FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سر بکف

 

جلد ۱ شمارہ ۲         ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۵ء

 

                مدیر: فقیر شکیب احمد عفی عنہٗ

 

 

                مجلسِ مشاورت

مفتی آرزومند سعد ﷾

مولانا ساجد خان نقشبندی﷾

مفتی محمد آصف﷾

عباس خان﷾

جاوید خان صافی﷾

جواد خان﷾

نعمان اقبال﷾

 

دو ماہی "سربکف” آن لائن مجلہ کی برقی کتاب کسی بھی تبدیلی کے بغیر بلا اجازت تقسیم کی جاسکتی ہے۔ مجلہ کے کسی بھی حصے سے متن کاپی اور پیسٹ کیے جانے کی صورت میں حوالہ دیا جانا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر یہ اخلاقی و قانونی جرم قرار پائے گا۔

اس برقی کتاب کو کسی بھی صورت میں قیمتاً فروخت کرنا سخت منع ہے، خواہ قیمت  کتنی ہی قلیل  ہو۔

 

 

 

خدمتِ دیں کی راہ میں تھا، ہے، رہے گا سربلند

پرچمِ حق کو سربکف تھامے کھڑا ہے دیوبند

(شکیبؔ احمد)

 

 

 

 

 

روڈ کا انقلابRoad Revolution…

                مدیر

 

جی ہاں! محترم پرائم منسٹر نریندر مودی صاحب ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ اُن کی شخصیت کا ایک ایک حصہ انقلابی ہے۔ اُن کا ذہن اور سوچ تو اس قدر انقلابی ہے کہ انقلاب برپا کرنے کےایسے  انقلابی طریقے صرف وہی سوچ سکتے ہیں۔

ہم نے آج تک صرف انقلاب کی باتیں سنی تھیں، یا تاریخ میں پڑھا تھا، لیکن آج دیکھ لیا کہ انقلاب کسے کہتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انقلاب بدلاؤ کو کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ انقلاب یوں آیا کہ دہلی میں ابو المظفر محی الدین محمد   اورنگ زیبؒؒ روڈ کو اے پی جے عبد الکلام روڈ  کا نام دے دیا گیا۔ایسے بدلاؤ کی باتیں ہم جیسے عام  آدمیوں کے ذہن نہیں سوچ سکتے، یہ وہی سوچ سکتے ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ لیا ہے۔

انقلابی جو ٹھہرے…

مرکز اور دہلی سرکار کے اشتراک سے چلنے والی این ڈی ایم سی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں یہ فیصلہ لے لیا گیا کہ ہندوستان میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے چھٹے مغل شہنشاہ کی جگہ رحم دل اور انسان دوست سابق صدر عبد الکلام کو دے دی جائے۔ادھر یہ خوشخبری ملی، اور بے جے پی کے لیڈروں نے اس "کمال ” کا سہرا اپنے سر باندھنا شروع کر دیا۔ ممبر آف پارلیمنٹ مہیش گری نے فرطِ مسرت کے ساتھ کہا کہ میں نے ہی نریندر مودی جی کو اس سلسلہ میں خط لکھا تھا۔ ایک اور میڈم میناکشی لیکھی کہتی ہیں میں نے تجویز پیش کی تھی۔ عام آدمی پارٹی کے روحِ رواں اروند کیجریوال کہتے ہیں یہ ہمارا چلایا ہوا موومینٹ ہے۔

سبحان اللہ! بی جے پی زندہ باد۔ نریندر مودی زندہ باد۔

پیارے جشن منانے والو! ایک بات فقیر کی یاد رکھنا… بھیڑ کبھی تاریخ نہیں لکھ سکتی۔ تاریخ ایک ایسی ٹھوس حقیقت ہے جس پر دانت نکوسنے کے لیے پوری بی جے پی کو دانتوں تلے پسینہ بھی آ جائے گا اور وہ کھٹے بھی ہو جائیں گے۔ کیونکہ اورنگ زیبؒ ایک سچائی کا نام ہے…ایک ایسی سچائی جس نے سب سے زیادہ ہندوستان پر حکومت کی…جس نے ملک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا…جس نے سلطنت کی توسیع میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا حصہ شامل کیا…

ہاں مجھے پتہ ہے یہاں کے اسکولوں کے نصاب میں  اورنگ زیبؒ کی وہی تاریخ بتائی جاتی ہے جو انگریز انہیں سکھا کر گئے تھے…الزام یہ کہ شاہجہاں کو قید کر دیا تھا…الزام یہ کہ ہندوؤں سے جزیہ وصول کرتا تھا٭… الزام یہ کہ مندروں کو مسمار کیا، الزام یہ کہ سکھوں کے گرو تیغ بہادر کا سرکاٹ کر اس کے بیٹے کو تحفے میں دیا…الزام یہ کہ تعصب کی حکومت کی…

واللہ میرے پیارو! کچھ تو شرم کرو…یہ الزامات ہی سچ ہیں تو بھلا وہ پر نور چہرے والا  ، متقی ، عبادت گزار، ، انصاف پسند، علماء و مشائخ کی انتہائی قدر کرنے والا کون سا  اورنگ زیبؒ تھا؟ کون اولیاء اللہ کی خدمت میں بادشاہ ہونے کے باوجود یوں حاضر ہوا کرتا تھا گویا کہ میں کچھ نہیں، میرا کچھ نہیں۔

ذرا مجھے بھی تو بتاؤ وہ کون سا  اورنگ زیبؒ تھا جو کتابت کر کے اپنی روزی کماتا تھا؟  تم نے کسی بادشاہ کو اس حال میں دیکھا ہے؟ کس دلیل پر کہتے ہو وہ ظالم تھا؟ اُس تاریخ کے بل بوتے پر جسے انگریزوں نے مرتب کیا تھا؟ تعصب کی حکومت ہوتی تو ٤٩ سال کی حکمرانی میں یہاں ایک بھی ہندو باقی رہتا؟ تاریخ کا ایک ایک حرف گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی ہے۔

ایک دن ایسے ہی بات چل پڑی، تو میرے بھانجے نے اس سلسلے میں کچھ گوہر افشانیاں کیں… اورنگ زیبؒ کی ساری تاریخ (جو ہمارے ہاں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے) بتانے لگا۔یہ کیا اور وہ کیا، باپ کو قید کر دیا، اتنا ظلم کیا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یار یہ تاریخ لکھنے والے مسلم نہیں، یہ وہ ہیں جو ہمیشہ ہماری تاریخ کو مسخ کر کے خوش ہوتے ہیں۔ اورنگ زیبؒ کے ظلم کی داستان ساری جھوٹی ہے۔ کافی سارے حوالے اور واقعات کے باوجود وہ پس و پیش میں ہی رہا، اور اپنی کتاب میں پڑھے ہوئے سبق کو حرفِ آخر سمجھتا رہا۔

اب اس تاریخ کو پڑھنے والوں کو ہم کیسے قائل کریں کہ  وہ  اورنگ زیبؒ نہیں… اورنگ زیبؒ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔

تاریخ پر ڈاکہ ڈالنے والو!وائے حیرت کہ اپنے جرم پر  جشن بھی منا رہے ہو؟؟؟

تم نے تو جشن منانے  کے موقع و محل کو بھی بدل ڈالا!!!

کیوں نہ بدلتے!انقلابی جو ٹھہرے…

اچھا، ویسے یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ مسلمانوں کو بہلانے کے لیے روڈ کا نام بھی بدلا تو ایک مسلم کے نام پر، تاکہ احتجاج نہ ہو۔ ایم آئی ایم کے روحِ رواں  اسد الدین اویسی نے بھی اس پر ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے…کئی سارے قسم کے ٹائمز،  اخبارات، ای نیوز  منجملہ وکی پیڈیا پر بھی اس controversy کا اندراج ہو چکا ہے۔

لو جی۔ اگر مرحوم اے پی جی عبد الکلام کے لیے ہی کچھ کرنا تھا تو کسی نئی روڈ کا نام اُن کے نام پر رکھ دیتے…کوئی یونیورسٹی ، اسکول، کالج اُن کے نام پر شروع کرتے…کوئی فری شپ یا اسکالر شپ اپ کے نام پر شروع کرتے…لیکن نہیں! ہم تو مرحوم صدر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے روڈ کا نام بدلیں گے…

بدلو بھائی بدلو…انقلابی جو ٹھہرے…

آج  اورنگ زیبؒ نشانہ ہے، کل اورنگ آباد کا نام بھی بدلو گے؟ تاج محل کی تاریخ بھی بدلو گے؟ لال قلعہ کا کیا کرو گے آپ؟چار مینار کی ہسڑی کہاں چھپاؤ گے؟ قطب مینار کی تاریخ کہاں دفن کرو گے؟ گول گنبد کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ فتح پور سیکری بھی تو ہے…جلدی کرو بھائی سب بدلتے چلے جاؤ…چینج کر دو…بدل دو…

تم……انقلابی جو ٹھہرے…

 

فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ

بروز جمعہ، ٩:٢٠ بجے صبح

۔۔۔۔۔

٭ جزیہ کی بات بطور الزام آنے کی وجہ غیر مسلموں کی غلط فہمی ہے، ورنہ اکابرینِ دیوبند اور دیگر مکاتبِ فکر والوں نے بھی جزیہ کے عقلی دلائل بھی واضح کیے ہیں جو غیر مسلموں کے اس شبہ کا ازالہ ہیں۔(مدیر)

 

 

 

 

 

فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یخَافُ وَعِیدِ      45؀ۧ

لہذا قرآن کے ذریعے ہر اس شخص کو نصیحت کرتے رہو جو میری وعید سے ڈرتا ہو۔(سورہ نمبر 50 ق، آیت 45)

 

مباہلہ کی دعوت

 

                قاضی ثناء اللہ پانی پتی ﷫

 

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِینَ   94؀

آپ (ان سے) کہیے کہ : اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو۔ (آسان ترجمہ قرآن  سورہ ٢ ، البقرہ: ٩٤)

 

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ ( کہہ دیجئے اے محمد ﷺ اگر تمہارے واسطے) لَکُمْ کَانت کی خبر ہے اور

الدَّارُ الْاٰخِرَةُ ( عاقبت کا گھر) کا نت کا اسم ہے

عِنْدَ اللّٰهِ ( اللہ کے ہاں) یہ کانت کا ظرف ہے۔

خَالِصَةً ( خاص ہے) دَارُ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ ( دوسروں کے لیے نہیں) اَلنَّاسِ میں اَ لْ یا تو استغْراق کا ہے یا جنس کا اور یا مراد اس سے مسلمان ہو اور ال عہد کا ہو۔

فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ ( تو مرنے کے کی آرزو کرو) یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو موت مانگو اس لیے کہ جس شخص کو یہ یقیناً معلوم ہو جائے گا کہ میں جنتی ہوں اور اللہ کے پیاروں میں سے ہوں تو وہ ضرور اس طرح کی پریشانی والے گھر سے خلاصی اور نجات کی تمنا کرے گا اور اللہ کے ملنے کا مشتاق ہو گا۔

ابن مبارک نے باب زھد میں اور بیہقی نے ابن عمر   سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مؤمن کا تحفہ موت ہے اور دیلمی نے بھی حضرت جابر   سے اس مضمون کو نقل کیا ہے اور حسین بن علی   سے مرفوعاً منقول ہے کہ مؤمن کا پھول موت ہے اور حبان بن الاسود فرماتے ہیں کہ موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملا دیتا ہے یہ آیت و احادیث اس پر دال ہیں کہ آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے اور اس مضمون کو ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عثمان سے مرفوعاً نقل بھی کیا ہے اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے بلا کیف وصل موت کے بعد قیامت سے پہلے دنیا سے زیادہ حاصل ہو گا کیونکہ اگر یہ امر نہ ہوتا تو موت کی تمنا میں کوئی فائدہ نہ ہو گا اور نہ موت دوست سے ملنے کا پل ہوتا۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اس فراق کے عذاب شدید سے خلاصی کے لیے موت مانگو اس تقدیر پر یہ آیت آیت مباہلہ کی نظیر ہو گی۔

ابن عباس   سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ یہودی موت کی تمنا کرتے تو اسی دم ہر شخص کا ان میں سے اپنے آب دہن سے گلا گھٹ جاتا اور روئے زمین پر ایک بھی یہودی باقی نہ رہتا سب کے سب ہلاک ہو جاتے اس حدیث کو بیہقی نے دلائل میں لکھا ہے اور بخاری اور ترمذی نے بھی مرفوعاً کچھ الفاظ بدل کر اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ابن عباس   سے اس کو موقوفاً نقل کیا ہے۔

اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِینَ ( اگر تم سچے) اس کی جزاء محذوف ہے کلام گذشتہ اس پر دلالت کر رہے ہیں۔

فصل اس مقام پر یہ مسئلہ قابل نظر ہے کہ آیا موت کی تمنا کرنا جائز ہے یا نہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی مصیبت مالی یا جسمانی یا اولاد و اہل و عیال کے مرنے کی وجہ سے موت کی تمنا کرتا ہے تو جائز نہیں۔

حضرت انس   سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مصیبت کے سبب کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے اگر اس تمنا کرنے کو جی ہی چاہتا ہے اور بغیر تمنا کے رہ ہی نہیں سکتا تو اس قدر کہہ دے کہ اے اللہ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرا مرنا بہتر ہو تو موت دے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور انہیں سے ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی تم میں سے مرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے اور عمر خیر ہی کو بڑھاتی ہے ( یعنی عمر بری چیز نہیں کچھ نہ کچھ اس میں مؤمن خیر ہی کرے گا) اور ابو ہریرہ   سے مرفوعاً مروی ہے کہ کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے کیونکہ یہ شخص یا تو نیک کار ہو گا تو شاید نیکی زیادہ کرے اور یا بدکار ہے تو ممکن ہے کہ بدی سے باز آ جائے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور نیز ابو ہریرہ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی تم میں موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے کیونکہ موت آنے کے بعد آدمی کا عمل بالکل منقطع ہو جاتا ہے اور مؤمن کی عمر خیر اور نیکی ہی بڑھاتی ہے اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اور موت کی تمنا ممنوع ہونے میں اور بہت سی حدیثیں احمد اور بزار اور بیہقی نے جابر   سے روایت کی ہیں اور مروزی نے قاسم مولی معاویہ   سے اور ابن عباس   سے روایت کی ہے اور نیز اسی موضوع پر احمد اور ابو یعلی اور حاکم اور طبرانی نے ام الفضل سے روایت کی ہے اور یہ سب رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

ایک امر ضروری یہاں قابل تنبیہ یہ ہے کہ زبان سے موت کی تمنا کرنے اور سوال کرنے سے نہی وارد ہوئی ہے ویسے تمنا اور رغبت اگر ہو تو اس سے نہی نہیں کیونکہ دل کا میلان تو ایک مجبوری امر ہے اس کے دفع پر آدمی کو قدرت نہیں ہاں اگر کوئی دینی فتنہ کے خیال سے موت کا سوال کرے تو کچھ حرج نہیں ۔٭چنانچہ امام مالک اور بزار ثوبان   سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ جب آپ لوگوں میں فتنہ ڈالنا چاہئے تو مجھے اس فتنہ سے محفوظ رکھ کر اپنے پاس بلا لیجئے اور امام مالک نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر   نے اپنی دعا میں فرمایا کہ اے اللہ میری قوت ضعیف ہو گئی اور میری عمر زیادہ ہو گئی اور میری رعیت جا بجا پھیل گئی اب اے اللہ مجھے صحیح سالم بلا کسی کے حکم کے ضائع اور کوتاہی کئے ہوئے اپنے پاس بلا لے۔ چنانچہ اس دعا کو ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ حضرت عمر   کی وفات ہو گئی۔

اور طبرانی نے عمرو بن عنبسہ  سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی تم میں سے موت کی تمنا نہ کرے ہاں اگر اپنے عمل پر اعتماد نہ ہو ۔

( کہ شاید برا عمل ہو جائے) تو موت کی تمنا جائز ہے اور جب اسلام میں چھ خصلتیں دیکھو تو موت کی تمنا کرو اور تمہاری جان (بالفرض) تمہارے قبضہ میں بھی ہو تو اس کو چھوڑ دو ( یہ تمنا اور دعائے موت میں مبالغہ ہے) وہ چھ خصائل یہ ہیں :

(١) خونریزی (٢) لڑکوں کی سلطنت (٣) شرط کی کثرت (٤) جاہل بیوقوفوں کا امیر ہونا (٥) فیصلہ حکم کی بیع ( یعنی مقدمات کا فیصلہ کرنے کو بیچنا) (٦) قرآن پاک کو راگ بنانا اور ابن عبد البر نے تمہید میں روایت کیا ہے کہ عمرو بن عنبسہ   سے موت کی تمنا کی بابت بعض لوگوں نے پوچھا کہ آپ موت کی کیوں تمنا کرتے ہیں اس سے تو منع کیا گیا ہے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے چھ چیزیں ظاہر ہونے سے پہلے مر رہو۔ ( یعنی موت کا سوال کرو)

(١) جاہل بے وقوفوں کی سلطنت، (٢) شرط کی کثرت، (٣) حکم کی بیع، (٤) خون کے معاملہ کی پرواہ نہ کرنا، (٥) قرابت کو قطع کرنا۔ (٦) قرآن کو مزامیر بنانا۔ حاکم نے ابن عمر (رض) سے اور ابن سعد نے ابو ہریرہ (رض) سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور خوف فتنہ کی وجہ سے بعض سلف صالحین نے اکثر تمنا کی ہے چنانچہ اس قسم کے مضامین ابن سعد نے خالد بن معدان سے اور ابن عساکر اور ابو نعیم نے خالد مذکور سے اور مکحول اور ابن ابی الدنیانے ابو الدرداء   سے اور ابن ابی شیبہ اور ابن ابی الدنیا نے ابی جحیفہ سے اور ابن ابی الدنیا اور خطیب اور ابن عساکر نے ابو بکرہ سے اور ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابو ہریرہ   سے اور طبرانی اور ابن عساکر نے عرباض بن ساریہ   سے روایت کئے ہیں اور اگر موت کی تمنا اللہ کے ملنے کے شوق میں کرے تو یہ بہت ہی اچھا ہے۔ ابن عساکر نے ذوالنون مصریؒ  سے روایت کی ہے آپ فرماتے تھے کہ شوق سب مقامات سے برتر مقام ہے اور سب درجوں سے بڑھ کر درجہ ہے جب بندہ کو یہ مقام نصیب ہوتا ہے تو اپنے پروردگار کے شوق میں موت کی آرزو کرتا ہے اور اس کے دیر میں آنے سے اکتاتا ہے۔

میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ اس آیت میں مقصود خطاب سے یہی تمنا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے شوق میں ہو اب اس تقدیر پر فَتَمَنُّوُ الْمَوْتَ کی تفسیر یہ ہو گی کہ اللہ کے شوق میں موت کی تمنا کرو۔

ابن سعد اور بخاری و مسلم نے حضرت عائشہ   سے روایت کی ہے کہ میں سنا کرتی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پیشتر اختیار دیا جاتا ہے کہ خواہ دنیا میں رہو یا یہاں چلے آؤ جب رسول اللہ ﷺ کو مرض کی شدت ہوئی تو میں نے سنا کہ آپ فرما رہے تھے : مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِییِّیْنَ وَالصِّدِّیقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِیْن وَ حَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا ( ان کے ساتھ جن پر خدا تعالیٰ نے احسان اور انعام فرمایا ہے یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بندے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں) میں سمجھ گئی کہ اب حق تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملا ہے اور آپ ﷺ نے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور نسائی نے حضرت عائشہ   سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ میری گود میں لیٹے تھے کہ آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی میں آپ کے بدن مبارک پر ہاتھ پھیرتی تھی اور آپ کے لیے ان کلمات سے دعاء شفا کرتی تھی : اَذھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ( اے لوگوں کے پروردگار شدت کو دور فرمائیے) اس کے بعد آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے الگ کر لیا اور فرمایا نہیں میں تو اللہ سے رفیق اعلیٰ کا سوال کرتا ہوں۔

طبرانی نے روایت کی ہے کہ ملک الموت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ان کی روح قبض کرنے آئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ملک الموت! بھلا کہیں ایسا دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کی روح قبض کر ے۔ ملک الموت نے یہ سن کر حق تعالیٰ سے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہہ دو کہ تم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کے ملنے کو ناگوار جانے ابراہیم (علیہ السلام) نے سن کر فرمایا میری روح ابھی قبض کر لو! اور یوسف ( علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ مجھ کو اسلام کی حالت میں وفات دے اور نیک بندوں سے ملا دے اور علی   فرماتے تھے کہ مجھے کچھ پرواہ نہیں خواہ موت مجھ پر گرائی جائے یا میں موت پر گرایا جاؤ اس کو ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے اور عمار صفین میں فرماتے تھے کہ میں آج اپنے دوستوں سے یعنی محمد ﷺ اور آپ کے گروہ سے ملوں گا۔ اس قول کو طبرانی نے کبیر میں اور ابو نعیم نے دلائل میں نقل کیا ہے اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام احمد نے ابو امامہ   سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول للہ ﷺ کی خدمت اقدس میں بیٹھے تھے آپ نے وعظ فرمایا اور ہمارے دلوں کو نرم کیا۔ سعد بن وقاص    یہ وعظ سن کر خوب روئے اور کہہ اٹھے اے کاش میں تو مر جاتا۔ حضور نے فرمایا کہ سعد ! میرے پاس ہو کر موت کی تمنا کرتے ہو اور یہی مضمون تین بار فرمایا پھر فرمایا : سعد! اگر تم جنت کے لیے پیدا کئے گئے ہو اور تمہاری عمر طویل اور عمل اچھے ہوں تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کی تمنا کرنا ہر حال میں ناجائز ہے خواہ کوئی مالی یا جسمی ضرر ہو یا نہ ہو چنانچہ حضرت سعد   نے اس قصہ میں موت کی تمنا کسی مالی یا بدنی ضرر وغیرہ سے نہیں کی بلکہ عذاب کے خوف سے کی تھی۔

میں کہتا ہوں بے شک یہ امر صحیح ہے کہ عذاب کے خوف سے تمنا کی لیکن موت سے اللہ کا عذاب دفع نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے تو استغفار کرنا اور اعمال صالحہ میں سبقت کرنا اور گناہوں سے بچنا ضروری ہے اورا سی بنا پر جناب رسول اللہ ﷺ نے موت کی تمنا کرنے کو منع فرمایا ہے۔

تحقیق مقام یہ ہے کہ گناہ میں مبتلا ہو جانے یا طاعت میں کوتاہی کے خوف سے موت کی تمنا کرنا جائز ہے۔ اس میں شبہ نہیں اور محبوب حقیقی کی لقاء کے شوق میں خود تمنا کرنا بعض سلف سے مرض الموت میں وارد ہوا ہے چنانچہ پہلے ہم نے جناب رسول ﷺ اور ابراہیم (علیہ السلام) اور عمار وغیرہم سے نقل کیا ہے کہ جب موت کا وقت قریب ہو اور اعمال صالحہ کی زیادتی کی ان کو امید نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کی لقاء کے شوق میں موت کو حیات پر ترجیح دی۔ ٭

۔۔۔۔۔

٭ نیز شہادت کی تمنا بھی  جائز، بلکہ احسن ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے ثم اقتل(الخ) والی حدیث میں بے حد عشق میں ڈوبی دعا مانگی ہے۔ پھر یہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ شہادت تو موت ہوتی ہی نہیں، بلکہ وہ زندگی ہوتی ہے۔سورہ ٢ البقرہ:١٥٤، سورہ ٣ آل عمران:١٦٩(مدیر)

٭٭٭

 

 

 

مَنْ یطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ  اللّٰهَ    ۚ

جس نے رسول کی اطاعت کی، حقیقت میں اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔(سورہ نمبر 4 النساء، آیت 80)

 

 

الاحادیث المنتخبہ

 

                پیش کش: مدیر

 

 

سب سے بہتر

 

حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِی عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَیدَةَ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِی عَنْ عُثْمَانَ رَضِی اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِی صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَیرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ۔

حضرت عثمان بن عفان سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 19)

مکررات: ٭صحیح بخاری:جلد سوم، حدیث نمبر 20، ٭سنن ابوداؤد:جلد اول، حدیث نمبر 1448، ٭ جامع ترمذی:جلد دوم، حدیث نمبر 834، 835، ٭ جامع ترمذی:جلد دوم، حدیث نمبر 836، ٭سنن ابن ماجہ:جلد اول، حدیث نمبر 211، 212، 213، ٭سنن دارمی:جلد دوم، حدیث نمبر 1162، 1163، ٭مسند احمد:جلد اول، حدیث نمبر 389، 469

 

پہلے سلام، پھر کلام

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ بَغْدَادِی حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ زَکَرِیا عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ السَّلَامُ قَبْلَ الْکَلَامِ۔

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سلام کلام سے پہلے کیا جانا چاہیے۔

(جامع ترمذی:جلد دوم ، حدیث نمبر 610 حدیث مرفوع )

٭٭٭

 

 

 

اُدْعُ اِلٰى سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِىَ اَحْسَنُ ۭ

اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ (سورہ نمبر 16 النحل، آیت 125)

 

 بھائی عبدالرحمٰن سےایک ملاقات

 

                احمد اوّاہ

 

احمد اوّاہ:السلام علیکم و رحمۃ اللہ

عبد الرحمٰن:وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

س:بھائی عبدالرحمن!اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے، اللہ تعالیٰ کاکیساکرم ہوا کہ آپ کوایسےزمانہ میں ایمان عطا فرمایا جب فتنوں کا زمانہ ہے، آپ کوکیسامحسوس ہوتا ہے؟

ج:مولاناصاحب میں بیان نہیں کرسکتا، اس خوشی اور کیفیت کو آدمی اپنی زبان سےبیان نہیں کرسکتا مجھ آیورویدسورج پرش برہمن کو محض اپنی رحمت سےایمان عطا کیا، میرے مولیٰ نے میری زندگی کو الجھائے رکھ کر، زندگی اور ہمیشہ کی زندگی کی سب سےبڑی الجھن کو سلجھانےکاانتظام کر دیا، کاش اللہ تعالیٰ ایمان پر میرا خاتمہ فرمائے ڈر لگا رہتا ہے کہ ایک شیطان ہر وقت میرے ساتھ لگا رہتا ہے، جس کو میں محسوس کرتا ہوں ۔

س: آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

ج: میرا خاندانی نام ہری موہن مشرا،  میرے والد یوگندر موہن مشرا، ہم لوگ دربھنگہ بہار کے ایک قصبہ کے آیوروید برہمن ہیں جو اپنے کوسورج پرش سمجھتے ہیں ، یعنی ہم کسی سے دان مدد لینا حرام سمجھ سکتے ہیں ، ہم بھیک دے توسکتے ہیں کسی سے لے نہیں سکتے ، جس طرح سوریہ سب کو پرکاش دیتا ہے لیتا نہیں ، ہمارے گھر میں کھیتی ہوتی تھی میرے بڑے بھائی گجرات میں ملازم تھے میں نے ابتدائی تعلیم اپنے یہاں سے حاصل کر کے مدھوبنی سے گریجویشن کیا ، شروع میں ہمارے یہاں ایک صابن فیکٹری شکری دربھنگہ میں تھی ، جوکسی حادثہ کا شکار ہو گئی ، تومیں نے پھر تعلیم شروع کی میں چنئی سے ڈپلوما کیا، میرے ایک بڑے بھائی پانی پت میں ٹھیکیداری کرتے تھے ، پوری زندگی لوگوں کی بھلائی اور ان کو گیان دینے اوردوسرے سے لینے کی نیت سے پورے ملک میں چکر لگاتے رہے ۔جگن ناتھ مشراسے ان کے بہت قریبی تعلقات تھے درمیان میں میرے بڑے بھائی کا گجرات سے بنگال پوسٹنگ ہوا تومیں بھی چلا گیا، میری نوکری بھی لگ گئی مگر وہ مجھے اچھی نہیں لگی اور میں نے ملازمت چھوڑ دی ، کچھ روز ٹائپنگ سیکھی ، ڈرائیوری سیکھی کہ کسی طرح اپنا گزاراکرسکوں ، پنجاب کے ایک بلڈر اجیت سنگھ کے یہاں میں نے بنگال میں ملازمت کر لی ، ان کا یہاں سے کام ختم ہوا تووہ مجھے پانی پت لے کر چلے گئے ، کچھ روز کے بعد میں نے اپنی کنسٹرکشن کمپنی کھولی ، اور ٹھیکیداری کرنے لگا، میرے ایک بھائی سعودی عرب میں تھے ، ان کا فون آیا، میں کلکتہ آ رہا ہوں تم بھی آ جاؤ، میں کلکتہ ۱۱ ؍دسمبر۲۰۰۵ ء کو پہنچا، معلوم ہوا ان کوH.I.V کی بیماری ہو گئی ، ان کی بیماری نے مجھ کو ہلا کر رکھ دیا۔دسمبر۲۰۰۷ ء میں کاروبارسے پریشان ہوا تو میری کنسٹرکشن کمپنی بند ہو گئی ، جن لوگوں کا کام نہیں ہوا تھا انہوں نے معذرت کر دی ، میری مالی حالت بار بار بگڑتی رہی ، میرے پاس ۱۱ ؍ ہزار روپے تھے ان کو لے کر میں دہلی آیا، کہ اگر وہاں کام نہ چلا تو پھر یہ بھی ارادہ تھا کہ کہیں خودکشی کر لوں گا۔

س:خودکشی کا خیال آپ کو کیوں پیدا ہوا؟

ج:بھائی کی بیماری اور بار بار کام چلنے اور اچانک ٹوٹ  جانے سے میں ہمت ہار گیا، پھر ایک کمپنی کے مینیجرسے ملا، انہوں نے مجھے کام دے دیا اور کام چل پڑا، پھر ذرا کام چلا تو بھائی نے گجرات بلا لیا، گجرات میں ٹھیکیداری شروع کی ، دوسال کام اچھا چلا، مالک کا شکر ہے کہ دوسال میں اپنا مکان بنا لیا، اچانک ایک رات ہارٹ اٹیک ہو گیا، ایک وال ۹۰ ؍ فیصد خراب ہو گئی، BMB ہوا، کسی درجے میں صحت ہوئی تو میرے بھائی  کے ایک دوست سنیل گوڑے ، جوناسک کے رہنے والے تھے ، انہوں مجھے مشورہ دیا کہ اب تم اچھے ہو گئے ہو، اور اچھے ہو جاؤاس کے لئے ناسک میں سائیں بابا کے مندر چلو، میں نے مشورہ مانا، لوٹتے وقت راستہ میں ان کی سسرال تھی ، سسرال والوں سے ان کی بنتی نہیں تھی ، ان کی بستی میں ایک اللہ والے گلاب شاہ تھے ، انہوں نے سنیل کی بہو کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا، بس ان کے یہاں ہی جایا کرتے تھے ، سنیل نے کہا چلو، ان سے ملتے ہیں ، ان سے ملنے کے بعد مجھ کو بہت سکون ملا، انہوں نے مجھے پرس میں رکھنے کے لئے ایک تعویذ بھی دیا، اس ملاقات کے بعد میری زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ، میں اصل میں گھنٹوں پوجا کرتا تھا، مگراس ملاقات کے بعد پوجا میں بالکل من نہیں لگتا تھا، ایک دن عجیب بات پیش آئی ، میں سوکراٹھاتومیں نے دیکھا کہ بہت نورانی شکل کی صورت ، خوبصورت داڑھی کونے سے آہستہ آہستہ میرے سامنے نظر پڑی ، کمرے میں اندھیرا ہو رہا تھا، وہ صورت میرے قریب ہو گئی ، میں نے سوال کیا تو کون ہے ؟کوئی جواب نہیں ، قریب آ کر پھر آہستہ واپس چلی گئی ، میں نے موبائل میں وقت دیکھا پانچ بج کر پینتیس منٹ ہو رہے تھے ، اس کے بعد میں نے سناکہ کمرے میں اذان کی آواز آ رہی ہے ، ہمارے گھرکے قریب دو کلو میٹر تک کوئی مسجدنہیں ہے ، ایک مسجددورہے مگراس میں صبح کی اذان مائک میں دینے کی اجازت  نہیں ہے ، اس دن میں پوجا کے لئے موٹر سائیکل لے کر نکلا، کچھ کیلے وہاں چڑھانے کے لئے ، لے لئے مگر غیر اختیاری طور پر نہ جانے ، نظریں مسجدکے دروازے پر پہونچیں اور چھ کے چھ کیلے خودکھاکرواپس آ گیا، اورایساتین روز تک ہوتا رہا، تیسرے روز میں امام صاحب کے یہاں گیا اور بولا مجھے مسلمان بننا ہے ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارا بیوقوف بنا رہے ہو، تمھیں معلوم نہیں مودی کی حکومت چل رہی ہے ، جاؤ یہاں سے نکلو، دوسرے روز گیا پھر انہوں نے دھمکا دیا، اور کہا کہ اگر تم یہاں آئے توہم تھانے میں رپورٹ کر دیں گے ، میں نے سنیل گوڑے سے کہا کہ آپ میری بات گلاب بھائی سے کرائیں ، گلاب بھائی نے کہا کہ یہ آپ پر اللہ کی رحمت ہے ، آپ گھبرائیے نہیں ، آپ کواس سے کچھ نقصان نہیں ہو گا، تیسرے روز پھر میں امام صاحب کے پاس گیا، کہ مجھے مسلمان بننا ہے ۔

س:  آپ کو خیال نہیں آیا کہ وہ آپ کو پھر دھمکا دیں گے ؟

ج:  میرے بس میں نہیں تھا، مجھے اندرسے کوئی مجبور کر رہا تھا، اس روز میں گیا تو امام صاحب کا غصہ کم تھا، میں نے کہا آپ مجھے قرآن مجید دیجئے ، مسلمان نہیں کرتے تو مت کیجئے ، انہوں نے مجھے سمجھایاکہ آپ مسلمان بننے کی بات دل سے نکال دیجئے ، انہوں نے مجھ سے معلوم کیا آپ کیوں مسلمان بننا چاہتے ہیں ؟ میں نے کہا مجھے خود معلوم نہیں کہ میں کیوں مسلمان بننا چاہتا ہوں ، میں نے اپنا حال ان کوسنایا، انہوں نے مجھے قرآن مجید منگوا کر کل دینے کا وعدہ کیا، اگلے روز میں گیا قرآن مجید لے کر آیا، انھوں نے مجھے بتایا کہ ہاتھ پیردھوکراس کو ادب سے پڑھنا ہے ، میں گھر قران مجید لے کر آیا، تو میری بھابھی نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھ لیا، انہوں نے گھر میں آفت برپا کر دی ، میرے لئے گھر میں رہنا مشکل ہو گیا، میں واپس قرآن شریف لے کرپھرمسجدپہنچااورامام صاحب سے اجازت لی کہ آپ مجھے مسجدمیں بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت دیں ، دس روز تک قرآن مجید پڑھنے کے بعد میں نے امام صاحب سے پھرمسلمان بنانے کی درخواست کی ، انہوں نے میرا پتہ لیا، اور دو روز کے بعد آنے کو کہا، انہوں نے اپنے لوگوں سے میری انکوائری کی ، جب ان کو اطمینان ہو گیا، تووہ مجھ کو  بڑی مسجدمرکز میں لے کر گئے اور کہا کہ وہاں آپ کو کلمہ پڑھوائیں گے ، امام صاحب نے مجھے غسل کرایا، اور کہا کہ کلمہ پڑھو میں نے کہا کہ مجھے چھ کلمے یاد ہیں ، انہوں نے معلوم کیا کہ تم کو کلمے کہاں یاد ہوئے ؟، میں نے کہا کہ یہ کلمے تسلیمہ نسرین کی کتاب’ لجا’سے میں نے یاد کئے ہیں ٭، میں نے ایک عجیب سے حال میں یہ سوچتے ہوئے بھی کہ مجھے مسلمان نہیں ہونا چاہئے پھر بھی کلمہ پڑھا، مگر کلمہ پڑھ کر مجھے اندرسے ایک عجیب آزادی کااحساس ہوا ، جیسے میں کسی قیدسے آزاد ہو گیا ہوں ، اب میرے قانونی طور پر مسلمان ہونے کامسئلہ تھا، کوئی وکیل میرے کاغذات بنانے کے لئے تیار نہیں ہوا، ۲۰۰۸ ء میں کنورجن کے لئے گجرات حکومت نے بل پاس کیا تھا، میرے لئے بڑی مشکل پیش آئی ، میں موٹر سائیکل پرادھرسے ادھر مارا مارا پھرتا رہا، آخر میں ایک بھلے وکیل جناب شیخ امین صاحب ملے ، جنہوں نے میرے کاغذات لئے ، پچیس سوروپے فیس طے ہوئی ، جو مولانا اصغر علی نے اپنی جیب سے ادا کئے ، اور ایک ہفتے میں میرے کاغذ تیار ہوئے ، اور میرا ایفی ڈیوٹ بنا دیا۔ میں جنوری میں بنگال چلا گیا، مجھ پر کچھ قرض بنگال میں تھا، میں نے موٹرسائیکل بیچ کر قرض ادا کیا، ۲۵ ؍ فروری کو بھائی کا فون آیا، انھوں نے مجھے گجرات بلایا، میں گجرات گیا مولانا اصغر صاحب اورسب لوگ سمجھ رہے تھے کہ میں واپس ہندو بن گیا ہوں۔ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ میں ابھی تک مسلمان ہوں ، بھائی بہت بیمار تھے میں ان کولے کر پٹنہ آیا، ۲۷ ؍اگست ۲۰۱۲ ء کو بھائی کا انتقال ہو گیا، میرے ساتھ ایک شیطان ہر وقت ساتھ ساتھ رہتا تھا، جو مجھے اسلام میں آنے سے روکتا تھا، بھائی کے انتقال کے بعداس شیطان کا ڈر ہوا، میں نے اسلام سے توبہ کرنے کی نیت کی اور ہری دوار پہنچا، پشکر گیا، بالاجی کے مندر پر گیا، اور ویشنو دیوی گیا۔

س:کیاآپ اپنے کو ہندو کہنے لگے اورسمجھنے لگے تھے ؟

ج:میں اپنے آپ میں یہی سمجھ رہا  تھا کہ تو نے مسلمان ہو کر غلطی کی ہے ، توبہ کے لئے سارے تیرتھوں پر جا کر  رہا مگر میرا حال ابھی بھی ڈھل مل تھا، میں مسلمان داڑھی والے کو دیکھتا تو اپنے کومسلمان کہتا، اور ہندوؤں میں جاتا تو اپنے کو ہندو کہتا، شاید اس وجہ سے کہ میں مسلمانوں میں اپنے اسلام کا اعلان کر چکا تھا، یا اندرسے کوئی چیز مجھے مجبور کرتی تھی کہ مسلمانوں میں خودکومسلمان کہوں ، مجھے اپنے بھتیجے اور بھائی کی خیریت لینے اور اپنے واپس ہندو بن جانے کے لئے ، مطمئن کرنے کے لئے گجرات جانے کا خیال آیا، وہاں پہنچا تو مولانا اصغر علی نے اپنے ساتھی کے پاس سے لا کر ’’آپ کی امانت ، آپ کی سیوامیں ‘‘اور’’نسیم ہدایت کے جھونکے ‘‘ہندی میں لا کر دی ، ان کتابوں نے میرے دماغ و دل سب کے جالے صاف کر دئیے ، اب مجھے اپنی منزل اورراستہ صاف دکھائی دے گیا، اب میں نے جا کر ایک امام صاحب جو دعوت سے جڑے تھے اور حضرت مولانا کلیم صدیقی کے ساتھیوں کے ساتھ کام کرتے تھے سچے دل سے کلمہ پڑھا انھوں نے حضرت کا تعارف کرایا، حضرت سے اب مجھے بہت ہی محبت ہو گئی تھی اور خیال تھا کہ باقی زندگی بس پھلت٭ جا کر حضرت کے ساتھ گذارنی ہے ۔مگر ایک رات میں نے اپنے پتاجی کوسپنوں میں دیکھا آنکھ کھلی تو مجھے بہت یاد آئی اور خیال ہوا کہ میرے پتا جو دھرم کے نام پر زندگی بھر پورے دیش میں بھرمن (طواف )کرتے رہے ، وہ سب سے بڑے ادھرم کو دھرم سمجھ کر زندگی بھر پھرتے رہے ، اور مالک کے راستہ سے بھٹکتے رہے ، کہیں میرے گھر والے اور خاندان والے بھی اسی طرح موت کی راہ نہ لیں ، میں نے گاؤں جاکرسب رشتے داروں کو دعوت دینے کی نیت سے بہارکاسفرکیا۔

س:مفتی مہتاب سے آپ کا تعارف کہاں ہوا؟

ج:بہارواپسی ہو رہی تھی کہ ایک صاحب پٹنہ میں ملے انہوں نے بتایا کہ شکری میں ایک ادارہ بالکل مین روڈ کے قریب مرکز صفہ کے نام پر چل رہا ہے ، وہاں پرنومسلموں کے لئے بھی  انتظام ہے اور وہاں دعوت کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے ، تومیں شکری گیا، اور مفتی صاحب سے ملا، مفتی مہتاب نے بتایا کہ مرکز صفہ حضرت ہی کا ادارہ ہے ، اور ہم لوگ حضرت کے مشورہ سے ہی کام کر رہے ہیں ، بس اندھے کو دو نین مل گئے ، میرے گاؤں کے اتنے قریب وہ بھی میرے حضرت مولانا کلیم صاحب کے لوگ مل گئے ، میں نے وہاں رہنے کی خواہش ظاہر کی ، مفتی مہتاب صاحب نے ایک خونی رشتہ کے سگے بھائی سے زیادہ میراساتھ دیا، میں نے اجازت لے کرگھرکاسفرکیا، میری بھابھی جو گجرات میں رہتی تھی اور ماں کے انتقال کے بعد انہوں نے ماں سے زیادہ محبت سے پالا تھا، وہ میری بالکل دشمن ہو گئی تھی ، انہوں نے فون کر کے سارے گھر والوں کو بتا دیا، گھر جاتے ہی میرے ساتھ زیادتی ہونے لگی ، اب ان باتوں کا ذکر کرنا بھی اچھا نہیں لگتا کہ مجھے ان میں کام کرنا ہے ، جب تک میری سمجھ میں اسلام نہیں آیا تھا میرا حال بھی اسی طرح کا تھا، کئی بار گھر میں پنچایت ہوئی ، ایک بار خاندان کے ایک مکھیاسمجھے جانے والے میرے دور کے چچا کو بلایا گیا، سب لوگوں کے سامنے وہ بولے ، کیا واقعی تواندرسے مسلمان ہو گیا ہے ؟یاکسی لڑکی وڑکی کے چکر میں ڈھونگ بھر رہا ہے ، میں نے دونوں ہاتھوں کوسینہ سے جکڑ کر بتایا کہ اگر تم کہو تومیں اپناسینہ چیر کر کلیجہ نکال کر دکھا دوں کہ خون کے قطرے میں اور جگر کے ٹکڑے ٹکڑے پر لا الہ الا اللہ لکھا ہوا ہے ، میرے ساتھ ایسی ایسی زیادتیاں کی گئیں کہ بس کیا بیان کروں ، کئی بار مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی ، مگر میرے اللہ نے مجھے بچایا، مفتی صاحب سے مشورہ کیا، انہوں نے شکری واپس آنے کا مشورہ دیا، واپس آیا تو مجھے وہاں دعوتی ماحول ملا، اللہ کا شکر ہے کہ پورے بہار میں ہمارے مرکز صفہ کا تعارف ہو گیا ہے ، کوئی اسلام کے بارے میں کوئی معلومات چاہتا ہے ، اسلام سے دلچسپی رکھتا ہے ، تو لوگ مفتی مہتاب صاحب مرکز صفہ کا پتہ بتا دیتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ بھٹکتے ہوے لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کا مرکز ہمارا نقلی صفہ بھی اصلی صفہ کی طرح بنتا جا رہا ہے ، اور مفتی مہتاب اور ان کے سبھی ساتھی بہت ہی محبت سے گھرسے نکالے گئے مہاجرنومسلموں کی تربیت اور تعلیم اور ان کے مسائل کی فکر کرتے ہیں ۔

س: آپ دہلی سے پھلت کے سفرپرکب  آئے اور کیا ارادہ ہے ؟

ج: اصل میں گجرات میں حضرت مولانا کلیم صاحب سے ملنے کا بہت شوق تھا۔پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ حضرت ۸ دسمبرکو سیوان آرہے ہیں ، میں نے مفتی صاحب سے درخواست کی ، بہت سارے سوالات تھے ، جوسوچے تھے کہ حضرت سے کہوں گا، ذہن میں الجھنوں کا انبار تھا، خیال تھا کہ حضرت سے کہوں گا، مگرسیوان میں بھیڑ میں مصافحہ کر کے بیٹھ گئے ، حضرت نے نو مسلموں کے مسائل پر بات ساتھیوں سے شروع کی اور ان کے غم و فکر کو اپنا غم اور فکر بتا کر لوگوں کے ساتھ رہنے کو کہا، ایسے میں بیٹھے بیٹھے باتیں ہو رہی تھیں ، یعنی کوئی باقاعدہ جلسہ نہیں تھا، یہاں وہاں سے لوگ آئے ہوئے تھے ، مفتی مہتاب صاحب نے میرا تعارف کرایا، حضرت اٹھے توسارے غم جیسے تھوڑی دیر میں بھلا دئیے ، میں نے حضرت سے کہا کہ حضرت مجھے ایک بار گلے سے لگا لیجئے ، حضرت نے ہنستے ہوئے چمٹایا اور بولے ، آپ دین کے لئے سب کچھ چھوڑ کر آنے والے لوگ ، تو ہمیشہ سے دل و جان سے لگے ہوئے ہو، مولوی احمد صاحب بالکل سچ کہہ رہا ہوں کہ مجھے ایسالگاکہ وہ ماں جو مجھے ڈیڑھ سال کی عمر میں مر کر مجھے چھوڑ گئی تھی اس نے مجھے گلے لگا لیا٭، وہیں مشورہ ہو گیا کہ دہلی آنا ہے اصل میں ختنہ بھی کرانی تھی اور جماعت میں وقت لگانا تھا، حضرت نے کہا کہ ایک دوروزساتھ رہیے ، گاڑی میں بیٹھ کر اطمینان سے بات بھی ہو جائے گی ، پہلے جماعت میں وقت لگا لو، بعد میں ختنہ ہو جائے گا، اس لئے کہ دین سیکھنافرض ہے اور ختنہ سنت ہے ، دین یہ ہے کہ ہر عمل کواس کے جگہ پر رکھئے ، پہلے فرض ادا کر  لو اور  بعد میں سنت ، واپس آ کر ختنہ کرا لیں ۔

س:مفتی صاحب بتا رہے تھے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دعوت کا خوب حوصلہ دیا ہے ؟

ج: جی ہاں اللہ کا شکر ہے کہ کوئی آدمی ہو مجھے دعوت دیتے نہ ڈر لگتا ہے اور نہ مرعوبیت ہوتی ہے ، میرے خالہ زاد بھائی سب سے پہلے میری دعوت پرمسلمان ہوئے ، اب میں دعوت دیتا ہوں توایسالگتاہے کہ اندرسے مجھے کوئی پڑھاتا ہے اس سے یہ بات کہو یہ بات کہو، اللہ کا شکر ہے کہ جن لوگوں کو میں نے دعوت دی سب نے کلمہ پڑھا، اور زیادہ سوالات بھی نہیں کئے ۔ اب آپ جماعت میں جا رہے ہیں آپ ہمارے لئے بھی دعا کیجئے ۔ آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ جو شیطان مکار ہے اس سے میرے ایمان کو بچائے ۔

س: کیا آپ کو اب بھی واپس جانے کا خیال ہوتا ہے ؟

ج: نہیں اب تو اللہ کا شکر ہے ، کسی بھی جگہ میں اپنے اسلام کو چھپاتا نہیں ہوں بلکہ میرا حال یہ ہے کہ ایک طرف ایک آگ جلی ہو کہ یاتواسلام چھوڑ دو ورنہ اس آگ میں جلو، تومیں انشاءاللہ انشاءاللہ اسلام نہیں چھوڑوں گا، فوراًاس آگ میں کود جاؤں گا۔ اصل میں دودھ کا دھلا چھاچھ میں پھونک مارا کرتا ہے ، میرے ساتھ ایک بار بلکہ بار بار ہو چکا ہے ، اس لئے ڈر لگتا ہے اور جب سے مفتی صاحب نے امام احمد بن حنبل کا واقعہ پڑھ کرسنایاایک روز تعلیم میں بتا رہے تھے کہ لوگ ان کو کلمہ پڑھنے کے لئے کہہ رہے تھے وہ فرماتے تھے کہ ابھی نہیں ابھی نہیں ، گھر والے پریشان ہو گئے کہ آخری وقت میں کلمہ نہیں پڑھ رہے ہیں ، تھوڑی دیر میں ذرا ہوش سنبھالاتوصاجبزادوں نے معلوم کیا کہ آپ کو جب کلمہ کی تلقین کی جا رہی تھی تو آپ یہ کیوں فرما رہے تھے کہ ابھی نہیں ابھی نہیں ، امام صاحب نے کہا شیطان میرے سامنے آیا اور بولا کہ احمد تو میرے ہاتھ سے نکل کر چلا گیا، اپنا ایمان سلامت لے گیا، تو میں اس سے کہہ رہا تھا کہ ابھی نہیں ، ابھی نہیں ، یعنی جب تک روح نہ نکل جائے ، اس وقت تک ایمان کا خطرہ ہے ، مجھے اس وقت سے تو ڈر لگنے لگا کہ ایسے بڑے امام جو دنیا کے چار اماموں میں سے تھے ، ان کا یہ حال تھا کہ موت تک ایمان کا خطرہ تھا، مجھ دو دن کے مسلمان کے لئے ہر وقت خطرہ ، جب کہ ایمان آنے جانے کے واقعہ سے میں گذر ہی چکا ہوں ، جب بھی یہ خیال آتا ہے تو ڈر کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں (ہاتھ کی طرف روئیں کو دکھاتے ہوئے )دیکھئے کیسے بال کھڑے ہو گئے ، اگر ایمان چلا گیا تو دوزخ میں جلنا پڑے گا، آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایمان پر موت دے ۔

س: آمین ۔انشاءاللہ ، اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو وہی سلامت بھی رکھیں گے ، آپ ارمغان پڑھنے والوں کے لئے پیغام دیں گے ؟

ج: حضرت صاحب سیوان میں بیان کر رہے تھے کہ ایک دن رات میں ایک لاکھ چون ہزار لوگ بغیر ایمان کے مر جاتے ہیں ، ان بے چاروں کو بالکل پتہ نہیں کہ ایمان اتنا ضروری ہے کہ اسلام کے بغیر نجات نہیں ، یہ بات میں مذہبی برہمن خاندان سے تعلق رکھتا ہوں ، ہمارے خواب میں بھی کبھی نہیں آیا کہ اسلام ہمیں بھی قبول کرنا چاہئے ، ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ اسلام مسلمانوں کا دھرم ہے اور ہمارے لئے ہمارے مالک نے ہندو دھرم رکھا ہے ، ہماری مکتی ہندو دھرم ماننے میں ہے ، اورمسلمانوں کااس بات پر ایمان ہے کہ کلمہ اور ایمان کے بغیر کوئی آدمی دوزخ سے نہیں نکلے گا، توکس قدر ظلم اور کھلا اندھیر ہے کہ ہم ان بے چاروں کونہ بتائیں اور ان کواس سب سے بڑے ادھرم بت پرستی سے بچانے کی کوشش نہ کریں ، جب کہ اب کوئی رسول نہیں آئے گا، ہمیں ہی کام کرنا ہے ، بس اس کی فکر کریں اوراس خطرے کومحسوس کریں ۔

س: جزاک اللہ ، آپ نے بہت اچھی بات کہی ۔بہت بہت شکریہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ج:  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔٭

۔۔۔۔۔

٭ پھلت میں  مولانا کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم کی رہائش  گاہ ہے۔(مدیر)

 

 

 

 

کم سنی میں حضرت عائشہ  کا نکاح تحقیق و تجزیہ

 

                دفاعِ اسلام

 

سوال: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کم سنی میں ہوا، بیان کیا جاتا ہے کہ ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اس سلسلہ میں معاندین اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ اس کم سنی کی شادی پیغمبر اسلام ﷺ کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھی۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے۔ آپ اس کا تحقیقی و تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو شکر گذار ہوں گا۔ (فاروق عبدالعزیز قریشی رنگ روڈ مہدی پٹنم، حیدرآباد)

 

جواب: حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا  سے جو حضور اکرم ﷺ نے اُن کی کم سنی میں نکاح فرمایا اور پھر ان کی والدہ حضرت ام رومان رضی الله عنہا  (زینب رضی الله عنہا ) نے تین سال بعد ۹/ سال کی عمر میں رخصتی کر دی، اس پر بعض گوشوں سے اعتراضات اور شکوک و شبہات نئے نہیں ہیں،  بلکہ پرانے ہیں، علماء اور محققین نے جوابات بھی دئیے ہیں، تاہم ذیل کی سطروں میں ایک ترتیب کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امید کہ جواب میں تحقیق و تجزیہ کے جو پہلو سامنے آئیں گے، اُن سے ذہنی غبار دھل جائے گا اور ذہن کا مطلع بالکل صاف اور واضح ہو جائے گا۔ اس لیے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر تفصیلی جواب لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام قانونِ زوجی (Law of Sex) پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آ رہی ہیں سب اسی قانون کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ (الذاریات:۴۹) یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کر کے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔ جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا،  بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کار خانۂ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کر دئیے، اور ’نکاح‘ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔ کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیا گیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں،  بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہو جائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہو چکے ہیں۔

نبی کریم ﷺ ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے، جو تہذیب و تمدن کے ابتدائی درجہ میں تھی آپ ﷺ کے سپرد اللہ نے صرف یہی کام نہیں کیا تھا کہ اُن کے عقائد و خیالات درست کریں،  بلکہ یہ خدمت بھی آپﷺ کے سپرد تھی کہ ان کا طرزِ زندگی، بود و باش اور رہن سہن بھی ٹھیک اور درست کریں۔ ان کو انسان بنائیں، انہیں شائستہ اخلاق، پاکیزہ معاشرت، مہذّب تمدن، نیک معاملات اور عمدہ آداب کی تعلیم دیں، یہ مقصد محض وعظ و تلقین اور قیل و قال سے پورا نہیں ہوسکتا تھا، تیس سال کی مختصر مدتِ حیات میں ایک پوری قوم کو وحشت کے بہت نیچے مقام سے اٹھا کر تہذیب کے بلند ترین مرتبہ تک پہنچا دینا اس طرح ممکن نہ تھا کہ محض مخصوص اوقات میں ان کو بلاکر کچھ زبانی ہدایات دیدی جائیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ آپ ﷺ خود اپنی زندگی میں ان کے سامنے انسانیت کا ایک مکمل ترین نمونہ پیش کرتے اور ان کو پورا موقع دیتے کہ اس نمونہ کو دیکھیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا۔ یہ آپ ﷺ کا انتہائی ایثار تھا کہ آپ ﷺ نے زندگی کے ہر شعبہ کو قوم کی تعلیم کے لیے عام کر دیا۔ اپنی کسی چیز کو بھی پرائیویٹ اور مخصوص نہ رکھا۔ حتی کہ ان معاملات کو بھی نہ چھپایا جنھیں دنیا میں کوئی شخص عوام کے لئے کھولنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ آپ ﷺ نے اتنا غیر معمولی ایثار اس لئے کیا تاکہ رہتی دنیا تک کے لئے لوگوں کو بہترین نمونہ اور عمدہ نظیر مل سکے۔ اسی اندرونی اور خانگی حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے آپ ﷺ نے متعدد نکاح فرمایا۔ تاکہ آپ ﷺ کی نجی زندگی کے تمام حالات نہایت وثوق اور اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے آ جائیں اور ایک کثیر جماعت کی روایت کے بعد کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے اور شریعت کے وہ احکام ومسائل جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں اور مردوں سے بیان کرنے میں حیاء اور حجاب مانع ہوتا ہے ایسے احکام شرعیہ کی تبلیغ ازواجِ مطہرات رضی الله عنهن  کے ذریعہ سے ہو جائے۔

تنہائی کے اضطراب میں، مصیبتوں کے ہجوم میں اور ستمگاریوں کے تلاطم میں ساتھ دینے والی آپ ﷺ کی غمگسار بیوی ام المومنین حضرت خدیجہ رضی الله عنہا  کا رمضان ۱۰ ء نبوت میں جب انتقال ہو گیا تو آپ ﷺ نے چار سال بعد یہ ضروری سمجھا کہ آپ ﷺ کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں جنہوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی میں کھولی ہو اور جو نبی ﷺ کے گھرانے  میں آ کر پروان چڑھیں، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا مؤثر ترین ذریعہ بن سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کو منتخب فرمایا اور شوال ۳ ء قبل الہجرہ مطابق ۶۲۰/ مئی میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا  سے آپ ﷺ کا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے یہاں چھ سال تھی اور تین سال بعد جب وہ ۹ سال کی ہو چکی تھیں اور اُن کی والدہ محترمہ حضرت ام رومان رضی الله عنہا  نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کر لیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ رخصتی کی جا سکتی ہے تو نبی اکرم ﷺ کے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا۔ (مسلم جلد۲، صفحہ ۴۵۶، اعلام النساء صفحہ ۱۱، جلد ۳، مطبوعہ بیروت)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نوراسلام سے منور تھا، عالمِ طفولیت ہی میں انہیں کا شانۂ نبوت تک پہنچا دیا گیا تاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہو جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا  نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور ﷺ کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کر دیا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دو ہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ  کو چھوڑ کر صحابہ و صحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔

بعض مریضانہ ذہن و فکر رکھنے والے افراد کے ذہن میں یہ خلش اور الجھن پائی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کی حضرت عائشہ رضی الله عنہا  سے اس کم سنی میں نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اور یہ کہ اس چھوٹی سی عمر میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا  سے نکاح کرنا آپ ﷺ کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھا؟ چنانچہ ایک یہودی مستشرق نے انٹرنیٹ پر اس قسم کا اعتراض بھی اٹھایا ہے اور اس طرح اس نے بعض حقائق و واقعات، سماجی روایات، موسمی حالات اور طبی تحقیقات سے اعراض اور چشم پوشی کا اظہار بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا  سے نکاح اور رخصتی اس کم سنی میں کیوں کر ہوئی؟

یہ اعتراض درحقیقت اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا  میں وہ اہلیت و صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی جو ایک خاتون کو اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے، حالانکہ اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو یہ واقعات اس مفروضہ کی بنیاد کو کھوکھلی کر دیں گے، جس کی بناء پر حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کے نکاح کے سلسلہ میں ناروا اور بیجا طریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کو جنبش دی گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ اسلامی شریعت میں صحت نکاح کے لیے بلوغ شرط نہیں ہے سورہ "الطلاق” میں نابالغہ کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے، واللّائی لم یحضن (المائدہ:۴) اور ظاہر ہے کہ عدت کا سوال اسی عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کرچکا ہو،  کیوں کہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہی نہیں ہے۔ (الاحزاب:۴۹) اس لیے "واللائی لم یحضن” سے ایسی عورت کی عدت بیان کرنا جنھیں ماہواری آنا شروع نہ ہوا ہو صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کر دینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔ ( احکام القرآن للجصاص جلد۲، صفحہ ۶۲۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد ۷ صفحہ ۱۸)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کی نسبت قابل وثوق ذرائع سے معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قوی بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشو و نما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیر معمولی نشو و نما کی صلاحیت ہے۔ دوسرے عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قد و قامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ رضی الله عنہا  میں پیدا ہو گئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لیے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔ داؤدی نے لکھا ہے کہ وکانت عائشة شبت شبابا حسنا یعنی حضرت عائشہ رضی الله عنہا  نے بہت عمدگی کے ساتھ سن شباب تک ترقی کی تھی (نووی ۴۵۶/۳) حضرت عائشہ کے طبعی حالات تو ایسے تھے ہی، ان کی والدہ محترمہ نے ان کے لیے ایسی باتوں کا بھی خاص اہتمام کیا تھا جو ان کے لیے جسمانی نشوونما پانے میں ممد و معاون ثابت ہوئی۔ چنانچہ ابوداؤد جلد دوم صفحہ ۹۸ اور ابن ماجہ صفحہ ۲۴۶ میں خود حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کا بیان مذکور ہے کہ”میری والدہ نے میری جسمانی ترقی کے لیے بہتیرے تدبیریں کیں۔ آخر ایک تدبیر سے خاطر خواہ فائدہ ہوا، اور میرے جسمانی حالات میں بہترین انقلاب پیدا ہو گیا”۔  اس کے ساتھ اس نکتہ کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیا گیا ہو، خدمتِ نبوی میں بھیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی،  بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے ناممکن اور محال ہے کہ انھوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت و اہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کر دی  ہو اور اگر تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ عرب میں عموماً لڑکیاں ۹/برس میں بالغ نہ ہوتی ہوں تواس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے کہ استثنائی شکل میں طبی اعتبار سے اپنی ٹھوس صحت کے پس منظر میں کوئی لڑکی خلافِ عادت ۹/برس ہی میں بالغ ہو جائے، جو ذہن و دماغ منفی سوچ کا عادی بن گئے ہوں اور وہ صرف شکوک و شبہات کے جال بننے کے خوگر ہوں انھیں تو یہ واقعہ جہالت یا تجاہل عارفانہ کے طور پر حیرت انگیز بنا کر پیش کرے گا،  لیکن جو ہر طرح کی ذہنی عصبیت و جانبداری کے خول سے باہر نکل کر عدل و انصاف کے تناظر میں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں وہ جان لیں کہ نہایت مستند طریقہ سے ثابت ہے کہ عرب میں بعض لڑکیاں ۹/برس میں ماں اور اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی ہیں۔ سنن دار قطنی میں ہے حدثنی عباد بن عباد المہلبی قال ادرکت فینا یعنی المہالبة امرأة صارت جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة، ولدت تسع سنین ابنة، فولدت ابنتہا لتسع سنین فصارت ہی جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة (دارقطنی، جلد۳، صفحہ ۳۲۳، مطبوعہ: لاہور پاکستان) خود ہمارے ملک ہندوستان میں یہ خبر کافی تحقیق کے بعد شائع ہوئی ہے کہ وکٹوریہ ہسپتال دہلی میں ایک سات سال سے کم عمر کی لڑکی نے ایک بچہ جنا ہے۔ (دیکھئے اخبار "مدینہ” بجنور، مجریہ یکم جولائی ۱۹۳۴/ بحوالہ نصرت الحدیث صفحہ ۱۷۱)

جب ہندوستان جیسے معتدل اور متوسط ماحول و آب و ہوا والے ملک میں سات برس کی لڑکی میں یہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں ۹/ سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنه  نے اپنی لڑکی ام کلثوم کا نکاح عروة بن الزبیر سے اور عروة بن الزبیر نے اپنی بھتیجی کا نکاح اپنے بھتیجے سے اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنه  کی بیوی نے اپنی لڑکی کا نکاح ابن المسیب بن نخبة سے کم سنی میں کیا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷، صفحہ ۱۸۰)

ان حضرات کا کم سنی میں اپنی لڑکیوں کا نکاح کر دینا بھی اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اس وقت بہت معمولی عمر میں ہی بعض لڑکیوں میں شادی و خلوت کی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی، تو اگر حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کا نکاح ۶/برس کی عمر میں ہوا تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ ان میں جنسی صلاحیتیں پیدا نہ ہوئی ہوں۔ جیساکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی والدہ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا اہتمام کیا تھا الغرض شوہر سے ملنے کے لیے ایک عورت میں جو صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں وہ سب حضرت عائشہ رضی الله عنہا  میں موجود تھیں۔ لہٰذا اب یہ خیال انتہائی فاسد ذہن کا غماز ہو گا اور موسمی، ملکی، خاندانی اور طبی حالات سے اعراض اور چشم پوشی کا مترادف ہو گا کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا  سے کم سنی میں شادی کرنے کی آپ ﷺ کو کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں حضرت عائشہ کے ماسواء جملہ ازواج مطہرات رضی الله عنهن  بیوہ، مطلقہ یا شوہر دیدہ تھیں، حضرت عائشہ رضی الله عنہا  سے کم سنی میں ہی اس لئے نکاح کر لیا گیا تاکہ وہ آپ ﷺ سے زیادہ عرصہ تک اکتسابِ علوم کرسکیں۔ اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کے توسط سے لوگوں کو دین و شریعت کے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل ہوسکیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی الله عنہا (48) اڑتالیس سال زندہ رہیں، زرقانی کی روایت کے مطابق ۶۶ھ میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا  کا انتقال ہوا۔ ۹/برس میں رخصتی ہوئی آپ کے ساتھ ۹/ سال رہیں اور آپ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۸ برس تھی۔ (زرقانی، الاستیعاب) اور صحابہ و تابعین ان کی خداداد ذہانت و فراست، ذکاوت و بصیرت اور علم و عرفان سے فیض حاصل کرتے رہے، اور اس طرح ان کے علمی و عرفانی فیوض و برکات ایک لمبے عرصہ تک جاری رہے۔ (زرقانی جلد ۳، صفحہ ۲۲۹ ۲۳۶)

حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کے سوا کوئی ایسا آدمی دنیا میں نہیں گزرا جو کامل ۲۳ برس تک ہر وقت، ہر حال میں منظر عام پر زندگی بسر کر لے، سینکڑوں ہزاروں آدمی اس کی ایک ایک حرکت کے تجسس میں لگے ہوئے ہوں۔ اپنے گھر میں اپنی بیویوں "”اور اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے بھی اس کی جانچ پڑتال ہو رہی ہو اور اتنی گہری تلاش کے بعد نہ صرف یہ کہ اس کے کیریکٹر پر ایک سیاہ چھینٹ تک نظر نہ آئے،  بلکہ یہ ثابت ہو کہ جو کچھ وہ دوسروں کو تعلیم دیتا تھا، خود اس کی اپنی زندگی اس تعلیم کا مکمل نمونہ تھی،  بلکہ یہ ثابت ہو کہ اس طویل زندگی میں وہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی عدل و تقویٰ اور سچائی و پاکیزگی کے معیاری مقام سے نہیں ہٹا،  بلکہ یہ ثابت ہو کہ جن لوگوں نے سب سے زیادہ قریب سے اس کو دیکھا وہی سب سے زیادہ اس کے گرویدہ اور معتقد ہوئے۔ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحبہ وسلم۔

یہی وجہ ہے کہ انسان کی پوری آبادی میں "انسانِ کامل” کہلائے جانے کے آپ ﷺ ہی مستحق ہیں اور عیسائی سائنسداں نے جب تاریخ عالم میں ایسے شخص کو جو اپنی شخصیت کے جگمگاتے اور گہرے نقوش چھوڑے ہیں سب سے پہلے نمبر پر رکھ کر اپنی کتاب کا آغاز کرنا چاہا تو اس نے دیانت کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام اور اپنے من پسند کسی سائنسداں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اس کی نظر انتخاب اسی پر پڑی اور اسی سے اپنی کتاب کا آغاز کیا جسے دنیا حضرت محمد ﷺ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اس لئے آپ ﷺ کی زندگی جلوت کی ہو یا خلوت کی ایک کامل نمونہ ہے اور اس میں ایسا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور جب کوئی "یرقانی” نظر والے آپ ﷺ کی زندگی میں کسی کمی کو تلاش کریں تو حقیقت پسند شاعر یہ کہہ کر اس کی طرف متوجہ ہو گا۔

فرق آنکھوں میں نہیں، فرق ہے بینائی میں

عیب میں عیب، ہنرمند ہنر دیکھتے ہیں

انٹرنیٹ کی دنیا سے قریبی تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شبہات اور فتنے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ اور فتنوں کا سدِّباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ فتنے کے شوشے چھوڑ دیتے ہیں ان کا منظم و منصوبہ بند طریقہ پر جواب دیا جائے کسی وجہ سے اگر علماء براہِ راست انگریزی میں جواب نہیں دے سکتے تو ان کا علمی تعاون حاصل کر کے جواب کی اشاعت عمل میں لائی جا سکتی ہے، 1 زندگی کا کارواں جب چلتا ہے تو گرد و غبار کا اٹھنا لازمی ہے،  لیکن منزل کی طرف رواں دواں رہنے ہی میں منزل پر پہنچا جا سکتا ہے،  لیکن اس کے لئے قدم میں طاقت اور دست و بازو میں قوت چاہئے۔ ع

اس بحرِ حوادث میں قائم پہنچے گا وہی اب ساحل تک

جو موجِ بلاء کا خوگر ہو رخ پھیرسکے طوفانوں کا

 

 

 

بیدار مسلم بیدار

 

                درویش قلم سے

 

پیغام درد دل

 

کہیں یہ صیہونیت کی سازش تو نہیں ؟؟؟

یکے بعد دیگرے حرم مکہ میں دو اہم حادثات کا پیش آنا یقیناً کسی راز پر رہنمائی کر رہا ہے …

میری عقل حیران ہے مسلمان کس دنیا میں مگن ہیں کہ انھیں سوچنے تک کی فرصت نہیں …

ہر طرف دہشت وحشت کا سماں ہے وہ پاکباز انسان جو کچھ دن قبل ہنسی خوشی اپنے رب کے دربارمیں حاضری کے لیے عاشق کی طرح ہولے ہولے روانہ ہوئے تھے …

کیا وجہ بنی ان کی سفید پوشاک سرخ رنگ میں رنگی گئی؟؟؟

کیا یہ دشمن کی گھڑی سازش تو نہیں؟؟؟

سوچنے کا مقام ہے !

وہ حرم جہاں کے محافظ ہر وقت اس کی نوک و پلک سنوارنے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں…

جو اپنی جان کو داو پر لگا کر دیارِ حرم کی مانگ میں سندور بھرتے ہیں ، جو اپنی دولت حرم کی تعمیر و توسیع میں بے دریغ لٹا رہے ہیں، جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ حرم کے تقدس پر نچھاور ہو چکا ہے ۔

کیا وہ حرم کی اتنی کامل و اکمل خدمات میں کوئ ایسی کسر اور کمی چھوڑ سکتے ہیں ؟

جس سے اپنے مسلمان بھائی موت کی آغوش میں چلے جائیں۔

ہرگز نہیں! یہ سب آن کی آن میں کیسے ہو گیا ؟

وہ کرین بجلی کی زد میں آ گیا یا کسی سوچی سمجھی سازش سے گرایا گیا ؟

یہ سوال اسی وقت سے مجھے ستا رہاہے …

ہو نہ ہو طاغوت کے ہاتھ کعبہ تک پہنچ چکے ہیں

مسلمانوں کو قدرتی حادثہ بتلا کر پس پردہ طاغوتی کارندے اپنی اسکیم کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں

یعنی نعوذ با اللہ کعبہ کو منہدم کر نا ، گرانا جو ان کا اولین مقصد ہے

ان کی فوج تو ایک عرصہ سے سرزمین عرب پر ڈیرا جمائے ہوئے ہے

جو کسی ایسے وقت کے انتظار میں ہے جس وقت انھیں اپنی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع فراہم ہو

مزید یہ کہ ابھی چند ہی ایام ہوئے ایک بڑے حادثہ سے امت گزری۔

جس کا درد ہر مسلمان نے محسوس کیا سارے عالم کے مسلمان بیقرار و بے چین ہو گئے

ایک ماتم کا بادل گو یا سایہ فگن ہو گیا ہو

ابھی وہ زخم مندمل بھی نہ ہوا تھا کہ پھر منی کی وادی لالہ زار بن گئی…

ایک نہیں دو نہیں دو سو نہی ںسات سو حجاج کرام کی شہادت…

لمحہ میں موت کا لقمہ …

افوہ یہ کتنا حیران کن واقعہ ہے

اور وہ بھی محض بھگدڑ کی وجہ سے؟؟؟

نہیں نہیں  ہرگز نہیں

خدایا رحم فرما یہ تصویر کا دوسرا رخ تو نہیں

عقل حیران ہے ہر حاجی منی کے انتظامات سے واقف ہے کتنی سہولت کا انتظام خادم الحرمین الشریفین نے کیا ہے

کیا اتنے سالو ں سے کبھی سو سے متجاوز ہلاکتیں ہوئیں؟

کس بیوقوف نے اسے بھگدڑ کا عنوان دیا؟

یہ تو تیر بہدف نشانہ ہے جو بالکل تانک کر لگایا گیا ہے

ہاں یہ حقیقت ہے آپ کا دل تسلیم کرے نہ کرے

چلیے آپ سے سوال !

بھگدڑ آخر مچائی کس نے۔؟

کون سا حاجی ہے جو دوران حج کسی برے خیال سے رمی کر رہاہو ؟

ہر گز نہیں یہ حاجیوں کا کام نہیں

یہ اس درندہ کا کام ہے جس نے سارے عالم میں مسلمانوں کا خون بہایا ہے

یہ بھگدڑ جان بوجھ کر مچائی گئی ہے

مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے

مسلمانو! خبردار ہو جاؤ… اپنے حرم کی پاسبانی کے لیے تیار ہو جاؤ

آج چہار دانگ عالم میں مسلمانوں کو ہلاک و برباد کرنے کی سازشیں تیار ہو چکی ہے جو رفتہ رفتہ پوری کی جا رہی ہے

لہذا زمانہ میں تماشائی بننے کے بجائے  مجاہد بنو…۔

فضائے بدر پیدا کرو

فرشتے بس تیار ہیں اترنے کے لیے…

وہ بھولا پن چھوڑ دو طاغوت کی سازشوں کو بے نقاب کرو

اور ان کا دندان شکن جواب دو

حادثات کی نبض ٹٹولنے کی قدرت پیدا کرو

باطل چاہتا ہے ہم حادثات کی چکی میں ہائے وائے کر تے رہیں اور وہ اپنے کام بآسانی انجام دے دے

لہذا اے حرم کے عابد اور اے اقصٰی کے دیوانے

خالد کی جرأت اور عمرو کی فراست پیدا کر…

تسبیح کے ساتھ تلوار بھی اٹھا …

یہی تیری معراج تھی اور ہے

رافضی یا یہود کا ان حادثات میں پورا پورا کردار مجھے صاف نظر آرہے ہیں

میرے دوست مصلحت کی عینک اتار کر عزیمت کی پوشاک پہن لے

تسبیح کیساتھ شمشیر بھی اٹھا اور جزیرۃ العرب سے نجس مشرک، یہود، رافضی شیعہ کو نکال …یہ سب حادثات ختم ہو جائیں گے

بیچ کر تیغ و سپر تم نے مصلّے لے لیے

بیٹیاں لٹتی رہیں اور تم دعا کرتے رہے ٭

اللہ امت مسلمہ کو بیدار مغزی جرات ہمت طاقت عطا فرمائے

بزدلی کی زندگی سے توبہ کی توفیق عطا فرمائے

امت کی آبرو جان و مال کی حفاظت فرمائے

آمین

درویش قلم سے٭

۔۔۔۔۔۔۔

٭ شعر  موافقِ وزن  نہ ہونے کی وجہ سے اس کے الفاظ بدل دیے گئے ہیں (مدیر)

٭ پیش کش: عبد الرحمٰن صدیقی

 

 

 

 

صدیق کی خلافت و بیعت پر اعتراضات کے جواب

 

اعتراض1:کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع تھا.تو کیا یہ درست ہے کہ حضرت علی  اور ان کے ہمراہ صحابہ کرام نے بیعت نہیں کی تھی جبکہ ایسا اجماع جس میں وہ شریک نہ ہوں اس پر خداوند متعال نے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ امام ابن حزم فرماتے ہیں:

لعنة اللہ علی کلّ اجماع یخرج منہ علی بن أبی طالب ومن بحضرتہ من الصحابة ( المحلّٰی ٩:٣٤٥)

الجواب:

پہلی بات یہ کہ ابن حزم کی اس عبارت کا ترجمہ اس طرح ہے لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی نہ ہوں یا جس میں صحابہ میں کسی کی موجودگی نہ ہو۔

اجماع کے واسطے ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی اس بات سے متفق ہو بلکہ جس کو غالب اکثریت اپنائے اسے اجماع ہی کہیں گے سیدنا صدیق کے خلافت پر بھی اجماع منعقد ہو چکا ۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نہج بلاغہ میں قول ہے

فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَ سَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِكَ لِلَّهِ رِضًا

اگر مہاجرین و انصار کسی کی امامت پر اجماع کر لیں اور اسے پیشوا قرار دے تو اللہ تعالی کی رضا بھی اس میں شامل ہیں۔

اور پھر سیدنا صدیق کی خلافت پر تمام مہاجرین و انصار نے اتفاق کر لیا تھا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کی خلافت متفق علیہ تھی۔

قول ابن حزم رحمہ

وَلَعْنَةُ اللَّهِ على كل إجْمَاعٍ یخْرُجُ عنه عَلِی بن أبی طَالِبٍ وَمَنْ بِحَضْرَتِهِ من الصَّحَابَةِ

اللہ کی لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی نہ ہوں یا جس میں صحابہ میں کسی کی موجودگی نہ ہو

اول : ابن حزم  اللہ کی ان پر رحمت ہو کے یہ الفاظ کسی حدیث یا روایت سے نہیں ہیں بلکہ یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں جس کی حیثیت ایک عالم کے قول کی ہے جس اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان الفاظ سے استدلال لینا کہ سیدنا صدیق کی خلافت پر اجماع نہیں تھا یقیناً جہالت ہی ہے۔

دوم : ابن حزم نے یہ الفاظ فقہاء پر بحث کرتے ہوئے کہیں ہیں جس میں ان کا مطلب تھا کہ کسی بھی فقہی مسئلہ میں اگر علی کے اور صحابہ کے موقف کو سائیڈ کر دیا جائے تو ایسا فقہی اجماع کسی کام کا نہیں ہے ۔ اللہ ان پر رحم کرے ان مقصد یقیناً فقہاء پر لعنت بھیجنا نہیں تھا ۔  اتنی سی بات ہے اس مین کہیں پر بھی سیدنا صدیق کی خلافت کا ذکر تک نہیں ہے ۔ پھر ہم پہلے بھی کہ چکے ہیں کہ سیدنا صدیق کی خلافت پر علی رضی راضی تھے ۔پھر بھی رافضیوں کا شک دور کرنے کے لئے بیعت صدیق کا احوال لکھ دیتے ہیں۔

حضرت علی کا صدیق کی بیعت کرنے کا احوال:

ابن كثیر فی البدایة والنهایة (6\693. فی أحداث سنة 11:
 وقد اتفق الصحابة –رضی الله عنهم– على بیعة الصدیق فی ذلك الوقت حتى علی بن أبی طالب والزبیر بن العوام –رضی الله عنهما

ابن کثیر الدایہ میں نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ حضرت ابی بکر صدیق کی بیعت پر متفق ہو گئے اور تو اور اس وقت علی ابن ابی طالب   اور زبیر بن العوام   نے بھی بیعت کر لی۔

امام عبداللہ  بن احمد بن حنبل اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں

حدثنی عبید الله بن عمر القواریری حدثنا عبد الأعلى بن عبد الأعلى حدثنا داود بن أبی هند عن أبی نضرة قال لما اجتمع الناس على أبی بكر رضی الله عنه فقال ما لی لا أرى علیا قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال له یا علی قلت ابن عم رسول الله وختن رسول الله فقال علی رضی الله عنه لا تثریب یا خلیفة رسول الله ابسط یدك فبسط یده فبایعه ثم قال أبو بكر ما لی لا أرى الزبیر قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال یا زبیر قلت ابن عمة رسول الله وحواری رسول الله قال الزبیر لا تثریب یا خلیفة رسول الله ابسط یدك فبسط یده فبایعه

ابی ندرہ سے روایت ہے کہ جب لوگ ابی بکر کی بیعت کر رہے تھے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں علی کو نہیں دیکھ رہا پھر انصار کا ایک آدمی گیا اور علی اس کے ساتھ آ گئے صدیق نے کہا اے علی آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں اور آپ ان کے عمزاد ہیں تو علی نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ  سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑھائے آپ نے ہاتھ بڑھایا اور علی نے بیعت کر لی۔ پھر صدیق نے کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں زبیر کو نہیں دیکھ رہا انصار کا ایک آدمی گیا اور انہیں بلا کہ لایا صدیق نے کہا اے زبیر تم کہہ سکتے ہو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کے بیتے ہو زبیر نے کہا  اے خلیفہ رسول اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑھائے آپ نے ہاتھ بڑھا یا اور زبیر نے بیعت کر لی۔

یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے اسناد قوی ہیں پھر اس حدیث کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک (4457حدیث) میں نقل کیا ہے ان کہنا ہے کہ یہ حدیث شیخین کے طریقہ پر صحیح ہے۔ پھر بیہقی نے اپنی کتاب اعتقادات جلد 1 ص 349 350 مین اسے  ابی سعید الخدری سے نقل کیا ہے اس کا مضمون بھی ایسا ہی ہے اور بیہقی کی یہ حدیث صحیح ہے۔

عبداللہ بن احمد بن حنبل اپنی کتاب سنن(2 563) میں قیس بن العبدی سے نقل کرتے ہیں کہ قیس کہتے ہیں کہ میں علی کو بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے دیکھا انہوں نے اللہ کی تعریف کی اس کا شکریہ ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لوگوں کے لئے قربانیوں کا ذکر کیا پھر اللہ نے انہیں موت دی تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کو ابی بکر کی بیعت کرنی چاہئے تو انہوں ان کی بیعت کی میں نے بھی ان کی بیعت کی اور ان سے وفاداری کی وہ  (مسلمان) ان سے خوش تھے ابی بکر نے اچھے کام کئے اور جہاد کیا یہاں تک اللہ نے ان کو موت دے دی ان پر اللہ کی رحمت ہو۔

شیعہ کتب سے حوالے:

محمد بن حسن نوبختی فرق الشیعہ ص 30  پر لکہتے ہیں

ان علیا علیہ اسلام لھما الامر ورضی بذلک و بایعھما طائعا غیر مکرہ و ترک حقھ لھما فنحن راضون کما رضی لھ، لا یحل لنا غیر ذلک ولایسع منا احد الا ذالک و ان ولایۃ ابی بکر صارت رشدا وھدی ، لتسلیم علی ورضاہ۔

ترجمہ: کہ علی (ر) نے اُن (یعنی ابو بکر و عمر) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ھو گئے تھے ، اور بغیر کسی جبر کے اُن کی بیعت کر کے فرماں برداری کی ، اور اُن کے حق میں دستبردار ھو گئے تھے۔ پس ہم بھی اس پر راضی ہیں جیسے وہ راضی تھے۔ اب ہمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ہم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں ، اور ہم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ علی (ر) کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ہونے کی وجہ سے ابو بکر (ر) کی ولایت،  راشدہ اور ھادیہ بن گئی

شیخ علی البحرانی منار الہدی ص 685  پر لکھتے ہیں

وكما ینقشع السحاب، فمشیت عند ذلك إلى أبی بكر فبایعته ونهضت فی تلك الأحداث حتى زاغ الباطل وزهق وكانت كلمة الله هی العلیا ولو كره الكافرون (2) فتولى أبو بكر تلك الأمور وسدد وقارب واقتصد، وصحبته مناصحا وأطعته فیما أطاع الله فیه جاهدا

یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ہو جائے ، میں ابوبکر (ر) کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کر لی۔ اور اُن حوادث کے خلاف (ابوبکر(ر) کے ساتھ) کھڑا ہو گیا ، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ہو گیا چاہے وہ کافروں کو برا لگے۔ پس جب ابوبکر (ر) نے نظام امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں ، تو میں اُن کا مُصاحب شریک کار (ہم نشیں) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرماں برداری) کی ، جیسے اُنہوں نے اللہ کی اطاعت کی۔

امالی ص 507  میں شیخ طوسی نقل کرتے ہیں۔

 فبایعت أبا بكر كما بایعتموه، وكرهت أن أشق عصا المسلمین، وأن أفرق بین جماعتهم، ثم أن أبا بكر جعلها لعمر من بعده، وأنتم تعلمون أنی أولى الناس برسول الله (صلى الله علیه وآله) وبالناس من بعده، فبایعت عمر كما بایعتموه،

ترجمہ: پس میں نے ابو بکر (ر) کی اُسی طرح بیعت کی ، جس طرح تم لوگوں نے کی۔ اور میں نے یہ ناپسند کیا کہ مسلمانوں کی جماعت کے مابین کوئی پھوٹ یا تفرقہ پیدا ہو۔ پھر ابو بکر (ر) نے (خلافت) عمر (ر) کو سونپی ، اور (حالانکہ) تم جانتے ہو کہ رسول (ص) کے بعد اُن کے قریب ہم تھے۔ پس پھر میں نے بھی عمر (ر) کی اُسی طرح بیعت کی جس طرح تم لوگوں نے کی۔

شیخ طبرسی الاحتجاج جلد ۱ ص 114 پر لکھتے ہیں:

وروی عن الباقر علیه السلام قال: فلما وردت الكتب على أسامة انصرف بمن معه حتى دخل المدینة، فلما رأى اجتماع الخلق على أبی بكر انطلق إلى علی بن أبی طالب علیه السلام فقال له: ما هذا؟ قال له علی: هذا ما ترى. قال له أسامة: فهل بایعته؟ فقال: نعم یا أسامة.

امام باقر سے روایت ہے: جب اسامہ (ر) کو (نبی (ص) کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آ گئے ، اور دیکھا کہ ابوبکر (ر) کے پاس (بیعت کے لئے) لوگ جمع ہیں۔ تو وہ علی (ر) کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ علی (ر) نے اُن سے کہا: یہ وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔ اسامہ (ر) نے اُن سے پوچھا: کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ھے؟ علی (ر) نے کہا: ہاں اسامہ (میں نے بھی بیعت کر لی ہے۔

محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 ص 42 پر لکھتے ہیں

لا اشکال فیہ : انھ علی علیہ السلام بایع مستدفعا للشر و فارا من الفتنہ۔

اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ علی (ر) نے (ابوبکر کی) بیعت کر لی تاکہ شر دفع ہو اور فتنہ پیدا نہ ہو۔

اس کے علاوہ دوسرے کتب اور نہج البلاغہ وغیرہ میں علی رضی اللہ کی بیعت کا ذکر موجود ہے۔

چناچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے سا تھ تھے انہوں نے بنا کسی جبر کے بیعت کر لی تھی اور انصار و مہاجرین نے تو پہلے ہی بیعت کر لی تھی ۔ اس بات سے ثابت ہوا کہ سیدنا صدیق کی خلافت پر تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا تو ابن حزم کی اس بات کا اطلاق خلافت صدیق پر نہیں ہوتا اور ابن حزم صحیح ہیں جس اجماع میں علی شامل نہ ہوں وہ اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔  شیعوں کو چاہئے کہ وہ اپنے امام کی بات مان لیں اور جس طرح نوبختی نے لکھا ہے کہ وہ ابی بکر سے راضی ہو گئے تھے وہ ان کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے۔ اسی طرح شیعے بھی یہود مدینہ کی طرح ہٹ دھرمی چھوڑ کر سیدنا صدیق کی  خلافت بلا فصل کو ہادیہ خلافت مان لیں۔ پر کیا کیا جا سکتا ہے یہود مدینہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے رہے اور اب ان کی اولاد شیعے بھی وہی کر رہے ہیں رسول اللہ کے خلیفہ کا انکار کرتے رہے ہیں۔

اعتراض 3:

آپ کہتے ہیں : ابوبکر کی بیعت تمام مہاجرو انصار کے اجماع کے ذریعہ حاصل ہوئی ، لیکن عمر بن خطاب نے کہا ہے : تمام مہاجرین، ابوبکر کی بیعت کے مخالف تھے ، علی (علیہ السلام) ، زبیر اور ان کے چاہنے والے بھی موافق نہیں تھے۔ ” حین توفی اللہ نبیہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان الانصار خالفونا ، و اجتمعوا باسرھم فی سقیفة بنی ساعدة و خالف عنا علی والزبیر و من معھما”۔ (١)۔

آپ کا دعوی صحیح ہے یا عمر بن خطاب کا دعوی صحیح ہے؟

الجواب:

ہم اس بات کو تو ثابت کر چکے ہیں کہ تمام انصار و مہاجرین نے سیدنا صدیق کی بیعت کر لی تھی اور وہ سب کے سب سیدنا صدیق کے ساتھ خلافت کے کاموں میں لگ گئے تھے۔

 

سقیفہ کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی روایت

 

یہ ایک طویل روایت ہے ہم اس ضروری حصہ یہاں صحیح بخاری کتاب الحدود باب  رجم الحبلی سے نقل کر دیتے ہیں

إِنَّمَا کَانَتْ بَیعَةُ أَبِی بَکْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ کَانَتْ کَذَلِکَ وَلَکِنَّ اللَّهَ وَقَی شَرَّهَا وَلَیسَ مِنْکُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَیهِ مِثْلُ أَبِی بَکْرٍ مَنْ بَایعَ رَجُلًا عَنْ غَیرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ فَلَا یبَایعُ هُوَ وَلَا الَّذِی بَایعَهُ تَغِرَّةً أَنْ یقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ کَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِینَ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِیهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِی سَقِیفَةِ بَنِی سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِی وَالزُّبَیرُ وَمَنْ مَعَهُمَا وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ فَقُلْتُ لِأَبِی بَکْرٍ یا أَبَا بَکْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی إِخْوَانِنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نُرِیدُهُمْ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ لَقِینَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَکَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَیهِ الْقَوْمُ فَقَالَا أَینَ تُرِیدُونَ یا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِینَ فَقُلْنَا نُرِیدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَیکُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ اقْضُوا أَمْرَکُمْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِینَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَینَاهُمْ فِی سَقِیفَةِ بَنِی سَاعِدَةَ فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَینَ ظَهْرَانَیهِمْ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا یوعَکُ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِیلًا تَشَهَّدَ خَطِیبُهُمْ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَکَتِیبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِینَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِکُمْ فَإِذَا هُمْ یرِیدُونَ أَنْ یخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ یحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَکَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ وَکُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِی أُرِیدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَینَ یدَی أَبِی بَکْرٍ وَکُنْتُ أُدَارِی مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی رِسْلِکَ فَکَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَکَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّی وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَکَ مِنْ کَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِی فِی تَزْوِیرِی إِلَّا قَالَ فِی بَدِیهَتِهِ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا حَتَّی سَکَتَ فَقَالَ مَا ذَکَرْتُمْ فِیکُمْ مِنْ خَیرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ یعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَی مِنْ قُرَیشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِیتُ لَکُمْ أَحَدَ هَذَینِ الرَّجُلَینِ فَبَایعُوا أَیهُمَا شِئْتُمْ فَأَخَذَ بِیدِی وَبِیدِ أَبِی عُبَیدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَهُوَ جَالِسٌ بَینَنَا فَلَمْ أَکْرَهْ مِمَّا قَالَ غَیرَهَا کَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِی لَا یقَرِّبُنِی ذَلِکَ مِنْ إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَی مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ أَبُو بَکْرٍ اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَی نَفْسِی عِنْدَ الْمَوْتِ شَیئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَیلُهَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَیقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِیرٌ وَمِنْکُمْ أَمِیرٌ یا مَعْشَرَ قُرَیشٍ فَکَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّی فَرِقْتُ مِنْ الِاخْتِلَافِ فَقُلْتُ ابْسُطْ یدَکَ یا أَبَا بَکْرٍ فَبَسَطَ یدَهُ فَبَایعْتُهُ وَبَایعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَایعَتْهُ الْأَنْصَارُ

ترجمہ:

تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکر کی بیعت اتفاقیہ تھی اور پھر پوری ہو گئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن ﷲ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں سے کوئی شخص نہیں ہے جس میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جیسی فضیلت ہو، جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بیعت کر لی تو اس کی بیعت نہ کی جائے  اس خوف سے کہ وہ قتل کر دیے جائیں گے جس وقت ﷲ نے اپنے نبی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کو وفات دے دی تو اس وقت وہ ہم سب سے بہتر ہے۔مگر انصار نے ہماری مخالفت کی اور سارے لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے اور حضرت علی و زبیر نے بھی ہماری مخالفت کی اور مہاجرین ابوبکر کے پاس جمع ہوئے تو میں نے ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے ابوبکر ہم لوگ اپنے انصار بھائیوں کے پاس چلیں، ہم لوگ انصار کے پاس جانے کے ارادے سے چلے جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک بخت آدمی ہم سے ملے، ان دونوں نے وہ بیان کیا جس کی طرف وہ لوگ مائل تھی پھر انہوں نے پوچھا اے جماعت مہاجرین کہاں کا قصد ہے ہم نے کہا کہ اپنے انصار بھائیوں کے پاس جانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا ہم تمہارے لئے مناسب نہیں کہ ان کے قریب جاؤ تم اپنے امر کا فیصلہ کرو میں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم ان کے پاس جائیں گے چنانچہ ہم چلے یہاں تک کہ سقیقہ بنی ساعدہ میں ہم ان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو ان کے درمیان دیکھا کہ کمبل میں لپٹا ہوا ہے میں نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ سعد بن عبادہ، میں نے کہا کہ ان کو کیا ہوا لوگوں نے عرض کیا کہ ان کو بخار ہے ہم تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ ان کا خطیب کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور ﷲ کی حمد و ثناء کرنے لگا جس کا وہ سزاوار ہے  پھر کہا اما بعد، ہم ﷲ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے مہاجرین وہ گروہ ہو کہ تمہاری قوم کے کچھ آدمی فقر کی حالت میں اس ارادہ سے نکلے کہ ہمیں ہماری جماعت کو جڑ سے جدا کر دیں اور ہماری حکومت ہم سے لے لیں  جب وہ خاموش ہوا تو میں نے بولنا چاہا، میں نے ایک بات سوچی رکھی کہ جس کو میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا  اور میں ان کا ایک حد تک لحاظ کرتا تھا، جب میں نے بولنا چاہا تو ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کی وہ مجھ سے زیادہ بردبار اور با وقار تھے  خدا کی قسم جو بات میری سمجھ میں اچھی معلوم ہوتی تھی اسی طرح یا اس سے بہتر پیرایہ میں فی البدیہہ بیان کی یہاں تک کہ وہ چپ ہو گئے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے جو خوبیاں بیان کی ہیں تم ان کے اہل ہو لیکن یہ امر (خلافت) صرف قریش کے لئے مخصوص ہے یہ لوگ عرب میں نسب اور گھر کے لحاظ سے اوسط ہیں میں تمہارے لئے ان دو آدمیوں میں ایک سے راضی ہوں ان دونوں میں کسی سے بیعت کر لو، چناچہ انہوں نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا اور وہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے (عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں) مجھے اس کے علاوہ ان کی کوئی بات ناگوار نہ ہوئی، خدا کی قسم میں اس جماعت کی سرداری پر جس میں ابوبکر ہوں اپنی گردن اڑائے جانے کو ترجیح دیتا تھا، یا ﷲ مگر میرا یہ نفس موت کے وقت مجھے اس چیز کو اچھا کر دکھائے جس کو میں اب نہیں پاتا ہوں انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ہم اس کی جڑ اور اس کے بڑے ستون ہیں اے قریش ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے شور و غل زیادہ ہوا اور آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ مجھے اختلاف کا خوف ہوا میں نے کہا اے ابوبکر اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی بیعت کی پھر انصار نے ان سے بیعت کی۔

اب یہ سوال کرنے ولا عقل کا دشمن ہے حضرت عمر  یہاں سیدنا صدیق کے خلیفہ بننے سے پہلے کا حال بتا رہے ہیں ظاہر اس وقت وہ خلیفہ نہیں تھے تو اس وقت اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔یہ سراسر جھوٹ و کذب ہے کہ تمام مہاجرین ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے سیدنا عمر نے ایسا نہیں کہا بلکہ صرف علی و زبیر اور کچھ اور لوگ ہی علی کے گھر میں تھے مخالف وہ بھی نہیں تھے انہیں جیسے پتا چلا بیعت کے لئے آ گئے ۔ لیکن جب سیدنا صدیق کی خلافت پر انصار نے اجماع کر لیا اور  مہاجرین نے بھی بیعت کی پھر علی و زبیر کی بیعت کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو تھے انہوں نے بھی بیعت کی۔ تو عقل کے دشمن کیا یہ اجماع نہیں ہوا سب نے بیعت کی۔اس بات سے کس کو انکار ہے کہ انصار نے اپنا خلیفہ چننے کے لئے ہی اجتماع کیا تھا اور پھر اس بات سے کس کو انکار ہے کہ سیدنا  علی و زبیر بھی الگ تھے لیکن جب ان سب لوگوں نے سیدنا صدیق کی بیعت کر لی تو پھر یہ اجماع ہی ہوا نہ ۔ اب پتا نہیں کہ شیعہ اجماع کسے کہتے ہیں۔

اعتراض 4:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت علی نے ہرگز حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں:

فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ( اثبات الوصیة: ١٤٦،  الشّافی ٣: ٢٤٤)

اس کے باوجود بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع و اتفاق کہتے ہیں؟ اور پھر اس حدیث ((علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار)) مستدرک حاکم ٣: ١٢٥،  جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ، ح٣٧١٤، مناقب خوارزمی :١٧٦، ح ٢١٤، فرائد السّمطین ١: ١٧٧، ح ١٤٠،  شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣

علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھر جائیں۔

الجواب:

یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کر دیتے ہیں۔

بیعت علی کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سوال 1 میں آ گیا لیکن یہ بالکل ہی سفید جھوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھا علی نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور علی نے بیعت کر لی ۔

اس کا صحیح روایت سے ثبوت:

امام عبداللہ  بن احمد بن حنبل اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں

فقال علی رضی الله عنه لا تثریب یا خلیفة رسول الله ابسط یدك فبسط یده فبایعه

تو علی نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ  سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑھائے آپ نے ہاتھ بڑھایا اور علی نے بیعت کر لی۔

سیدنا علی سیدنا صدیق کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور  آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکھا تھا۔

تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ 448

عن حبیب ابن أبی ثابت قال كان علی فی بیته إذ أتى فقیل له قد جلس أبو بكر للبیعة فخرج فی قمیص ما علیه إزار ولا رداء عجلا كراهیة أن یبطئ عنها حتى بایعه ثم جلس إلیه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس

حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آ کر کہا کہ ابوبکر مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فور اً اٹھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے۔

اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بندر کہا تھا کذب ہیں۔

باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکھتے کہ سیدنا صدیق حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کا جاننی چاہئے کہ علی نے سیدنا صدیق کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں سیر و شکر تھے ۔

شیعوں اپنی گریبان میں جھانکو۔

اب یہ شیعہ ہیں کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق کو حق نہیں مانتے جسے علی حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمد للہ ہمیشہ کہتے ہیں علی حق ہر ہیں۔ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے۔اور حق سے دستبردار ہو جاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے …۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکھنے والوں پر۔

اعتراض 6:کیا یہ درست ہے کہ امام بخاری نے اسی حدیث کو اپنی کتاب میں چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے لیکن لفظ گناہگار ، خائن ، پیمان شکن کی جگہ کذا وکذا یا ((کلمتکما واحدة))لکھ دیا تاکہ یوں خلافت شیخین کے بارے میں اہل بیت پیغمبرﷺ کی منفی نظر سے لوگ آگاہ نہ ہو پائیں؟؟

کہا جاتا ہے کہ امام بخاری نے باب خمس ، نفقات ، اعتصام اور باب فرائض میں اس روایت کو نقل تو کیا لیکن اس میں تبدیلی کر دی .کتاب نفقات میں لکھا ہے ( تزعمان أنّ أبابکرکذا وکذا)) اور باب فرائض میں یوں لکھا ہے : (ثم ّ جئتمانی وکلمتکما واحدة)

الجواب

امام بخاری ، ابن عبدالبر اور دیگر محدثین نے یہ الفاظ مختلف سندوں کے ساتھ نقل کئے ہیں ضروری نہیں کہ انہوں یہ الفاظ حذف کر دئے ہوں ہر راوی کا کلام اپنا ہوتا ہے حدیث کا مفہوم و مقصد تو وہی رہتا ہے لیکن راوی کے بیان مختلف ہوتا ہے

امام بخاری کی سندیں یہ ہیں

صحیح بخاری ٣: ٢٨٧، کتاب النفقات

حدثنا سعید بن عفیر قال حدثنی اللیث قال حدثنی عقیل عن ابن شهاب قال أخبرنی مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبیر بن مطعم
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة
حدثنا عبد الله بن یوسف حدثنا اللیث حدثنی عقیل عن ابن شهاب قال أخبرنی مالك بن أوس النصری وكان محمد بن جبیر بن مطعم ذكر لی
کتاب الفرائض
حدثنا یحیى بن بكیر حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شهاب قال أخبرنی مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبیر بن مطعم ذكر لی
کتاب الخمس
حدثنا إسحاق بن محمد الفروی حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبیر ذكر لی ذكرا من
كتاب المغازی » باب حدیث بنی النضیر
حدثنا أبو الیمان أخبرنا شعیب عن الزهری قال أخبرنی مالك بن أوس بن الحدثان النصری أن عمر بن الخطاب رضی الله عنه

یہاں تقریباً ہر سند ہی الگ ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کو بیان کرنے میں جو فرق ہے وہ راویوں کی وجہ سے ہو ۔ اب اگر امام بخاری نے اگر یہ الفاظ حدیث میں سے ختم کر دئے ہیں تو انہوں نے اس کو راوی کا کلام ہی سمجھا ہو گا مثلاً۔ ایک روایت راوی کے الفاظ کچھ اور ہوں گے دوسری روایت میں دوسرے راوی کے الفاظ  کچہ اور ہوں گے اور پھر تیسری روایت میں راوی نے کذا کذا وغیرہ کہ کر الفاظ بیان کر دئے ہوں گے کیوں کہ بعض اوقات ہم ایسے کہ دیتے ہیں کہ اس نے ایسا ایسا کہا (اب اس ایسا ایسا کو  پھر راویوں نے اپنے اندازوں پر بیان کیا ہو گا کسی نے کہا ہو گا کہ چور ، خائن تو کسی نے کہا ہو گا غاصب وغیرہ)۔ تو امام بخاری نے سمجھا ہو گا کہ یہ راویوں کی ہی بیان کردہ باتیں ہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا کسی کو صحیح معلوم نہیں اس لئے صحابہ سے حسن ظن رکھتے ہوئے یہ الفاظ بیان نہیں کئے ہوں۔ کیوں کہ انہیں راویوں کے مختلف  اندازوں کو بیان کرنے کے بجائے صحابہ سے حسن ظن رکھنا ہی آسان لگا ہو گا۔کیوں کہ صحابہ کی عدالت متفق علیہ ہے۔ یہی بات الماورزی نے کہی ہے امام نووی شرح صحیح مسلم جلد اول ص 90 پر ان سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا اسی وجہ بعض اہل علم نے اپنے نسخہ میں ان الفاظ کو بیان نہیں کیا بلکہ اس کو راوی کا وہم قرار دیا  ۔

جبکہ صحیح مسلم کی دو سندوں کے راوی الگ ہیں اس لئے ممکن ہے کہ امام بخاری سے بیان کرنے والے نے یہ الفاظ نہیں کہے ہوں اور صرف کذا و کذا کہا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

قادیانیت: مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں کے آئینے میں

 

(دوسری اور آخری قسط)

 

                فاروق درویش

 

 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین

 

نمبر١ آپ کا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناء کار اور کسبیعورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص ٧ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

نمبر ٢ مسیح (علیہ السلام ) کا چال چلن کیا تھا ، ایک کھاؤ پیو ، نہ زاہد ، نہ عابد نہ حق کا پرستار ، متکبر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا ۔ (مکتوبات احمدیہ صفحہ نمبر ٢١ تا ٢٤ جلد ٣)

نمبر ٣ یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے ۔ (کشتی نوح حاشیہ ص ٧٥ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

نمبر ٤

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے

(دافع البلاء ص ٢٠)

نمبر ٥ عیسیٰ کو گالی دینے ، بد زبانی کرنے اور جھوٹ بولنے کی عادت تھی اور چور بھی تھے ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ص ٥، ٦)

نمبر ٦ یسوع اسلیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکتا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چلن ، نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کا دعویٰ شراب خوری کا ایک بد نتیجہ ہے۔ (ست بچن ، حاشیہ ، صفحہ ١٧٢، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )

 

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی توہین

پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی خلافت لو ۔ ایک زندہ علی ( مرزا صاحب ) تم میں موجود ہے اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی (حضرت علی کرم اللہ وجہہ ) کو تلاش کرتے ہو۔ (ملفوظات احمدیہ ، ١٣١ جلد اول )

 

حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی توہین

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں

( ایک غلطی کا ازالہ حاشیہ ص ٩ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )

 

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی توہین

نمبر١ دافع البلاء میں ص ١٣ پر مرزا غلام احمد نے لکھا ہے میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بر تر ہوں۔

نمبر٢ مجھ میں اور تمہارے حسین میں بڑا فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔ (اعجاز احمدی صفحہ ٦٩)

نمبر ٣ اور میں خدا کا کشتہ ہوں اور تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے ۔ (اعجاز احمدی صفحہ ٨١)

نمبر ٤ کربلا ئیست سیر ہر آنم صد حسین اس در گر یبانم ۔ ۔ ۔ میری سیر ہر وقت کربلا میں ہے ۔ میرے گریبان میں سو حسین پڑے ہیں ۔ (نزول المسیح ص ٩٩ مصنفہ مرزا غلام احمد)

نمبر ٥ اے قوم شیعہ ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا منجی ہے کیونکہ میں سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں سے ایک ہے کہ اس حسین سے بڑھ کر ہے ۔ (دافع البلاء ص ١٣، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )

نمبر ٦ تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا اور تمہارا ورد صرف حسین ہے…۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔ ( اعجاز احمد ی ص ٨٢، مصنفہ مرزا غلام احمد )

اس عبارت میں مرزا صاحب نے حضرت حسین کے ذکر کو "گوہ” کے ڈھیر سے تشبیہ دی ہے۔

 

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی توہین

نمبر١ حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بار بار یہاں نہ آئے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے ۔ پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا تم ڈرو کہ تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا ۔ آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں۔ (مرزا بشیر الدین محمود احمد مندرجہ حقیقت الرؤیا ص ٤٦)

نمبر ٢ قرآن شریف میں تین شہروں کا ذکر ہے یعنی مکہ اور مدینہ اور قادیان کا ۔ (خطبہ الہامیہ ص ٢٠حاشیہ)

 

مسلمانوں کی توہین

نمبر١ کل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔ (آئینہ کمالات ص ٥٤٧)

نمبر٢ جو دشمن میرا مخالف ہے وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے۔ (نزول المسیح ص ٤، تذکرہ ٢٢٧))

نمبر ٣ میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ ص ٥٣مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

نمبر ٤ جو ہماری فتح کا قائل نہ ہو گا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں ۔

( انوارالاسلام ص ٣٠مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

 

اسلام کی مقدس اصطلاحات کا ناجائز استعمال

نمبر١ ام المومنین کی اصطلاح کا استعمال مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی کیلئے کیا جاتا ہے ۔یہ اصطلاح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کیلئے مخصوص ہے۔

نمبر٢ سیدۃالنساء کی اصطلاح بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی بیٹی کیلئے استعمال کی جاتی ہے حالانکہ حدیث پاک کی رو سے یہ اصطلاح صرف خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیلئے مخصوص ہے۔

 

دین اسلام کی توہین

قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی کی نبوت کے بغیر دین اسلام لعنتی ، شیطانی ، مردہ اور قابل نفرت ہے ۔

(ضمیمہ براہین پنجم ص ١٨٣، ملفوظات ص ١٢٧جلد١)

 

تمام مسلمانوں کو کافر قرار دینا

نمبر١ جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ کافر ہے۔ (حقیقت الوحی نمبر ١٦٣، از مرزا غلام احمد قادیانی )

نمبر٢ کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد ) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ (آئینہ صداقت ص ٣٥، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود خلیفہ قادیان)

نمبر ٣ تحریک احمدیت اسلام کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہے جو عیسائیت کا یہودیت کے ساتھ تھا ۔ (محمد علی لاہور قادیانی مباحثہ راولپنڈی ص ٢٤٠)

نمبر ٤ ہر ایک ایسا شخص جو موسی کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا ، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (کلمۃ الفصل ص ١١٠ )

 

قرآن مجید کی توہین

نمبر١ قرآن شریف میں گندی گالیاں بھری ہیں اور قرآن عظیم سخت زبانی کے طریق کے استعمال کر رہا ہے ۔ (ازالہ اوہام ص ٢٨، ٢٩)

نمبر ٢ میں قرآن کی غلطیاں نکالنے آیا ہوں جو تفسیروں کی وجہ سے واقع ہو گئی ہیں ۔ (ازالہ اوہام ص ٣٧١)

نمبر ٣ قرآن مجید زمین پرسے اٹھ گیا تھا میں قرآن کو آسمان پر سے لایا ہوں ۔ (ایضاً حاشیہ ض ٣٨٠)

 

مرزا قادیانی کی تقلید میں قرآن ِ حکیم کی توہین کرنے والے بد بخت مرتد قادیانی جمیل الرحمن کی طرف سے توہین قرآن کا ثبوت دیکھنے کیلئے میرا یہ نوٹ ملاحظہ کیجئے ، ذیل میں لنک دیا جا رہا ہے

http://www.facebook.com/note.php?note_id=457554438704

 

حرمت ِ جہاد سے انکار

نمبر١ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔ (صفحہ ١٧ ضمیمہ بہ عنوان گورنمنٹ کی توجہ کے لائق شہادۃ القرآن )

نمبر ٢

دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد

منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد

( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ٤١ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)

پاکستان پر قبضہ کرنے کے ارادے

بلوچستان کی کل آبادی پانچ لاکھ یا چھ لاکھ ہے ۔زیادہ آبادی کو احمدی بنانا مشکل ہے لیکن تھوڑے آدمیوں کو تو احمدی بنانا کوئی مشکل نہیں پس جماعت اس طرف اگر پوری توجہ دے تو اس صوبے کو بہت جلد احمدی بنایا جا سکتا ہے اگر ہم سارے صوبے کو احمدی بنا لیں تو کم از کم ایک صوبہ تو ایسا ہو گا جس کو ہم اپنا صوبہ کہہ سکیں گے پس میں جماعت کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگو ں کیلئے یہ عمدہ موقع ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور اسے ضائع نہ ہونے دیں ۔ پس تبلیغ کے ذریعے بلوچستان کو اپنا صوبہ بنا لو تا کہ تاریخ میں آپ کا نام رہے۔ ( مرزا محمود احمد کا بیان مندرجہ الفضل ١٣اگست ١٩٤٨)

پاکستان سے ازلی و ابدی دشمنی

اللہ تعالیٰ اس ملک پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیگا ۔ آپ (احمدی) بے فکر رہیں ۔ چند دنوں میں (احمدی )خوشخبری سنیں گے کہ یہ ملک صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو گیا ہے۔

( مرزا طاہر قادیانی خلیفہ چہارم کا سالانہ جلسہ لندن ١٩٨٥)

اس مضمون کو تحریر کرتے ہوئے مرزا قادیانی اور اس کے تمام پیروکاروں کی کتابوں کے مکمل حوالہ جات ساتھ دیئے گئے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس تحریر میں کسی دروغ گوئی سے کام لیا گیا ہے …

خاکسار……… فاروق درویش

فَعَلَیْکُمْ  بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْن

میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سُنت تم پر لازم  ہے۔(سنن ابی داؤدج2ص290باب فی لزوم السنۃ)

 

 

 

 

 

جھوٹے اہل حدیث

 

(قسط ٢)

                مفتی آرزومند سعد ﷾

 

 

جھوٹ نمبر ٥:

غیر مقلدین کا ایک اور بڑا جھوٹ:حنفیہ فاتحہ کی احادیث کو نہیں مانتے۔

اس سے بڑا جھوٹ دنیا میں نہیں ہوسکتا۔احادیث میں آتا ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔احناف کے نزدیک نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔اگر کوئی قصدا ًعمداً چھوڑ دے تو نماز نہ ہو گی اور اگر سہواً رہ جائے تو سجدہ سہو لازم ہو گا۔

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع   (2 / 137)

أَمَّا الْوَاجِبَاتُ الْأَصْلِیةُ فِی الصَّلَاةِ فَسِتَّةٌ : مِنْهَا قِرَاءَةُ الْفَاتِحَةِ وَالسُّورَةِ

اختلاف اس مسئلہ میں قطعاً نہیں اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ کیا امام کی پڑھی ہوئی فاتحہ مقتدی کی طرف سے ہو جاتی ہے یا نہیں ۔تو صحیح احادیث کی روشنی میں احناف کا مسلک یہ ہے کہ امام کی پڑھی ہوئی فاتحہ مقتدی کی طرف سے بھی ہو جاتی ہے ۔مقتدی کو الگ سے فاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ان شاء اللہ غیر مقلدین قیامت کی صبح تک کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کرسکتے کہ امام کی پڑھی ہوئی فاتحہ مقتدی کے لئے کافی  نہیں ۔مقتدی کو الگ سے فاتحہ پڑھنا فرض یا واجب ہے۔

جھوٹ نمبر۶ :

غیر مقلدین کا ایک اور جھوٹ:۔مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف کے مصنف ابوالاقبال سلفی لکھتا ہے ۔ احناف نے جو طریقہ قاعدہ کا بیان کیا ہے کہ ایک پاؤں بچا کر اس پر بیٹھا جائے یہ طریقہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔٭

الجواب:یہ طریقہ احناف نے اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ صحیح احادیث اس پر موجود ہیں۔

سنن أبی داود ـ محقق وبتعلیق الألبانی   (1 / 361)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ سُنَّةُ الصَّلاَةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْیمْنَى وَتَثْنِىَ رِجْلَكَ الْیسْرَى.

سنن أبی داود ـ محقق وبتعلیق الألبانی   (1 / 362)

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِىِّ عَنْ وَكِیعٍ عَنْ سُفْیانَ عَنِ الزُّبَیرِ بْنِ عَدِىٍّ عَنْ إِبْرَاهِیمَ قَالَ كَانَ النَّبِىُّ  صلى الله علیه وسلم  إِذَا جَلَسَ فِى الصَّلاَةِ اافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْیسْرَى حَتَّى اسْوَدَّ ظَهْرُ قَدَمِهِ.

سنن الترمذی   شاكر + ألبانی   (2 / 85)

حدثنا أبو كریب حدثنا عبد الله بن إدریس حدثنا عاصم بن كلیب [ الجرمی ] عن أبیه عن وائل بن حجر قال : قدمت المدینة قلت لأنظرن إلى صلاة رسول الله صلى الله علیه سولم فلما جلس یعنی للتشهد افترش رجله الیسرى ووضع یده الیسرى یعنی على فخذه الیسرى ونصب رجله الیمنى
 قال أبو عیسى هذا حدیث حسن صحیح  والعمل علیه عند أكثر أهل العلم  وهو قول سفیان الثوری وأهل الكوفة و ابن المبارك قال الشیخ الألبانی : صحیح

الغرض یہ طریقہ صحیح احادیث میں موجود ہے۔لیکن غیر مقلد نے انتہائی خیانت اور جھوٹ سے کام لیکر اس کو اس طرح بیان کیا کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ طریقہ احناف کا ایجاد کردہ ہے ۔مصنف نے مزید لکھا ہے کہ ان کا مذہب حنفی ہے ان کا مذہب اسلام نہیں ۔ناظرین دیکھیں کس طرح حضور ﷺ کی سنتوں کو یہ لوگ برملا تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

جھوٹ نمبر  ۷:

غیر مقلد ابو اقبال سلفی لکھتا ہے کہ حنفیہ عمامہ پر مسح کے قائل نہیں ہے اور یہ احادیث کے خلاف ہے ۔

الجواب:۔ احادیث میں سرے سے یہ بات موجود نہیں ہے کہ حضور ﷺ نے صرف عمامہ پر مسح کیا ہے سر پر مسح نہیں کیا ۔چنانچہ خود ہی اس نے مسلم شریف کی روایت نقل کی ہے جس میں اس کی تفسیر موجود ہے کہ حضور ﷺ نے سر پر مسح کیا اور پھر عمامہ پر مسح کیا ۔ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے عمامہ کے نیچے ہاتھ لے جا کر سر پر مسح کیا ۔اسی کے حنفیہ قائل ہیں۔یعنی احناف کا مسلک یہ ہے کہ فرض مقدار کے برابر سر پر مسح کرنا ضروری ہے اگر کسی نے صرف عمامہ پر مسح کیا اور سر پر مسح بالکل نہیں کیا تو اس کا وضو نہیں ہو گا۔

جس مسئلے کو یہ غیر مقلد حدیث کا خلاف بتا رہا ہے وہ جمہور کا مسلک ہے ۔چنانچہ فتح الباری میں ہے۔

فتح الباری   ابن حجر   (1 / 309)

وقد اختلف السلف فی معنى المسح على العمامة فقیل إنه كمل علیها بعد مسح الناصیة وقد تقدمت روایة مسلم بما یدل على ذلك وإلى عدم الاقتصار على المسح علیها ذهب الجمهور وقال الخطابی فرض الله مسح الرأس والحدیث فی مسح العمامة محتمل للتأویل فلا یترك المتیقن للمحتمل۔

یعنی صرف عمامہ پر مسح کا اقتصار کرنا جمہور امت کے نزدیک جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔

٭  سبحان اللہ! پھر تو بے نمازیوں کے لیے نماز بھی تکلیف دہ ہے معاذاللہ، شریعت کے مطابق ہم چلیں  گے یا شریعت ہمارے مطابق چلے گی؟(مدیر)

(جاری ہے………)

 

 

 

 

عقائد علماء اہلحدیث

 

(قسط ٢)

 

                عباس خان ﷾

 

عقیدہ نمبر 11

آذان عثمانی بدعت ضلالت ہے۔

غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں۔

یہ اذان رائجہ بدعت ضلاف ہے (فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 432)

مولوی محمد جونا گڑھی  صاحب لکھتے ہیں:

پس ہمارے زمانہ میں مسجد میں  جو دو اذانیں جمعہ کے لئے ہوتی ہیں صریح بدعت  ہے کسی طرح جائز نہیں۔

(فتاویٰ اہلحدیث  ج 2 ص 106)

غیر مقلد وکٹورین ایک اور بات بھی کہتے ہیں کہ  دور عثمانی میں یہ آذان  کسی بلند جگہ کہلائی جاتی تھی اور آج کل  اہلسنت حنفی شافعی مالکی اور حنبلی یہ آذان مسجد میں دی جاتی ہے اور ہم اسے بدعت ضلالت کہتے ہیں۔ العیاذ باللہ یہ لوگ کس دلیل سے اسے بدعت ضلالت کہتے ہیں حضورﷺ کے دور میں  تو بقیہ آذانیں بھی بلند جگہ پر دی جاتی تھیں اور اب صرف مسجد میں دی جاتی ہیں  اگر یہ بدعت ضلالت ہے تو کیا یہی آذان مسجد کی بجائے بازار یا کسی بلند عمارت پر دیں تو کیا  جائز ہو گئی ؟ اور یہی آذان حرم میں بھی دی جاتی ہے کیا وہ بھی بدعت ضلالت ہے؟

 

عقیدہ نمبر 12

دین میں نبی کی رائے حجت نہیں۔

غیر مقلدین کے خطیب الہند محمد جونا گڑھی صاحب لکھتے ہیں۔

"تعجب ہے کہ جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے  کو دلیل اور حجت سمجھنے لگے”

(طریق محمدی ص 40)

جبکہ یہ بات ہی صحیح نہیں کیونکہ نبیﷺ دینی معاملات میں رائے نہیں دیتے بلکہ وہ ان کا حکم ہوتا ہے جسے اپنانا لازم ہوتا ہے ہاں البتہ دنیاوی معاملات میں آپﷺ نے خود اختیار دیا ہے اور جان چھڑانے کیلئے  اسے مدتہ ین کے اجتہادات کے ساتھ جوڑ  نا بھی  صریح حماقت ہے۔

 «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَیءٍ مِنْ دِینِكُمْ فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَیءٍ مِنْ رَأْیی، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ»

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک انساں ہوں، جب میں تمہیں کوئی دین کی بات کا حکم دوں تو تم اس کو اپنا لو اور جب میں (دنیاوی معاملات میں) اپنی رائے سے کسی چیز کے بارے میں بتاؤں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔

(صحیح مسلم ج 4 ص 1835)

اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے۔

آپﷺ فرماتے ہیں۔

مَا لِنَخْلِکُمْ قَالُوا قُلْتَ کَذَا وَکَذَا قَالَ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْیاکُمْ۔

(صحیح مسلم  ج 4 ص 1836)

تم لوگ اپنے دنیوی معاملات کو میرے نسبت زیادہ بہتر جانتے ہو۔

عقیدہ نمبر 13

ائمہ اربعہؒ کی تقلید بھی شرک ہے۔

فرقہ اہلحدیث کا ہر عامی جاہل اور عالم کہلائے جانے والا جاہل  یہ بات کرتا ہے۔

اب ان  کا اپنا اقرار بھی دیکھئے

ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں:

” اور اس بات میں کچھ شک نہیں کہ تقلید خواہ آئمہ اربعہ میں سے کسی کی ہو خواہ ان کے سوا کسی اور کی شرک ہے”۔

(الظفر المبین ص 20)

جبکہ  پوری قرآن میں ایک بھی ایسی آیت موجود نہیں جس  میں اللہ تعالیٰ نے آئمہ فقہاء مجتہدین  اہل استنباط کی تقلید کو شرک کہا ہو٭ یا کم از کم روکا  ہو منع کیا ہو جیسا کفار مشرکین بے دین اور نا اہلوں کی تقلید سے منع  کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

٭اس پر جی ایم حضرات بڑی شدو مد سے احبار و رہبان اور یہود و نصاریٰ کے تعلق سے اُترنے والی آیات کو منطبق کرنے کی حماقت کرتے ہیں۔  اگر غیر مقلدین ایسی کوئی آیت  یا حدیث جانتے ہیں، جس میں فقہاء و   مجتہدین کی بات بلا مطالبہ دلیل تسلیم کرنا شرک ہے توضرور مضمون نگار، مجلسِ مشاورت اور مدیر سے الگ الگ انعام حاصل کریں۔ (مدیر)

٭یہ ان کا اجتہاد ہے(مدیر)

 

عقیدہ نمبر 14

سنت عمر کفر ہے۔ نعوذ باللہ

فرقہ اہلحدیث کے مولوی عبد المتین میمن طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں لکھتا ہیں:

"سنت محمدی کو چھوڑ کر سنت عمرؓ کی طرف لوٹیں گے تو کفر ہے”۔

(حدیث خیر و شر ص 110)

العیاذ باللہ

پہلے عمرؓ کو نبی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا  پھر ان کی طرف رجوع کرنے والے کو کافر قرار دیا اس میں وہ تمام صحابہ کرامؓ  آگے جنہوں نے حضرت عمرؓ کی پیروی کی لہذا اس احمق مولوی  کے مطابق حضرت عمرؓ اور ان کے پیروا سب کافر ہوئے۔  نعوذ باللہ

 

عقیدہ نمبر 15

بیک وقت چار سے زائد شادیاں کی جا سکتی ہیں۔٭

فرقہ اہلحدیث کے مشہور عالم  نواب صدیق حسن خان صاحب اور نور الحسن صاحب لکھتے ہیں:

"چار کی کوئی حد نہیں (غیر مقلد مرد) جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے”

(ظفرالامانی ص 141 ، عرف الجادی ص 111)

 

عقیدہ نمبر 16

فرقہ اہلحدیث کے نزدیک  پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف ہونا یا پشت کرنا بالکل جائز ہے ناجائز ہونا تو دور رہا مکروہ بھی نہیں ہے۔

(دستور المتقی ص 45 از مولانا یونس دہلوی، نزل الابرار ج 1 ص 53 از امام اہلحدیث نواب وحید الزمان)

جبکہ  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پیشاب ، پاخانہ کرتے وقت بغیر کسی عذر کے قبلہ رو ہونا اور پشت کرنا مطلقاً ناجائز ہے، آبادی میں ہو یا صحرا میں حضورﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے اور بقلہ کے اکرام کرنے کا حکم دیا ہے۔

(بخاری ج1 ص 57 ، مسلم ج1 ص 130 ، زاد المعاد ج1 ص 8 ، مجمع الزوائد ج1 ص 205  ابو داودؤ غیرہ)

 

عقیدہ نمبر 17

زکوٰۃ کا انکار اور  اس میں حیلے

فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں

زیورات اور مال تجارت میں زکوٰۃ نہیں۔(بدور الاہلہ ص 102)

اور زکوۃ کہاں دی جائے؟

نواب نور الحسن خان صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

ماں باپ اور سگی اولاد کو زکوٰۃ دینی جائز ہے۔

(عرف الجادی ص 72)

گویا کہ زکوٰۃ کے اصل حقداروں کو چھوڑ کر آپس میں ہی  ایک دوسرے  کو زکوٰۃ دے دی جائے تاکہ مال اندر ہی رہ جائے۔

 

عقیدہ نمبر 18

عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے والا ملعون ہے۔

حضرت عائشہؓ کی بدترین توہین

فتاویٰ نذیریہ کے مفتی غیر مقلدین کے شیخ الکل نے حضرت عائشہؓ کی شان میں زبردست گستاخی کی ہے ، ان کا قول ” کہ اگر آج نبی کریمﷺ ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انہیں  مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں”۔

(بخاری ج1 ص 120)

اس کے بعد  غیر مقلدین کے شیخ الکل کی بات ملاحظہ ہو۔

"پھر اب جو شخص بعد ثبوت قول رسول و فعل صحابہ کی مخالفت کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے۔ ومن یشاقق الرسول من بعد …۔۔ الخ (الایۃ) جو حکم صراحۃً شرع  میں ثابت ہو جائے اس میں ہر گز رائے و قیاس کو دخل نہ دینا چاہئے کہ شیطان اس قیاس سے کہ انا خیر منہ حکم صریح الٰہی سے انکار کر کے ملعون بن گیا ہے اور یہ بالکل شریعت کو بدل ڈالنا ہے”

(فتاویٰ نذیریہ جلد۱ ص۲۶۶)

غیر مقلدین کے شیخ الکل کی گمراہی ملاحظہ  فرمائیں اس نے در پر دہ حضرت عائشہؓ پر کیسا زبردست حملہ کیا ہے، افسوس اس فتویٰ  غیر مقلدین کے شیخ الکل کا بھی بلا کسی اختلافی نوٹ کے دستخط موجود ہے۔

اور نذیر حسن  نے لوگوں کو کیا تاثر دیا ہے

حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت کی۔

حضرت عائشہ نے اس مسئلہ میں آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت کر کے آیت مذکورہ بالا کا مصداق ہوئیں۔

حضرت عائشہؓ نے اس مسئلہ میں اپنے قیاس اور رائے کو دخل دیا۔

حضرت عائشہؓ نے دین کے حکم میں رائے اور قیاس کو دخل دیکر وہی کام کیا جو شیطان نے انا خیر منہ کہہ کر کیا تھا۔

حضرت عائشہؓ نے معاذ اللہ یہ کہہ کر کہ موجودہ وقت عورتوں کو مسجد اور عید گاہ جانا مناسب نہیں ہے۔شریعت کو بدل ڈالنے کی جرأت کی۔

 

عقیدہ نمبر 19

آج کل کے تمام غیر مقلدین یہ عقیدہ رکھتے  اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ

اللہ کی ذات صرف عرش  کے اوپر اوپر تک ہے نیچے سے ختم ہوتی ہے اور اللہ کی ذات کے بعد اس کے نیچے سے  عرش اور دیگر مخلوقات شروع ہوتی ہیں   العیاذ باللہ

جبکہ یہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ (الحدید 3)

وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن

رسول اللہﷺ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں

"اللهم أنت الأول، فلیس قبلك شیء، وأنت الآخر، فلیس بعدك شیء، وأنت الظاهر فلیس فوقك شیء، وأنت الباطن، فلیس دونك شیء”.

اے اللہ تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو "آخر” ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو "ظاہر” ہے تیسرے اوپر کچھ نہیں، تو "باطن” ہے  تیرے نیچے کچھ نہیں۔( صحیح مسلم)

دون کا مطلب "علاوہ”  بھی ہوتا ہے اور "دون” کا مطلب "نیچے بھی ہوتا ہے۔(المورد ص 557)

ہم دونوں باتوں کا اقرار کرتے ہیں خود حدیث میں بھی لفظ "دون” نیچے کیلئے استعمال ہوا ہے۔

نبی کریمﷺ کی حدیث ہے

وَلَا الْخُفَّینِ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدَ نَعْلَینِ فَإِنْ لَمْ تَجِدِ النَّعْلَینِ فَمَا دُونَ الْكَعْبَینِ

"اور اگر تمہارے پاس جوتے نہ ہوں تو ٹخنوں کے نیچے تک موزے پہن لیا کرو”۔

(سنن نسائی ج 2 ح 587 : صحیح)

امام بیهقی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ

وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِی نَفْی الْمَكَانِ عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِی صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَیسَ فَوْقَكَ شَیءٌ» . وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیسَ دُونَكَ شَیءٌ ". وَإِذَا لَمْ یكُنْ فَوْقَهُ شَیءٌ وَلَا دُونَهُ شَیءٌ لَمْ یكُنْ فِی مَكَانٍ.

(الأسماء والصفات للبیهقی ج۲ ص۲۸۷)

"ہمارے بعض اصحاب اللہ کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبیﷺ کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ تو (اللہ) الظاہر مطلب کوئی چیز اس کے اوپر نہیں الباطن یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں اسلئے اللہ کے اوپر کچھ نہیں اور اس کے نیچے کچھ نہیں تو اللہ مکان  و جگہ سے پاک ہے۔”

 

عقیدہ نمبر 20

اللہ کی صفت "ید” متشابہات میں سے نہیں۔

زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

” اللہ کی صفت "ید” کو متشابہات میں سے کہنا اہل بدعت کا مسلک ہے”۔

(اصول المصابیح  ص 38 ترجمہ و تحقیق و تخریج زبیر علی زئی)

 

عقیدہ نمبر 21

ننگے ہو کر نماز پڑھنا

نواب صدیق حسن خان صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

” عورت کی نماز بغیر ستر چھپائے صحیح ہے عورت تنہا ہو یا دوسری عورتوں کے ساتھ ہو یا پھر اپنے شوہر کے ساتھ ہو یا دوسرے محارم(باپ بھائی بیٹے) کے ساتھ  ہو غرض ہر طرح صحیح ہے زیادہ سے زیادہ سر چھپا لے”۔

(بدول الاہلہ ص 39)

 

عقیدہ نمبر 22

صحابہ کرام پر فاسق ہونے کا اطلاق  کیا جا سکتا ہے۔

غیر مقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے (حوالہ   فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)  نزل الابرار میں لکھتا ہے کہ :

” تمام صحابہ کو عدول قرار دینے کا معنی ہے کہ وہ نقل روایت میں ثقہ و عادل و معتبر ہیں نہ کہ سارے صحابہ معصوم ہیں، ان سے کوئی ایسی بات سر زد  ہو ہی نہیں سکتی جس کی بنا پر ان پر لفظ فاسق کا اطلاق نا ممکن ہے”۔

(حاشیہ نزل الابرار ج 3 ص 94)

معاذ اللہ

 

عقیدہ نمبر 23

مشت زنی واجب ہے

نور الحسن خان صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:

"نظر بازی کا خطرہ ہو تو مشت زنی واجب ہے”۔

(عرف الجادی ص 207)

سوال یہ ہے کہ اگر یہ واجب ادا نہ کیا گیا تو کیا گناہ  ہو گا؟

ایک غیر مقلد سنت پڑھنے کیلئے کھڑا ہوا اسے نظر بازی  کا خطرہ محسوس ہوا اب وہ سنت ادا کرے یا پہلے واجب ؟

اگر نظر بازی کا یہی اعلاج ہے تو پھر نفس پر قابو کا کیا مطلب ہے؟

 

عقیدہ نمبر 24

اگر زنا پر مجبور کیا جائے تو  زنا کرنا جائز ہے۔

نواب الحسن خان صاحب  غیر مقلد لکھتے ہیں:

” کوئی شخص زنا پر مجبور کیا جائے اس کیلئے زنا کرنا جائز ہے”۔

(عرف الجادی ص 215)

العیاذ باللہ

حضرت یوسفؑ کا مشہور واقعہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب زلیخا انہیں اپنی طرف مجبور کر رہی تھیں تو حضرت یوسفؑ نے اس سے کہا

معاذ اللہ انه ربیاحسن مثوای انه لا یفلح الظلمون

ترجمہ:

معاذ اللہ ! تیرا شوہر عزیز مالک ہے میرا اور اچھی طرح رکھا ہے مجھے اس نے ، بے شک ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔

(سورۃ یوسف ص 23)

اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت کوئی  غیر مقلد وکٹورین موجود نہیں تھا جو  جائز کا فتویٰ دے دیتا۔

 

عقیدہ نمبر 25

بار بار طلاق دینا اور بار بار رجوع کر لینا جائز ہے۔

سائل نے  ایک غیر مقلد مولوی عبد اللہ ویلوری سے سوال پوچھا۔

سوال: زید نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ اس کے بعد 10 یو زید نے رجوع کر لیا پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ تنازع ہونے کی صورت میں اس نے طلاق دے دی۔ آٹھ یوم کے بعد پھر رجوع کر لیا۔ اس نے چار پانچ مرتبہ ایسا ہی کیا۔ طلاق دے دی اور رجوع کر لیا زید کو اس مسئلہ کے بارے میں کوئی علم نہ تھا اب اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟؟ اب پھر دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں  فتویٰ صادر فرمائیں۔ اللہ آپ جو جزائے خیر دے۔

جواب:

صورت مسئلولہ میں رجوع کر سکتا ہے……۔ دو گواہوں کے ر برو رجوع کر کے بیوی کو آباد کر سکتا ہے

(فتاویٰ جات ص 482)

اس احمق مولوی نے طلاق کی  مقدار  ہی ختم کر دی جو کہ شریعت نے ہمیں دی تھی۔

اب کوئی غیر مقلد  صبح شام بیوی کو طلاق دیتا پھرے اور رجوع کرے بیوی اس کے لئے حلال ہے۔

 

عقیدہ نمبر 26

کسی کو  حاضر ناظر جاننا شرک نہیں

فرقہ اہلحدیث کا عقیدہ ہے کہ

اللہ کی ذات حاضر و ناظر نہیں اب  جب اللہ کی ذات ہی حاضر ناظر نہیں تو کسی  ولی یا نبی کی ذات کو حاضر و ناظر سمجھا کس طرح سے شرک ہو سکتا ہے ؟ شرک ہو  تو  کس کے ساتھ اللہ  کی ذات تو حاضر و ناظر نہیں۔

 

عقیدہ نمبر 27

نماز کے سنت واجبات فرائض وغیرہ سب بدعات ہیں۔

ایک غیر مقلد مولوی صاحب لکھتے ہیں:

” نماز کے واجبات فرائض سنن اور مستحبات یہ تمہاری  بدعت ہے اگر بدعت نہیں تو قرآن و سنت سے ثابت کریں”۔

(حنفیوں کے 350 سوالات کے جوابات ص 125)

فرقہ اہلحدیث کے ایک اور احمق مولوی صاحب لکھتے ہیں:

"فقہائے احناف کا نماز کے ارکان میں سے بعض کو فرض بعض کو واجب بعض کو سنت بعض کو مستحب قرار دینا بدترین بدعت ہے”۔

(تحفہ حنفیہ ص 125)

تمام فقہاء اور محدثین کرام نے اپنی اپنی کتب  میں بعض جگہ پر کسی مسئلہ کو فرض یا کسی کو سنت یا کسی کو واجب قرار دیا لیکن ان تمام محدثین فقہاء  جلیل القدر علماء کے خلاف ان وکٹورینوں کے نزدیک یہ ایک بدترین بدعت ہے۔

 

عقیدہ نمبر 28

ہر ایک اجتہاد کا حقدار ہے۔

ویسے تو یہ عقیدہ ہر ایک غیر مقلد  کا ہوتا ہے۔  لیکن ہم ایک حوالہ بھی پیش کرتے دیتے ہیں۔

مشہور غیر مقلد عالم زبیر علی زئی صاحب  ایک سائل کو سوال کا مختصر جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

"باقی امور کے بارے میں خود اجتہاد کر لیں”۔٭

(فتاویٰ علمیہ ص198)

اس احمق کے اس قول پر ہم ایک مشہور محدث کا قول نقل کرتے ہیں

امام الجرح والتعدیل حضرت امام شمس الدین ذہبیؒ (وفات 748ھ)فرماتے ہیں:

نعم من بلغ رتبة الاجتهاد وشهد له بذلك عدة من الأئمة لم یسغ له أن یقلد كما أن الفقیه المبتدئ والعامی الذی یحفظ القرآن أو كثیرا منه لا یسوغ له الاجتهاد أبدا فكیف یجتهد وما الذی یقول؟ وعلام یبنی؟ وكیف یطیر ولما یریش؟

ترجمہ:

” جو شخص اجتہاد کے مرتبہ پر فائذ ہو بلکہ اس کی شہادت متعدد آئمہ دیں اس کیلئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے مگر مبتدی قسم کا فقیہ کا عامی درجے کا آدمی جو قرآن کا یا اس کے اکثر حصے کا حافظ ہو  اس کیلئے اجتہاد جائز نہیں، وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ کیا کہے گا کس چیز پر اپنے اجتہاد کی امارت قائم کرے گا؟ کیسے اڑے گا ابھی اس کے پر بھی نہیں نکلے؟”۔

(سیر أعلام النبلاء ج 13 ص 337)

۔۔۔۔۔

٭ گویا دین نہ ہوا، بازیچہء اطفال ہوگیا (مدیر)

 

عقیدہ نمبر 29

من پسند مسائل کو راجح قرار دینا۔

غیر مقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے”

(نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 149)

غیر مقلدین کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی صاحب  لکھتے ہیں "قول راجح یہ ہے کہ قربانی کے صرف 3 دن ہیں”۔

(علمی مقالات صفحہ 219)

تبصرہ : اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں  ائمہ میں سے کسی ایک کی پیروی کی جائے۔

 

عقیدہ نمبر 30

زبان سے نیت کا مطلق انکار کرنا

فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں

"زبان سے نیت کرنا بدعت ہے”۔

(نزل الابرار ج 1 ص 69)

جبکہ زبان سے نیت کر نا حدیث سے ثابت ہے۔٭

حضرت ابن عباسؓ حضرت ابن  عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے نبیﷺ نے بیان فرمایا کہ میرے پاس رات کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا (فرشتہ) آیا اور اس وقت آپ عقیق میں تھے (اس نے کہا) اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور کہیں کہ میں نے عمرہ اور حج کی نیت کی۔

(صحیح بخاری ج 3 ح 2244)

۔۔۔۔۔

٭ زبان سے نیت کر نے کے متعلق اسی شمارہ کا مضمون”نیت کا مسئلہ” بقلم حافظ محمود احمد  ملاحظہ فرمائیں(مدیر)

 

 

 

 

نیت کا مسئلہ

 

                حافظ محمود احمد

 

قارئین کرام! سلف سے جن کا تعلق دور کا بھی نہیں ہوتا ایسے نام نہاد سلفی (بزعم خویش) اجتہاد کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں مثلاً روزہ رکھنے کی نیت کے بارے میں عربی کا وہ جملہ جو کہ مشہور اور عام ہے

بصوم غدٍ نویتُ من شہر رمضان

جہالت نمبر 1:

اس جملے کو فہد  محمود٭ جاہل نے اپنی جہالت کا نشانہ بناتے ہوئے اس کو دعاء لکھ دیا ہے جبکہ اس جملے میں نہ ہی اللہ سے کسی طرح کی کوئی فریاد ہے نا ہی اللہ تعالیٰ کی تعریف اور نہ التجا ہے اور نہ درخواست جبکہ دعاء میں فریاد التجاء اور درخواست و عاجزی ہوتی ہے جیسے اذان کے بعد کی دعاء اور دشمنوں کے مکر و فریب سے اللہ کی پناہ کی دعا، دعا یہ ہے. اللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ

ترجمہ اے اللہ ہم ان کے مکر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ آپ دعاء کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں جیسے مقبول و مسنون دعاء، حصن حصین وغیرہ ـ

۔۔۔۔۔۔

٭ اس مضمون میں تو حافظ محمود (عرف عبد الباری محمود) صاحب نے کسی غیر مقلد فہد محمود   کے حوالے سے تحریرلکھی ہے، البتہ مضمون نگار احتیاط کریں کہ علماء اور مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی کا نام نہ لیا جائے، بلکہ مضمون کو عموماً سب کو مخاطب کرکے لکھا جائے۔ ناگزیر حالات میں رعایت ہے۔(مدیر)

 

جہالت نمبر 2:

فہد  محمود صاحب نے اپنی جہالت کا دوسرا نمونہ یہ دیا کہ انہوں نے عوام کو یہ کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ یہ دعاء کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں حالانکہ پہلی بات تو یہ دعاء ہے ہی نہیں، دوسری بات جناب کے بقول اگر مان لیا جائے کہ یہ دعاء ہے تب بھی اس دعاء کے پڑھنے و لکھنے والوں کا اس بات کا دعویٰ ہی نہیں ہوتا کہ یہ حدیث میں ہے اگر لکھنے پڑھنے والے یہ دعویٰ کرتے کہ یہ دعاء ہے اور حدیث صحیح میں موجود ہے تب فہد  محمود صاحب کا یہ کہنا کہ یہ صحیح حدیث میں نہیں ہے صحیح ہوتا ورنہ تو یہ سیدھے اور سادہ ذہن لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنا ہے اور کچھ نہیں ـ

 

جہالت نمبر 3:

فہد  محمود صاحب اس عربی جملے کو ایک طرف صحیح حدیث میں نہ ہونے کی بات کرتے ہیں مگر وہیں دوسری طرف اس کو حدیث ہی بنا دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: اس منگھڑت حدیث …٭

۔۔۔۔۔۔

٭ بہت عمدہ! ایسی بوکھلاہٹوں سے آئے دن واسطہ پڑتا رہتا ہے(مدیر)

 

جہالت نمبر 4:

یہ ہے کہ انہوں نے اس عربی عبارت کے پڑھنے والے پر ویری ویری فن ٹاسٹک نشانہ لگا کر جاہل اور گنوار ہونے کی گولی داغ دی یعنی جاہل ہونے کا فتویٰ دے ڈالا جبکہ اس کا پڑھنے والا جاہل نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں جو لفظ "غداً” (بمعنی کل) استعمال ہوا ہے وہ اپنے موقع و محل کے لحاظ سے مناسب اور درست ہے اللہ پاک نے رات اور دن دونوں الگ الگ بنائے ہیں رات کا اطلاق غروب آفتاب سے صبح صادق تک اور دن کا اطلاق صبح صادق کے بعد سے غروب شمس تک ہوتا ہے لہٰذا اگر کوئی نیت میں یہ عربی الفاظ استعمال کرے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صبح صادق کے بعد سے شروع ہونے والے دن کا روزہ رکھ رہا ہے اس لئے کل یعنی غدا کا لفظ بولتا ہے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ نیت آج کی کر رہا ہے اور روزہ کل کا رکھ رہا ہے، لیکن جناب نے یہاں اپنی جہالت سے 24/گھنٹے گزرنے کے بعد آنے والا جو دن ہوتا ہے اسے سمجھ لیا ہے تبھی قرآن پاک میں آئے لفظ "غدا” کو یہاں فٹ کر دیا ہے۔

تیسری بات مجھے اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ فہد  محمود صاحب کل کسی کو عربی اخبار یا عربی کا کوئی لٹریچر پڑھتا دیکھ کر جاہل ہونے کا فتویٰ نہ لگا دیں لہٰذا فہد  محمود صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ کسی مقلد کے مدرسے کا چکّر دو چار بار لگا لیں ان شاء اللہ علم کی کچھ روشنی مل ہی جائے گی اور آپ کی کم فہمی اور علم سے ناواقفیت و جہالت پر میں مضمون لکھوں تو مستقل ایک کتاب تیار ہو جائے لیکن میں مضمون کو طول نہ دے کر کے جناب والا سے گزارش کرتا ہوں کہ پلیز اس طرح کی پوسٹ لگا کر خود کو جاہل نہ بنائیں ۔

نوٹ:

قارئین! نیت دل کے ارادہ کا نام ہے اگر کوئی زبان سے ادا کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نہ اس کو کوئی فرض سمجھتا ہے نہ ہی واجب، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ ائمہ متقدمین سے، اس لئے اصل نیت دِل ہی کی ہے، مگر لوگوں پر وساوس و خیالات اور افکار کا غلبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے نیت کے وقت دِل متوجہ نہیں ہوتا، دِل کو متوجہ کرنے کے لئے متأخرین نے فتویٰ دیا ہے کہ نیت کے الفاظ زبان سے بھی ادا کر لینا بہتر ہے٭، تاکہ زبان کے ساتھ کہنے سے دِل بھی متوجہ ہو جائے ۔

اللہ پاک صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

منجانب: اے آئی آئی سی

۔۔۔۔۔

٭ واضح رہے کہ یہ بات اس تناظر میں کہی گئی ہے کہ ذہن  وساوس و افکار کا شکار ہو، ورنہ زبان سے نیت کرنا کوئی ضروری نہیں، البتہ اگر بھولی عوام اسے ضروری تصور کرتی ہے تو غیر مقلدین کا شکوہ بجا ہے اور عوام کو یہ مسئلہ سمجھانا چاہیے کہ انما الاعمال باالنیات۔ اور بقول مضمون نگار، نیت دل کے ارادے کا نام ہے(مدیر)

 

 

 

 

حدیث جابر بن سمرۃ اور ترکِ رفع یدین

 

’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘

(صحیح ابن حبان ج3ص178، صحیح مسلم ج1ص181 )

ترجمہ:حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجدمیں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح اٹھایا ہے تم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (نماز میں رفع یدین نہ کرو)۔

مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔

ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:

اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔

جواب =

ہمارا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے، چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہو جاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین  مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:

انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)

کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔

لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے،  ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔

جواب  =

الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ، درس ترمذی)

ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگر حضرات محققین و محدثین نے تو بنایا ہے۔مثلاً

1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)

2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)

3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)

4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)

5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی  (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)

6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(

7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)

8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)

9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)

10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)

11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)

12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)

13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی  (نور الصباح: ج1 ص76)

د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی  علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں ” نور الصباح ، ج 2،  ص 321″

تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئے”الجواب صحیح” لکھا ہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  موجود ہے۔خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:

"مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: "مسئلہ رفع یدین "کے عنوان سے بھیجا ہے،  جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھا ہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے، نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے "الجواب صحیح”لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔” (الحدیث :93ص11)

 

اعتراض نمبر 3 = اس حدیث پر محدثین کا اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے کیونکہ سب محدثین نے اس حدیث پر سلام کے وقت اشارہ سے منع کرنے کے ابواب باندھے ہیں۔ اور کسی محدث نے اس حدیث سے ترکِ رفع پر استدلال نہیں کیا۔

جواب =

یہ حدیث اور بوقت سلام اشارہ سے منع کی حدیث دو الگ الگ احادیث ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔

  • اس حدیث پر امام ابو داود نے یوں باب باندھا ہے: باب النظر فی الصلوٰۃ {ابو داوَد ص 138 ج 1}
  • امام عبدالرزاق علیہ رحمہ نے یوں باب باندھا ہے : باب رفع الیدین فی الدعاء {مصنف عبدالرزاق ص 252 ج 2}
  • امام بخاری کے استاد ابوبکر بن شیبہ نے یوں باب باندھا ہے:  باب من کرہ رفع الیدین فی الدعاء {مصنف ابن ابی شیبہ  ص 486  ج 2}
  • نیز قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : وقد ذکر ابن القصار ھٰذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الایدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ {لا کمال العلم بفوائد مسلم ص 344 ج 2}
  • امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}

آئیے امام مسلم جن سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے ان کے ابواب کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں:

امام مسلم نے باب یوں قائم فرمایا ہے: باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ والنھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عندالسلام واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع

  • پہلا حصہ الامر بالسکون فی الصلوٰۃ، نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب: باب کے اس حصے کے ثبوت میں یہی حدیث اسکنو فی الصلوٰۃ والی لائے ہیں
  • دوسرا حصہ النھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عند السلام، سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کی ممانعت:  اس حصہ مکے ثبوت کے لیے دوسری حدیث لائے ہیں  وانما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ ثم یسلم علی اخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔ بس تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے دائیں بائیں والے پر سلام کرے۔
  • تیسرا حصہ ہے ، واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع، پہلی صفوں کو مکمل کرنا اور ان میں جڑنا اور اجتماع کے حکم کے بارے میں: اس حصے کو ثابت کرنے کے لیے تیسری حدیث لائے ہیں استووا ولا تختلفوا

پس ثابت ہوا کہ سلام کا لفظ دوسری حدیث کے متعلق ہے۔ پہلی حدیث پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب۔ اس کے نیچے حدیث وہی لائی گئی ہے جس مین رفع یدین کو سکون کے خلاف قرار دے کر منع فرمایا دیا گیا۔ لہٰذا جو حدیث ہم پیش کر رہے ہیں، اس پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے، اس میں سلام اور تشہد کا لفظ نہیں۔

 

اعتراض نمبر 4 = یہ حدیث سلام کے وقت رفع یدین سے منع کی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کے بارے میں۔

جواب =

جیسا کہ اعتراض نمبر 3 کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ امام مسلم علیہ رحمہ نے اس حدیث پر نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب باندھا ہے اور سلام کے وقت اشارے سے منع کرنے کے لیے حضرت جابر بن سمرۃ سے دوسری حدیث لائے ہیں، جس سے اس اعتراض کا سارا دم خم ختم ہو جاتا ہے۔ مگر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مکمل مدلل جواب دیا جاتا ہے تاکہ مزید گنجائش باقی نہ رہے انشاءاللہ تعالیٰ:

  • پہلی روایت مین جابر بن سمرۃ رضی الہ عنہ کا شاگرد تمیم بن طرفہ ہے۔ دوسری میں جابر رضی اللہ عنہ کا شاگرد عبد اللہ بن القبطیہ ہے۔
  • پہلی روایت میں ہے خرج علینا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے۔ دوسری روایت میں ہے صلینا مع رسول اللہ ، یعنی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
  • پہلی روایت میں ہے رافعی ایدیکم یعنی رفع یدین کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں ہے  تشیرون بایدیکم تومنون بایدیکم تم اشارہ کرتے ہو۔
  • پہلی روایت میں سلام کا ذکر نہیں ، دوسری میں سلام کا ذکر ہے۔
  • پہلی روایت میں ہے اسکنو ا فی الصلوٰۃ ، یعنی نماز میں سکون اختیار کرو، دوسری روایت میں ہے انما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ

ان دونوں روایتوں کو غور سے دیکھا جائے تو دونوں روایتوں میں پانچ فرق نظر آتے ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ ہم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، آپ تشریف لائے تو یہ واقعہ الگ ہوا۔ دوسری روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، یہ واقعہ الگ ہوا۔ پہلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  رافعی ایدیکم فرما کر رفع یدین کا نام لیتے ہیں اور دوسری میں رفع یدین کا نام تک نہیں بلکہ اشارے کا لفظ ہے۔ بہرحال دونوں روایتوں کو ایک بنانا فریب اور دھوکا ہو گا نہ کہ دونوں کو دو بتانا۔ چونکہ دو واقعے الگ الگ ہیں، ہم دونوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ملاتے نہیں لہٰذا الگ الگ رکھنا حقیقت حال سے آگاہ کرنا ہو گا۔ حقیقت حال سے آگاہ کرنے کو اہل انصاف میں سے تو کوئی بھی دھوکہ نہیں کہتا،  ہاں بے انصاف جو چاہیں کہیں۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

پہلی حدیث میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے اور دوسری میں سلام والے اشارے سے۔ ہمارا احناف کا دونوں روایتوں  پر عمل ہے۔ نہ ہم رفع یدین  کرتے ہیں اور نہ ہی سلام کے وقت اشارہ کرتے ہیں۔

ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو بوقتِ سلام ہاتھوں کا اشارہ نہیں کرتے تھے، ہاتھوں کا اشارہ اس وقت ہوتا تھا جب با جماعت نماز پڑھتے اور پہلی حدیث میں ہے خرج علینا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہماری طرف آئے، ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز فرض تھی ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر ہوتے تو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز کے لیے اتنا لمبا بیٹھے رہتے کہ کبھی نیند آنے لگتی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر کس طرح کرا سکتے تھے؟ ثابت ہوا کہ نماز فرض نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی انفرادی نماز تھی جو نفل یا سنن  ہو سکتی ہیں۔ جب نماز جماعت والی نہیں تھی بلکہ انفرادی فعل یا سنن نفل وغیرہ نماز تھی تو اس میں سلام کے وقت اشارہ ہوتا ہی نہیں تھا تو آقا نے منع کس چیز سے کیا؟ یقیناً وہ رکوع سجدے والا رفع یدین ہی تھا  جس کو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ   کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ   علیہ والہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا اسکنوا فی الصلوٰۃ نماز میں سکون اختیار  کرو۔ مسلم شریف کا باب الامر فی الصلوٰۃ ج 1 ص 80 دیکھیں، اس میں اشارے کا ذکر جس حدیث میں ہے، اس میں صلینا مع رسول  اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوداوَد باب السلام ج 1 ص 143 پر دیکھیں اور غور کریں کہ نماز باجماعت ہے اور اشارہ  بھی ہے۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا  اذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسلم  احدانا اشار بیدہ من یمینہومن عن یسارہ یہاں بھی سلام کے اشارے کا جہاں ذکر ہے، وہاں جماعت کا ذکر بھی ہے۔ نسائی باب السلام بالیدین ج 1 ص 156 مع التعلیقات میں ہے صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکم یہاں بھی جماعت کا ذکر ہے، ساتھ سلام کے اشارے کا ذکر ہے۔ یہ طحاوی شریف ج 1 ص 190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف  ہو میں یہی جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کنا اذا صلینا خلف النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمنا بایدینا جب ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتاب الام  للشافعی علیہ رحمہ ، مسند احمد ، بیہقی دیکھیں۔ جہاں سلام کے وقت اشارے کا لفظ ہو گا وہاں جماعت کی نماز کا ذکر بھی ہو گا۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ  نے اکیلے نماز ادا کی ہو اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا ہو یعنی سلام کے وقت اشارہ بھی کیا ہو، موجود نہیں ہے لہٰذا اس سلام کے اشارے کا تعلق جماعت کی نماز سے ہے نہ کہ انفرادی نماز سے۔ انفرادی نماز میں صرف رکوع سجدے والا رفع یدین تھا ، ہاتھوں کا اشارہ نہیں تھا لہٰذا انفرادی نماز میں جو عمل تھا ہی نہیں ، اسے آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے منع کر سکتے تھے۔  ہاں جو عمل تھا ، وہ رفع یدین رکوع و سجود کا تھا ، اسی سے ہی منع فرمایا ہے۔

ضمنی اعتراض: اگر اس حدیث سے ” فی الصلوٰۃ "یعنی نماز کے اندر  کا رفع یدین  منع ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تو تکبیرِ تحریمہ والا رفع یدین بھی ختم ہو جاتا ہے۔

جواب: نماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ وکان یختم الصلوٰۃ بالتسلیم حدیث شریف میں آتا ہے تحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلمیم {ترمذی شریف ص 32} نما زتکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا  جس فعل سے نماز شروع ہو رہی ہے، اسے فی الصلوٰۃ نہیں کہا جا سکتا۔ ثناء فی الصلوٰۃ، تعوذ فی الصلوٰۃ، قومہ فی الصلوٰۃ، جلسہ و سجدہ فی الصلوٰۃ، سجدے والا رفع یدین فی الصلوٰۃ، تشہد فی الصلوٰۃ۔ تکبیرِ تحریمہ آغاز کا نام ہے اور نماز شروع کرنے کا طریقہ ہے۔ سلام نماز کے اختتام کا نام ہے یعنی ختم کرنے کا طریقہ ہے۔ وکان تکتم بالتسلیم {مسلم ج 1 ص 195} جس طرح حدیث پاک سے ثا بت ہو چکا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب رکوع و سجدہ فی الصلوّۃ ہیں تو ان کا رفع یدین بھی فی الصلوٰۃ ہو گا لہٰذا اسکنو فی الصلوٰۃ  میں نماز کے اندر والے رفع یدین سے ہی منع ثابت ہو گی نہ کہ تحریمہ والے سے کیونکہ رفع یدین بوقتِ تحریمہ فی الصلوٰۃ نہیں بلکہ فی افتتاح الصلوٰۃ ہے جس طرح ابو داوَد ج 1 ص 105 ،  پر موجود ہے کہ تحریمہ والے رفع یدین  کو رفع افتتاح الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے یا عند الدخول فی الصلوٰۃ جس طرح بخاری ج 1 ص 102 ، پر موجود ہے۔ جسطرح امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح یہاں لفظ مع الافتتاح تحریمہ کے رفع یدین کے لیے استعمال کیا  ہے۔  اسی صفحہ 102 پر دیکھیں ، امام بخاری علیہ رحمہ کا باب الخشوع فی الصلوٰۃ۔ نماز میں خشوع کا باب اور آگے جو حدیث لاتےہیں، وہ یہ ہے اقیمو االرکوع والسجود فواللہ انی لا اراکم من بعدی اچھی طرح رکوع اور سجدہ کیا کرو میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ خشوع فی  الصلوٰۃ کا باب باندھ کے پھر رکوع اور سجدہ کا بیان فرما کر بتلانا چاہتے ہیں  کہ رکوع اور سجدے کا جوڑ فی الصلوٰۃ کے ساتھ ہے اور فی الصلوٰۃ کا سب سے زیادہ تعلق رکوع اور سجدے کے ساتھ ہے۔ فی الصلوٰۃ کا لفظ اکثر و بیشتر انہیں افعال و اعمال پر بولا جاتا ہے جو نماز میں تکبیرِ تحریمہ اور سلام کے درمیان ہیں، اس کی چند مثالیں دیکھئے:

  • امام بخاری ج 1 ص 99 پر باب باندھتے ہیں اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ، جب امام نماز میں روئے۔ امام تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ ہی رونا شروع نہیں کر دیتا بلکہ بوقتِ تلاوت روتا ہے جس طرح ترجمہ الباب  کی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ گویا رونا تحریمہ کے بعد ہوتا ہے، اسی لیے تو فی الصلوٰۃ کہا گیا ہے۔
  • بخاری ج1 ص 102 پر باب ہے باب وضع الیسی الیمنی علی الیسرہ فی الصلوٰۃ ، بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا نماز میں۔ غور فرمائیں کہ ہاتھ پر ہاتھ تحریمہ کے بعد ہی رکھا جاتا ہے جس کو فی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
  • بخاری شریف ج 1 ص 103 باب البصر الی الامام فی الصلوٰۃ ، نماز میں امام کی طرف دیکھنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر اور عصر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت کو دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ظہر اور عصر کی نماز میں قراءۃ فرماتے ہیں۔ تو بوقت  قراءۃ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی ریش مبارک کو دیکھنا اور قراءۃ کو پہچاننا تحریمہ کے بعد ہی ہوتا تھا لہٰذا امام بخاری علیہ رحمہ فرماتے ہیں رفع البصر امام کی طرف  نظر اٹھانا فی الصلوٰۃ نماز کے اندر  یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد۔ یہاں بھی تحریمہ کے بعد ہونے والے عمل کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
  • بخاری ج 1 ص 104 پر امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوٰۃ ۔ یہاں قراءۃ فی الصلوٰۃ فرمایا یعنی قراءۃ تحریمہ کا نام نہیں بلکہ قراءۃ تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح اسکنوا افی الصلوٰۃ میں بھی منع تحریمہ والے رفع یدین سے نہیں بلکہ اس رفع یدین سے ہے جو تحریمہ کے بعد نماز میں کیا جاتا ہے۔
  • مسلم شریف ج 1 ص 169 پر امام نووی علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں۔ اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ ، نماز میں ہر اونچ نیچ پر تکبیر کا اثبات۔ اب اونچ نیچ رکوع اور سجدے میں ہوتی ہے اور یہاں رکوع و سجدہ میں اونچ نیچ کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔لا محالہ رکوع اور سجدے سے قبل اور بعد کی اونچ نیچ تحریمہ کے بعد اور سلام سے قبل ہے اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا یعنی نماز میں۔ بعینٖہ اسی طرح مسلم کی ج 1 ص 181 والی اسکنو فی الصلوٰۃ والی روایت میں فی الصلوٰۃ سے مراد رفع یدین ہے جو تحریمہ کے بعد ہوتا ہے یعنی رکوع اور سجدے کے وقت۔
  • مسلم شریف ج 1 ص 173 باب التشھد فی الصلوٰۃ۔
  • مسلم ج 1 ص 183 باب التوسط فی القراءۃ فی الصلوٰۃ۔
  • مسلم ج۱ ص 210 باب السھو فی الصلوٰۃ۔ نماز میں بھولنے کا بیان اور آگے ص 211 پر حدیث پاک لائے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم قام فی الصلوٰۃ الظھر وعلیہ جلوس، بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹھنا تھا بجائے بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ بعد میں سجدہ سہوکیا
  • مسلم ج 1 ص 202 باب کراھۃ مسح الحصی وتسویۃ التراب فی الصلوٰۃ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بوقت سجدہ مسجد میں پڑی مٹی ہاتھ سے برابر کرتے تھے، اسی کی کراہت کا بیان کیا گیا۔ اور سجدہ نماز کے اندر تحریمہ کے بعد کا ہے اسی لیے اسے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔
  • مسلم ج 1 ص 206 باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جب منبر بنوا کر رکھ دیا گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم  منبر پر چڑھ گئے اور وہاں تکبیرِ تحریمہ کہی اور بعد میں بحالتِ نماز منبر سے اتر آئے۔ نماز کی حالت کا یہ عمل بعد تحریمہ تھا اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔

تلک عشرۃ کاملہ

ضمنی اعتراض: دونوں حدیثوں میں تشبیہ ایک چیز سے دی گئی ہے، کانھا اذناب خیل شمس لہٰذا دونوں حدیثیں ایک ہیں۔

جواب: ان احادیث کے الگ الگ ہونے کے دلائل سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ یہ احادیث الگ الگ ہیں۔

باقی تشبیہ ایک چیز کے ساتھ دینے سے چیز ایک نہیں بن جاتی۔ دیکھیں کوئی کہتا ہے کپڑا دودھ کی طرح سفید ہے۔ بطخ دودھ کی طرح سفید ہے۔ دانت دودھ کی طرح سفید ہیں۔ گائے دودھ کی طرح سفید ہے۔ بال دودھ کی طرح سفید ہیں۔ اب کپڑا ،  بطخ، دانت، گائے، بال پانچ چیزیں مشبہ ہیں ، دودھ مشبہ بہٰ ہے یعنی  پانچ چیزوں کو صرف دودھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اب کون عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ بطخ اور گائے یا بال اور دانت ایک شے ہیں کیونکہ تشبیہ صرف ایک چیز سے دی گئی ہے۔ اب اگر عندالسلام والے اشارے اور رکوع کے رفع یدین کو مست گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے تو دونوں حدیثیں ایک کیسے ہو گئیں اور دونوں عمل ایک کیسے ہو گئے۔

 

اعتراض نمبر 5 = امام بخاری علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جو بھی اس حدیث سے  ترکِ رفع یدین پر استدلال کرتا ہے اس کا علم میں کوئی حصہ نہیں۔

جواب: اولاً تو اعتراض نمبر 3 کے تحت امام نووی علیہ رحمہ کا ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ:

  • امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}

اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث کے معنی کے اعتبار سے فقہاء کو ترجیح حاصل ہے نہ کہ محدثین کو جیسا کہامام ترمذی فرماتے ہیں کہ ” الفقھاء ھم اْعلم بمعانی الحدیث ” یعنی فقہاء معنی حدیث محدثین سے زیادہ جانتے ہیں۔ [سنن الترمذی: ج 1، ص 193، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت]…۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا امام اعظم ابوحنیفہ و سفیان ثوری و مالک و ابن ابی لیلیٰ جیسے امام اور فقہاء  کو اس جملے کے تحت جاہل اور بے علم مان لیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔

اگر اس قسم کی باتیں ہی ماننی ہیں تو امام مسلم علیہ رحمہ جو کہ امام بخاری علیہ رحمہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنے استاد امام بخاری علیہ  رحمہ کو منتحل الحدیث یعنی صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں۔ یعنی حدیث میں ان کا دعویٰ تو ہے مگر وہ بات نہیں جو درحقیقت مشہور ہے۔ ادھر امام بخاری علیہ رحمہ لوگوں کو بے علم کہتے ہیں ادھر ان کے اپنے ہی شاگرد ان کو صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں اور حدیہ سے گویا بے علم کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر امام مسلم کی اپنے استاد سے اور کیا ناراضگی ہو گی؟ باوجود شاگرد ہونے کے پوری مسلم شریف میں اپنے استاد سے ایک بھی حدیث نہیں لائے۔

بات کا مقصد یہ ہے کہ  ایسی  غیر عالمانہ باتیں  بڑے بڑے علماء سے ہو جایا کرتی ہیں۔ جیسے امام بخاری علیہ رحمہ کو ایسی کسی بات سے فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح ترک رفع یدین پر اس حدیث کو پیش کرنے والوں پر امام بخاری کی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

اعتراض نمبر 6 = اگر اس حدیث کو ترک رفع پر مان بھی لیا جائے تو حنفی پھر وتر اور عیدین کی رفع یدین کیوں کرتے ہیں، انہیں وہ بھی چھوڑ دینی چاہئیں، کیونکہ وہ بھی فی الصلوٰۃ  یعنی نماز کے اندر کی رفع یدین ہیں۔

جواب: اس حدیث سے ہمارا استدلال کس کس طرح سے ہے یہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔

  • ہمارا استدلال سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفل نماز پڑھ رہے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں باہر سے تشریف لائے [خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم]۔ اگر یہ عیدین کی نماز ہوتی تو  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جماعت کروا رہے ہوتے۔ یہ تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ نمازِ عیدین جماعت سے ہوتی ہیں اس کے تو وہ بھی قائل نہیں کہ نمازِ عیدین انفرادی پڑھی جائے۔ تو یہ محال ہے کہ عیدین ہو رہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں شریک نہ ہوں اور یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے بغیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جماعت کروانی شروع کر دی ہو۔ پس یہ  مان لیا جائے کہ یہ عیدین کی نماز تھی تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ نمازِ عید قضاء ہو گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتایا بھی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعد میں تشریف لائے۔ اسی طرح اگر وتر کی نماز مانا جائے تو بھی عشاء کی نماز کی جماعت کا مسئلہ اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی جماعت سے رہ گئے اور بعد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام نے انتظار بھی نہیں کیا اور خود جماعت کروا لی اور وتر بھی پڑھنے لگے تب جا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے۔ یہ محال ہے کیونکہ صحابہ کرام تو نبی پاک علیہ صلوٰۃ والسلام کا عشاء میں اتنا انتظار فرماتے تھے کہ انہیں نیند آنے لگتی۔
  • دوسری بات یہ ہے کہ عام نمازوں اور عیدین و وتر میں فرق ہے۔ جب بھی احکامِ عیدین و وتر آتے ہیں ساتھ واضح لفظ عید یا وتر موجود ہوتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں عام نماز کا عمومی لفظ ہے، پس اصول کے لحاظ سے خصوص کو عموم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، پس یہ قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
  • تیسری بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دم فرمایا ہے وہ بغیر ذکر کے رفع یدین ہے، اور عیدین و وتر کا رفع یدین اسی طرح تحریمہ کا رفع یدین ذکر کے ساتھ ہے۔ یعنی رفع یدین کا الگ سے ذکر موجود ہے۔ جب کہ غیر مقلدین عام نمازوں میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بغیر ذکر کے ہے، یعنی رکوع کو جاتے ہیں تو اللہ اکبر کہتے ہیں، پس وہ اللہ اکبر انتقالِ رکوع کا ذکر ہے نہ کہ رفع یدین کا۔ اگر غیر مقلدین کہیں کہ وہ رفع یدین کا ذکر ہے تو پھر رکوع کی طرف انتقال کے وقت کا ذکر کہاں گیا؟ ہمارے وتر و عیدین کے رفع یدین چونکہ مع الذکر ہے تو اس کی تشبیہ گھوڑوں کی دمیں بنتی ہی نہیں، جبکہ غیر مقلدین کا رفع یدین بغیر ذکر کے ہے اس لیے وہ اس تشبیہ پر پورا پورا اترتے ہیں۔ چناچہ احناف کی رفع یدین اذناب خیل نہیں بلکہ  عبادت ہے کیونکہ اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ  اقم الصلوٰۃ لذکری۔ پس یہ رفع یدین جو عیدین و وتر و تحریمہ کا ہے یہ بھی فرق کی وجہ سے الگ ہے اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔٭

۔۔۔۔۔

٭ بشکریہ عبد الرحمن بجرائی شافعی http://tark-e-rafayadain.blogspot.com

 

 

 

 

 

کیا علمائے اہلسنت دیوبند انگریز کے خیر خواہ تھے؟؟

 

                مولانا ساجد خان نقشبندی ﷾

 

اعتراض نمبر۱:

مکالمۃ الصدرین ص۷ میں ہے کہ جمعیت علماء اسلام حکومت کی مالی امداد اور اس کی ایماء پر قائم ہوئی۔

جواب: بریلوی حضرات کا یہ دعوی سرے سے باطل ہے۔

(اولا): اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند کتاب نہیں اگر اس کتاب میں درج شدہ باتیں واقعۃ کوئی مکالمہ تھا تواس پر فریقین کے سربراہوں کے دستخط ہونے چاہئے تھے۔جب کہ اس پر نہ تو حضرت مولانا مدنیؒ  کے دستخط ہیں اور نہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ  کے۔اصل حقیقت اس کی فقط اتنی ہے کہ نظریہ قومیت کے اختلاف کے دنوں میں جمعیۃ علماٗ ھند کے ارکان کا ایک وفد حضرت شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی صاحبؒ  کی تیمار داری کیلئے ان کے مکان پر حاضر ہوا۔اس ملاقات میں چند ایک اختلافی مسائل بھی زیر بحث آئے۔ارکان جمعیہ اور حضرت علامہؒ  کے سوا اس مجلس میں کوئی اور شخص موجود نہ تھا ۔جمعیۃ علمائے ہند کے مخالفین کو جب اس ملاقات کا علم ہوا تو ان بزرگوں کا آپس میں مل بیٹھنا سخت ناگوار گزرا۔چنانچہ ان مخالفین نے بتوسط مولوی محمد طاہر صاحب حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحبؒ  کی شخصیت کو استعمال کر کے ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ ان بزرگوں کو دوبارہ آپس میں مل بیٹھنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔مولوی محمد طاہر صاحب نے کچھ باتیں تو حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ  سے حاصل کیں اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا کر مکالمۃ الصدرین کے نام سے رسال طبع کرا دیا۔اس رسالہ کے غیر مستند ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے مرتب یعنی مولوی محمد طاہر بزرگوں کی اس ملاقات میں سرے سے شریک ہی نہیں تھے چنانچہ حضرت مدنیؒ  فرماتے ہیں کہ:

مگر خود غرض چالاک لوگوں نے نہ معلوم مولانا (عثمانی)کو کیا سمجھایا اور کس قسم کا پروپگینڈا کیا کہ کچھ عرصہ بعد یہ رسالہ مکالمۃ الصدرین شائع کر دیا گیا۔جس میں نہ فریقین کے دستخط ہیں نہ فریق ثانی (اراکین جمعیہ)کو کوئی خبر دی گئی نہ ان میں سے کسی سے تصدیق کرائی گئی۔خود مولانا موصوف کے دستخط بھی نہیں بلکہ مولوی محمد طاہر صاحب کے دستخط ہیں جو اثنائے گفتگو میں موجود تک نہ تھے(کشف حقیقت ص ۸)

ارکان جمعیۃ کو جب اس رسالہ کی اشاعت کا علم ہوا تو عوام کے بے حد اصرار پر حضرت مولانا مدنیؒ  نے ۱۳۶۵ ؁ ھ بمطابق ۱۹۴۶ ؁ء میں کشف حقیقت کے نام سے اس کا جواب لکھا جو دلی پریس پرنٹنگ سے طبع ہوا(یہ کتاب آپ کو ہماری سائٹ اہلحق٭ پر بریلویوں کے رد میں کتابوں کے سیکشن میں مل جائے گی)جن میں انھوں نے اس بات کی صراحت فرمائی کہ رسالہ مذکورہ اس کے مرتب کے ذہن کی اختراع ہے جسے غلط طور پر علامہ عثمانیؒ  کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے چنانچہ حضرت علامہ مدنیؒ  فرماتے ہیں کہ :

مکالمہ مذکورہ مولوی محمد طاہر صاحب ہی کا اثر خامہ اور ان ہی کے فہم و خیالات کا نتیجہ ہے۔اور ہماری باہمی گفتگو کو صرف ان خیالات و افکار کا حیلہ بنایا گیا ہے اور اسی لئے یہ حقیقت سے دور اور کذب و افتراء کا مجموعہ ہے۔(کشف حقیقت ص ۹)

نیز فرماتے ہیں کہ اگر واقع میں یہ تمام تحریر مولانا شبیر احمد عثمانی کی مصدقہ تھی تو مولانا نے اس پر دستخط کیوں نہ فرمائے ؟اور اگر اس میں صداقت اور واقعیت تھی تو قبل اشاعت جمعیت کو دکھایا کیوں نہیں گیا۔(کشف حقیقت ص ۱۰)

۔۔۔۔

٭ مذکورہ ویب سائٹ اہلحق اور مزید ایک ویب، مخالفین کی سازشوں کا شکار ہوچکی ہے(مدیر)

 

یعنی حضرت علامہ عثمانیؒ  کا اس پر دستخط نہ کرنا ہی اس چیز کی دلیل ہے کہ یہ رسالہ ان کا مصدقہ نہیں بلکہ مخالفین نے ان بزرگوں کے درمیان مزید بعد پیدا کرنے کیلئے اس کی نسبت حضرت علامہ عثمانیؒ  کی طرف کر دی۔چنانچہ حضرت مولانا مدنیؒ  اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

چونکہ اس (مکالمۃ الصدرین)کی نسبت علامہ مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کی طرف کی گئی ہے اس لئے اس سے لوگوں کو بہت سے شبہات اور خلجانات پیدا ہوئے اور وہ ہماری طرف رجوع ہوئے۔دیکھنے سے معلوم ہوا کہ بلاشبہ اس میں اکذیب اور غلط بیانیاں ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہماری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی اور بغیر افسوس اور انا للہ و انا الیہ رجعون پڑھنے کے اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا(ایضاً ص ۴)

ان حقائق سے صاف طاہر ہے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند اور مصدقہ کتاب نہیں یہ ایک غیر مستند کتاب ہے تو اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی سرے سے غلط ہے میری تمام بریلوی حضرات سے گزارش ہے کہ خود کشف حقیقت کا مطالعہ کریں جو ہماری سائٹ سے فری میں ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں انشاء اللہ آپ پر تاریخ کے کئی مخفی راز عیاں ہوں گے۔

ثانیاً: یہ بات مولانا حفظ الرحمن صاحب سے نقل کی گئی مکالمۃ الصدرین میں اور مولانا نے خود ان تمام باتوں کی تردید کی ہے کشف حقیقت میں اس تردید کی تفصیل موجود ہے جس میں سے کچھ عبارتیں ہم آئندہ پیش کریں گے ۔پس جب کتاب غیر مستند اس کی راوی کی تردید موجود تو ایسے حوالے سے استدلال کرنا سوائے دل ماؤف٭ کو تسکین دینا نہیں تو اور کیا ہے۔

۔۔۔۔۔

٭ دماغِ ماؤف کی ترکیب کی جگہ دلِ ماؤف کی ترکیب مصنف نے خوب وضع کی ہے، جو مخالفین کی حالتِ زار پر فٹ بھی ہوتی ہے۔(مدیر)

 

ثالثا: خود مکالمۃ الصدرین کے آگے والے صفحہ میں یہ عبارت موجود ہے کہ انگریز کی طرف سے یہ نوٹ لکھا گیا کہ

ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئندہ کیلئے امداد بند ہو گئی۔(مکالمۃ الصدرین، ص۸)

پس اگر جمعیت علمائے اسلام انگریز حکومت کی حمایت یافتہ تھی اور اس کی پشت پناہی حاصل تھی تو انگریز نے یہ حمایت اور یہ امداد بند کیوں کر دی ۔۔ ؟؟؟اور کیوں یہ کہا کہ ایسے انجمنوں پر پیسہ لگانا فضول ہے۔

اس سے آپ حضرات ’’سابقہ دیوبندی کلین شیو‘‘ خلیل رانا صاحب کے دجل و فریب کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

باقی رہا جمعیت علمائے ہند کا انگریز کے خلاف جدوجہد تو الحمد للہ اس پر اب تک پوری پوری کتابیں لکھی جاچکی ہیں اس جماعت کو ایسے اکابرین بھی ملے جنھوں نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگیاں جیلوں میں گزار دیں میں یہاں صرف ایک حوالہ پیش کرتا ہوں:

جمعیت علمائے ہند کے ۱۹۲۰ کے اجلاس میں جو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں ہوا انگریز کے خلاف یہ فتوی صادر کیا گیا:

مسلمانوں کیلئے ایسی ملازمت جس میں دشمنان اسلام (انگریز)کی اعانت و امداد ہو اور اپنے بھائیوں کو قتل کرنا پڑے قطعاً حرام ہیں۔

اس فتوے پر چار سو چوہتر علماء نے دستخط کئے اور اسی فتوے کے بعد تحریک ترک موالات شروع ہوئی ۱۹۲۱ میں جمعیت کا یہ فتوی ضبط کر لیا گیا مگر جمعیت نے قانون شکنی کر کے بار بار اس کو شائع کیا ۔اور اسی تحریک میں حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ’’اسیر مالٹا‘‘ ہوئے ۔ غور فرمائیں انگریز کی روٹیوں پر پلنے والے اس طرح ہوتے ہیں؟؟۔اگر یہ لوگ بھی انگریز کی جوتیاں چاٹنے والے ہوتے تو جیلیں آباد کرنے کے بجائے احمد رضا خان کی طرح ساری زندگی ’’بریلی ‘‘ کے ایک حجرے میں بیٹھ کر ہر اس تحریک پر کفر کا فتوی لگاتے جو انگریز کی مخالفت پر کمر بستہ ہو۔

 

اعتراض نمبر۲:

تبلیغی جماعت کو بھی ابتداء میں حاجی رشید احمد کے ذریعہ حکومت سے کچھ روپیہ ملتا۔مکالمۃ الصدرین، ص۸۔

جواب:اس سے بھی فریق مخالف کو کوئی فائدہ نہیں

اولاً: اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کی حقیقت پہلے بیان ہو چکی ہے وہ غیر معتبر کتاب ہے لہٰذا اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی درست نہیں ۔

ثانیاً: یہ روایت بھی مولانا حفظ الرحمن کے حوالے سے ہے اور مولانا نے خود اس کی پر زور تردید کی ہے:

چنانچہ کشف حقیقت ص۴۲ میں یہ عنوان ہے مولانا حفظ الرحمن صاحب کا بیان اور پھر ص۴۴ میں مکالمۃ الصدرین کے حوالے سے لکھا کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولا نا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد صاحب کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہو گیا مکالمۃ الصدرین اس کا جواب حضرت حفظ الرحمن سیوہارویؒ  ناظم جمعیۃ علماء ہند یہ دیتے ہیں :

وکفی باللہ شھیدااس کا ایک ایک حرف افتراء اور بہتان ہے میں نے ہر گز ہر گز یہ کلمات نہیں کہے اور نہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے سبحانک ھذا بہتان عظیم۔بلکہ مرتب صاحب (مولوی محمد طاہر مسلم لیگی)نے اپنی روانی طبع سے اس کو گھڑ کر اس لئے میری جانب منسوب کرنا ضروری سمجھاکہ اس کے ذریعہ سے حضرت مولانا الیاس صاحب کی تحریک سے والہانہ شغف رکھنے والے ان مخلصوں کو بھی جمعیۃ علماء ہند سے برہم اور متنفر کرنے کی ناکام سعی کریں جو جمعیۃ علماء ہند کے اکابر و رفقاء کار کے ساتھ بھی مخلصانہ عقیدت اور تعلق رکھتے ہیں اب یہ قارئین کرام کا اپنا فرض ہے کہ وہ اس تحریر کو صحیح قرار دیں جس کی بنیاد شرعی اور اختلافی احساسات کو نظر انداز کر کے محض جھوٹے پروپگینڈے پر قائم کی گئی ہے یا اس سلسلہ میں میری گزارش اور تردید پر یقین فرمائیں البتہ میں مرتب صاحب کی اس بے جا جسارت کے متعلق اس سے اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں والی اللہ المشتکی واللہ بصیر بالعباد۔انتھی بلفظہ کشف حقیقت ص۴۴، ۴۵۔

ایسی واضح اور صریح تردید کی موجودگی میں تبلیغی جماعت کو سرکار برطانیہ کا ہمدرد اور نمک خوار ثابت کرنا کہاں کا انصاف و دیانت ہے ؟سچ کہا

نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ثالثاً: اس لئے کہ فریق مخالف نے عبارت نقل کرنے میں بھی دجل سے کام لیا ہے اور پوری عبارت نقل نہیں کی جواس طرح ہے کہ :

اس ضمن میں مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد کچھ روپیہ ملتا تھا۔پھر بند ہو گیا۔ص۸۔

خلیل رانا صاحب نے اپنے اعلیٰ حضرت اور دیگر اکابر کا روایتی طریقہ واردات اختیار کرتے ہوئے آخری خط کشیدہ جملہ حذف کر دیا ہے یہ جملہ باقی رہتا اور حذف نہ کیا جاتا تو ہر قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا کہ:

(۱) اگر تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال ہو رہی تھی تو یہ روپیہ بند کیوں کر دیا گیا؟اس روپیہ کا بند ہو جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال نہ ہوسکی اور انگریز کواس کی توقع بھی نہ تھی ورنہ رقم کبھی بند نہ ہوتی رقم کا بند ہو جانا اور بند کر دینا ہی اس کی روشن دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت انگریز کیلئے آلہ کار نہیں بنی اور بفضلہ تعالی پہلے سے اب جماعت تمام دنیا میں زیادہ عروج پر ہے اور ان ملکوں اور علاقوں میں بھی کام کر رہی ہے جو انگریزوں کے سخت مخالف ہے۔

(۲) انگریز کچھ لوگوں اور بعض انجمنوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے ابتداء کچھ رقمیں دیا کرتا تھا پھر بند کر دیں۔۔چنانچہ مذکورہ بالا عبارت سے متصل ہی یہ عبارت بھی مذکور ہے کہ (ایک سرکاری ہندو افسر نے)گورنمنٹ کو نوٹ لکھا جس میں دکھلایا گیا کہ ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئندہ کیلئے امداد بند ہو گئی۔

اس سرکاری افسر کے بیان سے بالکل عیاں ہو گیا کہ جن لوگوں اور انجمنوں کو جال میں پھنسانے کیلئے انگریز کچھ رقمیں دیا کرتا تھا وہ بند کر دی گئی تھیں کیونکہ ان میں رقمیں صرف کرنا بالکل بے کار تھا اس لئے کہ ان سے انگریز کے حامی ہونے کی قطعاً کوئی توقع نہ تھی ۔جو بزبان حال یوں گویا ہے

ہزار دام سے نکلا ہوں کہ ایک جنبش سے

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

الفضل ما شھدت بہ الاعداء

تبلیغی جماعت کے متعلق بریلویوں کے روحانی پیشوا نظام الدین مرولوی صاحب فرماتے ہیں کہ:

تبلیغی جماعت کی کوششیں بے حد مخلصانہ ہیں لیکن اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہو رہے ہیں۔(ھو المعظم، ص۷۲)

اس کے نتائج خاطر خواہ کیسے ظاہر ہوں (بقول نظام الدین مرولوی صاحب کے) جبکہ بریلوی حضرات کی طرف سے اس کی مخالفت کی سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں ان کے بستروں کو مسجدوں سے باہر پھینک دیا جاتا ہے خود تو کبھی گھروں سے نکلنے کی توفیق نہ ہو اور تبلیغی جماعت جنھوں نے لاکھوں انگریزوں کو مسلمان کیا پر انگریز کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جائے ان کو وہابی کہہ کر بدنام کیا جائے۔

اعتراض نمبر ۳:

حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو ۶۰۰ روپے انگریز سے ملتے تھے ملاحظۃ مکالمۃ الصدرین اس امر کی تردید خود حضرت تھانوی صاحب بھی نہ کرسکے ملاحظہ ہو الاضافات الیومیہ ص ۶۹ ج۶۔

جواب:یہ حوالہ بھی فریق مخالف کیلئے سود مند نہیں اس لئے کہ

(اولا) مکالمۃ الصدرین کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے ایسی غیر مستند کتاب پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی جہالت ہے۔

(ثانیا): اگر بالفرض اس مکالمہ کو مصدقہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی بریلوی حضرات کا یہ دعوی کے مکالمہ الصدرین میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مولانا تھانویؒ  انگریز سے چھ سو روپے ماہوار لیا کرتے تھے سراسر دجل اور صریح افتراء ہے کیونکہ مکالمہ میں حضرت علامہ عثمانیؒ  کی اصل عبارت اس طرح منقول ہے فرماتے ہیں کہ:

عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو تو اس قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھئے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ  ہمارے اور آپ کے مسلم بزرگ پیشوا تھے۔ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کو چھ سو روپے ماہوار حکومت کی جانب سے دئے جاتے تھے۔(مکالمۃ الصدرین ص ۹)

اس عبارت میں حضرت عثمانیؒ  صاف لفظوں میں اس الزام کو مخالفین کا سیاسی پروپگینڈا قرار دے رہے ہیں لیکن بریلوی حضرات کا دجل ملاحظہ فرمائیں کہ وہ پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے صفحہ کو ایک مخصوص جگہ سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔فالی اللہ المشتکی۔

(ثالثا): اگر مکالمہ کے حوالے بالفرض سے اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔کیونکہ خود حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس الزام کی تردید موجود ہے ۔چنانچہ جب حکیم الامتؒ  کو جب اس الزام کا علم ہوا تو بڑا حکیمانہ جواب دیا فرمایا:

اگر چھ سو روپے گورنمنٹ سے پاتا ہوں تو طمع ہے خوف نہیں اور اگر طمع کا یہ عالم ہے تو تم نو سو روپے دے کر اپنے موافق کر لو۔اگر قبول کر لوں تو صحیح وگرنہ غلط۔(الاضافات الیومیہ ص ۶۹۸ ج ۴، بحوالہ مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی ص۵۴)۔

جبکہ اس کے مقابلے میں فریق مخالف کے اعلیٰ حضرت کی حکومت انگریز کیلئے وفاداری کا اقرار خود انگریزوں نے کیا ہے ملاحظ ہو:

The mashrik of gorakhpor and albashir usually took note the pro government fatwas of Ahmed raza Khan.(Separatism among india Muslims, page 268).

انگریز مورخ سر فرانسس رابنسن کی کتاب علماء فرنگی محل اینڈ اسلامی کلچر میں مندرجہ ذیل الفاظ میں احمد رضا خان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے:

The actions of One learned man ,the very influentional Ahmed Rada Khan (1855,1921) of barielly, present our conclusion yet more Clearly….at the same time he Support the colonial Government loudly and vigorously through world war I, and through the khilafat Movement when he opposed mahatma Gandhi alliance with the nationalist movement and and non Cooperation with the british.(ulam farange Mehal and Islamic culture page)

Khan ahmed rada of bareilly 37, 37 & 47, 58, 67 and Support for the British 196 (Index , ulma farangi mehal and Islamic Culture page 263(

جبکہ اس کے برخلاف خود انگریز مورخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے راستے میں سب سے سخت رکاوٹ دارالعلوم دیوبند تھا ملاحظہ ہو:

The most Vital School of Ulma in india is the second Half of the nineteenth Century was that centered upon Deoband, the Darul Uloom.(The Muslims or british India, by P. Hardy page 170(

اعلی حضرت اعلی سیرت کے صفحہ ۳۳ اور اسی طرح حیات اعلی حضرت میں یہ بات موجود ہے کہ مولوی احمد رضا خان کے دادا نے گورنمنٹ کی پولیٹیکل خدمات انجام دی جس کے عوض ان کو آٹھ گاؤں جاگیر میں ملے اور ان کے ساتھ آٹھ سو فوجیوں کی بٹالین ہوا کرتی تھی۔

شاہ عبد العزیزؒ  کے فتوے کے خلاف کہ ہندوستان دار الحرب ہے اعلی حضرت نے ہندوستان کے دارلسلام ہونے کا فتوی دیا اس لئے کہ دارالسلام میں جہاد جائز نہیں۔اس کے علاوہ اس مکتبہ فکر نے آزادی کے ہر متوالے پر کفر کے فتوے لگا کر عوام کو ان سے بد ظن کرنے کی کوشش کی۔۱۹۱۴ میں الدلائل القاہرہ علی الکفرۃ النیاشرہ کے نام سے فتوی شائع ہوا جس میں خان صاحب کے علاوہ کئی بریلوی علمائے کے تصدیقات موجود تھے جس میں قائد اعظم کو کافر کہا گیا اور مسلم لیگ سے ہر قسم کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا۔ان کے مولوی حشمت علی نے مسلم لیگ کی زریں بخیہ دری کے نام سے کتاب لکھی جس میں قائد اعظم کو کافر قرار دیا گیا۔مولوی مصطفی رضاخان نے اس زمانے میں مسلمانوں کے دلوں سے کعبہ و مدینہ کی محبت نکالنے کیلئے حج کے ساقط ہونے کا فتوی دیا اور آج بھی بریلوی برملا امام کعبہ اور مدینہ کو کافر لکھتے اور کہتے ہیں ٭مصطفی رضا خان نے ایک کتاب لکھی اس زمانہ میں جو اب نایاب ہے رسالۃ الامارہ والجہاد جس میں انگریز سے جہاد کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ چند مثالیں میں نے دے دی ہے ورنہ ان کی غداریوں سے تاریخ کے صفحات آج بھی بھرے پڑے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے تاریخ آزادی میں کہیں بھی اس گروہ کا نام و نشان نہیں جس کا اعتراف خود مولوی احمد رضا خان کے سوانح نگار کرتے ہیں کہ اور اس کا الزام مورخین پر ڈالتے ہیں کہ انھوں نے محض تعصب کی وجہ سے ہمارے اعلیٰ حضرت کا ذکر کہیں نہیں کیا اور وہابی (یعنی دیوبند) کی خدمات سے ساری تاریخ کو بھر دیا۔

۔۔۔۔۔

٭ اس شقی القلبی پر دل سچ میں روتا ہے۔۔۔حد تو یہ ہے کہ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کرکے ائمہء حرمین کی فحش اور گندی تصاویر سوشل میڈیا پر چسپاں کی جاتی ہیں (مدیر)

 

حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے حوالے سے بھی آپ نے اپنی ’’مخصوص رضاخانیت‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے پوری عبارت اس طرح ہے :

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تحریکات کے زمانہ میں میرے متعلق یہ مشہور کیا گیا تھا کہ چھ سو روپیہ ماہانہ گورنمنٹ سے پاتا ہے ایک شخص نے ایک ایسے ہی مدعی سے کہا کہ اس سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ یہ خوف سے متاثر نہیں لیکن طمع سے متاثر ہے بلکہ خوف سے تو گورنمنٹ ہی متاثر ہوئی چنانچہ تمھیں اور ہمیں سو روپیہ نہیں دیتی تو اب اس کا امتحان یہ ہے کہ تم نو سو روپے دیکر اپنی موافق فتوی لے لو اگر وہ قبول کر لے تو وہ بات صحیح ہے ورنہ وہ بھی جھوٹ ۔(الاضافات الیومیہ، ج۶، ص۱۰۳، ملفوظ نمبر، ۸۸)

غور فرمائیں کس حکیمانہ اور بلیغ انداز میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس الزام کی تردید کر رہے ہیں مگر خلیل رانا صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ تو تردید نہیں بلکہ تصدیق کر رہے ہیں۔۔تف ہے ایسی تحقیق پر اور ایسی دیانت پر…ہم بار بار خلیل رانا صاحب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان حوالہ جات کو کل کو کوئی چیک بھی کرسکتا ہے ۔۔

اعتراض: تھا کون جو انگریز کو کہتا رحمت؟ کس نے کیا گوروں کے وظیفے پر گزارا

جواب: ارے وہی جس کی وفاداری کے گن گاتے انگریز بھی بھائی وہی جن کو سیر کرائی جاتی ہے پینٹاگون کی آج بھی

(روزنامہ وقت لاہور ۱۰ مئی ۲۰۱۰ ؁ء کی خبر کے مطابق بریلوی علماء و مشائخ کو انتہا ء پسندی کے خلاف پینٹاگون میں تربیت دی جائے گی۔)

 

اعتراض نمبر ۴:

مولانا رشید احمد گنگوہی اور قاسم نانوتوی صاحب اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے ۔ملاحظہ ہو تذکرۃ الرشید ج۱ص۷۹۔

جواب:فریق مخالف کا یہ حوالہ بھی بالکل سود مند نہیں اس لئے کہ انھوں نے تو یہ ثابت کرنا تھا کہ حضرت گنگوہی اور حضرت حجۃ الاسلام رحمہمااللہ انگریز کے وفادار تھے اور اس کے خلاف انھوں نے کچھ نہ کہا مذکورہ بالا عبارت مولف تذکرۃ الرشید کی ہے جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں کسی اور کی عبارت کو لیکر کسی اور پر فٹ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔۔؟؟آپ کا یہ ثابت کرنا کہ ان حضرات نے انگریز کی مخالف نہیں کہ قطعاً باطل اور مردود ہے جبکہ خود اسی تذکرۃ الرشید میں یہ حوالے بھی موجود ہیں کہ:

(۱) تینوں حضرات (حاجی امداد اللہ صاحب ، حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ  اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ  )کے نام چو نکہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں اور گرفتار کنندہ کیلئے صلہ (انعام) تجویز ہو چکا تھا اس لئے لوگ تلاش میں ساعی اور حراست کی تگ و دو میں پھرتے تھے۔(تذکرۃ الرشید ، ج۱، ص۷۷)

(۲) روش (پولیس)رامپور پہنچی اور حضرت امام ربانی مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ حکیم ضیاء الدین صاحب کے مکان سے گرفتار ہوئے تخمینے سے یہ زمانہ۱۲۷۵ ؁ ھ کا ختم یا ۱۲۷۶ کا شروع سال ہے (الی قولہ)آپ کے چاروں طرف محافظ پہرہ دار تعینات کر دئے گئے اور بند بیل (بیل گاڑی)میں آپ کو سوار کر کے سہارنپور چلتا کر دیا گیا (الی قولہ)حضرت مولانا سہارنوپر پہنچتے ہی جیل خانہ بھیج دئے گئے اور حوالات میں بند ہو کر جنگی پہرہ کی نگرانی میں دے دئے گئے۔(تذکرۃ الرشید ، ج۱، ص۸۲)

(۳) حضرت مولانا تین یا چار یوم کال کوٹھری میں اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے تحقیقات پر تحقیقات اور پیش پر پیشی ہوتی رہی آخر عدالت سے حکم ہوا کہ تھانہ بھون کا قصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے چنانچہ امام ربانی جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرہ میں براہ دیوبند دو پڑاؤ کر کے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور اب یہاں کے جیل خانہ میں بند کر دئے گئے ۔(الی قولہ)مظفر نگر کے جیل خانہ میں حضرت کو کم و بیش چھ ماہ رہنے کا اتفاق ہوا اس اثناء میں آپ کی استقامت ، جوانمردی ، استقلال کی پختگی ، توکل، رضا، تدین، اتقاء، شجاعت، ہمت، اور سب پر طرہ حق تعالی کی اطاعت و محبت جو آپ کی رگ رگ میں سرایت کئے ہوئے تھی اس درجہ حیرت انگیز ثابت ہوئیں کہ جن کی نظیر نہیں نظر ملتی۔(تذکرۃ الرشید، ج۱، ص۸۴)

(۴) حضرت امام ربانی قطب الارشاد مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ کو اس سلسلہ میں امتحان کا بڑا مرحلہ طے کرنا تھا اس لئے گرفتار ہوئے اور چھ مہینے حوالہ جات میں بھی رہے ۔(تذکرۃ الرشید، ج۱، ص۷۹)

ان تمام واضح حوالوں سے حضرت مولانا گنگوہی اور ان کے رفقاء کا گرفتار ہونا جنگی حراست میں رہنا حوالہ جات اور کال کوٹھریوں کا آباد کرنا اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا روز روشن کی طرح واضح ہے اور ہمارا مدعی بھی یہی ہے۔غرض ان کو انگریز کا وفادار ثابت کرنا تاریخ کو مسخ کرنا ہے اور خلیل رانا صاحب نے جو مجمل اور مبہم حوالہ دیا ہے اس سے ان کا مدعی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا یہ مجمل عبارت صرف اس کا مصداق ہے

تم جو دیتے ہو نوشتہ وہ نوشتہ کیا ہے

جس میں ایک حرف وفا بھی کہیں مذکور نہیں

لفظ ’’سرکار‘‘ کا اطلاق رب تعالی (حقیقی سرکار) پر بھی ہوتا ہے

اصل میں فریق مخالف کو اس عبارت میں لفظ ’’مہربان سرکار‘‘ سے مغالطہ ہوا ہے حالانکہ یہ لفظ دیگر متعدد معنوں کے علاوہ مالک حقیقی آقا اور ولی نعمت پر بھی صادق آتا ہے چنانچہ فرہنگ آصفیہ ج۳ ص ۷۰ میں سرکار کے معنی سردار، میر، پیشوا، رئیس ، آقا، ولی نعمت اور والی وغیرہ کے کئے گئے ہیں۔

اور پھر ’’مولف تذکرۃ الرشید‘‘جس طرح لفظ سرکار کا انگریز پر اطلاق کرتے ہیں اسی طرح ’’اللہ تعالی ‘‘ پر بھی اس کا اطلاق کرتے ہیں۔چنانچہ وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے سہارنپور جیل سے مظفر نگر منتقل کرنے کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

سنا ہے کہ دیوبند کے قریب سے گذرنے پر مولانا قاسم العلوم نظر براہ راستہ سے کچھ ہٹ کر بغرض ملاقات پہلے سے آ کھڑے ہوئے تھے گو خود بھی مخدوش حالت میں تھے مگر بیتابیِ شوق نے اس وقت چھپنے نہ دیا اور دور ہی دور سے سلام ہوئے ایک نے دوسرے کو دیکھا مسکرائے اور اشاروں ہی اشاروں میں خدائے تعالی کے وہ وعدے یاد دلائے جو سچے سرکاری خیرخواہوں اور امتحانی مصیبتوں پر صبر و استقلال کرنے والوں کیلئے انجام کار ودیعت رکھے گئے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ، ج۱، ص۸۴)

بالکل واضح امر ہے کہ یہ وعدے اللہ تعالی کے واللہ مع الصبرین ، و ان جندنا لھم الغلبون ، انا لننصررسلنا والذین امنوافی الحیوۃ الدنیا اور فان حزب اللہ ھم الغلبون وغیرہ کلمات جو قرآن کریم میں موجود ہیں ۔۔سچی سرکار ، آقائے حقیقی اور مالک الملک کے مخلص بندوں کیلئے ہیں جو امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔یہاں سرکار کے لفظ سے اللہ تعالی ہی کی ذات مقدسہ مراد ہے۔

 

اعتراض نمبر ۵:

حافظ ضامن ، قاسم نانوتوی ، رشید گنگوہی انگریز کی حمایت میں لڑے اور اور حافظ ضامن ’’شہید‘‘ ہو گئے۔تذکرۃ الرشید، ج۱، ص۷۴، ۷۵

جواب: لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔خلیل رانا صاحب اتنا صریح دھوکہ ۔۔ہم نے یہ صفحہ بار بار چیک کیا اور کہیں ہمیں یہ عبارت نہیں ملی ٭کہ حافظ ضامن صاحب انگریز کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تاریخ کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ ان کی شہادت شاملی کے میدان میں انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے ہوئی۔۔مگر آپ کس طرح خدا خوفی سے بے پرواہ ہو کر جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔۔جن صفحات کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں بھی اسی شاملی کے معرکہ کا ذکر ہو رہا ہے ۔آپ میں اگر ذرا بھی انصاف و دیانت کا مادہ ہے تو جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس کتاب کا اصل عکسی حوالہ دے کر بعینہ ثابت کریں ورنہ

لعنۃ اللہ علی الکاذبین  کا وظیفہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں۔

۔۔۔۔۔

سنتِ اعلیٰ حضرت ہے(مدیر)

 

۱۸۵۷ کی جنگ آزادی حضرت حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں لڑی گئی اور شاملی کے میدان پر قبضہ کر لیا گیا جو ایک ماہ تک رہا ۔

* حاجی امداد اللہ صاحب کو امام ، مولانا قاسم نانوتویؒ  کو سپہ سالار افواج مولانا رشید احمد گنگوہیؒ  کو قاضی ، مولانا محمد منیر نانوتویؒ  اور حافظ محمد ضامنؒ  کو میمنہ اور میسرہ کے افسر مقرر کئے گئے۔(سوانح قاسمی ، ج۲، ص۱۲۷)

* اس معرکہ میں حافظ محمد ضامن شید ہوئے حضرت حاجی صاحب اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کر گئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ  روپوش ہو گئے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ  گرفتار کر لئے گئے۔مولانا گنگوہیؒ  کو سہارنپور کی جیل میں قید کر دیا گیا ۔تین چار یوم کال کوٹھری میں رہے اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے ۔آخر عدالت سے حکم ہوا تھانہ بھون کا قصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے ۔چنانچہ جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرے میں براستہ دیوبند چند پڑاؤ کر کے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور حوالات کے اندر بند کرئے گئے چھ ماہ قید رہے آخر چھوڑ دئے گئے۔(ایسٹ انڈیا کمپنی کے باغی علماء ، ص۱۱۳، از مفتی انتظام اللہ شہابی)۔

جناب پروفیسر محمد ایو ب صاحب قادری مرحوم لکھتے ہیں کہ

* اسی (۱۸۵۷ کی جنگ آزادی ) میں حافظ محمد ضامنؒ  صاحب کو گولی لگی اور وہ شہید ہو گئے آخر میں مجاہدین کے پاؤں بھی اکھڑ گئے انگریزوں نے قبضہ کرنے کے بعد تھانہ بھون کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔(جنگ آزادی ، ص۱۸۱)

نوٹ:پروفیسر ایوب قادری بریلوی حضرات کے ہاں بھی مستند مانے جاتے ہیں عبد الحکیم شرف قادری نے اپنی کتاب پر ان سے تقریظ لکھوائی اور ان کے انتقال پر اظہار غم بھی کیا۔

غرض یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت حافظ ضامن صاحب انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے شاملی کے میدان میں شہید ہوئے مگر فریق مخالف کا سوء ظن دیوبند دشمنی ملاحظہ ہو کہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے بھی کچھ حیاء نہیں۔ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ خلیل رانا صاحب یہ تمام حوالے کسی بریلوی ملاں کے رسالے سے ہی کاپی پیسٹ کرتے ہیں اس لئے کہ ظاہر ہے کہ بندہ ایک دو حوالوں میں چلو دھوکہ دہی کر دے مگر ان کا ہر حوالہ دجل و فریب کا شاہکار ہوتا ہے ۔پہلے تو ہم ان کو ان کی داڑھی کا واسطہ دیتے کہ چہرے پرسجائی اس سنت رسول ﷺ سے ہی شرما جاؤ مگر ان کی تو داڑھی بھی نہیں واسطہ دیں بھی تو کس کا…؟؟؟

اب آخر میں ہم فریق مخالف سے سوال کرتے ہیں کہ شاہ صاحب اور ان کی تحریک کے لوگ تو تھے ہی بقول آپ کے وہابی تھے، معاذاللہ ، اللہ و رسولﷺ اور تمام مسلمانوں کے دشمن تھے ، اسلام کے بد خواہ تھے مگر آپ کے روحانی دادا حضور مولوی نقی علی۱۸۵۷ء ؁ کی جنگ آزادی میں کہاں تھے ؟ ان کو بھی چھوڑئے آپ کے روحانی ابا حضور مولوی احمد رضا خان جو بزعم خویش پورے ہندوستان میں واحد مسلمان اور اسلام کے خیر خواہ تھے، انہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کے کتنے فتوے دیے۔؟؟؟؟؟؟؟

٭٭٭

 

 

 

 

رد فتنہ انکارِ حدیث

منکرینِ حدیث سے چند سوالات

 

 

اسلام مکمل دین ہے۔

قرآن مجید رہتی دنیا تک ہمیشہ کے لیے دین اسلام کے کامل ہونے کا اعلان فرمایا ہے، چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہے

الْیوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیكُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کر دیا، اور میں نے تمہارے  لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا، (سورہ المائدہ 5 آیت 3)

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام کامل دین ہے، ہم منکرینِ حدیث سے سوال کرتے ہیں کہ جب دین کامل ہے اور تمہارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول فعل حجت نہیں ہے( جسے حدیث کہتے ہیں) تو تم پورا دین قرآن سے ثابت کرو۔

1.قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے، بتاؤ قرآن کی کون سی آیت میں نماز کی رکعتوں کی تعداد بتائی ہے، اور رکوع اور سجدہ میں پڑھنے کو کیا بتایا ہے، نماز میں نظر کہاں رہے، ہاتھ کہاں رہیں یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔

  1. اسی طرح قرآن مجید میں جگہ جگہ زکوٰۃ دینے کا ذکر ہے، زکوٰۃ کتنی فرض ہے؟ کس مال میں فرض ہے؟ کتنے کتنے دنوں یا مہینوں کے فصل سے دی جائے، درمیان میں جو مال آئے اس کی زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ یہ سب امور قرآن سے ثابت کریں۔

3.قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز کو کھڑے ہو تو ہاتھ پاؤں منہ دھو لو اور سر کا مسح کرو (سورہ المائدہ 5 آیت 6)۔ اس کو عوام و خواص سب وضو کہتے ہیں۔ اور احادیث شریفہ میں اس کا یہی نام وارد ہوا ہے۔ اس وضو کے توڑنے والی کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب قرآن سے دیں۔

  1. قرآن مجید میں حج و عمرہ کے پورا کرنے کا حکم ہے(سورہ بقرہ آیت 196)، حج کیسے ہوتا ہے؟ کیا کیا کام کرنے پڑتے ہیں؟ کن کن تاریخوں میں کیا عمل ہوتا ہے؟ اس کے کتنے فرائض ہیں؟ احرام کس طرح باندھا جاتا ہے؟ اس کے کیا لوازم ہیں؟کیا ممنوعات ہیں؟ یہ سب قرآن شریف سے ثابت کریں۔
  2. عمرہ میں کیا کیا افعال ہیں؟ اور اس کا اتمام کس طرح ہوتا ہے؟ وہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
  3. سورہ توبہ میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے(آیت 84) نمازِ جنازہ کس طرح پڑھی جائے؟ اس کا طریقہ ادا کیا ہے؟ یہ سب قرآن مجید سے ثابت کریں۔ نیز ساتھ ہی کفن دفن کا طریقہ بھی قرآن سے ثابت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ میت کو غسل دیا جائے یا نہیں اور اگر دیا جائے تو کس طرح دیا جائے؟ ان سب امور کے بارے میں آیاتِ قرآنیہ میں کہاں کہاں ہدایات مذکور ہیں؟
  4. نکاح انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔ انعقادِ نکاح کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
  5. قرآن مجید میں دیت(خون بہا) کا ذکر ہے(سورہ النساء آیت 92) قرآن مجید سے ثابت کریں کہ ایک جان کی دیت کتنی ہے؟ اور مختلف اعضا کی دیت کتنی ہے؟ اور مرد و عورت کی دیت میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
  6. سارق اور سارقہ(چور اور چورنی) کے ہاتھ کاٹنے کا قرآن مجید میں حکم ہے(سورہ المائدہ آیت 38)قرآن سے ثابت کریں کہ ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟(یاد رہے کہ عربی میں ید انگلیوں سے لے کر بغل تک پورے ہاتھ پو بولا جاتا ہے) اور کتنا مال چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے، کیا ایک چنا اور ایک لاکھ روپے چرانے کا ایک ہی حکم ہے؟ پھر اگر دوسری بار چوری کر لی تو کیا کیا جائے؟ ان سب امور کا جواب قرآن مجید سے دیں۔

10.قرآن مجید میں زانی اور زانیہ کو ماۃ جلد(سو ضرب) مارنے کا حکم دیا ہے(سورہ النور آیت 2)۔ یہ ضرب کس چیز سے ہو؟ متفرق ہو یا بیک وقت متواتر ہو؟ یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔

منکرینِ حدیث ان سوالات کے جوابات قرآن سے دیں اور یہ یقین ہے کہ وہ جوابات قرآن سے نہیں دے سکتے، لہذا یہ اقرار کریں کہ دین اسلام کو جو قرآن نے کامل بتایا یہ اسی طرح سے ہے۔ کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور یہ بھی تسلیم کر لیں کہ قرآن مجید پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے بگیر عمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی اقرار کریں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں۔

اور یہ بھی اقرار کریں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات محفوظ ہیں۔ اگر وہ ہم تک نہ پہونچے ہوں تو  اب قرآن پر عمل ہونے کا کوئی راستہ نہیں رہتا اگر اس وقت قرآن پر عمل نہیں ہوسکتا تو قران دوامی کتاب نہ رہی(العیاذ باللہ)

اور اگر حدیث کو حجت نہیں مانتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف قرآن سے دین کیسے کامل ہوا؟ قرآن مجید کا اعلان ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے اور بے شمار احکام ہیں جو قرآن میں نہیں۔ اور جو احکام قرآن میں مذکور ہیں وہ مجمل ہیں۔ بغیر تشریح اور تفسیر کے ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی دشمن یہ سوال کر لے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ دین اسلام کامل ہے لیکن اس میں تو نماز کی رکعتوں کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اور حج کا طریقہ بھی نہیں بتایا وقوفِ عرفات کی تاریخ بھی نہیں بتائی۔ دیت کی مقدار بھی نہیں بتائی وغیرہ وغیرہ تو پھر کیسے کامل ہوا۔ اس سوال کا جواب ملحدو اور منکرو تمہارے پاس کیا ہے؟ کیا انکارِ حدیث کے گمراہانہ دعوے کی پچ میں دین اسلام کو ناقص مان لو گے؟٭

۔۔۔۔۔۔

٭ بشکریہ دفاعِ اسلام بلاگ

 

 

 

 

 

اِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حِکْمَةً

بلا شبہ کتنی ہی شاعری حکمت و دانائی سے لبریز ہوتی ہے۔(صحیح بخاری، جلد سوم:حدیث نمبر 1098 حدیث متواتر و مرفوع)

 

کشمکش

 

                تعزیر بستوی

 

میری رگ رگ میں خدا تو نے شرارے بھر کر

حکم صادر یہ کیا آگ نہ لگنے پائے

ایک سے ایک حسیں چیز بنا کر یہ کہا

خواہشِ نفس کبھی دل میں نہ جگنے پائے

 

میں فرشتہ  نہ پیمبر نہ صحابی کوئی

اکثر و بیشتر راہوں سے بھٹک جاتا ہوں

ایک سوکھی ہوئی لکڑی سی حقیقت میری

شعلہء نفس سے اک پل میں دہک جاتا ہوں

 

دل میں اٹھتی ہے کبھی ہوک عبادت میں کروں

تجھ سے رو رو کے گناہوں کی معافی چاہوں

لغزشِ پا کے سبب دہر کے میخانے میں

جو بھی نقصان ہوا اس کی تلافی چاہوں

 

لب پہ قرآن کی آیات سجائے رکھوں

اپنے کردار کو آئینہ بنائے رکھوں

آندھیاں لاکھ چلیں نفس کے صحراؤں میں

دل میں قندیل تقدس کی جلائے رکھوں

 

ایک دو روز ہی رہتا ہے تقدس لیکن

پھر اسی نفس کے بازار میں کھو جاتا ہوں

محفلِ رقص سجا لیتی ہے دنیا پھر سے

اس کی پازیب کی جھنکار میں کھو جاتا ہوں

 

ایسا کر دے مرے مولا کہ وفادار رہوں

میں سدا تیری محبت میں گرفتار رہوں

٭٭٭

 

 

 

مے فروش

 

                علامہ اقبالؒ

 

فرما رہے تھے شیخ طریقِ عمل پہ وعظ

کفار ہند کے ہیں تجارت میں سخت کوش

مشرک ہیں وہ جو رکھتے ہیں مشرک سے لین دین

لیکن ہماری قوم ہے محروم عقل و ہوش

ناپاک چیز ہوتی ہے کافر کے ہاتھ کی

سن لے، اگر ہے گوش مسلماں کا حق نیوش

اک بادہ کش بھی وعظ کی محفل میں تھا شریک

جس کے لیے نصیحت واعظ تھی بار گوش

کہنے لگا ستم ہے کہ ایسے قیود کی

پابند ہو تجارت سامان خورد و نوش

میں نے کہا کہ آپ کو مشکل نہیں کوئی

ہندوستاں میں ہیں کلہن٭ گو بھی مے فروش

 

قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ یرَاکَ

جبریل ؑ نے پوچھا احسان کی حقیقت بتائیے؟ رسول ﷺ نے فرمایا : احسان کی حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو (تو کم از کم) اتنا یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (صحیح مسلم، جلد اول:حدیث نمبر 96 حدیث متواتر و مرفوع )

 

تصوف و سلوک

 

 نماز میں دل لگانے کا طریقہ

 

                مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

 

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ” کی تصویر ہو۔   (مدیر)

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدہ:۵)

(اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو)

* اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔

* حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ (جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے)

* ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جس کی وجہ سے نبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔

* وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔

* ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اس کے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

 

فضائل وضو

ایک حدیث پاک میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ (وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذریعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔

 

حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ (تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)

اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔

٭ہمیں ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ ان کے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو ان کے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی با وضو گزارو۔ ہمارے گھر کا چھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپ کو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً نیا وضو کر لیتے ہیں۔

٭حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ اپنے مریدین کو تلقین فرماتے تھے کہ ہر وقت با وضو رہنے کی مشق کریں۔ ایک مرتبہ آپ مطبخ میں تشریف لائے تو مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جا چکا تھا۔ آپ نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا ‘فقیرو! ایک بات دل کے کانوں سے سنو، جو کھانا تمہارے سامنے رکھا گیا ہے۔ اس کی فصل جب کاشت کی گئ تو وضو کے ساتھ، پھر جب اس کو پانی لگایا گیا تو وضو کے ساتھ، اس کو کاٹا گیا وضو کے ساتھ، گندم کو بھوسے سے جدا کیا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر گندم کو چکی میں پیس کر آٹا بنایا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر اس آٹے کو گوندھا گیا وضو کے ساتھ، پھر اس کی روٹی پکائی گئ وضو کے ساتھ، وہ روٹی آپ کے سامنے دسترخوان پر رکھی گئ وضو کے ساتھ، کاش کہ آپ لوگ اس کو وضو سے کھا لیتے۔

٭حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا۔ چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا۔ ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نے سپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا۔ درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی۔ سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کر گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا اور پروا ہی نہ کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپ کے خلاف بغاوت کر دے۔ بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے۔ انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی۔ ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے۔

شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا ‘حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی’۔ ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا۔

 

٭فقیر کو ۱۹۷۱ء میں بینائی میں کمزوری محسوس ہوئی۔ لاہور کے مشہور ای پلومر ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو کہا کہ اڑھائی نمبر شیشے کی عینک لگانی ضروری ہے ورنہ بینائی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گی۔ فقیر نے چار ماہ عینک استعمال کی۔ ایک مرتبہ وضو کیلئے بیٹھنے لگا تو عینک گری اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ فقیر نے دعا مانگی کہ یا اللہ! میں تیرے محبوب ﷺ کی مسواک والی سنت پر پابندی سے عمل کروں گا میری بینائی کو تیز فرما۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ بینائی چیک کروائی تو بالکل ٹھیک نکلی۔ تیس سال تک دوبارہ عینک لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔

٭٭

معارف وضو

 

درج ذیل میں وضو سے متعلق چند اسرار و رموز بیان کئے جاتے ہیں۔

 

* وضو کو یکسوئی اور توجہ سے کرنا اعلیٰ مرتبہ کی نماز پڑھنے کا مقدمہ ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو عادتاً غفلت سے وضو کرے مگر نماز حضوری کے ساتھ پڑھے۔ پس معلوم ہوا کہ اہتمام وضو اور حضوری نماز میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

* مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ در حقیقت وضو انفصال عن الخلق (مخلوق سے کٹنا ہے) جبکہ نماز اتصال مع الحق (اللہ تعالیٰ سے جڑنا) ہے۔ جو شخص جس قدر مخلوق سے کٹے گا اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے جڑے گا۔ یہی مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا۔ پس لا الہ کا مقصود یہ ہے کہ مخلوق سے کٹو اور الا اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جڑو۔ ماسوی اللہ سے قلبی تعلق توڑنے کو عربی زبان میں تبتل کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً (المزمل: ۸) (اور اپنے رب کا نام پڑھے جا اور سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف سب چھوڑ کر چلا آ)

* پانی کی خاصیت یہ ہے کہ آگ کو بھجا دیتا ہے۔ لہذا جو شخص وضو کر کے حضوری کے ساتھ نماز ادا کرے گا تو اس شخص کیلئے نماز دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائے گی۔

* وضو میں شش جہات (چھ اطراف) سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ سے دائیں طرف۔ بائیں ہاتھ سے بائیں طرف۔ چہرہ دھونے سے آگے کی طرف۔ گردن کا مسح کرنے سے پیچھے کی طرف۔ سر کا مسح کرنے سے اوپر کی طرف اور پاؤں دھونے سے نیچے کی طرف سے پاکیزگی حاصل ہو گئ۔

* وضو کرنے سے انسان چھ اطراف سے پاکیزہ ہو گیا۔ پس محبوب حقیقی سے ملاقات کی تیاری مکمل ہو گئ۔ جب نماز ادا کرے گا تو اسے ملاقات بھی نصیب ہو جائے گی۔ ارشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ ( تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے) اسی لئے کہا گیا کہ اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤمِنِ (نماز مومن کی معراج ہے) حدیث پاک میں بتایا گیا ہے کہ آدمی جب وضو کرتا ہے تو اعضاء دھلنے کے ساتھ ہی ان سے کئے گئے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ایسا کشف نصیب ہو گیا تھا کہ وہ وضو کے پانی کے ساتھ گناہ کو جھڑتا دیکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے وضو کے مستعمل پانی کو مکروہ کہا۔ ویسے بھی نمازی کو حکم ہے کہ وضو کا پانی کپڑوں پر نہ گرنے دے۔بعض مشائخ کا معمول تھا کہ وضو کے وقت جو لباس زیب تن فرماتے تھے اسے بدل کر نماز ادا فرماتے تھے۔

* شرع شریف میں پاکیزگی اور طہارت کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّا بِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھَّرِیْنَ (البقرہ: ۲۲۲)(بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے)

* توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوئے تو انسان باطنی طور پر پاکیزہ ہو گیا۔ حدیث پاک میں اسی مضمون کو مثال سے سمجھایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر بہتی ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ غسل کرے تو اس کے جسم پر میل کچیل نہیں رہ سکتی۔ جو شخص پانچ مرتبہ اہتمام سے وضو کرے اور حضوری سے نماز ادا کرے اس کے دل پر سیاہی نہیں رہ سکتی۔

* شرع شریف کا حسن و جمال دیکھئے کہ وضو میں سارا جسم دھلانے کے بجائے صرف انہی اعضاء کو دھلوانے پر اکتفا کیا گیا جو اکثر و بیشتر کام کاج میں کھلے رہتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ، پاؤں ، بازو، چہرہ وغیرہ۔ جو اعضاء کم کھلتے ہیں ان کا مسح کروایا گیا مثلاً سر اور گردن۔ جو اعضاء پردے میں رہتے ہیں ان کو مستثنیٰ قرار دیا گیا مثلاً شرمگاہ وغیرہ۔

* وضو میں جن اعضاء کو دھلوایا گیا قیامت کے دن انہی کو نورانی حالت عطا کی جائے گی۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میں امت اپنے اعضاء کی نورانیت سے پہچان لی جائے گی۔

* وضو مین جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے قیامت کے دن ان اعضاء کو عزت و شرافت سے نوازا جائے گا۔ ہاتھوں میں حوض کوثر کا جام عطا کیا جائے گا۔ چہرے کو تر و تازہ بنا دیا جائے گا جیسے فرمایا وُجُوْہٌ یَّوْ مَئِذٍ نَّاعِمَہٌ (اس دن چہرے تر و تازہ ہوں گے) سر کو عرش الٰہی کا سایہ عطا کیا جائے گا۔ حدیث پاک میں آیا ہے یوم لا ظل الا ظل عرشہ ( قیامت کے دن عرش الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا) پاؤں کو پل صراط پر چلتے وقت استقامت عطا کی جائے گی۔

 

وضو میں چند علمی نکات

علمی نکتہ۔ ۱

وضو میں پہلے ہاتھ دھوتے ہیں، کلی کرتے ہیں، ناک میں پانی ڈالتے ہیں پھر چہرہ دھونے کی باری آتی ہے۔ اب ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کا درجہ سنت سے زیادہ ہے تو پھر پہلے چہرہ دھلواتے بعد میں دوسرے کام کرواتے۔ مگر وضو میں سنت عمل کو فرض عمل پر مقدم کیا گیا۔ آخر اس کی کیا حکمت ہے؟

جواب

پانی سے اس وقت وضو کیا جا سکتا ہے جبکہ پانی پاک ہو۔ اگر پانی ہی ناپاک ہو تو وضو ہو گا ہی نہیں۔ پانی کی پاکیزگی کا اندازہ اس کی رنگت ، بو اور ذائقہ سے لگایا جاتا ہے۔ وضو کرنے والا آدمی جب ہاتھ دھوئے گا تو اس کو پانی کی رنگت کا پتہ چل جائے گا، جب کلی کرے گا تو ذائقے کا پتہ چل جائے گا، جب ناک میں پانی ڈالے گا تو بو کا پتہ چل جائے گا۔ جب تینوں طرح سے پاکیزگی کا پتہ چل گیا تو شریعت نے چہرہ دھونے کا حکم دیا تاکہ فرض کامل صورت میں ادا ہو جائے۔

علمی نکتہ۔ ۲

وضو کے اعضاء متعین کرنے میں کیا خصوصیت ہے؟

جواب

حضرت آدمؑ سے شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی بھول ہوئی، وضو کے ذریعے اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئی تاکہ انسان اپنی تمام غلطیوں سے معافی مانگ سکے۔ حضرت آدمؑ نے اپنے ہاتھوں سے شجر ممنوعہ کا پھل توڑا، آنکھوں سے دیکھا، منہ سے کھایا، پتوں کو سر لگا، پاؤں سے اس کی طرف چل کر گئے۔ وضو کرتے وقت اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئی۔ تاکہ انسان اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ سبق بھی دیا گیا کہ اگر میرے حکموں کے مطابق زندگی گزارو گے تو نعمتوں میں پلتے رہو گے، جنت میں جا سکو گے، اور اگر شیطان کی پیروی کرو گے تو نعمتوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے، جنت میں داخلہ نصیب نہ ہو سکے گا۔

علمی نکتہ۔ ۳

وضو میں ہاتھ دھونے سے ابتداء کیوں کی گئی؟

جواب

تاکہ موت کے وقت مال سے ہاتھ دھونے پڑیں گے تو دل کو رنج نہ ہو۔ مزید برآں انسان کے ہاتھ ہی سب سے زیادہ مختلف جگہوں یا چیزوں سے لگتے ہیں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ہاتھوں پر مختلف بیکٹیریا اور جراثیم لگے ہوئے ہوں۔ ہاتھ پہلے دھونے سے وہ گندگی دور ہو جائے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دوسرے اعضاء کو ہاتھوں ہی کی مدد سے دھوتا ہے اگر ہاتھ ہی پاک نہ ہوں تو دوسرے اعضاء کیسے پاک ہوں گے۔ اس لئے وضو میں ہاتھ پہلے دھلوائے گئے باقی اعضاء کو بعد میں دھلوایا گیا۔

علمی نکتہ۔ ۴

وضو میں چار فرض کیوں ہیں؟

جواب

وضو میں چار فرض ہیں۔ دو اعضاء ذرائع علم میں ہیں مثلاً سر اور چہرہ، جبکہ دو اعضاء ذرائع عمل میں سے ہیں مثلاً ہاتھ اور پاؤں۔ ان چاروں کو دھونا فرض قرار دیا گیا۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ تمام سعادتوں کی بنیاد علم پر عمل کرنے میں ہے۔

علمی نکتہ۔ ۵

تیمم میں دو فرض کیوں ہیں؟

جواب

تیمم اس وقت کرتے ہیں جب پانی موجود نہ ہو یا بیماری کا عذر ہو۔ پس عذر کی حالت میں عمل میں تخفیف کی گئ، انسان پر بوجھ کم کر دیا گیا، رخصت مل گئ، عمل کرنے میں آسانی ہو گئ۔ رہی بات یہ کہ چار میں سے کون سے دو چنے گئے۔ تو ایک عضو ذرائع علم میں سے چنا گیا مثلاً چہرہ اور سر میں چہرے کو منتخب کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ سر کا تو پہلے ہی چوتھائی حصہ کا مسح کرتے ہیں جبکہ چہرہ کامل دھلوایا جاتا ہے۔ پس کامل کو ترجیح دی گئی البتہ ذرائع عمل میں سے ہاتھ اور پاؤں میں سے ہاتھوں کو چنا گیا۔ چونکہ ہاتھ پاؤں سے اعلیٰ ہیں۔ شریعت نے کامل اور اعلیٰ اعضاء کو چن لیا۔ بقیہ کا بوجھ کم کر دیا۔

علمی نکتہ۔ ۶

تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟

جواب

وضو میں پہلے ہی چوتھائی سر کا مسح کیا جاتا ہے۔ جب معافی دینی تھی تو پورے سر کا مسح معاف کر دیا گیا۔ ویسے بھی جہلا کی عادت ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت سر پر مٹی ڈالتے ہیں تو تیمم میں سر کا مسح معاف کر دیا گیا تاکہ جہلا کے عمل سے مشابہت نہ ہو۔

عملی نکتہ۔ ۷

تیمم میں ہاتھ اور چہرے کو دوسرے اعضاء پر مقدم کیوں کیا گیا؟

جواب

انسان اکثر گناہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے ذریعے کرتا ہے۔اس لئے ان کا انتخاب ضروری تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن دو اعضاء پر خوف زیادہ ہو گا ۔ ایک چہرے پر کہ گنہگاروں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔

یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْ ہٌ وَّ تَسْوَ دُّ وُجُوْ ہٌ (آل عمران:۱۰۶)

(جس دن سفید ہوں گے بعض چہرے اور سیاہ ہوں گے بعض چہرے)

کفار کے چہرے کالے اور مٹی آلود ہوں گے۔

وُجُوْ ہٌ یَّوْ مَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَ ہٌ ۔ تَرْ ھَقُھَا قَتَرَ ۃٌ ۔ اُو لٰئِکَ ھُمُ الْکَفَرَ ۃُ الْفَجَرَۃ (عبس ۳۰، ۳۱، ۳۲)

(اور کتنے منہ اس دن گرد آلود ہوں گے۔ چڑھی آتی ہے ان پر سیاہی۔ یہ لوگ وہی ہیں جو منکر اور ڈھیٹ ہیں)

دوسرا پل صراط سے گزرتے ہوئے بعض لوگوں کے پاؤں کانپ رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَ اِنَّ مِنْکُمْ اِلَّا وَا رِ دُھَا کَانَ عَلیٰ رَبِّکَ حَتْماً مَّقْضِیِّاً ۔ ثُمَّ نُنِجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا (مریم: ۷۱)

(اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر۔ تیرے رب پر یہ وعدہ لازم اور مقرر ہو چکا۔ بچائیں گے ہم ان کو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اس میں اوندھے گرے ہوئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

صفت احسان اور دیدار الٰہی

 

                قاری  معاذ شاہد ﷾

 

٤

…۔اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ …۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «««« نماز مؤمن کی معراج ہے »»»» اور معراج میں تین چیزیں ہیں :

1 : قرب الہی 2: دیدار الہی   3: ہم کلامی

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تینوں چیزیں معراج میں نصیب ہوئیں … قرب کی انتہاء ، دیدار بھی ، اور اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہو گیا ۔

لیکن مؤمن کی معراج صفت احسان کے ساتھ ہی نصیب ہو گی۔ جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور الحمدلللہ ربّ العلمین کہتا ہے اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے حمدنی عبدی تواس طرح ہم کلام ہو گیا … اور جب سجدہ کرتا ہے تو گویا سر رحمٰن کے قدموں میں رکھ دیا ہے تو قرب بھی نصیب ہو گیا اور نماز میں مؤمن دل کی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اور اس کا دیدار کر رہا ہے اور الفاظ بھی مخاطب حاضر کے ، ایّاکَ نَعبُدُ٭، تیری عبادت جیسے کہ وہ آمنے سامنے ہوں گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے جب یہ تینوں صفات پائی جائیں گی تو مؤمن کی معراج بنے گی اگر ان میں سے ایک چیز بھی نکل گئی ۔جیسے کانک تراہ۔ یعنی رویت کا استحضار نہ ہوا تو مؤمن کی معراج ادھوری ہو گی تو گویا صفت احسان سے خالی نماز پُھسپُھسی اور بے جان ہو گی اور اس پر وہ اثرات مرتب نہ ہوں گے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی نمازوں پر ہوتے تھے ۔

جلد اٹھنے نہ دے سر سجدے سے میرے مولا

اور کچھ دیر مجھے یونہی پڑا رہنے دے

۔۔۔۔۔

٭ بلاشبہ یہ زبردست علمی نکتہ ہے، اور نماز کے خشوع کا بہترین ذریعہ بھی، اللہ تعالی ہم سب کو  نصیب فرمائے۔ (مدیر)

 

ذکر میں صفت احسان

 

٭ شاہ عبدالعزیز( رحمۃ اللہ علیہ) نے فضائل ذکر میں فرمایا کہ روح کا یہ دھیان کہ اللہ دیکھ رہا ہے اسی کو استحضار کہتے ہیں اور دوامِ استحضار کا نام ہی معیت ہے ۔ع

جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

٭ جب بھی ہم ذکر کرنے بیٹھیں تو اللہ تعالی کے اس قول کا استحضار کریں فَاذکُرُونِی اَذکُرکُم …تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور اس حدیث قدسی کا دھیان رکھتے ہوئے ذکر کریں اَنا جَلِیسُ مَن ذَکَرَنِی …۔میں اس کا ہم نشین ہوتا ہوں جو میرا ذکر(یاد) کرتا ہے۔

 

درود پاک میں صفت احسان

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھتے ہوئے اس بات کا استحضار کریں کہ اے اللہ تو بھیج رحمت اور سلامتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اللہ تعالی کی رحمتیں اور سلامتیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتر رہی ہیں اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء اقدس کے ساتھ بیٹھا ہوں اور مجھ پر بھی ان کے چھینٹے پڑ رہے ہیں

نام لیتا ہوں محمد کا زباں سے میں

رحمتیں عرش والے کی مجھ کو گھیر لیتی ہیں

اور جو ان صفات کے ساتھ کثرت سے درود پاک پڑھے گا اللہ تعالی اسے دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور قیامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب فرمائیں گے اور جو ذکر الہی کثرت سے کرے گا اللہ تعالی اسے حلاوت ایمانی نصیب فرمائیں گے …۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ جب میں اللہ کا نام لیتا ہوں تو میرا منہ میٹھا ہو جاتا ہے

اللہ اللہ کیسا پیارا نام ہے

عاشقوں کا مینا اور جام ہے

٥

ذکر میں پانچ چیزیں ہیں اور ان سب میں صفت احسان ضروری ہے

:::1::: اللہ تعالی کی صفات اور بڑائی کے کلمات کا ذکر ، :::2 ::: استغفار ، :::3::: تلاوت قرآن ، ::4::: درود پاک ، :::5::: ہر موقع کی دعا

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ نے مولانا عبد الغنی پھول پُوری کو خواب میں فرمایا کہ میں تمہیں ایسا اللہ اللہ سکھاتا ہوں جس کو سو مرتبہ پڑھو گے تو چوبیس ہزار مرتبہ پڑھنے کا اثر پیدا ہو گا پہلی بار اللہ کرو تو یہ تصور باندھو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے پھر یہ استحضار کرو کہ اب میرے جسم کا بال بال اور رُوّاں رُوّاں اللہ اللہ کر رہا ہے اس کے بعد اس چیز کا استحضار کرو کہ میرے ساتھ کائنات کی ہر ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے ریت کے ذرّے ، پہاڑ ، دریا ، سمندر کی لہریں ، بارش کے قطرے ، درختوں کے پتّے ، میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، اور میرے جسم کا رُوّاں رُوّاں بھی اللہ اللہ کر رہا ہے کائنات کی ہر چیز میرے ساتھ اللہ اللہ کر رہی ہے ، اگر اس تاثر کے ساتھ اللہ کا نام ایک سو مرتبہ لیں گے تو چوبیس ہزار مرتبہ اللہ اللہ کہنے کا تاثر پیدا ہو گا

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو میرے بال بال سے گویا شہد کے سمندر جاری ہو جاتے ہیں اور فرمایا شکّر زیادہ میٹھی ہے کہ شکّر کو پیدا کرنے والا ، ایک اور جگہ فرمایا کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو اللہ تعالی کی طرف سے مجھے وہ لذتیں حاصل ہوتی ہیں کہ تمام دنیا کی زبانیں اس کو بیان کرنے سے عاجز آ جاتی ہیں

نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا

ذکر میں تاثیرِ دورِ جام  ہے

لا الہ الا اللہ کے ذکر میں تین چیزیں ہیں اور اس میں صفت احسان ضروری ہے

1۔دل سے اللہ تعالی کے غیر کو نکالنے کا استحضار یہ استحضار کرنا ہے کہ لا الہ کہنے پر اللہ کا سارا غیر دل سے نکل رہا ہے اور دل سے نشانہ بنا کر اس سے اللہ کے غیر کو باہر کھینچنا ہے اور الا اللہ پر اللہ کی ذات کے دل میں آنے کا استحضار کرنا ہے

نکالو دل سے یاد حسینوں کی اے مجذوب

خدا کے گھر پئے عشقِ بُتاں نہیں ہوتا

2۔ اس حدیث مبارک کا استحضار کرنا ہے لا الہ الا اللہ لیس لہا حجاب دون اللہ، کہ میرے اس لاالہ الااللہ اور اللہ کے درمیان میں کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہے …۔۔ میں تو یہاں ہوں لیکن میری لاالہ الااللہ. اللہ تعالی کے عرش پر اللہ کے پاس ہے اور گویا کہ اللہ سے ملاقات کر رہی ہے میں تو فرش پر ہوں لیکن لاالہ الااللہ کے ذریعے عرش والے سے مل رہا ہوں میں تو یہاں ہوں اور میرے تذکرے عرش پر ہو رہے ہیں اس حدیث قدسی کو سوچتے ہوئے کہ تم مجھے فرش پر یاد کرو میں تمہیں عرش پر یاد کروں گا

غیر سے بالکل ہی اٹھ جائے نظر

تو ہی تو آئے نظر دیکھوں جدھر

3۔اس کا استحضار کہ میری لاالہ الااللہ ۔ اللہ تعالی تک پہنچ رہی ہے اور الااللہ ۔ اللہ کا. نور لیکر میرے دل کے اوپر آ رہی ہے اور اس نور کے طفیل میرا دل جگمگا رہا ہے جسکو اس دعا میں ذکر فرمایا ہے …۔

اللہمَّ جعل فی قلبی نورا ……۔ اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمائیے ۔۔ اور دل سے نکل کر وہ نور کانوں کو آنکھوں کو گوشت پوست کو ہڈیوں کو بال بال کو نورانی کر رہا ہے اور پھر وہ نور مجھے گھیر رہا ہے … اب وہ نور میرے دائیں جانب بھی ہے بائیں جانب بھی اوپر بھی نیچے بھی اور وہ نور مجھے سراپا نور کر رہا ہے ایک مخلوق پر خالق کا نور پڑ رہا ہے … اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سامنے رکھنا ہے اے اللہ تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اور جس سے سب کام بنتے ہیں … اور اس بات کا تصور کرنا ہے کہ اس نور طفیل دل سے حسد کی ظلمت اور اندھیرا ، ، کبر اور بڑائی کا اندھیرا ، خود پسندی اور خود رائی کا اندھیرا ، اور جملہ اعمال بد کے اندھیرے دور ہو رہے ہیں اور دل جگمگا رہا ہے اور اس کے اندر صفات آ رہی ہیں قرآن مجید میں ہے: اللہُ نورُ السموٰتِ والارض ،  اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔۔ اور وہ نور میرے دل میں آ رہا ہے …جس دل میں یہ نور آ جاتا ہے اس دل کے سامنے سورج کی روشنی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔۔ کیونکہ سورج مخلوق ہے اس کی روشنی بھی مخلوق ہے اللہ خالق ہے اس کا نور بھی خالق ہے سورج محدود ہے اس کی روشنی بھی محدود ہے اللہ لا محدود ہے اس کا نور بھی لا محدود ہے سورج فانی ہے اس کی روشنی بھی فانی ہے اللہ غیر فانی ہے اس کا نور بھی غیر فانی ہے سورج کی روشنی کو اس نور سے کیا نسبت ہے …

جو دل پے ہم ان کا کرم دیکھتے ہیں

تو دل کو بے حد جامِ جَم دیکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جماعت والے لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہیں؟؟؟

 

                 محسن اقبال﷾

 

عجیب لوگ ہیں یہ تبلیغی جماعت والے بھی، جہاں دیکھو وہاں پہنچے ہوتے ہیں۔۔لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور کفریہ اور شرکیہ عقائد کی تعلیم دیتے ہیں…

نجانے کتنے لوگوں کو انہوں نے گمراہ کر دیا ہے۔ قران، حدیث تو مانتے نہیں بس ایک کتاب فضائل اعمال اٹھائی ہوتی ہے اوراس کتاب سے کچھ احادیث ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات اور کچھ پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کرتے ہیں…

فضائل اعمال تو ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہے اور ضعیف حدیث تو قبول کرنے کے لائق نہیں اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے واقعات ہیں تو ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔۔ بس صرف قران اور حدیث کو ہی ماننا چاہئیے…۔یہ سب واقعات تو شرک ہیں۔

ان تبلیغیوں کے گمراہ کرنے کے طریقے بھی بہت عجیب ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے لڑکے کرکٹ ، یا فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں اور یہ اوپر سے آ کر اپنی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نماز پڑھو ، مسجد میں آؤ ، ۔۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ کرکٹ یا فٹبال کھیلنا ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ اہم ہے…

انہوں نے تو بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے۔

اچھا بھلا جنید جمشید گانے گاتا تھا، اور بہت مشہور تھا، پکا مسلمان تھا۔۔ اب دیکھو! ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر داڑھی بھی رکھ لی، گانا بھی چھوڑ دیا اور ان تو نعتیں پڑھتا ہے، ، مکمل گمراہ اور مشرک ہو گیا ہے۔۔

اسی طرح سعید انور تھا، جب تک کرکٹ کھیلتا تھا تب تک اس کا کتنا نام تھا اور تب وہ پکا مسلمان بھی تھا لیکن ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر اس نے بھی داڑھی رکھ لی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، اور دوسرے کرکٹرز کو بھی نمازوں پہ لگا دیا، خود تو گمراہ ہوا لیکن دوسرے کئی کرکٹرز جیسا کہ شاہد آفریدی، انضمام الحق وغیرہ کو بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ مل کر مشرک اور گمراہ بنا دیا۔۔

ارے یہ سب تو پہلے مسلمان تھے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ مل کر گمراہ اور مشرک ہوئے لیکن محمد یوسف کو دیکھو!، وہ عیسائی تھا پھر تبلیغی جماعت کی کوششوں سے مسلمان ہوا لیکن کیا فائدہ ۔۔ ہے وہ ابھی بھی گمراہ اور مشرک۔۔ تو اس کو عیسائیت چھوڑنے کا کیا فائدہ جب وہ مسلمان ہو کے بھی گمراہ ہوا۔ تبلیغی جماعت والوں نے اس کو مشرک بنا دیا ۔

ان جیسے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں جنہوں نے تبلیغی جماعت کی وجہ سےداڑھی رکھی، نماز شروع کی، برا کام چھوڑے لیکن پھر بھی وہ گمراہ ہیں کیونکہ تبلیغ والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں…

یاد آیا! ہم سچے مسلمان ہیں، قرآن و حدیث کو ماننے والے۔۔ہمارا کام لوگوں کو قرآن، حدیث کی طرف لانا ہے  اور فضائل اعمال جیسی ضعیف کتاب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگوں کے واقعات سے نجات دلانا ہے۔

ہمارا کام بے نمازیوں کو نماز پڑھوانا نہیں بلکہ جو نماز پڑھتے ہیں ان کو بتانا ہے کہ تم لوگوں کی نماز قران حدیث والی نہیں ہے۔کیونکہ تم نے رفع یدین نہیں کیا، ، تمہاری نماز مکمل نہیں کیونکہ تم نے اونچی آمین نہیں کہی، ، تمہاری نماز نبی کریم ﷺ جیسی نماز نہیں کیونکہ تم نے سینے پہ ہاتھ نہیں باندھے…

لوگوں کو قران و حدیث سمجھانے کے لئے ہم لوگوں کو اپنے علماء کی کتابیں دیتے ہیں۔ ان کتابوں میں اگر ضعیف احادیث آ جائیں تو ہم ان کو نہیں مانتے… اگر ہمارے کسی عالم کا یا بزرگ کا کوئی ایسا واقعہ آ جائے جیسے واقعات فضائل اعمال میں ہیں تو ان سب کو ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمارے علماء سے غلطی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔اللہ ہمارے علماء کی غلطیوں کو معاف کرے لیکن یہ معافی صرف ہمارے علماء کے لئے ہے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں ، تبلیغی جماعت کی کتاب میں جو واقعات ہیں وہ شرکیہ ہیں کیونکہ تبلیغی جماعت والے گمراہ ہیں۔

اصل میں ہم اپنے علماء کی کتابوں کو ہی نہیں مانتے کیونکہ ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں لیکن قران و حدیث سمجھنے کے لئے ہم اپنے انہی علماء کی کتابیں ہی پڑھتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر ہمیں قران و حدیث سمجھ نہیں آتا۔

تو ہمارے علماء کی جو کتابیں ہیں ہم ان سے قران و حدیث سمجھتے ہیں لیکن ہم ان کو مانتے نہیں اور ان کے واقعات پہ ہم شرک کا فتوی بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں…

بس صرف اتنا یاد رکھیں کہ تبلیغی جماعت والے مشرک اور گمراہ ہیں اور اگر ہمارے علماء کی کتابوں میں ایسی کوئی بات آ جائے جیسی فضائل اعمال میں ہے تو ہمارے علماء گمراہ اور مشرک نہیں کیونکہ ہم ان کو نہیں مانتے ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں۔

دوستو! یہ اوپر ایک جھلک ہے تبلیغی جماعت کے ان مخالفین کی سوچ اور نظریات کی جن کا دعوی ہے کہ وہ صرف قران و حدیث پہ عمل کرتے ہیں اور تبلیغی جماعت والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں…۔۔

شکریہ

غلامِ خاتم النبیین ﷺ

محسن اقبال

 

 

 

 

فکریے

 

                ابنِ غوری، حیدر آباد، ہند

 

رمضان:

چاند نظر آتے ہی مسلمان   ما شاء اللہ  مساجد میں یدخلون فی دین اللہ افواجا کی مجسم تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن پھر چاند نظر آتے ہی وہ   معاذ اللہ مساجد سے یخرجون من دین اللہ افواجا اور کالعرجون القدیم کی طرح نظروں سے دور ہو جاتے ہیں۔

کیا یہی  طریقہ ہے (دارین میں) عزت یابی کا؟

 

بے ریش صوفی:

"وہ اپنے مختصر سفر میں اپنا ٹفن ساتھ رکھتے تھے۔”

پھر تو، وہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہوں گے؟

جی نہیں، وہ تھے سلطنتِ آصفیہ دکن کے دیوان سالار جنگ اول (تراب علی خاں)

 

جعلی کام:

جعلی نوٹ کتنی ہی بڑی رقم کا کیوں نہ ہو، اس کا نفع بالکل وقتی/ غیر یقینی ہوتا ہے۔ جب وہ حکومت کی نظر میں آ جائے تو نوٹ ساز مجرم قرار دیا جاتا ہے۔

اسی طرح غیر مسنون عمل/بدعت خواہ وہ کتنی ہی دلکش اور مفید معلوم ہو، اللہ کے نزدیک اس کے حامل مجرم ہی ہوں گے۔

 

دو چیزیں:

سیاست میں اخلاقیات…………اچھی بات!

اخلاق میں سیاسیات…………۔بری بات!

 

مدینہ  مدینہ:

تاج دارِ مدینہ کانفرنسیں ……۔بہت ہوتی رہتی ہیں! ماشاءاللہ

لیکن ان کے شرکاء میں "تابع دارِ تاج دارِ مدینہ” کتنے ہوتے ہیں؟ انا للہ

٭٭٭

 

 

 

عید الضحیٰ پر گائے کی قربانی؟

 

                مدیر کے قلم سے

 

(ایجنسی) ہند میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مسئلہ اس عید قرباں پر یہ آ کھڑا ہوا تھا کہ آیا ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ‘گئو ماتا’ کی قربانی کی جائے یا نہیں؟ واضح رہے کہ گائے کی قربانی، اور گوشت و کھال کے کاروبار پر ہند کی ریاستوں میں پابندی عائد ہے۔ گائے کا مسئلہ ہمیشہ سے متنازع فیہ رہا ہے، کیونکہ ملک میں بسنے والے ہندو بھائیوں کے عقائد کے مطابق گائے اُن کی ماں ہے، بھگوان ہے، اور بعض کے مطابق ہندوؤں کے ٣٣کروڑ بھگوان گائے کے سر سے دُم تک جمع ہیں۔٭

ملک کے حالات کے پیشِ نظر، اور امنِ سلامتی کی فضا کو برقرار رکھنے کی خاطر تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے متفقہ فیصلہ دیاکہ اس سال گائے کی قربانی نہ کی جائے، اور اس کی جگہ بھینس اور بکروں کو قربان کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے عوام کو یہی مشورہ دیا۔ علماء کے مطابق نبی پاک ﷺ سے کوئی فضیلت ثابت نہیں کہ گائے ہی کی قربانی کی جائے، چنانچہ ہمیں غیر مسلم بھائیوں میں دعوت کے پیغام کو پہنچانے کے لیے دیگر جانور قربان کرنے چاہئیں۔ اور ان شاء اللہ گائے کی بڑھتی ہوئی تعداد کچھ ہی عرصے میں اُنہیں یہ پابندی ہٹانے پر مجبور کر دے گی۔

علماء کے اس بروقت اور کارآمد فیصلے سے ملک میں سلامتی کی فضا بھی قائم رہی اور کوئی پولیس و کچہری کا معاملہ بھی پیش نہ آیا۔ بعض لوگوں نے گائیں بھی قربان کیں، ان لوگوں کے متعلق سادہ دل عوام یہ بھی کہتی سنائی دی کہ اِن کی قربانی نہیں ہو گی۔ علماء نے واضح کیا کہ شریعت نہیں بدلی، صرف ہم نے ایک فیصلہ حالات کو دیکھ کر دیا ہے، البتہ اگر گائے کو قربان کرنے والوں کے سبب کوئی حادثہ خدانخواستہ امتِ مسلمہ کو پیش آتا ہے تو اس کا گناہ اسی شخص کو جائے گا۔

ملک میں امن اور سلامتی کی فضا تا حال قائم ہے۔

‘داڑھی مونڈنا ممنوع اور داڑھی مونڈنے کی مزدوری لینا حرام’

دیوبند، (ایس این بی) داڑھی کا مونڈنا شریعت میں گناہِ کبیرہ ہے اور داڑھی مونڈنے والے حجام کی کمائی کو بھی علماءِ کرام نے ناجائز قرار دیا ہے۔ شریعت کے اس حکم کے باوجود کتنے ہی لوگ نبیﷺ کی ، اور تمام پیغمبروں کی مشترکہ سنت کو مونڈتے ہیں، اور مونڈواتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دارالعلوم چوک پر واقع فرینڈ ہیئر سیلون پر دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ فلیکس کی صورت میں چسپاں رہا، اور لوگوں کی گفتگو کا موضوع بھی بنا رہا۔ فرینڈس ہیئر سیلون کے مالک محمد ارشاد نے دارالافتاء دیوبند سے رجوع کر کے ایک فتوی طلب کیا کہ شریعت میں داڑھی مونڈنے اور مونڈانے کی کیا حیثیت ہے۔ اس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی وقار علی، مفتی فخر الاسلام اور مفتی زین الاسلام قاسمی کے دستخطی فتوی میں کہا گیا ہے کہ:

"داڑھی منڈوانا اور مونڈنا دونوں گناہِ کبیرہ ہیں اور معصیت و گناہ پر لی گئی اجرت ناجائز ہے۔ شیونگ خواہ مسلمان کی کی جائے یا غیر مسلم کی، دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس لیے شیونگ کرنے سے احتراز کرنا واجب ہے۔ حجامت کا پیشہ کرنے والے کو بھی جائز وسیلہ سے آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کرنا واجب اور ناجائز ذرائع سے احتراز کرنا لازم ہے۔ ”

اس فتویٰ کو محمد ارشاد نے اپنی دکان پر فلیکس کی شکل میں چسپاں کر دیا ہے۔ یہ فتوی دن بھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا…نوجوان اس خبر کو سوشل میڈیا  واٹس ایپ وغیرہ کے توسط سے دھڑادھڑ شیئر کرتے رہے۔

٭٭٭

تشکر: مدیر جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید