FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

شاد عارفی حیات و جہات

 

جلد چہارم

 

                مرتبہ: فیروز مظفر

 

 

نوٹ

 

اس کتاب میں سے تین طویل مضامین کو علیحدہ ای بکس کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے

۱۔ ایک اور گنجا فرشتہ ۔۔۔  اکبر علی خاں عرشی زادہ

۲۔ شاد عارفی: ایک تعارف ۔۔  سلطان اشرف

۳۔ شاد عارفی: فن اور شخصیت ۔۔ عروج زیدی

 

 

 

 

 

 

                حنیف فوقؔ

 

اردو غزل کا نیا زاویہ

 

شادؔ عارفی کا شمار غزل کے استادوں میں ہے لیکن جدید تر غزل کی خوبیوں اور خرابیوں کے ذمہ دار وہ بھی ہیں۔ ان سے جدید تر غزل گویوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ البتہ ان کے فن کے سماجی مقاصد کو فراموش کر دیا ہے۔ شادؔ عارفی نے غزل کو اپنے لہجے کا تیکھا پن، اپنے مزاج کی شوریدہ سری اور اپنے دور کے بخشے ہوئے ذائقے کی تلخی دے کر اسے روایتی غزل سے الگ روپ عطا کیا ہے۔ یہ بات نہیں کہ شادؔ نے روایات کے تمام تر سرمائے سے قطعِ نظر کر لی ہو لیکن اس سرمائے کو انھوں نے نئے انداز سے صرف کیا ہے۔ فراقؔ  کے بعد جدید غزل پر ان کے اثرات کافی نمایاں ہیں اگرچہ ان کی درشت حقیقت نگاری ان کے ساتھ مخصوص ہے لیکن غزل میں طنز اور تمسخر کی آمیزش کے جس رجحان کو انھوں نے فروغ دیا ہے، اس کے اثرات جدید غزل گویوں کے یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ ان کا انداز طنز و تمسخر جس کی کچھ جھلک انشاءؔ و نظیرؔ کے کلام میں مل جاتی ہے، محض ذاتی سطح پر نہیں بلکہ بڑی حد تک سماجی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ انشاؔ یا نظیر کی سطح کے شاعر ہیں۔ انشاءؔ  کی غیر معمولی ذہانت اور نظیرؔ کی قد آور انسانیت انھیں میسر نہیں لیکن طنز و تمسخر کے ذریعے وہ سماجی خرابیوں کو آئینہ دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی غزل ہوش کو ذہنی ٹھوکریں لگاتی ہے۔ شادؔ کے لہجے کا کٹیلا پن جہاں ان کی بیزار انانیت اور پُر شور جذباتیت کا پروردہ ہے وہاں اس میں جگہ جگہ اپنے ماحول کے ناقدانہ مطالعہ کے اثرات نمایاں ہیں۔ شاد نے خوب و نا خوب کا جائزہ لیتے ہوئے شوخی اور ظرافت اور طنز و استہزا کے پھول کھلائے ہیں۔ شادؔ عارفی میں بڑی جرات اور بے باکی ہے اگرچہ وہ منظم فکر کے شاعر نہیں ہیں لیکن شاعری کا فکری میلان سماجی تضادات کو پیش کرنے کی حد تک ان کی غزل میں ضرور رنگ دکھلاتا ہے۔ وہ غزل کو نئی سمت دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اسے اس دورِ اضطراب و انتشار میں شادؔ عارفی نے عمرانی حقائق اور تمدنی ہیجانات کو پرکھنے کا وسیلہ بنایا ہے۔ وہ موضوعات و الفاظ دونوں کے انتخاب میں تازگی پسند ہیں انھوں نے روایات غزل کے جامد اور سنگلاخ حصے پر ضرب لگاتے ہوئے تجدید غزل کا سامان کیا ہے۔ شادؔ عارفی کے اثرات صرف مظفر حنفی کے یہاں ہی نہیں ( کہ وہ شادؔ کے شاگرد ہیں ) بلکہ سلیم احمد اور مظفر علی سید کی غزلوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں اگر چہ مظفر حنفی نے شاد کے سماجی طنز کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ صفائی سے پیش کیا ہے لیکن شادؔ کے اشعار میں جو نکیلی معنی خیزی اور دھار جیسی کیفیت ہے وہ ان میں سے کسی کے یہاں نہیں ملتی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

دنیا تھک کر بیٹھ رہے گی

جھوٹی کہیے اکثر کہیے

ہزاروں سال تو رہتا نہیں عبوری دور

فساد خوب اگاؤ کہ روشنی کم ہے

ہم ان کے وعدوں پہ ٹوپیاں کیوں اچھال دیں جو پئے سیاست

ہوا کے جھونکے، قدم کی آہٹ پہ رُخ بدلتے ہیں گفتگو کا

جو ہاتھ کھینچ لوں کہیں گے مئے کا اہل ہی نہ تھا

جو لے کے جام توڑ دوں کہیں گے بے شعور ہے

صحرا کو گلستاں کہتا ہوں بجلی کو تجلی کہتا ہوں

سو معنی پیدا ہوتے ہیں اتنی بے معنی کہتا ہوں

گردشِ چرخ ہے اک چال زمینداروں کی

ناقدِ چرخِ کہن ہوں یہ خطا کافی ہے

تلخیِ گفتار کی تائید میں خطرہ ہے شادؔ

لکھ رہا ہے مجھ پہ ہر نقادِ فن ڈرتا ہوا

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا

(فنون، لاہور۔ جدید غزل نمبر)

٭٭٭

 

 

 

                محمد مسلم( مدیر دعوت دہلی)

 

 

 

’’سفینہ چاہیے ‘‘ کا شاعر

 

شادؔ عارفی کی شاعرانہ عظمت محتاج تعارف نہیں ہے، ان کی غزلیں، نظمیں اور قطعات وغیرہ ملک کے موقر جرائد میں برابر شائع ہوتے رہے اور ان کے کلام کے متعدد مجموعے بھی چھپ کر منظر عام پر آ چکے ہیں جن سے ان کے احساسات کی انفرادیت، جذبات کی شدّت اور اندازِ بیان کی ندرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے لیکن زیر تبصرہ مجموعہ ’’ سفینہ چاہیے ‘‘ شادؔ صاحب کے تاثرات کے ایک خاص پہلو کو اجاگر کر رہا ہے۔ اس مجموعے میں شامل نظموں، غزلوں اور قطعات وغیرہ میں شادؔ صاحب نے اپنے تلخ تاثرات بیان کیے ہیں، زندگی کی تلخیوں کو نمایاں کیا ہے۔ نا پسندیدہ کرداروں کو بے نقاب کیا ہے اور ناگوار طرز عمل پر طنز کیا ہے۔ اگر ان کے دیگر  مجموعوں کی منظومات نے ذہن کے لیے سکون و نشاط کا سرمایہ مہیا کیا ہے تو اس مجموعہ میں وہ نشتر شامل کیے گئے ہیں جو سماج کے رِستے ہوئے ناسوروں اور مندمل ہوتے ہوئے زخموں کو چھیڑ کر فاسد مادہ خارج کر دینے میں مصروف عمل ہیں۔

اس مجموعہ کی پہلی ہی نظم آپ کی تعریف میں سوسائٹی کے بہت سے نا پسندیدہ عناصر کے مذموم کردار پر گہرا طنز کرتے ہوئے اصلاح کی کوشش کی گئی ہے۔ شادؔ صاحب نے طنزیہ کردار نگاری کی حامل اس غزل کی ابتدا ان تمہیدی اشعار سے کی ہے :

بننے کو تو ان کی محفل میں سب گونگے بہرے بن بیٹھے

ماتھے پر شکنیں پڑتی ہیں جب سچّی سچّی کہتا ہوں

اے شاد میں اکثر شعروں میں، اے شاد میں اکثر نظموں میں

دنیا پر صادق آتی ہے جب اپنے جی کی کہتا ہوں

نظم ’ آپ کی تعریف‘ میں زندگی کے جو متعدد طنزیہ خاکے پیش کیے گئے ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں :

یہ  مدرس  ہیں  کسی  اسکول  میں

پانچ بچے ایک بیوی ایک ماں

بیس ماہانہ بہت کم ہیں کہاں ؟

ان کے جوتے بخیہ گر سیتے نہیں

سول بھی غائب اگر فیتے نہیں

ٹیوشن چاہیں تو کر سکتے نہیں

سر کھپا کر پیٹ بھر سکتے نہیں

لوٹ کر آئے ہوں جیسے دھول میں

یہ مدرس ہیں کسی اسکول میں

………

اساتذہ کی زندگی کا کتنا صحیح نقشہ ہے۔ مغرب پرست نئی تعلیم کے راہ رو تعلیم یافتہ نوجوان کا خاکہ ملاحظہ ہو:

ہیں تو بی اے نام ایم اے خان ہے

یہ شکایت ہے خدا سے آپ کو

کیوں نہ مغرب میں اتارا باپ کو

عقد کالی ماں سے فرماتے نہ یہ

اور مشرق میں جنم پاتے نہ یہ

ناچتے جا جا کے رائل ہال میں

پھانستے شہزادیوں کو جال میں

ان کی رنگت پر توا حیران ہے

ہیں تو بی اے نام ایم اے خان ہے

………

اس مجموعے میں شادؔ عارفی کی جو نظمیں شامل ہیں ان میں روز مرہ کی زندگی کی مشکلات اور بد عنوانیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے ’’ دیہاتی لاری‘‘ کا پہلا بند مثال کے طور پر پیش ہے :

سولھا بیٹھنے کا حق حاصل تیس مسافر یہ کیا سوانگ

بابو اس قانون کی ہم نے رشوت دے کر توڑی ٹانگ

چھت پر ایسے اتنے بوجھل انمل بے جوڑ اوٹ پٹانگ

بستر نقلی گھی کے پیپے، شکر ’تماکو‘ بسکٹ بھانگ

جی ہاں جتنے آنے والے آتے جائیں اتنی مانگ

ان کے علاوہ ’’ گنگا اشنان‘‘ ایک خوبصورت عشقیہ نظم ہے، ’ ہولی‘ اصلاحی کاوش ہے۔ شادؔ صاحب نے اپنے انداز بیان کی ’ دُکھتی رگوں ‘‘ میں خود توجیہ کی ہے۔

عریاں غزلیں چھوڑ چکا ہوں

فن کی دھارا موڑ چکا ہوں

پی کر جینا چھوڑ چکا ہوں

جام و مینا توڑ چکا ہوں

رہبر وہبر منزل ونزل

سب کا پیچھا چھوڑ چکا ہوں

لیکن رہبر وہبر، منزل ونزل میں وہبر اور ونزل کے استعمال سے ندرت پیدا کرنے کی کوشش گھٹیا قسم کی ظرافت کا انداز رکھتی ہے۔

طنز نگاری کے رجحان کے متعلق اپنی روش میں تبدیلی کو ایک مجبوری قرار دیا ہے جس کی ذمہ داری بد عنوانوں اور بد کرداروں پر عائد کی ہے۔ ایک غزل کا مطلع ہے :

بے کسوں پر ظلم ڈھا کر ناز فرمایا گیا!

طنز کی جانب میں خود آیا نہیں لایا گیا!

بہر صورت اس مجموعہ کی شاعری شعر برائے زندگی کی تعریف پر پوری اُترتی ہے اور مجموعہ نہ صرف قابل دید بلکہ قابل  توجہ بھی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

                 محمد حسن

 

 

 

شادؔ عارفی

 

شادؔ عارفی کا ایک خاص طرز ہے۔ وہ اپنی عمر کے لحاظ سے قدیم اور فن کے لحاظ سے جدید شاعروں میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے غزلیں کہیں لیکن ان کی غزل مخصوص مبہم اور علامتی نہیں ہے اس میں ارد گرد ذکی زندگی کے واقعاتی اشارے ملتے ہیں جو عام طور پر غزل اور نظم دونوں میں مستعمل نہیں ہیں، شادؔ عارفی کے لیے شاعری خواہ غزل ہو یا نظم، تجربات کی تجرید ہی کا نام نہیں ہے بلکہ خود واقعات کے بیان کی بھی ا س میں گنجائش ہے۔ اس دور میں شادؔ عارفی نے مختلف نظمیں لکھیں جن میں طنز و مزاح، واقعاتی رنگ اور افسانوی کیفیت کا امتزاج ملتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ناصر کاظمی

 

شادؔ عارفی: فن

 

پچھلے دنوں کسی صاحب نے شادؔ عارفی کو مشورہ دیا تھا کہ ’’ وہ فلموں کے مکالمے لکھا کریں۔ مکالمے کا غزل میں کیا مقام!‘‘ اور دلیل یہ پیش کی تھی کہ ’’ ان کے شعروں کے ارد گرد جلے کٹے مکالموں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔ ‘‘ فاضل معترض نے اپنی دانست میں شاد صاحب پر پھبتی کسنے کی کوشش کی تھی مگر نا دانستہ طور پر وہ اُن کی تعریف کر گئے۔ در اصل فلمی ادب لکھنے کے لیے مختلف قسم کی صلاحیتیں درکار ہیں محض ایک سطح یا ایک مزاج کا لکھنے والا فلم میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ فلم ایک عوامی فن ہے اور عوام سے مقبولیت کی سند وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو عوام کے مزاج کو پوری طرح سمجھتا ہو یا ’’ بقول نقاد ے ‘‘ اجتماعی شعور رکھتا ہو۔

بہر حال اس تمہید باندھنے سے مقصد صرف یہ تھا کہ شادؔ عارفی کے کلام میں زبان و بیان کی خوبیوں کے باوجود کہیں کہیں ایک خاص قسم کی ’’ عمومیت‘‘ اور ’’ پھکّڑ پن‘‘ بھی ہوتا ہے جو تغزل چشیدہ بزرگوں کے مزاج پر گراں گزرتا ہے۔ شادؔ صاحب بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔ افغانستان کی مٹی، رامپور کی ہوا اور پنجاب کا پانی، ان تین عناصر کو ملا کر انھوں نے اپنے فن کی عمارت کھڑی کی ہے۔

شادؔ کے یہاں ماحول سے نفرت یا بیزاری تو دال میں نمک کے برابر ہے البتہ اُن کا کلام پڑھ کر کہیں کہیں ماحول سے جھلاہٹ کا احساس ضرور پیدا ہوتا ہے۔ شاد صاحب نے اُردو شاعری کی روایت میں یوں تو تمام اساتذہ کا کلام مزے لے لے کر چکھا ہے مگر جن اساتذہ کے کلام اور اسلوب کو انھوں نے مشعلِ راہ بنایا ہے ان میں سوداؔ، نظیرؔ اکبر آبادی، ذوقؔ اور کسی قدر اکبرؔ الٰہ آبادی  کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان کے کلام میں سوداؔ، نظیرؔ اور اکبرؔ کا بے تکلف اسلوب، گہرائی اور وسعت تو نہیں مگر وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ ان کے کلام کی عمومیت، طنز، تلخی اور کاٹ سے وہی لوگ پوری طرح لطف اٹھا سکتے ہیں جو شاعری میں منطقی صغریٰ و کبریٰ، سیدھی سادی معاملہ بندی اور سپاٹ استری شدہ زبان پر جان نہیں چھڑکتے بلکہ جنھوں نے اجتماعی زندگی کے نِت نئے ذائقوں کا مزا بھی چکھا ہے۔

زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے کسی نظریے کی عینک نہیں، بلکہ دیکھنے والی آنکھیں چاہئیں اور نِت نئی منزلوں کا سفر۔

شادؔ عارفی تقریباً ۴۰۔ ۴۵ سال سے مشق سخن فرماتے رہے ہیں اور انھوں نے نظم کے ساتھ ساتھ غزل بھی کہی ہے اور بڑے طمطراق اور سینہ زوری کے ساتھ۔ ایک طرف تو حسرت، فانیؔ، اصغرؔ، یگانہؔ، جوشؔ، جگرؔ، اثرؔ اور فراقؔ کے ہم عصر ہیں اور دوسری طرف انھوں نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بھی بڑی ہنگامہ پرور نظمیں لکھیں۔ مگر ہر زمانے میں اُن کی آواز کو بُتوں کی ایک چُپ کا سامنا کرنا پڑا۔ در اصل اس شاعر نے جو اسلوب اظہار اختیار کیا ہے وہ تار پر چلنے کے مصداق ہے۔ تار پر چلنے کے لیے برسوں کا ریاض اور ایک خاص قسم کی عوامی حِس اور حوصلہ چاہیے۔ نظموں میں تووہ بڑی خوبی اور چالاکی سے تار پر چل کر دکھاتے ہیں مگر غزلوں میں انھوں نے اپنے اسلوب کے تار کے نیچے روایت کا جال پھیلا رکھا ہے۔ غزل کہتے کہتے جب ان کا پاؤں اسلوب کے تار سے پھسلتا ہے تووہ سیدھے جال میں گر کر جان بچا لیتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ ایک ایسا دور تھا جب ان کے مقابلے میں بڑے بڑے رؤسا قسم کے اساتذہ کرسیِ غزل پر جلوہ افروز تھے اور پھر داغؔ اسکول کے زوال پسند تُک بندوں نے وہ شور و غل مچا رکھا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ایسے عالم میں کوئی سخن سنج دو ہی اسلوب اختیار کر سکتا ہے ایک تو فراقؔ صاحب والا دھیما اور گہرا لہجہ یا نظیرؔ و سوداؔکا پھکڑ پن جس میں بیان و کلام کی شیرینی کے ساتھ لہجے کی ذرا سی تلخی بھی شامل ہے۔ مگر ان اساتذہ کی تلخی ہر کسی کو راس نہیں آتی۔ جب اہلِ فن ’’ذہنی چمن‘‘ میں شرابیں پی پی کر مزے اڑاتے ہوں، چاروں طرف لوٹ کا ہنگامہ برپا ہو، بآواز دہل انصاف بکتا ہو، اور جہاں جہد البقا  کو جہاد سمجھا جاتا ہو وہاں خالی تغزل کام نہیں دیتا۔ اس لیے شادؔ عارفی نے طنز اور پھکّڑ پن کو اپنا فن قرار دیا۔ ان کے ہاں فحش تخیل بھی مل جاتا ہے مگر اس میں لذّت کا جزو الگ کر کے صرف تعمیری طنز اور فحش معاملات پر ادبی پردہ ڈال کر بات کہنا اُن کا خاص انداز ہے۔

ایک مرتبہ تاجورؔ مرحوم نے شادؔ صاحب کے بارے میں کہا تھا کہ وہ گالی اس خوبصورتی سے بکتے ہیں کہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ بہر حال تاجورؔ مرحوم نے تو اہلِ زبان کی حیثیت میں کہا تھا۔ مجھے تو شادؔ عارفی کی گالیاں بھی اُن کی شاعری سے زیادہ عزیز ہیں کہ یہ گالیاں ہمارے بدلتے ہوئے معاشرے کی دردناک کتھا سُناتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                رئیس امروہوی

 

شادؔ کم عارفی زیادہ

 

شاد عارفی جس ماحول میں پلے بڑھے ہم سب اس کے موثرات اور ہیجان سے کم و بیش واقف ہیں۔ جذبات کا جو موادِ خام ان کے حصے میں آیا وہ بھی ہمارے لیے اجنبی نہیں۔ غزل کا سانچہ بھی صدیوں سے بنا بنا یا ہے اور ردیف و قافیہ کے تلازمات و متعلقات بھی استاد مقرر کر گئے ہیں۔ پھر بھی شادؔ عارفی کی غزل، سو غزلوں کے غول میں آسانی کے ساتھ پہچان  لی جاتی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے تغزل کے موم سے جو شکلیں تراشی ہیں، ان کی حیثیت تقلیدی نہیں اجتہادی ہے۔ شعور کی کوئی ایک تہہ اور نفس کی کوئی ایک سطح نہیں ہوتی۔ یہ ایک تہہ در تہہ چیز ہے۔ بعض لوگ شعور کی صرف بالا تر سطح پر ہی قانع رہتے ہیں اور عمر بھر اسی انداز کی غزل کہتے رہتے ہیں جس انداز کی تعلیم ان کے استاد نے دی تھی۔ البتہ با استعداد افراد تاثر پذیری کے دوران میں شعور کی مختلف تہوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کی فکر متعین شش جہات میں مقید نہیں ہوتی بلکہ ساتویں سمت اور ساتویں جہت کی تلاش میں پر کشا ہوتی ہے۔ یہی نا معلوم سمت میں پرواز کرنے والے ذہن، تخلیق کار ذہن کہلاتے ہیں۔ میرے سامنے شادؔ عارفی کا کلام موجود نہیں ورنہ مثال اور نمونے کے ذریعے اپنا مفہوم واضح کرتا۔ اب شادؔ مرحوم کے کلام کے متعلق صرف اپنا مجموعی تاثر پیش کر رہا ہوں۔ شاعر کے تخلص میں بسا اوقات اس کی وجدانی اور ذہنی شخصیت جھلکا کرتی ہے۔ شادؔ عارفی کے تخلص کا پہلا جزو ’’ شاد‘‘ صرف برائے بیت ہے۔ البتہ دوسرا جزو ’’ عارفی‘‘ ان کے ذہنی رویے اور کردار پر معنی خیز روشنی ڈالتا ہے۔ ہاں وہ عارف تھے، اسرارِ حیات کے ! شاد کم تھے عارفی زیادہ! وہ ایک شدید الاثر شاعر تھے۔ اسی براق اور برش دار تاثر پذیری نے ان کے کلام کو ایسا لہجہ عطا کیا ہے جو بار بار ہمیں چونکاتا ہے۔ ذہن کی سب سے زیادہ کارگر اور تابناک نوک وہ ہے جسے طنز کہتے ہیں۔ غالبؔ کے یہاں طنزیہ ذکاوت بے مثال پیمانے پر پائی جاتی ہے۔ تغزل میں طنزیہ لہجہ شادؔ عارفی کی ذکاوت کا ثبوت ہے ! بس مجھے یہی عرض کرنا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                عرشؔ ملسیانی

 

ایک صاحبِ طرز طنز نگار شاعر

 

 

افسوس کہ شادؔ عارفی کا انتقال ہو گیا، وہ ایک صاحب طرز طنز نگار تھے۔ انھوں نے سماج کی دکھتی رگوں پہ نشتر رکھنے میں بڑی جسارت کا ثبوت دیا تھا۔ تمام عمر افلاس ان کا دامن پکڑے رہا۔ زندگی بھر نا آسودگی پر اُن کا زہر قند قابلِ مطالعہ ہے۔ رام پور ان کا وطن تھا جہاں وہ پندرہ برس کی عمر میں لوہارو سے واپس آ کر رہنے لگے اور آخر میں وہیں آخری سانس لی۔

اپنی شاعری کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’میرا اپنا ایک مخصوص زاویۂ فکر ہے جو طنز و سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ نُدرت میرے نزدیک شعر کی جان ہے اُن کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’ سماج‘‘ ۱۹۴۶ میں رام پورسے چھپا۔ ۱۹۵۶ء میں انجمن ترقی اردو نے شعرا کے انتخابی سلسلے میں ان کا کلام چھاپا اس کے بعد جشنِ شادؔ عارفی کے موقع پر صولت لائبریری رام پور نے اُن کا انتخاب کتابی صورت میں پیش کیا۔ ان کے متعلقین یا معتقدین میں کوئی صاحب اگر ان کا مکمل مجموعہ کلام شائع کر دیں تو اردو ادب کی بڑی خدمت ہو گی۔ مرحوم نے ’’ آج کل‘‘ کے لیے ایک غزل بھیجی تھی اس غزل کے سلسلے میں ایک خط انھوں نے لکھا تھا جو ذیل میں درج ہے :

رامپور

۱۳؍ اکتوبر ۱۹۶۳ء (اتوار)

مکرمی۔ تسلیمات

مفصل لفافہ مع غزل روانہ کر چکا ہوں ملا ہو گا۔ غزل جیسا کہ میں نے لکھا تھا صرف نظرِ ثانی ( وہ بھی یونہی سی) کے بعد بہت مشکوک و مہلوک حالت میں روانہ کر دی تھی۔ کسی پرانے شاعر نے کہا تھا:

تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو

رونا ہے کوئی ہنسی نہیں ہے

یاد آ گیا شوقؔ قدوائی نے میری ابتدائی شعر و سخن شناسی کے دور میں ایک مشاعرہ میں ایک غزل کے اندر یہ شعر پڑھ کر بڑی داد حاصل کی تھی، صرف میں خاموش رہا، لوگوں نے پوچھا ( اس پوچھنے میں بزرگانہ جھڑکیاں بھی شامل تھیں ) کہ ’’ اب تم اتنے گستاخ ہو گئے ہو کہ اساتذہ کے شعر پر دوسروں کے ساتھ مل کر نہیں بجتے ؟‘‘میں نے کہا’’ پہلے بات سمجھ لو۔ آنسو ہی نہیں بلکہ ہنسی بھی رُکتے رُکتے رکتی ہے Dead stopآنسوؤں میں ممکن ہے نہ ہنسی میں۔ ریل تو دو میل پہلے سے رُک کر اسٹیشن پر ٹھہرتی ہے۔ یہ تو جذباتی کیفیات ہیں۔ ‘‘ ہاں تو وہ نا صاف شدہ غزل بھیجنے کے بعد طبیعت میں جولانی باقی رہی اور فکر نے تین چار شعر اور اگل کر دیے (مگر آپ اُگلنے سے مراد بُرے شعر نہ لیں ) کیونکہ ’’من‘‘ بھی اُگلا جاتا ہے جو روشن اور قیمتی ہوتا ہے تو محترم یہ چار شعر اس غزل میں شامل کر لیجیے۔ عنایت ہو گی۔ نظم ’جہیز کی قیمت‘ وصول ہو گئی۔ شکریہ مزید۔

نیاز مند: شادؔ عارفی

ان کے چند طنزیہ اشعار ملاحظہ فرمائیے :

جناب شیخ سیاست کے پھیر میں پڑ کر

بُتانِ دیر کو پروردگار کہتے ہیں

………

چاپ سُن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

………

یاد ہیں جس شخص کو صحرا نوردی کے مزے

دوسروں کے پاؤں میں کانٹے چبھونے سے رہا

شادؔ عارفی بڑے طباع طنز نگار اور صاحبِ فن شاعر تھے۔ اُن کی طنز نگاری میں سب سے قابلِ داد عنصر ان کی بے باکی ہے۔ ان کی نظموں کے عنوان ’’ رت جگا‘‘، ’’ دیہاتی لاری‘‘، ’’ہلالِ عید‘‘، ’’ گنگا اشنان‘‘ وغیرہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ زندگی کے روز مرہ کے واقعات کو سامنے رکھ کر طنز کا پہلو نکال لیتے ہیں اور بے باکی سے اُسے شعر کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ شادؔ عارفی زندگی بھر عسرت کا شکار رہے لیکن ان کی فکر کا انداز کبھی افلاس ذہن کا شکار نہیں ہوا اور ان کے نشتر کی تیزی میں کبھی کمی نہ آئی، ان کی شاعری کیا تھی خود ان کی زبان سے سنیے :

سُننے کو تو ان کی محفل میں سب گونگے بہرے بیٹھے ہیں

ماتھوں پر شکنیں پڑتی ہیں جب سچی سچی کہتا ہوں

اے شادؔ میں اکثر شعروں میں اے شاد میں اکثر نظموں میں

دنیا پر صادق آتی ہے، جب اپنے جی کی کہتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

                بلراج کومل

 

شادؔ عارفی: نظموں کی روشنی میں

 

شادؔ عارفی کی شاعری کا ایک اہم حصہ ہماری نظر سے اوجھل ہو گیا ہے۔ اس حصے میں جو کلام شامل ہے وہ حقیقی شادؔ عارفی کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ شادؔ عارفی موسموں سے لذّت یاب ہو سکتا ہے، دوستوں کی محبت کو پسند کرتا ہے، درد مند دل رکھتا ہے، عورت کو بیسوا یا رنڈی نہیں سمجھتا، غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو بُرا نہیں سمجھتا اور بہ قدر توفیق ان سے لطف اندوز ہوتا ہے یا ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ایک Genuineانسان کا کردار ہے جو نہ تو کسی مصنوعی Obsessionکا شکار ہے اور نہ ہی کسیlegend کا۔ اس کردار کی پہچان، جذبے کی معصومیت اور لذت ہے، میں شاد عارفی کے اس کردار کو چند مثالوں سے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ شاد عارفی کی نظم، واپسی کا آخری بند دیکھیے :

والد کی جانب یہ اشارہ تاڑ نہ جائیں دور رہو

مجھ سے مخاطب چھوٹے بھائی کو یہ ایما، سنبھلو ٹھہرو

میری طرف نظریں لیکن نو کر کو حکم سہارا دو

ماما کی خدمت پہ کنایہ، خط لانے لے جانے کو

آ کے برابر کچھ یونہی سایہ فقرہ آج آنا تو

شادؔ بس اب خاموش کہ دُنیا نظر لگانے والی ہے

کس قدر معصوم اور دلفریب ہے یہ منظر!لیکن اگر مقبول عام، طنز نگار، شادؔ عارفی کی نظر سے اس منظر کو دیکھا جائے تو اس میں غیر ازدواجی تعلقات اور اخلاقی قوانین کی خلاف ورزی کے عناصر نظر آسکتے ہیں۔

پھڑپھڑاتی ہیں بطخیں تالاب میں

بہتے ہیں ساغر شراب ناب میں

رحمتیں ہیں عام سب کے باب میں

پھونس کے چھپر میں ہم ہیں اور آم

کر رہے ہیں تیز چاقو اپنے کام

ذائقہ کھینچے ہے تیغ بے نیام

(نوروز)

کس قدر روشن اور صحت مند ہے یہ منظر! یقیناً یہ کوئی دوسرا  عارفی ہے۔

شام کا گیسو کھلی آنکھوں پہ جادو کر گیا

آنکھ ملنا تھی کہ نظارہ پلٹ کر رہ گیا

طور کا جلوہ چراغوں میں سمٹ کر رہ گیا

مختلف آنچل ہوا کے رخ پہ بل کھانے لگے

روشنی میں ساریوں کے رنگ لہرانے لگے

یہ دوالی کے مناظر یہ نگاہیں کامیاب

یا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتاب

(دیوالی)

یہ شادؔ عارفی کسبِ نور، کسبِ مسرت کے معصوم فن سے واقف ایک اور مثال دیکھیے :

جھر بیریوں کی آڑ میں میلے کی حد سے دور

پہنچا ہوں اس امید میں آئے گے وہ ضرور

کھو جائے گی کہیں، مجھے پانے کے واسطے

یہ ناؤ رہ گئی جو کنارے پہ ٹوٹ کے

ریتی میں دب چکی ہے جو کوسی میں چھوٹ کے

کافی ہے ولولوں میں بہانے کے واسطے

(دسہرہ اشنان)

شکار ماہی، نظم، بسنت، یہ سب نظمیں ایک حقیقی شادؔ عارفی کی تصویریں ہیں جو کسی pretence کا شکار نہیں ہے۔ شادؔ کے کلام کا ایک اور قابلِ ذکر حصہ ابھی باقی ہے، اس کا ذکر نہ کرنا اس کے ساتھ بے انصافی ہو گی۔ شاد عارفی، طنز نگار شادؔ عارفی گوشت پوست کا انسان، شاد عارفی کی کچھ نظمیں ایسی ہیں جہاں شخصیت کا تضاد ختم ہو گیا ہے۔ ’’ اندھیر نگری ‘‘ اور  ابھی جبل پور جل رہا ہے ‘‘ حقیقی جذبے، ردِ عمل اور اظہار کی نمائندہ مثالیں ہیں۔ اندھیر نگری اقدار کی شکست اور ان کے کھوکھلے پن کی نظم ہے اور ’’ ابھی جبل پور جل رہا ہے ‘‘ ایک مجروح جذبے کی پر اسرار اور کربناک تصویر ہے۔ یہ غصے اور جھنجھلاہٹ کی نظم نہیں بلکہ دل کی آواز ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                عبد الودود

 

 

شادؔ عارفی:ایک تجزیہ

 

جنسی بے راہ روی، رؤسا و امرا کی عیش پسندی، بے عملی اور تساہل، شادؔ عارفی کی زیادہ تر نظموں کا موضوع ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد سے ہی تخلیق کا مواد حاصل کرتے ہیں۔ ان میں یقین ذاتی حملے بھی ہیں لیکن اُن کے فن کی یہ خوبی ہے کہ وہ ذاتیات پر حملہ کر کے بھی تخلیق کو ’’ہجو‘‘ بننے سے بچا لیتے ہیں۔ ’’ ان اونچے اونچے محلوں میں ‘‘ اور ’’ رنگیلے راجہ کی موت‘‘ میں رؤسا و امرا کی زندگی پر گہرا طنز ہے۔ خوشامد پسند اور بزدل لیکن زعم جواں مردی کا اظہار کرنے والے بے نقاب نظر آتے ہیں۔ جنسی بے راہ روی اور ہوسناکی، امرا و رؤسا کی زندگی کا لازمی جز رہی ہے۔ شادؔ عارفی اس پہلو کو نظر انداز نہ کر سکتے تھے خوش سلیقہ شادؔ ایسے مقامات پر علامتوں کے سہارے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ جن الفاظ پر زور دینا چاہتے ہیں یا علامت کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں انھیں واوین میں لکھ دیتے ہیں۔

شادؔ عارفی کے عہد کی شاعری اجتماعی مسائل کی شاعری ہے، وہ یہ مسائل نظر انداز نہ کر سکے۔ رنگیلے راجہ کی موت لکھتے وقت ان کے سامنے شاید صرف ریاستِ رامپور ہی رہی ہو لیکن ہندوستان کی دوسری ریاستوں کا ماحول بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ تحریکِ آزادی ایک طرف انگریزوں کے خلاف تھی تو دوسری طرف دیسی ریاستوں کے باشندے بھی آمریت کے خلاف صف بستہ ہو گئے۔ راجہ، مہاراجہ اور نواب بے بس ہو کر رہ گئے۔ ان میں اس بیداری کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ تھی۔ ’’ رنگیلا راجہ‘‘ شادؔ کی نظم میں ایک ہی ہے لیکن حقیقتاً وہ ایک نہیں ہے اس جیسے کتنے ہی ’’ رنگیلے ‘‘ سارے ملک میں تھے لیکن ان کی رنگین زندگی دم توڑ رہی تھی۔ رنگیلا راجہ بے بس ہے وہ بدلتے ہوئے حالات سے پریشان ہے۔ اس نظم میں ایک طرف محلوں کا ماحول ہے اور عیش و عشرت سے بھرپور معاشرہ کی تصویر پیش کی گئی ہے تو دوسری طرف پریشان حال راجہ کی جھنجھلاہٹ ہے۔ اسے اپنے کالے کار نامے یاد آتے ہیں :

یہ وہ کنواریاں جو اڑا دی گئی تھیں

اڑا دی، سلا دی، چھپا دی گئی تھیں

چھپا دی، مٹا دی، جلا دی گئی تھیں

جلا دی، دبا دی، بہا دی گئی تھیں

بھیانک ارادوں سے للکارتی ہیں

مرے حال پر قہقہے مارتی ہیں

ان کی مختصر نظمیں زیادہ کامیاب ہیں۔ شادؔ عارفی نے طویل نظمیں بھی لکھی ہیں لیکن وہ ان نظموں میں مختصر نظموں کا سا تاثر نہ پیدا کر سکے۔ طول طویل نظموں کے لیے جوشؔ بھی مشہور ہیں لیکن جوشؔ کو زبان و بیان پر جو قدرت حاصل ہے اس سے شاد عارفی محروم ہیں۔ رنگیلا راجہ جس طرح اپنی غلطیوں اور مظالم کا اعتراف کرتا ہے، وہ نا مناسب نظر آتا ہے اس سے نظم کا مجموعی تاثر بھی مجروح ہوتا ہے :

وہ سب ظلم کی ٹہنیاں پھل چکی ہیں

بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈھل چکی ہیں

رنگیلا راجہ خود مجاہدینِ آزادی کو وطن کے پجاری کہتا ہے یہ مجاہدینِ آزادی حقیقتاً اس کی حکومت کے دشمن ہیں۔ اپنے دشمنوں کو وطن کے پجاری کہنا کچھ مناسب نظر نہیں آتا۔ یہ طرز اظہار غیر فصیح ہے۔ شادؔ عارفی کی اکثر نظموں میں ایسی خامیاں نظر آتی ہیں۔

بڑھے آرہے ہیں وطن کے پجاری

نظر آ رہی ہے شرارت تمھاری

شادؔ عارفی آمرانہ، جاگیر دارانہ نظام کے ہی ناقد نہیں تھے۔ انھوں نے نہ صرف جنسی بے راہ روی پر اظہارِ خیال کرنا ہی کافی سمجھا، معاشرہ کے مختلف مسائل پر ان کی نظر تھی۔ آزادی کی تحریک صرف سیاسی آزادی کی تحریک نہ تھی بلکہ معاشی و اقتصادی آزادی کی تحریک بھی تھی۔ ان مسائل پر لکھی گئی زیادہ تر نظموں میں خطابت کا جوش اور انقلابی لب و لہجہ ہے۔ شادؔ عارفی نے پسماندہ طبقات کے افراد کے قصیدے نہیں لکھے بلکہ ان کی حقیقی تصویر بہت ہی مؤثر انداز میں پیش کی۔ نظم ’’ روٹی‘‘ عنوان سے زیادہ اہم نظر نہیں آتی۔ لیکن مزدوروں پر لکھی گئی نظموں کا جائزہ لیتے ہوئے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑی خوبصورت طنزیہ نظم ہے اس نظم کا ایک شعر ہے :

قدم قدم پر جبین بیچارگی سے ڈھلتا ہوا پسینہ

تہی و تشنہ مئے مسرت سے بزم ہستی کا آبگینہ

ایک دوسرا شعر ہے :

ضعیف مزدور ایک سرمایہ دار کے ساتھ جا رہا ہے

مآلِ سنت کے پالنے کے لیے اذیت اٹھا رہا ہے

یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ناقدین کو شادؔ عارفی کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہے لیکن ابھی تک ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ ابھی تک ان کا مکمل سرمایۂ شاعری شائع نہ ہو سکا۔ ادھر چند برسوں سے شادؔ عارفی کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب تک ان کی تمام نظمیں اور غزلیں شائع نہیں ہو جاتیں اس وقت تک منصفانہ تجزیہ ممکن نہ ہو گا۔ ان کے طنز کی حقیقت تک رسائی ممکن نہ ہو گی۔ بلراج کومل کو بحیثیت طنز نگار ان کا رول مشکوک نظر آئے گا اور ظرافت و طنز کو لازم و ملزوم قرار دینے والوں کے نزدیک شاد عارفی کا طنزیہ کلام ایک سوالیہ نشان بنا رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                عابد رضا بیدارؔ

 

 

زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے

 

کسی ہڈیوں کے ایسے ڈھانچے کا تصور کیجیے جس میں جان آفریں نے جان ڈالنے کی کوشش سی کی ہو یا جان نکال کر ایک بٹا سواں حصہ چھوڑ دیا ہو۔ مگر کس بلا کی توانائی ہے اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں اس کا تصور آپ نہیں کر سکتے جب تک شاد عارفی سے نہ ملیں یا اس کی شاعری نہ پڑھ لیں اور شاید یہ بھی اس کے بڑے پن کی ایک نشانی ہے کہ اس کی شخصیت اور شاعری میں کہیں دو رنگی نہیں۔ آپ کبھی نہ کبھی اس شاعر سے ضرور ملیے جس نے زخم پر زخم کھائے ہیں اور ہمیشہ ان پر ہنسا ہے۔ چند لمحوں کی بات چیت میں ہی آپ کی طبیعت کا سارا تکدر دور ہو جائے گا اور پھر اس کی شاعری کو پڑھیے آپ ذہنی طور پر اپنے آپ کو بلند تر ہوتے محسوس کریں گے اور جینے کا حوصلہ آپ کے اندر بڑھ جائے گا۔

زندگی نے اس سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ طاقت، صحت، پیسہ، بیوی، گھر، ملازمت اور درد مند دوست۔ کچھ بھی نہیں رہا اس کے پاس۔ اس کے باوجود آج تک اس نے نہ تو زندگی کو دیوانے کا خواب سمجھا نہ مر مر کے جیے جانے کا نام۔ ساٹھ اکسٹھ برس کی عمر میں بھی اس بوڑھے میں زیست کرنے کی جو امنگ ہے وہ بہت سے جوانوں میں بھی کم ہو گی۔ اور یہ امنگ صرف اس لیے ہے کہ وہ زندگی کو ایسا بدلہ دینا چاہتا ہے جسے آنے والے زمانے بھی یاد رکھیں۔ بہتر اور برتر زندگی کا خواب دیکھنا اس کا مشن ہے اور اس کے لیے اس نے اپنے قلم کی ساری توانائی صرف کر دی ہے۔ زندگی نے اُسے ٹھکرا دیا ہے اور وہ ایک حقیر گوشے میں پڑا زندگی کی آرائش و زیبائش میں تن من دھن سے لگا ہوا ہے۔ سماج نے اس کی خدمات کا کوئی معاوضہ نہیں دیا ( نقادوں کے دو چار میٹھے تفریحی فقرے پیٹ کی آگ تو بجھانے سے رہے !)مگر وہ ایک آرٹسٹ کی اندرونی ارج(Urge) کے تحت دنیا و ما فیہا سے بے خبر سماج کے اس بوسیدہ مکان کی گرتی ہوئی دیواروں کو بچانے کے لیے اپنا لہو لگا لگا کر ایک ایک اینٹ بڑے انہماک سے جوڑنے میں لگا ہوا ہے۔ نا کسوں کے چاہنے کے باوجود وہ شاید اس وقت تک اس دنیا سے جانے کے لیے تیار بھی نہ ہو گا جب تک اپنے اس مقدس مشن کو اپنے تصور کے مطابق پورا نہ کر جائے۔

خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ

رہنے دے ابھی یاں کہ مجھے کام بہت ہے

اس حوصلے کا آدمی آسانی سے نہیں مرتا، جو زندگی کے پودے کو سینچنے کے لیے اپنے لہو کی آخری بوند بھی داؤں پر لگا چکا ہے، موت کو اس تک پہنچنے سے پہلے سیکڑوں بار سوچنا ہو گا۔ ہائے اقبال بھی کہاں یاد آ جاتا ہے :

چناں بزمی کہ اگر مرگِ تست مرگ دوام

خدا ز کردۂ خود شرمسار تر گردد

Live so beautifully that if death is the end of life.

God himself be put to shame, for having ended the career.

خیر موت کی شرمندگی تو ابھی دور ہے۔ میں سوچتا ہوں زندگی نے جس فنکار کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور جس نے زندگی پر اپنا سب کچھ تج دیا، زندگی کی تراش خراش اور اس کی بہتری و برتری کے لیے اپنی عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ صرف کر دیا، سماج کی ہر ٹیڑھ کو سیدھ پر لانا اپنا فن بنا لیا، اس کے احسان سے زندگی خود کتنی شرمندہ ہوتی ہو گی۔ کتنا خلوص ہے اس زندگی کے مارے کو زندگی کے ساتھ۔

اردو میں صرف یہی ایک شاعر ہے جس نے طنز کو ( ظرافت، مزاح، ہجو، پھکّڑ وغیرہ کے ماہر تو بہت سے مل جائیں گے ) اور صرف طنز کو اپنا فن بنا لیا ہے۔ تیکھا، کڑوا، کسیلا، صاف و شفاف انداز سخن اس خلوص اور خوبی کے ساتھ ہمارے یہاں نہ شادؔ سے پہلے کسی کے حصے میں آیا ہے نہ اُن کے ہم عصروں میں۔ اس طنز کا وار ہر دکھتی رگ پر پڑتا ہے۔ دُکھتی رگیں بلبلا اٹھتی ہیں، کہیں فاسد خون نکل جاتا ہے اور کہیں وہ اور صاف رگوں کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کے لیے فاسد بنا ڈالتا ہے۔ لیکن نیکی اور صداقت کے پرستاروں کا یہ عقیدہ ہے اور اس عقیدے پر اعتماد ہے کہ انجام کار بُرائی کو مٹنا ہے اور فتح بالآخر نیکی اور سچائی کی ہو گی اور اس وقت کا مؤرخ جب اس دور کی تاریخ لکھنے لگے گا تو رامپور کے شادؔ عارفی کے عنوان پر آتے ہوئے اس کا قلم کانپ کانپ اٹھے گا اور پھر وہ اپنا فرض پورا کرے گا اور سیاہ حاشیوں میں ایک المناک داستان لکھے گا کہ آزادہندوستان کی ایک کم نصیب بستی میں، غیور پٹھانوں کی ایک بستی میں ایک غیور پٹھان بدقسمتی سے ایک بہت بڑا فنکار بن گیا۔ یہ اس کا پہلا بڑا قصور تھا۔

( اور پھر لکھنے والا لکھے گا کہ) اس کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ اس نے چڑھتے سورج کو کبھی سلام نہیں کیا! کبھی سلام نہیں کیا! یہ اس کا سب سے بڑا قصور تھا!

بد نصیب فنکار! جس نے جب بھی لکھا اور جو کچھ بھی لکھا، اپنے خون سے لکھا۔ دل کے خون سے لکھی ہوئی تحریریں !

لکھتے لکھتے مؤرخ کا قلم سر نگوں ہو جائے گا اور وہ پھر لکھے گا کہ کم نظروں کی بستی میں، بونوں کی آنکھوں میں یہ دیو زاد مستقل کھٹکتا رہا! اس کے ہم عصر نقاد اس پر لکھنے کے لیے اس کی موت کا انتظار کرتے کرتے خود عناصر میں اعتدال کھو بیٹھے۔ یو پی اور آزاد ہندوستان کی فن نواز حکومتیں کسی کی پشت پناہی نہ ہونے کے سبب سماج اور قوم کے لیے اس فنکار کی خدمات کو کبھیRecognise نہ کر سکیں اور ان میں کوئی بھی قصوروار نہ تھا۔ نہ ہم وطنوں کا قصور تھا، نہ نقادوں کا، نہ حکومت کا۔ قصور وار وہ خود تھا!

مؤرخ کا قلم چیخ اٹھے گا کہ ابھی اور لکھو۔ ابھی تم نے پورا سچ نہیں بولا۔ تم مذاق اڑا رہے ہو۔ تم شدتِ جذبات میں دیوانے ہو گئے ہو لیکن مؤرخ قتل کے فیصلے کا آخری جملہ لکھ کر نب توڑ چکا ہو گا!

مدھم سروں میں دور کسی ویرانے کو چیرتے ہوئے حافظ کے بول مؤرخ کے الفاظ کے گرد حلقہ بناتے ہوئے ہوا کے دوش پر سارے زمانوں میں پھیل جائیں گے۔

ایں چہ شوریست کہ در دورِ قمر می بینم

اسپِ تازی شدہ مجروح بزیر پالاں

طوقِ زریں ہمہ در گردنِ خرمی بینم!

اور پس منظر میں شادؔ عارفی کے ہم عصروں کے بھیانک قہقہوں کی آوازیں گونج رہی ہوں گی:

ہے شادؔ عارفی کی شاعری بھی کوئی شاعری؟

نہ حُسن کی خیر، نہ جوانی کے تذکرے، نہ گل، نہ بلبل، نہ قتل عاشق، نہ نازِ محبوب، نہ فراق و وصل کے سلسلے، نہ حکایتیں نہ روایتیں !

اور دل میں اٹھتے درد کو دباتے ہوئے شادؔ عارفی کی درد مند نحیف سی آواز اُبھر کے فضاؤں میں کھو جائے گی۔

از حدیث دلبری خواہد زمن

رنگ و آبِ شاعری خواہد زمن

کم نظر بیتابیِ جانم ندید

آشکارم دید و پنہانم ندید

٭٭٭

 

 

 

 

                وہاب اشرفی

 

 

 

’نثر و غزل دستہ‘ میری نظر میں

 

’ نثر و غزل دستہ‘ کے تین حصے ہیں، پہلا حصہ مضامین کا ہے اس میں ۲۳ عنوانات ہیں اور ۱۵ تا ۱۸۷ صفحات پر محیط ہے۔ دوسرے حصے میں منظومات ہیں، اس میں نظموں کے علاوہ رباعیات و قطعات بھی ہیں۔ تیسرا حصہ غزلوں کا ہے۔ اس میں ۹ غزلیں ہیں۔ غزلوں کے اختتام پر شاد عارفی کی خود نوشت سوانح حیات کا پہلا باب بھی شامل کر دیا گیا ہے۔

مظفر حنفی کو اس امر کا اعتراف ہے کہ ’نثر و غزل دستہ‘ شادؔ عارفی مرحوم کی نگارشات کی نمائندہ کتاب نہیں ہے۔ اس لیے کہ موصوف ۱۹۲۷ء سے لے کر ۱۹۶۴ء تک مسلسل لکھتے رہے تھے اور ’ نثر و غزل دستہ‘ ان کے کلام کا جزو ہے کل نہیں ہے لیکن یہ اعتراف اپنی جگہ پر، اتنی بات تو اس کتاب سے یقینی ظاہر ہو جاتی ہے کہ شعر و ادب میں شاد عارفی مرحوم کا رجحان طبع کیا تھا؟ وہ بنیادی طور پر طنز نگار تھے اور انھوں نے طنز نگاری میں ایک الگ راہ نکالی تھی، پورا نثری حصہ پڑھ جائیے تو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی طنز نگاری کی منفرد راہ ان کی خطرناک بے باکی سے نکلتی ہے۔ صنائع و بدائع کی باتیں ہوں کہ مرا دو معنی کا مسئلہ۔ کسی ادبی تحریک کی مخالفت مقصود ہو یا کسی رسالے کے مشتملات پر تنقید و تبصرہ کا سوال۔ شاد عارفی دو ٹوک فیصلے کے عادی ہیں۔ ان کا لہجہ ہر حال میں تیکھا ہو گا۔ وہ اپنے حریف پر طنز کے تیر برسائیں گے، مسلسل اور متواتر۔ اتنے کہ وہ سنبھل نہ سکے اور گھبرا کر یہ فیصلہ کرے کہ بس سپر ڈال دینے ہی میں اس کی خیر ہے۔ تحریر کے اس جارحانہ انداز سے کتنے لوگ خوش رہ سکتے ہوں گے اس کا تخمینہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر چند جملے ملاحظہ ہوں :

(۱)’’ میخانے نے رنگ و روپ بدلا  ایسا۔ یہاں رنگ و روپ کا لطف کباب و کچوری کے انداز پر ہے کہ نہیں۔ ۔ ۔ دکھائیے قواعد اور ثابت کیجیے کہ یہ ترکیب جائز ہے۔ ‘‘

(۲) ’’ جوہرؔ صدیقی بنارسی نے جس عنوان کے وزن ’ فعولان‘ کو مہمل قرار دے کر محقق طوسی کے معیار الاشعار پر پانی پھیر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

(۳) ’’آج جو ادب وجود میں آ کر اور ترقی پسندی کا روپ دھارن کر کے دنیائے ادب کو اس بلندی پر لیے جا رہا ہے جس کی راہ میں ذوق والا وہ کنواں پڑتا ہے جس کا پانی تارا ہو کر، اپنی بلندی پر ناز کر رہا ہے، کل اسے اپنے اس عدم شعور و آگہی پر افسوس ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

(۴)      ’’ اے مری اُردو زبان اے لالۂ دشتِ وطن

سبزۂ کشتِ ہمالہ، شبنم گنگ و جمن

ہمالہ کی کھیتی کا سبزہ اور گنگ و جمن کی شبنم۔ گویا غالب نے ٹھیک ہی کہا تھا:

’’ گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی‘‘

اسلوب کا یہ تیور شادؔ عارفی کا رشتہ انگریزی ادب کے اٹھارہویں صدی کے طنز نگاروں سے جوڑتا ہے۔ جب ان کی نظموں پر ایک نگاہ ڈالیے گا تو پھر یہ امر اور بھی واضح ہو جائے گا۔ مرے محلے کے دو گھرانوں سے ہے گناہوں کا فیض جاری، پیرِ دہقاں، ابھی جبل پور جل رہا ہے، جہیز، نمائش نمبر ۴، مرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے، ساس اور بہو، نصف بہتر اور دوسری کئی نظموں میں جو طنز کے تیر ہیں وہ زہر میں بجھے ہوئے ہیں۔ ان تمام نظموں میں سماج کے ناسور پر تیز نشتر لگائے گئے ہیں۔ ایسی شاعری یا ایسی نثر کے عیوب وہی ہیں جو انگریزی کے اٹھارویں صدی عیسوی کے شعر و ادب کے عیوب ہیں۔ اگر انھیں کوئی مقام حاصل ہے تو پھر شادؔ عارفی کی نثری و شعری خدمات کا ہمدردی سے جائزہ لینا پڑے گا۔ اور ان کا صحیح مقام متعین کرنا پڑے گا ’’نثر وغزلدستہ‘‘ شادؔ عارفی کے مزاج اور طرزِ فکر کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ شادؔ عارفی کی کھردری طنز نگاری موجودہ دور کے احساس اور طرزِ احساس کی نمائندگی کرتی ہے اور اسی لیے ان کے کلام پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مظفر حنفی اس سلسلے میں جو کام کر رہے ہیں، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                بشیر بدرؔ

 

شادؔ عارفی شاید دو شاعر تھے

 

پہلے یہ شعر ملاحظہ ہو:

لائے ہیں تشریف تکیوں پر دلائی ڈال کر

حسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے

چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں

مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں

’’شبِ مہتاب‘‘ وہ پھولوں کا زیور، منتشر زلفیں

بقول راز داں کیا خوش نما منظر رہا ہو گا

کیا لگھ رہے ہیں آپ مجھے دیکھ دیکھ کر

میں نے دیا جواب، غزل کہہ رہا ہوں میں

کام کی شے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شادؔ

وہ نہ دیکھے مجھے میں اس کا نظارہ کر لوں

گدگدائے نہ بنے، ہاتھ دبائے نہ بنے

بن کے لیٹی ہو جوانی جو جگائے نہ بنے

چھپ چھپ کے جو مصروف دعا میرے لیے ہے

شاید وہ بت ہوشربا میرے لیے ہے

جو ہے وہ کہتا ہے اوس میں سو کر اپنی حالت خراب کر لی

کسی کو اس کی خبر نہیں ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں

اس طرح کے سیکڑوں اشعار شادؔ عارفی کے ابتدائی کلام میں ہیں َ یہ اشعار اپنی فطری سادگی، شوخی، شرارت کے ساتھ ساتھ طرز ادا اور لہجہ کا نیا پن لیے ہیں۔ ایک بہت گہری شرافت جو دُکھ، درد کا عطیہ ہے وہ اس میں کم کم سہی مگر اس میں جوانی کی تازگی اور زندگی ہے۔ اردو کے کسی بھی شاعر کے نو جوانی کے غزلیہ کلام سے یہ اشعار کم تر نہیں۔ ان میں جو نیا پن ہے۔ اس نے اُس ا زمانے میں غزل کو کتنا پُر اُمید کیا ہو گا۔ یہی لہجہ زندگی سے تجربہ، حالات کی سختی سے ضبط اور خود ارادیت لے کر اگر زندگی اور حسن کے ہر رنگ کو لفظوں کے آئینہ خانے میں سجاتے تو شاید شاد عارفی جدید غزل کے سب سے اہم شاعر ہوتے۔ شادؔ عارفی شاعر بھی تھے اور پٹھان بھی۔ لیکن زندگی اور حالات شاعر پر زیادہ مہربان نہیں رہے۔ دنیا کی خود غرضی، بے التفاتی، بے عدلی نے ان کے اندر کے پٹھان کو بہت بیدار کر دیا اور اس پٹھان کو اس شاعر نے جو بہت بڑے شاعر ہونے کے امکانات رکھتا تھا۔ بہت سمجھایا ہو گا۔ مگر پٹھان دھیرے دھیرے بے قابو ہوتا گیا۔ شادؔ عارفی کا یہ دوسرا روپ پہلے روپ سے مل کر نہیں بلکہ اسے مار کر بنا ہے۔ شادؔ عارفی نے وہ دونوں دروازے بند کر دیے جہاں سے ماضی کی چاندنی اور مستقبل کی نرم خوابوں کی اجلی دھوپ آتی تھی اور اس لفظوں کے تلوار زن کے لہجے میں وہ کاٹ، تیزی، صفائی اور بھرپور قوت آ گئی جو اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں :

میں اپنے لفظ واپس لے رہا ہوں

یہ رہزن تھا، میں سمجھا رہنما ہے

جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے آج

کیا اسی کو کہیں گے جنتا راج

صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا

اور اخبار میں اعلان ضرورت دیں گے

دیکھ لینا کہ ہر ستم کا نام

عدل ہو گا کسی زمانے میں

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منھ آپ کی تلوار کا

وہ ہمیں تلقین فرماتے ہیں ایسے مشورے

جیسے اندھے سے کہا جائے کہ ’بائیں ہاتھ کو‘

اصطلاحاً بُرے کو بھلا کہہ دیا

یعنی گالی نہ دی رہنما کہہ دیا

ہر غلط بات پر بھی ہاتھ اٹھاؤ

یہ نمائندگی نہیں شرماؤ

ہے تو احمق چونکہ عالی شان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی، اس کا فرمانے میں ہے

شادؔ حالیؔ کی طرح میں نے بھی

کچھ دنوں قافیہ پیمائی کی

شادؔ! ہجر وصل تک محدود تھی میری نظر اک زمانہ تھا مگر

آج میری ہر غزل وابستہ حالات ہے سوچنے کی بات ہے

وہ مجھے کانٹا سمجھنا چھوڑ دے

میں گریبان بہاراں چھوڑ دوں

یہ انتہائی ذہین اور بھرپور آدمی کے غصے، ناکامی اور حق نہ ملنے پر خونخوار ہو جانے والی شاعری ہے جس نے اپنے غیظ و غضب  کے جلال میں ’’ گریبانِ بہار‘‘ پکڑ لیا۔ جو یہ نہ سمجھ پایا کہ اسے ’’ کانٹا‘‘ کون سمجھ رہا ہے۔

زندگی کا اور بہار کا کیا قصور

بہار تو خود کانٹوں کی قیدی ہے

انھوں نے غزل کو وابستۂ حالات کر دیا۔ شاید یوں زیادہ صحیح ہے کہ وقفِ حالات کر دیا۔ یعنی گائے قصائی کے ہاتھ بیچ دی۔

غزل ہمیشہ حالات کے تیز بھنور میں ماضی اور مستقبل کے نیلے اور سُرخ چراغ جلاتی ہے۔ غزل جتنی خالص وقفِ حالات ہو گی اتنی ہی غیر شاعرانہ ہو گی اور یہ بھی سچ ہے کہ غزل اپنے احوال وقت سے نا واقف بھی نہیں رہ سکتی۔

ماضی، حال اور مستقبل سب کو آسودہ اور مطمئن کرنے کا نام غزل ہے۔

میں نے شادؔ عارفی کی سیکڑوں صفتوں پر ذرا بھی نہیں بات کی ہے ان پر کتاب آ رہی ہے۔ اس میں خوب باتیں ہوں گی۔ مگر میں کہنا چاہوں گا کہ شادؔ عارفی دو ہو گئے اور وہ دونوں جیسے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

اس طرح غزل کا ایک ’’ بڑا شاعر‘‘ دو دوسرے درجے کے شاعروں میں بٹ گیا اور وہ دونوں دوسرے درجے کے شاعر اس دور کے کئی اول درجے کے عظیم شاعروں سے اچھے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                ماہر القادری

 

 

شاد عارفی اور ’’ سفینہ چاہیے ‘‘

 

شادؔ عارفی مرحوم سے ان کی غزلوں اور نظموں کے واسطے سے غائبانہ تعارف تو برسوں سے تھا مگر ان سے ملاقات ( غالباً) ۱۹۴۴ء میں رام پور میں ہوئی۔ اس کے بعد اپنے ایک عزیز سے ملنے اور مشاعروں کے سلسلے میں بارہا رام پور جانا ہوا، ایک بار ایک مہینہ سے بھی زیادہ دن تک قیام رہا۔ رام پور کے مشاعروں اور ادبی نشستوں میں شادؔ عارفی کو نہیں دیکھا، جب دریافت کیا معلوم ہوا وہ شکار کھیلنے گئے ہیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلی ملاقات کے بعد شادؔ عارفی سے ایک بار اور بھی ملنا ہوا مگر یہ دونوں ملاقاتیں سرسری سی رہیں۔ اب سے ڈھائی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ان کا خط میرے نام آیا، جس میں رام پور کے کسی ادارے یا لائبریری کے لیے سفارش کی تھی کہ ’’ فاران‘‘ اعزازی طور پر جاری کر دیا جائے، چنانچہ ان کے ارشاد کی تعمیل کر دی گئی پھر انھوں نے ایک ہندو شاعر کا کلام تبصرے کے لیے بھجوایا اس کے بعد اپنی ایک غزل عنایت کی، میں نے غزل کی رسید بھیجتے ہوئے لکھا کہ اس نوازش بے طلب کا شکر گزار ہوں، ان کی یہ غزل ’’ فاران‘‘ میں چھپ گئی تو شاد عارفی مرحوم نے تین غزلیں اور بھیجیں، ان کا انتخاب ’’ فاران‘‘ میں شائع ہوا۔ اس پر وہ کبیدہ خاطر ہو گئے اور میری ایک نظم پر جو ماہنامہ ’’ جام نو‘‘ (کراچی)میں چھپی تھی، ایک تنقیدی مضمون لکھ کر بھیجا، مسٹر مظہر خیری ایڈیٹر ’’ جام نو‘‘ نے شادؔ صاحب کے اس مضمون کا ایک دعوت میں ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ آپ وہ مضمون مجھے دے دیں میں اسے پڑھ کر اپنے معروضات پیش کر دوں گا، پھر آپ وہ تنقید اور میرا جواب دونوں چیزیں اپنے پرچے میں شائع کر دیں مگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے۔

شادؔ عارفی سے مل کر ان کی وضع قطع اور چہرہ مہرہ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ معاشرے اور ماحول سے اُنھیں خاصی تلخیاں، ناخوش گواریاں اور چوٹیں ملی ہیں، اس لیے سو سائٹی سے بیزاری کی کیفیت ان میں پیدا ہو گئی ہے اور ان کا یہ حال ہے :

از دام و دو ملولم، انسانم آرزوست

یہی چیز ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔

شادؔ عارفی نے نظم اور غزل میں، کوئی شک نہیں، اپنا منفرد آہنگ پیدا کیا ان کی نظموں میں گرد و پیش اور گھر یلو ماحول کی بڑے سلیقے کے ساتھ عکاسی کی گئی ہے۔ ان کی شاعری روایتی نہیں بلکہ اُن کے حالات و واردات کی بہت کچھ ترجمان معلوم ہوتی ہے، کہیں کہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دلی جذبات کی آگ جوں کی توں شعر کے قالب میں ڈھل گئی ہے۔ افسوس ہے زمانہ نے ان کی قدر نہیں کی، شاعرانہ شہرت سے بھی اُن کو کوئی مادی فائدہ نہیں پہنچا۔ اُن کے مر جانے سے کوئی شک نہیں شعر و ادب کی فضا میں خلا پیدا ہو گیا، شادؔ عارفی کے افکار نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے، ارباب نقد و نظر کو اس کا اعتراف اور اظہار کرنا چاہیے۔

………

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( سفینہ چاہیے کا) آخری مضمون خود شادؔ عارفی کا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے بارے میں تین صفحے لکھے ہیں، جس کی ہر سطر میں اُن کی ’’ خودی‘‘ بیدار نظر آتی ہے ! وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اردو شاعری میں نئی راہ نکالی ہے اور ان کا یہ دعویٰ غلط نہیں ہے۔ شادؔ عارفی کا یہ کلام پڑھتے ہوئے ایک نئے ’’ آہنگ‘‘ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں اچھوتے انداز میں سماج کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کی پہلی نظم ’’ آپ کی تعریف‘‘ ہے اس کے دو بند کتنے جاندار ہیں :

پیر گلشن شاہ سے بیعت ہیں آپ

سونگھتے ہیں پھول کھاتے کچھ نہیں

جھوٹ ہے پیتے پلاتے کچھ نہیں

خلوتوں میں مرغ و ماہی کے سوا

کر چکے ہیں ترک حیوان و غذا

بخشتی ہے آپ کی میٹھی نظر

بانجھ کو اولاد اور کنواری کو بر

بند کیجے منہ بڑے حضرت ہیں آپ

پیر گلشن شاہ سے بیعت ہیں آپ

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

بلبلِ فردوس کے سالے ہیں یہ

بات آئی ہے ذرا کالے ہیں یہ

چھِن چکی جاگیر آمد بند ہے

اب فقط افیون میں آنند ہے

پھل پھلاری بیچتے ہیں آج کل

بھوگتا ہے آدمی کونی کے پھل

ہیں پریشاں حال دیوانے نہیں

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

شادؔ عارفی نے ’’ بلینک ورکس‘‘ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ’’ شب برات‘‘ کا یہ بند واقعہ کی ہو بہو عکاسی ہے :

تاش کھیلیں گے ورانڈے میں لگا کر بازی

ہاتھ میں اینٹ کی تگّی جو لیے بیٹھا تھا

میری بِبیا پہ لگایا تھا ترپ کا اٹّھا

یاد رہتا ہے مجھے ہر پتّہ

یہ بڑا بول نہیں البتہ

اسی نظم کا یہ مصرعہ:

نہ چراہند دماغوں کو کرے گی گھائل

پڑھ کر طبیعت خاصی منغض ہوئی!

’’ ٹکڑ گدے ‘‘کے ان شعروں میں بڑا لطف ہے :

سرفراز خاں، نانا، تھے حضور کی مانند، اس کھجور کی مانند

جس پہ باد و باراں کا، حملہ ہائے طوفاں کا

کچھ اثر نہیں ہوتا۔ کوہِ طور کی مانند

عمر کے تناسب سے آپ سن رسیدہ ہیں، فلسفہ دریدہ ہیں

آنکھ ہے سیاست پر، دانت ہیں وزارت پر

فکر شہر میں دُبلے بلکہ آبدیدہ ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ غالباً علامہ اقبال کے اتباع میں شادؔ عارفی نے قطعہ کو رُباعی ( کسی مشین کے پُرزے اگر غلط ہو جائیں ) لکھا ہے۔

’’ گنگا اشنان‘‘ معرکہ آرا نظم ہے مگر افسوس ہے کہ اس کے شروع کے دونوں مصرعے کمزور ہیں :

اشنان کے تقریب میں گنگا کے کنارے

جمعیت افراد پہ حاوی ہیں نظارے

’’ تقریب‘‘ تو مؤنث ہے تو ’’ کے ‘‘ کیوں ؟ مصرعہ ثانی بھرتی کے لفظوں سے عبارت ہے !

ان اشعار میں جوش و ولولہ اور روانی دیکھیے :

پگھلے ہوئے بلّور کی لہروں میں جوانی

ٹھہرے ہوئے سیماب کے پہلو میں شرارے

وہ ’سوریا پوجا‘ وہ ’ ہری اوم‘ کی جاپیں

زاہد بھی جو سُن لے تو ’ ہری اوم‘ پکارے

لمحاتِ سبک سیر کو پرواز کا ایما

گھڑیوں کو دبے پاؤں گزرنے کے اشارے

چند منتخب اشعار:

اگر فطرت عطا کرتی نہ احساس زیاں مجھ کو

تو چکمہ دے چکا ہوتا امیرِ کارواں مجھ کو

………

خلوتوں کا بھید کوئی جاننے والا بھی ہے

مت سمجھ لینا ہمارے درمیاں کوئی نہیں

………

جب گریباں گیر ہو جاتا ہے ٹھکرایا ہوا

سوچتا ہے تب ہر اک ظالم، ارے یہ کیا ہوا

………

ہمیں ستا کر بہت پشیماں ہیں دل میں، شاید وہ بچ بھی جائیں

ہمیں ستا کر جو مطمئن ہیں انھیں سزا لازمی ملے گی

………

تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی

لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرے کوئی

خود مبتلا ہیں اپنی پریشانیوں میں ہم

فرصت کسے کہ آپ کو رسوا کرے کوئی

………

برائے زاہد، برائے ناصح، برائے واعظ، برائے قاضی

ملا کے مشک و گلاب و عنبر شراب کو خوشگوار کر لوں

………

بے رونقیِ شمع تمنا نہ پوچھیے

جیسے کوئی چراغ کسی قبر پر جلے

………

ہجوم گل میں بھی تسکین جستجو نہ ہوئی

کسی میں رنگ نہ پایا کسی میں بو نہ ہوئی

………

آئی ہیں مری طنز کی چھینٹیں تو سبھی پر

یہ کیا کہ فقط آپ بُرا مان رہے ہیں

………

یہ انتخاب غیر مبارک رہے مگر

ہیرا سمجھ کے آپ نے پتھر اٹھا لیا

………

منکر وحدت کی یکسوئی پہ کثرت چھا گئی

ایک کو چھوڑا تو لاکھوں کو خدا کہنا پڑا

………

آتے جاتے ہوئے لوگوں کو نہ گزرے کوئی شک

اس تصور نے ترے در پر ٹھہرنے نہ دیا

………

جفا و جور کو خوبی تو ہم سمجھتے ہیں

حکومتوں میں نہیں بلکہ مہ جبینوں میں

یہاں ’’ نازنینوں ‘‘موزوں تر لفظ تھا۔

ہماری ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھِری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

………

ہم خدا کے ہیں وطن سرکار کا

حکم چلتا ہے مگر زر دار کا

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابر گوہر بار کا

ہم وفا شعاروں کی، تا کجا دل آزاری طنز تلخِ ناداری، طعنۂ سبکساری

چاہیے رواداری اے بتانِ سنگیں دل آبرو نہیں بیچی ہم نے آرزو کی ہے

………

دل پہ کیا دوش محبت جو چھپائے نہ بنے

یہ وہ دریا ہے جو کوزے میں سمائے نہ بنے

………

سیٹھ بابو رام کہلاتا ہے آج

بیچتا تھا کل جو کابل کے چنے

اور دفتر کا یہ بوڑھا آدمی

عمر گزری اس کو چپراسی بنے

اس قطعہ میں طنز کتنی چبھتی ہوئی ہے !

شادؔ عارفی کی شاعری نقار خانے میں طوطی کی آواز نہیں بلکہ ایسے ساز کی آواز ہے جو سُننے والے کو چونکا دیتی ہے !

٭٭٭

 

 

 

ضمیمہ

 

 

 

                شاد عارفی

 

 

میرا فن

 

چانگ چاؤ کہتا ہے۔

’’ سب سے اچھی کتاب وہ ہے جس میں بیان کی ہوئی باتیں کسی دوسری کتاب میں نہ پائی جائیں۔ ‘‘

اس مقولے کی صداقت میرے افکار و اشعار سے جھانکتی ہے یا نہیں … کیا خیال ہے آپ کا۔ ؟

ہل غادر الشعراء من مستردم

ام ہل عرفت الدار بعد توہم

سبعہ معلقہ کا غالباً چوتھا شاعر، عنترہ ابن شدّاد عبسی اپنے اس مطلع میں انتہائی لطیف اشارے کے ساتھ توارد سے دامن سمیٹتے ہوئے کہتا ہے ’’ پیش رو شعراء نے وہ کون عنوان چھوڑ دیا ہے جس پر طبع آزمائی کی جا سکے۔ تاہم میں نے بہت سوچ بچار کے بعد قیام گاہ( محبوب) کا پتہ لگا لیا ہے۔ ‘‘

یہ ہے وہ عرب شعرائے جاہلیت کی طرفہ کاری جس نے مجھے دوسروں سے بچ کر کہنے کی تلقین کی چنانچہ اب جب کبھی بھی کوئی فتحپوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قسم کی ’’ معجون مرکب‘‘ یا ناقد چیخے چلائے، آسمان سر پر اٹھائے کہ شادؔ عارفی سخنوارنِ مغرب کا خوشہ چیں یا ممنونِ احسان رہا ہے تو آپ سُنی ان سنی کر دیں اس لیے کہ مسئلہ شعر کی بابت ان غیر شاعر ناقدوں کو کچھ بھی نہیں آتا جاتا۔ تبصرہ نگاروں کا زاویۂ نظر اپنے باوا آدم کے لیے یا مظہر العجائب سے آگے نہیں بڑھتا:

میرے دوست کہیں گے :

آج تجھ سا نہیں زمانے میں

شاعر نغز گو و خوش گفتار

دشمن فرمائیں گے، کہنے کی ایک حد ہے بکنے کی حد نہیں ہے، ترتیب درست نہیں، محاورے بے محل ہیں کام کی باتیں مفقود۔ وہ جو نہ دوست ہیں نہ دشمن، نہ ناقد نہ تبصرہ نگار، میرے گہرے طنزوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے، میری اختراعی تراکیب اور بندش، اصولی پابندیوں کے ساتھ روح کے اندر بالیدگی پیدا کر دے گی، انھیں میری ہر نظم کئی پہلوؤں کی آئینہ دار محسوس ہو گی، ہر موڑ پر فرائڈ کی لذت جنسی پر ایک بھرپور وار نظر آئے گا۔ بعض حالتوں میں مغرب زدہ خاندانوں کے برہنہ اطوار کی خدمت میں جرأت آزما اصرار سپردگی کی شہ رگ پر نشتر اور پھانسیں بھی، رواج کی بے ہودگیوں ہٹ دھرمیوں کے ساتھ سنجیدہ مگر تلخ مزاج، تبسم کے پردے میں گفتہ و نا گفتہ حقیقتیں اس طرح جیسے وہ آپ بیتیاں ہوں، جنھیں آپ نے برتا اور میں نے سمجھایا یا اس ’’ الٹ‘‘ جگ بیتی کو اس خوبی سے پیش کرنا بجائے خود ایک فن ہے۔ شاعرانہ فن۔ قوت شعر و اعتماد طبع کی زندہ دلیلیں۔

شعر کے اندر واقعیت سے بھی یہی مراد ہے کہ بیان کی قطعیت قرین قیاس حد تک نظم یا شعر کی روح میں سمو دی گئی ہو۔ یہ نہیں کہ شاعر صرف اپنے ماضی کو حال اور حال کو مستقبل تک پہنچا دے اور تبصرہ نگار حضرات کو شاعر کے کلام سے اس کی سوانح تیار کرنے میں چٹپٹے شواہد ملتے رہیں۔

میرے ایک کرم فرما نے اس قسم کے مضامین کی پیروڈی کے طور پر نہایت سادگی سے فرمایا تھا’’ غالبؔ کا سرزمین ایران پر زندگی گزارنے کا ثبوت نہ آبِ حیات میں ملتا ہے نہ حیاتِ غالب میں حتیٰ کہ آج کل نئی سے نئی تاریخ ہائے اردو بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔ ‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’ محترم یہ روایت آپ تک کس طرح پہنچی۔ ‘‘ خود غالب کہتا ہے، وہ بہت وثوق سے کہتے ہوئے :

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

آج کل کے شاعروں کی لَے میں پڑھنے یا گانے لگے۔ مجھ کو اس ’’ اعترافِ غالب‘‘ سے انحراف کا موقع ہی نہ تھا۔

میں نے ۶ سے ۹ سال تک کی عمر مرحوم حضرت اسمٰعیل میرٹھی کی خدمت میں گزاری۔ اس طرح اردو کی پہلی کتاب سے چھٹی کتاب تک مکتب میں پڑھی۔ زاں بعد خسروِ نور اللہ مرقدہم کی خالقِ باری سے اکتساب پیہم کیا پھر سعدی علیہ الرحمہ کے پند و نصائح کو جنت نگاہ و فردوس گوش نہیں بلکہ تزئین روح و دماغ بنایا۔ یہاں سے اخلاق کے گلشنِ بے خار سے منطق الطیر سمجھتا ہوا مولانائے روم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا پھر عربی صرف و نحو میں جان کھپائی۔ عربی ادب سے واسطہ پڑنے پر معلوم ہوا کہ غالبؔ، میرؔ، سوداؔ، جرأتؔ، حالیؔ اور ڈاکٹر اقبالؔ سے ہٹ کر اردو ادب میں دھول اڑتی ہے۔ واقعیت کا فقدان طبیعت پر کھلنے لگا۔ میں نے شعرائے مذکور سے سبق ضرور لیا لیکن اتباع، نقل یا چربے کی کوشش کبھی نہیں کی کیونکہ اس طرح اپنی شخصیت فنا ہو جاتی، یہاں تک کہ اردو غزلوں اور نظموں کے تین مجموعے ( ابتدائی مشق) نذر آتش کیے۔

اب نہ بت خانے سے مطلب ہے نہ کعبہ سے لگاؤ

کفر سے بھی ہاتھ دھویا، کھو دیا ایمان بھی

آشیاں، بجلی، قفس، صیاد، گلچیں، الغرض

نذر آتش کر رہا ہوں تیسرا دیوان بھی

اب جو چل مرے خامہ بسم اللہ کہہ کر اپنے لیے ایک نئی راہ نکالی تو ثابت ہوا کہ خوبصورتی کے ساتھ واقعیت کو مصور کرنا آسان کام نہیں مگر۔ ڈھونڈھے سے خدا ملتا ہے :

جن کی ذہنیتیں ہیں رہین کجی

جانتے ہیں مجھے ترقی نہ سجی

فکرِ ہر کس بقدر ہمت لیکن

بھینس کے آگے بین مجھ سے نہ بجی

………

ہماری غزلوں، ہمارے شعروں سے تم کو یہ آگہی ملے گی

کہاں کہاں کا رواں لٹے ہیں، کہاں کہاں روشنی ملے گی

………

تائید غزل کے بارے میں دو چار اشارے کیا کم ہیں

نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں

………

اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے

کیا موقعۂ رنگینیِ گفتار رہا ہے

دس پانچ برس حضرتِ حالی کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنون لب و رخسار رہا ہے

………

مجھے بھی شادؔ  ریشمین شاعری سے شوق تھا

مگر وہ عمر سرخوشی کی تھی یہ آگہی کی ہے

صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ شادؔ عارفی

لطافتِ بیانِ واقعہ غزل کی جان ہے

………

شادؔ ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں

ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں

………

شادؔ مجھے یہ دھن رہتی ہے

اپنا نغمہ اپنی لَے ہو

………

ندرتِ فن کے واسطے اے شادؔ

میرے مضمون میرے شعر چراؤ

………

شراب و شاہد کے تذکرے اُن سے چھین لیجے تو کیا کریں گے

شراب و شاہد کے تذکروں تک ہی جن کی جادو بیانیاں ہیں

………

سوال اس میں نہیں حسینوں کو بُت نہ کہیے ضرور کہیے

مگر بعید از قیاس ہو جائے گا کہ پتھر بھی بولتا ہے

………

وہ بھی کوئی شاعر ہے وہ بھی کوئی شاعر تھا

شادؔ رامپوری تھا شاد رامپوری ہے

………

اس نے جب سو تیر چلائے

میں نے ایک غزل چپکا دی

………

ہلکے پھلکے طنز سے گویا ٹکڑے ٹکڑے پتھر دیکھا

جس نے مجھ کو گھور کے دیکھا میں نے اس کو ہنس کر دیکھا

جب ارباب مدح و تغزل لطف کی بھکشا مانگ رہے تھے

میں نے تاج و چتر شہی کی جانب ہاتھ بڑھا کر دیکھا

یہ دعوائے ضبط عرضِ غم ہے شاد جوابی صورت

پہلے پہلے حال کسی کو لکھ کر بھیجا کہہ کر دیکھا

پئے تحسینِ وطن طنز ہمارا فن ہے

ہم کسی خانہ بر انداز سے ڈرتے ہی نہیں

ہم سے اس قسم کی امید نہ رکھے دنیا

ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں

………

قفس میں طائرِ غزل سرا ہیں چمن میں ہلّڑ مچا ہوا ہے

ادب برائے ادب کی پہلی شتابدی پر مشاعرہ ہے

………

جوان شاعر تو شاد اس لغویت سے دامن بچا چکے ہیں

مگر حقیقتوں میں اب بھی چرچا ہے چاک دامانیِ رفو کا

………

شادؔ وہ لوگ بہر حال بڑے شاعر ہیں

جن کو قانون میں آتا ہے غزلخواں ہونا

………

وسمہ و غازہ کی یہ شوقین بُڑھیا تا بکَے

فرض کر لیجے غزل میں بانکپن باقی بھی ہے

………

وہ جو ننگی ناچتی رہتی ہے بزمِ عیش میں

اس غزل کا شادؔ کیا ماحول بھی قائل نہیں

………

مجھے اے شادؔ ان رجعت پسندوں سے تو کیا کہنا

کرے گی یاد مستقبل کی تہذیب جواں مجھ کو

………

فضول سی اک غزل جو اے شادؔ فن پناہوں کی لے میں لکھوں

تو اس سے بڑھ کر فضول یہ ہے کہ میں ستارے شمار کر لوں

پہنچ گیا ہوں وہاں میں کہ واقعات نویس

لکھے کہ طنز میں تھا منفرد شعور مرا

تو اے حکومتِ کج فہم و نا شناس ادب

شراب توڑ کے بیچوں تو کیا قصور مرا

………

انقلاب آمادہ ذہنوں کو غزل کی چاشنی

تجھ میں اے مطرب تمیز اہل فن باقی بھی ہے

………

میں چراتا نہیں مضمون شگفتہ اے شاد

چھین لیتا ہوں اگر دامن الہام میں ہوں

………

جنھیں حقیقت بیان کرنا خلاف آئین و مصلحت ہے

سمجھ رہے ہیں معاشرے میں الگ تغزل کی مملکت ہے

جبھی تو ان شاعروں کو سُن کر گمان گزرتا ہے ایسے خط کا

لکھا ہو جس میں سوائے فاقہ، وطن میں سب خیر و عافیت ہے

………

اے شادؔ میں اکثر شعروں میں، اے شادؔ میں اکثر نظموں میں

دنیا پر صادق آتی ہے جب اپنے جی کی کہتا ہوں

………

ان کو ادبارِ سخن کہتے ہیں لوگ

مغبچوں پر شعر فرمانے میں طاق

داخلِ عادت ہے ’’ ایرانی مذاق‘‘

قحط ’’ارشاداتِ سعدی کے خلاف‘‘

عشق پر اصرار گستاخی معاف

اس تامّل میں کہ ہو جائے نہ جیل

مَلتے ہیں اشعار پر ’’سانڈے کا تیل‘‘

بد قماش و ننگ فن کہتے ہیں لوگ

ان کو  ادبار سخن کہتے ہیں لوگ

………

عریاں غزلیں چھوڑ چکا ہوں

فن کی دھارا موڑ چکا ہوں

………

’’ سرخ شاعر‘‘ مصلحت کی کینچلی جھاڑیں جو شادؔ

پھول کو دل اور نکہت کو فغاں کہنے لگیں

غالبؔ کے شعر نام سے میرے سُنا کے دیکھ

پھر اعتراضِ ’’ ناقدِ فن ‘‘ آزما کے دیکھ

………

تلخیِ گفتار کی تائید میں خطرہ ہے شاد

مجھ سے بچتے ہیں اگر نقاد فن تو کیا ہوا

………

سرمایہ دار سُن کے جنھیں تلملائیں شادؔ

ایسی غزل کی ہم سے تمنّا کرے کوئی

………

بعض لوگوں نے مجھے ورڈز ورتھ، کار لائل اور طنز میں سوئفٹ کا ریزہ چیں بتایا ہے لیکن ان غیر شاعر ناقدوں کو مسئلہ شعر کی بابت کچھ نہیں آتا جاتا اس لیے آپ ان کی بات پر کوئی دھیان نہ دیں کیونکہ ان کا یہ صرف گمان ہی گمان ہے۔ میں مغربی نظموں کو مشرقی نظموں سے مختلف تصور کرتا ہوں۔ وہ لوگ’’ کونین‘‘ کھا سکتے ہیں اور ہم ’’ گل بنفشہ‘‘ سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ مشرق اور مغرب کے مزاجوں کا یہ فرق مٹ نہیں سکتا۔

میں نے ایف اے کے کورس میں سوئفٹ کی صرف دو نظمیں پڑھی تھیں اور اسی طرح درڈز ورتھ اور کار لائل کی کچھ نظمیں امتحان پاس کرنے کے لیے رٹی تھیں اس لیے ان مغربی شاعروں کی نقل یا چربہ اتارنے کا کوئی سوال نہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مغرب زدہ خاندانوں کے برہنہ اطوار کی مذمت میں برہنہ تلوار بھی بن جاتا ہوں۔ یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ میری کوئی نظم ’ ہوائی نہیں ہے ‘ ہر نظم کا ماڈل میرے سامنے رہا ہے، شاعرانہ بناوٹ ضرور ہے مگر یہ کہ نظم بے سر و پا ہو، یہ قطعاً غلط تصور ہو گا۔

میرا پختہ یقین ہے کہ مرزا سوداؔ میں مرزا ہونے کے باوجود کوئی افغانی رگ ضرور تھی جو ہر خلاف مزاج بات پر پھڑک اٹھتی تھی اور وہ اپنے مزاج داں ’غنچہ‘سے قلم دوات یا ’ قلمدان سخن‘ طلب کر کے فی البدیہہ ہجو یا طنز کہنے کے لیے، امساک کھا کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر ظاہر ہے کہ وہ کیا گیا ’ گل افشانیِ گفتار‘‘ کا مظاہرہ کرتے اور ادبی حدود پھلانگ جاتے تھے، سومیں بھی کبھی کبھی مزاج کے خلاف کسی واقعے سے متاثر ہو کر جو منہ میں آئے کہنے سے نہیں چوکتا مگر ادب کا دامن تھامے رہتا ہوں یعنی دل کے ساتھ پاسبانِ عقل کا قائل ہوں اور کسی طرح بھی تنہا چھوڑنے کے موقع پر اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ ابتداء میں میں نے رنگین غزلیں نظمیں بھی کہی ہیں جو میرے دو عشقوں کی یادگار ہیں لیکن اس دور کے بعد عزیزوں کی لوٹ کھسوٹ، دوستوں کی بے وفائی اور در پردہ دشمنی، ملازمت کے سلسلے میں خوشامدیوں کی ترقی اور بدنیتوں کی گردنوں میں طوق زریں دیکھ کر ’’ رنگین شاعری‘‘ سے طنز کی طرف آتا چلا گیا۔

اب میرے شعور میں ’’ ادب برائے زندگی‘‘ کا چسکہ پیدا ہو گیا جو ہنوز قائم و دائم ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض مجھے کمیونسٹ خیال کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے کیونکہ اسلام کے اندر کمیونزم کے پنپنے کا امکان ہی نہیں۔ صرف حقوقِ ہمسایہ اسلام کے اندر وہ کشش رکھتے ہیں کہ اس کے سامنے کمیونزم نہیں ٹک سکتا۔ صرف ایک مثال کافی ہو گی:’’ اگر پھل کھاؤ تو ہمسائے کو بھیجو ورنہ اس کے چھلکے اس قدر چھپا کر پھینکو کہ ہمسائے کی اس پر نظر نہ پڑے، تاکہ احساس کمتری نہ ہو۔ میں نے اپنے کلام میں اسی حقیقت کا اعتراف جا بجا کیا ہے لہٰذا میرے بارے میں یہ خیال بھی غلط ہے۔

( ’’ سماج‘‘ اور ’’ سفینہ چاہیے ‘‘ میں شادؔ عارفی کے مضامین سے ماخوذ)

٭٭٭

 

 

 

 

                شمیم احمد

 

 

 

شادؔ عارفی کا شاعرانہ مسلک

 

کسی شاعر سے اگر پوچھا جائے کہ آپ شعر کیوں کہتے ہیں اور یہ سُن کر وہ اطمینان بخش ہو اب نہ پائے توسمجھ لینا چاہئے کہ اس کا کوئی مخصوص شاعرانہ مسلک نہیں۔ وہ یوں ہی ادب برائے ادب یا شعر محض قسم کے کسی نظریہ سے وابستہ ہے اور وہ بھی غیر شعوری طور پر۔ وہ شعر محض اس وجہ سے کہتا ہے کہ اس عمل سے شہرت اور مقبولیت کے ساتھ مشاعروں میں داد بھی ملتی ہے واہ واہ، سبحان اللہ کے دل خوش کن اور تحسین آفریں نعروں کی سوغات سے اس کا دامن بھر جاتا ہے اور بس۔ اس کے سوا اس کا کوئی مخصوص شاعرانہ مسلک ہے نہ کوئی فکری میلان چنانچہ آج بھی جب کہ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور اسی کے ساتھ شعر و ادب کے میدان بھی وسیع ہو گئے ہیں۔ مہمل گو اور قافیہ پیمائی کرنے والے شاعروں کی ایک لمبی فوج کے سپاہی فن برائے فن کے علمبردار ہیں۔ ان کے یہاں دو اور دو چار کا ریاضی کا فارمولہ چلتا ہے اور شعری تخلیق عالمِ وجود میں آ جاتی ہے۔ بات کچھ تلخ سی ضرور ہے لیکن کچھ جھوٹ بھی نہیں کیونکہ فن برائے فن ( یا دو اور دو چار) کے اس فارمولے سے بھی یہ حضرات شعوری طور پر واقف نہیں بلکہ غیر شعوری طور پر یا کسی کی تقلید میں وہ اس نظریے سے وابستہ ہو جاتے ہیں وہ اس طرح کہ وہ اپنے شہر کے کسی مشہور استاد عبدل یا عمر بکر  زید کو مشاعرہ میں ہر ہر شعر پر داد کے پھول سمیٹتے دیکھتے ہیں تو اس سے وہ مرعوب ہوتے ہیں اور جھٹ دل میں خود نمائی کا جذبہ سر اٹھاتا ہے۔ خواہش زور مارتی ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز انھیں بھی کہنی چاہیے، کوشش ہوتی ہے۔ ناکامی کی صورت میں بھاگے ہوئے جاتے ہیں اور عبدل کے در دولت پر جبیں سائی کرتے ہوئے گڑ گڑا کر خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ استاد ہمیں اپنا شاگرد بنا لو! شاعری کے اور داؤ پیچ سکھا دو، استاد کا بھی سینہ پھول جاتا ہے جھٹ وہ شاگرد بنا لیتے ہیں، یہاں تک کہ اُن کے شاگردوں کی اچھی خاصی فوج تیار ہو جاتی ہے انھیں شاعری کے چند گر، داؤں پیچ اور کچھ مروجہ پینترے سکھا دیے جاتے ہیں یہ بحر ہوتی ہے، یہ وزن ہوتا ہے، اسے قافیہ کہتے ہیں اور اسے ردیف۔ انھیں یوں فٹ کر لو غزل تیار ہو جائے گی۔ استاد بھی کیونکہ اتنا ہی جانتے ہیں اس لیے وہ اپنے آپ کو فن برائے فن کا علمبردار کہہ کر اپنا بھرم قائم رکھتے ہیں چنانچہ ان کے سینکڑوں شاگرد یعنی غزل فٹ کرنے والے شاعر بھی ’’ خواہ مخواہ فن برائے فن کے نظریات سے غیر شعوری طور پر چپک جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کہ کسی آنکھوں کے پورے نظر کے گہرے اور شعور کے پختہ قاری کو ان شاعروں کے یہاں مربوط اور مستحکم نظریہ شعر کیوں کر ملے گا۔ نتیجہ صاف ہے کہ شاعر، شعر فٹ کرتے کرتے عمریں گزار دیتے ہیں لیکن شعر و ادب کی دنیا میں کوئی مقام نہیں بنا پاتے با شعور قاری کی نظر میں صرف وہی شاعر چڑھتا اور مقبول ہوتا ہے جو شعوری طور پر اپنی شاعری کے مقصد، نظریے اور مسلک سے واقف ہو۔ ہر دور میں چند ہی شاعر اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں اور وہی اپنے دور کے بڑے اور نمائندہ شاعر بھی ہیں۔ ہماری قدیم شاعری میں کوئی نظریہ واضح طور پر مروّج نہیں رہا لیکن انفرادی طور پر شاعروں نے کسی نہ کسی مطمح نظر کو اپنا یا ضرور ہے۔ ہمارے دور میں نظریات منظم ہیں ان کا تعلق خواہ انفرادی تصورات سے ہو یا اجتماعی مسائل سے۔

جدید دور میں شعر و ادب کو دو موٹے نظریوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ شاعری شاعری کے لیے یا شاعری زندگی کے لیے۔ شعر و ادب میں در اصل ان دونوں نظریوں کی ہی ٹکر ہے۔ اول الذکر کو قدامت پسندی اور رجعت پرستی کا نام دیا جا سکتا ہے اور ثانوی الذکر کو صحتمندی کا، جو زندگی کا ترجمان ہے۔ یہیں سے جدّت پسندی اور قدامت پسندی کے جھگڑے شروع ہوتے ہیں جو نہ جانے کیا کیا صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر بنیادی طور پر سارا جھگڑا اسی کا ہے کہ ادب کی تخلیق محض ادب کے لیے ہو یا زندگی کے لیے۔ اس مختصر سے مضمون میں ادب کے مقاصد سے بحث کرنے کی گنجائش ہے نہ اس کی ضرورت کیونکہ اس مسئلہ پر کتابوں کی کتابیں اٹی پڑی ہیں، یہاں صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ زندہ رہنے کا حق صرف اس شاعر اور ادیب کو ہے جو زندگی کو زندگی سمجھتا ہو اور اپنے فن کو زندگی کا ترجمان۔ شعوری طور پر اگر کوئی شاعر اس خیال پر عمل کرتا ہے تو وہ نہ صرف بڑا بلکہ بہت بڑا شاعر ہے اور ایسے شاعروں کی ہمارے یہاں کم از کم کمی ضرور ہے۔ اس دور کا با شعور قاری کسی وقت بھی کسی شاعر سے سوال کر سکتا ہے کہ وہ شعر کیوں کہتا ہے اور جس شاعر کے پاس قاری کے اس کیوں کا تسلی بخش جواب ہو گا قاری اسے ہی شاعر تسلیم کرے گا۔ ایسے چند گنتی کے شاعروں میں شادؔ عارفی کا نام بھی آتا ہے جن کے پاس اس کیوں کا جواب ہے۔ شادؔ عارفی اپنے منفرد لہجے کی وجہ سے قاری کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ان پر اس لیے بھی نظر ٹھیرتی ہے کہ وہ شعر کہنے کے مقاصد سے بھی شعوری طور پر واقف ہیں اور اپنا صالح شاعرانہ مسلک رکھتے ہیں۔ یہ بات کسی شاعر میں اسی وقت آتی ہے جبکہ وہ زندگی کا واضح طور پر شعور رکھتا ہو اور سماجی اور تاریخی قدروں سے بخوبی واقف ہو۔ شادؔ عارفی کے کلام میں ان خصوصیات کا عملی ثبوت بھی ملتا ہے اور نظری بھی۔ نظری طور پر وہ ادب اور زندگی کے مقاصد اور ان کے تعلقات سے پوری طرح واقف ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب ہماری شاعری پر رومانیت کی ناگوار رنگیں نہیں چڑھی ہوئی تھیں۔ زندگی کا کوئی تصور واضح نہیں تھا۔ تھا بھی تو اس میں فراریت کا جذبہ عام تھا اور شاعری محض دربار داری کے محدود دائروں میں گھر کر رہ گئی تھی۔ جہاں حسن و شباب کی پُر فریب داستانوں کے سوا کسی صالح قدر کی گنجائش ہی نہ تھی۔ لیکن جب زندگی نے اچانک ایک زبردست کروٹ لی تو شعر و شاعری کے شیش محل بھی چکنا چور ہونے سے بچ نہ سکے۔ یہ کروٹ ایسی تھی جس نے زمانے کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ قدیم اور جدید دو تہذیبیں سامنے آئیں۔ قدیم تہذیب جو خالص مشرقی ماحول کی پروردہ تھی اور جدید تہذیب جو مغربی اثرات سے پیدا ہو رہی تھی۔ قاعدہ ہے کہ قدامت جدت کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہے لیکن آسانی کے ساتھ نہیں۔ یہی زندگی کا ارتقاء ہے۔ اس ارتقائی عمل میں ہر وہ وقت بڑا جاں گسل ہوتا ہے جب قدامت اور جدّت میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ کیونکہ مٹتی ہوئی تہذیب مٹنے کے باوجود اپنی برتری منوانے پر ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور دوسری طرف نئی تہذیب کو پرانی تہذیب ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ اپنی اہمیت اور اولیت منوانے کے لیے پرانی تہذیب سے کھل کر برسر پیکار ہوتی نظر آتی ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد سے آج تک قدیم اور جدید تہذیبوں میں ٹکراؤ جاری ہے۔ قدیم تہذیب مٹتے مٹتے بھی نئی تہذیب کے واسطے جگہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ مگر جدید تہذیب اسے دھکے پر دھکے دیے جا رہی ہے۔ زندگی کے ارتقائی عمل کے پیش نظر ایک نہ ایک دن قدیم تہذیب کو یکسر نیست و نابود ہونا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ قدامت اور جدّت کی اس لڑائی کا انجام ہونا تو یہی ہے لیکن فی زمانہ جو کیفیت ہے وہ نبرد آزمائی کی ہے۔ یہ تصادم زندگی کے دوسرے شعبوں کے ساتھ ہی ادب میں بھی رجعت پسندوں اور جدت پسندوں کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔ اول الذکر گروہ کے لوگ آج بھی ادبی تخلیقات کے بعض فنی اور قدیم اصولوں پر جان چھڑکتے نظر آتے ہیں۔ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہ ادب کے اتار چڑھاؤ سے واقف نہیں۔ اپنی زندگی میں وہ ہزار طرح کی مصیبتوں، دشواریوں اور تجربات سے دو چار ہوتے ضرور ہیں لیکن جب شعر کی تخلیق کریں گے تو اس میں وہی حسن و عشق کی صد سالہ فرسودگی داخل کریں گے۔ شادؔ عارفی کی شاعرانہ زندگی بھی اس قدیم و جدید کے ٹکراؤ سے متاثر ہوئی ہے جس کا انھوں نے بارہا اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے :

مجھے بھی شادؔ ریشمین شاعری کا شوق تھا

مگر وہ عمر سر خوشی کی تھی، یا آگہی کی ہے

………

شادؔ ہجر و وصل تک محدود تھی میری نظر اک زمانہ تھا

آج میری ہر غزل وابستۂ حالات ہے، سوچنے کی بات ہے

………

وہ رنگیں نوائی، یہ شعلہ بیانی

کئی موڑ آئے مری شاعری میں

………

دس پانچ  برس حضرتِ حالیؔ کی طرح شاد

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

………

یہ اشعار اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ شادؔ عارفی شاعری کے مختلف رجحانات سے گزرے ہیں۔ ابتدا میں شاعری کی فرسودہ اور روایتی قدروں کے جال میں پھنس گئے تھے لیکن چونکہ مزاج تغیر پسند تھا اور بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ، اس لیے زیادہ دنوں تک وہ اس گھٹن میں نہ رہ سکے۔ جلد ہی انھوں نے وہ راہ چھوڑی اور شاعری کی اس راہ پر آئے جو زندگی کی منزل پر لے جاتی ہے۔

حالیؔ کی شاعرانہ زندگی کا آغاز بھی لب و رخسار اور گل و بلبل کی شاعری سے ہوا تھا جسے انھوں نے بعد میں نہ صرف خود ترک کیا بلکہ کوشش کی کہ اردو غزل بھی ان لغویات کو ترک کرے اور وقت کی نئی روشنی سے واقف ہو کر زندگی کی مزاج داں بنے۔ حالی اپنی اس مہم میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے دیے ہوئے خطوط پر ہمیں غزل کہنے والے کئی شاعر نظر آ رہے ہیں۔ خود شادؔ عارفی ان میں سے ایک نمایاں حیثیت کے مالک ہیں۔ شادؔ عارفی کے سلسلے میں یہ بات کچھ کھٹکتی ہے کہ حالیؔ کی طرح انھیں فرسودہ روایات کی دلدل میں پھنسنا تو نہیں چاہیے تھا کیونکہ ان کے سامنے حالیؔ کی بتائی ہوئی راہ واضح طور پر موجود تھی۔ یہ اعتراض حالیؔ پر تو خیر اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے سامنے شاعری کی ایک ہی روش تھی۔ دوسری روش خود انھوں نے بنائی۔ ہاں حالیؔ کے بعد کی نسل کے شاعروں پر ضرور یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے جن میں شادؔ عارفی بھی شامل ہیں۔ لیکن اگر ہم اس بات کا تجزیہ کریں کہ حالیؔ کے بعد کے بہت سے شعراء پرانی روایت کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ابھی پرانی قدریں برابر ہاتھ پیر مار رہی ہیں اور نئی قدروں سے برسرپیکار ہیں۔ اس لڑائی کا ابھی کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ ٹکراؤ پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ فرسودہ اور روایتی خطوں پر شاعری کرنے والوں کی ایک لمبی تعداد جو آج بھی موجود ہے۔ اس بات کا عملی ثبوت ہے اس لیے اگر شادؔ عارفی ابتداء میں اس دلدل میں جا پھنسے تھے تو کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ خوشی اس بات کی ہے کہ انھوں نے قدیم و جدید کے درمیان کشمکش کو سمجھا۔ جدید اقدار کی اہمیت کو محسوس کیا اور اس کی طرف قدم بڑھایا۔ یہی ان کے شاعرانہ شعور کی پختگی کا واضح ترین ثبوت ہے اور یہی ان کی عظمت کی دلیل بھی۔ یہیں ان کا شاعرانہ مسلک اور نظریۂ شعر بھی صاف طور پر ملتا ہے جس کا ثبوت ان کے وہ اشعار بہم پہنچاتے ہیں جن میں شعر کے مقاصد کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ وہ کھلے الفاظ میں فن برائے فن کے نظریے کی مذمت اور فن برائے زندگی کی حمایت کرتے ہیں :

شباب و خلوت کی بات اچھی تو ہے مگر آج کل نہ کہیے

غزل برائے حیات لکھیے غزل برائے غزل نہ کہیے

………

فن برائے فن کا رجحانِ کہن میری طرف

شال کے اندر بڑھاتا ہے کفن میری طرف

………

ادب برائے زندگی کی بات اس قدر کھل کر وہی فنکار کہہ سکتا ہے جو پورا سماجی اور تاریخی شعور بھی رکھتا ہو۔ ادب میں مختلف زمانوں کی قدروں سے بخوبی واقف ہو اور ادب اور زندگی کے مقاصد میں کوئی دوئی نہ سمجھتا ہو۔ شادؔ عارفی کے کلام سے ان باتوں کا عملی اور نظری ثبوت ملتا ہے۔ متذکرہ بالا اشعار سے ان کے شاعری کے بارے میں نظریات بخوبی واضح ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہمیں ان کے نظریے اور عمل میں مطابقت ملتی ہے، یہی ان کے بڑے فنکار ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔

شادؔ عارفی کی شاعری میں موضوعات کے تنوع اور انھیں برتنے کا جو سلیقہ نظر آتا ہے وہ ان کے نظریے کا رہینِ منت ہے کہ وہ خود شاعری کے موضوعات کو چند روایتی دائروں میں محدود کرنے کے سخت مخالف ہیں اس وجہ سے وہ ان نئے اور نوجوان شاعروں کی تعریف کرتے ہیں جنہوں نے نے شاعری کے فرسودہ اور روایتی ماحول کو خیر باد کہہ کر نئی ڈگر پر چلنا شروع کر دیا ہے مگر کچھ پرانے ہیں جو آج بھی قدامت کی ہر جائز و ناجائز روش پر جان دیتے ہیں۔ نئے ذہنوں کی توصیف اور قدامت پسندوں پر طنز کرنے کی وجہ سے شاد عارفی نئی نسل کے شعراء میں مقبول ہیں اس وجہ سے ان کی شہرت اور ادب میں مستقل مقام پر کوئی حرف نہیں آئے گا:

جوان شاعر تو شادؔ اس لغویت سے دامن چھڑا چکے ہیں

مگر ضعیفوں میں اب بھی چرچا ہے چاک دامانیِ رفو کا

مگر اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے نوجوان شاعر روایتوں کے جال میں پھنسے چاک دامانیِ رفو کے چرچے میں مصروف ہیں۔

شادؔ عارفی نہ صرف نئے موضوعات کے خواہاں ہیں بلکہ وہ شاعری میں اس لہجے اور انداز بیان کے بھی دلدادہ ہیں جس میں صداقت اور حقیقت پسندی پر کسی قسم کی آنچ نہ آئے۔ ان کے نزدیک شاعری میں مبالغہ آمیزی کوئی مستحسن بات نہیں ہے :

سوال اس میں نہیں حسینوں کو بُت نہ کہیے ضرور کہیے

مگر بعید از قیاس ہو جائے گا کہ پتھر بھی بولتا ہے

اردو غزل میں مبالغہ آرائی کے جو جو انداز ہیں وہ کسی سے پوشدہ نہیں۔ شادؔ عارفی ان کو پسند نہیں کرتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ شاعری میں حسن و عشق کا جو تصور ہے اسے انسانی حسن و عشق کی خصوصیات کا ہی حامل ہونا چاہیے۔ اب تک ہماری شاعری میں عشق اور حسن کا بڑا مبالغہ آمیز اور مبہم تصور رہا ہے۔ محبوب کی شخصیت کو قدماء نے اس قدر مسخ کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ کہیں سے بھی انسانی پیکر نظر نہیں آتا۔ وہ تمام خصوصیات اس محبوب کی ذات میں بھر دی گئی ہیں جو قطعی غیر انسانی ہیں۔ شاعری کو اگر حقیقت کے قریب لانا ہے تو پھر حسن و عشق کے روایتی تصورات کو بدل کر ان میں انسانی خدوخال کو داخل کرنا بڑا ضروری ہے تاکہ محبوب ایک انسان ہی نظر آئے کوئی آسمانی مخلوق نہیں۔ غزل میں حسن اور عشق کے اس صداقت آمیز اور حقیقی تصور اور محبوب کی ذات میں خالص انسانی خطوط کو حسرتؔ اور ان کے بعد کے جن شعراء نے پوری طرح برتنے کی کوشش کی ہے ان میں خود شادؔ عارفی بھی ہیں۔ وہ ان شعراء پر چوٹ کرتے ہیں جو آج بھی غلط بیانی سے کام لے کر محبوب کی شخصیت کو بو العجبی کا شاہکار بنا دیتے ہیں :

ہمارے شاعر غلط بیانی سے آج بھی کام لے رہے ہیں

وہ کون محبوب ہے کہ جس کے دہن نہیں ہے کمر نہیں ہے

غزل گو شعراء نے موضوعات کے ایک محدود دائرے تک ہی اپنے آپ کو پابند رکھا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک خیال بار بار دہرایا گیا اس سے ظاہر ہے کہ خیال اور موزونیت کی اولیت مجروح ہوئی اور یہ ثانوی چیزیں بن کر رہ گئیں نتیجتاً شاعروں نے اپنی شاعرانہ عظمت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے طرز و ادا اور زور بیان کا سہارا لے کر وہ وہ جادو طرازیاں کیں کہ غزل صنعت گری لفاظی، موٹی موٹی تراکیب، بھدّی اصطلاحات اور کثیف تشبیہات اور استعارات کے بوجھ تلے دب کے رہ گئی۔ شادؔ عارفی نے زبان اور بیان کے ان جادو طرازوں کا پول کھولا ہے :

شراب و شاہد کے تذکرے ان سے چھین لیجے تو کیا کریں گے

شراب و شاہد کے تذکروں تک ہی جن کی جادو بیانیاں ہیں

خیال کو ہیئت پر اوّلیت دینے کا جب بھی سوال آتا ہے تو اس سے ادب برائے زندگی کا تصور خود بخود وابستہ ہو جاتا ہے۔ زندگی کسی ایک مرکز پر جامد نہیں ہے وہ متحرک ہے اور اس کی قدریں بدلتی ہیں اور نئے نئے مسائل سامنے آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ زندگی اور ماحول کی چھوٹی چھوٹی باتیں شعر و ادب سے اس بات کی مقتضی ہیں کہ ان کی بھی عکاسی کی جائے۔ زندگی کی تغیر پسندی کے ساتھ جو ادب چلے گا اس کے مزاج میں بھی اسی نوعیت سے وقتاً فوقتاً تبدیلی آئے گی۔ یہ تبدیلی خیال کے ساتھ ہیئت کی بھی ہو گی کیونکہ کسی مخصوص خیال کو مؤثر بنانے کے لیے اسی پلّے کا انداز بھی درکار ہوتا ہے۔ شادؔ عارفی کی نکتہ رس نگاہوں نے اس کیفیت کو بھی دیکھا اور ایسے انداز بیان کی ضرورت کا احساس دلایا جو زندگی اور ماحول کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو۔ اب تک شاعری میں جس رنگینی کا غلبہ رہا ہے شادؔ عارفی اس سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ آج کے ماحول کا تقاضہ ہی کچھ اور ہے :

اس وقت کہ ماحول بھی للکار رہا ہے

کیا موقعۂ رنگینیِ اشعار رہا ہے

اس کے ساتھ ہی شادؔ عارفی غزل کی فنی خصوصیات کے منکر بھی نہیں ہیں۔ وہ غزل سے نئے کام ضرور لینا چاہتے ہیں لیکن غزل کی انفرادیت بھی ختم نہیں کرتا چاہتے۔ چنانچہ وہ غزل میں موضوعات کے تنوع، صداقت اور ان کی تلخیوں کو پیش کرنے کے قائل ضرور ہیں۔ لیکن غزل کی لطافت بیان کو بھی مجروح کرنا نہیں چاہتے۔

صداقتوں کی تلخیوں کے ساتھ شادؔ عارفی

لطافت بیان واقعہ غزل کی جان ہے

شاعری اور خصوصاً غزل کے بارے میں یہی سب سے صحتمند اور افادی نکتۂ نظر ہے کہ غزل زندگی کے نئے نئے مسائل کو اپنا موضوع بنائے۔ ساتھ ہی اپنی چند دل پسند اور منفرد صحتمند روایتی خصوصیات کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دے۔ غزل کے بارے میں شاد عارفی اسی نظریے کے قائل ہیں۔ خود ان کی غزل میں اظہار و بیان کے جو جو انداز ہیں وہ بے تکلف اور بے ساختہ ہوتے ہوئے بھی بڑی حد تک غزل کے لطیف مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ بیان و ادا میں بے تکلفی، بے ساختگی، شوخی، بذلہ سنجی، طنز اور لطافت کے اس حسین امتزاج نے ہی شادؔ عارفی کو ایک منفرد اور سب سے علیٰحدہ لہجہ بخشا۔ اس طرح انھوں نے غزل کے اظہار و بیان کے بارے میں جو بات فطری طور پر محسوس کی اسے اپنی غزل میں سمو کر عملی شکل بخشی۔

٭٭٭

 

 

 

 

                صابرؔ شاہ آبادی

 

 

 

ایک صالح ترقی پسند طنز نگار شاعر

 

اُردو میں خالص طنزیہ ادب کی کمی کے اہم اسباب یہ بھی ہیں کہ طنز کے تعمیری و اصلاحی مزاج سے نا واقف اُسے ’’ مزاح‘‘ ہی کی ایک شکل سمجھتے اور سمجھاتے رہے۔ دوسرے طنز، تشنیع یا ہجو ہی کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس لیے اس کے ذریعہ کسی تعمیری و مقصدی کام کا تصور ہی نہ ہو سکا اور نہ ہمارے نقادوں نے کسی طنزیہ تخلیق کو ’’ مقصدیت‘‘ کے پس منظر میں دیکھا ہے۔ ایسے ہی اسباب ’’ طنز‘‘ کو مزاح سے ہٹ کر کوئی علیٰحدہ صنفی صورت آج تک نہیں دلا سکے۔ گو اس کی تخلیق شعوری طور پر اصلاحی امور کے لیے نہیں ہوئی بلکہ یہ یقیناً فروغ مزاح کی دی ہوئی چیز ہے لیکن اب جب کہ تفریح و ہجو سے ہٹ کر اُس کے اپنے افادی امکانات واضح ہو چکے ہیں تو لازم ہے کہ طنز کی ابتدائی حیثیت سے زیادہ جدید افادی حیثیت سے کام لیا جائے یعنی اُس میں مزاح ’’ مقصدیت ‘‘ کے خلاف نہ ہو تو اچھی بات ہے لیکن محض مزاح کی خاطر طنز کرنا اس کی جدید افادیت کو ختم کرنا ہے۔ چنانچہ اسی طرز فکر نے ترقی پسند تحریک کو جنم دیا جو ادبی کم اور اشتراکی زیادہ ہونے کے باوجود قابل لحاظ ہے کہ اس نے تقاضائے وقت کے مطابق اردو ادب کو داخلیت سے چھڑا کر خارجیت سے ہمکنار کر دیا۔

طنزیہ تخلیق تبصرے سے زیادہ ’’ تازیانہ‘‘ ہوتی ہے اس لیے اس میں ہمدردانہ سنجیدگی اور احساس و اظہار میں تعمیری مطابقت لازمی ہے۔ طنز، احساس کی اُس شدت کا نام ہے جہاں مزید خاموشی مشکل ہو۔ ایسا وقت اختیار سے زیادہ احتیاط چاہتا ہے ورنہ افراط و تفریط عین ممکن ہے جو حقیقت و اصلیت کی صورت بگاڑ دیتی ہے پھر فائدہ معلوم۔ طنز کا سنجیدہ مقصد تنقیص یا تشنیع نہیں بلکہ اوروں میں احساس پیدا کرنا ہے۔ اس لیے اصلاح سے پہلے بے حسی کے درجے اور اسباب دیکھ لینے چاہئیں اور اسی نسبت سے اُس کا استعمال ہونا چاہیے ورنہ طنزیہ تحریک آگے بڑھ کر ’’ روایت‘‘ تو کہلا سکتی ہے لیکن خدمت نہیں۔ مذہبی تحریک کی اسی بنیادی غیرنفسیاتی غلطی سے ’’ شیخ و ناصح‘‘ صدیوں کی حق گوئی کے با وصف آج بھی بدنام ہیں اور میکدے آباد۔ اسی طرح ترقی پسند تحریک بھی اپنے تعمیری محاسن کے با وصف قدیم ادب و تہذیب پر اشتعال انگیز طنز کر کے بدنام ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ ’’ انسداد کفر‘‘ کا مؤثر ذریعہ ایثار و اخلاص ہے ’’تخریبِ سومنات‘‘ نہیں :  ’’گرمی بت خانہ، بے ہنگامۂ محمود نیست!‘‘چنانچہ ترقی پسندوں کا مخالف محاذ خود انہیں کا پیدا کردہ ہے۔

اسی نزاکت کے سبب طنز کے لیے نثری اصناف تک میں امتیازی احتیاط توجہ کی ضرورت بتلائی گئی ہے۔ پھر اس کے شعری استعمال کی نزاکتیں اور دشواریاں ظاہر ہیں۔ برایں بنا اردو ادب میں طنز نگاروں کی قلت رہی ہے۔

ہر چند مجھے شادؔ مرحوم کے اُن تفصیلی حالات کا علم نہیں کہ ان کی طنز پسندی کا پتہ لگا سکوں لیکن مختصر سے سوانح حیات اور اشعار سے ان کی تعمیر پسندی اور ترقی پسندانہ صاف گوئی ٹپکتی ہے شاید یہی خصوصیت ’’ الحق مر‘‘ کی بنیاد پر ان کے لیے آزار جاں ثابت ہوئی بلکہ اپنے جمالیاتی ذوق کے بجائے تعمیری فکر کو اپنانے کا بھی باعث ہوئی۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں :

دس پانچ برس حضرتِ حالیؔ کی طرح شاد

مجھ کو بھی جنون لب و رخسار رہا ہے

مگر ان کی کرب انگیز خانگی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس ’’ جنون‘‘ تک پہنچے ہوئے ’’ربطِ حبیب‘‘ کی نفی کرتا ہے۔ اس پر ان کے ایسے عشقیہ اشعار کم از کم میری نگاہ سے نہیں گزرے جو سوز و گداز کے اعتبار سے ’’ زمضراب چکاند خوں ناب‘‘ کا اثر رکھتے ہوں اور جن سے ان کے جنوں تک پہنچے ہوئے روابط جمیل ثابت ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ یقیناً کچھ روز صرف کوئے دوست ہی کے ہو رہے ہیں مگر ان کا یہ شوق چونکہ اتنا رچا ہوا نہ تھا کہ جسے وہ اپنے غیر عشقیہ مصائب اور خاک و خون میں لتھڑی ہوئی انسانیت پر ترجیح دیتے اس لیے وہ جلد ہی تعمیری حقائق کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اب رہی ’’ طنز‘‘ اپنانے کی بات؟۔ سوطبعی مناسبت کے علاوہ نا مساعد حالات کی وجہ سے ’’ طنز ‘‘ کی تاثیر چونکہ ان کے لیے ایک حقیقتِ ثانیہ تھا اس لیے اُسی کو اپنا لیا، مگر انھیں اس رنگ میں کوئی فنی کمال و کرتب دکھانا یا ذاتی غم و غصّے کا اظہار کرنا نہ تھا اس لیے ان کے کئی اشعار میں ایک تعمیری مقصدیت جھلکتی ہے جو ایک حد تک ’’ طنز‘‘ کو خالص طنزیہ اور مقصدی صورت دلا سکتی ہے۔

گو شادؔ کی زندگی مردم گزیدہ رہی لیکن انھوں نے مخالفین سے اخلاقی مایوسی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ’’ بسمل‘‘ کے تماشائیوں میں ذرا سی ہمدردانہ جنبش دیکھ کر ’’ امن دشمنوں ‘‘ کو پگڑی سنبھالنے کے لیے للکارا ہے :

اُکھڑنے لگی ظالموں کی ہوا

ٹھہرنے لگے لوگ بسمل کے پاس!

یہ شعر ظالموں کی قدیم و خونخوارانہ ذہنیت اور اس کے جمہوری انجام کی کتنی تحریک آفریں تصویر ہے۔ کل تک وہی ’’ بسمل‘‘ دنیوی عدالتوں سے مایوس ہو کر ’’ سر حشر‘‘ بھی اظہار مظلومیت کے لیے یا تو ’’ زبانِ خنجر‘‘ کا منھ تکتا یا اپنے ’’ آستین کے لہو کا‘‘۔ مگر لہو کا پکارنا معلوم! پھر ادب میں اس صالح ترقی پسندی کا کون معترف نہ ہو گا جس نے ’’ خنجر و آستین‘‘ والے ’’فدویانہ توکل‘‘ کو اجتماعی غیرت سے بدل کر دعوتِ عمل دی۔ افسوس کہ بعض ترقی پسند مذکورہ ’’ توکل‘‘ پر بھی ایسا غیر سنجیدہ طنز کرتے ہیں کہ مخاطب ان کی ہمدردی کے با وصف مشتعل ہو جاتا ہے مگر شادؔ حقائق کا اشتراکی تصور نہیں رکھتے اس لیے وہ طنز کی بنیاد مذہبی اعتقادات کے بجائے شخصی فدویت پر رکھتے ہیں۔ برایں بنا وہ انجمن ترقی پسند مصنفین رام پور سے وابستہ رہنے کے باوجود اس تحریک سے الگ ہو گئے۔ شادؔ کا طنزیہ کلام شاہد ہے کہ انھیں اجتماعی غم حیات کا کس قدر درد مندانہ احساس رہا۔ چنانچہ قائدین سے اس کا مطالبہ فروغ وطن اور انسان دوستی کے سوا کچھ نہیں رہا ہے لہٰذا وہ تعمیری امور پر پوری توجہ دینے میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ بعض اوقات زبان و بیان سے زیادہ معنوی خوبیوں کے اہتمام کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی بات منوانے کے دھُن میں رہتے ہیں۔ وہ خود بھی اس کے معترف ہیں فرماتے ہیں :

اے وہ اردوئے معلی نہ سہی

شادؔ کی بات سنو اُستادو!

اگر وہ بعض ترقی پسندوں کی طرح ترجیحی حقائق کے بجائے کسی ’’ ازم‘‘ کی نمائندگی کرتے تو ان کا بیک وقت رہبر اور عوام دونوں پر اس طرح تازیانہ اٹھانا ممکن نہ تھا:

جھپٹ پڑیں نہ کہیں دن میں مشعلیں لے کر

عوام کو نہ سُجھاؤ کہ روشنی کم ہے

ہنگامہ پسند قیادت اور عوام کے جاہلانہ امکانات پر اس سے زیادہ بے لاگ اور مؤثر طنز و تبصرہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ایسے کئی اشعار ان کی صالح ترقی پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثالاً کچھ اشعار دیکھیے :

آشیاں، پھول نہیں تھے کہ خزاں لے اُڑتی

آپ اس بحث میں جانے کی اجازت دیں گے

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں مُنہ آپ کی تلوار کا

بجائے اس کے ہمیں آپ کچھ سہارا دیں

حضور اپنے قدم استوار فرمائیں

ہر غلط بات پر بھی ہاتھ اٹھاؤ

یہ نمائندگی نہیں، شرماؤ!

رہِ گلشن پہ ستم ایجادو

’راستہ بند ہے ‘ یہ لکھوا دو

باغباں کو اعتماد گلستاں حاصل بھی ہے

آپ یہ تحقیق فرمائیں گے اتنا دل بھی ہے

اشعار بالا سے ظاہر ہے کہ شاد ہر اس کردار کو جھنجھوڑتے ہیں جو انھیں محبت و انسانیت کے خلاف نظر آتا ہو۔ ظاہر ہے کہ معاشرے کی بد حالی میں ایک ہی قسم اور ایک ہی درجے و طبقے کی غلطیاں نہیں ہوتیں بلکہ کبھی تو ایک رہبرانہ غلطی، اجتماعی غلطیوں سے زیادہ سنگین ہوتی ہے اور کبھی خود عوام کی نادانی مسائل کے خوش گوار تصفیہ میں حائل ہو جاتی ہے اس لیے وہ ’’ جرم و سزا‘‘کا دقیق مناسبت سے فیصلہ کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کا طنز نا گوار کم اور معقول زیادہ ہوتا ہے۔

ادب کا مقصدی ہونا اُس کی معراج نہیں لازمہ ہے۔ چنانچہ قدیم ادب بھی داخلی مقاصد کے لحاظ سے بے مثال رہا ہے جس طرح ماحول بدل جانے سے آج اس کی حیثیت ترجیحی نہیں رہی اُسی طرح ’’ تعمیری و ترجیحی نوعیت‘‘ متعین ہونے تک کسی مقصد کی اہمیت نہیں ہو سکتی۔ مزدوروں اورکسانوں کی ترقی بیشک ایک اہم ضرورت ہے لیکن اُسے جملہ ضرورتوں پر ترجیح دینا ’’ مقصدیت‘‘ سے زیادہ جذباتیت ہے۔ اِسی طرح اکبر الٰہ آبادی کی طنز نگاری کا یہ بھی مقصد رہا ہے کہ وہ علی گڑھ کالج کی انگریزی اور غیر روحانی تعلیم کی مخالفت اور ندوۃ العلماء و شبلی کی تائید کر سکیں مگر تنقید پر’’ تنقیص ‘‘ کو ترجیح دینے سے ان کے طنزیہ اشعار ’’ محض ہجو‘‘ سمجھے گئے۔ اس واقعہ سے مقصد کی تعمیری و ترجیحی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ شادؔ کی اعتدال پسندی یوں بھی ثابت ہے کہ انھوں نے قدیم و تفریحی قسم کی طنز گوئی ترک کر دی لیکن قدیم اسالیب بیان کو اپنا لیا جن سے بیشتر ترقی پسندوں کو خدا واسطے کا بیر ہے۔ ذیل کے اشعار ان کی تعمیری فکر کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

اک انقلاب دیکھ رہا ہوں چمن چمن

میری نظر جہاں ہے تمھاری نظر نہیں

باغبانوں کو شکایت ہو کہ گلچینوں کو

ذوق اصلاح چمن نے کبھی ڈرنے نہ دیا

اپنی مرضی سے تو اُگتے نہیں خود رو پودے

ہم غریبوں کا بہر حال نگہباں ہے کوئی!

نظام وطن کے ستائے کھڑے ہیں

سروں پر جو ساماں اٹھائے کھڑے ہیں

رنگ کو دھوپ کھا گئی، بُو کو ہوا اُڑا گئی

کہیے اس اعتبار سے آئی بہار یا گئی؟

جو پیش آئیں غریبوں سے انکسار کے ساتھ

تو ہم کو ضد بھی نہیں اہل اقتدار کے ساتھ

چونکہ کوئی تعمیری مقصد اجتماعی تعاون کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا اس لیے شادؔ سنجیدگی سے مخالفت دور کرنے سے قبل طنز نہیں کرتے اور ناگزیر صورت میں کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ مخاطب متاثر ہو سکے مشتعل نہیں۔ یہ مصلحانہ خدمت طنز نگار سے جو خصوصیات چاہتی ہے وہ شادؔ میں قابل لحاظ حد تک پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ان کا لب و لہجہ وضاحت و اشاریت کی درمیانی و زود اثر کیفیت لیے ہوئے ہے۔ چونکہ وہ علاج سے پہلے زخم کی نوعیت اور مریض کی قوت برداشت دیکھ لیتے ہیں اس لیے اُنھیں نشتر کے انتخاب و استعمال میں اندیشہ نہیں رہتا۔ یہی وہ بنیادی اعتماد ہے جو طنز نگار کو نسبتاً زیادہ بے باک اور حق گو بنا دیتا ہے۔ چنانچہ شادؔ غیر مقصدی طنز نگاروں کی طرح شعروں میں مزاح کا اہتمام نہیں کرتے جو قارئین کی تائید حاصل کرنے کے لیے اکثر کیا جاتا ہے۔ اشعار ذیل سے ظاہر ہے کہ وہ اخلاقی ذرائع سے مخاطب کو ہمنوا بنانے کی ابتداءً کس قدر کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ’’ صحرا نوردی‘‘ کے صدمے اٹھانے والا بلا وجہ کبھی دوسروں کے پاؤں میں کانٹے نہیں چبھو سکتا:

آپ کو کتنی اذیت ہو گی

میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں

اس متاملانہ طرز گفتگو سے ان کی مروّت پسندی ظاہر ہے۔ شعر کی رُکی رُکی فضا بتاتی ہے کہ در اصل وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ :

ہم سے اس قسم کی اُمید نہ رکھے دنیا

ہم کسی شخص کی تعریف تو کرتے ہی نہیں

لیکن وہ اس کے بجائے اوپر کتنی مروّت سے ہمکلام ہیں۔ مخالف سے یہ محتاط طرز گفتگو ان کے اس مقصد کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اجتماعی تعاون کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا:

آپ کے تیور بتاتے ہیں بُرا مت مانیے

آپ سے کوئی اصولی کام ہونے سے رہا

بات گو نسبتاً تیز ہے لیکن ’’ برا مت مانیے ‘‘ اور اصولی کام‘‘ کی رعایت پھر بھی معنی خیز مروت ظاہر کرتی ہے۔ احساس و اظہار میں موثر مطابقت کا آخر وہ کون سا پہلو ہے جو اس شعر میں نہیں ہے !

سینک سکتے ہیں آپ بھی آنکھیں

جل رہے ہیں نشیمنوں کے الاؤ

اس وسیع تباہی کا تعمیری احساس دلانے کے لیے مشکوک عناصر سے اس سے بہتر طرز خطاب اور کیا ہو سکتا ہے :

تو پھر اے ساتھیو، یہ طے رہا نا!

سفر میں کوئی بھی منزل نہ ہو گی

راحت طلب یا معاوضہ طلب مسافروں کی غرض مندانہ ذہنیت کی اصلاح کے لیے کتنا بلیغ اشارہ ہے خصوصاً ’’یہ طے رہا نا‘‘ کی تکراری فضا شادؔ کے پُر خلوص لب و لہجہ کی گویا قسم کھا رہی ہے۔

تیری فطرت ہی جلانا ہے مگر برقِ چمن

کچھ نشیمن وہ جلائے ہیں کہ جی جانے ہے

ترقی پسند اور مساوات پسندانہ نظریات کے با وصف ’’ کچھ نشیمنوں ‘‘ کی مخصوص نمائندگی شاعر کی طبقاتی ذہنیت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس کی حسرت شناسی ہے جو تمام نشیمن والوں میں یکساں نہیں ہوتی۔ پھولوں کی افسردگی اور بِن کھلے غنچوں کی افسردگی کا رنج بہت امتیاز رکھتا ہے۔ خصوصاً ظالموں کو اپنی درندگی و وحشت کا احساس دلانے کے لیے ان کے ایسے غیر انسانی سلوک کی ترجمانی لازمی ہے ایسے جاں گداز مناظر دیکھنے کے باوجود شادؔ کا یہ نرم لب و لہجہ ان کی شائستگی اور جذبۂ عفو کی دلیل ہے :

شرح و تفصیل میں جانے کا نتیجہ معلوم

اُن سے القاب وہ پائے ہیں کہ جی جانے ہے

کسی اور پر اپنے مخالف کی زیادتیاں ظاہر کرنا اور اس طرح کہ اس کی بد تمیزی ظاہر نہ ہونا، مخالف کو طنز سے بچانے کا خلوص ظاہر کرتا ہے جو شادؔ کی ایک خصوصیت ہے۔

غرض شادؔ نے اپنے ترقی پسند تصورات کی بنیاد انسان دوستی پر رکھی ہے، عام ترقی پسندوں کی طرح جذباتی روایت بیزاری پر نہیں اس لیے وہ غیر ترقی پسندوں کو غیر یا ہیچ نہیں سمجھتے۔

ہر انقلاب کچھ پرانی خرابیاں دور کرتا اور کچھ نئی خرابیاں پیدا کرتا ہے جو رفتہ رفتہ احتجاج سے چَھٹ جاتی ہیں اس لیے ضروری نہیں کہ ’’انقلاب‘‘ ابتدا ہی میں جملہ تعمیری محاسن سے مزیّن ہو۔ ایسا حسن ظن لا شعوری طور پر انقلاب بیزاری پیدا کرتا ہے جو زندگی کی ترقی کے لیے مُضر ہے۔ چنانچہ ترقی کے لیے سیاسی انقلابوں کے ساتھ ساتھ ادبی انقلاب بھی ضروری ہے خواہ اس کی ابتدائی شکل بھدّی ہی سہی۔ اس نقطۂ نظر سے نظیر اکبر آبادی کی شعری بغاوت فنی اعتبار سے کسی درجے کی سہی لیکن قابل ستائش ہے کہ اس نے شاعری میں خارجیت کا میلان رائج کیا، جس کے زیر اثر غالب کو ’’ غزل‘‘ کی داخلیت کھلنے لگی اور انھوں نے معنوی وسعت کے لیے احتجاج کیا۔ نتیجتاً حالی اور آزادؔ کے دور میں ’’ مصرع طرح‘‘ کے بجائے مقررہ موضوعات پر نظمیں لکھنے کا رواج پڑا جو اقبالؔ اور جوشؔ کے ہاتھوں کمال پر پہنچا۔

نظم کا یہ ارتقاء بنیادی طور پر نظیر اکبر آبادی کی اسی بھدّی خارجیت پسندی کا نتیجہ ہے۔ تقریباً یہی حال ترقی پسند تحریک کا بھی ہے جس کی ابتدائی بھدّی صورت آج اتنی باقی نہیں رہی بلکہ شادؔ کی بے لاگ طنز نگاری میں ان کی ذاتی تعمیر پسندی کے علاوہ ترقی پسند تحریک کے اثرات بھی کار فرما ہیں۔ اس طرح کلام شادؔ میں اگر ایسے عناصر نظر آتے ہوں جو ان کی صالح ترقی پسندی کے خلاف ہوں تو انھیں فکری بغاوت کے ابتدائی اور لازمی نقوش سمجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے مستقبل سے خوش آئند اثرات کے منتظر رہنا چاہیے۔ غیر ممکن ہے کہ شادؔ کی یہ صالح ترقی پسندی اوروں کے لیے محرک ثابت نہ ہو، اور نتیجتاً کسی ’’ ازم‘‘ سے ہٹ کر انسان دوستی کا یہ وسیع و پُر خلوص میلان خود ترقی پسندوں کا میلان نہ ہو۔

چھ غیر مطبوعہ دواوین سے شادؔ کی بسیار گوئی ظاہر ہے۔ بسیار گوئی کا ایک سبب ان کا وہ خیال ہے کہ ہر صنف سخن پر قدرت رکھنے والا ہی با کمال شاعر ہے۔ ان کے نزدیک صرف رومانی اور عشقیہ شاعری کی اہمیت قابلِ تسلیم نہیں۔ وہ غزل میں حسن و عشق کی گرمیاں اور رنگینیاں اتنی ہی پسند کرتے ہیں جو عزم میں ولولہ اور مقصد میں جوش پیدا کرے۔ ان کی غزلیں باغیانہ زیادہ اور محض عاشقانہ کم ہیں۔ ان کی عاشقانہ شاعری میں غمزہ طراز رنگینیاں اور عشوہ نواز لطافتیں اور جذبات کو بر انگیختہ کرنے والی دلچسپیاں نہیں ہیں۔ وہ مقصدی شاعر ہیں اور اس میں پورے اقدار عناصر اور شرائط کے ساتھ بھرپور کامیاب اور منفرد ہیں۔

بیان و زبان کی لغزشیں یا دیگر کوتاہیاں شادؔ کے یہاں اسی مقدار میں اور اسی معیار کی ہیں جس قدر ہر بڑے سے بڑے شاعر بلکہ اچھے سے اچھے استاد کے یہاں پائی ہیں جو محاسن کی کثرت کی وجہ سے ناقابل ذکر ہوتی ہیں اور خصوصاً بسیار گو اور قادر الکلام شاعر کے یہاں۔ لہٰذا بسیار گوئی کے باوجود ہم معنی اشعار کی کمی، شادؔ کے وسیع الخیال ہونے کے علاوہ ان کی قادر الکلامی کا ثبوت ہے۔ ظاہر ہے کہ بیانیہ ندرت ہی ہم معنی افکار کو ہم معنی اشعار ہونے نہیں دیتی۔ شعر میں فکری اعتدال اور بیانیہ سادگی و سلاست ان کی مرکزی خصوصیات ہیں۔ ان کی جو بیانیہ خصوصیت انھیں طنز نگاری میں امتیاز دلاتی ہے وہ ہے ’’ مؤثر اشاریت‘‘، جس سے ذہن نشین ہونے والی بات دل نشین ہو جاتی ہے۔ ذیل کا اولین طنزیہ شعر شادؔ کی طبعی طنز پسندی کا پتہ دیتا ہے :

ہو چکا ہے خیر سے ہُشیار تو

اپنے دشمن پر اٹھا تلوار تو

چنانچہ اسی فطری مانوسیت کے سبب وہ غیر مقصدی طنزیہ اشعار بھی کہہ لیتے ہیں۔ ’’ شیخ و ناصح‘‘ پر ان کے طنزیہ شعر عقیدتمندانہ پاکیزگی اور کردار شناسی کے لحاظ سے انفرادی معنویت کے حامل ہیں اور یکسر تہہ دار و بلیغ:

چاپ سُن کر جو ہٹا دی تھی اٹھا لا ساقی

شیخ صاحب ہیں، میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی

ہر چند اس میں ’’ شیخ‘‘ پر طنز ہی کیا گیا ہے لیکن کس اچھوتے پیرائے میں۔ ’’آنے والے ‘‘ کو مسلمان سمجھ کر صراحی چھپا دینے سے شادؔ کی پشیمانی ظاہر ہوتی ہے و نیز ان کی نگاہ مخمور میں ایک ’’ عام مسلمان‘‘ کا ادب و احترام بھی۔ اس اعتبار سے حقیقی و خدا ترس شیخ کا ان کی نگاہ میں جو بلند ترین مرتبہ ہو گا وہ پوری طرح ظاہر ہے لیکن چونکہ یہ ’’ شیخ صاحب‘‘ خود بھی در پردہ بڑے اُستاد قسم کے میخوار ہیں اس لیے وہ شیخ کی روایتی دو رنگیِ کردار پر طنز کرتے ہوئے ساقی سے نہایت اطمینان سے چھپائی ہوئی صراحی اُٹھا لانے کے لیے کہہ رہے ہیں جو انھوں نے ’’کسی مسلمان‘‘ کی آمد کے دھوکے میں احتراماً خود چھپا دی تھی یا ساقی سے چھپوا دی تھی۔ ’’ میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی‘‘ سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ شیخ کی دو رنگیِ کردار سے متعلقہ طنزیہ اشعار میں ایسا شعر مشکل ہی سے ملے گا جو ثقافتی امور پر ایسا جامع و مہذب تبصرہ لیے ہوئے ہو۔

مجموعی اعتبار سے شادؔ ترقی پسند ہوتے ہوئے حقیقت پرست ہیں اور طنز نگار ہوتے ہوئے تعمیر پسند۔ اس لیے ان کی طنز نگاری اردو میں قابل قدر اضافہ ہے جو قابل مبارک باد بھی ہے اور لائق تقلید بھی۔

شادؔ مرحوم کا ’’ غم روز گار‘‘ ایسا سرسری نہیں ہے کہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے موت کو برحق سمجھ کر : ’’ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں ‘‘ کہہ دیا جائے کیونکہ ان کی گزند خوردہ روح ہم سب سے بار بار پوچھ رہی ہے کہ

خاک میں ’’ کر دی گئیں پنہاں ‘‘ کہ پنہاں ہو گئیں ؟‘‘ اس لیے ہمیں ’’ اظہار تعزیت‘‘ سے پہلے اس اہم سوال کے ’’ جواب‘‘ کی فکر کرنی چاہیے کہ تعزیت کا تعلق ’’ رسوم‘‘ سے ہے اور جواب کا ’’ فرائض‘‘ سے۔

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر، جنہوں نے اصل کتاب کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید