FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

شگفتہ شفیق

 

مرتب: ارشد خالد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد شمارہ ۲۶

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

شگفتہ شفیق بقلم خود

 

نام: شگفتہ شفیق، تاریخ پیدائش ۸  ا گست، کراچی تعلیم بیچلر آف سا ئنس۔ بیچلر آف ا یجو کیشن، شاعرہ ادیبہ،

شو ہر شفیق احمد خان، ائیر لایئن انجینئر، بچے: دو بیٹے، ایک بیٹی۔ فر خ، کنز ل۔۔ شہر یار دونوں بیٹے الیکٹرونکس انجینئر اور بیٹی ڈاکٹر ایم بی بی ایس۔

والد اعتماد علی صدیقی کا تعلق علی گڑ ھ سے اور والدہ حسن آرا کا تعلق آ گرہ سے تھا۔ فتح پور سیکری میں حضرت شیخ سلیم چشتی کی درگاہ کے سجاد ہ نشین آج بھی میرے ماموں جناب محمد خور شید چشتی اور خالو جنا ب ریئس میاں صاحب ہیں۔ ویسے ہم تو اللہ تعالیٰ سےڈائیرکٹ ڈا یئلنگ کے قائل ہیں۔

شاعری فطرت کا حسین تحفہ ہے ہماری سا ری تھکن ایک اچھا شعر یا نظم پڑ ھ کرتا ز گی میں ڈھل جا تی ہے لوگ مجھ سے پو چھتے ہیں کہ آپ نے شاعری کب شروع کی ؟ اور جواب میرا یہ ہے کہ قلم بچپن سے ہی میرے ہا تھ میں آ گیا تھا اور شاعری نے مجھے اپنے دامن میں پناہ دی تھی کہ بات کچھ یوں ہے کہ میری جان سےز یا دہ پیاری ماں بچپن میں ہی اچانک ہارٹ ا ٹیک کے سبب مجھ سے ہمیشہ کے لیئے بچھڑ گئی تھیں۔ تب میری شاعرانہ فکر نے مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا اور میرے معصوم جذبات کو لفظوں کا پیرا ہن بخشا۔ اور میں نے اپنے سارے آ نسو سب نار سا ئیاں، سا ری محرومیاں اور اپنے ٹوٹے دل کی فر یا دیں اپنی چھو ٹی چھو ٹی نظموں میں سمو دیں تو مجھے ایسا لگا کہ میں خاصی ہلکی پھلکی ہو گئی اور یوں شاعری میرا مسیحا ٹھہری۔۔ ۔ اس طرح میرے شاعری کے سفر کا آغاز ہوا۔

ماں کار شتہ کتنا خو ب

جیسےز میں پہ خدا کار و پ

ماں لگے ہمیں اتنی پیار ی

جیسے ہو پھو لوں کی ڈالی

سینے سے ماں ہم کو لگائے

تن من اپنا فرحت پائے

شگفتہ شفیق

پہلا مجموعہ کلام۔ میرا دل کہتا ہے۔ (۲۰۱۰ ) ۔ دوسرا مجموعہ کلام۔ یاد آ تی ہے۔ (۲۰۱۲ )

تیسرا مجموعہ کلام۔ جا گتی آنکھوں کے خواب۔ (۲۰۱۳ )

٭٭٭

 

 

 

 

 

شگفتہ شفیق کے کار ادب۔۔ ۔ ڈاکٹر اختر ہاشمی (کراچی)

 

 

’’میرا دل کہتا ہے ‘‘ اور ’’یاد آتی ہے ‘‘

شگفتہ شفیق کی کہانیاں ہوں یا شاعری دونوں اصناف نظم و نثر میں ان کی سوچ اور فکر مثبت نظر آتی ہے اور ان کی تحریروں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ پہلے اپنے دل کی بات با وقار انداز میں لبوں تک لاتی ہیں اور پھر اس الفاظ کار نگین اور جاذب نظر پیرہن پہنا کر تحریر کا روپ دے دیتی ہیں۔ یہ خو بی ہر ایک لکھاری میں نہیں ہو تی اور نہ ہر ایک شاعر اس کی پیروی کر پا تا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہانیوں کی بنت کا کار ہنر سیکھنے کے بعد خود کو شاعری کی کامیاب راہوں پر بھی گامزن کر لیا ہے اور اپنی تخلیقات کو یکجا کر کے کتا بی صورت میں منظر عام پر لے آئی ہیں۔ میرا دل کہتا ہے۔ شگفتہ شفیق کی غز لوں اور نظموں پر مشتمل مجموعہ کلام ہے جس کے فلیپ اول پر مندرجہ ذیل نظم ہے اور اسی نظم سے انہوں نے کتاب کا نام اخذ کیا ہے نظم ملاحظہ فرمایئے۔

جو فا صلے دلوں میں ہوں

تب را بطوں کا کیا کر نا

سلسلوں کا کیا کہنا

میرا دل یہ کہتا ہے

رابطوں کو جوڑو تم

فا صلے مٹا لو تم

سلسلوں کو توڑو ناں

الفتوں کی بر کھا ہو

جس میں بھیگ جائیں سب

پیار سیکھ جائیں سب

یہ شگفتہ شفیق کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس پرا ظہار خیال کر تے ہوئے جناب نا صر ر ضا نے یوں تحریر کیا ہے۔ میرا دل کہتا ہے۔ شگفتہ شفیق کا یہ پہلا مجموعہ ہے۔ میں یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ یہ شگفتہ شفیق کو نئی نسل کے لکھنے والوں میں نہ صرف معتبر ثابت کرئے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس کی دنیا میں مزید سفر کے لیئے نت نئے سنہری خیال اور روشن امکانات بھی عطا کرے گا۔ اس مجموعہ کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں جو کچھ اور جتنا کچھ بھی ہے شگفتہ شفیق کا اپنا ہے۔ انہوں نے اپنی را ہیں خود متعین کی ہیں، میں دل کی گہرا ئیوں سے ان کی کامیابی۔ کامرانی اور شاد مانی کے لیئے دعا گو ہوں۔

’’میرا دل کہتا ہے ‘‘ ۔ میں شگفتہ شفیق نے نثری نظمیں بھی شا مل کی ہیں جن میں ان کے خیال کی ندرت، تخیل کی پرواز، الفاظ کو برتنے کا سلیقہ، دل کی بات کو شعری قا لب میں ڈھالنے کا فن اور شعری ہنر مندی کا گر آزمایا ہے۔ ایک نثری نظم ملاحظہ ہو جس کا عنوان۔ ماں۔ ہے۔ یوں تو ماں پر بے شمار شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں مگر اس نثری نظم کو شگفتہ شفیق کے حوا لے سے پڑھتے ہیں اور ایک جذباتی خو شگواریت کا احساس ہوتا ہے اور ماں کی والہانہ عقیدت کا ا ظہار بھی۔

بڑا یاد آ تا ہے ان کا یہ کہنا

پڑ یں مشکلیں پر فسردہ نہ ہو نا

وہ کہتی تھیں مجھ سے یہ کیا بچپنا ہے

عجب چیز ہو تم !

یہ کیا ہے حماقت ؟

یہ چھو ٹی سی باتوں پہ ڈھیروں سے آ نسو

جب یاد آتی ہے ماں ہم کو تیری

تو خوب بہتے ہیں میرے یہ آنسو

بہانے سکھاتے ہیں میرے یہ آنسو

بڑی دیر رہتی ہیں گیلی سی آنکھیں

تو آنکھیں مسل کے میں کہتی ہوں سب سے

کہاں سے ہے آیا ؟ یہ کیسا دھواں ہے ؟

جو آنکھوں کو میری بھگو تا گیا ہے

پیاز میں نے کا ٹی تھی، وہ لگ گئی ہے

جب ہی میری آنکھوں سے بہتا ہے پانی

یا آنکھ میں کو ئی تنکا گرا ہے

پلک ٹوٹ کے آنکھ میں جا گری ہے

بھلا کیوں میں روؤں کہ روتے ہیں بچے

مجھے تو میسر ہیں جگ بھر کی خوشیاں

فقط ایک ماں کے نہ ہونے کا کیا غم

میں رو تی نہیں ہوں، بڑی ہو گئی ہوں (ماں )

اب میں ان کی ایک اور خو بصورت غزل پیش کرنا چاہتا ہوں

لگن زندگی کی جگانی پڑے گی

خوشی سب کی خاطر منانی پڑے گی

گھرانے کی عزت بچانی پڑے گی

ہنسی تو لبوں پر سجانی پڑے گی

ابھی مل گئے ہم کبھی یہ بھی ہو گا

کہ رسم جدا ئی نبھانی پڑے گی

تجھے کھو کے جینا بھی کیا زندگی ہے

مگر زندگی یوں بتانی پڑے گی

تیرا شیوہ چلتی ہواؤں سے لڑنا

ہر اک بات تجھ سے چھپانی پڑے گی

تیرے تیکھے تیور بتا تے ہیں مجھ کو

کہ ہستی تو اپنی مٹانی پڑے گی

شگفتہ شفیق کی نظموں میں زندگی کو مرکزی کر دار حا صل ہے۔ وہ زندگی کو بے نقاب کرنا چاہتی ہیں۔ زندہ انسانوں کے مسخ کرداروں کو سا منے لانا چاہتی ہیں وہ ان لو گوں کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینکنا چاہتی ہیں۔ جنھوں نے ایک چہرے پر کئی چہرے سجائے ہوئے ہیں۔ ان کی نظموں میں مختلف وارداتوں کا ذکر ہے۔ زندگی بسر کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہونے والے تلخ و شیر یں تجربات کا اظہار ہے

ان کی آنکھوں میں سمائے ہوئے عمیق مشاہدات کا بر ملا ا ظہار ہے جو ان کی نظموں کی تخلیق کا جواز بنا۔ شگفتہ شفیق نے سنی سنائی باتوں کو منظوم نہیں کیا بلکہ ان کرداروں کو لکھا ہے جن سے ان کا واسطہ پڑ چکا ہے۔ زندگی میں پیش آنے والی تلخیوں کو نظموں کا روپ دیا ہے تو نظموں کا مجموعہ۔ یاد آتی ہے۔ ترتیب پا یا ہے۔ انہوں نے زندگی کے مختلف رویوں، منافقت، ریا کاری، جھو ٹ، دھوکا دہی، جیسے رذائل اخلاق لو گوں کو بے نقاب کیا ہے۔ زندگی کے ناروا سلوک سے جو رد عمل سامنے آیا وہ ان کی نظموں میں ڈھلتا گیا۔ ان کی نظم۔ سوال۔ ملاحظہ کیجئے۔

اس قدر رگڑنے سے

مل مل کے دھو نے سے

تن کی کثافت تو

صاف ہوہی جائے گی

من کی کثافت کا لیکن

کیا توڑ کرو گے تم۔۔ ؟ (سوال)

٭٭٭

 

 

 

 

شگفتہ شفیق کی شگفتہ بیانیاں  ۔۔۔ ڈاکٹر مقصود جعفریؔ

 

شگفتہ شفیق نثر و نظم میں یکتا زبان و بیان میں شائستہ اور نقد و نظر میں شگفتہ ہیں۔ جذبات میں شدت اور احساس میں حدت ہے۔ ان کی شاعری سادہ و سلیس ہے۔ آپ بیتی کا بیان ہے۔ ملکۂ جذبات ہیں۔ کہانی کار بھی ہیں اور گلستان شاعری میں غنچۂ نو بہار بھی ہیں۔ زندگی کے تلخ حقائق پر نظر بھی ہے اور ہر شعر سب تیرہ و تاریک میں مژدۂ سحر بھی ہے۔ ان کا زجاج دیفِ سنگ ہے کیونکہ ان کے اشعار میں شاعری کا رنگ اور کیفیات کا ڈھنگ ہے۔ جامِ جدان سے سرشار، آتشِ عشق سے گلنار اور کشائش زیست سے برسرِ پیکار ہیں۔ بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ ہیں۔ نظم موضوعاتی ہوتی ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات ذاتی رنجشوں اور زمانے کی بے اعتنائیوں پر مبنی ہیں۔ نظم میں تسلسلِ فکر قائم اور وحدتِ مضمون دائم ہوتی ہے۔ خارجی دُنیا پر نظر رہتی ہے جو داستانِ زندگی کہتی ہے۔ جب نظمیں داخلی اور ذاتی محرکات کی پیداوار ہوں تو وہ غزل کا رنگ و آہنگ رکھتی ہیں اسی لئے ان کی نظموں کو معروف شاعر اور نقاد تسلیم الٰہی زلفی نے جدید نظم کہا ہے۔ اختر شیرانی کی رومانوی نظموں کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ شگفتہ کی غزلیات اور نظمیں جہاں آپ بیتی کی داستانِ صد رنگ ہیں وہاں کہیں کہیں جگ بیتی کے معاملات بھی مذکور ہیں۔ گویا ان کے اشعار جنگاہِ زیست میں سیزہ کار اور گلستانِ محبت میں مثلِ بُوئے بہار ہیں۔ اشعار میں تازگی اور برجستگی ہے۔ کہتی ہیں ؎

طلبِ عشق مٹا دی ہم نے

اُس کو روکا نہ صدا دی ہم نے

خواب لوگوں نے جلا ڈالے تھے

راکھ راہوں میں اُڑا دی ہم نے

شگفتہ شفیق کراچی کی رہائشی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے تین شعری مجموعے ارسال کئے۔ جن کے عنوان ’’میرا دل کہتا ہے ‘‘ ، ’’یاد آتی ہے ‘‘ اور ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ ہیں۔ ’’میر دل کہتا ہے ‘‘ اُن کا اولین شعری مجموعہ ہے۔ یہ غزلیات اور نظموں کا میسر مرقع ہے۔ گلدستۂ درد ہے۔ جذبات کا سیلِ رواں ہے۔ ہر شعر دلنواز و دِل گداز و نغمہ طراز ہے۔ کتاب احساسات کی بیاض ہے۔ خالص شاعری کا سرچشمہ دل ہے۔ شگفتہ کی شاعری دل کی آواز ہے۔ یہ نالۂ فراق کا ساز ہے۔ از دل سغزد و بر دل ریزد والا معاملہ ہے۔ کلام میں نسوانی جذبات کو پیکرِ حیا میں ڈھالا اور وفا کا بول بالا ہے۔ جذبہ و شعور باہم مربوط اور وجدان و فکر کا رشتہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔ زندگی تلخ و شیریں واقعات کا مجموعہ ہے۔ شگفتہ کے ہاں تلخیاں اور آنسو زیادہ ہیں۔ طبع نازک بارِ الم سے شکستہ اور صد ناوک در دل پیوستہ ہے۔ اشعار نوائے سروش کے سرشتہ ہیں۔ عاشقی میں پیکرِ پاکیزہ ہیں اور افلاطونی عشق کا شہکار ہیں۔ کہتی ہیں ؎

شکوہ شکایت کبھی نہ کیا

ہمیشہ ہی اپنے لبوں کو سیا

کھلے میرے من میں بہاروں کے پھول

ترا نام چپکے سے جب بھی لیا

افلاطون روحوں کے ملاپ کو عشق صادق کہتا ہے جب کہ انگریز شاعر لارڈ بائرن کا نظریۂ عشق جنسیات کے ارد گرد گھومتا ہے۔ کوئی احساسات اور کوئی محسوسات کا اسیر ہے۔ ’’میرا دل کہتا ہے ‘‘ زندگی کے حبس زدہ زندان میں ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔ شاعری اور موسیقی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ جس شاعری میں موسیقیت نہ ہو وہ چشمِ ناز نہیں چشمِ نرگس ہے۔ نہ بصارت اور نہ بصیرت۔ انگریزی شاعری میں ولیم شیکسپیئر، ولیم ورڈزورتھ، شیلے، بائرن اور جان کیٹس کی شاعری بے حد مترنم ہے جبکہ فارسی میں حافظ شیرازی، امیر خسرو اور اردو میں میر تقی میر اور فیض احمد فیض کی شاعری غنائیت کی آئینہ دار ہے۔ شگفتہ شفیق کے اندر ایک ترنم ہے جو شعر کی صورت رقص کناں ہے اور موسیقی کے دھاروں پر بہتا ہے۔ ایک نظم بعنوان ’’تم‘‘ سے چند سطور سنیے اور سر دھنیے۔ کہتی ہیں ؎

جو مڑ کے پیچھے کبھی ہم نے دیکھا

تو یادوں کے جھروکوں سے

اجلی اجلی روشن صبحیں

ساری پیاری پیاری راتیں

اور ان سب کے محور  تم

نام تمہارے میرا جیون

میرا ہو بس زیور تم

زیور عورت کی فطری کمزوری ہے۔ حسنِ ظاہر کو یہ سنوارتا اور غنچۂ نفسیات کو نکھارتا ہے۔ لیکن شگفتہ شفیق کے ہاں مال و زر اور نہ متاعِ زیور کی کوئی حیثیت ہے اور وہ متاعِ محبت کی گرویدہ اور سرد و گرم زندگی چشیدہ ہیں۔ ایک غزل میں کہتی ہیں ؎

کشکول میرے ہاتھوں میں خالی ہی رہ گیا

یوں بخت آزمائی کی مجھ کو سزا ملی

’’میرا دل کہتا ہے ‘‘ کی اکثر نظموں کا ایک ہی رنگ و آہنگ ہے۔ ذاتی غم اور امتدادِ زمانہ۔ چاہت کا رنگ، ادراک، صرف تیرے نام، ساون اور تم، اداسی ہی اداسی، رو گی، شفیق کے لئے، اور میرا گھر ایسی نظمیں ہیں جو داستانِ ہجر اور آوازِ دلخراش ہیں۔ شگفتہ ذاتیات کے خول کی اسیر نہیں بلکہ وہ خوابِ زندگی کی تعبیر بھی ہیں۔ معاشرے سے منسلک بھی ہیں۔ ان کی سماجی نظموں میں ورکنگ وومن، فریاد، زلزلہ، ماں اور بیٹا، مشرقی بیوی، دہشت گردی کا شکار، بھائی چارہ، ستمبر 1965 کے شہیدوں کے نام اور سیلاب زدگان کے اشک پونچھیں ہم قابلِ ذکر نظمیں ہیں۔ چند استعاراتی نظمیں بھی ہیں جن کی بہت اہمیت ہے۔ میرا خوبصورت ساون، تم اور ساون اور ساون کا موسم ایسی نظمیں ہیں جن میں ساون بطور استعارہ آیا ہے۔ ساون کے موسم میں شاعرہ کی آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگتی ہے اور روح کا غسل ہو جاتا ہے۔ بارش کا استعارہ بھی نظموں میں جا بجا ملتا ہے جو شاعرہ کے سوزدروں کا اشارہ ہے۔ میر تقی میر اور فانی بدایونی کی شاعری آوازۂ غم ہے۔ اداسی اور مایوسی میں فرق ہے۔ اداسی عین فطرت ہے جبکہ مایوسی موت ہے۔ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ کا درس ہی درسِ زندگی ہے۔ شگفتہ شفیق یاسیت کی نہیں رجائیت کی شاعرہ ہیں۔ کہتی ہیں ؎

کوئی پل خوشی کا نہیں زندگی میں

اداسی ہے اتنی کہ گھبرا گئی ہوں

تو بس راستے کا فقط اک شجر تھا

جو منزل تھی میری اسے پا گئی ہوں

’’یاد آتی ہے ‘‘ شگفتہ شفیق کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ یہ صرف نظموں پر مشتمل ہے۔ حسرت موہانی نے کہا تھا ؎

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

در اصل یاد وہ آتا ہے جسے بھلا دیا جائے اور کبھی کبھار جب یاد آ جائے تو تڑپا جائے۔ فیض احمد فیض کہتے ہیں ؎

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

فیض صاحب اشتراکی تھے۔ غمِ دوراں کو غمِ جاناں پر فوقیت دیتے تھے جبکہ غالبؔ کا فرمودہ ہے ؎

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

شگفتہ شفیق کے دل پُر کیف و کیفیتِ غالب ہی غالب ہی غالب نظر آتی ہے اور وہ یادِ ماضی کی زلفِ گرہ گیر کی اسیر نظر آتی ہیں۔ یعنی ’’سلسلہ ٹوٹا نہیں درد کی زنجیر کا‘‘ سا معاملہ ہے۔ ’’یاد آتی ہے ‘‘ میں 159 نظمیں ہیں۔ زیادہ تر آزاد نظمیں ہیں۔ ساحر لدھیانوی،ن میم راشد اور فیض نے بھی آزاد نظمیں لکھی ہیں۔ اس مجموعہ میں بھی زیادہ تر منظومات ذاتی کرب کا اظہاریہ ہیں۔ عید کارڈ، دسمبر کا مہینہ، ساون اور رم جھم بارش کے استعارے جا بجا ملتے ہیں۔ ماسی، اتحاد اور سکھ ایسی جاندار نظمیں ہیں جو جاگیرداری اور سرمایہ داری سے اعلانِ بغاوت ہے۔

شگفتہ شفیق کا تیسرا شعری مجموعہ بعنوان ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ ہے۔ یہ بھی خوابوں اور سرابوں کی شاعری ہے۔ اس میں 46 غزلیات اور 42 نظموں کے علاوہ چند قطعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ شدتِ جذبات اور کربِ روح نمایاں ہے۔ ساغر صدیقی نے جبر مسلسل کا رونا رویا تو شگفتہ شفیق، ہجر مسلسل کی زندانی ہیں۔ نظموں میں ’’عزم‘‘ اور ’’سوچ‘‘ حب الوطنی کی آئینہ دار ہیں اور نظم بعنوان ’’عبدالستار ایدھی‘‘ خدمتِ ملت کا وقار ہے۔ ’’میرا سائیں ‘‘ نظم میں ایک با وفا اور با حیا مشرقی بیوی کے روپ میں جلوہ گر ہیں۔ شوہرِ با شعور نے بھی شاعرہ بیوی کے نہ صرف جذبات کا احترام کیا بلکہ اُن کے ذوقِ شاعری کو چار چاند لگانے کا بھی عمر بھر اہتمام کیا۔ امیر خسرو فرماتے ہیں ؎ نا خدا در کشتیِ ما گر نبا شد گو مباش ما خدا داریم ما را ناخدا در کار رنیست

ناخداؤں سے بے زاری اور بتانِ آذری سے بے نیازی شاعرہ کی خود داری، خود شناسی اور خودی کی صفاتِ عالیہ ہیں۔ وہ خود پرستی، خود ستائی اور خود نمائی سے کوسوں دور ہیں۔ عزت نفس کو جذبۂ محبت سے بالاتر سمجھتی ہیں۔ وہ انانیت کا شکار نہیں عزت نفس کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی غزلیات سرور و کیف سے بھرپور اور بارشِ اشک سے شرابور ہیں۔ کہتی ہیں ؎ تیری باتوں سے مجھے تو تازگی ملتی رہی تیری چاہت سے مرے دل کی کلی کھلتی رہی

٭٭٭

 

 

 

 

شگفتہ شفیق نظم کے آئینے میں  ۔۔۔ شبیر نا قد

 

شگفتہ شفیق کا دوسرا شعری مجموعہ۔ ’’یاد آ تی ہے۔ ‘‘ جنوری ۲۰۱۳ میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ قبل ازیں ان کا اولین شعری مجموعہ۔ میرا دل کہتا ہے۔ ۲۰۱۰ میں منصہ شہود میں آیا جس میں غزل۔ پا بند نظم اور زیادہ تر آزاد نظمیں شا مل ہیں۔ شگفتہ شفیق کے افکار و موضوعات میں تنوع پا یا جا تا ہے اور مختلف کیفیات کی جلوہ افروزی ہے۔ کہیں بزم طرب سجی ہو ئی ہے تو کہیں آشاؤں کے میلے ہیں کہیں اداسی کی شاموں کا ذکر ہے تو کہیں بہار پر نکھار ہے کہیں جمالیاتی حوالے ہیں تو کہیں رومان کی روح پرور فضا ہے۔ اُن کی ایک نظم۔ گلابوں کا مو سم۔ میں ان کی منظر نگاری ملاحظہ کر یں

گلابوں کا مو سم

مو سم دھوپ اور

روشن کر نیں

تتلیاں آئی تھیں

پھو لوں سے ملنے

با غوں میں تھے پھول کھلے اور

خوابوں کا سا میلہ تھا

بہار کا مو سم

ساتھ سجن کا

نہلے پر بسد ہلا تھا

نظم ہذا میں جہاں منظر نگاری کمال کی ہے۔ و ہاں جما لیا تی حوالہ بھی انتہائی دلفریب ہے۔ خیالات کا تسلسل بھی دیدنی ہے لغت کا ا ستعمال بھی فطری انداز رکھتا ہے اسلوب کی سادگی بھی اپنا ایک حسن رکھتی ہے اور رومان کا بھی پر کشش حوالہ شا مل ہے ۔

رومان ہر عہد میں اقلیم سخن کی جان رہا ہے اگر چہ عصر حا ضر کے افکار نے اسے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ رومانی حوالے کی حا مل اُن کی نظم۔ تم۔ زینت قرطاس کی جا تی ہے

تم

مرے دل کے پاس رہنا، مرے سا تھ ساتھر  بہنا

جو بھی من میں ہو تمھارے، و ہی بات مجھ سے کہنا

پڑے کو ئی تم پہ مشکل، تو اکیلے تم نہ سہنا

یوں ہی خون کی طرح سے، مری سب رگوں میں بہنا

مری جب بھی ہو ضرورت، مجھے تم پکار لینا

مرے آنسوؤں کو چھوڑو، کہ کبھی بھی تم نہ رو نا

مرے کا نٹے چھوڑ کر تم، مرے سب گلاب لینا

یہ ہی تم سے بس ہے کہنا، مرے دل کے پاس رہنا

یہ نظم روما نیت کے احسا سات سے لبریز ہے سلا ست اور سہل نگاری سے خو بصورت جذ بات کو فطری انداز میں بیان کیا گیا ہے مختلف کیفیات کے دلفریب حوالے ہیں اور یار ہزار شیوہ سے بے پا یاں محبت کا ا ظہار بھی ہے۔

رومانی حوالے سے اُن کی ایک اور نظم۔ ا حساس خیال دوست۔ آپ کے ذوق طبع کی نذر ہے

ا حساس خیال دوست

مری اک بات سن لو جی۔۔ ۔

میں الفت تو نہیں کر تی

مجھے ہے انسیت تم سے

تمہارے بن بھی جیتی ہوں

بڑی خوش باش رہتی ہوں

جو مل پاؤں اگر تم سے

چمک آنکھوں کی بڑھتی ہے

امنگ جینے کی ملتی ہے

کچھ ایسا مجھ کو لگتا ہے

ا لگ دنیا کی باسی ہوں

جہاں غم دور رہتے ہیں

وہاں ہے صرف مروت

اور احساس خیال یار

اس نظم میں شگفتہ شفیق کی تخلیقی طبع کھل کر سا منے آئی ہے جس کی وجہ سے خیالات کا ایک فطری بہا ؤ مشاہدے میں آ یا ہے جس میں بر جستگی و بے ساختگی اور بے تکلفی کے جواہر نما یاں طور پر نظر آ تے ہیں۔

غم زندگی کا جزو اور دائمی جذبہ سے جو زندگی پرا نمٹ نقوش مر تب کرتا ہے حزن و ملال کی کیفیات کا ا ظہار اکثر و بیشتر شعرا کے ہاں پا یا جا تا ہے جو شعرا حزنیہ شعری طبع رکھتے ہیں اُن کا کلام خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مقبولیت میر کا باعث بھی فکری حوالے سے ان کی حزنیہ شاعری ہے غم کئی طرح کا ہوتا ہے اس کی نوعیت کچھ بھی ہو سکتی ہے غم دوراں بھی ہو سکتا ہے وہ غم جا ناں بھی ہو سکتا ہے اور غم ذات بھی۔ وہ محرومی کا دکھ بھی ہو سکتا ہے اُن کی نظم سانحہ ہیں اُن کے حزن و ملال کی جھلک دیکھتے ہیں

سانحہ

عجب سا سانحہ ہوا ہے یہ

ٹہنیاں ساری

رہ گئیں خالی

پتے سارے ہوا کے ساتھ گئے

چہار سو چھا گئی

وہ زرد خزاں

جس کو کو ئی پسند نہیں کرتا

کو ئی طلبگار اس کا ہے ہی نہیں

پھر بھی وہ ڈھیٹ

لپٹی جا تی ہے

ا نجا نا سفرد کھا تی ہے

اور اداسی

بکھیر جا تی ہے

شگفتہ شفیق کا فکری کینوس بہت و سیع ہے کہ موضوعات میں رنگا رنگی پائی جا تی ہے مختلف خیالات اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں شذرہ ہذا کی آخری ا کا ئی کے طور پر اُن کی نظم۔ مکافات عمل۔ نذر قارئین ہے

مکافات عمل

مجھے گلہ ہے میرا بیٹا مجھ سے بات نہیں کرتا

چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے مسئلے شیئر نہیں کرتا

تیس برس میں پیچھے جاؤں تو مجھ کو یاد آ تا ہے

میں بھی یو نہی کرتا تھا

جب میری بوڑھی ماں مجھ سے باتیں کر تی تھیں

ایک کوفت سی دل کو ہو تی تھی

میں گھر سے بھا گنا چاہتا تھا

پر اتنی ہمت مجھ میں نہیں تھی

مجبوری کی یاری تھی

پر میرا بیٹا بولڈ بہت ہے

مجھ سے کہہ کے جا تا ہے

بیٹھیں۔ آپ سکون سے کھائیں

بیچ میں ٹانگ اڑائیں نا

نئے زمانے کی ہیں باتیں

آپ مجھے سمجھائیں نا

اس نظم میں انہوں نے اپنے موضوع کے سا تھ مکمل وفاداری کی ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے انسان جو رویہ آج کسی سے روا رکھتا ہے کل کو اسے اسی رویے کا سا منا کرنا پڑتا ہے معاملہ۔ جیسی کرنی و یسی بھرنی۔ کے مصداق ہو جا تا ہے اس نظم سے ایک اور فکری پہلو بھی سا منے آتا ہے جسے نسلی خلا یا جنر یشن گیپ کہتے ہیں جسے نئی نسل اور پرانی نسل کی ذہنی تفاوت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اس سے ثا بت ہوتا ہے کہ شگفتہ شفیق کے فکری مخزن میں طرح طرح کے جواہر مو جود ہیں جن سے قاری اکتساب فیض بھی کرتا ہے ان کے ہاں مقصدیت کے پہلو بھی پائے جاتے ہیں اور تفریح طبع کے آ ثار بھی۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ شگفتہ شفیق کی نظم نیم آزاد نوعیت کی حا مل ہے لیکن اسلوب اور افکار جاذبیت کی دولت سے ما لا مال ہیں مطالعے کے دوران کہیں بھی قاری کی دلچسپی کا دامن میلا نہیں ہوتا بلکہ اس کا شوق فزوں سے فزوں تر ہوتا چلا جا تا ہے اُن کی فکر قاری کوا پنے حصار میں لے لیتی ہے اور قاری اُس کے سحر میں گھر جا تا ہے خدائے بزرگ و بر تر سے دعا ہے کہ انہیں فکر و فن کے اسرار و رموز کی جانکاری سے نوازے اور فکری و فنی بالیدگی ودیعت فرمائے۔ آ مین

٭٭٭

 

 

 

 

 میری شاعری، روح کی ترجمانی  ۔۔۔ شائستہ زرّیں (کراچی)

 

شگفتہ شفیق کہتی ہیں

خدا کی عطا میرا تخلیقی جوہر

مری شاعری، روح کی ترجمانی

بلا شبہ شگفتہ کا شعری مجموعہ ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘ ‘ شگفتہ کی روح کا ترجمان بھی ہے اور اُن کے دلی جذبات و احساسات کا آئینہ دار بھی، آپ نے جو کچھ بھی دیکھا، محسوس کیا بڑی سادگی سے بیان کر دیا اور یہی سادگیِ بیان شگفتہ کے شاعرانہ اسلوب کی شناخت ہے۔ مثلاً

د ل کو اپنے گمان تھا بے حد

وہ منانے تو ہم کو آئیں گے

جو راتوں کو ہم نے بہائے ہیں آنسو

تو دل کا ذرا بوجھ ہلکا ہُوا ہے

ہم نے تو کبھی اُن کو ایسے نہیں ستایا

پوچھے کوئی شگفتہ وہ کیوں ستا رہے ہیں

سادہ لہجے میں گہری بات کہنے میں بھی شگفتہ کو کمال حاصل ہے۔

اُس کو پھولوں سے خاص نسبت ہے

اور پھولوں میں باس بھی کب تک

محض غزلوں ہی میں نہیں یہ سادگیِ بیان شگفتہ کی نظموں میں بھی نمایاں ہے۔ ’’سلسلہ ‘‘ میں کہتی ہیں

ہماری الفت کا سلسلہ تو

چند روز کی ہی کہانی ہے

پر سچ بتاؤں

مجھے لگتا ہے ایسے

کہ جیسے یہ بات

بہت ہی پرانی ہے

خواب زندگی کی علامت ہوتے ہیں اور آنکھیں باطن کا آئینہ۔ جو آنکھیں عالمِ بیداری میں خواب دیکھنے کی عادی ہوتی ہیں وہ زندگی کے تجربات، مشاہدات اور محسوسات کے زیرِ اثر مختلف کیفیات سے گزرتی ہیں، یہ خواب شگفتہ کی ذہنی و قلبی واردات کے غماز ہیں، وہ خواب جو طاقت بن جاتے ہیں تو حیاتِ نو عطا کرتے ہیں اور اگر کمزوری بن جائیں تو ان کی کرچیاں دل میں پیوست اور آنکھوں میں چبھنے لگتی ہیں اورحساس دل تڑپ اُٹھتا ہے تب ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ تخلیقی سطح پر اُجاگر ہوتے ہیں۔

جاگتی آنکھوں کے سارے خواب

جن کو سوچ کر

مجھ میں میری زندگی لوٹ آئی تھی

وہ اَدھورے ہی رہے

اور دے گئے دل کو عذاب

جاگتی آنکھوں کے خواب

شگفتہ کی خواب آشنا آنکھوں میں خوابوں نے بسیرا کر لیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ خواب شگفتہ شفیق کی شاعری کا استعارہ ہی نہیں بنیاد بھی ہیں، جو کبھی دھنک رنگوں سے آراستہ ہوتے ہیں تو کبھی محرومی کے حصار میں شکستگی کی علامت بن کر ابھرتے ہیں۔ گویا ان خوابوں کے حوالے سے شگفتہ متضاد کیفیات میں مبتلا رہتی ہیں۔ جب ہی تو کبھی وہ کہتی ہیں

ہم نے خوابوں کو بیچ ڈالا ہے

جاگتا وقت ہے اذیت کا

کبھی خوابوں سے فرار حاصل کرنے لگتی ہیں۔

میں بھلا ایسا خواب کیوں دیکھوں

جس کی تعبیر مل نہ پائے مجھے

جب مایوسی کی انتہا کو پہنچتی ہیں تو کہ اُٹھتی ہیں

خوابوں پہ بھی لگا دو پہرہ

زندگی بنا دو جیسے صحرا

اور جب یہی خواب زندگی کی علامت بن جاتے ہیں تو شگفتہ خود کو زندگی کے قریں پاتی ہیں اور بے ساختہ کہتی ہیں کہ

آنکھوں میں شگفتہ ہوں، سنہرے سے کئی خواب۔۔ ۔ بھیگیں کبھی بارش میں، کبھی دیپ جلائیں

شگفتہ کی نظم ’’اَدھورا خواب‘‘ ایک مکمل داستان ہے۔ غضب کی روانی اور تسلسل ہے

میری زندگی کا حاصل

وہ ادھورا خواب میرا

جسے جاگ جاگ دیکھا

وہ ہواؤں میں ہے بکھرا

جو کبھی ہُوا نہ پورا

تو ہنسی کی جگہ دل میں

کوئی چپ اُتر گئی ہے

یہ اشعار ملاحظہ کیجیے

مجھ کو دی جاگنے کی اُس نے سزا

میرے خوابوں کو بیچ ڈالا ہے

دسمبر کے آنے پر ہم نے کیا کیا خواب سجائے تھے

کیا معلوم تھا ظالم کے وہ سارے خواب پرائے تھے

خوابوں کے بکھر جانے سے اگر شگفتہ کی اُمید ٹوٹتی ہے تو خوش اُمیدی بھی اُن کا دامن تھام لیتی ہے

اُمیدوں سے دامن میرا بھر گیا

وہ موتی ستارے سب ہی جڑ گیا

وہ جن کے چلے جانے سے ویران نگر ہے

کیا خوب سماں ہو جو بہاریں وہ پلٹ آئیں

آنکھوں کے ساگر میں اپنی

اُمیدوں کے دیپ جلانا

شگفتہ کی ایک بڑی خوبی اپنی شاعری میں متحرک نظر آنا بھی ہے یہی سبب ہے کہ آپ کے ظاہری و باطنی رویوں کا عکس آپ کی شاعری میں نمایاں ہے۔ عاجزی و انکساری شگفتہ کی طبیعت کا خاص رنگ ہے۔ اپنے حمدیہ کلام کے آخری شعر میں کہتی ہیں

میری فکر کب اُس کی رفعت کو پہنچی

شگفتہ کہاں میں، کہاں لن ترانی

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرکس سلیقے اور سادگی سے ادا کرتی ہیں۔

کسقدر مہرباں ہے مجھ پر خدا

اپنی قسمت پہ پیار آتا ہے

زندگی مجھ میں لوٹ آئی ہے

زندگی پھر سے مسکرائی ہے

شگفتہ کی نظم الحمد للہ بلاشبہ جذبہ تشکر سے معمور ہے۔ چند اختتامی مصرعے ملاحظہ فرمائیے۔

یہ پڑھ کے تو میری آنکھیں

کچھ گیلی سی ہو گئی ہیں

بہتے ہیں میرے آنسو

پر خوشی سے بھر گیا ہے دل

خدا کا فضل ہے مجھ پر

بیشک شگفتہ پر اللہ کا فضل سایہ فگن ہے۔

مجھے تو نے بخشی ہے دنیا کی نعمت

خدایا ہے تیری بڑی مہربانی

اور ان بے پایاں نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت حرمین شریف کی زیارت بھی ہے شگفتہ نے سرکارﷺ کے دربارِ عالیہ پر حاضری دی تو اِن روح پرور اور پر کیف لمحات کو کیسے جذب سے بیان کیا ہے۔ حسنِ ترتیب کا جواب نہیں کیسے قرینے اور سادگی سے کہا کہ

نبی کے در پہ جا کے ہر کوئی آنسو بہاتا ہے

درودوں سے پھر اک پُر کیف سی محفل سجاتا ہے

کس کمال کی منظر نگاری ہے کہ عشاق محض پڑھ کر ہی خود کو اس منظر کا حصہ بنا محسوس کرتے ہیں، سرکاررﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی تڑپ اور لگن بڑھ جاتی ہے۔

شگفتہ کا خمیر محبت سے اُٹھا ہے، محبت سے سرشار آپ کا دل محبت لے کر خوش ہوتا ہے تو دے کر بھی خوشی اور طمانیت محسوس کرتا ہے۔ ہر عورت کی طرح شگفتہ شفیق کو بھی اپنے گھر سے عشق ہے۔ گھر اور گھر والے آپ کی زندگی کا محور ہی نہیں آپ کی شاعری کا حصہ بھی ہیں۔ مثلاً یہ شعر جو آپ کے جذبوں کا امین ہی نہیں اس میں آپ کا تجربہ بھی بول رہا ہے۔ اپنے گھر میں اپنے ہاتھوں سے لگائے پھولوں کے ننھے پودوں کو تناور درخت بنتا دیکھ کر شگفتہ خوشی سے جھوم اُٹھتی ہیں۔

گھر میں پھولوں کو کاشت کرتی ہوں اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

عملی زندگی میں بھی شگفتہ کا پھول سا لہجہ دلوں کو تسخیر کر لیتا ہے اور یہی آپ کی شاعری کا پیغام بھی بن جاتا ہے۔

اور آپ کی خواہشات بھی اسی دائرے کے گرد گھومتی ہیں

پھوار اُلفت کی، گل مسرت کے ہم نے کیا اور اُس سے چاہا تھا

زندگی کی محرومیوں کو کس درد سے بیان کیا ہے

اب سنبھلتا نہیں ہے دلِ مضطرب

جب سے ماں باپ ملکِ عدم کو گئے

خوشیوں کے لیے غلط راہ کا انتخاب کرنے والوں کی رہنمائی کیسے پیار سے کرتی ہیں۔

پیار سے کیجیے جہاں تابع

آزمائیں نہ جادو ٹونے کو

شگفتہ کی فطرت، مزاج اور طبیعت کے کئی رنگ آپ کی شاعری میں ہویدا ہیں۔

نہیں اس کو آنسو بہانے کی عادت

ہمیشہ شگفتہ تو ہنستی رہی ہے

لٹا دو جہاں میں، جو چاہو اُڑا دو

میرے واسطے تم فقط پھول لانا

ہم دوسروں کی چارہ گری میں لگے رہے اپنا اُنہیں بنانے کا موقع نہیں ملا

قربِ الٰہی اور اللہ کے احکامات کی روشنی میں اعلیٰ ظرفی اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناروا سلوک کرنے والوں کو معاف کر دینا اور اس عمل سے گزرتے ہوئے جو دلی طمانیت محسوس ہوتی ہے ’’معافی‘‘ اول تا آخر اس کا اظہار ہے۔

یُوں تو شگفتہ بہت بہادری اور ہمت سے ہر چھوٹی بڑی آزمائش کا مقابلہ کرتی ہیں لیکن کبھی کبھی اُن کے لہجے میں تھکن در آتی ہے۔

کتنی آسان زندگی تھی کبھی

اب توسانسیں بھی بوجھ لگتی ہیں

یہ فسانہ عجیب ہے لوگو

خوشیاں بچ بچ کے ہم سے چلتی ہیں

زندگی اور اپنوں کے بے مہر رویے پر اگر دکھ کا اظہار کرتی ہیں تو خود کو تسلی بھی دیتی ہیں

یہ تو پھولوں کے ساتھ ہوتے ہیں

ایسے کانٹوں سے کیوں ڈریں یارو

شگفتہ محبت کی علامت ہیں خود بھی بے لوث اور ٹوٹ کر محبت کرتی ہیں اور لا شعوری طور پر جواب میں ایسی ہی پر خلوص محبت کی آرزو مند بھی ہوتی ہیں لیکن جب اپنوں کی بے مہری اُن کا آئینۂ دل پاش پاش کرتی ہے تو یہ دکھ آپ کے شعروں میں ڈھل جاتا ہے۔

میرے اپنے تو ملنے آتے ہیں

لے کے نشتر مجھے چبھونے کو

یہ آنسوؤں کے خزانے یہ جاگتی آنکھیں

ترے دیے ہُوئے تحفے کدھر چھپاؤں گی

ہنستے ہُوئے جو مجھ پہ کوئی چوٹ کر گیا

اُس کی ادا نے کر دیا سینہ میرا فگار

زندگی کی تلخیوں نے مجھ کو کڑوا کر دیا

کچھ شگفتہ اس کا حل، کچھ تو مداوا چاہیے

شگفتہ نے چند نظمیں بھی اپنوں کی بے مہری کے زیرِ اثر تخلیق کی ہیں۔ حقیقت، عطا، تنہا ہے زندگی قابلِ ذکر ہیں۔

سماجی و معاشرتی ناہمواری بھی شگفتہ کا خاص موضوع ہے سو ان رویوں کی نشاندہی کرتی ہوئی کہتی ہیں۔

ہم نے کیا شگفتہ اُن کا لیا

یہ لوگ بھلا کیوں جلتے ہیں

طنزیہ لہجہ بھی کمال کا ہے، بڑے سلیقے سے محبت کے بلند و بانگ دعویداروں کو آئینہ دکھایا ہے

یہ رنگ و خوشبو ستاروں کی بات کون کرے

تُو اپنا چھوٹا سا پیماں نباہ نہیں سکتا

اک ملاقات کا تقاضہ تھا

گزری باتوں کا بس اعادہ تھا

زندگی اُس کی خوب گزری ہے

جو میرے بن ادھورا آدھا تھا

ہاتھ میرا بھنور میں چھوڑ گیا

ساتھ رہنے کا جس کا وعدہ تھا

کہانی وفا کی سنائی جو ہم نے

بھری بزم میں اُن کا رنگ اُڑ گیا

کہیں کہیں احتجاج کی لے بھی سنائی دیتی ہے

کہ میرے ساتھ تمہیں بھی سزا ملے کوئی

بلانے مجھ کو جو آؤ تو ٹال کر دیکھوں

اختصار و جامعیت شگفتہ کے کلام کی ایک اور صفت ہے کبھی ایک شعر میں اور کبھی محض ایک مصرعے میں مکمل داستان موجود ہے۔ مثلاً

یادیں لوٹ آتی ہیں بارشوں کے موسم میں یا

سناٹا تیری روح کے اندر مہیب ہے

یوں گنہ کی سزا ملے گی تجھے

شرمساری سدا رہے گی تجھے

میں نے خود کو بدل کر دیکھ لیا

زندگی میں ہی مر کے دیکھ لیا

شگفتہ شفیق کی ایک نہیں کئی غزلیں چھوٹی بحر میں ہیں اور یہ تمام غزلیں اپنے موضوع، مزاج، لہجے اور فکری اعتبار سے بہت وسعت رکھتی ہیں۔ مثلاً

میں بھلا کیسے بھول پاؤں گی

یہ محبت یہ مہربانی تیری

آپ کا اعتبار جاتا رہا

چاہتوں کا خمار جاتا رہا

تیرا عکس و خیال کچھ بھی نہیں

پھر بھی حصے میں میرے رسوائی

ستم ہیں محبت کے یا پھر کرم

کہ د ل میں لگی جا کے یہ دل لگی

عشق محبت روگ پرانا

چاہا تھا دامن کو بچانا

تم سے ملنے کے بعد ایسا لگا

میں نے دل کی مراد پائی ہے

شگفتہ کے کلام میں ندرتِ خیال بہت بھلی لگتی ہے

جس کا سودا شگفتہ تھا سر میں

اُس کی چوکھٹ پہ سر کو پھوڑ دیا

بھلانے میں تم کو فقط یہ ہُوا ہے

کہ اندر میری روح مرتی رہی ہے

شگفتہ نے نئی نئی اصطلاحات بھی وضع کی ہیں جو نہایت سادہ اور عام فہم ہیں۔

وہ کہ رہے تھے سرِ بزم اور ہم نے سُن

ملے اشارہ تو قسمت اُجال کر دیکھوں

زہے نصیب شگفتہ میں جیت لوں اُس کو

تو اپنے بخت کا سکہ اُچھال کر دیکھوں

جب ملا نہ ہمیں آج کاندھا تیرا

تو اُداسی کے شانوں پہ ہم سو گئے

تیری یادوں کا ابر آتا ہے

روز تکیہ میرا بھگونے کو

ہمیشہ خدا نے سنبھالا ہے اس کو

مصائب میں یہ ناؤ چلتی رہی ہے

اتنی خوشی ہُوئی ہے آنے سے اُن کے من کو

پھولوں کی بات چھوڑیں ہم دل بچھا رہے ہیں

ہم کو ایسے بھول جائے گا کبھی سوچا نہ تھا

اجنبی نظروں سے اُس کی دل پہ سکتہ چھا گیا

کسی صورت جو کم نہیں ہوتی

تم نے کیسی لگن جگائی ہے

شگفتہ کے رومانوی کلام میں وضع داری نما یاں ہے۔ نسائیت کے اظہار میں آب بے باکی سے گریز کرتی ہیں، بڑے قرینے سے دل کی بات کہ جاتی ہیں با وقار سادگی آپ کا طرۂ امتیاز ہے۔

تیری باتوں سے مجھے تو تازگی ملتی رہی

تیری چاہت سے مرے دل کی کلی کھلتی رہی

موسمِ گل جیسے میرے بام پہ ہی رک گیا

تیرے میٹھے بول سُن کے زندگی ملتی رہی

میں تر و تازہ ہوئی سر سبز میری زندگی

سبزموسم کی ہوا چھو کر مجھے چلتی رہی

جب بھی سوچوں تجھے میرے ساجن

مجھ پہ جیسے بہار چھاتی ہے

شگفتہ سا چہرہ مہکتا ہے من میں

کہ جیسے چمن میں کوئی گل کھلا ہے

محاوروں کا استعمال بڑے سلیقے سے کیا ہے۔

سب کوششیں بھلانے کی ناکام ہو گئیں

اُس نے  تو میرے دل میں ہی گھر کر لیا ہے اب

نیکی کر دریا میں ڈال

یہ تو بات پرانی ہے

محب وطن شگفتہ چونکہ فطرتاً صلح جُو ہیں اسلیے ملکی سطح پر بھی وہ جنگ و جدل سے دور امن کے خواب خود بھی دیکھتی ہیں اور اپنے قارئین کو بھی دکھاتی ہیں۔

بچھڑے لوگوں کو ملائیں تو کوئی بات نہیں

امن کا خواب دکھائیں تو کوئی بات بنے

وہ تو ہنستے ہوئے گلشن سے گزر جاتے ہیں

وحشتوں سے جو بچائیں تو کوئی بات بنے

جنگ کے خوف سے دل ڈوب گیا ہے اپنا

پیار کی جوت جگائیں تو کوئی بات بنے

شگفتہ کی موضوعاتی نظمیں زورآور ہیں۔ اس ضمن میں برسات، ساون، جو تم کو دیکھوں تو عید ہو جائے، ساون کی شام، عید کارڈ، عید کا چاند، آنکھ میں ساون اور سہاگن قابلِ ذکر ہیں۔ بھوجا ایِر لائن ایِر کریش بہت اثر انگیز ہے۔ آپ کی نظم ’’عزم‘‘ جذبۂ حب الوطنی کی بہترین مثال ہے۔ شگفتہ کی نظمیں مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں غم دوراں و غمِ جاناں دونوں کے اظہار میں ندرت ہے۔ غیر ضروری طوالت سے گریز کیا ہے۔

با اعتبارِ مجموعی شگفتہ شفیق کی شاعری اُن کی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور محسوسات کا نچوڑ ہے۔ زندگی کے رنگ خواہ طربیہ ہوں یا المیہ آپ نے بڑے سلیقے سے انہیں اپنی شاعری میں سمودیا اور اس میں بڑا کمال شگفتہ کی تازہ کاری کا بھی ہے۔ ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ جذبوں کی شدت کے بیان میں کہیں بھی عامیانہ پن یا سطحیت نظر نہیں آئی۔ وضع داری شگفتہ کے کلام کا وصف ہی نہیں شناخت بھی ہے ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ ایک ایسی با وقار شاعرہ کی تخلیقی کاوش ہے جو اپنی عزتِ نفس کے ساتھ ساتھ لفظوں کی حرمت کا بھی پاس رکھتی ہے۔

مجموعی طور پر ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ کا ہر مصرعہ حسرت موہانی کے اس خیال کی شہادت دیتا نظر آتا ہے کہ

شعر در اصل ہیں وہی حسرت سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں

اور شگفتہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ زبان و بیان کی سادگی کے سبب قارئین کے دل میں اتر گئے۔

٭٭٭

 

 

 

نعتِ شر یفﷺ ۔۔۔ شگفتہ شفیق

 

طیبہ کا ہر اِک گو شہ ہر روپ یگانہ ہے

انوار کی با رش ہے منظر بھی سہا نہ ہے

یوں خاکِ مدینہ کو  ہاتھوں میں سنبھا لا ہے

مٹھی میں مری جیسے دنیا کا خزانہ ہے

کہتا ہے یہ رو رو کے واپس نہیں جا نا ہے

سمجھاوٗں اُسے کیسے دل میرا دوا نہ ہے

کچھ اور نہیں دل میں بس اُن کی ہی اُلفت ہے

تحفے سے درودوں کے آ قاﷺ کو منا نا ہے

صادق وا میں اُن کو سب ہی نے پکارا ہے

آ قاﷺ کی بڑا ئی کو سب دنیا نے ما نا ہے

سر کارﷺ کی خاطر تو جاں ہنس کے میں واروں گی

آ قاﷺ سے شگفتہ کا یہ عشق پرا نا ہے

٭٭٭

 

 

شگفتہ شفیق

 

غزلیں

 

آپ خود کو مٹا لیا میں نے

سب فسا نہ چھپا لیا میں نے

 

ا شک پی پی کے مسکرا نے لگی

داغ دل میں چھپا لیا میں نے

 

مسکرا ہٹ میں میری جا دو ہے

سب کو اپنا بنا لیا میں نے

 

جس کا کو ئی کہیں علاج نہیں

روگ ا یسا لگا لیا میں نے

 

خود مجھے بھی سمجھ نہیں آ تا

کیسے دل کو لگا لیا میں نے

 

جھو ٹی باتوں سے ہو گئی عاجز

دامن اپنا چھڑا لیا میں نے

 

 

روح کو اپنی مار بیٹھی ہوں

اپنا گلشن بچا لیا میں نے

 

اب شگفتہ نہیں ملے گی اُسے

خود پہ پہرہ بٹھا لیا میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

بھیگی آنکھوں کا غم نہیں کر تے

بس یہ ہی کام ہم نہیں کر تے

 

جور سب کے اُٹھا کے جیتے ہیں

ہم کسی پر ستم نہیں کر تے

 

تم بھی خوش باش ہم کو دِ کھتے ہو

ہم بھی تکیے کو نم نہیں کر تے

 

خود کو سمجھا لیا ہے اب ہم نے

بے و فا ئی کا غم نہیں کر تے

 

اُس ستم گر کو اِس پہ حیرت ہے

کیوں کو ئی شکوہ ہم نہیں کر تے

 

ہم تیرے ر عب میں نہ آئیں گے

کہہ د یا بس کہ ہم نہیں کر تے

 

د ستِ شفقت سبھی پہر کھتے ہیں

صرف ہم پر کرم نہیں کر تے

 

ہم نے اپنے بڑوں سے سیکھا ہے

سر کسی کا قلم نہیں کر تے

 

اُس نے ہنس کر کہا شگفتہ سے

کھُل کے یہ بات ہم نہیں کر تے

٭٭٭

 

 

 

 

دل نے جب سے یہ چوٹ کھا ئی ہے

زندگی خاک میں نہا ئی ہے

 

جب بھی اپنی اُسے سنا ئی ہے

اُس نے تو بس ہنسی اُڑا ئی ہے

 

من میں خوشیوں کے پھول کھل اُٹھے

رُت ملن کی بہار لا ئی ہے

 

میں جسے چاہ کے مٹا نہ سکوں

دل میں خواہش عجب سما ئی ہے

 

بھیگی رہتی ہیں اب میری آنکھیں

درد کی اِن دنو ں رسا ئی ہے

 

ا یسے ملنا بھی کو ئی ملنا ہے

جس کا ا نجام ہی جدا ئی ہے

 

وہ جو ملتی ہے مسکرا کے بہت

سب سے کر تی و ہی برا ئی ہے

 

جان دے کر بھی کچھ نہیں حا صل

اُس نے کرنی ہی بے و فا ئی ہے

 

نہیں سا تھی کو ئی شگفتہ کا

اِک فقط تجھ سے آشنائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کڑی ہی دھوپ تھی سا یہ نظر نہیں آ یا

ہماری راہ میں کو ئی شجر نہیں آ یا

 

ہمیں تو فیض کسی گام پر کبھی نہ ملا

لگائے پیڑ تو اُن پر ثمر نہیں آ یا

 

خدا سے اپنے لیئے جس کو ہم نے مانگا تھا

اُسی کو ہم سے و فا کا ہنر نہیں آ یا

 

وہ ایک شخص کہ جس کو بھُلا سکے نہ کبھی

وہ میرے دل کا مکیں لوٹ کر نہیں آ یا

 

اُسی نے میرے یقیں کود یا بڑا د ہو کہ

جو خود کو کہتا رہا ہم سفر نہیں آ یا

 

ذرا سی بھول کی کیسی سزا ملی ہے مجھے

بہت تلا شا مگر اپنا گھر نہیں آ یا

 

ز ما نہ سا را شگفتہ کو پو چھنے آ یا

بس ایک وہ ہی رہا بے خبر نہیں آ یا

٭٭٭

 

 

 

 

غضب کا آج یہ مطلع ہوا ہے

تمہارے عشق کا چر چا ہوا ہے

 

اُسے پھر کام ہم سے آ پڑا ہے

وہ میٹھے لہجے میں گو یا ہوا ہے

 

نظر انداز کرتا ہے بہت تو

تجھے محفل میں بھی دیکھا ہوا ہے

 

میرے  اپنوں نے مجھ کو مار ڈالا

سبھی کو میں نے بھی پر کھا ہوا ہے

 

وہ ہم کو چھوڑ کے اب جا چکا ہے

میرا دل اِس لئے اُجڑا ہوا ہے

 

تمہارا تو نہیں بگڑا ہے کچھ بھی

سبھی نقصان تو اپنا ہوا ہے

 

بہت مشکل ہے میرا اب سنبھلنا

بہت کچھ جسم میں ٹوٹا ہوا ہے

 

تم اپنی جیت پر خاموش کیوں ہو

شگفتہ چہرہ کیوں اُترا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

خود بھی رویا تھا بہت مجھ کو رُلانے والا

مل گیا خاک میں خود خاک اُڑانے والا

 

وہ ندامت سے نگاہوں کو جھکائے آیا

میٹھی باتوں سے میرے دل کو لبھانے والا

 

میں اُسی حال میں اب تک، و ہی افکار میرے

کیوں ملا پھر سے وہ دامن کو چھڑانے والا

 

دل پہ جب درد کی کالی سی گھٹا چھائے گی

ہنس نہیں پائے گا وہ دل کو دُکھانے والا

 

لوگ اکثر اُسے یوں یاد کیا کرتے ہیں

وہ تو کم ظرف ہے احسان جتانے والا

 

اُس کی میں۔ سے تو اُلجھتا ہے زمانہ بے حد

اُس کا انداز ہے دنیا کو چِڑانے والا

 

دور رہ کے یہ شگفتہ نے ہے اکثر سوچا

کیا کبھی رو تا ہے وہ ہنسنے ہنسانے والا

٭٭٭

 

 

 

 

پیار دل میں میرے ر ہا ہی نہیں

تجھ سے ملنے کا حوصلہ ہی نہیں

ڈھونڈتا ہے وہ جس ڈگر پہ مجھے

وہ مرے گھر کا راستہ ہی نہیں

 

جس کو اک بار ہم نے چھوڑ دیا

اُس سے پھر رکھا رابطہ ہی نہیں

 

دل لگاتا پھرے کسی سے بھی

اب ہمیں اُس سے واسطہ ہی نہیں

 

اس نے پھیری ہیں اس طرح نظریں

جیسے وہ مجھ کو جانتا ہی نہیں

 

کو ئی مظلوم مر بھی جائے اگر

کو ئی بھی اُس کو دیکھتا ہی نہیں

 

ذ ہن نے تو بھُلا دیئے وعدے

دل شگفتہ کا مانتا ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کو ئی بھی و عدہ کبھی اُس کا و فا ہوتا نہیں

ہم سے پھر بھی سجدہ چاہت قضا ہوتا نہیں

 

زندگی اپنی گذاری ہم نے اِس اُمید پر

تجھ سے مل پائیں کبھی، پر معجزہ ہوتا نہیں

 

مجھ پہ ہے اللہ کی نظر عنایت اِس قدر

مشکلیں پڑ تی ہیں لیکن کچھ بُرا ہوتا نہیں

 

ڈھونڈتی رہتی ہیں اُس کو ہی نگاہیں چار سو

را ستے میں بھی کبھی اب سا منا ہوتا نہیں

 

جب سے وہ بچھڑا ہے میری زندگی تاریک ہے

اب تو مجھ سے میرا  اپنا رابطہ ہوتا نہیں

 

بس گیا ہے دل میں میرے اِس طرح اُن کا خیال

سب جتن کرنے پہ بھی مجھ سے جدا ہوتا نہیں

 

ا جنبی اُس کی نگاہیں اور لہجہ سرد ہے

کیسے اب اُس کو پکار یں حوصلہ ہوتا نہیں

 

کس طرح سے میٹھے لہجے دھوکہ دیتے ہیں یہاں

ٹھو کریں کھانے سے پہلے تجربہ ہوتا نہیں

 

جو زمانے بھر کے اہلِ فن کی کھل کر داد دے

وہ کسی بھی ایک کا تو آشنا ہوتا نہیں

 

سب کی باتوں میں وہ آیا اور نہ آئے گا کبھی

کچھ بھی ہو جائے شگفتہ سے خفا ہوتا نہیں

٭٭٭

ماخذ: ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد شمارہ ۲۶

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل