FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

رباعیاتِ امجد

امجد حیدر آبادی

ترتیب: اعجاز عبید

خالق ہے کوئی ارض و سما شاہد ہے
اَنتَ کے لئے اپنا اَنا شاہد ہے
اس پر بھی اگر کوئی نہ مانے نہ سہی
خود، اپنے وجود پر، خدا شاہد ہے
٭٭

خالی ہے مکاں، مکیں پیدا کر دے
دل میں میرے دل نشیں پیدا کر دے
اے مردہ دلوں کو زندہ کرنے والے
شکی دل میں یقیں پیدا کر دے
٭٭

اب روح قدم قدم پہ اتراتی ہے
ہر سانس میں تازہ زندگی پاتی ہے
اک روز قدم حضور کے چومے تھے
اب تک میرے منہ سے بوئے عطر آتی ہے
٭٭

لے لے کے خدا کا نام چلّاتے ہیں
پھر بھی اثر دعا نہیں پاتے ہیں
کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز
کرتے نہیں پرہیز دوا کھاتے ہیں
٭٭

بحر متلاطم میں بہا جاتا ہوں
ہر دم طرف لحد کھینچا جاتا ہوں
بازار فنا میں کیا ٹھہرتا ہے مجھے
میں صرف کفن لے کے چلا جاتا ہوں
٭٭

غم میں ترے زندگی بسر کرتا ہوں
زندہ ہوں، مگر تیرے لئے مرتا ہوں
تیری ہی طرف ہر اک قدم اُٹھتا ہے
ہر سانس کے ساتھ تیرا دم بھرتا ہوں
٭٭

اس سینہ میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکر صفات، ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی، جاہل سہی، نادان سہی،
سب کچھ سہی، تیری بات رکھ لی میں نے
٭٭

ہیں مستِ مے شہود تو بھی میں بھی
ہیں مدّعی نمود، تو بھی میں بھی
یا تو ہی نہیں جہاں میں یا میں ہی نہیں
ممکن نہیں دو وجود، تو بھی میں بھی
٭٭

خالق ہے کوئی ارض و سما شاہد ہے
اَنتَ کے لئے اپنا اَنا شاہد ہے
اس پر بھی اگر کوئی نہ مانے نہ سہی
خود، اپنے وجود پر، خدا شاہد ہے
٭٭

ہر دم اس کی عنایت تازہ ہے
اس کی رحمت بغیر اندازہ ہے
جتنا ممکن ہے کھٹکھٹاتے جاؤ
یہ دستِ دعا خدا کا دروازہ ہے
٭٭

بچپن ہی کے پہلو میں جوانی بھی تو ہے
باقی ہی کی آغوش میں فانی بھی تو ہے
سمجھے ہو غلط روح جدا، جسم جدا
جو برف کی شکل ہے، وہ پانی بھی تو ہے
٭٭

کم ظرف اگر دولت و زر پاتا ہے
مانند حباب ابھر کر اتراتا ہے
کرتے ہیں ذرا سی بات میں فخر خسیس
تنکا تھوڑی سی ہوا سے اُڑ جاتا ہے
٭٭

اس نام کی زندگی میں کچھ جان تو ہو
گر بن نہ سکے فرشتہ، انسان تو ہو
نیکی نہ ہوئی ، نہ ہو، بدی بھی نہ کر
صوفی نہ ہوا، نہ ہو، مسلمان تو ہو
٭٭

اک اک کی تاک میں لگا رہتا ہے
خوں ایک کا اک کے ہاتھ سے بہتا ہے
انسان کے خبثِ باطنی کے آگے
شیطان بھی لاحول ولا پڑھتا ہے
٭٭

دونوں یک جا مگر ملاقات نہیں
باہم کوئی گفتگو نہیں بات نہیں
تو مجھ سے قریب تر میں تجھ سے قریب
کیا بات ہے، ہم دونوں میں کیوں بات نہیں
٭٭

بجتا ہو ستار اور مضراب نہ ہو
پھیلی ہوئی چاندنی ہو، مہتاب نہ ہو
میں، میں نہیں ہو سکتا نہ ہو تو جب تک
ممکن ہی نہیں، حباب ہو، آب نہ ہو
٭٭

ضائع فرما نہ سرفروشی کو مری
مٹی میں ملا نہ گرم جوشی کو مری
آیا ہوں کفن پہن کے اے ربِّ غفور
دھبّا نہ لگے سفید پوشی کو مری
٭٭

ہر چیز مسبّبِ سبب سے مانگو
منت سے، خوشامد سے، ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو
٭٭

بے خود میں رہوں تو وہ قریں آتا ہے
پردے ہی میں وہ پردہ نشیں آتا ہے
وہ جب آتا ہے، میں نہیں رہتا
میں جب رہتا ہوں، وہ نہیں آتا ہے
٭٭

کس متن کی تفسیر ہوں، معلوم نہیں
کس ہاتھ کی تحریر ہوں معلوم نہیں
میں ہوں کہ مرے پردے میں ہے اور کوئی
صورت ہوں کہ تصویر ہوں، معلوم نہیں
٭٭

پہنچا ہے سرِ عرش مقدر میرا
مرکز پہ ہوا ہے ختم چکر میرا
ہے سارے جہاں کا سر میرے قدموں پر
تیرے قدموں پہ جب سے ہے سر میرا
٭٭

صورت تک رہی نہیں میری آنکھیں
جلوے سے چمک رہی ہیں میری آنکھیں
تیرے چہرے پہ میری آنکھوں کی نظر
آنکھوں میں کھٹک رہی ہیں میری آنکھیں
٭٭

گردش کیوں کو بکو ہے، معلوم نہیں
دل کی کیا آرزو ہے، معلوم نہیں
جب دیکھئے جستجو میں سر گرداں ہوں
کس چیز کی جستجو ہے معلوم نہیں
٭٭

تن کی ہستی کو ’چھو‘ نہ کر دوں تو سہی
میدانِ ہوا کو ہو نہ کر دوں تو سہی
ملتا نہیں مجھ سے اگر خیر نہ مل
میں بھی اس ’مَیں‘ کو ’توٗ‘ نہ کر دوں تو سہی
٭٭

غم سے ترے اپنا دل نہ کیوں شاد کروں
جب تو سنتا ہے، کیوں فریاد کروں
میں یاد کروں تو توٗ مجھے یاد کرے
توٗ یاد کرے تو میں نہ کیوں یاد کروں
٭٭

کچھ اپنا پتا اس نے بتایا تو نہیں
اب تک اس کا سراغ پایا تو نہیں
ملتی ہوئ ہے دل کی کھٹک آہٹ سے
دیکھو۔۔ دیکھو۔۔ کہیں وہ آیا تو نہیں
٭٭

ہر ذرہ پہ فضلِ کبریا ہوتا ہے
ایک چشم زدن میں کیا سے کیا ہوتا ہے
اصنام دبی زبان سے یہ کہتے ہیں
وہ چاہے تو پتھر بھی خدا ہوتا ہے
٭٭

مفلس ہوں نہ مال ہے نہ سرمایہ ہے
کیا پوچھتا ہے مجھ سے تو کیا لایا ہے
امجد تیری رحمت کے بھروسے یارب
بند آنکھ کیے یوں ہی چلا آیا ہے
٭٭

رخ مہر ہے ، قد خطِ شعاعی کی طرح
وہ گلّہ امت میں ہے راعی کی طرح
اس خاتمِ انبیاء کا آخر میں ظہور
ہے مصرعہ آخرِ رباعی کی طرح
٭٭٭

ماخذ:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D8%B9%DB%8C%D8%A7%D8%AA.12129/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید