FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سنن ابن ماجہ

 

حصہ چہارم

 

                   امام ابن ماجہ

 

 

 

 

 

کفاروں کا بیان

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس چیز کی قسم کھاتے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ محمد بن مصعب اوزاعی یحی بن ابی کثیر ہلال بن ابی میمونہ عطاء بن یسار رفاعہ، حضرت رفاعہ جہنی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب قسم کھاتے تو یوں ارشاد فرماتے قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی) جان ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار عبد الملک بن محمد صنعانی، یحییٰ بن ابی کثیر، ہلال بن ابی میمونہ، عطاء بن یسار، حضرت رفاعہ بن عرابہ جہنی سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو قسم کھایا کرتے وہ یوں کھاتے میں گواہی دیتا ہوں اللہ تعالی کے ہاں یا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جان ہے۔

 

٭٭ ابو اسحاق ابراہیم ابن محمد بن عباس عبد اللہ بن رجاء المکی عباد بن اسحاق ابن شہاب سالم حضرت ابن عمر سے مروی ہے اکثر قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یوں ہوتی ایسا نہیں ہے قسم اس (اللہ عزوجل) کی جو دلوں کو پھیر دینے والا ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حماد بن خالد، ح، یعقوب بن حمید بن کاسب، معن بن عیسی، محمد بن ہلال حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قسم یوں ہوتی یہ بات ہے اور میں اللہ جل جلالہ سے استغفار کرتا ہوں۔

 

ماسوا اللہ (کی ذات کے ) کے قسم کھانے کی ممانعت

 

محمد بن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم بن عبد اللہ بن عمر، عمر حضرت عمر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کھاتے سنا اپنے والد کی تو ارشاد فرمایا بے شک اللہ تعالی تم کو منع کرتا ہے اپنے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے۔ حضرت عمر نے فرمایا اس روز کے بعد میں نے کبھی باپ کی قسم نہیں کھائی۔ نہ اپنی طرف سے نہ دوسرے کی نقل کر کے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، ہشام، حسن، حضرت عبد الرحمن بن سمرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مت قسم کھاؤ بتوں کی اور نہ اپنے آباء و اجداد (یعنی باپ دادوں ) کی۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی ، عبد الواحد، اوزاعی ، زہری، حمید، ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے قسم کھائی اور اپنی قسم میں یوں کہالات یا عزی کی تو وہ کہے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ

 

٭٭ علی بن محمد، حسن بن علی، یحییٰ بن آدم، اسرائیل، ابو اسحاق، مصعب ابن سعد، حضرت سعد سے مروی ہے میں نے قسم کھائی لات اور عزی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کے سوا (ہرگز) کوئی سچا الہ نہیں ہے وہ (لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ) اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر اپنی بائیں طرف تین مرتبہ تھوک اور تعوذ کہہ اور پھر دوبارہ ایسا مت کرنا۔

 

جس نے ماسوا اسلام کے کسی دین میں چلے جانے کی قسم کھائی

 

محمد بن مثنی ، ابن ابی عدی ، خالد حذاء ، ثابت بن ضحاک سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اسلام کے سوا اور کسی دیگر دین میں چلے جانے کی اگر کسی نے جان بوجھ کر قسم کھائی تو اس نے جیسا کہا ویسا ہی ہو بھی جائے گا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، بقیہ، عبد اللہ بن محرر، قتادہ، حضرت انس سے مروی ہے نبی نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ وہ کہتا تھا ایسا کروں تو میں یہودی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (یہ سن کر) ارشاد فرمایا اس کے لئے دوزخ واجب ہو گئی۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، عمرو بن رافع، فضل بن موسی، حسین بن واقد، عبد اللہ حضرت بریدہ سے بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص کہے اگر ایسا کروں تو اسلام سے بیزار ہوں اگر وہ جھوٹ کہے اور وہ کام کر بیٹھے جس پر اسلام سے جدا ہونے کی اس نے شرط قائم کی تھی تو جیسا اس نے ویسا ہی ہو گا اور اگر اپنی بات سچ کرے جب بھی اسلام سلامتی کے ساتھ تو اس کے پاس نہیں لوٹے گا۔

 

جس کے سامنے اللہ کی قسم کھائی جائے اس کو راضی بہ رضا ہو جانا چاہئے

 

محمد بن اسماعیل بن سمرہ، اشباط بن محمد، محمد بن عجلان، نافع، ابن عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو اپنے باپ کے نام کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا مت قسم کھاؤ اپنے باپ دادوں کی جو شخص قسم کھائے اللہ کے نام کی کھائے اور سچی کھائے اور جس کسی کیلئے اللہ کی قسم اٹھائی جائے اس کو راضی ہو جانا چاہئے اور جو شخص اللہ تعالی کے نام پر راضی نہ ہو وہ اللہ تعالی سے تعلق نہیں رکھتا۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، حاتم بن اسماعیل، ابی بکر بن یحییٰ بن نضر، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو کہا تو نے چوری کی۔ وہ بولا نہیں ! قسم اس کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا میں ایمان لایا اللہ تعالی پر اور میں نے جھٹلایا اپنی آنکھ (یعنی دیکھنے ) کو۔

 

قسم کھانے میں یا قسم توڑنا ہوتا ہے یا شرمندگی

 

علی بن محمد، ابو معاویہ، بشار بن کدام، محمد بن زید، حضرت ابن عمر سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قسم کھانا یا تو حنث (یعنی قسم توڑنا) ہے یا ندامت (شرمندگی) ہے۔

 

قسم میں ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو؟

 

عباس بن عبد العظیم، عبد الرزاق، معمر ، ابن طاؤس، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے قسم اٹھاتے وقت ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہہ دیا تو یہ ان شاء اللہ کہنا اسے فائدہ دے گا۔

 

٭٭ محمد بن زیاد، عبد الوارث بن سعید، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے قسم میں استثناء کر لیا (مثلاً انشاء اللہ یعنی اگر اللہ نے چاہا کہہ دیا) تو چاہے وہ رجوع کر لے اور چاہے تو چھوڑ دے حانث نہ ہو گا۔

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد، زہری، سفیان بن عیینہ، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ جس نے قسم میں استثناء کر لیا وہ ہرگز حانث نہ ہو گا۔

 

قسم اٹھا لی پھر خیال ہوا کہ اس کے خلاف کرنا بہتر ہے تو

 

احمد بن عبدہ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، ابی بردہ، حضرت ابو موسی فرماتے ہیں کہ میں اشعر یین کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم نے آپ سے سواری مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی قسم میرے پاس جانور نہیں ہیں کہ تمہیں سواری دوں۔ فرماتے ہیں ہم جتنا اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے پھر کہیں سے اونٹ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارے لئے تین اچھی کوہان والے سفید اونٹوں کا حکم دیا جب ہم چلے تو ہمارے بعض ساتھیوں نے دوسروں سے کہا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سواری مانگنے گئے تھے تو آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ ہمیں سواری نہ دیں گے پھر آپ نے ہمیں سواری دے دی۔ اس لئے واپس چلو ہم واپس رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے پاس سواری مانگنے آئے تھے تو آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ ہمیں سواری نہ دیں گے۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں نے تو تمہیں سواری دی ہی نہیں اللہ تعالی نے تمہیں سواری دی اللہ کی قسم ! اللہ چاہے تو جب بھی میں کوئی قسم اٹھاؤں پھر اس کے خلاف کرنے کو بہتر سمجھوں تو میں اس کے خلاف کر لیتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دیتا ہوں یا فرمایا کہ میں بھلائی کی طرف رجوع کر لیتا ہوں اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرتا ہوں۔

 

٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن عامر بن زرارہ، ابو بکر بن عیاش، عبد العزیز بن رفیع، تمیم بن طرفہ، حضرت عدی بن حاتم بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کوئی قسم اٹھائے پھر اس کے خلاف (کام) کو بہتر سمجھے تو وہ جو بہتر سمجھے وہ کر لے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے۔

 

٭٭ محمد بن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ابو زعراء، عمرو بن عمر، ابو احوص حضرت مالک جشمی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس میرا چچازاد بھائی آئے اور میں یہ قسم اٹھا لوں کہ نہ اسے کچھ دوں گا اور نہ ہی اس سے صلہ رحمی کروں گا تو؟ فرمایا اپنی قسم (توڑ کر اس) کا کفارہ دے دے۔

 

نامناسب قسم کا کفارہ اس نامناسب کام کو نہ کرنا ہے

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، حارثہ بن ابی رجال، عمر، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے رشتہ ناتا توڑنے کی یا نامناسب کام کی قسم کھائی تو اس قسم کا پورا کرنا یہ ہے کہ اس کام کو نہ کرے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن عبد المومن، عون بن عمارہ، روح بن قاسم، عبید اللہ بن عمر، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھا تو اس کام کو چھوڑ دے یہ چھوڑ دینا ہی اس کی قسم کا کفارہ ہے۔

 

قسم کے کفارہ میں کتنا کھلائے

 

عباس بن یزید، زیاد بن عبد اللہ، عمرو بن عبد اللہ بن یعلی، منہال بن عمرو، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھجور کا ایک صاع کفارہ میں دیا اور لوگوں (صحابہ کرام) کو بھی اس کا حکم دیا جس کے پاس کھجور نہ ہو تو وہ آدھا صاع گندم دے دے۔

 

قسم کے کفارہ میں میانہ روی کے ساتھ کھلانا

 

محمد بن یحییٰ، عبد الرحمن، ابن مہدی، سفیان بن عیینہ، سلیمان بن ابی مغیرہ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرد گھر والوں کو کھلاتا ہے جس میں وسعت اور فراوانی ہے اور ایک مرد گھر والوں کو کھلاتا ہے جس میں تنگی ہو تو یہ حکم نازل ہوا کہ قسم کے کفارہ میں فقراء کو کھلاؤ (ویسا ہی) جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہوئے میانہ روی کے ساتھ۔

 

اپنی قسم پر اصرار کرنے اور کفارہ نہ دینے سے ممانعت

 

سفیان بن وکیع، محمد بن حمید، معمر، ہمام، ابو ہریرہ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ابو القاسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی قسم پر اصرار کرے (اور توڑے نہیں حالانکہ اس میں دینی یا لوگوں کا عام دنیوی جزر ہے ) تو وہ اللہ کے ہاں زیادہ گناہگار ہے۔ بنسبت اس کفارہ کے جس کا اسے حکم دیا گیا۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔ استلج بیمینہ اصرار کرنا اور یہ گمان کرتے ہوئے صادق ہے کفارہ ادا نہ کرنا۔

 

قسم کھانے والوں کو قسم پوری کرنے میں مد د دینا

 

علی بن محمد، وکیع، علی بن صالح، اشعث بن ابی شعثاء، معاویہ بن سوید بن مقرن ، حضرت براء بن عازب بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے میں مد د کرنے کا حکم دیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، یزید بن ابی زیاد، مجاہد، حضرت عبد الرحمن بن صفوان یا صفوان بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن وہ اپنے والد کو لائے اور عرض کیا اے اللہ کے رسو ل! میرے والد کیلئے ہجرت کے ثواب میں سے ایک حصہ ٹھہرا دیجئے۔ آپ نے فرمایا اب وہ ہجرت نہیں (جو فتح مکہ سے قبل مسلمانوں پر لازم تھی) وہ چلا گیا اور حضرت عباس سے جا کر کہا آپ نے مجھے پہچانا؟ انہوں نے کہا جی پہچان لیا سو حضرت عباص ایک قمیص پہنے ہوئے نکلے (کندھے کی) چادر بھی نہ لی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! آپ فلاں کو پہچانتے ہیں اور ہمارے اور اس کے باہمی تعلقات سے واقف ہیں۔ وہ اپنے والد کو لایا ہے تاکہ آپ اس کے والد سے ہجرت پر بیعت لیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب تو ہجرت ہی نہیں حضرت عباس نے کہا میں قسم دیتا ہوں۔ آپ نے ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ سے ملایا پھر فرمایا میں نے اپنے چچا کی قسم کو سچا کیا لیکن ہجرت نہیں رہی۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔ یذید بن ابی کہتے ہیں کہ جس دار کے لوگ مسلمان ہو جائیں وہاں سے ہجرت نہیں ہوتی۔

 

ماشاء اللہ وشئت (جو اللہ اور آپ چاہیں ) کہنے کی ممانعت

 

ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، یزید بن اصم، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی قسم اٹھائے تو یوں نہ کہے جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں بلکہ یوں کہے جو اللہ چاہے پھر اس کے بعد آپ چاہیں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عبد الملک بن عمیر، ربعی بن حراش، حضرت حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ ایک مسلمان مرد نے خواب میں ایک کتابی مرد سے ملاقات کی کتابی (یہودی یا عیسائی) کہنے لگا تم بہت ہی اچھے لوگ ہو اگر شرک نہ کرو تم کہہ دیتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) چاہیں۔ مسلمان نے اپنا خواب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ذکر کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اللہ کی قسم ! میرے ذہن میں بھی یہ بات آتی تھی تم یوں کہہ سکتے ہو جو اللہ چاہے اور اللہ کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) چاہیں۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

قسم میں توریہ کر لینا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، یحییٰ بن حکیم، عبد الرحمن بن مہدی، اسرائیل، ابراہیم بن عبد الاعلی، حضرت سوید بن حنظلہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری کے ارادہ سے نکلے ہمارے ساتھ وائل بن حجر بھی تھے ان کو ان کے ایک دشمن نے پکڑایا لوگوں نے برا خیال کیا کہ (جھوٹ موٹ) قسم کھائیں (کہ یہ وائل نہیں ہیں ) میں نے قسم کھا لی کہ یہ میرے بھائی ہیں تو اس نے ان کا راستہ چھوڑ دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ لوگوں نے قسم کھانا اچھا نہ خیال کیا اور میں قسم کھا لی کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، عباد بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم میں قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔

 

٭٭ عمرو بن رافع، ہشیم، عبد اللہ بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری قسم کا وہی مطلب سمجھا جائے گا جس میں تمہارا ساتھی (قسم لینے والا) بھی تمہاری تصدیق کرے۔

 

منت ماننے سے ممانعت

 

علی بن محمد ، وکیع، سفیان، منصور، عبد اللہ بن مرہ، حضرت عبد اللہ بن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منت ماننے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا اس کے ذریعے بخیل اور کمینے سے مال نکلتا ہے۔

 

٭٭ احمد بن یوسف، عبید اللہ ، سفیان، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نذر ابن آدم کو کچھ نہیں دیتی سوائے اس کے جو اس کے مقدر میں ہو لیکن تقدیر اس پر غالب آ جاتی ہے جو اس کے مقدر میں ہے (وہ ضرور ہو گا) نذر کی وجہ سے بخیل کے ہاتھ سے مال نکلتا ہے اور اس کے لئے وہ بات (مال خرچ کرنا) آسان ہو جاتی ہے جو نذر سے قبل اس کے لئے آسان نہ تھی حالانکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔

 

معصیت کی منت ماننا

 

ابو بکر بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، ایوب، ابو قلابہ، حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی نافرمانی کی منت درست نہیں اور جو آدمی کی ملک میں نہ ہو اس کی نذر بھی درست نہیں۔

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابو طاہر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابی سلمہ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نافرمانی کی منت درست نہیں لیکن اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہی ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عبد اللہ، طلحہ بن عبد الملک، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اللہ کی فرمانبرداری کی منت مانی وہ اللہ کی فرمانبرداری ضرور (نذر پوری کر لے (یعنی منت پوری نہ کرے بلکہ کفارہ دیدے۔

 

جس نے نذر مانی لیکن اس کی تعین نہ کی (کہ کس بات پر منت مان رہا ہے؟)

 

علی بن محمد، وکیع، اسماعیل بن رافع، خالد بن یزید، حضرت عقبہ بن عامر جہنی بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے منت مانی لیکن منت کی تعین نہ کی تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہی ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الملک بن محمد ، خارجہ بن مصعب، بکیر بن عبد اللہ بن اشج، کریب، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے منت مانی لیکن اس کی تعین نہ کی تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہی ہے اور جس نے ایسی منت مانی جس کو پورا کرنا اس کے بس میں نہیں ہے تو اس کا کفارہ بھی کفارہ قسم کا ہی ہے۔ اور جس نے ایسی منت مانی جو اس کے بس میں ہے تو اسے چاہئے کہ منت پوری کرے۔

 

منت پوری کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے جاہلیت میں ایک منت مانی تھی اسلام لانے کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ نے مجھے منت پوری کرنے کا حکم دیا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد اللہ بن اسحاق، عبد اللہ بن رجاء، حبیب بن ابی ثابت، سعید بن جبیر، ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قسم میں قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہے (کہ اس نے کیا معنی سجھے یا جب وہ قسم کھا رہا تھا تو اس کے ذہن میں کون سی بات کارفرما تھی)۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، مروان بن معاویہ، عبد اللہ بن عبد الرحمن، میمونہ بنت کر دم، یساریہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری قسم کا وہی مطلب لیا جائے گا جس میں تمہارا ساتھی (قسم لینے والا) بھی تمہاری تصدیق کرے۔

 

 

جو شخص مر جائے حالانکہ اس کی ذمہ نذر ہو

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، حضرت سعد بن عبادہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ ان کی والدہ کے ذمہ نذر تھی۔ وہ اسے پورا کرنے سے قبل ہی فوت ہو گئیں تو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کی طرف سے منت پوری کر دو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، یحییٰ بن بکیر، ابن لہیعہ، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں کہ ان کی والدہ کے ذمہ نذر تھی ان کا انتقال ہو گیا اور وہ نذر پوری نہ کر سکیں تو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھ لے۔

 

پیدل حج کی منت ماننا

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن نحر، ابی سعید، عبد اللہ بن مالک، حضرت عقبہ بن عامر بیان فرماتے ہیں کہ ان کی ہمشیرہ نے منت مانی کہ سفر حج میں ننگے سر دوپٹہ کے بغیر پیدل چلے گی۔ انہوں نے رسول اللہ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس سے کہو کہ سوار ہو جائے سر ڈھانپے اور تین روزے رکھ لے۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن محمد، عمرو بن ابی عمرو، اعرج، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک معمر شخص کو دیکھا کہ اپنے دو لڑکوں کے سہارے پیدل چل رہا ہے تو فرمایا اس کو کیا ہوا تو اس کے لڑکوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول منت مانی تھی۔ فرمایا اے بڈھے سوار ہو جائے اس لئے کہ اللہ تعالی تجھ سے اور تیری نذر سے بے نیاز ہیں۔

 

منت میں طاعت و معصیت جمع کر دینا

 

محمد بن یحییٰ، اسحاق بن محمد، عبد اللہ بن عمرو، عبید اللہ بن عمر، عطاء ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں ایک مرد کے پاس سے گزرے وہ دھوپ میں کھڑا تھا۔ فرمایا یہ کیا حرکت ہے۔ لوگوں نے عرض کیا اس نے منت مانی ہے کہ روزہ رکھے گا اور رات تک سایہ میں نہ آئے گا نہ بات کرے گا اور مسلسل کھڑا رہے گا۔ فرمایا اسے چاہئے کہ بات کرے سائے میں آئے بیٹھ جائے اور روزہ پورا کر لے۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔

 

کمائی کی ترغیب

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پاکیزہ ترین چیز جو مرد کھائے وہ اس کی اپنی (ہاتھ کی) کمائی ہے اور آدمی کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، یجیر بن سعد، خالد بن معدان، حضرت مقدام بن معدیکرب زبیدی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد نے اپنے ہاتھ کی مزدوری سے زیادہ پاکیزہ کمائی نہیں حاصل کی اور مرد اپنے اوپر اپنی اہلیہ پر اپنے بچوں پر اور اپنے خادم پر جو بھی خرچ کرے تو وہ صدقہ ہے۔

 

٭٭ احمد بن سنان، کثیر ابن ہشام، کلثوم بن جوش، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سچا امانت دار تاجر روز قیامت شہداء کے ساتھ ہو گا۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز، ثور بن زید، ابی الغیث حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیواؤں مسکینوں کی نگہداشت کرنے والا اللہ کی راہ میں لڑنے والے کی مانند ہے اور اس شخص کی انند ہے جو رات بھر قیام کرے اور دن بھر روزہ رکھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، عبد اللہ بن سلیمان، معاذ بن عبد اللہ بن حضرت خبیب اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہم ایک مجلس میں تھے کہ نبی تشریف لائے آپ کے سر پر پانی کے اثرات تھے۔ ہم میں سے کسی نے عرض کیا ہم آپ کو (پہلے کی نسبت زیادہ) خوش خوش محسوس کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا جی ہاں ! اَلْحَمْدُ لِلَّہِ۔ پھر لوگوں نے مالداری کا ذکر شروع کر دیا۔ آپ نے فرمایا جو تقویٰ اختیار کرے اس کے لئے مالداری میں کچھ حرج نہیں اور متقی کیلئے تندرستی مالداری سے بھی بہتر ہے اور دل کا خوش ہونا (طبیعت میں فرحت) بھی ایک نعمت ہے۔

 

روزی کی تلاش میں میانہ روی

 

ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش ، عمارہ بن غزیہ، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن، عبد الملک بن سعید، حضرت ابو حمید ساعدی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دنیا کی طلب میں اعتدال سے کام لو اس لئے کہ ہر ایک کو وہ (عہدہ یا مال) ضرور ملے گا جو اس کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔

 

٭٭ اسماعیل بن بہرام، حسن بن محمد بن عثمان، زوج بنت شعبی، سفیان، اعمش، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں میں سب سے زیادہ عظیم فکر والا شخص وہ ہے جو اپنی دنیا اور آخرت دونوں کے کاموں کی فکر کرتا ہو۔ (یعنی کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوز نہیں کرتا بلکہ شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی حتی المقدور سعی کرتا ہے )۔

 

٭٭ محمد بن مصفی، ولید بن مسلم، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور (دنیا کی) تلاش میں اعتدال سے کام لو اس لئے کہ کوئی جی ہرگز نہ مرے گا۔ یہاں تک کہ اپنی روزی لے لے اگرچہ وہ روزی اس کے کچھ وقت بعد ملے۔ اس لئے اللہ سے ڈرو اور طلب دنیا میں اعتدال سے کام لو حلال حاصل کرو اور حرام چھوڑ دو۔

 

تجارت میں تقویٰ اختیار کرنا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت قیس بن غرزہ فرماتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں دلال کہا جاتا تھا ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایسے نام سے پکارا جو اس سے بہت اچھا تھا۔ فرمایا اے سوداگروں کی جماعت خرید و فروخت میں قسم اٹھا لی جاتی ہے لغو بات زبان سے نکل جاتی ہے اس لئے اس میں صدقہ خیرات ملا دیا کرو۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، یحییٰ بن سلیم، عبد اللہ بن عثمان بن سلیم، اسماعیل بن عبید حضرت رفاعہ فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ باہر آئے تو لوگ صبح صبح باہم خرید و فروخت میں مشغول تھے۔ آپ نے پکار کر فرمایا اے تاجروں کی جماعت ! جب انہوں نے نگاہیں اٹھائیں اور گردن تان لیں تو فرمایا تاجر قیامت کے روز فاجر اٹھائے جائیں گے سوائے ان کے جو اللہ سے ڈریں نیکی کریں اور سچ بولیں۔

 

جب مرد کو کوئی روزی کا ذریعہ مل جائے تو اسے چھوڑے نہیں

 

محمد بن بشار، محمد بن عبد اللہ، فزوہ، ابو یونس، ہلال بن جبیر، حضرت انس بن مالک بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جسے کسی ذریعہ سے رزق حاصل ہو وہ اسے تھامے رہے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو عاصم، زبیر، عبید بن حضرت نافع فرماتے ہیں میں شام اور مصر کی طرف اپنے تجارتی نمائندوں کو بھیجا کرتا تھا۔ پھر میں نے عراق کی طرف بھی بھیج دیا۔ اس کے بعد میں عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں شام کی طرف بھیجا کرتا تھا اب میں نے عراق بھیج دیا۔ فرمانے لگیں ایسا نہ کرو کیا تمہیں اپنی سابقہ منڈی میں کوئی دشواری ہے؟ بلاشبہ میں نے اللہ کے رسول کو فرماتے سنا جب اللہ تعالی تم میں سے کسی کی روزی کا کوئی ذریعہ بنا دیں تو اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے یا بگڑ جائے۔

 

تجارت مختلف پیشے

 

سوید بن سعید، عمرو بن یحییٰ بن سعید، سعید بن ابی احصہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے جسے بھی نبی بنا کر بھیجا اس نے بکریاں چرائیں۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے بھی؟ فرمایا اور میں بھی اہل مکہ کی بکریاں قیراطوں کے بدلے چرایا کرتا تھا۔ امام ابن ماجہ کے استاذ سوید کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ ایک بکری کی اجرت ایک قیراط تھی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن عبد اللہ، حاج، ہثیم بن جمیل، حماد ، ثابت، ابو رافع حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئی تھے۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تصویر بنانے والوں کو روز قیامت عذاب ہو گا ان سے کہا جائے گا زندہ کرو ان چیزوں کو جو تم نے بنائیں۔

 

٭٭ عمرو بن رافع، عمر بن ہارون، ہمام، فرقد، یزید بن عبد اللہ بن شخیر، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹے رنگریز اور زرگر ہوتے ہیں۔

 

ذخیرہ اندوزی اور اپنے شہر میں تجارت کیلئے دوسرے شہر سے مال لانا

 

نصر بن علی، ابو احمد، اسرائیل، علی بن سالم، ثوبان، علی بن جدعان، سعید بن مسیب، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوسرے شہر سے مال لانے والے کو رزق (اور روزی میں برکت و نفع) دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم، سعید بن مسیب، حضرت معمر بن عبد اللہ بن نضلہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ذخیرہ اندوزی صرف خطاکار گناہ گار کرتا ہے۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو بکر ، ہشیم بن رافع، ابو یحییٰ، فروخ، مولی عثمان بن عفان، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو مسلمانوں کے کھانے پینے کی اشیاء میں ذخیرہ اندوزی کرے اللہ تعالی اسے کوڑھ کے مرض اور مفلسی میں مبتلا فرمائیں۔

 

جھاڑ پھونک کی اجرت

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، اعمش، جعفر بن ایاس، نضرہ، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم تیس سواروں کو ایک سریہ میں بھیجا ہم نے ایک قوم کے ہاں پڑاؤ ڈالا (رواج اور دستور کے مطابق) ہم نے ان سے مہمانی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے انکار کر دیا پھر ان کے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا تو وہ ہمارے پاس آئے اور کہا تم میں کوئی بچھو کے ڈسے کا دم کرتا ہے؟ میں نے کہا جی میں کر لیتا ہوں۔ لیکن تمہارے سردار کو دم نہ کروں گا جب تک تم ہمیں کچھ نہ دو کہنے لگے ہم تمہیں تیس بکریاں دیں گے۔ ہم نے قبول کر لیا میں نے سات بار سورۃ الْحَمْدُ لِلَّہِ پڑھ کر اس پر دم کیا وہ تندرست ہو گیا اور ہم نے بکریاں وصول کر لیں پھر ہمارے دلوں میں کھٹک پیدا ہوئی میں نے کہا جلدی نہ کرو یہاں تک کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں جب ہم پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ کی خدمت میں عرض کر دیا۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں یہ دم بھی ہے؟ ان بکریوں کو تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔ دوسری سندوں سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔

 

قرآن سکھانے پر اجرت لینا

 

علی بن محمد، محمد بن اسماعیل، وکیع، مغیرہ بن زیاد، عبادہ بن نسی، اسود بن ثعلبہ، عبادہ بن صامت حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرد کو قرآن کریم سکھایا تو اس نے ایک کمان بطور ہدیہ مجھے دی میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا اگر تم نے لے لی ہے تو (دوزخ کی) آگ کی ایک کمان تم نے لے لی تو میں نے وہ واپس کر دی۔

 

٭٭ سہل بن ابی سہل، یحییٰ بن سعید، ثور، یزید، خالد بن معدان، عبد الرحمن بن سلم، عطیہ، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے صفہ والوں میں بہت لوگوں کو قرآن لکھنا سکھایا ان میں سے ایک مرد نے مجھے کمان بطور تحفہ دی میں نے سوچا کہ یہ قیمتی مال بھی نہیں ہے اور اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی بھی کر لوں گا پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ فرمایا اگر تمہیں اس کے بدلے دوزخ کی کمان گردن میں لٹکائے جانے سے خوشی ہو تو یہ قبول کر لو۔

 

کتے کی قیمت زنا کی اجرت نجومی کی اجرت اور سانڈ چھوڑنے کی اجرت سے ممانعت

 

ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، ابی بکر، عبد الرحمن، حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتے کی قیمت زنا کی اجرت اور نجومی کی اجرت (ان تمام نا جائز اجرتوں ) سے منع فرمایا۔

 

٭٭ علی بن محمد، محمد بن طریف، محمد بن فضیل، اعمش، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتے کی قیمت اور سانڈ چھوڑنے کی اجرت سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار ولید مسلمہ ابن لہیعہ ابی زبیر ، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلی کی قیمت سے منع فرمایا۔

 

بچھنے لگانے والے کی کمائی

محمد بن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، ابن طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پچھنے لگوائے اور پچھنے لگانے والے کو اجرت دی۔ ابن ماجہ نے کہا ابن عمر اس حدیث میں متفرد ہیں۔

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو حفص صیرفی، ابو داؤد، محمد بن عبادہ، یزید بن ہارون، ورقاء، عبد الاعلی، ابی حمید، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پچھنے لگوائے اور مجھے حکم دیا تو میں نے پچھنے لگانے والے کو اس کی اجرت دی۔

 

٭٭ عبد الحمید بن بیان، خالد بن عبد اللہ، یونس، ابن سیرین، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پچھنے لگوائے اور پچھنے لگانے والے کو اس کی اجرت دی۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، اوزاعی، زہری، ابی بکر بن عبد الرحمن بن حارث، ابن ہشام، حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پچھنے لگانے والے کی کمائی سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ بن سوار، ابن ابی ذئب، زہری، حرام بن ، حضرت محیصہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پچھنے لگانے والی کی کمائی کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے ان کو اس سے منع فرمایا۔ انہوں نے اپنی احتیاج ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے پانی لانے والے اونٹوں کے چارہ میں صرف کر دو۔

 

جن چیزوں کو بیچنا جائز ہے

 

عیسی بن حماد، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، عطاء بن ابی رباح، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے سال مکہ میں فرمایا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حرام فرما دیا شراب مردار خنزیر اور بت بیچنا اس وقت کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بتائیے کہ مردار کی چربی بیچنا کیسا ہے کیونکہ یہ چربی کشتیوں پر ملتے ہیں اور کھالوں پر بھی اور لوگ (چراغ میں ڈال کر) اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ فرمایا یہ حرام ہے پھر اللہ کے رسول نے فرمایا اللہ یہود کو تباہ کرے اللہ تعالی نے ان پر چربیوں کو حرام فرمایا تو انہوں نے چربی پگھلا کر (تیل بنا کر) بیچی اور اس کی قیمت استعمال کی۔

 

٭٭ احمد بن محمد، یحییٰ بن سعید، قطان، ہاشم بن قاسم، ابو جعفر، عاصم، ابی مقلب، عبید اللہ، حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ممانعت کے بارے میں ) ارشاد فرمایا گانا گانے والی باندیوں کی خرید و فروخت سے اور ان کی کمائی سے اور ان کی قیمت کھانے سے بھی منع فرمایا۔

 

منابذہ اور ملامسہ سے ممانعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، حبیب بن عبد الرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو قسم کی بیع سے منع فرمایا۔ بیع ملامسہ سے اور۔ بیع منابذہ سے منع فرمایا

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، زہری، عطاء بن یزید، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ملامسہ اور منابزہ سے منع فرمایا سفیان کہتے ہیں کہ ملامسہ یہ ہے کہ مرد دیکھئے بغیر چیز پر ہاتھ لگا دے (اور اس سے بیع لازم سمجھ لی جائے ) اور منابذہ یہ ہے کہ جو تیرے پاس ہے وہ میری طرف پھینک دے اور جو میرے پاس ہے میں تیری طرف پھینک دیتا ہوں (اس سے بیع لازم ہو جائے گی)۔

 

اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور بھائی کی قیمت پر قیمت نہ لگائے

 

سوید بن سعید، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک کی بیع پر دوسرا بیع نہ کرے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اس کے قیمت لگانے کے بعد قیمت نہ لگائے۔

 

نجش سے ممانعت

 

مصعب بن عبد اللہ، مالک، ابو حذافہ، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجش سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سہل بن ابی سہل، سفیان، زہری، سعید، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نجش مت کیا کرو۔

 

شہر والا باہر والے کا مال نہ بیچے

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شہر والا باہر والے کا مال نہ بیچے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شہر والا باہر والے کا مال نہ بیچے لوگوں کو چھوڑ دو اللہ بعض کو بعض سے روزی دیتے ہیں۔

 

٭٭ عباس بن عبد العظیم، عبد الرزاق، معمر، ابن طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ شہر والا باہر والے کا مال بیچے۔ حضرت طاؤس کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا شہر والا دیہات والے کا دلال نہ بنے۔

 

باہر سے مال لانے والے سے شہر سے باہر جا کر ملنا منع ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو اسامہ، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا باہر سے آنے والے قافلوں سے نہ ملو اگر کوئی ملا اور کچھ خرید لیا تو بیچنے والا جب بازار پہنچے اسے اختیار ہو گا (کہ بیع قائم رکھے یا فسخ کر دے )۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے باہر سے آنے والے قافلہ کو ملنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، یحییٰ بن سعید، حماد بن مسعدہ، سلیمان، ح، اسحاق بن ابراہیم بن حبیب بن شہید، معتمر بن سلیمان حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فروخت کرنے والوں سے (باہر جا کر) ملنے سے منع فرمایا۔

 

بیچنے اور خرید نے والے کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہو

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب دو مرد خرید و فروخت کریں تو ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہے جب تک وہ (دونوں ) جدا نہ ہوں (یعنی) اکٹھے رہیں۔

 

٭٭ احمد بن عبدہ، احمد بن مقدام، حماد بن زید، جمیل بن مرہ، ابی الوضی، حضرت ابو برزہ اسلمی بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خرید و فروخت کرنے والے جب تک جدا نہ ہوں انہیں اختیار ہے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، اسحاق بن منصور، عبد الصمد، شعبہ، قتادہ، حضرت حسن بن سمرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خرید و فروخت کرنے والے جب تک جدا نہ ہوں انہیں اختیار ہے۔

 

بیع خیار کی شرط کر لینا

 

حرملہ بن یحییٰ، احمد بن عیسی، عبد اللہ بن وہب، ابن جریج، ابی زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دیہاتی سے چارے کا گٹھا خریدا جب بیع ہو چکی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (میری طرف سے ) تمہیں اب بھی اختیار ہے (کہ بیع قائم رکھو یا فسخ کر دو) دیہاتی کہنے لگا اللہ آپ کی عمر دراز فرمائیے میں بیع کو اختیار کرتا ہوں۔

 

٭٭ عباس بن ولید، مروان، محمد، عبد العزیز بن محمد، داؤد بن صالح، حضرت ابو سعید بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بیع تو دونوں (فریقوں ) کی مکمل رضامندی سے ہی ہوتی ہے۔

 

بائع و مشتری کا اختلاف ہو جائے تو؟

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن صباح، ہشیم، ابن ابی لیلی، قاسم بن عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے ایک سرکاری غلام اشعث بن قیس کے ہاتھ فروخت کیا ثمن میں دونوں کا اختلاف ہو گیا۔ ابن مسعود نے فرمایا کہ میں نے بیس ہزار میں تمہارے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ اشعث بن قیس نے کہا کہ میں نے تو آپ سے دس ہزار میں خریدا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا تم چاہو تو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں جو میں نے اللہ کے رسول سے سنی ہے۔ آپ نے فرمایا ایسی صورت میں بائع اور مشتری کو بیع فسخ کرنے کا اختیار بھی ہے۔ اس نے کہا میری رائے یہ ہو رہی کہ بیع فسخ کر دوں۔ آپ نے بیع فسخ کر دی۔

 

جو چیز پاس نہ ہو اس کی بیع منع ہے اور جو چیز اپنی ضمان میں نہ ہو اس کا نفع منع ہے

 

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، محمد، شعبہ، ابی بشر، یوسف بن مالک، حضرت حکیم بن حزام فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کوئی مرد مجھ سے بیع کا مطالبہ کرے اور وہ چیز میرے پاس نہ ہو تو کیا میں اسے بیچ دوں؟ فرمایا جو چیز تمہارے پاس نہ ہو وہ نہ بیچو۔

 

٭٭ ازہر بن مروان، حماد بن زید، ح، ابو کریب، اسماعیل بن علیہ، ایوب، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمر وبن العاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کی بیع حلال نہیں اور جو چیز تمہاری ضمان میں نہیں اس کا نفع بھی حلال نہیں۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، لیث، عطاء، حضرت عتاب بن اسید فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو مکہ بھیجا تو جو چیز ضمان میں نہ ہو اس کا نفع لینے سے منع فرمایا۔

 

جب دو با اختیار شخص بیع کریں تو وہ پہلے خریدار کی ہو گی

 

حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، حضرت عقبہ بن عامر یا سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے دو مردوں سے بیع کر لی تو بیع پہلے کی ہو گی۔

 

٭٭ حسین بن ابی سری، محمد بن اسماعیل، وکیع، سعید بن بشیر، قتادہ، حضرت حسن بن سمرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب دو با اختیار شخص بیع کر لیں تو پہلے کی بیع معتبر ہو گی۔

 

بیع میں بیعانہ کا حکم

 

ہشام بن عمار، مالک بن انس، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیع میں بیعانہ مقرر کرنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ فضل بن یعقوب، حبیب بن ابی حبیب، ابی محمد ، مالک بن انس، عبد اللہ بن عامر اسلمی، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیع میں بیعانہ مقرر کرنے سے منع فرمایا۔ ابو عبد اللہ کہتے ہیں کہ عربان کا مطلب یہ ہے کہ مرد سواری خریدے سو اشرفی کے بدلے اور دو اشرفی بطور بیعانہ دے دے اور یہ کہے کہ اگر میں نے سواری نہ خریدی تو بھی یہ دونوں اشرفیاں تمہاری ہوں گی۔ اور بعض نے کہا واللہ اعلم عربان یہ ہے کہ مرد کوئی چیز خریدے تو فروخت کنندہ کو ایک درہم کم یا زیادہ دے دے اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو ٹھیک ورنہ یہ درہم تمہارا۔

 

بیع حصاۃ اور بیع غرر سے ممانعت

 

محرز بن سلمہ، عبد العزیز بن محمد، عبید اللہ ، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دھوکہ کی بیع سے اور حصاۃ (کنکری) کی بیع (دونوں اقسام کی بیع) سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ابو کریب، عباس بن عبد العظیم، اسود بن عامر، ایوب بن عتبہ، یحییٰ بن کثیر، عطاء، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دھوکہ والی بیع سے منع فرمایا۔

 

جانوروں کا حمل خریدنا یا تھنوں میں جو دودھ ہے اسی حالت میں وہ خریدنا یا غوطہ خور کے ایک مرتبہ کے غوطہ میں جو بھی آئے (شکار کرنے سے قبل) اسے خریدنا منع ہے

 

ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، جعضم بن عبد اللہ، محمد بن ابراہیم، محمد بن زید، شہر بن حوشب، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جانوروں کے حمل خریدنے سے منع فرمایا یہاں تک بچہ ہو جائے اور تھنوں میں دودھ خریدنے سے منع فرمایا الا یہ کہ ناپ لیں (یعنی دوہنے کے بعد) اور بھاگے ہوئے غلام کو (اسی حالت میں ) خریدنے سے منع فرمایا اور غنیمت کا حصہ تقسیم سے قبل خریدنے سے منع فرمایا اور صدقات خریدنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وصول کرلئے جائیں اور غوطہ خور کا ایک غوطہ خریدنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ہشام بن سفیان ، ایوب ، سعید بن جبیر، ابن عمر، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حمل کے حمل کی بیع سے منع فرمایا۔

 

نیلامی کا بیان

 

ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، اخضر بن عجلان، ابو بکر، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا۔ آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ عرض کیا ایک ٹاٹ ہے۔ کچھ  بچھا لیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور پانی پینے کا پیالہ ہے۔ فرمایا دونوں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ رسول اللہ نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھوں میں لیں اور فرمایا یہ دو چیزیں کون خریدے گا؟ ایک مرد نے عرض کیا کہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے زائد کون لے گا؟ ایک مرد نے عرض کیا میں دو درہم میں لیتا ہوں تو آپ نے دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا ایک درہم سے کھانا خرید کر گھر دو اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ اس نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرو اور پندرہ یوم تک میں تمہیں نہ دیکھوں وہ لکڑیاں چیرتا رہا اور بیچتا رہا پھر وہ حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے۔ فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا۔ پھر فرمایا کہ خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے بنسبت اس کے کہ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرہ پر ہو مانگنا درست نہیں سوائے اس کے جو انتہائی محتاج ہو یا سخت مقروض ہو یا خون میں گرفتار ہو جو ستائے۔

 

بیع فسخ کرنے کا بیان

 

زیاد بن یحییٰ، ابو خطاب، مالک بن سعیر، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کسی مسلمان سے اقالہ کر لے (یعنی بیچی ہوئی چیز واپس لے لے ) اللہ تعالی روز قیامت اس کی لغزشوں سے درگزر فرمائیں گے۔

 

نرخ مقرر کرنا مکروہ (منع) ہے

 

محمد بن مثنی، حجاج، حماد بن سلمہ، قتادہ، حمید، ثابت، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں قیمتیں گراں ہو گئیں تو لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! قیمتیں گراں ہو گئیں۔ اس لئے آپ ہمارے لئے قیمتیں متعین فرما دیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالی نرخ مقرر فرماتے ہیں وہ کبھی روک لیتے ہیں کبھی چھوڑ دیتے ہیں وہی رازق ہیں میں امید کرتا ہوں کہ اللہ کی بارگاہ میں ایسی حالت میں حاضر ہوں کہ کوئی مجھ سے خونی یا مالی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

 

٭٭ محمد بن زیاد، عبد الاعلی، سعید، قتادہ، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں قیمتیں گراں ہو گئیں تو لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اگر آپ قیمتیں متعین فرما دیں (تو بہتر ہو گا) فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم سے ایسی حالت میں جدا ہوں کہ کوئی مجھ سے ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو جو میں نے اس پر کیا ہو۔

 

خرید و فروخت میں نرمی سے کام لینا

 

محمد بن ابان، ابو بکر، اسماعیل بن علیہ، یونس بن عبید، عطاء بن فروخ، حضرت عثمان بن عثمان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی اس مرد کو جنت میں داخل فرمائیں جو خرید و فروخت میں نرمی کرتا ہو۔

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، ابو غسان، محمد بن مطرف، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ رحم فرمائے اس بندہ پر جو نرمی کرے بیچنے میں خریدنے میں تقاضہ اور مطالبہ کرنے میں۔

 

نرخ لگانا

 

یعقوب بن حمید بن کاسب، یعلی بن شعیب، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، حضرت قیلہ ام بن انمار فرماتی ہیں کہ میں ایک عمرہ کے موقع پر مروہ کے پاس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک عورت ہوں خرید و فروخت کرتی ہوں جب میں خریدنے لگتی ہوں تو جتنی قیمت دینے کا ارادہ ہوتا ہے اس سے بھی کم بتاتی ہوں اور جب چیز بیچنے لگتی ہوں تو جتنی قیمت کا ارادہ ہوتا ہے اس سے زیادہ بتاتی ہوں پھر کم کرتے کرتے مطلوبہ قیمت پر آ جاتی ہوں۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیلہ ایسا نہ کیا کرو جب تم بیچنا چاہو تو مطلوبہ قیمت ہی ذکر کرو خواہ تم دو یا نہ دو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، جریری، ابی نضرہ، جابر بن عبد اللہ حضرت جابر فرماتے ہیں میں ایک جنگ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا آپ نے مجھ سے فرمایا اللہ تمہاری بخشش فرمائے اپنا پانی لانے والا یہ اونٹ ایک اشرفی کے بدلے مجھے بیچتے ہو؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں مدینہ پہنچ جاؤں پھر یہ اونٹ آپ ہی کاہے۔ فرمایا کیا تم اسے ایک اور اشرفی کی بدلہ بیچتے ہو (یعنی کل دو اشرفی) اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔ فرماتے ہیں کہ آپ مسلسل ایک ایک اشرفی میرے لئے بڑھاتے رہے اور ہر اشرفی کی جگہ یہ فرماتے رہے اور اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔ یہاں تک کہ بیس اشرفیوں تک پہنچ گئے جب میں مدینہ پہنچا تو میں نے اونٹ کا سر تھاما اور نبی کی خدمت میں لے آیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا بلال! ان کو غنیمت میں سے بیس اشرفیاں دے دو اور فرمایا اپنا اونٹ لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کے پاس جانا۔

 

٭٭ علی بن محمد، سہل بن ابی سہل، عبید اللہ بن موسی، ربیع بن حبیب، نوفل بن عبد الملک، حضرت علی فرماتے ہیں کہ منع فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طلوع آفتاب سے قبل قیمت لگانے سے (کیونکہ یہ ذکر وعبادت کا وقت ہے ) اور دودھ دینے والا جانور بیچنے سے منع فرمایا۔

 

خرید و فروخت میں قسمیں اٹھانے کی کراہت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، احمد بن سنان، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالی قیامت کے روز نہ ان سے کلام فرمائیں گے نہ نظر کرم فرمائیں گے نہ گناہوں سے پاک فرمائیں گے اور ان کو تکلیف دہ عذاب ہو گا۔ ایک وہ مرد جسکے پاس بیابان میں زائد پانی ہو اور مسافروں کو نہ دے اور ایک وہ مرد جس نے عصر کے بعد دوسرے مرد سے سامان کا سودا کیا تو اللہ کے نام سے یہ قسم اٹھائی کہ یہ سامان اتنے کا لیا ہے دوسرے نے اس کی تصدیق کر دی حالانکہ واقع میں ایسا نہ تھا اور ایک وہ مرد جو دنیا ہی کی خاطر کسی امام کے ہاتھ پر بیعت کرے اگر وہ امام اسے کچھ دنیا دے دے تو بیعت کی پابندی کرے اور اگر نہ دے تو امام کے ساتھ وفا نہ کرے۔

 

٭٭ علی بن محمد، محمد بن اسماعیل، وکیع، علی بن مدرک، حزشہ بن حر، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین شخص ایسے ہیں کہ روز قیامت اللہ نہ ان سے کلام فرمائیں گے نہ ان کی طرف نظر کرم فرمائیں گے نہ ان کو گناہوں سے پاک فرمائیں گے اور ان کو دردناک عذاب ہو گا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ کون ہیں وہ تو نامراد ہوئے اور گھاٹے میں پڑگئے۔ فرمایا ازار (شلوار تہبند) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور دے کر احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سامان فروخت کرنے والا۔

 

٭٭ یحییٰ بن خلف، عبد الاعلی، ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، محمد بن اسحاق ، سعید بن کعب بن مالک، حضرت ابو قتادہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بیچتے وقت قسم سے بہت بچو کیونکہ اس سے (بہرحال) سامان تو بک جاتا ہے لیکن پھر بے برکتی بھی (لازم) ہوتی ہے۔

 

پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت یا مال والا غلام بیچنا

 

ہشام بن عمار، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے پیوند کیا ہوا کھجور کا درخت بیچا تو اس کا پھل فروخت کنندہ کا ہو گا الا یہ کہ خریدار پہلے طے کر لے (کہ پھل میں لوں گا تو خریدار کا ہو جائے گا)۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

بازار اور ان میں جانا

 

بشر بن معاذ ، حماد بن زید، عمرو بن دینار، زبیر، سالم بن عبد اللہ بن عمر حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بازار میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ حَیٌّ لَا یَمُوتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ کُلُّہُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔ تو اللہ تعالی اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھیں گے اور اس کے دس لاکھ گناہ معاف فرما دیں گے اور جنت میں اس کے لئے ایک محل تعمیر کروائیں گے۔

 

صبح کے وقت میں متوقع برکت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشیم، یعلی بن عطاء، عمارہ بن حدید، حضرت صخر غامدی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اللہ میری امت کو صبح میں برکت دیجئے۔ فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی چھوٹا یا بڑا لشکر روانہ فرمانا ہوتا تو شروع دن میں روانہ فرماتے۔ راوی کہتے ہیں حضرت صخر مرد تاجر تھے تو وہ اپنے تجارتی قافلے شروع دن میں روانہ کرتے تو وہ بہت مالدار ہوئے اور ان کا مال بہت بڑھ گیا۔

 

٭٭ ابو مروان، محمد بن عثمان، محمد بن میمون، عبد الرحمن بن ابی زیاد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے اللہ ! میری امت کو جمعرات کی صبح میں برکت دیجئے۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، اسحاق بن جعفر بن محمد، علی بن حسین ، عبد الرحمن بن ابی بکر، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے اللہ میری امت کو صبح کے وقت میں برکت دے دیجئے۔

 

مصراۃ کی بیع

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد ابو  سلمہ، ہشام بن حسان ، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے مصراۃ جانور خریدا اسے تین روز تک اختیار ہے اگر واپس کرے تو اس کے ساتھ کھجور بھی دے گندم ضروری نہیں۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد، صدقہ بن سعید، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو جو مصراۃ بیچے تو خریدار کو تین روز تک اختیار ہے اگر وہ جانور واپس کرے تو اس کے ساتھ اس کے دودھ سے دو گنا یا دودھ کے برابر گیہوں دے۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، وکیع، جابر، ابی ضحی، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے میں گواہی دیتا ہوں کہ صادق مصدوق ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں فرمایا مصراۃ جانوروں کو بیچنا دھوکا ہے اور مسلمان کیلئے دھوکہ حلال نہیں۔

 

نفع ضمان کے ساتھ مربوط ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ابن ابی ذئب، مخلد بن خفاف بن ایماء، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ غلام کی کمائی اس کے ضمان کے ساتھ مربوط ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، مسلم بن خالد، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نے غلام خریدا اسے کام میں لگایا پھر اس میں عیب دیکھا تو واپس کر دیا۔ فروخت کنندہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس نے میرے غلام کو کام میں لگا کر فائدہ اٹھایا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نفع ضمان کے ساتھ مربوط ہے۔

 

غلام کو واپس کرنے کا اختیار

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبدہ بن سلیمان، سعید، قتادہ، حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا غلام کو واپس کرنے کا اختیار تین روز تک ہے۔

 

٭٭ عمرو بن رافع، ہشیم ، یونس بن عتبہ، حسن ، حضرت عقبیہ بن عامر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چار یوم تک (بائع کی) کوئی ذمہ داری نہیں۔

 

معیوب چیز بیچتے وقت عیب ظاہر کر دینا

 

محمد بن بشار، وہب بن جریر، یحییٰ بن ایوب، یزید بن ابی حبیب، عبد الرحمن بن شماسہ، حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے ہاتھ معیوب چیز فروخت کرے الا یہ کہ اس کے سامنے عیب ظاہر کر دے۔

 

٭٭ عبد الوہاب بن ضحاک، بقیہ بن ولید، معاویہ بن یحییٰ، مکحول ، سلیمان بن موسی، حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس نے عیب دار چیز عیب ظاہر ظاہر کئے بغیر فروخت کی وہ مسلسل اللہ کی ناراضگی میں رہے گا اور فرشتے مسلسل اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔

 

(رشتہ دار) قیدیوں میں تفریق سے ممانعت

 

علی بن محمد، محمد بن اسماعیل، وکیع، سفیان، جابر، قاسم بن عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جب قیدی لائے جاتے تو آپ ایک گھرانہ اکٹھا ہی عطا فرما دیتے اس لئے کہ آپ کو یہ پسند نہ تھا کہ ان میں جدائی کرا دیں۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عفان، حماد، حکم، میمون بن ابی شبیب، حضرت علی کرم فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دو غلام عطا فرمائے وہ آپس میں بھائی تھے میں نے ایک بیچ دیا۔ آپ نے فرمایا دونوں غلاموں کا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا ان میں سے ایک میں نے فروخت کر دیا۔ فرمایا اسے واپس لے لو۔

 

٭٭ محمد بن عمر بن ہیاج، عبید اللہ بن موسی، ابراہیم، حضرت ابو موسی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی اس شخص پر جو ماں اور اولاد کے درمیان اور بھائی بھائی کے درمیان تفریق کرے۔

 

غلام کو خرید لینا

 

محمد بن بشار، عبادہ بن لیث، عبد المجید بن وہب، عداء بن خالد، حضرت عبد المجید بن وہب فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عداء بن خالد بن ہوذہ نے فرمایا میں تمہیں وہ مکتوب نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے لئے تحریر فرمایا؟ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور پڑھائیے۔ انہوں نے ایک مکتوب نکال کر مجھے دیا۔ اس میں تھا یہ وہ ہے جو عداء بن خالد نے محمد رسول اللہ سے خریدا۔ ان سے ایک غلام خریدا یا (لکھا تھا) ایک لونڈی خریدی اس میں نہ کوئی بیماری ہے نہ چوری کا مال ہے نہ حرام مال۔ مسلمان کی بیع مسلمان سے ہے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، ابو خالد، ابن عجلان، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب تم میں کوئی باندی خریدے تو یہ دعا مانگے اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس کی بھلائی کی اور اس کی سرشت میں جو بھلائی آپ نے رکھی اس کا اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کی سرشت میں جو شر آپ نے رکھا اس سے اور برکت کی دعا مانگے اور جب تم میں سے کوئی اونٹ خریدے تو اس کی کوہان بالائی حصہ سے پکڑ کر برکت کی دعا مانگے اور یہ مذکور دعا بھی مانگے۔

 

بیع صرف اور ان چیزوں کا بیان جنہیں نقد بھی کم و بیش بیچنا درست نہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ہشام بن عمار، نصر بن علی، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، مالک بن اوس، امیرالمومنین سیدنا عمر بن الخطاب بیان فرماتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سونا سونے کے عوض سود ہے مگر ہاتھوں ہاتھ بیچا جائے تو سود نہیں اور گندم گندم کے عوض اور جو جو کے عوض سود ہے الا یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو اور کھجور کھجور کے عوض سود ہے الا یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔

 

٭٭ حمید بن مسعدہ، یزید بن زریع، محمد بن خالد بن خداش، اسماعیل بن علیہ، سلمہ بن علقمہ، محمد بن سیرین ، مسلم بن یسار، عبد اللہ بن عبید، حضرت مسلم بن یسار اور عبد اللہ بن عبید سے روایت ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت معاویہ یہودیوں یا عیسائیوں کے گرجے میں جمع ہوئے تو حضرت عبادہ نے حدیث بیان کی فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں چاندی کو چاندی کے عوض اور سونے کو سونے کے عوض اور گندم کو گندم کے عوض اور جو کو جو کے عوض اور چھوہارے کو چھوہارے کے عوض فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ ایک راوی نے یہ بھی کہا کہ اور نمک کو نمک دوسرے سے نمک کا تذکرہ نہیں کیا اور ہمیں حکم دیا کہ گندم جو کے عوض اور جو گندم کے عوض نقد در نقد جیسے چاہیں (کمی بیشی کے ساتھ بیچیں )۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یعلی بن عبید، فضیل بن غزوان، ابن ابی نعیم، ابو ہریرہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا اور جو کے بدلے جو اور گندم کے بدلے گندم برابر برابر بیچاکرو۔

 

٭٭ ابو کریب، عبدہ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، ابی سعید، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں کھجور دیتے ہم اس کے بدلہ میں اچھی کھجور لے لیتے اور اپنی کھجور کچھ زیادہ دے دیتے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک صاع کھجور دو صاع کے عوض بیچنا درست نہیں اور ایک درہم ایک درہم کے عوض ایک اشرفی ایک اشرفی کے عوض جن کا وزن برابر ہو کسی طرف بھی زیادہ بیچنا درست ہے۔

 

ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ سود ادھار ہی میں ہے

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، ابی صالح، ابو ہریرہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں نے ابو سعید خدری کو یہ فرماتے سنا درہم درہم کے عوض اشرفی اشرفی کے عوض بیچنا جائز ہے۔ میں نے کہا میں نے ابن عباس سے کچھ اور بات سنی ہے تو ابو سعید خدری نے کہا سنو! میں ابن عباس سے ملا اور میں نے ان سے کہا کہ یہ جو آپ بیع صرف کے متعلق کہتے ہیں اس کے متعلق بتائیے۔ آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ سنا ہے یا اللہ کی کتاب میں غور کر کے سمجھا ہے کہنے لگے یہ مسئلہ نہ میں نے اللہ کی کتاب میں غور کر کے سمجھا نہ خود اللہ کے رسول سے سنا البتہ (حضرت) اسامہ بن زید نے مجھے بتایا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا سود ادھار میں ہی ہے۔

 

٭٭ احمد بن عبدہ، حماد بن زید، سلیمان بن علی، حضرت ابو الجوزاء فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس کو سنا کہ صرف کو جائز قرار دیتے ہیں پھر مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اس سے رجوع کر لیا ہے میں مکہ میں ان سے ملا اور کہا مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے رجوع کر لیا ہے۔ فرمانے لگے جی ہاں یہ میری رائے تھی اور ان ابو سعید نے مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث سنائی کہ آپ نے صرف سے منع فرمایا (جب برابر برابر یا نقد در نقد نہ ہو)۔

 

سونے کو چاندی کے بدلہ فروخت کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، مالک بن اوس بن حدثان، حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا سود ہے الا یہ کہ نقد در نقد ہو ابو بکر بن شیبہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام سفیان کو یہ کہتے سنا یاد رکھنا سونے کو چاندی کے عوض فرمایا ہے (یعنی اختلاف جنس کے باوجود ادھار کو سود فرمایا ہے )۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، مالک بن اوس، حضرت مالک بن اوس حدثان کہتے ہیں میں یہ کہتا ہوا آیا کہ کون درہم کی بیع صرف کرے گا طلحہ بن عبید اللہ حضرت عمر بن خطاب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے اپنا سونا ہمیں دکھاؤ پھر ٹھہر کر آنا جب ہمارا خزانچی آئے گا تو ہم درہم دے دیں گے۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا ہرگز نہیں بخدا یا تم  اس کو چاندی ابھی دو یا اس کا سونا اسے واپس کر دو اس لئے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا چاندی سونے کے عوض فروخت کرنا سود ہے الا یہ کہ نقد در نقد ہو۔

 

٭٭ ابو اسحاق ، شافعی، ابراہیم بن محمد بن عباس، عباس بن عثمان بن شافع، عمر بن محمد بن علی بن ابی طالب، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اشرفی اشرفی کے عوض اور درہم درہم کے عوض بیچو تو ان میں کمی بیشی نہ ہو جس کو چاندی کی ضرورت ہو وہ اس کو سونے کے عوض اور جس کو سونے کی ضرورت ہو وہ  اس کو چاندی کے عوض لے لے اور بیع تو صرف ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے۔

 

چاندی کے عوض سونا اور سونے کے عوض چاندی لینا

 

اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، سفیان بن وکیع، محمد بن عبید بن ثعلبہ، عمرو بن عبید، عطاء بن سائب، سماک، سعید بن جبیر، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں میں اونٹ فروخت کیا کرتا تھا تو میں چاندی (جو قیمت میں طے ہوتی) کے عوض سونا اور کبھی سونا (جو قیمت میں طے ہوتا اس کے ) عوض چاندی اور درہم کے عوض اشرفیاں اور اشرفیوں کے عوض درہم لے لیتا تھا پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا جب سونا چاندی میں سے ایک چیز لو اور دوسری دو تو اپنے ساتھی سے ایسی حالت میں جدا نہ ہو کہ تمہارے درمیان کچھ کھٹک اور اشتباہ ہو (بلکہ معاملہ بالکل صاف کر کے اور حساب بے باق کر کے جدا ہو)۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

درہم اور اشرفیاں توڑنے سے ممانعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سوید بن سعید، ہارون بن اسحاق ، معتمر بن سلیمان، محمد بن فضاء، علقمہ بن عبد اللہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمان کا رائج سکہ توڑنے سے منع فرمایا الا یہ کہ مجبوری ہو۔

 

تازہ کھجور چھوہارے کے عوض بیچنا

 

علی بن محمد، وکیع، اسحاق بن سلیمان، مالک بن انس، عبد اللہ بن یزید، مولی اسود بن سفیان، حضرت ابو عیاش زید نے سعد بن ابی وقاص سے پوچھا کہ سفید گیہوں جو کے عوض خریدنا کیسا ہے؟ تو سعد نے ان سے کہا ان میں بہتر چیز کون سی ہے؟ میں نے کہا سفید گیہوں۔ آپ نے مجھے اس سے منع فرمایا اور کہا میں نے رسول اللہ سے سنا آپ سے پوچھا گیا کہ تازہ کھجور چھوہارہ کے عوض خریدنا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا تازہ کھجور جب خشک ہو گی تو کم ہو جائے گی؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ نے اس سے منع فرما دیا۔

 

مزابنہ اور محاقلہ

 

محمد بن رمح ، لیث بن سعد، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزابنہ سے منع فرمایا اور مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور تلی ہوئی کھجور کے بدلہ میں اندازے سے بیچے اور اپنے انگوروں کو نا پی ہوئی کشمش کے بدلے میں اندازے سے بیچے اور کھیتی کو ناپے ہوئے اناج کے بدلے اندازے سے بیچے۔ آپ نے ان سب سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ازہر بن مروان، حماد بن زید، ایوب، ابی زبیر، سعید بن میناء، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محالقہ اور مزابنہ سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو احوص، طارق بن عبد الرحمن، سعید بن مسیب، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا

 

بیع عرایا

 

ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، سالم، حضرت زید بن ثابت بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرایا کی رخصت دی۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ، ابن سعید، نافع، عبد اللہ بن عمر حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عریہ کو اندازا اس کے برابر کھجور کے عوض فروخت کرنے کی اجازت دی۔ حضرت یحی فرماتے ہیں کہ عرایا یہ ہے کہ مرد اپنے اہلخانہ کے کھانے کیلئے کھجوروں کے درخت خریدے اور اس کے بدلے میں اندازا اتنی ہی کھجوریں دے۔

 

جانور کو جانور کے بدلہ میں ادھار بیچنا

 

عبد اللہ بن سعید، عبدہ بن سلیمان، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جانور کو جانور کے بدلہ میں ادھار بیچنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، حفص بن غیاث، ابو خالد، حجاج، ابی زبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک جانور کو دو جانوروں کے بدلہ ہاتھوں ہاتھ فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور ادھار کو پسند نہ فرمایا۔

 

جانور کو جانور کے بدلہ میں کم و بیش لیکن نقد بیچنا

 

نصر بن علی، حسین بن عروہ، ابو عمر، حفص بن عمر، عبد الرحمن بن مہدی، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت صفیہ کو سات غلاموں کے بدلہ میں خریدا۔ حضرت عبد الرحمن کی روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت دحیہ کلبی سے خریدا۔

 

سود سے شدید ممانعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسی، حماد بن سلمہ، علی بن زید، ابی صلت، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شب مجھے (معراج اور) سیر کرائی گئی میں ایک جماعت کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی مانند تھے ان میں بہت سے سانپ پیٹوں کے باہر سے دکھائی دے رہے تھے میں نے کہا جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں؟ کہنے لگے یہ سود خور ہیں۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، عبد اللہ بن ادریس، ابی معشر، سعید، مقبری، حضرت ابو ہریرہ فرماتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سود (میں ) ستر گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو حفص، ابی عدی، شعبہ، زبید، ابراہیم ، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سود کے تہتر باب ہیں (یعنی تہتر گناہوں کے برابر ہے )

 

٭٭ نصر بن علی، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں (معاملات میں ) سب سے آخر میں سود کی آیت نازل ہوئی (اس لئے وہ منسوخ نہیں ) اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہو گیا اور آپ اس آیت کی پوری تفسیر نہ فرما سکے اس لئے سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کاشبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، سماک ابن حرب، عبد الرحمن بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سود کھانے والے کھلانے والے اس کی گواہی دینے والے اور اس کا معاملہ لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، اسماعیل بن علیہ، داؤد بن ابی ہند، سعید بن ابی خیرہ، حسن، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جو سود خور نہ ہو اور جو سود نہ کھائے اسے بھی سود کا غبار لگے گا۔

 

٭٭ عباس بن جعفر، عمرو بن عون، یحییٰ بن ابی زائد، اسرائیل، دکین بن ربیع بن عمیلہ، حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بھی سود (کا لین دین) زیادہ کرتا ہے اس کا انجام مال کی کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

 

مقررہ ماپ تول میں مقررہ مدت تک سلف کرنا

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابن ابی نجیح، عبد اللہ بن کثیر، ابی منہال، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ کھجور دو تین سال تک کے لئے سلف کرتے تھے آپ نے فرمایا جو سلف کرے تو اسے چاہئے کہ معین ماپ تول میں معینہ مدت کیلئے سلف کرے۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، ولید بن مسلم ، محمد بن حمزہ حضرت عبد اللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں یہودی قوم مسلمان ہو گئی ہے اور وہ بھوک میں مبتلا ہے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں (العیاذ باللہ) مرتد نہ ہو جائیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے پاس کچھ مال ہو وہ مجھ سے سلم کر لے تو ایک یہودی مرد نے کہا میرے پاس اتنا اتنا ہے مال کی مقدار بتائی میرا گمان ہے کہ تین سو دینار کہے اس نرخ پر غلہ لوں گا فلاں قبیلہ کے باغ یا کھیت سے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غلہ اس نرخ پر اتنی مدت کے بعد ملے گا اور اس قبیلہ کے کھیت کا ہونا ضروری نہیں۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، عبد الرحمن بن مہدی، عبد اللہ بن شداد، ابو برزہ، عبد اللہ بن ابی اوفی، حضرت ابو مجالد فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن شداد اور حضرت ابو برزہ کا سلم کے بارے میں اختلاف ہوا انہوں نے مجھے حضرت عبد اللہ بن اوفی کے پاس بھیجا میں نے ان سے سوال کیا تو فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرات ابو بکر و عمر کے زمانہ میں گندم جو کشمش اور کھجور میں جن لوگوں کے پاس یہ چیزیں ہوتیں ان سے سلم کرتے تھے میں نے اس کے بعد حضرت ابن ابزی سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔

 

ایک مال میں سلم کی تو اسے دوسرے مال میں نہ پھیرے

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، شجاع بن ولید، زیاد بن خیثمہ ، سعد، عطیہ، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم کسی ایک چیز میں سلم کرو تو اب اسے دوسری چیز میں نہ ٹھہراؤ۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

معین کھجور کے درخت میں سلم کی اور اس سال اس پر پھل نہ آیا تو؟

 

ہناد بن سری، ابو احوص، ابی اسحاق ، عبد اللہ بن عمر، نجرانی کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن عمر سے کہا میں کھجور کے درخت میں پھل آنے سے قبل سلم کر لوں؟ فرمایا نہیں میں نے عرض کیا کیوں؟ فرمایا نبی کے زمانہ میں ایک مرد نے باغ میں سلم کی پھل آنے سے قبل۔ پھر اس سال باغ میں کچھ بھی پھل نہ آیا تو خریدار نے کہا جب تک پھل نہ آئے یہ میرا ہے اور فروخت کنندہ نے کہا کہ میں نے تو تمہیں اسی سال (کا پھل) بیچا تھا اور بس ان دونوں نے اپنا جھگڑا اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا آپ نے فروخت کنندہ سے فرمایا اس نے تمہارے باغ سے کچھ پھل لیا؟ اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا پھر تم اس کا مال کیسے حلال سمجھ رہے ہو جو تم نے اس سے لیا ہے واپس کرو اور جب تک درخت کے پھلوں کا قابل استعمال ہونا معلوم نہ ہو درخت میں سلم نہ کرو۔

 

جانور میں سلم کرنا

 

ہشام بن عمار، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ نبی نے ایک مرد سے جو ان اونٹ (بکر) میں سلم کی اور فرمایا جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہیں ادائے گی کر دیں گے جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہیں ادائے گی کر دیں گے جب صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ نے فرمایا اے ابو رافع اس مرد کو اس کا بکر (جوان اونٹ) ادا کرو مجھے (صدقہ کے اونٹوں میں ) صرف رباعی یا اس سے بڑا ملا۔ میں نے نبی کو بتایا۔ آپ نے فرمایا رباعی دے دو اس لئے کہ بہترین لوگو وہ ہیں جو ادائے گی اچھے طریقے سے کریں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، سعید بن ہانی، حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک دیہاتی نے عرض کیا میرا بکر (جوان اونٹ) ادا کیجئے۔ آپ نے اسے مسن (اس سے بڑا اونٹ) دے دیا تو دیہاتی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ میرے اونٹ سے بڑا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنا قرض اچھے طریقہ سے ادا کریں۔

 

شرکت اور مضاربت

 

عثمان، ابو بکر، ابی شیبہ، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، ابراہیم بن مہاجر، سائب، حضرت سائب نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا زمانہ جاہلیت میں آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میرے شریک تھے۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بہترین شریک تھے نہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مجھ سے مقابلہ کرتے تھے نہ جھگڑتے تھے۔

 

٭٭ ابو سائب، سلم بن جنادہ، ابو داؤد، سفیان، ابی اسحاق ، ابو عبیدہ، عبد اللہ، عمار، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں اور سعد اور عمار بدر کے روز غنیمت میں شریک ہوئے (یعنی یہ طے کیا کہ جنگ کریں گے غنیمت جس کو بھی ملے وہ تینوں کی مشترک ہو گی) تو میں اور عمار تو کچھ نہ لائے اور سعد نے دو مرد (کافروں کے ) پکڑے۔

 

٭٭ حسن بن علی، بشر بن ثابت، نصر بن قاسم، عبد الرحمن، صالح بن حضرت صہیب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین چیزوں میں برکت ہے مدت معینہ تک ادھار پر فروخت کرنا مضاربت کرنا اور گندم جو میں ملانا گھر میں استعمال کے لئے نہ کہ فروخت کیلئے۔

 

مرد اپنی اولاد کا مال کس حد تک استعمال کر سکتا ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن ابی زائدہ، اعمش، عمارہ بن عمیر، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پاکیزہ ترین چیز جو تم کھاؤ وہ تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد (کی کمائی) بھی تمہاری کمائی ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، یوسف بن اسحاق ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرا مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا باپ چاہتا ہے کہ میرا تمام مال ہڑپ کر جائے۔ آپ نے فرمایا تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کی ہیں۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، یحییٰ بن حکیم، یزید بن ہارون، حجاج، عمرو ابن شعب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرا باپ میرا مال ہڑپ کر گیا ہے۔ آپ نے فرمایا تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اس لئے تم ان کا مال کھاؤ۔

 

بیوی کیلئے خاوند کا مال لینے کی کس حد تک گنجائش ہے؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو عمر، وکیع، ہشام بن عروہ ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ہندہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول بخیل مرد ہے مجھے اتنا نہیں دیتا کہ مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو جائے الا یہ کہ میں اس کی لاعلمی میں اس کے مال میں سے کچھ لے لوں (تو اس سے گزارہ ہو جاتا ہے ) آپ نے فرمایا اتنا لے سکتی ہو جو دستور کے موافق تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ نمیر، ابو معاویہ، اعمش، ابو وائل، مسروق، حضرت سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بیوی خاوند کے گھر سے برباد اور ضائع کئے بغیر خرچ کرے یا فرمایا کھلائے تو  اس کو بھی اس کا اجر ملے گا خاوند کو اس کا اجر ملے گا اس لئے کہ اس نے کمایا اور خازن کو اتنا ہی اجر ملے گا اور ان میں سے کسی کے اجر میں کمی بھی نہیں کی جائے گی۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، شرحبیل ابن مسلم، حضرت ابو امامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا بیوی اپنے گھر سے کوئی چیز بھی خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور کھانے کی چیز بھی خرچ نہ کرے۔ آپ نے فرمایا یہ تو ہمارے افضل ترین اور قیمتی و مرغوب اموال میں سے ہے۔

 

غلام کیلئے کس حد تک دینے اور صدقہ کرنے کی گنجائش ہے؟

 

محمد بن صباح، سفیان، ح، عمرو بن رافع، جریر، مسلم، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غلام کی دعوت بھی قبول فرما لیتے تھے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، محمد بن زید، عمیر حضرت ابی اللحم کے غلام عمیر کہتے ہیں کہ میرا آقا مجھے کوئی چیز دیتا تو میں اس میں سے دوسروں کو بھی کھلادیتا۔ اس نے مجھے روکا یا سرزنش کی تو میں نے یا اس نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا میں نے عرض کیا میں اس سے نہیں رک سکتا یا میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا ثواب تم دونوں کو ملے گا۔

 

جانورہ[کل.ل.للمکے گلہ یا باغ سے گزر ہو تو دودھ یا پھل کھانے کیلئے لینا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ بن سوار، محمد بن بشار، محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی بشر، جعفر، ابن ابی ایاس، بنی غبر کے ایک صاحب عباد بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک سال ہمارے ہاں قحط پڑا تو میں مدینہ گیا وہاں ایک باغ میں پہنچا اور اناج کی بالی لے کر ملی اور کھا لی اور کچھ اناج اپنے کپڑے میں باندھ لیا اتنے میں باغ کا مالک آیا اس نے میری پٹائی کی اور میرا کپڑا بھی لے لیا۔ میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ساری بات عرض کر دی کہ بھوکا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مرد سے فرمایا تو نے اسے کھلایا بھی نہیں اور یہ جاہل تھا تو نے اسے بتایا بھی نہیں (کہ دوسرے کا مال بلا اجازت نہیں لیا کرتے ) پھر نبی نے اسے حکم دیا تو اس نے میرا کپڑا واپس کر دیا اور آپ نے میرے لئے ایک وسق یا آدھا وسق اناج کا حکم دیا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، یعقوب بن حمید بن کاسب، معتمر بن سلیمان، حضرت رافع بن عمر غفاری فرماتے ہیں کہ بچپن میں میں اپنے یا فرمایا انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر مارتا تھا مجھے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ فرمایا اے لڑکے (ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا بیٹا) تم درختوں پر سنگباری کیوں کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پھل کھاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا آئندہ سنگباری مت کرنا اور جو خود نیچے گر جائے وہ کھا سکتے ہو پھر آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا اے اللہ اس کا پیٹ بھر دے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم جانوروں کے گلہ پر پہنچو اور بھوک لگی ہو تو چروا ہے کو تین بار آواز دو اگر وہ جواب دے (تو اس سے اجازت لے لو) ورنہ بقدر ضرورت پی لو اور ضائع نہ کرو اور جب کسی باغ میں پہنچو (اور بھوک لگی ہو) تو باغ کے مالک کو تین بار آواز دو وہ جواب دے تو ٹھیک ورنہ بقدر ضرورت کھالو اور ضائع مت کرو۔

 

٭٭ ہدیہ بن عبد الوہاب، ایوب بن حسان، علی بن سلمہ، یحییٰ بن سلیم، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی باغ سے گزرے تو بقدر ضرورت کھا لے اور کپڑے باندھے نہیں۔

 

مالک کی اجازت کے بغیر کوئی چیز استعمال کرنے سے ممانعت

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، عبد اللہ بن عمر، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور فرمایا تم سے کوئی بھی مالک کی اجازت کے بغیر اس کے گلے سے دودھ نہ دوہے کیا تم میں سے کسی کو پسند ہے کہ کوئی دوسرا اس کے بالا خانے پر جا کر اس کے خزانے کا دروازہ توڑے اور اناج نکال کر لے جائے جانور والوں کیلئے ان کے جانوروں کے تھن ان کے کھانے کا خزانہ (سٹور) ہیں اس لئے تم میں سے کوئی بھی مالک کی اجازت بغیر اس کا جانور نہ دوہے۔

 

٭٭ اسماعیل بن بشر ابن منصور، عمر بن علی، حجاج، سلیط بن عبد اللہ، ذہیل بن عوف بن شماح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک سفر کے دوران ہم نے اونٹ دیکھے جن کے تھن بندھے ہوئے تھے وہ کانٹے دار درختوں میں چر رہے تھے ہم ان کی طرف تیزی سے بڑھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں آواز دی ہم آپ کے پاس واپس آ گئے۔ آپ نے فرمایا یہ اونٹ ایک مسلمان گھرانے کے ہیں یہ ان کی خوراک ہیں اور اللہ کے بعد یہی ان کا سب کچھ ہے (یعنی اللہ کے بعد اسباب کی دنیا میں ان کا سہارا یہی اونٹ اور ان کا دودھ ہے ) کیا تم اس بات سے خوش ہو گے کہ جب تم واپس اپنے توشوں کے پاس پہنچو تو دیکھو کہ ان میں سے کھانا کوئی اور لے اڑا ہے کیا تمہاری رائے میں یہ عدل ہے؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر یہ بھی اس کی مانند ہے ہم نے عرض کیا اگر ہمیں کھانے پینے کی حاجت ہو تو؟ فرمایا کھالو لیکن ساتھ مت اٹھاؤ پی لو مگر ساتھ مت لے جاؤ۔

 

جانور رکھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام ابن عروہ، حضرت ام ہانی سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا بکریاں رکھ لو ان میں برکت ہے۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن ادریس، حصین، عامر، حضرت عروہ بارقی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اونٹ (پالنے ) سے مالک میں غرور پیدا ہوتا ہے اور بکریاں برکت ہیں اور بھلائی قیامت تک کے لئے گھوڑوں کے پیشانی میں باندھ دی گئی ہے۔

 

٭٭ عصمۃ بن فضل، نیسابو ری، محمد بن فراس، ابو ہریرہ، حرمی بن عمارہ، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بکری جنت کے جانوروں میں سے ہے۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، عثمان بن عبد الرحمن، علی بن عروہ، مقبری، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مالداروں کو بکریاں اور ناداروں کو مرغیاں پالنے کا حکم دیا اور فرمایا جب مالدار بھی مرغیاں پال لیں تو اللہ تعالی اس بستی کو تباہ کرنے کا حکم دے دیتے ہیں۔

 

 

 

 

 

فیصلوں کا بیان

 

قاضیوں کا ذکر

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، معلی بن منصور، عبد اللہ بن جعفر، عثمان بن محمد، مقبری، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جسے لوگوں کے درمیان قاضی مقرر کر دیا گیا اسے چھری کے بغیر ہی ذبح کر دیا گیا۔

 

٭٭ علی بن محمد بن اسماعیل، اسرائیل، عبد الاعلی، بلال بن ابی موسی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس نے عہدہ قضا کا مطالبہ کیا اسے اس کے نفس کے سپرد کر دیا گیا اور جسے قاضی بننے پر مجبور کیا جائے تو اس پر ایک فرشتہ نازل ہو کر راہ راست کی طرف اس کی راہنمائی کرتا رہتا ہے۔

 

٭٭ علی بن محمد، یعلی، ابو معاویہ، اعمش، عمرو بن مرہ، حضرت سیدنا علی بیان فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول نے مجھے یمن بھیجا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ مجھے (عامل بنا کر) بھیج رہے ہیں حالانکہ میں نوجوان ہوں میں ان کے درمیان فیصلے کروں گا حالانکہ مجھے فیصلہ کرنے کا سلیقہ نہیں فرماتے ہیں کہ آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت پر رکھ اور اس کی زبان کو مضبوط کر۔ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ میں کبھی تردد نہ ہوا۔

 

ظلم اور رشوت سے شدید ممانعت

 

ابو بکر بن خلاد، یحییٰ بن سعید، مجالد، عامر، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو حاکم بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہو گا وہ روز قیامت اس حالت میں حاضر ہو گا کہ ایک فرشتہ اس کی گردن سے پکڑے ہوئے ہو گا پھر وہ فرشتہ آسمان کی طرف سر اٹھائے گا اگر یہ حکم ہو گا کہ اس کو پھینک دو تو وہ اسے پھینک دے گا ایک خندق میں جس میں چالیس سال تک وہ گرتا چلا جائے گا۔

 

٭٭ احمد بن سنان، محمد بن بلال، عمران قطان، حسین، عمران، اسحاق شیبانی، حضرت عبد اللہ بن اوفی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب تک قاضی ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور جب وہ ظلم کر بیٹھے تو اللہ سے اس کے نفس کے حوالہ کر دیتے ہیں۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابن ابی ذئب، خالد، عبد الرحمن ، ابی سلمہ، حضرت عبد اللہ بن عمر بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اللہ کی لعنت ہے رشوت دینے والے پر اور رشوت لینے والے پر۔

 

حاکم اجتہاد کر کے حق کو سمجھ لے

 

ہشام بن عمار، عبد العزیز، ابن محمد، یزید بن عبد اللہ ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، بسر بن سعید، ابی قیس، حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جب حاکم فیصلہ کرتے وقت خوب اجتہاد و کوشش کرے اور حق سمجھ لے تو اس کو دو اجر ملیں گے اور جب فیصلہ کرتے وقت اجتہاد کرے اور اس سے خطا ہو جائے تو اس کو ایک اجر ملے گا۔ یزید کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابو بکر بن عمرو بن حزم کو سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ ابو  سلمہ نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کر کے یہ حدیث مجھے اسی طرح سنائی۔

 

٭٭ اسماعیل بن توبہ، خلف بن خلیفہ، حضرت ابو ہاشم فرماتے ہیں کہ اگر بریدہ کی اپنے والد سے مروی یہ حدیث نہ ہوتی کہ اللہ کے رسول نے فرمایا قاضی تین قسم کے ہیں دو دوزخی اور ایک جنتی۔ ایک وہ مرد جس نے حق کو جانا پھر اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے اور ایک وہ جس نے جہالت کے باوجود لوگوں میں فیصلے کیے وہ دوزخی ہے اور ایک وہ مرد جس نے فیصلہ کرنے میں ظلم و جور سے کام لیا وہ بھی دوزخی ہے تو ہم یہ کہہ دیتے کہ قاضی جب اجتہاد کرے تو وہ جنتی ہے۔

 

حاکم غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے

 

ہشام بن عمار، محمد بن عبد اللہ بن یزید، احمد بن ثابت، سفیان بن عیینہ، عبد الملک بن عمیر، عبد الرحمن بن حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قاضی غصہ کی حالت میں دونوں فریقوں میں فیصلہ نہ کرے۔ ہشام نے یوں کہا کہ حاکم جب حالت غصب میں ہو تو اسے فیصلے صادر نہیں کرنا چاہیے۔

 

حاکم کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کر سکتا

 

ابو بکر بن شیبہ، وکیع، ہشام بن عروہ، زینب بنت اسلم، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تم میرے پاس جھگڑے لاتے ہو اور میں تو بشر ہی ہوں۔ اور شاید تم میں کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے بہتر ہو اور میں تمہارے درمیان فیصلہ تمہارا بیان سننے پر کرتا ہوں لہذا میں جسے بھی اس کے بھائی کا حق دلا دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں اسے تو آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں جسے وہ روز قیامت لے کر آئے گا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، عبد الرحمن ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا میں تو بشر ہوں اور شاید تم میں ایک دلیل دینے میں دوسرے سے بڑھ کر ہو لہذا میں جسے اس کے بھائی کا تھوڑا ساحق بھی دلا دوں تو میں اس کو آگ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں۔

 

پرائی چیز کا دعویٰ کرنا اور اس میں جھگڑا کرنا

 

عبد الوارث بن عبد الصمد، ابن عبد الوارث بن سعید، ابو عبیدہ، حسین بن ذکوان، عبد اللہ بن بریدہ، یحییٰ بن یعمر، حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں تھی تو وہ ہم میں سے نہیں اور وہ دوزخ کو اپنا ٹھکانہ بنا لے۔

 

٭٭ محمد بن ثعلبہ بن سواء، محمد بن سواء، معلم، مطر رزاق، نافع، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو کسی خصومت میں ظلم کی مد د کرتا ہے وہ مسلسل اللہ کی ناراضگی میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مد د سے باز آ جائے۔

 

مدعی پر گواہ ہیں مدعی علیہ پر قسم

 

حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اگر لوگوں کو محض ان کے دعویٰ کی وجہ سے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ کرنے لگیں گے لیکن مدعی علیہ کے ذمہ قسم ہے۔

 

مدعی پر گواہ ہیں مدعی علیہ پر قسم

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، وکیع، ابو معاویہ، اعمش، حضرت اشعث بن قیس فرماتے ہیں کہ ایک زمین میں میرے اور ایک یہودی کے درمیان مشترک تھی یہودی میرے حصہ سے انکاری ہو گیا تو میں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے میں نے فرمایا نہیں آپ نے یہودی سے فرمایا قسم اٹھاؤ میں نے عرض کیا وہ قسم اٹھا کر میرا مال ہڑپ کر جائے گا۔ اس پر اللہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ جو لوگ اللہ کے عہد اور قسم کے عوض تھوڑا سا مال لیتے ہیں۔ آخر تک۔

 

جھوٹی قسم کھا کر مال حاصل کرنا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، وکیع، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس نے کوئی قسم اٹھائی اور وہ اس قسم میں جھوٹا تھا اور اس قسم کے ذریعہ کسی بھی مسلمان کا مال ناحق لے لیا تو وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر غصہ ہوں گے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، محمد بن کعب، عبد اللہ بن کعب، حضرت ابو امامہ حارثی فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو مرد کسی مرد مسلم کا حق قسم کھا کرنا جائز طور پر حاصل کر لے اللہ اس پر جنت کو حرام فرما دیتے ہیں اور دوزخ اس کے لیے واجب فرما دیتے ہیں اس پر لوگوں میں سے ایک مرد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگرچہ وہ ذرا سی چیز ہو فرمایا اگرچہ پیلو کی ایک مسواک ہی ہو۔

 

قسم کہاں کھائے؟

 

عمرو بن رافع، مروان بن معاویہ، ح، احمد بن ثابت، صفوان بن عیسی، ہاشم بن ہاشم، عبد اللہ بن نسطاس، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جس نے میرے اس منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائی تو وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنا لے اگرچہ تر مسواک کی خاطر ہو۔

 

٭٭ محمد بن یحیی، زید بن اخزم، ضحاک بن مخلد، حسن بن یزید بن قروح، محمد بن یحییٰ، ابو یونس ، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا اس منبر کے پاس جو بھی جھوٹی قسم کھائے گا (خواہ) غلام ہو یا باندی (خواہ) مرد ہو یا عورت اگرچہ تر مسواک کی خاطر ہو اس کے لیے دوزخ واجب ہو جائے گی۔

 

 

اہل کتاب سے کیا قسم لی جائے؟

 

علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، عبد اللہ بن مرہ، حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ایک یہودی مرد عالم کو بلایا اور فرمایا میں تجھے قسم دیتا ہوں اس ذات کی جس نے حضرت موسیٰ پر تورات نازل فرمائی۔

 

اہل کتاب سے کیا قسم لی جائے؟

 

علی بن محمد، ابو اسامہ، مجالد، عامر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے دو یہودیوں سے فرمایا میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ پر تورات نازل فرمائی۔

 

دو مرد کسی سامان کا دعویٰ کریں اور کسی کے پاس ثبوت نہ ہو

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن حارث، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، خلاس، ابی رافع، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ دو مردوں نے ایک سواری کا دعویٰ کیا کسی کے پاس ثبوت نہ تھا تو ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ قرعہ ڈال کر قسم اٹھائیں جس کے نام قرعہ نکلے گا وہ قسم اٹھائے اور سواری کا مالک ہو جائے۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، محمد بن معمر، زہیر بن محمد، روح بن عبادہ، سفیان، قتادہ، سعید بن ابی بردہ ، حضرت ابو موسی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول کی خدمت میں دو مردوں نے ایک سواری کے متعلق اپنا جھگڑا پیش کیا کسی کے پاس ثبوت نہ تھا آپ نے اس کو دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، حجاج، سعید بن عبید بن زید بن عقبہ، حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب کسی مرد کا مال جاتا رہے یا اس کا سامان چوری ہو جائے پھر وہ کسی مرد کے قبضہ میں ملے جو اسے بیچ رہا ہو تو مالک اس کا زیادہ حقدار ہے اور خرید نے والا فروخت کنندہ سے زر ثمن واپس لے لے۔

 

جو مال جانور خراب کر دیں اس کا حکم

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، حضرت ابن محیصہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت براء کی ایک اونٹنی شریر تھی وہ لوگوں کے باغ میں گھس گئی اور ان کا باغ خراب کر دیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بات کی گئی آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن میں اموال کی حفاظت مالکوں کے ذمہ ہے اور رات کو جانور خراب کر دیں تو اس کا تاوان جانوروں کے مالکوں پر ہے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

کوئی شخص کسی چیز کو توڑ ڈالے تو اس کا حکم

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک بن عبد اللہ، قیس بن وہب، بنوسواہ کے ایک مرد کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے عرض کیا کہ مجھے اللہ کے رسول کے اخلاق کے متعلق بتائیے۔ فرمانے لگیں کیا تم قرآن نہیں پڑھتے (وَإِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیمٍ) آپ بڑے اخلاق والے ہیں نیز فرمایا کہ اللہ کے رسول اپنے اصحاب کے ساتھ تھے میں نے آپ کے کھانا تیار کیا اور حفصہ نے بھی آپ کے لیے کھانا تیار کیا تو میں نے اپنی چھوکری سے کہا جاؤ حفصہ کا پیالہ الٹ دو۔ وہ اس وقت پہنچی جب حفصہ آپ کے سامنے پیالہ رکھنے لگی تھیں تو پیالہ الٹ دیا پیالہ ٹوٹ گیا اور کھانا بکھر گیا اللہ کے رسول نے وہ پیالہ اور کھانا دستر خوان پر جمع کیا سب نے کھا لیا پھر آپ نے میرا پیالہ حفصہ کے پاس بھیجا اور فرمایا اپنے برتن کے بدلہ برتن لے لو اور جو اس میں ہے وہ کھالو فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے آپ کے چہرے پر اس کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔

 

٭٭ محمد بن مثنی، خالد بن حارث، حمید، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے پاس تھے کہ دوسری نے کھانے کا ایک پیالہ بھیجا پہلی نے (ناراضگی سے ) لانے والے کے ہاتھ پر مارا، پیالہ گر کر ٹوٹ گیا تو اللہ کے رسول نے دونوں ٹکڑوں کو اٹھا کر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا اور اس میں کھانا جمع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ تمہاری ماں کو غیرت آئی (کہ میرا کھانا تیار نہ ہوا اور دوسری نے تیار کر کے بھیج دیا) اب یہ کھالو سب نے کھانا کھایا پھر پہلی زوجہ اپنے گھر سے ایک پیالہ لے کر آئیں تو آپ نے سالم پیالہ کھانا لانے والے کو دے دیا اور ٹوٹا ہوا پیالہ اپنی زوجہ کے گھر رہنے دیا جنہوں نے پیالہ توڑا تھا۔

 

مرد اپنے ہمسایہ کی دیوار پر چھت رکھے

 

ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، عبد الرحمن، اعرج ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی نے فرمایا جب تم میں سے کسی کا پڑوسی اس سے اس کی دیوار پر لکڑی گاڑنے کی اجازت مانگے تو وہ اسے روکے نہیں۔ جب ابو ہریرہ نے لوگوں کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے سر جھکا لیا ابو ہریرہ نے دیکھا تو فرمایا کیا ہوا؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس سے روگردانی کر رہے ہو اللہ کی قسم میں تمہارے کندھوں کے درمیان اسے ماروں گا یعنی یہ حدیث خوب سناؤں گا۔

 

٭٭ ابو بشر ، بکر بن خلف، ابو عاصم، ابن جریج، عمرو بن دینار، ہشام بن یحییٰ، حضرت عکرمہ بن سلمہ فرماتے ہیں کہ بنومغیرہ کے دو شخصوں میں سے ایک نے یہ کہا کہ اس کا غلام آزاد ہے اگر دوسرا اس کی دیوار میں لکڑی گاڑے تو؟ مجمع بن یزید اور بہت سے دوسرے صحابہ آئے اور کہنے لگے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے نہ روکے تو اس نے کہا اے بھائی! (شریعت کا) فیصلہ تمہارے موافق اور میرے خلاف ہے جبکہ میں قسم اٹھا چکا ہوں لہذا تم میری دیوار کے اس طرف ستون بنا کر اس پر اپنی لکڑیاں رکھ لو۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، ابو اسود، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے نہ روکے۔

 

راستہ کی مقدار میں اختلاف ہو جائے تو؟

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، مثنی بن سعید، قتادہ، بشر بن کعب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راستہ سات ہاتھ رکھو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن عمر بن ہیاج، قبیصہ، سفیان، سماک، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب راستہ کی مقدار میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو سات ہاتھ رکھ لو۔

 

اپنے حصہ میں ایسی چیز بنانا جس سے ہمسایہ کا نقصان ہو

 

عبدربہ، ابو المغلس، فضیل بن سلیمان، موسیٰ بن عقبہ، اسحاق بن یحییٰ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ فرمایا کہ کسی کو نہ ابتداء نقصان پہنچایا جائے اور نہ بدلے میں۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق ، معمر ، جابر، عکرمہ ، حضرت ابن عباس سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، محمد بن یحییٰ، حبان، لوءلوءۃ حضرت ابو صرمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اس کو نقصان پہنچائے اور جو دوسروں پر سختی کرے اللہ اس پر سختی فرمائے۔

 

دو مرد ایک جھونپڑی کے دعویدار

 

محمد بن صباح ، عمار بن خالد واسطی ، ابو بکر بن عیاش ، دہثم بن قران ، نمران بن جاریہ ، حضرت جاریہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ایک جھونپڑی سے معلق جو ان کے درمیان تھی کے متعلق اپنا مقدمہ رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے ان کے درمیان فیصلہ کے لیے حذیفہ کو بھیجا انہوں نے ان کے حق میں فیصلہ دیا جن کے پاس رسیوں کے کھونٹے تھے جب وہ نبی کی خدمت میں واپس ہوئے تو ساری بات عرض کر دی آپ نے فرمایا تم نے درست اور اچھا فیصلہ کیا۔

 

قبضہ کی شرط لگانا

 

یحییٰ بن حکیم، ابو الولید، ہمام، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا جب مال دو شخصوں کو بیچ دیا جائے تو پہلے خریدار کو ملے گا۔ ابو الولید کہتے ہیں کہ اس حدیث سے قبضہ کی شرط ٹھہرانا باطل ہو جاتا ہے۔

 

قرعہ ڈال کر فیصلہ کرنا

 

نصر بن علی، محمد بن مثنی، عبد الاعلی، خالد، ابی قلابہ، ابی مہلب، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک مرد کے چھ غلام تھے ان کے علاوہ اس کے پاس کچھ مال نہ تھا مرتے وقت اس نے ان سب کو آزاد کر دیا تو اللہ کے رسول نے ان کے دو دو حصہ کر کے قرعہ ڈالا اور دو کو آزاد کر دیا اور چار کو بدستور غلام رہنے دیا۔

 

٭٭ جمیل بن حسن، سعید ، قتادہ، خلاس، ابی رافع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک بیع میں دو مردوں کا اختلاف ہو گیا ان میں سے کسی کے پاس گواہ یا ثبوت نہ تھا تو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم اٹھانے کے لیے تم قرعہ ڈالو تمہیں پسند ہو یا ناپسند۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن یمان، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر کرتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ ڈالتے (جس کے نام قرعہ نکلتا اسے سفر میں ساتھ رکھتے )۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، عبد الرزاق، صالح، شعبی، عبد خیبر، زید بن ارقم، علی بن ابی طالب ، حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ یمن میں حضرت علی کے پاس ایک مقدمہ آیا کہ تین مردوں نے ایک عورت سے ایک ہی طہر میں صحبت کی (پھر حمل کے بعد اس عورت کے یہاں بچہ ہوا تو تینوں نے اس بچہ کا دعویٰ کر دیا) حضرت علی نے دو سے پوچھا کہ تم یہ اقرار کرتے ہو کہ یہ بچہ تیسرے کاہے؟ کہنے لگے کہ نہیں پھر دوسرے دو کو الگ الگ کر کے پوچھا کہ تم اس تیسرے کے حق میں بچہ کے نسب کا اقرار کرتے ہو؟ کہنے لگے نہیں اس طرح انہوں نے جن دو سے بھی پوچھا کہ تم اقرار کرتے ہو کہ بچہ تیسرے کاہے؟ تو وہ انکار کرتے۔ اس پر حضرت علی نے قرعہ ڈالا اور جس کے نام قرعہ نکلا بچہ اس کے حوالے کر دیا۔ اور دو تہائی دیت اس پر لازم کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہو گئیں۔

 

قیافہ کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ایک روز بہت خوش خوش تشریف لائے اور فرمایا اری عائشہ تمہیں معلوم نہیں کہ مجز رمدلجی (قیافہ شناس) میرے پاس آیا اور اس نے اسامہ اور زید کو دیکھا ان دونوں کے پاس ایک چادر تھی ان کے پاؤں چادر سے باہر تھے کہنے لگا یہ پاؤں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ (باپ بیٹے کے ہیں )۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن یوسف، اسرائیل، سماک بن حرب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ قریش کے لوگ ایک کاہنہ عورت کے پاس گئے اور اس سے کہا ہمیں بتاؤ کہ ہم میں سے کون مقام ابراہیم والے (یعنی ابراہیم) کے ساتھ زیادہ مشابہ ہے؟ کہنے لگی اگر تم اس نرم جگہ پر چادر تان دو پھر اس پر چلو تو میں تمہیں بتا دوں گی۔ فرماتے ہیں لوگوں نے ایک چادر تان دی پھر سب اس پر چلے اس نے اللہ کے رسول کا نشان قدم دیکھا تو بولی تم میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ یہ ہیں۔ پھر اس کے بعد بیس برس یا جتنا اللہ نے چاہا لوگ ٹھہرے رہے پھر اللہ نے محمد کو نبوت عطا فرمائی۔

 

بچہ کو اختیار دینا کہ ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زیاد بن سعد، ہلال بن ابی میمونہ، ابی میمونہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی نے ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ اپنے ماں باپ میں سے جس کے پاس چاہے رہے اور فرمایا اے لڑکے یہ تیری والدہ ہیں اور یہ تیرے والد ہیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، عثمان، عبد الحمید بن سلمہ، حضرت عبد الحمید اپنے والدہ سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے ماں باپ نبی کے پاس اپنا جھگڑا لے کر گئے ان میں ایک کافر اور دوسرا مسلمان تھا آپ نے انہیں اختیار دیا تو یہ کافر کی طرف متوجہ ہوئے آپ نے فرمایا اے اللہ سے ہدایت فرمایا تو یہ مسلمان کی طرف متوجہ ہو گئے پھر آپ نے مسلمان کے حق میں ان کا فیصلہ کر دیا۔

 

صلح کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، کثیر بن عبد اللہ بن ، حضرت عمرو بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے لیکن وہ صلح جائز نہیں جس میں کسی حلال کو حرام یاحرام کو حلال کیا گیا ہو۔

 

اپنا مال برباد کرنے والے پر پابندی لگانا

 

ازہر بن مروان، عبد الاعلی، سعید، قتادہ، سعید، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک شخص کی عقل میں فتور تھا اور وہ خرید و فروخت کیا کرتا تھا اس کے گھر والے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول اس پر پابندی لگا دیجیے نبی نے اسے بلا کر خرید و فروخت سے منع فرمایا تو عرض کرنے لگا کہ میں خرید و فروخت سے رک نہیں سکتا آپ نے فرمایا اگر تم خرید و فروخت کرو تو کہہ دیا کرو کہ دیکھو دھوکہ نہیں ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق، محمد بن محمد بن یحییٰ بن حبان کہتے ہیں کہ میرے جد امجد منقذ بن عمر کے سر میں چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے زبان میں شکستگی آ گئی تھی اس کے باوجود وہ خرید و فروخت نہیں چھوڑتے تھے اور انہیں نقصان اٹھانا پڑتا تھا تو وہ نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات عرض کی آپ نے فرمایا جب تم خرید و فروخت کرو تو یوں کہہ دیا کرو کہ دھوکہ نہیں ہونا چاہیے پھر جو سامان بھی تم خریدو تمہیں اس میں تین شب تک اختیار ہے کہ پسند ہو تو رکھ لو ناپسند ہو تو فروخت کنندہ کو واپس کر دو۔

 

جس کے پاس مال نہ رہے اسے مفلس قرار دینا اور قرض خواہوں کی خاطر اس کا مال فروخت کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، لیث بن سعد، بکیر بن عبد اللہ بن اشج، عیاض، عبد اللہ بن سعد، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ایک مرد کو ان پھلوں میں نقصان ہوا جو اس نے خریدے تھے اور اس پر بہت قرضہ ہو گیا اللہ کے رسول نے فرمایا اس کو صدقہ دو لوگوں نے اس کو صدقہ دیا لیکن اتنی مقدار نہ ہوئی کہ اس کا تمام قرضہ ادا ہو سکے تو آپ نے فرمایا جو تمہیں مل گیا وہ لے لو اور تمہیں (فی الحال) اور کچھ نہ ملے گا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو عاصم، عبد اللہ بن مسلم، سلمہ، جابر بن عبد اللہ، معاذ بن جبل، غرماء، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاذ بن جبل کو قرض خوا ہوں سے چھڑایا پھر انہیں یمن کا عامل مقرر کر دیا حضرت معاذ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے میرا مال بیچ کر میری جان چھڑائی پھر مجھے عامل مقرر فرمایا۔

 

ایک شخص مفلس ہو گیا اور کسی نے اپنا مال بعینہ اس کے پاس پا لیا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، ابو بکر بن محمد بن عمرو، ابن حزم، عمر بن عبد العزیز، ابی بکر حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو مفلس ہونے والے مرد کے پاس اپنا سامان بعینہ پالے تو وہ دوسروں کی بنسبت اس کا زیادہ حقدار ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، موسیٰ بن عقبہ، زہری، ابی بکر بن عبد الرحمن، ہشام حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی آدمی نے کوئی سامان فروخت کیا پھر خریدار کے پاس وہ سامان بعینہ پایا جبکہ وہ خریدار مفلس ہو چکا تھا تو اگر اس نے سامان کی قیمت کا کچھ حصہ بھی وصول نہیں کیا تو وہ سامان اس فروخت کنندہ کاہے اور اس نے سامان کی کچھ بھی قیمت وصول کر لی تھی تو اب وہ باقی قرض خوا ہوں کی مانند ہو گا۔

 

٭٭ ابراہیم بن منذر، عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، ابن ابی ذئب، ابی معتمر، عمرو بن رافع، حضرت ابن خلدہ زرقی جو مدینہ کے قاضی تھے فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے ایک ساتھی کے بارے میں جو مفلس ہو گیا تھا حضرت ابو ہریرہ کے پاس گئے حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ایسے ہی شخص کے بارے میں نبی نے یہ فیصلہ فرمایا جو شخص بھی مر جائے یا مفلس ہو جائے تو سامان والا اپنے سامان کا زیادہ حقدار ہے بشرطیکہ بعینہ اس سامان کو پالے۔

 

٭٭ عمرو بن عثمان، ابن سعید بن کثیر بن دینار، یمان بن عدی، زبیدی، محمد بن عبد الرحمن، زہری، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو آدمی مر جائے اور اس کے پاس کسی دوسرے شخص کا مال بعینہ موجود ہو خواہ اس نے اس سے کچھ وصول کیا ہو یا نہ وصول کیا ہو بہر صورت وہ باقی قرض خواہوں کی مانند ہو گا۔

 

جس سے گواہی طلب نہیں کی گئی اس کے لیے گواہی دینا مکروہ ہے

 

عثمان بن ابی شیبہ، عمرو بن رافع، جریر، منصور، ابراہیم، عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول سے پوچھا گیا کہ کون سے لوگ بہتر ہیں فرمایا میرے زمانہ کے لوگ پھر ان کے بعد آنے والے پھر ان کے بعد آنے والے پھر ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کی گواہی قسم سے پہلے ہو گی اور قسم گواہی سے پہلے ہو گی۔

 

٭٭ عبد اللہ بن جراح، جریر ، عبد الملک بن عمیر، جابر بن سمرہ، عمر بن خطاب، حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے جابیہ نامی مقام میں ہمیں خطبہ دیا اس میں فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان ایسے ہی کھڑے ہوئے جیسے میں تم میں کھڑا ہوا اور فرمایا میرے صحابہ کے متعلق میرا خیال رکھنا یعنی ان کو ایذاء نہ دینا اور ان کی بے احترامی نہ کرنا) پھر ان کے بعد والوں کے متعلق پھر ان کے بعد والوں کے متعلق پھر جھوٹ پھیل جائے گا اور مرد گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہو گا اور قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم نہیں مانگی گئی ہو گی۔

 

کسی کو معاملہ کا علم ہو لیکن صاحب معاملہ کو اس کے گواہ ہونے کا علم نہ ہو

 

علی بن محمد، محمد بن عبد الرحمن، زید بن حباب، حضرت زید بن خالد فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا بہترین گواہ وہ ہے جو گواہی دے قبل ازیں کہ اس سے گواہی دینے کا مطالبہ کیا جائے۔

 

قرضوں پر گواہ بنانا

 

عبید اللہ بن یوسف، جمیل بن حسن، محمد بن مروان، عبد الملک بن ابی نضرہ، حضرت ابو سعید نے یہ آیت مبارکہ پڑھی اے اہل ایمان جب تم ایک مدت کے لیے باہم قرضہ کا معاملہ کرو تو لکھ لیا کرو پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچے اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو فرمایا اس حصہ سے (بحالت اطمینان) پہلا حصہ منسوخ ہو گا۔

 

جس کی گواہی جائز نہیں

 

ایوب بن محمد، معمر بن سلیمان، محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، حجاج بن ارطاۃ، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا خیانت کرنے والے مرد اور خیانت کرنے والی عورت کی گواہی جائز نہیں اور نہ ہی اس شخص کی جس کو حالت اسلام میں حد لگی ہو اور نہ کینہ رکھنے والی کی اپنے بھائی کے خلاف (جس سے وہ کینہ رکھتا ہے)۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، نافع بن یزید، ابن ہاد، محمد بن عمرو بن عطاء، ابن یسار، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جنگل میں رہنے والے کی گواہی بستی میں رہنے والے کے خلاف جائز نہیں۔

 

ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنا

 

ابو مصعب، احمد بن عبد اللہ، یعقوب بن ابراہیم، عبد العزیز بن محمد، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن، سہیل بن ابی صالح حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے قسم اور ایک گواہ کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، عبد الوہاب، جعفر، جعفر بن محمد،  حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی نے قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ فرمایا۔

 

٭٭ ابو اسحاق ، ابراہیم بن عبد اللہ بن حاتم، عبد اللہ بن حارث، سیف بن سلیمان مکی، قیس بن سعد، عمرو بن دینار، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ فرمایا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، جویریہ بن اسماء، عبد اللہ بن یزید، حضرت سرق سے روایت ہے کہ نبی نے مرد کی گواہی اور مدعی کی قسم کو نافذ قرار دیا۔

 

جھوٹی گواہی

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبید، سفیان، حبیب نعمان، حضرت خریم بن فاتک اسری کہتے ہیں کہ نبی نے نماز صبح ادا فرمائی سلام پھیر کر کھڑے ہوئے اور تین بار فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی بچو جھوٹی بات سے اللہ کے لیے یکسو ہو کر اس حال میں کہ اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتے ہو۔

 

٭٭ سوید بن سعید، محمد بن فرات، محارب بن دثار، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جھوٹی گواہی دینے والے کے پاؤں سرک نہ سکیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ اس کے لیے دوزخ واجب کر دیں۔

 

یہود و نصاریٰ کی گواہی ایک دوسرے کے متعلق

 

محمد بن طریف، ابو خالد احمر، مجالد، عامر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہود و نصاریٰ کی ایک دوسرے کے بارے میں گواہی کو معتبر قرار دیا۔

 

 

 

 

 

ہبہ کا بیان

 

مرد کا اپنی اولاد کو عطیہ دینا

 

ابو بشر بکر بن خلف، یزید بن زریع، داؤد بن ابی ہند، شعبی، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ ان کے والد انہیں اٹھا کر نبی کی خدمت میں لے گئے اور عرض کی کہ آپ گواہ رہیے کہ میں نے اپنے مال میں سے اتنا اتنا نعمان کو دیا آپ نے فرمایا کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو اتنا ہی دیا جتنا نعمان کو دیا؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا پھر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنالو فرمایا تم اس سے خوش نہ ہو گے سب تمہاری فرمانبرداری میں برابر ہوں؟ عرض کیا کیوں نہیں فرمایا پھر پہلی بات کا جواب نفی میں کیوں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان ، زہری، حمید بن عبد الرحمن، محمد بن نعمان بن بشیر، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے تاکہ آپ کو گواہ بنائیں۔ آپ نے فرمایا اپنی تمام اولاد کو تم نے ہبہ کیا عرض کیا نہیں فرمایا پھر یہ (غلام بھی) واپس لے لو۔

 

اولاد کو دے کر پھر واپس لے لینا

محمد بن بشار، ابو بکر بن خلاد، ابن ابی عدی، معلم ، عمر بن شعیب، طاؤس، حضرت ابن عباس وابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد کے لیے حلال نہیں کوئی چیز دے پھر واپس لے لے۔ الا یہ کہ والد اپنی اولاد کو کوئی چیز دے۔ (تو وہ واپس لے سکتا ہے۔ )

 

٭٭ جمیل بن حسین، عبد الاعلی، سعید، احول، عمرو بن شعیب حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے ہدیہ میں رجوع نہ کرے مگر والد اپنی اولاد کو ہدیہ دے تو (واپس لے سکتا ہے )۔

 

عمر بھر کے لیے کوئی چیز دینا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن زکریا، ابی زائدہ، محمد بن عمر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا عمری کچھ نہیں ہے لہذا جس کو عمر بھر کے لیے کوئی چیز دی گئی تو وہ اسی کی ہے۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، ابی سلمہ، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے کسی مرد کو عمر بھر کے لیے کوئی چیز دی اور اس کی اولاد کو دی تو اس کے اس قول نے اس چیز میں اس کا حق ختم کر دیا اب وہ چیز اس کی ہے جس کو عمری کے طور پر دی ہے اور اس کی اولاد کی ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان، عمرو بن دینار، طاؤس حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی نے عمری وارث کو دلایا۔

 

رقبی کا بیان

 

اسحاق بن منصور، عبد الرزاق، ابن جریج، عطاء، حبیب بن ابی ثابت، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا رقبی کچھ نہیں لہذا جس کو کوئی چیز رقبی کے طور پر دی گئی تو وہ اسی کی ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔ راوی کہتے ہیں کہ رقبی کا مطلب یہ ہے کہ یوں کہے کہ یہ چیز تم میں سے جو بعد میں مرے اس کی ہے۔

 

٭٭ عمرو بن رافع، ہشیم، علی بن محمد، ابو معاویہ، داؤد، ابی زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا عمری جائز ہے اس کے لیے جس کو عمری کے طور پر دیا جائے اور رقبی جائز ہے اس کے لیے جسے رقبی کے طور پر دیا جائے۔

 

ہدیہ واپس لینا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عوف، خلاس، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنے عطیہ ہدیہ میں رجوع کرے کتے کی سی ہے کہ وہ کھاتا ہے جب سیر ہو جاتا ہے تو قے کر دیتا ہے پھر دوبارہ قے چاٹ لیتا ہے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، سعید بن مسیب، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا اپنا ہدیہ واپس لینے والا ایسا ہی جیسے اپنی قے چاٹنے والا۔

 

٭٭ احمد بن عبد اللہ بن یوسف، یزید بن ابی حکیم، عمری، زید بن اسلم، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا اپنے ہدیہ میں رجوع کرنے والا کتے کی مانند ہے جو اپنی قے چاٹ لیتا ہے۔

 

 

جس نے ہدیہ دیا اس امید سے کہ اس کا بدل ملے گا

 

علی بن محمد بن اسماعیل، وکیع، ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع بن جاریہ، عمرو بن دینار، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مرد اپنے ہبہ کا حق رکھتا ہے جب تک اسے ہبہ کا بدل نہ دیا جائے۔

 

خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی کا عطیہ دینا

 

ابو یوسف، محمد بن احمد، محمد بن سلمہ، مثنی بن صباح، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا عورت کے لیے اپنے مال میں بھی خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف جائز نہیں جبکہ خاوند اس کی عصمت کا مالک ہو۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، لیث بن سعد، عبد اللہ بن یحییٰ، حضرت کعب بن مالک کی اہلیہ خیرۃ اپنا زیور لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں نے یہ صدقہ کر دیا تو اللہ کے رسول نے ان سے فرمایا عورت کے لیے اپنے مال میں بھی خاوند کی اجازت کے بغیر تصرف جائز نہیں تو کیا تم نے کعب سے اجازت لی؟ عرض کرنے لگیں جی ہاں تو اللہ کے رسول نے کسی کو حضرت کعب بن مالک کے پاس بھیجا کہ کیا آپ نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی؟ انہوں نے کہا جی ہاں تب آپ نے وہ زیور خیرہ سے قبول فرما لیا۔

 

صدقہ دے کر واپس لینا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا صدقہ دے کر واپس مت لو۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، ابو جعفر، محمد بن علی، سعید بن مسیب، حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا اس شخص کی مثال جو صدقہ دے کر واپس لے اس کتے کی سی ہے جو قے کرتا ہے پھر لوٹ کر اپنی قے چاٹ لیتا ہے۔

 

کوئی چیز صدقہ میں دی پھر دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہی ہے تو کیا صدقہ کرنے والا وہ چیز خرید سکتا ہے

 

تمیم بن منتصر، اسحاق بن یوسف، شریک ، ہشام بن عروہ، عمر ، ابن عبد اللہ بن عمر، حضرت عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول کے عہد مبارک میں انہوں نے ایک گھوڑا صدقہ کیا پھر دیکھا کہ جس کو صدقہ میں دیا تھا وہ اس کو کم قیمت میں فروخت کر رہا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق دریافت کیا آپ نے فرمایا اپنا صدقہ نہ خریدو۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، یزید بن ہارون، سلیمان ، ابو عثمان، عبد اللہ بن عامر، حضرت زبیر بن عوام نے راہ خدا میں ایک گھوڑا دیا جس کا نام غمر یا غمرۃ تھا پھر دیکھا کہ اس کی نسل میں سے ایک بچھیرا یا بچھیری فروخت ہو رہی ہے (تو خریدنا چاہا) لیکن آپ کو خریدنے سے منع کر دیا گیا۔

 

کسی نے کوئی چیز صدقہ میں دی پھر وہی چیز وراثت میں اس کو ملے

 

علی بن محمد، وکیع، سفیان ، عبد اللہ بن عطاء، عبد اللہ بن ، حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے اپنی والدہ کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور ان کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا اللہ نے تمہیں اجر بھی دیا اور میراث بھی تمہیں واپس کر دی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد اللہ بن جعفر، عبید اللہ ، عبد الکریم، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے اپنی والدہ کو اپنا باغ عطیہ میں دیا تھا ان کا انتقال ہو گیا ہے اور انہوں نے میرے علاوہ اور کوئی وارث نہیں چھوڑا تو اللہ کے رسول نے فرمایا تمہارا صدقہ قبول ہوا اور تمہارا باغ واپس تمہیں مل گیا۔

 

وقف کرنا

 

نصر بن علی، معتمر بن سلیمان، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ عمر بن خطاب کو خیبر میں زمین ملی تو مشورہ کی غرض سے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے خیبر میں ایسا مال ملا ہے کہ اس سے زیادہ مرغوب اور نفیس مال مجھے پہلے کبھی نہ ملا آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیں گے؟ آپ نے فرمایا اگر چاہو تو اصل (زمین اپنی ملک) میں روکے رکھو اور اس کی پیداوار و آمدن صدقہ کر دو فرماتے ہیں کہ عمر نے اسی پر عمل کیا کہ یہ زمین بیچی نہ جائے اور نہ وراثت میں تقسیم کی جائے اس کی پیداوار صدقہ ہے ناداروں ، رشتہ داروں پر اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے مجاہدین کے لیے مسافروں کے لیے اور مہمانوں کے لیے اور اس کا متولی اگر دستور کے مطابق خود کھائے یا دوستوں کو کھلائے تو کچھ حرج نہیں بشرطیکہ بطور سرمایہ جمع نہ کرے۔

 

٭٭ محمد بن ابی عمر، سفیان، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ عمر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول خیبر کے سو حصوں سے زیادہ پسندیدہ اور میرے نزدیک قابل قدر مال مجھے کبھی نہ ملا اور میں نے ارادہ کر لیا کہ اسے صدقہ کر دوں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اصل زمین (اپنی ملک میں ) روک رکھو اور اس کی پیداوار راہ خدا میں وقف کر دو۔ امام ابن ماجہ کے استاذ ابن ابی عمر کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث اپنی کتاب (بیاض) میں دوسری جگہ بھی دیکھی سفیان سے وہ روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ سے وہ نافع سے وہ ابن عمر سے کہ عمر نے اسی کی مثل فرمایا۔

 

عاریت کا بیان

 

ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، شرحبیل بن مسلم، حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا عاریت لی ہوئی چیز ادا کی جائے اور جو جانور دودھ پینے کے لیے دیا جائے وہ بعد میں واپس کر دیا جائے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن ابراہیم، محمد بن شعیب، عبد الرحمن بن یزید، سعید بن ابی سعید، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مانگی ہوئی چیز ادا کی جائے اور جو جانور دودھ پینے کے لیے دیا جائے وہ واپس کر دیا جائے۔

 

٭٭ ابراہیم بن مستمر، محمد بن عبد اللہ، ح، یحییٰ بن حکیم، ابن ابی عدی، سعید، قتادہ، حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہاتھ کے ذمہ ہے جو کچھ اس نے لیا یہاں تک کہ ادا کرے۔

 

امانت کا بیان

 

عبید اللہ بن جہم، ایوب بن سعید، مثنی، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کے پاس کوئی چیز امانت رکھی گئی تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے۔

 

امین مال امانت سے تجارت کرے اور اس کو نفع ہو جائے تو

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، شبیب بن غرقدہ، حضرت عروہ بارقی سے روایت ہے کہ نبی کریم نے اپنے واسطے بکری خریدنے کے لیے ایک اشرفی دی انہوں نے آپ کے لیے دو بکریاں خرید لیں پھر ایک بکری ایک اشرفی میں فروخت کر دی اور نبی کی خدمت میں ایک بکری اور ایک اشرفی پیش کر دی تو اللہ کے رسول نے ان کو برکت کی دعا دی۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ کی دعا کا اثر تھا کہ اگر وہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی ان کو نفع ہوتا۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عروہ بن جعد بارقی نے فرمایا کہ ایک قافلہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ایک اشرفی دی آگے وہی مضمون ہے جو اوپر مذکور ہوا۔

 

 

حوالہ کا بیان

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ظلم یہ ہے کہ مالدار ادائے گی میں تاخیر کرے اور جب تم میں سے کسی کو مالدار کے حوالہ کیا جائے (کہ جو قرض ہم سے لیا ہے وہ اس سے لو) تو وہ مالدار کا پیچھا کرے۔

 

٭٭ اسماعیل بن توبہ، ہشیم، یونس بن عبید، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مال دار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تجھے مالدار کے حوالہ کیا جائے تو تو مال دار کا پیچھا کر۔

 

ضمانت کا بیان

 

ہشام بن عمار، حسن بن عرفہ، اسماعیل بن عیاش، شرحبیل بن مسلم، حضرت ابو امامہ باہلی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے سنا ضامن جوابدہ ہے اور قرض ادا کرنا چاہیے۔

 

٭٭ محمد بن صباح، عبد العزیز بن محمد، عمرو بن ابی عمرو، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ایک مرد نے اپنے دس دینار کے مقروض کا پیچھا کیا اس نے کہا میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ تمہیں دلا دوں بولا اللہ کی قسم میں تمہارا پیچھا نہ چھوڑو گا یہاں تک کہ تم میرا قرض ادا کرو یا ضامن دو وہ اسے نبی کے پاس کھینچ لایا تو نبی نے قرض خواہ سے کہا تم اسے کتنی مہلت دیتے ہو؟ اس نے کہا ایک ماہ۔ آپ نے فرمایا میں اس کی ضمانت دیتا ہوں پھر وہ قرض دار اس وقت قرض خواہ کے پاس پہنچا جس وقت کا آپ نے فرمایا تھا نبی نے اس سے پوچھا کہ یہ مال تم نے کہاں سے حاصل کیا کہنے لگا کہ ایک خزانہ سے۔ آپ نے فرمایا اس میں کوئی بھلائی نہیں اور اس کا قرضہ خود ادا فرمایا۔

 

قرض دینے کی فضیلت

 

عبید اللہ بن عبد الکریم، ہشام بن خالد، خالد بن یزید، ابو حاتم، ہشام بن خالد، خالد بن یزید، ابو حاتم، ہشام بن خالد، خالد بن یزید حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا میں نے شب اسراء میں جنت کے دروازہ پر یہ لکھا دیکھا کہ صدقہ کا اجر دس گنا ملے گا اور قرض دینے کا اٹھارہ گنا اجر ملے گا۔ میں نے کہا کہ اے جبراءیل کیا وجہ ہے کہ قرض دینا صدقہ دینے سے افضل ہے؟ جبراءیل نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات سائل کے پاس کچھ ہوتا پھر بھی وہ سوال کرتا ہے جبکہ قرض مانگنے والا بغیر حاجت کے قرض نہیں مانگتا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، عتبہ بن حمید، یحییٰ بن ابی اسحاق، انس بن مالک حضرت یحییٰ بن ابی اسحاق ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ ہم میں سے ایک مرد اپنے بھائی کو قرض دیتا ہے پھر وہ اسے ہدیہ دیتا ہے۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی قرضہ دے پھر وہ اسے ہدیہ دے یا جانور پر سوار کرے تو وہ سوار نہ ہو اور ہدیہ قبول نہ کرے الا یہ کہ ان دونوں کے درمیان قرض سے قبل بھی ایسا معاملہ رہا ہو۔

 

میت کی جانب سے دین ادا کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان ، حماد بن سلمہ، عبد الملک ، ابو جعفر، ابی نضرہ، حضرت سعد بن اطول سے روایت ہے کہ ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا اور اس نے تین سو درہم چھوڑے اور عیال بھی چھوڑے تو میں نے چاہا کہ یہ درہم اس کے عیال پر خرچ کروں نبی نے فرمایا تمہارا بھائی اپنے قرضہ میں محبوس ہے تو اس کی طرف سے ادائے گی کرو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے اس کی طرف سے تمام ادائے گی کر دی سوائے دو اشرفیوں کے ایک عورت دو اشرفیوں کی دعویدار ہے اور اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں فرمایا اس کو بھی دے دو کیونکہ وہ برحق ہے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، شعیب بن اسحاق، ہشام بن عروہ، وہب بن کیسان، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کے ذمہ ایک یہودی کے تیس ٹوکرے تھے تو حضرت جابر نے اس یہودی سے مہلت مانگی اس نے مہلت دینے سے انکار کر دیا تو حضرت جابر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بات کی کہ اس یہودی سے میری سفارش کر دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس یہودی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے یہ بات کی کہ اپنے قرضہ کے بدلے جابر کے درخت پر جو کھجوریں ہیں لے لے وہ نہ مانا پھر آپ نے اس سے کہا کہ جابر کو مہلت دے دے اس نے مہلت دینے سے بھی انکار کر دیا تو اللہ کے رسول نے (جابر کے ) باغ میں گئے اور اس میں چلے پھرے پھر جابر سے فرمایا کھجوریں کاٹ کر یہودی کا قرض ادا کرو حضرت جابر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واپس آنے کے بعد تیس ٹوکرے کھجوریں اتاریں اور بارہ ٹوکرے مزید اتارے تو حضرت جابر یہ بتانے کے لیے کہ کھجوروں میں برکت و اضافہ ہو گ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے آپ موجود نہ تھے جب آپ واپس تشریف لائے تو حضرت جابر آئے اور بتایا کہ یہودی کا قرضہ بھی ادا کر دیا اتنا اتنا باقی بھی بچ گیا تو اللہ کے رسول نے فرمایا کہ عمر بن خطاب کو بھی یہ بات بتاؤ۔ حضرت جابر سیدنا عمر بن خطاب کے پاس گئے اور ان کو ساری بات بتائی حضرت عمر نے فرمایا کہ جب اللہ کے رسول اس باغ میں چل پھر رہے تھے تو مجھے یقین ہو گیا تھا اس وقت کہ اللہ اس میں برکت عطا فرمائیں گے۔

 

تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی مقروض ہو جائے تو اللہ اس کا قرضہ ادا کریں گے

 

ابو کریب، رشدین بن سعد، عبد الرحمن، ابو اسامہ، جعفر بن عوف، ابن انعم، ابو کریب، وکیع، سفیان، ابن انعم، عمران بن حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مقروض سے روز قیامت قرضہ ادا کرایا جائے گا اگر وہ (قرض ادا کیے بغیر) مر گیا جو تین باتوں میں قرض لے تو ان کا قرض روز قیامت اللہ ادا فرمائیں گے۔ ایک مرد راہ خدا میں اس کی قوت کم ہو جائے تو وہ قرض لے کر قوت حاصل کرے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کے مقابلے کے لیے دوسرے ایک مرد کے پاس کوئی مسلمان فوت ہو جائے اور اس کے پاس کفن دفن کے لیے خرچہ نہ ہو سوائے قرض کے تیسرے وہ مرد جو بے نکاح رہنے میں اللہ سے ڈرے اور اپنے دینی خدشہ کے پیش نظر نکاح کر لے (قرض لے کر)۔

 

 

 

گروی رکھنے کا بیان

 

گروی رکھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک یہودی سے ادھار اناج خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔

 

٭٭ نصر بن علی، ابو ہشام، قتادہ، حضرت انس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے مدینہ میں ایک یہودی کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی اور اس سے اپنے اہل خانہ کے لیے جو لیے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، عبد الحمید بن بہرام، شہر بن حوشب، حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس اناج کے بدلہ میں گروی رکھی ہوئی تھی۔

 

٭٭ عبد اللہ بن معاویہ، ثابت بن یزید، ہلال بن خباب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول کا وصال اس حالت میں ہوا کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے میں گروی رکھی ہوئی تھی۔

 

گروی کے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے اور اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، زکریا، شعبی، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جانور پر سواری کی جا سکتی ہے جب وہ گروی ہو اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ پیا جا سکتا ہے جب وہ گروی ہو اور سواری کرنے والے اور دودھ پینے والے کے ذمہ اس جانور کا خرچہ ہے۔

 

رہن روکا نہ جائے

 

محمد بن حمید، ابراہیم بن مختار، اسحاق بن راشد، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا رہن روکا نہ جائے۔

 

مزدوروں کی مزدوری

 

سوید بن سعید، یحییٰ بن سلیم، اسماعیل بن امیہ، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں کہ روز قیامت میں ان کا مدمقابل بنوں گا اور جس کا مدمقابل میں بنوں تو میں روز قیامت اس پر غالب آؤں گا جو شخص میرے ساتھ معاہدہ کرے پھر بدعہدی کرے اور جو شخص آزاد کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھا جائے اور جو شخص کسی کو مزدور مقرر کرے پھر اس سے پورا کام لے اور اس کی مزدوری پوری نہ دے۔

 

٭٭ عباس بن ولید، وہب بن سعید بن عطیہ، عبد الرحمن بن زید بن اسلم، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔

 

پیٹ کی روٹی کے بدلہ مزدور رکھنا

 

محمد بن مصفی، بقیہ بن ولید، مسلمہ بن علی، سعید بن ابی ایوب، حارث بن یزید، علی بن رباح، حضرت عتبہ بن ندر فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کے پاس تھے آپ نے (سورہ ق) کی تلاوت شروع فرمائی جب حضرت موسیٰ کے قصہ پر پہنچے تو فرمایا حضرت موسیٰ نے آٹھ یا دس سال اپنے آپ کو مزدوری میں رکھا اس شرط پر کہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کریں گے اور پیٹ کی روٹی لیں گے۔

 

٭٭ ابو عمر ، حفص بن عمرو، عبد الرحمن بن مہدی، سلیم بن حیان، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میری نشو و نما یتیمی کی حالت میں ہوئی میں نے ہجرت مسکینی کی حالت میں کی اور میں بنت غزوان کا مزدور و غلام تھا پیٹ کی روٹی کے بدلے اور اونٹ پر چڑھنے کی باری کے بدلے جب وہ پڑاؤ ڈالتے تو میں ان کے لیے ایندھن چنتا اور جب وہ سوار ہو کر سفر کرتے تو میں گا گا کر ان کے جانوروں کو ہانکتا سو تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کو مضبوط بنایا اور ابو ہریرہ کو لوگوں کا پیشوا بنایا۔

 

ایک کھجور کے بدلے ایک ڈول کھینچنا اور عمدہ کھجور کی شرط ٹھہرانا

 

محمد بن عبد الاعلی، معتمر بن سلیمان، حنش، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کو شدید بھوک لگی حضرت علی کو معلوم ہوا تو کام کی تلاش میں نکلے تاکہ کچھ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کھانے کے لیے پیش کرے حضرت علی ایک یہودی مرد کے باغ میں آئے اور اس کے سترہ ڈول کھینچے ہر ڈول ایک کھجور کے عوض تو یہودی نے اپنی کھجوروں میں سے سترہ عجوہ کھجوریں چننے کا انہیں اختیار دیا وہ یہ کھجوریں لے کر اللہ کی نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن، سفیان، ابی اسحاق ، ابی حیہ، حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں ایک کھجور کے عوض ڈول کھینچتا تھا اور یہ شرط ٹھہرا لیتا تھا کہ عمدہ کھجور لوں گا۔

 

٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل، عبد اللہ بن سعید، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مرد آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا بات ہے کہ آپ کا رنگ بدلا ہوا لگ رہا ہے فرمایا بھوک۔ وہ انصاری اپنے گھر گئے تو گھر میں کچھ نہ ملا وہ کام کی تلاش میں نکلے دیکھا کہ ایک یہودی کھجور کے باغ کو پانی دے رہا ہے انصاری نے یہودی سے کہا تمہارے باغ کو میں پانی دوں؟ کہنے لگا ٹھیک ہے انہوں نے ہر ڈول ایک کھجور کے عوض نکالا اور انصاری نے یہ شرط بھی ٹھہرائی کہ کالی ، سوکھی اور خراب کھجور نہیں لوں گا بلکہ اچھی اور عمدہ لوں گا انہوں نے باغ کو سینچ کر دو صاع کے قریب کھجور حاصل کیں اور نبی کی خدمت میں پیش کر دیں۔

 

تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض بٹائی پر دینا

 

ہناد بن سری، ابو احوص، طارق بن عبد الرحمن، سعید بن مسیب، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا اور فرمایا تین قسم کے آدمی زمین کاشت کریں ایک وہ مرد جس کے پاس زمین ہو وہ اسے کاشت کرے اور دوسرے وہ مرد جسے زمین بطور عطیہ دی گئی ہو وہ اسے کاشت کرے تیسرے وہ مرد جو زمین سونے چاندی کے عوض کرایہ پر لے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ہم مزارعت کیا کرتے تھے اور اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ ہم نے رافع بن خدیج کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کے رسول نے اس سے منع فرمایا تو ان کے کہنے پر ہم نے مزارعت چھوڑ دی۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم ، ولید بن مسلم، عطاء، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ مردوں کے پاس زائد زمینیں تھیں وہ یہ زمینیں تہائی یا چوتھائی پیداوار کے عوض بٹائی پر دیتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے پاس زائد زمینیں ہوں تو وہ یا خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو کاشت کے لیے دے ورنہ اپنی زمین روکے رکھے (بٹائی پر نہ دے )۔

 

٭٭ ابراہیم بن سعید، جوہری، ابو توبہ، ربیع بن نافع، معاویہ بن سلام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جس کے پاس زمین ہو تو اسے کاشت کرے یا اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پر دے ورنہ اپنی زمین روکے رکھے۔

 

زمین اجرت پر دینا

 

ابو کریب ، عبدہ بن سلیمان، ابو اسامہ، محمد بن عبید، عبید اللہ، نافع، ابن عمر، حضرت نافع کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر اپنی زمین کھیت اجرت پر دیا کرتے تھے ان کے پاس ایک صاحب آئے اور رافع بن خدیج سے روایت کرتے ہوئے سنا کہ اللہ کے رسول نے کھیت اجرت پر دینے سے منع فرمایا ہے تو ابن عمر گئے میں بھی ان کے ساتھ ہولیا مقام بلاط میں رافع بن خدیج کے پاس پہنچے اور اس بارے میں دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول نے کھیت اجرت پر دینے سے منع فرمایا تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے کھیت کرائے پر دینا ترک فرما دئیے۔

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، ضمرہ بن ربیعہ، ابن شوذب، مطرف، عطاء، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ہمیں خطبہ دیا اور اس میں ارشاد فرمایا جس کے پاس زمین ہو تو اسے خود کاشت کرے یا دوسرے کو کاشت کرنے کے لیے دے اور اجرت پر نہ دے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، مطرف بن عبد اللہ ، مالک، داؤد بن حصین، ابی سفیان، مولی بن ابی احمد، حضرت ابو سعید بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے محاقلہ سے منع فرمایا۔ اور محاقلہ زمین کو کرایہ پر لینے کو کہتے ہیں۔

 

خالی زمین کو سونے چاندی کے عوض کرایہ پر دینے کی اجازت

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس نے جب لوگوں کو زمین اجرت پر دینے کے متعلق بکثرت گفتگو کرتے دیکھا تو فرمایا کہ اللہ کے رسول نے تو بس یہی فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک اپنے بھائی کو مفت کیوں نہیں دیتا اور کرایہ پر دینے سے منع نہ فرمایا۔

 

٭٭ عباس بن عبد العظیم، عبد الرزاق، معمر ، ابن طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تم میں سے ایک اپنے بھائی کو مفت زمین دے یہ اس کے لیے بہتر ہے اس کے عوض اتنے اتنے (پیسے یا) کوئی چیز لینے سے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہی حق ہے انصار اس کو محاقلہ کہتے ہیں۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید، حنظلہ بن قیس، رافع بن خدیج، حضرت حنظلہ بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج سے پوچھا انہوں نے فرمایا کہ ہم زمین کرایہ پر دیتے تھے اس شرط پر کہ جو پیداوار اس جگہ سے ہو گی وہ تمہاری اور جو پیدا اور اس کی جگہ سے ہو گی وہ میری پھر ہمیں پیداوار کے عوض زمین کرایہ پر دینے سے منع کر دیا گیا اور چاندی کے عوض کرایہ پر دینے سے منع نہیں کیا گیا۔

 

جو مزارعت مکروہ ہے

 

عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، ابو نجاشی، حضرت رافع بن خدیج اپنے چچا ظہیر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول نے ہمیں ایک مفید کام سے منع فرمایا میں نے کہا جو اللہ کے رسول نے فرمایا وہ حق ہے فرمایا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تم اپنے زمین کا کیا کام کرتے ہو ہم نے عرض کیا کہ ہم تہائی یا چوتھائی یا چند وسق گندم جو کے عوض اجرت پر دیتے ہیں فرمایا ایسا مت کرو خود کاشت کرو یا کسی دوسرے کو کاشتکاری کے لیے دے دو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، منصور، مجاہد، اسید بن ظہیر، رافع ابن خدیج، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی جب اپنی زمین سے مستغنی ہوتا تو تہائی چوتھائی اور آدھی پیداوار کے عوض کاشت کے لیے دے دیتا اور تین نالیوں کی شرط ٹھہرا لیتا کہ ان کی پیداوار میں لوں گا اور بھوسہ میں لوں گا اور ربیع کے پانی سے جو پیداوار ہو وہ میں لوں گا اور اس وقت زندگی پر مشقت تھی (گزارہ مشکل سے ہوتا تھا) اور کاشتکار لوہے اور دوسری چیزوں سے زمین میں محنت کرتا پھر اس سے فائدہ حاصل کرتا کہ ہمارے پاس رافع بن خدیج آئے اور کہا کہ اللہ کے رسول نے تمہیں ایک ایسے کام سے منع فرمایا ہے جس میں تمہارا نفع تھا بلاشبہ اللہ اور رسول کی اطاعت میں تمہارے لیے زیادہ نفع تھا اور اس کے رسول تمہیں منع فرماتے ہیں کہ بٹائی پر دینے سے اور فرماتے ہیں کہ جس کو اپنی زمین کاشت کرنے کی حاجت نہ ہو تو وہ اپنے بھائی کو کاشت کے لیے مفت ہی دے دے یا زمین خالی پڑی رہنے دے۔

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل بن علیہ، عبد الرحمن بن اسحاق ، ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر، ولید بن ابی ولید، عروہ بن زبیر، زید بن ثابت حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی رافع بن خدیج کی مغفرت فرمائے بخدا اس حدیث کو میں ان کی نسبت زیادہ جانتا ہوں بات یہ تھی کہ دو مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ باہم لڑ چکے تھے تو آپ نے فرمایا اگر تمہارا یہی حال ہے تو کھیت اجرت پر مت دو تو رافع بن خدیج نے یہ آخری الفاظ کہ کھیت اجرت پر مت دو سن لیے۔

 

تہائی اور چوتھائی پیداوار کے عوض مزارعت کی اجازت

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، ابو عبد الرحمن، حضرت عمر بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے کہا اے ابو عبد الرحمن اگر تم یہ بٹائی چھوڑ دو تو بہتر ہے کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ کے رسول نے اس سے منع فرمایا ہے فرمانے لگے اے عمرو میں تو لوگوں کی مد د کرتا ہوں اور ان کو دیتا ہوں اور معاذ بن جبل نے ہمارے سامنے لوگوں سے یہ معاملہ کیا (اور زمین کی اجرت وصول کی) اور صحابہ میں بڑے عالم ابن عباس نے مجھے بتایا کہ اللہ کے رسول نے اس سے منع نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو مفت دے یہ اس کے لیے بہتر ہے اس سے کہ اس کے عوض متعین اجرت وصول کرے۔

 

٭٭ احمد بن ثابت، عبد الوہاب، خالد، مجاہد، طاؤس، معاذ بن جبل، حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل نے اللہ کے رسول اور حضرات ابو بکر و عمر و عثمان کے ادوار میں تہائی اور چوتھائی پیداوار کے عوض زمین اجرت پر دی اور آج تک اس پر عمل جاری ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد، محمد بن اسماعیل، وکیع، سفیان، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ کے رسول نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو مفت زمین دے یہ اس کے لیے بہتر ہے اس سے کہ اس کے بدلے متعین ٹھیکہ (اجرت) وصول کرے۔

 

اناج کے بدلہ زمین اجرت پر لینا

حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید بن ابی عروبہ، یعلی بن حکیم، سلیمان بن یسار، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کے زمانہ میں زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے پھر ہمارے ایک چچا ہمارے پاس آئے اور کہا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کے پاس زمین ہو تو وہ متعین اناج کے عوض اسے کرایہ پر نہ دے۔

 

کسی قوم کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر کاشت کرنا

 

عبد اللہ بن عامر بن زرارہ، شریک، ابی اسحاق ، عطاء، حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو کسی قوم کی زمین ان کی اجازت کے بغیر کاشت کرے تو اس کی پیداوار میں سے کچھ نہ ملے گا البتہ اس کا خرچہ اسے واپس کیا جائے گا۔

 

کھجور اور انگور بٹائی پر دینا

 

محمد بن صباح، سہل بن ابی سہل، اسحاق بن منصور، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے اہل خیبر کو زمین بٹائی پر دی پھل یا اناج کی نصف پیداوار کے عوض۔

 

٭٭ اسماعیل بن توبہ، ہشیم ، ابن ابی لیلی، حکم، ابن عتیبہ، مقسم ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے اہل خیبر کی زمین نصف کھجور اور اناج کی پیداوار کے عوض بٹائی پر دی۔

 

٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل، مسلم، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول نے خیبر فتح کیا تو نصف پیداوار کے عوض زمین بٹائی پر دی۔

 

کھجور میں پیوند لگانا

 

علی بن محمد، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، سماک، موسیٰ بن ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک باغ میں سے گزرا۔ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجور کو پیوند لگا رہے ہیں فرمایا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا نر کا گابا لے کر مادہ میں ملاتے ہیں فرمایا مجھے نہیں خیال کہ اس سے کچھ فائدہ ہو تو لوگوں کو آپ کا یہ فرمان معلوم ہوا تو انہوں نے پیوند کاری ترک کر دی انہیں اندازہ ہوا کہ اس بار پھل کم ہوا نبی کو اس کا علم ہوا تو فرمایا وہ تو میرا خیال تھا کہ اگر اس میں کچھ فائدہ ہے تو کر لیا کرو میں تو بس تمہاری مانند انسان ہوں اور خیال کبھی غلط ہوتا ہے کبھی صحیح لیکن جو بات میں تمہیں کہوں کہ اللہ نے فرمائی کیونکہ میں ہرگز اللہ پر جھوٹ نہ بولوں گا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عفان، حماد، ثابت، انس بن مالک، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی نے کچھ آوازیں سنیں تو فرمایا یہ کیسی آواز ہے صحابہ نے عرض کیا کھجور کو پیوند لگا رہے ہیں۔ فرمایا اگر یہ ایسا نہ کریں تو بھی پھل اچھا ہو اس سال انہوں نے پیوند کاری نہ کی تو اس سال کھجور خراب ہوئی لوگوں نے نبی سے اس کا ذکر کر دیا۔ فرمایا اگر تمہارا دنیا کا کام ہو تو اس کو تم سمجھو اور اگر کوئی دینی امر ہو تو اس کا تعلق مجھ سے ہے۔

 

اہل اسلام تین چیزوں میں شریک

 

عبد اللہ بن سعید، عبد اللہ بن خراش، حوشب شیبانی، عوام بن حوشب، مجاہد، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اہل اسلام تین چیزوں میں شریک ہیں پانی، چارہ اور آگ اور ان کی قیمت حرام ہے ابو سعید کہتے ہیں کہ اس حدیث میں جاری پانی مراد ہے۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن یزید، سفیان ، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تین چیزیں رد کی نہ جائیں پانی ، چارہ اور آگ۔

 

٭٭ عمار بن خالد، علی بن غراب، زہیر بن مرزوق، علی بن زید بن جدعان، سعید بن مسیب، حضرت عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کون سے چیز روکنا حلال نہیں۔ فرمایا پانی نمک اور آگ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پانی کی وجہ تو ہمیں معلوم ہے نمک اور آگ میں کیا وجہ ہے فرمایا اری حمیرا جس نے آگ دے دی گویا اس نے آگ پر پکنے والی تمام چیز صدقہ کی اور جس نے نمک دیا گویا اس نے اس نمک سے خوش ذائقہ ہونے والا تمام کھانا صدقہ کیا اور جہاں پانی ہو وہاں کوئی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی پلائے تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا اور جہاں پانی نہ ہو وہاں کوئی مسلمان کو پانی پلائے تو گویا اس نے ایک جان کو زندگی بخشی۔

 

نہریں اور چشمے جاگیر میں دینا

 

محمد بن ابی عمر، فرج بن سعید بن علقمہ بن سعید بن ابیض بن حمال، ثابت بن سعید بن ابیض بن حمال، سعید حضرت ابیض بن حمال سے روایت ہے کہ انہوں نے اس نمک کی جاگیر چاہی جس کو سدمارب کا نمک کہا جاتا ہے (سد مارب جگہ کا نام ہے ) آپ نے انہیں وہ جاگیر دے دی پھر اقرع بن حابس تمیمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میں زمانہ جاہلیت میں نمک کی ایک کان پر گیا تھا اور وہ ایسی جگہ ہے جہاں کچھ پانی نہیں ہے جو جائے نمک لے لے وہ جاری پانی کی طرح ختم نہیں ہوتا تو اللہ کے رسول نے ابیض بن حمال کو جو جاگیر دی تھی اسے فسخ کرنا چاہا تو ابیض نے کہا میں اس شرط پر فسخ کرتا ہوں کہ آپ اس کو میری طرف سے صدقہ کر دیں تو آپ نے فرمایا وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہے اور وہ جاری پانی کی طرح ہے جو وہاں جائے نمک لے حدیث کے راوی فرج کہتے ہیں کہ وہ اب بھی اسی طرح ہے جو جاتا ہے نمک لے لیتا ہے ابیض کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ جاگیر فسخ فرمائی تو اس کے بدلے جرف مراد میں مجھے زمین اور کھجور کے درخت بطور جاگیر عطا فرمائے۔

 

 

پانی بیچنے سے ممانعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، ابی منہال، حضرت ایاس بن مزنی نے دیکھا کہ لوگ پانی بیچ رہے ہیں تو فرمایا پانی مت بیچو اس لیے کہ میں نے اللہ کے رسول کو پانی بیچنے سے منع فرماتے ہوئے سنا۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابراہیم بن سعید، وکیع، ابن جریج، ابی زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ضرورت سے زائد پانی کی بیع سے منع فرمایا۔

 

زائد پانی سے اس لیے روکنا کہ اس کے ذریعہ گھاس سے روکے منع ہے

 

ہشام بن عمار، سفیان ، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے ایک زائد پانی سے نہ روکے تاکہ اس کے ذریعے گھاس سے روکے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، عبدہ بن سلیمان ، حارثہ ، عمرہ ، عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ضرورت سے زائد پانی نہ روکا جائے اور جو پانی کنوئیں میں بچ رہے اس سے نہ روکا جائے۔

 

کھیت اور باغ میں پانی لینا اور پانی روکنے کی مقدار

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک انصاری مرد نے اللہ کے رسول کے سامنے زبیر سے حرہ کی اس نہر کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے کھجور کے درختوں کو سینچتے ہیں انصاری نے کہا پانی چھوڑ دو تاکہ بہتا رہے۔ زبیر نہ مانے یہ دونوں اپنا جھگڑا اللہ کے رسول کے پاس لے گئے تو اللہ کے رسول نے فرمایا اے زبیر تم سینچو پھر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑ دو اس پر انصاری غضبناک ہوا اور کہا اے اللہ کے رسول اس لیے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے اس پر اللہ کے رسول کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو گیا پھر آپ نے فرمایا تم درخت سینچو پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ پانی دیوار تک پہنچا جائے۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں کہ بخدا میرا گمان ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ اس وقت تک مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ بنائیں پھر آپ کے فیصلے سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں اور اسے دل سے تسلیم کر لیں۔

 

٭٭ ابراہیم بن منذر، زکریا بن منظور بن ثعلبہ بن ابی مالک، محمد بن عقبہ، ابن ابی مالک، حضرت ثعلبہ بن ابی مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے مہزور کے نالے کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ اوپر والا نیچے والے سے پہلے سینچنے اور اپر والا ٹخنوں تک پانی روکے پھر نیچے والے کے لیے پانی چھوڑ دے۔

 

٭٭ احمد بن عبدہ، مغیرہ بن عبد الرحمن، ابی عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ فرمایا پانی روکے رکھے یہاں تک کہ ٹخنوں تک پہنچ جائے پھر پانی چھوڑ دے۔

 

٭٭ ابو مغلس، فضیل بن سلیمان، موسیٰ بن عقبہ، اسحاق بن یحییٰ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے نالے سے کھجور کے درختوں کو سینچنے میں یہ فیصلہ فرمایا اوپر والا پہلے سینچنے پھر نیچے والا سینچنے اور اوپر تک پانی بھر لے پھر اپنے بعد والے کے لیے چھوڑ دے اور یہ سلسلہ چلتا رہے یہاں تک کہ سب باغ سیراب ہو جائیں یا پانی ختم ہو جائے۔

 

پانی کی تقسیم

 

ابراہیم بن منذر، ابو جعد، عبد الرحمن بن عبد اللہ، کثیر بن عبد اللہ بن حضرت عوف مزنی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب گھوڑے پانی پلانے کے لیے لائیں جائیں تو الگ الگ لائے جائیں۔

 

٭٭ عباس بن جعفر، موسیٰ بن داؤد، محمد بن مسلم، عمرو بن دینار، ابی شعشاء، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو تقسیم جاہلیت میں ہو چکی وہ اسی پر برقرار رہے گی اور جو تقسیم اسلام کے بعد ہو گی تو وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو گی۔

 

٭٭ ولید بن عمرو بن سیکن، محمد بن عبد اللہ بن مثنی، حسن بن محمد بن صباح، عبد الوہاب بن عطاء، اسماعیل، حسن، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے کنواں کھودا تو چالیس ہاتھ جگہ اس کے گرد جانور بٹھانے کے لیے اس (کھود نے والے ) کی ہو گی۔

 

کنویں کا حریم

 

سہل بن ابی صغدی ، منصور بن صقیر، ثابت ، محمد ، نافع، ابو غالب ، ابو سعید خدری بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کنویں کا حریم وہاں تک ہو گا جہاں تک اس کی رسی جائے

 

٭٭ عبدربہ بن خالد، ابو مغلس، فضیل بن سلیمان، موسیٰ بن عقبہ، اسحاق بن یحییٰ ابن ولید، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فیصلہ فرمایا کھجور کے ایک دو تین درختوں میں جو کسی باغ میں ایک مرد کے ہوں اور ان کے حقوق میں اختلاف ہو جائے آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ہر درخت کے نیچے اتنی ہی زمین ملے گی جہاں تک اس کی شاخیں پھیلی ہوں۔

 

٭٭ سہل بن ابی صغدی، منصور بن صقیر، ثابت بن محمد، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کھجور کے درخت کا احاطہ وہاں تک ہو گا جہاں تک اس کی شاخیں پھیلیں۔

 

جو جائیداد بیچے اور اس کی قیمت سے جائیداد نہ خریدے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر، عبد الملک بن عمیر، حضرت سعید بن حریث فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو گھر یا جائیداد فروخت کرے پھر قیمت کو اس جیسی چیز (جائیداد یا مکان خریدنے ) میں نہ صرف کرے تو وہ اس لائق ہے کہ اس میں اس کے لیے برکت نہ ہو۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عمرو بن رافع، مروان بن معاویہ، ابو مالک، یوسف بن میمون، ابو عبیدہ بن ، حضرت حذیفہ بن یمان بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو گھر فروخت کرے اور اس کی قیمت دوسرا گھر وغیرہ خریدنے میں صرف نہ کرے تو اس کے لیے برکت نہ ہو گی۔

 

 

 

 

شفعہ کا بیان

 

غیر منقولہ جائیداد فروخت کرے تو اپنے شریک کو اطلاع دے

ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کا کھجوروں کا باغ یا زمین ہو تو وہ اسے اپنے شریک پر پیش کرنے سے قبل فروخت نہ کرے۔

 

٭٭ احمد بن سنان، ابن سالم، یزید بن ہارون، شریک، سماک، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جس کی زمین ہو اور وہ اسے بیچنا چاہے تو اسے اپنے پڑوسی پر پیش کرے۔

 

پڑوس کی وجہ سے شفعہ کا استحقاق

 

عثمان بن ابی شیبہ، ہشیم ، عبد الملک، عطاء، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے اس کے شفعہ کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ ان دونوں کا راستہ ایک ہو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، سفیان بن عیینہ، ابراہیم بن میسرہ، عمرو بن شرید، حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پڑوسی زیادہ حقدار ہے نزدیکی کی وجہ سے (کہ شفع کر کے لے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، حسین ، معلم، عمرو بن شعیب، عمرو بن حضرت شرید بن سوید فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ایک زمین میں کسی کا حصہ نہیں کوئی بھی شریک نہیں البتہ پڑوسی ہے آپ نے ارشاد فرمایا ہمسایہ نزدیکی کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے۔

 

جب حد مقرر ہو جائے تو شفعہ نہیں ہو سکتا

 

محمد بن یحییٰ، عبد الرحمن بن عمر، ابو عاصم، مالک بن انس، زہری، سعید بن مسیب، ابی سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے شفع کا فیصلہ اس جائیداد میں فرمایا جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی اور جب حدین مقرر ہو جائیں تو اب کوئی شفع نہیں ہو سکتا۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔ مذکورہ روایت سے متصل ہے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن جراح، سفیان بن عیینہ، ابراہیم بن میسرہ، عمرو بن شرید، حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا شریک (شفعہ کا) زیادہ حقدار ہے اپنے نزدیک ہونے کی وجہ سے کوئی بھی چیز ہو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زہری، ابی سلمہ، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ہر اس چیز کو قابل شفعہ قرار دیا جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی اور جب حدیں مقرر ہو گئیں اور راستے جدا جدا ہو گئے تو اب (شرکت کی بنیاد پر) کوئی شفعہ نہیں ہو سکتا۔

 

طلب شفعہ

 

محمد بن بشار، محمد بن حارث، محمد بن عبد الرحمن، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا شفعہ ایسے ہے جیسے اونٹ کی رسی کھولنا۔

 

 

 

 

گمشدہ چیزوں کا بیان

 

طلب شفعہ

 

سوید بن سعید، محمد بن حارث، محمد بن عبد الرحمن، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا ایک شریک کو دوسرے شریک پر شفعہ کا حق نہیں جب وہ اس سے پہلے خرید لے اور نہ کم سن کو اور نہ غائب کو۔

 

گمشدہ اونٹ ، گائے اور بکری

 

محمد بن مثنی، یحییٰ بن سعید، حمید، حسن، مطرف بن حضرت عبد اللہ بن شخیر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مسلمان کی گمشدہ چیز (خود استعمال کرنے کی نیت سے اٹھا لینا) دوزخ کی جلتی ہوئی آگ ہے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، ابو حیان، ضحاک، خال بن حضرت منذر بن جریر فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ بوازیخ (نامی مقام) میں تھا کہ گائیں نکلیں تو انہوں نے ایک گائے کو اجنبی خیال کیا اور فرمایا یہ گائے کیسی ہے؟ لوگوں نے کہا کسی کی گائے ہماری گایوں میں آ ملی ہے۔ آپ نے حکم دیا تو اسے ہانک کر نکال دیا گیا یہاں تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی پھر فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے سنا گمشدہ چیز کو اپنے گھر گمراہ ہی لاتا ہے۔

 

٭٭ اسحاق بن اسماعیل بن علاء، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن، حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ نبی سے گمشدہ اونٹ لے لینے کے متعلق دریافت کیا گیا آپ غصہ میں آ گئے اور آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور فرمایا تمہیں اس سے کیا غرض اس کے پاس اس کا جوتا ہے اور مشکیزہ اور وہ خود پانی پر جا کر پانی پیتا ہے اور درختوں کے پتے کھاتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اس تک پہنچ جائے اور اسے پکڑ لے اور آپ سے گمشدہ بکری کے متعلق پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے پکڑ لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ورنہ پھر بھیڑئیے کی اور آپ کی گمشدہ چیز کے متعلق پوچھا گیا آپ نے فرمایا اس کی تھیلی اور بندھن کو خوب یاد رکھو اور سال بھر اس کی تشہیر کرو اگر کوئی اسے پہچان لے تو ٹھیک ورنہ اپنے مال میں شامل کر سکتے ہو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الوہاب، خالد، ابی علاء، مطرف، حضرت عیاض بن حمار فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جسے گمشدہ چیز ملے تو وہ ایک یا دو دینداروں کو گواہ بنا لے پھر اس میں کوئی تبدیلی نہ کرے اسے چھپائے نہیں اگر اس کا مالک آ جائے تو وہی اس کا حقدار ہے ورنہ وہ اللہ کا مال ہے اللہ جسے چاہے دیدے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان بن سلمہ بن کہیل، سوید بن غفلہ، زید بن صوحان، سلیمان بن ربیعہ، حضرت سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ زید بن صوحان اور سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ باہر گیا جب ہم عذیب نامی جگہ پر پہنچے تو مجھے ایک کوڑا ملا۔ دونوں حضرات نے مجھے کہا کہ اسے پھینک دو میں نہ مانا جب ہم مدینہ پہنچے تو میں ابی بن کعب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ بات ان سے ذکر کی۔ فرمایا تم نے درست کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں مجھے سو اشرفیاں ملیں میں نے آپ سے دریافت کیا تو فرمایا سال بھر ان کی تشہیر کرو میں نے ان کی تشہیر کی مجھے کوئی بھی نہ ملا جو ان اشرفیوں کے متعلق جانتا میں نے پھر دریافت کیا فرمایا ان کی تشہیر مزید کرو پھر بھی مجھے کوئی نہ ملا جو اشرفیوں کے متعلق جانتا تو آپ نے فرمایا اس کی تھیلی اور بندھن خوب پہچان لو اور ان کو شمار کر لو پھر سال بھر ان کی تشہیر کرو اگر کئی ان کو پہچاننے والا آ جائے تو ٹھیک ورنہ وہ تمہارے مال کی طرح ہے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو بکر حنفی، حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ضحاک بن عثمان، سالم، ابو نضر، بشر بن سعید، حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول سے لقطہ کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا سال بھر اس کی تشہیر کرو اگر کوئی اسے پہچان لے تو اسے وہ دے دو اور اگر کوئی بھی اسے نہ پہچانے تو اس کی تھیلی اور بندھن کو خوب یاد رکھو پھر اسے خرچ کر لو پھر اگر اس کا مالک آ جائے تو اس کو ادا کرو۔

 

چوہا بل سے جو مال نکال لائے وہ لینا

 

محمد بن بشار، محمد بن خالد بن عثمہ، موسیٰ بن یعقوب، عبد اللہ، حضرت مقداد بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک روز وہ مدینہ کے قبرستان بقیع کی طرف قضاء حاجت کے لیے نکلے اور اس وقت لوگ قضاء حاجت کے لیے دو تین روز بعد ہی جاتے تھے اور اونٹوں کی طرح مینگنیاں کرتے تھے خیر وہ ایک ویران جگہ پہنچے آپ قضا حاجت کے لیے بیٹھے ہوئے تھے کہ دیکھا ایک چوہا بل سے اشرفی نکال کر لایا پھر بل میں گیا اور ایک اور اشرفی نکال لایا اسی طرح وہ ایک ایک کر کے سترہ اشرفیاں نکال لایا پھر ایک سرخ رنگ کا چیتھڑا نکال کر لایا۔ مقداد فرماتے ہیں کہ میں نے اس چیتھڑے کو اٹھایا تو اس میں بھی ایک اشرفی تھی تو کل اٹھارہ اشرفیاں ہوئیں وہ اشرفیاں لے کر اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ کو سارا ماجرا سنایا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس کی زکوٰۃ لے لیجیے آپ نے فرمایا یہ تم واپس لے لو اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں اللہ تمہیں اس میں برکت دے پھر آپ نے فرمایا شاید تم نے اس بل میں ہاتھ ڈالا ہو گا؟ میں نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کے حق کے ذریعہ عزت دی میں نے بل میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ راوی کہتے ہیں کہ مقداد کے انتقال تک وہ اشرفیاں ختم نہ ہوئیں (کیونکہ برکت کی دعا اللہ کے رسول نے کی تھی)۔

 

جسے کان ملے

 

محمد بن میمون، ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا کان میں پانچواں حصہ (بیت المال کا) ہے۔

 

٭٭ نصر بن علی، ابو احمد، اسرائیل، سماک، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا کان میں پانچواں حصہ ہے۔

 

٭٭ احمد بن ثابت، یعقوب بن اسحاق، سلیمان بن حیان، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم سے پہلے لوگوں میں ایک مرد نے کوئی زمین خریدی اس میں سے سونے کا ایک گھڑا ملا تو اس نے کہا میں نے تم سے زمین خریدی ہے سونا نہیں خریدا تو اس نے کہا کہ میں نے تمہیں جو کچھ زمین میں ہے اس سمیت زمین بیچی ہے بالآخر انہوں نے ایک تیسرے مرد کو فیصل ٹھہرایا اور اس نے کہا کیا تمہاری اولاد ہے تو ایک نے کہا میرا ایک لڑکا ہے دوسرے نے کہا میری ایک لڑکی ہے اس نے کہا اس لڑکے اور لڑکی کی آپس میں شادی کر دو اور وہ میاں بیوی یہ سونا خرچ بھی کریں اور صدقہ بھی کریں۔

 

 

 

 

غلام آزاد کرنے کا بیان

 

مدبر کا بیان

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، اسماعیل بن ابی خالد، سلمہ بن کہیل، عطاء، حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدبر بیچا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ایک مرد نے غلام کو مدبر کر دیا اس غلام کے علاوہ اس کے پاس کچھ مال نہ تھا تو نبی نے اس مدبر غلام کو بیچ دیا اسے بنوعدی کے ایک مرد ابن نحام نے خرید لیا۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، علی بن طبیان، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا مدبر تہائی میں سے آزاد ہو گا۔ امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ امام عثمان بن ابی شیبہ کو سنا فرما رہے تھے حدیث مدبر (تہائی سے آزاد ہو گا) خطا ہے۔ ابو عبد اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بے اصل ہے۔

 

ام ولد کا بیان

 

علی بن محمد، محمد بن اسماعیل، وکیع، شریک، حسین بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن عباس، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جس مرد کی باندی سے اس کی اولاد ہو جائے تو وہ باندی اس کے (انتقال) بعد آزاد ہو جائے گی۔

 

٭٭ احمد بن یوسف، ابو عاصم، ابو بکر ، حسین بن عبد اللہ، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حضرت ابراہیم کی والدہ کا تذکرہ ہوا تو فرمایا اسے اس کے بچے نے آزاد کرا دیا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، اسحاق بن منصور، عبد الرزاق، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کی حیات طیبہ میں ہم اپنی باندیوں اور ام ولد لونڈیوں کو فروخت کیا کرتے تھے اور اس میں کچھ حرج نہ سمجھتے تھے۔

 

مکاتب کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن سعید، ابو خالد، ابن عجلان، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول فرماتے ہیں تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی مد د کرنا اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے راہ خدا میں لڑنے والا اور وہ مکاتب غلام جس کا دل کتابت ادا کرنے کا ارادہ ہو اور وہ شادی شدہ جو پاکدامن رہنا چاہتا ہو۔

 

٭٭ ابو کریب، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن فضیل، حجاج، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس غلام کو بھی سو اوقیہ کے عوض مکاتب بنایا گیا پھر اس نے سب ادا کر دیا صرف دس اوقیہ رہ گیا تو بھی وہ غلام ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، بنہان، ام المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی نے فرمایا جب تم عورتوں میں سے کسی کا مکاتب ہو اور اس کے پاس اتنا ہو کہ وہ ادائے گی کر سکے تو اسے چاہیے کہ مکاتب سے پردہ شروع کر دے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ بریرہ ان کے پاس آئی اور وہ مکاتبہ تھی اس کے مالکوں نے اسے مکاتب کر دیا تھا نو اوقیہ کے عوض حضرت عائشہ نے اس سے کہا اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں انہیں یہ معاوضہ یکشمت ادا کر دوں اور تیرا ولاء میرے لیے ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر بریرہ اپنے مالکوں کے پاس گئی اور ان سے یہ بات ذکر کی تو انہوں نے قبول نہ کیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ ولاء ان مالکوں کے لیے ہو۔ تو سیدہ عائشہ نے نبی سے اس کا تذکرہ فرمایا آپ نے فرمایا تم ایسا کر لو۔ پھر نبی کھڑے ہوئے اور آپ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد و ثناء فرمائی پھر فرمایا کچھ مردوں کو کیا ہوا کہ ایسی شرطیں ٹھہراتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہر وہ شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں وہ باطل ہے اگرچہ سو بار وہ شرط ٹھہرائی ہو۔ اللہ کی کتاب زیادہ لائق اتباع ہے اور اللہ کی شرط مضبوط و مستحکم ہے کہ ولاء اسی کیلئے ہے جو آزاد کرے۔

 

غلام کو آزاد کرنا

 

ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، عمرو بن مرہ ، سالم بن ابی جعد، حضرت شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مرہ سے درخواست کی کہ بڑی احتیاط سے کام لیتے ہوئے مجھے اللہ کے رسول کی کوئی بات سنائیے۔ فرمایا کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے مسلمان غلام کو آزاد کیا تو وہ غلام اس کے دوزخ سے چھٹکارے کا باعث ہو گا اس کی ہر ہڈی کے بدلہ میں (دوزخ کی آزادی کے لیے ) کافی ہے اور جو دو مسلمان باندیوں کو آزاد کرے تو وہ دونوں باندیاں دوزخ سے اس کی خلاصی کا باعث ہوں گی ان میں سے ہر ایک کی دو ہڈیوں کے بدلہ میں اس کی ایک ہڈی کافی ہو گی۔

 

٭٭ احمد بن سنان، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، ابی مرواح، حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کون سا غلام افضل ہے فرمایا جو مالک کے نزدیک سب سے نفیس و پسندیدہ ہو اور قیمت میں سب سے گراں ہو۔

 

جو محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ (رشتہ دار) آزاد ہے

 

عقبہ بن مکرم، اسحاق بن منصور، محمد بن بکر، حماد بن سلمہ، قتادہ، عاصم، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جو محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ رشتہ دار آزاد ہے۔

 

٭٭ راشد بن سعید، عبید اللہ بن جہم، ضمرہ بن ربیعہ، سفیان ، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہے۔

 

غلام کو آزاد کرنا اور اس پر اپنی خدمت کی شرط ٹھہرانا

 

عبد اللہ بن معاویہ، حماد بن سلمہ، سعید بن جمہان، حضرت سفینہ ابو عبد الرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ نے مجھے آزاد کیا اور میرے ساتھ یہ شرط ٹھہرائی کہ حیات طیبہ میں نبی کی خدمت کروں۔

 

غلام میں اپنا حصہ آزاد کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، محمد بن بشر، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو شخص غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس پر لازم ہے کہ اس کے باقی حصوں کو بھی چھڑائے اپنے مال سے اگر اس کے پاس مال ہو اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام اپنی (قیمت ادا کرنے کے لیے ) قیمت کی بقدر مزدوری کرے لیکن اس پر مشقت نہ ڈالی جائے۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم، عثمان بن عمر، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایک عادل دیندار اس کی قیمت لگائے پھر یہ آزاد کرنے والا باقی شرکاء کو ان کے حصوں کی بقدر ادائے گی کرے بشرطیکہ اس کے پاس اتنا مال ہو کہ ان کے حصوں کی بقدر ادائے گی کر سکے اور اس صورت میں غلام صرف اس کی طرف سے آزاد متصور ہو گا ورنہ جتنا حصہ اس نے آزاد کیا وہ تو آزاد ہوہی چکا۔

 

جو کسی غلام کو آزاد کرے اور اس غلام کے پاس مال بھی ہو

 

حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، ح، محمد بن یحییٰ، سعید بن ابی مریم، لیث بن سعد، عبید اللہ بن ابی جعفر، بکیر بن اشج، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو کسی غلام کو آزاد کرے اور اس غلام کے پاس مال ہو تو غلام کا مال اس (غلام) کا ہی ہے الا یہ کہ مالک یہ کہہ دے کہ مال میرا ہو گا تو اس صورت میں مال غلام کے مال کا ہو جائے گا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، سعید بن محمد، مطلب بن زیاد، اسحاق بن ابراہیم، عمیر، حضرت ابن مسعود کے آزاد کردہ غلام عمیر کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے ان سے فرمایا اے عمیر میں تجھے آزاد کرتا ہوں ، آرام و راحت کے ساتھ۔ میں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی غلام کو آزاد کرے اور اس کے مال کا تذکرہ نہ کرے تو وہ مال غلام کو ہی ملے گا تو مجھے بتا دے کہ تیرے پاس کیا مال ہے۔ دوسری سند یہی مضمون مروی ہے۔

 

ولد الزنا کو آزاد کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، اسرائیل، زید بن جبیر، ابی یزید، میمونہ بنت سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ولد الزنا کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا دو جوتے جن میں جہاد کرو بہتر ہیں اس سے کہ میں ولد الزنا کو آزاد کروں۔

 

مرد اور اس کی بیوی کو آزاد کرنا ہو تو پہلے مرد کو آزاد کرے

 

محمد بن بشار، حماد بن مسعدہ، ح، محمد بن خلف، اسحاق بن منصور، عبد اللہ بن عبد المجید، عبید اللہ بن عبد الرحمن، عبد اللہ بن موہب، قاسم بن محمد، حضرت سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ ان کا ایک غلام اور ایک باندی خاوند بیوی تھے انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں ان دونوں کو آزاد کرنا چاہتی ہو تو اللہ کے رسول نے فرمایا اگر تم ان دونوں کو آزاد کرو تو باندی سے پہلے غلام کو آزاد کرنا۔

 

مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے

 

احمد بن عبدہ، حماد بن زید، یحییٰ بن سعید، ابی امامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے باغیوں کی طرف جھان کا ، سنا تو وہ آپ کے قتل کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا یہ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں یہ مجھے کیوں قتل کر رہے ہیں حالانکہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے کوئی مرد بحالت احصان زنا کرے تو اسے سنگسار کر دیا جائے یا کوئی مرد ناحق قتل کر دے یا کوئی مرد اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جائے تو اللہ کی قسم میں نے نہ زمانہ جاہلیت میں زنا کیا نہ اسلام لانے کے بعد اور نہ ہی میں نے کسی مسلمان کو قتل کیا اور نہ ہی میں جب سے مسلمان ہوا اس کے بعد مرتد ہوا۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو بکر بن خلاد، وکیع، اعمش، عبد اللہ بن مرہ، مسروق، عبد اللہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا وہ مسلمان جو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اس کا خون حلال نہیں سوائے تین صورتوں کے قصاص میں اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا اور اپنے دین کو چھوڑنے والا جماعت سے جدا ہونے والا۔

 

جو شخص اپنے دین سے پھر جائے

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو (مسلمان) اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کر دو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، حضرت بہز بن حکیم اپنے والد سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو شخص اسلام لائے پھر شرک کرے اسلام کے بعد اللہ تعالی اس کا کوئی عمل قبول نہیں فرماتے یہاں تک کہ شرک کرنے والوں کو چھوڑ کر مسلمان میں شامل ہو جائے۔

 

حدود کو نافذ کرنا

 

ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، سعید بن سنان، زاہریہ، ابی شجرہ، کثیر بن مرہ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کو نافذ کرنا اللہ کی زمین میں چالیس روز کی بارش سے زیادہ بہتر ہے۔

 

٭٭ عمرو بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، عیسیٰ بن یزید، ابی زرعۃ بن جریر، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا ایک حد جس پر زمین میں عمل درآمد کیا جائے اہل زمین کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔

 

٭٭ نصر بن علی، حفص بن عمر، حکیم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو قرآن کی ایک بھی آیت کا انکار کر دے اس کی گردن اڑانا حلال ہے اور جو یہ کہے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ اس پر کسی کے لیے راہ نہیں الا یہ کہ کسی حد کا مرتکب ہو جائے تو وہ حد اس پر قائم کی جائے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سالم، عبیدہ بن اسود، قاسم، ابن ولید، ابی صادق، ربیعہ بن ناجد، حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا حدود اللہ کو نافذ کرو قریبی اور دور والے سب پر اور اللہ کے معاملہ میں تمہیں کسی ملامت کرنے والا کی ملامت نہ آ پکڑے۔

 

جس پر حد واجب نہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد الملک بن عمیر، حضرت عطیہ قرظی فرماتے ہیں کہ قریظہ کے دن (جب سب بنو قریظہ مارے گئے ) ہمیں اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جو بالغ تھا اسے قتل کر دیا گیا اور جو بالغ نہ تھا اسے چھوڑ دیا گیا تو میں نابالغوں میں تھا اس لیے مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبد الملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ قرظی کو یہ فرماتے ہوئے سنا دیکھو اب میں تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔

 

٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، ابو اسامہ، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے موقع پر بعمر چودہ سال مجھے رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے مجھے اجازت مرحمت نہ فرمائی اور جنگ خندق کے موقع مجھے بعمر پندرہ سال آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے مجھے اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت ابن عمر کے شاگرد حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانہ خلافت میں میں نے انہیں یہ حدیث سنائی تو فرمایا کہ بچے اور بڑے میں فرق یہی ہے۔

 

اہل ایمان کی پردہ پوشی اور حدود کو شبہات کی وجہ سے ساقط کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ دنیا آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن جراح، وکیع، ابراہیم بن فضل، سعید ابن ابی سعیدہ، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جب تک تم حد کو ساقط کرنے کی صورت پاؤ حد کو ساقط کر دو۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، محمد بن عثمان، حکم بن ابان، عکرمہ ، ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عیب پوشی کی اللہ تعالی روز قیامت اس کی عیب پوشی فرمائیں گے اور جس نے مسلمان کی پردہ دری کی اللہ تعالی اس کی پردہ دری فرمائیں گے۔ کہ گھر بیٹھے اسے رسوا فرما دیں گے

 

حدود میں سفارش

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ مخزومی عورت جس نے چوری کی تھی کے معاملے نے قریش کو سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا کہنے لگے اس کی سفارش اللہ کے رسول سے کون کرے؟ لوگوں نے کہا اس کی ہمت کسی میں نہیں سوائے اسامہ بن زید کے کہ اللہ کے رسول کے چہیتے ہیں۔ آخر اسامہ بن زید کے آپ سے بات کی تو اللہ کے رسول نے فرمایا کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ بیان کیا پھر فرمایا تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب کوئی بڑا آدمی ان میں چوری کا مرتکب ہوتا تو اس کے بغیر سزا کے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور ان میں چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اللہ کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹ دیتا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق، محمد بن طلحہ، بن رکانہ، عائشہ بنت مسعود بن اسود، حضرت مسعود بنت اسود فرماتے ہیں کہ جب اس عورت نے اللہ کے رسول کے گھر سے وہ چادر چرائی تو ہمیں اس کی بہت فکر ہوئی کہ یہ قبیلہ قریش کی عورت تھی چنانچہ ہم اللہ کے رسول کی خدمت میں بات کرنے کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم اس کے بدلہ چالیس اوقیہ چاندی دیتے ہیں (ایک ہزار چھ سو درہم) تو اللہ کے رسول نے فرمایا یہ گناہ سے پاک ہو جائے یہ اس کے لیے بہتر ہے جب ہم نے اللہ کے رسول کی گفتگو میں نرمی دیکھی تو ہم اسامہ کے پاس گئے اور کہا کہ اللہ کے رسول سے سفارش کرو اللہ کے رسول نے یہ دیکھا تو کھڑے ہوئے خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا تم کس قدر زیادہ کوشش کر رہے ہو میرے پاس آ کر اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے متعلق جو اللہ کی ایک بندی کو لگے گی اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ وہ کام کرتی جو اس عورت نے کیا تو بھی محمد اس کا ہاتھ کاٹتا۔

 

زنا کی حد

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو ہریرہ، زید بن خالد، حضرت ابو ہریرہ ، زید بن خالد اور شبل فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کے پاس تھے کہ ایک مرد حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے اس کے فریق مخالف نے کہا جو کہ اس سے سمجھدار تھا کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے عرض کرنے کی اجازت دیجیے آپ نے فرمایا کہو! کہنے لگا میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا اور وہ اس کی اہلیہ سے زنا کا مرتکب ہوا تو میں نے اس کا فدیہ سو بکریاں اور ایک غلام دیں پھر میں نے چند اہل علم مردوں سے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا ہو گی اور اس کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا تو اللہ کے رسول نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا سو بکریاں اور غلام تمہیں واپس ملے گا اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال جلاوطنی ہو گی اور اے انس! اس کی اہلیہ کے پاس صبح جانا اگر وہ زنا کا اعتراف کر لے تو اس کو سنگسار کر دینا۔ ہشام کہتے ہیں کہ انس صبح اس کی اہلیہ کے پاس گئے اس نے اعتراف کر لیا تو انہوں نے اس کو سنگسار کر دیا۔

 

٭٭ بکر بن خلف، ابو بشر ، یحییٰ بن سعید، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، یونس بن جبیر، حطان بن عبد اللہ، حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا دین کا حکم مجھ سے معلوم کر لو پہلے اللہ نے فرمایا تھا کہ ان کو گھروں میں رکھو یہاں تک اللہ ان کے لیے راہ متعین فرما دیں۔ سو اللہ نے ان عورتوں کے لیے راستہ متعین فرمایا بکر، بکر سے زنا کرے تو سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا ہو گی، اور ثیب ، ثیب سے زنا کرے تو اسے سو کوڑے لگیں گے اور سنگسار کیا جائے گا۔

 

جو اپنی بیوی کی باندی سے صحبت کر بیٹھا

 

حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، حبیب بن سالم، حضرت نعمان بن بشیر کے پاس ایک مرد لایا گیا جس نے اپنی بیوی کی باندی سے صحبت کی تھی انہوں نے فرمایا میں اس کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو اللہ کے رسول کا فیصلہ ہے فرمایا اگر اس کی بیوی نے یہ باندی اس کے لیے حلال کر دی تھی تو میں اس کو سو کوڑے لگاؤں گا اور اگر بیوی نے اس کو اجازت نہیں دی تھی تو میں اس کو سنگسار کر دوں گا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد السلام بن حرب، ہشام بن حسان، حضرت سلمہ بن محبق سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول کی خدمت میں ایک مرد پیش کیا گیا جس نے اپنی اہلیہ کی باندی سے صحبت کی تھی آپ نے اسے حد نہیں لگائی۔

 

سنگسار کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، عبد اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ طویل زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ کہنے لگے کہ مجھے اللہ کی کتاب میں سنگسار کرنے کی سزا نہیں ملتی پھر لوگ اللہ کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ترک کر کے گمراہ ہو جائیں غور سے سنو سنگسار کرنا حق ہے بشرطیکہ مرد محصن ہوں اور گواہ قائم ہوں یا حمل ہو یا اعتراف زنا ہو اور میں نے یہ آیت پڑھی ہے شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جب زنا کریں تو ان کو ضرور سنگسار کرو اور اس کے بعد اللہ کے رسول نے سنگسار کیا اور ہم نے بھی سنگسار کیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، محمد بن عمیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ماعز بن مالک نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں نے بدکاری کی آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا پھر عرض کیا کہ میں نے بدکاری کی آپ نے اعراض فرمایا پھر عرض کیا کہ مجھ سے بدکاری سرزد ہوئی آپ نے پھر اعراض کیا پھر عرض کیا کہ مجھ سے بدکاری ہوئی آپ نے پھر ان سے اعراض فرمایا حتی کہ انہوں نے چار مرتبہ اقرار کیا تو آپ نے ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا جب انہیں پتھر لگے تو وہ تیزی سے بھاگے ایک مرد سامنے آیا جس کے ہاتھ میں اونٹ کا جبڑا تھا اس نے وہ مارا جس سے وہ گر گئے جب نبی سے پتھر لگنے کے بعد بھاگنے کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔

 

٭٭ عباس بن عثمان، ولید بن مسلم، ابو عمر، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو قلابہ، ابی مہاجر، حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بدکاری کا اعتراف کیا آپ نے حکم دیا تو اس کے کپڑے اس پر باندھے گئے پھر اس کو سنگسار کر دیا گیا پھر اس کا جنازہ پڑھایا۔

 

یہودی  اور یہودن کو سنگسار کرنا

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودی مرد و زن کو سنگسار کرنے کا حکم فرمایا میں بھی ان کو سنگسار کرنے والوں میں تھا میں نے دیکھا کہ وہ مرد اس عورت کو پتھروں سے بچا رہا تھا کہ اس کو آڑ میں کر کے خود پتھر کھا رہا تھا۔

 

٭٭ اسماعیل بن موسی، شریک، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی نے ایک یہودی اور ایک یہودن کو سنگسار کیا۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، عبد اللہ بن مرہ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ایک یہودی کے پاس سے گزرے اس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے آپ نے یہودیوں کو بلا کر پوچھا کہ تم اپنی کتاب میں زانی کی کیا سزا پاتے ہو انہوں نے کہا جی۔ پھر فرمایا ان کے ایک عالم کو بلا لاؤ اور فرمایا میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس ذات کی جس نے موسیٰ پر تورات نازل فرمائی تم اپنی کتاب میں زانی کی حد کیا یہی پاتے ہو؟ کہنے لگا نہیں اور اگر آپ مجھے یہ قسم نہ دیتے تو میں آپ کو کبھی نہ بتاتا ہم اپنی کتاب میں زانی کی حد رجم پاتے ہیں پھر جب ہم کسی معزز کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے سنگسار نہ کرتے اور جب کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد قائم کرتے پھر ہم نے کہا آؤ کوئی ایسی سزا طے کر لیں جو معزز اور کمزور دونوں پر قائم کی جا سکے تو ہم نے سنگسار کرنے کے بجائے منہ کالا کرنا پڑا اور کوڑے لگانا طے کر لیا۔ تو نبی نے فرمایا اے اللہ میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے آپ کا حکم زندہ کیا جب سے انہوں نے آپ کا حکم مٹایا اور آپ نے حکم دیا تو اسے سنگسار کیا گیا۔

 

جو بدکاری کا اظہار کرے

 

عباس بن ولید، زید بن یحییٰ بن عبید، لیث بن سعد، عبید اللہ بن ابی جعفر، ابو اسود، عروہ ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا اگر میں کسی کو بغیر گواہی کے سنگسار کرتا تو فلاں عورت کو ضرور سنگسار کرتا اس کی گفتگو اور حالت اور اس کے پاس آنے جانے والوں سے اس کا بدکار ہونا معلوم ہوتا ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن خلاد، سفیان ، ابی زناد، قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے دو لعان کرنے والوں کا ذکر کیا تو ابن شداد نے ان سے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے بارے میں میں اللہ کے رسول نے فرمایا اگر میں کسی کو بغیر ثبوت، گواہوں کے سنگسار کرتا تو اس کو سنگسار کرتا حضرت ابن عباس نے فرمایا آپ نے یہ بات اس عورت کے متعلق فرمائی جو اعلانیہ بدکاری کرے۔

 

جو قوم لوط کا عمل کرے

 

محمد بن صباح، ابو بکر بن خلاد، عبد العزیز بن محمد، عمرو بن ابی عمرو، عکرمہ ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جسے تم قوم لوط کا عمل کرتا ہوا پاؤ تو فاعل و مفعول دونوں کو قتل کر دو۔

 

٭٭ یونس بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن نافع، عاصم بن عمر، سہیل ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی نے قوم لوط کا عمل کرنے والے کے متعلق فرمایا اوپر والے اور نیچے والے سب کو سنگسار کر دو۔

 

٭٭ ازہر بن مروان، عبد الورث بن سعید، قاسم، ابن عبد الواحد، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے۔

 

جو محرم سے بدکاری کرے یا جانور سے

 

عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، ابراہیم بن اسماعیل، داؤد بن حصین، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جو محرم بدکاری کرے اسے قتل کر دو اور جو جانور سے منہ کالا کرے تو اسے بھی قتل کر دو اور جانور کو بھی۔

 

لونڈی پر حد قائم کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابو ہریرہ اور زید بن خالد اور شبل فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک مرد نے پوچھا کہ باندی محصن ہونے سے قبل بدکاری کرے تو اس کا کیا حکم ہے فرمایا اسے کوڑے لگاؤ پھر اگر بدکاری کرے تو پھر کوڑے لگاؤ پھر تیسری چوتھی مرتبہ کے بارے میں فرمایا کہ اسے فروخت کر دو گو بالوں کی ایک رسی کے عوض۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، عمار بن ابی فروہ، محمد بن مسلم، عمرہ بنت عبد الرحمن، حضرت سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب باندی بدکاری کرے تو اسے کوڑے مارو اگر پھر بدکاری کرے تو پھر کوڑے مارو پھر اگر بدکاری کرے تو پھر کوڑے مارو پھر اگر بدکاری کرے تو اس کو کوڑے مارو پھر اسے بیچ دے اگرچہ ایک رسی کے عوض بکے۔

 

حد قذف کا بیان

 

محمد بن بشار، ابن ابی عدی، محمد بن اسحاق ، عبد اللہ بن ابی بکر، عمرہ، ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب میری براءت نازل ہوئی تو اللہ کے رسول منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا ذکر کیا اور قرآن کی آیت پڑھیں جب آپ منبر سے اترے تو حکم دیا پس دو مردوں اور ایک عورت کو حد لگائی گئی۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، ابن ابی حبیبہ، داؤد بن حصین، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا جب ایک مرد دوسرے مرد سے کہے اے مخنث تو اس کو بیس کوڑے مارو اور جب ایک مرد دوسرے مرد سے کہے اے لوطی تو اس کو بیس کوڑے مارو۔

 

نشہ کرنے والے کی حد

 

اسماعیل بن موسی، شریک ، ابی حصین، عمیر ابن سعید، ح، عبد اللہ بن محمد، زہری، سفیان بن عیینہ، مطرف، عمیر بن سعید، حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں جس پر حد قائم کروں تو میں اس کی دیت نہ دوں گا مگر خمر پینے والا اس لیے کہ اللہ کے رسول نے اس کے بارے میں کوئی حد مقرر نہ فرمائی بلکہ ہم نے اس کی حد مقرر کی۔

 

٭٭ نصر بن علی، یزید بن زریع، سعید، ح، علی بن محمد، وکیع، ہشام، قتادہ، حضرت انس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول خمر کی وجہ سے جوتوں اور چھڑیوں سے مارتے تھے۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، ابن علیہ، سعید بن ابی عروبہ، عبد اللہ بن داناج، حضین بن منذر، ح، محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، عبد اللہ بن فیروز، ابن منذر، ولید بن عقبہ، عثمان، حضرت حصین بن منذر فرماتے ہیں کہ جب ولید بن عقبہ کو حضرت عثمان کے پاس لایا گیا اور لوگوں نے اس کے خلاف گواہی دی تو حضرت عثمان نے حضرت علی سے فرمایا اٹھو اپنے چچا زاد بھائی پر حد قائم کرو۔ حضرت علی نے اسے کوڑے لگائے اور فرمایا کہ اللہ کے رسول نے چالیس کوڑے مارے اور ابو بکر نے چالیس کوڑے مارے اور حضرت عمر نے اسی کوڑے مارے اور سب سنت ہیں۔

 

جو بار بار خمر پیے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ابن ابی ذئب، حارث، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی نشہ کرے تو اسے کوڑے مارو اگر دوبارہ کرے تو پھر دوبارہ کوڑے مارو اور سہ بارہ کرے تو پھر کوڑے مارو پھر اگر چوتھی بار پھر کرے تو اس کی گردن اڑا دو

 

٭٭ ہشام بن عمار، شعیب بن اسحاق، سعید بن ابی عروبہ، عاصم بن بہدلہ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب لوگ خمر پئیں تو ان کو کوڑے لگاؤ پھر اگر پئیں تو پھر کوڑے لگاؤ پھر اگر پئیں تو پھر کوڑے لگاؤ پھر اگر پئیں تو ان کو قتل کر دو۔

 

سن رسیدہ اور بیمار پر بھی حد واجب ہوتی ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، یعقوب بن عبد اللہ بن اشج، ابی امامہ بن سہل بن جنیف، حضرت سعد بن عبادہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں کے درمیان ایک اپاہج و ناتواں رہتا تھا اس نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا جب وہ گھر کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی کے ساتھ منہ کالا کرتا پکڑا گیا۔ حضرت سعد بن عبادہ نے اس کا معاملہ اللہ کے رسول کی خدمت میں رکھا آپ نے فرمایا اس کو سو کوڑے مارو لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ ناتواں ہے یہ سزا برداشت نہیں کر سکتا اگر ہم اسے سو کوڑے ماریں گے تو وہ مر جائے گا فرمایا ایک خوشہ لو جس میں سو شاخیں ہوں اور ایک ہی دفعہ اس کو مارو۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

مسلمان پر ہتھیار سونتنا

 

یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن ابی حازم، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن عامر بن براد بن یوسف بن برید، ابو اسامہ، عبید اللہ ، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جس نے ہم (مسلمانوں ) پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

 

٭٭ محمود بن غیلان، ابو کریب، یوسف بن موسی، عبد اللہ بن براد، اسامہ، برید، ابو بردہ، حضرت ابو موسی اشعری بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا جس نے ہم پر ہتھیار سونتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

 

جو رہزنی کرے اور زمین پر فساد برپا کرے

 

نصر بن علی، عبد الوہاب، حمید، انس بن مالک، عرینہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ کے عہد مبارک میں آئے مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہ آئی تو آپ نے فرمایا اگر (صدقہ کے ) اونٹوں میں چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کرو انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اسلام سے پھر گئے نبی کی جانب سے مقرر کردہ چروا ہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے آپ نے ان کی تلاش میں لوگوں کو بھیجا ان کو لایا گیا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے ، ان کی آنکھوں میں سلائی پھیری اور انہیں گرم زمین میں ڈال دیا یہاں تک مر گئے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن مثنی، ابراہیم بن ابی وزیر، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے اللہ کے رسول کے جانور لوٹ لیے آپ نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوائے اور آنکھوں میں سلائی پھروائی۔

 

جسے اس کے مال کی خاطر قتل کر دیا جائے وہ بھی شہید ہے

 

ہشام بن عمار، سفیان، زہری، طلحہ بن عبد اللہ بن عوف، سعید بن زید، حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا جسے اپنے مال کی خاطر قتل کر دیا گیا وہ بھی شہید ہے۔

 

٭٭ خلیل بن عمرو، مروان بن معاویہ، یزید بن سنان، میمون بن مہران، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کے مال کے پاس کوئی آیا اور اس سے لڑائی کی پھر اس مالک نے بھی لڑائی کی اور قتل کر دیا گیا تو یہ شہید ہے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، عبد العزیز بن مطلب، عبد اللہ بن حسن، عبد الرحمن ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کا مال ناحق کسی نے لینا چاہا اور اس کو بچانے میں یہ قتل کر دیا گیا تو یہ شہید ہے۔

 

چوری کرنے والے کی حد (سزا)

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا چور پر اللہ کی لعنت ہوا انڈا چراتا ہے انجام کار اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسی چراتا ہے انجام کار اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی نے ایک ڈھال جس کی قیمت تین درہم تھی کی وجہ سے ہاتھ کاٹا۔

 

٭٭ ابو مروان، عثمانی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عمرہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ چوری کرنے پر۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو ہشام مخزومی ، وہیب ، ابو واقد ، عامر بن سعد، حضرت سعد سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ڈھال کی قیمت چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔

 

ہاتھ گردن میں لٹکانا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو بشر بکر بن خلف، محمد بن بشار، ابو  سلمہ، یحییٰ بن خلف، عمرو بن علی، حضرت ابن محیریز فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت فضالہ بن عبید سے ہاتھ گردن میں لٹکانے کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا سنت یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے ایک مرد کا ہاتھ کاٹ کر اس کی گردن میں لٹکایا۔

 

چور اعتراف کر لے

 

محمد بن یحییٰ، ابن ابی مریم، ابن لہیعہ، یزید بن ابی حبیب، عبد الرحمن بن ثعلبہ، حضرت عمرو بن سمرہ بن حبیب بن عبد شمس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میں فلاں قبیلہ کا اونٹ چوری کر بیٹھا آپ مجھے پاک کر دیجئے نبی نے ان کو بلا بھیجا انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا اونٹ گم ہوا ہے نبی نے حکم دیا تو عمرو کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت ثعلبہ فرماتے ہیں کہ جب ان کا ہاتھ کاٹ کر گرا تو میں دیکھ رہا تھا وہ کہہ رہے تھے تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس نے (اے ہاتھ) تجھ سے مجھے پاک کر دیا تیرا تو ارادہ تھا کہ میرے پورے جسم کو دوزخ میں بھجوائے۔

 

غلام چوری کرے تو

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ابو عوانہ، عمر بن ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب غلام چوری کرے تو اسے بیچ ڈالو اگرچہ نصف اوقیہ چاندی کے عوض ہی بکے۔

 

٭٭ جبارہ بن مغلس، حجاج بن تمیم، میمون بن مہران، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ خمس کے ایک غلام نے خمس میں سے ہی چوری کی نبی کے سامنے یہ بات رکھی گئی تو آپ نے اس کا ہاتھ نہ کاٹا اور فرمایا کہ اللہ ہی کا مال ہے اس کا کچھ حصہ بعض نے چوری کر لیا ہے۔

 

امانت میں خیانت کرنے والے ، لوٹنے والے اور اچکے کا حکم

 

محمد بن بشار، ابو عاصم، ابن جریج، ابی زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا خیانت کرنے والے ، لوٹنے والے اور اچکے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، مفضل ابن فضالہ، یونس بن یزید، ابن شہاب، ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف، حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا اچکے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

 

پھل اور گابھہ کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے

 

علی بن محمد، وکیع، سفیان، یحییٰ بن سعید، محمد بن یحییٰ بن حیان، واسع ابن حبان، حضرت رافع بن خدیج بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا پھل اور گابھہ کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سعد ابن سعید، حضرت ابو ہریرہ کہ اللہ کے رسول نے فرمایا پھل اور گابھہ کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے۔

 

حرز میں چرانے کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، مالک بن انس، زہری، عبد اللہ بن صفوان، حضرت صفوان مسجد میں سوگئے اور اپنی چادر سر کے نیچے رکھ لی کسی نے چادر ان کے سر کے نیچے سے نکال لی وہ اس چور کو نبی کے پاس لائے نبی نے (چوری ثابت ہونے پر) حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے تو صفوان نے عرض کیا کہ میرا یہ مقصد نہ تھا میری یہ چادر اس پر صدقہ ہے تو اللہ کے رسول نے فرمایا اگر ایسا کرنا تھا تو میرے پاس لانے سے قبل کیوں نہ کیا۔

 

کیا مومن کو قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو گی

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہمام بن یحییٰ، قتادہ، ابی صدیق، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ کیا میں تمہیں وہ بات نہ سناؤں جو میں نے اللہ کے رسول کی زبان مبارک سے سنی، اس بات کو میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے محفوظ رکھا کہ ایک بندے نے ننانوے جانوں کو قتل کیا پھر اسے توبہ کا خیال آیا تو اس نے پوچھا کہ اہل زمین میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ اسے ایک مرد کے متعلق بتایا گیا وہ اس کے پاس گیا اور کہا میں نے ننانوے انسانوں کو قتل کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ اس نے کہا ننانوے انسانوں کو مارنے کے بعد بھی؟ (بھلا توبہ قبول ہو سکتی ہے ) اس نے تلوار سونتی اور اس بڑے عالم کو بھی قتل کر کے سو جانیں پوری کر دیں پھر اسے توبہ کا خیال آیا تو اس نے پوچھا کہ اہل زمین پر سب سے زیادہ علم والا کون ہے اسے ایک مرد کے متعلق بتایا گیا وہ اس کے پاس گیا اور کہا میں نے سو جانیں قتل کی ہیں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے اس نے کہا تجھ پر افسوس ہے کہ کون ہے جو تیرے اور توبہ کے درمیان حائل ہو تو اس ناپاک علاقہ سے نکل جہاں تو رہتا ہے اور فلاں نیک بستی میں چلا جا اور اس میں اللہ کی بندگی کر تو وہ اس نیک بستی میں جانے کے ارادہ سے نکلا تو راستے میں اس کا وقت پورا ہو گیا تو رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوا ابلیس بولا میں اس کا زیادہ حقدار ہوں اس نے ایک گھڑی بھی میری نافرمانی نہیں کی لہذا اسے دوزخ میں جانا چاہیے اور عذاب کے فرشتوں کے سپرد کرنا چاہیے۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا یہ توبہ تائب ہو کر نکلا تھا اس حدیث کے راوی ہمام کہتے ہیں کہ مجھے حمید طویل نے بکر بن عبد اللہ کے واسطے سے سنایا کہ حضرت ابو رافع نے فرمایا اس کے بعد اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا سب نے اپنا اختلاف اس کے سامنے رکھا اور اس کی طرف رجوع کیا اس نے کہا دیکھو ان دونوں بستیوں میں سے کون سی بستی زیادہ قریب ہے جو قریب ہو اس بستی والوں کے ساتھ اس میت کو ملا دو۔ قتادہ کہتے ہیں کہ حسن نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو وہ گھسٹ گھسٹ کر نیک بستی کے قریب ہوا اور بری بستی سے دور ہوا چنانچہ فرشتوں نے اسے نیک بستی والوں میں شامل کر لیا۔

 

جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے

 

عثمان ، ابو بکر، ابی شیبہ، ابو خالد، ح، ابو بکر ، عثمان ابن ابی شیبہ، جریر، عبد الرحیم بن سلیمان، محمد بن اسحاق، ابن فضیل، حضرت ابو شریح خزاعی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس شخص کا خون کیا گیا اس کو زخمی کیا گیا تو اس کو تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے اگر وہ کوئی چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو وہ تین باتیں یہ ہیں کہ یا اس کو قتل کر دے یا معاف کر دے یا خون بہا لے لے جو کوئی ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات کر لے پھر کچھ اور زیادتی بھی کرے تو اس کے لے دوزخ کی آگ ہے اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو چیزوں کا اختیار ہے چاہے قتل کر دے چاہے فدیہ اور دیت لے لے۔

 

کسی نے عمداً قتل کیا پھر مقتول کے ورثہ دیت پر راضی ہو گئے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد، محمد بن اسحاق ، محمد بن جعفر، حضرت زید بن ضمیرہ کہتے ہیں کہ میرے والد اور چچا نے روایت کی اور یہ دونوں حضرات جنگ حنین میں اللہ کے رسول کے ساتھ شریک ہوئے تھے فرماتے ہیں کہ نبی نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر ایک درخت کے نیچے تشریف فرمائے ہوئے تو قبیلہ خندف کے سردار اقرع بن حابس آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور محلم بن جثامہ کے قصاص کو رد کرنے لگے اقرع کی درخواست یہ تھی کہ محلم سے قصاص نہ لیا جائے۔ اور عیینہ بن حصین نے حاضر ہو کر عامر بن اضبط کے قصاص کا مطالبہ کیا اور عیینہ اشجعی تھے تو نبی نے ان سے فرمایا کیا تم دیت قبول کرتے ہو؟ انہوں نے انکار کیا تو بنی لیث کے ایک مرد جنہیں مکیتل کہا جاتا ہے کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول غلبہ اسلام میں اس قتل کی حالت ایسی ہی ہے کہ کچھ بکریاں پانی پینے کو آئیں تو انہیں ہانک دیا گیا اس کی وجہ سے ان کے پیچھے والی بکریاں بھی بھاگ گئیں تو نبی نے فرمایا تمہیں دیت پچاس اونٹ ہمارے اسی سفر میں ملیں گے اور پچاس اونٹ اسوقت جب ہم سفر سے واپس ہوں گے اس پر انہوں نے دیت قبول کر لی۔

 

٭٭ محمود بن خالد، محمد بن راشد، سلیمان بن موسی، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو عمداً قتل کرے اسے مقتول کے ورثہ کے سپرد کر دیا جائے اگر چاہیں تو اسے قتل کر دیں اور اگر چاہیں تو دیت لے لیں اور دیت تیس تین سالہ اونٹ ہیں اور تیس چار سالہ اونٹ ہیں اور چالیس حاملہ اونٹنیاں یہ قتل عمد کی دیت ہے اور جس پر صلح ہو جائے اور مقتول یہ کے ورثہ کو ملے گا لیکن یہ دیت کی سخت ترین صورت ہے۔

 

شبہ عمد میں دیت مغلظہ ہے

 

محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، محمد بن جعفر، شعبہ، ایوب، قاسم بن ربیعہ، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا شبہ میں عمد یعنی خطا کا مقتول وہ ہے جسے کوڑے یا لاٹھی سے قتل کیا جائے اس میں سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں جن کے پیٹ میں بچے ہوں۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد، سفیان بن عیینہ، ابن جدعان، قاسم بن ربیعہ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول فتح مکہ کے روز کعبہ کی سیڑھی پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثناء کی فرمایا تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندہ کی مد د کی اور لشکروں کو تنہا اس نے شکست دی غور سے سنو جسے کوڑے یا لاٹھی کے ذریعہ قتل کیا گیا اس کی دیت سو اونٹ ہیں جن میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہیں جن میں بچے ہوں غور سے سنو جاہلیت کی ہر رسم اور ہر خون میرے ان دو قدموں کے نیچے ہے۔ سوائے بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانا میں ، ان دونوں خدمتوں کو انہی لوگوں کے سپرد پہلے یہ خدمتیں تھیں۔

 

قتل خطا کی دیت

 

محمد بن بشار، معاذ بن ہانی، محمد بن مسلم، عمرو بن دینار، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے بارہ ہزار درہم دیت مقرر فرمائی۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، یزید بن ہارون، محمد بن راشد، سلیمان بن موسی، عمرو بن شعیب، حضرت عبید اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو شخص خطا قتل کر دیا جائے اس کی دیت یہ ہے کہ تیس اونٹنیاں ایک سالہ اور تیس اونٹنیاں مکمل دو سال کی اور تیس اونٹنیاں پورے چار سال کی اور دس اونٹ پورے چار سال کے اور دس اونٹ پورے دو سال کے اور اللہ کے رسول نے دیہات والوں کے لیے اس کی قیمت چار سو اشرفیاں یا اس کے برابر چاندی مقرر فرماتے تھے اور دیت کی قیمت اونٹوں کے نرخ کے اعتبار سے مقرر فرماتے تھے۔ اور جب اونٹ گراں ہوتے تو دیت کی قیمت زیادہ ہو جاتی اور جب اونٹ ارزاں ہوتے تو دیت کی قیمت بھی کم ہو جاتی جن دنوں میں جو قیمت ہوتی وہی مقرر فرماتے چنانچہ اللہ کے رسول کے مبارک زمانہ میں دیت کی قیمت چار سو اشرفی سے آٹھ سو اشرفی تک رہی یا اس کے برابر چاندی یعنی آٹھ ہزار درہم اور اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ فرمایا گائے بیل میں سے دیت ادا کی جائے تو گائے والے دو سو گائیں دیں اور بکریوں سے دیت ادا کرنی ہو تو بکری والے دو ہزار بکریاں دیں۔

 

قتل خطا کی دیت

 

عبد السلام بن عاصم، صباح، حجاج بن ارطاۃ، زید بن جبیر، خشف بن مالک، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا قتل کی دیت میں بیس اونٹنیاں پورے تین تین برس کی اور بیس اونٹنیاں پورے چار چار برس کی اور بیس اونٹنیاں دو دو سال کی اور بیس اونٹ پورے ایک ایک سال کے دئیے جائیں۔

 

٭٭ عباس بن جعفر، محمد بن سنان، محمد بن مسلم، عمرو بن دینار، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے بارہ ہزار درہم دیت مقرر فرمائی اور اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور ان کو اسی بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو مالدار کر دیا یعنی دیت لے کر۔

 

دیت قاتل کے کنبہ والوں پر اور قاتل پر واجب ہو گی اور اگر کسی کنبہ نہ ہو تو بیت المال سے ادا کی جائے گی

 

علی بن محمد، وکیع، منصور، ابراہیم، عبید بن نضلہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ فرمایا دیت قاتل کے کنبہ پر واجب ہو گی۔

 

٭٭ یحییٰ بن درست، حماد بن زید، بدیل بن میسرہ، علی بن طلحہ، راشد، ابو عامر، حضرت مقدام شامی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کا کوئی وارث نہیں میں اس کا وارث ہوں میں اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا اور کوئی وارث نہ ہو (اور ماموں ہی ہو) تو ماموں اس کا وارث ہے ماموں اس کی طرف سے دیت ادا کرے اور وہی اس کی میراث لے۔

 

مقتول کے ورثہ کو قصاص و دیت لینے میں رکاوٹ بننا

 

محمد بن معمر، محمد بن کثیر، سلیمان بن کثیر، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی نے فرمایا جو شخص اندھا دھند مارا جائے یا تعصب کی وجہ سے پتھر کوڑے یا لاٹھی سے تو اس پر قتل خطا کی دیت ہے اور جو عمداً قتل کرے تو اس پر قصاص ہے اور جو قصاص و دیت کی وصولی میں رکاوٹ ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی اس کا نہ فرض قبول ہو گا نہ نفل۔

 

جن چیزوں میں قصاص نہیں

 

محمد بن صباح، عمار بن خالد، ابو بکر بن عیاش، دہتم بن قران، نمران بن حضرت جاریہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نے دوسرے کے بازو پر تلوار ماری اور جوڑ کے نیچے سے اس کا بازو کاٹ ڈالا مجروح نے نبی سے فریاد کی تو آپ نے اس کے لیے دیت کا فیصلہ فرمایا اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں چاہتا ہوں کہ قصاص لوں آپ نے فرمایا دیت لے لو اللہ تمہیں اس میں برکت عطا فرمائے اور آپ نے اس کے لیے قصاص کا فیصلہ نہ فرمایا۔

 

٭٭ ابو کریب، رشدین بن سعد، معاویہ بن صالح، معاذ بن محمد، ابن صہبان ، حضرت عباس بن عبد المطلب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو زخم دماغ تک پہنچ جائے یا پیٹ تک اس میں ہڈی ٹوٹ کر اپنی جگہ سے سرک جائے اس میں قصاص نہیں ہے (بلکہ دیت ہے کیونکہ ان میں برابری ممکن نہیں )

 

(مجروح راضی ہو تو) زخمی کرنے والا قصاص کے بدلہ فدیہ دے سکتا ہے

 

محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ابو جہم بن حذیفہ کو مصدق مقرر فرمایا تو ایک مرد نے اپنی زکوٰۃ کے معاملے میں ان سے جھگڑا کیا ابو جہم نے اس کو مارا اور اس کا سر زخمی کر دیا اس کے قبیلہ والے نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول قصاص لینا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا تم اتنا مال لے لو وہ راضی نہ ہوئے تو آپ نے فرمایا چلو اتنا اتنا مال لے لو اس پر وہ راضی ہو گئے تو نبی نے فرمایا میں لوگوں کو خطبہ کے دوران تمہاری رضامندی کے متعلق بتا دوں انہوں نے کہا بتا دیجئے تو نبی نے خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا یہ قبیلہ لیث کے لوگ میرے پاس قصاص کا مطالبہ لے کر آئے میں ان کو اتنے اتنے مال کی پیشکش کرتا ہوں کہ کیا تم راضی ہو؟ کہنے لگے کہ نہیں ہم راضی نہیں تو مہاجرین کو ان پر بہت برہمی ہوئی (اور انہوں نے کچھ کرنا چاہا) تو نبی نے حکم دیا کہ رک جاؤ وہ رک گئے پھر نبی نے قبیلہ لیث کے لوگوں کو بلایا اور دیت میں کچھ اضافہ فرمایا اور پھر فرمایا کہ کیا تم راضی ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں ہم راضی ہیں آپ نے فرمایا پھر خطبہ میں لوگوں کو تمہاری رضامندی کی خبر دے دوں کہنے لگے جی ہاں تو نبی نے خطبہ دیا پھر ارشاد فرمایا کیا تم راضی ہو گئے؟ کہنے لگے جی ہاں ہم راضی ہو گئے۔

 

جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے جنین کی دیت ایک غلام یا باندی مقرر فرمائی تو جس کے خلاف یہ فیصلہ فرمایا تھا وہ بولا کیا ہم اس بچہ کی دیت دیں جس نے نہ کچھ کھایا پیا نہ چیخا چلایا اور اس جیسا بچہ تو لغو ہوتا ہے کہ اس میں کچھ دیت یا تاوان نہیں ہوتا تو اللہ کے رسول نے فرمایا یہ تو شاعروں کی طرح مسجع و مقفی کلام کر رہا ہے پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا باندی ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروہ، مسور بن مخرمہ، عمر بن خطاب ، حضرت مسور بن محزمی فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے جنین (کی دیت) کے بارے میں لوگوں سے مشورہ طلب کیا تو مغیرہ بن شعبہ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے رسول نے اس میں ایک غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا تو حضرت عمر نے فرمایا اپنے ساتھ کسی اور کو بھی لاؤ جو اس کی شہادت دیتا ہو تو ان کے ساتھ حضرت محمد بن مسلمہ نے شہادت دی۔

 

٭٭ احمد بن سعید، ابو عاصم، ابن جریج، عمرو بن دینار، طاؤس، ابن عباس، عمر بن خطاب، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سیدنا عمرو بن خطاب نے لوگوں نے جستجو فرمائی کہ نبی نے جنین کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا تو حمل بن مالک کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میں موجود تھا کہ میری ایک بیوی نے دوسری بیوی کو خیمہ کی لکڑی ماری جس سے دوسری بیوی مر گئی اور اس کا بچہ بھی مر گیا تو اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جنین کے بدلہ ایک غلام دے نیز سوکن کے بدلے اس کو قتل کیا جائے۔

 

دیت میں بھی میراث جاری ہوتی ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فرماتے تھے کہ دیت عاقلہ کے لیے ہوتی ہے اور بیوی کو خاوند کی دیت میں سے کچھ میراث نہ ملے گی پھر حضرت ضحاک بن سفیان نے انہیں لکھا کہ نبی نے اشیم ضبابی کی اہلیہ کو ان کی دیت میں سے میراث دی تھی۔

 

٭٭ عبدربہ بن خالد، فضیل بن سلیمان، موسیٰ بن عقبہ، اسحاق بن یحییٰ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی نے حمل بن مالک ہذلی لحیانی کے حق میں اس کی اہلیہ کی میراث کا فیصلہ فرمایا اس کی اس اہلیہ کو اس کی دوسری اہلیہ نے قتل کر دیا تھا۔

 

کافر کی دیت

 

ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، عبد الرحمن بن عیاش، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی نے یہ فیصلہ فرمایا دونوں اہل کتاب یعنی یہود و  نصاریٰ کی دیت مسلمانوں کی دیت سے آدھی ہو گی۔

 

قاتل(مقتول کا) کا وارث نہیں بنے گا

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، اسحاق بن ابی فروہ، ابن شہاب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا کہ قاتل کو مقتول کی میراث نہیں ملے گی۔

 

٭٭ ابو کریب، عبد اللہ بن سعید، ابو خالد احمر، یحییٰ بن سعید، عمرو بن شعیب، ابو قتادہ، حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ بنومدلج کے ایک مرد ابو قتادہ نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا تو حضرت عمر نے اس سے سو اونٹ لیے تیس حقہ اور تیس جذعہ اور چالیس حاملہ پھر فرمایا مقتول کا بھائی کہاں ہے (اس کو دیت دلا دی اور باپ کو محروم رکھا) میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی قاتل کو میراث نہیں ملے گی۔

 

عورت کی دیت اس کے عصبہ پر ہو گی اور اس کی میراث اس کی اولاد کے لیے ہو گی

 

اسحاق بن منصور، یزید بن ہارون، محمد بن راشد، سلیمان بن موسی، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ فرمایا عورت کی دیت اس کے عصبہ (دودھیال) ادا کریں گے جتنے بھی ہوں اور وہ اس عورت کے وارث نہ ہوں گے مگر صرف اس حصہ کے جو عورت کے وارثوں سے بچ رہے اور اگر عورت کو قتل کر دیا جائے تو اس کی دیت اس کے ورثہ میں تقسیم ہو گی اور وہی اس کے قاتل سے قصاص لیں گے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، معلی بن اسد، عبد الواحد بن زیاد، مجالد، شعبی، حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے دیت قاتلہ کی عاقلہ پر ڈالی تو مقتولہ کی عاقلہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس کی میراث ہمیں ملنی چاہیے کیونکہ دیت عاقلہ پر ہوتی ہے تو میراث بھی عاقلہ کا حق ہے آپ نے فرمایا نہیں اس کی میراث اس کے خاوند کی اولاد کی ہے۔

 

دانت کا قصاص

 

محمد بن مثنی، ابو موسی، خالد، ابن ابی عدی، حمید، حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کا دانت توڑ دیا تو ربیع کے گھر والوں نے معافی مانگی وہ نہ مانے پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی وہ اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے پھر سب نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے قصاص اور بدلہ کا فیصلہ فرمایا اس پر انس بن نضر نے کہا اے اللہ کے رسول ربیع کا دانت توڑا جائے گا اللہ کی قسم ربیع کا دانت نہیں توڑا جائے گا تو نبی نے فرمایا اے انس کتاب اللہ کا فیصلہ قصاص ہے یہ سن کر لڑکی کے قبیلے والے راضی ہو گئے اور معاف فرما دیا تو اللہ کے رسول نے فرمایا اللہ کے بندوں میں ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری فرما دیتے ہیں۔

 

دانتوں کی دیت

 

عباس بن عبد العظیم، عبد الصمد بن وارث، شعبہ، قتادہ، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا تمام دانت برابر ہیں سامنے کے دانت اور ڈاڑھیں برابر ہیں۔

 

٭٭ اسماعیل بن ابراہیم، علی بن حسن بن شقیق، ابو حمزہ، یزید، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے ایک دانت کے بدلہ پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرمایا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، محمد بن جعفر، ابن ابی عدی، شعبہ، قتادہ، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا یہ انگلی اور یہ انگلی برابر ہیں یعنی چھنگلیا اور اس کے ساتھ والی اور انگوٹھا (حالانکہ انگوٹھے میں ایک جوڑ ہے پھر بھی یہ باقی انگلیوں کے برابر ہے )۔

 

انگلیوں کی دیت

 

جمیل بن حسن، عبد الاعلی، سعید، مطر، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تمام انگلیاں برابر ہیں ہر ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ ہیں۔

 

٭٭ رجاء بن مرجی، نضر بن شمیل، سعید بن ابی عروبہ، غالب، حمید بن ہلال، مسروق ابن اوس، حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا تمام انگلیاں برابر ہیں۔

 

ایسا زخم جس سے ہڈی دکھائی دینے لگے لیکن ٹوٹے نہیں

 

جمیل بن حسن، عبد الاعلی، سعید بن ابی عروبہ، مطر، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی نے ارشاد فرمایا ہر ہر موضحہ کی دیت پانچ پانچ اونٹ ہیں۔

 

ایک شخص نے دوسرے کو کاٹا دوسرے نے اپنا ہاتھ اس کے دانتوں سے کھینچا تو اس کے دانت ٹوٹ گئے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، محمد بن اسحاق، عطاء، صفوان بن عبد اللہ، حضرت یعلی اور سلمہ بن امیہ فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں ہم اللہ کے رسول کے ساتھ گئے ہمارے ساتھ ایک ساتھی تھا اور اس کی ایک مرد کی لڑائی ہو گئی اسوقت ہم راستہ میں ہی تھے فرماتے ہیں کہ اس آدمی نے دوسرے کے ہاتھ پر کاٹا دوسرے نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا جس سے اس کا دانت گر گیا وہ اللہ کے رسول کی خدمت میں آیا اور دانت کا مطالبہ کیا تو اللہ کے رسول نے فرمایا تم میں سے ایک اپنے بھائی کی طرف بڑھ کر اسے نر جانور کی طرح کاٹتا ہے پھر دیت کا مطالبہ بھی کرتا ہے اس کی کوئی دیت نہیں فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے اس ہاتھ کو ہدر اور لغو فرمایا۔

 

٭٭ علی بن محمد، محمد بن عبد اللہ بن نمیر، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، زرارہ بن اوفی، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک مرد نے دوسرے مرد کے ہاتھ پر کاٹا اس نے اپنا ہاتھ کھینچا جس سے کاٹنے والا دانت گر گیا یہ معاملہ نبی کی خدمت میں پیش کیا گیا تو نبی نے اس کے ہاتھ کو لغو اور ناقابل تاوان فرمایا اور ارشاد فرمایا کیا تم میں سے ایک جانور کی طرح کاٹتا ہے۔

 

کسی مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے

 

علقمہ بن عمرو، ابو بکر بن عیاش، مطرف ، شعبی، ابی جحیفہ، علی بن ابی طالب، حضرت ابو حجیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی بن ابی طالب سے عرض کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا علم ہے جو دیگر حضرات کے پاس نہ ہو فرمایا نہیں ہمارے پاس صرف وہی علم ہے جو باقی لوگوں کے پاس ہے الا یہ کہ اللہ کسی مرد کو قرآن میں فہم و بصیرت سے نوازیں یا جو اس صحیفہ میں ہے اس میں اللہ کے رسول کی جانب سے دیت کے کچھ احکام ہیں نیز یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، عبد الرحمن بن عیاش، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

 

٭٭ محمد بن عبد الاعلی، معتمر بن سلیمان، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا کہ کسی مومن کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور جس سے معاہدہ کیا گیا ہو اس کو معاہدہ کے دوران قتل نہ کیا جائے۔

 

والد کو اولاد کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے

 

سوید بن سعید، علی بن مسہر، اسماعیل بن مسلم، عمرو بن دینار، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اولاد کے بدلے والد کو قتل نہ کیا جائے گا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد، حجاج، عمرو بن شعیب، سیدنا عمرو بن خطاب بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ والد کو اولاد کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔

 

کیا آزاد کو غلام کے بدلے قتل کرنا درست ہے

 

علی بن محمد، وکیع، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو اپنے غلاموں کو قتل کرے گا ہم اس کو قتل کر دیں گے اور جو اپنے غلام کے ناک کاٹ ڈالے گا ہم اس کے ناک کاٹ دیں گے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، طباع، اسماعیل بن عیاش، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروہ، ابراہیم بن عبد اللہ بن حنین، علی ، عمرو بن شعیب، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اپنے غلام کو قصدا ًاور عمداً قتل کر دیا تو اللہ کے رسول نے اسے سو کوڑے لگائے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا اور مسلمانوں کے حصوں میں اس کا ایک حصہ ایک سال کے لیے ختم کر دیا۔

 

قاتل سے اسی طرح قصاص لیا جائے

 

علی بن محمد، وکیع، ہمام بن یحییٰ، قتادہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے دو پتھروں کے درمیان ایک عورت کا سر کچل دیا تو اللہ کے رسول نے بھی یہی فیصلہ فرمایا اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا جائے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، اسحاق بن منصور، نضر بن شمیل، شعبہ، ہشام بن زید، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو قتل کر دیا اس کا زیور ہتھیانے کے لیے تو نبی نے اس سے کہا کہ تمہیں فلاں نے قتل کیا (ابھی اس لڑکی میں کچھ رمق باقی تھی) اس نے سر سے اشارہ کیا نہیں پھر دوبارہ پوچھا اس نے کہا نہیں۔ پھر سہ بارہ پوچھا تو اس نے سر کے اشارہ سے کہا جی ہاں تو اللہ کے رسول نے اس یہودی کو دو پتھروں کے درمیان کچل کر قتل کروا دیا۔

 

قصاص صرف تلوار سے لیا جائے

 

ابراہیم بن مستمر، ابو عاصم، سفیان ، جابر، ابو عازب، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا قصاص صرف تلوار سے لیا جائے۔

 

٭٭ ابراہیم بن مستمر، حر بن مالک، مبارک بن فضالہ، حسن، حضرت ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا قصاص صرف تلوار سے لیا جائے۔

 

کوئی بھی دوسرے پر جرم نہیں کرتا (یعنی کسی کے جرم کامواخذہ دوسرے سے نہ ہو گا)

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو احوص، شبیب بن غرقدہ، سلیمان بن حضرت عمرو بن احوص فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہر جرم کرنے والا اپنی ذات پر ہی جرم کرتا ہے (اس کا مواخذہ اسی پر ہو گا دوسرے پر نہ ہو گا) والد اپنی اولاد پر جرم نہیں کرتا اور اولاد والد پر جرم نہیں کرتی۔

 

 

کوئی بھی دوسرے پر جرم نہیں کرتا (یعنی کسی کے جرم کا مواخذہ دوسرے سے نہ ہو گا)

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، یزید بن ابی زیاد، جامع بن شداد، حضرت طارق محاربی فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں یہاں تک کہ مجھے آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آ رہی ہے اور فرما رہے ہیں غور سے سنو کوئی ماں بچے پر جرم نہیں کرتی ماں کے جرم میں بچہ سے مواخذہ نہیں ہو گا۔

 

٭٭ عمرو بن رافع، ہشیم ، یونس، حصین بن ابی حر، حضرت خشخاس عنبری فرماتے ہیں کہ میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے ساتھ میرا بیٹا تھا آپ نے فرمایا تمہارے جرم کا مواخذہ اس سے نہ ہو گا اور اس کے جرم کا مواخذہ اس سے نہ ہو گا۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن عبید بن عقیل، عمرو بن عاصم، ابو عوام، محمد بن حجادہ، زیاد بن علاقہ، حضرت اسامہ بن شریک بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا کسی کے جرم کا مواخذہ دوسرے سے نہیں ہو سکتا۔

 

ان چیزوں کا بیان جن میں قصاص ہے نہ دیت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا بے زبان جانور کا زخمی کرنا لغو رہے اور کان میں کوئی مر جائے تو لغو ہے اور کنویں میں کوئی گر کر مر جائے تولغو رہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، کثیر بن عبد اللہ بن ، حضرت عمر بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بے زبان جانور کا زخمی کرنا لغو ہے اور کان میں کوئی مر جائے تو وہ لغو ہے۔

 

٭٭ عبدربہ بن خالد، فضیل بن سلیمان، موسیٰ بن عقبہ، اسحاق بن یحییٰ بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے یہ فیصلہ ارشاد فرمایا کان یا کنویں میں کوئی گر کر مر جائے تو وہ لغو ہے اور بے زبان جانور کا زخمی کرنا لغو ہے یعنی اس میں کوئی تاوان نہیں ہے۔

 

٭٭ احمد بن ازہر، عبد الرزاق ، معمر، ہمام، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا آگ لغو ہے اور کنویں میں گر کر مر جائے تو وہ لغو ہے۔

 

قسامت کا بیان

 

یحییٰ بن حکیم، بشر بن عمر، مالک بن انس، ابو لیلی بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن سہل بن حنیف، حضرت سہل بن ابی جثمہ فرماتے ہیں کہ ان کی قوم سے بہت سے عمر رسیدہ بزرگوں نے انہیں بتایا کہ عبد اللہ بن سہل اور محیصہ خیبر کی طرف نکلے ان کے حالات تنگ تھے تو محیصہ کے پاس لوگ آئے اور کہا کہ عبد اللہ بن سہل کو قتل کر دیا گیا اور ان کی لاش خیبر کے کسی گڑھے یا چشمہ میں پھینک دی گئی محیصہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا کہ بخدا تم نے ہی اس کو قتل کیا ہے کہنے لگے اللہ کی قسم ہم نے اس کو قتل نہیں کیا۔ پھر محیصہ واپس اپنی قوم کے پاس آئے اور سارا ماجرا بیان کیا پھر محیصہ اور ان کے بھائی حویصہ جو عمر میں ان سے بڑے بڑے تھے اور عبد الرحمن بن سہل تینوں حضرات نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو محیصہ بات کرنے لگے کیونکہ خیبر میں یہی ساتھ تھے تو نبی نے فرمایا عمر میں بڑے کا لحاظ کرو تو حویصہ نے بات کی پھر محیصہ نے بات کی تو اللہ کے رسول نے فرمایا یا وہ تمہارے آدمی کی دیت دیں یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں چنانچہ اللہ کے رسول نے اس بارے میں انہیں لکھا انہوں نے جواب میں لکھا کہ اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا تو اللہ کے رسول نے حویصہ اور محیصہ اور عبد الرحمن سے فرمایا تم قسم اٹھا کر اپنے آدمی کا خون ان پر یہود پر ثابت کر سکتے ہو؟ کہنے لگے کہ نہیں فرمایا پھر یہود تمہارے لیے قسم اٹھائیں انہوں نے کہا کہ وہ تو مسلمان نہیں تو نبی نے عبد اللہ بن سہل کی دیت اپنے پاس سے سو اونٹنیاں دیں جو ان کے گھر پہنچائی گئی سہل کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، ابو خالد، حجاج، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ مسعود کے دونوں بیٹے جو حویصہ اور محیصہ اور سہل کے دونوں بیٹے عبد اللہ اور عبد الرحمن خیبر کی طرف روزی کی تلاش میں نکلے تو عبد اللہ پر زیادتی ہوئی اور کسی نے انہیں قتل کر دیا۔ اللہ کے رسول سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا تم قسم کھاؤ گے اور اپنے ساتھی کا خون ثابت کرو گے انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم کیسے قسم کھائیں حالانکہ ہم نے قتل دیکھا نہیں آپ نے فرمایا پھر یہود قسم کھا کر اپنی براءت ظاہر کریں انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول پھر تو یہود ہم کو مار ڈالیں گے اس پر اللہ کے رسول نے اپنے پاس سے دیت دی۔

 

جو اپنے غلام کا کوئی عضو کاٹے تو وہ غلام آزاد ہو جائے گا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن منصور، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروہ، سلمہ بن روح بن حضرت زنباع سے روایت ہے کہ وہ نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنے ایک غلام کو خصی کر دیا تھا تو نبی نے اس مثلہ کی وجہ سے اسے آزاد فرما دیا۔

 

٭٭ رجاء بن مرجی، نضر بن شمیل، ابو حمزہ، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ ایک مرد چیختا چلاتا نبی کے پاس آیا تو نبی نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ کہنے لگا میرے آقا نے مجھے اس حالت میں دیکھا کہ میں اس کی باندی کا بوسہ لے رہا تھا تو اس نے میرے آلات تناسل کاٹ ڈالے نبی نے فرمایا اس مرد کو میرے پاس لاؤ اسے تلاش کیا گیا لیکن وہ ہاتھ نہ آیا تو اللہ کے رسول نے فرمایا جا تو آزاد ہے اس نے عرض کیا کہ میری مد د کون کرے گا اے اللہ کے رسول یعنی اگر میرا آقا مجھے پھر غلام بنا لے تو اللہ کے رسول نے فرمایا ہر مومن و مسلمان پر تیری مد د لازم ہے۔

 

سب لوگوں میں عمدہ طریقہ سے قتل کرنے والے اہل ایمان ہیں

 

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم ، مغیرہ ، شباک، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا سب لوگوں میں عمدہ طریقے سے قتل کرنے والے اہل ایمان ہیں۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، مغیرہ، شباک، ابراہیم، ہنی بن نویرہ، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا سب لوگوں میں عمدہ طریقے سے قتل کرنے والے اہل ایمان ہیں۔

 

تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں

 

محمد بن عبد الاعلی، معتمر بن سلیمان، حنش، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا تمام مسلمانوں کے خون برابر ہیں اور وہ اپنی مخالف اقوام کے خلاف ایک ہاتھ ہیں ان میں سے ادنی شخص بھی امان دے سکتا ہے اور لڑائی میں دور رہنے والے مسلمان کو بھی حصہ غنیمت دیا جائے گا۔

 

٭٭ ابراہیم بن سعید، انس بن عیاض، ابو حمزہ، عبد السلام بن ابی جنوب، حسن، حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تمام اہل اسلام اپنے مخالفین کے مقابلہ میں ایک ہاتھ ہیں اور ان کے خون برابر ہیں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، عبد الرحمن بن عیاش، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مسلمانوں کا ہاتھ اپنے علاوہ دوسری اقوام کے خلاف ہے اور ان سب کے خون اور مال برابر ہیں اور اہل اسلام میں سے ادنی شخص بھی سب کی طرف سے امان دے سکتا ہے۔

 

ذمی کو قتل کرنا

 

ابو کریب، ابو معاویہ، حسن بن عمر، مجاہد، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس نے ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، معدی بن سلیمان، ابن عجلان، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا جس نے ذمی کو قتل کیا جسے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ حاصل ہوئی ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے۔

 

کسی مرد کو جان کی امان دے دی پھر قتل بھی کر دیا جائے

محمد بن عبد الملک، ابن ابی شوارب، ابو عوانہ، عبد الملک بن عمیر، رفاعہ بن شداد، عمرو بن حمق ، رفاعہ بن شداد قتبانی کہتے ہیں کہ اگر وہ بات نہ ہوتی جو میں نے عمرو بن حمق خزاعی سے سنی تو میں مختار کے سر اور دھڑ کے درمیان چلتا میں نے انہیں یہ فرماتے سنا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو کسی مرد کو خون کی امان دے پھر اسے قتل کرے وہ روز قیامت غدر و فریب کا جھنڈا اٹھائے گا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو لیلی، ابی عکاشہ، رفاعہ رفاعہ کہتے ہیں کہ میں مختار کے پاس اس کے محل میں گیا تو اس نے کہا کہ جبراءیل ابھی میرے پاس سے اٹھے تو اس کی گردن اڑانے سے مجھے صرف وہ حدیث ہی مانع ہوئی جو میں نے سلیمان بن صرد سے سنی فرمایا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جب کوئی شخص تجھ سے جان کی امان لے لے تو اس کو قتل مت کر اسی بات نے مجھے اس کے قتل سے روکا۔

 

قاتل کو معاف کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے عہد مبارک میں ایک شخص نے قتل کیا اس کا مقدمہ نبی کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے اس مرد کو مقتول کے ورثہ کے حوالے کر دیا گیا تو قاتل نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بخدا میں نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ قتل خطا ہوا تو اللہ کے رسول نے مقتول کے ولی سے فرمایا سنو اگر یہ سچا ہو اور پھر تم نے اسے قتل کر دیا تو تم دوزخ میں جاؤ گے راوی کہتے ہیں کہ اس پر ولی کے مقتول نے اس کو چھوڑ دیا وہ ایک رسی سے بندھا ہوا تھا چنانچہ وہ رسی سے گھسیٹتا ہوا نکلا تو اس کا نام رسی والا مشہور ہو گیا۔

 

٭٭ ابو عمیر، عیسیٰ بن محمد، عیسیٰ بن یونس، حسین بن ابی سری، ضمرہ ، ابن ربیعہ، ابن شوذب، ثابت ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک مرد اپنے عزیز کے قاتل اللہ کے رسول کی خدمت میں لایا تو نبی نے فرمایا معاف کر دو وہ نہ مانا پھر فرمایا اچھا دیت لے لو وہ نہ مانا۔ آپ نے فرمایا جا اور اسے قتل کر دے کیونکہ تو بھی اس قاتل کی مانند ہے ایک شخص مقتول کے وارث کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ اللہ کے رسول نے یہ فرمایا ہے کہ تو اسے قتل کر دے کیونکہ تو بھی اس کی مانند ہے تو مقتول کے وارث نے قاتل کو چھوڑ دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس قاتل کو دیکھا گیا کہ اپنے گھر والوں کی طرف رسی گھسیٹتا ہوا جا رہا ہے شاید مقتول کے وارثوں نے اسے رسی سے باندھ رکھا تھا۔ امام ابن ماجہ کے استاذ ابو عمری کہتے ہیں کہ ابن شوذب نے عبد الرحمن بن قاسم سے روایت کیا کہ نبی کے علاوہ کسی کے لیے مقتول کے ورثہ کو یہ کہنا جائز نہیں کہ اس کو قتل کر دے کیونکہ تو بھی اس کی مانند ہے کیونکہ آنحضرت شاید حقیقت حال سے مطلع ہو گئے تھے کہ قتل خطا ہے اس لیے اس میں قصاص نہیں گزشتہ روایت میں ہے کہ اس قاتل نے عرض کیا تھا کہ مجھ سے خطا قتل سرزد ہوا میرا قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث رملہ والوں کی ہے ان کے علاوہ کسی کے پاس یہ حدیث نہیں۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، حبان بن ہلال، عبد اللہ بن بکر، عطاء بن ابی میمونہ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی خدمت میں قصاص کا جو مقدمہ بھی لایا گیا آپ نے (بطور سفارش) اس میں معاف کرنے کا کہا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، یونس بن ابی اسحاق ، ابی سفر، حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مرد کو بھی کوئی بدنی تکلیف پہنچے پھر وہ تکلیف پہنچانے والے کو معاف کر دے تو اللہ اس کی وجہ سے اس کا درجہ بلند فرما دیتے ہیں یا اس کا گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ یہ بات میرے دونوں کانوں نے سنی اور میرے دل ودماغ نے اسے محفوظ رکھا۔

 

حاملہ پر قصاص لازم آتا ہے

 

محمد بن یحییٰ، ابو صالح، ابن لہیعہ، ابن انعم، عبادہ بن نسی، عبد الرحمن بن غنم، حضرت معاذ بن جبل ، ابو عبیدہ بن جراح، عبادہ بن صامت اور شداد اوس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا عورت جب عمداً قتل کرے تو اس کو قتل نہ کیا جائے اگر وہ حاملہ ہو یہاں تک کہ وہ زچگی سے فارغ ہو جائے اور اس کے بچے کی کفالت کا انتظام ہو جائے اور اگر وہ زنا کرے تو اس کو سنگسار نہ کیا جائے یہاں تک کہ وہ زچگی سے فارغ ہو اور اس کے بچہ کی کفالت کا انتظام ہو۔

 

 

وصیتوں کا بیان

 

کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی وصیت فرمائی؟

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، ح، ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو معاویہ، ابو بکر، عبد اللہ بن نمیر، اعمش، شقیق، مسروق، عائشہ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول نے نہ کوئی اشرفی چھوڑی نہ درہم نہ بکری نہ اونٹ اور نہ ہی آپ نے کچھ وصیت فرمائی۔

 

کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی وصیت فرمائی؟

 

علی بن محمد، وکیع، مالک بن مغول، طلحہ بن مصرف، عبد اللہ بن ابی اوفی، حضرت طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے عرض کیا کہ اللہ کے رسول نے کچھ وصیت فرمائی؟ کہنے لگے کہ نہیں میں نے کہا کہ پھر آپ نے مسلمانوں کو وصیت کا حکم کیسے دیا؟ فرمانے لگے کہ آپ نے کتاب کے مطابق زندگی گزارنے کی وصیت فرمائی۔ مالک کہتے ہیں کہ طلحہ بن مصرف نے کہا کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا کہ ابو بکر رسول کی وصی پر کیسے زبردستی حکومت کر سکتے تھے کہ ان کی تو یہ حالت تھی کہ اللہ کے رسول کا کوئی حکم پاتے تو تابعدار اونٹنی کی طرح اپنی ناک اس میں نکیل کر لیتے۔

 

٭٭ احمد بن مقدام، معتمر بن سلیمان، قتادہ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی وفات جب قریب تھی اور آپ کا سانس اٹک رہا تھا اس وقت آپ کی اکثر وصیت یہ تھی کہ نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا۔

 

٭٭ سہل بن ابی سہل، محمد بن فضیل، مغیرہ، ام موسی، حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری کلام یہ تھا نماز اور غلام اور باندی کا خیال رکھنا

 

وصیت کرنے کی ترغیب

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، حضرت عبید اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا مرد مسلم کو شایاں نہیں کہ اس کی دو راتیں بھی اس حالت میں گزریں مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو جبکہ اس کے پاس کوئی چیز بھی لائق وصیت ہو۔

 

٭٭ نصر بن علی جہضمی، ابن زیاد، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا محروم ہے وہ شخص جو وصیت نہ کر سکے۔

 

٭٭ محمد بن مصفی، بقیہ بن ولید، یزید بن عوف، ابن زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو وصیت کر کے مرا وہ راہ ہدایت اور سنت کے موافق اور پرہیزگاری و شہادت کے ساتھ مرا اور اس حالت میں مرا کہ اس کی بخشش ہو چکی تھی۔

 

٭٭ محمد بن معمر، روح بن عوف، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا مسلمان شخص کے لیے شایاں نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جس کے متعلق اس نے وصیت کرنی ہو مگر یہ کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہو۔

 

وصیت میں ظلم کرنا

 

سوید بن سعید، عبد الرحیم بن زید، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو اپنے وارث کی میراث سے راہ فرار اختیار کرے تو اللہ تعالی روز قیامت جنت سے اس کی میراث منقطع فرما دیں گے۔

 

٭٭ احمد بن زہر، عبد الرزاق بن ہمام، معمر، اشعث بن عبد اللہ، شہر بن حوشب، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا ایک مرد اہل خیر کے اعمال ستر سال تک کرتا رہتا ہے پھر جب وصیت کرتا ہے تو اس میں ظلم اور نا انصافی کرتا ہے تو اس کے برے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے اور ایک مرد ستر سال تک اہل شر کے اعمال کرتا ہے پھر وصیت میں عدل و انصاف سے کام لیتا ہے تو اس اچھے عمل پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ جنت میں چلا جاتا ہے۔

 

٭٭ یحییٰ بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، بقیہ، ابی حلیس، خلید بن ابی خلید، معاویہ بن حضرت قرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کی وفات کا وقت قریب ہو تو اس نے وصیت کی اور اس کی وصیت کتاب اللہ کے موافق تھی تو زندگی میں اس نے جو زکاۃ ترک کی یہ وصیت اس کا کفارہ بن جائے گی۔

 

زندگی میں خرچ سے بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک، عمارہ بن قعقاع بن شبرمہ، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے بتائیے کہ حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا جی ہاں تیرے باپ کی قسم تجھے بتا دیا جائے گا تیری ماں کا تجھ پر سب سے زیادہ حق ہے کہنے لگا پھر کس کا؟ فرمایا پھر بھی ماں کا بولا پھر کس کا؟ فرمایا پھر بھی ماں کا بولا پھر کس کا فرمایا باپ کا بولا اے اللہ کے رسول مجھے بتائیے کہ اپنے مال میں سے کیسے صدقہ کروں فرمایا جی ہاں اللہ کی قسم تجھے ضرور بتا دیا جائے گا تو تندرست ہو تجھ میں مال کی حرص ہو، تجھے زندگی کی امید ہو اور فقر کا خوف ہو ایسی حالت میں صدقہ کر اور صدقہ میں تاخیر نہ کر یہاں تک کہ جب تیری روح یہاں (حلق میں ) پہنچ جائے تو کہے کہ میرا مال فلاں کے لیے ہے اور فلاں کے لیے حالانکہ وہ ان کا ہو چکا ہے خواہ تجھے پسند نہ ہو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، جریر بن عثمان، عبد الرحمن بن میسرہ، جبیر بن نفیر، حضرت بسر بن حجاج قرشی فرماتے ہیں کہ نبی نے اپنی ہتھیلی میں تھتکارا پھر اپنی شہادت کی انگلی اس پر رکھ کر فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں آدم کا بیٹا مجھے کہاں عاجزو بے بس کر سکتا ہے حالانکہ میں نے تجھ کو ایسی ہی چیز (منی) سے پیدا کیا ہے پھر جب تیرا سانس یہاں پہنچ جاتا ہے اور آپ نے حلق کی طرف اشارہ کیا تو تو کہتا ہے میں صدقہ کرتا ہوں اب صدقہ کرنے کا وقت کہاں رہا۔

 

تہائی مال کی وصیت

 

؂ہشام بن عمار، حسین بن حسن مروزی، سہل ، سفیان بن عیینہ، زہری، عابر بن حضرت سعد فرماتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال بیمار ہوا یہاں تک کہ موت کے قریب ہو گیا تو اللہ کے رسول نے میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے پاس بہت سا مال ہے اور میرا وارث ایک بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا نہیں صدقہ مت کرو میں نے عرض کیا پھر آدھا صدقہ کر دوں؟ فرمایا آدھا بھی مت کر۔ میں نے عرض کیا پھر تہائی صدقہ فرمایا تہائی کر سکتے ہو اور تہائی بھی بہت ہے تم اپنے وارثوں کو مالدار اور لوگوں سے مستغنی چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، طلحہ بن عمر، عطاء، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اللہ نے تمہاری وفات کے وقت تم پر تمہارا تہائی مال صدقہ فرمایا تاکہ تم اپنے اعمال خیر میں اضافہ کر سکو۔

 

٭٭ صالح بن محمد بن یحییٰ بن سعید، عبد اللہ بن موسی، مبارک بن حسان، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا اے آدم کے بیٹے دو چیزوں میں تیرا کچھ حق نہ تھا ایک تیرا سانس روکتے وقت تیرے مال میں ایک (تہائی) حصہ تیرے اختیار میں کر دیا تاکہ میں تجھے اس کے ذریعہ پاک اور صاف کروں اور دوسری چیز میرے بندوں کا تیری نماز جنازہ تیری عمر پوری ہونے کے بعد۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مجھے پسند ہے کہ لوگ وصیت کرنے میں تہائی سے کم کر کے چوتھائی کو اختیار کر لیں اس لیے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تہائی زیادہ ہے یا تہائی بڑا ہے۔

 

وارث کے لیے وصیت درست نہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، شہر بن حوشب، عبد الرحمن بن غنم، حضرت عمرو بن خارجہ فرماتے ہیں کہ نبی نے اپنی سواری پر سوار ہو کر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اس وقت وہ سواری جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب میرے دونوں مونڈھیوں کے درمیان بہہ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اللہ نے میراث میں ہر وارث کا حصہ مقرر فرما دیا ہے لہذا کسی وارث کے لیے وصیت درست نہیں اور بچہ اس کو ملے گا جس کے نکاح یا ملک میں اس بچہ کی ماں ہو گی جو اپنے باپ کے علاوہ کی طرف اپنی نسبت کرے یا جو غلام اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے تو اس پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے نہ اس کا فرض قبول ہو گا نہ نفل۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، شرحبیل بن مسلم، حضرت ابو امامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال یہ سنا اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا لہذا وارث کے لیے کسی قسم کی وصیت درست نہیں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن شعیب، ابن شابو ر، عبد الرحمن بن یزید ، ابن جابر، سعید بن ابی سعید، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ بلاشبہ میں اللہ کے رسول کی اونٹنی کے نیچے تھا اس کا لعاب مجھ پر بہہ رہا تھا اسوقت میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا غور سے سنو اب وارث کے لیے وصیت درست نہیں۔

 

قرض وصیت پر مقدم ہے

 

علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابی اسحاق ، حضرت علی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فیصلہ فرمایا قرض وصیت پر مقدم ہے اور تم پڑھتے ہو من بعد وصیۃ یوصی (اس دین کو وصیت کے بعد ذکر کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا درجہ بھی بعد میں ہے بلکہ وصیت کی اہمیت کے پیش نظر وصیت کو مقدم فرمایا اور حقیقی بھائی وارث ہوں گے علاقائی بھائی وارث نہ ہوں گے۔

 

جو وصیت کیے بغیر مر جائے اس کی طرف سے صدقہ کرنا

 

ابو مروان ، محمد بن عثمان، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نے اللہ کے رسول سے دریافت کیا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا اور انہوں نے مال چھوڑا لیکن وصیت نہیں کہ تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کے گناہوں کا کفارہ ہو گا آپ نے فرمایا جی ہاں۔

 

٭٭ اسحاق بن منصور، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ کا دم اچانک گھٹ گیا اور وہ کچھ وصیت نہ کر سکیں اور میرا گمان ہے کہ اگر ان کو بات کرنے کا کچھ موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں تو اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کو ثواب ملے گا اور کیا مجھے بھی اس کا ثواب ملے گا آپ نے فرمایا جی ہاں۔

 

اللہ کے ارشاد اور جو نادار ہو تو وہ یتیم کا مال دستور کے موافق کھا سکتا ہے کی تفسیر

 

احمد بن ازہر، روح بن عبادہ، حسین معلم، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میرے پاس کوئی چیز نہیں نہ کچھ مال ہے اور میری پرورش میں ایک یتیم ہے اس کا مال ہے آپ نے فرمایا اپنے یتیم کے مال میں سے کھا سکتے ہو بشرطیکہ اسراف و فضول خرچی نہ کرو اور اپنے لیے مال جمع کر کے نہ رکھو اور میرا گمان ہے کہ یہ بھی فرمایا کہ یتیم کے مال کے ذریعہ اپنا مال بچاؤ بھی مت۔

 

 

 

وراثت کا بیان

 

میراث کا علم سیکھنے سکھانے کی ترغیب

 

ابراہیم بن منذر، حفص بن عمرو بن ابی عطاف، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو ہریرہ میراث کے احکام سیکھو اور سکھاؤ اس لئے کہ یہ نصف علم ہے اور یہ بھلا دیا جائے گا اور سب سے پہلے میری امت سے یہی علم اٹھایا جائے گا۔

 

اولاد کے حصوں کا بیان

 

محمد بن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ سعد بن ربیع کی اہلیہ ان کی دونوں بیٹیوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لائی اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسول ! یہ سعد کی دو بیٹیاں ہیں جو جنگ احد میں شہید ہوئے ان کے والد نے جو مال چھوڑا تھا سب کا سب ان کے چچا نے لے لیا ہے اور لڑکی کا نکاح تبھی ہوتا ہے جب اس کے ہاتھ کچھ مال (زیور) بھی ہو۔ یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی تو اللہ کے رسول نے سعد بن ربیع کے بھائی کو بلا کر فرمایا سعد کی دونوں بیٹیوں کو اس کا دو تہائی مال دے دو اور اس کی اہلیہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور باقی تم لے لو۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابی قیس، حضرت ہذیل بن شرحبیل سے روایت ہے کہ ایک شخص ابو موسی اشعری اور سلمان بن ربیعہ کے پاس آیا اور پوچھا اگر ایک شخص مر جائے اور ایک بیٹی ایک پوتی ایک سگی بہن چھوڑ جائے تو کیونکر تقسیم ہو گی؟ دونوں نے کہا نصف مال بیٹی کو ملے گا اور باقی سگی بہن کو لیکن تم عبد اللہ بن مسعود کے پاس جاؤ ان سے بھی پوچھو وہ بھی ہمارے ساتھ ہو جائیں گے پھر وہ شخص ابن مسعود کے پاس گیا اور ان سے بھی پوچھا اور جو جواب ابو موسی اور سلمان نے دیا تھا وہ بھی بیان کیا۔ ابن مسعود نے کہا اگر میں ایسا حکم دوں تو گمراہ ہو گیا اور راہ پانے والوں میں سے نہ رہا لیکن میں وہ حکم دوں گا جو نبی نے دیا ہے۔ بیٹی کو آدھا پوتی کو چھٹا حصہ دو ثلث پورا کرنے کیلئے اور جو بچے یعنی ایک ثلث وہ بہن کو ملے گا۔

 

دادا کی میراث

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ ، یونس بن ابی اسحاق ، ابی اسحاق ، عمرو بن میمون، حضرت معقل بن یسار مزنی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک میراث کا مقدمہ آیا اس میں دادا بھی تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے لئے ثلث یا سدس کا فیصلہ فرمایا۔

 

٭٭ ابو حاتم، ابن طباع، ہشیم ، یونس، حسن، حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم میں ایک دادے کیلئے سدس کا فیصلہ فرمایا۔

 

دادی کی میراث

 

احمد بن عمرو بن سرح، یونس ، ابن شہاب، قبیصہ بن ذویب، ح، سعید بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عثمان بن اسحاق ، حضرت ابن ذویب فرماتے ہیں کہ ایک نانی ابو بکر صدیق کے پاس آئی اور ان سے اپنی میراث دلوانے کی درخواست کی۔ ابو بکرنے فرمایا اللہ کی کتاب میں تیرے لئے کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ کے رسول کی سنت میں بھی تیرے لئے کوئی حصہ میرے علم میں نہیں۔ اس وقت واپس چلی جا یہاں تک کہ لوگوں سے پوچھ لوں۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا۔ مغیرہ بن شعبہ نے فرمایا اللہ کے رسول کے پاس (خاتون) آئی تھی آپ نے اسے چھٹا حصہ دلایا تو ابو بکر نے فرمایا تمہارے ساتھ اور بھی کوئی گواہ ہے؟ تو محمد بن مسلمہ انصاری کھڑے ہوئے اور وہی بات فرمائی جو مغیرہ بن شعبہ نے فرمائی تب ابو بکر نے نانی کیلئے سدس کا فیصلہ فرما دیا۔ پھر عمر کے پاس ایک دادی آئی اور اپنی میراث مانگی۔ آپ نے فرمایا اللہ کی کتاب میں تیرے لئے کچھ بھی نہیں اور جو فیصلہ ہوا تھا وہ تیرے علاوہ کیلئے تھا اور میراث کے حصوں میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتا البتہ وہی چھٹا حصہ ہے اگر تم دادی اور نانی اس میں جمع ہو جائیں تو وہ تم دونوں میں تقسیم ہو گا اور تم میں جو بھی اکیلی ہو تو وہ اس اکیلی کا ہو گا۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن عبد الوہاب، مسلم بن قتیبہ، شریک، لیث، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جدہ کو میراث میں چھٹا حصہ دلایا۔

 

کلالہ کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، سعید، قتادہ، سالم بن ابی جعد، معدان بن ابی طلحہ، عمر بن خطاب حضرت معدان بن ابی طلحہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر جمعہ روز خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا بخدا میں اپنے خیال میں کلالہ سے زیادہ مشکل چیز اپنے بعد نہیں چھوڑ رہا اور میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا۔ آپ نے مجھے کسی چیز میں اتنی سختی نہیں فرمائی جتنی سختی اس کے متعلق فرمائی حتی کہ میرے سینہ یا پسلی میں انگلی ماری پھر فرمایا اے عمر تجھے گرمیوں کی وہ آیت جو سورۃ نساء کے آخر میں نازل ہوئی کافی ہے۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان ، عمرو بن مرہ، مرہ بن شراحبیل، عمر بن خطاب حضرت مرہ بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب نے فرمایا تین باتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضاحت سے بیان فرما دیتے تو مجھے یہ دنیا و مافیہا سے زیادہ پسند تھا کلالہ ربا اور خلافت۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو اللہ کے رسول عیادت کیلئے تشریف لائے۔ ابو بکر آپ کے ساتھ تھے آپ دونوں پیدل آئے اس وقت مجھ پر بے ہوشی طاری تھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا کچھ پانی مجھ پر ڈالا تو (مجھے ہوش آ گیا اور) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں کیا کروں اپنے مال کے متعلق کیسے فیصلہ کروں؟ یہاں تک کہ سورۃ نساء کے آخر میں یہ آیت میراث نازل ہوئی (وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً) 4۔ النسآء:12)

 

کیا اہل اسلام مشرکین کے وارث بن سکتے ہیں

 

ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، علی بن حسین، عمرو بن عثمان، حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کو کافر کی اور کافر کو مسلمان کی میراث نہیں ملے گی۔

 

کیا اہل اسلام مشرکین کے وارث بن سکتے ہیں

 

احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، علی بن حسین، عمرو بن عثمان، حضرت اسامہ بن زید نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا آپ مکہ میں اپنے گھر تشریف لے جائیں گے۔ آپ نے فرمایا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر یا ٹھکانہ چھوڑا بھی ہے؟ اور ابو طالب کے وارث عقیل اور طالب بنے تھے اور جعفر اور علی کو ابو طالب کی میراث نہیں ملی اس لئے کہ ابو طالب کے انتقال کے وقت یہ دونوں حضرات مسلمان تھے اور عقیل اور طالب کافر تھے اسی لئے حضرت عمر فرماتے تھے کہ ایمان والا کافر کا وارث نہیں بنتا۔ اور اسامہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو گا۔

 

٭٭ محمد بن رمح، ابن لہیعہ، خالد بن زیاد، مثنی بن صباح، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دو (ادیان) دینوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے۔

 

ولاء کی میراث

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، حسین، عمر بن شعیب، رباب بن حذیفہ، ابن سعید بن سہم، بنت معمر، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص فرماتے ہیں کہ رباب بن حذیفہ بن سعید بن سہم نے ام وائل بنت معمر جمیہ سے نکاح کیا ان کے تین بیٹے زمین اور ماں کے آزاد کردہ غلاموں کی ولاء کے وارث ہوئے۔ پھر عمرو بن عاص ان کو لے کر شام آئے یہ طاعون عمواس میں مر گئے تو عمرو ان کے وارث ہوئے وہ ان کے عصبہ تھے۔ جب عمرو واپس آئے تو معمر کے بیٹے اپنی بہن کی ولاء کیلئے مقدمہ لے کر حضرت عمر کے پاس آئے۔ عمر نے فرمایا میں تمہارے لئے وہی فیصلہ کروں گا جو میں نے نبی سے سنا۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا جو اولاد کو مل جائے تو وہ اس کے عصبہ کو ملے گا خواہ کوئی ہو۔ عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ولاء کا فیصلہ ہمارے حق میں کر دیا اور ہمارے لئے ایک حکم نامہ لکھ دیا جس میں عبد الرحمن بن عوف اور زید بن ثابت اور مروان خلیفہ بنا تو ام وائل کا انتقال ہو گیا اور اس نے ایک آزاد کردہ غلام اور دو ہزار اشرفی ترکہ میں چھوڑی مجھے اطلاع ملی کہ عمر کا فیصلہ بدل دیا گیا۔ یہ مقدمہ ہشام بن اسماعیل کے پاس لے گئے تو اس نے ہمیں عبد الملک کے پاس بھیج دیا ہم اس کے پاس حضرت عمر کا لکھا ہوا فیصلہ لے گئے۔ کہنے لگا میں سمجھتا تھا کہ اس فیصلہ میں کسی کو شک نہ ہو گا اور مجھے یہ خیال نہ ہوا کہ مدینہ والوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ اس فیصلہ میں شک کرنے لگے ہیں پھر اس نے ہمارے حق میں اس کا فیصلہ کر دیا پھر ہم ہی اس پر قابض رہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد الرحمن بن اصبہانی، مجاہد بن وردان، عروہ بن زبیر، ام المومنین سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک آزاد کردہ غلام کھجور کے درخت سے گر کر مر گیا اور اس نے کچھ مال بھی چھوڑا اور نہ اس کی اولاد تھی نہ کوئی رشتہ دار تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی میراث اس کے گاؤں والوں میں سے کسی مرد کو دے دو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدہ، محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی، حکم ، عبد اللہ بن شداد، بنت حمزہ حضرت عبد اللہ بن شداد حمزہ کی بیٹی سے روایت کرتے ہیں محمد بن ابی لیلی نے فرمایا کہ یہ شداد کی ماں شریک بہن ہیں فرماتی ہیں کہ میرا آزاد کردہ غلام مر گیا اس نے ایک بیٹی چھوڑی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا مال میرے اور اس کی بیٹی کے درمیان تقسیم فرمایا آدھا مجھے دیا اور آدھا اسے۔

 

قاتل کو میراث نہ ملے گی

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، اسحاق بن ابی فروہ، ابن شہاب، حمید بن عبد الرحمن بن عوف، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قاتل کو ترکہ میں حصہ نہیں ملتا۔

 

٭٭ علی بن محمد، محمد بن یحییٰ، عبید اللہ بن موسی، حسن بن صالح، محمد بن سعید، محمد بن یحییٰ، عمرو بن شعیب، عبد اللہ بن عمرو، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے دن کھڑے ہوئے اور فرمایا بیوی خاوند کی دیت اور دوسرے مال میں وراثت کے حقدار ہے۔ اور خاوند بیوی کی دیت اور دیگر اموال میں وراثت کا حقدار ہے بشرطیکہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل نہ کرے اگر ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو عمداً قتل کرے تو نہ دیت میں وارث ہو گا نہ دیگر اموال میں اور اگر ان میں سے کوئی ایک خطاء قتل کرے تو دیگر اموال میں وارث ہو گا دیت میں وارث نہ ہو گا۔

 

ذوی الارحام

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد الرحمن بن حارث بن عیاش بن ابی ربیعہ، حکیم بن حکیم بن عباد بن حنیف، ابی حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک مرد نے دوسرے مرد پر تیر چلایا اور اسے قتل کر دیا اس کا وارث صرف ایک ماموں تھا تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے اس بارے میں حضرت عمر کو لکھا تو حضرت عمر نے ان کو جواب میں لکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ اور رسول مولی ہیں اس کے جس کا کوئی مولی نہ ہو اور جس کا اور کوئی وارث نہ ہو تو ماموں ہی اس کا وارث ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ح، محمد بن جعفر، شعبہ، بدیل بن میسرہ، علی بن ابی طلحہ، راشد بن سعد، ابی عامر، شام کے ایک صحابیِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حضرت مقدام بن ابی کریمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک ماں باپ کی اولاد ایک دوسرے کی وارث ہو گی نہ کہ صرف باپ شریک مرد اپنے ماں باپ شریک بھائی کا وارث ہو گا صرف باپ شریک بھائی کا وارث نہ ہو گا۔

 

عصبات کا میراث

 

یحییٰ بن حکیم، ابو بکر، اسرائیل ، ابی اسحاق ، حارث، حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حقیقی بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے نہ کہ صرف باپ شریک بھائی اپنے حقیقی بھائی کا وارث ہو گا نہ کہ صرف باپ شریک بھائی کا۔

 

٭٭ عباس بن عبد العظیم، عبد الرزاق، معتمر، ابن طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مال ذوی الفروض میں تقسیم کرو جن کے حصے کتاب اللہ میں مذکور ہیں پھر جو اس سے بچ رہے تو وہ اس مرد کاہے جو میت کے زیادہ قریب ہو۔

 

جس کا کوئی وارث نہ ہو

 

اسماعیل بن موسی، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عوسجہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ایک مرد کا انتقال ہو گیا اس نے کوئی وارث نہ چھوڑا سوائے ایک غلام کے جسے وہ آزاد کر چکا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی میراث اس آزاد کردہ غلام کو دلوا دی۔

 

عورت کو تین شخصوں کی میراث ملتی ہے

 

ہشام بن عمار، محمد بن حرب، عمرو بن روبہ، عبد الواحد بن عبد اللہ النصری ، حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا عورت کو تین شخصوں کی میراث ملتی ہے۔ اپنے آزاد کردہ غلام کی، اور اس لاوارث بچے کی جس کی اس نے پرورش کی اور اس بچے کی جس کی وجہ سے خاوند سے لعان کیا

 

جو انکار کر دے کہ یہ میرا بچہ نہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، موسیٰ بن عبیدہ، یحییٰ بن حرب، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ جب آیت لعان نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو عورت کسی قوم میں اس بچہ کو داخل کرے جو اس قوم کا نہیں ہے تو اس کا اللہ سے کچھ تعلق نہیں اور اللہ سے ہرگز اپنی جنت میں داخل نہ فرمائیں گے اور جو مرد بھی یہ جانتے ہوئے کہ یہ میرا بچہ ہے اپنا ہونے سے انکار کر دے تو اللہ تعالی اسے روز قیامت حجاب میں رکھیں گے کہ اسے دیدار خداوندی نصیب نہ ہو گا اور اسے تمام لوگوں کے سامنے رسوا کر دیں گے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد العزیز بن عبد اللہ، سلیمان بن بلال، یحییٰ بن سعید، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نسب کا دعویٰ کرنا جسے آدمی نہ جانتا ہو یا جسے جانتا ہو خواہ اس کا سبب دقیق ہو اس کا انکار کرنا کفر ہے۔

 

بچہ کا دعویٰ کرنا

 

ابو کریب، یحییٰ بن یمان، مثنی بن صباح، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کسی باندی یا آزاد عورت سے بدکاری کرے اس کا بچہ حرامی ہے نہ وہ بچہ اس کا وارث ہو گا نہ یہ اس بچہ کا وارث ہو گا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن بکارین، محمد بن راشد، سلیمان بن موسی، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس بچہ کا نسب اس کے باپ کے مرنے کے بعد اس سے ملایا جائے اس طرح کہ اس کے وارث اس کے مرنے کے بعد یہ دعویٰ کریں کہ یہ اس کا بچہ ہے تو آپ نے اس کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ جو بچہ ایسی باندی سے ہو جو بوقت صحبت اس کی ملک تھی تو یہ بچہ اس شخص سے مل جائے گا جس سے ان ورثہ نے  اس کو ملایا اور اس سے قبل جو میراث تقسیم ہوئی اس میں سے اسے حصہ نہ ملے گا اور جو میراث ابھی تقسیم نہیں ہوئی اس میں اسے حصہ ملے گا اور جس باپ کی طرف اس کی نسبت کی جا رہی ہے اگر اس نے زندگی میں اس نسب کا انکار کر دیا (کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے ) تو پھر اس کا نسب اس سے ثابت نہ ہو گا اور اگر بچہ ایسی باندی کا ہو جو اس شخص کی ملک نہیں ہے یا آزاد عورت سے ہو جس کے ساتھ اس نے بدکاری کی تو اس بچہ کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہو گا نہ ہی یہ بچہ اس مرد کا وارث بن سکے گا اگرچہ جس مرد کی طرف اس بچہ کی نسبت کی جا رہی ہے اس نے اس بچہ کا دعویٰ کیا ہو (کہ یہ میرا بچہ ہے ) کیونکہ یہ بچہ ولدالزنا ہے اور عورت کے خاندان والوں کے پاس رہے گا خواہ آزاد ہو یا باندی حدیث کے راوی محمد بن راشد کہتے ہیں کہ پہلے میراث تقسیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں میراث تقسیم ہوئی ہو۔

 

حق ولاء فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے ممانعت

 

علی بن محمد، شعبہ، سفیان، عبد اللہ بن دینار، ابن عمر، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حق ولاء بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، یحییٰ بن سلیم، عبید اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حق ولاء فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔

 

ترکوں کی تقسیم

 

محمد بن رمح، عبد اللہ بن لہیعہ، عقیل ، نافع، عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو میراث دور جاہلیت میں تقسیم ہو چکی تو وہ تقسیم جاہلیت برقرار رہے گی (اب قانون اسلام کے مطابق از سر نو اس کی تقسیم نہ ہو گی کیونکہ اس میں بہت حرج ہے ) اور قانون اسلام آنے کے بعد ہر میراث اسلامی اصولوں کے مطابق تقسیم ہو گی۔

 

 

جب نومولود میں آثار حیات مثلاً رونا چلّانا وغیرہ معلوم ہوں تو وہ بھی وارث ہو گا

 

ہشام بن عمار، ربیع بن بدر، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بچہ چلائے تو اس کا جنازہ ادا کیا جائے اور اسے میراث میں حصہ بھی دیا جائے۔

 

٭٭ عباس بن ولید، مروان بن محمد، سلیمان بن بلال، یحییٰ بن سعید بن مسیب، حضرت جابر بن عبد اللہ اور مسور بن محزمہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچہ وارث نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ چلائے اور روئے فرماتے ہیں کہ رونے سے مراد یہ ہے کہ آثار حیات ظاہر ہوں مثلاً رونا چیخنا چھینکنا۔

 

ایک مرد دوسرے کے ہاتھوں اسلام قبول کرے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، عبد العزیز بن عمر، عبد اللہ بن موہب، حضرت تمیم داری فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوئی اہل کتاب مرد دوسرے مرد کے ہاتھوں اسلام قبول کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا جس کے ہاتھوں اسلام قبول کیا وہ تمام لوگوں میں اس کے زیادہ قریب ہے زندگی اور موت دونوں حالتوں میں۔

 

 

 

 

جہاد کا بیان

 

اللہ کے راستے میں لڑنے کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضل، عمارہ بن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص راہ خدا میں نکلے اور صرف راہ خدا میں لڑنا اللہ پر ایمان لانا اور رسولوں کی تصدیق ہی اس کے نکلنے کا باعث بنی تو اللہ پر اس کی ضمانت ہے یا اسے جنت میں داخل فرمائیں گے یا  اس کو اس گھر میں واپس بھیجیں گے جس سے وہ نکلا جو اجر یا غنیمت اس نے حاصل کیا اس سمیت۔ پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھے اہل اسلام کی مشقت کا خوف نہ ہوتا تو میں راہ خدا میں نکلنے والے کسی لشکر کے پیچھے ہرگز نہ بیٹھتا لیکن میرے پاس اتنی وسعت نہیں کہ سب کو سواریاں دوں اور سب میں اتنی وسعت نہیں کہ (میں جاؤں تو) میرے ساتھ چلیں اور (اگر میں ہمیشہ جاؤں کبھی پیچھے نہ بیٹھوں تو) ان کے دلوں کو اطمینان نہ ہو گا تو یہ میرے بعد پیچھے رہیں گے (کڑھتے رہیں گے کہ کاش ہم بھی جہاد میں شریک ہوتے ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں چاہتا ہوں کہ راہ خدا میں لڑوں پھر قتل کر دیا جاؤں پھر (زندہ ہو کر) لڑوں پھر قتل کر دیا جاؤں پھر لڑوں پھر شہید کر دیا جاؤں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو کریب، عبد اللہ بن موسی، شیبان، فراس، عطیہ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راہ خدا میں لڑنے والے کا اللہ ذمہ دار ہے یا تو اسے اپنی بخشش و رحمت کے ساتھ ملا لے گا اور یا اجر و غنیمت کے ساتھ واپس لوٹا دے گا۔ راہ خدا میں لڑنے والے کی مثال اس روزہ دار کی سی ہے جو قیام کرے اور سست نہ ہو یہاں تک کہ مجاہد واپس آئے۔

 

راہِ خدا میں ایک صبح اور ایک شام کی فضیلت

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن سعید، ابو خالد احمر، ابن عجلان، ابو حازم، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راہ خدا میں ایک صبح یا ایک شام بہتر ہے دنیا سے اور دنیا کے تمام سازو سامان سے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، زکریا بن منظور، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا راہ خدا میں ایک صبح یا ایک شام دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔

 

٭٭ نصر بن علی، محمد بن مثنی، عبد الوہاب، حمید، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا راہ خدا میں ایک صبح یا ایک شام دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

 

راہِ خدا میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، لیث بن سعد، یزید بن عبد اللہ بن ہاد، ولید بن ولید، عثمان بن عبد اللہ بن سراقہ، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو شخص راہ خدا میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرے یہاں تک کہ وہ روانہ ہو جائے تو اس سامان فراہم کرنے والے کو بھی مجاہد کے برابر اجر ملتا رہے گا یہاں تک کہ مجاہد اس دنیا سے چلا جائے یا واپس لوٹ آئے۔

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، عبدہ بن سلیمان، عطاء، حضرت زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے راہ خدا میں لڑنے والے کو سامان فراہم کیا تو  اس کو بھی غازی کے برابر اجر ملے گا غازی کے اجر میں کچھ بھی کمی کئے بغیر۔

 

راہ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت

 

عمران بن موسی، حماد بن زید، ایوب، ابو قلابہ، ابی اسماء، حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہترین اشرفی (مال) جسے مرد خرچ کرے وہ اشرفی ہے جو اپنے عیال پر خرچ کرے اور وہ اشرفی ہے جو راہ خدا کسی گھوڑے پر خرچ کرے اور وہ اشرفی ہے جو مرد راہ خدا میں لڑنے والے اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے۔

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، ابی فدیک، خلیل بن عبد اللہ ، حسن، حضرت علی بن ابی طالب ابو الدرداء ابو ہریرہ ابو امامہ باہلی عبد اللہ بن عمر عبد اللہ بن عمرو جابر بن عبد اللہ اور عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے راہ خدا میں خرچہ بھیجا اور خود اپنے گھر ٹھہرا رہا اسے ہر درہم کے بدلے سات سو درہم (کا ثواب) ملے گا اور جو راہ خدا میں لڑا اور اس راہ میں خرچ کیا  اس کو ہر درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کا ثواب ملے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اللہ دوچند فرماتا ہے جس کے لئے چاہے۔

 

جہاد چھوڑنے کی سخت وعید

 

ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، یحییٰ بن حارث، قاسم، حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے نہ لڑائی کی نہ سامان فراہم کیا نہ اللہ کی راہ میں لڑنے والے کے پیچھے اس کے گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تو اللہ سبحانہ روز قیامت سے قبل اس کو سخت مصیبت میں مبتلا فرمائیں گے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، ولید، ابو رافع، اسماعیل بن رافع، مولی ابی بکر، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اللہ سے ملے ایسی حالت میں اس پر راہ خدا کے زخم کا کوئی نشان نہ ہو تو وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ کہ اس میں کوتاہی ہو گی۔

 

جو (معقول) عذر کی وجہ سے جہاد نہ کر سکا

 

محمد بن مثنی، ابن ابی عدی، حمید، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تبوک کی لڑائی سے واپس ہوئے جب مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم جہاں بھی چلے اور جو وادی بھی تم نے طے کی وہ اس میں (ثواب کے اعتبار سے ) تمہارے ساتھ ہی تھے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! حالانکہ وہ مدینہ میں تھے؟ آپ نے فرمایا اگرچہ وہ مدینہ میں تھے ان کو مجبوری نے روک لیا۔

 

٭٭ احمد بن سنان، ابو معاویہ، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ مدینہ میں کچھ مرد ایسے ہیں کہ تم نے جو وادی بھی طے کی اور جو راستہ بھی چلے وہ تمہارے ساتھ اجر میں شریک رہے اس لئے کہ مجبوری نے انہیں روک لیا تھا۔

 

راہِ خدا میں مورچہ میں رہنے کی فضیلت

 

ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن زید بن اسلم، مصعب بن ثابت، عبد اللہ ، حضرت عثمان بن عفان نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا کہا اے لوگو! میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک حدیث سنی اور تمہیں بیان کرنے سے مجھے کوئی چیز مانع نہ ہوئی مگر تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر بخل (کہ یہ حدیث سننے کے بعد سب جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں گے اور میرے ساتھ کوئی نہ رہے گا) سو ہر شخص کو اختیار ہے کہ عمل کرے یا نہ کرے میں نے اللہ کے رسول کو یہ فرماتے سنا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں ایک شب مورچہ میں رہے اسے ہزاروں روزوں اور ہزار شب بیداریوں کا اجر ملے گا۔

 

٭٭ یونس بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن وہب، لیث ، زہرہ بن معبد، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو راہ خدا میں رباط کی حالت میں اس دنیا سے گیا جو بھی عمل وہ کرتا تھا اللہ تعالی اس کا اجر جاری فرما دیں گے (موت کی وجہ سے موقوف نہ ہو گا) اور اللہ تعالی اس کا رزق بھی (قبر اور جنت میں ) جاری فرما دیں گے اور وہ عذاب قبر کی آزمائشوں سے مامون رہے گا اور اللہ تعالی روز قیامت اسے ہر خوف و گھبراہٹ سے مطمئن اٹھائیں گے۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن سمرہ، محمد بن یعلی، عمر بن صبیح، عبد الرحمن بن عمرو، مکحول ، حضرت ابی کعب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمانوں کے ناکہ پر غیر رمضان میں راہ خدا میں ایک روزہ کار جو اللہ سے ثواب کی امید پر کیا جائے سو سال کی عیادت روزوں اور شب بیداری سے زیادہ اجر کا باعث ہے اور ماہ رمضان میں اللہ سے ثواب کی امید پر مسلمانوں کے ناکہ پر ایک روزہ راہ خدا کا رباط اللہ کے ہاں زیادہ فضیلت والا اور زیادہ اجر کا باعث ہے ہزار برس کی عبادت روزوں اور شب بیداری سے اگر اللہ تعالی ایسے شخص کو سلامتی سے گھر پہنچا دیں تو ہزار برس (بھی زندہ رہے ) اس کا گناہ نہ لکھا جائے گا اور اس کیلئے نیکیاں لکھی جائیں گی اور رباط کا ثواب  اس کو تا قیامت ملتا رہے گا۔

 

راہِ خدا میں چوکیدار اور اللہ اکبر کہنے کی فضیلت

 

محمد بن صباح، عبد العزیز بن محمد، صالح بن محمد بن زائدہ، عمر ابن عبد العزیز، حضرت عقبہ بن عامر بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی رحمت فرماتے ہیں لشکر کے چوکیدار پر۔

 

٭٭ عیسی بن یونس، محمد بن شعیب بن شابو ر، سعید بن خالد بن ابی طویل، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا راہ خدا میں ایک شب کی پہرہ داری مرد کے اپنے گھر میں سال بھر کے روزوں اور شب بیداری سے افضل ہے ایک سال تین سو ساٹھ یوم کا اور ایک یوم ہزار سال کے برابر۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسامہ بن زید، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرد سے فرمایا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرنے کی اور ہر اونچائی پر اللَّہُ أَکْبَرُ کہنے کی۔

 

جب لڑائی کا عام حکم ہو تو لڑنے کیلئے جانا

 

احمد بن عبدہ، حماد بن زید، ثابت ، ایک مرتبہ نبی کے تذکرہ میں حضرت انس بن مالک نے فرمایا آپ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت سخی اور بہادر تھے ایک شب مدینہ والے گھبرا گئے (کہ کہیں دشمن نہ آ گیا ہو) اور آواز کی جانب چلنے لگے تو انہیں اللہ کے رسول ملے۔ آپ ان سے پہلے ہی آواز کی طرف پہنچ چکے تھے اور آپ ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ آپ کی گردن میں شمشیر تھی اور فرما رہے تھے لوگو گھبراؤ مت آپ لوگوں کو گھروں کو واپس بھیج رہے تھے۔ پھر آپ نے اس گھوڑے کے بارے میں فرمایا ہم نے اسے سمندر (کی طرح رواں اور تیز رفتار) پایا۔ حماد کہتے ہیں کہ مجھے ثابت نے یا کسی اور نے بتایا کہ ابو طلحہ کا یہ گھوڑا پہلے بہت سست تھا اس کے بعد وہ کسی سے پیچھے نہ رہا۔

 

٭٭ احمد بن عبد الرحمن بن بکار بن عبد الملک بن ولید بن بسر بن ابی ارطاۃ، ولید، شیبان، اعمش، ابو صالح، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم سے جہاد میں نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو۔

 

٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، سفیان بن عیینہ، محمد بن عبد الرحمن، طلحہ، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا راہ خدا کا غبار اور دوزخ کا دھواں (کبھی بھی) مسلمان بندے کے پیٹ میں جمع نہیں ہو سکتا۔

 

٭٭ محمد بن سعید بن یزید بن ابراہیم، ابو عاصم، شبیب، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے راہ خدا میں ایک شام لگائی اسے روز قیامت اس غبار کے برابر جو اسے لگا کستوری ملے گا۔

 

بحری جنگ کی فضیلت

 

محمد بن رمح، لیث، یحییٰ بن سعید، ابن حبان، محمد بن حبان، انس بن مالک حضرت ام حرام بنت ملحان فرماتی ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری قریب ہی استراحت فرما ہوئے پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ فرمایا میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہوں گے بالکل ایسے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھتے ہیں (اس سے مجھے خوشی ہوئی)۔ ام حرام نے عرض کیا اللہ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل فرما دے۔ آپ نے ان کیلئے یہ دعا فرمائی پھر دوبارہ آنکھ لگ گئی پھر آپ نے ایسا ہی کیا اور ام حرام نے پہلی بات دہرائی اور آپ نے سابقہ جواب دیا تو عرض کرنے لگیں میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی اس لشکر میں شامل فرما دے۔ فرمایا تم پہلے لشکر میں ہو گی۔ انس فرماتے ہیں جب مسلمانوں نے پہلی بار امیر معاویہ کے ساتھ سمندری جنگ کیلئے سفر کیا تو ام حرام اپنے خاوند عبادہ کے ساتھ جہاد کیلئے نکلیں جب جنگ سے واپس ہوئے تو شام میں پڑاؤ ڈالا حضرت ام حرام کے قریب جانور کیا گیا کہ سوار ہوں تو اس جانور نے انہیں گرا دیا اور وہ انتقال کر گئیں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، بقیہ بن معاویہ بن یحییٰ، لیث بن ابی سلیم، یحییٰ بن عباد، ام درداء، حضرت ابو الدرداء نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دریا کی ایک جنگ خشکی کی دس جنگوں کے برابر ہے اور دریائی سفر میں جس کا سرچکرائے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں لت پت ہو۔

 

٭٭ عبید اللہ بن یوسف، قیس بن محمد، عفیر بن معدان، سلیم بن عامر، حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ایک بحری جنگ دس بری جنگوں کے برابر (باعث اجروثواب) ہے اور سمندری سفر میں جس کا سرچکرائے وہ اس شخص کا مانند ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں خون میں لت پت ہو۔ نیز فرمایا بحری شہید دو بری شہیدوں کے برابر ہے اور سمندری سفر میں جس کا جی متلائے وہ خشکی میں خون میں لت پت ہونے والے کی مانند ہے اور ایک موج سے دوسری موج تک جانے والا ایسا ہے جیسے طاعت خدا میں تمام دنیا قطع کرنے والا اور اللہ نے ملک الموت کے ذمہ لگایا ہے کہ تمام ارواح قبض کرے سوائے بحری شہیدوں کے کہ ان کی ارواح قبض کرنے کے انتظام اللہ خود فرماتے ہیں اور بری شہید کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں سوائے قرض کے اور بحری شہید کے گناہ اور قرض سب بخش دئیے جاتے ہیں۔

 

دیلم کا تذکرہ اور قزوین کی فضیلت

 

محمد بن یحییٰ، ابو داؤد، ح، محمد بن عبد الملک، یزید بن ہارون، ح، علی بن منذر، اسحاق بن منصور، قیس، ابی حصین، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ نے بیان فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرمایا اگر دنیا کا صرف ایک دن باقی رہ جائے تو اللہ (عزوجل) اسے طویل فرما دیں۔ یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک مرد دیلم و قسطنطنیہ کا مالک ہو جائے۔

 

٭٭ اسماعیل بن اسد، داؤد بن محبر، ربیع بن صبیح، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عنقریب تم ایک شہر فتح کرو گے جس کو قزوین کہا جاتا ہو گا جو اس میں چالیس شب رباط کرے اسے جنت میں سونے کا ایک ستون ملے گا اس پر سبز زبر جدا لگا ہو گا اس پر سرخ یا قوت کا ایک قبہ ہو گا جس کے ستر ہزار سونے کے چوکھٹ ہیں۔ ہر چوکھٹ پر ایک بیوی ہے حور عین (موٹی آنکھوں والی)۔

 

مرد کا جہاد کرنا حالانکہ اس کے والدین زندہ ہوں

 

ابو یوسف، محمد بن احمد، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، محمد بن طلحہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر، حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کے ساتھ جہاد میں جانے کا ارادہ کیا ہے اور میں اس جہاد میں رضاء خداوندی اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ فرمایا افسوس تیری والدہ زندہ ہیں۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا واپس جا کر ان کی خدمت کرو۔ میں دوسری طرف سے پھر حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے ساتھ جہاد میں رضا خداوندی اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تیری والدہ زندہ ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسول۔ فرمایا ان کے پاس واپس جا کر ان کی خدمت کرو پھر میں آپ کے سامنے سے حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں جہاد کا ارادہ کیا ہے اور اس سے میں رضا خداوندی کا اور دار آخرت کا طالب ہوں۔ فرمایا تجھ پر افسوس ہے کیا تیری والدہ زندہ ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! اے اللہ کے رسول۔ فرمایا تجھ پر افسوس ہے والدہ کے قدموں میں جمے رہو وہیں جنت ہے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔ امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ یہ جاہمہ بن عباس ہیں جنہوں نے جنگ حنین کے دن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خفگی کا اظہار کیا تھا۔

 

٭٭ ابو کریب، محمد بن علاء، عطاء بن سائب، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ ایک مرد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! میں آپ کی معیت میں جہاد کے ارادہ سے آیا ہوں۔ میرا مقصود رضا الہی اور دار آخرت ہے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو رہا تھا تو میرے والدین رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان کے پاس واپس چلے جاؤ اور انہیں اسی طرح خوش کرو جیسے تم نے ان کو رلایا۔

 

قتال کی نیت

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت ابو موسی فرماتے ہیں کہ نبی سے دریافت کیا گیا کہ مرد بہادری کے جوہر دکھانے کی نیت سے قتال کرے اور کوئی خاندانی حمیت کی وجہ سے قتال کرے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے قتال کرے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اس لئے قتل کرے کہ بس اللہ ہی کا کلمہ بلند ہو تو یہی اللہ کی راہ میں ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسین بن محمد، جریر بن حازم بن اسحاق ، داؤد بن حصین، عبد الرحمن بن ابی عقبہ، حضرت ابو عقبہ جو اہل فارس کے آزاد کردہ غلام تھے فرماتے ہیں کہ میں جنگ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک ہوا تو میں نے ایک مشرک مرد کو مار کر کہا یہ لے میری طرف سے اور میں فارسی لڑکا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ میری طرف سے لو اور میں انصاری لڑکا ہوں۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، عبد اللہ بن یزید، حیوۃ، ابو ہانی، ابو عبد الرحمن، سمع، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو لڑائی کرنے والی جماعت راہ خدا میں لڑے اور اسے غنیمت حاصل ہو جائے تو اسے دو تہائی اجر جلد مل گیا اور اگر اسے غنیمت حاصل نہ ہو تو ان کا اجر (آخرت میں ) پورا ہو گا۔

 

راہِ خدا میں (قتال کیلئے ) گھوڑے پالنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو احوص، شبیب بن غرقدہ، حضرت عروہ بارقی بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بھلائی قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں باندھ دی گئی ہے۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، عبد اللہ بن عمر، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رہے گی۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہیل ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر بندھی رہے گی۔ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک جو مرد کیلئے باعث اجر ہے اور دوسرا جو معاف ہے (نہ اجر کا باعث نہ وبال کا) اور تیسرا جو مرد پر وبال اور گناہ ہے۔ باعث اجر وہ گھوڑا ہے جسے مرد راہ خدا کیلئے پالے اور اسی کیلئے تیار رکھے۔ اس قسم کے گھوڑوں کے پیٹوں میں جو چیز بھی جائے گی اس شخص کیلئے اجر و ثواب لکھا جائے گا اور اگر وہ انہیں گھاس والی زمین میں چرانے جائے گا تو جو بھی وہ کھائیں اس کے بدلہ اس شخص کیلئے اجر لکھا جائے اور اگر وہ انہیں بہتی نہر سے پانی پلائے تو ہر قطرہ جو ان کے پیٹوں میں جائے اس کے بدلہ اس شخص کو اجر ملے گا حتی کہ آپ نے ان کے پیشاب اور ولید میں بھی اجر کا ذکر فرمایا اور اگر یہ گھوڑے ایک دو میل میں دوڑیں تو راہ میں جو قدم یہ اٹھائیں اس کے بدلہ اس شخص کیلئے اجر لکھا جائے گا اور جو گھوڑے مباح ہیں (نہ باعث اجر و ثواب ہیں نہ باعث وبال) وہ گھوڑے ہیں جنہیں مرد عزت اور زینت کی غرض سے پالے اور ان کی پشت اور پیٹ کا حق تنگی اور آسانی میں نہ بھولے اور باعث عذاب و وبال وہ گھوڑے ہیں جو تکبر اور غرور اور فخر و نمائش کیلئے پالے تو یہی گھوڑے آدمی کیلئے باعث وبال ہیں۔

 

٭٭ محمد بن بشار، وہب بن جریر، یحییٰ بن ایوب، زید بن ابی حبیب، علی بن رباح، حضرت ابو قتادہ انصاری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہترین گھوڑے وہ ہیں جو مشکی سفید پیشانی سفید ہاتھ پاؤں اور سفید ہینی  و لب ہوں اور جن کا دایاں ہاتھ باقی بدن کی مانند ہو اور اگر مشکی نہ ہوں تو اسی شکل و  صورت کے کمیت گھوڑے اچھے ہوں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، سلم بن عبد الرحمن، ابی زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شکال گھوڑوں کو ناپسند خیال کرتے تھے۔

 

٭٭ ابو عمیر، عیسیٰ بن محمد، احمد بن یزید، ابن روح، محمد بن عقبہ، حضرت تمیم داری فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو راہ خدا کیلئے گھوڑا پالے پھر خود اس کے گھاس دانہ کا انتظام کرے تو اسے ہر دانہ کے بدلہ ایک نیکی ملے گی۔

 

اللہ سبحانہ و تعالی کی راہ میں قتال کرنا

 

بشر بن آدم، ضحاک بن مخلد، ابن جریج، سلیمان بن موسی، مالک بن یخامر، حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو مرد مسلم اونٹنی کے دودھ اترنے کے وقفہ کے برابر بھی راہ خدا میں قتال کرے اس کیلئے جنت واجب ہو گئی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، دیلم بن غزوان، ثابت، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک جنگ میں شریک ہوا عبد اللہ بن رواحہ کہہ رہے تھے اے میرے نفس ! کیا میں نے تجھے نہیں دیکھا کہ تو جنت میں جانا پسند نہیں کر رہا؟ میں قسم کھاتا ہوں کہ تجھے جنگ میں اترنا پڑے گا خوشی سے اترے یا ناخوشی سے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یعلی بن عبید، حجاج بن دینار، محمد بن ذکوان، شہر بن حوشب، حضرت عمرو بن عبسہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول کون سا جہاد زیادہ فضیلت کا باعث ہے؟ فرمایا جس میں آدمی کا خون بہے اور گھوڑا زخمی ہو۔

 

٭٭ بشر بن آدم، احمد بن ثابت، صفوان بن عیسی، محمد بن عجلان، قعقاع بن حکیم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو زخمی بھی راہ خدا میں زخم کھائے اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ کون ان کی راہ میں زخمی ہوا وہ روز قیامت پیش ہو گا اور اس کا زخم اسی دن کی طرح ہو گا جس دن زخم لگا رنگ تو خون کا ہو گا اور خوشبو کستوری کی ہو گی۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یعلی بن عبید، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کفار کے گروہوں کیلئے بد دعا فرمائی۔ فرمایا اے اللہ کتاب نازل فرمانے والے جلد حساب لینے والے کفار کے گروہوں کو شکست سے دوچار فرما۔ اے اللہ ! ان کو ہزیمت وشکست دے اور انہیں بلا کر رکھ دے۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، احمد بن عیسی، مصریان، عبد اللہ بن وہب، ابو شریح، سہل بن ابی امامہ، حضرت سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو اللہ تعالی سے سچے دل سے شہادت طلب کرے اللہ تعالی اسے شہداء کے مرتبہ پر فائز فرمائیں گے اگرچہ اس کی موت اپنے بستر پر واقع ہو۔ (یعینی چاہے طبعی موت ہی مرے )۔

 

اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن ابی عدی، ابن عون، ہلال بن ابی زینب، شہر بن حوشب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے شہداء کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا شہیدوں کے خون سے زمین ابھی سوکھتی بھی نہیں کہ اس کی دو بیویاں جلدی سے اس کے پاس آتی ہیں گویا وہ دائیاں ہیں جن کا شیر خوار بچہ گم ہو گیا ہو کسی ویرانہ میں (اتنی شفقت اور محبت سے پیش آتی ہیں ) ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک جوڑا ہوتا ہے جو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ابن سعید، خالد بن معدان، حضرت مقدام بن معدیکرب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شہید کو اللہ کے ہاں چھ فضیلتیں ملتی ہیں اس کا خون نکلتے ہی اس کی بخشش کر دی جاتی ہے۔ اسے جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے۔ وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جائے گا بڑی آنکھوں والی گوری حور سے اس کا نکاح کر دیا جائے گا اور اس کے رشتہ داروں میں سے ستر افراد کے بارے میں اس کی سفارش قبول ہو گی۔

 

٭٭ ابراہیم ، موسیٰ بن ابراہیم، طلحہ بن حراش، جابر بن عبد اللہ، عبد اللہ بن عمرو بن حرام، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے روز جب عبد اللہ بن عمرو بن حرام شہید ہوئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے جابر میں تجھے نہ بتاؤں کہ اللہ عزوجل نے تمہارے والد سے کیا کہا؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیے۔ فرمایا اللہ نے کسی سے بھی بغیر حجاب کے گفتگو نہیں فرمائی اور تمہارے والد سے بغیر حجاب کے گفتگو فرمائی۔ فرمایا اے میرے بندے میرے سامنے اپنی تمناؤں کا اظہار کر میں تجھے عطا کروں گا تو تمہارے والد نے عرض کیا اے میرے اللہ ! مجھے زندہ کر دیجئے تاکہ میں دوبارہ آپ کی خاطر شہید ہو جاؤں۔ اللہ تعالی نے فرمایا میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ یہاں آنے کے بعد کوئی واپس دنیا میں نہ جائے گا تو تمہارے والد نے عرض کیا اے میرے رب جو لوگ دنیا میں میرے پیچھے رہ گئے ان کو میری حالت پہنچا دیجئے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی جو لوگ راہ خدا میں شہید کر دئیے جائیں ان کو ہرگز مردہ مت سمجھنا۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، عبد اللہ بن مرہ، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود ارشاد خداوندی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا   بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ) 3۔ آل عمران:169) جو لوگ راہ خدا میں شہید کر دئیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال مت کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں غور سے سنو ہم نے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی مانند جنت میں جہاں چاہتی ہیں چرتی پھرتی ہیں پھر رات کو عرش سے متعلق قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار وہ اسی حالت میں تھیں کہ اللہ رب العزت ان کی طرف خوب متوجہ ہوئے اور فرمایا مجھ سے جو چاہو مانگ لو ان روحوں نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ سے کیا مانگیں حالانکہ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چرتی پھرتی ہیں۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ کچھ مانگے بغیر انہیں چھوڑا نہ جائے گا (اور مانگے بغیر کوئی چارہ نہیں ) تو عرض کیا ہم آپ سے یہ سوال کرتی ہیں کہ ہم (روحوں کو) ہمارے جسموں میں داخل کر کے دوبارہ دنیا بھیج دیں تاکہ پھر آپ کی راہ میں لذت شہادت سے متمتع ہوں جب اللہ نے دیکھا کہ ان کی صرف یہی خواہش ہے (جو قانون خداوندی کے لحاظ سے پوری نہیں کی جا سکتی) تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔

 

٭٭ محمد بن بشار، احمد بن ابراہیم، بشر بن آدم، صفوان بن عیسی، محمد بن عجلان، قعقاع بن حکیم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شہید کو بوقت شہادت اتنی خفیف (ہلکی) سی تکلیف ہوتی ہے جتنی تمہیں چیونٹی کے کاٹنے سے۔

 

درجات شہادت کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابی عمیس، عبد اللہ بن عبد اللہ بن ، حضرت جابر بن عتیک سے روایت ہے کہ وہ بیمار ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیادت کیلئے تشریف لائے تو گھر والوں میں سے کسی نے عرض کیا ہمیں یہ امید تھی کہ یہ راہ خدا میں شہادت حاصل کر کے اس دنیا سے جائیں گے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر راہ خدا میں کٹ مرنا ہی شہادت ہو تو میری امت میں شہید بہت کم رہ جائیں گے۔ راہ خدا میں کٹ مرنا (اعلی درجہ کی) شہادت ہے طاعون سے مرنے والا بھی شہید ہے حمل کے زچگی میں مرنے والی عورت بھی شہید ہے پانی میں ڈوب کر مر جانا جل جانا اور ذَاتَ الْجَنْبِ (پسلی کے ورم) میں مر جانا بھی شہادت ہے۔

 

٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہیل ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم آپس میں شہید کسے سمجھتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا راہ خدا میں کٹ مرنے (والے ) کو فرمایا تب تو میری امت میں شہداء بہت کم رہ جائیں گے جو راہ خدا میں کٹ مرے وہ (اعلی درجہ کا) شہید ہے اور جو راہ خدا میں طبعی موت مر جائے وہ بھی شہید ہے اور جو پیٹ کے عارضہ (اسہال ورم جگر وغیرہ) میں مر جائے وہ بھی شہید ہے اور جو طاعون میں مرے وہ بھی شہید ہے دوسری سند میں یہ اضافہ ہے کہ پانی میں ڈوب کر مر جانا بھی شہادت ہے۔

 

ہتھیار باندھنا

 

ہشام بن عمار، سوید بن سعید، مالک بن انس، زہری، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر خود تھا۔

 

٭٭ ہشام بن سوار، سفیان بن عیینہ، یزید بن خصیفہ، حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ احد کے دن دو زرہیں اوپر تلے پہنیں۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، سلیمان بن حبیب، ابو امامہ ، حضرت سلیمان بن حبیب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو امامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے ہماری تلواروں پر چاندی کا کچھ زیور دیکھا تو ناراض ہوئے اور فرمایا تم سے پہلوں نے بہت سی فتوحات کیں ان کی تلواروں میں سونے یا چاندی کا زیور نہ تھا البتہ سیسہ لوہے اور علابی یعنی اونٹ کے پٹھے یا چمڑے کا زیور ہوتا تھا۔

 

٭٭ ابو کریب، ابن صلت، ابی زناد، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ذوالفقار نامی تلوار جنگ بدر کے دن بطور انعام عطا فرمائی (حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو)۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن سمرہ، وکیع، سفیان، ابو  اسحاق ، ابی خلیل، علی بن ابی طالب ، حضرت علی سے روایت ہے کہ مغیرہ بن شعبہ جب نبی کی معیت میں جنگ کرتے تو اپنے ساتھ نیزہ لے جاتے جب واپس آتے وہ نیزہ پھینک دیتے تاکہ کوئی ان کیلئے اٹھا لائے (کہ شاید گر گیا ہو اس لئے مالک تک پہنچا دوں ) اس پر علی نے ان سے کہا کہ میں یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ضرور ذکر کروں گا تو کہنے لگے ایسا نہ کرنا اس لئے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو کوئی گمشدہ چیز (مالک کو پہنچانے کیلئے ) نہیں اٹھائی جائے گی۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، ابن سمرہ، عبید اللہ بن موسی، اشعث بن سعید، عبد اللہ بن بشیر، ابی راشد، حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک میں عربی کمان تھی۔ آپ نے دیکھا کہ ایک مرد کے ہاتھ میں فارسی کمان ہے تو فرمایا یہ کیا ہے؟ اسے پھینک دو اور تم اس (عربی کمان) کو اور اس جیسی کمانوں کو ہی استعمال کیا کرو اور نیزوں کو اس لئے کہ انہی کے ذریعہ اللہ تمہارے دین میں اضافہ فرمائے گا اور تمہیں (انہی کے ذریعہ) شہروں میں عزت عطا فرمائے گا۔

 

راہ خدا میں تیر اندازی

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہشام، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی شیبہ، ابی کثیر، ابی سلام، عبد اللہ بن ارزق، حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی ایک تیر کی بدولت تین شخصوں کو جنت میں داخلہ عطا فرماتے ہیں ایک تیر بنانے والا جو نیک نیتی اور ثواب کی امید سے تیر بنائے اور دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا تیر انداز کی مد د کرنے والا (اسے اٹھا کر دینے والا) اور اللہ کے رسول نے فرمایا تیر اندازی کرو اور سوار ہو کر نیزہ بازی کرو اور تمہاری تیر اندازی کرنا مجھے زیادہ پسند ہے تمہاری نیزہ بازی سے سوار ہو کر اور مرد مسلم کا ہر کھیل باطل اور فضول ہے سوائے اس کے کہ وہ تیر و کمان سے کھیلے (اس دور میں اس کا متبادل جدید ہتھیار مثلاً بندوق پستول کلاشنکوف اور ٹینک توپ وغیرہ) اور اپنے گھوڑے کو سکھائے (اس پر سواری کرے نیزہ بازی کرے یہ دونوں کھیل جہاد و قتال میں ممد و معاون ہیں ) اور یہ کہ مرد اپنی اہلیہ سے کھیلے یہ تینوں کھیل حق اور درست ہیں۔

 

٭٭ یونس بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، سلیمان بن عبد الرحمن، قاسم بن عبد الرحمن، حضرت عمرو بن عبسہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اشارہ فرماتے ہوئے سنا جو دشمن کو تیر مارے اور اس کا تیر دشمن تک پہنچے پھر دشمن کو لگے یا نہ لگے اس مارنے والے کو ایک غلام آزاد کرنے کے برابر اجر ملتا ہے۔

 

٭٭ یونس بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابی علی، حضرت عقبہ بن عامر جہنی فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا (وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ) غور سے سنو قوت سے مراد تیر اندازی (پھینکنا) ہے تین بار یہی فرمایا۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، عثمان بن نعیم، مغیرہ بن نہیک، حضرت عقبہ بن عامر جہنی بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا جس نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اسے (بغیر کسی عذر کے ) ترک کر دیا اس نے میری نافرمانی کی۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق ، سفیان، اعمش، زیاد بن حصین، ابی عالیہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جماعت کے قریب سے گزرے جو تیر اندازی کر رہی تھی تو آپ نے فرمایا اے اولاد اسماعیل خوب تیر اندازی کرو تمہارے جد امجد (اسماعیل) بھی تیر انداز تھے۔

 

علموں اور جھنڈوں کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو بکر بن عیاش، عاصم، حضرت حارث بن حسان فرماتے ہیں کہ میں مدینہ حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر کھڑے ہیں اور سیدنا بلال آپ کے سامنے تلوار گردن میں لٹکائے کھڑے ہوئے اور ایک سیاہ جھنڈا بھی دیکھا تو میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو صحابہ نے بتایا کہ عمرو بن عاص ہیں جو جنگ سے واپس ہوئے ہیں۔

 

٭٭ حسن بن علی، عبدہ بن عبد اللہ، یحییٰ بن آدم، شریک، عمار، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے روز جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں داخل ہوئے اس وقت آپ کا جھنڈا سفید تھا۔

 

٭٭ عبد اللہ بن اسحاق، ناقد، یحییٰ بن اسحاق ، یزید بن حیان، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بڑا جھنڈا سیاہ اور چھوٹا جھنڈا سفید ہوتا تھا۔

 

جنگ میں دیباج و حریر (ریشمی لباس) پہننا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، حجاج، ابی عمر، حضرت اسماء بنت ابی بکر ریشمی گھنڈیوں والا ایک جبہ نکالا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب دشمن سے مقابلہ فرماتے تو یہ جبہ زیب تن فرماتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، عاصم، ابو عثمان ، حضرت عمر ریشم سے منع فرماتے تھے مگر چار انگلی کی بقدر کنارے میں لگا ہو تو اس سے ممانعت نہیں فرماتے تھے اور آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں ریشم سے روکا کرتے تھے۔

 

جنگ میں عمامہ پہننا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، مساور، جعفر بن حضرت عمر بن حریث فرماتے ہیں گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر پر سیاہ عمامہ ہے اور اس کے دونوں کناروں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مونڈھوں کے درمیان لٹکائے ہوئے ہیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، حماد بن سلمہ، ابو زبیر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (فتح کے موقع پر) جب مکہ داخل ہوئے تو آپ کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔

 

جنگ میں خرید و فروخت

 

عبید اللہ بن عبد الکریم، سنید بن داؤد، خالد بن حیان، علی بن عروہ، یونس بن یزید، ابو زناد، حضرت خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرد میرے والد سے پوچھ رہا ہے کہ ایک مرد جنگ بھی کرتا ہے اور خرید و فروخت بھی اور جنگوں میں تجارت بھی کرتا ہے تو میرے والد نے اس سے کہا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تبوک میں تھے ہم خرید و فروخت کرتے رہے آپ ہمیں دیکھتے رہے اور آپ نے ہمیں منع نہ فرمایا۔

 

غازیوں کو الوداع کہنا اور رخصت کرنا

 

جعفر بن مسافر، ابو داؤد، ابو اسود، ابن لہیعہ، زبان بن فائد، سہل بن معاذ بن انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں راہ خدا میں لڑنے والے کو رخصت کروں اسے اس کی زین پر سوار کراؤں صبح یا شام یہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، ابن لہیعہ، حسن بن ثوبان، موسیٰ بن ورادان ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے رخصت کرتے وقت یہ کلمات فرمائے میں تجھے اللہ کی امان میں دیتا ہوں جس کی امانتیں ضائع نہیں ہوتیں۔

 

٭٭ عباد بن ولید، حبان بن ہلال، ابن محصن، ابن ابی لیلی، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب لشکروں کو رخصت کرتے تو جانے والے سے فرماتے میں تیرا دین امانت اور اعمال کا خاتمہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

 

سرایا

 

ہشام بن عمار، عبد الملک، محمد، ابو  سلمہ، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اکثم بن جون خزاعی سے فرمایا اے اکثم اپنی قوم کے علاوہ کسی اور قوم کے ساتھ مل کر جنگ کر تیرے اخلاق سنور جائیں گے اور تو اپنے رفقاء پر مہربان ہو جائے گا۔ اے اکثم ! بہترین رفقاء چار ہیں بہترین سریہ چار سو افراد ہیں اور بہترین لشکر چار ہزار افراد ہیں اور بارہ ہزار مجاہد تعداد کی کمی وجہ سے ہرگز مغلوب نہ ہوں گے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، سفیان، ابو  اسحاق ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ہم میں یہ بات ہوتی تھی کہ جنگ بدر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کی تعداد تین سو دس سے کچھ زائد تھی جتنی طالوت کے ان ساتھیوں کی تعداد تھی جو نہر سے گزر گئے اور طالوت کے ساتھ صرف اہل ایمان ہی گزرے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، ابن لہیعہ، یزید بن ابی حبیب، لہیعہ بن عقبہ، ابو ورد بیان فرماتے ہیں کہ ایسے سریہ سے بچو کہ اگر دشمن سے سامنا ہو تو راہ فرار اختیار کرے اور اگر غنیمت ہاتھ لگے تو چوری اور خیانت کرے۔

 

مشرکوں کی دیگوں میں کھانا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، سماک بن حرب، قبیصہ بن ہلب، حضرت ہلب فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نصاری ٰکے کھانے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا تیرے دل میں کوئی خلجان پیدا نہ کرے تو اس میں نصرانیوں کی مشابہت اختیار کرنے لگا؟

 

٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، ابو فروہ، یزید بن سنان، عروہ بن رویم، ابی ثعلبہ، فرماتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت حاضر ہوا اور میں نے آپ سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول مشرکین کی دیگوں میں ہم کھانا تیار کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا مشرکین کی دیگوں میں کھانا مت تیار کیا کرو میں نے عرض کیا اگر ہمیں ضرورت ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو؟ فرمایا انہیں اچھی طرح مانجھ لو پھر کھانا تیار کرو اور کھالو۔

 

شرک کرنے والوں سے جنگ میں مد د لینا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، مالک بن انس، عبد اللہ بن یزید، دینار، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم کسی مشرک سے مد د نہیں لیتے۔

 

لڑائی میں دشمن کو مغالطہ میں ڈالنا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق ، یزید بن رومان، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لڑائی تو مکر و فریب ہے۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یونس بن بکیر، مطر بن میمون، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنگ تو دھوکہ اور فریب ہے۔

 

لڑائی میں مقابلہ کیلئے دعوت دینا اور سامان کا بیان

 

یحییٰ بن حکیم، حفص بن عمر، عبد الرحمن بن مہدی، ح، محمد بن اسماعیل، وکیع، سفیان، ابی ہاشم، ابو عبد اللہ، یحییٰ بن اسود، قیس بن عباد، حضرت ابو ذر قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ آیت مبارکہ (ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ ۡ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ) 22۔ الحج:19) سے تک ان چھ افراد کے بارے میں نازل ہوئی جو جنگ بدر کے دن لڑے۔ سیدنا حمزہ بن عبد المطلب سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا عبیدہ بن حارث بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہم اہل اسلام کی طرف سے ) اور عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ (کفار کی طرف سے )۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو عمیس، عکرمہ بن عمار، حضرت سلمہ بن اکوع بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرد کو دعوت مقابلہ دی پھر اس کو قتل بھی کر دیا اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اس کا سامان بطور انعام عطا فرمایا۔

 

٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید، عمرو بن کثیر، ابن افلح، ابو محمد، حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ حنین کے روز انہیں ایک مقتول کا سامان بطور انعام دیا جس کو انہوں نے ہی مردار کیا تھا۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، ابو مالک، نعیم بن ابی ہند، ابن سمرہ، حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کسی کو قتل کرے اس مقتول کا سامان قتل کرنے والے کو ملے گا۔

 

رات کو حملہ کرنا (شب خون مارنا) اور عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا حکم

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اہل الدار کے مشرکین پر شب خون مارنے کے متعلق پوچھا گیا کہ اس میں تو عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں گے فرمایا یہ عورتیں اور بچے بھی مشرکین ہی کے ہیں (یعنی ایسی صورت میں ان کو قتل کرنا جائز ہے کیونکہ قصدا نہیں )۔

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، وکیع، عکرمہ بن عمار، ایاس بن سلمہ بن اکوع ، حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ہم نے حضرت ابو بکر صدیق کی معیت میں جنگ کی ہم بنوفزارہ کے ایک کنوئیں پر پہنچے ہم نے رات وہیں پڑاؤ ڈالا صبح کے قریب ہم نے ان پر شب خون مارا تو ہم نے ایک کنویں والوں پر بھی راتوں رات حملہ کر کے نو یا سات گھرانوں کو قتل کیا۔

 

٭٭ یحییٰ بن حکیم عثمان بن عمر، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک راستہ میں قتل کی ہوئی عورت دیکھی تو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان ، ابی زناد، مرفع بن عبد اللہ بن صیفی، حضرت حنظلہ کاتب فرماتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں جنگ کی ہمارا گزر ایک عورت سے ہوا جو قتل کی گئی تھی لوگ اس کے گرد جمع تھے (آپ پہنچے تو) لوگوں نے آپ کیلئے جگہ کھول دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ لڑنے والوں کے ساتھ شریک ہو کر لڑائی تو نہیں کرتی تھی پھر ایک مرد سے فرمایا خالد بن ولید کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ بچوں عورتوں اور مزدوروں کو ہرگز قتل مت کرو۔

 

دشمن کے علاقہ میں آگ لگانا

 

محمد بن اسماعیل بن سمرہ، وکیع، صالح بن ابی الاخضر، زہری، عروہ بن زبیر، اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ابنی نامی بستی کی طرف بھیجا اور فرمایا صبح سویرے ابنی جا کر آگ لگا دو۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنو نضیر کے کھجور کے درخت کاٹے اور جلائے بویرہ (نامی باغ) میں اسی بارے میں اللہ عزوجل نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی (مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً )

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، عقبہ بن خالد، عبید اللہ ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنو نضیر کے کھجور کے باغوں کو آگ لگوائی اور درخت کاٹے اور اسی بارے میں مسلمانوں کو شاعر (حضرت حسان بن ثابت) نے یہ شعر کہا سو آسان ہو گیا بنولوی (قریش) کے سرداروں کیلئے بویرہ میں آگ لگانا جو آگ وہاں اڑ رہی ہے۔

 

قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑانا

 

علی بن محمد، محمد بن اسماعیل، وکیع، عکرمہ بن عمار، ایاس بن سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ہم نے ابو بکر کی معیت میں ہوازن سے جنگ کی۔ ابو بکر نے مجھے بطور انعام بنوفزارہ کی ایک لڑکی دی جو عرب کی حسین وجمیل لڑکی تھی اس نے پوستین پہن رکھی تھی میں نے اس کا کپڑا بھی نہ کھولا تھا کہ مدینہ پہنچا تو نبی مجھے بازار میں ملے فرمایا تیرا باپ بزرگ تھا (کہ تجھ سی کریم اولاد ملی) یہ لڑکی مجھے دیدے۔ میں نے وہ لڑکی آپ کو ہبہ کر دی۔ آپ نے اسے بھیج دیا اور اس کے بدلہ بہت سے مسلمان جو مکہ میں قید تھے چھڑوا لئے۔

 

جو مال دشمن اپنے علاقہ میں محفوظ کر لے پھر مسلمان کو دشمن پر غلبہ حاصل ہو جائے

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ ان کا ایک گھوڑا بدک گیا دشمن نے اسے پکڑ لیا پھر مسلمانوں کو دشمنوں پر غلبہ ہوا تو وہ گھوڑا ان کو (ابن عمر) کو واپس دے دیا گیا اور یہ سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ میں ہوا۔ فرماتے ہیں کہ ان کا ایک غلام بھاگ کر روم چلا گیا پھر جب مسلمان کو رومیوں پر غلبہ حاصل ہوا تو خالد بن ولید نے وہ غلام ان کو واپس دے دیا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہوا۔

 

مالِ غنیمت میں خیانت

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، محمد بن یحییٰ ابن حبان، ابن ابی عمرہ، زید بن خالد فرماتے ہیں کہ ایک اشجعی مردخیبر میں انتقال کر گیا تو نبی نے فرمایا اپنے ساتھی کا جنازہ خودہی پڑھ لو (پریشانی کی وجہ سے کہ کہیں ہمارے متعلق بھی آپ یہ نہ فرمادیں آپ نے ان کی پریشانی دور کرنے کیلئے اصل وجہ بتائی) فرمایا تمہارے اس ساتھی نے راہ خدا میں مال غنیمت میں خیانت کی۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، سالم بن ابی جعد، عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسباب کا نگہبان کر کرہ نامی ایک مرد تھا جب وہ فوت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ دوزخی ہے تو صحابہ دیکھنے لگے (کہ اس نے کیا جرم کیا) انہیں اس پر ایک عبا یا چادر دیکھی جو اس نے مال غنیمت میں سے چرائی تھی۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، ابی سنان، عیسیٰ بن سنان، یعلی بن شداد، عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ جنگ حنین کے روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں غنیمت کے ایک اونٹ کے پاس نماز پڑھائی پھر اس اونٹ میں سے کچھ لیا وہ ایک بال تھا۔ آپ نے اسے اپنی دو انگلیوں کے درمیان رکھا۔ پھر فرمایا اے لوگو! یہ تمہارے غنائم کا حصہ ہے ایک دھاگہ اور سوئی اور اس سے زیادہ یا اس سے کم جو کچھ بھی ہو جمع کرواؤ اس لئے کہ مال غنیمت میں چوری چور کیلئے روز قیامت عار رسوائی اور عذاب کا باعث ہو گی۔

 

انعام دینا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، زید بن جابر، مکحول، زید بن جاریہ، حبیب بن مسلمہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خمس کے بعد تہائی میں سے انعام بھی دیا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد الرحمن بن حارث، سلیمان بن موسی، مکحول، ابی سلام، اعرج، ابو امامہ، عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابتداء میں جاتے وقت چوتھائی (حصہ) میں سے انعام کا وعدہ فرمایا اور واپسی میں تہائی میں سے انعام کا وعدہ فرمایا۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو حسین، رجاء بن ابی سلمہ، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کوئی انعام نہیں مسلمانوں کے طاقتور کمزوروں کو واپس کریں گے (یعنی مال غنیمت میں سب برابر شریک ہوں گے ) رجاء کہتے ہیں کہ میں نے سلیمان بن مکحول کو یہ فرماتے سنا کہ مجھے مکحول نے حبیب بن مسلمہ سے روایت کر کے یہ حدیث سنائی کہ شروع جنگ میں جاتے چوتھائی غنیمت اور واپسی میں (جنگ کی ضرورت ہوئی تو) تہائی غنیمت انعام دینے کا وعدہ فرمایا تو عمرو نے کہا کہ میں تمہیں اپنے باپ دادا سے روایت کر کے سنا رہا ہوں اور تم مجھے مکحول سے روایت کر کے سنا رہے ہو۔

 

مال غنیمت کی تقسیم

 

علی بن محمد، ابو معاویہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے دن گھڑ سوار کو تین حصے اور پیادہ کو ایک حصہ دیا۔

 

غلام اور عورتیں جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں

 

علی بن محمد، وکیع، ہشام بن سعد، محمد بن زید بن مہاجر بن قنقذ حضرت ابی للحم (جو گوشت نہیں کھاتے تھے ) کے غلام عمیر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آقا کے ساتھ جنگ خیبر میں شرکت کی اس وقت میں غلام تھا اس لئے مجھے غنیمت میں مستقبل حصہ نہ ملا البتہ گرے پڑے سامان میں سے مجھے ایک تلوار ملی تھی جب میں تلوار باندھتا تو وہ زمین پہ گھسٹتی تھی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی ، عبد الرحیم، ابن سلیمان، ہشام، حفصہ بنت سیرین، ام عطیہ، بیان فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سات لڑائیوں میں شرکت کی۔ میں ان کے خیموں میں ان کے پیچھے رہتی ان کے لئے کھانا تیار کرتی زخمیوں کا علاج کرتی اور بیماریوں کا خیال رکھتی۔

 

حاکم کی طرف سے وصیت

 

حسن بن علی، ابو اسامہ، عطیہ بن حارث، ابو عریف، عبید اللہ بن خلیفہ، صفوان بن عسال بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا تو ارشاد فرمایا اللہ کا نام لے کر چلو اور راہ الہی میں لڑو ان لوگوں سے جو اللہ کے منکر ہیں اور مثلہ مت بناؤ (دشمن کی صورت مت بگاڑو) بد عہدی نہ کرو اور بچوں کو قتل مت کرو۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن یوسف، سفیان، علقمہ بن مرثد، ابی بریدہ، حضرت بریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی شخص کو سردار مقرر فرماتے کسی حصے (لشکر) کا تو اس کو اپنی ذات کیلئے اللہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے اور جو دیگر مسلمان ان کے ہمراہ ہوتے ان سے نیک سلوک کرنے کی (تلقین کرتے ) اور آپ نے فرماتے جہاد کرو اللہ کا نام لے کر اور جو اللہ عزوجل کو نہ مانے اس سے لڑو جہاد کرو اور عہد مت توڑو اور چوری نہ کرنا اور مثلہ سے ممانعت فرماتے اور بچوں کو مت مارو اور جب دشمن سے ملو یعنی مشرکین سے تو ان کو بلاؤ ان باتوں میں سے ایک کی طرف پھر ان میں سے جس بات پر وہ راضی ہوں اس کو مان لے اور ان کو ستانے سے رک جا۔ (تین باتیں مندرجہ ذیل ہیں ) ان کو اسلام کی دعوت دے اور اگر وہ مان لیں تو رکا رہ ان (کو تکلیف دینے ) سے لیکن کہہ ان سے کہ اپنے ملک سے مسلمانوں کے ملک میں ہجرت کر لیں گے تو جو فائدہ مہاجرین کو میسر آئے وہ ان کو بھی آئیں گے اور جو سزائیں (قصور کے بدلے ) مہاجرین کو ملتی ہیں وہ انہیں بھی ملیں گی اور اگر وہ ہجرت سے انکاری ہوں تو ان کا حکم گنوار دیہاتی مسلمانوں جیسا ہو گا اور اللہ کا حکم جو مومنوں پر جاری ہوتا ہے ان پر (بھی) جاری ہو گا اور ان کو لوٹ کے مال میں اور اس مال میں جو بلا جنگ کافروں سے ہاتھ آئے کچھ میسر نہ آئے گا مگر اس حالت میں جب وہ جہاد کریں مسلمانوں کے ساتھ مگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو ان سے کہہ جزیہ دینے کیلئے۔ اگر وہ جزیہ دینے پر راضی ہو جائیں تو مان جا اور ان (کو قتل کرنے ) سے باز رہ۔ اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کریں تو اللہ عزوجل سے مد د طلب کر اور ان سے جنگ کر اور جب تو کسی قلعہ کا محاصرہ کرے پھر قلعہ والے تجھ سے کہیں کہ تو ان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذمہ دے تو مت ذمہ دے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بلکہ اپنا اپنے باپ کا اور اپنے ساتھیوں کا ذمہ دے۔ اس لئے کہ اگر تم نے اپنا ذمہ یا اپنے باپ دادوں کا ذمہ توڑ ڈالا تو یہ اس سے آسان ہے کہ تم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذمہ توڑو اور اگر تو کسی قلعہ کا محاصرہ کر لے پھر قلعہ والے یہ چاہیں کہ اللہ کے حکم پر وہ قلعہ سے نکل آئیں گے تو اس شرط پر ان کو مت نکال بلکہ اپنے حکم پر نکال۔ اس لئے کہ تو (ہرگز) نہیں جان سکتا کہ اللہ کے حکم پر ان کے بارے میں چل سکے گا یا نہیں۔ علقمہ نے کہا میں نے یہ حدیث مقاتل بن حبان سے بیان کی انہوں نے مجھ سے مسلم بن ہضم سے انہوں نے نعمان بن مقرن سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسی ہی حدیث نقل کی۔

 

امیر کی اطاعت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، اعمش، ابی صالح، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی یقیناً اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی یقیناً اس نے میری اطاعت کی اور جس نے (جائز امور میں ) امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو بشر ، بکر بن خلف، یحییٰ بن سعید، شعبہ، ابو تیاح، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو اگرچہ حبش غلام جس کا سر کشمش کی مانند چھوٹا ہو اور اسے تمہارا امیر بنا دیا جائے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، شعبہ، یحییٰ بن حصین، حضرت ام حصین فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا اگر تم پر حبشی نکٹا غلام امیر مقرر کر دیا جائے تو اس کی بات سنو اور مانو جب تک وہ اللہ کی کتاب کے مطابق تمہاری قیادت کرے۔

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی عمران، عبد اللہ بن صامت، ابی ذر ایک بار ربذہ پہنچے تو نماز قائم ہو چکی تھی اور ایک غلام امامت کروا رہا تھا کسی نے کہا یہ ابو ذر تشریف لے آئے تو غلام پیچھے ہٹنے لگا حضرت ابو ذر نے فرمایا میرے پیارے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں سنوں اور اطاعت کروں اگرچہ امیر حبشی غلام ہو نکٹا اور کن کٹا۔

 

اللہ کی نافرمانی کر کے کسی کی اطاعت درست نہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن عمر، عمر بن حکم بن ثوبان، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علقمہ بن مجزز کو ایک لشکر کا امیر مقرر فرمایا میں بھی اس لشکر میں تھا۔ جب جنگ کے آخری مقام پر پہنچے یا ابھی راستہ میں ہی تھے کہ لشکر میں سے کچھ لوگوں نے ان سے اجازت چاہی انہوں نے ان کو اجازت دے دی اور عبد اللہ بن حذافہ بن قیس سہمی کو ان کا امیر مقرر کر دیا تو میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے عبد اللہ بن حذافہ کے ساتھ مل کر جنگ کی راستہ میں کچھ لوگوں نے آگ روشن کی تاکہ تپش حاصل کریں یا کچھ بنائیں تو عبد اللہ نے کہا اور وہ ظریف الطبع شخص تھے کیا تم پر میری بات سننا لازم نہیں؟ کہنے لگے کیوں نہیں بلکہ لازم ہے کہنے لگے تو پھر تمہیں جس چیز کا بھی حکم دوں کرو گے کہنے لگے جی ہاں۔ کہنے لگے میں تمہیں قطعی حکم دیتا ہوں کہ اس آگ میں کود جاؤ اس پر کچھ لوگ کھڑے ہوئے اور کمر باندھنے لگے جب انہیں گمان ہوا کہ یہ تو واقعی کو دنے لگے ہیں تو کہنے لگے اپنے آپ کو روکو کیونکہ میں تو تم سے مزاح کر رہا تھا۔ جب ہم واپس آئے تو کچھ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمہیں کوئی اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات مت مانو۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر، ح، محمد بن صباح، سوید بن سعید، عبد اللہ بن رجاء، عبید اللہ ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد مسلم پر فرمانبرداری لازم ہے (طبعا) پسندیدہ اور ناپسندیدہ امور میں الا یہ کہ اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے لہذا جب نافرمانی اور معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے اور نہ اطاعت و فرمانبرداری۔

 

٭٭ سوید بن سعید، یحییٰ بن سلیم، ح، ہشام بن عمار، عبد اللہ، اسماعیل بن عیاش، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، قاسم بن عبد الرحمن بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے بعد تمہارے امور کے متولی (حاکم) ایسے مرد ہوں گے جو (چراغ) سنت کو بجھائیں گے اور بدعت پر عمل کریں گے اور نماز کو اپنے وقتوں سے مؤخر کریں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اگر میں ان لوگوں (کے زمانہ) کو پالوں تو کیا کروں فرمایا اے ابن ام عبد تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا کروں جو شخص اللہ کی نافرمانی کرے اس کی کوئی اطاعت نہیں۔

 

بیعت کا بیان

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن ادریس، محمد بن اسحاق ، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن عمرو ، ابن عجلان، عبادہ بن ولید، عبادہ بن صامت، فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیعت کی سننے اور ماننے پر تنگی اور آسانی میں خوشی اور پریشانی میں اور اس حالت میں بھی جب دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور اس پر کہ ہم حکومت کے اہل اور لائق شخص سے حکومت کے بارے میں جھگڑا نہ کریں گے اور اس پر کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، سعید بن عبد العزیز، ربیعہ بن زید، ابو ادریس، ابو مسلم کہتے ہیں کہ مجھے میرے پسندیدہ اور میرے نزدیک امانتدار شخص سیدنا عوف بن مالک اشجعی نے بتایا کہ ہم سات آٹھ یا نو افراد نبی کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے فرمایا تم بیعت نہیں کرتے ہم نے اپنے ہاتھ بیعت کیلئے بڑھائے تو ایک نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اب آپ سے کس بات پر بیعت کریں؟ فرمایا اس بات پر کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو گے کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ گے پانچوں نمازوں کو قائم کرو گے سنو اور مانو گے اور ایک بات آہستہ سے فرمائی کہ لوگوں سے کسی چیز کا بھی سوال نہ کرو گے۔ فرماتے ہیں میں نے اس جماعت میں ایک شخص کو دیکھا کہ کوڑا (سواری سے ) گر گیا تو اس نے کسی سے بھی یہ نہ کہا کہ مجھے اٹھا دو۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، شعبہ، عتاب، مولی ہرمز، انس بن مالک، فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی سننے اور ماننے پر تو آپ نے فرمایا جہاں تک تمہاری استطاعت ہو۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابو زبیر، جابر، فرماتے ہیں کہ ایک غلام نے نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر ہجرت کی بیعت کر لی۔ نبی کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ غلام ہے پھر اس کا آقا اس کی تلاش میں آیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے میرے ہاتھ فروخت کر دو چنانچہ آپ نے اسے دو سیاہ فام غلاموں کے عوض خرید لیا پھر اس کے بعد کسی سے آپ اس وقت تک بیعت نہ فرماتے جب تک پوچھ نہ لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟

 

بیعت پوری کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، احمد بن سنان، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین اشخاص ایسے ہیں کہ اللہ تعالی ان سے کلام نہ فرمائیں گے نہ ان کی طرف نظر (رحمت) فرمائیں گے اور ان کو دردناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ مرد جس کے پاس بے آب و گیاہ صحرا میں ضرورت سے زائد پانی ہو اور وہ مسافر کو پانی نہ دے دوسرے وہ مرد جو عصر کے بعد کوئی چیز فروخت کرے اور یہ قسم اٹھائے کہ بخدا میں نے اسے اتنے میں خریدا ہے (اس قسم کی وجہ سے ) خریدار  اس کو سچا سمجھ لے حالانکہ وہ سچا نہ ہو تیسرے وہ مرد جو کسی امام (حکمران یا امیر) سے بیعت کرے اس کی بیعت محض دنیا کی خاطر ہو کہ اگر امام  اس کو کچھ دینار دے دے تو بیعت پوری کرے اور اگر دینار نہ دے تو بیعت پوری نہ کرے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، حسن بن فرات، ابی حازم، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بنی اسرائیل میں انبیاء (علیہم السلام) نظام حکومت سنبھالتے تھے اور میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! پھر کیا ہو گا؟ فرمایا خلفاء ہوں گے اور بہت ہو جائیں گے۔ صحابہ نے کہا ایسے میں ہم کیا طرز عمل اپنائیں؟ فرمایا پہلے کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد والے (ہر خلیفہ کے بعد جس کی بیعت ہو جائے  اس کو خلیفہ سمجھو) اپنا فریضہ (اطاعت و فرمانبرداری) ادا کرو جو ان کا فریضہ ہے (خیر خواہی عدل  وانصاف اور اقامت دین) اس کے بارے میں اللہ ان سے سوال کریں گے۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو الولید، شعبہ، ح، محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، اعمش، ابو وائل ، حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر دغا باز کیلئے روز قیامت ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں کی دغا بازی (کا علم) ہے۔

 

٭٭ عمران بن موسی، حماد بن زید، علی بن زید بن جدعان، ابو نضرہ، ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غور سے سنو ہر دغاباز کی دغابازی کی بقدر روز قیامت ایک جھنڈا گاڑا جائے گا۔

 

عورتوں کی بیعت کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، محمد بن منکدر، حضرت امیمہ بنت رفیقہ فرماتی ہیں کہ میں چند عورتوں کے ساتھ بیعت کرنے کیلئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے ہمیں فرمایا بقدر طاقت واستطاعت اطاعت کرو میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس ، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، ام المومنین سیدنا عائشہ فرماتی ہیں کہ ایمان والی عورتیں جب ہجرت کر کے بارگاہ نبوی میں پہنچیں تو ان کی آزمائش کی جاتی اس آیت مبارکہ سے جب تیرے پاس مومن عورتیں آئیں بیعت کرنے کے واسطے۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جو کوئی مومن عورت اس آیت کے مطابق اقراری ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سے فرماتے بس جاؤ! میں تم سے بیعت لے چکا۔ (اور ہاں !) نہیں ! اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی کسی عورت کو ہاتھ نہیں لگایا صرف آپ ان سے بیعت کرتے زبان مبارک سے۔ حضرت عائشہ نے کہا اللہ کی قسم ! نبی نے عورتوں سے اقرار نہیں لیا مگر انہی باتوں کا جن کا اللہ عزوجل نے حکم دیا اور نہ آپ کی ہتھیلی کسی عورت کی ہتھیلی سے چھوئی اور جب آپ ان سے بیعت لیتے تو فرماتے میں نے تم سے بیعت لے لی۔ (بس فقط) یہی بات کہتے۔

 

گھوڑ دوڑ کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، سفیان بن حسین، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے دو گھوڑوں کے درمیان گھوڑا داخل کیا اور  اس کو اطمینان نہیں کہ اس کا گھوڑا آگے نکل (کر جیت) جائے گا (بلکہ پیچھے رہ کر ہار جانے کا اندیشہ بھی ہے اور جیتنے کی امید بھی) تو یہ انہیں اور جس نے دو گھوڑوں کے درمیان گھوڑا داخل کیا اور اسے اطمینان ہے کہ اس کا گھوڑا آگے نکل (کر جیت) جائے گا (اور ہارنے کا اندیشہ نہیں ہے ) تو یہ جوا ہے

 

٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ ، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھوڑوں کی تضمیر کی۔ آپ تضمیر کئے ہوئے گھوڑوں کو حفیاء سے ثنیہ الوداع تک دوڑاتے اور جن کی تضمیر نہیں کی گئی انہیں ثنیۃ الوداع سے مسجد بنوزریق تک دوڑاتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابو حکم، مولی بنت لیث، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آگے بڑھنے کی شرط کرنا صرف اونٹ یا گھوڑے میں جائز ہے۔

 

دشمن کے علاقوں میں قرآن لے جانے سے ممانعت

 

احمد بن سنان، ابو عمر، عبد الرحمن بن مہدی، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دشمن کے علاقہ میں قرآن لے جانے سے منع فرمایا۔ اس خوف سے کہ دشمن اس کو حاصل کر لے ( پھر اس کی بے احترامی اور توہین کا مرتکب ہو)۔

 

٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دشمن کے علاقہ میں قرآن لے جانے سے منع فرماتے تھے اس خوف سے کہ دشمن قرآن کو حاصل کر لے (پھر اس کی توہین کرے )۔

 

خمس کی تقسیم

 

یونس بن عبد الاعلی، ایوب بن سوید، یونس بن یزید، ابن شہاب، سعید بن مسیب، جبیر بن مطعم، عثمان بن عفان ، سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ جبیر بن مطعم نے ان سے بیان کیا کہ وہ اور حضرت عثمان نبی کی خدمت میں تشریف فرما ہوئے اور کہنے لگے اس بارے میں جو آپ نے خیبر کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا بنی ہاشم و بنی مطلب میں اور کہا کہ آپ نے ہمارے بھائیوں بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا حالانکہ ہماری اور بنی مطلب کی قرابت بن ہاشم سے برابر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نبی ہاشم اور بنی مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں۔

 

 

 

 

حج کا بیان

 

حج کیلئے سفر کرنا

 

ہشام بن عمار، ابو مصعب، سوید بن سعید، مالک بن انس، مولی ابن ابی بکر بن عبد الرحمن، ابی صالح، سمان، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے مسافر کے آرام اور کھانے پینے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ تم میں سے کوئی جب اپنے سفر کا مقصود حاصل کر لے (اور ضرورت پوری ہو جائے ) تو اپنے گھر واپس آنے میں جلدی کرے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، اسماعیل ، ابو اسرائیل، فضیل بن عمرو، سعید بن جبیر، ابن عباس اپنے بھائی حضرت فضل سے یا وہ حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کا حج کا ارادہ ہو تو وہ جلدی کرے اس لئے کہ کبھی کوئی بیمار پڑ جاتا ہے یا کوئی چیز گم ہو جاتی ہے یا کوئی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔

 

فرضیت حج

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، منصور بن وردان، علی بن عبد الاعلی، ابی بختری، علی فرماتے ہیں کہ جب آیت ( وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا) 3۔ آل عمران:97) نازل ہوئی تو بعض صحابہ نے عرض کیا نبی کیا ہر سال حج کرنا ہو گا؟ آپ خاموش رہے انہوں نے پھر عرض کیا کیا ہر سال؟ آپ نے فرمایا نہیں اور اگر میں کہہ دیتا ہاں ہر سال تو ہر سال حج واجب ہو جاتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اے اہل ایمان ! تم مت سوال کرو ایسی چیزوں کے بارے میں کہ اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تم کو اچھی نہ لگیں۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن ابی عبیدہ، اعمش، ابی سفیان، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول حج ہر سال کرنا ہو گا۔ فرمایا اگر میں کہہ دوں جی تو واجب ہو جائے گا اور اگر ہر سال حج واجب ہو جائے تو تم اسے قائم نہ کر سکو اور اگر تم اسے قائم نہ کر سکو تو تمہیں عذاب دیا جائے۔

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یزید بن ابراہیم، سفیان بن حسین، زہری، ابی سنان، ابن عباس سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول حج ہر سال ہے یا صرف ایک بار۔ فرمایا نہیں صرف ایک بار ہے جسکو بار بار کی استطاعت حاصل ہو تو وہ نفلی حج کرے۔

 

حج اور عمرہ کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عاصم بن عبید اللہ، عبد اللہ بن عامر، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پے درپے حج اور عمرہ کرو کیونکہ پے درپے حج و عمرہ کرنا ناداری اور گناہوں کو ایسے ختم کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو ختم کر دیتی ہے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔

 

٭٭ ابو مصعب ، مالک بن انس، سمی، مولی ابی بکر بن عبد الرحمن، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک جتنے گناہ ہوں عمرہ ان کا کفارہ بن جاتا ہے اور مقبول حج کا کوئی بدلہ نہیں سوائے جنت کے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، مسعر، سفیان، منصور، ابو حازم، ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اس گھر کا حج کرے اور اس دوران بد گوئی و بد عملی نہ کرے وہ گناہوں سے پاک ہو کر ایسے واپس ہوتا ہے جیسا (گناہوں سے پاک) پیدا ہوا۔

 

کجاوہ پر سوار ہو کر حج کرنا

 

علی بن محمد، وکیع، ربیع بن صبیح، یزید بن ابان، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی نے پرانے کجاوہ پر سوار ہو کر حج کیا اور ایک چادر میں جو چار درہم کی ہو گی یا اتنی قیمت کی بھی شاید نہ ہو (یہ اظہار عجز و تواضع کیلئے تھا) پھر آپ نے فرمایا اے اللہ میں حج کرتا ہوں جس میں دکھاوا اور شہرت طلبی نہیں۔

 

٭٭ ابو بشر، بکر بن خلف، ابن ابی عدی، داؤد، ابی ہند، ابو العالیہ، ابن عباس فرماتے ہیں ہم (سفر حج میں ) اللہ کے رسول کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے۔ ایک وادی سے ہمارا گزر ہوا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون سی وادی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا وادی ازرق ہے۔ فرمایا گویا میں موسیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر بیان کیا آپ نے ان کے بالوں کی لمبائی سے متعلق جو داؤد بن ابی ہند (راوی حدیث) بھول گئے۔ اپنی انگلی کان میں رکھے ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے کہا پھر ہم چلے یہاں تک کہ ایک ٹیلے پر پہنچے تو آپ نے فرمایا یہ کون سا ٹیلہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہرشاء کا ٹیلہ ہے یا لفت کا (ایک ہی جگہ کے دو نام ہیں )۔ آپ نے فرمایا میں حضرت یونس کو دیکھ رہا ہوں اور ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں سے بٹی (بنی) ہوئی ہے یا پتلی اور سخت رسی کی اور اس وادی سے گزرے ہیں لبیک کہتے ہوئے۔

 

حاجی کی دعا کی فضیلت

 

ابراہیم بن منذر، صالح بن عبد اللہ بن صالح بنی عامر، یعقوب بن یحییٰ بن عباد، عبد اللہ بن زبیر، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اگر اللہ سے دعا مانگیں تو اللہ قبول فرمائیں اور اگر اللہ سے بخشش طلب کریں تو اللہ ان کی بخشش فرما دیں۔

 

٭٭ محمد بن طریف، عمران بن عیینہ، عطاء بن سائب، مجاہد، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راہ خدا میں لڑنے والا اور حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ کے وفد ہیں انہیں اللہ نے بلایا تو یہ گئے اور انہوں نے اللہ سے مانگا تو اللہ نے ان کو عطا فرمایا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان ، عاصم بن عبید اللہ، سالم ، حضرت عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو اجازت مرحمت فرما دی اور ان سے فرمایا اے میرے پیارے بھائی ہمیں اپنی کچھ دعا میں شریک کر لینا اور ہمیں بھلا مت دینا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، یزید بن ہارون، عبد الملک بن ابی سلیمان ابن ابی سلیمان، ابو زبیر، صفوان بن عبد اللہ جن کے نکاح میں حضرت ابو الدرداء کی صاحبزادی تھیں وہ ان کے پاس گئے وہاں ام درداء (اپنی ساس) کو پایا اور ابو الدرداء کو نہیں پایا۔ ام درداء نے ان سے کہا تم اس سال حج کو جانا چاہتے ہو؟ صفوان نے کہا ہاں ! ام درداء نے کہا پھر ہمارے لئے بہتری کی دعا کرنا اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے آدمی کی دعا اپنے بھائی کیلئے اس کی پیٹھ پیچھے غائب میں قبول ہوتی ہے اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے جو اس کی دعا کے وقت آمین کہتا ہے جب وہ اپنے بھائی کیلئے بھلائی کی دعا کرتا ہے وہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو گا۔ صفوان نے کہا پھر میں بازار کی طرف گیا وہاں ابو الدرداء ملے۔ انہوں نے بھی نبی سے ایسی ہی حدیث بیان کی۔

 

کون سی چیز حج واجب کر دیتی ہے؟

 

ہشام بن عمار، مروان بن معاویہ، علی بن محمد، عمر بن عبد اللہ، ابراہیم بن یزید، محمد بن عباد بن جعفر، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک مرد کھڑا ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کون سی چیز حج کو واجب کر دیتی ہے؟ آپ نے فرمایا توشہ اور سواری۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہ !حاجی کیسا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا بکھیرے بالوں والا خوشبو سے مبرا ایک اور شخص کھڑا ہوا اور بولا یا رسول اللہ !حج کیا ہے؟ آپ نے فرمایا لبیک پکارنا اور خون بہانا (یعنی قربانی کرنا)۔

 

٭٭ سوید بن سعید، ہشام بن سلیمان، ابن جریج، عکرمہ ، ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا کا مطلب ہے کہ آدمی کے پاس توشہ اور سواری ہو۔

 

عورت کا بغیر ولی کے حج کرنا

 

علی بن محمد، اعمش، ابو صالح، ابو سعید فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت تین یوم یا اس سے زیادہ کا سفر نہ کرے الا یہ کہ اس کا والد یا بھائی یا بیٹا یا خاوند یا اور کوئی محرم ساتھ ہو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ابن ذئب، سعید ، مقبری، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھے اس کیلئے بغیر محرم کے ایک دن کی مسافت سفر کرنا حلال نہیں ہے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، شعیب بن اسحاق ، ابن جریج، عمرو بن دینار، ابو معبد، مولی ابن عباس، ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں لڑائی میں میرا نام بھی لکھا گیا ہے جبکہ میری بیوی حج کیلئے جانا چاہتی ہے آپ نے فرمایا واپس چلے جاؤ (اور حج کرو) اس کے ساتھ۔

 

حج کرنا عورتوں کیلئے جہاد ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، حبیب بن ابی عمرہ، عائشہ بنت طلحہ، حضرت عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا عورتوں کے ذمہ جہاد کرنا ہے؟ فرمایا جی عورتوں کے ذمہ ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی بالکل نہیں یعنی حج اور عمرہ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، قاسم بن فضل، ابی جعفر، ام سلمہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حج کرنا ہر ناتواں کا جہاد ہے۔

 

میت کی جانب سے حج کرنا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، عبدہ بن سلیمان، سعید، قتادہ، غزوہ ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سنا کہ ایک مرد کہہ رہا ہے کہ لبیک شبرمہ کی طرف سے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شبرمہ کون ہے؟ کہنے لگا میرا رشتہ دار ہے فرمایا کبھی تم نے خود (اپنے لئے ) حج کیا کہنے لگا نہیں فرمایا پھر یہ حج اپنی طرف سے کرو اور شبرمہ کی طرف سے حج پھر کرنا۔

 

٭٭ محمد بن عبد الاعلی، عبد الرزاق، سفیان، سلیمان شیبانی، یزید بن اصم، ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں اپنے والد کیطرف سے حج کر لوں؟ فرمایا جی ہاں اپنے والد کی طرف سے حج کر لو اس لئے کہ اگر تم اس کی بھلائی میں اضافہ نہ کر سکے تو شر میں بھی اضافہ نہیں کرو گے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، عثمان بن عطاء، ابی غوث بن حصین، ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی سے دریافت کیا کہ ان کے والد کے ذمہ حج تھا ان کا انتقال ہو گیا اور وہ حج نہ کر سکے۔ نبی نے فرمایا اپنے والد کی طرف سے حج کر لو اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسی طرح نذر کے روزے اس کی طرف سے قضاء کئے جا سکتے ہیں۔

 

زندہ کی طرف سے حج کرنا جب اس میں ہمت نہ رہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، شعبہ، نعمان بن سالم، عمرو بن عباس، حضرت ابو رزین عقیلی سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد بہت بوڑھے ہیں حج اور عمرہ کی ہمت نہیں سوار بھی نہیں ہو سکتے۔ فرمایا اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔

 

٭٭ ابو مروان، محمد بن عثمان، عبد العزیز ، عبد الرحمن بن حارث بن عیاش بن ابی ربیعہ، حکیم بن حکیم ابن عباد، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگی۔ اے اللہ کے رسول میرے والد بہت معمر ہیں ان پر حج فرض ہو چکا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے ذمہ فرض فرمایا اور اب وہ اس کی ادائے گی کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تو کیا میرا ان کی طرف سے حج کرنا ان کیلئے کافی ہو جائے گا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو خالد، محمد بن کریب، ابن عباس، حضرت حصین بن عوف بیان فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے والد کے ذمہ حج آ چکا مگر اس میں طاقت نہیں الا یہ کہ پالان کی رسی کے ساتھ باندھ دئیے جائیں۔ یہ سن کر آپ چند لمحے خاموش رہے پھر فرمایا حج کر اپنے والد کی طرف سے۔ اس حدیث کی سند میں محمد بن کریب منکر الحدیث اور ضعیف ہے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، زہری، سلیمان بن یسار، ابن عباس، حضرت فضل بن عباس فرماتے ہیں کہ وہ یوم نحر کی صبح رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سوار تھے آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک خاتون آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے والد پر اس بڑھاپے میں حج فرض ہوا کہ وہ سوار بھی نہیں ہو سکتے کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں فرمایا جی ہاں کیونکہ اگر تمہارے والد کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اس کی ادائے گی کر سکتی تھی۔

 

نابالغ کا حج کرنا

 

علی بن محمد، محمد بن طریف، ابو معاویہ، محمد بن سوقہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ایک حج کے دوران ایک خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اپنے بچے کو اٹھا کر پوچھا اے اللہ کے رسول اس کا حج ہو جائے گا فرمایا جی ہاں اور ثواب تمہیں ملے گا۔

 

حیض و نفاس والی عورت حج کا احرام باندھ سکتی ہے

 

عثمان بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، عبید اللہ، عبد الرحمن بن قاسم، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت اسماء بنت عمیس کو شجرہ (ذوالحلیفہ) میں نفاس آنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سیدنا ابو بکر سے فرمایا کہ ان سے کہو غسل کر لیں اور احرام باندھ لیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، سلیمان بن بلال، یحییٰ بن سعید، قاسم بن محمد، حضرت ابو بکر کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کے لئے نکلے ان کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیس ان کے ساتھ تھیں۔ شجرۃ (ذوالحلیفہ) میں ان کے ہاں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی تو حضرت ابو بکر نبی کریم کی خدمت حاضر ہوئے آپ کو اطلاع دی آپ نے فرمایا کہ اسماء سے کہو غسل کر لے پھر حج کا احرام باندھ لے اور تمام وہ افعال کرے جو حاجی کرتے ہیں البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔

 

٭٭ علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، سفیان ، جعفر بن محمد، جابر فرماتے ہیں کہ حضرت اسماء بنت عمیس کو محمد بن ابی بکر کی ولادت کے بعد نفاس آیا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پیغام بھیج کر مسئلہ دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا غسل کر لے اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے اور احرام باندھ لے۔

 

آفاقی کی میقات کا بیان

 

ابو مصعب، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا احرام باندھیں اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے اور اہل شام جحفہ سے اور اہل نجد قرآن سے حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین تو میں نے خود اللہ کے رسول سے سنیں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابراہیم بن یزید، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا اہل مدینہ کیلئے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور اہل شام کیلئے جحفہ ہے اور اہل یمن کیلئے یلملم ہے اور اہل نجد کیلئے قرآن ہے اور اہل مشرق کیلئے ذات عرق ہے پھر فرمایا اے اللہ ان کے قلوب کو (ایمان و اعمال صالحہ کی طرف) متوجہ فرما دے۔

 

احرام کا بیان

 

محرز بن سلمہ، عبد العزیز بن محمد، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب رکاب میں پاؤں رکھا اور سواری سیدھی ہو گئی تو آپ نے لبیک پکارا مسجد ذوالحلیفہ کے پاس۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، عمر بن عبد الوحید، اوزاعی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ شجرہ (ذوالحلیفہ) میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی کے پاس تھا۔ جب وہ سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ نے فرمایا اے اللہ میں آپ کی بارگاہ میں حج اور عمرہ کی بیک وقت نیت کر کے حاضر ہوں اور یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا۔

 

تلبیہ کا بیان

 

علی بن محمد، ابو معاویہ، ابو اسامہ، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیکھی۔ آپ فرما رہے تھے لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ حضرت ابن عمر مزید یہ بھی پڑھتے لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْکَ لَبَّیْکَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَیْکَ وَالْعَمَلُ

 

٭٭ زید بن احزم، مومل بن اسماعیل، سفیان، جعفر بن محمد، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تلبیہ یہ تھا لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، عبد العزیز بن عبد اللہ بن ابی سلمہ، عبد اللہ بن فضل، اعرج، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تلبیہ میں یہ بھی ارشاد مبارکہ فرمایا لَبَّیْکَ إِلَہَ الْحَقِّ لَبَّیْکَ۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، عمرہ بن غزیہ، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان فرماتے ہیں کہ جو (شخص بھی) تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں زمین کے دونوں کناروں تک سب پتھر درخت اور ڈھیلے بھی (اس کے ساتھ) تلبیہ کہتے ہیں۔

 

لبیک پکار کر کہنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن ابی بکر، عبد الملک بن ابی بکر، ابن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، خلاد بن سائب، حضرت سائب بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور مجھے حکم دیا کہ اپنے ساتھیوں کو تلبیہ بلند آواز سے کہنے کا حکم دوں۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان ، عبد اللہ بن ابی لبید، مطلب بن عبد اللہ بن حنطب، خلاد بن سائب، حضرت زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے پاس جبراءیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اے محمد اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے تلبیہ کہنے کا حکم دو کیونکہ تلبیہ حج کا شعار (اور نشانی) ہے۔

 

٭٭ ابراہیم بن منذر، یعقوب بن حمید بن کا سب، ابن ابی فدیک، ضحاک بن عثمان، محمد بن منکدر، عبد الرحمن، ابن یربوع، حضرت ابو بکر صدیق سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ (دوران حج) کون سا عمل سب زیادہ فضیلت والا ہے؟ ارشاد فرمایا پکار کر لبیک کہنا اور قربانی کا خون بہانا۔

 

جو شخص محرم ہو

ابراہیم بن منذر، عبد اللہ بن نافع، عبد اللہ بن وہب، محمد بن فلیح، عاصم بن عمر، ابن حفص، عاصم بن عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ ، حضرت جابر بن عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو محرم بھی رضاء الہی کیلئے دن بھر تلبیہ کہتا رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہو تو سورج اس کے گناہوں کو لے کر غروب ہو گا اور وہ (گناہوں سے ) ایسا (پاک صاف) ہو جائے گا جیسا  اس کو اس کی والدہ نے جنا تھا۔

 

احرام سے قبل خوشبو کا استعمال

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ح، محمد بن رمح، لیث بن سعد، عبد الرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ احرام سے قبل احرام کیلئے میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشبو لگائی اور جب احرام کھولا اس وقت طواف اضافہ سے قبل بھی میں نے خوشبو لگائی۔ سفیان کی روایت میں ہے کہ میں نے اپنے ان دونوں ہاتھوں سے خوشبو لگائی۔

 

٭٭ علی بن محمد، اعمش، ابی ضحی، مسروق، ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ تلبیہ کہتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک اب بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔

 

٭٭ اسماعیل بن موسی، شریک ، ابی اسحاق ، اسود، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ احرام کے تین روز بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک اب بھی نگاہوں کے سامنے ہے۔

 

محرم کون سا لباس پہن سکتا ہے؟

 

ابو مصعب، مالک بن انس، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک مرد نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ محرم کون سا لباس پہن سکتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قمیص عمامہ شلوار ٹوپی اور موزہ نہ پہنے البتہ اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں پاؤں کی پشت پر ابھری ہوئی ہڈی سے کاٹ لے اور کوئی بھی ایسا کپڑا نہ پہنے جسے زعفران یا درس لگی ہوئی ہو۔

 

٭٭ ابو مصعب، مالک بن انس، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمربیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محرم کو ورس اور زعفران سے رنگا ہوا کپڑا پہننے سے منع فرمایا۔

 

محرم کو تہبند نہ ملے تو پائجامہ پہن لے اور جوتا نہ ملے تو موزہ پہن لے

 

ہشام بن عمار، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، جابر بن زید، ابی شعشاء، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے سنا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا جس کے پاس ازار (لنگی) نہ ہو تو وہ شلوار پہن لے اور جس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے۔

 

٭٭ ابو مصعب، مالک بن انس، نافع، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے لیکن موزے ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے۔

 

احرام میں ان امور سے بچنا چاہئے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، محمد بن اسحاق ، یحییٰ بن عباد بن عبد اللہ بن زبیر، حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نکلے جب عرج (نامی جگہ) پہنچے تو رسول اللہ بیٹھ گئے۔ سیدہ عائشہ بھی آپ کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں اور میں ابو بکر کے ساتھ بیٹھ گئی اس سفر میں ہمارا اور حضرت ابو بکر کا اونٹ ایک ہی تھا جو حضرت ابو بکر کے غلام کے پاس تھا (کیونکہ تینوں باری باری سوار ہوتے تھے ) اتنے میں غلام آیا تو اس کے پاس اونٹ نہ تھا۔ حضرت ابو بکر نے اس سے کہا تمہارا اونٹ کہاں؟ کہنے لگا رات میں گم ہو گیا۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا تمہارے پاس ایک ہی اونٹ تھا وہ بھی گم کر دیا (حالانکہ ایک اونٹ کی حفاظت قطعاً دشوار نہیں ) اور حضرت ابو بکر اس غلام کو مارنے لگے اور رسول اللہ فرمانے لگے کہ اس محرم کو دیکھو کیا کر رہا ہے۔

 

محرم سر دھو سکتا ہے

 

ابو مصعب، مالک، زید بن اسلم، ابراہیم بن عبد اللہ بن حنین فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت مسور بن مخرمہ کا مقام ابو اء میں اختلاف ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ محرم اپنا سر  دھو سکتا ہے اور حضرت مسور نے فرمایا کہ محرم اپنا سر نہیں دھو سکتا۔ آخر ابن عباس نے مجھے ابو ایوب انصاری سے یہی بات پوچھنے کیلئے بھیجا۔ میں نے دیکھا کہ وہ دو لکڑی کے درمیان کپڑا لگا کر غسل کر رہے ہیں۔ میں نے سلام کیا تو فرمانے لگے کون ہو؟ میں نے عرض کیا عبد اللہ بن حنین ہوں مجھے عبد اللہ بن عباس نے بھیجا ہے تاکہ آپ سے دریافت کروں کہ نبی بحالت احرام سر کیسے دھوتے تھے؟ فرماتے ہیں کہ ابو ایوب نے کپڑے پر جو آڑ تھا ہاتھ رکھ کر ذرا نیچے کیا یہاں تک کہ مجھے ان کا سر دکھائی دینے لگا پھر جو آدمی آپ پر پانی ڈال رہا تھا اس سے فرمایا پانی ڈالو اس نے سر پر پانی ڈالا پھر آپ نے ہاتھوں سے سر ملا اور آگے پیچھے لے گئے پھر فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا۔

 

احرام والی عورت اپنے چہرہ کے سامنے کپڑا لٹکائے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، یزید بن ابی زیاد، مجاہد، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ہم بحالت احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھیں جب کوئی سوار ملتا تو ہم سر کے اوپر سے کپڑے چہروں کے سامنے کر لیتیں جب ہم آگے گزر جاتے تو ہم کپڑا ہٹا لیتیں۔

 

حج میں شرط لگانا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ح، ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، عثمان بن حکیم ابو بکر بن عبد اللہ بن زبیر، ابو بکر، سعدی بنت عوف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ضباعہ بنت عبد المطلب کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا پھوپھی جان آپ کو حج سے کیا بات مانع ہے۔ فرمانے لگیں میں بیمار عورت ہوں مجھے خدشہ ہے کہ درمیان بیماری کی وجہ سے رہ نہ جاؤں (اور حج پورا نہ کر سکوں ) آپ نے فرمایا احرام باندھ لو اور یہ شرط ٹھہرا لو کہ جہاں میں رہ جاؤں (بیماری کی وجہ سے آگے نہ جا سکوں ) وہی میرے حلال ہونے (اور احرام ختم کرنے ) کی جگہ ہو گی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، وکیع، ہشام بن عروہ، حضرت ضباعۃ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول میرے پاس تشریف لائے میں بیمار تھی فرمایا امسال تمہارا حج کا ارادہ نہیں؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں بیمار ہوں۔ فرمایا حج کیلئے اور احرام میں یوں کہو کہ جہاں آپ مجھے روک لیں (بیمار ہو جاؤں ) وہیں حلال ہو کر احرام ختم کر دوں گی۔

 

٭٭ ابو بشر بکر بن ابی خلف، ابو عاصم، ابن جریج، ابو زبیر، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت ضباغۃ بنت زبیر بن عبد المطلب کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا میں بیمار عورت ہوں اور میرا حج کا ارادہ ہے تو میں کیسے احرام باندھوں۔ فرمایا احرام باندھنے میں یہ شرط کر لو کہ جہاں مجھے آپ (اللہ تعالی) روک دیں وہیں احرام کھول دوں گی۔

 

حرم میں داخل ہونا

 

ابو کریب، اسماعیل بن صبیح، مبارک بن حسان، ابو عبد اللہ، حضرت عطاء بن عباس فرماتے ہیں کہ انبیاء حرم میں برہنہ سر برہنہ پا (ننگے سر ننگے پیر) داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طواف اور دیگر مناسک کی ادائے گی بھی برہنہ سر برہنہ پا کرتے۔

 

مکہ میں دخول

 

علی بن محمد، ابو معاویہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں داخل ہوتے تھے بلندی (ذی طوی والی طرف) کی راہ سے اور جب نکلتے تو نشیب سے۔

 

٭٭ علی بن محمد، عمری، نافع، حضرت ابن عمر، علی بن محمد، ابو معاویہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں داخل ہوتے تھے بلندی (ذی طوی والی طرف) کی راہ سے اور جب نکلتے تو نشیب سے۔ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں دن میں داخل ہوئے۔

 

٭٭ علی بن محمد، عمری، نافع، حضرت ابن عمر۔ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معتمر، زہری، علی بن حسین، عمرو بن عثمان، حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کی رسول آپ کل کہاں پڑاؤ ڈالیں گے اور یہ حج کا موقع تھا۔ فرمایا عقیل نے ہمارے لئے کوئی منزل چھوڑی بھی ہے؟ پھر فرمایا کل ہم خیف بنی کنانہ یعنی محصب میں پڑاؤ ڈالیں گے۔ جہاں قریش نے کفر پر قسم کھائی تھی یعنی بنوکنانہ نے قریش سے حلف لیا تھا کہ بنوہاشم سے نہ نکاح کریں گے نہ خرید و فروخت امام زہری نے فرمایا کہ خیف وادی کو کہتے ہیں۔

 

حجر اسود کا استلام

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو معاویہ، عاصم، عبد اللہ بن سرجس، کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ میں تجھے بوسہ دے رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو پتھر ہے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اگر میں نے رسول اللہ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں (ہرگز) تجھے نہ چومتا۔

 

٭٭ سوید بن سعید، عبد الرحیم، ابن خثیم، سعید بن جبیر، ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا یہ پتھر (حجر اسود) روز قیامت آئے گا اور اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہو گی جس سے گفتگو کرے گا جس نے بھی اس کو حق کے ساتھ چوما ہو گا اس کے متعلق شہادت دے گا

 

٭٭ علی بن محمد، یعلی ، محمد بن عون، نافع، ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود کی طرف منہ کیا اور اپنے ہونٹ اس پر رکھ کر دیر تک روتے رہے پھر متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رو رہے ہیں تو فرمایا اے عمر یہاں آنسو بہائے جاتے ہیں

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ کے کونوں میں سے کسی کونہ کا استلام نہ فرماتے تھے۔ سوائے حجر اسود کے جو اس کے ساتھ ہے بنو جمح کے گھروں کی طرف (رکن یمانی)

 

حجر اسود کا استلام چھڑی سے کرنا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق ، محمد بن جعفر، عبید اللہ بن ابی ثور، حضرت صفیہ بنت شیبہ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مطمئن ہو گئے تو آپ نے اپنے اونٹ پر طواف کیا آپ حجر اسود کا استلام اس چھڑی سے کرتے تھے جو آپ کے دست مبارک میں تھی۔ پھر آپ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ لکڑیوں سے بنا ہوا کبوتر ہے آپ نے اسے توڑا اور کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر باہر پھینک دیا میں یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ح، ہدیہ بن عبد الوہاب، فضل بن موسی، معروف بن خربوز مکی، طفیل، حضرت ابو طفیل عامر بن واثلہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں اور اپنی لاٹھی سے حجر اسود کا استلام کر رہے ہیں اور لاٹھی کو چوم رہے ہیں۔

 

بیت اللہ کے گرد طواف میں رمل کرنا

 

محمد بن عبد اللہ، احمد بن بشیر، علی بن محمد، محمد بن عبید، عبد اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کا پہلا طواف (طواف قدوم) کرتے تو تین چکروں میں رمل کرتے (پہلوانوں اور سپاہیوں کی طرح کندھے ہلا کر تیز تیز چلتے ) اور باقی چار چکروں میں عام اندازے سے جلتے حجر اسود سے حجر اسود تک ایک چکر ہوتا اور خود حضرت ابن عمر بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو حسین، مالک بن انس، جعفر بن محمد، حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں عام انداز سے چلے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، جعفر بن عون، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، حضرت عمر نے فرمایا کہ اب ان دو رملوں کا کیا مقصد؟ جبکہ اللہ سلام کو قوت عطا فرما دی اور کفر اور کافروں کو ختم کر دیا اللہ کی قسم ہم جو عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں کیا کرتے تھے ان میں سے ایک عمل بھی نہ ترک کریں گے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق ، معمر، ابی خیثم، ابو طفیل، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام صلح حدیبہ سے اگلے سال جب عمرہ کرنے کے لئے مکہ میں داخل ہونے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں فرمایا کل تمہاری قوم تمہیں دیکھے گی وہ تمہیں چست اور توانا دیکھے۔ چنانچہ جب صحابہ مسجد حرام میں داخل ہوئے تو حجر اسود کا استلام کیا اور رمل کیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی صحابہ کے ساتھ ہی تھے جب رکن یمانی کے قریب پہنچے تو۔

 

اضطباع کا بیان

 

محمد بن یحییٰ، محمد بن یوسف، قبیصہ، سفیان، ابن جریج، عبد الحمید، حضرت یعلی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اضطباع کر کے طواف کیا۔ قبیصہ کہتے ہیں کہ آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔

 

حطیم کو طواف میں شامل کرنا (یعنی حطیم سے باہر طواف کرنا)

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن موسی، سفیان بن ابی شعثاء، اسود بن یزید، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حطیم کے متعلق دریافت کیا فرمایا یہ بیت اللہ کا حصہ ہے میں نے عرض کیا پھر لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل کیوں نہ کیا فرمایا ان کے پاس (حلال مال میں سے ) خرچہ نہ تھا میں نے عرض کیا کہ پھر بیت اللہ کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ سیڑھی کے بغیر چڑھا نہیں جا سکتا۔ فرمایا یہ بھی تمہاری قوم نے اسی لئے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر جانے دیں اور چاہیں اندر جانے سے روک دیں اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر قریب نہ ہوتا (یعنی نومسلم نہ ہوتی) اور یہ ڈر نہ ہوتا کہ ان کے دل دور نہ ہو جائیں تو میں اس بات پر غور کرتا کہ کیا میں تبدیلی لاؤں اس میں پھر میں جو کمی ہے وہ پوری کروں اور اس کا دروازہ زمین پر کر دیتا۔

 

طواف کی فضیلت

 

علی بن محمد، محمد بن فضیل، علاء ، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو بیت اللہ کا طواف کرے اور دوگانہ ادا کرے اس کا یہ عمل ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہو گا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، حمید بن ابی سویہ، ابن ہشام، عطاء بن ابی رباح سے رکن یمانی کے بارے میں پوچھا جبکہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو فرمانے لگے مجھ سے ابو ہریرہ نے یہ حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جو بھی یہاں اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ! پڑھے تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ جب عطاء حجر اسود پر پہنچے تو ابن ہشام نے کہا ایابو محمد آپ کو اس رکن اسود کے بارے میں کیا معلوم ہوا؟ عطا نے فرمایا کہ ابو ہریرہ نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ جو حجر اسود کو چھوئے گویا وہ اللہ کا ہاتھ چھو رہا ہے۔ تو ابن ہشام نے عرض کیا ایابو محمد طواف کے متعلق بھی فرمائیے۔ عطاء فرمانے لگے کہ ابو ہریرہ نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے اور اس دوران کوئی گفتگو نہ کرے صرف سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ ! پڑھتا رہے اس کی دس خطائیں مٹادی جائیں گی اور اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس طواف کی بدولت اس کے دس درجے بلند کر دئیے جائیں گے اور جس نے طواف کیا اور طواف کرتے ہوئے باتیں بھی کیں تو وہ اپنے دونوں پاؤں کے ساتھ رحمت میں گھسا جیسے پانی میں آدمی کے پاؤں ڈوب جاتے ہیں۔

 

طواف کے بعد دوگانہ ادا کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ابن جریج، کثیر ابن کثیر بن مطلب بن ابی واعہ ، حضرت مطلب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ جب سات چکروں سے فارغ ہوئے تو حجر اسود کے قریب آئے اور مطاف کے کنارے دو رکعتیں ادا کیں اس وقت آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی آڑ نہ تھی۔ امام ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ بغیر سترہ کے نماز ادا کرنا مکہ کی خصوصیت ہے۔

 

٭٭ علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، محمد بن ثابت، عمرو بن دینار، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے پھر دو رکعتیں ادا کیں (وکیع کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم کے پاس دوگانہ ادا کیا) پھر صنعاء کی طرف نکلے۔

 

٭٭ عباس بن عثمان، ولید بن مسلم، مالک بن انس، جعفر بن محمد، حضرت جابر سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کے طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم میں آئے۔ حضرت عمرنے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ ہمارے والد ابراہیم کا مقام ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی) (کہ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) حدیث کے راوی ولید کہتے ہیں میں نے اپنے استاذ مالک سے کہا کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی ! (خاء کے کسرہ کے ساتھ) پڑھا تھا۔ فرمایا جی ہاں۔

 

بیمار سوار ہو کر طواف کر سکتا ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، معلی بن منصور، اسحاق بن منصور، احمد بن سنان، عبد الرحمن بن مہدی، مالک بن انس، محمد بن عبد الرحمن، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ وہ بیمار ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں حکم فرمایا کہ سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کریں۔ فرماتی ہیں پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر رہے ہیں اور اس میں وَالطُّورِ وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ تلاوت فرما رہے ہیں۔

 

ملتزم کا بیان

 

محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، مثنی بن صباح، عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر کے ساتھ طواف کیا جب ہم سات چکروں سے فارغ ہوئے تو ہم نے کعبہ کے پیچھے دوگانہ ادا کیا میں نے عرض کیا۔ فرماتے ہیں پھر حضرت عبد اللہ بن عمر چلے اور حجر اسود کا استلام کیا پھر حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنا سینہ اور دونوں ہاتھ اور رخسار اس کے ساتھ چمٹا دئیے پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا۔

 

حائضہ طواف کے علاوہ باقی مناسک حج ادا کرے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، سفیان بن عیینہ، عبد الرحمن بن قاسم، سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نکلیں ہمارا حج ہی کا ارادہ تھا جب مقام سرف یا اس کے قریب پہنچے تو مجھے حیض آنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ فرمایا تمہیں کیا ہوا کیا حیض آ رہا ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں یہ امر اللہ تعالی نے آدم کی بیٹیوں کیلئے مقدر فرما دیا ہے (یعنی اختیار نہیں ہے اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ) تم تمام ارکان ادا کرو البتہ بیت اللہ کا طواف مت کرو فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے قربان کی۔

 

حج مفرد کا بیان

 

ہشام بن عمار، ابو مصعب، مالک بن انس، عبد الرحمن بن قاسم، ام المومنین سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج مفرد کیا۔ حج مفرد یہ ہے کہ صرف حج کی نیت سے احرام باندھے۔

 

٭٭ ابو مصعب، مالک بن انس، ابو اسود، محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عروہ بن زبیر، ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج مفرد کیا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، عبد العزیز، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج مفرد کیا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، قاسم بن عبد اللہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر و عمر و عثمان نے حج مفرد کیا۔

 

حج اور عمرہ میں قرآن کرنا

 

نصر بن علی، عبد الاعلی بن عبد الاعلی، یحییٰ بن ابی اسحاق ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مکے کی طرف نکلے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَحِجَّۃً یعنی آپ نے حج قران کیا۔

 

٭٭ نصر بن علی، عبد الوہاب، حمید، حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لَبَّیْکَ بِعُمْرَۃٍ وَحِجَّۃٍ۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عبدہ بن ابی لبابہ، ابو وائل، شقیق بن سلمہ، حضرت صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نصرانی تھا پھر میں نے اسلام قبول کیا اور حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا۔ سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان نے مجھے قادسیہ میں حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا (ہم اہلال کرتے لَبَّیْکَ !بِعُمْرَۃٍ وَحِجَّۃٍ کہتے ) سنا تو کہنے لگے یہ تو اپنے اونٹ سے بڑھ کر گمراہ اور نادان ہے انہوں نے یہ بات کہہ کر میرے اوپر پہاڑ لاد دیا پھر میں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے یہ بات عرض کی۔ حضرت عمران دونوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو ملامت کی پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تمہاری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی طرف رہنمائی کر دی گئی تمہاری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کی طرف رہنما کر دی گئی۔ شقیق کہتے ہیں کہ میں اور مسروق بہت مرتبہ گئے اور صبی سے یہ حدیث پوچھی۔ حضرت صبی بن معبد فرماتے ہیں کہ میں نصرانیت کو چھوڑ کر نیا نیا مسلمان ہوا تھا میں نے کوشش میں کوتاہی نہیں کی اور میں حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا آگے اسی طرح بیان کیا جیسے پہلی حدیث میں گزرا۔

 

٭٭ علی بن محمد، حجاج، حسن بن سعد، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھ کر حج قران کیا۔

 

حج قران کرنے والے کا طواف

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یحییٰ بن حارث، غیلان بن جامع، لیث، عطاء، طاؤس، مجاہد، حضرت جابر بن عبد اللہ، ابن عمر اور ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ (رضی اللہ تعالی عنہم) مکہ آئے تو حج اور عمرہ کیلئے سب نے ایک ہی طواف کیا۔

 

٭٭ ہناد بن سری، عبثہ بن قاسم، اشعث، ابو زبیر، جابر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اور عمرہ کیلئے ایک ہی طواف کیا۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، مسلم بن خالد، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر حج قران کا احرام باندھ کر آئے تو بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا ہی کیا۔

 

٭٭ محرز بن سلمہ، عبد العزیز بن محمد، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو حج اور عمرہ کا احرام باندھے تو دونوں کیلئے ایک ہی طواف کافی ہے اور وہ جب تک حج پورا نہ کر لے حلال نہ ہو گا اور حج کے بعد حج اور عمرہ دونوں کے احرام سے حلال ہو گا۔

 

حج تمتع کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مصعب، عبد الرحمن بن ابراہیم، حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ذوالحجہ کے دنوں میں تو آپ نے اس ممانعت نہ فرمائی اور نہ قرآن میں اس کا نسخ اترا لیکن ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا اس بارے میں کہا۔ آپ فرماتے تھے جب کہ عقیق میں تھے کہ میرے پاس ایک آنے والا (فرشتہ) آیا میرے رب کے ہاں سے اور کہا نماز پڑھو اس مبارک وادی میں اور کہہ عمرہ ہے حج میں۔ یہ بات دُحیم یعنی عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی کی ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، مسعر، عبد الملک بن میسرہ، طاؤس، حضرت سراقہ بن جعشم بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وادی میں کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اس (خطبہ) میں ارشاد فرمایا غور سے سنو عمرہ حج میں داخل ہو گیا تا روز قیامت۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، حریری، ابی علاء، یزید بن شخیر، حضرت مطرف بن عبد اللہ بن شخیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین نے مجھے فرمایا کہ میں تمہیں حدیث سناتا ہوں شاید اللہ تعالی آج کی بعد تمہیں اس حدیث کے ذریعہ نفع عطا فرمائیں۔ جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چند گھر والوں نے ذی الحجہ کے دس دنوں میں عمرہ کیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، ح، نصر بن علی، شعبہ، حکم، عمارہ بن عمیر، ابراہیم بن موسیٰ اشعری، حضرت ابو موسی اشعری حج تمتع کے جواز کا فتوی دیا کرتے تھے۔ کسی نے ان سے کہا اپنے بعض فتوے چھوڑ دیجئے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ امیرالمومنین (عمر) نے آپ کی لاعلمی میں حج کے بارے میں نئے احکام جاری کئے ہیں۔ ابو موسی نے کہا میں اس کے بعد عمر سے ملا اور ان سے پوچھا انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ تمتع نبی اور آپ کے اصحاب نے کیا ہے لیکن مجھے برا معلوم ہوا کہ لوگ عورتوں سے جماع کریں پیلو کے درخت کے سائے میں پھر حج کو جائیں اور ان کے سروں سے (تا حال) پانی ٹپک رہا ہو۔

 

حج کا احرام فسخ کرنا

 

عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، عطاء، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ ہم نے نبی کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا عمرے کو اس میں شامل نہیں کیا پھر مکہ مکرمہ میں پہنچے جب ذوالحجہ کی چار راتیں گزر چکیں تب ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور سعی کر لی صفا و مروہ میں تو نبی نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اس احرام کو عمرہ میں بدل ڈالیں اور حلال ہو کر اپنی بیویوں سے صحبت کر لیں۔ ہم نے عرض کیا کہ اب عرفہ میں صرف پانچ دن باقی ہیں تو ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں گے کہ ہماری شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو گی؟ نبی نے فرمایا بے شک میں تم سب سے زیادہ پارسا اور سچا ہوں اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول ڈالتا۔ سراقہ بن مالک نے اس وقت عرض کیا کہ یہ متعہ ہمارے اس سال کیلئے ہے یا ہمیشہ کیلئے؟ آپ نے فرمایا نہیں ! (بلکہ) ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید، عمرہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کے ساتھ نکلے جب ذیقعدہ کے پانچ دن باقی تھے ہماری نیت کچھ نہ تھی ماسوا حج کے۔ جب ہم مکہ پہنچے یا مکہ کے نزدیک تو آپ نے حکم دیا کہ جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ اپنا احرام کھول ڈالے۔ سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا مگر جن کے ساتھ ہدی تھی انہوں نے ایسا نہ کیا۔ جب یوم النحر کا دن ہوا تو آپ ہمارے قریب تشریف لائے گائے کا گوشت لئے ہوئے۔ صحابہ نے کہا یہ گائے نبی نے اپنی بیبیوں کیلئے ذبح کی۔

 

٭٭ محمد بن صباح، ابو بکر بن عیاش، ابی اسحاق ، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے حج کا احرام باندھا جب مکہ پہنچے تو آپ نے فرمایا اپنے حج کو عمرہ بنا ڈالو لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم نے حج کا احرام باندھا تھا۔ اب ہم اسے عمرہ کیسے بنائیں فرمایا دیکھتے جاؤ جو حکم میں تمہیں دیتا جاؤں کرتے جاؤ۔ لوگوں نے آپ کی اس بات کو قبول نہ کیا تو آپ ناراض ہو کر چل دئیے پھر غصہ کی حالت میں عائشہ کے پاس آئے انہوں نے آپ کے چہرہ انور پر غصہ کے آثار دیکھ کر کہا کہ جس نے آپ کو غصہ دلایا اللہ اسے غصہ دلائے۔ فرمایا مجھے غصہ کیوں نہ آئے جبکہ میں ایک بات کا حکم دے رہا ہوں اور میرا حکم مانا نہیں جا رہا۔

 

٭٭ بکر بن خلف، ابو بشر، ابو عاصم، ابن جریج، منصور بن عبد الرحمن، صفیہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ احرام باندھ کر نکلے اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے پاس ہدی ہو تو وہ اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے پاس ہدی نہ ہو تو وہ احرام ختم کر دے فرماتی ہیں کہ میرے پاس ہدی نہ تھی اس لئے میں نے احرام ختم کر دیا اور زبیر کے پاس ہدی تھی اس لئے وہ حلال نہ ہوئے میں نے اپنے کپڑے پہنے اور زبیر کے پاس آئی تو زبیر کہنے لگے میرے پاس سے اٹھ جاؤ تو میں نے کہا کیا آپ کو اس بات کا ڈر ہے کہ میں آپ پر غلبہ پالوں گی۔

 

ان لوگوں کا بیان جن کا موقف ہے کہ حج کا فسخ کرنا خاص تھا

 

ابو مصعب، عبد العزیز بن محمد، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن، حرث بن بلال بن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بتائیے حج ختم کر کے عمرہ شروع کرنا ہماری خصوصیت ہے؟ یا سب لوگوں کیلئے اس کا عمومی حکم ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں بلکہ یہ صرف ہماری خصوصیت ہے۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، ابو ذر، حضرت بلال بن حارث سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا حج کا فسخ کرنا اور عمرہ کر لینا خاص ہمارے لئے ہے یا سب کیلئے عام ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں ! ہمارے لئے خاص ہے۔

 

صفا مروہ کی سعی

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے کہا میں اپنے لئے اس میں کچھ گناہ نہیں سمجھتا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کروں۔ کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاىِٕرِاللّٰہِ) 2۔ البقرۃ:158) (بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ ان میں چکر لگائے۔ انہوں نے کہا اللہ تو یوں فرماتا ہے کہ صفا اور مروہ اللہ عزوجل کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے پھر جو کوئی حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر گناہ نہیں سعی کرنے میں اگر تو جیسا سمجھتا ہے بعینہ ویسا ہوتا تو اللہ تعالی یوں فرماتا اس پر گناہ نہیں ہے اگر سعی نہ کرے اور یہ آیت کچھ انصاریوں کے متعلق اتری جب وہ لبیک پکارتے تو مناۃ (بت) کے نام سے پکارتے ان کو جائز نہ ہوتا سعی کرنا صفا اور مروہ میں۔ جب وہ نبی کے ساتھ حج کیلئے آئے تو انہوں نے اس کا ذکر کیا اسی وقت اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی اور قسم ہے میری عمر کی کہ اللہ اس کا حج پورا نہ کرے گا جو سعی نہ کرے صفا اور مروہ کے درمیان۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ہشام، بدیل بن میسرہ، صفیہ بنت شیبہ ام ولد شیبہ سے روایت کرتی ہیں کہ ام ولد شیبہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سعی کرتے تھے صفا اور مروہ کے درمیان اور ارشاد فرماتے جاتے ابطح (مقام) کو طے نہ کیا جائے مگر دوڑ کر۔

 

٭٭ علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، عطاء بن سائب، کثیر بن جمہان، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اگر میں صفا ومروہ کے درمیان دوڑوں تو میں نے اللہ کے رسول کو دوڑتے بھی دیکھا ہے اور اگر میں (عام رفتار سے ) چلوں تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور میں تو عمر رسیدہ بڈھا ہوں۔

 

عمرہ کا بیان

 

ہشام بن عمار، حسن بن یحییٰ، عمر بن قیس، طلحہ بن یحییٰ، اسحاق بن طلحہ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ حج جہاد ہے اور عمرہ نفل ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد ، وکیع، سفیان، بیان،جابر،شعبی، حضرت وہب بن خنبش، محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یعلی، اسماعیل، حضرت عبد اللہ بن اوفی فرماتے ہیں کہ نبی نے جب عمرہ کیا ہم آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے طواف کیا تو ہم نے آپ کے ساتھ ہی طواف کیا آپ نے نماز ادا کی تو ہم نے آپ کے ساتھ ہی نماز ادا کی اور ہم (آڑ بن کر) آپ کو اہل مکہ سے پوشیدہ رکھتے تھے کہ کوئی آپ کو ایذاء نہ پہنچا سکے۔

 

رمضان میں عمرہ کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد ، وکیع، سفیان، بیان، جابر، شعبی، حضرت وہب بن خنبش فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد ، وکیع، سفیان، بیان،جابر،شعبی، حضرت وہب بن خنبش، محمد بن صباح، سفیان، ح، علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، داؤد بن یزید، شعبی، حضرت ہرم بن خنبش بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رمضان المبارک میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد ، وکیع، سفیان، بیان،جابر،شعبی، حضرت وہب بن خنبش، جبارہ بن مغلس، ابراہیم بن عثمان، ابی اسحاق ، اسود بن یزید، حضرت ابو معقل سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد ، وکیع، سفیان، بیان،جابر،شعبی، حضرت وہب بن خنبش، علی بن محمد، ابو معاویہ، حجاج، عطاء، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد ، وکیع، سفیان، بیان،جابر،شعبی، حضرت وہب بن خنبش، ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن عبد الملک بن واقد، عبید اللہ بن عمر، عبد الکریم، عطاء، حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔

 

ذی قعدہ میں عمرہ

 

عثمان بن ابی شیبہ، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، ابن ابی لیلہ، عطاء، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف ذی قعدہ میں عمرہ کیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، اعمش، مجاہد، حبیب، عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف ذی قعدہ میں عمرہ کیا۔

 

رجب میں عمرہ

 

ابو کریب، یحییٰ بن آدم، ابو بکر بن عیاش، اعمش، حبیب، حضرت عروہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر سے پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس ماہ میں عمرہ کیا۔ فرمایا رجب میں تو تو سیدہ عائشہ نے فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رجب میں کبھی عمرہ نہیں کیا اور جب بھی آپ نے عمرہ کیا ابن عمر آپ کے ساتھ تھے۔

 

تنعیم سے عمرے کا احرام باندھنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو  اسحاق ، ابراہیم بن محمد بن عباس بن عثمان بن شافع، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبد الرحمن بن ابی بکر کو حکم دیا کہ وہ (اپنی بہن) سیدہ عائشہ کو اپنے ساتھ سوار کر کے لے جائیں اور ان کو عمرہ کرا دیں تنعیم میں سے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کے ساتھ نکلے حجۃ الوداع میں عین بقر عید کے چاند پر آپ نے فرمایا جو کوئی تم میں سے عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ پکارے اور اگر میں بدی ساتھ نہ رکھتا تو میں بھی عمرے کا احرام پکارتا۔ سیدہ عائشہ نے کہا ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرے کا احرام باندھا بعضوں نے حج کا۔ میں ان میں سے تھی جنہوں نے عمرے کا احرام باندھا۔ خیر ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ میں پہنچے اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آ گیا اور میں تا حال حائضہ تھی۔ ابھی میں نے عمرہ کا احرام نہیں کھولا تھا۔ میں نے نبی سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا عمرے کو چھوڑ دے اور اپنا سر کھول ڈال کنگھی کر اور حج کا احرام باندھ لے۔ عائشہ نے کہا میں نے حکم پر عمل کیا اور جب محصب کی رات ہوئی اور اللہ نے ہمارا حج پورا کر دیا تو آپ نے میرے ساتھ (میرے بھائی) عبد الرحمن کو بھیجا انہوں نے مجھے اونٹ پر بٹھایا اور تنعیم کو گئے۔ میں نے عمرہ کا احرام باندھا۔ غرض اللہ عزوجل نے ہمارا حج اور عمرہ پورا کر دیا اور نہ ہدی ہم پر لازم ہوئی نہ صدقہ دینا پڑا نہ روزے رکھنا پڑے۔

 

بیت المقدس سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، سلیمان بن سحیم، ام حکیم بنت امیہ، حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے بیت المقدس سے عمرہ کا احرام باندھا اور اس کی بخشش کر دی گئی۔

 

٭٭ محمد بن مصفی، احمد بن خالد، محمد اسحاق ، یحییٰ بن ابی سفیان، ام حکیم بنت امیہ، ام المومنین سیدہ ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے بیت المقدس سے عمرہ کا احرام باندھا تو یہ (عمرہ) اس کیلئے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ فرماتی ہیں کہ اسی لئے بیت المقدس عمرہ کا احرام باندھ کر آئی۔

 

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتنے عمرے کئے

 

ابو اسحاق شافعی، ابراہیم بن محمد، داؤد بن عبد الرحمن، عمرو بن دینار، عکرمہ، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار عمرے کئے۔ حدیبیہ کا عمرہ اس سے اگلے سال اس عمرہ کی قضا تیسرا جعرانہ سے کیا اور چوتھا حج کے ساتھ۔

 

منیٰ کی طرف نکلنا

 

علی بن محمد، ابو معاویہ، اسماعیل، عطاء، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آٹھ ذی الحجہ کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر عصر مغرب عشاء اور فجر منی میں ادا کی پھر عرفات کی طرف چلے آئے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، عبد اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر پانچوں نمازیں منی میں ادا کرتے پھر ان کو خبر دیتے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا ہی کیا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اسرائیل، ابراہیم بن مہاجر، یوسف بن ماہک، سیدہ عائشہ سے مروی ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیلئے ایک گھر نہ بنا دیں منی میں۔ آپ نے فرمایا نہیں ! منی میں تو جو آگے پہنچ جائے اسی کا ٹھکانہ (ملک) ہے۔

 

منی میں اترنا

 

علی بن محمد ، عمرو بن عبد اللہ ، وکیع ، اسرائیل ، ابراہیم بن مہاجر ، یوسف بن ماہک ، مسیکہ ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ایک گھر تعمیر نہ کر دیں جو آپ صلی اللہ علیہ پر سایہ رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں منیٰ میں تو جو آگے پہنچ جائے اسی کا ٹھکانہ (مِلک) ہے

 

علی الصبح منیٰ سے عرفات جانے کا بیان

 

محمد بن ابی عمر، سفیان بن عیینہ، محمد بن عقبہ، محمد بن ابی بکر، حضرت انس سے مروی ہے کہ ہم علی الصبح نبی کے ساتھ آج ہی کے دن (یعنی نویں ذی الحجہ کو) منی سے عرفات گئے۔ ہم میں سے کوئی تکبیر کہتا تھا کوئی تہلیل۔ نہ اس نے اس پر عیب کیا نہ اس نے اس پر یا یوں کہا کہ نہ انہوں نے عیب کیا نہ ان پر نہ انہوں نے ان پر۔ ہر کوئی ذکر الہی میں مصروف تھا کیسا ہی ذکر الہی ہو۔

 

عرفات میں کہاں اترے؟

 

علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، نافع بن عمر، سعید بن حسان، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی عرفات میں (مقام) وادی نمرہ میں اترتے تھے جب حجاج نے عبد اللہ بن زبیر کو شہید کیا تو ابن عمر سے پوچھنے بھیجا کہ نبی آج کے دن کون سے وقت پر نکلے تھے؟ ابن عمر نے کہا جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے۔ حجاج نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ دیکھتا رہے کہ ابن عمر کب نکلتے ہیں۔ جب حضرت ابن عمر نے کوچ کا ارادہ کیا تو پوچھا کیا سورج ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا ابھی نہیں ڈھلا وہ بیٹھ گئے پھر پوچھا کیا سورج ڈھل گیا کیا سورج ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا نہیں ڈھلا۔ (یہ سن کر) وہ بیٹھ گئے پھر پوچھا سورج ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا ہاں ! یہ سنا تو وہ چل پڑے۔

 

موقوف عرفات

 

علی بن محمد، یحییٰ بن آدم، سفیان ، عبد الرحمن بن عیاش، زید بن علی، عبید اللہ بن ابی رافع، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفہ میں ٹھہرے اور یہ موقف ہے بلکہ عرفہ تمام کا تمام موقف ہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عمرو بن عبد اللہ بن صفوان، یزید بن شیبان سے ایک روایت ہے کہ ہم عرفات میں ایک مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے لیکن ہم اس کو دور سمجھتے تھے۔ ٹھہرنے کی جگہ سے اتنے میں مربع کے بیٹے ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے۔ میں نبی کا پیغام لایا ہوں تمہاری طرف تم لوگ اپنے اپنے مقاموں میں رہو۔ آج تم وارث ہو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، حضرت قاسم بن عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عرفہ سب کا سب موقف ہے۔

 

عرفات کی دعاء کا بیان

 

ایوب بن محمد، عبد القاہر بن سری، عبد اللہ بن کنانہ بن عباس بن مرداس، عباس بن مرداس سلمی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی امت کے لئے دعائے مغفرت کی تیسرے پہر کو تو آپ کو جواب ملا کہ میں نے بخش دیا تیری امت کو مگر جو ان میں ظالم ہو اس سے تو میں مظلوم کا بدلہ ضرور لوں گا۔ آپ نے فرمایا اے مالک! اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت دے اور ظالم کو بخش کر اس کو راضی کر دے لیکن اس شام کو اس کا جواب نہیں ملا جب مزدلفہ میں صبح ہوئی تو آپ نے پھر دعا فرمائی۔ اللہ عزوجل نے آپ کی درخواست قبول کی تو آپ مسکرائے یا آپ نے تبسم فرمایا تو ابو بکر و عمر نے عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ اس وقت کبھی نہیں ہنستے تھے تو آج کیوں ہنسے؟ اللہ عزوجل آپ کو ہنستا ہی رکھے۔ آپ نے فرمایا اللہ کے دشمن ابلیس نے جب دیکھا کہ اللہ تعالی نے میری دعا قبول کی اور میری امت کو بخش دیا تو اس نے مٹی اٹھائی اور اپنے سر پر ڈالنے لگا اور پکارنے لگا ہائے خرابی ! ہائے تباہی تو مجھے ہنسی آ گئی۔ جب میں نے اس کا تڑپنا دیکھا۔

 

٭٭ ہارون بن سعید، ابو جعفر، عبد اللہ بن وہب، مخرمہ بن بکیر، یونس بن یوسف، ابن مسیب، ام المومنین سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی دن بھی اللہ تعالی دوزخ سے اپنے اتنے زیادہ بندوں کو رہائی نہیں عطا فرماتے جتنے بندوں کو عرفہ کے روز (دوزخ سے رہائی عطا فرماتے ہیں ) اور اللہ عزوجل قریب ہوتے ہیں پھر ملائکہ کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے کیا ارادہ کیا۔

 

ایسا شخص جو عرفات میں ا تاریخ کو طلوع فجر سے قبل آ جائے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، سفیان ، بکیر بن عطاء، عبد الرحمن بن یعمر دیلی سے مروی ہے کہ میں نبی کے پاس حاضر تھا جب آپ عرفات میں ٹھہرے تھے۔ آپ کے پاس کچھ نجدی لوگ آئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !حج کیونکر ہے؟ آپ نے فرمایا حج عرفات میں ٹھہرنا ہے پھر جو کوئی صبح کی نماز سے پہلے مزدلفہ کی رات میں عرفات میں آ جائے اس کا حج پورا ہو گیا اور منی میں تین دن کے بعد چلا جائے تب بھی اس پر گناہ نہیں ہے اور جو ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں پھر آپ نے ایک شخص کو اپنے ساتھ سوار کر لیا وہ لوگوں سے پکار کر یہ کہہ رہا تھا۔ عبد الرحمن بن یعمر دیلی سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا عرفات میں آپ کے پاس کچھ نجدی آئے پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔ محمد بن یحی نے کہا میں ثوری کی کوئی حدیث اس سے بہتر نہیں پاتا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، اسماعیل بن ابی خالد، عامر، عروہ بن مضرس طائی سے مروی ہے کہ انہوں نے حج کیا نبی کے زمانہ میں تو اس وقت پہنچے جب لوگ مزدلفہ میں قیام پذیر تھے۔ عروہ نے کہا میں نبی کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے اپنی اونٹنی کو دبلا کیا اور خود تکلیف اٹھائی۔ اللہ کی قسم ! میں نے تو کوئی ٹیلہ نہ چھوڑا جس پر میں نہ ٹھہرا ہوں تو میرا حج ہو گیا؟ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوا اور عرفات میں ٹھہر کر لوٹے رات کو یا دن کو اس نے اپنا میل کچیل دور کیا اور اس کا حج پورا ہوا۔

 

عرفات سے (واپس) لوٹنا

 

علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، ہشام بن عروہ، اسامہ بن زید سے مروی ہے ان سے پوچھا گیا کہ نبی کیوں کر چل رہے تھے جب عرفات سے لوٹے؟ انہوں نے بیان کیا کہ آپ تیز چال چلتے تھے پھر جب خالی جگہ پا لیتے تو دوڑاتے (اونٹ کو) یہ چال یعنی نص عنق سے نسبتاً تیز ہے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، ثوری، ہشام بن عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ قریشی بولے ہم تو بیت اللہ کے رہنے والے ہیں حرم سے باہر نہیں جاتے۔ تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی پھر وہیں سے لوٹو جہاں سے لوٹتے ہیں۔

 

اگر کچھ کام ہو تو عرفات و مزدلفہ کے درمیان اتر سکتا ہے

 

محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، ابراہیم بن عقبہ، کریب، حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ لوٹا۔ جب آپ اس گھاٹی پر آئے جہان امیر اترا کرتے ہیں تو آپ اترے اور پیشاب کیا اور وضو کیا۔ میں نے کہا کہ نماز پڑھ لیجئے۔ آپ نے فرمایا نماز تو آگے ہے۔ جب مزدلفہ پہنچے تو اذان دی اقامت کہی پھر مغرب کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد کسی نے اپنا کجاوہ بھی نہیں کھولا کہ کھڑے ہوئے اور عشاء کی نماز ادا فرمائی۔

 

مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین (یعنی مغرب و عشاء اکٹھا کرنا)

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، عدی بن ثابت، عبد اللہ بن یزید، ابو ایوب فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت میں ادا کی

 

٭٭ محرز بن سلمہ، عبد العزیز بن محمد، عبید اللہ، سالم، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی نے مغرب کی نماز مزدلفہ ادا کی پھر جب ہم اونٹوں کو بٹھلا دیا تو آپ نے فرمایا پڑھو (نماز عشاء) اور عشاء کیلئے صرف تکبیر پڑھی۔

 

مزدلفہ میں قیام کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد، احمر، حجاج، ابو  اسحاق ، عمر بن میمون سے مروی ہے کہ ہم نے حضرت عمر کے ساتھ حج ادا کیا۔ جب ہم مزدلفہ سے لوٹے تو انہوں نے کہا مشرک کہا کرتے تھے اے ثبیر (پہاڑ کا نام ہے ) چمک اٹھ تاکہ ہم لوٹیں اور وہ مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے جب تک آفتاب نہ نکلتا تو نبی نے ان کے خلاف کیا اور مزدلفہ سے لوٹے سورج نکلنے سے قبل۔

 

٭٭ محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء، ثوری، ابو زبیر سے مروی ہے کہ جابر نے کہا کہ حضرت محمد حجۃ الوداع میں لوٹے اطمینان کے ساتھ اور لوگوں کو بھی اطمینان سے چلنے کا حکم دیا اور جب منی میں پہنچے تو ایسی کنکریاں مارنے کا حکم دیا جو انگلیوں میں آ جائیں اور جانور کو جلد چلایا اور فرمایا میری امت کے لوگ حج کے ارکان سیکھ لیں اب مجھے امید نہیں کہ اس سال کے بعد میں ان سے ملوں۔

 

٭٭ علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، ابن ابی رواد، ابو  سلمہ، حضرت بلال بن رباح سے مروی ہے کہ نبی نے مزدلفہ کی صبح کو حضرت بلال سے فرمایا اے بلال! لوگوں کو چپ کراؤ۔ پھر آپ نے فرمایا اللہ نے بہت فضل کیا تم پر اس مزدلفہ میں تو بخش دیا تم میں سے گنہگار شخص کو نیک شخص کی وجہ سے اور جو نیک تھا تم میں سے  اس کو دیا جو کچھ اس نے طلب کیا۔ اب پلٹو اللہ کے نام لے کر۔

 

جو شخص کنکریاں مارنے کیلئے مزدلفہ سے منیٰ کو پہلے چل پڑے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، مسعر، سفیان، سلمہ بن کہیل، حسن عرنی، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو یعنی عبد المطلب کو اولاد میں سے چھوٹے بچوں کو کنکریاں دے کر آگے روانہ کر دیا اور آپ ہماری رانوں پر آہستگی سے مارتے تھے اور ارشاد فرماتے جاتے اے چھوٹے بچو! جمرے پر کنکریاں مت مارنا یہاں تک کہ سورج نکل آئے۔ سفیان نے اپنی روایت میں یہ زائد کہا کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں مارتا ہو۔

 

٭٭ ابو بکر ، سفیان، عمرو، عطاء، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں ان لوگوں میں سے تھا جن کو نبی نے آگے بھیج دیا تھا اپنے گھر والوں کے کم طاقت والے لوگوں میں۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد الرحمن بن قاسم، عائشہ سے مروی ہے کہ حضرت سودہ ایک بہاری خاتون تھی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت چاہی مزدلفہ سے چلے جانے کی لوگوں کی روانگی سے قبل ہی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اجازت مرحمت فرما دی۔

 

کتنی بڑی کنکریاں مارنی چاہیے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، یزید بن ابی زیادہ، سلیمان بن عمرو نے اپنی ماں سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یوم النحر میں دیکھا جمرۂ عقبہ کے قریب۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک خچر پر سوار تھے اور فرماتے تھے اے لوگو! جب تم کنکریاں مارو تو ایسی جو انگلیوں کے درمیان آ جائیں۔

 

٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، عوف، زیاد بن حصین، ابو عالیہ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمرۂ عقبہ کی صبح کو ارشاد فرمایا جبکہ آپ اپنی اونٹنی پر تھے کہ میرے لئے کنکریاں چن۔ میں نے آپ کے لئے سات کنکریاں چنیں۔ آپ ان کو اپنی ہتھیلی میں مسلتے تھے اور فرماتے بس! ایسی ہی کنکریاں پھینکو پھر آپ نے فرمایا اے لوگو! بچو تم دین میں سختی کرنے سے کیونکہ تم سے پہلے لوگ (قومیں ) دین میں اسی غلو کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے۔

 

جمرۂ عقبہ پر کہاں سے کنکریاں مارنا چاہیے؟

 

علی بن محمد، وکیع، مسعودی، جامع بن شداد، عبد الرحمن بن یزید سے مروی ہے کہ جب عبد اللہ بن مسعود جمرۂ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے نشیب میں گئے اور کعبہ کی طرف منہ کیا اور جمرۂ عقبہ کو اپنے دائیں ابرو پر کیا پھر سات کنکریاں  ماریں اور ہر کنکری مارنے پر اللَّہُ أَکْبَرُ کہا پھر کہا قسم اس معبود کی جسکے سوا کوئی سچا معبود نہیں جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی انہوں نے بھی یہیں سے کنکریاں ماریں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، یزید بن ابی زیاد، سلیمان بن عمرو بن احوص نے اپنی والدہ سے روایت کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا یوم النحر میں جمرۂ عقبہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی کے نشیب میں گئے اور جمرے کو مارا سات کنکریوں سے اور ہر کنکری پر تکبیر کہی پھر لوٹے۔ ام جندب سے دوسری روایت بھی انہی الفاظ سے مروی ہے۔

 

جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد اس کے پاس نہ ٹھہرے

 

عثمان بن ابی شیبہ، طلحہ بن یحییٰ، یونس بن یزید، زہری، سالم ، حضرت ابن عمرنے جمرہ عقبہ کی رمی کی اور اس کے پاس ٹھہرے نہیں اور فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسے ہی کیا (جیسا کہ میں نے عمل کیا)۔

 

٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، حجاج، حکم بن عتیبہ، مقسم، ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جمرہ عقبہ کی رمی کرتے تو آگے بڑھ جاتے اور ٹھہرتے نہیں۔

 

سوار ہو کر کنکریاں مارنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد، حجاج، حکم، مقسم، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر رمی کی۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ایمن بن نابل، قدامہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ نے جمرہ کو مارا یوم النحر کو ایک اونٹنی پر سوار ہو کر جو سفید اور سرخ رنگت والی تھی نہ اس وقت کسی کو مارتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ۔

 

بوجہ عذر کنکریاں مارنے میں تاخیر کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن ابی بکر، عبد الملک بن ابی بکر، ابی بداح بن عاصم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ چرانے والوں کو اجازت دی کہ ایک دن رمی کریں اور (اگر چاہیں تو) ایک دن رمی نہ کریں۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، مالک بن انس، ح، احمد بن سنان، عبد الرحمن بن مہدی، مالک بن انس، عبد اللہ بن ابی بکر، ابو بداح بن عاصم، حضرت عاصم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ چرانے والوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ نحر کے دن رمی کر لیں پھر دو دن کی رمی 12 تاریخ کو کریں یا گیارہ تاریخ کو 12 کی رمی بھی کر لیں۔ امام مالک نے کہا جو راوی ہیں اس حدیث کے کہ مجھے گمان ہے کہ اس حدیث میں عبد اللہ بن ابی بکر نے یہ کہا کہ پہلے دن رمی کریں۔

 

بچوں کی طرف سے رمی کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، اشعچ، ابی زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں حج کیا تو ہمارے ساتھ خواتین اور کم سن بچے تھے۔ چنانچہ ہم نے بچوں کی طرف سے تلبیہ بھی کہا اور رمی بھی کی۔

 

حاجی تلبیہ کہنا کب موقوف کرے

 

بکر بن خلف، ابو بشر، حمزہ بن حارث بن عمیر، ایوب، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کہتے رہے۔

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو احوص، خصیف، مجاہد، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت فضل بن عباس نے فرمایا کہ میں نبی کے پیچھے آپ ہی کی سواری پر تھا جب تک آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی (نہ) کی میں مسلسل سنتا رہا کہ آپ تلبیہ کہہ رہے ہیں جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو تلبیہ کہنا موقوف فرما دیا۔

 

جب مرد جمرہ عقبہ کی رمی کر چکے تو جو باتیں حلال ہو جاتی ہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ابو بکر بن خلاد، یحییٰ بن سعید، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان ، سلمہ بن کہیل، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب تم جمرہ (عقبہ) کی رمی کر چکو تو تمہارے لئے سب باتیں حلال ہو جائیں گی سوائے بیویوں کے ایک مرد نے عرض کیا اے ابن عباس ! اور خوشبو بھی (ابھی تک حلال نہ ہو گی) تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کستوری سر میں لگاتے دیکھا بتاؤ کستوری خوشبو ہے یا نہیں؟

 

٭٭ علی بن محمد، محمد، ابو معاویہ، ابو اسامہ، عبید اللہ، قاسم بن محمد، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احرام باندھتے وقت بھی خوشبو لگائی اور کھولتے وقت بھی۔

 

سر منڈانے کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، محمد بن فضیل، عمارہ بن قعقاع، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے اللہ ! سر منڈانے والوں کو بخش دے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اور بال کترانے والوں کو بھی آپ نے فرمایا اے اللہ حلق کرانے والوں کو بخش دیجئے تین بار یہی فرمایا صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بال کترانے والوں کو بھی۔ آپ نے فرمایا اور بال کترانے والوں کو بھی۔

 

٭٭ علی بن محمد، احمد بن ابی حواری، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ رحمت فرمائے حلق کرانے والوں پر صحابہ نے عرض کیا اور قصر کرانے والوں پر بھی اے اللہ کے رسول؟ اللہ رحمت فرمائے حلق کرانے والوں پر عرض کیا اور قصر کرانے والوں پر بھی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا اور قصر کرانے والوں پر بھی۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ، یونس بن بکیر، ابن اسحاق ، ابن ابی نجیح، مجاہد، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ نے حلق کرانے والوں کیلئے تین بار دعا فرمائی اور قصر کرانے والوں کیلئے (صرف) ایک مرتبہ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا حلق کرانے والوں نے شک نہیں کیا۔

 

سر کی تلبید کرنا (بال جمانا)

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ ام المومنین سیدہ حفصہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول لوگوں نے احرام کھول دیا اور آپ نے بھی (ابھی تک) احرام نہیں کھولا۔ کیا وجہ ہے۔ فرمانے لگے میں نے اپنے سر کی تلبید کی تھی اور اپنے قربانی کے جانور کی گردن میں قلادہ لٹکایا تھا اس لئے میں نحر کرنے تک احرام نہ کھولوں گا۔

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس بن شہاب، سالم، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلبید کئے ہوئے لبیک پکارتے سنا۔

 

ذبح کا بیان

 

علی بن محمد، عمرو بن عبد اللہ، وکیع، اسامہ بن زید، عطاء، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا منی سب کا سب نحر کی جگہ ہے اور مکہ کی سب راہیں راستہ بھی ہیں اور نحر کی جگہ بھی اور عرفہ سب کا سب موقف ہے اور مزدلفہ سب کا سب موقف ہے۔

 

مناسک حج میں تقدیم و تاخیر

 

علی بن محمد، سفیان بن عیینہ، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جب بھی دریافت کیا گیا کہ کسی نے فلاں حج کا عمل دوسرے عمل سے پہلے کر دیا۔ آپ نے دونوں ہاتھوں کے اشاروں سے یہی جواب دیا کہ کچھ حرج نہیں۔

 

٭٭ ابو بشر بکر بن خلف، یزید بن زریع، خالد، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سے منی کے روز بہت سی باتیں دریافت کی گئیں آپ یہی فرماتے رہے کچھ حرج نہیں کچھ حرج نہیں۔ چنانچہ ایک مرد نے حاضر ہو کر عرض کیا میں نے ذبح سے قبل حلق کر لیا۔ آپ نے فرمایا کچھ حرج نہیں ایک کہنے لگا میں نے شام کو رمی کی۔ فرمایا کچھ حرج نہیں۔

 

٭٭ علی بن محمد، سفیان بن عیینہ، زہری، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی نے حلق سے قبل ذبح کر لیا ہے یا ذبح سے قبل حلق کر لیا ہے فرمایا کچھ حرج نہیں۔

 

٭٭ ہارون بن سعید، عبد اللہ ، قعد ابن وہب، اسامہ بن زید، عطاء بن ابی رباح، جابر بن عبد اللہ، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ نحر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منی میں لوگوں کی خاطر تشریف فرما ہوئے ایک مرد آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے جانور ذبح کرنے سے قبل سر مونڈ لیا۔ فرمایا کوئی حرج نہیں۔ پھر دوسرا آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے رمی سے قبل جانور کو نحر کر دیا۔ فرمایا کوئی حرج نہیں۔ اس روز آپ سے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا گیا کہ وہ دوسری چیز سے پہلے کر دی گئی ہے آپ نے یہی فرمایا کہ کچھ حرج نہیں۔

 

ایام تشریق میں رمی جمعرات

 

حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن جریج، ابی زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ جمرہ عقبہ کی رمی چاشت کے وقت کی اور اس کے بعد کی رمی زوال کے بعد کی۔

 

٭٭ جبارہ بن مغلس، ابراہیم بن عثمان بن ابی شیبہ، مقسم ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سورج ڈھل جاتا تو اس انداز سے رمی جمرات کرتے کہ جب رمی سے فارغ ہوتے تو ظہر پڑھتے۔

 

یوم نحر کو خطبہ

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ہناد بن سری، ابو احوص، شبیب بن غرقدہ، سلیمان بن عمرو بن احوص، حضرت عمرو بن احوص فرماتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا اے لوگو! بتاؤ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت والا ہے۔ تین بار یہی فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا حج اکبر کا دن آپ نے فرمایا تمہارے خون اموال اور عزتیں تمہارے درمیان اسی طرح حرمت والی ہیں جس طرح تمہارا آج کا دن اس ماہ میں اس شہر میں حرمت والا ہے۔ غور سے سنو کوئی مجرم جرم نہیں کرتا مگر اپنی جان پر (ہر جرم کا محاسبہ کرنے والے ہی سے ہو گا دوسرے سے نہیں ) باپ کے جرم کا مواخذہ والد سے ہو گا شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا کہ کبھی بھی تمہارے اس شہر میں اس کی پرستش ہو۔ لیکن بعض اعمال جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو ان میں شیطان کی اطاعت ہو گی وہ اسی پر خوش اور راضی ہو جائے گا غور سے سنو جاہلیت کا ہر خون باطل اور ختم کر دیا گیا (اب اس پر گرفت نہ ہو گی) سب سے پہلے میں حارث بن عبد المطلب کا خون ساقط کرتا ہوں یہ بنو لیث میں دودھ پیتے تھے کہ ہذیل نے ان کو قتل کر دیا (بنو ہاشم ہذیل سے ان کے خون کا مطالبہ کرتے تھے ) یاد رکھو جاہلیت کا ہر سود ختم کر دیا گیا تمہیں صرف تمہارے اصل اموال (سود شامل کئے بغیر) ملیں گے نہ تم ظلم کرو گے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ توجہ کرو اے میری امت کیا میں نے دین پہنچا دیا؟ تین بار یہی فرمایا صحابہ نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے کہا اے اللہ گواہ رہئے تین بار یہی فرمایا۔

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، عبد السلام، زہری، محمد بن جبیر بن مطعم، حضرت جبیر بن مطعم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منی میں مسجد خیف میں کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ تعالی اس شخص کو خوش و خرم رکھیں جو میری بات سنے پھر آگے پہنچا دے کیونکہ بہت سے فقہ کی بات سننے والے خود سمجھنے والے نہیں ہوتے اور بہت سے فقہ کی بات ایسے شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو اس (پہنچانے والے ) سے زیادہ فقیہ اور سمجھدار ہوتا ہے تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مومن کا دل خیانت (کوتاہی) نہیں کرتا اعمال صرف اللہ کے لئے کرنا مسلمان حکام کی خیر خواہی اور مسلمانوں کی جماعت کا ہمیشہ ساتھ دینا کیونکہ مسلمانوں کی دعا پیچھے سے بھی انہیں گھیر لیتی ہے (اور شیطان کسی بھی طرف سے حملہ آور نہیں ہو سکتا)۔

 

٭٭ اسماعیل بن توبہ، زافر بن سلیمان، ابی سنان، عمرو بن مرہ، عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جبکہ آپ عرفات میں اپنی کٹی اونٹنی پر سوار تھے تمہیں معلوم ہے یہ کون سا دن کون سا مہینہ اور کون سا شہر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یہ شہر حرام ہے مہینہ حرام ہے اور دن حرام ہے۔ فرمایا غور سے سنو تمہارے اموال اور خون بھی تم پر اسی طرح حرام ہے جیسے اس ماہ کی اس شہر اور دن کی حرمت ہے غور سنو میں حوض کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوں اور تمہاری کثرت پر باقی امتوں کے سامنے فخر کروں گا اس لئے مجھے روسیاہ نہ کرنا (کہ میرے بعد معاصی و بدعات میں مبتلا ہو جاؤ پھر مجھے باقی امتوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے ) یاد رکھو کچھ لوگوں کو میں چھڑاؤں گا (دوزخ سے ) اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑوا لئے جائیں گے تو میں عرض کروں گا اے میرے رب یہ میرے امتی ہیں رب تعالی فرمائیں گے آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، ہشام بن غاز، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس سال حج کیا (یعنی حجۃ الوداع میں ) آپ نحر کے دن جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا آج کیا دن ہے؟ صحابہ نے عرض کیا نحر کا دن فرمایا یہ کون سا شہر ہے لوگوں نے عرض کیا یہ بلد حرام ہے۔ فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے؟ عرض کیا شہر حرام ہے (اللہ کے ہاں محترم مہینہ ہے ) فرمایا یہ حج اکبر کا دن ہے اور تمہارے خون اموال اور عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ شہر اس مہینہ اور اس دن میں حرام ہے پھر فرمایا کیا میں نے پہنچا دیا صحابہ نے عرض کیا جی ہاں پھر آپ فرمانے لگے اے اللہ گواہ رہئے پھر لوگوں کو رخصت فرمایا تو لوگوں نے کہا یہ حجۃ الوداع ہے۔

 

بیت اللہ کی زیارت

 

بکر بن خلف، ابو بشر ، یحییٰ بن سعید، سفیان ، محمد بن طارق، طاؤس، ابی زبیر، حضرت سیدہ عائشہ و ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف زیارت رات تک مؤخر فرمایا۔

 

٭٭ حرملہ بن یحییٰ، ابن عہب، ابن جریج، عطاء، عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف زیارت کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ طواف زیارت میں رمل نہیں۔

 

زمزم پینا

 

علی بن محمد، عبید اللہ بن موسی، عثمان بن اسود، محمد بن عبد الرحمن بن ابی بکر فرماتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ایک مرد آیا آپ نے پوچھا کہاں سے آئے بولا زمزم سے فرمایا جیسے زمزم پینا چاہئے ویسے پیا بھی؟ بولا کیسے؟ فرمایا جب زمزم پیو تو قبلہ رو ہو جاؤ اور اللہ کا نام لو اور تین سانس میں پیو اور خوب سیر ہو کر پیو اور جب پی چکو تو اللہ عزوجل کی حمد و ثنا کرو اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم میں اور منافقوں میں فرق یہ ہے کہ منافق زمزم سیر ہو کر نہیں پیتے۔

 

٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، عبد اللہ بن مومل، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ نے فرمایا زمزم کا پانی جس غرض کیلئے پیا جائے وہ حاصل ہو گی۔

 

کعبہ کے اندر جانا

 

عبد الرحمن بن ابراہیم، عمرو بن عبد الواحد، اوزاعی، نافع ، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے روز کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ بلال اور عثمان بن شیبہ (رضی اللہ عنہما) تھے انہوں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا جب یہ باہر آئے تو میں نے بلال سے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہاں نماز پڑھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ نے داخل ہو کر اپنے چہرہ کے سامنے دونوں ستونوں کے درمیان نماز پڑھی پھر میں نے اپنے آپ کو ملامت کی کہ میں نے اس وقت یہ بھی کیوں نہ پوچھ لیا کہ اللہ کے رسول نے کتنی رکعات نماز پڑھی۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسماعیل بن عبد الملک، ابن ابی ملیکہ، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی میرے پاس سے باہر تشریف لے گئے اس وقت آپ کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں اور طبیعت میں بہت فرحت تھی۔ پھر آپ میرے پاس تشریف لائے تو غمزدہ و رنجیدہ تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس سے تشریف لے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت خوش تھے اور واپس آئے تو بہت رنجیدہ؟ فرمایا میں کعبہ کے اندر گیا پھر مجھے آرزو ہوئی کہ کاش ایسا نہ کرتا مجھے اندیشہ ہے کہ میں نے اپنے بعد امت کو تکلیف و مشقت میں ڈال دیا۔

 

منیٰ کی راتیں مکہ گزارنا

 

علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، نافع، ابن عمر، عباس بن عبد المطلب نے منیٰ کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مانگی اس لئے کہ زمزم پلانے کی خدمت ان کے سپرد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔

 

٭٭ علی بن محمد، ہناد بن سری، ابو معاویہ، اسماعیل بن مسلم، عطاء، ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی کو بھی مکہ میں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی سوائے (میرے والد) حضرت عباس کے (کہ ان کو اجازت دی) کیونکہ زمزم پلانے کی خدمت ان کے سپرد تھی۔

 

محصب میں اترنا

 

ہناد بن سری، ابن ابی زائدہ، عبدہ، وکیع، ابو معاویہ، ح، علی بن محمد، وکیع، ابو معاویہ، ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ ابطخ میں اترنا سنت نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو ابطخ میں اس لئے اترے تاکہ مدینہ جانے میں آسانی رہے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام، عمار بن زریق، اعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطحا سے کوچ کی رات صبح اندھیرے ہی میں سفر شروع فرما دیا۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرات ابو بکر و عمر سب ابطح میں اترتے تھے۔

 

طواف رخصت

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، سلیمان ، طاؤس، ابن عباس فرماتے ہیں کہ لوگ ہر طرف کو واپس ہو رہے تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہرگز کوئی بھی کوچ نہ کرے یہاں تک کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابراہیم بن زید، طاؤس، ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا آدمی کوچ کرے اور اس کا آخری بیت اللہ کا طواف نہ ہو۔

 

حائضہ طواف وداع سے قبل واپس ہو سکتی ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، عائشہ، محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، ابی سلمہ، عائشہ فرماتی ہیں کہ طواف افاضہ کے بعد حضرت صفیہ بنت حیی کو حیض آیا تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کیا وہ ہمیں روکنے والی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے طواف افاضہ کر لیا ہے پھر اسے حیض آیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر روانہ ہو جائیں۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم ، اسود، عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت صفیہ کا ذکر کیا تو ہم نے عرض کیا انہیں حیض آ رہا ہے۔ فرمایا بانجھ سر منڈی میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمیں روک کر رہے گی تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس نے نحر کے دن طواف کیا فرمایا پھر ہمیں رکنے کی ضرورت نہیں اس سے کہو روانہ ہو جائے۔

 

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کا مفصل ذکر

 

ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد اپنے والد حضرت محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہم حضرت جابر بن عبد اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو پوچھا کون لوگ ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں محمد بن علی بن حسین ہوں۔ آپ نے (از راہ شفقت) میرے سر کی طرف ہاتھ بڑھایا اور میری قمیض کی اوپر والی گھنڈی کھولی پھر نیچے والی گھنڈی کھولی پھر میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اس وقت میں جوان لڑکا تھا۔ فرمایا مرحبا تم جو چاہو پوچھو۔ میں نے ان سے کچھ باتیں دریافت کیں وہ نابینا ہو چکے تھے اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو وہ ایک بنا ہوا کمبل لپیٹ کر کھڑے ہو گئے جونہی میں چادر ان کے کندھوں پر ڈالتا اس کے دونوں کنارے ان کی طرف آ جاتے کیونکہ کمبل چھوٹا تھا اور ان کی بڑی چادر کھونٹی پر رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی میں نے عرض کیا کہ ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کا احوال سنائیے۔ تو انہوں نے ہاتھ سے نو کے عد د کا اشارہ کیا (چھنگلیا اس کے ساتھ والی اور بڑی انگلی ہتھیلی پر رکھ کر) اور فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نو برس مدینہ میں رہے حج نہیں کیا (ہجرت کے بعد) دسویں سال آپ نے لوگوں میں اعلان کرا دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حج کرنے والے ہیں تو مدینہ میں بہت لوگ آئے ہر ایک کی غرض یہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کریں اور تمام اعمال آپ کی مانند کریں۔ آپ سفر پر نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس کے ہاں محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی انہوں نے کسی کو بھیج کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا کروں؟ فرمایا نہا لو اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو اور احرام باندھ لو۔ خیری آپ نے مسجد میں نماز ادا فرمائی پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے جب آپ کی اونٹنی میدان میں سیدھی ہوئی۔ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ تو میں نے آپ کے سامنے تا حد نگاہ سوار و پیادہ کا ہجوم دیکھا اور دائیں بائیں پیچھے ہر طرف یہی کیفیت تھی (کہ تاحد نگاہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان تھے آپ پر قرآن اتر رہا تھا اور آپ اس کے معنی خوب سمجھتے تھے آپ جو بھی عمل کرتے ہم بھی وہی عمل کرتے۔ آپ نے کلمہ توحید پکارا یعنی یہ کہا لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیکَ لَکَ اور لوگوں نے بھی یہی تلبیہ کیا جو آپ نے کیا آپ جو بھی کہتے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان پر رد نہ فرمایا اور مسلسل اپنا تلبیہ کہتے رہے۔ حضرت جابر نے فرمایا ہماری نیت صرف حج کی تھی اور عمرہ کا خیال تک نہ تھا جب ہم بیت اللہ پہنچے تو آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں معمول کے مطابق چلے پھر مقام ابراہیم میں آئے اور فرمایا (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی) اور آپ نے اپنے اور خانہ کعبہ کے درمیان مقام ابراہیم کو کیا حضرت جعفر صادق فرماتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا (اور میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہی روایت کیا) کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دو رکعتوں میں (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ) اور (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) پڑھی پھر بیت اللہ کے قریب واپس آئے اور حجر اسود کو بوسہ دیا اور دروازہ سے صفا کی طرف نکلے جب آپ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھی (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّہِ) 2۔ البقرۃ:158) ہم بھی اسی سے ابتدا کریں گے جسے اللہ نے پہلے ذکر فرمایا چنانچہ آپ نے صفا سے ابتدا کی صفا پر چڑھے جب بیت اللہ پر نظر پڑی تو اَللہُ اکبَرلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ اور اَلحَمدُلِلّٰہ کہا اور فرمایا لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ پھر اس کے درمیان دعا کی اور یہی کلمات تین بار دہرائے پھر وہ مروہ کی طرف اترے جب آپ کے پاؤں وادی کے نشیب میں اترنے لگے تو آپ نے نشیب میں رمل کیا (کندھے ہلا کر تیز چلے ) جب اوپر چڑھنے لگے تو پھر معمول کی رفتار سے چلنے لگے اور مروہ پر بھی وہی کیا جو صفا پر کیا جب آپ نے مروہ پر آخری طواف کر لیا تو فرمایا اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا تو میں ہدی اپنے ساتھ نہ لاتا اور حج کو عمرہ کر دیتا تو تم میں سے جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ حلال ہو جائے اور اس حج کو عمرہ بنا ڈالے تو سب لوگ حلال ہو گئے اور بال کترائے مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جن لوگوں کے پاس ہدی تھی حلال نہ ہوئے پھر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کی یہ حکم ہمیں اس سال کے لئے ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر فرمایا عمرہ حج میں اس طرح داخل ہو گیا ہے دو بار یہی فرمایا پھر فرمایا نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ حکم ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ (یمن سے ) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قربانیاں لے کر پہنچے تو دیکھا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حلال ہو کر رنگین کپڑے پہنے ہوئے سرمہ لگائے ہوئے ہیں تو انہیں حضرت فاطمہ کا یہ عمل اچھا نہ لگا۔ حضرت فاطمہ نے کہا کہ میرے والد نے مجھے یہی حکم دیا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ عراق میں فرمایا کرتے تھے کہ اس کے بعد میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فاطمہ کے اس عمل پر غصہ کی حالت میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ بات پوچھنے کے لئے جو فاطمہ نے ان کے حوالہ سے ذکر کی اور مجھے عیب اور بری لگی (کہ ایام حج میں حلال ہو کر رنگین کپڑے پہنیں اور سرمہ لگائیں ) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سچ کہا اس نے سچ کہا جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کہ میں نے کہا تھا اے اللہ میں بھی وہی احرام باندھتا ہوں جو آپ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا۔ آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ تو ہدی ہے تو تم بھی حلال مت ہونا اور حضرت علی یمن سے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ سے جو اونٹ لائے تھے سب ملا کر سو ہو گئے الغرض سب لوگوں نے احرام کھولا اور بال کترائے مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جو لوگ اپنے ساتھ ہدی لائے تھے حلال نہ ہوئے ترویہ کے دن (ذی الحجہ کو) سب لوگ منی کی طرف چلے اور حج کا احرام باندھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے اور منی میں ظہر عصر مغرب عشاء اور صبح کی نمازیں ادا فرمائیں پھر کچھ ٹھہرے جب آفتاب طلوع ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ بالوں کا ایک خیمہ لگایا جائے چنانچہ نمرہ میں لگا دیا گیا پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چلے۔ قریش کو یقین تھا کہ آپ مشعر حرام میں یا مزدلفہ میں ٹھہریں گے جیسے زمانہ جاہلیت میں قریش کا معمول تھا لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے آگے بڑھ گئے حتی کہ عرفہ میں آئے تو دیکھا کہ آپ کے لئے خیمہ نمرہ میں لگا ہوا ہے آپ وہیں اترے جب سورج ڈھل گیا تو حکم دیا قصواء پر زین لگائی جائے آپ اس پر سوار ہو کر وادی کے نشیب میں تشریف لائے اور لوگوں کو خطبہ دیا۔ فرمایا بلاشبہ تمہارے خون اور مال حرام (قابل احترام اور محفوظ) ہیں جیسے اس شہر میں اس ماہ میں اس یوم کو تم حرام (قابل احترام) سمجھتے ہو غور سے سنو جاہلیت کی ہر بات میرے ان دو قدموں کے نیچے (کچلی ہوئی) پڑی ہے اور جاہلیت کے سب سب سے پہلا خون جسے میں لغو قرار دیتا ہوں ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا خون ہے (یہ بنو سعد میں دودھ پیتے تھے تو ان کو ہذیل نے قتل کر دیا تھا) اور جاہلیت کے سب سود ختم اور سب سے پہلے جس سود کو میں معاف کرتا ہوں وہ ہمارا یعنی عباس بن عبد المطلب کا سود ہے وہ سب کا سب معاف ہے۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ تم نے عورتوں کو اللہ کی امان و عہد سے اپنے عقد میں لیا اور اللہ کے کلام سے تم نے ان کو اپنے لئے حلال کیا اور تمہارا حق ان کے ذمہ یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر (گھر میں ) ایسے شخص کو نہ آنے دیں جسے تم برا سمجھتے ہو اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مار بھی سکتے ہیں لیکن اتنا سخت نہ مارنا کہ ہڈی پسلی ٹوٹ جائے اور تمہارے ذمہ ان کا کھانا کپڑا دستور کے موافق ہے اور میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کا حکم پوری طرح پہنچا دیا اور حق رسالت و تبلیغ ادا کیا اور خیر خواہی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی شہادت کی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور لوگوں کی طرف جھکا کر تین مرتبہ کا اے اللہ آپ گواہ رہئے اے اللہ آپ گواہ رہئے پھر حضرت بلال نے اذان دی کچھ دیر بعد اقامت کہی تو آپ نے نماز ظہر پڑھائی پھر حضرت بلال نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عصر پڑھائی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز (نفل وغیرہ) نہیں پڑھی پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہو کر عرفات میں موقف تک آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی اونٹنی کا پیٹ صحرات کی طرف کر دیا اور جبل مشاۃ (لوگوں کے چلنے کے راستہ) کو سامنے کی طرف رکھا اور قبلہ رو ہو گئے پھر مسلسل ٹھہرے رہے یہاں تک سورج ڈوب گیا اور زردی بھی کچھ ختم ہونے لگی جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے اسامہ بن زید کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور عرفات سے واپس ہوئے اور قصواء کی نکیل کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اتنا کھینچا کہ اس کا سر زین کی پچھلی لکڑی سے لگنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے کہ اے لوگو! اطمینان اور سکون سے چلو جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی اونچی جگہ پہاڑ ٹیلہ وغیرہ پر پہنچتے تو اس کی نکیل ڈھیلی کر دیتے تاکہ آسانی سے چڑھ جائے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ پہنچے اور وہاں ایک اذان دو اقامتوں کے ساتھ نماز مغرب و عشاء پڑھائی اور ان دو نمازوں کے درمیان بھی کچھ نماز نہ پڑھی پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آرام فرما ہوئے۔ یہاں تک صبح طلوع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوب روشنی ہونے کے بعد ایک اذان واقامت سے نماز صبح پڑھائی پھر قصواء پر سوار ہو کر مشعر حرام (مزدلفہ میں ایک پہاڑ ہے ) آئے اس پر چڑھ کر تحمید و تکبیر اور تہلیل میں مشغول ہو گئے اور مسلسل ٹھہرے رہے یہاں تک کہ اچھی طرح روشنی ہو گئی پھر سورج نکلنے سے پہلے واپس ہوئے اور فضل بن عباس کو اپنے پیچھے بٹھایا وہ انتہائی خوبصورت بالوں والے گورے رنگ کے حسین مرد تھے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس ہوئے تو اونٹوں پر سوار عورتیں گزرنے لگیں۔ فضل بن عباس ان کی طرف دیکھنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسری طرف سے اپنا ہاتھ رکھ دیا اس پر فضل نے چہرہ پھیر کر دوسری طرف سے دیکھنا شروع کر دیا۔ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی محشر میں آئے اور اپنی سواری کو کچھ تیز کر دیا پھر درمیان راستہ پر ہولئے جس سے تم جمرہ کبری پر پہنچ جاؤ پھر اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے اور سات کنکریاں ماریں ہر کنکری کے ساتھ آپ اللَّہُ أَکْبَرُ کہتے ہیں اور آپ نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں پھر آپ نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دئیے باقی نحر کئے اور ان کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ہدی میں شریک کر لیا پھر آپ کے حکم مطابق ہر اونٹ سے گوشت کا ایک پارچہ لے کر ایک دیگ میں ڈال کر پکایا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس گوشت میں سے کھایا اور اس کا شوربہ پیا پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت اللہ کی طرف واپس ہوئے آپ نے مکہ میں نماز ظہر پڑھائی آپ اولاد عبد المطلب کے پاس آئے وہ لوگوں کو زمزم پلا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا عبد المطلب کے بیٹو! پانی خوب نکالو اور پلاؤ اگر لوگوں کے تمہاری پانی پلانے کی خدمت پر غالب آنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے ساتھ مل کر پانی کھینچتا انہوں نے آپ کو ایک ڈول دیا آپ نے اس سے پیا (آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر میں خود پانی نکالوں گا تو لوگ اس کو مسنون سمجھ کر پانی نکالنا شروع کر دیں گے پھر یہ خدمت تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے گی ورنہ میں بھی اولاد عبد المطلب میں سے ہوں مجھے بھی پانی نکالنا چاہئے۔ )

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم صحابہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں حج کے لئے تین طرح کے لوگ تھے بعضوں نے حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا بعض نے حج مفرد کا اور بعض نے صرف عمرہ کا تو جنہوں نے حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باندھا انہوں نے مناسک حج پورے ہونے تک احرام نہ کھولا جنہوں نے حج مفرد کا احرام تھا انہوں نے بھی مناسک حج پورے کرنے تک احرام نہ کھولا اور جنہوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی پھر احرام کھول دیا اور از سر نو حج کا احرام باندھا۔

 

٭٭ قاسم بن محمد، ابن عباد، عبد اللہ بن داؤد، سفیان کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے تین حج کئے دو ہجرت سے قبل اور ایک ہجرت مدینہ کے بعد اور اس آخری حج میں حج اور عمرہ کا قران فرمایا اور نبی جو قربانیاں لائے اور حضرت علی جو قربانیاں لائے سب مل کر سو ہو گئیں ان میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا جس کی ناک میں چاندی کا چھلہ تھا نبی نے چھتیس اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے اور باقی حضرت علی نے نحر کئے حضرت سفیان سے پوچھا گیا کہ یہ حدیث کس نے بیان کی؟ فرمایا جعفر نے اپنے والد سے انہوں نے جابر اور ابن ابی لیلی سے اور انہوں نے حکم سے انہوں نے مقسم سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی۔

 

جو شخص حج سے رک جائے بیماری یا عذر کی وجہ سے (احرام کے بعد)

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سعید، ابن علیہ، حجاج بن ابی عثمان، یحییٰ بن ابی کثیر، عکرمہ، حجاج بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا اور اس پر ایک حج لازم ہے۔ حضرت عکرمہ کہتے کہ میں نے یہ حدیث حضرات ابن عباس و ابو ہریرہ سے ذکر کی دونوں نے ان کی تصدیق فرمائی۔

 

٭٭ سلمہ بن شعیب، عبد الرزاق، معمر، یحییٰ بن ابی کثیر، عکرمہ، عبد اللہ بن رافع، حضرت ام سلمہ کے زاد کردہ غلام حضرت عبد اللہ بن رافع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حجاج بن عمرو سے پوچھا کہ اگر محرم کسی عذر کی وجہ سے رک جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا شدید بیمار ہو جائے یا لنگڑا ہو جائے وہ حلال ہو گیا اور آئندہ سال اس پر حج لازم ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث حضرت ابن عباس و ابو ہریرہ کو سنائی تو دونوں نے اس کی تصدیق کی۔ عبد الرزاق کہتے ہیں یہ حدیث میں نے ہشام صاحب دستوائی کی کتاب میں پڑھی پھر معمر سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے پڑھ کر سنائی یا میں نے ان کو پڑھ کر سنائی۔

 

احصار کا فدیہ

 

محمد بن بشار، محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، عبد الرحمن، حضرت عبد اللہ بن معقل فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں کعب بن عجرہ کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے آیت (فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ) 2۔ البقرۃ:196) کے بارے میں دریافت فرمایا۔ کہا یہ آیت میری بابت نازل ہوئی۔ میرے سر میں بیماری تھی تو مجھے اللہ کے رسول کی خدمت میں لایا گیا اور جوئیں میرے چہرہ پر گر رہی تھی۔ آپ نے فرمایا مجھے یہ خیال نہ تھا کہ تمہیں تکلیف اس قدر ہو جائے گی جو میں دیکھ رہا ہوں کیا تمہارے پاس ایک بکری ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں اس پر یہ آیت تو فدیہ میں روزے یا صدقہ یا قربانی نازل ہوئی۔ آپ نے فرمایا روزہ تین دن تک رکھنا اور صدقہ کرنا چھ مسکینوں پر ہر مسکین کو نصف صاع اناج دینا ہے اور قربانی بکری ہے۔

 

٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، عبد اللہ بن نافع، اسامہ بن زید، محمد بن کعب، حضرت کعب بن عجرہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے جوؤں سے شدید تکلیف ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ سر منڈا لوں اور تین دن روزہ رکھوں یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ میرے پاس قربانی کیلئے کچھ نہیں ہے۔

 

محرم کیلئے پچھنے لگوانا

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، یزید بن ابی زیاد، مقسم، ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پچھنے لگوائے اس وقت آپ روزہ دار محرم تھے۔

 

٭٭ بکر بن خلف، ابو بشر ، محمد بن ابی ضیف، ابن خثیم، ابی زبیر، جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بحالت احرام پچھنے لگوائے اس درد کی وجہ سے جو آپ کو ہڈی سرکنے کی وجہ سے عارض ہوا۔

 

محرم کون سا تیل لگا سکتا ہے

 

علی بن محمد، وکیع، حماد بن سلمہ، فرقد، سعید بن جبیر، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بحالت احرام زیتون کا تیل سر میں لگاتے تھے جس میں پھول مل کر نہ ڈالے گئے ہوں۔

 

محرم کا انتقال ہو جائے

 

علی بن محمد، وکیع، سفیان ، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرد محرم تھا اس کی سواری نے اس کی گردن توڑ ڈالی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کو اس کے دو کپڑوں میں کفن دو اور اس کے چہرہ اور سر کو مت ڈھکو اس لئے کہ یہ روز قیامت تلبیہ کہتے ہوئے اٹھے گا۔ دوسری روایت میں یہی مضمون مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اسے خوشبو مت لگاؤ کیونکہ یہ روز قیامت تلبیہ کہتے ہوئے اٹھے گا۔

 

محرم شکار کرے تو اس کی سزا

 

علی بن محمد، وکیع، جریر بن حازم، عبد اللہ بن عبید بن عمیر، عبد الرحمن بن ابی عمار، حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اگر محرم بجو شکار کرے تو اس میں مینڈھا مقرر فرمایا اور بجو کو بھی شکار قرار دیا۔

 

٭٭ محمد بن موسی، واسطی، یزید بن موہب، مروان بن معاویہ، علی بن عبد العزیز، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شتر مرغ کا انڈا محرم ضائع کرے تو اس پر اس کی قیمت آئے گی۔

 

جن جانوروں کو مار سکتا ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشار، محمد بن مثنی، محمد بن ولید، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، سعید بن مسیب، ام المومنین سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ فاسق جانوروں کو حل اور حرم میں مارنا جائز ہے سانپ چتکبرا کوا چوہا کاٹنے والا کتا اور چیل۔

 

٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں کہ اگر کوئی انہیں حالت احرام میں بھی مار ڈالے تو کوئی حرج نہیں بچھو کوا چیل چوہا اور کاٹ کھانے والا کتا۔

 

٭٭ ابو کریب، محمد بن فضیل، یزید بن ابی زیاد، ابن نعم، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا محرم سانپ بچھو حملہ اور درندے کاٹنے والے کتے اور بدمعاش چوہے کو مارسکتا ہے کسی نے ان سے پوچھا کہ چوہے کو بدمعاش کیوں کہا؟ فرمایا اس لئے کہ اس کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جاگتے رہے اس نے چراغ کی بتی لی تھی گھر جلانے کے لئے۔

 

جو شکار محرم کے لئے منع ہے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشام بن ابی عمار، سفیان بن عیینہ، ح، محمد بن سعد، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس حضرت صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس سے گزرے اور میں ابو اء یا ودان (نامی جگہ) میں تھا میں آپ کو ایک گورخر پیش کیا۔ آپ نے مجھے واپس لوٹا دیا۔ جب آپ نے میرے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو فرمایا ہم تمہیں واپس کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم حالت احرام میں ہیں اس لئے ذبح کر کے کھا نہیں سکتے۔

 

٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، عمران بن محمد، ابن لیلی، عبد الکریم، عبد اللہ بن حارث، ابن عباس، حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس شکار کا گوشت لایا گیا آپ حالت احرام میں تھے اس لئے آپ نے وہ گوشت نہ کھایا۔

 

اگر محرم کے لئے شکار نہ کیا گیا ہو تو اس کا کھانا درست ہے

 

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید، محمد بن ابراہیم، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں ایک گورخر دے کر فرمایا رفقاء میں تقسیم کر دیں اور رفقاء اس وقت محرم تھے۔

 

٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، یحییٰ بن ابی کثیر، عبد اللہ بن حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دنوں میں اللہ کے رسول کے ساتھ نکلا اور صحابہ نے احرام باندھا لیکن میں نے احرام نہ باندھا میں نے ایک گورخر دیکھا تو اس پر حملہ کر دیا اور شکار کر لیا پھر اس حال میں میں نے اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا اور یہ بھی بتایا میں اس وقت محرم نہ تھا اور میں نے آپ کی خاطر اس شکار کیا تو نبی نے اپنے صحابہ کو اس سے کھانے کا فرمایا لیکن یہ بتانے کے بعد کہ میں نے آپ کی خاطر شکار کیا خود تناول نہ فرمایا۔

 

قربانیوں کی گردن میں ہار ڈالنا

 

محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، عروہ، زبیر، عمرہ بنت عبد الرحمن، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے ہدی بھیجتے تو میں ان کے ہاتھ بٹتی پھر ایک جن امور سے محرم بچتا ہے ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی بات سے اجتناب نہ فرماتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، ام المومنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدی کے لئے ہاربٹتی آپ ہدی کی گردن میں وہ ہار ڈالتے پھر اسے روانہ فرما دیتے اور خود مدینہ میں رہتے اور جن امور سے محرم احتراز کرتا ہے ان میں سے کسی بات سے احتراز نہ فرماتے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، ام لمومنین سیدہ عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بار بیت اللہ بکریاں بھیجیں تو ان کے گلے میں ہار ڈالے۔

 

ہدی کے جانور کا اشعار

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ہشام، قتادہ، ابو حسان، اعرج، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہدی کی دائیں کوہان چیر کر اس کا خون نکالا پھر وہ خون صاف کر دیا۔ دوسری روایت ہے کہ آپ نے یہ اشعار ذوالحلیفہ میں کیا اور اونٹ کی گردن میں دو نعل بھی لٹکائے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حماد بن خالد، افلح، قاسم، ام المومنین سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جانور کی گردن میں قلادہ لٹکایا اور اشعار کیا اور جن امور سے محرم پرہیز کرتا ہے ان سے پرہیز نہ فرمایا۔

 

جو شخص قربانی کے جانوروں پر جھول ڈالے

 

محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبد الکریم، مجاہد، ابن ابی لیلی، ابن ابی طالب حضرت علی فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے مجھے ہدی کے اونٹوں کی خبر گیری کا حکم دیا اور یہ کہ ان اونٹوں کے جھول اور کھالیں (فقراء و مساکین میں ) تقسیم کر دوں اور قصاب کو اجرت میں کھال اور جھول نہ دوں اور فرمایا کہ قصاب کو اجرت ہم دیں گے۔

 

ہدی میں نر اور مادہ دونوں درست ہیں

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابن ابی لیلی، حکم، مقسم، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی طرف سے ہدی کے جانوروں میں ابو جہل کا ایک نر اونٹ بھی بھیجا (جو جنگ بدر میں غنیمت میں آیا) اس کی ناک میں چاندی کا چھلا تھا۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن موسی، موسیٰ بن عبیدہ، ایاس بن حضرت سلمہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہدی کے جانوروں میں ایک نر اونٹ تھا۔

 

ہدی میقات میں لے جانا

 

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یحییٰ بن یمان، سفیان، عبید اللہ ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے لئے ہدی کے جانور فدیہ سے خریدے۔

 

ہدی پر سوار کرنا

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ ایک مرد ہدی ہانک رہا ہے۔ فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ عرض کیا یہ ہدی ہے۔ فرمایا کم بخت سوار ہو جا۔

 

٭٭ علی بن محمد، وکیع، ہشام، قتادہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کے قریب سے ہدی کا اونٹ گزرا تو آپ نے لے جانے والے سے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ عرض کرنے لگا یہ ہدی ہے۔ فرمایا سوار ہو جاؤ۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اس پر سوار ہے اور اس ہدی کی گردن میں قلادہ ہے۔

 

اگر ہدی کا جانور ہلاک ہونے لگے

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، سنان بن سلمہ، ابن عباس حضرت ذویب خزاعی نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ساتھ ہدی کے جانور بھیجتے تو فرماتے اگر تمہیں اس کی موت کا اندیشہ نہ ہو نحر کرو پھر اس کا قلادہ اس کے خون میں ڈبو کر اس کے پٹھوں پر مارو اور اس میں سے تم یا تمہارا کوئی ساتھی نہ کھائے۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، عمر بن عبد اللہ، وکیع، ہشام بن عروہ، حضرت ناجیہ خزاعی جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹ ہدی کے لئے لے جانے پر مامور تھے نے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو اونٹ ہلاک ہونے لگے اس کا کیا کروں فرمایا اسے نحر کرو اور اس کا قلادہ اس کے خون میں ڈبو کر اس کی سرین پر مارو اور اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ اسے کھالیں۔

 

مکہ کے گھروں کے کرایہ کا حکم

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عیسیٰ بن یونس، مرو بن سعید بن ابی حسین، عثمان بن ابی سلیمان، حضرت علقمہ بن نضلہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرات ابو بکر و عمر کا انتقال ہوا اس وقت تک مکہ کے گھروں کو سوائب (وقف للہ) کہا جاتا تھا کہ جس کو ضرورت ہوتی ان میں سکونت اختیار کرنا اور جس کو حاجت نہ ہوتی وہ (خود سکونت چھوڑ کر) دوسروں کو سکونت کا موقع دے دیتا۔

 

مکہ کی فضیلت

 

عیسی بن حماد، لیث بن سعد، عقیل ، محمد بن مسلم، سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، عبد اللہ بن عدی بن حمراء فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا آپ اپنی اونٹنی پر سوار حزورہ (نامی جگہ) میں کھڑے تھے فرما رہے تھے اللہ کی زمین میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اللہ کی قسم اگر مجھے زبردستی تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی بھی نہ نکلتا

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق ، ابان بن صالح، حسن بن مسلم بن نیاق، صفیہ بنت شیبہ فرماتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا لوگو! اللہ تعالی نے ارض و سما کی تخلیق کے روز ہی مکہ کو حرم قرار دے دیا تھا لہذا یہ تا قیامت حرم محترم رہے گا۔ مکہ کے درخت نہ کاٹے جائیں اور جانوروں کو ستایا نہ جائے (شکار تو دور کی بات ہے ) اور مکہ میں گمشدہ شدہ چیز کو کوئی نہ اٹھائے البتہ جو اعلان کرنا چاہے اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا اذخر (خوشبودار گھاس) کو مستثنی فرما دیجئے کہ وہ گھروں اور کمروں میں کام آتی ہے اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اذخر اس حکم سے مستثنی ہے

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابن فضل، یزید بن ابی زیاد، عبد الرحمن بن سابط، عیاش بن ابی ربیعہ، فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ نے فرمایا یہ امت ہمیشہ بھلائی میں رہے گی جب تک مکہ کی تعظیم کا حق ادا کرتی رہے گی اور جب مکہ کی تعظیم ترک کر دے گی تو ہلاکت میں پڑ جائے گی

 

مدینہ منورہ کی فضیلت

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، خبیب بن عبد الرحمن، حفص بن عاصم، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایمان مدینہ منورہ میں ایسے سمٹ کر آ جائے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں داخل ہو جاتا ہے۔

 

٭٭ بکر بن خلف، معاذ بن ہشام، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے جو یہ کر سکے کہ مدینہ میں مرے تو وہ ایسا ضرور کرے اس لئے کہ میں مدینہ میں مرنے والے کے حق میں گواہی دوں گا۔

 

٭٭ ابو مروان، محمد بن عثمان، عبد العزیز ابن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے اللہ !سیدنا ابراہیم علیہ السلام آپ کے خلیل اور نبی ہیں اور آپ نے ان کی زبانی مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا۔ اے اللہ ! میں آپ کا بندہ اور نبی ہوں اور میں حرم قرار دیتا ہوں مدینہ منورہ کی دو پتھریلی زمینوں کے درمیان حصہ (شہر) کو۔

 

٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مدینہ والوں کے ساتھ بدی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالی اسے ایسے پگھلا دیں گے جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔

 

٭٭ ہناد بن سری، عبدہ بن محمد بن اسحاق ، عبد اللہ بن مکنف، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جبل احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے اور وہ جنت کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلہ پر ہے اور عیر پہاڑ دوزخ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلہ پر ہے۔

 

کعبہ میں مدفون مال

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، محاربی، شیبانی، حضرت شفیق کہتے ہیں کسی شخص نے میرے ہاتھ بیت اللہ کے کچھ درہم بھیجے۔ فرماتے ہیں میں بیت اللہ کے اندر گیا تو دیکھا کہ شبیہ ایک کرسی پر بیٹھے ہیں۔ میں نے دو درہم ان کو دے دئیے۔ کہنے لگے۔ یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا نہیں ! میرے نہیں اور اگر میرے ہوتے تو آپ کو نہ دیتا (بلکہ کعبہ کو دینے کی بجائے فقراء میں تقسیم کرتا) کہنے لگے اگر تم یہ بات کہتے ہو تو غور سے سنو حضرت عمر بن خطاب اسی جگہ تشریف فرما تھے جہاں تم بیٹھے ہو فرمانے لگے جب تک میں کعبہ کا مال نادار مسلمانوں میں تقسیم نہ کر دوں باہر نہ جاؤں گا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہیں کریں گے؟ فرمانے لگے ضرور کروں گا۔ تم کیوں ایسا کہہ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر نے کعبہ کے دفینہ کی جگہ دیکھی تھی اور انہیں آپ سے زیادہ مال کی ضرورت تھی (اس قدر فتوحات ان کے دور میں نہ ہوئی تھیں ) لیکن انہوں نے اس مال کو ہلایا تک نہیں تو عمر اس حالت میں کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔

 

مکہ میں ماہ رمضان کے روزے رکھنا

 

محمد بن ابی عمر، عبد الرحیم بن زید، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا جو مکہ میں ماہ رمضان پائے پھر روزے رکھے اور جتنا اس سے ہو سکے رات کو قیام کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے مکہ کے علاوہ دیگر شہروں کے ایک لاکھ رمضانوں کا ثواب لکھیں گے اور اللہ تعالی اس کے لئے ہر دن کے بدلہ ایک غلام آزاد کرنے کا اور ہر دن کے بدلہ راہ خدا میں گھوڑے پر (مجاہد کو) سوار کرنے کا ثواب لکھتے ہیں اور ہر روز ایک نیکی اور ہر رات ایک نیکی لکھتے ہیں۔

 

بارش میں طواف کرنا

 

محمد بن ابی عمر، داؤد بن عجلان فرماتے ہیں کہ ہم نے ابو عقال کے ساتھ بارش میں طواف کیا جب ہم طواف مکمل کر چکے تو مقام ابراہیم کے پیچھے رہ گئے۔ ابو عقال نے کہا کہ میں نے انس کے ساتھ بارش میں طواف کیا جب ہم نے طواف مکمل کر لیا تو ہم مقام ابراہیم پر آئے اور دو رکعتیں ادا کیں اس کے بعد انس نے ہم سے فرمایا اب از سرنو اعمال شروع کرو۔ اس لئے کہ تمہارے سابقہ گناہوں کی بخشش ہو چکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں یہی فرمایا تھا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں بارش میں طواف کیا تھا۔

 

پیدل حج کرنا

 

اسماعیل بن حفص یحی بن یمان حمزہ بن حبیب ، حمران بن اعین ، ابی طفیل ابی سعید، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام نے مدینہ سے مکہ تک پیدل حج کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی کمر ازاروں سے باندھ لو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیز تیز چلے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید