تو دوسری طرف قائد اعظم اور سیف الدین کچلو دوسرے مسلم لیگی دھڑے کے صدر و سیکرٹری تھے ) یا کانگریس کے منقسم ہونے کی داستان ( جب ابو الکلام آزاد اور مہاتما گاندھی ایک طرف تھے تو سی آر داسی اور موتی لال نہرو جیسے لبرل راہنما دوسری طرف)اس کتاب میں بہت سی تحاریک کا احوال مفصل طور پر ملتا ہے۔ مولانا نے ہندو مہاسبھائیوں کے حمایتی اخبار ’’پرتاب‘‘ بارے دلچسپ جملہ لکھ کر ہماری تاریخ کو کوزے میں بند کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان تو اسی دن بن گیا تھا جب ’’پرتاب ‘‘جاری ہوا تھا۔ اس کتاب میں بہت سے نامور لوگوں کا احوال ملتا ہے۔ حالی و شبلی، مولانا محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، اقبال، حسرت موہانی، ابو لاکلام آزاد، سروجنی نائڈو، ٹیگور الغرض بہت سی اہم شخصیات اس داستان کے کناروں سے جھانکتی ملیں گی۔ شخصیات کے لحاظ سے اگر اعشاریہ بنایا جائے تو ایک اہم خدمت ہو گی۔ سالک کے دور کے پنجاب کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب ایک اہم حوالہ ہے۔ کتاب میں نا صرف سنجیدہ واقعات اور تاثرات نظر آتے ہیں ، بلکہ چند حقیقی لطائف بھی سالک کے ذوق کی عکاسی کرتے ہیں۔ مولانا کا ایک کالم جو زمیندار اخبار میں چھپتا تھا، اردو صحافت میں ایک نئی طرز کا بانی بنا۔ نومبر ۱۹۲۱ء میں عبدالمجید سالک زمیندار اخبار میں ایک کالم لکھنے کی پاداش میں جیل پہنچ گئے۔ اپنی سر گزشت کے اختتام پر وہ فرماتے ہیں : ’’ ۱۴اگست کو پاکستان قائم ہو گیا، اس کے بعد کی سرگزشت لکھنا بے حد دشوار ہے، میں ابھی اپنے دل و دماغ اور اپنے قلم میں اتنی صلاحیت نہیں پاتا کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا اور بساط سیاست پر شاطرین نے جو چالیں چلیں ان کو قلم بند کرسکوں اور شاید اس سرگزشت کو فاش انداز سے لکھنا ممکن بھی نہیں ‘‘۔ اس فکر انگیز صحافی، ادیب اور شاعر کو دنیا کی بے ثباتی کا اندازہ پہلے ہی ہو گیا تھا۔ تبھی تو وہ فرما گئے ہیں :

 

ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گا

یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہو ں گے

٭٭٭

 

 

 

 

رام پور کا میر ۔ نظام شاہ نظام

 

 

خطہ رام پور اپنی ایک جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ اردو شاعری میں اگرچہ اس خطے کو ایک علیحدہ دبستان تسلیم نہیں کیا جاتا، تاہم جتنے بڑے نام اس ریاست سے جڑے ہیں وہ اس کو ایک دبستان قرار دینے کے لیئے کافی ہیں۔ داغ نے یہاں دو مختلف اوقات میں قیام کیا۔ اسی طرح یہاں سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی اہم شاعر نظام شاہ نظام بھی ہیں، جن پر وہ تحقیق نہ ہوسکی اور جنہیں اتنی شہرت نصیب نہیں ہوئی جن کے وہ حقدار تھے۔ پی ایچ ڈی کے ایک ریسرچ فیلو محمد فیصل مجاز کی تحقیق کے مطابق داغ دہلوی نے نظام شاہ نظام کی طرز پر قریب قریب ۶۳ غزلیں کہیں۔ ایسا اکثر ہوا کہ ہماری شاعری میں ایک شاعر کسی اور شاعر کی شہرت کی روشنی میں اتنا روشن نہ ہو سکا۔ قائم چاند پوری اور مصحفی اس کی مثالیں ہیں۔ دونوں میر اور سودا کی روشنی میں جیسے چھپ سے گئے۔ ان میں مصحفی غریب تو انشاء کے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنے۔ مصحفی کی مکمل کلیات پر ۱۹۶۳ء میں کام شروع ہوا اور یہ ۱۹۹۵ء میں مکمل ہوئی۔ نظام شاہ نظام شاعری میں ایک بہت منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ یہ وہی رنگ ہے جسے داغ دہلوی نے اپنی ذہانت اور صلاحیت اور گہرا کر دیا۔ تاہم محقق اس بات پر متفق ہیں کہ بانکپن، شوخی، معاملہ گوئی اور ادا بندی کی طرز ڈالنے والے نظام ہیں۔ جیسا کہ فیصل مجاز کی تحقیق کے مطابق داغ نے ۶۳ غزلیں طرز نظام پر لکھیں، تحقیق تو یہ بھی کہتی ہے کہ نظام کے کئی مصرعے، داغ دہلوی نے ادنیٰ تصرف سے اپنا لیئے ہیں۔ تاہم اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف داغ بلکہ امیر بھی معاملہ گوئی اور ادا بندی میں نظام کے متبع نظر آئیں گے۔

نظام کے کلام میں زبان سادہ اور خیالات کی ایسی چاشنی موجود ہے کہ ان کا کلام لگتا نہیں کہ انیسویں صدی کا لکھا ہو ا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

 

سمجھتا محبت کے قابل جو ہم کو

وہ نا آشنا آج اتنا نہ ہوتا

 

کسی پر نہ ظاہر ہو احوال دل کا

نہ آنسو گرے چشم نم دیکھنا

 

یہ تو کہہ کون سی تدبیر نہ کی

نہ ہوا تو ہی ستم گر میرا

 

راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی

تری دیوار ہے اور سر میرا

 

ہمارے محقق اور ادارے اس جوہر نایاب سے اب تک پہلو تہی کرتے رہے ہیں۔ حالانکہ ان کا کلیات مجلس ترقی ادب نے ۱۹۶۵ء میں شائع کیا تھا۔ اس کے باوجود بھی ان کی شناخت ان کے ایک مصرعے سے ہی ہوتی رہی۔ ارباب علم کی یہی روایتی پہلو تہی بہت سے اہم نام اوجھل کرنے کا سبب رہی۔ تاہم اب بھی وقت ہے اگر ہمارے تحقیقی ادارے اور ناقدین دھڑے بندی اور تعصب کو چھوڑ کر کام کریں تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

نظام شاہ نظام کا تعلق سید عبدالقادر جیلانی کے خانوادے سے ہے۔ آپ کے جد امجد سید عبداللہ شاہ پاکستانی قبائلی علاقوں سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اس وقت روہیل کھنڈ پر علی محمد خان کی حکومت تھی جو اس ریاست کے بانی بھی تھے۔ سید عبداللہ شاہ روہیل کھنڈ میں عوام الناس کی روحانی رہ نمائی کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے سید محمد شاہ نے ان کی جگہ سنبھالی۔ ریاست روہیل کھنڈ کے تقسیم ہونے کے بعد سید محمد شاہ رام پور تشریف لے آئے اور بقیہ زندگی یہیں بسر کی۔ رام پور آنے کے بعد سید محمد شاہ کے دونوں بیٹے فتح علی شاہ اور چراغ علی شاہ ریاست کے رسالہ سواروں میں ملازم ہو گیا۔ فتح علی شاہ کے بھی دو بیٹے تھے حافظ محمد شاہ اور حافظ احمد شاہ۔ یہ دونوں بھی رسالہ دار تھے۔ انہیں حافظ احمد شاہ کے ہاں ۱۸۱۹ء میں نظام شاہ کی ولادت ہوئی۔ اس وقت آپ رام پور کے محلہ گھیر سخی میں رہائش پذیر تھے۔ نظام کے دو بھائی اور ایک بہن تھے۔ نظام نے ابتدائی تعلیم محلے میں موجود مدرسے سے حاصل کی۔ اسی مدرسے میں انہوں نے عربی اور فارسی کی استعداد بڑھائی۔

ریاست رام پور میں اس وقت نواب احمد علی خاں کی حکمرانی تھی جو خود بھی شاعری کرتے تھے اور اس کی سر پرستی بھی فرماتے تھے۔ یوں کہا جائے کہ دبستان رام پور پورے عروج پر تھا۔ کریم اللہ خاں کرم، اخوند زادہ احمد خاں غفلت، اللہ داد طالب اور نواب احمد یار خاں افسرداد سخن دے رہے تھے۔ نہ صرف مقامی بلکہ بیرونی اہل علم کی سر پرستی بھی کی جاتی تھی۔ یہ رنگ دیکھ کر نظام بھی متاثر ہوئے اور شاعری شروع کر دی۔ ابتدا اپنے مرشد میاں احمد علی شاہ سے اصلاح لی جو فارسی اور اردو، دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ یہ زمانہ ۱۸۳۹ء کا ہے۔ اس زمانے میں نظام نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ رام پور میں علی بخش بیمار جو مصحفی کے شاگرد رشید تھے، کے آنے کے بعد نظام ان کے شاگرد ہو گئے۔ مروجہ روایات کے مطابق نظام نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی اور ۱۸۳۹ء میں ان کی شادی ہو گئی۔ آپ کی آٹھ اولادیں صغر سنی میں فوت ہوئیں۔ ریاست رام پور میں نواب محمد سعید خاں جو ناظم تخلص کرتے تھے، کے عہد حکمرانی میں شاعری کو اور بھی سر پرستی ملی۔ نظام کے بھی ان سے ربط بڑھے اور حکم حاکم کے مصداق نظام، ناظم کے شاگرد ہو گئے۔

اس دور میں جو بیرونی شعراء رام پور میں قیام پذیر تھے ان میں امیر مینائی اور نواب مرزا خان داغ دہلوی نہایت اہم شاعر تھے۔ داغ نے جو اثر نظام کی صحبت سے حاصل کیا وہ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں۔ اپنے تحقیقی مضمون کے حاشیوں میں محمد فیصل مجاز نے تحریر کیا ہے کہ مرزا نوشہ ایک دفعہ رام پور گئے۔ وہاں نظام کا کلام سنا تو بے حد متاثر ہوئے اور فرما یا کہ رام پور میں ایسے بھی دماغ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تو رام پور کے میر ہیں۔ میر رام پور نے ۱۸۷۲ء میں وفات پائی۔

نظام پر بہت کم لکھا گیا۔ آپ کا تذکرہ سخن شعراء اور تذکرہ نادر میں ملتا ہے۔ نظام پر نیاز فتح پوری نے ایک تفصیلی مضمون ۱۹۲۴ء میں لکھا۔ کلب علی خاں فائق نے نظام کا پورا کلیات مجلس ترقی اردو کے تحت ۱۹۶۵ء میں شائع کیا۔

پروفیسر سید عابد علی عابد نے کلیات نظام کے فلیپ پر کچھ یوں کہا:

نظام اپنا ایک منفرد رنگ رکھتے ہیں۔ جس میں داغ کا سا تیور، بانکپن اور شوخی پائی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ یہ دراصل انہی کا رنگ کے جسے داغ نے اپنی شگفتہ مزاجی سے اور چوکھا کر دیا ہے۔

نیاز فتح پوری نے اپنے مضمون جو نگار میں شائع ہوا ہے لکھتے ہیں :

’’میاں نظام شاہ کے رنگ کے متعلق عام طور پر یہی مشہور ہے کہ وہ ادا بندی کے بڑے مشتاق تھے ، ان کے ہاں معاملہ بند ی بھی بکثرت نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں سوز و جرات کا مقلد کہا جاتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک مصوری کے لحاظ سے یہ بعض مقامات پر جرات سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اور جذبات نگاری کی حیثیت سے تو ان کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ وہاں تک جرات کا خیال بھی نہیں پہنچ سکتا۔

پروفیسرعبدالشکور اپنی کتاب نظام رام پوری میں یوں سخن آراء ہیں :

’’نظام کا رنگ سخن قدیم ہے لیکن وہ رنگ جدید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنے والے متغزلین کی رہ نمائی کرتے ہیں۔ ، اس لیئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ جدید اور قدیم رنگ کے درمیان ایک دلآویز سمجھوتا ہیں اور وہ اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں قدیم رنگ کے نقوش کے ساتھ جدید رنگ کے چھاپے ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کے کلام میں موجودہ انداز شاعری کے مقام سے، آنے والے دور کی شاعری رنگ ڈھنگ صاف نظر آتا ہے۔‘‘

سید نظام شاہ کی شاعری شوخی، ادا بندی اور معاملہ گوئی کا ایک نیا دبستان ہے۔ مکالمہ نگاری، ہجر و خیال، وصل اور ندرت خیالی کی ایک ایسی شوخ تصویر نظر آتی ہے کہ شاعری پڑھ کر دل و دماغ معطر اور تر و تازہ ہو جاتے ہیں۔ نظام نے محبوب کی جدائی اور ملاپ ، دونوں رنگ بڑی خوبصورتی سے سموئے ہیں۔ ان کے اشعار میں حسرت بھی ہے، تمنا بھی۔ کہیں حیا ہے تو کہیں شوخی۔ نظام کا سب سے بڑا فن ہجر و وصال کا ذکر نہیں بلکہ ان کیفیات کو اس طرح ظاہر کرنا ہے کہ قاری بھی جیسے ان محسوسات کو چھو سکے۔ ان کیفیات کا اظہار انہوں نے بڑے قدرتی انداز میں کیا ہے۔ اس میں کہیں بھی انہوں نے مصنوعی رنگ اختیار نہیں کیا۔ اگرچہ نظام نے معاملہ بندی اور ادا گوئی جیسی اصناف کو عروج پر پہنچایا تاہم ان پر کسی بھی اہم محقق یا ادارے نے زیادہ کام نہیں کیا، اسی لیئے مندرجہ بالا صفات انہیں پر ختم ہو گئیں۔ ایک اہم رام پوری شاعر اور نظام کے پرستار دور آفریدی ایک جملے میں ان کی شاعری کا رنگ سمیٹتے ہیں :

’’نظام کے سارے کلام میں اپنے محبوب کی قربت اور ا س سے پیدا شدہ حالات کی دھوپ چھاؤں ہے۔‘‘

نظام کے کلام کے رنگ کچھ اس طرح عیاں ہوتے ہیں کہ جیسے محبوبانہ طرز ادا دکھلانا مقصود ہو تو:

غیر کے دھوکے میں قاصد سے مرا خط لے کر

پڑھنے کو پڑھ تو لیا، نام مگر چھوڑ دیا

 

غیر سے وعدہ و اقرار ہوئے کیا کیا کچھ

میرے خوش کرنے کو اک فقرہ ادھورا چھوڑ دیا

 

اگر کہیں محبوب کے طعن و تشنیع کی عکاسی ہے تو اس طرح ہے

 

گر کہتے ہیں کہ جی ملنے کو تیرا نہیں ہوتا

کہتا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوتا، نہیں ہوتا

 

اگر کہیں بے رخی و بے نیازی کا اظہار ہے تو کچھ یوں :

 

شب وصل ایسے وہ منہ پھیر کر سوئے نہ پھر چونکے

کہا کس کس طرح میں نے ذرا کروٹ ادھر لینا

 

وہ وصل میں بھی جدا ہی پڑے رہے روٹھے

رسائی پر بھی یہ عالم ہے نا رسائی کا

 

دل شکستہ کا مضموں لکھا تھا ہائے نصیب

سو پرزے پرزے ہوا اس سے خط مرا نہ کھلا

 

چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دل گیر کے ساتھ

خط بھی آیا کبھی تو غیر کی تحریر کے ساتھ

 

اور اس شعر میں تو کمال کیا کہ

اب میں ہوں، تم ہو، کون ہے کس کا خیال ہے ؟

کیا اس کا ذکر ہے کہ کوئی دیکھتا نہ ہو

 

ادا بندی کے باب میں نظام کی شاعری میں اپنے محبوب کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز کی خوش مذاقی، ایک حیا آمیز رومانیت، ایک البیلی سی طمانیت، ایک دور سے آتے ہوئے کسی ساز کی آواز اور ایک ترنم ہے۔ جس کی ایک دلکش سی تصویر ان اشعار میں نظر آتی ہے :

 

بنانا شب و روز وہ بگڑے بال

وہ آئینہ دو دو، پہر دیکھنا

 

دل تو اس بزم سے اٹھنے کو نہیں ہوتا نظام

ان کو پروا نہیں رہتے رہو، جاتے جاؤ

 

آ گئی بے پردہ وہ صورت نظر

آنکھ کی جب بند، پردا کھل گیا

 

اور یہ چند اشعار تو ان کی پہچان مانے جاتے ہیں :

 

بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں !

کیا منہ پہ اس نے رکھ لیئے آنکھیں چرا کے ہاتھ

 

قاصد ترے بیاں سے دل ایسا ٹھہر گیا

گویا کسی نے رکھ دیا سینے پہ آ کے ہاتھ

 

دینا وہ اس کا ساغر مے یاد ہے نظام

منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ

 

تاہم صرف یہ کہنا کہ نظام کی شاعری میں یہی رنگ ہیں تو ایسا کہنا بالکل غلط ہو گا۔ ان کی شاعری میں اساتذہ کا رنگ بھی جھلکتا ہے، کہیں میر کی سی یاسیت نظر آتی ہے تو کہیں مومن کا رنگ تغزل۔ اس میں کہیں بزرگی کا اظہار ہے، کہیں نامہ بر کا تذکرہ، کہیں اس میں نصیحتیں ہیں تو کہیں دربان کا خوف۔ ان تمام مروجہ عناصر اور جدیدیت پسند عناصر مل کر نظام کو ایک مکمل شاعر بناتے ہیں۔ یہ چند اشعار اس کی یوں تائید کریں گے :

 

تمہیں یہ بھی کبھی خیال آیا

کہ کوئی راہ دیکھتا ہو گا

 

دیکھ کر اس کا پھیر لینا منہ

اور حسرت سے دیکھنا میرا

 

گو اور کچھ نہ شکووں سے حاصل ہوا مجھے

اس بات کا ہے شکر کہ وہ ہم سخن نہ ہوا

 

افسوس اضطراب مرا مانع آگیا

آمادہ قتل پر جو وہ نازک فگن ہوا

 

لپیٹے منہ پڑے رہنا تری کچھ یاد لا لا کر

بنایا کرتے ہیں اب دل سے ہم دو دو، پہر باتیں

 

جو مجھے دیکھنے کو آتا ہے

پھر وہ بار دگر نہیں آتا

 

اب ستم بھی سہا نہیں جاتا

اور شکایت بھی کی نہیں جاتی

 

پھر تسلی کی کون سی صورت

خواب میں بھی نظر نہیں آتے

 

نظام کی سب سے بڑی شناخت ان کی زبان کی سادگی ہے۔ اپنے دور کے حساب سے انہوں نے نہایت صاف اور سادہ زبان استعمال کی۔ ایسے دور میں جب ادق اور گنجلک استعارے اور مشکل الفاظ استعمال کرنا اچھی شاعری کی دلیل سمجھی جاتی تھی ایک ایسی زبان لکھنا کہ آج بھی وہ اجنبی محسوس نہ ہو، بلا شبہ نظام کا قد اپنے معاصرین سے بڑھا دیتی ہے۔ میں ابن صفی کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ ایک نابغہ اپنے وقت سے آگے نکل کر سوچتا ہے۔ تو نظام بھی اپنے دور کے ایک نابغہ روزگار شاعر تھے۔ انہوں نے ایسے شعر تخلیق کیئے کہ جن سے ان کا زور بیان ظاہر ہوتا ہے :

 

میں تو دیکھوں اس، کیا ہے کوئی میرا کاغذ؟

یہ ابھی آپ نے تکیے میں جو رکھا کاغذ

 

کچھ زمانے سے نرالی ہے طبیعت میری

آپ کا پیار بھی ہے، آپ کی تکرار پسند

 

دل میں خوش ہوتا ہوں کیا کیا ظاہرا کیا کیا ہیں غم

چپکے چپکے ان کا ہنسنا مجھ کو گریاں دیکھ کر

 

کہتے ہیں وہ مجھے کہ مرض کچھ نہیں تجھے

اے مرگ! اب تک آئی نہ تو آفریں تجھے

 

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی

’ہاں ‘ تو کہتے ہو مگر ساتھـ ـ ’ نہیں ‘تھوڑی سی

گو ہے شب فراق سے یہ کم شب وصال

گھبراتے ہو ابھی سے، ابھی تو سحر نہیں

 

نہیں معلوم اس کا کیا باعث

روز کہتے ہیں، پر نہیں آتے

 

محروم مجھ کو یاں سے نہ ایسا اٹھائیے

کچھ جھوٹ سچ تو دے کے دلاسا، اٹھائیے

 

چھپتی ہے ایسی بات بھی، ظاہر ہے، مجھ پہ سب

گویا تمہارے ساتھ تھا میں بھی جدھر گئے

جرات سے بلند اور رام پور کا میر کہلانے والے نظام آخر کس کسوٹی کے تحت ایک بہترین شاعر کے طور پر نہ ابھر سکے۔ میرے ذاتی خیال میں جس کا میں پہلے بھی اظہار کر چکا ہوں کہ داغ دہلوی کی رام پور میں موجودگی، ان کے اثر رسوخ اور شہرت کی چکا چوند روشنی سے نظام جیسے دب سے گئے۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مزاج کو تبدیل کریں اور ان لوگوں کو ان کا جائز مقام دیں جو کہ ان کا حق ہے۔ نظام کی کلیات آج سے پچاس برس پیشتر شائع ہوئی۔ ان کے کل کلام کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ وہ کتنے بڑے شاعر تھے۔ وگرنہ یہ درویش منش شاعر تو پہلے ہی اپنے محبوب کے در پر سب سے بے نیاز ہو کر تو بیٹھا ہی ہوا ہے :

کوچے سے تیرے اٹھیں تو پھر جائیں ہم کہاں

بیٹھے ہیں یاں تو دونوں جہاں سے اٹھا کے ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

عالم میں انتخاب

میرے زمانے کی دِلّی۔ ملا واحدی دہلوی

 

صورت گر

 

سید محمد ارتضیٰ ۱۷ مئی ۱۸۸۸ء میں پیدا ہوئے۔ رفاقت، ادارت اور تحریر کے امتزاج سید محمد ارتضیٰ کو آج دنیا ملا واحدی کے نام سے جانتی ہے۔ اپنے مرشد خواجہ حسن نظامی کی رفاقت کا فیض انہوں نے واحدی نام سے ایسا حاصل کیا کہ اصل نام تو دب گیا مگر مرشد کی عطا کا فیض آج بھی جاری و سار ی ہے۔ مگر ان کی رفاقت صرف نظامی صاحب سے نہیں بلکہ ان کی جنم بھومی دِلّی بھی اس میں شامل ہے۔ میرے نزدیک ملا واحدی اور دِلّی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اگر ان سے دِلّی نکال لی جائے تو نہ ملا واحدی، واحدی رہیں گے اور نہ ان کی تحریر میں وہ چاشنی رہے گی جو دِلّی کا ذکر کرتے ہوئے آتی ہے۔ پندرہ برس کی عمر سے انہوں نے اخبارات اور جرائد میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ جن میں ماہنامہ ’’زبان‘‘ دہلی، ماہنامہ ’’وکیل‘‘ امرتسر، ہفتہ وار ’’وطن‘‘ لاہور اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور جیسے اخبارات و جرائد شامل تھے۔ جولائی۱۹۰۹ء میں جب خواجہ حسن نظامی نے حلقہ نظام المشائخ کے مقاصد کی تبلیغ کے لیے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی ان کے نائب مدیر کی حیثیت سے ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ ۱۹۱۲ ء میں جب خواجہ صاحب نظام المشائخ کی ملکیت سے دستبردار ہو گئے تو واحدی صاحب نے نظام المشائخ کے ساتھ کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کر دیا۔ اسی دوران انہوں نے چند اور رسالے بھی جاری کئے۔ ایک وقت میں وہ نو مختلف رسالوں کے مدیر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ملا واحدی پاکستان چلے آئے اور پھر یہاں سے جنوری۱۹۴۸ء میں کراچی سے ’’نظام المشائخ‘‘ ازسرنو جاری کیا جو ۱۹۶۰ء تک جاری رہا۔ ان کی تصانیف میں حیات سرور کائناتﷺ (تین جلدیں )، سوانح حسن نظامی، سوانح اکبر الہ آبادی اور میرے زمانے کی دلی شامل ہیں۔ انہوں نے روزنامہ نوائے وقت میں برسوں تاثرات کے نام سے ایک کالم لکھاجسے بعد میں کتابی شکل بھی دی گئی۔ ۲۲ اگست ۱۹۷۶ء کو دلی کے اس شیدا نے وفات پائی۔ ملا واحدی کے انداز تحریر اور ان کی پوری ذات کو مختار مسعود نے یوں سمیٹا ہے۔

اکثر تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ مصنف کی ذات ان میں ڈھکی چھپی رہتی ہے اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ مصنف کو ان سے علیحدہ کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ واحدی صاحب اپنی تحریروں میں نمایاں رہتے ہیں۔ ان کی تحریر ایک طرز نگارش سے زیادہ ایک طرز حیات سے عبارت ہے۔ مغلیہ تہذیب کی وراثت، خاندانی شرافت کا سرمایہ، مرشد کی خاص عنایت، مشاہیر سے ہر وقت کا تعلق، لکھنے پڑھنے کا شوق اور کاروبار، محنت کی عادت، معاملگی کی دیانت، عہد کا پاس، عروس البلاد سے وابستگی، دین کا ذوق، حضورﷺ کی محبت اور خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم پر ایمان کامل ہو تو لکھنے والے کی ذات تحریر کے ہر لفظ اور فکر کے انداز میں جھلکتی ہے۔ ساری عمر ایک خاص ڈھب سے بسر ہو تو سوچ کا یہ ہمہ گیر پختہ اور یکساں انداز نصیب ہوتا ہے۔

 

اوراق میں بکھرے لوگ

 

میرے زمانے کی دِلّی بھی دراصل ملا واحدی کی ذات ہی کا ایک عکس ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر واحدی صاحب سے جہاں عقیدت بڑھتی ہے وہیں، ان پر رشک بھی آتا ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے شہر کے بارے میں ایسا لکھ سکیں۔ میرے زمانے کی دِلّی ایک کتاب نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نوحہ ہے۔ عروس البلاد، دِلّی جو میر تقی میرو غالب کی بھی کمزوری تھی۔ جہاں مغلیہ تہذیب اپنی چھب دکھلا دکھلا کر سب کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ یہ دِلّی نہیں بلکہ کوہ ندا تھا جو سبھی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ میرے زمانے کی دِلّی، دِلّی اور دِلّی والوں کے بارے میں ایک دِلّی والے کی داستان ہے۔ اس داستان میں داستان گو نے اتنے رنگ گھول دیئے ہیں کہ مصنف کی ذات اور دِلّی اتنے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نظر نہیں آتے اور مختار مسعود کی بات کی مکمل تصدیق ہو جاتی ہے کہ ملا واحدی اپنی تحریر میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب جو دراصل دِلّی اور دِلّی والوں کا تذکرہ ہے شروع سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کتاب میں دِلّی چھوڑنے سے پہلے کو واقعات دراصل ہندو مسلم فسادات کا ایک رپورتاژ ہے۔ اپنی آنکھوں سے جو انہوں نے دیکھا وہی بیان کر دیا۔ اگرچہ گاندھی جی بھی شہر میں موجود تھے اور چند ذی حیثیت مسلمانوں کی کا وشوں سے دِلّی کے مسلم خاندانوں کی حفاظت پر سپاہی بھی تعینات ہوئے، تاہم جب بلوائی آتے ہندو سپاہی اور فوجی ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر ہی گولیاں برساتے۔ ابتدا واحدی صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ دِلّی نہیں چھوڑیں گے، مگر حقیقت کا سامنا کرنے پر انہوں نے بھی اپنی محبوبہ دِلّی کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ دوسرے باب میں انہوں نے دِلّی چھوڑنے کے بعد کی داستان بتائی۔ کس طرح انہیں راولپنڈی میں قیام کرنا پڑا، وہاں سے لاہور اور پھر کراچی میں قیام، کراچی میں سرکاری رہائش گاہ کا حصول اور پھر یہاں قدم جمانے کی مصروفیات بیان کی ہیں۔ اگلے باب میں انہوں نے دِلّی کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے :

دِلّی جب سے دِلّی بنی۔ راجاؤں اور بادشاہوں کی راج دھانی رہی اور ہمیشہ راجاؤں اور بادشاہوں کے مقرب اور متوسل دِلّی میں بسا کیے۔ اس لیے ہمیشہ سارے ملک کی نگاہیں دِلّی کی طرف اٹھتی رہیں اور دِلّی کی طرف کھنچتی رہیں۔ کوئی تو مرکز ہونا چاہیئے۔ نگاہوں کو کسی طرف تو اٹھنا اور کھنچنا چاہیئے اور راجاؤں اور بادشاہوں کے سوا مرکزی مقام کون سا ہو سکتا ہے۔

اسی باب میں ایک جگہ مزید لکھتے ہیں :

 

’’اب ہم یہی کر سکتے ہیں کہ دِلّی کی تصویر کو محفوظ کر دیں، تا کہ آنے والی نسلیں اس تصویر سے تھوڑا بہت اندازہ لگا لیں کہ ہماری دِلّی کیا تھی۔ ورنہ آنے والی نسلیں، آج کل کے بچے بھی دِلّی نہیں جانیں گے۔‘‘

اس سے اگلے باب میں انہوں نے دِلّی کے نو زخم کی صورت میں وہ نو مواقع بیان کیے ہیں جب دِلّی دارالسلطنت نہیں رہی۔ اس کے بعد وہ باب شروع ہوتا ہے جس ایک طویل بیانیہ ہے پہلے اپنا آپ دکھلایا پھر دِلّی اور دِلّی والے دکھلائے۔ ملا واحدی کا خاندان فوجدار خان والا کہلایا کرتا تھا۔ مغلوں نے بخارا سے نجیب الطرفین سید منگوائے۔ ایک جامع مسجد کے امام، ایک عید گاہ کے امام اور ایک ہاتھی پر مہابت اور بادشاہ کے درمیان بیٹھنے کے لئے۔ سید کے سوا کس کی مجال تھی کہ بادشاہ کی طرف نماز میں بھی پشت کرے۔ ایک سید جو بادشاہ اور مہابت کے درمیان حجاب کا کام دیتا تھا فوجدار خاں کہلاتا تھا۔ ملا واحدی کی پر دادی آخری فوجدار خاں کی لڑکی تھیں۔ بقول مختار مسعود واحدی صاحب کو ماضی کی طرف منہ کر کے دیکھنے اور لکھنے کی عادت شاید ورثے میں ملی ہے۔ اس طویل بیانیے میں جو ان کی ذات سے شروع ہو کر دِلّی کے مسلم اکثریتی علاقوں اور دِلّی والوں کے ذکر پر ختم ہو تا ہے۔ ایک عجیب سی کشش ہے۔ ملا واحدی کی تحریر میں بڑی روانی ہے اور خاص طور پر جب ان کی محبوبہ دِلّی کا ذکر ہو تو ان کا قلم ایسے ایسے رنگ گھولتا ہی کہ ہر ذرہ آفتاب نظر آتا ہے۔ اس تذکرے میں انہوں نے دِلّی کے ان علمی اداروں کا ذکر کیا ہے کہ جن کی ضو سے ایک ایسی نسل تیار ہوئی جو ہماری سرمایہ افتخار ہے۔ انہوں نے اتنی شخصیات کا ذکر کیا ہے کہ اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو کئی صفحات بھر جائیں۔ دِلّی کے اشراف سے لے کر ادنیٰ پیشوں سے متعلق افراد اور اشخاص کا ذکر ایسا کہ ہر سطر سے محبت اور لگاؤ پھوٹتا محسوس ہوتا ہے۔

سید محمد ارتضیٰ المعروف ملا واحدی کی کتاب میرے زمانے کی دِلّی ایک ایسی مشین ہے جس میں قاری سفر کرتا ہوا ان کے زمانے میں داخل ہو جاتا ہے اور اپنی آنکھوں سے وہ تمام علاقے، عمارات اور شخصیات کو دیکھ لیتا ہے جیسے واحدی صاحب دکھلا نا چاہتے ہیں۔ ان کی جزئیات نگاری اور منظر کشی اس کمال کی ہے کہ ہر مذکورہ علاقہ، عمارت اور شخص زندہ و جاوید نظر آتا ہے۔ اوراق میں ایسے ایسے لوگ بکھرے نظر آئیں گے جونا صرف ایک مثال ہیں بلکہ قابل تقلید ہیں۔ میرے زمانے کی دِلّی ایک ہمہ جہت کتاب ہے، جس سے وہ وجہ سمجھ آتی ہے جس کی بدولت میر نے اسے عالم میں انتخاب کہا اور ملا واحدی اس کے عشق میں مبتلا رہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید