FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

سوئے دشتِ سحر

 

 

امجد اسلام امجد کی کچھ غزلیں

 

                جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے

اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے

 

اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے

جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے

 

بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟

دل کو رُکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے

 

کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے

اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے

 

میں کھِلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے

وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے

 

وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل

ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی رقص شام بہار میں اُسے دیکھتے

کبھی خواہشوں کے غُبار میں اُسے دیکھتے

 

مگر ایک نجم سحر نُما، کہیں جاگتا

ترے ہجر کی شب تار میں اُسے دیکھتے

 

وہ تھا ایک عکس گُریز پا، سو نہیں رُکا

کٹی عمر دشت و دیار میں اُسے دیکھتے

 

وہ جو بزم میں رہا بے خبر، کوئی اور تھا

شب وصل میرے کنار میں اُسے دیکھتے

 

جو ازل کی لوح پہ نقش تھا، وہی عکس تھا

کبھی آپ قریۂ دار میں اُسے دیکھتے

 

وہ جو کائنات کا نور تھا، نہیں دور تھا

مگر اپنے قُرب و جوار میں اُسے دیکھتے

 

یہی اب جو ہے یہاں نغمہ خواں، یہی خوش بیاں

کسی شام کوئے نگار میں، اُسے دیکھتے

 

وہ تھا ایک عکس گُریز پا، سو نہیں رُکا

کٹی عمر دشت و دیار میں اُسے دیکھتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حد سے توقعات زیادہ کیے ہوئے

بیٹھے ہیں دل میں ایک ارادہ کیے ہوئے

 

اس دشت بے وفائی میں جائیں کہاں کہ ہم

ہیں اپنے آپ سے کوئی وعدہ کیے ہوئے

 

دیکھو تو کتنے چین سے کس درجہ مطمئن!

بیٹھے ہیں ارض پاک کو آدھا کیے ہوئے

 

ق

پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے

اک دشت انتظار کو جادہ کیے ہوئے

 

آنکھوں میں لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ!

گرد سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے

 

دیکھو تو کون لوگ ہیں!آئے کہاں سے ہیں !

اور اب ہیں کس سفر کا ارادہ کیے ہوئے

 

اس سادہ رُو کے بزم میں آتے ہی بجھ گئے

جتنے تھے اہتمام زیادہ کئے ہوئے

 

اُٹھے ہیں اُس کی بزم سے امجد ہزار بار

ہم ترک آرزو کا ارادہ کیے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا

وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

 

وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی

سوائے گرد سفرہم سفر نہیں آیا

 

پَلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی

ہمارا صُبح کا بھُولا مگر نہیں آیا

 

کِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری

کوئی بھی پھُول مِرے نام پر نہیں آیا

 

چلو کہ کوچۂ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں

کہ نخلِ دار پہ کب سے ثمر نہیں آیا!

 

خُدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں

اُنھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

 

کدھر کو جاتے ہیں رستے ، یہ راز کیسے کھُلے

جہاں میں کوئی بھی بارِ دگر نہیں آیا

 

یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے

کہ چَین دل کو مِرے رات بھر نہیں آیا

 

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف

پہ عُمر کیسے کٹے گی ، اگر نہیں آیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُداسی میں گھِرا تھا دِل چراغِ شام سے پہلے

نہیں تھا کُچھ سرِ محفل چراغِ شام سے پہلے

 

حُدی خوانو، بڑھاؤ لَے، اندھیرا ہونے والا ہے

پہنچنا ہے سرِ منزل چراغِ شام سے پہلے

 

دِلوں میں اور ستاروں میں اچانک جاگ اُٹھتی ہے

عجب ہلچل، عجب جھِل مِل چراغِ شام سے پہلے

 

وہ ویسے ہی وہاں رکھی ہے ، عصرِ آخرِ شب میں

جو سینے پر دھری تھی سِل، چراغِ شام سے پہلے

 

ہم اپنی عُمر کی ڈھلتی ہُوئی اِک سہ پہر میں ہیں

جو مِلنا ہے ہمیں تو مِل، چراغِ شام سے پہلے

 

ہمیں اے دوستو اب کشتیوں میں رات کرنی ہے

کہ چھُپ جاتے ہیں سب ساحل، چراغِ شام سے پہلے

 

سَحر کا اوّلیں تارا ہے جیسے رات کا ماضی

ہے دن کا بھی تو مُستَقبِل، چراغِ شام سے پہلے

 

نجانے زندگی اور رات میں کیسا تعلق ہے !

اُلجھتی کیوں ہے اِتنی گلِ چراغِ شام سے پہلے

 

محبت نے رگوں میں کِس طرح کی روشنی بھر دی !

کہ جل اُٹھتا ہے امجد دِل، چراغِ شام سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُلجھن تمام عُمر یہ تارِ نفس میں تھی!

دِل کی مُراد عاشقی میں یا ہوس میں تھی!

 

دَر تھا کھُلا، پہ بیٹھے رہے پَر سمیٹ کر

کرتے بھی کیا کہ جائے اماں ہی قفس میں تھی!

 

سَکتے میں سب چراغ تھے’ تارے تھے دم بخُود!

مَیں اُس کے اختیار میں’ وہ میرے بس میں تھی

 

اَب کے بھی ہے ، جمی ہُوئی، آنکھوں کے سامنے

خوابوں کی ایک دھُند جو پچھلے برس میں تھی

 

کل شب تو اُس کی بزم میں ایسے لگا مجھے!

جیسے کہ کائنات مِری دسترس میں تھی

 

محفل میں آسمان کی بولے کہ چُپ رہے

امجد سدا زمین اسی پیش و پس میں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آئینوں میں عکس نہ ہوں تو حیرت رہتی ہے

جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے

 

ہر دم دُنیا کے ہنگامے گھیرے رکھتے تھے

جب سے تیرے دھیان لگے ہیں فرصت رہتی ہے

 

کرنی ہے تو کھُل کے کرو انکارِ وفا کی بات

بات ادھوری رہ جائے تو حسرت رہتی ہے

 

شہرِ سُخن میں ایسا کُچھ کر، عزت بن جائے

سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے ، عزت رہتی ہے

 

بنتے بنتے ڈھے جاتی ہے دل کی ہر تعمیر

خواہش کے بہروپ میں شاید قسمت رہتی ہے

 

سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں

رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے

 

موسم کوئی خُوشبو لے کر آتے جاتے ہیں

کیا کیا ہم کو رات گئے تک وحشت رہتی ہے

 

دھیان میں میلہ سا لگتا ہے بیتی یادوں کا

اکثر اُس کے غم سے دل کی صُحبت رہتی ہے

 

پھولوں کی تختی پہ جیسے رنگوں کی تحریر

لوحِ سُخن پر ایسے امجد شہرت رہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

زمین جلتی ہے اور آسمان ٹوٹتا ہے،

مگر گریز کریں ہم تو مان ٹوٹتا ہے !!

 

کوئی بھی کام ہو انجام تک نہیں جاتا !

کسی کے دھیان میں پَل پَل یہ دھیان ٹوٹتا ہے

 

کہ جیسے مَتن میں ہر لفظ کی ہے اپنی جگہ

جو ایک فرد کٹے، کاروان ٹوٹتا ہے

 

نژادِ صبح کے لشکر کی آمد آمد ہے

حصارِ حلقئہ شب زادگان ٹوٹتا ہے

 

اگر یہی ہے عدالت ! اور آپ ہیں مُنصِف!

عجب نہیں جو ہمارا بیان ٹوٹتا ہے

 

وفا کے شہر کے رستے عجیب ہیں امجد

ہر ایک موڑ پہ اِک مہربان ، ٹوٹتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی   بھی   آدمی   پورا نہیں ہے

کہیں آنکھیں،   کہیں چہرا نہیں ہے

 

یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے

یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے

 

جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے

وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے

 

زمانہ     دیکھتا   ہے   ہر تماشہ

یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے

 

ہزاروں شہر ہیں ہمراہ   اس کے

مسافر   دشت   میں   تنہا نہیں ہے

 

یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں

کسی   منظر پہ دل جمتا نہیں ہے

 

جو دیکھو تو ہر اک جانب سمندر

مگر پینے کو اک قطرہ نہیں ہے

 

مثالِ چوبِ نم خوردہ، یہ سینہ

سلگتا ہے، مگر   جلتا نہیں ہے

 

خدا   کی ہے یہی   پہچان   شاید

کہ کوئی اور اس جیسا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

منظر کے اردگرد بھی اور آرپار دھُند

آئی کہاں سے آنکھ میں یہ بےشمار دھُند

 

کیسے نہ اُس کا سارا سفر رائیگاں رہے

جس کاروانِ شوق کی ہے راہگزار دھُند

 

ہے یہ جو ماہ و سال کا میلہ لگا ہوا

کرتی ہے اس میں چھپ کر مرا انتظار دھُند

 

آنکھیں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ

دل وہ چمن کہ جس کا ہے رنگِ بہار دھُند

 

کمرے میں میرے غم کے سوا اور کچھ نہیں

کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار دھُند

 

فردوسِ گوش ٹھہرا ہے مبہم سا کوئی شور

نظارگی کا شہر میں ہے اعتبار ، دھُند

 

ناٹک میں جیسے بکھرے ہوں کردار جابجا

امجد فضائے جاں میں ہے یوں بےقرار دھُند

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے

نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے

 

سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں

پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے

 

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی

اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے

 

سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل

طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے

 

یہ بستی ہے ستم پروردگاں کی

یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے

 

کنارا دوسرا دریا کا جیسے

وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے

 

دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا

وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے

 

میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں

کوئی اس زخم کا مرہم نہیں ہے

 

جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا

بجز اک باز گشتِ غم نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نہ ربط ہے نہ معانی ، کہیں تو کس سے کہیں!

ہم اپنے غم کی کہانی ، کہیں تو کس سے کہیں!

 

سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ

یہ سوزِ دردِ نہانی کہیں تو کس سے کہیں!

 

نہیں ہے اہلِ جہاں کو کو خود اپنے غم سے فراغ

ہم اپنے دل کی گرانی کہیں تو کس سے کہیں!

 

پلٹ رہے ہیں پرندے بہار سے پہلے

عجیب ہے یہ نشانی کہیں تو کس سے کہیں!

 

نئے سُخن کی طلبگار ہے نئی دُنیا

وہ ایک بات پرانی کہیں تو کس سے کہیں

 

نہ کوئی سُنتا ہے امجد نہ مانتا ہے اسے

حدیثِ شامِ جوانی کہیں تو کس سے کہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!

جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

 

نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں

تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں

 

کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں

ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں

 

نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں ملانے کی

نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اتر جائیں

 

گُلِ امید کی صورت ترے باغوں میں رہتے ہیں

کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں

 

دیارِ دشت میں ریگ ِ رواں جن کو بناتی ہے

بتا اے منزلِ ہستی کہ وہ رستے کدھر جائیں

 

تو کیا اے قاسمِ اشیاءیہی آنکھوں کی قسمت ہے

اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاوں سے بھر جائیں

 

جو بخشش میں ملے امجد تو اس خوشبو سے بہتر ہے

کہ اس بے فیض گلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا

جس پر تیرا نام لکھا ہے اُس تارے کو ڈھونڈوں گا

 

تم بھی ہر شب دیا جلا کر پلکوں کی دہلیز پہ رکھنا

میں بھی روز اک خواب تمہارے شہر کی جانب بھیجوں گا

 

ہجر کے دریا میں تم پڑھنا لہروں کی تحریریں بھی

پانی کی ہر سطر پہ میں کچھ دل کی باتیں لکھوں گا

 

جس تنہا سے پیڑ کے نیچے ہم بارش میں بھیگے تھے

تم بھی اُس کو چھو کے گزرنا، میں بھی اُس سے لپٹوں گا

 

"خواب مسافر لمحوں کے ہیں، ساتھ کہاں تک جائیں گے”

تم نے بالکل ٹھیک کہا ہے، میں بھی اب کچھ سوچوں گا

 

بادل اوڑھ کے گزروں گا میں تیرے گھر کے آنگن سے

قوسِِ قزح کے سب رنگوں میں تجھ کو بھیگا دیکھوں گا

 

رات گئے جب چاند ستارے لُکن میٹی کھیلیں گے

آدھی نیند کا سپنا بن کر میں بھی تم کو چھو لوں گا

 

بے موسم بارش کی صورت، دیر تلک اور دُور تلک

تیرے دیارِ حسن پہ میں بھی کِن مِن کِن مِن برسوں گا

 

شرم سے دوہرا ہو جائے گا کان پڑا وہ بُندا بھی

بادِ صبا کے لہجے میں اِک بات میں ایسی پوچھوں گا

 

صفحہ صفحہ ایک کتابِ حسن سی کھلتی جائے گی

اور اُسی کو لَو میں پھر میں تم کو اَزبر کر لوں گا

 

وقت کے اِک کنکر نے جس کو عکسوں میں تقسیم کیا

آبِ رواں میں کیسے امجد اب وہ چہرا جوڑوں گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم

دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم

 

تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا

سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم

 

رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!

شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!

 

آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں

دل کے چاند چراغ کی دیکھو، لَو نہ ہو مدّھم

 

ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں

بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے

دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے

 

حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا

نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے

 

اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی

لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے

 

خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے

پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!

 

سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے

کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سحاب تھے!

 

عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی

جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے

 

صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے

جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے

 

آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے

آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے

 

ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا

پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے

 

ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے

یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے

 

اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے

آنکھ میں رُونما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے

 

درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں

چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی

بام و دَر پہ نقش تحریرِ ہوا رہ جائے گی

 

آنسوﺅں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں

خشک ہونٹوں پر لرزتی اِک دُعا رہ جائے گی

 

رُو برو منظر نہ ہوں تو آئنے کس کام کے

ہم نہیں ہوں گے تو دُنیا گردِ پا رہ جائے گی

 

خواب کے نشّے میں جھکتی جائے گی چشمِ قمر

رات کی آنکھوں میں پھیلی التجا رہ جائے گی

 

بے ثمر پیڑوں کو ُچومیں گے صبا کے سبز لب

دیکھ لینا، یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

دِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی

کب سے بِکھر رہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی

 

آہٹ سی اُس حسین کی ہر سُو تھی، وہ نہ تھا

ہم کو خوشی کے ساتھ رہا اِک ملال بھی

 

سب اپنی اپنی موجِ فنا سے ہیں بے خبر

میرا کمالِ شاعری، تیرا جمال بھی

 

حسنِ اَزل کی جیسے نہیں دُوسری مثال

ویسا ہی بے نظیر ہے اُس کا خیال بھی!

 

مت پوچھ کیسے مرحلے آنکھوں کو پیش تھے

تھا چودھویں کا چاند بھی، وہ خوش جمال بھی

 

جانے وہ دن تھے کون سے اور کون سا تھا وقت!

گڈ مڈ سے اب تو ہونے لگے ماہ و سال بھی!

 

اِک چشمِ التفات کی پیہم تلاش میں

ہم بھی اُلجھتے جاتے ہیں، لمحوں کا جال بھی!

 

دنیا کے غم ہی اپنے لئے کم نہ تھے کہ اور

دل نے لگا لیا ہے یہ تازہ وبال بھی!

 

اِک سرسری نگاہ تھی، اِک بے نیاز چُپ

میں بھی تھا اُس کے سامنے، میرا سوال بھی!

 

آتے دنوں کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ کھُلے

سب کچھ فنا کا رزق ہے ماضی بھی حال بھی!

 

تم دیکھتے تو ایک تماشے سے کم نہ تھا

آشفتگانِ دشتِ محبت کا حال بھی!

 

اُس کی نگاہِ لُطف نہیں ہے، تو کچھ نہیں

امجد یہ سب کمال بھی، صاحبِ کمال بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ فشارِ التجا میں رہ گئے

 

کھو گئے کچھ حرف دشتِ ضبط میں

کچھ غبارِ مدعا میں رہ گئے

 

چند جستوں کا یہ سارا کھیل ہے

رہ گئے، جو ابتدا میں، رہ گئے

 

سبز سایہ دار پیڑوں کی طرح

رفتگاں، دشتِ وفا میں رہ گئے

 

حاصلِ عمرِ رواں، وہ وقت، جو

ہم تری آب و َہوا میں رہ گئے

 

ہے لہو کا قافلہ اَب تک رواں

اور قاتل، کربلا میں رہ گئے

 

ہم ہیں امجد اُن حقائق کی طرح

جو بیانِ واقعہ میں رہ گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہاتھ پہ ہاتھ دَھرے بیٹھے ہیں، فرصت کتنی ہے

پھر بھی تیرے دیوانوں کی شہرت کتنی ہے!

 

سورج گھر سے نکل چکا تھا کرنیں تیز کیے

شبنم گُل سے پوچھ رہی تھی "مہلت کتنی ہے!”

 

بے مقصد سب لوگ مُسلسل بولتے رہتے ہیں

شہر میں دیکھو سناٹے کی دہشت کتنی ہے!

 

لفظ تو سب کے اِک جیسے ہیں، کیسے بات کھلے؟

دُنیا داری کتنی ہے اور چاہت کتنی ہے!

 

سپنے بیچنے آ تو گئے ہو، لیکن دیکھ تو لو

دُنیا کے بازار میں ان کی قیمت کتنی ہے!

 

دیکھ غزالِ رم خوردہ کی پھیلی آنکھوں میں

ہم کیسے بتلائیں دل میں وحشت کتنی ہے!

 

ایک ادھورا وعدہ اُس کا، ایک شکستہ دل،

لُٹ بھی گئی تو شہرِ وفا کی دولت کتنی ہے!

 

میں ساحل ہوں امجد اور وہ دریا جیسا ہے

کتنی دُوری ہے دونوں میں، قربت کتنی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حضورِ یار میں حرف التجا کے رکھے تھے

چراغ سامنے جیسے َہوا کے رکھے تھے

 

بس ایک اشکِ ندامت نے صاف کر ڈالے

وہ سب حساب جو ہم نے اُٹھا کے رکھے تھے

 

سمومِ وقت نے لہجے کو زخم زخم کیا

وگرنہ ہم نے قرینے صَبا کے رکھے تھے

 

بکھر رہے تھے سو ہم نے اُٹھا لیے خود ہی

گلاب جو تری خاطر سجا کے رکھے تھے

 

ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے ہار مان گئے

وہی چراغ جو ہم نے بچا کے رکھے تھے

 

تمہی نے پاﺅں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب

زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے!

 

مٹا سکی نہ انہیں روز و شب کی بارش بھی

دلوں پہ نقش جو رنگِ حنا کے رکھے تھے

 

حصولِ منزلِ دُنیا ُکچھ ایسا کام نہ تھا

مگر جو راہ میں پتھر اَنا کے رکھے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ہر قدم گریزاں تھا، ہر نظر میں وحشت تھی

مصلحت پرستوں کی رہبری قیامت تھی

 

منزل تمنا تک کون ساتھ دیتا ہے!

گردِ سعِی لا حاصل ہر سفر کی قسمت تھی

 

آپ ہی بگڑتا تھا، آپ من بھی جاتا تھا

اس گریز پہلو کی یہ عجیب عادت تھی

 

اُس نے حال پوچھا تو یاد ہی نہ آتا تھا

کِس کو کِس سے شکوہ تھا، کس سے کیا شکایت تھی!

 

دشت میں ہواﺅں کی بے رُخی نے مارا ہے

شہر میں زمانے کی پوچھ گچھ سے وحشت تھی

 

یوں تو دن دہاڑے بھی لوگ لُوٹ لیتے ہیں

لیکن اُن نگاہوں کی اور ہی سیاست تھی

 

ہجر کا زمانہ بھی کیا غضب زمانہ تھا

آنکھ میں سمندر تھا، دھیان میں وہ صورت تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

خواب نگر ہے آنکھیں کھولے دیکھ رہا ہوں

اُس کو اپنی جانب آتے دیکھ رہا ہوں

 

کس کی آہٹ قریہ قریہ پھیل رہی ہے

دیواروں کے رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں

 

کون مِرے جادو سے بچ کر جا سکتا ہے!

آئینہ ہوں، سب کے چہرے دیکھ رہا ہوں

 

دروازے پر تیز ہواﺅں کا پہرا ہے

گھر کے اندر چُپ کے سائے دیکھ رہا ہوں

 

جیسے میرا چہرا میرے دُشمن کا ہو

آئینے میں خود کو ایسے دیکھ رہا ہوں

 

منظر منظر ویرانی نے جال تنے ہیں

گلشن گلشن بِکھرے پتے دیکھ رہا ہوں

 

منزل منزل ہَول میں ڈُوبی آوازیں ہیں

رستہ رستہ خوف کے پہرے دیکھ رہا ہوں

 

شہرِ سنگدلاں میں امجد ہر رستے پر

آوازوں کے پتھر چلتے دیکھ رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں

زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں!

 

سفر کی رات ہے پچھلی کہانیاں نہ کہو

رُتوں کے ساتھ پلٹتی ہیں کب ہوائیں کہیں!

 

فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا

مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں!

 

ہوا ہے تیز، چراغِ وفا کا ذِکر تو کیا

طنابیں خیمۂ جاں کی نہ ٹوٹ جائیں کہیں!

 

میں اوس بن کے گُلِ حرف پر چمکتا ہوں

نکلنے والا ہے سُورج، مجھے چھپائیں کہیں!

 

مرے وُجود پہ اُتری ہیں لفظ کی صورت

بھٹک رہی تھیں خلاﺅں میں یہ صدائیں کہیں

 

ہوا کا لمس ہے پاﺅں میں بیڑیوں کی طرح

شفق کی آنچ سے آنکھیں پگھل نہ جائیں کہیں!

 

رُکا ہوا ہے ستاروں کا کارواں امجد

چراغ اپنے لہو سے ہی اَب جلائیں کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو

اِک اِک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اُجالا ہو تو کہو

 

رازِ محبت کہنے والے لوگ تو لاکھوں ملتے ہیں

رازِ محبت رکھنے والا، ہم سا دیکھا ہو تو کہو!

 

کون گواہی دے گا اُٹھ کر جھوٹوں کی اس بستی میں

سچ کی قیمت دے سکنے کا تم میں یارا ہو تو کہو!

 

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے

ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

 

امجد صاحب آپ نے بھی تو دُنیا گھوم کے دیکھی ہے

ایسی آنکھیں ہیں تو بتاﺅ! ایسا چہرا ہو تو کہو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ کون آج مِری آنکھ کے حصار میں ہے

مجھے لگا کہ زمیں میرے اختیار میں ہے

 

چراغِ رنگِ نوا، اب کہیں سے روشن ہو

سکوتِ شامِ سفر، کب سے انتظار میں ہے

 

کچھ اِس طرح ہے تری بزم میں یہ دل، جیسے

چراغِ شامِ خزاں، جشنِ نو بہار میں ہے

 

مِری حیات کے سارے سفر پہ بھاری ہے

وہ ایک پل جو تری چشمِ اعتبار میں ہے

 

جو اُٹھ رہا ہے کسی بے نشان صحرا میں

نشانِ منزلِ ہستی اُسی غبار میں ہے

 

ہماری کشتی ٔ دل میں بھی اب نہیں وہ زور

تمہارے حسن کا دریا بھی اب اُتار میں ہے

 

کبھی ہے دھُوپ کبھی ابرِ خوش نما امجد

عجب طرح کا تلون مزاجِ یار میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے

ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے

 

چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے

اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے

 

ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے

تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے

 

یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ، مت پوچھ

کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!

 

کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!

رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے

 

کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے

وہ چراغ آج سرِ راہِ َہوا، رکھا ہے

 

دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم

رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے

 

یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا

سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

 

دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں، امجد

ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ دشتِ ہجر، یہ وحشت، یہ شام کے سائے

خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دکھلائے!

 

اُسی کے نام سے لفظوں میں چاند اُترے ہیں

وہ ایک شخص کہ دیکھوں تو آنکھ بھر آئے

 

جو کھو چکے ہیں اُنہیں ڈھونڈنا تو ممکن ہے

جو جا چکے ہیں اُنہیں کوئی کس طرح لائے!

 

کلی سے میں نے گلِ تر جسے بنایا تھا

رُتیں بدلتی ہیں کیسے، مجھے ہی سمجھائے

 

جو بے چراغ گھروں کو چراغ دیتا ہے

اُسے کہو کہ مِرے شہر کی طرف آئے

 

یہ اضطرابِ مسلسل عذاب ہے امجد

مِرا نہیں تو کسی اور ہی کا ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

اوروں کا تھا بیان تو موجِ صدا رہے

خود عمر بھر اسیرِ لبِ مدعا رہے

 

مثلِ حباب بحرِ غمِ حادثات میں

ہم زیرِ بارِ منتِ آب و َہوا رہے

 

میں اُس سے اپنی بات کا مانگوں اگر جواب

لہروں کا پیچ و خم وہ کھڑا دیکھتا رہے

 

ق

گلشن میں تھے تو رونقِ رنگِ چمن بنے

جنگل میں ہم امانتِ بادِ صبا رہے

 

سُرخی بنے تو خونِ شہیداں کا رنگ تھے

روشن ہوئے تو مشعلِ راہِ وفا رہے

 

اُبھرے تو ہر بھنور کا جگر چاک کر گئے

ٹھہرے تو موج موج کو اپنا بنا رہے

 

امجد درِ نگار پہ دستک ہی دیجئے

اس بے کراں سکوت میں کچھ غلغلہ رہے

٭٭٭

 

 

 

 

نہ آسماں سے نہ دُشمن کے زور و زَر سے ُہوا

یہ معجزہ تو مِرے دَستِ بے ہنر سے ُہوا

 

قدم اُٹھا ہے تو پاﺅں تلے زمیں ہی نہیں

سفر کا رنج ہمیں خواہشِ سفر سے ہوا

 

میں بھیگ بھیگ گیا آرزو کی بارش میں

وہ عکس عکس میں تقسیم چشمِ تر سے ہوا

 

سیاہی شب کی نہ چہروں پہ آ گئی ہو کہیں

سحر کا خوف ہمیں آئنوں کے ڈر سے ہوا

 

کوئی چلے تو زمیں ساتھ ساتھ چلتی ہے

یہ راز ہم پہ عیاں گردِ رہگزر سے ہوا

 

ترے بدن کی مہک ہی نہ تھی تو کیا رُکتے

گزر ہمارا کئی بار یوں تو گھر سے ہوا

 

کہاں پہ سُوئے تھے امجد کہاں کھُلیں آنکھیں

گماں قفس کا ہمیں اپنے بام و دَر سے ہوا

٭٭٭٭

 

 

 

 

 

مقتل میں بھی اہل جنوں ہیں کیسے غزل خواں، دیکھو تو!

ہم پہ پتھر پھینکنے والو، اپنے گریباں، دیکھو تو!

 

ہم بھی اُڑائیں خاکِ بیاباں، دَشت سے تم گزرو تو سہی

ہم بھی دکھائیں چاکِ گریباں، لیکن جاناں، دیکھو تو

 

اے تعبیریں کرنے والو، ہستی مانا خواب سہی

اس کی رات میں جاگو تو، یہ خوابِ پریشاں دیکھو تو!

 

آج ستارے گم صُم ہیں کیوں، چاند ہے کیوں سَودائی سا

آئینے سے بات کرو، اِس بھید کا عنواں دیکھو تو!

 

کِس کے حُسن کی بستی ہے یہ! کس کے رُوپ کا میلہ ہے!

آنکھ اُٹھا اے حُسنِ زلیخا، یوسفِ کنعاں، دیکھو تو!

 

جو بھی علاجِ درد کرو، میں حاضر ہوں، منظور مجھے

لیکن اِک شب امجد جی، وہ چہرۂ تاباں، دیکھو تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہیں بے کنار سے رتجگے، کہیں زر نگار سے خواب دے!

ترا کیا اُصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا جواب دے!

 

جو بچھا سکوں ترے واسطے، جو سجا سکیں ترے راستے

مری دسترس میں ستارے رکھ، مری مُٹھیوں کو گلاب دے

 

یہ جو خواہشوں کا پرند ہے، اسے موسموں سے غرض نہیں

یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں، اِسے آب دے کہ سراب دے!

 

تجھے ُچھو لیا تو بھڑک اُٹھے مرے جسم و جاں میں چراغ سے

اِسی آگ میں مجھے راکھ کر، اسی شعلگی کو شباب دے

 

کبھی یوں بھی ہو ترے رُوبرو، میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں

"مری حسرتوں کو شمار کر، مری خواہشوں کا حساب دے!”

 

تری اِک نگاہ کے فیض سے مری کشتِ حرف چمک اُٹھے

مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں مجھے ایک ایسی کتاب دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اک نام کی اُڑتی خوشبو میں اک خواب سفر میں رہتا ہے

اک بستی آنکھیں ملتی ہے اک شہر نظر میں رہتا ہے

کیا اہلِ ہنر، کیا اہلِ شرف سب ٹکڑے ردی کاغذکے

اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے

پانی میں روز بہاتا ہے اک شخص دئیے اُمیدوں کے

اور اگلے دن تک پھر ان کے ہمراہ بھنور میں رہتا ہے

 

اک خوابِ ہُنر کی آہٹ سے کیا آگ لہو میں جلتی ہے

کیا لہر سی دل میں چلتی ہے! کیا نشہ سر میں رہتا ہے

جو پیڑ پہ لکھی جاتی ہے جو گیلی ریت سے بنتا ہے

کون اُس تحریر کا وارث ہے !کون ایسے گھر میں رہتا ہے!

ہر شام سُلگتی آنکھوں کو دیوار میں چُن کر جاتی ہے

ہر خواب، شکستہ ہونے تک زنجیرِ سحر میں رہتا ہے

یہ شہر کتھا بھی ہے امجد اک قصہ سوتے جاگتے کا

ہم دیکھیں جس کردار کو بھی جادو کے اثر میں رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے

دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے

اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو

اے دشتِ احتیاط !کبھی ناچنے تو دے

سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں

اے چشمِ یار مجھ کو ذرا سوچنے تو دے

 

اُس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس

لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے

 

شاید کسی لکیر میں لکھا ہو میرا نام

اے دوست اپنا ہاتھ مجھے دیکھنے تو دے

 

یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں

یہ گھومتی زمین کہیں ٹھیرنے تو دے

 

کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں

امجدوہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چہرے پہ مرے زُلف کو پھیلاؤ کسی دن

کیا روز گرجتے ہو برس جاؤکسی دن

 

رازوں کی طرح اُترو مرے دل میں کسی شب

دستک پہ مرے ہاتھ کی کھُل جاؤ کسی دن

 

پیڑوں کی طرح ھُسن کی بارش میں نہا لوں

بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن

 

خُوشبو کی طرح گزرو مرے دل کی گلی سے

پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن

 

پھر ہاتھ کوخیرات ملے بند ِقبا کی

پھر لُطفِ شبِ وصل کو دوہراؤ کسی دن

 

گزریں جو مرے گھر سے تو رُک جائیں ستارے

اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن

 

میں اپنی ہر اک سانس اُسی رات کو دے دوں

سر رکھ کے مرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن

٭٭٭

 

 

 

 

 

>ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو

خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو

 

روشنی کا یہ مسافر ہےرہِ جاں کا نہیں

اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو

 

آنکھ اب کس سے تحیر کا تماشہ مانگے

اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو

 

اب کے اُمید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں

جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو

 

کون سی رُت ہے زمانے ، ہمیں کیا معلوم

اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حسرت ہم کو

 

زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے

ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو

 

داغِ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجد

ڈھانپ لیتی نہ اگر چادرِ رحمت ہم کو

٭٭٭

 

 

 

تارا تارا اُتر رہی ہے رات سمندر میں

جیسے ڈوبنے والوں کے ہوں ہاتھ سمندر میں

 

ساحل پر تو سب کے ہونگے اپنے اپنے لوگ

رہ جائے گی کشتی کی ہر بات سمندر میں

 

ایک نظر دیکھا تھا اُس نے آگے یاد نہیں

کھُل جاتی ہے دریا کی اوقات سمندر میں

 

میں ساحل سے لوٹ آیا تھا کشتی چلنے پر

پگھل چکی تھی لیکن میری ذات سمندر میں

 

کاٹ رہا ہوں ایسے امجد یہ ہستی کی رہ

بے پتواری ناؤ پہ جیسے رات سمندر میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُس نے آہستہ سے جب پُکارا مجھے

جھُک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

 

تیرا غم، اس فشارِ شب و روز میں

ہونے دیتا نہیں بے سہارا مجھے

 

ہر ستارے کی بجھتی ہوئی روشنی

میرے ہونے کا ہے استعارا مجھے

 

اے خدا کوئی ایسا بھی ہے معجزہ

جو کہ مجھ پر کرے آشکارا مجھے

 

کوئی سورج نہیں کوئی تارا نہیں

تو نے کس جھٹپٹے میں اُتارا مجھے

 

عکسِ امروز میں نقشِ دیروز میں

اک اشارا تجھے اک اشارا مجھے

 

ہیں ازل تا ابد ٹوٹتے آئینے

آگہی نے کہاں لا کے مارا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے

کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے

 

صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے

مہرِ عالم تاب گزرنے والا ہے

 

جادو گر کی قید میں تھے جب شہزادے

قصے کا وہ باب گزرنے والا ہے

 

ق

سناٹے کی دہشت بڑھتی جاتی ہے

بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے

 

دریاﺅں میں ریت اُڑے گی صحراکی

صحرا سے گرداب گزرنے والا ہے

 

مولا جانے کب دیکھیں گے آنکھوں سے

جو موسم شاداب گزرنے والا ہے

 

ہستی امجد دیوانے کا خواب سہی

اب تو یہ بھی خواب گزرنے والا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر شخص کی خُوں رنگ قبا ہے کہ نہیں ہے

یہ قتل گہہِ اہلِ وفا ہے کہ نہیں ہے

 

محرومِ جواب آتی ہے فریاد فلک سے

ان ظلم نصیبوں کا خُدا ہے کہ نہیں ہے

 

اے قریۂبے خواب ِ تمنا کے مکینو

اس راہ کا اُس کو بھی پتا ہے کہ نہیں ہے

 

اک ریت کا دریا سا ادھر بھی ہے اُدھر بھی

صحرائے محبت کا سرا ہے کہ نہیں ہے

 

آنکھوں کے لئے خواب ہیں شبنم کے لئے پھول

ہر چیز یہاں رشتہ بپا ہے کہ نہیں ہے

 

اک نسل کی تعزیر سہیں دوسری نسلیں

اے منصفِ بر حق یہ ہوا ہے کہ نہیں ہے

 

بے رنگ ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے جزیرے

طوفان کی یہ آب و ہوا ہے کہ نہیں ہے

 

امجد جو رکا اس کی صدا پر نہ چلا پھر

انسان کا دل کوہِ ندا ہے کہ نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں بے نوا ہوں ،صاحبِ عزت بنا مجھے

اے ارضِ پاک اپنی جبیں پر سجا مجھے

 

جس پر رقم ہیں نقشِ کفِ پائے رفتگاں

اے عہدِ نا تمام، وہ رستہ دکھا مجھے

 

میں حرف حرف لوحِ زمانہ پہ درج ہوں

میں کیا ہوں! میرے ہونے کا مطلب سکھا مجھے

 

یا مجھ کو اپنا چہرہ ٔمنزل نما دکھا

یا قیدِ صبح و شام سے کر دے رہا مجھے

 

میں موجِ شوقِ خام تھا لیکن ترے طفیل

دریا بھی اپنے سامنے قطرہ لگا مجھے

٭٭٭

ماخذ؛

http://amjadislamamjad.net/gzl.php

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید